صفحات

تلاش کریں

افسانہ: گائے (انور سجاد)

ایک روز انہوں نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ اب گائے کو بوچڑ خانے میں دے ہی دیا جائے۔

اب اس کا دھیلا نہیں ملنا۔

ان میں سے ایک نے کہا تھا۔

ان مٹھی بھر ہڈیوں کو کون خریدے گا۔

لیکن بابا مجھے اب بھی یقین ہے۔ اگر اس کا علاج باقاعدگی سے۔

چپ رہو جی۔ بڑے آئے عقل والے۔

نکا چپ کر کے ایک طرف ہو گیا تھا اور بابا اپنی داڑھی میں عقل کو کریدتا ہوا اس کے بڑوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ گیا تھا۔

میں جب زبان ہلاتا ہوں تو یہ بوچڑ بن جاتے ہیں۔ جس روز سے میں نے انہی کو پہچانا ہے، اسی روز سے چتکبری کو بھی جانا ہے اور جس دن سے یہ لوگ اسے بوچڑ خانے لے جانے کی سوچ رہے ہیں اس دن سے میں ہر لمحہ یتیم ہوتا ہوں۔ میں، کیا کروں یہ سب مجھ پرہنستے ہیں کہ میں اس کی اتنی خدمت کیوں کرتا ہوں۔ ان ہڈیوں سے اتنا پیار کیوں کرتا ہوں، کیوں کرتا ہوں۔

’’آپ اسے بوچڑ خانے کے بجائے ہسپتال کیوں نہیں بھیج دیتے‘‘۔ نکے سے رہا نہیں جاتا۔

’’تم نہیں سمجھتے، یہ ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاج پر پیسہ خواہ مخواہ کیوں برباد کیا جائے‘‘۔

میں ناسمجھ ہوں۔ ابھی تو کل ہی ماں نے دھاگے میں پندرھویں گرہ لگائی ہے۔

آپ علاج کرا کے دیکھیں تو سہی۔

بڑوں کی باتوں میں دخل نہ دیا کرو۔

میرا جی چاہتا ہے کہ میں آپ سب کو بوچڑ خانے دے آؤں گا۔

پھر سب نے مل کر گائے کی زنجیر پکڑی تھی۔ لیکن جیسے گائے کو بھی سب کچھ معلوم تھا، وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلی تھی۔ انہوں نے مار مار کے اس کا بھرکس نکال دیا تھا۔ نکا ایک طرف کھڑا پتھرائی ہوئی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

شاباش چتکبری، میری گائے میری گؤ ماتا، ہلنا نہیں، تم نہیں جانتیں یہ لوگ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں۔ جانا نہیں ہلنا نہیں ورنہ، ورنہ نہیں تو۔

گائے اپنی جگہ پر اڑی، مڑ مڑ کے اس کی طرف دیکھتی رہی تھی۔ ذرا ہٹ کر گائے کا بچھڑا کھونٹے کے ساتھ رسی سے بندھا بے تعلق بیٹھا تھا۔ ہڈیوں پر لاٹھیوں کی بوچھاڑ اسے نہیں سنائی دیتی تھی۔ نکے کے کان بھی بند ہو رہے تھے رفتہ رفتہ۔

سارے بزرگ ہانپتے ہوئے پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ پھر فیصلہ ہوا تھا کہ اگر یہ اب چل بھی پڑے تو ممکن ہے راستے میں کھمبا ہو جائے۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ اسے ٹرک میں ڈال کر لے جایا جائے۔ ٹرک میں تو اسے اٹھا کر بھی لادا جا سکتا ہے۔

اگلے روز ٹرک بھی آ گیا تھا۔

ٹرک کی آواز پر گائے نے مڑ کے دیکھا تھا۔ آنکھیں جھپکی تھیں اور کھولی میں منہ ڈال دیا تھا، جہاں ان کا چارہ ڈال کے ابھی ابھی ٹرک کو دیکھنے گیا تھا۔

آپ لوگ اسے واقعی۔

اسے یقین نہیں آتا تھا۔

نہیں تو ہم مذاق کر رہے ہیں کیا؟

ایک نے کہا تھا۔

بابا، یہ گائے مجھے دے دو، میں اسے۔

حکیم کی اولاد۔

دوسرے نے کہا تھا۔

بابا اس کے بغیر میں۔

مجنوں کا بچہ۔

تیسرے نے کہا تھا۔

چوتھا، پانچواں سارے بزرگ، سارے بزرگ سالے ایک سے ہیں اور بابا جو اپنی داڑھی کو عقل کا گڑھ سمجھتا ہے، جانے اسے کیا ہو گیا ہے۔

بیٹے ٹرک والے کودس روپے دے کر بھی ہم بہت فائدے میں رہیں گے۔

او کمبخت سوداگر مجھ سے لو روپے، مجھ سے یہ لو لیکن میری مٹھی میں اس وقت تو ہوا ہے جب، جب میں بڑا ہو جاؤں گا۔

ہاہاہاہا۔

جب، میں کمانے لگوں گا۔

ہاہاہاہا۔

تب، تب تک چتکبری کی ہڈیوں کا سرمہ بن گیا ہو گا۔ میں، میں کیا کروں۔

ان میں سے ایک، گائے کو لانے کے لیے کھرلی کی طرف گیا تھا۔ نکا بھی اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ یونہی دیکھنے کے لیے۔ بڑے نے اس کی زنجیر کھولی تھی۔ گائے نے کھرلی میں منہ مار کے دانتوں میں پٹھے دبائے تھے۔ مڑ کے نکے کو دیکھا تھا اور جانے کے لیے کھر اٹھایا تھا۔

نہ، نہ، نہ۔

نکا چیخا تھا۔

بہکو مت۔

گائے کھڑی ہو گئی تھی۔

ہے۔ ہے۔ ہے۔

بڑے نے زور لگایا تھا۔

نہ چتکبری ہے۔ نہ، نہ۔

چپ بھی کرو گے یا کھینچوں تمہاری زبان۔

نکے نے زبان کو قید کر دیا تھا۔ بڑے نے پھر زنجیر کو جھٹکا دیا تھا۔

چلو میم صاحب! ٹرک والا تمہارے باپ کا نوکر تو نہیں جو سارا دن کھڑا رہے۔

گائے کی آنکھیں باہر کو نکل آئی تھیں۔ زبان، قید میں پھڑپھڑا کے رہ گئی تھی۔ لیکن وہ مشت استخواں وہیں کی وہیں تھی۔ نکا مسکرایا، پھر فوراً اداس ہو گیا تھا۔

یہ تو بک بھی چکی ہے، اسے جانا ہی ہو گا۔ مجھے اب بھی یقین ہے کہ اگر تھوڑی سی رقم لگا کے اس کا علاج باقاعدگی سے کیا جائے توتو لیکن میں ان بزرگوں کا کیا کروں کاش میں حکیم ہی ہوتا۔ اس بچھڑے کو شرم نہیں آتی ماں کے جسم پر نیل پڑ رہے ہیں اور یہ باہر کھڑا الو کے پٹھوں کی طرح دیکھے جا رہا ہے۔

زبان پھڑ پھڑا کے رہ گئی تھی۔

پھر ان میں سے ایک کو بڑی اچھی سوجھی تھی۔ اس نے گائے کی دم پکڑ کر اسے تین چار بل دئیے تھے۔ وہ پیٹھ کے درد سے دور بھاگی تھی۔ اس نے نکے کی طرف دیکھ کر قہقہہ لگایا تھا۔ پیٹھ کا درد گائے کو ہانکتا ہوا بالکل ٹرک کے پاس لے آیا تھا۔ نکے کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔

در فٹے منہ، لعنت لکھ لعنت۔

ٹرک والے نے گائے کے چڑھنے کے لیے ٹرک سے زمین پر تختہ لگا دیا تھا۔ گائے نے تختے پر کھر رکھا۔

نہ چڑھنا۔

اس کی زبان کاٹ لو یہ گائے کو ورغلاتا ہے۔

ڈراتا ہے۔

نکا پھر منہ بند کر کے پیچھے ہٹ گیا تھا۔ گائے نے تختے کو دیکھا، پھر نکے کی طرف۔

در فٹے منہ، لعنت لکھ لعنت۔

نکے کا سرشرم سے جھک گیا تھا۔

اس کے علاوہ میں اور کیا کر سکتا ہوں، کیا کر سکتا ہوں۔

وہ ابھی تک نہیں ڈری تھی۔ پھر اس نے مشکوک نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ کر بڑے زور سے پھنکار ماری تھی۔

میری چتکبری جانتی ہے، جانتی ہے کہ وہ تختے پہ قدم رکھ کر ٹرک میں چلی جائے گی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی کیوں، کیوں وہ چڑھنا نہیں چاہتی۔

ان سب نے مل کر اس کی پیٹھ پر لاٹھیاں برسائی تھیں، گائے کی ٹانگیں تھرکی تھیں لیکن وہ اپنی جگہ سے قطعی نہیں ہلی تھی۔ جب انہوں نے مل کر دوسرا وار کیا تو وہ تکلیف سے دور بھاگنے کو تھی کہ بابا کی داڑھی میں عقل نے جوش مارا تھا اور اس نے جما کر اس کے منہ پر لاٹھی ماری تھی۔ گائے پھر تختے کی طرف منہ کر کے سیدھے ہو گئی تھی۔ بابا نے ہانپتے ہوئے کہا تھا۔

آؤ، پیٹو۔

اور ان سب نے مل کر پھر لاٹھیوں کا مینہ برسا دیا تھا۔

نکا دور کھڑا تھا۔ بالکل بے تعلق، بے حس۔

یوں بات نہیں بنے گی۔

ایک نے اپنے سانس پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔

تو پھر؟

وہ ٹرک کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑے سوچ ہی رہے تھے کہ جانے گائے کو کیا سوجھی تھی، پلٹ کر یکدم بھاگ اٹھی تھی اور دھول اڑاتی نکے کے قریب سے بالکل اجنبیوں کی طرح گزر گئی تھی۔

نکا، جسم کا مفلوج حصہ۔

دیکھو، دیکھو، وہ تو بائیں طرف۔

ایک چونکا تھا۔

قدرتی بات ہے۔

بابا نے اپنی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا تھا۔

گائے اپنے بچھڑے کو چاٹ رہی تھی۔ بابا کی آنکھیں مکار سی مسکراہٹ سے چمک اٹھیں۔

اس بچھڑے کو یہاں لے آؤ۔۔۔۔ یہ چال تو ہمیں کل ہی چل جانی چاہیے تھی۔ ٹرک کے پیسے بھی بچ جاتے۔

نکا۔۔۔ مفلوج وجود۔

ان میں سے ایک نے بچھڑے کی رسی پکڑی تھی۔ نکے کی زبان لرزی تھی۔ گائے کچھ سوچتی، قدم اٹھاتی، رکتی چلتی، بچھڑے کے پیچھے پیچھے اس کے قریب سے گزری تھی تو آہستہ آہستہ سے نکے کی زبان سے گالی پھسلی تھی۔ بچھڑا تختے پر چڑھ کے پٹوسیاں مارتا ہوا ٹرک میں چلا گیا تھا۔ گائے تختے کے پاس جا کے پھر رکی تھی۔ بڑی حیرانی سے بچھڑے کو دیکھ کر آہستہ آہستہ گردن موڑ کے نکے کو دیکھا تھا۔ ایک نے فوراً بغل سے پٹھوں کا گٹھا نکال کر گائے کے آگے کر دیا تھا۔ اس نے چند ڈنٹھل دانتوں میں لے لیے اور پھر کچھ سوچ کر زمین پر گرا دئیے تھے اور اگلا کھر تختے پر رکھ دیا تھا، پھر دوسرا کھر۔

خدا معلوم نکے کو کیا ہوا تھا۔ یک دم اس کے سارے جسم میں تازہ تازہ گرم گرم لہو کا سیلاب آ گیا تھا۔ اس کے کان سرخ ہو گئے اور دماغ بے طرح بجنے لگا تھا۔ وہ بھاگا بھاگا گھر میں گیا تھا اور بابا کی دو نالی بندوق اتار کر اس میں کارتوس بھرے تھے۔ اسی جنون میں بھاگتا ہوا باہر آ گیا تھا اور کاندھے پر بندوق رکھ کر نشانہ باندھا تھا۔

اس نے کھلی آنکھ سے دیکھا۔ بچھڑا ٹرک سے باہر گائے کے گرائے ہوئے پٹھوں میں منہ مار رہا تھا۔ ٹرک میں بندھی گائے، باہر منہ نکال کر بچھڑے کو دیکھ رہی تھی۔ ان میں سے ایک گائے کو لے جانے کے لیے ٹرک میں بیٹھا تھا اور بابا ایک ہاتھ سے اپنی داڑھی میں عقل کو سہلاتا ہوا باہر کھڑے ڈرائیور سے ہاتھ ملا رہا تھا۔

پھر مجھے نہیں پتہ کیا ہوا۔ نکے نے کسے نشانہ بنایا۔ گائے کو بچھڑے کو، ڈرائیور کو، بابا کو، اپنے آپ کو، وہ ابھی تک نشانہ باندھے کھڑا ہے۔

کوئی وہاں جا کر دیکھے اور آ کے مجھے بتائے کہ پھر کیا ہوا۔ مجھے تو صرف اتنا پتہ ہے کہ ایک روز انہوں نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید