صفحات

تلاش کریں

افسانہ - فراموش(انتظار حسین)


 کہانی کا مصنف روزانہ صبح کی سیر کےلیے باہر جایا کرتا تھا۔ جس جگہ اس کے محلے کی گلیاں ختم ہوتی تھیں تقریباً وہیں سے آبادی بھی ختم ہوجاتی، وہیں سے باہر کی طرف ایک لمبی سڑک نکلتی تھی۔ جس پر مصنف سیر کے لیے چل نکلتا۔ سڑک سے تھوڑی دور جاکر محصول چونگی کی چوکی تھی۔ جہاں پر خربوزوں اور ککڑیوں کے ٹوکرے پڑے ہوتے یا دوسری طرف سبزیوں سے لدی ہوئی گدھا گاڑیاں کھڑی نظر آتیں۔ آگے ایک رہٹ تھا اور اس سے آگے ٹیوب ویل اور اس کا سیمنٹ کا بنا ہوا حوض۔ جس میں ٹیوب ویل کا پانی گزرتا تھا، ٹیوب ویل سے بیس تیس قدم کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی کوٹھی تھی۔ جس پر چاروں طرف سے سفیدی ہوئی ہوئی تھی۔ کوٹھی کے باہر کسی انجینئر کے نام کی تختی لگی تھی۔ لیکن بظاہر وه غیر آباد اور پراسرار سی لگتی تھی۔ کیونکہ وہاں پر زندگی کے نشان بہت ہی کم نظر آتے تھے۔ کوٹھی سے آگے بہت دور دونوں طرف کھلا میدان تھا۔ اسکے بعد سڑک ایک تیز موڑ کھاتی اور مشن اسکول کی عمارت سامنے آجاتی۔ اس سے خاصی دور اینٹوں کے بھٹے کی چمنیاں نظر آتیں۔ اس کے بعد سڑک کے آگے ریل کی پٹڑی آجاتی جہاں سے ریلوے کی طرف پھاٹک لگا ہوا تھا۔
مصنف کا روز کا یہ معمول تھا کہ وه سڑک پر سیر کے لیے نکلتے ہی نیم کے کسی پیڑ سے ایک مسواک توڑ لیتا اور اسے چباتے ہوئے سڑک پر چل نکلتا، جس جگہ پر ریل کی پٹڑی سڑک کو کاٹتی وہاں سے وه واپس لوٹ جاتا، یہ اس کی آخری حد تھی۔ واپسی پر وه ٹیوب ویل کے حوض سے اپنا منہ ہاتھ دھوتا اور چپل اتار کر مٹی میں اٹے پاؤں پانی میں ڈال دیتا۔ تو اسے عجیب سی فرحت محسوس ہوتی۔ کوٹھی کے سامنے سے گزرتے ہوئے کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ اندر سے ایک سفید رنگ کی گیند باہر سڑک پر آگرتی جسے اٹھانے کے لیے ایک نوجوان سا لڑکا جو حلیے سے ملازم لگتا سڑک پر آتا اوربغیر کسی طرف دھیان دیے گیند اٹھا کر کوٹھی میں داخل ہوجاتا۔ کبھی کبھار ہونے والے صرف اس واقعہ سے اندازه ہوتا کہ کوٹھی غیر آباد نہیں ہے۔ ورنہ عام طور پر کوٹھی میں زندگی کے آثار بہت کم نظر آتے۔
ایک دن ایک چھوٹا سا عجیب واقعہ ہوا۔ مصنف نے دیکھا کہ کوٹھی کے عین سامنے سے گزرنے والی سڑک پر سفید چاک سے لفظ فراموش لکھا ہوا ہے۔ مصنف وہاں پر یہ لفظ لکھا ہوا دیکھ کر ٹھٹھک سا گیا، کیونکہ اس لفظ سے اسکی بھی بعض یادیں وابستہ تھیں۔ دوسرے دن جب وه سڑک پر سے گزرا تو لفظ فراموش کے حروف کچھ مٹ سے گئے تھے۔
چند دن اسی طرح گزرگئے۔ ایک دن مصنف نے دیکھا کہ کوٹھی کی سفید اور صاف شفاف دیوار پر کالے کوئلے سےلفظ فراموش لکھا ہوا تھا۔ اس نے یه سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی کہ شاید یہ کسی شریر بچے کی شرارت کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ سیر سے واپسی کے دوران اس نے دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر کا شخص جو چہرے سے افسر لگتا تھا اور شب خوابی کا لباس پہنے ہوئے تھا، اپنی نگرانی میں وه لفظ مٹوا رہا تھا۔ دو تین دن بعد مصنف نے اسی مقام پر وه لفظ پھر لکھا ہوا دیکھا۔ ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ مصنف جب سیر کے لیے کوٹھی کے پاس سے گزرتا تو وه لفظ دیوار پر موجود ہوتا لیکن واپسی پر وه یا تو مٹایا جاچکا ہوتا یا پھر مٹایا جارہا ہوتا۔ اسی دوران میں مصنف کو اپنے کام کاج کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑا۔
پندره دن بعد، اسکی واپسی ہوئی۔ صبح کو وه سیر کے لیے نکلا تو وه لفظ وہاں لکھا ہوا موجود تھا، لیکن کسی نے اسے مٹانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ دو تین دن گزر گۓ، لیکن پھر بھی کسی نے اس لفظ کو نهیں مٹایا تھا۔ مصنف نے سوچا کہ ممکن ہے انجینئر صاحب کسی لمبے دورے پر نکل گے ہوں۔ یا پھر ان کا تبادلہ ہوگیا ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وه بیمار ہوں۔ بہر حال، یه مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ اسی دوران میں بارشوں کا سیزن شروع ہوگیا۔ لگاتار بارشیں ہونے لگیں۔ سوکھے ہوئے تالاب بارش کے پانی سے بھر گۓ۔ فضا میں نمی کے باعث در و دیوار پر سبز کائی جمنا شروع ہوگئی ۔ انجینئر صاحب کی کوٹھی پر لکھا ہوا وه لفظ اسی طرح موجود تھا۔ لیکن اس کے حروف دھندلے پڑ گۓ تھے۔ مصنف کو خدشہ ہوا کہ کہیں یہ لفظ بالکل ہی نہ مٹ جائے۔ دراصل اس لفظ سے اس کو ایک تعلق سا ہوگیا تھا۔ برسات کا موسم ختم ہونے لگا۔ بارش بھی کبھی کبھار ہوتی تھی۔ تالابوں کا پانی کم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ لوگوں نے برسات کے موسم میں اپنے مکانوں کی گری ہوئی دیواروں اور چھتوں وغیره کا کام شروع کردیا تھا۔ ایک دن مصنف کو انجینئر صاحب کی کوٹھی کے احاطے میں بھی چونے کی بوری رکھی ہوئی نظر آئی۔ ظاھر ہے کہ کوٹھی کے در و دیوار کی بھی سفیدی ہونے والی تھی۔ مصنف کا دھیان فوراً لفظ فراموش کی طرف گیا۔ یه لفظ خاصا مدھم پڑ چکا تھا۔ لیکن سفیدی کے دوران تو اس نے بالکل ہی مٹ جانا تھا۔ اس خیال سے مصنف کے دل میں اداسی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جس سے اسے بے پناه انس ہوگیا تھا۔ دو تین دنوں میں پوری کی پوری کوٹھی پر سفیدی ہوگئی۔ لیکن مصنف یہ دیکھ کر دنگ ره گیا کہ جس دیوار پر لفظ فراموش لکھا تھا وہاں پر اس طریقے سے سفیدی ہوئی تھی کہ اس پر ایک بوند بھی چونے کی نہیں پڑی تھی اور وه لفظ اپنی جگہ پر جوں کا توں قائم تھا۔
اس کے بعد مصنف کچھ عرصے کے لیے دورے پر نکل گیا۔ واپس آیا اور اس کوٹھی کے پاس سے گزرا تو اس نے دیکھا که کوٹھی کے برآمدے میں تین چار بچے دھما چوکڑی مچا رہے ہیں اور اندر سے خواتین انہیں شور و غل کرنے سے منع کرنے کے لیے آوازیں دے رہی تھیں۔ بچوں کو ڈانٹنے کے لیے ایک مردانه آواز بھی آئی۔ مصنف کو بے حد اچھنبا ہوا کہ اس کوٹھی میں یہ نئی زندگی اچانک کیسے اور کہاں سے پھوٹ پڑی۔ خاموش برآمدوں، شیشے والے بند دروازوں اور گونگے کمروں کی کایا کیسے پلٹ گئی۔ اس نے سوچا کہ ممکن ہے که انجینئر صاحب کے کہیں سے مہمان آگئے ہوں۔ دوسرے دن اس نے دیکھا کہ کوٹھی کے باہر والے پھاٹک کے پاس سفیدی کے ڈول ڈرم وغیره رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، واقعی سفیدی ہوچکی تھی۔ اسکی نظریں فوراً اس دیوار کی طرف گئیں جہاں وه لفظ لکھا ہوا تھا۔ مصنف کا دل دھک سے ره گیا۔ دیوار پر سفیدی ہوچکی تھی اور وه لفظ مکمل طور پر مٹایا جاچکا تھا۔ اس سے ضبط نہ ہوسکا۔ مالی کوٹھی کی باہر والی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی بیلوں کو کاٹ رہا تھا۔ اس نے اسکے قریب جا کر دریافت کیا کہ کیا آج انجینئیر صاحب کے مہمان آئے ہوئے ہیں؟ مالی نے بتایا کہ نہیں نئے انجینئر صاحب آئے ہیں۔ پہلے والے انجینئر صاحب پنشن لے کر چلے گۓ ہیں۔ مالی نے مصنف کو بتایا کہ پرانے انجینئر صاحب کا اب پنشن پر چلے جانا ہی بہتر تھا، کیونکہ اب ان کا دماغ ٹھکانے نہیں رہا تھا۔ دراصل انجینئر صاحب کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انهوں نے ایک لڑکا لے کر پالا تھا، وه اس سے بہت لاڈ پیار کرتے تھے۔ وه لڑکا ہی ان کی زندگی کا محور تھا، وه اسی کو دیکھ کر جیتے تھے۔ نہ کسی سے ملتے ملاتے تھے اور نہ کسی کے پاس آتے جاتے تھے۔ دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر بس دو ہی ان کے ٹھکانے تھے۔ اچانک وه لڑکا لو لگنے سے بیمار ہوگیا اور مرگیا۔ انجینئر صاحب کی دنیا اجڑ گئی۔ وه پھر سے اکیلے ره گۓ۔ وه بہت دکھی ہوگئے تھے۔ نوکری سے ان کا دل اچاٹ ہوگیا تھا اور وه کھوئے کھوئے سے رہنے لگے تھے۔ ان کے دل میں ہر وقت اسی لڑکے کا خیال سمایا رہتا تھا۔ انہوں نے اس لڑکے کی ایک ایک چیز کو سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ یہ کہہ کر مالی نے مصنف کی طرف دیکھے بغیر اپنی قینچی اٹھائی اور بیل کاٹنے میں مصروف ہوگیا۔
مصنف جو ہمیشہ سیر کے دوران ریل کی پٹڑی کے پاس سے ہو کر واپس آیا کرتا تھا آج اسے یہ فاصلہ اتنا طویل لگا کہ وه بیزار ہو کر ریل کی پٹڑی کو چھوئے بغیر واپس آگیا۔