صفحات

تلاش کریں

ناولٹ: داستانِ فقیر ہمزہ(ڈاکٹر غلام شبیر رانا)

چاہت میں دنیا داری کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر عشاق اس قدر دل برداشتہ ہیں کہ وہ کفن بر دوش قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں کہ نہ جانے کس گھڑی اجل کی طرف سے بلا کشانِ محبت کے بلاوے کا وقت آ جائے۔ جب سے محبتوں میں ہوس کے پروردہ لوگوں نے گلشن کو بے رنگ کر کے اپنا جعلی رنگ جمانا شرع کر دیا ہے اہلِ درد کا کلیجہ منہہ کو آنے لگا ہے۔ کئی پُرانے دِل پھینک مفلس و قلاش آرام طلب اور جام طلب عشاق اگرچہ ڈیڑھ اینٹ کا مندر بنائے اپنی انا کو کُچل کر تپسیا میں انہماک کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس کے باوجود اپنی علاحدہ انجمن خیال سجائے نئے جال لیے اپنے ماضی کو بھول کر اپنے حال کی بہتری کے لیے ٹاؤن ہال کی دیوار کے سائے میں لیٹے بے حال دکھائی دیتے ہیں۔ چاہِ زنخداں کی چاہ میں سرگرداں عشاق پر جب آستین کے سانپ اور سانپ تلے کے بچھو عرصۂ حیات تنگ کر دیتے ہیں تو وہ آنکھیں بند کر کے، مُٹھیاں بھینچ کر اور کمر کھول کر دشت خار کے کولمبس بن کر چاہِ یوسف کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں جہاں ان کے ساتا روہن اور سفہا انھیں اُسی طرح کسی تاریک کنویں میں گرا کر اپنی راہ لیتے ہیں جس طرح پورن بھگت کو سیال کوٹ کے کنویں میں پھینکا گیا تھا۔ اس کے بعد ان پر جب بُرا وقت آتا ہے تو یہ نہ تین میں رہتے ہیں اور نہ تیرہ میں۔ چور محل کے مکینوں کو ہمیشہ سے یہ شکوہ رہا ہے کہ ان کی قسمت میں تخت کے بجائے تختہ ہی لکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سفلہ اور کینہ پرور حاسد صبح و مسا ان کا تختہ اُلٹنے کی فکر میں سر گرداں رہتے ہیں۔ گھاسف بقال اور رمنو بھی عجب کندۂ ناتراش ہیں رنگ بدلنے میں تو انھوں نے گرگٹ کو بھی مات دے دی ہے۔ کبھی یہ عالمی کلاسیک پر ہاتھ صاف کرتے ہیں تو کبھی تاریخ، ادب، طب اور فلسفے کو تختۂ مشق بنا کر اپنی جہالت کا اثبات کرتے ہیں۔ اُن کی دیکھا دیکھی کئی شیخ چِلّی قماش کے مسخرے موری کی اینٹیں لیے اِن پر اور اِن کے ساتھیوں پر ٹُوٹ پڑتے ہیں اور ان جو فروش گندم نما مُوذیوں کا دھڑن تختہ کر دیتے ہیں۔ پرانے زمانے میں خالِ رُخِ یار پر جان دینے والے خال خال دکھائی دیتے تھے لیکن اب تو عشاق غول در غول ٹڈی دَل کے مانند چاروں طرف سے اُمڈ آئے ہیں اور اُمیدوں کی فصل کو غارت کرنے پر تُل گئے ہیں۔ ان کے عزیز و اقارب میں ایسے عقرب پل رہے ہیں جن کی نیش زنی کے باعث چاہت میں ان کی سب مشقت اور ریاضت اکارت چلی جاتی ہے۔ دنیا دار اور ہوس پرست عشاق محبت میں اس قدر گُم سُم رہتے ہیں کہ ہر وقت خلا میں گھُورتے رہتے ہیں اور ان کو خلال کرنے کی فرصت نہیں ملتی۔ عشق کی رقابت اور حسد پر مبنی کشاکش کے باعث دو جنونی عشاق کے لیے حلال مرغی بھی حرام ہو جاتی ہے۔ گینڈے کی کھال رکھنے والے رمنو قماش کے ہوس پرست عشاق پر سنگِ ملامت بے اثر ثابت ہوتے ہیں اور وہ اپنے خچر اور استر نیلام کر کے مُردوں سے شرط باندھ کر لمبی تان کر سوتے رہتے ہیں۔ جب اُن کی آنکھیں مُند جاتی ہیں تو ان کے فگار جسم اور تار تار لباس کے عیوب کو کفن بھی نہیں ڈھانپ سکتا بل کہ اس کے لیے ملخ و مُور کے جبڑوں کی احتیاج ہوتی ہے۔ اس حالتِ زار کو دیکھ کر نوواردانِ دشتِ محبت کے دِل کے تار بجنے لگتے ہیں اور چشم کا زار رونا دیکھ کر ان کے دِل میں نئی اُمنگ اور جذبوں میں من موہنی ترنگ جنم لیتی ہے۔ ان پر یہ راز کھُل جاتا ہے کہ ہوس کی اساس پر استوار چاہت میں اب تو یہی انداز پیرہن ہو گا کہ ہوس پرست عشاق کی زبان پر ہمہ وقت کفن کفن ہو گا۔

قحط الرجال کے موجودہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ماحول میں لوٹے، لُٹیروں اور فصلی بٹیروں کو اس بات پر حیرت ہے کہ اس دھُوپ بھری دنیا میں بڑے بڑے جال لیے چار سُو وہ انبوہِ عاشقاں اُمڈ آیا ہے کہ کہیں بھی تِل دھرنے کو جگہ نہیں مِلتی۔ بو الہوس عشاق کی فکری تہی دامنی اور ذہنی افلاس کا یہ حال ہے کہ یہ کسی دوشیزہ کے عام سے چہرے کے تِل پر سب کچھ نثار کر دیتے ہیں۔ محض ایک تِل کی دل کشی سے مسحور ہو کر وہ مسبی جیسی ایک کالی کلوٹی طوائف، بھیں گی رقاصہ، بے سُری مغنیہ یا ڈھڈو کُٹنی کو بھی دِل دینے پر تُل جاتے ہیں۔ اس قماش کے کور مغز اور بے بصر مسخرے دِل پھینک عشاق جب سیلِ حوادث کی بلا خیز اور متلاطم موجوں کی زد میں آتے ہیں تو یہی تِل والی سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا محبوبہ اپنے بے بصر عشاق کا تیل نکال کر ان بے صبر اور عقل کے اندھوں کو اِسی میں تَل کر لذتِ ایذا حاصل کرتی ہے اور جب حالات کے کولھو میں مسلسل پِسنے کے بعد یہ کھوکھلے ہو جاتے ہیں تو یہ بات زبان زدِ عام ہو جاتی ہے کہ اِن تِلوں میں تیل عنقا ہے۔ جب سے کولھو اور کولھو کے بیل شہروں سے بارہ پتھر ہوئے ہیں تیل اور تیل کی دھار دیکھنے والے تیل شناس بھی رفو چکر ہو گئے ہیں۔ نئے دور کی مسبی قماش کی طوائف اور رقاصہ کسی محفل میں اپنی اُچھل کود کے منظر دکھانے کے لیے اب نو من تیل کی شرط رکھنے کے بجائے منھ مانگے دام اور ساتھ ہی بُرج الضعیفہ میں عشرت کدے کی ملکیت کی خواہاں دکھائی دیتی ہے۔ اپنی کردار کُشی، محسن کشی اور پیمان شکنی کی باتیں سُن کر عشاق تِلملا کر رہ جاتے ہیں۔ ان کی عقل پر ایسے پتھر پڑتے ہیں کہ اپنی پتھرائی ہوئی نیم باز کر گسی آنکھوں سے خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھ کر بھی ہر بو الہوس طلوع صبحِ عیاراں کا شدت سے منتظر رہتا ہے۔ زمانے کے انداز کیا بدلے کہ ساتھ ہی آہنگ اور ساز بھی مکمل طور پر بدل گئے۔ مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے بھی بے لوث سخی اور وسیع النظر فیاض رئیس کہیں نہ ملیں گے جب کہ راہ چلتے ایک نہیں بل کہ ہزاروں خسیس راہ روکے کھڑے ہوں گے۔ اب نہ تو گھوڑے رہے نہ سائیس، نہ سخاوت باقی ہے نہ ہی سخی رئیس، نہ کہیں تانگے دکھائی دیتے ہیں اور نہ کوچوان۔ ہر جگہ بڑی تعداد میں ہیچمدان جمع ہیں جو خود کو تیس مار خان سمجھ کر رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ ایسے بونے نہایت ڈھٹائی سے خود کو باون گزا ثابت کرنے پر ڈٹ جاتے ہیں کہ چشم فلک دنگ رہ جاتی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے عروج کے جدید دور میں مواصلات کی محیر العقول ترقی نے ازمنہ قدیم سے وابستہ متعدد یادوں کو ذہن سے محو کر دیا ہے۔ جن گزر گاہوں پر پہلے تانگے چلتے تھے اب وہاں بالائی سڑکوں پر اورنج ٹرینیں اور میٹرو بسیں فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں جب کے نیچے شیر شاہ سوری کے زمانے کی پُرانی اُکھڑی اور ٹُوٹی سڑکوں پر پا پیادہ چلنے والے لوگ، موٹریں، موٹر سائیکل، بائیسیکل، رکشے اور کاریں چل رہی ہیں اور بے کار لوگ اس جہاں کے کارِ دراز میں اُلجھے ہر گڑھے اور گہری کھائی سے بچ کر نکلتے ہوئے اپنی اُکھڑی سانسیں بحال کرنے کی سعیِ رائیگاں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ کتب بینی صدیوں سے فروغِ علم و ادب میں اہم کردار ادا کر رہی ہے مگر نئے دور میں کتب بینی کی چاہت کو بھی دنیا داری نے نگل لیا ہے۔ وہ دن گئے جب مورخ، فلسفی، محقق، نقاد اور علم و ادب کے شائقین کتب خانوں میں بیٹھ کر دادِ تحقیق دیتے تھے۔ آج نئی ترجیحات ہیں اور نت نئے موضوعات سامنے آ رہے ہیں۔ آج وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے علم کے شیدائی کسی انٹر نیٹ کیفے کا رُخ کرتے ہیں یا اپنے موبائل فون پر برقی کتب اور اخبارات و جرائد پر ایک اُچٹتی سی نگاہ ڈال کر ویب کیم کے ذریعے گھنٹوں اپنے حبیب کے سامنے بیٹھ کر بے مقصد گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔ انٹر نیٹ پر محنت، وقت اور سرمائے کا ناقابل تلافی زیاں ان کی زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دیتا ہے۔ بصیرت، دانائی اور بینائی کو جبری رخصت پر بھیج کر جب یہ بے نیلِ مرام گھر لوٹتے ہیں تو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ان کے ورثا اور آبا نے دانہ دانہ جمع کر کے ان کی خاطر جو خرمن جمع کیا، اُسے طیور آوارہ اور چڑیاں چُگ گئیں اور اُمیدوں کے ساری فصل ہی اکارت چلی گئی۔ اپنے والدین کی محنت کو غارت کرنے کے باوجود یہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور روم کو جلتا دیکھ کر نیرو کی طرح چین کی بانسری بجا کر دیپک راگ الاپتے ہیں۔

تیتر، تلیر اور تلور کا گوشت کھانے کے رسیا جنسی جنونی جب تِل، ابرو، چاہ زنخداں اور مژگاں کی تپش کی تاب نہیں لاتے تو تلنگانہ میں مقیم رمنو جیسے عطائیوں کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں جا کر یہ راز کھلتا ہے کہ یہ سب مریض تِلّی اور پتِے کے مرض میں مبتلا ہیں اور ان کا لبلبہ تیزابی محلول سے لبا لب بھر چکا ہے اور ان کی جان لبوں پر آ گئی ہے جس کے نتیجے میں حالات کے ستم نے انھیں پانی کا بلبلہ بنا دیا ہے۔ اب یہ بلبل اپنا آشیانہ چمن سے بہت دُور بنائے گا جہاں فصلی بٹیروں کی یلغار اور کُوڑے کے ڈھیر سے مفادات کے استخواں چُننے والے سگانِ راہ کی بھر مار نہ ہو گی۔ تلنگانہ کا عطائی رمنو یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ان ہوس پرست عشاق کو قدرتِ کاملہ کی طرف سے ہوش و خرد اور احساس و ادراک کی دولت عطا نہیں ہوئی۔ اپنے ذہنی افلاس کے باعث یہ ہر حق گو کی زبان کاٹنے اور روح قبض کرنے کے متمنی رہتے ہیں۔ جلنے اور کُڑھنے کی وجہ سے یہ قبض کے روگ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تلنگانہ کا عطائی رمنو ان کور مغزوں کے مرض کی شدت کو سمجھ لیتا ہے اور جب وہ انھیں مسہل پلانے اور ان کے فسد کا قصد کرتا ہے تو حسد کے مارے ہوئے ان عشقی ٹڈوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے اور انہیں اپنے جسد خاکی سے کلاغی روح پرواز کرتی محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت یہ آہیں بھرتے ہیں کہ تِل والی اڑیل چڑیل مسبی اور ڈائن تفوسی نے تو ان کا پتا صاف کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اب وہ اِن جنسی جنونی کٹنیوں سے علاحدہ ہو کر مکافاتِ عمل کا سامان کرنے کے لیے بے بسی کے عالم میں دماغی خلل سے نڈھال ہو کر فاؤنٹین ہاؤس جانے والی بس پر سوار ہونے کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اگلے برس جب خرابات آرزو پر ہجر و فراق کا غم برس جا تا ہے تو برص کا مرض انھیں دبوچ لیتا ہے۔ بے لگام خواہشات، منہہ زور تمنائیں ہوس پر ست عشاق کو وادیِ جمال میں مستانہ وار گھومنے پر آمادہ کرتی ہیں لیکن پاسبانِ عقل یہی سمجھاتا ہے کہ اس دشتِ خار میں سنبھل کر پاؤں رکھنا کہیں سب بد نام نہ ہو جائیں۔ حالات ایسا گمبھیر رخ اختیار کرتے ہیں کہ رو سیاہیاں اور ذلتیں ان کے رستے میں بچھ جاتی ہیں۔ اس کے بعد جگ ہنسائی کے خوف سے کوچۂ محبوب سے شرم ناک ہزیمت اور عبرت ناک پسپائی کو نوشتۂ تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔ رمنو، زادو اور گھاسو کا خیال تھا کہ علمِ بشریات اور حیاتیات کے ماہرین کی رائے میں دنیا بھر میں زاغ و زغن کے آشیانوں میں بے شمار فریب خوردہ بُوم پروان چڑھتے ہیں۔ ڈُوم قماش کے یہ متفنی شُوم رنگ، خوشبو، سُر، لے، حسن، ناز و ادا اور رقص کو دیکھ کر جھُوم اُٹھتے ہیں۔ قحبہ خانوں، چنڈو خانوں، طاؤس و رباب اور رقص و سرود کی محفلوں میں جس بے دریغ انداز میں یہ پیسے لُٹاتے ہیں، اُس کی ہر طرف دھُوم مچ جاتی ہے۔

رمنو کا خیال تھا کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس وسیع و عریض کائنات میں دنیا داری کا امورِ خانہ داری کے گورکھ دھندوں سے گہرا تعلق ہے۔ بعض لوگ کارِ جہاں کے دراز سلسلے اور بڑھتی ہوئی دنیا داری کو سادیت پسندی کے مہلک مرض میں مبتلا ذہنی مریضوں کی تیمار داری کی ایک صورت سے تعبیر کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عیال داری کے جھنجھٹ کے اسیر رمنو جیسے کٹھور جنسی جنونی کچھ وقت دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کر لب و رخسار اور چاہ زنخداں سے سیراب ہونے کی تمنا میں خجل ہو رہے ہیں۔ چاہت جب دنیا داری سے آلودہ ہو کر راحت کی ہوس میں مبتلا ہو جائے توسرابوں کے عذابوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا۔ ترقی پذیر ممالک میں توہم پرستی اور تشکیک اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہاں چاہت کے متوالے جنم پتری، جنتر منتر، کالے اور سفید جادو، ٹونے ٹوٹکے، گنڈے، دھاگے، رمل، نجوم اور عملیات پر اندھا دھند بھروسا کرتے ہیں اور خود اعتمادی سے محروم متلون مزاج عشاق کا یہی خیال ہے کہ گردشِ ایام کے باعث جب شام و سحر کے سفینے غرقاب ہونے لگیں تو وہ ان گوسفندان کے سہارے پار اُتر سکتے ہیں۔ گردش حالات کی اس بو العجبی کے بارے میں کیا کہا جائے کہ زادو لُدھیک اور رمنو جیسے ابلہ خود کو اپنے زمانے کے بہت بڑے سائیکک سمجھنے لگے۔ یہ دونوں متفنی سائنسی علوم بالخصوص نفسیات کی معمولی شُد بُد بھی نہیں رکھتے، اس کے باوجود نہایت بے شرمی، ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ گھنٹوں ان ادق موضوعات پر ہنہناتا رہتے ہیں۔ اِن کالی بھیڑوں کے قریبی اجلاف و ارزال نے یہ بے پر کی اُڑائی ہے کہ مافوق الفطرت عناصر جن میں دیو، آسیب، بھُوت، بد روحیں، آدم خور اور چڑیلیں شامل ہیں، سب کے سب اِن جعل سازوں کے قابو میں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زادو لُدھیک، تفوسی، مسبی، رمنو اور جھابو بد روحوں، مافوق الفطرت عناصر کو اپنا آلۂ کار بنا کر اپنے مخالفین اور ناقدین کی لُٹیا ڈبونے میں کبھی تامل نہیں کرتے۔ کالا باغ میں جنم لینے والے یہ بد اعمال اور جفا کار ناقص عامل رمل، نجوم اور کئی رنگوں کے جادو کے ذریعے سادہ لوح لوگوں کو ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ اِن کا شکار بننے والوں کا داغ داغ دل وقتی طور پر تو باغ باغ ہو جاتا ہے لیکن جب زندگی کی حقیقی معنویت کے مظہر تلخ نتائج سامنے آتے ہیں تو ان شقی القلب آدم خوروں اور خونخوار درندوں کے ستم سہنے کے بعد ان کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ چکا ہوتا ہے۔ ہپناٹزم کے عمل سے نکلنے کے بعد جب ان کی آنکھ کھُلتی ہے تو یہ راز کھُلتا ہے کہ آس کا گلشن تو یاس کے کنکروں سے اَٹ چُکا ہے اور ان کا جگر لخت لخت ہو چکا ہے۔ اِن نا ہنجار لُٹیروں کا یہ دعویٰ ہے کہ ماضی بعید میں کشتۂ تیغِ ستم بننے والے سب مجرم، جنسی جنونی، قاتل، قزاق، اُچکے، ڈاکو، رجلے، خجلے، بھگتے، ڈُوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، لُچے اور شہدے اُن کے عقیدت مند، ہم پیشہ، ہم مشرب و ہم راز ہیں اور اُن کے ساتھ قلبی وابستگی رکھتے ہیں۔ ماضی کے رسوائے زمانہ درندوں کی بد روحیں اکثر اُن کے پاس آتی ہیں، اُن سے ہم کلام ہوتی ہیں اور پھر دِل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچ جاتے ہیں۔ غر مختتم حراستوں، بے قاعدہ ملاقاتوں اور بے ترتیب ضیافتوں کے بعد اظہار و ابلاغ کے متعدد نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں، یہ سب اِن ناگوں اور ناگنوں کے محرم راز بن جاتے ہیں اور سب ایک دوسرے کو اپنے دِلِ صد چاک کے راز بتا کر تزکیۂ نفس کی صورت تلاش کر لیتے ہیں۔ ۱۸۸۸ء کے برطانوی اُجرتی بد معاش اور سفاک قاتل جیک دی رِپر اور ممبئی کے نواح میں ۱۹۶۰ء کے عشرے میں بہیمانہ جرائم اور قتل و غارت کی وارداتوں کے سرغنہ رامن راگھو کو یہ اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں مد فون اس کے ایک رسوائے زمانہ گُرور اسپوٹین کا اس گروہ کے ہاں مستقل قیام رہتا ہے۔ راسپوٹین (۱۸۶۹ تا ۱۹۱۶) کے ساتھ اِنھوں نے جنس و جنون، شراب و شباب اور ہوس پر مبنی ایک ایسا تعلق بنا رکھا تھا کہ ذہنی، جنسی اور دوسرے متعدد قبیح اور اخلاق باختہ امراض کے سب روگ اسی ناتے سے پھُوٹتے تھے۔ ہوس اور جنسی جنون کے سب ہتھکنڈے ان ننگ انسانیت درندوں نے راسپوٹین ہی سے سیکھے تھے۔ راسپوٹین کے بتائے ہوئے حربوں سے یہ سب اپنے جنسی جنون اور ہوس کو اس قدر بڑھاتے تھے کہ توبہ ہی بھلی۔ برطانیہ کے علاقے یارک شائر میں واقع کر کلیز پر یاری کی ایک بوسیدہ قبر میں گزشتہ چھے سو سال سے دنیا بھر کے قاتلوں، دہشت گردوں اور ڈاکوؤں کا سردار رابن ہُڈ ردائے ذلت اوڑھے آسودۂ خاک ہے۔ اُسے بھی مسبی، تفوسی، رمنو اور زادو لُدھیک اپنے سائیکک حربوں سے اکثر اپنے ہاں بُلا لیتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ اِن کی گاڑھی چھنتی ہے اور جب یہ مخبوط الحواس جنسی جنونی مِل بیٹھتے ہیں تو ان کی خوب گزرتی ہے۔ ماضی کی ہر طوائف، پیروں میں گھُنگرو باندھ کر اور گڑوی بجا کر ناچنے والی رقاصہ، نائکہ، اور کٹنی سے ان کے گہرے مراسم ہیں۔ آبرو ریزی، قتل و غارت، اغوا، دہشت گردی، بھتہ خوری، تاوان، اور لُوٹ مار کے گھناؤنے دھندوں کے سلسلے میں یہ بد قماش رابن ہُڈ کو اپنا گُرو تسلیم کرتے ہیں۔ اپنے ایک سٹھیائے ہوئے خبطی پڑوسی گھاسف بقال اور رمنو کا میں پہلے ہی ذکر کر چُکا ہوں، اِن بد طینت درندوں کی طبیعت بھی طُرفہ تماشا ہے۔ ہوس کے مستقل اور متصل سلسلوں کے اسیر اِن مے کشوں کو حالات نے تسمہ کش بنا دیا۔ ان کے بارے میں بھانت بھانت کے تبصرے زبان زدِ عام ہیں اور کوئی بھی با شعور شخص انھیں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا۔ مشکوک نسب کے اِن ابلیس نژاد سفہا کو دیکھ کر ہر شخص لاحول پڑھتا ہے اور جھٹ پٹ اِن مُوذیوں سے اپنے بچاؤ کی فکر کرتا ہے۔ یہ مخبوط الحواس، فاتر العقل جنسی جنونی جب سے یورپ کی یاترا کر کے لوٹے ہیں، یہ خود کو اپنے دیس میں اجنبی اور جلاوطن سمجھنے لگے ہیں۔ اپنی نادانی کو ہمہ دانی سے تعبیر کر کے اپنے منھ میاں مٹھو بننا اور خود ستائی سے اہلِ کمال کو ستانا ان جہلا کا وتیرہ بن چکا ہے۔ دنیا کے تمام علوم و فنون اور معاشرتی زندگی کے ہر موضوع پریہ حیلہ جُو جب اپنے کفن کی دھجیاں اُڑا کر ہنہناتے ہیں تو سننے والوں کا دِل گھبراتا ہے۔ اس بات کا اُنھیں شدید قلق ہے کہ معاشرتی زندگی میں جنس و جنوں، رند، ساقی، مے، خُم، مے خانے، قحبہ خانے، چنڈو خانے، قمار خانے، رقص و سرود اور محبت کے افسانہ و افسوں پر عائد قدغنوں کے باعث اللے تللے کرنے اور گُل چھرے اُڑانے کے مواقع اب بہت کم ہو گئے ہیں۔ اِن کی لاف زنی کا یہ حال ہے کہ یہ سب اپنے تئیں عصرِ حاضر کے سب سے بڑے سائیکک بن بیٹھے ہیں۔ اِن مفت خور، لیموں نچوڑ اور ہڈ حرام جنسی جنونیوں کی ہڈ بیتی سن کر ہنسے ہنستے سب سامعین کے پیٹ میں بل پڑنے لگتے ہیں۔ گھاسف بقال، رمنو اور زادو جب شُترِ بے مہار بن کر اپنا بھاڑ جیسا منہہ کھولتے ہیں تو اِن کے حلق سے دہکتے ہوئے انگارے اور خذف ریزے گرنے لگتے ہیں۔ اِس کی کٹ حُجتی اور خار ہذیانیِ گفتار کے انداز دیکھ کر سامعین کو اپنا پھٹتا ہوا سر یاد آتا ہے۔ اِن سب کینہ پرور حاسدوں کا اصرار ہے کہ زمانہ ساز لوگوں نے اہلِ جور سے ساز باز کر کے اِک گونہ بے خودی کی تمنا کرنے والے مے خواروں اور عشاق کو اس طرح اُلّو بنا رکھا ہے کہ زندگی سرابوں اور عتابوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ چند روز قبل میں اسی شہر میں مقیم اپنے ایک ممتاز نقاد اور محقق دوست کی دعوت پر ساجھووال میں اِن کے گھر گیا، ابھی دم ہی نہ لے پایا تھا کہ رمنو اور زادو دُم ہلاتے ہوئے بلائے نا گہانی کی صورت میں وہاں آ پہنچے۔ یہ بِن بُلائے مہمان میرے میزبان کی طرف سے دی جانے والی پُر تکلف ضیافت میں پیش کیے گئے کھانوں کو ڈکار کر بہت خوش تھے۔ اس موقع پر رمنو اور ناصف بقال دونوں کہنے لگے کہ آج کا دور جدت کا دور ہے ہم پُرانے اور فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام کے سخت خلاف ہیں۔ ناصف بقال نے اپنے دوست رمنو کی تائید کی اور کہا کہ وہ بھی نو دولتیوں کے جبر کا منھ توڑ جواب دینا چاہتا تھا لیکن مرتا کیا نہ کرتا گردن توڑ بخار میں مبتلا ہو جانے کے باعث بندھ ہوا ارادہ توڑ دیا اور کچھ نہ لکھ سکا۔ اب میں نے بے سر و پا قدیم اور متروک اور بیزار کُن اور شیطان کی آنت سے بھی طویل داستانوں کا جواب لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگلے وقتوں کی داستانوں کی سب سے پہلی قدیم کتاب جو میں نے ایک کتب خانے سے مطالعے کی آڑ میں ہتھیا لی اور اپنے گُدڑی میں چھُپا لی اس پر ’’داستان امیر حمزہ‘‘ لکھا تھا۔ طویل عرصہ گزر گیا اب میری تخلیق ’’داستانِ فقیر ہمزہ‘‘ اسی داستان کے ردِ عمل کے طور پر اس کے پیچھے آئی ہے۔ اگلے زمانے کے لوگ جو لکھ گئے ان کا جواب لکھ کر ان کا تعاقب کروں گا۔ ان سب پر دریدا کا فلسفہ ’’مصنف کی موت‘‘ لاگو کروں گا کہ اگلے زمانے سے پچھلے زمانے بہ ہر حال بہتر ہیں۔ میرا پیشہ سو پشت سے بھیک مانگنا اور ٹھگی ہے اس لیے میں کسی امیر کی داستان نہیں پڑھ سکتا تھا۔ اپنے زمانے کے ایک بدنام سائیکک کی حیثیت سے میں نے جدے دیت، مابعد جدے دیت، ساختیات، پسِ ساختیات، ردِ تشکیل کے ہر موضوع کو اپنی ذاتی چھلنی میں کھنگالا ہے۔ اس داستان میں ماضی بعید کے وہ کردار جو کردار و اخلاق سے عاری تھے حرص و ہوس کی آری لیے شاخ تمنا کی قطع و برید میں مصروف نظر آئیں گے۔ میرے چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد نے رفیقوں نے اپنے ذہنی افلاس اور فکری لُوٹ کھسُوٹ کو چھُپانے کے لیے ٹُوٹے پھُوٹے لفظوں کو جھُوٹ مُوٹ کی کہانی کا رُوپ دے کر من گھڑت چٹکلوں سے اسے دو آتشہ کرنے کے لیے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا چُن کر جو قصہ جوڑا ہے وہ اس نے خود اپنا ہی سر پھوڑا ہے۔ اس مسودے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کفن دُزد نے جو دُور کی کوڑی لانے کی سعیِ رائیگاں کی ہے وہی اُسے ذہن و ذکاوت اور ذوقِ سلیم کے اعتبار سے کوڑی کوڑی کا محتاج ثابت کرتی ہے۔ آئیے کچھ فارغ وقت اس ابلہ کی بے سروپا باتیں سُن کر گزاریں:

’’یہ کیا کہ سب پہ عیاں من کی حاجتیں کرنی

بقال تجھ کو نہ آئیں عداوتیں کرنی

جون کا مہینہ تھا، سورج سوا نیزے پر آ گیا تھا، گرمی زوروں پر تھی۔ آنکھوں میں تیز دھُوپ کے نیزے گڑے تھے لیکن میں اور میرے ساتھی فاقہ کشی سے مجبور نفس کشی، چِلّہ کشی، تپسیا اور گیان کی خاطر کڑی آزمائش کی گھڑی میں پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں کڑے پہن کر گھڑی دو گھڑی کے لیے اپنے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ جب ہم تھر کے بے آب و گیاہ صحرا میں پہنچے تو یہاں کی قیامت خیز گرمی نے جسم کو جھُلسا کر قلب اور روح کو آتش فشاں میں بدل دیا۔ ہم سب کی چوٹی سے ایڑی تک پسینا بہہ رہا تھا۔ گرمی کی شدت اور شعاع کی حدت ہم سب کو پانی پانی کر گئی۔ شعاع، مسبی، تفوسی اور شگن میری پالتو کتیاؤں کے نام ہیں جو ہر وقت دُم ہلاتی میرے تلوے چاٹتی رہتی ہے۔ سفر کی تھکن، جسم کی جلن ہجر و فراق کی تڑپ اور بھُوک سے بے حال جب میں اپنی کُٹیا میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ بڑی تعداد میں جنگلی حیات جن میں کر گس، بُوم، چُغد، خار پُشت، چمگادڑ، بِجُو، کنڈیالے چُوہے، بچھو، سانپ اور اژدہا ہمارے منتظر تھے اور کورنش بجا لانے کے لیے بے تاب تھے۔ ہم سب نے طبلہ اور سارنگی بجا کر ردِ بلا کی صورت تلاش کر لی۔ زادو لُدھیک تو اپنی داشتاؤں ظِلو اور کنزو کے ساتھر نگ رلیاں منانے میں مصروف ہو گیا اور جنگل میں منگل کی کیفیت میں مستی کے عالم میں بندِ قبا سے بے نیاز شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے شراب و شباب کے نشے سے دِل بہلانے لگا۔ میں بھی ان کا شریک محفل رہا لیکن جلد ہی ان سے علاحدہ ہو کر گیان کی تڑپ لیے ماہیِ بے آب کے مانند تڑپتا ہوا اپنی دھن میں مگن رقصِ بسمل دیکھنے لگا۔ میں بے ضمیری کی چادر بچھا کر اور بے حسی کی گلیم اوڑھ کر جب بے غیرتی کے تکیے پر سر رکھ کر اوندھے منہہ لیٹا تو میری آنکھ لگ گئی۔ عالمِ خواب و اضطراب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ہر طرف اندھیرا تھا اور مجھے سخت خجالت نے گھیرا تھا۔ دُور کُوڑے کا ایک ڈھیر تھا جو حدِ نگاہ تک پھیلا ہوا تھا۔ کوڑے کے اس ڈھیر کی بُلندی کے سامنے پہاڑ بھی ہیچ تھے۔ یہاں سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے۔ نظامت پر مامور ایک ابلیس نژاد درندے، بے وقعت بھڑوے اور بے ضمیر مسخرے نے چلّا کر یہ اعلان کیا کہ جلد ہی کُوڑے کے اس ڈھیر پر ذلتِ عام اور فنائے مدام کا دربار سجایا جائے گا۔ ماضی کے تمام رسوائے زمانہ تلنگے، لُچے، رذیل، ڈُوم، ڈھاری، بھانڈ، بد معاش، قاتل، ڈاکو، بھڑوے، مسخرے، شہدے، سفہا، اجلاف و ارذال، وضیع، خسیس، سفلہ، ابلہ، اُچکے، مشکوک نسب کے جرائم پیشہ، رسہ گیر، بھتہ خور، بھڑوے، بھگتے اور اُٹھائی گیرے ہاویہ سے یہاں اکٹھے ہوں گے اور اپنے دِلِ شکستہ کا حال بیان کریں گے۔ یہ اعلان سنتے ہی اس قماش کے سب درندے رفتہ رفتہ یہاں اکٹھے ہونے لگے۔ کُوڑے کے ڈھیر سے کچھ فاصلے پر بڑے بڑے تنور بنائے گئے تھے جن میں آگ بھڑک رہی تھی۔ دربار میں آنے والے سب لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں بڑے بڑے بانس تھام رکھے تھے جن پر خاص کپڑا بندھا تھا جس میں آگ لگی تھی اور شعلے بلند ہو رہے تھے۔ ان تمام لوگوں کے کریہہ جسم اور چہرے کا گوشت تنوروں کی آگ سے کباب کی طرح جل بھُن چُکا تھا۔ شدید تپش کے باعث ہڈیاں پگھل رہی تھیں، اس کے با وجود یہ سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور تھے۔ کُوڑے کے اس ڈھیر پر ہی ایک سٹیج بنایا گیا تھا جس کے نیچے بنائے گئے بڑے بڑے تنوروں سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ مہا بد معاشوں کی جگ ہنسائی کی خاطر ایک دستہ سٹیج کے قریب کھڑا تھا۔ اس دستے میں آدم خور، بھُوت، دیو، ڈائنیں اور چڑیلیں شامل تھیں۔ غیر حفاظتی دستے میں شامل مافوق الفطرت مخلوق جب منہہ کھولتی تو انگارے جھڑنے لگتے اور ان کی ناک سے مسلسل دھواں اور لاوا نکل رہا تھا۔ سٹیج پر آنے والے ہر مہمان پر یہ حفاظتی دستہ انگارے نچھاور کرتا۔ ان مہمانوں کے کشتۂ ستم بھی بڑی تعداد میں کُوڑے کے ڈھیر پر جمع تھے اور ضعیفی کے باعث کھانس رہے تھے۔ وہ آنے والے سب نئے مہمانوں پر نفرین اور مغلظات کی بو چھاڑ کر دیتے اور کھانستے کھانستے بلغم ان مہمانوں کے چہرے پر پھینک رہے تھے۔

اچانک پُورا پِنڈال گالیوں کی آواز سے گُونج اُٹھا۔ اس قدر شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سات فٹ لمبا ایک ضعیف شخص جس کے سر پلکوں اور بھووں کے بال سفید ہو چُکے تھے، سٹیج کی طرف بڑھا۔ اس نے زرہ بکتر، ڈھال اور میان میں تلوار سجا رکھی تھی۔ اس کی پشت پر بندھی ترکش نوک دار تیز تیروں سے بھری تھی۔ اگرچہ اس کے قویٰ مضمحل ہو چُکے تھے اور عناصر میں اعتدال بھی عنقا تھا اور اس کی کتاب زیست کے تمام ابواب ختم ہونے والے تھے اس کے باوجود اس کا سڈول جسم، لمبے ہاتھ، کرگسی آنکھیں، میلے دانت، سر پر گنجِ قہر، چھاج جیسے کان، تنی ہوئی گردن اور موٹے ہونٹ دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ ماضی کا کوئی بڑا شیخ چلّی یا تیس مار خان ہے۔ بعض لوگ اسے بھڑوا، خبیث اور خر دجال کہہ کر دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔ اس کے مظالم کا نشانہ بننے والے الم نصیبوں کا ایک ٹولہ جن کے جسم فگار تھے اور بھینگی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں آگے بڑھا۔ ان میں سے ایک گلا پھاڑ کر چلاتا ’’خر‘‘ اس کے باقی ساتھی بھی چیخ کر جواب دیتے ’’اماں‘‘ ۔ اس طرح منہہ پھٹ افراد کی نعرہ بازی جاری تھی۔ کُوڑے کے ڈھیر اور اُس کے گرد و نواح کی متعفن اور مسموم فضا خر۔۔ اماں، خر۔۔ اماں کے زمیں شگاف نعروں سے گُونج اُٹھی لیکن یہ دو افراد سب کچھ جان کر بھی خراماں خراماں چلے آ رہے تھے۔ دُور درختوں کے جھُنڈ میں ڈار سے بچھڑی ایک کُونج کُرلا رہی تھی جو چاہت میں دنیا داری کے ستم سہہ کر جاں بہ لب دکھائی دیتی تھی۔ ایک بے حدحسین و جمیل نو جوان لڑکا اس کا ہاتھ تھامے چلا آ رہا تھا۔ بُوڑھا اس نوجوان کے قندھاری انار جیسے سرخ عارض کو دیکھ کر مسکراتا اور ہنہناتا اور انھیں مسلسل سہلاتا ہوا اکڑ کر چلتا ہوا سٹیج کی طرف جا رہا تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ بُوڑھا اس حسین نوجواں کے عارض کو دیکھ کر جیتا ہے اور عارضی ہی اس کی زندگانی ہے۔ اس نوجوان کی رفاقت کے بغیر بُوڑھے کے لیے ایک پل گُزارنا بھی مشکل ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ نفرتوں اور حقارتوں کی تیر اندازی دیکھ کر حسینوں کے قدم رُک جاتے ہیں لیکن وہ بُوڑھا بڑی گرم جوشی سے اپنے نوجوان ساتھی کے ہاتھ تھام کر آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ دونوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بے مہریِ عالم اور گردشِ ایام کے شاکی بن کر نکہتِ گُل کے پاس پہنچتے ہیں لیکن یہ دیکھ کر اُن کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ جاتی ہیں کہ سب پھولوں کے گریباں چاک ہیں اور طلوع صبح عیاراں کی وجہ سے بہار میں بھی رنگِ چمن شعلہ شعلہ دکھائی دیتا ہے۔ عالمِ پیری میں سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے والا شخص رابن ہُڈ تھا اور اس کے ساتھ پیمانِ وفا باندھنے والے نو جوان کا نام لِٹل جان تھا۔ اس ضعیف، لاغر اور پر اسرار ڈاکو اور اس کے حسین نوجوان ساتھی کو دیکھ کر رنگو رذیل بولا:

’’بہ ظاہر تو رابن ہُڈ اور لٹل جان کی جوڑی بھی محمود اور ایاز جیسی ہے۔ ان کی چاہت اور اپنائیت میں گہری مماثلت دکھائی دیتی ہے۔‘‘

’’توبہ توبہ ! کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی؟‘‘ گھونسہ بیابانی غرایا ’’محمود ایک عادل، فاتح اور بہادر بادشاہ تھا جب کہ رابن ہُڈ ایک شکست خوردہ مجرم، سفاک قاتل اور بُزدل ڈاکو تھا۔ محمود نے ایاز کے ساتھ خلوص، دردمندی اور وفا کی اساس پر محبت کا قصر تعمیر کیا۔ رابن ہُڈ نے لٹل جان کو ہوس، جنون اور جفا کے سب افسانوں کا موضوع بنایا۔ رابن ہُڈ کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث راج محل بھی چور محل دکھائی دیتے تھے۔‘‘

زادو لُدھڑ کب چُپ رہ سکتا تھا، وہ ہنہناتے ہوئے بولا ’’محمود تو شیر تھا جب کہ رابن ہُڈ محض ایک گیدڑ ثابت ہوا۔ رابن ہُڈ نے محبت میں خود کو تماشا بنا دیا۔ ایاز سراپا ایثار اور وفا کا پیکر تھا لیکن لٹل جان ایک عطائی حسینہ کی سازش کی بُو پا کر بھی اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی رابن ہُڈ کو آخری وقت تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘

آج سے چھے سو سال قبل پُوری دنیا میں خوف اور دہشت پھیلانے والا یہ ڈاکو نا مرادانہ زیست کرنے کے بعد انتہائی پُر اسرار حالات میں اپنے چچا کی بیٹی میڈ مارین کے حسد، انتقام اور نفرت کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا۔ سٹیج پر پہنچ کر رابن ہُڈ نے اپنی کمان سے تیر چلایا جو سیدھا مقررہ نشان میں پیوست ہو گیا۔ اب اس نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:

’’آہ ! میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ تیر اندازی! میں نے زندگی بھر گلشنِ ہستی میں کومل کلیوں کو مسلا، تتلیوں کے پروں کو نوچا، اُچھلتی ہرنیوں کو زندگی بھر کے لیے اپاہج کر دیا، میرے مسلط کردہ جبر کی فضا میں بے شمار طائران خوش نوا اپنے آشیانوں میں دم توڑ گئے، سرمایہ داروں کی تجوری سے بے تحاشا زر و مال لُوٹا اور بے رحمانہ لُوٹ مار کا زیادہ تر مالِ غنیمت میرے پالتو خارش زدہ سگانِ آوارہ اور آستین کے سانپ لے اُڑے۔ لُوٹ مار کا معمولی حصہ جو غریبوں کو دیا وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ میرے سبز قدموں سے اس عالمِ آب و گِل میں جو تباہی پھیلی اس کے بارے میں اکثر لوگ واہی تباہی بکتے ہیں۔ کارِ جہاں بہت دراز ہے آبلہ پا راہی تو گزر جاتے ہیں لیکن خارش زدہ سگانِ راہ کو نہ تو کسی قصاب کی دکان کے تھڑے کے نیچے سے کھانے کو چھیچڑے ملتے ہیں اور نہ ہی کسی گھاٹ پہ اُنھیں کوئی ہڈی ڈالتا ہے۔ میں نے ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی کو ہمیشہ اپنے لیے زادِ راہ سمجھا ہے۔ مرگِ نا گہانی نے زندگی بھر میرا تعاقب کیا لیکن میں بال بال بچتا رہا اور کوئی میرا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ معاشرتی زندگی کے تضادات بھی عجب گُل کھلاتے ہیں، جو لوگ فارغ البال تھے انھوں نے سدا مجھے اپنی راہ کا کانٹا سمجھا لیکن ستم کشِ سفر رہنے والے فاقہ کش، محنت کش اور جفا کش جب مل کر بیٹھتے تو حقے کے کش لگا کر میرے لیے اچھے خیالات اور عمدہ تمناؤں کا بر ملا اظہار کرتے اور اس بات پر خوش ہوتے کہ میری دہشت سے امیروں کی نیندیں حرام ہو چُکی ہیں۔ میں نے اذیت، عقوبت، دغا، جفا اور سزا کی جو طرز اختراع کی اُسے ہر دور کے ڈاکوؤں نے طرزِ ادا قرار دیا۔ میں نے پُر تعیش محلات، عقوبت خانوں، چنڈو خانوں اور قحبہ خانوں کو کھنڈرات میں بدل کر وہاں ہر قسم کے حشرات کی افزائش نسل کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔ ان کھنڈرات میں طیورِ آوارہ کو آشیاں بندی کے مواقع میسر آئے اور کرگس، بُوم، چمگادڑ، چُغد اور زاغ و زغن کی نسل ڈائنو سار کی طرح مٹنے سے بچ گئی۔ اس میں کیا شک ہے کہ لُوٹنے والا اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خزانے کے مُوذی سانپ ک اسر کُچلتا ہے اس لیے اُسے لُوٹے ہوئے خزانے سے اپنے سُندر سپنے سجانے کا پورا حق ہے۔ کئی نکٹے لوٹے اور لُٹیرے جب میری دہشت کو دیکھتے تو ان کی چھاتی پر سانپ لوٹنے لگتا۔ ماضی کی طرف لوٹ کر دیکھتا ہوں تو یہ حقیقت کھُل کر سامنے آتی ہے کہ میں نے دنیا کو جی بھر کر لُوٹا لیکن میں مکافات اعمال سے بچ نہ سکا اور آخر کار دنیا نے مجھے لُوٹ لیا۔ جب میں جوان تھا تو میرے تمام کینہ پرور مخالف اور اپنی آگ میں ہمہ وقت جلنے والے حاسد اور سازشی عناصر چُوہے بن کر اپنے اپنے بِلوں میں جا گھُسے۔ وقت کی اس سفلگی کو کیا نام دیا جائے کہ یہ تیزی سے گزرتے ہوئے سیلِ رواں کے مانند سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ کتابِ زیست سے شباب کا باب ختم ہوتے ہی وقت کی یہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن منادی سنائی دیتی ہے کہ شجرِ حیات سے تمھاری خشک اور بے برگ و بار ٹہنی جسے سمے کی دیمک کھا چُکی ہے، اب ٹوٹنے کو ہے اور اب تمھارا دور اپنے اختتام کو آ پہنچا۔ وہ دن دور نہیں جب تمھارے شام و سحر کے سب سفینے غرقاب ہو جائیں گے۔ تم کوئی دم کے مہمان ہو اس کے بعد تم اپنی باری بھر کر زینۂ ہستی اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھارو گے۔ میں نے جوانی میں پُوری قوت، ہیبت اور دہشت سے کِشتِ دہقاں، تخت و تاج اور لوگوں کی عزت و ناموس کو لُوٹا اور قتل و غارت میں کُشتوں پُشتے لگا دئیے۔ میری شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشقِ ستم سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں۔ وقت پر لگا کر اُڑ گیا اور جب میں عالمِ پیری میں نحیف و ناتواں ہو گیا تو سب فصلی بٹیرے، چُوری کھانے والے ابن الوقت، مفاد پرست، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے اور اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے مجنوں اس طرح غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ یا منشیات کے عادی ننگِ انسانیت درندے کی جیب سے چرس، افیون اور ہینگ۔ سمے کے سم کے ثمر کی زہر ناکی کا تریاق تلاش کرنے کی خاطر میں نے بہت سی ہینگ اور پھٹکڑی لگائی، کئی کُشتے کھائے لیکن بیتی جوانی تو مستانی ہوتی ہے وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتی اور اس کی دائمی مفارقت نوشتۂ تقدیر بن جاتی ہے۔ جوانی جب چلی جاتی ہے تو بُڑھاپا آتا ہے جو کبھی چھوڑ کر نہیں جاتا اور قبر تک ساتھ نبھاتا ہے۔ رخشِ حیات اور لمحات رواں کی مثال بھی دریا کی ٹھاٹیں مارتی ہوئی موجوں کے پانی کے بہاؤ کی سی ہے۔ وقت جب گزر جائے اور پانی جب بہہ جائے تو کوئی بھی شخص کسی صورت میں پُلوں سے بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس اور بیتی گھڑیوں کے حظ سے دوبارہ فیض یاب نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’ارے او جاہل ڈاکو اور سفاک قاتل! تم رواقیت کے داعی بن کر کیا فلسفہ بگھار رہے ہو؟زندگی اور موت کے ناقابلِ فہم راز جو بڑے بڑے سُگھڑ اور سیانے نہ سمجھ سکے اور نہ ہی سمجھا سکے، اُن کی وضاحت ایک ڈاکو کیسے کر سکتا ہے۔‘‘ گھونسہ ویرانی نے اپنے منہہ سے بہنے والا جھاگ اپنی آستین سے صاف کرتے ہوئے کہا ’’تمھیں یہاں اس لیے بلایا گیا ہے کہ تم اپنی زندگی کے حالات سے ہمیں آگاہ کرو۔ تم اپنی محبت کی داستان سناؤ اور اپنے انجام کے متعلق سب حقائق سے حاضرین کو آگاہ کرو۔ ادھر تم ہو کہ ہوا میں گرہ لگا کر زندگی، موت اور خرد کی گتھیاں سلجھانے کی سعیِ رائگاں میں اپنی سی ہانکے چلے جا رہے ہو۔ سیدھی طرح بات کرو ورنہ کُوڑے کے ڈھیر پر لیٹ کر جمائیاں لینے والے اور ذوق سلیم سے محروم تمھارے سب پرستاروں نے اپنے ہاتھوں میں کفش اور تازیانہ اُٹھا رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گندے انڈے، سڑے ہوئے ٹماٹر، باسی کدو، بد بو دار بینگن بھی بڑی تعداد میں اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ ان بدنام لوگوں نے تارے گِن کر رات گزاری ہے۔ وہ تمھاری ایسی درگت بنائیں گے کہ تمھیں صرف چھٹی کا دودھ ہی نہیں نانی بھی یاد آ جائے گی اور تم کسی طاقت ور دوربین کے بغیر دِن میں تارے دیکھ سکو گے۔‘‘

’’اگر تم نے حُسن و رومان کی وادی میں اپنی سیاحت اور گُل عذاروں کے روگ میں بیت جانے والے مہ و سال کا احوال بیان نہ کیا تو تمھیں اس نشست میں راکھ افشانیِ گفتار اور ہذیان گوئی کے صلے کے طور پر جو لفافہ ملنے والا ہے وہ روک لیا جائے گا۔‘‘ کرموں لکڑ ہارا بولا ’’جو بھی یہاں آتا ہے ہمیں اُلّو سمجھ کر بے پر کی اُڑانے لگتا ہے۔ اب تو چور محل کے مکین خلیل خان کے فاختائیں اُڑانے کی دِن بیت چُکے ہیں، اب وہ چمگادڑیں، چھپکلیاں، کاکروچ، چھچھوندر، اژدہا اور سانپ تلے کے بچھو مارنے کے دھندے میں مصروف ہے۔ لوڈ شیڈنگ سے پہلے تم اپنی زندگی کے افسانے کی ناخواندہ سطور پر روشنی ڈالو ورنہ تم یہاں سے خالی ہاتھ اپنے دائمی مسکن ہاویہ کی جانب سدھارو گے۔‘‘

’’اب جگر، تِلّی، گُردے، دِل اور پھیپڑے سنبھال کر بیٹھو۔‘‘ رابن ہُڈ نے اپنی تلوار میان سے نکالی اور اسے ہوا میں لہراتے ہوئے حلق سے اپنی سُوکھی زبان نکال کر بُڑبُڑایا ’’لوگ مجھے خطا کار، سیاہ کار اور زیاں کار سمجھتے تھے لیکن میں جب شعلہ بار ہوتا تھا تُرکانِ خطائی بھی اپنی انجمن آرائی بھُول کر انجن آرائی شروع کر دیتے تھے۔ قسمت سے ہارے ہوئے لکڑ ہارے اکثر ان کے عناں گیر رہتے اور ان کے انجن اور آرے پر درختوں کے بڑے بڑے تنے گدھا گاڑی پر لاد کر لاتے۔ قاتل آرے ان ساونتوں کے جِسم کو چیر کر رکھ دیتے۔ سب مزدور قہوے کے ساتھ نان خطائی کھاتے جس کا پُورا بِل چھپر ہوٹل کا مالک پھتو کنجڑا فی الفور اًن کے کھاتے میں لکھ لیتا۔ چھپر ہوٹل کے کھابے ڈکارنے کے بعد ان جہلا کی بے سر و پا لاف زنی کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ میں زندگی بھر محبت میں ہوس اور منافقت سے نفرت کرتا رہا۔ ہوس پر مبنی جنسی جنون اور محبت میں جو فرق ہے وہ بے کمال بھی جانتے ہیں اور بے درد بھی ان سے بے خبر نہیں۔ جو فروش گندم نما، بگلا بھگت اور جنسی جنونی بھڑووں نے محبت کو بھی دنیا داری میں بدل دیا ہے۔ اپنے چچا کی بیٹی میڈمارین کو میں نے بچپن ہی سے جانچ پرکھ رکھا تھا۔ ہم دونوں یک جان دو قالب تھے اور اس کی زندگی کا کوئی گوشہ مجھ سے پوشیدہ نہ تھا۔ جب نو سو چوہے کھا کر یہ گُربہ دریائے ٹیمز میں نہا کر راہبہ کا سوانگ رچا نے کے بعد کریکلی ایبی کی پائرس بن بیٹھی تو ہر شخص یہی کہتا تھا کہ کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے۔ عیاری، مکاری اور ہوس سے لتھڑا اس کا یہ نیا رُوپ تو دیکھنے والوں کے لیے فریبِ نظر اور سرابوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگرچہ یہ پائرس بچپن ہی سے مجھ سے محبت کا اظہار کرتی رہی لیکن اپنی حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے میں پائرس کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ اس کے دِل میں مسلسل میرے لیے شدید نفرت اور عداوت پروان چڑھتی رہی۔ پھر یہ سانحہ ہوا کہ پائرس نے علاج معالجے میں مہارت حاصل کی اور کئی لوگوں کو اس کے علاج سے فائدہ ہوا۔ وقت کا یہ حسین ستم کبھی نہیں بھُولتا کہ بُڑھاپے میں تنہائیوں کے زہر کے تریاق کے لیے میں نے نو عمر لٹل جان سے پیمانِ وفا باندھا میں اس حسین نوجوان پر جان چھڑکتا تھا اور وہ بھی ہر وقت میری محبت کا دم بھرتا تھا۔ ہم ایک پل بھی ایک دوسرے سے جُدا نہ ہوتے تھے۔ یہ عہدِ وفا استوار کرنے کے بعد میں اس سنگت کو گردشِ لیل و نہار کا علاج سمجھنے لگا۔ تقدیر ہر لحظہ اور ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے۔ میری سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں نا معلوم کس حاسد کی چشمِ بد نے محبت کے اس پیمان کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لٹل جان تو فربہ اور توانا ہوتا چلا گیا لیکن میری نقاہت بڑھنے لگی اور میں روز بہ روز کم زور ہوتا چلا گیا۔ میں نے علاج کے لیے پائرس کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے معتمد ساتھی لٹل جان سے کہا کہ وہ مجھے پائرس کے پاس کریکلی ایبی لے جائے۔ اب میرا حلق خشک ہو گیا ہے اور آتشِ سیّال کی طلب نے مجھے نڈھال کر دیا ہے۔ اس کے بعد کی میری زندگی کی کہانی لٹل جان کی زبانی سنیں جو تم سب کے لیے چشم بہ راہ بھی ہے اور تمام حالات کا چشم دید گواہ بھی ہے۔‘‘

لٹل جان بہ ظاہربسنت خان خواجہ سرا کی نسل سے معلوم ہوتا تھا۔ اس نے اپنی جسمانی آرائش پر خاصی توجہ دی تھی اور اپنے لمبے بال سنوار رکھے تھے۔ چہرے پر غازہ لگا تھا اور آنکھیں کاجل سے بھری تھیں۔ وہ ناز و ادا سے کمر مٹکاتا، گردن گھماتا اور رقصِ بسمل کے انداز میں آگے بڑھا اور بولا ’’یہ بات زبان زد عام تھی کہ قتل و غارت، دہشت گردی، حرص، ہوس، عشقِ بُتاں اور جنسی جنون نے رابن ہُڈ کو غمِ دوراں کی بھینٹ چڑھا دیا اور گردِش حالات سے ہزیمت کھا کر وہ بسترسے لگ گیا۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ ڈاکو جس کے ستم سہہ کر کئی مظلوم جہاں سے اُٹھ گئے، اب وہ اپنے بستر سے نہیں اُٹھ سکتا تھا۔ میں نے کمرِ ہمت ازار بند سے باندھ لی، نیم جاں رابن ہڈ کو اپنے گھوڑے پر بٹھایا اور مضبوطی سے اسے تھام کر گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کریکلی ایبی کی طرف روانہ ہوا۔ میری ننھی سی جان پر کئی عذاب تھے رابن ہُڈ علیل، جان کنی کے عالم میں مریض کا عرصۂ زیست قلیل، مسافت طویل، دشوار گزار راہوں میں نہ بدرقہ نہ کفیل، ہر مقام پر اغیار دخیل، راہ میں حائل خطرات کی رودِ نِیل اور کسی طرف سے بھی اعانت کی کوئی سبیل نہ پا کر رابن ہُڈ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کی جھیل کو دیکھ کر مجھے لنکن کی زنبیل یاد آ گئی۔ ہمارا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ گیا لیکن اس انتہائی کٹھن اور بے حد تکلیف دِہ سفر میں رابن ہڈ کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ کرسمس سے چند روز قبل خون منجمد کرنے والی سردی سے ٹھٹھرتا ہوا بیماری اور کم زوری سے جاں بہ لب رابن ہُڈ کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر میں پائرس کے پاس پہنچا۔ پائرس نے جب رابن ہُڈ کو اس حال میں دیکھا تو اس کے چہرے پر اطمینان اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پائرس نے مجھے باہر بھیج دیا اور تنہائی میں رابن ہُڈ کا طبی معائنہ کرنے کے بعد اس کی ورید میں نشتر کے ذریعے گہرے زخم یا فسد کا قصد کیا۔ اس پائرس کا عجب مزاج تھا، مریض کے جسم سے خون کا اخراج ہی اس پائرس کا طریقۂ علاج تھا۔‘‘

’’رابن ہُڈ پر اس کے بعد جو صدمے گزرے بندہ نواز آپ ان کی حقیقت کے بارے میں کیا جانیں؟‘‘ رابن ہُڈ نے روتے ہوئے آہ بھر کر کہا۔

لٹل جان کے جانے کے بعد عجیب و غریب واقعات سامنے آئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہوا میں زہر گھُلا ہے اور پانیوں سے آگ کے شعلے بلند رہے ہیں۔ شامِ الم ڈھل رہی تھی اور درد کی تُند و تیز ہوا پیہم چل رہی تھی۔ پائرس نے میری ورید کاٹ کر میرا خون نکالا اور پھر زخم کی جگہ پر پٹی باندھی۔ اس وقت پائرس کا دیرینہ آشنا ریڈ راجر بھی وہاں آ پہنچا۔ وہ دونوں مسکراتے ہوئے بغل گیر ہو کر آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے، جب کہ میں دِل گیر ہو کر نیم باز آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد پائرس کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر کے اپنے آشنا کے ساتھ نا معلوم منزل کی جانب روانہ ہو گئی۔ کم زوری اور بخار کے باعث جلد ہی مجھ پر غنودگی طاری ہو گئی۔ جب میری آنکھ کھُلی تو یہ دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمیں نکل گئی کہ پائرس نے دانستہ غلط جگہ پر پٹی باندھی تھی اور میری ورید سے مسلسل بہنے والے خون سے کمرے کا پورا فرش خون آلود ہو گیا تھا۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے بعد

میں نے لٹل جان کو مدد کے لیے بُلایا۔ جب لٹل جان آیا تو میرا وجود تو گھٹ کر ایک سایہ بن چُکا تھا اور میں کوئی دم کا مہمان تھا۔‘‘

’’جب میں پہنچا تو بہت دیر ہو چُکی تھی اور پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چُکا تھا۔‘‘ لٹل جان نے بسورتے ہوئے کہا ’’بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے رابن ہُڈ کے کمرے میں موت کے سائے منڈلا رہے تھے۔ رابن ہُڈ اور میں نے پائرس اور اس کے آشنا کی سازش کا مکمل احوال سمجھ لیا تھا۔ میں نے پائرس سے انتقام لینے کی بات کی تو رابن ہُڈ نے سختی سے مجھے منع کیا اور اسے مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کرنے پر اصرار کیا۔ رابن ہُڈ کی یہ بات میرے دِل میں اُتر گئی کہ اس حسین پائرس نے چاندی کی گردن میں سونے کی گانی پہن رکھی ہے جو تمھیں چین کی نیند نہیں سونے دے گی۔ وہ اپنی چشمِ غزال سے جو کاری تیر چلاتی ہے اس کا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا اور نشانہ بننے والے کو اپنی زندگی بھاری لگتی ہے۔ وہ ترکاری بھی کاٹے تو من مانی کرتی ہے اور اس کے سامنے بات پر زبان کٹتی ہے۔ ترکش میں موجود تمھارے سارے تیر بھی ایسی گینڈے کی سی کھال رکھنے والی چڑیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس کے ساتھ ہی رابن ہڈ نے یہ بھی کہا کہ ذاتی انتقام کی آگ میں جل کر کسی حسین و جمیل عورت کی جان لینا مردانگی کی توہین ہے۔ پری چہرہ حسیناؤں کا حسن و جمال ہی ان کی کل کائنات ہے، اسے اُجاڑنا بڑی بے دردی ہے۔ میری التجا پر رابن ہُڈ نے کمان سنبھالی اور باہر کھُلی فضا میں تیر چلایا اور کہا کہ اسے قضا کا تیر سمجھو جو ہمیشہ مقررہ وقت پر صحیح نشانے پر جا لگتا ہے۔ جس جگہ یہ تیر گرے مجھے اُسی جگہ دفن کر دینا۔ آہ! رابن ہُڈ نے اپنی قبر کی جگہ کا تعین بھی خود کر دیا تھا۔ میں نے اُس کی آخری خواہش کے مطابق اُس کے چلائے ہوئے تِیر کے گرنے کے مقام پر ایک گہری قبر کھود کر مٹی میں عذاب و عتاب رکھ دیا۔‘‘

رابن ہُڈ نے نظامت پر مامور مسخرے سے لفافہ چھینا اور کُوڑے کے ڈھیر کی جانب چل دیا۔ اس کے بعد چیتھڑوں میں ملبوس ایک خستہ تن نوجوان نمو دار ہوا۔ جب وہ لنگڑاتا، لڑکھڑاتا، تڑپتا اور تلملاتا ہوا سٹیج کی جانب بڑھ رہا تھا تو تماشائیوں کا شور گھٹ رہا تھا۔ اس نو جوان کی آنکھوں سے حسرت و یاس ٹپک رہی تھی اور گردن ایک طرف ڈھلک گئی تھی اور کندھے کے ساتھ بانسری لٹک رہی تھی۔ وہ مسلسل ہانپ رہا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حلق میں اس کی سانس اٹک رہی تھی اور وہ شدید گرمی کے باوجود کانپ رہا تھا۔ جوان اپنی ٹانگ پر لگے زخم کی وجہ سے شدید کرب میں مبتلا تھا۔ ٹانگ کے اس زخم پر بوسیدہ کپڑے کی پٹی بندھی تھی۔ پنڈلی کے زخم سے مسلسل خون رسنے کی وجہ سے پنڈلی پر بندھی خون آلود پٹی پر بے شمار پر مکھیاں بھِنک رہی تھی اس لیے پٹی کا رنگ مگسی دکھائی دیتا تھا۔ نو جوان جس طرف سے گزرتا، خون کے قطرے زمین پر گرتے اور نشانِ راہ چھوڑتے جاتے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ نو جوان کس بیماری میں مبتلا ہے جس کے باعث اسے چلنے میں دشواری ہے۔ اس فربہ، تنو مند اور رومانی مزاج کے نو جوان نے کئی بار اکڑ کر چلنے کی کوشش کی لیکن گردشِ حالات کے ہاتھوں ٹانگ پر لگنے والے زخم نے اسے بُری طرح جکڑ رکھا تھا۔ اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی لیکن آنکھیں حیرت، حسرت، رنج، ندامت اور کرب سے لبریز تھیں۔ اس کے جسم پر گرد و غبار سے اٹے ہوئے بوسیدہ لباس کے چیتھڑے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ کوئی سادھو ہے جس نے تپسیا کی خاطر بن باس اختیار کیے رکھا۔ اس کے لمبے اور گھنے سیاہ بال، بڑی بڑی مونچھیں اور سڈول جسم اس کی شان دل ربائی کا مظہر تھا لیکن اس کے سر پر پڑی لُٹی محفلوں کی دھُول یہ ثابت کر رہی تھی کہ یہ نوجوان حسن و رومان رومان اور جنس و جنون کے دشت پُر خار کا آبلہ پا مسافر ہے۔ طویل عرصہ تک روز افزوں مصائب کا سامنا کرتا رہا اس لیے پائمال، خوار و زبوں اور بے حد ملُول ہے۔ اس کے ہاتھوں اور پیروں پر میل کچیل کی پِپڑیاں جمی تھیں۔ اس نے ایک ہاتھ میں مچھلیاں پکڑنے کے کانٹے اور لمبی ڈور تھام رکھی تھی جب کہ دوسرے ہاتھ میں اس نے صراحیِ مے پکڑ رکھی تھی۔ جب کبھی پیاس محسوس کرتا صراحی کا ڈھکن کھول کر مے کے دو گھونٹ اپنے حلق میں اُنڈیل کر اک گونہ مُسرت، راحت اور بے خودی سے سر شار ہو جاتا۔ اس نو جوان کی ہئیت کذائی دیکھ کر سب لوگ قہقہے لگانے لگے۔ اچانک ایک نوجوان حسینہ نمو دار ہوئی اور نو جوان کے قریب پہنچ کر گہری سوچوں میں کھو گئی۔ خزاں رسیدہ نو جوان بے تابانہ انداز میں حسینہ کی طرف بڑھا لیکن وہ بے حجابانہ پیچھے ہٹ گئی۔ نوجوان بڑی چاہت کے ساتھ میل ملاپ کی غرض سے اس حسینہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا مگر وہ بڑی بے رخی سے اس کا مَیل سے چیکٹ ہاتھ جس سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے، اُسے نفرت اور بیزاری سے جھٹک رہی تھی۔ حسینہ کی یہ بے رُخی نوجوان کے دِل میں بُری طرح کھٹک رہی تھی۔ اس حسینہ کے دائیں ہاتھ میں مٹی کا ایک بڑا گھڑا تھا جسے دیکھ کر کُوڑے کے ڈھیر پر براجمان چِکنے گھڑے اش اش کر اُٹھے۔ حسینہ نے گھڑے کو چُوما اور درد بھری آواز میں فریاد کی:

مینوں پار لنگا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کر دی

ترجمہ: اے گھڑے مجھے دریا کے پار پہنچا دے میں تیری منتیں کرتی ہوں

سب نے پہچان لیا کہ یہ پنجاب (گجرات)کی لوک داستان کے دو کردار ہیں۔ مہ جبیں حسینہ کا نام سوہنی ہے اور اس کے ساتھ جو خستہ حال نوجوان اپنے تغیرِ حال پر آنسو بہا کر کفِ افسوس مل رہا ہے وہ اس کا عاشق مہینوال ہے۔ رنگو رذیل نے جب سوہنی کو مہینوال کے قریب کھڑے دیکھا تو اس کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگا۔ یہ راز سب پر کھُل گیا کہ رنگو رذیل کی اہلیہ ثباتی نے اپنے قحبہ خانے کی خرچی کی صورت میں جو زر و مال کمایا وہ اس نا ہنجار نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس رذیل جسم فروش طوائف سے ہتھیا لیا۔ اس کے بعد ظلو اور کنزی سے رنگ رلیاں منانا اس متفنی کا معمول بن گیا۔ اس راز کے کھلتے ہی رنگو رذیل کو قحبہ خانے سے ایسے نکالا گیا جیسے باسی کڑھی سے پھپھوندی نکالی جاتی ہے۔ یہ بہت بے آبرو ہو کر قحبہ خانے سے نکلا اور پھر نگار خانے اور جوا خانے کی راہ لی لیکن اسے ہر جگہ سے دھتکار دیا گیا۔ اس ننگ انسانیت درندے کے قبیح کردار اور بد اعمالیوں کا راز کھُلتے ہی اس پر خوشیوں اور راحتوں کا ہر دروازہ بند ہو گیا۔ بہرام ٹھگ کے پڑ پوتے رمنو ٹھگ کے راز داں گھسیٹا بیابانی نے رنگو رذیل کے مکر کا پردہ فاش ہونے کے بعد اس کے حالِ زبوں کا نقشہ اس طرح پیش کیا ہے:

وہ راز کیا کھُلا کہ بُرا اُس کا رنگ تھا

ہر اِک ستم ظریف کے ہاتھوں میں سنگ تھا

جہاں بھی دو چاہنے والے یک جان دو قالب ہو کر گلے ملتے ہیں، رنگو رذیل رنج و کرب سے بے حال ہو جاتا ہے۔ وہ رمنو ٹھگ کے پاس پہنچ جاتا اور مے گلفام سے سیراب ہوتا تھا۔ جب سے اس کی داشتاؤں تفوسی، مسبی اور شباہت نے اس ہوس پرست پر تین حرف بھیج کر اپنے دیرینہ آشنا کے ساتھ نئے سرے سے پیمان وفا باندھا ہے اس کی نا اُمیدی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ آہ بھر کر یہ بات بر ملا کہتا پھرتا ہے کہ اس کے دردِ فرقت کا علاج تو اب فرشتۂ اجل ہی کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی کالے دھن کی جائداد اور قحبہ خانے کی آمدنی کی ضبطی نے اس بھڑوے کو خبطی بنا دیا ہے۔ وہ بے لگام ہو گیا اور سوہنی کی آمد پر اپنی غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے بولا:

اسی تذلیل تمنا کے لیے پہنچی ہے

سب اِسے کینۂ پستی میں اُترتے دیکھیں

مہینوال کی حالتِ زار دیکھ کر سب لوگ محوِ حیرت رہ گئے۔ محبت اور چاہت کا یہ الم ناک انجام کُوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے مسخروں کے لیے وجہِ اضطراب بن گیا۔ وہ سب محبت کی اس کہانی کے درد ناک انجام کے اسباب جاننے کے لیے بے چین تھے۔ مہینوال اگرچہ صدموں سے نڈھال دکھائی دیتا تھا لیکن سوہنی کی قربت نے اس کے اندر ایک ولولۂ تازہ پیدا کر دیا۔ وہ سوہنی کی طرف سے روا رکھی جانے والی حقارتوں اور اس کے لبوں سے نکلنے والی گالیوں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا۔ مہینوال نے ایک نگاہ سوہنی کے سراپا پر ڈالی اور پھر ہجوم کے تجسس کو دیکھتے ہوئے بولا:

سبھی کو اپنے ستم کا حساب میں دوں گا

سوال جتنے کرو گے جواب میں دوں گا

ایک طرف سے آواز آئی ’’کیا سبب تھا کہ سوہنی کو مچھلی کے کباب کھلانے کے بجائے تم نے اپنی ٹانگ کا گوشت کاٹ کر اُسے بھُون کر کھلایا۔ نہ تم ماہی گیر ہو اور نہ ہی کباب بھُوننا تمھارا پیشہ تھا۔ تم نے سوہنی کی بھوک مٹانے کے لیے یہ مشکل طریقہ کیوں چُنا؟ تمھاری اس حرکت کے پیچھے تمھاری جنسی بھُوک چھُپی تھی۔‘‘

’’تم نے سچ کہا ہے مچھلیاں پکڑنا اور کباب بھُوننا میرا پیشہ نہیں۔‘‘ مہینوال بولا ’’چاہت میں دنیا داری کا کوئی تصور ہی نہیں۔ محبوب کو منانے کے لیے ہر طریقہ درست ہے۔ کسی نے یہ بات خوب کہی ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز سمجھنا چاہیے۔ سوہنی کی بستی سے نکالے جانے کے بعد میں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور بستی کے سامنے دریائے چناب کے دوسرے کنارے پر ایک کٹیا میں زندگی کے دِن پورے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس عالمِ یاس و ہراس میں چاروں جانب سناٹا تھا۔ میرے لیے تو یہ کٹیا موت کی کال کوٹھڑی تھی جہاں دن کو تاریک را توں کے ما نند گھٹا ٹوپ اندھیرا رہتا تھا۔ جان لیوا تنہائیوں اور جگ ہنسائیوں سے عاجز آ کر میں قبر میں پاؤں لٹکائے میں بیتے دنوں کی یادوں میں کھو جاتا اور یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتا کہ کبھی تو خاکِ راہ اور کُوڑے کے ڈھیر کے حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ کیا عجب کبھی قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے اور سوہنی کو اس کٹیا کا خیال آ جائے۔ اب تو میری زندگی اسی موہوم اُمید کے سہارے گزر رہی تھی۔ اپنی بد اعمالیوں سے خانماں برباد ہونے کے بعد اچھے دنوں کے انتظار کرنا بھی سائے کے تعاقب کی طرح خود فریبی کی ایک صورت ہے۔ دسمبر کی آخری تاریخ تھی، آدھی رات کا وقت تھا اور نئے سال کی آمد میں چند لمحے باقی تھے۔ آسمان پر نیا چاند چڑھ چُکا تھا اسی لمحے میں نے اپنی عفونت زدہ کُٹیا میں ایک نیا گُل کھلتے دیکھا۔ مجھے اس ان ہونی کا یقین نہیں آ رہا تھا، میں نے اپنی چٹکی لی اور آنکھیں مل کر اور آنکھ بھر کر دیکھا تو میری تنگ و تاریک کٹیا میں رنگ، خوشبو اور روشنی کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ سوہنی میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ہجر و فراق کی اذیت اور تنہائی کی عقوبت برداشت کرنے کے بعد وصل کی راحت سے دل باغ باغ ہو گیا۔ میں نے دریا سے کُنڈی کے ذریعے جو مچھلی دو پہر کے وقت پکڑی تھی اس کے کباب بھُون کر سوہنی کو کھلائے۔ اس نے گھڑے پر تیر کر دریا عبور کیا تھا جو اس کی جرأت اور جذبوں کی شدت اور حدت کی دلیل ہے۔‘‘

’’سوہنی کی بستی سے جب تمھیں در بدر اور خاک بہ سر ہونے پر مجبور کیا گیا تو تم پر کیا گزری؟‘‘ آسو بِلّا غرّایا ’’تمھاری آشفتہ سری کا بستی کے مکینوں نے خوب مداوا کیا۔ سوہنی کی بستی سے بے سر و سامانی کے عالم میں نکالے جانے کے بعد تمھاری کو ہجھی صورت کیا بنی؟بھُوک پیاس اور تنہائی کی اذّیت نے تمھیں اپنی اوقات یاد دلا دی ہو گی اور جنونِ عشق کے سب انداز تم نے چھوڑ دئیے ہوں گے۔‘‘

’’میں بہت بے آبرو ہو کر سوہنی کی بستی سے نکلا۔‘‘ مہینوال نے روتے ہوئے کہا ’‘ آگ جلانے کے لیے میں نزدیکی بیلے سے خشک لکڑیاں چُن کر لاتا۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے میں نے انتظام کر لیا تھا۔ میں مچھلیاں پکڑنے والی بڑی بڑی کُنڈیاں اور لمبی ڈوریاں ساتھ لایا تھا۔ چاقو سے زمین کھود کر کینچوے نکالتا اور یہ کینچوے کُنڈی میں پرو کر کُنڈی دریا میں پھینک دیتا۔ بڑی بڑی مچھلیاں یہ کینچوے کھانے کے لیے لپکتیں اور کُنڈی ان کے حلق میں پھنس جاتی۔ میں دھاگہ کھینچ لیتا اور مچھلی کو پکڑ کر اپنی کٹیا میں رکھ دیتا۔ آٹھ پہر میں دس کے قریب بڑی بڑی مچھلیاں روزانہ میرے ہاتھ لگتیں۔ سہ پہر کو میرا راز دان اور دیرینہ ساتھی اکرو بھٹیارا میرے پاس آ نکلتا۔ میں اپنی ضرورت کے مطابق ایک آدھ مچھلی رکھ لیتا باقی مچھلیاں اکرو بھٹیارا اُٹھا کر لے جاتا اور نواحی بستیوں میں بیچ دیتا۔ اسے جو پیسے ملتے ان سے وہ افیون، چرس، بھنگ اور شراب خرید لیتا۔ میرے کھانے میں کھمبیاں، مکئی کے بھُٹے، شکر قندی، آلو اور سنگھاڑے بھی شامل ہوتے تھے۔ ان سب کا انتظام اکرو بھٹیارا چوری یا سینہ زوری سے کیا کرتا تھا۔ میں مچھلی کے کباب بھُون کر سوہنی کو پیش کرتا جنھیں وہ شوق سے کھاتی تھی۔‘‘

زادو لُدھیک نے گلا پھاڑ کر بے وقت کی راگنی سے سوہنی کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ’’گھڑے پر تیرنا تو بڑا جان جوکھوں کا کھیل ہے یہ کوئی موج مستی نہیں۔ دریا کی ہر موج میں سیکڑوں خون آشام نہنگ منہہ کھولے تقدیر جہاں کے عقدے کھول رہے ہیں۔ وہ کون سی مجبوری تھی جس نے تجھے اپنی جان پر کھیل کر، بے خطر دریا کی یخ بستہ لہروں میں گھڑے پر تیر کر مہینوال کے پاس پہنچنے پر مجبور کر دیا۔ دانا کہتے ہیں کہ ہوا، پانی اور غذا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا لیکن عشق تو دماغ کے خلل کا نام ہے۔ عشق کی اس تیراکی کو میں جنسی جنون سے آلودہ ایک چالاکی سمجھتا ہوں۔ تجھے اپنے گھر کے گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر اپنا گھر بسانے کے لیے سوچنا چاہیے تھا۔ تم نے دنیا داری کا کوئی خیال نہ کیا اور وہ کام کیا جو عورت کو زیبا نہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں گھاسف بقال، رنگو رزیل اور گھامڑ دھُول پُوری کے ہم راہ دنیا بھر کی سیاحت کی ہے، در در کی خاک چھانی ہے، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور ہر جگہ ہم اپنی ذلت و تخریب کی داستاں چھوڑ آئے ہیں۔ تاریخ کے مسلسل عمل پر ہماری سطحی نظر ہے انقلابِ روس نے کیا رنگ کھلائے کہ جنسی جنون گھٹ گیا اور یاس و ہراس کے سائے بڑھ گئے۔ یہ دیکھ کر کلیجہ منہہ کو آتا ہے کہ مصر کے بازار سجے ہیں اور حسن کے فراواں اور ارزاں جلوے بازارِ حسن کی کساد بازاری اور شدید مندی کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ یہکس قدر لرزہ خیز سانحہ ہے کہ جنس و جنون، حسن و رومان، شراب و شباب اور رقص و سرود کے سب افسانے عبرت کے تازیانے بن گئے۔ انقلابِ روس کا سیلاب تیس دسمبر ۲۰۱۶ کو ہمارے محبوب جنسی ہیرو راسپوٹین کو بھی بہا لے گیا۔ تم کیسی حسینہ ہو کہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر باہر نکلی جب کہ زارِ روس کی اہلیہ نے راسپوٹین کو اپنے پاس بُلا لیا۔ اب خود ہی سوچو حسن کی کشش کتنی قوت رکھتی ہے۔‘‘

’’محبت اور چاہت میں دنیا داری اور راحت کا تصور ہی عبث ہے۔‘‘ زادو لُدھیک کی کڑوی کسیلی باتوں کے جواب میں سوہنی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’میرا گھڑے پر تیرنا اور گھر سے باہر نکل کر اپنے آشنا سے ملنا میرا ذاتی معاملہ تھا۔ کسی کو میرے ذاتی فیصلوں میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔ دردِ دِل اور محبت کی کیفیت کو صرف درد آشنا ہی سمجھ سکتا ہے۔ کسی بے درد اور سفاک کو محبت کی تڑپ اور ٹیس کا احساس دلانا اندھے کے آگے رونا، دیواروں کو رازِ الفت بتانا، سنگلاخ چٹانوں سے سر پھوڑنا یا بھینس کے آگے بِین بجانے کے مترادف ہے۔‘‘

رنگو رذیل بولا ’’تم نے تیراکی کے لیے شاید گھڑا صرف اس لیے چنا کہ تمھارا باپ مٹی کے گھڑے بناتا تھا ورنہ تیراکی کے لیے سنجاونا کی ہلکی پھُلکی لکڑی کا گولا اس مقصد کے لیے بہت موزوں تھا۔ دریا میں تیرتے وقت گھڑے کو سینے کے نیچے مضبوطی سے تھامنا پڑتا ہے جب کہ سنجاونا کی لکڑی پر بیٹھ کر آسانی سے دریا عبور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چمڑے کی مشک میں ہوا بھر کر اس کا منہہ باندھ کر نہایت حفاظت کے ساتھ تیر کر دریا کے دوسرے کنارے پہنچنا آسان ہے۔‘‘

’’مجھے تو تم کسی موہانے یا سقے کی اولاد معلوم ہوتے ہو۔‘‘ سوہنی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’سنجاونا کی لکڑی پر بیٹھ کر دریا عبور کرنے کے لیے بانس کا لمبا اور مضبوط چپُو درکار ہے۔ جب کہ صرف گھڑے کو سینے کے نیچے رکھ کر تیرتے ہوئے دریا عبور کیا جا سکتا ہے۔ جب تمھارے سبز قدم دادا نظام سقہ نے مجبوروں کے چام کے دام چلائے تو اس کے بعد نہ مشکیں رہیں اور نہ ہی مشکیزہ حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ ہمایوں نے ابن الوقت عناصر کو پکڑا اور ان کی مُشکیں کس کر انھیں گوالیار کے عقوبت خانے میں ڈال دیا۔ ہاں تم جیسے گھٹیا عیاش اور جنسی جنونی کسی نہ کسی دوشیزہ کو دامِ اُلفت میں جکڑ لیتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ مخلص ساقی جو آبِ شیریں سے مشک بھر کر تشنہ لبوں کی پیاس بجھاتے تھے اب تک ان پر مشقِ ستم کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں نے اپنے باپ کا گھڑا بھٹی سے اُٹھایا تھا کسی ایرے، غیرے، یا کینہ پرور نتھو خیرے کے گھر کی گھڑونچی سے نہیں اُٹھایا تھا۔ اس لیے حاسد کی آستین میں پلنے والا سانپ اگر اس کی چھاتی پر لوٹتا ہے تو اس میں کسی اور کا کیا قصور ہے۔‘‘

’’میں قصور میں کچھ عرصہ قیام کر چُکا ہوں۔‘‘ گھاسف بقال جو مُردوں سے شرط باندھ کر سویا تھا ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا اور مہینوال سے مخاطب ہو کر بولا ’’آ مہینوال مِل کے آہ و زاریاں کریں تو سوہنی کو پُکار اور میں آرزو کی آرزو کروں۔ تُو نے یہ کیا عجب کام کیا کہ اپنے لہو سے ہولی کھیلتا رہا اور تن تنہا دکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلتا رہا۔ تجھ سے ہی یہ رسوائیاں اور خواریاں اُٹھ سکتی تھیں ہم جیسے آرام طلب اس تاب، توانائی اور جرأت سے محروم ہیں۔ تجھ پر کیا اُفتاد پڑی کہ چناب کے عتاب کا نشانہ بن گیا اور ناحق اپنی جان کو عذاب میں ڈالا؟‘‘

مہینوال نے سرد آہ بھری اور بولا ’’سوہنی ہر رات کچے گھڑے پر تیر کر میرے پاس آتی۔ وصل کی گھڑیوں میں کباب کھاتی اور ہنستی مسکراتی واپس چلی جاتی۔ ایک دن میری کُنڈیوں میں کوئی مچھلی نہ پھنسی۔ میں نے اپنی پِنڈلی کا گوشت کاٹا اور سوہنی کو کباب بنا کر کھلا دئیے۔ یہ کباب سوہنی کو بہت مزے دار لگے اور انھیں کھا کر وہ مد ہوش ہو گئی۔‘‘

سوہنی نے کہا ’’میں نہیں جانتی تھی کہ یہ کس جانور کے کباب ہیں لیکن میں نے اپنی زندگی میں ایسے خوش ذائقہ کباب پہلے کبھی نہیں کھائے تھے۔‘‘

اکرو بھٹیارے نے دُم ہلاتے ہوئے کہا ’’تم تو ایک آدم خور چڑیل اور ڈائن ہو۔ تمھاری بھُوک مٹاتے مٹاتے تمھارا عاشق مہینوال اپنی ٹانگ گنوا بیٹھا اور لنگڑا ہو گیا جس کے نتیجے میں زندگی بھر کی معذوری اس کا مقدر بن گئی۔ تم سادیت پسندی کے خطرناک مرض میں مبتلا ہو اور دوسروں کو دُکھ دے کر لذتِ ایذا حاصل کرتی ہو۔ تُف ہے ایسی سوچ پر۔‘‘

’’مشکوک نسب کے مسخرے دنیا تمھیں ایک پکے حرام خور کی حیثیت سے جانتی اور پہچانتی ہے۔‘‘ سوہنی نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ’’ہند سندھ کے ہر شہر کا قحبہ خانہ تمھارے خاندان کی رذیل جسم فروش طوائفوں کے دم سے آباد ہے۔ دوسروں پر کیچڑ اُچھالنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا بہت ضروری ہے۔ تم اور تمھارے ساتھیوں نے ہمیشہ اپنے خاندان کی بے ضمیر عورتوں کو سیڑھی بنایا اور تب کہیں جا کر بلند منصب تک رسائی حاصل کی۔ ہر چنڈو خانے اور قمار خانے میں تمھارے قدموں کے نشان ملتے ہیں۔ تم جیسے لوگ لوح جہاں پر حرفِ مکرر ثابت ہوتے ہیں جنھیں زمانہ ہمیشہ کے لیے مٹا دیتا ہے۔ ایک عادی دروغ گو، بگلا بھگت اور سو پشت سے نام و نسب سے محروم شخص کو بے جا الزام تراشی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔‘‘

’’تم سب پر پڑے گردشِ افلاک کی مار اب بند کرو یہ تُو تکار۔‘‘ گھاسف بقال نے ہنہناتے ہوئے کہا ’’اس سے پہلے کہ کوئی بھُوت اس بساط کو لپیٹے سوہنی اس داستان کو سمیٹے۔ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔‘‘

سوہنی نے آہ بھر کر کہا ’’وہ رات میرے مقدر کی سیاہی سے بھی زیادہ تاریک اور خوف ناک تھی۔ میں نے سر کنڈوں میں چھُپایا ہوا اپنا گھڑا نکالا اور مہینوال سے ملنے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ اگلے لمحے مجھے احساس ہو گیا کہ پختہ گھڑے کو خام گھڑے سے بدل دیا گیا تھا۔ موت کو سامنے دیکھ کر میرے منہہ سے چیخ نکلی اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔‘‘

روتے روتے مہینوال کی ہچکی بندھ گئی اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا ’’سوہنی کی چیخ سُن کر میں دریا میں کُود پڑا۔ اگرچہ میری ٹانگ کبابوں کے لیے گوشت کاٹنے کی وجہ سے شدید زخمی تھی لیکن میں پُوری قوت سے تیرتا ہوا دریا کی لہروں کے گرداب میں بہتی سوہنی کے پاس جا پہنچا اور اُسے اپنے بازوؤں میں تھام لیا۔ سوہنی کی سانس پھُول چُکی تھی، اُس نے صرف یہ کہا اب قیامت کو ملاقات ہو گی۔ یہ کہہ کر اس نے دم توڑ دیا اس کے ساتھ ہی میرا دِل ٹُوٹ گیا اور بدن بھی جان سے خالی ہو گیا۔ اس کے بعد تازہ گوشت کی خوراک کے لیے دریا کی لہروں میں تیرنے والے خون آشام نہنگوں کے نشیمن میں ہلچل مچ گئی۔‘‘

’’آہ! ماضی میں رقیب کس قدر احمقانہ اور بُزدلانہ سازشیں کیا کرتے تھے۔‘‘ گھاسف بقال نے تلملاتے ہوئے کہا ’’اگر میں اُس زمانے میں ہوتا تو سر کنڈوں میں چھُپا ہوا گھڑا ہر گز نہ بدلتا بل کہ میں عاشق ہی بدل دیتا۔ جب سوہنی دریا کے کنارے ایک حسین و جمیل نو جوان کو تحفے تحائف، قیمتی ملبوسات اور زر و جواہر سے بھرے ڈبے تھامے اپنی راہ میں منتظر کھڑا دیکھتی تو وہ خوشی سے پھُول جاتی۔ پلک جھپکتے میں وہ اپنے ماضی سے ناتا توڑ لیتی وہ دریا، گھڑے، تیراکی، کباب اور ماہی گیر کو بھُول کر اس اجنبی نو جوان سے ایک نیا پیمانِ وفا باندھ لیتی اور روشن مستقبل کی جانب قدم بڑھاتی۔ محبت تو ترجیحات کا نام ہے محبوب کو ہمیشہ خوب سے خوب تر کی جستجو بے چین رکھتی ہے۔‘‘

کچھ دیر بعد ایک پُر اسرار بُوڑھا نمودار ہوا۔ تیز ہوا چل رہی تھی اور بُوڑھے کے غیر مانوس مگر منحوس چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ سات عشروں کے بارِ عصیاں سے اس کی کمر کمان بن گئی تھی۔ اپنی پچکی اور بہتی ہوئی ناک پراس نے موٹے شیشوں کی عینک لگا رکھی تھی، سر پر خچر کی دم کے بالوں سے تیار کی گئی وِگ دھری تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں چاندی کی انگوٹھیاں ٹھونس رکھی تھیں جن میں سُرخ عقیق کے بڑے بڑے نگینے جڑے تھے۔ اس نے اپنے میلے کچیلے پیروں میں مختلف رنگوں کی بوسیدہ جُرابیں اور انتہائی بد وضع اور پھٹے ہوئے بُوٹ پہن رکھے تھے جوکسی مرے ہوئے انگریز کی اُترن تھے۔ اس ابلہ کی ڈاڑھی اور مونچھیں صفا چٹ تھیں جب کہ پلکوں اور بھووں کو زاغ مارکہ خضاب سے کالا کرتے وقت خضاب چہرے پر بھی پھیل گیا اور چہرے کا نصف سے زائد حصہ کالا ہو گیا جس کے باعث اس کے چہرے کی کراہت میں خوف ناک حد تک اضافہ ہو گیا۔ لُنڈے بازار سے خریدی ہوئی پتلون، قمیص اور کوٹ پہنے، گلے میں سرخ رنگ کی نکٹائی باندھے یہ کالا انگریز عجیب مسخرا دکھائی دیتا تھا۔ اس کے گرد جسم

فروش رذیل طوائفوں کا ہجوم دیکھ کر یہ شک یقین میں بدل گیا کہ یہ بہت بڑا بھڑوا ہے۔ یہ بد اندیش آپ اپنی تحقیر کی مجسم صورت بن کر جگ ہنسائی کی عبرت ناک مثال بن گیا۔ کثرتِ مے نوشی کے باعث وہ نشے میں دھت تھا وہ کمر جھکائے، منہہ لٹکائے، سب سے آنکھیں چُرائے بڑبڑاتا اور لڑکھڑاتا ہوا سٹیج کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی کُوڑے کے ڈھیر پر وہ طوفانِ بد تمیزی برپا ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ایک آواز سنائی دی:

’’ناسٹلجیا کا کُچلا ہوا ٹُلا عطائی یہاں کیوں آیا ہے۔ اِسے تو کُچلا کھِلا کر مارنا چاہیے۔ راسپوٹین کی اولاد کو یہاں سے بھگاؤ۔ یہ قدامت پسند جعلی فلسفی ٹُلا عطائی بہت بڑا ہرجائی ہے۔ یہ مُوذی و مکار درندہ پُورے معاشرے کو پتھر کے زمانے میں پہچانے کو قبیح دھندوں میں مصروف رہتا ہے۔‘‘

اس کا ایک اور مار گزیدہ آگے بڑھا اور اس نے کہا ’’ہرنائی کا مکین ٹُلا عطائی جو ہرنیا کے روگ میں مبتلا رہا ہرن کی طرح کلانچیں بھر کر اور داؤ لگا کر منشیات کی دوائیں کھلا کر بے بس و لاچار مظلوموں کی عزت اور مال لوٹنے والا نائی ہے اس سے دانائی کی توقع ہی عبث ہے۔ اس بھڑوے، خبیث، خر اور جنسی جنونی کو جُوتے مار کر یہاں سے بھگاؤ۔‘‘

ایک عورت روتے ہوئے آگے بڑھی اور کہنے لگی ’’عزتوں کے اس لٹیرے کو ہماری نظروں سے دُور کرو۔ مان نہ مان میں سب کا خاص مہمان اور پردھان۔ کُوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے والے اس باؤلے جنسی جنونی اور خارش زدہ سگِ راہ کو ڈنڈے مار کر یہاں سے باہر نکالو۔ حادثات وقت کے نتیجے میں یہ بے کمال جاہل زندگی بھر اپنی جہالت کا انعام پاتا رہا اور اہلِ کمال کی توہین تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کر کے ان کو نیچا دکھاتا رہا۔ زمانہ اس کندۂ نا تراش کو قدموں کے نیچے روند کر آگے نکل گیا اب اس کا دور گزر چُکا ہے۔ یہ خچر ہاویہ میں اپنے لیے کوئی چراگاہ تلاش کرے جہاں اس کے راتب بھاڑے کا انتظام ہو۔‘‘

بڑھتا ہوا ہلہ گُلا دیکھ کر ٹُلّا عطائی بو کھلا گیا اور کھسیانی بِلی کی طرح کھمبا نوچنے کی سعیِ رائیگاں میں اول فول بکنے لگا۔ اس اثناء میں نیم عریاں لباس پہنے طوائفوں کا ایک گروہ اس نا ہنجار کی مدد کو آ پہنچا۔ طوائفوں کے رقص کو دیکھ کر ہجوم کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹ گئی۔ رسوائے زمانہ طوائف شباہت شمر اپنی ہم جولیوں شعاع، تحری، کنزی، ظلو اور گُلو کے ہم راہ اپنے دیرینہ چکلہ دار کی حفاظت کے لیے وہاں کھڑی تھیں۔ یہ عالم شوق کا دیکھ کر ٹُلّا عطائی شیطانی قوت سے آگے بڑھا اور شباہت شمر کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہنہنانے لگا۔

دربار کی نظامت پر مامور افراد نے مداخلت کی اور سٹیج سے یہ اعلان کیا گیا:

’’سب لوگ جو اس کے ستم سہتے رہے سچ کہتے ہیں کالے دھن کا یہ متوالا، حسن و رومان کا یہ اسیراپنی دھُن میں مگن یہاں پہنچا ہے اور ذِلتِ عام اور فنائے مدام کے دربار میں جگہ لینے کے نہایت ڈھٹائی سے اصرار کر رہا ہے۔ سب جانتے ہیں یہ گلشنِ ہستی میں ہر گُل کا شیدائی، مسرت کا متلاشی، راحت کا اسیر، تزئین پر فریفتہ، فرحت کا تمنائی، تکمیل کے لیے بے تاب، تمثیل کا سودائی، اور نکہت کا دیوانہ رہا۔ اس وقت آرزو کی آرزو میں خجل ہے، ہر حسین شکل و شباہت رکھنے والی طوائف کی چاہت میں اس کی نقاہت حد سے بڑھ گئی ہے۔ پہلے اس کی یاوہ گوئی کی شنوائی کی جائے اس کے بعد اس کی دھنائی کے لیے وقت دیا جائے گا۔‘‘

یہ سنتے ہی ہجوم میں سناٹا چھا گیا اور ٹُلّا عطائی ہرزہ سرائی کے لیے سٹیج پر پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ شباہت شمر بھی تھی جو اسے نشے کے خمار سے نکالنے کی خاطرمسلسل اس کو جھنجھوڑتی، اس کے کان مروڑتی اور اس کی کٹی ہوئی ناک پر چٹکی لیتی تھی۔ ٹُلّا عطائی زور سے چلاتے ہوئے بولا:

در کھُلا ہے جو اپنی چاہت کا

دِل پہ اب راج ہے شباہت کا

میری تقریر کا موضوع ہے ’’آثار قدیمہ اور اسرارِ جدیدہ کا موازنہ‘‘ ۔ یہ تقریر میرے لیے اپنے عہد کے سب سے بڑے چربہ ساز، سارق، کفن دُزد اور بہروپیے کرگس ویرانی نے لکھی ہے۔

کُوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے اے میرے خون کے پیاسے لوگو

سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے چاہت کے سب معائر کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ سائنس کی ترقی کے برعکس زندگی کی اقدار و روایات کا قافلہ کچھوے کی رفتار سے چلتا ہوا بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ سماجی زندگی میں انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی داستانیں تاریخ کے طوماروں میں اس طرح دب گئی ہیں کہ ان کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔ احساسِ کم تری نے آثارِ مصیبت کے تلخ احساس کو نگل لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احساسِ کم تری سے نڈھال مقامی اہلِ حرفہ کو حرفِ صداقت سننے میں ہمیشہ تامل رہا ہے۔ مغربی تہذیب کی بھونڈی نقالی نے بھیڑ چال کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جو شخص بھی مغربی تہذیب کی نقالی کرنے والوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے اس کی ذہنی صحت پر سوالیہ نشان لگا دیا جاتا ہے۔ میرے ساتھ یہی المیہ رہا ہے کہ میں دیارِ مغرب کے مکینوں کے ستم حرف حرف بیان کر کے نقالوں کو خبر دار کرتا ہوں کہ جھُوٹے نگوں کی آب و تاب اور ملمع سازی سے محتاط رہیں۔ میری یہ موقع پرستی ہے کہ میں کبھی دِل برداشتہ نہیں ہوا بل کہ ہمیشہ نگاہ برداشتہ رہاکسی نے خوب کہا ہے کہ داشتہ آید بہ کار۔ مجھے وہ لمحہ کبھی نہیں بھُولتا جب میں نے شباہت شمر، ظلو، زادو لُدھیک اور رنگو رذیل کی معیت میں اپنے ہیرو راسپوٹین کے دیس کی سیر کی۔ ہم سائبیریا گئے جہاں ۱۸۶۹ میں جنم لینے والے جنسی جنون کے دیو اور جنسی اشتہا کے بھُوت راسپو ٹین کی آنول نال گڑی ہے۔ ہم سب اس چوبی کرسی پر بیٹھے جو راسپوٹین کی یادگار ہے۔ اس کرسی پر بیٹھ کر استغراق کے عالم میں بہت تپسیا کی جس کی وجہ سے ہمارا راسپو ٹین کے ساتھ جنس کا ایک رشتہ استوار ہو گیا۔ اس پُر اسرار دیومالائی کرسی پر بیٹھنے کے بعد جنسی جنون تمام حدیں عبور کر جاتا ہے اور مستی کے عالم میں عشاق بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر خوب سے خوب تر کی جستجو میں دیوانہ وار ہنہنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے یہ کرسی ہوس پرست جنونی عشاق کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کہ اس کرسی پر کئی آسیب، دیو، بھُوت، آدم خور، ڈائنیں، چڑیلیں، بگلا بھگت، خزانے اور آ ستین کے سانپ، سانپ تلے کے بچھو، سفید کوے، کالی بھیڑیں اور گندی مچھلیاں اپنی آبائی میراث سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ کرسی جسے اکثر لوگ منحوس خیال کرتے ہیں، ہم سب کو راسپوٹین کی وہ چوبی کرسی بہت مانوس سی لگی۔ وہ خواجہ سرا جو نہ تین میں ہو نہ تیرہ میں اگر وہ بھی اس کرسی پر بیٹھ جائے تو وقت کا یہ حادثہ رو نما ہو سکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ محل سرا میں تین یا تیرہ بچوں کا باپ بن جائے۔ راسپوٹین کی کرسی پر بیٹھنے والے کی کھال گینڈے کی کھال میں بدل جاتی ہے اور اس کی کاٹھی پر لاٹھی بھی غیر موثر ہو جاتی ہے۔ سائبیریا میں شبات شمر، ظلو، تحرو، کنزی اور تمنا نے خوب رنگ رلیاں

منائیں۔ وہ سب راسپوٹین کی گرویدہ تھیں اور زارِ روس کی اہلیہ کی راسپوٹین کے ساتھ والہانہ محبت کو پسند کرتی تھیں۔‘‘

تھوڑی دیر کے بعد کُوڑے کے ڈھیر سے ایک چڑیل نمودار ہوئی۔ اس کے منہہ سے خون لگا ہوا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ چند لمحے پہلے اس نے کسی جان دار کا خون پیا ہے۔ سر کے بھدے غلیظ اور کٹے ہوئے بال گرد و غبار سے اٹے ہوئے تھے۔ اس نے نیم عریاں لباس پہن رکھا تھا جس کے باعث اس کے خد و خال اس کی عیاری، ہوس اور جنون کی غمازی کر رہے تھے۔ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن حلق خشک ہونے کے باعث دل کا افسانہ زباں تک نہ لا سکی اور اس کی بات نا گفتہ رہ گئی۔ اس نے اپنے غلیظ تھیلے سے گدلے پانی کی ایک بوتل نکالی اور چُلّو بھر پانی لیا۔ سب تماشائی خوش تھے کہ اب یہ چڑیل اسی چُلّو بھر پانی میں ڈُوب مرے گی۔ چڑیل نے وہ پانی اپنے حلق میں اُنڈیلا، خون میں تر اپنے موٹے موٹے ہونٹوں کو اس پانی سے صاف کیا اور سٹیج پر جا پہنچی۔ یہ شاہی محلے کی بد نام نائکہ شباہت شمر تھی۔ جب شباہت شمر آئی تو لال کنور اور زہرہ کنجڑن نے اسے گلے لگا لیا۔ وہ اس کٹنی کو دیکھ کر خوش تھیں کہ اس نے ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قحبہ خانے کے پیشے کو اپنایا اور خرچی کے ذریعے خوب زر و مال کمایا۔ شباہت شمر بھی ان دونوں طوائفوں سے مِل کر دلی مسرت کے احساس سے سر شار تھی۔ شاہت شمر کو دیکھ کر ہر طوائف اور نائکہ کا سر شرم سے جھُک کیا۔ سب زیرِ لب بربڑا رہی تھیں کہ اگرچہ وہ سب انگوٹھا چھاپ تھیں لیکن نوٹ چھاپنے کے لیے انھوں نے جو حربے استعمال کیے ان کی چھاپ اس دھندے پر لگ چُکی ہے۔ دو کوڑی کی جسم فروش رذیل طوائف شباہت شمر نے چند حروف پڑھے لیکن لُٹیا ہی ڈبو دی اور جنسی جنونیوں کو مفلس و قلاش ہی نہیں کیا بل کہ ان کو اپنے ڈھنگ سکھا کر ان کے گھروں کی عورتوں کی چھاپ تِلک سمیت سب اندوختہ اس بے دردی سے ہتھیا لیا کہ کئی خاندان کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے اور انھیں زندہ لاش میں بدل دیا۔ اس عیاری اور مکاری کے بعد گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے نئی منزلوں اور نئے آشناؤں کی تلاش میں حرص و ہوس کا ایسا سفر جاری رکھا جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔‘‘

شباہت شمر نے اپنا مگر مچھ جیسا جبڑا کھولا اور اپنے انتہائی میلے اور پھیلے ہوئے بڑے دانت پیستے ہوئے بولی ’’یہ بات سچ ہے میں راسپوٹین کو جنس کا بہت بڑا دیو اور بھُوت ہی سمجھتی ہوں۔ جنس کے اُس قوی ہیکل دیوتا کی فولادی جسامت، ہپنیٹک آنکھوں، آدم خوروں جیسے نو کیلے دانتوں، کالی زبان، بکھری ہوئی سیاہ لمبی زلفوں، سر و قد، سبز قدم، لمبی اور بڑی بڑی گھنی مونچھوں اور لمبی ڈاڑھی کی وجہ سے میں اس کی گرویدہ ہوں۔ جب وہ اپنی لمبی گھنی اور سیاہ مونچھوں کو تاؤ دیتا تو پری چہرہ حسینائیں نہ آؤ دیکھتیں نہ تاؤ اس پر فریفتہ ہو کر سب کچھ قربان کرنے کی ٹھان لیتیں۔ سنا ہے اس کی آنکھوں سے ایسی شعاعیں نکلتی تھیں کہ دیکھنے والا ان سے مسحور اور ہپنا ٹائز ہو کرا س کے لیے دیدہ و دِل فرشِ راہ کر دیتا۔ میں نے سینتالیس سال کی عمر میں قتل ہونے والے جوان رعنا کی قدِ آدم تصویر نینی تال میں اپنے گھر کے کمرے میں سجا رکھی ہے۔ میں روز اس کے سامنے سُر اور تال کے راگ الاپتی ہوں اور اس تصویر کے نینوں سے نین ملاتی ہوں۔ کمرے میں جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا میں اس سے راز و نیاز کی باتیں کر کے اپنے جذبات کی تسکین کی صورت تلاش کر لیتی ہوں۔ اگر میں اس کے زمانے میں ہوتی تو میں بھی اس کی شیدائی ہوتی اور اس کے حضور پیش ہو کر اپنے دلِ ناصبور کا نذرانہ پیش کرتی۔۔ وقت کا یہ حادثہ ہے کہ گھاسف بقال جیسے درندے سے میرا پالا پڑا ہے، جو میرے رومان کی تسکین سے غافل ہے اور اس کی بے حسی اور بے غیرتی کا یہ حال ہے کہ میرے جنسی جنون سے شِپرانہ چشم پوشی کرتے ہوئے میتلا اور یملا بن بیٹھا۔ اس کھِلواڑ کے بعد ناچار مجھے کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل جانا پڑتا ہے۔ اگرچہ میری زندگی حسن و رومان اور رقص و سرود کی محفلوں میں گزری ہے لیکن بات کرنے، جیبیں خالی کرانے، دِل بہلانے، نشہ پِلا کے گرانے، پیمانِ وفا کے جعلی شاخسانے تراشنے اور جنس و جنوں کے نت نئے افسانے سنانے کا ڈھب مجھے آتا ہے۔ سماجی علوم اور علم بشریات کے حوالے سے طوائف کو ہر دور میں نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں لال کنور کی پوتی ہوں اور زہرہ کنجڑن میری خالہ ہے۔ اپنی زندگی میں مجھے اپنے خاندان کی ان طوائفوں سے بہت رہنمائی ملی ہے۔ رومانیت اور لسانیات میں میری دلچسپی کا سبب لال کنور کی گائیکی اور فنون لطیفہ کا ذوق ہے۔ زہرہ کنجڑن کی زندگی چاہت اور دنیا داری کا دل کش نمونہ ہے اس نے جس منفرد انداز میں گھر گھر جا کر سبزی اور پھل پہنچائے اور بے شمار گھروں کو بے چراغ اور خاندانوں کو بے ثمر کر دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میں نے ان کی تقلید کی بہت کوشش کی لیکن ان کے آگے میری کیابساط ہے۔ میں تو اپنی زندگی میں محض کسی عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے جنس و جنون کے جان لیوا عارضے میں مبتلا بڑے منصبدار، سرمایہ دار، پتھارے دار، ٹھیکے دار یا جاگیر دار کو اپنی زلفوں کے جال میں پھانس سکی جب کہ لال کنور نے مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کو چُلّو میں اُلّو بنایا اور ملکۂ ہند بن کر امتیاز محل کا خطاب پایا۔ میں اس پائے کی طوائف نہ بن سکی یہ حسرت دل میں رہ گئی ہے۔ یادِ ماضی تو ایک جان لیوا عذاب ہے لسانیات ہی کو لے لیں اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نوے سال کی غلامی نے بر صغیر کے مقامی باشندوں کو شدید نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا کر کے ذہنی غلام بنا دیا ہے۔ مغربی ملبوسات کی نقالی نے اب یہاں فیشن کی صورت اختیار کر لی ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں سے مروّج و مقبول الفاظ کی چاہت اب ختم ہو گئی ہے ان کی جگہ جو نئے الفاظ رواج پا گئے ہیں وہ سب کے سب بیرونی ممالک کی زبانوں بالخصوص انگریزی زبان کے ہیں۔ میں خود مغرب زدہ ہوں اس لیے اپنے مشاہدات اور تجربات پر مبنی چند مثالیں پیش کرنا ضروری ہے:

لال کنور اور زہرہ کنجڑن کے زمانے کا کنجڑا آج فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل مر چنٹ کہلاتا ہے، جو پہلے سنار، زرگر یا صراف ہوتا تھا اب وہ جیولر بن چکا ہے، کلانونت کی جگہ میوزک ڈائریکٹر لے چکا ہے، کریانہ فروش یا پنساری اب جنرل سٹور سجائے بیٹھے ہیں، قدیم درزی، خیاط اور رفو گر نئے دور میں ٹیلر کہلاتے ہیں، رنگ ریز کو اب کلر ڈیزائنر کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔ میری جنم بھومی کے قدیم پیشے ماچھی، نان بائی، حلوائی، باورچی، خانساماں، بھٹیارے اور تنورچی سب بیکر بن بیٹھے ہیں، دھوبی، دھوبی کا کتا اور دھوبی گھاٹ عنقا ہیں اب ڈرائی کلین کا زمانہ ہے، مشاطہ کی جگہ بیوٹیشن نے لے لی ہے، تعلیمی اداروں سے شیخ مکتب اور منشی کی چھُٹی ہو گئی ہے اب ماسٹر کا راج ہے، تختی، سلیٹ، سرکنڈے کے قلم، دوات اور روشنائی کی جگہ ورک بُک اور بال پوائنٹ نے لے لی ہے۔‘‘

زادو لُدھیک نے پان کی جُگالی کرتے ہوئے کہا ’’ٹھٹیارے، بھٹیارے، نہارے اور سب قسمت کے مارے کب کے ملک عدم سدھارے اب تو ہیں ہم جیسوں کے وارے نیارے۔ پانی پت کے میدان میں جب بابر نے ہماری شاہی ختم کی تو ہمارے آبا نے اپنی جان بچانے کے لیے بہت پاپڑ بیلے۔ وہ جنگل، بیلے اور ویرانوں میں پھیل گئے صرف شکار اور مار دھاڑ پر گزر اوقات کی۔ وہ جانتے تھے کہ متوازن خوراک اور زر و مال کا جسمانی صحت اور ذہنی سکون سے گہرا تعلق ہے۔ جس زمانے میں مغل بادشاہ قبریں اور باغ بنا رہے تھے ہمارے آبا اپنی صحت اور زر و مال بنا نے پر توجہ دے رہے تھے۔ خوراک، ہوس زر و مال اور جاہ و منصب کی اندھی خواہش کے نتیجے میں چاہت اور دنیا داری بڑھ گئی ہے۔ ہمارے خاندان نے میر جعفر، میر صادق، غلام قدر روہیلہ اور سید برادران کے ساتھ بھر پُور تعاون کیا۔ انگریزوں کی آمد کے وقت ہم نے ان کا بھرپُور ساتھ دیا اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ حکومت بدلی تو بے شمار بنیے اور بقال مغربی تہذیب کے نقال بن گئے اور اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ و تمدن سے لا علم ہوتے چلے گئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہماری بڑی بُوڑھیاں مٹی کی ٹھیکری پر پکائے گئے پراٹھے، گندلوں، باتھو، الونک، اکروڑی اور تاندلہ کا خوش ذائقہ ساگ، مولی کی بھُسری، بھت، سب اناجوں اور سب لحمیات کا کھچڑ، گُڑ کی پت، سنجاونا، ڈیہلوں کا اچار، مرُنڈا، پنجیری، ٹِکڑے، چُوری، حنظل اور کوار گندل کا حلوہ، سب سے بڑھ کر جو، جوار، باجرہ، گندم، سوانک، منڈوا اور چینا کا باٹ اور بھُنے ہوئے دانے، پیلوں اور بیر کا پھل سب کو بہت پسند تھا لیکن اب ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ نئی نسل بر گر، سینڈوچ، پیٹیز، ہاٹ ونگ، اِگ رول، پیزا، جل فریزی، اور بے شمار یورپین کھانوں کی رسیا ہے۔ مقامی کھابے اب کہیں نہیں ملتے جسے دیکھو وہ چائنیز اور یورپین کھانوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ پیٹو جنھیں کیک اور پیسٹریوں کی چاٹ لگ جائے وہ بھلا حلوے، سوّیوں، کھیر، بھت اور باٹ کو کیسے پسند کر سکتے ہیں۔ میں نے بہی کھاتہ اور حساب میں جو مہارت حاصل کی وہ سب رائیگاں چلی گئی۔ نئے دور کی آمد سے پرانا حساب ماضی کے قبرستان میں دفن ہو گیا۔ اکثر لوگ میرے نام و نسب کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں لیکن میں یہ بات واضح کر دوں کہ میرے آباء و اجداد کا پیشہ سو پُشت سے گدا گری ہی ہے۔ ماضی کی کرنسی اور ٹکسال اب نا پید ہے مجھے اچھی طرح یا دہے کہ مخیر لوگ ہمارے کشکول میں عام طور پر ایک روپے سے کم کے سکے ڈالتے جن میں پائی، دمڑی، موری والا پیسہ، ٹکا، اکنی، دوّنی، چوّنی، اٹھّنی شامل ہیں۔ اپنی اس خست و خجالت کے باعث وہ نام نہاد مخیر لوگ گویا حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے تھے۔ میری ماں کی تجوری میں اب بھی بے شمار کھوٹے سکے پڑے ہیں جو اُسے بھیک میں ملے تھے۔ بڑے سکے جن میں اشرفی اور بتانا وغیرہ شامل تھے ان کا بھی کسی کو اتا پتا معلوم نہیں۔‘‘

زادو لُدھیک کی یاوہ گوئی حد سے بڑھنے لگی تو ہجوم میں اس کے خلاف نفرت انگیز نعرے بُلند ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر نعمت خان کلانونت سارنگی ہاتھ میں تھامے آگے بڑھا جسے دیکھ کر لوگ اس لیے خاموش ہو گئے کہ شاید یہ کوئی بھانڈ کوئی بھولا بسرا گیت سنا کر محفل کو گرما دے گا۔ نعمت خان کلانونت نے اپنے خاندان کی رسوائے زمانہ جسم فروش رذیل طوائفوں کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُن کے کندھوں پر تھپکی دے کر اُن کا حوصلہ اور جذبہ بڑھایا۔ اس کے جواب میں وہ بھی آداب بجا لائیں اور سینہ تان کر بے خطر آتشِ عشق میں کُود پڑنے کے مذموم ارادوں کا اظہار کیا۔ اس موقع پر نعمت خان کلانونت چُپ نہ رہ سکا وہ کہنے لگا ’’یہ بے ضمیر گنجا بھڑوا زادو لُدھیک بالکل سچ کہتا ہے ہمارے زمانے میں سب چیزیں ارزاں تھیں۔ چاہت میں دنیا داری کی ملاوٹ سے سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا ہے۔ زادو لُدھیک جیسے ننگِ انسانیت حریص، سفلہ، کینہ پرور اور ابلہ دھُول پھانکتے، جُوتیاں چٹخاتے اور در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ چڑھتے سورج کے ایسے پُجاری جن کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشقِ ستم سے معصوم لوگوں کا دِل ٹُوٹ گیا، جب گردشِ حالات کی زد میں آئے تو یہ ہاتھی خو دپہاڑ تلے آ گئے۔ اس کے بعد ان کا جعلی رعب و دبدبہ خاک میں مِل گیا اور اب ان کے دِلِ شکستہ کا حال پُوچھنے والا کوئی نہ بچا سب فصلی بٹیرے لمبی اُڑان بھر گئے۔ سب جانتے ہیں کہ اس قماش کے مسخرے اب کھوٹے سکے اور چکنے گھڑے ہیں۔ ان کا سیاہ دور بیت گیا ہے، اب نیا دور زر و مال کی چکا چوند ساتھ لایا ہے جس کی تابانی سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اب تو کرو فر، کار، کوٹھی اور کلاشنکوف ہی چاہت کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ ذوقِ جمالیات، معیارِ اخلاقیات، حسن و جمال، عشوہ، غمزہ و ادا اور چاہِ زنخداں سے سیراب ہونے کی ہوس سب کچھ ٹکے ٹوکری اور کوڑیوں کے مول قحبہ خانوں میں دستیاب تھا۔ بر صغیر میں برطانوی استبداد کے بعد یہاں کے باشندے اور پُوری معاشرت انگریزوں کے خاندان غلاماں کا روپ دھار چکی ہے۔ ہم دہلی کے خذف ریزے تھے اس لیے ہمارے منہہ سے نکلے ہوئے لفظ زبان دانی کا معیار سمجھے جاتے تھے۔ کرنسی کیا بدلی کے دِل ہی بدل گئے ساتھ ہی جو محاورے ہم بولتے تھے اب ان کا چلن نہیں رہا۔ ہم نے ان محاوروں میں جو طرزِ فغاں اپنائی اس کی باز گشت تو اب بھی سنائی دیتی ہے لیکن ان رواج کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ قندِ مکرر کے طور پر ان میں سے چند محاورے سنیے۔ اس کے بعد یہ آپ کی مرضی ہے کہ اپنی دھُن میں مگن رہتے ہوئے سر پیٹیں یاسر دھُنیں۔ یہ محاورے ہیں ٹکا سا جواب دینا، کوڑیوں کے بھاؤ بِکنا، دمڑی کی گڑیا ٹکا سر منڈائی، اشرفیاں لٹیں کوئلوں پر مہر وغیرہ۔ تان سین ہمارے ہی خاندان کا چشم و چراغ تھا اور گھاسف بقال خان میرا پوتا ہے۔ میرے لیے یہ بات بہت بڑا المیہ ہے کہ آج تو موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی چاہت رکھنے والوں پر بہت برا وقت آ گیا ہے۔ بِین، بینجو، ہارمونیم، الغوزہ، بانسری، ڈھول، ڈھولک، شہنائی، گراموفون، طبلہ، نفیری، ڈفلی، ہرن کا سینگ، خنجری، سارنگی، چمٹا، گھنگرو، پائل اور گھڑا بجا نے والے رخصت ہو گئے اب تو برقی آلاتِ موسیقی ہر جگہ مقبول ہیں۔ نئے دور نے مواصلات کی چاہت کا رنگ و رُوپ بدل دیا ہے۔ اب وہ اُونچی اور لمبی اُڑان بھرنے والے قا صد کبوتر کہاں سے آئیں گے جن کو پیار کے سندیسے دے کر کوئی جگر فگار مہ جبیں حسینہ دہائی دے گی؟

واسطہ ای رب داتوں جاویں وے کبوترا

چٹھی میرے ڈھولنوں پہنچاویں وے کبوترا

ترجمہ: اے کبوتر تجھے رب کا واسطہ جلدی جا

میرا خط میرے ساجن تک جلدی پہنچا

پنگھٹ، پنہاریاں، ڈولی، کہار، پالکی، بچولنیاں، ڈھدو کٹنیاں، مغلانیاں، بھڑوے، ساقی، پیرِ مغاں، گولے، گوالے، گوالنیں اور مٹی کے برتن بنانے کے چاک کیا ختم ہوئے ہر طرف اپنا گریبان چاک کیے عشاق کا جمِ غفیر دکھائی دیتا ہے۔ ماضی بعید میں پائے جانے والے کردار سے عاری یہ کردار نا معلوم کس جہاں میں کھو گئے اب جن کے دیکھنے کو یہ آنکھیں ترستی ہیں۔ ان کے بغیر تو ہم اس دھوپ بھری دنیا میں بالکل تنہا ہو گئے ہیں۔ شادیوں پر رقص و موسیقی کا انتظام کرنا سو پشت سے ہمارا خاندانی پیشہ ہے لیکن اب اس پیشے میں وہ لوگ آگھُسے ہیں جن کا موسیقی کے کسی خاندان سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ نسل در نسل ہمارے آبا نے رقص و موسیقی سے اپنا ناتا برقرار رکھا ہے۔ ہم جہاں بھی پہنچے وہاں عقوبت خانوں، قحبہ خانوں، چنڈو خانوں اور قمار خانوں کی رونق بڑھائی۔ رومان اور جنس کے دل دادہ حسن پرستوں اور رقص و سرود کی شائقین نے ہر جگہ ہمیں بدھائی دی ہم وہ بے ضمیر ہیں جو زندگی بھر خاک چاٹ کر بھی حسن و رومان، جنس و جنون، رقص وسرود اور قحبہ خانے کے نشے سے مخمور رہے۔ اب تو خراباتِ آرزو پر یادِ ایام کا غم اس طرح برستا ہے کہ جل تھل ایک ہو گیا ہے۔

’’یہ سچ ہے کہ قحبہ خانہ، چنڈو خانہ اور عقوبت خانہ ہمارا خاندانی پیشہ ہے۔‘‘ لال کنور نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا ’’ہم نسل در نسل نو عمر لڑکوں، نوجوان مَردوں، سٹھیائے ہوئے اور ضعیف جنسی جنونیوں کی راہ میں آنکھیں بچھائیں اور اُن کا دِل لُبھا کر مقدور بھر ان کی خدمت کی۔ اب زمانہ بدل گیا ہے ہمارا کوئی پُرسان حال ہی نہیں شاہی محلے اور ہیرا منڈی میں خاک اُڑ رہی ہے۔ پائل کی جھنکار کے دیوانے اپنی دکان بڑھا گئے۔ موبائل فون، انٹر نیٹ، سیلفی، ایس ایم ایس، ویب کیم اور آن لائن رابطوں، معاشقوں اور باتوں سے دِل کے سب افسانے ویب سے ہوتے ہوئے دو دِلوں میں اُتر جاتے ہیں۔ شروع میں ویب پر منحصر یہ بے ترتیب اور بے قاعدہ تعلقات اس قدر حسین اور دل کش ہوتے ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ باقاعدہ رشتوں ناتوں میں بدل جاتے ہیں۔ آج کے دور میں مسبی، تفوسی، قفس جانم، شگن، سمن اور کلونت نئے زمانے کی مانگ کے مطابق حسن و جمال کے جلووں کے جال بچھا رہی ہیں۔

ذلتِ عام اور فنائے مدام کا دربار جو کُوڑے کے بہت بڑے ڈھیر پر سجا تھا وہاں کے باسی مزے لے کر باسی سجی کھانے میں مصروف تھے۔ اچانک میں نے ایک فربہ عورت کو دیکھا جو لال کنور کی طرف بڑھ

رہی تھی۔ گردشِ حالات اور بے مہریِ عالم نے اسے پانی پانی کر دیا تھا۔ اس کی کرگسی آنکھیں اُلّو کی آنکھ کے کاجل سے لتھڑی تھیں اور ان میں سے گدلا پانی بہہ رہا تھا۔ لال کنور اور شباہت شمر نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔ یہ زہرہ کُنجڑن تھی جو لال کنور کی ہم مشرب و ہم پیشہ و ہم راز تھی۔

زہرہ کنجڑن نے ایک گرم آہ بھری اور قہقہے لگاتی ہوئی بولی ’’جب میں نے بٹھنڈہ کے قحبہ خانہ میں آنکھ کھولی تو بڑا حسین ماحول تھا۔ ہمارا آبائی پیشہ تو سو پشت سے رقص و سرود کی محفلیں سجا نا ہے لیکن جب میں نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو دل میں نئی امنگوں اور ترنگوں نے سر اٹھایا۔ میں نے ایک کنجڑن کا بھیس بنایا اور ہوس پرست جنسی جنونیوں کا تماشا دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ میرے بناؤ سنگھار، اٹھتی جوانی اور ناز و ادا کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ میرے لیے اپنی تجوری کے دروازے کھول دیتے۔ میرے ٹینڈے، کدو، توریاں، تربوز اور ککڑیاں ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے اور وصل کی ہوس پوری کرتے۔ میری سبزی بازار سے سو گنا زیادہ قیمت پر بک جاتی تھی۔ کالا دھن کمانے والے اپنا منہہ کالا کرنے کی غرض سے ایک کھیرے کو بھی ہیرے کے مول خرید لیتے مجھ سے محض پیاز لیتے وقت وہ بڑے فیاض بن جاتے اور زر و مال سے میری کھاری بھر دیتے۔ جنس کا نشہ تو افیون سے بھی بُرا ہے، اس کے نشے میں مبتلا ہونے والے کے بالین پر حسرتیں آہ و فغاں کرتی ہیں کہ یہ کوئی دم کا مہماں ہے اور اس چراغ سحری کا کوئی بھروسا نہیں۔ خود غرضی، ہوس اور جنس و جنون سے آلودہ ہونے والی چاہت تو دنیا داری کی ایسی دلدل ہے کہ سب کچھ داؤ پر لگا دینے کے باوجود اس سے بچ نکلنا ممکن ہی نہیں۔ یہ ایسی طویل شبِ غم ہے جو سحر سے نا آشنا ہے۔ میں نے کنجڑن بن کر اس قدر خرچی جمع کی کہ قحبہ خانوں میں رقص و سرود کی محفلیں جمانے والی طوائفیں اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتیں۔ میری دولت، ثروت اور چاہت نے مجھے جہاں پہنچایا کوئی اور طوائف اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ ہاں حسد، عناد اور بُغض و کینہ کی خاک اس کے سر میں ضرور پڑے گی۔ کئی جہاں گرد تاجر مجھ سے ملتے اور یہی کہتے کہ مجھ سی حسینہ دنیا میں کہیں نہیں اس کے جواب میں ان کے عقل و خرد کا سفینہ میں ایسے غرقاب کرتی کہ وہ اپنا سب خزینہ میرے قدموں میں ڈھیر کر دیتے۔ میرے حاسدوں میں کون ہے جو شرارے چھُو سکے۔ جب بھی کوئی رقیب میرے خلاف زہر اُگلنے کی کوشش کرتا ہے تو میری جوانی اور طبع کی جولانی اُس کے گلے کی پھانس بن جاتی ہے اور خار زارِ نفرت و رقابت کی راہ میں اُس کی سانس اُکھڑ جاتی ہے۔‘‘

’’کیا خوب ! کس طرح بیچی ہیں سبزیاں تم نے واہ واہ ! ایک پنتھ دو کاج‘‘ گھاسف بقال نے للچائی ہوئی نگاہوں سے زہرہ کنجڑن کو دیکھتے ہوئے کہا ’’تمھارا طریقۂ واردات کیا تھا، میرے دل میں بھی اک لہر سی اُٹھی ہے کہ کاش میرے گھر میں بھی تم کرم فرما ہو کر مجھے بینگن دے جاتیں۔‘‘

’’تم تو خود تھالی کے بینگن اور سبز قدم ہو تمھیں کسی بینگن یا سبزی کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ زہرہ کنجڑن نے ہنستے ہوئے کہا ’’میں بلا روک ٹوک نو دولتیوں اور امیروں کے گھروں میں چلی جاتی۔ بیگمات کو

سبزی فراہم کرتی وہ زنان خانے کے باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مصروف ہو جاتیں جب کہ گھر کے مرد میری آنکھوں کی مستی سے مخمور ہو کر مجھ پر زر و مال نچھاور کر دیتے۔ شربتِ دیدار اور وصالِ یار کے لیے ہر گھر میں نوجوان میری راہ میں آنکھیں بچھاتے اور میں زر و مال کے عوض روزانہ سیکڑوں نو جوانوں کی جذباتی تسکین کو یقینی بناتی۔ شام کو جب دولت اور زر و جواہر سے لدی دن بھر کی تھکن سے چُور گھر پہنچتی تو کچھ دم لے کر قحبہ خانے میں چلی جاتی جہاں جنسی جنونی میرے منتظر ہوتے۔ آہ! ہمارے دور کے دریا دِل لوگ چلے گئے، اب وہ شب و روز اور مہ و سال کبھی نہیں آ سکتے۔‘‘

’’تمھارا طرز زندگی، رہن سہن اور میل ملاپ کا ماحول کیسا تھا؟‘‘ شباہت شمر نے تعجب سے کہا ’’تمھارے پرستار دریا دِل تھے لیکن ہمارا پالا ان لوگوں سے پڑا ہے جو حقیر سی آب جُو سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ ہماری بہت بڑی محرومی ہے کہ ہم نے تمھارا قحبہ خانے کا عہدِ زریں نہیں دیکھا۔ بہ ہر حال میں اسے تمھاری خوش نصیبی قرار دوں گی کہ تم آج کے قحط الرجال کے اعصاب شکن اور لرزہ خیز دور کو دیکھنے کے لیے موجود نہیں ہو۔ تمھارے چاہنے والے تمھاری پذیرائی اور قدر افزائی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے تھے لیکن آج تو ہم بات کریں تو بات پر زبان کٹتی ہے۔‘‘

’’مجھے دیدۂ تر کی یاد ستا رہی ہے اور جب تم نے یہ بات یاد دلائی تو ماضی کے سب واقعات یاد آ گئے۔‘‘ لال کنور نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’ہمارے پُر تعیش قحبہ خانے تو زمین کے اوپر تعمیر کیے جاتے تھے لیکن ہم نے اپنا زر و مال اور اندوختہ زیرِ زمیں بنائے گئے غار نما خُفیہ بھروں میں چھُپا رکھا تھا۔ روزمرہ زندگی میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر گھر کے آنگن میں باولی ہوتی تھی۔ حیف صد حیف کہ نئے دور کے باؤلا پن کے شکار درندوں نے ان گھروں، بھروں اور باولی کا نام و نشاں تک مٹا دیا۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے کیا آئے کہ سب ٹھاٹ نیست و نابود ہو گئے نہ وہ ہنستے بستے قحبہ خانے رہے، نہ بن باقی بچے اور نہ ہی بنجارے۔ وہ تعلقات پانی کے بلبلے اور سطح آب پر بنے نقوش تھے جو تہس نہس ہو گئے، اب کچھ بھی باقی نہیں سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا، یہی تو زندگی کی رعنائیوں کا عبرت ناک انجام ہے۔‘‘

دُور آسمان سے ایک سرخ آندھی اُٹھی، کُوڑے کے ڈھیر کی عفونت اور سڑاند کے بھبوکے پہلے ہی ناقابِلِ برداشت تھے، اس جھکڑ کی وجہ ناگوار تعفن میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ سانس لینا دوبھر تھا۔ یہ شدید متعفن طوفانی جھکڑ قدرے تھما تو گرد میں اٹا ایک دراز قد، تنو مند، قدرے پتلا نوجوان ذلتِ عام اور فنائے مدام کے دربار کے سٹیج کی طرف بو جھل قدموں کے ساتھ چلتا دکھائی دیا۔ جنسی اشتہا سے بھرپوراس نوجوان کی آنکھوں سے ایسی پُر اسرار شعاعیں نکل رہی تھیں جو بے پناہ ہپنیٹک قوت رکھتی تھیں۔ اس کے چہرے پر تاسف اور ندامت کے سائے گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے۔ وہ جس طرف آنکھ بھر کر دیکھتا قحبہ خانوں کی زینت بننے والی عیاش، بے غیرت، بے ضمیر اور جسم فروش رذیل طوائفیں بے ساختہ اس کی طرف کھنچی چلی آتیں۔ اگرچہ وہ مرعوب کُن شخصیت کا مالک تو نہ تھا لیکن اس کی آنکھیں، رفتار اور انداز گفتگو بے شرم اور بے حس تماشائیوں کے لیے بلاشبہ مسحور کُن تھا۔ اس کے ساتھ سیم و زر کے قیمتی زیورات اور نادر و نایاب ہیرے جواہرات سے لدی، زرق برق لباس پہنے ایک عورت ناز و انداز سے چلی آ رہی تھی۔ نہایت پُر شکوہ شکل و صورت، بیش قیمت لباس اور چمک دار ہیرے، جواہرات، موتیوں اور بیش بہا زیورات کی وجہ سے اگرچہ وہ کسی دیس کی انتہائی پُر غرور ملکہ دکھائی دیتی تھی مگر اس کے باوجود اس کے چہرے کی کراہت سے اس کی سادیت پسندی، نخوت اور نجاست جھلک رہی تھی۔ اس عورت کے چہرے پر بے وفائی، پیمان شکنی، ہوس، جنسی اشتہا، احسان فراموشی، محسن کُشی اور موقع پرستی کے گہرے اور انمٹ نقوش اس ہر جائی عورت کی نحوست اور بے توفیقی میں اضافہ کر رہے تھے۔ اس جوڑے کو دیکھ کر کُوڑے کے ڈھیر پر براجمان ہر طوائف، کنچنی، کٹنی، نائکہ، ڈُومنی، رقاصہ، مغنیہ، مشاطہ، خواجہ سرا، بھڑوے، تلنگے، لُچے، اُٹھائی گیرے، مسخرے اور شہدے کے چہرے پر اضطراب اور تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ پہلی بار ڈُوم، ڈھاڑی، بھانڈ اور بھکاری اپنے اپنے ہاتھوں میں بِین تھامے نمودار ہوئے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر سب کو بہت تجسس تھا۔ بعض لوگوں کو اس بات کا گمان گزرا کہ شاید اس قماش کے مسخروں اور جعلی سپیروں کو کسی اژدہا کو پکڑنے کے لیے یہاں مامور کیا گیا ہے۔ سب تماشائیوں کو یہ فکر لا حق تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بُزدِل اور نکھٹو نقلی سپیرے اژدہا پکڑنے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اچانک سٹیج سے ایک اعلان کیا گیا جسے سُن کر سب کی جان میں جان آئی۔ اعلان کرنے والے کی جھینگر جیسی آواز میں نہ تو ترنگ تھی اور نہ ہی لہجہ دبنگ تھا یہ رسوائے زمانہ ٹھگ رمنو تھا، جس نے جنسی جنون سے لبریز اپنی زندگی میں سادیت پسندی کو وتیرہ بنائے رکھا۔ رمنو کا یہ اعلان سُن کر سب کا دِل تنگ تھا:

بجاؤ بھینس کے آگے بِین

اب آیا ہے راسپوٹین

سپیرے زور سے بِین بجانے لگے تو یہ راز کھُلا کہ یہ راسپوٹین تھا اور اس کے ساتھ زارِ روس کی ملکہ تسرینہ تھی جس کے راسپوٹین کے ساتھ گہری وابستگی کے چرچے زبان زدِ عام تھے۔ طوائف مسبی نے جب تسرینہ کو دیکھا تو اس سے لپٹ گئی۔ کُوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے تماشائی مقر رین کی باتیں سُن کر اُکتا گئے تھے۔ بے خوابی کی وجہ سے ان کی نظریں بوجھل تھیں اور وہ بیزاری کے عالم میں مسلسل اونگھ رہے تھے۔

’’اس خبطی، خناس، خر اور باؤلے جنسی درندے کو یہاں آنے کی جرأت کیسے ہوئی؟‘‘ ایک بُوڑھی نائکہ نے اپنی جواں مرگ لے پالک بھیں گی طوائف کو اپنے سینے سے لگا کر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا ’’اس ایذا پسند مُوذی و مکار لعین نے چاہت میں بے ہنگم دنیا داری، ہوس، چالاکی، سفاکی اور جنس کی آمیزش سے ایسی لرزہ خیز اور اعصاب شکن آویزش کو ہوا دی کہ ہوائے جورو ستم سب کچھ اُڑا کر لے گئی۔ اس کینہ پرور بہروپیے نے دہقان، راہب، عامل اور معالج کا سوانگ رچا کر سادہ لوح لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ اپنی سفلگی کے بل پرسفلی علوم، جادو ٹونے، عملیات اور خبثِ باطنی سے اس نے نہ صرف اپنا گھر اور بیوی بچوں کی زندگی برباد کی بل کہ ہزاروں گھروں کو بے چراغ کر کے اس چُغد نے اپنی نحوست اور نجاست کا ثبوت دیا۔ اس اجل گرفتہ اور تقدیر کے سزا یافتہ مجرم کو دنیا بھر کی الم نصیب رقاصاؤں، حرماں نصیب طوائفوں اور مظلوم خواجہ سراؤں کی پھٹکار اور دھتکار کے سوا کچھ نہیں مِلے گا۔ زمین کا یہ بوجھ ہماری نظروں سے دُور کرو۔‘‘

راسپوٹین نے حاضرین کے جذبات کا اندازہ لگا لیا تھا اس لیے اس نے کسی بحث میں اُلجھنے کے بجائے چرب زبانی سے کام لیتے ہوئے اپنی مظلومیت کی داستان سُنا کر لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس عادی دروغ گو اور پینترے باز جنسی بھیڑیے نے اپنی چِکنی چُپڑی با توں سے لوگوں کو بِہلا کر ان کے غم و غصے کو کم کرنے کی خاطر گرگٹ کی طرح کئی رنگ بدلتے ہوئے کہا:

’’اکثر لوگ اپنی زندگی کے من گھڑت افسانے سناتے ہیں لیکن میں اپنی موت کا حقیقی شاخسانہ سناؤں گا جو سب کے لیے عبرت کا تازیانہ ثابت ہو گا۔ اقتدار کے بھُوکے میرے حاسد مجھے اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ انھوں نے مجھے اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے مجھے قتل کرنے کی سازش کی۔ دسمبر کی خون منجمد کرنے والی سردی میں مجھے ایک سائنائیڈ مِلا زہریلا کیک کھانے کے لیے دیا گیا۔ میں سب کچھ جانتا تھا اس کے باوجود میں نے وہ کیک کھا لیا لیکن میری قوت مدافعت نے زہر کے تریاق کا کام کیا۔ جب قاتل نے دیکھا کہ کیک میں ملایا گیا زہر بے کار ہے تو اس نے فوراً شراب میں بہت زیادہ مقدار میں مہلک ترین زہر ملایا اور مجھے پینے کے لیے کہا۔ میں قاتل کی غلط فہمی کو خوب سمجھتا تھا اس لیے میں وہ زہریلی شراب بھی غٹا غٹ پی گیا۔ قتل کے آداب سے نا واقف میرے قاتل یہ دیکھ کر سخت مایوس اور شرمندہ تھے کہ میں اب تک زندہ تھا۔ دو گھنٹے گزر گئے اس کے بعد قاتل نے اپنا پستول نکالا اور میرے سینے میں یکے بعد دیگرے کئی گولیاں پیوست کر دیں۔ میں نے یہ وار بھی سہہ لیا اور باہر نکلنے کے لیے اس گھر کے صحن میں پہنچ گیا۔ میں نے قاتلوں کو بتایا کہ میں روس کی ملکہ تسرینہ کے پاس جا کر تمھارے مظالم کے لیے داد طلب ہوں گا۔ یہ سننا تھا کہ قاتلوں نے میری پیٹھ پر گولیوں کی بو چھاڑ کر دی۔ میں گر پڑا کہ اب میرا جسم نیم جان ہو گیا تھا اس بار میری پیشانی پر گولیاں چلائی گئیں۔ میں اب تک زندہ تھا، غصے کی وجہ سے میرے منہہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔ مجھے نیم جان اور بدن دریدہ حالت میں دیکھ کر میرے قاتل مجھے جھنجھوڑنے اور بھنبھوڑنے لگے اور مجھ پر انتہائی انسانیت سوز جنسی تشدد کیا گیا۔ اگرچہ میں سخت شرمندہ تھا لیکن میں اب بھی زندہ تھا۔ یہ دیکھ کر قاتل حواس باختہ ہو گئے تھے اور مایوسی کے عالم میں انھوں نے مجھے ایک بوری نما کمبل میں بند کیا اور بوری کے گرد مضبوط رسیاں سختی سے لپیٹ دی۔ میرے قاتل انتقام کی آگ میں سلگ رہے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے بے تحاشا پیٹنا شروع کر دیا۔

میری زندگی کی شمع گُل کرنے والے نہیں جانتے تھے کہ زندگی کی تاب و تواں اور ضیا تو میری روح میں نہاں تھی جسے کئی قوی بھُوتوں، چڑیلوں، ڈائنوں اور آدم خوروں نے اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا۔ میں خود سراپا آگ تھا اور جو مافوق الفطرت عناصر میری حفاظت کر رہے تھے وہ بھی آگ ہی تھے۔ میرے قاتل مجھ پر گولیاں چلا کر آگ پر آگ برسا کر میرے اندر کی آگ کو دو آتشہ کر رہے تھے۔ میں نے اپنے غم کا بھید نہ کھولا اور ہر ضرب کے بعد تسرینا کو پُکار ا۔ وہ اور مشتعل ہو گئے اور انھوں نے میرا بوری بند نیم جان جسم اُٹھایا اور اسے گھسیٹتے ہوئے دریائے تیوا پر تعمیر کیے گئے ایک بہت بلند پُل پر لے گئے۔ پُل پہنچ کر میرے قاتلوں نے مجھے دریائے تیوا کی یخ بستہ لہروں میں پھینک دیا۔ رفتہ رفتہ دریائے تیوا کی برفانی لہروں نے میرے اندر جنس کی دہکتی ہوئی آگ ہمیشہ کے لیے بُجھا دی۔ وہ عفونت زدہ بوری جس میں مجھے لپیٹ کر اور رسیوں سے جکڑ کر دریائے تیوا کی منجمد برفانی لہروں میں پھینکا گیا اس کے ایک سرا میری جبیں پر کج ہو گیا۔ میں یہ چاہتا تھا کہ میرے قاتلوں کو یہ گُماں نہ ہو کہ فتورِ جنس کے پاگل پن کو دمِ آخریں میں نے فراموش کر دیا۔ جنس کی آگ میں میری جان تھی اس کے سرد ہوتے ہی میرا جسم بھی ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا ہو گیا جو ملخ و مُور کے جبڑوں میں چلا گیا۔ میرے بعد اہلِ جفا بھی آرام سے نہ رہے اور مصائب کے پاٹوں میں پِس گئے۔‘‘

’’تمھاری کھال گینڈے کی تھی اور آنکھ میں خنزیر کا بال تھا اس لیے کُتے کی موت ہی تمھاری منتظر تھی۔ تم تو ابلیس نژاد درندے تھے اس لیے شیطانی قوتوں نے تمھیں بچانے کی پُوری کوشش کی مگر اذیت ناک موت تمھارا مقدر تھی۔‘‘ ایک طرف سے گرج دار آواز آئی ’’تم نے معالج اور تقدیس کا لبادہ اوڑھ کر اپنے پاگل پن اور باؤلا پن کے ہاتھوں مجبور ہو کر زندگی کا تمام منظر نامہ ہی برباد کر دیا۔ تمھارے ذہنی دیوالیہ پن کے باعث بے لوث محبت، ایثار، وفا اور رومان کی اقدار و روایات قصۂ پارینہ بن کر رہ گئیں تمھاری ہلاکت کے بعد تمھارے بغض و عناد اور جور و جفا کے سب ہنگامے دم توڑ گئے۔ روس کے بادشاہ اور ملکہ کی مطلق العنان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ ظلم کا پھریرا بالآخر سر نگوں ہو کر رہتا ہے اور ہر ظالم اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچتا ہے۔ تمھارا نام محض ذلتِ عام اور فنائے مدام کا حوالہ ہر گز نہیں۔ تمھیں یہاں کسی صورت میں جگہ نہیں مل سکتی، تم اپنے لیے کوئی اور ٹھکانہ تلاش کر لو۔ تم اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز لوگوں کو ساتھ لے کر ہماری نظروں سے دُور ہو جاؤ۔ تمھیں صرف ذلیل کہنا تو ذلیل کی توہین و تذلیل ہے، تم تو ذلیل کی حد سے بہت آگے نکل گئے تھے۔ ہاویہ کے جس دہکتے تنور پر دنیا جہان کے ذلیل اپنا ذلت اور تخریب کا سفر ختم کرتے ہیں تم وہاں سے خباثت، درندگی، نجاست سفاکی اور ہوس کی نئی منزل کی جانب روانہ ہوتے ہو۔ تم جیسے بد قماش، بد طینت، بد معاش، جنسی اور ذہنی مریض کا یہاں کیا کام۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کُوڑے کے ڈھیر پر سجے ذلتِ عام اور فنائے مدام کے دربار میں پائمال، خوار و زبوں اور ذلیل لوگ جمع ہیں لیکن تم جیسے رذیل، وضیع، خسیس، خناس، خون خوار درندے اور ابلیس کو یہاں سے بے نیلِ مرام نکلنا ہو گا ورنہ تم سے نجات حاصل کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔‘‘

اس پُر اسرار آواز کو بعض لوگوں نے فطرت کی سخت تعزیروں کی تنبیہ قرار دیا جب کہ اکثر لوگوں نے اِسے ندائے غیب پر محمول کیا۔ اس آواز کو سنتے ہی راسپوٹین تھر تھر کانپنے لگا اور مارے خوف کے اس کی گھگھی

بندھ گئی۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے ہم مشرب ساتھیوں اور طوائفوں کو ساتھ لے کر وہاں سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

’’جب میری آنکھ کھُلی تو میں نے دیکھا کہ چھت کے شہتیروں کے ساتھ بڑے بڑے چمگادڑ اُلٹے لٹکے تھے۔ باہر نکل کر دیکھا توسامنے کمرے کی منڈیر پر کئی موٹے اُلّو بیٹھے نظر آئے جب کہ کچھ چُغد نیچی اُڑان بھر کے سب کو حیران کر رہے تھے۔ کچھ دُور کُوڑے کے بہت بڑے ڈھیر پر خارش زدہ سگانِ راہ ہڈیاں بھنبھوڑ رہے تھے۔ فضا میں بے شمار کرگس اور زاغ و زغن منڈلا رہے تھے۔ یہ کیسا خواب تھا جس کی تعبیر ہی نہیں ملتی۔‘‘ گھسیارے گھاسف بقال نے اپنی گدھ جیسی گدلی آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید