صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ: آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا!(قرۃ العین حیدر)

جولائی ۴۴ء کی ایک ابر آلود سہ پہر جب وادیوں اور مکانوں کی سرخ چھتوں پر گہرا نیلا کہرا چھایا ہوا تھا اور پہاڑ کی چوٹیوں پر تیرتے ہوئے بادل برآمدوں کے شیشوں سے ٹکڑا رہے تھے۔ سوائے کے ایک لاؤنج میں۔ تاش کھیلنے والوں کے مجمع سے ذرا پرے ایک میز کے گرد وہ پانچوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔ وہ پانچوں۔۔۔ ان پورنا پربھاکر ناہید انور امام راج کمار آسمان پور لفٹنٹ کرنل دستور رستم جہانگیر اور ڈون کارلو۔ اگر اس وقت اون لُکر کا کوئی ذہین اور مستعد رپورٹر اپنے کالموں میں ان کا مفصل تذکرہ کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتا۔۔۔

’’ان پورنا پربھاکر برجیشور راؤ پربھاکر ارجن گڑھ کے فنانس منسٹر کی دل کش بیوی گہرے سبز رنگ کے میسور جارجٹ کی ساری میں ملبوس تھیں جو ان کی سبز آنکھوں کے ساتھ خوب ’’جا‘‘ رہی تھی۔ ان کا کشمیری کام کا اور کوٹ سفید رنگ کا تھا جو انہوں نے اپنے شانوں پر ڈال رکھا تھا۔ ان کے خوب صورت کانوں میں کندن کے مگر جھلکورے کھا رہے تھے۔ جن کی وجہ سے ان کی چمپئی رنگت دمک رہی تھی۔ ناہید انور امان گہرے نارنجی بڑے پائنچوں کے پاجامے اور طلائی کارچوب کی سیاہ شال میں ہمیشہ کی طرح بے حد اسمارٹ لگ رہی تھیں۔ راج کمار روی شنکر سیاہ شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامے میں اسمارٹ معلوم ہوتا تھا کہیں ڈنر میں جانے کے لیے تیار ہو کر آئے ہیں۔ کرنل جہانگیر براؤن رنگ کی شیپ اسکن جیکٹ میں ملبوس بے فکری سے سگار کا دھواں اڑاتے غیر معمولی طور پر وجیہ اور شان دار نظر آتے تھے۔ مس انور امام کا بے حد مختصر اور انتہائی خوش اخلاق سفید کتا بھی بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔‘‘

برابر کی میزوں پر زور و شور سے برج ہو رہا تھا۔ اور ان پانچوں کے سامنے رکھا ہوا قہوہ ٹھنڈا ہوتا جا رہا تھا۔ وہ غالباً ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ تین دن سے برابر بارش ہو رہی تھی۔ نہ کہیں باہر جایا جا سکتا تھا نہ کسی ان ڈور قسم کے مشغلے یا موسیقی میں جی لگتا تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ سیزن حد سے زیادہ ڈل ہوتا جا رہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے رنک بند کر دیا گیا تھا۔ اور اس میں فوجیوں کے لیے کینٹین بن گئی تھی۔ سڑکوں پر ہوٹلوں اور دوکانوں میں ہر جگہ ہر تیسرا آدمی وردی میں ملبوس نظر آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں سے بہت سے واپس جا چکے تھے۔ جنوبی ہند اور یوپی والے جون ہی سے اترنے لگے تھے۔ دلی اور پنجاب کے لوگوں نے اب آنا شروع کیا تھا۔

ان پورنا پربھاکر دل ہی دل میں اس دھن کو یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو اس نے پچھلی شام نی نی سے پیانو پر سنی تھی۔ ناہید انور امام کرسی کے کشن سے سر ٹیکے کھڑکی سے باہر نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں کورٹ یارڈ کے پختہ فرش پر اکا دکا آدمی آ جا رہے تھے۔ دونوں طرف کے ونگز کے برآمدوں میں بیرے کشتیاں اٹھائے سائے کی طرح ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ کرنل جہانگیر جو ایران مصر انگلستان اور جانے کہاں کہاں گھوم کر اسی مہینے ہندوستان واپس لوٹے تھے۔ پچھلے پندرہ دن میں اپنی سیروں کے سارے قصے سنا کر ختم کر چکے تھے اور اب مکمل قناعت اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھے سگار کا دھواں اڑا رہے تھے۔ راج کمار روی کو اجمیر والے عظیم پریم راگی کی قوالی اور فرانسیسی شرابوں کا شوق تھا۔ فی الحال دونوں چیزیں وہاں دستیاب نہ ہو سکتی تھیں۔ اس لیے انہیں اس وقت خیال آ رہا تھا کہ اگر وہ اپنی راج کماری اندرا ہی سے صلح کر لیتے تو برا نہ تھا۔ لیکن وہ محض ایک اوسط درجے کے تعلقہ دار تھے اور راج کماری راجپوتانہ کی ان سے دس گنی بڑی ریاست کی لڑکی تھی اور ان سے قطعی مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ اور سال بھر اپنے میکے میں رہتی تھی۔

برجیشور راؤ پربھاکر اسی وقت چہل قدمی کر کے واپس آیا تھا اور لاؤنج کے نصف دائرے کے دوسرے سرے پر اپنے چند دوستوں کے ساتھ گولف اور اسٹاک ایکسچینج پر تبادلہ خیال میں مصروف تھا۔ قریب کی ایک میز پر انعام محمود سپرنٹنڈنٹ پولیس جو عنقریب ڈی آئی جی ہونے والے تھے برج کھیلتے کھیلتے سوچ رہے تھے کہ اگر وہ سیاہ آنکھوں اور گھنگھریالے بالوں والی پرتگالی لڑکی نی نی جس نے کل رات پیانو بجایا تھا۔ کم از کم آج ہی کی سرد اور غیر دل چسپ شام ان سے ملاقات کر سکتی تو بہت غنیمت تھا۔ اس سلسلے میں مزید ڈپلومیٹک گفتگو کی غرض سے راج کمار روی کی کرسی کی طرف جھک کر انہوں نے آہستہ سے کچھ کہا۔ راج کمار روی نے بے تعلقی سے سر ہلایا۔ گویا بھئی ہم سادھو سنگ آدمی ہمیں موہ مایا کے اس چکر سے کیا۔ کرنل جہانگیر نے سگار کی راکھ جھٹک کر ذرا بلند آواز سے پکارا۔۔۔ برجیش چلو کم از کم بلیرڈ ہی کھیلیں۔ ’’روی کو لے جاؤ۔۔۔ ہم بے حد ضروری مسائل حل کر رہے ہیں۔‘‘ برجیش نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا اور پھر اپنی باتوں میں اس انہماک سے مصروف ہو گیا گویا اگر اس نے دوسری طرف ذرا سی بھی توجہ کی تو ٹاٹا اور سپلا کے شیئرز کی قیمتیں فوراً گر جائیں گی۔

’’ان پورنا رانی، دیکھو تو تمہارا شوہر کس قدر زبردست بوریت کا ثبوت دے رہا ہے‘‘ کرنل جہانگیر نے اکتا کر شکایت کی۔ ’’بھئی اللہ۔۔۔ برجیش گڈو ہئی اتنا بور۔ جائیے آپ لوگ جا کر کھیلیے ہم تو اب بیگم ارجمند کے ساتھ چائے پینے جا رہے ہیں۔‘‘ ناہید نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ناہید بیگم تمہیں کنور رانی صاحبہ سے جو تازہ ترین خبریں معلوم ہوں۔ ہمیں رات کے کھانے پر ضرور بتانا۔‘‘ راج کمار روی بھی اٹھتے ہوئے بولے۔ ’’قطعی‘‘ ناہید اپنی نقرئی آواز میں تھوڑا سا ہنسی پھر وہ دونوں اپنے اوور کوٹ اور شال سنبھالتی وسط کے ہال کے بڑے زینے کی طرف چلی گئیں۔

’’۔۔۔ نی نی۔۔۔ نی نی۔۔۔ کیا نام ہے واللہ! گویا جلترنگ بج رہی ہے۔‘‘ انعام محمود نے چند لمحوں تک ڈون کارلو کو کرسی پر سے اتر کے اپنے چھوٹے چھوٹے سفید قدموں سے اپنی مالکہ کے پیچھے پیچھے بھاگتا دیکھتے رہنے کے بعد اب ذرا اونچی آواز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔

’’بہت تیز ہوتے جا رہے ہو بھائی جان۔ ذرا نیچے سے آنے دو اپنی بیگم کو کان کھنچوائے جائیں گے تمہارے۔‘‘ کرنل جہانگیر نے ڈانٹ پلائی۔

’’خواتین کہاں گئی ہیں؟‘‘ انعام محمود نے پوچھا۔ ’’بیگم ارجمند کے کمروں کی طرف۔‘‘

’’رانی بلیر سنگھ بھی ہوں گی وہاں؟‘‘

’’یقیناً‘‘

’’نفرت ہے مجھے اس بڑھیا سے۔‘‘ انعام محمود پھر تاش کی طرف متوجہ ہو گئے۔

شام کی چائے کے بعد سب پھر لاؤنج میں جمع ہوئے اور سوچا جانے لگا۔ کہ اب کیا کیا جائے۔

’’کاش خورشید ہی آ جاتا۔‘‘ راج کمار روی نے خواہش ظاہر کی۔ ’’خورشید۔۔۔ واقعی۔۔۔ جانے آج کل کہاں ہو گا۔‘‘ کرنل جہانگیر نے کہا۔ اور پھر سب مل کر بے حد دل چسپی سے کسی ایسے شخص کے متعلق باتیں کرنے لگے جسے خواتین بالکل نہیں جانتی تھیں۔ اکتا کر ناہید نے مسوری ٹائمز کا تازہ پرچہ اٹھا لیا اور اس کے ورق پلٹنے لگی۔ سب ذلیل فلم دکھائے جا رہے ہیں۔ روبرٹ ٹیلر۔ اس سے مجھے نفرت ہے۔ ڈورتھی لیمور میرے اعصاب پر آ جاتی ہے۔ کیتھرین ہپ برن روز بروز زیادہ بد شکل ہوتی جا رہی یہ۔ ہیک منیز میں کسی روسی نام کا کیبرے ہو رہا ہے۔ وہ بھی سخت خرافات ہو گا۔۔۔‘‘ راج کمار روی نے ناہید کی کرسی کے پیچھے سے پرچے کے صفحات پر جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’لہٰذا بہترین پروگرام یہی ہے کہ شریفوں کی طرح گھر میں بیٹھ کر قہوہ پیا جائے۔‘‘

’’اور ان پورنا رانی سے پیانو سنا جائے۔‘‘ کرنل جہانگیر نے جلدی سے صاحبزادہ ارجمند کی تجویز میں اضافہ کر دیا۔ سب ان کی رائے سے اتفاق ظاہر کر کے ان پورنا کو دیکھنے لگے جو اپنی شیریں ترین مسکراہٹ بکھیرتی اسی وقت بیگم ارجمند کے ساتھ ان کی میز کی طرف آئی تھی۔ وہ سب لاونج سے نکل کر نشست کے بڑے کمرے میں آ گئے۔

’’اب ان پورنا رانی کو پکڑو۔‘‘ کسی نے برابر کے کمرے میں زینے پر سے اترتے ہوئے آواز دی۔ ’’جادو جگاتی ہے اپنی انگلیوں سے لڑکی۔‘‘ کنور رانی بلیر سنگھ نے ویپکس سونگھتے ہوئے اپنی بزرگانہ بلندی پر سے ان پورنا کی تعریف کی اور پھر رو مال میں ناک ٹھونس کر ایک صوفے پر بیٹھ گئیں۔

’’ناہید بیٹا تمہیں شاید زکام ہو گیا ہو گا؟‘‘ ان پورنا جب پیانو پر سے اٹھ آئی تو صاحبزادہ ارجمند نے ناہید کو مخاطب کیا۔ ’’ارے نہیں رجو بھیا۔۔۔ کیا گائیں ہم؟‘‘ ناہید نے ہنستے ہوئے چاروں طرف نظر ڈال کر دریافت کیا۔ باہر بارش شروع ہو چکی تھی۔ خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔

جب ناہید اپنی نقرئی آواز میں‘‘ نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپ رہی تھی اس وقت ان پورنا کو اپنی نٹنگ سنبھالتے ہوئے دفعتہً خیال آیا۔۔۔ زندگی کم از کم اتنی ناگوار نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ اس نے محسوس کیا جیسے پر خطر طوفانوں اور تند رو آندھیوں سے محفوظ ایک چھوٹے سے گرم اور روشن کمرے میں آگ کے سامنے بیٹین چوکولیٹ پیتے پیتے ہی عمر بیتی جا رہی ہے۔ کیا بچپنا ہے۔ اسے اپنے اس تخیل پر ہنسی آ گئی۔

تان پورے کے تار اور پیانو کے پردے چھیڑتے ہوئے اسے ہمیشہ چاندنی رات اور کنول کے پھولوں کا خیال آ جاتا تھا۔ اور اس سمے ہوٹل کی نچلی منزل کے چاروں طرف کیاریوں میں لہلہاتے سفید پھول جولائی کی بارش میں نکھر رہے تھے۔ چاند کبھی کبھی بادلوں میں سے نکل کر دریچے میں جھانک لیتا تھا۔ اور پھر چھپ جاتا تھا۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے فضاؤں سے پگھلی ہوئی موسیقی برس رہی ہے۔۔۔۔ سچ مچ موسیقی کے بغیر اس روکھی پھیکی اجاڑ زندگی میں کیا رہ جاتا۔ درگا اور پوروی اور ماروا اور بہار۔ پیو پل نہ لاگیں موری انکھیاں۔۔۔ اور تان پورے کے چاروں تاروں کی گمبھیر گونج میں جیسے ہستی کی ساری تڑپ سارا درد سمٹ آتا ہے۔ اور گھنگھروؤں کی جھنکار میں اور منی پوری کی لچک بھرت ناٹیم کی گونج اور گرج اور کتھک کی چوٹ اور دھمک میں۔۔۔ اور جب بھیگی رات کے گہرے سناٹے میں کہیں اور گتار بجتا ہو تو کتنا اچھا لگتا ہے۔

ان پورنا نے سوچا۔ اس خوب صورت آرام دہ دنیا میں جو لوگ دکھی ہیں انہیں سب کو رات کے کھانے کے بعد ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپنا چاہئے۔ ان پورنا نے نٹنگ کرتے کرتے کشن پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ اسے ناہید کا یہ گیت بہت پسند تھا۔ جو وہ اس وقت گار رہی تھی۔ اسے ناہید کے وہ سارے پوربی گیت پسند تھے جو اس نے اکثر سنائے تھے۔ آہ۔۔۔ موسیقی۔۔۔ موسیقی۔۔۔

برجیش اکثر مذاقاً کہا کرتا تھا کہ جس طرح قصے کہانیوں کی پریوں اور شہزادیوں کی جان کسی بیگن سرخ مرچ یا طوطے میں بند ہوتی ہے۔ اسی طرح ان پورنا کی جان اس کے تان پورے میں بند ہے۔ جب وہ پیانو بجاتی تھی تو برجیش اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر کے کلکتے کے کلایو اسٹریٹ کی تجارتی خبریں پڑھتا تھا یا آرام سے کرسی پر لیٹے لیٹے سو جاتا تھا اور ناہید خوف زدہ ہو کر کہتی ’’ہائے اللہ کیسا ٹپکل قسم کا شوہر ہے۔۔۔‘‘ لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔ برجیش نے ان پورنا کو چھ سات سال قبل پہلی بار مہا بلیشور میں دیکھا تھا۔ اور اس کے صرف ایک ماہ بعد ہی ان پورنا کو اپنے نام کے آگے سے شیرالے ہٹا دینا پڑا تھا۔ وہ دونوں سال کا زیادہ حصہ ریاست کے صدر مقام پر راجپوتانہ میں گزارتے تھے۔ جاڑوں میں کبھی کبھی اپنے عزیزوں سے ملنے پونا یا بمبئی چلے جاتے اور گرمیوں میں شمالی ہند کے پہاڑوں پر آ جاتے۔ اب کی مرتبہ انہوں نے طے کیا تھا کہ اگلے سال وہ دونوں کشمیر جائیں گے جو ان پورنا نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ اسے نینی تال کی جھیل میں رقصاں روشنیاں پسند تھیں اور مسوری کی بے پناہ رنگینیاں اور چہل پہل۔ شملہ بہت غیر دل چسپ اور بہت سرکاری تھا۔ زیادہ سے زیادہ تفریح کر لی جا کر بے وقوفوں کی طرح۔‘‘ اسکینڈل پوائنٹ‘‘ پر بیٹھ گئے یا ڈے وی کو چلے گئے۔ ان پورنا کو مسوری پسند تھی۔ اور اپنا شوہر اور اپنے دونوں بچے اور اپنے مخلص اور دل چسپ دوستوں کا حلقہ جو ہر سال وسیع تر ہوتا جاتا تھا۔ اسے اس صوبے کی سب چیزیں بہت اچھی معلوم ہوتی تھیں۔ یہاں کے لوگوں کا کلچر ان کا باتیں کرنے کا خوب صورت انداز۔ ان کے شان دار اور تصویروں ایسے لباس ان کے رنگ برنگے غرارے اور سیاہ شیروانیاں ان کے مشاعرے ان کی کلاسیکل موسیقی۔

جب موسم بہت غیر دل چسپ ہو جاتا یا بارش کی وجہ سے وہ ناہید کے گھر تک نہ جا سکتی تو اپنے کمرے میں بچوں کے لیے نیٹنگ کرتی یا برآمدے میں بیٹھ کر اپنی ہمسایہ بیگم ارجمند سے باتیں کرتی۔ اس کے دونوں بچے پچھلے سال سے کین ویل ہاؤس میں پڑھ رہے تھے۔ بڑا لڑکا بالکل برجیش جیسا تھا۔ سنجیدہ کم سخن لیکن اپنی بات منوانے والا۔ بچی ان پورنا کی طرح تھی۔ شیریں تبسم اور سبز آنکھوں والی۔ چار سال کی عمر میں کتھک ناچ ایسا ناچتی تھی کہ بس دیکھا کیجئے۔ یہ ان پورنا کا محبوب مشغلہ تھا کہ آرام کرسی پر لیٹ کر میرا کی آئندہ زندگی کے لیے پروگرام بنائے اور اس نے سوچا تھا کہ اگلے سال وہ اسے شمبھو مہاراج کے پاس لکھنؤ لے جائے گی۔

ناہید اپنا گیت ختم کر چکی تھی اور خوب زور زور سے تالیاں بجائی جا رہی تھیں۔ باہر بارش تھم گئی تھی اور رات کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ ڈنر کے بعد سب پھر وہاں جمع ہو گئے اور وہ کمرہ باتوں اور قہقہوں کے شور سے جاگ اٹھا۔ سب دیواروں کے قریب بکھرے ہوئے صوفوں پر بیٹھ کر قہوہ سگریٹ پائپ اور دوسری اپنی اپنی پسند کی چیزیں پینے میں مصروف ہو گئے۔ مختلف قسم کی باتیں شروع ہوئیں۔ جنگ کی صورت حال سوسائٹی کے تازہ ترین اسکنڈلز ٹینس اور کرکٹ کے متعلق پیشین گوئیاں۔ بھتنے روحیں۔ قسمت کی لکیریں۔

’’بھئی ہم کو تو اب نیند آ رہی ہے ہم جاتے ہیں۔ شب بخیر‘‘ برجیش اپنی چائے کی پیالی ختم کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’بیٹھو ابھی کیا بد مذاقی ہے‘‘ کرنل جہانگیر نے ڈانٹا۔ ’’بے چاری ان پورنا۔۔۔ ہائے ہائے۔۔۔ ایسی شاعرانہ آرٹسٹک مزاج کی لڑکی اور کیسے روکھے پھیکے آدمی سے پالا پڑا ہے۔‘‘ بیگم ارجمند نے ذرا دور دریچے کے نزدیک رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’’آہ یہ ہمارے ہندوستان کی بے جوڑ شادیاں‘‘ کنور رانی بلبیر سنگھ نے ناک پر سے رو مال ہٹا کر سماج کی دگرگوں حالت پر ایک مختصر سی آہ بھری اور پھر ویپکس سونگھنے لگیں۔

بیگم ارجمند اور کنور رانی بلبیر سنگھ سارے دن اپنے ونگ میں اپنے کمروں کے آگے برآمدے میں بیٹھی بیٹھی مسوری بھرکے اسکنڈلز ڈائریکٹ کرتی رہتیں۔ سوائے کی دوسری منزل سے دنیا کا ایک جنرل طائرانہ جائزہ لے کر واقعات عالم پر تبصرہ اور آخری فیصلہ صادر کیا جاتا تھا۔ رفعت آرا اپنے بہنوئی سے شادی کرنے والی ہے۔ آمنہ طلاق لے رہی ہے۔ نسیم نے ہندو سے شادی کر لی۔ میجر ارشاد تیسری بار عشق میں مبتلا ہو گیا ہے۔ یہ ناہید جو مستقل بیمار رہنے لگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے قطعی اس کنگ جارج میڈیکل کالج والے خوب صورت ڈاکٹر سے عشق ہو گیا ہے۔ جو بیگم حمید اللہ کا بھانجا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں نے بیگم ارجمند کے برآمدے کا نام ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ٹو‘‘ ہیک مینز کی پچھلی گیلری تھی۔ اور پھر دفعتہً اپنی اپنی باتیں چھوڑ کر سب کرنل جہانگیر کی طرف بے حد دل چسپی سے متوجہ ہو گئے۔ جو تھوڑی دیر سے نی نی کا ہاتھ دیکھنے میں مشغول تھے۔

نی نی گوا کے پرتگالی حاکم اعلیٰ کی سیاہ آنکھوں اور سیاہ بالوں والی لڑکی تھی۔ جو چند روز قبل اپنے والدین کے ہم راہ بمبئی سے آئی تھی اور آتے ہی اپنے اخلاق اور اپنی موسیقی کی وجہ سے ہر دلعزیز ہو گئی تھی۔ سب اپنے اپنے ہاتھ دکھانے لگے۔ بھوتوں اور روحوں کے قصے چھڑ گئے۔ باتوں باتوں میں کرنل جہانگیر نے دعویٰ کیا کہ وہ اسی وقت جس کی روح چاہو بلا دیں گے۔ اور پھر سب کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آ گیا۔ اب موسم کے ڈل ہونے کی شکایت نہ کی جاتی۔ جب بارش ہوتی یا برج میں جی نہ لگتا تو سب کرنل جہانگیر کے سٹنگ روم میں جمع ہو جاتے۔ برج کی میز پر انگریزی کے حروف تہجی الگ الگ کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ کر ایک دائرے میں پھیلا دئیے جاتے۔ بیچ میں ایک گلاس الٹا الٹا رکھ دیا جاتا۔ سب چاروں طرف چپ چاپ بیٹھ جاتے۔ گلاس پر دو انگلیاں ٹکا دی جاتیں اور پھر ایک شخص کہتا جو روح یہاں سے گذر رہی ہو مہربانی سے اس گلاس میں آ جاؤ۔ چند سکنڈ بعد وہ گلاس سڑکنے لگتا اور پھر وہ گلاس خود بخود اچھلتا ہوا مختلف حروف پر جا رکتا اور ان حروف کو ایک کاغذ پر لکھا جاتا۔ اس میں بڑے مزے کے لطیفے ہوتے۔ بعض دفعہ غلط روحیں آ جاتیں۔ اور خوب ڈانٹ پھٹکار سنا کر واپس جاتیں۔ شہنشاہ اشوک ہمیشہ بڑی مستعدی سے آ جاتے۔ جاتے وقت روح سے درخواست کی جاتی کہ اب فلاں کو بھیج دیجئے گا۔ جین ہار لو اور لیزلی ہاورڈ کو کئی بار بلایا گیا۔ پنڈت موتی لال نہرو نے آ کر ایک مرتبہ بتایا کہ اگلے دو تین سال کے اندر اندر ان کا بیٹا ہندوستان کا حاکم اعلیٰ بن جائے گا۔ روحوں کی پیشین گوئیاں بعض دفعہ بالکل صحیح نکلتیں۔ ان سے سیاسیات پر کم شادی اور رومان پر زیادہ سوالات کیے جاتے۔ لڑکیاں خوب خوب جھینپتیں۔ بہت دل چسپی سے وقت گزرتا۔

کرنل جہانگیر انتالیس چالیس کے رہے ہوں گے۔ لیکن اب تک کنوارے تھے اور مسئلہ تناسخ کے بے حد قائل۔ انہیں دنیا میں صرف تین چیزوں سے دل چسپی تھی۔۔۔ باغبانی روحانیات اور نرگس۔ پونا میں ان کی ایک بھتیجی تھی۔ جسے وہ بہت چاہتے تھے اور اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اور بیگم ارجمند نے یہ طے کیا تھا کہ یہ نرگس ان کی بھتیجی وتیجی قطعی نہیں ہے۔ وہ خواتین کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے ژند اوستا اور ایران کے صوفی شعرا اور جرمن فلسفیوں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ کئی سال یورپ میں گزارے تھے۔ پیرس میں روحوں کے Scances میں شامل رہ چکے تھے۔ اور سب ملا کر بے حد دل چسپ شخص تھے۔

ایک روز ڈنر کے بعد سب لوگ حسب معمول پھر نشست کے کمرے میں آ گئے ان پورنا نٹنگ میں مشغول تھی۔ انعام محمود نی نی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ناہید ڈؤن کارلو سے سو جانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ لیکن وہ آنکھیں پھیلائے بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا۔ برجیش ایک کونے میں ایک آئی سی ایس صاحب بہادر سے ہندوستانی ریاستوں کی سیاست پر الجھ رہا تھا۔ پیانو کے قریب ایک اسٹول پر رانی کرم پور تلاری کا منظور نظر مظہر الدین بیٹھا پائپ کا دھواں اڑا رہا تھا۔ مظہر الدین بہتر سے بہتر سوٹ پہنتا اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹلوں میں ٹھہرتا۔ اور بڑے ٹھاٹھ سے رہتا تھا۔ اور ان کے لیے اتنا بے تحاشا روپیہ کہاں سے آتا ہے۔ اس کی شکل اچھی خاصی تھی۔ ذہن کے معاملہ میں یوں ہی لیکن بات کرنے میں بہت تیز۔ پہلے وہ ادھیڑ عمر کی بیگم فرقان الدولہ کا منظور نظر تھا۔ اب کچھ عرصے سے رانی صاحب کرم پور تلاری جو وید انہیں ان کے ساتھ دکھائی دیتا تھا۔ بیگم ارجمند اور ان پورنا وغیرہ اس سے بہت کم بات کرتی تھیں۔ لیکن ان کے شوہروں کی سوسائٹی میں وہ کافی مقبول تھا۔ پائپ کی راکھ اسٹرے میں جھٹک کر اس نے ان پورنا سے پوچھا۔ ’’مسز پربھاکر آپ کو مسئلہ تناسخ سے دل چسپی ہے؟‘‘

’’میں نے کبھی اس طرف خیال نہیں کیا۔ کیوں کیا آپ کو بھی … روحانیت سے شغف پیدا ہو گیا؟‘‘ ان پورنا کو بادل ناخواستہ لیکن اخلاقاً کیوں کہ وہ مظہر الدین کے قریب بیٹھی تھی اس سے باتوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔

’’کرنل جہانگیر تو لگتا ہے اس مرتبہ ہم سب کو بالکل سنیاسی بنا کر چھوڑیں گے۔ آج کل جسے دیکھئے اپنی اپنی شکار اور اسٹاک ایکس چنج کی باتیں چھوڑ کر روحوں سے الجھ رہا ہے۔‘‘ مظہر الدین نے کہا۔ کرنل جہانگیر نے اس کی بات سن لی۔ وہ بولے ’’ان پورنا رانی کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک روز ہم سب اس مایا جال کو تج کر جٹائیں بڑھائے دو تارہ بجاتے سامنے ہمالیہ کی اونچی چوٹیوں کی طرف رخ کرتے نظر آئیں۔‘‘

’’اگر میری بیوی بھی اپنا تان پورہ اٹھا کر بنوں کو نکل گئی تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا کرنل۔‘‘ برجیش نے اپنے مخصوص انتہائی غیر دل چسپ طریقے سے کہا۔ ’’چپ رہو یار۔ تم اپنے بازار کے بھاؤ اور گولف سے الجھتے رہو۔ یہ مسائل تصوف ہیں بھائی جان۔‘‘ صاحبزادہ ارجمند نے ڈانٹ پلائی۔

برجیش ایک خشک سی ہنسی ہنسا اور پھر نہایت مستعدی سے ان صاحب بہادر کو ارجن گڈھ اسٹیٹ کی پالیسی سمجھانے میں مصروف ہو گیا جو غالباً اگلے مہینے سے وہاں کے ریزیڈنٹ بننے والے تھے۔ پھر قہوہ کے دور کے ساتھ زور شور سے گرما اور آواگون کی بحث چھڑ گئی۔ کرنل جہانگیر کی باتیں بہت دل چسپ ہوتی تھی۔ مثلاً اس وقت انہوں نے ناہید سے کہا کہ پچھلے جنم میں وہ پرتھوی راج تھے اور ناہید ان کی کوئی بہت قریبی عزیز تھی۔ ’’غالباً سنجو گتا‘‘؟ کسی نے پوچھا۔ سب ہنسنے لگے پھر مزے مزے کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں۔ کون کون پچھلے جنم میں کیا کیا رہا ہو گا۔

’’کرنل، پچھلے جنم میں ناہید کی شادی کس سے ہوئی تھی؟‘‘ بیگم ارجمند نے انتہائی دل چسپی سے اپنی سیاہ آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔ ’’کوئی جون پور کا کن کٹا قاضی رہا ہو گا‘‘ راج کمار روی بولے۔ بڑا زبردست قہقہہ پڑا۔ ناہید کی نسبت پچھلی کرسمس میں کسی پولس افسر سے ہوئی تھی اور سب دوستوں نے مل کر اسے مبارکباد کا تار بھیجا تھا… جس میں صرف یہ جملہ تھا۔‘‘ سیآں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا۔‘‘ کرنل جہانگیر ان پورتا کا ہاتھ دیکھنے میں مصروف تھے۔ اور پھر یک لخت کرنل جہانگیر نے بے حد سنجیدہ لہجہ میں اور بڑی مدھم آواز سے آہستہ آہستہ کہا… ’’ان پورنا رانی تمہیں یاد آتا ہے کسی نے تم سے کبھی کہا تھا … جب چاندنی راتوں میں کنول کے پھول کھلتے ہوں گے اور بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ ہمالیہ کی برف پگھل کر گنگا کے پانیوں میں مل رہی ہو گی۔ اس وقت میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔ یاد ہے؟‘‘ ان پورنا حیرت زدہ سی اپنی پلکیں جھپکاتی کرنل کو دیکھنے لگی۔ کمرے میں دفعتاً بڑا حساس سکوت طاری ہو گیا۔ کرنل نے اس کا چھوٹا سا ہاتھ کشن پر رکھ کر پھر کہنا شروع کیا ’’یاد کرو … اس کا نام کمل اندر تھا۔ پچھلے جنم میں تم اس کی رانی تھیں۔ چاندنی راتوں میں اپنے راج محل کی سیڑھیوں پر جو گنگا میں اترتی تھیں۔ وہ وینا بجاتا تھا اور تم سنتی تھیں۔ تم ناچتی تھیں اور وہ دیکھتا تھا۔ پھر تمہاری شادی کے کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ ایک جنگ میں مارا گیا۔‘‘

’’ لیکن کرنل ہمارا ہندو عقیدہ تو یہ ہے کہ جس آدمی سے پچھلے جنم میں لڑکی کا بیاہ ہوا تھا ہر اگلے جنم میں وہی آدمی اس کا پتی بنتا رہے گا۔‘‘

’’رائٹ!‘‘ کرنل نے جواب دیا۔ ’’مگر پچھلی بار ستاروں کی چال میں کچھ گڑبڑ ہو گی اور اس جنم میں تمہاری شادی کسی اور نوجوان سے ہو گی لیکن قسمت کے لکھے کو کوئی مٹا نہیں سکتا اور وہ آدمی جو جنم جنم سے تمہارا سوامی رہا ہے اس جنم میں بھی تمہیں پھر ملے گا۔‘‘

سب بت بنے اس کی آواز سن رہے تھے۔ جو لگ رہا تھا رات کے اس سناٹے میں کہیں بہت دور سے آ رہی ہے۔ ان پورنا اسی طرح پلکیں جھپکاتی رہی۔ بیگم ارجمند کی آنکھیں پھیلی کی پھیلی رہ گئیں۔

’’او کرنل ہاؤ فنٹاسٹک…‘‘ ناہید نے چند لمحوں بعد اس خاموشی کو توڑا۔ پھر رفتہ رفتہ قہقہے اور باتیں شروع ہو گئیں۔ کرنل کی پیشین گوئی سب کے خیال میں متفقہ طور پر شام کا بہترین لطیفہ تھا۔ برجیش نے آئی۔ سی۔ ایس صاحب بہادر سے گفتگو ختم کرنے کے بعد اپنے کونے سے ان پورنا کو آواز دی ’’چلو بھئی اب چلیں سخت نیند آ رہی ہے۔‘‘ پھر سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور ایک دوسرے کو شب بخیر کہہ کہہ کر اپنے اپنے کمروں کی طرف جانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد نشست کا کمرہ بالکل خالی ہو گیا۔ اور سب سے آخر میں۔ ان سب باتوں پر اچھی طرح غور و خوض کرتا ہوا ڈون کارلو اپنی کرسی پر سے نیچے کودا اور ایک طویل مطمئن انگڑائی لینے کے بعد چھوٹے چھوٹے قدموں سے باہرکے زینے کی سیڑھیاں چھلانگتا نیچے کورٹ یارڈ میں پہنچ گیا۔ جہاں اپنے گھر جانے کے لیے ناہید رکشا میں سوار ہو رہی تھی۔

موسم روز بروز زیادہ غیر دل چسپ ہوتا جا رہا تھا۔ مرد دن بھر لاؤنج میں برج کھیلتے اَن پورنا بچوں کو لے کر ٹہلنے چلی جاتی۔ یا اپنے سٹنگ روم میں ہیرا کو طبلے کے ساتھ کتھک کے قدم رکھنا سکھاتی رہتی۔ جب وہ تان پورے کے تار چھیڑتی تو دفعتاً اسے محسوس ہوتا کوئی اس سے کہہ رہا ہے ’’میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ میں تم سے دوبارہ ملوں گا ستارے یہی چاہتے ہیں۔۔۔ ستارے یہی۔۔۔‘‘

کیا حماقت۔ گدھے پن کی حد ہے۔ اسے غصہ آ جاتا۔ پھر ہنسی آتی۔ اس قسم کے باولے پن کی باتوں کا وہ خود مذاق اڑایا کرتی تھی۔۔۔ ان پورنا۔۔۔ ان پورنا۔۔۔ اتنی موربڈ ہوتی جا رہی ہے۔ ان پورنا جس کے شیریں قہقہے سوسائٹی کی جان تھے۔

’’کرنل کم از کم روحیں ہی بلا دو۔ بہت دنوں سے مہاراجہ اشوک سے گپ نہیں کی۔‘‘ ناہید نے بے حد اکتا کر ایک روز کرنل جہانگیر سے کہا۔ وہ سب ’’اونٹ کی پیٹھ‘‘ سے واپس آ رہے تھے۔ ’’خدا کے لیے اب یہ حماقت کا بکھیڑا نہ پھیلانا۔ میرے اعصاب پر آ جاتی ہیں تمہاری یہ روحوں سے ملاقاتیں‘‘ بیگم ارجمند نے ڈانٹا۔ ’’کرنل واقعی تم کمال کے آدمی ہو۔ اچھا میرے ہاتھ کے امپریشن کا تم نے مطالعہ نہیں کیا؟‘‘ ناہید نے بیگم ارجمند کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ’’ان نصیبوں پہ کیا اختر شناس‘‘۔۔۔ کرنل نے کچھ سوچتے ہوئے بڑی رنجیدہ آواز میں کہا اور چپ ہو گئے۔

’’کیوں کرنل تمہیں کیا دکھ ہے؟۔‘‘ ناہید نے ’’تمہیں‘‘ پر زور ڈال کر پوچھا۔ ’’دکھ۔۔۔؟‘‘ شش۔۔ شش۔ بچے دکھوں کی باتیں نہیں کیا کرتے۔ وہ لائبریری کی سڑک پر سیڑھیوں تک پہنچ چکے تھے۔ اس روز کنورانی بلیر سنگھ نے اپنی ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘ پر سے پیشین گوئی کی۔۔۔‘’’دیکھ لیا۔۔۔ ان پورنا اس مرتبہ ضرور کوئی نہ کوئی آفت بلائے گی۔ یہ اس دل جلے کرنل نے ایسا شگوفہ چھوڑا ہے۔ اور برجیش کیسا بے تعلق رہتا ہے اور یہ ہندوستانی ریاستوں کے حکام۔۔۔ تم نہیں جانتیں مائی ڈیر۔۔۔ ان لوگوں کی کیا زندگیاں ہوتی ہیں کیا مورلز ہوتے ہیں۔۔۔ جبھی تو دیکھو برجیش اس کم عمری میں اتنی جلدی فنانس منسٹر کے عہدے پر پہنچ گیا۔‘‘

’’دنیا جانے کدھر جا رہی ہے‘‘ بیگم ارجمند نے ان کے خیال کی تائید کی۔ اور پھر آخر ایک روز راج کماری نے چائے کے وقت سب کو بتایا کہ‘‘ وہ‘‘ واقعی آ رہا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ سے تقریباً ایک ایک فٹ اچھل پڑے۔ کئی دن سے کسی شخص کا مستقل تذکرہ ہو رہا تھا۔ کئی پارٹیاں اور پکنکیں ایک خاص مدت کے لیے ملتوی کی جا رہی تھیں۔ طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ دیکھ لینا وہ ضرور اس دفعہ شادی کر لے گا۔۔۔ قطعی نہیں۔۔۔ وہ شادی کرنے والا ٹائپ ہی نہیں۔۔۔ بھئی موسیقی کی پارٹیوں کا اس کے بغیر لطف ہی نہیں۔ ارے میاں انعام محمود نی نی کی طرف سے باخبر رہنا، وہ آ رہا ہے۔ بھئی ڈاکٹر خان کو اطلاع کر کے ایمبولینس کاریں منگوا لی جائیں۔ نجانے کتنی بے چاریاں قتل ہوں گی کتنی زخمی۔‘‘ آخر یہ کون ڈون ژوان صاحب ہیں جنہوں نے اپنی آمد سے پہلے ہی اتنا تہلکہ مچا رکھا ہے‘‘ ناہید نے اکتا کر پوچھا۔ ’’ڈون ژوان۔۔۔ قسم سے ناہید بیگم خوب نام رکھا تم نے۔‘‘

’’وہ ہے در اصل خورشید احمد۔ پچھلے کئی سال سے اپنا ہوائی بیڑہ لے کر سمندر پار گیا ہوا تھا۔ اسی سال واپس آیا ہے۔ اور اتوار کی شام کو یہاں پہنچ رہا ہے۔ باقی حالات آپ خود پردہ سیمیں پر ملاحظہ فرمائیے گا۔‘‘ راج کمار روی نے کہا۔ اسی زور سے بارش شروع ہو گئی اور اپنی امی کی طبیعت خراب ہو جانے کی وجہ سے ناہید کئی روز تک ان پورنا اور دوسرے دوستوں سے ملنے کے لیے سوائے نہ آ سکی۔ دوسرے دن شام کو بالآخر ’’وہ‘‘ آ گیا۔ اس کے ساتھ اس کے دو دوست اور تھے جو اس کے ہوائی بیڑے سے تعلق رکھتے تھے۔ چائے کے بعد ڈائننگ ہال کی سیڑھیاں طے کر کے وہ بلیرڈ روم کی طرف جا رہا تھا۔ اور اس وقت ان پورنا نے اسے دوسری بار دیکھا۔ کیوں کہ وہ کمل اندر تھا۔ ان پورنا کے دل میں کسی نے چپکے سے کہا۔ اس وقت تک ان پورنا کا اس سے باقاعدہ تعارف نہیں کرایا گیا تھا۔ اس لیے ڈائننگ ہال کے زینے پر سے اتر کے گیلری کی جانب جاتی ہوئی ان پورنا پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اسے پہچانے بغیر بلیرڈ روم میں داخل ہو گیا۔ جہاں سب دوست جمع تھے۔

تھوڑی دیر بعد نشست کے بڑے کمرے میں واپس آ کر ان پورنا آگے ایک بڑے صوفے پر گر گئی۔ اس نے دیوار پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں اپنی لپ اسٹک ٹھیک کرنی چاہی۔ اس نے پیانو پر ایک نیا نغمہ نکالنے کا ارادہ کیا لیکن وہ کشنوں پر سر رکھے اسی طرح پڑی رہی۔ بالکل خالی الذہن۔ اتنے میں وسط کے ہال کے زینے پر سے اتر کر مسز پدمنی اچاریہ اندر آئیں۔ اس نے سوچا کہ وہ ان سے میرا کے پل اوور کے لیے وہ نمونہ مانگ لے جو وہ صبح بن رہی تھی۔ مگر مسز اچاریہ اسے ایک ہلکا سا ’’ہلو‘‘ کہنے کے بعد آئینے میں اپنے بال ٹھیک کر کے باہر چلی گئیں۔ اور وہ۔۔۔ اس نے کچھ نہ کہا۔

کمرے کی کھڑکیوں میں سے باہر لاؤنج میں بیٹھے ہوئے لوگ حسب معمول برج کھیلتے نظر آ رہے تھے۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ پھر اندھیرا پڑے بلیرڈ روم سے واپس آ کر برجیش برآمدے میں سے گزرا اور وہ اس کے ساتھ اپنے کمروں کی طرف چلی گئی۔ دوسرے روز صبح جب وہ اپنے کمرے سے نکل کر دنگ کے برآمدے میں سے گزرتی زینے کی سمت جا رہی تھی۔ وہ زینے کی مختصر سیڑھیوں کے اختتام پر کلوک روم کے قریب کھڑا سگریٹ جلاتا نظر آیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزری تو اس نے آگے آ کر بے حد اخلاق سے آداب عرض کہا غالباً پچھلی شام بلیرڈ روم میں ان پورنا سے اس کا غائبانہ تعارف کرا دیا گیا تھا۔ ’’میں خورشید ہوں۔ خورشید احمد‘‘

’’آداب۔ برجیش کے دوستوں میں سے میں نے صرف آپ کو اب تک نہیں دیکھا۔‘‘

’’جی ہاں جب میں ہندوستان سے باہر گیا تھا۔ اس وقت تک برجیش نے شادی نہیں کی تھی۔‘‘ اور تب ان پورنا سے کوئی چپکے سے بولا۔ ’’اس سے کہو تم غلط کہتے ہو۔ تم خورشید احمد قطعی نہیں ہو۔ تم بالکل صفا کمل اندر ہو۔ پورن ماشی کی چاندنی میں نکھرتے سفید شگوفوں اور دنیا کے گیتوں والے کمل اندر۔ کنول کے پھول کے دیوتا۔‘‘ فوراً اسے اپنے اس بچپنے پر ہنسی آ گئی۔ اس بے موقع ہنسی کو ایک انتہائی خوش اخلاقی کی مسکراہٹ میں تبدیل کرتے ہوئے اس نے۔۔۔ ’’اچھا آئیے نیچے چلیں۔ ہمارا انتظار کیا جا رہا ہو گا۔‘‘ چائے پیتے پیتے کنور رانی بلیر سنگھ نے بڑی بزرگانہ شفقت سے خورشید سے پوچھا۔ ’’بھیا تم کا کرت ہو؟‘‘ انہیں یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ وہ بھی ہردوئی کے اسی حصے کا ہے جس طرف ان کا تعلقہ تھا۔ ’’فی الحال تو بمبار طیارے اڑاتا ہوں۔ لڑائی کے بعد نوکری نہیں ملی تو مرغیوں کی تجارت کیا کروں گا۔ بڑی مفید چیز ہوتی ہے۔ پولٹری فارمنگ۔۔۔‘‘

’’شادی اب تک کیوں نہیں کی؟‘‘ بیگم ارجمند نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’وہ وجہ در اصل یہ ہوئی بیگم ارجمند کہ کوئی لڑکی مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی۔ اور جن لڑکیوں سے میں ملا وہ یا تو جلد بازی میں آ کر پہلے ہی شادی کر چکی تھیں یا کسی اور کے عشق میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ یا عنقریب ہونے والی تھیں۔ اس کے علاوہ بیگم ارجمند میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں بچتے کہ ایک بلی بھی پال سکوں۔‘‘

جب خواتین بیگم انور امام یعنی ناہید کی امی کی مزاج پرسی کے لیے رکشاؤں میں سوار ہو گئیں تو راج کمار روی نے پوچھا ’’خورشید میاں تم بہت اترا رہے ہو لیکن تمہارے اس تازہ ترین عشق کا کیا ہوا جس کا ذکر اپنے خطوط میں کر کے تم نے بور کر دیا تھا۔‘‘

’’چل رہا ہے‘‘ اس نے اس بے فکری سے جواب دیا گویا موٹر ہے جو ٹھیک کام دے رہی ہے۔ اور بہت سی دل چسپ اور انوکھی باتوں کے علاوہ اس نے طے کیا تھا کہ اگر کوئی لڑکی اسے سچ مچ پسند آ گئی تو وہ فی الفور اس سے شادی کر لے گا۔ چاہے وہ کتنی ہی کالی بھجنگی ایسی کیوں نہ ہو۔ ویسے وہ کیپ فٹ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے گاہے بگاہے غم دل میں مبتلا ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن پچھلے دنوں والا واقعہ خاصی سنجیدہ شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔

اسی مارچ کے ایک غیر دل چسپ سے اتوار کو جب کہ اس کی میس کے سارے ساتھی یا سو رہے تھے یا اپنے اپنے گھروں کو خط لکھنے میں مصروف تھے۔ اور کینٹین میں کام کرنے والی ساری لڑکیاں اوف ڈیوٹی۔ تھیں اور مطلع سخت ابر آلود تھا۔ اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اس وقت اس نے فوراً اس لڑکی سے عشق کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جس کی تصویر اسی روز نئے Listener میں دیکھی تھی۔ وہ ایک خاصی خوش شکل لڑکی تھی اور شمالی ہند کی کسی نشرگاہ سے دوپہر کو انگریزی موسیقی کے ریکارڈوں کا اناؤنسمنٹ کرتی تھی۔ چناں چہ بے حد اہتمام سے اسی وقت ایک ریڈیو فین کی حیثیت سے اسے ایک خط لکھا گیا۔ ’’آپ کے ریکارڈوں کا انتخاب بے حد نفیس ہوتا ہے اور اپنی نقرئی آواز میں جب آپ فرمائشی ریکارڈوں کے ساتھ ساتھ سننے والوں کو ایک دوسرے کے پیغامات نشر کرتی ہیں۔ انہیں سننے کے بعد سے صورت حال یہ ہے کہ ہم میں سے ایک کو رات بھر نیند نہیں آتی۔ دوسرے کو اختلاج قلب کا عارضہ ہو گیا ہے۔ تیسرے کو اعصابی شکایت اور باقی سب کو ابھی دل و دماغ کے جتنے امراض تحقیق ہونے باقی ہیں وہ سب لاحق ہونے والے ہیں۔ اور پرسوں رات کے ڈرامے میں جو آپ کینڈیڈ بنی تھیں تو چاروں طرف اتنے حادثات وقوع پذیر ہوئے کہ ہمیں ریڈیو بند کر کے ایمبولنس کار منگوانی پڑی۔ پھر ایک دوست صاحب خاص طور پر سفر کر کے اس لڑکی کو دیکھنے گئے۔ اور تقریباً نیم جاں واپس آئے۔ پھر ایک صاحب سے جو اسی نشرگاہ کے ایس ڈی کے دوست تھے۔ معلوم ہوا کہ بڑی بد دماغ لڑکی ہے۔ کسی کو لفٹ نہیں دیتی۔ اسٹوڈیوز میں اپنے کام سے کام رکھتی ہے اور سب اس سے ڈرتے ہیں۔ پھر اس کو مختلف ناموں سے دس پندرہ خط لکھے گئے۔ عرصے کے بعد اس کا جواب آیا۔ خط میں برا فیشن ایبل پتہ درج تھا جو بڑی رومینٹک بات لگی اور نہایت مختصر سا خط جو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ لوگوں کو ہمارے پروگرام پسند آتے ہیں۔ سے شروع ہو کر امید ہے کہ آپ سب بخیریت ہوں گے۔ پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد پھر دو تین خط لکھے گئے۔ سب کا جواب غائب۔ آخر میں خورشید کے مسوری آنے سے چند روز قبل اسی لڑکی کا ان سارے خطوں کے جواب میں ایک اور مختصر خط ملا تھا۔ جس پر اور بھی زیادہ فیشن ایبل اور افسانوی پتہ درج تھا۔ فیئری لینڈ ونسنٹ ہل۔ مسوری۔

اور اب جب سے خورشید اور اس کے دونوں دوست مسوری پہنچے تھے۔ یہی فکر کی جا رہی تھی کہ اس فیئری لینڈ کو تلاش کیا جائے۔ اگلی صبح اپنے سوائے والے دوستوں کو بتائے بغیر پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ ونسنٹ ہل کی طرف چل پڑے۔ بہت اونچی چڑھائی کے بعد ایک خوب صورت دو منزلہ کوٹھی نظر آئی جس کے پھاٹک پر ایک سنگ مرمر کے ٹکڑے پر فیئری لینڈ لکھا تھا۔ آگے بڑھے تو پہلے ایک بل ڈاگ اندر سے نکلا۔ پھر دوسرا پھر تیسرا۔ آخر میں ایک چھوٹا سا سفید کتا باہر آیا۔ جو پیسٹری کھا رہا تھا۔ تینوں پہلے کتوں نے مل کر بھونکنا شروع کیا۔ چوتھا کتا یقیناً زیادہ خوش اخلاق تھا۔ وہ چپ چاپ پیسٹری کے ڈبے میں مصروف رہا۔ سب کے بعد ایک لڑکی باہر آئی اور ان سب کتوں کو گھسیٹ کر اندر لے گئی کیوں کہ باہر خنکی زیادہ تھی اور کتوں کو انفلوئنزا ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ ابھی انہوں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ آگے جائیں یا واپس چلیں کہ موڑ پر سے کنور رانی بلیر سنگھ کی رکشا آتی نظر آئی۔ سوالات کی زد سے بچنے کے لیے وہ جلدی سے پیچھے چلے گئے۔

’’چناں چہ پیسٹری کھاتا ہے‘‘ خاموشی سے چلتے ہوئے کپور تھلہ۔ ہاؤس کی سڑک پر واپس پہنچ کر ایک دوست نے بے حد غور و فکر کے بعد کہا۔ ’’باقی کے تینوں بھی اگر یہی شوق کریں تو نہیں بھونکیں گے‘‘ دوسرے نے کہا۔ ’’قطعی نہیں بھونکیں گے‘‘ خورشید نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔ شام کو جب خورشید راج کمار روی اور برجیش کے ساتھ مال پر ٹہلنے نکلا تو دفعتاً اسے یاد آ گیا کہ بے حد ضروری خریداری کرنا ہے۔ ’’تم لوگ حمید اللہ سے مل آؤ ہم ابھی آتے ہیں۔‘‘ راج کماری روی اور برجیش کے آگے جانے کے بعد وہ اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ منزلیں مارتا کٹہری تک پہنچ گیا۔ لیکن کیک پیسٹری کی دوکان کہیں نظر نہ آئی۔ آخر جب وہ بالکل نا امید ہو کر واپس لوٹ رہے تھے تو خورشید کی نظر سڑک کی ڈھلوان کے اختتام پر ایک چھوٹی سی دوکان پر پڑ گئی جس پر بہت بڑا بورڈ لگا تھا۔ ’’رائل کنفکشنری‘‘۔ ایک صاحب دوکان کے باہر کرسی پر بیٹھے ہمدرد صحت پڑھ رہے تھے۔‘‘ کیوں صاحب آپ کیک پیسٹری بیچتے ہیں؟‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ کیا آپ کا خیال ہے میں نے تفریحاً دوکان کھولی ہے۔‘‘

’’ارے میرا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

’’مطلب کیا صاحب! کیا میں یہاں محض تفریحاً بیٹھا ہوں یا یہ جو کھڑکی سجی ہے اسے صرف دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔ یا انہیں محض سونگھتا ہوں۔ آخر سمجھتے کیا ہیں آپ؟ کہتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

’’کیا چاہئے صاحب۔۔۔؟‘‘ اندر سے جلدی سے ایک لڑکا نکلا۔ شام کو وہ سب ہیک مینز کے ایک نسبتاً خاموش گوشے میں جمع چائے پی رہے تھے۔۔۔

’’آہ۔۔۔ فقط ایک جھلک اس کی دیکھی ہے لیکن کیا نفیس ناک ہے کہ گلابی سی اور مختصر جو غالباً سردی کی وجہ سے نم رہتی ہے۔ اور آنکھیں چمکیلی اور شوخ اور نرگسی اور لمبے لمبے ریشمی بال اور آہ وہ کان چھوٹے چھوٹے بالکل پرستش کے قابل۔۔۔‘‘ خورشید نے بہت دیر خاموش رہنے کے بعد بے حد رنجیدہ لہجہ میں کہا۔ ’’کہاں دیکھی تھی یار جلدی بتاؤ‘‘ انعام محمود نے کان کھڑے کیے۔‘‘ آہ۔۔۔ وہ دنیا کا بہترین کتا ہے۔ کیوں کہ دنیا کی خوب صورت ترین لڑکی کا کتا ہے اور۔۔۔ یک لخت خورشید کو وہ دوبارہ نظر آ گیا۔ وہ ذرا دور پر دیوار کے قریب ایک صوفے پر بیٹھا تھا۔ اتنا نفیس خلیق کتا جو اگر نہ بھونکتا تو پتہ بھی نہ چلتا کہ کتا ہے۔ بالکل سفید فر کا بڑا سا پرس معلوم ہوتا تھا۔ اور ڈون کارلو کو اپنے سامنے رکھی ہوئی طشتری میں پلم کیک کے ٹکڑے کھاتے کھاتے دفعتاً خیال آیا کہ گیلری کے پرے نیلے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس اس آدمی کو وہ صبح دیکھ چکا ہے۔ اس نے کیک ختم کر کے ایک طویل انگڑائی لی۔ اور اس انسان سے گفتگو کرنے کے ارادے سے صوفے پر سے کود کر چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا گیلری کی طرف چلا۔

اس کی مالکہ اسی گیلری کی دوسری جانب اپنے بھائیوں اور بہنوئی کے ساتھ چائے پی رہی تھی۔ اور حالاں کہ ’’انڈین ٹی‘‘ کے اشتہار سے پتہ چلتا ہے کہ اس چائے کو پینے کے بعد آپ کو دنیا میں کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت اس نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان جو تھوڑی دیر قبل ’’ارجمندز کراؤڈ‘‘ کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تھا یقیناً ایسا تھا کہ اگر پچھلی کرسمس میں اس کی نسبت علی ریاض اے۔ ایس پی۔ سے نہ ہو گئی ہوتی اور یہ نو وارد آدمی اگر اس میں دل چسپی لینا چاہتا تو قطعی مضائقہ نہ تھا۔

’’ہلو ناہید بیگم۔۔۔ تم اتنے دنوں کہاں چھپی رہیں۔ ادھر آؤ۔۔۔ تمہیں خورشید سے ملوائیں جسے تم نے ڈون ژوان کا خطاب دیا تھا۔‘‘ راج کمار روی نے اس کی میز کے قریب آ کر کہا۔ رات کو جب وہ سب ہیک منیز سے واپس آ رہے تھے تو ناہید نے خورشید کے اس دوست کو دیکھ کر جو رائل کنفکشنری سے واپسی سے اب تک بے حد اہتمام سے پیسٹری کا ڈبہ اٹھائے پھر رہا تھا۔ اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے خورشید سے پوچھا ’’آپ لوگوں کو پیسٹری کا اتنا شوق ہے کہ اس کے ڈبے ساتھ لیے گھومتے ہیں؟‘‘

اگلی صبح بڑی خوش گوار تھی۔ مینہ رات بھر برس کر اب کھل گیا تھا۔ راستوں کے رنگ برنگے سنگ ریزے بارش کے پانی میں دھل دھلا کر خوب چمک رہے تھے۔ فضا میں پھولوں کی مہک اور گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ زندگی بڑی تر و تازہ اور نکھری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ان پورنا میرا کو لے کر ٹہلتی ہوئے نچلی دیوار تک آ گئی۔ جہاں چند رکشائیں اور موٹریں کھڑی تھیں۔ لائبریری والی سڑک کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ ہوٹل کی طرف نظر آیا۔ قریب پہنچ کر اس نے اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ آداب عرض کہا۔ ’’جے کرو بی بی انکل کو جے نہیں کی تم نے۔‘‘ ان پورنا نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے میرا کو ڈانٹا۔ میرا نے بے حد پیارے طریقے سے اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑ دیئے خورشید نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ پھر اسے آیا کے سپرد کر دینے کے بعد وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے ہوٹل کی جانب آ گئے۔ برجیش کے برآمدے میں پکنک کا پروگرام بنایا جا رہا تھا۔ سب خورشید کے منتظر تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے سب میں جان پڑ گئی ہے۔ جو لوگ موسم کی غیر دل چسپی کی شکایت کرتے رہتے تھے۔ اب ان کا ہر لمحہ نت نئے پروگرام بنانے میں صرف ہوتا۔ ہر وقت پیانو اور وائلن بجتا فیری لینڈ جا کر ناہید سے ڈھولک کے پوربی گیت سنے جاتے۔ برساتیوں۔ ٹوکریوں اور چھتریوں سے لد پھند کر وہ سب دور دور نکل جاتے۔

ایک روز پکنک پر جاتے ہوئے رائل کنفکشنری پر بھی دھاوا بولا گیا۔ برجیش بھی اب کلایو اسٹریٹ کی خبریں پڑھنے کی بجائے ان تفریحوں میں حصہ لینے لگا۔ دنیا یک لخت بڑی پر مسرت بڑی روشن اور بڑی خوش گوار جگہ بن گئی تھی۔

جس گھر میں خورشید اپنے ایک دور کے عزیز کے یہاں ٹھہرا تھا۔ وہ نہایت عجیب و غریب اور بے حد دل چسپ جگہ تھی۔ اوپر کی منزل میں جو سڑک کی سطح کے برابر تھی گھوڑے رہتے تھے۔ جو سڑک پر سے سیدھے اپنے اصطبل میں پہنچ جاتے۔ جو ڈرائنگ روم کے عین اوپر تھا۔ درمیانی منزل میں مرغیاں۔ کتے۔ بلیاں۔ بچے اور لڑکیاں رہتی تھیں۔ نچلی منزل میں جس کی سیڑھیاں کھڈ میں اترتی تھیں۔ خورشید کو ٹھہرایا گیا تھا۔ گھوڑے شاید الارم لگا کر سوتے تھے۔ صبح سویرے ہی وہ جاگ جاتے اور تیسری منزل کی کھڑکیوں سے نیچے جھانکنے میں مصروف ہو جاتے۔ خورشید کا جی چاہتا تھا کہ زور سے کچھ اس قسم کا گیت الاپے … یہ کون اٹھا اور گھوڑوں کو اٹھایا… پھر دوسری منزل پر مرغیاں۔ کتے۔ بلیاں۔ بچے اور لڑکیاں اپنے اپنے پسندیدہ اسٹائل سے جاگنا شروع کرتیں اور قیامت کا شور مچتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ خورشید کے دونوں دوست غسل خانوں میں گھس کر اپنا صبح کا قومی ترانہ شروع کر دیتے … یہ کون آج آیا سویرے سویرے … پھر لڑکیاں گھوڑوں پر سواری کے لیے جاتیں۔ لیکن سواری کرنی کسی کو بھی نہیں آتی تھی۔ اس لیے سڑکوں پر روز شہسواری کے بعض نہایت نادر نظارے دیکھنے میں آئے۔۔۔۔۔

پھر ایک روز لڑکیوں کی شہسواری سکھانے کا بے اتنہا خوش گوار فرض خورشید کے سپرد کیا گیا۔ وہ اسی دن اپنا سامان لے کر سوائے بھاگ آیا۔ اسٹینڈرڈ میں سالانہ مشاعرہ تھا۔

محفل ختم ہونے کے بعد سب باہر نکل آئے تھے۔ بڑا بے پناہ مجمع تھا۔ بھوپال کی الٹرا فیشن ایبل لڑکیاں۔ حیدر آباد کے جاگیردار رام پور کے رئیس نئی دہلی اور لکھنؤ کے ہندوستانی صاحب لوگ سب کے ہونٹوں پر جگر کی تازہ غزل کے اشعار تھے

لاکھ آفتاب پاس سے ہو کر گزر گئے

بیٹھے ہم انتظار سحر دیکھتے رہے

زینے کی سیڑھیاں طے کر کے وہ سارے دوست بھی نیچے سڑک پر آ گئے۔ مشاعرے کے دوران میں خورشید ان پورنا کو شعروں کے مشکل الفاظ کے معنی بتاتا رہا اور ان پورنا نے طے کر لیا کہ وہ ناہید سے قطعی طور پر اردو پڑھنا شروع کر دے گی۔ اردو دنیا کی خوب صورت ترین اور شیریں ترین زبان تھی اور لکھنؤ والوں کا لب و لہجہ! لکھنؤ جو خورشید کا وطن تھا۔ ان پورنا کو لکھنؤ دیکھنے کا اشیاق زیادہ ہو گیا۔ وہاں کے ہرے بھرے باغ سایہ دار خوب صورت سڑکیں۔ شان دار عمارتیں۔ مہذب لوگ جہاں کے تانگے والے اور سبزی فروش بھی اس قدر تہذیب سے اور ایسی نفیس زبان میں گفتگو کرتے تھے کہ بس سنا کیجئے اور میرس کالج آف ہندستانی میوزک وہاں کا کتھک ناچ۔ خورشید نے وائلن میرس کالج میں سیکھا تھا۔ برجیش کہتا تھا جس طرح ان پورنا رانی کی جان تان پورے کے تاروں میں رہتی ہے اسی طرح خورشید کی جان اس کے وائلن کیس میں بند ہے۔

مسلمان لڑکے عام طور پر زیادہ خوب صورت ہوتے ہیں۔ ناہید کی ساری غیر مسلم سہیلیاں اس سے اکثر کہا کرتی تھیں۔ خورشید بھی بہت خوب صورت تھا۔ برجیش اور کرنل جہانگیر اور راج کمار روی ان سب سے زیادہ دل کش اور شان دار۔ اور اس وقت جب کہ مشاعرے کے بعد وہ سب ٹہلتے ہوئے اسٹینڈرڈ سے واپس آ رہے تھے۔ مال کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دفعتاً خورشید نے مڑ کر ان پورنا سے کہا۔۔۔ ’’زندگی بڑی خوش گوار ہے نا ان پورنا رانی! ہے نا؟‘‘ پھر وہ بے فکری سے سیٹی بجا کر ڈون کارلو کو بلانے لگا جو ناہید کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ وہ اور ان پورنا آگے جاتے ہوئے مجمع سے ذرا فاصلہ پر سڑک کے کنارے چل رہے تھے۔ آسمان پر ستارے جگمگا اٹھے تھے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آ رہے تھے۔

’’تم زندگی سے بالکل مطمئن ہو خورشید احمد؟‘‘ ان پورنا نے تھوڑی دیر تک اس کے ساتھ چلتے رہنے کے بعد پوچھا۔ ’’بالکول۔۔۔ مجھ سے زیادہ بے فکر شخص کون ہو گا۔۔۔ ان پورنا رانی! میں جس کی زندگی کا واحد مصرف کھیلنا اور خوش رہنا ہے۔ جب میں اپنا طیارہ لے کر فضا کی بلندیوں پر پہنچتا ہوں۔ اس وقت مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میں موت سے ملاقات کرنے کی غرض سے جا رہا ہوں۔ موت مجھے کسی لمحے بھی زندگی سے چھین سکتی ہے۔ لیکن زندگی اب تک میرے لیے خوب مکمل اور بھرپور رہی ہے۔ میرے پیچھے اس خوب صورت دنیا میں صرف میرے دوست رہ جائیں گے جو کبھی کبھی ایسی ہی خوش گوار راتوں میں مجھے یاد کر لیا کریں گے۔‘‘

ان پورنا کا جی چاہا کہ وہ چلا کر کہے۔۔۔ ’’تم غلط کہتے ہو کمل اندر اگر تم مرو گے تو تمہارے لیے ایک روح ہمیشہ روئے گی کہ تم نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا۔ لیکن نہ مل سکے۔ اور پھر اپنی اوبزرویشن پوسٹ پر بیٹھے بیٹھے بیگم ارجمند اور کنور رانی صاحبہ نے طے کیا کہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے کا۔ نیک سیرت شکیل برسر روزگار اور اب تک یوں ہی کنوارا گھوم رہا ہے۔ اس کی شادی کروانی چاہئے۔ بیگم ارجمند اور کنور رانی صاحبہ نہایت تن دہی سے لڑکیاں کھوجنے میں مصروف ہو گئیں۔ جتنے خاندان اس سال مسوری آئے تھے ان کی لڑکیاں اور جتنے نہیں آئے تھے اور جتنی لڑکیاں کالجوں کی ڈگریاں لے کر اب شادی کے انتظار میں گھروں پر بیٹھی تھی۔ اور جتنی لڑکیوں کو ان کے والدین ہر سال مسوری محض اسی لیے لاتے تھے کہ کہیں چلتے پھرتے روڈ پر گھومتے۔ ہیگ منیز میں ناچتے اچھے کھاتے پیتے لڑکے مل جائیں۔ کیوں کہ ظاہر ہے جو لڑکے ہیک مینز میں ناچ سکتے ہیں۔ وہ یقیناً کھاتے پیتے بلکہ کھاتے کم پیتے زیادہ ہی ہوں گے۔ ان سب پر بیگم ارجمند نے اپنے برآمدے پر سے ایک طائرانہ نظر ڈالی اور خورشید کو ازدواجی زندگی کی گوناگوں خوبیوں سے آگاہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ بیگم انور امام بھی وقتاً فوقتاً کہنے لگیں کہ جب آپ ناہید کی منگنی کر چکی ہیں تو اب شادی بھی کر ڈالیے یا اگر اس جگہ کرنے کا اب آپ کا ارادہ نہیں رہا وہ دوسری بات ہے۔ میری نظر میں اور بھی کئی اچھے لڑکے ہیں وغیرہ۔ کہتے ہیں ایک شادی کرانے سے شاید ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔ بلکہ بعض کتابوں میں تو یہ تک لکھا ہے کہ مردے کے دفن اور لڑکی کے نکاح میں تاخیر نہ کرو کہ تاخیر سے جس گھر میں کنواری لڑکی دیر تک موجود رہے وہاں نیکی کے فرشتوں کا گزر کم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب مومنوں کی لڑکیاں عزت آبرو کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو بھیجے آمین۔

بیگم ارجمند کی نصیحتیں سن کر ناہید بھی بوکھلا گئی اور اسے لگا جیسے علی ریاض سے اب تک شادی نہ کر کے اس نے کوئی بڑا سخت ناقابل معافی جرم کیا ہے اور قیامت کے روز وہ قطعی نہ بخشی جائے گی۔ تب لاؤنج میں اور نشست کے بڑے کمرے میں اور ڈائننگ ہال میں چپکے چپکے سرگوشیاں شروع ہوئیں۔

’’یار برجیش ذرا باہر جا کر دیکھ تیری بیوی اس مسلمان چھوکرے کے لیے کتنی بے وقوف بن رہی ہے۔ مگر بھئی وہ طلاق بھی تو نہیں لے سکتی۔ ہندو عورت کو تو اپنے میاں کے ساتھ عمر بتانی پڑتی ہے۔‘‘ اور برجیش دن بھر زیادہ تر برج کھیلتا پھر اپنے دوستوں سے گولف کی باتیں کرتا رہتا۔ دن بھر بارش ہوتی رہی تھی۔ پھولوں کے پودے اور پائن کے درخت شام کی ہوا میں آہستہ آہستہ جھوم رہے تھے۔ ڈھلوان کی طرف بہتے ہوئے پانی میں سنگریزے جگمگا رہے تھے۔ ہوا میں مٹی اور پھولوں کی عجیب سوندھی سی خوشبو اڑ رہی تھی اور کچھ دور پر ایک پر شور پہاڑی نالہ پتھروں سے ٹکراتا تیزی سے نیچے گر رہا تھا۔

ان پورنا سیڑھیاں طے کر کے نیچے سڑک کی ریلنگ پر جھکی وادی کو دیکھنے لگی۔ جہاں مکانوں کی سرخ چھتیں ہرے درخت اور دھندلے بادل نیلے کہرے میں ایک دوسرے سے گھل مل رہے تھے۔ اس کے پاس جنگلے کے سہارے کھڑی ہوئی۔ ناہید نے جو بے فکری سے اپنا کوئی پسندیدہ گیت گنگنا رہی تھی دفعتاً اس سے پوچھا۔ ’’ان پورنا خورشید بڑا پیارا لڑکا ہے نا؟‘‘

’’ہم۔۔۔‘‘

’’میں اس سے شادی کر لوں؟‘‘ ناہید نے اسی بے فکری سے پوچھا۔ گویا لیلا رام کے یہاں آئی ہوئی کسی نئی قسم کی ساری کی خریداری کے متعلق رائے لے رہی ہے۔ ’’ہے بھگوان۔۔۔ کیسی مضحکہ خیز عجیب و غریب صورت حال تھی۔‘‘ بیگم ارجمند کے ذریعہ تو وہ کب کا کہلوا چکا ہے۔ وہ اب تک اس لیے خاموش تھا۔ کیوں کہ اس نے سنا تھا کہ میری نسبت پہلے ہی ہو چکی ہے۔ لیکن جب اسے پتہ چلا کہ خاندانی پولی ٹیکس کی وجہ سے یہ منگنی ٹوٹ گئی ہے۔ تو اس نے فوراً پروپوز کر دیا۔ کتنی سویٹ بات کی نا گڈو نے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ میرے گھر والے راضی نہ ہوں گے کیوں کہ وہ بے چارہ سید نہیں ہے اور ہمارے ہاں خاندان سے باہر اور خصوصاً غیر سیدوں سے شادی کر ہی نہیں سکتے‘‘۔

’’یہ تو بڑی ٹریجڈی ہے‘‘

’’اور کیا بھئی۔۔۔ بھئی اللہ ان پورنا تم تو کوئی رائے دیتی ہی نہیں۔ کتنی بور ہو خدا کی قسم۔ اور پرسوں ہم لوگ نیچے جا رہے ہیں۔‘‘

’’اچھا واقعی۔۔۔‘‘ پہاڑی نالہ اسی تیزی سے نیچے گر رہا تھا۔ سڑک پر رونق بڑھتی جا رہی تھی۔ پھر ان پورنا آہستہ آہستہ قدم رکھتی سیڑھیاں طے کر کے ہوٹل واپس آ گئی۔

نشست کے کمرے میں سے کسی ساز کی آواز آ رہی تھی۔ بہت مدھم سروں میں شاید وائلن کے تار چھیڑے جا رہے تھے۔ ایک بہت ہی پیارا نغمہ جو ان پورنا نے اب تک نہ سنا تھا بج رہا تھا۔ وہ لاؤنج کے سامنے سے گزر کر اپنے دنگ میں آ گئی۔ برجیش کمرے میں نہیں تھا۔ باہر اندھیرا اور خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ اپنے بیڈ روم کے دریچے میں کھڑے ہو کر فر کے درختوں کی اوٹ میں سے طلوع ہوتے ہوئے پورنماشی کے چاند کو دیکھ کر ان پورنا کو خیال آیا۔۔۔ ابھی تک برجیش گھوم کر واپس نہیں آیا کہیں اسے ٹھنڈ نہ لگ جائے۔ ہے رام۔ وائلن کی آواز خاموشی میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ پھر برجیش راج کمار روی کے ساتھ ٹہلتا ہوا بہت دور تک نکل گیا۔ شارول روڈ پر سے وہ دونوں کامپٹی فالز روڈ پر مڑ گئے اور خاموشی سے ٹہلتے ٹہلتے ریسٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔

’’یار تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے ہم لوگ کتنی دور نکل آئے ہیں۔ اب واپس چلو۔ ورنہ مجھے نمونیہ ہو جائے گا۔‘‘ راج کمار نے تھک کر ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ برجیش چٹان کے کنارے پر کھڑا وادی پر جلے ہوئے چاند کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ’’ارے بھائی جان اب چلنا چاہئے۔ کیا یہیں ریسٹ ہاؤس میں رات گزارنے کا ارادہ ہے۔ کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ راج کمار روی نے جھنجھلا کر پوچھا۔ ’’کچھ نہیں میں یہ سوچ رہا تھا۔ یہاں سے چاند تک کا آئرن شوٹ کتنا ہو گا۔۔۔؟‘‘

برجیش نچلی چٹان پر اتر آیا۔ چاند کی کرنوں میں آبشار کا شور مچاتا پانی پگھلی ہوئی چاندی کی طرح جھلملا رہا تھا۔ کہرا بڑھتا جا رہا تھا۔

راج کمار روی پتھر پر سے اٹھ کر سڑک کی طرف واپس جانے لگے اور اس وقت دفعتاً رات کی اتھاہ خاموشی میں پیچھے چٹان پر سے کسی بھاری چیز کی نیچے گہرے کھڈ کے پتھروں پر زور سے گرنے کی آواز آئی۔ پھر کھڈ کی گہرائی میں بہتے ہوئے آبشار کے پانی کا شور زیادہ ہو گیا۔ دور سوائے کے ایک خاموش کمرے میں وائلن کے تاروں سے بلند ہونے والا نغمہ دیر تک تاریکی میں گونجتا رہا تھا۔ کیوں کہ وہ برجیشور راؤ پربھاکر کا آخری نغمہ تھا۔

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید