صفحات

تلاش کریں

ناولٹ: آسیب (ڈاکٹر غلام شبیر رانا)

خزاں کے سکیڑوں مناظر دیکھنے کے بعد بشیر نامی ایک ضعیف معلم اپنے کمرے میں تنہا بیٹھا بہاروں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن سوگ میں گزرنے والی اپنی زندگی کی کلفتوں اور فراموش کردہ اُلفتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اپنی کٹھن زندگی کی بھیانک تیرگیوں کے چیتھڑے اوڑھے اور مہیب سناٹوں سے حواس باختہ اور غر قابِ غم نشیبِ زینۂ ایام پر عصا ٹیک کر وہ اپنی خمیدہ کمر پر ہاتھ رکھے کراہتے ہوئے دیر تک تیزی سے بدلتے ہوئے موسموں کی ہر ادا پر غور کرتا رہا۔ وہ اِس سوچ میں کھو گیا تھا کہ موقع پرست لوگ ہوا کا رُخ دیکھ کر بدل جانے کے بعد اپنی آنکھوں پر ٹھیکری کیوں رکھ لیتے ہیں؟ اس دنیا کے آئینہ خانے میں آستین کے سانپوں، برادرانِ یوسف، ابن الوقت عیاروں اور ہوس پرست حاسدوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں نے اسے پورے معاشرے میں تماشا بنا دیا تھا۔ اس نے اپنی کشت جاں میں رشتہ و پیوند کا جو نرم و نازک پودا لگایا تھا وہ پیہم جگر کے خون سے اُسے سیراب کرتا رہا مگر اجلاف و ارذال اور سفہا کے پروردہ مشکوک نسب کے درندوں نے اُس پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور پامال کر دیا۔ چھے جولائی 2017ء کو بشیر کے نوجوان بیٹے نے اچانک عارضۂ قلب کے باعث عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔ نوجوان بیٹے کی اچانک وفات کے گہرے گھاؤ نے بشیر کو زندہ در گور کر دیا۔ بشیر نے سدا اپنے رفتگاں کو یاد کرتے ہوئے اپنے قلب حزیں کو ان کی یاد سے آباد کرنے کی سعی کی۔ اپنے نوجوان بیٹے کی دائمی مفارقت کے جان لیوا صدمے سے نڈھال بشیر اپنے دِل سے کہنے لگا:

’’سجاد حسین! میں تو تمھیں دیکھ دیکھ کر جیتا تھا، اجل کر فرمان سنتے ہی تم نے میرا خیال کیے بغیر فوراً دشت عدم میں خیمے لگا لیے۔ جب سے تم میری آنکھوں سے اوجھل ہوئے ہو میری بصارت بھی رخصت ہو گئی ہے۔ تقدیر کے ہاتھوں تمھارا چاند چہرہ دائمی مفارقت کی بھینٹ چڑھ گیا اور میں اپنا خورشید جمال لخت جگر منوں مٹی میں چھپا کر دامن جھاڑ کر اپنے گھر میں بیٹھا سوچتا ہوں اس ضعیفی میں باقی ماندہ زندگی کا یہ سفر اب تنہا کیسے کٹے گا؟ تمھارے بعد میری زندگی کو عجیب حالات کا سامنا ہے، گردو نواح کی ساری فضا مسموم ہو گئی اور آبِ رواں نے شعلۂ جوالا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مجھ جیسے نا تواں ضعیف باپ کے لیے تمھارے جیسے وجیہہ اور کڑیل نو جوان بیٹے کو لحد میں اُتارنا کتنی بڑی آزمائش تھی اور یہ کس قدر جان لیوا صدمہ تھا یہ دُکھ تو میں قبر میں بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ چھے جولائی دو ہزار سترہ کی صبح فرشتۂ اجل نے میری زندگی کے گلشن کا سب سے حسین اور عنبر فشاں پھول توڑ کر مجھے وقفِ خزاں کر دیا۔ یہ عطر بیز گلاب کھِلا تو اجل نے اس میں ایساکانٹا چبھا دیا کہ نہ صرف پھول مرجھا گیا بل کہ اس کی نگہداشت کرنے والا بوڑھا باغبان بھی حیرت و حسرت میں ڈوب گیا۔ سجاد حسین تمھاری دائمی مفارقت ایسا دردِ لادوا ہے جس سے میرا دِل دہل گیا۔ تم میرے دل کی دنیا میں ایسی حسین یادیں چھوڑ گئے ہو جو اندیشۂ زوال سے نا آشنا ہیں۔ فضاؤں میں ہر طرف تمھاری یادیں بکھری ہیں، میری پتھرائی ہوئی آنکھیں جس طرف بھی دیکھتی ہیں تمھاری تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ میرے کانوں میں تمھاری مانوس آواز کی باز گشت ہر وقت سنائی دیتی ہے۔ میں تمھارا الم نصیب ضعیف باپ ہوں جس نے اپنے دِلِ حزیں میں تمھاری یادوں کا بیش بہا اثاثہ سنبھال رکھا ہے اور میری آنکھوں سے بے اختیار بہنے والے آنسو دل پہ گزرنے والی سب کیفیات کو سامنے لاتے ہیں۔ اب یہ بات تو صرف میرے خالق ہی کو معلوم ہے کہ میں اپنے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے کب تک اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتا رہوں گا۔ اے میرے دِل تو اب اس بات کا یقین کر لے کہ زندگی بس خواب ہی خواب ہے اور کارِ جہاں محض سراب ہے۔‘‘

بشیر اپنے دل کے معاملات میں بالعموم صرف اپنی ذات سے مشورہ کرتا تھا۔ اس کی طبیعت بہت خراب تھی اور کچھ کھانے پر مائل نہ تھی۔ آج شام سے اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کے مانند برس رہی تھیں۔ اس نے اپنے دِل پر ہاتھ رکھا اور آہ بھر کر کہا:

’’رضوان نے اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کی منگنی میرے بیٹے سے کر دی۔ یہ سمے کے سم کا مسموم ثمر ہے کہ آج مجھے انتہائی کٹھن اور صبر آزما حالات کا سامنا ہے؟ اس پریشاں حالی اور درماندگی میں مفاد پرست لوگ مجھے دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں۔ میں نے جن کے لیے اپنی جان تک داؤ پر لگا دی آج وہی میری جان لینے پر تُل گئے ہیں۔ رضوان جب بیمار ہوا تو میں اس کو لے کر سرگودھا، فیصل آباد، راول پنڈی اور جھنگ کے شفا خانوں میں پھرتا رہا۔ رضوان کی اچانک وفات کے بعد اس کی بیوہ اور اس کی اولاد نے مجھے نفرت اور حقارت سے دیکھنا شروع کر دیا۔‘‘

سال 2019ء آہستہ آہستہ اپنا سفر طے کر رہا تھا، مارچ کی اکتیس تاریخ تھی۔ اگر چہ موسم سرماکی شدت میں کسی حد تک کمی واقع ہو چکی تھی مگربوسیدہ کمبل اوڑھنے کے باوجود اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ اسی دِن عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگوں نے بشیر کی زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دیا تھا۔ یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھیں پر نم ہو گئیں کہ وہ لوگ جو نہ گرد تھے نہ ہی دھُول بل کہ پوہلی، حنظل اور دھتورے کے پھُول تھے اب ٹھگی کے بعد پھُول کر کُپاہو گئے ہیں۔ جان پہچان سے عاری خارش زدہ لومڑیاں بھی ٹھگوں کی شہ پر کتان پہن کر اہلِ درد کو بے دردی سے لوٹتی رہیں۔ ان ٹھگوں کے چور محل میں پروان چڑھنے والا مریل ٹٹو تو اسپان ترکی و تازی کو لات مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ بشیر نے رضوان کی اولاد کو متنبہ کیا کہ وہ جور و ستم اور تکبر سے کام نہ لیں۔ اس کی دوربین نگاہ اور اسلوب کی گرفت سے پناہ مانگیں ورنہ ان کے مکر کی چالوں کے سب حوالوں سے دنیا آگاہ ہو جائے گی۔ یہ سوچتے سوچتے بشیر کی آنکھ لگ گئی۔

اچا نک بشیر نے دیکھا کہ فردوس بریں سے اس کی غم گساری کے لیے کئی رفتگان جن میں اُس کا باپ سلطان خان، ماں اللہ وسائی، بڑا بھائی شیر خان، بہن عزیز فاطمہ، چھوٹا بھائی منیر حسین، بیٹی کوثر پروین اور نوجوان بیٹا سجاد حسین آئے ہیں۔ بشیر نے جب عالمِ خواب میں اپنے ان رفتگاں کو دیکھا تو اُسے بے حد سکون ملا۔ یہی وہ عزیز تھے جن کی یاد سے اس کے دِل کی دنیا آباد تھی۔ بشیرنے کروٹ لی اور آہ بھر کر دائمی مفارقت دینے والے اپنے قریبی عزیزوں سے مخاطب ہوا:

’’آج میرے پاس کچھ بن بلائے مہمان آنے والے ہیں جن میں سے کچھ تو ہاویہ سے آئے ہیں اور کچھ آفت ارضی کے روپ میں یہاں موجود ہیں۔ یہ سب لوگ واہی تباہی بکنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ارضی و سماوی آفات کے چشم دید گواہ آج اس نشست پر حاوی رہیں گے۔ یہ بن بلائے خانہ بر انداز مہمان اپنی خرافت سے حاضرین کی ضیافت کریں گے۔ ذرا غور سے دیکھو پرانے کھنڈرات جو گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ورق اور عبرت کا ایک سبق ہیں وہاں سے چمگاڈر، کرگس، چِیل، چغد اور کلاغ اپنے اپنے ایاغ ڈکا رنے کے بعد اس طرف منڈلا رہے ہیں۔‘‘

دفعتاً مدن محل قلعہ سے کچھ دُور پہاڑی سلسلے میں واقع جبل پور کی طرف سے گرد باد کا ایک بگولہ اُٹھا اور سرخ آندھی کی شکل اختیار کر گیا۔ خراباتوں سے اُٹھنے والی آندھی میں سے اچانک خر قۂ سالوس پہنے ایک آدم خور نمودار ہوا، وہ کفن پھاڑ کر ہرزہ سرا ہوا:

’’بے ادب، بے ملاحظہ بد اطوار، اب یہاں اٹھارہوں صدی عیسوی کے اواخر اور انیسویں صدی عیسوی کے وسط تک نو سو اکتیس بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے اور پس ماندگان کے گھروں کو مسمار کرنے والے جلاد، صیاد، ابلیس نژاد درندے اور پیشہ ور قاتل بہرام کا کہرام مچے گا۔ جب تک دنیا باقی ہے بہرام کے نام پر اس بات کی پھٹکار پڑتی رہے گی کہ اس نے اس خطے میں ٹھگی کی بنیاد رکھی۔ میں یہ شعر بہرام کی نذر کر کے اسے خار افشانی ٔ تُو تکار کی زحمت دوں گا:

کس نے پہلی ٹھگی کی، ٹھگی کی بنیاد رکھی

ذلت کے سارے افسانے خرکاروں کے ساتھ رہے

اب تشریک کرے گا اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ساتھیوں سے بہرام ٹھگ۔ اِس ٹھگ کی بے سروپا گفتگو سے اُس کے گروہ کی نامرادانہ زیست کے سب راز طشت از بام ہو جائیں گے۔ بہرام ٹھگ کے تَطاول سے انسانوں کے تناول کا سلسلہ رُک جاتا تھا۔ وہ طمع کے تین حرفوں کے مانند تہی اور مثنیٰ تھا اور لوگ زندگی بھر اس پر تین حرف ہی بھیجتے رہے۔

’’تُف ہے تیری اوقات اور خرافات پر! تھوہر کا پتا کیا چھوٹا کیا بڑا جس سے بھی واسطہ پڑا معاملہ نکلا بہت ہی کڑا۔ کالی دیوی کے پجاری ایسے ننگ وجود ڈاکو کی تعریف کے پُل باندھنے کی کیا ضرورت ہے ذلت عام اور فنائے مدام کے اس بے ہنگم ہجوم میں سے ایک آواز آئی:

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا

یاں ٹُک نگاہ چُوکی اور مال دوستوں کا

عقبی دروازے سے نکل کر کمر بند سے زرد رنگ کا ریشمی رو مال باندھے ایک شقی القلب ڈاکو آگے بڑھا۔ یہ ٹھگ بہرام تھا جسے اَودھ کے لوگ برہام جمعدار کے نام سے جانتے تھے۔ اس سفاک ٹھگ کی کھلی باچھوں سے خون ٹپک رہا تھا اور ہاتھ اور کلائیاں تازہ خون سے تر تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ناہنجار ٹھگ اور پیشہ ور قزاق ابھی ابھی کسی مظلوم کا خون پی کر اور اس کے خون سے ہاتھ رنگ کر یہاں آیا ہے۔ رسوائے زمانہ ٹھگ بہرام کی آمد پر وہاں موجود جو ڈائنیں، چڑیلیں اور بھُوت بے انتہا خوشی کا اظہار کر رہے تھے اُن میں قفسی، مسبی، ظلی، ثباتی، سمی، جھاڑو، مُر لی، اذکار، گنواراور پتوار شامل ہیں۔

کالی دیوی کی دیوانی بیوہ نائکہ قفسی جو باسٹھ سال کی عمر میں تین ہزار تین سو باسٹھ بیواؤں سے ہاتھ مِل اچکی تھی، ایک ہزار شادی شدہ عورتوں کو طلاق دلوا کر ہزاروں بھڑووں سے آنکھ لڑ اچکی تھی اپنی نحوست دیوانگی اور خست و خجالت پر کبھی شرمندہ نہ ہوئی بل کہ اپنی شرمندگی چھپانے کی غرض سے اس نے درندگی کو وتیرہ بنا رکھا تھا۔ یہ بھیڑیا نژاد ڈائن جس نے کالی بھیڑ کا لباس پہن رکھا تھامرغزاروں کے کئی ہرن چبا گئی اور گرد و نواح کے سیکڑوں گاؤں چر گئی مگر اِس کے مکر کی چالوں کے سامنے مظلوموں کی آہ بے اثر گئی۔

نائکہ قفسی نے اپنا تنور جیسا منھ کھول کر کہا: ’’ہمارے خاندان کا وہ قدیم اور لحیم و شحیم مورث آ گیا جس کے منھ سے نکلنے والا صرف ایک ہی لفظ ’ راموس ‘ سرمایہ داروں، تاجروں، سیاحوں اور عیاشوں کو زینۂ ہستی سے اُتار دیتا تھا۔ میں اور میرے خاندان کے افراد آج جو کچھ بھی ہیں وہ سب اسی ٹھگ کی جوتیوں کا ثمر ہے۔‘‘

گِدھ، چغد اور زاغ و زغن کے ہم سفر سفاک ٹھگ جمعدار بہرام کی کرگسی آنکھوں میں درندگی نمایاں تھی۔ وہ اپنی مخمور آنکھوں کو گھُما کر اس انداز سے دیکھتا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا اس کی آنکھوں میں خنزیر کا بال ہے اس نے سہمے ہوئے حاضرین پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور کہا:

’’اے قلعۂ فراموشی کے اسیرو! میری حیات کا افسانہ سننے کی تمنا رکھنے والے دل گیرو، میرے ساتھ ساتھ چلو اور کفِ افسوس مَلو، اب میری کہانی میری زبانی سنو اور سر دھُنو۔ میری زندگی میں قتل و غارت اور گناہ کی آلودگی کے سوا کیا رکھا ہے؟ تکلف کی رواداری، مصنوعی وضع داری، جعلی ایثار، مفادات کے حصول کی خاطر کی گئی فریب کاری اور مروّت کی اداکاری میری خونخواری سے کم نہیں ہے۔ میں نے سال 1765ء میں مدھیہ پردیش کے شہر جبل پور کے ایک ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی۔ جب میں دس سال کا ہو گیا تو میں نے اپنی شریک جرم محبوبہ ڈولی کے ساتھ مِل کر قتل و غارت اور ٹھگی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ میرے گروہ میں دو سو ٹھگ، قاتل، رہزن اور اُچکے شامل تھے۔ زر، زن اور زمین بٹورنے کی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ورانسی، سوناگاچی کلکتہ، کماتھی پورہ ممبئی، بدھورا پتھ، پونے، میر گنج الہ آباد، دہلی، مظفر پور، ناگ پور سے تعلق رکھنے والی ہر کٹنی، داشتہ دیوداسی، بیسوا، چھنال، نائکہ، گشتی، کسبی اور خواجہ سرا سے میرے گروہ کا پیہم رابطہ رہتا تھا۔ سوچتا ہوں ہونی سے بچنا محال ہے، میری قسمت کا لکھا ہی میرا وبال ہے یا میرا عبرت ناک انجام شامت اعمال ہے۔ مجھ پر مقدمہ چلا اور عدالتی احکامات کے نتیجے میں مجھے سال 1840ء میں دار پر کھنچوا دیا گیا اور میری لاش ایک بلند درخت کی مضبوط ٹہنی سے کئی دِن لٹکتی رہی۔‘‘

یہ باتیں سُن کر رسوائے زمانہ نائکہ قفسی آگے بڑھی اور بہرام ٹھگ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور کہا:

’’مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ تم ہی ہم قحبہ خانوں کے مکینوں کے مورث ادنیٰ ہو۔ گلزار ہست و بُود کو پوہلی، حنظل، دھتورا، اکڑا، کریروں، لیدھا، کسکوٹا اور تھو ہر سے بھر دینے والے میرے پیارے بابا یہ تو بتاؤ تم کن سازشوں کے باعث دامِ اجل میں گرفتار ہو گئے؟

’’اے میری پڑپوتی قفسی! تو ایک آزمودہ کار نائکہ اور جہاں دیدہ کسبی ہے؟ تم نے اپنے بھڑوے شوہرر منو کے ساتھ مِل کر جو لُوٹ مار کی اسے دیکھ کر امریکی ڈاکو جوڑے بونی اور کلائیڈ کی غارت گری ہیچ نظر آتی ہے۔ ‘ ‘ جمعدار بہرام نے اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا ریشمی رو مال فضا میں لہرا کر کہا ’’تیری باتیں سُن کر دِل کو تسلی ہوئی کہ میرے بعد تم نے اور تیری اولاد نے اپنی سادیت پسندی سے سادہ لوح لوگوں کا جینا دشوار کر دیا ہے۔ قحبہ خانے، چنڈو خانے، عقوبت خانے اور چور محل سے نکل کر عشرت کدے تک کا تمھارے صبر آزماسفر کی کیفیات دیکھ کر میں جان گیا کہ جرائم کے دشت خار میں تم نے اپنے جسم کی بازی لگا کر میری اور میرے جرائم پیشہ ٹولے کی پیروی کی۔ گردشِ ایام سدا میرے ساتھ رہی یہ سال 1822ء کی بات ہے کہ میرے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا۔ ولیم بینٹنک کی ہدایت پر مدھیہ پردیش کے ضلع نر سنگھ پور کے انگریز مجسٹریٹ ولیم ہینری سلیمان کے حکم پر متعدد سراغ رساں میرے پیچھے لگا دئیے گئے۔ یہ جاسوس ہر شہر، گاؤں، قصبے، گوٹھ اور گراں میں پھیل گئے اور شکاری کتوں کی طرح میری تلاش میں مصروف ہو گئے۔ سال 1832ء میں آستین کے سانپ میرے درپئے آزار ہو گئے اور میرے ساتھ وہی سلوک کیا جو بروٹس نے جولیس سیزر کے ساتھ کیا تھا۔‘‘

اس انبوہ باد کشاں میں بناؤ سنگھار کیے ہوئے اور محمد شاہ رنگیلے کے دور کی رذیل طوائف ادھم بائی جیسا نیم عریاں لباس پہنے جنسی جنون میں مبتلا ایک لڑکی کافی دیر سے پیچ و تاب کھا رہی تھی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ رذیل طوائف ادھم بائی لباس کے تکلف سے بے نیاز رہتی اور اپنی ٹانگوں پر ماہر مصور سے ایسے بیل بوٹے بنو الیتی کے جن پر چست لباس کا گمان گزرتا۔ شراب کے نشے میں دھت اس دبلی پتلی طوائف زادی کی عمر اکتیس برس کے لگ بھگ تھی۔ اس عیاش لڑکی کی ہئیت کذائی دیکھ کر میر تقی میر کا یہ شعر یاد آ جاتا تھا:

جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے

کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اُس کے بدن کے ساتھ

قحبہ خانے کی مکین اس چڑیل کے چہرے سے گردشِ مہ و سال کے نقوش صاف بتار ہے تھے کہ اس چمن کو تاراجِ خزاں ہوئے بیس برس ہو چکے ہیں اور اِسے ہزاروں مرتبہ لُوٹا گیا ہے۔ ہزاروں بھنورے اور زنبور اِس گل کا رس چُوس کر لمبی اُڑان بھر چکے ہیں۔ اس لڑکی کا نام مس بی جمالو تھا مگرقحبہ خانے اور بازار حسن میں اِس کال گرل کو مس بی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مِس بی آگے بڑھ کر اپنے رذیل خاندان کے سر براہ کے حضور کو رنش بجا لائی اور کہنے لگی:

’’سب لوگ جانتے ہیں کہ آخری عہدِ مغلیہ میں ہمارا تعلق مطلق العنان مغل حاکم جہاں دار شاہ (1661-1713) سے تھا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلے (1702-1748) کے عہد میں ہمارے خاندان کی طوائفوں نور بائی اور ادھم بائی کے عشوہ و غمزہ و ادا کے ہند سندھ میں چرچے تھے۔ ادھم بائی نے ملکہ ہند بننے کے بعد اپنی سال گرہ پر دو کروڑ روپے خرچ کیے۔ ادھم بائی کا بھائی مان خان جو آوارہ گرد رقاص تھا وہ منصب دار بن بیٹھا۔ محمد شاہ رنگیلے کی زندگی میں اور اس کی موت کے بعد جاہل اور کندۂ ناتراش پچاس سالہ جاوید خان نے ادھم بائی کے ساتھ قصر شاہی میں رنگر لیاں منائیں اور سائیں سائیں کرتے جنگل میں درندوں کا راج تھا۔ اس کے بعد فطرت کی تعزیروں کے نتیجے میں سیلِ زماں کے تھپڑوں نے سب کچھ تہس نہس کر دیا اور ادھم بائی کو اندھا کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ گم نامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد زینۂ ہستی سے اُتر گئی۔ محمد شاہ رنگیلے کی محبوب بیوی اور اس کے بیٹے احمد شاہ کی ماں ادھم بائی (مادر ملکہ) جس نے دہلی میں قدسیہ باغ اور سنہری مسجد تعمیر کرائی اس کے مدفن کانشان بھی اب باقی نہیں ہے۔ نور بائی کوقصر شاہی کے سب راز معلوم تھے اوروہ محمدشاہ رنگیلے کی منظور نظر طوائف تھی۔ ایرانی مہم جُو نادر شاہ نے جس نے ہندوستان پر یلغار کے وقت تیس ہزار بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ستر کروڑ روپے لوٹ لیے وہ بھی نور بائی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو گیا اور متاع دِل گنوا بیٹھا۔ کوہ نور ہیرے کا راز نادر شاہ کو نوربائی نے بتایا تھا کہ یہ بیش بہا ہیرا محمد شاہ رنگیلا نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا ہے۔ اس طرح نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا کو پگڑی بدل بھائی بنا لیا اور کوہ نور ہیرا مفتوح بادشاہ سے ہتھیا لیا۔ میری نانی ملکۂ ہند لال کنور کی نواسی تھی اور میرانانا تشفی جو اپنے عہد کا خطرناک ٹھگ تھا نعمت خان کلانونت کا پوتا تھا۔ زہرہ کنجڑن جو قصر شاہی میں لال کنور کے ساتھ رہتی تھی وہ لال کنور کی منھ بولی بہن تھی۔ چونکہ میرا تعلق پس نو آبادیاتی دور سے ہے اس لیے میں نے امریکہ کی قاتل حسینہ ویلما بارفیلڈ (1932-1984: Velma Barfield)، انسانوں کو لقمۂ تر بنانے والے خون آشام نہنگ جو پال (1896-1938: Joe Ball) امریکہ سے تعلق رکھنے والے درندے ٹیڈ بنڈی (1946-1989: Ted Bundy) کی جرائم سے بھر پور زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ سادیت پسندی میری گھٹی میں پڑی ہے اور اب تک میں نے سیکڑوں نوجوانوں کو شادی کا جھانسہ دے کر انھیں کوڑی کوڑی کا محتاج کیا اور وہ در در کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ میری ماں کی ہدایت پر میری بہنیں بھی قحبہ خانے کے دستور کے مطابق خرچی کی کمائی سے بڑے شہروں میں عشرت کدے بن اچکی ہیں۔ آج میری بہنوں اور بھائیوں، ظلی، ثباتی، سمی، جھاڑو، مُر لی، گنوار، اذکار اور پتوار نے ہر طرف اپنی لُوٹ مار کی دہشت بٹھا رکھی ہے۔ شہر کے لوگ کہتے ہیں کہ نائکہ قفسی کی اولاد ایسی ناگنیں اور ناگ ہیں جن کا کاٹا پانی تک نہیں مانگتا۔ یہ سب کچھ میری ماں قفسی کے قحبہ خانے اور چنڈوخانے کا ثمر ہے جہاں شرم و حیا کوغرقاب کر کے زرو مال بٹورنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ میں نے اکتیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے جن رسوائے زمانہ عیار حسیناؤں کی مجرمانہ زیست سے لُوٹ مار کے حربے سیکھے ہیں اُن میں امریکی لٹیری بونی پار کر (1910-1934: Bonnie Elizabeth Parker)، ما بار کر (1910-1934: Ma Barker)، ماری صورت (1823-1865: Mary Surratt)، فرانس کی چارلٹ کورڈے (1768-1793: Charlotte Corday)، آئر لینڈ کی اینے بونی (1697-1782: Anne Bonny)، اور امریکی ڈاکو بیلے سٹار (1848-1889: Belle Starr) شامل ہیں۔ یہ سب میری محبوب جرائم پیشہ خواتین ہیں۔ میرے دِل کی انجمن میں ان عورتوں کے قبیح کردار اور مکر و فریب کے وار سے روشنی ہوتی ہے۔ بیلے سٹار کے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا اُسے محض ایک گھوڑا چُرانے پرسزائے موت دی گئی اور اُسے 1889ء میں گولی سے اُڑا دیا گیا۔ میں نے کئی اصطبل، فیل خانے، فارم ہاؤس، کاریں، بسیں، موٹر سائیکل، ہیرے جواہرات، سیم و زر کے زیورات اور ہوائی جہاز تک لُوٹ لیے مگر کسی کی یہ تاب، مجال اور جرأت نہیں کہ میرا احتساب کر سکے۔ میری کالی زبان اور ہاتھ اس قدر لمبے ہیں کہ کوئی بھی ان سے بچ نہیں سکتا۔ میری نانی کی دادی نور بائی جس کا تعلق محمد شاہ رنگیلا کے دور سے تھا اس کے قحبہ خانے کے سامنے رؤسا، امرا اور منصب داروں کا تانتا بندھا رہتا اور ہر وقت اتنی بڑی تعداد میں رتھ، ہاتھی اور گھوڑے وہاں جمع ہو جاتے کہ وہاں سے گزرنا محال ہو جاتا۔ آج میری بھی یہی حالت ہے شہر کاہر شخص میرانام لیتا ہے اور میرا شیدائی ہے۔‘‘

سر پر تاج سجائے ایک حسینہ آگے بڑھی جس کے حسن و رومان کے تذکروں سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں۔ اس کے چہرے پر محسن کشی، پیمان شکنی اور موقع پرستی کی لکیریں صاف نظر آ رہی تھیں۔ اپنے شوہر کے شطاح قاتل سے پیمان وفا باندھ کر ملکۂ ہند بن بیٹھنے والی یہ نور جہاں (مہر النسا: 1577-1645) تھی۔ شیر افگن کی اس بیوہ نے مغل شہنشاہ جہاں گیر کی بیوی بن کر جنسی جنون اور ہوس مال و زر کی جو حیران کن اور افسوس ناک مثال پیش کی اس کی وجہ سے فطرت کی تعزیروں نے اس کی قبر کو بھی عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ نور جہاں نے مس بی جمالو کی خود نمائی اور تکبر کو دیکھ کر کہا:

’’مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے ایک مشیر ملک مسعود کے کہنے پر میرے باپ میرزا غیاث بیگ کو اعتماد الدولہ کا لقب دیا اور شعبہ دیوان (خزانہ) کانگران بنا یا۔ میری داستان حسرت سن کر ہر شخص دنگ رہ جاتا کہ ہر بڑے سر کے ساتھ انجام کار لوحِ مزار کی صورت میں فقط ایک چھوٹا ساسنگ ہی رہ جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں نے مغل بادشاہ اکبر اعظم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور اپنے حسن و جمال اور عشوہ و غمزہ و ادا کے وار سے شہزادہ سلیم کو دیوانہ بنا دیا۔ حاسدوں کا خیال ہے کہ منھ زور شباب کی شدت سے مغلوب ہو کر میں نے جذبات کی حدت اور احساسات کی تمازت سے اپنی مقناطیسی شخصیت سے کئی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ میں نے مس بی جمالو کی طرح غیر فعال شناسائی کو جگ ہنسائی پر محمول کیا اور سب فاصلے مٹا کر یک جان دو قالب ہو جانے والے تعلق کو حاصلِ زیست قرار دیا۔ سراغ رسانوں نے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر (1522-1605) کو بر وقت بتا دیا کہ اُس کا لخت جگر شہزادہ سلیم انار کلی کے بعد اب سترہ سالہ مہر النسا کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو چکا ہے۔ شہنشاہ اکبر نے اپنے بیٹے کو محبت کی اس آفت نا گہانی سے بچانے کی خاطر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر میری شادی علی قلی خان سے کرا دی اور سکھ کا سانس لیا۔ بنگال کے جنگلات میں ایک شاہی شکارکے دوران میں ایک آدم خور شیر نے ہاتھی پر سوار مغل شہنشاہ اکبر پر حملہ۔ علی قلی خان برق رفتاری سے شیر پر جھپٹا اور خونخوار درندے سے گتھم گتھا ہو کر خنجر کے پے در پے وار کر کے شیر کو ہلاک کر دیا۔ اس بہادری کی وجہ سے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے علی قلی خان کو شیر افگن کے لقب سے نوازا۔‘‘

قفسی نے جب نور جہاں کی باتیں سنیں تو وہ ضبط نہ کر سکی اور بولی:

’’یوں ایرانی سپاہی اور صو بہ بہار کے گورنر علی قلی خان کو تمھاری مصنوعی چاہت، خلوص، جعلی وفا، ایثار اور دردمندی کا ذائقہ چکھنے کا موقع ملا۔ علی قلی خان کے سا تھ شادی کے بعد تمھاری واحد اولاد لاڈھی بیگم پید اہوئی۔ علی قلی خان کے سا تھ اپنی شادی کے بعد وفا کی اداکاری کے عرصے (1594-1607) میں بھی جلال الدین اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم کی نظریں تم پر مرکوز رہیں۔ تم نے بھی راز داری کے ساتھ اس عیاش حاکم کو چُلّو میں اُلّو بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور خوب گل چھرے اُڑائے۔ جنسی جنون پر مبنی تمھاری محبت کا یہ لاوا خفتہ آتش فشاں کی طرح اندر ہی اندر اُبلتا رہا۔ شہزادہ سلیم یہ سمجھتا تھا کہ علی قلی خان اپنی اوقات فراموش کر کے کباب میں ہڈی بن گیا ہے۔ شہنشاہ اکبر کی وفات کے بعد جب شہزادہ سلیم تخت نشین ہوا تو اس نے تمھارے ساتھ باندھے ہوئے پیمان وفا کی تجدید کی خاطر علی قلی خان کو سال 1607ء میں ٹھکانے لگا دیا۔ تمھاری مشاورت سے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق تمھیں قصر شاہی میں طلب کر لیا گیا اور تم نے وہاں بیو گی کی چادر اوڑھ کراپنے مقتول شوہر کے سوگ کی تین سال تک اداکاری کی۔ علی قلی خان جب عدم کی بے کراں وادیوں کو سدھار گیا تو نورالدین جہاں گیر نے 25۔ مئی 1611ء کو تم سے عقد کر لیا، اس وقت تمھاری عمر چونتیس سال تھی۔ تم نے پیہم سولہ برس (1611-1627) تک رعایا کا خون چوسا اور عیاشی کی۔ تف ہے کہ تم نے بیوی سے بیوہ اور بیوہ سے بیوی تک جو سفر کیا تمھیں اس کا کوئی ملال ہی نہیں۔‘‘

نیم عریاں لباس پہنے ہوئے مس بی جمالو نے اپنی بھیں گی آنکھیں گھمائیں اور نور جہاں کو گھورتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد اس ڈائن نے اپنی ماں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا:

’’علی قلی خان کے ساتھ اپنی محبت، وفا اور عہد و پیمان کو قصر شاہی کی بیرونی سیڑھیوں میں دفن کر کے دھیرے دھیرے چلتے ہوئے تم نے جب شاہی محل سرا میں اپنا سبز قدمر کھا تو عبرت سرائے دہر کے موسموں کے مانند تیزی سے بدلتے ہوئے سب رنگ واضح ہو گئے۔ ہر شام قصر شاہی میں تم پریوں کا اکھاڑا سجاتی اور شہنشاہ جہاں گیر وہاں راجہ اندربن کر داد عیش دیتا تھا۔ شہنشاہ جہاں گیر کے ساتھ اپنی شادی کے عرصے (1611-1627) میں تم ہندوستان کے سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھی۔ رعایا کے چام کے دام چلانے کے ساتھ ساتھ تم نے پٹنہ کی ٹکسال سے تیار ہونے والا چاندی کا ایک روپے کا سکہ بھی چلا دیا جس پر ’’نور جہاں‘‘کندہ تھا۔ اس شادی کے بعد تمھاری کوئی اولاد نہ ہوئی اور تُو اپنی بے وفائیوں کی سزا بھگتنے کے لیے بھری دنیا میں تنہا رہ گئی۔ خود غرضی، موقع پرستی اوراقربا پروری میں تُو اپنی مثال آپ تھی۔ تم نے اُس نابینا کو بھی مات دے دی جو ریوڑیاں بانٹتے وقت مستحقین کو خوب چھا نٹتا تھا اور ہر حال میں ریوڑیاں صرف اپنوں ہی میں بانٹتا تھا۔ سب سے پہلے تو تم نے مغل شہنشاہ اکبر سے اپنے ابن الوقت باپ مرزا غیاث بیگ کو اعتماد الدولہ کے بلند منصب پر فائز کرایا اس کے بعد اپنے بھائی آصف خان کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ شہنشاہ جہاں گیر کی بیسویں بیوی کی حیثیت سے تم نے اپنی بیٹی لاڈھی کی شادی شہنشاہ جہاں گیر کے بیٹے شہر یار سے کی اور اپنے بھائی آصف خان کی بیٹی ارجمند بانو بیگم (ممتاز محل) کی شادی شہنشاہ جہاں گیر کے بیٹے خرم (شاہ جہاں) سے کی۔ تمھارا مزاج سازشی تھا، شہنشاہ جہاں گیر کی شدید علالت کے زمانے میں تم نے اپنی بیٹی لاڈھی کے شوہر شہر یار کو اپنے بھائی آصف خان کی بیٹی کے شو ہر شہزادہ خرم کے بجائے بادشاہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ آصف خان کی بغاوت کے نتیجے میں تُو اپنے مکروہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہچانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اقتدار کے بھوکے اور محسن کش آصف خان نے تمھیں زندان میں ڈال دیا اور تمھارے داماد شہزادہ شہر یار کو اندھا کرنے کے بعد اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شاہ جہان نے اقتدار سنبھالتے ہی تمھیں رہا کر دیا اور تمھارے لیے دو لاکھ روپے سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔ اپنے داماد کی ہلاکت کے بعد تم نے پیہم سفید ملبوسات پہنے اور شوہر کی وفات کے بعد باقی زندگی (اٹھارہ سال)کے لیے سفید ردائے بیو گی اوڑھ لی۔ پے در پے حادثات کے باجود بھی تمھارے اندر چھپی ہوئی ہوس پرستی اور خاندانی نمود و نمائش کی تمنا کبھی کم نہ ہو سکی۔ تم نے اُتر پردیش کے شہر آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے سفید سنگ مر مر سے اپنے باپ اعتماد الدولہ کا مزار تعمیر کرایا۔ جالندھر سے سولہ میل کے فاصلے پر سال 1618ء میں تعمیر کی گئی نور محل سرائے بھی تمھاری یاد دلاتی ہے۔ تمھارا تخلص مخفی ؔ تھا اور تُوفارسی زبان میں شعر کہتی تھی۔ فارسی زبان میں تمھارا یہ شعر تو تمھاری قبر کی حالت زار کے عین مطابق ہے:

بر مزار ما غریباں نے چراغے نے گلے

نہ پرِ پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے‘‘

نور جہاں نے جب اِن رذیل طوائفوں کی یہ جلی کٹی سنیں تو اس نے دِل تھام لیا۔ اس نے آہ بھر کر کہا:

’’جو کچھ کہنا ہے کہہ ڈالواس کے بعد جب میری باری آئے گی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘

نائکہ قفسی نے اپنے میلے کچیلے دانت پیستے ہوئے کہا:

’’کاش تم نے اپنی قبر کے بارے میں اُردو زبان کے شاعر تلوک چند محروم کی نظم پڑھی ہوتی اور مقبرہ جہاں گیر کے متعلق مجید امجد کی نظم بھی تمھاری نظر سے گزری ہوتی۔ تم جنسی جنون کے چقماق سے بھڑک کر قصر شاہی میں داد عیش دینے والی ایک ایسی موقع پرست عورت ہو جس نے اپنے شوہر کے قاتل مغل شہنشاہ جہاں گیر سے پیمان وفا باندھ کر اپنی ذات کو نفرتوں کی ایسی خندق میں دھکیل دیا جہاں سے وہ تاریخ کے کسی دور میں باہر نکل نہیں سکتی۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں نے تمھارا حسن و جمال اور اوج کمال حقارتوں کے پاتال میں لا پھینکا۔ دنیا والے چشم تصور سے یادوں اور فریادوں کے اس خرابے میں علی قلی خان کی بیٹی لاڈھی کی بے بسی اور تمھیں جب مغل شہنشاہ جہاں گیر کی بیسویں اہلیہ کے روپ میں دیکھتے ہیں توتمھاری بے حسی کی کراہیں سن کر آہیں بھرتے ہیں۔ عبرت سرائے دہر میں تُو اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں ندامت، کرب، پشیمانی اور غم کاڑھے ہوئے حیرت وحسرت کی مثال بن گئی۔ تمھاری قبر سے کچھ فاصلے پر محسن کش افعی آصف خان کی قبر ہے جسے گردش حالات کے جبر نے ویران کر دیا ہے۔ فضاؤں میں پھیلی ان کی فریادیں صاف سنائی دیتی ہیں کہ جس مکان نے بھی اپنے محسن مکین کو اذیت دی گردش حالات نے اسے کہیں کا نہیں رکھا۔ تاریخی شہر لاہور کی نواحی بستی شاہدرہ میں وسیع رقبے (16.5۔ ایکڑ) پر محیط جس قبر میں تُو آسودۂ خاک ہے اُسے تُو نے تین لاکھ روپے کے زرِ کثیر کی لاگت سے چار سال کے عرصے میں اپنے لیے خود تعمیر کرایا تھا۔ علی قلی خان(شیر افگن)کی بیٹی لاڈھی بھی اسی مزار میں تیرے ساتھ دفن ہے۔ کاش یہ کثیر رقم تُونے کسی دارالامان، شفا خانہ یا جامعہ کی تعمیر پر خرچ کی ہوتی۔ حیف صد حیف کہ جن لوگوں کی آنکھوں میں آصف خان جیسے وضیع اور تیرے جیسی محسن کُش کا بال ہو اُنھیں تو فطرت کی انتہائی سخت تعزیروں کا یہ احوال دکھائی نہیں دیتا مگر دیدۂ بینا سے متمتع حساس انسانوں کے نزدیک نوشتۂ تقدیر کے سب بیان عبرت کے سامان ہیں۔ تمھارے خزاں آمادہ گلشن زیست میں آصف خان جیسے، اکڑا، دھتورا، پُٹھ کنڈا، الونک، اکروڑی، تاندلہ، باتھو، ڈب، کُندر، کسکوٹا، لانی، لیہہ، پوہلی، پاپڑا، تھوہر، ہر مل، سر کنڈا، حنظل، زقوم اور کریروں مزاج خود رو طفیلی بوٹے کا پروان چڑھنا کلیوں، غنچوں اور شگوفوں کومایوسیوں، محرومیوں اور رنج و الم کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتا تھا۔ آصف خان کی پوری زندگی عیاری، مکاری، فریب، ٹھگی اور محسن کشی کی تصویر بن گئی تھی۔ محسن کش سفہا اور اجلاف و ارذال کی نسل سے تعلق رکھنے والے پیمان شکنوں کی اذیت ناک دغا بازیوں کے مسموم اثرات سے خوابوں کی خیاباں سازیاں معدوم ہو جاتی ہیں۔ تمھاری قبروں کے گر دو نواح میں چھائے سکوت مرگ کو دیکھ کر زندگی پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ تمھاری قبر کا موجودہ فرش حکیم اجمل خان (1868-1927) نے سال 1612ء میں تعمیر کرایا۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تمھاراسب جاہ و جلال بہا لے گئے۔‘‘

نور جہاں نے قفسی اور مس بی جمالوکے کبر و نخوت کے ٹیلے پر تیشۂ حرف سے ضرب لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس نے ان طوائفوں کو کو ترکی بہ ترکی جواب دیا:

’’مس بی جمالو! یہ بات کس قدر حیران کن ہے کہ آج مکر وال کے گندی نالی بھی بحر اوقیانوس پر چڑھائی کرنے پر تُل گئی ہے اور موری کی ایک متعفن اینٹ نے تاج محل میں نصب سنگ مر مر سے چشم نمائی کی ٹھان لی ہے۔ تم کس ہوا میں اُڑ رہی ہو اور کٹی ہوئی پتنگ کے مانند کس فضا میں لہراتی پھرتی ہو۔ اونہہ! یہ منھ اور مسور کی دال، اپنی اوقات کو فراموش نہ کرو۔ تمھارے خاندان کی عورتیں تو گھروں میں صفائی کیا کرتی تھیں مگر تم نے تو ہنستے بستے گھروں کا صفایا کر کے انھیں کھنڈر بنا دیا ہے۔ آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو کس بے ڈھنگے انداز میں لیپا پوتی کر کے تم یہاں پہنچی ہو تمھیں کس بات کا خمار ہے۔ تمھاری ہئیت کذائی دیکھ کر ہر با شعور شخص یہی کہے گا کہ کاجل کی کجلوٹی اور پھولوں کا سنگھار۔ قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عقوبت خانے کی گناہوں سے آلودہ زندگی نے تمھاری سوچ ہی بدل ڈالی ہے۔ تمھاری کور مغزی اور بے بصری کا یہ عالم ہے کہ جب تم سے صبح کی پُوچھیں تو تم شام کی کہتی ہو۔ اپنی بتیس سالہ بیٹی مس بی جمالو کو ساتھ لے کر تم دونوں تو طویل عرصے سے شرم و حیا، فہم و فراست اور ہوش و خرد کے پیچھے لٹھ لیے پھرتی ہو۔ تم جیسی کرگس کو گلاب کی قدر کیا معلوم اور چغد سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ہما سے عہدِ وفا استوار رکھے۔ صفی اورنگ آبادی کا یہ شعر تصنع کی مظہر تمھاری آرائش و زیبائش اور جعل سازی کے بارے میں سب حقائق سامنے لاتا ہے:

اچھے گُن دیکھ اچھی شکل نہ دیکھ

سنکھیا بھی سفید ہوتی ہے

میں سوچتی ہوں کہ ترکی، تازی و عراقی اسپ تو میدان مار گئے اب خچر، استر اور حمار کے کان مروڑنے سے کیا حاصل ہو گا؟ ابھی تم نے میرے بارے میں جو بات بھی کی وہ محض خرافات اور کینہ پروری اور حسد کی لائق نفرت اور متعفن مثال ہے۔ اگر اس وسیع کائنات میں خوابوں کا کوئی ذہین اور دیانت دار صورت گر پیمان شکنی، دغا و دُزدی، عریانی و فحاشی، جنسی جنون، تخریب و تحریص، محسن کُشی، طوطا چشمی، قزاقی و چالاکی اور ناز و ادا کی غارت گری کی تجسیم اور مرقع نگاری کا معجز نما کرشمہ دکھا سکے تو جو کریہہ صورت سامنے آئے گی وہ قفسی اور مس بی جمالو سے من و عن مماثل ہو گی۔ تمھارے ستم سہنے والے مظلوم لوگ یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنی بربادی کوقسمت یا تقدیر کے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قفسی اور مس بی جمالو نے محبت کی شاطرانہ اداکاری اور تکلف کی عیارانہ رواداری سے اُنھیں اس طرح مد ہوش کیا کہ اُن کا ہوش جاتا رہا۔ تم ایک خون آشام ڈائن ہو اور تمھاری بیٹی مس بی جمالو ایک خطرناک چڑیل زادی ہے۔ مس بی جمالو! تمھاری چربہ سازی، جسارت سارقانہ اور کفن دُزدی سے پوری دنیا واقف ہے۔ تمھاری خون آشام ڈائن ماں نے بے شمار لوگوں کی زندگی کی تمام موسم وقفِ خزاں کر دئیے اور ہزاروں گھر ویران کر دئیے۔ عشاق کے دل کے گلشن میں جہاں لالہ و گُل اور سر و صنوبر کی فراوانی تھی تمھاری غارت گری کے بعد اب وہاں دھتورا، حنظل، تھوہر، زقوم، پوہلی اور کسکوٹا کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ شہر کے وہ سب لوگ جو غرفہ کی بات سے آگاہ ہیں یہی کہتے ہیں کہ قفسی اور مس بی جمالو کے قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں مے ارغوانی کی فراوانی اور جنسی جنون کی فتنہ سامانی ہے۔ شہر خموشاں میں منشیات فروشوں کو ہیروئن، افیون، چرس، بھنگ، کوڈین اور مارفین کی فراہمی بھی قفسی اور مس بی جمالو کے پروردہ مافیا نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ مگر یہ سب کچھ جاننے کے باوجود حسن پرست نوجوانوں کی تن آسانی اور دل کی ویرانی ان کی سوختہ سامانی کاسبب بن گئی۔ چھاج تو بولے مگر چھلنی کیوں بولے جس میں سیکڑوں چھید ہیں۔ قفسی تُو اپنی اوقات مت بھول اور اپنے ماضی پر نظر ڈال کہ تُو نے اپنے بھڑوے شوہر رمنو کو عالمِ پیری میں گھر سے بے گھر، در بہ در اور خاک بہ سر کیا۔ تیرے قحبہ خانے میں ہر وقت جنسی جنونی مے خواروں اور رقص و سرود کے طلب گاروں ہوس پرست سفہا اور اجلاف و ارذال کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ تو نے قحبہ خانے میں اپنا کام چلانے کی خاطر اپنے شوہر کا کام تمام کر دیا۔ تیری اولاد نے سدا بروٹس کا کردار ادا کیا، اسی شاخ کو کاٹا جس پر ان کا آشیاں تھا، اسی نخل کی جڑیں کھوکھلی کیں جو ان پر سایہ فگن رہا اور اسی تھالی میں چھید کیا جس میں انھیں مدام طعام ملتا رہا۔ قفسی! تُو مشکوک نسب کی ایک ایسی طوائف ہے جس کا آبائی پیشہ سو پشت سے قحبہ گری ہے۔ تم نے شادی کے خواہش مند دولت مند نوجوانوں کو پھانسنے کے لیے اپنی حسین بیٹیوں کو استعمال کیا۔ جو جذباتی، عیاش اور جنسی جنونی امیر نوجوان تمھارے جال میں پھنسے وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے اور وہ زندہ در گور ہو گئے۔ کیا تجھے جلال، رافع، بشیر، محسن، جھابو، تلا، منوہر، کرمو، نتھا اور پھتو بھول گئے ہیں۔ یہ سب تمھارے ہاتھوں لُٹنے کے بعد شہر کی گلیوں میں ناشاد و ناکارہ پھرتے ہیں اور ہر وقت تمھیں کوستے ہیں۔ تم ٹھگوں کی کٹنی، درندوں کی ماں اور عیار نائکہ ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمھاری اور تمھاری اولاد کی جون بدل چکی ہے اور تم سب کھسیانی گربہ کے مانند کھمبا نوچنے اور باؤلی کتیا کی طرح کاٹنے کو دوڑتی ہو۔ کوڑے کے ہر ڈھیر کو سونگھنے اور وہاں سے مفادات کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے تم جیسے خارش زدہ سگان راہ کو احساسِ ذلت دلانے، عہد و پیمان سے انحراف پر مبنی فراموش کردہ داستان سنانے کے لیے ان کی کریہہ، پھُولی ہوئی، حقائق کو بھُولی ہوئی اور عفونت زدہ دُم پر پاؤں رکھ کر تم سب کو فیض احمد فیضؔ کی نظم مشہور ’’کتے‘‘ سناتی ہوں جو تمھارے حسبِ حال ہے۔ اس نظم کے آئینے میں تم اپنی اصل صورت دیکھ لو۔ تمھیں معلوم ہے کہ خارش زدہ سگانِ راہ کے غرانے سے رِزقِ گدا میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہو سکتی۔ اب اپنے بارے میں فیض احمد فیض ؔ کی صدا سنو اورسردھُنو:

کتے

یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کُتّے کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی

زمانے کی پھٹکار، سرمایہ ان کا جہاں بھر کی دھتکار، ان کی کمائی

نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے

غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے

جو بگڑیں تو اِک دوسرے سے لڑا دو

ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو

یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے

یہ فاقوں سے اُکتا کے مر جانے والے

یہ مظلوم مخلوق گر سر اُٹھائے تو انسان سب سر کشی بھُول جائے

یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں یہ آقاؤں کی ہڈّیاں تک چبا لیں

کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے

کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہِلا دے (نقشِ فریادی)



اس کے بعد ایک شخص اُٹھا جو شکل و صورت سے طالع آزما، مہم جُو اور موقع پرست دکھائی دیتا تھا۔ اس نے کہا:

’’میں ہندوستان کی ملکہ نور جہاں کا بھائی آصف خان ہوں۔ ابھی نائکہ قفسی نے میرا نام لیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیٹی ارجمند بانو (ممتاز محل) کے لیے شاہ جہاں کا رشتہ تلاش کیا اور اپنی بہن نور جہاں کو پابند سلاسل کیا۔ میں نائکہ قفسی سے یہ پوچھتا ہوں کہ اس کے بڑے بھائی نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ قفسی نے اپنی سب سے بڑی بیٹی کو جو اس کے حقیقی بڑے بھائی کی بہو تھی اُسے اپنے سسرال میں بسنے نہ دیا اور اسے سبز باغ دکھا کر وہاں سے نکالا اور کالا باغ کے ایک جاگیر دار کے ساتھ اس کی شادی کر کے اپنی تجوری بھر لی۔ کچھ عرصہ پہلے قفسی نے اپنی بھتیجی کو اپنی بہو بنایا مگر جب اس نے مس بی جمالو کی طویل مصروفیات اور اہلِ عالم کے ساتھ پوشیدہ تعلقات پر اعتراض کیا تو اُسے بھی بے نیلِ مرام اپنے میکے جانا پڑا۔ قفسی کی بہو اپنی ساس کو قحبہ خانے کی گھاس کے برابر سمجھتی تھی مگر پڑوسن اور اس کے بیٹوں سے گھل مل جاتی تھی۔ اس معصوم لڑکی کو جب ایک ڈائن سے نجات ملی تو اس کے والدین نے اس کی شادی ایک شریف گھرانے میں کر دی جہاں وہ اب سکون کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ اپنی بھتیجی کو بارہ پتھر کرنے کے بعد قفسی نے مس بی جمالو کے مشورے سے اپنی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز سہیلی کی بیٹی کو اپنی بہو بنا یا جو اس پہلے تین شادیاں کر چکی تھی تھی مگر بعض لوگوں کے خیال میں اس نے انتہائی راز داری سے ایک سو تین شادیاں کیں اور یکے بعد دیگرے سب سے علاحدگی اختیار کر کے وہ اب قفسی کے عیاش بیٹے کے زیرِ دام آ چکی تھی۔ اب قفسی کے سُونے گھر میں بھِڑ، بُوم اور شِپر راج کر رہے ہیں۔ مس بی جمالو کے عشرت کدے کی منڈیروں پر زاغ و زغن، کرگس اور چمگادڑ گردشِ حالات پر آہیں بھرتے ہیں۔ نائکہ قفسی اور مس بی جمالو ایسی ناگنیں تھیں جو مکروال شہر میں تو اپنی ٹیڑھی چال کی وجہ سے رسوا تھیں مگر اپنے شکار کو کاٹنے اور اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے بعد اپنے بِل میں وہ ہمیشہ سیدھی ہی داخل ہوتی تھیں۔ چشم بینا پر یہ بات واضح ہے کہ اِن زہریلی ناگنوں کے پاؤں ان کے شکم میں پنہاں ہیں۔ سانپ تلے کا بچھو جب ڈستا ہے تو ان کی زد میں آنے والے اس قدر گریہ و زاری کرتے ہیں کہ اپنے لواحقین کو سونے نہیں دیتے مگر جو الم نصیب ان ناگنوں کا شکار بنتے ہیں وہ ابدی نیند سو جاتے ہیں۔‘‘

’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔‘‘ مس بی جمالو نے غراتے ہوئے کہا ’’تم نے اپنی بیوہ بہن کو سیڑھی بنا کر قصر شاہی کے بلند مینار تک رسائی حاصل کی اور پھر اسی سیڑھی کو استعمال کر کے زندان میں پھینک دیا۔ تم محسن کش، پیمان شکن اور خود غرض درندے ہو۔‘‘

’’میرے منھ لگنے سے پہلے تم اپنے گریبان میں جھانک لو۔‘‘ آصف خان نے کہا ’’تمھارے سر میں تو خود ستائی اور خود نمائی کا خناس سما یا ہے تمھاری ماں نے بشیر نامی ایک ضعیف معلم کو فریب دیا کہ تمھیں اس کی بہو بنا دیا جائے گا اور تمھاری منگنی اس کے زیر تعلیم ویٹرنری ڈاکٹر بیٹے کے ساتھ کر دی۔ تم نے اکتیس مارچ2019ء کی سہ پہر اُس ضعیف معلم اور محسن کے ساتھ جو توہین آمیزسلوک کیا وہ تمھارے لیے ڈُوب مرنے کا مقام ہے۔ وہ فریب خوردہ الم نصیب ضعیف معلم جس نے تمھاری ایم۔ فل اردو کی سندی تحقیق کے لیے اردو اور دکنی زبان کے افعال کے موضوع پر ملک بھر کے کتب خانوں میں جا کرسے دو سو سے زائد نایاب بنیادی مآخذ تلاش کیے، ان کی عکسی نقول بنوائیں اور مقالے کی تسوید کی۔ اس کے بعد دن رات ایک کر کے چار سو صفحات کا مقالہ لکھا، تمھاری سندی تحقیق کی خاطر لکھے گئے تحقیقی مقالے کی کمپیوٹر کمپوزنگ ضعیف معلم بشیر نے خود کی اور اس کی ہارڈ اور سوفٹ کاپی تمھارے گھر پہنچائی۔ اے ابن الوقت حسینہ! میرا دِل بھی تمھارے سب رازوں کا دفینہ ہے۔ تم نے مکر و فریب، دغا و دُزدی اور جورو ستم سے جو سرقہ کیا ہے اُس نے تمھیں ننگ انسانیت بنا دیا ہے۔ ضعیف معلم بشیر کے لکھے ہوئے مقالے پر جامعہ ایودھیا سے ایم۔ فل اردو کی ڈگری ملتے ہی تمھارے تیور بدل گئے۔ روپ بدلنے میں تم نے تو طوطے اور گرگٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ تم عادی دروغ گو، پیمان شکن، محسن کش اور عیار طوائف ہو تم نے جامعہ میں جھوٹا بیان حلفی کرایا کہ یہ مقالہ تم نے خود لکھا ہے۔ اس دنیا میں تم واحد امیدوار ہو جسے ڈگری ملنے سے بہت پہلے ہی ماہر تعلیم کی حیثیت سے منتخب کر لیا گیا۔ تمھارا میرٹ وہی ہے جسے لال کنور نے ملکۂ ہند بننے کے لیے پیشِ نظر رکھا تھا۔ اب تُو نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ضعیف معلم بشیر اور اس کی بیمار اہلیہ جنھیں تُو پہلے اپنے باپ اور ماں کے برابر درجہ دینے کی اداکاری کرتی تھی اب ان پر بے سروپا الزام لگاتی ہے۔ تمھارے سب جاننے والے یہی کہتے ہیں کہ مس بی جمالو اور نائکہ قفسی اب آسکر ایوارڈ اور اکیڈمی ایوارڈ کے لیے اپنا نام پیش کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں گی۔ تم تو زمین کا بوجھ ہو، لُوٹ مار کی یہ بازی تم ہی ہارو گی اور بہت جلد کوہِ ندا کی صدا سن کر ساتواں در کھول کر تم عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھارو گی۔ تمھارے قحبہ خانے، چنڈٖو خانے، عقوبت خانے اور مرکز مساج کے در و دیوار پر ذلت، تخریب، نحوست، بے غیرتی، بے حسی، بے شرمی اور بے حیائی کے کتبے آویزاں ہو چکے ہیں۔ فطرت کی تعزیریں تمھارے تعاقب میں ہیں تم تو مر کے بھی چین نہیں پاؤ گی۔ تمھاری کریہہ صورت پر نحوست برسے گی، تم کورونا وائرس کی زد میں آؤ گی اور تمھاری لاش گور و کفن کو ترسے گی۔‘‘

قفسی نہایت ڈھٹائی کے ساتھ بھیگی بلی کے مانند کھمبا نوچنے لگی اور اپنے لائق نفرت خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے غرائی: ’’ابھی میری نانی لال کنور کا ذکر ہوا گردش ایام کے نتیجے میں مغل بادشاہ جہاں دار شاہ (1661-1713) مختصر عرصے (27۔ فروری 1712 تا 11۔ فروری 1713) کے لیے بر صغیر کا حاکم بن بیٹھا۔ اس نے ہمارے خاندان کی ایک طوائف لال کنور کو امتیاز محل کا لقب دے کر ملکۂ ہند بنا یا۔ لال کنور اپنے اہل خاندان کے ساتھ جب قصر شاہی میں داخل ہوئی تو جہاں دار شاہ اس سے رازدارانہ لہجے میں جو باتیں کرتا رہا اس کا احوال خود لال کنور بتائے گی۔‘‘

لال کنور نے آگے بڑھ کر بتیس سالہ طوائف مس بی جمالو کو گلے لگا لیا اور کہا:

’’ابھی آصف خان نے میرے بارے میں کہا کہ ہندوستان کی ملکہ بننے کا میرا میرٹ یقیناً میرا بے مثال حسن ہی تھا۔ وہ یہ بھی تو بتائے کہ خود اُس کا میرٹ بھی تو اس کی بیٹی تھی جسے اس نے شہزادہ خرم کے حوالے کر دیا۔ مس بی جمالو! دنیا بھر کی طوائفوں کی اب تم ہی سر خیل ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم نے خرچی کی کمائی سے اس قدر زر و مال جمع کیا ہے کہ ماضی کے قحبہ خانوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ تم نے تو ایک سو کے قریب ضعف بصارت کے شکار ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی آنکھوں میں دھُول جھونکی اور اُن کی بہو بننے کا جھانسہ دے کر ان کی زندگی بھر کی کمائی پر ہاتھ صاف کیا۔ کالا دھن کمانے والے بگڑے ہوئے عیاش امرا اور جاگیر داروں سے زر و مال ہتھیا کر تم نے اپنی تجوری بھرنے میں تم نے سفلگی کی تمام حدیں عبور کر لیں۔ اس دشتِ خار میں جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے ایک مطلق العنان بادشاہ کو اپنی زلفوں کی زنجیر میں اس طرح جکڑا کہ اُس نے مملکت کے سارے وسائل میرے قدموں میں نچھاور کر دئیے۔ تمھاری لوٹ مار سے لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پھر گئی اور ہر طرف تمھارے عشرت کدے بن گئے مگر میں نے قصر شاہی تک رسائی حاصل کی اور بادشاہ کو اپنا تابع فرماں بنا یا۔ اب تم میری داستانِ حرص و ہوس پر دھیان دو اور خود فیصلہ کرو کہ سادیت پسندی میں کون بازی لے گیا۔ شادی کے بعد میرے احمق اور عیاش شوہر مغل بادشاہ جہاں دار شاہ نے مجھ سے کہا:

’’اس وقت تم پورے ہند کے سیاہ وسفید کی مالک ہو۔ کوئی ایسی خواہش جو اب تک پُوری نہ ہو سکی ہو یا کوئی ایسی آرزو جس کی تکمیل کی تمنا تمھارے دل کو بے چین رکھتی ہو۔‘‘

’’ایک حسین منظر دیکھنے کی تڑپ میرے دل میں ہمیشہ رہی ہے‘‘ میں نے آہ بھر کر کہا ’’میں نے آج تک مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی کشتید ریا کی تلاطم خیز موجوں میں ڈُوبتی نہیں دیکھی۔‘‘

’’یہ بھی کوئی اتنی بڑی خواہش ہے جس کی تکمیل کی تمنا تمھیں بے قرار و مضطرب رکھتی ہے‘‘ جہاں دار شاہ نے ہنہناتے ہوئے کہا ’’میں اپنی جاہل، بے بس و لاچار اور مظلوم رعایا کی محض ایک کشتی نہیں بل کہ پُوری مملکت کا بیڑا غرق کر سکتا ہوں قومی مفادات کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ماضی کے تمام ادوار میں حکم رانوں کا وتیرہ رہا ہے۔ ہاہ ہاہ! میں بھی اپنے وقت کا نیرو ہوں روم جلتا ہے تو جلتا رہے مجھے تو ہر حال میں بانسری کی دھُن پر دیپک راگ ہی الاپنا ہے۔‘‘

’’پھر جلدی کرو آج شام ہونے سے پہلے مجھے دریا میں مسافروں سے بھری کشتی ڈُوبنے کا دل کش منظر دکھانے کا انتظام کیا جائے۔‘‘میری طرح سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا جہاں دار شاہ کی آنکھوں میں درندگی کی منحوس چمک پیدا ہو گئی اور وہ کہنے لگا:

’’میں اپنی باقی زندگی تو تمھارے نام کر ہی چکا ہوں اس لیے تمھارے ہر حکم کی تعمیل کی جائے گی کوئی اور خواہش ہو تو ابھی بتاؤ اب تو میری ہر خوشی تمھاری نا آسودہ خواہشات کی تکمیل میں پوشیدہ ہے۔ اس وقت تم ملکۂ ہند ہو اور پورا ہندوستان تمھاری مٹھی میں بند ہے۔ میرے دلِ و جگر کی محفل میں تو صرف لال کنور کے وجود سے شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشقِ ستم کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘

میں نے اپنے مخبوط الحواس جنسی جنونی شوہر کو گھونسہ کار کر کہا ’’یاد رکھو کشتی میں ہر عمر کے مسافروں کی بڑی تعداد سوار کرائی جائے اور ڈُوبنے والوں کو بچانے والا کوئی نہ ہو۔ میں آج شام کا کھانا دریا کی طوفانی لہروں میں ڈُوب کر مرنے والوں کی چیخ پُکار سن کر کھاؤں گی اور اپنے دِلِ حزیں کو بہلاؤں گی۔ میری کڑی کمان کے تیر جیسی چال دیکھ کر بادشاہ اور سب درباری سہم گئے۔ نشے کے عالم میں چلتے چلتے بادشاہ جب منھ کے بل گرا تو میرے پروردہ عیاش مسخرے اس نام نہاد بادشاہ پر جھپٹے اور ٹھڈے مار مار کر اس دائم الخمر جنسی جنونی حاکم کا بھرکس نکال دیا۔ وہاں موجود تسمہ کش، جاروب کش، بادہ کش اور ستم کش سفر رہنے والے محنت کش سب کے سب مضطرب، غرقاب غم، حواس باختہ اور نڈھال دکھائی دیتے تھے، مگر میں ایک گونہ بے خودی و انبساط محسوس کر رہی تھی۔ چلچلاتی دوپہر کا وقت تھا شاہِ بے خبر جہاں دار شاہ نے میری فرمائش کی تکمیل کی خاطر دریائے جمنا کے دوسرے کنارے ایک بے تکلف شاہی ضیافت کا انتظام کیا۔ آن کی آن میں شہر بھر کے ماہر باورچی، مشاق خانسامے اور بھٹیارے اپنا سامان لے کر دعوت کے مقام پر جا پہنچے۔ ان کہنہ مشق اور آزمودہ کار باورچیوں نے پیاز، لہسن، ادرک چھِیل کر کاٹے اور کِیل کانٹے سے لیس ہو کر تیرہ تال لگا کر تیرہ مصالحے تیار کرنے کا آغاز کر دیا۔ ادرک پیسنے والے مصالچیوں کو اس بات کا کوئی ادراک ہی نہ تھا کہ جن اجل گرفتہ لوگوں کو اس جان لیوا دعوت میں مدعو کیا گیا ہے وہ سب کے سب کوئی دم کے مہمان ہیں۔ پکوڑے، زردہ، پلاؤ، کوفتے، گوشت، روٹی اور کڑی کی بر وقت تیاری ان باورچیوں کی کڑی آزمائش بن گئی۔ اجل گرفتہ مہمانوں کی خاطر زردہ اور پلاؤ کی تیاری زور شور سے جاری تھی۔ زردے میں گُڑ ڈالا گیا اور پلاؤ میں اونٹ کا گوشت ڈالا گیا۔ یہ کھانا تو صرف رعایا کے لیے تھا جب کہ شاہی خاصے میں موسمی پھلوں اور خشک میووں کے علاوہ چِڑے، ہرن، تیتر، بٹیر، مچھلی مرغابی، جنگلی کبوتر اور مرغ کے مرغن کھانے شامل تھے۔ میری عزیز اور محرم راز سہیلی زہرہ کنجڑن اور اس کی ہم پیشہ، ہم مشرب وہم جولی طوائفیں بن سنور کر میرے اور بادشاہ کے ساتھ ہی ایک شاہی کشتی میں سوار ہو کر دعوت کے مقام پر پہنچ گئیں۔ کئی لٹھ بردار محافظ، تیر انداز اور سازندے پہلے ہی ایک اور کشتی میں یہاں پہنچ چکے تھے۔ شہر بھر کے ٹھگ، اُٹھائی گیرے، اجرتی بد معاش، منشیات کے عادی، جرائم پیشہ ننگ انسانیت درندے، ڈُوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، تلنگے، وضیع، لچے، شہدے، رجلے، خجلے، بھگتے اور کلاونت بھی بڑی تعداد میں شاہی دعوت پر وہاں اکٹھے ہو گئے۔ پریوں کا اکھاڑہ سج گیا تو جہاں دار شاہ نے راجا اندر کے روپ میں پریوں کے اکھاڑے کا چکر لگایا۔ وہ ہر طوائف سے ملتا، اس سے ہاتھ ملاتا اور خُوب ہنہناتا پھرتا تھا۔ اچانک ایک بہت بڑی کشتی دریائے جمنا میں نمو دار ہوئی جس میں شاہی طعام میں شامل ہونے والے مسافروں کی کثیر تعداد سوار تھی۔ اس کشتی میں امرا، غربا، بُوڑھے، جوان لڑکے، الہڑ مٹیاریں، بچے، عورتیں، مرد، بیمار اور خواجہ سرا سب شامل تھے۔ دریا کی طوفانی موجوں پر بہتی ہوئی یہ کشتی جب دریا کے درمیان پہنچی تو میرے شوہر جہاں دار شاہ نے ہاتھ کو زمین کی طرف کیا اور ملاحوں کو چلّا کر یہ حکم دیا:

’’کشتی کو دریا کی منجدھار میں لے جا کر غرقاب کر دو۔‘‘

سیکڑوں دورِ فلک دیکھنے والے دریائے جمنا کی دیوی یمی اور یمی کا بھائی یما بھی یہ سب باتیں سن رہے تھے اور محوِ حیرت تھے کہ اس عالمِ آب و گِل میں اب کیا گُل کھلنے والا ہے۔ مورخ بھی اسی سوچ میں گم تھا کہ تاریخ کا یہ سبق کیسے واضح کر کے کہ آج تک کسی نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ملاح دِل پہ ہاتھ رکھ کر زیرِ لب بڑبڑا رہے تھے:

’’اگرچہ تاریخ ہماری بے بسی، بے گناہی اور بے حسی پر نفرین کرے گی مگر تعمیل ارشاد کا وقت آ گیا ہے ظل تباہی اب تمھاری رُو سیاہی کی نوبت آ پہنچی۔‘‘ یہ کہہ کر ملاحوں نے شاہی حکم کی تعمیل میں اپنے دِل پہ جبر کر کے کشتی دریائے جمنا کی مہیب طُوفانی لہروں کے گرداب میں ڈبو دی اور خود مشکیزوں کے ذریعے تیر کر کنارے تک آ پہنچے۔ میرے شوہر جہاں دار شاہ نے ملاحوں کو شاباش دی اور میں نے بھی کشتی کے توانا ملاحوں کی مہارت کی بہت تعریف کی۔ یہ قیامت کا منظر تھا ہر طرف شور برپا تھا ’’بچاؤ۔۔ بچاؤ‘‘ کی درد ناک آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ ایک طرف بے بس انسانیت سسک رہی تھی، زندگی ختم ہو رہی تھی اور آہیں دم توڑ رہی تھیں تو دوسری طرف بے حس درندے قہقہے لگاتے کھانے پر ٹُوٹ پڑے۔ جب درندے اپنے پیٹ کا دوزخ بھر چُکے تو ڈُوبنے والی کشتی کے قسمت سے محروم مظلوم انسانوں کی چیخ پُکار ختم ہو چکی تھی اور سب زندگی کی بازی ہار کر عدم کی بے کراں وادیوں کو سدھار چکے تھے۔ یہ لرزہ خیز، اعصاب شکن اور جان لیوا سانحہ دیکھ کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا سچ تو یہ ہے کہ میں پھول کر کُپا ہو گئی اور میں نے ہر وقت نشے میں دھت رہنے والے اپنے بے بصر اور کور مغز شوہر جہاں دار شاہ سے کہا:

’’آج کی پر تکلف اور پر لطف ضیافت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ آج بہت مزہ آیا، ڈُوبنے والوں کی چیخ پُکار اور رقاصاؤں کے پیروں میں بندھی پائل کی جھنکار نے سماں باندھ دیا۔ ثابت ہوا کہ رقص تو چیخ کو سُن کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ رقاصاؤں کو تو اپنے رقص کی جولانیوں سے کام ہوتا ہے۔ کسی نے بھی ڈُوبنے والوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا جرسِ گُل بھی اس منظر کو دیکھ کر محو حیرت تھی۔‘‘

جہاں دار شاہ بولا ’’ہماری راجدھانی میں اس قسم کی ضیافتیں اب کثرت سے ہوں گی۔ اگر ملکۂ عالیہ کا حکم ہو تو ہر روز اسی طرح ایک کشتی دریا میں ڈبو دی جائے، ہمیں تو تمھاری خاطر مقدم ہے۔‘‘

قفسی اور مس بی جمالو کو نعمت خان کلانونت سے قلبی وابستگی تھی۔ نعمت خان کلانونت نے جب اپنے خاندان کی ان طوائفوں کو دیکھا تو اُس کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں۔ اس نے قفسی اور مس بی جمالو کی تعریف کی اور انھیں لوٹ مار کی نئی داستانیں رقم کرنے پر مبارک باد دی۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے نعمت خان کلانونت نے کہا:

’’اس گئے گزرے زمانے میں بھی لال کنور کے پرستاروں میں کمی نہ آئی۔ لال کنور کا وتیرہ تھا کہ وہ ہمیشہ گھی سے بھرے کُپے کے ساتھ جا لگتی اس طرح اُس کی سدا پانچوں گھی میں رہتیں۔ میں ملتان کیا پہنچا سداتفکرات میں گھِرا رہتا۔ اگرچہ میں بہت با رعب تھا لیکن اس نوکری نے مجھے خاک روب سے بھی بد تر بنا دیا۔ دہلی میں تھا تو لال کنور کو آنکھ بھر کر دیکھنے کا موقع مِل جاتا تھا، جب کہ ملتان میں گرد، گرما، گدا اور گورستان کے سوا کچھ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس شہر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ دہلی میں مجھ جیسے منصب داروں کے بارے میں لوگ برملا یہ کہتے تھے کہ اقتدار کے اصطبل میں اب گھوڑے عنقا ہیں، اب تو خر، خچر اور استر ہی راج کر رہے ہیں۔ تخت دہلی کی طرف سے اپنی توہین، تذلیل، تضحیک، بے توقیری اورمسلسل شکستِ دِل کے باعث میں علیل رہنے لگا۔ میں نے اپنے چارہ گر اور مسیحا کو بتا دیا تھا کہ لال کنور کے ہجر میں گھُل گھُل کے میں مُو سا ہو گیا ہوں۔ میری کوئی امید بر نہیں آتی تھی اور نہ ہی لال کنور سے ملنے کی کوئی صورت نظر آ رہی تھی۔ جہاں دار شاہ کے ساتھ شروع میں تو میرا وقت اچھا گُزرا مگر کچھ عرصہ بعد اُسے معلوم ہو گیا کہ میں بھی لال کنور کا شیدائی ہوں۔ وہ مجھے اپنا رقیب سمجھنے لگا اوراسی وجہ سے وہ ہر قیمت پر مجھ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جہاں دار شاہ اور میں نے اخلاقی اقدار اور درخشاں روایات کی پامالی میں جس بے بصری، بد ذوقی اور کور مغزی کا مظاہرہ کیا، اُس کی مہذب معاشرے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جہاں دار شاہ اور میں نے جس حسینہ کو چاہا اپنا لیا، جو مہ جبیں دل کو بھائی اسے فی الفور دل میں بسا لیا۔ نئے نئے نشے تیار کرنے پر زرِ کثیر خرچ کیا اور جو بھی نشہ ملا وہ استعمال کیا۔ جنس و جنوں کا جو انداز بھی سُوجھا اُسے بے دریغ اختیار کیا۔ ہمیں کسی کے خوش یا ناخوش ہونے کی مطلق پروا نہ تھی۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننا اور اپنا اُلو سیدھا کرنا ہمارا وتیرہ تھا۔ جنس اور جذبات کے سیلِ رواں میں ہماری کشتیِ جاں ہچکولے کھانے لگتی اور ہمیں کچھ نہ سُوجھتا۔ جہاں دار شاہ کی کم عقلی کا یہ حال تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ جنس اور جذبات اور حُسن و رومان کے قدیم تصورات اب فرسودہ ہو چُکے ہیں۔ بے غیرتی اور بے ضمیری کی دلدل میں دھنسا یہ موذی و مکار حاکم یہی سمجھتا کہ جب جنس و جنوں سے دل کو قرار ملتا ہے تب ہی سرود عیش گانے اور تیوہار منانے کی سُوجھتی ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ حُسن کی ہر صورت ایک دعوتِ عام کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرے ساتھ جہاں دار شاہ کے اختلافات رفتہ رفتہ بڑھنے لگے۔ در اصل ایک جذبۂ رقابت تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں میں ایک ایسی خلیج پیدا ہو گئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ سلوتریوں سے سُنا تھا کہ گدھے کا ماس کاٹنے کے لیے کُتے کے دانت درکار ہیں۔ میں نے جہاں دار شاہ کا تختہ اُلٹنے کے لیے ایک مغل شہزادے فرخ سیر سے رابطہ کیا۔ وہ میری بات سن کر پھڑک اُٹھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ پہلے ہی اس مہم جوئی کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ میں نے ہمدم دیرینہ بادشاہ گر سادات بارہہ کے سرغنہ حسین علی کو اپنے اور فرخ سیر کے عزائم سے آگاہ کیا۔ میری باتیں سُن کر حسین علی کی آنکھوں میں ایک خوف ناک چمک پیدا ہوئی اور وہ مسکراتے ہوئے بولا:

’’میں وہ ہوں جس شہزادے کو جُوتا ماروں وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔‘‘

میں نے کہا ’’اس بار تو اپنے بوسیدہ کفش کا ہما فرخ سیر کی گنجی کھوپڑی پر بٹھا دو، اس سے بہت سے طالع آزما اور مہم جُو موقع پرستوں کا بھلا ہو گا۔ سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک پھر سے آ ملیں گے۔ آہ! خورشید جمال لال کنور جب اپنے عیاش شوہر جہاں دار شاہ سے نجات حاصل کر لے گی تو پھر اپنے پُرانے آشناؤں کی طرف بھی کچھ توجہ دے گی۔‘‘

بادشاہ گرحسین علی نے میری آہ و زاری سُن کر کہا: ’’میں توسیاسی شطرنج کے مہرے بدلنے کا ماہر ہوں۔ عشق کی بازی میں تو جان تک بھی داؤ پر لگائی جاتی ہے، اس لیے اپنی جان کو داؤ پر لگا کر عشق کی بازی کھیلنا میرے بس سے باہر ہے۔ تمھاری خواہش اور فرخ سیر کی ہوس جاہ و منصب کی تسکین کے لیے جہاں دار شاہ کو ٹھکانے لگا کر اُس کی جگہ ایک نئی کٹھ پتلی کی صورت میں فرخ سیر کو تو شاہ شطرنج کی صورت میں تخت شاہی پر بٹھایا جا سکتا ہے مگر جہاں دار شاہ کی ملکہ لال کنور کو کسی اور عاشق کی آغوش میں ڈالنا میرے لیے نا ممکن ہے۔‘‘

حسین علی کا روکھا جواب سن کر میں نے کہا ’’تم صرف جہاں دار شاہ کو میرے راستے سے ہٹا دو باقی کام میں اپنی قسمت پر چھوڑتا ہوں۔ اگر لال کنور کے دل میں میرے ساتھ گزارے ہوئے شب و روز، بچپن کی محبت، جوانی کی ترنگیں، جذبات کی اُمنگیں، شباب کے پر کیف لمحات اور خلوت میں گزرنے والے مسحور کن اوقات کی یاد باقی ہو گی تو وہ بیوگی کی چادر اوڑھ کر بھی کچے دھاگے سے کھنچی میرے پاس چلی آئے گی۔ مجھے دیکھ کر وہ ردائے غم اُتار پھینکے گی اور سولہ سنگار کیے، طلائی زیورات پہنے اور گوٹے کی دھاریوں والی کیسری چُنی اوڑھ کر بے تابانہ مجھ سے آ لے گی۔‘‘

خفیہ طور پر طے شدہ منصوبے کے مطابق فروری 1713 میں فرخ سیر کی فوج کی یلغار کے سامنے جہاں دار شاہ کے پروردہ بانکے، کلاونت، ڈُوم اور مسخرے ٹھہر نہ سکے اور دُم دبا کر بھاگ نکلے۔ جہاں دار شاہ اور اس کے معتمد ساتھی ذوالفقار خان نے بھیس بدل کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن فرخ سیر کے سپاہیوں نے ان بُزدل موقع پرستوں کو دبوچ لیا اور انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ جب فرخ سیر فاتحانہ انداز میں قصرِ شاہی میں داخل ہوا تو ہاتھی پر بیٹھے جلاد نے جہاں دار شاہ کا سر نیزے کی نوک پر بلند کر رکھا تھا۔ جہاں دار شاہ کا دھڑ ایک اور ہاتھی کی دُم سے بندھا زمین پر گھسٹتا چلا آ رہا تھا۔ تیروں سے چھلنی ذوالفقار خان کی لاش تیسرے ہاتھی کی دُم سے بندھی تھی، زمین پر مسلسل گھسٹنے کی وجہ سے یہ لاش بُری طرح مسخ ہو چُکی تھی۔ لال کنور نے پہلے ہی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا رکھا تھا اس نے زر و مال اور ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی اپنی گٹھڑی بغل میں دبائی اور چادر اوڑھ کر فرار ہونے کے لیے باہر لپکی۔ فرخ سیرکے حفاظتی دستے کے مسلح سپاہیوں نے اس مکار جسم فروش طوائف کو پہچان لیا اور اس سے گٹھڑی چھین کر ایک طرف دھکا دیا۔ نیم عریاں لباس پہنے لال کنور زمین پر منہ کے بل بے سُدھ گری پڑی تھی۔ فرخ سیر کی فوج کے ہاتھیوں کی ایک قطار اُسے روندتی ہوئی آگے نکل گئی۔

میں وہاں سے فرار ہو کر تھر تھر کانپتا ہوا صحرائے تھر میں پہنچا اور زندگی کے باقی دن تارک الدنیا سادھو بن کر گُزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اپنے مداحوں اور پرستاروں کو اپنے آبائی فن موسیقی، رقص اور آلات موسیقی کے استعمال کا ہنر خوب سکھایا۔ میرے خرمن کے خوشہ چینوں نے راگ اور موسیقی کے جن آلات میں اپنی صلاحیت، محنت اور مہارت کا لوہا منوایا ان میں الغوزہ، بِین، بانسری، بِگل، گیٹار، پکھاوج، پیانو، پی پا، تنبورا، ترہی، خنجری، جل ترنگ، چمٹا، دف، دوتارہ، ڈُگڈگی، ڈرم، ڈھول، ڈھولک، سارنگی، سنکھ، ستار، سرود، سُر بہار، شہنائی، طبلہ، کرتال، کمانچی، گراموفون، گھنگرو، گھڑا، مُرلی، منجیرا، وائلن، وینا اور ہارمونیم شامل ہیں۔ یہی آلاتِ موسیقی زندگی بھر ہم سب کلاونتوں کا اوڑھنا بچھونا رہے۔ دیپک راگ میری اولین چاہت تھی اور میری زندگی اسی میں سلگتے سلگتے بِیت گئی۔ میں زندگی کی بازی ہار گیا اور پیمان شکن لال کنور ملکۂ ہند بن کر جیت گئی۔ ایک بات میرے لیے قابل فخر ہے کہ ہمارے خاندان کی نائکہ قفسی اور اس کی بیٹی مس بی جمالو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے، اپنا اُلّو سیدھا کرنے، محسن کُشی اور پیمان شکنی میں ہم سے سبقت لے گئی ہیں۔‘‘

نائکہ قفسی اور اس کے دیرینہ آشنا بھڑوے جھابو کے معاملے میں تاریخ نے محمد شاہ رنگیلے کی بیوہ ادھم بائی اور اُس کے عاشق جاوید خان کی مثال کو دہرایا۔ مکر وال کے لوگ نائکہ قفسی کے قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عقوبت خانے کے سامنے ایک گدھا اور خارش زدہ کتیا باندھ دیتے اور کہتے اس دشت خار میں قدم رکھنے سے پہلے اور قحبہ خانے کے مکین ننگ انسانیت درندوں سے ملنے سے پہلے اس خر اور کتیا کو بھی ایک جھلک دیکھ لو جو کہ جھابو اور قفسی سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ مارچ 2020ء کا مہینا ا پنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ چوبیس مارچ کو ملک بھر میں کورونا وائرس کے باعث چودہ اپریل 2020ء تک کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا۔ اکتیس مارچ 2020ء کی شام نائکہ قفسی کے قحبہ خانے کی سب رذیل طوائفوں اور بھڑووں کے لیے ایسی عبرت ناک شام عذاب ثابت ہوئی جو آئی مگر نہ تو ڈھلی اور نہ ہی ٹلی۔ نائکہ قفسی اور مس بی جمالو کے قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عقوبت خانے کے نواح میں واقع مزدوروں کی بستی کے مکینوں نے بتایا کہ آدھی رات تک تو ان طوائفوں کے عشرت کدے سے ساز، سریلی آواز اور رقص کی دھمال کی آواز سنائی دیتی رہی۔ رات ڈھلنے کے بعد کھانسنے اور چھینکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ گھنے جنگل سے ایک دراز قد اور تنو مند آسیب نمودار ہواجس کے ساتھ دس کے قریب چڑیلیں، کئی بھوت اور ڈائنیں بھی تھیں۔ ان سب کی کریہہ آنکھوں اور بھاڑ جیسے منھ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ اس انتہائی پر اسرار مخلوق کے چلنے سے نزدیکی علاقے کی زمین لرزنے لگی اور گردو نواح کا پورا ماحول خوف و دہشت میں ڈوب گیا۔ نا معلوم کس طرف سے بُوم، چغد اور شِپر کے غول کے غول اُمڈ آئے۔ یہ سب طیور اُس خوف ناک آسیب کی ہدایت پر نائکہ قفسی اور مس بی جمالو کے قحبہ خانے اور چنڈو خانے پر نیچی پرواز کر کے لگاتار اس پر ضماد گرا رہے تھے۔ پہلے بھی یہ علاقہ نائکہ قفسی اور مس بی جمالو کے قحبہ خانے اور چنڈو خانے کی وجہ سے بے حد متعفن تھا مگر اُس رات توہر طرف سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے۔ اس کے بعد ان طوائفوں کے گھر کے سامنے کھمبے پر رکھے بجلی کے ٹرانسفارمر میں اچانک آگ بھڑک اُٹھی۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کی آواز دُور تک سنی گئی۔ دھماکہ ہوتے ہی نائکہ قفسی کے قحبہ خانے میں ہر طرف آگ کے شعلے بلند ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت ملبے کے ڈھیر میں بدل گئی۔ طوائفوں کاسب اثاثہ جل چکا تھا اگلی صبح کچھ سر پھرے جعل ساز، فصلی بٹیرے اور اُچکے قحبہ خانے کی طوائفوں کی چاندی کی صراحی دار گردنوں میں پہنی ہوئی سونے کی گانیوں، پنڈلیوں میں بندھی سیمیں پازیبوں اور پتلی کلائیوں میں پہنی بھاری طلائی چُوڑیوں کی تلاش میں وہاں جا پہنچے اور راکھ کریدنے لگے۔ قحبہ خانے کے ملبے کی راکھ سے صرف ایک آہنی لوح بر آمد ہوئی جس پر جلی حروف میں کندہ تھا:

’’اے چیرہ دستو! فطرت کی سخت تعزیروں سے ڈرو، نظام قدرت میں انصاف کی فراہمی میں کچھ دیر تو ہو سکتی ہے مگر وہاں اندھیر کا کوئی تصور ہی نہیں۔‘‘

انسانی زندگی میں ایسے مراحل بھی آتے ہیں جہاں عالم خواب میں زندگی کے تلخ حقائق سے آگہی ملتی ہے اور لا ینحل مسائل کی گرہ کشائی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ نیند میں جب ایسی کیفیت ہو تو بیداری کے سرابوں پر اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ اچانک بشیر نے دیکھا کہ رضوان سر جھکائے دبے پاؤں وہاں سے گزرا۔ اس کے چہرے پر تاسف اور ندامت کے آثار نمایاں تھے اور وہ خاموش تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بشیر کے ساتھ اس کے پس ماندگان نے جو پیمان شکنی اور محسن کشی روا رکھی وہ اس سے دل گرفتہ ہے۔ اچانک بشیر نے اپنے مرحوم باپ رانا سلطان کی مانوس آواز سنی:

’’بشیر! جو ڈرامہ دیکھ کر تم بہت دِل گِیر ہو اس کا مسودہ تو خود رضوان نے تحریر کیا تھا۔ رضوان ہی اس ڈرامے کا ہدایت کار تھا اور سب اداکار اُسی کی ہدایات کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ رضوان جب ساتواں در کھول کر نکل گیا تو اُس کی اہلیہ نے ڈرامے کی ہدایت کاری اور فریب کاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ جور و ستم اور ہوسِ زر و مال میں قفسی بھی اپنے شوہر سے دو ہاتھ آگے نکل گئی ہے۔ فصلی بٹیرے اب غائب ہو گئے ہیں اور طیور آوارہ نے تمھارے خرمنِ علم و ادب کے سب دانے چُگ لیے ہیں۔ تمھارے ترکش میں اب کوئی تیر باقی نہیں جب کہ ٹھگوں کی تیر اندازی کا سلسلہ جاری رہے گا اور تمھاری آرزوئیں مات کھا کر رہ جائیں گی۔ ناگ اور ناگنیں تمھیں کاٹ کر نکل گئیں اب لکیر پِیٹنا بے سُود ہے۔‘‘

بشیر یہ ندائے غیب سُن کر چونک اُٹھا اپنے دیرینہ رفیق رضوان کو دیکھتے ہی بشیر نے کہا:

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

دِل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارا کر کے

رضوان کھانستا ہوا بیتے لمحات کے مانند دل پر گزرنے والے صدمات کے نقوش چھوڑ کر آگے نکل گیا۔ اس اثنا میں بشیر کی آنکھ کھُلی تو وہ سوچنے لگا نیند نے کس قدر دیانت داری اور راز داری سے کام لیتے

ہوئے لوحِ جہاں میں محفوظ تاریخ کے منتخب اوراق سے ایسے معانی و مفاہیم اخذ کیے ہیں جو اس کی باقی زندگی کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوں گے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی



ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید