فہرست
بد دعا کرنے والے
میں یہ انتہائی قدم نہ اٹھاتا۔
لیکن ناگہانی طور پر پیش آنے والے واقعات کے بعد میں بہت دل برداشتہ ہو گیا تھا۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں تھی کہ میں ان سے انتقام لے سکتا اور نہ ہی قانون کے ذریعہ انہیں سزا دلوا سکتا تھا۔ انصاف کی طرف جو راستے جاتے تھے ان کے ہر موڑ پر ایسے راہزن بیٹھے ہوئے تھے جو مال و متاع بھی لوٹ لیتے اور وہاں تک پہنچنے بھی نہیں دیتے۔ یہ بڑی اذیت ناک صورت حال تھی۔ ایک آزاد اور جمہوری ملک میں ظلم و نا انصافی کے ایسے مناظر اس کے خد و خال کو مسخ کرتے تھے۔ اس چھوٹے سے شہر کے ایک چھوٹے سے گھر میں میری رہائش تھی۔ گھر پر میری دائمی مریضہ بیوی اور ایک سن بلوغ کو پہنچ چکی بیٹی تھی۔ میں ایک نجی کمپنی میں ملازم تھا۔ دن بھر کی محنت شاقہ کے عوض مہینے کے آخر میں تنخواہ کے نام پر جو رقم ملتی تھی وہ ہم تینوں کی کفالت کے لیے ناکافی تھی۔ اس پر میری بیوی کی دواؤں کا خرچ ایک اضافی بار تھا۔ وہ تو میری بیٹی بے حد حساس اور سمجھدار تھی کہ اس نے کالج میں داخلے کے بعد ہی کچھ ٹیوشن پکڑ لیے تھے جن سے نہ صرف اس کے تعلیمی اخراجات پورے ہو جاتے بلکہ گھر کی دیگر ضروریات کی مد میں بھی تھوڑی مدد ہو جاتی تھی۔ کالج سے آنے کے بعد وہ کھانا کھا کر تھوڑی دیر آرام کرتی اور پھر بچوں کو پڑھانے نکل جاتی۔ رات نو بجے تک اس کی واپسی ہوتی تو وہ بیحد تھکی ہوئی ہونے کے باوجود کھانا پکانے میں اپنی بیمار ماں کی مدد کرتی۔ رات دس ساڑھے دس بجے کے قریب میں گھر آتا اور کھا پی کر سو جاتا۔ عجب بے رس اور تیرہ زدہ زندگی تھی۔ امید کی بس ایک ننھی سی کرن تھی کہ میری بیٹی تعلیم مکمل کر کے کسی معقول ملازمت سے لگ جائے گی تو شاید ہمارے خزاں رسیدہ شب و روز میں تھوڑی سی بہار آ جائے لیکن یہ امید کی کرن بھی۔۔۔۔۔۔۔
ایک رات میری بیٹی نے قدرے جھجھکتے ہوئے بتایا کہ جب وہ کالج جاتی ہے تو راستے میں دو تین آوارہ لڑکے اسے چھیڑتے ہیں، تعاقب کرتے ہیں اور آوازے کستے ہیں۔ ان میں سب سے پیش پیش اپنے ہی علاقے کے چودھری جی کا بیٹا ہوتا ہے۔ چودھری صاحب کو میں پہچانتا تھا۔ خاصے شریف اور عبادت گذار شخص تھے۔ جب کبھی علاقے کی مسجد میں جانا ہوتا، ان سے ملاقات ہو جاتی۔ ہمیشہ سلام میں پہل کرتے۔ بے حد نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ مجھے دکھ ہوا کہ ان کا لڑکا ان شورہ پشتوں کا سرغنہ ہے۔ دوسرے روز میں ان سے ملا اور انہیں ان کے لڑکے کی نا زیبا حرکت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے خاموشی سے میری شکایت سنی اور پھر سنجیدگی سے کہا
’’میں اسے تنبیہ کروں گا کہ آئندہ ایسی بد تمیزی نہ کرے۔‘‘
قدرے توقف کے بعد وہ پھر بولے
’’لیکن تمہیں بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ جوان لڑکی کو تنہا باہر نہ بھیجا جائے، سخت ممانعت ہے۔‘‘
’’وہ تعلیم حاصل کرنے کالج جاتی ہے۔ اب کیا اس کا کالج جانا بند کروا دوں۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا تو وہ مبلغانہ انداز میں بولے
’’لگتا ہے تم دین و مذہب سے بالکل بیگانے ہو۔ دین میں سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ بالغ لڑکی بغیر کسی محرم کے گھر سے باہر قدم نہ نکالے اور پھر کالج کا علم تو شیطانی علم ہے جسے حاصل کرنا گناہ ہے۔ میری مانو تو اس کی پڑھائی بند کروا کے گھر بٹھاؤ اور جلد سے جلد اس کا کہیں نکاح کروا دو۔‘‘
میں حیرت زدہ سا ان کے باریش چہرے کو دیکھتا رہا۔ مجھے قطعی اندازہ نہ تھا کہ بظاہر معقول سے نظر آنے والے چودھری صاحب اس قدر دقیانوسی اور فرسودہ خیالات کے حامل ہوں گے۔ یہ تو نیم جاہل قصباتی ملاؤں والے خیال تھے جبکہ میں انہیں ایک جہاندیدہ اور روشن خیال فرد تصور کرتا تھا۔ میں جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو انہوں نے پھر کہا
’’میرے مشورے پر عمل کرنا۔ فلاح پاؤ گے۔‘‘
اب میں سوچتا ہوں کہ کاش میں نے ان کے احمقانہ مشورے پر عمل کیا ہوتا تو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ اس رات میں حسب معمول کام سے واپس آیا تو میری بیوی متفکر اور پریشان سی میری منتظر تھی۔ اس نے بتایا کہ میری بیٹی اب تک گھر نہیں لوٹی ہے تو میں بھی فکر مند ہو گیا۔ وہ نو بجے سے قبل ہی گھر آ جاتی تھی جبکہ اس وقت ساڑھے دس بج رہے تھے۔ اگر اسے کہیں رکنا ہوتا تو یقیناً اپنی ماں سے کہہ کر جاتی۔ میں دل میں ڈھیر سارے خدشات لئے الٹے پیروں باہر نکل آیا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ آخری ٹیوشن کہاں کرتی ہے۔ وہاں پہنچ کر میں نے دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر میں دروازے پر ایک بوڑھا شخص نظر آیا۔ میں نے اپنی بیٹی کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تعجب سے کہا ’’وہ تو میری پوتیوں کو پڑھا کر کب کی چلی گئی۔ شاید آٹھ ساڑھے آٹھ بجے ہوں گے۔ کیا وہ اب تک گھر نہیں پہنچی؟ ’’ میں نے اپنی پریشانی اس سے چھپاتے ہوئے کہا ’’نہیں۔۔۔۔! شاید اپنی کسی سہیلی کے یہاں رک گئی ہو۔‘‘
میں دھڑکتے دل کے ساتھ پھر گھر آیا کہ شاید وہ آ گئی ہو۔ لیکن وہاں میری بیوی تنہا ہلکان ہو رہی تھی۔ اس نے پر امید نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پوچھا ’’کچھ پتہ چلا؟ ’’
میں نے نفی میں سرہلایا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا
’’گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ وہ سمجھدار اور با ہمت لڑکی ہے۔ کسی وجہ سے کہیں ٹھہر گئی ہو گی۔ جلد ہی آ جائے گی۔‘‘
میں نے محسوس کیا کہ میری آواز میں یقین کم اندیشے زیادہ ہیں۔ اب میں اسے تلاش کرنے کہاں جاتا۔ جاڑے کا موسم تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں بند ہو چکے تھے۔ میں کس کے گھر جاتا۔ میری تو یہاں کسی سے ایسی شناسائی بھی نہیں تھی کہ اس سردی میں میری مدد کو آتا۔ میں اور میری بیوی رات بھر جاگتے رہے اور ہر آہٹ پر چونکتے رہے۔ فجر کی اذان ہوئی تو میری بیوی مصلے پر جا بیٹھی۔ نماز پڑھ لینے کے بعد وہ دیر تک دعا مانگتی رہی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی خیر و عافیت سے گھر لوٹنے کی ہی دعا مانگ رہی ہو گی۔ میں اداس آنکھوں سے اس کے نحیف و ناتواں سراپے کو دیکھتا رہا۔ معاً دروازے پر دستک ہوئی تو میں ہڑبڑا کر اٹھا۔ میری بیوی بھی دعائیں بھول کر دروازے کی طرف دیکھنے لگی جو اب زور زور سے کھٹکھٹایا جانے لگا تھا۔ میں نے چٹخنی گرائی اور پٹ کھول دیئے۔ سامنے خاکی وردی میں ملبوس پولیس والوں کو دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ بڑی مشکل سے میرے لبوں کو جنبش ہوئی۔‘‘کیا بات ہے؟’’
سامنے کھڑے پولیس انسپکٹر نے کہا
’’اس علاقے کے قبرستان کے پاس درخت سے لٹکی ہوئی ایک جوان لڑکی کی لاش ملی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ تمہاری بیٹی ہے۔ چل کر شناخت کرو۔‘‘
میں گنگ سا کھڑا رہ گیا۔ میری بیوی تڑپ کر چیخی اور غش کھا کر مصلے پر گر پڑی۔ مجھ میں اتنی بھی سکت نہیں تھی کہ آگے بڑھتا اور اسے دیکھتا کہ جیتی ہے یا مر گئی۔ پولیس انسپکٹر نے بے حس لہجے میں کہا ’’دیر ہو رہی ہے۔ آگے کی قانونی کار روائی بھی کرنی ہے۔ تم لاش شناخت کر کے اپنا بیان درج کرواؤ۔‘‘
اس نے ایک کانسٹبل کو اشارہ کیا تو اس نے آگے بڑھ کر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’چلو! ’’
میں کسی معمول کی طرح اس کے ساتھ چل پڑا۔ قبرستان کے قریب پہنچا تو وہاں بھیڑ جمع تھی۔ وہ پیپل کا درخت تھا جس کی ایک موٹی شاخ سے میری بیٹی۔۔۔۔۔۔ ہاں میری ہی بیٹی کی نیم برہنہ لاش جھول رہی تھی۔ اس کے کپڑے تار تار تھے اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ میں نے اسے شناخت کیا اور پھر مجھے کچھ یاد نہ رہا۔ حواس واپس آئے تو دیکھا کہ کوئی مجھے سنبھالے ہوئے گھر کی طرف لا رہا ہے۔ گھر میں میری بیوی اسی طرح مصلے پر پڑی ہوئی تھی۔ میرے ساتھ آنے والا شخص اس کے قریب پہنچا۔ نبض دیکھی اور چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور وحشت زدہ سی خود پر جھکے چہرے کو تکتی رہی۔ اچانک اس کی نگاہ مجھ پر پڑی اور جیسے اسے سب کچھ یاد آ گیا۔ وہ بڑبڑائی
’’میری بیٹی۔۔۔۔۔ کیا وہ لاش میری بیٹی کی ہے؟ ’’
میں نے اثبات میں سرکو جنبش دی تو وہ ڈھاڑیں مار کر رو پڑی۔ مجھے چکر سے آ رہے تھے۔ میں سر پکڑ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ میری بیوی کی گریہ و زاری کی آواز سن کر پڑوس کی کچھ عورتیں گھر میں آ گئیں اور میری بیوی کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگیں۔ میرے ساتھ آنے والے شخص نے مجھے مخاطب کیا۔
’’آپ گھر پر ہی رہیں۔ سارے معاملے ہم لوگ سنبھال لیں گے۔‘‘
میری بیٹی کی لاش ہسپتال لے جائی گئی۔ پوسٹ مارٹم ہوا اور پھر گھر لایا گیا۔ پڑوسیوں نے ہی سارا انتظام کیا اور سہ پہر کو اس کی تدفین کر دی گئی۔ لوگوں کی باتوں سے مجھے علم ہو گیا تھا کہ میری بچی کی اجتماعی طور پر عصمت دری کی گئی تھی اور پھر اسے قتل کر کے لاش پیڑ سے لٹکا دی گئی تھی۔ انہوں نے سرگوشیوں میں چودھری جی کے بیٹے اور اس کے دو ساتھیوں کے نام بھی لیے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ یہ درندگی انہوں نے ہی کی ہو گی۔ رات گئے پولیس پھر آئی۔ مجھ سے پوچھ تاچھ کی گئی تو میں نے ان لڑکوں پر شبہے کا اظہار کیا
’’تمہارے پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہے؟‘‘ پولیس افسر نے سخت لہجے میں پوچھا تو میں نے بے چارگی سے پڑوسیوں کی سمت دیکھا لیکن وہ سب کے سب مہر بہ لب رہے۔ میں نے شکست خوردہ انداز میں سر کو جھکا لیا۔‘‘بغیر کسی ثبوت کے کسی پر انگلی نہ اٹھاؤ،‘‘ اس نے تنبیہ کی۔‘‘ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔ بہت جلد مجرموں کو حراست میں لے لیا جائے گا۔‘‘پولیس چلی گئی۔ لوگ بھی چلے گئے۔ میں اپنی غم زدہ اور بیمار بیوی کے پاس چلا آیا۔ میں جانتا تھا کہ پولیس محض خانہ پری کر کے اس کیس کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دے گی۔ چودھری صاحب کا بیٹا اور اس کے ساتھی بر سر اقتدار جماعت کے فعال اور بولڈ کارکن تھے۔ ان کی پشت پر ان با اثر سیاسی رہنماؤں کا ہاتھ تھا جن کے اشاروں پر وہ مخالف جماعت کے افراد کے ساتھ محاذ آرائی کرتے رہتے تھے۔ ان رہنماؤں کی حمایت کی وجہ سے پولس افسران بھی ان کے خلاف کار روائی کرنے سے قاصر تھے۔ بیٹی کے غم میں میری بیوی بستر سے لگی تو پھر اٹھ نہ سکی۔ پندہرھویں روز میرے گھر سے ایک اور جنازہ اٹھا اور میں بالکل ٹوٹ کر رہ گیا۔ میری بیوی بیمار ہی سہی میری غم گسار تو تھی، میرا سہارا تو تھی۔ میں اس کی تکلیف اور لاچاری کو محسوس کر کے اپنے غموں کو فراموش کرنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ نہیں رہی تو مجھے اپنی تنہائی اور شکست خوردگی کا شدید احساس ہوا۔ میں روشنی کی جن نحیف کرنوں کے سہارے دبیز تیرگی میں کسی طرح سفرِ حیات جاری رکھے ہوئے تھا، جب وہی نہیں رہیں تو اس سفر کا کیا جواز تھا۔ اور میں نے اس تکلیف دہ سفر کو یہیں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
رات کے آخری پہر میں گھر سے نکل پڑا۔ ایک طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد میں اس پل پر کھڑا تھا جس کے نیچے پر شور دریا بہہ رہا تھا۔ صبح کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کیں، اپنی معصوم بیٹی اور بیمار بیوی کو یاد کیا، اپنی غربت اور ناتوانی پر لعنت بھیجی اور پھر دریا میں چھلانگ لگا دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح کچھ آوازیں میری سماعتوں سے ٹکرائیں تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ اوپر بوسیدہ سی چھت دکھائی دی تو مجھے حیرانی ہوئی۔ کیا مجھے دریا کی موجوں سے بچا لیا گیا۔ میں نے نگاہوں کا زاویہ تبدیل کیا۔ بڑا سا ہال نما کمرہ تھا جس میں بیسوں افراد موجود تھے۔ دو یا تین افراد کچھ کچھ فاصلے پر بیٹھے سرگوشیوں میں محو گفتگو تھے۔ میرے بستر کے سامنے ایک باریش بزرگ ایک جوان العمر شخص کو جانے کیا سمجھا رہا تھا۔ معاً ان کا دھیان مجھ پر گیا اور دونوں میری طرف لپکے۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو بزرگ نے میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور بے حد نرمی سے کہا ’’اٹھو نہیں۔ تمہیں نقاہت محسوس ہو گی۔ تم پر بہت دیرغشی طاری رہی ہے۔‘‘
’’لیکن میں یہاں کیسے پہنچا؟ ’’ میں تو اپنی جان دینے کے لئے دریا میں کود گیا تھا۔‘‘
’’ہم میں سے کچھ لوگ تمہیں موجوں سے محفوظ نکال لائے۔‘‘
’’لیکن آپ لوگ کون ہیں؟ ’’ میرے استفسار پر بزرگ نے کمرے میں موجود لوگوں پر نگاہ ڈالی اور قدرے توقف کے بعد گویا ہوئے ’’ہم لوگ مختلف جگہوں کے رہنے والے ہیں۔ اکثر یہاں آتے ہیں، مل بیٹھتے ہیں کیونکہ ہم لوگ مشترکہ طور پر ایک ہی کام کرتے ہیں۔‘‘
’’کون سا کام؟ ’’
بزرگ نے لمحے بھر کو کچھ سوچا اور پھر کہا ’’ہم لوگ بددعا کرتے ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟ ’’
’’بہت سے ایسے ناتواں لوگ ہیں جو کسی شہ زور کے ظلم اور زیادتی کے شکار ہوتے ہیں۔ وہ ظالموں کے خلاف کچھ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ہم لوگ ایسے مظلوموں کی خاطر ظالموں کے خلاف بد دعائیں کرتے ہیں۔‘‘
میں گہرے تعجب سے بزرگ کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا ’’کیا آپ لوگ پہنچے ہوئے ہیں؟ آپ لوگوں کی بد دعاؤں سے کیا ظالموں کا کچھ بگڑتا ہے؟‘‘
’’نہیں۔ ہم لوگ تمہاری طرح ہی عام آدمی ہیں۔ بس ہم میں ایک قدر مشترک ہے کہ ہم بھی ظلم و نا انصافی کے شکار ہوئے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہماری بد دعاؤں سے ظالموں کو کوئی ضرر پہنچتا ہے یا نہیں لیکن ہمیں اطمینانِ قلب ہو جاتا ہے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کیا‘‘
’’کیا بد دعائیں کرنے کا کوئی معاوضہ لیا جاتا ہے؟‘‘
میں حیرتوں کے حصار میں تھا۔
’’نہیں، ہم لوگ رضاکارانہ طور پر یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ بس مظلوم کی رضامندی درکار ہوتی ہے۔‘‘
’’لیکن مظلوم کی شناخت کیسے کی جاتی ہے؟‘‘
’’مظلوموں کی شناخت کون سا مشکل مسئلہ ہے۔ ان کی مظلومیت تو چہرے پر تحریر ہوتی ہے بس اسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
عجیب و غریب لوگوں سے سابقہ پڑا تھا۔ جی چاہا کہ انہیں اپنی رودادِ غم سناؤں لیکن اس سے قبل ہی وہ بولے
’’ہمیں یقین ہے کہ تم بھی ہم میں سے ہو۔ اگر تم چاہو تو ہماری خدمات حاصل کر سکتے ہو۔ ہم تم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف بد دعائیں کریں گے۔‘‘
میں نے ان کی پیشکش فوراً قبول کر لی۔ انہوں نے تفصیل سے میری دلدوز کہانی سنی۔ گہری ہمدردی ظاہر کی اور پھر کہا
’’ہم میں سے کچھ لوگ آج ہی رات تمہارے گھر چلیں گے۔ تم کچھ کھا پی کر آرام کرو۔‘‘
ان کے اشارے پر ایک شخص کھانے کا سامان لے آیا۔ انہوں نے اصرار کیا تو میں نے بڑی مشکل سے چند لقمے زہر مار کئے اور بستر پر لیٹ گیا۔ جانے کب مجھے نیند آ گئی۔ کسی کے اٹھانے پر میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ وہی بزرگ تھے۔
’’رات ہو گئی۔ اپنے گھر چلنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
میں انہیں ساتھ لے کر اپنے گھر روانہ ہوا۔ بزرگ کے ساتھ چار دیگر افراد تھے۔ گھر پہنچ کر میں نے دروازہ کھولا اور ہم سب اندر داخل ہوئے۔ وہ پانچوں کمرے کے درمیان حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے۔ بزرگ نے ظالموں کے نام دریافت کیے۔ میں نے چودھری جی کے بیٹے اور اس کے دونوں ساتھیوں کے نام بتا دیئے۔ بد دعا کی شروعات بزرگ نے ہی کی تھی اور پھر چاروں اس عمل میں شریک ہو گئے۔ عجب رقت آمیز اور کربناک آواز میں وہ لوگ نام لے کر ان ظالموں کے خلاف بد دعائیں کرنے لگے تھے۔ بتدریج ان کی آوازیں رفتار پکڑتی گئیں اور پھر ان پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ مجھے لگا کہ کمرے کے در و دیوار کے بھی لب وا ہو گئے ہیں اور ان سے بد دعائیں نکلنے لگی ہیں اور پھر یہ بد دعائیں کمرے کے حدود سے نکل کر باہر پھیل گئی ہیں اور زمین و آسمان کی ساری مخلوقات اس عمل میں شریک ہو گئی ہیں۔ معاً مجھے محسوس ہوا کہ میرے رگ و پے میں ایک طمانیت کی لہر دوڑتی جا رہی ہے اور میرا مضطرب وجود پر سکون ہوتا جا رہا ہے۔ رات کے آخری پہر تک ان بد دعاؤں کا سلسلہ چلتا رہا اور میری روح سرشار ہوتی رہی۔ آخرکار یہ سلسلہ بند ہوا اور وہ لوگ سجدے میں گر گئے۔ دیر تک سجدے کی حالت میں رہنے کے بعد انہوں نے ایک ساتھ اپنے سر اٹھائے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ لوگ میرے قریب آئے۔
بزرگ نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے دبایا اور دھیرے سے کہا
’’اب ہم لوگ چلتے ہیں۔ آئندہ خود کشی کا خیال بھی دل میں نہ لانا۔ مظلوموں کی حمایت میں ظالموں کو بد دعائیں دینے میں دل کو عجب سی راحت ملتی ہے، جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔ کبھی ہمارے ساتھ بد دعا کرنے کی کسی مجلس میں شامل ہو کر دیکھنا۔‘‘
وہ لوگ پھر ملنے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ میں اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ میں خود کو بے حد ہلکا پھلکا اور پر سکون محسوس کر رہا تھا جیسے میرے وجود سے یکلخت سارے غموں کے لبادے اتر گئے ہوں۔ بہت دنوں کے بعد میں گہری اور مطمئن نیند سویا۔ آنکھیں کھلیں تو دن خاصا چڑھ آیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر میری ساری نقاہت دور ہو چکی تھی اور میں بالکل تر و تازہ تھا۔ اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے از سر نو زندگی کا سفر شروع کرنا ہے اور پوری استقامت سے اسے جاری رکھنا ہے۔ اس فیصلے سے مجھے بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ میں اسی روز اپنی کمپنی میں گیا۔ مالک میرے حالات سے آگاہ تھا۔ اس نے دوبارہ مجھے ملازمت پر بحال کر دیا۔ بہت سارے دن گزر گئے۔ اس دوران کچھ واقعات رونما ہوئے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ ان کی بد دعاؤں کے اثر سے ہوئے یا محض اتفاق تھے۔ پہلا واقعہ تو یہ ہوا کہ موجودہ حکومت کی میعاد پوری ہو گئی اور نئے سرے سے انتخابات کرائے گئے۔ اس انتخاب میں برسر اقتدار جماعت بری طرح شکست کھا گئی اور حزب مخالف ایوان اقتدار میں داخل ہوا۔ نئی حکومت آئی تو مخالفین کے گڑے مردے اکھاڑے جانے لگے۔
دوسرا واقعہ میرے لیے اس لحاظ سے بے حد اہم تھا کہ میری بیٹی کے مردہ کیس میں بھی جان ڈالی گئی اور تحقیقات کی ذمہ داری خفیہ ادارے کے سپرد کی گئی۔ ابتدائی تفتیش کی بنیاد پر ہی چودھری جی کے بیٹے اور اس کے دونوں مصاحب حراست میں لے لئے گئے۔ مقدمہ سریع الرفتار عدالت میں پہنچا۔ تعجب کی بات کہ ان کے خلاف پختہ ثبوت کے ساتھ عینی شاہدین بھی مل گئے۔ عدالت نے اس جرم کی دہشتناکی کے مد نظر تینوں ملزموں کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ چودھری صاحب بیٹے کی گرفتاری سے پہلے ہی بری طرح شکستہ ہو چکے تھے، سزائے موت کے فیصلے سے بالکل ڈھے گئے اور بیٹے کی سزا پر عمل درآمد ہونے سے قبل ہی مرگِ عبرت سے ہمکنار ہوئے۔ کچھ دنوں بعد تینوں گناہ گاروں کو پھانسی دے دی گئی تو میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس وقت مجھے بددعا کرنے والے لوگ یاد آئے اور میں ان سے ملنے کے لئے اس بڑے کمرے والے مکان تک پہنچا لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ دروازے پر تالے پڑے تھے اور مکان کے اردگرد سناٹا طاری تھا۔
میں بوجھل قدموں سے واپس ہوا۔ راستے کی بھیڑ میں ایک شناسا چہرے پر نگاہ پڑی تو مجھے یاد آیا کہ وہ اس روز بڑے کمرے میں موجود تھا۔ میں نے اسے جا لیا اور پیچھے سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔ اس نے پلٹ کر حیرت سے میری طرف دیکھا تو میں سرعت سے بولا
’’تم بد دعا کرنے والوں میں سے ہو نا؟‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا بس متجسس نگاہوں سے مجھے گھورتا رہا۔ میں نے اسے یاد دلایا۔ ‘‘مجھے دریا میں ڈوبنے سے بچا کر اس مکان میں لایا گیا تھا جہاں تم بھی موجود تھے۔ میں تم لوگوں سے ملنے آیا تھا لیکن مکان میں تالے پڑے ہیں۔ سب لوگ کہاں گئے؟‘‘
اس نے غور سے مجھے دیکھا تو آنکھوں میں پہچان کا عکس لہرایا۔ قدرے توقف کے بعد اس نے تلخ لہجے میں کہا
’’نئی حکومت کو ہم مظلوموں کے بے ضرر وجود سے خطرہ محسوس ہوا۔ اس نے ہمارے بد دعا کرنے کے عمل کو خطرناک قرار دیا اور اس پر پابندی عائد کر دی۔ مکان پر تالے حکومت کی طرف سے ہی لگائے گئے ہیں۔ اب وہ اسی کی تحویل میں ہے۔‘‘
وہ شخص مڑا اور تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ میں وہیں گم صم کھڑا گہری افسردگی سے اسے بھیڑ میں گم ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
پنجرہ
میں گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ اس پر نگاہ پڑی۔ پتلی پتلی تیلیوں سے بنا ہوا پنجرہ اور اس میں موجود چھوٹی سی مینا۔ پنجرہ دروازے کے پاس ہی برآمدے میں لٹکا ہوا تھا۔ میں اس کے قریب رکا۔ تیلیوں کے فرش پر دو پیالیاں رکھی تھیں۔ ایک میں بھگوئی ہوئی دال تھی اور دوسری میں پانی۔ مینا پیالی میں چونچ ڈالے دال ٹونگ رہی تھی۔ آہٹ پا کر اس نے سر اٹھایا اور میری سمت تکنے لگی۔ چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں جن میں معصومیت اور مانوسیت کا عکس تھا۔ میں نے اپنے ہونٹوں کا دائرہ بناتے ہوئے اس کے سر پر پھونک ماری۔ اس کے پروں میں ہوا بھری تو اس کا سر پھول کر بڑا دکھنے لگا۔ میں نے تیلیوں کو آہستگی سے تھپکتے ہوئے اپنے پیار کا اظہار کیا۔
کچھ دنوں سے یہ مینا میرے گھر میں مقیم تھی۔ میں اسے اپنے بیٹے اصغر کی دلبستگی کے لیے خریدلایا تھا۔ لیکن نہیں۔ میں اسے ارادتاً گھر نہیں لایا تھا بلکہ ایک شخص نے زبردستی مجھے سونپ دیا تھا۔ اس روز میں دفتر سے فارغ ہو کر سیدھا بس اسٹاپ پر آیا۔ بہت دیر انتظار کرنے کے بعد بھی بس نہیں آئی تو میں نے ایک پان والے سے استفسار کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی مقام پر کوئی حادثہ پیش آیا تھا۔ مشتعل لوگوں نے بسوں میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ احتجاجاً بس والوں نے ہڑتال کر دی تھی۔ اب کیا کروں؟ میں عجیب مخمصے میں پڑ گیا۔ میرا گھر دو ڈھائی میل کے فاصلے پر تھا۔ دفتر کی تکان کے بعد اس قدر طویل فاصلہ پیدل طے کرنا مشکل تھا۔ لیکن بس اسٹاپ پر کھڑے رہنے کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا۔ مجبوراً میں نے فیصلہ کیا کہ پیدل ہی آگے بڑھا جائے۔ راستے میں کوئی آٹو رکشا یا دوسری سواری مل ہی جائے گی۔ نصف میل کا سفر طے کرنے کے باوجود کوئی آٹو نظر نہ آیا تو مجھے شک ہوا کہ بس والوں کی حمایت میں شاید وہ بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے ہوں۔ میں سڑک پر متلاشی نگاہیں دوڑاتا ہوا بوجھل قدموں سے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ معاً ایک موڑ پر ایک شخص میرے سامنے آ گیا۔ دبلا پتلا مدقوق سا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ایک پنجرہ جھول رہا تھا جس میں ایک مینا سکڑی سمٹی بیٹھی تھی۔
’’یہ مینا خرید لیجئے صاحب۔ میرے بچے دعائیں دیں گے۔‘‘
اس کے لہجے میں عجیب سی لجاجت اور لاچاری تھی۔
میں نے تعجب سے اس کے پژمردہ چہرے اور پر امید آنکھوں کو دیکھا اور آہستگی سے کہا۔
’’نہیں بھئی۔ مجھے نہیں خریدنا ہے۔ میں اس پرندے کا کیا کروں گا۔‘‘
میں قدم بڑھانے کو ہوا تو اس نے پھر التجا کی۔
لے لیجئے نا صاحب! صرف پچاس روپئے میں۔ آپ کے بچے کھیلیں گے۔۔ اور میرے بچوں کو روٹی مل جائے گی۔ کل رات سے بھوکے ہیں۔‘‘
اس نے پنجرہ اٹھا کر میرے چہرے کے سامنے کر دیا۔ مینا مجھے تکنے لگی۔ مجھے لگا کہ وہ اپنی بے زبانی سے اس شخص کی باتوں کی تصدیق کر رہی ہے۔ ناگہاں میری آنکھوں میں اس کے بچوں کی مبہم سی تصویریں ابھر آئیں جو اپنی ماں سے کھانے کی ضد کر رہے تھے اور ماں انہیں تسلیاں دیتی ہوئی خود کو بھی بہلا رہی تھی۔
’’بس بیٹے! تھوڑی دیر اور صبر کر لو۔ تمہارے ابو آتے ہی ہوں گے۔ اللہ کرے کہ کوئی بھلا آدمی مل گیا ہو اور اس نے مینا خرید لی ہو۔ پھر تو وہ آٹا چاول لے کر ہی آئیں گے۔‘‘
غیر ارادی طور پر میرے ہاتھ جیب میں چلے گئے۔ میں نے کچھ روپئے نکالے اور بغیر گنے ہوئے اس کی طرف بڑھا دیئے۔ فرط مسرت سے اس کے چہرے کی جلد کپکپائی۔ اس نے کانپتے ہاتھ سے پچاس کا نوٹ کھینچا اور پنجرہ مجھے پکڑا دیا۔ پنجرے کو ہاتھ میں لے کر میں قدرے تذبذب میں کھڑا رہا اور وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا موڑ میں گم ہو گیا۔
جب میں پنجرہ لیے ہوئے گھر میں داخل ہوا تو میری ماں اور میری بیوی نے مجھے استعجاب سے دیکھا۔
’’یہ کیا اٹھا لائے؟‘‘
بیوی نے استفسار کیا تو میں نے جواب دیا۔
’’مینا ہے۔‘‘
’’وہ تو میں بھی دیکھ رہی ہوں۔ لیکن اس کا کریں گے کیا؟‘‘
اسی اثنا میں میرا چار سالہ بیٹا اصغر دوڑتا ہوا آیا اور گہری دلچسپی اور اشتیاق سے مینا کو دیکھنے لگا۔
’’کرنا کیا ہے؟ پالیں گے۔ اصغر بیٹے کا من بہلے گا۔ کیوں بیٹے۔ اس مینا سے کھیلو گے؟‘‘
’’ہاں ابو! میں اس کے ساتھ کھیلوں گا‘‘
وہ پنجرے کی تیلیوں کے درمیان انگلی ڈال کر مینا کو چھونے کی کوشش کرنے لگا۔
’’نہیں بیٹے۔ بے زبان پرندے کو قید میں نہیں رکھتے۔ گناہ ہوتا ہے۔‘‘
میری ماں بظاہر تو اپنے پوتے سے مخاطب تھی لیکن اس کا روئے سخن میری جانب تھا۔
’’لیکن ماں۔ دیکھئے نا۔ کتنا معصوم پرندہ ہے۔‘‘ میں نے پنجرہ ان کے سامنے رکھ دیا۔
’’کچھ دنوں کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ پھر آزاد کر دیں گے۔‘‘
میری ماں خاموش ہو گئیں۔ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ پرندہ پالنے کا مجھے قطعی شوق نہ تھا لیکن ایک لمحاتی احساسِ ترحم نے اسے میرے حوالے کر دیا تھا۔ اس طرح وہ ننھی سی مینا میرے گھر کی ایک مکیں ہو گئی۔ سبھی نے اس کے بے ضرر وجود کو قبول کر لیا تھا۔ اصغر تو دن بھر اس سے کھیلتا رہتا۔ اس کے دانے پانی کا خیال رکھتا اور اس سے باتیں کرتا رہتا۔
میں دروازے سے باہر نکلا تو وہی آشنا سے مناظر نگاہوں کے سامنے تھے۔ تنگ اور تعفن زدہ گلیوں کے جال کو کاٹتا ہوا میں چورا ہے پر آیا تو جیسے میری سانسیں اعتدال میں آئیں اور قدرے راحت کا احساس ہوا۔ میرا مکان جس علاقے میں تھا وہاں بڑی گنجان آبادی تھی۔ نچلے متوسط طبقے کے بھانت بھانت کے لوگ بے ترتیب اور بے قاعدہ بنے ہوئے مکانات میں رہائش پذیر تھے۔ سبھی مکان والے اپنے سامنے کے راستے کا زیادہ سے زیادہ حصہ غصب کر چکے تھے جس کی وجہ سے گلیاں تنگ سے تنگ ہوتی گئی تھیں۔ انہیں تنگ گلیوں میں گھروں کی نالیاں بھی نکلی ہوئی تھیں جن میں غلاظتیں بہتی رہتی تھیں۔ ہر مکان کا دروازہ گلی میں ہی کھلتا تھا۔ عورتیں دروازہ کھولتیں اور گھر کا کوڑا کرکٹ انہیں نالیوں میں ڈال دیتیں۔ کبھی کبھی تو یہ کوڑے راہ سے گزرتے کسی شخص کے کپڑوں پر بھی پڑ جاتے۔ بندہ شریف اور بزدل ہوتا تو کپڑے جھاڑتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ورنہ ایک جنگ کی شروعات ہو جاتی۔ گلی سے گزرنے والے پانی کے میں پائپ میں سوراخ کر کے قدم قدم پر نلکے لگا لیے گئے تھے جو پانی بھر لینے کے بعد بھی کھلے رہتے اور پانی کی تیز دھار گلیوں میں گرتی رہتی۔ اکثر ننگ دھڑنگ بچے یا نیم برہنہ مرد نلکے کے نیچے نہاتے رہتے۔ کبھی کوئی دبنگ قسم کی عورت ڈھیر سارے کپڑے دھونے بیٹھ جاتی۔ پانی کی نکاسی کا درست انتظام نہ ہونے کے سبب نالیاں ابل جاتیں اور راستوں میں گندہ پانی بھر جاتا۔ لوگوں کو راستہ چلتے وقت پتلون کے پائنچے ہاتھوں سے اٹھائے رکھنے پڑتے۔ اس پر مستزاد کہ بچوں کی فوج ظفر موج انہی گلیوں میں پریڈ کرتی رہتی۔ گھر کے دروازوں پر بیٹھی عورتیں آپس میں فحش مذاق کرتی رہتیں یا بچوں کو تیز آواز میں ڈانٹتی رہتیں۔ اکثر بچوں کے درمیان جھگڑے ہو جاتے اور ان کی حمایت میں عورتیں لڑ پڑتیں۔ دن بھر عجب بیزار کن شور شرابا بپا رہتا جس سے طبیعت گھبرا جاتی۔
مجھے اپنے حلقۂ احباب میں سے کسی کو گھر بلانے میں شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ دو ایک دفعہ میرے دفتر کے دوچار غیر مسلم ساتھی گھر آئے تھے۔ دوبارہ انہوں نے کان پکڑ لیا تھا۔ اسی سال عید الاضحیٰ سے ہفتے بھر قبل میرے دفتر کا کلیگ اور دوست اروند کمار کسی ضروری کام سے گھر چلا آیا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی تو میں باہر نکلا۔ اروند کمار ناک پر رو مال رکھے کچھ گھبرایا ہوا سا کھڑا تھا۔ اس نے جلدی جلدی آنے کا مدعا بیان کیا۔ کچھ ضروری کاغذات سونپے اور سرعت سے واپس لوٹ گیا۔ میں شرمندہ اور پشیمان سا دروازے پر کھڑا رہ گیا۔ میں اس کی گھبراہٹ اور جلد بازی کا سبب سمجھ گیا تھا۔ اس محلے کے لوگ کس قدر بے احتیاطی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ دوسروں کے جذبات و احساسات کا ذرا بھی پاس نہیں رکھتے۔ ہر کوئی خود نمائی کی بیماری میں مبتلا تھا۔ ذرا سا زر ہاتھ آیا نہیں کہ زمین چھوڑ کر چلنے لگے۔ سابقہ تمام تنگ دستی اور بدحالی کو فراموش کر جاتے اور ہر کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ عید الاضحیٰ کے موقعے پر یہ منفی جذبہ کچھ زیادہ ہی واضح ہو جاتا تھا۔ ہرچند کہ میں اسی محلے میں پیدا ہوا، یہیں پرورش پائی لیکن میں خود کو یہاں کے ماحول میں کبھی ضم نہیں کر پایا۔ ایک اجنبیت اور بے گانگی کا احساس مجھ پر ہمیشہ حاوی رہا۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا کہ میں کسی عقوبت خانے میں کسی نا کردہ جرم کی سزا کاٹ رہا ہوں۔ مجھے اس علاقے سے بری طرح وحشت ہوتی تھی لیکن نہ جانے کون سی مجبوری کے تحت میں یہاں محبوس تھا۔
دوسرے دن دفتر میں اروند کمار سے ملاقات ہوئی۔ ہم دفتر کے کیبن میں بیٹھے چائے پی رہے تھے تبھی اس نے کہا۔
’’میں سنتا تھا کہ تمہاری قوم بھیڑوں کی مانند جھنڈ بنا کر ایک ہی جگہ رہتی ہے۔ جہاں سو افراد کی گنجائش ہو وہاں ہزاروں لوگ ٹھنسے رہتے ہیں۔ کل میں نے دیکھ بھی لیا۔ مجھے حیرت ہے کہ تمہارے جیسا تعلیم یافتہ اور مہذب شخص وہاں کیسے رہ لیتا ہے۔ وہ علاقہ تمہارے لائق نہیں۔ تم اپنے بچے کا مستقبل تباہ کر ڈالو گے۔‘‘
اس کی باتیں تلخ لیکن صداقت پر مبنی تھیں۔ مجھے خود بھی اس بات کا خوف رہتا تھا۔ بچوں پر ماحول اور صحبت کا اثر پڑتا ہی ہی ہے۔ میں اپنے بچے کو کہاں اور کب تک چھپائے رکھتا۔ کوئی نہ کوئی بندوبست تو کرنا ہی تھا۔ معاً اس نے کہا۔
’’شہر سے ذرا ہٹ کر بائی پاس کے قریب ایک نیا ٹاؤن شپ آباد ہو رہا ہے۔ بے حد پر فضا اور پر سکون مقام ہے۔ منصوبہ بند طریقے سے مکانوں کی تعمیر ہو رہی ہے۔ بہت سے لوگ آباد بھی ہو گئے ہیں۔ سبھی تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ لوگ ہیں۔ میں بھی وہاں زمین کا ایک پلاٹ خرید چکا ہوں۔ میرے ہی پڑوس میں دو کٹھے کا ایک پلاٹ خالی ہے۔ تم چاہو تو اسے خرید کر اپنی پسند سے مکان بنوا لو۔‘‘
دفتر سے چھٹی کے بعد اس نے وہاں چلنے کے لیے کہا جہاں وہ زمین لے چکا تھا تو میں فوراً تیار ہو گیا۔ اس نے اپنے اسکوٹر کی پچھلی نشست پر مجھے بٹھایا اور اسکوٹر اسٹارٹ کر کے چل پڑا۔ گھنٹے بھر کی مسافت کے بعد ہم مرکز شہر سے دور مضافات کے ایک ایسے علاقے میں پہنچ گئے جہاں ایک نوزائیدہ کالونی کے نقش و نگار واضح ہونے لگے تھے۔ جدید طرز کے بہت سے خوبصورت مکانات تعمیر ہو کر لوگوں کے مسکن بن چکے تھے۔ کچھ زیر تعمیر تھے جن میں راج مزدور لگے تھے۔ دو رویہ مکانوں کے درمیان کشادہ راستے تھے۔ ابھی پختہ نہ تھے لیکن جلد ہی پختہ ہو جانے کے قوی امکانات تھے۔ راستوں کے کنارے برابر فاصلے پر بجلی کے کھمبے نصب تھے جن سے کورڈ تار لٹک رہے تھے۔ اروند نے ایک ایسی جگہ اسکوٹر روکا جس کے سامنے پلاٹنگ کی ہوئی زمینوں کا بڑا رقبہ تھا۔ اس نے سامنے کے پلاٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ پلاٹ میں نے لیا ہے۔‘‘
پھر اس نے پاس والی زمین
دکھائی۔
’’یہ ابھی فروخت نہیں ہوئی ہے۔ تمہارے لیے مناسب رہے گی۔‘‘
مجھے پہلی نگاہ میں ہی وہ علاقہ اور وہ قطعۂ اراضی بے حد پسند آیا۔ ایسے ہی پر سکون اور پر فضا مقام پر سکونت اختیار کرنے کی میری دیرینہ خواہش رہی تھی۔ میں نے فوری طور پر فیصلہ کر لیا کہ مجھے ہر حال میں یہیں مکیں ہونا ہے۔ میں نے اس فیصلے سے اروند کو آگاہ کیا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔
’’تمہارے پڑوس میں آنے سے مجھے بھی خوشی ہو گی۔ پڑوسی اچھا ہو تو دن اچھے گذرتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتے ہیں۔‘‘
وہاں سے واپسی کے بعد میں نے گھر والوں کو اپنے فیصلے کی اطلاع دی۔ میری بیوی نے بلا تاخیر اس پر صاد کیا۔ وہ خود بھی اس حبس زدہ ماحول سے نالاں تھی۔ لیکن ماں نے متفکر لہجے میں کہا۔‘‘کیا اپنے لوگوں کو چھوڑ کر وہاں آباد ہونا ٹھیک ہو گا۔ غیروں کا علاقہ۔ ہر وقت خدشہ لگا رہے گا۔‘‘
’’آپ خواہ مخواہ فکر و تشویش میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اس پنجرے نما قید خانے سے تو رہائی مل جائے گی۔ کھلا آسمان، فرحت بخش فضا اور پر سکون ماحول۔ کیا آپ جانتی نہیں کہ یہاں کی گندگی اور آلودگی صحت کے لیے کتنی مضر ہے۔ مجھے سب سے زیادہ اصغر کی فکر ہے۔ اسے اس خطرناک ماحول سے نکالنا ہی ہو گا۔‘‘
میں نے حتمی لہجے ان کی باتوں کو رد کیا تو وہ خاموش ہو گئیں۔
ان کے خاموش احتجاج کے باوجود میں نے اس قطعۂ اراضی کا بیعانہ ادا کر دیا۔ جلد ہی رجسٹری
کرانی تھی جس کے لیے مجھے خاص تردد نہیں تھا۔ میرے اکاؤنٹ میں اتنی رقم موجود تھی۔ باقی رہے گھر کی تعمیر کے اخراجات تو کسی بھی سرکاری بینک سے 'ہاؤس لون ' لیا جا سکتا تھا۔ رجسٹری سے قبل میں ماں اور بیوی بچے کو وہاں لے گیا۔ انہیں زمین کا وہ ٹکڑا دکھایا جو جلد ہی ہمارا ہونے والا تھا۔ سبھی کو جگہ پسند آئی تو مجھے بھی اطمینان ہوا۔ بس سے واپسی کے وقت میں نے سوچا کہ قسطوں میں ایک اسکوٹی بھی لے لوں گا۔ دفتر آنے جانے میں سہولت ہو گی۔ بسوں میں دھکے کھاتے کھاتے سارے اعضاء مضمحل ہونے لگے تھے۔ یہ بسیں بھی کتنی واہیات اور تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ بالکل میرے علاقے کی طرح۔ اندر پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں لیکن لوگ بھرتے جا رہے ہیں۔ شور ایسا کہ بس سے اترنے کے بعد بھی دیر تک سماعت میں بپا رہتا ہے۔ اس کے برعکس اسکوٹی کتنی آرام دہ سواری ہے۔ نرم اور سبک رفتار۔ جیسے پانی کی پر سکوں سطح پر کشتی چل رہی ہو۔ حالانکہ یہ خاص لڑکیوں کے لیے بنائی گئی ہے لیکن اب تو پختہ عمر کے سنجیدہ مزاج افراد بھی اسے چلانا پسند کرنے لگے ہیں۔
رجسٹری کا مرحلہ طے پایا تو قرض لینے کا مسئلہ سامنے آیا جسے اروند کمار کے تعاون سے بآسانی حل کر لیا گیا۔ اس کے بعد منظور شدہ نقشے کے مطابق تعمیری کام کا آغاز ہوا۔ اروند کے مکان کی تعمیر بھی شروع ہو چکی تھی۔ دفتر سے فارغ ہوتے ہی ہم دونوں اسکوٹر پر بیٹھ کر وہاں پہنچ جاتے۔ اروند کے والد گوبند جی اپنے مکان کے ساتھ میرے مکان کے کام کی بھی نگرانی کرتے تھے۔ ہم دونوں تعمیری پیش رفت کا معائنہ کرتے۔ گوبند جی سے کچھ مشورے کرتے اور واپس چلے آتے۔ ٹھیکیدار بے حد سرعت سے تشفی بخش کام کر رہا تھا۔ دو ہی مہینے میں دونوں مکان اپنے مکینوں کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
اس دوران میں نے اسکوٹی بھی خرید لی تھی۔ بس کی بھیڑ بھاڑ اور دھکوں سے نجات مل گئی تھی۔ بہت سے ایسے کام جو وقت کی کمی کے باعث رکے ہوئے تھے، آسانی سے ہونے لگے تھے۔
آخر نقل مکانی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ میں اور میری بیوی ایسے قیدیوں کی طرح خوش تھے جن کی سزا کی میعاد پوری ہو چکی ہو لیکن میری ماں تھوڑی فکر مند اور اداس تھیں۔ یہ فطری امر تھا۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ اس علاقے میں گذارا تھا۔ یہاں کے چپے چپے سے ان کی آشنائی تھی۔ اس مکان کے ہر ایک حصے میں ان کا وجود بکھرا ہوا تھا جسے مجتمع کر کے دوسری جگہ لے جانا آسان نہ تھا۔ وہ تو میرا اصرار تھا کہ وہ نیم رضا مند سی ہو گئی تھیں۔
مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ اس پرانے مکان کا کیا کیا جائے۔ ہماری غیر موجودگی میں اس علاقے کے لوگ کیا اسے صحیح و سالم رہنے دیں گے؟ کہیں یہ دوسرے کے قبضے میں نہ چلا جائے؟ میں نے اسے فروخت کرنے کا مشورہ دیا تو ماں نے سختی سے انکار کر دیا۔ بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ بعد میں کسی معقول اور شریف آدمی کو مکان کرائے پر دے دیا جائے گا۔ میں نے گھر کے سارے سامان کا جائزہ لیا۔ ان میں بہت سے ایسے تھے جو کسی کام کے نہ تھے اور انہیں ڈھو کر لے جانا حماقت تھی۔ میں نے ان بیکار اشیا کو چھوٹے والے کمرے میں بھر دیا۔ دفعتاً میری نگاہ پنجرے میں بند مینا پر پڑی۔ اس مہذب اور شائستہ علاقے میں کسی پرندے کو قید رکھنا یقیناً معیوب سمجھا جاتا۔ اور پھر قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ میں نے اس معصوم پرندے کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا اور پنجرہ اتار کر دروازے کے باہر نکل آیا۔ میں نے پنجرے کا پٹ کھول دیا لیکن مینا باہر نکلنے کی بجائے ایک کونے میں سمٹ گئی۔ میں نے پنجرے میں ہاتھ ڈالا اور اسے مٹھی میں بھر کر باہر نکالا۔ وہ بے حد معصوم نگاہوں سے میری سمت دیکھنے لگی۔ میں نے اسے آزادی کا مژدہ سنایا اور ہوا میں ہلکے سے اچھال دیا۔ وہ پروں کو پھڑپھڑا کر سامنے والے دریچے کے چھجے پر بیٹھی۔ پھر وہاں سے اڑی اور اسی گھر کی منڈیر پر بیٹھ گئی۔ میں ایک عجیب سی سرشاری کی کیفیت میں اسے دیکھ رہا تھا۔
اچانک۔۔۔۔ بالکل اچانک۔۔۔ جانے کہاں سے منڈیر پر ایک بلی نمودار ہوئی۔ اس نے تیزی سے جھپٹا مارا۔ مینا کو اپنے تیز نوکیلے دانتوں میں دبایا اور منڈیر سے چھت پر کود گئی۔ اضطراری طور پر میرے حلق سے ایک چیخ سی ابھری اور میں ساری جان سے لرز اٹھا۔ پنجرہ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑا۔ خالی پنجرہ۔۔ جس میں موجود مینا آزاد ہوتے ہی موت کی گرفت میں آ گئی تھی۔ ایک انجانے خوف سے میرے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئیں اور سانسیں بے اعتدال ہو گئیں۔
میں ہڑبڑا کر اپنے گھر کے دروازے کے اندر داخل ہوا۔ دروازے کے پٹ بند کر کے کانپتے ہاتھ سے چٹخنی لگائی اور پھر اس سے پشت لگا کر اپنی بے ترتیب سانسوں کو درست کرنے لگا۔۔
٭٭٭
دھُوپ سنوارے
میں مرشد آباد سے باہر جانے والی جیپ پر بیٹھ چکا تھا کہ میری نگاہ دورسے آتے ہوئے نواب اختر الدولہ پر پڑی۔ وہ قریب آئے تو میں جیپ سے اتر گیا اور کسی قدر شرمندگی سے کہا۔
’’آپ نے خواہ مخواہ تکلیف کی۔‘‘
’’تکلیف کیسی؟‘‘ ان کے با ریش چہرے پر شفقت بھری مسکان ابھری۔ انہوں نے اپنے ہاتھ میں موجود چھوٹا سا پلاسٹک کا ڈبہ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’اسے رکھ لو بیٹے! اس میں دورانِ سفر کھانے کی کچھ چیزیں ہیں۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے۔‘‘
ان کے لہجے میں کچھ ایسا خلوص تھا کہ مجھے انکار کی جرأت نہیں ہوئی۔ میں نے ڈبہ لیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ قدرے آبدیدہ ہو گئے۔ میں ان کے لاج میں دو روز قیام پذیر رہا تھا اور شہر کی سیاحت کے بعد واپس جا رہا تھا۔ اس مختصر سے عرصۂ قیام میں ہی ان سے خاصی قربت پیدا ہو گئی تھی۔
پرسوں میں اسی طرح ایک جیپ میں سوار ہو کر مرشد آباد کی حدود میں داخل ہوا تھا۔ سہ پہر ہونے والی تھی۔ ماہ اپریل کے آخری ایام تھے۔ فضا میں امس بھری گرمی کی تمازت تھی۔ جیپ کے سفر میں ہوا کے مسلسل گرم جھونکوں سے گرچہ چہرہ تپنے لگا تھا لیکن گھٹن کا احساس نہیں تھا۔ جیپ سے اترتے ہی گرمی کے ساتھ گھٹن بھی محسوس ہونے لگی تھی اور جسم پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔ مجھے فوری طور پنہانے کی خواہش ہو رہی تھی تاکہ سفرکی تکان اور گرمی کے اثرات سے نجات حاصل ہو سکے۔ میں نے جیپ کے ڈرائیور سے قیام کے لیے کسی مناسب جگہ کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے سراج الدولہ لاج کا پتا بتا دیا جو قریب ہی واقع تھا۔ میں اپنا سفری بیگ لیے ہوئے لاج کے دروازے پر پہنچا تو ایک با ریش اور با وقار معمر شخص نے میرا استقبال کیا۔ انہوں نے رسمی خانہ پری کے بعد ایک کمرے میں میرے قیام کا بندوبست کر دیا۔ میرے استفسار پر انہوں نے مجھے باتھ روم تک پہنچا دیا جو کمرے کے باہر ہال کے ایک کنارے موجود تھا۔ میں اچھی طرح نہا کر اپنے کمرے میں آیا اور لباس تبدیل کر کے واپس ہال میں آ گیا۔ وہاں کچھ میز کرسیاں بچھی تھیں۔ میں نے ایک کرسی سنبھال لی۔ تھوڑی دیر میں وہی معمر شخص چائے لے کر حاضر ہوئے تو مجھے کچھ تعجب ہوا۔ مجھے انہیں لاج کا ملازم سمجھنے میں کچھ تامل ہو رہا تھا۔ لیکن پھر وہ اس طرح کی خدمات کیوں انجام دے رہے تھے؟ انہوں نے چائے کا کپ میز پر رکھا تو میں نے استفہامیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا۔ وہ سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’میں اس لاج کا مالک ہوں۔۔۔۔ اختر الدولہ۔۔۔۔ قدرے توقف کے بعد انہوں نے دریافت کیا۔
’’رات کو کیا کھاؤ گے؟ جو تم پسند کرو وہی بنا دیں گے۔‘‘
’’بنا دیں گے؟‘‘میں نے حیرت سے ان کی بات دہرائی تو انہوں نے وضاحت کی۔
’’اس موسم میں یہاں شاذ و نادر ہی لوگ آتے ہیں۔ اس لیے خانساماں کو رخصت کر دیا ہے۔ اگر تمہاری طرح کوئی مسافر آ جائے تو کھانا ساتھ ہی بن جاتا ہے۔ کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔‘‘
’’آپ جو پسند کریں، بنا دیں۔‘‘
میں نے بے توجہی ظاہر کی۔‘‘در اصل مجھے یہاں کے قابل دید تاریخی مقامات دیکھنے ہیں۔‘‘
’’قابل دید نہیں۔۔۔۔۔ قابل عبرت کہو۔۔۔۔؟‘‘ یکایک ان کے لہجے میں گہری افسردگی جھلک اٹھی۔
’’وقت کے گھوڑوں کی بے رحم ٹاپوں نے سب کچھ پامال کر ڈالا۔ فقط کھنڈرات باقی ہیں۔‘‘
میں نے ان کے درد کو اچھی طرح محسوس کیا۔ اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے آباء و اجداد کے شہر کو بتدریج اجڑتے ہوئے دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔
’’میں راجدھانی دہلی سے آیا ہوں۔ وہیں کے جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے تحت ملک کے تاریخی مقامات پر ریسرچ کر رہا ہوں۔ اسی کی تکمیل کی خاطر مختلف شہروں سے ہوتا ہوا یہاں پہنچا ہوں۔‘‘
میں نے مرشد آباد میں اپنی آمد کی غرض و غایت بتائی تو انہوں نے کچھ لمحہ سوچا اور پھر گویا ہوئے۔
’’اگر تم چاہو تو کل صبح ایک تجربہ کار گائیڈ کا انتظام کر دیتے ہیں۔ وہ تمام مقامات دکھا دے گا اور ان سے متعلق ضروری معلومات بھی فراہم کر دے گا۔‘‘
میں نے ان کی تجویزسے اتفاق کیا اور پھر دوسرے موضوعات پر گفتگو ہونے لگی۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کے لہجے میں شائستگی اور نرمی کے ساتھ ایک عجیب سے وقار کا عنصر بھی موجود ہے۔ میرے استفسار پر یہ عقدہ کھلا کہ ان کا سلسلۂ نسب براہ راست نواب سراج الدولہ سے جا ملتا ہے۔ مجھے کچھ زیادہ استعجاب نہیں ہوا۔ اپنے سفر کے دوران میری ملاقات ایسے کئی لوگوں سے ہوئی تھی جن کے آباء و اجداد تو حکمرانِ وقت تھے لیکن وہ خود بے حد کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ وقت کسی کا محکوم نہیں ہوتا، وہ تو خود حکم صادر کرتا ہے اور چشم زدن میں تخت، تختہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ان جیسے لوگوں کی ذہنی کیفیت کو محسوس کر کے خاصا رنج ہوتا ہے۔ یہ دوہری اذیت میں مبتلا افراد ہیں۔ سختیِ حالات سے نبرد آزما حیات، گراں مایہ اثاثۂ ماضی کے لٹ جانے کے عذاب سے کبھی مفر نہیں پاتی۔
صبح سویرے میں تیار ہو کر کمرے سے باہر آیا تو انہوں نے اطلاع دی کہ تھوڑی دیر میں گائیڈ حاضر ہو جائے گا۔ میں نے ہلکا سا ناشتہ کیا اور پھر چائے پی رہا تھا کہ ہال میں ایک سانولے رنگ کا دبلا سا نوجوان داخل ہوا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور مودبانہ انداز میں میرے قریب کھڑا ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ وہی فخرو گائیڈ ہے جسے نواب صاحب نے میری رہنمائی کے لیے منتخب کیا تھا۔ اچھی بات یہ تھی کہ وہ میری زبان اردو سے بھی واقف تھا۔ میں فخرو کے ساتھ روانہ ہوا تو دھوپ نوزائیدہ اور نرم تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ یہ لمحاتی نرمی ہے۔ آہستہ آہستہ اس کی تپش میں اضافہ ہوتا جائے گا اور راستہ چلنا دشوار ہو جائے گا۔
چار قدم کا فاصلہ ہی طے ہوا تھا کہ بہت سارے برہنہ جسم اور مفلوک الحال بچوں نے ہمیں گھیر لیا۔ سبھی کے ہاتھ پھیلے ہوئے تھے اور بنگلہ زبان سے نابلد ہونے کے باوجود ان کی لجاجت آمیز آوازوں سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ سب مجھ سے پیسوں کے طلبگار تھے۔ میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ فخرو نے مجھے روک دیا۔
’’رہنے دیں صاحب۔ آپ نے انہیں کچھ دے دیا تو اتنے افراد جمع ہو جائیں گے کہ آگے بڑھنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
اس نے ڈانٹ کر بچوں کو دور بھگایا اور مجھے ان کے حصار سے نکال کر آگے بڑھا۔ میں نے بچوں پر نگاہ ڈالی۔ سب بڑی حسرت اور نا امیدی سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ یکلخت مجھے کسی مضمون میں مذکور اس خط کی یاد آئی جسے عہدِ سراج الدولہ میں بنگال کے گورنر لارڈ کلائیو نے ملکہ برطانیہ کو تحریر کیا تھا۔ اس خط میں مرشد آباد کی شان و شوکت اور عظمت و امارت کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے آخر میں درج کیا تھا۔
’’بس یوں سمجھئے یور ہائی نیس۔ مرشد آباد اپنے لندن کی طرح ہی عظیم اور خوبصورت شہر ہے لیکن لندن اتنا دولت مند نہیں جتنا مرشد آباد ہے۔‘‘
وہ خط تو آج بھی برٹش میوزیم میں محفوظ تھا لیکن وقت کے بگولوں میں مرشد آباد کی امارت بالکل منتشر ہو چکی تھی۔ شہر کے تمام خوبصورت اور عالیشان محلات کھنڈر میں تبدیل ہو چکے تھے اور پورے ماحول پر عسرت اور نحوست کی دبیز چادر تن گئی تھی۔
فخرو راستے میں پڑنے والے اہم مقامات کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتا جا رہا تھا لیکن میں بالکل خالی الذہن سا اس کے قدم سے قدم ملاتا ہوا چل رہا تھا۔ ایک جگہ مجھے کسی مسجد کے مبہم سے آثار نظر آئے لیکن اس کے احاطے میں گائیں بھینسیں بندھی ہوئی تھیں۔ میں نے فخرو کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تو اس نے لاپرواہی سے کہا۔
’’کہا جاتا ہے کہ پورے شہر میں سات سو مسجدیں تھیں لیکن اب صرف سات مسجدیں ایسی بچی ہیں جن میں با جماعت نماز ادا ہوتی ہے۔‘‘
مجھے یہ سوچ کر گہرا رنج ہوا کہ زمانے کے نشیب و فراز نے خدا کے گھر بھی تہہ و بالا کر دیے۔
فخرو مجھے ایک عالیشان اور قدرے بہتر حالت میں موجود اس عمارت کے قریب لے آیا جو ہزار دواری کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ میں فن تعمیر کے اس دلچسپ اور عجیب نمونے کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس عمارت میں دروازے ہی دروازے نظر آ رہے تھے۔ ایک ہی طرح کے نقش و نگار والے دروازے۔ فخرو کے اس انکشاف پر میں حیرت زدہ رہ گیا کہ سارے دروازے اصلی نہیں ہیں۔ بیشتر دروازے مصنوعی ہیں جو اصلی دروازوں کے مشابہ ہیں۔ سچ مچ کاریگری کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ اگر کوئی نہ بتائے تو اصلی نقلی کی شناخت تقریباً نا ممکن تھی۔
تعمیر بھی حفاظتی نقطۂ نگاہ سے کی گئی تھی تاکہ بیرونی دشمن کسی طرح کا نقصان پہچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ لیکن درونِ خانہ سے ہی رہنمائی اور حمایت حاصل ہو جائے تو۔۔۔۔
شہر کے کھنڈرات گواہ ہیں کہ تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود انگریزی سپاہ بآسانی شہر میں داخل ہوئی تھی اور سرسبز زمین کو سرخ کرتی ہوئی سارے اثاثے لوٹ لے گئی تھی۔ وقت نے عبرت انگیز کروٹ بدلی تھی۔ لکھنؤ کی مشہور طوائف منی بیگم میر جعفر کی ملکہ بن کر مرشد آباد پر در پردہ حکمرانی کرنے لگی تھی۔ معتبر حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کی دوسری امیر ترین عورت تھی۔ انگریزی تسلط کے بعد اس کی تمام دولت کس دروازے سے برطانیہ پہنچ گئی، کوئی نہیں جانتا۔ کاروبارِ حسن کے ذریعہ پس انداز کی ہوئی رقم بالآخر دلالوں کے ہی ہاتھ لگی تھی۔
میں فخرو کے ساتھ ہزار دواری کی عمارت میں داخل ہوا۔ اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور وہاں نوابی عہد کی یادگاریں رکھی ہوئی تھیں۔ پلاسی کی جنگ میں استعمال ہونے والے اسلحوں کے علاوہ ابو الفضل کے آئینِ اکبری کا اصلی نسخہ بھی موجود تھا۔ ایک کمرے میں چند ظروف سجے تھے جن کے متعلق فخرو نے بتایا کہ انہیں ایسی دھاتوں کی آمیزش سے بنایا گیا تھا کہ یہ زہر آلود کھانے کی پہچان بتا دیتے تھے۔ یہ ظروف نواب سراج الدولہ کے زیر استعمال تھے۔ اسی طرح کی دیگر احتیاطی تدابیر تقریباً تمام نوابوں اور بادشاہوں کے یہاں اپنائی جاتی تھیں۔ انہیں محلاتی سازش اور غداری کا ایسا خدشہ لگا رہتا تھا کہ ان کے لیے اپنے محل میں بھی پر سکون اور بے خوف زندگی گذارنا محال تھا۔ لیکن تمام احتیاط کے باوجود ان میں سے اکثر اپنوں کی ہی سازش اور غداری کے شکار ہوئے تھے۔ نواب سراج الدولہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ فخرو کے بیان کے مطابق انگریزوں کی مہربانی سے سراج الدولہ کو بے دخل کر کے میر جعفر مرشد آباد کا نواب بنا تو پورا شہر مقتل میں تبدیل ہو گیا تھا۔ میر جعفر نے سراج الدولہ کے تمام رشتہ داروں اور وفا داروں کو اپنے لیے خطرہ محسوس کیا اور انہیں چن چن کر قتل کروا دیا گیا۔ مرشد آباد کی سرزمین ان بے گناہوں کے خون سے تر ہو گئی تھی۔ کتنے ہی دنوں تک یہ خوں چکاں سلسلہ چلتا رہا تھا۔ آخرش مرشد آباد میں سراج الدولہ کا نام لینے والا ایک فرد بھی زندہ نہیں رہ سکا تھا۔ سب کے سب قریب ہی کے خوش باغ قبرستان میں دفن کر دیے گئے تھے۔
انسانوں کے ظلم و بربریت کے بارے میں سوچتا ہوا میں بے حد رنجیدہ طبیعت سے باہر آ گیا۔ بغل میں ہی بڑا امام باڑہ تھاجس کے گنبد پر سیاہ علم لہرا رہا تھا۔ گرم دوپہر کا سناٹا چہار سو طاری تھا لیکن مجھے محسوس یو رہا تھا کہ ماتم کی اجتماعی مجلس سجی ہے اور ہر بشر انفرادی طور پر اپنے ہی کسی عزیز کی میت پر نوحہ کناں ہے۔ گریہ و زاری کا ایسا شور بپا تھا کہ کچھ اور سننے سے میری سماعت معذور تھی۔ زمین کا کون سا ایسا خطہ تھا جہاں تبدیلیِ کردار کے ساتھ کربلا کا سانحہ رو نما نہیں ہوا تھا۔ اسی شہر کی اسی بڑی سڑک پر نواب سراج الدولہ کو ہاتھی کے پیروں سے باندھ کر اس وقت تک گھسیٹا گیا تھا جب تک کہ اس کی موت واقع نہ ہو گئی۔ اس کے زخمی جسم کا قطرہ قطرہ لہو اسی سڑک میں جذب ہوتا گیا تھا۔ آج بھی ہر خطۂ زمیں انسانوں کے خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری تھا اور شاید صدیوں تک جاری رہنے والا تھا۔ یہ زمین نہ جانے کس جنم کی تشنہ ہے کہ سیراب ہوتی ہی نہیں۔
تمام قابل ذکر مقامات دیکھ کر ہم لوٹنے لگے تو سہ پہر ہونے والی تھی۔ ہر عروج کی طرح دھوپ بھی رو بہ زوال تھی۔ میں کھنڈر بن گئی عمارتوں پر افسردہ نگاہیں ڈالتا ہوا چل رہا تھا۔ یک لخت ایک منظر نے میرے قدم روک لیے۔ ایک کھنڈر کے دروازے پر بیٹھا ہوا ایک نحیف و ناتواں بوڑھا اپنی لاٹھی اٹھائے چیختا ہوا عمارت کے پیچھے کی جانب لپکا تھا۔ مین نے دیکھا کہ وہاں کچھ لڑکے ڈھہتی ہوئی دیوار پر زور آزمائی کر رہے تھے۔ میں کسی قدر استعجاب سے لنگی بنیان میں ملبوس بوڑھے کو تکتے ہوئے فخرو سے مخاطب ہوا۔
’’تعجب ہے کہ ان کھنڈروں کے لیے بھی دربان مقرر ہیں۔ میں نے اکثر عمارتوں کے دروازوں پر انہیں تعینات دیکھا ہے۔‘‘
فخرو کے سانولے چہرے پر سیاہی کا رنگ چڑھ گیا اور اس کی آنکھوں میں حزن و یاس کے گہرے سائے لہرائے۔ اس نے قدرے توقف کے بعد مضمحل لہجے میں کہا۔
’’یہ دربان نہیں ہیں جناب۔ یہ لوگ ان کھنڈر نما حویلیوں کے مالک ہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں چونکا۔ ‘‘یہ مفلوک الحال بوڑھے ان کے مالک ہیں؟‘‘
’’ہاں جناب! یہاں بیشتر عمارتوں کو محکمۂ آثار قدیمہ کے توسط سے سرکار نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ ان کے مالکان انہیں فروخت کر سکتے ہیں نہ کسی اور مصرف میں لا سکتے ہیں۔ ان کا وظیفہ مقرر کر دیا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ نہ ان کے وظیفے میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا اور نہ ہی ان کی باز آباد کاری کی کوئی کوشش کی گئی۔ کسی بھی سرکار نے ان ضبط شدہ جائداد کی حفاظت میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور نہ ہی یہاں ذرائع آمدنی پیدا کرنے کے جامع منصوبے بنائے گئے۔ اس مجرمانہ چشم پوشی اور بے توجہی کے باعث پورا شہر کھنڈر بن گیا۔ زیادہ تر افراد شہر سے نکل گئے اور وقت کے اژدہام میں اپنے حصے کا رزق تلاش کرتے ہوئے جانے کہاں گم ہو گئے۔ لیکن یہ بوڑھے اپنی وراثت پر پہرے دار بنے بیٹھے ہیں۔‘‘
میں نے اس بوڑھے کو دیکھا جو شرارتی لڑکوں کو بھگا کر ایک بار پھر محراب نما شکستہ دروازے پر بیٹھ گیا تھا اور ملگجی نگاہوں سے ہماری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ جانے کیوں مجھے وہ بوڑھا ایک پوری قوم کا نمائندہ محسوس ہوا جو نحیف و ناتواں ہونے کے باوجود اپنے آباء و اجداد کی وراثت کے تحفظ میں ہر بادِ مخالف سے اپنی سکت بھر نبرد آزما تھا۔
میں بوجھل اور تھکے قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ تمام شہر کے مشاہدے کے بعد مجھ پر گہرا اضمحلال اور ملال طاری ہو چکا تھا۔ میں نے بہت سارے تاریخی شہر دیکھے تھے اور میں نے واضح طور پر محسوس کیا تھا کہ مسلم آثار والے مقامات کی توسیع و ترقی میں دانستاً غفلت برتی جاتی ہے لیکن مرشد آباد کا حال تو سب سے ناگفتہ بہ تھا۔ بر سر اقتدار حکمرانوں کا شدید تعصب ہی تھا کہ ایک عظیم الشان اور با رونق شہر زوال کے گہرے اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔ کسی نے کولکاتہ کو مرتا ہوا شہر قرار دیا تھا۔ اگر وہ مرشد آباد کا مشاہدہ اور مطالعہ کرتا تو اس پر آشکار ہوتا کہ کسی جیتے جاگتے، زندگی سے بھرپور شہر کو بتدریج کتنی سفاکی اور عیاری سے قتل کیا جاتا ہے اور اس قتلِ عمداً پر باشندگانِ شہر پر کیسی قیامت گزرتی ہے۔
میں سراج الدولہ لاج میں داخل ہوا تو شام کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے لیکن فضا میں ایسا حبس تھا کہ دم گھٹا جاتا تھا۔ میں نے فخرو کو طے شدہ رقم دے کر رخصت کیا اور غسل خانے میں داخل ہو گیا۔ تر و تازہ ہو کر ہال میں بیٹھا ہی تھا کہ اختر الدولہ صاحب چائے کے ساتھ تشریف لے آئے۔ چائے نوشی کے دوران وہ میرے دیکھے گئے مقامات کی تفصیل سنتے رہے اور ان کے کچھ نئے گوشے اجاگر کر کے میری معلومات میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کی باتوں سے عیاں تھا کہ وہ غیروں کے ظلم و ستم سے زیادہ اپنوں کی سازشوں اور غداریوں سے کبیدہ خاطر اور شکستہ دل تھے۔ میں ان سازشوں اور غداریوں سے بخوبی واقف تھا کیونکہ میرا تو تعلق ہی اس سرزمین دہلی سے تھا جو ان فصلوں کی آبیاری کے لیے صدیوں سے بے حد زرخیز رہی تھی مرشد آباد تو غداری کے صرف ایک ہی منظر کا گواہ تھا شہر دہلی نے تو اتنے مناظر دیکھے ہیں کہ اس کی آنکھیں ہی پتھرا گئی ہیں۔
جیپ میں سواریاں مکمل ہو گئیں تو ڈرائیور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میں نے ڈرائیور کے پاس والی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے نواب اختر الدولہ کو الوداعی سلام کیا۔ انہوں نے بے حد خلوص و محبت سے مجھے دعائیں دیں۔ جیپ مرشد آباد سے باہر نکلنے کے لیے چل پڑی۔
جیپ معتدل رفتارسے چل رہی تھی کہ اچانک اس کی رفتار بہت تیز ہو گئی۔ مجھے حیرت ہوئی اور یاد آیا کہ شہر میں آتے وقت بھی ٹھیک اسی مقام پر جیپ کی رفتار بے حد بڑھ گئی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے اپنے تجسس کا اظہار کیا تو وہ گہری بے زاری اور نفرت سے بولا۔
’’اس جگہ ہر ڈرائیور اپنی گاڑی کی رفتار بڑھا دیتا ہے کیونکہ یہیں پر غدار میر جعفر کی قبر ہے۔‘‘
اور تب مجھ پر منکشف ہوا کہ راجدھانی دہلی کی ہر شاہراہ پر گاڑیاں اتنی تیز کیوں چلتی ہیں۔۔۔
٭٭٭
خسارہ
مئی کی شعلے اگلتی دو پہر تھی وہ بس میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے اس نے اپنے چہرے پر رو مال باندھ رکھا تھا۔ کھڑکی کے باہر سٹی بس اسٹینڈ کے وسیع احاطے میں تیز و تند دھوپ کسی عفریت کی طرح چنگھاڑ رہی تھی کچھ ہی مسافر تھے جو خود کو دھوپ کی گرفت سے بچاتے ہوئے بس کی طرف لپک رہے تھے معاً کوئی اس کی بغل میں آ کر بیٹھا تو اس نے مڑ کر دیکھا اسے لگا کہ باہر کی چنگھاڑتی ہوئی دھوپ اندر داخل ہو گئی ہے اور اس کے پورے وجود کو جھلسا گئی ہے۔
’’ریحانہ! ‘‘ وہ زیر لب بڑبڑایا
اسے ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا تھا کہ اس چھوٹی سی دنیا میں کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں وہ اپنی اداس آنکھوں میں ڈھیر سارے سوالات لے کر اس کے سامنے آ کھڑی ہو گی۔ وہ اس صورت حال سے بچنا چاہتا تھا کیونکہ اس کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا اس نے اپنی عینک کو ناک پر درست کرتے ہوئے اسے غور سے دیکھا۔ گزرے ہوئے کئی برسوں کا غبار بھی اس کے حسین چہرے کی جاذبیت پر کوئی پرت نہ ڈال سکا تھا۔ قدرے فربہی کی طرف مائل اس کا پر کشش جسم ہلکے دھانی رنگ کے شلوار سوٹ میں کسا ہوا تھا۔ اس کی سحر انگیز غزالی آنکھیں دھوپ کی عینک کے عقب میں پوشیدہ تھیں۔ اس کے سرخ و سپید چہرے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے جنہیں وہ ایک تولیہ نما چھوٹے سے رو مال میں جذب کرتی جا رہی تھی۔ چہرے پر رو مال ہونے کی وجہ سے وہ اسے شناخت نہیں کر سکی تھی ورنہ شاید وہ اس کے قریب بیٹھنا گوارا نہ کرتی۔ وہ خود بھی شدید بے سکونی محسوس کرنے لگا تھا۔ اس نے بس کے اندر نگاہیں دوڑائیں۔ تمام سیٹیں پر ہو چکی تھیں خاصا طویل سفر تھا اس ناقابل برداشت گرمی میں کھڑے ہو کر جانا بے وقوفی ہوتی وہ دم سادھے بیٹھا رہا اور باہر کے سلگتے مناظر سے ذہن کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ بس میں کچھ اور سواریاں آ گئیں تو کنڈکٹر نے آواز دی اور بس چل پڑی کچھ نسوانی آوازوں کا بے ترتیب شور ابھرا تو اس نے اندر کی طرف دیکھا نو عمر اور نو خیز اسکولی طالبات تھیں جو بس کی چھت پر لگی ہینڈل تھامے ہوئے آپس میں چہلیں کر رہی تھیں انہیں تکتے ہوئے اس کا ذہن برسوں پہلے کی گل ریز شاہراہ پر سرپٹ دوڑنے لگا
وہ بی۔ کام فائنل ائر کا طالب علم تھا۔ اکنومکس، اکاؤنٹنسی اور بزنس میتھ پڑھتے پڑھتے اس کی ذہنیت تاجرانہ ہوتی جا رہی تھی اور وہ ہر کام میں نفع نقصان پر گہری نگاہ رکھنے لگا تھا کہ اسی وقت ریحانہ سے ملاقات ہو گئی۔ تب اس نے جانا کہ علم معاشیات ہو یا علم الحساب، دلوں کے معاملے میں ان سے کوئی مدد نہیں مل سکتی من کی تو الگ ہی لگن ہوتی ہے جو سود و زیاں سے ماورا ہوتی ہے۔ وہ پلس ٹو کی طالبہ تھی اور کچھ دنوں سے اس کے بھائی جان کے پاس ٹیوشن پڑھنے آنے لگی تھی۔ پہلی نگاہ میں ہی وہ آنکھوں کی راہ دل میں براجمان ہو گئی۔ جب اس کے آنے کا وقت ہوتا وہ سارے کام تج کر اس کا منتظر رہتا۔ جیسے ہی سادے لباس میں اس کا دلآویز سراپا نظر آتا اس کے دل کے تمام خوابیدہ ملائم تار تن جاتے اور اس کی رگوں میں موسیقیت بھر جاتی وہ اس کے مخفی جذبوں سے بے نیاز اپنے گل نو شگفتہ جیسے چہرے پر ایک ہلکی سی معصوم مسکان لاتی اور اسے سلام کرتی ہوئی اندر ہال میں چلی جاتی جہاں بھائی جان دیگر لڑکیوں کو درس دے رہے ہوتے آہستہ آہستہ اس کے لطیف جذبے اس پر آشکار ہوتے گئے اور بھائی جان کی نگاہ بچا کر سلام کے ساتھ کلام بھی ہونے لگا اس کی آواز میں غضب کی نغمگی اور آہنگ تھا۔ سخن کرتی تو لگتا کوئی گیت گنگنا رہی ہو یا دور اونچائی سے کوئی آبشار گر رہا ہو۔ کل۔ کل۔ کل۔۔۔ وہ چلی بھی جاتی تو اس کی آواز کا فسوں دیر تک اس کے تمام وجود کو اپنی گرفت میں لیے رہتا
اس دوران بھائی جان کی شادی کی طے شدہ تاریخ قریب آ گئی۔ صرف ہفتے بھر کا وقت رہ گیا تھا۔ شادی کی تیاری زور شور سے جاری تھی بیشتر سامان کی خریداری اسی کے ذمے تھی سب کچھ تو ٹھیک تھا لیکن دلہن کے لیے ملبوسات خریدنا ٹیڑھا مسئلہ تھا وہ ریحانہ سے مدد کا طلب گار ہوا تو وہ فوراً تیار ہو گئی۔ وہ پہلی بار اس کے ساتھ بازار گیا زنانہ ملبوسات کی دکانوں کا چکر کاٹتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ کپڑوں کا بے حد نفیس ذوق رکھتی تھی اس کے منتخب کردہ ملبوسات یقیناً قابل تعریف تھے خریداری کے بعد وہ اسے ایک اچھے ریسٹورنٹ میں لے گیا ناشتے اور ٹھنڈے مشروب کا لطف اٹھاتے ہوئے ڈھیر ساری باتیں ہوئیں اچانک اس نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مجھے یقین تھا کہ آپ دلہن کے ملبوسات کی خریداری کے لیے مجھے ساتھ چلنے کو کہیں گے‘‘
’’کیوں؟ تمہیں اس کا یقین کیوں تھا؟‘‘
اس نے قدرے تعجب سے پوچھا تو وہ گہری مسکان بکھیرتی ہوئی خاموش رہی۔
وہ گھر واپس آئے تو وہاں ٹیوشن پڑھنے والی لڑکیاں بھائی جان پر دباؤ ڈال رہی تھیں کہ گیتوں کی محفل سجائی جائے ریحانہ بھی ان میں شامل ہو گئی بالآخر بھائی جان راضی ہو گئے اور شام ہوتے ہی ڈھولک کی تھاپ کے ساتھ گیتوں کے مدھر بول ابھرنے لگے مختلف نوخیز اور الھڑ آوازوں کے درمیان ایک ایسی نرم اور شیریں آواز لہرائی جس میں غضب کی کشش اور غنائیت تھی
’’موہے چاندی کی پائل منگا دو سجن
خالی پیروں سے پنگھٹ کو میں چلوں
اپنی سکھیوں کو دیکھوں تو میں جلوں
وہ تو ناچیں میں شرما کے منھ پھیروں
موہے پنگھٹ کی رانی بنا دو سجن ’’
گیت کے مدھر شبد، انوکھی طرز اور مقناطیسی آواز کا مجموعی تاثر اسے کھینچتا ہوا اندر لے آیا اس نے دیکھا کہ گیت کے بول ریحانہ کے ہونٹوں سے پھوٹ رہے ہیں اور دوسری لڑکیاں ٹیپ کا مصرعہ اٹھا رہی ہیں۔ اس پر نگاہ پڑی تو ریحانہ کی آواز کسی قدر دھیمی پڑ گئی لیکن اس نے محسوس کیا کہ اس کے لہجے میں کچھ اور سوز و گداز گھل گیا۔ اور پھر ہر شام اسی طرح کے طربیہ اور عشقیہ گیت گائے جاتے رہے جن میں سب سے نمایاں اور مترنم آواز اسی کی ہوتی تھی۔ دوسری لڑکیوں کی بہ نسبت اسے گیت بھی خوب یاد تھے۔ غیر فلمی گیت جن کی طرزیں بھی جیسے وہ خود ہی بناتی تھی۔ رات گہری ہوتے ہی گیتوں کی محفل ختم ہو جاتی لیکن وہ رات بھر اس آواز کی ڈور تھامے آسمان پر جھلمل تاروں کے درمیان بھٹکتا رہتا۔ بھائی جان کی شادی ہونے تک وہ اس کے عشق کے دریا میں گلے تک ڈوب چکا تھا۔
یکایک بس کو زور کا جھٹکا لگا اور اس کی یادوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا جھٹکے کے اثر سے ریحانہ کا گداز بدن اس کے جسم سے ٹکرایا تو رگ و پے میں بجلی سی دوڑ گئی اس نے دزدیدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا جو سرعت سے الگ ہو کر اپنے بدن کو اس طرح سمیٹ رہی تھی جیسے اسے سخت کوفت ہوئی ہو۔ وہ افسردہ سا ہو کر کھڑکی کے باہر تکنے لگا۔ بس عریض و ہموار سڑک پر تیز رفتار سے بھاگی جا رہی تھی یہ بائی پاس کی قومی شاہراہ تھی جو کچھ ہی عرصہ قبل تعمیر ہوئی تھی۔ اس کے بننے سے گاڑیوں کی آمدورفت میں بے حد آسانی ہو گئی تھی لیکن حادثوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا تھا سڑک کی دونوں جانب گاؤں آباد تھے جہاں کے لوگ گاڑیوں کی رفتار اور سڑک کی وسعت سے اکثر دھوکہ کھا جاتے جدید موٹر گاڑیوں اور ویگنوں کی قوت رفتار اس قدر بڑھا دی گئی تھی کہ اس قومی شاہراہ پر ہوا سے باتیں کرتیں ذرا سی غفلت ہوتی کہ انسانوں کے ساتھ ان کے بھی کل پرزے بکھر جاتے یکلخت اس کے اندر ایک عجیب سی خواہش جاگی کہ کاش کوئی بھاری بھرکم ٹرک اس کی بس کو ایسی ٹکر مارے کہ سب کچھ سڑک پر بکھر جائے۔
بس ایک اسٹاپ پر رکی کچھ سواریاں نیچے اتریں کنڈکٹر بھی نیچے اتر کر چلایا۔
’’رانی گنج۔۔۔۔۔ رانی گنج آئیے۔۔۔۔۔! ‘‘
دوچار افراد بس کے اندر آئے اور بس پھر چل پڑی۔
رانی گنج۔۔۔۔ حضرت شمس الدین بابا عرف غوث بنگالہ کا شہر۔ فروری کے مہینے میں ان کا عرس لگتا دور دور سے زائرین آتے اور ان کے مزار اقدس پر گلہائے عقیدت پیش کرتے۔ ہفتہ بھر ٹرینوں اور بسوں میں کافی بھیڑ رہتی قرب و جوار کے شہروں میں قوالیاں ہوتیں اور مزار شریف کے لیے چادریں لے جائی جاتیں۔ ہندو مسلم سبھی شریک ہوتے ان دنوں اسے یہ سب بے حد اچھا لگتا تھا اسے قوالی کی محفلیں اچھی لگتی تھیں۔ انہیں سننے کے لیے شب بھر گھر سے غائب رہتا۔ اسے قوالیوں میں دو چیزیں خاص طور سے پسند آتیں قوال جب بھی کوئی کلام گاتا تو درمیان میں اس کلام سے مناسبت رکھتے ہوئے بڑے اور معتبر شعراء کے مشہور قطعات اور اشعار بھی سناتا جاتا اس کا اصل کلام تو اوسط درجے کا ہوتا لیکن ان اشعار کی وجہ سے اس کی وقعت اور اثر انگیزی میں خاصا اضافہ ہو جاتا عمدہ قوالوں کو بہت سارے معیاری اشعار یاد ہوتے جن کا وہ برمحل استعمال کرتے رہتے مثلاً کوئی استاد قوال ایک مصرع گانا شروع کرتا۔
تیری یادوں کے چراغوں کو جلا رکھا ہے
الگ الگ طرز پر کئی بار اس مصرعے کی تکرار کرتا رہتا۔
تیری یادوں۔۔۔۔۔۔۔ تیری یادوں۔۔
ہاں تو جناب بشیر بدر فرماتے ہیں
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
اور فیض احمد فیض کچھ یوں فرماتے ہیں
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
جبکہ محترمہ کشور ناہید فرماتی ہیں
تمہاری یاد میں ہم جشن غم منائیں بھی
کسی طرح سے مگر تم کو یاد آئیں بھی
اور نکہت بریلوی کہتی ہیں
قربت میں بھی اکثر ہمیں یاد آتا رہا ہے
وہ لمحہ جو فرقت میں ترے ساتھ گزارا
تیری یادوں۔۔۔۔۔۔۔ تیری یادوں۔۔۔۔۔۔
قوالی میں جو دوسری بات اسے پسند تھی، اسے لچھا کہا جاتا تھا۔ کوئی کہنہ مشق قوال کسی کلام کے وسط میں چھوٹی بحر کی کوئی طویل نظم یا غزل مسلسل چھیڑ دیتا ڈھولک کی تھاپ اور قوال کی آواز بتدریج رفتار پکڑتی جاتی اور پھر ایسا سماں بندھتا کہ محفل پر وجد طاری ہو جاتا کسی کسی سامع پر تو ‘‘حال‘‘ آ جاتا۔
ریحانہ نے ایک روز فرمائش کی تھی۔
’’مجھے رانی گنج ‘‘غوث بنگالہ‘‘ کے دربار میں لے چلئے‘‘
’’لیکن ابھی تو عرس میں کافی دن باقی ہیں۔‘‘
اس نے کچھ حیرت سے کہا۔
’’عرس میں جانے کے لیے نہیں کہ رہی یوں ہی کسی جمعرات کو چلتے ہیں۔‘‘
اگلی جمعرات کو ہی وہ اس کے ساتھ بابا کے دربار میں حاضر ہو گیا تھا۔ زائرین کی خاصی تعداد موجود تھی مزار شریف کے باہر بائیں سمت بنے ہوئے حوض میں دونوں نے وضو کیا تھا اور ایک دکان سے شیرینی اور اگر بتی لے کر مزار کے اندر داخل ہو گئے تھے صحن میں قوالی کی محفل جمی تھی ایک خوش گلو قوال نغمہ سرا تھا اور امیر خسرو سوز ہجر میں غلطاں مزار شریف کے در و دیوار پر سر پٹخ رہے تھے
کہ تاب ہجراں ندارم اے جان نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
کسے پڑی ہے جو سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
نہ نیند نینا نہ رنگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
سپت من کے در آئے راکھوں جو جائے پاؤ پیا کی کھتیاں
فضا میں ایک پاکیزہ اور پر سکون اداسی چھائی ہوئی تھی دل تھا کہ امڈا چلا آتا تھا اس نے پہلی بار جانا کہ اداسی کا بھی اپنا رنگ ہوتا ہے، اپنا آہنگ ہوتا ہے جس میں ڈوب کر تمام وجود میں ایک عجیب سی سرشاری اور مخموری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے وہ دونوں لرزتے قدموں سے روضۂ اقدس والے حجرے میں داخل ہوئے تھے روضے کی جالی چوم کر انہوں نے سلام عقیدت پیش کیا تھا۔ روضے کی دائیں طرف بیٹھے ہوئے مجاور کے سامنے شیرینی کے دونے اور اگر بتیوں کے پیکٹ رکھے ہوئے تھے انہوں نے بھی اپنا دونا وہیں رکھ دیا تھا روضے سے ذرا دور ہٹ کر اس نے فاتحہ پڑھا تھا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے تھے دعا سے فارغ ہو کر اس نے ریحانہ کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں روضے کی دوسری جانب جہاں چراغ روشن کیے جاتے تھے اور اگر بتیاں جلائی جاتی تھیں، وہ دکھائی دی تھی۔ وہ جگہ منت مانگنے والوں کے لیے مخصوص تھی وہ اس کے قریب چلا آیا دیکھا کہ وہ بھی منت کا دھاگہ جالی سے باندھ رہی ہے کافی دیر تک وہ دونوں وہاں موجود رہے تھے بھیڑ ہونے کے باوجود چہارسمت ایک با ادب خاموشی چھائی ہوئی تھی بس صحن سے آتی ہوئی قوالی کی آواز سماعتوں میں رس گھول رہی تھی۔
وہ دونوں مزار شریف سے نکلے تو شام کے سائے پنکھ پسارنے لگے تھے چلتے چلتے اس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’تم نے کیا منت مانگی؟‘‘
اس نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر پر اسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’منت کے بارے میں کسی کو بتایا نہیں جاتا ورنہ وہ پوری نہیں ہوتی۔‘‘
اسے یقین تھا کہ وہ اس کے ذریعہ مانگی گئی منت کے متعلق جانتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد وہ اس کے تعلق سے شبہے میں پڑ گیا تھا۔
اس کے فائنل امتحان جاری تھے۔ دو پرچے ہو چکے تھے تیسرے پر نظر ثانی کر رہا تھا کہ وہ دبے پاؤں چلی آئی اس کے چہرے پر حزن و یاس کی گہری پرتیں دیکھ کر وہ بے قرار ہو اٹھا اور سرعت سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
وہ خاموش کھڑی ہوئی اپنے دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے پختہ فرش کو کریدنے کی ناکام کوشش کرتی رہی دوبارہ استفسار کرنے پر اس نے مضمحل آواز میں رک رک کر کہا۔
’’ابو۔۔ نے۔۔ میری۔۔ شادی۔۔ طے۔۔ کر دی ہے۔‘‘
اسے لگا کہ امتحان کے لیے یاد کیے ہوئے تمام جوابات اس کے ذہن سے یک لخت محو ہو گئے ہیں۔
’’یہ کیسے ممکن ہے؟ تم نے بتایا نہیں کہ۔۔۔۔۔۔‘‘
اس نے ڈوبتی ہوئی آواز کہا
’’آپ میرے ابو کو نہیں جانتے؟ بے حد سخت گیر اور ضدی آدمی ہیں اس زمانے میں بھی ذات برادری کے قائل ہیں انہیں اپنی برادری کا کوئی برسر روزگار لڑکا مل گیا تو موقع غنیمت جان کر تاریخ تک مقرر کر دی دس دنوں کے بعد ہی شادی ہے‘‘
وہ بے جان مجسمے کی مانند بیٹھا رہا قدرے توقف کے بعد ریحانہ فیصلہ کن لہجے میں بولی۔
’’اب ایک ہی راستہ بچا ہے۔ ہم دونوں گھر سے بھاگ چلیں اور کسی دوسرے شہر میں جا کر شادی کر لیں‘‘
اکنومکس، اکاؤنٹنسی، بزنس میتھ۔۔۔۔ اس کے ذہن میں سارے مضامین گڈمڈ ہونے لگے فائنل اکزام، کیریئر بلڈنگ، اچھی ملازمت، اونچی تنخواہ۔۔۔۔۔ بہت دنوں کے بعد اس کی تاجرانہ ذہنیت از سر نو بے دار ہوئی کیا اسے یہ خسارے کا سودا منظور ہے؟
نہیں نہیں! وہ امتحان بیچ میں چھوڑ کر اپنا مستقبل تاریک نہیں کر سکتا اس نے اس قدر محنت کی ہے کیا اسے رائگاں جانے دے۔
ریحانہ دیر تک اس کے جواب کی منتظر کھڑی رہی اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ خاموشی سے مڑی اور بوجھل قدموں سے باہر نکل گئی
بی۔ کام کرنے کے بعد وہ اسکول سروس کمیشن میں بیٹھا اور منتخب ہوا ایک اچھے گھرانے کی لڑکی سے شادی کی، بچے ہوئے بظاہر وہ ایک مطمئن اور آسودہ زندگی گزارنے لگا تھا لیکن ازدواجی زندگی کی تکرار اور بچوں کے شور کے درمیان اکثر اس کی سماعتوں میں ایک خوش آہنگ آواز لہراتی،
موہے چاندی کی پائل منگا دو سجن۔۔۔۔
اور آنکھوں میں ریحانہ کا حسین اداس چہرہ ابھر آتا اس کا سارا وجود ایک عجیب سے درد و کرب میں ڈوب جاتا اور وہ پہروں بے چین اور مضطرب رہتا اسکول میں علم معاشیات کا درس دینے کے باوجود وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ حیات نفع بخش رہی یا سراسر خسارے میں گزری۔
لا شعوری طور پر وہ ریحانہ کے تئیں احساس جرم کا شکار تھا اس لیے چاہتا تھا کہ اس کا کبھی سامنا نہ ہو لیکن آج وہ اس کی عین بغل میں بیٹھی تھی۔ بس کی طویل مسافت کے دوران اس نے طے کیا کہ ریحانہ کا سامنا کیا ہی جائے، اپنی بزدلی پر اس کے طعنے سنے، اور اس کی تلخی سخن کو برداشت کرے بنا کسی تاویل کے اس سے معذرت کرے تاکہ اس کا برسوں کا اضطراب ختم ہو۔
بس رانی گنج کے بس اسٹینڈ پر رکی تو باقی ماندہ مسافر اترنے لگے ریحانہ بھی اس کی بغل سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی وہ بھی اس کے عقب میں موجود تھا۔ بس سے نیچے اتر کر وہ آگے بڑھ گئی اس نے اپنے چہرے سے رو مال ہٹایا اور اس کے تعاقب میں لپکتے ہوئے آواز دی
’’سنئے! ‘‘
وہ چونک کر پلٹی اور حیرانی سے اس کی طرف دیکھا
’’ریحانہ۔۔۔۔۔ مجھے پہچانا۔۔۔۔ میں۔۔ میں ہوں۔۔ طفیل احمد۔۔۔‘‘
اس نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر بے حد سنجیدہ اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوئی
’’لگتا ہے کہ آپ کو کوئی شدید غلط فہمی ہوئی ہے میں ریحانہ نہیں اور نہ ہی آپ کو پہچانتی ہوں‘‘
وہ متانت سے مڑی اور بے نیازی سے آگے بڑھ گئی وہ ٹھگا سا کھڑا رہ گیا بہت دیر بعد اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ آج ہی اپنی عینک کا نمبر درست کروائے گا
لیکن یکایک اس خیال سے گہرے تذبذب میں پڑ گیا کہ وہ اپنی سماعت کا کیا کرے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
کاندھے کا بوجھ
مولوی ثناء اللہ ایک اونچے تخت پر فرو کش تھے اور وعظ فرما رہے تھے۔ بہت سارے لوگ ان کے گرد حلقہ باندھے ہمہ تن گوش تھے۔ انہی لوگوں میں صدر الدین بھی تھا۔
’’ہمارے کاندھوں پر بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ ہم دنیا کے لہو و لعب میں گرفتار ہو کر فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہم دوسری قوموں کی طرح سگِ دنیا نہیں کہ اس کے حصول کی چاہت میں رال ٹپکاتے پھریں۔ ہم ہدایت یافتہ قوم ہیں۔ ہمیں دوسری قوموں سے افضل و برتر بنایا گیا ہے۔ ہمیں اس جہاں کی خلافت تفویض کی گئی ہے تاکہ ہم اس کے گوشے گوشے میں رب العالمین کی وحدانیت کا اعلان کریں اور دوسری قوموں کو اس کا مطیع و فرمانبردار بنائیں۔ ہمیں سخت ہدایتیں ہیں کہ اس سرزمین پر جو منکر و ملحد ہیں یا جو اس کی ذاتِ واحد میں کسی اور کو شریک کرتے ہیں، ان کے خلاف جہاد کریں اور اس وقت تک جہاد جاری رکھیں جب تک کہ سارے جہاں میں اس کا غلبہ، اس کا تسلط قائم نہ ہو جائے۔ ہمارے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ ہے۔ ہمیں ان نافرمانوں اور غاصبوں کو نیست و نابود کرنے کا حکم ہے جو اس کی زمینوں پر اپنی مملکتیں قائم کر لیتے ہیں اور اس کی دی گئی ہدایتوں کے خلاف عمل کرتے ہیں۔‘‘
’’ہم وہ منتخب و معزز قوم ہیں جسے صدیوں قبل وہ بڑی کتاب تفویض کر دی گئی جو تمام علوم و فنون اور قاعدے قانون کا منبع ہے اور صرف ہمیں ہی اس کے اسرار و رموز کی تفسیر وت شریح کی فہم و فراست بخشی گئی۔ ہماری تفسیر و تشریح کے دائرے سے باہر کوئی علم نظر آئے تو وہ شیطانی علم ہے جس کے حصول سے نہ صرف خود کو روکنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روکنے کی حتی المقدور سعی کرنی ہے۔ ہمیں غیر نافع اور ممنوعہ علوم حاصل کر کے ایسی ایجادات و انکشافات کی اجازت نہیں جن سے رب کی وحدانیت اور ربوبیت میں ذرہ برابر بھی شبہ پیدا ہو۔، ،
مولوی ثناء اللہ نے خاموش ہو کر اپنے لمبے اور نفیس جبے کے دامن کو ذرا سمیٹا اور سر پر بندھی دستار کو درست کیا۔ ان کی آواز میں غضب کی نرمی اور کشش تھی۔ گرچہ ان کے لہجے میں قطعیت تھی لیکن کسی تلخی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس بار انہوں نے خطاب شروع کیا تو ان کے اندازِ تخاطب میں تھوڑی سی تبدیلی تھی۔
’’آپ کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ آپ کی زندگی رب کی عطا کردہ ہے اور رب نے آپ کے کاندھوں پر بڑا بوجھ ڈالا ہے۔ آپ اس بوجھ سے کنارہ کش ہو کر اس کی نافرمانی نہیں کر سکتے۔ وہ رحیم و کریم ہے تو جبار و قہار بھی ہے۔ اس کی جانب سے واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ یہ زندگی اصل زندگی نہیں بلکہ اس اصل اور دائمی زندگی کا پرتو ہے جواس کے فنا ہونے کے بعد حاصل ہو گی۔ آپ کے کاندھے پر جو بوجھ رکھا گیا ہے اگر اسے آپ نے اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے صحیح مقام تک پہنچا دیا اور اس کے بعد والی اصل اور دائمی زندگی میں بھرپور اجر دیا جائے گا۔ اس دنیائے فانی میں ایسی کون سی شے ہے جو آپ کے قلب و نظر کو اسیر کر کے آپ کو راہِ حق سے بھٹکا دے۔۔
کیا رشتے اور محبتیں؟ لیکن دنیا کے تمام رشتے اور محبتیں فانی اور ناپائدار ہیں۔ آپ کے مرتے ہی ان کا وجود ختم ہو جائے گا۔ ایک رب کی ہی ذات ہے جو باقی رہنے والی ہے اور اس کی رحمتیں اور محبتیں مرنے کے بعد بھی آپ کے لیے جاری رہنے والی ہیں۔
کیا اس دنیا کے سبزہ زار اور مرغزار، اس کے دلفریب مناظر آپ کے دل کو کھینچتے ہیں؟ لیکن ان کی دلفریبی کب تک؟ موسمِ خزاں کا ایک جھونکا ان کے تمام حسن کو زائل کر دے گا۔ ان کے مقابلے میں جنت کے ان باغوں کو کیوں نہ ترجیح دی جائے جو ہمیشہ سرسبز اور شاداب ہوں گے۔ سایہ دار اشجار میں منفرد اور خوش ذائقہ ثمر ہوں گے۔ دلپذیر خوشبوؤں والے خوش رنگ پھولوں کے پودے ہوں گے۔ شیریں چشمے ہوں گے۔ دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی جن سے جنتی ہمیشہ لطف و حظ اٹھاتے رہیں گے۔
کیا پھر اس دنیا میں خوبصورت اور جوان عورتیں آپ کے دلوں پر قابض ہیں؟ ان کے گداز جسموں سے جنسی تلذذ حاصل کرنے میں باؤلے ہوئے جاتے ہیں؟ لیکن ان عورتوں کی خوبصورتی اور جوانی کب تک؟ اور پھر ان کے جسموں سے لذتیں کشید کرنے کی آپ کی طاقت اور توانائی کب تک؟ وقت کے سمندر میں ہر شے فنا ہونے والی ہے۔ لیکن ذرا تصور کیجئے ان بہشتی حوروں کا جن کے حسن و شباب پر وقت کی کوئی گرد نہیں بیٹھتی اور جو آپ کے لیے مختص ہیں۔ وہاں آپ کی پر جوش جوانی اور بے پناہ طاقت دائمی ہو گی۔ جنسی تلذذ کے لمحات صدیوں میں پھیلے ہوئے ہوں گے۔ کیا ان کا عشر عشیر بھی ان دنیاوی لذتوں میں حاصل ہو سکتا ہے؟
لیکن یہ تمام نعمتیں اور لذتیں صرف انہیں ہی حاصل ہو سکتی ہیں جورب کے احکامات کی پابندی کریں گے اور اس کی تعمیل میں اپنی جان بھی قربان کر دینے سے گریز نہیں کریں گے۔ اس کی راہ میں جان دینے والا شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہو گا۔ انہیں جنت کی تمام نعمتوں کے ساتھ بہتر (72 )۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں بہتر حوریں عطا کی جائیں گی اور اس کی سفارش سے ان کے ستر عزیز و اقارب بخش دیئے جائیں گے۔ اس دنیا میں آپ اپنے عزیز و اقارب کے لیے کیا اور کتنا کر سکتے ہیں؟ لیکن شہید ہو کر ان کی اصل زندگی کو ہمیشہ کے لیے پر لطف اور پر آسائش بنا سکتے ہیں‘‘
مولوی ثناء اللہ رکے۔ ہمہ تن گوش افراد پر گہری نگاہیں ڈالیں اور اس کے چہرے پر اطمینان کا عکس لہرایا۔ قدرے توقف کے بعد وہ گویا ہوئے۔
’’آپ کے کاندھوں پر اس قدر بھاری بوجھ ہے لیکن تعجب ہے کہ آپ کو قطعی احساس نہیں۔ آپ کے کاندھوں پر بوجھ ڈالنے والا آپ کا رب آپ کا نگراں ہے۔ آپ کے ہر قدم پر اس کی نگاہ ہے۔ آپ ثابت قدم رہے اور استقامت کے ساتھ اس کی پسندیدہ راہوں پر چلتے ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچے تو انعام و اکرام کے مستحق ٹھہریں گے بصورت دیگر دوزخ کی بھانک آگ میں ہمیشہ کیلیے جلتے اور تڑپتے رہیں گے‘‘
وعظ ختم کر کے مولوی ثناء اللہ اپنے تخت سے اٹھے۔ اس کے ساتھ تمام افراد اٹھ کھڑے ہوئے۔ سبھی آہستہ آہستہ باہر نکلنے لگے۔ سب سے آخر میں صدر الدین نکلا۔ وہ ایک معصوم اور سادہ لوح نوجوان تھا اور پہلی مرتبہ اس وعظ کی مجلس میں لایا گیا تھا۔ اس نے بڑے ہی غور سے مولوی صاحب کی باتیں سنی تھیں اور اس کا ایک ایک لفظ اس کی سماعتوں سے گزر کر اس کے دل میں نقش کرتا گیا تھا۔ وہ ان کی باتوں سے بے حد متاثر تو ہوا تھا لیکن متعجب بھی کم نہ تھا۔ مولوی صاحب بار بار کاندھوں کے بوجھ کا تذکرہ کر رہے تھے۔ اس نے اپنے کاندھے کا جائزہ لیا تھا اور اسے خالی پا کر گہرے تذبذب میں پڑ گیا تھا۔ اس نے چاہا تھا کہ مولوی صاحب سے اس کے متعلق استفسار کرے لیکن ان کے چہرے پر ایسا رعب اور تقدس تھا کہ ہمت نہ ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس قوم کے سبھی افراد کے کاندھوں پر بھاری بوجھ ہے۔ مولوی صاحب بڑے ہی عالم اور عبادت گزار شخص تھے۔ ان سے دروغ گوئی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ تو کیا وہ اس قوم کا فرد نہیں تھا جسے تمام اقوام میں افضل و برتر بنایا گیا ہے۔ لیکن نہیں۔ اس نے اس خیال کی نفی کی۔ اس کا نام صدر الدین تھا، باپ کا نام بدر الدین تھا۔ اس کے تمام انداز و اطوار اسی قوم سے مطابقت رکھتے تھے۔ وہ بھی انہی کی طرح عبادتیں کرتا تھا اور اسہی کے جیسے عقیدوں کے ساتھ زندگی گزارتا تھا۔ لیکن پھر اس کے کاندھے پر وہ بوجھ کیوں نہیں جس کا مولوی صاحب نے ذکرکیا تھا۔ وہ اسی غور و فگر میں غلطاں چلا جا رہا تھا کہ کسی کے آواز دینے پر چونک کر رکا۔ اس نے آواز کی سمت دیکھا تو راستے میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے ایک شخص بیٹھا ہوا دکھائی دیا۔ عجیب سا حلیہ تھا اس کا۔ جسم پر قدیم طرز کی ڈھیلی ڈھالی عبا تھی اور سر پر بڑا سا عمامہ۔ چہرہ داڑھی مونچھوں میں اس طرح پوشیدہ تھا کہ صرف آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں۔ بالکل کسی داستان کا سوداگر معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے قریب زمین پر ڈھیر ساری گٹھریاں رکھی تھیں۔ اس کی چمکیلی اور متجسس نگاہیں اسی پر ٹکی تھیں۔ وہ اس کے قریب چلا آیا تو اس نے استفسار کیا۔
’’کیا بات ہے؟ کس سوچ میں غرق جا رہے ہو؟’’
صدر الدین نے انتہائی سادہ لوحی سے اپنی پریشانی بیان کی۔ اس کی پریشانی کا سبب جان کر اس شخص کے نیم پوشیدہ ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے جذب کے عالم میں کہا۔
’’تم عرصۂ تلاش میں ہو۔۔۔۔۔۔ اور یہ منزل تک پہنچنے کا پہلا مرحلہ ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟’’ صدر الدین چکرایا۔
’’تم اپنے کاندھے کا وہ بوجھ دھونڈ رہے ہو جو تمہارے رب نے تمہارے سپرد کیا تھا۔ یہ بوجھ تمہاری قوم کے ہر بشر پر ڈالا گیا ہے لیکن زندگی کی بھاگم بھاگ اور دنیا کے اژدہام میں یہ بوجھ بیشتر کے کاندھوں سے گر گئے اور اسے یہ احساس تک نہ ہوا۔ چند ہی افراد ایسے ہیں جو اس افراتفری میں بھی ثابت قدم رہے اور اس بوجھ کو کاندھے پر رکھے ہوئے منزل کی جانب بڑھتے رہے۔‘‘
’’تو کیا میرا بوجھ بھی کہیں گر گیا؟‘‘ وہ گہرے تاسف میں بڑبڑایا۔ ’’لیکن تم کون ہو اور تمہیں یہ سب کیسے معلوم؟
’’میں قافلۂ حیات کے عقب میں چلنے والا خاکروب۔۔۔۔۔ میں گرے ہوئے بوجھوں کو اٹھا کر محفوظ رکھتا ہوں۔ کوئی تلاش کرتا ہوا آ جائے اور اس کا بوجھ اس کے حوالے کر دیتا ہوں۔‘‘
’’تو کیا میرے کاندھے کا بوجھ بھی تمہارے پاس ہے؟‘‘ اس نے سرعت سے پوچھا اور اس نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! اسے بھی میں نے ہی اٹھایا ہے۔ اگر تمہارے کاندھے اب بھی مضبوط ہیں اور تم اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے تیار ہو تو یہ رہا تمہارا بوجھ۔۔۔۔‘‘ اس نے اپنے سامنے رکھی گٹھریوں میں ایک کی طرف اشارہ کیا۔ وہ لپک کر اس گٹھری کے پاس آیا اور اسے انگلیوں سے پکڑ کر اٹھانا چاہا۔ لیکن یہ کیا۔۔۔؟ بظاہر چھوٹی سی نظر آنے والی گٹھری اس قدر وزنی تھی کہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
’’سنبھل کر۔۔۔ جلد بازی نہ کرو‘‘ اس شخص نے تنبیہ کی ’’رکو۔۔ میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔‘‘
وہ اٹھ کر اس کے قریب آیا اور گٹھری اٹھانے میں اس کی مدد کی۔ گٹھری اس کے کاندھے پر رکھی گئی اور اسے محسوس ہوا کہ کاندھا ٹوٹ جائے گا۔ وہ کراہا۔ ’’کافی بھاری ہے۔‘‘
’’سو تو ہے! ‘‘ اس شخص نے تائید کی۔ ’’لیکن سوچو! اگر اسے اپنے رب کی ہدایت اور منشا کے مطابق منزل تک پہنچا دو گے تو کیسے انعام و اکرام سے نوازے جاؤ گے۔ حسین ترین حوریں۔۔۔۔ بہترین شرابیں۔۔۔۔۔۔ لذتیں ہی لذتیں۔۔۔‘‘
صدر الدین ایک مفلوک الحال اور نا آسودہ نوجوان تھا۔ اس کی حسرت زدہ آنکھوں میں وہ ساری نعمتیں تیر گئیں جن کی تفصیل مولوی صاحب نے بتائی تھی۔ ان کے حصول کی تمنا سے اس کے جسم میں توانائی سی بھر گئی اور وہ چلنے کو تیار ہو گیا۔
’’تمہیں راستے معلوم ہیں نا؟’’ اس شخص نے استفسار کیا اور اس نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔
’’ہاں! مولوی صاحب نے جو راستے بتائے ہیں وہ مجھے ازبر ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے! جاؤ۔ لیکن دھیان رہے۔ اس بوجھ کو بیچ راستے میں چھوڑ نہ دینا۔ ‘‘ نہریں۔ بلکہ سزا کے طور پر دوزخ میں آگ کے ایندھن بنو گے‘‘
صدر الدین نے اس شخص کو یقین دلایا کہ وہ ثابت قدم رہے گا۔ اپنی منزل پر پہنچ کر ہی کاندھے کا بوجھ اتارے گا۔ وہ گٹھری سنبھالتا ہوا چل پڑا۔ فرلانگ بھرکا ہی راستہ طے ہوا ہو گا کہ کچھ لوگ اس کے راستے میں آ کھڑے ہوئے۔ اس نے انہیں دیکھا اور شناخت کیا۔ وہ سبھی اس کے عزیز اور رشتے دار تھے۔ ضعیف ماں باپ تھے، جوان بہن تھی، خوبصورت بیوی تھی۔ سب کے ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی گٹھریاں تھیں۔ ممتا کی، محبتوں کی، وفاؤں کی۔ سبھی نے دہائی دی۔ کاندھے کا بوجھ اتار کر اپنی گٹھریوں کو لادنے کی التجائیں کیں۔ تھوڑی دیر کے لیے اس کے قدم ٹھٹکے۔ اس نے ان کی غمزدہ آنکھوں کو دیکھا جو بڑی امید و حسرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ یکایک اس کی سماعتوں میں مولوی صاحب کی پر اثر آواز ابھری۔
’’تمام رشتے اور محبتیں فانی اور نا پائیدار ہیں۔ ایک رب کی ہی ذات ہے جو باقی رہے گی اور مرنے کے بعد بھی اس کی رحمتیں اور محبتیں جاری رہیں گی۔‘‘
اور وہ سنبھل گیا۔ اس نے ان عزیز رشتہ داروں کی طرف سے منھ پھیرا، ان کی التجاؤں کو ٹھوکر ماری اور انہیں راستے سے ہٹاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
سفر میں دشواریاں ملتی ہیں تو راحتیں بھی نصیب ہوتی ہیں۔ طویل راستے کی دشواریوں کو عبور کرتے ہوئے وہ ایسے مرغزار میں پہنچا جو بے حد نظر فریب اور راحت بخش تھا۔ یخ ٹھنڈا اور شیریں پانی کی جھیل تھی۔ خوش ذائقہ ثمرات سے بھرے سایہ دار اشجار تھے۔ دلفریب خوشبوؤں والے حسین پھولوں کے پودے تھے۔ بہت ہی دلکش نظارہ تھا۔ یکلخت خواہش ہوئی کہ یہیں قیام کر لے۔ اس سے بہتر اور کون سی جگہ ہو گی۔ معاً اس کے ذہن میں مولوی صاحب کا خطاب گونجا۔
’’موسمِ خزاں کا ایک جھونکا ان کے تمام حسن کو زائل کر دے گا جبکہ باغِ بہشت ہمیشہ سر سبز اور شاداب ہو گا۔‘‘
اور اس نے اپنی اس حقیر اور فانی خواہش پر نفریں بھیجی۔ آگے سفر کے لیے قدم بڑھائے ہی تھے کہ جھیل کی سطح میں ارتعاش پیدا ہوا اور دو بے حد حسین دوشیزائیں سطح آب پر ابھر آئیں،
وہ مبہوت و مسحور ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔ سنگ مرمر سے تراشے ہوئے ان کے متناسب برہنہ بدنوں کے دودھیا نشیب و فراز پر پانی کی شفاف بوندیں شیشے کی طرح چمک رہی تھیں۔ ان کے نیم وا گلابی ہونٹوں سے جیسے شہد ٹپک رہے تھے اور اس کی غزالوں جیسی آنکھوں میں مکمل خود سپردگی کے عکس تھے۔ دونوں دوشیزائیں جھیل سے باہر نکلیں اور ناز و ادا سے چلتی ہوئیں کنارے کے مخملیں سبزے پر لیٹ گئیں۔ وہ سحر بزدگی کے عالم میں ان کی طرف بڑھتا گیا۔۔ قریب پہنچا تو ایک دوشیزہ نے حلاوت آمیز لہجے میں کہا۔
’’اپنے کاندھے کی گٹھری اتارو اور ہمارے درمیان لیٹ جاؤ۔‘‘
ممکن تھا کہ وہ ان کی پیشکش کو قبول کر لیتا کہ اچانک کانوں میں مولوی صاحب کی سخت تنبیہ کوندی۔
’’ذرا تصور کیجئیے ان بہشتی حوروں کا جن کے حسن و شباب پر وقت کی کوئی گرد نہیں بٹھتی اور جو آپ کے لیے مختص ہیں۔‘‘ اور وہ ان کے قیامت خیز اور شہوت انگیز منظر کی گرفت سے باہر آ گیا۔
نہیں! وہ ان فانی حسیناؤں کے سحر میں گرفتار نہ ہو گا۔ باغِ بہشت میں اس کی موعودہ حوریں اس کے انتظار میں بیٹھی ہوں گی۔ اس نے کاندھے پر
رکھی ہوئی گٹھری سنبھالی۔ ان حسین دوشیزاؤں کے برہنہ جسموں سے نظریں ہٹائیں اور آگے کی طرف روانہ ہو گیا۔
مولوی صاحب کے بتائے ہوئے راستے پر اس کے قدم بڑھتے رے۔ کتنی ہی مشکلات راہ میں حائل ہوئیں۔ کتنی ہی دلچسپیوں نے دامنِ حرص و ہوس کو کھینچا لیکن وہ ان سبھی سے خود کو بچاتا ہوا اپنی منزل کی سمت گامزن رہا۔ بہت طویل سفر طے کرنے کے بعد وہ ایک ایسے شہر میں داخل ہوا جو اس کے دیکھے ہوئے شہروں سے یکسر مختلف اور عظیم الشان تھا۔ بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں، کشادہ اور پختہ شاہراہیں، تیز گام گاڑیوں کے قافلے اور ہر جگہ مرد و زن کے اژدہام۔۔۔۔ تعجب خیز امر یہ کہ بے پردہ اور نیم برہنہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کاروبار دنیا میں مشغول۔
اس نے ایک معقول سے نظر آنے والے شخص کو روکا اور اس شہر کا نام پوچھا۔ اس نے جو نام بتایا وہ اس کے لیے بے حد مشکل اور نا مانوس تھا۔ اس نے دوسرا سوال کیا۔
’’تمہارے ملک کا بادشاہ کون ہے۔؟‘‘
’’بادشاہ!‘‘ اس شخص نے صدر الدین کو اس طرح دیکھا جیسے وہ کسی جنگل سے آیا ہو۔‘‘تو کس زمانے کی بات کر رہا ہے؟ یہاں بادشاہ نہیں ہوتا۔ یہاں تو جمہوری حکومت قائم ہے جو تمام عوام کے ذریعہ منتخب کی گئی ہے۔ اس وقت اس جمہوری حکومت کی سربراہ ایک خاتون ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹ پڑیں۔ یہ کیسے راہ راست سے بھٹکے ہوئے بزدل لوگ ہیں جو ایک عورت کی حکمرانی میں رہ رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ اس شیطانی حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کرتے؟ لیکن نہیں۔ اس شخص نے تو کہا ہے کہ تمام لوگوں نے اس عورت کو حکمرانی کے لیے منتخب کیا ہے پھر بغاوت کا کیا جواز؟ قدرے توقف کے بعد اس نے پوچھا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’میرا نام عبد الرحمان ہے۔‘‘
اس شخص نے اپنا نام بتایا تو صدر الدین نے حیرانی سے اس کے سراپے کا جائزہ لیا۔ داڑھی مونچھ سے بے نیاز حسین چہرہ، دراز قد، چھریرا جسم جس پر نفیس لیکن عجیب طرز کا لباس، گلے میں کپڑے کی پٹی سی بندھی ہوئی جس کے چھوتے بڑے سرے سینے پر جھول رہے تھے۔ نام سے اور اسی کی قوم کا فرد جان پڑتا تھا لیکن اس کا حلیہ۔۔۔
اس نے پھر استفسار کیا۔
’’تم یہاں کیا کام کرتے ہو؟‘‘
’’میں ماہرِ موسمیات ہوں۔ سرکاری محکمے میں کام کرتا ہوں۔ کب بارش ہونے والی ہے؟ کہاں طوفان آنے والا ہے؟ سردی گرمی کتنی پڑے گی؟ ان سب کا سائنسی آلات کی مدد سے پتہ لگاتا ہوں۔ پھر عوام کو سرکاری نشریے کے ذریعہ ان معلومات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔‘‘
’’کیا کفریہ کلام کہتے ہو؟ بارش اور طوفان کے بارے میں سوائے رب العالمین کے اور کون جان سکتا ہے۔؟‘‘ اس کا جواب سن کر وہ خاصے اشتعال میں آ گیا۔
’’لگتا ہے تم کسی انتہائی پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقے سے آئے ہو۔ سائنسی علوم نے بہت ترقی کر لی ہے اور روز افزوں ان میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ تمہاری طرح ہم بھی رب کی عبادت کرتے ہیں لیکن اسی کے حکم کے مطابق غور و فکر بھی کرتے ہیں۔‘‘
اس شخص نے نرمی سے مدلل انداز میں اسے قائل کرنے کی کوشش کی تو ایک بار پھر اس کی سماعتوں میں مولوی صاحب کی ہدایتیں گونجیں۔
’’ہمیں غیر نافع اور ممنوعہ علوم حاصل کر کے ایسی ایجادات اور انکشافات کرنے کی اجازت نہیں جن سے رب کی وحدانیت اور ربوبیت میں ذرہ برابر بھی شبہ پیدا ہو۔ ہماری بڑی کتاب تمام علوم و فنون کا منبع ہے جس کی تفسیر و تشریح صرف ہمی کر سکتے ہیں۔ ہماری تفسیر و تشریح سے ہٹ کر کوئی علم نظر آئے تو وہ شیطانی علم ہے جس کے حصول سے نہ صرف خود کو روکنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روکنے کی حتی المقدور سعی کرنی ہے۔‘‘
اس نے عبدالرحمان کو غور سے دیکھا۔ وہ رب کی حکم عدولی کرنے کلا مجرم تھا۔ اس نے ایسا شیطانی علم حاصل کیا تھا جس کے ذریعہ کارخانۂ قدرت میں تصرف کرنے کا دعوے دار تھا۔ اس نے چہار سمت نگاہیں دوڑائیں۔ ہرسوکفرو شرک کے نظارے تھے۔ شاہراہوں پر جگہ بہ جگہ انسانی مجسمے ایستادہ تھے جن کے گلے میں پھولوں کی مالائیں تھیں۔ گزرتی ہوئی کاروں کے اندر سے موسیقی کی تیز دھنیں سنائی دے رہی تھیں۔ لڑکیاں لڑکوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جانے کس شیطانی منزل کی راہ پر گامزن تھیں۔ ان کے لباسوں سے عریانیت جھلکتی تھی۔ یہاں عبد الرحمان کی طرح شاید کچھ اور لوگ بھی اس کی قوم سے تعلق رکھتے ہوں لیکن اس غول بیابانی میں ان کی شناخت مشکل تھی۔ صرف ان کے ناموں سے ہی ان کی قومیت اور مذہب کا پتہ چل سکتا تھا اور اس پر مستزاد کہ علم بھی شیطانی حاصل کر رہے تھے اور مالک حقیقی کی مملکت میں در اندازی کر رہے تھے۔
مولوی صاحب کی ہدایت کے بموجب انہیں بزور قوت روکنا تھا، نیست و نابود کر دینا تھا کہ اس زمین پر رب کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس جہد میں اس کی جان چلی جائے تو وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہو جائے گا۔۔۔۔۔ اور پھر باغ بہشت میں حوریں، شرابیں ،۔۔ لذتیں ہی لذتیں۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ایک مقدس جہاد کے لیے اپنے بازوؤں کو تولا اور کاندھے کے بوجھ کو زمین پر پٹخا۔۔۔۔
دھڑا۔۔۔۔۔ م۔۔۔۔! ۔ خوفناک دھماکہ ہوا تھا۔ عبد الرحمان کا جسم زمین سے بیسوں گز اوپر اچھل گیا تھا۔ راہ چلتے لوگوں کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ ثابت و سالم انسان گوشت کے چھوٹے بڑے لوتھڑوں میں تبدیل ہو کر چاروں طرف بکھر گئے تھے۔ سامنے سے گزرنے والی ایک کار ہوا میں اچھلی تھی اور پھر دھڑام سے نیچے گر پڑی تھی۔ گرتے ہی اس میں آگ لگ گئی تھی اور اسے ڈرائیو کرنے والی گوری چٹی لڑکی جھلس کر کوئلہ ہو گئی تھی۔ آس پاس کی عمارتوں کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے تھے۔۔۔ چاروں سمت خون ہی خون۔۔۔۔۔ چیخیں۔۔۔۔ اور کراہیں۔۔۔۔۔۔
جہاں گٹھری پٹخی گئی تھی اس زمین پر کنویں کی طرح گہرا گڈھا بن گیا تھا۔ صدر الدین کا جسم دھماکے سے اچھل کر اسی گڈھے میں گرا تھا اور تیز شعلوں میں گھر گیا تھا۔ اس کے جسم کا ہر عضو اس کے جسم سے جدا ہو کر الگ الگ تڑپ رہا تھا۔ ایسی بھیانک اذیتیں تھیں کہ اس کا مردہ ہوتا جا رہا لہولہان وجود چیخ پڑا تھا۔ مکمل بے جان ہونے سے ثانیہ بھر پہلے بھڑکتے شعلوں کے درمیان بے پناہ کرب و الم میں تڑپتے ہوئے اس کے حیران ذہن میں ایک سوال کوندا۔۔۔۔۔
کیا باغِ بہشت کاراستہ جہنم سے ہو کر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!
٭٭٭
آنگن کی دیوار
صابر علی تھکے ماندے گھر میں داخل ہوئے تو گرمی کی سخت جان دھوپ اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ ان کی بیوی سلائی مشین پر بیٹھی کپڑے سی رہی تھی۔ اس کے قریب ہی پلنگ پر ان کے دونوں بچے گڈو اور ببلو ہوم ورک کر رہے تھے۔ انہیں دیکھ کران کی بیوی کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ابھرا اور وہ مشین سے اٹھتی ہوئی بولی۔‘‘آ گئے آپ! ‘‘
دونوں بچے پلنگ سے اتر کران کی طرف لپکے۔ انہوں نے ان کے سروں پر شفقت آمیز ہاتھ پھیرا اور پھر پتلون کی جیب سے دو ٹافیاں نکال کران کے ہاتھوں پر رکھ دیں۔ ان کی بیوی اسٹو میں آگ روشن کرتی ہوئی بولی۔
’’آپ منھ ہاتھ دھو لیجئے۔ میں چائے بناتی ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد آرام کرسی پر لد کر چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے انہوں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو ایک بارپھر مشین پر بیٹھ چکی تھی۔ مشین کے پائدان پر اس کے پاؤں مسلسل حرکت کر رہے تھے اور اس کے متحرک ہاتھ سلتے جا رہے کپڑے کو سنبھالنے میں مصروف تھے۔ کپڑے کا آخری سرا مشین کے چانپ سے نکلا اور اس کے پاؤں رک گئے۔ دھاگے کو قینچی سے کاٹتے ہوئے وہ ان کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’آج مناظر مستری کو لے کر آیا تھا۔ سب ناپ واپ کر گیا ہے۔‘‘
انہوں نے دکھ سے سوچا۔ تو آخر وہ جانکاہ لمحہ آ ہی پہنچا۔ کرسی سے آگے کی طرف جھک کر انہوں نے دروازے کے باہر دیکھا۔ کھلے کچے آنگن میں جھاڑو لگا کر پانی کا چھڑکاؤ کر دیا گیا تھا۔ کچی مٹی سے ایک مانوس لیکن پر اسرار سی سوندھی سوندھی خوشبو اٹھ رہی تھی جس سے ان کی مدتوں کی آشنائی تھی لیکن جس نے آج تک ان پر اپنے سارے بھید نہیں کھولے تھے۔ انہوں نے گہری سانس لے کر اس خوشبو کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتارا۔ یہ خوشبو ان کا ہاتھ پکڑ کے اپنے ساتھ جانے کہاں کہاں اڑا لے جاتی۔ جہاں سے لوٹ کر کبھی وہ بالکل ہشاش بشاش ہو جاتے اور کبھی بے حد ملول اور دل گرفتہ۔ سامنے ہی آنگن کی پچھلی دیوارسے لگا امرود کا درخت خاموش گم صم سا کھڑا تھا۔ اس کے بڑھتے سائے آنگن کے زیادہ سے زیادہ حصے کو اپنے نرم بازوؤں میں بھرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دور آسمان پر سورج اپنی اشک آلود سرخ آنکھوں سے مڑ مڑ کر چھوٹتے جا رہے مناظر کو دیکھتا ہوا وداع ہو رہا تھا۔ حالانکہ اس کا پھر صبح آنے کا وعدہ تھا لیکن اس بے ثبات زندگی میں وعدے کا کیا اعتبار؟ کیا پتہ کل وہ آ ہی نہ سکے یا جس کی خاطر آئے اسی کو گم پائے۔ یہاں حاصل ہو جانے والا لمحہ ہی حاصل زندگی ہے۔
’’میری مانئے تو کچھ لکھا پڑھی کرا لیجیے۔ ایسا نہ ہو کہ جب ہم جوڑ کر دیوار اٹھانے لگیں تو وہ اعتراض کر بیٹھے۔‘‘
اس کی بیوی کی آواز ابھری تو وہ کچھ تلخی اور اداسی سے مسکرائے۔ وہ دلوں کے ٹوٹنے کے باوجود دیواروں کو جوڑنے کے لیے فکر مند تھی۔ سونے آنگن کو تکتے ہوئے ان کے تخیل نے ان کی آنکھوں کے کینوس پر ایک شبیہ ابھار دی۔ نرم و نازک جسم اور بھولی بھالی صورت والی ایک عورت کی شبیہ جو ہاتھ میں جھاڑو لیے کمر سے جھکی جھکی آنگن کو صاف کر رہی تھی۔ جانے کیوں جب کبھی انہیں اپنی ماں کا خیال آتا تو ان کے تصور میں سب سے پہلا منظر یہی ابھرتا۔ شاید اس لیے کہ ان کے معصوم بچپن کی ہر صبح اسی منظر سے شروع ہوتی تھی۔ ان دنوں وہ نیند سے جاگتے تو پاتے کہ ان کی ماں وسیع و کشادہ آنگن کو صاف کرنے میں مصروف ہے۔ امرود کا کوئی نہ کوئی درخت تو ہمیشہ سے اس آنگن میں رہا تھا لیکن اس وقت لت دار سبزیوں کے پودے بھی ہوتے تھے جن کے بوروں اور پتوں سے زمین پٹ جاتی تھی۔ انہیں ایک جگہ جمع کر کے وہ ٹوکری میں بھر دیتی تھی اور وہ کچھ جھنجھلاتے اور ناک بھوں چڑھاتے ہوئے اس ٹوکری کو کچھ دوری پر موجود کوڑے کے ٹب میں خالی کر آتے تھے۔
انہیں یاد آیا کہ ایک مرتبہ ابا نے آنگن کے دوسرے سرے پر دو کمرے تعمیر کروانے کی تجویز رکھی تھی۔ اس تجویز کو سن کر ماں اشتعال میں آ گئی تھی اور بے حد خفگی سے بولی تھی۔
’’کیا؟ اتنے بڑے اور خوبصورت آنگن کا ستیا ناس کر دوں۔ چار چار کمرے ہم چار افراد کے لیے کافی نہیں ہیں کیا؟‘‘
’’اری نیک بخت!‘‘ ابا نے اپنے لیجے میں شیرینی گھول لی تھی۔ ’’میں تو تمہارے بھلے کے لیے ہی کہہ رہا ہوں۔ اتنے بڑے آنگن کو صاف کرتے کرتے تمہاری کمر دوہری ہو جاتی ہے۔ اس سے کچھ تو نجات ملے گی۔ اور پھر اگر کرایہ داروں کو رکھ لیں گے تو کچھ مالی فائدہ بھی ہو جائے گا۔‘‘
’’کمر دوہری ہوتی ہے تو میری۔ میں کسی سے شکایت کرنے نہیں جاتی۔ اور مجھے ایسے کسی فائدے کی ضرورت نہیں جو اس آنگن کی قیمت پر ہو۔‘‘
ماں مستحکم اور فیصلہ کن لہجے میں بولی تھی اور پھر قدرے ٹھہر کر ان کی خواب ناک آواز ابھری تھی۔
’’آنگن تو گھر کی گود ہوتا ہے۔ جتنا بڑا اور کشادہ ہو اتنا اچھا۔ ہم سب کو سمیٹ کر تو رکھے گا۔‘‘
اس نے دونوں بچوں کو اپنی گود میں کھینچ لیا تھا۔ مناظر علی کی پیشانی کو ممتا بھرے ہونٹوں سے چومتی ہوئی وہ نہ جانے کس جہاں میں کھو گئی تھی۔
’’ہمارے بچے اسی گود میں پروان چڑھیں گے۔ ان کی شادی ہو گی، بچے ہوں گے۔ آنگن کشادہ رہا تو سبھی اس میں سمٹے رہیں گے۔‘‘
اسکول سے لوٹنے کے بعد وہ اور مناظر علی محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ اسی آنگن میں طرح طرح کے کھیل کھیلتے۔ گرمی کی تاروں بھری رات میں ان کی ماں آنگن کے بیچوں بیچ چار پائی بچھا دیتی، دونوں بچوں کو اپنے جسم سے لپٹا کر لیٹ جاتی اور ننھے منے ٹمٹماتے تاروں کو تکتے تکتے جانے کہاں پہنچ جاتی۔ مناظر علی کی ضد پر وہ انہیں رام لکشمن، علی بابا اور چالیس چور جیسی سبق آموز کہانیاں سناتی۔ جنہیں سنتے سنتے وہ دونوں خوابوں کی معصوم اور حسین دنیا میں گم ہو جاتے۔
خوابوں کا تعاقب کرتے کرتے ابھی وہ عمر کی اٹھارویں منزل پر ہی پہنچے تھے کہ اسی آنگن کی سوگوار فضا میں ان کے والد کی میت اٹھی تھی جنہوں نے اچانک نہایت خاموشی سے آنکھیں موند لی تھیں۔ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر وہ باپ کی جگہ ملازم ہو گئے تھے۔ مناظر علی نے اسی سال اچھے نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ انہوں نے دل میں عہد کیا تھا کہ اسے اعلیٰ تعلیم دلائیں گے۔ قبل از وقت کاندھے پر پڑنے والی ذمے داریوں کو انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا تھا لیکن بے طرح کوشش اور خواہش کے باوجود وہ اپنی ماں کے چہرے پر وہ تازگی، وہ خوشی نہ لا سکے تھے جو شوہر کی زندگی میں ہمیشہ روشنی بکھیرتی رہتی تھی۔
کچھ دنوں بعد ماں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے شادی کر لی تھی۔ ان کی بیوی زبیدہ کی ڈولی اسی آنگن میں اتری تھی اور اسی آنگن میں بڑی فراغت سے دعوتِ ولیمہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مناظر علی گریجویشن کر چکا تو انہوں نے ایک بڑی رقم دے کر اسے اپنے ہی محکمے میں کلرک کی ملازمت دلا دی تھی۔ اور پھر اسی آنگن میں اس کی دلہن نے بھی پاؤں رکھے تھے۔ جلد ہی وہ آنگن بچوں کی معصوم کلکاریوں سے کھلکھلا اٹھا تھا۔ ان کی ماں کے چہرے پر برسوں بعد وہ خوشی جھلکی تھی جس کے وہ کب سے متلاشی تھے۔ ان کے دو بچے ہوئے اور مناظر علی بھی ایک لڑکی اور ایک لڑکے کا باپ بنا تھا۔
ایک دن ماں حسب معمول آنگن میں جھاڑو دے رہی تھی کہ اچانک اسے دل کا دورہ پڑا تھا اور اس نے آنگن میں ہی آخری ہچکی لے لی تھی۔ تجہیز و تکفین کے بعد وہ ننگے پیروں رات بھر آنگن میں ٹہلتے رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ دو زانو بیٹھ کر مٹی کی نرم سطح کو اپنے مضطرب کانپتے ہاتھوں سے سہلانے لگتے تھے۔ انہیں آنگن کے ذرے ذرے میں ماں کے محبت آمیز لمس کا احساس ہوتا رہا تھا۔
اور اب اسی آنگن کو مناظر علی تقسیم کرنے کے درپے تھا۔ جب پہلی بار اس نے آنگن میں دیوار اٹھانے کی تجویز رکھی تھی تو وہ انتہائی حیرت سے اس کے سنجیدہ چہرے کو تکتے رہے تھے۔
’’دیکھئے بھائی جان! یہ تقسیم تو ناگزیر ہے۔ ہمیں اپنے اپنے طور پر آزادانہ زندگی گذارنی ہے اور اس کھلے آنگن کے رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ چاروں کمرے ایک ہی سیدھ میں بنے ہوئے ہیں صرف آنگن میں ہی دیوار اٹھانی ہو گی۔‘‘
اس کے لہجے کی سر کشی اور پختگی کو محسوس کر کے انہیں لگا کہ آنگن میں دیوار اٹھنے سے قبل ہی ان کے دل میں کوئی بوسیدہ دیوار بیٹھ گئی ہے۔ شام کے اندھیرے میں لپٹتے جا رہے سونے آنگن کو تکتے ہوئے ان کے ذہن میں ایک عجیب سا سوال ابھرا۔ آنگن تقسیم ہو جانے کے بعد ماں کی روح جو اس مٹی کے ذرے ذرے میں پیوست ہے، کسی ایک حصے میں رہے گی یا وہ بھی آنگن کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔
صبح وہ کام پر جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے تبھی راج مزدور آ گئے اور مناظر علی کی ہدایت پر کام میں لگ گئے۔ وہ کچھ جلدی ہی گھر سے نکل پڑے اور شام ڈھلنے پر ہی واپس آئے۔ دیوار ان کی کمر سے کچھ اونچی اٹھ چکی تھی۔ وہ رات انہوں نے بے حد کرب میں گذاری۔ دوسرے دن شام کو لوٹے تو دیوار ان کے قد سے بھی بلند ہو چکی تھی۔ اب دوسرا حصہ اس حصے سے بالکل کٹ چکا تھا، لا تعلق ہو چکا تھا۔ یکایک انہیں محسوس ہوا کہ وہ بے حد تنہا اور کمزور ہو گئے ہیں۔ وہ مضمحل قدموں سے اپنے کمرے میں جانے لگے کہ معاً چونک اٹھے۔ دیوار اونچی کرنے کے لیے بانسوں پر مچان باندھا گیا تھا۔ مچان کھل جانے کے بعد بانسوں کی جگہوں پر دیوار میں سوراخ رہ گئے تھے۔ ان کا بڑا بیٹا گڈو ایک سوراخ کے پاس پنجوں کے بل کھڑا دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔ وہ آہستگی سے اس کے قریب چلے آئے اور انہوں نے کچھ جھک کر سوراخ میں جھانکا۔ دوسری جانب مناظر علی کی بیٹی پمّی کھڑی تھی۔ انہیں دیکھ کر وہ تیزی سے بھاگ اٹھی۔ گڈو بھی چونک کر مڑا اور انہیں اپنے قریب پا کر خجل سا ہو گیا۔
صابر علی الٹے پیروں باہر نکل آئے۔ زندگی میں پہلی بار گلی سے ہو کر وہ مناظر علی کے گھر تک پہنچے۔ دستک دینے پر مناظر علی نے ہی دروازہ کھولا۔ انہیں دروازے پر کھڑا دیکھ کر وہ قدرے چونکا اور پھر تعجب سے بولا۔
’’آپ بھائی جان!‘‘
’’دیوار اٹھانے کے لیے جو مچان بنایا گیا تھا اس کی وجہ سے دیوار میں چند روزن بن گئے ہیں۔‘‘
مناظر علی نے عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھا اور پھر سمجھانے والے انداز میں بولا۔
’’بھائی جان! ابھی تو کام لگا ہوا ہے۔ پلسٹر کے وقت ان روزنوں کو بند کر دیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے جیسے مناظر علی کی باتوں پر دھیان ہی نہیں دیا۔ اسی طرح نرمی سے بولے۔
’’یہ روزن تو ہمارے لیے بالکل بیکار ہیں کہ ان سے جھانکنے کے لیے ہمیں کچھ جھکنا پڑے گا لیکن ہمارے بچے اگر ایڑیاں اٹھا لیں تو ان کی آنکھیں ان روزنوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس لیے میری گذارش ہے کہ انہیں بند نہ کرو۔‘‘
٭٭٭
خواب دیکھنے والے
دھوپ کی تمازت اور غبار آلود فضا سے مضمحل اور بوجھل دن، شام کی اداس اجڑی ہوئی چوکھٹ پر رکا ہی تھا کہ وہ خواب دیکھنے والے شہر میں وارد ہوئے۔ موسمِ خزاں کسی عفریت کی طرح ہر شے پر مسلط تھا۔ وہ اپنے روایتی اور مخصوص زرد رنگ کے منحوس پیرہن میں ملبوس تھا اور بین کرتے ہوئے ہر خاک بہ سر منظر پر فاتحانہ نگاہ ڈالتے ہوئے گہری آسودگی اور سفاکی سے مسکرا رہا تھا۔ بے آب و گیاہ زمین پر درختوں کے زخم خوردہ سلسلے تھے جن کی بے لباس شاخیں لشکرِ غنیم کے ہاتھوں لٹتی ہوئی دوشیزاؤں کی طرح اپنی برہنگی کو چھپانے کی سعی لاحاصل میں مصروف تھیں اور حسرت زدہ نظروں سے قریب آتی ہوئی تیرگی کی منتظر تھیں کہ اس افتادِ وقت میں اس کا سیاہ لبادہ ہی ان کا آخری پناہ گاہ تھا۔ زمین پر بکھرے ہوئے خشک پتے ہوا کے دستِ جبر و استبداد میں لرزہ براندام تھے اور ان کے لبوں پر گریہ وزاری تھی۔ شہر کا پورا ماحول اس طرح سہما ہوا اور ساکت و جامد تھا جیسے ابھی ابھی ہر وجود کو روندتا ہوا کوئی طوفان ادھر سے گذرا ہو۔ ان خواب دیکھنے والوں کی آمد سے شہر کی خاموش فضا میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوا۔ خوب دیکھنے والوں کا قافلہ پانچ افراد پر مشتمل تھا۔ ایک ضعیف العمر لیکن صحت مند باریش بزرگ جس کے چہرے کی بے شمار لکیروں سے واضح تھا کہ اس نے زمانے کے سرد و گرم خوب جھیلے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں تجربوں اور مشاہدوں کی گہری چمک تھی۔ دو بے حد خوبرو اور سنجیدہ نوجوان تھے جن کی روشن اور خوابیدہ آنکھوں میں زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ محو رقص تھی۔ ان کے ساتھ دو نرم و نازک خد و خال والے معصوم صورت بچے تھے۔ ہرچند کہ انہوں نے طویل مسافت طے کر کے شہر کے حدود میں قدم رکھا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر ان کے چہروں سے کسی تکان کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ وہ اس طرح تر و تازہ تھے جیسے موسمِ بہار میں گل شگفتہ متبسم ہوں۔
انہوں نے شہر کے قلب میں واقع ویران باغ کے درمیان بنے چبوترے کو اپنا مسکن بنایا اور چادریں بچھا کر دراز ہو گئے۔ شہر میں رات بھر ان لوگوں کے بارے میں قیاس آرائیاں ہوتی رہیں اور لوگ ان کے تعلق سے اپنے اپنے طور پر رائے قائم کرتے رہے۔ صبح ہوتے ہی بہت سارے لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے۔ انہوں نے بے حد تعجب اور تجسس سے ان نوواردانِ شہر کو دیکھا جو ان کی موجودگی سے بے نیاز رات میں دیکھے گئے اپنے خوابوں کے تذکروں میں محو تھے۔ باریش بزرگ اپنی ٹھہری ہوئی پر اعتماد آواز میں گویا تھا۔
’’میں نے دیکھا کہ مغرب کی سمت سے کالے گھنے بادل اٹھ رہے ہیں جو مکمل دنوں کی حاملہ عورت کی طرح بھاری قدموں سے شہر کی طرف رواں ہیں۔ ان کے قدموں کی آہٹیں سن کر درختوں کی زرد و نیم جاں شاخیں یکایک جاگ پڑی ہیں اور ان کے استقبال کے لیے برگ نوزائیدہ سے سج گئی ہیں۔ زمین پر بکھرے ہوئے خشک پتے ان بادلوں کو تکتے ہوئے اس خیال سے آسودہ ہیں کہ انہیں نہیں تو نہ سہی، ان کی آئندہ نسلوں کو تو ایک خوشگوار اور با وقار حیات نصیب ہو گی۔‘‘
ضعیف العمر شخص کے خاموش ہونے پر دونوں خوبرو نوجوان پر جوش انداز میں مخاطب ہوئے۔
’’ہم لوگوں نے خواب میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بارشیں رحمتِ خداوندی کے پیکر میں زمین پر اتر رہی ہیں۔ اس کے حیات افروز لمس سے ہر سو سر
سبز منظر نمو پا رہا ہے۔ درختوں کی شاخیں برگ و بار سے لد گئی ہیں۔ زمین مدتوں کی تشنگی فراموش کر کے کامل سیرابی میں رقص کناں ہے اور موسم کی اس دلآویزی پر ہر بشر غنچۂ تازہ کی طرح خنداں ہے۔‘‘
دونوں معصوم بچوں نے خوابوں کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’آپ لوگوں کی صداقت کی قسم۔ ہم نے دیکھا کہ ہماری حد نگاہ تک زمین پر سبزہ زار پھیلا ہوا ہے اور اس پر قوس قزح کی رنگت والی تتلیاں محو پرواز ہیں۔ شاخوں پر خوشنما اور خوش الحان پرندے نغمہ سرا ہیں۔ پکے رسیلے پھلوں کی اشتہا انگیز خوشبو سے ان پر وجد سی طاری ہے۔ بہت سارے پکے ہوئے پھل عطیۂ غیب کی شکل میں سبز و نرم گھاس پر ٹپک پڑے ہیں جنہیں ہم بڑی رغبت سے کھا رہے ہیں۔‘‘
دونوں بچوں نے اس طرح اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری جیسے وہ اب تک ان پھلوں کے ذائقے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ شہر کے افراد گہرے استعجاب سے ان کی عجیب اور ناقابل یقین باتیں سن رہے تھے۔ آخر ایک بوڑھے شخص سے رہا نہ گیا۔ وہ آگے بڑھا اور قدرے تیز آواز میں ان سے مخاطب ہوا۔
’’تم لوگ کیسی تحیر آمیز اور مضحکہ خیز باتیں سنا رہے ہو؟ ہم لوگ تو عرصہ دراز سے خشک موسم کا عذاب جھیل رہے ہیں اور تم لوگ ہو کہ سر سبز منظر کی آمد کی بشارت دے رہے ہو۔‘‘
ان لوگوں نے چونک کر خوابیدہ نگاہوں سے بوڑھے شخص کی طرف دیکھا۔ باریش بزرگ نے گہری طمانیت کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہم لوگ رات میں دیکھے گئے خوابوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ان خوابوں سے تم لوگوں کو کیا پریشانی لاحق ہو گئی؟‘‘
’’لیکن یہ خواب کیا ہیں؟‘‘
ایک نوجوان نے رشک آمیز تاسف سے پوچھا تو بزرگ کے ہونٹوں پر پر اسرار سی مسکراہٹ ابھر آئی۔
’’خواب تو زندگی کے اساس ہیں۔ تبدیلیِ حالات میں خواب ہی موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ناسازگار صورت حال میں ان کی رفاقت زندگی کو قدرے آسان بنا دیتی ہے۔‘‘
’’سنا ہے کہ تم لوگوں کو قانون و انصاف کے رکھوالوں نے اپنے شہر سے نکال باہر کیا ہے۔ کیا تم لوگ خطرناک مجرم ہو؟‘‘
ایک نحیف اور مضمحل شخص کے استفسار پر باریش بزرگ نے اس کی بے نور آنکھوں میں جھانکا اور پھر گویا ہوا۔
’’ہرشہر ہر ملک میں با اثر اور برسر اقتدار افراد عام لوگوں کی آنکھوں سے تمام خواب چھین کر اپنے زیر تسلط کر لیتے ہیں اور ان پر سخت پہرے بٹھا دیتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص اپنے خواب حاصل کرنے کے لیے مزاحمت کرے تو قانون و انصاف کی نگاہ میں وہ مجرم ہی قرار پاتا ہے۔ ہم لوگوں نے بھی مزاحمت کی اور اپنے خواب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انجام کار ہمیں شہر بدر ہونا ہی تھا۔‘‘
’’تو کیا ہم لوگوں کے خواب بھی ہم سے چھین لیے گئے ہیں؟‘‘
کسی فرد نے گہری افسردگی اور حسرت سے پوچھا۔
’’اس کا اندازہ تو تمہیں خود ہی بخوبی ہو گا۔ کیا تمہاری آنکھیں بند ہونے پر خواب نہیں دیکھتیں؟‘‘
’’بند آنکھیں؟‘‘ انہوں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں۔
’’لیکن ہماری آنکھیں تو سوتے وقت بھی کھلی رہتی ہیں۔‘‘
اچانک دور سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی تیز آوازیں ابھرنے لگیں اور تمام لوگ خوفزدہ نگاہوں سے آوازوں کی سمت دیکھنے لگے۔ کچھ ہی توقف کے بعد اس شہر کے قانون و انصاف کے رکھوالے ان کے سروں پر پہنچ گئے۔ انہوں نے خشمگیں نگاہوں سے وہاں موجود لوگوں کو گھورا اور پھر ان کی نگاہیں ان پانچوں نوواردانِ شہر پر مرکوز ہو گئیں۔
’’کیا تم ہی لوگ خواب دیکھنے والے ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
باریش بزرگ نے جواب دیا تو ان میں سب سے قد آور گھڑسوار آگے بڑھا اور بے حد کرخت لہجے میں بولا۔
’’تم لوگ یہاں کے شہری تو نہیں لگتے۔ کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہاں خواب دیکھنے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ خلاف ورزی کرنے والا سخت سزاؤں کا مستحق ٹھہرتا ہے۔‘‘
’’ہمیں اندازہ تھا کہ اس کرۂ ارض پر ہر جگہ یکساں صورت حال ہے اور ایک ہی طرح کا قانون نافذ ہے۔ لیکن خواب دیکھنا ہمارا پیدائشی حق ہے۔ ہم لوگوں کو اس حق سے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔‘‘
باریش بزرگ قدرے طیش میں بولا تو قد آور اسپ سوار نے اپنے شانے پر لٹکتی بندوق پر اپنے دایں ہاتھ کی گرفت مضبوط کی اور اچانک اس کا کندہ باریش بزرگ کی پیشانی پر دے مارا۔ بزرگ تیورا کر زمین پر گر پڑا۔ اس نے اپنے گھوڑے کا رخ موڑا اور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’ان پانچوں کو گرفتار کر کے عقوبت خانے کی طرف لے چلو۔‘‘
اس کے ساتھی گھوڑوں سے اترے اور سرعت سے ان کی مشکیں کسنے لگے اور پھر انہیں گھوڑوں کے پیچھے گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ شہر کے تمام لوگ کچھ خوفزدہ اور بے حد ناپسندیدہ نگاہوں سے ان کے جارحانہ حیوانی عمل کو دیکھتے رہے۔ وہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھنے والے گرد و غبار میں گم ہوتے گئے اور ساتھ ہی ان پانچوں کی دلدوز چیخیں بھی معدوم ہوتی گئیں۔ فضا میں پسری ہوئی موسم خزاں کی اداسی اور بے رنگی کچھ اور واضح ہوتی گئیں۔ انہوں نے ان کے سرسبز خوابوں کو یاد کیا اور گہرے تاسف میں ہاتھوں کو ملتے ہوئے بوجھل اور پژمردہ قدموں سے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
لیکن اسی رات شہر میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ رات کے پچھلے پہر ایک بچے نے سرسبز منظروں کا خواب دیکھا اور صبح ہوتے ہی لوگوں کا ایک جم غفیر اس بچے کا خواب سننے کے لیے امڈ پڑا۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
سگ گزیدہ
رات کا پچھلا پہر تھا جب اس کی جسم میں لرزش پیدا ہو گئی تھی۔ منھ سے لعاب گرنے لگا تھا اور زبان قدرے باہر کی جانب نکل آئی تھی۔ اطلاع ملی تو میں نے فوری طور پر ایک شناسا اور تجربہ کا ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ اس نے بہ نظر غائر اس کا معائنہ کیا اور خاصا فکر مند ہو گیا۔ مجھے ایک گوشے میں لے جا کر اس نے سرگوشیوں میں کہا۔
’’یہ سگ گزیدگی کا شکار ہوا ہے۔ شاید اس نے ریبیز کے انجکشن نہیں لگوائے اس لیے۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
میں نے کسی قدر حیرت سے کہا۔
’’میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ سگ گزیدگی کا شکار نہیں ہوا۔ آپ کی تشخیص بالکل غلط ہے۔‘‘
ڈاکٹر کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے۔ اس نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’میری تشخیص غلط ثابت ہو گئی تو میں یہ پیشہ ہی تج دوں گا۔ یہ ضروری نہیں کہ سگ گزیدگی کا شکار یہ حال ہی میں ہوا ہو۔ برسوں بعد بھی یہ مرض ابھر سکتا ہے۔ آپ کو یقین نہ ہو تو ایک گلاس پانی لے آئیں۔‘‘
میں فوراً ہی ایک گلاس میں پانی لے آیا۔ ڈاکٹر گلاس پکڑے ہوئے مریض کے قریب چلا آیا۔ اس نے گلاس اس کی سمت بڑھاتے ہوئے نرمی سے کہا۔ ‘‘لو! پانی پیو۔‘‘
اس نے کانپتے ہاتھ سے گلاس تھام لیا اور آہستہ آہستہ اسے اپنے ہونٹوں کے قریب لے جانے لگا۔ ابھی گلاس اس کے ہونٹوں تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اس کی نگاہ گلاس میں موجود پانی پر پڑی۔ یکایک ایسا لگا جیسے اسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا اور گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گر پڑا۔ اس کی آنکھوں میں وحشت ابھر آئی اور اس کے منھ سے نکلتا ہوا لعاب گریبان پر گرنے لگا۔ ڈاکٹر نے میری طرف قدرے فخریہ اور ستائشی نگاہوں سے دیکھا تو خوف و حیرت کا مجھ پر بیک وقت حملہ ہوا۔
’’دیکھا آپ نے۔۔۔ یقینی ہائیڈرو فوبیا۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر کی آواز مجھے کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’اب کیا ہو گا ڈاکٹر؟ اس کے علاج کی کوئی صورت۔۔۔‘‘
قدرے توقف کے بعد میری آواز ابھری۔
’’نہیں!‘‘ ڈاکٹر نے گہری نا امیدی میں سر کو جنبش دی۔
’’تا حال اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ اب یہ ایک یقینی اور اذیت ناک موت کی طرف سرعت سے گامزن ہے۔ پوری دنیا میں اس مرض کا شکار کوئی فرد آج تک زندہ نہیں بچا۔ یہ شخص بھی زیادہ سے زیادہ چار پانچ دنوں کا مہمان ہے۔‘‘
ڈاکٹر مریض کی زد سے دور اور محفوظ رہنے اور جلد سے جلد ہسپتال میں داخل کر دینے کا مشورہ دے کر رخصت ہو گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ ڈاکٹر پر مجھے کامل اعتماد تھا اور پھر اس نے اس پر جو تجربہ کیا تھا اس سے بالکل واضح ہو گیا تھا کہ وہ سگ گزیدگی کا ہی شکار ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حادثہ کب پیش آیا کہ مجھے مطلق خبر نہ ہوئی۔ میرے سامنے اس کی مکمل زندگی ورق ورق کھلی کتاب کی مانند تھی۔ اس کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جو میری نگاہوں کی دسترس سے باہر رہا ہو پھر اس المیے سے میں کس طرح لاعلم رہ گیا۔ میں دیر تک یقینی اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا وہاں کھڑا رہا۔
زمانے کے سرد و گرم سے نبرد آزما وہ ایک با حوصلہ اور اصول پسند شخص تھا۔ اسے اپنی زندگی میں اتنے تلخ تجربے ہوئے تھے کہ اس کے انداز و اطوار شدید تلخی در آئی تھی۔ اس نے کہا تھا۔
’’میرا وجود زبردستی اور در اندازی کی زندہ مثال ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میرے والدین کے دو بچے تھے۔ انہیں کسی تیسرے بچے کی نہ خواہش تھی اور نہ ہی ضرورت۔ اسی لیے میری ماں ضبط تولید کے لیے مانعِ حمل گولیاں استعمال کرتی تھی۔ اس کے باوجود میں اس کے حمل میں در آیا۔ میرے وجود کا احساس ہوتے ہی اس نے ڈاکٹر سے رابطہ قائم کیا۔ اس نے اسقاطِ حمل کی کچھ دوائیں دیں لیکن میرا سخت جان وجود اس وار کو بھی جھیل گیا۔ میرے باپ کے علم میں یہ بات آئی تو وہ بھی خاصا مشتعل ہوا۔ دونوں مجھ سے نجات حاصل کرنے کی تدبیر کرنے لگے۔ ایک گائنولوجسٹ سرجن سے رجوع کیا گیا۔ اس نے معائنے کے بعد فیصلہ سنایا کہ کچھ زیادہ ہی دن ہو گئے۔ ابارشن ممکن تو ہے لیکن اس میں میری ماں کی جان کو خطرہ ہے۔ ڈاکٹر سے ایک غلطی ہوئی کہ اس نے یہ بات میری ماں کی موجودگی میں کہہ دی۔ اگر وہ صرف میرے باپ سے مشورہ کرتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ بخوشی تیار ہو جاتا۔ لیکن میری ماں نے جان کا خطرہ سن کر گہری نفرت سے اپنا پیٹ سہلاتے ہوئے میرے نادیدہ اور ناگوار وجود کا جیسے گلا گھوٹنے کی سعی کی اور شکست خوردہ سی پیچھے ہٹ گئی۔
گرچہ میری پیدائش کے بعد انہوں نے میرے وجود کو بہ حالت مجبوری ہی سہی، قبول کر لیا تھا۔ انہوں نے مجھ پر محبتیں لٹانے کی بھی کوششیں کی لیکن کچھ دنوں بعد دوران حمل ان کے عمل کا علم ہوتے ہی میں ذہنی طور پر ان سے بد ظن اور دور ہوتا گیا۔ والدین کی موجودگی کے باوجود مجھ پر یتیمی و یسیری کا احساس غالب ہوتا گیا۔‘‘
نفرت ہو یا محبت، اس کی تیز بو خانۂ دل میں ہی کیوں نہ مخفی ہو، متعلقہ فرد پر آشکار ہو ہی جاتی ہے۔ اس کے والدین بھی اس کی کیفیت سے بتدریج آشنا ہوتے گئے اور انہوں نے اس کی شدت پسندی کو زائل کرنے کے لیے اسے خود سے دور رکھنا ہی مناسب سمجھا۔
بورڈنگ میں اس نے خود کو قدرے آزاد اور خوشگوار فضا میں پایا اور دل جمعی کے ساتھ تعلیمی مراحل طے کرنے لگا۔ فطرتاً ذہین اور حساس تھا۔ قبل از وقت سنجیدگی کی پرتیں چڑھی ہونے کے باوجود چہرے پر گہری معصومیت اور جاذبیت تھی۔ شاید اسی وجہ سے وہ انگریزی کے استاد دیا شنکر کی نگاہِ انتخاب میں آیا۔ اس نے کہا تھا۔
’’عمر کی ڈھلان سے اترتے ہوئے وہ ایک مشفق اور محنتی استاد تھے۔ ان کے خلوص و التفات سے میں بے حد متاثر ہوا۔ میرے لیے ان کا وجود تپتے ہوئے ریگستان میں ایستادہ کسی سایہ دار شجر کی طرح تھا۔ میری تعلیم میں بہتری لانے کے لیے انہوں نے اپنے گھر پر بلا معاوضہ ٹیوشن کا آفر دیا جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا۔ ان کے گھر آنے پر انکشاف ہوا کہ اس تنہا شخص نے تعلیم جیسے مقدس فریضے کے لیے خود کو وقف سا کر دیا تھا۔ میری تشنہ لبی کے لیے وہ شیریں دریا ثابت ہوئے اور مجھ پر سیرابی کی کیفیت طاری ہوتی گئی۔ اس کیفیت میں سرشار مجھے احساس تک نہیں ہوا کہ کب میرا نرم و نازک جسم ان کے نوکیلے پنجوں میں آیا اور کب ان کے ہوسناک تیز دانت میری شہ رگ میں پیوست ہوئے۔ عرصہ دراز تک میں ان کے اس فعل کو کتابِ محبت کا ہی ایک باب تصور کرتا رہا۔ جانے کتنی مدت میں مفعول بنا ان کی فعالیت کو خوش دلی سے قبول کرتا رہا۔ آخر مجھے شعور ہوا تو میں نے جانا کہ میری سیرابیِ دل کا خراج انہوں نے میرے نرم نرم گوشت سے حاصل کیا تھا۔ میں ان کی اسیری سے نکلا تو میرے ذہن میں ایک اور مقدس رشتہ بری طرح مسخ ہو چکا تھا۔‘‘
بہت دنوں بعد جب وہ بی۔ اے فائنل ایئر میں تھا تو اس کی زندگی میں سریکھا داخل ہوئی۔ وہ بے حد خوبصورت اور خوش گفتار تھی۔ جلد ہی وہ اس کے حسن کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا گیا۔ سریکھا بھی اسے ٹوٹ کر چاہنے لگی تھی۔ اسی کی ترغیب پر چشم زدن میں اس نے اس کے بدن کے تمام نشیب و فراز طے کر لیے۔ شروع شروع میں وہ شدید احساس گناہ کا شکار ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر کسی قدر مطمئن ہو گیا کہ جب زندگی کا سفر اسی کی معیت میں طے ہونا ہے تو اس راہ کے اسرار کچھ قبل ہی افشا ہو گئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن اس وقت اس پر گاج گری جب امتحان سے فارغ ہونے کے بعد اس نے سریکھا کے سامنے مستقل ہم سفر بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ بے حد تلخ و ترش لہجے میں گویا ہوئی۔
’’تم تنگ نظر لوگوں میں یہی عیب ہے۔ ہر پسندیدہ شئے پر مالکانہ حقوق کی مہر ثبت کرنا چاہتے ہو۔ تمہاری مردانہ وجاہت پر توجہ مرکوز ہوئی اور چند پر لطف لمحے گذارنے کے لیے تم سے وابستہ ہو گئی۔ اب یہ وابستگی ایسی تو نہیں کہ اسے مستقل روگ بنا لوں۔ زندگی صرف وجاہت کے سہارے نہیں گذاری جا سکتی۔ میں اندر سے شادی کرنے والی ہوں۔ مانا کہ وہ تمہاری طرح وجیہ نہیں لیکن اس کے پاس زندگی کی دیگرآسائشیں تو موجود ہیں۔‘‘
سریکھا کے اس روپ نے اس پر سکتے کی کیفیت طاری کر دی۔ عرصہ دراز بعد اسے ماسٹر دیا شنکر یاد آئے اور پھر اسے یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ سریکھا کے خدوخال میں ان سے گہری مشابہت کی جھلک تھی۔ وہ ایک بار پھر خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگا۔ وہ بری طرح دلبرداشتہ ہوا۔ کچھ دنوں تک اس پر عجیب سا اضمحلال طاری رہا تھا کہ اسی دوران وویک سریواستو سے ملاقات ہو گئی۔ وہ منتشر ذہن کے ساتھ سڑکیں ناپ رہا تھا کہ ایک چورا ہے پر ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے گونجتے نعروں نے اس کے قدم روک لیے۔ وہ یوں ہی بے خیالی میں مجمع کی جانب تکنے لگا جو ایک اسٹیج کے گرد جمع تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اسٹیج پر کھادی کے کرتے پاجامے میں ملبوس چالیس بیالیس سال کا ایک قد آور شخص نمودار ہوا۔ مجمع جوش و خروش سے نعرے بازی کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں مائک سے اس کی پاٹ دار آواز ابھری اور وہ اس آواز کے سحر میں کھوتا چلا گیا۔
’’ہمیں ایک ایسے سماج کا نرمان کرنا ہے جس میں استحصال نہ ہو۔ مذہبی تفریق نہ ہو۔ نا انصافی اور نابرابری نہ ہو۔ ایسا سماج جس میں کمزور سے کمزور فرد کے حقوق کی بھی حفاظت ہو۔ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ دولت چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے فائدے ادنیٰ سے ادنیٰ طبقے تک بھی پہنچیں۔ کوئی اپنی قوت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کمزوروں پر ظلم و ستم نہ ڈھائے۔ ایک شاہراہ امن ہو جس پر برادرانِ وطن بلا تفریق مذہب و نسل اپنی منزل کی سمت گامزن ہوں۔ یہ استحصال، یہ تفریق اور یہ خلیج ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ آپ لوگ سماجی انصاف کے نعرے کے ساتھ سماج واد کے پرچم تلے جمع ہو جائیں اور متحد ہو کر اس انقلابی تحریک کو کامیاب بنائیں۔‘‘
تقریر پر اثر تھی کہ لمحہ۔ اس کے دل پر خاصا اثر ہوا اور وہ وویک سریواستو جی کے قریب ہوتا چلا گیا۔ سریواستو جی اس کی صلاحیت اور قابلیت سے متعارف ہوئے تو اسے اپنا نجی سکریٹری ہی مقرر کر دیا۔ وہ خود تو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن عوام کی نبض پر ان کی خاصی گرفت تھی۔ کچھ ہی عرصے میں وہ جد و جہد اور انقلاب کے ایسے پیکر بن گئے تھے کہ استحصال زدہ لوگوں کی پر امید نگاہیں ان پر مرکوز ہو گئی تھیں۔ وہ بھی ان سے بے حد متاثر ہوتا چلا گیا تھا کہ ایک ہی جھٹکے میں وہ ان کے سحر سے آزاد ہو گیا۔
ایک دن وہ سریواستو جی سے ملنے پہنچا تو ان کے آفس کے دروازے پر ہی اس کے قدم ٹھٹک گئے۔ سریواستو جی اندر کسی سے محو گفتگو تھے۔ ایک با رعب آواز ابھری۔
’’انتخاب کا وقت سر پر آ پہنچا ہے۔ تم یہاں اپنی اور جماعت کی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کرو۔‘‘
’’کوشش تو کر رہا ہوں۔ پس ماندہ طبقوں اور اقلیتوں میں جماعت نے اچھی خاصی مقبولیت حاصل کر لی ہے۔‘‘
سریواستو جی بولے تو اس آواز نے سخت لہجے میں ان کی تردید کی۔
’’یہ کافی نہیں ہے۔ انہیں اپنی جانب مکمل طور سے کھینچنے کا واحد طریقہ ہے۔ خوف۔ ان میں خوف پیدا کرو۔ اور اس کی سب سے آسان صورت ہے۔ فساد۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ فساد کا سارا الزام فرقہ پرست جماعت کے سر جائے گا اور اس کے رد عمل میں یہ لوگ ہماری جماعت کے پرچم تلے ہی پناہ لیں گے۔‘‘
’’لیکن فساد۔۔۔ کس طرح؟‘‘
سریواستو جی کسی قدر الجھتے ہوئے بولے تو اس آواز نے جیسے سرکوبی کی۔
’’ارے بھئی! فساد کے لیے کتنے ہی آزمودہ نسخے موجود ہیں۔ کسی عبادت گاہ کو نجس کروا دو یا پھر کسی سڑک کنارے ایستادہ مورتی کی بے حرمتی کروا دو۔ یا پھر کسی ایک فرقے کی لڑکی کو دوسرے فرقے کے لونڈوں سے اٹھوا دو۔‘‘
’’ہاں۔ یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
سریواستو جی قدرے جوش میں بولے۔
’’بہت دنوں سے ایک لڑکی پر نگاہ ہے لیکن وہ اپنی پشت پر ہاتھ ہی رکھنے نہیں دیتی۔ کیوں نہ اسے ہی اٹھوا لوں؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔ لیکن وہ لڑکی تمہاری محبت کی داستان سنانے کے لیے زندہ نہیں رہنی چاہیئے۔‘‘
ایک قہقہہ لگا جس میں سریواستو جی بھی شریک تھے۔ وہ شکست خوردہ سا خاموشی سے باہر نکل آیا۔
کچھ ہی دنوں بعد وہ لڑکی اغوا ہوئی اور پھر اس کی عصمت دریدہ لاش ملی۔ فساد تو چار دن بعد ہی رک گیا لیکن ماحول پر دہشت ہفتوں طاری رہی۔ اسی ماحول میں انتخاب ہوا اور توقع کے مطابق سریواستو جی اور ان کی جماعت فتح یاب ہوئی۔
اور پھر ڈھیر سارے دن پنکھ لگا کر اڑتے چلے گئے۔ اس نے اپنی تعلیمی صلاحیت کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنے کی بے حد تگ ودو کی لیکن بغیر کسی سفارش اور رشوت کے وہ ناکام و نامراد ہی ہوتا رہا۔ مجبوراً وہ ایک ایسے نجی اسکول میں پیشۂ درس و تدریس سے وابستہ ہو گیا جسے اساتذہ کے قطرہ قطرہ لہو سے سینچا جا رہا تھا۔ تنہائی کا غلبہ ہوا اور فطری تقاضے نے سر ابھارا تو دوستوں کے اصرار پر اس نے شادی بھی کر لی۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے ترستی ہوئی اس کی بیوی ہمیشہ کبیدہ خاطر ہی رہی۔ اس کی پیشانی کی ناگوار شکن مٹانے کے لیے وہ دن رات محنت کرتا رہا لیکن ضرورتوں کا ناگ اس کی خوشیوں میں زہر کی آمیزش ہی کرتا رہا۔
ایک روز اس کے اسکول میں انتظامیہ کی جانب سے ایک ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ مہمان خصوصی کے طور پر ریاستی وزیر تعلیم کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان کا استقبال کرنے والوں میں اسے بھی شامل رکھا گیا۔ اس کے ذمے وزیر تعلیم کی بیج پوشی تھی جبکہ نئی ٹیچر مس سیما کو ان کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈالنے کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ وقت مقررہ پر وزیر تعلیم تشریف لائے۔ ان کی شکل میں سریواستو جی کو دیکھ کر وہ سخت متعجب ہوا۔ سریواستو جی بھی اسے دیکھ کر تھوڑے چونکے۔ ان کی آنکھوں میں شناسائی کا عکس لہرایا۔
’’تم۔۔۔ تم کہاں غائب ہو گئے تھے؟ میں تو سمجھا تھا کہ اس فساد میں کہیں تم بھی۔۔۔۔ لیکن تم کہاں رہے؟ ہم سے ملے کیوں نہیں؟‘‘
’’بس یوں ہی۔۔‘‘
اس نے سر جھکاتے ہوئے الجھی آواز میں کہا۔
’’اس فساد کے بعد میں بہت دلبرداشتہ ہوا۔ ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔‘‘
’’تم کسی دن ہم سے ملنا۔ تفصیل سے گفتگو ہو گی۔‘‘
ان کے گلے میں مس سیما کے مالا ڈالنے کے بعد وہ آگے بڑھ گئے تو اسے احساس ہوا کہ وہاں موجود منتظمین کی نگاہوں میں یکلخت اس کی وقعت بے حد بڑھ گئی ہے۔ سکریٹری سریواستو جی کو اسٹیج پر پہنچا کر تیزی سے پلٹا اور اسے بڑی تعظیم سے لے جا کر ان کے قریب والی کرسی پر بٹھایا۔ پورے پروگرام کے دوران وہ شدید اضطراب میں رہا۔ وداع ہوتے وقت سریواستو جی نے ایک بار پھر ملاقات کی یاددہانی کرائی اور اس نے رسمی طور پر سر کو اثبات میں جنبش دی۔
اس رات وہ بے حد کشمکش میں مبتلا رہا۔ کئی بار اس نے بغل میں سوئی ہوئی اپنی بیوی کی جانب دیکھا۔ اس کے چہرے کی زردی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے حمل میں موجود بچے نے اپنی نشو و نما کے لیے اس کے خون کو نچوڑنا شروع کر دیا تھا۔ اپنا خون پلا کر اس کے نطفے کی پرورش کرنے والی اس زردرو عورت کو تکتے ہوئے اس کے اندر شدید احساس جرم پیدا ہوا۔ اس احساس کی ضرب سے وہ پہلی بار قدرے شکستہ ہوا اور دوسرے دن ہی صبح سویرے سریواستو جی کے پاس پہنچ گیا۔ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا کہ سریواستو جی اپنے جسم پر کرتا چڑھاتے ہوئے داخل ہوئے اور اس کے سامنے کے صوفے پر پھیلتے ہوئے گویا ہوئے۔
’’ہاں جی! سناؤ! تمہارے جیسا قابل اور تعلیم یافتہ شخص ابھی تک اس پرائیویٹ اسکول میں کیا کر رہا ہے؟‘‘
’’جی!‘‘ اس نے ان کے سرخی مائل چہرے پر نگاہ ڈالتے ہوئے کسی قدر تلخی سے کہا۔
’’سرکاری ملازمت کے لیے سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘
’’ارے تو ہم کیا مر گئے تھے؟‘‘
وہ کچھ برہمی سے بولے۔
’’تم تو خود ہی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ورنہ آج کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ تمہیں کیا پتہ کہ تمہارے جیسے وفادار اور قابل آدمی کی ہمیں کتنی ضرورت رہتی ہے۔‘‘
اسی اثنا میں وہ دروازہ ایک بار پھر کھلا جس سے سریواستو جی باہر نکلے تھے اور ایک عورت اپنی ساڑی کا پلّو درست کرتی ہوئی نکلی۔ اس عورت کی نگاہ اس پر پڑی تو ایک ثانیے کے لیے ٹھٹھک کر رہ گئی اور پھر گردن جھٹکتی ہوئی ڈرائنگ روم سے نکلی چلی گئی۔ وہ دیر تک اس کی پشت کو گھورتا رہا اور پھر سریواستو جی سے استفسار کیا۔
’’یہ سریکھا تھی نا؟‘‘
’’اچھا تو تم بھی اسے جانتے ہو۔‘‘
وہ بے تکلفی سے مسکرائے۔
’’تم تو چھپے رستم نکلے۔‘‘
’’لیکن وہ یہاں کیا کر رہی تھی؟‘‘ وہ ابھی تک متعجب تھا۔
’’ارے اس جیسی عورت اور کیا کرے گی؟ تم سے کیا چھپانا۔ رات ضرورت محسوس ہوئی تو اسے ہی بلوا لیا تھا۔‘‘
اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ اس نے استعجاب زدہ لہجے میں کہا۔
’’اس کا ایک شوہر بھی ہوا کرتا تھا۔ اندر کمار۔ وہ کہاں ہے؟‘‘
’’لگتا ہے تم اس کے بارے میں مکمل طور سے نہیں جانتے۔ اندر کمار ہی تو اسے سپلائی کرتا ہے۔‘‘
انہوں نے لاپرواہی سے کہا تو وہ گنگ سا بیٹھا رہ گیا۔
’’ہٹاؤ اس فاحشہ کو۔ تم اپنی سناؤ۔ سویرے سویرے کیسے چلے آئے؟‘‘
اس نے اضطراب میں پہلو بدلا اور پھر قدرے توقف کے بعد ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’ایک سرکاری ہائی اسکول سے میرے پاس انٹرویو لیٹر آیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ محض رسمی خانہ پری ہے۔ امید وار کا انتخاب تو پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔‘‘
’’ارے ہمارے رہتے کسی اور کا انتخاب کیسے ہو جائے گا؟ تم اسکول کا نام اور پتہ بتاؤ اور پھر سمجھو کہ تم منتخب ہو گئے۔‘‘
انہوں نے بڑے اطمینان سے کہتے ہوئے میز پر رکھا بیل بجایا۔ فوراً ہی ایک نوکر حاضر ہو گیا۔ چائے ناشتہ لانے کا حکم پا کر وہ چلا گیا تو ایک بار پھر وہ اس سے مخاطب ہوئے۔
’’ارے ہاں! کل تمہارے اسکول کے پروگرام میں ایک لڑکی تھی نا۔ جس نے میرے گلے میں مالا ڈالی تھی۔ کون تھی وہ؟‘‘
’’جی۔۔۔ وہ نئی ٹیچر مقرر ہوئی ہے۔ سیما نام ہے۔ بے حد شریف لیکن غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
’’اسے کسی روز یہاں لے کر آؤ نا۔‘‘
انہوں نے سرسری لہجے میں کہا تو وہ بری طرح چونک اٹھا۔ اس نے حیرانی سے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جس پر خباثت بھری مسکان رقص کر رہی تھی۔ اسے لگا کہ وہ اندر کمار والی جگہ پر قابض ہو رہا ہے۔ اس نے جھٹکے سے اٹھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں اپنی بیوی کا کمزور اور مضمحل سراپا تیر گیا اور وہ بیٹھا رہ گیا۔
چائے ناشتے سے فارغ ہو کر وہ وداع ہوا تو اس کے قدموں میں لرزش تھی اور ذہن بری طرح منتشر تھا۔ اسکول میں بھی وہ خالی الذہن سا رہا۔ ٹفن کے وقفے میں وہ ایک گوشے میں بیٹھا لقمے زہر مار کر رہا تھا کہ مس سیما اس کے پاس آ موجود ہوئی۔ اس نے کچھ تعجب سے اس کے 'ہیلو' کا جواب دیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ خلاف توقع بڑی بے تکلفی سے اس سے محو گفتگو ہو گئی۔ گفتگو کے دوران اچانک اس نے کہا۔
’’لگتا ہے وزیر تعلیم سے آپ کی گہری جان پہچان ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔ ہے تو۔۔۔!‘‘
اس نے گہری نگاہوں سے اس کا جائزہ لیا۔ آج وہ کچھ زیادہ ہی سجی سنوری تھی۔ ہمیشہ محتاط طریقے سے لباس زیب تن کرنے والی آج لباس کے تئیں قدرے لاپروا سی تھی۔ دوپٹہ اس کے سینے سے ڈھلک آیا تھا اور اس کے پوشیدہ اعضا اپنی بلند قامتی کا فخریہ اعلان کر رہے تھے۔ اس نے اس کی جانب جھکتے ہوئے اپنی گردن سے اترتی دودھیا گھاٹی کو پوری طرح کشادہ کیا اور اپنے لہجے میں شیرینی گھولتی ہوئی مخاطب ہوئی۔
’’آپ ان سے میرا تعارف کرا دیں گے؟ آپ کو جب فرصت ہو مجھے ان کے پاس لے چلئے۔ مجھے ان سے کچھ ضروری کام ہے۔‘‘
وہ اس کی مد بھری آنکھوں سے چھلکتے پیغام کو پڑھ کر بری طرح لرزا۔ وہ اس کا اقرار حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو سر تا پا تیار سی تھی۔ اس نے گھبرا کر بڑی سرعت سے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ کل ہی اسکول ختم ہونے کے بعد چلتے ہیں۔‘‘
سیما نے بے ساختہ اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دبایا اور نشیلی مسکان بکھیرتی ہوئی چلی گئی۔
کچھ ہی دنوں بعد سریواستو جی نے اسے اطلاع دی۔
’’تمہارا انٹرویو تو بے حد کامیاب رہا۔ ہم نے انتظامیہ سے کہہ دیا ہے۔ جلد ہی تمہیں تقرری کا پروانہ مل جائے گا۔‘‘
اور پھر اپنی بائیں آنکھ دبا کر مسکراتے ہوئے بولے۔
’’مس سیما کو ابھی چار چھ مہینے ٹالیں گے۔ اس کے نو خیز حسن میں بلا کی کشش ہے۔ نوکری ملتے ہی یہ مینا تو پھُر سے اُڑ جائے گی۔‘‘
کچھ ہی روز بعد اس نے ملازمت جوائن کر لی۔ اس کی ملازمت کی خبر سن کر مجھے انتہائی خوشی ہوئی۔ مجھے اطمینان سا ہوا کہ ذرا سے سمجھوتے سے اسے زندگی میں تھوڑی فراغت نصیب ہو گئی۔ اب اس کی حاملہ بیوی کسمپرسی کی حالت سے نکل کر ایک صحت مند اور خوشگوار ماحول میں اپنے بچے کو جنم دے گی اور اس کی پیشانی پر موجود مستقل شکن ختم ہو جائے گی لیکن اسی رات اس پر سگ گزیدگی کی کیفیت طاری ہو گئی۔
میں حسرت و غم کی تصویر بنا لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھتے ہوئے اذیت میں مبتلا اس کے وجود کو بے بسی سے تکتا رہا۔ مجھے شدید حیرت تھی کہ آخر وہ سگ گزیدگی کا شکار کب اور کیسے ہوا؟
لیکن بہت دنوں بعد بھی ڈاکٹر کو اس پر قطعی حیرت نہیں تھی کہ وہ کب اور کیسے سگ گزیدگی کا شکار ہوا بلکہ اسے سخت حیرت اس بات پر تھی کہ جو شخص چار پانچ دنوں میں ہی مر جانے والا تھا وہ پانچ سال بعد بھی بالکل نارمل حالت میں زندہ کیسے ہے؟
٭٭٭
زمین
شام ہوتے ہوتے اس نے اپنا کام مکمل کر لیا۔ ہفتوں کی مسلسل مشقت کے بعد اس کی زمین کاشت ہو گئی تھی۔ اب اس کاشت شدہ زمین پر تخم پاشی کا عمل ہی باقی رہ گیا تھا۔ مٹی سے آلودہ اپنے جسم کو تکتے ہوئے اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ مٹی کے لمس کا بھی ایک اپنا اور گہرا نشہ ہوتا ہے جو مشام جاں میں پہنچ کر روح کو سرشار کر دیتا ہے۔ اس کے لیے کاشتکاری محض ایک کام نہیں تھا بلکہ ایک عبادت تھی۔ ایسی عبادت جو ہر بار اسے ایک نئی اور انوکھی لذت سے ہم کنار کرتی۔ زمین کے کئی روپ ہوتے ہیں اور وہ ہر مرتبہ ایک نئے روپ سے آشنا ہوتا۔ کاشت کی گئی نرم زمین میں جب اس کے پاؤں ٹخنوں تک پیوست ہو جاتے اور زمین گہری وارفتگی میں ان پر اپنے ہونٹ ثبت کرتی تو اس کے رگ وپے میں لطیف سی سہرن دوڑ جاتی اور وہ از خود رفتہ ہو جاتا۔
اس نے زمین کے وسط میں کھڑے ہو کر چہار سمت طمانیت بھری نگاہیں دوڑائیں۔ تھوڑی سی زمین تھی تو کیا؟ اپنی تو تھی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ اس وقت زمین کے تمام اعضاء ڈھیلے اور نرم پڑچکے ہیں اور وہ گہری آسودگی کے عالم میں اس طرح بکھری پڑی ہے جیسے شب وصال کے بعد کوئی دوشیزہ محو خواب ہو۔
زمین، سحرآگیں زمین، اس کے تمام اسرار کس پر منکشف ہوتے ہیں۔ اس کے سحر میں گرفتار ہو کر کتنے ہی اس کے قرب کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن زمین خودسپردگی کے لیے جس قدر التفات اور وابستگی کی شرط رکھتی ہے اس پر کوئی کوئی ہی کھرا اترتا ہے۔ وہ اپنی خلوص آمیز فطرت سے مجبور ہو کر بانہیں تو سب کے لیے وا کرتی ہے لیکن دل کے نہاں خانے میں داخلے کی اجازت سبھی کو نہیں دیتی۔
اس کے والد نے وصال سے قبل اپنی طویل زندگی کے تجربوں سے حاصل کردہ علم اسے تفویض کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’زمین پر جبر نہ کرنا کہ زمین عورت کی طرح نرم و نازک اور حساس ہوتی ہے اور اسی کی مانند مقدس ہوتی ہے کہ تخلیقی عمل سے گزرتی ہے۔ جبر سے اس کی تخلیقی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے یا اس میں ایسا سقم آ جاتا ہے کہ اس کے شکم سے اگنے والے پودوں کی ہیئت ہی بدل جاتی ہے۔
زمین کی تذلیل نہ کرنا کہ زمین بڑی خود دار اور منتقم مزاج ہوتی ہے اور تذلیل کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ اگر کسی طرح وہ اس کی زد سے بچ جائیں تو ان کی نسل اس کے انتقام کی شکار ہوتی ہے۔‘‘
اپنی زمین پر گہرے سائے پڑتے دیکھ کر اس نے نگاہیں اوپر کیں۔ آسمان پر گہرے کالے بادل چھانے لگے تھے۔ اپنے سابقہ تجربوں کی بنیاد پر اس نے شناخت کیا کہ یہ برسنے والے بادل ہیں۔ ان کے استقبال میں وہ خوش دلی سے مسکرایا۔ اگر وہ کچھ دیر کھل کر برس جائیں تو زمین کی تکان اتر جائے گی۔
اس نے اپنے سامان کو سمیٹا، زمین پر محبت آمیز الوداعی نگاہ ڈالی اور گھر کی سمت روانہ ہو گیا۔ کچھ ہی دوری پر اس کی رہائش گاہ تھی۔ اتنی ہی دوری پر کہ وہاں سے وہ اپنی زمین کے مبہم سے نقوش دیکھ سکتا تھا۔ گھر میں داخل ہو کر اس نے وہ بیج نکالے جو زمین میں بوئے جانے والے تھے۔ اس نے ایک بار پھر باریک بینی سے ان کا جائزہ لیا اور بے حد مطمئن ہو کر نہانے کے لیے چلا گیا۔ ہلکے سے ناشتے کے بعد وہ چائے کا کپ لیے ہوئے دریچے پر آ گیا اور اپنی زمین کی سمت دیکھا۔ زمین پر والہانہ انداز میں جھکے ہوئے بادل شاید اب تک تذبذب کی کیفیت میں تھے۔ آخر یہ کیفیت ختم ہوئی اور بوندا باندی ہونے لگی اور پھر دھیرے دھیرے بارش نے زور پکڑ لیا۔ بارش کے تیز چھینٹے اس کے جسم کو بھگونے لگے تو اس نے ایک گہرے اطمینان کے ساتھ دریچے کو بند کر دیا۔
دوسرے ہی روز سے اس نے اپنی زمین پر تخم ریزی شروع کر دی۔ اس عمل سے فارغ ہونے کے بعد وہ بڑی شدت سے بیج پھوٹنے کا انتظار کرنے لگا۔ جلد ہی یہ انتظار ختم ہوا اور کچھ ہی دنوں میں کونپلیں نکل آئیں۔ ساری زمین سبز لبادے سے ڈھک گئی۔ روزانہ وہ صبح سویرے ہی اپنی زمین کی طرف آ نکلتا اور کونپلوں کے قد و قامت میں کچھ اور اضافہ دیکھ کر فخر و انبساط سے لبریز ہو جاتا۔ ہفتے بھر میں ہی پودے بالشت بھر کے ہو گئے۔ ان کی تیز نشو و نما سے عیاں تھا کہ فصل اچھی ہو گی۔ ممکن ہے کہ فصل اچھی ہی ہوتی اگر وہ واقعہ رو نما نہ ہوتا۔
شام کے وقت وہ حسب معمول چائے پیتے ہوئے اپنی زمین کی سمت ہی دیکھ رہا تھا کہ دور گرد و غبار کے بادل اڑتے دکھائی دیئے۔ قدرے توقف کے بعد ہی ان بادلوں کو چیرتے ہوئے چند گھڑ سوار نمودار ہوئے اور اس کی زمین کی طرف بڑھے۔ دوسرے ہی لمحے اس نے دیکھا کہ اس کی زمین گھوڑوں کے سموں سے روندی جانے لگی۔ وہ وحشت زدہ سا ساکت وصامت دیر تک اس عمل کو دیکھتا رہا۔ یکایک اسے لگا کہ زمین کے ہونٹوں سے دلدوز کراہیں نکلی ہوں۔ وہ اضطراری کیفیت میں باہر نکلا اور اپنی زمین کی طرف بھاگا۔ زمین اور اس کی فصل کو روندتے ہوئے گھڑسواروں نے اسے دیکھا اور کچھ نے آگے بڑھ کر اس کی راہ روک لی۔ ان میں سے ایک نے کاندھے سے بندوق اتاری اور اس کی نال اس کے سینے پر رکھتے ہوئے استفسار کیا۔
’’کہاں بھاگے جا رہے ہو؟‘‘
’’میری زمین۔۔۔۔۔ میری فصل۔۔۔۔!‘‘ وہ ہذیانی انداز میں چلایا تو ان کے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’وہ تو روندی بھی جا چکی۔ اب تمہاری زمین مدتوں تک کوئی فصل اگانے کی جرأت نہ کرے گی۔‘‘
’’ظالم۔۔۔ درندے۔۔۔!‘‘ وہ پاگلوں کی طرح چیخا تھا کہ کسی کی بندوق کا کندہ اس کے سر پر پڑا اور وہ زمین پر گر کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا۔
ہوش آنے کے بعد وہ کافی دیر تک یوں ہی بے حس و حرکت پڑا رہا۔ وہ لوگ چلے گئے تھے اور چہار سمت گہرا اداس سا سناٹا طاری تھا۔ وہ کسی طرح اٹھا اور لرزتے قدموں سے اپنی زمین کے قریب آیا۔ وہاں زندگی کی رمق بھر بھی نشانی باقی نہ بچی تھی۔ سارے نوزائیدہ پودے دم توڑ چکے تھے۔ ان کی کچلی ہوئی لاشوں کو اپنے سینے سے چمٹائے روندی ہوئی زمین وفورِ غم سے سیاہ پڑ چکی تھی۔ اس نے بے بسی سے آسمان کو تکا اور اسے بھی محو تماشا پا کر سینہ کوبی کرنے لگا۔
ڈھیر سارے شب وروز گزر گئے۔ اداس اور ماتم زدہ شب وروز۔ وہ حزن ویاس کی تصویر بنا گھر کی تنہائیوں میں مقید رہا۔ آہستہ آہستہ اس کے زخم قدرے مندمل ہوئے اور حواس ذرا درست ہوئے تو اسے اپنی زمین کا خیال آیا۔ اسے حیرانی ہوئی کہ اس دوران اس کے ذہن کے کسی گوشے میں زمین موجود نہیں رہی تھی بس سارے ذہن پر ایک ایک اداس اور بوجھل سا خالی پن مسلط تھا۔ اس نے سوچا کہ غم بھی عجیب ہوتا ہے۔ اپنی انتہا پر مرتکز ہو کر صرف وہی باقی رہ جاتا ہے۔ وہ وقوعہ فراموش ہو جاتا ہے جو اس کے وجود کا باعث بنا تھا۔ اس فراموشی پر اسے گہری ندامت ہوئی اور اس نے ازسرنو اپنی زمین کی نگہداشت کا مصمم ارادہ کیا۔ دوسرے دن علی الصباح وہ اپنی زمین کے قریب آیا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اس کی ساری زمین پر ناگ پھنی کے پودے اگ آئے تھے۔ اس نے گہرے کرب سے سوچا کہ ایک نرم ونازک اور زرخیز زمین کے لیے اس سے بڑا عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی کوکھ سے ناگ پھنی کے پودے اگ آئیں۔ ناگ پھنی کے خاردار پودوں کو تکتے ہوئے اسے لگا کہ وہ خار اس کی روح میں پیوست کر گئے ہوں۔
نوکیلے خاروں کی تیز چبھن کی ناقابلِ برداشت اذیت سے اس نے چیخنا چاہا ہی تھا کہ یکلخت یہ احساس اسے خاصا پر سکون کر گیا کہ اب وہ گھڑ سوار اس کی زمین کو اتنی آسانی سے نہیں روند سکتے۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
لکشمی پور کی شریفن
اکیسویں صدی کا سورج اگا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ سارے منظر بدل چکے ہیں۔ گلوبلائزیشن اور لبریلائزیشن کی جادوئی چھڑی سے سارا ملک بازار اور افراد خریدار میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جو قوتِ خرید نہیں رکھتے تھے وہ خود کوہی فروخت کرنے پہ مجبور تھے۔ ملک پر سرمایہ دار ترقی یافتہ ممالک کی جدید ترین اسلحوں سے لیس ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یلغار کر دی تھی جن سے بری طرح شکست کھا کر زنگ خوردہ اور آرام طلب نیشنل کمپنیاں دھڑا دھڑ بند ہو رہی تھیں یا پھر فاتح کمپنیوں میں ان کی شرطوں پر ضم ہو رہی تھیں۔ بڑی کمپنی ہو یا چھوٹا تاجر، افسرہویامزدور، اپنی بقا اور اضافہ شدہ مصنوعی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر کچھ نہ کچھ سائیڈ بزنس کرنے لگے تھے۔ گاڑیاں بنانے والی مشہور کمپنی ٹاٹا، سائیڈ میں نمک بنانے پر اتر آئی تھی تو منّا پان والا سائیڈ میں کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں اور بھانگ کی گولیاں رکھنے لگا تھا۔ ادیب ادب کے علاوہ سرکاری ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں لگ گئے تھے تو صحافی صحافت کے ساتھ بلیک میلنگ کو سائیڈ بزنس کے طور پر اپنا بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر نقلی دواؤں کا بغلی دھندہ کرنے لگے تھے اور اساتذہ کورس کی کتابوں کی دکانیں کھول بیٹھے تھے۔
پشتینی کام روایتی انداز سے کرنے والے جدید تقاضوں سے نبرد آزما مات پر مات کھا رہے تھے۔ سبسڈی کم ہو جانے کے باعث کسان اپنی فصل کی لاگت تک وصول نہیں کر پا رہے تھے اور قرض خواہوں سے تنگ آ کر خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے تھے۔ مزدور دوست کا وزیر اعظم نیا پے کمیشن لاگوکر کے قومی خزانے کو بے ایمان سرکاری افسروں کی کبھی نہ بھرنے والی جیب میں انڈیل چکا تھا اور مزدور اپنی پھٹی جیب لیے حسرت آمیز حیرت میں مبتلا تھے۔ دیش بھگت جماعت کا وزیر اعظم ملک کی منافع بخش کمپنیوں کو اونے پونے دام پر فروخت کرنے پر تلا تھا اور دلالی کے طور پر لیڈروں کی چاندی کٹ رہی تھی۔ پورا ملک ایک منڈی بن چکا تھا جس میں دلالوں کی بن آئی تھی۔
ٹی۔ وی پروگراموں کے ذریعہ لوگوں کو ایک مصنوعی دنیا اور تہذیب سے متعارف کرایا جا رہا تھا اور اس میں دکھائے جانے والے اشتہاروں میں چیزوں کی اصلیت کہیں گم کر دی گئی تھی۔ اشتہاری دباؤ کے تحت مٹی سونے کے نرخ پر فروخت کی جا رہی تھی اور ‘‘اس کی ساڑی میری ساڑی سے سفید کیوں‘‘ کے سوال کو حل کرنے کی کوشش میں ہر چہرہ سیاہ پڑتا جا رہا تھا۔ پردۂ سیمیں کا باغی نوجوان ادھیڑ عمری میں چھوٹے پردے پر ‘‘کون بنے گا کروڑ پتی‘‘ کے ذریعہ نئی نسل کو جوئے کی ترغیب دینے لگا تھا اور کرکٹ کے ہیرو سٹے بازوں سے ملک کے وقار کا سودا کرنے لگے تھے۔
کیبل ٹی۔ وی اور موبائل کے ذریعہ گھر گھر میں بلو فلمیں دیکھی جا رہی تھیں اور کمپیوٹر کے مانیٹرس پر ننگی لڑکیاں دلبستگی کے سامان فراہم کر رہی تھیں۔ اسکولوں میں سیکس ایجوکیش کے بارے میں سرکار ابھی تک فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی اور اسکولوں کے کم سن طلباء و طالبات سیکس کا پریکٹکل کورس کرنے لگے تھے۔ نا جائز بچے اب کوڑے دان میں نہیں پھینکے جا رہے تھے بلکہ جائز طریقے سے انہیں حمل میں ہی ختم کروایا جا رہا تھا۔ تعلیم بالغاں کے تحت تمام بوڑھی بوڑھے اپنا نام لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تھے اور ان کی انگریزی تعلیم یافتہ اولادیں ان کا نام تک بھول چکی تھیں۔ گاؤں کے گاؤں خالی ہو رہے تھے اور شہر کے فٹ پاتھوں پر بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔ اغوا مقبول ترین دھندا بن چکا تھا اور قتل سپاری لے کر کیے جانے لگے تھے۔ دولت اور تعلیم تیزی سے برآمد ہو رہی تھیں اور بھوک اور فحاشی اس سے دوگنی تیزی سے درآمد کی جا رہی تھیں۔
لیکن شہرسے ملحق گرانڈ ٹرنک روڈ کے کنارے واقع رنڈی پاڑا لکشمی پور کی شریفن بائی ان سارے بدلے ہوئے منظر سے بالکل بے خبر تھی۔ بھرے بھرے جسم اور کھردری زبان والی شریفن بائی اپنے ڈیرے کے باہری کمرے میں بیٹھی چھالیہ کتر رہی تھی۔ دن کے گیارہ بجے تھے۔ اندر کے کمروں سے اٹھنے والی آوازوں سے عیاں تھا کہ سبھی بیدار ہو گئی تھیں۔ یوں بھی صرف دو ہی گاہک رات بھر رکے تھے۔ باقی چھوکریاں گاہکوں کا انتظار کرتے کرتے ہی تھک کر سو گئی تھیں۔ شریفن بائی اپنے دھندے پر بہت دنوں سے چھائی ہوئی مندی سے بے حد متفکر تھی۔ لیکن اس وقت وہ اپنے دھندے کے بارے میں نہیں بلکہ سلمیٰ کے متعلق سوچ رہی تھی۔ سلمیٰ کل ہی ممبئی سے آئی تھی اور آج اس نے یہاں آنے کا سندیسہ بھیجا تھا۔ شریفن بائی تو خاندانی رنڈی تھی جبکہ سلمیٰ اپنے شرابی باپ سے تنگ آ کر ایک نٹھلے مردوئے کا ہاتھ تھامے ہوئے اس پاڑے میں پہنچی تھی۔ وہ مردوا تو اپنی جیب گرم کر کے چمپت ہو گیا اور سلمیٰ اس ڈیرے کی ملکیت ہو کر رہ گئی۔ شروع شروع میں تو وہ پیشہ کرنے میں بے حد گھبرائی لیکن پھر اس نے ایسے کل پرزے نکالے کہ شریفن بائی خاندانی اور تجربہ کار رنڈی ہونے کے باوجوداس کی قائل ہوتی گئی۔ وہ تھوڑی پڑھی لکھی بھی تھی اس لیے گفتگو میں سلیقہ اور انداز میں رکھ رکھاؤ تھا۔ حالانکہ اس وقت شریفن بھی گدرائے جسم والی نوجوان چھوکری تھی لیکن اس کی طرح مردوں کو موہ لینے والی صلاحیت اس میں نہ تھی۔ یہی وجہ تھی وہ دل ہی دل میں اس سے پرخاش رکھنے لگی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح یہاں سے دفع ہو۔ لیکن سلمیٰ تو خود ہی اونچی اڑان کے لیے پر تول رہی تھی۔ اس کا ایک مستقل گاہک تھا۔ مقصود بھائی۔ وہ تھا تو اسی شہر کا لیکن کچھ دنوں سے ممبئی شہر میں جا کر جانے کیا کرنے لگا تھا۔ اس نے پتہ نہیں کون سی پٹی پڑھائی کہ وہ اس کے ساتھ ممبئی بھاگ نکلی۔
تقریباً سال بھر بعد وہ آئی اور اس کے رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے۔ اس کے انگ انگ سے امارت اور رعونت ٹپک رہی تھی۔ وہ شریفن سے بھی ملنے آئی لیکن اس نے منھ نہیں لگایا تو خفا ہو کر چلی گئی۔ اس کے بعد وہ ہر چوتھے پانچویں مہینے یہاں آتی۔ پاڑے میں موجود چھوکریوں میں سے چار پانچ کو منتخب کرتی، ان کی بائیوں کو اچھی خاصی رقم پکڑاتی اور اس چھوکریوں کو لے کر ممبئی روانہ ہو جاتی۔ شریفن نے اس سے کبھی پوچھا تو نہیں لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ مقصود بھائی کے ساتھ مل کر ان چھوکریوں کو دبئی کے ہوٹلوں میں سپلائی کرتی ہے۔ برسوں سے یہ سلسلہ چل رہا تھا اور آج بھی جاری تھا۔
دروازے پر کار رکنے کی آواز سنائی دی تو شریفن بائی نے چونک کر باہر دیکھا۔ ماروتی کار تھی جس کا عقبی دروازہ کھول کر سلمیٰ کسی سیٹھانی کی طرح نیچے اتر رہی تھی۔ وہ نہایت قیمتی بنارسی ساڑی میں ملبوس تھی اور اس کے تمام جسم پر سونے کے بھاری زیورات سجے تھے۔ وہ تمکنت سے چلتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تو نہ چاہتے ہوئے بھی شریفن نے چوکی سے اتر کر اس کا استقبال کیا۔ سلمیٰ اپنی ساڑی کو سمیٹتی ہوئی چوکی پر ہی بیٹھ گئی۔
’’کیسی ہو شریفن؟‘‘
اس کے لہجے میں خلوص و محبت کی ایسی گرمی تھی کہ شریفن یک لخت پگھل گئی۔
’’بس گذر ہو رہی ہے۔ تم اپنی سناؤ۔ تمہارے کیا حال ہیں؟‘‘
شریفن کے لہجے کی یاسیت سلمیٰ سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔
’’میں تو بے حد مزے میں ہوں۔ تمہیں تو معلوم ہی ہو گا کہ میں نے مقصود سے شادی کر لی ہے۔ دو بچے ہیں۔ دونوں کو شملہ کے انگریزی اسکول میں داخل کروا دیا ہے۔ وہیں ہوسٹل میں رہتے ہیں۔ لیکن تم کچھ دکھی سی لگ رہی ہو۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ وہی دھندے کا رونا۔۔۔‘‘
شریفن ایک بار پھر پاندان کے پاس بیٹھ کر سروتے سے چھالیاں کترنے لگی تھی۔
’’تم تو اس ڈیرے پر رہ چکی ہو۔ گاہکوں کی کیسی ریل پیل رہتی تھی۔ ہر ایک کو ایک رات میں چھ سات کو نمٹانا پڑتا تھا۔ آج میرے پاس دس چھوکریاں ہیں۔ سبھی حسین اور جوان۔ لیکن گاہکوں کا ایسا ٹوٹا پڑا ہے کہ جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔‘‘
’’کیوں؟ کیا پولیس کچھ زیادہ ہی پریشان کر رہی ہے؟‘‘
سلمیٰ نے ہمدردی بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں ری۔۔۔ وہ بے چارے تو خود رو رہے ہیں۔ گاہک پیچھے بیس روپئے بندھے ہیں۔ اب گاہک آئیں تب نا ان کی بھی کمائی ہو۔‘‘
شریفن نے پان لگا کر گلوری اسے پیش کی تو سلمیٰ نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔ میں تو پان پراگ گٹکا کھاتی ہوں۔‘‘
اس نے اپنے پرس سے پان پراگ کا ڈبہ نکالا اور کچھ مقدار اپنی ہتھیلی پر رکھ کر پھانک گئی۔
’’ممبئی جیسے بڑے اور تیز رفتار شہر میں پان لگانے اور کھانے کا اہتمام کون کرے۔ فاسٹ زندگی میں ہر شے فاسٹ ہوتی جا رہی ہے۔ فاسٹ فوڈ، فاسٹ جرنی، فاسٹ تھنکنگ۔۔۔ ہاں تو پھر گاہک نہ آنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’تمہیں تو معلوم ہے کہ ہمارے زیادہ تر گاہک ٹرک ڈرائیور تھے۔ سرکار نے بائی پاس سڑک بنا کر ادھر سے بڑی گاڑیوں کے گزرنے پر پابندی لگا دی۔ پھر بھی وہ آتے ضرور۔۔۔ لیکن سنتی ہوں کہ بائی پاس کے کنارے تھوڑی تھوڑی دوری پر گاؤں دیہات کی لڑکیاں اور عورتیں جھنڈ بنا کر کھڑی رہتی ہیں۔ سالے ڈرائیور انہیں ٹرک پر ہی اٹھا لیتے ہیں اور بدن بھنبھوڑ کر سو پچاس تھما کر راستے میں اتار دیتے ہیں۔ اب کم پیسوں میں راہ چلتے عورتیں مل جاتی ہیں تو وہ ادھر کا رخ کیوں کریں؟‘‘
’’گاؤں دیہات کی حالت بے حد خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اخباروں میں پڑھتی ہوں کہ فصل اچھی ہونے کے باوجود کسان قرض کے جال میں پھنسے بھوکوں مر رہے ہیں۔ بھوک آج ان کی عورتوں کو سڑک پر لے آئی ہے کل وہ خود سڑک پر اتر آئیں گے۔۔۔۔۔ لیکن کیا اب تمہارے پاس شہر کے لوگ نہیں آتے؟ وہ لوگ تو اچھا خاصا پیسہ لٹا جاتے تھے۔‘‘
’’ان کے نہ آنے کی وجہ میری بھی سمجھ سے باہر ہے۔ سامنے سڑک پر جتنی قیمتی کاریں اور موٹر سائٰیٰکلیں دوڑتی ہیں، شہر میں جتنے دو منزلہ، سہ منزلہ مکان بننے لگے ہیں، ان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ خوب دولت کما رہے ہیں۔ لیکن پتہ نہیں یکایک سارے مرد شریف کیسے ہو گئے کہ ادھر جھانکتے ہی نہیں۔‘‘
’’مرد اور شریف! ۔۔۔‘‘ سلمیٰ حقارت سے ہنسی۔‘‘ان کی شرافت دیکھنی ہے تو کبھی میرے ساتھ ممبئی چلو۔‘‘
’’اچھا چھوڑو ان باتوں کو۔۔ تم بتاؤ۔ اتنے دنوں بعد میرے یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘
شریفن نے پوچھا تو سلمیٰ قدرے توقف کے بعد بولی۔
’’تم تو جانتی ہی ہو گی میرے اور مقصود کے کاروبار کو۔ ہم لوگوں نے ممبئی میں ‘‘ورکرس سپلائی ایجنسی‘‘ کھول رکھی ہے۔ ہمارے بہت سارے ایجنٹ ہیں جو مختلف جگہوں سے غرض مند لڑکیوں کو لاتے ہیں۔ ہم لوگ ان کے پاسپورٹ اور ویزے بنوا کر انہیں دبئی کے ہوٹلوں میں عارضی مدت کے لیے سپلائی کر دیتے ہیں۔ ہوٹلوں میں انہیں بظاہر تو خادماؤں کی حیثیت سے رکھا جاتا ہے لیکن ان کا اصل کام گاہکوں کو جنسی تسکین پہچانا ہوتا ہے۔ تمہارے پاس ڈھیر ساری چھوکریاں ہیں۔ دو چار مجھے سونپ دو۔ ہر چھوکری کے پندرہ بیس ہزار دے دوں گی۔ دو تین مہینے میں ساٹھ ستر ہزار کما کر تمہارے پاس لوٹ آئیں گی۔‘‘
’’نا بابا نا!‘‘ شریفن کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
’’وہاں کے مرد عورتوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں رکمنی آئی ہے۔ تم ہی لے گئی تھیں۔ وہاں ہفتے بھر تک کسی نرسنگ ہوم میں بھرتی رہی تھی۔ سنا ہے کہ دو تین ٹانکے بھی لگے۔‘‘
سلمیٰ قدرے تلخی سے ہنسی۔
’’وہاں کے مرد ہوں یا یہاں کے۔ خریدی ہوئی عورتوں کے ساتھ سبھی جانوروں کی طرح ہی پیش آتے ہیں۔ ہاں! یہاں کے مردوں کے مقابلے میں وہ لوگ کچھ زیادہ ہی سیکسی اور مضبوط ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر رنڈیاں تو ایسے مردوں کو پسند کرتی ہیں۔ تم اپنی جوانی بھول گئیں۔ چار چار کو پار لگانے کے بعد بھی بھوکی بلی بنی رہتی تھیں۔‘‘
اس نے شریفن کے سراپے کو رشک آمیز نظروں سے تکا اور پھر شریر سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
’’اور اب بھی کون سی بوڑھی ہو گئی ہو؟ تمہارا بدن تو اب بھی تان پورے کی طرح کسا ہوا ہے۔ کیا اب گاہکوں کو نہیں نمٹاتی ہو؟‘‘
سلمیٰ کی باتوں سے شریفن کے چہرے پر سرخی کی ہلکی سی پرت چڑھ گئی۔ آنکھیں قدرے نشیلی اور سانسیں بھاری ہو گئیں۔ شرمیلی ہنسی بکھیرتی ہوئی وہ کچھ کھسیانی سی بولی۔
’’یہاں تو جوان چھوکریوں کو ہی مرد پورے نہیں پڑتے۔ ہاں کبھی کبھی کوئی پرانا یار چلا آتا ہے اور ضد پکڑ لیتا ہے تو بات رکھنی پڑتی ہے۔ تم خود کبھی دبئی گئی ہو؟‘‘
’’کئی بار۔‘‘ سلمیٰ نے بے شرمی سے آنکھیں مٹکائیں۔ ‘‘وہاں کے مردوں کے بارے میں ذاتی تجربہ ہی بتا رہی ہوں۔ تو پھر کیا خیال ہے؟ لڑکیوں کو میرے ساتھ بھیجو گی؟‘‘
’’من نہیں مانتا۔‘‘ شریفن کے لہجے میں تھوڑی سی کشمکش تھی۔
’’پردیس کا معاملہ ہے۔ کچھ اونچ نیچ ہو گئی تو جی کچوٹتا رہے گا۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ فکر مند ہوتی ہو‘‘ سلمیٰ نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تین چار مہینوں کی تو بات ہے۔ وہاں اچھی رقم ملے گی اور کام کا بھار بھی کچھ زیادہ نہیں۔ ہفتے میں صرف جمعے کے روز زیادہ مصروفیت رہتی ہے۔ وہاں جمعے کو عام چھٹی ہوتی ہے اس لیے دور دور سے لوگ عیاشی کرنے چلے آتے ہیں۔ ہوٹلوں کے سارے کمرے بک ہو جاتے ہیں اور ہر کمرہ عیش گاہ بن جاتا ہے۔ ان کے پاس دولت کی کمی تو ہے نہیں۔ چھوکریوں کی سمجھداری پر منحصر ہے کہ انہیں خوش کر کے کتنی اوپری آمدنی کر لیتی ہیں۔ یوں تو گاؤں گرام کی سیدھی سادی لڑکیاں بہت مل جاتی ہیں لیکن پیشہ ور رنڈیوں کی بات ہی کچھ اور ہے۔‘‘
شریفن بائی پر خیال انداز میں خاموشی سے چھالیہ کترتی رہی۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور کسی جواب کا انتظار کیے بغیر چار نوجوان اندر داخل ہو گئے۔ شریفن نے چونک کر انہیں دیکھا تو آگے آنے والا نوجوان کسی قدر بدتمیزی سے بولا۔
’’ارے بائی جی! تم تو یہیں چھپی بیٹھی ہو۔ ہم تو سمجھے تھے کہ تمہاری دکان ہی بند ہو گئی۔‘‘
شریفن بائی نے اپنے چہرے پر ابھر آنے والے ناگواری کے تاثرات کو پیشہ ورانہ مسکراہٹ تلے چھپایا اور لگاوٹ بھرے انداز میں بولی۔
’’بہت دنوں کے بعد دکھائی دیئے۔ کہاں گم ہو گئے تھے؟‘‘
’’ہم تو اسی شہر میں ہیں۔‘‘ وہ نوجوان آگے بڑھ کر صوفے پر پھیلتا ہوا بولا۔ ’’در اصل ہم شریف گھروں کے لڑکے ہیں اس لیے اس بدنام علاقے میں آنے سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔‘‘
’’تو کیا تم لوگ ہنومان جی کے بھگت ہو گئے ہو؟‘‘
شریفن بائی ذرا تلخی سے بولی۔
’’نہیں۔ ہم تو اب بھی حسن کے ہی پجاری ہیں لیکن پوجا کے لیے یہاں آنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ شہر میں ہی بندوبست ہو جاتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
شریفن بائی اس کی باتوں سے چکرائی تو نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اسکول کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں۔۔۔۔ اور آفسوں میں کام کرنے والیاں۔۔۔ ان میں سے بہت سوں نے چوری چھپے تمہارے پیشے کو اپنا لیا ہے۔ کسی کو بھی فون گھماؤ۔۔۔ وہ طے شدہ وقت اور مقام پر حاضر۔۔۔‘‘
’’تو پھر آج ادھر کیوں چلے آئے؟‘‘
شریفن بائی کے لہجے سے ظاہر تھا کہ وہ اندر ہی اندر مشتعل ہو رہی ہے۔
’’ارے بائی جی! آج سنڈے ہے نا۔ سبھی سالیاں اپنے گھروں میں قید ہیں۔ کچھ دوست آ گئے تو تفریح کرنے یہیں چلے آئے۔ لڑکیاں موجود ہیں نا؟‘‘
’’ہاں! وہ کہاں جائیں گی؟ تم لوگ ٹھہرو۔ میں بلاتی ہوں۔‘‘
اس نے ذرا زور سے آواز دی۔
’’ریتا۔۔ اری او ریتا۔۔۔۔‘‘
دوسرے ہی لمحے ایک جوان اور خوبصورت لڑکی دروازے پر نمودار ہوئی۔ شریفن اسے مخاطب کرتی ہوئی بولی۔
’’انہیں بھیتر لے جاؤ۔‘‘
نوجوان نے کھڑے ہو کر پتلون کی جیب سے روپئے نکالے اور شریفن بائی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ روپئے گنتے ہوئے شریفن کی بھنویں سکڑ گئیں۔
’’صرف چار سو۔۔۔ چاروں کے آٹھ سو لگیں گے۔‘‘
’’ارے بائی جی۔ تمہارے بھاؤ کب سے بڑھ گئے؟ سو روپئے میں تو اس پاڑے میں اچھی سے اچھی لڑکیاں مل جائیں گی۔‘‘
’’ اور تمہاری وہ اسکول کالج والیاں۔۔۔‘‘ شریفن کا پارہ چڑھا۔
’’ان پر اتنے ہی روپئے خرچ ہوتے ہیں؟ اس سے زیادہ رقم تو ناشتے پانی میں ہی اڑ جاتے ہوں گے۔ دو چار سو روم کا کرایہ لگتا ہو گا اور وہ خود چار پانچ سو سے کم کیا لیتی ہو گی؟‘‘
’’ارے وہ شریف اور عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں ہیں۔ ان کا اور تمہارا کیا مقابلہ؟‘‘
’’کیوں؟ کیا ان کے بدن سونے کے ہوتے ہیں یا ان میں ہیرے جڑے ہوتے ہیں؟ ان کے بدن بھی ویسے ہی گوشت پوست کے ہوتے ہیں جیسے ہماری لڑکیوں کے۔‘‘
شریفن جیسے لڑنے پر اتر آئی۔ نوجوان بھی اکھڑ مزاج ہی تھا۔ وہ بھی برافروختہ ہو کر بولا۔
’’اب تم جیسی رنڈیوں سے کون بحث کرے؟ تمہارے پاس آنے والا رنڈی باز ہی کہلائے گا جبکہ ان کے ساتھ وقت گذارنے والوں پر کوئی انگلی تک نہیں اٹھاتا۔ تم تیار نہ ہوتی ہو تو نہ سہی۔ یہاں اور بھی بہت ساری ہیں۔‘‘
نوجوان نے شریفن کے ہاتھ سے روپئے جھپٹے اور باہر نکلا چلا گیا۔ اس کے پیچھے دوسرے نوجوان بھی نکل گئے۔
سلمیٰ تمام واقعے کی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ان کے جانے کے بعد اس نے شریفن کے چہرے کو تکا جو ذلت کے شدید احساس سے تمتمانے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے چہرے کی سرخی زائل ہوتی گئی اور اس کی جگہ پر اداسی کی گہری پرت چڑھ گئی۔
’’دیکھا ان لونڈوں کو۔۔۔‘‘
وہ سلمیٰ سے مخاطب ہوئی تو اس کی آواز میں رقت آمیز یاسیت تھی۔
’’ایک لڑکی پر ہزار ڈیڑھ ہزار لٹا دیں گے اور یہاں کے لیے دو سو روپئے بھی نہیں نکلتے۔ آخر دونوں میں کیا فرق ہے۔؟
سلمیٰ نے شریفن کے مضمحل اور اداس چہرے کا غور سے جائزہ لیا اور پھر ہمدردی بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔
’’تم بے حد بھولی اور ناسمجھ ہو شریفن۔ تم اپنے خاندانی ڈیرے پر پرانے زمانے کی روایتی رنڈی بنی بیٹھی ہو اور اسی پرانے ڈھنگ سے دھندہ کرنے پر بضد ہو۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔ اس بدلے ہوئے تصنع پسند اور فیشن زدہ زمانے میں چیزیں اپنی اصلی شکل اور نام کے ساتھ آسانی سے اور اچھی قیمت پر نہیں بکتیں۔ انہیں بیچنے کے لیے ان کی ظاہری شکل اور نام میں پر کشش تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ کیا کوئی تاجر مونگ پھلی کی کھلی مفت میں بھی لوگوں کو کھانے پر آمادہ کر سکتا ہے؟ نہیں نا۔ لیکن جب اسی کھلی کی شکل میں ذرا سی تبدیلی کر دی گئی اور دیدہ زیب پیکنگ کر کے اس کا نام ’’ہارلکس‘‘ رکھ دیا گیا تو لوگ صحت بخش غذا کے طور پر اسے چار سو روپئے تک میں خرید رہے ہیں۔ آگ پر بھنا ہوا بھٹا کھانا گنوار پن ہے لیکن دو سو روپئے ’’پاپ کارن‘‘ کھانا اپر کلاس فیشن میں شامل ہے۔ دس روپئے کیلو آلو کوئی پوچھتا نہیں لیکن وہی آلو ’’انکل چپس‘‘ کے نام سے چار سو روپئے کیلو بک رہا ہے۔ چار آنے میں نیم کا داتن کرنا غیر مہذب ہونے کی پہچان ہے لیکن اسی نیم سے بنا قیمتی ٹوتھ پیسٹ اونچے گھرانوں میں فخریہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ دس آنے کا سوڈا پانی ‘‘کوک اور پیپسی‘‘ کے نام سے دس دس روپئے میں لوگ دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔
آج کے اشتہار گزیدہ اور خیرہ چشم لوگوں کے لیے چیزوں کی خوبصورت پیکنگ کے ساتھ تبدیل شدہ شکل اور نام کی بڑی اہمیت ہے۔ ہر پیشے میں دور کی مانگ کے مطابق جدت کاری بے حد ضروری ہے۔ روایتی انداز میں پرانے طور طریقوں سے کام کرنے والے تمہاری طرح ہی اپنے دھندے میں ناکام ہو جائیں گے۔‘‘
شریفن سر جھکائے اس کی باتیں سنتی رہی۔ کچھ دیر ٹھہر کر سلمیٰ اپنی آواز میں شیرینی گھولتی ہوئی بولی۔
’’میری مانو تو اپنی تمام لڑکیوں کو میرے حوالے کر دو۔ آٹھ دس لاکھ تو تمہیں مل ہی جائیں گے۔‘‘
’’کیا تم میرا مذاق اڑا رہی ہو؟‘‘
شریفن تنتنا کر کھڑی ہو گئی۔
’’آٹھ دس لاکھ کتنے دن چلیں گے؟ اس کے بعد کیا بھوکی مروں گی؟‘‘
’’بھوکی کیوں مرو گی؟‘‘
سلمیٰ کا لہجہ اسی طرح شانت اور نرم تھا۔
’’میں نے کہا نا کہ آج چیزیں اپنی اصلی شکل اور نام کے ساتھ آسانی سے اور اچھی قیمت پر نہیں بکتیں۔ تم پڑھی لکھی نہیں ہو تو کیا ہوا؟ تجربہ کار تو ہو۔ کچھ نہیں تو ان روپیوں سے کسی اچھے کھاتے پیتے علاقے میں ‘‘لیڈیز بیوٹی پارلر‘‘ ہی کھول لینا۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
حیٰ علی الفلاح
کار چلانے والے سے کبھی کبھی ایسی غلطی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جو اس نے کیا، اکثر لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ لیکن پھر اس کے ساتھ جو ہوا وہ شاید ہی کسی کے ساتھ ہوتا ہو۔ ہوا یوں کہ وہ اپنی کار سے گھر آ رہا تھا۔ رات کا آخری پہر بھی ختم ہونے کو تھا۔ وہ جس سڑک سے گزر رہا تھا وہ بالکل سنسان پڑی تھی۔ کار کی رفتار بے حد تیز تھی اور اس کے ہاتھ اسٹیرنگ پر کانپ رہے تھے۔ اس کا دماغ بری طرح منتشر تھا جسے یکسوئی کی حالت میں لانے کی وہ ناکام کوشش کر رہا تھا۔ اچانک فضا میں دور کسی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز ابھری۔
’’اللہ اکبر۔۔ اللہ اکبر…۔‘‘
کار آگے بڑھتی رہی اور آواز واضح ہوتی گئی۔
حیٰ علی الفلاح۔ حیٰ علی الفلاح۔‘‘
اچانک ہی ایک شخص سڑک پر چلا آیا۔ بیچوں بیچ…۔ سڑک کی دونوں جانب بند دکانیں تھیں۔ جانے وہ کدھرسے نکل آیا تھا۔ اس کا منتشر دماغ اس ناگہانی افتاد کے لیے قطعی تیار نہ تھا۔ اضطراری حالت میں اس نے بریک لگایا لیکن کار اس شخص کے اتنے قریب پہنچ چکی تھی کہ اسے بچانا محال تھا۔ کار اس سے ٹکرائی۔ ایک چیخ ابھری۔ اس کا جسم سڑک پر گرا اور کار اسے روندتی ہوئی کچھ آگے جا کر رک گئی۔ وہ ساری جان سے لرز اٹھا اور اس کا جسم پسینے میں نہا گیا۔ بے اختیار اس نے کار سے اتر کر اس مرنے والے شخص کے پاس جانا چاہا لیکن یکایک وہ رک گیا۔ سڑک ابھی بھی سنسان تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس حادثے کو کسی نے نہیں دیکھا۔ اس نے سوچا کہ بہتر یہی ہو گا کہ وہ یہاں سے چپ چاپ نکل جائے ورنہ مصیبت میں پڑ جائے گا۔ اس نے کار اسٹارٹ کی اور آگے بڑھا دی۔ جب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچا تو صبح صادق کے اجالے پھیلنے لگے تھے۔ اس نے باہر بنے گیراج میں کار کھڑی کی اور دروازے پر لگے کال بیل کو دبایا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی بیوی نے دروازہ کھولا۔ وہ خوابگاہ میں داخل ہوا اور اس کی بیوی دوبارہ بستر پر دراز ہوتی ہوئی غنودگی بھرے لہجے میں بولی۔
’’صبح کر دی!‘‘
وہ کوئی جواب دیے بغیر کپڑے تبدیل کرنے لگا۔ در اصل وہ اپنی ناگفتہ بہ حالت اس سے چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے بھی نیند کے عالم میں اس پر خاص توجہ نہیں دی اور جلد ہی سو گئی۔ اس نے بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند ہوتے ہی کار سے ٹکرانے والے شخص کا سراپا ابھر آیا اور اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ یقیناً وہ مر چکا ہو گا۔ اس نے کرب سے سوچا۔ کیا پتا اس کی لاش اب تک وہیں پڑی ہو۔۔ نہیں۔ اب تو صبح ہو چکی ہے۔ سڑک پر آمد و رفت شروع ہو گئی ہو گی۔ کسی نہ کسی نے لاش دیکھ کر پولیس کو خبر کر دی ہو گی۔ پولیس پہنچ چکی ہو گی۔ لاش کی شناخت بھی ہو گئی ہو گی۔ وہ قریب ہی کی بستی میں کہیں رہتا ہو گا اور شاید گھر سے مسجد جانے کے لیے نکلا ہو گا۔ جانے کون ہو گا؟ اس کے گھر والوں کی کیا حالت ہو گی؟ اس نے ایک بے گناہ شخص کو قتل کر دیا تھا اور بزدلوں کی طرح اس کے مردہ جسم کو سڑک پر چھوڑ کر بھاگ آیا تھا۔ گناہ اور ندامت کے شدید احساس سے اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔ جی چاہا کہ دہاڑیں مار کر روئے لیکن بغل میں خراٹے لیتی ہوئی بیوی کے خیال سے ضبط کیا۔ اس نے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ اس حادثے میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ وہ شخص اچانک ہی سڑک کے بیچوں بیچ آ گیا تھا۔ اس نے تو کار روکنے کی پوری کوشش کی تھی لیکن اسے بچانے میں ناکام رہا۔ اب اس کی موت ہی اسے کھینچ لائی تھی تو وہ کیا کر سکتا تھا۔ لیکن دل کسی بھی دلیل سے متفق نہیں ہوا اور وہ گہرے کرب میں کروٹیں بدلتا رہا۔ گھنٹے بھر بعد اس کی بیوی اٹھی اور باتھ روم میں داخل ہو گئی۔ وہ اب تک جاگ رہا تھا اور اس منحوس رات پر لعنت بھیج رہا تھا جس نے اس کی اچھی خاصی پر سکون اور کامیاب زندگی میں زہر گھول دیا تھا۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ آٹھ بج چکے تھے۔ کچھ سوچ کر وہ کانٹوں بھرے بستر سے اٹھا۔ لباس تبدیل کیا اور باتھ روم کے باہرسے بیوی کو مخاطب کیا۔
’’ایک ضروری کام یاد آ گیا۔ میں تھوڑی دیر میں واپس آتا ہوں۔‘‘
اس نے گاڑی نکالی اور اس طرف روانہ ہو گیا جہاں یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ اس سڑک پر پہنچا تو وہاں خاصی چہل پہل تھی۔ ساری دکانیں کھل چکی تھیں اور لوگ کاروبار زندگی میں مصروف تھے۔ اس نے جائے وقوعہ کو یاد کرنے کی کوشش کی اور اندازے سے ایک جگہ کار کھڑی کی۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سڑک بالکل صاف ستھری تھی۔ کہیں پر اس حادثے کا نشان تک نہ تھا۔ وہ کار سے اترا اور قریب ہی کی ایک چائے دکان پر چلا آیا۔ چائے پیتے ہوئے اس نے دکان دار سے سرسری طور پر پوچھا۔‘‘یہاں کوئی حادثہ ہوا تھا کیا؟‘‘
’’کیسا حادثہ؟‘‘ دکاندار نے حیرت ظاہر کی۔
’’میرا مطلب ہے۔ یہاں پر کسی کی موت ہوئی ہے۔ گاڑی سے ٹکرا کر…‘‘
’’نہیں جناب! ایسا کوئی حادثہ یہاں پیش نہیں آیا۔ میں تو صبح سویرے ہی دکان کھول دیتا ہوں۔ ایسی کوئی بات ہوتی تو مجھے ضرور علم ہوتا۔ کہیں اور ہوا ہو گا ’’
اس نے تعجب سے چہار سمت نگاہیں دوڑائیں۔ بالکل یہی جگہ تھی۔ اسے مکمل یقین تھا۔ لیکن چائے والے کو اس کی جانکاری کیوں نہیں ہوئی۔ وہ کوئی چھوٹا سا حادثہ نہیں تھا۔ ایک انسان کی موت ہو گئی تھی۔ یہ بڑے دولت مند لوگوں کا کوئی بے حس اور خود غرض علاقہ نہ تھا۔ نچلے متوسط طبقے سے منسلک لوگ یہاں آباد تھے۔ ایسی جگہوں پر کسی کی حادثاتی موت ہفتوں کے لیے موضوع گفتگو بن جاتی ہے۔ لیکن یہاں تو ایک گہری لا علمی چھائی ہوئی تھی۔ تو کیا گشتی پولیس والے منھ اندھیرے ہی لاش اٹھالے گئے؟ لیکن پولیس اتنی چاق وچوبندکس طرح ہو سکتی ہے؟ اور پھر اس لاش کی تفتیش تو ہونی چاہئے تھی۔ آخر وہ کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ یہاں کے لوگوں سے لاش کی شناخت تو کرائی جاتی۔ چائے پی کر وہ ایک پان کے کھوکھے کے پاس چلا آیا۔ سگریٹ لیتے ہوئے اس نے اس سے بھی استفسار کیا۔ حیرت انگیز طور پر اس نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔ تو کیا یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں اس کی کار سے حادثہ پیش آیا تھا۔ لیکن نہیں۔ اس کی یادداشت اتنی خراب نہیں تھی۔ ہرچند کہ کل رات اس نے خوب شراب پی تھی لیکن اس کا نشہ تو کب کا اتر چکا تھا۔ کار چلاتے وقت بے شک وہ ذہنی انتشار کا شکار تھا لیکن نشے میں قطعی نہیں تھا۔ اور پھر کچھ ہی فاصلے پر وہ مسجد بھی موجود تھی جہاں سے اس وقت اذان کی آواز آ رہی تھی جب اس نے اپنی کار سے ایک شخص کو کچل ڈالا تھا۔ آخر اس شخص کی لاش کہاں غائب ہو گئی۔ وہ گہرے تذبذب میں پڑ گیا۔ اس نے بے حد چھان بین کی۔
مقامی تھانے اور مرکزی ہسپتال کے بھی چکر لگائے۔ لیکن اس لاش کا کہیں سراغ نہ ملا۔ تھک ہار کر
گھر واپس آیا تو وہ ذہنی طور پر کافی حیران و پریشان تھا۔ دن بھر وہی الجھن بھری کیفیت طاری رہی۔ بیوی کے استفسار پر اس نے طرح طرح کے بہانے بنائے۔ رات بستر پر گیا تو ایک بار پھر نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ آنکھیں بند کرتے ہی سماعت میں ایک چیخ ابھرتی اور وہ چونک کر اٹھ بیٹھتا۔ عجب چیخوں بھری رات تھی۔ دیر تک سونے والا صبح سویرے ہی بستر سے نکل آیا۔ گیراج سے کار نکالی اور پھر اسی مقام کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ایک بار پھر اس حادثے کی تفتیش کی لیکن کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اسے شدید حیرانی تھی کہ آخر لاش کہاں گئی۔ وہ کوئی جنگل کا علاقہ تو تھا نہیں کہ جنگلی جانور کھینچ لے جاتے۔ شام گئے گھر لوٹا تو بیوی متفکر و مضطرب سی اس کی منتظر تھی۔ اسے دیکھتے ہی وہ پھٹ پڑی۔
’’صبح سویرے کہاں چلے گئے تھے؟ کل سے آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ اپنا حال تباہ کیے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی پریشانی ہے تو بتائیں۔ شاید اس کا حل نکل آئے۔‘‘
اس نے بیوی کے فکر مند چہرے کی طرف دیکھا۔ دیر تک سوچتا رہا اور پھر اس نے اس حادثے کی تفصیل بتائی۔ آخر میں اس نے حیرت ظاہر کی۔
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ لاش کہاں گم ہو گئی۔ اگر اس کی شناخت ہو جاتی اور اس کے گھر والوں سے ملتا۔ کسی طرح اس گناہ کی تلافی کی کوشش کرتا۔ مگر…‘‘
بیوی اس کی باتوں کو بغور سنتی رہی۔ قدرے توقف کے بعد وہ گویا ہوئی۔
’’میں جانتی ہوں کہ آپ بے حد حساس ہیں۔ چھوٹی سی بات بھی آپ کو بے چین کر دیتی ہے۔ یہ تو آپ کے ہاتھوں کسی کی موت کا معاملہ ہے۔ اب وہ چاہے نادانستگی میں ہی کیوں نہ ہوئی ہو۔ لیکن لاش نہ ملنے سے شک ہوتا ہے کہ کہیں یہ حادثہ محض آپ کا واہمہ ہی نہ ہو۔ رات کا آخری پہر، نیند کا خمار اور پھر شراب کا نشہ۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’لیکن یہ میرا واہمہ قطعی نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس نے سختی سے تردید کی۔ ’’میں پورے ہوش وحواس اور بیداری کے عالم میں تھا۔‘‘
’’تو پھر ممکن ہے کہ وہ شخص صرف زخمی ہوا ہو اور وہ بھی معمولی سا۔ آپ کے جاتے ہی وہ بھی اپنے گھر چلا گیا ہو۔‘‘ اس کی بیوی نے قیاس لگایا۔
’’وہ ٹکر سے میری کار کے سامنے گرا تھا اور اس کے جسم سے پوری کار گزر گئی تھی۔ اس کے زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘
اس نے حتمی لہجے میں کہا تو بیوی خاموش ہو گئی۔ کافی دیر بعد اسے جیسے کچھ یاد آیا اور وہ بے تابی سے بولی۔
’’کیوں نہ اس معاملے میں آپ کے دوست دیپانکر سے مدد لی جائے۔
وہ ایک تجربہ کار ماہر نفسیات ہے۔ ممکن ہے وہ کوئی بہتر مشورہ دے۔‘‘
’’کیا تم مجھے پاگل سمجھ رہی ہو؟‘‘ وہ مشتعل ہو اٹھا۔ ’’میں۔ رضوان عالم۔ ایک نامور اور بے خوف صحافی، جس نے صحافتی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ جس نے اسٹنگ آپریشن کی بنیاد ڈالی۔ بڑی بڑی شخصیتوں کے جرائم کو کیمرے میں قید کیا۔ کتنوں کو جیل
ہوئی اور کتنے اپنے عہدوں سے دستبردار ہوئے۔ مجھے کتنی ہی دھمکیاں دی گئیں۔ خریدنے کی کوشش کی گئی لیکن میں سچائی اور ایمانداری کے سخت محاذ پر ثابت قدم رہا۔ کیا یہ سارے کام میں نے پاگل پن میں کیے ہیں۔‘‘
’’آپ میری بات کا غلط مفہوم نکال رہے ہیں۔‘‘ وہ نرمی سے بولی۔ ’’مجھ سے زیادہ آپ کو کون جانتا ہے۔ آپ ایک مضبوط اعصاب کے مالک اور ذمہ دار شخص ہیں۔ لیکن بالفرض محال اگر کوئی حادثہ ہو ہی چکا ہے تو کوشش ہونی چاہیئے کہ اس کے اثرات سے نکلا جائے۔ دیپانکر جی اس میں مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
کافی غور و خوض کرنے پر اسے بھی اپنی بیوی کی بات درست لگی۔ اس نے دیپانکر کو فون کر کے ملاقات کا وقت طے کیا۔ وقت مقررہ پر وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس کے چیمبر میں پہنچ گیا۔
دیپانکر نے اس کی حالت دیکھ کر تشویش ظاہر کی۔
’’ تم ٹھیک تو ہو۔ لگتا ہے کہ کسی بڑی پریشانی میں مبتلا ہو۔‘‘
اس نے حادثے اور اس کے بعد کی ساری تفصیل اس کے گوش گزار کر دی۔ دیپانکر پورے انہماک سے سنتا رہا۔ اس کے خاموش ہونے کے بعد اس نے استفسار کیا۔
’’تم رات کے آخری پہر کہاں سے آ رہے تھے؟’’
اس کے ذہن میں دھماکہ سا ہوا۔ وہ دیر تک کچھ یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر گویا ہوا۔
’’میرے میگزین کے یوم تاسیس پر ہوٹل ‘سی لارک‘ میں تقریب تھی۔ بڑی بڑی ذی اثر اور مقتدر ہستیاں مدعو تھیں۔ انہی کی میزبانی میں کافی رات ہو گئی۔‘‘
دیپانکر بڑے غور سے اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا۔ یکایک اس نے اس کی بیوی کو مخاطب کیا۔
’’بھابھی۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے باہر تشریف لے جائیں۔‘‘
دونوں نے اسے تعجب سے دیکھا۔
پھر اس کی بیوی اٹھی اور خاموشی سے باہر چلی گئی۔
دیپانکر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’اس تقریب میں کیا کیا ہوا۔؟‘‘
جواب دینے میں وہ قدرے جھجھکا۔
’’ایسی پارٹیوں میں ہوتا کیا ہے۔؟ یہ تو محض ملنے ملانے کے بہانے ہیں
ناچ گانا۔۔ شراب و کباب۔۔ رات بھر کا جشن۔۔ بس…پارٹی کی کامیابی پر میں بے حد خوش تھا۔ اسی خوشی میں شراب کچھ زیادہ ہی پی گیا تھا اور میں لڑکھڑانے لگا تھا۔‘‘
’’پھر…‘‘ اس کے خاموش ہونے پر دیپانکر نے ٹوکا۔
’’میرے میگزین کے اسٹاف کونسل کی ایک رکن شیلا نے مجھے سنبھالنے کی کوشش کی۔ وہ میرے ایک گہرے دوست کی بیٹی اور میری بیٹی کی سہیلی ہے۔ کالج میں دونوں کلاس فیلو رہی تھیں۔ کچھ ہی دن ہوئے اس نے میرے میگزین کو جوائن کیا تھا۔ حسین چہرے اور متناسب جسم والی اس لڑکی میں غضب کی سادگی تھی۔ اس نے کہا۔
’’پارٹی تو ختم ہی ہونے والی ہے۔ چلئے! میں آپ کو ہوٹل کے کمرے میں پہنچا دیتی ہوں۔ یہاں کی ذمے داری ہم لوگ سنبھال لیں گے۔‘‘ وہ مجھے اپنے کاندھے کا سہارا دیتی ہوئی آگے بڑھی اور مجھے لے کر لفٹ میں داخل ہو گئی۔ لفٹ اسٹارٹ ہوئی تو ایک جھٹکے سے میں اس کے بدن پر گر سا گیا۔ جوان بدن کے گداز لمس سے میری رگوں میں سہرن سی دوڑ گئی۔ سکنڈ فلور پر لفٹ رکی اور ہم دونوں باہر نکل آئے۔ گلیارے میں چلتے ہوئے اس کمرے تک آئے جو میرے نام سے بک تھا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد وہ مجھے بستر پر بٹھاتے ہوئے بولی۔
’’آپ یہاں آرام کیجئے۔ میں باہر سے دروازہ لاک کیے دیتی ہوں۔‘‘
وہ جانے کے لیے مڑی تو میں نے بے اختیار اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچا۔ وہ میرے جسم پر گری تو میں نے اسے بانہوں میں جکڑ لیا۔ وہ بری طرح کسمسائی اور میری گرفت سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔
’’یہ کیا کر رہے ہیں سر۔۔ چھوڑیے مجھے …‘‘
لیکن مجھ پر تو جیسے شیطان سوار ہو گیا تھا۔ وہ چھٹپٹاتی رہی اور میں اسے بے لباس کرتا رہا۔ اور پھر وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ اس شیطانی عمل کے بعد میں بے سدھ ہو کر بستر پر ڈھیر ہو گیا تھا۔ جانے کتنی دیر ہوئی تھی کہ کسی گریے کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ شیلا بستر کے ایک کونے میں بیٹھی سسک رہی تھی۔ کچھ دیر قبل پیش آنے والا نا خوشگوار اور قابل مذمت واقعہ میری آنکھوں میں ابھر آیا اور میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ شراب کا نشہ مکمل طور سے اتر چکا تھا اور میں شدید احساس ندامت میں جکڑ چکا تھا۔ میں نے ہمت کر کے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو وہ زوروں سے پھپھک پڑی۔
’’میں آپ کو اپنے پتا کے سمان سمجھتی تھی…۔۔ لیکن آپ…۔‘‘
میں بالکل گنگ ہو گیا تھا۔ وہ میرے دوست کی بیٹی تھی۔ میری بیٹی کی سہیلی تھی۔ اور میں نے اس کی عصمت تار تار کر دی تھی۔ مجھے خود سے کراہیت ہونے لگی۔ مجھ سے ایسا گناہ سر زد ہو چکا تھا جس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں تھی۔ میں ایسا قلاش تھا کہ اس سے معذرت کرنے کے لیے بھی میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ میں ایسا گناہ گار تھا کہ اس سے معافی کا طلب گار بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ کافی دیر تک میں بے حس و حرکت بیٹھا رہا اور وہ سسکتی رہی۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنی زبان کو جنبش دی۔
’’جو ہوا اس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ اس کے لیے میں ہر سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ یہ میری زندگی کا سب سے شرمناک لمحہ ہے جو مجھے ہمیشہ کرب دیتا رہے گا۔‘‘
میں بستر سے اٹھا اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ ہوٹل کے گیراج سے گاڑی نکالی اور منتشر دماغ اور مضمحل دل کے ساتھ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے بھر میرے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اس کے الفاظ گونجتے رہے۔
’’میں آپ کوپتا کے سمان سمجھتی تھی۔۔ لیکن آپ۔۔‘‘
وہ خاموش ہوا اور نڈھال سا ہو کر کرسی کی پشت پر گردن ڈال دی۔ دیپانکر اس کے مضمحل چہرے پر نگاہیں جمائے ہوئے گہرے تفکر میں ڈوبا رہا۔ قدرے توقف کے بعد اس نے دریافت کیا۔
’’پھر تم نے شیلا کے بارے میں معلوم کیا کہ وہ کیسی ہے۔؟‘‘
اس نے نفی میں سر ہلایا تو دیپانکر کو تعجب ہوا۔
’’تم اسے غم زدہ اکیلی روتی ہوئی ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ آئے اور
پھر اس کی کوئی خبر تک نہیں لی۔‘‘
’’میں اس ایکسیڈنٹ سے اتنا پریشان ہوا ہوں کہ مجھے کچھ بھی خیال نہ رہا۔ یقین جانو۔ تمہارے استفسار سے قبل شیلا اور اس سے منسلک سارے واقعات میرے ذہن سے محو ہو گئے تھے۔ مجھے امید ہے کہ وہ ٹھیک ہی ہو گی۔ وہ ایک ذہین اور بہادر لڑکی ہے۔ فی الوقت تو میں اس بے گناہ شخص کے مارے جانے کے کرب میں مبتلا ہوں جس کی لاش بھی نہیں ملتی۔ عجیب پر اسرار معاملہ ہے جو اگر حل نہ ہوا تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ میں پچھلے دو دنوں سے سو نہیں پایا ہوں اور اب میرے دماغ کی نسیں پھٹی جا رہی ہیں۔ مجھے اور میری بیوی کو توقع ہے کہ تم مجھے اس پریشانی سے نکال سکتے ہو۔ بس ایک بار مجھے اس شخص کے بارے میں معلوم ہو جائے تاکہ میں اس کے گھر والوں سے معافی مانگ سکوں اور تلافی کے لیے کچھ کر سکوں۔‘‘
دیپانکر دیر تک کچھ سوچتا رہا اور پھر جیسے کسی فیصلے پر پہنچ کر گویا ہوا۔
’’میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔ شاید تمہارا مسئلہ حل ہو جائے۔ لیکن اس کے لیے آج کی رات تمہیں میرے ساتھ رہنا ہو گا۔ ایسا کرو کہ ابھی تم اپنی بیوی کے ساتھ گھر چلے جاؤ۔ رات دس گیارہ بجے میرے گھر آ جانا۔ باقی باتیں اسی وقت ہوں گی۔ ہاں۔۔ جائے وقوعہ کا پتا بتا جاؤ۔‘‘
اس نے پتا بتا دیا تھا۔ دیپانکر نے اس کی بیوی سے بھی یہی کہا اور ٹھیک وقت پر اسے بھیجنے کی تاکید کرتے ہوئے انہیں رخصت کیا۔
رات مقررہ وقت پر وہ اپنی کار میں دیپانکر کے گھر چلا آیا تھا۔
دیپانکر نے اسے مہمان خانے میں لگے بستر پر آرام کرنے کے لیے کہا تو وہ مضطرب لہجے میں بولا۔
’’میں جلد سے جلد اپنے کرب سے نجات پانا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد ہی شاید میں آرام کر سکوں۔‘‘
’’میں تمہارے ساتھ جائے وقوعہ پر جانا چاہتا ہوں۔ لیکن ٹھیک اسی وقت جب تم حادثے والی رات ادھر سے گزرے تھے۔ میں نے معلوم کیا ہے۔ اس علاقے کی مسجد میں چار بجے اذان ہوتی ہے۔ کار سے وہاں پہنچنے میں تیس چالیس منٹ لگیں گے۔ ہم گھنٹے بھر پہلے گھرسے نکل پڑیں گے۔‘‘
دیپانکر ایک موٹی سی کتاب لے کر صوفے پر دراز ہو گیا اور وہ بے چینی سے بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ تقریباً ڈھائی بجے دیپانکر نے ہاتھ سے کتاب رکھی اور اسے مخاطب کیا۔
’’تیار ہو جاؤ۔ اب ہم اس مقام پر چلیں گے۔‘‘ وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ ہر چند کہ اسے دیپانکر کی تجویز پر حیرت تھی لیکن اس نے کوئی باز پرس نہیں کی۔ کار گھر سے باہر نکلی اور سنسان سڑک پر رفتار پکڑنے لگی۔ اس مقام تک پہنچنے سے کچھ پہلے ہی دیپانکر نے کار روکنے کے لیے کہا۔ کار روک کر اس نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ تم انجن بند نہ کرو۔ جیسے ہی اذان کی آواز سنائی دے تم اس رات والی رفتار سے کار بڑھا لینا۔‘‘
وہ ایک معمول کی طرح اس کے حکم کی تعمیل کرتا رہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔ پتا نہیں دیپانکر کیا کرنے جا رہا تھا۔ اس نے اپنی سماعتوں کو مرتکز کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اذان کی ہلکی سی آواز ابھری۔
’’اللہ اکبر۔۔ اللہ اکبر۔‘‘
’’چلو!‘‘ دیپانکر نے تیزی سے کہا تو اس نے کار آگے بڑھا دی۔
’’تیز… اور تیز۔۔‘‘
اذان کی آواز قریب آتی جا رہی تھی۔
’’حیٰ علی الفلاح…حیٰ علی الفلاح…‘‘
’’ارے۔۔ پھر کوئی آ گیا…‘‘
اس نے ہڑبڑا کر کہا۔ دیپانکر نے تیزی سے اس کے ہاتھ پکڑ لیے اور چیخا۔
’’گاڑی مت روکنا۔ چلتے رہو۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ کر پاتا، کار اس شخص سے ٹکرا گئی۔ ایک دلدوز چیخ ابھری۔ اس کا جسم سڑک پر گرا اور کار اسے روندتی ہوئی کچھ آگے جا کر رک گئی۔ وہ اسٹیرنگ پر ڈھے سا گیا۔ اس کے ہونٹوں سے کپکپاتی ہوئی مبہم سی آواز ابھری۔
’’پھر کوئی مرگیا۔ میں نے پھر کسی کو مار دیا۔‘‘
دیپانکر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے کہا۔
’’اٹھو! آنکھیں کھولو۔ تم ٹھیک تو ہو نا؟‘‘
اس نے سر اٹھایا اور زخمی نگاہوں سے دیپانکر کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
’’تم نے اس شخص کو کار سے ٹکراتے ہوئے دیکھا۔ اس کی دلدوز چیخ سنی۔ ٹھیک اسی طرح میں نے پہلے بھی کسی کو مار دیا تھا۔‘‘
دیپانکر نے اس کے شانے کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کسی کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی چیخ سنی۔‘‘
’’کیا؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہارے سامنے ہی تو سب کچھ ہوا۔‘‘
دیپانکر کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترا اور پھر اس کی جانب آ کر بولا۔
’’نیچے اتر آؤ۔‘‘
اس نے خاموشی سے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ دیپانکر اسے لے کر اس مقام پر پہنچا جہاں اس نے پھر ایک شخص کو ٹکر ماری تھی۔ اس نے شدید حیرت سے ادھر ادھر دیکھا۔ اسٹریٹ لائٹ کی تیز روشنی میں سڑک نہائی ہوئی تھی لیکن ابھی ابھی ہونے والے حادثے کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ اس نے گہری بے یقینی سے دیپانکر کی طرف دیکھا اور اس نے کہا۔
’’اب تم اطمینان سے گھر چلو۔ اپنی کار سے ٹکرا کر مرنے والوں کو بالکل فراموش کر جاؤ۔ شکر ہے کہ تم ابھی زندہ ہو۔ اس بے حس اور پر آشوب دور میں اپنے زندہ ہونے کو غنیمت جانو۔۔۔۔‘‘
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جن کے توسط سے اس کی فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید