صفحات

تلاش کریں

ناول-عشق کا قاف از سرفراز احمد راہی -حصہ اول


موسم، طوفانِ باد و باراں کے اشاروں پر رقص کر رہا تھا۔
سپیڈ کم ہوئی اور کار رک گئی۔ اس نے ہا رن دبایا۔ تیسری آواز پر گیٹ کھل گیا۔
 بادل ایک بار پھر بڑے زور سے گرجی۔  بارش میں اور شدت آ گئی۔ کار آگے کو سرکی مگر اس سے پہلے کہ کار گیٹ سے اندر داخل ہو تی، بجلی زور سے چمکی۔ فانوس سے روشن ہو گئی۔
 وہ چونک اٹھا۔
 اس کی تیز نظریں گیٹ کے باہر بائیں ہاتھ بنے چھوٹے سے سائبان تلے چھائے اندھیرے میں جم گئیں۔
 "کیا بات اے صاب! " پٹھان چوکیدار نے بارش میں بھیگتے ہوئے پوچھا۔
 "خان۔۔۔ "لیکن اس سے پہلے کہ وہ فقرہ پورا کرتا، برق پھر کوندی۔ وہ تیزی سے کار کا دروازہ کھول کر باہر کو لپکا۔ اس دوران خان بھی گیٹ سے باہر نکل آیا۔
 بارش اور تیز ہوا کی پرواہ کئے بغیر دو تین لمبے لمبے ڈگ بھر کر وہ اس اندھیرے کونے میں پہنچ گیا، جہاں دو بار برق نے اجالا کیا تھا۔
 ایک سایہ تھا جو بیدِ مجنوں کی طرح لرز رہا تھا۔
 "کون ہو تم؟" اس نے جلدی سے پوچھا اور ایک بار پھر اس کی نظریں چندھیا گئیں۔
 "میں۔۔۔ " ایک کمزور سی نسوانی آواز ابھری۔  پھر اس سے پہلے کہ وہ اجنبی وجود زمین پر آ رہتا، اس کے مضبوط اور گرم بازوؤں نے اسے سنبھال لیا۔
 "خان۔ " اس نے پلٹ کر پکارا۔
 "جی صاب۔  "قریب ہی سے آواز ابھری۔
 "میں کمرے میں جا رہا ہوں۔ گاڑی گیراج میں بند کر کے وہیں چلے آؤ۔  جلدی۔ "
 "جی صاب۔  "وہ تعمیل حکم کے لئے جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
 اس نے اس نازک، برف سے زیادہ سرد اور لہروں سے زیادہ نرم وجود کو باہوں میں بھر لیا، جو اَب لکڑی کی مانند کھردرا اور پتھر کی مانند سخت ہوا جا رہا تھا۔ تیز تیز چلتا ہوا وہ پورچ پار کر کے برآمدے میں پہنچا۔  پاؤں کی ٹھوکر سے دروازہ کھولا اور مختصر سی راہداری کو طے کر کے ہال میں چلا آیا۔ ایک لمحے کو کچھ سوچا، پھر سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔
 ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے پھر دائیں پاؤں سے کام لیا۔ اندر داخل ہوا اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔
 دھیرے سے اس نے اپنے بازوؤں میں بھرے اس ریشمیں خزانے کو احتیاط سے سمیٹ کر بیڈ پر رکھ دیا، پھر اسے گرم لحاف میں چھپا دیا۔  شاید اس لئے کہ کوئی اور دیکھ نہ لی۔ ایک لمحے کو اس کی نظریں اس سمٹے پڑے خزانے کے تر بتر چہرے پر جم گئیں ، جہاں سیاہ لانبی زلفیں کسی بادلوں میں چھپے چاند یا گھٹاؤں میں قید برق کا سماں پیش کر رہی تھیں۔ اسی وقت خان اندر داخل ہوا۔
 "اوہ خان۔ " اس نے جلدی سے کہا۔ کچھ سوچا پھر تیزی سے ٹیلی فون کی طرف بڑھ گیا۔  
 ڈاکٹر کو فون کر کے وہ حکم کے منتظر اور چور نظروں سے اس خوابیدہ حسن کو تکتے خان کی طرف متوجہ ہوا اور ہولے سے مسکرایا۔
 "خان۔ "
 "جی صاب۔ " وہ گھبرا سا گیا۔
 "تمام نوکر تو سوچکے ہوں گے۔ "
 "جی صاب۔ " اس نے اپنا مخصوص جواب دہرایا۔
 "ہوں۔ "وہ کچھ سوچنے لگا۔ پھر کہا۔ "تم نیچے چلے جاؤ۔  اپنے ڈاکٹر صاحب آرہے ہیں۔ ان کو لے کر اوپر چلے آنا۔ "
 "جی صاب!" اور خان ایک نظر بستر پر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
 اس نے آگے بڑھ کر سوئچ بورڈ پر ایک بٹن دبا دیا۔ ایر کنڈیشنڈ سسٹم گہری نیند سے جاگ گیا۔ پھر اس کی نادیدہ تپش نے دھیرے دھیرے کمرے کو گرم کرنا شروع کیا۔ اس نے مطمئن انداز میں سر ہلا کر بند کھڑکیوں کی جانب دیکھا اور کرسی گھسیٹ کر بستر کے قریب لے آیا۔  بیٹھتے ہوئے وہ قدرے جھک گیا اور نظریں اس خاموش گلاب پر جما دیں جس کی دو پنکھڑیاں اپنی سرخی کھونے لگی تھیں۔  نیلاہٹ ابھری چلی آ رہی تھی۔
 وہ آہستہ سے لرزی تو بے چینی سے وہ کلائی پر بندھی رسٹ واچ پر نظر ڈال کر رہ گیا۔  رات کا ایک بج رہا تھا۔
 اس کی بے تاب نظریں اس غنچہ دہن پر جم گئیں ، جس میں اب پھر کوئی حرکت نہیں تھی۔  آہستہ سے اٹھا۔  جھکا اور لحاف کو اچھی طرح اس پر لپیٹ کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ اب وہ بے چینی سے ٹہلنے لگا۔  اسی وقت ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا چلا آ رہا ہو۔
 " آئیے آیئے انکل۔  "وہ کمرے میں داخل ہوتے ادھیڑ عمر مگر مضبوط جسم کے مالک ڈاکٹر ہاشمی کی طرف بڑھا۔ ڈاکٹر ہاشمی نے رین کوٹ اتار کر اس سے مصافحہ کیا۔
 "کیا بات تھی بیٹی۔  میں تو تمہارا فون سنتے ہے۔۔۔ "اور ان کی آواز حلق ہی میں اٹک گئی۔ حیرت زدہ نظریں بستر پر پڑی جوان اور نیلی پڑتی لڑکی کے وجود پر ٹھہر گئیں۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔ چند لمحوں بعد ان کا تجربہ کار ہاتھ لڑکی کے ماتھے سے ہٹا تو وہ کچھ مضطرب سے نظر آ رہے تھے۔
 "خان۔۔۔ میرا بیگ۔ " وہ بولے اور خان کے ساتھ ہی وہ بھی ان کے قریب چلا آیا۔
 بیگ کھلا اور ڈاکٹر اپنے فرض میں ڈوبتا چلا گیا۔ وہ خاموشی سے ڈاکٹر ہاشمی کی کوششوں کا جائزہ لیتا رہا۔ کتنی ہی دیر گزر گئی اور تب ڈاکٹر ہاشمی ایک طویل سانس لے کر بستر کی پٹی سے اٹھ کھڑے ہوئی۔
 "انکل!" وہ مضطربانہ انداز میں اتنا ہی کہہ سکا۔
 "الحمد للہ۔ خطرہ ٹل چکا ہے۔  " وہ آگے بڑھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ "خان۔  کچن سے دودھ لے آؤ۔ "انہوں نے کہا اور خان کمرے سے نکل گیا۔ "ہاں۔ اب کہو۔  یہ سب کیا چکر ہے؟" ڈاکٹر ہاشمی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
 "چکر۔۔۔ ؟" وہ جھینپ گیا۔ "چکر تو کوئی نہیں ہے انکل! میں پکچر دیکھ کر لوٹا تو یہ باہر گیٹ کے پاس کھڑی نظر آئی۔  میں کار سے نکل کر اس کے قریب پہنچا مگر کچھ پوچھنے اور بتانے کی نوبت ہی نہ آئی اور یہ بے ہوش ہو گئی۔  میں اسے اٹھا کر اندر لے آیا اور آپ کو فون کر دیا۔  بس، یہ ہے ساری بات۔ "
 "ہوں۔ ڈاکٹر ہاشمی کے ہونٹ شرارت سے پھڑکی۔ " بیٹے۔  لڑکی تھی ناں۔  اگر صنف کرخت ہوتی تو۔۔۔ "
 " آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں انکل۔ "وہ مسکرا کر بولا اور ڈاکٹر ہاشمی ہنس دئیے۔
 "میں تو مذاق کر رہا تھا۔  ہاں۔۔۔ بیگم صاحبہ زمینوں سے نہیں لوٹیں ابھی؟"
 "جی نہیں۔ ابھی کافی دن رکیں گی وہاں۔ "
 اسی وقت خان دودھ کا بھر ا جگ اور گلاس لئے اندر داخل ہوا۔ "صاب۔  دودھ بہوت تا۔ ہم گرم کر لائی۔  "وہ جگ میز پر رکھتے ہوئے بولا۔
 "یہ تو بہت اچھا کیا خان۔  "وہ دودھ گلاس میں انڈیلتا ہوا بولا۔
 دودھ پی کر فارغ ہو گئے تو ڈاکٹر ہاشمی اٹھ کھڑے ہوئی۔ "اچھا بیٹی۔  میں چلتا ہوں۔ بارش کا زور کم ہو رہا ہے۔ کہیں پھر زور نہ پکڑ لے۔ "
 "بہتر انکل۔  "وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ خان نے ڈاکٹر کا بیگ تھام لیا۔
 "صبح دس بجے سے پہلے ہوش نہیں آئے گا۔  پریشان نہ ہونا۔  "وہ پھر مسکرا دیے اور وہ جھینپ کران کی ہدایات کو ذہن نشین کرنے لگا۔ " نیند کے انجکشن کا اثر کم از کم نو گھنٹے رہے گا۔  کیپسول تپائی پر پڑے ہیں۔  ہوش آنے پر ہر چار گھنٹے بعد گرم دودھ سے دو کیپسول دیتے رہنا۔ " ڈاکٹر ہاشمی رخصت ہو گئے۔  
 کمرہ خاصا گرم ہو چکا تھا۔ نیلے ہونٹ اب کچھ کچھ گلابی نظر آ رہے تھے۔ اس نے مطمئن انداز میں سر ہلایا اور بستر کے قریب چلا آیا۔  سانس اب مناسب رفتار سے چل رہا تھا۔ چہرہ پُرسکون تھا۔ کتنی ہی دیر تک وہ اس محو استراحت حسنِ بے پرواہ کو تکتا رہا۔
 "صاب۔ " خان کی آواز اسے بچھو کے ڈنک ہی کی طرح لگی۔
 وہ تیزی سے پلٹا۔  "تم ابھی تک یہیں ہو۔ "اس کے لہجے میں کچھ اکتاہٹ تھی مگر خان بھی مجبور تھا۔  اسے نیند نے تنگ کر رکھا تھا۔  وہ بلاوجہ اس کی محویت کو ختم کرنے کا قصور وار نہ ہوا تھا۔
 "کوئی حکم صاب؟" وہ ڈر سا گیا۔
 "کچھ نہیں۔ بس جاؤ۔ اور دیکھو۔  اس کمرے میں کوئی مت آئے۔  میں ساتھ والے کمرے میں آرام کروں گا۔  "
 "جی صاب۔ "وہ سلام کر کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
 چند لمحے وہ بستر پر پڑے مصور کے اس حسین خیال کو گل پاش نظروں سے دیکھتا رہا۔  پھر پلٹ کر دھیرے دھیرے چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
*  *  *
adlog            بے پناہ دولت۔  لمبی چوڑی جائداد۔ بے اندازہ زمینیں۔  دو کوٹھیاں۔  ایک حویلی۔  کئی کاریں اور بے تحاشا عزت ان دو ماں بیٹے میں محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
دونوں ہی کی تمنا تھی کہ کوئی تیسرا بھی ان کی ملکیت کا حصہ دار بنی۔  جو ان تین میں چند اور نفوس کا اضافہ کر سکی!مگر۔۔۔ امارت کی نظروں میں کوئی وجود جچ نہ رہا تھا۔ بوڑھی تجربہ کار نگاہیں صورت کے ساتھ سیرت اور خاندان کے ساتھ دولت و ثروت بھی چاہتی تھیں۔
ایک تصویر میں ضروری نہیں کہ مصور ہر ایک کے جذبات کی عکاسی کر سکے اور ہر کسی کے پسندیدہ رنگ بھر دی۔  اسے اپنی تصویر کو بہرصورت خوبصورتی اور حسن سے مرصع کرنا ہوتا ہے۔  اب اس کے لئے چاہے اسے کسی بھی قسم کے رنگ منتخب کرنا پڑیں۔
اور جوانی تھی کہ کسی اور ہی ڈگر پر چل نکلی تھی۔  اسے دولت نہیں چاہیے تھی کہ اس کے پاس بہت تھی۔
اسے خاندان نہیں چاہیے تھا۔  کہ ذات پات اس کی نظر میں بے اہمیت شے تھی۔
اسے صرف اپنے جذبات اور احساسات کی ترجمان تصویر کی تلاش تھی۔ وہ خواہ اسے آرٹ گیلری کے وسیع و عریض سجے سجائے قیمتی اور حسین ہال میں نظر آ جاتی، یا کسی فاقہ زدہ مصور کے ادھورے رنگوں سے بوسیدہ کاغذ پر ابھرتی نظر آ جاتی۔
اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔  چاہئے تھا تو صرف یہ کہ جو بھی آئے وہ صرف اسے چاہے۔  اس کے علاوہ ہر ایک سے بیگانہ ہو۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد وہ کسی کا خیال اپنے خانہ دل میں نہ سجاپایا ہو۔
بڑھاپا تجربہ کار تھا۔ اپنے اصولوں کا محافظ تھا۔
جوانی امنگوں بھری تھی۔  حسن اور محبت کی طلبگار تھی۔
اور آج۔۔۔  شاید اسے منزل مل گئی تھی۔ دل تو یہی کہہ رہا تھا۔  اور دل جھوٹ بھی تو بولا کرتا ہے۔
"صاب! آپ کا پون۔۔۔ "
وہ چونک پڑا۔ خیالات بکھر گئی۔  بستر سے نکلا اور گاؤن پہنتا ہوا دروازے کی طرف چل دیا۔ کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔
"خان۔  "وہ رک گیا۔
"جی صاب۔ "
"دیکھو۔  باباسیف آ چکا ہو گا۔  اسے اوپر بھیجو۔ "
"جی صاب۔ " وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ وہ کچھ سوچتا ہوا ٹیلی فون کے پاس چلا آیا۔
"یس۔ طاہر اسپیکنگ۔ " وہ ریسیور کان سے لگا کر بولا۔
"ہیلو طاہر۔ "دوسری طرف سے ڈاکٹر ہاشمی نے ہنس کر کہا۔
"اوہ آپ۔۔۔  آپ کا مریض ابھی تک "ہوش ندارد"ہے انکل۔ " وہ مسکرایا۔
"مسیحا پاس رہے تو بیمار کا اچھا ہونے کو جی کب چاہتا ہے طاہر میاں !"وہ ڈاکٹر ہاشمی کی چوٹ پر خجل سا ہو گیا۔ رات بھی ان کی باتوں سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس کی نظروں کا بھید جان چکے ہیں۔ "بہرحال، اس وقت نو بجے ہیں۔  دس بجے تک ہوش نہ آیا تو مجھے فون کر دینا۔  ویسے میں گیارہ بجے کے قریب خود ہی چلا آؤں گا۔ "
"بس تو ٹھیک ہے۔  آپ آ ہی جائیے گا۔ "
"خدا حافظ۔  "ڈاکٹر ہاشمی نے ہلکے سے قہقہے کے ساتھ ریسیور رکھ دیا۔  فون بند کر کے وہ پلٹا اور بستر کے قریب پڑی کرسی پر جم گیا۔
"سلام صاحب۔ " سیف کمرے میں داخل ہوا اور اس کی نظروں میں بھی حیرت سی امنڈ آئی۔  
"سیف بابا۔ یہ ہماری مہمان ہیں اور بیمار بھی۔  "اس نے سیف کی حیرت کو نظر انداز کرتے ہوئے رسٹ واچ میں وقت دیکھا۔ "ٹھیک ایک گھنٹے بعد ہلکے ناشتے کے تمام ضروری لوازمات یہاں ہونے چاہئیں !"
"بہتر صاحب!" وہ سوالیہ نظروں کے ساتھ بستر پر سوئی لڑکی کو دیکھتا ہوا پلٹا اور برتن اٹھائے باہر نکل گیا۔
وہ ایک طویل انگڑائی لے کر کرسی سے اٹھا اور کھڑکیوں پر سے صرف پردے ہٹا دئیے، پٹ نہ کھولے۔ ہوا سرد تھی۔ رات کی بارش کے بعد موسم کھل گیا تھا۔  
سورج کافی بلند ہو چکا تھا۔  اس کی زرد کرنیں دھند اور ٹھنڈک کا سینہ چیر چیر کر ہر مقابل شے کو روشن اور گرم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وہ کتنی ہی دیر کھڑکی کے شیشوں سے باہر دیکھتے ہوئے دور نیلے آسمان کی لامحدود وسعتوں میں نجانے کیا تلاش کرتا رہا۔  
"امی۔۔۔ امی۔۔۔  آپ کہاں ہیں امی۔۔۔ امی۔۔۔ "دھیمی سی بڑبڑاہٹ نے اسے چونکا دیا۔ وہ تیزی سے پلٹ کر بستر کے قریب چلا آیا۔ نرم و نازک وجود متحرک تھا۔ لانبی سیاہ پلکیں دھیرے دھیرے کانپ رہی تھیں۔  چہرے پرسرخی دوڑنے لگی تھی۔ ہونٹوں کے گوشے لرز رہے تھے۔  پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ہولے سے اپنی پلکوں کی چلمن اٹھا دی۔
وہ بے چینی سے اس کی ایک ایک حرکت کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ چند لمحوں تک وہ بے حس و حرکت، چت پڑی چھت کو گھورتی رہی۔ پھر جیسے چونک اٹھی۔ گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھا۔۔۔ اور اسے سامنے دیکھ کر بری طرح گھبرا گئی۔
" آپ۔۔۔  آپ کون ہیں ؟ میں کہاں ہوں ؟" روایتی سے الفاظ اس کے لبوں سے ابل پڑی۔
"گھبرائیے نہیں۔ لیٹی رہئے۔  "وہ مسکرا کر اس پر جھک آیا۔ شانوں سے تھام کر اس نے پھر اسے لٹا دیامگردوسرے ہی لمحے وہ پھر اٹھ بیٹھی۔
"میں۔۔۔ "
"دیکھئے۔  آپ کو میں بدمعاش نظر آتا ہوں یا آپ کو خود پر اعتماد نہیں ہے؟" وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا تو وہ گڑ بڑا گئی۔ بیباک مگر شریفانہ تاثر کی حامل نگاہوں نے اسے الجھن میں ڈال دیا۔
"میں جانا چاہتی۔۔۔ "
" آں ہاں۔  یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟ "وہ اسے بستر سے اترتا دیکھ کر تیزی سے بولا۔
"جی میرا۔۔۔ "
"ارے بابا، کیوں اپنا دماغ تھکا رہی ہیں آپ۔ اطمینان سے لیٹ جائے۔ کچھ مجھ سے پوچھئے۔  کچھ مجھے بتائیے۔ " وہ ریشمی لحاف اس پر اوڑھاتا ہوا بولا۔ اور نہ جانے کیا سوچ کر اور کیوں وہ چپ چاپ لیٹ گئی۔ پھر اس کی سوالیہ نظریں کمرے کے درو دیوار کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعداس کے مسکراتے چہرے پر آ کر جم گئیں۔
"ویسے ایک بات تو بتائیے؟"وہ بے تکلفی سے کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب ہو بیٹھا۔
"جی۔ " وہ ہولے سے بولی اور نظریں چرا لیں۔
"کیا آپ کو بارش میں بھیگنے کا بہت شوق ہے ؟"
"جی۔۔۔  کیا مطلب؟" وہ بے ساختہ حیرانی سے بولی۔
"مطلب یہ کہ کل رات آپ بڑی بے تکلفی سے طوفانِ باد و باراں کا لطف اٹھا رہی تھیں۔  سردی بھی بلا کی تھی اور۔۔۔ "
ایک دم نہ جانے کیوں وہ بے چین سی ہو کر پھر اٹھ بیٹھی۔
"ارے ارے۔۔۔ یہ کیا۔۔۔ دیکھئے، میں تو مذاق کر رہا تھا۔۔۔  اور آپ۔۔۔ "وہ اس کی پلکوں کو نم ہوتا دیکھ کر بری طرح سے گڑ بڑا گیا۔
"مجھے جانے دیجئے۔  خدا کے لئے۔  "وہ بستر سے نکل پڑی۔
"ارے۔ یہ آپ کو بار بار جانے کا دورہ کیوں پڑ جاتا ہے؟" وہ اٹھ کر اس کو بازو سے تھامتا ہوا بولا۔
"چھوڑیئے۔  میں اب یہاں نہیں ٹھہر سکتی۔  "وہ بازو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔
"مگر آپ کہاں جانا چاہتی ہیں ؟ یہ تو طے ہے کہ آپ کا گھر کوئی نہیں ہے۔ ویسے اگر آپ دارالامان جانا چاہتی ہیں تو بندہ حاضر ہے لیکن پہلے ناشتہ تو کر لیجئے۔ "
" آپ کو کیسے معلوم کہ۔۔۔ "
" جن کا کوئی گھر ہو، وہ ایسی طوفانی راتوں میں اس حالت میں تو باہر آنے سے رہی، جس حالت میں آپ پائی گئیں۔ "
وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر سسکنے لگی۔
*  *  *
adlog            طاہر سنجیدہ ہو گیا۔ مذاق اور ایک اجنبی لڑکی سی، جواس کے نام تک سے ناواقف تھی، کافی ہو چکا تھا!وہ کتنی ہی دیر تک روتی رہی۔ سیف ناشتہ میز پر رکھ کر جا چکا تھا۔ وہ خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
"دیکھئے۔  خدا را اب یہ رونا دھونا بند کیجئے اور ناشتہ کر لیجئے۔ "وہ معذرت خواہانہ لہجے میں بولا۔
اس نے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں خشک کیں اور اس کی جانب دیکھا۔ " آئیے۔  باتھ روم اس طرف ہے۔  "اس نے کمرے کے غربی گوشے کی طرف اشارہ کیا۔  وہ خاموشی سے باتھ روم کی جانب چل دی۔ کچھ دیر بعد جب وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی تو وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ کچھ اتنی ہی نکھر آئی تھی وہ سوگوار ی میں نتھر کر۔
"چلئے۔  ناشتہ کیجئے۔ "اس نے طاہر کی جانب دیکھا اور سر جھکا کر بستر کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔
"ویسے ڈاکٹر صاحب نے بستر سے نکلنے سے منع کیا ہے۔  آپ نمونئے کے اٹیک سے بال بال بچی ہیں۔ "وہ ہولے سے بولا۔
وہ اس کی جانب دیکھ کر کوئی بحث کئے بغیر خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کچھ دیر بعد وہ بستر میں بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی اور وہ کرسی پر بیٹھا چائے کی پیالی سے دل بہلا رہا تھا۔ اس نے بہت کم ناشتہ کیا۔ طاہر نے زیادہ پر اصرار نہیں کیا۔ سیف بابا برتن لے گیا۔ وہ پھر کسی سوچ میں کھو گئی۔  کتنی ہی دیر تک وہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر ہولے سے کھنکارا تو وہ چونکی۔ نگاہیں ملیں۔ وہ مسکرادیا۔
"ہاں تو صاحب! مگر یہ صاحب کچھ عجیب سا لگتا ہے۔  آپ کا نام کیا ہے؟" وہ بے تکلفی سے پوچھ بیٹھا۔
"زاہدہ۔  "وہ بے ساختہ دھیرے سے کہہ گئی۔
"مس زاہدہ؟" اس نے الٹا سا سوال کر دیا مگر تیزی سے!
"جی۔۔۔  جی ہاں۔ " وہ کہتے کہتے رکی اور شرما گئی۔
"تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے مالک۔  " وہ سمجھ میں نہ آنے والے لہجے میں آہستہ سے بڑبڑایا۔  "اچھا۔ اب یہ بتائیے کہ آپ کون ہیں ؟ کیا ہیں ؟ رات آپ اس حال میں کیوں تھیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر میں آپ کو اپنے بارے میں سب کچھ بتاؤں گا۔ جی۔  ویسے میرا نام طاہر ہے۔ "
اور وہ اس باتونی، لا ابالی اور بے تکلف سے انسان کو بڑی گہری اور عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگی۔
"کیا دیکھ رہی ہیں ؟" اس نے کچھ دیر بعد یکا یک کہا۔
"جی۔ کچھ نہیں۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔  "وہ گھبرا گئی۔
"تو پھر کہئے ناں۔ "
"کیا کہوں ؟" وہ اداس سی ہو گئی۔
"پہلے تو یہ بتایئے۔۔۔ "وہ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر بات بدل گیا۔ " آپ کا کوئی۔۔۔ " وہ کہتے کہتے رک گیا۔
"نہیں ہے۔  کوئی نہیں ہے میرا۔ " اس نے گھٹے گھٹے لہجے میں کہہ کر آنکھیں بھینچ لیں۔  
"اوہ۔۔۔  مگر ۔  صبح آپ نیم بیہوشی میں اپنی امی کو۔۔۔ "
"مرنے والے پکارنے سے لوٹ تو نہیں آیا کرتے۔ "وہ سسک پڑی۔
" معاف کیجئے گا۔  میں نے آپ کو دکھ دیا۔  "وہ افسردہ سا ہو گیا۔
وہ کتنی ہی دیر دل کی بھڑاس نکالتی رہی۔  طاہر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔  وہ چاہتا تھا اس کے دل کا غبار پوری طرح نکل جائے۔
"تو اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟" وہ کچھ دیر بعد سنبھلی تواس نے دھڑ کتے دل کے ساتھ سوال کیا۔
"ارادہ؟" وہ طنز سے مسکرائی۔
"میرا مطلب ہے، آپ جہاں رہتی تھیں۔  وہیں واپس جانا چاہیں تو۔۔۔ "
"جی نہیں۔ وہاں تو اب میرے لئے صرف اور صرف نفرت باقی ہے۔ انہی کے احسان نے تو مجھے اس طوفانی رات کے حوالے کیا تھا۔"
"کیا مطلب؟" وہ حیرت زدہ رہ گیا۔
" آپ ضرور سننا چاہتے ہیں۔" اس نے درد بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
" آپ مناسب سمجھیں تو۔۔۔ "
"ٹھیک ہے۔  یہ کوئی نئی اور انوکھی بات بھی نہیں ہے دنیا میں کہ میں اسے دل پر بوجھ بنائے لئے لئے پھروں۔۔۔ مگر مجھے کریدیے گا نہیں۔ "
پھر ایک لرزتی کانپتی، درد بھری آواز کے زیر و بم نے اسے جکڑ سا لیا۔ وہ کہتی رہی۔  طاہر سنتا رہا۔  بت بنا۔  ہمہ تن گوش۔  
"ابو بچپن میں ہی ساتھ چھوڑ گئے۔ غربت کا دائرہ کچھ اور تنگ ہو گیا۔ میں اور امی چچا کے در پر فقیروں کی طرح پڑے رہی۔ ان کے گھر کے کام کاج، خدمت، دن رات کی گالیوں ، مار پیٹ اور جھڑکیوں کے عوض بچا کھچا کھانا پیٹ کی آگ بجھانے کو مل جاتا۔ اسی پر سجدہ شکر ادا کرتی۔ امی نے ہر مصیبت اور تنگدستی کا مقابلہ کر کے کسی نہ کسی طرح مجھے ایف اے پاس کرا دیا۔  چچا کا لڑکا اختر ہمیشہ پڑھائی میں میری مدد کرتا۔ ماں باپ کی سخت مخالفت کے باوجود میری اور امی کی ہر طرح مدد کرتا۔ اسی کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے چچا اور چچی نے مجھے کمپیوٹر کورس کی اجازت دے دی۔ امی کے دُکھوں کو سُکھ میں بدلنے کا یہی ایک طریقہ تھا کہ میں کہیں نوکری کر لیتی۔  یہی سوچ کر میں نے یہ کورس کرنے کا عزم کر لیا۔ چچا کی اولاد میں اختر سے اوپر ایک لڑکی نرگس تھی۔ وہ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لندن چلی گئی اور ابھی تک وہیں ہے۔ وقت گزرتا رہا۔ جوانی بڑھاپے میں ڈھل گئی۔ امی کی جگہ بھی اب مجھی کو تمام گھر کا بوجھ سنبھالنا پڑا۔ میں نے کوئی گلہ شکوہ کئے بغیر یہ کڑوے گھونٹ بھی حلق سے اتار لئے۔ اس لئے کہ اختر، میرا اختر، میرا ساتھ نبھانے، مجھے اپنانے کا وعدہ کر چکا تھا۔ صرف اس کے امتحان سے فارغ ہو کر کاروبارسنبھالنے کی دیر تھی۔ اختر کی بے پناہ محبت نے مجھے ہر ڈر اور خوف سے لا پرواہ سا کر دیا۔  مجھے نئی زندگی بخش دی۔ وہ مجھ سے شادی کرنے کو بالکل تیار بلکہ بے صبرا ہو رہا تھا مگر جب تک وہ تعلیم مکمل نہ کر لیتا، یہ ممکن نہ تھا۔  پھر ایک روز اس نے مجھے یہ خوش خبری سنائی کہ وہ بی اے کا آخری پیپر دے آیا ہے۔ اب رزلٹ نکلنے کی دیر ہے اور پھر۔۔ اور اس "پھر " سے آگے میں سن نہ سکی۔ سہانے سپنوں میں کھو گئی۔  آنے والے کل کے سورج کی دمکتی کرنیں میرے تاریک ماضی کو تابناک مستقبل میں بدل جانے کا پیغام دے رہی تھیں۔ امی نے مجھے بہت سمجھایا۔  اونچ نیچ، قسمت اور تقدیر سے خوفزدہ کرنا چاہا مگر میں اختر پر اندھا اعتماد کئے بیٹھی تھی۔  کچھ نہ سمجھ سکی۔  کچھ نہ سوچ سکی۔ تب۔۔۔ ایک روز۔  جب اختر نے مجھے بتایا کہ چچا اور چچی نے اس کے لئے ایک امیر زادی کا رشتہ منظور کر لیا ہے تو میرے سپنوں کا تاج محل زمین بوس ہو گیا۔  زندگی نے بڑے پیار سے فریب دیا تھا۔۔۔
میں تمام رات روتی رہی۔  پلک نہ جھپکی۔ سسکیاں گونجتی رہیں۔ ہچکیاں آنسوؤں کا ساتھ دیتی رہیں۔ صبح کے قریب جب میں چند لمحوں کی نیند کی تلاش میں تھک کر اونگھتے اونگھتے ہڑ بڑا کر جاگی تو امی ہمیشہ کی نیند سو چکی تھیں۔ وہ مجھ سے زیادہ دُکھی، تھکی ہوئی اور ستم رسیدہ تھیں۔ نجات پا گئیں۔
چند روز تک گھر میں خاموشی رہی۔  مجھے کسی نے گالی نہ دی۔ جھڑکیوں سے نہ نوازا۔  تھپڑوں کے انعام سے محروم رہی۔ تب۔۔۔ اختر نے ایک بار پھر مجھے سہارا دیا۔ اس نے مجھ سے جلد ہی خفیہ طور پر شادی کر لینے کی خبر سنا کر ایک بار پھر مجھے امید کی رہگزر پر لا کھڑا کیا۔ چند لمحے پھر بہار کی تصوراتی آغوش میں گزر گئی۔ مگر بہار کے بعد خزاں بھی تو آیا کرتی ہے۔  دن کے بعد رات بھی تو آتی ہے۔
کل کی رات بڑی طوفانی تھی۔ بڑی خوفناک تھی۔  شدت سے بارش ہو رہی تھی۔  بادل پوری قوت سے دھاڑ رہے تھے۔ برق پوری تابناکی سے کوند رہی تھی۔ اختر ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔ اس کے والدین اور گھر کے ملازم گہری نیندسورہے تھی۔ وہ اکثر دیر سے لوٹتا تھا۔  میرا دل نہ جانے کیوں بیٹھا جا رہا تھا۔ گیارہ بج گئے۔  دل جیسے تڑپ کر سینے سے باہر آنے کی سعی کرنے لگا۔ میں اپنے چھوٹے سے کمرے میں بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی۔  تبھی باہر دروازے پر اسی مخصوص مگر شاید بارش کی وجہ سے تیز انداز میں کی گئی دستک نے مجھے زندگی کی وادیوں میں گھسیٹ لیا۔ میں تقریباً بھاگتی ہوئی دروازے پر پہنچی۔  دروازہ کھولا۔ سامنے اختر بارش میں شرابور کھڑا تھا۔
"ارے تم۔۔۔ "وہ مجھے حیرت سے دیکھتا ہوا بولا۔
"اتنی دیر تم نے کہا ں لگا دی اختر۔  "میں نے پریشانی سے کہا۔
"ارے پگلی۔ " اس نے کھینچ کر مجھے سینے سے لگا لیا۔  "میں جب ناصر کے گھر سے نکلا تو موسم ٹھیک تھا۔  ایک دم ہی بارش نے آ لیا۔  موٹر سائیکل پر آتے آتے یہ حال ہو گیا۔ "
میں اس کے سینے میں سما گئی۔ دروازہ بند کر کے ہم اسی طرح ایک دوسرے سے لپٹے کمرے میں چلے آئی۔ وہ میرے بستر میں لحاف اوڑھ کر لیٹ گیا۔  میں اس کے قریب بیٹھ گئی۔  
"جناب، جائیے اب جا کر گیلے کپڑے اتار دیجئے۔  کافی دیر ہو چکی ہے۔ "کتنی ہی دیر بعد میں نے اس کی بے باک نظروں سے گھبرا کر کہا۔
"زاہدہ۔۔۔ "اس نے مجھے لحاف کے اندر گھسیٹ لیا۔ میں بے خود سی ہو گئی مگر جب وہ حد سے بڑھنے لگا تو میں سنبھل گئی۔ ہوش میں آ گئی۔
"ہوش میں آؤ اختر۔ کیا کر رہے ہو؟"میں نے اس کے گستاخ ہاتھوں کو روکتے ہوئے گھبرا کر کہا۔
" آج مجھے مت روکو زاہدہ۔  دیکھو۔  یہ رات، یہ موسم، یہ تنہائی کیا کہہ رہی ہے۔ "اس نے اس زور سے مجھے لپٹایا کہ میرا انگ انگ کراہ اٹھا۔
"کیا کر رہے ہو اختر۔  کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟" میں سہم سی گئی اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی مگر بہکتے جذبات اور موسم نے اختر سے ہوش و حواس چھین لئے تھے۔ وہ وحشی ہوا جا رہا تھا۔ میں نے اسے دھمکی دی، شور مچانے کی۔ مچلی، تڑپی، روئی مگر وہ بہک چکا تھا۔
پھر میں چیخ اٹھی۔  ایک بار۔ دو بار، کہ شاید کوئی مدد کو آ پہنچے اور وہی ہوا۔ کوئی راہداری میں تیز تیز قدم اٹھاتا چلا آ رہا تھا۔ اختر گھبرا گیا۔ بہکے ہوئے جذبات کا بھوت اس کے سر سے اتر گیا۔ خدا نے میری عزت بچا لی۔ میں لٹتے لٹتے رہ گئی!
"کون ہے اندر؟ دروازہ کھولو۔  دروازہ کھولو۔۔۔ "چچا جان دروازہ دھڑ دھڑا رہے تھے۔ اختر نے اِدھر اُدھر دیکھا اور کھڑکی کی طرف لپکا۔
جب میں نے دروازہ کھولا تو کھڑکی کھلی تھی اور اختر اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔  پھر میری ایک نہ سنی گئی۔ مجھے پیٹا گیا۔ گالیاں دی گئیں۔ تہمتیں تراشی گئیں۔ الزام لگائے گئی۔  بدکار، طوائف، بد چلن اور ایسے کتنے ہی خطابات سے نوازا گیا۔ اپنے گھر کو ایک گندی مچھلی سے پاک کرنے کے لئے مجھے، ایک جوان لڑکی کو، سگی بھتیجی کو، اس طوفانی رات کے حوالے کر دیا گیا مگر اختر نہ آیا۔ شاید اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہونے کے بعد اس کے پاس کوئی نیا لبادہ نہ رہ گیا تھا۔ اس سے بعد میں صرف اتنا ہی جانتی ہوں کہ آسمان کی عنایات سے بے دم ہو کر ایک کوٹھی کے سائبان تلے رک گئی تھی۔  پھر کیا ہوا، مجھے کچھ معلوم نہیں !"
وہ خاموش ہو گئی۔
"بڑی دردناک کہانی ہے آپ کی؟" کچھ دیر بعد وہ ایک طویل سانس لے کر آہستہ سے بولا۔ زاہدہ آنکھیں خشک کرنے لگی۔
"مگر نئی نہیں ہے۔  " وہ دونوں ایک آواز سن کر چونک پڑے۔  دروازے کے پاس پڑے صوفے پر ڈاکٹر ہاشمی بیٹھے تھے۔  "دنیا میں ایسے ہزارو ں واقعات روزانہ پیش آتے ہیں۔  "وہ اٹھ کر ان کے قریب چلے آئے۔ "تم خوش قسمت ہو بیٹی کہ ایک وحشی کے ہاتھوں بے آبرو ہونے سے بچ گئیں ورنہ یہ بات تقریباً ناممکن ہو جایا کرتی ہے۔  "وہ بستر کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
زاہدہ کاسر جھک گیا۔
" آپ کب آئے انکل؟" طاہر نے ان کی جانب دیکھا۔
"جب کہانی کلائمکس پر تھی۔ " وہ بولے اور طاہر سر ہلا کر رہ گیا۔ زاہدہ سر جھکائے انگلیاں مروڑ رہی تھی۔
"چائے لیں گے آپ؟" اس نے پوچھا۔
"نہیں بھئی۔  اس وقت طلب نہیں۔ ہاں بیٹی۔  ذرا ہاتھ ادھر دو۔  "وہ اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر گھڑی کی طرف دیکھنے لگی۔ " اب تو بالکل ٹھیک ہو تم۔ " وہ انجکشن دے کر فارغ ہو گئی۔ یہی کیپسول ہر تین گھنٹے بعد لیتی رہو۔ انشاءاللہ شام تک ان سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ "پھر وہ اٹھ گئی۔ "اچھا بھئی طاہر۔  میں اب چلوں گا۔ شام کو پھر آؤں گا۔  "
"بہتر انکل۔ " وہ بھی کھڑا ہو گیا اور سیف کو پکارا۔ چند لمحے بعد وہ کمرے میں تھا۔  "ڈاکٹر صاحب کو گاڑی تک چھوڑ آؤ۔ "سیف نے آگے بڑھ کر ان کا بیگ اٹھا لیا۔  ڈاکٹر ہاشمی چل دیئے۔  "اور سنو۔  سیف بابا سے دو کپ چائے کا کہہ دو۔ "
"جی بہتر۔  "وہ سرجھکائے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ زاہدہ تکئے سے ٹیک لگائے جانے کس سوچ میں گم نیم دراز تھی۔
"ہوں۔ تو آپ صبح اسی لئے ان لوگوں کے پاس بھاگ بھاگ کر واپس جا رہی تھیں۔ " وہ اسے چونکاتا ہوا گویا ہوا۔
"جی۔۔۔  جی نہیں۔ " وہ افسردگی سے بولی۔  "وہ میرے لئے مر چکے ہیں۔ "
"کیا۔۔۔  اختر بھی؟" اس نے زاہدہ کی آنکھوں میں جھانکا۔
"وہ بھی تو انہی میں سے تھا۔  "اس نے نظریں جھکا لیں۔ "اگر وہ پیٹھ نہ دکھاتا اور میری ڈھال بن جاتا تو میں اس وقت یہاں نہ ہوتی۔ "
اوراس کے سینے سے ایک بوجھ سا ہٹ گیا۔ لبوں پر پھر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تیر گئی۔ "تو پھر۔۔۔  کہاں جانے کے لئے اتنا بے قرار تھیں آپ؟دیکھئے۔  وہی گھسا پٹا جواب نہ دیجئے گا کہ جہاں قسمت لے جاتی۔  "وہ لہجے کو نسوانی بناتے ہوئے بڑی افسردگی سے بولا۔ زاہدہ بے ساختہ مسکرا دی۔ "ارے ۔۔۔  آپ تو ہنستی بھی ہیں۔  "وہ بڑی حیرانی سے بولا اور اپنے جواب ندارد سوال کو بھول کر اس کے رنگیں لبوں کی مسکراہٹ میں کھو گیا جواَب کچھ اور گہری ہو گئی تھی۔ "بس یونہی مسکراتی رہئے۔  ہنستی رہئے۔  بخدا زندگی جنت بن جائے گی۔  ویسے ایک بات کہوں۔  صبح آپ پتہ ہے کیوں بھاگ رہی تھیں ؟" اس نے پھر زاہدہ کی آنکھوں میں دیکھا۔
وہ سوالیہ انداز میں اسے دیکھنے لگی۔
" آپ کا خوفزدہ ذہن مجھ سے بھی ڈر رہا تھا۔  اختر کی طرح۔  "
اور اس نے سنجیدہ ہو کر نظریں جھکا لیں۔ شاید یہ سچ تھا۔
سیف بابا چائے لے آیا۔ کچھ دیر بعد وہ چائے سے فارغ ہو گئی۔
"اچھا مس زاہدہ۔  آپ آرام کیجئے۔  میں کچھ کام نبٹا آؤں۔ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بیل موجود ہے۔  "اس نے کال بیل پر انگلی رکھ دی۔ چند لمحوں بعد سیف کمرے میں تھا۔
"دیکھو سیف بابا۔  ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا۔  کھانا پورے ایک بجے۔۔۔  اور رات کے کھانے پر تو میں گھر پر ہی ہوں گا۔ "
"بہتر صاحب۔ " وہ ادب سے بولا۔
"بس جاؤ۔ " اور وہ واپس پلٹ گیا۔
"اب میں چلوں گا۔ گھبرائیے گا نہیں۔  اور یہاں سے جانے کا ابھی مت سوچئے گا۔  کیونکہ میری غیر موجودگی میں کوئی آپ کو یہاں سے جانے نہیں دے گا۔  شام کو لوٹوں گا تو باقی باتیں ہوں گی۔  پھر طے کریں گے کہ آپ کو آگے کیا کرنا ہے؟" وہ مسکراتا ہوا کپڑوں والی الماری کی طرف بڑھ گیا۔ "ارے ہاں۔  مجھے اپنا وعدہ تو بھول ہی گیا۔  " اچانک واپس آ کر وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اسے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگی۔
"دیکھئے صاحب۔  ابو تو ہمارے بھی اللہ کے پیاروں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ بس ایک امی ہیں۔  اور ان کا یہ اکلوتا، کلم کلا، فرزندِ ارجمند۔  آج کل وہ زمینوں پر گئی ہوئی ہیں۔  بڑی سخت گیر ہیں۔  ملازموں کو سر نہیں چڑھاتیں۔ ان کی خبر لیتی رہتی ہیں۔  اور میں یعنی مسٹر طاہر۔  امپورٹ ایکسپورٹ کی فرم کا واحد اور بلا شرکت غیرے مالک۔ تاکہ وقت گزرتا رہے۔  بیکار بیٹھنے سے بچنے کا اک بہانہ ہے۔  بس یہ تھی ہماری مختصر سی زندگی، جس کے بارے میں مَیں نے آپ کو بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ " وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ لاکھ کوشش کے باوجود اپنی مسکراہٹ کو دبا نہ سکی۔
طاہر الماری سے کپڑے نکال کر باتھ روم میں گھس گیا۔ چند منٹ بعد جب وہ باہر نکلا تو کچھ دیر کو وہ بھی مبہوت رہ گئی۔ کچھ اتنا ہی سمارٹ لگ رہا تھا وہ۔
وہ ہاتھ ہلا کر مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ زاہدہ پھر کسی گہری سوچ میں گم ہو گئی۔
٭
پندرہ دن ایک آنکھ مچولی کی سی کیفیت میں گزر گئی۔ اس شام وہ ڈاکٹر ہاشمی کے ہاسپٹل میں ان کے پاس موجود تھا۔
"طاہر بیٹے۔ "ڈاکٹر ہاشمی کرسی سے اٹھ کر کھڑکی کے قریب چلے گئی۔ "تم میں جلد بازی کا مادہ بہت زیادہ ہے۔  تم ہر اس شے کو حاصل کر لینا چاہتے ہو، جو تمہاری نگاہوں کو تسکین دے دی۔  تمہارے دل کوپسند آ جائے لیکن۔۔۔ " وہ رک گئی۔  طاہر بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گیا۔  "دوسرے کے جذبات، رستے میں آنے والی رکاوٹوں ، حقیقت اور ہر تغیر سے تم بالکل بے بہرہ ہو جاتے ہو۔ "
"میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا انکل۔  "وہ مضطرب سا ہو گیا۔
"جوانی دیوانی ہوتی ہے بیٹے لیکن اگر اسے سنبھل کر خرچ کیا جائے تو یہ کبھی ختم نہ ہونے والا سکون بھی بن جایا سکتی ہے۔ "
اس نے پھر کچھ کہنا چاہا مگر ڈاکٹر ہاشمی نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ اس کے ادھ کھلے ہونٹ پھر بند ہو گئی۔
"ابھی اس اجنبی لڑکی کو یہاں آئے ہوئے صرف تین دن ہوئے ہیں اور تم اسے جنم جنم کا ساتھی جان کر، شریک حیات بنانے کا بے وقوفانہ فیصلہ کر بیٹھے ہو۔ "
"مگر اس کا اب دنیا میں ہے بھی کون انکل؟ اسے یہ بات بخوشی قبول ہو گی۔ "
"غلط کہتے ہو۔  تم اس کے دل میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ اختر کی محبت اتنی جلدی اس کے دل سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی ہو گی۔ "
"اس نے خود۔۔۔ "
"کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ کہنے کو تو اس نے ان سب کو مردہ کہہ دیا ہے جن میں اس کا چچا، چچی اور اختر سب شامل ہیں لیکن کیا وہ حقیقتاً مر گئے ہیں۔  نہیں۔۔۔ وہ زندہ ہیں۔ جیسے میں ، تم اور وہ خود۔۔۔ "
"لیکن۔۔۔ "
"ابھی بیگم صاحبہ یہاں نہیں ہیں۔  چند روز میں وہ بھی لوٹ آئیں گی اور اس وقت۔۔۔  اس وقت تم ایک عجیب مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ گے طاہر۔  تم ان کی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہو۔ "
"لیکن میں فیصلہ کر چکا ہوں۔۔۔ "
"وہ فیصلے بدل دینے کی عادی ہیں۔ "
"میں بھی انہی کی اولاد ہوں انکل۔ "
"اور اگر۔۔۔ اس لڑکی ہی نے تمہارا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا تو؟"
وہ سچ مچ پریشان ہو گیا۔ ڈاکٹر ہاشمی کی ہر بات اپنی جگہ اٹل تھی۔  
"بات کو سمجھنے کی کوشش کرو بیٹے۔ " وہ نرمی سے اس کا شانہ تھپکتے ہوئے بولے۔  "ابھی اس کے زخم تازہ ہیں۔  ان پر ہمدردی اور پیار کا مرہم رکھو۔ اسے حوصلہ دو۔ جلد بازی کو کچھ عرصے کے لئے خیر باد کہہ دو۔  اگر تم اس کے دل کا زخم بھرنے میں کامیاب ہو گئے تو شاید وہ سب کچھ ہو سکے جو تم سوچ رہے ہو مگر فی الحال ایسا کوئی چانس نہیں ہے۔  شیخ چلی کا خیالی پلاؤ تم جیسا انسان نہ پکائے تو اچھا ہے ورنہ حقیقت کی بھوک تمہیں ایسے فاقے پر مجبور کر دے گی جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ "
طاہر نے ان کی آنکھوں میں جھانکا۔  وہ مسکرادیے۔  دھیرے سے پھر اس کا شانہ تھپکا۔  اس نے سر جھکا لیا۔
"وقت آنے پر میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ "وہ آہستہ سے بولے۔  
اور اسے جیسے بہت بڑا سہارا مل گیا۔
"اللہ حافظ۔  "وہ مسکرا کر دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
"اللہ حافظ۔ " وہ ہولے سے بولا اور کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
٭
شوخیوں پر نکھار آتا چلا گیا۔ شرارتیں بڑھتی چلی گئیں۔ تکلف کی دیواریں گرنے لگیں۔  دبی دبی، پھیکی پھیکی مسکراہٹیں ، بلند بانگ اور زندگی سے بھرپور قہقہوں میں ڈھل گئیں۔
یک طرفہ محبت کی آگ کے شعلے بلندسے بلند تر ہونے لگی۔ اس کی نیندیں اڑنے لگیں۔ قرار چھن گیا۔  سکون رخصت ہو گیا۔  دفتر کا عملہ اس کی یکدم بڑھ جانے والی زندہ دلی، ظرافت اور پیار کو "کسی کے مل جانے "سے تشبیہ دینے لگا۔ اس کی سٹینو امبر نے تو کئی بار اسے ہنسی ہنسی میں یہ بات کہہ بھی دی تھی۔
دوسری طرف زاہدہ اس محبت سے بے خبر تھی۔ بالکل بے خبر۔ لگتا یہی تھا کہ وہ اپنے ماضی کو فراموش کر چکی ہے لیکن اس کے دل میں کیا تھا یہ کوئی نہ جانتا تھا۔ ہاں ، کبھی کبھی اختر کی یاد اسے بے چین کر دیتی تو وہ کچھ دیر کے لئے اداس ہو جاتی لیکن جب اسے اختر کی زیادتی کا خیال آتا تو وہ اس اداسی کو ذہن سے جھٹک دیتی۔ اس کے خیال کو دل سے نکال پھینکنے کی کوشش کرنے لگتی۔  ایسے موقع پر طاہر اس کے بہت کام آتا۔  وہ منٹوں میں اس کی اداسی کو شوخی میں بدل کر رکھ دیتا۔  اسے قہقہوں میں گم کر دیتا۔  ماضی کو فراموش کر کے وہ مستقبل سے بالکل لا پرواہ ہوئی جا رہی تھی تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ چٹان کی طرح موجود تھی کہ لاکھ کوشش کے باوجود وہ اختر کو مکمل طور پر اپنی یادوں سے کھرچ دینے میں ناکام رہی تھی۔
 آج اسے طاہر کے ہاں آئے دو ماہ ہو رہے تھے۔ بیگم صاحبہ ابھی تک گاؤں سے نہیں لوٹی تھیں۔ سردیاں ختم ہونے کو تھیں۔ طاہر نے اسے کیا کچھ نہ دیا تھا۔  مسکراہٹیں ، خوشیاں ، بے فکری، آرام، آزادی۔۔۔  لیکن یہ اس کا مستقل ٹھکانہ تو نہیں تھا۔
"اے مس اداس۔۔۔ " طاہر کی شوخی سے بھرپور آواز نے اس کے خیالات کا شیرازہ بکھیر دیا۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا۔ وہ اسے مسکراتی ہوئی بڑی گہری نظروں سے دیکھتا ہوا، اس کے سامنے ہی آلتی پالتی مار کر لان کی نرم نرم گھاس پر بیٹھ گیا۔ 
"فرمائیے۔ " وہ بے ساختہ مسکرادی۔
"فرمانا کیا ہے ہم فقیروں نے۔  بس یہ ایک عدد خط آیا ہے امی جان کا۔  " وہ کاغذ کھول کر اسے گھاس پر بچھاتا ہوا جیسے مشاعرے میں غزل پڑھنے لگا۔  وہ نجانے کیوں بے چین سی ہو گئی۔
" آ رہی ہیں وہ ؟"
"ہاں۔۔۔ مگر تم کیوں پریشان ہو گئیں ؟" وہ خط پڑھے بغیر تہہ کر کے جیب میں رکھتے ہوئے بولا۔
"پریشان۔۔۔  نہیں تو۔  وہ۔۔۔ "
"اچھا چھوڑو۔  ایک بات بتاؤ۔ "
"جی پوچھئے۔ "
"اب تمہارا ارادہ کیا ہے؟ میرا مطلب ہے۔۔۔ "
"میں بھی یہی سوچ رہی تھی طاہر صاحب کہ آپ نے مجھ پر کتنے احسانات۔۔۔ "
"میں نے احسانات گننے کو نہیں کہا۔  یہ پوچھا ہے کہ اب آئندہ کا پروگرام کیا ہے؟" اس نے زاہدہ کی بات کاٹ دی۔
"پروگرام کیا ہونا ہے طاہر صاحب۔ ایک نہ ایک روز تو مجھے یہاں سے جانا ہی ہے۔ کئی بار جانا چاہا۔  کبھی آپ نے یہ کہہ کر روک لیا کہ کہاں جاؤ گی؟ اور کبھی یہ سوچ کر رک گئی کہ واقعی کہاں جاؤں گی میں ؟ لیکن آج آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو۔۔۔ " وہ رک گئی۔ پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔  وہ سوالیہ انداز میں اسے دیکھتا رہا۔ " آپ ہی بتائیے۔  میں کہاں جاؤں ؟"
"ارے تو کون اُلو کا پٹھا تمہیں جانے کو کہہ رہا ہے؟ "وہ مصنوعی جھلاہٹ سے بولا اور اٹھ کر اس کے قریب چلا آیا۔
"مذاق نہیں طاہر صاحب۔  میں۔۔۔ میں آج ہی یہاں سے چلی جاؤں گی۔  "وہ اداسی سے بولی۔
"کہاں ؟"
"کہیں بھی؟" وہ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر رہ گئی۔
"پھر بھی ؟"
"جہاں۔۔۔ "
"قسمت لے جائے۔  بس اس فلمی ڈائیلاگ سے مجھے بڑی چڑ ہے۔  "وہ اس کی بات اچک کر بولا۔  وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔
"سنو۔۔۔ "وہ اس کے بالکل سامنے، بالکل قریب چلا آیا۔
اس نے طاہر کی طرف دیکھا۔
"تم کہیں مت جاؤ۔ یہیں رہو۔  "وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
"نوکرانی بن کر۔۔۔ ؟"وہ دھیرے سے مسکرائی۔
"رانی بن کر۔ " وہ اسے ہلکا سا جھٹکا دے کر بولا۔
"کیا مطلب؟" وہ حیران سی ہو گئی۔
"رانی کا مطلب نہیں سمجھتیں کیا۔  ارے وہی۔۔۔ جو ایک راجہ کی۔۔۔ "وہ شرارت سے مسکرا کر خاموش ہو گیا۔
"طاہر صاحب۔ " وہ حیرت سے لڑکھڑا کر پیچھے ہٹ گئی۔
"کیوں۔۔۔  کیا ہوا ؟" وہ بے چینی سے بولا۔  دل بڑے زور سے دھڑکا تھا۔
"ایسا مت کہئے طاہر صاحب۔  میں اتنا بھیانک مذاق سہہ نہ سکوں گی۔ "
"ارے واہ۔  تم زندگی بھر کے بندھن کو مذاق۔۔۔ "
"خاموش ہو جائیے طاہر صاحب۔  خدا کے لئے۔  "وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر سسک پڑی۔
"زاہدہ۔۔۔ " اس کو شانوں سے تھام کر طاہر نے اس کا رخ اپنی جانب پھیرا۔ "میں اختر نہیں ہوں زاہدہ۔ "
"اسی لئے تو یقین نہیں آتا۔ "اس نے رخ پھیر لیا۔
"زاہدہ۔ تم۔۔۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ؟ میں۔۔۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ "وہ رک رک کر کہہ گیا۔
"بس کیجئے طاہر صاحب۔  بس کیجئے۔  یہ زہر میں بجھے ہوئے تیر بہت پہلے میرے دل میں اتر چکے ہیں۔ "
"زاہدہ۔ "وہ تڑپ اٹھا۔  "میرے خلوص کی یوں دھجیاں نہ بکھیرو۔ "
"مجھے جانے دیجئے طاہر صاحب۔ مجھے جانے دیجئے۔  مجھ میں اب یہ فریب، یہ ستم سہنے کی تاب نہیں۔ "وہ چل دی۔
طاہر آگے بڑھا اور اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ "جا سکوگی؟" اس کی نم آنکھوں میں جھانک کر وہ بڑے مان سے بولا۔
وہ لرز گئی۔ ایک چٹان کھڑی تھی اس کے راستے میں !
"میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی کے لئے بے قراری محسوس کی ہے زاہدہ۔  پہلی مرتبہ میرا دل کسی کے لئے دھڑکا ہے۔ تمہارے لئے۔ زاہدہ، صرف تمہارے لئے۔ اگر اسی کو محبت کہتے ہیں تو۔۔۔  "
"طاہر صاحب۔ "وہ پھر سسکی۔
"ہاں زاہدہ۔  میں نے جب تمہیں پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو نجانے کیوں تمہیں دل میں سمولینے، دھڑکنوں میں چھپا لینے کو جی چاہا۔ میں نے اپنا کوئی آئیڈیل نہیں بنایا زاہدہ مگر اب لگتا ہے تم ہی میری نامحسوس اور ان دیکھی آرزوؤں کی تصویر ہو۔  میں نے اس کٹی پھٹی تصویر میں اپنی چاہت کے رنگ بھر دیے لیکن نہیں جانتا تھا کہ یہ تصویر میری بولی سے بہت زیادہ قیمت کی ہے۔  میرے پاس تو صرف خلوص کی دولت ہے زاہدہ۔  اس ظاہری شان و شوکت، اس آن بان پر تو میں کبھی تن کر کھڑا نہیں ہوا۔ "
وہ بت بنی اس کی صورت تکتی رہی۔ وہ پھیکے سے انداز میں مسکرا دیا۔
"جانا چاہتی ہو؟ مجھے چھوڑ کر؟"وہ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں جھانک کر آہستہ سے بولا۔ "میں تمہیں نہیں روکوں گا۔  جاؤ۔  " وہ بڑی درد بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر لئے ایک طرف ہٹ گیا۔
زاہدہ نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ کر دھیرے سے حرکت کی اور چل دی۔  آہستہ آہستہ، چھوٹے چھوٹے چند قدم اٹھائے۔  
طاہر کی آنکھوں کے سامنے دھند سی لہرا گئی۔ پانی کی پتلی سی چادر تن گئی۔
وہ رک گئی۔
طاہر کی پلکیں بھیگ گئیں۔
وہ پلٹی۔  دھیرے سے۔
طاہر کے ہونٹوں کے گوشے لرز گئی۔
وہ رخ پھیر کر بھاگی۔
طاہر کے بازو وَا ہو گئے۔
وہ اس کے بازوؤں میں سماتی چلی گئی۔ شبنم، پھول کی پتیوں پر پھسل پڑی۔
دور برآمدے میں کھڑے ڈاکٹر ہاشمی کے لبوں پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔  شاید وہ سب کچھ جان گئے تھے۔
"تو ہماری اک ذرا سی عدم موجودگی نے یہ گل کھلائے ہیں۔ " بیگم صاحبہ نے سرجھکائے کھڑے طاہر، زاہدہ اور ڈاکٹر ہاشمی کی جانب کڑی نظروں سے دیکھا۔
"میں نے۔۔۔ " طاہر نے کہنا چاہا۔
"کوئی جرم نہیں کیا۔ کوئی گناہ نہیں کیا۔  محبت کی ہے۔ شادی کرنا چاہتے ہیں۔  یہی فلمی ڈائیلاگ بولو گے نا تم۔ " اس کی بات تیز لہجے میں کاٹ دی گئی۔  وہ ان کے پُر رعب، با وقار چہرے پر پھیلتی سختی کی تاب نہ لا کر سر جھکا کر رہ گیا۔
"ڈاکٹر ہاشمی۔ "
"جی بیگم صاحبہ"۔  وہ ایک قدم آگے بڑھ آئی۔
" آپ بھی اس سازش میں برابر کے شریک ہیں۔ " وہ سرد مہری سے بولیں۔
"جی۔۔۔ جی۔۔۔  میں۔۔۔۔ " وہ گڑ بڑا گئے۔
"گھبرائیے نہیں ڈاکٹر ہاشمی۔  آپ ہمارے خاندانی ڈاکٹر ہیں۔  آپ میں تو اتنی ہمت، اتنی جرات ہونی چاہیے کہ آپ ہم سے بلا خوف بات کر سکیں ، یا ہمارے نمک میں یہ اثر بھی نہیں رہا۔ "
"ایسی کوئی بات نہیں بیگم صاحبہ۔  "وہ سنبھل گئے۔
"تو پھر ؟ یہ سب کیا ہوا ؟ کیوں ہوا؟ہمیں اطلاع کیوں نہ دی گئی؟" وہ ان کی جانب دیکھتی ہوئی بولیں۔
"میں نے۔۔۔ "
" آپ نے کچھ بھی سوچا ہو ڈاکٹر ہاشمی مگر ہمارے لئے نہیں۔ اس سر پھر ے لڑکے لئے سوچا ہو گا، جسے آپ نے گودوں کھلایا ہے۔  ہے ناں ؟"
"جی۔۔۔  جی ہاں۔ " وہ اقرار کر گئے۔
زاہدہ سہم سی گئی مگر طاہر نے اسے نظروں ہی نظروں میں دلاسا دیا۔ تب وہ اپنے خوف کو کافی حد تک کم محسوس کرنے لگی۔  
"طاہر۔ "وہ اس کی طرف پلٹیں۔
"جی امی جان۔  "وہ ادب سے بولا۔
"تمہیں ہمارا فیصلہ معلوم تھا ناں ؟"
"جی۔ " اس کا سر جھک گیا۔
"پھر تم نے اسے بدلنے کے بارے میں سوچا کیسے؟"
"گستاخی معاف امی جان۔  میں نے تمام زندگی آپ کے ہر حکم پر سرجھکایا ہے۔ "
"مگر اب اس لڑکی کی خاطر، اپنی پسند کی خاطر، تم ہمارے ہر اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دو گے، جو ہم تم پر حکم کہہ کر لاگو کریں گے۔  "انہوں نے اس کی بات پوری کر دی۔
"جی نہیں۔  امی جان میں نے ایسا۔۔۔ "
"تو تمہیں ہمارے ہر فیصلے سے اتفاق ہو گا؟ "وہ حاکمانہ انداز میں گویا ہوئیں۔ وہ جواب میں خاموش رہا۔ ایک بوجھ سا ان سب کے دلوں پر بیٹھتا چلا گیا۔  
ڈاکٹر ہاشمی نے پُر درد نظروں سے ان دو پیار بھرے دلوں کو دیکھا، جو سہمے سہمے انداز میں دھڑکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
"اس خاموشی سے ہم کیا مطلب لیں طاہر؟"
اور اس نے آہستہ سے زاہدہ کی جانب دیکھ کر سر اٹھایا۔ "میں آپ کے فیصلے کا منتظر ہوں امی جان۔ "
"تو۔۔۔ " وہ ان کی جانب گہری نظروں سے دیکھتی ہوئی بولیں۔ "ابھی۔۔۔ اسی وقت۔  اس لڑکی کو۔۔۔ "وہ رکیں۔ ان سب کو تنقیدی اور جانچنے والی نظروں سے دیکھا۔ "یہاں سے رخصت کر دو۔ " کہہ کر انہوں نے رخ پھیر لیا۔
ایک بم پھٹا۔  ایک زلزلہ آیا۔  ایک طوفان اٹھا۔ یہ سب ان کی توقع کے مطابق ہی ہوا تھا مگر وہ پھر بھی سہہ نہ سکے۔
"میں وجہ پوچھنا چاہوں گا امی جان۔ " ایک اور دھماکہ ہوا۔
"طاہر۔ " وہ آپے سے باہر ہو گئیں۔  تیزی سے اس کی طرف پلٹیں۔ " وجہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔ "وہ غیظ و غضب سے ان دونوں کو گھورتے ہوئے پھنکاریں۔
"میں آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں۔ "وہ جیسے ہر خوف، ہر ڈر سے بے بہرہ ہو گیا۔
وہ ایک لمحے کو سن ہو گئیں۔ طاہر، ان سے وجہ پوچھ رہا تھا۔ ان کے حکم کی تعمیل سے انکار کر رہا تھا۔  ان کی انا پر براہ راست حملہ اور ہو رہا تھا۔
مگردوسرے ہی لمحے وہ سنبھل گئیں۔ جوانی جوش میں تھی، انہیں ہوش کی ضرورت تھی۔  طوفان چڑھ رہا تھا۔ بند باندھنا مشکل تھا، ناممکن نہیں۔
ان کے چہرے کی سرخی، اعتدال کی سفیدی میں ڈھلتی چلی گئی۔  آنکھوں میں دہکتی ہوئی آگ، ہلکی سی چمک میں بدل گئی۔ بڑھاپا سنبھل گیا۔  جوانی کو داؤ میں لینے کا لمحہ آن پہنچا تھا۔
"یہ لڑکی کون ہے۔ جانتے ہو؟"وہ زاہدہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔
"انسان ہے امی جان۔  "وہ ادب سے بولا۔
"اس کا خاندان، گھر بار، ٹھکانہ، ماں باپ۔  "وہ بل کھا کر ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ گئیں۔
" یہ بے سہارا ہے امی جان۔ "
" آوارہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ " انہوں نے اس کی بات کاٹ دی۔
"امی جان۔ "وہ احتجاجاً بولا۔
"جنگ میں زخموں کی پرواہ کرنے والے بزدل ہوتے ہیں طاہر بیٹے۔  اور تم ہمارے بیٹے ہو۔  ہمارے سامنے تن کر کھڑے ہوئے ہو تو وار سہنا بھی سیکھو۔ " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولیں۔
"امی جان۔ " وہ ایک قدم آگے بڑھ آیا۔ "یہ غریب، بے سہارا، بے ٹھکانہ ہے۔ "
"تو آج تک دارالامان میں رہی ہے۔  "وہ طنز سے بولیں۔
"اپنوں کے ستم سہتی رہی ہے۔  "وہ تیزی سے بولا۔
"پھر یہ بے گھر کیسے ہوئی؟ کیوں ہوئی؟" وہ جلال میں آ گئیں۔
"تقدیر جب سر سے آنچل کھینچ لینے کے درپے ہو گئی تو۔۔۔ "
"تو۔۔۔ یہ تمہارے پاس چلی آئی۔  "انہوں نے اس کا فقرہ بڑے خوبصورت طنز سے پورا کر دیا۔
"میں سب بتا چکا ہوں امی جان۔  "وہ ادب ہی سے بولا۔
"مگر ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی ایسی لڑکی ہمارے بیٹے کی بیوی اور ہماری بہو کہلائے۔۔۔ "
"جس کے پاس دولت نہیں۔  جہیز نہیں۔ معاشرے میں اونچا مقام نہیں۔  "وہ پھٹ پڑا۔
"ٹھیک سمجھے ہو۔  "وہ نرمی سے بولیں۔
"میں ایک سوال اور کروں گا امی جان۔ "
"ہم جواب ضرور دیں گے۔ "
"اگر یہ لڑکی۔۔۔  فرض کیجئے یہ لڑکی ڈاکٹر ہاشمی کی بیٹی ہوتی تو؟"
"تو ہم بخوشی اسے اپنی بہو بنا لیتے لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر ہاشمی کی بیٹی نہیں ہے۔  اس لئے ہم اسے تمہاری بیوی نہیں بنا سکتے۔  "وہ وقار سے بولیں۔
"اگر شرط یہی ہے تو سمجھ لیجئے بیگم صاحبہ۔  یہ لڑکی آج سے میری بیٹی ہے۔  "ڈاکٹر ہاشمی نے آگے بڑھ کر زاہدہ کے سرپر ہاتھ رکھ دیا۔
"ڈاکٹر ہاشمی۔ " امارت تلملا اٹھی۔
" آپ زبان دے چکی ہیں بیگم صاحبہ"۔  وہ ادب اور آہستگی سے بولی۔
"مگر یہ آپ کی سگی بیٹی نہیں ہے۔ "
" آپ نے یہ شرط نہیں لگائی تھی امی جان۔  "وہ ان کے بالکل قریب چلا آیا۔
اور وہ اپنی بوڑھی، تجربہ کار مگر ممتا بھری نظروں سے اسے گھورتی رہ گئیں۔
"مان جائیے ناں امی جان۔  تمام زندگی مجھے حکم دیتی آئی ہیں۔ میری ضدیں پوری کرتی آئی ہیں۔  آج یہ ضد بھی مان لیجئے۔ "
وہ پھر بھی اسے گھورتی رہیں۔ تاہم طوفان اترنے لگا تھا۔
"امی جان۔  "اس نے ان کے شانے تھام لئے۔ "بولئے ناں۔ "اس نے ان کی آنکھوں میں جھانکا۔  ممتا لرز گئی اور بال آخر بے بس ہو گئی۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔  پھر انہوں نے سرجھکا لیا۔  آہستہ سے بیٹے کو ایک طرف ہٹا دیا۔ دو قدم چلیں اور زاہدہ کو گھورنے لگیں۔
"ہمارے۔۔۔  قریب آؤ۔  "وہ رک رک کر کتنی ہی دیر بعد بولیں۔ وہ پلکوں پر ستارے لئے، دھیرے دھیرے، ان کے قریب چلی آئی۔ 
وہ چند لمحوں تک اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے جانے کیا دیکھتی رہیں۔  جانچتی رہیں۔ تب اس کی پلکوں سے ستارے ٹوٹے اور بیگم صاحبہ کے قدموں پر نچھاور ہو گئی۔  پھر اس سے پہلے کہ وہ ان کے قدم چوم لیتی، انہوں نے اس کی پیشانی پر مہر محبت ثبت کر دی۔
فیصلہ ہو گیا۔
"ہم ہار گئے طاہر۔ "وہ زاہدہ کو سینے سے الگ کر کے آہستہ سے پلٹیں۔ "لیکن صرف اپنے اصولوں ، اپنی زبان کی خاطر۔ "
"امی جان۔  "وہ بھاگ کر ان سے لپٹ گیا۔
"پگلی۔  ابھی تو بڑا فلسفی بنا ہوا تھا۔  "وہ اس کے سر پر بوسہ دیتی ہوئی مسکرائیں۔
"امی جان۔ " وہ جھینپ کر بولا۔  زاہدہ نے شرما کر سرجھکا لیا۔ ڈاکٹر ہاشمی مسکرا رہے تھے۔
"ڈاکٹر ہاشمی۔ " کچھ دیر بعد وہ ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔
"جی بیگم صاحبہ۔  "وہ ادب سے بولی۔
"ہماری بہو کو گھر لے جائیے۔  ہم اگلے ماہ کی تین تاریخ کو یہ ستارہ، اپنے چاند کے پہلو میں دیکھنا چاہتے ہیں۔  " وہ پیار سے ان دونوں کو گھور کر بولیں۔
"جو حکم بیگم صاحبہ۔ "وہ بھی مسکرا دیئے۔
شرما کر زاہدہ نے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپاتے ہوئے رخ پھیر لیا۔  طاہر اس کے لرزتے ہوئے وجود کو دیکھ کر نشے میں جھومتا ہوا آگے بڑھا۔
"مبارک ہو۔ " زاہدہ کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے آہستہ سے کہا۔
"ہماری طرف سے بھی۔  "بیگم صاحبہ کی آواز نے اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ وہ شرم سے گڑی جا رہی تھی۔
"ہمیں اب اجازت دیجئے بیگم صاحبہ۔  آپ نے وقت بہت کم دیا ہے۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے کہا۔
"کاش ! آپ جانتے ڈاکٹر ہاشمی کہ انتظار کس قدر تلخ شے کا نام ہے۔  "وہ ہولے سے قہقہہ لگا کر بولیں۔  ڈاکٹر ہاشمی جھینپ کر رہ گئی۔ "اچھا۔ تو جائیے۔ " وہ ہنستے ہوئے بولیں۔ "لے جائیے ہماری امانت کو اپنے گھر چند دنوں کے لئے۔ "وہ شرمائی لجائی سی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ڈاکٹر ہاشمی کے ہمراہ خارجی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
بیگم صاحبہ کے چہرے پر ایک سکون تھا۔ تمکنت تھی۔ وقار تھا مگر دل میں ایک پھانس سی تھی۔  انہیں نجانے کیوں لگ رہا تھا کہ یہ ایک خواب ہے جو طاہر نے دیکھا ہے، اور جب اس کی آنکھ کھلے گی تو تعبیر اچھی نہیں ہو گی۔  پھر انہوں نے سر جھٹک کر اپنے واہموں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم دل کی بے سکونی ان کی پیشانی پر تفکر کی لکیر بن کر چھلک آئی تھی۔  شاید بڑھاپا خود کو فریب دینا چاہ رہا تھا مگر تجربے کی تیسری آنکھ وا ہو چکی تھی جو آنے والے وقت کے اندیشے کی پرچھائیاں محسوس کر کے پتھرائے جا رہی تھی۔ "لو بیٹی۔  یہ ہے تمہارا نیا مگر مختصر سے وقت کے لئے چھوٹا سا گھر۔  "ڈاکٹر ہاشمی نے اسے ساری کوٹھی کی سیر کرانے کے بعدواپس ڈرائنگ روم میں آ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ خاموشی سے ان کے سامنے بیٹھ گئی۔
زندگی کی خوشیاں ، ہر نعمت، ہرمسرت پا کر بھی، اس پر نجانے کیوں ایک بے نام سی اداسی، نامحسوس سی یاسیت طاری تھی، جسے وہ چھپانے کی حتی الامکان کوشش کر رہی تھی۔
"دینو۔  او دینو۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اپنے ملازم کو آواز دی۔
"جی مالک۔  "نوکر کمرے میں داخل ہوا۔
"دیکھو۔  دو کپ چائے لے آؤ مگر ذرا جلدی۔ مجھے ہاسپٹل پہنچنا ہے۔  "وہ چٹکی بجا کر بولی۔  دینو سر ہلاتا ہوا باہر نکل گیا۔
ڈاکٹر ہاشمی نے مختصراً دینو کو اتنا ہی بتایا تھا کہ زاہدہ ان کی منہ بولی بیٹی ہے اور اگلے ماہ اس کی شادی طاہر میاں سے ہو رہی ہے۔ دینو ان کا اکلوتا اور وفادار ملازم تھا۔
ڈاکٹر دلاور ہاشمی نے بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی نہیں کی تھی۔ ایک ہی بیٹا تھا۔  سرمد۔  جسے وہ جی بھر کر پڑھانا چاہتے تھی۔  آج کل وہ لندن یونیورسٹی میں ایم بی اے کر رہا تھا۔ دونوں باپ بیٹا، دو ہی افراد اس خوبصورت آشیانے کے باسی تھے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد، غم اور خوشی کے شریک۔ راز دار، دوست، سبھی کچھ تو تھے وہ۔
ثروت خانم کے دلہن بن کر آنے سے بھی پہلے سے وہ سر سلطان وجاہت کے فیملی ڈاکٹر تھے۔  معالج اور مریض کا یہ رشتہ وقت نے رفتہ رفتہ دوستی میں بدل دیا اور سر وجاہت سلطان کی وفات کے بعد بیگم صاحبہ اور طاہر سے ان کا یہ تعلق سرپرستانہ ہو گیا۔  انہیں سلطان ولا میں گھر کے ایک اہم فرد ہی کی سی عزت دی جاتی تھی۔ اس تعلق کی بنیادوں میں یہ بات اولیں اہمیت کی حامل تھی کہ انہوں نے طاہر کو واقعی کسی چچا کی طرح گود میں کھلایا تھا۔
چائے ختم ہو گئی تو وہ اٹھ گئے۔
"اچھا بیٹی۔  میں ذرا ہاسپٹل ہو آؤں۔  شام تک لوٹ آؤں گا۔  تم گھبرانا نہیں۔ دینو سے بے تکلف ہو کر جس شے کی ضرورت ہو کہہ دینا۔  شام کو شاپنگ کے لئے چلیں گے۔ "
وہ خاموش رہی۔  ڈاکٹر ہاشمی ہنستے ہوئے اٹھے اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دروازے کی جانب بڑ ھ گئے۔
وہ کتنی ہی دیر جانی پہچانی سوچوں میں گم صوفے پر بیٹھی رہی۔  آنسو اس کی پلکوں سے شبنم کے موتیوں کی طرح ڈھلک ڈھلک کر رخساروں پر پھسلتے رہے۔ ذہن الجھا رہا۔  دل مچلتا رہا اور لب کپکپا کر ایک ہی نام، ایک ہی خیال کو دہراتے رہے۔ 
"اختر۔ کاش اختر۔  وہ سب کچھ نہ ہوتا۔ جس نے مجھے اس مقام تک پہنچا دیا۔ مجھے سب کچھ ملا اختر مگر تم نہ ملے۔  کیوں اختر؟ تم نے ایسا کیوں کیا؟ تمام زندگی کے لئے مجھے یادوں کی چتا میں جلنے کو کیوں چھوڑ دیا؟ بولو ناں اختر۔ تم سنتے کیوں نہیں ؟کہاں ہو تم اختر۔  کہاں ہو تم؟"
وہ کتنی ہی دیر روتی رہی۔  اشک بہتے رہی۔  دل سلگتا رہا۔ یادیں آتی رہیں۔  جانے کب تک۔  پھر وہیں صوفے پر بیٹھے بیٹھے وہ نیند کی بانہوں میں سمٹ گئی۔ کسی معصوم بچی کی طرح۔
٭
شادی میں صرف دو دن باقی تھے۔ دونوں جانب تیاریاں مکمل ہو گئیں۔
ڈاکٹر ہاشمی نے اپنی چیک بک کو جی کھول کر استعمال کیا تھا۔ اب ان کی سونی سونی کوٹھی واقعی کسی ایسی لڑکی کا گھر معلوم ہونے لگی تھی، جس کی رخصتی عنقریب ہونے والی ہو۔
وہ بے حد خوش تھی۔ بھری دنیا میں ایک بیٹے اور اب اس منہ بولی، چند روزہ مہمان بیٹی کے سوا ان کا تھا بھی کون؟وہ اسے باپ بن کر ہی بیاہنا چاہتے تھے!
بیگم صاحبہ بھی وقتاً فوقتا ان کے ہاں چلی آتیں۔  انہیں اپنے ہاں بلا بھیجتیں۔  صلاح مشورے ہوتے۔  پھر آنے والے سہانے دنوں کے خواب حقیقت بن بن کر ان کی ترستی ہوئی پیاسی آنکھوں میں ابھرنے لگتے۔
رہ گیا طاہر۔ تواس کا ایک ہی کام تھا۔ دن بھر ٹیلی فون کر کر کے اسے تنگ کرنا۔  آنے والے خوبصورت دنوں کی باتیں کرنا۔  ٹھنڈی آہیں بھر کر وقت کے جلدی نہ گزرنے کی شکایتیں کرنا۔ بے قرار دل کا حالِ زار سنانا اور محبت جتانا۔  اس کا بس نہیں چلتا تھا۔ اگر ڈاکٹر ہاشمی اور بیگم صاحبہ کا نادر شاہی حکم نہ ہوتا تو وہ شاید ہر پل زاہدہ کی قربت میں گزار دیتا مگر مجبور تھا۔ ہاں ، تھوڑا سا بے شرم ہو کر وہ زاہدہ کے لئے ہر روز کوئی نہ کوئی چیز ضرور خرید لاتا۔ کبھی ساڑھی۔  کبھی نیکلس۔  کبھی کچھ۔ کبھی کچھ۔
بیگم صاحبہ سب کچھ دیکھ کر، سب کچھ جان کر بھی، ہولے سے مسکرا کر خاموش ہو رہتیں۔ اور بس۔  عجیب بات تھی کہ انہیں اب بھی اس بات پر یقین نہ آتا تھا کہ ان کے بیٹے کی شادی ہو رہی ہے۔  اب بھی ان کا وہم انہیں اندر سے ڈرائے رکھتا تھا۔
طاہر دفتر میں سارا سارا دن بچوں کی طرح ہر ایک کو چھیڑتا رہتا۔ ہر ایک کو تنگ کرتا رہتا۔ سب اس کی خوبصورت شرارتوں کو مالک کے پیار سے زیادہ ایک سچی، مخلص اور پیارے دوست کا حق سمجھ کر برداشت بھی کرتے اور موقع ملنے پر بدلہ بھی چکا دیتے۔
"امبر۔۔۔ تم بھی جلدی سے شادی کر لو۔ ایمان سے آدمی مرنے سے پہلے ہی جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ "طاہر کہتا اور وہ بیر بہوٹی بن کر رہ جاتی۔
اب تو چند دنوں کی بات تھی۔  پھر۔۔۔  اور اس" پھر "سے آگے، وہ بڑے حسین تصورات میں گم ہو جاتا۔ کھو کر رہ جاتا۔  "زاہدہ۔  "ایک نام اس کے لبوں پر آتا اور وہ مدہوش سا ہو جاتا۔
دوسری طرف زاہدہ کسی اور ہی دنیا میں تھی۔  سب کچھ، اس کی آنکھوں ، جاگتی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ وہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ محسوس کر رہی تھی لیکن اسے یہ سب خواب معلوم ہو رہا تھا۔ ایک ایسا خواب جس میں بے چینی تھی، بے سکونی تھی، بے اطمینانی تھی۔ وہ راتوں کو بے قراری سے کروٹیں بدلتی رہتی۔ اضطراب اس پر حاوی رہتا۔ ذہن منتشر منتشر سا۔ دل مسلا مسلا سا۔  سوچیں ادھوری ادھوری سی۔ خیالات بکھرے بکھرے سے۔ وہ خود کو نامکمل سی محسوس کرتی۔ قطعی نامکمل، تشنہ اور ادھورا۔
یہ ادھورا پن، یہ تشنگی، یہ اضطراب، صرف اور صرف ماضی کی ان بے قرار یادوں کے باعث تھا جو اسے ایک پل کو چین نہ لینے دیتی تھیں۔  اس کے ہر تصور پر اختر، ہر پل، ہر لمحہ، چھایا رہتا۔ اس نے جتنا ماضی سے دامن چھڑانا چاہا، مستقبل اتنا ہی اس سے دور ہوتا چلا گیا۔  وہ یادوں کے گھور اندھیروں میں ڈوبی، اشکوں کے چراغ جلاتی رہتی مگر کوئی راستہ، کوئی منزل، کوئی راہگزر نگاہوں کے ہالے میں تیرتی نظر نہ آتی۔  
محبت کھیل نہیں کہ بغیر چوٹ دیے ختم ہو جائے۔۔۔ یہ احساس اسے شدت سے ہو رہا تھا۔  پوری تندی و تیزی سے یہ طوفان اسے اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا اور وہ بے بسی سے اپنی نم آنکھوں میں چبھتے نوکیلے کانٹوں کی چبھن اپنی روح پر محسوس کرتے ہوئے آنسو آنسو ہو کر چیخ پڑتی۔ چلا اٹھتی۔
"اختر کہاں ہو تم۔  ظالم! یہ کس جہنم میں دھکیل دیا ہے تم نے مجھے۔  ایک بار۔  صرف ایک بار سامنے تو آؤ۔ مجھے یقین تو ہو جائے کہ تم وہ نہیں ہو، جو صرف ایک رات کے لئے، ایک مختصر سے وقفے کے لئے نظر آئے تھے۔  اور اگر وہی ہو، جسے میں نے صدیوں اپنے دل کے نہاں خانے میں چھپائے رکھا تو میں وہی بن جاؤں ، جو تمہارے لئے دیوی تھی۔ تمہاری داسی تھی۔  تمہاری تھی اختر۔ صرف تمہاری!"۔۔۔ مگر اس کے دل کی یہ پکار، جذبات کی صدا کوئی بھی تو نہ سن سکتا تھا۔ کوئی بھی تو نہیں۔  اختر بھی نہیں !
جوں جوں وہ یادگار دن قریب آ رہا تھا جس کی خاطر طاہر نے اسے فرش سے عرش پر لا بٹھایا تھا۔ جس کے انتظار میں اس نے ہر پل سپنے دیکھے تھے۔ خواب سجائے تھے، توں توں وہ اداسی، یاسیت اور خاموشی کی گمبھیر وادیوں میں اترتی چلی جا رہی تھی۔  اس لئے کہ خوابوں کا شہزادہ وہ نہیں تھا جسے اس نے دھڑکن کی طرح دل میں چھپا رکھا تھا۔  تعبیر وہ نہیں تھی جو اس نے اپنے تصورات کے سہارے سوچ رکھی تھی۔  پھر اسے اپنی اس جذباتی غلطی، حالات سے گھبرا کر مایوسی کی باہوں میں پناہ لے لینے کے خوفناک گناہ پر پچھتاوا ہونے لگتا۔  کتنا بھیانک تھا اس ایک لمحے کی لرزش کا انجام، جو اس نے طاہر کی محبت کے سامنے سر جھکا کر کی تھی۔  وہ آج بھی اپنے خیالات میں اختر کو بسائے ہوئے تھی۔  اختر کو بھلا دینا اس کے بس میں نہیں تھا۔  
اس کی زندگی، جیسے بہارو ں بھرے گلشن میں تمام عمر کے لئے آگ میں جلنے جا رہی تھی۔ اور اسے یہ سب کچھ بہرحال سہنا تھا۔ رو کر یا ہنس کر۔
٭
" زاہدہ بیٹی۔ تم چھ بجے کے قریب ہاسپٹل چلی آنا۔  میں کار بھیج دوں گا۔ "
"جی مگر ۔۔۔ "وہ شاید وجہ پوچھنا چاہتی تھی۔
"بیٹی۔  بیگم صاحبہ کا فون آیا تھا۔  وہ بھی آ رہی ہیں شام کو۔ وہ تمہیں اپنے ساتھ شاپنگ پر لے جانا چاہتی ہیں۔  تمہاری پسند کی کچھ چیزیں خریدیں گی۔ " ڈاکٹر ہاشمی کا لہجہ معنی خیز ہو گیا۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پھیکے سے انداز میں مسکرادی۔ "جی بہتر۔ "
"اللہ حافظ۔ "انہوں نے رابطہ ختم کر دیا۔ وہ کتنی ہی دیر تک بے جان، ٹوں ٹوں کرتے ریسور کو تھامے کھڑی جانے کیا سوچتی رہی۔
کلاک نے پانچ بجائے تو وہ چونک پڑی۔  آہستہ سے، ایک طویل، تھکی تھکی سانس لے کر پلٹی۔ اس کی بے چین نظریں بے اختیار اپنی کلائی پر بندھی خوبصورت سی رسٹ واچ پر جم گئیں جو اسے ڈاکٹر ہاشمی نے خرید کر دی تھی۔
پھر وہ نچلے ہونٹ کو دانتوں میں داب کر آنکھوں میں تیر جانے والے آبدار موتیوں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی صوفے پر اوندھی گر پڑی۔  سسکیاں کمرے کی خاموش اور اداس فضا کے بے جان بُت پر آہوں ، دبی دبی ہچکیوں اور بے قرار جذبات کے پھول نچھاور کرنے لگیں۔  وہ کتنی ہی دیر تک بلکتی رہی۔  پھر " ٹن" کی مخصوص آواز کے ساتھ کلاک نے وقت کے بوڑھے، متحرک، رعشہ زدہ سر پر پہلا ہتھوڑا کھینچ مارا تواسے یوں محسوس ہواجیسے یہ ضرب، یہ چوٹ اس کے دل پر لگی ہو۔  چھ بج چکے تھے۔
وہ اٹھی اور باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ منہ ہاتھ دھو کر باہر آئی اور صوفے پر بیٹھ کر پھر کسی سوچ میں گم ہو گئی۔ اس کی خوبصورت، مدھ بھری آنکھیں سوجی سوجی نظر آ رہی تھیں۔
"سلام بی بی جی۔ " کچھ دیر بعد ایک آواز سن کر وہ چونکی۔ ڈرائیور دروازے میں کھڑ تھا۔  وہ خاموشی سے اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔ ڈرائیور بھی اس کے پیچھے ہی باہر چلا آیا۔  ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ ڈاکٹر ہاشمی کے چھوٹے سے ہاسپٹل کے کار پارک میں اتری۔  ڈرائیور کار کو آگے بڑھا لے گیا اور وہ سر جھکائے اندر کو چل دی۔
" تم آ گئیں بیٹی۔  آؤ۔  بیٹھو۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر کہا اور ہاتھ میں موجود ایکسرے کو روشنی کے ہالے میں لا کر غور سے دیکھنے لگی۔ قریب کھڑی نرس ان کی جانب منتظر نظروں سے دیکھ رہی تھی۔  
"اس میں تو کوئی گڑ بڑ نہیں ہے؟" وہ ایکسرے کو میز پر رکھتے ہوئے پرسوچ انداز میں بولی۔ "تم اس مریض کے کمرے میں چلو۔ میں آ رہا ہوں۔ "
"یس سر۔ "نرس تیزی سے باہر نکل گئی۔  
زاہدہ سر جھکائے ناخن سے میز کی سطح کرید رہی تھی۔
"کیا بات ہے بیٹی۔  تم کچھ اداس ہو؟" انہوں نے پوچھا۔
"جی۔۔۔ جی نہیں تو۔  "وہ پھیکے سے انداز میں بادل نخواستہ مسکرا دی۔
"ہوں۔ بیگم صاحبہ کے آنے میں تو ابھی کچھ دیر ہے۔  آؤ۔ تمہیں دکھائیں کہ ہم مریض کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ "وہ رسٹ واچ سے نگاہ ہٹا کر اٹھتے ہوئے مسکرائی۔ زاہدہ بے اختیار کھڑی ہو گئی۔ تنہائی میں اگر وہ پھر بے قابو ہو جاتی اور بیگم صاحبہ آ جاتیں تو؟یہی سوچ کر اس نے انکار مناسب نہ سمجھا اور ان کے پیچھے چلتی ہوئی کاریڈور میں نکل آئی۔  بایاں موڑ مڑتے ہی پہلا کمرہ ان کی منزل تھا۔  وہ ان کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی۔  ٹھیک اسی وقت مریض کے بستر کے قریب کھڑی نرس ڈاکٹر ہاشمی کی جانب پلٹی۔
"سر۔  اسے ہوش آ رہا ہے۔  "پرے ہٹتے ہوئے اس نے ان راستہ دیا۔
ڈاکٹر ہاشمی تیزی سے بستر کے قریب چلے گئے اور جھک کر اس کا معائنہ کرنے لگے۔  زاہدہ بے مقصد ہی ادھر ادھر دیکھنے لگی۔  
"اس کی والدہ کہاں گئیں ؟"
"جی۔  وہ اپنے ہسبینڈ کو فون کرنے گئی ہیں۔"
"ہوں۔ "وہ سیدھے کھڑے ہو گئے۔
تب۔۔۔ پے درپے کئی دھماکے ہوئے۔ روشنی اور اندھیرے کے ملے جلے جھماکے، جو اس کی آنکھوں کو چکا چوند کر گئی۔ ہر شے جیسے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔  زمین لرزی۔  آسمان کانپا اور وہ لڑکھڑا گئی۔ اس کی حیرت زدہ، پھٹی پھٹی آنکھیں ، بستر پر پڑے اختر پر جمی تھیں۔ اس کے ہونٹوں سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔
ڈاکٹر ہاشمی اس کی دگرگوں ہوتی حالت کو دیکھ کر بری طرح گھبرا گئے۔
"بیٹی۔  کیا بات ہے؟"وہ تیزی سے گرتی ہوئی زاہدہ کی جانب لپکے اور اسے باہوں میں سنبھال لیا۔  پھر ان کی بے چین آنکھوں نے زاہدہ کی حلقوں سے ابلتی، برستی آنکھوں کا محور پا لیا۔ وہ سن سے ہو گئی۔
"زا۔۔۔  ہدہ۔۔۔ "ہڈیوں کے اس پنجر کے سوکھے ہوئے خشک لب ہلے۔
"اختر۔ "جیسے کسی زخمی روح نے تڑپ کر سرگوشی کی۔
"زاہدہ۔۔۔ کہاں۔۔۔ ہو۔۔۔ تم ؟"ایک درد بھری صدا نے اس کا صبر و قرار چھین لیا۔
"اخ۔۔۔ " آواز اس کے گلے میں گھٹ کر رہ گئی۔  
"بیٹی۔  "ڈاکٹر ہاشمی جیسے ہوش میں آ گئے۔  ان کی تحیر زدہ نظروں میں اب دردسا امنڈ آیا تھا۔
زاہدہ بت بنی کھڑی، روتی ہوئی آنکھوں سے سرسوں کے اس پھول کو دیکھے جا رہی تھی، جو شاید مرجھانے جا رہا تھا۔ اس کے چہرے کے نقوش درد، اضطراب، کسک اور تڑپ کے رنگوں میں نئے نئے روپ دھار رہے تھے۔ نرس حیرت بھری نظروں سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔  تب۔۔۔  آہستہ سے دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔ کوئی سامنے چلا آیا۔
"زاہدہ۔ " حیرت اور یاس میں ڈوبی ایک آواز گونجی۔ چند لمحے حیرت، بے چینی اور آنکھوں کی دھندلاہٹ کی نظر ہو گئی۔ پھر کوئی تیزی سے آگے بڑھا اور اس سے ایک قدم کے فاصلے پر رک گیا۔
"تم۔۔۔ تم کہاں تھیں بیٹی؟"
وہ چونک سے پڑی۔ حواس میں آ گئی۔ سنبھل گئی۔
" آپ؟" اس کے لبوں سے مری مری آواز نکلی اور "بیٹی" کے لفظ نے اسے پھر حیرت سے گنگ کر دیا۔
"ہاں بیٹی۔ " چچی آنکھوں سے امنڈنے والے آنسوؤں کو رخساروں پر بہنے سے نہ روک سکیں۔ "میں۔ تمہاری مجرم۔  تمہاری گناہ گار۔ "
وہ اس کانپتی ہوئی آواز سے ڈر سی گئی۔  لڑکھڑا گئی۔ تب کسی نے اسے سہار لیا۔ ڈاکٹر ہاشمی نے رخ پھیر لیا۔
"میرا بیٹا۔۔۔  مر رہا ہے بیٹی!"ایک کراہ ابھری۔
وہ انہیں گھورتی رہی۔ اپنی بے رحم چچی کو۔
"اختر تمہارے لئے مر رہا ہے بیٹی۔ " وہ بمشکل بولیں۔
وہ خاموش کھڑی رہی۔
"میں ہاتھ جوڑتی ہوں بیٹی۔ "انہوں نے بوڑھے مگر سنگلاخ ہاتھ جوڑ دئیے۔
وہ پتھرائی ہوئی بے نور سی آنکھوں سے انہیں دیکھتی رہی۔
" زاہدہ۔ "ایک ماں کی کانپتی ہوئی آواز نے اسے چونکا دیا۔  مرجھاتے ہوئے گلاب کو خزاں کے جھونکے نے ہلکورا دیا۔ "تمہارا اختر مر۔۔۔ "ہچکیاں نامکمل رہ گئیں۔
"زاہدہ۔۔۔  کہاں ہو تم ؟"اختر کے ہونٹ کپکپائے۔
"اختر۔ "وہ مزید نہ سہہ سکی۔  بھاگی۔  لڑکھڑائی اور جا کر اس کے سینے سے لپٹ گئی۔
"زاہدہ۔ " آواز میں زندگی عود کر آئی۔
"اختر۔ "وہ بیقراری سے بولی۔
"تم۔۔۔ " آواز میں درد کم ہوا۔
"میں یہاں ہوں اختر۔ تمہارے پاس۔ " وہ سسک اٹھی۔
"زاہدہ۔ "ایک، ہچکی ابھری اور۔۔۔  گردن ڈھلک گئی۔
"اختر۔۔۔ "ایک چیخ لہرائی۔
"یہ بے ہوش ہو چکا ہے بیٹی۔ "ایک اداس سی آواز نے اسے زندگی کی نوید دی۔  "اس کا کمزور دماغ اس ناممکن حقیقت کو سہہ نہیں سکا۔ "ڈاکٹر ہاشمی کی افسردہ سی آواز ابھری۔  
"اسی۔۔۔ "
"زندگی دینے والا خدا ہے بیٹی۔ "انہوں نے زاہدہ کی بات کاٹ کر اسے بستر سے اٹھایا اور کمرے سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔  پھر سفید لباس میں ملبوس نرسوں کے ہمراہ ڈاکٹر ہاشمی نے اختر کے بستر کو گھیرے میں لے لیا۔
"تم نے مجھے معاف کر دیا بیٹی۔ " خود غرضی نے نیا روپ دھار لیا تھا۔
"چچی جان۔ " وہ ان سے لپٹ گئی۔
پچیس منٹ پچیس صدیاں بن کر گزری۔  پھر ڈاکٹر ہاشمی باہر چلے آئی۔ وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھی۔  نرسوں کا ٹولہ بھی کمرے سے نکل گیا۔
اب چچا بھی ان دونوں کے ساتھ تھے۔  نادم نادم سی۔ کھوئے کھوئے سے۔  ڈاکٹر ہاشمی نے بڑی یاس بھری نظروں سے اسے دیکھا اور دھیرے سے اثبات میں سر ہلا کر آگے بڑھ گئے۔  وہ بھاگتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ چچی بھی اس کے پیچھے لپکی۔
"نہیں۔  "چچا نے چچی کو روک لیا اور وہ نجانے کیوں مسکرا دیں۔ مطمئن سی ہو کر۔
"اختر۔۔۔ "اندر وہ اس کے سینے پر سر رکھے روئے جا رہی تھی۔  
"زاہدہ۔ "وہ اسے اپنے سینے میں سمونے کی کوشش کر رہا تھا۔  اس کی آنکھیں بھی جی بھر کر ارمان نکال رہی تھیں۔ وہ۔۔۔  نظریں جھکائے ڈاکٹر ہاشمی کے آفس میں داخل ہوئی۔
چچا اور چچی کے علاوہ وہاں ایک اور ایسی ہستی موجود تھی، جس کا سامنا کرنے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ وہ رک گئی۔  چلنے کی سکت ختم ہو گئی۔
اس نے آہستہ سے نظریں اٹھائیں۔ خاموشی۔  سناٹا۔  سکوت۔  ہر چہرہ اداس۔  ہر آنکھ نم۔  ہر وجود بے حس و حرکت۔  زاہدہ کی دھڑکن رکنے لگی۔ سانس گھٹنے لگی۔  یہ خاموشی، یہ سناٹا، یہ سکوت۔  یوں لگتا تھا جیسے کوئی بہت بڑا طوفان گزر چکا ہو اور اپنے پیچھے اپنی تباہی و بربادی کے آثار چھوڑ گیا ہو۔
اس کی نظریں بیگم صاحبہ کی نظروں سے ٹکرائیں۔ کتنا درد تھا ان میں۔ ان بوڑھے چراغوں میں ، جہاں ممتا کی لاش ویرانی کا کفن اوڑھے پڑی تھی۔
وہ دبدبہ، وہ رعب، وہ کرختگی۔  کچھ بھی تو نہیں تھا وہاں۔ سب ختم ہو چکا تھا۔ سب راکھ ہو چکا تھا۔ اس نے گھبرا کر نظریں جھکا لیں۔  اس کا دل کسی انجانے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔
"زاہدہ۔  "ایک سرگوشی ابھری۔
اس نے پلکیں اٹھائیں۔ پتھر کے لبوں پر بڑی زخمی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
"ہمارے پاس آؤ۔  "جیسے کسی نے التجا کی ہو۔  وہ ان کی نم آنکھوں میں دیکھتی ہوئی آگے بڑھی۔  مسکراہٹ میں خون کی سرخی گہری ہو گئی۔ زخم کا منہ کچھ اور کھل گیا۔
"بیگم صاحبہ۔ "وہ بلکتی ہوئی ان کے قدموں سے لپٹ گئی۔
انہوں نے پاؤں کھینچے نہیں۔ اسے روکا نہیں۔ اس کی زلفوں میں بوڑھے ہاتھ سے کنگھی کرتی رہیں۔  وہ کتنی ہی دیر ان مشفق قدموں سے لپٹی دل کی بھڑاس نکالتی رہی۔  پھر انہوں نے آہستہ سے اسے شانوں سے تھام کر اٹھایا اور اپنے سامنے کھڑا کر لیا۔
"منزل مبارک ہو بیٹی۔ "ان کے لب کپکپائے اور آنکھیں چھلک گئیں۔ انہوں نے اسے لپٹا لیا۔ بھینچ لیا۔ کتنے ہی گرم گرم موتی ان کے رخساروں سے ٹوٹ کر زاہدہ کی سیاہ گھٹاؤں میں جذب ہو گئی۔  پھر جب انہوں نے اسے سینے سے الگ کیا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس سے کوئی بہت قیمتی شے کھو گئی ہو۔
"ابو۔  "وہ پلٹ کر ڈاکٹر ہاشمی سے لپٹ گئی۔
"پگلی۔ " وہ اس کا شانہ تھپکتے ہوئے خود بھی بے قابو سے ہو گئے۔ "میں نے کہا تھا ناں۔  تو میری چند روز کی مہمان بیٹی ہے۔  "ایک باپ دکھی ہو رہا تھا۔
"ابو۔  "وہ مزید کچھ بھی نہ کہہ سکی۔
پھر اس سسکتی کلی کو، اس کے اپنی، ماضی کے دشمنوں اور حال کے دوستوں نے باہوں میں سمیٹ لیا۔ دامن میں بھر لیا۔
"ڈاکٹر ہاشمی۔ "
"جی بیگم صاحبہ۔  "وہ سر جھکائے آگے بڑھ آئی۔  
"اختر کس حال میں ہے؟"
"یہ اسے گھر لے جا سکتے ہیں بیگم صاحبہ۔ مسیحا ان کے ساتھ ہے۔  "وہ ان کی بات کے جواب میں آہستہ سے بولی۔
بیگم صاحبہ نے اختر کے والدین کی جانب بڑی یاس بھری نظروں سے دیکھا۔ وہ سمجھ گئی۔  بڑے اداس تھے وہ بھی۔  شاید بیٹے کی حالت نے ان کا سارا زہر نکال دیا تھا۔  
"ہم کس طرح آپ کا شکریہ۔۔۔ "
"کوئی ضرورت نہیں۔ ہم بھی ایک بیٹے کی ماں ہیں۔ "بیگم صاحبہ نے بڑی دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "بس ایک کرم کیجئے ہم پر۔ "
"جی۔  آپ حکم کیجئے۔ " چچا کی آواز میں ممنونیت کا دریا بہہ رہا تھا۔
"جتنی جلدی ہو سکے آپ یہاں سے رخصت ہو جائے۔  طاہر ادھر نکل آیا تو ہم اپنے آپ میں نہ رہ سکیں گے۔ "
"جی۔ " چچا اور چچی کے چہروں پر دھواں سا پھیلا جبکہ زاہدہ سرسوں کے پھول جیسی زرد ہو گئی۔
ان سب کے سر جھک گئے۔  احسان کے بوجھ سے۔ پھر وہ رخصت ہونے کے لئے دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
"زاہدہ۔ "ایک آواز پر وہ رک گئی۔ پلٹی اور بیگم صاحبہ کی جانب دیکھنے لگی۔  آہستہ آہستہ اس کے قدم اٹھی۔ وہ ان کے قریب چلی آئی۔
"ہاتھ لاؤ۔ "
اور بے ساختہ زاہدہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں چلا گیا۔  
"اس پر تمہارا ہی حق تھا۔ " ایک ہیرا اس کی انگلی میں جڑ دیا گیا۔
اس کے ہونٹ لرزی۔ ہاتھ کی مٹھی بھنچ گئی اور پلکوں کے گوشے پھر نم ہو گئی۔
"نہیں۔  اب نہیں۔ کبھی نہیں۔  " ان کے ہونٹوں پر پھر ایک خون رستی مسکراہٹ تیر گئی۔
وہ بے قابو سی ہو کر پلٹ کر بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
وقت تھم سا گیا!
"ڈاکٹر ہاشمی۔ "ایک شعلہ لرزا۔
"جی بیگم صاحبہ۔ " لو تھرتھرائی۔
"یہ تھا وہ خوف جو ہمیں طاہر اور زاہدہ کے ملاپ سے روکتا تھا۔  ہم جانتے تھے پہلی محبت کبھی بھی زاہدہ کے دل سے نکل نہیں سکے گی۔ اختر کا خیال اسے کبھی بھی طاہر میں پوری طرح مدغم نہ ہونے دے گا۔ اور ڈاکٹر ہاشمی۔  یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں ہے ناں کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں۔  اس لباس میں کسی اور کا پیوند لباس کو لباس نہیں رہنے دیتا، چیتھڑا بنا دیتا ہے اور طاہر چیتھڑے پہن کر زندگی گزار سکتا ہے کیا؟"
جواب میں ڈاکٹر ہاشمی صرف اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی۔ بیگم صاحبہ کا اندیشہ کتنی جلدی حقیقت بن کر سامنے آ گیا تھا، وہ اس سوچ میں ڈوب گئی۔
٭
کار کا انجن آخری مرتبہ کھانسا اور بے دم ہو گیا۔ وہ ڈیش بورڈ پر پڑا گفٹ پیک سنبھالتا باہر نکل آیا۔  شام کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔  کوٹھی دلہن بنی ہوئی تھی۔ بڑی حسین اور امنگوں بھری مسکراہٹ لبوں پر لئے دھیمے سروں میں کوئی پیارا سا گیت گنگناتا وہ داخلی دروازے کی طرف بڑھا۔ دبے پاؤں اندر داخل ہوا۔
"امی آج بھی کوئی نئی خریدی ہوئی چیز آگے رکھے میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔ " اس نے سوچا اور بڑے دلکش خیالات میں گم اوپر جانے والی سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔
"امی۔  آپ۔۔۔ ؟"وہ کھڑکی کے کھلے پٹ کا سہارا لئے کھڑی دور کہیں اندھیرے میں گھورتی بیگم صاحبہ کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔  وہ خاموش، اسی انداز میں کھڑی رہیں۔  "اس سردی میں۔ اس وقت تک آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟" وہ ان کے قریب چلا آیا۔  بیگم صاحبہ بدستور چپ رہیں۔
" آپ بولتی کیوں نہیں امی؟"وہ گھبرا سا گیا۔
تب وہ آہستہ سے پلٹیں اور اس کے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔  دل بڑے زور سے دھڑکا۔  سوجی سوجی آنکھیں ، جن میں کبھی بھوری چٹانوں کی سی سختی کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا تھا۔ زرد رنگت جو ہمیشہ وقار اور دبدبے کے بوجھ سے ابلتے ہوئے خون کی چغلی کھاتی تھی۔  کملایا ہوا چہرہ، جس پر پہاڑوں کے عزم اور آسمانوں کی سی عظمت کے سوا کبھی کچھ نہ ابھرا تھا۔  
"امی۔  "کسی انجانے حادثے کی وہ منہ بولتی تصویراس کا صبر و قرار چھین لے گئی۔  "کیا بات ہے امی ؟"وہ تڑپ اٹھا۔
وہ بڑی درد بھری نظروں سے اس کے معصوم سے خوفزدہ چہرے کو گھورتی رہیں۔
"بولئے امی۔  آپ بولتی کیوں نہیں ؟" وہ بے پناہ بے قراری سے بولا۔
انہوں نے سر جھکا کر رخ پھیرتے ہوئے قدم آگے بڑھا دئیے۔  
"امی۔  "وہ تیزی سے ان کے سامنے چلا آیا۔ " آپ کو میری قسم امی۔ "
انہوں نے بڑے کرب سے پلکیں بھینچ لیں۔ پتھر سے چشمہ پھوٹ نکلا۔ وہ گنگ سا کھڑا ان کی طرف بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا۔
"زاہدہ۔۔۔ "ایک سسکی ان کے کانپتے لبوں سے آزاد ہو گئی۔
"کیا ہوا اسی؟" وہ بے چینی سے بولا۔
"چلی گئی۔ "ڈاکٹر ہاشمی کی آواز، اس کی سماعت کے لئے تو بہ شکن دھماکہ ثابت ہوئی۔ وہ لڑکھڑا گیا۔
گفٹ پیک اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر چمکدار فرش پر آ رہا۔ سنگ مر مر کا خوبصورت اور بے داغ تاج محل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ بکھر گیا۔  وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے منہ پھیرے کھڑی بیگم صاحبہ اور سرجھکائے ڈاکٹر ہاشمی کو گھورتا رہ گیا۔
کتنی ہی دیر۔۔۔  ہاں کتنی ہی دیر اس اذیت ناک خاموشی کے قبرستان میں ارمانوں کے مزار پر کھڑے گزر گئی۔ بجھتے چراغوں کا دھواں نظروں کی دھندلا ہٹ میں بدل گیا۔
"چلی گئی۔۔۔ ؟"ایک سپاٹ، جذبات سے عاری، دھیمی سی صدا ابھری۔
جھکے ہوئے سر اٹھے۔
"بیٹے۔ " بیگم صاحبہ کا دل جیسے پھٹ گیا۔
"اور آپ اسے روک بھی نہ سکیں۔ "اس کا لہجہ درد سے پُر تھا۔ بیگم صاحبہ نے تڑ پ کر پھر رخ پھیر لیا۔
"وہ کیوں چلی گئی امی؟" وہ بچوں کی طرح سوال کر بیٹھا۔
"ڈاکٹر ہاشمی۔ "بیگم صاحبہ نے سسک کر صوفے کا سہارا لے لیا۔ "اسے بتائیے ڈاکٹر ہاشمی، وہ کیوں چلی گئی۔ "ان کی آواز بھیگ گئی۔
"میں جواب آپ سے چاہتا ہوں امی۔  "وہ جیسے کرب سے چیخ اٹھا۔ تڑپ کر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ "جواب دیجئے۔  وہ کیوں چلی گئی۔ کہاں چلی گئی۔ کس کے ساتھ چلی گئی؟" وہ ان کو جھنجھوڑتا ہوا چیخ اٹھا۔
"اختر موت کے دہانے پر کھڑا تھا۔ اسے جانا پڑا۔ "
"اختر کا گھر اس کی منزل تھا۔  وہ وہیں لوٹ گئی۔ "
"اختر اس کی محبت ہے۔  اسی کے ساتھ چلی گئی۔ "
"نہیں نہیں نہیں۔ " وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر پوری قوت سے چیخ اٹھا۔  
نہ جانے کس ضبط سے اس نے اپنے دل کا خون رخساروں پر چھلکنے سے روکا۔ اس کی آنکھیں کتنی ہی دیر بھنچی رہیں ، جیسے اسے زہر کے تلخ اور کسیلے گھونٹ حلق سے اتارنا پڑے ہوں۔ جیسے وہ زہر اس کے جسم کی ہر رگ کو کاٹ رہا ہو۔  اس کے ہاتھ مضبوطی سے کانوں پر جمے رہی۔  جیسے اب وہ کچھ سننے کی تاب نہ رکھتا ہو۔ جیسے اب اگر ایک لفظ بھی اس کے کانوں کے پردوں سے ٹکرایا تو وہ ہمیشہ کے لئے سماعت سے محروم ہو جائے گا۔ پھر وہ آہستہ سے پلٹا۔
بیگم صاحبہ دل کو دونوں ہاتھوں میں جکڑے صوفے پر بیٹھتی چلی گئیں۔ کھڑے ہونے کی سکت ہی کہاں رہ گئی تھی ان میں۔
ڈاکٹر ہاشمی نے چہرے پر ابھر آنے والے کرب کو رخ پھیر کر چھپاتے ہوئے صوفے کی پشت کا سہارا لے لیا لیکن وہ ہر ایک سے بے نیاز، دھیرے دھیرے زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ اس کے لرزتے ہوئے بے جان، بے سکت ہاتھ ٹوٹے ہوئے، بکھرے پڑے تاج محل کے ٹکڑوں سے ٹکرائی۔
"تو کیا تاج محل صرف چاندنی راتوں ہی میں محبت کی کہانیاں سنتا ہے۔  اندھیری راتوں میں یہ خود بھی بکھر ا رہتا ہے کیا؟"وہ مر مر کے بے جان ٹکڑوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑبڑایا۔
دھیرے دھیرے اس نے تمام ٹکڑوں کو دونوں ہاتھوں میں سمیٹ لیا۔  آہستہ سے اٹھا اور ہولے ہولے چلتا ہوا اوپر جانے والی سیڑھیوں کی جانب بڑھتا چلا گیا۔
"طاہر۔ "بیگم صاحبہ کی غمزدہ آواز نے اس کے قدم روک لئے لیکن وہ پلٹا نہیں۔
ایک لمحے کا وقت معنی خیز خاموشی میں بیت گیا۔
"گھبرائیے نہیں امی۔  ابھی دل دھڑک رہا ہے۔  لاشیں بے گور و کفن بھی تو پڑی رہتی ہیں۔ "وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
سائے گہرے ہوتے چلے گئے۔ شبِ پُر نم کی زلفیں کھلتی چلی گئیں۔ شبنم گرتی رہی۔  اور خزاں کا کہر ہر سو پھیلتا چلا گیا۔  پھیلتا چلا گیا۔
سمور کے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے دوسرے ہاتھ میں بڑا سا پیکٹ سنبھالے وہ گنگناتی ہوئی آفس میں داخل ہوئی۔ ہر سو ایک بے نام اور خلاف معمول خاموشی کا راج تھا۔ ہر شخص سرجھکائے اپنے کام میں مشغول تھا۔
اس کے خوبصورت ہونٹ ساکت ہو گئے۔ بڑی بڑی آنکھوں میں ہلکی ہلکی الجھن تیرنے لگی۔ ہر وقت قہقہوں میں ڈوبا رہنے والا آفس اداسی میں تہہ نشین تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چل پڑی۔ رجسٹر پر جھکی نجمہ اس کے قدموں کی آہٹ پر چونکی۔  
"اوہ۔ امبر۔۔۔ "وہ اس کی جانب دیکھ کر آہستہ سے مسکرائی۔
سر کے اشارے سے سب سے سلام لیتے اور دیتے ہوئے وہ اس کی میز کے قریب پہنچ گئی۔
"کیا بات ہے بھئی۔  آج گلشن اداس ہے۔ "وہ اس کی میز پر بیٹھ گئی۔
" آج باس اداس ہیں۔  "نجمہ دھیرے سے بولی۔
"اداس۔۔۔ ؟" وہ چونک پڑی۔
"ہاں۔ "
"مگر کیوں ؟"
"کوئی نہیں جانتا۔ بس۔ صبح خاموشی سے آئی۔  کسی سے سلام لیا نہ کسی سے بات کی۔ سیدھے آفس میں چلے گئے۔ اب تک وہیں بند ہیں۔ "
امبر کسی سوچ میں گم ہو گئی۔ نجمہ اپنا کام نبٹانے لگی۔
"اچھا۔ میں مل کر آتی ہوں۔ یہ کارڈ آ گئے ہیں۔  یہ دے آؤں۔  شاید کچھ وجہ بھی معلوم ہو جائے اس بے وقت اداسی کی۔ کل تو ان کی شادی ہے۔ "
"ہاں۔  تم سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔  ان کی چہیتی ہو ناں۔ " نجمہ شرارت سے بولی۔
"تم جلا کرو۔  "وہ پیکٹ ہاتھ میں لئے مسکراتی ہوئی چل دی۔ سب کی نظریں پل بھر کو اٹھیں اور جھک گئیں۔
دروازہ آہستہ سے کھلا۔ وہ چونکا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھیں دروازے سے اندر داخل ہوتی ہوئی امبر پر جم گئیں۔
"مارننگ سر۔ "اس نے مخصوص لہجے میں کہا اور ساتھ ہی اس کا نرم و نازک ہاتھ ماتھے پر پہنچ گیا۔
"مارننگ۔ " وہ جیسے بڑبڑایا۔
وہ پل بھر کو ٹھٹکی۔ پھر ہولے ہولے مسکراتی ہوئی اس کی میز کے قریب چلی آئی۔
"لیجئے سر۔  آپ کے میریج کارڈ۔۔۔ "وہ پیکٹ اس کے سامنے رکھتے ہوئے میز کے کونے سے ٹک گئی۔
اس کی حالت ایک دم بدل گئی۔ چہرے پر زردی اور سرخ آنکھوں میں بے چینی سی پھیل گئی مگر پھر فوراً ہی وہ سنبھل گیا۔
"کیا بات ہے سر۔  آپ رات ٹھیک سے سوئے نہیں کیا؟"وہ گہری نظروں سے اس کی بدلتی ہوئی حالت اور سرخ سرخ آنکھوں کو پرکھتے ہوئے دھیرے سے سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئی۔
" آں۔۔۔  نہیں تو۔  ایسی تو کوئی بات نہیں۔  " وہ جیسے بڑے درد سے بادل نخواستہ مسکرایا۔  پھر کسی سوچ میں ڈوب گیا۔  اس نے کارڈز کا پیکٹ چھو کر بھی نہ دیکھا۔
"سر۔  "وہ ڈر سی گئی۔ اس کا معصوم دل دھڑک اٹھا۔ یہ بے چینی، یہ اضطراب، یہ کسی چیز کو پوشیدہ رکھنے کی سعی ہے۔  وہ بچی نہیں تھی۔  یہ کسی المیے ہی کی نشانی ہے۔  اس نے سوچا۔
" آں۔۔۔ " اس نے سر جھٹک کر اس کی طرف دیکھا۔  
"سر۔ مجھے لسٹ دے دیجئے۔  میں نام ٹائپ کر دوں۔ " وہ چاہتے ہوئے بھی اس کی پریشانی کی وجہ پوچھتے پوچھتے رہ گئی۔
جواب میں اس کے ہونٹوں پر، خشک ہونٹوں پر بڑی کرب انگیز مسکراہٹ تیر گئی۔
"سر۔  آپ کچھ پریشان ہیں ؟"وہ کہتے ہوئے نہ جانے کیوں اس سے نظریں چرا گئی۔
"ہاں۔  بہت پریشان ہوں امبر۔ "وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔
"مجھے بتائیے سر۔ شاید میں آپ کے کچھ کام آ سکوں۔ "وہ بے تابی سے بولی۔
"تم۔۔۔ ؟" وہ خالی خالی نظروں سے اس کے چہرے کو تکنے لگا۔ "ہاں۔ تم میری پریشانی کا خاتمہ کر سکتی ہو۔ "اس کا لہجہ اب بھی ویران ویران سا تھا۔
"کہئے سر۔ "وہ کچھ اور بے چین ہو گئی۔
اس کی نظریں پیکٹ میں بندھے کارڈوں پر جم گئیں۔ "امبر۔  یہ کارڈ ہیں نا۔۔۔ " وہ ان پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آہستہ سے بولا۔
"یس سر۔ " وہ حیران سی ہو گئی۔
"ان کو۔۔۔ ان کو آگ لگا دو امبر۔  "وہ اسی خالی خالی سپاٹ آواز میں بولا۔
امبر پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
"امبر۔  انہیں جلا کر راکھ کر دو۔ شعلوں میں پھینک دو۔ "وہ تڑپ کر کھڑا ہو گیا۔ "یہ۔۔۔  یہ مجھے راس نہیں آئے امبر۔  انہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں۔  کوئی حق نہیں امبر۔ " وہ پیکٹ پر جھپٹ پڑا۔۔۔ چند ہی لمحوں بعد فرش پر ہر سو کارڈز کے پرزے پھیل گئی۔ امبر حیرت بھری پھٹی پھٹی نگاہوں سے سب کچھ دیکھتی رہی۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی ہر صلاحیت دم توڑ گئی۔
"یہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟" وہ سوچتی رہی۔  اور وہ فرش پر بکھرے ان بے جان پرزوں کو ویران ویران، سرخ سرخ شب بیدار آنکھوں سے تکتا رہا۔
"بیٹھ جاؤ امبر۔  کھڑی کیوں ہو؟" وہ تھکے تھکے لہجے میں بولا۔  
وہ کسی بے جان مشین کی طرح کرسی پر گر گئی۔  اس کی نظریں اب بھی طاہر کے ستے ہوئے چہرے پر جمی تھیں۔
"سر۔  "کتنی ہی دیر بعد دھیرے سے اس نے کہا۔ طاہر نے اس کی جانب دیکھا۔ "یہ سب کیسے ہوا سر؟ کیوں ہوا؟"اس کی آواز بے پناہ اداسی لئے ہوئے تھی۔
"پگلی۔ " وہ بڑے کرب سے ہنسا۔  
"سر۔ وہ تو آپ کے ساتھ۔۔۔ "
" دو دن بعد شادی کرنے والی تھی۔ "اس نے امبر کی بات کاٹ دی۔
"جی سر۔  اور پھر یہ انکار۔۔۔ "
"وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی امبر۔  "وہ مسکرایا۔ بڑے عجیب سے انداز میں۔
"سر۔۔۔ "
"ہاں امبر۔  اس کا محبوب موت کی دہلیز پر کھڑا اسے پکار رہا تھا۔  وہ زندگی بن کر اس کے پاس واپس لوٹ گئی۔ "
"اور آپ۔۔۔ ؟ "وہ بے ساختہ کہہ اٹھی۔
"ابھی تک زندہ ہوں۔ نہ جانے کیوں ؟" وہ پھر مسکرایا۔  
اور نہ جانے کیوں امبر کا جی چاہا۔ وہ رو دے۔  لاکھ ضبط کے باوجود اس کی پلکوں کے گوشے نم ہو گئے۔
"اری۔۔۔ " وہ اسے حیرت سے دیکھ کر بولا۔ اٹھ کھڑا ہوا۔ "تم رو رہی ہو۔  "وہ اس کے قریب چلا آیا۔ "پگلی۔ تم سن کر رو دیں۔ میں تو سہہ کر بھی خاموش رہا۔ "
"سر۔  آپ ہمارے لئے کیا ہیں ؟ آپ نہیں جانتی۔  آپ کی ذرا سی خاموشی اور اداسی نے سارے آفس پر موت کا سا سناٹا طاری کر دیا ہے۔ کیوں ؟ کیوں سر؟" وہ بے چین ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"امبر۔ " وہ اس کی کانپتی آواز کے زیر و بم میں کھو کر رہ گیا۔
"صرف اس لئے سر کہ آپ۔۔۔  آپ اس آفس کے چپڑاسی سے لے کر مینجر تک کے لئے کسی دیوتا سے کم نہیں ہیں۔  پُر خلوص، بے لوث، بے پناہ محبت کرنے والا دیوتا۔  آپ نے اپنے آفس میں ان بیروزگاروں کو، اپنے والدین، بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کے واحد سہاروں کواس وقت پناہ دی، جب وہ مایوسی کی باہوں میں سما جانے کا فیصلہ کر چکے تھی۔  وہ آپ کے دکھ درد، آپ کی مسرت کو آپ سے زیادہ محسوس کرتے ہیں سر۔  آپ اداس ہوں تو اس چھوٹے سے گلستاں کا ہر باسی مرجھا جاتا ہے۔  آپ خوش ہوں تو ان کی زندگی میں بہار رقصاں ہو جاتی ہے۔  یہ سب آپ کے سہاری، آپ کی مسکراہٹوں کے سہارے جیتے ہیں سر۔  آپ پر اتنا بڑا حادثہ اتنا بڑا سانحہ گزر جائے اور ہم پتھر بنی، مرجھائے ہوئے بے حس پھولوں کی طرح آپ کو تکتے رہیں۔ کیسے سر؟ ہم یہ کیسے کریں ؟"
"چپ ہو جاؤ امبر۔  چپ ہو جاؤ۔  "اس نے گھبرا کر اس کے کانپتے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا۔  "میں۔۔۔ میں تو پاگل تھا۔ دیوانہ تھا۔ مجھے ایک فرد کی محبت نے، ایک تھوڑی سی محبت نے، اتنی ڈھیر ساری محبت، اتنے بہت سوں کے پیار سے پل بھر میں ، کتنی دور پہنچا دیا۔ میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ تم لوگ مجھے اتنا چاہتے ہو۔  مجھ سے اتنا پیار کرتے ہو۔  بخدا امبر۔  میں اب بالکل اداس نہیں ہوں۔ بالکل پریشان نہیں ہوں۔ میں۔۔۔ میں تو مسکرا رہا ہوں۔ ہنس رہا ہوں۔ میرے اتنے سارے اپنے ہیں۔  ایک بیگانہ چلا گیا تو کیا ہوا ؟ کیا ہوا امبر؟ کچھ بھی تو نہیں ؟ پھر میں کیوں اداس رہوں ؟ میں کیوں افسوس کروں۔  دیکھو۔  میں مسکرارہا ہوں امبر۔  میں ہنس رہا ہوں۔  ہنس رہا ہوں۔  ہا ہا۔  ہا ہا۔  میں ہنس رہا ہوں امبر۔  دیکھو۔  ہا ہاہا۔  میں ہنس رہا ہوں۔  ہا۔  ہا۔  ہا۔  ہاہا۔ "اس کی آواز بھرا گئی اور وہ پاگلوں کی طرح رقت آمیز انداز میں ہنستا چلا گیا۔ بالکل دیوانوں کی مانند۔ پھر جب مزید قہقہے لگانے کی سکت ہی نہ رہی تو اس کی آواز دھیمی ہوتے ہوتے بالکل رک گئی۔ امبر نے دیکھا۔ اس کے لب اب بھی مسکراہٹ کے انداز میں وا تھے اور آنکھوں کی نمی چھلکنے کو تھی۔
"سر۔ " اس کی آواز تھرا گئی۔ "دکھ بھرے قہقہوں سے دل کے زخم بھرنے کی بجائے کچھ اور کھل جایا کرتے ہیں۔  "وہ پلٹ کر تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ باہر جمع ہجوم اسے روک نہ سکا۔ وہ دوڑتی ہوئی آفس سے باہر نکل گئی۔
٭
راستہ طویل نہ تھا مگر اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ بے تحاشا لپک کر منزل کا دامن تھام لیتا۔
انتظار۔۔۔ ہاں اسے انتظار کرنا تھا۔
ابھی تو اسے منزل، سوئی سوئی منزل، بے خبر منزل کے بارے میں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ اسے اپنا مسافر بھی تسلیم کرتی ہے یا نہیں ؟ ابھی تو یہ سب خواب تھی۔  سراب تھی۔  
اس نے کتنی ہی مرتبہ کوشش کی اور کئی باراس کی زبان پر آ کر دل کی بات رک گئی۔ وہ مضطرب سا ہو جاتا۔ پہلو بدل کر رہ جاتا۔ بے چینی اس کے رگ و پے میں بجلی بن کر سرایت کر جاتی مگر وہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔ جذبات بے زبان حیوان کی طرح سرکشی پر اترتے رہی۔ احساس چوٹ کھائے ہوئے پرندے کی مانند پھڑپھڑاتا رہا۔ بہار، خزاں کے قفس میں سر ٹکراتی رہی لیکن کب تک؟ آخر وہ لمحہ بھی آیا جب یہ سب کچھ اس کی برداشت سے باہر ہو گیا۔  اذیت کی تپش اسے ہر پل، ہر گھڑی، خشک لکڑی کی طرح جلانے لگی۔ وہ کسی ویرانے میں سلگتی ہوئی اس شمع کی طرح پگھلنے لگا، جس کا کوئی پروانہ نہ تھا۔
شمع، پروانے کو جلائے بغیر خود جلتی رہی۔ پگھلتی رہی۔ یہ وہ کب گوارا کر سکتی ہے؟یہی اس کے ساتھ ہوا۔ ضبط انتہا کو پہنچ کر دم توڑ گیا۔ پیمانہ لبریز ہوا اور چھلک پڑا۔
"میں آج امبر کوسب کچھ بتا دوں گا۔۔۔  سب کچھ۔ "وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
"صاحب۔ ناشتے پر بیگم صاحبہ آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔  " سیف نے اسے چونکا دیا۔
"تم چلو۔ میں آ رہا ہوں۔ "اس نے بستر سے نکلتے ہوئے کہا۔
ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ ناشتے کی میز پر بیٹھا تھا۔ ناشتہ خاموشی سے کیا گیا۔ ملازم نے میز صاف کر دی۔ وہ اخبار دیکھنے لگا۔
بیگم صاحبہ کسی گہری سوچ میں گم تھیں۔ ان کا داہنا ہاتھ سامنے پڑے سفید لفافے سے کھیلنے میں مصروف تھا۔
"اوہ۔  دس بج گئے۔  "وہ اخبار رکھ کر رسٹ واچ پر نظریں دوڑاتے ہوئے جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"بیٹھ جاؤ۔ " بیگم صاحبہ کی دھیمی سی آواز نے اسے بے ساختہ پھر بٹھا دیا۔ ان کی سوچ زدہ آنکھوں میں سنجیدگی کروٹیں لے رہی تھی۔ اس کا دل بے طرح سے دھڑک اٹھا۔ وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔
"جی امی۔ "اس نے خاموشی کا دامن چاک کیا۔
"بیٹے۔ " اداس سی آواز ابھری۔  "ہم چاہتے ہیں کہ زندگی کا دامن چھوڑنے سے پہلے تمہیں زندگی کی خوشیوں میں کھیلتے دیکھ لیں۔  اب ہم مزید پتھر کی یہ سل اپنے دل پر برداشت نہ کر سکیں گے۔ "
وہ سر جھکائے ناخنوں سے میز کی سطح کریدتا رہا۔
"زندگی میں ناکامیاں بھی آتی ہیں بیٹے لیکن اس لئے نہیں کہ انسان میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے بلکہ اس لئے کہ اگلے امتحان میں پچھلی ناکامی کی کسر بھی نکال دی۔  ایک تمنا پوری نہ ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انسان آرزو کرنا ہی چھوڑ دے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سنبھلنے کے لئے جتنا وقت درکار ہوتا ہے، ہم اس سے بہت زیادہ وقت تمہیں دے چکے ہیں۔  ہر ماں کی طرح ہماری بھی تمنا ہے کہ ہم اپنے بیٹے کے پہلو میں چاند سی بہو دیکھیں۔ " وہ ایک لمحے کو رکیں۔
اس کا جھکا ہوا سر تب بھی جھکا ہی رہا۔
"کئی ایک گھروں سے رشتے آئے ہیں۔ ہم نے ابھی کسی کو جواب نہیں دیا۔ صرف تمہاری خاطر۔ "
تب اس نے دھیرے سے چہرہ اوپر اٹھایا۔  تھوڑا تھوڑا مضطرب لگ رہا تھا وہ۔
"ہم تمہیں فیصلے سے پہلے انتخاب اور پسند کا پورا پورا موقع دیں گے۔ " انہوں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اپنے سامنے پڑا لفافہ اس کی جانب سرکادیا۔ "اس میں کچھ تصویریں ہیں۔ زاہدہ کی چچا زاد بہن نرگس کی بھی۔ " وہ معنی خیز لہجے میں بولیں۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔  کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
"وہ خاص طور پر اس رشتے کے خواہش مند ہیں۔ لڑکی چند ہی روز پہلے انگلینڈ سے واپس آئی ہے مگر اس پر مشرقی اقدار پوری طرح حاوی ہیں۔  "
"مگر میں۔۔۔ "
"شادی نہیں کرنا چاہتا۔ "تلخی سے کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ "یہی جواب ہے ناں تمہارا۔ "
"جی نہیں۔ میں نے یہ کب کہا۔ "
"تو پھر ؟" وہ حیرت سے بولیں۔
"کیا ضروری ہے کہ ان ہی میں سے اور پھر خاص طور پر نرگس ہی سی۔۔۔  "
"ہم سمجھتے ہیں بیٹے لیکن ہم نے یہ بات ایسے ہی نہیں کہی۔  نرگس واقعی گلِ نرگس ہے۔ زاہدہ اور اس لفافے میں موجود کوئی بھی لڑکی اس کے سامنے ہیچ ہے۔ "
"لیکن۔۔۔ "
"کہیں تم کسی اور کو تو۔۔۔ "
"یہ بات نہیں ہے امی۔ "وہ ان کی بات کاٹتے ہوئے پھر بے چین سا ہو گیا۔
"دیکھو بیٹی۔  تم کیوں یہ چاہتے ہو کہ تم محبت کی شادی کرو۔  کیا ضروری ہے کہ جس سے تم شادی کرو وہ شادی سے پہلے تم سے محبت کرے۔ " وہ کھل کر کہہ گئیں۔
"میں نے ایسا کب کہا امی۔ " اس کی آواز دب سی گئی۔
"پھر کیا تم یہ چاہتے ہو کہ شادی سے پہلے تم اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ محبت کے چار دن ضرور گزارو۔ "
" ایسی بھی میری کوئی شرط نہیں ہے امی۔ "
"تو پھر تم چاہتے کیا ہو؟"ان کی آواز میں تلخی ابھر آئی۔
"امی۔ " اس نے سر جھکائے جھکائے کہا۔  "میں نے ایک زخم کھایا ہے۔  ایسی لڑکی کو چن لیا جو پہلے ہی کسی اور سے محبت کرتی تھی۔  اب میں ایسے کسی حادثہ سے دوچار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں۔  میں چاہتا ہوں مجھے جو لڑکی بیوی کے روپ میں ملے وہ صرف میری ہو، ہر طرح سی۔  اس کے خیالوں پر، اس کی سوچ پر میرے سوا کسی اور کی پرچھائیں بھی نہ پڑی ہو۔ "
" شریف گھرانوں کی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں بیٹی۔  اور یہ سب تصویریں شرفا کی بیٹیوں ہی کی ہیں۔ "
"زاہدہ بھی تو شریف گھرانے ہی سے تعلق رکھتی تھی امی۔ "
"بیٹی۔  " وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولیں۔  "محبت ایسا جذبہ ہے جس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔  زاہدہ نے اگر ایسا کیا تو کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔  سچ تو یہ ہے کہ تمہاری جلد بازی اور میری ممتا نے مل کر ایک ایسی غلطی کو جنم دیاجس کا خمیازہ ہم دونوں کو بھگتنا پڑا۔ "
"یعنی۔۔۔ ؟" اس نے سوالیہ انداز میں ماں کی جانب دیکھا۔
"ہمیں پہلے زاہدہ کے بارے میں پوری چھان بین کرنی چاہئے تھی۔  وہ تو خیر ہوئی کہ وہ لڑکی دھوکے باز نہیں تھی ورنہ اگر وہ کوئی چالباز ہوتی اور واردات کی نیت سے آئی ہوتی تو ہم اس کے چکر میں پھنس کر اب تک مال اور عزت دونوں گنوا چکے ہوتے۔ "
"تو اب آپ جس لڑکی سے بھی میری شادی کرانا چاہتی ہیں اس کے بارے میں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ وہ مجھ سے پہلے کسی اور کے ساتھ انوالو نہیں رہی؟"
بات چیت بڑی کھل کھلا کر ہو رہی تھی۔  بیگم صاحبہ اپنے مزاج کے خلاف اس صورتحال کا بڑے حوصلے اور برداشت کے ساتھ سامنا کر رہی تھیں۔  وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بات کو کسی منطقی انجام تک لے جانا چاہتی تھیں۔
"تم اگر چاہو تو جس لڑکی کو پسند کرو، اس کے ساتھ تمہاری ملاقات کرائی جا سکتی ہے۔  تم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لو، سمجھ لو۔  پھر کسی فیصلے پر پہنچ سکو، اس کا یہ بہت اچھا راستہ ہے۔ "
"اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ لڑکی ہمارے امیر گھرانے میں شادی کے لئے مجھ سے اپنا ماضی نہیں چھپائے گی۔  جھوٹ نہیں بولے گی۔  "
"اب وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا بیٹی۔  تم ایک ہی چوٹ کھا کر تمام طبیبوں سے بد ظن ہو گئے ہو۔  اس طرح تو زندگی نہیں گزر سکتی۔ "
"اور پھر ایک آدھ ملاقات میں ہم ایک دوسرے کو کیسے مکمل طور پر جان لیں گے۔ "
"تو کیا اب سالوں کے سال چاہئیں تمہیں بیوی منتخب کرنے کے لئے؟تم کھل کر کیوں نہیں کہتے، جو تمہارے دل میں ہے؟"وہ جھنجھلا گئیں۔
"میں۔۔۔  میں۔۔۔ " اس کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔
"کسی کو پسند کر چکے ہو کیا؟" وہ اس کی جانب غور سے دیکھ کر بولیں۔
"جی۔۔۔ جی ہاں۔ "سرگوشی سی ابھری۔ وہ جوتے کی ٹو سے فرش کریدنے لگا۔
"ہوں۔ کون ہے وہ؟"ان کے لہجے سے کچھ بیزاری، ناگواری اور ناپسندیدگی ظاہر تھی۔
"امبر۔۔۔ "وہ اسی طرح بولا۔
"کون امبر؟"
"میری اسٹینو۔ "
"طاہر۔۔۔ "وہ بے پناہ کڑواہٹ سے بولیں۔
"وہ بڑی اچھی لڑکی ہے امی۔  "وہ بمشکل تمام کہہ سکا۔
"زاہدہ بھی تو بری نہیں تھی۔  "وہ تلخی سے بولیں۔
"مگر امی۔۔۔ "
"ہم جانتے ہیں۔ ڈائیلاگ تمہاری زبان پر دھرے رہتے ہیں۔  ہمیں قائل کرنے کے لئے تم ایڑی چوٹی کا زور لگا دو گے لیکن یہ سوچ لو طاہر۔  ہم بار بار ایک ہی زخم نہ کھا سکیں گی۔ "وہ تلخی سے شکست خوردگی پر اتر آئیں۔
"نہیں امی۔  آپ۔۔۔  آپ۔۔۔ "
"جاؤ۔  اس وقت ہمیں تنہا چھوڑ دو۔ ہم ماں ہیں۔  جو ان اولاد کی خوشی پر ایک مرتبہ پھر اپنی انا قربان کر رہے ہیں لیکن یاد رکھنا طاہر۔  یہ آخری بار ہو رہا ہے۔ اس کے بعد ہم داؤ لگائیں گے نہ بساط کے مہرے کی طرح پٹنے پر تیار ہوں گے۔ "
"شکریہ امی جان۔ میری جیت بھی تو آپ ہی کی جیت ہے۔ "وہ اپنی خوشی کو دباتے ہوئے بمشکل کہہ سکا۔  
"بس جاؤ۔  ہم کل ہی اس لڑکی کے گھر جانا چاہیں گی۔ "
"جی۔ مگر ۔  اتنی جلدی۔۔۔ " وہ ہکلایا۔
"بکو مت۔  ہر بات میں اپنی منوانے کے عادی ہو چکے ہو۔  بس۔۔۔  کل ہم امبر کے گھر جا کر اسے دیکھنا چاہیں گے۔ "
"جی۔۔۔ بہتر۔  "وہ خفیف سا ہو گیا۔ چند لمحے کھڑا رہا۔ بیگم صاحبہ پھر کسی خیال میں کھو گئی تھیں۔  وہ آہستہ سے پلٹا اور خارجی دروازے کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ اس کے قدموں میں لرزش اور اضطراب نمایاں تھا۔  
٭
"اوہ۔ ساڑھے گیارہ ہو گئے۔ " وہ ٹہلتے ٹہلتے رکا اور وقت دیکھ کر بڑبڑایا۔ اس کی بے چینی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔  قدموں نے پھر قالین کی سینہ کوبی شروع کر دی۔ امبر ابھی تک نہیں آئی تھی۔ اس نے کبھی اتنی دیر نہیں کی تھی۔ اور پھر بغیر اطلاع۔ اس کا دل بار بار کسی نئے اندیشے کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا۔
"اگر وہ آج نہ آئی تو؟"
"نہیں نہیں۔ وہ ضرور آئے گی۔  "وہ بڑبڑایا اور نظریں پھر رسٹ واچ پر پھسل پڑیں۔  "بارہ۔ "اس کے بے چین اور بے قرار خیالات کے سانس اکھڑنے لگی۔
اس کے متحرک قدم رکے۔  داہنا ہاتھ تیزی سے کال بیل کی جانب لپکا۔ دوسرے ہی لمحے نادر کمرے میں تھا۔
"یس سر۔ "
"دیکھو۔  مس امبر ابھی تک۔۔۔ "الفاظ اس کے لبوں پر دم توڑ گئی۔ دروازے سے امبر اندر داخل ہو رہی تھی۔
"جاؤ۔ تم جاؤ۔ "وہ جلدی سے بولا اور نادر خاموشی سے باہر نکل گیا۔
"مارننگ سر۔ "وہ شوخی اور شرارت سے بھرپور آواز میں آدھے سلام کے ساتھ بولی۔
"ہوں۔۔۔ "وہ اس کے خوبصورت اور سڈول جسم کو دیکھتا ہوا اس کے گلاب ایسے کھلے ہوئے چہرے پر آ کر رک گیا۔ "یہ مارننگ ٹائم ہے۔ "وہ ہونٹ بھینچ کر بولا۔
جواب میں وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اس کے سینے میں جیسے کسی نے ہلچل مچا دی۔
"سر۔۔۔  وہ۔۔۔  بات ہی ایسی تھی۔  "وہ شرما سی گئی۔
"بات۔۔۔ کیسی بات؟ اور یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟"وہ اس کے دائیں ہاتھ کو دیکھ کر جلدی سے بولا۔
"یہ۔۔۔  یہ سر۔۔۔  "وہ گڑ بڑا سی گئی۔ قوس قزح کے حسین لہریے اس کے حسین چہرے پر پھیلتے چلے گئی۔ اس نے سر جھکا لیا۔ وہ اس کی پیشانی پر ابھرتے پسینے کے قطروں کو دیکھ کر الجھن میں پڑ گیا۔
"کیا بات ہے امبر؟" وہ دو قدم آگے بڑھ آیا۔
"سر۔۔۔  وہ۔۔۔  "وہ جیسے کہہ نہ پا رہی تھی۔
"ارے بولو نا۔  پھر مجھے بھی کچھ کہنا ہے۔ "
"تو پہلے آپ بتائیے۔  "وہ اسے دیکھ کر بڑے پیارے انداز میں مسکرائی۔
"اوں ہوں۔  پہلے تم۔ " وہ نفی میں سر ہلا کر بولا۔
"نو سر۔ پہلے آپ۔۔۔ انتظار آپ کر رہے تھے، میں نہیں۔ " وہ شوخی سے بولی۔
اور اس کا دل جیسے پسلیوں کاقفس توڑ کر سینے سے باہر آ جانے کو مچلنے لگا۔ "میں تو۔۔ "وہ خود گڑ بڑا گیا۔
"ہوں۔  کوئی خاص ہی بات ہے۔ "وہ پھر شرارت پر اتر آئی۔
"امبر۔  وہ۔  میں۔۔۔ "جسم میں ابلتا ہوا لاوا جیسے سرد پڑنے لگا۔ اچھا بیٹھو تو۔ "وہ کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
"جی نہیں۔ بیٹھ گئی۔ تو پھر بھاگنے میں دقت پیش آئے گی۔ " اس نے نفی میں سر ہلایا۔
"کیا مطلب؟"
"بات ہی ایسی ہے سر۔ " وہ پھر شرما گئی۔
"ہوں۔ " وہ اسے بڑی عجیب اور تیز نظروں سے گھورنے لگا۔
"بتائیے نا سر۔ "وہ اس کے انداز پر کچھ جھینپ سی گئی۔
"امبر۔ "وہ کچھ دیر بعد بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔  وہ اس کی جانب دیکھنے لگی۔  "امبر۔  اگر کوئی کسی کو پسند کرنے لگے تو؟"اس کی پیشانی بھیگ سی گئی۔
"تو اسے اپنا لے۔ "وہ مسکرا کر بولی۔ بڑی لاپرواہی سی۔ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
طاہر نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔  وہ بدستور مسکراتی رہی۔
"لیکن اگر کوئی اس بات سے بے خبر ہو کہ اسے کوئی پسند کرتا ہے۔ اسے اپنانا چاہتا ہے۔  تب ؟"
"تب اسے بتا دے۔ "اس نے سیدھا سا نسخہ بتایا۔ اور وہ جھلا گیا۔
"بڑی آسان بات ہے ناں۔ "اور وہ اس کے جھنجلانے پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ وہ بڑے پیار سے اس کی جانب دیکھے جا رہا تھا۔
"دیکھو امبر۔ فرض کرو۔ "اس نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ کہنا شروع کیا۔ "فرض کرو۔ کوئی تمہیں پسند کرتا ہے۔" اس کی زبان لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے رہ گئی۔
فقرہ ختم کر کے اس نے امبر کی جانب دیکھا۔  وہ مسکراتی ہوئی نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ گالوں پر حیا کی سرخی ضرور ابھر آئی تھی۔ اس کا حوصلہ جیسے دو چند ہو گیا۔
"تمہیں چاہتا ہے۔ تمہیں اپنانا چاہتا ہے۔ لیکن تم۔۔۔ تم اس سے بے خبر ہو۔  تمہیں کچھ بھی معلوم نہ ہو۔ "
"لیکن ہم بے خبر نہیں ہیں سر۔ "وہ شرارت بھرے انداز میں کہہ کر بے طرح شرما گئی۔
"امبر۔ "اس کا سینہ پھٹنے لگا۔  دماغ چکرا کر رہ گیا۔ "تو کیا؟"مسرت اس کے انگ انگ میں ناچ اٹھی۔
"یس سر۔  یہ رہا اس کا ثبوت کہ ہم بے خبر نہیں تھے۔ ہم بھی کسی کو چاہتے تھے۔ "وہ پل بھر کو رکی۔ اس کا ہاتھ پشت پر سے سامنے آیاجس میں ایک سفید لفافہ دبا ہوا تھا۔ "اوراسے حاصل بھی کر سکتے ہیں۔ "اس نے لفافہ طاہر کے ہاتھ میں تھما یا اور شرم سے سرخ رُو پلٹ کر بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
"امبر۔ "اس کے لبوں سے ایک سرگوشی ابھری اور امبر کے پیچھے فضا میں تحلیل ہو گئی۔  بہاریں ناچ اٹھیں۔  دھڑکتا ہوا دل جھوم سا گیا۔
اس نے لرزتے ہاتھوں سے لفافہ کھولا اور۔۔۔  لڑکھڑا کر رہ گیا۔ اندھیرا اور روشنی جیسے پوری قوت آپس میں سے ٹکرا گئی۔ رات اور دن ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔  آسمان اور زمین نے جگہیں بدل لیں۔ ہر شے درہم برہم ہو گئی۔
وہ بے جان سے انداز میں کرسی پر بیٹھتا چلا گیا۔ اس کی پھٹی پھٹی، بے اعتبار نگاہیں ، لفافے سے نکلنے والے کارڈ پر ٹھہر سی گئیں۔
وہ امبر کی شادی کا دعوت نامہ تھا۔
اس کی امبر، اس کی اپنی امبر، کسی دوسرے کی امانت تھی، یہ تو اسے معلوم ہی نہ تھا۔ پگلا تھا ناں۔ ہر پسند آ جانے والی شے کو حاصل کر لینے کی خواہش نے اسے ایک بار پھر ناکامی اور محرومی کا داغ دیا تھا۔ پہلی بار جلد بازی نے ایساکیا تھا اور دوسری بار شاید اس نے خود دیر کر دی تھی۔
خاموشی۔ اداسی۔ سناٹا۔ اور وہ۔ کتنے ہی لمحوں تک باہم مدغم رہی۔  شاید صدیوں تک۔
"امبر۔ " آخر ایک سسکی اس کے لبوں سے آزاد ہوئی۔  ساکت آنکھوں کے گہرے اور ہلچل زدہ سمندر نے دھندلاہٹ کے گرداب سے چند موتی پلکوں کے کناروں پر اچھال دئیے۔  موتی دعوت نامے پر چمکتے "امبر" کے لفظ پر گرے اور پھیل گئی۔  لفظ کی چمک کچھ اور بڑھ گئی۔ رنگ کچھ اور گہرا ہو گیا۔
اس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں نے حرکت کی اور لرزتے لبوں نے پہلی اور آخری بار مہر تمنا" امبر" کے لفظ پر ثبت کر دی۔
"سیف بابا۔  طاہر ابھی تک نہیں آیا۔ "بیگم صاحبہ نے ناشتے کی میز پر اخبار بینی سے اکتا کر کہا۔
"جی۔  میں دیکھتا ہوں۔ "وہ ادب سے کہہ کر باہر نکل گیا۔ وہ اکتائی اکتائی نظریں پھر گھسی پٹی خبروں پر دوڑانے لگیں۔
"السلام علیکم امی جان۔ "وہ دھیرے سے کہہ کر اندر داخل ہوا۔
انہوں نے جواب دے کر آہستہ سے اس کی جانب دیکھا اور بے ساختہ چونک اٹھیں۔  وہ ان کی نظروں کی چبھن سے گھبرا گیا۔  نگاہیں جھکا کر اپنی سرخ سرخ آنکھوں پر پردہ ڈالتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔
وہ بغوراس کا جائزہ لیتی رہیں۔ تنا ہوا چہرہ۔  شب بیداری کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ سرخ سرخ انگارہ آنکھیں۔  جیسے بہت بڑا سیلاب روکے بیٹھی ہوں۔ تھکے تھکے قدم۔  جواری کے سب کچھ ہار جانے کا پتہ دے رہے تھے۔ "مگر کیوں ؟"وہ اس کا جواب ڈھونڈھنے میں ناکام رہیں۔
"تم نے ابھی کپڑے نہیں بدلے؟"دھڑکتے دل کے ساتھ ان کی زبان سے نکلا۔
"ناشتے کے بعد بدل لوں گا امی۔ "وہ آہستہ سے بولا اور اخبار پر نظریں جما دیں۔
"طاہر۔ "ان کا لہجہ عجیب سا ہو گیا۔
"جی۔ "وہ سنبھل گیا۔
"کیا بات ہے؟"
"کچھ بھی تو نہیں امی۔ " وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔
"واقعی۔۔۔ ؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولیں۔  
وہ نگاہیں چرا کر رہ گیا۔ "جی۔۔۔ جی ہاں امی۔  کوئی خاص بات نہیں۔ "
"ناشتہ کرو۔ "وہ چائے دانی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے دھیرے سے بولیں۔
"میں صرف چائے پیوں گا۔ "
اور بیگم صاحبہ کا توس والی پلیٹ کی جانب بڑھتا ہوا ہاتھ رک گیا۔ ایک لمحے کو انہوں نے سر جھکائے بیٹھی، مضطرب اور بے چین بیٹے کی جانب دیکھا۔  پھر ہاتھ کھینچ لیا۔ انہوں نے بھی صرف چائے کے کپ پر اکتفا کیا۔ خاموشی گہری ہوتی گئی۔ خالی کپ میز پر رکھ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"ٹھہرو۔ "ایک تحکم آمیز آواز نے اسے بت بنا دیا۔
"جی۔ "وہ پلٹے بغیر بولا۔
"بیٹھ جاؤ۔ "
اور وہ کسی بے جان شے کی طرح پھر کرسی پر گر پڑا۔
"کل ہم نے تم سے کچھ کہا تھا۔ "
"جی۔  " اضطراب کی حالت میں پہلو بدل کر وہ ایک نظر ان کی جانب دیکھ کر رہ گیا۔
"لیکن اب ہم نے اپنے پروگرام میں کچھ تبدیلی کر دی ہے۔ "
"جی۔ " وہ کچھ بھی نہ سمجھا۔
"ہم لڑکی کے گھر جانے سے پہلے اسے کہیں اور ایک نظر دیکھنا چاہتے ہیں۔ "
"امی۔ "وہ تڑپ کر کھڑا ہو گیا۔
وہ پُرسکون انداز میں اسے دیکھتی رہیں۔ "تمہیں اعتراض ہے کیا؟"
"مجھے۔۔۔ نہیں تو امی۔ "
"تو جلدی سے تیار ہو کر آ جاؤ۔  ہم تمہارے ساتھ آفس چلیں گے۔ "ایک ہتھوڑا سا اس کے ذہن پر برسا۔
"مگر امی۔۔۔ "اس نے کچھ کہنا چاہا۔
"ہم اسے آج۔۔۔ ابھی۔۔۔  اسی وقت دیکھنے جانا چاہتے ہیں۔ "
"چند روز رک نہیں سکتیں آپ؟"وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولا۔
"وجہ؟"بڑے جابرانہ انداز میں استفسار کیا گیا۔
"اسے۔۔۔ "وہ ایک پل کو رکا۔  "دلہن بنا دیکھ لیجئے گا اسے۔ "
"ہم سمجھے نہیں۔ "وہ واقعی حیرت زدہ رہ گئیں۔
اور جواب میں طاہر کا ہاتھ گاؤن کی جیب سے باہر نکل آیا۔ اس سے کارڈ لیتے ہوئے ان کا ہاتھ نجانے کیوں کانپ گیا۔  وہ تیزی سے چلتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ یہ دیکھنے کی اس میں ہمت نہیں تھی کہ کارڈ دیکھ کر بوڑھی چٹان ایک مرتبہ پھر لرز کر رہ گئی تھی۔
"طاہر۔ "ماں کے لبوں پر ایک آہ مچلی اور نظروں کے سامنے دھوئیں کی دیوار بن کر پھیل گئی۔ وہ دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اپنے لرزتے ہاتھوں میں کپکپاتے اس پروانہ مسرت کو دیکھ رہی تھیں جو ان کی ہر خوشی کے لئے زہر بن گیا تھا۔
"یہ۔۔۔ یہ سب کیا ہوا میرے بدنصیب بیٹے۔ کیا ہو رہا ہے یہ سب ؟کیوں ہو رہا ہے؟ کب تک ہوتا رہے گا؟"کتنی ہی دیر تک ایک بے جان بت کی مانند بیٹھے رہنے کے بعد وہ آہستہ سے بڑبڑائیں۔
"جب تک میری ہر دھڑکن تنہائی اور محرومی سے آشنا نہیں ہو جاتی۔ تب تک یہ ہوتا رہے گا امی۔ "وہ ان کے سامنے کھڑا تھا۔ 
وہ اسے دکھی دکھی نظروں سے گھورتی رہ گئیں۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ نجانے کس طرح؟
"اللہ حافظ امی۔ "وہ دروازے کی جانب پلٹ گیا۔
وہ تب بھی پتھر کی طرح ساکت بیٹھی رہیں۔ خاموش اور بے حس و حرکت مجسمے کی مانند۔ کسی سحر زدہ معمول کی طرح۔ بالکل ایسی۔ جیسے غیر معمولی صدمے کے سحر نے ایک جاندار کو بے جان شے میں تبدیل کر دیا ہو۔
٭
"بنو۔  ان دنوں باہر نہیں نکلا کرتی۔  درخواست ہی دینا تھی تو مجھے کہہ دیا ہوتا۔ " رضیہ نے شرارت سے امبر کے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے کہا اور اس کے لبوں سے سسکی نکل گئی۔
"اری۔  درخواست کا تو صرف بہانہ ہے۔ اس کا گھر پر دل ہی کہاں لگتا ہے۔  غلامی سے پہلے جی بھر کر آزادی منا لینا چاہتی ہے۔ " انجم نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا تو وہ بے بسی سے اس کی طرف دیکھ کر رہ گئی۔
"ہائی۔  یہ شب بیدار آنکھیں ضرور ہمارے دولہا بھیا کی شرارتوں کی تصویریں بناتے بناتے سرخ ہوئی ہیں۔ واللہ۔  محبت ہو توایسی ہو۔  "نجمہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے انگلی نچاتے ہوئے کہا۔ باقی تینوں نے بھی اسی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"دیکھو۔  خدا کے لئے مجھے بخش دو۔  "اس نے فریادیوں کے انداز میں ہاتھ جوڑ کر ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی۔
"اوں ہوں۔  بی بی۔  ہم سے تو آج کل میں پیچھا چھڑا لو گی مگر وہ جو تمام عمر تمہارے پیچھے لٹھ لئے بھاگتے پھریں گی، ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟"نجمہ نے کہا تو وہ شرم سے لجا کر رہ گئی۔
"ہائی۔  اب ہمارے صاحب کا کیا بنے گا؟ وہ تو دیوداس بن کر رہ جائیں گی۔  پھر یہ آفس امپورٹ ایکسپورٹ کے بجائے تان سین کا ڈیرہ بن کر رہ جائے گا۔ " رضیہ نے دل پر ہاتھ رکھ کر بڑی ادا سے کہا۔
"بکو مت۔ " وہ ایکدم سنجیدہ ہو گئی۔ "مذاق میں بھی ان کے بارے میں ایسی بیہودہ گفتگو مت کیا کرو۔  "اس نے جیسے اسے ڈانٹ دیا۔
"اے فلسفہ بیگم۔ "انجم نے اس کے باز پر زور سے چٹکی لی۔ "مذاق کو اتنا سیریس کیس مت بنایا کرو۔  ہم بھی جانتی ہیں کہ وہ تمہارے لئے ہی نہیں ہمارے لئے بھی دنیا میں شاید ماں باپ کے بعدسب سے زیادہ قابل احترام ہستی ہیں۔ ہم تم سے زیادہ چاہتے ہیں انہیں۔  "اور سب کی سب مسکرا دیں۔
"ارے۔ صاحب آ گئے۔ " اچانک نجمہ نے دروازے کی جانب اشارہ کیا تو وہ چاروں سنبھل کر کھڑی ہو گئیں۔ اس وقت وہ سب امبر کے کیبن میں تھیں۔
"بی پجارن۔  دیوتا کا سواگت کرو ناں جا کر۔  ان کے چرنوں میں اپنی ایپلی کیشن کے پھول چڑھاؤ۔  انکار تو وہ کر ہی نہیں سکیں گے۔ " رضیہ نے اسے کہنی سے ٹھوکا دے کر آہستہ سے کہا۔
"بکو مت۔ " وہ جھینپ سی گئی۔
طاہر پل بھر کو ہال میں رکا۔  لڑکیوں کی تمام سیٹیں خالی دیکھ کر ایک لمحے کو اس نے کچھ سوچا۔  پھر اپنے آفس کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ تمام لوگ اس کے کمرے میں جاتے ہی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔
"چلو۔  اب اپنا اپنا کام کرو جا کر۔ میری جان بخشو۔  "وہ اپنا خوبصورت چھوٹا سا شولڈر بیگ اٹھا کر دروازے کی جانب بڑھی۔ 
"جی ہاں۔  اب آپ مندر جا رہی ہیں۔ "نجمہ نے شرارت سے کہا اور سب کا مشترکہ ہلکا سا قہقہہ گونج کر رہ گیا۔
"بکتی رہو۔ " کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
"چلو بھئی۔  وہ تو گئی۔ اب کام شروع کریں۔  سیزن کے دن ہیں۔ بہت کام ہے۔ " وہ سب بھی چل دیں۔
دروازہ دھیرے سے کھلا۔ "مارننگ سر۔ "وہ اندر آتے ہوئے آہستہ سے بولی۔  
"او ہ۔  امبر تم۔۔۔  آؤ آؤ۔  "وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔  امبر دھڑکتے دل کے ساتھ نظریں جھکائے آگے بڑھی اور ایک کرسی کی پشت تھام کر کھڑی ہو گئی۔
"بیٹھو۔ "وہ عجیب سی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا اور نجانے کیوں نچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔
امبر نے کچھ کہنے کے لئے چہرہ اوپر اٹھایا، لب کھولے مگر اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر شرما گئی۔ اس کا سر پھر جھک گیا۔ پھر وہ آہستہ سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ بھی اپنی سیٹ پر چلا آیا۔ کتنی ہی دیر خاموشی چھائی رہی۔  پھر امبر کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
"سر۔ "
"ہوں۔ "وہ پیپرویٹ سے کھیلتے کھیلتے رک گیا۔ "کیا بات ہے؟" اس نے مسکرا کر امبر کی آنکھوں میں دیکھا۔
"جی۔۔۔ وہ۔۔۔  وہ سر۔ " وہ ہکلا گئی۔
"کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟"وہ ہنس دیا۔ "شادی ہر لڑکی کی ہوتی ہے۔ شرم و حیا ہر لڑکی کا زیور ہوتا ہے لیکن تم تو سب پر بازی لے گئیں۔"
وہ سر جھکائی، بیر بہوٹی بنی، ناخن سے شیشے کی ٹاپ کریدتے ہوئے، نچلا ہونٹ دانتوں سے کاٹتے ہوئے اس کی آواز کی مٹھاس میں گم ہو گئی۔
"اور پھر اپنوں سے کیا شرمانا امبر۔  ہم نے ایک عرصہ ساتھ ساتھ گزارا ہے۔  اچھے دوستوں ، اچھے ساتھیوں کی طرح۔ "وہ ایک پل کو رکا۔ "ہاں۔ اب کہو۔  لیکن شرمانا نہیں۔ " وہ اسے تنبیہ کرتے ہوئے بولا تو وہ شرمیلی سی ہنسی ہنس دی۔
"سر۔۔۔ یہ۔۔۔ " اس نے بیگ کھول کر ایک کاغذ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔
"یہ کیا ہے؟" وہ اسے تھامتے ہوئے حیرت سے بولا۔
"ایپلی کیشن سر۔ "
"کیسی ایپلی کیشن؟"
"چھٹی کی سر۔ "
"ارے چھوڑو بھی۔ " اس نے ایک جھٹکے سے اس کے دو اور پھر چار ٹکڑے کر کے باسکٹ میں پھینک دئیے۔
"سر۔ مگر ۔۔۔ "
" آفس کی کارروائی مکمل کرنے کے لئے ایسے تکلفات کی ضرورت ہوتی ہے امبر۔۔۔  لیکن تم ان ملازموں میں شمار نہیں ہوتیں جن کے لئے ایسی کارروائیوں کا اہتمام لازم ہو۔  تم نے جس طرح میرے ساتھ مل کر THE PROUD جیسے پراجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے، اس کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہم ایسے تکلفات میں وقت ضائع کیا کریں۔ "
"سر۔ "حیرت اور مسرت سے اس کی آواز لڑکھڑا گئی۔
"ہاں امبر۔  میں نے اس آفس کے ہر فرد کو اپنا سمجھا ہے۔ اپنا جانا ہے اور تم۔۔۔ تم تو وہ ہو، جو میری زندگی اور موت کے درمیان سینہ تان کر آ کھڑی ہوئی تھیں۔ "وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔ "تم نے ایک مرتبہ مجھے دیوتا کہا تھا امبر لیکن مجھے ایسا لگتا ہے، دیوی تم ہو۔  پیار کی۔ وفا کی۔  رفاقت کی۔  تم میرے لئے ایک ایسی مخلص دوست ہو امبر، جس کے ہر پل کی رفاقت مجھ پر احسان ہے۔ اور دوستوں میں ، محبت کرنے والوں میں یہ رسمیں بڑی بور لگتی ہیں۔ لگتی ہیں نا۔ "وہ اس کے قریب چلا آیا۔  اس پر جھک سا گیا۔
"سر۔ "اس کی آنکھوں میں تشکر امڈ آیا۔
"پگلی۔  "وہ ہولے سے مسکرایا اور سیدھا ہو گیا۔ "کتنے دنوں کی چھٹی چاہیے تمہیں ؟ "وہ شریر سے لہجے میں بولا۔
اور امبر نے ناخنوں سے میز کی سطح کو کریدتے ہوئے سر جھکا لیا۔ "ایک۔۔۔ ایک ہفتے کی سر۔ " وہ بمشکل کہہ پائی۔
"با۔۔۔۔۔ س۔ "وہ لفظ کو کھینچ کر بولا۔ " آج دس تاریخ ہے۔  "وہ کلائی پر بندھی گھڑی میں تاریخ دیکھتے ہوئے بولا۔  "بارہ کو شادی ہے۔  دو دن یہ گئے۔  اور باقی بچے صرف پانچ دن۔ " وہ بڑبڑاتے ہوئے رکا۔ "ارے۔  صرف پانچ دن۔ " وہ حیرت اور بھولپن بھری شرارت سے اس کے سامنے ہاتھ کھول کر نچاتے ہوئے بولا۔
"سر۔۔۔ " وہ جھینپ سی گئی۔  طاہر زور سے ہنس دیا۔
"تمہیں ایک ماہ کی رخصت دی جاتی ہے۔ "وہ شاہانہ انداز سے بولا۔
"مگر سر۔۔۔ "
"کچھ نہیں۔ کوئی بات ہے بھلا۔  شادی ہو اور صرف پانچ دن بعد پھر ڈیوٹی سنبھال لی جائے۔ "
"مگر میں کچھ اور کہہ رہی تھی سر۔ "
"ہاں ہاں۔  کچھ اور کہو۔  بڑے شوق سے کہو۔  "
"وہ سر۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ نہیں چاہتے کہ میں شادی کے بعد بھی جاب کروں۔ "وہ بڑے اداس لہجے میں بولی۔
اور۔۔۔ اس کے دل کو دھچکا سا لگا۔ ایک پل کو اس کے چہرے پر جیسے خزاں کا رنگ بکھر گئے مگر دوسرے ہی لمحے وہ سنبھل گیا۔  اس کے کانپتے لبوں پر ایک کرب آلود مسکراہٹ تیر گئی۔ اس نے ہونٹوں کو زور سے بھینچ لیا اور یوں اثبات میں سر ہلایا جیسے کسی انجانی صدا پر لبیک کہہ رہا ہو۔ پھر وہ آہستہ سے نامحسوس مگر درد بھرے انداز میں ہنس دیا۔
"ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔  "وہ جیسے اپنے آپ سے کہہ اٹھا۔ "پھر۔۔۔ کب سے ہمارا ساتھ چھوڑ رہی ہو؟" وہ پھر مسکرادیا۔
" آپ کا ساتھ تو مرتے دم تک رہے گا سر۔  دوستوں سے ایسی باتیں نہ کیا کیجئے۔ "وہ افسردگی سے مسکرادی۔
وہ چند لمحوں تک اسے عجیب نظروں سے گھورتا رہا۔ "اس کا مطلب ہے۔ "وہ پہلو بدل کر بولا۔  "کہ تم صرف یہی مہینہ ہمارے ساتھ ہو جس کے دس دن گزر چکے ہیں۔ "
"یس سر۔ "
"ہوں۔ " وہ بجھ سا گیا۔ "ٹھیک ہے امبر۔  "کچھ دیر بعد وہ ایک طویل اور سرد آہ بھر کر گویا ہوا۔ "ہم میں سے کوئی بھی تمہیں بھول نہ سکے گا۔ "
"سر۔ "اس کی آواز تھرا گئی۔
"ارے ہاں۔  "وہ بات بدل گیا۔  "یہ تو میں نے پوچھا ہی نہیں کہ تمہارے وہ کرتے کیا ہیں ؟"
اور جذبات کے ریلے میں بہتی ہوئی امبر ساحلِحواس پر آ گری۔ "وہ کالج میں لیکچرار ہیں سر۔ "اس نے آہستہ سے کہا۔
"ہوں۔ "وہ پھر کسی خیال میں ڈوب گیا۔
" آج کی ڈاک سر۔ "نادر نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا اور ڈاک میز پر رکھ کر واپس لوٹ گیا۔  وہ ایک طویل سانس لے کر سیدھا ہو بیٹھا۔ ڈاک ایک جانب سرکا کر اس نے امبر کی طرف دیکھا۔ دونوں کی نظریں ملیں اور جھک گئیں۔
"امبر۔  "
"یس سر۔ "
"میں کچھ کہوں۔ برا تو نہ مانو گی۔ "
"کیسی باتیں کرتے ہیں آپ سر۔ "
"امبر۔۔۔  میں۔۔۔  "وہ کہتے کہتے رکا۔ "میں تمہاری شادی میں نہ آ سکوں گا۔ "
"کیوں سر؟" وہ تڑپ سی گئی۔
"مجھے گاؤں جانا ہے امبر۔  وہاں نجانے کتنے دن لگ جائیں۔ "اس نے بڑی ہمت کر کے جھوٹ بولا۔ "لیکن میں اس سے پہلے تمہارے اعزاز میں ایک شاندار پارٹی دینا چاہتا ہوں امبر۔ "
"سر۔ وہ سب ٹھیک ہے۔ مگر ۔  آپ۔۔۔ "
"مجھے احساس ہے امبر۔  لیکن یقین کرو، وہ کام اتنا ہی اہم اور وقت طلب ہے کہ میں مجبور ہو گیا ہوں۔ "وہ میز کے کونے پر بیٹھ گیا۔ "دیکھو۔  تم جس طرح چاہو، میں تم سے معذرت کرنے کو تیار ہوں لیکن خدارا، مجھ سے خفا مت ہونا۔ تم کہو تو میں اپنا کام چھوڑ کر تمہاری خوشی میں شریک ہونے کو چلا آؤں گا لیکن تم مجھ سے ناراض مت ہونا۔ "وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر اداس اور التجا آمیز لہجے میں بولا۔
"نہیں سر۔  میں آپ سے ناراض کیسے ہو سکتی ہوں ؟ آپ اپنا کام التوا میں مت ڈالئے لیکن اس کے لئے آپ کو میری بھی ایک بات ماننا پڑے گی۔ "
"ہاں ہاں ، کہو۔ "
"شادی کے بعد میں آپ کے اعزاز میں ایک پارٹی دوں گی، جس کے لئے آپ کوئی بہانہ نہ بنا سکیں گی۔  "
وہ چند لمحوں تک اس کی پُر امید آنکھوں میں جھانکتا رہا۔ "ٹھیک ہے۔ "وہ میز سے اٹھ گیا۔  وہ کھل اٹھی۔
"لیکن۔۔۔ "
"لیکن کیا سر؟"بے تابی سے اس نے پوچھا۔
"پارٹی یہاں ، اسی آفس میں دی جائے گی۔ تمام انتظام میرا ہو گا اور تم اور تمہارے وہ مہمان خصوصی ہوں گے۔ "
"بالکل نہیں سر۔  "وہ مچل سی گئی۔ "پہلی بات تو ٹھیک ہے لیکن باقی دونوں باتیں غلط ہیں۔ پارٹی ہم دیں گے اور مہمان آپ ہوں گے۔ "
"غلط۔  بالکل غلط۔ جا تم رہی ہو۔ اور الوداعی پارٹی جانے والے کے اعزاز میں دی جاتی ہے۔ لہذا میرا حق پہلے بنتا ہے۔ "
"وہ حق تو آپ پارٹی دے کر استعمال کر ہی رہے ہیں سر۔ "
"نہیں۔  یہ رسمی پارٹی ہے۔  بعد کی پارٹی اعزازی اور خاص ہو گی۔ "
"سر۔ " وہ جیسے ہارتے ہارتے جیت کی امید پر بولی۔ "سب کچھ تو آپ لے گئے سر۔  ہمارے ہاتھ کیا آیا؟" اس نے منہ بنا کر کہا۔
"تمہارے حصے میں ہماری دعائیں ، ہماری محبتیں ، ہمارے جذبات یعنی یہ کہ خدا کرے تم اور تمہارے"وہ" پھلو پھولو۔  دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔ ہماری خوشیاں بھی خدا تمہیں دے دی۔  وغیرہ وغیرہ۔ "
"سر۔ " اس نے شرما کر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا۔ پھر کچھ دیر بعد اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔
"اب میں چلوں گی سر۔  "وہ سر جھکا کر بولی۔
اورجیسے طاہر کے دل کو کسی نے مٹھی میں مسل ڈالا۔ کتنی ہی دیر تک وہ اسے گھورتا رہا۔  زاہدہ بھی تو یوں ہی گئی تھی۔
"جاؤ۔ " اس کے لب کپکپا گئے۔
اس نے جھکی ہوئی نظریں اٹھائیں۔
"سر۔ " پلکوں پر تیرتے موتی لرز گئی۔ طاہر پھیکی سی مسکراہٹ لبوں پر بکھیر کر رہ گیا۔  پھر اس کی پلکوں کے گوشے بھی نم ہو گئے۔ شاید، ضبط کا آخری بند ٹوٹنے کو تھا۔
"اللہ حافظ۔ "اس نے بے ساختہ اسے شانوں سے تھام کر کہا۔
"سر۔ "وہ بہت اداس ہو رہی تھی۔
"پگلی۔ "اس کا جی چاہا۔  اسے باہوں میں سمیٹ کر سینے میں چھپا لے۔ پوری قوت سے بھینچ لے مگر دوسرے ہی لمحے وہ اس کے ہاتھوں کی گرفت سے پھسل کر دروازے کو چل دی۔
ہارا ہوا جواری، اپنے غلط داؤ پر اس مرتبہ بھی پٹ گیا تھا اور اب شاید اس کا دامن، ہر آرزو، تمنا اور خواہش سے خالی ہو چکا تھا۔ اسی لئے تو وہ اپنی غیر متوقع ہار کا انجام دیکھ کر اتنے تلخ انداز میں مسکرایا تھا کہ اس کے جذبات پر نا امیدی کی ایک سرد تہہ جمتی چلی گئی تھی۔
وہ آفس سے نکل آیا۔  بے مقصد ادھر ادھر کار بھگائے پھر تا رہا، جو لمحہ بہ لمحہ سپیڈ پکڑتی جا رہی تھی۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں تیزی سے پیچھے بھاگتی ہوئی سڑک پر منجمد تھیں۔  ذہن، دل، خیالات، جذبات۔  ایک جنگ تھی جو اس کی سوچ اور احساس کے مابین شدت سے جا رہی تھی۔
"تم پھر ہار گئے۔ "
"جیت تمہاری تقدیر میں نہیں۔ "
"تم زندگی بھر یونہی تنہائیوں میں بھٹکتے رہو گے۔ "
"تمہارا دامن محبت سے سدا خالی رہے گا۔ "
"تم ساری عمر تشنہ رہو گے۔ "
"تم سراپا ہار ہو۔ اپنے لئے، اپنی ہر آرزو کے لئے، اپنی ہر تمنا کے لئے، اپنے ہر جذبے کے لئے۔ داؤ لگانا چھوڑ دو۔ تم اناڑی جواری ہو۔ تمہاری خواہشات کی تاش کا ہر پتہ بے رنگ ہے۔  بے وفا ہے۔ "
"کوئی نہیں آئے گا جو تمہیں اپنے د ل کے نہاں خانے میں محبت کے نام پر سجا لے۔  تم دیوتا ہو۔  انسان نہیں۔  لوگ تمہارا احترام تو کرتے ہیں ، تم سے محبت نہیں کرتے۔ کسی کی محبت تمہارے مقدر میں لکھی ہی نہیں گئی۔ "
"تم بن منزل کے لٹے پٹے مسافر ہو۔  منزل کی تلاش چھوڑ دو۔ چھوڑ دو۔ منزل کی تلاش چھوڑ دو۔  چھوڑ دو۔  چھوڑ دو۔  "
کار کے بریک پوری قوت سے چیخے اور بھاگتی ہوئی کار الٹتے الٹتے بچی۔
گھر آ چکا تھا۔
وہ یوں ہانپ رہا تھا، جیسے میلوں دور سے بھاگتا آیا ہو۔ چہرہ پسینے میں شرابور اور سانس دھونکنی کی مانندچل رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں کی گرفت اسٹیئرنگ پر سخت ہوتی چلی گئی۔ پھر اس نے اپنا سراسٹیئرنگ پر دے مارا۔ کتنی ہی دیر تک وہ بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پھر آہستہ سے اس نے چہرہ اوپر اٹھایا۔ اب وہ بالکل پُرسکون تھا۔ طوفان تھم گیا تھا۔ بادل چھٹنے لگے تھے۔ اس کے ہاتھ کو حرکت دی۔ ہارن چیخ اٹھا۔
چند لمحوں بعد گیٹ کھل گیا۔ وہ کار اندر لیتا چلا گیا۔ کار کو گیراج میں بند کر کے وہ داخلی دروازے سے ہال میں رکے بغیر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
"صاحب۔ بیگم صا حبہ کھانے پر آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔ "سیف بابانے کمرے میں داخل ہو کر کہا۔  
"ان سے کہو، مجھے بھوک نہیں۔ وہ کھا لیں۔  "اس نے بجھے بجھے لہجے میں کہا۔
"صاحب۔  وہ تبھی سے بھوکی ہیں جس دن سے آپ نے کھانا چھوڑ رکھا ہے۔ "
"کیا۔۔۔ ؟تمہارا مطلب ہے انہوں نے پرسوں سے کچھ نہیں کھایا۔ "
"جی ہاں صاحب۔  ایسا ہی ہے۔ "
وہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکا۔ بیگم صاحبہ سرجھکائے میز پر بیٹھی جانے کیا سوچ رہی تھیں۔ اس کے آنے کی آہٹ سن کر انہوں نے سر اٹھایا۔
"امی۔۔۔ " وہ بے تابی سے کچھ کہتے کہتے رک گیا۔  سر جھک گیا۔  آہستہ سے آگے بڑھ کر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ چند لمحوں تک اسے بڑی درد بھری نظروں سے گھورتی رہیں۔
"کھانا کھائیے امی۔ " پلیٹ سیدھی کرتے ہوئے وہ ان کی نظرو ں کی چبھن سے گھبرا گیا۔
ایک طویل سانس لے کر انہوں نے پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ دونوں نے خاموشی سے اور بہت کم کھایا۔ سیف نے میز صاف کردی۔ طاہر نے بے قراری سے پہلو بدلا۔  انہوں نے ایک طائرانہ نظر اس پر ڈالی۔
"جاؤ۔  سوجاؤ جا کر۔  رات کافی جا چکی ہے۔ "
اس نے کچھ کہنے کو منہ کھولا مگر۔۔۔  نظریں ملتے ہی وہ خاموش ہو گیا۔  آہستہ سے اٹھ کر چل دیا۔ پھر رکا۔ ایک نظر پلٹ کر دیکھا۔ وہ اسی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔ تب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
"پگلا کہیں کا۔ "وہ دھیرے سے بڑبڑائیں اور کسی گہری سوچ میں ڈوبتی چلی گئیں۔
*  *  *
 آج پورے سات دن بعد وہ آفس آیا تھا۔ یہ دن اس نے گھر پر اپنے کمرے میں قید رہ کر گزارے تھے۔
وہ کسی گہری سوچ میں گم بیٹھا تھا۔ نادر کب کا ڈاک دے کر جا چکا تھا مگر اس نے اس کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔
"ٹر۔  ر۔ رن۔  ٹرن۔  ٹرر۔  رن۔ "ٹیلی فون کی چیختی ہوئی آواز نے اس کے سکوت کا سلسلہ درہم برہم کر دیا۔
"ہیلو۔ "ریسیور کان سے لگاتے ہوئے اس نے تھکی تھکی آواز میں کہا۔
"مارننگ سر۔ "ایک دلکش اور خوبصورت، جانی پہچانی آواز سن کر وہ چونکا۔
"امبر۔۔۔ " اس کے لرزتے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔  پھر دوسرے ہی لمحے وہ سنبھل گیا۔ "ہیلو امبر۔ " اس نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
"کیسے ہیں سر؟"وہ چہکتی ہوئی سی محسوس ہوئی۔
"ٹھیک ہوں۔  وہ مسکرایا۔ "تم کہو۔  سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا ناں۔ "
" آپ کی عدم موجودگی بڑی بری طرح محسوس کی جاتی رہی سر؟"
"ہوں۔ " وہ ہولے سے پھر مسکرا دیا۔ "میں تو وہیں تھا امبر۔  تم نے محسوس ہی نہیں کیا۔ "
"ایسا نہ کہئے سر۔ " وہ بات سمجھ نہ سکی اور جلدی سے بولی۔  
"اور کہو۔  تمہارے "وہ" کیسے ہیں ؟" نہ چاہتے ہوئے بھی وہ شگفتگی سے بولا۔
" سر۔ " وہ شاید شرما گئی تھی۔ طاہر نے نچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔  " آپ فارغ ہیں آج شام کو؟" کچھ دیر بعداس کی آواز سنائی دی۔
"کیوں۔  کوئی خاص بات؟" اس کا دل دھڑکا۔
" آپ بتائیے ناں سر۔ " وہ مچلی۔
"کوئی اہم مصروفیت تو نہیں ہے مجھے۔ " وہ سوچ کر بولا۔
"تو بس۔  آج رات کا کھانا آپ ہمارے ہاں ، ہمارے ساتھ کھا رہے ہیں۔ "
"مگر امبر۔ " وہ گڑ بڑا گیا۔
"دیکھئے سر۔  انکار مت کیجئے۔  پہلے ہی آپ بہت زیادتی کر چکے ہیں۔ "
"تمہارے "وہ" بھی ہوں گے؟"
"ان ہی کا تو حکم ہے۔ "
"تو اس کا مطلب ہے تم مجبوراً بلا رہی ہو۔ "وہ ہنس پڑا۔ "اگر وہ نہ کہتے تو۔۔۔ "
"کیسی باتیں کرتے ہیں سر؟" وہ بے چین سی ہو گئی۔ "وہ تو انہوں نے۔۔۔ "
"اچھا اچھا ٹھیک ہے۔  مذاق کر رہا تھا۔  میں پہنچ جاؤں گا۔ "
" سات بجے تک پہنچ جائیے گا۔ "
"اور کون کون انوائٹ ہے؟" اس نے بات اڑا دی۔
" آج کی شام صرف آپ کے نام ہے سر۔ " سن کر وہ مسکرا دیا۔  
"تو پھر آپ آ رہے ہیں ناں ؟"
"حلف اٹھا لوں۔ "طاہر نے کہا تو امبر ہنس دی۔
"اچھا سر۔  شام تک اللہ حافظ۔ "اس نے اسے اپنے سسرالی مکان کا پتہ لکھوا کر کہا۔
"اللہ حافظ۔ "اس نے دھیرے سے کہا۔ امبر نے رابطہ کاٹ دیا مگر وہ کتنی ہی دیر تک ریسیور کان سے لگائے بیٹھا رہا۔
"سر۔  دستخط کر دیں۔ "کلرک نے اس کے سامنے فائل رکھتے ہوئے کہا تو طاہر نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ ایک طویل سانس لے کر اس نے ریسیور کریڈل پر رکھا اور فائل پر نظریں دوڑانے لگا۔ پھر قلم اٹھایا اور دستخط کر دئیے۔ وہ فائل لئے باہر نکل گیاتواس نے دونوں ہاتھ سر کے پیچھے رکھتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹک کر آنکھیں موند لیں۔
سوچیں۔ لامتناہی سوچیں۔ تنہائی۔ ویران تنہائی اور وہ خود۔
یہی تو تھی اس کی مختصر اور محدود سی دنیا۔
٭
کار آہستگی سے رکی۔ وہ باہر نکلا۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ چھوٹی سی خوبصورت کالونی تھی۔  ایک ایک دو دو منزلہ عمارتیں بڑی ترتیب اور خوبی کے ساتھ کھڑی کی گئی تھیں۔ ٹی شرٹ اور پتلون میں وہ بیحد سمارٹ لگ رہا تھا۔ سر کے بالوں کو ہاتھ سے سنوارتے ہوئے وہ چل پڑا۔ پانچ چھ مکان چھوڑ کر وہ ایک دو منزلہ خوبصورت اور بالکل نئے مکان کے دروازے پر رک گیا۔
"پروفیسر قمر واصف۔ "اس نے نیم پلیٹ پر نظر دوڑائی اور ڈگریاں پڑھے بغیر ہی کال بیل پر انگلی رکھ دی۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت لگا۔ کسی کے تیز تیز قدموں کی آوازیں سنائی دیں اور دروازہ کھل گیا۔
"ایوننگ سر۔ "وہی مخصوص پیارا سا انداز۔  امبر کا ہاتھ ماتھے پر تھا۔
وہ اسے گھور کر رہ گیا۔
" آئیے سر۔ " امبر کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔ وہ چونک پڑا۔ بے ساختہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
"ایوننگ۔ "دھیرے سے کہہ کر اس نے قدم بڑھا یا۔
وہ اسے لئے ہوئے ڈرائنگ روم میں پہنچی۔ " آپ بیٹھئے سر۔ میں ان کو خبر کرتی ہوں۔ " وہ نظریں چرا کر باہر نکل گئی۔
وہ دل کا درد دل میں دبائے صوفے پر بیٹھ گیا۔  سرسری نظر سے سجے سجائے دیدہ زیب اور دلکش ڈرائنگ روم کا جائزہ لے کر وہ جانے کیا سوچنے لگا۔
"السلام علیکم۔ "ایک مردانہ آواز نے اسے چونکا دیا۔ دروازے سے امبر ایک مرد کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔
اور۔۔۔  اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ سارابدن جھنجنا اٹھا۔  اسے ہر شئے گھومتی ہوئی دکھائی دی۔ حیرت اور اضطراب کے ملے جلے جذبات سے لبریز نظریں پروفیسر قمر کے چہرے پر گڑ سی گئیں۔ وہ حواس میں آیا تو اس وقت جب پروفیسرقمر نے اس کے غیر ارادی طور پر آگے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا۔ بڑی گرم جوشی تھی اس کے مصافحے میں لیکن۔۔۔ اس کی حیرت زدہ نگاہیں اب بھی نوجوان گورے چٹے پروفیسر قمر کے چیچک زدہ چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔
" مجھے قمر کہتے ہیں۔ "وہ مسکرایا۔ "پروفیسر قمر۔ "
"میں۔۔۔  طاہر۔۔۔ "۔ اس کی آواز جیسے بہت دور سے آئی۔ امبر سر جھکائے ان دونوں کے قریب کھڑی تھی۔
"بیٹھئے بیٹھئے۔  آپ کھڑے کیوں ہیں ؟"قمر خوش اخلاقی سے بولا تو وہ کچھ سنبھلا۔  سب لوگ آمنے سامنے صوفوں پر بیٹھ گئے۔
"امبر تو ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتی ہے۔ "
"جی۔  "وہ غیرمحسوس انداز میں مسکرایا۔ "یہ تو اس کی محبت ہے۔ "
"لگتا ہے آپ اپنے ہر ورکر کے دل و دماغ پر ثبت ہو چکے ہیں۔ شادی کے روز آپ کے سٹاف کے تقریباً تمام لوگ موجود تھے اور کوئی زبان ایسی نہ تھی جو آپ پر اپنی والہانہ عقیدت کے پھول نچھاور نہ کر رہی ہو۔ "
"جی۔ بس یہ تو ان سب کا پیار ہے۔ ورنہ میں کیا اور میری شخصیت کیا؟"وہ اور کہہ بھی کیا سکتا تھا۔
پھر پروفیسر قمر ہی باتیں کرتا رہا۔ وہ ہوں ہاں کر کے اس کی باتوں سے لاتعلقی پر پردہ ڈالتا رہا اور امبر ناخن کریدتی رہی۔
" ارے بھئی امبر۔  وہ چائے وائے۔ " کچھ دیر بعد قمر نے امبر کی طرف دیکھ کر کہا۔
"اوہ۔۔۔  میں ابھی پتہ کرتی ہوں۔ "وہ اٹھی اور طاہر کی طرف دیکھ کر باہر نکل گئی۔
"میں ابھی حاضر ہوا طاہر صاحب۔ "قمر بھی اس کے پیچھے ہی اٹھ کر باہر نکل گیا۔
اور۔۔۔ اس کا سلگتا ہوا ذہن جلتے ہوئے دل کی تپش سے بھڑک اٹھا۔ "یہ۔۔۔  یہ کیا تھا؟یہ کیا ہے ؟ کیا یہ تھی امبر کی محبت۔ امبر کی پسند۔ امبر کی زندگی کا ساتھی۔ اس کا شریک حیات۔  کیا یہ ممکن تھا؟ کیا یہ ممکن ہے ؟"اس کا دماغ پھٹنے لگا۔ رگیں تن گئیں۔
" آئیے سر۔ "امبر کمرے میں داخل ہوئی۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی جلتی ہوئی آنکھیں امبر پر چنگاریاں سی برسانے لگیں۔  "امبر۔۔۔ "اس کی آواز میں بلا کا درد تھا۔
امبر کے معصوم لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہو گئی۔ وہ اس کے قریب چلی آئی۔  "میں جانتی ہوں سر۔ سمجھتی ہوں۔ لیکن۔۔۔ "وہ ایک پل کو رکی۔ "محبت اسی کا نام ہے سر۔ کہ اسے وفا کی راہوں پر چلتے ہوئے روحوں کے سنگم پر پا لیا جائے۔ جسموں اور چہروں کی خوبصورتی اور حسن فانی چیزیں ہیں۔ اصل حسن تو خوبصورت جذبوں میں پلتا ہے اور اسے دیکھنے کے لئے من کی آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ آنکھیں تو اکثر دھوکا دے جاتی ہیں جو ہم چہروں پر سجائے پھر تے ہیں۔ جیسے آپ نے فریب کھایا۔ "وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہتی رہی۔  وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ تکتا رہا۔
"میں جانتی ہوں سر۔  آپ کے ذہن میں کتنے ہی سوال چکرا رہے ہیں۔ لیکن۔۔۔ " وہ بڑے پُرسکون اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں پھر گویا ہوئی۔ "لیکن یہ سوال آپ کی سوچ کے کسی گوشے میں پیدا نہیں ہونا چاہئیں سر۔  اس لئے کہ میں نے جو کچھ پایا، جو کچھ سیکھا، آپ سے پایا، آپ سے سیکھا۔  سر۔ قمر کا چہرہ داغدار ہوا تب ہمیں نئے نئے پیمان باندھے ہوئے بہت تھوڑے دن ہوئے تھے لیکن ان کے لاکھ انکار، دور ہونے کی التجا، بھول جانے کی فریاد کے باوجود میں نے ان کو سنبھال لیا۔ اس لئے کہ اگر یہی حادثہ ہماری شادی کے بعد پیش آتا تب کیا ہوتا؟ کیا اس وقت بھی میں ان کا ساتھ چھوڑ دیتی۔ ضرور چھوڑ دیتی سر۔ ضرور چھوڑ دیتی، اگر میں ان سے محبت نہ کرتی ہوتی مگر ہم نے تو ٹوٹ کر چاہا تھا ایک دوسرے کو۔  میں اگر ان کی بات مانتے ہوئے ان سے ناطہ توڑ لیتی تو جانتے ہیں کیا ہوتا؟وہ خود کشی کر لیتی۔  اس لئے کہ کسی سے دور ہونے، دور رہنے کا فیصلہ کر لینا بہت آسان ہے مگر اسے نبھانے کے لئے پتھر بن جانا پڑتا ہے سر۔  اور انسان پتھر بن جائے تو اس میں اور کسی لاش میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ محبت کے مارے ناکام ہو جائیں یا جان بوجھ کر محرومی کو گلے لگا لیں تو بہت کم ایسے ہوں گے جو زندگی کی لاش ارمانوں کی خارزار راہوں پر گھسیٹنے پر تیار ہوں۔ جیسے آپ۔۔۔ مگر آپ تو سب سے مختلف ہیں۔ انسانوں سے مختلف ہیں۔ بلند ہیں۔ اس لئے کہ آپ دیوتا ہیں۔  خلوص کی۔  وفا کے دیوتا۔ " وہ ایک لمحے کو رکی، پھر کہا۔ "اور یہی سوچ کر میں نے قمر کو اپنا لیا۔ قمر جو گہنا گیا تھا مگر تھا تو قمر۔  شکستہ آئینے تو ویسے بھی دل والوں کے لئے انمول ہوتے ہیں سر۔ ان میں اپنے چہرے ان کو بڑے صاف و شفاف دکھائی دیتے ہیں۔ "
وہ خاموش ہو گئی۔
طاہر کے لبوں پر لرزتی مسکراہٹ کسی مزار پر جلتے دیے کی مانند تھرتھرا اٹھی۔
"میں نے ٹھیک کیا ناں سر؟" عجب معصومیت سے اس کے چہرے کو تکتے ہوئے امبر نے پوچھا۔  
دھیرے سے طاہر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
"سر۔ "وہ مسکرائی۔ ہونٹ لرزے اور اس کی پلکوں کے گوشے نم ہو گئے۔ " میں جانتی تھی آپ میرے فیصلے پر اثبات کی مہر ثبت کرتے ہوئے ایک پل کی دیر نہیں کریں گے۔  میں ٹھیک کہتی ہوں سر۔  آپ دیوتا۔۔۔ "
اور طاہر نے اس کا فقرہ پورا ہونے سے قبل ہی نفی میں سر ہلا دیا۔ پھر بڑے پیار سی، آہستگی سے اس نے کہا۔  "تم۔۔۔  تم دیوی ہو۔ "اس کی تھرائی ہوئی آواز ابھری۔
اور امبر نم آنکھوں کے ساتھ مسکردی۔ طاہر کا جی چاہا آگے بڑھ کر ان انمول موتیوں کو اپنے ہونٹوں سے چن لے۔ وفا کی اس دیوی کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کر دے۔ وہ جو اسے دیوتا کہتی تھی خود کتنی عظیم تھی۔ اسے محبت کا مفہوم معلوم تھا۔  اسے محبت نبھانا آتا تھا۔
"چلئے سر۔ " امبر کی آواز میں نئی زندگی تھی۔
"چلو۔ "وہ بھی اک نئے انداز سے مسکرایا۔ پُرسکون ،  با وقار اور والہانہ انداز میں۔  اس کے دل کی ساری جلن شبنم میں ڈھل گئی تھی۔  امبر کو نہ پا سکنے کا کوئی پچھتاوا، کوئی دکھ، کوئی غم نہیں رہا تھا۔ ہر پچھتاوا، ہر دکھ، ہر غم اس حسرت میں ڈھل گیا تھا کہ کاش، قمر کی جگہ وہ خود ہوتا۔
وہ دونوں کمرے سے نکلے اور کاریڈور میں چل پڑی۔  کھڑکی کے پاس کھڑا قمر، گہنایا ہوا قمر، پلکوں پر ستارے سجائے مسکرا رہا تھا، فخر سے۔  پیار سے۔  ناز سے۔  جو سب کا سب امبر کے لئے تھا۔
٭
 آفس کو کسی نو عروس کی طرح سجا یا گیا تھا۔
سب کے چہروں پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر وہ مسکرایا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
"میرا خیال ہے۔  آپ سب لوگ بری طرح تھک چکے ہیں۔ "
"اب بھی کوئی شک ہے سر۔  "نجمہ نے بے تکلفی سے کہا۔ اور وہ ہنس پڑا۔
"بھئی تم لوگوں کی لیڈر کو پارٹی دینا کوئی معمولی بات تو ہے نہیں۔ "
"کتنے بجے آئیں گے وہ لوگ سر؟"کلرک اختر نے پوچھا۔
"بھئی اس وقت چار بجے ہیں۔  سات بجے کا وقت طے ہے ان سے۔ "
"اوہ۔ ابھی تین گھنٹے باقی ہیں۔ " انجم جیسے تڑ پ گئی۔ "انتظار کا یہ وقت کیسے کٹے گا؟"
"اچھا ایسا کرتے ہیں کسی انگلش پکچر پر چلتے ہیں۔ انٹرول کے بعد پکچر شروع ہوتی ہے اور ساڑھے چھ تک ہم با آسانی واپس آ سکتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟"
سب نے بخوشی رضا مندی ظاہر کر دی۔ طاہر نے نادر کو دو بڑے نوٹ دے کر سینما پہنچنے کو کہا کہ وہ سب کی ٹکٹیں لے کر ان کا انتظار کرے۔  سب لوگ باری باری منہ ہاتھ دھو کر دس پندرہ منٹ میں تیار ہو کر آفس کی گاڑیوں میں لد کر چل دئیے۔
پکچر چھ بجے ختم ہو گئی۔ ان کی بوریت اور تھکن کافی حد تک دور ہو گئی کیونکہ پکچر اچھی تھی۔ سوا چھ بجے وہ واپس آفس میں موجود تھی۔
"اچھا بھئی۔  ایک خاص بات۔ " وہ سب بیٹھ گئے تو ایک دم طاہر سنجیدہ ہو گیا۔ "تم میں سے کس کس نے قمر صاحب کو دیکھا ہے؟"
"ہم سب ہی نے دیکھا ہے سر۔ ہم آپ کا مطلب سمجھتے ہیں۔ "انجم جلدی سے بولی۔  "ہم انہیں ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہیں گے، جس سے معلوم ہو کہ انہوں نے چہرے پر زرہ بکتر پہن رکھی ہے۔ "اور سب کے ساتھ وہ بھی بے ساختہ ہنس دیا۔
"بس۔ "وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔  "میں اس بات کو ہرگز برداشت نہیں کروں گا کہ وہ کسی بھی طرح اپنی انسلٹ محسوس کریں۔ "
اورسب نے برا منائے بغیر وعدہ کر لیا۔
پھر سات بج گئے مگر امبر اور قمر نہ پہنچے۔ ساڑھے سات ہو گئے۔  ان دونوں کا اب بھی کوئی پتہ نہ تھا۔ طاہر نے دو تین مرتبہ گھر پر فون کیا مگر کسی نے ریسیور نہ اٹھایا۔  یہ ان کے روانہ ہو جانے کی نشانی تھی۔  لیکن وہ اب تک پہنچے کیوں نہیں ؟سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا۔
پونے آٹھ بجے باہر کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی۔
"سر۔ وہ آ گئے۔ "نادر کمرے میں داخل ہوا۔
سب لوگ بیتابی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ ابھی آفس کا لان پار کر رہے تھے کہ اس نے آفس کے دروازے پر ان کو ریسیو کیا۔
"معاف کیجئے گا۔ ہمیں کچھ دیر ہو گئی۔  " قمر اس سے مصافحہ کرتے ہوئے معذرت سے بولا۔
"کوئی بات نہیں۔  یہ ان کی پرانی عادت ہے۔ "وہ کسی گڑیا کی مانند سجی امبر کی طرف دزدیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
"نائٹ سر۔  " وہی مخصوص سا ادھورے سلام کا انداز۔  اور کھلتی ہوئی مسکراہٹ۔
"نائٹ۔ " وہ بھی مسکرادیا۔
تمام لوگوں سے قمر کا فرداً فرداً تعارف پہلے سے تھا۔ رضیہ، انجم اور نجمہ، امبر کو گھیرے کھڑی تھیں اور وہ ان کی باتوں سے کٹی جا رہی تھی۔ شرم کے مارے پانی پانی ہو رہی تھی مگر آج وہ اسے معاف کرنے کے موڈ میں نہ تھیں۔ مرد حضرات لڑکیوں سے پرے صوفوں پر جم گئے۔ دلچسپ باتوں ، قہقہوں ، مسکراہٹوں کا خوشگوار سلسلہ چھڑ گیا۔  آج وہ بے تحاشا ہنس رہا تھا۔ مسکرارہا تھا۔ قہقہے لگا رہا تھا۔  بات بے بات کھلا جا رہا تھا۔ نجانے کیوں ؟
کچھ دیر اسی حسین فضا کا تسلط رہا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ " میرا خیال ہے اب دیر کرنا مناسب نہیں۔ کیوں قمر صاحب؟"اس نے پوچھا۔
"جیسے آپ کی مرضی۔ " وہ کچھ بھی نہ سمجھا۔
وہ مسکرا کر ایک طرف سجی سجائے بڑی سی میز کی جانب بڑھ گیا اور اس پر پڑا خوبصورت کپڑا کھینچ لیا۔ سب لوگ اس کے گرد جمع ہو گئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے چھری اٹھائی اور پاس کھڑی امبر کی طرف بڑھا دی۔ اس نے بڑے دل نشیں انداز میں قمر کی جانب دیکھا اور بڑے سے کیک کے ٹکڑے ہونے لگی۔
تالیاں گونجیں ، چھینا جھپٹی ہوئی اور بہاریں کنگنا اٹھیں۔ کھانے کی ہر ڈش نے ان سے بے پناہ داد وصول کی۔ پھر کچھ دیر بعد چائے اور کافی وغیرہ سے شغل کیا گیا۔  تب وہ یادگار لمحہ بھی آن پہنچا، جب وہ میز کے پاس کھڑا، بڑے دلربایانہ انداز سے ان سب کو دیکھ رہا تھا، جو اس کے سامنے مسکراہٹوں کے پھول لئے کھڑے تھی۔ چند لمحے گزر گئی۔ پھر آہستہ سے اس کے لبوں کو حرکت ہوئی۔
"ساتھیو!" وہ رکا۔ اس کی نظریں امبر کی نظروں سے ٹکرائیں اور جھک گئیں۔ "مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ یہ تقریب جو ہم نے اپنے آفس کی روح رواں ، اپنی ایک بہترین دوست، رفیق اور ساتھی اور آج سے مکمل طور پر پرائی ہو جانے والی ہستی کے اعزاز میں منعقد کی ہے اور جسے آپ سے متعارف کرانے کی، میں ضرورت نہیں سمجھتا۔ " وہ ذرا ٹھہرا۔ پھر بولا۔ "مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں بلکہ میں فخر سے اس بات سے آپ سب لوگوں کو آگاہ کروں گا کہ امبر۔۔۔ "اس کی نظریں امبر کے مضطرب چہرے پر پھیل گئیں۔  " اس ادارے کی وہ ممبر ہے جس کی محبت، رفاقت، پیار اور دردمندی سے جدائی پر دل چاہتا ہے کہ میں جی بھر کر آنسو بہاؤں۔ دل کھول کر روؤں اور اس کے درخشاں مستقبل کی جھلک دیکھ کر، میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنی پلکوں پر چمکنے والے ہر آبدار موتی کو اس کی مسرتوں ، آنے والی خوشیوں کے قدموں پر نچھاور کر دوں۔ " اس کے لرزتے لبوں کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہو گئی۔
"دوستو! غم ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں۔  کب، کیسے، کس شکل میں آئیں گے؟ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔  ایک دکھ کا پہاڑ میرے وجود پر بھی ٹوٹا تھا۔ حسرتوں کا ایک آتش فشاں میری زندگی میں بھی پھٹا تھا اور میرا خیال ہے اس سے آپ بھی بخوبی واقف ہیں۔"
اس نے ایک طائرانہ نظر ان بتوں پر ڈالی جو سانس بھی اتنی آہستگی سے لے رہے تھے کہ سکوت خود پر بوجھ بن گیا تھا۔  پھر اس کی گمبھیر آواز نے اس بوجھ کو سرکانا شروع کیا۔
"میں اس دکھ، اس غم، اس سزائے بے جرم کو برداشت کر سکتا تھا نہ کر سکا۔ زندگی مجھ پر بوجھ بن گئی۔ ہر سانس میرے لئے دائرہ حیات تنگ کرتی چلی گئی۔ دنیا اور اس کی ہر رنگینی میرے لئے تاریک رات کی پرچھائیں بن کر رہ گئی۔  مجھے روشنی اور اندھیرے ایک ہی ناگن کے دو روپ دکھائی دینے لگی۔ میں زندہ ہوتے ہوئے بھی مُردوں کی طرح بے حس ہوتا چلا گیا۔  آپ سب نے میرے دکھ کو محسوس کیا۔ میرے غم کی شدت اور میرے زخم کی ٹیس اپنے دلوں میں محسوس کی لیکن ایک ہستی آپ میں ایسی بھی تھی جو آپ سب پر آپ سب کے احساس پر بازی لے گئی۔  جس نے مجھے دلدل میں دھنستے دھنستے، کنارے پر کھینچ لیا۔ جو مجھے گرداب سے پھر ساحل پر لے آئی۔  جس کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ نے میرے زخم پر مرہم رکھ دیا۔  جس کی دلجوئی نے میرے دکھ کی جڑیں کاٹیں۔ جس کی محبت، پیار اور عظمت نے نہ صرف مجھے دوبارہ زندگی دی بلکہ زندگی کی امانت، زندگی کو لوٹا دینے کی کامیاب کوشش کی۔ وہ۔۔۔ وہ امبر تھی۔ "بے ساختہ اس کی پلکوں کے گوشے نم ہوئے۔  تقریباً سب کا یہی حال تھا۔  کوئی دل ایسا نہ تھا جو شدت جذبات سے بوجھل نہ ہو رہا ہو۔ کوئی چہرہ ایسا نہ تھا جو فرطِ احساس سے تپ نہ رہا ہو اور امبر کے رخساروں پر تو شبنم ٹپکی پڑنے کو بیتاب تھی۔ طاہر دھندلائی ہوئی نظروں سے ان سب کو دیکھ کر اپنی کپکپاتی آواز پر حتی الامکان قابو پاتے ہوئے پھر گویا ہوا۔
" آپ سب نے امبر کے ساتھ تعاون کیا اور مجھے اپنی محبتوں کی آغوش میں چھپا لیا۔  آپ، جو بیگانے ہوتے ہوئے بھی میرے اپنے بن گئے، آپ، جو میرے اپنے ہیں لیکن آپ کی قسم۔  اگر امبر نہ ہوتی تو شاید آج میں بھی نہ ہوتا۔ "
"سر"۔  امبر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور قمر کے شانے پر سر رکھ دیا۔  اس نے پیار سے اس کا شانہ تھپکا۔ طاہر نے پل بھر کو امبر کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
"لیکن کتنی بڑی زیادتی ہے میرے ساتھ۔  کتنی بڑی نا انصافی ہے میرے ساتھ۔ "وہ بھرائے ہوئے انداز میں ہنسا۔ "کہ یہ دیوی مجھے دیوتا کہتی ہے۔  آخر کیوں ؟" اس نے پیار بھرے بھیگے بھیگے سوالیہ انداز میں ان سب کو دیکھا۔ "کیا صرف اس لئے کہ میں نے چند ضرورت مندوں کو بدحالی کے زمانے میں پناہ دی۔ ان کو کبھی ملازم نہیں سمجھا۔  اپنا جان کر ان سے پیار کیا۔ ان کی ضروریات کا پاس کرتا ہوں۔ کیا ایسے معمولی کام کرنے والے ہر انسان کو دیوتا کہا جاتا ہے ؟ کیا میرے لئے یہ نام مناسب ہے؟ ہر گز نہیں۔ قطعی نہیں۔ یہ تو آپ کی محبت ہے۔ عقیدت ہے۔ پیار ہے۔  ورنہ میں اور دیوتا؟ کوئی جوڑ بھی ہے میرا اور اس لفظ کا۔ "
وہ طاہر کے مسکراتے ہوئے چہرے کو خاموشی سے تکتے رہے۔
"سر"۔ تب دھیرے سے امبر ایک قدم آگے بڑھ آئی۔  قمر کے لبوں پر بڑی پیاری سی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ طاہر اس کی جانب دیکھتے ہوئے بے ساختہ ہنس دیا۔
" آپ کی ہر بات درست۔ ہر لفظ بجا۔۔۔ لیکن مجھے بتائیے سر"۔  وہ پل بھر کو اس کی جانب دیکھ کر رکی۔ اور پھر کسی داستان کی طرح کھلتی چلی گئی۔
"ایک ماں کا جگر گوشہ، ایک مجبور لڑکی کی بہن، صرف اس لئے دلہن نہ بن سکے کہ اس کے تن پر سجا ہوا سرخ جوڑا، جہیز کی لالی سے محروم ہے۔ اس کی رخصتی صرف اس لئے نہ ہو سکے کہ اس کے ماتھے پر سونے کا جھومر اور بدن پر زرتار لباس نہیں ہے۔  وہ ساری زندگی ماں باپ کے گھر صرف اس لئے بیٹھی رہے کہ وہ سسرال جاتے وقت اپنے ساتھ ذاتی مکان کے کاغذات، نقد روپیہ اور کار نہیں لے جا سکتی۔  اس وقت آسمان سے ایک فرشتہ اترے۔ "
"امبر۔۔ " وہ اضطراب اور گھبراہٹ کے ملے جلے تاثرات سے گڑبڑا گیا مگر وہ اس کی پروا کئے بغیر کہتی رہی۔
"وہ انسان۔  وہ فرشتہ نما انسان اس لڑکی کو سونے میں پیلا کر دے۔ اس کے سرخ جوڑے میں جہیز کی لالی بھی بھر دے۔  وہ سسرال جائے تو اس کے ساتھ ذاتی مکان کے کاغذات بھی ہوں اور اس کا دولہا اسی کی کار میں سوار ہو تو اس معصوم اور بھولی بھالی دلہن کے بوڑھے والدین اور اس کی بہن اس انسان کو دیوتا نہ کہیں ، تو کیا کہیں سر۔ اسے دل ہی دل میں پوجیں نہیں تو کیا کریں سر۔ "
"امبر۔ چپ ہو جاؤ"۔  وہ جیسے بھرے مجمعے میں بے ستر ہو گیا۔
"پھر کسی کا بھائی اس کی جیب سے تعلیم حاصل کرے۔  کسی کی بیوہ بہن اس کے خرچے پر زندگی گزارے۔ کسی کی بیٹی اس کے احسان کے دوش پر پرائے گھر جا کر راج کرے۔ کسی کا بیٹا اس کے زیر سایہ روزی کمائے تو ہم اسے دیوتا کیوں نہ کہیں سر؟ بولئے۔  جواب دیجئے۔ " وہ گلو گیر آواز میں اس سے سوال کر بیٹھی۔
وہ سر جھکائے کسی مجرم کی طرف خاموش کھڑا رہا۔ جیسے اس پر لگایا جانے والا ہر الزام صحیح ہو۔ سچ ہو۔  حقیقت یہی تھی کہ امبر کی چھوٹی بہن کی شادی پر اس نے پانی کی طرح روپیہ بہایا تھا۔  آفس کے تقریباً تمام لوگوں پر کسی نہ کسی صورت میں اس کی نوازشات جاری رہتی تھیں۔  کسی کا بیٹا اس کے خرچے پر پڑھ رہا تھا کسی کی بیٹی کے لئے وہ ہر ماہ معقول رقم دیتا تھا۔ کسی کو خاموشی سے بلینک چیک تھما دیا جاتا کہ وہ اس سے اپنی بیٹی کے جہیز کا سامان خرید سکے۔ کسی کے بوڑھے والدین کی بیماری اس کی ادا کی گئی فیس سے صحت میں بدل رہی تھی۔  کسی کا بھائی اس کی سفارش پر کہیں نہ کہیں نوکری حاصل کر چکا تھا اور کسی کی بہن بیوگی کے دن اس کے وظیفے سے با آسانی کاٹ رہی تھی۔ کتنے ہی رفاہی اداروں میں وہ ماہانہ دیتا تھا۔ کتنے ہی فرضی ناموں سے کئی ادارے اس نے فلاحی کاموں کے لئے کھول رکھے تھے، جہاں ان گنت لوگ فیض یاب ہو رہے تھے۔  بیکاری کے مارے روزگار پا رہے تھے۔ ضرورت مند اپنے خالی دامن مرادوں سے بھر رہے تھے۔  یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ اور ان حقیقتوں سے اس کے علاوہ صرف امبر واقف تھی۔  اس کے اور امبر کے درمیان یہ طے تھا کہ زندگی کے آخری سانس تک، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں ، وہ دونوں کہیں بھی رہیں ، ان رفاہی کاموں کی منتظم صرف اور صرف امبر رہے گی۔  ان نیکیوں کے لئے کروڑوں کے بینک اکاؤنٹ کو صرف وہ آپریٹ کرے گی۔  جیسے اور جہاں چاہے اس پیسے کو خرچ کرے گی۔  طاہر نے اپنے بزنس کے ایک خاص پراجیکٹ کی ساری آمدنی براہ راست THE PROUD نامی فلاحی ادارے کے لئے مختص کر رکھی تھی اور یہ آمدنی براہِراست اس ادارے کے اکاؤنٹ میں جاتی تھی، جس کے تحت یہ سب نیکیاں انجام پاتی تھیں۔  بیگم صاحبہ تک کواس نے اس کی ہوا نہ لگنے دی تھی۔۔۔ لیکن آج امبر نے علی الاعلان اس کا پول کھول دیا تھا۔  جو نہیں جانتا تھا اسے بھی علم ہو گیا تھا کہ بظاہر انسان نظر آنے ولا یہ انسان اندر سے کس مقام پر کھڑا ہے؟کتنے ہاتھ اس کے حق میں دعاؤں کے لئے اٹھتے ہیں ؟ کتنے دل اس کی زندگی اور خیر خواہی کے لئے دھڑکتے ہیں ؟ کتنی آنکھیں اس کے نام پر تشکر آمیز آنسوؤں سے لبریز ہو جاتی ہیں اور کتنی زندگیوں کی خوشیاں ، مسرتیں اور مسکراہٹیں اس کے اشاروں پر رقصاں ہیں؟
وہ منہ پھیرے، سر جھکائے میز کا سہارا لئے کھڑا تھا اور وہ سب خاموش، بے جان بت بنے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔ کتنی ہی دیر بعد وہ بڑی آہستگی سے ان کی طرف پلٹا۔ اس کے چہرے پر اداسی اور یاسیت کے بادل امڈے چلے آ رہے تھے۔ وہ سراپاخزاں لگ رہا تھا۔ بکھرا ہوا، مرجھایا ہوا گلاب نظر آ رہا تھا۔
"یہ تم نے کیا کیا امبر؟" وہ بڑبڑایا۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ ایک دم بادل چھٹ گئے۔  گلاب مہک اٹھا۔  وہ مسکرا دیا تھا، بڑی معصومیت سی۔  امبر کا جی چاہا، بھاگ کر اس دیوتا کے چرنوں میں جا گرے اور یوں پگھل جائے جیسے شمع کا یہ حق صرف اسی کو حاصل ہے مگر اس کے لب صرف کپکپا کر رہ گئے، آواز نہ نکلی۔  اس کا جسم صرف لرزا، حرکت نہ کر سکا۔
"مجھے کوئی گلہ نہیں امبر کہ تم نے مجھے، اپنے دیوتا کو پھولوں کے پہاڑ تلے دفن کر کے رکھ دیا۔  کچھ اس طرح کہ اب اگر میں ان پھولوں کے بوجھ سے آزاد بھی ہونا چاہوں تو نہیں ہو سکتا۔  میں تم سے وعدہ کرتا ہوں امبر کہ ان پھولوں کی مہک کو ہمیشہ تازہ رکھوں گا۔ انہیں مرجھانے نہیں دوں گا۔ "
بے اختیار امبر کی آنکھیں چھلک گئیں۔ "سر۔  میں نے آپ کو دیوتا کہہ کر غلطی نہیں کی۔ "وہ سب لوگوں کی طرف پلٹی۔  "کیا میں نے غلط کہا ؟"
ان سب کے سر جھک گئی۔ اقرار میں۔  اثبات میں۔ یوں لگتا تھا۔ جیسے ایک مندر میں دیوتا کے حضور ان گنت چراغ سرجھکائے کھڑے لو دے رہے ہوں۔ احسان و وفا کے مندر میں۔  پیار کے دیوتا کے حضور، محبت کے پجاری سرنگوں کھڑے تھے۔
تب قمر دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کے قریب چلا آیا۔ " آپ بہت خوش قسمت ہیں طاہر۔ " وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ 
وہ جواب میں ہولے سے اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔ کچھ کہہ نہ سکا۔  اس نے دیکھا، سارے ہی چہرے پُرسکون ہوتے چلے گئے۔ اب مسکراہٹوں میں پہلے کی نسبت زیادہ تازگی تھی۔ باتوں میں زیادہ شگفتگی اور نظروں میں زیادہ والہانہ پن تھا۔
پھر وہ فرقتوں کا پیامبر لمحہ بھی آن پہنچا جس کے لئے یہ سارا اہتمام کیا گیا تھا۔  چہرے ایک بار پھر اداس ہو گئی۔ جذبات افسردہ ہونے لگی۔  دل بوجھل ہوتے چلے گئے۔
"امبر۔ " طاہر اس کی اور قمر کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔  وہ دونوں اسے استفہامیہ انداز میں دیکھنے لگی۔ "تمہارے دوستوں نے تم لوگوں کو رخصت کرتے وقت اپنے جذبات تحفوں میں چھپا کر پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور میرا خیال ہے، اب وہ یادگار وقت آ چکا ہے جب ہمیں اپنے ان جذبوں کا اظہار کر دینا چاہئے۔ "
اس نے دوسرے لوگوں کی طرف دیکھا اور وہ اس کا اشارہ سمجھ کر کمرے کے ایک گوشے کی جانب بڑھ گئے۔ چند لمحوں بعد وہ لوٹے تو امبر اور قمر کے سامنے گفٹ پیکس کا ڈھیر لگ گیا۔  وہ پرے کھڑا مسکراتا رہا۔  آخر میں وہ آگے بڑھا اور ایک سفید بڑا لفافہ امبر کے ہاتھ میں تھما دیا۔
"اس میں کیا ہے سر؟" وہ حیرت سے بولی۔  
"اس میں۔۔۔ " وہ دھیرے سے مسکرایا۔  " اس میں ایک چھوٹا سا گزارش نامہ ہے امبر جس کے تحت آج سے تم THE PROUD کی تا حیات چیئر پرسن ہو۔  "
"سر۔۔۔ " وہ سُن ہو گئی۔
"کچھ مت کہو امبر۔  یہ تمہارا وہ حق ہے جو مجھ پر قرض تھا۔  آج کے بعد بھی تمام معاملات ویسے ہی چلتے رہیں گے جیسے اب تک چلتے آ رہے تھے۔  صرف ایک شق ختم ہو جائے گی اور وہ یہ کہ آج کے بعد کسی چیک پر، کسی دستاویز پر تمہیں میرے دستخط درکار نہیں ہوں گی۔  اب تم خود فائنل اتھارٹی ہو۔ بس ایک بات یاد رکھنا کہ ہم دونوں کے درمیان جو اس کام کو نسل در نسل جاری رکھنے کا عہد ہوا تھا اس میں کوئی دراڑ نہیں آنی چاہئے۔  کوئی تعطل نہیں آنا چاہئے۔   THE PROUDکو آسمانِ خیر پر ہمیشہ دمکتا رہنا چاہئے۔  ہم رہیں نہ رہیں ، اس عہد کو زندہ رہنا چاہئے۔  میں تمہاری شادی پر تمہیں اس ذمے داری کے تحفے کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ "
"سر۔۔۔ " امبر نے لفافے کو چوم کر پلکوں پر رکھ لیا۔ اس کی آنکھوں سے چھلکتی شبنم نے اس عہد نامے پر پاکیزگی کی مہر ثبت کر دی۔
"قمر صاحب۔ " طاہر نے پروفیسر قمر کی جانب دیکھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔ " میرا خیال ہے آپ کو اس پر تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔  یہ کوئی جاب نہیں ہے۔ "
"قطعاً نہیں طاہر صاحب۔ یہ تو ایک سعادت ہے جس میں مَیں خود امبر کا ساتھ دینا چاہوں گا۔ " وہ بڑے جاندار انداز میں مسکرایا۔
"شکریہ۔ " طاہر نے اس کا ہاتھ دبایا اور چھوڑ دیا۔ پھر اس نے نادر کو اشارہ کیا۔  وہ تحائف دو تین پھیروں میں باہر طاہر کی کار میں رکھ آیا۔
"امبر۔  ایک آخری بات۔ " طاہر نے اپنی کار کی چابی اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ "یہ تمہاری کار کی چابی ہے۔ "
"یہ تو آپ کی۔۔۔ " امبر نے کہنا چاہا۔
"اب یہ کار تمہاری ہے۔  THE PROUDکی چیئر پرسن کو ادارے کی جانب سے کار اور رہائش کی سہولت دی جائے، یہ ادارے کے چارٹر میں طے ہے۔ اس سفید لفافے میں تمہاری نئی رہائش کے کاغذات بھی موجود ہیں۔  انکار مت کرنا کہ یہ تمہارا حق ہے۔"
"اوکے سر۔ " امبر بے اختیار مسکرا دی۔ " میں بار بار حیرت اور انکار کے چکر میں پڑ کر کیوں آپ کا دل دکھاؤں۔  آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ "
"دیٹس گڈ۔ " طاہر بھی مسکرا دیا۔
"نائٹ سر"۔ کار میں بیٹھ کر امبر نے لرزتے ہاتھ کو پیشانی تک لے جا کر اسی مخصوص انداز میں کہا اور بے ساختہ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
"نائٹ امبر۔  "وہ دل گرفتہ لہجے میں مسکراتے ہوئے بولا۔
پھر دعاؤں ، آنسوؤں ، محبتوں اور بے پناہ بوجھل جذبات کی چھاؤں میں وہ دونوں رخصت ہو گئے۔
ویران ویران آفس کی ہر چیز اداس تھی۔ مندر سونا ہو گیا تھا، دیوتا کے دل کی طرح۔ دیوتا کی داسی جا چکی تھی ناں۔  شاید اسی لئے !
*  *  *

طاہر۔ " بیگم صاحبہ کی آواز نے سیڑھیوں کی جانب جاتے ہوئے اس کے قدم روک لئے۔
"جی امی۔ " وہ ان کی طرف لوٹ آیا۔
"بیٹھو۔ " انہوں نے آنکھ سے اشارہ کیا۔  وہ ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔ "بہت تھکے تھکے سے لگ رہے ہو۔ " انہوں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔
"کام بہت تھا آج آفس میں۔ " اس نے گردن پیچھے ڈال دی۔
چند لمحے خاموشی میں گزر گئی۔ "جاؤ۔  فریش ہو جاؤ۔  کھانے کی میز پر بات کریں گے۔ " بیگم صاحبہ کی آواز میں بیحد نرمی تھی۔
"کوئی خاص بات امی؟" اس نے دھیرے سے پوچھا اور سیدھا ہو بیٹھا۔
"ایسی بھی خاص نہیں مگر ضروری ہے۔ "
"تو ابھی کر لیجئے۔  میں بھوک محسوس نہیں کر رہا۔ "
"تم جانتے ہو، ابھی تک ہم نے اپنی عادت نہیں بدلی۔  تم نہیں کھاؤ گے تو ہم بھی بھوکے سوجائیں گے۔ "
"یہ زیادتی ہے امی۔ " وہ انہیں شکوے بھری نظروں سے دیکھ کر بولا۔ " کسی وقت مجبوری بھی ہوتی ہے، میں باہر کھانا کھا کر آؤں۔۔۔ "
"تب ہم نے کبھی اصرار نہیں کیا طاہر۔۔۔  مگر آج تم کھا کر نہیں آئے۔ "
"امی۔۔۔ " وہ مسکرایا۔ " آپ سے جیت نہیں سکتا میں۔  " وہ اٹھ گیا۔  " ٹھیک ہے۔  میں فریش ہو کر آتا ہوں۔ " اس نے اپنا بریف کیس اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
 آدھ گھنٹے بعد دونوں ماں بیٹا کھانے سے فارغ ہو چکے تھے اور اب کافی کا دور چل رہا تھا۔
"جی امی۔ " اس نے چسکی لے کر  مگ میز پر رکھا۔ " اب کہئے، کیا بات تھی؟"
"بات نئی ہے نہ بحث طلب طاہر۔ بس تمہاری طرف سے کسی پیشرفت کے منتظر ہیں ہم۔ "
طاہر نے بے اختیار سر جھکا لیا۔  وہ سمجھ گیا کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے۔  دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر اس نے آنکھیں موند لیں اور جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔  بیگم صاحبہ اسے خاموشی سے تکتی رہیں اور کافی کا کپ خالی کرتی رہیں۔
"جیومیٹری کا مسئلہ حل کر رہے ہو بیٹے؟" کافی دیر گزر گئی تو وہ بول اٹھیں۔
"نہیں امی۔ " بیساختہ وہ ہنسا اور آنکھیں کھول دیں۔ " لیکن یہ میرے لئے مسئلہ فیثا غورث سے کم بھی نہیں ہے۔ "
"تم زندگی کو اپنے لئے اتنا مشکل کیوں بنا رہے ہو طاہر۔ " بیگم صاحبہ نے اسے محبت سے دیکھا۔ "بیٹے۔  زندگی اللہ کی نعمت ہے۔  اسے اس طرح ضائع مت کرو کہ یہ کفران بن جائے۔  زندگی کی خوشیوں پر تمہارا جتنا حق ہے ا تنا ہی خوشیوں کا تم پر بھی حق ہے۔ اپنا حق چھوڑو نہ کسی کا حق غصب کرو، کاروبار کی طرح یہ کلیہ زندگی کے شب و روز پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ "
"میں نے اپنی سی کر کے دیکھ لی امی۔  میں تو اپنی زندگی سے وہ مسرت کشید نہیں کر سکاجس کا خواب میں نے ہمیشہ دیکھا۔  جو کچھ ہوا آپ کے سامنے ہے۔  پھر بھی۔۔۔ "
"تم نے آج تک جو بھی کیا، اس میں کہیں تمہاری جلد بازی کو دخل ہے اور کہیں دیر کو۔  ہم نے ایک ماں ہونے کا تمہیں بھرپور ایڈوانٹیج دیا ہے طاہر۔  ہم نے تمہارے اچھے یا برے، غلط یا صحیح، کسی بھی فیصلے کو خوشی سے یا مجبوراً بہر حال قبول کیا۔  تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم تمہاری خوشیوں میں کہیں بھی حائل ہوئے ہیں۔  اس کے باوجود اگر تم نے ٹھوکر کھائی ہے تو تمہیں سنبھلنے کے لئے ہم نے وقت بھی دیا ہے اور یہ بات تو تم بھی تسلیم کرو گے کہ ہم نے تمہیں ہر بار جی بھر کے وقت دیا ہے۔۔۔  لیکن بیٹے۔ کب تک؟ کب تک تم اپنے مفروضے پر اڑے رہو گے اور ہم تمہاری ناکامیوں پر چھپ چھپ کر آنسو بہاتے رہیں گے؟" ان کی آواز ٹوٹ سی گئی۔
"امی۔ " وہ بیتاب سا ہو گیا۔ " میں نے اپنی طرف سے کبھی بدنیتی سے کام نہیں لیا۔  جسے بھی انتخاب کیا، پورے خلوص اور محبت سے کیا مگر میری قسمت ہی میں کسی کا پیار نہیں ہے۔  شاید مجھے تنہائی کا زہر۔۔۔ "
"غلط کہہ رہے ہو تم طاہر۔ " بیگم صاحبہ نے اس کی بات کاٹ دی۔  " اپنی قسمت کو دوش مت دو۔  ہم سمجھتے ہیں کہ تمہارا انتخاب نہیں ، انتخاب کا طریقہ غلط تھا۔  بحث کریں گے تو وقت بھی ضائع ہو گا اور زخموں کے منہ بھی کھل جائیں گے جبکہ اس وقت ہمارا مقصد یہ نہیں ہے۔  ہم تو چاہتے ہیں کہ بہار کے وہ لمحے جو ناکامیوں کی ٹھوکر سے بکھر گئے ہیں ، انہیں خزاں آ جانے سے پہلے سمیٹ کر تمہارے دامن میں ڈال دیں۔  تمہاری تنہائی کو ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہے طاہر جو اپنی وفا شعاری اور رفاقت کی پلکوں سے تمہاری زندگی میں خود رو پودوں کی طرح اُگ آنے والے ساری تھکن، ساری محرومی کے کانٹے چن لے۔ "
"امی۔۔۔ " طاہر نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے مگر بیگم صاحبہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کرا دیا۔
" آج ایک ماں کی حیثیت سے نہیں ، ایک دوست بن کر ہم تمہیں سمجھانا چاہتے ہیں طاہر کہ تم جو چاہتے ہو شاید وہ تمہارے مقدر میں نہیں ہے یعنی کوئی ایسی ہستی جو تمہاری زوجیت میں آنے سے پہلے تمہیں ٹوٹ کر چاہے، ایسا ہونا ممکن ہے تمہارے ہاتھ کی لکیروں میں نہ لکھا ہو لیکن یہ تو ممکن ہو سکتاہے ناں کہ جو لڑکی بیوی بن کر تمہاری زندگی میں آئی، وہ تمہیں اتنی محبت دے دے کہ تمہاری ساری ناکامیاں ، ساری محرومیاں سیراب ہو جائیں۔  اور یہ اس لئے بھی ممکن ہے بیٹے کہ ہم مشرق کے لوگ ہیں۔  یہاں کی بیویاں جسے اپنے ماتھے کا جھومر بنا لیتی ہیں اسے خدا کے بعد وہ درجہ دیتی ہیں ، جسے صرف سجدے کا حق حاصل نہیں ہے، باقی تمام حقوق وہی ہیں جو خدا کے بعد صرف اور صرف ایک شوہر کو دیے گئے ہیں۔ پسند کی چیز ایک دکان سے نہ ملے تو دوسری دکان میں نہ جانا حماقت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا طاہر۔  جو شے تمہیں درکار ہے وہ صرف اور صرف ایک بیوی کی محبت ہے اور اسے تم شادی سے پہلے ہی حاصل کرنے پر کیوں مصر ہو، یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ "
"مجھے خوف آتا ہے امی۔ "اچانک وہ میز سے اٹھ گیا اور کھڑ کی میں جا کھڑا ہوا۔
"خوف؟" بیگم صاحبہ نے حیرت سے کہا۔ "کیسا خوف اور کس سے؟"
"کیا ضروری ہے امی کہ جو لڑکی میری بیوی بن کر آئے وہ مجھ سے پہلے کسی اور سے انوالو نہ ہو؟"
"یہ بات تم پہلے بھی کہہ چکے ہو طاہر۔  آخر تم اس وہم میں کیوں مبتلا ہو؟"انہوں نے اپنا رخ اس کی جانب پھیر لیا۔
"میرا دوست جمال اسی حادثے کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں جا سویا تھا امی جان۔  اس نے جس لڑکی سے شادی کی، وہ شادی سے پہلے کسی اور لڑکے کو چاہتی تھی۔  جمال سے شادی کے بعد بھی وہ اس لڑکے کو نہ بھول سکی اور اس سے چھپ چھپ کر ملتی رہی۔  جمال نے اس بات سے واقف ہونے کے بعد اسے طلاق دے دی مگر اپنی بیوی پروین کی جدائی اور بے وفائی برداشت نہ کر سکا۔  دو ماہ بعد اس نے خودکشی کر لی۔ "
"کیا؟" بیگم صاحبہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
"ہاں امی۔ " طاہر کی آواز بھیگ گئی۔  "وہ میرا بچپن کا دوست تھا۔  اس کا خیال آج بھی مجھے رلا دیتا ہے۔  میں اسی خوف سے اس وہم کا شکار ہو گیا ہوں کہ کہیں ایسی ہی بیوی میرے نصیب میں بھی نہ لکھی ہو۔ اسی لئے میں چاہتا تھا امی کہ جس سے شادی کروں ، شادی سے پہلے اس سے میرا محبت کا ایسا تعلق استوار ہو چکا ہو جس میں کسی اور کے سائے کا بھی شائبہ نہ ہو۔ "
"طاہر۔ " بیگم صاحبہ اٹھ کر اس کے قریب چلی آئیں۔ " بیٹے تم نے کیسا وہم پال لیا ہے دل میں۔  یہ تو ناسور بن کر تمہیں چاٹ جائے گا۔ " انہوں نے اس کے ماتھے اور پھر بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ "میری جان۔  ہر لڑکی ایسی نہیں ہوتی۔ یہ تو پروین یا اس جیسی کسی بھی دوسری لڑکی کے ماں باپ کو چاہئے کہ وہ شادی سے پہلے بالکل اسی طرح بیٹی سے بھی اس کی پسند اور مرضی معلوم کریں جیسے بیٹے سے معلوم کرتے ہیں۔  میں سمجھتی ہوں اس میں قصور ایسی لڑکی کا کم اور اس کے سرپرستوں کا زیادہ ہوتا ہے جو بیٹی کو اس کی پسند بتانے کا وہ حق نہیں دیتے، جو اسے ہمارے مذہب نے دیا ہے۔  لڑکا ہو یا لڑکی، دونوں کو شادی میں اپنی پسند اور ناپسندیدگی کے اظہار کا یکساں حق حاصل ہے۔  اگر پروین کے والدین بیٹی کی مرضی سے اس کی شادی کر دیتے تو اسے طلاق ہوتی نہ جمال خودکشی کرتا۔ بہرحال تمہارے وہم کا علاج ہے میرے پاس۔ "
"یہی ناں کہ مجھے شادی سے پہلے لڑکی سے ملاقات کا موقع دیا جائے گا اور میں اس سے ایک دو ملاقاتوں میں یہ بات صاف کرنے کی کوشش کر سکوں گا کہ وہ کسی اور سے تو۔۔۔ "
"ہاں۔ " بیگم صاحبہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ " اس کا یہی ایک حل ہے میرے پاس۔ "
" نہیں امی۔ " طاہر نے ان کے ہاتھ تھام کر گالوں سے لگا لئے۔ " میں ایسانہیں چاہتا۔ "
"تو پھر۔۔۔ ؟" وہ الجھ گئیں۔
"دو بار میں نے اپنی سی کر کے دیکھ لی۔  اب آپ کو اختیار ہے آپ جو چاہے کریں۔  مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہو گا۔ "
"طاہر۔۔۔ " وہ حیرت زدہ رہ گئیں۔
"ہاں امی۔ " میں اب اندھا داؤ کھیلنا چاہتا ہوں۔  آپ جو لڑکی میرے لئے پسند کریں گی، میں اس سے شادی کر لوں گا۔  اسے شادی سے پہلے دیکھوں گا نہ اس سے ملوں گا۔  "
"ایسا۔۔۔ ؟" بیگم صاحبہ کے چہرے پر پھلجھڑیاں سی چھوٹیں۔
"ہوں۔ " طاہر نے آنکھیں موند کر ان کے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگا لیا۔
"پھر سوچ لو طاہر۔ "
"سوچ لیا امی۔ " وہ سرشاری سے بولا۔ "مجھے سمجھ آ رہا ہے کہ جب اپنے فیصلے ٹھیک نہ بیٹھ رہے ہوں تب کسی ایسی ہستی پر اعتماد کر لینا چاہئے جسے دل اپنا خیرخواہ مانتا ہو۔  اور ماں سے بڑھ کر کون ہو گا امی، جسے اولاد کی بھلائی عزیز ہو۔ "
"جیتے رہو طاہر۔ " بیگم صاحبہ کا دل گلاب کی طرح کھل گیا۔  آنکھیں چھلک نہ جائیں ، یہ چھپانے کے لئے انہوں نے طاہر کی جانب سے رخ پھیر لیا۔
"امی۔ " طاہر پیچھے سے ان کے گلے میں باہیں ڈال کر لپٹ گیا۔
"بس کرو طاہر۔  اتنا لاڈ کرو گے تو ہم رو دیں گے۔ " انہوں نے نچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔
"کبھی نہیں امی۔ " طاہر نے ان کے شانے پر سر رکھ کر انہیں زور سے بھینچ لیا۔ " میں آپ کو رونے دوں گا تب ناں۔ "
بیگم صاحبہ نے اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے اور ہولے ہولے یوں تھپکنے لگیں جیسے اس کی محرومیوں کو، اس کی ناکامیوں کو گہری نیند سلا دینا چاہتی ہوں۔
٭
بیگم صاحبہ نے بہت زور دیا مگر طاہر نے ایک ہی انکار پر کمر باندھے رکھی۔  لڑکی کی تصویر تک دیکھنے سے انکار کر دیا۔ اس کی بس ایک ہی رٹ تھی۔ "امی۔  آپ جو چاہیں ، جیسے چاہیں کریں۔  میں آپ کی بہو کو دیکھوں گا تو اسی وقت جب وہ دلہن بن کر اس گھر میں آ جائے گی۔ "
بیگم صاحبہ کو اس کی اس بات پر محتاط ہو جانا پڑا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان سے کوئی ایسا فیصلہ ہو جائے جو طاہر کے اس اعتماد کو لے ڈوبی۔
ڈاکٹر ہاشمی کے مشورے سے، بڑا پھونک پھونک کر سوچتے ہوئے انہوں نے ایک متوسط گھرانے کی ایسی لڑکی کا انتخاب کیا جو اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد اپنی بیوہ ممانی کے پاس رہ رہی تھی۔  ممانی نے اسے حتی الامکان سہولت سے پالا تھا۔  بی اے تک پڑھایا اور سلائی کڑھائی سے لے کر کچن تک، گھر کے تمام کاموں میں طاق کر دیا۔  ممانی کی اپنی دو بیٹیاں تھیں جن کی شادیاں ہو چکی تھیں اور وہ اپنے گھروں میں خوش تھیں۔  لڑکی کے ماں باپ اور پھر ماموں اتنا کچھ چھوڑ گئے تھے کہ تینوں بچیوں کی شادی کے بعد بیوہ ممانی آرام سے زندگی گزار سکتی تھی۔  
طاہر کے رشتے نے با وقار، وسیلہ خاتون کو کتنے ہی دن گم صُم رکھا۔  اتنے بڑے گھرانے میں اپنی بیٹیوں یا اب صفیہ کی شادی کا تو انہوں نے خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ وہ دمے کی مریضہ اور کئی سال سے ڈاکٹر ہاشمی کے زیرِ علاج تھیں۔  ڈاکٹر ہاشمی انہیں سالوں سے جانتے تھے۔  انہوں نے اس خاندان کے بارے میں بیگم صاحبہ کو پوری پوری ضمانت دی۔  صفیہ کو بھی وہ بہت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔  وہ درجنوں بار وسیلہ خاتون کے ساتھ ان کے کلینک آ چکی تھی بلکہ بی اے کے آخری سال میں تو وہ ڈاکٹر ہاشمی کے نوجوان بیٹے سرمد ہاشمی سے کئی ماہ تک پڑھائی میں مدد بھی لیتی رہی تھی۔  انہی دنوں وہ صفیہ کے بارے میں زیادہ جان پائے تھے۔  یتیم اور ہونہار صفیہ کے بارے میں کبھی کبھار سوچتے تو انہیں بہت اچھا لگتا۔  صفیہ اس لئے بھی انہیں اچھی لگتی تھی کہ ان کی کوئی بیٹی نہ تھی۔ گھر میں صرف وہ اور سرمد تھے۔  بیوی کے مرنے کے بعد انہوں نے دوسری شادی نہ کی تھی۔  بیٹے کو پالا اور ایم بی اے کے لئے لندن بھجوا دیا۔  اب وہ اپنے ہاسپٹل میں مگن رہتے تھے۔  سرمد کی واپسی میں ابھی کچھ عرصہ باقی تھا۔  ایک آدھ بار ان کے دل میں صفیہ اور سرمد کی شادی کا خیال بھی آیا مگر وہ سرمد کی تعلیم میں ایسی کسی بات سے روڑا نہ اٹکانا چاہتے تھے جو اس کا دھیان تعلیم سے ہٹا دی۔  اس لئے یہ بات اس کی واپسی پر اٹھا رکھی۔  پھر جب بیگم صاحبہ نے ان کے سامنے طاہر کی تازہ صورتحال بیان کر کے جلد از جلد کسی متوسط گھرانے کی لڑکی تلاش کرنے کو کہا تو سب سے پہلے ان کے تصور میں صفیہ کا چہرہ ابھرا۔  انہوں نے بیگم صاحبہ سے ذکر کیا۔  بیگم صاحبہ نے ان کے ہاسپٹل ہی میں آ کر ایک دن صفیہ کو بہانے سے دیکھ لیا۔  سرو قد صفیہ کی بھولی بھالی صورت، سرخ و سفید رنگ روپ اور شیریں کلامی نے ان کا دل پہلی نظر ہی میں مٹھی میں کر لیا۔  انہوں نے ڈاکٹر ہاشمی کو وسیلہ خاتون سے بات کرنے کا عندیہ دے دیا۔
تیسرے دن جب ڈاکٹر ہاشمی نے وسیلہ خاتون سے صفیہ کے لئے طاہر کے بارے میں بات کی تو ان کا منہ حیرت سے کھل گیا۔  انہوں نے سوچنے کے لئے چند دن کی مہلت مانگی، جو ڈاکٹر ہاشمی نے طاہر اور اس کی فیملی کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرتے ہوئے انہیں دے دی۔ ساتھ ہی کہا کہ "جیسے وسیلہ خاتون کے گھرانے کی طرف سے ہر قسم کی ذمہ داری مجھ پر ہے اسی طرح بیگم صاحبہ کی طرف سے بھی ہر طرح سے میں ضامن ہوں۔ "
یہ بہت بڑی بات تھی مگر وسیلہ خاتون زمانے کے نشیب و فراز سے ڈرتی تھیں۔  انہیں اپنی بیٹیوں سے زیادہ اپنی یتیم و یسیر بھانجی کا خیال تھا۔  اس لئے وہ کئی دن تک ڈاکٹر ہاشمی سے دوبارہ ملنے نہ آئیں۔  بال آخر ڈاکٹر ہاشمی نے انہیں فون کر کے بلایا اور کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے کے لئے بیگم صاحبہ کے خاندان کے بارے میں چھان بین کی مکمل آزادی دی۔  ساتھ ہی کہا کہ روپے پیسے جائداد وغیرہ جیسی کوئی بھی اور کسی بھی انتہا کو چھوتی ہوئی ضمانت انہیں دی جا سکتی ہے۔  
وسیلہ خاتون نے ڈاکٹر ہاشمی کی اس بات پر پھیکے سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔  "ڈاکٹر صاحب۔  اگر روپیہ پیسہ ہی بیٹیوں کے سُکھ کا ضامن ہوتا تو آج کسی کروڑ پتی کی کوئی بیٹی دُکھی نہ ہوتی، اجڑ کر میکے نہ آ بیٹھتی اور شوہر کے سلوک کی شاکی نہ ہوتی۔  بات تو ساری نصیبوں کی ہے اور نصیب میں کیا لکھا ہے، یہ کون جانے؟"
"میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں وسیلہ خاتون۔  اور اگر آپ غور کریں تو آپ کی اس بات ہی میں آپ کے اندیشوں اور سوچوں کا حل موجود ہے۔ "
"یعنی۔۔۔ " ڈاکٹر ہاشمی کی جانب دیکھ کر انہوں نے استفسار کیا۔
"دیکھئے۔  جب آپ مانتی ہیں کہ ہو گا وہی جو نصیب میں لکھا ہے تو پھر خوف کیسا؟ ہم بے اختیار انسان تو صرف یہی کر سکتے ہیں کہ اپنے طور پر پورا اطمینان کر لیں کہ جو قدم ہم اٹھانے جا رہے ہیں وہ ہمیں کہیں کسی گڑھے میں تو نہیں لے جا رہا۔  اگر یہ اطمینان حاصل ہو جائے تو اس کے بعد ہم پر صرف یہ واجب ہے کہ ہم اپنے اللہ کی بارگاہ میں بیٹی کے سُکھ کی دعا کرتے ہوئے سرِتسلیم خم کر دیں۔  میں جانتا ہوں کہ بیٹی کا دُکھ کیا ہوتا ہے ؟ اس لئے کہ ساری زندگی بیٹی کے لئے ترسا ہوں۔  میرے خالق کی مرضی نہ تھی کہ مجھے بھی بیٹی کا باپ ہونے کا اعزاز ملتا وگرنہ میں ، سرمد کی ماں کے مرنے تک اس خواہش میں برابر کا شریک تھا کہ ہمارے ہاں بھی ایک بیٹی جنم لیتی۔  ہمارے گھر میں بھی اللہ کی رحمت اترتی۔  یہ ساری باتیں کرنے کا سبب یہ ہے وسیلہ خاتون کہ ایک طرف تو میں بیگم صاحبہ کی طرف سے ہر بات کا ضامن ہوں ، دوسری طرف میں نے آپ کو مکمل آزادی دی ہے کہ آپ ان کے بارے میں جیسے چاہیں چھان بین کر سکتی ہیں۔ تیسری بات یہ کہ آپ کی تسلی کے لئے بیگم صاحبہ ایسی ہر ضمانت۔۔۔ "
"یہ بات رہنے دیں ڈاکٹر صاحب۔ " وسیلہ خاتون نے ان کی بات کاٹ دی۔  "میری کسی بات کا یہ مطلب ہے ہی نہیں۔ "
"تو پھر کھل کر کہئے، بات کیا ہے جو آپ گومگو کا شکار ہیں ؟"
"بات صرف سٹیٹس کی ہے ڈاکٹر صاحب۔ " وسیلہ خاتون نے آخر کہہ ہی دیا۔  "ہم اس پائے کے لوگ نہیں ہیں جس سطح سے طاہر کا رشتہ آیا ہے۔  یہی بات میرے "ہاں "کہنے میں مانع ہے۔ "
"بس۔۔۔ " ڈاکٹر صاحب نے بغور وسیلہ خاتون کی جانب دیکھا۔ "اس کے علاوہ تو کوئی بات نہیں ہے؟"
"جی نہیں۔  میں چھان بین کرنے سے بھی انکاری ہوں کہ آپ جیسا زمانہ شناس اور ذمہ دار شخص درمیان میں موجود ہے۔  میری ہچکچاہٹ کا اور کوئی سبب نہیں ہے۔ "
"تو پھر سینے میں رکے ہوئے خوف سے بوجھل سانس کو آزاد کر دیجئے وسیلہ بہن۔  اگر صفیہ کو کبھی کانٹا بھی چبھ گیا تو دوسرے جہان میں میرا گریبان ہو گا اور آپ کا ہاتھ۔۔۔ "
"بس ڈاکٹر صاحب۔ " وسیلہ خاتون نے ہاتھ اٹھا کر انہیں مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔  " آپ کی اس معاملے میں موجود گی ہی میرے لئے بہت بڑی ضمانت ہے۔  اب آپ نے بہن کہہ دیا تو میں دوسرے جہان کے بوجھ سے ابھی آپ کو بری الذمہ کرتی ہوں۔  اس لئے کہ بیٹیوں کے نصیب اچھے ہوں ، ہم صرف یہ دعا کر سکتے ہیں اس کے لئے کوئی اشٹام لکھا جا سکتا ہے نہ کوئی بوجھ ذمے لیا جا سکتا ہے۔ "
"تو میں آپ کی طرف سے۔۔۔ "
"جی ہاں۔  آپ بیگم صاحبہ کو میری طرف سے ہاں کہہ دیجئے۔ " وسیلہ خاتون کی آواز بھیگ سی گئی۔  "ساتھ ہی ان سے صرف یہ عرض کر دیجئے گا کہ صفیہ میری بھانجی نہیں ، بیٹی ہے۔ "
"میں انہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں وسیلہ بہن کہ صفیہ آپ کے لئے اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر ہے۔ "ڈاکٹر ہاشمی نے جلدی سے کہا۔  "تاہم ایک بات آپ سے میں بھی کہنا چاہوں گا۔ "
"جی جی۔  " وسیلہ خاتون نے آنکھوں کے گوشے خشک کئے۔
"کیا آپ نے صفیہ سے پوچھ لیا؟"
"لوگ عام طور پر ایسی باتوں سے گریز کرتے اور ایسا کرنا اپنی غیرت اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں ڈاکٹر صاحب، لیکن میں نے صفیہ سے برابر پوچھ لیا ہے۔  جواب میں خاموشی اس کی رضامندی کا ثبوت ہے۔ "
"تو میری طرف سے مبار ک قبول کیجئے۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے خوش ہو کر کہا۔  "میں آج دوپہر یہاں سے سیدھا بیگم صاحبہ کے ہاں جاؤں گا اور انہیں بھی یہ خوشخبری سنا دوں گا۔  بتانے کو تو یہ بات انہیں فون پر بھی بتائی جا سکتی ہے مگر میرا جی چاہتا ہے کہ میں یہ خبر انہیں خود جا کر سناؤں۔ "
"اب جیسے آپ کی مرضی ڈاکٹر صاحب۔  مجھے اجازت دیجئے۔ " وسیلہ خاتون اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"ضرور ضرور۔ " ڈاکٹر ہاشمی بھی سیٹ سے اٹھ گئے۔  "میں آج کل ہی میں اگلا پروگرام آپ کے گوش گزار کر دوں گا۔ "
"جی۔  اللہ حافظ۔ " وسیلہ خاتون رخصت ہو گئیں اور ڈاکٹر ہاشمی ایسے بیتاب ہوئے کہ وقت سے پہلے ہی ہاسپٹل سے نکل پڑے۔
بیگم صاحبہ نے جب ان کی زبان سے صفیہ کے بارے میں نوید سنی تو بے اختیار ان کی زبان سے "الحمد للہ" نکلا۔ ڈاکٹر ہاشمی نے انہیں وسیلہ خاتون کے تمام اندیشوں کے بارے میں کھل کر بتایا تو انہوں نے ایک عجیب فیصلہ سنا دیا۔
"ڈاکٹر صاحب۔  صفیہ کی ممانی کے اندیشے زمانے کی چال دیکھتے ہوئے بے بنیاد نہیں ہیں۔  اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی میکے کی پشتینی جائداد طاہر کی دلہن کے نام کر دیں گے۔  اس گھر میں آنے پر ہماری طرف سے یہ جائداد اسے منہ دکھائی میں دی جائے گی۔ "
"بیگم صاحبہ۔ " ڈاکٹر ہاشمی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ " آپ جانتی ہیں کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟"
"جی ہاں ڈاکٹر صاحب۔ " وہ بڑے اطمینان بھرے انداز سے مسکرائیں۔  "ہم خوب جانتے ہیں۔  اور یہ بہت ضروری ہے۔  ایک تو اس لئے کہ صفیہ اور اس کے میکے والوں کو زندگی بھر کا اطمینان دلانا ہے اور دوسرے اس لئے بھی کہ ہماری بہو جب اس گھر میں داخل ہو تو کروڑوں کی مالک بن چکی ہو۔ "
اور ڈاکٹر ہاشمی کی زبان تھم گئی۔  انہوں نے مزید کچھ کہنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ بیگم صاحبہ جو فیصلہ کر چکی تھیں اس کے پیچھے خاندانی جاہ و حشم اور وقار بول رہا تھا، جس پر وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو کبھی تیار نہ ہوتیں۔
اگلے دن سے شادی کی تیاریاں ایک بار پھر پورے زور شور سے شروع ہو گئیں۔  زاہدہ کے آنے پر جس کام کی ابتدا ہوئی تھی، اب اسے انجام تک پہنچانے میں بیگم صاحبہ کسی قسم کی دیر نہ چاہتی تھیں۔ اس لئے محض دو ہفتوں کے وقفے سے نکاح کی تاریخ رکھ دی گئی۔  وسیلہ خاتون کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا کہ وہ مدت سے صفیہ کی شادی کا سامان کئے بیٹھی تھیں۔
طاہر نے پروفیسر قمر اور امبر کو بلا کر بیگم صاحبہ کے سپرد کر دیا۔  اب وہ تینوں تھے اور شادی کے ہنگامے۔  طاہر خاموشی سے ایک طرف ہو گیا۔  اسے اگر شادی کی بہت زیادہ خوشی نہ تھی تو کوئی دُکھ بھی نہ تھا۔  اس نے خود کو حالات کے سپرد کر دیا۔  وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اب مقدر اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلتا ہے؟ اس سے قبل، وہ شادی سے پہلے کسی کی محبت پانے کے جنون میں مبتلا تھا۔  اب وہ شادی کے بعد محبت مل جانے کی امید سے دل بہلا رہا تھا۔
مگر اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا؟ اس سے وہ بالکل ایسے ہی بے خبر تھا جیسے ہر انسان اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی سانحے یا اچانک نکل آنے والے انعام سے لا علم ہوتا ہے۔
*  *  *
صفیہ نے طاہر کی دلہن کے روپ میں " سلطان وِلا" میں قدم رکھا تواسے طاہر کے ساتھ دیکھ کر بیگم صاحبہ کے ہونٹوں پر سُکھ بھری مسکراہٹ نے جنم لیا۔
امبر کے ساتھ دوسری لڑکیاں اپنے گھیرے میں اسے اور طاہر کو بقعہ نور بنے ہال کے درمیان کھڑی بیگم صاحبہ تک لے آئیں۔  بیگم صاحبہ نے انہیں خود سے دو قدم کے فاصلے پر ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
"ذرا رک جاؤ بہو۔ " ان کا تخاطب صفیہ سے تھا جو سرخ جوڑے میں ملبوس، زیورات اور پھولوں میں لدی چہرے پر گھونگھٹ ڈالے فرش کی جانب دیکھ رہی تھی۔  بیگم صاحبہ کی آواز پر اس نے دھیرے سے اوپر دیکھا۔  وہ اسی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔
"ہماری طرف دیکھو۔ " انہوں نے بڑی محبت سے کہا۔
صفیہ نے سمجھ میں کچھ نہ آنے کے سے انداز میں ان کی جانب دیکھا۔
"ہم تمہیں تمہارا حق دینا چاہتے ہیں بہو۔  " بیگم صاحبہ نے اس کا دایاں ہاتھ تھام کر اوپر اٹھایا اور اس میں ایک گفٹ پیک جیسا لفافہ تھما دیا۔ صفیہ نے لفافہ تھام لیا مگر وہ اب بھی الجھی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"یہ تمہاری منہ دکھائی ہے۔  ہم نے اپنی میکے کی ساری جائداد تمہارے نام کر دی ہے۔ "
صفیہ کا ہاتھ لرز گیا۔  اس نے گھبرا کر دائیں ہاتھ کھڑے طاہر کی طرف دیکھا جو پہلے حیران ہوا پھر ایک دم مسکرا دیا۔ اس کے مسکرانے سے صفیہ کو کچھ حوصلہ ہوا۔
"اب آؤ۔  ہمارے سینے میں ٹھنڈک ڈال دو۔ " انہوں نے بازو وَا کر دئیے۔
صفیہ بے اختیار آگے بڑھی اور ان کے سینے سے لگ گئی۔  اسی وقت ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔  وہاں موجود ہر شخص اس اچانک نمودار ہو جانے والی خوشی میں خود کو شریک ثابت کر رہا تھا جبکہ ڈاکٹر ہاشمی ہونٹوں پر بڑی آسودہ مسکراہٹ لئے پروفیسر قمر کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے دبا رہے تھے۔  
"امبر۔  دلہن کو اوپر لے جاؤ بیٹی۔ " کچھ دیر بعد بیگم صاحبہ نے صفیہ کو خود سے الگ کیا۔  امبر، دوسری خواتین کے ساتھ صفیہ کو لئے ہوئے آہستہ قدموں کے ساتھ سرخ قالین میں لپٹی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔  
طاہر نے زربفت کی شیروانی اور سر سے کلاہ اتار کر ملازم کے حوالے کیا اور ایزی ہو کر اپنے آفس کے لوگوں میں آ بیٹھا۔  یہی اس کے دوست تھے۔  یہی اس کے ساتھی۔  اس نے جمال کی موت کے بعد کسی کو اپنی دوستی کے دائرے میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہ دی تھی۔  اس وقت بھی اسے جمال بے طرح یاد آ رہا تھا۔  اگر آج وہ زندہ ہوتا تو اس کی شادی کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا۔  سینے میں جلن دیتے اس کے خیال سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے وہ نجانے کس دل سے ہنس رہا تھا۔  تاہم کچھ دیر بعد وہ موجودہ صورتحال میں جذب ہوتا چلا گیا۔
ہنگامہ فرو ہوتے ہوتے رات کے گیارہ بج گئے۔  سب لوگ رخصت ہو گئے۔  گاؤں سے آئے ہوئے مزارعوں اور ان کی خواتین کا انتظام گھر کے پائیں باغ میں ٹینٹوں میں کیا گیا۔  وہ سب وہاں چلے گئے اور کھانے پینے سے لطف اٹھانے لگے جس کا وسیع پیمانے پر اہتمام تھا۔
سب سے آخر میں ڈاکٹر ہاشمی، امبر اور پروفیسر قمر رخصت ہوئے۔  امبر نے طاہر کو پورا ایک ماہ آفس نہ آنے کا نادر شاہی حکم سنایاجس پر بیگم صاحبہ نے تصدیق کی مہر لگا دی۔  
"میں سب سنبھال لوں گی سر۔  آپ پورا ایک ماہ چھٹی پر ہیں اور یہ چھٹی ایکسٹینڈ بھی ہو سکتی ہے۔  نو پرابلم۔ " وہ بے نیازی سے بولی۔
"میں تمہارے ساتھ ہوں امبر بیٹی۔  " بیگم صاحبہ ہنسیں۔  " اسے آفس سے جتنا دور رکھ سکتی ہو، تمہیں اختیار حاصل ہے۔ "
" آپ فکر نہ کریں بیگم صاحبہ۔ " امبر نے طاہر کی جانب دیکھا۔  " یہ آفس میں گھسنا تو درکنار، کم از کم ایک ماہ تک فون بھی نہیں کر سکیں گے۔ "
"جانے دو بھئی۔  کیوں میرا کورٹ مارشل کرنے پر تُلی ہو تم۔ " طاہر گھبرا گیا۔
" آپ یہی سمجھیں سر کہ آپ کا کورٹ مارشل ہو چکا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ جب آپ اپنی سزا کا گھونگھٹ اٹھائیں گے تو ایک ماہ کے ایک سال میں بدل جانے کی دعا کریں گے۔ "
اس پر سب لوگوں کا ملا جُلا قہقہہ گونجا۔  طاہر کو بھاگتے ہی بنی۔  ڈاکٹر ہاشمی اور پروفیسر قمر سے ہاتھ ملا کروہ پلٹا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد امبر اور پروفیسر قمر رخصت ہو گئے اور اب ہال میں صرف ڈاکٹر ہاشمی اور بیگم صاحبہ رہ گئیں۔
"مجھے بھی اب اجازت دیجئے بیگم صاحبہ۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
"ہم آپ کے ہمیشہ ممنون رہیں گے ڈاکٹر صاحب۔ " بیگم صاحبہ نے شال کندھے پر درست کرتے ہوئے کہا۔
"ایسا نہ کہئے بیگم صاحبہ۔  طاہر کا مجھ پر بڑا حق ہے۔ " وہ مسکرائی۔
"یہ آپ کا بڑا پن ہے ڈاکٹر صاحب۔  اور ہم آپ کا شکریہ ادا کر کے اس بڑائی کا قد گھٹانا نہیں چاہتے۔ ہاں ، اس وقت ہم آپ سے ایک مشورہ اور کرنا چاہتے ہیں۔ "
"جی جی۔  فرمائیے۔ " وہ جلدی سے بولے۔
" چاہتے ہیں کہ زندگی کی سب سے بڑی تمنا پوری ہونے پر اپنے اللہ کا شکر اس کے گھر میں جا کر سجدہ ریز ہو کر ادا کریں۔ "
"اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو گی بیگم صاحبہ۔  آپ نے بہت اچھا سوچا۔ " ڈاکٹر ہاشمی واقعی متاثر ہوئے۔
"لیکن اگر ہم یہ چاہیں کہ اس متبرک سفر میں آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں تو۔۔۔ "
"میں حاضر ہوں بیگم صاحبہ۔ " ڈاکٹر ہاشمی کے چہرے پر پھول سے کھِلے۔  شاید یہ سفر ان کے اندر کی آواز تھا۔
"کوئی رکاوٹ تو مانع نہیں ہے۔ " بیگم صاحبہ نے پوچھا۔
"رکاوٹ کیسی بیگم صاحبہ۔  سرمد لندن میں ہے۔  ہاسپٹل کون سامیرے سینگوں پر کھڑا ہے، اسے سنبھالنے والے موجود ہیں۔  اور کوئی ایسی ذمہ داری ہے نہیں جو راستے کا پتھر بنے۔ "
"تو بس۔  "بیگم صاحبہ نے جیسے فیصلہ سنا دیا۔  " آپ انتظام کریں۔  اگلے ہفتے میں کسی بھی دن ہم دونوں بہن بھائی عمرے کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ "
"انشاء اللہ۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے بے ساختہ کہا۔
پھر وہ سلام کر کے رخصت ہو گئے اور بیگم صاحبہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔  ان کا رواں رواں اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو بیتاب تھا۔  کمرے میں داخل ہو کر انہوں نے دروازہ بند کر لیا اور اس وقت اگر وہاں کوئی سننے والا ہوتا تو سنتا کہ چند لمحوں بعد کمرے سے بھیگی بھیگی شکرانے کی صدائیں جو بلند ہوئیں تو ان کے سبب ہر طرف کیسا عاجزی اور انکساری کا دھیما دھیما نور پھیل رہا تھا۔
٭
کتنی ہی دیر گزر گئی۔
پھولوں کے بستر پر گھونگھٹ نکالے صفیہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔  طاہر اس کے پاس بستر کی پٹی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔ وقت یوں دبے پاؤں چل رہا تھا جیسے اسے وہم ہو کہ اس کی آہٹ ان لمحوں کو چونکا دے گی۔
کنکھیوں سے صفیہ نے طاہر کی جانب دیکھا اور بڑے غیر محسوس انداز میں پہلو بدلا۔  اسے الجھن ہونے لگی تھی۔
طاہر اس کے ہلنے پر چونکا۔  پھر اس کے چہرے پر خجالت کے آثار نمودار ہوئے۔  وہ سوچوں میں گم تھا اور نئی نویلی دلہن اس کی کسی بھی پیشرفت کے انتظار میں سوکھ رہی تھی۔  پہلو بدل کر اس نے گھونگھٹ میں چھپے چہرے پر ایک نگاہ ڈالی اور اس کا دل سینے میں اتھل پتھل ہونے لگا۔
بڑا عجیب اور جاں گسل لمحہ تھا۔  اسے گھونگھٹ اٹھانا تھا۔  اپنی باقی زندگی کے ساتھی کو دیکھنا تھا۔  اس سے باتیں کرنا تھیں۔  اسے کچھ بتانا تھا۔  اس سے کچھ پوچھنا تھا مگر اسے حوصلہ نہ ہو رہا تھا۔  سمجھ نہ آ رہی تھی کہ یہ سارے مراحل کیسے طے کرے؟
پھر اسے کچھ خیال آیا اور اس کے سینے سے جیسے بوجھ سا ہٹ گیا۔  بڑوں کی بنائی ہوئی رسمیں کبھی کبھار کتنا کام آتی ہیں ، دل ہی دل میں اسے اقرار کرنا پڑا۔
اس نے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چھوٹی سی نیلی مخملیں ڈبیا نکال کر کھولی۔  اندر نیلم جڑی وائٹ گولڈ رِنگ جگمگا رہی تھی۔
انگوٹھی نکال کر اس نے ڈبیا تپائی پر ڈالی اور دھڑکتے دل کے ساتھ بائیں ہاتھ سے صفیہ کا دایاں ہاتھ تھاما۔  اسے صفیہ کے ہاتھ میں واضح لرزش اور ایک دم در آنے والی تپش کا احساس ہوا۔  طاہر نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
"امی نے تو آپ کو منہ دکھائی دے دی۔  یہ میری طرف سے رونمائی کا تحفہ ہے۔ " کہتے ہوئے اس نے انگوٹھی اس کے ہاتھ کی درمیانی انگلی میں پہنا دی۔
صفیہ نے ہاتھ واپس کھینچنا چاہا۔  کھینچ نہ سکی۔ طاہر نے دھیرے سے اس کا ہاتھ چھوڑا تو اس کی جان میں جان آئی۔  اس نے ہاتھ دوبارہ کھڑے گھٹنوں پر رکھ لئے اور ان پر گھونگھٹ کر لیا۔  بے اختیار طاہر کو ہنسی آ گئی۔
" زندگی بھر گھونگھٹ میں رہنے کا ارادہ ہے کیا؟" اس نے بے تکلفی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا۔
جواب میں صفیہ کا بدن ذرا سا ہلا اور شرما کر اس نے سر اور جھکا لیا۔
"دیکھئے۔  اب تو ہم آپ کا دیدار کرنے کا پروانہ بھی آپ کے حوالے کر چکے ہیں۔  کیا اب بھی اجازت میں کوئی امر مانع ہے؟"
" آپ اتنے گاڑھے گاڑھے الفاظ کیوں بول رہے ہیں ؟" اچانک ایک مدھر آواز نے طاہر کے کانوں میں رس گھول دیا۔
"اتنی خوبصورت آواز۔ " بیساختہ اس کا دل پکارا۔  " اتنا حسین لہجہ۔ " وہ بے قرار سا ہو گیا۔
 آہستہ سے اس کے ہاتھ بڑھے اور چاند سے بدلی ہٹا دی۔
بے خودی نے طاہر کو جکڑ لیا۔  اس کی نگاہوں میں نشہ سا اترا اور سارے وجود میں پھیلتا چلا گیا۔ اس کے سامنے ایک انسانی چہرہ ہی تھا مگر اس پر کیسا حسن ضو فشاں تھا کہ جس نے طاہر کی رگ رگ میں مستی بھر دی۔  وہ عجب بہکے بہکے انداز میں صفیہ کے چہرے کو تکے جا رہا تھا۔  وہ اپنے گھٹنوں پر ٹھوڑی ٹکائے، آنکھیں بند کئے خاموش بیٹھی تھی۔  گلاب رنگ رس بھرے گداز ہونٹوں کے گوشے ہولے ہولے لرز رہے تھے۔  پلکیں تھرتھرا رہی تھیں اور رخسار شرم سے دہک رہے تھے۔
ساری ہچکچاہٹیں ، ساری بے حوصلگیاں دم توڑ گئیں۔  طاہر کی وارفتگی نے اسے بے بس کر دیا۔  اس نے چاہا کہ اس چاند چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اس کے ہونٹوں کا سارا رس پی جائے۔۔۔  مگر اسی وقت صفیہ کے ہاتھوں نے حرکت کی اور اس کا چہرہ دوبارہ گھونگھٹ میں چھپ گیا۔  طاہر کے بڑھتے ہوئے ہاتھ رک گئے اور ساتھ ہی اس کے حواس لوٹ آئے۔
ایک گہرا سانس لے کر اس نے اپنے تپتے جسم کی ناگفتنی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کی۔  پھر بستر پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
"اگر آپ مناسب سمجھیں تو تکلف کی یہ دیوار گرانے کی باہمی کوشش کی جائے۔ " ذرا دیر بعد اس نے کہا۔
جواب میں صفیہ خاموش رہی۔  ہوں نہ ہاں۔  طاہر نے چند لمحے انتظار کیا۔
"اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ یہ بدلی اپنے چاند چہرے سے ہٹا دیں۔ " وہ دونوں ہاتھ گود میں رکھتے ہوئے بولا۔
"پہلے آپ یہ مشکل مشکل الفاظ بولنا بند کریں۔ " صفیہ نے اپنی مست آواز سے طاہر کو پھر گرما دیا۔ ساتھ ہی جیسے وہ ہولے سے ہنسی۔  طاہر کے لبوں پر بھی مسکراہٹ ابھر آئی۔
"میں نے کوئی مشکل لفظ نہیں بولا۔  صرف آپ کے حسن کی تعریف کی ہے۔ " طاہر نے بے تکلفی کی جانب چھلانگ لگائی اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر صفیہ کا گھونگھٹ الٹ دیا۔
صفیہ اس اچانک حملے سے بے خبر تھی، اس لئے کچھ کر نہ سکی اور اس کی نظر سیدھی طاہر کے چہرے پر جا پڑی۔  دونوں کی نگاہیں ملیں اور چند لمحوں کے لئے وہ ایک دوسرے میں کھو کر رہ گئی۔  پھر صفیہ نے شرما کر نظر جھکا لی۔  طاہر کا دل سینے میں مچل کر رہ گیا۔  اس کے شرمانے کا انداز اسے اور بھی دلفریب لگا۔
" دیکھئے۔  یہ زیادتی ہے۔ " طاہر نے شکایتی لہجے میں کہا۔
جواب میں صفیہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے استفسارانہ انداز میں دیکھا۔
" آپ نے منہ دکھائی دیے بغیر ہی ہمیں دیکھ لیا۔ " طاہر نے کہا تو صفیہ کے چہرے پر قوسِ قزح کے لہریے پھیل گئی۔
" آپ بھی تو گھونگھٹ کے بغیر ہی آ بیٹھے۔ " دھیرے سے اس نے کہا اور طاہر کے ہونٹوں سے ایسا جاندار قہقہہ ابلا کہ صفیہ نے گھبرا کر بے اختیار دروازے کی جانب دیکھا۔  پھر دروازہ بند دیکھ کر جیسے اسے اطمینان ہو گیا۔
ایسی ہی چند اور باتوں نے کمرے کا ماحول تکلف کی قید سے آزاد کرا لیا اور تھوڑی دیر بعد دونوں ایک دوسرے کی ہلکی پھلکی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
دیوار گیر کلاک نے رات کے دو بجنے کا اعلان کیا تو دونوں چونکے۔ صفیہ نے لمحوں میں طاہر کو موہ لیا۔ وہ اس کی باتوں اور خیالات سے بہت متاثر نظر آ رہا تھا۔  کلاک نے دو بجائے تو انہیں رات کا آخری پہر شروع ہونے کا پتہ چلا۔  تبھی طاہر کو ایک دم سنجیدگی نے گھیر لیا۔  ایک بار پھر اس کا دل، دماغ سے الجھنے لگا۔  اس نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح اس خیال سے پیچھا چھڑا لے مگر گزشتہ وقت کے سائے اس کی سوچوں پر منڈلا رہے تھے۔  وہ کچھ دیر الجھا الجھا بیٹھا رہا۔  صفیہ اسے ایک دم خاموش ہوتا دیکھ کر خود بھی الجھن میں پڑ گئی۔  جب نہ رہ سکی تو بول اٹھی۔
" آپ کسی الجھن میں ہیں طاہر؟"صفیہ کی آواز اور استفسار نے طاہر کو حواس لوٹا دئیے۔  اس نے صفیہ کی جانب دیکھا اور بیچارگی سے سر ہلا دیا۔
"خیریت؟" صفیہ کا دل دھڑکا۔
"خیریت ہی ہے۔ " وہ ہولے سے بولا۔  پھر جی کڑا کر کے اس نے صفیہ کی آنکھوں میں دیکھا۔  " صفیہ۔  میں تم سے ایک دو خاص باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ "
"تو کیجئے ناں۔ اس میں الجھن یا اجازت کی کیا بات ہے۔ " وہ سنبھل کر بولی۔
"دیکھو صفیہ۔  " طاہر نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہنا شروع کیا۔  " آج سے پہلے ہم ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے۔  اب اتنے انجان نہیں ہیں جتنے چند گھنٹے پہلے تھے۔  آگے ایک پوری زندگی پڑی ہے جو ہمیں ساتھ ساتھ بِتانی ہے۔ " وہ رکا۔
"رکئے نہیں۔  کہتے رہئے۔ " صفیہ نے اسے حوصلہ دیا اور طاہر نے نظر جھکا کر کہنا شروع کیا۔
"کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ صرف اور صرف اعتماد کے دھاگے سے بندھا ہوتا ہے اور یہ دھاگہ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اسے بڑے سے بڑا جھٹکا بھی توڑ نہیں پاتا لیکن شک کا ہلکا سا احساس اس مضبوطی کو بودے پن میں تبدیل کر کے اس دھاگے کو توڑ دیتا ہے۔  اس رشتے کو ہوا کا بدبو دار جھونکا بنا دیتا ہے۔  اس لئے میں تم سے پوچھ لینا چاہتا ہوں کہ کیا مجھ سے تمہاری شادی تمہاری مرضی سے ہوئی ہے؟ اس بندھن میں کوئی زبردستی، کوئی مجبوری تو شامل نہیں ہے؟ یا یہ کہ۔۔۔ "
"میری زندگی میں آپ سے پہلے کوئی دوسرا مرد تو نہیں رہا۔ " صفیہ نے بات کاٹتے ہوئے اس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔
طاہر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔  کیسی آسانی سے صفیہ نے وہ بات کہہ دی تھی جو کہنے کے لئے وہ اب تک خود میں ہمت نہ پا رہا تھا۔ تمہیدیں باندھ رہا تھا۔
"یہی پوچھنا چاہتے ہیں ناں آپ؟" بڑے اطمینان سے اس نے پوچھا۔
جواب میں طاہر غیر محسوس انداز میں محض سر ہلا کر رہ گیا۔
"اگر میں کہوں کہ میرا جواب اثبات میں ہے تو؟" یکایک صفیہ نے جیسے طاہر کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی۔
"کیا مطلب؟" اس کے لبوں سے فوراً نکلا۔
"میں نے آپ کی طرح شاعری نہیں کی طاہر۔  سیدھے سادے الفاظ میں پوچھا ہے کہ اگر میری زندگی میں آج سے پہلے تک کوئی مرد رہا ہو، جس کا وجود صرف اس حد تک میری آج سے پہلے کی زندگی میں رہا ہو کہ وہ مجھے اور میں اسے پسند کرتی رہی ہوں اور بس۔۔۔ لیکن کسی وجہ سے میں اس کے بجائے آپ سے شادی کرنے پر مجبور ہو گئی اور اب میں یہ کہوں کہ آج کے بعد میری زندگی میں آپ کے سوا کوئی دوسرا مرد نہیں آئے گا تو آپ  کیا کہیں گے؟"
"پہلے یہ کہو کہ واقعی ایسا ہے یا تم صرف فرض کر رہی ہو؟" طاہر کی آواز بکھر سی گئی۔
" آپ یوں سمجھ لیں کہ میں جسے پسند کرتی تھی وہ بے وفا نکلا۔  اس نے کسی اور سے شادی کر لی۔  اب میں آپ سے شادی کرنے میں آزاد تھی اس لئے آپ کے عقد میں آ گئی۔  اس صورتحال میں آپ کیا کہیں گے؟"
"یعنی تم بھی اَن چھوئی نہیں ہو۔ " وہ تلخی سے بولا۔
"غلط۔ " ایک دم صفیہ ہتھے سے اکھڑ گئی۔  "ایسا بُرا اور زہریلا لفظ آپ نے زبان سے کیسے نکال دیا طاہر۔  میں نے صرف پسند کی بات کی ہے، تعلقات کی نہیں۔  اور آپ نے مجھے سیدھا کسی کی جھولی میں ڈال دیا۔ " اس کے لہجے میں احتجاج تھا۔
بات کا رخ ایسا ہو گیا کہ لگتا ہی نہ تھا کہ وہ دونوں زندگی میں پہلی بار ملے ہیں اور یہ ان کی سہاگ رات کے لمحات ہیں۔
"میرا وہ مطلب نہیں تھا جو تم نے سمجھ لیا۔ " طاہر سنبھلا۔ " تاہم میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اگر بات پسند کی حد تک بھی رہی ہو تو میں اسے سہنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ "
"پھر۔۔۔  " صفیہ کے لبوں پر تمسخر ابھرا۔  "پھر کیا کریں گے آپ، اگر یہ بات سچ ہی نکل آئے تو۔۔۔ ؟"
"میں۔۔۔  میں۔۔۔ " وہ گڑبڑا گیا اور بستر سے اٹھ گیا۔ اس کاسانس بے قابو ہو رہا تھا۔
"طلاق کا لفظ لبوں سے بغیر سوچے سمجھے نہ نکالئے گا طاہر۔  یہ سوچنے پر بھی لاگو ہو جاتی ہے۔ " صفیہ نے تیزی سے کہا۔
"پھر میں۔۔۔  میں کیا کروں ؟" وہ اس کی طرف پلٹا تو بے بسی اس پر پوری طرح حاوی ہو چکی تھی۔
"وہ بھی میں آپ کو بتاتی ہوں مگر پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجئے۔ " صفیہ بھی بستر سے اتر کر اس کے قریب چلی آئی۔
طاہر نے بجھی بجھی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔  دل کی دنیا ایک بار پھر تہہ و بالا ہو چکی تھی۔  بسنے سے پہلے ہی وہ ایک بار پھر برباد ہو گیا تھا۔
"جہاں تک میں سمجھ پائی ہوں آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ایسی شریک حیات چاہتے ہیں جو صرف اور صرف آپ سے منسوب ہو۔  جس کی زندگی میں آپ سے پہلے کوئی مرد نہ آیا ہو۔  پسند کی حد تک بھی اس کے خیالوں پر کسی کا سایہ نہ پڑا ہو۔ صاف صاف کہئے، ایسا ہی ہے ناں ؟"
"ہاں۔ " بڑی مشکل سے کہہ کر طاہر نے رخ پھیر لیا۔
"لیکن اس کے جواب میں آپ کی شریک حیات آپ سے بھی ایساہی مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے یا نہیں ؟"
"کیا مطلب؟" وہ ایک جھٹکے سے اس کی طرف پلٹا۔
"مطلب صاف ہے طاہر۔  اگر آپ اپنے لئے ایسی بیوی چاہتے ہیں جس کی زندگی میں کوئی مرد تصور کی حد تک بھی دخیل نہ رہا ہو تو وہ بیوی بھی تو اپنے لئے ایسا ہی مرد چاہ سکتی ہے جس کی زندگی میں پسند کی حد تک بھی کوئی لڑکی نہ داخل ہوئی ہو۔ "
طاہر کی آنکھوں میں بے یقینی کی کیفیت ابھری اور وہ صفیہ کو تکتا رہ گیا۔  اس بارے میں تو اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔
"کیا آپ خود بھی ایسے ہی ہیں طاہر، جیسا آپ مجھے دیکھنا چاہتے ہیں ؟"صفیہ نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
"میری زندگی میں۔۔۔ "
"جھوٹ مت بولئے گا طاہر۔  میاں بیوی کا رشتہ اعتماد کے ساتھ ساتھ سچ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور میں کسی اور کے بارے میں نہیں تو کم از کم زاہدہ کے بارے میں تو جانتی ہی ہوں۔ " صفیہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
طاہر کے سر پر جیسے بم ساپھٹا۔  اس کے حواس مختل ہو گئی۔ وہ حیرت اور خجالت بھری نظروں سے صفیہ کو دیکھتا رہ گیا، جو کہہ رہی تھی۔
"اس کے باوجود میں نے آپ سے شادی کے لئے ہاں کہہ دی۔ جانتے ہیں کیوں ؟" وہ ہولے سے مسکرائی۔ " صرف اس لئے کہ انکل ہاشمی نے مجھے آپ کے اور زاہدہ کے بارے میں ایک ایک سچ بتا دیا تھا۔  اس میں آپ بے قصور تھے۔  اور وہ بھی۔  حالات نے جو تانا بانا بُنا اس میں آپ دونوں الجھ کر رہ گئے۔  جب الجھنوں کے بادل چھٹے تو وہ اپنی منزل پر تھی اور آپ نے تو ابھی سفر شروع ہی نہیں کیا تھا۔ مجھے لگا کہ اس صورتحال میں اگر میں آپ کی ہمسفر ہو جاؤں تو آپ کی تنہائی آسان ہو جائے گی اور میرا فیصلہ مجھے کبھی پچھتاوے کی آگ سے آشنا نہیں کرے گا۔  اور اس کی بہت بڑی اور شاید ایک ہی وجہ تھی میرے پاس۔ "
"وہ کیا؟" بے اختیار طاہر نے پوچھا۔
"صرف یہ کہ۔۔۔ " وہ پل بھر کو مسکرائی۔ "میری زندگی میں پسند کی حد تک بھی کوئی مرد کبھی داخل ہی نہیں ہو پایا۔ " وہ بڑے اطمینان سے کہہ گئی۔
طاہر کو لگا جیسے اسے بھرے بازار میں بے عزت کر دیا گیا ہو۔  اس کا سر جھک سکا نہ اٹھ سکا۔
"اس کی بھی ایک وجہ تھی۔  امی اور ابو کے بعد ممانی نے مجھے اپنی بیٹیوں کی طرح پالا اور گھر سے باہر جاتے ہوئے ایک بات کہی کہ بیٹی، زندگی میں ایک دن آتا ہے جب مرد، عورت کی زندگی میں کسی طوفان کی طرح داخل ہوتا ہے یا پھر بہار کے جھونکے کی طرح۔  شادی سے پہلے آنے والا مرد اکثر طوفان کی مثل آتا ہے جو اپنے پیچھے صرف اور صرف بربادی چھوڑ جاتا ہے۔  ایسی بربادی جو اگر جسم کو پامال نہ بھی کرے تو روح پر اپنی خراشیں ضرور ڈالتی ہے۔  جسم کے زخم بھر جاتے ہیں لیکن روح کے گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوتے اور اس بربادی کی یادیں عورت کو کبھی اپنے شوہر سے پوری طرح وفادار نہیں ہونے دیتیں۔  اور شوہر، عورت کی زندگی میں اس بہار کے جھونکے کی طرح آتا ہے جسے جلد یا بدیر آنا ہی ہوتا ہے، کہ اس کے ساتھ عورت کا جوڑا اس کے دنیا میں آنے سے پہلے آسمانوں پر بن چکا ہوتا ہے۔  اس جھونکے کا انتظار ذرا کٹھن ضرور ہوتا ہے مگر بیٹی۔  یہ اپنے ساتھ آبادی، سکون اور محبتیں لے کر آتا ہے۔  اس لئے کوشش کرنا کہ تم اس انتظار سے سانجھ پیدا کر سکو۔  میرا تم پر نہ کوئی زور ہے نہ میں تم پر نگاہ رکھوں گی۔  میں تم پر اعتماد بھی کر رہی ہوں اور تمہیں پوری آزادی بھی دے رہی ہوں کیونکہ تم جاہل ہو نہ غلام۔ طوفان سے آشنائی میں تمہارا بھلا ہے یا بہار کے انتظار میں۔  یہ فیصلہ اب تمہیں کرنا ہے۔  میں اس لئے بھی یہ اعتبار کا کھیل کھیل رہی ہوں کہ مجھے اپنی تربیت کا امتحان مقصود ہے۔ "
صفیہ ذرا رکی۔  چمکتی ہوئی آنکھوں سے دم بخود کھڑے طاہر کی طرف دیکھا اور پھر گویا ہوئے۔
"میں نے اس بات پر زیادہ غور نہیں کیا طاہر۔  بس یہ سوچ لیا کہ جب کسی ایک مرد سے واسطہ ہونا ہی ہے تو پھر وہ میرا اپنا شوہر ہی کیوں نہ ہو۔  کوئی غیر کیوں ہو؟ ایسا مرد کیوں ہو جس سے دائمی بندھن باندھنے کا موسم بعد میں آئے اور طوفان کا خطرہ ہر وقت اس کے خیال کے ساتھ بندھا رہے۔  میں اس سے کیوں نہ آشنائی رکھوں جس کے ساتھ میرا جنم جنم کا بندھن پہلے بندھے اور جب وہ آئے تو میرے دامن میں ڈالنے کے لئے بہاریں ساتھ لے کر آئے۔  بس یہ سوچا اور میں نے اپنی ساری توجہ صرف اپنی تعلیم پر مرکوز کر دی۔  اب اس دوران مجھے کسی نے پسندیدہ نظر سے دیکھا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی، بہرحال میں نے اس طرف اپنے کسی خیال کو بھی کبھی نہ جانے دیا۔ مگر لگتا ہے آپ کو میری باتوں پر یقین نہیں آیا۔ " صفیہ کے لبوں پر بڑی عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔
طاہر تھرا کر رہ گیا۔  اسے ہوش سا آ گیا۔  شرمندگی اس کے روئیں روئیں سے پسینہ بن کر ابلی پڑ رہی تھی۔  سردیوں کی رات اس کے لئے حبس کی دوپہر بن گئی تھی۔
"میں۔۔۔  میں۔۔۔ " آواز طاہر کے گلے میں درد کا گولہ بن کر پھنس گئی۔
"میں آپ کی مشکل آسان کر دیتی ہوں طاہر۔ " صفیہ کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہو گئی۔  "کہتے ہیں کہ انسان اپنی عزیز ترین شے کی جھوٹی قسم کھائے تو وہ چیز اس سے چھن جاتی ہے۔  میرا جی تو چاہ رہا ہے کہ میں آپ کی قسم کھاؤں کیونکہ میں جھوٹ نہیں بول رہی لیکن آپ کو یقین دلانے کے لئے میں اپنی جان کی قسم کھاتی ہوں کہ کسی کو بھی اپنی جان سے زیادہ پیارا کچھ نہیں ہوتا۔  میں قسم کھاتی ہوں کہ میں نے جو کہا سچ کہا، سچ کے سوا کچھ نہیں کہا می لارڈ۔ " اس کا دایاں ہاتھ یوں بلند ہو گیا جیسے وہ عدالت میں حلف دے رہی ہو۔  " اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کا قہر نازل ہو اور صبح کا سورج مجھے زندہ۔۔۔ "
"بس۔۔۔  بس۔ " طاہر نے لپک کر اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔  "جو منہ میں آ رہا ہے، کہے جا رہی ہو۔  " اس نے صفیہ کو بازوؤں میں بھرکر اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔  اس کے بالوں میں چہرہ چھپایا اور پھٹ پڑا۔  " اک ذرا سی بات کو آتش فشاں بنا دیا ہے تم نے۔  ایک زخمی دل کا مالک ہوں میں۔  اگر تم سے مرہم مانگ لیا تو کون سی قیامت آ گئی جو تم مجھے یوں بے ستر کئے دے رہی ہو۔ "
" آپ نے کم نشتر چلائے ہیں کیا؟" صفیہ کی آواز بھیگ گئی۔ " اپنی عزت کو دوسرے کے ساتھ منسوب کر دیا۔ "
"میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا تھا۔  پھر بھی مجھے معاف کر دو۔ " اس نے اپنی گرفت اور سخت کر دی۔
"کبھی نہیں۔  ہر گز نہیں۔ " وہ مچل گئی۔
"صفو۔ " طاہر نے التجائیہ سرگوشی کی۔
"ایک شرط پر۔ " وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے بولی۔
"کیا؟" طاہر نے اس کے پھیلتے کاجل کو نظروں سے چوم لیا۔
"غدر مچانے کے آغاز میں آپ نے پوچھا تھا کہ میں کیا کروں ؟"
"تو۔۔۔ ؟" طاہر کا لہجہ سوالیہ ہو گیا۔
"میں نے کہا تھا کہ یہ بھی میں آپ کو بتاتی ہوں کہ آپ کیا کریں۔  یاد ہے؟"
"بالکل یاد ہے۔ "
"تو شرط یہ ہے کہ جو میں کہوں گی آپ کریں گی۔  بولئے منظور ہے؟"وہ شاید طاہر کا امتحان لے رہی تھی مگر طاہر اب کوئی رسک لینے کو تیار نہ تھا۔
" مجھے سنے بغیر ہی منظور ہے۔ " اس نے جلدی سے کہا۔
"نہیں۔  پہلے سن لیجئے۔  ہو سکتا ہے بعد میں آپ سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔  "
"جلدی سے کہہ ڈالو، جو کہنا ہے تمہیں۔ " طاہر بے صبرا ہو گیا۔
"تو می لارڈ۔  مجھ پر، اپنی شریک حیات پر، جس کے آپ مجازی خدا ہیں ، اعتماد کیجئے۔  اندھا نہ سہی، دیکھ بھال کر ہی سہی لیکن اعتماد ضرور کیجئے تاکہ میں اس بہار کی آمد کو محسوس کر سکوں جس کے انتظار میں ، جس کی امید میں مَیں نے زندگی کے بائیس برس اندھی، بہری بن کر گزار دئیے۔ "
"کیا مجھے زبان سے کہنا پڑے گا کہ میں اب تم پر ویسے ہی اعتماد کرتا ہوں جیسے خود پر۔ " طاہر نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
" اگر آپ کو خود پر اعتماد ہوتا تو ہماری پہلی ہی ملاقات یوں بادِ سموم کا شکار نہ ہوتی۔ " صفیہ کا لہجہ شکایتی ہو گیا۔ "اچھا تو یہ ہے کہ مجھ سے پہلے خود پر، اپنے جذبوں پر اعتماد کرنا سیکھئے طاہر۔ ورنہ یہ کج بحثیاں زندگی کا معمول بن جائیں گی۔ "
"ایسا کبھی نہیں ہو گا۔  میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔ " طاہر کا لہجہ بدل گیا۔  ایک عزم سا جھلکا اس کی آواز میں۔
"کیا میں اس پر یقین کر لوں ؟" صفیہ نے براہ راست طاہر کی آنکھوں میں جھانکا۔  
"ہوں۔ " طاہر نے بیباکی سے اس کی نظروں کا سامنا کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
"تو جائے۔  ہم نے آپ کو معاف کیا۔ " صفیہ نے ایک شانِ بے نیازی سے کہا اور ایک دم اس کے قدموں پر جھک گئی۔ "میرے مجازی خدا ہیں آپ۔  لیکن کبھی میری ایسی آزمائش نہ لیجئے گا کہ جس میں پوری نہ اتر سکوں۔ "
"صفو۔ " طاہر تڑپ کر جھکا اور اسے بازوؤں سے تھام کر اٹھایا۔  نجانے کب سے رکے ہوئے آنسو صفیہ کی پلکوں تک آ گئے تھے۔ "بس۔  یہ پہلے اور آخری نمکین قطرے ہیں جو تمہاری آنکھوں سے چھلک پڑے۔  دوبارہ کبھی نہیں۔ کبھی نہیں۔ "
کسی ہلکی پھلکی گڑیا کی طرح اس نے صفیہ کو بازوؤں میں اٹھا کر پھولوں کی سیج کی طرف قدم بڑھا دیے اور صفیہ نے شرما کر اس کے سینے میں چہرہ چھپا لیا۔
*  *  
صفیہ اور طاہر کی شادی کو پندرھواں دن تھا جب بیگم صاحبہ اور ڈاکٹر ہاشمی عمرے کے لئے روانہ ہو گئے۔
محرم کے طور پر بیگم صاحبہ نے اپنا ایک یتیم بھانجا اعجاز ساتھ لے لیا۔  فرسٹ ایئر کا طالب علم اعجاز انہی کی زیرِ کفالت تھا۔ ڈاکٹر ہاشمی مردانہ گروپ میں انہی کے ساتھ مگر ان سے الگ اپنے طور پر سفر کر رہے تھے۔  دورانِ سفر ان کا رابطہ بیگم صاحبہ سے اعجاز ہی کی معرفت رہنا تھا   کیونکہ بیگم صاحبہ کے لئے وہ اس مقدس سفر کے حوالے سے بہرحال نامحرم تھے۔
انہیں ائرپورٹ پر خدا حافظ کہہ کر وسیلہ خاتون اور صفیہ طاہر کی کار میں واپس لوٹ رہے تھے کہ راستے میں وسیلہ خاتون کا موبائل گنگنا اٹھا۔
"ہیلو۔  " انہوں نے کال اٹنڈ کی۔ "کون سرمد بیٹا؟" ایک دم ان کے چہرے پر بشاشت پھیل گئی۔ کیسے ہو تم؟"
ذرا دیر وہ سرمد کی بات سنتی رہیں۔  گردن گھما کر انہیں دیکھتی ہوئی صفیہ نے صاف محسوس کیا کہ دوسری طرف سے جو کہا جا رہا ہے اس کا ردِ عمل وسیلہ خاتون کے چہرے پر اضطراب کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ طاہر خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔  
"ڈاکٹر ہاشمی کے بیٹے سرمد کا فون ہے ناں ؟" اس نے روا روی میں پوچھا۔
"جی ہاں۔  میں تو اسی ایک ہی سرمد کو جانتی ہوں۔ " صفیہ اس کی جانب متوجہ ہو کر ہولے سے مسکرائی۔ "پورا ایک سال میں اس سے ٹیوشن لیتی رہی ہوں۔ اس طرح میں اس کی شاگرد بھی ہوں۔  آپ کے ساتھ تو بڑی بے تکلفی ہو گی اس کی؟"
"نہیں۔ " طاہر نے نفی میں سر ہلایا۔  " بس علیک سلیک اچھی خاصی کہہ سکتی ہو۔  اس سے زیادہ نہیں۔  ڈاکٹر ہاشمی ہمارے فیملی ممبر جیسے ہیں تاہم سرمد چونکہ زیادہ تر اپنی بیرون ملک تعلیم میں محو رہا اس لئے اس کے ساتھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا۔ ہماری شادی میں بھی وہ اسی لئے شریک نہیں تھا کہ ان دنوں وہ لندن میں ایم بی اے کر رہا ہے۔ "
"طاہر بیٹی۔ " اسی وقت وسیلہ خاتون کی آواز نے ان کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان دونوں کو پتہ ہی نہ چلا کہ کب انہوں نے سرمد سے گفتگو کا سلسلہ ختم کیا۔ "مجھے گھر پر اتار دینا۔ "
"جی نہیں آنٹی۔  آپ ہمارے ساتھ چل رہی ہیں۔  جب تک امی واپس نہیں آ جاتیں ، آپ وہیں رہیں گی۔ "طاہر نے جواب دیا۔
"ارے نہیں بیٹا۔ " وہ جلدی سے بولیں۔  "گھر بالکل اکیلا ہے اور زمانہ چوری چکاری کا ہے۔ "
" آپ کے پاس جو سب سے قیمتی شے تھی، وہ تو آپ نے مجھے دے ڈالی آنٹی۔  اب کس چیز کی چوری کا اندیشہ ہے ؟" طاہر نے دزدیدہ نگاہوں سے صفیہ کی جانب دیکھا۔ 
صفیہ کے رخ پر شرم نے سرخی بکھیر دی۔  اس نے حیا آلود مسکراہٹ کے ساتھ طاہر کے بازو پر چٹکی لی اور منہ پھیر لیا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہو بیٹے۔ " وسیلہ خاتون کے لبوں سے نکلا۔  "لیکن میرا گھر پر رہنا ضروری ہے۔  ہاں اگر تم محسوس نہ کرو تو ایک آدھ دن کے لئے صفیہ کو میرے پاس چھوڑ دو۔ "
"ایک آدھ دن کی بات ہے تو کوئی حرج نہیں آنٹی۔ " طاہر نے گاڑی ان کے گھرکو جانے والی سڑک پر موڑ دی۔ " ابھی میں اسے آپ کے ہاں چھوڑ جاتا ہوں۔  رات کا کھانا آپ کے ساتھ کھاؤں گا اور اس کے بعد ہم اپنے گھر چلے جائیں گے۔  رات کو رکنے سے معذرت۔ "
"اللہ تم دونوں کو یونہی آباد اور خوش رکھے بیٹا۔ " وسیلہ خاتون نے تشکر سے کہا۔  "یہ تمہاری محبت ہے اور میں اس میں دخل دینا پسند نہیں کروں گی۔  رات کو تم لوگ بیشک واپس چلے جانا۔ "
"شکریہ آنٹی۔ " طاہر نے گاڑی وسیلہ خاتون کے گھر کے سامنے روک دی۔
" آپ اندر تو آئیے۔  باہر ہی سے رخصت ہو جائیں گے کیا؟" صفیہ نے اترنے سے پہلے اس کی جانب دیکھ کر کہا۔
"نہیں۔  میں ذرا آفس کا چکر لگاؤں گا۔  شام کو آؤں گا تو تینوں گپ شپ کریں گے۔ " طاہر نے مسکرا کر کہا۔ " اس وقت دس بجے ہیں۔  شام تک آنٹی سے جی بھر کر باتیں کر لو۔  رات کو ہمیں گھر لوٹ جانا ہے۔ " وہ انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کرنے کے انداز میں یوں بولا، جیسے وعدہ لے رہا ہو۔
وسیلہ خاتون "شام کو جلدی آ جانا بیٹے" کہہ کر پچھلی سیٹ سے اتر گئیں۔  صفیہ اسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھتی ہوئی گاڑی سے نکلی اور گھر کے دروازے پر کھڑی تب تک اسے ہاتھ ہلا تی رہی، جب تک اس کی گاڑی موڑ نہ مڑ گئی۔
٭
"ممانی۔ " صفیہ نے وسیلہ خاتون کے سامنے بیٹھتے ہوئے ایک پل بھی صبر نہ کیا اور بول پڑی۔  "کیا بات ہے؟ میں دیکھ رہی ہوں کہ سرمد کے فون نے آپ کو پریشان کر دیا ہے۔  کیا کہہ رہا تھا؟ خیریت سے تو ہے ناں وہ؟"
"بتاتی ہوں بیٹی۔ " وسیلہ خاتون نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔  " تم ذرا مجھے پانی پلاؤ۔ "
صفیہ اٹھی اور پانی کا گلاس لے آئی۔  وسیلہ خاتون نے پانی پیا۔  شال کے پلو سے ہونٹ خشک کئے اور گلاس تپائی پر رکھ دیا۔
"اب جلدی سے کہہ دیجئے ممانی۔  میرا دل گھبرا رہا ہے۔ " صفیہ ان کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔
"صفیہ۔  پہلے مجھے ایک بات بتاؤ بیٹی۔ " وسیلہ خاتون نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔  "حالانکہ مجھے یہ بات پوچھنا نہیں چاہئے کیونکہ مجھے تم نے کبھی ایساکوئی اشارہ تک نہیں دیا پھر بھی اپنا وہم دور کرنے کو پوچھ رہی ہوں۔ " وہ رک گئیں۔
"پوچھئے ممانی۔ جھجکئے مت۔ " صفیہ نے ان کا ہاتھ تھپکتے ہوئے محبت سے کہا۔
"بیٹی۔  کیا سرمد تمہیں پسند کرتا تھا؟" انہوں نے صفیہ کی طرف دیکھا۔
"مجھے؟" صفیہ حیران سی ہو گئی۔ "مگر یہ بات اب کیوں پوچھ رہی ہیں ممانی؟جب پوچھنا چاہئے تھی تب تو آپ نے کسی کا نام لے کر نہ پوچھا۔  صرف یہ پوچھا تھا کہ کیا میں کسی کو پسند کرتی ہوں ؟ میں نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا تھا اور آپ نے طاہر کے ساتھ میرے نام کی گرہ باندھ دی۔  اب اس سوال کا کیا موقع ہے؟"
"یہی بات تو مجھے الجھن میں ڈال رہی ہے صفیہ بیٹی۔  تم اسے پسند نہیں کرتی تھیں مگر وہ تمہیں پسند کرتا تھا۔  یہی بات اس نے آج مجھے فون پر کہی۔ "
"کیا؟" صفیہ نے حیرت سے کہا اور اس کا رنگ فرق ہو گیا۔ "ممانی۔  یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟"
"میں ٹھیک کہہ رہی ہوں صفیہ بیٹی۔  گاڑی میں اس سے کھل کر بات نہیں کی میں نے۔  وہاں طاہر بھی تھا۔  ڈاکٹر صاحب نے شاید اسے بتایا نہیں کہ تمہاری اور طاہر کی شادی ہو چکی ہے۔  "
"یہ اسے بتانے والی بات تھی بھی تو نہیں ممانی۔ " صفیہ حواس میں لوٹ آئی۔  "لیکن وہ کہہ کیا رہا تھا؟"
"یہ کہ اس کا رزلٹ آؤٹ ہو گیا ہے۔  وہ پندرہ بیس دن میں پاکستان آ رہا ہے اور آتے ہی ڈاکٹر ہاشمی کو میرے پاس تمہارا ہاتھ مانگنے کے لئے بھیجے گا۔ "
"نہیں۔ " صفیہ پوری جان سے لرز گئی۔  "ممانی۔  یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ اسے روکئے۔  میرا گھر۔۔۔  میرا گھر۔ " اس کا گلا رندھ گیا۔  بات ادھوری رہ گئی۔
"صفیہ۔  "وسیلہ خاتون گھبرا گئیں۔  "بیٹی۔  اس میں ایسی پریشانی کی کیا بات ہے۔  میں نے اسے کہا تھا کہ اس وقت میں بازار میں ہوں۔  وہ مجھے آدھ گھنٹے بعد فون کرے۔  ابھی اس کا فون آئے گا تو میں اسے ساری بات کھل کر بتا دوں گی کہ تمہاری شادی طاہر سے ہو چکی ہے۔  اصل بات یہی ہے کہ اسے تمہاری اور طاہر کی شادی کے بارے میں علم نہیں ہے۔  جب اسے پتہ چلے گا تو وہ معاملے کو یہیں ختم کر دے گا۔  وہ ایک شریف زادہ ہے۔  مجھے اس سے کسی غلط ردِ عمل کی توقع نہیں ہے۔  تم پریشان نہ ہو۔ اگر بات کرنا پڑی تو میں ڈاکٹر صاحب سے بھی کروں گی۔ "
"بات معمولی نہیں ہے ممانی۔ " صفیہ نے آنکھیں خشک کیں اور وسیلہ خاتون کو اس ساری گفتگو کے لب لباب سے آگاہ کر دیا جس سے طاہر کے ساتھ سہاگ رات کی شروعات ہوئی تھی۔
" اب بتائیے۔ " اس نے آخر میں کہا۔  "اگر طاہر کو معلوم ہو گیا کہ سرمد مجھے پسند کرتا ہے تو۔۔ ؟" وہ بات ادھوری چھوڑ کر ہونٹ کاٹنے لگی۔  بے بسی اور پریشانی نے اس کا رنگ روپ لمحوں میں کملا دیا تھا۔
"تم حوصلے سے کام لو بیٹی۔ " وسیلہ خاتون نے اس کی ہمت بندھائی۔ " اول تو یہ بات طاہر تک پہنچے گی نہیں۔  اسے کون بتائے گا؟ میں یا تم؟اور سرمد بھی اس کے سامنے زبان کھولنے سے رہا۔ اور بالفرض ایسا ہو بھی گیا تو طاہر کو یہ سوچنا ہو گا کہ سرمد تمہیں چاہتا ہے نہ کہ تم سرمد کو۔ "
"یہ بات طاہر کو سمجھانا اتنا آسان نہیں ہے ممانی۔ " صفیہ پھیکے سے انداز میں مسکرائی۔  
"اول تو ایسا موقع نہیں آئے گا بیٹی اور آ گیا تو میں خود طاہر سے بات کروں گی۔ " وسیلہ خاتون نے اسے تسلی دی۔
"نہیں ممانی۔ ہر گز نہیں۔ " صفیہ نے گھبرا کر کہا۔  " یہ غضب نہ کیجئے گا۔  بات بگڑ جائے گی۔  میں خود ہی اس الجھن کو سلجھانے کی کوئی راہ نکالوں گی۔  آپ پلیز کبھی طاہر سے اس بارے میں کوئی بات نہ کیجئے گا۔ "
"بیٹی۔ " وسیلہ خاتون نے اسے سینے سے لگا لیا۔  "یہ تم کس مصیبت میں آ گئیں ؟"صفیہ نے ان کے سینے سے لگ کر آنکھیں موند لیں اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔
اسی وقت پاس تپائی پر پڑے فون کی بیل ہوئی۔  پٹ سے چونک کر صفیہ نے آنکھیں کھول دیں۔  وسیلہ خاتون بھی ادھر متوجہ ہوئیں۔  سکرین پر سرمد کا موبائل نمبر ابھر چکا تھا۔  اس بار اس نے موبائل کے بجائے گھر کے نمبر پر رِنگ کیا تھا۔
"ممانی۔ " گھبرا کر صفیہ نے وسیلہ خاتون کی جانب دیکھا۔
"شش۔ " انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اسے خود سے الگ کر دیا۔  وہ سیدھی ہو بیٹھی۔  " صرف سننا۔  درمیان میں ہر گز بولنا نہیں۔ " انہوں نے کہا اور چوتھی بیل پر وائس بٹن دبا کر ریسیور اٹھا لیا۔  اب سرمد کی ساری گفتگو صفیہ بھی سن سکتی تھی۔
"ہیلو آنٹی۔ " وسیلہ خاتون کے ریسیور اٹھاتے ہی سرمد کی بیتاب آواز ابھری۔
"ہاں سرمد بیٹے۔  میں بول رہی ہوں۔ " انہوں نے بیحد سنجیدگی سے کہا۔  کوئی اضطراب یا پریشانی لہجے سے ہویدا نہ تھی۔ البتہ پیشانی پر ایک ہلکی سی شکن ضرور ابھر آئی تھی۔
"جی آنٹی۔ میں آپ سے صفیہ کے بارے میں بات کر رہا تھا؟" سرمد کے لہجے میں اشتیاق کروٹیں لے رہا تھا۔  
"کہو بیٹے۔  کیا کہنا چاہتے ہو؟" وسیلہ خاتون نے بڑے اطمینان سے پوچھا۔
" آنٹی۔  تفصیلی بات تو آپ سے ابو کریں گے۔  اس وقت تو میں آپ سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ابو آپ کے پاس صفیہ کا میرے لئے ہاتھ مانگنے آئیں تو۔۔۔ "
وہ رکا تو وسیلہ خاتون کے ماتھے کی شکن ذرا گہری ہو گئی۔  انہوں نے صفیہ کی جانب دیکھا جو سرمد کی آواز صاف صاف سن رہی تھی اور اس کا دل سینے میں یوں دھک دھک کر رہا تھا جیسے کوئی روڑی کوٹ رہا ہو۔
"ہاں ہاں۔  رک کیوں گئے سرمد۔  بات مکمل کرو بیٹا۔ " وسیلہ خاتون بولیں۔
"بس آنٹی۔  یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اس رشتے پر کوئی اعتراض تو نہیں ؟"
"اس بات کا جواب تو میں بعد میں دوں گی بیٹی۔  پہلے یہ بتاؤ کیا صفیہ بھی تمہیں پسند کرتی ہے؟" ان کا لہجہ بڑا ٹھہرا ہوا تھا۔
" آنٹی۔ " ایک دم سرمد کی آواز میں اضطراب امنڈ آیا۔  "یہ تو میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ صفیہ مجھے پسند کرتی ہے ؟ تاہم یہ جانتا ہوں کہ وہ مجھے ناپسند نہیں کرتی۔ "
"پسند یا ناپسند کرنا ایک الگ بات ہے بیٹے اور زندگی کے ساتھی کی حیثیت سے کسی کو چُن لینا اور بات۔  تم صفیہ کو اس نظر سے دیکھتے اور پسند کرتے ہو لیکن کیا اس نے بھی کبھی تمہیں اس نظر سے دیکھا ہے یا اس کی کسی بات سے ایسا ظاہر ہوا ہے کہ وہ تم سے شادی کرنے میں انٹرسٹڈ ہے؟ ذرا سوچ کر جواب دینا بیٹے۔ "
"نہیں آنٹی۔ " سرمد نے صاف صاف کہا۔  " صفیہ نے کبھی کوئی اشارتاً بھی مجھے ایسا رسپانس نہیں دیا جس سے پتہ چلے کہ وہ مجھے اس حوالے سے پسند کرتی ہے۔ "
"الحمد للہ۔ " بے اختیار وسیلہ خاتون کے لبوں سے نکلا اور ان کے ماتھے کی شکن نے دم توڑ دیا۔
"جی آنٹی۔ " سرمد چونکا۔  "کیا کہا آپ نے؟"
"میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ہے بیٹی۔ " انہوں نے کھینچ کر صفیہ کو اپنے ساتھ لگا لیا، جو کسی ننھی بچی کی طرح ان کے پہلو میں سمٹ کر یوں بیٹھ گئی جیسے اسے پناہ گاہ میسر آ گئی ہو۔
"جی۔ " وہ جیسے کچھ بھی نہ سمجھا۔
"تو بیٹی۔  بات صاف ہو گئی کہ تم یک طرفہ طور پر صفیہ کو پسند کرتے ہو۔ "
"جی آنٹی۔  ایسا ہی سمجھ لیں۔ " وہ ادب سے بولا۔
"اگر ایسی ہی بات تھی تو تم نے یہاں ہوتے ہوئے کیوں اس بات کو نہ چھیڑا بیٹے؟"
"ابو چاہتے تھے کہ میں ایم بی اے سے پہلے کسی ایسی بات میں نہ الجھوں جو میری تعلیم میں رکاوٹ بنے آنٹی۔  اسی لئے میں اب تک خاموش رہا۔ "
"لیکن کیا تم نے ڈاکٹر صاحب پر اپنی پسند کا اظہار کیا ؟ اشارتاً ہی سہی۔ "
"جی نہیں آنٹی۔ " وہ صاف گوئی سے بولا۔  "میں اس سے پہلے آپ کا عندیہ چاہتا ہوں۔  اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تومیں ان سے بات کروں۔ "
"اور اگر مجھے اس رشتے پر اعتراض ہو تو۔۔۔ ؟"
"جی۔ " سرمد جیسے بھونچکا رہ گیا۔  "میں سمجھا نہیں آنٹی۔ "
"تم نے بہت دیر کر دی بیٹی۔ " وسیلہ خاتون کا لہجہ گمبھیر ہو گیا۔  "صفیہ کی شادی ہو چکی ہے۔ "
"جی۔ " سرمد چونک کر بولا۔  "کب آنٹی؟"
"اسی مہینے کے آغاز میں۔ " انہوں نے دھیرے سے کہا۔
"او۔۔۔۔ ہ" سرمد کے لہجے میں تاریکی سی چھا گئی۔  " آنٹی۔۔۔ " وہ اس سے زیادہ کہہ نہ سکا۔
"تم نے خود دیر کر دی بیٹی۔  اگر تم جانے سے پہلے اپنے ابو سے بات کرتے تو شاید تمہاری آج کی مایوسی جنم نہ لیتی۔ "
جواب میں سپیکر پر سرمد کے گہرے گہرے سانسوں کی بازگشت کے سوا کچھ سنائی نہ دیا۔  وسیلہ خاتون بھی خاموش رہیں۔ کتنی ہی دیر بعد دوسری جانب سے ایک شکستہ سی آواز ابھری۔
"مقدر آنٹی۔۔۔  مقدر۔۔۔ میں اس کے سواکیا کہہ سکتا ہوں۔  بہر حال اب کیا ہو سکتا ہے؟ یہ کہئے صفیہ کی شادی کس سے ہوئی اور کیا اس میں اس کی پسند بھی شامل تھی؟"
"یہ ارینج میریج تھی سرمد۔  اور بیگم وجاہت کے بیٹے طاہر سے صفیہ کی شادی ہوئی ہے۔ "
"کیا؟" سرمد پر حیرت کا ایک اور حملہ ہوا۔ "طاہر سے؟"
"ہاں۔  لیکن تم اس پر اتنے حیران کیوں ہو سرمد؟" وسیلہ خاتون چونکیں۔
"کچھ نہیں آنٹی۔ " وہ سنبھل گیا۔  " ایسے ہی بس۔۔۔ "
"شاید دونوں خاندانوں کا سطحی فرق تمہیں حیران کر رہا ہے بیٹی۔ " وہ ہنسیں۔
"جی آنٹی۔ " سرمد خجل سا ہو گیا۔  "شاید یہی بات ہے۔ "
"شاید نہیں۔  یقیناً یہی بات ہے سرمد بیٹی۔  تاہم یہ بتا دوں کہ یہ شادی بیگم صاحبہ کی پسند اور اصرار پر ہوئی ہے۔  اور اب میری تم سے ایک درخواست ہے۔ "
" آپ حکم دیجئے آنٹی۔ " سرمد نے دھیرے سے کہا۔
"بیٹا۔ عورت کی ازدواجی زندگی کانچ کا گھر ہوتی ہے جو شک کے سنگریزے کی ضرب بھی سہہ نہیں پاتا۔  میں چاہوں گی کہ صفیہ کے بارے میں تمہارے خیالات کبھی صفیہ یا طاہر تک نہ پہنچیں بیٹی۔  یہ ایک ماں کی التجا ہے۔ "
" آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں آنٹی۔  آپ نے مجھ میں بازاری آدمیوں جیسی کیا بات دیکھی ہے جو آپ نے ایسا سوچا۔  "
"یہ بات نہیں ہے بیٹے۔ " وسیلہ خاتون نے کہنا چاہا۔
"میں سمجھتا ہوں۔  آپ کے اندیشے درست ہیں مگر میں ڈاکٹر ہاشمی کا خون ہوں آنٹی۔  نجابت کیا ہوتی ہے، اس کا پاس رکھنا ہو گا مجھے۔  آپ بے فکر رہئے۔  میرے لبوں پر کبھی ایسی کوئی بات نہیں آئے گی جو صفیہ کو دُکھ دے یا اس کی زندگی میں گرداب پیدا کر دے۔ "
"شکریہ سرمد۔  " وسیلہ خاتون کی آواز بھرا گئی۔  " تم نے میرا مان رکھ لیا۔  میں تمہارے لئے ہمیشہ دعا گو رہوں گی۔ "
"اچھا آنٹی۔ " سرمد کے لبوں سے آہ نکلی۔  "میری تمنا ہے صفیہ خوش رہے۔  آباد رہے۔۔۔  لیکن ایک پچھتاوا زندگی بھر میری جان سے کھیلتا رہے گا آنٹی۔  کاش میں دیر نہ کرتا۔۔۔ کاش۔ " اس کی آواز ٹوٹ سی گئی۔
"سرمد۔ " وسیلہ خاتون مضطرب سی ہو گئیں۔ " خود کو سنبھالو بیٹے۔  ابھی تو زندگی کا بڑا طویل راستہ طے کرنا ہے تمہیں۔  تم جوان ہو۔  خوبصورت ہو۔  پڑھے لکھے ہو۔  تمہیں بہت اچھی شریک حیات مل سکتی ہے۔۔۔ "
"نہیں آنٹی۔  " وہ تھکے تھکے سے لہجے میں بولا۔  " یہ باب تو اب بند ہو گیا۔  "
"مگر کیوں سرمد۔  ایسی مایوسی کیوں ؟"
" آنٹی۔  میں صفیہ کو پسند ہی نہیں کرتا، اس سے محبت کرتا تھا آنٹی۔  اور یہ حق مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا کہ میں آخری سانس تک اسے چاہتا رہوں۔ " سرمدنے دل کا پھپھولا پھوڑ دیا۔  "اس کی جگہ کوئی اور لے لے، یہ تو میرے بس میں نہیں ہے آنٹی۔ "
"سرمد۔  " وسیلہ خاتون اس کے لہجے میں چھپے جذبے کو محسوس کر کے سو جان سے لرز گئیں۔  کچھ ایسا ہی حال صفیہ کا تھا۔ " یہ تم کیا کہہ رہے ہو بیٹی؟"
"بس آنٹی۔  جو کہنا تھا کہہ دیا۔  یہ آخری الفاظ تھے جو اس سانحے پر میری زبان سے نکلی۔  اب آج کے بعد اس بارے میں کبھی کوئی بات نہ ہو گی۔ "
"سرمد۔ " وسیلہ خاتون نے کہنا چاہا۔
"اللہ حافظ آنٹی۔  کبھی لوٹا تو آپ کی قدم بوسی کو ضرور حاضر ہوں گا۔  آپ نے دعا کا وعدہ کیا ہے۔  تو بس میرے لئے صرف یہ دعا کرتی رہئے گا کہ جس الاؤ نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وہ کبھی سرد نہ ہونے پائے۔  مرنے کے بعد میری قبر کی مٹی سے بھی اس کی مہک آئے آنٹی۔  اللہ حافظ۔ "
سرمد نے رابطہ کاٹ دیا۔
وسیلہ خاتون کے لبوں پر اس کا نام بکھر کر رہ گیا۔
صفیہ گم صُم ان کے پہلو سے لگی بیٹھی شاں شاں کی وہ آواز سن رہی تھی جو اس کے دماغ میں بگولے اڑا رہی تھے۔  آہستہ سے انہوں نے ریسیور کریڈل پر ڈال کر وائس بٹن پُش کیا اور سگنل کی ٹوں ٹوں نے دم توڑ دیا۔ صفیہ دھیرے سے سیدھی ہوئی۔  اپنے سُتے ہوئے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اٹھی۔  پلٹی اور سُن ہو کر رہ گئی۔
" آپ۔۔۔ " اس کے ہونٹوں سے سرسراتی ہوئی سرگوشی آزاد ہو گئی۔  اس کی آواز پر وسیلہ خاتون نے بھی پلٹ کر دیکھا اور ان کے چہرے پربھی صفیہ کی طرح سرسوں پھیلتی چلی گئی۔  ان کی نگاہوں نے صفیہ کی نظروں کے مرکز کو اپنی گرفت میں لیا تو بُت بن کر رہ گئیں۔
دروازے کے پٹ سے ٹیک لگائے طاہر کھڑا تھا۔  کب سے کھڑا تھا، کون جانے؟ اس کی آنکھیں بند تھیں اور لگتا تھا اس نے سب کچھ سُن لیا ہے۔
صفیہ نے گھبرا ئی ہوئی ہرنی کی طرح وسیلہ خاتون کی جانب دیکھا۔  وہ خود پریشانی کی انتہا سے گزر رہی تھیں ، اسے کیا دلاسہ دیتیں۔  تاہم ذرا دیر بعد وہ سنبھلیں۔
"ارے طاہر بیٹے۔  تم کب آئے؟" وہ اٹھ کر اس کی طرف بڑھیں۔ " آفس نہیں گئے کیا؟"
دھیرے سے طاہر نے حرکت کی۔  ر خ ان کی جانب کیا اور جیسے پورا زور لگا کر آنکھیں کھولیں۔  سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر وہ دونوں ہی گھبرا گئیں۔
"تم تو رات کو آنے والے تھے بیٹے۔ " وسیلہ خاتون کے منہ سے بے تکی سی بات نکل گئی۔
"رات۔۔۔۔ " طاہر نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا اور اس کی سپاٹ نظریں ان کے چہرے سے ہٹ کر صفیہ پر آ جمیں جو اسے وحشت زدگی کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔  اس کا دل سینے میں دھڑکنا بھول سا گیا۔  رنگ زرد سے اب بالکل سفید ہو چکا تھا۔  لگتا تھا کسی نے اس کے بدن سے لہو کی ہر بوند نچوڑ لی ہے۔
" رات تو کب کی آ چکی آنٹی۔  مجھے ہی پتہ نہیں چلا۔ " وہ ایک قدم آگے بڑھ آیا۔  "کیوں صفی؟" اس نے اسے صفو کے بجائے صفی کہہ کر پکارا تو صفیہ کی ٹانگوں نے اس کا بوجھ سہارنے سے انکار کر دیا۔  وہ لڑکھڑائی اور صوفے پر گر پڑی۔
" آپ۔۔۔  آپ۔۔۔ " اس کے ہونٹ ہلے، آواز نہ سنائی دی۔  اس کی سہمی ہوئی نظریں طاہر کے ویران ویران چہرے سے الجھ کر رہ گئیں۔
"بیٹھو بیٹی۔ " وسیلہ خاتون نے سنبھالا لیا۔
"چلیں صفی۔ " طاہر نے جیسے ان کی بات سنی ہی نہ تھی۔  وہ صفیہ سے مخاطب تھا۔
صفیہ نے طاہر کی طرف دیکھتے ہوئے ساری جان سے حرکت کرنا چاہی اور بڑی مشکل سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی ٹانگوں میں ہلکی سی کپکپاہٹ صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
طاہر نے ہاتھ بڑھایا۔  صفیہ نے اپنا سرد اور بے جان ہاتھ اس کے تپتے ہوئے ہاتھ میں دے دیا اور کسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح اس کی جانب کھنچتی چلی گئی۔  طاہر اسے لئے لئے زندگی سے محروم قدم اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔
وسیلہ خاتون کمرے کے وسط میں اجڑی اجڑی کھڑی خالی دروازے کو تک رہی تھیں جہاں سے ابھی ابھی جیسے کوئی جنازہ باہر گیا تھا۔
 
وسیلہ خاتون کے گھر سے سلطان وِلا تک کا سفر قبرستان جیسی خاموشی کے ساتھ طے ہوا تھا۔ صفیہ پر اس چُپ نے ایک عجیب اثر کیا۔  اس کا دل دھیرے دھیرے قابو میں آ گیا۔  حواس میں ایک ٹھہراؤ نمودار ہوا اور گھر کے پورچ میں گاڑی رکی تو وہ کافی حد تک پُرسکون ہو چکی تھی۔  شاید اس کی ایک وجہ یہ رہی ہو کہ اس کا ضمیر صاف تھا۔  مطمئن تھا۔  موجودہ صورتحال میں اس کا دامن بالکل پاک تھا۔  
طاہر سارا راستہ گم صُم گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔  اس نے صفیہ کے جانب دیکھا نہ زبان سے ایک لفظ کہا۔  گاڑی کا انجن بند کر کے وہ اپنی طرف کے دروازے سے باہر نکلا۔  صفیہ بھی تب تک گاڑی سے اتر چکی تھی۔  طاہر نے گاڑی کی چابیاں آٹھ دس قدم دور کھڑے ڈرائیور کی جانب اچھالیں اور تھکے تھکے قدموں سے گھوم کر صفیہ کی طرف آ گیا جو اسی کی منتظر کھڑی تھی۔  طاہر کا سُتا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کا دل ایک بار پھر ہول گیا تاہم اس نے اپنے چہرے سے کسی تاثر کا اظہار نہ ہونے دیا۔  طاہر نے اس کے شانوں پر بازو دراز کرتے ہوئے جیسے اس کا سہارا لیا۔  صفیہ نے جلدی سے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اپنے دائیں شانے سے لٹکتا اس کا ہاتھ تھام لیا۔  ہاتھ تھامتے ہی وہ بری طرح گھبرا گئی۔  طاہر آگ کی طرح دہک رہا تھا۔  اس نے متوحش نظروں سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا۔  طاہر کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور لگتا تھا اگلے چند لمحوں میں وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جائے گا۔  آہستہ آہستہ چلتے ہوئے طاہر کے بدن کا بوجھ صفیہ پر آ رہا تھا۔  اس نے سیف کو آواز دینے کا ارادہ کیا۔  پھر نہ جانے کیا سوچ کر اس نے خود ہی طاہر کو سنبھال لیا اور حتی الامکان سرعت سے اسے اندر لے آئی۔
سیڑھیاں چیونٹی کی رفتار سے طے کی گئیں۔  پھر خواب گاہ میں پہنچتے ہی طاہر بستر پر گرا اور بے سُرت ہو گیا۔
صفیہ نے اس کاجسم بستر پر ترتیب سے درست کیا اور ڈاکٹر ہاشمی کے ہاسپٹل فون کر دیا۔  پندرہ منٹ میں وہاں سے ڈاکٹر ہارون ایک نرس کے ساتھ آ پہنچی۔  صفیہ خاموش کھڑی ان کی کارروائی دیکھتی رہی۔  فوری طور پر بخار کا انجکشن دے کر گلوکوز ڈرپ لگا دی گئی۔ دوا کی تفصیل نرس کو سمجھا کر ڈاکٹر ہارون صفیہ کے قریب آئی۔
"مسز طاہر۔  اچانک بخار کا یہ اٹیک بڑا سیریس کنڈیشن کا حامل ہے۔  لگتا ہے مسٹر طاہر نے کوئی زبردست شاک برداشت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب انہیں مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے۔  آپ چاہیں تو دوسرے کمرے میں آرام کر سکتی ہیں۔  جاگنے کے لئے نرس موجود ہے۔  وہ مسٹر طاہر کی تمام کیفیات سے مجھے باخبر رکھے گی۔  میری ضرورت ہوئی تو میں آپ کے بلانے سے پہلے یہاں موجود ہوں گا۔  اب آپ کچھ پوچھنا چاہیں تو میں حاضر ہوں۔ "
"جی۔  کچھ نہیں۔ " ہولے سے صفیہ نے کہا اور بڑی گہری نظر سے طاہر کی جانب دیکھا جس کا زرد چہرہ اس کا دل دہلا رہا تھا۔
"تو مجھے اجازت دیجئے۔  " ڈاکٹر ہارون نے نرس کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور کمرے سے نکل گئی۔
صفیہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے بستر کے قریب چلی آئی۔  نرس نے طاہر کی نبض چیک کی اور مطمئن انداز میں سر ہلایا۔ "بخار کم ہو رہا ہے۔ " وہ جیسے خود سے بولی۔
یہ سن کر صفیہ کے سینے سے بوجھ سا ہٹ گیا۔  اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر اوپر دیکھا جیسے اللہ کا شکر ادا کر رہی ہو۔ پھر پاس پڑی کرسی کو بستر کے مزید قریب کیا اور بیٹھ گئی۔ اسی وقت اس کی نظر بوڑھے سیف پر پڑی جو دروازے کے پاس سر جھکائے کھڑا تھا۔  
"ارے بابا۔  آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں ؟" صفیہ کرسی سے اٹھی۔
"بیٹھی رہئے چھوٹی بی بی۔ " سیف قریب چلا آیا۔ اس نے کچھ پڑھ کر طاہر کے چہرے کی جانب پھونک ماری اور دعائیہ انداز میں چہرے پر ہاتھ پھیر لئے۔ " اللہ کرم کر دے گا۔  آپ گھبرائیے نہیں چھوٹی بی بی۔ " سیف نے اسے اپنی بوڑھی آنکھوں سے تشفی کا پیغام دیتے ہوئے کہا۔  بے اختیار وہ مسکرا دی۔
" آپ دعا کر رہے ہیں تو میں کیوں گھبراؤں گی بابا۔ "
" آپ کے لئے کھانا لگا دوں ؟" اس نے پوچھا۔
"نہیں بابا۔  مجھے ابھی بھوک نہیں۔ ہاں ان سے پوچھ لو۔ " صفیہ نے نرس کی طرف اشارہ کیا۔
"میرا نام شمیم ہے میڈم۔ " نرس نے صفیہ کو بتایا۔  پھر سیف کی جانب متوجہ ہوئی۔ " ابھی بارہ بجے ہیں بابا۔ میں ایک بجے کھانا کھاؤں گی۔ "
"جی بہتر۔ " سیف کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔
دوپہر سے شام ہوئی اور شام سے رات۔  اس دوران ڈاکٹر ہارون کو نرس شمیم نے دو تین بار طاہر کی کیفیت سے آگاہ کیا۔  بخار کا زور ختم ہو گیا تھا تاہم ابھی پوری طرح اترا نہیں تھا اور طاہر ہوش میں بھی نہ آیا تھا۔ صفیہ اس بات سے متفکر ہوئی تو نرس نے اسے بتایا کہ طاہر کو گلوکوز ڈرپ میں نیند کا انجکشن دیا گیا ہے۔  اب یہ غنودگی اسی کے باعث ہے۔
رات کے دس بجے تو شمیم نے ڈاکٹر ہارون کو ایک بار پھر طاہر کی حالت سے موبائل پر آگاہ کیا اور بتایا کہ بخار ٹوٹ گیا ہے۔  اب ٹمپریچر نارمل ہے۔  ڈاکٹر ہارون نے اسے ہدایت کی کہ دوسری گلوکوز ڈرپ مع انجکشنز لگا دی جائے۔  صبح تک اسے ابھی مزید نیند کی ضرورت ہے۔
" مسز طاہر سے میری بات کراؤ۔ " ڈاکٹر ہارون نے کہا تو شمیم نے موبائل صفیہ کو تھما دیا۔ "ڈاکٹر صاحب بات کریں گے۔ "
" مبارک ہو مسز طاہر۔  بخار ٹوٹ گیا۔ "
"شکریہ ڈاکٹر صاحب۔  یہ سب اللہ کے کرم اور آپ کی کوشش سے ہوا۔ " صفیہ نے ممنونیت سے کہا۔
"جی جی۔ " وہ ہولے سے ہنسی۔  " میں دوسری نرس کو بھیج رہا ہوں۔  شمیم کی ڈیوٹی آف ہو رہی ہے۔ "
"ڈاکٹر صاحب۔  کیا یہ ضروری ہے؟ میرا مطلب ہے دوسری نرس کا ڈیوٹی پر آنا۔۔۔ "
"جی ایسا ضروری بھی نہیں لیکن اگر مسٹر طاہر کے ہوش میں آنے تک کوئی نرس ان کے پاس رہے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ "ڈاکٹر ہارون نے بتایا۔
"اگر یہ ضروری نہیں ہے ڈاکٹر صاحب تو آپ دوسری نرس کو مت بھیجئے۔  میں طاہر کی دیکھ بھال خود کر سکتی ہوں۔ "
" آر یو شیور؟" ڈاکٹر ہارون نے پوچھا۔
"ویری مچ شیور۔ " وہ جلدی سے بولی۔
"تو ٹھیک ہے۔  تاہم ذرا سی بھی تشویش کی بات ہو تو فوراً مجھے فون کیجئے گا۔  یہ مت سوچئے گا کہ رات یا دن کا کون سا پہر چل رہا ہے۔  شمیم سے دوا کے بارے میں سمجھ لیجئے اور ایک تکلیف یہ کیجئے کہ اسے وہیں سے اس کے گھر بھجوا دیجئے۔ "
"جی بہتر۔  " صفیہ نے موبائل شمیم کو تھما دیا، جو طاہر کو دوسری ڈرپ لگا کر اس کی سپیڈ چیک کر رہی تھی۔
"شمیم۔  تم ڈرپ ارینج کر کے وہیں سے گھر چلی جاؤ۔  دوا مسٹر طاہر کو کب کب اور کیسے دینا ہے، یہ مسز طاہر کو سمجھا دو۔ "
"یس ڈاکٹر۔ " اس نے مستعدی سے جواب دیا۔
"او کے۔  گڈ نائٹ۔ "
"گڈ نائٹ سر۔ " شمیم نے موبائل آف کر کے جیب میں ڈالا اور صفیہ کو دوا کے بارے میں بتانے لگی، جو چند گولیوں اور ایک سیرپ پر مشتمل تھی۔ صفیہ نے دواؤں کی ٹرے تپائی پر رکھ کر سیف کو آواز دی۔  وہ کمرے میں داخل ہوا تو صفیہ نے کہا۔
"بابا۔  حمید سے کہئے، انہیں ان کے گھر ڈراپ کر آئے۔ "
"جی بہتر۔  " سیف نے مختصر جواب دیا اور شمیم صفیہ کو سلام کر کے رخصت ہو گئی۔ شمیم کو ڈرائیور حمید کے ساتھ روانہ کر کے سیف واپس کمرے میں آیا۔
"چھوٹی بی بی۔  آپ کے لئے کھانا لگاؤں۔  آپ نے صبح کا ناشتہ کیا تھا۔  اس کے بعد سے اب تک آپ نے بالکل کچھ نہیں کھایا۔ "
"بھوک نہیں ہے بابا۔ " صفیہ نے طاہر کے جسم پر کمبل درست کرتے ہوئے جواب دیا۔ " جب بھوک محسوس ہو گی، میں بتا دوں گی۔"
"میں ضد تو نہیں کر سکتا چھوٹی بی بی مگر اس طرح مسلسل خالی پیٹ رہ کر آپ خود بیمار ہو جائیں گی۔  اللہ نے کرم کر دیا ہے۔ اب پریشانی کی کیا بات ہے جو آپ کو بھوک نہیں لگ رہی۔ "
"بابا۔ " صفیہ طاہر کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔  "طاہر نے کچھ کھایا ہے جو میں کھا لوں ؟ جب یہ ہوش میں آ جائیں گے تو کھانا پینا بھی سوجھ جائے گا۔ "
سیف کا منہ حیرت سے کھل گیا۔  پھر اس کی نظروں میں عجیب سی چمک ابھری۔  ایسی چمک جو کسی بوڑھے باپ کی نگاہوں میں اس وقت جنم لیتی ہے جب وہ اپنی اولاد پر فخر محسوس کرتا ہے۔  اس نے طاہر کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر بیٹھتی ہوئی صفیہ کی جانب دیکھا اور "جیتی رہئے چھوٹی بی بی" کی سرگوشی کے ساتھ کمرے سے نکل گیا۔
٭
کراہ کر طاہر نے پلکوں کو حرکت دی اور بستر کی پٹی پر سر رکھے بیٹھی صفیہ بجلی کی سرعت سے سیدھی ہو گئی۔ طاہر کا ہاتھ اب بھی اس کے ہاتھوں میں دبا ہوا تھاجسے اس نے اپنے رخسار سے لگا رکھا تھا۔
"طاہر۔ " اس کا ہاتھ چومتے ہوئے وہ اس کے چہرے پر جھک گئی۔
"صفی۔ " طاہر کے لبوں سے نکلا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
"جانِ صفو۔ " صفیہ وارفتگی سے بولی اور اس کی نگاہوں کے حلقے میں در آئی۔ "یہ صفو سے صفی کیوں کر دیا مجھے آپ نے؟" شکایت بھرے لہجے میں اس نے پوچھا۔
طاہر نے جواب میں کچھ کہنا چاہا مگر ہونٹ کپکپا کر رہ گئی۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں کے گوشوں سے آنسوڈھلک پڑی۔
"طاہر۔ " صفیہ کا کلیجہ پھٹ گیا۔ " طاہر میری جان۔  یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ اس طرح مجھے رگ رگ ذبح مت کیجئے۔  ایک ہی بار جان لے لیجئے۔  میں اُف نہ کروں گی مگر اس طرح خود کو اذیت دے کر مجھے پل پل ہلکان مت کیجئے طاہر۔  مت کیجئے۔ " وہ اس کے سینے پر مچل کر بلک پڑی۔
"میں کیا کروں صفی۔۔۔ کیا کروں ؟" طاہر سرگوشے کے لہجے میں بولا۔  اس کی آواز زخم زخم ہو رہی تھی۔ " مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔۔۔ "
" آپ کیا کریں ، یہ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی ہوں طاہر۔  مجھ پر، اپنے آپ پر، اپنی محبت پر اعتماد کیجئے۔ اور رہی بات برداشت کرنے کی تو آپ کیا برداشت نہیں کر پا رہے، یہ میں جانتی ہوں لیکن اس میں میرا کتنا قصور ہے، آپ یہ بھی تو جانتے ہیں۔ "
"ہاں۔ " طاہر کی آواز میں درد ابھرا۔ " تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں صفی مگر میں اس دل کا کیا کروں جو یہ سوچ کر ہی ہلکان ہو گیا کہ کوئی اور بھی ہے جو کہیں دور رہ کر ہی سہی، مگر تمہیں چاہتا ہے۔  تم سے عشق کرتا ہے۔  تمہارے لئے جوگ لے چکا ہے۔ "
"تو اس سے آپ کو یا مجھے کیا فرق پڑتا ہے طاہر؟ ہمارا اس کے اس فعل سے کیا تعلق؟ کیا لینا دینا ہے ہمیں اس کے اس فیصلے سے؟" صفیہ نے سر اٹھایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔  " آپ میرے لئے ہیں اور میں آپ کے لئے۔  بس یہی ہماری دنیا ہے جس کے اندر ہمیں رہنا ہے۔  اس سے باہر کیا ہے، کیوں ہے، اس سے ہمیں کیا سروکار طاہر۔ " اس نے طاہر کی آنکھوں سے بہتے اشکوں کو اپنے ہونٹوں میں جذب کر لیا۔
"یہ ایسا آسان نہیں ہے صفی۔ " طاہر نے پلکیں موند لیں۔ "بڑا مشکل ہے یہ سہنا کہ کوئی اور بھی میری صفو کو چاہے اور میں اس سے باخبر ہو کر بھی چین سے جیتا رہوں۔ "
"یہ پاگل پن ہے طاہر۔ " صفیہ اسے سمجھانے کے انداز میں بولی۔ " خود کو سنبھالئے۔  بے بنیاد شک کی آگ میں خود کو مت جلائیے۔"
"شک نہیں صفی۔ " طاہر نے آنکھیں کھول دیں۔ "شک تو میں تم پر کر ہی نہیں سکتا کہ تم اس معاملے میں کسی طور بھی انوالو نہیں ہو۔ شک نہیں ، ایک خوف ہے جس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ "
"خوف؟" صفیہ نے اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے لیا۔ " کیسا خوف طاہر؟ کھل کر کہئے۔ "
"تمہارے چھن جانے کا خوف صفی۔ " وہ کہتا چلا گیا اور صفیہ بُت بنی اسے تکتی رہی۔  سنتی رہی۔
"خوف یہ ہے کہ وہ جو تمہارے لئے دنیا تیاگ رہا ہے، کسی دن سامنے آ گیا تو کیا ہو گا؟ "
"کیا ہو گا؟" صفیہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ " آپ کا خیال ہے کہ وہ مجھے آپ سے چھین کر لے جائے گا۔ "
"نہیں۔  " طاہر نے نفی میں ہولے سے سر ہلایا۔  " یہ نہیں۔  ایسا نہیں ہو گا مگر جو ہو گا وہ اس سے بہت آگے کی بات ہے صفی۔ "
" آپ کہہ ڈالئے طاہر۔  اندیشے اور خوف کا جو ناگ آپ کو اندر ہی اندر ڈس رہا ہے اسے الفاظ کے راستے باہر نکال دیجئے۔  یہ مت سوچئے کہ الفاظ کتنے زہریلے ہوں گے۔  بس کہہ جائے جو آپ کو کہنا ہے۔ "
"صفی۔  " طاہر نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔  " پتھر پر پانی کی بوند مسلسل گرتی رہے تو اس میں چھید کر دیتی ہے۔  اس کا جوگ اگر تمہیں ایک پل کو بھی متاثر کر گیا تو وہ کنڈلی مار کر تمہارے دل میں آ بیٹھے گا اور اس کا یہ آ بیٹھنا میرے اور تمہارے درمیان ایک پل ہی کی سہی، جس دوری کو جنم دے گا وہ شیشے میں آ جانے والے اس بال کی مانند ہو گی جس کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا۔ "
"طاہر۔۔۔ " صفیہ اسے متوحش نگاہوں سے دیکھنے لگی۔  " یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟"
"میں ٹھیک کہہ رہا ہوں صفی۔ " اس کی آواز لرز گئی۔ "میں نے اب تک کی زندگی میں صرف اور صرف ناکامیوں کا منہ دیکھا ہے۔  چاہا کہ شادی سے پہلے کسی کی اَن چھوئی محبت پا لوں۔  نہ پا سکا۔  پھر چاہا کہ جس سے زندگی کے سفر کا سودا کروں ، وہ ایسا ہو جسے کسی اور سے کوئی تعلق نہ ہو، ایسا ہی ہوا۔ اب پتہ چلا کہ میرا ہمسفر تو اَن چھوا بھی ہے اور کسی بھی غیر سے بے تعلق بھی، مگر کوئی ایک اور ایسا ہے جو کہیں دور بیٹھا اس کی پرستش کرتا ہے۔  اسے پوجتا ہے۔  اور ایسا دیوانہ پجاری کبھی سامنے آ جائے تو دیوی پر اس کی تپسیا کیا اثر کرے گی، یہ خوف میرے اندر ڈنک مار رہا ہے؟"
"طاہر۔ " صفیہ نے اسے والہانہ دیکھے ہوئے کہا۔  " میں سرمد کی دیوانگی سے تو بے خبر ہوں کہ وہ جو کہہ رہا تھا اس میں کتنی حقیقت تھی اور کتنا فسانہ؟ مگر آپ کا پاگل پن ضرور میری جان لے لے گا۔  آپ ایک فرضی خوف کے سائے اپنی اور میری زندگی پر مسلط کر کے کیوں عذاب مول لے رہے ہیں ؟ اس کا کوئی علاج بھی ہے ؟ مجھے صرف یہ بتائیے کہ میں کیا کروں جو آپ کے د ل سے یہ وہم نکل جائے اور آپ اور میں ایک نارمل زندگی گزار سکیں۔  بتائیے طاہر۔  اگر اس کے لئے میں اپنی جان دے کر بھی آپ کو اس خوف سے نجات دلا سکی تو مجھے کوئی عذر نہ ہو گا اور اگر اس کے لئے سرمد کی جان لینا لازم ہے تو میں اسے آپ کے وہم پر قربان کر دوں گی طاہر۔ مگر آپ کو اس اذیت سے چھڑا کر رہوں گی۔  بتائیے۔  کیا کروں میں ؟ حکم دیجئے۔ " اس نے طاہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
"کیا کہہ رہی ہو صفی؟" طاہر تڑپ گیا۔  " تم اپنی جان دینے کی بات کر رہی ہو؟ میری کس بات سے ظاہر ہوا کہ میں ایسا چاہتا ہوں۔  اور رہی بات سرمد کی تو اسے راستے سے ہٹا دینا اگر ضروری ہوا تو یہ کام میں خود کروں گا، تم ایسا کیوں کرو گی؟ لیکن مجھے لگتا ہے کہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔  ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایسا کوئی فیصلہ کیا جائے۔ "
"تو پھر خود کو سنبھالئے طاہر۔  خود پر نہیں ، مجھ پر رحم کیجئے۔  آپ کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔  " صفیہ نے سر اس کے سینے پر ڈال دیا۔  آہستہ سے طاہر کا ہاتھ حرکت میں آیا اور صفیہ کی زلفوں سے کھیلنے لگا۔  
صفیہ سسک رہی تھی۔  
طاہر کی آنکھوں میں پھر نمی چھلک رہی تھی۔  
وقت کیا کھیل کھیلنے والا تھا، دونوں اس سے بے خبر اندیشوں اور خوف کی پرچھائیوں سے دل کا دامن چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔  دل۔۔۔  جو سمجھائے نہیں سمجھتا اور بہلائے نہیں بہلا کرتا۔
٭
دو ہی دن میں طاہر نچڑ کر رہ گیا۔  کہنے کو بخار تو اتر گیا مگر وہ کیسا بخار تھا کہ جس کی دی ہوئی بربادی نے طاہر کے جسم و جان میں ڈیرے ڈال لئے۔  وہ بالکل خاموش ہو کر رہ گیا۔  صفیہ رات دن اس کی تیمار داری میں لگی رہتی۔  اسے بہلانے، ہنسانی، اس کے چہرے کی رونق بحال کرنے کے لئے سو سو جتن کرتی مگر طاہرسوائے پھیکے سے انداز میں مسکرا دینے اور اس کی ہر بات کا مختصر سا جواب دینے کے سوا کچھ بھی رسپانس نہ دیتا۔
وسیلہ خاتون نے دو تین بار فون پر صفیہ سے بات کی۔  اسے کریدنا چاہا کہ صورتحال کیا ہے؟ صفیہ نے انہیں سب کچھ صاف صاف بتا دیا اور کہا کہ وہ اس معاملے میں بالکل پریشان ہوں نہ اس میں دخل دینے کی کوشش کریں۔  کسی بھی تیسرے فرد کا اس صورتحال میں در آنا مزید الجھن پیدا کر سکتا تھا، یہ صفیہ کی اپنی سوچ تھی اور شاید کسی حد تک یہ درست بھی تھا، اس لئے وسیلہ خاتون نے اس کے کہنے پر فون پر ہی طاہر کی خیر خبر پوچھ لی، خود آنے سے گریز کیا۔
ڈاکٹر ہاشمی اور بیگم صاحبہ کا صرف ایک فون آیا تھا۔  وہ خیریت سے تھے اور انہوں نے اپنا قیام دیارِ حبیب میں بڑھا لیا تھا۔  ان کی جلدواپسی کا ابھی کوئی امکان نہ تھا۔  آفس کے معاملات امبر بخوبی کنٹرول کر رہی تھی۔  اسے طاہر کی بیماری کا قطعاً علم نہ تھا۔  صفیہ نے بھی اسے موجودہ صورتحال سے باخبر کرنا ضروری نہ سمجھا کہ اس سے سوائے بات پھیلنے کے اور کیا ہوتا؟وہ جانتی تھی کہ یہ بات طاہر بھی پسند نہ کرے گا۔  گھر کے ملازموں میں بابا سیف اور ڈرائیور حمید کو صرف یہ پتہ تھا کہ صاحب کو بڑا شدید بخار ہے اور بس۔  جو ملازمہ صفائی اور باہر کے کاموں کے لئے تھی، اسے اس بات کی ہوا بھی نہ لگی کہ طاہر کی طبیعت خراب ہے۔ کچن کا کام ہوتا ہی کتنا تھا، سیف کو اس کے لئے کسی معاون کی بھی ضرورت نہ تھی۔  اس لئے اصل بات پردے ہی میں رہی۔
 آج پانچواں دن تھا۔  طاہر نے شیو بنائی، غسل کیا اور دس بجے کے قریب سردیوں کی دھوپ کے لئے لان میں آ بیٹھا۔
صفیہ نے اس کے چہرے پر کچھ رونق دیکھی تو اس کی جان میں جان آئی۔  اس نے سیف سے چائے بنا کر لان ہی میں لے آنے کو کہا اور خود چھوٹا سا بیگ تھامے طاہر کے پاس چلی آئی۔
وہ بید کی کرسی پر سر سینے پر جھکائے نجانے کس سوچ میں ڈوبا بیٹھا تھا۔  صفیہ اس کے قریب پہنچی تو اس کی آہٹ پر وہ چونکا۔
"کیا سوچ رہے ہیں میرے حضور؟" صفیہ نے کرسی سے کشن اٹھا کر نیچے گھاس پر ڈالا اور اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
"ارے اری۔ " وہ جلدی سے بولا۔ " یہ کیا۔  اوپر بیٹھو ناں۔ " اس نے پاؤں کھینچ لئے۔
"خاموش۔ " صفیہ نے آنکھیں نکالیں۔  " چائے آنے تک مجھے اپنا کام ختم کرنا ہے۔ " کہہ کر اس نے طاہر کے پاؤں تھام کر اپنی گود میں رکھ لئے۔
"اری۔  کیا کر رہی ہو بھئی۔  کسی ملازم نے دیکھ لیا تو۔۔۔ ؟" اس نے پاؤں واپس کھینچنا چاہے۔
"تو کیا ہو گا جناب عالی؟ میں کون سا آپ کے ساتھ کوئی نازیبا حرکت کرنے جا رہی ہوں۔  ذرا دیکھئے۔  کس قدر خشکی ہو رہی ہے جلد پر۔  " صفیہ نے اس کے پاؤں پھر گود میں ڈال لئے اور بائیں ہاتھ سے بیگ کھول کر اس میں سے نیل کٹر نکال لیا۔
"ارے بابا۔  یہ کام میں خود کر لوں گا۔  تم رہنے دو۔ "طاہر نے اسے روکنا چاہا۔
"اگر اب آپ نے پاؤں واپس کھینچا ناں تو میں یہ پیر میں چبھو دوں گی۔ " صفیہ نے اسے نیل کٹر میں لگا چھوٹا سا چاقو دکھاتے ہوئے دھمکی دی۔  اس کے بچگانہ  معصوم اور محبت بھرے لہجے پر طاہر بے اختیار مسکرا دیا اور پاؤں ڈھیلے چھوڑ دئیے۔
"یہ ہوئی ناں اچھے بچوں والی بات۔ " وہ خوش ہو گئی۔
پھر پہلے اس نے طاہر کے ہاتھ، پیروں کے ناخن کاٹے۔  اس کے بعد اس کے ہاتھوں ، پیروں اور آخر میں پنڈلیوں پر وائٹ جیل مالش کی۔  طاہر خاموشی سے اسے یہ سب کام کرتے ہوئے دیکھتا رہا۔  وہ یوں اپنے کام میں مگن تھی جیسے اس سے بڑا کام آج اسے اور کوئی نہ کرنا ہو۔ جب سیف چائے رکھ کر گیا تو وہ لان کے گوشے میں لگے نل پر ہاتھ دھو کر فارغ ہو چکی تھی۔
"یہ ملنگوں والی عادت چھوڑ دیجئے۔  اپنا خیال رکھا کیجئے۔ کل کو اگر میں نہ رہی تو آپ کو تو ہفتے بھر میں جوئیں پڑ جائیں گی۔ " واپس آ کر چائے بناتے ہوئے اس نے طاہر کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
"کہاں جانا ہے تمہیں ؟" طاہر اب اسے نام لے کر بلانے سے احتراز کرتا تھا، یہ بات صفیہ نے محسوس کر لی تھی مگر اس نے کسی بھی بات پر بحث یا اعتراض کرنے کا خیال فی الحال ترک کر دیا تھا۔  اسے حالات اور خاص طور پر طاہر کے نارمل ہونے تک انتظار کرنا تھا۔ اسے علم تھا کہ یہ انتظار سالوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے، مگر اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ طاہر کے دل میں اپنا مقام دوبارہ اجاگر ہونے تک وہ زبان سی رکھے گی۔  حق طلب نہ کرے گی اور فرض کو اوڑھنا بچھونا بنا لے گی۔  اب رات دن یہی کر رہی تھی وہ۔
"زندگی کا کیا بھروسہ ہے میرے حضور؟ جانے کب بلاوا آ جائے۔ " وہ چائے کا کپ اس کی طرف سرکاتے ہوئے بولی۔ "اس لئے اس کنیز کی موجودگی میں اپنا آپ سنبھال لینا سیکھ لیجئے۔  ملازم بہرحال ملازم ہوتے ہیں ، وہ وقت پر کھانا کپڑا تو مہیا کر سکتے ہیں ، بے وقت خدمت سے اکتا جاتے ہیں۔ "
"تم بھی کہیں اکتا تو نہیں گئیں ؟" طاہر نے اسے غور سے دیکھا۔
"میں۔۔ ؟" صفیہ نے اسے شکوے بھرے انداز میں دیکھا مگر دوسرے ہی پل اس کی آنکھیں شفاف ہو گئیں۔  "میں بھلا کیوں اکتاؤں گی۔  میں ملازم نہیں آپ کی کنیز ہوں اور کنیز خریدا ہوا وہ مال ہوتا ہے میرے حضور، جس کے دل سے اکتانے کی حس ختم کر کے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ محبت، خلوص اور ایثار کی دھک دھک بھر دیتا ہے۔ "
"تو میں نے تمہیں خریدا ہے؟" طاہر نے چسکی لے کر کپ واپس رکھ دیا۔
"جی ہاں۔ " صفیہ نے اطمینان سے جواب دیا۔  " اپنی محبت، اپنی توجہ اور اپنے پیار کے عوض آپ اس کنیز، اس باندی کو کب سے خرید چکے ہیں۔ "
طاہر لاجواب ہو گیا۔ دل میں ایک کسک سی ابھری۔  اس کی محبت اور توجہ سے تو صفیہ کتنے ہی دنوں سے محروم تھی۔  اب شاید وہ اس پر طنز کر رہی تھی یا اسے اس کا احساس دلانا چاہتی تھی۔  اس نے دزدیدہ نگاہوں سے صفیہ کی جانب دیکھا۔  وہاں اسے طنز کی کوئی جھلک نہ ملی تو وہ سوچ میں ڈوب گیا۔  
صفیہ سے بخار کے اٹیک کی رات اس کی بڑی کھل کر بات ہوئی تھی۔  اس کے بعد اسے نارمل ہو جانا چاہئے تھا مگر وہ اب تک دل و دماغ کی جنگ میں الجھا ہوا تھا۔ ابھی تک وہ خود کوواپس پہلی پوزیشن پر نہ لا سکا تھا، جہاں صرف وہ اور صفو تھی۔  جہاں ابھی صفی نے جنم نہ لیا تھا۔  اور اب تو صفی بھی پردے کے پیچھے چلی گئی تھی۔  وہ حتی الامکان اس کا نام لینے سے گریز کرتا تھا۔  
چائے ختم ہو گئی۔  سیف برتن لے گیا۔  
" آج کہیں باہر چلیں۔ " صفیہ نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے ا س کی جانب دیکھا۔
"کہاں ؟" طاہر کی نگاہیں اس سے ملیں۔
"جہاں بھی آپ لے جائیں۔ "
"جہاں تم جانا چاہو، چلے چلیں گے۔ " طاہر نے فیصلہ اس پر چھوڑ دیا۔
"دوچار دن کے لئے گاؤں نہ چلیں ؟" صفیہ نے اشتیاق سے کہا۔
"گاؤں ؟" طاہر حیرت سے بولا۔  "وہاں جا کر کیا کرو گی۔  مٹی، دھول پھانکنے کے سوا وہاں کیا ہے۔ "
"چند دن کھلی آب و ہوا میں رہنے سے آپ کی طبیعت پر بڑا اچھا اثر پڑے گا اور میں بھی کبھی کسی گاؤں میں نہیں گئی، میری سیر ہو جائے گی۔ "
"ہوں۔ " طاہر نے ہنکارا بھرا۔  
"اگر کوئی امر مانع ہے تو رہنے دیں۔ " صفیہ نے اسے الجھن میں دیکھ کر کہا۔
"نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ " طاہر نے اس کی جانب دیکھا۔  " میں صرف یہ سوچ رہا تھا وہاں جا کر تم بور ہو جاؤ گی۔ "
"سنا ہے آپ وہاں پندرہ پندرہ دن اور امی جان د و دو مہینے رہ کر آتی ہیں۔  آپ بور نہیں ہوتے کیا؟"
"میرا اور امی کا تو کام ہے۔  زمینوں کا حساب کتاب بڑے دقت طلب مسائل کا حامل ہوتا ہے۔  اس لئے بور ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا مگر تم۔۔۔ "
" آپ ساتھ ہوں گے تو بوریت کیسی؟" صفیہ نے اسے بڑی والہانہ نظروں سے دیکھا۔
"تو ٹھیک ہے۔  میں فون کر دیتا ہوں۔  دو بجے نکل چلیں گے۔  ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ ہے۔  عصر تک پہنچ جائیں گے۔ " اس نے نظریں چرا لیں۔
"ٹھیک ہے۔ " صفیہ بچوں کی طرح خوش ہو گئی۔  " میں پیکنگ کر لوں ؟"
"کر لو۔ " طاہر بیساختہ ہنس دیا۔  " مگر بہت زیادہ دنوں کا پروگرام نہ بنا لینا۔  آج منگل ہے۔  بس جمعے تک لوٹ آئیں گے۔ "
"جی نہیں۔ " وہ اٹھتے ہوئے بولی۔  " یہ وہاں جا کر سوچیں گے کہ کتنے دن رکنا ہے۔  ابھی آپ کے آفس جانے میں دس بارہ دن باقی ہیں اور امی کاتو ابھی واپسی کا کوئی ارادہ ہی نہیں۔  اس لئے اطمینان سے لوٹیں گے۔ " وہ بیگ اٹھا کر چل دی۔  نجانے کیوں طاہر کا جی نہ چاہا کہ وہ اسے ٹوکے۔  وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی اور اسے اس کی خوشی میں رکاوٹ ڈالنا اچھا نہ لگا۔
دوپہر کا کھانا کھا کر وہ گاؤں کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔  گاڑی کی ڈگی میں صفیہ نے دو بکس رکھوائے تھے، جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا ارادہ جلدی لوٹنے کا قطعاً نہیں ہے۔
*  *
وجاہت آباد، طاہر کے والد سر وجاہت سلطان کے نام پر آباد تھا۔  
گاؤں کیا تھا، قدیم بود و باش کا ایک ماڈل تھا۔  آج بھی وہاں رہٹ چلتے تھے۔  کھیتوں میں نئے دور کی کوئی کھاد نہ ڈالی جاتی تھی۔  ٹیوب ویل بھی تھے مگر آب پاشی کے لئے پرانے کنووں کو قطعاً ختم نہ کیا گیا تھا۔  وجاہت سلطان کو اپنے کلچر سے بیحد پیار تھا، اس لئے انہوں نے وہاں جدید آلات کے آنے پر پابندی نہ لگائی تو پرانے نظام کو ختم کرنے کی اجازت بھی نہ دی۔  ان کے مزارعے ان کے ایسے فرمانبردار تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔  ورنہ یہ قوم کسی سے وفا کر جائے یہ ممکن ہی نہیں۔  نجانے وجاہت سلطان نے انہیں کیا سنگھایا تھا کہ وہ ان کے ہر حکم کو جی جان سے مان لیتے تھے۔  ان کے بعد بیگم وجاہت سلطان نے بھی ان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جو ان کے شوہر کا  خاصا تھا، اس لئے معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے تھے۔  
وجاہت سلطان کا زندگی بھر ایک ہی اصول رہا تھا:
"کسی کا حق مارو نہ اپنا حق چھوڑو۔  اور عزت سب کے لئے۔ "
بیگم صاحبہ اور طاہر نے اس اصول میں کبھی لچک نہ آنے دی۔ ہر دُکھ سُکھ میں جب وہ گاؤں والوں کے ساجھی تھے تو انہیں کیا پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ وہ ایسے مالکوں کے خلاف سوچتے۔  طاہر کی شادی پر جیسے شہر سلطان وِلا میں بلا کر ان کی پذیرائی کی گئی تھی، اس بات نے انہیں اور بھی گرویدہ کر دیا تھا۔  
گاؤں میں "بیگم حویلی" بیگم صاحبہ کے لئے طاہر کے والد نے تعمیر کرائی تھی۔  یہ ابتدا سے اسی نام سے مشہور تھی۔  حویلی کا انتظام شروع سے مزارعوں کے نگران اور گاؤں کے معاملات کے منتظم بلال ملک کے ہاتھ میں تھا۔  اس کی جوانی ڈھل رہی تھی مگر آج بھی اس کی کڑک اور پھڑک ویسی ہی تھی۔  کسی کو اس کے سامنے دم مارنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔  گاؤں میں بیگم صاحبہ اور طاہر کے بعد وہ سب سے با اختیار سمجھا جاتا تھا۔
حویلی کے باہر ہی بلال ملک چیدہ چیدہ افراد کے ساتھ طاہر اور اپنی چھوٹی مالکن کے استقبال کے لئے موجود تھا۔  طاہر نے گاڑی روکی اور صفیہ اس کے ساتھ باہر نکل آئی۔  حویلی کیا تھی، چھوٹا موٹا محل تھا جو بڑے پُر شکوہ انداز میں سر اٹھائے انہیں فخر سے دیکھ رہا تھا۔ صفیہ اس کی خوبصورتی سے بیحد متاثر ہوئی۔
بلال ملک اور اس کے بعد دوسرے لوگوں نے ان دونوں کے گلے میں ہار ڈالے اور انہیں چھوٹے سے جلوس کی شکل میں حویلی کے اندر لایا گیا۔
ہال کمرے میں وہ دونوں صوفوں پر بیٹھ گئے۔  سب لوگ جیسے کسی بادشاہ کے دربار میں حاضر تھے۔  کچھ دور پڑی کرسیوں پر بیٹھ کر انہوں نے ادب سے سر جھکا لئے۔  بلال ملک ان دونوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
"چھوٹی مالکن۔  اگر چاہیں تو اندر زنان خانے میں تشریف لے چلیں۔  گاؤں کی لڑکیاں بالیاں آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ " اس نے کہا۔
صفیہ نے طاہر کی جانب دیکھا۔  اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔  صفیہ نے گلے سے ہار اتار کر صوفے ہی پر ڈالے اور ایک ملازمہ کے عقب میں چلتی ہوئی ہال کمرے کے اندرونی دروازے کی جانب بڑھ گئی جو زنان خانے کے کاریڈور میں کھلتا تھا۔
"اور سناؤ ملک۔  کیا حالات ہیں ؟" طاہر نے صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔
"اللہ کا کرم ہے چھوٹے مالک۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ " وہ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
اسی وقت ایک ملازم دودھ کا جگ اور گلاس ٹرے میں رکھے آ گیا۔  طاہر نے دودھ پیا اور ملازم برتن واپس لے گیا۔
"پچھلے دنوں جو باڑ آئی تھی، اس سے کوئی نقصان تو نہیں ہوا؟" طاہر نے رومال سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں جی۔  ہمارا علاقہ تو محفوظ ہی رہا۔  ہاں ارد گرد کافی نقصان ہوا۔  دریا ابل پڑا تھا جی۔  بڑی مشکل میں رہے ہمسایہ دیہات کے لوگ۔۔۔ "
"تم نے ان کی کوئی مدد بھی کی یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے؟"
"مدد کیوں نہ کرتے جی۔  یہ تو ہم پر قرض ہوتا ہے جو ادا کئے بنا رات کو نیند نہیں آتی۔ " بلال ملک نے ادب سے جواب دیا۔
"اب میں تھوڑا آرام کروں گا ملک۔  اپنی مالکن کو بھی جلدی فارغ کر دینا۔  وہ پہلی بار گاؤں آئی ہے۔  پہلے ہی دن تھک کر لمبی لمبی نہ لیٹ جائے۔ " وہ ہنستا ہوا اٹھ گیا۔ اس کے ساتھ ہی سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"ان کی آپ فکر کریں نہ ان کے بارے میں سوچیں۔  اب وہ جانیں اور گاؤں والیاں۔  انہیں تو اگر وقت پر سونا بھی مل جائے تو غنیمت ہو گا۔ " ملک بھی ہنسا۔
"چلو ٹھیک ہے۔  اسے بھی گاؤں آنے کا بڑا شوق تھا۔  بھگتے اب۔ " طاہر کہہ کر ہال سے باہر نکل گیا۔  ملک باقی لوگوں کے ساتھ دوبارہ نشستوں پر براجمان ہو گیا اور ہلکی آواز میں باتیں ہونے لگیں۔
صفیہ کو گاؤں کی بڑی بوڑھیوں نے پیار کر کر کے اور سوغاتیں پیش کر کر کے نڈھال کر دیا۔  پھر لڑکیوں اور جواں سال عورتوں نے اس کے کمرے میں ایسا ڈیرہ ڈالا کہ اسے آرام کرنا بھول ہی گیا۔  شام کے قریب وہ اسے گاؤں کے کھیتوں کی سیر کو لے گئیں۔  ہر کوئی اسے دیکھ کر نہال ہو رہا تھا۔  وہ ساری کلفتیں بھول کر ان کے ساتھ یوں گھل مل گئی جیسے یہ سارا ماحول اس کا صدیوں سے دیکھا بھالا ہو۔
٭
سیلاب دریا کی حدود میں داخل ہوا تو دریا بپھر گیا۔  اس انجان پانی کو اس کی اجازت کے بغیر ، اچانک اس کے گھر میں داخل ہونے کی جرات کیسے ہوئی؟ شاید یہی غصہ تھا جو دریا نے نکالا اور سینکڑوں دیہات اس کے غضب کا نشانہ بن گئے۔
وجاہت آباد دریا سے ذرا ہٹ کر واقع تھا اس لئے محفوظ رہا تاہم سب سے زیادہ نقصان جس گاؤں میں ہوا وہ عزیز کوٹ تھا۔  گاؤں کا گاؤں پانی میں ڈوب کر رہ گیا۔  درجنوں لوگ سیلاب کے ریلے میں بہہ گئے۔  کچے مکانوں کا وجود یوں مٹ گیا جیسے وہ کبھی موجود ہی نہ تھے۔  سیلاب رات کے پچھلے پہر اچانک ہی عزیز کوٹ والوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔  نیند میں گم لوگ جب تک ہوش میں آتے، غرقابی ان کا مقدر بن چکی تھی۔ بچے، عورتیں ، بوڑھی، درجنوں لوگ سیلاب کی نذر ہو گئے۔  لاشوں کی تلاش اور گھرے ہوئے زندہ افراد کو بچانے کا کام اب بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر جاری تھا۔  
وجاہت آباد والوں نے دن رات عزیز کوٹ والوں کے لئے وقف کر دئیے۔  لوگوں کو ان کے پانی میں گھرے مکانوں سے نکالنے سے لے کر ان کے لئے رہائش اور خور و نوش کا وافر انتظام کرنے تک وجاہت پور والوں نے حکومتی مشینری کا ایسا بے مثال ساتھ دیا کہ ہر طرف واہ واہ ہو گئی۔
عزیز کوٹ اور وجاہت آباد کا درمیانی فاصلہ تقریباً چھ کلو میٹر تھا مگر وجاہت آباد والوں نے اپنے تعاون اور محبت سے اس فاصلے کو چھ فٹ میں بدل دیا۔  پانی اترنے تک انہوں نے بچے کھچے عزیز کوٹ والوں کو اپنے ہاں سنبھالے رکھا۔  پھر جب حکومت نے امدادی کیمپ تشکیل دے لئے تب ان لوگوں کو وہاں سے جانے دیا۔  عزیز کوٹ کے باشندے دھیرے دھیرے اپنے گاؤں کو لوٹ رہے تھے۔  مکانوں کو دوبارہ تعمیر کر رہے تھے۔  سیلاب جو کیچڑ اور گارا اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا، اس کی صفائی کا کام بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔  اب بھی وجاہت آباد کے درجنوں لوگ امدادی سرگرمیوں میں فوج اور سول انتظامیہ کا ہاتھ بٹانے کے لئے متاثرہ علاقے میں موجود تھے۔
عزیز کوٹ کو ڈبو کر سیلابی پانی نے جب اپنا راستہ بدلا تو نور پور کے قریب سے یوں گزر گیا جیسے اس علاقے میں اسے سر اٹھا کر چلنے کی بھی اجازت نہ ہو۔  نور پور ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کے نفوس کی تعداد بمشکل تین ہزار تھے۔  سیلاب، گاؤں کے باہر باہر سے اپنا راستہ بنا کر خوش خرامی کے ساتھ بہتا ہوا نکل گیا تاہم ابھی تک اس پانی کا زور کم نہ ہوا تھا۔
حافظ عبداللہ چھوٹے موٹے دریا کا منظر پیش کرتے ہوئے سیلابی کٹاؤ کے کنارے ایک اونچے ٹبے پر بیٹھا نجانے کس سوچ میں گم تھا۔  وہ حافظ قرآن تھا۔  دنیا بھر میں اکیلا اور اس وقت زندگی کے پچیسویں سال میں تھا۔  نور کوٹ گاؤں کی ایک بے آباد چھوٹی سی مسجد کو آج سے سات سال پہلے آ کر اس نے آباد کیا تو گاؤں والوں نے اس کی دو وقت کی روٹی اور ضروری اخراجات کو ہنس کر اپنے ذمے لے لیا۔  اس نے اس سے زیادہ کا مطالبہ بھی نہ کیا۔  گاؤں کے بچوں کو نماز فجر کے بعد قرآن پڑھانا اس کے معمولات میں شامل تھا۔  گاؤں کے چوہدری حسن دین کے گھر سے اسے خاص تعلق تھا۔  اس نے چوہدری حسن دین کے تین بیٹوں رفاقت، عنایت، لطافت اور ایک بیٹی نادرہ کو قرآن پاک پڑھایا تھا۔  اس نسبت سے یہ گھرانا اس کی بڑی عزت کرتا اور اسے اپنے گھر ہی کا ایک فرد خیال کرتا تھا۔  اس کا ماہانہ خرچہ بھی چوہدری حسن دین کی حویلی سے آتا جس کے لئے اسے خود کبھی حویلی نہ جانا پڑا تھا۔  ادھر مہینے کی پہلی تاریخ آئی، ادھر اس کا پہلوٹھی کا شاگرد رفاقت اس کا مشاہرہ اور دوسرا ضروری سامان لے کر مسجد میں اس کے حجرے کے دروازے پر آ دستک دیتا۔  گاؤں والے اس کے علاوہ اس کی جو خدمت کرنا چاہتی، وہ اکثر اس سے انکار کر دیتا۔  اکیلی جان تھی، اس کی ضروریات محدود سی تھیں۔  لالچ اور جمع کرنا اس کی فطرت ہی میں نہ تھا، اس لئے بھی گاؤں والے اس کے کردار سے بیحد متاثر تھی۔  تاہم وہ جو لے آتی، اسے واپس لے جانا انہیں اپنی توہین لگتا، اس لئے اصرار کرتے تو حافظ عبداللہ کو ان کا نذرانہ قبول کرنا پڑتا۔  پھر جب اس نے دیکھا کہ اجناس اور روپوں کی آمد اس کی ضرورت سے زیادہ ہے تو اس نے مسجد کے صحن میں بائیں ہاتھ بنے، اپنے حجرے کے دو کمروں کے اوپر چوہدری حسن دین سے کہہ کر ایک بڑا ہال کمرہ ڈلوا لیا۔  اس مہمان خانے کا راستہ مسجد کے باہر ہی سے رکھا گیا تاکہ اسے اور نمازیوں کو دقت نہ ہو۔  یہ کمرہ اجنبی مسافروں اور بے آسرا مہمانوں کی خدمت کے لئے وقف کر دیا گیا۔  یوں اس کی زائد آمدنی کے خرچ کا ایک راستہ نکل آیا۔  اب وہ بھی خوش تھا اور گاؤں والے بھی۔
اس کا ایک عرصے سے معمول تھا کہ روزانہ عصر کے بعد نور پور سے چار فرلانگ دور مشرق میں واقع ایک خانقاہ سے تقریباً ڈیڑھ سو گز دور، ایک اونچے ٹبے پر اُگے پیپل کے درخت کے نیچے آ بیٹھتا اور قرآن حکیم کی دہرائی شروع کر دیتا۔  جب سورج، شفق کی لالی سے دامن چھڑانے لگتا، تب وہ قرآن پاک کو چوم کر سینے سے لگاتا۔  اٹھتا۔  درخت کو تھپکی دیتا، جیسے اس سے رخصت ہو رہا ہو اور مسجد کو چل دیتا جہاں اسے پانچ وقت اذان بھی خود ہی دینا ہوتی تھی۔
یہ خانقاہ کسی بابا شاہ مقیم نامی بزرگ کے مزار اور دو شکستہ سے کمروں پر مشتمل تھی۔  مزار کے وسیع صحن میں ایک طرف چھوٹا سا سٹور نما کمرہ تھا جس میں لوگوں کے نذرانوں کی اشیا، اجناس، دری چادریں اور دوسرا سامان بھرا رہتا تھا۔  یہاں ابھی تک بجلی کا کنکشن نہ پہنچا تھا۔  نور پور والوں نے واپڈا کو درخواست دے رکھی تھی اور امید تھی کہ جلد ہی وہاں بجلی لگ جائے گی۔  مزار سے تھوڑی دور دریا بہتا تھا جس کے پار مظفر آباد کی آبادی کا اختتام ہوتا تھا۔  
مزار کی دیکھ بھال ایک ایسا شخص کرتا تھا، جس کے بارے میں کوئی نہ جانتا تھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ ملگجے کپڑوں میں ملبوس وہ حال مست درویش خانقاہ کی صفائی کرتا۔  اِدھر اُدھر سے خود رَو پھول اکٹھے کر کے بابا شاہ مقیم کے مزار پر لا ڈالتا۔  وہاں موجود چھوٹی سی کھوئی سے پانی نکالتا۔  خانقاہ اور اس سے ملحقہ کمروں کو دھوتا اور اگر بتیاں سلگا کر پھر اپنے کمرے میں گھس جاتا۔  یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا۔  اسے گاؤں والوں نے نہ کبھی کسی سے عام طور پر بات چیت کرتے سنا، نہ وہ کسی سے کوئی چیز لیتا۔  اگر کسی نے زیادہ نیاز مندی دکھانے کی کوشش کی تو وہ اسے یوں گھورتا کہ نیازمند کو بھاگتے ہی بنتی۔  اس کے کھانے پینے کا انتظام کیسے ہوتا تھا؟ یہ بات کسی کے علم میں تھی نہ کسی نے ا س کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔  اس کا سبب درویش کا رویہ تھا، جس کے باعث مزار پر فاتحہ کے لئے آنے والے افراد بھی اس سے کتراتے تھے۔  اس کا حال پوچھ کر وہ ایسے ایسے جواب بھگت چکے تھے جن کے بعد اب کسی کا حوصلہ نہ پڑتا تھا کہ وہ اس سے راہ و رسم پیدا کرنے کی سوچے۔  ہاں ، حافظ عبداللہ کا معاملہ الگ تھا۔  وہ جب بھی مزار پر فاتحہ کے لئے جاتا، درویش اپنے کمرے سے نکل آتا۔  اس کے جانے تک مزار کے باہر کھڑا رہتا۔  جاتے ہوئے اس سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملاتا۔ چمکدار نظروں سے اسے دیکھتا۔  ہولے سے مسکراتا اور واپس اپنے کمرے میں چلا جاتا۔  حافظ عبداللہ نے بھی اس سے زیادہ اسے کبھی تنگ نہیں کیا تھا۔  ہاں  اگر کبھی وہ اسے نہ ملتا، تو وہ اس کے کمرے میں ضرور جھانک لیتا مگر اسے وہاں موجود نہ پاتا۔  اس سے حافظ عبداللہ نے سمجھ لیا کہ درویش سے ا س کی ملاقات تبھی نہیں ہوتی، جب وہ وہاں نہیں ہوتا۔  وہ کہاں جاتا ہے؟ کب لوٹتا ہے؟ حافظ عبداللہ نے کبھی ان سوالوں کا جواب جاننے کی سعی نہ کی۔
 آج اس کا دل کچھ عجیب سا ہو رہا تھا۔  منزل کرنے کو جی مائل نہ تھا۔  اس کے دادا قاری بشیر احمد مرحوم کا کہنا تھا کہ زبردستی قرآن پاک پڑھنا چاہئے نہ اس پر غور کرنا چاہئے، بلکہ جب قرآن خود اجازت دے، تب اسے کھولا جائے۔  اور اس کی طرف سے اجازت کی نشانی یہ تھی کہ بندے کا دل خود قرآن پڑھنے کو چاہے۔ سو آج بڑی مدت کے بعد جب حافظ عبداللہ کا دل دہرائی کو نہ چاہا تو وہ سمجھ گیا کہ آج قرآن پاک کی طرف سے اسے منزل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔  اس لئے وہ قرآن حکیم کا نسخہ اپنے ساتھ ہی نہ لایا۔  مقررہ وقت پر ٹبے پر پہنچا اور سیلاب کی دھیرے دھیرے بہتی لہروں پر نظریں جما کر بیٹھ گیا۔  تھوڑی ہی دیر بعد وہ سوچوں کے گرداب میں ایسا گم ہوا کہ خود سے بے خبر ہو گیا۔  وقت گزرنے کا احساس ناپید ہو گیا۔  پھر جب سورج کی ٹکیہ اپنے آخری مقام کو چھونے لگی تو اسے ہوش آیا۔  
ایک طویل سانس لے کر اس نے حدِ نظر تک پھیلی سیلابی چادر پر ایک نگاہ ڈالی اور اٹھ گیا۔  پھر ایک دم چونک پڑا۔
اس کی نظریں پانی میں بہتے آ رہے درخت کے ایک تنے پر جم گئیں جس کے ساتھ کوئی انسانی جسم چمٹا ہوا تھا۔  اس نے غور سے دیکھا۔  وہ کوئی عورت تھی، کیونکہ دور سے بھی اس کے پھولدار کپڑوں کی جھلک نمایاں تھی۔
حافظ عبداللہ نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔  خانقاہ کی جانب نظر دوڑائی مگر درویش کو آواز دینے کا اسے حوصلہ نہ ہوا۔  چاہا کہ گاؤں سے کسی کو مدد کے لئے بلائے مگر اتنا وقت نہ تھا۔  جب تک وہ کسی کو مدد کے لئے بلاتا، اندھیرا مزید بڑھ جاتا۔  پھر وہ دریا میں بہتی اس عورت کو بچا پاتا، اس کا اسے یقین نہ تھا۔  اس نے زیادہ تردد میں پڑنے کے بجائے کندھوں سے گرم چادر اور سرسے ٹوپی اتار کر درخت کے نیچے رکھتے ہوئے پاؤں سے چپل بھی نکال دی۔  پھر آستینیں اُڑستے ہوئے ٹھنڈے یخ پانی میں چھلانگ لگا دی۔
اس کا خیال درست تھا۔  درخت کے تنے کے قریب پہنچا تو پتہ چلا کہ اس سے چمٹی ہوئی وہ ایک جواں سال لڑکی ہی تھی جو بیچاری نجانے کہاں سے سیلاب کے ریلے میں بہتی چلی آ رہی تھی۔  اس نے بڑی مضبوطی سے درخت کی چھوٹی چھوٹی شاخوں کو اپنے ہاتھوں سے جکڑ رکھا تھا۔  آنکھیں بند تھیں اور بیہوش تھی۔  سردی اور سرد پانی کے باعث اس کے ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے۔
حافظ عبداللہ نے اس کے جسم سے چپکے ہوئے کپڑوں سے بری طرح جھانکتے اس کے پُر شباب جسم سے نظریں چراتے ہوئے درخت کے تنے کو پیروں کی جانب سے کنارے کی طرف دھکیلنا شروع کیا اور بڑی مشقت سے تقریباً پندرہ منٹ بعد ٹبے کے قریب لانے میں کامیاب ہو گیا۔
کنارے کی کچی زمین پر ایک چوتھائی درخت کو کھینچ لینے کے بعد اس نے آنکھیں بند کر کے جگہ جگہ سے پھٹ جانے والے کپڑوں سے جھانکتے لڑکی کے نیم برہنہ اکڑے ہوئے جسم کو اس پر سے اتارا۔  اس کی مدھم سی چلتی ہوئی سانس کو محسوس کیا۔ ٹبے سے اپنی چادر اٹھائی۔  اس میں لڑکی کو لپیٹا۔  ٹوپی سر پر رکھی۔  پاؤں میں چپل ڈالی۔  درخت کو حسبِ معمول تھپکی دی اور ٹبے سے اتر آیا۔  پھر لاحول پڑھ کر شیطانی خیالات کو دور بھگاتے ہوئے آنکھیں بند کر کے لڑکی کا چادر میں لپٹا جسم کندھے پر ڈالا۔  اس کے اپنے گیلے کپڑے جسم سے چپکے ہونے کی وجہ سے سردی ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی۔
اسی وقت خانقاہ سے "ا للہ اکبر" کی صدا بلند ہوئی۔  وہ ایک پل کو حیران ہوا۔  درویش خانقاہ کے باہر ایک اونچی جگہ کھڑا اذان دے رہا تھا۔  وہ لڑکی کا جسم کندھے پر لئے حتی الامکان تیز قدموں سے خانقاہ کی جانب چل دیا۔
٭
جب تک وہ خانقاہ کے قریب پہنچا، درویش اذان دے کر اندر جا چکا تھا۔  اس نے ایک لمحے کو خانقاہ سے باہر کھڑے رہ کر کچھ سوچا، پھر اللہ کا نام لے کر اندر داخل ہو گیا۔  
پہلے کمرے کا دروازہ بند تھا۔  وہ ایک پل کو اس کے باہر رکا۔  اندر سے کسی کے ہلکی آواز میں قرات کرنے کی آواز ا رہی تھی۔  شاید درویش نماز پڑھ رہا تھا۔  اس نے دوسرے کمرے کا رخ کیا جس کا دروازہ کھلا تھا۔  باہر ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل چکا تھا۔  کمرے کی واحد کھڑکی سے آتی ہوئی ملگجی سی روشنی کمرے کا اندھیرا دور کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہی تھی۔  اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کمرے کے ماحول کو محسوس کیا۔  چند لمحے بُت بنا کھڑا رہا۔  پھر جب اس کی آنکھیں نیم اندھیرے میں دیکھنے لگیں تو وہ قدم قدم آگے بڑھا۔  کمرے کی بائیں دیوار کے ساتھ بچھی بان کی چارپائی پر لڑکی کو ڈالا اور دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔  اس کا سانس اعتدال پر آتے آتے دو تین منٹ گزر گئے۔  لڑکی پر ایک طائرانہ نظر ڈال کروہ آہستہ سے پلٹا۔  اس کا ارادہ تھا کہ درویش سے جا کر ملے اور اسے ساری بات بتا کر اس صورتحال میں اس سے مدد مانگے۔ 
ابھی وہ دو ہی قدم چلا تھا کہ رک گیا۔  کمرے میں اچانک ہی روشنی کی ایک لہر در آئی تھی۔  اس نے ٹھٹک کر دیکھا۔  درویش کمرے کے دروازے میں جلتا ہوا چراغ ہاتھ پر رکھے کھڑا اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
" بابا۔  آپ۔۔۔ " حافظ عبداللہ نے اسے دیکھ کر کہنا چاہا۔
"شش۔۔۔ " درویش نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے بولنے سے روک دیا اور آگے بڑھ آیا۔  " خاموش۔  " وہ دبی آواز سے بولا۔ " کمرہ امتحان میں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ "
"کمرہ امتحان؟" حافظ عبداللہ نے حیرت سے کہا۔
"ہاں۔ " درویش نے چراغ اسے تھما دیا۔ " یہ لے۔  اسے طاق میں رکھ دے۔ "
"بابا۔ " حافظ عبداللہ نے چراغ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔  وہ اب بھی حیرت زدہ تھا۔  "کیسا امتحان؟ "
"یہ۔۔۔ " درویش نے چارپائی بے سدھ پر پڑی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔  " یہ امتحان ہی تو ہے جس میں تو نے خود کو ڈال لیا ہے۔ "
"یہ۔۔۔  یہ تو۔۔۔  سیلاب کے پانی میں بہتی چلی آ رہی تھی۔۔۔  میں تو اسے بچا کر یہاں اٹھا لایا ہوں۔ " حافظ عبداللہ نے اسے بتایا۔
"اچھا کیا۔  بہت اچھا کیا۔ " درویش نے ایک کونے میں پڑا کمبل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا کہ لڑکی کو اوڑھا دے۔  " نیکی کی ہے ناں۔  اب بھگت۔  نیکی کرنا اتنا آسان ہوتا تو ساری دنیا کرتی پھر تی۔  نیکی کرنا اس کی مشیت کے تابع ہونا ہے حافظ۔  تابعدار ہونا چاہا ہے ناں تو نے؟ ایک بار سوچ لے۔  اچھی طرح۔  ابھی وقت ہے کہ تو آزمائش میں پڑے بغیر نکڑ کی گلی سے نکل جائے۔  کچھ دیر اور گزر گئی تو یہ راستہ بند ہو جائے گا۔  پھر تو چاہے نہ چاہے، تجھے امتحان دینا پڑے گا۔  نتیجہ کیا نکلے گا؟ نہ تو جانتا ہے نہ میں۔  بس وہ جانتا ہے۔" درویش نے چھت کی جانب انگلی اٹھا دی۔ " وہ۔۔۔  جو سب جانتا ہے اور کچھ نہیں بتاتا۔ جسے بتاتا ہے اسے گونگا بہرہ کر دیتا ہے۔ اندھا بنا دیتا ہے۔  ابھی وقت ہے۔  سوچ لے۔  سوچ لے۔ " درویش نے اپنی بے پناہ چمک دیتی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا۔
"بابا۔ " حافظ نے چراغ طاق میں پڑے قرآن پاک کے چند بوسیدہ نسخوں کے پاس رکھا اور کمبل میں لڑکی کا بدن خوب اچھی طرح لپیٹ کر درویش کی جانب پلٹا۔  "میں کچھ نہیں سمجھا۔  آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ "
"کھل کر سمجھاؤں تجھے؟" اچانک درویش کا لہجہ جھڑکی دینے کا سا ہو گیا۔  " تو سُن۔  جا۔  اس کو وہیں سیلاب کے پانی میں پھینک آ۔  نیکی ہے ناں۔ اسے اسی دریا میں ڈال آ، جہاں سے نکال کر لایا ہے۔ نیک نہ بن۔  خطا کار بنا رہ۔  جان بچی رہے گی۔  نیک بنے گا تو امتحان میں ڈال دے گا تجھے۔۔۔ " اس نے سسکی لی۔  "بڑا ڈاہڈا ہے وہ۔  رعایتی نمبر آسانی سے نہیں دیتا۔۔۔  " پھر جیسے وہ جھلا گیا۔  "مگر میں تجھے یہ سب کیوں سمجھا رہا ہوں ؟ کیوں تیرا اور اپنا وقت خراب کر رہا ہوں ؟ جو تیرے جی میں آئے کر میاں۔ " اس نے حافظ کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔  " کل کو تو اس کے سامنے میرے خلاف گواہی دے دے گا کہ میں نے تجھے نیکی کرنے سے روکا تھا۔  نہ بابا نہ۔  تو اپنی مرضی کر۔  تو جانے اور وہ۔  مجھے معاف رکھ۔ " وہ بڑبڑاتا ہوا جانے کے لئے پلٹا۔
"بابا۔ " حافظ عبداللہ لپک کر اس کے راستے میں آ گیا۔ " مجھے کس الجھن میں ڈال کر جا رہے ہیں آپ؟ میں۔۔۔  میں۔۔۔  اس کا کیا کروں ؟" اس نے بازو دراز کر کے لڑکی کی جانب اشارہ کیا جو ہولے سے کسمسائی تھی۔
درویش ایک بار ساری جان سے لرز گیا۔  پھر اس نے بڑی اجنبی نظروں سے حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔  حافظ ان نظروں سے گھبرا کر رہ گیا۔  عجیب سی سردمہری تھی ان میں۔
"میں نے کہا تھا کہ وقت گزر گیا تو امتحان شروع ہو جائے گا تیرا۔  " درویش نے بڑے گمبھیر لہجے میں کہا۔  " گھنٹی بج چکی۔  پرچہ حل کرنے کا وقت شروع ہو گیا۔  اب کچھ نہیں ہو سکتا۔  تو نے باتوں میں وہ سارا وقت گزار دیا جو تجھے بھاگ جانے کے لئے دیا گیا تھا۔  نکڑ کی گلی بند ہو گئی۔  اب تو جس دروازے سے کمرہ امتحان میں داخل ہوا تھا اسی سے باہر جائے گا مگر اس وقت جب پرچہ حل کر لے گا۔  خالی کاغذ دے کر جانا چاہے گا تو میں نہیں جانے دوں گا۔  " درویش نے کسمسا کر کراہتی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔  "یہ پرچہ تجھے ہی حل کرنا ہے۔  میں دعا کروں گا کہ تجھے اس میں زیادہ سے زیادہ رعایت دی جائے۔  اب وہ مانے یا نہ مانے، یہ اس کی مرضی۔ " وہ چل دیا۔  
"بابا۔ " حافظ اس کے پیچھے لپکا۔  " مجھے مسجدجانا ہے۔  وہاں کسی کو پتہ نہیں کہ میں کہاں ہوں اور کس کام میں الجھ گیا ہوں۔۔۔  ا س کے وارثوں کا بھی کوئی پتہ نہیں۔  یہ کون ہے؟ کہاں سے بہتی آئی ہے؟ اسے یوں کیسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں ہم؟"
"ہم نہیں۔ " درویش نے ہاتھ اٹھا کر اسے ٹوک دیا۔ "تم۔۔۔  صرف تم۔  میرا اس سے کیا تعلق؟ " وہ بد لحاظی سے بولا۔
"مگر بابا۔  رات بھر میں اس کے ساتھ کیسے۔۔۔  یہاں۔۔۔  اکیلا۔ " حافظ ہکلا کر رہ گیا۔
"یہی تو میں تجھے سمجھا رہا تھا اس وقت۔ " درویش ملامت کے سے انداز میں بولا۔  " اسی لئے تو میں نے کہا تھا کہ اسے جہاں سے لایا ہے وہیں ڈال آ۔  خواہ مخواہ مصیبت میں نہ پڑ۔۔۔  مگر ۔۔۔ "
"تمہارا مطلب ہے بابا۔  میں اسے واپس سیلاب کے پانی میں پھینک آتا؟" حافظ عبداللہ نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
"ہاں۔ " درویش سر جھٹک کر بولا۔  " یہی مطلب تھا میرا۔  مگر تو نے کج بحثی میں سارا وقت گنوا دیا۔  اب بھگت۔ "
" بابا۔  تم جانتے ہو اس سے کیا ہوتا؟" حافظ عبداللہ اب بھی حیران تھا۔  
"کیا ہوتا؟" درویش نے لاپرواہی سے پوچھا۔
"یہ مر جاتی۔ "
"بچانے والے کی کیا مرضی ہے، یہ تو کیسے جانتا ہے؟ اگر اسے بچانا ہوتا تو وہ اسے تیرے واپس پانی میں پھینکنے پر بھی بچا لیتا۔ "
"بالکل ٹھیک۔ " حافظ کا لہجہ اچانک بدل گیا۔ "مگر بابا۔  پھر میں اسے کیا منہ دکھاتا۔  اپنے اس ظلم کا کیا جواز پیش کرتا اس کے سامنے، جو میں اس مظلوم کی جان پر کرتا۔ "
"تو نہ پیش کر جواز۔  اب بھگت۔  اس اندھیری رات میں ، اس کے ساتھ اکیلا رہ اور اس کی دیکھ بھال کر۔  اس کی خدمت کر۔  اسے زندہ رکھنے کی کوشش کر۔  آزمائش کے کمرے میں بیٹھ کر پرچہ حل کر۔  اگر صبح تک تو اپنے آپ سے بچ گیا تو میں تجھ سے آن ملوں گا ورنہ۔۔۔ " اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
" آپ کہاں جا رہے ہیں بابا؟" حافظ نے گھبرا کر پوچھا۔
"پتہ نہیں۔  مگر یہاں بہرحال نہیں رہوں گا۔ " درویش اس کی جانب دیکھ کر عجیب سے انداز میں بولا۔ " یہاں رہا تو تجھے میرا آسرا رہے گا۔  حوصلہ رہے گا کہ تو اکیلا نہیں ہے۔  میں تیرے آس پاس ہوں۔  تجھے میرے یہاں ہونے کی شرم مارے گی۔  تو جو کرنا چاہے گا، اس میں میرے یہاں ہونے کا خیال رکاوٹ بن جائے گا۔  پھر تو موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔  اور میں تیرے کسی بھی فعل میں اگر مدد نہیں کرنا چاہتا تو تیرے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں حائل ہونے کا بھی مجھے کیا حق ہے؟"
"بابا۔ " حافظ نے کہا اور چراغ کی مدھم سی روشنی میں گردن گھما کر لڑکی کی جانب دیکھا جو ایک بار پھر بالکل بے سدھ ہو گئی تھی۔  شاید کمبل کی گرمی نے اسے سکون پہنچایا تھا۔  پھر وہ درویش کی جانب متوجہ ہوا۔ "اب جو ہو سو ہو۔  اب مجھے مجبوراً یہاں رکنا پڑے گا۔ "
"تو رک۔  میں کب نکال رہا ہوں تجھی۔  ہاں ایک پل ٹھہر۔ " درویش کمرے سے نکل گیا۔  ذرا دیر بعد وہ لوٹا تو اس کے ایک ہاتھ میں چنگیر اور دوسرے ہاتھ میں ایک کھیس اور تکیہ دبا ہوا تھا۔ " یہ لے۔  اس میں تیرے اور اس کے لئے کھانا ہے اور یہ تیرا رات گزارنے کا سامان ہے۔  اکڑ کر مر گیا تو میں اسے کیا جواب دوں گا؟"
حافظ عبداللہ نے اس کے ہاتھ سے دونوں چیزیں لے لیں۔  
"جا رہا ہوں۔  اب تیرے اور اس کے سوا یہاں اور کوئی نہیں ہے۔  "’
"ہے بابا۔ " حافظ عبداللہ مسکرایا اور کھیس اور تکیہ دیوار کے ساتھ فرش پر ڈال دیا۔
"جس کی تو بات کر رہا ہے، میں اس کی بات نہیں کر رہا۔  وہ تو ہر کہیں ہے۔ بس ہمیں اس کا یقین نہیں آتا۔ " درویش پلٹ گیا۔ "صبح ملاقات ہو گی۔ "
"انشاءاللہ۔ " حافظ کے لہجے میں نجانے کیا تھا کہ درویش نے مڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
"انشاءاللہ۔ " ہولے سے اس نے کہا اور دروازے سے نکل گیا۔  
خالی دروازے کو چند لمحوں تک دیکھتے رہنے کے بعد حافظ عبداللہ آہستہ سے لڑکی کی جانب پلٹا۔  چراغ کی زرد اور تھرتھراتی روشنی میں اس نے دیکھا کہ وہ چارپائی پر بالکل چت پڑی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔  اس کے ہونٹوں کی سرخی لوٹ رہی تھی۔  گیلے بالوں کی لٹیں چہرے پر بکھری ہوئی تھیں اور کمبل میں مستور سینے کا زیر و بم طوفان اٹھا رہا تھا۔  
حافظ عبداللہ نے گھبرا کر اس کی طرف سے نگاہیں پھیر لیں۔  شیطانی خیالات سے نجات پانے کے لئے تین بار لاحول پڑھ کر سینے پر پھونک ماری اور آگے بڑھ کر چنگیر اس الماری نما کھڈے میں رکھ دی جو طاق کے ساتھ بنا ہوا تھا۔
کھیس اور تکیہ اٹھاتے ہوئے اچانک ہی اسے سردی کا احساس ہوا۔  اس نے کچھ سوچا۔  پھر دونوں چیزیں اینٹوں کے فرش پر ڈال کر کمرے سے نکل آیا۔  دونوں کمرے خالی تھی۔  درویش واقعی کہیں جا چکا تھا۔  مزار سے باہر ایک طرف لگے ہینڈ پمپ کی طرف جاتے ہوئے اس نے آسمان پر نگاہ دوڑائی۔  تارے نکل رہے تھے۔  دل ہی دل میں اس نے چاند کی تاریخ کا حساب لگایا۔  گزشتہ دن میں ربیع الاول کی گیارہ تاریخ تھی۔  اس کا مطلب یہ تھا کہ بارہ ربیع الاول کی شب شروع ہو چکی تھی۔  آسمان صاف تھا اور چاند ابھرنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔
انہی خیالات میں ڈوبا وہ ہینڈ پمپ پر پہنچا۔  گیلا کُرتا اور بنیان اتار کر اچھی طرح نچوڑ کر دوبارہ پہننے کے بعد اس نے ایک نظر مزار کے اندرونی دروازے پر ڈالی۔  پھر وہاں سے ہٹ گیا۔  مزار کے پیچھے جا کر اس نے جلدی سے شلوار اتاری۔  خوب اچھی طرح نچوڑ کر پانی نکالا اور جھاڑ کر پہن لی۔  ہولے ہولے چلتا ہوا ہینڈ پمپ پر آیا۔  ہتھی کو چھوا تو جسم میں کپکپی سی دوڑ گئی۔  تاہم اس نے حوصلے سے کام لیا اور ہتھی پر زور ڈال دیا۔  تھوڑی دیر تک پانی نکلنے دیا۔  پھر دوسرا ہاتھ نکلتے ہوئے پانی کے نیچے کیا تو پانی کم ٹھنڈا محسوس ہوا۔  تھوڑا پانی اور نکالنے کے بعد اس نے "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کہہ کر وضو شروع کر دیا۔  فارغ ہوا تو اس کے دانت بج رہے تھے۔  گیلی ٹوپی کو سر پر جماتے ہوئے وہ کانپتا ہوا اندر کو چلا۔  کمرے میں داخل ہوا تو لڑکی بدستور اسی حالت میں چت پڑی سو رہی تھی، جیسے وہ چھوڑ گیا تھا۔ اس نے اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالی اور جوتی دروازے میں اتار کر کونے میں کھڑی کھجور کی چٹائی کی طرف بڑھا۔  اسے کھولا۔  جھاڑا اور چارپائی کے مقابل دیوار کے ساتھ فرش پر بچھا دیا۔  پھر کھیس اٹھایا اور کس کر اس کی بکل مار لی۔  اسی وقت کھلے دروازے سے ہوا کا ہلکا سا جھونکا اندر داخل ہوا۔  ٹھنڈک کو کمرے کے ماحول کے سپرد کیا اور ناپید ہو گیا۔  پلٹ کر حافظ عبداللہ نے دروازہ بھیڑ دیا۔  فوراً ہی اسے کمرے کی یخ بستگی میں کمی کا احساس ہوا۔  یہ شاید اس کے محسوس کرنے کا اعجاز تھا، ورنہ اتنی جلدی سردی کا کم ہو جانا ممکن نہ تھا۔  
وہ پاؤں جھاڑ کر صف پر کھڑا ہوا۔  ایک بار نظر گھما کر سارے کمرے کا جائزہ لیا۔  پھر قبلہ رخ ہو کر اس نے نماز کی نیت کی اور ہاتھ بلند کر دئیے۔
"اللہ اکبر۔ " حافظ عبداللہ کے ہونٹوں سے سرگوشی بر آمد ہوئی اور سارا ماحول عجیب سے سکون میں ڈوبتا چلا گیا۔  اس نے ہاتھ ناف پر باندھے اور آنکھیں سجدے کی جگہ پر جما کر اتنی آہستہ آواز میں قرات شروع کر دی جسے وہ خود سن سکتا تھا یا پھر اس کا معبود، جو پہاڑ کی چوٹی پر چیونٹی کے رینگنے کی آواز سننے پر بھی قادر تھا۔  چراغ کی لو نے تھرتھرانا بند کر دیا۔  شاید وہ بھی حافظ عبداللہ کی قرات سننے میں محو ہو گئی تھی۔
 
رات کا کھانا عشاء کے فوراً بعد کھا لیا گیا۔  پھر دوبارہ سے صفیہ کو تو عورتوں نے گھیر لیا اور طاہر، ملک کے ساتھ چوپال میں چلا گیا۔
چوپال گاؤں کے مغربی کنارے پر قبرستان کے ساتھ ایک ایسی بے درو دیوار کی چھت کے نیچے نشست کی جگہ تھی، جو آٹھ مدور ستونوں پر قائم تھی اور اس کے نیچے تقریباً پانچ سو آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔  اس کے مشرقی گوشے میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کے باہر چولہا بنا ہوا تھا۔  اس پر وہاں خدمت گار بابا شمسو روزانہ شام ہوتے ہی چائے کا بڑا سا پتیلا چڑھا دیتا جو گاؤں والوں اور اجنبی مہمانوں کی سیوا کے لئے لذتِ کام و دہن کا سبب بنتا۔ بید کے موڑھے اور بڑی بڑی چارپائیاں چوپال میں پڑی رہتیں ، جن پر رات کو گاؤں والوں کی بلا ناغہ محفل جمتی۔  
سفید شلوار قمیض اور سیاہ گرم واسکٹ میں ملبوس، پاؤں میں زرتار کھسہ پہنے طاہر، بلال ملک کی معیت میں وہاں پہنچا تو گاؤں کے پچیس تیس بڑے بوڑھے اور جوان آدمی بیٹھے حقے گڑگڑا تے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔
طاہر کی آمد پر سب لوگ ایک بار کھڑے ہوئی، پھر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔  وہ ان کے نیم دائرے میں ایک موڑھے پر بیٹھ گیا اور فرداً فرداً سب کا حال چال پوچھنے لگا۔  ہوتے ہوتے باتوں کا موضوع گاؤں کے سکول ماسٹر شیخ محسن کی بیٹی پر آ کر رک ساگیا۔
"ماسٹر کی بیٹی زبیدہ نے اپنے لئے آیا ہوا اپنی برادری کے ایک چالیس سالہ شخص نثار شیخ کا رشتہ صاف ٹھکرا دیا جی۔ " ملک کہہ رہا تھا۔
"زبیدہ کی اپنی عمر کتنی ہے؟" طاہر نے دلچسپی سے پوچھا۔
"بیس اکیس سال ہو گی جی۔ "
"پھر تو اس نے ٹھیک کیا۔ " طاہر نے تائید کی۔ " دگنی عمر کے بندے سے وہ کیوں شادی کرے؟"
"وہ تو ٹھیک ہے جی مگر ۔۔۔ " ملک نے دوسرے لوگوں کی طرف دیکھا۔  کسی نے بھی اس کی نظر کا ساتھ نہ دیا اور یوں ظاہر کیا جیسے وہ سب اس بات سے ناواقف ہوں۔
"مگر کیا ملک۔  بات پوری کیا کرو۔  ادھار کی رقم کی آدھی واپسی کی طرح درمیان میں وقفہ نہ ڈالا کرو۔ "
"ایسی بات نہیں ہے چھوٹے مالک۔ " ملک کھسیانا سا ہو گیا۔  " میں یہ کہہ رہا تھا کہ بات اس آدمی کی زیادہ عمر ہی کی نہیں تھی۔  بات کچھ اور بھی تھی۔ "
"وہ کیا؟"
"زبیدہ کسی اور کو پسند کرتی تھی جی۔ " ملک نے کہا اور اس کے سر سے جیسے بہت بڑا بوجھ اتر گیا۔
" تو۔۔۔۔ ؟" طاہر نے اس کے چہرے پر جما دیں۔
"ماسٹر محسن نے اس بات کا علم ہونے پر زبیدہ کی وہ دھنائی کی کہ اللہ دے اور ؂ے۔ "
"کیا مطلب ؟" طاہر بری طرح چونکا۔
"ظاہر ہے جی۔  جوان بیٹی جب منہ سے بر مانگ لے تو غیرت مند باپ تو اسے جان سے ہی مار دے گا۔ " ملک نے گردن اکڑا کر کہا۔ " وہ تو شکر ہے کہ زبیدہ کی ماں نے اسے بچا لیا ورنہ ماسٹر محسن تو شاید اس کی گردن اتار دیتا۔ "
"اس کے بعد کیا ہوا؟" طاہر نے اضطراب سے پوچھا۔
" ہونا کیا تھا چھوٹے مالک۔ " ملک بلال نے لاپروائی سے کہا۔  " یہ پندرہ دن پہلے کی بات ہے۔  زبیدہ کا رشتہ ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔  ماسٹر نے اسے مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ اب وہ چارپائی پر پڑی ہے۔  "
"اور جس سے وہ خود شادی کرنا چاہتی تھی۔۔۔ "
"وہ۔۔۔  وہ بے غیرت کا بچہ گھر میں منہ چھپائے بیٹھا ہے۔  "
"کون ہے وہ؟" طاہر کا اضطراب اب بھی باقی تھا۔
"لالو تیلی کا بیٹا عادل۔ "
"عادل۔ " طاہر پھر چونکا۔  "وہی عادل، جس نے پچھلے سال وظیفے کے امتحان میں ٹاپ کیا تھا اور جو آج کل محکمہ زراعت میں نوکری کر رہا ہے۔ "
"وہی جی۔  وہی بے غیرت عادل۔ " ملک نے نفرت سے کہا۔
"اس نے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا؟" طاہر نے سر جھکائے، پاؤں سے زمین کریدتے اور غیر محسوس آواز میں حقے گڑگڑاتے ان مٹی کے مادھوؤوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جن کی غیرت اور بے غیرتی کا اپنا ہی معیار تھا۔
"کیا تھا جی۔  اس نے اپنے ماں باپ کو ماسٹر کے ہاں زبیدہ کے رشتے کے لئے بھیجا تھا۔  جواب میں ماسٹر نے انہیں بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا اور ایک بار پھر بیٹی کی خوب دھلائی کی۔ "
"لاحول ولا قوة۔ " بے اختیار طاہر کے لبوں سے نکلا۔  پھر اس نے بڑی کڑی نظروں سے ملک کو دیکھا۔  "میرا خیال تھا کہ تعلیم اور بدلتے ماحول نے وجاہت آباد کے لوگوں کو فراخ دل اور وسیع النظر بنا دیا ہے مگر لگتا ہے اس کے لئے ابھی وقت لگے گا۔ "
"کیا مطلب چھوٹے مالک۔ " بلال ملک نے گھبرا کر اس کی جانب دیکھا۔  باقی سب لوگوں نے بھی چونک کر سر اٹھائے اور طاہر کی طرف متوجہ ہو گئے۔
"اس کا جواب میں تھوڑی دیر بعد دوں گا۔ تم فوری طور پر ماسٹر محسن، لالو اور عادل کو یہاں بلاؤ۔ "
" آپ کیا کرنا چاہتے ہیں چھوٹے مالک؟" ملک باقاعدہ گھبرا گیا۔
"جو کروں گا تم سب دیکھ ہی لو گے۔  فی الحال جو کہا ہے اس پر عمل کرو۔  ان تینوں کو بلاؤ یہاں۔  ابھی۔ " طاہر کا لہجہ سخت ہو گیا۔
"جی چھوٹے مالک۔ " ملک نے بیچارگی سے یوں کہا جیسے خود کو ماں بہن کی گالی دے رہا ہو کہ اس نے طاہر کے سامنے یہ بات کی ہی کیوں ؟ پھر اس نے بائیں ہاتھ چارپائی پر بیٹھے ایک ادھیڑ عمر آدمی کو ہاتھ کے اشارے سے اٹھ جانے کو کہا۔
"اوئے شکورے۔  جا۔  لالو، ماسٹر محسن اور عادل کو بلا کر لا۔  کہنا چھوٹے مالک نے بلایا ہے۔ "
"جی ملک صاحب۔ " شکورا اٹھا اور چل پڑا۔
"اور سن۔  " ملک نے اسے روکا۔  " تینوں کو اکٹھا نہ کر لینا۔  کہیں یہاں پہنچنے سے پہلے خون خرابہ کر بیٹھیں۔  لالو کا گھر پہلے ہے۔  اسے جاتے ہوئے پیغام دے جا۔  پھر ماسٹر کے گھر جانا۔  اور دونوں میں سے کسی کو نہ بتانا کہ دونوں کو یہاں اکٹھے بلایا گیا ہے۔ "
"جی ملک صاحب۔ " شکورا سر ہلا کر چل دیا۔
"تم اچھے بھلے عقلمند آدمی ہو ملک۔ " طاہر نے اس کی بات سے متاثر ہو کر کہا۔  "مگر میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ روایتی معاملوں میں تمہاری عقل کس جنگل میں گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔ "
"یہ غیرت کے معاملے میں کسی کے قابو نہیں آتے چھوٹے مالک۔ " ملک خجل ہو گیا۔ "میں نے ان دونوں خاندانوں کو بہت سمجھایا مگر سب بے سود۔ "
" آئندہ یاد رکھنا۔ ایسا کوئی بھی معاملہ ہو، اگر تمہارے قابو میں نہ آئے تو مجھے فوراً خبر کرنا۔  میں گاؤں میں کسی قسم کی بدمزگی نہیں چاہتا۔ "
"جی چھوٹے مالک۔ " ملک نے سر جھکا لیا۔  
اسی وقت موبائل گنگنا اٹھا۔ طاہر نے سائڈ کی جیب سے سیٹ نکالا۔  سکرین پر صفیہ کا نام دیکھ کراس نے یس کا بٹن دبا دیا۔
"ہیلو۔ " اس نے موبائل کان سے لگا لیا۔  "کیا بات ہے؟"
" آپ کب تک لوٹیں گے؟" صفیہ نے پوچھا۔
"خیریت؟"
"جی ہاں۔  بالکل خیریت ہے۔  ایک ضروری معاملہ آپ کے گوش گزار کرنا تھا۔ "
"کوئی ایمرجنسی ہے کیا؟" طاہر نے چونک کر پوچھا۔
"ایسی ایمرجنسی بھی نہیں مگر میں چاہتی تھی کہ یہ بات آپ کے علم میں جتنی جلدی آ جائے، اس کا کوئی حل نکل آئے گا۔ "
"میں بھی یہاں ایک خاص معاملے میں الجھا ہوا ہوں۔  اس وقت آٹھ بجے ہیں۔  نو بجے تک لوٹوں گا۔  کیا اتنی دیر۔۔۔ "
"یہ کوئی دیر نہیں۔  " صفیہ نے جلدی سے کہا۔ " میں نے بتایا ناں کہ بہت زیادہ ایمرجنسی کی بات نہیں ہے۔  آپ نو بجے تک آ جائیے گا۔  پھر بات کریں گے۔ "
"اگر معاملہ زیادہ سیریس ہے تو۔۔۔ "
"جی نہیں۔  موبائل پر کرنے کی بات نہیں ہے۔  آپ گھر آ جائے۔  تسلی سے بات کریں گے۔ "
"او کے۔  میں جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔  اللہ حافظ۔ "
"اللہ حافظ۔ " صفیہ نے رابطہ کاٹ دیا۔
"خیریت ہے چھوٹے مالک۔ " ملک، ہونے والی گفتگو سے کچھ اندازہ نہ لگا پایا تو پوچھا۔
"ہاں۔  حویلی جاؤں گا تو پتہ چلے گا۔  ویسے خیریت ہی ہو گی۔  ورنہ تمہاری مالکن مجھے فوراً آنے کو کہتی۔ "
ملک جواب میں محض سر ہلا کر رہ گیا۔  چوپال میں خاموشی چھا گئی۔  کبھی کبھی حقے کی گُڑ گُڑ اس میں ارتعاش پیدا کر دیتی اور بس۔
٭
نماز سے فارغ ہو کر حافظ عبداللہ کچھ دیر چٹائی پر سر جھکائے بیٹھا رہا۔  وہ اب تک کی صورتحال پر غور کر رہا تھا۔  درویش کی باتیں اس کے دل و دماغ میں بھونچال سا پیدا کر رہی تھیں۔  اس کی کئی باتوں کا مفہوم اسے اب سمجھ آ رہا تھا۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔  پھر وہ اس وقت چونکا جب لڑکی کے ادھ کھلے ہونٹوں سے ایک ہلکی سی کراہ خارج ہوئی۔  وہ آہستہ سے اٹھا اور چارپائی کے پاس چلا آیا۔  لڑکی غنودگی ہی کے عالم میں کراہی تھی۔  ابھی تک اس کے ہوش میں آنے کے آثار واضح نہیں تھے۔  اس نے تو اب تک کروٹ بھی نہ لی تھی۔  چت پڑی تھی۔  
حافظ عبداللہ نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔  وہ اچھی خاصی قبول صورت تھی۔  عمر بیس بائیس سے زیادہ نہ ہو گی۔  شادی شدہ بھی نہ لگتی تھی۔ کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں۔  ناک میں لونگ نے اس کی کشش کو بڑھا دیا تھا۔  اس کے ہونٹوں کی نیلاہٹ اب تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ کمبل میں مستور اس کے بدن کا گداز حافظ عبداللہ کو یاد آیا تو وہ تھرا کر رہ گیا۔  "استغفر اللہ" کہہ کر اس نے لڑکی کی چہرے سے نظریں ہٹانا چاہیں ، مگر چونک کر رک گیا۔  نجانے کیوں اسے لگا کہ لڑکی بڑا کھینچ کر سانس لے رہی ہے اور اس کے چہرے پر نمایاں ہوتی ہوئی تمتماہٹ کمرے کے ماحول یا کمبل کی گرمی کی وجہ سے نہیں ہے۔  اپنا شک دور کرنے کے لئے اس نے اپنا ہاتھ لڑکی کے صبیح ماتھے پر رکھا اور گھبرا کر واپس کھینچ لیا۔  ماتھا تو آگ کی طرح تپ رہا تھا۔ اپنے اندیشے کی تصدیق کیلئے اس نے ذرا سا کمبل سرکایا اور لڑکی کا پہلو میں پڑا ہاتھ چھو کر دیکھا۔  ہاتھ بھی انگارہ بنا ہوا تھا۔
"کہیں اس پر نمونیہ کا حملہ تو نہیں ہو گیا؟" اس کے ذہن میں ایک خیال سرسرایا۔
یہ ناممکن بھی نہیں تھا۔  وہ نجانے کب سے سیلاب کے یخ پانی میں بہ رہی تھی۔  پانی سرد، اوپر سے سردی کا موسم۔  اس کا اکڑا ہوا بدن تو اب نرمی پکڑ رہا تھا مگر سردی یقیناً اس پر اپنا اثر دکھا چکی تھی۔
لڑکی کا ہاتھ کمبل کے اندر کر کے وہ سیدھا ہو گیا۔  اس وقت، اس جگہ وہ اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا تھا۔  دوا کے نام پر وہاں پھانکنے کو دھول تک نہ تھی۔  اور اس صورتحال میں وہ اس کے لئے کیا احتیاطی اور طبی تدبیر کرتا، اس سے وہ نابلد تھا۔  
کچھ سوچ کر وہ باہر نکلا، دروازہ بھیڑ دیا اور ساتھ والے کمرے میں چلا آیا۔  یہ وہ کمرہ تھا جس کے اندر سے اسے درویش کے نماز میں قرات کرنے کی آواز سنائی دی تھی۔  کمرے کے قبلہ رخ طاق میں چراغ جل رہا تھا۔ مغربی دیوار کے پاس آگے پیچھے دو چٹائیاں بچھی تھیں۔  آگے والی چٹائی پر عین درمیان میں رحل پر سبز جزدان میں ملفوف قرآنِ حکیم دھرا تھا۔ اس کے علاوہ کمرے میں اور کوئی سامان نہ تھا۔
وہ چاروں طرف نظر دوڑا کر باہر نکل آیا۔  اب اس کا رخ مزار کی جانب تھا۔  مزار کے باہر چپل اتار کر اس نے سبز دروازہ وا کیا اور اندر داخل ہو گیا۔  صحن کے پار سامنے سبزمنقش چادروں اور پھولوں سے ڈھکی بابا شاہ مقیم کی قبر پر چند اگر بتیاں سلگ رہی تھیں ، جن کی بھینی بھینی خوشبو سے وہاں کا ماحول اس اکیلی رات میں عجیب پُراسرار سا ہو گیا تھا۔ صحن کے بائیں ہاتھ بنے کمرے کو دیکھتا ہوا وہ بابا شاہ مقیم کے گنبد میں داخل ہو گیا۔
گنبد کے اندر شمالی جانب ایک لکڑی کی الماری میں اَن گنت قرآن پاک کے نسخے، سیپارے اور دوسری وظائف کی کتب پڑی تھیں۔ چھت کے درمیان کسی چاہنے والے نے قندیل لٹکا دی تھی۔  دیواروں پر پھولدار ٹائلیں جڑی تھیں۔  قبر کے ارد گرد دیواروں تک کی تقریباً چار چار فٹ کی جگہ پر کھجور کی صفیں ترتیب سے بچھی تھیں۔ مشرقی سمت میں ایک بڑی کھڑکی تھی جو اس وقت بند تھی۔ قبلہ رخ محراب بنی تھی تاکہ اگر کوئی وہاں نوافل وغیرہ پڑھنا چاہتا تو اسے دقت نہ ہوتی۔
حافظ عبداللہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا بابا شاہ مقیم کے چہرے کی جانب آیا اور دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔  بے اختیار اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔  سر جھک گیا اور ہاتھ گود میں آ پڑے۔  کچھ دیر اسی عالم میں گزری تو غیرمحسوس انداز میں اس کے دل کی دھڑکن مدھم سی ہو گئی اور وہ ارد گرد سے بے خبر ہو گیا۔
بڑی آہستگی سے ایک انجانی سی مہک کا ایک جھونکا جاگا اور حافظ عبداللہ کے گرد ہالہ سا تن گیا۔  مہک نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔  اسے لگا، اس کے بالوں میں بڑی نرمی سے کوئی اپنی انگلیاں پھیر رہا ہے۔  اسے دلاسہ دے رہا ہے۔  تشفی دے رہا ہے۔ پیار کر رہا ہے۔  ہمت بندھا رہا ہے اس کی۔  حوصلہ دے رہا ہے اسی۔
کتنی دیر گزری، اسے پتہ نہ چلا۔  جب یہ احساس مدھم پڑا تو دھیرے سے اس نے سر اٹھایا، تب اسے علم ہوا کہ اس کی داڑھی آنسووں سے تر تھی۔  شبنم، اس کے گود میں دھرے ہاتھوں پر قطرہ قطرہ گر رہی تھی۔  گریبان بھیگا ہوا تھا اور اندر جیسے دھُل سا گیا تھا۔
 آہستہ سے اس نے ہاتھ چہرے پر پھیرے۔  اشک سارے چہرے پر ملتے ہوئے لگا جیسے اس نے وضو کر لیا ہو۔
"بابا۔  " اس کے نہاں خانہ دل سے بے اختیار ایک سرگوشی ایک بار پھر آنسوؤں کی برسات لئے نکلی اور ماحول میں رچی مہک کے ساتھ ہو لی۔  ہچکیاں لیتے ہوئے اس نے قبر کے تعویذ پر سر ٹیک دیا۔
وہ کیوں رو رہا تھا؟ اسے خود معلوم نہ تھا لیکن اسے تو سب معلوم تھا جو اسے رُلا رہا تھا۔  نہیں۔ رُلا نہیں رہا تھا، اسے پاکیزگی کا غسل دے رہا تھا۔ اس پانی سے وضو کرا رہا تھا جو ہر ایک کے اندر تو ہوتا ہے، باہر نصیب والوں ہی کے آتا ہے۔ 
٭
ماسٹر محسن، لالو تیلی اور اس کا بیٹا عادل، تینوں آ چکے تھے۔
ماسٹر محسن ان دونوں کو بار بار بڑی کینہ توز نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ وہ باپ بیٹا سر جھکائے بیٹھے تھے۔
ماحول پر ایک تناؤ سا طاری تھا۔ طاہر نے ملک کی جانب دیکھا۔  اس نے اس کا عندیہ جان کر چاچا شمسو کو ہاتھ اٹھا کر دور ہی سے اشارہ کیا۔  اسی وقت دو تین آدمی اپنی جگہوں سے اٹھ گئے۔  تھوڑی دیر بعد وہ آدمی چاچا شمسو کے ساتھ سب لوگوں کو چائے کے پیالے تھما رہے تھے۔  
ملک نے طاہر کے بائیں ہاتھ موڑھے پر بیٹھے لالو اور عادل اور دائیں ہاتھ بیٹھے ماسٹر محسن کو خود چائے کے پیالے پیش کئے، جو خاموشی سے لے لئے گئے۔  طاہر اور ملک نے سب سے آخر میں چائے لی اور ہولے ہولے چسکیاں لینے لگے۔
پھر جب لالو اور ماسٹر محسن نے خالی پیالے زمین پر رکھے تو طاہر نے بھی اپنا پیالہ ملک کے حوالے کر دیا۔  پہلو بدلا۔  سنبھل کر بیٹھا اور ماسٹر محسن کی طرف متوجہ ہوا۔
"ماسٹر صاحب۔  میں نے آپ کو جس مقصد سے یہاں بلایا ہے، وہ تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ " اس نے بڑے ناپ تول کر الفاظ زبان سے نکالے۔
"جی۔ " ماسٹر محسن نے اس کی جانب نظریں اٹھائیں۔  " پھر بھی میں آپ کی زبان سے سننا چاہوں گا۔ " اس کی آواز بالکل سپاٹ تھی۔
"میں آپ سے عمر میں بھی چھوٹا ہوں اور منصب میں بھی ماسٹرصاحب۔  آپ خیر بانٹتے ہیں۔  علم کی آبیاری کرتے ہیں۔  میں کوشش کروں گا کہ میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری نہ ہو اور اگر ایسا ہو جائے تو وہ سہواً ہو گا۔  پھر بھی اس کے لئے میں پیشگی آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ " طاہر کے لہجے میں جو ادب تھا اس نے ماسٹر محسن کی پیشانی پر ٹوٹی ٹھیکریوں میں نمایاں کمی کر دی۔ کچھ دیر رک کر اس نے پھر زبان کھولی۔
"میں اس جھگڑے کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا جو ہو چکا ہے۔  صرف یہ چاہوں گا کہ اس جھگڑے کے اثرات مٹ جائیں۔ "
"کیسے؟" ماسٹر محسن کا لہجہ بڑا تلخ تھا۔
"اس کا حل تو موجود ہے ماسٹر صاحب مگر اس کے لئے آپ کی رضامندی بنیادی شرط ہے۔ " طاہر نے اس کڑواہٹ کو نظر انداز کر دیا۔
"اور اگر میں اس پر راضی نہ ہوں تو؟" ماسٹر نے بڑے ضبط سے کہا۔
"میں پھر بھی کوشش ضرور کروں گا ماسٹر صاحب۔  یہ میرا حق ہے اور مجھ پر فرض بھی۔  اپنے والد کے بعد گاؤں کے دُکھ سُکھ کی ذمہ داری مجھ پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے۔ "
"کیا مجھے کھل کر کچھ کہنے کی اجازت ہے چھوٹے مالک؟" اچانک ماسٹر محسن کا پیمانہ صبر جیسے لبریز ہو گیا۔  اس کے لہجے میں ٹیس سی محسوس کر کے طاہر کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
" آپ جو کہنا چاہیں ، جیسے کہنا چاہیں ، آپ کو اس کے لئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے ماسٹر صاحب۔  یہاں آپ کی کسی بات کا برا منانے والا میرے سمیت کوئی ایک فرد بھی موجود نہیں ہے۔ "
"تو مجھے صرف یہ بتائیے کہ اگر میری جگہ۔۔۔ " ماسٹر محسن ایک ثانئے کو رکا، طاہر کی جانب دیکھا اور انگلی اس کی طرف اٹھا دی۔ " آپ ہوتے تو۔۔۔ "
"ماسٹر۔۔۔ " بلال ملک نے تیزی سے کہنا چاہا۔  باقی کے سب لوگ بھی ہکا بکا رہ گئے۔  ماسٹر سے اتنی بڑی بات کی توقع کسی کو بھی نہ تھی۔  لالو اور عادل بھی پہلو بدل کر رہ گئے۔
"ملک۔ " طاہر نے ہاتھ اٹھا کر اس کی بات کاٹ دی اور مزید کچھ کہنے سے تحکمانہ اشارے سے روک بھی دیا۔  ملک با دلِ نخواستہ واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا۔  تاہم اس کے انداز سے ناراضگی واضح تھی۔
" آپ گھبرائیے نہیں ماسٹر صاحب۔ " طاہر کا لہجہ پھر نرم ہو گیا۔  " میں نے کہا ناں ، آپ کو جو کہنا ہے اور جس طرح کہنا ہے، کہئے۔  میں نے آپ کا دُکھ سننے ہی کے لئے آپ کو یہاں بلایا ہے۔ "
"مجھے زیادہ نہیں کہنا۔ " ماسٹر محسن کا لہجہ شکستگی سے کٹ گیا۔  ہاتھ نیچے ہو گیا۔  "صرف یہ پوچھنا ہے کہ اگر میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟" اس کا سر جھک گیا۔
"ماسٹر صاحب۔ " طاہر نے اس کے چہرے پر نگاہیں جما دیں۔  " آپ کے سوال کا جواب میرے ان چند چھوٹے چھوٹے سوالوں میں پوشیدہ ہے جو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں ، اگر آپ کو برا نہ لگے تو۔۔۔ "
"جی۔  پوچھئے۔ " ماسٹر محسن نے دونوں بازو سینے پر باندھ لئے اور خاک آلود اینٹوں کے فرش کو گھورنے لگا۔
"اتنا تو آپ بھی جانتے ہیں ماسٹر صاحب کہ ہمارے مذہب نے شادی میں پسند اور ناپسند کے جو حقوق مرد کو دیے ہیں وہی عورت کو بھی حاصل ہیں۔ "
"جی۔ " ماسٹر نے مختصر سا جواب دیا۔
"زبیدہ نے نثار کے رشتہ سے کیوں انکار کیا؟" طاہر نے ہولے سے پوچھا۔
"وہ۔۔۔  وہ۔۔۔ " ماسٹر محسن مضطرب سا ہوا۔
"مجھے معلوم ہے کہ اس نے انکار کیوں کیا ماسٹر صاحب اور یہی بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم بیٹے کو اس کی پسند کے بارے میں پوچھ کر، کبھی کبھار اسے لڑکی دکھا کر بھی شادی کے بارے میں اس کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں تو زندگی کے اس سب سے بڑے فیصلے کے بارے میں بیٹی کو زبان کھولنے کی اجازت کیوں نہیں دیتی، جبکہ ہمارا دین اس کے لئے بیٹی کو بھی یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند سے آگاہ کر سکتی ہے۔  جس سے اس کا نکاح کیا جا رہا ہے، اسے نکاح سے پہلے دیکھ سکتی ہے اور ہاں یا نہ کا حق محفوظ رکھتی ہے۔  جب زبیدہ نے آپ کے مجوزہ رشتے سے انکار کرتے ہوئے آپ کو اپنی پسند سے آگاہ کیا تو آپ نے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے اس کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا۔  اسے مارا پیٹا۔  کیوں ؟" طاہر کی آواز بلند ہو گئی۔  " آپ کو یہ حق تو ہے کہ اگر اس کے لئے عادل کا رشتہ موزوں نہ تھا تو اس کی اونچ نیچ سے زبیدہ کو آگاہ کرتی۔  اسے سمجھاتے۔  مگر اس پر ہاتھ اٹھانا کیا مناسب تھا؟دوسرے جب عادل کے گھر والے اس کا رشتہ لے کر آپ کے دروازے پر پہنچے تو آپ کو پورا حق تھا کہ آپ اس رشتے سے انکار کر دیتے، جیسا کہ آپ نے کیا بھی لیکن اس کے بعد آپ نے ایک بار پھر زبیدہ ہی کو کیوں پیٹا؟"
" باتیں کرنا بہت آسان ہیں چھوٹے مالک۔ " ایک دم ماسٹر محسن کی زبان کا تالا کھلا۔  "سمجھانے کے نام پر نصیحتیں کرنا بھی کوئی مشکل کا م نہیں۔  مجھے علم کی روشنی تقسیم کرنے والا خیال کر کے میری اس جاہلانہ حرکت پر مجھ سے جواب طلبی بھی کی جا سکتی ہے لیکن خاندان اور گاؤں والوں کی باتوں کے زہریلے نشتر، ان کے طعنوں کا پگھلا ہوا سیسہ قطرہ قطرہ کانوں میں اتارنا کتنا مشکل ہے، اس کا آپ کو علم نہیں ہے۔  اس کیفیت سے گزر کر دیکھئے چھوٹے مالک، جس سے قسمت نے مجھے دوچار کر دیا ہے۔  پھر آپ کو احساس ہو گا کہ جس پھول سی بیٹی کو میں نے کبھی جھڑکی نہیں دی، اس پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے میرے دل کے کتنے ٹکڑے ہوئے ہوں گی۔  " ماسٹر محسن کی آواز بھرا گئی۔  " میں ایک عام سا، کمزور آدمی ہوں چھوٹے مالک، جس کے سر پر استاد ہونے کا تاج ہے تو دامن میں صرف عزت کے چند ٹکڑے، جن کے چھن جانے کے احساس نے مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ قصائیوں کا سا سلوک کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں دین کے بارے میں وہ بھی جانتا ہوں جو اس چوپال میں بیٹھے سب لوگوں کے لئے شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے مگر مجھے انہی کے درمیان رہنا ہے۔  انہی کے ساتھ رشتے اور تعلقات نبھانے ہیں۔  نثار کا رشتہ میں نے کیوں قبول کیا، اس کے پیچھے میری صرف ایک مجبوری تھی۔  میرے پورے خاندان میں زبیدہ کے لئے ایسا کوئی لڑکا موجود نہیں ہے جس کے ساتھ میں اس کی شادی کر سکوں۔  لڑکے اَن پڑھ ہیں یا زبیدہ سے عمر میں چھوٹے ہیں۔  میری بیٹی ایف اے پاس ہے۔  میں دل کا مریض ہوں چھوٹے مالک۔  کب زندگی کی شام ہو جائے، نہیں جانتا۔ مجھے دور دور تک اس کے لئے جب مناسب رشتہ نظر نہ آیا تو دل پر جبر کر کے میں نے نثار کے رشتے کے لئے ہاں کہہ دی۔ "
"ایک منٹ ماسٹر صاحب۔ " طاہر نے اس کی بات روک دی۔ " یہاں تک میں آپ کی ہر بات سے پوری طرح متفق ہوں۔  آپ نے جو کیا، درست کیا لیکن جب زبیدہ نے انکار کیا اور اس کے بعد عادل کا رشتہ بھی اس کے لئے آیا تب آپ نے خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے انکار اور مار پیٹ کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ میرا خیال ہے عادل، ہر طرح سے زبیدہ کے لئے موزوں ہے۔ "
"مگر وہ ہماری برادری سے نہیں ہے چھوٹے مالک۔ "
"لاحول ولا قوة۔ " بے اختیار طاہر کی زبان سے نکلا۔ " ماسٹر صاحب۔  اب آپ کی سوچ پر مجھے افسوس نہ ہو تو یہ میری اپنے ساتھ زیادتی ہو گی۔  آپ پڑھے لکھے ہو کر بھی ذات برادری کے چکر میں غوطے کھا رہے ہیں ؟ "
"یہ معمولی بات نہیں ہے چھوٹے مالک۔ " ماسٹر محسن نے سر اٹھایا۔  " میں نے شروع میں پوچھا تھا کہ اگر آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتی؟ اس سوال کا جواب دینے کا یہ بہت اچھا موقع ہے۔  آپ نے بھی تو ابھی ابھی شادی کی ہے۔  آپ نے خاندان، ذات برادری دیکھ کر ہی تو نکاح کیا ہو گا؟"
طاہر کے ہونٹوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ نے ہلکورا لیا۔
"ماسٹر صاحب۔  اگر میرے جواب نے ذات برادری کی نفی کر دی تو؟" اس نے ماسٹر محسن کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
"تو میں وعدہ کرتا ہوں چھوٹے مالک کہ مجھے آپ کا۔۔۔ " ماسٹر صاحب نے پورے عزم سے کہا۔ " ہر فیصلہ منظور ہو گا۔ "
"سوچنے کی مہلت نہیں دوں گا میں آپ کو۔ " طاہر نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔  
"میں ایک سیکنڈ کا وقت نہیں مانگوں گا۔ " وہ بھی آخری داؤ کھیلنے کے سے انداز میں بولے۔
"تو سنئے ماسٹر صاحب۔  میری بیوی اور آپ کی چھوٹی مالکن نہ تو میرے خاندان سے ہے، نہ میری ذات برادری سے اور نہ ہی کسی کروڑ پتی گھرانے سے۔  وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک یتیم لڑکی ہے جس کی شرافت اور خوب سیرتی نے مجھے اسیر کر لیا اور اس اسیری کی بھی وضاحت کر دوں۔  میں نے اسے شادی سے پہلے دیکھا تک نہ تھا۔  آپ کی بڑی مالکن نے اسے پسند کیا اور ہم دونوں کو نکاح کے بندھن میں باندھ دیا۔  اب کہئے کیا کہتے ہیں آپ؟"
ماسٹر محسن منہ کھولے طاہر کو دیکھے جا رہا تھا۔  وہاں موجود گاؤں والوں کو بھی اس حقیقت کا شاید آج ہی علم ہوا تھا، اس لئے وہ بھی حیران حیران سے تھے۔
"میں آپ کی حیرت ختم ہونے کا منتظر ہوں ماسٹر صاحب۔ " کتنی ہی دیر بعد طاہر نے ماسٹر محسن کو مخاطب کیا تو وہ دھیرے سے چونکے۔
"جی۔۔۔  " ماسٹر صاحب نے پلکیں جھپکیں تو نمی رخساروں پر ڈھلک آئی۔ " میں حیران کم اور شرمندہ زیادہ ہوں چھوٹے مالک۔ " انہوں نے چشمہ اتار کر آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔
" آپ کو شرمندہ کرنا میرا مقصد نہیں تھا ماسٹر صاحب۔ " طاہر نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دبایا۔ "میں تو اس مسئلے کا حل چاہتا ہوں جس نے آپ جیسے ذی علم انسان کو کانٹوں کے بستر پر لا پھینکا۔ "
"اب کوئی چبھن نہیں چھوٹے مالک۔ " ماسٹر محسن نے چشمہ دوبارہ آنکھوں پر چڑھا لیا۔  "میرا دل مطمئن ہے۔  آپ جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہے۔ "
"نہیں ماسٹر صاحب۔  " طاہر نے اس کے کندھے سے ہاتھ اٹھا لیا۔  "فیصلہ اب بھی آپ ہی کا ہے۔  میں تو صرف مشورہ دے سکتا ہوں۔ "
"میرے لئے وہ بھی حکم ہو گا چھوٹے مالک۔  آپ فرمائیے۔ " ماسٹر محسن کا لہجہ بیحد پُرسکون تھا۔
"عادل بہت اچھا لڑکا ہے ماسٹر صاحب۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ " طاہر نے آہستہ سے کہا اور ہونٹ کاٹتے لالو کی جانب دیکھا جو کسی بھی لمحے رو دینے کو تھا۔  عادل سر جھکائے فرش کو گھور رہا تھا۔
" آپ تاریخ مقرر کر دیجئے چھوٹے مالک۔ میری طرف سے کوئی دیر نہیں ہے۔ " ماسٹر محسن سب کچھ نبٹا دینے پر تلے بیٹھے تھے۔
"کیوں لالو چاچا؟" طاہر نے اس کی جانب دیکھا اور ایک دم لالو کندھے پر پڑے رومال کے کونے میں منہ چھپا کر بلک پڑا۔  اس کی ہچکی سی بندھ گئی۔  وہ بچوں کی طرح روئے جا رہا تھا۔
ملک نے ایک دم اٹھ کر اس کی طرف بڑھنا چاہا مگر طاہر نے اسے روک دیا اور ماسٹر محسن کی جانب دیکھا۔  ایک دم ماسٹر صاحب اٹھے اور دو قدم بڑھ کر لالو کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔
"لالو۔  " ان کے ہونٹوں سے نکلا اور لالو نے ان کے دونوں ہاتھ تھام کر برستی آنکھوں سے لگا لئے۔ ماسٹرصاحب نے چند لمحے انتظار کیا۔  پھر ہاتھ اس کی گرفت سے نکال کر اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور سینے سے لگا لیا۔
کتنی ہی آنکھیں نم نظر آ رہی تھیں۔  ملک ہنسا تو اس کے ہونٹوں کے گوشے لرز رہے تھے۔  رہا طاہر۔۔۔  تو وہ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ان دونوں کو ایسی فتح مندانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہا تھا جس میں گاؤں کا بڑا ہونے کا غرور چھلکا پڑ رہا تھا۔
*  *  *
رات آدھی سے زیادہ جا چکی تھی۔
حافظ عبداللہ چٹائی پر بیٹھا تھا۔  جو قرآن پاک رحل پر اس کے سامنے کھلا رکھا تھا، یہ وہی تھا جو اسے دوسرے کمرے میں ملا تھا۔  مزار سے نکل کر جب وہ لڑکی والے کمرے میں آیا تو لڑکی ابھی تک بے سدھ تھی۔  تاہم مزار سے واپسی پر جب اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر حرارت کی شدت جاننا چاہی تو حیرت انگیز طور پر اس میں نمایاں کمی آ چکی تھی۔  اس کا دل تشکر اور ممنونیت سے لبالب ہو گیا۔  یہ صاحبِ مزار کی کرامت ہی تو تھی جو اللہ کے فضل سے ظاہر ہوئی تھی۔
اس نے لڑکی کو ہوش میں لانے کا خیال ترک کر دیا۔  ساتھ والے کمرے میں گیا اور وہاں سے قرآن پاک اور رحل اٹھا لایا۔  کمرے کا دروازہ بھیڑ دیا۔  کھیس کی بکل ماری۔  طاق میں رکھے چراغ کے قریب، چٹائی پر دو زانو بیٹھ کر قرآن پاک کو بوسہ دیا۔  کھولا اور منزل کرنے میں لگ گیا۔
کبھی کبھی وہ آہستہ سے گردن گھما کر لڑکی کا طائرانہ سا جائزہ لے لیتا اور دوبارہ دہرائی میں محو ہو جاتا۔
وقت گزرنے کا اسے احساس تو ہو رہا تھا مگر کتنا گزر گیا، یہ اسے علم نہ تھا۔  وہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد صبح ہو جائے تاکہ وہ گاؤں جا سکے۔  گاؤں کا خیال آیا تو اس کا دھیان مسجد کی جانب چلا گیا۔  مغرب اور عشاء کے وقت وہ وہاں موجود نہ تھا۔  نمازیوں کو بڑی دقت ہوئی ہو گی اور ساتھ ہی وہ فکرمند بھی ہوئے ہوں گے کہ آج حافظ کہاں چلا گیا؟ کسی کو بھی پتہ نہ تھا کہ وہ عصر کے بعد روزانہ کہاں جاتا ہے؟ ورنہ اب تک اسے کوئی نہ کوئی تلاش کرتا یہاں تک آ ہی چکا ہوتا۔
قرآن پاک کے الفاظ زبان سے ادا ہو رہے تھے اور دماغ ایسی ہی ادھر ادھر کی سوچوں میں بار بار الجھ رہا تھا۔  ایک آیت ختم کرتے ہوئے اس نے لڑکی کا جائزہ لینے کے لئے آہستہ سے گردن گھمائی اور الفاظ لڑکھڑا گئی۔ وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔  شاید اسے پیاس لگی تھی۔
لڑکی کی پیاس کا خیال جب تک حافظ عبداللہ کے دل میں آتا، تب تک برانگیختہ کر دینے والی کتنے ہی سوچیں اس پر یلغار کر چکی تھیں۔  لڑکی کا لبوں پر زبان پھیرنے کا انداز اتنا دلفریب تھا کہ حافظ عبداللہ کا دل بے قابو ہو گیا۔  
"پانی۔۔۔ " اسی وقت لڑکی کے لبوں سے بڑی مہین سی آواز نکلی۔
حافظ عبداللہ چونک کر اپنی دگرگوں کیفیت سے باہر آیا۔  کھیس کو بدن سے الگ کیا۔  چنگیر کے پاس پڑا مٹی کا پیالہ اٹھا یا اور کمرے سے نکل گیا۔  چند لمحے بعد لوٹا تو پیالے میں پانی تھا۔  ساتھ ہی اس کے چہرے پر وضو کے اثرات نمایاں تھے۔  سرد پانی نے اسے اپنی غیر ہوتی ہوئی حالت کو سنبھالنے میں بڑی مدد دی تھی۔
وہ چارپائی کے قریب آ کھڑا ہوا۔  لڑکی کے پپوٹے لرز رہے تھے۔  اب بھی وہ ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی اور "پانی۔۔۔ پانی" کے الفاظ وقفے وقفے سے ادا کرتے ہوئے آہستہ آہستہ سر کو دائیں بائیں حرکت دے رہی تھی۔
"لیجئے۔  پانی پی لیجئے۔ " حافظ عبداللہ نے اسے پکارا۔
لڑکی نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ تھی۔  حافظ عبداللہ نے اسے چار پانچ بار پکارا مگر وہ تو نیم بیہوشی کے عالم میں پانی مانگ اور سر دائیں بائیں مار رہی تھی۔
حافظ عبداللہ تھوڑی دیر پیالہ ہاتھ میں لئے کچھ سوچتا رہا پھر اس نے جیسے کوئی فیصلہ کر لیا۔  پانی کا پیالہ دائیں ہاتھ میں لے کر اس نے دل کڑا کیا اور بایاں ہاتھ لڑکی کی گردن میں ڈال دیا۔  پھر اسے اوپر اٹھاتے ہوئے ذرا سا جھکا اور جگہ بنتے ہی چارپائی کی پٹی پر ٹک گیا۔  اب لڑکی کے جسم کا سارا بوجھ اس کے سینے پر آ رہا۔  جسم کی کپکپی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے پیالہ لڑکی کے ہونٹوں سے لگا دیا۔  چھوٹے چھوٹے تین چار گھونٹ بھر نے کے بعد لڑکی نے منہ ہٹا لیا تو حافظ عبداللہ نے اٹھتے ہوئے اسے واپس چارپائی پر لٹا دیا اور خود پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پرے ہٹ گیا۔  
سردی کی رات میں ابھی چند منٹ پہلے وہ یخ پانی سے وضو کر کے آیا تھا۔  اس کے باوجود اس کی پیشانی پسینے کے گرم قطروں سے یوں بھیگ چکی تھی جیسے وہ اب تک دہکتے تندور پر جھکا رہا ہو۔  لڑکی اب اتنی بے سدھ نہ تھی۔  حافظ عبداللہ کو لگا، تھوڑی دیر میں وہ ہوش میں آ جائے گی کیونکہ اس کی آنکھوں پر جھکے پپوٹے ہولے ہولے پھڑک رہے تھے اور وہ بار بار گلا تر کرنے کے انداز میں تھوک بھی نگل رہی تھی۔
حافظ عبداللہ کی حالت بڑی مشکل سے سنبھلی۔  ایک خوبصورت، جوان اور مدافعت کے ناقابل لڑکی کے جسم کا اس کے ساتھ لگنا ایک ایسی کیفیت کا حامل عمل تھا، جس کے اثرات سے اس کا جسم اب تک جھنجھنا رہا تھا۔
پیالے میں ابھی کچھ پانی باقی تھا۔ حافظ عبداللہ نے چاہا کہ پانی پی لے تاکہ اس کے حواس میں بھڑکتی آگ میں کچھ تو کمی آئے۔  پھر نجانے کیا سوچ کر رک گیا۔  اس نے پیالہ چارپائی کے سرہانے فرش پر رکھا اور کمرے سے نکل گیا۔  ہینڈ پمپ پر جا کر اس نے ایک بار پھر چہرے پر سرد پانی کے چھینٹے ماری۔  اوک میں لے کر حلق تک پانی پیا۔  پھر کرتے کے دامن سے چہرہ اور ہاتھ خشک کرتا ہوا واپس لوٹ آیا۔
کمرے میں داخل ہوا تو چونک پڑا۔  
لڑکی ہوش میں آ چکی تھی۔  اس نے کمبل ایک طرف ڈال دیا تھا اور لرزتی کانپتی چارپائی سے اتر چکی تھی۔  حافظ عبداللہ پر نظر پڑی تو وہ ٹھٹکی۔  گھبرا کر اس نے کمبل سے اپنے نیم برہنہ جسم کو چھپا یا اور دیوار کی طرف الٹے پاؤں سرکتے ہوئے متوحش ہرنی کی طرح اسے دیکھنے لگی۔
"گھبرائیے نہیں۔ " حافظ عبداللہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید پیچھے ہٹنے سے روک دیا۔  "مجھ سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ " اس نے دروازے کے اندر آتے ہی اپنے قدم روک لئے۔ اتنی دیر میں وہ دیوار کے بالکل ساتھ جا لگی۔
"میں اس وقت کہاں ہوں ؟" کچھ دیر تک حافظ کو بغور گھورتے رہنے کے بعد اس نے آہستہ سے پوچھا۔
"نور پور گاؤں یہاں سے کچھ ہی دور ہے۔  " حافظ عبداللہ نے جواب دیا اور ایک قدم آگے بڑھ آیا۔
"نور پور؟" حیرت سے اس کا منہ کھل گیا۔
"جی ہاں۔ " حافظ عبداللہ نے چٹائی پر پڑا کھیس اٹھا کر اپنے جسم کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔  " میں نور پور کی اکلوتی مسجد کا امام ہوں۔  یہ جگہ بھی نور پور ہی کی حد میں آتی ہے۔  بابا شاہ مقیم کے مزار کا ایک کمرہ ہے جہاں آپ اس وقت موجود ہیں۔ "
"بابا شاہ مقیم۔ " لڑکی بڑبڑائی۔ " مگر میں اتنی دور۔۔۔ "
" آپ ایک درخت کے ساتھ چمٹی ہوئی سیلابی ریلے میں بہتی جا رہی تھیں۔  میں اتفاق سے وہاں ٹبے پر موجود تھا۔  اللہ نے ہمت دی اور میں آپ کو پانی سے نکال لایا۔  "
"یہ کب کی بات ہے؟"لڑکی اب بھی پریشان تھی۔
" آج شام کے قریب کا وقت تھا۔  تب سے آپ بیہوش پڑی تھیں۔  ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے پانی مانگا تو میں نے چند گھونٹ آپ کو پلائے۔  پھر میں۔۔۔ " حافظ عبداللہ کہتے کہتے رک گیا۔  ایک پل کو اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔  پھر وہ نظر اس کے سراپے سے ہٹا کر بولا۔  "وضو کرنے چلا گیا۔  واپس آیا تو آپ شاید بھاگنے کی تیاری میں تھیں۔ " ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔
"نن۔۔۔  نہیں۔ بھاگنے کی نہیں۔  " وہ گڑبڑا گئی اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر حافظ عبداللہ کی طرف دیکھا۔
"میں آپ کی کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔ " حافظ عبداللہ نے کہا۔  " اس صورتحال میں آپ کا کوئی بھی اقدام اپنی حفاظت اور مجھ پر بد گمانی کے لئے جائز ہے۔ " اس نے دروازہ آدھا بھیڑ دیا۔  
"یہ دروازہ کیوں بند کر دیا آپ نے؟" وہ جلدی سے دو قدم آگے آ گئی۔
"ہوا بہت سرد ہے۔ " حافظ عبداللہ نے نرمی سے کہا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔  " آپ کا بخار شاید اب کم ہو گیا ہے۔ تاہم جب میں آپ کو پانی سے نکال کر لایا تھا تو آپ انگارے کی طرح دہک رہی تھیں۔ ابھی ٹھنڈی ہوا آپ کے لئے نقصان دہ ہے۔  پھر میں نے دروازہ بند نہیں کیا، صرف بھیڑ دیا ہے۔  آپ خود کو سنبھالئے۔  شک اور اندیشہ اس وقت آپ کا حق ہے مگر ہم دونوں کے علاوہ بھی ایک ہستی یہاں موجود ہے، جس کے ہوتے ہوئے آپ کو ہر اندیشے سے بے نیاز ہو جانا چاہئے۔ "
"کون۔۔۔ کون ہے تیسرایہاں ؟" لڑکی نے چونک کر پوچھا۔
"وہ۔۔۔ " حافظ عبداللہ نے چھت کی جانب انگلی اٹھا دی۔ "وہ، جو ہر جگہ موجود ہے۔  صرف آپ کو اس کا یقین ہونا چاہئے، جیسے مجھے ہے۔ " وہ مسکرا دیا۔
"اوہ۔۔۔ " لڑکی خجل سی ہو گئی۔  اس نے شرمندہ شرمندہ سی نظروں سے حافظ عبداللہ کی طرف دیکھا اور سر جھکا کر پاؤں کے ناخن سے زمین کریدنے لگی۔
"صبح تک آپ کو یہیں ٹھہرنا ہو گا۔ " حافظ عبداللہ نے پھر کہا۔  " کل کی بارش نے کیچڑ بہت کر دیا ہے۔  سواری کوئی موجود نہیں ہے اور گاؤں تک اس اندھیرے میں پیدل جانا نری مصیبت ہے۔  آپ نے نجانے کب سے کچھ نہیں کھایا۔  وہ طاق میں چنگیر رکھی ہے۔  کھانے کو اس وقت یہی میسر ہے۔  کھا لیجئے۔  پیالے میں پانی بھی ہے۔ " اس نے چارپائی کے سرہانے زمین پر پڑے مٹی کے پیالے کی جانب اشارہ کیا۔ پھر چٹائی کے پاس آگیا۔  
قرآن پاک کو چوم کر سینے سے لگایا۔  رحل اٹھائی اور لڑکی کی جانب دیکھا جو دیوار سے لگی کھڑی اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔  حافظ عبداللہ کو لگا، اس کی نظروں میں عجب سحر سا کروٹیں لے رہا ہے۔  اس کی آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈورے، گالوں پر بکھری دو تین لٹیں اور سینے کا زیر و بم، کسی بھی خیال، کسی بھی سوچ کو گمراہی کا راستہ دکھانے کے لئے کافی تھے۔
"اگر آپ کو اپنے اور میرے اللہ پر بھروسہ ہے تو بے فکر ہو جائے۔  کھانا کھائیے اور چارپائی پر آرام کیجئے۔ " اچانک حافظ عبداللہ کی آواز نے کمرے کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کر دیا۔  "میں دوسرے کمرے میں جا رہا ہوں۔  آپ اندر سے کنڈی لگا لیجئے۔  صبح ہوتے ہی میں آپ کو نور پور لے چلوں گا۔  وہاں چوہدری حسن دین آپ کو آپ کے گھر بھجوانے کا انتظام کر دیں گے۔ "
دروازے کے قریب پہنچ کر وہ رک گیا۔  پلٹ کر لڑکی کی جانب دیکھا جو ابھی تک اپنی سابقہ حالت میں تھی۔
"اگر کوئی کام ہو تو اس کھڑکی پر دستک دے دیجئے گا۔ " اس نے دونوں کمروں کی درمیانی دیوار میں بنی چار ضرب چار کی بند کھڑکی کی طرف اشارہ کیا اور دروازے سے نکل گیا۔
لڑکی خاموش کھڑی کتنی ہی دیر تک خالی دروازے کو گھورتی رہی۔  اس کے دل و دماغ میں ایک جنگ سی جاری تھی۔  حافظ عبداللہ کی باتیں اور اب تک کا رویہ اسے قائل کر رہا تھا کہ وہ اس پر اعتبار کر لے جبکہ ایک جوان مرد کے ساتھ، اس جگہ رات بھر رہنے کا فیصلہ کرنا اس کے لئے بڑا مشکل ہو رہا تھا۔  وہ جانتی تھی کہ جہاں دو جوان جسم موجود ہوں ، وہاں شیطان کو آتے دیر نہیں لگتی۔  اور وہ ایسی طاقتور بھی نہیں تھی کہ شیطان اور حافظ عبداللہ کا تنہا مقابلہ کر سکتی۔  
اس نے سر جھکا لیا اور ایک ایک کر کے حافظ عبداللہ کی باتوں پر غور کرنے لگی۔  اس کی کسی بات میں کوئی ول چھل نہ تھا۔  اس کی نگاہوں میں اسے اپنے لئے کوئی ایسا تاثر نہ ملا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ وہ اس کے لئے خطرہ ہے۔  اگر وہ اس کے ساتھ کوئی الٹی سیدھی حرکت کرنا چاہتا تو وہ بقول حافظ عبداللہ کی، شام سے اس کے پاس اس کمرے میں بیہوش پڑی تھی۔  اس دوران اسے روکنے والا کون تھا مگر وہ محفوظ رہی۔  اور اب تو وہ جاگ رہی تھی۔  پورے ہوش و حواس میں تھی۔  اب وہ کم از کم اس کے کسی اقدام کے خلاف مدافعت تو کر ہی سکتی تھی۔  
سوچ سوچ کر اس کا دماغ درد کرنے لگا۔  بدن میں تھکاوٹ سی در آئی تو اس نے خود کو اللہ کے آسرے پر موجودہ صورتحال کے سپرد کرنے کا ارادہ کر لیا۔  
سر اٹھا کر اس نے کھلے دروازے کی جانب دیکھا۔  پھر اندر سے کنڈی لگانے کے خیال سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی چلی۔ چراغ کے قریب سے گزرنے پر اس کی لو تھرتھرائی۔  
وہ دروازے کے قریب پہنچی تو ایک خیال کے تحت ایک پل کو رکی۔  پھر دبے پاؤں باہر نکل آئی۔  ساتھ والے کمرے کے دروازے کے پاس ٹھہر کر اس نے ذرا سی گردن آگے نکالی اور بھڑے ہوئے دروازے میں سے اندر جھانکا۔
حافظ عبداللہ کی پشت کمرے کے دروازے کی جانب تھی اور وہ کھیس کی بکل مارے چٹائی پر بیٹھا تھا۔  قرآن پاک اس کے آگے رحل پر کھلا دھرا تھا۔  چراغ اس نے اپنے دائیں ہاتھ اینٹوں کی ایک ڈھیری پر رکھ چھوڑا تھا تاکہ اس کی روشنی قرآن پاک پر پڑتی رہی۔  وہ سر جھکائے ہولے ہولے آگے پیچھے ہل رہا تھا۔  
غور سے سنا تو لڑکی کے کانوں میں قرآن پاک پڑھنے کی ہلکی سی آواز کسی خوشخبری کی طرح اترتی چلی گئی۔ سکون اور اطمینان نے اس کے حواس پرتسلی کی چادر تان دی۔
چند لمحے وہاں کھڑا رہنے کے بعد اس نے گردن پیچھے کھینچ لی۔  خاموش قدموں سے کمرے میں لوٹی۔  دروازہ بند کیا تو اس کا دل ایک بار پھر زور سے دھڑکا۔ یہ دیکھ کر کہ دروازے کے اندر کی جانب کنڈی کا نام و نشان ہی نہ تھا۔  لگتا تھا بہت دیر پہلے وہ ٹوٹی اور دوبارہ کسی نے اسے لگانے کی کوشش ہی نہ کی۔  
خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس نے خود کو سنبھالا۔  دروازے کو اچھی طرح بند کیا مگر جب کنڈی ہی نہ تھی تو وہ بند رہتا یا کھلا، ایک برابر تھا۔  
کچھ سوچ کر وہ کھڑکی کے قریب آئی۔  کھڑکی بند ضرور تھی مگر اس میں بھی کوئی کنڈی یا چٹخنی موجود نہ تھی۔  شاید دوسرے کمرے کی طرف ہو گی۔  ایک بار پھر غیر محفوظ ہونے کا خیال اندھیرے کی دبیز چادر کی طرح اس کے دماغ پر پھیلا۔  بے اختیار اس کا سر کھڑکی سے جا لگا۔  اسے چکر سا آ گیا مگر دوسرے ہی لمحے اس کے سارے اندیشے بند کھڑکی کی دوسری طرف سے آتی حافظ عبداللہ کی تلاوت کی آواز پر قربان ہو گئی۔  اس کا جی چاہا وہ اس آواز کو سنتی رہے جو اس کے جسم و جان میں عجب سکون بھری سرگوشیاں کر رہی تھی۔  اسے اپنے اللہ پر بھروسے کا سبق دے رہی تھی۔ اسے بتا رہی تھی کہ وہ وہاں اکیلی نہیں ہے۔  بقول حافظ عبداللہ کے، وہاں اس کا خالق و مالک موجود ہے۔  اور وہ تو ہر جگہ موجود ہے، بس ہمیں اس کا یقین نہیں آتا۔  
اس خیال کا آنا تھا کہ اس کے جسم میں ایک طاقت عود کر آئی۔ یقین، بھروسے اور اعتبار کی طاقت۔  اس نے جھکا ہوا سراٹھایا۔  چند لمحوں تک بند کھڑکی کو گھورتی رہی۔  پھر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی چارپائی کے پاس آ گئی۔  
چنگیر پر نظر پڑی تو بھوک جاگ اٹھی۔  وہ چارپائی پر بیٹھ گئی۔  کمبل کے پلو کھولے۔  اسے اپنے شانوں پر دائیں بائیں پھیلایا۔  چنگیر اٹھا کر گود میں رکھی۔  رومال کی تہہ کھولی تو اندر مکئی کی دو روٹیوں پر سرسوں کا ساگ دیکھ کر پیٹ میں اینٹھن سی ہوئی۔  ایک نظر بند دروازے اور کھڑکی پر ڈالی، پھر اس کا ہاتھ بے اختیار روٹی کی طرف بڑھ گیا۔
٭
طاہر حویلی واپس آیا تو رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔
حویلی کے اندر اور باہر سکوت طاری تھا۔  ملازموں میں سے کچھ جاگ رہے تھے، زیادہ تر سونے کے لئے جا چکے تھے۔  ملک اس سے رخصت ہوا تو طاہر اندر چلا۔  اس کا رخ لیڈیز ڈرائنگ روم کی جانب تھا۔
"چھوٹے مالک۔ " اچانک ایک آواز نے اسے کاریڈور میں روک لیا۔  اس نے پلٹ کر دیکھا۔  حویلی کی ایک ملازمہ فہمیدہ اس کی طرف سر جھکائے چلی آ رہی تھی۔
"مالکن آپ کے کمرے میں ہیں۔  " فہمیدہ نے اس کے قریب آ کر ادب سے کہا۔
"اچھا۔  " اس نے موبائل جیب میں ڈالتے ہوئے کہا اور اس کے پیچھے چل پڑا۔  کاریڈور سے بائیں مڑتے ہی پہلا کمرہ اس کا تھا، جو اس کی عدم موجودگی میں شاذ ہی کھلتا تھا۔  فہمیدہ دروازے پر رک گئی۔
"کھانا لگا دوں چھوٹے مالک؟" اس نے پوچھا۔
"تمہاری مالکن نے کھا لیا؟" اس نے کھلے دروازے میں قدم رکھا۔
"جی نہیں۔  آپ کے انتظار میں تھیں۔ "
"تو کھانا یہیں لے آؤ۔ "
"جی بہتر۔ " وہ لوٹ گئی۔
طاہر اندر داخل ہوا تو یہ دیکھ کر اسے کوئی حیرت نہ ہوئی کہ ابھی تک صفیہ کو چند عورتیں گھیرے بیٹھی تھیں۔ اسے آتا دیکھ کر وہ کپڑے سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔  پھر اسے باری باری سلام کر کے وہ کمرے سے نکل گئیں۔  آخر میں ایک نوجوان لڑکی اٹھی تو صفیہ نے اسے روک لیا۔
"تم رکو۔ "
"جی۔ " لڑکی نے گھبرا کر طاہر کی جانب دیکھا۔
"بیٹھ جاؤ۔ " صفیہ نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر دوبارہ قالین پر رکھے کشن پر بٹھا دیا۔  خود بھی و ہ بیڈسے ٹیک لگائے ایک کشن پر شال اوڑھے بیٹھی تھی۔  کمرہ ایر کنڈیشنڈ ہونے کے باعث سردی کے اثرات سے مبرا تھا۔
"کیا بات ہے؟" طاہر نے ایک نظر سر جھکائے بیٹھتی لڑکی کی جانب اور پھر سوالیہ انداز میں صفیہ کو دیکھا۔
" آپ نے کھانا کھا لیا؟" اس کا سوال گول کرتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔  
"نہیں۔  فہمیدہ یہیں لا رہی ہے۔ " وہ گرم واسکٹ اتارتے ہوئے بولا۔
صفیہ نے اس کی واسکٹ تھام ایک طرف ڈال دی۔ وہ بیڈ کی پٹی پر ٹک گیا۔  صفیہ نے ہاتھ بڑھائے کہ اس کے پاؤں سے زرتار کھسہ نکال دے۔
"کیا کر رہی ہو؟" طاہر نے اس کا ہاتھ تھام لئے۔
"اوں ہوں۔ " صفیہ نے آنکھ کے اشارے سے اسے لڑکی کے کمرے میں ہونے کا احساس دلایا اور ہاتھ اس کے کھسے پر ڈال دئیے۔ وہ ایک طویل سانس لے کر رہ گیا۔  صفیہ اس کی کسی بات کا برا نہ مانتی تھی مگر کرتی وہی تھی جو اسے طاہر کے بارے میں اچھا لگتا تھا۔  کھسے کے بعداس نے طاہر کی جرابیں اتاریں اور چپل آگے کر دی۔
" آپ منہ ہاتھ دھو لیں۔  اتنی دیر میں کھانا لگ جائے گا۔ "
"تم نے تو کھا لیا ہوتا۔  خواہ مخواہ آدھی رات تک بھوکی بیٹھی ہو۔ " وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
"پہلے کبھی کھایا ہے جو آج آپ سے پہلے کھا لیتی۔ " صفیہ نے مسکرا کر ہولے سے کہا۔  وہ خاموشی سے اٹیچ باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔
"چھوٹی بی بی۔ " لڑکی نے اٹھنا چاہا۔ "مجھے جانے دیجئے۔  چھوٹے مالک کے سامنے میں۔۔۔ "
"خاموشی سے بیٹھی رہو۔ " صفیہ نے آنکھیں نکالیں۔
"بی بی۔  دس بجنے کو ہیں۔ " اس نے دیوار گیر کلاک کی طرف نگاہ اٹھائی۔ "گھر والے میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ "
"انہیں میں نے فہمیدہ کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا تھا کہ تم میرے پاس ہو۔  دیر سے لوٹو گی۔ "
اب شاید اس کے پاس کوئی بہانہ نہ رہا۔  ہونٹ کاٹتے ہوئے وہ واپس کشن پر ٹک گئی مگر انداز ایسا تھا کہ بس صفیہ کی نظر چوکتے ہی بھاگ لے گی۔
جتنی دیر میں طاہر ہاتھ منہ دھو کر نکلا، فہمیدہ نے کمرے کے ایک گوشے میں موجود ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا دیا۔
"کھانا کھاؤ گی؟" صفیہ نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
"جی نہیں۔ " وہ گھبرا کر بولی تو صفیہ بے اختیار مسکرا دی۔  اس نے اصرار نہ کیا اور طاہر کے ساتھ کھانے کی میز پر جا بیٹھی۔  صفیہ سمجھ گئی کہ طاہر سے حجاب اور شرم نے اس کا برا حال کر رکھا ہے۔
"کیا بات ہے؟ یہ لڑکی کون ہے؟" طاہر نے نیپکن ڈالتے ہوئے پوچھا۔
"کھانا خاموشی سے کھانا چاہئے۔ " صفیہ نے اس کی پلیٹ میں سالن نکالتے ہوئے کہا۔
طاہر نے اس کے بعد کوئی بات نہ کی۔  دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا۔  فہمیدہ برتن لے گئی۔  وہ طاہر کو ساتھ لئے واپس اس جگہ آ گئی جہاں وہ لڑکی ابھی تک سر جھکائے کسی سوچ میں گم بیٹھی اپنے ناخنوں سے قالین کرید رہی تھی۔  سر پر اس نے دوپٹہ اس طرح لے رکھا تھا کہ طاہر اس کے چہرے کے خد و خال بمشکل دیکھ پایا۔  وہ بیحد سادہ سے نقوش کی مالک تھی، مگر چہرے سے شرافت نمایاں تھی۔
"ہاں۔  اب بولو۔ " طاہر نے ان دونوں سے کچھ پرے ایک کشن پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔
"میں نے آپ کو جو فون کیا تھا وہ اسی کے معاملے میں تھا۔ " صفیہ نے لڑکی کی طرف اشارہ کیا جس کا سریہ سن کر کچھ اور جھک گیا۔  اضطراب کی حالت میں وہ اپنی انگلیاں مروڑنے لگی۔ "یہ آپ کے گاؤں کے ایک عزت دار شخص ماسٹر محسن کی بیٹی زبیدہ ہے۔ "
"زبیدہ۔ "ایک دم طاہر چونک کر سیدھا ہو بیٹھا۔
"کیا ہوا؟" صفیہ اس کے انداز پر حیران سی ہوئی۔  
"کچھ نہیں۔  تم کہو، کیا کہہ رہی تھیں۔ " وہ زبیدہ کو غور سے دیکھ کر بولا۔
"میں بتا رہی تھی کہ۔۔۔ " صفیہ نے اس کی حالت پر غور کرتے ہوئے کہنا شروع کیا اور اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے وہ ساری بات بتائی جو طاہر چوپال میں سن چکا تھا۔  اس دوران زبیدہ مسلسل اضطراب کے عالم میں ہونٹ کاٹتی رہی۔  انگلیاں مروڑتی رہی اور پہلو بدلتی رہی۔  اس کا سر ایک بار بھی نہ اٹھا۔  طاہر کبھی کبھار اس پر نظر ڈال لیتا اور بس۔  اس نے ساری توجہ صفیہ کی آواز پر مرکوز رکھی۔
"اب صورتحال یہ ہے کہ زبیدہ کو اس کے والد ماسٹر محسن مستقل طور پر اس کے ننھیال بھجوانے کی تیاری کر رہے ہیں۔  ان کا فیصلہ ہے کہ شادی تک یہ وہیں رہے گی اور شادی اگر نثار سے نہیں ہو گی تو عادل سے بھی نہیں ہو گی۔  کس سے ہو گی؟ یہ ابھی کسی کو نہیں معلوم۔ "
صفیہ نے جیسے بات ختم کر دی۔
"ہوں۔ " طاہر نے ایک طویل ہنکارا بھرا۔  ایک بار زبیدہ کی جانب دیکھا جو شاید رو رہی تھی۔
" اری۔ " صفیہ نے اس کی طرف توجہ کی اور اسے کھینچ کر ساتھ لگا لیا۔  "پگلی۔  رو کیوں رہی ہے؟ طاہر ہیں ناں۔  سب ٹھیک کر لیں گے۔ "
زبیدہ سسک پڑی۔  اس کے آنسو، ہچکیوں میں ڈوب گئی۔  صفیہ اس کا شانہ تھپک رہی تھی مگر اس کی تسلی زبیدہ کو اور بے کل کر رہی تھی۔
"چھوٹی بی بی۔ " اس کی سرگوشی کراہ سی بن گئی۔  "میرے ابو نے مجھے کبھی سخت نگاہ سے نہیں دیکھا، مگر اس بات پر انہوں نے مجھے اس طرح مارا کہ۔۔۔ " وہ بات پوری نہ کر سکی اور دوپٹے میں منہ چھپا کر بلکنے لگی۔
"ماں باپ اگر سختی کریں تو اس پر دل برا نہیں کیا کرتے زبیدہ۔ " طاہر کی آواز میں سرزنش تھی۔  زبیدہ اس کی آواز پر ایک دم سُن سی ہو گئی۔  "جس باپ نے آج سے پہلے تمہیں پھول نہیں مارا، ذرا سوچو کہ اسے کتنی تکلیف ہوئی ہو گی تمہاری کسی بات سے جو وہ تم پر ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہو گیا۔ "
صفیہ نے طاہر کی بات پر کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا۔  بس زبیدہ کو بازو کے حلقے میں لئے اس کا شانہ تھپکتی رہی، جو بالکل ساکت ہو گئی تھی۔  لگتا تھا اس کے جسم میں جان ہی نہیں رہی۔  آنسو، سسکیاں ، ہچکیاں سب تھم گئی تھیں۔
" میں بزرگوں کے لئے بھی گاؤں کا بڑا صرف اس لئے ہوں کہ اپنے والد کے بعد میں نے ان کی جگہ بیٹھ کر یہاں کے لوگوں کو کبھی چھوٹا نہیں سمجھا۔  میں ان کے دُکھ سُکھ کا ساجھی ہوں۔  میں وہاں چوپال میں ابھی تمہارا ہی قضیہ نمٹا کر آ رہا ہوں۔ "
"کیا مطلب؟" صفیہ چونکی تو زبیدہ بھی سیدھی ہو بیٹھی۔  اس نے پلو سے آنکھیں خشک کیں اور دوپٹہ سر پر ٹھیک طرح سے لے لیا۔  طاہر نے دیکھا، رونے سے اس کا چہرہ نکھر سا آیا تھا۔  متورم آنکھوں نے اس کی سادگی کو سجا دیا تھا۔  وہ سر جھکائے خاموش بیٹھی کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر پھڑکتے ہونٹوں سے آواز نہ نکل رہی تھی۔
"کیا ہوا وہاں ؟ مجھے بھی تو بتائیے۔ " صفیہ پوری طرح طاہر کی طرف متوجہ ہو گئی۔ یوں اس نے زبیدہ کی مشکل آسان کر دی۔  اس کے کان طاہر کی آواز پر لگ گئی۔
"پہلے زبیدہ سے یہ پوچھو کیا واقعی یہ عادل کو پسند کرتی ہے؟" طاہر نے دھیرے سے کہا۔
"نہیں۔  ان دونوں کی آج تک ملاقات نہیں ہوئی۔  " صفیہ نے جواب دیا۔  "زبیدہ مجھے سب بتا چکی ہے۔ "
"تو پھر اس نے کیسے عادل کے لئے ماسٹر صاحب کے سامنے زبان کھول دی؟" طاہر حیرت سے بولا۔
"یہ ایک اتفاق ہے طاہر، جس سے زبیدہ نے فائدہ اٹھانا چاہا۔  ہوا یہ کہ جب نثار کے رشتے سے زبیدہ نے انکار کیا تواسی وقفے میں اسے اپنی ایک سہیلی سے پتہ چلا کہ عادل کے ماں باپ اس کے لئے زبیدہ کا رشتہ مانگنے ان کے گھر آنے والے ہیں۔  زبیدہ نے نثار سے جان چھڑانے کے لئے ماسٹر صاحب سے کہہ دیا کہ وہ عادل کو پسند کرتی ہے۔  ماسٹر صاحب سہہ نہ سکے کہ ان کی بیٹی اس معاملے میں ایسی بات زبان پر لائے۔  انہوں نے زبیدہ کو پیٹ ڈالا۔  غضب یہ ہوا کہ اس سے دوہی دن بعد عادل کے والدین زبیدہ کے رشتے کے لئے آن پہنچی۔  بس، یہ اتفاق ماسٹر صاحب کو یقین دلانے کے لئے کافی تھا کہ زبیدہ اور عادل ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔  ایک عزت دار باپ کے لئے یہ بات کسی گالی سے کم نہیں تھی۔  وہ اپنا ذی علم ہونا تو بھول گئے۔  صرف یہ یاد رہا کہ بیٹی نے ان کے اعتماد کو دھوکہ دیا ہے۔  اور یہ بات ایسی ناقابل برداشت تھی کہ وہ زبیدہ پر ہاتھ اٹھا بیٹھے۔ "
"بس بس۔  میں سمجھ گیا۔ " طاہر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔  "اس مانو بلی نے اپنی جان تو چھڑا لی مگر باپ کو جو اذیت دی اس کا کیا ؟"
مانو بلی کا خطاب پا کر جہاں زبیدہ شرمائی وہیں ماسٹر صاحب کی تکلیف کا خیال آنے پر آبدیدہ ہو گئی۔
"میں۔۔۔  میں۔۔۔  ابو سے معافی مانگ لوں گی۔ " اس کے ہونٹ پھڑکے اور بے اختیار وہ سسک پڑی۔ " میں نثار سے شادی کروں گی۔  نہیں چاہئے مجھے ایساسُکھ جو ابو کو دُکھ دے کر ملی۔ "
"یہ بات تو تمہیں پہلے سوچنا چاہئے تھی زبیدہ۔  اب تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ "طاہر نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
"کیوں نہیں ہو سکتا۔  کیا ابو مجھ سے اتنے ناراض ہیں کہ معاف بھی نہیں کریں گے۔ " وہ بلک کر بولی۔
"نہیں۔  اب ایسی بات بھی نہیں ہے۔ " طاہر لاپروائی سے بولا اور صفیہ نے صاف دیکھا کہ وہ اپنی مسکراہٹ دبا رہا ہے۔  ایک پل میں ساری بات اس پر روشن ہو گئی۔  اسے لگا کہ طاہر کو روتی ہوئی زبیدہ پر لاڈ آ رہا ہے۔  وہ بلکتی ہوئی اسے اچھی لگ رہی ہے اور وہ اسے محض تنگ کر رہا ہے۔
"طاہر۔ " زبیدہ کو ایک بار پھر ساتھ لگاتے ہوئے صفیہ نے طاہر کی جانب نگاہ کی۔  "کیا بات ہے؟ سچ سچ بتائیے۔ "
"کیا سچ سچ بتاؤں ؟" طاہر بھولپن سے منہ بنا کر بولا۔ "کیا یہ بتاؤں کہ ماسٹر صاحب نے زبیدہ کی شادی۔۔۔ " ایک پل کو وہ رکا۔  سر جھکائے آنسو بہاتی زبیدہ کی طرف دیکھا اور پھر کہا۔  "عادل کے ساتھ طے کر دی ہے۔  "
"کیا؟" ایک جھٹکے سے زبیدہ نے سر اٹھایا اور بے یقینی سے طاہر کی جانب دیکھنے لگی۔
"ہوں۔۔۔ " صفیہ نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا۔  "تو میرا شک درست تھا۔ " اس نے طاہر کو گھور کر دیکھا۔  " آپ خواہ مخواہ بچی کو اب تک رلا رہے تھے۔ "
"چھوٹی بی بی۔ " زبیدہ نے اس کی جانب بے اعتباری سے دیکھا۔  " کیا۔۔۔  کیا یہ سچ ہے؟"
"سولہ آنے سچ ہے زبیدہ۔ " طاہر کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے یقین سے سرشار لہجے میں صفیہ نے کہا۔  "تمہارے چھوٹے مالک کو جھوٹ بولنا آتا ہی نہیں۔  ورنہ میں اتنی آسانی سے انہیں نہ پکڑ پاتی۔  میں تو ان کے بات کرنے کے انداز سے سمجھ گئی تھی کہ یہ تمہارے رونے کا مزہ لے رہے ہیں۔  "
اور زبیدہ نے صفیہ کی بغل میں چہرہ چھپا لیا۔ وہ ایک بار پھر رو دی مگر یہ آنسو خوشی کے تھے۔  تشکر کے تھے۔
"کیا ہوا چوپال میں ؟مجھے سب کچھ تفصیل سے بتائیے۔ " صفیہ نے زبیدہ کا شانہ تھپک کر اسے خود سے الگ کیا۔
جواب میں طاہر نے انہیں چوپال میں ہونے والی ساری بات سنا دی۔  وہ خاموش ہوا تو زبیدہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"چھوٹی بی بی۔  اب مجھے جانے دیجئے۔  بہت دیر ہو گئی۔ " اس نے کلاک پر نظر دوڑائی جس پر رات کے گیارہ بجنے والے تھے۔
"اری۔ " صفیہ نے وقت دیکھا تو حیرت سے بولی۔  " پتہ ہی نہ چلا وقت گزرنے کا۔  واقعی اب تمہیں جانا چاہئے۔  " وہ بھی اٹھ گئی۔  "فہمیدہ کو بلاؤ۔  "
"بیل دے دو۔ " طاہر نے بیڈ سوئچ کی طرف اشارہ کیا۔
صفیہ سر ہلا کر آگے بڑھی اور وہ بیڈ سوئچ دبا دیا، جس کے نیچے بیل کا نشان بنا تھا۔  دور کہیں گھنٹی کی آواز ابھری۔  چند لمحوں کے بعد فہمیدہ کمرے میں آ پہنچی۔
"فہمیدہ۔  کسی ملازم سے کہو زبیدہ کو اس کے گھر چھوڑ آئے۔ " صفیہ نے کہا۔
"اس کا بھائی کتنی دیر سے آیا بیٹھا ہے جی۔  اسے لے جانے کے لئے۔ "
"اری۔  تو تم نے بتایا کیوں نہیں ؟" صفیہ نے تیزی سے کہا۔  طاہر کو بھی یہ بات اچھی نہ لگی۔ وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔
"اس نے منع کر دیا تھا جی۔ " فہمیدہ بولی۔  " اس کا کہنا تھا کہ جب چھوٹی بی بی اجازت دیں گی تب وہ زبیدہ کو لے جائے گا۔  اتنی دیر وہ مردانے میں انتظار کرے گا۔ "
"پھر بھی۔ " صفیہ کو پشیمانی سی ہو رہی تھی۔
"محسوس نہ کرو۔ " طاہر نے نام لئے بغیر صفیہ کو تسلی دینے کے انداز میں کہا۔  " یہ ان لوگوں کی محبت کی ایک جھلک ہے، جو یہ ہم سے کرتے ہیں۔ اس کا مزہ لو۔  پشیمان ہو کر اس کی لذت کو گرہن نہ لگاؤ۔ "
صفیہ نے نظر اٹھا کر طاہر کی جانب دیکھا۔  اس کی نظر میں کچھ ایسا تھا کہ طاہر نے اس سے نظریں چرا لیں۔  مسکرا کر صفیہ نے زبیدہ کی طرف دیکھا۔  پھر اسے سر کے اشارے سے جانے کی اجازت دے دی۔
زبیدہ نے آہستہ سے صفیہ کا دایاں ہاتھ تھاما اور سر جھکا کر پہلے چوما۔ پھر ماتھے سے لگا لیا۔  صفیہ نے اس کا سر تھپکا۔  وہ صفیہ کا ہاتھ چھوڑ کر پلٹی اور دھیرے دھیرے چلتی ہوئی طاہر کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔  سر جھکائی۔  پلو سر پر ڈالی۔
طاہر چند لمحے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتا رہا پھر مسکرا دیا۔
"جاؤ۔ " آہستہ سے اس نے کہا۔ " بس یہ یاد رکھنا کہ ماں باپ کبھی اولاد کا بُرا نہیں چاہتے۔  مجھے خوشی ہے کہ تم نے ماسٹر صاحب کے بھروسے میں نقب نہیں لگائی۔  اچھی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ " طاہر کا ہاتھ اس کے سر پر آ گیا۔  " خوش رہنا۔  اور اسے بھی خوش رکھنا جس نے تمہارے جھوٹ پر اپنی خاموشی کا پردہ ڈال کر اتنی ہی بدنامی سہی، جتنی تمہارے حصے میں آئی۔  نصیبوں والی ہو کہ ایسا بَر خدا نے تمہاری جھولی میں ڈال دیا۔  جاؤ۔ "
طاہر نے تھپکی دے کر ہاتھ اس کے سر سے ہٹا لیا۔  زبیدہ نے نچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا تھا۔  نمی اس کی آنکھوں سے ابلنے کو تھی مگر اس نے خود پر قابو پائے رکھا۔  پھر ایک دم جھکی۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے روکتا اس نے طاہر کے دونوں پاؤں ہاتھوں کی انگلیوں سے چھوئے اور انگلیاں چومتی ہوئی سیدھی ہو گئی۔ طاہر محض "ارے ارے" کر کے رہ گیا، تب تک زبیدہ کمرے سے جا چکی تھی۔
"اوں ہوں۔۔۔ " صفیہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔ " یہ احترام اور محبت کا اظہار ہے طاہر۔  اس کا مزہ لیجئے۔  " مسکرا کر صفیہ نے کہا۔  
طاہر کی آنکھوں میں اس کے لئے ایک رنگ سا لہرایا، جسے صفیہ کی نظروں نے اپنے دامن میں لپک لیا۔ اس نے انگلی طاہر کے ہونٹوں سے ہٹا کر چوم لی۔  آہستہ سے پلٹی اور دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔  اس کا سانس ایک دم بوجھل سا ہو گیا۔  نظرسے وہ رنگ دل میں اتر رہا تھا، جو اس نے طاہر کی آنکھوں میں اپنے نام کھلتا ہوا پایا تھا۔  یہ کیسا احساس تھا؟ کیسی لذت تھی؟ کیسی سرشاری تھی جس نے اس کی روح کو ہلکا اور جسم کو ایسا وزنی کر دیا تھا کہ اس سے قدم اٹھائے نہ اٹھ رہے تھے۔  بمشکل وہ دو قدم چلی اور یوں بستر پر گر پڑی جیسے پھولوں سے لدی ڈال اپنی ہی خوشبو کا بوجھ نہ سہار سکی ہو۔
*  *  *
حافظ عبداللہ پوری طرح محو ہو کر منزل کر رہا تھا۔
قرآن پاک اس کے سامنے رحل پر کھلا پڑا تھا۔  اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ ہولے ہولے جھومتا ہوا بڑی نرمی، آہستگی اور جذب کے ساتھ تلاوت کر رہا تھا۔  چودہ سطری قرآن پاک کا ایک ایک صفحہ سطر بہ سطر اپنے آغاز و اختتام کے الفاظ کے ساتھ اس کے ذہن پر نقش اور دل میں محفوظ تھا۔  جونہی صفحے کا آخری لفظ اس کی زبان سے ادا ہوتا، غیر ارادی طور پر اس کا دایاں ہاتھ حرکت میں آتا، ورق الٹ جاتا اور زبان اگلے صفحے کی عبارت کو چومنے لگتی۔
دوسرا پارہ اختتام کو پہنچا تو اس نے آنکھیں وا کیں۔ سر جھکا کر قرآن پاک کو بوسہ دیا۔  چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر قرآن پاک بند کر کے اٹھ گیا۔  کھیس اتار کر وہیں رکھا۔  دروازے میں پڑی چپل پہنی۔  باہر نکلا۔  چار قدم چلا اور ساتھ والے کمرے پر آ رکا۔  آہستہ سے ہاتھ دروازے پر رکھ کر دبایا۔  دروازہ ہلکی سی چرر کی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔ اس نے قدم اندر رکھا۔  چراغ کی لو تھرتھرائی۔  اس نے وہیں رک کر چارپائی کی طرف دیکھا۔  لڑکی کمبل میں سمٹی پڑی تھی۔  اس کا چہرہ دروازے ہی کی جانب تھا اور وہ سو رہی تھی۔  
وہ چند لمحوں تک اس کے صبیح چہرے کو تکتا رہا۔  سوچوں کی پرچھائیاں اس کی آنکھوں میں تیر رہی تھیں۔  بال آخر آہستہ سے پلٹ کر وہ باہر نکل گیا۔ دروازہ بند ہوا اور اس کے قدموں کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔
 آواز ختم ہوتے ہی ایک دم لڑکی اٹھ بیٹھی۔  اس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو چکا تھا۔  ایک طویل سانس سینے سے خارج کرتے ہوئے وہ چارپائی سے اتر آئی۔  اب اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔  اس نے اسی وقت سانس روک لیا تھا جب حافظ عبداللہ نے دروازہ کھولا تھا۔  پلکوں کی درز سے وہ اسے اس وقت تک بے حس و حرکت پڑی دیکھتی رہی، جب تک وہ واپس نہ لوٹ گیا۔  حافظ عبداللہ کا اس وقت کمرے میں آنا، اسے خاموش کھڑے ہو کر دیکھتے رہنا، آگے بڑھتے قدم کو روک لینا اور پھر جیسے مجبوراً لوٹ جانا۔  پھر حافظ عبداللہ کا باہر سے دروازے کی کنڈی لگا دینا۔ ان سب باتوں نے اس کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔
بے آواز قدموں سے چلتی ہوئی وہ دروازے تک آئی۔  کان لگا کر سننے کی کوشش کی۔  باہر مکمل خاموشی تھی۔  کمبل میں لپٹی وہ کھڑکی کے پاس آئی اور اس کے پٹ سے کان لگا دئیے۔  دوسری طرف سے کتنی ہی دیر تک جب کوئی آواز نہ سنائی دی تو اس کا حلق خشک ہو گیا۔  لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔  وہاں کوئی ایسی شے موجود نہ تھی جسے وہ کسی بھی خطرے کے وقت اپنی حفاظت اور مدافعت کے کئے استعمال کر سکتی۔  
اضطراب کے عالم میں اس نے لکڑی کی کھڑکی کی ایک درز سے آنکھ لگا دی۔  دوسرے کمرے کا منظر اس کی آنکھ میں اترا اور وہ سُن ہو کر رہ گئی۔  حافظ عبداللہ کمرے میں شمالاً جنوباً بیتابی سے اس طرح چٹائی پر ٹہل رہا تھا کہ اس کے قدموں کی آواز نہ ابھر رہی تھی۔  کھڑکی سے دو فٹ دور سے وہ واپس لوٹ جاتا۔  اس کے ماتھے پر شکنوں کا جال تنا ہوا تھا۔  لگتا تھا وہ کسی گہری سوچ میں ہے اور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔  اس نے آنکھ درز سے ہٹا لی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔
"وہ کیا سوچ رہا ہے؟ "اس نے اپنے دل سے پوچھا۔  فوراً ہی جواب اس کے ذہن میں اتر آیا۔ ظاہر ہے وہ بد نیتی سے اور اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔  اگر اس کی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ چوروں کی طرح اس کے کمرے میں نہ آتا۔  اس کا خاموشی سے واپس لوٹ جانا اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا مگر اسے اس طرح بے چینی سے ٹہلتے دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ وہ اسی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی حالت سے دوچار ہے۔  شاید وہ کوئی ایسی ترکیب سوچ رہا تھا جس پر عمل کر کے وہ اس پر قابو پا لے اور۔۔۔۔
اس سے آگے کی بات کا خیال آتے ہی دونوں ہاتھ جوڑ کر اس نے پر نم آنکھوں سے کمرے کی چھت کی جانب دیکھا۔  "یا اللہ۔ " بے اختیار اس کے لبوں سے نکلا اور ماتھا جڑے ہوئے ہاتھوں پر ٹکا کر وہ سسک پڑی۔  اس وقت وہ بھاگ کر جاتی بھی کیسے اور کہاں ؟
حافظ عبداللہ بیتابی سے چٹائی پر ٹہل رہا تھا۔  وہ ساتھ والے کمرے میں یہ دیکھنے گیا تھا کہ لڑکی کا حال کیا ہے؟ دوبارہ بخار نے تو اسے نہیں آ لیا؟ اسے پیاس نہ لگی ہو۔  لڑکی کا خیال رکھنا لازم تھا۔  وہ اسے اپنی ذمے داری لگنے لگی تھی مگر جس طرح وہ بے سدھ سو رہی تھی، اس کے پُر کشش چہرے کو دیکھ کر اس کے جذبات میں آگ سی لگ گئی۔  اکیلی لڑکی، رات کی تنہائی، کسی تیسرے کا وہاں نہ ہونا۔  ان سب نے مل کر اس کے دل و دماغ پر یلغار کر دی۔  جتنی دیر وہ وہاں کھڑا رہا، بڑے ضبط سے کھڑا رہا تھا۔  پھر خدا کے خوف سے دل کو تھپکتا ہوا وہ بڑی مشکل سے باہر نکلا۔  دروازے کی کنڈی لگائی تو اس خیال سے کہ اس کے کھٹکے سے لڑکی جاگ جائے اور وہ اپنے شہوانی خیالات کو لڑکی کے جاگ جانے کی لگام دے سکے۔
اپنے کمرے میں آ کر اس نے منزل کرنے کی بڑی سعی کی مگر دل تو کسی اور ادھیڑ بُن میں لگ گیا تھا۔  اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے؟ حیوانی جبلت اسے شیطان کے ہاتھوں بِک جانے پر اکسا رہی تھی مگر اس کے اندر چھپا بیٹھا حافظِ قرآن خود کو مسلسل کمزور پڑتا دیکھ کر باقاعدہ ہاتھ پاؤں مارنے لگا تھا۔ کشمکش تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔  الاؤ تھا کہ اس کی تپش اسے جھلسائے دے رہی تھی۔  
ٹہلتے ٹہلتے ایک دم وہ رک گیا۔  قدم قدم چلتا ہوا ننگے پاؤں باہر نکلا۔  گھور اندھیرے میں اسے سوائے مزار، دور دور تک پھیلی خاموشی، اکیلے پن اور سناٹے کے کچھ بھی نہ ملا۔  و ہ چند لمحے کھڑا سرد ہوا کو گھونٹ گھونٹ جذبات کے حلق سے نیچے اتارتا رہا۔  تپتا ہوا جسم باہر سے سرد ہونے لگا تو اسے اپنی کنپٹیوں میں سنسناہٹ سی دوڑتی محسوس ہوئی۔  ایسی سنسناہٹ، جس میں بے چینی کے بگولے ریت اڑا رہے تھے۔  بیتابی کا غبار سانسوں کو بوجھل کر رہا تھا۔ حلق میں کانٹے سے پڑ گئے تو اس نے تھوک نگلنے کی ناکام کوشش کی۔  درد بھری ایک ٹیس ابھری اور اس کے جبڑے اکڑ سے گئے۔  منہ کھول کر اس نے فضا میں رچی ٹھنڈک کو پی لینا چاہا۔  ایک دم اسے جھرجھری سی آ گئی۔  ایک نظر مزار پر ڈال کر وہ واپس جانے کے لئے پلٹا۔  اسی وقت پھر کسی نے اسے پکارا۔  اس نے آواز کی سمت کا اندازہ لگانا چاہا مگر کامیاب نہ ہوا۔  سر جھٹک کر اس نے خود کو قائل کرنا چاہا کہ یہ اس کا وہم تھا۔  پھر وہ کمرے کی جانب چل دیا۔
"حافظ۔ " ایک دم اس کے قدم زمین میں گڑ گئے۔  اس نے پلٹ کر دیکھنا چاہا مگر گردن اکڑ گئی تھی۔  آواز کس کی تھی، اسے صاف پتہ چل گیا۔  اس کی آنکھیں یوں مند گئیں جیسے کسی نے زبردستی انہیں بند کر دیا ہو۔  ان پر کس کر پٹی باندھ دی ہو۔
"حافظ۔ " درویش نے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔  " بُوٹی لینے باہر آیا ہے۔  نقل مارنا چاہتا ہے۔  فیل ہو جائے گا۔  یہ امتحان تجھے بغیر کسی کی معاونت کے دینا ہے۔  میں تجھے ایک موقع لے کر دینے میں بڑی مشکل سے کامیاب ہوا ہوں۔  دوبارہ اس کی امید نہ رکھنا۔  اندر جا اور پرچہ حل کر۔  جا۔  تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے۔  ہمت سے گزار لے۔  جا۔ "
اس کی آنکھیں کھل گئیں۔  سارا بوجھ، سارا وزن ختم ہو گیا۔  اس نے چاروں طرف دیکھا۔  وہ اکیلا کمرے کے باہر کھڑا تھا۔ درویش وہاں کہاں تھا؟ اس نے محسوس کیا کہ اس کا جسم ہوا کی طرح ہلکا ہو گیا ہے۔  کوئی تپش اب اسے جھلسا رہی تھی نہ کوئی الاؤ اس کے اندر دہک رہا تھا۔  ایک بار پھر اس نے درویش کی تلاش میں چاروں طرف دیکھا۔  پھر مزار کی جانب نگاہ کی۔  دل میں تشکر دھڑکا۔  وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا دوسرے کمرے کے دروازے پر پہنچا۔  آہستگی سے کنڈی کھولی اور لوٹ کر اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔  دروازہ اپنے پیچھے بھیڑ کر وہ سر جھکائے چٹائی پر آ بیٹھا۔  کھیس کی بُکل ماری اور چراغ کی جانب دیکھا۔  اس کی ہلکی ہلکی زرد روشنی اسے بڑی بھلی لگی۔  چند لمحے وہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتا رہا۔  پھر ایک طویل سانس لے کر اس نے قرآن پاک کو بوسہ دے کر کھولا۔  تیسرے پارے کی پہلی سطر پر نگاہ ڈالی اور آنکھیں موند لیں۔  
"اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ " اس کے لبوں سے نکلا اور آواز بھرا گئی۔  
"بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ " زبان پر خوشبو پھیلی اور آنسو رخساروں پر آ گئے۔
"تلک الرسل۔۔۔ " ایک ہچکی تھی جو اس کے حلق سے آزاد ہوئی اور وہ اپنے آپ سے جدا ہو گیا۔  
 آنسو وضو کراتے رہے۔ زبان، آیتوں کو بوسے دیتی رہی۔  حواس میں پاکیزگی اترتی چلی گئی اور وہ اس بات سے بے خبر ہلکورے لیتا اپنے معبود کی ثنا کرتا رہا کہ کوئی اسے کھڑکی کی درز سے مسلسل دیکھ رہا ہے۔  اس کی کیفیت پر انگشت بدنداں ہے۔  اس کی کیفیت کو سمجھنے کی ناکام سعی کر رہا ہے اور روح کو سیراب کرتی ہوئی نمی۔۔۔  وہ تو اس جھانکنے والے کی آنکھوں میں بھی ہے۔
"لن تنالو البر" کے الفاظ اس کی زبان پر تھے کہ اسے لگاجیسے دونوں کمروں کی درمیانی کھڑکی پر "ٹھک" کی آواز ابھری ہو۔  ایک لمحے کو وہ رکا۔  پھر تلاوت کرتی اس کی آواز بلند ہو گئی۔  "ٹھک" کی آواز پھر ابھری۔  اس نے کان بند کرنے کے لئے ان پر ہاتھ رکھ لئے۔ تیسری بار آواز ابھری تو اس نے آنکھوں کو اور زور سے بند کر لیا۔  آنکھوں پر زور پڑنے کی دیر تھی کہ چارپائی پر بے سدھ پڑا وہ جوان سراپا اس کے سامنے نمایاں ہو گیا جو تنہائی اور موقع سے مزین تھا۔ گھبرا کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔  قرآن پاک کے الفاظ پر دھیان جماتے ہوئے اس نے صفحہ پلٹا تو لگا جیسے الفاظ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ہوں۔  صفحہ اسے بالکل کورا دکھائی دیا۔  کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگی۔  نظروں میں دھند سی پھیلی اور زبان مروڑا کھا گئی۔  دماغ ایک دم سکرین بن گیا جس پر ایک جوان بدن پڑا اسے صدائیں دے رہا تھا۔  اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا چاہا مگر اس کے سامنے کھلے پڑے قرآن پاک کا سامنے کا صفحہ بالکل کورا  بالکل صاف تھا۔  اس پر کچھ لکھا ہوا نہ تھا۔ اس نے حافظے پر زور دے کر یاد کرنا چاہا مگر کچھ یاد نہ آیا کہ وہ کیا اور کہاں سے تلاوت کر رہا تھا ؟
خوف کی ایک لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی۔  یہ کیا ہوا؟ مجھے یاد کیوں نہیں آ رہا کہ میں قرآن پاک کہاں سے دہرا رہا تھا؟ یہ۔۔۔  یہ صفحات کورے کیوں ہو گئے؟ قرآن پاک کے الفاظ کہاں غائب ہو گئے؟ سنا اور پڑھا تھا کہ قیامت کے قریب قرآن پاک کے الفاظ خود بخود صفحات سے اڑ جائیں گے۔ غائب ہو جائیں گے۔  تو کیا قیامت آ گئی؟ کیا۔۔۔ ؟
اور اس "کیا " کے آگے سوچنا اس کے لئے محال تھا۔  سوچ پر تو وہ جوان جسم قابض تھا جو چارپائی پر پڑا اسے پکار رہا تھا۔
"میرے مالک۔ " اس کے پھڑکتے لبوں سے ایک سرگوشی آزاد ہوئی۔  "میرے معبود۔  میری مدد فرما۔  اپنے حبیب کریم کے صدقے میں میری آزمائش نہ لے۔  میں تیری کسی آزمائش، کسی امتحان کے قابل نہیں ہوں۔  مجھے معاف فرما دے۔  مجھے معاف فرما دے۔  مجھے معاف فرما دے۔ " اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھا ان پر رکھ دیا۔  سرگوشی مدھم ہوتے ہوتے ناپید ہو گئی۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس نے سراٹھایا۔  لڑکی کا سراپا ابھی تک اس کے ذہن میں رقصاں تھا۔  اس کی بھویں تن گئیں۔  دانت بھینچ کر اس نے ایک پل کو کچھ سوچا۔  پھر نجانے کیا ہوا۔  آہستہ سے اس نے گردن کو حرکت دی اور دایاں ہاتھ چراغ کی لو پر سائبان کر دیا۔  لو بھڑکی اور اس کی ہتھیلی چاٹنے لگی۔  اس کی آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اپنے ہاتھ پر جم گئیں جو چراغ کی لو پر ساکت ہو چکا تھا۔  
گوشت جلنے کی چراند کمرے میں پھیلی۔  درد کی ایک لہر اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی مگر اس درد میں کیا لذت چھپی تھی کہ اسے نشہ سا ہونے لگا۔  اسے لگا جیسے ایک دم آنکھوں کے سامنے سے ساری دھند چھٹ گئی ہو۔  نظر جھکائی تو کورے کاغذ کا دامن گلاب رنگوں سے پُر دکھائی دیا۔  قرآن پاک کے الفاظ اس کی جانب سر اٹھائے مسکرا رہے تھے۔  قیامت ٹل گئی تھی۔  اسے توبہ کا وقت مل گیا تھا۔  زبان کی اینٹھن روانی میں بدل گئی۔ حافظ اسی مقام پر جا کھڑا ہوا جہاں پر وہ آیت سے جدا ہوا تھا۔
ہاتھ لو پر جلتا رہا۔  مگر اس جلن میں درد نہ تھا، ایک سرور تھا جو اسے لوریاں دے رہا تھا۔  زخم نہ تھا، گلاب تھا جو کھلتا ہی جا رہا تھا۔  منزل ہو رہی تھی یا منزل اس کی جانب خود چل پڑی تھی؟ کون جانے۔  جانے تو بس وہ جانے جو اوپر بیٹھا اپنے آدم کی آزمائش لے رہا تھا۔  فرشتوں کو دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا:
"کیا میں نے کہا نہ تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔  وہ دیکھو۔  میرا آدم میری طرف چل کر آ رہا ہے اور مجھے دوڑ کر اس کی طرف جانا ہے۔  اسے گرنے سے پہلے تھام لینا ہے۔  جاؤ۔  اس کے ہاتھ کا، اس کے جسم کا سارا درد سمیٹ کر اس میں وہ مستی بھر دو جس میں صرف میرا ذکر، میرا شکر اور میرا امر لو دے رہا ہو۔ "
کھڑکی کے دوسری جانب دم بخود کھڑی لڑکی کے حواس مختل ہو چکے تھے۔  اس کی آنکھوں میں وہ منظر سما ہی نہ رہا تھا۔  حافظ عبداللہ کا ہاتھ جل رہا تھا۔  گوشت پگھل کر قطرہ قطرہ گر رہا تھا مگر اسے جیسے اپنا ہوش ہی نہ تھا۔  وہ جھوم جھوم کر تلاوت کر رہا تھا۔  اس کی آنکھیں بند تھیں۔  چہرہ اور اب جسم بھی پسینے میں یوں بھیگا جا رہا تھا جیسے کسی نے اس پر جگ بھر پانی انڈیل دیا ہو مگر وہ ہر احساس سے بے نیاز منزل کر رہا تھا۔  منزل اس کی جانب بھاگی چلی آ رہی تھی۔
اسی وقت باہر سے " اللہ اکبر" کی صدا ابھری۔
درویش لوٹ آیا تھا۔  وہ فجر کی اذان دے رہا تھا۔
امتحان کا وقت ختم ہو گیا تھا اور شاید امتحان بھی۔
یہ صدا اعلان تھی اس بات کا کہ حافظ عبداللہ کامیاب ہو گیا۔
لڑکی کے کانوں میں اللہ اکبر کی صدا پڑی تو وہ چونکی۔  گھبرا کر درز سے پیچھے ہٹی اور دروازے کی طرف لپکی۔  ایک پُر شور آواز کے ساتھ دروازہ کھول کر وہ باہر نکلی۔  کمبل اس کے شانے پر لٹکا ہوا ساتھ ساتھ گھسٹتا آ رہا تھا۔  تقریباً بھاگتی ہوئی وہ دوسرے کمرے میں داخل ہوئی۔  دیوانہ وار آگے بڑھی اور نیم بیہوش مگر تلاوت میں محو حافظ عبداللہ کے پاس جا رکی۔  
"حافظ صاحب۔ " ایک چیخ اس کے لبوں سے نکلی اور اس نے اس کا جلتا ہوا ہاتھ کھینچ کر چراغ کی لو سے پرے ہٹا دیا۔
ایک دم حافظ عبداللہ نے آنکھیں کھول دیں اور جیسے ہوش میں آ گیا۔  اس کی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر لڑکی ایک پل کو دہشت زدہ ہوئی پھر اس کی طرف سے نگاہ ہٹا کر اس نے کمبل کے پلو میں حافظ عبداللہ کا چرر مرر ہاتھ لپیٹ لیا۔
"یہ آپ نے کیا کیا ؟" اس کی آواز میں درد ہی درد تھا۔
"کیا کیا؟" حافظ عبداللہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔  حواس میں آتے ہی درد اس پر پوری شدت سے حملہ اور ہو گیا۔
"حی علی الفلاح۔ "
اچانک وہ باہر سے آتی ہوئی درویش کی آواز پر چونکا۔ "بابا۔ " اس نے سرسراتے لہجے میں کہا۔ " بابا لوٹ آئے۔ "
"کون بابا؟" لڑکی کی آواز اب بھی بھرائی ہوئی تھی۔  وہ کمبل میں لپٹا اس کا ہاتھ تھامے بیٹھی آنسو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
مگر حافظ عبداللہ اس کے سوال کا جواب دینے سے پہلے ہی غش کھا گیا۔  اب درد کی اذیت اس کی برداشت سے باہر ہو چکی تھی۔
"حافظ صاحب۔۔۔ حافظ صاحب۔ " لڑکی اسے باہوں میں سنبھالتی ہوئی بے اختیار پکارے جا رہی تھی۔
"بس۔  " اچانک ایک آواز سن کر وہ چونکی۔  ایک جھٹکے سے گردن گھما کر اس نے اندر آتے ہوئے درویش کو دیکھا جو تین چار لمبے لمبے ڈگ بھر کر اس کے پاس پہنچا اور حافظ عبداللہ کا سر گود میں لے کر بیٹھ گیا۔
" آرام کرنے دے اسی۔ " وہ والہانہ حافظ عبداللہ کے چہرے کو دیکھے جا رہا تھا۔  اس کے گالوں پر محبت سے ہاتھ پھیر رہا تھا۔  " سونے دے اسے۔  ساری رات امتحان دیتا رہا ہے پگلا۔  تھک گیا ہے۔  سونے دے اسے۔ "
"بابا۔  " لڑکی نے اس سے پوچھنے کی کوشش ہی نہ کی کہ وہ کون ہے۔  وہ اسے اجنبی لگا ہی نہ تھا۔  بالکل ایسا لگا جیسے وہ برسوں سے اسے جانتی ہو۔  "بابا۔  ان کا ہاتھ۔۔۔ "
"کیا ہوا اس کے ہاتھ کو؟" درویش نے اس کا ہاتھ کمبل کے پلو سے باہر نکالا۔  پھر جلے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
"بابا۔  انہوں نے دیے کی لو پر اپنا ہاتھ رکھ چھوڑا تھا۔  ہاتھ جلتا رہا مگر انہیں خبر ہی نہ ہوئی۔  وہ تو میں نہ آ کر ہٹاتی تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔ " وہ مزید سہہ نہ سکی اور سسک کر رو پڑی۔
"پگلی ہے تو بھی۔ " درویش نے اس کے سر پر تھپکی دی۔ " کچھ نہیں ہو گا اسے۔  میرا اللہ چاہے تو ابھی اس کا ہاتھ یوں ہو جائے جیسے اس پر کبھی کوئی خراش تک نہیں آئی مگر ۔۔۔ "
"مگر کیا بابا؟" لڑکی نے بیتابی سے پوچھا۔
"مگر میرا اللہ چاہتا ہے کہ حافظ عبداللہ کا ہاتھ دوا سے ٹھیک ہو۔  اس کا نقص باقی رہے۔  یہ عیب والا ہو جائے۔ "
"وہ کیوں بابا؟" وہ سوال پر سوال کئے جا رہی تھی اور درویش اس کے ہر سوال کا جواب یوں دے رہا تھا جیسے کوئی باپ اپنی بیٹی سے لاڈ کر رہا ہو۔
"اس لئے پگلی کہ اپنے اللہ سے محبت کا یہ نشان اس کے ہاتھ پر باقی رہے۔  اسے اور تجھے یاد رہے کہ یہ ہاتھ کیوں اور کیسے جلا تھا؟"
"میں سمجھی نہیں بابا؟" ایک دم لڑکی کا ذہن جیسے سلیٹ کی طرح صاف ہو گیا۔
"کیا تو نہیں جانتی کہ حافظ نے اپنا ہاتھ جلتے چراغ کی لو پر کیوں رکھ دیا تھا؟" اچانک درویش کا لہجہ عجیب سا ہو گیا۔  "شیطان آ گیا تھا اس کے پاس۔  شیطان جو آگ سے بنا ہے۔  نفس کی آگ کو حافظ عبداللہ نے اپنے اللہ کے حکم پر نور کے الاؤ میں دھکیل دیا۔  نفس جل گیا۔  شیطان خاک ہو گیا۔  نور باقی رہا۔  اب اس نور کا نشان تا عمر میرے حافظ کے ہاتھ پر باقی رہے، اس کے اللہ کی نشانی اس کے پاس رہے، یہی اس کے معبود کی رضا ہے۔  سمجھیں پگلی۔ " درویش نے اس کی جانب پیار سے دیکھا۔
"ہاں بابا۔ " لڑکی کی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے آئی۔ "سب سمجھ گئی۔  " اس کی نگاہیں جھک گئیں۔ رات بھر کی ساری کیفیات ایک پل میں اس کی نظروں میں پھر گئیں۔  اس کی ساری بدگمانیاں شرمندگی کا پسینہ بن کر اس کی پیشانی سے بہہ نکلیں۔  وہ حافظ عبداللہ کی حرکات سے کیا اخذ کرتی رہی اور حقیقت کیا تھی؟ یہ جان کر اسے خود پر شرم آ گئی۔  
"کمبل سے اپنا جسم ڈھانک لے پگلی۔  سردی لگ جائے گی۔ " درویش نے حافظ عبداللہ کو بازوؤں میں اٹھا تے ہوئے کہا تو وہ چونکی۔  کمبل کو جسم پر ٹھیک سے لپیٹا۔ پھر اس کے پیچھے پیچھے وہ بھی دوسرے کمرے میں آ گئی۔  
درویش نے حافظ عبداللہ کو چارپائی پر لٹایا۔  جلتا ہوا چراغ اٹھا کر لایا اور چارپائی کے پاس نیچے کچے فرش پر رکھ دیا۔
"میں نماز پڑھ لوں۔  تم اتنی دیر اس کے زخم پر چراغ کا تیل چپڑتی رہو۔ باقی کا علاج صبح گاؤں جا کر ہو جائے گا۔ "
درویش کمرے سے نکل گیا۔
لڑکی نے ایک پل کو کچھ سوچا۔  پھر چارپائی کی پٹی سے لگ کر زمین پر بیٹھ گئی۔  حافظ عبداللہ کا جلا ہوا ہاتھ تھام کر اس نے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے چراغ سے تیل لیا اور زخم پر چپڑنے لگی۔  وقفے وقفے سے وہ اس کے چہرے پر بھی نظر ڈال لیتی، جہاں سکون کا ایک عالم آباد تھا۔  ایساملکوتی سکون اسے پہلے کہاں دیکھنا نصیب ہوا تھا؟
٭
"میرا نام سکینہ ہے جی۔ " لڑکی نے کہا۔ "میں سائیاں والا کے میاں اشرف کی بیٹی اور میاں نذرو کی بھتیجی ہوں۔ "
"اری۔ " چوہدری حسن دین چونکا۔  "پھر تو تُو میری بیٹی اور بھتیجی ہوئی۔ میاں نذرو تو میرے بڑا یار ہے۔  "
"چلئے۔  یہ بھی اچھا ہوا کہ یہ آپ کے جاننے والوں کی کچھ لگتی ہیں۔  اللہ کا شکر ہے کہ میری ذمہ داری ختم ہوئی۔  اب آپ انہیں ان کے گھر بھجوانے کا انتظام کر دیں چوہدری صاحب۔ " حافظ عبداللہ نے مفلر کے ساتھ گلے میں لٹکے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے چھوتے ہوئے کہا جس پر کچھ دیر پہلے گاؤں کے اکلوتے ڈاکٹر جمع حکیم، مرزا امیر حسین نے ڈریسنگ کی تھی۔
پو پھٹتے ہی درویش نے ان دونوں کو گاؤں کے راستے پر خدا حافظ کہہ دیا تھا۔  سورج نکل رہا تھا جب وہ دونوں چوہدری حسن دین کی حویلی جا پہنچی۔  اندر خبر کی گئی تو فوراً ان دونوں کو بیٹھک میں بٹھایا گیا۔  رفاقت اور چوہدری حسن دین آئے تو حافظ عبداللہ نے مختصر لفظوں میں انہیں ساری بات بتائی۔  مسجد سے غیر حاضری کی وجہ بھی سامنے آ گئی۔ اب آخر میں جب سکینہ نے اپنا نام اور پتہ بتایا تو سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا۔
"سکینہ بیٹی۔ تم اندر جاؤ۔  نہا دھو کر کپڑے بدلو۔  میں اتنی دیر میں تمہارے چچا کو خبر کرتا ہوں۔  ہاں ، یہ تو بتاؤ کہ تم کب سیلاب کے پانی میں گریں ؟"
"کل صبح چوہدری صاحب۔  " سکینہ نے جواب دیا اور جھرجھری لے کر رہ گئی۔  "میں اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ پُل پر کھڑی سیلاب کے پانی کا تماشہ دیکھ رہی تھی کہ پاؤں پھسل گیا۔  وہ دونوں شور مچاتی کسی کو مدد کے لئے بلانے بھاگیں۔  میں ڈوبتے ڈوبتے ایک درخت کے تنے سے جا چمٹی جو نجانے کہاں سے بہتا چلا آ ر ہا تھا۔  پانی نے میرے حواس چھین لئے اور میں بے سدھ ہو گئی۔  ہوش آیا تو بابا شاہ مقیم کے مزار پر تھی۔ "
"بس بیٹی۔  یہ اللہ والوں کی کرامتیں ہیں۔ ایک تو تیری جان بچ گئی اوپر سے حافظ عبداللہ جیسے نیک بندے کے ہاتھ لگ گئیں۔  اگر کہیں غلط ہاتھوں میں پڑ جاتیں تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ "چوہدری حسن دین نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔ " اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ "
"جی۔ " سکینہ نے کرسی پر سر جھکائے بیٹھے حافظ عبداللہ کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"نادرہ کو بلاؤ۔ " چوہدری حسن دین نے رفاقت سے کہا۔
"جی ابا جان۔ " رفاقت اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔  تھوڑی دیر بعد وہ اپنے ساتھ چودہ پندرہ سالہ صحتمند اور ہنستی کھیلتی نادرہ کو لئے واپس آیا۔
"سلام حافظ صاحب۔ " اس نے اندر داخل ہو کر حافظ عبداللہ کو سلام کیا۔  حافظ عبداللہ نے جواب دیتے ہوئے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
"نادرہ پتر۔  سکینہ بہن کو اندر لے جا۔  اسے نہلا دھلا کر اس کے کپڑے بدلوا۔  ناشتہ واشتہ کرا اور آرام کرنے کے لئے بستر میں گھسا دے۔  یہ بہت تھکی ہوئی ہے۔ "
"جی ابا۔ " نادرہ نے اپنی چمکتی ہوئی آنکھیں مٹکائیں۔  "مگر یہ ہیں کون؟"
"میرے ایک مرحوم دوست کی بیٹی ہے۔  یہ کل سیلاب کے پانی میں بہہ گئی تھی۔  تیرے استاد صاحب نے اسے بچا لیا۔ "
"بچانے والی تو اللہ کی ذات ہے چوہدری صاحب۔ " حافظ عبداللہ نے جلدی سے کہا۔
"ہاں جی۔  مگر کوئی حیلہ وسیلہ بھی تو ہوتا ہے ناں۔  " چوہدری حسن دین نے زور دے کر کہا۔ " اب وہ خود تو نیچے اتر کر اسے پانی سے نکالنے سے رہا۔  آپ کو بھیج دیا کہ جا بھئی۔  اپنا فرض ادا کر۔ "
حافظ عبداللہ مسکرا کر خاموش ہو رہا۔ نادرہ، سکینہ کو اندر لے گئی۔
"رفاقت۔  یار سائیاں والا تک کا راستہ تو سارا سیلاب کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔  وہاں فون کی سہولت بھی موجود نہیں۔  اب نذرو کو خبر کیسے کی جائے؟"
"ابا جان۔ " رفاقت نے کمرے میں داخل ہوتے ملازم کے ہاتھ سے ناشتے کی ٹرے تھام کر حافظ عبداللہ کے آگے تپائی پر رکھی اور چوہدری حسن دین سے مخاطب ہوا۔  "وجاہت آباد کے راستے سائیاں والا پہنچا جا سکتا ہے۔ "
"یار۔  بڑا لمبا ہو جائے گا راستہ۔ " چوہدری حسن دین نے سوچ میں ڈوبے لہجے میں کہا۔
"اب کا م تو یہ کرنا ہے ابا جان۔  راستہ لمبا ہو یا چھوٹا۔  جانا تو پڑے گا۔ "رفاقت کہہ کر حافظ عبداللہ سے مخاطب ہوا۔ " حافظ صاحب۔  آپ ناشتہ شروع کیجئے۔  سوچ کیا رہے ہیں ؟"
"کچھ نہیں یار۔  سوچنا کیا ہے؟" حافظ عبداللہ نے بایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔  پھر واپس کھینچ لیا۔ "یہ بائیں ہاتھ سے کھانا کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ "
"اب یہ تو مجبوری ہے حافظ صاحب۔ " چوہدری حسن دین نے ہمدردی سے اس کی جانب دیکھا۔  " ہاں۔  اگر آپ کی شادی ہو گئی ہوتی تو اور بات تھی۔  پھر آپ کی بیگم لقمے بنا بنا کر آپ کو کھلاتیں اور آپ دعا کرتے کہ آپ کا ہاتھ ذرا دیر سے ٹھیک ہو۔ " مزاح کی عادت سے مجبور چوہدری حسن دین رہ نہ سکا اور گوہر افشانی کرنے لگا۔  بات ختم کر کے وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔  حافظ عبداللہ جھینپ کر رہ گیا۔  رفاقت نے استاد کو شرمندہ ہوتے دیکھا تو مسکرا کر منہ پھیر ا اور ذرا پرے جا بیٹھا۔  "مگر آپ نے کیسی لاپروائی دکھائی کہ سوتے میں ہاتھ جلتے چراغ پر دے مارا۔  اگر کہیں چراغ کپڑوں پر آگر تا تو۔۔۔ "
"بس چوہدری صاحب۔  سوتے میں کیا پتہ چلتا ہے۔ " حافظ عبداللہ نے کہا اور بائیں ہاتھ سے بہ امر مجبوری پراٹھا توڑنے لگا۔ اس نے ہاتھ جلنے کے بارے میں یہی بتایا تھا کہ سوتے میں پتہ نہ چلا اور ہاتھ جلتے چراغ پر جا پڑا۔  پھر جب تک وہ سنبھلتا آگ نے ہاتھ جلا ڈالا۔  مرزا امیر حسین نے زخم دیکھ کر کہنا چاہا تھا کہ لگتا ہے بہت دیر تک ہاتھ آگ پر پڑا رہا ہے۔  تاہم حافظ عبداللہ نے بات کو ہوں ہاں میں ٹال دیا۔
ناشتہ کر کے حافظ عبداللہ نے اجازت لی اور مسجد کو چل دیا۔  کچھ دیر بعد چوہدری حسن دین نے اپنے ایک ملازم شفیق مصلی کو میاں نذرو کی طرف روانہ کرتے ہوئے کہا۔
"وجاہت آباد کے ملک بلال کو تم خوب جانتے ہو۔ میں دیر سے اس کا فون ٹرائی کر رہا ہوں مگر رابطہ نہیں ہو رہا۔  شاید بارش کی وجہ سے لائنیں ڈسٹرب ہو گئی ہیں۔  تم اس سے جا کر ملنا۔  اگر آگے راستہ صاف نہ ہوا تو وہ تمہاری ہر ممکن مدد کرے گا۔  اور اگر صاف ہوا تو وہاں زیادہ ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔  جتنی جلدی ہو سکی، میاں نذرو سے جا کر ملو اور اسے بتاؤ کہ اس کی بھتیجی یہاں ہمارے پاس ہے اور بالکل خیر خیریت سے ہے۔  جب چاہیں آ کر لے جائیں۔  وہاں فون کی لائن ابھی تک بچھی نہیں ، ورنہ میں جناب کو تکلیف نہ دیتا۔ راستہ رکا ہوا نہ ہوتا تو میں خود ہی سکینہ بیٹی کو چھوڑ آتا۔ سمجھ گیا یا سب کچھ لکھ کر دوں دُن وٹی؟" چوہدری حسن دین نے اس کے چہرے پر بکھری حماقت سے بیزار ہو کر کہا۔
"سمجھ گیا ہوں جی۔ " شفیق مصلی بولا تو ساری حماقت اس کے چہرے سے چھٹ گئی۔  معلوم ہوا کہ جب تک چپ رہتا احمق لگتا تھا مگر زبان کھلتے ہی وہ سمجھدارلگنے لگتا تھا۔ " آپ فکر نہ کریں۔  جیسا آپ نے کہا ہے، ویسا ہی ہو گا۔ "
"تو بس۔  اب چل دے میرے ٹٹو۔ تجھے سائیکل پر جانا ہے اور راستہ کافی طویل ہے۔ " چوہدری حسن دین کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔  " ویسے تو وجاہت آباد کب تک پہنچے گا، اس وقت بارہ بجے ہیں دن کے۔ "
"ڈیڑھ دو گھنٹے کا راستہ تو ہے جی۔  بس زیادہ سے زیادہ دو بجے تک پہنچ جاؤں گا۔ "
"ٹھیک ہے۔  اگر کوئی خاص بات ہوئی تو مجھے فون پر آگاہ کرنا۔  بس اب روانہ ہو جا اللہ کا نام لے کر۔ "
"جی چوہدری صاحب۔ " شفیق مصلی نے سلام کیا اور باہر نکل گیا۔
*  *  *
دوپہر کے کھانے کے بعد طاہر حویلی سے کچھ دور ڈیرے میں بیٹھا بلال ملک اور چند دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھا گپ شپ کر رہا تھا۔  موضوع بحث عادل اور زبیدہ تھے جن کی شادی کا معاملہ ایسے احسن انداز میں طے ہو ا تھا کہ سب لوگوں پر طاہر کی معاملہ فہمی اور فراخ ذہنی کی دھاک بیٹھ گئی۔
"ملک صاحب۔  نور پور سے چوہدری حسن دین کا آدمی آیا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ " دروازے سے اندر داخل ہوتے ایک ملازم نے کہا۔
"اوہو۔ " ملک سیدھا ہو بیٹھا۔  " خیر تو ہے۔ "
"پتہ نہیں جی۔  بس آپ سے ملنے کو کہتا ہے۔ "
"تو بھیجو اسے اندر۔  سوچ کیا رہے ہو؟" ملک نے ڈپٹ کر کہا۔
"جی ملک صاحب۔ " ملازم لوٹ گیا۔
کچھ دیر بعد شفیق مصلی نے اندر داخل ہو کر بلند آواز میں سب کو سلام کیا۔  جواب میں سب نے وعلیکم السلام کہا۔ طاہر خاموشی سے صوفے پر نیم دراز سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔
" آؤ بھئی شفیقی۔  خیریت تو ہے؟" ملک نے اسے پہچان لیا۔ ملک نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"جی ملک صاحب۔  سب خیر ہے اور چوہدری صاحب بھی خیریت سے ہیں۔  ایک ضروری کام سے آیا ہوں جی۔ " وہ ایک موڑھے پر ٹک گیا۔
"ہاں ہاں۔  کہو۔  کیا بات ہے؟"
جواب میں شفیق مصلی نے اسے چوہدری حسن دین کے پیغام سے آگاہ کیا۔  طاہر اس کی بات سنتا رہا اور غور کرتا رہا۔  
"راستہ تو آگے کا صاف ہی ہے شفیقی۔ پھر بھی کسی قسم کی مدد درکار ہو تو بتاؤ۔ "
"نہیں جی۔  آپ کو چوہدری صاحب کا سلام دینا تھابس۔  اگر راستہ صاف ہے تو پھر مجھے چلنا چاہئے۔ "
"او نہ بھئی۔  یہ کیسے ہو سکتا ہے۔  تو ہمارے بابا جی کے گاؤں سے آیا ہے۔ " عقیدت سے ملک نے سر خم کر کے کہا۔  "لسی پانی کے بغیر کیسے جائے گا تو۔  اوئے کرامت۔ " ملک نے دور بیٹھے ایک آدمی کو پکارا۔
"جی ملک صیب۔ " وہ اٹھ کر قریب چلا آیا۔
"شفیقے کو ساتھ لے جا۔  اس کی خوب ٹہل سیوا کر کے جانے دینا اسے۔ کوئی کسر رہ گئی تو بابا شاہ مقیم کو جانتا ہے ناں ؟" ملک نے اسے خوف دلایا۔
"فکر نہ کریں۔  آپ کو کوئی شکایت نہیں ملے گی ملک صیب۔ " کرامت نے ڈرے ڈرے لہجے میں کہا اور شفیق سب کو سانجھا سلام کر کے اس کے ساتھ رخصت ہو گیا۔
"ملک۔  بابا شاہ مقیم کے مزار پر اپنا کوئی بندہ ہی جڑ دینا تھا۔  وہاں کی دیکھ بھال سے ہمارا بھی اندر دھلتا رہتا۔ " طاہر نے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"اب اس کی ضرورت نہیں رہی چھوٹے مالک۔  ایک اللہ والے نے وہاں کا چارج سنبھال لیا ہے۔ "
" یہ کب کی بات ہے؟"طاہر نے حیرت سے پوچھا۔
"کافی عرصہ ہو گیا جی۔  بس وہاں کا ذکر نہیں آیا تو آپ کو خبر نہ ہوئی۔ "
"اچھا۔  کیسا اللہ والا ہے وہ، جس نے بابا کے دل میں گھر کر لیا۔  وہ تو کسی کو اپنے مزار پر ٹکنے ہی نہیں دیتے۔ "
"بس جی۔  یہ کوئی ان کا دُلارا لگتا ہے جو دھونی رمائے بیٹھا ہے وہاں۔ "
"اچھا۔  پھر تو ملنا چاہئے اسے۔ " طاہر کے لہجے میں دلچسپی عود کر آئی۔
"جب حکم کریں ، چلے چلیں گے جی۔  "
"کل صبح چلیں ؟" طاہر نے فراغت کے وقت کا بہترین استعمال سوچ لیا۔  وہ پچھتا رہا تھا کہ جب سے آیا ہے اسے بابا شاہ مقیم کے مزار پر جانے کا خیال کیوں نہ آیا۔  پچھلے تین چار سال سے مصروفیت کے باعث وہاں نہ جانے کی کوتا ہے تو ہو رہی تھی اس سی، مگر اس بار تو وہ بالکل فارغ تھا۔  اسے آتے ہی وہاں جانا چاہئے تھا۔
"ٹھیک ہے جی۔  میں انتظام کرا لیتا ہوں۔ " ملک نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔  "صبح سات آٹھ بجے نکل چلیں گے۔  سہ پہر تک لوٹ آئیں گے۔ "
"ٹھیک ہے۔  تم تیاری کر لو۔  اور ہاں۔  سالانہ عرس پر تو ہمارا حصہ جا رہا ہے ناں وہاں ؟"
"یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے چھوٹے مالک۔ " ملک مسکرایا۔  " بڑے صاحب کے زمانے سے جو معمول بندھا تھا، برابر جاری ہے۔  بیگم صاحبہ نے کبھی اس میں کوتا ہے آنے دی ہے نہ کمی۔ "
"ایسا ہی ہونا چاہئے۔  " اس نے سر ہلایا۔ " بہت بڑی ہستی ہیں بابا شاہ مقیم۔ "
"ہاں جی۔  اس میں کیا شک ہے؟" ملک نے تائید کی۔
پھر بابا شاہ مقیم کی باتیں چھڑیں تو وقت گزرنے کا احساس اس وقت ہوا جب حویلی سے سہ پہر کی چائے کا پیغام آ گیا۔
طاہر حویلی چلا گیا اور ملک چند ملازموں کے ساتھ اپنے آفس نما کمرے میں ، جو ڈیرے کی حدود میں ہی واقع تھا۔  اسے صبح کے سفر کی تیاری کرنا تھی۔
٭
میاں نذرو اپنے بیٹے سلیم اور سکینہ کی ماں تاج بی بی کے ساتھ اگلے دن چوہدری حسن دین کے ہاں پہنچ گیا۔  شفیق مصلی انہیں حویلی چھوڑ کر رخصت ہو گیا۔  وہ لوگ اپنے شاہی تانگے پر آئے تھے۔  شفیق مصلی سائیکل پر ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا تھا۔
تاج بی بی کی بے چینی کے پیش نظر وہ تو رات ہی کو پہنچ جاتے مگر شفیق مصلی نے انہیں خوب تسلی دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ صبح نور کے تڑکے نکلنا چاہئے۔  رات کا سفر خراب راستے کے باعث مناسب نہیں ہے۔  رات جیسے تیسے گزار کر وہ فجر کی نماز کے فوراً بعد ناشتہ کر کے چل پڑے اور آٹھ بجے کے قریب یہاں آن پہنچے۔  
ان کے ملنے کا منظر بڑا دلگداز تھا۔  سکینہ، ماں اور چچا کے گلے لگ کر بچوں کی طرح روئی۔  تاج بی بی اسے پیار کرتے نہ تھکتی تھی۔  سلیم نے بھی سر پر پیار دیا اور اسے سینے سے لگا کر آبدیدہ ہو گیا۔
"مر جانئے۔  اگر تجھے کچھ ہو جاتا تو تیرا یہ بھائی کس کی ماں کو ماسی کہتا۔ " اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور روتے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں کھیل گئیں۔
"واہ بھئی واہ۔ " چوہدری حسن دین نے سلیم کی جانب دیکھ کر قلقاری ماری۔  " تم تو اپنی برادری کے لگتے ہو۔  روتے بھی ہو تو سُر میں۔ "
"بس چاچا۔  یہ رونق ہے ہمارے گھر کی۔ " اس نے سکینہ کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔  "اسے کیا پتہ، ہم نے کل رات تک کا وقت کیسے گزارا ہے؟ اس کی تلاش میں دریا کی تہہ کہاں کہاں تک نہیں کھنگالی ہم نے۔  وہ تو آپ کا بندہ پہنچا تو جان میں جان آئی۔ "
"شکر کرو بھائی رب سوہنے کا کہ اللہ نے حافظ عبداللہ کو رحمت کا فرشتہ بنا کر وہاں بھیج رکھا تھا۔  ورنہ یہ پتہ نہیں کہاں جا کر رکتی۔  درخت تو اس نے کرائے پر لے ہی لیا تھا۔ "
"چاچا۔ " سب کے قہقہے پر سکینہ نے شرما کر چوہدری حسن دین کی طرف شکایتی نظروں سے دیکھا۔
"ارے بیٹی۔  انہیں ہنس لینے دے۔  پتہ نہیں تیرے لئے کتنا روئے ہیں ؟" چوہدری حسن دین نے نرمی سے اسے سمجھایا تو وہ ایک بار پھر ماں سے لپٹ گئی۔
"اور سنا بھئی چوہدری۔  کیسی گزر رہی ہے؟" میاں نذرو اس کی طرف سیدھا ہوا۔
"بتاتا ہوں۔  پہلے تم لوگ کچھ اَن پانی چھک لو۔ " چوہدری حسن دین نے رفاقت اور نادرہ کے ساتھ ملازم کو کھانے پینے کی اشیا لے کر اندر آتے دیکھ کر کہا۔
"بھابی کہاں ہے؟ " میاں نذرو نے ذرا دیر بعد پوچھا۔
" میکے گئی ہے۔ " چوہدری حسن دین نے منہ بنا کر کہا۔  " بوڑھی ہو گئی پر اس کا میکے کا چسکا نہ گیا۔  ایک دو دن کا کہہ کر جاتی ہے اور سات دن بعد لوٹتی ہے۔ "
"ناراض نہ ہوا کر یار۔ " میاں نذرو نے مٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ " اب تک تو تجھے اس کا عادی ہو جانا چاہئے تھا۔ "
"عادی تو ہو گیا ہوں یار مگر اکثر یہ ہوتا ہے کہ بڑے اہم موقع پر وہ گھر میں موجود نہیں ہوتی۔  اب یہی دیکھ لو کہ تم لوگ آئے ہو اور وہ۔۔۔ "
"اچھا چھوڑ۔  یہ بتا، رفاقت کی شادی کب کر رہا ہے؟اب تو یہ ماشاءاللہ جوان ہو گیا ہے۔ " میاں نذرو نے بات کا رخ بدلنا چاہا۔
"میں اس کے لئے ایسی لڑکی ڈھونڈ رہا ہوں جس کے میکے والے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے مہمان ہو چکے ہوں۔  تاکہ یہ میری طرح بیوی کی راہ نہ تکتا رہے۔ " اس نے بیزاری سے کہا۔
"خیر کی بات نکال منہ سے۔ " میاں نذرو نے اسے سرزنش کے انداز میں کہا۔  "ہنستے بستے گھروں میں جانا آنا لگا ہی رہتا ہے۔  تو تو بالکل ہے۔۔۔ "
"اچھا اچھا۔  " چوہدری حسن دین نے اس کی بات کاٹ دی۔  " اب بس۔  تم لوگ آئے کس کام سے ہو اور لگ کس کام میں گئے ہو۔  چلو۔  کھانا پینا ہو جائے تو ذرا تم لوگوں کو گاؤں کی سیر کراؤں۔ "
"گاؤں کی سیر؟" میاں نذرو حیرت سے بولا اور چائے کا کپ ہاتھ سے رکھ دیا۔  "بھائی۔  ہم کیا کراچی سے آئے ہیں جو ہمیں گاؤں کی سیر کرائے گا؟ جیسا ہمارا گاؤں ہے ویسا ہی یہ گاؤں ہے۔  پھر کون سی خاص چیز ہے یہاں ، جسے دیکھنے کے لئے۔۔۔ "
"ایک خاص چیز تو حافظ عبداللہ ہے ابا جی۔  ہمیں سب سے پہلے اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اس کے پاس جانا چاہئے۔ " اچانک سلیم نے کہا تو وہ سب اپنے آپ کو مجرم سا محسوس کرنے لگے۔  یہ کام تو انہیں آتے ہی کر لینا چاہئے تھا۔
"خوش کیتا ای پُتر۔ " چوہدری حسن دین نے اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔  " واقعی۔  یہ بات تو میرے بھی ذہن سے نکل گئی۔  میں تو تم لوگوں کو بابا شاہ مقیم کے مزار پر لے جانا چاہتا تھا، جن کی دعا برکت سے سکینہ بیٹی کی جان بچی۔  یہ میرا اپنا خیال ہے۔  آپ لوگوں کا میرے مراسلے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ "
"ہم اس سے بالکل اتفاق کرتے ہیں بھائی جی۔  " تاج بی بی نے پہلی بار زبان کھولی۔  "ایسے اللہ والوں ہی کی وجہ سے تو دنیا آباد ہے۔  ہمیں وہاں ضرور جانا چاہئے۔ "
"مگر پہلے حافظ عبداللہ۔۔۔ " سلیم نے اشتیاق سے کہا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے جس نے اس کی بہن کی جان بچائی۔  وہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔
"تو ٹھیک ہے۔  " چوہدری حسن دین اٹھ گیا۔  "چلو۔  اس کی مسجدمیں چلتے ہیں۔ "
"کس کی مسجد میں جا رہے ہیں ابا جان؟" رفاقت نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
"حافظ عبداللہ کی مسجد میں بیٹی۔ "
"مگر وہ تو مسجدمیں نہیں ہیں۔ " رفاقت نے بتایا۔
"تو پھر کہاں ہیں ؟"
"بابا شاہ مقیم کے مزار پر۔  میں فجر پڑھنے گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ظہر کے وقت تک لوٹ آئیں گے۔ "
"چلو۔  یہ بھی ٹھیک ہے۔  وہاں تو ہمیں جانا ہی تھا۔  وہیں مل لیں گے۔  کیوں میاں گھگو؟" اس نے میاں نذرو کا پھلکا اڑایا۔
"ہاں ہاں۔  وہیں چلے چلتے ہیں۔ " میاں نذرو نے اس کی بات اَن سنی کر دی تاکہ اور زیادہ مذاق کا نشانہ نہ بننا پڑی۔ تاج بی بی بھی کھڑی ہو گئی۔
"سکینہ۔ " اس نے کسی سوچ میں ڈوبی بیٹی کا شانہ ہلایا۔  "تو بھی چل۔ "
" آں۔۔۔ ہاں۔ " وہ جیسے کسی خواب سے چونکی۔ "کہاں اماں ؟"
"کہاں کھوئی ہوئی ہے دھی رانی؟ " میاں نذرو نے پیار سے اسے مخاطب کیا۔  "ہم بابا شاہ مقیم کے مزار پر جا  رہے ہیں۔  حافظ عبداللہ سے بھی وہیں مل لیں گے۔ "
"ٹھیک ہے چاچا۔  میں بھی چلتی ہوں۔ " وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔  تاج بی بی نے صاف محسوس کیا کہ وہ اب بھی کسی سوچ میں ہے۔ مگر کس سوچ میں ؟ یہ تو شاید سکینہ کو خود بھی معلوم نہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد تاج بی بی، سکینہ، سلیم اور چوہدری حسن دین میاں نذرو کے شاہی تانگے میں سوار بابا شاہ مقیم کے مزار کی طرف جا رہے تھے۔
٭
دن تو جیسے تیسے گزر گیا مگر رات کا اکثر حصہ حافظ عبداللہ نے جاگ کر گزارا۔
پچھلی رات جو کچھ اس کے ساتھ پیش آیا تھا، وہ ایسا انہونا تھا کہ وہ اب تک خود کو خواب کی کیفیت میں محسوس کر رہا تھا۔  درویش تو ایسا اس کے خیالوں پر سوار ہوا کہ ایک پل کو وہ اس کی طرف سے دھیان ہٹاتا، دوسرے پل وہ پھر آ دھمکتا۔  رہ گئی سکینہ، تو اس کے تصور میں آتے ہی اس کے ہاتھ کا زخم دل میں ٹیس سی دوڑا دیتا۔  اس کا جی چاہتا وہ آنکھیں بند کئے پڑا "سکینہ سکینہ " کا ورد کرتا رہے۔  
فجر کی اذان کا وقت ہو ا تو وہ آدھا جاگا آدھا سویا ایک دم اٹھ بیٹھا۔  لاحول پڑھ کر جسم پر پھونک ماری اور رفع حاجت کے بعد وضو کے لئے مسجد کے چھوٹے سے وضو خانے میں آگیا۔  مرزا امیر حسین نے اسے زخم پر پانی ڈالنے سے منع کیا تھا۔  ویسے بھی ہاتھ میں حرکت دینے سے درد جاگ اٹھتا تھا۔  اس نے دائیں ہاتھ کا مسح کیا اور باقی وضو مکمل کر کے اذان کے لئے مسجد کی چھت پر چلا گیا۔  
اذان کے بعد دعا مانگ کر وہ نیچے آنے کے لئے سیڑھیوں کی طرف چلا تو ٹھٹک کر رک گیا۔  دور، نور پور سے باہر بابا شاہ مقیم کا مزار جیسے اسے صدا دے رہا تھا۔  اس نے سوچا کہ درویش نے بھی وہاں اذان دی ہو گی۔ درویش کا خیال آتے ہی اس کا جی چاہا کہ وہ سب کام چھوڑ کر اس کے پاس چلا جائے۔  اس کی انوکھی، اسرار سے لبالب باتیں جسم میں سنسنی سی پیدا کر دیتی تھیں۔  ایک بار پھر تصور ہی تصور میں وہ کمرہ امتحان میں پہنچ گیا۔  جہاں چارپائی پر سکینہ پڑی تھی، دروازے میں درویش کھڑا تھا اور وہ خود سراپا حیرت بنا درویش کی باتیں سن رہا تھا۔
اسی وقت بڑی مدھم سی "اللہ اکبر" کی ندا اس کے کانوں سے ٹکرائی۔  اس کا سارا جسم لرز گیا۔  درویش اذان دے رہا تھا۔  حافظ عبداللہ کا دل سینے میں کسی پنچھی کی طرح پھڑپھڑایا اور سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ اذان ختم ہونے تک وہ آنکھیں بند کئے کھڑا کانپتا رہا۔  پھر جونہی درویش نے آخر میں "لا الہٰ الا اللہ" کہا، حافظ عبداللہ بیدِ مجنوں کی طرح لرزتا کانپتا چھت سے نیچے اتر آیا۔
فجر کی نماز میں بمشکل سات آٹھ نمازی تھی، جن میں رفاقت بھی شامل تھا۔  نماز کے بعد وہ لوگ اس کی خیریت دریافت کرتے ہوئے رخصت ہو گئی۔  اس نے کسی کو نہ بتایا کہ کل رات وہ کہاں تھا۔  بس ایک ضروری کام کا کہہ کر ٹال دیا۔  ہاتھ جلنے کے بارے میں اس کی جگہ رفاقت نے سب کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ جلتے چراغ پر ہاتھ جا پڑا تھا۔  
پو پھٹ رہی تھی جب رفاقت نے اس سے اجازت چاہی۔  
"رفاقت۔  میں بابا شاہ مقیم کے مزار پر جا رہا ہوں۔  ظہر تک لوٹ آؤں گا۔  اگر مجھے دیر ہو گئی تو اذان دے دینا، جماعت میں خود آ کے کراؤں گا۔ "
"ٹھیک ہے حافظ صاحب لیکن آپ اتنی صبح صبح۔۔۔  ذرا دن چڑھے چلے جائے گا۔ " رفاقت نے روا روی میں کہا۔
"نہیں یار۔ " حافظ عبداللہ نے سر پر ٹوپی درست کرتے ہوئے جواب دیا۔  " بس۔  دل اکھڑ سا گیا ہے۔  وہاں جاؤں گا تو سکون ملے گا۔  "
"جیسے آپ کی مرضی جی۔  اور ناشتہ؟" اچانک رفاقت کو یاد آ گیا۔
"وہ میں کر لوں گا۔ رات کا کھانا بچا پڑا ہے۔ " حافظ عبداللہ نے جلدی سے کہا۔
"میں ابھی دس منٹ میں لے آتا ہوں جی۔ "
"نہیں بھئی۔  " حافظ نے ہاتھ اٹھا کر اسے حتمی طور پر روک دیا۔ "میں کر لوں گا۔ تم جاؤ۔  ابا جی کو میرا سلام دینا۔  اور ہاں۔۔۔ " وہ کہتے کہتے رک گیا۔
"جی حافظ صاحب۔  کچھ کہہ رہے تھے آپ؟" جب وہ خاموش ہی رہا تو رفاقت نے جیسے اسے یاد دلایا۔
"کچھ نہیں۔ " حافظ عبداللہ نے آہستہ سے کہا۔ "تم جاؤ۔ "
رفاقت اس سے مصافحہ کر کے رخصت ہو گیا۔  اب وہ اسے کیسے بتاتا کہ وہ اس سے سکینہ کا حال پوچھنا چاہتا تھا۔ الفاظ اس کی زبان تک آ کر رک گئی۔  اس نے خدا کا شکر اد ا کیا کہ کوئی ایسی بات اس کی زبان سے نہ نکل گئی جس سے ا س کے دل کا چور پکڑا جاتا۔  اور یہ تو شاید اسی کے دل کا چور تھا، سکینہ کو اس کی خبر ہو گی، اسے اس بات کا قطعاً یقین نہ تھا۔
سورج نکل آیا تھا جب وہ بابا شاہ مقیم کے مزار پر پہنچا۔  حسب معمول درویش اسے باہر کہیں دکھائی نہ دیا۔ وہ مزار کے اندر چلا گیا۔  سلام کر کے بابا کے سرہانے، ان کے چہرے کے عین سامنے دو زانو بیٹھ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور درود شریف کے بعد ذرا بلند آواز میں سورہ محمد کی تلاوت شروع کر دی۔  سرور کی ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ پھر درود شریف ہی کا ورد کر رہا تھا۔  سورہ محمد کی تلاوت کے بعد اس نے درود شریف کا ورد کب شروع کیا، اسے کچھ خبر نہ تھی۔  بس یہ احساس ہو رہا تھا کہ اس کا اندر شفاف ہو گیا ہے۔  دھُل گیا ہے۔  بے تابی کا کہیں نام و نشان نہیں ہے اور سکون ہے کہ اس پر سایہ فگن ہے۔
اس نے دعا مانگی اور آمین کہتے ہوئے جب چہرے پر ہاتھ پھیرے تو پتہ چلا، اس کا چہرہ اور داڑھی آنسوؤں میں تر تھی۔  سر جھکائے چند لمحے بیٹھا رہا پھر ایک طویل سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔  جھک کر مزار کا ماتھا چوما۔  سلام کیا اور الٹے پاؤں باہر نکل آیا۔
باہر قدم رکھا تو بائیں ہاتھ کھڑے درویش نے آنکھیں کھول دیں۔
" آ گیا حافظ۔ " وہ اس کی طرف بڑھا۔  " میں کب سے کھڑا تیرا انتظار کر رہا ہوں۔  " اس نے محبت سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"بابا۔۔۔  آپ۔ " حافظ نے جلدی جلدی چپل پاؤں میں ڈالی اور اس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لے کر چوم لیا۔
"اوں ہوں۔۔۔ " درویش نے سرزنش کی۔ " آج کیا ہے۔  آئندہ ایسا نہیں کرنا۔  کیوں مجھے ابلیس کے حوالے کرنے پر تُلا ہے تو۔  " وہ حافظ عبداللہ کو سینے سے لگاتے ہوئے بولا۔  "اسے بھی فخر اور تکبر لے ڈوبا تھا۔  جس کے ہاتھ پاؤں چومے جائیں اسے وہ بڑی جلدی آن لیتا ہے۔  اسے سمجھاتا ہے کہ وہ دوسروں سے افضل ہے۔  اور یہ سوچ ہی وہ تازیانہ ہے جو انسان کے اندر سے عاجزی کو مار مار کر بھگا دیتی ہے۔  "
"بابا۔ " حافظ عبداللہ نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔  " میں یہیں آپ کے پاس نہ آ جاؤں ؟"
"سیانا ہے تو۔ " درویش مسکرایا۔  اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ٹبے کی طرف چل پڑا۔  "میرے پاس کیا رکھا ہے۔  سوائے تنہائی، اداسی اور جلی بھنی باتوں کی۔ تجھے بھری پُری جگہ پر رہنا ہے۔  پھلنا پھولنا ہے۔  یہاں آ کر کیا کرے گا ؟"
"بس میرا جی چاہتا ہے بابا۔  میں ہر وقت آپ کے پاس رہوں۔ " حافظ عبداللہ کے لبوں سے نکلا۔
"جی تو بہت سی باتوں کو چاہتا ہے حافظ۔  سبھی پوری تو نہیں ہو جاتیں۔ " درویش اس کے ساتھ ٹبے پر چڑھا اور دونوں پیپل تلے بیٹھ گئی۔ " تو یہ بتا۔  اس پگلی کا کیا حال ہے؟"
"کس کا بابا؟" حافظ عبداللہ کا دل زور سے دھڑکا اور نظر جھک گئی۔  
درویش نے سر نیچا کئے، گھاس کے تنکے توڑتے حافظ عبداللہ کی طرف چند لمحوں تک دیکھا۔  پھر ہنس دیا۔
"اچھا ہے۔ " اس نے سر ہلایا۔  " اچھا ہے، جو تو اسے بھول جانا چاہتا ہے۔  نیکی کو نسیان کے دریا میں ڈال دینا ہی اچھا ہے۔ "
حافظ عبداللہ نے سر اٹھایا نہ درویش کی بات پر کوئی تاثر ظاہر کیا۔ وہ اب ایک تنکا دانتوں میں دبائے خاموش بیٹھا تھا۔
"چل۔ اشراق پڑھ لیں۔ وقت نہ نکل جائے۔ " اچانک درویش نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔  اس نے حافظ کے کندھے سے چادر کھینچی اور ٹبے پر بچھا دی۔  دونوں قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور اپنے اللہ کے دربار میں حاضر ہونے کے لئے عبادت کے دروازے پر اس کی دی ہوئی توفیق سے دستک دینے لگی۔
*  *  *
دن کے ساڑھے نو بجے تھے جب میاں نذرو کا شاہی تانگہ بابا شاہ مقیم کے مزار کے باہر آن رکا۔  وہ سب لوگ نیچے اترے اور مزار کے اندر سلام کے لئے چلے گئے۔
سکینہ نے اندر جاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا۔  درویش اور حافظ عبداللہ میں سے کوئی نظر نہ آیا۔  "شاید کمرے میں ہوں گے۔ " اس نے سوچا اور گھر والوں کے ساتھ مزار کے اندر چلی گئی۔  
پھولوں کی چادر چڑھائی گئی جو میاں نذرو نے رستے میں گاؤں کے پھلیرے سے لے لی تھی۔ دعا مانگی گئی۔  اللہ کا شکر ادا کیا گیا جس نے انہیں سکینہ صحیح سلامت لوٹا دی تھی۔
سکینہ نے سر جھکایا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔  اسے خود پر قابو نہ رہا۔  نہ زبان سے کوئی لفظ نکل رہا تھا نہ دل سے کوئی دعا۔  بس اشک تھے کہ بہتے چلے جا رہے تھے۔  سسکی تک اس کے لبوں تک نہ آئی۔  چہرے کو ڈھانپتا دوپٹہ بہت بڑی ڈھال بن گیا۔  کسی کو معلوم نہ ہوا کہ وہ اشک اشک کیوں ہو رہی ہے؟
دعا کے بعد وہ نذرانہ مزار کے اندر دروازے کے پاس رکھے بکس میں ڈال کر باہر نکلے تو حیران ہوئی۔  سامنے برگد کے درخت تلے دھاری دار دو تین دریاں بچھی تھیں اور درویش ان سے کچھ دور ایک بڑے سے مسطح پتھر پر کھڑے گھٹنے بازوؤں کے کلاوے میں لئے بیٹھا تھا۔  جبکہ میاں نذرو کا کوچوان دری کے کونے پر سر جھکائے حافظ عبداللہ کے پاس بیٹھا تھا۔  انہیں حیرت یہ تھی کہ جب وہ پہنچے تھے تو وہاں ایسی کسی چیز کا نام و نشان نہ تھا مگر اب یوں لگتا تھا کہ یہ سارا اہتمام ہی ان کے لئے کیا گیا ہے۔
انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر درویش اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔  سکینہ نے اسے دیکھا اور جیسے بھاگ کر اس کے قریب چلی گئی۔
" آ گئی تو۔ "درویش نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔  "جیون جوگئی۔  رو کیوں رہی ہے؟" اس نے آہستہ سے کہا اور اسے ساتھ لگا لیا۔  "کیا اپنا بھید سب کو بتائے گی۔  چُپ ہو جا۔  روک لے اس نمکین پانی کو۔  ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ "
سکینہ نے اس کے کندھے سے لگے لگے بڑے غیر محسوس انداز میں پلو سے آنکھیں خشک کر لیں اور الگ ہو گئی۔
" آؤ جی بھاگاں والیو۔ " درویش نے ان سب کو دونوں ہاتھ اٹھا کر دور سے کہا اور ساتھ ہی اپنے گھٹنے چھونے سے صاف منع کر دیا۔  اس طرح اس نے ان سے مصافحہ کرنے سے بھی جان بچا لی۔
"بابا۔  " چوہدری حسن دین نے اس سے دو قدم دور رک کر ہاتھ جوڑ دئیے۔ "ہم آپ کا اور حافظ عبداللہ کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔ "
"شکر ادا کراس کا چوہدری۔ جس نے یہ سارا کھیل رچایا ہے۔ " درویش نے آسمان کی جانب انگلی اٹھا دی۔ " میں نے کیا ہی کچھ نہیں تو شکریہ کس بات کا قبول کروں۔  باقی رہا حافظ، تو وہ بیٹھا ہے۔  وہ جانے اور تم جانو۔  تم جتنا چاہو اسے شرمندہ کر لو۔ "
"نہیں بابا۔  شرمندہ کیوں کریں گے ہم اسی؟ ہم تو اس کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے۔  ہماری بیٹی کی جان بچا کر اس نے ہمیں خرید لیا ہے۔ " میاں نذرو نے ممنونیت سے کہا۔
"تو کیا کہتا ہے میاں ؟" درویش نے سلیم کا رخ کیا جو کبھی اسے اور کبھی حافظ عبداللہ کو دیکھ رہا تھا۔
"میں۔۔۔  میں کیا کہہ سکتا ہوں جی۔  میرے لئے تو وہ دنیا کا سب سے عظیم انسان ہے جس نے میری بہن کو مرنے سے بچا لیا۔ "
"بس۔ " اچانک درویش بھڑک اٹھا۔  "مرنے سے تیری بہن کو میرے اللہ نے بچایا ہے، حافظ عبداللہ کون ہوتا ہے اسے بچانے والا۔  تم لوگ شرکیہ الفاظ زبان سے نکالتے ہوئے ذرا نہیں سوچتے۔ "
"معافی چاہتا ہوں بابا۔ " سلیم سہم سا گیا۔  "میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ "
"پتہ ہے۔  پتہ ہے۔ " درویش ایک دم ٹھنڈا ہو گیا اور بیزاری سے بولا۔  "شرک کی نیت نہیں ہوتی، اسی لئے بچ جاتے ہو تم لوگ۔ پھر بھی بولنے سے پہلے سوچا کرو۔  سوچا کرو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ "
"جی بابا۔ " سلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی متاثر نظر آ رہے تھے۔
"لے بھئی حافظ۔  بابا شاہ مقیم نے تیرے مہمان بھیجے ہیں۔  ان سے باتیں کر۔  میں ان کے لئے تبرک لے آؤں۔ " درویش نے وہیں سے کہا اور سکینہ کے سر پر پیار دے کر پلٹ گیا۔
وہ سب لوگ حافظ عبداللہ کی طرف چل پڑے جو اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا تھا۔ میاں نذرو، سلیم اور چوہدری حسن دین نے اس سے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔  اس کا حال چال پوچھا۔  تاج بی بی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور ڈھیروں دعائیں دے ڈالیں۔ سکینہ، ماں کے عقب میں سر جھکائے کھڑی کنکھیوں سے بار بار حافظ عبداللہ کے پٹی میں ملفوف ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔  پھر وہ سب اس کے پاس ہی دری پر بیٹھ گئے۔  
"حافظ صاحب۔  ہم آپ کا شکریہ ادا کر کے اس نیکی کا درجہ نہیں گھٹانا چاہتے جو آپ نے سکینہ ہمیں زندہ سلامت لوٹا کر ہمارے ساتھ کی ہے۔ " سلیم نے حافظ عبداللہ کا بایاں ہاتھ بڑی محبت سے تھام کر کہا۔ "میں سکینہ کا بھائی ہوں جی۔  زندگی میں کبھی میری جان کی ضرورت بھی پڑ جائے تو مانگ لینا۔  رب کی قسم۔  انکار کروں تو کافر ہو کر مروں جی۔ "
"کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔ " حافظ عبداللہ نے گھبرا کر ہاتھ کھینچ لیا۔  "میں نے کیا کیا ہے۔  یہ تو میرے سوہنے اللہ کا کرم ہے کہ سکینہ بی بی کی جان بچ گئی۔  میں تو ایک حیلہ بن گیا اور بس۔  میں نہ ہوتا تو کوئی اور ہوتا میری جگہ۔  سکینہ بی بی پھر بھی بچ جاتیں۔ "
"سچ ہے بیٹا۔  " میاں نذرو نے سر ہلا کر کہا۔  " مگر اب تو تم ہی ہمارے لتے اس نیکی کا سبب بنے ہو ناں۔  زبان سے تمہارے شکریے کے الفاظ ادا کر نے سے دل کو ذرا تسلی ہو جائے گی۔  باقی اس نیکی کا نہ کوئی بدل ہے نہ انعام۔ "
"بس کرو یار اَب۔ " ایک دم چوہدری حسن دین بول پڑا۔  "تم تو اپنے شکریے کے بوجھ تلے میرے حافظ صاحب کاسانس روک دو گی۔  بس اب مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ " اس نے حافظ عبداللہ کو مزید مشکل میں پڑنے سے بچا لیا۔  
"پھر بھی ابا جی۔  ہمیں حافظ صاحب کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔  زبانی جمع خرچ سے کیا فائدہ۔ " سلیم نے باپ کی طرف دیکھا۔
"کیا کریں پتر۔  تو بتا ؟" میاں نذرو بیٹے کی طرف متوجہ ہوا۔
"دیکھئے۔  آپ لوگوں نے میرا شکریہ ادا کر لیا۔  اس سے زیادہ کچھ کرنے کے بارے میں آپ لوگ سوچیں بھی مت۔  اس سے مجھے تکلیف ہو گی۔ " حافظ عبداللہ نے ان کی نیت بھانپ کر جلدی سے کہا۔ اسی وقت اس کی نگاہ سکینہ پر پڑی جو اسے بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔  اس نے فوراً ہی چہرہ دوسری جانب پھیر لیا۔
"اماں۔  میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ " اچانک سکینہ نے زبان کھولی تو سب لوگ چونک پڑی۔  اس کے وجود سے تو وہ جیسے بے خبر ہی ہو گئے تھی۔
"ہاں ہاں بیٹی۔  تو کہہ۔ " تاج بی بی کے ساتھ میاں نذرو بھی بول اٹھا۔ " شاید تیری ہی بات کچھ ایسی ہو کہ ہمارے دل اطمینان پا سکیں۔ "
"رک جا ؤ بیٹی۔ " چوہدری حسن دین نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔  "ادھر آ۔  پہلے چاچا بھتیجی صلاح کر لیتے ہیں۔  پھر انہیں بتائیں گے۔  آ جا۔ " وہ دری سے اٹھا اور جوتے پہننے لگا۔
سکینہ نے ایک پل کو کچھ سوچا۔  ایک نگاہ بھر حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔ لگتا تھا وہ اسے کچھ بھی کہنے سے روکنا چاہتا ہے مگر پھر نجانے کیوں اس نے سکینہ سے نظر ملتے ہی نچلا ہونٹ دانتوں میں داب کر سر جھکا لیا۔ سکینہ، چوہدری حسن دین کے ساتھ ان لوگوں سے تیس پینتیس قدم دور کھیتوں کے کنارے چلی آئی۔
"اب بتا بیٹی۔  کیا کہنا چاہتی ہے تو؟" چوہدری حسن دین یوں کھڑا ہو گیا کہ اس کا رخ باقی لوگوں کی طرف تھا اور سکینہ کی پشت۔
"چاچا۔ " سکینہ نے زبان پھیر کر اپنے ہونٹوں کو تر کیا۔ " میں۔۔۔ میں۔۔۔ " اس نے نظر جھکا لی۔
"دیکھ بیٹی۔  بات تو حافظ عبداللہ کا شکریہ ادا کرنے کی ہے۔  وہ اسے روپیہ پیسہ، مکان وغیرہ دے کر ادا کیا جا سکتا ہے۔  اب تیرے ذہن میں کیا ہے، تو وہ بتا دے۔ "
"کسی کی جان بچانے کی قیمت کیا یہی کچھ ہے چاچا؟" سکینہ نے اس کی جانب دیکھا۔
"نہیں۔ " خلاف معمول چوہدری حسن دین اس وقت بالکل سنجیدہ تھا۔ "مگر ہم اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں بیٹی؟"
"جان میری بچائی ہے اس نے چاچا۔  تو کیا اس کا شکریہ ادا کرنے کا موقع مجھے نہیں ملنا چاہئے؟" اچانک سکینہ نے جیسے حوصلہ پکڑ لیا۔
"بالکل ملنا چاہئے بیٹی۔  " چوہدری حسن دین نے اس کی آنکھوں میں بڑے غور سے دیکھ کر کہا اور اس بار سکینہ نے نظر نہ جھکائی بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی۔ "تو بتا۔  کیا کرنا چاہتی ہے تو؟"
اور جواب میں اس نے جو کہا اسے سن کر چوہدری حسن دین کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ اس نے جیسے لڑکھڑانے سے بچنے کے لئے دونوں ہاتھ سکینہ کے شانوں پر رکھ لئے۔  اس کا رنگ فق ہو گیا اور دل سینے میں دھڑکنا بھول گیا۔
"ہاں چاچا۔ " سکینہ نے پُرسکون لہجے میں کہا۔ "یہی میرا شکریہ ہے حافظ عبداللہ کے حضور۔ "
"مگر کیوں بیٹی؟ اتنا بڑا فیصلہ۔۔۔ "
"میں نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے چاچا۔  نہ یہ اچانک ہے اور نہ کسی دباؤ کے تحت۔  یہ حتمی ہے۔  اس میں کوئی لچک ممکن نہیں۔ " اس نے چوہدری حسن دین کی بات کاٹ دی۔
اس کی آواز میں نجانے کیا تھا کہ چوہدری حسن دین کا سانس سینے میں رک سا گیا۔  اس نے پلکیں زور سے جھپک کر نظر میں اڑتی دھول صاف کرنے کی کوشش کی۔  پھر آہستہ سے سکینہ کے کندھوں سے ہاتھ ہٹا لئے۔
"سکینہ بیٹی۔  میں تجھے وہاں ، ان لوگوں کے پاس سے یونہی اٹھا کر نہیں لے آیا تھا۔  جب سے ہم یہاں آئے ہیں ، میں محسوس کر رہا تھا کہ تو حافظ عبداللہ کو بار بار کنکھیوں سے دیکھ رہی ہے۔ میری بات کا برا نہ منانا۔  میں نے اس بات کو اچھا نہ سمجھا اور دل میں بدگمانی کا شکار بھی ہوا، کیونکہ حافظ عبداللہ کی میرے دل میں بڑی عزت ہے۔  وہ میرے بچوں کا استاد ہے۔  اس کی شرم مارتی ہے مجھے۔ جب تو نے کہا کہ تو حافظ عبداللہ کے لئے کچھ کہنا چاہتی ہے تو میں یہ سوچ کر تجھے وہاں سے اٹھا لایا کہ تو نادانی میں کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکال دے جسے بھگتنا ہمارے لئے مشکل ہو جائے مگر مجھے یہ اندازہ قطعی نہیں تھا کہ تو اتنی بڑی بولی لگا دے گی اپنی جان بچانے کی۔  ابھی تک میں یہ بھی نہیں جان پایا کہ تو نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟"
"وہ میں سب کے سامنے بتاؤں گی چاچا۔ " سکینہ نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
"سب کے سامنے؟" چوہدری حسن دین چونکا۔  "مگر کیوں ؟ دیکھ بیٹی۔  مجھے یہیں بتا دے تاکہ میں وہاں بات کو سنبھال سکوں۔ "
"ایسی کوئی بات نہیں ہے چاچا، جس کے لئے مجھے کسی کی سفارش کی ضرورت پڑی۔  بات بالکل صاف، سیدھی اور سچی ہے جو میں سب کو ایک ساتھ بتانا چاہتی ہوں۔ "
"بیٹی۔۔۔ " چوہدری حسن دین نے کہنا چاہا۔
"بس چاچا۔  اور کچھ نہیں۔ " سکینہ نے جیسے بات ختم کر دی۔  " آئیے چلیں۔  سب لوگ نجانے کیا کیا سوچ رہے ہوں گے۔ " وہ سر جھکائے آہستہ سے پلٹی۔  چوہدری حسن دین نے اسے روکنا چاہا، مگر وہ قدم اٹھا چکی تھی۔  بیچارگی سے ہونٹ کاٹتے اور دماغ میں اٹھتے بگولوں سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔  آنے والے لمحات میں کیا طوفان جنم لینے والا تھا، اس کا احساس اسے بخوبی ہو رہا تھا۔
سکینہ لوٹی اور سر جھکائے اس طرح آ کر دری پر بیٹھ گئی کہ اب اس کے سب لوگ اس کے سامنے اور حافظ عبداللہ کچھ فاصلے پر بائیں ہاتھ پر تھا۔  چوہدری حسن دین لمبے لمبے ڈگ بھرتا آیا اور سکینہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔  سب حیران تھے کہ سکینہ ان کے پاس بیٹھنے کے بجائے ان کے سامنے کیوں آ بیٹھی ہے؟ درویش ابھی تک نہ لوٹا تھا۔
التحیات پر جیسے عورتیں بیٹھتی ہیں ، اس انداز میں بیٹھ کر سکینہ نے بائیں ہتھیلی زمین پر بچھا کر جسم کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا اور دوپٹہ سر پر ٹھیک کر لیا۔
"چاچا۔  آپ بات کریں گے یا میں بولوں ؟" اس نے اپنے ساتھ بیٹھے چوہدری حسن دین سے آہستہ آواز میں پوچھا، جس کی ساری شگفتگی ہوا ہو چکی تھی۔
"نہیں۔  تم ابھی خاموش رہو۔ " چوہدری حسن دین نے بھی آہستہ سے جواب دیا اور کھنکار کر گلا صاف کیا۔
سب لوگ انہیں اشتیاق بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔  آخر میاں نذرو رہ نہ سکا اور بول پڑا۔ "کیا بات ہوئی بھئی تم چاچے بھتیجی میں۔  اب بتا بھی دو۔  کیوں ہمارا ضبط آزما رہے ہو۔ "
"میاں۔  " چوہدری حسن دین نے بجھی بجھی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔  "سکینہ بیٹی۔۔۔ " وہ رک گیا۔  اس کا حوصلہ نہ پڑ رہا تھا کہ بات ایک دم سے زبان سے نکال دی۔
"سکینہ بیٹی۔ " اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔  " وہ چاہتی ہے کہ۔۔۔ "
"ارے بابا۔  کیوں تیرا پیشاب خطا ہو رہا ہے۔  کہہ دے جلدی سے۔  میرا دل تو ہول کھانے لگا ہے کہ نجانے کیا بات کہنے والا ہے تو؟" میاں نذرو کی بیتابی شدید ہو گئی۔
" تو سن میاں۔  " چوہدری حسن دین نے سر جھٹک کر کہا۔  اس نے سوچ لیا کہ اب جو ہو سو ہو، اسے بات کر دینی چاہئے۔  " مگر میری بات سننے سے پہلے یہ جان لے کہ اگر بات تم لوگوں کی عقل اور سمجھ سے اوپر کی ہوئی تو فوری طور پر کوئی جوابی اقدام کرنے سے گریز کرنا۔  بات اتنی ہی نازک ہے کہ میں بھی بڑی مشکل سے سمجھ پایا ہوں۔ "
سب لوگوں کے کان کھڑے ہو گئے۔  حافظ عبداللہ نے گھبرا کر سکینہ اور چوہدری حسن دین کی جانب دیکھا۔  سکینہ تو سر جھکائے بیٹھی تھی اور چوہدری حسن دین نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ضرور مگر وہاں اس کے لئے کوئی پیغام تھا نہ تسلی۔
"سکینہ بیٹی چاہتی ہے کہ اس کی شادی حافظ عبداللہ سے کر دی جائے۔ "
چوہدری حسن دین کے الفاظ تھے یا بجلی کا کڑاکا۔  انہیں یوں لگا جیسے ان کی سماعتیں انہیں دھوکا دے رہی ہوں۔  وہ کچھ اور سننا چاہتے تھے مگر سنائی کچھ اور دے رہا تھا۔
"کیا کہہ رہے ہو چوہدری؟" میاں نذرو ایک دم ہتھے سے اکھڑ گیا۔  اس نے گھور کر حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا جو اپنی جگہ پر دم بخود بیٹھا تھا۔  اسے خود سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اس نے جو سنا وہ غلط تھا، یا جو سکینہ کی نظریں کہہ رہی تھیں ، وہ سچ تھا۔  سکینہ نے اسے ایک بار بھرپور نگاہوں سے دیکھا، پھر سر جھکا لیا۔
"میں درست کہہ رہا ہوں۔  مجھ سے سکینہ بیٹی نے یہی کہا ہے۔ " چوہدری حسن دین نے سنبھالا لیا۔  " اور میاں۔  میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تمہیں بات کی باریکی کو سمجھنے سے پہلے کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ "
"اور بات کی باریکی کو سمجھا کیسے جائے گا چاچا؟" اچانک سلیم کی زہریلی آواز ابھری۔  وہ اپنے غصے کو ضبط کی لگام دینے کی کوشش کر رہا تھا۔  
"سکینہ بیٹی کی بات سن کر۔  اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ یہ جاننے کے بعد ہی ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ہمیں اس کی بات ماننا چاہئے یا نہیں ؟"
"مگر بھائی صاحب۔  یہ کیسے ممکن ہے؟" تاج بی بی کی کمزور سی آواز ابھری۔  اسے سکینہ سے ایسے اقدام کی امید ہی نہ تھی۔  ویسے بھی وہ اپنے دیور کے رحم و کرم پر تھی۔  اسے زندگی کی ہرسہولت ضرور میسرتھی مگر ہر فیصلے کا اختیار صرف میاں نذرو کے پاس تھا۔  اب اسے یہ خوف ستا رہا تھا کہ سکینہ کی اس بات کے رد عمل کے طور پر ان ماں بیٹیوں کے ساتھ جوسلوک ہو گا، اس کی ابتدا کس ستم سے ہو گی۔  
"ممکن اور ناممکن کا فیصلہ کرنے سے پہلے اگر آپ لوگ مجھے کچھ کہنے کا موقع دیں تو شاید میں آپ کو سمجھا سکوں۔ " سکینہ نے بڑی مشکل سے بوجھل پلکیں اٹھائیں اور حافظ عبداللہ کی جانب دیکھاجس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن کے مصداق وہ اپنی جگہ جیسے گڑ کر رہ گیا تھا۔
" پہلی بات یہ ہے کہ میں نے یہ فیصلہ اپنی ذات میں رہ کر، اپنے طور پر کیا ہے۔  اس میں حافظ صاحب کا کوئی دخل نہیں ہے، اس لئے انہیں کسی بھی طرح قصوروار نہ سمجھا جائے۔ "
"اور دوسری بات؟" شعلہ بار انداز میں سلیم نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔
"دوسری بات یہ کہ میرے اس فیصلے کی، ایک عورت ہونے کے ناطے، میرے پاس بڑی معقول وجہ موجود ہے۔ "
"وہ بھی کہہ ڈالو۔ " سلیم کا لہجہ اب بھی بڑا تلخ تھا۔
"ایک عورت کے لئے سب سے محترم وہ مرد ہوتا ہے جو سب سے پہلے اس کے جسم کو چھوتا ہے۔ "
"کیا مطلب؟" ایک دم سلیم اور میاں نذرو کے ہونٹوں سے نکلا اور وہ آگ بگولہ ہو گئی۔  ان کے نظروں کا ہدف حافظ عبداللہ بنا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتے، سکینہ کی آواز نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
"میری بات کا غلط مطلب نہ لو سلیم بھائی۔  مجھے اپنی بات پوری کرنے دو۔ "
"یہ ٹھیک کہہ رہی ہے سلیم۔ " چوہدری حسن دین نے دونوں باپ بیٹے کو تنبیہ کرنے کے انداز میں کہا۔ "اس کی بات پوری سن تو لو۔"
"سننے کے لئے رہا کیا ہے اب چاچا۔  سب کچھ تو صاف ہو گیا ہے۔ " سلیم بھڑکا۔
"کچھ صاف نہیں ہوا۔  کچھ نہیں سنا ابھی تم نے۔ " سکینہ کی آواز بلند ہو گئی۔  " مجھے بات پوری کر نے دو۔ غصہ نکالنے کے لئے تمہیں بہت وقت مل جائے گا۔  "
سلیم اور میاں نذرو نے اسے بڑی کڑی نظروں سے دیکھتے ہوئے بادل نخواستہ خاموشی اختیار کر لی اور حافظ عبداللہ نے ایک بار پھر امید بھری نظروں سے بابا شاہ مقیم کے مزار کی جانب دیکھا۔  ابھی تک درویش باہر نہیں آیا تھا۔  اس کے ہوتے شاید حالات وہ خراب رخ اختیار نہ کرتے، جس کی طرف وہ اب جا رہے تھے۔
"مجھے جب سیلاب سے حافظ صاحب نے نکالا تو یہ شام کے قریب کا وقت تھا اور میں اس وقت بیہوش تھی۔  میرے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھی۔  وہ مجھے چادر میں لپیٹ کر اپنے کندھے پر اٹھا کر اس کمرے میں لے گئے اور چارپائی پر ڈال دیا۔ " سکینہ نے اس کمرے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا جس میں اس نے رات گزاری تھی۔  سب نے پلٹ کر اس جانب دیکھا اور پھر اس کی طرف متوجہ ہو گئی۔  وہ کہہ رہی تھی۔
"میں جب ہوش میں آئی تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔  مجھے بتایا کہ میں بابا شاہ مقیم کے مزار پر ہوں۔  مجھے کھانے کو روٹی دے کر وہ دوسرے کمرے میں چلے گئے اور قرآن پاک کی تلاوت میں محو ہو گئی۔ "میرے ساتھ میرا اللہ موجود ہے۔" یہ بات مجھے بے خوف کرنے کے لئے حافظ صاحب نے کہی تھی، مگر ایک اجنبی جوان مرد کے ساتھ انجان جگہ پر موجود ہونے کا احساس مجھے پلک نہ جھپکنے دیتا تھا۔  میرا جسم پانی کے تھپیڑے کھا کھا کر چور ہو چکا تھا۔  میں تھکن سے بے حال تھی۔  سو جانا چاہتی تھی۔  جاگ جاگ کر جب حواس میرا ساتھ چھوڑنے لگے تو میں نے کمرہ اندر سے بند کیا اور لیٹ گئی۔  تب، حافظ صاحب چپکے سے آئے۔  مجھے سوتا دیکھ کر چند لمحے کھڑے رہے پھر لوٹ گئی۔  میں نے ان کے جانے کے بعد اٹھ کر کھڑکی کی درز سے دیکھا۔  وہ بے تابی سے کمرے میں ٹہل رہے تھے۔  شاید وہ بھی اسی کیفیت کا شکار تھے جو مجھے نہ سونے دے رہی تھی۔  میں گھبرا گئی اور اپنے اللہ سے رو رو کر مدد مانگنے لگی۔ "
سکینہ رکی۔  اس نے سر جھکائے بیٹھے حافظ عبداللہ پر ڈالی۔  پھر میاں نذرو، سلیم اور اپنی ماں کی جانب دیکھا، جو خاموشی سے اس کی بات سن رہے تھے۔  ان کی حالت میں ایک ٹھہراؤ تو آیا تھا مگر ماتھے اب بھی شکن آلود تھے۔
"کافی دیر بعد میں نے دوبارہ ڈرتے ڈرتے کھڑکی کی درز سے جھانک کر دیکھا اور میرا سانس رک گیا۔  میرے حواس میرا ساتھ چھوڑ گئی۔  جب صورت حال میری سمجھ میں آئی تو مجھے لگا، میں کسی اور ہی دنیا میں ہوں۔  حافظ صاحب مجھے اس دنیا کے فرد نہ لگے۔  میں ان کے سامنے خود کو حقیر ترین محسوس ہوئی۔  آپ جانتے ہیں ، میں نے کیا دیکھا؟"
سکینہ نے بات روک کر دھندلائی ہوئی نظروں سے ان سب کو باری باری دیکھا۔  وہ سب اس کی بات مکمل ہونے کے انتظار میں اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کوئی جواب دیتا بھی تو کیا، خود چوہدری حسن دین تک تو حیرت میں گم یہ قصہ عجب شب سن رہا تھا۔