آلامِ روزگار کی زد میں آنے والے بشیر کی کمر ضعیفی کے باعث جھک گئی تھی۔ ایسے مخلص اور صابر و شاکر لوگ اب دنیا میں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ملاقات میں بشیر نے آہ بھر کر کہا ’’رضوان کی وصیت ایک ایسی سوانحی یادداشت ہے جس کی پیشانی پر عادی دروغ گو، احسان فراموش اور محسن کش درندوں کی لُوٹ مار، عیاری، مکر و فریب اور پیمان شکنی کا قشقہ کھنچا ہے۔ اس سے پہلے کہ سمے کی دیمک چپکے چپکے کتابِ زیست کے اوراق کو چاٹ لے میں لوح جبینِ گُل پر خونِ دِل سے طلوع صبح بہاراں کا نصاب لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس ملاقات میں بشیر نے افسانہ نگار سے جو باتیں کیں وہ پوری دیانت سے حرف حرف زیبِ قرطاس کی جا رہی ہیں:
رضوان اور بشیر کی رفاقت پچاس سال پر محیط تھی۔ بر صغیر میں نو آبادیاتی دور میں دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے دوران میں رضوان کا والد بہرام اور بشیر کا والد فرقان برطانوی فوج میں ملازم تھے۔ دونوں نے مختلف محاذوں پر جرمن فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ خاص طور پر جنرل منٹگمری کی کمان میں العالمین کے محاذ پر برطانوی فوج میں ملازم بر صغیر سے تعلق رکھنے والے ان سپاہیوں کو اپنے فوجی دستوں کی کار کردگی پر ہمیشہ فخر رہا۔ اس عرصے میں جب بھی چھٹی ملی فرقان نے سعودی عرب میں عمرے کی سعادت حاصل کی۔ چھے سال جاری رہنے والی اس عالمی جنگ میں وہ برما، بصرہ، بغداد، قاہرہ، طبرق صحرائے سینا اور صحرائے کیارہ کے نزدیک مختلف محاذوں پر تعیناتر ہے۔ حج کے موقع پر فرقان ہر سال اپنی کمان سے اجازت لے کر سعودی عرب پہنچتا اور فریضۂ حج ادا کر کے روحانی سکون محسوس کرتا۔ ہر سال ماہ صیام میں فرقان عمرے کی سعادت حاصل کرتا اور رمضان کے مبارک مہینے کے آخری عشرے میں مسجد نبوی میں اعتکاف میں بیٹھتا۔ بہرام کو اپنے معتمد ساتھی اور محرم راز فرقان کے خلوص پر بہت ناز تھا مگر دونوں کے ذوق مختلف تھے۔ بہرام کو یونانی طریقہ علاج کے طبی نسخوں، ٹونے ٹوٹکوں اور آثار قدیمہ سے گہری لچسپی تھی۔ دوسری عالمی جنگ میں صحرائے سینا میں برطانوی فوج تعینات تھی۔ اپنی یونٹ کے مجاز افسروں کی اجازت سے یہ دونوں دوست اپنے کچھ رفقا کے ساتھ جبلِ موسیؑ (کوہِ طُور) کی زیارت کے لیے پہنچے۔ سیاحت کے شوق میں انھوں نے سال 1869 میں مکمل ہونے والی 183 کلو میٹر لمبی نہر سویز کو اِس نہر کے مقام آغاز پورٹ سعید پر جا کر دیکھا۔ انھوں نے اہرام مصر دیکھے اور بیس برس کے عرصے میں 2560 BC میں مکمل ہونے والے 481 فٹ بلند فرعون خوفو کی آخری نشانی کے سرہانے فقط سنگ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ برطانوی فوج میں بھرتی ہونے سے پہلے بہرام جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے مقامی معالج کے معاون کے طور پر کام کر چکا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران میں مصر میں قیام کے عرصے میں بہرام کو مقامی اطبا نے بتایا کہ لوبان کے استعمال سے کئی بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں مصر میں لوبان کی کاشت کثرت سے ہوتی تھی۔ لوبان کے تنے کو کئی مقامات پر تیشے یا کلہاڑی سے ایک انچ کے قریب کاٹا جاتا تھا۔ اس جگہ سے خاص قسم کی گوند نکلتی جسے خشک کر کے لوبان تیار کیا جاتا تھا۔ اطبا کا خیال ہے کہ لوبان جن بیماریوں کے علاج میں مفید ہے ان میں بواسیر، رسولی، جنسی بیماریاں، دمہ، متلی اور گلے کی سوزش شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں قیام کے عرصے میں بہرام کو علمِ نجوم، دست شناسی، پیرا سائیکالوجی، مافوق الفطرت عناصر اور مابعد الطبیعات کے بارے میں بھی بہت مفید معلومات حاصل ہوئیں۔ اسے یہ بھی بتایا گیا کہ لوبان کے سلگانے سے آ سیب، بد روحیں، دیو، جن، بھوت، چڑیلیں اور ڈائنیں بھاگ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ حشرات الارض، چھپکلی، سانپ، بچھو، اژدہا، مچھر، کن کھجورا، کھٹمل، پسو، مچھر اور لال بیگ سے نجات حاصل کرنے کے لیے لوبان کی دھونی اکسیر ہے۔ فوجی ملازمت سے جب بھی چھٹی ملتی بہرام اپنے آبائی گھر قزاقستان پہنچتا اور جہاں لوبان کے شیدائی اس کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ خانے وال میں بہرام کے عزیز جھارو کا سوتیلا باپ شفو رہتا تھا۔ یہ شقی القلب مسخرا ایک طالع آزما اور مہم جُو درندہ تھا۔ اس علاقے میں لوبان کی مانگ بہت زیادہ تھی اور اس کا استعمال یوں سمجھ لیں کہ ویاگرا کے مانند تھا۔ شفو نے لوبان سے منشیات کی تیاری کا مکروہ دھندا شروع کر دیا۔ خلق خدا کا حلق کسی کی گرفت میں نہیں اس زمانے میں ہر شخص یہی کہتا کہ عالمی جنگ کے سنگ شفو کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔ اس نو دولتیے کو دیکھ کر سب لوگ دنگ رہ گئے جس نے اس دھندے میں بہت کچھ کمایا۔ اس نے جو چاند چڑھایا وہ کسی کی نظر سے اوجھل نہ تھا۔
عالمی جنگ ختم ہوئی تو بہرام اور فرقان مدراس پہنچے۔ یہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وہ اپنے آبائی شہروں کو روانہ ہو گئے۔ بہرام اور فرقان کے گھر والوں نے ان کی شادی کر دی۔ مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کی اہلیہ لال کنور کی سہیلی زہرہ کنجڑن کا نواسہ تفو کنجڑا مدراس کا بدنام اچکا تھا۔ تفو کنجڑے نے مدراس کی ایک مشاطہ سے شادی کر لی۔ کوٹھے پر بیٹھنے والی یہ مشاطہ شہر کی بدنام نائکہ اور رذیل طوائف تھی۔ اس طوائف سے تفو کنجڑے کے پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ تفو کنجڑے کی طوائف بیوی اور اس کی اجرتی بد معاش اولاد نے بہرام اور فرقان کو لُوٹ لیا اور فرضی مقدمات اور جھوٹی گواہیوں کے ذریعے انھیں زندان بھجوانے کی سازش کی۔ مصیبت کی اس گھڑی میں فرقان نے اپنے دیرینہ ساتھی عبد الواحد کی مدد سے اس بلائے ناگہانی سے نجات حاصل کی۔ تفو کنجڑے نے ایک رانڈ سے تیسری شادی کر لی اور اس کے سابقہ شوہر سے اس بیوی کے بچوں کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ پرِ زمانہ تو پرواز نُور سے کہیں بڑھ کر تیز ہے وقت گزرتا رہا، فرقان اور بہرام دونوں اب ضعیف ہو چکے تھے۔ فرقان نے تو معرفت کی منازل طے کر لیں مگر بہرام دنیا داری میں الجھ کر رہ گیا۔ قزاقستان کے مضافات میں ایک چنڈو خانے میں تفو کنجڑے کا حصہ تھا جہاں وہ لوبان اور کئی دوسرے نشے فروخت کرتا تھا۔ تفو کنجڑے کے قبیح کردار کی وجہ سے اکثر لوگ اس کی ملامت کرتے مگر اِس چکنے گھڑے نے بازار میں دی جانے والی ہر گالی سدا ہنس کر ہی ٹالی۔ تقسیم ہند کے بعد حالات بدل گئے اور تفو کنجڑا در در کی ٹھوکریں کھا کر اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر قزاقستان پہنچا۔ سرمایہ دار ہندو ساہوکار اس علاقے سے نکل گئے اور مسلمانوں کے لیے ترقی اور خوش حالی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہاں تفو کنجڑے نے خشک میوہ جات، پھلوں اور سبزی کی ایک دکان کھولی مگر یہاں بھی اس کے وہی لچھن رہے۔ وہ منشیات بیچتا اور کالا دھن کمانے کی فکر میں مبتلا رہتا۔
بہرام اور فرقان کی اولاد میں رشتہ داری تو نہ ہو سکی مگر بہرام نے اپنے بیٹے رضوان کو یہ وصیت کی کہ جہاں تک ممکن ہو فرقان کی اولاد سے معتبر ربط رکھنا۔ فرقان کا بیٹا بشیر اور بہرام کا بیٹا رضوان دونوں گہرے دوست اور ہم جماعت تھے۔ بشیر اور رضوان دونوں نے فتح جنگ کے ایک ہی کالج میں انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد دونوں دوستوں کی مختلف گھرانوں کی لڑکیوں سے شادی ہو گئی اور دونوں نے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بشیر نے شعبہ تدریس کا انتخاب کیا جب کہ رضوان نے عسکری شعبہ کو پسند کیا۔ شادی کے بعد رضوان اپنے آبائی شہر تلہ گنگ چلا گیا جب کہ بشیر نے فتح جنگ میں سکونت اختیار کر لی۔ رضوان کی بیوی قفسو جو قصبے مکڑ وال کے ایک نجی شفا خانے میں نرس تھی وہ اپنے شوہر کو اپنے ساتھ لے گئی اور وہیں مستقل طور پراپناگھر بسا لیا۔ اپنے جبر کی بنا پر قفسو اپنے شوہر رضوان کو اپنی انگلیوں پر نچاتی تھی۔ قحبہ خانے کی مالکن اور رسوائے زمانہ نائکہ قفسو کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ نائکہ ہند سندھ کا ایسا مورا ہے جس میں پورے ملک کی غلاظت آ کر گرتی ہے۔ گرد و نواح کے شہروں اور مضافاتی علاقوں کے سب بھانڈ، بھڑوے، اُچکے، مسخرے، لُچے، شہدے، ڈُوم، ڈھاڑی، رجلے، خجلے، بھگتے اور منگتے سب کے سب قفسو کے متوالے تھے۔ میاں والی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں واقع قصبے مکڑ وال کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں کے نوسر باز مکین ہر نوارد کی آنکھوں میں دھُول جھونک کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ نو آبادیاتی دور میں بنارسی ٹھگ بھی مکڑوال کے مکینوں کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ کچھ ستم ظریف اس قصبے کو مکڑوال کے بجائے ’’مکروال‘‘ کہتے تھے۔ اس شہر ناپرساں کے کچھ لوگوں کے مکر، فریب، دغا و دُزدی کے باعث اکثر لوگ کہتے کہ یہ شہر بھی عجیب ہو رہا ہے جو اپنے کچھ مکینوں کی عیاری، مکاری، فریب کاری اور پیمان شکنی کے باعث رفتہ رفتہ کوفے کے قریب ہو رہا ہے۔ شفو نے بھی مکڑوال میں کوئلوں کے کاروبار میں دلچسپی لی مگر کوئلوں کی دلالی میں اس کا منھ کالا ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر اس نے کالا باغ کا رخ کیا۔ بشیر کی بیوی گھریلو خاتون تھی اور اس نے اپنے شوہر کے آبائی شہر فتح جنگ ہی میں قیام کیا۔
معلم بشیر کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور اپنی تحریروں میں اس نے مشرقی خواتین کے مسائل پر کھل کر لکھا۔ وہ اپنے ساتھی رضوان کو بتاتا کہ اذیت، عقوبت اور مشقت کی بھیانک رات بالآخر ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد مسرت و شادمانی کی نقیب صبح درخشاں طلوع ہوتی ہے۔ اپنے شوہر کی خاطر مشرقی عورت آج بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتی اس نے اجتماعی لا شعور کی اساس پر فکر و خیال کی انجمن آراستہ کرنے کے سلسلے میںا ردو ادب میں ممتاز شیریں کے اسلوب کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ تانیثیت اس کا خاص موضوع رہا اس نے مثالیں دے کر واضح کیا کہ ممتاز شیریں نے اپنے ایک افسانے ’’میگھ ملھار‘‘ میں اجتماعی لا شعور کو رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے۔ معاشرتی زندگی میں مشرقی خواتین کی اپنے شوہر کے ساتھ قلبی وابستگی کو ممتاز شیریں نے اساطیر اور یونانی دیو مالا کے بر محل استعمال سے انتہائی موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اپنے شوہر ایڈ میٹس (Admetus) سے والہانہ محبت کرنے والی آل سسٹس (Alcestis) سلطنت لولکس (Lolcus) کے شہنشاہ پیلیاس (Pelias) کی سب سے حسین دختر تھی۔ المیہ نگار یوری پائیڈز (Euripides) کا تعلق یونانی دیومالا سے ہے۔ اس نے اپنے عہد کے ڈرامہ نگاروں ایس ہیلس اور سوف کیلس (Aeschylus and Sophocles) کی طرح المیہ ڈرامہ کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ ممتاز شیریں نے ایتھنز سے تعلق رکھنے والے کلاسیک ڈرامہ نگار یوری پائیڈز کے اسلوب کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ محبت کے دستور بھی نرالے ہوتے ہیں یہاں ایثار و قربانی کی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ عقل محو تماشائے لبِ بام رہ جاتی ہے۔ ایڈمیٹس اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے گلو خلاصی کے لیے باری باری اپنے سب عزیزوں، دوستوں اور رفقا سے ان کی زندگی کی قربانی کی التجا کرتا ہے مگر اس کی فغاں پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ایڈمیٹس اپنے دلِ حزیں پہ جبر کر کے اپنی محبوب اہلیہ آلسسٹس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے شوہر کی خاطر قربان کر دے۔ آلسسٹس جانتی تھی کہ درد کا رشتہ ایثار کا تقاضا کرتا ہے اس لیے وہ خوشی سے اپنے شوہر کی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دینے پر رضا مند ہو جاتی ہے اور آزاد مرضی سے اپنی زندگی اجل کے دیوتا کے سپرد کر دیتی ہے۔ آلسسٹس کے جذبۂ ایثار کو دیکھ کر دیوتاؤں ہیڈز (Hades) اور ہیرا کلز (Heracles) کو ترس آ گیا اور انھوں نے نہ صرف اس عورت کی جان بخشی کر دی بل کہ اس کے شوہر کی زندگی کو درپیش خطرات بھی ٹل گئے۔ زمانہ طالب علمی میں رضوان اپنے ہم جماعت بشیر کی باتیں نہایت توجہ سے سنتا اور سر دھُنتا تھا۔ رضوان کا خیال تھا کہ انسان کو اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اجزا کی نسبت کل کی اہمیت و افادیت کہیں بڑھ کر ہے۔ اس عالمِ آب و گِل میں موجود زندہ اجسام کی زندگی حرکت و حرارت سے عبارت ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں ہر ذی روح کا وجود اس فعالیت کا آئینہ دار ہے جسے وہ کثرت سے بروئے کار لاتا ہے۔ بشیر کی رائے یہ تھی کہ کسی بھی کام میں ستارے چھُو لینے کا راز کسی ایک کام کو پایہ تکمیل تک پہچانا نہیں بل کہ ستاروں پر کمند ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت کی فلاح کی خاطر صبح و مسا ایسے متعدد کام کیے جائیں جن کے اعجاز سے ہوائے جور و ستم کے بگولے تھم جائیں۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے کام اگر عادت ثانیہ بن جائیں تو اس سے شخصیت کو استحکام اور کردار کو عظمت نصیب ہوتی ہے۔
زمانہ طالب علمی ہی سے بشیر اور رضوان کی دوستی مثالی تھی۔ دونوں اس بات پر متفق تھے خوش حالی، مسرت اور شادمانی کے مواقع پر دوستوں کی پرکھ ممکن ہی نہیں۔ ابتلا و آزمائش اور مصائب و آلام کی گھڑی میں کسی دوست، بہی خواہ اور غم خوار کا طرزِ عمل ہی اس کے خلوص، درد مندی، ایثار، وفا اور غم گساری کی سب سے بڑی کسوٹی ہے۔ زندگی تو وہی ہے جسے ہم بسر کر رہے ہیں جہاں تک کالا دھن کمانے والے اہلِ ثروت کی نمود و نمائش کی مظہر پر تعیش زندگیاں ہیں ان سے بے تعلق رہنا ہی مصلحت ہے کیونکہ اس قسم کا راحت اور آسودگی سے معمور ماحول ہماری دسترس میں نہیں۔ بشیر اپنے دوست رضوان کو یہ بات سمجھا تا رہتا کہ معاشرتی زندگی میں درد مندوں اور ضعیفوں سے خلوص، مروّت اور بے لوث محبت کا رشتہ استوار کرنے والے فیض رساں انسان اللہ کریم کی نعمت ہیں۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا درندے جب کسی فیض رساں اور خادم خلق انسان کو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے قبیح کردار کی وجہ سے یہ حساس لوگ دِل برداشتہ ہو کر گوشہ نشین ہو جاتے ہیں۔ اس طرح فیض کے اسباب پیدا کرنے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔
رضوان کے ایک عزیز جھابو قرق نے ایک کتا پال رکھا تھا یہ خارش زدہ کتا اکثر رضوان کی گلی میں گھومتا پھرتا دیکھا گیا۔ ایثار اور سرفروشی کی اداکاری کرنے والا طالع آزما اور مہم جو جھابو قرق در اصل جو فروش گندم نما مسخرا تھا۔ وہ اکثر یہ بات کہتا کہ حصولِ زراور جلب منفعت کی لذت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب اس مقصد کے حصول کی خاطر دھوکہ دہی اور فریب کاری سے کام لیا جائے۔ اس کی کھوپڑی میں دروغ گوئی، عیاری، مکاری اور فریب کاری کُوٹ کُوٹ کر بھری تھی۔ نا معلوم کیوں رضوان کی گلی کی ہر باؤلی کتیا اس ابلہ کے پالتو خارش زدہ کتے کو دیکھ کر اپنی دُم اُٹھا لیتی اور اس کے پاؤں چاٹنے لگتی۔ کچھ عرصے کے بعد جھابو قرق کا پالتو کتا گلی کی ایک آوارہ کتیا کو ساتھ لے کر غائب ہو گیا اور کالا باغ کے نواحی جنگل میں جا پہنچا۔ واقفِ حال لوگوں کا خیال تھا کہ جھابو قرق کے پالتو کتے کا شجرہ نسب دیو جانس کلبی کے وفا دار پالتو کتے سے ملتا ہے۔ اپنے مالک جھابو قرق کی آواز سن کر ہر راہ گیر پر غرانے اور کاٹنے کے لیے دوڑنے والے اس قسم کے کتے ہر گوٹھ اور گراں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ گرگ آشتی کے پوشیدہ طریقوں اور پیچیدہ اسرار و رموز سے آگاہ لوگوں نے اس قسم کا ہما شما ترس کتا ضرور دیکھا ہو گا جو کُوڑے کے ہر ڈھیر کو گردن جھکا کر سُونگھتا اور دُم ہلاتا پھرتا ہے اور وہاں سے اپنے مطلب کے اُستخواں اُٹھا کر انھیں نوچتا اور بھنبھوڑتا پھرتا ہے۔ گردشِ ایام سے آنکھ مچولی کھیلنے کی وجہ سے جھابو قرق کے کتے کی خارش زدہ جلد پر تپسیا کے اثرات اس کی حرص و ہوس، کُوڑا بینی، عفونت پسندی اور مردار خوری کی نشانی بن گئے تھے۔ گردن جھکائے اپنی عفونت زدہ زخمی دُم خالی پیٹ سے لپیٹے یہ سگِ آوارہ جس طرف سے بھی گزرتا کوچہ و بازار کے مکینوں کی ملامت، حقارت، مار دھتکار اور پھٹکار اس سگِ راہ کا تعاقب کرتی۔ یہ خارش زدہ سگِ راہ زدِ جاروب کھاتا لنگڑاتا ہوا اس قدر خست، خجالت اور ذلت و تخریب اور نحوست و ندامت سے چلتا کہ دیکھنے والوں کو گمان گزرتا کہ گویا طویل عرصہ تک ہر رہرو کو دیکھ کر پیہم بھونکنے کی وجہ سے ندامتِ عصیاں اور حلق کے ہلکان کے شدید احساس سے اس کی طوطے جیسی آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ آنکھیں بند کر کے گلی کے عین درمیان میں اپنی اگلی اور پچھلی ٹانگیں پھیلا کر لیٹ جانا اس خارش زدہ کتے کا معمول تھا۔ اس کتے کی ہئیت کذائی دیکھ کر اس پر مشکوک نسب کے متفنی چربہ ساز، تنقیص کو وتیرہ بنانے والے بے کمال سارق اور کفن دُزد جہلا کا شائبہ ہوتا تھا۔ جب یہ خواب کے عذاب میں ہوتا تو دیکھنے والے سوچتے شاید یہ سگ راہ معاشرتی زندگی کے حوصلہ شکن تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات پر غور و فکر میں جی کا زیاں کر رہا ہے۔ شبِ تاریک میں یہ کتا رضوان کے گھر کے سامنے والی تنگ گلی کی ناکہ بندی اس انداز میں کرتا کہ اپنی کریہہ جسامت سے پوری گلی کے داخلی دروازے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ سفلی علوم کے ماہر کئی سگ شناس اور سگ پرست اسے دیکھتے ہی پکار اُٹھتے کہ یہ سگ اپنے پچھلے جنم میں یقیناً کوئی تارک الدنیا مٹی کا مادھو ہو گا۔ بدلتے ہوئے موسم کی شدت بھی اس پر اسرار سگ راہ کے معمولات اور معاملات میں حائل نہ سکی۔ جب کبھی جھابو قرق رات کی تاریکی میں ناگاہ اس کی دُم پر پیر رکھ دیتا تو یہ کتا پیچ و تاب کھانے لگتا اور محسن کشی کی مثال بن کر بھونکنے لگتا۔ ’’ارے بچے! میں تمھیں مثلِ کاہ سمجھتا ہوں۔ جہاں فنا! ہمیں کا ہے کو پریشان کرتے ہو ہماری دم مروڑنے اور گردن توڑنے والے دیکھ کے چل کہ ہم علیل اور تارک الدنیا مٹی کے مادھو بھی تو خاک راہ میں پڑے ہیں۔‘‘
یہاں دیو جانس کلبی کی تلمیح سے یاد آیا کہ ممتاز یونانی فلسفی ارسطو (B: 324 BC.D: 322 BC) اور مشہور یونانی فاتح سکندر اعظم (B: 356 BC,D: 323 BC) کے دور سے تعلق رکھنے والا نا بینا قناعت پسند دانش ور دیو جانس کلبی بصارت سے محروم تھا مگر بصیرت رکھتا تھا۔ آخری عمر میں دیو جانس کلبی ایک دُور دراز علاقے کے ویرانے میں مٹی کے اک ٹب میں پڑ ارہتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ انسان کا دشمن انسان ہے جانور نہیں۔ ظالم و سفاک، موذی و مکار آدمی سے بچو جس کی درندگی ہزارہا خونخوار درندوں پر بھاری ہے۔ جب جنگ جُو فاتح سکندر اعظم نے پوری دنیا فتح کر لی تو اس کی غیر معمولی مہم جوئی کے بارے میں دیو جانس کلبی نے کہا:
’’اگر انسان قناعت پسند ہو تو وہ مٹی کے اس ٹب میں بھی خوش رہ سکتا ہے لیکن اگر وہ حریص ہو جائے تو پوری کائنات بھی اس کے لیے چھوٹی ہے۔‘‘
پوری دنیا کو مسخر کرنے کے بعد سکندر اعظم اپنے اُستاد اور محسن دیو جانس کلبی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شدید سردی کا موسم تھا قناعت پسند فقیر دیو جانس کلبی سردی سے بچنے کے لیے دھُوپ میں بیٹھا تھا۔ اتفاق سے سکندر اعظم اس طرح کھڑا تھا کہ سورج کی شعاعیں فقیر دیو جانس کلبی پر نہیں پڑ رہی تھیں۔ سکندر اعظم نے نہایت عاجزی سے دیو جانس کلبی سے کہا:
’’یا اُستاد! میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ مجھے اپنی کوئی خواہش بتائیں تا کہ میں اس کی تعمیل کر سکوں۔‘‘
مگر دیو جانس کلبی نے سکندر اعظم کی بات سُنی اَن سُنی کر دی کیو نکہ وہ جانتا تھا کہ دنیا کی ہوس کے اسیر حاکم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ حریت ضمیر سے جینے والے اور حریت فکر و عمل کو زادِ راہ بنانے والے درویش منش انسانوں کی خدمت کرے۔ جب سکندر اعظم کا اصرار حد سے بڑھنے لگا تو دیو جانس کلبی نے ایک شانِ استغنا سے پوری دنیا کو اپنے زیر نگیں کرنے والے فاتح جنگ جُو سالار سے کہا:
’’فاتح اعظم! سورج کی شعاعوں اور میرے درمیان آپ سدِ سکندری بن کر حائل ہو گئے ہیں اور دھُوپ مجھ تک نہیں پہنچ رہی۔ یہاں سے ہٹ جائیں تا کہ خورشید جہاں تاب کی شعاعیں مجھ تک پہنچیں اور میں سردی سے بچ سکوں۔‘‘
اس قناعت پسند مرد فقیر کی یہ بات سن کر سکندر اعظم اپنا سامنھ لے کر رہ گیا اور سر جھکائے واپس چلا گیا۔
بشیر جب پہلی بار مکڑوال سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ ایک ضعیف شخص دوپہر کے وقت لیمپ جلا کر دیو جانس کلبی کے مانند بازار میں کسی کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ بشیر نے اس اجنبی سے پوچھا کی کس کی جستجو میں وہ اس قدر پریشان و مضطرب ہے تو اس معمر شخص نے آہ بھر کر کہا:
’’یہ مکڑوال ہے جو شخص بھی یہاں پہنچتا ہے وہ اس شہرِ سنگ دِل کے باشندوں کے مکر و فریب کے جال میں پھنس جاتا ہے اور دھُول کا پیرہن اس کا مقدربن جاتا ہے۔ اس شہر میں آدمیوں کے اس ازدحام میں کسی ایک انسان کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں۔ جس طرف جاتا ہوں چلتے پھرتے ہوئے مُردے اور خون آشام درندے دکھائی دیتے ہیں۔ آدمی اور انسان میں بہت فرق ہے کسی نے سچ کہا تھا آدمی کو انسان ہونا میسر ہی نہیں۔‘‘
خالق کائنات نے نظام ہستی چلانے کے کچھ قواعد و ضوابط وضع کر رکھے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز، ارتعاشات اور بے ہنگم تضادات اس بات کے شاہد ہیں کہ اس فانی جہان میں خزاں کے سیکڑوں مناظر سامنے آ تے ہیں۔ بھری دنیا میں کسی کو مکمل جہاں نصیب نہیں ہوتا خلوص و مروّت کی نوید سن کر اس پر یقین کرنے سے پہلے اچھی طرح جانچ پر کھ کرنا از بس ضروری ہے۔ اندھیرے، اُجالے، صبح، شام اور رنج و راحت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ معاشرتی زندگی میں قدرت کاملہ کی طرف سے جزا اور سزا کا نظام ہر حال میں موجود رہتا ہے۔ عجیب چراغوں سے ہمارا پالا پڑتا ہے جو بینائی بجھا کر گھر کو آگ لگا دیتے ہیں۔ اہلِ عالم کی شامت اعمال کے نتیجے میں ہلاکو، چنگیز، نادر شاہ اور نظام سقہ مسلط ہو جاتے ہیں۔ اگر اقوام عالم اپنے خالق کو پہچان لیں تو وہ محتاجِ ملوک بننے سے بچ سکتی ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ نگاہِ فقر میں شان سکندری بھی ہیچ ہے۔ خراج مانگنے والے قیصر و کسریٰ بھی قناعت پسند درویشوں کی نگاہ میں بے وقعت ہیں۔ انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ صابر و شاکر بن کر اپنے خالق کے حضور سرِ تسلیم خم کر دے۔ بصیرت سے متمتع انسان اپنے خالق کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور جب یہ نعمتیں واپس لی جاتی ہیں تو صبر سے کام لیتا ہے۔ جب کہ آدمی صبر و شکر سے عاری ہوتا ہے اس لیے وہ انسا نیت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ قادر مطلق کو آدمیوں کی طرف سے کی جانے والی ناشکری، احسان فراموشی، عطا کی بے قدری اور نعمتوں کی توہین سخت ناگوار گزرتی ہے۔ آدمیوں کی اس قسم کی بے ضمیری، بے حسی، کور مغزی، سفلگی، سفاکی اور بے بصری کا نتیجہ قحط الرجال کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ہر طرف بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے، اپنا اُلو سیدھا کرنے والے، جو فروش گندم نما، ابن الوقت، آستین کے سانپ اور بروٹس قماش کے عیار مسخروں، بھڑووں، آدم خور بھُوتوں، چڑیلوں، ڈائنوں اور طوائفوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا مشکوک نسب کے یہ سفہا اور اجلاف و ارزال محسن کُشی کا قبیح روّیہ اپنا کر ہمیشہ اہلِ ہنر کے در پئے آزار رہتے ہیں۔ اِن آستین کے سانپوں، سفید کووں، کالی بھیڑوں، گندی مچھلیوں اور عفونت زدہ انڈوں کے باعث مسموم معاشرتی ماحول سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے ہیں۔ یہ ابن الوقت درندے جس تھالی میں کھاتے ہیں اُسی میں چھید کرتے ہیں اور اسی شجر سایہ دار کی شاخیں کاٹنے اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں جو گردشِ ایام کے کٹھن حالات میں ان کے سر پر سایہ فگن ہے۔ کسی معاشرے میں منافقت، خست و خجالت، انصاف کُشی اور بے حسی کا بڑھنا اس معاشرے کے وجود اور بقا کے لیے بہت بُرا شگون ہے۔ پس نو آبادیاتی دور میں تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک میں چور محل میں جنم لینے والے، کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے اور چور دروازے سے گھُس کر اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے والے سگانِ راہ نے سماجی اور معاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں پُر خطر اورآ ہیں بے اثر کر دی ہیں۔ ان حالات میں نمود صبح بہاراں کا یقین کیسے کر لیا جائے کہ ان چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد متفنی سفہا کی چیرہ دستیوں اور خزاں کے سیکڑوں مناظر نے تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے۔
مکڑوال کے آدمی بالعموم مرغانِ باد نما کی صورت میں منڈلاتے، گوسفندانِ سیاہ کے مانند منمناتے اور کولھو کے بے دُم خر کی طرح ہنہناتے دکھائی دیتے۔ ان کی بڑھتی ہوئی نا شکری ان کی تہی دامنی اور بے کمالی پر منتج ہوئی۔ اس عبرت سرائے دہر میں ہر طرف احسان فراموش، محسن کش، نمک حرام، آستین کے سانپ اور ابن الوقت آدمیوں کے غول کے غول اُمڈ آئے تھے۔ بغل میں چھری اور منھ میں رام رام کرنے والے ان جو فروش گندم نما منافقوں نے اہلِ درد کی زندگی اجیرن کرر کھی تھی۔ مکڑوال میں سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا کم ظرف اور بے ضمیر آدمیوں کی پانچوں گھی میں تھیں مگر مخلص، ایثار پیشہ اور وفا شعار انسانوں کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ اس شہر سنگ دِل کی ہر نائکہ، طوائف، مشاطہ، رقاصہ، مغنیہ اور کٹنی اپنے مکر کی چالوں سے سادہ لوح لوگوں کو لُوٹنے پر تُل گئی تھی۔ ایسی فضا میں خلوص کے متلاشی حواس باختہ، غرقابِ غم، نڈھال اور خوار و زبوں تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان الم نصیب انسانوں کے گھر کے آ نگن سے قزاق اجل کا لشکر سب کچھ پامال کر کے آگے نکل گیا ہے۔
ہوائے جورو ستم میں بھی شمع وفا کو فروزاں رکھنا، حریت ضمیر سے جینا اور حریتِ فکر کا علم بلند رکھنا زندگی بھر بشیر کا شیوہ رہا۔ بشیر کا شمار اپنے عہد کے ان جری انسانوں میں ہوتا تھا جنھوں نے حق گوئی و بے باکی کو سدا اپنا شعار بنایا۔ رضوان کے اہلِ خانہ کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر بھی وہ دِل بُرا نہ کرتا۔ خونِ خاک نشیناں پیہم رزقِ خاک ہو رہا تھا مگر یہاں تو نہ کوئی مدعی تھا اور نہ ہی کوئی شکایت۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ قفسو کی اولاد کی بڑھتی ہوئی بے داد کی فریاد وہ کس کے سامنے کرتا۔ اپنی اُمنگوں اور تمناؤں کا لہو وہ کس کے ہاتھ پر تلاش کرتا۔ بشیر کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ مکڑوال اور خانے وال میں محسن کشی کی وہی قبیح صورت نمو پا رہی ہے جو بروٹس اور جولیس سیزر کے زمانے میں تھی۔ کوفہ کے مانند اس شہرِ نا پُرساں میں لیلائے وفا اپنے بال کھولے حسرت و یاس کی تصویر بنی در بہ در اور خاک بہ سر ستم کشِ سفر رہنے پر مجبور تھی۔ جب محسن کش اور نمک حرام بروٹس سنگِ ملامت لیے اہلِ درد کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں تو ہر انسان کو دلی صدمہ ہوتا ہے۔ اپنے محسن کے ٹکڑوں پر پلنے والے وہ بروٹس جن کے بارے میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ آزمائش و ابتلا کی گھڑی میں مرہم بہ دست آئیں گے، انہی کو جب اپنے کرم فرما پر خنجر آزما ہوتے دیکھتا ہے تو اس کا جی گھبرا جاتا ہے اور اُس کے دِلِ صد چاک سے آہ نکلتی ہے۔ وقت کی مثال بھی سیلِ رواں کی تند و تیز موجوں کی سی ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی شخص خواہ اس کی قوت و ہیبت کتنی ہی جہاں گیر کیوں نہ ہوسیلِ زماں کے تھپیڑوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ درِ کسریٰ سے یہی صدا سنائی دیتی ہے کہ کوئی شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا لے وہ بیتے لمحات کی چاپ اور پُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ بشیر کی زندگی بھی گردشِ ایام کے اسی مد و جزر کی بھینٹ چڑھ گئی۔
رضوان اور بشیر سال دو ہزار دس (2010) میں اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائر منٹ کے بعد بشیر قدرے سکون محسوس کر رہا تھا اس نے فیصلہ کیا کہ اپنے بڑے بیٹے ساجد کی شادی کرے گا۔ سب عزیزوں کو شادی میں بلائے گا اور ان کے لیے پر تکلف ضیافت کا انتظام کرے گا۔ وہ عالمِ تنہائی میں خوشی کی جستجو کو نکلا مگر گردشِ ایام بھی ہمیشہ کی طرح اس کے تعاقب میں رہی۔ تقدیر کی تو پہچان ہی یہ ہے کہ یہ ہر لحظہ اور ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے۔ پچاس سال بعد بشیر اور رضوان کی اولادمیں پہلا رابطہ بھی عجیب حالات میں ہوا۔ مئی کا مہینہ تھا شدیدگرمی کے باعث ایڑی سے چوٹی تک پسینہ بہہ رہا تھا۔ فتح جنگ میں بشیر اپنے گھر کے سامنے سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ اس روزاس کے اہلِ خانہ گھر میں موجود نہیں تھے۔ اچانک ایک کار اُس کے گھر کے سامنے آ کر رُک گئی۔ کار میں سے رضوان کی اہلیہ قفسہ نکلی اس کے ساتھ ایک نوجوان اور دو لڑکیاں بھی تھیں۔ بشیر نے نووارد مہمانوں کو اپنے گھر کے مہمان خانے میں بٹھایا اور ان کی خیریت دریافت کی۔ سامنے سڑک کی دوسری طرف سموسے بنانے والا بوڑھا خانساماں ’’ٹلی باوا‘‘ گرما گرم سموسے بنا رہا تھا۔ بشیر نے ان مہمانوں کی تواضع کے لیے سموسے منگوائے اور ٹھنڈے مشروبات پیش کیے۔ بشیر اچھی طرح جانتا تھا کہ مکڑوال کا ہر وہ قحبہ خانہ اور چنڈو خانہ جہاں جسم فروشی، ضمیر فروشی اور مکر و فریب کو سکۂ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہے اس سے قفسو کا پیدائشی تعلق ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ پیشہ ور طوائفیں اپنی چرب زبانی، مکر و فریب اورعریانی سے لوگوں کو رام کرنے کا فن جانتی ہیں۔ نائکہ قفسو اور اس کی پروردہ طوائفوں نے اپنے مے کدے میں آنے والے سادہ لوح لوگوں کو لُوٹ کر بڑے شہروں میں اپنے عشرت کدے تعمیر کر رکھے تھے۔ مکر و فریب، دغا اور دُزدی میں یدطولیٰ رکھنے والی قفسو ایسی ناگن تھی جس کے کاٹے کبھی پانی بھی نہیں مانگتے۔ ان پیشہ ور ٹھگوں کے ساتھ محاذ آرائی کرنے والے آ ٹھ آٹھ آ نسو روتے ہیں۔ مہمانوں سے رسمی دعا سلام کے بعد کچھ دیر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا اس کے بعد قفسہ نے کہا:
’’یہ میری منجھلی بیٹی صبیحہ ہے علم بشریات میں ایم۔ اے کرنے کے بعد مکڑوال کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں پڑھا رہی ہے۔ اس کے ساتھ میری سب سے چھوٹی بیٹی نہفتہ اور یہ اس کا شوہر جھارا ہے۔ اب صبیحہ کی بات توجہ سے سنو۔‘‘
صبیحہ نے عقیدت کی اداکاری کرتے ہوئے کہا:
’’میں بلھڑ یونیورسٹی سے نو آبادیاتی دور سے قبل اور اس کے بعد شمالی ہند اور جنوبی ہند کے تہذیبی، ثقافتی اور لسانی میلانات پر ایم۔ فل سطح کا تحقیقی مقالہ لکھ رہی ہوں۔ شیخ چلی جو بلھڑ یونیورسٹی کے ریکٹر ہیں اور میرے شیدائی ہیں ان سے میری بات ہو چکی ہے کہ اگر میرا یہ مقالہ بر وقت مکمل ہو جاتا ہے تو اس ڈگری کی بنا پر وہ مجھے بلھڑ یونیورسٹی کا ڈین بنا دیں گے۔ اپنے تحقیقی موضوع سے متعلق مجھے آپ کی فوری مدد کی سخت ضرورت ہے۔‘‘
’’یہ بہت وسیع موضوع ہے اس پر ابھی تک کوئی قابلِ قدر کام نہیں ہو سکا۔‘‘ معمر معلم بشیر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’تاریخ، عمرانیات اور علم بشریات سے متعلق یہی موضوع میری چالیس سالہ تدریس اور تحقیق کا محور رہا ہے مگر گردشِ ایام نے مجھے سبزۂ نو دمیدہ کے مانند سر اُٹھاتے ہی پامال کر دیا اور میں اپنے منتشر کام کو یک جا نہیں کر سکا۔ شیخ چلی نے آپ کو ایم۔ فل کی سندی تحقیق کی بنا پر براہِ راست ڈین بنانے کی جو پیش کش کی ہے اس قسم کی انہونی کے بارے میں محسن بھوپالی نے سچ کہا تھا:
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
’’اس تحقیقی مقالے کی بر وقت تکمیل کے سلسلے میں میرے پاس وقت بہت کم ہے۔‘‘صبیحہ نے عیاری میں لپٹی ہوئی نمائشی مسکراہٹ اور غمزہ وادا کے تیر چلاتے ہوئے اور دانت پیستے ہوئے کہا ’’اگر میں ایک ماہ میں یہ مقالہ بلھڑ یو نیورسٹی میں جمع کرا دوں تو مجھے ایم۔ فل کی ڈگری مل جائے گی۔ اس کے بعد اسی جامعہ کے ریکٹر شیخ چلی کے حکم پر مجھے فی الفور ڈین یا نائب شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز کیا جا سکتا ہے۔ اس جامعہ کے ریکٹر شیخ چلی کی بدھوآنہ میں ٹریکٹر بنانے کی بہت بڑی فیکٹری ہے۔ میرے حسن و جمال اور مالیاتی کمال سے متاثر ہو کر جامعہ کے اس رنگین مزاج ریکٹر نے مجھے اپنی ٹریکٹر فیکٹری کا حصہ دار اور مالیاتی امور کا نگران بنا رکھا ہے۔ میرا پرستار ٹلا سو پیازہ مجھے قزاقستان میں گشتی سفیر بنا کر اپنے ساتھ بیرونِ ملک لے جانے کا خواہش مند ہے۔ اگر یہ مقالہ ایک ماہ تک شعبہ امتحانات میں جمع نہ کرایا جا سکا تو میری دو سال کی محنت اکارت اور امیدوں کی فصل غارت جائے گی۔‘‘
’’جہاں دار شاہ کی طرح یہ ریکٹر بھی مجھے ایسا ایکٹر محسوس ہوتا ہے جو کیریکٹر سے عاری ہے۔‘‘ بشیر نے صبیحہ کی باتیں سُن کر جواب دیا ’’چند روزہ حسن صورت کی بیساکھی کب تک کام آئے گی۔ زنگ آلود لوہا ملمع سازی سے سیم و زر میں کیسے بدلا جا سکتا ہے؟ میں تو یہ سن کر محو حیرت ہوں کہ کسی اونچے منصب تک پہنچنے کے لیے کوئی اس قدر بھی گِر سکتا ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو میں ہمیشہ یہی نصیحت کرتا رہا ہوں کہ وہ معمولی نوعیت کے ذاتی مفادات کے لیے کبھی لال کنور یا زہرہ کنجڑن بننے کا خیال دل میں نہ لائیں۔‘‘
’’میری بیٹی صبیحہ کے لیے یہ مقالہ صرف آپ ہی لکھ سکتے ہیں۔‘‘ صبیحہ کی ماں قفسہ نے بشیر کو مکھن لگاتے ہوئے کہا ’’کئی پشتوں سے آپ کا اور ہمارا خاندانی تعلق ہے۔ ہم نے ہر جگہ سے معلوم کیا ہے سب یہی کہتے ہیں کہ اس ملک میں آپ سے بڑا ماہر علم بشریات، محقق، نقاد اور تاریخ دان کوئی نہیں۔ آپ کی علمی فضیلت کی ہر طرف دھُوم مچی ہے اور آپ کے متعلق یہ بات بھی مشہور ہے کہ آپ تحقیق کے سرابوں میں بھٹکنے والے منزل سے نا آشنا طالب علموں کی رہنمائی میں کبھی تامل نہیں کرتے۔‘‘
’’یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ اس موضوع پر آپ کی ہر بات مستند ہو گی۔‘‘ صبیحہ نے سعادت مندی کا تاثر دیتے ہوئے ٹسوے بہاتے ہوئے کہا ’’آپ عالمی شہرت یافتہ معلم، فلسفی، نقاد اور محقق ہیں سندی تحقیق کے اس نازک مرحلے پر آپ کی رہنمائی میرے لیے خضر راہ ثابت ہو گی۔ اس وقت آپ کے علاوہ دنیا میں جنوبی ہند اور شمالی ہند کی تہذیب و ثقافت کا رمز آشنا کہیں موجود نہیں۔ آپ کے گھر کے سامنے کھڑی میری نئی کار ٹویوٹا پراڈو مجھے ایک پرستار نے میری تیسویں سال گرہ کے تحفے کے طور پر دی ہے۔ میرے پاس اپنی نئی رولز رائس سیوپ ٹیل (Rolls Royce Sweptail) کار موجود ہے آپ نے کہیں سفر پہ جانا ہو تو فون کر دیا کریں میرا ڈرائیور کار لے کر پہنچ جائے گا۔ ہر سال مجھے میری سال گرہ پر میرے مداح مجھے پیتک فلپ، ایسکوائر، راڈو، ایڈمر پگٹس، بلغاری اور ڈاونسی گھڑیوں اور قیمتی درآمدی ریشمی ملبوسات کے تحفے دیتے ہیں۔ آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تامل حکم دیں۔ فتح پور سیکری میں ہمارے محلات اور وسیع اراضی موجود ہے۔‘‘
بشیر نے صبیحہ کے تکبر کی باتیں بہت صبر و تحمل سے سُنیں اور کہا:
’’تمھارے باپ کے پاس تو دو سو سال پرانی بائیسکل ہے، جس پر تمھارا نانا سکول جاتا تھا۔ تمھارا بھائی اب بھی ایک پرانی موٹر سائیکل چلا کر کام پر جاتا ہے۔ کیا تمھارے کمرے میں کوئی سونے کی کان نکل آئی ہے یا اللہ دین کا چراغ تمھارے ہاتھ لگا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے تم کھرب پتی بن گئی ہو۔‘‘
دانا کہتے ہیں کہ خوشامد اور جعلی تعریف و توصیف سے پتھر میں بھی جونک لگ سکتی ہے۔ فرضی ستائش اور جھوٹی آرائش سے اس دنیا میں سیکڑوں مشکل مراحل طے ہو سکتے ہیں اور کٹھن کام نکل سکتے ہیں۔ مگر بشیر ان مہمانوں کی باتوں سے بالکل مرعوب نہ ہوا۔
’’ہمیں ہمارے ماضی کے طعنے نہ دو تمھیں کیا معلوم کہ صبیحہ کا ستارہ کس قدر بلند ہے۔‘‘ قفسہ نے اپنے منھ سے بہنے والا جھاگ اپنی آستین سے صاف کرتے ہوئے کہا ’’جنت کے مکین بھی صبیحہ کے گھر کے جلوے دیکھتے ہیں۔ بامِ فلک سے ستارے اُتر کراس کے ناز و انداز کے نظارے کرتے ہیں۔ پھول بھی اس کے قدموں کی دھُول ہیں۔ گل و لالہ اپنی قبائیں کُتر کے اس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں مگر تم ہو کہ بے تعلق بنے بیٹھے ہو۔‘‘
بشیر نے نرم لہجے میں کہا:
’’اپنی بیٹی کے حسن و جمال کی حکایت کو اس قدر طول نہ دو۔ پہلے اپنے دامن اور بندِ قبا پر نظر ڈال لو۔ یہ بات تو طے ہے کہ تمھاری بیٹی کے مقالے کی مکمل رہنمائی تو جامعہ بلھڑ کا مقرر کیا ہوا نگران ہی کر سکتا ہے۔‘‘بشیر نے فیصلہ کن انداز میں کہا ’’اب تک مقالے کے خاکے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جو اہم بنیادی مآخذ جمع کیے گئے ہیں وہ مجھے دکھا دیں بنیادی مآخذ کے متعلقہ صفحات کی عکسی نقول، ضمیمہ جات اور مقالے کے مکمل ابواب کے مسودات بھی اگلی مرتبہ ساتھ لائیں تا کہ میں ان پر سرسری نظر ڈال کر اپنی رائے دے سکوں۔‘‘
’’میری بیٹی کے پاس کوئی تحریر نہیں، نہ کوئی ماخذ ہے، نہ نقل اور نہ ضمیمہ۔ صرف سرسری مطالعہ اور رائے نہیں بل کہ میری بیٹی کا مکمل مقالہ شروع سے آخر تک آپ ہی نے لکھنا ہے۔‘‘ قفسو نے پر اعتماد لہجے میں کہا ’’میری چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹی صبیحہ کا مستقبل سنوارنے کے لیے اس کا تحقیقی مقالہ تو آپ کو لکھنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’میری زندگی کے کچھ اصول ہیں میں کسی کا مستقبل سنوارے کے لیے اپنی زندگی کے اصول کسی صورت میں نہیں توڑ سکتا۔‘‘ بشیر کے الفاظ کی ترنگ اور انداز گفتگو کا جلال اس کے فن کے کمال کو ظاہر کر رہا تھا۔ بشیر نے کسی قدر تلخی سے کہا ’’میرے اصول میری زندگی کا بیش بہا اثاثہ ہیں۔ ایک محتسب میرے اندر تلوار لیے موجود ہے جو مجھے ہر قسم کی بے اصولی سے با زرہنے کا حکم دیتا ہے۔ میرے لیے یہ نا ممکن ہے کہ کسی کی خوشنودی کی خاطر بے اصولی کر کے میں اپنی عمر بھر کی ریاضت اور دیانت پہ خاک ڈال دوں۔‘‘
’’نظریۂ ضرورت کے تحت سب کچھ جائز قرار دیا جاتا ہے اور یہاں سب کچھ بِکتا ہے۔ نظریۂ ضرورت کے مطابق ضرورت کسی قانون کے تابع نہیں ہوتی، مناسب دام لگیں تو استاد بھی شاگرد کی جگہ پر بیٹھ کر اس کا پرچہ حل کر دیتے ہیں۔‘‘ صبیحہ نے طنزیہ لہجے میں کہا ’’اصول، ضابطے، قانون، اقدار و روایات اور زندگی کے معیار سب کے سب ہاتھی کے دانت ہیں جو محض دکھانے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ وقت پڑنے پر وہ لوگ بھی جو بڑے با اصول ہونے کے داعی ہوتے ہیں ہر بے اصولی کر گزرتے ہیں اور گرگٹ کے مانند رنگ بدل کر اپنی فکری پستی کا ثبوت دیتے ہیں۔‘‘
’’میری بیٹی صبیحہ کے بارے میں شہر میں یہ مشہور ہے کہ یہ تو حُور ہے۔‘‘ قفسو نے صبیحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فخر سے کہا ’’لوگ اس کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں اور تم ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہو۔ اس کے لیے مقالہ تمھیں ہر حال میں لکھنا پڑے گا۔ میں اپنی اُنگلی ٹیڑھی کر کے گھی نکالنے کا فن جانتی ہوں۔‘‘
صبیحہ کی چھوٹی بہن نہفتہ اپنے شوہر جھارا کے ساتھ بیٹھی سب باتیں سُن رہی تھی۔ اس نے دانت پیستے ہوئے معنی خیز انداز میں اپنی بڑی بہن صبیحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ہم اپنی اعلیٰ تعلیم یافتہ بڑی بہن صبیحہ کے لیے ہم پلہ رشتے کی تلاش میں ہیں۔ اس کا صبیح چہرہ کس طرح اُجالے بکھیر رہا ہے اور اس کی لمبی سیاہ زُلفیں بکھری ہوئی کالی گھٹا کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ جرسِ گُل کے ساتھ ایسی بے رخی نا قابلِ فہم ہے۔ صبیحہ کا مقالہ ہم ہر قیمت پر آپ ہی سے لکھوائیں گے۔‘‘
اب تک جھارا خاموش بیٹھا تھا اس کے چہرے پر غصے اور ناگواری کے ملے جلے تاثرات تھے۔ جھارا نے اپنی اہلیہ کی باتیں سنیں تو اُس نے ضعیف استاد بشیر کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کی اور اس سے مخاطب ہو کر بولا ’’کالا باغ میں ہمارا قیمتی پتھروں کا بہت وسیع کاروبار ہے۔ سنگ مر مر، سنگِ سرخ، گرینائٹ، سلیٹ اور چاک پرہم نے اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں ہماری بہت بڑی جاگیریں اور محلات ہیں۔ ادویات، سیمنٹ، کھاد اور زرعی اجناس کے کاروبار میں ہم نے کھربوں روپے لگائے ہیں۔ اگر تم ہماری بات مان لو گے تو میں تمھارے گھر میں سنگ مر مر لگوا دوں گا اور تمھیں زر و جواہر سے مالا مال کر دوں گا۔‘‘
قناعت پسند درویش بشیر کسی بُت کے ناز اُٹھانے پر رضا مند نہ ہوا۔ اس نے ایک شان استغنا کے ساتھ حرص و ہوس کی ترغیب دینے والے ان بھاری پتھروں کو ٹھوکر مارنے کا فیصلہ کر لیا۔ قفسو کی چکنی چپڑی باتیں سُن کر بشیر نے دبنگ لہجے میں کہا:
’’میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ زندگی بھر بگولوں کا ہم سفر رہنے والا شاہین اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی بلند پروازی کو ترک کر کے خاکِ راہ میں کیوں خجل ہو گا؟ میں نے زندگی بھر در کسریٰ پر صدا نہیں کی۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ان کھنڈرات میں جامد و ساکت پتھروں، سنگلاخ چٹانوں اورحنوط شدہ لاشوں کے سوا کچھ نہیں۔ اپنے تحقیقی کام کرانے کے سلسلے میں ابھی تم نے نظریۂ ضرورت کی بات کی۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ جدید دور میں دنیا کا کوئی بھی با شعور شخص آسٹریا کے قانون دان ہینز کیلسن (1881-1973: Hans Kelsen) کے نظریۂ ضرورت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اپنی ایک عزیزہ کے حسن و جمال پر اس قدر گھمنڈ کرتے ہوئے بلاوجہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں ایسی باتوں سے بالکل مرعوب نہیں ہوتا۔ جون ایلیا نے سچ کہا تھا:
نہ کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں‘‘
’’اس بات کا فیصلہ تو وقت کرے گا کہ جیت کس کا مقدر بنتی ہے اور مارِ آستین کے ہاتھوں کون ہار کی مار کھائے گا اور کون کس کی جیت پر اُس کے گلے میں ہار ڈالے گا؟۔‘‘ قفسو نے بشیر کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے لاف زنی کا طومار باندھتے ہوئے کہا ’’بڑے بڑے سُگھڑ اور سیانے بھی جب حسن کے کاری تیر کھا تے ہیں تو اُنھیں اپنی زندگی بھاری لگتی ہے۔ یہ مت بھولو کہ لاہور میں جس جگہ تمھارا بیٹا احسن تعلیم کے سلسلے میں تنہا رہتا ہے اسی علاقے میں میرا بیٹا اذکار اپنے تیس وفا دار ساتھیوں کے ساتھ قیام پذیر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کس طرح میری بیٹی صبیحہ کا تحقیقی مقالہ نہیں لکھتے۔‘‘
’’کیا آپ مجھے ڈرا دھمکا کر مقالہ لکھوائیں گے؟‘‘ بشیر نے کسی قدر پریشان ہو کر کہا ’’ہزار خوف میں بھی میری زبان میرے دِل کا ساتھ دیتی ہے۔ آپ کسی طاقت کے زعم میں مبتلا نہ ہوں۔‘‘
’’جو کام چکنی چپڑی باتوں سے کرایا جا سکتا ہو اس کے لیے طاقت استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ قفسو نے نفرت اور حقارت کے ملے جلے جذبات سے کہا ’’دنیا میں ایسے کئی خوب صورت جال موجود ہیں جن میں مناسب دانہ پھینک کر تم جیسے انا پرست لوگوں کو نہایت آسانی سے پھانسا جا سکتا ہے۔‘‘
’’ہم بے نیل مرام لوٹنے کے عادی نہیں۔‘‘ صبیحہ نے غیظ و غضب کے عالم میں کہا ’’میری ماں اور میں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے ہم تمھاری انا کو موت کے گھاٹ اُتار کر دم لیں گے۔ وہ دِن دُور نہیں جب میرا تحقیقی مقالہ مکمل کرنے کے لیے تم کچے دھاگے سے کھنچے میرے گھر چلے آؤ گے۔‘‘
بشیر نے یہ باتیں سنیں تو اس نے دل تھام لیا اور بولا ’’کس دِن کی بات کی جا رہی ہے۔ جس دِن میں نے کوئی بے اصولی کی وہ دِن میری زندگی کا آخری دِن ہو گا۔ شیر فاقے سے مر تو سکتا ہے مگر کبھی گھاس نہیں چر سکتا۔ شاہین پرواز سے تھک کر کبھی نہیں گرتا، میں اپنارزق خاک راہ میں کیوں تلاش کروں گا۔ شیر بھوک کی سختی سے غار میں پڑا موت تو قبول کر سکتا ہے مگر اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی سگِ آوارہ کا نیم خوردہ شکار کھا کر اپنی بھُوک مٹائے۔ اگر کبھی ایسا دِن آیا تو کون دیکھے گا؟مجید امجد نے شاید اس قسم کے واقعات کے بارے میں اپنے خدشات کو ان اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔
جو دن کبھی نہیں بِیتا وہ دِن کب آئے گا
اِنہی دِنوں میں اِس اِک دِن کو کون دیکھے گا
اُس ایک دِن کو جو سُورج کی راکھ میں غلطاں
اِنہی دِنوں کی تہوں میں ہے کون دیکھے گا
اُس ایک دِن کو جو ہے عمر کے زوال کا دِن
اِنھیں دِنوں میں نمو یاب کون دیکھے گا
یہ ایک سانس جھمیلوں بھری جُگوں میں رَچی
اِس اپنی سانس میں کون اپنا اَنت دیکھے گا
اس اپنی مٹی میں جو کچھ اَمِٹ ہے مٹی ہے
جو دن ان آنکھوں نے دیکھا ہے کون دیکھے گا
میں روز اِدھر سے گُزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب اِدھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
دو رویہ ساحل دیوار اور پسِ دیوار
اِک آئینوں کا سمندر ہے کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا
میرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
تڑخ کے گرد کی تہہ سے اگر کہیں کچھ پھول
کھِلے بھی کوئی تو دیکھے گا کون دیکھے گا
قفسو نے انتہائی غصے اور اشتعال انگیز انداز میں بشیر کی طرف دیکھ کر زمین پر تھوکتے ہوئے کہا ’’وہ دن ہم یقیناً دیکھیں گے اور تم بھی لازماً دیکھو گے۔ ساری دنیا دیکھے گی کہ تمھاری انا کا حصار ٹُوٹے گا اور تم ہمارا کام مکمل کر و گے۔‘‘
دوپہر ڈھل رہی تھی چاروں مہمان پھنکارتے ہوئے بشیر کے مہمان خانے سے باہر نکلے تو سب کی آنکھوں میں سورج کی تیز شعاعوں کے نیزے گڑے تھے مگر وہ چکنے گھڑے صبیحہ کی نئی ٹیوٹا پراڈو کار کے پاس اس انتظار میں کھڑے تھے کہ شاید جانے والوں کو روکنے کے لیے بشیر باہر نکل آئے۔ بشیر نے آہ بھری اور سر جھکا کر کچھ سوچنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد جھارا بھی صبیحہ کی نئی کار میں بیٹھ گیا اور کار سٹارٹ کر دی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اہلیہ، ساس اور سالی بھی غیظ و غضب کے عالم میں کار میں بیٹھ گئیں۔ کار کا دروازہ کھڑاک سے بند ہو گیا۔ کون جانتا تھا کہ مکڑ وال کے پیشہ ور ٹھگوں، عادی دروغ گو، کینہ پرور اور عیار فریب کاروں کے دغا و دُزدی کا نیا باب کب کھلے گا۔
گردشِ ایام سدا بشیر کے ساتھ رہی، اُن دنوں بشیر کے بر گشتہ طالعی کا یہ عالم تھا کہ جب بھی وہ فلک سے ابر رحمت کی التجا کرتا تو سُورج سوا نیزے پر آ جاتا اور آگ برسانا شروع کر دیتا۔ پانچ جولائی 2017 کی سہ پہر دھُوپ ڈھلنے کے ساتھ ساتھ بشیر کا مقدر بھی ڈھل رہا تھا۔ شام کا وقت تھا حسب معمول بشیر اپنے بڑے بیٹے ساجد کے کمرے میں اس کے ساتھ دم لینے کے لیے لیٹ گیا۔ اچانک نوجوان ساجد نے اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ضعیف باپ سے کراہتے ہوئے کہا:
’’مجھے سینے میں شدید درد محسوس ہو رہا ہے۔‘‘
پانچ جولائی کا سورج غروب ہو چکا تھا، رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی۔ بشیر کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مقدر کی تاریکیوں نے اس کے گھر کو گھیر لیا ہے۔ اپنے بیٹے کی دردانگیز کراہ سن کر بشیر تڑپ اُٹھا اور اپنے بیٹے کو لے کر مقامی ماہر امراض قلب کے پاس پہنچا۔ ماہر معالج نے طبی معائنہ کرنے کے بعد فوری طبی امداد کے طور پر ساجد کے لیے کچھ دوائیں دیں اور ساتھ ہی خون کے کچھ ٹیسٹ تجویز کیے۔ اس کے ساتھ ہی یہ تاکید بھی کر دی کہ خون کے یہ نمونے تجزیے کے لیے کراچی کی بڑی لیبارٹری کے مقامی مرکز میں جمع کرا دئیے جائیں۔ لیبارٹری سے خون کی تجزیاتی رپورٹ ملنے کے بعد دِل کے درد کا سبب معلوم ہو جائے گا اور مرض کی تشخیص کے بعد صحیح علاج شروع ہو گا۔ معالج کی ہدایت کے مطابق خون کے نمونے اور مطلوبہ فیس لیبارٹری کے مقامی مرکز میں جمع کرا دئیے گئے۔ لیبارٹری کے مہتمم نے بتایا کہ اس کا ریزلٹ چھے جولائی 2017 کی شام کو آن لائن دیکھا جا سکے گا۔ بشیر اپنے نوجوان بیٹے ساجد کو ساتھ لیے گھر پہنچا۔ ساجد کے کمرے میں دیوار پر لگے کلاک پر نو بج رہے تھے ہر طرف سناٹا تھا۔ ساجد نے ایک پیالی دودھ پیا اور صرف دو بسکٹ کھائے، دوا لی اور اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ بشیر کی بھوک مر گئی تھی وہ جاگ رہا تھا مگر اس کا مقدر سو گیا تھا۔ بشیر اور اس کی اہلیہ بے چینی اور اضطراب کے عالم میں تھے اور اپنے نوجوان بیٹے کی صحت اور سلامتی کی دعا مانگ رہے تھے۔ صبح کے دو بجے تو بشیر نے کہا:
’’اب چھے جولائی کا دن شروع ہو گیا ہے آج شام ساجد کے خون کے نمونوں کا نتیجہ کراچی کی تجربہ گاہ سے آن لائن ہو جائے گا۔ امراض قلب کے مقامی ماہر کے مشورے سے صحیح علاج شروع ہو گا۔‘‘
’’ہم ساجد کو علاج کے لیے لاہور، ملتان یا اسلام آباد لے جائیں گے۔‘‘ بشیر کی اہلیہ نے گلو گیر لہجے میں کہا ’’ساجد کی زندگی بچ جائے خواہ ہمارے گھر میں کچھ باقی نہ رہے۔‘‘
صبح کے اڑھائی بجے تھے ساجد کروٹیں بدل رہا تھا۔ بشیر اپنے نوجوان بیٹے کی تکلیف کو محسوس کر کے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا چھوٹا بیٹا تعلیم کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھا۔ جب پونے تین بجے تو ساجد اُٹھ بیٹھا اس نے کلمۂ طیبہ کا وِرد شرع کر دیا۔ ساجد کے باپ، ماں، اور چھوٹی بہن نے بھی بلند آواز سے آیات قرآنی کی تلاوت شروع کر دی۔ چند لمحوں کے بعد ساجد نے اپنے والد، والدہ اور چھوٹی بہن سے مخاطب ہو کر کہا:
’’میں اپنے مرحومین دادا، دادی، چچا اور بہن کوثر کے پاس جا رہا ہوں۔ آپ سب کو میرا سلامِ آخر ہو۔ میرا یہ آخری سلام لاہور میں زیر تعلیم میرے چھوٹے بھائی احسن تک پہنچا دینا۔ اللہ حافظ۔‘‘
ساجد نے بلند آواز سے کلمۂ طیبہ پڑھا، اس کی دونوں آنکھیں مُند گئیں اور ساجد کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ساجد کے خون کی وہ تجزیاتی رپورٹ جس کا نتیجہ چھے جولائی کی شام کو ملنے کی توقع تھی فرشتۂ اجل نے وہ نتیجہ چھے جولائی کو صبح تین بجے بشیر کے سامنے رکھ دیا۔ اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لحظہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے۔ بشیر کے گھر کے آنگن سے قزاق اجل نے وہ پھول توڑ لیا جس نے سب افرادِ خانہ کو حواس باختہ، نڈھال اور غرقاب غم کر دیا۔ بشیر کے گھر کا ہنستا بولتا چمن جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ نوجوان بیٹے کی اچانک وفات کے صدمے نے اس خاندان کے سب افراد کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیا۔ تقدیر کے اس وار سے بشیر کی روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو گیا۔ وہ اُمید ہی رخصت ہو گئی جس کے دم سے بشیر کی زندگی کا سفر افتاں و خزاں کٹ رہا تھا۔ بشیر کا دِلِ حزین دائمی مفارقت دینے والے اپنے نوجوان بیٹے ساجد کی یادوں سے معمور تھا۔ اس جوان رعنا کے ساتھ گزارے ہوئے مہ و سال کی کہانی بشیر کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی روانی میں موجود تھی۔ اپنے ضعیف والدین کی وفات پر نوجوان اولاد جب انھیں سپرد خاک کرتی ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دائمی مفارقت کے صدمے کا یہ زخم مندمل ہو جاتا ہے مگر جب ضعیف والدین اپنے نوجوان لختِ جگر کو لحد میں اُتارتے ہیں تو وہ زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ نوجوان اولاد کی وفات کے جان لیوا صدمے کا زخم ضعیف والدین قبر میں بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ اپنے نو جوان بیٹے کے جسدِ خاکی کو لحد میں اُتار کر بشیر نے ردائے ماتم اوڑھ لی اور قبر کے کنارے کھڑے ہو کر دعائے مغفرت کے بعد پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے لختِ جگر کی قبر کی طرف دیکھا اور ندا فاضلی کے یہ شعر پڑھے:
تمھاری قبر پر
میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمھاری موت کی سچی خبر جس نے اُڑائی تھی
وہ جھُوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سُوکھا ہوا پتہ ہوا سے ہِل کے ٹُو ٹا تھا
مری آنکھیں
تمھارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں
وہ۔۔ ۔۔ وہی ہے
جو تمھاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمھارے ہاتھ
میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اُٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمھاری
لغزشوں، ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمھارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لا چاریوں میں تم
تمھاری قبر پر جس نے تمھارا نام لکھا ہے
وہ جھُوٹا ہے
تمھاری قبر میں مَیں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فُرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
نوجوان بیٹے کی یادیں بشیر کی کِشتِ جاں کو سیراب کر رہی تھیں۔ نوجوان بیٹے کے ساتھ گزرنے والے مہ و سال کے پر مسرت ایام کا تقدیر نے بشیر سے بھاری خراج وصول کیا۔ چاند چہرہ شبِ فرقت پہ وار کے اپنی اُمیدوں کے خورشید کو لحد میں اُتار کے بشیر گھر پہنچا گھر کی دیواروں پر اُداسی بال کھولے بین کر ہی تھی۔ بشیر کی آنکھوں سے بیتے دنوں کی روداد جوئے خوں کی صورت میں رواں تھی۔ بشیر کے گھر کے اُداس بام و در میں اب یاس و ہراس کے سوا کچھ باقی نہ تھا۔ امید کے بغیر تو زندگی کا تصور ہی عبث ہے اور اب تو بشیر کی امید اپنی موت پر ہی منحصر تھی۔ بشیر کو یوں محسوس ہوتا کہ اُس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اس کے قلب حزیں اور بے چین روح کے زخموں کے اندمال کے لیے مرہم ثابت ہو رہے ہیں۔ بشیر کے نوجوان بیٹے ساجد کی رحلت کی خبر سُن کر ہر شخص کا دِل دہل گیا۔ اپنے نوجوان بیٹے ساجد کی قبر پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں بکھیرتے وقت بشیر تھر تھر کانپ رہا تھا۔ گھر کے در و دیوار پر مصائب و آلام اور غم کے تاریک سائے بڑھ رہے تھے۔ ہر سفر کا ایک اختتام ہوتا ہے اس سانحہ کے بعد بشیر بھی اپنی زندگی کے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا۔ نوجوان ساجد کی وفات پر شہر کا شہر سوگوار تھا۔ بشیر اپنے جس نوجوان بیٹے کو دیکھ دیکھ کر جیتا تھا وہ آنکھوں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ نوجوان بیٹے کی زندگی کی کہانی ختم ہونے پر بشیر کی زندگی آفاتِ نا گہانی کی بھینٹ چڑھ گئی اور سب حقائق خیال و خواب بن کر رہ گئے۔ یہ ایک سخت مقام تھا اور ہر شخص بشیر کے غم میں برابر کا شریک تھا۔ پروفیسر غلام قاسم خان نے غم سے بے حال اپنے دیرینہ دوست بشیر کو گلے لگاتے ہوئے کہا:
’’اس عالم آب و گَل میں ہر شے مسافر ہے اور زندگی میں ہر مسافت کا ایک اختتام ہوتا ہے نوجوان ساجد بھی اپنی زندگی کا سفر طے کر کے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا ہے۔ گل چین ازل نے بشیر کے گلشن سے اس گل نو خیز کو توڑ لیا جس کی عطر بیزی سے پورا آنگن معطر تھا۔ بلاشبہ یہ تقدیر کا ایسا زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اس موقع پر ہمیں اکسٹھ ہجری میں میدانِ کربلا میں اسوۂ حسینؑ کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
سلام اُن پہ تہ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تُو چاہے‘‘
نوجوان بیٹے ساجد کی الم ناک وفات بشیر کے لیے ایسا بھیانک خواب بن گئی جس نے اس ضعیف استاد کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دیں۔ ساجد کی الم ناک وفات کی اطلاع ملتے ہی خاندان کے سب افراد الم نصیب اور جگر فگار بشیر کے پاس پہنچے اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ ساجد کے سوئم کی دعا کے بعد بشیر کی طبیعت سخت خراب ہو گئی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ اہلَ خانہ الم نصیب اور درماندہ بشیر کو فوری طور پر مقامی معالج کے پاس لے کر گئے۔ بشیر کی طبیعت دیکھ کر ماہر معالج نے آہ بھر کر کہا:
’’نوجوان بیٹے کی وفات کے صدمے کے باعث بشیر شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا ہے۔ زار و قطار رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں پتھرا سی گئی ہیں۔ اس جان لیوا صدمے سے بشیر کو نکالنے کے لیے کسی خوشی کی جستجو لازم ہے۔‘‘
بشیر کا دیرینہ ساتھی رضوان پاس بیٹھا سب باتیں توجہ سے سن رہا تھا۔ اس نے معالج سے کہا:
’’ساجد کے چہلم کے بعد ہم بشیر کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کریں گے۔ جہاں تک میری اور بشیر کی رفاقت کا تعلق ہے یہ نصف صدی کا قصہ ہے یہ کوئی پل دو پل کی بات نہیں۔ میں درد کے اس رشتے کو پروان چڑھاؤں گا اور بشیر کی غم گساری میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھوں گا۔‘‘
’’مصیبت کی اس گھڑی میں ہر چارہ گر کو چارہ گری کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔‘‘ معالج کی آنکھیں پُر نم تھیں اور چہرے پر دکھ نمایاں تھا۔ اس نے بشیر کو دلاسا دیتے ہوئے کہا ’’تقدیر کے چاک کو صرف مخلص اور بے لوث رفو گر ہی سوزنِ تدبیر سے رفو کر سکتے ہیں۔ اگر چارہ گر اس موقع پر چارہ گری سے گریز نہ کریں تو یہ صدمہ لا دوا نہیں۔‘‘
بشیر کے بیٹے ساجد کے چہلم میں دعا اور قرآن خوانی میں شرکت کے لیے رضوان اور قفسو مکڑوال سے فتح جنگ پہنچے۔ اس موقع پر زندگی اور موت کے فلسفہ پر علما نے تقاریر کیں اور صبر و رضا اور مشیت ایزدی کے سامنے عجز و انکسار کے ساتھ سر جھکانے کو بندگی کی پہچان قرار دیا۔
شام ہوئی تو سب مہمان اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہو گئے۔ ساجد کے خالی کمرے میں بشیر تقدیر کے دئیے ہوئے غموں سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ رضوان کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے بشیر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
’’ساجد کی دائمی مفارقت کے صدمے سے تمھارے دِل پر جو گہرا گھاؤ لگا ہے، اُس کا مرہم میں نے تلاش کر لیا ہے۔ تم اپنے چھوٹے بیٹے احسن کی منگنی میری منجھلی بیٹی صبیحہ سے کر دو۔ اس طرح تمھارے گھر سے غم کے بادل چھٹ جائیں گے۔ صرف چھے ماہ بعد ان کی شادی ہو جائے گی۔ اس طرح شب تاریک کی سحر پیدا ہو جائے گی اور تمھارے گھر میں خوشیوں کا ازدحام دیکھ کر غموں کا ہجوم تتر بتر ہو جائے گا۔‘‘
’’ابھی تو احسن کی عمر محض بیس سال ہے اور اس کی تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی۔‘‘ بشیر نے روتے ہوئے کہا ’’نوجوان ساجد کی وفات نے مجھے جذباتی طور منہدم کر کے فکری طور پر مفلس و قلاش کر دیا ہے۔ تم جانتے ہو اس وقت میرا صرف پنشن پر گزارا ہے۔ احسن کی تعلیم کی تکمیل اور اس کے بر سر روزگار ہونے تک اس تجویز پر عمل کرنا کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’تقدیر کے ستم سہنے کے بعد تم تو موہوم خدشوں، بے سر و پا وسوسوں اور اندیشہ ہائے دُور دراز میں اُلجھ کر رہ گئے ہو۔‘‘ رضوان نے معنی خیز انداز میں کہا ’’میری منجھلی بیٹی صبیحہ علم بشریات میں ایم۔ اے کر چکی ہے گزشتہ سات برس سے وہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریسی خدمات انجام دے رہی ہے جہاں سے اسے معقول تنخواہ ملتی ہے۔ صبیحہ نے ایم۔ فل میں داخلہ لے رکھا ہے، تعلیمی مراحل تو طے ہو گئے ہیں اب صرف تحقیقی مقالہ باقی رہ گیا ہے۔ شادی کے بعد صبیحہ مکڑوال کے بجائے فتح جنگ میں رہے گی۔ اگر ضرورت ہوئی اور تم نے اجازت دی تو وہ فتح جنگ کے کسی نجی تعلیمی ادارے یا کسی جامعہ میں تدریسی خدمات کے لیے درخواست دے سکتی ہے۔‘‘
’’میرے بیٹے احسن اور تمھاری بیٹی صبیحہ کی عمروں میں فرق ہے۔‘‘ بشیر نے کہا ’’اس سلسلے میں مجھے پہلے اپنے بیٹے، اہلیہ اور بیٹی کو اعتماد میں لینے کا موقع دیں۔‘‘
’’اللہ کریم پر آپ سب توکل کریں اور مجھ پر اعتماد کرو‘‘ رضوان نے بشیر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’میں مانتا ہوں کہ میری بیٹی صبیحہ تمھارے بیٹے احسن سے دس سال بڑی ہے۔ تم بھی تو مجھ سے بڑے ہو اب تم اپنے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے مجھ پر شفقت کرو۔ اب دِل بڑا کرو اور میری بات مان لو۔ تم دو دِن کے بعد مکڑوال پہنچو تاکہ منگنی کو حتمی شکل دی جا سکے۔‘‘
ہجوم یاس و ہراس کے نرغے میں آنے والا وہ الم نصیب انسان جو اپنے نوجوان لختِ جگر کی دائمی مفارقت کی گھڑی کو قریب سے دیکھ چکا ہو اُس کی نا اُمیدی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ بشیر کی اُمید کا انحصار خود اس کی ذات پر اجل کے متوقع وار کے انتظار پر تھا۔ اس کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا تھا اور پیہم شکستِ دِل کے باعث وہ بے حد گھبرا گیا تھا۔ ساجد کی وفات کے صدمے نے بشیر کے صبر و قرار اور سکون قلب کی دنیا اُجاڑ دی۔ اس سانحہ کے بعد اُس کے فکر و خیال کی وادی میں ویرانی اور اُداسی کا سناٹا مسلط ہو گیا۔ تقدیر نے اُسے قلعۂ فراموشی کا محصور بنا دیا۔
ٹیلی فون پر رضوان کے مسلسل اصرار کے بعد بشیر نے اپنے اہلِ خانہ سے مشورے کے بعد مکڑوال جانے کا قصد کیا۔ اپنی ایک ٹیلی فون کال میں رضوان نے منگنی کے سلسلے میں اس بات پر اصرار کیا کہ صبیحہ کے لیے شایان شان زیورات اور ملبوسات لائے جائیں۔ رضوان نے اپنے پیغام میں کہا:
’’صبیحہ کے لیے بہت سے بیرون ملک مقیم سفارت کاروں، اہلِ ثروت، اعلا عہدوں پر فائز افسران، جاگیرداروں، تاجروں اور صنعت کاروں کے اعلا تعلیم یافتہ نوجوان بیٹوں کے رشتے آ رہے ہیں۔ ہم نے تمھارے طالب علم بیٹے کو یہ رشتہ دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ تم صبیحہ کے لیے سونے کی چار چوڑیاں، سونے کی ایک انگوٹھی، ایک بیش قیمت گھڑی اور تین عمدہ ریشمی ملبوسات لیتے آنا۔‘‘
محدود وسائل اور ان جانے خوف کے باوجود بشیر نے رضوان کی یہ فرمائش پوری کر دی اور بازار سے یہ سب چیزیں خرید لیں۔ رضوان کا مطلوبہ سامان ساتھ لے کر شام کے وقت بشیر اور اس کی اہلیہ مکڑوال پہنچے۔ رضوان کے گھر میں سب لوگوں نے مِل کر شام کا کھانا کھایا۔ عشا کی نماز کے بعد رضوان نے اپنی بیٹی صبیحہ اور بشیر کے بیٹے احسن کی منگنی طے کر دی۔ بشیر کی بیوی عزیز نے ریشمی لباس کے تین جوڑے صبیحہ کو دئیے، بیش قیمت گھڑی، سونے کی انگوٹھی اور سونے کی چار چوڑیاں صبیحہ کو پہنائیں۔ رضوان نے تلاوت کی اور اس کے بعد رضوان نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے۔ رضوان نے اپنے خالق کے حضور یہ دعا کی:
’’پروردگارِ عالم! احسن اور صبیحہ کا طے ہونے والا نیا جوڑا سلامت رہے اور یہ رشتہ جلد تکمیل کو پہنچے۔ میری بیٹی صبیحہ جلد اپنے سسر بشیر کے گھر میں راحت، مسرت اور شادمانی کی نوید لے کر پہنچے اور وہاں یہ سدا خوش رہے۔ میرے خالق! تو رحم فرما تقدیر نے ساجد کی الم ناک وفات کی صورت میں بشیر کے دِل پر جو گہرا زخم لگایا ہے، مسقبل قریب میں ہونے والی احسن اور صبیحہ کی شادی بشیر کے دل پر لگنے والے تقدیر کے زخم کا اندمال کر سکے۔‘‘
رضوان نے اپنے خالق کے حضور خشوع و خضوع سے جو دعا مانگی اسے سن کر بشیر اس کی اہلیہ عزیز، بشیر کی بیٹی حفیظ، رضوان کی بیوی قفسو اور بیٹے پتوار نے آمین کہا۔ بشیر کی اہلیہ نے صبیحہ کو تین قیمتی ریشمی لباس، سونے کی چار چُوڑیاں، سونے کی ایک انگوٹھی، ایک عمدہ گھڑی اور پچاس ہزار روپے نقد دئیے۔ اس موقع پر رضوان نے کہا:
’’آج بشیر اور اس کی بیوی خوشیوں کی تلاش میں ہمارے گھر آئے ہیں۔ ان کے خاندان کے ساتھ کئی پشتوں سے ہمارے نہایت قریبی تعلقات ہیں۔ ان لائق صد رشک و تحسین تعلقات کو تازہ رکھنے کی خاطر میں نے اپنی بیٹی صبیحہ کا رشتہ بشیر کے بیٹے احسن کے لیے دے دیا ہے۔ میں اللہ کریم، قرآنِ حکیم اور ختم المرسلین حضرت محمدﷺ کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ اقرار کر رہا ہوں کہ یہ رشتہ فی سبیل اللہ اور غیر مشروط ہے۔ پانچ ماہ بعد احسن اور صبیحہ کی شادی کر دی جائے گی اور صبیحہ مکڑوال چھوڑ کر اپنے سسرالی شہر فتح جنگ روانہ ہو گی۔‘‘
انتہائی راز داری سے ہونے والی اس منگنی کے بعد قفسو نے کہا:
’’بڑے شہروں کے بہت سے امیر خاندان صبیحہ کا رشتہ لینے کے خواہش مند ہیں۔ ہم نے ابھی تک کسی کا مطالبہ نہیں مانا۔ اب یہ منگنی تو صبیحہ کے باپ نے طے کر دی ہے مگر اس کے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ کسی کو اس کے بارے میں کچھ نہ بتایا جائے۔ یہ منگنی ہر حال میں صیغۂ راز میں رکھی جائے۔ میری بیٹی صبیحہ کے لیے تم ریشمی کپڑے کے جو تین سوٹ لائے ہو وہ ہم نے رکھ تو لیے ہیں۔ ہم یہ سوٹ کسی ضرورت مند کو دے دیں گے۔ میری بیٹی بزاز کی دکان پر رکھے کسی تھان سے کٹوائے ہوئے ریشمی سوٹ نہیں پہنتی۔ یہ غیر ملکوں سے درآمد کیے ہوئے ریڈی میڈ سوٹ پہنتی ہے۔ جو جیکٹ اس نے پہن رکھی ہے اس کی قیمت دس ہزار روپے ہے۔‘‘
رضوان نے اپنی اہلیہ کی بات سن کر کہا:
’’صبیحہ کا رشتہ حاصل کرنے کے لیے گزشتہ دس سال سے ہم پر بہت دباؤ ہے۔ اب ہم نے راز داری سے یہ رشتہ طے کر دیا ہے تو اس کے بارے میں مکمل خاموشی ہی مصلحت ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ رقیب، کینہ پرور حاسد اور مہم جُو عناصر کہیں احسن کو نقصان نہ پہنچائیں۔ کم از کم تین سال تک تو تم لوگ اپنے ہونٹوں کو سی لو اور منگنی کی بات کا کسی کو پتا ہی نہ چلے۔ صبیحہ کے لیے لباس کے انتخاب کے لیے آئندہ احتیاط سے کام لینا۔‘‘
بشیر نے یہ باتیں سُن کر دِل تھام لیا اور کہا ’’آپ سچ کہہ رہے ہیں ہم آئندہ محتاط رہیں گے۔ ہم تو اب تک اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ سیکھتے رہے۔ آپ کا خاندان تو سنگِ مر مر کے سوا کسی جگہ پر قدم ہی نہیں رکھتا۔ اپنی مٹی سے محبت ہماری سرشت ہے۔‘‘
رضوان نے اپنی خضاب آلود داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
’’آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے۔ آپ کو نئی نسل کے ذوق اور پسند کا خیال رکھنا چاہیے۔ پچھلے دس بارہ سال سے صبیحہ کا رشتہ حاصل کرنے کے خواہش مند اہلِ ثروت کی طرف سے ہم پر بہت دباؤ رہا ہے۔ نوشتۂ تقدیر کے مطابق جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ تمھاری بھلائی کی خاطر ہم سب کا یہی مشورہ ہے کہ خاموشی سے اور خفیہ طور پر شادی کی تیاری کی جائے۔‘‘
عزیز نے یہ باتیں سنیں تو خاموش نہ رہ سکی اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا:
’’الامان و الحفیظ باپ تاندلا، ماں اکروڑی اور بیٹی کیسر کی جڑ۔ سچ کہتے ہو تمھاری بیٹی تو ماڈل ہے۔‘‘
اس موقع پر رضوان اور اس کی اہلیہ قفسو کی یہ باتیں خلاف توقع تھیں۔ راز داری رکھنے کی تاکید کے ساتھ غیر معمولی احتیاط پر اصرار کی باتیں سن کر بشیر کا ماتھا ٹھنکا اور وہ سوچنے لگا کہ کچھ تو ہے جس کی اس قدر پردہ داری مقصود ہے۔ احسن کی منگنی کے بعد بشیر اور اس کی اہلیہ قدرے سنبھل گئے۔ رات گئے جب وہ رضوان کے گھر سے نکل کر اپنے گھر کے لیے روانہ ہوئے تو وہ بہت پُر اُمید۔ اپنے گھر کے دروازے کے قریب کھڑے رضوان نے بشیر کو تاکید کرتے ہوئے کہا:
’’اپنی ہونے والی بہو صبیحہ کا ایم۔ فل کا تحقیقی مقالہ تو ظاہر ہے اپنے بیٹے کی منگنی کے بعد اب تم خود ہی لکھو گے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ صرف تحقیق کا موضوع میری بیٹی کے پاس ہے وہ مقالہ لکھنے سے قاصر ہے۔ رہ گیا مواد اور ماخذ اکٹھے کرنے کا معاملہ تو یہ اب تمھاری ذمہ داری ہے کیونکہ صبیحہ آج سے تمھاری بہو بیٹی ہے۔ کمپیوٹر پر تحقیقی مقالے کی کمپوزنگ، پرنٹنگ اور جلد بندی بھی تم خود ہی کرا کے لانا۔ یہ کام ایک ماہ میں مکمل کرنا ضروری ہے۔‘‘
بر آمدے میں کھڑی قفسو نے سرگوشی کے انداز میں اپنی بیٹی صبیحہ سے کہا ’’اب یہ بوڑھا اور نگری نگری پھرنے والا صحرائی اُونٹ پہاڑ کے نیچے آئے گا۔ ہر لحاظ سے مکمل مقالہ ملتے ہی ہم بشیر کو اپنے گھر سے ایسے نکال پھینکیں گے جیسے دودھ سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے۔ کالی دیوی سے گہرے مراسم کی بنا پر شہر کی سب عورتیں مجھے قفسو ڈائن کہہ کر پکارتی ہیں۔ کئی جن، بھوت، ڈائنیں، پریاں، آدم خور اور چڑیلیں میرے قبضے میں ہیں۔ اگر بشیر نے ہماری بات نہ مانی تو میں اس کا خون پی جاؤں گی۔ میں نے رضوان کو بھی کالے جادو، سفلی علوم اور اپنی طاقت سے اپنا تابع بنا رکھا ہے۔‘‘
بشیر نے یہ باتیں سُن لیں اُسے ایسا محسوس ہوا کہ اب تو نہ جائے رفتن اور نہ پائے ماندن والا معاملہ بن چکا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا بشیر نے رضوان، قفسو اور صبیحہ کے پیہم اصرار کے بعد اپنے دِل پہ جبر کر کے چار سو صفحے پر مشتمل تحقیقی مقالہ لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔
بشیر اپنی اہلیہ کے ہمراہ رضوان کے گھر سے نکلا تو وہ عجیب مخمصے میں مبتلا تھا۔ بشیر کی اہلیہ نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا:
’’منگنی کے بارے میں راز داری کی تاکید کس لیے؟ مجھے تو دال میں کچھ کالا دکھائی دیتا ہے۔‘‘
بشیر نے اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا:
’’مجھے تو ساری دال ہی کالی دکھائی دے رہی ہے۔ ٹھگوں کے اس صحرا میں وفا کی تلاش میں نکلنے والے آبلہ پا مسافروں کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی تو تعلق کی ابتدا ہے آگے آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
قفسو اور رضوان کی مطلقہ بیٹی سمانہ کی کالا شاہ کاکو میں اگلے ماہ شادی تھی۔ قفسو نے نہایت راز داری سے بشیر سے جہیز کے لیے کثیر رقم ہتھیا لی۔ اس کے ساتھ ہی سمانہ کے جہیز کے لیے کچھ سامان بھی بشیر سے وصول کیا۔ قفسو ملازمت سے ریٹائر ہوئی تو ایک پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پرقفسو کے لیے تحفے تحائف کی خریداری اور مہمانوں کی خاطر مدارت کے سارے اخراجات بھی بشیر کو برداشت کرنے پڑے۔ یہ جونکیں نہایت سفاکی سے آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے بشیر کا خون چوس رہی تھیں۔ بشیر موہوم خوشیوں کی جستجو میں ہر ستم سہنے پر مجبور تھا۔
تقدیر نے بشیر کی کتاب زیست کا ایک اور ورق پلٹا۔ راز داری سے ہونے والی منگنی کے ایک ماہ بعد معدے کی خرابی کے باعث رضوان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ خلقِ خدا کا حلق کون بند کر سکتا ہے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ظالم نائکہ قفسو نے اپنے شوہر کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اسے آہستہ آہستہ اثر کرنے والا زہر دیا ہے۔ ملتان، اسلام آباد، فیصل آباد، سرگودھا اور لاہور کے بڑے ہسپتالوں سے رضوان کا طبی معائنہ کرایا گیا۔ بشیر ہر جگہ اپنے دوست کے ساتھ رہا اور جہاں تک ممکن تھا اس نے اپنے دوست کی نہ صرف تیمار داری کی بل کہ بڑے شہروں کے سفر میں رضوان کے طبی معائنے اور علاج پر اُٹھنے والے سب اخراجات بھی بشیر نے برداشت کیے۔ رضوان کے معدے کے السر کا عارضہ کینسر میں بدل گیا۔ راول پنڈی کے ایک بڑے ہسپتال میں کیموتھراپی کے ذریعے رضوان کا علاج جاری تھا۔ اس دوران میں رضوان کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ اس موقع پر قفسو نے اپنے شوہر رضوان سے کہا:
’’ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اس دنیا سے تمھارا جانا اب ٹھہر گیا ہے۔ اب تم صبح گئے کہ شام گئے۔ سیدھی طرح بشیر سے کہہ دو کہ وہ صبیحہ کا تحقیقی مقالہ تمھاری موت کے بعد جلد مکمل کرے۔‘‘
رضوان نے بشیر کو اپنے پاس بلایا اور گلو گیر لہجے میں کہا:
’’تم جا نتے ہو میں اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوں۔ اگر میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو پھر بھی تم وعدے کے مطابق میری بیٹی صبیحہ کا مقالہ ہر حال میں مکمل کر کے اُسے پہنچا دینا۔ میری بیٹی زندگی بھر تمھارے اس احسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی۔ میری وفا شعار بیٹی صبیحہ جب تمھاری بہو بن کر تمھارے گھر پہنچے گی تو تمھارے گھر کو جنت کا نمونہ بنا دے گی۔‘‘
ان دنوں رضوان کے گھر میں جو بھی رضوان کی عیادت کے لیے پہنچتا تو وہ وہاں موجود اپنے عزیزوں سے مخاطب ہو کر یہی کہتا:
’’بشیر کے مجھ پر بہت احسان ہیں۔ اس کے ساتھ وفا کرنا اور اس کی خدمات کی قدر کرنا۔ صبیحہ اور بشیر کے بیٹے احسن کی منگنی میں نے طے کی ہے۔ میں رہوں یا نہ رہوں کسی شرط کے بغیر شادی کا یہ ایفائے عہد میری اولاد کی ذمہ داری ہے۔ بشیر کے ساتھ میرا نصف صدی کا معتبر ربط ہے اسے زندگی کے ہر مرحلہ پر یاد رکھنا۔‘‘
پانچ مارچ 2018 کی شام کو شہر کے ایک بڑے ہسپتال میں رضوان نے آخری سانس لی۔ مکڑوال کی جنازہ گاہ میں رضوان کا جنازہ پڑھایا گیا۔ رضوان کی میّت نزدیکی شہر خموشاں میں پہنچی تو پس ماندگان گریہ و زاری کر رہے تھے۔ بشیر اور سب سوگواروں نے رضوان کا آخری دیدار کیا۔ لحد تیار تھی جب رضوان کا جسدِ خاکی لحد میں اُتارا گیا تو بشیر بھی وہاں موجود تھا۔ سب نے باری باری لحد میں مٹی ڈالی اس کے بعد گورکن نے قبر کی زمین ہموار کی۔ بشیر نے بھی رضوان کی قبر پر پھول نچھاور کیے اور دائمی مفارقت دینے والے اپنے دیرینہ رفیق کی روح کو آنسوؤں اور آ ہوں کا نذرانہ پیش کیا۔ رضوان کی تدفین کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔
بشیر بھی دِل گرفتہ اور سوچوں میں گُم لڑکھڑاتا ہوا ان جانی مسافت کی طرف جانے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اچانک ایک اجنبی شخص نے بشیر کا بازو تھام لیا اور اپنے ساتھ لے کر شہر خموشاں کی مغربی سمت روانہ ہو گیا۔ کچھ دُور فضا کی وسعتوں سے چمکتے ہوئے سات ہیولے دکھائی دئیے اور جب زمین پر اُترے تو وہ انسانی رُوپ دھار چکے تھے۔ ان پر اسرار انسانوں نے ایک جیسا لباس پہنا ہوا تھا۔ ان میں چار مرد اور تین عورتیں تھیں۔ ان میں سے ایک کے سر پر دستار فضیلت تھی جو شکل و صورت اور جاہ و جلال کی وجہ سے اُن کا سردار معلوم ہوتا تھا۔ وہ سب بشیر اور اس کے پاس کھڑے شخص کی طرف بڑھے۔ یہ پر اسرار مہمان جب قریب آئے تو وہ بشیر کے پاس کھڑے شخص سے عجیب نامانوس سی زبان میں باتیں کرنے لگے۔ جلد ہی تکلم کا یہ سلسلہ توڑتے ہوئے بشیر کو پریشان حال اور درماندگی میں تھامنے والے بزرگ نے کہا:
’’میرے پیارے بشیر! تم نے اپنی زندگی میں بہت فریب کھائے ہیں۔ آج تم اپنے دیرینہ ساتھی رضوان کو سپردِ خاک کر چکے ہو۔ اب یہ بات اچھی طرح جان لو کہ رضوان نے تمھارے ساتھ جو عہد و پیمان کیا تھا وہ بھی آج رضوان کے ساتھ اس کی قبر میں دفن ہو گیا ہے۔‘‘
دوسرا پر اسرار شخص بولا ’’یہ دنیا بہت ظالم ہے یہاں وفا کا بدلہ سدا بے وفائی کی صورت میں ملتا ہے۔ ہمیں دھوکا دیا نہیں جاتا بل کہ ہم خود دھوکا کھانے کے لیے پہلے سے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ جب عزت نفس اور ذاتی وقار کا خیال نہ رکھا جائے توحسن و جمال کے جلوے سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ برادران یوسف سے فریب کھا کر اندھے کنویں میں گرنے سے بہتر ہے کہ اُن کو جُل دے کر جان بچائی جائے۔ خلوص و وفا کے پیکر جب محبت میں فریب کھاتے ہیں تو کوئی اُن کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ اس ضعیفی میں مزید دھوکا نہ کھاؤ اور دبے پاؤں واپس اپنے گھر چلے جاؤ۔ اب تک تم نے جو حسین خواب دیکھے ہیں وہ محض سراب اور فریب نظر ہیں۔‘‘
’’تم سب کون ہو؟ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں اب آپ سب کی باتیں سُن کر میں زندگی سے بیزار ہو گیا ہوں۔‘‘ بشیر کی خود رائی نے ہمیشہ اسے دھوکا دیا۔ اس مرتبہ بھی اس کی خوشیوں کا انحصار رضوان کے خاندان کی وفا کے مفروضے پر تھا، اس نے روتے ہوئے کہا ’’آپ عجیب اجنبی ہیں تقدیر کے زخم کھانے کے بعد میں تو سمجھا تھا کہ آپ مرہم بہ دست آئے ہیں مگر آپ کی باتیں سن کر میرا دِل گھبرا گیا ہے۔ مجھ غریب پر ترس کھاؤ اور مجھے اپنے گھر جانے دو۔ اجل نے مجھ سے آفتاب و ماہتاب تو چھین لیے ہیں ہجومِ یاس و ہراس سے گھبرا کر ناچار میں نے اب ایک ٹمٹماتی ہوئی موہوم مشعل سے ساری اُمیدیں وابستہ کر لی ہیں۔‘‘
’’تم اپنے رفتگاں کو بھُلا چکے ہو مگر ہم تو تمھیں اب بھی یاد کرتے ہیں۔ ہمیں پہچانو ہم تمھارے اپنے ہیں۔ ماضی کے واقعات اور ان سے وابستہ شخصیات کو یاد رکھا کرو۔ اپنے رفتگاں کا ذکر تمھیں ہر قسم کے فکر سے آزاد کر دے گا۔ جو دِلوں میں بس جاتے ہیں موت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے کٹھن حالات میں زندگی بسر کرنے کا ڈھب سیکھو۔ پر اسرار مہمانوں نے باری باری اپنا تعارف کرایا۔‘‘
یہ تو بشیر کا دادا صالح محمد، والد سلطان محمود، بڑا بھائی شیر محمد، چھوٹا بھائی منیر حسین، بڑا بیٹا سجاد حسین، والدہ اللہ وسائی، بیٹی کوثر پروین اور بہن عزیز فاطمہ تھیں۔ سب سے پہلے جس بزرگ نے بشیر کا ہاتھ تھاما تھا وہ اس کا باپ سلطان محمود تھا۔ جو بشیر کو دیکھ کر آہیں بھر رہا تھا۔ سجاد حسین اور کوثر پروین اپنے بوڑھے باپ کی حالت دیکھ کر حسرت و غم کی تصویر بن گئے تھے۔ سجاد حسین اور کوثر پروین آگے بڑھے اور اپنے ضعیف باپ سے لپٹ گئے۔ بشیر کے دادا صالح محمد نے سب سے مخاطب ہو کر کہا:
’’میرے فریب خوردہ پوتے بشیر! زندگی کے واضح حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کرنے والے اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ اب تک تم سرابوں کے عذابوں پھنسے رہے ہو۔ جب تک تم اپنے ذہن و ذکاوت کو اپنی ذاتی مرضی اور خواہشات کے مطابق استعمال کرنے کی استعداد پیدا نہیں کر لیتے اس وقت تک تم اس قماش کے عیاروں کے خطر ناک کھیل میں کٹھ پتلی بنے رہو گے۔ اب بھی وقت ہے مکڑوال کے عادی دروغ گو اور سفلہ ٹھگوں کے چُنگل سے نکل کر اپنے آبائی شہر فتح جنگ بھاگ جاؤ۔ اب گزرے ہوئے وقت اور اس دور کی باتوں کو دہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ برف پوش پہاڑ کی سر بہ فلک چوٹی پر پڑا بہت بڑا برفانی تودہ جب سیلِ زماں کے تھپیڑے کھا کر لڑھکتا ہوا پگھل کر پانی کی شکل میں دریا کا روپ دھارتا ہے تو وہ اپنے ماضی کو کب یاد رکھتا ہے؟ اب تو اس کی نگاہ میں دریا کی تلاطم خیز موجوں کی روانی اور طغیانی ہوتی ہے۔ وسیع میدانوں سے گزرتا ہوا یہ دریا جب سمندر میں شامل ہوتا ہے تو اس کی طویل مسافت کی سب روانی محض ایک کہانی بن کر رہ جاتی ہے۔ مکڑوال کے ان شاطر تلنگوں نے کئی گھروں کو بے چراغ کر کے وہاں کے مکینوں کو مست ملنگوں میں بدل دیا۔ مقدر کے ستاروں کے ضو فشاں ہونے سے پہلے دِل کی حسرتوں اور ارمانوں کے داغوں کی بہار ہر انسان کو اشک بار کر دیتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے ٹھگوں کے اس عادی دروغ گو گروہ کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ ان کے گھر کے سب افراد اپنے تئیں گامن سچیار جیسا راست گو ظاہر کرتے ہیں۔ بہ قول شاعر:
کوئی جھوٹا نہیں ہے اس گھر میں
سارے سچے ہیں کیا تماشا ہے‘‘
عزیز فاطمہ نے روتے ہوئے کہا ’’میرے بھائی! مکڑوال کے یہ احسان فراموش درندے تمھیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے رہے ہیں۔ رضوان کے پس ماندگان ہوا کا رخ دیکھ کر تیزی سے بدل جانے والے لوگ ہیں۔ یہ موقع پرست پیمان شکن کبھی بھی رضوان کے عہد و پیمان کا خیال نہیں رکھیں گے۔ انھوں نے ہمیشہ جھوٹ بولا مگر تمھاری سادگی پر رونا آتا ہے کہ تم نے ان کے صریح جھوٹ کو ہمیشہ بلا چون و چرا تسلیم کر لیا۔ حکیم سارق، ملک کمال اور اس کے بیٹے رافع سے پوچھو صبیحہ کی آرزو میں ان پر کیا گزری۔ ان عیاروں پر اعتماد کر کے در اصل تم نے اپنی ذات کو دھوکا دیا ہے۔ اب صبر کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔‘‘
’’بابا! تم اکیلے نہیں جو مکڑوال کے ان دغا باز محسن کشوں کے تیرِ ستم کھا چکے ہیں۔‘‘ سجاد حسین نے کہا ’’ان ظالموں نے اس شہر کے کئی گھر ویران اور تہس نہس کر دئیے۔ میرے ضعیف باپ پر کوہ ستم توڑنے والے فطرت کی سخت تعزیروں سے غافل نہ رہیں۔ آزمائش کی اِس گھڑی میں ہم سب کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘
بشیر نے روتے ہوئے کہا ’’بھائی رضوان کی اولاد میرے ساتھ دغا و دُزدی کیوں کرے گی؟ صبر ایوبؑ اور گریۂ یعقوبؑ کو شعار بنا کر میں نے مقدور بھر ان کے ساتھ وفا کی ہے۔‘‘
شیر محمد نے کہا ’’میرے عزیز بھائی بشیر! تم بہت سادہ لوح ہو، میری بات یاد رکھو کہ رضوان کی وفات کے بعد اس کے گھر کے حالات بدل گئے ہیں۔ قفسو کی بیٹی صبیحہ کے ظاہری حسن و جمال اور جعلی عقیدت نے تمھیں دھوکے میں مبتلا کر دیا۔ صبیحہ جس مہارت سے سعادت مندی کی اداکاری کرتی رہی تم اس سے دھوکا کھا گئے۔ قفسو کے قحبہ خانے کی جن مکار حسیناؤں کی جعلی مسکراہٹوں، چاہتوں اور گل افشانیِ گفتار کے تم گرویدہ ہو گئے تمھاری عدم موجودگی میں وہ سب ناک بھوں چڑھا کر تمھارے خلوص، وفا اور ایثار کا مذاق اُڑاتے تھے۔ تم رضوان کو بھائی کہہ رہے ہو مگر اس کی اولاد تمھیں اپنا بزرگ یا چچا تسلیم نہیں کرتی۔ میں تو یہی کہوں گا:
بھاگ اِن بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ڈالیں گے گے جو یوسف سا برادر ہووے‘‘
دعائے نیم شب سے فارغ ہو کر بشیر نے حسبِ معمول فغاں صبح گاہی میں امان کی تلاش شروع کر دی۔ ہمیشہ کی طرح وہ فلک پر ٹمٹمانے والے ستارے گن کر رات گزارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بشیر کا اب اپنے دل سے معاملہ تھا وہ حیرت و استعجاب کے عالم میں خود کلامی کرنے لگا:
’’زندگی کے جان لیوا صدمات جو گزشتہ سات عشروں میں مجھ ناتواں کو برداشت کرنے پڑے سیلِ زماں کے تھپیڑوں نے انھیں وقت بُرد کر دیا۔ میرا ہنستا، مسکراتا اور گل افشانیِ گفتارسے رنگ بکھیرتا چمن اجل کے بے رحم ہاتھوں سے دائمی سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جنھیں میں دیکھ دیکھ کر جیتا تھا وہ احباب کیا گئے کہ موسمِ بہار بھی مجھ سے رُوٹھ گیا۔ میں نے مشیتِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے دل کے ٹکڑے چاند چہروں کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اُتارا۔ یہ آفتاب و ماہتاب جب سے تہہ ظلمات نہاں ہوئے اس کے بعد مقدر کی بھیانک تاریک رات میں گھر کے اُداس، بام کھُلے در اور ویران آنگن سائیں سائیں کرنے لگا۔ صوفیا کا کہنا ہے کہ دائمی مفارقت دینے والے حشر تلک خاموش رہتے ہیں لیکن میرے رفتگاں تو میری مسیحائی کی خاطر آج مرہم بہ دست میرے سامنے موجود ہیں اور اُن سے تکلم کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر خموشاں میں اپنی آخری آرام گاہ کو چھوڑ کر میرے یہ سب مُونس یہاں کیسے پہنچے۔ انھیں محو التفات دیکھ کر زمین دِل کے مانند کیوں دھڑ کر ہی ہے؟ دائمی مفارقت دینے والے یہی کہتے ہیں کہ اب ملاقات قیامت کے دن ہو گی۔ کیا قیامت برپا ہونے والی ہے؟‘‘
نزدیکی مسجد کے موذن نے صبح کی پہلی اذان دی تو بشیر جوں ہی فجر کی نماز کی تیاری کے لیے اُٹھا سب غم گسار غائب ہو گئے۔ بشیر نے اپنے رفتگاں سے ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں کسی سے کوئی بات نہ کی۔ کچھ صدمات، سانحات، تجربات اور مشاہدات ایسے بھی ہوتے ہیں جو گویائی سلب کر لیتے ہیں اور ہاتھوں سے قلم چھین لیتے ہیں۔
بشیر نے دن رات ایک کر کے چار سو صفحات کا مقالہ مکمل کر کے رضوان کی وفات کے ایک ماہ بعد صبیحہ کے گھر پہنچا دیا۔ ہر لحاظ سے مکمل مقالہ جب صبیحہ کے ہاتھ لگا تو اُس کا روّیہ ہی بدل گیا۔ طوطا تو اپنی نگاہیں بدلنے میں بلاوجہ بدنام ہے۔ اس طالبہ نے تو احسان فراموشی اور محسن کشی میں بروٹس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ عالمِ خواب میں بشیر کے اندیشے حقیقت میں بدل گئے۔ صبیحہ نے ضعیف معلم بشیر کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا اور مقالہ ملنے کے بعد کبھی اس بوڑھے اُستاد کے دِلِ شکستہ کا حال تک نہ پُوچھا۔ بشیر کو بہت بعد میں رضوان کے خاندانی حالات معلوم ہوئے۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی خراب تھا کردار کے اعتبار سے سب مفلس و قلاش یہاں جمع ہو گئے تھے۔ ضعیف معلم بشیر کے لکھے ہوئے مقالے کو شعبۂ امتحانات میں جمع کرانے کے دو ماہ کے بعد نتیجہ آیا اور صبیحہ کو ڈگری مِل گئی۔ مکر کی چالوں سے ڈگری ہتھیا لینے کے بعد اب یہ پِدی بڑی ڈھٹائی سے شاہین کو ہیچ قرار دیتی۔ قفسو نے اپنی بیٹی کی کامیابی کی خوشی کے اس موقع پر بھی بشیر سے اپنی بیٹی کے لیے تحفے تحائف، مٹھائی، قیمتی ملبوسات اور بیس ہزار روپے بٹور لیے۔ ہر عید، شب برات، ملاقات، خوشی و غم اور قفسو کی شادی شدہ بیٹیوں کے ہاں اولاد کے جنم کے موقع پر بھی بشیر کی جیب کاٹ لی جاتی۔ لُوٹ مار کا سلسلہ جاری تھا مگر حالات کا زخم خوردہ بشیر سرابوں کے صحرا میں بھٹک رہا تھا۔ بشیر کی کوئی امید بر نہ آتی اور نہ ہی مکر و فریب اور ٹھگی کے اس کھیل سے بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی تھی۔
مکڑوال کی عورتیں جو قفسہ کی محرم راز تھیں وہ یہ بات بر ملا کہتیں کہ اپنے شوہر رضوان کی موت کے بعد قفسو نے بیوگی کی چادر اوڑھ لی اور نو سو چوہے نگل کر یہ صحرائی چڑیل گربہ مسکین بن کر عدت میں بیٹھ گئی ہے۔ عدت کے سوگ کے دنوں میں بھی قفسو چڑیل بشیر کے خون پسینے کی کمائی پر ہاتھ صاف کرتی رہی۔ آندھیوں، گردباد اور بگولوں سے بچنے کے لیے قفسو کے گھر میں رضوان کی صورت میں جو خام سی دیوار موجود تھی اجل کے ہاتھوں اس کے گرتے ہی ہر ایلا خیلا، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، لچے، شہدے اور تلنگے نے ان کے صحن میں رستے بنا لیے۔ قفسو کی ہم پیشہ، ہم مشرب و ہم راز قحبہ خانے کی مکین طوائفیں یہ بھی کہتیں کہ رضوان کے راہیِ ملک عدم ہوتے ہی قفسہ کے گھر سے شرم و حیا، احترام انسانیت، وضع داری اور اخلاق نے بھی رختِ سفر باندھ لیا۔ جنس و جنوں، حرص و ہوس، موقع پرستی، اور طوطا چشمی نے صبیحہ کے علم و نسوانیت پر دبیز پردہ ڈال دیا اور اس کا دامن تمام اخلاقی محاسن سے تہی ہو گیا۔ اپنے گھونگھٹ کا پٹ کھول کر یہ حسینہ سدا کسی نہ کسی پیا کے ملنے کی منتظر رہتی۔ وہ اس مقام پر پہنچ گئی تھی جہاں اس کے پرستار اس کے ذوق کی تسکین کے لیے ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔ اپنے شوہر رضوان کی موت کے بعد قفسو کی بڑھتی ہوئی انسان دشمنی، کینہ پروری اور سادیت پسندی کی وجہ سے مکڑوال کی عورتیں اُسے چڑیل اور ڈائن کہہ کر پکارتی تھیں۔ بصیرت سے متمتع صاحب الرائے لوگوں کا خیال تھا کہ قفسو کی ساری اولاد منشیات، بد اخلاقی، عریانی اور فحاشی کے محیط میں تھی۔ کالی دیوی کی پرستار اور کالی زبان والی سبز قدم قفسو کو کالے جادو، ٹونے اور سفلی علوم میں مہارت حاصل تھی۔ اپنے شکار کو جھوٹے وعدوں، جعلی ترغیب و تحریص، حسن و جمال کی جھلکی اور جنس و جنوں کی تحریک سے اپنے چنگل میں پھنسانا اس کٹنی کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ سو پشت سے قفسو کے خاندان کا پیشہ ٹھگی تھا۔ ممتاز مفکر، مورخ اور دانش ور ضیا الدین برنی (1285-1357) نے اپنی تصنیف تاریخ فیروز شاہی (1356) میں بر صغیر میں ٹھگی کی جن لرزہ خیز وارداتوں اور ان کے پس پردہ کار فرما محرکات کا ذکر کیا ہے۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قفسو کا خاندان ان ٹھگوں کا سرغنہ رہا۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر میں برطانوی وائسرائے ولیم بینٹنک (William Bentinck) نے اپنے عہد حکومت (1833-1835) میں ان جلاد منش پیشہ ور ٹھگوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا۔ ولیم بینٹنک نے جن چار سو بارہ (412) ٹھگوں کو دار پر کھنچوایا ان میں زیادہ تر قفسو کے آباء و اجداد تھے۔ اپنے اس خاندانی پس منظر کے باعث یہ رذیل نائکہ ہر عورت کو کاٹنے کے لیے دوڑتی اور ہر عمر کی شادی شدہ عورت کو بد دعا کرتی اور غراتے ہوئے کہتی:
’’تقدیر نے مجھے بیوگی کی چادر اوڑھنے پر مجبور کر دیا ہے اور میں نے اپنے دل میں شادی کی یادوں کو بچا بچا کے اور سجا سجا کے رکھا ہوا ہے۔ جس شادی شدہ عورت نے میری بات نہ مانی اور میرے ڈھب پر نہ آئی میں اس کے شوہر کا دھڑن تختہ کر دوں گی اور اسے بھی میری طرح بیوگی کی چادر سنبھال سنبھال کر رکھنی پڑے گی۔‘‘
رضوان نے اپنے بیٹے پتوار کی شادی اپنی بہن کی بیٹی سے کر دی۔ سرِ شام ہی خچر بیچ کر مُردوں سے شرط باندھ کر سو جانا پتوار کا وتیرہ تھا۔ اخلاق اور شائستگی سے بے بہرہ اس نا خلف، احسان فراموش، خام خیال اور گستاخ عیاش نے اپنی نیک اہلیہ کو طلاق دے دی اور دو مرتبہ طلاق لینے والی ایک عورت کو نکاح کے بغیر خفیہ طور پر اپنی شریک جرم ساتھی بنا لیا۔ اس عورت کی پچھلی شادی سے ایک بچی بھی تھی اس کی کفالت بھی اسی متفنی کے ذمے تھی۔ بازار کی مٹھائی کا دلدادہ اور منشیات کا عادی پتوار یہ بات برملا کہتا کہ وہ محض ایک بیوی پر اکتفا نہیں کر سکتا۔ اس لیے وہ کئی طوائفوں کی زلفوں کی چھاؤں میں دم لینے کے لیے رکتا ہے۔ جس طرح نعمت خان کلانونت نے جاہ و منصب اور زر و مال کے حصول کے لیے لال کنور پر انحصار کیا اُسی طرح اخلاق اور کردار سے تہی پتوار کا بھی صبیحہ پر انحصار تھا۔ خرچی سے ہونے والی آ مدنی سے پتوار کے گھر کی کایا پلٹ گئی۔ اس ابلہ کے گھر میں عجیب جھمکا تھا جس طرف نگاہ اُٹھتی چور، ٹھگ اور اُچکا دیکھ کر ہر درد مند انسان ہکا بکا رہ جاتا۔ بشیر جب بھی اس کندۂ نا تراش کی اخلاق باختگی اور شرم ناک جنسی جنون پر گرفت کرتا تو یہ آگ بگولا ہو جاتا۔ اس ابلہ کے دل میں ضعیف بشیر کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ اپنے محسن کے ساتھ دھوکا کرنا بے شرمی، بے غیرتی اور بے ضمیری کی انتہا ہے۔ بشیر کو جذباتی طور پر منہدم کرنے کے سلسلے میں پتوار نے اپنی ماں سے مِل کر رشتے ناتوں کا ایک الجھا ہوا جال تیار کیا۔ بشیر اور اس کے اہلِ خانہ تہ دام تڑپ رہے تھے مگر کوئی ان کا پرسانِ حال نہ تھا۔
احسن کی شادی کی تاریخ طے کرنے کے سلسلے میں قفسو ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتی اور یہی کہتی کہ پہلے اپنے بیٹے کی تعلیم تو مکمل ہو لینے دو۔ جب لاہور میں احسن کی تعلیم مکمل ہو گئی اور وہ اپنے گھر آ گیا تو احسن کی شادی کی تاریخ طے کرنے کے سلسلے میں بشیر 12۔ جو لائی 2018 کو قفسو کو اپنی آمد سے مطلع کر کے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر مکڑوال پہنچا۔ اس بار قفسو اور اُس کے فرزند پتوار کی مشاورت کے بعد 21۔ جون 2019 کو احسن اور صبیحہ کی شادی پر اتفاق رائے ہو گیا۔ شادی کی تاریخ دینے کے ایک ماہ بعد قفسو اور اس کی اولاد کی بد نیتی اور فریب کاری کھل کر سامنے آ گئی۔ سب سے پہلے قفسو کے قحبہ خانے کی رذیل طوائف تگوشہ نے ہر جگہ یہ کہا کہ قفسو نے شادی کی کوئی تاریخ دی ہی نہیں بشیر نے یوں ہی بے پر کی اُڑا دی ہے۔ اس کے دو ماہ بعد ندیدہ جنسی جنونی پتوار نے نہایت ڈھٹائی سے بشیر کو جھٹلایا اور اپنی طرف سے دی گئی شادی کی تاریخ سے منحرف ہو گیا۔ ایک ماہ مزید گزر گیا ایک شام قفسو کہیں سے گھومتی ہوئی بشیر کے گھر آ پہنچی، اس نے غراتے ہوئے کہا:
’’یہ تم لوگوں نے شادی کی تاریخ کا ڈھنڈورا پیٹنا کیوں شروع کر دیا ہے۔ ہم نے تو کوئی تاریخ ابھی تک طے ہی نہیں کی۔‘‘
اس صریح جھوٹ کو سُن کر اور قفسو کی لُوٹ مار کو دیکھ کر بشیر کا دِل بیٹھ گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ رضوان کے ساتھ اس نے جو معاہدہ کیا تھا وہ آشوبِ زمانہ کے باعث رضوان کی تدفین کے ساتھ ہی زیر زمین چلا گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس معاہدے کے بارے میں سب خدشات درست ثابت ہو رہے تھے۔
گزشتہ چند ماہ سے بشیر کو نہایت اعصاب شکن حالات کاسامنا تھا۔ اِدھر بشیر اپنے گھر میں اپنے بیٹے کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اُدھر قفسو نے اپنے مکر کی چالوں سے بشیر کی باتوں کی تغلیط اور حقائق کی تمسیخ میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ قفسو کے حوصلہ شکن روّیے نے بشیر کو عجیب مخمصے میں ڈال دیا۔ اٹھائیس مارچ 2019 کو بشیر کو معلوم ہوا کہ قفسو آج مکڑوال سے فتح جنگ پہنچی ہے اور اپنے دیور ایاز کے گھر ٹھہری ہے۔ بشیر نے ایاز کو فون کیا کہ قفسو سے کچھ ضروری باتیں کرنے کی غرض سے وہ اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ لے کر ایاز کے گھر آنا چاہتا ہے۔ ایاز نے بشیر سے کہا کہ وہ بلا تامل اس کے گھر آ جائے تا کہ مل بیٹھ کر باہم مشاورت سے شکوک و شبہات کو دُور کیا جا سکے۔ بشیر اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ لے کر جب ایاز کے گھر پہنچا تو اس کے گھر کے دروازے کو تالا لگا ہوا تھا۔ گھر کے اندر سے برتن دھونے کی آواز سُن کر اور نل سے پانی بہتا دیکھ کر بشیر سمجھ گیا کہ ایاز کے گھر والے اندر ہیں اور ایاز کہیں باہر نکل گیا ہے۔ ایاز کے گھر کے سامنے ایک خالی میدان میں بشیر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر ایاز کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ درختوں پر زاغ و زغن کے غول کے غول دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ ساتھ والی کھنڈر نما بوسیدہ عمارت کے روشن دانوں سے بُوم و شپر جھانک رہے تھے۔ اسی جگہ کئی کرگس موجود تھے جو کسی مردہ جانور کا ڈھانچہ نوچ کر ابھی واپس آئے تھے۔ تین گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعد ایاز اپنی اہلیہ، بھابی قفسو اور صبیحہ کے ہمراہ گلی کے دوسرے کنارے سے نمودار ہوا۔ رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی بشیر نے اضطراب کے عالم میں ایاز کے گھر میں قدم رکھا۔ اپنی بے بسی کے اظہار کے لیے وہ سب ایاز کے گھر کے صحن میں زمین پر بیٹھ گئے۔ بشیر کی آنکھیں پر نم تھیں اور آواز بھر گئی تھی۔ اس نے آہ بھر کر کہا:
’’ساجد کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے۔ کل ہم اس کی آخری آرام گاہ پر لوحِ مزار نصب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر آپ سب بھی مرہم بہ دست ہمارے گھر آ جائیں تو اللہ کریم آپ کو اس نیکی کا اجر عظیم عطا فرمائے گا۔‘‘
مارچ 2019 کی انتیس تاریخ کو صبیحہ اپنی ماں قفسو اور بہنوئی کے ہمراہ بشیر کے گھر پہنچی تو اس کا شان دار استقبال کیا گیا۔ ساجد کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی ہوئی اِس کے بعد دعا کی گئی۔ بشیر نے اپنے مہمانوں کو اپنے جذبات حزین سے آگاہ کیا اور ساجد کی آخری آرام گاہ پر نصب کیے جانے والے کتبے کے بارے میں کہا:
’’چھے جولائی دو ہزار سترہ کو قادر مطلق نے ساجد کو ہمارے گھرسے جنت کی طرف بلا لیا۔ میرا فرشتہ صفت نو جوان بیٹا ہمارے دِل میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ساجد بیٹے تمھارا نام تو لوحِ دِل پر کندہ ہے یہ لوحِ مزار تو محض رسمِ دنیا ہے۔ یہ مکان تمھاری میراث کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ یادوں کی میراث تو اذہان اور قلوب میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ تمھاری یاد تو آخری سانس تک ہماری ہر فریاد کا موضوع رہے گا۔ میرے لختِ جگر! اپنی دنیا کے صرف تم ہی شناسا ہو مگر ہماری لُٹی ہوئی کائنات کو ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ تمھاری دائمی مفارقت کے نتیجے میں ہم اپنی زندگی کی متاعِ بے بہا سے محروم ہو گئے۔ ہمارے گھر کی زمیں پر کھِلنے والا یہ پھول اب باغ بہشت میں اپنی مہک بکھیر رہا ہے۔ میرے چاند میں تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ میں بہت جلد تم سے آ ملوں گا۔‘‘
اس موقع پر بشیر کی اہلیہ نے اپنی ہونے والی بہو کو پیار سے گلے لگا لیا۔ بشیر کی بیٹی نے اپنے ہونے والی بھابی کا صدقہ اُتارا، قفس میں بند قمریوں کو اس کے سر پر وار کر کھلی فضا میں آزاد کیا۔ صبیحہ پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں، کرنسی نوٹوں کے دس ہار پہنائے گئے جن کی مالیت دس ہزار روپے بنتی تھی۔ بیش قیمت ریشمی لباس اور دس ہزار روپے نقد دئیے۔ بشیر نے اپنی ہونے والی بہو کی راہ میں آنکھیں بچھائیں۔ بشیر کے گھر میں ان سب مہمانوں کے لیے پر تکلف ضیافت کا انتظام کیا گیا تھا۔ اپنے گھر کے آنگن اور کمروں کے مختلف مقامات صبیحہ کو دکھاتے ہوئے بشیر کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ بشیر نے اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر صبیحہ کو بتایا:
’’بیٹی یہ وہ جگہ ہے جہاں تمھارے باپ نے اکتوبر 2017 میں اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے۔ اس جگہ رضوان وضو کرتا تھا اور یہاں نماز ادا کرتا تھا۔ یہ وہ کمرہ ہے جس کے ساتھ باتھ روم ملحق ہے اور یہاں تمام سہولتیں میسر ہیں۔ اس کمرے میں رضوان نے میرے ساتھ پانچ راتیں بسر کیں۔‘‘
بشیر کی اہلیہ عزیز نے رضوان کے یہاں قیام کے حوالے سے کہا:
’’ہمارے گھر میں قیام کے دوران میں ہم نے اپنے بھائی رضوان کی مقدور بھر خدمت کی۔ ہم نے ماہر معالج سے رابطہ کر لیا تھا اور ان کے مشورے سے یہاں بھائی رضوان کا مکمل علاج کرانا چاہتے تھے مگر تمھارے اصرار پر انھیں واپس جانا پڑا۔ وہ جلد از جلد احسن اور صبیحہ کی شادی کرنا چاہتے تھے مگر اجل نے مہلت نہ دی۔‘‘
بشیر گلو گیر لہجے میں کہا:
’’اس جگہ سے میں علی الصبح رضوان کو لے کر مقامی کلینک پہنچا جہاں ان کے خون اور پیشاب کے کچھ ٹیسٹ ہوئے۔ اگلے روز ہم فیصل آباد روانہ ہوئے اور الائیڈ ہسپتال کے ماہر معالج کے نجی کلینک پر پہنچے۔ اس کے بعد راول پنڈی اور سرگودھا میں بھی میں اپنے بھائی رضوان کے ساتھ رہا۔ اس گھر کی فضاؤں میں ان کی یادیں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے ان کی آواز کی بازگشت نہاں خانۂ دِل پر دستک دیتی ہے۔‘‘
قفسو اور صبیحہ یہ سب باتیں سرسری انداز میں سن رہی تھیں ان کے چہرے پر ناگواری اور بے چینی کے اثرات دیکھ کر ایک خوف سا بشیر کے دل میں پیدا ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ خوئے بدرا بہانہ بسیار کے مصداق یہ پیشہ ور ٹھگ کوئی اور قیامت کی چال چلیں گے۔
تیس مارچ 2019 کو بشیر پھر اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ لے کر سرِ شام ایاز کے گھر پہنچا۔ اس مرتبہ بھی وہاں پہلے جیسا حال تھا اس بار بھی ایاز نے اپنی خست و خجالت کا ثبوت دیتے ہوئے پہلے اپنے گھر کا دروازہ باہر سے مقفل کیا اس کے بعد اسی بڑے گیٹ کو اندر سے بھی بند کر دیا۔ رات کے ایک بجے تک وہ ایاز کے منتظر رہے مگر اس بار دروازہ نہ کھلا۔ بشیر نے موبائل فون پر رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر حیران کن بات یہ تھی کہ ایاز، قفسو اور صبیحہ کے سب ٹیلی فون بند تھے۔ بشیر نے باہر سے مقفل ایاز کے گھرکے دروازے پر بارہا دستک دی مگر وہاں تو سب لوگ خچر بیچ کر مُردوں سے شرط باندھ کر سو چکے تھے۔ بشیر اپنے دوشِ غم پہ گلیم اوڑھے، اپنے اہلِ خانہ کو لے کر اپنی حسرتوں پر آ نسو بہاتا ہوا اپنے گھر واپس چلا گیا۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ قفسو اور صبیحہ تو فتح جنگ میں ایاز کے گھر کے اندر خواب اِستراحت کے مزے لے رہے تھے مگر بشیر اور اس کے اہلِ خانہ ایاز کے کوچے میں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے تھے۔ بشیر اور اس کے اہلِ خانہ اس بات سے بے خبر تھے کہ انھیں کن نا کردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی تھی۔
اکتیس مارچ 2019 کی شام قفسو نے اپنے دیور ایاز کے گھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے سب احباب کو جمع کیا۔ اس میں مکڑوال، کالا باغ، تلہ گنگ، فتح جنگ اور اٹک سے اپنے سب عزیزوں کو بلایا۔ پتوار اور ایاز اپنے مکر کی چالوں سے بشیر کو وہاں لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ بشیر جب ایاز کے گھر میں داخل ہوا تو ایاز نے اپنے گھر کا دروازہ اندر سے مقفل کر دیا۔ بشیر کو تنہا دیکھ کر سب لوگ سنگ ملامت لیے بشیر پر ٹُوٹ پڑے اور بے سر و پا الزام تراشی اور دشنام طرازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چھاج تو بولتا مگر یہاں تو چھلنیاں بھی مسلسل بول رہی تھی۔ مینڈک ٹرا رہے تھے، خارش زدہ سگانِ راہ غرا رہے تھے، خر اور استر ہنہنا رہے تھے اور چلتے پھرتے ہوئے مُردے کفن پھاڑ کر ہرزہ سرائی کرنے میں لگ گئے۔ کئی چھپکلیاں شہتیر پر چڑھ دوڑیں اور چمگاڈروں نے بھی کمرے کے ایک گوشے سے بے وقت کی راگنی شروع کر دی۔ ٹھگی اور دغا و دُزدی میں سرمایہ کاری کرنے والے سب اکٹھے ہو چکے تھے۔ بشیر کی حق گوئی اور بے باکی ان اجلاف و ارذال اور سفہا کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتی چلی جا رہی تھی۔ اس لیے انھوں نے اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے بعد بشیر کو اپنی راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔
راسپوٹین کی تقلید کرنے والے پتوار کی ژولیدہ خیالی، کور مغزی، جنسی رغبت، جنسی حسیت، جنسی تحرک، شہوانی آوارگی اور بے بصری نے اُسے شہر بھر میں تماشا بنا دیا تھا۔ وہ عورت کے جسمانی حسن کا اس قدر گرویدہ تھا کہ سبع معلقہ کے شعرا کی طرح ہر وقت عورت کی زلفوں کے جال، لب و رخسار اور عشوہ، غمزہ و ادا کی باتوں میں اپنے جی کا زیاں کر کے ہلکان ہوتا رہتا۔ چور محل میں جنم لینے والے سانپ تلے کے بچھو پتوار کے منھ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ اس نے اپنے باپ رضوان کے معتمد عزیز اور دیرینہ ساتھی بشیر کو قہر بھری نظروں سے دیکھا اور کہا:
’’میں اکیس جون 2019 کو طے کی گئی احسن اور صبیحہ کی شادی کی تاریخ کو منسوخ کرتا ہوں۔ اب اس شادی کی نئی تاریخ طے کرنے سے پہلے ہماری طرف سے چند نئی شرائط ہیں جو تمھیں ہر صورت میں ماننی پڑیں گی ورنہ میں اپنے باپ کے کیے ہوئے کسی وعدے کی پابندی نہیں کروں گا۔‘‘
بشیر نے پتوار کی باتیں سنیں تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ رضوان کے اس نا خلف کپوت کی باتیں سن کر وہ محو حیرت تھا کہ کوئی شخص انسانیت کے معیار سے اس قدر بھی گر سکتا ہے۔ وہ سو چنے لگا کہ ان درندوں کی ٹھگی نے اب عیاری، فریب کاری اور افرادی قوت کے بل بوتے پر اسے نیچا دکھانے کا تہیہ کر لیا ہے۔ ان کے شر سے بچنا اب بہت کٹھن مرحلہ ثابت ہو گا۔ پتوار کی دھمکی آمیز گفتگو سن کر بشیر سوچنے لگا رضوان کی وصیت اب کہاں رہ گئی ہے۔
شہر کا بدنام نو سر باز، جواری اور منشیات فروش اپاہج خیاط ’’عتابی‘‘ جو قفسو کی نند کا شوہر تھا‘ بشیر سے مخاطب ہو کر مغلظات بکنے لگا اور یوں ہرزہ سراہوا:
’’تمھارا بچہ ابھی زیر تعلیم ہے اور قفسہ کی بیٹی صبیحہ ملازمت کر رہی ہے۔ صبیحہ کے لیے رشتوں کی کمی نہیں اس کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک رشتہ آ رہا ہے۔ میں یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ رضوان نے تمھارے خاندان میں کیا خوبی دیکھ لی کہ اپنی اعلا تعلیم یافتہ اور بر سرِ روزگار بیٹی تمھارے اُس بیٹے کو دے دی جو ابھی زیر تعلیم ہے اور جس کا ابھی تک کوئی روزگار بھی نہیں۔‘‘
بشیر کے سامنے بیٹھا کالا باغ کا پیشہ ور بد معاش جھارا مسلسل پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اس نے آستینیں چڑھا لیں اور بشیر کی طرف بڑھا مگر بشیر نے جھارا کی بد کلامی اور گالیوں پر کوئی توجہ نہ دی۔ ظالموں کے اکٹھ کے سامنے تنہا بشیر کیا کر سکتا تھا وہ بے بسی کے عالم میں سر جھکا کر بیٹھا رہا۔
بشیر کی پریشاں حالی، درماندگی اور بے بسی کو دیکھ کر قفسو نے فاتحانہ انداز میں بشیر کی طرف غصے اور حقارت سے دیکھا اور ہرزہ سرا ہوئی:
’’میرے مرحوم شوہر رضوان کے طے کیے ہوئے اس رشتے کے لیے اب ہماری کچھ شرائط ہیں کان کھول کر سن لو۔ ہم سے صبیحہ کی شادی کی نئی تاریخ لینے سے پہلے تم اپنے مکان اور سب املاک بلا تاخیر صبیحہ کے نام کراؤ گے۔ صبیحہ تمھارا آبائی مکان اور نیا مکان فی الفور فروخت کر کے ملنے والی رقم سے اپنے لیے مکڑوال میں قطعۂ زمین خرید کر اپنے نام کرائے گی اور وہاں نیا مکان تعمیر کرائے گی۔ تمھاری بیوی کے وہ سب زیورات جو بنک کے لاکر میں محفوظ ہیں وہ وہاں سے واپس لے کر تم کل ہی صبیحہ کے حوالے کر دو۔ صبیحہ مکڑوال میں نوکری بھی کرے گی اور اس کی رہائش بھی اپنی ماں کے ساتھ ہو گی۔ مشترکہ خاندان کا تصور ہم نہیں مانتے اس لیے تمھارا طالب علم بیٹا تو تعلیم مکمل کرنے اور بر سرِ روزگار ہو کر شادی کر کے مکڑوال میں رہے گا مگر اس کے باقی اہلِ خانہ مکڑوال ہر گز نہیں آ سکتے۔ تم سب اپنے لیے فتح جنگ میں کرائے کا کوئی مکان تلاش کر لو۔ اپنی پنشن کے لیے تم صبیحہ کے بنک کھاتے کا نمبر دے دو جس میں پنشن آ جائے گی۔ گزر بسر کے لیے پچاس روپے یومیہ تمھیں دئیے جائیں گے۔‘‘
بشیر نے گلو گیر لہجے میں کہا: ’’میں تمھارے سفاکانہ فریب اور شاطرانہ ٹھگی کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کر سکتا۔ رضوان نے تو ہمیں صبیحہ کا رشتہ فی سبیل اللہ اور غیر مشروط طور پر دیا تھا۔ فطرت کی سخت تعزیروں سے ڈرو ظالمانہ فریب کاری سے تم نے مجھ ناتواں سے جو فائدے اُٹھائے ہیں اُن کا خمیازہ تمھیں اُٹھانا پڑے گا۔ تمھاری شرم ناک عیاری اب کھُل کر سامنے آ چکی ہے۔ تم نے دو سال تک مجھ سے جو خدمات حاصل کیں اُن کا صلہ تم مجھے دشنام طرازی، حقارتوں اور پیمان شکنی کی صورت میں دے رہی ہو۔ تمھاری باتوں میں کچرا، گالی فریب کے سوا کیا ہے؟ اگر میری وفاؤں کا صلہ دینا اور ایفائے عہد تمھارے بس سے باہر تھا تو دو سال تک مجھے ناحق اذیت و عقوبت میں کیوں مبتلا رکھا؟ آج کے بعد خواہ تم سچ بھی بولو گے تو معاشرتی زندگی میں اب کوئی بھی تمھاری بات کا یقین نہیں کرے گا۔ رضوان کی وصیت کا کچھ خیال کر لو تمھاری اس عہد شکنی سے اس کی روح کس قدر بے چین ہو گی۔‘‘
’’کیسی وصیت، کس کی وصیت اور کہاں کے عہد و پیمان؟ رضوان کی بات کوئی وحی و الہام نہیں۔‘‘ قفسو نے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے کہا ’’جو کچھ رضوان نے کہا وہ تو سب کچھ تو صبیحہ کا تحقیقی مقالہ لکھوانے کے ڈرامے کے لیے اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا سکرپٹ تھا۔ رضوان تو محض ایک کٹھ پتلی تھا اور میں اس کی ڈوری کھینچتی تھی۔ میں نے سب کچھ تمھیں بتا دیا زیادہ باتیں نہ بناؤ، اب تم جا سکتے ہو۔ تمھاری متاع علم و ادب لُٹ چُکی ہے اور تمھارے ترکش کے سب تیر ضائع ہو چکے ہیں۔ ہم نے تو محض صبیحہ کی سندی تحقیق کے لیے ایم۔ فل کا تحقیقی مقالہ لکھوانے کے لیے یہ ڈرامہ کیا تھا۔ اب کان کھول کر سن لو ہماری شرائط کے بارے میں اپنا جواب ہمیں آج شام تک دے دینا۔ اب میں کسی نئے شکار کی تلاش میں نکلنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔‘‘
قفسو کی ظالمانہ فریب کاری کے کھیل پر مبنی سکرپٹ کا آخری منظر سامنے آ چکا تھا۔ برق اور قرق جو پہلے در بہ در تھے اب دیواروں پر غاصبانہ قبضہ کر چکے تھے۔ دربان اور فراش اپنے مکر کی چالوں سے درباروں کے مالک بن بیٹھے تھے۔ جعل ساز مسخرے اور بونے اپنی عیاری اور فریب کاری کے بل بوتے پر اب باون گزے بن بیٹھے تھے۔ بشیر نے اسی وقت لاہور میں تعلیم کے سلسلے میں مقیم اپنے بیٹے احسن سے موبائل فون پر رابطہ کیا تو اس نے اپنے ضعیف باپ کو دلاسا دیتے ہوئے کہا:
’’بابا! اللہ کریم پر بھروسا رکھیں اور پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ ابھی ان موقع پرست لوگوں کو بتا دو، رضوان کی وصیّت سے ہٹ کر کوئی نئی شرط منظور کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔‘‘
عیار و مفاد پرست قفسو اور صبیحہ کا کریہہ چہرہ دیکھ کر بشیر دنگ رہ گیا۔ کواکب جس طرح ہمارے سامنے آتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے۔ یہ بازی گر ہمیں کھُلا دھوکا دیتے ہیں مگر ہم ان کی چال سے بے خبر رہتے ہیں۔ رشتے کا وہ نرم و نازک پودا جو بشیر نے رضوان کی خواہش کے مطابق کِشتِ جاں میں بویا تھا اُسے بشیر نے پیہم دو برس تک اپنے خونِ جگر سے سینچا۔ ظالم و سفاک، موذی و مکار قفسو نے حرص و ہوس کے تیشے سے اُسے جڑسے اُکھاڑ کر پھینک دیا اور صبیحہ نے اسے پامال کر دیا۔ واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ ایثار، وفا، خلوص اور دردمندی سے لبریز بشیر اور اس کے اہلِ خانہ کا روّیہ ایک عجیب طلسم تھا۔ قفسو اور اس کے پروردہ جو فروش گندم نما سفہا نے محسن کشی، احسان فراموشی، موقع پرستی اور طوطا چشمی کے قاتل تیشوں نے ایثار پیشہ اورسراپا خلوص ساونتوں کے جسم چیر کر رکھ دئیے۔
بشیر اور اس کی اہلیہ عزیز کی اُمیدوں کے نشیمن پر یہ خبر بجلی بن کر گری، ان کی بیٹی حفیظ حیران تھی کہ تقدیر کے ہاتھوں اُس کے ضعیف والدین کی سب تدبیریں ایک بار پھر اُلٹی ہو گئی ہیں۔ بشیر اور اس کی اہلیہ عزیز عارضہ قلب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ بشیر یہی کہتا ہے کہ عادی دروغ گو، پیشہ ور ٹھگوں، عیار موقع پرستوں اور مفاد پرست دغا بازوں کی پیمان شکنی اور محسن کشی نے ساجد کی الم ناک وفات کے زخم تازہ کر دئیے ہیں۔ امیدوں کی فصل اس بار بھی ہوس پرستوں نے غارت کر دی جس کے نتیجے میں بشیر کی پیہم دو برس کی صبح شام کی محنت اکارت چلی گئی۔ بشیر سے ملنے والے اکثر اجنبی لوگوں کا خیال ہے کہ جب ہم بشیر جیسے سادہ لوح شخص کو دیکھتے ہیں تو ہم اس سے ہمدردی پر مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سادیت پسندوں کے نشانے پر رہنے والے اس بے ضرر شخص نے پے در پے دھوکا کھانے اور تیرِ ستم سہنے کے باوجود آج تک کسی کے ساتھ دھوکا نہیں کیا۔ مصائب و آلام اور یاس و ہراس کے گرداب میں گھرے بشیر کو جھوٹے وعدوں اور طفل تسلیوں نے سدا دھوکا دیا۔ لالہ وگل کی رنگینی اور عطر بیزی نے بشیر کو اس قدر مسحور کر دیا کہ اس نے شاخ گل کے ساتھ لگے خاروں پر کبھی توجہ نہ دی۔ پھولوں سے آراستہ ملبوسِ بہار کی تیاری کے شوق میں اس کی اُنگلیاں خاروں میں اُلجھ کر فگار ہو گئیں اور زندگی بھر کے پچھتاوے اس بے بس و بے ضرر انسان کا مقدر بن گئے۔ بشیر خود بھی اپنی حقیقت کا شناسا نہیں وہ یہ بات نہ سمجھ سکا کہ کواکب بھی بازی گر کے مانند فریب کرتے ہیں یہ جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے۔ وہ بشیر جس کے بحرِ خیالات کا پانی بہت گہرا تھا وہ اب کہیں موجود نہیں وہ مصائب کے ہجوم میں کہیں گم ہو گیا۔ اس کی موجودہ شخصیت تو اس وجود کا ایک سایہ ہے۔ اسے دھوکا دینے والے خود دھوکا کھا گئے۔ سچ تو یہ ہے بشیر کا وجود تو چھے جولائی 2017 کو ساجد کی دائمی مفارقت کے ساتھ ہی پیوندِ خاک ہو گیا تھا۔ بشیر اب سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پورے کر رہا ہے اور اُس پر زندگی کی ناحق تہمت لگی ہے۔ واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ نوجوان ساجد کی رحلت کے بعد جو بھی فیصلے ہوئے وہ ضعیف معلم بشیر کے سائے نے کیے۔ سادیت پسند اب نہتے اور ناتواں ضعیف معلم بشیر پر جو کوہِ ستم توڑ رہے ہیں وہ سائے پر وار کرنے اور سراب پر ضرب لگانا خود اپنی ذات کو خراب ہونے کے مترادف ہے۔
بشیر کے مخلص احباب، درد آشنا غم گسار اور واقف حال لوگ جب اس سانحہ کے بارے میں بشیر سے سوال کرتے ہیں کہ رضوان کے پس ماندگان نے رضوان کی وصیت کا خیال کیوں نہ رکھا؟ تم اپنے دِل کے ارمان کہاں چھوڑ آئے ہو اور کن لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات کے نتیجے میں یہ رشتۂ جاں ٹُوٹ گیا۔ ضعیف معلم دامن جھاڑ کر خالی ہاتھ گھر لوٹ آیا اور سوچنے لگا کہ لوگ کس طرح ہاتھوں کی لکیروں سے باہر نکل کر نگاہوں سے گِر جاتے ہیں۔ ایام گزشتہ کے بارے میں جب وہ مخلص احباب کی باتیں سنتا ہے تو وہ عرضِ حال کرنے کے بجائے لب اِظہار پر تالے لگا لیتا ہے اور اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہیں۔ شکستہ عہد و پیمان کی مثال بھی سنگِ حرص وہوس کی ٹھوکر کھا کر کرچیوں میں بٹ جانے والے آئینوں کی سی ہے۔ ان آئینوں کی کرچیاں چن کر دامن میں سجانے والوں کی اُنگلیاں فگار اور دل داغ دار ہو جاتا ہے۔ ان دنوں ضعیف معلم بشیر گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر پیمان شکنی اور محسن کشی کی اس لرزہ خیز اور اعصاب شکن واردات کو یاد کر کے آہ و فغاں اور فریاد کرتا ہے اور اپنے دِلِ حزیں کو درد و کرب سے آباد کرنے کی سعی میں وقت کو برباد کرتا ہے۔ مسرتوں اور شادمانیوں کی جستجو میں اُس نے جو خواب دیکھے تھے اُن کی مثال بھی ان پروانوں کی سی ہے جو روشنی کی تلاش میں شمع فروزاں پر جل جاتے ہیں اور صبح کے وقت اُن کے نرم و نازک پر شمع پر جلنے کے بعد رزقِ خاک ہو جاتے ہیں۔ جب پروانے ہی نہیں رہے تو شکستہ پروں کو سنبھالنے کا کیا فائدہ؟ جب وعدہ نبھانے والے ہی پاسِ وفا سے منحرف ہو گئے تو ان کے الفاظ کو دہرانا بے معنی ہے۔ وعدوں کے الفاظ تو ہوائے حرص و ہوس اور طمع و خود غرضی کے بگولوں کی زد میں آنے کے بعد ہوا ہو جاتے ہیں۔ تکلیف، درد، کرب، اذیت، عقوبت، ملامت اور آفاتِ ناگہانی اگرچہ مختلف الفاظ ہیں مگر ان سب کا مفہوم اور تاثیر ایک جیسی ہے۔ یہ سب الفاظ روح اور دِل و جگر کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔
ضعیف معلم بشیر کی سالہا سال کی سخت محنت سے تعمیر کیے گئے اعتماد اور وفا کے قصرِ عالی شان کو ہوس پرست قفسو، اس کی کینہ پرور اولاد، طوطا چشم صبیحہ اور اس اجلاف و ارذال عشاق نے بے وفائی کی خونی کدال سے پلک جھپکتے میں مسمار کر دیا۔ مجبوریِ حالات کی زدمیں آنے والے ضعیف معلم بشیر کے بارے میں مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ دُور کے ڈھول سہانے سمجھ بیٹھا جب قریب پہنچا تو ڈھول کا پول کھل گیا اور عادی دروغ گو ٹھگوں کا قبیح کردار اور کریہہ چہرہ دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ زمانے کی پھٹکار اور جہاں بھر کی دھتکار پتوار، جھابو، اذکار، عتابی، ایاز، مشبہ، صبوحی، قفسو، تسمی اور شگن کا مقدر بن گئی ہے۔ سفہا اور اجلاف کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے ان ننگ انسانیت آدم خوروں کی بے ضمیری اور بے حسی حدِ ادراک سے بھی بڑ ھ چکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داخلی طور پر مشکوک نسب کے ان درندوں کی جون بدل چکی ہے اور آئینہ دیکھ کر اپنا سا منھ لے کر رہ جاتے ہیں۔ کوڑے کے ہر ڈھیر کو سونگھنے اور وہاں سے مفادات کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے ان خارش زدہ سگان راہ کو احساسِ ذلت دلانے، عہد و پیمان سے انحراف پر مبنی بھُولی ہوئی داستان سنانے کے لیے ان کی پھولی ہوئی، حقائق کو بھُولی ہوئی اور عفونت زدہ دُم پر پاؤں رکھ کر جب انھیں فیض احمد فیضؔ کی نظم ’’کتے‘‘ سنائی جاتی ہے تو یہ غراتے ہوئے کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔
کتے
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کُتّے کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار، سرمایہ ان کا جہاں بھر کی دھتکار، ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اِک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اُکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اُٹھائے تو انسان سب سر کشی بھُول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں یہ آقاؤں کی ہڈّیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہِلا دے (نقشِ فریادی)
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید