سوانحی خاکہ
اصل نام: سید محمد حسین
تخلص: قمر
پیدائش : ۱۸۸۷ قصبہ جلالی ضلع علی گڑھ
خاندانی سلسلہ: آباء و اجداد کا سلسلہ مشہور ایرانی شخصیت سید نجیب علی ہمدانی سے جا ملتا ہے جن کے نام پر آج بھی نجیب علی کا نگلا نامی گاؤں آباد ہے۔
آباء و اجداد کا پیشہ : مدتوں سپہ گری رہا۔ جو خدمات کے صلہ میں بعد کو زمین داری میں تبدیل ہو گیا۔ خود استاد کے پاس بھی خاصی زمین تھی لیکن فیاضانہ مزاج و دریا دلی نے انہیں گردش روزگار سے آگاہ کیا۔
جلالی کا ماحول: گھر گھر علم و ادب کا چرچا تھا۔ شعر و ادب کی محفلیں اکثر گرم رہا کرتی تھیں۔ استاد کے والد گرامی سید غلام سجاد حسین خود بھی صاحب ذوق تھے۔ اور شعر بھی کہتے تھے لیکن مشاعروں میں بحیثیت شاعر کبھی شرکت نہ کرتے تھے۔ اسی ماحول میں استاد نے آنکھ کھولی۔
تعلیم و تربیت: اس زمانے میں آج کی طرح سکولوں اور کالج جگہ جگہ نہ تھے لہذا استاد نے گھر پر ہی تعلیم حاصل کی تھی۔
شاعری کی ابتداء: استاد کو شاعری وراثت میں ملی تھی۔ اس پر ماحول نے گویا جلا کر دی نتیجہ میں ابھی ان کی عمر آٹھ سال کی ہی تھی کہ اشعار موزوں کرنے لگے۔ آواز میں غضب کا درد رفتہ رفتہ مشق سخن کے ساتھ ساتھ ان کی شہرت قصبہ جلالی کی حدود میں سے نکل گئی۔ اسی زمانے میں استاد کا ایک قطعہ بہت مشہور ہوا تھا۔ فرماتے ہیں؛
جیسا کہ مجھ کو عشق ہے اس گل بدن کے ساتھ
بلبل کو بھی نہ ہو گا وہ شاید چمن کے ساتھ
جان اب کے بچ گئی تو قمر عہد بھی ہے یہ
اب دل لگائیں گے نہ کبھی سیم تن کے ساتھ
ازدواجی زندگی: ۱۹۲۹ میں محترمہ کنیز فاطمہ سے شادی ہوئی جن سے کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ صرف ایک صاحب زادی ہیں استاد گرامی: دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی ان کی عمر ۲۴ سال ہی تھی کہ جلالی اور علی گڑھ کے اکثر نوجوان اور جوان شعراء انہیں اپنا کلام دکھانے لگے تھے۔ لیکن وہ خود شرمندگی محسوس کرتے تھے اور اسی لگن نے انہیں اس وقت کے مشہور استاد اور پختہ کار شاعر حضرت مینائی سے وابستہ کر دیا تھا۔ روایت ہے کہ انہوں نے حضرت امیر مینائی کی شان میں زانوئے ادب تہہ کرتے وقت یہ قطعہ بھی ان کی نذر کیا تھا۔
ازل سے معتقد حضرت امیر ہوں میں
اسی لکیر پہ اب تو قمر فقیر ہوں میں
زر قلیل نہیں ہوں کہ دیکھ لے دنیا
جو دفن رہتی ہے وہ دولت کثیر ہوں میں
ہجرت: تقسیمِ ملک کے باعث استاد قمر جلالوی کو بھی ہجرت کرنی پڑی اور گیارہ ستمبر ۱۹۵۸ کو وہ اپنے اہل و عیال اور مجھ حقیر [فضا جلالوی] کے ساتھ پاکستان تشریف لے آئے تھے۔
شہرت و اعزاز: استاد قمر جلالوی کو بہت جلد برصغیر میں وہ شہرت حاصل ہو گئی جس کے لیے لوگ تمنا کرتے ہیں۔ جب تک ہندوستان میں رہے وہاں بھی اور پاکستان آنے کے بعد یہاں بھی کوئی اہم اور قابلِ ذکر مشاعرہ ایسا نہ ہتھا جس میں وہ شریک نہ ہوئے ہوں۔
حکومتِ پاکستان نے ۱۹۵۹ میں ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے ڈیڑھ سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کیا۔
دوسری بار ۱۹۶۶ ء میں صدر مملکت نے پانچ سو روپے انہیں ایک بڑے جلسے میں عطا فرمائے۔
مزاج: استاد بہت سا دہ لو اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ اتنی قدرو منزلت کے باوجود غرور اور تمکنت کا نام نہ تھا۔ محفل میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ وہ بڑے خوش فکر، خوش طبع، اور دل کے غنی تھے۔ کسی کی تکلیف نہ دیکھ سکتے تھے۔ ضرورت مند کو جو کچھ موجود ہوتا دے دیتے تھے۔ بچوں میں بچے اور بڑوں میں بڑے تھے۔ تحریر بہت پختہ تھی کسی کام میں عار نہ تھا۔ معاش کے لیے بہت جتن کیے لیکن گردشِ روزگار نے تین سے نہ بیٹھنے دیا یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں دردِ دل کے ساتھ غم روزگار کی تصویر بھی جگہ جگہ ملتی ہے۔ استاد نے طویل عمر پائی۔ اکیاسی سال کی عمر میں بعارضہ یرقان کراچی میں انتقال فرمایا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
تاریخ انتقال: ۲۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء
معروف شاگرد: برصغیر میں یوں تو استاد کے بے شمار شاگرد ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں جو اب منکر ہو چکے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو کسی اور کے شاگرد ہونے کے باوجود اصلاح لیتے رہے۔ بہرحال معروف شاگردوں میں جناب شبیر۔ خورشید علی، خورشید، جناب سجاد حسین ہدف، سری کشنپر شاد بہار، سری راج بہادر اوج، سری راج نرائن ساجد، ٹھاکر کرن سنگھ کرن، اور پاکستان میں مسٹر دہلوی، جناب ایاز بجنوری، جناب حافظ بریلوی، ، جناب مخمور بھوپالی، جناب عطاء اللہ بخاری، جناب اعجاز رحمانی، جناب پرنم الہ آبادی، جناب سرور کانپوری اورفضا جلالوی (شاگرد رشید استاد قمر جلالوی)