صفحات

تلاش کریں

آب حیات از عمیرہ احمد (قسط نمبر 31 تا 40)

قسط نمبر31
ناشتے کی میز پرامامہ نے جبریل کی سوجھی ہوئ آنکھیں دیکھی تھی جو سلام کر کے سالاریا امامہ سے نظریں ملائے بغیر آکر کرسی پر بیٹھ گیا تھا.
تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟
امامہ نے اسکا ماتھا چھو کر جیسے ٹمپریچر معلوم کرنے کی کوشش کی ۔
جی میں ٹھیک ہوں۔۔جبریل کچھ گھبرایا۔۔
چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے سالار نے بھی اسی لمحے جبریل کو دیکھا تھا لیکن کچھ کہا نہیں۔۔۔
تم جاگتے رہے ہو کیا ساری رات؟ امامہ کو اسکی آنکھیں ابھی بھی تشویش میں مبتلا کررہی تھی۔۔۔۔
نہیں ممی یہ بہت رویا ہے. ۔۔اس سے پہلے کہ جبریل کوئ اور بہانہ بنانے کی کوشش کرتا حمین نے سلائس کا کونہ دانتوں سے کاٹتے ہوئے جبریل کو جیسے بھرے بازار میں ننگا کردیا۔۔کم از کم جبریل کو ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔۔۔ٹیبل پر موجود سب لوگوں کی نظریں بیک وقت جبریل کے چہرے پر گئیں۔۔وہ جیسے پانی پانی ہوا۔۔
ایک لفظ بھی کہے بغیر امامہ نے سالار کو دیکھا سالات نے نظریں چرائ۔
سلائس کے کونے کترتا ہوا حمین بے حد اطمینان سے رات کے اندھیرے میں بستر میں چھپ کر بہائے گئے ان آنسوؤں کی تفصیلات کسی کمنٹری کرنے والے انداز میں بغیر رکے بتاتا چلا جارہا تھا۔۔۔
جبریل روز روتا ہے۔اور اسکی آوازوں کی وجہ سے میں سو نہیں پاتا اور جب میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ جاگ رہا ہے تو جواب نہیں دیتا۔۔ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے سو رہا ہے۔۔مگر مجھے۔۔۔۔ ۔
ناشتے کی میز پر حمین کے انکشافات نے عجیب خاموشی پیدا کردی تھی۔
اور ممی مجھےپتا ہے کہ یہ کیوں روتا ہے۔۔
حمین کے آخری جملے نے امامہ اور سالار کےپیروں کے نیچے سے نئے سرے سے زمین کھینچی تھی۔
لیکن میں یہ بتاؤں گا نہیں کی کیونکہ میں نے جبریل سے پرامس کیا ہے کہ میں کسی سے اسکو شیئر نہیں کرونگا میں کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔
حمین نے اعلان کرنے والے انداز میں انکو چونکا دیا اور دہلا دیا۔ ۔سالار اور امامہ کی سمجھ میں نہیں ایا کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرے۔
میں نہیں روتا۔۔
حمین کے خاموش ہونے کے بعد ماں باپ کو دیکھتے ہوئے جبریل نے خلق میں پھنسی ہوئ آواز کیساتھ جیسے اپنا پہلا دفاع کرنے کی کوشش کی اور حمین نے اس پہلی کوشش کو پہلے ہی وار میں زمین بوس کردیا۔۔۔۔
اوہ مائ گاڈ۔۔۔تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔
تم حافظ قرآن ہوکر جھوٹ بولتے ہو۔۔
جبریل پر کچھ اور پانی پڑا۔۔۔اسکا چہرہ کچھ اور سرخ ہوا۔۔۔
ممی جھوٹ بولنا گناہ ہے نا۔۔۔اس نے ماں سے تصدیق کرنے کی کوشش کی۔
حمین خاموش ہوجاؤ اور ناشتہ کرو۔۔اس بار سالار نے مداخلت کی اور اسے کچھ سخت لہجے میں گھرکا۔۔۔اپنے حواس بحال کرنے کے بعد صورت حال کو سنبھالنے اور جبریل کو اس سے نکالنے کی یہ اسکی پہلی کوشش تھی۔
امامہ اب سرد ہاتھوں سے وہاں بیٹھی جبریل کو دیکھ رہی تھی۔ناشتہ ختم کرنے تک سالار نے حمین کو دوبارہ اسکے احتجاج کے باوجود منہ کھولنے نہیں دیا۔
ان چاروں کو پورچ میں کھڑی گاڑی میں بٹھانے اور ڈرائیور کیساتھ سکول بھیجنے کے بعد امامہ سالار کے پیچھے اندر آگئ تھی۔۔
جبریل کو میری بیماری کے بارے میں پتا ہے۔۔۔۔
سالار نے اندر آتے ہوئے مدھم آواز میں اسے بتایا۔وہ اسکے پیچھے آتے آتے رک گئ۔۔پاؤں اٹھانا بھی کبھی دنیا کا مشکل ترین کام بن جاتا ہے۔
رات کو بات ہوئ تھی میری اس سے۔۔۔سالار اسے بتا رہا تھا۔۔۔۔
کب؟ اس نے بمشکل آواز نکالی۔
رات گئے۔۔۔تم سو رہی تھی میں لاؤنج میں کسی کام سے گیا تھا وہ کمپیوٹر پر برین ٹیومر کے علاج کے بارے میں جاننے کےلیئے میڈیکل ویب سائٹ کھولے بیٹھا تھا۔۔۔وہ کئ ہفتوں سے ساری ساری رات یہی کرتا رہا ہے۔ میں نے پوچھا نہیں ۔اسے کس نے بتایا کب پتا چلا لیکن مجھے لگتا ہے اسے شروع سے ہی پتا ہے۔۔۔
محمد جبریل سکندر کنویں سے زیادہ گہرا تھا ۔وہ ماں باپ کیساتھ ایک بار پھر ایک بے آواز تماشائ کی طرح انکی زندگی کی تکلیف اور اذیت کو جھیل رہا تھا۔۔۔۔
اس نے تم سے کیا کہا؟ امامہ کے خلق میں اٹکی چیز آنسوؤں کے گولے میں بدلی ۔۔۔۔۔
بابا۔۔میں آپکو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا. مدھم آواز میں سالار کے جواب نے ایک نشتر کی طرح اسے کاٹا تھا۔۔۔۔
اس نے تم سے وہ کہا جو میں نہ کہہ سکی۔ سالار نے اپنے کندھے پر اسکے ہاتھوں کی نرمی اور اسکے لفظوں کی گرمی کو بیک وقت محسوس کیا۔
میں کچھ ہفتوں تک آپریشن کروا رہا ہوں۔۔۔دو ہفتوں میں یہاں سے واپس پاکستان جائیں گے تم لوگوں کو وہاں چھوڑ کر پھر امریکہ جاؤں گا سرجری کے لیئے.
مجھے تمہیں ایک کام سونپنا ہے امامہ۔۔۔سالار نے امامہ سے کہا۔
کیا؟ وہ رندھی ہوئ آواز میں بولی۔
ابھی نہیں بتاؤں گا آپریشن کے لیئے جانے سے پہلے بتا دوں گا۔۔۔
سالار مجھے کوئ کام مت دینا۔۔۔۔۔۔کچھ بھی۔۔۔وہ رو پڑی۔
کوئ بڑا کام نہیں ہے ۔۔۔۔۔
میں کوئ آسان کام بھی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔اس نے ست جھٹکتے بے بسی سے کہا۔ وہ ہنس پڑا۔
اپنی آٹو بایو گرافی لکھ رہا ہوں پچھلے کچھ سالوں سے۔۔سوچتا تھا بڑھاپے میں پبلش کراؤں گا۔۔وہ خاموش ہوا۔۔پھر بولنے لگا۔۔وہ نامکمل ہے ابھی ۔لیکن تمہارے پاس رکھوانا چاہتا ہوں۔۔۔یہ چاروں ابھی بہت چھوٹے ہیں مجھے نہیں پتا آپریشن کا کیا نتیجہ نکلے گا مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے لیکن پیچھے جو کچھ ہوچکا ہے وہ لکھ چکا ہوں میں اور چاہتا ہوں تم اسے ان چاروں کے لیئے اپنے پاس محفوظ کرلو. ۔۔وہ اس سے کھل کر یہ نہیں کہہ پایا تھا کہ اسکے مرنے کے بعد وہ اسکے بچوں کےنہوش سنبھالنے پر ان سے انکے باپ کا تعارف ان ہی کے لفظوں میں کرائے۔۔ ۔۔
کتنے چیپٹرز ہیں اس کتاب کے۔۔۔اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھا۔
سینتیس سال کی عمر میں پہلا چیپٹر لکھا تھا۔۔ پھر ہر سال ایک چیپٹر لکھتا رہا ہوں ۔ہر سال ایک لکھنا چاہتا تھا۔۔زندگی کے پہلے پانچ سال ۔۔پھر اگلے ۔۔پھر اس سے اگلے۔۔۔ابھی زندگی کے صرف چالیس سال ریکارڈ کرپایا ہوں۔۔۔وہ بات کرتے کرتے رکا۔۔ چیپٹر گنوائے بغیر وہ عمر گنوانے بیٹھ گیا تھا۔
چالیس کے بعد بھی تو زندگی ہے ۔اکتالیس۔۔بیالیس۔۔۔وہ بات کرتے کرتے اٹکی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو ہے اسے میں ڈاکومنٹ نہیں کرنا چاہتا۔تم کرنا چاہتی ہو تو کرلو۔۔
کہاں ہے کتاب؟ ۔۔وہ یہ سب نہیں پوچھنا چاہتی تھی پھر بھی ہوچھ رہی تھی۔
اسی کمپیوٹر میں ہے۔۔وہ کمپیوٹر آن کرنے لگا۔اور ڈیسک ٹاپ پر پڑے ایک فولڈر کو کھول کر اس نے امامہ کو دکھایا۔۔فولڈر کے اوپر ایک نام چمک رہا تھا تاش۔۔۔
تاش؟؟ امامہ نے رندھی آواز میں پوچھا۔۔
نام ہے میری آٹو بائیوگرافی کا۔۔۔وہ اب اسے فائلز دکھا رہا تھا۔
انگلش میں لکھی جانے والی آٹو بائوگرافی کا نام اردو میں رکھو گے؟؟ وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
میری زندگی کو اس لفظ سے زیادہ بہتر کوئ بیان نہیں کرسکتا ۔کیا فرق پڑتا ہے تم لوگوں کے لیئے لکھی ہے تم لوگ تو سمجھ سکتے ہو تاش کیا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ صفحات کو سکرول ڈاؤن کر رہا تھا لفظ بھاگتے جارہے تھے پھر غائب ہورہےتھے بلکل ویسے ہی جیسے اسکی زندگی کے سال غائب ہوئے تھے۔۔پھر وہ آخری صفحے پر جارکا تھا۔آدھا صفحہ لکھا ہوا تھا آدھا خالی تھا۔۔سالار نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا۔۔۔نم آنکھوں کیساتھ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔
تم پڑھنا چاہو گی؟ اس نے مدھم آواز میں امامہ سے پوچھا۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
+++++----------++++++
وہ کتاب اس دن امامہ نے اسکے آفس جانے اور بچوں کے سکول واپس آنے سے پہلے ختم کرلی تھی۔۔۔اس نے بڑی بے رحمی سے اپنی زندگی کو رقم کیا تھا۔وہ سفاکی کی حد تک صاف گوئ دکھا رہا تھا۔اپنے سارے عیب ساری غلطیاں ساری گمراہیاں۔۔۔۔۔۔
اور پھر اسکی زندگی میں امامہ ہاشم نے کیا رول ادا کیا ۔۔اسکی اولاد نے کیا تبدیلی کی تھی اور اسکے باپ نے اسکے لیئے کیا کیا۔اور اس رزق نے کیا تباہی کی تھی وہ بھی جو سود سے کمایا۔۔۔
آٹھویں چیپٹر کے آخری لائن میں امامہ نے ایک لائن لگاتے ہوئے اگلا صفحہ کھولا تھا۔۔۔۔۔
سالار سکندر کی زندگی کے نویں چیپٹر کا آغاز۔۔۔
******--------+++++*****
تم نے کتاب پڑھی؟ اس رات سالار نے واپس آکر سونے سے پہلے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔اس نے فوراً کہا۔
مجھے اس کتاب کو اس کمپیوٹر سے ہٹا دینا چاہیئے۔سالار کو اچانک خیال آیا۔۔
کیوں؟ وہ حیران ہوئ۔
میں نہیں چاہتا جبریل اسے پڑھے وہ اکثر یہی کمپیوٹر استعمال کرتا ہے۔تمہارے لیپ ٹاپ میں محفوظ کرلیتا ہوں۔
جب بچوں کے لیئے لکھ رہے ہو تو بچوں سے چھپانا کیوں چاہتے ہو؟
میں اس عمر میں انہیں یہ سب نہیں پڑھانا چاہتا۔
تو پھر مجھے بھی مت پڑھاؤ۔۔۔امامہ نے کہا۔۔۔
میں یہ کتاب کبھی نہیں پڑھوں گی اور مین کبھی اپنے بچوں کو بھی یہ کتاب نہیں پڑھاؤں گی۔امامہ نے جیسے اعلان کیا۔
ٹھیک ہے مت پڑھنا ۔پبلش کروادینا۔۔۔۔
تم سمجھتےکیا ہو ۔۔دنیا کیا کرے گی تمہاری آٹو بائوگرافی پڑھ کر؟ بے بسی کا شدید احساس تھا جو غصے میں بدلا تھا۔
وہ اس کے اس انداز پہ چونکا اور پھر مسکرا دیا۔
آج کئ مہینوں بعد تمہیں مجھ پہ غصہ آیا ہے۔۔
اس نے امامہ کو چھیڑا۔۔اس نے بھی کئ مہینوں بعد اسے چڑایا تھا اسی انداز میں جس سے وہ چڑتی تھی۔۔
وہ۔واش روم کا دروازہ کھول کر اندر گھس گئ تھی۔ ۔۔وہ روز صبح طے کرتی تھی کہ اسے آج نہیں رونا۔۔مگر ہر روز شام تک آنسو سب کچھ تہس نہس کرچکے ہوتےتھے۔۔۔۔وہ اب بھی وہاں اندر باتھ ٹب کے کونے پر بیٹھی بے آواز رو رہی تھی۔۔۔
++-----+++++----++-----
کنشاسا سے پاکستان آنے سے پہلے اس نے چاروں بچوں کو اکٹھا بٹھا کر سمجھایا تھا۔
ہم اب جہاں جارہے ہیں وہ ہمارا گھر نہیں ہے وہاں ہم گیسٹ ہیں اور ہمیں وہاں جتنی دیر رہنا ہے اچھے مہمانوں کی طرح رہنا ہے اور اچھے مہمان کیا کرتے ہیں؟؟
اچھے گیسٹ ڈھیر ساری چیزیں لاتے ہیں ۔۔مزے مزے کی باتیں کرتے ہیں اور جلدی چلے جاتے ہیں اور کوئ بھی کام نہیں کرتے ریسٹ کرتے ہیں۔۔حمین نے حسب عادت سبقت کرتے ہوئے جواب دیکر امامہ کو ایک ہی وار میں لاجواب کردیا۔
اسے ہنسی آگئ۔۔۔ماں کو ہنستے دیکھ کر حمین بے حد جذباتی ہوگیا۔
ہرا۔۔۔۔۔میں جیت گیا۔۔۔اس نےہوا میں مکا لہراتے ہوئے صحیح جواب بوجھ لینے کا اعلان کیا۔۔۔
کیا اس نے ٹھیک کہا ہے؟ عنایہ کو جیسے یقین نہیں آیا۔۔
نو۔۔۔۔امامہ نے کہا۔۔حمین کے چہرے پر بے یقینی جھلکی۔۔
اچھے مہمان کسی کو تنگ نہیں کرتے۔ کسی سے کوئ فرمائش نہیں کرتے۔کسی چیز میں نقص نہیں نکالتے۔اور ہر کام میزبان سے اجازت لیکر کرتے ہیں۔وہ اپنے کاموں کا بوجھ میزبان پر نہیں ڈالتے۔۔۔امامہ نے انہیں سمجھانے والے انداز میں کہا۔۔۔
اوہ مائ گاڈ۔۔ممی میں اچھا گیسٹ نہیں ہونا چاہتا میں بس گیسٹ بننا چاہتا ہوں۔۔۔حمین نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔۔
ہم دادا دادی کے گھر جا رہے ہیں اور ہمیں وہاں ایسے رہنا ہے جس سے انہیں شکایت یا کوئ تکلیف نہ ہو۔۔امامہ نے حمین کو جواب دیا وہ مطمئن نہ ہوا۔۔
اوکے۔۔۔۔۔عنایہ رئیسہ اور جبریل نے بیک وقت ماں کو اطمینان دلایا تھا۔۔
اور یم اپنے گھر کب جائیں گے؟ حمین نے سوال بدلہ اور امامہ کو چپ لگ گئ۔۔
ھم نیا گھر خریدیں گے۔۔۔عنایہ نے جیسے اس چپ کا دفاع کیا۔۔۔۔
کہاں؟؟ حمین کو مکمل جواب چاہیئے تھا۔
جہاں بابا ہونگے۔۔جبریل نے اس بار اسے مکمل جواب دینے کی کوشش کی۔
اور بابا کہاں ہونگے؟ حمین نے ایک اور منطقی سوال پوچھا جو امامہ کو چھبا تھا۔۔۔
ابھی ھم پاکستان جارہے ہیں پھر جہاں بابا جائیں گے ہم وہاں چلے جائیں گے۔۔۔جبریل نےماں کی آنکھوں میں امڈنے والی نمی کو بھانپا۔۔۔
واؤ یہ تو بہت اچھا ہے۔۔حمین بلآخر مطمئن ہوا۔۔۔۔۔
میں بابا کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔۔۔اس نے جیسے اعلان کر کے ماں کو اپنی ترجیح بتائ۔۔۔
امامہ ان چاروں سے اور کچھ نہ کہہ سکی۔۔۔اور انہیں سونے کا کہہ کر خود انکے کمرےسے نکل آئ۔۔۔
ممی۔۔۔۔۔۔۔حمین اسکے پیچھے لاؤنج میں نکل آیا تھا۔امامہ نے اسےپلٹ کر دیکھا۔۔۔
یس۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آپکو کچھ بتانا چاہتا ہوں لیکن میں کنفیوز ہوں۔اس نے ماں سے کہا۔
کیوں؟ وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔۔
کیونکہ میں اپنا وعدہ نہیں توڑنا چاہتا۔اس نے الجھن کی وجہ بتائ۔
لیکن میں آپکو بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپکا سیکرٹ جانتا ہوں۔۔۔امامہ کا دل اچھل کر جیسے خلق میں آگیا تھا۔
میں جانتا ہوں آپ اپ سیٹ ہو۔وہ کہہ رہا تھا اور امامہ جیسے کچھ اور زمین میں گڑی۔۔۔وہ اب اسکے اور قریب آگیا تھا ۔۔۔پلیز آپ اپسیٹ نہ ہو۔۔اس نے ماں کی کمر کے گرف اپنے بازو لپیٹتے ہوئے کہا۔۔جب آپ روتی ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔۔
تم کیا جانتے ہو؟ وہ اتنا چھوٹا سا جملہ ادا نہیں کر پارہی تھی۔۔وہ صرف اسے تھپکنےلگی۔۔۔
دادا ٹھیک ہوجائیں گے۔۔وہ اب اسے تسلی دینے لگا۔امامہ کو لگا جیسے اس نے سننے میں غلطی کردی ہے۔وہ شاید بابا کہہ رہا تھا ۔۔۔
میں نے دادا سےپوچھا۔۔امامہ مزید الجھی۔
کس سے کیا پوچھا؟
دادا سےپوچھا انہوں نے کہا وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔۔
دادا کو کیا ہوا؟ وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
دادا کو برین ٹیومر نہیں ہوا ۔۔دادا کو الزائمر ہے۔۔۔لیکن وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔
امامہ کو دماغ بھک سے اڑا تھا۔
------------++++++**------
سالار کو کچھ مت بتانا۔۔۔۔
پاکستان پہنچنے کے بعد سب سے پہلا کام جو کام تھا وہ امامہ نے یہی کیا تھا اس نے سکندر عثمان سے اس انکشاف کے بارے میں پوچھا تھا جو سکندر عثمان نے حمین کے برین ٹیومر کے حوالے سے سوالوں کے جواب میں کیا تھا اور انہوں نے جواباً اسے بتایا تھا۔کہ ایک مہینے پہلے روٹین کے ایک میڈیکل چیک اپ میں انکی اس بیماری کی تشخیص ہوئ تھی۔۔لیکن انہیں سب سے پہلے پریشانی یہ تھی کہ کہی امامہ نے سالار سے اسکا ذکر نہ کیا ہو۔۔۔اس لیئے انہوں نے پہلی بات یہی بتا دی۔
میں اسےپریشان نہیں کرنا چاہتا اسکا آپریشن ہونے والا ہے ۔۔وہ اب بھی اپنے سے زیادہ سالار کےلیئے فکرمند تھا۔۔
پاپا میں نہیں بتاؤں گی اسے۔۔میں بھی نہیں چاہتی کہ وہ پریشان ہو۔امامہ نے انہیں تسلی دی۔۔آپ جانتے ہیں آپ سے بہت اٹیچڈ ہے وہ اپنی بیماری بھول جائے گا۔۔۔۔۔۔۔
جانتا ہوں۔۔۔سکندر نے ایک رنجیدہ مسکراہٹ سے سر ہلایا۔۔۔۔اس عمر میں اپنی بیماری کی فکر نہیں مجھے میں نے زندگی گزار لی اپنی اوت اللہ کا شکر ہے بہت اچھی گزاری ہے۔اس کو صحت مند رینا چاہیئے۔۔۔انہوں نے آخری جملہ عجیب حسرت سے کہا۔۔۔
اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اسکی بیماری بھی خود لیتا اور اپنی زندگی کے جتنے سال باقی ہیں وہ بھی اسے دے دیتا۔۔۔
امامہ نے انکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔
آپ بس اس کے لیئے دعا کریں پاپا۔ماں باپ کی دعا میں بڑا اثر ہوتاہے۔۔۔
دعا کے علاوہ۔اور کوئ کام نہیں ہے مجھے۔۔۔میں سوچتا تھا اس نے مجھے نوعمری اور جوانی میں بہت ستایا تھا۔۔۔لیکن جو میرے بڑھاپے میں ستا رہا ہے یہ۔۔۔۔۔۔وہ بات مکمل نہ کرسکے ۔۔۔رو دییے۔۔۔۔
ایک کام کرینگے پاپا؟ امامہ نے انکا ہاتھ تھپکتے ہوئے کہا۔
کیا؟
اپنی انگلی میں پہنی ہوئ انگوٹھی اتارتے ہوئے امامہ نے انکے ہاتھ کھولتے ہوئے انکی ہتھیلی پر وہ انگوٹھی رکھ دی۔۔۔
اسے بیچ دیں۔۔۔۔۔۔وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگے۔۔۔
کیوں؟؟ انہوں نے بمشکل کہا۔۔۔
مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔۔
کتنے؟؟
جتنے مل سکیں۔۔۔
امامہ۔۔۔۔
انہوں نے کچھ کہنا چاہا امامہ نے روک دیا۔۔۔
انکار مت کریں۔۔۔یہ کام میں آپکے علاوہ کسی اور سے نہیں کرواسکتی۔۔۔۔وہ نم آنکھوں کیساتھ چپ چاپ امامہ کو دیکھتے رہے۔۔۔
----------------------------------
اپنے آپریشن سے دو ہفتے پہلے نیویارک میں سالار سکندر اور SIFکے بورڈ آف گورنرز نے پہلے گلوبل اسلامک انویسمنٹ فنڈ کے قیام کا اعلان کردیا ۔۔
پانچ ارب روپے کے سرمایہ سے قائم کیا گیا
Samar investment fund
یہ وہ پہلی اینٹ تھی اس مالیاتی نظام کی جو سالار اور اسکے پانچ ساتھی اگلے بیس سالوں میں دنیا کی بڑی فنانشل مارکیٹوں میں سود پر مبنی نظام کے سامنے لیکر آنا چاہتے تھے۔اگر سالار کی بیماری کا انکشاف میڈیا پر اتنے زور و شور سے نہیں کیا جاتا تو ایس آئ ایف کے بورڈ آف گورنرز اس فنڈ کا آغاز ایک ارب ڈالر کے سرمایہ سے دنیا کے پچاس ممالک میں بیک وقت کرتے اور وہ ٹارگٹ مشکل ضرور تھا ناممکن نہیں تھا۔۔۔۔سالار کی بیماری نے جیسے پہلے ہی قدم پر انکی کمر توڑ دی تھی۔۔۔لیکن اسکے باوجود بورڈ آف گورنرز ٹوٹا نہیں تھا۔۔۔۔۔وہ اکٹھے رہے تھے ۔۔۔جڑے رہے تھے۔۔۔کیونکہ ان چھ میں سے کوئ شخص بھی یہ کام کاروبار کے طور پر نہیں کر رہا تھا ۔۔وہ ایک اندھی کھائ میں کودنے کے مجاہدانہ جذبے سے کر رہے تھے۔۔۔۔
سالار سکندر عامل کلیم موسی بن رافع ابوذر سلیم علی اکمل اور راکن مسعود پر مشتمل ایس ائ ایف کا بورڈ آف گورنرز دنیا کے بہترین بورڈ آف گورنر میں گردانا جاسکتا تھا۔۔۔۔وہ چھ کے چھ افراد اپنی فیلڈ کا پاور ہاؤس تھے۔۔۔
یہ ایک بڑے کام کی طرف ایک چھوٹا قدم تھا۔اتنا چھوٹا قدم کے بڑے مالیاتی اداروں نے اسکو سنجیدگی سے لیا بھی نہیں۔۔۔فنانشل میڈیا نے اس پر پروگرامز کیئے اور خبریں لگائ دلچسپی دکھائ لیکن کسی نے بھی اسے آئندہ آنے والے سالوں کےلیئے اپنے لیئے کوئ خطرہ نہیں سمجھا تھا۔
ایک قابل عمل مالیاتی نظام کے طور پر دنیا میں موجود نظام کو ٹکر دینے کےلیئے ایس آئ ایف کو فنانشل viability دکھانی تھی۔۔جو ابھی کسی کو نظر نہیں آئ تھی۔۔۔صرف ان چھ دماغوں کے علاوہ جو اسکے پیچھے تھے۔۔ ایس آئ ایف کے قیام کا اعلان اپنے کندھوں پر لدے ایک بھاری بوجھ کو ہٹادینے جیسا تھا۔۔۔۔کم از سالار کو ایسا ہی محسوس ہوا۔
امریکہ میں ایک ہفتے کے دوران اس نے درجنوں میٹنگز اور سیمینارز اٹینڈ کی تھی اور کچھ یہی حال بورڈ آف گورنرز کے دوسرے ممبرز کا بھی تھا۔۔ایک ہفتہ بعد اسے پاکستان جاکر اہنے بچوں سے ملنا تھا اور پھر واپس آکر امریکہ میں سرجری کروانی تھی ۔۔اسکا شیڈول اپائنمنٹس سے بھرا تھا۔
ایک ہفتہ کے اختتام تک وہ ایس آئ ایف کے ان سرمایہ کاروں میں سے کچھ کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے تھے جو سالار کی بیماری کی خبر سن کر پیچے ہٹ گئے تھے۔۔۔یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔۔بارش کا وہ پہلا قطرہ جسکا ان سب کو انتظار تھا۔۔۔
سالار ائ ایف کے قیام کے لیئے تو سرمایہ کار لانے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن وہ ذاتی طور پر خود اس میں کوئ بڑی انویسمنٹ نہیں کرسکا تھا۔۔کچھ اثاثے جو اسکے پاس تھے انہیں بیچ کر بھی اسکا حصہ کروڑ سے بڑھ نہ سکا تھا۔۔۔۔
مگر اس فنڈ کی اناؤنسمنٹ کے ایک دن بعد سکندر نے اسے امریکہ فون کیا تھا.
میں پانچ کروڑ کی انویسمنٹ کرنا چاہتا ہوں ایس آئ ایف میں۔۔۔انہوں نے ابتدائ گپ شپ کے بعد کہا۔
آپ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائیں گے؟ وہ چونکا۔
باپ کو غریب سمجھتے ہو تم۔۔۔۔وہ خفا ہوئے۔۔۔سالار ہنس پڑا.
اپنے سے زیادہ نہیں۔۔۔
تم سے مقابلہ نہیں ہے میرا۔۔سکندر نے بے نیازی سے کہا۔۔۔تمہیں میرے برابر آنے کے لیئے دس بیس سال لگیں گے۔۔
شاید نہ لگے۔۔۔۔
چلو دیکھیں گے۔۔۔ابھی تو مجھے بتاؤ یہاں پاکستان میں لوکل آفس اور کیا طریقہ کار ہے۔۔انہوں نے بات بدلی تھی۔۔۔
آپ نے اب کیا بیچا ہے؟ سالار نے اسے بات بدلنے نہیں دی۔۔۔
فیکٹری۔۔۔۔وہ سکتے میں رہ گیا۔۔۔۔
اس عمر میں میں نہیں سنبھال سکتا اب ۔۔کامران سے بات کی ۔۔وہ اور اسکا ایک دوست لینے پر تیار ہوگئے ۔۔مجھے ویسے بھی فیکٹری میں سب کا حصہ دینا تھا. وہ ایسے اطمینان سے بات کر رہے تھے جیسے کوئ معمولی بات ہو۔۔۔
آپ کام کرتے تھے پاپا۔۔۔آپ نے چلتا ہوا بزنس کیوں ختم کردیا۔۔کیا کریں گے اب آپ۔۔وہ بے حد ناخوش ہوا تھا۔۔
کرلوں گا کچھ نہ کچھ۔۔۔یہ تمہارا مسلہ نہیں۔۔۔اور نہیں بھی کروں گا تو بھی کیا ہے ۔تم باپ کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے کیا ۔باپ ساری عمر اٹھاتا رہا ہے ۔وہ اسے ڈانٹ رہے تھے۔
آپ نے میرے لیئے کیا ہے یہ سب؟ سالار رنجیدہ تھا۔
ہاں۔۔۔۔۔اس بار سکندر نے بات گھمائے پھرائے بغیر کہا۔
پاپا مجھ سے پوچھنا چاہیئے تھا آپکو۔۔۔مشورہ کرنا چاہیئے تھا۔۔۔
تم زندگی میں کونسا کام میرے مشورے سے کرتے رہے ہو ۔ہمیشہ صرف اطلاع دیتے ہو۔۔وہ بات کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔
وہ محظوظ نہیں ہوا۔۔اسکا دل عجیب طرح سے بوجھل ہوا تھا۔۔۔
کیا ہوا؟؟ سکندر نے اسکی خاموشی کو کریدا۔
آپ مجھ پر اتنے احسان کیوں کرتے ہیں۔کب تک کرتے رہینگے۔وہ کہے بنا نہ رہ سکا۔۔۔
جب تک میں زندہ ہوں۔۔سکندر اسکی زندگی کی بات نہیں کرسکے تھے۔
آپ مجھ سے زیادہ جیئے گے۔۔۔۔۔
وقت کا کس کو پتا ہوتا ہے ۔۔۔سکندر کو لہجہ پہلی بار سالار کو عجیب لگا۔۔۔
------**-*---------------------
جبریل تم ان سب کا خیال رکھ لو گے؟؟ امامہ نے شاید کوئ دسویں بار اس سے پوچھا تھا
جی ممی میں رکھ لوں گا۔ یو ڈونٹ وری۔۔۔اور اس نے دسویں بار ایک ہی جواب دیا۔
وہ سالار کی سرجری کے وقت اسکے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔اور سالار کے بے حد منع کرنے کے باوجود وہ پاکستان میں بچوں کے پاس رہنے پر تیار نہیں ہوئ تھی۔
اس وقت تمہیں میری ضرورت ہے بچے اتنے چھوٹے نہیں ہیں کہ وہ میرے بغیر ہفتہ نہیں گزار سکتے۔۔۔اس نے سالار سے کہا۔
اور اب جب سیٹ کنفرم ہوگئ تھی تو اسے بچوں کی بھی فکر ہورہی تھی۔وہ پہلی بار انہیں اکیلا چھوڑ کر جارہی تھی وہ بھی اتنی لمبی مدت کے لیئے۔۔
دادی بھی پاس ہوگی تمہارے انکا بھی خیال رکھنا۔۔۔
جی رکھوں گا۔۔۔۔
اور ہوم ورک کا بھی۔۔ابھی تم سب کے سکولز نئے ہیں ۔تھوڑا ٹائم۔لگے گا ایڈجسٹ ہونے میں۔ چھوٹے بہن بھائ گھبرائے تو تم سمجھانا۔۔
جی۔۔۔۔۔۔۔
میں اور تمہارے پاپا روز بات کرینگے تم لوگوں سے۔
آپ واپس کب آئیں گی؟ جبریل نے اتنی دیر میں پہلی بار ماں سے پوچھا۔
ایک مہینہ تک۔۔۔شاید تھوڑا زیادہ وقت لگے گا۔سرجری ہوجائے تب پتا لگے گا ۔۔اس نے سوچتے ہوئے کہا۔۔
زیادہ سے زیادہ بھی رکھیں گے تو دوسرے دن تک رکھیں گے اگر کوئ کمپلیکیشن نہ ہوئ ورنہ دوسرے دن پاپا گھر آجائیں گے۔
امامہ نے حیران ہوکر اسے دیکھا۔۔۔تمہیں کیسے پتا؟
آئی ریڈ اباؤٹ اٹ۔۔۔۔اس نے ماں سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
کیوں؟؟
انفارمیشن کے لیئے۔۔جبریل نے سادگی سے کہا۔وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر نظریں ہٹا لی۔۔۔وہ اپنے ہینڈ بیگ میں کچھ تلاش کرنے لگی۔۔۔ایک دم اسے محسوس ہوا جیسے جبریل اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا۔امامہ نے ایک لحظہ سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
کیا ہوا؟؟ اس نے جبریل سے پوچھا۔۔۔اس نے جواباً امامہ کی کنپٹی کے قریب نظر آنے والے ایک سفید بال کو اپنی انگلیوں سے پکڑتے ہوئے کہا۔آپکے کافی بال سفید ہوگئے ہیں۔۔۔۔وہ ساکت اسے دیکھتی رہی۔۔۔
امامہ۔نے اسکے ہاتھ سے اپنا بال چھڑا کر اسکا ہاتھ چوما۔۔اب گرے ہیئر کے بارے میں پڑھنا شروع مت کرنا۔۔امامہ نے ۔آنکھوں کیساتھ مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا۔۔۔۔
وہ جھینپا پھر مدھم آواز میں بولا۔
میں پہلے ہی پڑھ چکا ہوں ۔۔سٹریس ان ہیلدی ڈائٹ مین ریزن ہیں۔۔۔
وہ حمین نہیں جبریل تھا۔سوال سے پہلے جواب ڈھونڈنے والا۔۔
وہ اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔۔ایک وقت وہ تھا جب اسکا کوئ نہیں رہا تھا اور ایک وقت یہ تھا جب اسکی اولاد اسکے سفید بالوں سے بھی پریشان ہورہی تھی۔۔۔۔
----------------------------------
ساڑھے تین کروڑ کا وہ چیک دیکھ کر وہ کچھ دیر ہل نہ سکا تھا۔وہ لفافہ امامہ نے کچھ دیر پہلے اسے دیا تھا۔اس وقت وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔اور لفافہ کھولتے ہوئے اس نے امامہ سے پوچھا۔۔
اس میں کیا ہے؟ سوال کا جواب ملنے سے پہلے اسکے نام کاٹا گیا وہ چیک اس کے ہاتھ میں آگیا تھا۔۔سالار نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا۔
میں یہ۔چاہتی ہوں کہ تم یہ رقم لے لو۔۔اپنے ہاس رکھو۔یا ایس آئ ایف میں انویسٹ کرو۔۔
تم نے وہ انگوٹھی بیچ دی؟ سالار نے بے ساختہ پوچھا۔۔۔۔وہ ایک لمحہ کچھ بول نہ سکی پھر مدھم آواز میں کہا۔۔
میری تھی۔۔۔بیچ سکتی تھی۔
بیچنے کے لیئے تمہیں نہیں دی تھی۔۔وہ خفا تھا یا شاید رنجیدہ۔۔تم چیزوں کی قدر نہیں کرتی۔۔وہ کہے بنا نہ رہ سکا۔
چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے امامہ نے ست ہلایا۔
ٹھیک کہتے ہو۔میں چیزوں کی قدر نہیں کرتی انسانوں کی کرتی ہوں۔۔۔
انسانوں کی بھی نہیں کرتی۔۔سالار خفا تھا۔
صرف تمہاری نہیں کی شاید اسی لیئے سزا ملی۔۔نمی آنکھوں میں آئ تھی۔۔آواز کیساتھ ہاتھ بھی کپکپایا۔۔۔خاموشی آئ، رکی، ٹوٹی۔۔۔۔
تم بے وقوف ہو۔۔وہ اب خفا نہیں تھا۔اس نے چیک لفافے میں ڈال کر اسی طرح میز پر رکھ دیا۔۔
تھی۔۔۔۔امامہ نے کہا۔
اب بھی ہو۔۔۔سالار نے اصرار کیا۔۔۔
عقل مندی کا کرنا کیا ہے اب میں نے۔۔اس نے جواباً پوچھا۔
یہ رقم اب اپنے پاس رکھو۔۔بہت سی چیزوں میں ضرورت پڑے گی تمہیں۔۔۔سالار نے کہا۔
میرےپاس کافی رقم ہے اکاؤنٹ خالی تو نہیں۔بس میں چاہتی تھی کہ میں ایس آئ ایف میں کنٹری بیوٹ کروں۔۔۔وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔
زیور بیچ کر کنٹری بیوٹ نہیں کروانا چاہتا میں تم سے۔۔۔تم صرف دعا کرو اسکے لیئے۔
زیوت سے صرف پیسہ مل سکتا ہے۔اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
میں ویسے بھی زیور نہیں پہنتی سالوں سے لاکر میں پڑا ہے سوچ رہی تھی وہ بھی۔۔۔۔۔۔
سالار نے اسکو بات مکمل نہیں کرنے دی۔بے حد سختی سے کہا۔
تم اس زیور کو کچھ نہیں کروگی وہ بچوں کے لیئے رکھا رہنے دو۔میں کچھ نہیں لوں گا اب تم سے۔وہ خاموش ہوگئ۔۔۔
سالار نے مگ رکھ دیا اور اسکی طرف مڑ کر جیسے بے بسی سے کہا۔۔
کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ؟
کچھ کہے بنا اسکے بازو پر ماتھا ٹکائے اس نے ہاتھ اسکے گرد لپیٹ لییے۔۔۔وہ پہلا موقع تھا جب سالار کا احساس ہوا کہ جوں جوں اسکے آپریشن کی تاریخ قریب آرہی تھی وہ اس سے زیادہ حواس باختہ ہورہی تھی۔۔
تم میرے ساتھ مت جاؤ امامہ یہی رہو بچوں کیساتھ۔۔سالار نے ایک بار پھر اس سے کہا۔
بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔انکو اکیلا چھوڑ کر تم میرے ساتھ کیسے رہوگی۔وہ پریشان ہوجائیں گے۔۔
نہیں ہونگے۔۔میں نے انہیں سمجھا دیا ہے۔۔وہ ٹس سے مس نہ ہوئ۔
وہاں فرقان ہوگا میرے ساتھ پاپا ہونگے تمہیں یہی رہنا چاہیئے بچوں کےپاس۔۔۔سالار نے دوبارہ اصرار کیا۔
تمہیں میری ضرورت نہیں ہے؟ وہ خفا ہوئ۔
ہمیشہ۔۔۔۔سالار نے اسکا سر چوما۔۔
ہمیشہ؟؟
اس بیگ میں میں نے سب چیزیں رکھ دی ہے۔ سالار نے یکدم بات بدلی۔
ساتھ لے جانے کے لیئے؟ امامہ نے سمجھے بغیر اسی طرح اسکے ساتھ لگے لگے کہا۔
نہیں اپنی ساری چیزیں۔۔۔چابیاں پیپرز بنک کے پیپرز ہر وہ ڈاکومنٹ جو بچوں سے متعلق ہے ۔اکاؤنٹ میں جو پیسے ہیں چیک بک سائن کردیا ہے اور اپنی ایک وصیت بھی۔ ۔۔
سرجری میں خدانخواستہ کوئ کملیکیشن ہوجائے تو حفاظتی تدبیر ہے
سالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے جیسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا
تمہارے نام ایک خط بھی ہے اس میں۔۔۔
میں نہیں پڑھوں گی۔۔اسکے گلے میں آنسوؤں کا پھندا لگا۔
چلو پھر تمہیں ویسے ہی سناؤں جو لکھا ہے۔۔۔وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
نہیں۔۔۔۔اس نے پھر ٹوک دیا۔
تم کتاب پڑھنا نہیں چاہتی خط نہیں پڑھنا چاہتی مجھے سننا نہیں چاہتی پھر تم کیا چاہتی ہو۔۔۔وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
میں نے کتاب پڑھ لی ہے۔اس نے بلآخر اعتراف کرلیا۔
وہ چونکا نہیں تھا۔۔۔میں جانتا ہوں۔۔۔
کوئ اپنی اولاد کے لیئے ایسا تعارف چھوڑ کے جاتا ہے؟ اس نے جیسے شکایت کی۔
سچ نہ لکھتا؟ وہ ہوچھ رہا تھا۔
جس بات کو اللہ نے معاف کردیا اسے بھول جانا چاہیئے۔۔
پتا نہیں معاف کیا بھی ہے یا نہیں۔۔۔یہ۔تو اللہ جانتا ہے۔
اللہ نےپردہ تو ڈال دیا ہے نا۔۔۔میں نہیں چاہتی میری اولاد یہ پڑھے۔۔کہ انکے باپ نے زندگی میں ایسی غلطیاں کی ہیں جو انکی نظروں میں تمہارا حترام ختم کردے۔۔وہ اس سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔
جھوٹ بولتا اور لکھتا کہ میں پارسا پیدا ہوا تھا اور فرشتوں جیسی زندگی گزاری؟؟
نہیں۔۔۔بس انسانوں جیسی گزاری۔
وہ بے اختیار ہنسا۔۔۔شیطان لگ رہا ہوں کیا اس کتاب میں؟
میں اس کتاب کو ایڈٹ کروں گی۔۔وہ بولی۔۔
یعنی مجھے مومن بنا دوگی؟
وہ زندگی میں نہ بنا سکی تو کتاب میں کیا بناؤں گی۔۔۔۔وہ کہے بنا نہ رہ سکی۔
وہ پھر ہنسا۔۔۔یہ بات بھی ٹھیک ہے۔
کیا نام رکھو گی پھر میری آٹو بائوگرافی کا؟؟
آب حیات۔۔۔۔اس نے بے اختیار کہا۔اسکا رنگ اڑا اور پھر مسکرایا۔۔
وہ تو کوئ بھی پی کر نہیں آتا۔اس نے کہا۔
تلاش تو کرسکتا ہے نا۔۔امامہ نے کہا۔
لاحاصل۔ہے۔۔۔
وہ تو پھر زندگی بھی ہے۔وہ لاجواب ہوکر چپ ہوگیا۔۔۔۔
تم نے زندگی تاش کا کھیل سمجھ کر جی ہے اور اس کتاب کو بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔زندگی باون پتوں کا کھیل نہیں۔۔۔ان دو سو پچاس صفحات میں اعترافات ہیں لیکن ایسی کوئ بات نہیں جسے پڑھ کر تمہاری اولاد تمہارے جیسا بننا چاہے۔میں چاہتی ہوں تم اسے آب حیات سمجھ کر لکھو تاکہ اسے پڑھ کر تمہاری اولاد ہی نہیں بلکہ کوئ بھی پڑھے تو تمہارے جیسا بننا چاہے۔۔۔وہ اس سے کہتی رہی۔۔۔
میرے پاس اب شاید مہلت نہیں اتنی۔سالار نے مدھم آواز میں کہا۔
تم مانگو۔۔۔جو چیز اللہ میرے مانگنے پر نہیں دیتا تمہارے مانگنے پر دیتا ہے۔سالار نے اسے عجیب لہجے میں کہا۔
مجھے یقین ہے تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔اس نے سالار کا ہاتھ تھاما۔۔۔
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔۔۔وہ عجب رنجیدگی سے مسکرایا۔۔۔ابھی تو بہت کچھ ہے جو ہمیں ساتھ کرنا ہے۔۔ساتھ حج کرنا ہے۔تمہارے لیئے اک گھر بنانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
امامہ نے سر جھکا لیا ۔۔۔وہ بھی اندھیرے میں صرف جگنو چاہتی تھی اندھیرا نہیں
------------------------------
آپریشن ٹیبل پر لیٹے اینیستھیزیا لینے کے بعد بے ہوشی میں جانے سے پہلے سالار ان سب کے بارے میں سوچتا رہا جن سے وہ پیار کرتا تھا۔امامہ جو آپریشن تھیٹر سے باہر بیٹھی تھی سکندر عثمان جو اس عمر میں بھی اسکے منع کرنے کے باوجود اسکو اپنی نظروں کے سامنے سرجری کےلیئے بھیج رہے تھے۔۔اسکی ماں جو اسکے بچوں کو سنبھالے پاکستان میں بیٹھی تھی۔
اور اسکی اولاد جبریل حمین عنایہ رئیسہ اسکی نظروں کے سامنے باری باری ایک ایک کا چہرہ آ رہا تھا۔چہرے آوازیں سوچ آہستہ آہستہ مدھم ہونا شروع ہوئ اور پھر غائب ہوتی چلی گئ۔۔
---------------------------------
چار گھنٹے کا آپریشن آٹھ گھنٹے تک چلا گیا تھا۔سکندر فرقان اور سالار کے دونوں بڑے بھائ وہاں اسکو تسلیاں دے رہے تھے اور وہ گم صم صرف دعائیں کرتی رہی تھی۔آٹھ گھنٹے میں وہ اپنی فیملی کے اصرار کے باوجود کچھ کھا پی نہ سکی۔۔۔وہ پچھلی ساری رات بھی جاگتی رہی تھی.
اس آٹھ گھنٹوں میں پتا نہیں اس نے کتنی دعائیں کی وظیفیں کییے اللہ کے رحم کو کتنی بار پکارا اس نے گنتی نہیں کی تھی۔۔۔
آپریشن کا بڑھتا ہوا دورانیہ اسکی تکلیف اذیت اور خوف کو بڑھا رہا تھا۔

قسط نمبر32

آٹھ گھنٹے بعد بلآخر اسے آپریشن کامیاب ہونے کی اطلاع تو مل گئ تھی ڈاکٹرز نے انکا ایک ٹیومر تو ختم کردیا تھا لیکن دوسرا ختم نہ کرسکے اسے سرجری کے ذریعے ریمو کرنا انتہائ خطرناک تھا۔وہ بے حد نازک جگہ پر تھا۔۔

آٹھ گھنٹے بعد امامہ اور سکندر عثمان نے اسے دیکھا تھا۔وہ ابھی ہوش میں نہیں تھا۔۔ہوش میں آنے کے بعد ہی ڈاکٹرز آپریشن کی صحیح طرح کامیابی منا سکتے تھے۔جب وہ ہوش میں آنے کے بعد بات چیت شروع کرتا اپنی فیملی کو پہچانتا۔۔اپنے ذہن کے متاثر نہ ہونے کا ثبوت دیتا۔۔۔امامہ ایک دریا پار کر آئ تھی اب آگے ایک اور دریا کا سامنا تھا۔امامہ بہت دیر تک اسے نہ دیکھ سکی۔۔تاروں اور ٹیوبز میں جکڑا ہوا وہ اسے دیکھنے کی کوشش کرنے کے باوجود اس پر نظر نہ جما سکی وہ وہاں سے باہر آگئ۔۔۔

وہ لوگ اب اسپتال میں نہیں ٹہر سکتے تھے ۔نہ چاہتے ہوئے بھی اسےاسپتال سے واپس اپنے کرائے کے اپارٹمنٹ میں آنا پڑا۔۔۔سکندر عثمان اسکے ساتھ تھے سالار کے دونوں بھائ اور فرقان اسپتال کے قریب اپنے کچھ دوستوں کے پاس رہ رہے تھے۔۔سکندر عثمان کو انکے کمرے میں چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں آئ۔وہاں عجیب سناٹا تھا یا شاید وحشت تھی۔۔وہ بے حد تھکی ہوئ تھی۔سونا چاہتی تھی پر سو نہ سکی۔اسکے سمارٹ فون پر جبریل سکائپ پر آنلائن نظر آ رہا تھا۔وہ بے اختیار اسے کال کرنے لگی۔

بابا کیسے ہیں۔۔۔اس نے سلام دعا کے بعد پہلا سوال کیا۔

وہ ٹھیک ہیں آپریشن ٹھیک ہوگیا ڈاکٹرز اب انکے ہوش میں آنے کا انتظار کررہے ہیں۔۔وہ اسکو بتانے لگی۔

آپ پریشان نہ ہو وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔۔وہ ہمیشہ کی طرح ماں کو تسلی دے رہا تھا۔

جبریل تم تلاوت کرو کسی ایسی سورۃ کی کہ مجھے نیند آجائے۔۔وہ اولاد کے سامنے اتنی بے بس اور کمزور ہوکر نہیں آنا چاہتی تھی لیکن ہوگئ تھی۔۔۔۔۔

جبریل نے لیپ ٹاپ کی سکرین اور اسکا ستا ہوا چہرہ دیکھا۔۔

آپ کو سورہ رحمان سناؤں؟؟

ہاں۔۔۔۔۔

اوکے۔۔۔میں وضو کر کے آتا ہوں۔۔آپ بستر پہ لیٹ جائے۔۔وہ پچھلے دو دن میں پہلی بار مسکرائی تھی۔۔۔۔۔

ممی آپ سو گئ؟ اس نے جبریل کی آواز پر ہڑ بڑا کے آنکھیں کھولی۔۔۔

نہیں۔۔امامہ نے کہا۔

میں شروع کروں؟ جبریل نے کہا۔

ہاں۔۔۔۔سر پر ٹوپی رکھے ہاتھ سینے پر باندھے وہ اپنی خوبصورت آواز میں سورہ رحمان کی تلاوت کر رہا تھا۔۔۔اسے سالار سکندر یاد آنا شروع ہوگیا تھا وہ اس سے یہی سورہ سنتی تھی اور جبریل کو یہ بات بھی یاد تھی۔۔دس سال کا جبریل اس سورہ کی تلاوت کرتے ہوئے اپنی ماں کو مسحور اور دم بخود کر رہا تھا۔اسکا جیسے دل پگھل رہا تھا۔

اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔۔۔

وہ پڑھتا رہا اور اسکا دل بھر آیا۔۔بے شک اللہ کی نعمتیں بے شمار تھی وہ شکر ادا نہیں کرسکتی تھی۔اور سب سے بڑی نعمت وہ اولاد تھی جس کی آواز میں اللہ کا وہ اعلان اسکے کانوں تک پہنچ رہا تھا۔

ممی۔۔۔جبریل نے تلاوت ختم کرنے کے بعد بے حد مدھم آواز میں اسے پکارا۔اسے یوں لگا جیسے تلاوت سنتے ہوئے وہ سو گئ ہیں۔وہ سوئ نہیں تھی۔لیکن سکون میں بھی جیسے جیسے کسی نے اسکے سر اور کندھوں کا بوجھ اتار کر اسے ہلکا کردیا ہو

جبریل تم عالم بننا۔تمہاری آواز میں بھت تاثیر ہے۔۔اس نے جبریل سے کہا۔

ممی مجھے نیورو سرجن بننا ہے۔امامہ نے آنکھیں کھولی وہ بے حد سنجیدہ تھا۔

میری خواہش ہے کہ تم عالم۔بنو۔امامہ نے اس بار زور دے کر کہا۔۔وہ جانتی تھی وہ نیورو سرجن کیوں بننا چاہتا ہے. ۔۔

حمین زیادہ اچھا عالم بن سکتا ہے میں نہیں۔۔۔۔۔۔وہ الجھا جھجکا۔۔۔

تم زیادہ لائق اور قابل ہو بیٹا۔۔

سوچوں گا۔۔آپ سو جائیں۔۔۔اس نے ماں سے بحث نہیں کی۔۔بات بدل دی۔۔

--------------------------------

وہ دس سال کا تھا جب اسکے باپ کی موت ہوئ۔اور اس موت نے اسکی پوری فیملی کو ہلا کررکھ دیا۔۔باپ کی موت اچانک ہوئ تھی اور وہ اس سے سنبھل نہ سکا۔۔اگلے کئ سال۔۔۔وہ تعلیم میں دلچسپی لینے زندگی میں کچھ کرنے اور بڑا نام بنانے کے خاتمے کا سال تھا اور یہی وہ سال تھا جب اس نے اپنے باپ کے ایک اچھے جاننے والے اور انکے ہمسایہ میں رہنے والے خاندان میں بہت زیادہ آنا جانا شروع کیا۔یہی وہ وقت تھا جب اس نے دنیا کے ہر مذہب میں دلچسپی لینا شروع کی ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گرینڈ حیات ہوٹل کا بال روم اس وقت سپیلنگ بی کے 92ویں مقابلے کے دو فائنلسٹ سمیت دیگر شرکاء کے والدین بہن بھائیوں اور اس مقابلے کو دیکھنے کے لیئے موجود لوگوں سے کچھا کچ بھرا ہونے کے باوجود اس وقت پن ڈراپ سائلنس کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔ دونوں فائنلسٹ کے درمیان راؤنڈ فورٹین کھیلا جارہا تھا۔تیرہ سالہ نینسی اپنا لفظ اسپیل کرنے کےلیئے اس وقت اپنی جگہ پر آچکی تھی۔امریکہ کی مختلف ریاستوں کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں اسپیلنگ بی کے مقامی مقابلے جیت کر آنے والے پندرہ سال سے کم عمر کے بچے اس آخری راؤنڈ کو جیتنے کے لیئے سر ھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے ۔

Sassafras

نینسی نے رکی ہوئ سانس کیساتھ پروناؤنسر کا لفظ سنا۔۔اور پرونائونسر سے لفظ دہرانے کو کہا۔۔۔اس نے دہرایا۔۔۔وہ چمپیئن شپ ورڈز میں سے ایک تھا۔۔لیکن فو ری طور پر اسے یہ یاد نہ آسکا۔۔۔۔۔

نوسالہ دوسرا فائنلسٹ اپنی کرسی پر بیٹھا۔۔نینسی کا ریگولر ٹائم ختم ہوچکا تھا۔اس نے لفظ اسپیل کرنا شروع کیا ۔۔۔s.a.s.s پہلے چار لیٹرز بتانے کے بعد وہ ایک لمحہ کو رکی ۔۔۔زیر لب اس نے باقی لیٹرز دہرائے اور پھر دوبارہ بولنا شروع کیا۔۔

A.f.r

وہ ایک بار پھر رکی۔۔ دوسرے فائنلسٹ نے بیٹھے بیٹھے زیر لب آخری دو لیٹرز کو دہرایا U.sاور نینسی نے بھی بلکل اس وقت یہی دو لیٹرز بولے اور پھر بے یقینی سے اس گھنٹی کو بجتے سنا جو اسپیلنگ کے غلط ہونے پر بجتی تھی۔۔حیرت صرف اس کے چہرے پر نہیں تھی اس دوسرے فائنلسٹ کے چہرے پر بھی تھی۔ ۔پروناؤنسر اب درست اسپیلنگ دہرا رہا تھا۔

تقریباً فق ہوتی رنگت کیساتھ نینسی نے مقابلے کے شرکاء کے لیئے رکھی ہوئ کرسیوں کی طرف چلنا شروع کیا ۔۔ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔۔یہ رنراپ کو کھڑے ہوکر داد دی جارہی تھی نو سالہ فائنلسٹ بھی اسکے لیئے کھڑا ہوکر تالیاں بجا رہا تھا۔۔ہال میں موجود لوگ دوبارہ اپنی نشست سنبھال چکے تھے اور دوسرافائنلسٹ مائک کے سامنے آچکا تھا۔نینسی نے کسی موہوم امید کے تحت اسے دیکھنا شروع کیا۔۔اگر وہ اپنے لفظ کو مس اسپیل کرتا تھا وہ دوبارہ فائنل راؤنڈ میں آجاتی۔۔۔

اسٹیج پر اب وہ نوسالہ فائنلسٹ تھا ۔اپنی شرارتی مسکراہٹ اور گہری سیاہ چمکتی آنکھوں کیساتھ۔۔اس نے چیف پروناؤنسر کو دیکھتے ہوئے سرہلایا۔ ۔جوناتھن جواباً مسکرایا تھا۔۔۔وہ اس چیمپئن شپ کو دیکھنے والے کراؤڈ کا سویٹ ہارٹ تھا۔۔اسکے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ۔۔۔

Cappelletti

جوناتھن نے لفظ ادا کیا۔

اس فائنلسٹ کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ آئ جیسے وہ اپنی ہنسی کو کنٹرول کررہا ہو۔۔اسکی آنکھیں پہلے کلاک وائس پھر اینٹی کلاک وائس گھومنا شروع ہوگئ تھی۔۔۔ہال میں کچھ کھلکھلاہٹیں ابھری۔۔اس نے اپنا ہر لفظ سننے کے بعد ایسا ہی ری ایکٹ کیا تھا بھینچی ہوئ مسکراہٹ اور گھومتی ہوئ آنکھیں۔۔۔کمال کی خود اعتمادی تھی۔کئ دیکھنے والوں نے اسے داد دی۔

Your finish time starts.

اسے ان آخری تیس سیکنڈز کے شروع ہونے کی اطلاع دی گئ جس میں اس نے اپنا لفظ اسپیل کرنا تھا۔۔اسکی آنکھیں گھومنا بند ہوئی۔

Cappelleti

اس نے ایک بار پھر اپنے لفظ کو دہرایا۔۔اور پھر اسپیل کرنا شروع کردیا۔

C,a,p,p,e,l,l

وہ رکا اور پھر ایک سانس لیتے ہوئے اس نے دوبارہ اسپیل کرنا شروع کیا۔۔

E.t.t.i

ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔

اسپیلنگ بی کا چیمپئن اب صرف ایک لفظ کے فاصلے پر تھا۔۔

تالیوں کی گونج تھمنے کے بعد جوناتھن نے اسے آگاہ کیا کہ اب اسے ایک اضافی لفظ اسپیل کرنا تھا۔۔اس نے سر ہلایا۔۔۔۔۔اس لفظ کو اسپیل نہ کرسکنے کی صورت میں نینسی ایک بار پھر واپس مقابلے میں آجاتی۔

Weissnichtwo

اسکے لیئے لفظ پروناؤنس کیا گیا۔ایک لمحے کےلیئے اسکے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئ۔۔اوہ مائی گاڈ۔۔اسکے منہ سے بے اختیار نکلا۔وہ شاکڈ تھا۔۔۔یہ پہلا موقع تھا جب اسکی آنکھیں اور وہ خود اس طرح جامد ہوا تھا۔

نینسی بے اختیار اپنی کرسی پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔تو بلآخر کوئ ایسا لفظ آگیا تھا جو اسے چیمپئن شپ میں واپس لاسکتا تھا۔

اسکے والدین کو پہلی بار اسکے تاثرات نے پریشان کیا۔۔۔۔حاضرین اسکی انگلیوں اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ بڑی آسانی سے اسکرین پر دیکھ سکتے تھے ۔۔۔۔

ہال میں بیٹھا ہوا صرف ایک فرد ریلکسڈ تھا۔۔۔یہ اسکی سات سالہ بہن تھی ۔جس نے بھائی کے تاثرات پر پہلی بار بڑے اطمینان کیساتھ کرسی کی پشت کیساتھ مسکراتے ہوئے ٹیک لگائی تھی۔۔۔گود میں رکھے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بہت آہستہ آہستہ اس نے بے تابی کے انداز میں بجانا شروع کیا ۔اس کے ماں باپ نے بیک وقت اسکے تالی بجاتے ہاتھوں اور اسکے مسکراتے چہرے کو الجھے انداز میں دیکھا اور پھر اپنے لرزتے کانپتے کنفیوز بیٹے کو دیکھا۔۔

ہال اب آہستہ آہستہ تالیاں بجا رہا تھا۔۔وہ اب اپنا کارڈ نیچے کرچکا تھا جیسے ذہنی تیاری کرچکا ہو۔۔۔ W.e.i.s.s.n.i.c.h.t.w.o

حمین سکندر نے ایک ہی سانس میں رکے بغیر لفظ کے ہجے کییے۔۔

An unknown place

ایک نا معلوم مقام۔۔۔۔اس نے لفظ کے ہجے کرتے ہی اسی رفتار سے اسکا مطلب بتایا۔۔پھر اسکی نظریں پروناؤنسر پر ٹکی۔

پروناؤنسر کے منہ سے نکلی درست کی آواز ہال میں گونج اٹھنے والی تالیوں میں گم ہوگئ۔۔وہ اسپیلنگ بی کے نئے فاتح کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے جو اسٹیج پر فلیش لائٹس اور ٹی وی کیمروں کی چکاچوند کردینے والی روشنیوں میں ساکت کھڑا تھا۔۔ یوں جیسے وہ ابھی تک اس شاک سے نکل نہ پایا ہو کہ وہ جیت چکا ہے۔۔یہ حمین سکندر تھا اور یہ حمین سکندر ہی ہوسکتا تھا۔۔۔۔

پہلا جملہ جو اسکے سامنے لگے مائک نے حاضرین تک پہنچایا تھا اس نے تالیوں کی گونج میں ایک بلند شگاف قہقہے کی آواز کو بھی شامل کیا تھا۔

اوہ مائ گاڈ۔۔۔۔۔وہ اس سے زیادہ کچھ نہ بول سکا۔۔حاضرین کی ہنسی نے اسے کچھ اور نروس کیا۔۔پھر اس نے حاضرین کی تالیوں کا جواب دیا۔اس نے پلٹ کر اس طرف دیکھا جہاں اسکے ماں باپ اور رئیسہ بیٹھے تھے۔وہ اب سب کے ساتھ کھڑے اسکے لیئے تالیاں بجا رہے تھے۔۔۔حمین سکندر تقریباً بھاگتا ہوا انکی طرف گیا اور اسکے ساتھ ہی وہ سپاٹ لائٹ بھی گئ جو اس سے پہلے اسٹیج پر فوکس تھی۔۔وہ تالیاں بجاتی اور آنسو بہاتی امامہ سے آکر لپٹا تھا۔۔۔پھر وہ سالار سے لپٹ گیا ۔۔۔۔کیا آپ کو مجھ پر فخر ہوا؟ اس نے ہمیشہ کی طرح باپ سے پوچھا۔

بہت فخر۔۔۔۔۔۔اس نے اسے تھپکتے ہوئے کہا۔

اسکی آنکھیں چمکی مسکراہٹ گہری ہوئ پھر وہ رئیسہ کی طرف گیادونوں ہتھیلیاں پھیلاتے ہوئے اس نے بازو ہوا میں بلند کرتے ہوئے رئیسہ کے پھیلائے ہوئے ہاتھوں پر ہائ فائ کیا۔۔اپنے گلے میں لٹکا ہوا نمبر اتار کر اس نے رئیسہ کے گلے میں ڈالا۔۔پھر جھک کر اسے تھوڑا سا اٹھایا۔۔وہ کھلکھلائ۔۔حمین نے اسے نیچے اتارا اور پھر اسی طرح بھاگتا ہوا واپس اسٹیج کی طرف گیا۔۔

آخری لفظ کتنا مشکل تھا؟ ابتدائ کلمات کے بعد میزبان نے اس سے پوچھا

آخری لفظ تو بے حد آسان تھا۔حمین نے بڑے اطمینان سے کہا۔۔ہال میں قہقہہ گونجا۔۔

تو پھر مشکل کیا تھا۔۔۔میزبان نے اسے چھیڑنے والے انداز میں پوچھا۔

اس سے پہلے پوچھے جانے والے سارے الفاظ۔۔حمین نے ترکی بہ ترکی کہا۔

کیوں؟؟؟؟؟

کیونکہ میں ہر لفظ بھول گیا تھا بس تکے لگاتا رہا ایک آخری لفظ تھا جو میں آنکھیں بند کر کے بھی ہجے کرسکتا تھا۔۔

آخری لفظ اتنا آسان کیوں لگا تھا آپکو۔۔۔میزبان نے پوچھا۔۔۔

رئیسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حمین نے فخریہ انداز میں کہا۔کیونکہ میں اور میری بہن نامعلوم مقام سے آئے ہیں۔۔ہال ایک بار پھر تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا۔۔۔۔ہال میں لگی سکرین پر گلاسز لگائے شرماتی رئیسہ ابھری تھی۔امامہ اور سالار بھی ہنس پڑے۔۔۔۔۔

زندگی میں اب تک ان سب کی وجہ سے ان دونوں کی زندگی میں ایسے بہت سے فخر کے لمحات آئے تھے۔۔۔

ممی اگلے سال میں بھی حصہ لوں گی۔۔انکے درمیان بیٹھی ہوئ رئیسہ نے اپنے گلے میں لٹکے حمین کے کارڈ کو ہلاتے ہوئے سرگوشی میں امامہ کو اطلاع دی۔۔۔امامہ نے اسے تھپکا جیسے اسے تسلی دے کر ہامی بھر رہی ہو۔۔۔

اسٹیج پر اب حمین کو ٹرافی دی جارہی تھی۔۔حاضرین ایک بار پھر کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے ہوئے داد دے رہے تھے ۔۔۔وہاں سے کئ کلومیٹر دور واشنگٹن کے ایک قدرے نواحی علاقے کے ایک گھر میں بیٹھے جبریل اور عنایہ ٹی پر اس پروگرام کی لائیو کوریج دیکھ رہے تھے۔عنایہ کچھ دیر پہلے اپنے ٹیسٹ کی تیاری ختم کر کے بیٹھی تھی جسکی وجہ سے وہ امامہ اور سالار کیساتھ نہ جاسکی اور جبریل اسکے ساتھ رہ گیا تھا۔۔اب جب اس تیسری ٹرافی کے انکے گھر آنےکا فیصلہ ہوگیا تھا تو وہ بے حد خوش تھے۔ان سب کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔۔حسد اور رقابت تو ان چاروں میں تھی ہی نہیں۔۔ٹی وی دیکھتے ہوئے گھنٹی کی آواز سنائی دی جبریل اس وقت اپنے لیئے ملک شیک بنانے میں مصروف تھا عنایہ دروازے پہ چلی گئ۔ کی ہول سے اس نے باہر جھانکا ۔۔۔وہاں گیارہ سالہ ایرک کھڑا تھا۔ ۔۔عنایہ چند لمحوں کے لیئے وہی کھڑی رہی۔وہ اسکا کلاس فیلو اور ہمسایہ تھا ۔۔جبریل گھر پہ نہیں ہوتا تو وہ دروازہ کبھی نہ کھولتی۔۔۔۔۔وہ باہر کی ہول پر نظریں جمائے یوں کھڑا تھا جیسے اس سوراخ سے یہ دیکھ پارہا ہو کہ اسے اندر سے دیکھا جارہا تھا اور دیکھنے والا کون تھا یہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔

باہر کون ہے؟ وہ جبریل تھا جو اچانک اسکے پیچھے آگیا تھا۔۔۔وہ ہڑبڑا کر پلٹی۔۔پھر اس نے کہا۔

ایرک۔۔۔۔۔۔

دونوں بہن بھائ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔۔وہ بے مقصد اور کسی بھی وقت دوستوں کو گھر نہیں بلاسکتے تھے۔۔۔لیکن ایرک کے لیئے ان سب کے دلوں میں ہمدردی تھی۔۔

اچھا آنے دو شاید اسے بھی ٹیسٹ کا کچھ پوچھنا ہو۔۔۔جبریل نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔۔دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں ڈالے ایرک نے دروازہ کھلنے پر اپنے امریکن لب و لہجے میں ہمیشہ کی طرح بمشکل انہیں السلام علیکم کہا۔۔۔

مبارک ہو۔۔۔۔۔ایرک نے وہی کھڑے کھڑے جبریل کے پیچھے جھانکتی عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

تھینک یو۔۔۔جبریل نے بھی اتنا ہی مختصر جواب دیا۔۔وہ بات کرتے ہوئے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئے۔۔۔ایرک اسی طرح جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اندر آگیا۔۔

تم نے ٹیسٹ کی تیاری کرلی۔ ۔عنایہ اس سے پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔

نہیں۔۔۔۔وہ چلتے ہوئے لاؤنج میں آگیا تھا۔

کیوں؟؟؟

بس ایسے ہی۔۔۔اس نے جواب دیا۔

بیٹھ جاؤ۔۔۔عنایہ نے اسے اسی طرح کھڑے دیکھ کر کہا۔جبریل تب تک لاؤنج کے ایک طرف موجود کچن ایریا میں دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔

ایرک تمہاری ممی کو پتا ہے کہ تم یہاں ہو؟؟ جبریل کو فریج میں سے دودھ نکالتے ہوئے اچانک خیال آیا۔۔۔

میرا خیال ہے۔۔۔۔ایرک نے کان سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا۔۔۔

انہیں نہیں پتا؟؟

وہ دودھ کی بوتل کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے ٹھٹکا۔۔

اسے پچھلے ہفتے کا خیال آیا تھا جب ایرک کی ممی اسے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آئ تھی۔اور انہوں نے شکایت کی تھی کہ وہ انہیں بتائے بغیر گھر سے نکلا تھا اور وہ اتفاقاً اسے ڈھونڈنے پر پتا چلا کہ وہ گھر پر تھا ہی نہیں۔۔۔تب ہی وہ ان لوگوں کے گھر آئی تھی۔کیونکہ انہیں پتا تھا کہ وہ انہیں کہی اور نہیں تو وہاں مل جائے گا۔

ممی گھر پر نہیں ہے۔۔۔ایرک نے جبریل کے تنبیہی انداز کو بھانپا۔۔

کہاں گئ ہیں؟ جبریل اتنی پوچھ گچھ کبھی نہ کرتا اگر وہ ایرک نہ ہوتا۔۔

کسی دوست کے پاس گئ ہے۔سبل اور مارک بھی انکے ساتھ ہیں۔اس نے جبریل کو بتایا۔۔۔۔۔

تم ساتھ نہیں گئے۔۔۔عنایہ نے اس سے پوچھا۔۔۔

میں نے ٹیسٹ کی تیاری کرنی تھی۔۔اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔۔۔عنایہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔

چلو پھر ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیں۔۔۔عنایہ نے جواباً اسے کہا۔

یہ سب واپس کب آئیں گے۔۔ایرک نے بات بدلنے کی کوشش کی۔

واپس آرہے ہونگے۔۔۔عنایہ نے اسے بتایا اور اسے دیکھنے لگی۔

میں کوئ گیم کھیل سکتا ہوں ؟؟اس نے کہا۔۔۔عنایہ ہچکچائ۔۔۔

نہیں۔۔۔۔عنایہ کی جگہ جبریل نے جواب دیتے ہوئے اسکے ہاتھ سے ریمورٹ لےلیا۔

اس وقت ہمارے گھر میں کوئ گیمز نہیں کھیلتا کافی دیر ہوچکی ہے۔۔۔۔۔

جبریل نے اسے اپنے گھر کے قوانین نرمی سے بتائے۔۔

لیکن میں تو ایک آؤٹ سائڈر اور مہمان ہوں۔۔۔۔ایرک نے جبریل سے کہا۔۔۔

نہیں تم باہر کے نہیں ہو۔۔جبریل نے جواباً اس سے کہا۔۔ایرک بول نہیں سکا۔۔وہ جیسے اس سے یہی سننا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔

میں ڈنر ٹیبل سیٹ کردوں سب آنے والے ہونگے ۔۔عنایہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ایرک وقفے وقفے سے اسے اور جبریل کو دیکھتا رہا دونوں اپنے کاموں میں مصروف تھے اسے اپنی موجودگی بے مقصد نظر آئ لیکن وہ پھر بھی وہاں سے جانے پر تیار نہیں تھا۔۔اس گھر میں زندگی تھی سکون تھا۔۔جو اب اسکے گھر میں نہیں تھا۔

کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر عنایہ کے پاس آیا اور کچھ کہے بنا خود ہی ٹیبل سیٹ کرنے میں اسکی مدد کرنے لگا۔۔۔عنایہ نے سات سیٹس لگائ جو ایرک نے بھی نوٹس کیا اس نے جیسے بن کہے یہ جان لیا تھا کہ وہ وہاں سے کھانا کھا کر جائے گا۔۔

حمین اور رئیسہ کیساتھ سالار اور امامہ کی آمد پر انکا پرجوش استقبال کیا گیا۔اور اس میں ایرک بھی شامل تھا۔۔

کھانے کی میز پر انکے ساتھ کھانا کھاتے اور خوش گپیوں کرتے ہوئے ڈوربیل بجنے پر بھی ایرک کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ اسکی ممی کیرلین ہوگی۔۔وہ بے حد ناخوش تھی اور ہمیشہ کی طرح انکے گھر آنےپر اس نے معمول کے انداز میں خوشگوار رسمی جملوں کا تبادلہ نہیں کیا تھا اس نے اندر آتے ہی ایرک کا پوچھا اور وہاں ایرک کے ہونے کی تصدیق پر وہ اندر آگئ تھی۔۔اس نے لاؤنج میں کھڑے کھڑے ایرک کو ڈانٹنا شروع کیا ۔وہ سبل اور مارک کو اسکے پاس چھوڑ کر کسی دوست کے ساتھ ڈنر پر گئ تھی۔۔اور وہ سبل اور مارک کے سوتے ہی نکل آیا تھا۔۔اور جب کیرولین واپس آئ تو اس نے سبل اور مارک دونوں کو گھر میں روتے ہوئے پریشان اور ایرک کو وہاں سے غائب پایا تھا۔۔۔۔۔۔

ایرک نےماں کی ڈانٹ پھٹکار خاموشی سے سنی۔۔ شرمندگی اسے اس بات کی ہوئ کہ اسکا جھوٹ سب کے سامنے کھلا تھا۔۔۔۔۔ایرک کے جانے کے کچھ دیر بعد بھی وہاں خاموشی چھائی رہی۔۔یہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ اس صورت حال پر کیا رد عمل ظاہر کرے۔ایرک سے ان سب کو ہمدردی تھی اور انکی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ کیسے اسے اپنے گھر سے دور رکھیں۔۔۔

اتنا اچھا بچہ تھا۔۔پہلے کبھی جھوٹ نہیں بولتے دیکھا اسے۔پتا نہیں اب کیا ہوگیا۔۔۔امامہ نے ٹیبل سے برتن اٹھاتے ہوئے جیسے تبصرہ کیا۔۔۔

جیمز کی موت نے ایسا کردیا ہے اسے۔۔سالار نے جواب دیا۔۔برتن سنک میں رکھتی ہوئ امامہ عجیب انداز میں ٹھنڈی پڑی تھی۔۔دو دن بعد سالار کا طبی معائنہ تھا۔یہ دیکھا جاتا تھا کہ اسکے دماغ میں موجود ٹیومر کس حالت میں ہے ۔۔بڑھنے لگا تھا۔۔۔گھٹنے لگا تھا۔۔اسکے دماغ میں کوئ اور ٹیومر تو نہیں بنا تھا۔۔کتنے ٹیسٹس تھے جنکے رپورٹس وہ دم سادھے دیکھتی رہتی تھی۔۔کوئ معمولی سی خراب رپورٹ بھی اسے بے حال کردیتی تھی۔۔اور یہ سب تین سال سے ہورہا تھا۔۔۔اب سالار کی زبان سے جیمز کی موت کا سن کر اور اسکی موت نے اسکے بیٹے کو کیسے متاثر کیا تھا وہ ایک بار پھر منجمد ہوگئ تھی۔۔۔۔کچن میں سنک کے سامنے کھڑے اس نے لاؤنج میں بیٹھے سالار کو دیکھا۔۔۔اسکے گرد بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف اپنے بچوں کو دیکھا۔۔۔وہ خوش قسمت تھی کہ وہ اب بھی انکی زندگیوں میں تھا۔۔۔کوئ اسے دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اسے کوئ ایسی بیماری بھی تھی۔۔وہ صرف علاج کے دورانیہ میں بیمار لگتا تھا ۔سرجری کے لیئے سر کے بال صاف کرادینے کی وجہ سے اور اسکے بعد علاج کی وجہ سے بھی۔۔۔۔۔

تب اسکے چہرے پر یکدم جھریاں آگئ تھی بہت کم وقت میں اسکا وزن بہت کم ہوا تھا۔۔ایک کے بعد ایک چھوٹے بڑے انفیکشنز کا شکار ہوتا رہا تھا۔۔۔۔

وہ سرجری کے بعد پاکستان واپس آنا چاہتی تھی لیکن آ نہ سکی۔۔۔وہ اسے وہاں اکیلے اس جنگ لڑنے کے لیئے اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی اسے۔۔۔وہ کام چھوڑ کر گھر بیٹھنے پر تیار ہی نہیں تھا۔۔وہ سرجری کے ایک ہفتہ بعد ہی دوبارہ ایس آئ ایف کے پروجیکٹس لییے بیٹھا تھا۔۔۔اور وہ صرف بیٹھی اسے دیکھتی رہتی۔۔۔

تیمارداری عیادت دیکھ بھال ان لفظوں کو سالار سکندر نے بے معنی کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی زمہ داری خود اٹھا رہا تھا۔۔وہ پھر بھی اسے تنہا چھوڑنے پر تیار نہیں تھی۔۔۔چھ سات ماہ کے بعد وہ بلآخر صحتمند ہونا شروع ہوا تھا اسکے نئے بال اگ آئے تھے۔۔۔اسکا وزن بڑھ گیا تھا اور وہ جھریاں بھی غائب ہوئ جو راتوں رات آئی تھی۔۔۔وہ اب پہلے جیسا سالار نظر آتا تھا۔۔۔لیکن وہ ٹیومر اسکے اندر موجود تھا ایک خاموش آتش فشاں کی طرح۔۔۔اثرات کے بغیر حرکت کے بغیر۔۔۔لیکن اپنا بھیانک وجود رکھتے ہوئے ۔جیسے نظر نہ آنے والی موت۔۔۔کبھی بھی آسکتی ہے اور کہی بھی آجاتی ہے۔۔۔

لاؤنج میں حمین کسی بات پر ہنستے ہوئے سالار کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسکی سرجری کے بعد پہلی بار اسے دیکھنا یاد آیا تھا۔۔۔

آٹھ گھنٹے سرجری کے بعد پہلی بار اسے دیکھنا ۔۔پھر اگلی صبح اسپتال جاکر اسے دوبارہ دیکھنا ۔۔۔جب وہ ہوش میں آیا تھا ۔۔اسکے متورم پپوٹے ہلنے لگے تھے۔۔۔وہ آنکھیں کھولنے کی جدوجہد کر رہا تھا۔۔۔۔۔

سالار۔۔۔۔۔۔۔سالار۔۔۔۔۔۔۔وہ بے اختیار اسے پکارنے لگی تھی۔اس نے بلآخر آنکھیں کھول دی۔۔۔۔اس نے سالار کو چہرہ چھوا اور پھر اسے پکارا۔۔۔اس بار سالار نے اسے دیکھا لیکن ان آنکھوں میں اسکے لیئے کوئ پہچان نہیں تھی وہ صرف اسے دیکھ رہا تھا اسے پہچاننے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔۔امامہ کو دھچکا لگا تھا۔۔کیا وہ واقعی اسے پہچان نہیں پارہا تھا۔۔۔ڈاکٹرز نے اس خدشے کا اظہار آپریشن سے پہلے کیا تھا کہ اسکی یاداشت جاسکتی ہے۔۔وہ شدید صدمے کا شکار ہوئ تھی۔۔گنگ۔۔دم بخود ۔۔وہ سرد ہاتھ پیروں سے ان آنکھوں کو دیکھتی رہی جو اسے اجنبی کی طرح دیکھ رہی تھی۔۔۔پھر جیسے ان آنکھوں میں چمک آنا شروع ہوئ۔۔جیسے اسکا عکس ابھرنا شروع ہوا اسکی پلکیں اب ساکت نہیں تھی۔وہ جھپکنے لگی تھی مانوسیت کا احساس لییے۔۔۔بیڈ پر اسکے ہاتھ کے نیچے سالار کے ہاتھ میں حرکت ہوئ۔۔سالار کی زبان سے جو پہلا لفظ نکلا تھا وہ اسکا نام نہیں تھا۔۔۔وہ الحمدللہ تھا۔۔۔۔اور امامہ کو پہلی بار الحمدللہ کا مطلب سمجھ میں آیا تھا۔۔اس نے امامہ کا نام اگلے جملے میں لیا اور امامہ کو لگا اس نے زندگی میں پہلی بار اپنا نام سنا تھا۔زندگی میں پہلی بار اسے اپنا نام خوبصورت لگا تھا۔۔اس نے پہلی چیز پانی مانگی اور امامہ کو لگا دنیا میں سب سے قیمتی چیز پانی ہی تو ہے اور اس نے کلمہ پڑھا تھا۔۔کوئ مرتے ہوئے تو کلمہ پڑھتا ہے پھر زندہ ہوجانے پر اس نے کلمہ۔پڑھتے ہوئے کسی کو پہلی بار دیکھا تھا اور ان سب کے دوران سالار نے امامہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔۔جنت تھی جو ہاتھ میں تھی۔۔۔

تمہیں نہیں آنا یہاں؟؟ سالار نے ایکدم اسے مخاطب کیا ۔۔وہ ابھی بھی کچن کے سنک سے ٹیک لگائے وہی کھڑی تھی۔۔۔دور تھی۔۔۔اس لیئے خود پر قابو پاگئ تھی ۔۔آنسو بھی چھپا گئ تھی۔۔۔

ہاں میں آتی ہوں۔۔۔میں سب باتیں یہاں بھی تو سن رہی ہوں۔۔۔اس نے کہا۔۔۔

----------++++++-----------

عائشہ عابدین اپنے باپ کے انتقال کی سات ماہ بعد پیدا ہوئ تھی۔تین بہنوں میں سب سے چھوٹی۔۔وہ ڈاکٹرز کے ایک نامور خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔عائشہ کی ماں نورین نے اپنی بیٹی کو تھوڑے عرصے کے لیئے پاکستان میں اپنی ماں کےپاس بھیج دیا تھا۔۔وہ امریکہ میں میڈیسن جیسے پروفیشن سے منسلک تھے۔دونوں بیٹیوں کیساتھ اس نوزائیدہ بچی کو شوہر کی اچانک موت کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں سنبھال نہیں سکتی تھی۔۔عائشہ اگلے پانچ سال پاکستان میں رہی۔عائشہ کی نانا نانی کو اس سے اتنی انسیت ہوگئ تھی اور وہ بھی انکے ساتھ خوش اور مطمئن تھی۔کہ نورین اسے واپس نہ لے جاسکی۔۔۔پانچ سال بعد بلآخر وہ عائشہ کو امریکہ اپنے پاس لے آئ لیکن عائشہ کا دل وہاں نہ لگا۔۔وہ اپنی بہنوں کیساتھ مانوس نہیں تھی۔نورین بہت مصروف تھی اور کسی کے پاس عائشہ کے لیئے وقت نہیں تھا۔۔وہ دو سال وہاں کسی نہ کسی طرح گزارتی رہی لیکن سات سال کی عمر میں نورین کو ایک بار پھر اسکی ضد پر اسے پاکستان بھجنا پڑا لیکن اس بار نورین کو اسکے رہن سہن کے حوالےسے فکر ہونے لگی تھی۔وہ عائشہ کو مستقل امریکہ میں ہی رکھنا چاہتی تھی کیونکہ پاکستان میں ان صرف انکے والدین رہ گئے تھے جو پاکستان چھوڑ کر امریکہ آنے پر تیار نہیں تھے۔

پاکستان بھیجنے کے باوجود نورین کی کوشش تھی کہ عائشہ اور اسکی بہنوں نریمان اور رائمہ میں لگاؤ پیدا ہوجائے اور انکی کوشش کامیاب ثابت ہوئ تھی۔۔عائشہ اور اسکی دونوں بہنیں اب ایک دوسرے کے قریب آنےلگی تھی۔۔

دس سال کی عمر میں عائشہ ایک بار پھر امریکہ آئ تھی۔۔اور اس بار اسے وہاں رہنے میں پہلے جیسے مسلے پیش نہیں آئے تھے۔۔لیکن اب ایک نیا مسلہ درپیش تھا۔وہ سکول میں جاکر پریشان ہونے لگی تھی۔۔وہ پاکستان میں بھی کو ایجوکیشن میں پڑھتی رہی تھی مگر وہاں اور یہاں کے ماحول میں فرق تھا۔۔۔عائشہ کو سکول اچھا نہیں لگتا تھا نورین سمجھتی تھی کہ وہ کچھ عرصہ بعد خود ہی ٹھیک ہوجائیں گی لیکن جب ایک سال بعد اسکی حالت ٹھیک نہیں ہوئ اور گریڈز خراب آنے لگے تو نورین کو اسے ایک بار پھر پاکستان بھیجنا پڑا۔۔وہ اب اسے او لیولز کے بعد وہاں بلوانا چاہتی تھی۔۔کیونکہ انکا خیال تھا تب تک وہ کچھ سمجھدار ہوجائے گی۔۔۔

تیرہ سال کی عمر میں عائشہ عابدین ایک بار پھر امریکہ رہنے آئ تھی۔لیکن اس بار وہاں وہ اپنے لیئے ایک نیا مسلہ دیکھ رہی تھی۔۔۔امریکہ اسے اسلامک ملک نہیں لگ رہا تھا۔وہاں کی شخصی آزادی اسکے لیئے پریشان کن تھی۔۔۔۔۔۔وہاں لباس کے بارے میں روا رکھنے والی آزادی اسے ہولانے لگی تھی لیکن ان میں سب سے بڑا چیلنج اسکے لیئے یہ تھا کہ وہ وہاں حجاب میں بھی خود کوغیر محفوظ سمجھتی تھی۔۔۔۔جو اس نے پاکستان میں لینا شروع کیا تھا اور جس سے نورین خوش نہیں تھی۔اس بار نورین نے بلآخر گھٹنے ٹیک دیے۔یہ مان لیا تھا کہ عائشہ کا امریکہ میں اب کوئ مستقبل نہیں تھا۔انہوں نے اسے امریکہ سے ایک بار پھر واپس پاکستان بھیج دیا۔یہ عائشہ عابدین کا انتخاب تھا کہ اسے اپنی زندگی ایک اسلامک ملک میں گزارنی تھی ۔۔۔عائشہ کے نانا نانی نے اسے کانونٹ میں پڑھانے کے باوجود بے باک انداز میں اسکی پرورش نہیں کی تھی۔۔عائشہ کو انہوں نے گھر میں ایک ایسے مولوی سے قرآن پڑھایا تھا جو کسی کم فہم رکھنے والا کوئ روایتی مولوی نہیں تھا۔۔۔وہ ایک اچھے ادارے کے طلبا کو قرآن اور حدیث کی تعلیم دیتا تھا۔۔خود عائشہ کے نانا نانی بھی دین اور دنیا کی بہت سمجھ رکھتے تھے ۔وہ اعلی تعلیم یافتہ تھے۔۔عائشہ ایک ایسے ماحول میں جہاں دین کی سمجھ بوجھ اور اسمیں گہری دلچسپی کے ساتھ پیدا ہوئ تھی جہاں پر حرام اور حلال کی تلواروں سے ڈرانے کی بجائے دلیل اور منطق سے اچھائ اور برائ سمجھائ جاتی تھی یہی وجہ تھی کہ عائشہ اپنے مذہب سے جذباتی لگاؤ رکھتی تھی۔۔۔

وہ نماز باقاعدگی سے پڑھتی تھی اور حجاب اوڑھتی تھی روزے بھی رکھتی تھی اپنے نانا نانی کیساتھ حج بھی کرچکی تھی لیکن اسکے ساتھ وہ فنون لطیفہ کی ہر صنف میں بھی دلچسپی رکھتی تھی۔۔پینٹنگز بنالیتی تھی اسکول میں پورے لباس کیساتھ پیراکی کےمقابلوں میں بھی حصہ لیتی تھی۔۔ہر وہ کام کرتی تھی جس میں اسے دلچسپی ہوتی اور نانا نانی کی اجازت ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔

نورین اپنےماں باپ کی اس حوالے سے بہت احسان مند تھی ۔نورین کی خواہش تھی کہ عائشہ ڈاکٹر بنتی۔۔۔اگر نورین کی خواہش نہ ہوتی تو وہ ڈاکٹر بننے کی بجائے آرکیٹیکٹ بنتی۔۔لیکن نورین کی خواہش کو مقدم سمجھتے ہوئے اس نے زندگی کے بہت سارے مقاصد بدل دییے تھے۔۔۔

----------+++++------------

وہ اگلی صبح پھر انکے دروازے پر کھڑا تھا۔امامہ نے لانڈری سے کپڑے نکال کر چند منٹ پہلے ڈرائپر میں ڈالے تھے اسے آج گیراج صاف کرنا تھا اور بیل بجنے پر اسکے بارے میں سوچتی ہوئ نکلی تھی۔۔تو اس نے ایرک کو سامنے کھڑا پایا۔۔۔لیکن وہ دروازے سے ہٹی نہیں۔۔ایرک نے ہمیشہ کی طرح اپنے مخصوص انداز میں سلام کیا تھا لیکن وہ پھر بھی وہی کھڑی رہی تھی۔۔

آپ اندر آنے کو نہیں کہیں گی؟ ایرک نے بلآخر کہا۔۔

تم سکول نہیں گئے؟ امامہ نے اسکا سوال گول کیا۔

نو۔۔۔دراصل میری طبیعت خراب ہے۔۔ایرک نے نظریں ملائے بغیر کہا۔۔۔

طبیعت کو کیا ہوا۔۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نرم پڑی۔۔۔

مجھے لگتا ہے مجھے کینسر ہے۔۔۔ایرک نے اطمینان سے کہا۔۔

وہ کچھ لمحے ہکا بکا رہی۔

فار گاڈ ایک۔۔جو بھی منہ میں آئے بول دیتے ہو ۔ایسے ہوتا ہے کینسر ۔

وہ اسے ڈانٹتی چلی۔گئ۔ایرک کو مایوسی ہوئ ۔اسے امامہ سے ہمدردی کی توقع تھی ۔

آپکو کیسے پتہ مجھے کینسر نہیں۔۔۔اس نے امامہ سے کہا۔۔امامہ نے خاموشی سے اسکا راستہ چھوڑا اور ایپرن کی ڈوریاں کمر کے گرد کستے ہوئے دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر چلی گئ۔ایرک نے اندر آتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔

امامہ کچن میں اپنے کام میں مصروف ہوگئ کاؤنٹر پر پڑے سیل فون سے کسی سورت کی تلاوت ہورہی تھی جو وہ کام کرتے ہوئے سن رہی تھی۔۔۔ایرک نے بھی وہ تلاوت سنی اسکی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کھڑا رہے یا بیٹھ جائے بات کرے یا نہ کرے۔۔

اس نے جبریل کو کئ بار تلاوت کرتے سنا تھا جب وہ تلاوت کرتا تھا تو کوئ اور بات نہیں کرتا تھا۔۔۔اسکی یہ مشکل امامہ نے آسان کردی اس نے سیل فون پر وہ تلاوت بند کردی. ۔

جبریل کی آواز ہے؟؟ اس نے پوچھا۔۔۔

ہاں۔۔۔۔

بہت پیاری ہے۔۔۔۔

امامہ اس بار مسکرائ۔۔

میں بھی سیکھنا چاہتا ہوں یہ قرآن۔۔۔ایرک نے کہا۔۔۔امامہ خاموش رہی۔۔۔

میں سیکھ سکتا ہوں کیا؟

اس نے امامہ کو خاموش پاکر سوال کیا۔۔

دلچسپی ہو تو سب کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔۔۔اس نے اپنے جواب کو مناسب کر کے پیش کیا۔۔۔۔۔

آپ سکھا سکتی ہیں؟؟ اسکا اگلا سوال اور بھی گھما دینے والا تھا۔

نہیں میں نہیں سکھا سکتی۔۔امامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔۔

جبریل سکھا سکتا ہے؟ اس نے متبادل حل پیش کیا۔

وہ مصروف ہے بہت اجکل۔اسے ہائ سکول ختم کرنا ہے اس سال۔۔۔امامہ نے جیسے بہانہ پیش کردیا۔۔۔

میں انتظار کرسکتا ہوں۔ایرک کے پاس بھی متبادل حل تھا۔

مسز سالار آپ مجھے پسند نہیں کرتی۔۔اس کے اگلے سوال پر وہ بری طرح چونکی۔۔

سب تمہیں بہت پسند کرتے ہیں پھر میں کیوں نہیں کروں گی۔۔۔اس نے بڑے تحمل سے اسے سمجھایا۔

آپ مجھے ایڈاپٹ کر سکتی ہیں۔۔۔۔؟؟؟اگلا سوال اتنا اچانک تھا کہ وہ اسکے لیئے پراٹھا بنانا بھول گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





قسط نمبر 33

ایرک تمہاری ممی ہیں دو بہن بھائی ہیں تمہاری فیملی ہے۔۔۔

پلیز۔۔۔۔۔۔ایرک نے اسکی بات کاٹ کر پلیز کہہ کر جیسے اسکی منت کی۔

تمہاری ممی تم سے بہت پیار کرتی ہے ایرک۔وہ کبھی تمہیں کسی اور کو نہیں دینگی۔اور تمہیں ان کے ہوتے ہوئے کسی اور کےپاس جانے کی ضرورت بھی نہیں۔امامہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔۔

ممی کے پاس ایک بوائے فرینڈ ہے وہ جلد ہی ان سے شادی کرلینگی کیا اپ تب مجھے ایڈاپٹ کرسکتی ہیں؟ اس نے اس مسلے کا بھی حل نکالا تھا۔

تم کیوں چاہتے ہو ہمارے پاس آنا۔۔؟وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔

کیونکہ یہ مجھے گھر لگتا ہے۔۔۔بہت مختصر جملے میں اس بچے کا ہر نفسیاتی مسلہ۔چھپا تھا۔۔وہ کس تلاش میں کہاں کہاں پھر رہا تھا ۔۔امامہ کا دل اور پگھلا۔۔

تم اپنی ممی کو چھوڑ کر ہمارے پاس آنا چاہتے ہو یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔امامہ نے اسے جذباتی بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔۔۔

ممی مجھے چھوڑ دیں گی میں نے آپکو بتایا نا انکا ایک بوائے فرینڈ ہے۔ایرک کے پاس اس جذباتی حربے کا جواب تھا۔۔۔۔

وہ شادی کرلیں اپنے بوائے فرینڈ کے پاس رہیں کچھ بھی ہو لیکن تم انکے بیٹے رہو گے۔۔تم سے انکی محبت کم نہیں ہونگی۔وہ تمہیں اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتیں۔۔۔۔اس نے کیرولین کی وکالت کر کے ایرک کی مایوسی کو اور بڑھایا۔۔۔

میں عنایہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔اسکے اگلے جملے نے امامہ کا دماغ گھما دیا۔۔۔۔۔وہ اگلے کئ لمحے بول نہ سکی تھی۔۔۔

یہ بھی نہیں ہوسکتا۔۔۔اس نے بلآخر ایرک سے کہا۔

کیوں؟ وہ بے تاب ہوا۔

تم ابھی اسطرح کی بات کرنے کے لیئے بہت چھوٹے ہو ۔۔اسے اس سے زیادہ مناسب جواب نہیں سوجھا۔۔۔۔

جب میں بڑا ہوجاؤں تب شادی کرسکتا ہوں اس سے؟؟

نہیں۔۔۔اس بار اس نے صاف گوئ سے کہا۔۔۔

کیوں؟؟ وہ اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا۔

اس سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہو تم؟ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔

کیونکہ میں اسے پسند کرتا ہوں۔۔۔۔

لیکن ہوسکتا ہے وہ تمہیں پسند نہ کرتی ہو اتنا کہ تم سے شادی پر تیار ہوجائے۔۔۔ایرک کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔۔۔

کیا اس نے آپ سے ایسا کہا؟ اس نے ایک بچگانہ سوال کیا۔۔۔۔۔۔

نہیں۔۔۔وہ بہت چھوٹی ہے تمہیں پسند یا ناپسند کرنے کے بارے میں ابھی سوچ بھی نہیں سکتی لیکن یہ میں تم سے کہہ رہی ہوں ایرک اسطرح کی باتیں کرنا اور سوچنا چھوڑ دو۔۔۔۔۔ورنہ ہمارے لیئے شاید تم سے ملنا جلنا ممکن نہیں رہے گا۔۔۔۔ایرک اسکی خفگی سے کچھ پریشان ہوا۔۔۔۔

تم کیا کر سکتے ہو عنایہ کے لیئے؟ اس نے بے حد سنجیدگی سے ایرک سے پوچھا۔۔

سب کچھ۔۔۔اسے وہی جواب ملا جسکی توقع تھی۔

اوکے پھر سکول جاؤ باقاعدگی سے ۔۔دل لگا کر پڑھو۔۔۔اپنا کوئ کیریئر بناؤ ۔۔۔عنایہ کسی ایسے لڑکے کو تو کبھی پسند نہیں کر سکتی جو سکول نہ جاتا ہو اپنی ماں کی بات نہیں مانتا ہو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پرواہ نہ کرتا ہو۔ اور پھر جھوٹ بولتا ہو۔۔۔۔ایرک کا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔امامہ نے جیسے دو سیکنڈز میں اسکی زندگی کی پہلی محبت کا تیاپانچہ کرلیا تھا۔۔۔۔

وہاں یکدم خاموشی چھائی تھی۔۔پھر اس نے امامہ سے کہا۔۔

میں اپنے آپ کو ٹھیک کرلوں گا۔۔

یہ بہت اچھا ہوگا ایرک لیکن اسکے ساتھ ایک۔وعدہ بھی کرنا ہے تم نے مجھ سے۔۔۔۔۔۔

کیا؟ وہ الجھا۔۔۔

جبتک تم ہائ سکول پاس کر کے یونیورسٹی میں نہیں چلے جاتے تم عنایہ سے اس طرح کی کوئ بات نہیں کروگے۔۔

میں وعدہ کرتا ہوں میں ایسا ہی کروں گا۔۔۔۔

اور جبتک تم یونیورسٹی نہیں پہنچ جاتے ہم دوبارہ اس ایشو پر بات نہیں کرینگے ۔۔محبت۔۔۔شادی۔۔۔عنایہ۔۔۔امامہ نے جیسے ان تین چیزوں کے گرد ریڈ زون لگاتے ہوئے اس سے کہا۔

امامہ کا خیال تھا کہ اس نے حفاظتی بند باندھ دیا تھا۔۔۔۔تھوڑے عرصے تک وہ بھول جائے گا۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ ایرک ایک عام امریکن بچہ نہیں تھا۔

----------------------------------

احسن سعد کا باپ اس بات پر ہمیشہ فخر کرتا تھا کہ اسکا بیٹا آج کے زمانے میں پاکستان کے بہترین انگلش میڈیم اور کو ایجوکیشن میں پڑھنے کے باوجود ایک سچا اور پکا مسلمان تھا۔داڑھی رکھتا تھا پانچ وقت کی نماز مسجد میں پڑھتا تھا حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرچکا تھا۔لڑکیوں سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔باعمل ہونے کیساتھ پوزیشن ہولڈر بھی تھا۔۔۔سعد اور اسکی بیوی اس پر جتنا فخر کرتے کم تھا۔۔۔اور یہ فخر وہ برملا لوگوں تک پہنچاتے تھے۔انکا گھر انکے سوشل سرکل میں ایک آئڈیل گھر سمجھا جاتا تھا۔۔لیکن یہ صرف اسکی ماں کا خاندان تھا جو اس آئیڈیل گھر کی کھوکھلی بنیادوں سے واقف تھا اور احسن سعد کے باپ کو پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔

سعد نے ایک امیر اور اچھے خاندان میں شادی کی تھی لیکن اس کے بعد اپنی بیوی کو اس نے ایک اچھی اور مسلمان عورت بنانے کے لیئے جو کچھ کیا تھا وہ اسکے خاندان سے پوشیدہ نہیں تھا۔۔اگر شادی کے پہلے سال ہی احسن پیدا نہ ہوا ہوتا تو اسکی بیوی کے ماں باپ کب کی اسکی علیحدگی کرواچکے ہوتے۔۔۔سعد اپنی بیوی کو ایک باحجاب فرمانبردار دین سے قریب اور دنیا سے دور رہنے والی بیوی بنانا چاہتا تھا جسکے لیئے وہ مذہب کا نام استعمال کرتا تھا۔۔۔۔سعد میں اسکے علاوہ کوئ خرابی نہیں تھی کہ وہ اپنی بیوی کو اس سانچے میں ڈھالنے کے لیئے ہر حربہ استعمال کرتا تھا۔۔گالم۔گلوچ سےلیکر مار کٹائ تک اور ماں باپ کے گھر جانے پر پابندی لگانے سے گھر میں قید کرنے تک۔۔۔اسکی بیوی کے میکے والوں کے پاس ہزار دلیلوں کے باوجود سعد کے قرآن و حدیث اور مذہبی حوالوں کا جواب نہیں تھا۔اگر انکے پاس دین کا علم ہوتا تو وہ سعد کے قرآن و حدیث کے حوالوں کا سیاق و سباق بھی انہیں بتادیتے.

وقت بدلنے کیساتھ سعد نہیں بدلا تھا بلکہ اسکی بیوی بدلتی چلی گئ۔اس نے ذہنی طور پہ یہ مان لیا تھا کہ وہ واقعی اسلام سے دور تھی اور دین کی تعلیمات وہی تھی جو سعد اسکے کانوں میں ڈالتا تھا۔۔اور اسے ویسا کرنا تھا جیسے اسکا شوہر کہتا۔۔۔ایک سٹیج آگیا کہ دونوں میاں بیوی سوچ کے حساب سے ایک جیسے ہوگئے۔۔۔اسکی بیوی بھی اب سعد کی طرح لوگوں پر فتوے نافذ کرنے لگی تھی۔۔اسکا خیال تھا کہ جو خلاف اسلام کام وہ روک سکتے ہیں روک دیں اور جسے برا کہہ سکتے ہیں اسے برا نہ کہیں بلکہ سب کے سامنے

اسطرح مطعون کریں کہ اگلا شرم سے پانی پانی ہوجائے۔اسلام میں حکم کے علاوہ حکمت نام کی بھی ایک چیز ہے جس سےوہ ناواقف تھے۔۔

احسن سعد نے ایک ایسے گھر میں پرورش پائ تھی جہاں پر اسکےماں باپ نے اسے لوگوں کو اسی کسوٹی پر پرکھنا سکھایا جس پر وہ پرکھا کرتے تھے۔اس نے ماں باپ کے درمیان بچپن میں ہی ہر قسم کے جھگڑے دیکھے تھے اور اس نے سیکھا تھا کہ شوہر اور بیوی کا تعلق ایسا ہی ہونا چاہیئے۔۔۔حاکم اور محکوم برتر اور کمتر کا۔۔۔عزت اور احترام پیار و محبت کا نہیں۔۔۔۔۔

احسن سعد کو کچھ چیزوں سے شدید نفرت تھی جن میں ماڈرن عورت اور امریکہ سرفہرست تھے۔۔۔احسن کی فیملی کی سب سے خوفناک بات یہ تھی کہ اس گھر میں رہنے والا ہر فرد خود کو فرفیکٹ سمجھتا تھا۔۔۔انہیں احساس تک نہیں تھا کہ ان میں بہت سارے نقائص بھی ہیں۔۔۔

احسن بھی اپنے آپ کو کامل سمجھتا تھا سب برائیوں سے مبرّا اور سب اچھائیوں کا منبع۔۔احسن نے اپنے باپ سعد سے بہت سی چیزیں وراثت میں پائ۔۔شکل و صورت ذہانت مزاج اور عادات. لیکن جو سب سے بری چیز احسن نے اپنے باپ سے لی تھی وہ منافقت تھی۔ اسے ماڈرن عورت اور امریکہ سے نفرت بھی تھی اور وہ ایک ماڈرن عورت سے شادی بھی کرنا چاہتا تھا جسکے پاس امریکن شہریت بھی ہو۔۔اور وہ امریکہ میں اعلی تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔اسکا باپ ٹھیک کہتا تھا وہ جو مانگتا اسے مل جاتا اسے یہ دونوں چیزیں بھی ملنے والی تھی اسکی خوش قسمتی ایک اور خاندان کی بدقسمتی میں بدلنے والی تھی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں پتا ہے Jbلڑکیاں تمہیں ہاٹ سمجھتی ہیں۔۔ڈنر ٹیبل پر ایک دم خاموشی چھا گئ وہ ایسا ہی غیر متوقع جملہ تھا جو حمین نے پاستا کھاتے ہوئے بڑے بھائ کے گوش گزار کردیا تھا۔۔۔امامہ سالار عنایہ رئیسہ نے بیک وقت حمین کو دیکھا پھر جبریل کو جو سرخ ہوا تھا۔۔۔وہ شرمندگی نہیں غصہ تھا جو اکثر اسے حمین کے بے لاگ تبصروں پہ آجاتا تھا۔۔مجھے بھی کول کہتی ہے لیکن تمہیں تو ہاٹ سمجھتی ہے کس قدر افسوس کی بات ہے نا۔۔۔

اس نے ماں باپ کی نظروں کی پرواہ کی نا ہی جبریل کے سرخ ہوتے چہرے کی۔۔۔۔

Will you please shut up.....

جبریل نے اس دفعہ کچھ سخت لہجے میں اسے روکا۔۔۔۔

حمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔امامہ نے بھی اسے تنبیہہ کی۔۔۔

میں غلط نہیں کہہ رہا ممی۔ میری جاننے والی ہر لڑکی کا جبریل پر کرش ہے۔۔۔حمین نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔

جبریل نے اس بار ہاتھ میں پکڑا ہوا کانٹا پلیٹ میں رکھ دیا یہ جیسے اسکے صبر کے پیمانہ کے لبریز ہونے کی نشانی تھی۔۔۔

یہاں تک کہ میری گرل فرینڈز بھی۔۔۔۔۔۔

فرینڈز۔۔۔۔۔۔سالار نے اسے ٹوکا۔۔۔

جو بھی ہو۔۔۔اس نے بات اسی انداز میں جاری رکھی۔۔۔مین یو آر سو لکی۔۔۔

امامہ اپنی بے انتہا کوشش کے باوجود اپنی ہنسی پہ قابو نہ پاسکی۔۔۔اسے حمین کی گفتگو سے زیادہ جبریل کے رد عمل پہ ہنسی آرہی تھی جسکی کانوں کی لوؤیں تک سرخ ہوگئ تھی۔۔۔وہ ماں کے ہنسنے پر کچھ اور جزبز ہوا۔۔۔۔۔

تو تمہارا کیا خیال ہے کونسی چیز اسے لڑکیوں میں پاپولر کرتی ہے۔۔۔سالار نے صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔۔

اس کی بہت سی ریزن ہیں۔۔لڑکیاں ان لڑکوں کو پسند نہیں کرتی جو بہت بولتے ہو۔۔اور جے بی بلکل بات نہیں کرتا۔۔۔۔

اور۔۔۔۔سالار نے اسے آگے بولنے کی ترغیب دی۔۔

اور لڑکیوں کو وہ لڑکے اچھے لگتے ہیں جو انکی کبھی نہ ختم ہونے والی باتیں سن سکتے ہو اور جے بی سب کی باتیں سنتا ہے خواہ وہ کتنی ہی احمق ہو۔ ۔۔۔

اس بار سالار کو بھی ہنسی آئی جو اس نے گلا صاف کر کے چھپائی۔۔۔

بلآخر جبریل نے اسے ٹوکا۔۔تمہیں پتا ہے حمین لڑکیاں ان لڑکوں کو پسند کرتی ہے جو ایڈیٹ نہیں ہوتے۔۔ اسکا اشارہ حمین کی سمجھ میں آگیا تھا۔

ہاں یہ اسی صورت ممکن ہے اگر لڑکیاں خود احمق نہ ہو۔۔۔۔۔۔

بابا۔۔۔۔۔اس بار عنایہ نے سالار کو پکارا۔۔اور اس نے حمین کے تبصرے پر احتجاج کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم ان دونوں لڑکیوں کے بارے میں کیا کہو گے؟ سالار نے پوچھا۔۔۔۔۔۔

تین کہیں بابا۔۔۔آپ ممی کو لڑکیوں کی صف سے کیوں نکال رہے ہیں۔حمین نے سوال کا جواب گول کیا۔۔وہ سمارٹ نہیں سپر سمارٹ تھا۔۔۔ہوشیار اور موقع شناس۔۔۔

حمین بس کردو۔۔۔امامہ نے اس بار اپنی ہنسی پہ قابو پاتے ہوئے کہا۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اسے ڈانٹے یا اسکی باتوں پہ ہنسے۔۔۔۔وہ جو بھی کہہ رہا تھا غلط نہیں تھا۔۔جبریل تیرہ سال کی عمر میں بھی اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے بڑا لگتا تھا۔۔۔۔۔۔اسکی آنکھیں سالار کی آنکھیں تھے بڑی سیاہ اور بے حد گہری۔۔ وہ اسی کی طرح بے حد متحمل مزاج تھا۔۔۔اور وہ اگر لڑکیوں میں مقبول تھا تو اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ سب کے لیئے ایک پہیلی تھا۔۔۔جبریل اپنی کشش سے بے خبر تھا اور اسے اس کشش کو استعمال کرنے میں دلچسپی بھی نہیں تھی۔۔۔

لیکن دنیا میں اگر کوئ خاموشی اور متحمل مزاجی کے اس پہاڑ میں شگاف ڈال کر اسے برہم کرسکتا تھا تو وہ حمین تھا۔۔۔جبریل کو تنگ کرنا اسکی زندگی کا دلچسپ اور پسندیدہ ترین کام تھا۔۔۔اس نے جبریل کو ایک سال سے بھائ کہنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ اسے لگتا تھا جے بی کول ہے۔۔۔وہ ہر چیز میں کولنیس نکالتا تھا۔۔۔

بابا جب میں اسپیلنگ بی جیت کر آؤں گی تو میں بھی اپنے سارے کلاس فیلوز کو بلاؤں گی۔۔۔رئیسہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے سالار کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔۔

رئیسہ سالار کی زندگی میں کوئ بڑا کام کرنا چاہتی تھی۔۔۔اس بات سے بے خبر کہ اسکی قسمت میں صرف بڑے کام لکھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

----------------------------------

بابا مجھے آپکو حمین کے بارے میں کچھ بتانا ہے۔۔رئیسہ کی منمناتی آواز پر سالار بیرونی دروازے سے نکلتے نکلتے ٹھٹک گیا تھا۔۔وہ اس وقت واک کے لیئے نکل رہا تھا اور رئیسہ ہمیشہ کی طرح اسے دروازے تک چھوڑنے آئ تھی۔۔سالار کو اچھنبا ہوا تھا۔۔وہ کبھی کسی کی شکایت نہیں کرتی تھی اور حمین لی شکایت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ۔وہ اسکی سب سے بڑی رازدان تھی۔۔۔

سالار نے کچھ غور اور حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔کیا بتانا ہے؟

رئیسہ نے جواب دینے کی بجائے پلٹ کر لاؤنج کی طرف دیکھا جہاں سےحمین کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔وہ امامہ سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔

کچھ ہے جو میں آپکو بتانا چاہتی ہوں۔۔۔اس نے سرگوشی نما آواز میں سالار سے کہا۔۔اس بارسالار نے اسکا ہاتھ پکڑا اور دروازہ کھول کر باہر جاتے ہوئے اس سے کہا ۔آؤ ہم واک کے لیئے چلتےہیں ۔اسے ندازہ ہوگیا تھا وہ گھر کے اندر حمین کے بارے میں بات کرتے ہوئے جھجک رہی تھی۔

رئیسہ چپ چاپ اسکے ساتھ باہر نکل آئ تھی۔۔۔

تو حمین کے بارے میں تم کیا بتانا چاہتی ہو؟ پانچ دس منٹ کی واک اور ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد اس نے رئیسہ سے کہا۔۔۔رئیسہ نے فوری طور پہ کچھ جواب نہیں دیا وہ سوچ میں پڑ گئ۔۔آئ ایم ناٹ شیور۔۔۔اس نے کہا۔۔کچھ ہے جو میں آپکو بتانا چاہتی ہوں لیکن مجھے یہ نہیں پتا کہ مجھے بتانا چاہیئے یا نہیں۔۔۔وہ ہمیشہ اسی طرح بات کرتی تھی۔۔ہر لفظ بولنے سے پہلے دس دفعہ تول کر۔۔۔۔۔۔۔۔

تم مجھ پر ٹرسٹ کرسکتی ہو۔۔۔سالار نے جیسے اسی تسلی دی۔۔۔

مجھے آپ پر ٹرسٹ ہے لیکن میں حمین کو بھی ہرٹ نہیں کرنا چاہتی۔۔یہ اسکا سیکرٹ ہے اور یہ اچھی بات نہیں کہ میں اسکا سیکرٹ کسی کو بتاؤں۔۔۔شاید مجھے نہیں بتانا چاہیئے۔۔۔۔میں پوری طرح شیور نہیں میں ابھی سوچ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔

ایسی کیا بات ہے رئیسہ ۔سالار نے نرم آواز میں اسے کریدا۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ حمین کے بارے میں جو بھی بات ہے وہ ایک سیکرٹ رہے گی۔۔۔اس نے رئیسہ سے کہا۔۔۔مگر وہ متاثر نہیں ہوئ۔

بابا آپ حمین سے بہت خفا ہوجائیں گےاور میں یہ نہیں چاہتی۔۔۔اس بار رئیسہ نے اپنے خدشات کا اظہار کھل کر کیا۔۔۔سالار کی چھٹی حس نے اسے سگنل دینا شروع کیے۔

رئیسہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔سالار نے اس بار سنجیدگی سے اسے گھرکا۔۔۔اگر حمین نے ایسا کچھ کیا ہے جو تمہیں لگتا ہے ہمیں پتا ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔تو تمکو ہمیں بتا دینا چاہیئے۔۔۔اس طرح کوئ بھی چیز چھپانا ٹھیک نہیں۔۔۔رئیسہ کی یہ پردہ پوشی سالار کو اس وقت بہت بری لگی تھی۔۔۔

مجھے ایک دن دیں۔رئیسہ نے اسکے لہجے میں جھلکتی خفگی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔۔میں آپکو کل بتادوں گی۔۔۔۔۔

وہ بے اختیار گہرا سانس لیکر رہ گیا۔۔انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش زور زبردستی سے نہیں کی تھی۔

ٹھیک ہے ایک دن اور سوچ لو اور پھر مجھے بتادو۔۔اس نے بات ختم کردی۔۔۔لیکن رئیسہ کے انکشاف سے پہلے ہی سکول سے امامہ کو کال آگئ تھی۔۔اگلے دن سکول میں انہیں حمین کے بارے میں جو بتایا گیا اس نے کچھ دیر کے لیئے اسکے ہوش و حواس اڑا دییے۔۔وہ جونیئر ونگ میں بزنس کر رہا تھا۔اور ایسی ہی ایک بزنس ڈیل کے نتیجے میں ایک بچہ اپنا ایک بے حد مہنگا گیم گنوانے کے بعد اپنے ماں باپ کو اس لین دین کی تفصیلات سے آگاہ کربیٹھا تھااور اسکا پتا اسکے والدین کی شکایت سے چلا تھا۔جسکے نتیجے میں سکول۔نے تحقیقات کی تھی۔۔ اور حمین سکندر کو پہلا وارننگ لیٹر ایشو ہوا تھا ۔سالار کا دماغ واقعی گھوم کر رہ گیا تھا۔۔

اس بزنس کے آغاز کو بہت وقت نہیں گزرا تھا۔بزنس کا آغاز اتفاقی تھا۔۔اسکی کلاس میں اسکا ایک کلاس فیلو ایسے جوگرز لیکر آیا تھا جنہیں دیکھ کر حمین سکندر مچل گیا تھا.۔امامہ نے ان برانڈڈ سنیکرز کی خواہش کو رد کردیا تھا۔کیونکہ۔چند ہفتے پہلے حمین نے نئے سنیکرز لیئے تھے۔۔حمین سکندر ہر روز سپورٹس آورز میں اپنے اس کلاس فیلو کے سنیکرز دیکھتا اور انہیں حاصل کرنے کے طریقے سوچتا ۔۔اس نے ان سنیکرز کو بارٹر ٹریڈ کے ذریعے حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا۔۔۔

کوئ ایسی چیز جسکے بدلے میں وہ کلاس فیلو ان سنیکرز کو حمین کو دے دیتا۔۔۔۔اسکا وہ کلاس فیلو حمین کے اتنے ڈائریکٹ سوال پر کچھ گڑبڑا گیا۔۔۔اس نے کچھ تامل کے بعد حمین کو یہ بتایا تھا کہ وہ ایک اور کلاس فیلو کی گھڑی کو پسند کرتا تھا اور اگر اسے وہ مل جائے تو اسکے بدلے وہ سنیکرز دے سکتا ہے ۔جس کلاس فیلو کی گھڑی اس نے مانگی تھی اسے ایک اور کلاس فیلو کی سائیکل میں دلچسپی تھی اور اور سائیکل والے کو ایک اور کلاس فیلو کے بیگ میں۔۔۔۔یہ سلسلہ چلتے چلتے حمین سکندر کے پاس موجود ایک کی بورڈ تک آگیا تھا جو وہ کبھی کبھار سکول لے جاکر بجاتا تھا۔اور حمین نے فوری طور پر اس کی بورڈ کے بدلے وہ سنیکرز حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔۔اور پھر دوسرے ہی دن اسکو عملی جامہ پہنا دیا۔۔۔بزنس کا پہلا اصول مؤثر سٹریٹیجی اور دوسرا وقت پہ درست استعمال۔۔۔سالار سکندر کے منہ سے دن رات سننے والے الفاظ کو اس کے نو سالہ بیٹے نے کس مہارت سے استعمال کیا تھا اگر سالار دیکھ لیتا تو عش عش کر اٹھتا۔

حمین سکندر کی کلاس کے بارہ افراد نے اگلے دن سکول گراؤنڈ میں اپنی پسندیدہ ترین چیز کے حصول کے لیئے اپنی کم فیورٹ چیز کا تبادلہ کیا تھا اور تبادلے کی اس چین کے ذریعے حمین سکندر وہ سنیکرز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔۔

کلائنٹس کا اطمینان کاروبار کا تیسرا اصول ہے اور نو سال کی عمر میں سالار سکندراس بیٹے نے یہ تینوں چیزیں مدنظر رکھی تھی۔۔۔وہ اس وقت گیارہ مسرور کسٹمرز کے درمیان راجہ اندر بنا تھا جو اسکا شکریہ ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے۔۔

اور اگر ان میں سے کسی نے اپنی کوئ چیز واپس مانگ لی تو؟ رئیسہ نے اسکے سامنے اپنے خدشے کا اظہار کردیا۔۔۔

ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔حمین نے پر اعتماد انداز میں کہا۔۔

کیوں؟؟ حمین نے اسکے کیوں کے جواب میں اپنی جیب سے ایک کانٹریکٹ نکال کر اسے دکھایا جس پر حمین سمیت بارہ لوگوں کے سائن تھے اور اس کانٹریکٹ پر اس لین دین کے حوالےسے شرائط و ضوابط درج تھے۔جس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ایک دفعہ چیزوں کا تبادلہ ہونے کے بعد واپس نہیں ہوسکتی تھی۔۔۔

اگر ممی بابا نے تمہارے سنیکرز دیکھ لیئے تو؟ حمین نے اسکے سوال پہ سر کھجاتے ہوئے کہا اب یہی ایک الجھن ہے ۔۔میں انکے سامنے یہ نہیں پہنوں گا ہم انہیں بتائیں گے ہی نہیں۔۔۔

کیوں؟ رئیسہ اب بھی مطمئن نہیں تھی۔۔

پیرنٹس بہت سی باتیں نہیں سمجھتے۔۔حمین نے جیسے کسی بزرگ کی طرح فلسفہ جھاڑا۔۔۔اس بزنس ڈیل کے ایک ہفتہ بعد ان گیارہ لوگوں میں سے ایک اور لڑکا اسکے پاس آن موجود ہوا تھا۔۔اس بار اسے کلاس کے ہی ایک لڑکے کے گلاسز چاہیئے تھے اور وہ حمین کے ذریعے یہ ڈیل کرنا چاہتا تھا اور اسکے لیئے وہ حمین کو پانچ ڈالرز دینے پر تیار تھا۔ وہ رقم بڑی نہیں تھی لیکن حمین اس ترغیب کے سامنے ٹہر نہ سکا۔۔ایک بار پھر اس نے ایک پوری بارٹر چین کے ذریعے وہ برانڈڈ سن گلاسز اپنے کلائنٹ کو ڈیلیور کردییے تھے۔۔اور پانچ ڈالرز کما لیئے تھے۔۔۔یہ اسکی زندگی کی پہلی کمائی تھی اور رئیسہ کو اسکا بھی پتا تھا۔۔ وہ اس بار بھی خوش نہیں تھی ۔۔۔یہ بزنس اسکی کلاس سے نکل کر اسکول میں پھیل گیا تھا ۔اسکول میں چند مہینوں میں سب کو یہ پتا تھا کہ اگر کسی کو سکول میں کسی دوسرے بچے کی کوئ چیز پسند آجائے تو اسکے حصول کے لیئے حمین سکندر واحد نام تھا۔۔جسکی خدمات وہ حاصل کرسکتے تھے۔۔حمین کو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کرنے جارہا۔۔تین ماہ کے اس عرصے میں حمین نے اس بزنس سے 175ڈالرز کمائے تھے ۔۔۔۔اور رئیسہ اسکے ہر لین دین سے واقف تھی۔۔۔

حمین کے پاس اب بہت سے پیسے تھے جو اس نے ممی بابا سے نہیں لیئے تھے۔

سالار اور امامہ نے اسکول میں حمین سے زیادہ بات چیت نہیں کی تھی۔۔سالار نے اس سے کہا تھا وہ اس مسلے پر گھر میں بات کرینگے اور پھر وہ چلے گئے۔۔۔لیکن حمین پریشان ہوگیا تھا۔

چھٹی کے وقت حمین نے رئیسہ کو اس صورت حال سے آگاہ کردیا تھا جو اسے پیش آئ تھی۔۔۔وہ بے حد پریشان ہوگئ تھی۔

وارننگ لیٹر؟؟؟ اسے یقین نہیں آیا تھا کہ حمین کیساتھ ایسا ہوسکتا ہے۔۔میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا تھا لیکن تم نے بات نہیں مانی۔۔۔

مجھے توقع نہیں تھی کہ ایسا ہوجائے گا ۔وہ دونوں سکول بس میں سوار ہونے کی بجائے اب اس مسلے کو ڈسکس کرنے میں مصروف تھے۔۔۔

بابا اور ممی بہت خفہ ہوئے ہونگے۔؟رئیسہ نے اس سے پوچھا۔۔تمہیں بہت ڈانٹا کیا۔۔۔

نہیں۔۔یہاں تو نہیں ڈانٹا لیکن گھر جاکر ڈانٹیں گے۔بابا نے کہا تھا۔۔انہیں مجھ سے ضروری باتیں کرنی ہے گھر جاکر۔۔۔حمین کچھ فکرمند انداز میں کہہ رہا تھا۔۔

وہ تمہیں سکول سے نکال دیں گے کیا۔۔رئیسہ کو تشویش ہوئ۔

نہیں۔۔ایسا تو نہیں ہوگا بابا نے معذرت کی ان سے۔اور وہ مان بھی گئے۔۔حمین نے اسے بتایا۔۔

کتنی بری بات ہے۔۔رئیسہ کو اور افسوس ہوا ۔بابا کو کتنا برا لگا ہوگا ۔وہ بہت شرمندہ ہوگئے ہونگے۔اور ممی بھی ہورہی ہوں گی۔۔۔

مجھے پتہ ہے۔۔۔حمین کچھ حجل تھا۔۔۔

تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیئے تھا حمین۔۔۔

جبریل اور عنایہ کو اس حوالے سے کچھ نہیں بتانا۔۔سالار نے امامہ کو گھر ڈراپ کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔۔

اس دن سکول سے واپسی پر حمین جتنا سنجیدہ تھا امامہ اس سے بھی زیادہ سنجیدہ تھی۔۔۔ہر روز کی طرح پرجوش سلام کا جواب سلام سے ملا تھا نہ ہی ہمیشہ کی طرح وہ اس سے جاکر لپٹا تھا۔۔اور نہ ہی امامہ نے ایسی کوشش کی تھی۔اور یہ سرد مہری کا مظاہرہ صرف حمین کے ساتھ نہیں بلکہ رئیسہ کیساتھ بھی ہوا تھا۔۔

--------*--*-----*****--------

رات کے کھانے سے فارغ ہوکر سالار نے باقی بچوں کے اپنے کمرے میں جانے کے بعد حمین اور رئیسہ کو وہاں روک لیا تھا وہ دونوں سالار کے سامنے صوفے پر بیٹھے نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہے تھے۔۔

تمہیں یہ سب پتا تھا نا رئیسہ؟؟ سالار نے رئیسہ کو مخاطب کیا۔۔

اس نے سر اٹھایا اور پھر کچھ شرمندہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔یس بابا۔۔۔۔

اور تم حمین کے بارے میں مجھے یہی بتانا چاہتی تھی؟ اس سوال پر اس بار چونک کر حمین نے رئیسہ کو دیکھا۔۔جس نے ایک بار پھر سر ہلایا۔۔۔

تم نے مجھے بہت مایوس کیا۔۔۔سالار نے جواباً رئیسہ سے کہا۔۔۔

بابا آئ ایم سوری۔۔رئیسہ نے روہانسی ہوکر کہا۔۔۔۔

یی قابل معافی نہیں۔۔۔انہوں نے جواباً کہا۔۔

بابا اس میں رئیسہ کا کوئ قصور نہیں۔حمین نے اسکی حمایت کرنے کی کوشش کی۔۔سالار نے اسے ترشی سے جھڑک دیا۔

شٹ اپ۔۔۔۔حمین اور رئیسہ دونوں گم صم ہوگئے۔۔۔انہوں نے سالار کے منہ سے اس طرح کے الفاظ اور اس انداز میں انکا اظہار پہلی بار دیکھا تھا۔۔۔

تم اب یہاں سے جاؤ۔۔سالار نے رئیسہ سے کہا۔۔۔جسکی آنکھیں اب آنسوؤں سے بھر رہی تھی اور سالار کو اندازہ تھا وہ چند لمحوں میں رونا شروع کردینگی۔۔۔۔ اور وہ فی الحال وہاں بیٹھ کر اسے بہلانا نہیں چاہتا تھا۔

رئیسہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئ۔۔

تمہیں سکول میں بزنس کے لیئے بھیجا تھا؟ سالار نے حمین سے بات چیت شروع کردی۔

نہیں۔۔۔

پھر کس کام کےلیئے بھیجا تھا۔۔؟؟سالار نے اگلا سوال کیا۔۔

پڑھنے کے لیئے۔۔حمین کا سر اب بھی جھکا ہوا تھا۔

اور تم یہ پڑھ رہے تھے؟ سالار نے بے حد خفگی سے کہا۔۔

میں ناخوش ہوں۔۔۔سالار نے اس سے کہا۔۔

آئ ایم سوری۔۔۔جواب تڑ سے آیا تھا.

تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئ۔

حمین نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔پھر اس نے باپ کو سنیکرز کے جوڑے کی وجہ سے سٹارٹ کییے جانے والے اس بزنس کی تفصیلات بتانا شروع کی۔۔۔سالار ٹکے بغیر سنتا رہا۔۔حمین نے اب کچھ بھی نہیں چھپایا۔۔۔

جب وہ خاموش ہوا تو سالار نے اس سے پوچھا۔۔۔وہ کانٹریکٹس کہاں ہیں جو تم نے ان سب سے سائن کروائے ہیں۔۔۔

حمین وہاں سے اٹھ کر کمرے میں گیا اور کچھ دیر بعد ایک فائل لیکر آگیا۔۔سالار نے فائل کھول کر اسکے اندر موجود معاہدے کی شقوں پہ نظر ڈالی پھر حمین سے پوچھا۔۔۔

یہ کس نے لکھی ہے؟

میں نے خود۔۔۔اس نے جواب دیا۔۔۔سالار اس معاہدے کو پڑھنے لگا سالار متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

سالار نے فائل بند کی پھر اس سے پوچھا۔۔اور جو رقم تم نے ان سب سے لی ہے وہ کہاں ہے۔۔۔۔

میرے پاس۔۔ حمین نے جواب دیا۔

کچھ خرچ کی؟ سالار نے پوچھا۔۔۔

نہیں۔۔۔اس نے کہا۔۔۔۔۔

پھر سالار نے سر ہلایا اور فائل اسے دیتے ہوئے کہا۔۔۔اب تم ایک لیٹر لکھو گے جس میں تم اپنے ان سب کلائنٹس سے معذرت کروگے اور انہیں انکی رقم اور وہ چیزیں لوٹاؤ گے جو تمہارے پاس ہیں اس کے بعد تم وہ ساری چیزیں ان سب لوگوں تک واپس پہنچاؤ گے جو تم نے ایکسچینج کی ہے۔۔حمین چند لمحے ساکت رہا پھر سر ہلادیا۔

اوکے۔۔۔۔اور میں یہ کیسے کروں؟ اس نے سالار سے کہا۔۔۔

تم ایک بزنس مین ہو تمہیں اگر وہ بزنس کرنا آتا تھا تو یہ بھی آنا چاہیئے۔۔۔سالار اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔۔اور پھر جب تم یہ کام ختم کرلوگے تو ہم دوبارہ بات کرینگے۔۔۔تمہارے پاس ایک ہفتہ ہے۔۔۔۔۔

اسے وہاں بیٹھے بیٹھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکا باپ اسے کس پریشانی میں ڈال گیا تھا ----------------------------------

اس بزنس کا وہ اگلا تجربہ حمین سکندر کی زندگی کا سب سے سبق آموز تجربہ تھا۔وہ ایک ہفتہ کی بجائے ایک دن میں یہ کام کرنا چاہتا تھا لیکن اگلے ہی دن اسے پتا چل گیا کہ سالار نے اس کام کے لیئے اسے ایک ہفتہ کیوں دیا تھا۔۔۔

حمین سکندر اگلے دن سکول میں اس بزنس کے ذریعے ہونے والے بزنس معاہدوں کو ختم کرنے میں پہلی بار اسکول کے سب سے ناپسندیدہ سٹوڈنٹ کے درجے پر فائز ہورہا تھا. کامیابی انسان کو ایک سبق سکھاتی ہے اور ناکامی دس۔۔۔۔لیکن حمین سکندر نے پندرہ سیکھے۔۔۔

بابا آئ ایم سوری۔۔۔گاڑی سے اترتے ہوئے سالار کو دیکھ کر لپکتی ہوئ رئیسہ اسکے پاس آئ تھی۔۔۔وہ رئیسہ کی پہلی غلطی تھی جس پر سالار نے اسے ڈانٹا تھا اور اسے کل سے یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی۔۔۔

سالار نے اپنی اس منہ بولی بیٹی کو دیکھا جو پروانوں کی طرح اپنے ماں باپ کے گرد منڈلاتی پھرتی تھی۔۔

تمہیں پتا ہے تم نے کیا غلطی کی۔۔۔سالار نے ایک دن کی خاموشی کے بعد اسکو معاف کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

یس۔۔۔مجھے آپ کو اور ممی کو سب بتانا چاہیئے تھا۔ ۔رئیسہ نے اپنے گلاسز ٹھیک کرتے ہوئے سر جھکا کر کہا۔۔

اور؟؟ سالار نے مزید کریدا۔

اور مجھے حمین کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔لیکن بابا میں نے اسکو سپورٹ کبھی نہیں کیا۔

تم نے خاموش رہ کر اسے سپورٹ کیا۔۔۔سالار نے کہا۔

بابا میں نے اسے منع کیا تھا لیکن اس نے مجھے کنوینس کرلیا تھا۔۔رئیسہ نے وضاحت دی۔

اگر اس نے تمہیں کنوینس کرلیا تھا تو پھر تم مجھے کیوں بتانا چاہتی تھی۔۔سالار نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا۔۔۔تم کنوینس نہیں ہوئ تھی تمہارے دل میں تھا کہ حمین ٹھیک کام نہیں کر رہا۔۔

رئیسہ نے سر ہلادیا۔۔

یہ زیادہ بری بات تھی تمہیں پتا تھا وہ ایک غلط کام کر رہا ہے لیکن تم نے اسے کرنے دیا۔۔چھپایا۔۔

وہ مجھ سے ناراض ہوجاتا بابا۔۔۔رئیسہ نے کہا۔

تو کیا ہوتا؟؟ سالار نے سنجیدگی سے کہا۔

میں اسے ناراض نہیں کرسکتی۔۔ اس نے بے بسی سے کہا۔۔

اسکی ناراضگی اس سے بہتر تھی جتنی پریشانی وہ اب اٹھائے گا۔ تمہیں اندازہ ہے سکول میں کتنی شرمندگی اٹھانی پڑے گی اسے اب۔۔۔رئیسہ نے ایک بار پھر سر ہلادیا۔۔۔

وہ تمہارا بھائ ہے دوست ہے تم اس سے بہت پیار کرتی ہو میں جانتا ہوں لیکن اگر کوئ ہمیں عزیز ہو تو اسکی غلطی ہمیں عزیز نہیں ہونی چاہیئے۔۔وہ سر ہلاتے سن رہی تھی اور ذہن نشین کر رہی تھی۔۔۔

سالار خاموش ہوا تو رئیسہ نے سر اٹھا کر اس سے پوچھا۔۔۔

کیا میں اب بھی آپکو اچھی لگتی ہوں بابا؟ سالار نے اسکے گرد بازو پھیلا کر اسے سینے سے لگاتے ہوئے اسکا سر چوما۔۔۔

یس۔۔۔۔۔

رئیسہ کھل اٹھی۔۔۔وہ ایسی ہی تھی چھوٹی سی بات پر پریشان ہونے والی چھوٹی سی بات پہ خوش ہوجانے والی۔۔

-------------**--*******-----

قسط نمبر 34

عنایہ نے ایرک کو کھڑکی سے دیکھا تھا اور دیکھتی رہ۔گئ تھی۔۔

عنایہ۔۔۔۔۔۔کچن میں کام کرتی امامہ نے اسے اتنی دیر کھڑکی سے باہر جھانکتے دیکھ کر پکارا تھا۔۔عنایہ اس قدر مگن تھی کہ اسے ماں کی آواز سنائی نہیں دی۔امامہ کچن ایریا سے خود بھی سٹنگ ایریا کی اس کھڑکی کے سامنے آگئ جس سے عنایہ باہر دیکھ رہی تھی۔۔اور کھڑکی سے باہر نظر آنے والے منظر نے اسے بھی عنایہ ہی کی طرح منجمد کیا تھا۔۔۔۔۔ایرک ایک کیکڑے کی طرح اپنے چاروں ہاتھوں اور پیروں پر چل رہا تھا۔وہ چوپائے کی طرح نہیں چل رہا تھا۔وہ اپنی پشت کے بل چل رہا تھا۔۔اپنا پیٹ اونچا کییے۔۔اپنے دونوں ہاتھوں کے بل اپنے اوپری دھڑ کو اٹھائے۔۔۔۔۔۔اپنی ٹانگیں گھٹنوں کے بل اٹھائے۔۔۔۔وہ بڑی دقت سے چل بلکہ رینگ رہا تھا لیکن رکے بغیر بے حد اطمینان سے وہ اسطرح ادھر سے ادھر جاتے ہوئے چہل قدمی میں مصروف تھا جیسے یہ اسکے چلنے کا نارمل طریقہ تھا ۔وہ جب تھک جاتا بیٹھ کر تھوڑی دیر سانس لیتا پھر اسی طرح چلنا شروع کردیتا۔۔۔

یہ کیا کر رہا ہے؟ عنایہ نے اب کچھ پریشان ہوکر امامہ سے پوچھا۔۔

پتا نہیں۔۔۔

کیا یہ چل نہیں سکتا۔۔۔عنایہ کو تشویش ہوئ۔

پتا نہیں۔۔۔امامہ اور کیا جواب دیتی۔۔۔

جبریل تم ذرا جاکر اسے اندر لے آؤ۔۔جبریل اوپر والی منزل سے سیڑھی اتر رہا تھا ۔جب امامہ نے پلٹ کر اسے کہا۔۔

کسے؟ جبریل نے جواباً کھڑکی کےپاس آتے ہوئے کہا اور امامہ کو اسکے سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہ پڑی۔۔اس نے ایرک کو دیکھ لیا تھا۔۔پھر وہ رکے بنا باہر نکل آیا۔۔۔

ہیلو۔۔۔۔۔۔جبریل نے ایرک کیساتھ ٹہلتے ہوئے اس سے کہا ۔اسکی سرخ ہوتی رنگت پھولا ہوا سانس اور ماتھے پر چمکتے پسینے کے قطروں سے اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تھک چکا ہے۔۔۔لیکن اسکے باوجود صرف لوگوں کی توجہ حاصل کیے رکھنے کے لیئے خود پر ظلم کر رہا تھا۔۔۔۔

ہیلو۔۔۔اس نے بھی جبریل کی ہیلو کا جواب اتنے ہی پرجوش لیکن تھکے ہوئے انداز میں دیا تھا۔۔۔

یہ کوئ نئ ایکسرسائز ہے؟ جبریل نے اسکے ساتھ ہلکے قدموں سے چلتے ہوئے کہا۔

نہیں۔۔۔ایرک کا جواب آیا۔

پھر؟؟

میں کیکڑا ہوں۔اور کیکڑے ایسے ہی چلتے ہیں ایرک نے اس بار اسکی طرف دیکھے بنا کہا۔۔۔

اوہ آئی سی۔۔جبریل نے بے اختیار کہا۔اور یہ تبدیلی کب آئ؟ آخری بار جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تو تم انسان تھے ۔جبریل اس سے یوں بات کر رہا تھا جیسے اسے اسکی بات کا یقین آگیا تھا۔

آج رات۔۔۔۔ایرک نے پھولے ہوئے سانس کیساتھ کہا۔۔

اوہ۔۔۔۔۔کیکڑے اکثر رک کر آرام بھی کرتے ہیں، تم نہیں کروگے؟ جبریل نے بلآخر اسے مشورہ دینے والے انداز میں کہا۔۔۔۔

ایرک کے لیئے جیسے تنکے کو سہارا والی بات ہوئ تھی۔۔وہ ڈھے جانے والے انداز میں فٹ پاتھ پر چت لیٹے ہوئے بولا ۔

اوہ یس۔۔۔۔۔میں بھول گیا تھا۔۔۔اچھا ہوا تم نے یاد دلا دیا۔اس نے جبریل کے قدموں میں لیٹے لیٹے کہا۔۔

ڈونٹ مائنڈ کیکڑے اتنی ایفرٹ کرنے کے بعد کھاتے پیتے بھی ہیں۔۔۔جبریل نے اسے اگلی بات یاد دلائ۔۔

آہاں۔۔۔۔۔۔مجھے بھی کھانے کو کچھ چاہیئے ۔۔ایرک کی بھوک واقعی اسکی بات سے چمکی تھی۔اسکے بازو اور کمر اس وقت شل ہورہے تھے۔۔۔

ہمارے گھر میں کیکڑوں کی کچھ خوراک ہے اگر تمہیں انٹرسٹ ہو تو تم جا کے کھا سکتے ہو۔۔۔جبریل نے کہا۔

ایرک ایکدم اسی طرح کیکڑا بنے بنے اسکے ساتھ چلنے۔لگا جبریل رکا اور اس نے بڑی شائستگی سے اس سے کہا۔۔۔مجھے اچھا لگے گا اگر تم کچھ دیر کے لیئے دوبارہ انسان بن جاؤ۔میری ممی اور بہن کیکڑوں سے بہت ڈرتی ہیں۔۔۔

وہ رکا، بیٹھا اور اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔

جبریل کیساتھ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اس نے امامہ اور عنایہ کی حیران نظریں محسوس کرلی تھی۔

ایرک تم کیا کر رہے تھے باہر؟ اس کے اندر آتے ہی عنایہ نے اس سے پوچھا تھا۔وہ جواباً فاتحانہ انداز میں مسکرایا۔۔یوں جیسے وہ جو چاہتا تھا حاصل کرلیا ہو۔۔۔

یہ ایرک نہیں ایک کیکڑا ہے۔جبریل نے اسکا تعارف کرایا۔۔۔اور بہتر ہے آئندہ اسے اسی نام سے پکارا جائے۔۔۔۔۔۔

تم اتنے دن سے آئے کیوں نہیں؟ امامہ نے موضوع بدلنے کوشش کی۔

میں مصروف تھا۔۔وہ اب اپنے بازو اور کلائیاں دبا رہا تھا۔

جبریل اور عنایہ نے نظروں کا تبادلہ کیا اور ہنسی کو روکا۔۔انہیں اندازہ تھا ایک کیکڑا بن کر پندرہ بیس منٹ چہل قدمی کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے اب۔۔۔۔

تم بعض دفعہ بے حد احمقانہ خرکتیں کرتے ہو۔عنایہ نے اس سے کہا۔

تم واقعی ایسا سمجھتی ہو؟ ایرک اسکے تبصرے پر کچھ مضطرب ہوا۔

ہاں بلکل۔۔۔۔۔

ایرک کے چہرے پر اب کچھ مایوسی آئ۔

اگر تم ہمارے گھر کے اندر آنا چاہتے تھے تو اسکا سیدھا رستہ دروازے پر دستک دے کر اجازت مانگنا ہے۔۔کیکڑا بن کر ہمارے گھر کے سامنے پھرنا نہیں۔۔۔یا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم خود تمہیں کیھنچ کھینچ کر اندر بلائیں۔۔۔عنایہ نے کچھ خفگی سے کہا۔

ایرک کا چہرہ سرخ ہوا۔۔یہ شرمندگی تھی اس بات کی کہ وہ اسکی حرکت کو سمجھ گئے تھے۔۔۔

مسز سالار مجھے پسند نہیں کرتی۔۔۔ایرک نے اسکی بات کء جواب میں امامہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔امامہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسکے پہلی بار سمجھانے کا اثر ایرک پر یہ ہوگا۔۔۔۔

خیر وہ تو ہم میں سے کوئ بھی نہیں کرتا خاص طور پر میں بٹ یو آر سٹل ویلکم۔۔۔یہ جبریل تھا۔جو فریج سے سوفٹ ڈرنک نکال رہا تھا۔۔۔

میرے بھی تمہارے بارے میں ایسے ہی خیالات ہیں۔ایرک نے اسے ٹکڑا توڑ جواب دیا۔

اوہ ریئلی۔۔۔۔جبریل اسے زچ کر رہا تھا۔

مسز سالار ۔۔۔میں فریج سے کوئ ڈرنک لے سکتا ہوں؟

نہیں۔۔۔جو آخری تھا وہ میں نے لے لیا لیکن تم یہ پی سکتے ہو۔۔امامہ سے پہلے جبریل نے اس سے کہا۔۔اور اپنے ہاتھ میں پکڑا وہ کین جس سے اس نے ابھی دو گھونٹ لیئے تھے اسکے سامنے رکھ دیا۔۔اور خود اندرونی کمرے کی طرف چلاگیا۔عنایہ لاؤنج کی صفائ میں امامہ کی مدد کر رہی تھی۔۔ایرک کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کین اٹھا کر ایک ہی سانس میں اسے ختم کرلیا۔

اگر مدد کی ضرورت ہو تو میں مدد کرسکتا ہوں۔۔ایرک نے انہیں آفر کی۔

تمہارے بازو اب دو دن تک کچھ اٹھانے کے قابل نہیں ہونگے اس لیئے آرام کرو ہم خود ہی کرلیں گے ایرک۔۔۔۔امامہ نے جواباً اس سے کہا۔

میرا نام ایرک نہیں ہے۔۔ ایرک نے بے حد سنجیدگی سے امامہ کو جواب دیا۔۔

ہاں ہاں پتا ہے تمہارا نام اب کیکڑا ہے۔۔عنایہ نے ہوور چلاتے ہوئے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔۔۔

میرا نام عبداللہ ہے۔۔۔امامہ اور عنایہ نے بیک وقت پہلے اسے پھر ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔

کیا مطلب؟ امامہ کچھ ہکا بکا سی رہ گئ۔۔۔۔

اب میرا نام ایرک نہیں عبداللہ ہے۔۔۔ایرک نے اپنا جملہ سنجیدگی سے دہرایا۔

کس نے بدلا ہے تمہارا نام؟ عنایہ بھی دنگ تھی۔

میں نے خود۔۔۔اس نے فخریہ انداز میں کہا۔

ایرک ایک بہت خوبصورت نام تھا۔۔۔۔امامہ نے اس سے کہا۔کیوں عنایہ؟ اس نے روانی میں عنایہ سے پوچھا۔۔۔۔

عبداللہ زیادہ خوبصورت نام ہے ممی۔۔عنایہ نے ماں کی تائید نہیں کی لیکن بڑے جتانے والے انداز میں بتایا کہ وہ عبداللہ سے کیا مفہوم لے رہی۔۔۔

امامہ جس موضوع سے بچنا چاہتی تھی بات پھر وہی آگئ تھی۔۔۔۔

اس نام کا مطلب جانتے ہو؟ امامہ نے اگلا سوال کیا۔

ہاں۔۔۔اللہ کا بندہ۔۔اس نے ایک بار پھر امامہ کو لاجواب کردیا۔میں چاہتا ہوں کہ آپ سب مجھے عبداللہ کہا کرے اب۔۔اس نے اگلا مطالبہ کیا۔۔۔

اس سے کیا ہوگا؟ اس بار امامہ کے سوال پر وہ خاموش ہوگیا۔۔واقعی اس سے کیا ہوسکتا تھا۔

وہ کچھ دیر ایسے ہی کھڑا رہاپھر کچھ کہے بغیر خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔۔۔امامہ کو عجیب قلق ہوا۔۔۔۔

عبداللہ برا نہیں ہے۔۔۔وہ عنایہ کی آواز پر کرنٹ کھا کر پلٹی تھی۔۔۔

عنایہ وہ ایرک ہے۔۔صرف نام بدل لینے سے وہ عبداللہ نہیں ہوسکتا بیٹا۔۔۔امامہ نے کہنا ضروری سمجھا تھا۔ عنایہ خاموش رہی تھی۔

-----------------------------------

سالار نے اس فائل میں لگے کاغذات کو باری باری دیکھا آخری کاغذ فائل میں رکھنے کے بعد اس نے اپنے سامنے بیٹھے حمین کو دیکھا ۔فائل بند کی اور اسے واپس تھما دی۔

تو اس سارے تجربے سے تم نے کیا سیکھا؟

بہت سی باتیں۔۔حمین نے گہرا سانس لیکر کہا۔سالار نے اپنی ہنسی چھپائ۔۔۔۔

صرف دو باتیں بتا دو۔

بچے اچھے کلائنٹس نہیں ہوتے۔۔۔اس نے بے ساختہ کہا۔۔۔

اور؟؟ سالار نے پوچھا۔

بزنس آسان نہیں ہے۔۔اس نے سالار سے کہا۔۔

درست۔۔۔سالار نے اسکی تائید کی۔۔پھر اس سے کہا۔۔۔ہر وہ چیز جو اچھی لگے اور دوسروں کی ملکیت ہو ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہوسکتی ۔ہماری پسندیدہ چیز وہی ہونی چاہیئے جو کہ ہمارے پاس ہے کسی دوسرے کی چیز چھیننے کا حق ہمیں نہیں۔۔۔

تمہیں پتا ہے انسان کے پاس سب سے طاقتور چیز کیا ہے؟ اس نے حمین سے پوچھا۔

کیا؟ حمین نے کہا۔

عقل۔۔اگر اسکا درست استعمال آتا ہو۔اور تمہیں پتا ہے انسان کے پاس سب سے خطرناک چیز کیا ہے؟

کیا؟ حمین نے پھر اسی انداز میں کہا۔۔

عقل۔۔اگر اسکا درست استعمال نہ آتا ہو تو یہ صرف دوسروں کو نہیں خود آپکو بھی تباہ کرسکتی ہے۔

حمین جانتا تھا سالار کس کی عقل کی بات کر رہا تھا۔۔۔وہ اسکی ہی بات کر رہا تھا۔۔۔

وہ دنیا کے دو ذہین ترین دماغ تھے۔۔صرف باپ بیٹا نہیں۔۔۔پینتالیس سال کی عمر میں وہ ایک سود سے پاک اسلامی مالیاتی نظام کا ڈھانچہ کھڑا کر چکا تھا ۔وہ رسک لیتا تھا چیلنج قبول کرتا تھا نئے راستے ڈھونڈنا اور بنانا جانتا تھا۔۔برین ٹیومر سے لڑتے ہوئے بھی وہ اپنی زندگی کے ایک ایک دن کو بامقصد گزار رہا تھا۔ایک دنیا اسکے نام سے واقف تھی۔۔ایک دنیا اسے مانتی تھی وہ جس فورم پہ کھڑا ہوکر بات کرتا تھا فنانس کی دنیا کے گرو اسکو خاموشی اور توجہ سے سنتے تھے۔وہ فنانس کی دنیا میں لیجنڈری کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔۔۔۔۔

اس سارے تجربے نے حمین سکندر کو پہلی بار سنجیدہ کیا تھا ۔اس نے اس رات ایک بات اپنے باپ کو نہیں بتائ تھی اور وہ یہ تھی کہ اسے زندگی میں بزنس ہی کرنا تھا اپنے باپ سے زیادہ بڑا اور کامیاب بننا تھا ۔اسے دنیا کا امیر ترین آدمی بننا تھا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممی میں قرآن پاک پڑھنا چاہتا ہوں۔ڈنر ٹیبل پر اس رات ایرک اپنی فیملی کے ساتھ کئ دنوں بعد ساتھ بیٹھا تھا۔۔کیرولین کا بوائے فرینڈ بھی وہی تھا۔

وہ کیا ہے؟ ایک لمحہ کو کیرولین کی سمجھ میں نہ آیا۔۔۔کہ وہ کس چیز کے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔

مسلمز کی ہولی بک۔۔۔جو عنایہ کی فیملی پڑھتی ہے۔اس نے ماں کو وضاحت دی۔۔۔

کیرولین کے پارٹنر رالف نے کھانا کھاتے کھاتے رک کر ان دونوں کو دیکھا۔

تم ٹرانسلیشن پڑھنا چاہتے ہو؟ کیرولین نے کہا۔

نہیں میں عربی پڑھنا چاہتا ہوں۔۔۔جیسے وہ پڑھتے ہیں۔۔وہ سنجیدہ تھا۔

لیکن تمہیں عربی نہیں آتی۔۔کیرولین بھی اب سنجیدہ تھی۔

ہاں لیکن جبریل مجھے سکھا دے گا۔۔اس نے ماں سے کہا۔

اسکی ضرورت کیا ہے؟ کیرولین کو خاموش دیکھ کر رالف بولے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔یہ مسلمانوں کی ہولی بک ہے تمہیں اسکو پڑھنے کے لیئے ایک نئ زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں۔۔۔تم اسکی ٹرانسلیشن پڑھ سکتے ہو اگر تمہیں ایک کتاب کے طور پر اسے پڑھنے میں دلچسپی ہے تو۔اس نے رالف کی بات کا جواب دینے کی زحمت بھی نہیں کی۔۔۔ ممی۔۔۔۔رالف کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے اسنے سوالیہ انداز میں کیرولین کی طرف دیکھا۔

وہ ایک گہرا سانس لیکر رہ گئ۔ اسکے اور ایرک کے تعلقات آجکل جس نوعیت کے تھے اسمیں یہ بڑی بات تھی کہ وہ کسی کام کے لیئے اس سے اجازت مانگ رہا تھا ورنہ وہ کوئ کام کر کے بھی اسے بتانے کی زحمت نہیں کرتا تھا۔

تمہاری اسٹڈیز متاثر ہونگی ایرک۔۔۔کیرولین کو جو واحد مسلہ تھا اس نے اسکا ذکر کیا۔۔۔۔

وہ متاثر نہیں ہوگی آئ پرامس۔۔۔اس نے فوراً ماں کو یقین دہانی کرا دی۔

اوکے ٹھیک ہے لیکن اگر تمہاری سٹڈیز متاثر ہوئ تو میں تمہیں روک دوں گی۔۔۔۔

ایرک کا چہرہ کھل اٹھا۔۔

تم کب جاؤ گے جبریل کےپاس قرآن پڑھنے؟ کیرولین نے پوچھا۔

ہفتے میں دو بار۔۔ایرک نے کہا۔

ٹھیک ہے ۔۔وہ جیسے مطمئن ہوئ۔۔

آپ جبریل کی ممی کو فون کر کے بتادیں کہ آپ نے مجھے اجازت دے دی ہے ۔۔ایرک نے کہا۔

ٹھیک ہے میں فون کردوں گی۔۔۔کیرولین نے کہا۔۔ایرک شکریہ ادا کرتے ہوئے کھانا کھا کے اٹھ کھڑا ہوا۔

تم بے وقوفی کر رہی ہو۔۔۔اس کے وہاں سے جاتے ہی رالف نے بے حد ناخوش انداز میں کیرولین سے کہا۔۔

کیسی بے وقوفی؟ وہ سمجھتے ہوئے بھی نہ سمجھی تھی۔۔۔

تمہارا بیٹا پہلے ہی تمہارے لیئے درد سر بنا ہوا ہے اور تم اسے قرآن پاک اور عربی سیکھنے بھیج رہی ہوتاکہ وہ انتہاپسند ہوجائے۔۔وہ بھی ایک۔مسلمان خاندان کے پاس۔۔۔

کیرولین ہنس پڑی تھی۔

تم اس خاندان کو جانتے نہیں ہو رالف۔۔۔۔میں ساڑھے تین سال سے جانتی ہوں نیبرز ہیں ہمارے ۔۔جیمز کی موت کے بعد انہوں نے ہمارا بہت خیال رکھا میں مارک اور سبل کو اکثر ان لوگوں کے پاس چھوڑ کر جاتی تھے۔وہ ایرک کو کچھ برا نہیں سکھائیں گے سکھانا ہوتا تو اسے میری اجازت کے بنا بھی سکھانا شروع کردیتے۔ مجھے کیسے پتا چلتا۔۔

کیرولین کہہ رہی تھی۔۔

تم پھر بھی سوچ لو۔۔میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ایک ڈسٹربڈ بچے کو قرآن پڑھانا ۔وہ اگر مسلمانوں کی طرح تشدد پسند ہوگیا تو؟ رالف کے اپنے خدشات تھے۔۔۔

ایرک اس اجازت کے اگلے ہی دن دوبارہ امامہ اور سالار کے گھر پہنچ گیا۔۔جبریل کے پاس قرآن پاک کا آغاز کرنے۔۔۔

وہ ایک دن پہلے بھی اسی طرح جبریل کے پاس گیا تھا وہ اس وقت قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ایرک اسکے پاس جاکر بیٹھ گیا تھا اور پھر اسکےپاس اتنی دیر تک بیٹھا رہا کہ جبریل کو بلآخر تلاوت ختم کر کے اس سے پوچھنا پڑا تھا کہ وہ وہاں کسی کام سے تو نہیں آیا تھا۔؟

میں بھی ایسے قرآن پاک پڑھنا اور سیکھنا چاہتا ہوں۔۔جیسے تم پڑھ رہے ہو۔اس نے جبریل کو جواب دیا۔وہ اسکی شکل دیکھ کر رہ گیا۔

میری تو یہ مذہبی کتاب ہے اس لیئے پڑھ رہا ہوں میں تم پڑھ کر کیا کروگے۔۔۔اس نے ایرک کو سمجھانے کی کوشش کی۔

مجھے دلچسپی ہے جاننے میں اور مجھے اچھا لگتا ہے جب تم تلاوت کرتے ہو۔۔ایرک نے جواباً کہا۔۔۔ تم انٹرنیٹ پر ٹرانسلیشن پڑھ سکتے ہو یا میں تمہیں دے دوں گا ایک انگلش ٹرانسلیشن ۔۔اور تمہیں تلاوت اچھی لگتی ہے تو تم وہ بھی وہاں سےڈاؤن لوڈ کر سکتے ہو۔۔تمہیں اسکے لیئے قرآن پاک۔کی تلاوت سیکھنے کی ضرورت نہیں۔۔۔جبریل نے نرمی سے اسے جیسے راستہ دکھایا تھا۔

لیکن میں ٹرانسلیشن نہیں پڑھنا چاہتا اور میں تلاوت سننا نہیں خود کرنا چاہتا ہوں جیسے تم کرتے ہو۔

ایرک اب بھی مصر تھا۔

یہ بہت لمبا کام ہے ایرک ایک دن میں نہیں ہوسکتا۔ جبریل نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔وہ نہ ٹلا۔۔

کتنا لمبا کام ہے؟ ایرک نے پوچھا۔

تمہیں تو کئ سال لگ جائیں گے۔۔۔

اوہ تو کوئ مسلہ نہیں میرے پاس بہت وقت ہے ایرک نے مطمئن ہوکر کہا۔

جبریل عجب مشکل میں پڑ گیا تھا۔

تم سب سے پہلے اپنی ممی سے پوچھو۔۔جبریل نے بلآخر کہا۔۔۔

ممی کو کوئ ایشو نہیں ہوگا مجھے پتا ہے۔۔اس نے جبریل کو یقین دلانے کی کوشش کی۔۔

اگر انہیں کوئ ایشو نہیں ہوگا تو انہیں یہ بات ممی سے یا مجھ سے کہنی ہوگی۔۔۔جبریل اسکی یقین دہانی سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔

میں اپنے لیئے کچھ بھی فیصلہ کرسکتا ہوں۔۔۔مجھے ہر کام ممی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔۔ایرک نے اس سے کہا۔

تم ابھی چھوٹے ہو ایرک اور زیادہ سمجھدار بھی نہیں ہو جب تک تم اٹھارہ سال کے نہیں ہوجاتے۔تمہیں اپنا ہر کام ممی سے پوچھ کر کرنا چاہیئے۔۔اور یہ کوئ بری بات نہیں۔۔۔جبریل نے اسے سمجھایا تھا۔۔۔

بلآخر ایرک نے ہار مان لی۔اور اگلے دن ماں کی اجازت کیساتھ آنے کا کہا۔۔

+------*----**---------------+

امامہ کے لیئے کیرولین کی فون کال ایک سرپرائز تھی ۔اس نے بڑے خوشگوار انداز میں اس سے بات چیت کرتے ہوئے امامہ کو اس اجازت کے بارے میں بتایا تھا جو اس نے ایرک کو دی تھی اور امامہ حیران رہ گئ۔

اسے ایرک اور جبریل کے درمیان ہونے والی گفتگو کا علم نہیں تھا۔

ممی مجھے یقین تھا نہ وہ اپنی ممی سے بات کریگا نہ ہی وہ اسے اجازت دینگی۔۔۔جبریل نے ماں کے استفسار پر اسے بتایا۔

لیکن اب اسکی ممی نے مجھے کال کر کے کہا ہے کہ انہیں کوئ اعتراض نہیں ہے تو اب کیا کریں؟؟ امامہ نے کہا۔

کیا کرنا ہے۔۔۔وہ ہنس پڑا۔۔قرآن پاک سکھاؤں گا اسے اب۔۔۔جبریل نے ماں سے کہا تھا۔۔۔

اسے اپنے جواب پہ امامہ کے چہرے پہ خوشی نظر نہیں آئی۔

آپ کو پریشانی کس بات کی ہے۔جبریل نے جیسے ماں کو کریدنے کی کوشش کی۔ امامہ اس سے کہہ نہ سکی کہ اسے سارا مسلہ عنایہ کی وجہ سے ہورہا ہے۔۔۔۔مجھے کوئ مسلہ نہیں ہے۔۔جو بھی ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے اور ہم کچھ بھی بدلنے پہ قادر نہیں ہے۔۔ٹھیک ہے ایرک تم سے قرآن پاک سیکھنا چاہتا ہے تو تم اسے سکھاؤ۔۔۔امامہ نے بلآخر جیسے ہتھیار ڈال دییے۔۔۔

--------------------------------

گیارہ سال کی عمر میں قرآن پاک سے ایرک کا وہ پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔۔اس سے پہلے وہ اس کتاب کا صرف نام جانتا تھا۔۔جنرل نالج کے طور پہ۔۔۔

وہ سالار اور امامہ کے گھر جاکر مسلمانوں کے قریب ہوا تھا اور جبریل کی تلاوت سن سن کر وہ قرآن پاک سے متاثر ہونا شروع ہوگیا تھا۔۔۔وہ زبان اور وہ تلاوت اسے جیسے کسی فینٹسی میں لے جاتی تھی۔۔

جس دن اس نے جبریل سے قرآنی قاعدہ کا پہلا سبق لیا تھا اس رات اس نے آنلائن قرآن پاک کا پورا انگلش ترجمہ پڑھ لیا تھا۔۔۔وہ کتابیں پڑھنے کا شوقین اور عادی تھا اور اس نے قرآن کو بھی ایک کتاب کے طور پہ پڑھا تھا۔۔بہت ساری چیزوں کو سمجھتے ہوئے بہت سی چیزوں کو نہ سمجھتے ہوئے بہت سی باتوں سے متاثر ہوتے ہوئے بہت سے احکامات سے الجھتے ہوئے بہت سارے واقعات کو اپنی کتاب بائبل سے منسلک کرتے ہوئے.

جبریل کو حیرت نہیں ہوئ تھی جب اگلے دن ایرک نے اسے قرآنی قاعدہ کا سبق بلکل ٹھیک ٹھیک سنایا تھا۔لیکن وہ یہ جان کر خاموش ضرور ہوگیا تھا کہ ایرک نے ایک رات میں بیٹھ کر قرآن پاک کا پورا ترجمہ پڑھ لیا تھا۔۔

اسکا فائدہ کیا ہوا؟ جبریل نے اس سے پوچھا ۔۔۔

کس چیز کا؟ قرآن پاک پڑھنے کا؟ ایرک نے اسکے سوال کی وضاحت چاہی۔

ہاں۔۔۔۔جبریل نے جواب دیا۔

ایرک کو کوئ جواب نہیں سوجھا۔اسکا خیال تھا کہ جبریل اس سے متاثر ہوگا. وہ متاثر نہیں ہوا تھا الٹا اس سے سوال کر رہا تھا۔

فائدہ تو نہیں سوچا میں نے۔۔میں نے تو بس تجسس میں پڑھا ہے قرآن پاک۔۔ایرک نے کہا۔

تو اب تمہای کیا رائے ہے قرآن پاک کے بارے میں؟ اب بھی سیکھنا چاہتے ہو؟ جبریل نے اس سے پوچھا ۔

ہاں۔۔۔اب اور بھی زیادہ۔۔۔ایرک نے کہا۔۔مجھے یہ بے حد انٹرسٹنگ لگی ہے۔۔۔

جبریل اسکی بات پہ۔مسکرایا تھا ۔۔مقدس کتابوں کو صرف پڑھ لینا کوئ بڑی بات نہیں ہوتی ۔جبریل نے اس سے کہا تھا۔اسے پڑھنے کیساتھ ساتھ اس پہ عمل بھی ضروری ہے۔۔۔

ایرک اس کو بغور دیکھتے ہوئے اسکی بات سن رہا تھا۔

اس دن جبریل نے اسے دوسرا سبق قرآنی قاعدہ کا نہیں دیا تھا۔اس نے اسے دوسرا سبق ایک اچھا انسان بننے کے حوالے سے دیا تھا۔

کوئ بھی ایسی چیز جسکا تعلق اللہ سے ہے اور پھر جو ہم سیکھتے ہیں تو پھر اس دن ہمارے اندر دوسروں کے لیئے کچھ زیادہ بہتری آنی چاہیئے تاکہ نظر آئے کہ ہم کوئ خاص چیز سیکھ رہے ہیں۔۔۔۔

وہ سارے سبجیکٹ جو ہم سکول میں پڑھتے ہیں اور جو ہم وہاں سیکھتے ہیں وہ ہماری پرسنالٹی پر اثر انداز نہیں ہوتے وہ صرف تب ہمارے کام آتے ہیں جب ہمیں ایگزامز دینا ہو۔۔۔جاب کرنی ہو۔۔۔یا بزنس کرنا ہو۔۔۔کتابیں ہمیں باعلم بناتی ہے باعمل ہمیں صرف وہ کتاب بناسکتی ہے جو اللہ تعالی نے انسان کو صرف باعمل کرنے کےلیئے اتاری ہے۔۔۔

ایرک اسکی بات بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔۔۔

بابا نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر ہم اچھے انسان نہ بن سکیں تو عبادت کرنے اور مذہب کے بارے میں پڑھنے کا کوئ فائدہ نہیں۔کیونکہ مذہب اور مذہبی کتابیں اللہ نے صرف ایک مقصد کےلیئے اتاری ہیں۔کہ ہم اچھے انسان بن کر رہیں۔ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھیں۔خاص طور پر انکا جو ہماری ذمہ داری ہے۔جیسے تمہارے چھوٹے بہن بھائ اور تمہاری ممی تمہاری ذمہ داری ہیں۔۔۔جبریل بڑی ذہانت سے گفتگو کو اس موضوع کی طرف موڑ رہا تھا جس پہ وہ ایرک سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔۔تو اب تم نے دیکھنا ہے کہ۔جس دن تم قرآن پڑھ کر جاتے ہو اس دن تمہارے اندر کیا تبدیلی آتی ہے۔اس دن تم اپنی فیملی کے لیئے اور دوسروں کے لیئے کیا اچھا کام کرتے ہو۔۔جبریل نے جیسے اسے چیلنج دیا تھا۔

میں کوشش کروں گا۔۔ایرک نے وہ چیلنج قبول کرلیا تھا۔۔پھر اس نے جیسے اسکی مدد مانگی۔۔تو آج میں گھر جاکر کیا کروں؟؟

تم آج ایسا کام مت کرنا جس سے تمہا ری ممی اپ سیٹ ہوتی ہے۔۔

جبریل نے اس سے کہا۔۔ایرک کچھ خجل ہوا۔۔

تم مجھے عبداللہ کہا کرو۔ایرک نے جان بوجھ کر موضوع بدلنے کے لیئے اسے ٹوکا۔

عبداللہ تو اللہ کا بندہ ہوتا ہے۔سب سے زیادہ مہربان سب کا خیال رکھنے والا اور سب کا احساس کرنے والا۔۔کسی کو تکلیف نہ دینے والا۔میں تمہیں عبداللہ تب کہنا شروع کروں گا جب تم سب سے پہلے اپنی ممی کو تکلیف دینا بند کروگے۔

جبریل نے اسکی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔ایرک جیسے کچھ اور خجل ہوا۔۔ایک۔لمحے کےلیئے اسے لگا کہ جبریل اس سے جو کچھ کہہ رہا تھا وہ اسکی ممی کے کہنے پہ کہہ رہا تھا لیکن اس نے خاموشی سے بات مان لی۔۔

اس دن ایرک گھر جاکر پہلی بار رالف سے خوشدلی سے ملا تھا ۔۔رالف اور کیرولین کو ایک لمحے کے لیئے لگا شاید ایرک سے غلطی ہوئ ہے یا پھر انہیں وہم ہورہا ہے۔۔اس نے پہلی بار رالف سے خوش مزاجی کا مظاہرہ کیا تھا۔۔۔

ایرک رکے بغیر وہاں سے چلا گیا۔۔۔رالف اور کیرولین نے ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھا۔

اس کو کیا ہوا؟ رالف نے کچھ خوشگوار حیرت سے کہا۔۔۔۔

پتا نہیں۔۔۔کیرولین نے لاعلمی۔کا اظہار کیا۔

وہ پہلی تبدیلی نہیں تھی جو ایرک میں آئ تھی وہ آہستہ آہستہ مزید تبدیل ہوتا گیا ۔۔۔قرآن پاک کا سبق اب ہر روز وہ لینے جایا کرتا تھا اگر کبھی جبریل نہ ہوتا تو حمین یا امامہ اسے سبق پڑھا دیتے لیکن ایرک کو یہ اعتراف کرنے میں عار نہیں تھا کہ جیسے جبریل اسے پڑھاتا تھا ویسے کوئ نہیں پڑھا سکتا تھا۔

اس گھر میں ایرک کی جڑیں اب زیادہ گہری اور مضبوط ہوگئ تھی۔۔امامہ کی تمام تر احتیاط کے باوجود۔۔۔

------------------------------

جبریل لوگوں کو نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں متاثر کرتا تھا۔۔تیرہ سال کی عمر میں اسکا ٹھراؤ عام بچوں کے برعکس تھا۔۔سالار کی بیماری نے امامہ کے ساتھ اسے بھی بدل دیا تھا۔اس نے امریکہ میں سالار کی سرجری اور اسکے بعد وہاں امامہ کے قیام کے دوران تینوں چھوٹے بہن بھائیوں کی پرواہ کسی باپ کی طرح کی تھی۔۔سکندر اور طیبہ سالار کے بچوں کی تربیت سے پہلے بھی متاثر تھے لیکن انکی غیر موجودگی میں جبریل نے جس طرح انکے گھر پر اپنے بہن بھائ کا خیال رکھا تھا وہ انکو مزید متاثر کر گیا تھا۔۔۔ایک دس سالہ بچہ کئ مہینے اپنے کھیل کود اپنی سرگرمیاں بھلا بیٹھا تھا اور یہی وہ وقت تھا۔جب جبریل ذہنی طور پر بھی بدلتا۔گیا۔

تیرہ سال کی عمر میں ہائ سکول سے ڈسٹنکشن کے ساتھ پاس کر کے یونیورسٹی جانے والا وہ اپنے سکول کا پہلا اسٹوڈنٹ تھا۔اور وہ وہاں بل گیٹس فاؤنڈیشن کی ایک اسکالرشپ پر پہنچا تھا ۔وہ پہلی سیڑھی تھی جو میڈیسن کی طرف جاتے ہوئے اس نے چڑھی تھی۔سالار سکندر کے خاندان کا پہلا پرندہ یونیورسٹی پہنچ چکا تھا۔۔۔

+++++-------------+++++

گرینڈ حیات ہوٹل کا بال روم اس وقت نیشنل اسپیلنگ بی کے 93ویں مقابلے کےفائنلسٹ کا پہلا راؤنڈ منعقد کروانے کے لیئے تیار تھا۔۔حمین سکندر اپنے ٹائٹل کا دفاع کر رہا تھا ۔اور رئیسہ سالار اس مقابلے میں پہلی دفعہ حصہ لے رہی تھی۔۔

رئیسہ اس وقت اسٹیج پر اپنے پہلے لفظ کے بولے جانے کے انتظار میں تھی۔ رئیسہ نے پوچھا جانے والا لفظ بے حد غور سے سنا تھا ۔وہ لفظ غیر مانوس نہیں تھا۔وہ انہی الفاظ میں شامل تھا جسکی اس نے تیاری کی تھی۔

Crustaceology

اس نے زیر لب اس لفظ کو دہرایا پھر بنا آواز کے اسکے ہجے کییے اور پھر بلآخر اس نے اس لفظ کو ہجے کرنا شروع کیا۔۔

C.r.u.s.t.a.c.o.l.o.g.y

رئیسہ نے بےیقینی کے عالم میں اس گھنٹی کو سنا تھا جو لفظ غلط ہونے پر بجی تھی۔۔اسکا رنگ فق ہوا. لیکن اس سے زیادہ حمین سکندر کا جسے اسکے بولنے کے دوران ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نے کیا غلطی کی تھی۔۔ہال میں امامہ اور سالار جبریل اور عنایہ کیساتھ عجیب سی کیفیت میں بیٹھے تھے وہ اس کی توقع بہت پہلے سے کر رہے تھے ۔رئیسہ کا فائنل راؤنڈ تک پہنچنا بھی انکے لیئے ناقابل یقین ہی تھا۔اس نے اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر پر پرفارمنس دکھائ تھی۔۔وہ پہلا مکا تھا جو رئیسہ نے سیدھا منہ پہ کھایا تھا۔

حمین اس سے کچھ کرسیوں کے فاصلے پر تھا۔۔انکے درمیان کچھ اور فائنلسٹ تھے۔۔لیکن اسکے باوجود اس نے اٹھ کر رئیسہ کی کرسی پر آکر اسکا کندھا تھپکا تھا۔۔۔

حمین سکندر اسٹیج پر اب پہلے لفظ کے لیئے کھڑا تھا اور اسکا استقبال تالیوں کیساتھ ہوا تھا ۔وہ اگر پچھلے سال ڈارلنگ آف دی کراؤڈ تھا تو اس سال بھی وہ ہاٹ فیورٹ کے طور پہ مقابلے میں کھڑا تھا. پچھلے سارے راؤنڈز میں اس نے مشکل ترین الفاظ کو حلوے کی طرح بوجھا تھا ۔۔۔

Vignettee

اسکا لفظ بولا جارہا تھا۔۔وہ حمین سکندر کے لیئے ایک اور حلوہ تھا ۔وہ اس سے زیاد مشکل اور لمبے الفاظ کے ہجے کرچکا تھا۔۔رئیسہ نے بھی زیرلب کئ دوسرے فائنلسٹس کی طرح وہ لفظ ہجوں کی طرح درست طور پر ادا کیا۔۔۔

V.i,g.n.e.t.t.e

بیل بجی۔۔ہال میں سکتہ ہوا پھر سرگوشیاں ابھریں۔۔پھر پروناؤنسر نے درست اسپیلنگ ادا کیے۔حمین نے سر جھکا کر جیسے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اپنی کرسی کی طرف چلنا شروع کیا۔۔۔

وہ اس مقابلے کا پہلا اپ سیٹ تھا پچھلے سال کا چیمپئن اپنے پہلے ہی لفظ کو ہجے کرنے میں ناکام رہا تھا۔۔۔۔ہال میں بیٹھے سالار امامہ جبریل اور عنایہ بیک وقت پریشانی کی ایک عجیب کیفیت سے گزرے تھے۔۔وہ ایک ہی راؤنڈ میں رئیسہ کی ناکامی دیکھ کر حمین کی کامیابی پہ تالیاں نہیں بجانا چاہتے تھے اور انہیں بجانی بھی نہیں پڑی تھی لیکن حمین سے لفظ نہ بوجھنا غیر متوقع تھا۔۔

لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا اس دن انہیں وہاں بیٹھے مقابلے کے آخر تک اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔

رئیسہ اگلے دو لفظ بھی نہ بوجھ سکی تھی اور حمین سکندر بھی۔۔وہ دونوں فائنل مقابلے کے ابتدائ مرحلےمیں ہی مقابلے سے آؤٹ ہوگئے تھے۔۔۔

رئیسہ کی یہ پرفارمنس غیر متوقع نہیں تھی لیکن حمین سکندر کی ایسی پرفارمنس اس رات ایک بریکنگ نیوز تھی ۔۔پچھلے سال کا چیمپئن مقابلے سے آؤٹ ہوگیا تھا۔اور حمین کے چہرے کا اطمینان ویسا ہی تھا جیسے اسے کوئ فرق ہی نہ پڑا ہو۔۔۔۔وہ دونوں مقابلے سے باہر ہونے کے بعد اپنے ماں باپ کے پاس آکت بیٹھ گئے تھے۔

دونوں نے ان دونوں کو تھپکا تھا۔۔تسلی دی تھی۔۔یہ ہی کام جبریل اور عنایہ نے بھی کیا تھا۔

بہت اچھے۔۔۔۔۔انہوں نے اپنے چھوٹے بہن بھائ کا حوصلہ بندھایا تھا.۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے اس سال کے نئے چیمپئن کو بھی دیکھا تھا اور ان انعامات کے ڈھیر کو بھی جو اس پر نچھاور کیے جارہے تھے۔۔۔رئیسہ کا غم جیسے کچھ اور بھی بڑھا۔۔۔وہ سالار سکندر کا نام روشن نہ کرسکی تھی۔جیسے انکے بڑے بہن بھائ کرتے تھے ۔وہ ان جیسی نہیں تھی۔اسے شدید احساس کمتری ہوا۔۔۔وہ سب اس سے بہتر شکل و صورت کے تھے اس سے بہترین ذہنی صلاحیتیں رکھتے تھے ۔وہ کسی بھی طرح انکا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔

انکے گھر میں لانے والی ٹرافیز میڈلز میں اسکا بہت تھوڑا حصہ تھا۔۔آج پہلی بار وہ رنجیدہ ہوئ تھی۔

تم اداس ہو؟ یہ حمین کی سرگوشی تھی. جو اس نے گاڑی میں ہونے والی سب کی گفتگو کے درمیان اسکے کان میں کی تھی۔۔۔

نہیں۔۔۔رئیسہ نے اسی انداز میں جواب دیا۔

مجھے پتا ہے تم اداس ہو حمین نے ایک اور سرگوشی کی۔۔

تم نیکسٹ اییئر جیت سکتی ہو۔۔اس نے جیسے رئیسہ کو آس دلائ۔

مجھے پتا ہے۔۔لیکن اگلا سال بہت دور ہے۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔۔۔

حمین نے اسکی کمر میں گدگدی کرنے کی کوشش کی وہ سکڑ کر پیچھے ہٹی۔۔۔۔اسے ہنسی نہیں آئ تھی۔۔۔وہ ہنسنا چاہتی بھی نہیں تھی۔۔

میں بھی تو ہارا ہوں۔۔حمین کو اسکے موڈ کا اندازہ ہوگیا تھا۔

تم جیتے بھی تو تھے نا۔۔اس نے جواباً کہا۔

وہ تو یونہی تکا لگ گیا تھا۔۔اس نے جیسے اپنا ہی مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔۔

رئیسہ جواب دینے کی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔یہ جیسے اعلان تھا کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی.

-------------------------------

رئیسہ اپ سیٹ ہے۔اس رات سالار نے امامہ سے سونے سے پہلے کہا تھا۔

میں جانتی ہوں اور اسی لیئے نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس مقابلے میں حصہ لیتی جن میں باقی تینوں ٹرافیز جیت چکے تھے لیکن تم نے منع نہیں کیا اسے۔۔۔امامہ نے اس سے کہا۔

میں کیسے اسے منع کرتا ۔یہ کہتا کہ تم نہیں جیت سکتی۔۔اس لیئے مت حصہ لو۔اور پھر وہ فائنل راؤنڈ تک پہنچی ۔بہت اچھا کھیلی ہے ۔یہ زیادہ اہم۔چیز ہے۔سالار نے اپنے ہاتھ سے گھڑی اتارتے ہوئے بیڈ سائڈ ٹیبل پر رکھ دی۔

وہ بہت سمجھدار ہے ایک دو دن تک ٹھیک ہوجائے گی جب میں اسے سمجھاؤں گی کہ حمین بھی تو ہارا ہےلیکن اسے پرواہ تک نہیں۔۔اسے اپنے سے زیادہ رئیسہ ہی کی فکر تھی امامہ نے کہا۔

اسے فکر کیوں ہوگی۔وہ تو اپنی مرضی سےہارا ہے۔سالار نے بے حد اطمینان سے کہا۔

امامہ ٹھٹک گئ۔۔کیا مطلب ہے تمہارا۔۔؟

سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور مسکرایا۔۔تمہیں اندازہ نہیں ہوا؟

کس بات کا؟ کہ وہ جان بوجھ کر ہارا ہے؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔امامہ نے خود سوال پوچھا اور خود ہی جواب دیا۔

تم پوچھ لینا اس سے کہ۔ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں۔۔سالار نے بحث کییے بغیر اس سے کہا۔۔وہ اب سونے کے لیئے لیٹ گیا۔۔امامہ ہکا بکا اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔۔پھر جیسے اس نے جھلا کر کہا۔۔۔۔

تم باپ بیٹا عجیب ہو۔بلکہ عجیب ایک مہذب لفظ ہے۔۔۔

تم جبریل کو مائنس کیوں کرجاتی ہو ہر بار۔۔سالار نے اسے چھیڑا۔ شکر ہے وہ حمین اور تمہاری طرح نہیں ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا حمین کیوں اسطرح کریگا۔۔۔وہ اب الجھی ہوئ تھی۔۔۔۔

رئیسہ کے لیئے۔۔۔سالار نے جواباً اس سے کہا۔۔۔

اور مجھے اس پر فخر ہے۔اس نے آنکھیں بند کر کے کروٹ لی اور سائڈ ٹیبل لیمپ آف کردیا۔۔۔

وہ غلط نہیں کہتی تھی وہ دونوں باپ بیٹا ہی عجیب تھے ۔۔

-------------------------------+

رئیسہ تم سو کیوں نہیں رہی؟ عنایہ نے اسے ایک کتاب کھولے سٹڈی ٹیبل پر بیٹھے دیکھ کر پوچھا تھا۔

میں وہ الفاظ دیکھنا اور یاد کرنا چاہتی ہوں جو مجھے نہیں آتے۔۔عنایہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔۔۔

انہیں ابھی گھر واپس آئے ایک گھنٹہ ہی ہوا ہوگا اور وہ ایک بار پھر سے کتاب لیکر بیٹھ گئ تھی۔۔۔

تم نے پہلے ہی بہت محنت کی ہے رئیسہ یہ صرف تمہاری بدقسمتی تھی۔۔عنایہ کو اندازہ نہیں ہوا وہ اسے تسلی دینے کے لیئے جن الفاظ کا انتخاب کر رہی تھی وہ بڑے غلط تھے ۔۔وہ الفاظ رئیسہ کے دماغ میں جیسے کھب گئے تھے۔۔

اب سو جاؤ۔۔۔عنایہ نے کسی بڑے کی طرح اسے تھپکا تھا۔

میں نہیں سو سکتی۔مدھم آواز میں رئیسہ نے کہا۔

عنایہ کو یوں لگا جیسے رئیسہ کی آواز بھرائ ہوئ تھی۔۔رئیسہ نے کتاب بند کر کے ٹیبل پہ رکھی اور پھر وہاں سے اٹھ کر بستر پہ آئ اور اوندھے منہ لیٹ کر اس نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔۔۔۔

رئیسہ۔۔۔۔۔۔۔رئیسہ پلیز۔۔۔۔عنایہ خود بھی روہانسی ہوگئ تھی۔رئیسہ چھوٹی چھوٹی بات پہ رونے والی بچی نہیں۔تھی اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ رئیسہ اپنے بدقسمت ہونے پر رو رہی تھی۔۔۔۔




قسط نمبر 35

”تم کیا کررہے ہو اس وقت؟’ ‘ امامہ لاؤنج میں ہونے والی کھڑکھڑاہٹوں کو سن کر رات کے اُس وقت باہر نکل آئی تھی، وہ اُس وقت تہجّد کے لیے اٹھی تھی جبریل اس ویک اینڈ پر گھر آیا ہوا تھا اور کئی بار وہ بھی رات کے اس پہر پڑھنے کے لیے جاگتا اور پھر کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے کچن جاتا۔ مگر اس بار اُس کا سامنا حمین سے ہوا تھا۔ وہ کچن کاؤنٹر کے سامنے پڑی ایک سٹول پر بیٹھا سلیپنگ سوٹ میں ملبوس آئس کریم کا ایک لیٹر والا کین کھولے اُسی میں سے آئس کریم کھانے میں لگا ہوا تھا۔

امامہ کو سوال کرنے کے ساتھ ہی جواب مل گیا تھا اور اُس نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بے حد خفگی کے عالم میں کاؤنٹر کے سامنے آتے ہوئے اُس سے کہا۔

” حمین یہ وقت ہے آئس کریم کھانے کا اور وہ بھی اس طرح؟” اُس کا اشارہ اُس کے کین کے اندر ہی آئس کریم کھانے کی طرف تھا۔

” میں نے صرف ایک سکوپ کھانی تھی” وہ ماں کے یک دم نمودار ہونے اور اپنے اس طرح پکڑے جانے پر گڑبڑایا تھا۔

”لیکن یہ کھانے کا کوئی وقت نہیں ہے۔” امامہ نے اُس کے ہاتھ سے چمچ کھینچ لیا اور ڈھکن سے کین بند کرنے لگی۔

” ابھی تو واقعی ایک چمچ ہی کھائی ہے میں نے۔” وہ بے اختیار کراہا۔” دانت صاف کر کے سونا۔” امامہ نے اُس کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے کین کو واپس فریزر میں رکھ دیا۔ حمین جیسے احتجاجاً اسی انداز میں سٹول پر بیٹھا رہا۔

”ایک تو میں آج ہارا اور میں نے اپنا ٹائٹل کھودیا… دوسرا آپ مجھے آئس کریم کے دو سکوپس تک نہیں لینے دے رہیں۔” اس نے جیسے ماں سے احتجاجاً کہا۔ وہ چند لمحوں کے لیے کاؤنٹر کے دوسری طرف کھڑی اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُسے دیکھتی رہی پھر اُس نے مدہم آواز میں کہا۔

”ٹائٹل تم نے اپنی مرضی سے کھویا ہے تمہاری اپنی چوائس تھی یہ۔” حمین کو جیسے کرنٹ لگا تھا وہ ماں کو دیکھتا رہا پھر اُس نے کہا “?who told you that”

”یہ ضروری نہیں۔” امامہ نے کہا ۔ ”Alright … مجھے پتہ ہے۔” اُس نے ماں سے نظریں ملائے بغیر کہا۔

”کس نے؟” امامہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔

” بابا نے۔” اس کا جواب کھٹاک سے آیا تھا وہ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کو ہاتھ کی پشت کی طرح جانتے تھے۔

”بہت غلط کام تھا… تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔” امامہ نے جیسے اسے ملامت کرنے کی کوشش کی۔” تم نے یہ کیوں کیا؟” امامہ کو پوچھنا پڑا۔ ” آپ جانتی ہیں ممّی” وہ سٹول سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ ” رئیسہ کے لیے؟” امامہ نے وہ جواب دیا جس کی طرف اُس نے اشارہ کیا تھا۔”فیملی کے لیے…” جواب کھٹاک سے آیا تھا”آپ نے سکھایا تھا اپنے بہن بھائیوں سے مقابلہ نہیں ہوتا… میں جیت جاتا تو اُسے ہرا کے ہی جیتتا نا… اُسے بہت دکھ ہوتا۔” امامہ بول نہیں سکی۔ وہ دس سال کو تھا لیکن بعض دفعہ وہ 100 سال کی عمر والوں جیسی باتیں کرتا تھا، اُسے سمجھ نہیں آئی، وہ اُس سے کیا کہتی۔ڈانٹتی؟ نصیحت کرتی؟ حمین سکندر لاجواب نہیں کرتا تھا بے بس کردیتا تھا۔

“Goodnight” وہ اب وہاں سے چلا گیا تھا۔ امامہ اُسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔اُن سب کا اُس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ حمین صرف اپنے بارے میں سوچتا تھا… وہ لاپروا تھا… حسّاس نہیں تھا نہ ہی وہ دوسروں کا زیادہ احساس کرتا تھا۔

بڑوں کے بعض خیالات اور بعض اندازے بچے بڑے غلط موقع پرغلط ثابت کرتے ہیں۔امامہ چپ چاپ کھڑی اُسے جاتا دیکھتی رہی۔ سالار نے ٹھیک کہا تھا۔ اسے اپنی اولاد پر فخر ہوا تھا۔

*****

”بابا آپ رئیسہ سے بات کرسکتے ہیں؟” عنایہ نے ایک دو دن بعد سالار سے کہا، وہ اس وقت ابھی آفس سے واپس آیا تھا اور کچھ دیر میں اُسے پھر کہیں جانے کے لیے نکلنا تھا۔ جب عنایہ اس کے پاس آگئی تھی اور اُس نے بنا تمہید اس سے کہا تھا۔

” کس بارے میں؟” سالار نے جیسے کچھ حیران ہوکر پوچھا فوری طور پر اُس کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں آئی تھی، جس پر اُسے رئیسہ سے بات کرنی پڑتی۔

”وہ اپ سیٹ ہے… وہی spelling bee کی وجہ سے۔” عنایہ نے اُس کو بتانا شروع کیا۔ ” میں اس کو سمجھا رہی ہوں لیکن مجھے لگتا ہے میری بات اسے سمجھ نہیں آرہیں۔ وہ دوبارہ spelling bee میں حصّہ لینا چاہتی ہے اور وہ ہر روز رات کو بیٹھ کر تیّاری کرتی ہے اور مجھے بھی کہتی ہے کہ میں اُس کی تیّاری کرواؤں۔” عنایہ اب اُسے تفصیل سے مسئلہ سمجھارہی تھی۔”پہلے تو حمین تیّاری کروارہا تھا اُسے۔”سالار کو یاد آیا۔”ہاں حمین اور میں نے دونوں نے کروائی تھی لیکن اب وہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں اُسے تیّاری کرواؤں۔ I don’t mind doing that…لیکن مجھے نہیں پتہ کہ اسے دوبارہ حصّہ لینا چاہیے یا نہیں… پھر ابھی تو ایک سال پڑا ہے اس مقابلے میں… اسے اپنی سٹڈیز پر زیادہ دھیان دینا چاہیے۔” عنایہ دھیمے لہجے میں باپ کو سب بتاتی گئی تھی۔ سالار کو غلطی کا احساس ہوا، انہیں رئیسہ سے فوری طور پر بات کرنی چاہیے تھی یہ ان کی غلط فہمی تھی کہ وہ ایک آدھ دن میں ٹھیک ہوجاتی۔
اُسے بھیجو۔” اُس نے عنایہ سے کہا، وہ چلی گئی۔سالار نے اپنی گھڑی دیکھی اُس کے پاس 20 منٹ تھے گھر سے نکلنے کے لیے۔وہ کپڑے پہلے ہی تبدیل کرچکا تھا اور اب کچھ فائلز دیکھ رہا تھا۔ رئیسہ اور عنایہ امامہ کی نسبت اُس سے زیادہ قریب تھیں۔اُنہیں جو بھی اہم بات کرنی ہوتی تھی وہ امامہ سے بھی پہلے سالار سے کرتی تھیں۔

”بابا” دروازے پر دستک دے کر رئیسہ اندر داخل ہوئی تھی۔”آؤ بیٹا ” صوفے پر بیٹھے ہوئے سالار نے استقبالیہ انداز میں اپنا ایک بازو پھیلایا تھا، وہ اُس کے قریب صوفہ پر آکر بیٹھ گئی سالار نے اُسے صوفہ سے اُٹھا کر سامنے پڑی سینٹر ٹیبل پر بٹھا دیا وہ کچھ جز بز ہوئی تھی لیکن اُس نے احتجاج نہیں کیا، وہ دونوں اب بالکل آمنے سامنے تھے۔سالار کچھ دیر کے لئے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ گول شیشوں والی عینک سے اُسے دیکھتے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح بے حد توجہ سے اُس کی بات سننے کی منتظر تھی… اُس کے گھنے سیاہ بالوں میں بندھا ہوا ربن تھوڑا ڈھیلا تھا جو اُس کے کندھوں سے کچھ نیچے جانے والے بالوں کو گُدّی سے لے کر سر کے بالکل درمیان تک باندھے ہوئے تھا لیکن ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا… ماتھے پر آنے والے بالوں کو روکنے کے لئے رنگ برنگی ہیئر ربنز سے اُس کا سر بھرا ہوا تھا، یہ عنایہ کا کارنامہ تھا، رئیسہ کو ہیئر ربنز پسند تھے۔سالار کو یاد بھی نہیں تھا وہ اُس کے لئے کتنے ربنز خرید چکا تھا لیکن ہر روز بدلے جانے والے کپڑوں کے ساتھ میچنگ ربنز دیکھ کر انہیں بھی اندازہ ہوجاتا تھا کہ رئیسہ اس معاملے میں خود کفیل تھی۔

”عنایہ نے مجھے بتایا تم اپ سیٹ ہو… ” سالار نے بالآخر بات کا آغاز کیا ۔ وہ یک دم بلش ہوئی۔ ”نہیں… نہیں تو۔” اس نے گڑبڑا کر سالار سے کہا۔ سالار اُسے دیکھتا رہا، رئیسہ نے چند لمحے اُس کی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کی،پھر نظریں چُرالیں پھر جیسے کچھ مدافعانہ انداز میں ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔

“I am not very upset….Just a little bit” اُس نے اب سر جھکا لیا تھا۔ “And why is that?” سالار نے جواباً پوچھا۔ “Because I am very unlcky” اس نے بے حد ہلکی آواز میں کہا سالار بول ہی نہیں سکا۔ اُسے اُس سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔

“That’s so wrong to say Raeesa.”سالار سیدھا بیٹھے بیٹھے آگے کو جھک گیا، وہ اب کہنیاں اپنے گھٹنوں پر ٹکائے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ اُس کے ہاتھوں پر آنسوؤں کے قطرے گرے تھے۔ وہ سر جھکائے باپ کے سامنے بیٹھی اب رورہی تھی۔اُس کے گلاسز دھندلا گئے تھے۔ سالار کو تکلیف ہوئی، یہ پہلا موقع تھا اُس نے رئیسہ کو اس طرح روتے دیکھا تھا۔ عنایہ بات بات پر روپڑنے والی تھی، رئیسہ نہیں۔

“I am” وہ ہچکیوں کے درمیان کہہ رہی تھی۔ “No you are not” سالار نے اُس کے گلاسز اتارتے ہوئے انہیں میز پر رکھا اور رئیسہ کو اٹھا کر گود میں بٹھا لیا۔ وہ باپ کی گردن میں بازو ڈالے اُس کے ساتھ لپٹی ہوئی رورہی تھی جیسے spelling bee آج ہی ہاری تھی۔سالار کچھ کہے بغیر console کرنے والے انداز میں اُسے تھپکتا رہا۔

“I let you down Baba” ہچکیوں کے درمیان اُس نے رئیسہ کو کہتے سنا۔ ” بالکل بھی نہیں رئیسہ …I am very proud of you ” سالار نے اُسے کہا امامہ بالکل اُسی لمحے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئی تھی اور وہیں ٹھٹھک گئی تھی، سالار نے ہونٹوں پر انگلی کے اشارے
سے اُسے خاموش رہنے کا کہا تھا۔ ” میں نے اتنی محنت کی تھی لیکن میں کبھی حمین، جبریل بھائی اور عنایہ آپی کی طرح کچھ بھی جیت نہیں سکتی کیوں کہ میں lucky نہیں ہوں۔” وہ اس کے سینے میں منہ چھپائے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔سالار کی طرح امامہ کو بھی عجیب تکلیف ہوئی تھی اُس کی اس بات سے۔ وہ صوفہ پر آکر سالار کے برابر بیٹھ گئی تھی۔ کافی کا وہ مگ اُس نے ٹیبل پر رکھ دیا جو وہ سالار کو دینے آئی تھی۔ یہ سالار نہیں تھا امامہ تھی جس نے رئیسہ پر جان ماری تھی اُس کی learning disabilities دور کرنے کے لئے… اُسے بولنا اور درست بولنا سکھانے کے لئے ۔اُسے پڑھنا لکھنا سکھانے کے لئے … سالار نے صرف اُسے adopt کیا تھا ، امامہ نے اُس کی زندگی بدل دی تھی اور اُس کا خیال تھا اب سب کچھ ٹھیک تھا۔ لیکن وہ فرق جو وہ اپنے آپ میں اور اُن تینوں میں دیکھ رہی تھی اُس نے ان دونوں کو ہی پریشان کیا تھا۔

وہ رونے دھونے کے بعد اب خاموش ہوگئی تھی، سالار نے اُسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔

“Enough?” رئیسہ نے گیلے چہرے کے ساتھ سر ہلایا۔ اُس کے بال ایک بار پھر بے ترتیب تھے۔ ربن ایک بار پھر ڈھیلا ہوچکا تھا۔ سالار سے الگ ہوتے ہوئے اُس نے امامہ کو دیکھا تھا اور جیسے کچھ اور نادم ہوئی۔ سالار نے اُسے ایک بار پھر ٹیبل پر بٹھا دیا۔

”تمہیں کیوں لگتا ہے وہ تینوں lucky ہیں اور تم نہیں؟” سالار نے اُسے بٹھانے کے بعداُس کے گیلے گلاسز اٹھا کر ٹشو سے اس کے شیشے رگڑتے ہوئے اُس سے پوچھا۔

”کیوں کہ وہ جس چیز میں حصّہ لیتے ہیں جیت جاتے ہیں، میں نہیں جیتتی۔” وہ ایک بار پھر رنجیدہ ہوئی۔”وہ ایگزامز میں مجھ سے اچھے گریڈز لیتے ہیں، میں کبھی اے پلس نہیں لے سکتی۔ میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کرسکتی جو وہ نہیں کرسکتے لیکن وہ بہت سے ایسے کام کرسکتے ہیں جو میں نہیں کرسکتی۔” آٹھ سال کی وہ بچی above average تھی لیکن اُس کا تجزیہ excellent تھا۔

”دنیا میں صرف ہر مقابلہ جیتنے والے lucky نہیں ہوتے… سب کچھ کرجانے والے lucky نہیں ہوتے… Lucky وہ ہوتے ہیں جنہیں یہ پتہ چل جائے کہ وہ کس کام میں اچھے ہیں اور پھر وہ اُس کام میں excel کریں او رفالتو کاموں میں اپنی energy ضائع نہ کریں۔” وہ اب اسے سمجھا رہا تھا رئیسہ کے آنسو تھم چکے تھے وہ اب باپ کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

”You have done exceptionally well … لیکن بس تم spelling bee میں اتنا ہی اچھا پرفارم کرسکتی تھی وہاں کچھ بچے ایسے ہوں گے جو تم سے زیادہ اچھے تھے اور انہوں نے تمہیں ہرادیا… لیکن اُن درجنوں بچوں کا سوچو جنہیں تم ہرا کر فائنل راؤنڈ میں پہنچی تھی، کیا وہ بھی unlucky ہیں… وہ کیا یہ سوچ لیں کہ وہ ہمیشہ ہارتے رہیں گے؟” سالار اُس سے پوچھ رہا تھا، رئیسہ نے بے اختیار سر نفی میں ہلایا۔

”حمین ، جبریل اور عنایہ کبھی سپورٹس میں اتنے exceptional نہیں رہے جتنے بہت سے دوسرے بچے ہیں… اس لئے یہ مت کہو وہ سب کرسکتے ہیں۔”اس بار امامہ نے اُسے سمجھایا ،رئیسہ نے سر ہلایا۔ بات ٹھیک تھی، وہ سپورٹس میں اچھے تھے لیکن وہ سپورٹس میں اپنے سکولز کے سب سے نمایاں سٹوڈنٹس نہیں تھے۔

”تمہیں اب یہ دیکھنا ہے کہ تم کس چیز میں بہت اچھا کرسکتی ہو اور پھر تمہیں اُسی چیز میں دل لگا کر کام کرنا ہے۔ کوئی بھی کام اس لئے نہیں کرنا کہ وہ جبریل، حمین اور عنایہ کررہے ہیں۔” سالار نے بے حد سنجیدگی سے کہا تھا۔

”یہ ضروری نہیں ہوتا کہ صرف اے پلس والا ہی زندگی میں بڑے کام کرے گا… بڑا کام اور کامیابی تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔تم دعا کیا کرو کہ اللہ تم سے بہت بڑے کام کروائے اور تمہیں بہت کامیابی دے۔” رئیسہ نے اُن گلاسز کو ٹھیک کیا جو سالار نے اُسے لگائے تھے۔ ”تم رئیسہ ہو حمین ،جبریل اور عنایہ نہیں ہو… اور ہاں تم اُن سے الگ ہو that’s the best thing … الگ ہونا بہت اچھی چیز ہوتا ہے رئیسہ …اور زندگی spelling bee کا ایک مقابلہ نہیں ہوتا جس میں کچھ لفظ spell کر کے ٹائٹل جیتنے کے بعد ہم خود کو lucky اور نہ جیتنے پر unlucky سمجھیں…” وہ اب اُس کا ربن دوبارہ باندھ رہا تھا بال ٹھیک کرتے ہوئے۔

”زندگی میں words کو spell کرنے کے علاوہ بھی بہت ساری skills چاہیے…ایک دو نہیں… 100-50… اور تمہارے پاس بہت ساری skills ہیں…اور بھی آئیں گی…You will shine like a star… جس جگہ بھی جاؤ گی، جو بھی کروگی۔”

رئیسہ کی آنکھیں، چہرہ اور ہونٹ بیک وقت چمکے تھے۔

”اور پتہ ہے صحیح معنوں میں lucky کو ن ہوتا ہے؟ وہ جس کی اچھائی اور اخلاق لوگوں کو اُسے یاد رکھنے پر مجبور کردے اور تم میری بہت اچھی اور بہت اخلاق والی lucky بیٹی ہو۔” وہ اب ٹیبل سے اُتر کر باپ کے گلے لگی تھی، جیسے اُسے سمجھ آگئی تھی کہ وہ اسے کیا سمجھانا چاہ رہا تھا۔

“Yes I am” اُس نے بڑی گرم جوشی سے سالار سے کہا، اُس سے الگ ہوکر وہ امامہ کے گلے
لگی… امامہ نے اُس کی ہیئر ربنز نکال کر ایک ٹھیک کیں۔

سالار نے کافی کا ایک سپ لیا اور اُسے ادھورا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا، اُسے تاخیر ہورہی تھی۔

”بابا مجھ سے خفا تو نہیں ہوئے نا؟” سالار کے جانے کے بعد رئیسہ نے امامہ سے پوچھا۔ ”نہیں خفا نہیں ہوئے لیکن تمہارے رونے سے ہمارا دل دُکھا۔” امامہ نے جواباً کہا ”I am so sorry Mummy… میں دوبارہ کبھی نہیں روؤں گی۔” اُس نے امامہ سے وعدہ کیا، امامہ نے اُسے تھپکا۔

”تم میری بہادر بیٹی ہو… عنایہ آپی کی طرح بات بات پر رونے والی تو نہیں…” رئیسہ نے پرجوش انداز میں سر ہلایا، اُس کے ماں باپ اُسے سب سے زیادہ بہادر اور اخلاق والا سمجھتے تھے اور یہ اُسے پتہ ہی نہیں تھا۔ وہ بات چیت آٹھ سالہ رئیسہ کے ذہن پر نقش ہوگئی تھی۔امامہ اور سالار کو دوبارہ کبھی اُس کو ایسی کسی بات پر سمجھانا نہیں پڑا تھا ۔اُسے اب یہ طے کرنا تھا کہ وہ کس کام میں اچھی تھی کس کام میں excel کرسکتی تھی۔ اُس کے باپ نے اُسے کہا تھا lucky وہ تھا جو یہ بوجھ لیتا اور پھر اپنی energy کسی اور چیز میں ضائع کرنے کے بجائے اسی ایک چیز میں لگاتا۔ رئیسہ بھی lucky کی اس نئی تعریف پر پورا اُترنے کی جد و جہد میں مصروف تھی۔

*****
حمین سکندر کا انتخاب MITکے SPLASH پروگرام میں ہوگیا تھا۔ وہ اپنے سکول کے اس پروگرام کے لئے منتخب ہونے والا پہلا اور واحد بچہ تھا۔ اس پروگرام کے تحت MIT ہر سال غیر معمولی ذہانت کے حامل کچھ بچوں کو دنیا کی اُس ممتاز ترین یونیورسٹی میں چند ہفتے گزارنے اور وہاں پڑھانے والے دُنیا کے قابل ترین اساتذہ سے سیکھنے کا موقع دیتی۔ یہ بہترین دماغوں کو بے حد کم عمری میں ہی کھوجنے، پرکھنے اور چننے کا MIT کا اپنا ایک عمل تھا۔

امامہ اور سالار کے لئے حمین سکندر کے سکول کی طرح یہ بے حد اعزاز کی بات تھی لیکن اس کے باوجود وہ یہ جاننے پر کہ حمین سکندر کا انتخاب ہوگیا تھا فکرمند ہوئے تھے۔ وہ جبریل سکندر کو تن تنہا کہیں بھی بھیج سکتے تھے لیکن حمین کو اکیلے اس عمر میں اتنے ہفتوں کے لئے کہیں بھیجنا ان کے لئے بے حد مشکل فیصلہ تھا۔ خاص طور پر امامہ کے لئے جو اُس دس سال کے بچّے کو خود سے الگ کر کے اس طرح اکیلے بھیجنے پر بالکل تیّار نہیں تھی لیکن یہ سکول کا اصرار اور حمین کی ضد تھی جس نے اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔

” ہم ان کی قسمت کو کنٹرول نہیں کرسکتے… کل کیا ہوتا ہے … کس طرح ہوتا ہے… کوئی چیز ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے تو میں مستقبل کے خوف کی وجہ سے انہیں گھر میں قید نہیں کروں گا کہ دنیا انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔” سالار نے واضح طور پر اُسے کہا تھا۔

”اُسے جانے دو… دیکھنے اور کھوجنے دو دنیا کو… ہماری تربیت اچھی ہوگی تو کچھ نہیں ہوگا اسے۔”اُس نے امامہ کو تسلّی دی اور وہ بھاری دل سے مان گئی تھی۔

حمین سکندر ساڑھے دس سال کی عمر میں پہلی بار MIT کی دنیا کھوجنے گیا تھا … ایک عجیب تجسس اور جوش و خروش کے ساتھ۔ MIT سے زیادہ اُسے اس بات پر ایکسائٹمنٹ ہورہی تھی کہ وہ کہیں اکیلا جارہا تھا… کسی بڑے کی طرح۔

اُسے گھر سے بھیجتے ہوئے اُن سب کا خیال تھا، وہ وہاں چند دن سے زیادہ نہیں رہ پائے گا… ایڈجسٹ نہیں ہوگا… Home sick ہوجائے گا… اور واپس آنے کی ضد کرے گا… اُن کی توقعات بالکل غلط ثابت ہوئی تھیں ایسا بالکل نہیں ہوا تھا۔ حمین سکندر وقتی طور پر ہی سہی لیکن وہاں جاکر وہ سب کچھ بھول گیا تھا… وہ ”دُنیا” تھی اور ”دُنیا” نے اس ساڑھے دس سال کے بچّے کو بری طرح fascinate کیا تھا… اُس دنیا میں ذہانت واحد شناختی علامت تھی اور وہ بے حد ذہین تھا۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے وہ اپنے ماں باپ کے لئے یہ خوش خبری بھی لایا تھا کہ SPLASH میں آنے والا دنیا کا ذہین ترین دماغ قرار دیا گیا تھا… 150 کی ذہانت رکھنے والے صرف چند بچوں میں سے ایک… جنہوں نے اس پروگرام کو اس شناخت کے ساتھ اٹینڈ کیا تھا… اور اپنی صلاحیتوں کے حساب سے اُن بچوں میں سرفہرست… حمین سکندر کو نہ صرف اُس کی ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے سنگل آؤٹ کیا گیا تھا بلکہ MIT نے اُسے ان بچوں میں بھی سر فہرست رکھا تھا جن کی پرورش MIT مستقبل کے ذہین ترین دماغوں کی کھوج کے پروگرام کے تحت کرنا چاہتی تھی… اور حمین بے حد خوش تھا اس سب کے اغراض و مقاصد سے پوری طرح باخبر نہ ہونے کے باوجود وہ صرف اسی بات پر خوش تھا کہ اُسے اب بار با رMIT میں جانے کے مواقع ملنے والے تھے کیوں کہ اُس ادارے نے کچھ منتخب بچوں کے لئے ہر سال MIT کے کچھ پروگرامز میں شرکت اوپن کردی تھی یہ اُن بچوں کی ذہانت کو ایک tribute یا previlage تھی۔

” مجھے ہر سال وہاں جانا ہے۔” اس نے گھر آتے ہی کھانے پر ماں باپ کو اطلاع دی تھی جنہوں نے اُس کی بات کو زیادہ توجہ سے نہیں سنا تھا اگر کسی چیز پر سالار سکندر نے غور کیا تھا تو وہ یہ تھی کہ وہ اتنے د ن اُن سے الگ رہنے کے باوجود بے حد خوش اور مطمئن تھا۔

” نہیں میں نے کسی کو miss نہیں کیا… میں نے وہاں بہت انجوائے کیا۔” اُس نے اپنی ازلی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امامہ کی ایک بات کے جواب میں اعلان کیا تھا اور وہ دونوں اسے دیکھ کر رہ گئے
تھے۔وہ بڑا ہوتا اور ایسی بات کرتا تو وہ زیادہ غور نہ کرتے لیکن وہ ایک بچہ تھا اور اگر کسی جگہ کے ماحول میں اس قدر مگن ہوگیا تھا کہ اسے اپنی فیملی بھی بھول گئی تھی اور وہ اپنے گھر اور گھر والوں سے strong bonding ہونے کے باوجود انہیں بھول گیا تھا تو یہ کوئی بڑی حوصلہ افزا بات نہیں تھی اُن دونوں کے لئے۔

”آپ کو پتہ ہے بابا مجھے اگلے سال ڈھیر ساری previlages ملیں گی جب میں وہاں جاؤں گا پھر اُس سے اگلے سال اُس سے بھی زیادہ… پھر اُس سے اگلے سال اُس سے بھی زیادہ۔” وہ بے حد ایکسائٹمنٹ سے اُن دونوں کو بتارہا تھا جیسے وہ یہ پلان خود ہی کر کے آیا تھا کہ اُسے اب وہاں ہر سال جانا تھا۔

” آپ کو پتہ ہے میں MIT کے کسی بھی Summer program کے لئے اپلائی کروں تو مجھے enrol کرلیں گے وہ، اور مجھ سے کوئی فیس نہیں لیں گے بلکہ مجھے وہاں سب کچھ فری ملے گا۔” اُس کا خیال تھا اُس کے ماں باپ اس خبر پر اُس کی طرح ایکسائٹڈ ہوجائیں گے… وہ ایکسائٹڈ نہیں ہوئے تھے، وہ سوچ میں پڑگئے تھے۔

”تو بابا آپ مجھے ہر سال وہاں بھیجا کریں گے نا؟” اس نے بالآخر سالار سے کہا۔ وہ جیسے آتے ہی جانے کی یقین دہانی چاہتا تھا۔

”اگلا سال بہت دور ہے حمین… جب اگلا سال آئے گا تو دیکھا جائے گا۔” سالار نے گول مول انداز میں اُس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔

”لیکن ہمیں پلاننگ تو ابھی سے کرنی چاہیے نا۔” وہ حمین کو دیکھ کر رہ گیا تھا۔ وہ پہلی بار کام کو پلان کرنے کی بات کررہا تھا یہ اُس ننھے ذہن پر MIT کا پہلا اثر تھا۔

” میں نے سوچا ہے میں MIT سے ہی پڑھوں گا۔’ ‘ اس نے جیسے باپ کو بتایا تھا۔”بہت زیادہ” وہ دونوں اُس کی بات سے محفوظ ہوئے وہاں جانے سے پہلے تک وہ تعلیم میں دلچسپی نہ رکھنے کا اعلان کرتا رہتا تھا اور اُس کو یقین تھا دُنیا کا بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو صرف ہائی سکول تک پڑھے اور بس… اور وہ چوں کہ خود بھی ایک بڑا انسان بننا چاہتا تھا تو وہ بھی صرف ہائی سکول تک ہی پڑھنا چاہتا تھا۔

”اور اُس کے بعد؟” سالار نے اُس سے پوچھا۔”اُس کے بعد میں نوبل جیتوں گا۔” اُس نے بے حد اطمینان سے کہا تھا یوں جیسے وہ spelling bee کی بات کررہا ہو۔ وہ دونوں اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئے۔

**
آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں پاپا؟” سالار نے بے حد نرمی سے سکندر عثمان سے پوچھا تھا وہ دو گھنٹے سے اُن کے پاس بیٹھا باتیں کرنے سے زیادہ اُن کی باتیں سن رہا تھا ان کی گفتگو میں اب الزائمر جھلکنے لگا تھا… وہ جملوں کے درمیان رک کر کسی لفظ کو یاد نہ آنے پر گڑبڑاتے اُلجھتے… جھلاتے… اور بھول جاتے… اور پھر وہ بات کرتے کرتے اٹھ کر کمرے میں ادھر ادھر جاتے ہوئے چیزیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے تھے یوں جیسے انہیں کسی چیز کی تلاش تھی۔سالار نے انہیں بالآخر ٹوک کر پوچھ ہی لیا تھا۔

” یہی رکھا تھا۔” انہوں نے سالار کے جواب میں کہا، وہ اپنے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل کے پاس کھڑے تھے۔سالار بہت دور صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا۔

”کیا؟” سالار نے کُریدا۔ ”ایک سگار باکس کامران نے بھیجا تھا وہی دکھانا چاہتا تھا تمہیں۔” انہوں نے بے حد ایکسائٹڈ انداز میں کہا اور ایک بارپھر تلاش شروع کردی۔ سگار باکس چھوٹی چیز نہیں تھا وہ اس کے باوجود اُسے تکیے اٹھا اٹھا کر ڈھونڈ رہے تھے۔پتہ نہیں اُس وقت ان کے ذہن میں ڈھونڈنے والی چیز کی کوئی شکل بھی تھی یا نہیں۔ وہ الزائمر کے اُس مریض کو پہلی بار اس حالت میںمرض کے اثرات کے ساتھ دیکھ رہا تھا…جو اُس کا باپ تھا۔

” شاید ملازم نے کہیں رکھا ہے… میں اُسے بلاتا ہوں۔” انہوں نے بالآخر تھک کے کہا تھا۔ وہ اب واپس سالار کے پاس آکر بیٹھ گئے تھے اور انہوں نے اُسے آوازیں دینا شروع کردیں۔ سالار نے اُنہیں ٹوکا۔

”پاپا انٹرکام ہے اس کے ذریعہ بلائیں۔” سالار نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا انٹرکام کا ریسیور اٹھاتے ہوئے باپ سے کہا۔

”اس سے وہ نہیں آتا۔” انہوں نے جواباً کہا اور دوبارہ اُسے آوازیں لگانے لگے وہ ایک ہی سانس میں جسے آوازیں دے رہے تھے اُن کے گھر اس وقت وہ ملازم موجود نہیں تھا، وہ چھٹی پر تھا اور سالار یہ جانتا تھا۔ وہ اُن کا پرانا ملازم تھا ، اُسے لگا اُسے باپ کی مدد کرنی چاہیے۔ ملازم کو خود بلانا چاہیے۔

”نمبر بتادیں میں بلاتا ہوں اُسے۔” سالار نے سکندر عثمان کو ایک بار پھر ٹوکا تھا۔” نمبر نہیں پتہ، ٹھہرو میں فون سے دیتا ہوں تمہیں۔” انہوں نے اُس کی بات کے جواب میں کہا تھا اور پھر رکے بغیر اپنی جیبیں ٹٹولنے لگے… سالار عجیب کیفیت میں انٹرکام کا ریسیور ہاتھ میں لئے بیٹھا رہا… وہ سیل فون جسے اُس کا باپ تلاش کررہا تھا وہ سامنے میز پر پڑا تھا… وہ اُس سے انٹرکام کے نمبر کو، اپنے سیل فون کی یادداشت میں ڈھونڈنا چاہتا تھا… اور وہ انٹرکام پر اُس ملازم کا یک حرفی نمبر یاد نہیں رکھ پاتا تھا…وہ الزائمر کے جن کے ہاتھوں اپنے باپ کو زیر ہوتے دیکھ رہا تھا، تکلیف بڑا چھوٹا لفظ تھا اس کیفیت کے لئے جو اُس نے محسوس کی تھی۔وہ بہت عرصے کے بعد امامہ اور بچوں کے ساتھ دو ہفتے کے لئے پاکستان آیا تھا۔طیّبہ کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی اور سالار اور اُس کی ملاقات کئی مہینوں سے نہیں ہوئی تھی اور اب وہ طیّبہ کے ہی بے حد اصرار پر بالآخر پاکستان آیا تھا اپنی فیملی کے ساتھ تو اپنے والدین کی حالت کو دیکھ کر بہت اپ سیٹ ہوا تھا۔خاص طور پر سکندر عثمان کو دیکھ کر۔

اُس نے انہیں ہمیشہ بے حد صحت مند اور چاق و چوبند دیکھا تھا۔ وہ ایک مشین کی طرح کام کرتے رہے تھے ساری زندگی…اور کام اُن کی زندگی کی سب سے پسندیدہ تفریح تھی اور اب وہ بڑی حد تک گھر تک محدود ہوگئے تھے۔ گھر میں سکندر عثمان اور نوکروں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔

اسلام آباد میں ہی مقیم سالار کا بڑا بھائی اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گھر میں رہتا تھا۔ وہ سکندر عثمان اور طیّبہ کو اپنے ساتھ تو رکھنے پر تیّار تھا لیکن وہ اُس کے بیوی بچے سکندر عثمان کے اُس پرانے گھر میں شفٹ ہونے پر تیّار نہیں تھے اور طیّبہ اور سکندر عثمان اپنا گھر چھوڑ کر بیٹے کے گھر نہیں جانا چاہتے تھے۔سالار سمیت سکندر کے تینوں بیٹے بیرونِ ملک تھے بیٹی کراچی… وہ گھر جو کسی زمانے میں افراد خانہ کی چہل پہل سے گونجتا تھا اب خالی ہوچکا تھا۔ سالار پہلی بار سکندر عثمان کی بیماری کے انکشاف پر بھی بے حد اپ سیٹ ہوا تھا۔ وہ انکشاف اُس پر اُس کی سرجری کے کئی مہینوں بعد ہوا تھا اور وہ بھی بے حد اتفاقی انداز میں جب سکندر عثمان اپنے ایک طبّی معائنے کے لئے امریکہ گئے تھے اور سالار کو اُن کی بیماری کی تفصیلات کا پتہ چلا تھا۔

”آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟” اُس نے سکندر عثمان سے شکایت کی تھی انہوں نے جواباً لاپروا انداز میں ہنستے ہوئے کہا تھا۔

” کیا بتاتا یار… مجھے اپنی بیماری سے زیادہ تمہاری بیماری کا دُکھ ہے…میں 70 کا ہوچکا ہوں… کوئی بیماری ہو نہ ہو کتنا جیوں گا میں؟اور اس عمر میں الزائمر کے بغیر بھی کچھ یاد نہیں رہتا انسان کو۔” وہ اپنی بیماری کو معمول بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ایسے جیسے یہ کوئی چیز ہی نہیں تھی۔

اور اب وہی بیماری اُس کے سامنے اُس کے باپ کی یادداشت کو گُھن کی طرح کھانے لگی تھی۔

زندگی عجیب شے ہے، انسان اُس کے طویل ہونے کی دعا بھی کرتا ہے اور اس کی طوالت کے اثرات سے ڈرتا بھی ہے۔

سکندر عثمان ابھی تک سیل فون ڈھونڈتے جارہے تھے… سالار نے فون اُٹھا کر اپنے باپ کے ہاتھ میں دے دیا۔

”اوہ … اچھا…ہاں… یہ رہا…” انہوں نے فون ہاتھ میں لیا پھر سوچنے لگے تھے کس لیے لیا تھا۔

”یہ فون کس لیے دیا ہے تم نے…؟ میں نے مانگا تھا کیا؟” وہ اب اُس سے پوچھ رہے تھے، کوئی چیز سالار کے حلق میں گولہ بن کر پھنسی۔

”نہیں … بس میں دینا چاہ رہا تھاآپ کو۔” وہ کہتے ہوئے یک دم اُٹھ گیا۔ وہ باپ کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔

”تم اتنی جلدی جارہے ہو… کیا اور نہیں بیٹھو گے؟” وہ جیسے مایوس ہوئے تھے۔”بیٹھوں گا… تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔” وہ اُن سے نظریں چراتا بھرّائی آواز میں کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا۔

اپنے بیڈ روم سے متصل باتھ روم میں باتھ ٹب کے کنارے بیٹھا وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔ وہ سکندر عثمان کے بے حد قریب تھا اور یہ قربت آج عجیب طرح سے اذیّت دے رہی تھی اُسے۔ وہ اپنی زندگی کے ہنگاموں میں اتنا مصروف رہا تھا کہ اُس نے سکندر عثمان کی بگڑتی ہوئی ذہنی حالت کو نوٹس ہی نہیں کیا تھا… نوٹس تو تب کرتا جب وہ اُن سے باقاعدگی سے مل پاتا۔ SIF اُسے گرداب کی طرح الجھائے ہوئے تھا اُس کے پروجیکٹس نے اب اس کے پیروں کو پروں میں تبدیل کردیا تھا…وہ سفر میں رہتا تھا… چار پانچ سال میں SIF دنیا کی بڑی فنانشل مارکیٹس میں ایک شناخت بنارہا تھا… بے حد منفرد انداز میں تیز رفتار ترقی کے ساتھ… کام کی اس رفتار نے اُسے بہت سی چیزوں سے بے خبر بھی کیا تھا…وہاں بیٹھے ہوئے اُس نے اعتراف کیا تھا اور اب وہ حل ڈھونڈ رہا تھا اور حل ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا تھا۔ وہ دونوں اُن کے ساتھ مستقل امریکہ شفٹ ہونے پر کبھی تیار نہیں ہوتے، سالار کو اس کا اندازہ تھا اور امریکہ چھوڑ کر اُن کے پاس مستقل آجانا سالار کے لئے ممکن نہیں تھا…اس کے باوجود حل سامنے تھا… بے حد مشکل تھا لیکن موجود تھ

قسط نمبر 36

”امامہ تم بچوں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہوجاؤ۔” اُس رات اُس نے بالآخر انتظار کیے بغیر وہ حل امامہ کے سامنے پیش کردیاتھا۔ امامہ کو اس کی بات سمجھ میں ہی نہیں آئی تھی۔

”کیا مطلب؟”” میں چاہتا ہوں تم حمین، عنایہ اور رئیسہ کے ساتھ پاکستان آجاؤ… میرے پیرنٹس کو میری ضرورت ہے میں اُن کے پاس نہیں ٹھہر سکتا لیکن میں انہیں اس حالت میں اکیلا بھی نہیں چھوڑسکتا… تم نے دیکھا ہے پاپا کو…” وہ بے حد رنجیدہ تھا۔

”ہم انہیں اپنے پاس رکھ سکتے ہیں وہاں امریکہ میں…” امامہ نے جیسے ایک تجویز پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔

” وہ یہ گھر نہیں چھوڑیں گے اور میں اس عمر میں انہیں اور اپ سیٹ کرنا نہیں چاہتا۔ تم لوگ یہاں شفٹ ہوجاؤ… میں آتا جاتا رہوں گا… جبریل ویسے بھی یونیورسٹی میں ہے،اُسے گھر کی ضرورت نہیں ہے اور میں تو امریکہ میں بھی سفر ہی کرتا رہتا ہوں زیادہ… مجھے وہاں فیملی کے ہونے نہ ہونے سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔” وہ اُس سے نظریں ملائے بغیر کہہ رہا تھا۔ امامہ اُس کا چہرہ دیکھتی رہی وہ سب کچھ اس طرح آسان بنا کر پیش کررہا تھا جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا… دو منٹوں کا کام تھا جو کیا جاسکتا تھا۔

”تمہارے اپنے پیرنٹس بھی ہیں یہاں… وہ بھی بہت بوڑھے ہیں… تم یہاں رہو گی تو ان سب کی دیکھ بھال کرسکو گی…” وہ اُس سے کہہ رہا تھا۔ امامہ نے کچھ خفگی سے اُس سے کہا۔

” تم یہ سب میرے پیرنٹس کے لئے نہیں کررہے سالار… اس لئے ان کا حوالہ نہ دو۔”

”تم ان کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتی کیا؟ انہیں اس عمر میں دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی… کوئی 24 گھنٹے ساتھ نہ رہے چند گھنٹے ہی رہے لیکن حال چال پوچھنے والا ہو۔”وہ کہہ رہا تھا ۔اپنے پیرنٹس کی بات کرنے سے زیادہ اُس کے پیرنٹس کی بات کررہا تھا۔ امامہ کو بُرا لگا… اُسے اس جذباتی بلیک میلنگ کی ضرورت نہیں تھی۔

”سالار اتنے سالوں میں کبھی پہلے تم نے میرے پیرنٹس کی دیکھ بھال کو ایشو بنا کر مجھے پاکستان میں رکھنے کی بات نہیں کی…آج بھی اُن کو ایشو نہ بناؤ۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔

” ہاں نہیں کی تھی کیوں کہ آج سے پہلے میں نے کبھی اپنے پیرنٹس کا یہ حال بھی نہیں دیکھا تھا۔”اُس نے جواباً کہا وہ قائل نہیں ہوئی۔

”مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” اُس نے اسی انداز میں کہا تھا۔

”تم ان کے پاس رہنا نہیں چاہتی؟یہاں میرے گھر پر؟” سالار نے د و ٹوک انداز میں اُس سے پوچھا۔”میں تمہارے ساتھ بھی رہنا چاہتی ہوں۔”اُس نے جواباً کہا۔سالار نے اُس سے نظریں چُرالیں۔”اُن سب کو تمہاری ضرورت ہے امامہ۔” ”اور تم؟ تمہیں میری ضرورت نہیں ہے؟” امامہ نے گِلہ کیا تھا ”ان سب کے پاس زندگی کے زیادہ سال نہیں ہیں… میں یہ بوجھ اپنے ضمیر پر نہیں لینا چاہتا کہ میں نے زندگی کے آخری سالوں میں اپنے ماں باپ کی پروا نہیں کی۔” وہ کہہ رہا تھا وہ اُس سے کہہ نہیں سکی وہ اُس کے ساتھ بھی تو اسی لئے چپکی رہنا چاہتی تھی اُسے بھی تو اُس کی زندگی کا پتہ نہیں تھا… ڈاکٹرز نے کہا تھا 5-7 سال…زیادہ سے زیاہ دس سال…اور وہ اُسے اُس سے بھی پہلے اپنے سے الگ کررہا تھا۔ وہ یہ ساری باتیں سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ زندگی کے کسی بھیانک خواب کے بارے میں… مستقبل کے بُرے دنوں کے بارے میں… وہ فی الحال صرف حال کے بارے میں سوچنا چاہتی تھی… جو سامنے تھا… جو آج تھا… وہ اُسی میں جینا چاہتی تھی۔ ”تمہیں میری ضرورت ہے سالار… اکیلے تم کیسے رہو گے؟” وہ اُس سے کہہ رہی تھی۔” میں رہ لوں گا امامہ… تم جانتی ہو میں کام میں مصروف رہتا ہوں تو مجھے سب کچھ بھول جاتا ہے۔” یہ سچ تھا لیکن اُس کو نہیں کہنا چاہیے تھا۔ امامہ ہرٹ ہوئی تھی وہ کچھ بول نہیں سکی اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے پل میں بھر گئی تھیں۔سالار اُس کے برابر صوفہ پر بیٹھا تھا اُس نے امامہ سے نظریں چُرانے کی کوشش کی تھی نہیں چراسکا۔

”زندگی میں انسان صرف اپنی ضرورتوں کے بارے میں سوچتا رہے تو خود غرض ہوجاتا ہے۔” اُس نے امامہ کو جیسے وضاحت ایک فلاسفی میں لپٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔امامہ قائل نہیں ہوئی۔

”مجھے پتہ ہے تمہیں ضرورت نہیں ہے… نہ میری نہ بچوں کی…تمہارے لئے کام کافی ہے… کام تمہاری فیملی ہے، تمہاری تفریح بھی… لیکن میری زندگی میں تمہارے اور بچوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے… میرا کام اور تفریح صرف تم لوگ ہو۔”اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں گلہ بھی کیا ، اُس کی بے حسی بھی بتائی، اپنی مجبوری بھی سنائی۔

”تم یہ نہیں سوچتے کہ تم ابھی انڈر ٹریٹمنٹ ہو تمہیں بھی کسی خیال رکھنے والے کی ضرورت ہے۔” وہ جیسے اُسے یاد دلارہی تھی بیماری کا نام لئے بغیر کہ اُسے بھی تیمار دار کی ضرورت تھی۔

”پرانی بات ہوگئی امامہ… میں ٹھیک ہوں پانچ سال سے اس بیماری کے ساتھ زندگی گزاررہا ہوں… کچھ نہیں ہوتا مجھے۔” اس نے جیسے امامہ کے خدشات دیوار پر پڑھ کر بھی پھونک سے انہیں اڑایا تھا۔

”میں پاپا کو اس حال میںیہاں اس طرح نہیں چھوڑ سکتا نوکروں کے سر پر… میں حمین کو اُن کے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن میں حمین کو اکیلا یہاں نہیں رکھ سکتا اس لئے تمہاری ضرورت ہے اس گھر کو…تم اسے request سمجھو… خود غرضی یا پھر اصرار… لیکن میں چاہتا ہوں تم پاکستان آجاؤ… یہاں اس گھر میں۔” اس نے سالار کی آواز اور آنکھوں میں رنجیدگی دیکھی تھی۔

”میرے لئے تمہارے بغیر رہنابے حد مشکل ہے… میں عادی ہوگیا ہوں تمہارا بچوں کا… گھر کے آرام کا… لیکن میرے ماں باپ کے بے حد احسانات ہیں ہم پر…صرف مجھ پر ہی نہیں ہم دونوں پر… میں اپنی comfort کو اُن کی comfort کے لئے چھوڑنے کا حوصلہ رکھتا ہوں… یہ فرض ہے مجھ پر۔” وہ جو کچھ اُس سے کہہ رہا تھا وہ مشورہ اور رائے نہیں تھی نہ ہی درخواست…وہ فیصلہ تھا جو وہ کرچکا تھا اور اب صرف اُسے سنا رہا تھا۔

وہ اُس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا لیکن غلط وقت پر کہہ رہا تھا، وہ اُس سے قربانی مانگ رہا تھا لیکن بہت بڑی مانگ رہا تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر اُس کے پاس سے اُٹھ گئی تھی۔ وہ saint نہیں تھی لیکن یہ بات سالار کو سمجھ نہیں آتی تھی۔

*****

دو ہفتوں کے بعد امریکہ واپس جاتے ہوئے سالار نے سکندر عثمان کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا تھا وہ خوش نہیں ہوئے تھے۔

”نہیں بے وقوفی کی بات ہے یہ… امامہ اور بچوں کو یہاں شفٹ کرنا… ” انہوں نے فوری طور پر کہا تھا۔”ان کی سٹڈیز کا ہرج ہوگا اوریہاں کیوں لارہے ہو اُنہیں تُک کیا بنتی ہے؟” سالار نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اُن کے لئے کررہا تھا یہ سب۔

” بس پاپا… وہاں مشکل ہورہا ہے سب کچھ manage کرنا…مالی طور پر۔” اُس نے باپ سے جھوٹ بولا وہ انہیں زیرِ احسان کرنا نہیں چاہتا تھا۔

” بہت زیادہ ہوتے جارہے ہیں وہاں اخراجات… saving بالکل نہیں ہورہی… یہاں کچھ عرصہ رہیں گے تو تھوڑا بہت save کرلیں گے ہم۔” اُس نے بے حد روانی سے سکندر عثمان سے کہا۔

”لیکن تم تو کہہ رہے تھے SIF بہتکامیاب ہے… تمہارا پیکج بہت اچھا ہے۔” وہ کچھ متوحش ہوئے۔

”ہاں وہ تو بہت اچھا جارہا ہے اُس کے حوالے سے مسائل نہیں ہیں مجھے… لیکن بس savings نہیں ہوپارہی پھر بچیاں بڑی ہورہی ہیں میں چاہ رہا ہوں کچھ سال پاکستان میں رہیں اپنی ویلیوز کا پتہ ہو پھر لے جاؤں انہیں۔” اُس نے اپنے بہانے کو کچھ اضافی سہارے دیے۔سکندر عثمان ابھی بھی پوری طرح قائل نہیں ہوئے تھے۔

” تم اکیلے کیسے رہو گے سالار… تمہارا ابھی علاج ہورہا ہے…بیوی بچوں کے بغیر وہاں کون خیال رکھے گا تمہارا؟”وہ اپنی تشویش کا اظہار کررہے تھے۔

”میں سوچ رہا ہوں میرے پاس جو اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے وہ تمہیں دے دوں تاکہ تمہیں اگر کوئی فنانشل مسئلہ ہے تو…” سالار نے اُن کی بات کاٹ دی۔

” بس پاپا… اب نہیں…” اُس نے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ۔” اب اور کچھ نہیں… کتنا کریں گے آپ میرے لئے؟ مجھے بھی کچھ کرنے دیں… احسان نہیں کرسکتا تو حق ہی ادا کرنے دیں مجھے۔” اُس نے عجیب بے بسی سے باپ سے کہا۔

” مجھے تمہاری فکر رہے گی۔” سالار نے ایک بار پھر اُن کی بات کاٹتے ہوئے کہا ” مجھے بھی آپ کی فکر رہتی ہے پاپا…”

”اس لئے رکھنا چاہتے ہو ان سب کو یہاں؟” سکندر عثمان جیسے بوجھ گئے تھے۔”آپ جو چاہے سمجھ لیں۔”” میں اور طیّبہ بالکل ٹھیک ہیں پرانے ملازم ہیں ہمارے پاس وفادار… سب ٹھیک ہے تم میری وجہ سے یہ مت کرو۔” وہ اب بھی تیّار نہیں تھے، اولاد پر انہوں نے ہمیشہ احسان کیا تھا احسان لینے کی عادت ہی نہیں تھی اُنہیں اور وہ بھی عمر کے اس حصّہ میں … بے حد خواہش ہونے کے باوجود… مجبور ہونے کے باوجود… سکندر عثمان اولاد کو اپنی وجہ سے تکلیف میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ ” میں ویسے بھی سوچتا ہوں فیکٹری جایا کروں کبھی کبھار… کام مکمّل طور پر چھوڑ دیا ہے اس لئے… زیادہ بھولنے لگا ہوں میں” وہ اپنے الزائمر کی شکل بدل رہے تھے۔

” تمہارے بیوی اور بچوں کو تمہارے پاس رہنا چاہیے سالار… تم زبردستی انہیں یہاں مت رکھو… میرے اور طیّبہ کے لئے بس۔” انہوں نے جیسے سالار کو سمجھانے کی کوشش کی۔

” زبردستی نہیں رکھ رہا پاپا… اُن کی مرضی سے ہی رکھ رہا ہوں … وہ یہاں آکر ہمیشہ خوش ہوتے رہیں ہیں اب بھی خوش ہوں گے…”

اُس نے باپ کو تسلّی دی تھی اُسے اندازہ بھی نہیں تھا باپ کا تجربہ کتنا درست ہونے والا تھا۔

*****

”میں پاکستان نہیں جاؤں گا۔” پاکستان شفٹ ہونے کی سب سے زیادہ مخالفت حمین سکندر کی طرف سے آئی تھی اور یہ مخالفت صرف سالار کے لئے ہی نہیں امامہ کے لئے بھی خلاف توقع تھی۔ وہ ہمیشہ پاکستان جانے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا تھا… دادا کے ساتھ اُس کی بنتی بھی بہت تھی اور وہ دادی کا لاڈلا بھی تھا… پاکستان میں اُسے بڑی attractions دکھتی تھیں اور اب یک بیک مستقل طور پر پاکستان جاکر رہنے پر سب سے زیادہ اعتراضات اُسی نے کیے تھے۔

” بیٹا دادا اور دادی بوڑھے ہوگئے ہیں تم نے دیکھا وہ بیمار بھی تھے… انہیں care کی ضرورت ہے۔” امامہ نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

”اُن کے پاس servants ہیں وہ اُن کا اچھی طرح خیال رکھ سکتے ہیں۔” وہ بالکل قائل ہوئے بغیر بولا۔

” Servants اُن کی اچھی کیئر نہیں کرسکتے۔” امامہ نے جواباً کہا”آپ انہیں اولڈ ہوم بھیج دیں۔” وہ اُس معاشرے کا بچہ تھا اُسی معاشرے کا بے رحم لیکن عملی حل بتارہا تھا۔

”کل کو ہم بوڑھے ہوجائیں گے تو تم ہمیں بھی اولڈ ہوم میں بھیج دو گے۔” امامہ نے کچھ ناخوش ہوتے ہوئے اُس سے کہا۔

”آپ انہیں یہاں لے آئیں۔” حمین نے ماں کی خفگی کو محسوس کیا۔

”وہ یہاں نہیں آنا چاہتا وہ اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتے۔” امامہ نے اُس سے کہا۔

”پھر ہم بھی اپنا گھر کیوں چھوڑیں؟ میں اپنا سکول کیوں چھوڑوں؟” وہ دنیا کے دس ذہین ترین دماغوں میں سے ایک تھا…غلط بات نہیں کہہ رہا تھا… Rationally بات کررہا تھا… دماغ کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے۔وہ عقل سے سوچتا ہے دل سے نہیں۔

”یہ ہمارا گھر نہیں ہے حمین… کرائے کا ہے، ہم صرف یہاں رہ رہے ہیں اور جب ہم سب پاکستان چلے جائیں گے تو بابا اور جبریل اس گھر کو چھوڑدیں گے کیوں کہ انہیں اتنے بڑے گھر کی ضرورت نہیں ہوگی… جبریل ویسے بھی یونیورسٹی میں ہے… تمہارے بابا نیویارک شفٹ ہونا چاہتے ہیں۔” امامہ اُسے کہتی چلی گئی تھی۔

” جبریل پاکستان نہیں جائے گا؟” حمین نے پوچھا۔

”نہیں تمہارے بابا اُسے اس لئے پاکستان بھیجنا نہیں چاہتے کیوں کہ وہ یونیورسٹی میں ہے اُس کی سٹڈیز متاثر ہوں گی۔” امامہ نے اُسے سمجھایا۔

”میری بھی تو ہوں گی، مجھے بھی ہر سال MIT جانا ہے، میں کیسے جاؤں گا۔” وہ خفا ہوا تھا اور بے چین بھی اُسے اپنا سمر پروگرام خطرے میں پڑتا دِکھا تھا۔

”تم ابھی سکول میں ہو… جبریل یونیورسٹی میں ہے… اور پاکستان میں بہت اچھے سکولز ہیں تم cover کرلوگے سب کچھ… جبریل نہیں کرسکے گا اُسے آگے میڈیسن پڑھنی ہے…” امامہ اُسے logic دینے کی کوشش کررہی تھی جو حمین کے دماغ میں نہیں بیٹھ رہی تھی۔

“That’s not fair Mummy” حمین نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

”اگر جبریل پاکستان نہیں جائے گاتو میں بھی نہیں جاؤں گا… مجھے MIT جانا ہے۔” وہ واضح طور پر بغاوت کررہا تھا۔

”ٹھیک ہے تم مت جاؤ… میں عنایہ اور رئیسہ چلے جاتے ہیں تم یہاں رہنا اپنے بابا کے پاس…” امامہ نے یک دماُس سے بحث کرنا بند کردیا تھا۔

” یہ تمہارے بابا کا حکم ہے اور ہم سب اس کو مانیں گے… تم disobey کرنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی میں مجبور نہیں کروں گی۔”

امامہ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی تھی۔ دُنیا کے وہ دو بہترین دماغ ایک دوسرے کے بالمقابل آگئے تھے۔

”تم پاکستان نہیں جانا چاہتے حمین؟” اُس رات سالار نے حمین کو بٹھا کر پوچھا تھا۔امامہ نے اُسے ڈنر سے کچھ دیر پہلے اس کے انکار کے بارے میں بتایا تھا۔

”نہیں۔” حمین نے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے کہا تھا۔”اور کوئی بھی جانا نہیں چاہتا۔” اُس نے مزید تبصرہ کیا۔”میں کسی اور کی نہیں صرف تمہاری بات کررہا ہوں۔” سالار نے اُسے ٹوک دیا، حمین سر جھکائے چند لمحے خاموش بیٹھا رہا پھر اُس نے سر اُٹھا کر باپ کو دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔

”وجہ؟” سالار نے اُسی انداز میں کہا۔

”بہت ساری ہیں۔” اُس نے بے حد مستحکم انداز میں باپ کو جواب دیا۔

”کسی بھی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی صرف ایک وجہ ہوتی ہے، باقی سب بہانے ہوتے ہیں اس لئے تم صرف وجہ بتاؤ بہانے نہیں۔” سالار نے اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے ذخیرۂ الفاظ کی ہوا نکالتے ہوئے کہا۔ حمین اس میٹنگ کے لئے پہلے سے تیّار تھا اور وجوہات کو جمع کرنے پر بھی اچھا خاصا وقت صرف کرچکا تھا ۔ باپ نے جیسے انگلی سے پکڑ کر دوبارہ زیرو پر کھڑا کردیا تھا۔

”میں پاکستان میں adjust نہیں ہوسکتا۔” حمین نے بالآخر وہ ایک وجہ تلاش کر کے پیش کی۔”اگر تم کانگو میں adjust ہوسکتے ہو تو پاکستان میں بھی ہوجاؤ گے…افریقہ سے زیادہ برا نہیں ”سالار نے اُسی انداز میں کہا ”تب میں چھوٹا تھا” حمین نے مدافعانہ انداز میں کہا۔

”تم اب بھی چھوٹے ہی ہو۔” سالار نے بات کاٹی۔”لیکن میں بڑا ہورہا ہوں۔”حمین نے جیسے اعتراض کیا ”اُس میں کافی time لگے گا… تمہارے لئے کم از کم پچیس سال۔” سالار نے بے حد سنجیدگی سے اُسے tease کیا وہ باپ کو دیکھ کر رہ گیا۔

“I am serious Baba” اُس نے سالار کی بات سے محفوظ ہوئے بغیر کہا”میں پاکستان نہیں جانا چاہتا۔It’s not a good idea for Mummy either ” وہ کسی بڑے کی طرح باپ کے فیصلے پر تبصرہ کررہا تھا۔

سالار خاموشی سے اُس کی بات سُن رہا تھا۔

”مجھے یہاں تعلیم حاصل کرنی ہے۔۔میں وہاں holidays پر جاسکتا ہوں ہمیشہ کے لئے نہیں۔” وہ بالکل امریکی انداز میں بے حد صاف گوئی سے باپ کو بتا رہا تھا کہ وہ کیا کرسکتا تھا اور کیا نہیں۔

”چند سالوں کی بات ہے حمین اُس کے بعد تم بھی اس قابل ہوجاؤ گے کہ امریکہ میں واپس آکر کہیں بھی پڑھ سکو۔” سالار نے اُس کی بات کے جواب میں کہا، وہ گیارہ سال کا بچّہ باپ کو بے حد مدلّل دلائل دینے کی کوشش کررہا تھا۔

”چند سال سے بہت فرق پڑتا ہے۔ایک سال سے بھی بہت فرق پڑتا ہے۔” اُس نے سالار کی بات کے جواب میں کہا۔

”تو تم یہ قربانی نہیں دو گے؟” سالار نے اس بار بات بدلی۔”جبریل بھی تو دے سکتا ہے قربانی… آپ بھی تو دے سکتے ہیں… میں ہی کیوں؟” اُس نے جواباً اُسی انداز میں کہا۔

دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے برابر ہو کے ان کے سامنے بیٹھ کر اُن سے financial deals کرنا اور بات تھی…اُن کے سوالات اور اعتراضات کے انبار کو سمیٹنا آسان کام تھا…اپنے گیارہ سال کے بیٹے کو اس بات پر قائل کرنا زیادہ مشکل تھا کہ وہ وہ قربانی کیوں دے جو اُس کا بھائی نہیں دے رہا تھا…اُس کا باپ بھی نہیں دے رہا تھا… پھر وہ کیوں؟

اور اس کیوں کا جواب فارمولوں اور equations میں نہیں ملتا تھا، صرف اُن اخلاقی اقدار میں ملتا تھا جن سے اُس نے اپنی اولاد کی تربیت کی تھی لیکن اس کے باوجود اُس کی اولاد اُس سے یہ سوال کررہی تھی۔

”تم جانتے ہو تمہارے دادا کو الزائمر ہے، وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اور انہیں ضرورت ہے کہ کوئی ان کے پاس ہو… تم سے انہیں زیادہ محبت ہے اس لئے میں چاہتا تھا تم اُن کے پاس رہو۔”سالار نے جیسے وہ جواب ڈھونڈنا شروع کیے جن سے وہ اسے سمجھا پاتا۔

”ویسے بھی جب تمہاری ممی، عنایہ اور رئیسہ کے ساتھ یہاں سے چلی جائیں گی تو تم یہا ں کس کے پاس رہو گے؟ گھر میں تمہاری دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں ہوگا۔”سالار نے کہنا شروع کیا۔

“I can take care of myself” حمین نے باپ کی بات ختم ہونے پر کہا تھا۔”میں اتنا چھوٹا نہیں ہوں بابا… میں اکیلا رہ سکتا ہوں۔آپ مجھے بورڈنگ میں بھی رکھ سکتے ہیں یا پھر میں کسی relative کے پاس بھی رہ سکتا ہوں۔” اُس نے سالار کے سامنے ایک کے بعد ایک solutions رکھنا شروع کیا۔

”اُن میں سے ایک بھی option میرے لئے قابلِ قبول نہیں ہے، تمہیں سب کے ساتھ پاکستان جانا ہے۔” سالار نے دو ٹوک انداز میں اُس سے کہا۔

”آپ مجھ میں اور جبریل میں فرق کیوں کرتے ہیں بابا؟” اُس کے اگلے جملے نے سالار کا دماغ گھما کر رکھ دیا تھا۔ اس نے اپنے گیارہ سالہ بیٹے کا چہرہ دیکھا جس نے زندگی میں پہلی بار اُس سے ایسا سوال یا ایسی شکایت کی تھی۔ ”فرق…؟تم اس فرق کو define کرسکتے ہو؟” سالار پہلے سے بھی زیادہ سنجیدہ ہوگیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا اُسے پانچ منٹ لگنے والے تھے زیادہ سے زیادہ اُسے سمجھانے میں اور اب جیسے یہ ایک پینڈورہ باکس ہی کھلنے لگا تھا۔

”آپ جبریل کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔” اگلا تبصرہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ دیکھتے رہے پھر کچھ دیر بعد سالار نے اُس سے کہا۔

”اور میں اُسے کیوں بہترسمجھتا ہوں؟” وہ جیسے اُس کے اس الزام کی بھی وضاحت چاہتا تھا۔

”کیوں کہ وہ حافظِ قرآن ہے… میں نہیں ہوں۔” بے حد روانی سے کہے گئے اس جملے نے سالار کو فریز کیا تھا… وہ واقعی پینڈورہ باکس ہی کھول بیٹھا تھا لیکن بہت غلط حوالے سے۔

وہ باغی نہیں تھا… نہ ہی بدتمیز نہ ہی بدلحاظ، لیکن وہ جو سوچتا اور محسوس کرتا تھا وہ کہہ دیتا تھا۔ زندگی میں پہلی بار سالار کو لگا وہ سکندر عثمان تھا اور اپنے سامنے آن بیٹھا تھا… لاجواب… بے بس… تاریخ یقیناً اپنے آپ کو دہراتی تھی لیکن اپنی مرضی کے وقت پر۔

”تمہیں جبریل برا لگتا ہے؟” سالار نے بے حد مدہم آواز میں اُس سے پوچھا۔”He is my only brother… مجھے وہ کیسے بُرا لگ سکتاہے، لیکن مجھے آپ لوگوں کا یہ attitude اچھا نہیں لگتا…” حمین کو یہ شکایت کب سے ہونی شروع ہوئی تھی اُس کا اندازہ سالار کو نہیں ہوا۔ لیکن وہ اس وقت وہاں عجیب سی کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا۔

”ایسا نہیں ہے حمین۔” اُس نے بالآخر حمین سے کہا وہ اپنے سلیپنگ سوٹ کے پاجامے کو گھٹنے سے رگڑ رہا تھا جیسے اُس میں سوراخ ہی کردینا چاہتا ہو۔

”بابا… میں آجاؤں؟” وہ جبریل تھا جو دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوا تھا… گفتگو کے عجیب مرحلے پر وہ اندر آیا تھا۔ سالار اور حمین دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر کچھ جزبز ہوئے تھے۔

”ہاں آجاؤ۔” سالار نے اُس سے کہا، وہ اندر آکر حمین کے برابر میں صوفہ پر بیٹھ گیا پھر اُس نے ایک نظر حمین کو دیکھا جو اُس سے نظریں نہیں ملا رہا تھا پھر اُس نے باپ سے کہا۔

”دادا کے پاس میں پاکستان چلاجاتا ہوں… میں زیادہ اچھے طریقے سے اُن کی دیکھ بھال کرسکوں گا” کمرے میں عجیب خاموشی چھائی تھی نہ سالار کچھ کہہ سکا، نہ حمین کچھ بول سکا تھا۔ اُن دونوں کی آواز زیادہ اونچی نہیں تھی لیکن جبریل پھر بھی یقیناً یہ گفتگو سُن کر ہی آیاتھا۔

”ممی اور حمین یہیں رہیں آپ کے پاس… میں اکیلے بھی اُن کو سنبھال سکتا ہوں۔” وہ ہمیشہ کی طرح مدہم مستحکم آواز میں کہہ رہا تھا۔

”پاکستان میں ویسے بھی میڈیسن کی تعلیم کے لئے کم وقت لگتا ہے۔ یونیورسٹی کا سال ضائع ہونے سے بھی فرق نہیں پڑے گا۔” وہ اتنے آرام سے کہہ رہا تھا جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا… جبریل ایسا ہی تھا، کسی panic کے بغیر مسئلے کا حل نکالنے والا۔

”میں تم سے بعد میں بات کروں گا جبریل۔”سالار نے اُسے درمیان میں ہی ٹوک دیا۔

”میں گھر میں سب سے بڑا ہوں بابا… میری ذمّہ داری سب سے زیادہ ہے… حمین کو آپ یہیں رہنے دیں اور مجھے جانے دیں… اور میں یہ سب بہت خوشی سے کہہ رہا ہوں، مجھے کوئی خفگی نہیں ہے۔”جبریل نے سالار کے ٹوکنے کے باوجود اُس سے کہا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔

اُس کے کمرے سے جانے کے بعد بھی سالاراور حمین خاموش ہی بیٹھے رہے تھے وہ بے حد awkward صورت حال تھی جس کا سامنا ان دونوں نے چند لمحے پہلے کیا تھا۔

”میرے اور امامہ کے لئے تم میں اور جبریل میں کوئی فرق نہیں…اُسے قرآن پاک حفظ کرنے کے لئے عزت دیتے ہیں لیکن تم تینوں پر اُسے برتری نہیں دیتے اس لئے یہ کبھی مت سمجھنا کہ ہم دونوں تم چاروں میں کوئی تفریق کریں گے۔” سالار نے بہت لمبی خاموشی کے بعد اُس سے کہنا شروع کیا تھا۔

”تمہارے دادا میری ذمّہ داری ہیں اور میراخیال تھا میں اپنی ذمّہ داری تمہارے اور جبریل کے ساتھ بانٹ سکتا تھا… اس لئے یہ کوشش کی… لیکن تم پر زبردستی نہیں کروں گا میں… تم نہیں جانا چاہتے، مت جاؤ۔” سالار اُس سے کہتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا ، حمین وہیں بیٹھا رہا… سر جھکائے… خاموش…سوچتے ہوئے۔

قسط نمبر 37

“I hope you are not upset with me” جبریل سٹڈی ٹیبل پر بیٹھا پڑھ رہا تھا جب اُس نے کمرے کا دروازہ کھلتے اور حمین کو اندر آتے دیکھا۔ دونوں کے درمیان خاموش نظروں کا تبادلہ ہوا پھر جبریل دوبارہ اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہوگیا۔ حمین بستر پر جاکر لیٹا اُسے دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے بالآخر اُسے مخاطب کیا تھا۔

“?Upset” جبریل نے پلٹ کر اُسے کچھ حیرانی سے دیکھا تھا ”کیوں؟” حمین اُٹھ کر بیٹھ گیا بڑے محتاط انداز میں اُس نے گفتگو کا آغاز کیا۔

”تم نے ہماری باتیں سُنی تھیں؟” وہ کچھ بھی کہنے سے پہلے جیسے تصدیق چاہتا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے جبریل اُسے دیکھتا رہا، پھر اُس نے سر ہلاتے ہوئے کہا ”ہاں” حمین کے تاثرات بدلے۔ہلکی شرمندگی نے اُسے جیسے کچھ اور defensive کیا تھا۔

”اسی لئے پوچھ رہا تھا تم مجھ سے خفا تو نہیں ہو نا؟” حمین نے اب اپنے جملے کو ذرا سا بدلا۔”نہیں” جبریل نے اُسی انداز میں کہا۔حمین اپنے بستر سے اُٹھ کر اُس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔”لیکن مجھے مایوسی ضرور ہوئی۔” جبریل نے اُس کے قریب آنے پر جیسے اپنے جملے کو مکمّل کیا۔حمین اب سٹڈی ٹیبل سے پشت ٹکائے کھڑا تھا۔

I didn’t mean that…” تم میرے بھائی ہو اور میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں…Trust me I have nothing against you…”حمین نے جیسے اُسے صفائی دینے کی کوشش کی۔

“I know it….” جبریل نے نرمی سے اُسے ٹوکا اور اُس کا بازو ہلکے سے تھپتھپایا ” لیکن تمہیں بابا سے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی”…He must have been shocked… جبریل اب اُسے سمجھا رہا تھا۔”تم واقعی سمجھتے ہو کہ وہ مجھے تم سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں… فرق کرتے ہیں؟” وہ اُس سے کہہ رہا تھا”جبکہ مجھے لگتا تھا وہ تمہیں زیادہ importance دیتے ہیں۔” جبریل نے جواباً اُسے کہا تھا…”کافی سال ایسے ہی لگتا رہا…” جبریل نے جیسے بات ادھوری چھوڑی، حمین نے کچھ تجسس سے کریدا ”پھر؟” ”پھر میں بڑا ہوگیا۔” وہ مسکرایا تھا…And I realized…” کہ ایسا نہیں ہے۔” وہ کہہ رہا تھا ” کچھ qualities کو وہ مجھ میں زیادہ پسند کرتے ہیں کچھ تم میں، لیکن انہوں نے ہم دونوں میں کبھی فرق نہیں کیا، اگر کیا بھی ہوگا تو اُس کی کوئی وجہ ہوگی۔” وہ اُس کا بڑا بھائی تھا اور بڑے بھائی ہی کی طرح اُسے سمجھا رہا تھا۔ حمین خاموشی سے بات سُن رہا تھا۔ جب اُس نے بات ختم کی تو حمین نے اُس سے کہا۔

”میں یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنی یونیورسٹی چھوڑ کر پاکستان جاؤ… میں اتنا selfish نہیں ہوں…” وہ جیسے اُسے صفائی دینے کی کوشش کررہا تھا “I just want to stay here” اُس نے جبریل سے کہا تھا۔

” تمہیں کوئی selfish سمجھ بھی نہیں رہا حمین … تمہاری چوائس کی بات ہے اور بابا اس لئے تمہیں سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کیوں کہ تم چھوٹے ہو اور یہاں تم اکیلے نہیں رہ سکتے… بابا بہت بزی ہیں، کئی بار کئی کئی دن گھر نہیں آپاتے… تم اکیلے کیسے رہوگے اُن کے ساتھ… صرف اس لئے تمہیں پاکستان بھیجنا چاہتے تھے وہ…” اُس نے جبریل کی بات کاٹ دی اور بے حد ہلکی لیکن مستحکم آواز میں اُس سے کہا۔ I don’t want you to go to Pakistan…” تمہاری سٹڈیز متاثر ہوں گی… میں چلا جاؤں گا…حالانکہ میں خوش نہیں ہوں لیکن مجھے لگتا ہے میں سب کو ناراض کر کے یہاں stay نہیں کرسکتا۔” وہ کہتے ہوئے اپنے بستر کی طرف چلا گیا۔ جبریل کو لگا وہ کچھ اُلجھا ہوا تھا… جبریل اُسے لیٹتے ہوئے دیکھتا رہا پھر اُس نے حمین سے کہا۔

”چند سالوں کی بات ہے حمین… پھر بابا تمہیں بھی واپس امریکہ بلا لیں گے”…You can pursue your dreams… جبریل نے جیسے اُسے تسلّی دینے کی کوشش کی۔

“I don’t dream much…” اُس نے جواباً چادر اپنے اوپر کھینچتے ہوئے کہا تھا… جبریل اُسے دیکھ کر رہ گیا… حمین کے دماغ میں کیا تھا اُسے بوجھنا بڑا مشکل تھا، صرف دوسروں کے لئے ہی نہیں، شاید اُس کے اپنے لئے بھی۔

جبریل ایک بار پھر اپنی سٹڈی ٹیبل پر پڑھنے بیٹھ گیا تھا وہ اُس ویک اینڈ پر گھر آیا ہوا تھا اب اُسے کل پھر واپس جانا تھا ، اُس کا اگلا سمسٹر شروع ہونے والا تھا۔

“?Who will stay with Baba” کاغذ پر کچھ لکھتے ہوئے اُس کا ہاتھ رُک گیا… جبریل نے پلٹ کر ایک بار پھر بستر پر لیٹتے ہوئے حمین کو دیکھا، اُس نے تقریباً دس منٹ بعد اُسے مخاطب کیا تھا جب وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ سوچکا تھا۔ اور اُس کے سوال نے کسی کرنٹ کی طرح اُسے جیسے حمین کی سوچ تک رسائی دی تھی۔ وہ واقعی بے حد گہرا تھا…یہMIT نہیں تھی… امریکہ نہیں تھا… جو حمین کو واپس جانے سے کھینچ رہا تھا… یہ سالار سکندر کی بیماری تھی جس نے حمین کو اُسے اکیلا چھوڑ دینے پر متوحش کیا تھا۔

وہ وہاں باپ کے پاس رُکنا چاہتا تھا… بغیر اُسے یہ بتائے کہ وہ اُس کی وجہ سے وہاں رہنا چاہتا تھا… کیوں کہ وہ اُس کے بارے میں فکرمند تھا… بالکل اُسی طرح جیسے سالار سکندر اپنے باپ کے بارے میں فکرمند تھا ، لیکن اُسے یہ بتانا نہیں چاہتا تھا…

” تم بابا کی وجہ سے رُکنا چاہتے ہو؟” جبریل نے جیسے اُس کا راز افشا کردیا تھا۔ حمین کے چادر سے ڈھکے وجود میں حرکت ہوئی… شاید اپنے دل کا بھید یوں فاش ہوجانے کی توقع نہیں تھی اُسے… لیکن اُس نے جواب نہیں تھا… اُس نے چادر بھی اپنے چہرے سے نہیں ہٹائی… جبریل پھر بھی اُسے دیکھتا رہا۔

حمین سکندر ایک خرگوش کی طرح سُرنگیں بنانے کا ماہر تھا… پلک جھپکنے میں کیا کیا کھود کر کہاں سے کہاں پہنچنے کا شوقین… وہ پلک جھپکتے میں دل سے نکلتا تھا وہ لمحہ بھر میں دل میں واپس آنکلتا تھا۔

جبریل سکندر اپنے اُس چھوٹے بھائی کو دیکھتا رہا جس کی اُسے اکثر سمجھ نہیں آتی تھی اور جب آتی تھی تو اُسے اپنی سمجھ بوجھ پر شک ہونے لگتا تھا۔

******

”تم سب لوگ جارہے ہو؟” بار بار پوچھنے اور اس کا جواب عنایہ سے ہاں میں ملنے کے باوجود ایرک کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ممکن تھا اور کبھی ہوسکتا تھا۔

”لیکن کیوں؟” اگلا سوال کرنے کا خیال اُسے بڑی دیر بعد آیا تھا حالانکہ عنایہ اُس سوال سے پہلے اس کا بھی جواب دے چکی تھی۔

”بابا چاہتے ہیں ہم کچھ سال دادا دادی کے پاس رہیں… وہ اکیلے ہیں پاکستان میں۔” عنایہ سے ہمیشہ کی طرح بڑے تحمل سے اس کے اس سوال کا جواب ایک بار پھر دہرایا۔

”چند سال؟ کتنے سال؟” ایرک بے حد ڈسٹربڈ تھا۔”پتہ نہیں…” عنایہ نے جواب دیا اور اُسے واقعی اس سوال کا جواب نہیں پتہ تھا۔

”لیکن یہ گھر کیوں چھوڑ رہے ہو تم لوگ؟ تمہارے فادر اور جبرل تو نہیں جارہے؟” ایرک نے اُسی انداز میں کہا تھا۔

”بابا نیویارک شفٹ ہورہے ہیں جبریل ویسے ہی یونیورسٹی میں ہے… اتنا بڑا گھر ہماری ضرورت نہیں رہا اب۔” عنایہ نے دہرایا۔ لیکن تم پریشان مت ہو… ہم لوگ امریکہ تو آتے جاتے رہیں گے…اور تم پاکستان آسکتے ہو… جب بھی تمہارا دل چاہے۔” عنایہ کو اندازہ تھا اُس کی اپنی فیملی کے ساتھ جذباتی وابستگی کا… وہ اُن کے بغیر اکیلا رہ جانے والا تھا۔

وہ دونوں اس وقت سکول کے گراؤنڈ کے ایک بینچ پر بریک کے دوران بیٹھے ہوئے تھے…ایرک نے اُس کی باتوں کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا تھا، وہ بس خاموش بیٹھا رہا تھا یوں جیسے اُس shock کو digest کرنے کی کوشش کررہا تھا جو عنایہ کے انکشاف نے اُسے دیا تھا۔

”کیا میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جاسکتا؟” ایک لمبی خاموشی کے بعد ایرک نے بالآخر اُس سے کہا۔ سوال نے عنایہ کو مشکل میں ڈال دیا۔ جواب وہ جانتی تھی لیکن دے نہیں سکتی تھی۔

”تمہاری ممّی اور فیملی کو تمہاری ضرورت ہے، تم اُنہیں چھوڑ کر ہمارے ساتھ کیسے جاسکتے ہو؟” عنایہ نے اپنے انکار کو بے حد مناسب الفاظ میں اُس تک پہنچایا تھا۔

”ممّی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا… میں اُن سے اجازت لے سکتا ہوں… کیا تم لوگ مجھے اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟” ایک اور سوال آیا… عنایہ ایک بار پھر وہیں کھڑی ہوگئی۔

”ایرک میں نہیں جانتی… میں ممّی اور بابا سے پوچھ سکتی ہوں لیکن اپنی فیملی کو اس طرح چھوڑ کر ایک دوسری فیملی کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں ہے۔” عنایہ نے کہا تھا۔ وہ 13 سال کی تھی اُسے بڑوں کی طرح نہیں سمجھا سکتی تھی پھر بھی اُس نے کوشش کی تھی۔

ایرک اُس کی بات پر خاموش رہا پھر اُس نے کہا

”چند سالوں تک میں ویسے ہی یونیورسٹی چلا جاؤں گا… گھر سے تو ویسے بھی جانا ہی ہوگا مجھے۔” اُس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔

”پھر تو اور بھی ضروری ہے کہ یہ وقت تم اپنی فیملی کے ساتھ گزارو۔” عنایہ نے اُسی نرم لہجے میں کہا۔

”میں اپنے آپ کو تمہاری فیملی کا حصّہ سمجھتا ہوں، کیا تم لوگ ایسا نہیں سمجھتے؟” ایرک نے جواباً اُس سے کہا اور جیسے پھر سے اُسے مشکل میں ڈالا۔

”میں ممّی سے بات کروں گی ایرک۔” عنایہ نے اس argument سے نکلنے کے لئے جیسے ایک حل تلاش کیا۔

”اگر تم لوگ چلے گئے تو میرا گھر ایک بار پھر سے ٹوٹ جائے گا۔” ایرک نے اُس سے کہا ”میرے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں رہے گی جہاں میں جاسکوں۔” اُس نے جیسے منّت والے انداز میں کہا تھا یوں جیسے یہ سب عنایہ کے ہاتھ میں تھا، وہ چاہتی تو سب کُچھ رک جاتا۔

عنایہ کا دل بُری طرح پسیجا تھا۔

”ایسے مت کہو ایرک… دور جانے سے یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ تمہارے ساتھ ہمارا تعلق بھی ختم ہوجائے گا، ہم لوگ ملتے رہیں گے… بات بھی کریں گے Emails بھی… چھٹیوں میں تم ہمارے پاس پاکستان آسکتے ہو… اور ہم یہاں امریکہ… کچھ بھی ختم ہونے نہیں جارہا۔” عنایہ نے اُسے تسلّی دینے کی کوشش کی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایرک ٹھیک کہہ رہا تھا… فاصلہ دیو ہوتا ہے، سارے تعلق کھاجاتا ہے… پیار کا، دل کا ، دوستی کا، رشتوں کا۔

”اگر وہ سب نہیں رک سکتے تو تم رُک جاؤ۔”ایرک نے یک دم اُس سے کہا، وہ بُری طرح گڑبڑائی۔

”میں کیسے رُک سکتی ہوں… پہلے ہی حمین ضد کررہا ہے… اور اُس کی بات کوئی نہیں مان رہا اور مجھے تو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے… میں ممّی کی help کرنا چاہتی ہوں دادا دادی کا خیال رکھنے میں۔” اُس نے ایرک سے کہا تھا، وہ بے اختیار اُس سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن رُک گیا۔ اتنے سال عنایہ کے ساتھ پڑھنے اُس کے ساتھ دوستی اور تقریباً ہر روز اُس کے گھر جانے کے باوجود اُن کے درمیان ایسی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ اُسے کچھ بھی کہہ دیتا یا کہہ سکتا۔ عنایہ سکندر کا وہ رکھ رکھاؤ ماں باپ کی طرف سے genes میں آیا تھا یا خاندانی تربیت تھی، لیکن یہ جس بھی وجہ سے تھا اس نے عنایہ سکندر کو ہمیشہ اپنی کلاس کے لڑکوں کے لئے enigmatic رکھا تھا اور ایرک کے لئے fantasy… وہ جس معاشرے میں پل بڑھ رہے تھے وہاں “I love you” ہیلو ہائے جیسی چیز بن کر رہ گئی تھی… کوئی بھی کسی سے بھی کبھی بھی کہہ سکتا تھا اور سننے کے لئے تیّار رہتا تھا۔ نہ یہ بُری چیز سمجھی جاتی تھی نہ بُرا بنادینے والی چیز… اس کے باوجود ایرک کو جھجھک تھی اُسے لگتا تھا وہ اگر کبھی عنایہ سے اپنی محبّت کا اظہار اس طرح کرے گا تو وہ ناراض ہوجائے گی اور پھر شاید اس گھر میں اُس کا داخلہ ہی بند ہوجائے گا۔ اور پھر اس نے امامہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسی کوئی بات عنایہ سے نہیں کہے گا جب تک وہ بڑا نہیں ہوجاتا، زندگی میں کچھ بن نہیں جاتا… اور ایرک اب اچانک اپنے آپ کو ایک مخمصے میں پارہا تھا… وہ اب جارہی تھی… شاید ہمیشہ کے لئے… اور پتہ نہیں وہ لوگ دوبارہ کبھی مل بھی پاتے تھے یا نہیں تو کیا اُسے اُس سے کہنا چاہیے تھا وہ سب جو وہ عنایہ کے لئے دل میں محسوس کرتا تھا… یا ایسے ہی خاموش رہنا چاہیے تھا۔

اُس دن پہلی بار عنایہ کے حوالے سے ایرک بُری طرح پریشان ہوا تھا… اُسے یہ نہیں لگ رہا تھا کہ و ہ جارہی تھی، اُسے لگ رہا تھا وہ اُسے کھونے والا تھا… اور اُس کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل فور ی طور پر سمجھ نہیں آرہا تھا اور جو حل وہاں بیٹھے بیٹھے ایرک کا بالآخر سمجھ آیا تھا… وہ کس قدر بے وقوفانہ تھا اس کا اُسے اندازہ بھی نہیں تھا۔

******

“I want to marry your daughter” یہ اُس دو صفحوں پر مشتمل خط کی ہیڈ لائن تھی جو سالار کو ایرک کی طرف سے ملا تھا اور سالار نے بے حد خاموشی کے عالم میں اُس خط کو پڑھا تھا۔ وہ شاکڈ ہوا تھا اس لئے نہیں کہ وہ ایرک کی طرف سے ایسے کسی خط کی توقع نہیں کررہا تھا بلکہ اس لئے کیوں کہ اُس نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ عنایہ اتنی بڑی ہوگئی ہے کہ کوئی اُس کے حوالے سے اُس سے ایسی بات بھی کرسکتا تھا… وہ اس معاملے میں روایتی ہی تھا جسے ابھی بھی اپنی بیٹی بہت چھوٹی لگ رہی تھی۔

امامہ اُسے چائے دینے بیڈروم میں آئی تھی جب اُس نے ڈاک چیک کرتے سالار کو ایک کاغذ ہاتھ میں لئے سوچوں میں گُم دیکھا۔ وہ چائے کا کپ رکھ کر جانے لگی تھی جب سالار نے اُسے روک لیا اور وہ خط اُسے تھما دیا۔ امامہ نے کچھ اُلجھے انداز میں اُس خط کو پکڑا تھا لیکن پہلی ہیڈنگ پر نظر ڈالتے ہی اُس کا دماغ جیسے بھک سے اُڑ گیا تھا… دوسری لائن پر نظر ڈالے بغیر بھی وہ جانتی تھی وہ کون ہوسکتا تھا، غصّے کی ایک لہر اُس کے اندر اتر آئی تھی اور سُرخ چہرے کے ساتھ اُس نے سالار سے کہا ”ایرک؟”

سالار نے سر ہلاتے ہوئے چائے کا سپ لیا اور اُسے کہا ”سارا لیٹر پڑھو۔” امامہ نے لیٹر پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا ”اسے پڑھے بغیر بھی میں جانتی ہوں اُس نے کیا لکھا ہوگا۔” وہ پھر بھی خط پڑھ رہی تھی۔ سالار چونکا تھا ”تم سے بات کی ہے اُس نے پہلے؟” ”نہیں میں پھر بھی جانتی ہوں” امامہ نے بالآخر خط ختم کرتے ہوئے اُسے تہہ کر کے سالار کی طرف بڑھایا۔ وہ بہت خفا لگ رہی تھی۔

خط میں ایرک نے حتی المقدور بے حد مناسب انداز میں سالار سکندر سے عنایہ کے لئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا… وہ اُس سے کس قدر محبت کرتا تھا اور کیوں اُس کے لئے عنایہ کا ساتھ ضروری تھا… پھر اُس نے سالار کو بتایا تھا کہ وہ اُس کے لئے کیا کیا کرسکتا تھا اور عنایہ کو وہ کتنا خوش رکھے گا۔

وہ خط اُس کی اپنی بیٹی کے حوالے سے نہ لکھا گیا ہوتا تو سالار اُس خط کو پڑھ کر محظوظ ہوتا ، ہنستا اور شاید ایرک سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتا لیکن وہ اُس کی اپنی بیٹی کے حوالے سے تھا… بچگانہ ہوتے ہوئے بھی issue بچگانہ نہیں رہا تھا۔ عنایہ پسند کرتی ہے ایرک کو؟” جو پہلا خیال سالارکے ذہن میں آیا تھا وہ اب یہ آیا تھا۔

”تم کیسی باتیں کرتے ہو سالار… عنایہ بے چاری کو پتہ تک نہیں ہوگا کہ یہ کیا خیالی پلاؤ پکاتا رہتا ہے… اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ مجھ سے کہتی… ایرک ایک فیملی فرینڈ ہے، بوائے فرینڈ نہیں ہے۔” امامہ نے بے حد ناگواری سے اُس کے سوال کو بالکل رد کرتے ہوئے جواب دیا ۔

” یہ ضروری نہیں ہے امامہ کہ ہمیں اپنی اولاد کے دل کی ہر بات پتہ ہو۔” امامہ نے اُس کی بات کاٹ دی اور کہا ”مجھے ہے” وہ ہنس پڑا ” میں دن رات اُن کے ساتھ رہتی ہوں سالار… تم نہیں رہتے… تم باپ ہو اولاد کو اور طرح جانتے ہو، میں ماں ہوں اُن کو اور طرح دیکھتی ہوں۔” اُس نے سالار کے ہنسنے پر جیسے وضاحت کی تھی۔

”تم ٹھیک کہہ رہی ہو اس کے باوجود یہ ضروری نہیں ہے کہ 24 گھنٹے بھی اگر اولاد کو نظروں کے سامنے رکھا جائے تو اُن کے دلوں کو بھی دیکھا جاسکے۔ میں خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں دونوں ہی نہیں پالتا امامہ… باپ ہوں اس لئے rational ہوکر سوچ رہا ہوں… ماں کی طرح جذباتی ہوکر نہیں۔” امامہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگئی، وہ ٹھیک کہہ رہا تھا، وہ دونوں کئی سالوں سے اکٹھے تھے اُسے یہ خوش گمانی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ عنایہ کو ایرک کی پسندیدگی کے بارے میں بالکل ہی اندازہ نہیں ہوگا۔اُس کا دل چاہتا تھا نہ ہو… لیکن سالار دماغ کی بات کہہ رہا تھا۔

” میں عنایہ سے پوچھ لوں گی۔” اُس نے یک دم کہا ”کیا؟” سالار چائے پیتے پیتے رکا”ایرک کے حوالے سے… اس خط کے حوالے سے… لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا میں کیسے اُس سے…” وہ عجیب طرح سے اُلجھ کر رکی “She is just a kid” سالار اُس کی بات پر ہنستا ” ہاں یہ خط پڑھتے ہوئے میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ کوئی میری بیٹی کے بارے میں اس طرح سوچ بھی کیسے سکتا ہے…She is just a kid… لیکن یہ زندگی ہے اور ہم امریکہ میں رہ رہے ہیں جہاں آٹھ نو سال کے بچے بچیاں بھی بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کے concept سے واقف ہیں۔ اس لئے ہمیں بھی کچھ زیادہ realistic ہوکر اس صورت حال کو دیکھنا پڑے گا… تم ابھی عنایہ سے بات مت کرو… مجھے ایرک سے بات کرنے دو۔” سالار نے جیسے اُ س صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک حل نکالا۔

”اور اُس سے مل کر تم کیا کرو گے؟” امامہ کو جیسے یہ حل پسند نہیں آیا تھا ”اسی حوالے سے گفتگو کروں گا… اُسے سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ یہ سب کتنا بچگانہ ہے اور کیوں ممکن نہیں ہے۔”سالار نے جواباً کہا۔

”دو تین سال پہلے بھی ایرک نے ایسی ہی بات کی تھی عنایہ کے بارے میں… تب بھی میں نے اُسے سمجھایا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، وہ مسلمان نہیں ہے اور بے حد چھوٹا ہے لیکن میں کچھ سختی سے منع اس لئے نہیں کرسکی تھی اُسے کیوں کہ اُس وقت وہ اپنے باپ کی موت کی وجہ سے بہت اپ سیٹ تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی وہ اور اپ سیٹ ہو۔” امامہ نے سالار کو پہلی بار ایرک کے ساتھ ہونے والی وہ گفتگو دہرائی تھی۔

سالار اُس کی بات پر جیسے حیران ہوا ”تم نے کیا کہا تھا تب اُسے؟” میں نے اُس سے کہا کہ وہ ابھی صرف اپنی تعلیم پر توجہ دے اور مجھ سے وعدہ کرے کہ وہ عنایہ سے اس بارے میں بات نہیں کرے گا جب تک وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کرلیتا۔”امامہ نے اُسے بتایا۔

“?And he agreed”سالار نے جواباً اس سے پوچھا۔ امامہ نے سر ہلادیا ”اُس نے عنایہ سے کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی ورنہ وہ مجھے ضرور بتاتی۔” امامہ نے کہا۔

”اسی لئے اس نے خط میں ریفرنس دیا ہوا تھا کہ وعدے کے مطابق میں عنایہ کے بجائے آپ سے اپنی خواہش کا اظہار کررہا ہوں… اور میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ وہ کس وعدے کا ریفرنس دے رہا ہے۔” سالار پہلی بار amused نظر آیا تھا۔ امامہ کے چہرے پر اب بھی سنجیدگی تھی۔

”میرا خیال ہے اب مجھے اس سے ضرورملنا چاہیے، یہ ساری صورت حال بے حد دل چسپ ہے۔” سالار نے کہا اور امامہ نے بُرا منایا۔

” کیا دلچسپی ہے اس صورت حال میں؟ تمہیں زندگی میں ہمیشہ weird لوگ اور weird situations ہی اچھی لگی ہیں۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکی۔

”بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو تم… تم سے میری شادی اس کا ثبوت ہے… اور دیکھو یہ کتنی اچھی رہی ہے ہم دونوں کے لئے” وہ اُسے tease کررہا تھا… اپنی اُس wit لئے جو اُس کا خاصہ تھی۔

زندگی کے اتنے سال ساتھ گزارنے کے باوجود وہ آج بھی اُسے لاجواب کردینے کی صلاحیت رکھتا تھا اور وقتاً فوقتاً اس کا مظاہرہ کرتا رہتا تھا۔

”تم ایرک سے مل کر کیا کرنا چاہتے ہو؟” امامہ نے اُس کے تبصرے کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔

”بات چیت کرنا چاہتا ہوں، اُس کی sincerity دیکھنا چاہتا ہو ں اُس پروپوزل کے حوالے سے۔”

وہ ہول کر رہ گئی تھی ” کیا مطلب ہے تمہارا سالار؟ تم ایک تیرہ سال کے بچے کے پروپوزل کی بات کررہے ہو… ایک غیر مسلم کی… اور تم اپنی بیٹی کے لئے اسے consider کرنے کی بات کررہے ہو؟ تمہارا دماغ ٹھیک ہے نا؟ یہ مذاق نہیں ہے…”امامہ نے بے حد خفا ہوکر اُس سے کہا تھا۔

”ہاں میں جانتا ہوں یہ مذاق نہیں ہے۔ وہ تیرہ سال کا بچّہ ہے ، یہ میں بھی جانتا ہوں… غیر مسلم ہے ، یہ بھی میں جانتا ہوں… لیکن وہ تیرہ سال کا بچّہ اگر دس گیارہ سال کی عمر میں بھی یہی پروپوزل دیتا ہے اور اپنے وعدے کی پاسداری کررہا ہے تو پھر میں اُسے غیر سنجیدگی سے نہیں لے سکتا۔” سالار اب سنجیدہ ہوگیا تھا۔ امامہ بے یقینی سے اُس کا چہرہ دیکھتی رہی۔

”تم عنایہ کے لئے اُسے consider نہیں کرسکتے…Don’t tell me کہ تم ایسا کررہے ہو؟”

”میں صرف اُس ایک option کو دیکھ رہا ہوں جو زندگی میں پہلی بار میری بیٹی کے حوالے سے آیا ہے۔” سالار نے جواباً کہاتھا۔

”سالار میں کسی غیر مسلم کا option اپنی بیٹی کے لئے considerنہیں کروں گی۔” امامہ نے دو ٹوک انداز میں اُس سے کہا ”مذاق میں بھی نہیں۔” سالار نے اُس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

” کسی غیر مسلم کا option میں بھی consider نہیں کروں گا لیکن کسی ایسے غیر مسلم کا ایسا ضرور کروں گا جو مسلمان ہونے کی خواہش اور ارادہ رکھتا ہو۔” اُس نے بھی اُسی انداز میں کہا۔

”میں اُس option کو بھی consider نہیں کروں گی… میں نہ idealistic ہوں نہ ہی fantasies پر یقین رکھتی ہوں، میں اپنی بیٹی کو کسی مشکل صورت حال میں نہیں ڈالوں گی، ایسے کسی ممکنہ رشتے کے ذریعہ۔” امامہ نے اُس کی بات کے جواب میں کہا۔

”ہم رسک دوسروں کے لئے لے سکتے ہیں، دوسروں کی نصیحتیں بھی کرسکتے ہیں اور دوسروں کو ایسے بڑے کاموں پر اکسا بھی سکتے ہیں اور اُن کی حوصلہ افزائی بھی کرسکتے ہیں لیکن یہ سب چیزیں اپنے بچوں کے لئے ہم نہیں چاہ سکتے۔” وہ کہتی گئی تھی۔

”میں نے تم سے شادی کر کے ایک رسک لیا تھا امامہ… مجھے بھی بہت روکا گیا تھا… بہت سارے وہم میرے دل میں بھی ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی… دُنیا میں لوگ ایسے رسک لیتے ہیں، لینے پڑتے ہیں…” سالار نے جواباً اُس سے جو کہا تھا اُس نے امامہ کی زبان سے سارے لفظ چھین کر اُسے جیسے گونگا کردیا تھا… وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا لیکن اُسے ایرک کے ساتھ اپنا موازنہ اور اس انداز میں اچھا نہیں لگا تھا۔ ”ایرک اور مجھ میں بہت فرق ہے… مذہب میں فرق ہوگا، لیکن کلچر میں نہیں… ہم ہمسائے تھے ایک جیسے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے… بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔” وہ اپنے دفاع میں پرجوش دلائل دیتے دیتے یک دم اپنا جوش کھوتی چلی گئی ،اُسے یک دم اندازہ ہوا تھا کہ اپنے دماغ میں دیا جانے والا اُس کا ہر argument اُس کے اور ایرک کے درمیان موجود مماثلت کومزید ثابت کررہا تھا۔

”میں ایرک کے option پر غور نہیں کررہا… عبداللہ کے option پر کررہا ہوں… 13 سال کی عمر میں میں اپنی بیٹی کی کسی سے شادی نہیں کروں گا لیکن اگر 13 سال کی عمر میں بھی میری بیٹی کی وجہ سے کوئی میرے دین کی طرف راغب ہورہا ہے تو میں صرف اس لئے اسے shut up call نہیں دوں گا کہ یہ میری غیرت اور معاشرتی روایات پر ضرب کے برابر ہے… مجھے معاشرے کو نہیں، اللہ کو منہ دکھانا ہے۔” سالار نے جیسے ختم کرنے والے انداز میں بات کی تھی۔ امامہ قائل ہوئی یا نہیں، لیکن خاموش ہوگئی تھی،اُس کی بات غلط نہیں تھی لیکن سالار کی بھی درست تھی، وہ دونوں اپنے perspecitve سے سوچ رہے تھے اور دوسرے کے perspective کو بھی سمجھ رہے تھے۔ وہ پہلا موقع تھا جب امامہ نے شکر ادا کیا تھا کہ وہ پاکستان جارہے تھے اور عنایہ اور ایرک ایک دوسرے سے دور ہوجاتے تو اس کے خیال میں ایرک کے سر سے عنایہ کا بھوت بھی اُتر جاتا۔ سالار کے برعکس وہ اب بھی یہ ماننے پر تیّار نہیں تھی کہ ایرک کی اسلام اور عنایہ میں دلچسپی lasting ہوسکتی تھی۔اُسے یقین تھا 13 سال کو وہ بچہ 24-25 سال کا ہوتے ہوئے زندگی کے بہت سارے نشیب و فراز سے گزرتا اور زندگی کی رنگینیوں سے بھی متعارف ہوتا پھر سالار سکندر کا خاندان اور اُس خاندان کی ایک لڑکی عنایہ سکندر ایرک عبداللہ کو کہاں یاد رہتی اور اتنی یاد کہ وہ اُس کے لئے اپنا مذہب چھوڑ کر اُس کے پیچھے آتا… امامہ اس بات پر بھی اللہ تعالیٰ کی شکرگزار تھی کہ وہ سب کچھ one sided تھا اگر عنایہ اس کا حصہ ہوتی تو اُس کی پریشانی اس سے سوا ہوتی۔

******

”ممی ایرک ہمارے ساتھ پاکستان جانا چاہتا ہے۔” کچن میں کام کرتی امامہ ٹھٹھک گئی۔ عنایہ اُس کے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹارہی تھی جب اُس کے ساتھ کام کرتے کرتے اُس نے اچانک امامہ سے کہا تھا۔ امامہ نے گردن موڑ کر اس کا چہرہ بغور دیکھا تھا۔ عنایہ اُس کی طرف متوجہ نہیں تھی، وہ ڈش واشر میں برتن رکھ رہی تھی۔

”تمہیں پتہ ہے ایرک نے تمہارے پاپا کو خط لکھا ہے۔” امامہ نے کُریدنے والے انداز میں یک دم عنایہ سے کہا۔ وہ کچھ گلاس رکھتے ہوئے چونکی اور ماں کو دیکھنے لگی، پھر اُس نے کہا۔

”اُس نے پاپا سے بھی یہی بات کی ہوگی… وہ بہت اپ سیٹ ہے چند دنوں سے… ہر روز مجھے request کررہا ہے کہ یا تو اُس کو بھی ساتھ لے جاؤں یا پھر خود بھی یہی رہ جاؤں۔” اُس کی بیٹی نے بے حد سادگی سے اُس سے کہا تھا۔ وہ اب دوبارہ برتن رکھنے میں مصروف ہوگئی تھی۔

امامہ اپنے جس خدشے کی تصدیق کرنا چاہ رہی تھی، اُس کی تصدیق نہ ہونے پر اُس نے جیسے شکر کیا تھا… وہ خط کے مندرجات سے واقف نہیں تھی۔

”مجھے ایرک پر ترس آتا ہے۔” عنایہ نے ڈش واشر بند کرتے ہوئے ماں سے کہا۔ امامہ نے کچن کیبنٹ بند کرتے ہوئے ایک بار پھر اُسے دیکھا، عنایہ کے چہرے پر ہمدردی تھی اور ہمدردی کے علاوہ اور کوئی تاثر نہیں تھا اور اس وقت امامہ کو اُس ہمدردی سے بھی ڈر لگا تھا۔

”کیوں ترس آتا ہے؟ ” امامہ نے کہا ”کیوں کہ وہ بہت اکیلا ہے۔” عنایہ نے جواباً کہا ”خیر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔اُس کی فیملی ہے… ممی بہن بھائی دوست… پھر اکیلا کہاں سے۔” ” لیکن ممی وہ اُن سب سے اُس طرح close تو نہیں ہے جس طرح ہم سے ہے۔” عنایہ نے اُسے defendکیا ”تو یہ اُس کا قصور ہے، وہ گھر میں سب سے بڑا ہے، اُسے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خود خیال رکھنا چاہیے۔” امامہ نے جیسے ایرک کو قصور وار ٹھہرانے کی کوشش کی۔

”اگر جبریل اپنی فیملی کے بجائے کسی دوسرے کی فیملی کے ساتھ اس طرح attach ہوکر یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ اکیلا ہے تو تمہیں کیسا لگے گا؟” امامہ نے جیسے اُسے ایک بے حد مشکل equation حل کرنے کے لئے دے دی تھی۔ عنایہ کچھ دیر کے لئے واقعی ہی بول نہیں پائی پھر اُس نے بے حد مدپم آواز میں کہا۔

”ممّی ہر ایک جبریل کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا۔” امامہ کو اُس کا جملہ عجیب طرح سے چبھا، اُس کی بیٹی نے شاید زندگی میں پہلی بار کسی دوسرے شخص کے بارے میں اپنی ماں کی رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے جیسے اُسے defend کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کوشش نے امامہ کو پریشان کیا تھا۔

”ایرک چھوٹا بچہ نہیں ہے عنایہ!” امامہ نے کچھ تیز آواز میں اُس سے کہا۔

” وہ 13 سال کا ہے… ” اُس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ عنایہ نے حیران ہوکر ماں کا چہرہ دیکھا نہ اُسے اور نہ ہی خود امامہ کو سمجھ آئی تھی کہ اس جملے کا مطلب کیا تھا۔ واحد چیز جو عنایہ اخذ کرپائی تھی وہ یہ تھی کہ اُس کی ماں کو اس وقت ایرک کا تذکرہ اور اُس کی زبان سے تذکرہ اچھا نہیں لگا تھا لیکن یہ بھی حیران کن بات تھی کیوں کہ ایرک کا ذکر اُن کے گھر میں اکثر ہوتا تھا۔

”ممّی کیا میں ایرک کا خط پڑھ سکتی ہوں؟” غیر متوقع طور پر عنایہ نے فرمائش کی تھی، جبکہ امامہ سمجھ رہی تھی وہ اب گفتگو کا موضوع بدل دے گی۔

”نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔” امامہ نے حتمی انداز میں کہا ، وہ اب اس موضوع کو شروع کردینے پر پچھتا رہی تھی۔

”حمین نے پڑھا ہوگا وہ خط۔ ایرک اُسے ایک خط پڑھا رہا تھا… میرا خیال ہے یہ وہی خط ہوگا۔”

عنایہ نے کچن سے نکلتے ہوئے اُس کے اوپر جیسے بجلی گرائی تھی ”حمین نے؟” امامہ کو یقین نہیں آیا۔



قسط نمبر 38۔

”ہاں… میں نے ایرک اور اُسے بیٹھے کوئی کاغذ پڑھتے دیکھا تھا… میرا خیال ہے یہ خط ہی ہوگا کیوں کہ ایرک ہر کام اُس سے پوچھ کر کررہا ہے آج کل… But I am not sure “عنایہ نے اپنے ہی اندازے کے بارے میں خود ہی بے یقینی کا اظہار کیا۔

”ہر شیطانی کام کے پیچھے حمین ہی کیوں نکلتا ہے آخر؟” امامہ نے دانت پیستے ہوئے سوچا تھا، وہ اس وقت یہ بھی بھول گئی تھی کہ اُسے کچن میں کیا کام کرنا تھا… اُسے اب یقین تھا کہ ایرک کو اس خط کا مشورہ دینے والا حمین ہی ہوسکتا تھا۔

******

اور امامہ کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ خط ایرک نے لکھا تھا اور حمین نے اُسے ایڈٹ کیا تھا۔ اُس نے اُس خط کے ڈرافٹ میں کچھ جذباتی جملوں کا اضافہ کیا تھا اور کچھ حد سے زیادہ جذباتی جملوں کو حذف کیا تھا۔

ایرک اُس کے پاس ایک خط کا ڈرافٹ لایا تھا… یہ بتائے بغیر کہ وہ خط وہ سالار سکندر کے نام لکھنا چاہتا تھا، اُس نے حمین سے مدد کی درخواست کی تھی کہ وہ ایک مسلم گرل فرینڈ کو پرپوز کرنا چاہتا تھا اور اُس کے باپ کو خط لکھنا چاہتا تھا۔ حمین نے جواباً اسے مبارک باد دی تھی۔ایرک نے اُس سے کہا تھا کہ کیوں کہ وہ مسلم کلچر کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا اس لئے اُسے اُس کی مدد درکار تھی، اور حمین نے وہ مدد فراہم کی تھی۔

محمد حمین سکندر نے Muslim sensitivites کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُس کے لیٹر کو redraft کیا تھا اور ایرک نے نہ صرف اُس کا شکریہ ادا کیا تھا بلکہ جب سالار سکندرنے اُسے ملاقات کی دعوت دی تواُس نے حمین کو اس بارے میں بھی مطلع کیا تھا۔حمین کی excitement کی کوئی حد نہیں تھی… اُس کا دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ ایرک کا یہ راز سب سے کہہ دے، لیکن اُس نے ایرک سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس راز کو کسی سے نہیں کہے گا۔ عنایہ نے ایک آدھ دن اُس گٹھ جوڑ کے بارے میں اُسے کریدنے کی کوشش کی تو بھی اُس نے صرف یہ کہا تھا کہ وہ ایک ضروری لیٹر لکھنے میں ایرک کی مدد کررہا تھا، لیکن خط کس کے نام تھا اور اُس میں کیا لکھا جارہا تھا عنایہ کے کُریدنے پر بھی حمین نے یہ راز نہیں اُگلا تھا۔

”مجھے پتہ ہے ایرک نے وہ خط کس کے لئے لکھوایا تھا۔” عنایہ امامہ کے پاس سے ہوکر سیدھا حمین کے پاس پہنچی تھی۔وہ اُس وقت اپنے کمرے میں کمپیوٹر پر کوئی گیم کھیلنے میں مصروف تھا اور عنایہ کے اس تبصرے پر اُس نے بے اختیار دانت پیستے ہوئے کہا ” مجھے پہلے ہی پتہ تھا وہ کوئی راز نہیں رکھ سکتا۔ مجھے کہہ رہا تھا کسی کو نہ بتاؤں خاص طور پر تمہیں…اور اب خود تمہیں بتادیا اُس نے۔” حمین خفا تھا ،اُس کا اندازہ یہی تھا کہ یہ راز ایرک نے خودہی فاش کیا ہوگا۔

”ایرک نے مجھے نہیں بتایا… مجھے تو ممّی نے بتایا ہے۔”اس بار حمین گیم کھیلنا بھول گیا تھا، اُس کے ہیرو نے اُس کے سامنے اونچی چٹان سے چھلانگ لگائی اور وہ اُسے سمندر میں گرنے سے نہیں بچا پایا… کچھ ویسا ہی حال اُس نے اپنا بھی اس وقت محسوس کیا تھا… ایک دن پہلے ہی اس کے اور ممّی کے تعلقات میں پاکستان جانے کے فیصلے نے پھر سے گرم جوشی پیدا کی تھی اور اب یہ انکشاف۔

”ممّی نے کیا بتایا ہے؟” حمین کے منہ سے ایسے آواز نکلی جیسے اُس نے کوئی بھوت دیکھا تھا۔

”ممّی نے بتایا کہ ایرک نے پاپا کو کوئی خط لکھا ہے اور مجھے فوراً خیال آیا کہ جو خط تم پڑھ رہے تھے، وہ وہی ہوسکتا ہے۔”عنایہ روانی میں بتارہی تھی اور حمین کے دماغ میں جیسے دھماکے ہورہے تھے… کاٹو تو بدن میں لہو نہ ہونا اس وقت اُس پر مصداق ثابت ہوتا۔ ایسی کون سی مسلم گرل فرینڈ بن گئی تھی یک دم ایرک کی جس کے باپ کو خط لکھوانے کے لئے اس کی ضرورت پڑتی جبکہ 24 گھنٹے وہ اگر کسی کے گھر بھی آتا تھا تو وہ خود ان ہی کا گھر تھا پھر اُس کی عقل میں یہ بات کیوں نہیں آئی یا وہ excitement میں اتنا ہی اندھا ہوگیا تھا کہ اُس نے یہ سوچ لیا کہ ایرک کبھی عنایہ کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں سوچ سکتا… حمین اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا… اور ملامت بڑا چھوٹا لفظ تھا اُن الفاظ کے لئے جو وہ اُس وقت اپنے اور ایرک کے لئے استعمال کررہا تھا۔

”تم بول کیوں نہیں رہے؟” عنایہ کو اُس کی خاموشی کھٹکی تھی۔”میں نے سوچا ہے میں اب کم بولوں اور زیادہ سوچوں۔” حمین نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے اُس تک وہ خبر پہنچائی جس پر اُسے یقین نہیں آیا۔

“Keep dreaming”اُس نے اپنے چھوٹے بھائی کو tease کرنے والے انداز میں کہا۔

” ممّی نے تمہیں بتایا اُس خط میں کیا ہے؟” حمین اس وقت گلے گلے اس دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔

”نہیں لیکن میں نے انہیں بتایا کہ یہ خط حمین کی مدد سے لکھا گیا ہوگا، میں اُس سے پوچھ لوں گی… اُس خط میں کیا لکھا تھا ایرک نے پاپا کو؟” عنایہ اب اُس سے پوچھ رہی تھی۔ حمین بے اختیار کراہا تھا… وہ مصیبت کو دعوت نہیں دیتا تھا…مصیبت خود آکر اُس کے گلے کا ہار بن جاتی تھی۔

******

ایرک کو سالار نے خود دروازے پر ریسیو کیا تھا وہ ویک اینڈ تھا اور اس وقت اُن کے بچے سائیکلنگ کے لئے نکلے ہوئے تھے… گھر پر صرف امامہ اور سالار تھے۔

”یہ آپ کے لئے!” ایرک نے اپنے ایک ہاتھ میں پکڑے چند پھول جو گلدستے کی شکل میں بندھے ہوئے تھے اُس کی طرف بڑھادیے۔ سالار نے ایک نظر اُن پھولوں پر ڈالی، اُسے یقین تھا اُس میں سے کچھ خود اُس ہی کے لان سے لئے گئے تھے لیکن اُس نے اسے نظر انداز کیا تھا۔

”اس کی ضرورت نہیں تھی۔” اُس نے اُسے اندر لاتے ہوئے شکریہ کے بعد کہا۔ ایرک فارمل میٹنگ کے لئے آیا تھا اور آج پہلی بار سالار نے اُسے فارمل گیٹ اپ میں دیکھا تھا۔

”بیٹھو” سالار نے اُسے وہیں لاؤنج میں ہی بیٹھنے کے لئے کہا۔ ایرک بیٹھ گیا ۔سالار اُس کے بالمقابل بیٹھا اور اُس کے بعد اُس نے ٹیبل پر پڑا ایک لفافہ کھولا۔ ایرک نے پہلی بار غور کیا، وہ اُسی کا خط تھا اور سالار اب اُس خط کو دوبارہ کھولتے ہوئے دیکھ رہاتھا۔ ایرک بے اختیار نروس ہوا تھا۔ خط لکھ بھیجنا اور بات تھی اور اب اُسی خط کو اپنے اپنے اُس بندے کے ہاتھ میں دیکھنا جس کے نام وہ لکھا گیا تھا، دوسری۔

سالار نے ایک ڈیڑھ منٹ لیا پھر اُس خط کو ختم کرتے ہوئے ایرک کو دیکھا۔ ایرک نے نظریں ہٹالیں۔

”کیا عنایہ کو پتہ ہے تمہاری اس خواہش کے بارے میں؟” سالار نے بے حد ڈائریکٹ سوال کیا تھا۔

”میں نے مسز سالار سے وعدہ کیا تھا کہ میں عنایہ سے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کروں گا اس لئے میں نے آپ کو خط لکھا ” ایرک نے جواباً کہا ، سالار نے سر ہلایا اور پھر کہا۔

”اور یہ واحد وجہ ہے جس کی وجہ سے میں نے تمہیں یہاں بلایا ہے، تمہارا خط پھاڑ کر نہیں پھینکا… تم وعدہ کر کے نبھا سکتے ہو، یہ بہت اچھی کوالٹی ہے۔”

سالار سنجیدہ تھا اور اُس نے بے حد بے دھڑک انداز میں کہا تھا۔ ایرک کی تعریف کی تھی ، لیکن اُ س کے لہجے اور چہرے کی سنجیدگی نے ایرک کو خائف کیا تھا۔

”تو تم عنایہ سے شادی کرنا چاہتے ہو؟” سالار نے اُس خط کو اب واپس میز پر رکھ دیا تھا اور اُس کی نظریں ایرک پر جمی ہوئی تھیں۔ ایرک نے سر ہلایا۔ ”پہلی بات یہ ایرک کہ صرف شادی کی نیّت کر کے مذہب بدل لینا بہت چھوٹی بات ہے… ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے،اسے بہت پسند نہیں کرتا۔” سالار نے کہا۔

”تمہارے پاس مسلمان ہونے کے لئے میری بیٹی سے شادی کے علاوہ کوئی اور وجہ ہے؟” سالار نے اُسی انداز میں اُس سے اگلا سوا ل کیا تھا۔ ایرک خاموش بیٹھا اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔

”مذہب کی تبدیلی ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اور یہ نفس کی کسی خواہش کی وجہ سے نہیں ہونا چاہیے، عقل کا فیصلہ ہونا چاہیے… کیا تمہاری عقل تمہیں یہ کہتی ہے کہ تمہیں مسلمان بن کر اپنی زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزارنی چاہیے؟” اُس نے ایرک سے پوچھا، وہ گڑبڑایا۔

”میں نے اس پر سوچا نہیں” ”میرا بھی یہی اندازہ ہے کہ تم نے اس پر سوچا نہیں… اس لئے بہتر ہے پہلے تم اس پر اچھی طرح سوچو۔” سالار نے جواباً اس سے کہا۔

”میں کل پھر آؤں؟” ایرک نے اُس سے کہا ”نہیں تم ابھی کچھ سال اس پر سوچو… کہ تمہیں مسلمان کیوں بننا ہے، اور اُس کی وجہ عنایہ نہیں ہونی چاہیے۔” سالارنے اُس سے کہا۔

”میں ویسے بھی عنایہ کی شادی ”صرف مسلمان” سے نہیں کروں گا، مسلمان ہونے کے ساتھ اُسے ایک اچھا انسان بھی ہونا چاہیے۔” اُس نے کہا۔

ایرک کے چہرے پر یک دم مایوسی اُبھری۔

”یعنی آپ میرا پروپوزل قبول نہیں کررہے؟” اُس نے سالار سے کہا۔

”فوری طور پر نہیں، لیکن تقریباً دس سال بعد جب مجھے عنایہ کی شادی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا تو میں تمہیں ضرور consider کروں گا… لیکن اس کے لئے ضروری ہے ان دس سالوں میں تم ایک اچھے مسلمان کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بن کر بھی رہو۔” سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

“?Can you guide me to this”ایرک نے یک دم کہا۔ سالار چند لمحے خاموش رہا، وہ اُسی ایک چیز سے بچنا چاہتا تھا، اسی ایک چیز کو avoid کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اب ایرک نے اُس سے بالکل direct مدد مانگ لی تھی۔

”ہاں ہم سب تمہاری مدد کرسکتے ہیں، لیکن اُس کے لئے رشتہ جوڑنا ضروری نہیں ہے ایرک! ہم انسانیت کے رشتے کی بنیاد پر بھی تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔”سالار نے بالآخر جواباً کہا۔

13” سال کی عمر میں سکول میں پڑھتے ہوئے تم شادی کرنا چاہتے ہو اور تمہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ شادی ذمہ داریوں کا دوسرا نام ہے۔ تم اپنی فیملی کی ذمّہ داریوں سے بھاگتے ہوئے ایک اور فیملی بنانے کی کوشش کررہے ہو… تم اس فیملی کی ذمّہ داری کیسے اُٹھاؤ گے؟ مذہب بدل کر ایک دوسرے مذہب میں داخل ہونا اُس سے بھی بڑا کام ہے، کیا تمہارے پاس اتنا وقت اور passion ہے کہ تم اپنے اس نئے مذہب کو سمجھو، پڑھو اور اُس پر عمل کرو؟… کیا تم اُن پابندیوں سے واقف ہو جو یہ نیا مذہب تم پرلگائے گا…؟ ” سالار اب اُس پر جرح کررہا تھا۔

”میں قرآن پاک کو ترجمے سے پڑھ چکا ہوں، میں پہلے ہی سب چیزیں جانتا ہوں اور میں عمل کرسکتا ہوں۔” ایرک بھی سنجیدہ ہوگیا تھا۔

”ٹھیک ہے پھر ایسا کرتے ہیں دس سال کا ایک معاہدہ کرتے ہیں… اگر 23 سال کی عمر میں تمہیں لگا کہ تمہیں عنایہ سے ہی شادی کرنی ہے تو پھر میں عنایہ سے تمہاری شادی کردوں گا… شرط یہ ہے کہ ان دس سالوں میں تم کو ایک اچھے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان کے طور پر بھی نظر آنا چاہیے۔” سالار نے ایک اور بالکل سادہ کاغذ اُس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔

”یہ بہت لمبی مدّت ہے۔” ایرک نے سنجیدگی سے کہا تھا۔

”ہاں لیکن یہ وہ مدّت ہے جس میں مجھے تمہارے فیصلے تمہاری sincerity کو ظاہر کریں گے، تمہارے بچگانہ پن کو نہیں۔” سالار نے جواباً اس سے کہا۔ وہ سالار کو دیکھتا رہا بے حد خاموشی سے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے… پھر اُس نے کہا۔

”مسٹر سالار سکندر آپ مجھ پر دراصل اعتبار نہیں کررہے۔” اس نے بے حد blunt ہوکر سالار سے کہا۔

”اگر کررہے ہوتے تو مجھ سے دس سال کے انتظار کا نہ کہتے لیکن ٹھیک ہے، آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔” اُس نے کہا ، میز پر پڑا ایک قلم اُٹھایا وہاں پڑے سادے کاغذ کے بالکل نیچے اپنا نام لکھا،اپنے دستخط کئے اورتاریخ ڈالی پھر قلم بند کر کے واپس میز پر اُس کاغذ کے اوپر رکھ دیا۔ ”میں عنایہ سے متاثر نہیں ہوا، میں آپ اور آپ کے گھر سے متاثر ہوا … آپ کی بیوی کی نرم مزاجی اور آپ کی اصول پسندی سے… اُن values سے جو آپ نے اپنے بچوں کو دی ہیں… اور اس ماحول سے جہاں میں ہمیشہ آکر اپنا آپ بھول جاتا تھا…وہ مذہب یقیناً اچھا مذہب ہے جس کے پیروکار آپ لوگوں جیسے ہوں… میں عنایہ کے ساتھ ایک ایسا ہی گھر بنانا چاہتا تھا کیوں کہ میں بھی اپنی اور اپنے بچوں کے لئے ایسی زندگی چاہتا ہوں… میں جانتا تھا آپ لوگوں کے خاندان کا حصّہ بننا اتنا آسان نہیں ہوگا… لیکن میں کوشش کرتا رہوں گا… کیوں کہ کوشش تو آپ کا مذہب ہی کرنے کو کہتا ہے، جو اب میرا مذہب بھی ہوگا۔”

وہ کسی تیرہ سال کے بچّے کے الفاظ نہیں تھے اور وہ اتنے جذباتیت سے بھرپور بھی نہیں تھے جیسا اُس کا خط تھا ، لیکن اُس کے باوجود اُس کے اُن جملوں نے صرف سالار کو نہیں امامہ کو بھی بُری طرح متاثر کیا تھا… وہ چند لمحے پہلے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی اور اُس نے صرف ایرک کے جملے سنے تھے… ایرک اب اُٹھ کر کھڑا ہوچکا تھا… اُس نے امامہ کو بھی دیکھا اوراُسے ہمیشہ کی طرح سلام کیا، پھر خداحافظ کہہ کر وہاں سے نکل گیا۔ لاؤنج میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بیرونی دروازے کے بند ہونے کی آواز پر امامہ آگے بڑھ آئی تھی، اُس نے لاؤنج کی سینٹر ٹیبل پر پڑا وہ کاغذ اُٹھا کر دیکھا جس پر ایرک دستخط کر کے گیا تھا، اُس کاغذ پر صرف ایک نام تھا… عبداللہ…اور اُس کے نیچے دستخط اور تاریخ۔

امامہ نے سالار کو دیکھا، اُس نے ہاتھ بڑھا کر وہ کاغذ امامہ کے ہاتھ سے لیا، اُسے فولڈ کر کے اُسی لفافے میں ڈالا جس میں ایرک کا خط تھا اور پھر اُسے امامہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

”یہ دوبارہ آئے گا اور اگر میں نہ بھی ہوا اور یہ اپنے وعدے پر پورا اترا تو تم بھی اُس وعدے پر پورا اُترنا جو میں نے اُس سے کیا ہے۔امامہ نے کپکپاتی انگلیوں سے کچھ بھی کہے بغیر وہ لفافہ پکڑا تھا۔

*****

عائشہ عابدین کو زندگی میں پہلی بار اگر کسی لڑکے سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا تھا ، تو وہ جبریل سکندر تھا۔پاکستان میں رہتے ہوئے بھی اُس نے اپنی بڑی بہن نساء عابدین سے جبریل کے بارے میں اتنا کچھ سُن رکھا تھا کہ وہ ایک فہرست بناسکتی تھی۔ نساء جبریل کی کلاس فیلو تھی اور اُس سے ”شدید” متاثر اور مرعوب… اس کے باوجود کہ وہ خود ایک شاندار تعلیمی کیریئر رکھنے والی سٹوڈنٹ تھی

عائشہ فیس بک پر اپنی بہن کی وال پر اکثر جبریل کے comments پڑھتی تھی جو وہ اُس کی بہن کے status updates پر دیتا رہتا تھا… عائشہ بھی کئی بار ان updates پر تبصرہ کرنے والوں میں سے ہوتی تھی لیکن جبریل سکندر کی wit کا مقابلہ وہاں کوئی بھی نہیں کرپاتا تھا، اُس کے comments نساء عابدین کی وال پر بالکل الگ چمکتے نظر آتے تھے اور جب وہ کسی وجہ سے وہاں تبصرہ نہیں کرپاتا تو کئی بار اُس کے کلاس فیلوز کے تبصروں کی لمبی قطار کے بیچ میں جبریل کی خاموشی اور غیر حاضری کو بُری طرح miss کیا جاتا اور ان miss کرنے والوں میں سرفہرست عائشہ عابدین تھی جسے خود بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ جبریل کے comments پڑھتے پڑھتے بے حد addictive ہوگئی تھی۔

نساء کے ساتھ جبریل کی مختلف فنکشنز اور سرگرمیوں میں اکثر بہت ساری گروپ فوٹوز نظر آتی تھیں لیکن عائشہ کو ہمیشہ جبریل کی فیملی کے بارے میں curiosity تھی… وہ سالار سکندر سے واقف تھی کیوں کہ اُس کا تعارف نساء نے ہی کروایا تھا، لیکن اُس کی فیملی کے باقی افراد کو دیکھنے کا اُسے بے حد اشتیاق تھا اور یہی اشتیاق اُسے بار بار جبریل کی فرینڈز لسٹ میں نہ ہونے کے باوجود اُس کی تصویروں کو کھوجنے کے لئے مجبور کرتا تھا ،جہاں اُسے رسائی حاصل تھی… کچھ تصویریں وہ دیکھ سکتی تھی… کچھ وہ نہیں دیکھ سکتی تھی… لیکن ان تصویروں میں جن تک اُسے رسائی حاصل تھی اُن میں جبریل کی فیملی کی تصاویر نہیں تھیں۔

جبریل بھی غائبانہ طور پر عائشہ سے واقف تھا،اور اس تعارف کی وجہ فیس بک پر نساء کے status updates پر ہونے والے تبصروں میں اُن کا حصہ لینا تھا اور نساء نے اپنی وال پر جبریل کو اپنی بہن سے متعارف کروایا تھا۔ وہ غائبانہ تعارف بس اتنا ہی رہا تھا کیوں کہ جبریل نے کبھی اُس کی ID کھوجنے کی کوشش نہیں کی اور عائشہ کی اپنی وال پر تصویریں بہت کم تھیں، اُس سے بھی زیادہ کم وہ لوگ تھے جنہیں اُس نے اپنی contact list میں addکیا ہوا تھا… نساء کے برعکس اُس کا حلقہ احباب بے حد محدود تھا، اور اُس کی کوشش بھی یہی رہتی تھی کہ وہ اُسے اتنا ہی محدود رکھے۔

عائشہ کو جبریل کے بارے میں ہمیشہ یہ غلط فہمی رہی کہ وہ نساء میں انٹرسٹڈ تھا اور اس تاثر کی بنیادی وجہ خود نساء تھی جو اس بات کو ایڈمٹ کرنے میں کبھی تامّل نہیں کرتی تھی کہ عمر میں اُس سے چھوٹا ہونے کے باوجود وہ جبریل کو پسند کرتی تھی… ایک دوست کے طور پر جبریل کی اُس سے بے تکلفی تھی، ویسی ہی بے تکلّفی جیسی اُس کی اپنی دوسری کلاس فیلوز سے بھی تھی اور نساء نے کبھی اس بے تکلّفی کو misinterpret نہیں کیا تھا۔ کیوں کہ جبریل لڑکیوں کے ساتھ بے تکلّفی اور دوستی میں بھی بہت ساری حدود و قیود رکھتا تھا اور بے حد محتاط تھا۔ نساء عمر میں اُس سے چار سال بڑی تھی… وہ اپنے قد کاٹھ اور maturity دونوں سے پندرہ سولہ سال کا نہیں لگتا تھا اور نساء یہ بھی جانتی تھی۔ یونیورسٹی میں اتنا وقت گزارلینے کے باوجود جبریل ابھی تک گرل فرینڈ نامی کسی بھی چیز کے بغیر تھا ، تو ایسے حالات میں سالار سکندر کی اُس لائق اولاد پر قسمت آزمائی کرنے کے لئے کوئی بھی تیّارہوسکتا تھا… صرف نساء ہی نہیں۔

عائشہ عابدین ان سب چیزوں سے واقف تھی… نساء کی جبریل میں دلچسپی اُن کے گھر میں ایک اوپن سیکرٹ تھا لیکن ان دونوں کے future کے حوالے سے نہ تو اُن کو کوئی assurance تھی نہ ہی کسی اور کو… نساء ذہانت اور قابلیت سے متاثر ہونے والوں میں سے تھی اور جبریل سکندر وہ پہلا شخص نہیں تھا جس نے اُسے متاثر کیا تھا، مگر فی الحال یہ جبریل ہی تھا جس کا ذکر وہ کرتی رہتی تھی۔

عائشہ عابدین ایک passive observer کی طرح یہ سب کچھ دیکھتی آرہی تھی اور جب تک وہ جبریل سے ملی، وہ اُس سے پہلے ہی بہت متاثر تھی۔

یونیورسٹی کے ایک فنکشن میں وہ پہلی بار جبریل سے بالآخر ملنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ نساء کو اندازہ نہیں تھا کہ عائشہ صرف جبریل سے ملنے کے لئے اُس کے ساتھ یونیورسٹی آنے پر تیّار ہوئی ہے ، ورنہ وہ جب بھی امریکہ آتی اُن سب کی کوششوں کے باوجود اپنی مرضی کی جگہوں کے علاوہ کہیں نہیں جاتی تھی… یونیورسٹی میں ہونے والی کوئی تقریب تو وہ شاید کوئی آخری چیز تھی جس کے لئے عائشہ یونیورسٹی آئی اور نساء نے یہ بات جبریل سے اُسے متعارف کرواتے ہوئے کہہ بھی دی تھی۔

جبریل سکندر وہ پہلا لڑکا تھا جسے دیکھنے کا عائشہ عابدین کو اشتیاق ہوا تھا اور جبریل سکندر ہی وہ پہلا لڑکا تھا جسے عائشہ عابدین اپنے ذہن سے نکالنے میں اگلے کئی سال تک کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔

تصویریں کبھی کبھار کسی شخص کی شخصیت اور وجاہت کو کیموفلاج کردیتی ہیں… اور بہت اچھا کرتی ہیں۔ محمد جبریل سکندر charismatic تھا…خطرناک حد تک متاثر اور مرعوب کرنے والی شخصیت رکھتا تھا… 16 سال کی عمر میں بھی وہ تقریباً چھے فٹ قد کے ساتھ سالار سکندر کی گہری سیاہ آنکھیں اور اپنی ماں کے تیکھے نین نقوش اور بے حد بھاری آواز کے ساتھ ایک عجیب ٹھہراؤ کا منبع دِکھتا تھا… ایک بے حد casual ڈارک بلو جینز اور دھاری دار بلیک اینڈ وائٹ ٹی شرٹ میں ملبوس جبریل سکندر مسکراتے ہوئے پہلی بار عائشہ عابدین سے مخاطب ہوا تھا اور وہ بُری طرح نروس ہوئی تھی… وہ نروس ہونا نہیں چاہتی تھی لیکن جبریل سے وہاں کھڑے صرف مخاطب ہونا بھی اُسے اُس کے پیروں سے ہلانے کے لئے کافی تھا۔ وہ صرف نساء ہی نہیں کسی بھی عمر کی کسی بھی لڑکی کو پاگل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ عائشہ عابدین نے دل ہی دل میں اعتراف کیا تھا۔

”کیوں؟ آپ کو اچھا نہیں لگتا امریکہ آکر گھومنا پھرنا؟” اُس نے نساء کے کسی تبصرے پر عائشہ سے پوچھا تھا۔

” نہیں مجھے اچھا لگتا ہے، لیکن بہت زیادہ نہیں۔” وہ گڑبڑائی۔ اُس نے خود کو سنبھالا ،پھر جبریل کے سوال کا جواب دیا جس کی آنکھیں اُسی پر ٹکی ہوئی تھیں۔ وہ اب سینے پر بازو لپیٹے ہوئے تھا۔ وہ اُس کے جواب پر مسکرایا تھا پھر اُس نے نساء کو فنکشن کے بعد عائشہ کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ میں کافی کی دعوت دی تھی جو نساء نے قبول کرلی تھی ، وہ دونوں اپنے کچھ دوستوں کا انتظار کرتے ہوئے گپ شپ میں مصروف ہوگئے تھے…عائشہ ایک بار پھر passive observer بن گئی تھی۔ نساء ایک بہت dominating لڑکی تھی اور گھر میں وہ ہر کام اپنی مرضی اور اپنے طریقے سے کروانے کی عادی تھی لیکن عائشہ نے نوٹس کیا تھا، نساء جبریل کے ساتھ اُس طرح نہیں کررہی تھی۔ وہ اُس کی پوری بات سن کر کچھ کہتی اور اُس کی بہت سی باتوں سے اتفاق کررہی تھی۔ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے عائشہ عابدین کو وہ بے حد اچھے لگ رہے تھے… ایک پرفیکٹ کپل… جس پر اُسے رشک آرہا تھا اور جبریل سے اس طرح متاثر ہونے کے باوجود وہ اُسے نساء کی زندگی کے ساتھی کے طور پر ہی دیکھ رہی تھی… نساء کا taste اور چوائس ہر چیز میں اچھی اور منفرد تھی اور جبریل اُس کا ایک اور ثبوت ہے۔

فنکشن کے بعد وہ نساء اور جبریل کے کچھ دوستوں کے ساتھ ایک کیفے میں کافی پینے گئی تھی، یہ ایک اتفاق تھا یا خوش قسمتی کہ چھے لوگوں کے اُس گروپ میں جبریل اور عائشہ کی سیٹس ایک دوسرے کے ساتھ تھیں۔ نساء جبریل کے بالمقابل میز کے دوسری جانب تھی اور عائشہ کے دوسری طرف نساء کی ایک اور دوست سوزین۔

عائشہ عابدین کی nervousness اب اپنی انتہا کو تھی۔ وہ اُس کے اتنے قریب تھی کہ اُس کے پرفیوم کی خوشبو محسوس کررہی تھی۔ ٹیبل پر دھرے اُس کے ہاتھ کی کلائی میں بندھی گھڑی سے ڈائل پر ٹک ٹک کرتی سوئی دیکھ سکتی تھی لیکن اگر وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی تو وہ گردن موڑ کر اُسے اتنے قریب سے دیکھنا تھا…وہ غلط جگہ بیٹھ گئی تھی عائشہ عابدین کومینیو دیکھتے ہوئے احساس ہوا تھا۔

جبریل میزبان تھا اور وہ سب ہی سے پوچھ رہا تھا، اُس نے عائشہ سے بھی پوچھا تھا۔ عائشہ کو مینیو کارڈ پر اُس وقت کچھ بھی لکھا نہیں دکھ رہا تھا۔ جو دکھ بھی رہا تھا وہ اس احساس سے غائب ہوگیا تھا کہ وہ گردن موڑ کر اُسے دیکھ رہا تھا۔ ”جو سب لیں گے میں بھی لے لوں گی۔” عائشہ نے جیسے سب سے محفوظ حل تلاش کیاتھا، جبریل مسکرایا اور اُس نے اپنا اور اُس کا آرڈر ایک ہی جیسا نوٹ کروایا۔ وہ ایک ویجی ٹیبل پیزا تھا جسے اُس نے ڈرنکس کے ساتھ آرڈر کیا تھا اور بعد میں کافی کے ساتھ چاکلیٹ موز… نساء اپنا آرڈر پہلے دے چکی تھی اور باقی سب لوگ بھی اپنے آرڈر نوٹ کروارہے تھے…ہیم برگر… شرمپس…stuffed turkey… یہ امریکن دوستوں کے آرڈرز تھے…نساء نے ایک Salmon Sandwichمنگوایا تھا۔

”میں اس سال میڈیکل میں چلی جاؤں گی، میرا ایڈمیشن ہوگیا ہے۔”روٹین کی گفتگو کے دوران جبریل کے سوال پر یک دم اُس نے بتایا۔

“Fantastic!”اُس نے جواباًمسکراتے ہوئے کہا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ خود بھی میڈیسن میں ہی جارہا تھا۔

وہ سب لوگ گفتگو میں مصروف تھے اور اس گفتگو میںاُس کی خاموشی کو جبریل ہی وقتاً فوقتاً ایک سوال سے توڑتا… وہ جیسے اُسے بوریت سے بچانے کی کوشش کررہا تھا یا پھر engage کرنے کی… اور عائشہ نے یہ چیز محسوس کی تھی۔ وہ جن ٹین ایجرز کو جانتی تھی، وہ اور طرح کے تھے… یہ اور طرح کا تھا۔

کھانا آنے پر وہ اُسی طرح گفتگو میں مصروف خود کھانے کے ساتھ ساتھ عائشہ کو بھی سرو کرتا رہا۔ یوں جیسے وہ روٹین میں یہ سب کرنے کا عادی رہا ہو۔

محمد جبریل سکندر سے ہونے والی وہ پہلی ملاقات اور اُس میں ہونے والی ایک ایک چیز عائشہ عابدین کے ذہن اور دل دونوں پر نقش ہوگئی تھیں۔

”جس بھی لڑکی کا یہ نصیب ہوگا، وہ بے حد خوش قسمت ہوگی۔” اُس نے سوچا تھا ” کاش یہ نساء ہی کو مل جائے!” اُس نے بے حد دل سے خواہش اور دعا کی تھی۔ اُس عمر میں بھی اُس نے اپنی زندگی کے حوالے سے کچھ بھی سوچنا شروع نہیں کیا تھا۔ اگر کرتی تو جبریل وہ پہلا لڑکا ہوتا جس جیسے شخص کی خواہش وہ اپنے لئے بھی کرتی۔ جبریل نے اُس کے لاشعورکو اُس پہلی ملاقات میں اس طرح اثر انداز کیا تھا۔

”میں تمہارے لئے بہت دعا کررہی ہوں نساء… کہ تمہاری شادی جبریل سے ہوجائے… جب بھی ہو… وہ بہت اچھا ہے۔” اس کیفے سے اُس شام گھر واپس آنے کے بعد عائشہ نے نساء سے کہاتھا۔ وہ جواباً ہنسی۔

”خیر ابھی شادی وغیرہ کا تو کوئی سین نہیں ہوسکتا ہم دونوں کے لئے… وہ بہت young ہے اور مجھے اپنا کیریئر بنانا ہے، لیکن مجھے وہ بہت پسند ہے…اور اگر کبھی بھی اُس نے مجھ سے کچھ کہا تو میں انکار نہیں کروں گی… کون انکار کرسکتا ہے جبریل کو۔” اپنے بیڈروم میں کپڑے تبدیل کرنے کے لئے نکالتے ہوئے نساء نے اُس سے کہا۔

”اُس کے ماں باپ نے بہت اچھی تربیت کی ہے اُس کی…تم نے دیکھا وہ کس طرح تمہیں توجہ دے رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں میں کبھی اپنے ساتھ کوئی guest لے کر گئی ہوں اور جبریل نے اُسے اس طرح attention نہ دی ہو۔” وہ کہتی چلی گئی۔عائشہ کا دل عجیب انداز میں بُجھا… تو وہ توجہ سب ہی کے لئے ہوتی تھی اور عادت تھی، favor نہیں۔اُس نے کچھ مایوسی سے سوچا “Fair enough”

”تمہیں پتہ ہے مجھے کیوں اچھا لگتا ہے وہ…؟”نساء اُس سے کہہ رہی تھی”وہ حافظِ قرآن ہے… بے حد practising ہے… کبھی تم اُس کی تلاوت سنو… لیکن اتنا مذہبی ہونے کے باوجود وہ بہت لبرل ہے…تنگ نظر نہیں ہے جیسے بہت سارے new born Muslims ہوجاتے ہیں… نہ ہی اس کو میں نے کبھی دوسروں کے حوالے سے judgemental پایا ہے… مجھے نہیں یاد کبھی اُس نے میرے یاکسی اور فی میل کلاس فیلو کے لباس کے حوالے سے کچھ کہا ہو… یا ویسے کسی کے بارے میں comment کیا ہو…Never ”

نساء کہتی جارہی تھی وہ لباس کے معاملے میں خاصی ماڈرن تھی اور اُسے یہ قابلِ قبول نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی اُس پر اس حوالے سے کوئی قدغن لگاتا اور جبریل میں اُسے یہ خوبی بھی نظر آگئی تھی۔

عائشہ بالکل کسی سحر زدہ معمول کی طرح یہ سب سُن رہی تھی۔ نساء کے انکشافات نے جیسے عائشہ کے لئے اُس کی زندگی کے آئیڈیل لائف پارٹنر کی چیک لسٹ میں موجود اینٹریز کی تعداد بڑھادی تھی۔

اُس رات عائشہ عابدین نے بڑی ہمّت کر کے جبریل کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجی تھی اور پھر کئی گھنٹے وہ اس انتظار میں رہی کہ وہ کب اُسے add کرتا ہے۔

وہ فجر کے وقت نمار کے لئے اُٹھی تھی اور اُس وقت نماز پڑھنے کے بعدا ُس نے ایک بارپھر فیس بُک چیک کیا تھا اور خوشی کی ایک عجیب لہر اُس کے اندر سے گزری تھی، وہ add ہوچکی تھی… اور جو پہلی چیز عائشہ نے کی تھی، وہ اُس کی تصویروں میں اُس کی فیملی کی تصویروں کی تلاش تھی اور اُسے ناکامی نہیں ہوئی تھی۔اُس کے اکاؤنٹ میں اس کی فیملی کی بہت ساری تصاویر تھیں… سالار سکندر کی…حجاب میں ملبوس امامہ کی…اُس کی ٹین ایجر بہن عنایہ کی… حمین کی… اور رئیسہ کی… جبریل کے انکلز اور کزنز کی جو اُن کی فیملی کے برعکس بے حد ماڈرن نظر آرہے تھے لیکن اُن سب میں عجیب ہم آہنگی نظر آرہی تھی۔

وہ جبریل سکندر سے دوستی کرنا چاہتی تھی لیکن وہ ہمّت نہیں کرپائی تھی…لیکن وہ اور اُس کی فیملی فیملی یک دم جیسے اُس کے لئے ایک آئیڈیل فیملی کی شکل اختیار کرگئے تھے…ایسی فیملی جس کا وہ حصہ بننا چاہتی تھی… وہ اُس فیملی کا حصہ نہیں بن سکی تھی لیکن عائشہ عابدین کو احسن سعد اور اُس کی فیملی سے پہلی بار متعارف ہوکر بھی ایسا ہی لگا تھا کہ وہ جبریل سکندر جیسا خاندان تھا…اور احسن سعد جبریل سکندر جیسا مرد…قابل، باعمل مسلمان، حافظِ قرآن…

عائشہ عابدین نے جبریل سکندر کے دھوکے میں احسن سعد کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

******

اس کتاب کا پہلا باب اگلے نو ابواب سے مختلف تھا۔ اسے پڑھنے والا کوئی بھی شخص یہ فرق محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ پہلا باب اور اگلے نو ابواب ایک شخص کے لکھے ہوئے نہیں لگ رہے تھے۔وہ ایک شخص نے لکھے تھے بھی نہیں۔

وہ جانتی تھی وہ اُس کی زندگی کی پہلی بددیانتی تھی، لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ وہی آخری بھی ہوگی۔اس کتاب کا پہلا باب اس کے علاوہ اب اور کوئی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ اُس نے پہلا باب بدل دیا تھا۔

نم آنکھوں کے ساتھ اُس نے پرنٹ کمانڈ دی۔ پرنٹر برق رفتاری سے وہ پچاس صفحے نکالنے لگا جو اس کتاب کا ترمیم شدہ پہلا باب تھا۔

اُس نے ٹیبل پر پڑی ڈسک اُٹھائی اور بے حد تھکے ہوئے انداز میں اُس پر ایک نظر ڈالی۔ پھر اُس نے اسے دو ٹکڑوں میں توڑ ڈالا… پھر چند اور ٹکڑے…اپنی ہتھیلی پر پڑے ان ٹکڑوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اُس نے انہیں ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔

ڈسک کا کور اُٹھا کر اُس نے زیرِ لب اس پر لکھے چند لفظوں کو پڑھا، پھر چند لمحے پہلے لیپ ٹاپ سے نکالی ہوئی ڈسک اُس نے اس کور میں ڈال دی۔

پرنٹر تب تک اپنا کام مکمل کرچکا تھا۔اُس نے ٹرے میں سے ان صفحات کو نکال دیا۔ بڑی احتیاط کے ساتھ اس نے اُنہیں ایک فائل کور میں رکھ کر اُنہیں دوسری فائل کورز کے ساتھ رکھ دیا جن میں اس کتاب کے باقی نو ابواب تھے۔

ایک گہرا سانس لیتے ہوئے وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کھڑے ہوکر اُس نے ایک آخری نظر اُس لیپ ٹاپ کی مدھم پڑتی سکرین پر ڈالی۔

سکرین تاریک ہونے سے پہلے اس پر ایک تحریر اُبھری تھی”!Will be waiting”

اُس کی آنکھوں میں ٹھہری نمی یک دم چھلک پڑی تھی۔ وہ مسکرا دی سکرین اب تاریک ہونے لگی ۔اُس نے پلٹ کر ایک نظر کمرے کو دیکھا پھر بیڈ کی طرف چلی آئی۔ ایک عجیب سی تھکن اُس کے وجود پر چھانے لگی تھی ۔اس کے وجود پر یا ہر چیز پر… بیڈ پربیٹھ کر چند لمحے اُس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی چیزوں پر نظر دوڑائی۔

وہ پتہ نہیں کب وہاں اپنی رسٹ واچ چھوڑ گیا تھا… شاید رات کو جب وہ وہاں تھا، وہ وضو کرنے گیا تھا۔پھر شاید اُسے یاد ہی نہیں رہا تھا۔ وہ رسٹ واچ اٹھا کر اُسے دیکھنے لگی۔سیکنڈز کی سوئی کبھی نہیں رُکتی، صرف منٹ اور گھنٹے ہیں جو رُکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔سفر ختم ہوتا ہے… سفر شروع ہوجاتا ہے۔

بہت دیر تک اس گھڑی پر انگلیاں پھیرتی وہ جیسے اس کے لمس کو کھوجتی رہی۔ وہ لمس وہاں نہیں تھا۔ وہ اس کے گھر کی واحد گھڑی تھی جس کا ٹائم بالکل ٹھیک ہوتا تھا۔ صرف منٹ نہیں…سیکنڈز تک…کاملیت اس گھڑی میں نہیں تھی، اس شخص کے وجود میں تھی جس کے ہاتھ پر وہ ہوتی تھی۔

اُس نے آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے اس گھڑی کو دوبارہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ کمبل اپنے اوپر کھینچتے ہوئے وہ بستر پر لیٹ گئی۔اُس نے لائٹ بند نہیں کی تھی۔اُس نے دروازہ بھی مقفل نہیں کیا تھا۔ وہ اُس کا انتظار کررہی تھی۔ بعض دفعہ انتظار بہت ”لمبا” ہوتا ہے… بعض دفعہ انتظار بہت مختصر ہوتا ہے۔

اُس کی آنکھوں میں نیند اُترنے لگی۔ وہ اسے نیند سمجھ رہی تھی… ہمیشہ کی طرح آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے وہ اُسے چاروں طرف پھونک رہی تھی۔ جب اُسے وہ یاد آیا۔ وہ اس وقت وہاں ہوتا تو اُس سے آیت الکرسی اپنے اوپر پھونکنے کی فرمائش کرتا۔

بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے ایک فوٹو فریم کو اُٹھا کر اس نے بڑی نرمی کے ساتھ اُس پر پھونک ماری۔ پھر فریم کے شیشے پر جیسے کسی نظر نہ آنے والی گرد کو اپنی انگلیوں سے صاف کیا، چند لمحے تک وہ فریم میں اس ایک چہرے کو دیکھتی رہی پھر اُس نے اس کو دوبارہ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ سب کچھ جیسے ایک بار پھر سے یادآنے لگا تھا۔ اُس کا وجود ایک بار پھر سے ریت بننے لگا تھا۔آنکھوں میں ایک بار پھر سے نمی آنے لگی تھی۔

اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ آج ”اُسے” بہت دیر ہوگئی تھی۔ امامہ نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولی تھیں۔کمرے میں نیم تاریکی تھی۔سالار اُس کے برابر میں سورہا تھا۔ اُس نے وال کلاک پر نظر ڈالی، رات کا آخری پہر تھا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی… عجیب خواب تھا… وہ کس کا انتظار کررہی تھی اُسے خواب میں بھی سمجھ نہیں آیا تھا…کتاب کے وہ دس ابواب سالار کے تھے… وہ کتاب سالار ہی لکھ رہا تھا اور ابھی تک اُس کے نو ابواب لکھے جاچکے تھے… دسواں نہیں… وہ گھڑی بھی سالار کی تھی اور سالار نے حمین کی پچھلی برتھ ڈے پر اُس کی ضد اور اصرار پر اُسے دی تھی اور اب وہ گھڑی حمین باندھتا تھا… اور اُس نے خواب میں اپنے آپ کو بوڑھا دیکھا تھا… وہ اُس کا مستقبل تھا… وہ کسی کو یاد کررہی تھی کسی کے لئے اداس تھی، مگر کس کے لئے…اور وہ کسی کا انتظار کررہی تھی اور کوئی نہیں آرہا تھا…مگر کون…اورپھر وہ تحریر… Will be waiting…وہ خواب کی ایک ایک detail کو دہرا رہی تھی… ایک ایک جزئیات کو دہرا سکتی تھی۔

وہ بستر سے اُٹھ گئی، بے حد بے چینی کے عالم میں… اُن کی پیکنگ مکمّل ہوچکی تھی۔وہ اس گھر میں اُن کی آخری رات تھی اُس کے بعد وہ اُن سب کے ساتھ پاکستان جانے والی تھی اور سالار اور جبریل کو وہیں رہ جانا تھا۔

ایک بار پھر سے اُس کا گھر ختم ہوجانا تھا… یہ جیسے اُس کی زندگی کا ایک پیٹرن ہی بن گیا تھا… گھر بننا… گھر ختم ہونا… پھر بننا… پھر ختم ہونا…ایک عجیب ہجرت تھی جو ختم ہی نہیں ہوتی تھی اور اس ہجرت میں اپنے گھر کی وہ خواہش اور خواب پتہ نہیں کہاں چلا گیا تھا…وہ اُس رات اس طرح خواب سے جاگنے کے بعد بھی بہت اُداس تھی۔

پہلے وہ سالار کی بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے اُس کے بغیر اپنے آپ کو رہنے کی عادی کرپائی تھی اور اب پاکستان چلے جانے کے بعد اُسے جبریل کے بغیر بھی رہنا تھا۔

وہ چلتے ہوئے کمرے میں موجود صوفہ پر جاکر بیٹھ گئی۔ اُسے لگ رہا تھا جیسے اُس کے سر میں درد ہونے لگا تھا… اور صوفہ پر بیٹھتے ہوئے اُسے ایک بار پھر اُس خواب کا خیال آنے لگا تھا… اُس خواب کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ بُری طرح ٹھٹھکی… کتاب کے دس ابواب… اُ س کی اُداسی…اُس کا بڑھاپا… کسی کو یاد کرنا۔

اُسے یاد آیا تھا اُس کتاب کا ہر باب سالارکی زندگی کے پانچ سالوں پر مشتمل تھا…ڈاکٹرز نے سالار کو سات سے دس سال کی زندگی کی مہلت دی تھی اور کتاب کا دسواں باب 50 سال کے بعد ختم ہورہا تھا۔



قسط نمبر 39

پریذیڈنٹ نے کافی کا خالی کپ واپس میز پر رکھ دیا۔ پچھلے پانچ گھنٹے میں یہ کافی کا آٹھواں کپ تھا جو اس نے پیا تھا۔اُس نے زندگی میں کبھی اتنی کافی نہیں پی تھی، مگر زندگی میں کبھی اُسے اس طرح کا فیصلہ بھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ وہ آگے گڑھا اور پیچھے کھائی والی صورت حال سے دوچار تھا اور اپنے عہدِ صدارت کے ایک بہت غلط وقت پر ایسی صورت حال سے دوچار ہوا تھا۔

کانگریس کے الیکشنز سر پر تھے اور یہ فیصلہ ان الیکشنز کے نتائج پر بری طرح اثر انداز ہوتا۔ بری طرح کا لفظ شاید ناکافی تھا، اس کی پارٹی دراصل الیکشن ہارجاتی لیکن اس فیصلہ کو نہ کرنے کے اثرات زیادہ مضر تھے۔ وہ اسے جتنا ٹال سکتا تھا ، ٹال چکا تھا، جتنا کھینچ سکتا تھا، کھینچ چکا تھا۔اب اُس کے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ کچھ lobbies کی قوتِ برداشت جواب دے رہی تھی۔ کچھ power players دبے لفظوں میں اپنی ناراضگی اور شدیدردِّعمل سے اُسے خبردار کررہے تھے۔ فارن آفس اُسے مسلسل متعلقہ ممالک سے امریکی سفارت خانوں کی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر آنے والی queries اور concerns کے بارے میں آگاہ کررہا تھا اور خود وہ دو ہفتے کے دوران مستقل ہاٹ لائن پر رہا تھا۔

امریکہ کی بین الاقوامی پسپائی ایک الیکشن ہارنے سے زیادہ سنگین تھی مگر اس کے پاس آپشنز نہ ہونے کے برابر تھے، اپنی کیبنٹ کے چھے اہم ترین ممبرز کے ساتھ پانچ گھنٹوں کی طویل گفت و شنید کے بعد وہ جیسے تھک کر پندرہ منٹ کی ایک بریک لینے پر مجبور ہوگیا تھا۔ اور اس وقت وہ اس بریک کے آخری چند کچھ منٹ گزاررہا تھا۔

ٹیبل سے کچھ پیپرز اُٹھا کر وہ دوبارہ دیکھنے لگا تھا، وہ کیبنٹ آفس میں ہونے والی پانچ گھنٹے کی طویل میٹنگ کے اہم نکات تھے۔اُس کی کیبنٹ کے وہ چھے ممبرز دو برابر گروپس میں بٹے ہوئے دو مختلف لابیز کے ساتھ تھے۔ وہ ٹائی اس کے کاسٹنگ ووٹ سے ٹوٹنے والی تھی اور یہی چیز اسے اتنا بے بس کررہی تھی۔ اس فیصلے کی ذمّہ داری ہر حال میں اسی کے سر پر آرہی تھی۔ یہ اس کے عہدِ صدارت میں ہوتا اور اُس کے کاسٹنگ ووٹ سے ہوتا۔اگر ہوتا تو… اور اس ذمّہ داری کو وہ لاکھ کوشش کے باوجود کہیں اور منتقل نہیں کر پارہا تھا۔

اُس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات کو ایک نظر پھر دیکھنا شروع کیا۔ وہ بُلٹ پوائنٹس اس وقت حقیقتاً اُسے بُلٹس کی طرح لگ رہے تھے۔

بریک کے آخری دو منٹ باقی تھے جب وہ ایک فیصلہ پر پہنچ گیا تھا۔ بعض دفعہ تاریخ بنانے والے کے ہاتھوں کو خود جکڑ کر خود کو بنواتی ہے۔

اور تاریخ 17 جنوری 2030 کو بھی یہی کررہی تھی۔

******

ہشام نے پہلی بار اُس لڑکی کو سوڈان میں دیکھا تھا…UNHCR کے ایک کیمپ پر کسی پناہ گزین گونگی عورت کے ساتھ اشاروں میں بات کرتے اور اُسے کچھ سمجھاتے۔ وہ پاکستانی یا انڈین تھی…ہشام نے اُس کے نقوش اور رنگت سے اندازہ لگایا تھا ،اور پھر اُس کے گلے میں لٹکے کارڈ پر اُس کا نام پڑھ کر اُسے اُس کا نام پتہ چل گیا تھا۔

بے حد معمولی شکل و صورت کی ایک بے حد دبلی پتلی گھنے بالوں والی ایک سانولی رنگت کی ایک دراز قامت لڑکی… اُس کا پانچ فٹ سات انچ قد اُس کی واحد خاصیت لگی تھی اُس پہلی ملاقات میں ہشام کو۔

وہ ایک عورت سے بات کرتے کرتے ہشام کی طرف متوجہ ہوئی، ایک co-worker کے طور پر اُسے مسکراہٹ دی اور ہاتھوں کے اشارے سے ہیلو اور حال چال پوچھا، اُس لڑکی نے بھی ہاتھوں کے اشارے سے اُس کو جواب دیا۔ دونوں نے بیک وقت اپنے گلے میں لٹکے کارڈز پکڑ کر اوپر کرتے ہوئے اور اُس پر انگلی پھیرتے ہوئے جیسے خود کو متعارف کیا۔ وہ CARE کی ورکر تھی، وہ ریڈکراس کا اور وہ دونوں USA سے آئے تھے۔ رسمی تعارف اور وہاں کے حالات کے بارے میں اشاروں میں ہی بات کرنے کے بعد وہ دونوں آگے بڑھ گئے تھے۔

اُن کی دوسری ملاقات دوسرے دن ہوئی تھی۔ لکڑی کے عارضی باتھ رومز کی تنصیب و تعمیر والی جگہ پر… وہ آج بھی اُس سے پہلے وہاں موجود تھی اور کچھ تصویریں لے رہی تھی۔ وہ کچھ سامان لے کر وہاں آیا تھا ایک لوڈر گاڑی میں لٹکے… دونوں نے ایک بار پھر اشاروں کی زبان پر رسمی علیک سلیک کی۔

تیسری ملاقات لمبی تھی، وہ ایڈورکرز کے ایک ڈنر میں ملے تھے… ڈنر ہال کے باہر کوریڈور میں… دونوں دس منٹ اشاروں کی زبان میں بات کرتے رہے… وہ پاکستان سے تھی، وہ بحرین سے… وہ نیو یارک یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا ، وہ سٹی یونیورسٹی نیو یارک میں… وہ فنانس کا سٹوڈنٹ تھا ، وہ سوشل سائنسز کی… اور ان دونوں کے درمیان کامن چیز صرف ایک تھی…ریلیف ورک، جس میں وہ دونوں اپنی ٹین ایج سے انوالوڈ تھے… اُن دونوں کا Academic C.V اتنا لمبا نہیں تھا جتنا اُن کا Extra-Curricular… کوریڈور میں کھڑے اُن دس منٹوں میں اُن دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں ہی پوچھا اور جانا تھا… اشاروں کی زبان میں سوالات بہت تفصیلی ہوگئے تھے لیکن ہشام کا دل چاہا تھا وہ اُس سے اور بھی سوال کرتا… وہ قوتِ گویائی رکھتی تو وہ کر ہی لیتا… اُس کے ساتھ کھڑے اُس نے سوچا تھا… وہ اُسے اُس شام اتنی ہی دل چسپ لگی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ دونوں ہمیشہ کی طرح مل کر آگے بڑھ جاتے… اُس کوریڈور سے بہت سارے گزرنے والے ایڈ ورکرز میں سے ایک جو اُن دونوں کو جانتا تھا اُس نے اُنہیں بلند آواز میں دور سے مخاطب کرتے ہوئے ہیلو کہا اور ساتھ حال احوال دریافت کیا۔ وہ دونوں بیک وقت اُس کی طرف مخاطب ہوئے انہوں نے بیک وقت اُس کی ہیلو کا جواب دیتے ہوئے جواباً اُس کی خیریت دریافت کی اور پھر دونوں نے بیک وقت کرنٹ کھا کر ایک دوسرے کو دیکھا… stunned silence میں… اور پھر دونوں قہقہہ لگا کر ہنسے تھے… اورر ہنستے ہی گئے تھے… سُرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ… اپنی شرمندگی چھپانے کے لئے اُن کے پاس اس سے اچھا طریقہ کوئی اور نہیں تھا اُس وقت…

اُن دونوں کا پہلا تعارف ”خاموشی” نے کروایا تھا اور وہ خاموشی ہمیشہ اُن کے ہر جذبے کی آواز بنی رہی… وہ جیسے اُن کا سب سے دل چسپ کھیل تھا… جب ایک دوسرے سے کچھ بھی خاص کہنا ہوتا تو Sign Language میں بات کرنے لگتے… ہنستے کھلکھلاتے، بوجھتے، بھٹکتے، سنبھلتے، سمجھتے… کیا کھیل تھا…!!

وہ اُس وقت یونیورسٹی میں ابھی گئے ہی تھے… ہشام کو حیرت تھی اُن کی ملاقات اس سے پہلے کیوں نہیں ہوئی۔ وہ دونوں ایک جیسی relief agencies کے ساتھ کام کررہے تھے، لیکن اس سے پہلے وہ صرف امریکہ کے اندر ہی طوفانوں اور سیلابوں کے دوران ہونے والے ریلیف ورک سے منسلک رہے تھے، یہ پہلا موقع تھا کہ وہ دونوں امریکہ سے باہر ہونے والے کسی ریلیف کیمپ میں حصّہ لینے کے لئے گئے تھے۔

نیو یارک واپسی کے بعد بھی اُن دونوں کا رابطہ آپس میں ختم نہیں ہوا تھا… دو مختلف یونیورسٹیز میں ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے وقتاً فوقتاً مختلف سوشل ایونٹس میں ملتے رہتے تھے کیوں کہ دونوں مسلمان طلبہ کی تنظیم سے بھی وابستہ تھے… اور پھر یہ رابطہ وقتاً فوقتاً ان سوشل ایونٹس سے ہٹ کر بھی ہونے لگا… وہ دونوں ایک دوسرے کی فیملی سے بھی مل چکے تھے اور اب بہت باقاعدگی سے ملنے لگے تھے۔ دونوںکے والد ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے تھے…

ہشام امریکہ میں بحرین کے سفیر کا بیٹا تھا، اور بحرین کے سفارت خانے میں ہونے والی اکثر گیدرنگز میں اُسے بھی انوائیٹ کیا جاتا تھا۔اُس کی ماں ایک فلسطینی نژاد ڈاکٹر تھی اور اس کا باپ امریکہ کے علاوہ بہت سے یورپین ممالک میں بحرین کی نمائندگی کرچکا تھا۔ دو بہن بھائیوں میں وہ بڑا تھا اور اُس کی بہن ابھی ہائی سکول میں تھی۔

ریلیف ورک میں دل چسپی ہشام کو اپنی ماں سے وراثت میں ملی تھی جو ہشام کے باپ سے شادی سے پہلے ریڈ کراس کے ساتھ منسلک تھی اور فلسطین میں ہونے والے ریلیف کیمپس میں اکثر اُن امدادی ٹیموں کے ساتھ جاتی تھی جو امریکہ سے جاتی تھیں، شادی کے بعد اُس کا وہ کام صرف فنڈز اکٹھے کرنے اور donations تک محدود رہ گیا تھا۔ مگر ہشام نے اپنی ماں فاطمہ سے یہ شوق وراثت میں لیا تھا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شوق بڑھتا ہی گیا تھا۔

اُس لڑکی سے ملنے کے بعد اُسے اپنا شوق اور جنوں بہت کم اور کمتر لگا تھا۔ وہ اُس کم عمری میں جن ریلیف پروجیکٹس کے ساتھ منسلک رہی تھی، بہت کم ایسا ہوا تھا کہ ریلیف آپریشن کے بعد بہترین خدمات کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والوںمیں اُس کا نام نہ ہوتا۔ اُس سے میل جول کے آغاز ہونے کے بعد ہشام کو احساس ہوا کہ اُن کے درمیان انسانیت کی خدمت کا جذبہ ایک واحد کامن چیز نہیں تھی، اور بھی بہت سی دلچسپیاں مشترکہ تھیں اور صرف دلچسپیاں اور مشاغل ہی نہیں… خصوصیات بھی… دونوں کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے اور بہت زیادہ… دونوں کو تاریخ میں دل چسپی تھی… دونوں پھرنے پھرانے کے شوقین تھے اور دونوں بہت زیادہ باتونی نہیں تھے… سوچ سمجھ کر بات کرنے کے عادی تھے۔

ہشام کی پوری زندگی لڑکیوں کے ساتھ مخلوط تعلیمی ماحول اور معاشرے میں گزری تھی… نہ اُس کے لئے لڑکیاں نئی چیز تھیں ، نہ اُن سے دوستی… لیکن زندگی میں پہلی بار وہ کسی لڑکی سے متاثر ہوکر اُس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔اُس کا کبھی کوئی آئیڈیل نہیں رہا تھا لیکن اُسے لڑکیوں میں جو چیزیں اٹریکٹ کرتی تھیں، اُن میں سے کوئی بھی چیز اُس لڑکی میں نہیں تھی… نہ وہ حسین تھی… نہ سٹائلش، نہ ایسی ذہین کہ اگلے کو چاروں شانے چِت کردے لیکن اس کے باوجود وہ اُسے کسی مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی تھی… نظر کا ایک جدید انداز کا چشمہ لگائے وہ سادہ سی جینزاور کُرتیوں میں اکثر flip flops میں بہت سی stilleto heels والی لڑکیوں کے سامنے ہشام کو زیادہ پرکشش محسوس ہوتی تھی… خود میں مگن، دوسروں سے بے نیاز… کالرڈ کُرتیوں اور شرٹس میں سر کے بال جُوڑے کی شکل میں باندھے اپنی لمبی نیلی گردن کو کسی راج ہنس کی طرح لہراتی وہ ہمیشہ اُسے فون یا ٹیبلٹ ہاتھ میں پکڑے اپنے حال میں مگن ملتی تھی، اُن بہت سی دوسری لڑکیوں کے برعکس جو اُسے دیکھتے ہی بے حد attentive ہوجاتی تھیں۔ ہشام عرب تھا، عورت کی اداؤں سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود اداؤں ہی سے گھائل ہونے والا، لیکن اُس لڑکی کے پاس کوئی ادا سرے سے تھی ہی نہیں اس کے باوجود وہ گھائل ہورہا تھا۔

”میرے معاشرے میں اگر مرد کسی عورت کے ساتھ کہیں جائے تو کھانے کا بل وہ دیتا ہے، عورت نہیں۔” ہشام نے پہلی بار اُسے کہیں کھانے کی دعوت دی تھی اور بِل کی ادائیگی کے وقت اُسے پرس نکالتے دیکھ کر اُس نے بڑی سنجیدگی سے روکتے ہوئے کہا تھا۔ وہ جواباً مسکراتے ہوئے پرس سے کچھ نوٹ نکالتے ہوئے اُس سے بولی ”اور میرے باپ نے مجھے کہا تھا کہ اپنے باپ اور بھائی کے علاوہ کسی مرد کے ساتھ بھی کھانا کھاتے ہوئے اپنا بل خود دینا، یہ تمہیں ہر خوش فہمی اور اُسے ہر غلط فہمی سے دور رکھے گا… اس لئے یہ میرے حصّہ کا بل…” اُس نے نوٹ میز پر رکھتے ہوئے ہشام سے کہا تھا۔ مسکرائی وہ اب بھی تھی، ہشام چند لمحوں کے لئے لاجواب ہوا تھا… وہ بڑا مہنگا ریسٹورنٹ تھا جہاں وہ اُسے لایا تھا اور وہ جب بھی کسی لڑکی کو وہاں لاکر بل خود ادا کیا کرتا تھا،اُسے اُس لڑکی کی طرف سے بے حد ناز بھرا اور مصنوعی حیرت اور اور گرم جوشی سے بھرپور شکریہ موصول ہوتا تھا۔ آج کچھ خلافِ توقع چیز ہوگئی تھی۔

”ریسٹورنٹ مہنگا تھا میں اس لئے کہہ رہا تھا۔” وہ جملہ اگلے کئی ہفتے ہشام کو اکیلے میں بھی دانت پیسنے پر مجبور کرتا رہا تھا… شرم ساری میں اُس نے زندگی بھر کبھی کسی عورت کو ایسی توجیہہ نہیں دی تھی۔

”شکریہ لیکن میں بہت امیر ہوں۔” اُس لڑکی نے جواباً مسکراتے ہوئے اُس سے کہا۔

”اس کا مطلب ہے تم میرا بل بھی دے سکتی ہو۔” وہ پتہ نہیں کیوں کہنے لگا تھا۔”بل نہیں دے سکتی لیکن بل دینے کے لئے اُدھار دے سکتی ہوں۔” اُس نے جواباً اُس سے کہا۔

”So very kind of you… پھر دے دو…” ہشام نے اُسی روانی سے کہا۔ وہ پہلی بار اُلجھی، اُسے دیکھا پھر اُس نے اپنے پرس سے بل کی بقایا رقم نکال کر اُس کی طرف بڑھائی، ہشام نے وہ رقم پکڑ کر بل پر رکھتے ہوئے فولڈر بند کرتے ہوئے ویٹر کی طرف بڑھا دیا۔

اُس لڑکی نے اتنی دیر میں اپنا بیگ کھول لیا۔ وہ اُس میں سے کچھ تلاش کررہی تھی، چند لمحے گود میں رکھے بیگ میں ہاتھ مارتے رہنے کے بعد اُس نے بالآخر ایک چھوٹی ڈائری نکالی اور پھر اُس کے بعد پین… میز پر ڈائری رکھ کر اُس نے اُس ڈائری میں اُس رقم کا اندراج کیا جو اُس نے کچھ دیر پہلے ہشام کو اُدھار دی تھی۔ پھر اُس نے پین اور ڈائری دونوں ٹیبل کے اوپر سے ہشام کی طرف بڑھائے۔ اُس نے کچھ حیران ہوکر دونوں چیزیں پکڑیں اور پھر اُس سے کہا ” یہ کیا ہے؟” لیکن سوال کے ساتھ ہی اُسے پہلی نظر ڈائری پر ڈالتے ہی جواب مل گیا تھا… وہ اُس کے signatures اُس رقم کے سامنے چاہتی تھی جہاں اُس نے اُدھار دی جانے والی رقم لکھی تھی۔ وہ چند لمحوں کے لئے اُس کی شکل دیکھ کر رہ گیا، وہ اب اپنے گلاسز اُتار کر اُنہیں صاف کرتے ہوئے دوبارہ لگارہی تھی۔معمول کی طرح خود میں محو اور اُسے نظر انداز کئے یوں جیسے یہ سب ایک روٹین کی بات تھی۔ ہشام نے پین سنبھا ل کر دستخط کرنے سے پہلے ڈائری کے صفحے پلٹ کر بڑے تجسس سے لیکن محظوظ ہونے والے انداز میں دیکھا… وہاں چھوٹی بڑی رقموں کی ایک قطار تھی اور لینے والا صرف ایک ہی شخص تھا جس کا نام نہیں تھا صرف دستخط تھے، مختلف تاریخوں کے ساتھ لیکن کہیں بھی ادائیگی والے حصے میں کسی ایک رقم کی بھی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔

”مجھے اندازہ نہیں تھا تم اتنی calculated ہو… ہر چیز کا حساب رکھتی ہو؟” ڈائری پر دستخط کرتے ہوئے ہشام کہے بغیر نہیں رہ سکا۔

”اگر میں لکھوں گی نہیں تو بھول جاؤں گی اور معاملات میں تو clarity ضروری ہوتی ہے۔”اُس لڑکی نے جواباً اطمینان کے ساتھ کہا، وہ اب اُس سے ڈائری اور پین لے کر واپس اپنے بیگ میں رکھ چکی تھی۔

”ڈائری سے تو لگتا ہے تم واقعی بہت امیر ہو… اتنی دریادلی سے کس کو قرض دے رہی ہو؟” ٹیبل سے اُٹھتے ہوئے ہشام نے اُس کو کُریدا، وہ بات گول کرگئی۔ اُن کے درمیان اتنی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ اُسے زیادہ کُریدتا مگر اُس ڈائری میں کئے ہوئے اُس آدمی کے دستخط اُسے یاد رہ گئے تھے۔ وہ اُن دستخط سے اتنا تو اندازہ لگا ہی چکا تھا کہ وہ کسی مرد کے دستخط تھے۔

ایک ہفتے بعد اُس نے اُس لڑکی کو وہ قرض واپس کرتے ہوئے اُس کی ڈائری میں ادائیگی کے حصّے میں اپنے دستخط paid کی تحریر کے ساتھ کرتے ہوئے ایک بار پھر سے ڈائری اُلٹ پلٹ کر دیکھی… وہ ڈائری اُس سال کی تھی، اور سال کے شروع سے اُس مہینے تک کسی صفحے پر کوئی ادائیگی نہیں تھی، لیکن اُدھار لینے کی رفتار میں تسلسل تھا… چھوٹی بڑی رقمیں ، لیکن لاتعداد بار۔

”اس سال تمہیں کوئی اُدھار واپس کرنے والا میں پہلا شخص ہوں۔” ہشام نے جیسے بڑے فخریہ انداز میں کہا، اُس نے مسکرا کر اُس سے ڈائری اور نوٹ دوبار ہ واپس لئے، نوٹوں کو ہشام کے سامنے گنا، اپنے پرس سے چندچھوٹے نوٹ نکال کر ہشام کو واپس کیے کیوں کہ اُس نے راؤنڈ فگر میں رقم واپس کی تھی۔

”چھوڑو اسے رہنے دو۔” ہشام نے نوٹ واپس دینے کی کوشش کی۔”اتنی بڑی رقم نہیں ہے یہ۔”اُس نے جیسے لاپرواہی سے کہا ”کافی کا ایک کپ اور ایک ڈونٹ آسکتا ہے، ایک ویفل آئس کریم آسکتی ہے یا ایک برگر۔” اُس نے بڑے اطمینان سے جواباً کہا تھا ، وہ ہنسا”تم واقعی ضرورت سے زیادہ حساب کتاب کرتی ہو” ”میری ماں کہتی ہے روپیہ مشکل سے کمایا جاتا ہے اور اُس کی قدر کرتے ہوئے اُسے خرچ کرنا چاہیے ” اُس نے جیسے ایک بار پھر ہشام کو لاجواب کیا تھا، ذرا سی شرمندگی دکھائے بغیر۔

”اس طرح تو تم واقعی بہت امیر ہوجاؤ گی۔” ہشام نے اُسے tease کیا ”انشا اللہ ” اُس نے جواباً اتنے اطمینان سے کہا کہ ہشام کو ہنسی آگئی تھی۔ ہنسنے کے بعد ہشام کو احساس ہوا شاید یہ مناسب نہیں تھا کیوں کہ وہ اُسی طرح سنجیدہ تھی۔

”تمہیں بُرا تو نہیں لگا؟” اُس نے کچھ سنبھلتے ہوئے اُس سے پوچھا”کیا؟” ” میرا ہنسنا…”” نہیں… مجھے کیوں بُرا لگے گا… تم کیا مجھ پر ہنسے تھے؟” ہشام نے سر کھجایا، لڑکی سیدھی تھی، سوال ٹیڑھا تھا۔

”یہ جس کو اتنے اُدھار دیتی رہی ہو، یہ کون ہے؟” اُس نے بھی اُس سے ایک ٹیڑھا سوال کیا تھا۔

”ہے کوئی” وہ ایک بار پھر نام گول کرگئی ” تم نام بتانا نہیں چاہتی؟” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا ”نہیں” وہ چند لمحوں کے لئے چُپ رہا پھر اُس نے کہا ”بہت زیادہ قرضہ نہیں ہوگیا اس کے سر؟” اس کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی ”میں اُسے انکار نہیں کرسکتی…” ہشام عجیب طرح سے بے چین ہوا۔ ”پیسے کے معاملے میں کسی پراعتبار نہیں کرنا چاہیے۔” شاید زندگی میں پہلی بار اُس نے کسی کو ایسا مشورہ دیا تھا۔ ”پیسے کے بارے میں نہیں، میں ویسے ہی اعتبار کرتی ہوںاُس پر۔” اُس نے بڑے آرام سے کہا تھا۔ ہشام کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اُس سے کیا کہے؟ وہ اُن کی دوستی کا آغاز تھا اور وہ ایک دوسرے کی ذاتیات میں دخل اندازی نہیں کرسکتے تھے، اُن کے درمیان ایسی بے تکلفی نہیں تھی۔

اُس شخص کا تعارف بھی ہشام سے بہت جلد ہی ہوگیا تھا۔

******

تالیوں کی گونج نے حمین سکندر کی تقریر کے تسلسل کو ایک بار پھر توڑا تھا، روسٹرم کے پیچھے کھڑے چند لمحوں کے لئے رُک کر اُس نے تالیوں کے اس شور کے تھمنے کا انتظار کیا۔

وہ MIT کے graduating students کا اجتماع تھا ، اور وہ وہاں commencement speaker کے طور پر بلایا گیا تھا۔ پچھلے سال وہ MIT کے graduating students میں شامل تھا۔ Saloon School Of Management سے ڈسٹنکشن کے ساتھ نکلنے والوں میں سے ایک اور اس سال وہ یہاں graduating students سے خطاب کررہا تھا۔ MIT وہ واحد یونیورسٹی نہیں تھی جس نے اُسے اس سال اس اعزاز کے قابل سمجھا تھا ۔Ivy League کی چند اور نامور یونیورسٹیز نے بھی اُسے مدعو کیا تھا۔

24 سال کی عمر میں حمین سکندر پچھلے تین سالوں کے دوران دُنیا کے بہترین entreprenuers میں سے ایک مانا جارہا تھا، اُس ایک آئیڈیا کی وجہ سے جو پچھلے کچھ سالوں میں ایک بیج سے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا تھا۔

Trade an Idea کے نام سے اُس کی ڈیجیٹل فنانس کمپنی نے پچھلے تین سالوں میں گلوبل مارکیٹس میں دھوم مچا رکھی تھی۔ دُنیا کے 125 بہترین مالیاتی اور کاروباری ادارے اُس کمپنی کے باقاعدہ کلائنٹس تھے اور ڈیڑھ ہزار چھوٹے ادارے بالواسطہ اُس کی خدمات سے فائدہ اُٹھا رہے تھے۔

اور یہ سب تین سال کی مختصر مدّت میں ہوا تھا، جب وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کمپنی کی بنیاد رکھنے میں بھی مصروف تھا۔

Trade an Idea کا concept بے حد دل چسپ اور منفردتھا اور ایک عام user کو وہ ابتدائی طور پر کسی digital game جیسا لگتا۔

اُس کی ابتداء بھی حمین سکندر نے بے حد چھوٹے پیمانے پر کی تھی۔ ایک ویب سائٹ پر اُس نے دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس کو ایک آن لائن چیلنج دیا تھا… ایسا کوئی آئیڈیا trade کرنے کے لئے جس کے لئے انہیں یا تو فنانس چاہیے تھا یاکسی کمپنی کی سپورٹ اور یا پھر وہ اپنا idea کسی خاص قیمت پر trade کرنے کے لئے تیّار تھے۔ لیکن trading اور traders دونوں بے حد مختلف تھے۔

اُس ویب سائٹ پر تین کوئز تھے… اے کیٹگری، بی اور سی کیٹگری… ہر کوئز میں بیس سوالا ت تھے اور ویب سائٹ پر رجسٹریشن کے لئے ایک پاس ورڈ ضروری تھا جو اس کوئز میں کامیاب ہونے کے بعد بھیجا جاتا ہے اور وہی نمبر اُس trader کی ID تھی۔

کیٹگری A کا کوئز مشکل ترین تھا اور ناک آؤٹ کے انداز میں timed تھا۔ کیٹگری B اور C اُس سے آسان تھے اور نہ timed تھے اور نہ ہی اُن میں ناک آؤٹ ہوتا تھا۔ یہ ان تین کیٹگریز کی درجہ بندی تھی جو وہاں آنے والے traders کی پرفارمنس پر automatically انہیں مختلف کیٹگریز میں رکھتی تھی۔ جو A کیٹگری میں آگے نہ جا پاتا وہB کے کوئز میںحصہ لیتا اور جو B میں بھی آگے نہ جاپاتا تو وہ C میں اور جو C میں بھی آگے نہ جاپاتا تو اُسے Trade an Idea کی طرف سے kick out کردیا جاتا تھا اس پیغام کے ساتھ کہ ابھی اُسے اور سیکھنے کی ضرورت ہے… ٹریڈنگ اُس کا کام نہیں۔ اے کیٹگری کے کوئز میں کامیاب ہوجانے والے غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد ایک پاس ورڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے اور پھر اگلے مرحلے تک رسائی کرتے… ایک ایسے ٹریڈ سینٹر میں جہاں بہترین یونیورسٹیز کے بہترین دماغ اپنے اپنے ideas کو رجسٹر کروانے کے بعد آن لائن موجود ٹریڈرز کے ساتھ اپنے ideas کے حوالے سے بات چیت کرتے… وہ گروپ ڈسکشن بھی ہوسکتی تھی اور وہ ٹریڈرز کی آپس میں گفت و شنید بھی… پہلے مرحلے پر حمین صرف پانچ بڑی کمپنیز کو اس بات پر آمادہ کرپایا تھا کہ وہ اس ٹریڈ روم میں idea لے کر آنے والوں کے ideas سُنیں اور اُس پر اُن سے بات چیت کریں، اگر اُنہیں کسی کا idea پسند آجائے تو… اس کے عوض اُنہیں TAI کو ایک مخصوص فیس اداکرنی تھی ، اگر وہاں کوئی idea انہیں پسند آجاتا اور وہ اُسے خریدنے، اُس میں invest کرنے یا اُس میں پارٹنر شپ کرنے پر تیار ہوتے تو۔

کیٹگری بی میں پیش ہونے والے آئیڈیاز کی trading بھی اسی فارمولا کے تحت ہوتی تھی، لیکن وہاں ایک اضافی چیز یہ تھی کہ وہاں اپنے ideas کے ساتھ آنے والے مختلف نوجوان افراد interactions کے ذریعہ اپنی پسند کے کسی ایک جیسے idea پر collaboration کرسکتے تھے اور اگر ایسی کوئی collaboration کسی آئیڈیا کو عملی شکل تک ڈھال دیتا تو Trade an Idea اُس collaboration کے لئے بھی انہیں ایک فیس چارج کرتا۔

کیٹگری C اس سے بھی آسان تھی، وہاں trade کے لئے آنے والے traders اپنے ideas کو barter بھی کرسکتے تھے یعنی کسی بھی trader کو اگر دوسرے کا idea پسند آتا اور وہ اُسے cash سے خریدنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو، تو پھر وہ اُس idea کے بدلے کچھ اور idea, skill, service یا پروجیکٹ اُسے پیش کرسکتا تھا۔

وہ بہت basic سا فارمولا تھا جو حمین نے صرف ذہانت کو encash کرنے کی بنیاد پر نکالا تھا اور اپلائی کیا تھا۔

پہلی بار اُس کی کلائنٹ بننے والی پانچ میں سے تین کمپنیز کو وہاں پہلے مہینے میں تین ایسے آئیڈیاز پسند آگئے تھے جن کے traders کو انہوں نے hire کرلیا تھا۔

تین سال پہلے کلائنٹس اور ٹریڈرز کی ایک محدود تعدار سے شروع ہونے والی کمپنی اب ان basic tradings سے بہت آگے بڑھ چکی تھی، وہ اب خود Trade an Idea پر آنے والے ٹریڈرز سے ایسے ideas اور بزنس پروپوزلز لے لیتی جس میں انہیں potential نظر آتا اور وہ اپنے بڑے کلائنٹس کی ضروریات اور دل چسپی کے مطابق مختلفideas او رپروجیکٹس انہیں شیئر کردیتی۔

Trade an Idea نے پچھلے تین سال میں تین سو ایسی نئی کمپنیز کی بنیاد رکھی تھی جن کے ideas اُن کے پلیٹ فارم پر آنے کے بعد مختلف بین الاقوامی کمپنیز نے اُن ideas میں investment کی تھی۔Trade an Idea سے ملنے والے ideas پر تکمیل پانے والے پروجیکٹس کی کامیابی کا 90% ratio تھا۔

دُنیا کے سو بہترین اداروں کے بہترین سٹوڈنٹس کو ایک پلیٹ فارم پر لانے والا یہ ادارہ اب دُنیا کی ہزاروں یونیورسٹیز کے لاکھوں سٹوڈنٹس کو اپنے اپنے ideas گھر بیٹھے آن لائن ناموراور کامیاب ترین کمپنیز کے نمائندوں کے سامنے پیش کرنے کا موقع دے رہا تھا۔ وہ پلیٹ فارم ایک نئے entreprenuer کے لئے ایک ڈریم پلیٹ فارم تھا۔ Trade an Idea اب ان ہی کیٹگریز کے ساتھ ایک اور ایسی کیٹگری کا اضافہ کرچکا تھا جہاں کوئی بھی شخص اپنی خسارے میں جانے والی کمپنی، بزنس، سیٹ اپ پروجیکٹ بیچ سکتا تھا اور آن لائن ہی اُس کی evaluation بھی کرواسکتا تھا۔

حمین سکندر کا نام دُنیا کی کسی بھی بڑی مالیاتی کمپنی کے لئے اب نیا نہیں تھا۔ اُس کی کمپنی trade کے نئے اصول لے آئی تھی اور اُن نئے اصولوں پر کام کررہی تھی۔

”اکثر لوگوں کا خیال ہے میں رول ماڈل ہوں… ہوسکتا ہے میں بہت ساروں کے لئے ہوں… لیکن خود مجھے رول ماڈل کی تلاش کبھی نہیں رہی…” تالیوں کا شورتھم جانے کے بعد اُس نے دوبارہ کہنا شروع کیا تھا ” رول ماڈلز اور آئیڈیلز کتابوں میں زیادہ ملتے ہیں اور میرے ماں باپ کو ہمیشہ مجھ سے یہ شکایت رہی کہ میں کتابیں نہیں پڑھتا۔” وہاں بیٹھے ہوئے سٹوڈنٹس میں کھلکھلاہٹیں اُبھری تھیں اور اگلی ایک نشست پر بیٹھی امامہ بھی ہنس پڑی تھی۔

”میں نے اپنی زندگی میں دل چسپی سے صرف ایک کتاب پڑھی تھی ور وہ میرے باپ کی آٹو بائیوگرافی تھی… وہ بھی بارہ سال کی عمر میں اپنی ماں کے لیپ ٹاپ میں۔” سامنے والی نشستوں پر بیٹھی امامہ کا رنگ فق ہوگیا ،وہ ہنسنا یک دم بھول گئی تھی۔

”اوروہ واحد کتاب ہے جس کو میں نے بار بار پڑھا… وہ وہ واحد کتاب ہے جو میرے لیپ ٹاپ میں بھی ہے…میرے باپ کی آٹوبائیوگرافی کی بہترین بات یہ ہے کہ اُس میں کوئی ہیرو، کوئی آئیڈیل، کوئی رول ماڈل نہیں ہے، اور اُسے پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ میرا باپ کتنا lucky ہے کہ اُسے کسی سے inspire ہوکر اُس جیسا نہیں بننا پڑا، زندگی گزارنے کے اُن کے اپنے اصول اور فارمولاز اُن کے بچپن اور جوانی کو dictate کرتے رہے۔”

وہ کہتا جارہا تھا اور وہاں بیٹھی امامہ عجیب سے شاک اور شرمندگی میں بیٹھی تھی، وہ کتاب جسے وہ آج بھی publish کروانا نہیں چاہتی تھی، صرف اس لئے کیوں کہ وہ اپنی اولاد کو اُن کے باپ کے حوالے سے کسی شرمندگی میں مبتلا نہیں دیکھنا چاہتی تھی… وہ کتاب اُس کی تیسری اولاد بارہ سال کی عمر میں صرف ایک بار نہیں، بار بار پڑھتا رہا تھا۔ اُس کی ایک کاپی اُس کے لیپ ٹاپ تک بھی چلی گئی تھی اور وہ بے خبر تھی۔

”میں نے اُس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ طے کیا تھا کہ مجھے inspire ہونے جیسا آسان کام نہیں کرنا… inspire کرنے جیسا مشکل کام کرکے دیکھنا ہے۔” وہ کہہ رہا تھا۔

”میرا تعارف کرواتے وقت وہ ساری چیزیں گنوائی گئیں جن سے آپ سب کے سانس رُک جائیں، آنکھیں جھپکنا بند ہوجائیں، منہ کُھلے کے کُھلے رہ جائیں… میں نے کس عمر میں کیا کردیا، اور کس عمر میں کیا… اس سال میری کمپنی کا ٹرن اوور کیا تھا… دُنیا کے دس بہترین entreprenuer میں میں کس نمبر پر ہوں … دُنیا کی کون کون سی کمپنیاں میری کلائنٹ ہیں… آپ میں سے اگر کوئی مجھ سے اور میری کامیابی سے متاثر نہیں ہوا یہ سب سُن کر بھی تو مجھے حیرت ہوگی…” وہ رُکا، جیسے مجمع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اُس نے کہا۔

”لیکن اس تعارف میں بہت سے ایسے facts شامل ہیں جن کو سُن کر آپ کو مجھ میں اپنا آپ یا اپنے آپ میں میں دِکھنے لگوں گا… جیسے اس تعارف میں یہ حقیقت شامل نہیں ہے کہ میں آج تک کوشش کے باوجود کبھی اپنی بہن سے لیا گیا قرض واپس نہیں کرسکا۔” مجمع میں ہلکی تالیوںکے ساتھ قہقہے گونجے۔

حمین بے حد سنجیدہ تھا۔

”لیکن میں ایک دن وہ ساری رقم واپس کروں گا یہ وہ وعدہ ہے جو میں اُس سے 8 سال کی عمر سے کررہا ہوں جب میں نے اُس سے پہلی بار قرض لیا تھا، اور میں کبھی وعدہ پورا نہیں کرسکا ۔” وہ ہنستے ہوئے مجمع کے سامنے بے حد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ میری بہن کے پاس ڈائریز کا ایک ڈھیر ہے جس میں اُس نے اُس سے اُدھار لیے جانے والے ایک ایک سینٹ کا بھی حساب رکھا ہوا ہے۔” تالیوں کے شور میں وہ رُکا” اور ہر اچھے بزنس مین کی طرح میں بھی اتنی بڑی رقم فوری طور پر کسی کو نہیں دے سکتا چاہے وہ قرضہ کی واپسی ہی کیوں نہ ہو…” وہ بول رہا تھا۔

”اور میں سُست ہوں، ضرورتاً جھوٹ بولتا ہوں، چیزیں اکثر بھول جاتا ہوں، دوستوں کو مایوس کرتا ہوں۔” اُس کے ہر جملے پر وہ سٹوڈنٹس پر جوش انداز میں تالیاں بجارہے تھے جیسے کسی rock star کو داد دے رہے ہوں۔

”اور ان تمام خامیوں کے سات بھی مجھے اگر most inspirational person کی فہرست میں رکھا جاتا ہے تو یہ خوف ناک بات ہے… خوف ناک اس لئے کیوں کہ ہم ایک ایسے زمانے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں صرف کامیابی ہمیں قابلِ عزت اور قابلِ رشک بنارہی ہے… ہماری انسانی خصوصیات اور خوبیاں نہیں۔”

تالیوں کے شور نے ایک بار پھر اُسے رُکنے پر مجبور کیا تھا۔ مجمع اب اُس کے سینس آف ہیومر کو نہیں، اُس کے اُن الفاظ کو سراہ رہا تھا۔

”MIT کے graduating students کو یہ بات کہتے ہوئے میں stupid لگوں گا کہ اُن چیزوں کو redefine کریں جو ہمارے لئے inspirational ہونی چاہیے… میں دس سال کا تھا جب میرے باپ نے مجھے زبردستی پاکستان بھیج دیا… مجھے اور میری فیملی کو… کیوں کہ میرے دادا کو الزائمر تھا، اور میرے باپ کا خیال تھا اُنہیں ہماری ضرورت تھی… میں نے اگلے چھے سال اپنے دادا کے ساتھ گُزارے تھے… دنیا کی کوئی یونیورسٹی مجھے وہ تربیت اور علم نہیں دے سکتی جو الزائمر کے ہاتھوں اپنی یادداشت کھوتے ہوئے اُس 75 سال کے بوڑھے نے اپنے دس سال کے پوتے کو دی… MIT بھی نہیں…” سنّاٹے کو تالیوں نے توڑا تھا پھر اُس کے لئے کھڑے ہوجانے والے ہجوم نے اگلے کئی منٹ اپنے ہاتھ نہیں روکے۔

”میں ہمیشہ سوچتا تھا اس سب کا فائدہ کیا تھا… مجھے امریکہ میں ہونا چاہیے تھا، دادا کے پاس نہیں… لیکن پھر آہستہ آہستہ سب کچھ بدلنا شروع ہوگیا… مجھے اُن کے ساتھ بیٹھنا، بات کرنا، سننا اور اُن کی مدد کرنا اچھا لگنے لگا… دس سال کا بچہ کبھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی انسان سامنے پڑی ہوئی چیز کا نام کیسے بھول سکتا ہے… لیکن میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور اس سب نے مجھے ایک چیز سکھائی… There is no tomorrow… جو بھی ہے آج ہے… اور آج کا بہترین مصرف ہونا چاہیے…”کل” چانس ہے، ہوسکتا ہے آپ کو نہ ملے۔”

اُس نے تقریر ختم کردی تھی، وہ پورا مجمع ایک بار پھر اُس کے لئے کھڑا ہوچکا تھا… تالیاں بجاتے ہوئے۔

امامہ بھی تالیاں بجارہی تھی، ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اُسے دیکھتے ہوئے… اُسے داد دیتے ہوئے… اُس کی اولاد نے اُسے ایسے بہت سے فخریہ لمحے دیے تھے… بہت سارے…

آہستہ آہستہ اُس گھر کے سارے پرندے اُڑ گئے تھے… جبریل، عنایہ، حمین رئیسہ… مگر ہر ایک کی پرواز شاندار تھی، وہ جس آسمان پر بھی اُڑ رہے تھے… فاتحانہ انداز میں اُڑ رہے تھے۔

” تم سمجھدار ہوگئے ہو یا ایکٹنگ کررہے تھے؟” وہاں سے واپسی پر امامہ نے اُس سے گاڑی میں کہا تھا۔ وہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہنس پڑا ”ایکٹنگ کررہا تھا، یہ تو ظاہر ہے… غلط سوال کرلیا آپ نے مجھ سے۔” اُس نے ماں کی بات کے جواب میں کہا تھا۔

”تم بے حد خراب ہو حمین!” امامہ کو یک دم جیسے یاد آیا ”میں بھی سوچ رہا تھا آپ بابا کی آٹو بائیوگرافی بھول کیسے گئیں؟” حمین نے ماں کے اس جملے پر برق رفتاری سے کہا۔

تمہیں اُسے نہیں پڑھنا چاہیے تھا۔” امامہ اب بھی سنجیدہ تھی۔”آپ ہی کہتی ہیں کتابیںپڑھنا اچھی عادت ہے۔” اُس نے ماں سے کہا ”میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ کتابیں چوری کر کے اور بغیر اجازت پڑھو۔”امامہ نے اُسی سنجیدگی سے اُسے ڈانٹا۔

”زندگی میں پہلی اور آخری بار کوئی کتاب چوری کر کے پڑھی ہے۔ آپ تسلّی رکھیں میں اتنا passionate نہیں ہوں ریڈنگ کے بارے میں۔” اُس نے بڑے اطمینان سے کہا۔ امامہ اگر اُسے شرمندہ دیکھنا چاہتی تھی تو یہ اُس کی غلط فہمی تھی۔ اُس کے پاس ہر logic اور ہر بہانہ تھا۔ سالار کا بیٹا تھا تو ان چیزوں کی افراط تھی اُس کے پاس۔

”ممّی آپ خوامخواہ ہی پریشان ہوتی رہتی ہیں، ہم بڑے ہوچکے ہیں، آپ ہر بات ہم سے راز نہیں رکھ سکتیں۔” اُس نے ماں کا کندھا تھپکتے ہوئے جیسے اُسے یاد دلایا۔

”باقی تینوں ہوچکے ہیں… تم نہیں ہوئے۔”

امامہ نے اُس کی بات کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے اُڑاتے ہوئے کہا۔

”That’s not fair آپ نے میری speech نہیں سُنی کیا؟” اُس نے بے ساختہ اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا۔

”وہ speech عنایہ نے لکھی ہوگی۔” امامہ نے کہا۔ ایک لمحہ کے لئے وہ لاجواب ہوا اور ونڈ سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بھی اُسے امامہ کی چبھتی نظروں کا احساس ہورہا تھا۔

”She just edited it” اُس نے بالآخر اعتراف کیا ”…As always” امامہ نے جتانے والے انداز میں کہتے ہوئے گہرا سانس لیا۔

”You know it very well … میں ساری عمر speeches لکھتا رہا ہوں، کرتا رہا ہوں، یہ مشکل نہیں ہے میرے لئے، میں خود بھی کرسکتا ہوں۔” ” کرسکتے ہو بالکل کرسکتے ہو، لیکن بس یہ نہ کہو کہ تمہاری speech سُن کر تمہارے سمجھدار ہونے کا یقین کرلوں۔”

امامہ مزید کچھ کہنے کے بجائے خفگی کے عالم میں خاموش ہوگئی اور ونڈ سکرین سے باہر دیکھنے لگی۔

”غصّے میں آپ بہت حسین لگتی ہیں۔” اُس نے یک دم بڑی سنجیدگی سے ماں سے کہا، امامہ نے گردن موڑ کر اُسے دیکھا ” یہ بھی میں نے بابا کی کتاب میں کہیں پڑھا تھا… چیپٹر نمبر فائیو میں…؟ نہیں شاید فور میں۔’ ‘ وہ اب اپنا بازو اُس کے کندھے کے گرد پھیلائے ماں کو منانے کی کوشش کررہا تھا۔

”واقعی لکھا ہے تمہارے بابا نے؟” امامہ نے جیسے بے یقینی سے اُسے پوچھا، اس کے باوجود کہ وہ یہ کتاب درجنوں بار پڑھ چکی تھی… ایڈٹ، ری ایڈٹ کرچکی تھی اُس کے باوجود ایک لمحہ کے لئے اُسے واقعی شائبہ ہوا۔

”لکھا تو نہیں لیکن اگر آپ کہیں تو میں edit کرکے شامل کردیتا ہوں… آپ کو ویسے بھی پتہ ہے میں غلط باتوں کا چیمپئن ہوں۔”اُس نے بے حد اطمینان سے ماں سے کہا۔ وہ ہنس پڑی، وہ واقعی یہ بھی کرسکتا تھا، اُس کے لئے اُسے شبہ نہیں تھا۔

******

”ہم کہیں مل سکتے ہیں؟” سکرین چمکی۔

”کہاں؟” تحریر اُبھری۔

”جہاں بھی تمہیں آسانی ہو، میں آجاؤں گا۔”جواب آیا۔

”اچھا سوچتی ہوں۔” لفظوں نے کہا۔


قسط نمبر 40

وہ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا… اور وہ وہاں مقامِ ملتزم کے سامنے کھڑا تھا… کتنی بار وہ یہاں آیا تھا اور کتنی بار یہاں آکر کھڑا ہوا تھا، اُسے اب گنتی بھی بھول چکی تھی، لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی و ہ وہاں اسی حالت میں کھڑا تھا… ہیبت کے عالم میں… عجز کی کیفیت میں … دنیا کی کوئی جگہ سالار سکندر کو مٹی نہیں کرتی تھی، صرف وہ جگہ تھی جو اُسے خاک بنادیتی تھی اور وہ ”خاک” بننے ہی وہاں آتا تھا… ہر بار اپنی اوقات جاننے اور اُس کی یاددہانی کے لئے… ہر بار جب دُنیا اُسے کسی چوٹی پر بٹھاتی تھی تو وہ اپنے فخر اور تکبر کو دفنانے یہاں آتا تھا… آج بھی آیا تھا… بلکہ بلایا گیا تھا۔

خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جارہا تھا… سیڑھی لگی ہوئی تھی… اور وہ دُنیا کے مختلف خطّوں سے آئے اُن دس مسلمانوں میں شامل تھا جنہیں خانہ کعبہ کے اندر ہونے والی صفائی کی سعادت کے لئے چنا گیا تھا۔ اور یہ اعزاز اُس کے حصے کس نیکی کے عوض آیا تھا، یہ اُسے ابھی تک سمجھ نہیں آرہا تھا… کرم تو وہ تھا ہی اور کرم تو اُس پر اللہ کا ہمیشہ ہی رہا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے نامہ اعمال میں ایسی کوئی نیکی کھوج رہا تھا جو ایسے کرم کا باعث بنتی۔

وہ شاہی خاندان کا مہمان بن کر پچھلے سالوں میں کئی بار عمرے کی سعادت حاصل کرچکا تھا۔ امامہ کے ساتھ بھی، اُس کے بغیر بھی… مگر یہ دعوت نامہ جو وہاں سے اس بار آیا تھا، وہ سالار سکندر کو کسی اور ہی کیفیت میں لے گیا تھا… ایسا انعام اور اتنا انعام… ایسا کرم اور اتنا کرم… وہ خطا کار اور گناہ گار تھا… ایسا کیا کر بیٹھا تھا کہ اب یوں درگزر کررہا تھا، یوں عطا کررہا تھا، وہ بھی جو وہم و گمان میں بھی نہ آنے والی باتیں ہوں۔

وہ اُس دعوت نامے کوآنکھوں سے لگا کر روتا رہا تھا… کیا صاف کرنا تھا اُس نے وہاں جاکر… سب صفائی تو اُس کے اپنے اندر ہونے والی تھی اور ہوتی آرہی تھی۔

امامہ بھی وہاں تھی، ایک دوسری قطار میں اُن ہی افراد کی فیملیز کے ساتھ… وہ اُسے بھی ساتھ لایا تھا اور وہ اُسے رشک سے دیکھ رہی تھی، اس کے علاوہ وہ اور کیا کرسکتی تھی… اُس کے گھر امریکہ سے آنے والا وہ ”مہمان” اس بار اُس کے لئے ایسی سعادت لانے والا تھا، اس کا اندازہ تو اُسے تھا ہی نہیں۔ وہ اُسے ہمیشہ سرپرائز کرتا تھا، بغیر بتائے آجاتا تھا جب بھی کبھی اُسے وقت ملتا تھا… دو دن کے لئے، تین دن کے لئے… اس بار بڑے عرصے کے بعد اُس نے امامہ کو اپنی آمد کے بارے میں پہلے سے بتایا تھا۔

“تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے۔” اُس نے امامہ سے کہا تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح سرپرائز بوجھ گئی تھی، ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اُس نے وہ پہیلیاں نہ بوجھی” ہوں جو سالار اُس کے سامنے رکھتا تھا۔

” تم مجھے عمرے پر لے کر جاؤ گے۔” اُس نے کئی اندازے لگانے کے بعد اُس سے فون پر کہا اور اُس کے ہنسنے پر امامہ نے فاتحانہ انداز میں کہا۔

”مجھے پتہ تھا۔”

لیکن جس سعادت کے لئے اللہ نے اُسے اس بار بلایا تھا اُسے اس کا اندازہ نہیں تھا، وہ اُسے نہیں بوجھ سکی تھی اور جب اُس صبح اُس نے بالآخر امامہ کو وہ دعوت نامہ دکھایا تھا تو وہ گنگ ہوکر رہ گئی تھی۔ اور پھر وہی ہوا تھا جو ہوتا آیا تھا، جو ہونا تھا… وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ ”تم اس لئے رورہی ہو کہ یہ دعوت نامہ تمہارے لئے نہیں ہے؟” سالار نے اُس کے بہتے آنسو روکنے کے لئے جیسے اُسے چھیڑا۔

” نہیں میں صرف اس لئے رورہی ہوں کہ…” وہ آنسوؤں کے درمیان رُکی۔”اللہ تم سے اتنا پیار کیوں کرتا ہے۔” وہ پھر رونے لگی تھی۔ ”حسد نہیں ہے…رشک ہے… تمہارا اعزاز ہے لیکن مجھے لگ رہا ہے میرے سر پر تاج بن کر سجا ہے۔” وہ آنسوؤں کے بیچ کہتی جارہی تھی۔

”جو بھی اعزاز ہیں، تمہاری وجہ سے ہی آئے ہیں امامہ… پہلے بھی… اب بھی… کوئی اور زندگی کا ساتھی ہوتا تو یہ سب نہ ہوتا۔” اُس نے جواباً اُس سے کہا تھا۔

اور اب خانہ کعبہ کے کُھلتے ہوئے دروازے سے وہ سالار سکندر کو سیڑھیاں چڑھ کر اندر جاتا دیکھ رہی تھی۔ وہ اندر جانے والا آخری شخص تھا۔

معجزہ ہی تھا وہ زندہ تھا…صحت مند، تندرست، چاق و چوبند… اس عمر میں بھی 20-22گھنٹے کام کرتے رہنے کی سکت کے ساتھ۔

ڈاکٹرز کہتے تھے اُس کی زندگی معجزہ تھی اور اُس کی ایسی صحت مند زندگی معجزے سے آگے کی کوئی شے… 42 سال کی عمر میں اُسے ٹیومر ہوا تھا اور وہ اب 60سال کا تھا… جو ٹیومر اُسے ہوا تھا ، وہ سات سے دس سال کے اندر انسان کو ختم کردیتا تھا اور وہ 18 سال سے زندہ تھا… ہر چھے مہینے کے بعد اپنی رپورٹس کو دیکھتا تھا… اُس کے دماغ میں موجود ٹیومر آج بھی تھا…اُسی جگہ پر… اُسی سائز میں…اور بس…

وہ رب جو سمندروں کو باندھ دیتا تھا، اور اُنہیں اُن کی حدوں سے باہر نکلنے نہیں دیتا تھا…اُس کے سامنے وہ چند ملی میٹر کا ایک ناسور کیا شے تھا؟

موت اور اُس کے بیچ زندگی نہیں دعائیں آکر کھڑی ہوئی تھیں اور سالار سکندر کو خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہوئے بھی یہ یاد تھا کہ وہ کس کی دعاؤں کی وجہ سے وہاں آج بھی اپنے قدموں پر کھڑا تھا۔ وہ امامہ ہاشم کے علاوہ کسی اور کی دعائیں ہو ہی نہیں سکتی تھیں جو اُسے زندگی بن کر یوں لگی تھیں۔

”کتنے سال سے میں نے اپنے لئے کوئی دعا ہی نہیں کی… جو بھی دعا کی ہے، تمہارے اور بچوں سے شروع ہوکر تم اور بچوں پر ہی ختم ہوجاتی ہے جب تک مجھے اپنا آپ یاد آتا ہے… مجھے دعا ہی بھول جاتی ہے۔” وہ اکثر اُس سے ہنستے ہوئے کہا کرتی تھی۔یوں جیسے ایک ماں اور بیوی کی پوری کہانی لکھ دیتی تھی۔

”دیکھو اللہ تمہیں کہاں کہاں بلاتے ہیں، کہاں کہاں دعا کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔” یہاں آتے ہوئے امامہ نے بڑی حسرت سے اُس سے کہا تھا اور اب خانہ کعبہ کے اندر کھڑے وہ اُس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اُسے جہاں بھی بلاتا تھا ،وہ اُسے ہر اُس جگہ پر امامہ کو بھی یاد رکھواتا تھا۔جیسے اُسے جتاتا اور بتاتا ہو کہ اُسے کیسی درجے والی عورت کا ساتھ عطا کیا گیا تھا۔

اُس گھر کے اندر کی دُنیا اور دُنیا تھی۔ اس کائنات کا حصہ ہوتے ہوئے بھی وہاں کروڑوں نہیں آئے تھے، لاکھوں نہیں، ہزاروں نہیں… بس ہر صدی میں چند سو… اور ایک وہ صدی تھی جب وہاں پیغمبر ۖ آئے تھے… وہاں کی ہر جگہ، ہر دیوار پر اُن کا لمس تھا اور پھر سینکڑوں سال بعد وہاں سالار سکندر بھی کھڑا تھا… ہیبت نہ آتی تو کیسے نہ آتی… صاف کرنا تھا تو کیا چیز صاف کرنی تھی… اپنے وجود کے علاوہ تو اُسے وہاں صاف کرنے والی کوئی شے نظر ہی نہیں آرہی تھی۔

”تم اندر جاکے کیا مانگو گے سالار؟” اُس نے خانہ کعبہ آتے ہوئے اُس سے پوچھا تھا۔ ”تم بتاؤ کیا مانگوں؟” سالار نے جواباً اُس سے پوچھا۔

”پتہ نہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا۔” وہ رونے لگی… اور اُس دعوت نامہ کو دیکھنے کے بعد بار بار یہی ہورہا تھا وہ بار بار بات کرتے ہوئے رونے لگتی تھی… جیسے دل بھر آتا ہو… جیسے خوشی کی حد ختم ہوجاتی ہو۔

”تم سارے ستونوں کو ہاتھ لگا کر آنا… ساری دیواروں کو…اُن کو نبی پاک ۖ نے بھی چھوا ہوگا، کسی نہ کسی کو… پھر تم باہر آؤ گے تو سب سے پہلے میں تمہارا ہاتھ چھوؤں گی۔” وہ بچوں جیسے انداز میں کہہ رہی تھی۔

اور خانہ کعبہ کے اندر اُس کی دیواروں ، ستونوں کو آبِ زم زم سے دھوتے، چھوتے سالار سکندر کو سمجھ آگیا تھا امامہ ہاشم کیوں یاد آتی ہے ایسی ہر جگہ پر… کیوں دعا والی ہر جگہ پر سب سے پہلے اُس کے لئے دعا کرنا یاد آتا تھا… کیوں کہ وہ عشقِ رسولۖ تھا… خالص تھا… غرض کے بغیر تھا… قربانیوں سے گندھا تھا، یہ کیسے ممکن تھا وہاں سے جواب نہ ملتا… بُھلا دیا جاتا۔

”تُم نے اندر جاکر میرے لئے کیا مانگا؟” اُس کے باہر آنے پر امامہ نے عجیب بے تابی سے اُس سے پوچھا تھا۔ وہ ابھی اُس کے پاس آیا ہی تھا، اُس کے دونوں ہاتھ پکڑے وہ اب اُس سے پوچھ رہی تھی۔

”مانگا ہے کچھ… بتا نہیں سکتا۔” سالار نے جواباً عجیب مسکراہٹ کے ساتھ کہا ” جب پوری ہوجائے گی دُعا پھر بتاؤں گا۔” اُس نے اُسے جیسے اگلا سوال کرنے سے روک دیا تھا۔

”میں جانتی ہوں کیا مانگا ہے… لیکن میں بھی بتاؤں گی نہیں، دیکھتی ہوں قبول ہوتی ہے تمہاری دعا یا نہیں۔” امامہ نے جواباً عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اُس سے کہا تھا۔

******

اسفند کی موت کی اطلاع عائشہ عابدین کو دینا جبریل سکندر کی ذمہ داری نہیں تھی، اس کے باوجود وہ اُس بچّے کی ماں سے ملنے آیا تھا اور عائشہ عابدین کو دیکھتے ہی کچھ دیر کے لئے وہ گنگ ہوگیا تھا۔ کچھ ایسا ہی حال عائشہ عابدین کا تھا، وہ دونوں کئی سالوں بعد ایک دوسرے سے ملے تھے اور ملتے ہی ایک دوسرے کو پہچان گئے تھے، اور اب یہ شناخت جیسے اُن کے حلق کا کانٹا بن گئی تھی۔

عائشہ کویقین نہیں آیا تھا کہ امریکہ کے بہترین ہاسپٹل میں بہترین ڈاکٹر کے ہاتھوں بھی اُس کے بچّے کی جان جاسکتی تھی۔ وہ خود ڈاکٹر تھی، اسفند کی چوٹ کی نوعیت اور سنگینی کو جانتی تھی لیکن وہ خود جس ہاسپٹل میں ریذیڈنسی کررہی تھی، وہاں اُس نے اس سے بھی زیادہ سنگین اور پیچیدہ نوعیت کے آپریشنز کے بعد بھی مریضوں کو صحت یاب ہوتے دیکھا تھا۔ لیکن اُس کا اپنا بیٹا اُن خوش قسمت لوگوں میں شامل کیوں نہیں ہوسکا تھا۔ اس سوال کا جو جواب عائشہ عابدین نے ڈھونڈا تھا ، وہ ایک لمبے عرصہ تک اُسے بھوت بن کر چمٹا رہاتھا۔

اُس نے غم کو پہلی بار مجسّم حالت میں دیکھا تھا، اُس شخص کی شکل میںجو اُسے اُس کی متاعِ حیات چھن جانے کی خبر سنانے آیا تھا… اور وہ وہ شخص تھا جس کے سراب نے عائشہ عابدین کو اُس عذاب میں ڈالا تھا جس میں وہ تھی۔

ایک ڈاکٹر کی طرح جبریل اُسے بتاتا گیا تھا کہ آپریشن کیوں ناکام ہوا، اسفند کی حالت کیوں بگڑی… کیوں نہیں سنبھل سکی… اور ان تمام تفصیلات کو دہراتے ہوئے جبریل سکندر کے لاشعور میں ڈاکٹر ویزل کے ہاتھ کی وہ حرکت بار بار آتی رہی، بار بار سر سے جھٹکنے کے باوجود… وہ ایک بت کی طرح گم صم اُس کی بات سنتی رہی یوں جیسے وہ اُس کے بیٹے کے بارے میں نہیں کسی اور کے بارے میں بات کررہا تھا۔

”آپ کے ساتھ کوئی اور ہے؟” اپنی کسی بات کے جواب میں ایک مکمّل خاموشی رکھنے کے باوجود جبریل اُس سے ایک بار پھر پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ اُسے وہ اس وقت نارمل نہیں لگ رہی تھی اور اُسے احساس ہوا تھا کہ اُسے اُس کی فیملی میں کسی اور سے بات کرنی چاہیے تھی۔ یا اگر اب کرسکتا تھا تو اب کرلے۔ عائشہ عابدین نے اُس کی بات کے جواب میں نفی میں سر ہلادیا۔ جبریل اُس کا چہرہ دیکھنے لگا تھا۔ اُسے سمجھ نہیں آیا تھا وہ اُس سے اگلا سوال کیسے کرے… سوال ہونے کے باوجود… فیملی نہیں تھی تو کہاں تھی… وہ کیا سنگل پیرنٹ کے طور پر اسفند کی پرورش کررہی تھی…؟ شوہر اگر نہیں بھی تھا تو کوئی اور تو فیملی میں ہوتا… اُس کی ماں اور بہنیں… وہ مزید کچھ نہیں سوچ سکا… عائشہ نے یک دم اُس سے کہا تھا”آپ جائیں… میں manage کرلوں گی سب کچھ۔” اُس کی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے آئی تھی… اُسے پتہ تھا وہ ”سب کُچھ” کیا تھا اور جبریل کو بھی اندازہ تھا وہ کس طرف اشارہ کررہی تھی۔

ایک روتی بلکتی ہوئی ماں کو تسلی دینا آسان کام تھا، لیکن بظاہر ہوش و حواس میں نظر آتی ایک خاموش گم صم ماں کو تسلی دینا اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔ وہ صرف چند منٹوں کے لئے اُس بچے کی فیملی سے ملنے آیا تھا اور اب یہ ملاقات ختم کرنا اُس کے لئے پہاڑ بن گیا تھا۔ اُس نے زندگی میں پہلی بار کسی مریض کو مرتے نہیں دیکھا تھا، لیکن کسی بچے کو پہلی بار مرتے دیکھا تھا… عائشہ عابدین سے مل کر اُس کا رنج کچھ اور بڑھا تھا… وہ اُس آپریشن کو lead نہیں کررہا تھا نہ ہی وہ اسفند کی موت کا ذمّہ دار تھا، اس کے باوجود یہ احساس اُس کا ساتھ چھوڑنے پر تیّار نہیں تھا کہ اُس آپریشن میں ڈاکٹر ویزل سے کچھ غلطی ہوئی تھی، آپریشن کے فوراً بعد ڈاکٹر ویزل اور اُس کی بات چیت نہیں ہوسکی تھی۔ وہ عجیب اضطراب اور پریشانی کے عالم میں وہاں سے گئے تھے۔ سب کا اندازہ تھا وہ اس آخری آپریشن کی ناکامی سے اپ سیٹ ہوئے تھے ، صرف جبریل تھا جس کا خیال تھا وہ خود بھی اپنی غلطی کا اندازہ لگاچکے تھے لیکن اب اس صورت حال کے درمیان وہ پھنسا کھڑا تھا… ضمیر کی چبھن اور انسانی ہمدردی… لیکن اُس سے بھی بڑھ کر شناسائی کا وہ پرانا تعلق جو اُس کے اور عائشہ عابدین کے درمیان نکل آیا تھا۔

”کوئی دوست ہے یہاں آپ کا؟” جبریل اب اُس کے قریب بیٹھ گیا تھا۔ اُسے ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ اُسے پہچانی ہے یا نہیں اوراُسے اس صورت حال میں اپنا تعارف کروانا چاہیے یا نہیں۔

”نہیں” عائشہ نے سر جھکائے اُسے دیکھے بغیر کہا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنی گود میں رکھے اُن پر نظریں جمائے سر جھکائے بیٹھی تھی… جبریل اُس کے برابر والی کُرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔اُس نے بے حد نرمی سے عائشہ کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ عائشہ نے عجیب وحشت بھری نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔

”میرا خیا ل ہے، ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔” اُس کا ہاتھ بڑی نرمی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے جبریل نے اُس سے کہا تھا۔ وہ اُسے رلانا نہیں چاہتا تھا لیکن اُس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اُسے اندازہ ہوا تھا کہ اُسے اس وقت پھوٹ پھوٹ کر رونے کی ضرورت تھی… سکتے کی وہ کیفیت غیر فطری تھی۔
میں جبریل سکندر ہوں… نسا کا کلاس فیلو اور دوست… اور مجھے بہت افسوس ہے کہ ہم اسفند کو نہیں بچا سکے۔” وہ مدہم آواز میں اُس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ عائشہ نے گردن موڑ کربھی اُس کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس وقت کسی کو پہچاننا نہیں چاہتی تھی، خاص طور پر ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو۔

”مجھے بتائیں میں آپ کے لئے کیا کرسکتا ہوں؟” جبریل نے اُس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک محسوس کی تھی، یوں جیسے اُس نے برف کو ہاتھ میں لے لیا تھا، وہاں کا ٹمپریچر بھی عائشہ عابدین کے وجود کی ٹھنڈک کو غائب کرنے میں ناکام ہورہا تھا۔

” Please leave me alone…میری وجہ سے اپنا وقت ضائع نہ کریں… آپ ڈاکٹر ہیں، کسی کو آپ کی ضرورت ہوگی۔” اُس نے جبریل کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے رُک رُک کر اُس سے کہا تھا۔ وہ اب اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں کے بیچ دبا کر بیٹھ گئی تھی… یوں جیسے یہ چاہتی نہ ہو کہ کوئی اُس کا ہاتھ پکڑے ، اُسے تسلی دے۔کرسی کی edge پر بیٹھی اپنے وجود کو جوتوں کے پنجوں پر ٹکائے وہ آگے پیچھے جھول رہی تھی یوں جیسے کسی گہری سوچ میں کسی ذہنی انتشار میں ہچکولے کھارہی ہو۔

وہ پہلی بار تھا کہ جبریل نے عائشہ عابدین کو غور سے دیکھا تھا… بے حد حیرانی کے عالم میں… سیاہ جینز اور سیاہ ہی جیکٹ میں ملبوس گردن کے گرد ایک گرے رنگ کا مفلر لپیٹے اُس کی ہم عمر وہ لڑکی اب اُس کی ہم عمر نہیں لگ رہی تھی… اُس کے کندھوں سے نیچے تک لہراتے سیاہ چمکدار بالوں میں جگہ جگہ سفید بال تھے… اُس کی رنگت زرد تھی اور آنکھیں سُرخ… یوں جیسے وہ عادی رونے عالوں میں سے تھی یا پھر ساری ساری رات جاگنے والوں میں سے… اُس کے سر پر وہ حجاب بھی نہیں تھا جو سالوں پہلے اُس کی پہچان تھا… ڈاکٹر نورین الہیٰ کے خاندان میں وہ حجاب لینے والی پہلی اور واحد لڑکی تھی اور بے حد اچھی خاندانی اقدار رکھنے کے باوجود جبریل جانتا تھا کہ نسا اور اُس کے خاندان کا رجحان مذہب کی طرف نہیں تھا۔ صرف عائشہ عابدین تھی جو مذہبی رجحان اور بے حد واضح طور پر ایسی ہی پہچان بھی رکھتی تھی اور اُس کی وجہ شاید اُس کا پاکستان میں قیام پذیر ہونا تھا، یہ جبریل کا اندازہ تھا۔ عائشہ سے اُس کی کبھی اتنی تفصیلی ملاقاتیں نہیں ہوئیں کہ اُسے اُس کی شخصیت کا صحیح اندازہ ہوپاتا… وہ جس عمر میں اُس سے ملا تھا، وہ ٹین ایج تھی اور اُس عمر میں اُسے بات بات پر مسکرانے اور بلش کرنے والی وہ لڑکی عنایہ اور رئیسہ جیسی ہی لگی تھی… اُس نے اس سے زیادہ غور اس پر نہیں کیا تھا، اس کے باوجود کہ وہ اُس کے فیس بک پر موجود تھی اور کبھی کبھار اُس کی تصویروں کو لائیک کرتی نظر آتی تھی، پھر وہ غائب ہوگئی تھی۔ اُسے نسا سے پتہ چلا تھا کہ میڈیسن کی تعلیم کے دوران ہی اُس کی شادی ہوگئی تھی اور اُس وقت جبریل نے مبارک باد کا میسج اُس کی وال پر لگانا چاہا تو اُسے پتہ چلا کہ وہ اب اُس کے contacts میں نہیں تھی… عائشہ عابدین سے اُس کا وہ پہلا تعارف بس یہی تک ہی رہا تھا… نسا اور وہ بہت جلد دو مختلف سٹیٹس کے ہاسپٹلز میں چلے گئے تھے…اُن کے درمیان ایک دوست اور کلاس فیلو کے طور پر موجود رشتہ بھی کچھ کمزور پڑنے لگا تھا… نسا اب کہیں engaged تھی اور جبریل اپنے پروفیشن میں بے حد مصروف… اور اس تیز رفتار سے گزرنے والی زندگی میں عائشہ عابدین کسی سپیڈ بریکر کی طرح آئی تھی۔ جبریل نے اُس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنا سیل فون نکال کر اُس میں سے نسا کا نمبر ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ چند لمحوں میں اُسے نمبر مل گیا تھا۔

”کیا میں نسا کو فون کر کے بلاؤں؟”اُس نے عائشہ سے کہا ” نہیں” جبریل اُس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔ وہ عجیب تھی یا ہوگئی تھی، جبریل کی سمجھ میں نہیں آیا یا پھر یہ صدمہ تھا جس نے اُسے یو ں بے حال کردیا تھا۔

جبریل کو لوگوں پر ترس آتھا تھا ہمیشہ ہی… ہمدردی اُس کی گھٹی میں تھی لیکن اس کے باوجود وہ ایک معروف ڈاکٹر تھا، ایک ایک منٹ دیکھ کر چلنے والا… اُس نے وہاں بیٹھے بیٹھے سوچا تھا، وہ ہاسپٹل کے متعلقہ شعبے سے کسی کو یہاں بھیجتا ہے تاکہ وہ عائشہ عابدین کی مدد کرے اور اُس کی فیملی کے دوسرے افراد سے رابطہ کر سکے۔ وہ اُٹھنے لگا تھا جب اُس نے عائشہ عابدین کی آواز سُنی تھی۔

”آپ کو پتہ ہے میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا ہے؟” وہ رُک کر اُسے دیکھنے لگا ، وہ اُس کی طرف متوجہ نہیں تھی، لیکن خود کلامی کے انداز میں بول رہی تھی۔

”کیوں کہ میں اللہ کی نافرمان عورت ہوں، اللہ نے مجھے سزا دی ہے۔ احسن سعد ٹھیک کہتا ہے۔” جبریل اُسے دیکھتا رہا گیا تھا۔ عائشہ عابدین نے جیسے وہ بوجھ اتار کر اُس کے سامنے پھینکنے کی کوشش کی تھی جو اُس کے لئے آزار بن گیا تھا۔ احسن سعد کون تھا، جبریل نہیں جانتا تھا اور وہ اُس کے بارے میں جو کہتا تھا، جبریل اُس کی وجہ سے بھی ناواقف تھا۔ مگر اُس کے وہ دو جملے اُس دن اُس کے پیروں کی زنجیر بن گئے تھے۔

*****

گاڑی بالآخر پورچ میں آکر رُکی اور اندر سے امامہ بڑی تیز رفتاری سے باہر نکلی تھی۔ گاڑی تب تک رُک چکی تھی اور اُس کی اگلی سیٹ سے ایرک اُتر رہا تھا۔ پہلی نظرمیں امامہ اُسے پہچان نہیں سکی۔ وہ واقعی بدل گیا تھا۔ لمبا تو وہ پہلے بھی تھا، لیکن اب وہ پہلے کی طرح بہت دبلا پتلا نہیں رہا تھا۔

اُس کے ہاتھوں میں دو گلاب کی کلیوں اور چند سبز شاخوں کا ایک چھوٹا سے بُکے تھا… ہمیشہ کی طرح… امامہ کو یاد تھا وہ بچپن میں بھی اکثر اُسے اسی طرح ایک پھول اور دو پتوں والی شاخیں اکثر دیتا تھا… جب بھی اُسے کسی خاص موقع پر ملنے آتا تو… اور بعض دفعہ وہ پورا ”گلدستہ ”اُس کے گھرکے لان سے ہی بنایا گیا ہوتا تھا۔

ایرک اُس سے سلام کے بعد گلے ملنے کے لئے بے اختیار آگے بڑھا پھر جھینپ کر خود ہی ٹھٹھکا ، شاید اُسے کوئی خیال آگیا تھا… امامہ نے آگے بڑھ کر تھپکنے والے انداز میں اُس کے گرد بازو پھیلایا تھا۔

”میں تمہیں پہچان ہی نہیں سکی، تم بڑے ہوگئے ہو… بہت بدل بھی گئے ہو۔” اُس نے ایرک سے کہا، وہ مسکرا یا۔

”لیکن آپ نہیں بدلیں…آپ ویسی ہی ہیں۔” وہ ہنس پڑھی تھی ” سننے میں کتنا اچھا لگتا ہے کہ کچھ نہیں بدلا… حالانکہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ میں بھی بوڑھی ہوگئی ہوں۔” وہ ہنس رہی تھی۔

”بڑھاپے کی definition اب شاید بدل گئی ہوگی۔” ایرک نے برجستگی سے کہا ، وہ پھر ہنس پڑی۔

”یہ آپ کے لئے۔” ایرک نے اُسے وہ چھوٹا سا گلدستہ تھمایا تھا۔

”تمہاری عادتیںنہیں بدلیں… لیکن پھول بدل گیا ہے۔” امامہ نے گلدستہ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ” کیونکہ ملک بدل گیا ہے۔” اُس نے دوبدو کہا۔

”ہاں یہ بھی ٹھیک کہا تم نے… سامان کہاں ہے تمہارا؟” امامہ کو یک دم خیال آیا وہ گاڑی سے اس گلدستے اور ایک چھوٹے بیگ کے علاوہ خالی ہاتھ اُترا تھا۔

”ہوٹل میں … میں وہیں رہوں گا، بس آپ سے ضروری ملاقات کرنی تھی، اس لئے آیا ہوں۔” ایرک نے اُس کے ساتھ اندر جاتے ہوئے کہا۔

”پہلے تم ہمیشہ ہمارے پاس آیا کرتے تھے اور یہیں رہتے تھے، اس بار کسی اور کے پاس آئے ہو کیا؟” امامہ کو لگا تھا وہ شاید پاکستان اپنے کسی پروفیشنل کام سے آیا تھا۔ نہیں کسی اور کے پاس تو نہیں آیا لیکن بس مجھے لگا اس بار کسی ہوٹل میں رُک کر بھی دیکھنا چاہیے۔” وہ بات گول کرگیا تھا۔

وہ لنچ کا وقت تھا اور اُس نے صبح جب فون پر اُس سے ملاقات کے لئے بات کی تھی تو امامہ نے لنچ کے کھانے پر خاص اہتمام کیا تھا۔ ایرک کو جو چیزیں پسند تھیں، اُس نے بنوائیں تھیں اور ایرک نے اُس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے بڑے شوق سے کھانا کھایا تھا۔

لنچ کے دوران گپ شپ میں ایرک اور اُس کے درمیان ہر ایک کے بارے میں بات ہوئی تھی سوائے عنایہ کے… ایرک نے اُس کا ذکر تک نہیں کیا تھا اور امامہ نے یہ بات نوٹس کی تھی… حوصلہ افزا تھی یہ بات لیکن پتہ نہیں کیوں اُسے غیر معمولی لگی تھی…اور اُس کی چھٹی حس نے اُسے جو سگنل دیا تھا، وہ ٹھیک تھا۔

لنچ کے بعد چائے کا آخر ی سپ لے کر کپ رکھتے ہوئے ایرک نے اپنے بیگ سے ایک لفافہ نکال کر اُس کے سامنے میز پر رکھ دیا تھا۔ امامہ ابھی چائے پی رہی تھی، وہ بُری طرح ٹھٹھکی تھی۔

”یہ کیا ہے؟”

”آپ دیکھ لیں۔”

اُس نے امامہ سے کہا، پلک جھپکتے اُس خوبصورت لفافے کو کھولنے سے بھی پہلے… اُس کے چہرے سے مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی تھی، وہ اس ایک لمحے کو avoid کرنا چاہ رہی تھی اور وہ پھر بھی سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ لفافے کے اندر ایک خوبصورت کاغذ پر بے حد خوبصورت طرزِ تحریر میں ایرک نے وہی لکھا ہوا تھا جس کا اُسے خدشہ تھا۔ وہ عنایہ کے لئے اس کی طرف سے ایک فارمل پروپوزل تھا۔ اس وعدے کے ساتھ کہ وہ اُسے بہت خوش رکھے گا اور آفر کے ساتھ کہ وہ اس پروپوزل کے لئے اُن کی تمام شرائط قبول کرنے پر تیار ہے۔

امامہ کی نظریں کچھ دیر اُس کاغذ پر جمی رہیں اور ایرک کی اُس پر۔ پھر امامہ نے کاغذ کو اُس لفافے میں واپس ڈال کر اُسے میز پر رکھ دیا تھا۔ ایرک سے اب نظر ملانا اور سامنا کرنا یک دم مشکل ہوگیا تھا۔ اُس نے بالآخر ایرک کو دیکھا، وہ سنجیدہ تھا اور گفتگو کا آغازاُسی نے کردیا تھا۔

”آپ نے کئی سال پہلے مجھ سے کہا تھا میں پڑح لکھ کر کچھ بن جاؤں پھر آپ سے اس بارے میں بات کروں اور تب تک میں عنایہ سے بھی اس موضوع پر کبھی بات نہ کروں۔ دیکھیں میں نے آپ کی دونوں شرائط پوری کی ہیں۔” اُس نے کہا تھا اور اُس کے دونوں جملوں نے امامہ کے لئے جواب کو اور بھی مشکل کردیا تھا۔

”میں جانتا ہوں مسز سالار، آپ کے لئے میں ایک بہت مشکل انتخاب ہوں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ایک بُرا انتخاب ثابت نہیں ہوں گا۔” ایرک نے جیسے اُس کی مشکل بھانپتے ہوئے خود ہی اُسے یقین دہانی کروانے کی کوشش کی تھی۔

وہ اُس کا چہرہ دیکھتی رہی، وہ اچھا لڑکا تھا… بُرا ہوتا تو اُسے بُرا بھلا کہنا کتنا آسان ہوتا… امامہ نے دل میں سوچا تھا…وہ انکار کی ہر وجہ اپنی طرف سے ختم کر آیا تھا… مسلمان بھی ہوگیا تھا، ایک اچھے پروفیشن میں بھی تھا۔ خاندانی اعتبار سے بھی اچھا تھا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ پھر بھی اُسے انکار کیا کہہ کے کرے… یہ کہہ کے کہ اُسے خوف اور خدشات تھے، اُس کے نومسلم ہونے کے حوالے سے… یا یہ کہے کہ وہ صرف ایک پاکستانی سے عنایہ کی شادی کرنا چاہتی تھی جو اُس کے اپنے کلچر سے واقف ہو… اُس کے ذہن میں اس وقت جوابات جیسے بھاگ رہے تھے اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو تسلی بخش ہوتا لیکن اس کے باوجود اُسے ایک جواب تو ایرک کو دینا ہی تھا۔

”تم بہت اچھے ہو ایرک۔” امامہ نے بالآخر اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔”عبداللہ!” اُس نے امامہ کو بیچ میں ٹوک کر جیسے اُس کی تصحیح کی۔ وہ ایک لحظہ کے لئے خاموش ہوئی پھر اُس نے جیسے بڑی مشکل سے اُس سے کہا ”عبداللہ… تم بڑے اچھے لڑکے ہو اور میں تمہیں پسند کرتی ہوں لیکن عنایہ کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے، میں نہیں جانتی عنایہ تمہارے پروپوزل کے حوالے سے کیا سوچتی ہے… اُس کی پسند ناپسند بے حد اہم ہے۔” وہ جملہ ادا کرتے ہوئے بھی امامہ کو احساس ہورہا تھا وہ ایک بے تکی بات کررہی تھی… اگر بات عنایہ کی پسند ناپسند کی تھی ، تو پھر رشتہ پکاتھا۔ ایرک کے لئے اُس کی پسندیدگی بہت واضح تھی۔

”میں نے عنایہ سے پہلے اس لئے بات نہیں کی کیوں کہ آپ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا ، میں یہ بات جب بھی کروں گا، آپ سے ہی کروں گا۔” اُس نے امامہ کی بات کاٹ کر جیسے اُسے یاددہانی کروائی تھی۔

”میں سالار سے بات کروں گی، تم دو ہفتے پہلے آجاتے تو اُن سے تمہاری ملاقات ہوجاتی… وہ یہیں تھے کچھ دن۔”امامہ نے جواباً کہا تھا ، فوراً ہاں کہہ دینے سے یہ بہتر تھا۔

”وہ جہاں بھی ہوں گے، میں اُن سے ملنے جاسکتا ہوں، میں جانتا ہوں وہ بڑے مصروف ہیں لیکن پھر بھی۔” ایرک نے اُس سے کہا ”آپ کو تو میرے پروپوزل پر کوئی اعتراض نہیں ہے نا؟” وہ یک دم خوش ہوا تھا اور اُس کے چہرے پر چھلکنے والی خوشی اور اطمینان نے جیسے امامہ کو احساسِ جُرم دیا تھا۔

” میں نے تمہیں بتایا ہے عبداللہ تم بہ بہت اچھے ہو، لیکن میری خواہش ہے کہ عنایہ کی شادی جس سے بھی ہو، وہ صرف نام کا مسلمان نہ ہو، نیک ہو، دین دار ہو، سمجھ بوجھ رکھنے کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیمات پر عمل بھی کرتا ہو۔” امامہ نے بالآخر اُس سے کہنا شروع کیا ، وہ بے حد سنجیدہ تھی۔ وہ اُس کی بات بے حد غور سے سُن رہا تھا۔

”مرد کو دین کا پتہ نہ ہو تو عورت کے لئے بہت مسئلہ ہوجاتا ہے۔یہ ایک پوری نسل کی تربیت کی بات ہوتی ہے۔ ہم لوگ لبرل مسلمان ہیں لیکن بے دین اور بے عمل نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے ہونا چاہتے ہیں، نہ اپنی اگلی نسلوں کے لئے یہ چاہتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ تم کتنے practicing ہو اور اسلام کے بارے میں تمہارے concepts کتنے واضح ہیں لیکن عنایہ بہت مذہبی ہے… میں نہیں چاہتی اُس کی شادی کسی ایسی جگہ ہو جہاں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی وجہ مذہبی اعتقادات اور اُن پر عمل کا ہونا یا نہ ہونا ہو۔” وہ کہتی جارہی تھی۔

”تمہیں شاید پتہ نہ ہو لیکن میں بھی نومسلم تھی۔اپنے مذہب کو ترک کر کے اسلام کی صحیح تعلیمات اختیار کی تھیں میں نے… فیملی، گھر سب چھوڑا تھا… بڑے مسائل کا سامنا کیا تھا … یہ آسان نہیں تھا۔”اُس کی آواز بُھرّا گئی تھی، وہ رُکی اپنی آنکھیں پونچھتے وہ ہنسی یوں جیسے اپنے آنسوؤں کو چھپانا چاہتی ہو۔

” یہ آسان کام نہیں تھا۔” اُس نے دوبارہ کہنا شروع کیا ”لیکن سالار نے بہت آسان کردیا میرے لئے… وہ practicing مسلمان ہے اور میں اپنی بیٹی کے لئے اُس کے باپ جیسامسلمان ہی چاہتی ہوں، زندگی میں اتنی تکلیفیں برداشت کر کے اتنی لمبی جد و جہد کے بعد میں اپنی اگلی نسل کو پھر سے بے دین اور بے عمل دیکھنا نہیں چاہتی۔ تم مسلمان تو ہو لیکن شاید اسلام کی تعلیمات میں اتنی دلچسپی نہ ہو کیوں کہ مسلمان ہونے کی تمہاری وجہ ایک لڑکی سے شادی ہے۔ شادی ہوجائے گی تمہاری دلچسپی دین میں ختم ہوجائے گی… کچھ عرصہ بعد شاید تمہیں یہ بھی پروا نہ رہے کہ تم مسلمان ہو۔ حرام اور حلال کے درمیان جو دیوار ہم اُٹھا کر رکھتے ہیں، تمہارے لئے وہ اُٹھانا ضروری نہ ہو… محبت بہت دیرپا چلنے والی شے نہیں ہے، اگر دو انسانوں کے بیچ عادات ، اعتقادات اور خیالات کی خلیج ہو تو۔” ایرک نے اُس کی گفتگو کے درمیان اُسے ایک بار بھی نہیں ٹوکا تھا، وہ صرف خاموشی سے اُس کی باتیں سنتا رہا۔

”تم کسی ویسٹرن لڑکی سے شادی کرلو تو تمہاری بہت اچھی نبھے گی…” وہ اب اُسے جیسے مشورہ دیتے ہوئے راستہ دکھانے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ مسکرا دیا۔

”کوئی اچھی مسلمان لڑکی جو وہیں سے ہو۔” اس بار اُس نے اس لمبی گفتگو کے دوران پہلی بار امامہ کو ٹوکا۔

”وہ جو بھی ہوگی،آپ کی بیٹی تو نہیں ہوگی مسز سالار۔”امامہ خاموش ہوگئی۔

”آپ نے اچھا کیا یہ سب کچھ کہا مجھ سے… جو بھی آپ کے خدشات ہیں، میں اب اُنہیں دیکھ سکتا ہوں ، اور آپ کو وضاحت بھی دے سکتا ہوں۔ نو سال ہوگئے ہیں مجھے عبداللہ بنے… لیکن مجھے لگتا ہے مسلمان میں بہت پہلے سے تھا… تب سے جب آپ لوگوں کے خاندان سے ملنا شروع ہوا تھا…” وہ بہت سوچ سوچ کے ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا تھا۔

”میں بہت زیادہ باعمل اور باکردار مسلمان نہیںہوں… آپ کے بیٹوں جیسا تو بالکل بھی نہیں ہوں… لیکن اپنے آس پاس نظر آنے والے بہت سے مسلمانوں سے بہتر ہوں۔ نو سال میں میں نے اپنے دین کے حوالے سے صرف حرام اور حلال ہی کو نہیں سمجھا اور بھی بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ کبھی قادیانی تھیں، پھر آپ تائب ہوکر مسلمان ہوئیں… مجھ سے یہ مت پوچھیے گا کہ یہ مجھے کس نے بتایا لیکن میں یہ جانتا ہوں اور اس لئے آپ سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ آپ مجھ سے زیادہ ہمدردی رکھیں گی۔ آپ کی طرح میں بھی اپنی اگلی نسل کو اچھا انسان اور مسلمان دیکھنا چاہتا ہوں… صرف مسلمان نہیں… اس لئے آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں… ایک اچھی دین دار عورت ہی ایک اچھے گھرانے کی بنیاد رکھتی ہے… یہ بھی دین نے ہی بتایا ہے مجھے۔” امامہ اُس کی باتیں سُن رہی تھی، عبداللہ اُس کے انکار کو بہت مشکل کرتا جارہا تھا ۔ وہ جو بھی اُس سے کہہ رہا تھا، وہ clarity کے ساتھ کہہ رہا تھا۔

”مجھے عنایہ بہت اچھی لگتی ہے، محبت کرتا ہوں اُس سے لیکن شادی کا فیصلہ صرف محبت کی وجہ سے نہیں کیا نہ ہی مذہب کی تبدیلی محبت کا نتیجہ ہے… میری زندگی میں آپ اور آپ کی فیملی کا ایک بہت پازیٹو رول رہا ہے… میں آپ لوگوں کے مذہب سے بعد میں متاثر ہوا تھا، آپ لوگوں کی انسانیت اور مہربانی سے پہلے متاثر ہوا تھا… اور میری زندگی کے ایک بہت مشکل phase میں مجھے آپ لوگوں کا حُسنِ سلوک یاد ہے… ایک ایک چیز… آپ کہیں تو میں دہرا سکتا ہوں… میں اُس مذہب کے awe میں آگیا تھا جو ایسے خوبصورت انسان بنانے کی صلاحیت اور قدرت رکھتا تھا… میں اُس وقت بہت چھوٹا تھا، آپ لوگوں کے لئے جو محسوس کرتا تھا، اُسے آپ لوگوں کو بتا نہیں سکتا تھا۔ اب اتنے سالوں بعد مجھے موقع ملا ہ تو میں بتا رہا ہوں۔” وہ رُکا… سر جھکائے بہت دیر خاموش رہا