محمد بن قاسم قسط نمبر 01
عیسوی 630 ،8ہجری، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تھا آپ حنین اور اوطاس کے مقام پر خونریز معرکہ لڑ کر طائف پہنچے تھے، طائف شہر کو محاصرے میں لینے سے کچھ پہلے خالد بن ولید شدید زخمی ہوگئے تھے، اس قدر شدید زخمی کے ان کے زندہ رہنے کی امید ماند پڑ گئی تھی، خالد زخمی ہو کر گھوڑے سے گرے تھے اور اپنے اور دشمن کے دوڑتے گھوڑے سے خالد کے اوپر سے گذر گئے تھے، خالد زندہ کیسے رہتے!
یہ حق و باطل کا وہ معرکہ تھا جس میں علی ابوبکر عمر اور عباس رضی اللہ تعالی عنہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مجاہدین اسلام کا مقابلہ جس کی قیادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں تھی طائف کے مشہور جنگجو قبیلہ ثقیف اور طائف کے گردونواح میں آباد قبیلہ ہوازن سے تھا، میدان جنگ میں ان دونوں قبیلوں کا سپہ سالار مالک بن عوف تھا، جس کی عمر 30 سال کے لگ بھگ تھی، سپہ سالاری کے لحاظ سے تیس سال عمر لڑکپن کی عمر سمجھی جاتی ہے لیکن مالک بن عوف اتنا ذہین آدمی تھا کہ وہ اسی عمر میں تجربے کار اور منجھا ہوا سپہ سالار بن گیا تھا، اس نے حنین اور اوطاس کے معرکوں میں مسلمانوں کو شکست کے کنارے تک پہنچا دیا تھا، مجاہدین کے لشکر کے ایک دو دستوں نے پسپائی اختیار کر لی تھی۔
خالد بن ولید موت و حیات کی کشمکش میں پڑے تھے جسم خون سے خالی ہو رہا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جا کے دیکھا تو آہ نے خالد کے زخموں پر پھونک ماری خالد نے آنکھیں کھولیں پھر اٹھ کھڑے ہوئے زخموں کے باوجود خالد آخر تک اس جنگ میں شریک ہوئے۔
اس جنگ کی اگلی اور آخری کڑی طائف کا محاصرہ تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مجاہدین نے بے جگری سے جوابی حملے کیے تو ثقیف اور ھوازن تاب نہ لاسکے اور پسپا ہوگئے، ان کا مرکز طائف تھا جہاں جاکر وہ قلعہ بند ہو گئے، وہ پسپا تو ہو گئے تھے مگر ان کے حوصلے نہ ٹوٹے، مالک بن عوف نے اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خوف سے پسپا نہیں ہوا بلکہ وہ مسلمانوں کو اپنی مرضی کے میدان میں لڑائے گا۔
اٹھارہ روز محاصرہ جاری رہا مسلمانوں نے بڑھ بڑھ کر قلعے پر ہلے بولے اور دشمن کے تیر اندازوں کے تیروں سے زخمی اور شہید ہوتے رہے ،آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء سے مشورہ طلب کیا، ابوبکر اور عمر نے مشورہ پیش کیا کہ محاصرہ اٹھا کر واپسی کا راستہ اختیار کیا جائے، مگر جوشیلے اور جذباتی مسلمانوں نے اس مشورے کے خلاف احتجاج کیا وہ قلعہ سر کرنے پر تلے ہوئے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک اور حملہ کرنے کی اجازت دے دی مگر مجاہدین آگے بڑھے تو دیواروں کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگی، آگے جانا ناممکن ہوگیا بہت سے مجاہدین زخمی ہوگئے۔
آخر محاصرہ اٹھا لیا گیا۔
مسلمانوں نے ابھی اپنا پڑاؤ وہاں سے سمیٹا نہیں تھا، زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ان میں بیشتر شدید زخمی تھے جو سفر کے قابل نہیں تھے ٹی 20 فروری کے روز محاصرہ اٹھایا گیا اور 26 فروری کے روز مجاہدین کا لشکر جعرانہ پہنچا اور پڑاؤ کیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین کو کچھ آرام دینا چاہتے تھے ،شدید زخمیوں کو مرہم پٹی اور مکمل آرام کی ضرورت تھی۔
مسلمان ناکام لوٹ رہے تھے انہیں نہ صرف یہ کہ ناکامی ہوئی تھی بلکہ بہت سے مسلمان شہید ہو گئے، بہت سے ایسے زخمی ہوئے کہ عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے اور زخمیوں کی تعداد تو بے شمار تھی ،طائف کا شہر روز اول کی طرح کھڑا تھا اور شہر پناہ مسلمانوں کا مذاق اڑا رہی تھی۔
پھر ایک معجزہ ہوا مسلمان ابھی جعرانہ کے پڑاؤ میں ہی تھے کہ ان کے دشمن قبیلے ہوازن کے چند ایک سرکردہ آدمی مسلمانوں کے پڑاؤ میں آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی استدعا کی کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا گیا اور چند ایک مجاہدین جنگی تلواریں اور برچھیاں لیے پاس کھڑے رہے کیونکہ ان آدمیوں کا کچھ اعتبار نہ تھا ،غیر مسلم قبائل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنتے ہی رہتے تھے۔
قبیلہ ہوازن پر یہ افتاد آپڑی تھی کہ طائف کے محاصرے سے پہلے ایک لڑائی میں انہیں پسپا ہونا پڑا تھا اور ان کا بہت سا مال اسباب عورتیں اور بچے مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے تھے، اس وقت کے رواج کے مطابق یہ سب مال غنیمت تھا جو ہوازن واپس نہیں لے سکتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ کوئی آدمی جنگ کے بعد اسلام قبول کر لے تو بھی اسے یہ حق دیا جائے گا کہ وہ اپنا مال واپس لے لے۔
اے محمد!،،،،، ہوازن کے اس وفد کے سرکردہ آدمی نے کہا ۔۔۔ہم نے اپنے پورے قبیلے کے ساتھ تجھے اللہ کا بھیجا ہوا رسول مان لیا ہے، ہمارا پورا قبیلہ تیرے مذہب میں داخل ہوچکا ہے ۔
خدا کی قسم ۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔۔۔ تم نے فلاح کی راہ پائی ہے اور یہی صراط مستقیم ہے۔
اے محمد کہ تو اللہ کا رسول ہے ۔۔۔وفد کے قائد نے پوچھا۔۔۔کیا ہمیں ہماری عورتیں اور ہمارے بچے اور ہمارے مال و اموال واپس نہیں کرے گا۔
ہم سے لڑ کر اور ہمارے آدمی قتل اور زخمی کرکے جو تو نے کھویا ہے اس پر تمہارا کوئی حق نہیں۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔۔۔ لیکن میں اس اللہ کے نام پر جسے تم نے وحدہ لاشریک اور معبود مان لیا ہے۔ تمہارا دل نہیں توڑوں گا ۔کیا تمہیں اپنے مال و اموال عزیز ہے یا عورتیں اور بچے؟
ہمیں ہماری عورتیں اور بچے دے دے۔۔۔ وفد نے کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیاضی کا مظاہرہ کیا اور حکم دیا کے قبیلہ ہوازن کو ان کی عورتیں اور ان کے بچے واپس کر دیے جائیں، اہل ہوازن کو توقع نہیں تھی کہ ان کی عورتیں اور بچے انہیں مل جائیں گے، اور پورے کا پورا قبیلہ ہوازن مسلمان ہو گیا ۔
اس کے دو تین روز بعد ایک اجنبی مسلمانوں کے پڑاؤ میں داخل ہوا اس نے سر اور چہرے پر جو کپڑے لپیٹ رکھا تھا اس میں سے اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں، اسے روکا گیا تو اس نے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتا ہے۔
کیا تو طائف سے نہیں آیا؟،،،، ایک مسلمان نے اس سے پوچھا۔
میں طائف کی طرف سے آیا ہوں ۔۔۔اجنبی نے کہا۔
یہ مسلمان ان چند ایک مجاہدین میں سے تھا جو گدڑیوں اور شتربانوں کے بھیس میں طائف کے اردگرد گھومتے پھرتے رہتے تھے۔
خطرہ تھا کہ طائف سے اہل ثقیف نکل کر مسلمانوں کے پڑاؤ پر بے خبری میں حملہ کردیں ۔
اس مجاہد نے اس آدمی کو طائف کے ایک دروازے سے نکلتے دیکھا پھر اسے مسلمانوں کی خیمہ گاہ کی طرف جاتے دیکھا تو اس کے پیچھے چل پڑا اس کی نظر میں یہ آدمی مشکوک تھا ۔
اور میں نے تجھے طائف کے دروازے سے نکلتے دیکھا ہے ۔۔۔مجاہد نے کہا ۔۔۔خدا کی قسم تو اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
میں جس ارادے سے آیا ہوں وہ میں پورا کرکے ہی جاؤں گا۔۔۔ اجنبی نے کہا ۔۔۔کیا تم مجھے رسول اللہ تک نہیں پہنچاؤ گے؟
لیکن اپنا چہرہ تو کیوں نہیں دیکھاتا ؟
اجنبی نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا۔
خدا کی قسم!،،،، مجاہد نے کہا۔۔۔ تو مالک بن عوف ہے ہم تجھے نہیں روک سکتے ۔ دو تین مجاہدین اس کے ساتھ ہو لئے اور اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے تک پہنچا دیا گیا۔
بن عوف!،،،، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔۔۔ کیا تو صلح کا پیغام لایا ہے یا کسی اور ارادے سے آیا ہے؟
میں تیرے مذہب میں داخل ہونے کے لیے آیا ہوں۔۔۔ مالک بن عوف نے کہا۔
اور طائف کے مشہور و معروف اور جنگجو قبیلہ ثقیف کے سردار مالک بن عوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسلام قبول کر لیا۔
مؤرخ اس معاملے میں خاموش ہیں کہ مالک بن عوف نے اسلام قبول کیوں کیا تھا، اس پر کوئی جبر نہ تھا اس نے تو مسلمانوں کا محاصرہ ناکام کردیا اور انہیں واپس چلے جانے پر مجبور کر دیا تھا ،اسے مسلمان ہونے کی کیا ضرورت تھی ،شاید وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سلوک سے متاثر ہوا تھا جو آپ نے ہوازن کے وفد کے ساتھ کیا تھا۔ بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ثقیف کے سردار مالک بن عوف نے اسلام قبول کر لیا اور وہ کئی جنگوں میں شریک ہوا
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
طائف شہر آج بھی موجود ہے تاریخ میں اس کی اہمیت اتنی سی ہے کہ آج سے چودہ سو دن پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر کا محاصرہ کیا تھا اور اہل طائف نے ایسی بے جگری سے مقابلہ کیا تھا کہ مسلمانوں کو محاصرہ اٹھا کر واپس آنا پڑا تھا، لیکن اللہ تبارک وتعالی نے چونسٹھ برس بعد اس شہر کو وہ سعادت بخشی کے طائف تاریخ اسلام کا ایک سنگ میل بن گیا، مالک بن عوف کا قبول اسلام اس سعادت کا پیش خیمہ تھا۔
694عیسوی کا واقعہ ہے طائف کی ایک عورت کے بطن میں ایک بچے کے آثار نمودار ہوئے، اس کا خاوند فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا وہ کچھ دنوں کے لیے گھر آیا تو بیوی نے اسے بتایا کہ وہ امید سے ہے۔
میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس سے پریشان ہوں۔۔۔ اس عورت نے اپنے خاوند سے کہا۔۔۔میں دیکھتی ہوں کہ میرا گھر اچانک تاریک ہو گیا ہے، ایسی تاریکی کے اپنا آپ بھی دکھائی نہیں دیتا، دل خوف اور گھبراہٹ سے ڈوب رہا ہے، دل کہتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے، کیا ہوگا پتا نہیں چلتا میں گھر میں اکیلی کسی کو پکارنا چاہتی ہوں تو منہ سے آواز نہیں نکلتی، بھاگ کے باہر جانا چاہتی ہو تو قدم نہیں اٹھتے ،سوچتی ہوں کیا کروں تو کچھ سوچا نہیں جاتا،،،،،،،،
اللہ کو یاد کرتی ہوں آواز تو نہیں نکلتی لیکن دل سے دعا نکلتی ہے، پھر دور اوپر آسمان پر ایک ستارہ نظر آتا ہے جو پہلے تو مدھم تھا پھر روشن ہو جاتا ہے یہی ایک روشنی ہے جو گھپ تاریکی میں نظر آتی ہے، امید کی کرن کی طرح ستارہ روشن ہوتا جاتا ہے اور ستارہ نیچے کو آ رہا ہے، تاریکی کم ہوتی جاتی ہے آخر ستارہ روشنی کے ایک گولے کی شکل میں ہمارے صحن میں اتر آتا ہے، اور روشنی ہمارے سارے گھر میں پھیل جاتی ہے، یہ روشنی زمین کی روشنی نہیں لگتی آسمان کا نور لگتی ہے، دل سے خوف اتر جاتا ہے روح کو سکون ملتا ہے اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
خواب برا تو نہیں۔۔۔۔ اس عورت کے خاوند نے کہا۔
مگر یہ تاریکی کیسی تھی۔۔۔ عورت نے پوچھا۔۔۔ اور کہا۔۔۔ تاریکی یاد آتی ہے تو دل گھبرانے لگتا ہے، کیا تم کسی ایسے عالم کو یا کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتے جو خوابوں کی تعبیر بتا سکتا ہو۔
لوح تقدیر کا لکھا ہوا کوئی مٹا نہیں سکتا۔۔۔ خاوند نے کہا۔۔ تعبیر اچھی نہ ہوئی تو اسے ٹال سکے گی۔
شاید اچھی ہو۔۔۔ بیوی نے کہا۔۔۔ پوچھ تو لو۔
بیوی نے ایسی ضد کی کہ خاوند طائف کے ایک بزرگ اسحاق بن موسی کے پاس گیا اور اپنی بیوی کا خواب بیان کیا ،اسحاق بن موسی علم نجوم اور خوابوں کے تعبیر کے علم کا عالم تھا، اس نے خواب سنا اور اپنے خیال میں کھو گیا اس نے اس آدمی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پھیلایا اور اس کی لکیر غور سے دیکھنے لگا وہ افسردہ سا ہو گیا اور اس نے اس آدمی کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
بولو ابن موسی!،،،،،،ہونے والے کے بچے کے باپ نے کہا۔۔۔ تعبیر بری ہے تو بھی بتادے۔
تعبیر بری نہیں!،،،،،، اسحاق بن موسی نے کہا۔۔۔ تیری بیوی کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا وہ روشن ستارے کی مانند ہوگا جسے ساری دنیا دیکھے گی وہ اللہ کے نور کو دور دور تک پھیلائے گا ،صدیوں بعد آنے والی نسلیں بھی اسے یاد کریں گے اور تجھے لوگ اس کے نام سے پہچانے گے اس کے حکم سے کمان سے نکلے ہوئے تیر بہت دور پہنچیں گے،،،،،اسحاق بن موسی چپ ہو گیا۔
وہ کچھ دیر چپ رہا وہ اس طرح بولتے بولتے چپ ہو گیا جیسے کوئی بات اس نے اپنے دل میں رکھ لی ہو۔
خدا کی قسم ابن اسحاق!،،،،، ہونے والے بچے کے باپ نے کہا ،،،،تیری خاموشی بے معنی نہیں ہے، بری خبر سننے کے لیے بھی تیار ہوں مجھے وسوسوں میں نہ رکھ، تیرے علم نے جو دیکھا ہے وہ بتا دے ۔
پھر سن لے۔۔۔ موسی نے کہا ۔۔۔ستارہ جو تیرے گھر میں آرہا ہے وہ ان ستاروں میں سے ہے جو جلدی ٹوٹ جاتے ہیں اور آسمان کی وسعتوں میں گم ہوجاتے ہیں، مگر اس کا جسم گم ہوگا اس کا نام زندہ رہے گا ،اور اس کے ٹوٹ جانے سے تیرے گھر میں تاریکی نہیں ہوگی، وہ نہیں ہوگا تو بھی لوگ کہیں گے کہ وہ ہے۔
میں اس کی پرورش ایسی کرونگا کہ وہ اسلام کے آسمان کا روشن ستارہ بنے۔۔۔ بچے کے باپ نے کہا۔۔۔
یہ بھی سن لے۔۔۔ اسحاق بن موسی نے کہا۔۔۔ اس کی پرورش تو نہیں کرے گا اس کی ماں کرے گی۔
میں کیوں نہیں کرونگا؟،،،، خواب دیکھنے والی عورت کے خاوند نے پوچھا ۔۔۔میں کہاں چلا جاؤں گا۔
میں جو بتا سکتا تھا بتادیاہے۔۔۔ اسحاق ابن موسی نے کہا۔
یہ آدمی تعبیر سن کر اٹھ آیا اور اپنی بیوی کو تعبیر بتائی، بیوی خوش تو بہت ہوئی لیکن اس خیال سے مغموم ہو گئی کہ جس بیٹے کو وہ جنم دے گی اس بیٹے کی عمر تھوڑی ہو گی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
بچے کی پیدائش میں کچھ دن باقی تھے کہ باپ کو جنگ پر بھیج دیا گیا اور وہ دشمن کے ہاتھوں مارا گیا، اسحاق بن موسی کی یہ پیشن گوئی پوری ہوگئی کہ بچے کی پرورش باپ نہیں کرے گا ما کرے گی، بعد میں اسحاق بن موسی نے کہا تھا کہ خواب میں گھر میں جو تاریکی دیکھی گئی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ موت اس گھر کو تاریخ کرے گی ،پھر آسمان سے ایک ستارہ اتر کر اس گھر کو روشن کرے گا۔
باپ کی وفات طائف سے دور ہوئی اس کے چند روز بعد بچّہ پیدا ہوا ،وہ لڑکا تھا ،بچے تو خوبصورت ہی ہوا کرتے ہیں یہ بچہ بھی خوبصورت تھا، لیکن اس کی چوڑی پیشانی اور آنکھوں کو جس نے بھی دیکھا اس نے کہا یہ عام بچوں جیسا نہیں
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
اس باپ کا نام جو اپنے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو گیا تھا قاسم بن یوسف تھا، بچے کا نام محمد رکھا گیا جو محمد بن قاسم کہلایا، اور جو تاریخ اسلام کا ایک روشن ستارہ بنا۔
قاسم بن یوسف اور حجاج بن یوسف دو بھائی تھے ،اس وقت خلیفہ عبد الملک بن مروان تھا۔ دونوں بھائی بڑے جرات مند اور فن حرب و ضرب کے ماہر تھے، فوج میں دونوں اعلی عہدوں پر فائز تھے، یہ اس دور کا ذکر ہے جب مسلمان آپس میں پھٹ چکے تھے ،بھائی بھائی کا دشمن ہو چکا تھا ،یہاں تک کہ خلافت کے بھی دو حصے ہوگئے تھے، خلافت شام اور مصر تک محدود تھی ،عبداللہ بن زبیر نے عراق اور حجاز میں اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی تھی، اور اس نے اموی خلافت کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھا۔
عبداللہ بن زبیر خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نامور نواسا تھا ۔ اس نے یزید بن امیر معاویہ کی بیعت سے بھی انکار کیا تھا ،اور حجاج اور عراق میں مسلمانوں کو جمع کرکے متوازی حکومت کر لی تھی ، یزید کے بیٹے معاویہ خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا تو بنو امیہ کی باقاعدہ خلافت کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ہی خانوادہ رسول اور خصوصا بنی فاطمہ رضی اللہ عنہ پر ظلم و ستم کے ایک دور کا آغاز ہو گیا ، عبداللہ بن زبیر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بڑی بہن اسماء کے فرزند تھے، ایک پہاڑ کے طرح اس ظلم و ستم کے آگے آ گئے۔
امویوں نے عبداللہ بن زبیر کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے پہلے عراق پر فوج کشی کی اور پھر حجاز مقدس پر حملہ کیا، دونوں حملوں میں اموی فوج کی کمان حجاج بن یوسف کے ہاتھ میں تھی، عبداللہ بن زبیر کو حصار سے نکالنے کے لئے حجاج بن یوسف نے خانہ کعبہ پر منجیقوں سے سنگ باری بھی کرائی جس سے بیت اللہ کی عمارت کو نقصان پہنچا ،آخر ایک خونریز معرکے کے بعد عبداللہ بن زبیر نے اپنی جان اپنے مقاصد کے خاطر قربان کردی۔ حجاج بن یوسف جو ظلم و ستم کے مقابلے میں اس دور میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کی حکومت کو بدامنی سے محفوظ رکھنے کے لیے اختلاف رائے رکھنے والوں اور خلافت کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو عبرت ناک سزائیں دیا کرتا تھا، اس نے عبداللہ بن زبیر کو عبرت کی مثال بنانے کے لئے ان کی لاش کی بے حرمتی کی، اور لاش کے سارے جوڑ الگ الگ کرکے ان کے مردہ وجود کو چوراہے پر لٹکا دیا، جو کئی دن تک لٹکا رہا، اور حجاج بن یوسف کے خوف سے لوگوں نے ان کو نہ اتارا۔
عبداللہ کی والدہ اسماء بنت ابوبکر جو اس وقت ضعیف تھی اور نابینا بھی، لاٹھی ٹیکتی ہوئی اس چوراہے پر پہنچیں جہاں ان کے فرزند کی لاش لٹک رہی تھی، انہوں نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے لاش کو ٹٹولا اور پھر عربی کا وہ شعر پڑھا جس کا ترجمہ ہے۔
یہ کون شہسوار ہے جو ابھی تک گھوڑے سے نہیں اترا۔
عبداللہ بن زبیر کے بعد حجاز اموی خلافت کے زیر نگیں آ گیا، اور حجاج بن یوسف کو اس کا گورنر مقرر کیا گیا ،اس کے گورنر بنتے ہی صوبے میں امن و امان قائم ہو گیا ،ادھر عراق میں خارجیوں نے شور بپا کر رکھی تھی خلیفہ نے ان کی سرکوبی کے لیے بھی حجاج کو ہی مامور کیا ایک طویل جنگ کے بعد حجاج کو فتح نصیب ہوئی۔
حجاج کو اس جنگ میں یہ نقصان اٹھانا پڑا کے اس کا عزیز بھائی جو ان جنگوں میں اس کا دست راست بھی تھا خارجیوں کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا ،اور اسے اپنے گھر میں طلوع ہونے والے اس روشن ستارے کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا ،جس نے بعد میں اپنے چچا حجاج کے ظلم و ستم کی داستانوں کو لوگوں کے ذہنوں سے محو کردیا ،اور شجاعت اور دلیری کی ایسی مثال پیش کی کہ بے دین دشمنوں نے اسے پوجنا شروع کردیا ۔
محمد بن قاسم حجاج بن یوسف ثقفی کا بھتیجا اور قاسم بن یوسف کا نور نظر تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
محمد بن قاسم جب پیدا ہوا تو خوشیوں پر غم کے بادل چھائے ہوئے تھے ،نومولود کا باپ اس خوشی میں شریک نہیں تھا بچے کی ماں اور سب غمگین تھے کہ بچہ یتیم پیدا ہوا تھا۔ حجاج بن یوسف کو اطلاع ملی تو وہ فوراً پہنچا اسے بچہ دکھایا گیا وہ بچے کو ہاتھوں پر اٹھائے اندر گیا۔
اس بچے کا باپ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔۔۔ حجاج نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہا۔۔۔ لیکن اسے یتیم نہ سمجھنا میں زندہ ہوں سمجھ لے کے اس کا باپ زندہ ہے، تو جانتی ہے قاسم مجھے کتنا پیارا تھا اس نے مجھے تیرا خواب اور اسحاق بن موسی کی پیشن گوئی بتائی تھی، اسے طائف کا نہیں سرزمین عرب کا روشن ستارہ بننا ہے، اپنے آپ کو بیوہ اور بے آسرا نہ سمجھنا ،اس بچے کے دادا کے خون کی قسم جو اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے میں اس کی تعلیم و تربیت ایسی کرونگا کہ صدیوں بعد آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی یہ زندہ رہے گا ۔
حجاج بن یوسف کے یہ الفاظ رسمی یا جذباتی نہیں تھے اس نے بچے کی تعلیم و تربیت کا شہانہ انتظام کیا تھا، اس کے لئے منتخب اتالیق رکھے تھے ،بچپن سے ہی بچے کو جنگی تربیت دی جانے لگی تھی ،اس کے کھلونے چھوٹی چھوٹی تلواریں اور برچھیاں اور کمانیں تھیں، جو اس کی عمر کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی گئی تربیت میں گھوڑ سواری خاص طور پر شامل تھی۔
بچہ باپ کی جو کمی محسوس کررہا تھا وہ ماں پوری کرتی تھی لیکن وہ اسے اپنے ساتھ چپکاتی نہیں تھی بلکہ پیار پیار میں اسے مرد بناتی تھی ،حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہہ رکھا تھا کہ اپنے بھائی کے بچے کو معمولی سپاہی نہیں بلکہ سالار بنائے گا ،اور سالار بھی ایسا جو صرف فوج کی کمان نہیں کرے گا بلکہ حکومت کرے گا ۔
حجاج بن یوسف غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا اور اپنا حکم منوانے کے لئے ظلم و تشدد پر بھی اتر آتا تھا، یہی اوصاف کی بدولت اسے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے پہلے حجاز کا پھر حجاز، اعراق ،بلوچستان اور مکران کا حاکم اعلیٰ (گورنر) بنا دیا تھا، خلیفہ کو حجاج کے ان اوصاف کا علم ایک واقعے سے ہوا تھا۔
واقعہ یوں ہوا تھا کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان کی فوج میں نظم و نسق کی کمی تھی اس فوج میں خرابی یہ تھی کہ اسے کوچ کے لئے حکم ملتا تو کوچ کی تیاری میں ہی بہت سا وقت ضائع کر دیتی تھی، اسے معلوم تھا کہ اسلامی فوج میں یہ خوبی ہوا کرتی تھی کہ اس کا کوچ ایسا برق رفتار ہوتا تھا کہ دشمن حیران رہ جاتا تھا اور بے خبری میں مارا جاتا تھا، خلیفہ عبدالملک کا وزیر روح بن عنباع تھا۔
روح بن رنباع!،،،،، ایک روز خلیفہ نے وزیر سے کہا۔
کیا میری فوج میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو اس میں نظم و نسق پیدا کرکے اسے چاک و چوبند بنادے۔
ایک آدمی پر میری نظر ہے امیرالمومنین !،،،،روح بن رنباع نے کہا۔
اسے آزما کر دیکھ لیتے ہیں کون ہے وہ ؟
اس کا نام حجاج بن یوسف ہے امیرالمومنین!،، روح بن رنباع نے کہا۔۔۔۔ طائف کے جنگجو خاندان کا فرد ہے وہ فوج میں ہے لیکن اس کا کوئی عہدہ نہیں، دوسروں سے مختلف اور عقل والا معلوم ہوتا ہے ۔
اسے میرے پاس بھیج دو ۔۔۔خلیفہ نے حکم دیا۔
حکم کی تعمیل ہوئی حجاج بن یوسف خلیفہ کے سامنے جا کھڑا ہوا ،ڈیل ڈول اور چہرے سے حجاج نے خلیفہ کو متاثر کر لیا۔
ابن یوسف !،،،،،خلیفہ نے حجاج سے کہا۔۔۔ اگر میرے ایک حکم کی تعمیل کر آسکو تو بہت بڑا عہدہ دوگا۔
حکم امیرالمومنین!،،،،،، حجاج بن یوسف نے کہا۔۔۔۔فوج اس طرح تیار رہے کہ میں گھوڑے پر سوار ہو کر کسی طرف کوچ کے لیے نکلوں تو فوج گھوڑوں پر سوار ہو کر میرے پیچھے چل پڑے، خلیفہ نے کہا مجھے انتظار نہ کرنا پڑے، ہم کوچ سے تھوڑی دیر پہلے تمہیں بتائیں گے۔
اسی روز یا اس سے اگلے روز خلیفہ نے اچانک حجاج کو بلا کر حکم دے دیا کہ اس کی سواری تھوڑی دیر میں نکل رہی ہے، اور فلاں فلاں دستہ گھوڑوں پر سوار ہو کر اس کے ساتھ جائے گا ،وزیر روح بن رنباع بھی اپنے محافظ دستے کے ساتھ میرے ساتھ آئے ،خلیفہ نے کہا۔
یہ غالبا حجاج کا امتحان تھا فوج خیموں میں تھی حجاج بن یوسف مطلوبہ دستوں کے خیموں میں گیا اور اعلان کیا کہ امیرالمومنین کی سواری نکل رہی ہے اور دستے جنگی تیاری میں گھوڑوں پر سوار ہو جائیں ،حجاج نے دیکھا کہ وزیر اپنے خیمے میں موجود ہی نہیں، وہ تین کمانڈر بھی اپنے خیموں میں نہیں تھے، سپاہی گپ شپ لگا رہے تھے بعض کھانا پکا رہے تھے، انہوں نے جیسے اعلان سنا ہی نہ ہو ،حجاج چلاتا رہا تھا۔
اوئے حجاج !،،،،،،ایک سپاہی نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔۔۔ کیوں گلا پھاڑ رہے ہو ادھر آؤ کھانا کھا لو۔
حجاج نے کہیں سے ایک ہنٹر لے لیا اور کھانے پر مدعو کرنے والے سپاہی کو ہنٹر مارنے شروع کر دیے، پھر اس نے جس سپاہی کو بیٹھے دیکھا اسے دو تین ہنٹر مارے، وہ کہتا جاتا تھا میں امیرالمومنین کا حکم سنا رہا ہوں۔ اس نے پھر بھی سپاہیوں میں سستی دیکھی تو اس نے دو تین خیموں کو آگ لگادی ان میں ایک خیمہ وزیر کا تھا، کسی نے وزیر کو جہاں کہیں وہ تھا جا کر بتایا کہ اس کا خیمہ جل رہا ہے ۔
مطلوبہ دستے بروقت تیار ہو کر گھوڑوں پر سوار ہو گئے خلیفہ کی سواری نکلی تو سوار دستے اس کی قیادت میں چلنے کو تیار تھے۔ وہ بہت خوش ہوا مگر وزیر روح بن رنباع خلیفہ کے آگے جا کھڑا ہوا۔
امیرالمومنین!،،،،، وزیر نے خلیفہ سے شکایت کی۔۔۔ حجاج بن یوسف نے میرا خیمہ اور دو اور خیمے جلا دیے، اور اس نے تین چار سپاہیوں کو کوڑے مارے ہیں ،اس کا کوئی عہدہ نہیں اور مجھے یقین ہے کہ امیرالمومنین نے اسے حکم نہیں دیا ہوگا ۔
خلیفہ نے حجاج کو بلوایا ۔
کیا یہ صحیح ہے کہ تو نے خیموں کو آگ لگائی ہے۔۔۔ خلیفہ نے پوچھا ۔
امیرالمومنین!،،،، حجاج نے جواب دیا۔۔۔ مجھ غلام کو ایسی جرات نہیں ہو سکتی کہ خیموں کو آگ لگا دوں، میں نے کسی کا خیمہ نہیں جلایا۔
کیا تو نے سپاہیوں کو کوڑے مارے ہیں؟،،،، خلیفہ نے پوچھا۔
نہیں امیرالمومنین !،،،،،حجاج نے جواب دیا۔۔۔ میں نے کسی کو کوڑے نہیں مارے۔
خلیفہ کو جلے ہوئے خیمے دکھائے گئے پھر انہیں ان سپاہیوں کی پیٹھ ننگی کر کے دکھائی گئی جنہیں حجاج نے کوڑے مارے تھے۔
ابن یوسف !،،،،خلیفہ نے حجاج سے پوچھا۔۔۔ تو نے نہیں تو کس نے یہ خیمے جلائے ہیں، کس نے سپاہیوں کو کوڑے مارے ہیں ؟
آپ نے امیرالمؤمنین !،،،،،،حجاج نے کہا۔۔۔ آپ نے جلائے ہیں ،اور کوڑے بھی آپ نے،،،،،،،،، خاموش!،،،،،، خلیفہ نے گرج کر کہا۔۔۔ تو پاگل معلوم ہوتا ہے۔
امیرالمومنین!،،،،، حجاج نے کہا ۔۔۔جو کچھ ہوا آپ کے حکم پر ہوا ،آپ فوج میں تیزی اور مستعدی چاہتے تھے یہی ایک طریقہ تھا جس سے میں آپ کا حکم منوا سکتا تھا ،میرا ہاتھ آپ کا ہاتھ تھا، میرے ہاتھ میں کوڑا آپ کا تھا، میرا خیمے کو جلانے والی آگ آپ کی آگ تھی ،میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔
خدا کی قسم!،،،،، خلیفہ عبدالملک نے پرجوش لہجے میں کہا ۔۔۔مجھے اسی آدمی کی ضرورت تھی۔ خلیفہ نے حجاج بن یوسف کو اعلی عہدہ دے دیا یہ حجاج کے ظلم و تشدد کی ابتدا تھی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
یہ تھا حجاج بن یوسف اور یہ تھی اس کی ذہانت اور اس کا کردار ،اور یہ تھا حجاج بن یوسف جس نے اپنے بھائی قاسم بن یوسف کے بیٹے محمد بن قاسم کی تعلیم و تربیت اپنے ذمے لے رکھی تھی اور بچے کو ایک خاص سانچے میں ڈھال رہا تھا۔
705 عیسوی میں خلیفہ عبد الملک بن مروان فوت ہو گیا تو اس کا بڑا بیٹا ولید بن عبدالملک مسند خلافت پر بیٹھا، وہ اپنے باپ جیسا ذہین اور مدبر نہیں تھا، یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ اس کے باپ نے بغاوتوں اور سرکشی کو دبا دیا تھا، خارجیوں کا گلا بھی گھونٹ دیا گیا تھا، اس کے علاوہ فوج میں قتیبہ بن مسلم، موسیٰ بن نصیر ،اور مسلم بن عبدالملک جیسے نڈر اور منجھے ہوئے سالار موجود تھے۔
نئے خلیفہ کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ اسے حجاج بن یوسف جیسا جابر اور دانشمند مشیر حاصل تھا، جو بہترین منظم اور تجربے کار سالار بھی تھا ،اور وہ تمام تر مشرقی علاقوں کا گورنر تھا ،حجاج نے خلیفہ ولید بن عبدالملک کی کمزوریوں کو بھانپ لیا تھا، اس نے خلیفہ کی کمزور رگوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس پر چھا گیا۔
ایک بار حجاج طائف گیا وہ ایک عرصے بعد طائف گیا تھا، محمد بن قاسم کی ماں کو اطلاع ملی تو وہ حجاج سے ملنے اس کے گھر گئی۔
تو خود ہی کیوں چلی آئی ہے۔۔۔ حجاج نے اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کو دیکھ کر کہا۔۔۔ کیا تو یہ سمجھتی تھی کہ میں تیرے گھر نہیں آؤں گا، اور تجھ سے نہیں کہوں گا کہ میرے بھائی کی امانت مجھے دکھا، کہاں ہے محمد میں نے اسے دیکھنے خود آنا تھا۔
اللہ میرے بھائی کو اپنی رحمت میں رکھے۔۔۔ محمد بن قاسم کی ماں نے کہا ۔۔۔میں نے اسے نیا گھوڑا لے دیا ہے پہلے وہ بھلے مانس سے گھوڑے کی سواری کرتا رہا ہے ،اب جو گھوڑا اسے لے دیا ہے کوئی شہسوار ہی اس پر سواری کر سکتا ہے ،محمد جوان ہو گیا ہے اسے اب جنگی گھوڑے کی سواری کرنی چاہیے ،وہ گھوڑا لے کے نکل گیا ہے، اللہ کرے گھوڑا اس کے قابو میں رہے، بڑا زبردست گھوڑا ہے۔
اللہ کرے وہ گرے ۔۔۔حجاج نے کہا ۔۔۔اسے گر کر اٹھنے کی تربیت ملنی چاہیے، شہسوار گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں گھوڑے کے قدموں تلے آکر بنا کرتے ہیں، اور میری بہن وہ گر کر واپس آیا تو اسے سینے سے نہ لگانا اس کا خون بہ رہا ہو تو اپنی اوڑھنی پھاڑ کر اس کے زخموں پر نہ باندھنا، اس پر ممتا کا تاثر طاری نہ کر دینا ،اسے اپنا خون دیکھنے دینا اور اسے بتانا کے یہ خون کس کا ہے ،میں تیرے گھر آ رہا ہوں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
کچھ دیر بعد حجاج بن یوسف ادھر جا رہا تھا محمد بن قاسم کی ماں کو اطلاع ملی تو وہ اس کے استقبال کے لیے باہر آگئی۔
حجاج اس کے مرحوم خاوند کا بڑا بھائی ہی نہ تھا بلکہ آدھی سلطنت کا حاکم اعلیٰ تھا، وہ محمد بن قاسم کے شاہانہ مکان میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ اسے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دیے اس نے ادھر دیکھا ایک سوار گھوڑا دوڑاتا آ رہا تھا، حجاج اسے دیکھنے کو رک گیا ،محمد بن قاسم کی ماں اس کے پاس کھڑی تھی۔
سوار ان کے قریب سے گزر گیا اس نے گھوڑے کی رفتار کم نہ کی اس نے حجاج کی طرف دیکھا ہی نہیں ،حجاج کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار آگئے ،صاف پتہ چلتا تھا کہ سوار کے اس طرح قریب سے گزر جانے کو اس نے بدتہذیبی سمجھا تھا ،وہ قبیلہ ثقیف کا سرکردہ فرد تھا طائف کے لوگ اس کی بہت عزت کرتے تھے۔
معلوم ہوتا ہے میرے قبیلے کے بیٹے مجھے بھول گئے ہیں۔۔۔ حجاج نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہا۔۔۔ یہ لڑکا مجھے مرغوب کرنے کے لئے میرے پاس سے گزر گیا ہے، تم جانتی ہو گی یہ کس کا بیٹا ہے۔
اپنا ہی بیٹا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم کی ماں نے کہا۔۔۔ محمد ہے۔
نہیں!،،،، حجاج نے حیرت سے کہا ۔۔۔ہمارا بیٹا اتنا بڑا نہیں ہو سکتا محمد کو تو میں چھوٹا سا چھوڑ کر گیا تھا۔
کچھ دور جاکر محمد بن قاسم نے گوڑا موڑا اور واپس اسی رفتار سے آیا گھوڑا اتنا تیز تھا کہ اس نے اب پھر آگے نکل جانا تھا ،لیکن حجاج اور اپنی ماں کے قریب آکر محمد بن قاسم نے گھوڑا روک لیا ،وہ گھوڑے سے کودا اور حجاج کی طرف دوڑا، حجاج نے اسے گلے لگا لیا۔
گھوڑا اچھا ہے۔۔۔ حجاج بن یوسف نے کہا۔۔۔ اور سوار اس سے زیادہ اچھا ہے۔
میں نے آپ کو دکھانے کے لئے پہلے گھوڑا نہیں روکا تھا۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
خدا کی قسم !،،،،،حجاج نے کہا۔۔۔ میں نے تمہیں پہچانا ہی نہیں تھا ۔
وہ اندر چلے گئے۔
اب تیرا بیٹا جوان ہو گیا ہے۔۔۔ حجاج نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہا۔۔۔ اسے میں اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔
محمد بن قاسم کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ،محمد بن قاسم کی عمر ابھی سولہ سال نہیں ہوئی تھی، ماں کی نظروں میں وہ ابھی بچہ تھا، لیکن ذہن اور جسم کے لحاظ سے وہ جوان ہو گیا تھا ۔
عزیز بہن!،،،،، حجاج نے کہا تجھے یہ امانت قوم کے حوالے کرنی ہی پڑے گی، محمد تیرا نہیں اسلام کا بیٹا ہے ،اسے اپنے باپ کی جگہ لینی ہے، اسے اور زیادہ اوپر اٹھنا ہے، اسے عالم اسلام کا چمکتا ہوا ستارہ بننا ہے۔
میں بھی ایسے ہی خواب دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ماں نے کہا۔۔۔ میں نے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کررکھا ہے جس روز میرا لخت جگر مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے گا۔
میں اسے اپنے ساتھ بصرہ لے جاؤں گا اس کی عسکری تربیت اور دوسری تعلیم مکمل ہو چکی ہے، اسے اب عملی زندگی میں ڈالنا ہے اور اسے امراء کی محفلوں میں لے جانا ہے، اور اسے جنگی مشقوں میں شامل کرنا ہے۔
حجاج کا صدر مقام بصرہ تھا، اس کا مکان ایک محل تھا اور یہ بادشاہوں کے محلات جیسا تھا ۔ حجاج کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام لبنیٰ تھا، حجاج جب چائف گیا تو لبنیٰ بصرہ میں رہی، وہ کمسن تھی رات کو اس کے کمرے کی ایک بند کھڑکی پر باہر سے ہلکی سی دستک ہوئی، لوبنا اس دستک کے انتظار میں تھی، وہ سو گئی تھی لیکن اس ہلکی سی دستک پر بھی اس کی آنکھ کھل گئی۔
اس نے کھڑکی کھولی اور باہر کو جھکی اس نے کھڑکی میں سے نکلنے کے لئے پاؤں کھڑکی میں رکھے باہر سے دو مردانہ ہاتھ آگے بڑھے، لبنیٰ نے اپنے حسین جسم کا بوجھ ان ہاتھوں پر ڈال دیا اور ان ہاتھوں نے اسے اٹھا کر باہر کھڑا کردیا ،پھر ان ہاتھوں نے اسے سمیٹ کر بازوؤں میں جکڑ لیا ۔
یہاں سے چلے چلو۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔دروازہ اندر سے بند ہے،،،،،،،کھڑکی بند کر دو سلیمان !
سلیمان نے کھڑکی کے کواڑ بند کردیئے اور دونوں محل کے باغ میں چلے گئے سلیمان اس وقت کے خلیفہ ولید بن عبدالملک کا چھوٹا بھائی تھا اس کی عمر سولہ سترہ سال تھی، لبنیٰ کی عمر بھی اتنی ہی تھی دونوں ایک ہی مدرسے میں پڑھتے رہے تھے، بچپن میں ہی لبنیٰ سلیمان کے دل میں گھر کرگئی تھی۔ جوانی میں داخل ہوتے تو اس کی ملاقاتوں پر پابندی عائد ہوگئی ،دونوں شاہی خاندان کے تھے، انھیں ایسا کوئی ڈر نہ تھا کہ وہ بد نام ہو جائیں گے، روایت ایسی تھیں جو انہیں کھلے بندوں ملنے سے روکتی تھی ،اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لبنیٰ اپنے باپ حجاج سے ڈرتی تھی، وہ طبیعت کا بہت سخت۔
ہم اس طرح کب تک ملتے رہیں گے قمر!،،،،، سلیمان نے لبنیٰ سے کہا۔۔۔ وہ لبنیٰ کو پیار سے قمر کہاکرتاتھا ۔۔۔میں بھائی سے کہہ دو کہ ہماری شادی کرادے۔
تمہارے بھائی تو شاید مان لیں گے ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میرے ابا مانیں گے یا نہیں۔
کیا وہ امیر المومنین کے بھائی کو اپنی بیٹی دینے سے انکار کر دیں گے۔۔۔ سلیمان نے پوچھا ۔
کیا تم انہیں جانتے نہیں۔۔۔ لبنیٰ نے کہا ۔۔۔وہ اپنے فیصلے خود کیا کرتے ہیں ، انہوں نے خلیفہ کا رعب کبھی قبول نہیں کیا۔
اگر انہوں نے تمہارے لئے کوئی اور آدمی منتخب کرلیا تو کیا کروں گی؟
اس کے حکم کی تعمیل کروں گی۔۔۔ لبنیٰ نے کہا ۔
کیا تمہیں افسوس نہیں ہوگا کہ تم امیرالمومنین کے بھائی کی بیوی نہ بن سکی۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔۔ تم جو فخر میری بیوی بن کر کر سکو گی وہ کسی اور سے نہیں حاصل ہوگا ۔
سلیمان !،،،،،،لبنان نے کہا۔۔۔ ہم بچپن میں ایک دوسرے کو چاہتے تھے اس وقت تم امیرالمومنین کے بیٹے تھے لیکن میں نے تمہیں اس لئے نہیں چاہا تھا کہ تم شہزادے ہو، تم میرے دل کو اچھے لگے تھے اگر تم گڈرئیے کے بیٹے ہوئے تو بھی میں تمہیں شہزادہ سمجھتی، اس وقت تم نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ میں کس کی بیٹی ہوں ۔
یہ تو میں آج بھی نہیں سوچ رہا کہ تم حاکم اعلیٰ کی بیٹی ہو۔۔۔سلیمان نے کہا۔
لیکن تم یہ ضرور سوچ رہے ہوں کہ تم امیر المومنین کے بھائی ہو ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اور تمہاری اس حیثیت کی وجہ سے مجھے تم پر فخر کرنا چاہیے، یہ سن لو سلیمان میں اس آدمی پر فخر کرو گی جس کے دل میں میری محبت ہوگی، اور جو یہ نہیں دیکھے گا کہ اس کے باپ کا رتبہ کیا ہے ،اور میں کس باپ کی بیٹی ہوں۔
آج تم کیسی باتیں کر رہی ہو میری قمر۔۔۔ سلیمان نے اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر کہا ۔۔۔اتنی پیاری رات،،،،،،،
میں تم سے بھاگ نہیں رہی سلیمان!،،،، لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اگر مجھے تم سے محبت نہ ہو تو اس طرح رات کو باہر نہ آ جایا کرو جس طرح آتی ہوں، کمرے کا دروازہ اندر سے بند ہے اور میں کھڑکی سے باہر نکل آتی ہوں، میں تمہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اب بچی نہیں رہی ،اور،،،،، اور سلیمان میں شاید بیان نہیں کر سکتی کہ میں کیا محسوس کررہی ہوں۔ مجھے بیوی بننا ہے اور تم جانتے ہو ہماری روایت کیا ہے۔
ہماری روایت یہ ہے کہ محبت ہو تو ہم شادی کر لیتے ہیں۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔ اور جو خلیفہ ہوتا ہے وہ ایک سے زیادہ بیویاں،،،،،
میں ان روایات کی بات نہیں کر رہی۔۔۔ لبنیٰ نے کہا۔۔۔ میں اسلام کی عسکری روایت کی بات کر رہی ہوں ،میں ان مجاہدین کی روایت کی بات کر رہی ہوں جنہوں نے فارس اور روم جیسی جنگی قوتوں کو ریزہ ریزہ کرکے سلطنت اسلامیہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا ،اب دیکھ لو ہم آپس میں پھٹ گئے ہیں، کہیں بغاوت ہوئی کہیں یورش ہوتی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رومیوں کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے ،کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے رومیوں کے ساتھ دوستی کا جو معاہدہ کیا ہے وہ کتنی کثیر رقم دے کر کیا ہے، ہم نے نقد قیمت ادا کر کے اپنے دشمن سے امن خریدا ہے ،ہم نے دراصل یہ معاہدہ کر کے دشمن پر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ اپنی زمین کے اور اپنے دین کے دفاع کے قابل نہیں رہے۔
اوہ میری قمر!،،،،،، سلیمان نے بے تاب ہو کر کہا۔۔۔ تم اس رومان پُررات کا اور میرے ارمان کا خون کر رہی ہو، تم جو اس چاندنی سے زیادہ حسین ہوں ایسی روکھی پھیکی اور بے مزہ باتیں کر کے اپنے حسن اور میری محبت پر کالی گھٹا کے سائے ڈال رہی ہو، تم کیا سمجھتی ہو کہ جو باتیں تم نے کہی ہے وہ مجھے معلوم نہیں، اور کیا تم نہیں جانتیں کہ اپنے بھائی کی وفات کے بعد میں نے مسند خلافت پر بیٹھنا ہے ۔
میں جا رہی ہو ۔۔۔لبنیٰ اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی مجھے اب جانا چاہیے ماں کو پتہ چل گیا تو،،،،،
وہ اپنے کمرے میں سو رہی ہے۔۔۔ سلیمان نے کہا ۔۔۔۔کیا ہو گیا تجھے قمر تو نے پہلے کبھی ایسے نہیں کیا تھا۔
وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ،لبنیٰ چل پڑی سلیمان اس کے پیچھے آیا ۔
کیا تم میری محبت کو ٹھوکرا کر جا رہی ہو؟
سلیمان نے پوچھا۔
نہیں سلیمان !،،،،،لبنیٰ نے روک کر کہا۔۔۔ میں نے تمہاری محبت کو نہیں ٹھکرایا، تم نے شادی کی بات کی ہے مجھے کچھ سوچنے دو،،،،، کچھ سوچنے دو سلیمان!،،،، وہ اپنے کمرے کی کھڑکی تک آئی اور کھڑکی کھول کر کمرے میں چلی گئی۔
قسط نمبر 02
دو چار روز بعد حجاج بن یوسف طائف سے واپس آگیا، اس کی سواری محل میں داخل ہوئی تو لبنیٰ دوڑتی ہوئی باہر نکلی ،حجاج گھوڑا گاڑی سے اترا تو لبنیٰ اس کے گلے لگ گئی، باپ نے بیٹی کو اپنے سینے کے ساتھ چپکا لیا، لبنیٰ کا منہ گھوڑا گاڑی کی طرف تھا اس سے ایک دراز قد گھٹے ہوئے جسم کا نوجوان اترا ،اس کا چہرہ مردانہ حسن کا شاہکار تھا اور اس چہرے پر وقار تھا ۔
لبنیٰ نے اپنے باپ کے گرد بازو بڑی سختی سے لپیٹ رکھے تھے اس کے باوجود ڈھیلے پڑ گئے اور اس کی نظریں اس نوجوان پر جم گئی۔
آگے آؤ محمد!،،،،،، حجاج نے اس نوجوان سے کہا۔۔۔ یہ ہماری بیٹی لبنیٰ ہے، اور دیکھو بیٹی یہ تمہارا چچا زاد ہے،،،، محمد بن قاسم،،،،، تم نے اسے پہلی بار دیکھا ہے، یہ میرے بھائی کی یاد گار ہے کچھ عرصہ ہمارے ساتھ رہے گا۔
محمد بن قاسم اپنے چچا حجاج بن یوسف کے محل میں رہنے لگا ،لبنیٰ اسے دیکھتی رہتی اور کبھی ایک آدھ بات کرلیتی، اس نے شرم و حجاب کا دامن نہ چھوڑا، ایک شام محمد بن قاسم باغ میں ٹہل رہا تھا اسے باغ کا ایک گوشہ اچھا لگا ،دو درخت تھے جن پر گھنی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں، یہ پھولدار بیلیں تھی بہار کا موسم تھا پھول کھلے ہوئے تھے، بیلوں نے چھت سے بنا رکھی تھی ۔
محمد بن قاسم کو یہ جگہ بڑی اچھی لگی وہ اس کے اندر جاکر بیٹھ گیا، لبنیٰ نے اسے دیکھ لیا اور وہ بھی ٹہلتی ٹہلتی وہاں پہنچ گئی۔
چھپ کر کیوں بیٹھ گئے ہو محمد!،،،،، لبنیٰ نے اس سے پوچھا۔
پھولوں کی یہ چھت اور پھولوں کی دیوار اچھی لگی تو بیٹھ گیا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
میں بھی بیٹھ جاؤ ؟،،،،،، لبنیٰ نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔
کیوں؟
اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔۔چچا نے یا کسی اور نے دیکھ لیا تو ٹھیک نہیں ہوگا ،میں تمہارے ساتھ چھپ کر نہیں بیٹھونگا۔
چھپ کر تو میں بھی نہیں بیٹھنا چاہتی ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اور سوچ میں پڑگئی۔
وقت دیکھو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ شام تاریک ہوگئی ہے ایسے وقت نوجوان لڑکے اور لڑکی کا تنہائی میں بیٹھنا مناسب نہیں ،کیا تم میری طرح ویسے ہی ادھر آ گئی ہو یا مجھے دیکھ کر آئی ہو۔
دیکھ تو ہر روز ہی لیتی ہوں تمہیں ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اکیلے دل گھبرا رہا تھا ،،،ایک بات بتاؤ گے، کیا تمہیں میں اچھی نہیں لگتی یا میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا؟
تمہارا یہاں آنا اچھا نہیں لگا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں تمہیں صاف بات بتا دیتا ہوں کہ تم مجھے اچھی لگتی ہو، تمہارے دل میں جو ہے وہ مجھے تمہاری آنکھوں میں اور تمہاری مسکراہٹ میں نظر آ رہا ہے، میرے دل میں بھی شاید یہی ہے۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اوٹ سے باہر آ گیا کہنے لگا آؤ میرے ساتھ چلو تاکہ کوئی دیکھ لے تو یہ نہ کہے کہ ہم چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
محمد!،،،،،، لبنیٰ نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔۔۔ تم اب کیا کرو گے؟
ارادوں کی تکمیل۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میری جو تربیت ہوئی ہے وہ مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی۔
کیا تم سالار بننا چاہتے ہو؟،،،، لبنیٰ نے پوچھا۔
میں کوئی رتبہ اور کوئی عہدہ نہیں چاہتا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میرے ذہن میں میری آنکھوں کے سامنے ایک راستہ ہے اس پر کچھ لوگوں کے نقوش پا ہیں، راستہ کوئی بھی ہو اس سے ہزاروں لاکھوں لوگ گزرتے ہیں اور جو بھی گزرتا ہے وہ اپنے نقوش پا اس راستے پر چھوڑ جاتا ہے، گزرنے والے ایک دوسرے کے قدموں کے نشان مٹاتے چلے جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے قدموں کے نشان مٹی ہی نہیں سکتے، بھولے بھٹکے مسافر انہیں کے نقوش پا کو دیکھ کر منزل کو پہنچا کرتے ہیں ،میں بھی انہی کے نقوش پا کو دیکھ رہا ہوں۔
کون ہے وہ؟،،،، لبنیٰ نے پوچھا۔
خالد بن ولید ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے جواب دیا ۔۔۔سعد بن ابی وقاص ہیں، ابو بکر اور عمر ہیں، ایسے اور بھی کچھ نام ہیں میں ان کی روایات کو آگے بڑھانے کا عزم لئے ہوئے ہوں، میں سلطنت اسلامیہ کی سرحدیں اور دور تک لے جانے کا ارادہ کیے ہوئے ہوں، صرف سالار بن جانے کی خواہش نہیں میں اللہ کا سپاہی بننا چاہتا ہوں۔
لبنیٰ اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی اور وہ محمد بن قاسم کی ذات میں کھو گئی تھی۔ محمد بن قاسم کے بولنے کا انداز ایسا نہیں تھا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو، ان کے انداز میں عظم تھا۔
،،،،،، اور لبنیٰ،،،، وہ کہہ رہا تھا۔۔۔ میں اپنی ماں کے خواب کی تعبیر ہوں ،مگر تعبیر ابھی مکمل نہیں ہوئی مجھے وہ روشن ستارہ بننا ہے جو ماں نے خواب میں دیکھا تھا، وہ چلتے چلتے محل کے ایک برآمدے میں پہنچ گئے، محمد بن قاسم خاموش ہو گیا ۔
جاؤ لبنیٰ!،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں اکیلا اندر جاؤں گا۔
لبنیٰ اس کے آگے کھڑی ہو گئی اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا مجھے شاید تیرا ہی انتظار تھا محمد !،،،،لبنیٰ نے جذباتی اور روندھی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔جی چاہتا ہے تیری ہمسفر بن جاؤں،،،، قبول کرو گے؟
اگر اللہ کو منظور ہوا تو۔۔۔محمدبن قاسم نے کہا اور وہاں سے چل دیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
بہار کے دن تھے ان دنوں دارالخلافے میں مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے ان کھیلوں میں شہسواری، نیزہ بازی ، تیغ زنی، تیراندازی، اور کشتی خاص طور پر شامل تھی۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں فوج زیادہ تر جنگ و جدل میں مصروف رہی تھی جیسا کہ بتایا جاچکا ہے ،عبدالملک نے باغیوں کا خاتمہ کردیا تھا اس لیے اب اس کے بیٹے ولید بن عبدالملک کے دور میں امن و امان تھا فوج فارغ تھی اس لیے خلیفہ نے فوج میں یہ سرگرمی پیداکر دی تھی کہ ہر سال دارلخلافہ میں جنگی نوعیت کے کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے، یہ مقابلے اس قدر سخت ہوتے تھے کہ ان میں کوئی مر بھی جاتا تو مارنے والے سے باز پرس نہیں ہوتی تھی۔
ایک روز خلیفہ کا قاصد بصرہ میں حجاج بن یوسف کے لیے پیغام لایا کہ حجاج سالانہ کھیلوں میں شرکت کے لئے فورا آئے۔ کھیلوں کے علاوہ سلطنت کے کچھ بحث طلب امور بھی تھے۔ حجاج بن یوسف خلیفہ کے اس بلاوے پر بہت خوش ہوا، خوشی کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو خلیفہ سے متعارف کرانا چاہتا تھا ،یہ تو وہ کسی بھی وقت کرا سکتا تھا لیکن سالانہ کھیلوں کے مقابلوں کا موقع اچھا تھا۔ وہ محمد بن قاسم کو میدان میں اتار کر خلیفہ کو اور فوج کے سالاروں کو دکھا سکتا تھا کہ اسکا بھتیجا اسی عمر میں اپنے آپ میں کیسے کیسے جوہر پیدا کرچکا ہے۔
محمد!،،،،، اس نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ تیغ زنی ،شہسواری اور بغیر ہتھیار لڑائی میں تمہیں کتنی کچھ مہارت حاصل ہوئی ہے، یہ موقع اچھا ہے میں تمہیں اس مقابلے میں شامل کروں تو مجھے شرمسار تو نہیں ہونا پڑے گا ۔
ہارجیت اللہ کے اختیار میں ہے چچا جان !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں ہار نہیں مانو گا میدان میں ضرور اترونگا ۔
چلنے کی تیاری کرو۔۔۔ حجاج نے کہا۔
میں بھی چلوگی۔۔۔ لبنیٰ نے کہا ۔۔۔آپ مجھے کبھی بھی مقابلہ دکھانے نہیں لے گئے۔ حجاج بن یوسف اکلوتی بیٹی کو مایوس نہیں کرسکتا تھا اسے بھی اس نے ساتھ لے لیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷*
حجاج بن یوسف محمد بن قاسم اور لبنیٰ کے ساتھ دارالخلافہ پہنچا اس نے محمد بن قاسم کو خلیفہ کے پیش کیا اور بتایا کہ یہ کون ہے۔ خدا کی قسم ابن قاسم !،،،،خلیفہ نے کہا۔۔۔ تیرے باپ کو ہمارا خاندان کبھی نہیں بھولا سکتا ،اس نے ہماری خلافت کی آبرو پر قربانی دی تھی، وہ بہادر تھا ،وفادار تھا ،ہم امید رکھیں گے کہ تو اپنے باپ کے نقش قدم پر چلے گا۔
ابن یوسف!،،،،، خلیفہ نے حجاج سے کہا۔۔۔ اسے اپنے بھتیجے کو کسی کے مقابلے میں اتارو گے۔
اسی لیے تو اسے ساتھ لایا ہوں امیر المومنین!،،،، حجاج نے کہا ۔۔۔میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ کسی قابل ہوا ہے یا نہیں۔
اگر ہوا تو ہم اسے اس کے باپ کی جگہ دے دیں گے۔۔۔ خلیفہ نے کہا ۔
حجاج بن یوسف حاکم اعلی تھا اس کا عہدہ اور اس کے اختیارات آج کے گورنر سے زیادہ تھے اس عہدے کے مطابق خلیفہ نے اسے اپنے محل میں ٹھہرایا ،محمد بن قاسم کو بھی محل میں ہی جگہ دی گئی، اور لبنیٰ کو بیگامات میں بھیج دیا گیا، اسی محل میں خلیفہ کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبدالملک رہتا تھا ۔
لبنیٰ کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اس نے اپنی خادمہ سے کہا کہ لبنیٰ کو بلا لائے۔ خادمہ نے آکر بتایا کہ لبنیٰ حجاج بن یوسف کے بھتیجے کے کمرے میں ہے۔
وہ جہاں کہیں ہے اسے لے آؤ۔۔۔سلیمان نے کہا۔۔۔ اسے کہو سلیمان تمہیں یاد کر رہا ہے۔
خادمہ چلی گئی اور جواب لائی کے وہ ابھی نہیں آئے گی۔
کہاں تھی وہ؟،،،،، سلمان نے پوچھا ۔۔۔کیا کر رہی تھی۔
حاکم اعلی کے بھتیجے کے پاس بیٹھی ہے۔۔۔ خادمہ نے جواب دیا۔۔۔ اس کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہے۔
حجاج کے بھتیجے نے بھی کچھ کہا ہو گا۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ پھر اس کمرے میں نہ آنا۔۔۔ خادمہ نے کہا۔ سلیمان غصے سے لال پیلا ہونے لگا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اسی شام کا واقعہ ہے لبنیٰ محل کے باغ کے ایک گوٹے میں چلی گئی وہاں رنگا رنگ پھول تھے وہ باغ کا بہت ہی خوبصورت حصہ تھا ،لبنیٰ کو اچھا لگا تھا اس لیے وہاں چلی گئی تھی اسے وہاں ٹہلتے ہوئے ابھی تھوڑا سا وقت ہی گزرا تھا کہ پیچھے سے کسی نے آ کر دونوں ہاتھ اس کی آنکھوں پر رکھ دئیے، ہاتھ مردانہ تھے لبنیٰ نے ہستے ہوئے ان ہاتھوں پر ہاتھ پھیرے ،چلو پہچان لیا لبنیٰ نے کہا ۔۔۔محمد۔
اس کی آنکھوں سے دونوں ہاتھ نیچے کو سرک گئے پھر یہ ہاتھ پیچھے ہٹ گئے ۔
لبنیٰ نے گھوم کے دیکھا۔
اوہ سلیمان!،،،،، لبنیٰ نے کہا۔۔۔ مجھے امید تھی تم آؤ گے۔
تمہیں امید تھی کہ ابن قاسم آنے والا ہے۔۔۔ سلیمان نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔تمہارے منہ سے اسی کا نام نکلا ہے۔
کیا اس کا نام لینا گناہ ہے۔۔۔ لبنیٰ نے کہا۔ لیکن کسی کو دھوکے میں رکھنا گناہ کبیرہ ہے۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔ مجھے دھوکے میں نہ رکھو لبنیٰ!،،،، تمہیں میرے اور ابن قاسم کے درمیان فیصلہ کرنا ہوگا ،فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا میں نے خلیفہ بننا ہے، اور ابن قاسم میرا ملازم ہو گا ،میں اسے سالار سے سپاہی بنا سکتا ہوں ،اسے بھکاری بنا سکتا ہوں ،کیا دیکھا ہے تم نے اس میں جو مجھ میں نہیں۔
اسکی محبت میں دھونس نہیں۔۔۔ لبنیٰ نے کہا۔۔۔ میں اسے اس وقت بھی چاہوں گی جب وہ سالار ہوگا، اور جب وہ سپاہی ہو گا تو میں اسے پہلے سے زیادہ چاہو گی ،اور جب تم اسے بھکاری بنا دو گے تو میں اسے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے دوں گی، میری محبت عہدوں اور رتبوں کی پابند نہیں ۔
لبنیٰ وہاں سے چل پڑی سلیمان اس کے پیچھے لپکا اور اس کا بازو پکڑ لیا، اب وہ محبت کی بھیک مانگنے لگا ،لبنیٰ کو بچپن کی محبت یاد دلانے لگا ۔لبنیٰ وہاں رکنا نہیں چاہتی تھی اور سلیمان اسے جانے نہیں دے رہا تھا لپک لپک کر اسے پکڑتا تھا ۔
سلیمان !،،،،،،ایک بھاری بھرکم سی آواز آئی۔
سلیمان اور لبنیٰ نے ادھر دیکھا پھولوں کے پیچھے حجاج بن یوسف کھڑا تھا ۔
اچھا ہوا کہ میں نے خود دیکھا ہے۔۔۔ حجاج نے کہا۔۔۔ اور میں نے اپنے کانوں سنا جو تم نے کہا اور جو میری بیٹی نے کہا، میرے عزیز جوانی اندھی ہوتی ہے میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا صرف یہ کہوں گا کہ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے سکتا ،یہ فیصلہ میرا ہوگا میری بیٹی کا نہیں، تم جانتے ہو تمہاری عمر کا میرا اپنا بھتیجا ہے وہ میرے بھائی کی نشانی ہے "محمد بن قاسم" میری بیٹی اس کی بیوی بنے گی۔
لبنیٰ سر جھکائے کھڑی تھی حجاج نے اسے اپنے ساتھ لیا اور چلا گیا ۔
سلیمان وہیں کھڑا انہیں دیکھتا رہا اس کے چہرے پر جو تاثر آ گیا تھا وہ بتا رہا تھا کہ اس نوجوان کا خون ابل رہا ہے اور وہ سوچ رہا ہے کہ اس لڑکی کو کس طرح حاصل کرے اور حجاج اور محمد بن قاسم کو نیچا دکھائے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
دو دنوں بعد یوں لگتا تھا جیسے تمام تر عرب کے لوگ اس شہر میں اکٹھے ہوگئے ہیں باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے میدانوں میں خیمے کھڑے کر رکھے تھے، جدھر نگاہ جاتی انسان گھوڑے اور اونٹ نظر آتے تھے، شہر کی گلیوں اور بازاروں میں چلنے کا راستہ نہیں ملتا تھا ،بہت ہی وسیع و عریض میدان تھا انسانوں اور گھوڑوں اور اونٹوں کا یہ سمندر اس میدان کے اردگرد سمٹ آیا تھا، ایک طرف ایک لمبا چبوترا بنا ہوا تھا اس پر شامیانے لگے ہوئے تھے ان کے نیچے کرسیاں رکھی تھیں سب سے آگے ایک شاہانہ کرسی تھی جس پر خلیفہ ولید بن عبدالملک بیٹھا تھا ،اس کے دائیں اور بائیں اس کی بیگمات بیٹھی تھیں، ان کے ساتھ حجاج بن یوسف بیٹھا تھا اس کے ساتھ اس کی بیٹی لبنیٰ بیٹھی تھی ،باقی کرسیوں پر سالار اور شہری انتظامیہ کے حاکم بیٹھے تھے ان میں مختلف قبیلوں کے سردار بھی تھے ،ہزارہا تماشائی میدان کے ارد گرد زمین پر بیٹھے یا کھڑے تھے، اونٹوں اور گھوڑوں پر بھی آدمی بیٹھے ہوئے تھے، خلیفہ کے اشارے پر سالانہ مقابلوں کاسلسلہ شروع ہو گیا فوج کے دستوں کے آدمی باری باری آتے اپنے مد مقابل کو للکارتے اور اس طرح تیغ زنی، شہسواری وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے ۔
تلواروں سے لڑنے والوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں اور بھالے بھی، زیادہ تر بھالے چمڑے کی بنی ہوئی تھی ، تیغ زنی میں کئی آدمی بری طرح زخمی ہوئے۔
شہسواری کے مقابلے بھی دلچسپ تھے ہر سوار اپنے کرتب دکھاتا گزر جاتا تھا ،پھر سواروں کی لڑائی کے مقابلے ہوئے۔
محمد بن قاسم نہ چبوترے پر کرسیوں پر بیٹھے ہوئے مہمانوں میں تھا نہ دوسرے تماشائیوں میں، سلیمان بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا، تماشائیوں کا داد و تحسین کا شور اتنا زیادہ تھا کہ اپنی آواز بھی نہیں سنائی دیتی تھی، میدان میں دوڑتے گھوڑے اور اونٹ اتنی گرد اڑا رہے تھے کہ اس میں وہ چھپ جاتے تھے۔
میدان خالی کرو۔۔۔ ایک اعلان سنائی دیا ۔۔۔میدان میں کوئی نہ رہے ۔۔۔یہ اعلان بار بار ہوا تو میدان خالی ہوگیا گرد کم ہوتے ہوتے ختم ہو گئی۔
ایک طرف سے ایک گھوڑا نکلا اس پر مخمل کی چادر پڑی ہوئی تھی جو گھوڑے کی گردن سے دم تک گئی ہوئی تھی اور دائیں بائیں رکابوں سے ذرا نیچے تک لٹک رہی تھی، اس کا رنگ گہرا سبز تھا یہ جنگی گھوڑا تھا جس کے قدموں تلے زمین ہلتی محسوس ہوتی تھی۔
اس کی پیٹھ پر ایک نوجوان سوار بیٹھا تھا اس کے سر پر لوہے کی خود تھی ،اس کے ہاتھ میں برچھی تھی، لیکن اس کے آگے انی نہیں تھی انی کی جگہ گولا سا بنا ہوا تھا جس پر چمڑا چڑھا ہوا تھا ،سواری کی کمر سے تلوار لٹک رہی تھی، گھوڑا میدان میں ایک چکر میں پھرا۔
اس کا سوار شاہی خاندان کا لگتا تھا۔
کیا طائف کا کوئی سوار میرے مقابلے میں آنے کی جرات کرے گا؟،،،،، سوار نے بلند آواز میں للکار کر کہا۔۔۔ یہ گھوڑسوار خلیفہ کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبدالملک تھا ،اس نے طائف کا نام خاص طور پر لیا تھا اس نے دراصل محمد بن قاسم کو للکارا تھا ،جو طائف کا رہنے والا تھا، تماشائیوں میں سے ایک گھوڑا نکلا یہ گھوڑا بھی اعلیٰ نسل کا جنگی گھوڑا تھا اور اس کا سوار بھی نوجوان تھا اس کے ہاتھ میں برچھی تھی اور کمر سے تلوار لٹک رہی تھی۔
آ ابن عبدالملک!،،،،، سوار للکارا ۔۔۔طائف کے قاسم بن یوسف کا بیٹا تیرے مقابلے میں آیا ہے، دونوں دور جاکر آمنے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کی طرف سر پٹ دوڑے دونوں نے گولو والی پرچھی ایک دوسرے کی طرف آگے کر لی، برچھی مارکر مدمقابل کو گھوڑے سے گرانا تھا، قریب آکر سلیمان نے برچھی ماری محمد بن قاسم وار بچا لے گیا، دور جا کر گھوڑے پیچھے کو موڑے اور ایک دوسرے کی طرف دوڑے تماشائیوں پر سناٹا طاری تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان سواروں میں ایک امیرالمومنین کا بھائی ہے، دوسرے کو ابھی عام لوگ نہیں جانتے تھے۔
اب محمد بن قاسم نے رکابوں میں کھڑے ہوکر برچھی ماری سلیمان نے بچنے کی کوشش کی لیکن برچھی اس کے پیٹ پر لگی اور وہ گھوڑے سے گرنے لگا اس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی لیکن سنبھل نہ سکا اور گھوڑے سے کود گیا ،برچھی سے وہ زخمی نہیں ہوا تھا کیونکہ برچھی کے آگے چمڑے کا گولا تھا یہ مقابلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا ابھی تلواروں کی لڑائی باقی تھی، محمد بن قاسم گھوڑے سے اتر آیا اور تلوار نکال لی ادھر سے سلیمان تلوار نیام سے نکال کر آیا ،قریب آ کر دونوں کی تلوار ٹکرانے لگیں ،دونوں اس طرح پینترے بدلتے اور ایک دوسرے کے وار تلواروں پر روکتے تھے کہ یہ مقابلہ ہار جیت کے بغیر ختم ہوتا نظر آتا تھا ۔
ابن قاسم !،،،،،،سلیمان نے محمد بن قاسم سے کہا ۔۔۔اگر تو گر پڑا یا تیری تلوار گر پڑی تو میں تلوار تیرے سینے میں اتار دوں گا۔
سلیمان رقابت کی آگ میں جل رہا تھا کھیل کھیل میں وہ محمد بن قاسم کو قتل کرنے پر تلا ہوا تھا ۔
محمد بن قاسم نے کوئی جواب نہ دیا۔
اچانک محمد بن قاسم نے سلیمان پر بڑی تیزی سے وار کرنے شروع کردیے سلیمان کی گھبراہٹ صاف نظر آرہی تھی وہ اب وار صرف روک رہا تھا۔
محمد بن قاسم نے اسے وار کرنے کی مہلت نہیں دے رہا تھا، اس کا ایک وار ایسا پڑا کہ سلیمان نے تلوار پر روک تو لیا لیکن اس کے ہاتھ سےتلوار چھوٹ کر دور جا پڑی ،وہ اپنی طرف کی طرف لپکا لیکن محمدبن قاسم نے اسے تلوارنہ اٹھانے دی، سلیمان خالی ہاتھ تھا۔
محمد بن قاسم نے ایک دو وار کئے تو سلیمان پیچھے ہٹتے گرپڑا ،محمد بن قاسم نے اپنا ایک پاؤں اس کے سینے پر رکھ کر تلوار کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی۔
ہاتھ روک لے محمد!،،،،، حجاج نے گرج کر کہا۔
میں تجھے زندہ رہنے دیتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔بنی ثقیف کی قسم تو پھر کبھی طائف کی غیرت کو نہیں للکارے گا۔
میں زندہ رہا تو تیرے جیسا بدنصیب کوئی نہ ہوگا ۔۔۔سلیمان نے اٹھ کر کہا ۔
سلیمان بن عبدالملک کے یہ الفاظ محض کھوکھلی دھمکی نہیں تھے، یہ اس کا عہد تھا اور اس عہد نے ہندوستان کی تاریخ بدل ڈالی۔
*<=======۔=========>*
قسط نمبر 03
700 عیسوی (18 ہجری) میں جب محمد بن قاسم کی عمر چھ سال تھی سندھ میں ایک ہندو راجہ جس کا نام داہر تھا تخت نشین ہوا۔ اس وقت سندھ کا راجہ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا ایک حصے کی راجدھانی اروڈ تھی جسے الور بھی کہا جاتا تھا، اور دوسرے راجہ کی راجدھانی برہمن آباد تھی اس راجہ کا نام ہی راج تھا لیکن وہ ایک سال کے اندر ہی مر گیا۔ اس کے تخت پر راجہ داہر کے چھوٹے بھائی دہر نے قبضہ کرلیا، اس سے راجہ داہر کو خوشی ہوئی کہ سندھ کا یہ حصہ بھی اس کے خاندان کے قبضے میں آ گیا ہے۔
راجہ داہر کے تخت نشین ہونے کے دو یا تین سال بعد کا واقعہ ہے راجہ داہر کی رانی جس کا نام مائیں تھا، ہرنوں کی شکار کو نکلی، اس زمانے میں سندھ کے اس علاقے میں ھرن زیادہ پائے جاتے تھے، گھوڑوں پر سوار ہو کر تیروں سے ہرنوں کا شکار کھیلا جاتا تھا۔
ان کے پیچھے گھوڑا ڈال دیا جاتا اور سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر تیر چلائے جاتے تھے۔
مائی رانی کی عمر بیس اکیس سال تھی، ایک ہی سال پہلے راجہ داہر کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی، وہ خوبصورت لڑکی تھی اور ہرن کے شکار کی دلادہ تھی، شاہی خاندان کی لڑکی تھی اس لئے گھوڑ سواری اور تیر اندازی میں مردوں کا مقابلہ کر سکتی تھی۔ اس روز وہ گھوڑوں اور دو پہیوں والی رتھ پر شکار کھیلنے نکلی تھی، رتھ بان محل کا ایک آدمی تھا جو میدان جنگ میں رتھ دوڑانے اور لڑانے کا ماہر تھا۔
انہیں چار پانچ ہرن نظر آئے ،مائیں رانی کے کہنے پر رتھ بان نے رتھ دوڑا دی، ہرن بھاگ اٹھے، رتھ کی رفتار انتہا کو پہنچ گئی اس کے دونوں گھوڑے جنگی تھے اور یہ راجہ کے اصطبل کے گھوڑے تھے بہت ہی تیز دوڑتے تھے ،ایک ہیرن دوسروں سے الگ ہو گیا مائیں رانی نے اس کا تعاقب شروع کردیا زمین کہیں ریتیلی اور کہیں پکی تھی۔
آگے چٹانیں تھی اور ٹیلے گھاٹیاں بھی تھیں، ہرن ان میں چلا گیا ہرن دوڑ نہیں رہا تھا اڑ رہا تھا ،ایک چوکڑی بھر کر جب زمین سے اٹھتا تھا تو چالیس پچاس گز دور جا کر اس کے پاؤں زمین پر لگتے تھے، رتھ کے گھوڑوں نے فاصلہ کم کر لیا لیکن ہرن چٹانوں اور ٹیلوں کے اندر چلا گیا، وہاں تک مائیں رانی نے ہرن پر تین چار تیر چلائے تھے لیکن سب ہی رن کے دائیں اور بائیں زمین پر لگے۔
رتھ بھی ٹیلوں کے اندر چلی گئی وہاں زمین ہموار نہیں تھے رتھ اچھلتی تھی، مائیں رانی دو تین بار گرتے گرتے بچی، ہرن ٹیلوں اور چٹانوں کے درمیان گلیوں میں دوڑا جا رہا تھا اور یہ گلیاں مڑتی تھی رانی نے تعاقب جاری رکھا دائیں اور بائیں اتنی زیادہ رفتار سے مڑتی تھی کہ اس کے الٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا تھا ،لیکن رتھ بان اپنے کام کا ماہر تھا۔ رانی نے ہرن پر کئی تیر چلائے لیکن دوڑتی اور اچھلتی رتھ سے چلا ہوا تیر اتفاق سے ہی ہرن کو لگ سکتا تھا۔
آگے ٹیلوں میں گھرا ہوا میدان آگیا ایک ٹیکری سے ایک گھوڑا اترا اس کے سوار کے ہاتھ میں برچھی تھی اس نے گھوڑے کو ہرن کے پیچھے ڈال دیا ،ادھر سے مائیں رانی کی رتھ میدان میں آئی۔
ہٹ جاؤ آگے سے۔۔۔ رتت بان نے چلا کر سوار سے کہا ۔۔۔یہ مہارانی کا شکار ہے۔
گھوڑ سوار نے جیسے سنا ہی نہیں وہ ہرن کی تعاقب میں رہا ۔
مہارانی!،،،،، رتھ بان نے حیرانی سے کہا۔۔۔ تیر اور کمان مجھے دیں پہلے میں اس سوار کو ختم کردو۔
یہ اپنے ملک کا معلوم نہیں ہوتا۔۔۔ مائیں نے کہا ۔
ہرن ایک طرف موڑا، گھوڑ سوار بھی موڑا ،اب اس کا چہرہ ذرا سامنے آیا۔
یہ تو عرب کا آدمی لگتا ہے۔۔۔ رتھ بان نے کہا۔۔۔ اس نے ادھر آنے کی جرات کیسے کی ہے۔
رتھ پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی مائیں نے ہرن پر تیر چلایا یہ بھی خطا گیا ،گھوڑ سوار نے برچھی کو درمیان میں سے پکڑ کر ہاتھ میں تولہ رکابوں میں کھڑے ہو کر اس نے برچھی پھینکی پرچھی ہرن کی گردن کے پیچھے کندھوں کے درمیان لگی ،انی ہرن کے جسم میں اتر گئی اور ہرن چند قدم آگے جا کر گر پڑا ،سوار نے گھوڑا روکا کود کر اترا اور ہرن کے پاس کھڑا ہو گیا ۔
مائیں رانی کی رتھ اس کے سامنے آ رکی وہ آدمی مائیں کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
رتھ بان رتھ سے اترا اور اس آدمی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
کیا تم ان عربوں میں سے ہوں جنہیں مہاراجہ نے پناہ دے رکھی ہے ؟۔۔۔۔رتھ بان نے اپنی زبان میں پوچھا ۔۔۔کیا تم نہیں جانتے تم نے کتنا بڑا جرم کیا ہے، مہارانی تمہیں رتھ کے پیچھے بندھوا کر مجھے حکم دیں گی کہ رتھ کو دوڑا دو ،تم عربی لوگ ہوتے ہی بے ادب اور بد تمیز ہو۔
میں ان عربوں میں سے نہیں ہوں۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ اور میں بدتمیز اور بے ادب بھی نہیں ہوں۔
اوہ ،،،،،،رتھ بان نے کہا ۔۔۔تم ہماری زبان بول سکتے ہو۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
مائیں رانی کو غصہ آنا چاہیے تھا ،وہ رتھ سے اتری غصے سے ہی تھی، لیکن اس نوجوان عرب کے سامنے جا کر رک گئی اور نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دی، عرب کے اس باشندے کی عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی اس کا رنگ سفیدی مائل گندمی تھا اس کی آنکھیں سیاہ تھی اور یہ آنکھیں مسکراتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں، اس کے چہرے پر جلالی سا تاثر تھا، چہرے کے خد و خال میں دلکشی تھی، اس کا قد دراز اور جسم پھریرا تھا، صاف پتا چلتا تھا کہ مائیں اس سے مرعوب ہو گئی ہے ،اس عرب کی مسکراہٹ سندھ کی اس رانی کا مذاق اڑا رہی تھی، گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دیے چھ گھوڑ سوار ایک ٹیکری کے پیچھے سے نکلے وہ ادھر آ رہے تھے ،وہ مائیں رانی کے محافظ تھے۔
سنگرام !،،،،،،مائیں رانی نے رتھ بان سے کہا۔۔۔ سواروں کو وہیں روک لو ،رتھ لے جاؤ میں اس کی قسمت کا فیصلہ خود کرونگی۔ رتھ بان رتھ لے کر چلا گیا اور اس نے گھوڑ سواروں کو دور ہی روک دیا۔
یہاں کیوں آئے ہو؟،،،، مائیں رانی نے عرب سے پوچھا ۔۔۔ہرن کے شکار کے لیے آئے تھے؟
میں حیران میری اجازت کے بغیر لے جا تو نہیں سکو گے ۔
میں نے اسے اپنے لئے مارا ہوتا تو میں اسے مرنے سے پہلے زبح کر لیتا۔۔۔ اس خوبرو عرب نے کہا۔۔۔ میں نے اسے تمہارے لئے مارا ہے ،تم لوگ مرا ہوا جانور کھا لیا کرتے ہو۔
تم نے اسے میرے لئے کیوں مارا ہے۔۔۔ مائیں رانی نے پوچھا۔۔۔ کیا تم نے مجھے عورت سمجھ کر یہ فرض کر لیا تھا کہ میں اس ہرن کو نہیں مار سکوں گی، تم نے میرے ساتھ مذاق کیا ہے یا تم نے دیکھا نہیں تھا کہ میں اس ہرن کے پیچھے آرہی ہوں۔
میں نے تمہیں سمجھا تو ایک عورت ہی ہے۔۔۔ عرب نے کہا۔۔۔ لیکن میں نے تمہیں کمزور اور اناڑی شکاری نہیں سمجھا تھا، میں اس ٹیکری کے اوپر کھڑا تھا تم نے جب ہرنوں کی طرف رتھ دوڑائی تھی تو میں اس وقت سے تمہیں دیکھ رہا تھا، تم نے جتنے تیر چلائے وہ میں نے سب کے سب دیکھے تھے، تم نے یہ نہیں دیکھا کہ اب رتھ اچھلے گی یا اب ہرن بڑی لمبی چوکڑی بھرے گا، تم اندھا دھند تیر چلاتی رہی۔
ہرن یہاں آ گیا تو میں نے سوچا کہ اس عورت کو ہرن مار ہی دو ،مجھے ڈر تھا کہ تم رتھ سے گر پڑوں گی۔
کیا تمہیں معلوم نہ تھا میں کون ہوں؟،،،، مائیں رانی نے دبی دبی سی زبان میں پوچھا۔ نہیں!،،،،، عرب نے کہا ۔۔۔لیکن میں یہ جان گیا تھا کہ یہ جو لڑکی رتھ پر آرہی ہے اور اس کے ساتھ چھ گھوڑ سوار بھی ہیں شاہی خاندان کی لڑکی ہو گی، مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ تم راجہ داہر کی رانی ہو۔
اب تمہیں معلوم ہو گیا ہے ۔۔۔رانی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔کیا اب بھی تم مجھ سے نہیں ڈرو گے۔
نھیں!،،،، عرب نے کہا ۔۔۔تمہارے ملک میں ڈر کے معنی کچھ اور ہوتے ہیں ،ہمارے ملک میں آؤ تو تمہیں ڈر کا مطلب بدلا ہوا نظر آئے گا، ہم صرف اللہ سے ڈرا کرتے ہیں، ہم مسلمان ہیں ہم میں کوئی راجہ اور مہاراجہ نہیں ہوتا، اور کوئی بادشاہ بھی نہیں ہوتا۔
تم یہاں کیوں آئے تھے؟،،،، مائیں رانی نے پوچھا ۔
میں ایک جرم کر چکا ہوں ۔۔۔عرب نے جواب دیا۔۔۔ اب اگر یہ بتا دو کہ میں یہاں کیوں آیا تھا تو یہ میرا دوسرا جرم ہوگا ،لیکن میں تمھیں یہ بتا دیتا ہوں کہ میں یہاں کوئی جرم کرنے نہیں آیا تھا ،میں پناہ لینے آیا ہوں۔
مائیں رانی نے اپنے رتھ بان کو بلایا، وہ رتھ دوڑاتا پہنچا۔
رانی نے اسے کہا کہ ھرن سے برچھی نکال کر یہیں رہنے دے، اور ہرن کو رتھ میں ڈال کر لے جائے، رتھ بان نے اس کے حکم کی تعمیل کی، وہ جب چل پڑا تو رانی نے اسے آواز دے کر روک لیا اور اس کے پاس چلی گئی ۔
کوئی خطرہ نہیں سنگرام!،،،،، مائیں رانی نے آہستہ سے کہا۔۔۔ پھر بھی میں اس سے کچھ باتیں معلوم کر رہی ہوں ،یہ آدمی ہمارے کام کا معلوم ہوتا ہے، تم لوگ یہاں سے تھوڑا پیچھے چلے جاؤ۔
مائیں رانی!،،،،، سنگرام نے کہا ۔۔۔جو عقل آپ میں ہے وہ ہم میں نہیں، میں صرف یہ عرض کروں گا کہ ہوشیار رہنا ،ان مسلمانوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔
تم فکر نہ کرو۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ جاؤ یہ شخص میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔
رتھ بان چلا گیا۔ رانی کے سوار محافظ بھی جو کچھ دور کھڑے تھے وہاں سے ہٹ گئے۔
رانی پھر اس عرب کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷*
کیا تم اپنے متعلق مجھے کچھ بتاؤ گے۔۔۔ مائیں رانی نے اس عرب سے پوچھا۔
کچھ بتانے سے پہلے میں کچھ پوچھونگا۔ پوچھو!،،،،، مائیں نے کہا۔
میں تمہارے ملک سے واقف ہوں۔۔۔ عرب نے کہا ۔۔۔اس ملک کے راجہ اور ان کی رانیاں ایک عام آدمی کے ساتھ اس طرح نرمی سے بات نہیں کیا کرتے جس طرح تم کر رہی ہو، یہاں انسان انسانوں کے خدا بنے ہوئے ہیں۔
تم کوئی عام آدمی نہیں معلوم ہوتے۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔۔۔تم کسی شاہی خاندان کے آدمی ہو، تم نے ہماری زبان کہاں سے سیکھی ہے، تم تو ہمارے ملک کی اور بھی کچھ باتیں جانتے ہو،،،، رانی چپ ہو گئی اور کچھ سوچ کر عرب کی طرف دیکھا اور کہنے لگی مجھے تمہارے ساتھ سختی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں میں تمہیں یہ بتا دیتی ہوں کہ تم اس وقت میرے محافظوں کے گھیرے میں ہوں اور میں تمہیں عرب کا جاسوس سمجھتی ہوں کیا تم میرا یہ شک رفع کر سکتے ہو۔
نہیں!،،،،، عرب نے کہا۔۔۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں کسی کا جاسوس نہیں میرا نام بلال بن عثمان ہے اور میں اپنی خلافت کا باغی ہوں، معلوم ہوا تھا کہ یہاں عرب کے بہت سے باشندوں نے پناہ لے رکھی ہے وہ سب باغی تھے۔
ہاں یہ صحیح ہے۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔۔۔ہم نے سیکڑوں عربوں کو پناہ میں رکھا ہوا ہے تم ان کے پاس کیوں نہیں چلے گئے۔
مجھے معلوم نہیں وہ کہاں ہیں۔۔۔ عرب نے جواب دیا۔۔۔ میں اکیلا نہیں میرے ساتھ چار اور ساتھی ہیں ہم چار پانچ دنوں سے یہاں چھپے ہوئے ہیں، پتا نہیں چل رہا تھا کہ یہاں کے راجہ تک کس طرح پہنچیں اور پناہ حاصل کریں،تم نے پوچھا تھا کہ میں نے تمہارے ملک کی زبان کہاں سے سیکھی ہے ،میں لڑکپن میں اپنے باپ کے ساتھ اس ملک میں آ چکا ہوں اور میں نے پانچ سال یہی گزارے تھے ۔
کیا تم سندھ میں رہے تھے؟
نہیں رانی!،،،، بلال نے جواب دیا۔۔۔ میں سب سے پہلے سراندیپ گیا تھا۔
تم جانتی ہو گی کہ بڑی لمبی مدت سے وہاں مسلمان آباد ہیں اس کے قریب ہندوستان کے علاقے مالابار میں بھی عرب کے مسلمان آ کر آباد ہوئے تھے۔
میں جانتی ہوں ۔۔۔رانی نے کہا۔۔۔ مجھے معلوم ہے یہ عرب کے وہ مسلمان ہے جو تجارت کے لیے وہاں گئے تھے اور ان میں سے بہت سے وہی آباد ہوگئے تھے، اور میں یہ بھی جانتی ہوں کے مالابار میں جو مسلمان ہیں اسلام کی تبلیغ بھی کرتے ہیں اور انہوں نے ان علاقوں کے بے شمار دوسرے مذہبوں کے خاندانوں کو مسلمان بنا دیا ہے۔
میرا باپ بھی مبلغ تھا۔۔۔ بلال بن عثمان نے کہا۔۔۔ وہ تاجر بھی تھا ،میں اسکے ساتھ ادھر آیا تھا ،میں اپنے باپ کے ساتھ ہندوستان کے کئی علاقوں میں گیا تھا میں نے اس دوران یہاں کی زبان سیکھی تھی، باپ مجھے بھی تبلیغ کی تربیت دے رہا تھا لیکن میں سپاہ گری کا شوقین تھا ،باپ نے جب میرا یہ شوق دیکھا تو اس نے مجھے سپاہ گری کے استادوں کے حوالے کر دیا ،اور جب میں جوان ہو گیا تو اس نے مجھے واپس عرب بھیج دیا، میں خلیفہ کے لشکر میں شامل ہوگیا لیکن کچھ عرصے بعد خلافت پر جھگڑا شروع ہو گیا جو فوجی اور شہری اس وقت کے خلیفہ کے خلاف تھے انہوں نے بغاوت کردی لیکن ناکام ہوئے اور پکڑے گئے ،ان میں سے بہت سے وہاں سے بھاگ آئے تھے یہ وہ عربی باشندے ہیں جنہیں یہاں کے راجہ نے پناہ دی تھی، میں چونکہ انہی کی اولاد میں سے ہوں اس لیے مجھے بھی وہاں سے بھاگنا پڑا۔
یہ بہت پرانی بات ہے جب عرب کے باغی یہاں آئے تھے ۔۔۔مائیں رانی نے کہا ۔۔۔تم اب کیوں آئے ہو؟
میں دراصل ان کا باغی نہیں جن کے خلاف پہلے بغاوت ہوئی تھی۔۔۔ بلال نے کہا ۔۔۔بغاوت کے وقتوں میں بھی باغی ہی تھا لیکن تھوڑے عرصے سے میں نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ آپس کی لڑائیاں اچھی نہیں ہوتی ہیں موجودہ خلافت کا وفادار ہو گیا ،لیکن وہاں ابھی تک اس خلافت کے باغی موجود ہیں انہوں نے مجھے قتل کی دھمکی دی میں دراصل باغیوں کا باغی ہو گیا تھا، اپنے ملک میں میرا زندہ رہنا مشکل ہو گیا تھا، اس لئے میں اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ یہاں آگیا ہوں میں اب بھی سوچ میں پڑا ہوا ہوں کبھی خیال آتا ہے کے میں شاید غلطی پر ہوں اور مجھے باغیوں کا ساتھ دینا چاہیے۔
مائیں رانی کے چہرے کے تاثرات کچھ اور تھے یہ تاثرات کسی رانی کے چہرے کے نہیں بلکہ ایک عام سی لڑکی کے تاثرات تھے، ایسے تاثرات چہرے پر اس وقت آیا کرتے ہیں جب کوئی آدمی دل کو اچھا لگتا ہے، اور دل کہتا ہے کہ یہ سامنے بیٹھا رہے بولتا رہے اور میں سنتی رہوں۔
کیا تم مجھ پر اعتبار کر سکتی ہوں؟،،،، بلال بن عثمان نے رانی سے پوچھا ۔۔۔میں تیرے محل میں جو بھی نوکری ملے کرنے کو تیار ہوں، میں کہتا ہوں کہ مجھے کوئی ٹھکانہ مل جائے تو میں اطمینان سے بیٹھ کر سوچو کہ صحیح کون اور غلط کون ہے، کیا میں ہی غلطی تو نہیں ہے۔
میں تمہارے لئے کچھ کرو گی۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ ہماری ایک اور ملاقات ہونی چاہیے۔ جہاں کہوں گی وہاں آ جاؤں گا ۔۔۔بلال نے کہا۔
مائیں رانی نے بلال کو قلعے کے قریب ایک جگہ بتا کر کہا کہ وہ اگلے روز وہاں پہنچ جائے۔ یہ کہہ کر مائیں رانی چلی گئی ۔
بلال وہاں سے چل پڑا اور ایک اونچی ٹیکری کے پیچھے چلا گیا وہاں عرب کے چار جوان آدمی اس کے انتظار میں کھڑے تھے، وہ وہاں کچھ دنوں سے چھپے ہوئے تھے بلال نے راجہ داہر تک رسائی حاصل کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا تھا جو اتفاق سے اس کے سامنے آگیا تھا۔ اس نے قید ہونے کا خطرہ بھی مول لے لیا تھا۔ یہ تو اسے توقع ہی نہیں تھی کہ مائیں رانی اس سے اس طرح متاثر ہو جائے گی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=*
سندھ کے علاقے میں ان پانچ عربوں کی موجودگی کوئی عجیب بات نہیں تھی، محمد بن قاسم کی پیدائش سے بہت پہلے عرب کے مسلمان ہندوستان کی زمین پر موجود تھے، سب سے پہلے اسلام ہندوستان کے جنوبی علاقے مالابار میں آیا تھا ،اس وقت وہاں چار مذہب تھے بدھ مت، ہندومت ،عیسائیت ،اور یہودیت ،،،،،،
یمن، حجاز، اور مسقط کے عرب بھی وہاں موجود تھے وہ جہاز ران اور تاجر تھے ان میں سے بعض یہی آباد ہوگئے تھے ،اس وقت وہ مسلمان نہیں تھے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ میں ہی اسلام بالامار میں پہنچ گیا تھا، جس اجالے کو غار حرا کی تاریکی نے جنم دیا تھا اس کی شعاعیں ان عرب تاجروں کے ذریعے مالابار میں پہنچی تھی جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ،مالابار سے آگے سراندیپ (موجودہ سری لنکا) تھا ،وہاں بھی عرب کے مسلمان تاجر اور جہازراں آن پہنچے اور ان کے ساتھ اسلام بھی آیا ،سراندیپ کے مقامی باشندے سب سے پہلے تو مسلمانوں کے اخلاق اور کردار سے متاثر ہوئے اور جب مسلمانوں نے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو لوگوں کو پتہ چلا کہ اسلام کے بنیادی اصول اور تعلیمات کیا ہیں تو وہ اسلامی مساوات سے متاثر ہوئے، اسلام راجہ اور رعایا کے تصور کو رد کرتا تھا، چنانچہ دوسرے مذاہب کے لوگ بڑی تیزی سے اسلام قبول کر نے لگے، یہاں تک کہ سراندیپ کے راجہ نے بھی اسلام قبول کر لیا ،مالابار کے راجا زمورن نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے روانہ ہوا لیکن عرب کے ساحل سے کچھ دور بحری جہاز میں فوت ہو گیا اسے یمن کے ساحل پر دفن کیا گیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ایک سالار عثمان بن ابی عاص نے بمبئی کے قریب تھانہ بندرگاہ کے علاقے پر حملہ کیا تھا اس حملے کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں عرب کے جو تاجر اور جہازراں جاتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے ہندوستان کی کسی بندرگاہ پر قبضہ کیا جائے۔
یہ ہندوستان پر مسلمانوں کا پہلا حملہ تھا مگر یہ حملہ امیرالمومنین کے حکم کے بغیر کیا گیا تھا، حملہ کامیاب تھا لیکن اس بندرگاہ پر قبضہ نہ کیا گیا ،مورخ بلاذری لکھتا ہے کہ جب عثمان بن ابی عاص نے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ مدینہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑا سخت پیغام بھیجا انہوں نے لکھا۔
میرے ثقفی بھائی تیری یہ کاروائی بہت خطرناک تھی ، جو فوج اس حملے کے لئے لے گیا تھا وہ تو ایک کیڑے کی مانند تھی جسے تو نے لکڑی پر بٹھا کر سمندر میں ڈال دیا تھا اگر یہ فوج اتنی دور جاکر کسی مشکل میں پھنس جاتی تو خدا کی قسم میں تیرے قبیلہ ثقیف سے اتنے آدمی لے لیتا ۔
اس کے کچھ ہی دنوں بعد عثمان بن ابی عاص نے امیرالمومنین کی اجازت سے سندھ پر ایک اور حملہ کیا انہوں نے اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا ایک حصے کے سالار عثمان خود تھے اور انہوں نے دوسرے حصے کی کمان اپنے بھائی مغیرہ کو دی تھی، لشکر کا یہ حصہ بحری بیڑے میں گیا تھا اور سمندر کی طرف سے دبیل کے مقام پر حملہ کیا گیا تھا، عثمان نے خود ایک اور مقام پر حملہ کیا تھا جو برج کے نام سے مشہور ہے۔ اس وقت راجہ چچ سندھ کا حکمران تھا۔ دبیل کا حاکم چچ کا ایک بڑا دلیر جرنیل سامہ تھا۔ اس نے اپنی فوج کو قلعے سے باہر لاکر عثمان بن ابی عاص کے بھائی مغیرہ کا جم کر مقابلہ کیا، مغیرہ دشمن کی فوج کے قلب تک پہنچ گیا اور سامہ کو للکارا اس طرح دونوں فوجوں کے سالار آمنے سامنے ہوئے مغیرہ نے بسم اللہ اور فی سبیل اللہ کا نعرہ لگایا، اور سامہ پر حملہ کیا سامہ زخمی تو ہوا لیکن جو زخم مغیرہ نے کھائے وہ مہلک ثابت ہوئے اور مغیرہ شہید ہوگئے، فتح تو مسلمانوں کو ہی حاصل ہوئی لیکن یہ فتح خاصی مہنگی پڑی کچھ وجوہات کی بنا پر ان مقامات پر قبضہ نہ کیا گیا ہے۔
اس کے چھ سال بعد ایک اور سپہ سالار عبداللہ بن عامر بن ربیع نے ایران کو فتح کیا پھر وہ سیستان پر حملہ آور ہوئے جہاں کے حاکم مرزبان نے ہتھیار ڈال دیے، سیستان پر قبضہ مکمل ہوگیا تو سپہ سالار عبداللہ نے اپنے ایک اور سالار قلبی کو مکران پر حملے کے لئے بھیجا ،اس وقت مکران پر راجہ راسل کی حکمرانی تھی اس نے سندھ کے راجہ چچ سے مدد مانگی، چرچ نے راسل کی مدد کے لئے اپنی فوج بھیج دی اس طرح دشمن کی تعداد دگنی سے بھی بڑھ گئی اس کے باوجود مسلمانوں نے فتح پائی اور مکران کے ایک بڑے حصے پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
اس سے پہلے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں ان کے مقرر کیے ہوئے عراق کے حاکم ابو موسی اشعری نے اپنے ایک سالار ربیع بن زیاد حارثی کو فوج دے کر مکران پر حملہ کر آیا تھا، اور مکران تہ تیغ بھی ہو گیا تھا لیکن فوج کو واپس بلا لیا گیا۔
ابو موسی اشعری نے مکران کے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ الگ کر کے امیر المومنین کو بھیجا یہ مال غنیمت لے جانے والے ایک تجربے کار کماندر صحارعبدی تھے۔
اللہ تم سب کو یہ فتح مبارک کرے۔۔۔ امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا۔۔۔ تم سب پر اللہ کی رحمت ہو یہ بتا مکران کا علاقہ کیسا ہے؟،،،،، وہاں کے لوگ کیسے ہیں، اور وہاں کی زمین کیسی ہے؟ امیرالمومنین!،،،،، صحار نے کہا ۔۔۔خود پیاسی ہے، پھل نہیں، پھول بھی نہیں ،پھل ہے تو وہ کھانے کے قابل نہیں، وہاں کے لوگ لوٹ مار کے دلادہ، ایک دوسرے کو لوٹتے اور زندہ رہتے ہیں، زندہ رہنے کے لئے دوسروں کو قتل کرتے ہیں، اگر ہم نے وہاں تھوڑی فوج رکھی تو اسے لوٹ لیا جائے گا ،اور اگر زیادہ فوج رکھی تو بھوک اور پیاس سے مر جائے گی۔
تجھ پر اللہ مہربان ہو ۔۔۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ صحارعبدی کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔تو شاعری کررہا ہے وہاں کی صحیح حالات بیان کر۔
امیرالمومنین!،،،،، صحارعبدی نے کہا ۔۔۔جو دیکھا ہے وہ بیان کیا ہے، خدا کی قسم جو کوئی وہاں جائے گا یہی بتائے گا جو میں نے امیر المومنین کی خدمت میں بیان کیا ہے۔ صداقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
نہیں صحار!،،،،،،امیرالمومنین نے دوٹوک لہجے میں کہا۔۔۔ مجاہدین اسلام کو بھوکا اور پیاسا نہیں مارا جاسکتا ،قیصروکسریٰ سے ہتھیار ڈلوانے والے مجاہدین کی یہ توہین نہیں کی جاسکتی کہ وہ سو رہے ہوں تو ڈاکو انہیں لوٹ لیں، وہ بھوک اور پیاس سے سسک سسک کر جان دے دیں۔
امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ لشکر کو واپس بلا لیا جائے، کچھ حصے پر قبضہ رکھا گیا اور جو علاقہ حکم تغلبی نے فتح کیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔
ہندوستان کے مغربی علاقوں میں مسلمانوں کی پیشقدمی اور فتوحات مکران پر ہی ختم نہیں ہوجاتی، یہ تفصیلات خاصی طویل ہے بات چونکہ تاریخ اسلام کے عظیم اور سب سے کم عمر سالار محمد بن قاسم کی ہورہی ہے اس لئے ہم اس روئیداد کو سندھ تک ہی محدود رکھیں گے۔
عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے اس دور میں بھی ہندوستان کے مغربی علاقوں میں مسلمانوں کی پیشقدمی جاری رہی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی خلافت کا دور شروع ہوا جس میں مسلمان قلات تک پہنچے ،اس کے بعد علی کرم اللہ وجہہ الکریم بھی شہید ہوگئے اور خلافت بنو امیہ کے پاس چلی گئی۔
بنو امیہ کے دور میں بھی ہندوستان کے مغربی علاقوں میں مسلمان حاکم رہے لیکن پیچھے اس مرکز میں جہاں سے اسلام کی کرن پھوٹی اور دور دور تک پہنچی تھی ان میں دولت اور اقتدار کی ہوس پیدا ہو گئی اور خلافت ایک متنازع مسند بن گئی، اس ہوس نے ان مسلمانوں کو جنہوں نے اسلام کو کرہ ارض کے گوشے گوشے تک پہنچانا تھا خانہ جنگی میں الجھادیا ،نیک و بد کے، جھوٹے اور سچے کی ،حق اور باطل کی تمیز ختم ہوگئی، جنہوں نے حق کا پرچم بلند کیا انہیں باغی کہا گیا۔ ظلم و تشدد کا دور شروع ہوگیا جس نے ظلم و تشدد میں سب سے زیادہ نام پایا وہ محمد بن قاسم کا چچا حجاج بن یوسف تھا، اب اقتدار کے ان پجاریوں نے اسلام اور اللہ اکبر کے نعروں کو سیاست کا رنگ دے دیا۔
مسند خلافت پر جو معرکہ آرائی ہوئی ہم اس کی تفصیلات میں بھی نہیں جارہے مختصر بات یہ ہے کہ وہ وقت بھی آیا کہ خلافت دو حصوں میں بٹ گئی دارالخلافے دو ہو گئے یوں کہہ لیں کہ اسلام کا جگر دو حصوں میں کٹ گیا، پھر عبدالملک بن مروان کا دور خلافت شروع ہوا تو اس نے بغاوتوں اور خانہ جنگی کی کیفیت کو ختم کیا اور اموی حکومت کو مستحکم کیا، حجاج بن یوسف اسی دور میں حاکم بنا اور شہرت پائی۔
بغاوت کے دور میں تقریبا پانچ سو سرکردہ عرب راجہ داہر کے پاس پہنچے اور انہیں راجہ داہر نے پناہ دے کر مکران کے اس علاقے میں آباد کر دیا تھا جو اس کے قبضے میں تھا ،ان پناہ گزینوں میں اکثریت علافی خاندان کی تھی، یہ ایک مشہور جنگجو قبیلہ تھا۔
بلال بن عثمان اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ پناہ لینے ہی آیا تھا چونکہ وہ اجنبی تھے اس لئے بھٹکتے اور چھپتے پھر رہے تھے، انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس سندھ کے راجہ نے عرب کی خلافت کے ساتھ دشمنی پیدا کر لی تھی، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس نے خلافت کے باغیوں کو پناہ دے رکھی تھی، اور دوسری وجہ یہ کہ اس کے باپ چچ نے مسلمانوں کے خلاف مکرانیوں کو مدد دی تھی، اس وجہ سے بھی بلال بن عثمان ڈرتا تھا کہ راجہ داہر انہیں گرفتار کر کے قید خانے میں ڈال دے گا۔
*<========۔========>*
قسط نمبر 05،04
مائیں رانی نے بلال کو دوسرے دن قلعے سے تھوڑی ہی دور ایک جگہ ملنے کو کہا تھا، دوسرے دن بلال چلنے لگا تو دوستوں نے اسے روک لیا، رات کو ہی وہ اس مسئلہ پر بحث و مباحثہ کرتے رہے تھے، اُس کے ساتھی کہتے تھے کہ رانی اسے دھوکے میں بلا کر گرفتار کروا دے گی، یہ شک بلال کے ذہن میں بھی تھا کیونکہ مائیں نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے جاسوس سمجھتی ہے، اس نے اپنے ساتھیوں کو یہ بات بتائی تھی اسی لئے ساتھی اسے جانے سے روکتے تھے، لیکن بلال یہ بھی محسوس کرتا تھا کہ مائیں اسے دھوکہ نہیں دے گی۔
اگر جانا ہی ہے تو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔۔۔ بلال کے ایک ساتھی نے کہا۔
تم کیا کرو گے؟،،،،، بلال نے پوچھا اور کہا۔۔۔ تم سب کو میرے ساتھ دیکھ کر وہ مجھے نہیں ملے گی، اور یہ بھی سوچو کہ اس کی نیت خراب ہوئی تو تم سب میرے ساتھ پکڑے جاؤ گے، بہتر ہے کہ مجھے خطرہ مول لینے دو ،اور تم یہیں ہی رہو، اس طرح یہ ہوگا کہ میں اکیلا پکڑا جاؤں گا ،اگر میں شام تک واپس نہ آیا تو سمجھ لینا کہ میں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں، پھر تم یہاں سے نکل جانا۔ اس کے ساتھی نہ مانے آخر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بلال اکیلا جائے اور وہ گھوڑے پر جائے تاکہ خطرے کی صورت میں وہاں سے بھاگ سکے، انہوں نے یہ بھی طے کر لیا کہ اس کے چاروں ساتھی اس جگہ سے جہاں بلال سے رانی نے ملنا تھا کچھ دور چھپے رہیں گے، اور خطرے کی صورت میں بلال کی مدد کو پہنچیں گے، بلال بن عثمان اپنے گھوڑے پر سوار ہوا برچھی ہاتھ میں لی اور چل پڑا ۔
اس نے جہاں پہنچنا تھا وہ جگہ اڑھائی تین میل دور تھی، مائیں نے اسے راستہ بتا دیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
بلال جب چٹانوں، ٹیلوں ،اور کھڈنالوں کے علاقے سے نکل کر آگے گیا تو اسے کچھ دور ایک ایسا سرسبز خطہ دکھائی دینے لگا جیسے صحرا میں نخلستان ہوتا ہے، وہاں ہرے بھرے درختوں کے جھنڈ تھے، ان میں چھوٹے چھوٹے درخت بھی تھے، اور اونچے بھی، ان کے نیچے اونچی گھاس بھی تھی ،اور خودرو پودے بھی تھے، ادھر سے بلال کا گھوڑا چلا جا رہا تھا، ادھر سے ایک گھوڑا دوڑا رہا تھا، سیاہ رنگ کے اس گھوڑے کی سج دھج بتاتی تھی کہ شاہی اصطبل کا گھوڑا ہے، بلال بن عثمان نے دور سے پہچان لیا کہ گھوڑے کا سوار کوئی آدمی نہیں عورت ہے، وہ رانی تھی بلال بن عثمان کوئی ایسا کچا آدمی نہیں تھا اس نے اپنے آپ پر مائیں رانی کے حسن اور اسکی جوانی کو سوار نہیں کیا تھا ،اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑا دوڑ پڑا لیکن گھوڑے کا رخ مائیں رانی کی طرف نہیں تھا بلکہ اس طرف تھا جہاں اس نے رانی سے ملنا تھا ،وہ رانی سے پہلے اس جگہ پہنچ گیا وہ جگہ بہت ہیں خوبصورت تھی اس کے اندر چھوٹی سی ایک جھیل بنی ہوئی تھی، اس کے اردگرد چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں اور ان پر اونچی گھاس اور جھاڑیوں جیسے سر سبز پودے تھے، ان میں اور ٹیکریوں کے پیچھے بیک وقت کئی آدمی چھپ سکتے تھے ،یہ جگہ خاصی وسیع تھی۔
بلال گھوڑا دوڑاتا ہوا اس تمام علاقے میں گھوم گیا وہ دیکھتا پھر رہا تھا کہ رانی کے آدمی چھپے ہوئے نہ ہوں، اس کے سامنے اپنی سلامتی تھی اسے درختوں پر چہچہاتے ہوئے پرندوں کے سوا کوئی جاندار نظر نہ آیا، یہ چند ایک گلہریاں تھی جو اس کے گھوڑے سے ڈر کر درختوں پر چڑھ گئیں ،وہ تمام جگہ گھوم پھر کر جھیل کے کنارے پر آیا تو ادھر سے مائیں رانی کا گھوڑا اس خوبصورت جگہ داخل ہوا ،وہ کود کر گھوڑے سے اتری اور بچوں کی طرح ہنستی ہوئی بلال کی طرف آئی، بلال گھوڑے سے اتر کر آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا ،مائیں نے قریب آکر بے ساختی سے بلال کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس ہاتھ کو چوم لیا، پھر اس نے اس ہاتھ کو اپنے کندھے پر رکھ لیا اور سرک کر بلال کے اتنے قریب ہوگئی کہ بلال کا بازو اس کے کندھے سے سرک کر اس کی پیٹھ تک پہنچ گیا، اس طرح مائیں بلال کے بازو میں خود ہی آ گئی، بلال نے اپنا بازو پیچھے کر لیا اور خود بھی ذرا پیچھے ہو گیا۔
کیوں ؟،،،،،،مائیں رانی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔ کیا تمہیں اچھا نہیں لگا، کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو کہ میں اس دیس کی رانی ہوں، تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے میں جانتی ہوں تم اپنے دیس کی رعایا میں سے نہیں، مجھے پتا چلا ہے کہ عرب سے بھاگ کر جتنے لوگ مکران میں آئے ہیں وہ سب سردار ہیں، یا سرداروں کے بیٹے ہیں، تم بھی اونچے طبقے کے آدمی معلوم ہوتے ہو۔
نہیں رانی!،،،،،، بلال نے کہا۔۔۔ میں ڈرتا نہیں میں حیران ہو رہا ہوں کہ ایک ملک کی رانی اکیلی قلعے سے اتنی دور آ گئی ہے کیا تمہارے محافظ بعد میں آئیں گے؟
نہیں!،،،،، مائیں نے جواب دیا۔۔۔ یہاں اور کوئی نہیں آئے گا ،میں ان رانیوں میں سے نہیں جو رعایا پر رعب ڈالنے کے لئے محافظوں کے پورے دستے کے ساتھ باہر نکلا کرتی ہیں۔
کیا راجہ نے تم پر اکیلے باہر نکلنے کی پابندی نہیں لگائی؟
نہیں!،،،،، مائیں نے جواب دیا۔۔۔ تمہیں حیران ہونا چاہیے کوئی رانی قلعے سے اتنی دور اکیلے نہیں جایا کرتی، لیکن میرا معاملہ کچھ اور ہے۔
وہ کیسے؟
یہ ابھی نہیں بتاؤنگی۔۔۔ مائیں نے جواب دیا۔۔۔ پہلے دیکھوں گی کہ تمہارا دل میری محبت کو قبول کرتا ہے یا نہیں، مجھے تمہاری محبت کھینچ لائی ہے، کیا تم مجھے محبت کے قابل نہیں سمجھتے؟
سمجھتا ہوں رانی!،،،،، بلال نے جواب دیا ۔۔۔لیکن میں اور بھی بہت کچھ سمجھتا ہوں ،تم نے میرے لیے بہت خوبصورت جال بچھایا ہے۔ میں نے سنا تھا کہ عرب کے لوگ ہمارے ملک کے لوگوں سے زیادہ عقلمند ہوتے ہیں۔۔۔ مائیں نے کہا۔۔۔ لیکن تم تو عقل سے بالکل ہی خالی ہو، کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہماری فوج پانچ آدمیوں کو پکڑ نہیں سکتی، تمہیں پکڑوانا ہوتا تو کیا رات کے وقت فوج کی تھوڑی سی نفری بھیج کر تمہیں تمہارے ساتھیوں سمیت نہیں پکڑا جاسکتا تھا۔
تم نے مجھے محبت کے قابل کیوں سمجھا ہے؟۔۔۔ بلال بن عثمان نے پوچھا ۔۔۔کیا تمہیں مجھ سے بہتر کوئی اپنے ملک کا آدمی نہیں ملا؟
میں رانی ہوں بلال !،،،،،مائیں نے کہا۔۔۔ ہو سکتا ہے تم سے زیادہ خوبصورت جوان میری محبت میں تڑپ رہے ہوں، لیکن وہ ایسی بات زبان پر نہیں لا سکتے، رانی کو رعایا دیوی سمجھتے ہیں، رانی کی لوگ پوجا کرتے ہیں، لیکن بلال آج ایک رانی ایک اجنبی کے پاس محبت کا پیغام لے کر آئی ہے، اجنبی بھی ایسا جو نہ جانے کون ہے اور کیا ہے، مجھے تو یقین سا ہو چلا ہے کہ ہم دونوں پچھلے جنم میں اکٹھے رہے ہیں ہم دونوں ایک تھے۔
میرا مذہب نہیں مانتا کہ انسان مر کر پھر دنیا میں آجاتا ہے۔۔۔ بلال نے کہا۔
محبت میں مذہب کو نہ لاؤ بلال!،،،، مائیں نے کہا۔۔۔ تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھو میرا دل توڑ کے نہ جانا، اس نے بلال کو اپنے پاس بٹھا لیا، بلال میں وہ مردانہ حسن و جلال تھا کہ ہندوستان کی ایک رانی اس پر فریفتہ ہو جاتی، اور مائیں رانی کے حسن و جمال میں وہ جادو تھا کہ عرب کا ایک جوان آدمی اس کا گرویدہ ہو جاتا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
جب بلال اور رانی اس روح پرور سبززار سے نکلے تو سورج بہت دور آگے نکل گیا تھا۔ درختوں کے سائے لمبے ہو گئے تھے ،بلال کے ساتھی دور ایک جگہ چھپے ہوئے تھے وہ اس جگہ کو دیکھتے رہے تھے جہاں بلال غائب ہو گیا تھا ،انھیں توقع تھی کہ قلعے سے فوج کے کچھ آدمی آئیں گے اور اس جگہ کو گھیرے میں لے کر بلال کو قتل کر جائیں گے، یا اسے پکڑ کر لے جائیں گے، لیکن کوئی بھی نہ آیا ۔
بلال واپس ان کے پاس آیا تو اس پر خمار سا طاری تھا، اس کے بولنے کا انداز ایسا تھا جیسے نشے میں ہو ،اس کے ساتھی اس سے کچھ اور پوچھتے تھے اور وہ کچھ اور جواب دیتا تھا، وہ رانی کی رومانی باتیں سناتا تھا، ساتھیوں نے اسے برا بھلا کہا تو وہ ذرا ہوش میں آیا۔
خدا کی قسم!،،،،، اس نے کہا۔۔۔ مائیں نے تم سب کا انتظام کردیا ہے، رانی ہمیں قلعے میں رکھ لے گی، وہ کل پھر آئے گی۔
دوسرے دن بلال بن عثمان پھر اس جگہ مائیں رانی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، دونوں کے والہانہ پن کا یہ عالم تھا جیسے ایک دوسرے میں تحلیل ہو جانے کی کوشش کر رہے ہوں۔
وہ درخت کی شاخ پر بیٹھے کبوتر اور کبوتری لگتے تھے جو پیار اور محبت میں مگن ہوتی ہیں۔
کیا اب بھی تم مجھ پر شک کرتے ہو؟،،،،،، مائیں نے بلال سے پوچھا۔۔۔۔ اپنے دل سے پوچھو کیا میں تمہیں پکڑا دوں گی ۔
یہ شک تو نہیں رہا کہ تم مجھے پکڑوا دوں گی۔۔۔ بلال نے کہا۔۔۔ لیکن مجھے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ تم اپنے خاوند کو دھوکا کیوں دے رہی ہو، وہ اتنا بڑا راجہ ہے اور سنا ہے وہ تندرست اور توانا ہے، اور وہ بد صورت بھی نہیں، اور وہ بوڑھا بھی نہیں، پھر تم اسے محبت کے قابل کیوں نہیں سمجھتی؟
مجھے اس کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ میں اسے اپنی زندگی بھی دے دوں۔۔۔ مائیں نے کہا ۔۔۔اسے کانٹا چبھ جائے تو میں اس طرح تڑپ اٹھتی ہوں جیسے یہ کاٹا میرے دل میں اتر گیا ہے، وہ چپ ہو گئی کچھ دیر بعد بولی، تم مانو گے نہیں میں تمہیں ایک عجیب بات بتانے لگی ہوں، راجہ داہر میرا خاوند ہے لیکن میں اس کی سگی بہن ہوں۔
بلال نے چونک کر مائیں کو دیکھا ،مائیں نے بات ہی ایسی کہ دی تھی جسے سچ مانا ہی نہیں جاسکتا تھا۔
میں سچ کہہ رہی ہوں بلال!،،،،، مائیں نے کہا۔۔۔ میں راجہ داہر کی بہن ہوں اور وہ میرا خاوند ہے، ہماری شادی اسی طرح ہوئی ہے جس طرح ہندوؤں کی شادی ہو اکرتی ہے۔ ہماری شادی پنڈت نے کرائی تھی، ہم مذہبی طور پر خاوند اور بیوی ہیں، لیکن جسمانی طور پر بھائی بہن ہیں، ہم بے اولاد مر جائیں گے، راجہ داہر مر جائے گا تو میں اس کی لاش کے ساتھ چیتا میں زندہ جل جاؤں گی۔
لیکن یہ شادی ہوئی کیسے؟،،،، بلال نے پوچھا۔۔۔ اس شادی کا مطلب کیا ہے؟
میں بتاتی ہوں۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔۔۔اور اس نے بلال کو سنایا کہ بھائی نے اپنی سگی بہن کے ساتھ شادی کیوں کی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
مائیں رانی نے اپنی شادی کا جو قصہ سنایا وہ ایک تاریخی واقعہ ہے، اس کی تفصیلات تاریخ معصومین اور چچ نامہ میں ملتی ہیں۔ داہر سندھ کا راجہ بنا تو اس نے اپنے ملک کا دورہ کیا، اپنے لوگوں سے ملا ،اور اپنی سرحدوں کا بھی جائزہ لیا ،اس کا یہ دورہ کئی مہینوں پر پھیلا ہوا تھا ،وہ جب واپس اپنی راجدھانی اروڑ آیا تو شہر کے تمام لوگ اس کے استقبال کے لئے راستے کے دونوں طرف کھڑے تھے ،انہوں نے اپنے راجہ پر پھول برسائے اور اس کے راستے میں پھولوں کی پتیاں بچھائیں۔
راجہ داہر نے اپنی راجدھانی کے لوگوں کی یہ فرمابرداری اور عقیدت مندی دیکھی تو اس نے اسی روز دربار عام منعقد کیا ،چند ایک سرکردہ افراد کو انعامات دیے اور لوگوں کو کھانا کھلایا، جب لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے تو وہ پنڈت اور وہ نجومی اسے تنہائی میں ملے ،اس کی مدح سرائی کی اور اسے دیوتا بنا دیا ۔
ہم نے مہاراج کا اور مہاراج کی بہن مائیں کے زائچے نکالے ہیں۔۔۔ ایک نجومی نے کہا ۔۔۔آنے والے کئی سالوں میں کوئی گڑبڑ نظر نہیں آئی، سوائے ایک خرابی کی۔
مائیں کے زائچے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مائیں کی شادی جس کسی کے بھی ساتھ ہو گی وہ سندھ کا راجا بنے گا۔
ہماری موت کے بعد۔۔۔ راجہ داہر نے پوچھا۔ نہیں مہاراج !،،،،،،نجومی نے کہا۔۔۔ وہ مہاراج کی زندگی میں ہی سندھ کا مالک بن بیٹھے گا۔
وہ کون ہوگا۔۔۔۔ راجہ داہر نے پوچھا ۔۔۔کہاں سے آئے گا؟
اندھیرا ہے مہاراج! ،،،،،،نجومی نے کہا،،،، قسمت جہاں اندھیرے میں چلی جائے وہاں جوتش اور نجوم کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، یہ نظر آتا ہے دوسرے نجومی نے کہا کہ مائیں کا خاوند کہیں باہر سے نہیں آئے گا، اور مائیں یہیں ہی رہے گی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ جو ہماری بہن کا خاوند ہوگا وہ ہمیں قتل کر دے گا۔۔۔ راجہ داہر نے پوچھا۔
بات صاف نہیں مہاراج!،،،،،،، نجومی نے کہا۔۔۔ یہ بالکل صاف ہے کہ مائیں کی شادی جس کسی کے ساتھ بھی ہوئی وہ سندھ کا راجہ ہوگا ۔
ہم نے اپنا فرض سمجھا ہے کہ مہاراج کو آنے والے وقت کے خطروں سے آگاہ کردیں۔۔۔ بڑے پنڈت نے کہا۔۔۔ مہاراج کچھ بندوبست کرلیں۔
راجہ داہر نے نجومیوں اور پنڈتوں سے یہ اگلوانے کی بہت کوشش کی کہ اس کی بہن کی شادی کے بعد اس کا انجام کیا ہو گا، لیکن نجومی اور پنڈت اس سے زیادہ کچھ بھی نہ بتا سکے جو وہ بتا چکے تھے، وہ پریشان ہو گیا ہندو نجمیوں اور پنڈتوں کی پیشن گوئیوں کو سو فیصد سچ مانا کرتے تھے، راجہ داہر تو کٹا برہمن تھا وہ نجومیوں کے نکالے ہوئے زائچے کو نظر انداز کرنے کی جرات ہی نہیں کرسکتا۔
نجومی اور پنڈت چلے گئے اور راجہ داہر کا سکون بھی ان کے ساتھ ہی چلا گیا، رات کو جب اس نے محسوس کیا کہ اسے نیند نہیں آئے گی تو اس نے اپنے وزیر کو بلایا ،اس کے وزیر کا نام بدہیمن تھا تاریخ میں لکھا ہے کہ راجہ داہر کو بدہیمن کی عقل و دانش پر مکمل بھروسہ تھا، وزیر جب اس کے پاس آیا تو اس نے بدہیمن کو نجومیوں کا نکالا ہوا زائچہ سنایا ۔
سوچو اور بتاؤ میں کیا کروں؟،،،،،، راجہ داہر نے اسے کہا۔۔۔ میری بہن کی شادی ہونے والی ہے کیا میں خود ہی اپنا اتنا بڑا ملک اپنے بہنوئی کے حوالے کر دوں، اس سے یہ ہوگا کہ میں زندہ رہوں گا، پھر میں کیا کروں گا؟ مہاراج!،،،،،، وزیر بدہیمن نے کہا ۔۔۔راجہ کا اپنی رعایا سے اپنی فوج سے اور اپنے ملک سے جدا ہو جانا اچھا نہیں ہوتا ،پانچ چیزیں ایسی ہیں جو پانچ چیزوں سے جدا ہو جائیں تو ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی ،بادشاہ تخت سے، وزیر وزارت سے ،پیر اپنے مرید سے، دانت منہ سے، بچہ ماں کی چھاتیوں سے، غور کریں مہاراج میں کیسے مشورہ دے دوں کہ آپ تخت سے دستبردار ہوجائے۔
میں پوچھ رہا ہوں میں کیا کروں۔۔۔ راجہ داہر نے پوچھا ۔
مہاراج وہ کریں جو آج تک کسی نے نہیں کیا بدھیمن نے کہا ۔۔۔اپنی بہن کے ساتھ خود شادی کرلیں، اور اسے رانی بنالیں، لیکن رشتہ خاوند اور بیوی کا ہوتے ہوئے بہن کو بہن سمجھیں بیوی نہ سمجھیں، ورنہ یہ بڑا پاپ ہوگا، شادی سے فائدہ یہ ہوگا کہ مہاراج کا کوئی بہنوئی نہیں ہوگا ،تو تخت و تاج کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
میرے دانشمند وزیر!،،،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ تمہارا مشورہ بہت قیمتی ہے، اس کے سوا کوئی اور علاج بھی نہیں لیکن لوگ بدنام کرینگے، طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔ مہاراج!،،،،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔۔ تھوڑے عرصے کا واقعہ ہے ایک آدمی نے ایک بھیڑ کی پشم میں مٹی رکھی اور کھاد ڈالی اور اوپر سے تھوڑا سا پانی چھڑک کر اس میں رائی ڈال دی اس پر وہ پانی چڑھتا رہا کچھ دنوں بعد رائی پھوٹ آئی، بھیڑ کا مالک بھیڑ کو بازاروں میں لے جانے لگا، میں نے بھی یہ بھیڑ دیکھی تھی بھیڑ کو دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا ،پھر یوں ہوا مہاراج آٹھ دن بھیڑ کو دیکھ دیکھ کر لوگوں کی دلچسپی کم ہوگئی اور دیکھنے والوں کا ہجوم ختم ہوگیا ،تھوڑے دن اور گزرے تو لوگوں نے بھیڑ کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا ،بھیڑ ان کے سامنے سے گزر جاتی تھی تو کوئی اسے دیکھتا ہی نہیں تھا ،مہاراج کو سمجھنا چاہیے کہ لوگ کچھ دن باتیں کریں گے پھر چپ ہوجائیں گے، اور مہاراج یہ بھی سوچیں کہ کس کی ہمت ہے جو آپ کے سامنے آ کر بات کرے گا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔==÷=÷*
راجہ داہر نے اپنے وزیر کے مشورے کو قبول کرلیا ،اس کے دماغ پر تخت و تاج سوار تھا اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ بادشاہ اور راجہ کے اعمال رواج کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، اور قانون بھی بن جایا کرتے ہیں ،جو کہ راجہ داہر ہر کسی کو خوش رکھنے کے اصول کو پسند کرتا تھا اس لیے اس نے اپنے پانچ سو سردار وغیرہ کو دربار میں بلایا اور انہیں نجومیوں کی پیشنگوئی سنائی ،اور یہ بھی بتایا کہ وزیر نے کیا مشورہ دیا ہے۔
نہیں مہاراج !،،،،،،ایک آواز سنائی دی ۔
ایسا نہیں ہوسکتا مہاراج!،،،،، ایک اور آواز آئی۔
بہت بدنامی ہوگی مہاراج !،،،،،کسی اور نے کہا ۔
پھر سبھی بولنے لگے ،کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے وزیر بدہیمن کے مشورے کی تائید کی ہو۔
سب اس کے خلاف بول رہے تھے۔
لیکن ہم نے اپنی بہن کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔۔۔ تم سب یہ جانتے ہو کہ ہم اپنا راج کسی اور کے حوالے کر کے جنگل میں چلے جائیں اور باقی عمر بنباس میں گزاریں، ہمارے راج میں کسی کو کوئی تکلیف ہو تو اپنی تکلیف بیان کرے۔
سب پر خاموشی طاری ہو گئی راجہ داہر کی نظریں سفر گھوم گئی، کیا ہم نے تم میں سے کسی کو کبھی نا خوش کیا ہے ،سب کے سر جھک گئے۔ بولو راجہ داہر نے گرجدار آواز میں کہا ۔۔۔ہم اپنی بہن کے ساتھ صرف بیاہ کریں گے اسے بیوی نہیں بنائیں گے ۔
پھر ٹھیک ہے مہاراج!،،،، ایک آواز سنائی دی، اور سب نے تائید میں بولنا شروع کر دیا، دو تین دنوں بعد راجہ داہر نے اپنی بہن مائیں رانی کے ساتھ شادی کر لی ،یہ ایک رسم تھی جو خاموشی سے ادا کی گئی، لوگوں میں اس شادی کے خلاف باتیں ہوئی جس نے سنا اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا لیکن بہن کے ساتھ شادی کرنے والا اس دیس کا راجہ تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس طرح میری شادی اپنے سگے بھائی کے ساتھ ہوں گئی۔۔۔ مائیں رانی نے اس انوکھی شادی کی کہانی بلال بن عثمان کو سناتے ہوئے کہا۔۔۔ میں نے اپنے بھائی کے لیے یہ قربانی دی، یہ تو میں بھی نہیں چاہتی تھی کہ میرا بھائی راج سے محروم ہو جائے، مجھے یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ میرا خاوند میرے بھائی کو قتل کرا کے اس کی تخت پر بیٹھ جائے گا۔
تمہیں یہ تو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ تمہاری شادی کس کے ساتھ کی جارہی تھی۔۔۔ بلال نے پوچھا ۔
معلوم تھا مائیں رانی نے جواب دیا ۔۔۔وہ بھی راجہ ہے بھاٹیہ نام کی ایک ریاست ہے، وہ اسکا راجہ ہے، اسکا نام سونہن رائے ہے، میں برہمن آباد میں اپنے بھائی دہرسینہ کے پاس تھی، اس نے مجھے اس بھائی راجہ داہر کے پاس بھیج دیا تھا اس نے پیغام بھیجا تھا کہ میری شادی فوراً بھاٹیہ کے راجہ سونھن رائے کے ساتھ کر دی جائے، بھائی دہرسینہ نے میرے ساتھ میرا جہیز بھی بھیجا تھا جس میں سات سو گھوڑے اور پانچ سو ٹھاکر تھے ،اور ایک قلعہ بھی جہیز میں دیا جا رہا تھا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ راجہ داہر کے بھائی دہر سینہ کو پتہ چلا کہ داہر نے مائیں کے ساتھ شادی کر لی ہے تو وہ آگ بگولا ہوگیا ،اس نے داہر کو لکھا کہ وہ مائیں رانی کو راجہ سونھن رائے کے حوالے کردے، داہر نے جواب دیا کہ اس نے کس خطرے کے تحت اپنی بہن کے ساتھ شادی کی ہے اس نے یہ بھی لکھا کہ بہن کو اس نے بہن ہی رکھا ہے ،اسے عملاً بیوی نہیں بنایا۔
دہرسینہ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اس نے فوج ساتھ لی اور راجہ داہر کی راجدھانی کو آکر محاصرے میں لے لیا ،راجہ داہر کے پاس فوج زیادہ تھی اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ محاصرہ توڑا جائے ،اس حکم پر فوج باہر نکل آئ دہرسینہ نے دیکھا کہ اس کی فوج داہر کی فوج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تو اس نے راجہ داہر کو پیغام بھیجا کہ وہ قلعے سے باہر آکر اس کی بات سنے، راجہ داہر نے دہرسینہ کو یہ پیغام بھیجا کہ تم میرے بھائی ہو تم خود قلعے میں کیوں نہیں آ جاتے، اس پیغام پر دہر سینہ ہاتھی پر سوار ہوکر قلعے میں آیا اور راجہ داہر سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ باہر چلے ،راجہ داہر اسی ہاتھی پر سوار ہوگیا۔ ہودے میں آگے دہرسینہ آگے کو منہ کئے بیٹھا تھا، داہر پیچھے بیٹھ گیا، اس کا وزیر بدہیمن ساتھ ساتھ گھوڑے پر جارہا تھا ،جب ہاتھی رتھ لے کے دروازے پر پہنچا تو بدہیمن کو کچھ شک ہوا یا اسے کسی سے اشارہ ملا اس نے راجہ داہر کو اشارہ کیا کہ وہ باہر نہ جائے۔
دہر سینہ تو آگے کو دیکھ رہا تھا داہر ہودے میں کھڑا ہو گیا اور دروازے کے اوپر کسی چیز کو پکڑ کر لٹک گیا ،ہاتھی باہر نکل گیا داہر کو اوپر سے اتارا گیا اور قلعے کا دروازہ بند کردیا گیا ،باہر جاکر دہرسینہ نے ہاتھی رکوایا پیچھے دیکھا تو داہر ہودے میں نہیں تھا ۔
تم نے ہمیں کیوں روک لیا تھا؟،،،،،، راجہ داہر نے اپنے وزیر سے پوچھا۔
آپ کا بھائی آپ کو باہر قتل کرنے کے لیے لے جا رہا تھا ۔۔۔بدہیمن نے جواب دیا ۔۔۔اس کے تیور بتا رہے تھے اور میرے بھیجے ہوئے ایک جاسوس نے عین اس وقت مجھے یہ خبر دی تھی جب آپ ہاتھی پر سوار دروازے کے قریب پہنچ گئے تھے ،تاریخوں میں ہے کہ دہر سینہ نے داہر کو واقعی قتل کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا ،دہر سینہ نے دیکھا کہ داہر اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اس کی فوج داہر کی فوج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تو اسے بہت صدمہ ہوا ،صدمے کے علاوہ گرمی زیادہ تھی دہر سینہ کو بخار ہو گیا اس کے تمام جسم پر چھالے اٹھ آئے وہ چار روز بیمار رہ کر وہیں قلعےکےباہر مر گیا ۔ یہ واقعہ 672 عیسوی کا ہے اس وقت دہر سینہ کی عمر تیس سال تھی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
کیا سمجھتے ہو بلال !،،،،،مائیں رانی نے بلال بن عثمان کو یہ ساری داستان سنا کر کہا۔۔۔۔ راجہ داہر مجھ پر کوئی پابندی عائد نہیں کر سکتا ،اس نے مجھے اپنی بیوی نہیں بنایا۔ ہمارا رشتہ بہن بھائی والا ہے ،لیکن وہ جانتا ہے کہ میں جوان ہوں اور اس عمر میں مجھے اپنے خاوند کے پاس ہونا چاہیے ،اسے احساس ہے کہ جوان جسم کے مطالبہ کیا ہوتے ہیں، اور جوان روح کیا چاہتی ہے، اس نے اپنے تختوں کو بچانے کے لئے میری جوانی کے جزبات کی قربانی دی ہے۔
میں نے سنا ہے کہ اس ملک میں زندہ لڑکیوں کی جان کی قربانی بھی دی جاتی ہے۔۔۔ بلال بن عثمان نے کہا۔۔۔ تم نے ٹھیک سنا ہے۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ اگر نجومی یا پنڈت کہہ دے کہ کوئی آئی ہوئی مصیبت انسانی جان کی قربانی سے ٹلے گی تو کسی موزوں لڑکی کو پنڈتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے یہ ایک رسم خاص طریقے سے ادا کی جاتی ہے۔
ہم اسے شرک اور گناہ کبیرہ کہتے ہیں ۔۔۔بلال نے کہا۔۔۔ تمہارا خدا کیسا ہے جو اپنے بندوں کا خون بہا کر خوش ہوتا ہے ۔
میں نے تمہیں پہلے کہا ہے کہ میرے ساتھ مذہب کی بات نہ کرو ۔۔۔مائیں رانی نے کہا۔۔۔ میں جب تمہارے پاس آتی ہو تو میں ہندو نہیں ہوتی، اور میں تمہیں مسلمان نہیں سمجھتی، میں ایک عورت ہوں اور تمہیں ایک مرد سمجھ کر آتی ہوں ،عورت اسی مرد کو اپنے دل میں بساتی ہے جو اس کے دل کو اچھا لگتا ہے، میں رانی ہوں تمہیں زنجیروں میں باندھ کر اپنا غلام بنا سکتی ہوں لیکن میں تمہاری محبت کی زنجیروں میں بند کر تمہاری غلام ہو گئی ہوں، میں تمہارے اس سوال کا جواب دے رہی ہو کہ میں اپنے خاوند کو کیوں دھوکہ دے رہی ہوں، اور میں اسے محبت کے قابل کیوں نہیں سمجھ رہی۔
میں کہہ رہی تھی کہ میرا بھائی راجہ داہر جانتا ہے کہ اس نے میری جوانی کے ارمان اور رومان قربان کر کے مجھے ریگستان میں چھوڑ دیا ہے جہاں میں پیاسی بھٹک رہی ہوں، میرے وجود کا انگ انگ جل رہا ہے۔
وہ مرد ہے اور وہ راجہ ہے وہ بھنورا ہے کلی کلی کا رس چوس سکتا ہے، محل میں داسیوں کی کمی نہیں اسے ایک بیوی کا پابند رہنے کی ضرورت نہیں، اس نے مجھے بھی آزاد چھوڑ رکھا ہے لیکن میں رانی ہوں میں اپنے وقار کو مٹی میں نہیں ملا سکتی میں کسی کی بیوی نہیں بن سکتی ،لیکن فطرت کا گلہ نہیں گھونٹ سکتی ،دل میں محبت کا جو الاؤ بھڑک اٹھا ہے اسے میں بجھا نہیں سکتی میں کسی کی بیوی نہیں بن سکتی جو مجھے پیار سے دیکھے اور میں جس کے راستے میں آنکھیں بچھاؤں۔
میں سمجھ گیا ہوں رانی!،،،،، بلال نے کہا۔۔۔ خدا کی قسم تم نے میرے دل میں اپنا پیار پیدا کر لیا ہے ،لیکن میں اجنبی مسافر ہوں تمہارے وطن میں بے وطن ہوں ،کیا ایک جلاوطن کے ساتھ تم یوں چھپ چھپ کر ملتی رہوں گی۔
نہیں!،،،،،، مائیں نے جواب دیا ۔۔۔میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں گی۔
رانی!،،،، بلال نے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔اگر میں بے وطن نہ ہوتا تو تمہیں مسلمان بنا کر تمہارے ساتھ شادی کر لیتا ۔
تم نے پھر مذہب کا نام لیا ۔۔۔مائیں نے کہا۔۔۔ نہ میں اپنا مذہب چھوڑو گی نہ تمہیں اپنے مذہب میں لانے کی کوشش کروں گی، ہم ایک دوسرے کی پوجا کریں گے، کہو بلال قبول کرتے ہو۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
چھ سال بعد رمل کے راجہ نے راجہ داہر کے ملک پر حملہ کردیا اور اس کے کچھ علاقے پرقبضہ کرکے آگے بڑھا ،اس کے ساتھ ہاتھی بھی تھے یہ سب نر ہاتھی تھے، انھیں بہت زیادہ اور بڑی قوی غذا کھلائی جاتی تھی، اسی لیے یہ مستی میں رہتے تھے حملے کے لیے ان ہاتھیوں کو شراب پلا کر لایا گیا تھا۔ ہاتھیوں کے ساتھ رمل کے راجہ کی جو فوج تھی وہ اتنی زیادہ تھی کہ راجہ داہر گھبرا گیا اور اس کی فوج اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی ،راجہ داہر نے اپنے وزیر بدہیمن کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ وہ کیا کرے۔
مقابلہ کریں مہاراج !،،،،،بد یمن نے کہا ۔۔۔اپنی فوج تھوڑی ہے تو کیا ہوا اس خزانے کا منہ کھولیں جس میں آپ نے دولت کے ڈھیر لگا رکھے ہیں، یہ لوگوں میں تقسیم کریں اور انہیں کہیں کہ دشمن کے مقابلے کے لئے نکلیں، بہادری سے لڑنے والوں کے لئے انعام مقرر کریں۔
رعایا کو لڑنے کا تجربہ نہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اناڑی لوگ دشمن کے آگے ٹھہر نہیں سکیں گے۔
پھر دشمن کے ساتھ صلح کر لیں۔۔۔ وزیر بریمن نے کہا ،کیا اس سے بہتر موت نہیں وزیر نے کہا۔
ہمارا دشمن صلح کی نہ جانے کتنی قیمت اور نہ جانے کیا قیمت مانگ بیٹھے ،صلح کا مطلب ہے ہتھیار ڈالنا میں ہتھیار نہیں ڈالوں گا۔
پھر ایک ہی صورت رہ جاتی ہے بدہیمن نے کہا۔۔۔ مہاراج نے عرب کے جن مسلمانوں کو پناہ دے کر اپنے ملک میں آباد کیا تھا انہیں لڑنے پر راضی کریں۔
لیکن ان کی تعداد صرف پانچ سو ہے ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ شاید کچھ زیادہ ہو اتنی تھوڑی تعداد میں کچھ نہیں کر سکیں گے۔
مہاراج !،،،،،،بدہیمن نے کہا ۔۔۔عربوں کو آپ نہیں جانتے یہ اس قوم کے آدمی ہیں جس نے فارسیوں اور رومیوں کو شکست پر شکست دے کر ان کی جنگی طاقت ختم کر ڈالی ہے، یہ لوگ دلیر بھی ہیں اور بہت تھوڑی تعداد میں بھی فتح پانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
چچ نامہ اور تاریخ معصومی میں لکھا ہے کہ راجہ داہر کو یہ مشورہ پسند آیا ،اور خود ان عرب مسلمانوں کے پاس گیا جنہیں اس نے اپنے ملک میں پناہ دی تھی، ان کی تعداد پانچ سو تھی اور یہ سب اپنے قبیلوں کے سردار یا سرداروں کے بیٹے تھے، یہ باغی ہوئے پھر وہاں سے بھاگ کر سندھ میں آگئے تھے، ان کا سردار امیر محمد علافی تھا ،بعض مورخوں نے اس کا نام محمد حارث علافی لکھا ہے، وہ بنی اسامہ کا سردار تھا اور سندھ میں آنے والے سرداروں نے اسے امیر بنا لیا تھا۔
علافی قبیلے نے عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں مکران کے امیر سعید بن اسلم کلابی کو قتل کیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
مہاراج!،،،،، علافی نے آگے بڑھ کر داہر کا استقبال کیا اور کہا ۔۔۔آپ کے آنے میں وہ شان نہیں جس شان سے آپ باہر نکلا کرتے ہیں۔
آج میری شان کو تمہاری تلوار قائم رکھے گی۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔میں احسان جتانے اور احسان کا صلہ لینے نہیں آیا ،میں دوستی کا حق لینے آیا ہوں۔
علافی نے اسے بٹھایا اور تین چار سرکردہ آدمیوں کو بھی بلایا۔
کہو مہاراج!،،،،،، علافی نے پوچھا۔۔۔ آج ہماری تلوار کی کیا ضرورت پیش آئی ہے ،ہم دوستی کا حق ادا کریں گے۔
راجہ داہر نے اسے بتایا کہ ایک بہت طاقتور دشمن اس پر حملہ کرنے آ رہا ہے اور اس وقت اس کی فوج دس بارہ میل دور پڑاؤ کئے ہوئے ہے۔
خدا کی قسم عرب کے مسلمان کسی کا احسان بھولا نہیں کرتے۔۔۔ علافی نے کہا ۔۔۔ہم دوستی کا حق ادا کریں گے ،حق ادا نہ ہوا تو جانیں دے دیں گے۔
پھر کوئی ترکیب کرو اور میرے راج کو اس دشمن سے بچاؤ ۔۔۔راجہ داہر نے مایوس اور ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ دشمن کے پاس ہاتھی ہیں جو بد مست ہیں ان کی یلغار کو تو کوئی فوج برداشت کر ہی نہیں سکتی، ان کی چنگھاڑ سے ہی فوج پر دہشت طاری ہو جاتی ہے ،کیا آپ لوگ ان ہاتھیوں سے مقابلے کی کوئی ترکیب سوچ سکتے ہیں۔
اے سندھ کے راجہ!،،،،،، ایک بوڑھے عرب سردار نے کہا۔۔۔ آج سے چالیس سال پہلے کے دن یاد کر، تو اسوقت چھوٹا ہو گا ،فارس کے آتش پرستوں نے ہمارے ہاتھوں کھائی ہوئی شکستوں سے تنگ آکر قادسیہ کے میدان میں ہم سے فیصلہ کن جنگ کرنے کے لئے اتنی فوج اتاری تھی جو شاید اس سے پہلے کسی لڑائی میں نہیں اتری تھی، آتش پرست ہاتھی بھی لائے تھے، ہمارے لیے ہاتھی بالکل نئی اور بہت ہی خوفناک چیز تھی، میں اس وقت جوان تھا اور میں اس میدان میں لڑا تھا۔ آئے سندھ کے راجہ تو شاید جانتا ہوگا کہ شاہ فارس کو یہ ہاتھی اس وقت کے سندھ کے راجہ نے دیئے تھے، یہ ہندوستان کے جنگی ہاتھی تھے، چالیس سال گزر گئے ہیں لیکن ان ہاتھیوں کی چنگھاڑ مجھے آج بھی سنائی دے رہی ہیں ،ان ہاتھیوں نے ہماری فوج کو بہت نقصان پہنچایا تھا لیکن ہم نے ہاتھیوں کے سونڈ کاٹ ڈالی تھی، کیا یہ کام آسان تھا؟
نہیں میرے بزرگ دوست!،،،،، راجہ داہر نے کہا ۔۔۔۔یہ کام آسان نہیں تھا میں اس وقت چھوٹا تھا مجھے ذرا بڑے ہوکر معلوم ہوا تھا کہ مسلمانوں نے قادسیہ کی جنگ میں فارسیوں کو بہت بری شکست دی ہے، اور ہاتھیوں نے زخمی ہو کر اپنی فوج میں بھگدڑ مچادی تھی۔
جنگ قادسیہ 635 عیسوی (14ہجری) میں لڑی گئی تھی، اس وقت شاہ فارس یزدگرد تھا، اس نے مختلف ملکوں سے فوجی مدد یہ کہہ کر مانگی تھی کہ اسلام کے سیلاب کو روکا نہ گیا تو کوئی اور مذہب زندہ نہیں رہے گا ،اور سب مسلمانوں کے غلام ہوں گے،
اس نے سندھ کے راجہ سے بھی مدد مانگی تھی، سندھ کے راجہ نے اسے اپنی فوج کی کچھ نفری دی تھی، اور جو خطرناک چیز دی وہ ہاتھی تھا، معلوم نہیں سندھ سے کتنے ہاتھی شاہ فارس کو دیے گئے تھے، ان میں راجہ کا اپنا سفید ہاتھی بھی شامل تھا ،جو دراصل سفید نہیں بلکہ سفیدی مائل بھورا تھا ،جنگ قادسیہ میں اس ہاتھی پر فارس کا مشہور سالار رستم سوار تھا ،وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
اس لیے تمھارے پاس آیا ہوں ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہاتھیوں کا مقابلہ تم ہی کرسکتے ہو، میں نے تمہاری مدد کی تھی تم میری مدد کرو۔
ہم مدد کو پہنچیں گے۔۔۔ علافی نے کہا ۔۔۔ہمیں اپنے اللہ پر بھروسہ ہے، ہاتھی انشاءاللہ میدان میں آئیں گے ہی نہیں، ہم میں لڑنے کے قابل جتنے بھی آدمی ہیں وہ لڑیں گے آپ ہمیں تھوڑی سی فوج دے دیں باقی فوج کو آپ ابھی ادھر روانہ کردیں جدھر دشمن پڑاؤ کئے ہوئے ہے، اس کے پڑاؤ سے کچھ دور آپ کی فوج پڑاؤ کرے، اور اپنے ارد گرد خندق کھود لے ، مجھے اپنے پانچ سو سوار دے دیں باقی میرے اپنے سوار ہوں گے، اس کے بعد جو ہوگا وہ آپ کا دشمن بھی دیکھے گا اور آپ بھی دیکھ لینا ۔
پھر جو ہوا وہ عرب کے مسلمانوں کی عسکری روایات کے مطابق ہوا ،صرف سندھ کے راجہ داہر اور اس کے دشمن نے ہی نہ دیکھا بلکہ تاریخ نے دیکھا اور آج تک تاریخ ساری دنیا کو دکھا رہی ہے۔
ہوا یہ کہ محمد حارث علافی کی ہدایات کے مطابق راجہ داہر نے اپنی فوج کے پانچ سو سوار س کے حوالے کردیئے ۔
علافی نے ان میں مسلمان سوار شامل کرلئے۔ داہر کی فوج نے قلعے سے نکل کر کوچ کیا اور رمل کے راجہ کی فوج کے پڑاؤ سے تین میل دور خیمے گاڑ دیے، اور خیمہ گاہ کے ارد گرد خندق کھود لی، اس دوران علافی بھیس بدل کر اور ایک دو ساتھیوں کو ساتھ لے کر راجہ داہر کے دشمن کے خیمہ گاہ تک گیا اور دیکھا کہ وہاں کتنی فوج ہے اور کیا کہاں ہے۔ وہ تو بہت بڑا لشکر تھا راجہ داہر کے بچنے کی یہی صورت تھی کہ اپنے دشمن کی شرائط پر اس سے صلح کر لیتا یا اس کی اطاعت قبول کرلیتا ۔
رمل راجہ نے داہر کی فوج پر توجہ مرکوز کرلی اور حملے کی تیاری کرنے لگا، اس نے دیکھا کہ داہر کی فوج اس کی فوج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تو وہ بے فکر ہو گیا ،اسے ایسا خطرہ نظر نہ آیا کہ راجہ داہر کی فوج اس پر حملہ کرے گی۔
ایک رات جب رمل کی فوج گہری نیند سوئی ہوئی تھی علافی نے اپنے سواروں میں سے جن میں سندھی اور عرب سوار شامل تھے رمل کی خیمہ گاہ پر شب خون مارا، اور خیموں کو آگ لگادی خیمہ گاہ میں بھگدڑ مچ گئی دشمن کی فوج سوائے بھاگ نکلنے کے کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی، لیکن علافی کا شب خون اتنا شدید اور تیز تھا کہ رمل کی فوج کے لیے بھاگنا بھی محال ہو گیا ،ہزاروں سپاہی مارے گئے اور جنگی قیدی بھی ہوئے، اور پچاس ہاتھی بھی پکڑ لئے گئے، رمل کے راجہ کی تو کمر ہی ٹوٹ گئی۔
راجہ داہر نے عرب کے ان پناہ گزین مسلمانوں کو جو انعامات دیے ان کے علاوہ انہیں مکران کی سرحد پر خاصا وسیع علاقہ دے دیا ،جہاں یہ عرب آباد ہوگئے ۔
اس وقت بلال بن عثمان اور اس کے چار ساتھی محل کے خاص اصطبل کی ملازمت میں پانچ سال گزار چکے تھے، مائیں رانی کی نظر کرم بلال پر ضرورت سے بھی زیادہ تھی، وہ رسمی طور پر اپنے سگے بھائی کی بیوی تھی لیکن اس کے درپردہ مراسم بلال کے ساتھ تھے۔
وہ جب شکار کے لیے جاتی تھی تو ان پانچ عربوں کو ساتھ لے جاتی تھی۔
*<=======۔=========>*
*قسط نمبر/5*
پھر وقت گزرتا گیا اور داہر کے راجہ کی سرحدیں پھیلتی چلی گئیں، پھیلتے پھیلتے سرحد ملتان تک جاپہنچی سیستان اور کچھ علاقہ مکران کا بھی اس کی سرحدوں میں آگیا۔ اور جنوب میں مالوہ اور گجرات کا تھیاواڑ کے علاقے بھی راجہ داہر کے زیرنگیں ہوگئے۔
مائیں رانی بڑھاپے میں داخل ہوگئی ،بلال بن عثمان بھی بوڑھا ہونے لگا تھا ،وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے۔
راجہ داہر کی حکمرانی تو وسیع ہوگئی لیکن اس کا ذہن تنگ ہو گیا، اس نے رعایا پر ظلم و تشدد شروع کردیا، اس وقت داہر کے ملک میں بدھ مت کے پیروکار زیادہ تھے داہر خود برہمن تھا بدھ مت کے پیروکار جاٹ تھے ،ان کی الگ تھلگ قوم تھی، داہر نے ان بدھو کا جینا حرام کر دیا ،ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرنے لگا۔
عرب کی اسلامی حکومت کے ساتھ بھی اس نے دشمنی پیدا کر لی تھی، جب حجاج بن یوسف عراق کا حاکم تھا اس وقت راجہ داہر کی مجرمانہ اور معاندانہ کارروائیاں تیز ہو گئی تھیں، عرب سے جو باغی ادھر آئے تھے داہر انہیں اپنے ہاں پناہ دیتا اور انہیں اسلامی حکومت کے خلاف بھڑکاتا رہتا تھا ۔
حجاج بن یوسف کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی، حجاج آدھی سلطنت کا حاکم تھا اور وہ ظالمانہ حد تک سخت گیر تھا، اس کے ڈر سے کئی باغی عراق سے بھاگ کر سندھ میں آگئے تھے اور راجہ داہر نے انہیں نہ صرف پناہ دی تھی بلکہ انہیں اسلامی حکومت کے خلاف زمین دوز تخریبی کارروائیوں کے لیے تیار کرتا رہتا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب حجاج بن یوسف کا بھتیجا محمد بن قاسم فارس کا حاکم گورنر تھا، اور اس کا دارالسلطنت شیراز تھا ،اس کی عمر سترہ سال تھی لیکن ذہنی لحاظ سے فہم و فراست اور تدبر کے لحاظ سے وہ تجربہ کار اور منجھے ہوئے ادھیڑ عمر آدمی سے زیادہ ذہین تھا، یہ ماں اور حجاج کی تعلیم و تربیت کا کرشمہ تھا۔ عسکری لحاظ سے وہ منجھا ہوا سپہ سالار تھا۔
فارس کے کرد باغی جنگجو تھے، فارس کا شہنشاہ بھی ان کی باغیانہ سرگرمیوں کے آگے بے بس ہوگیا تھا، محمد بن قاسم نے فن حرب و ضرب کی مہارت اور تدبر سے کردوں کو ایسی لگام ڈالی کہ کرد اس کے اشاروں پر ناچ چنے لگے تھے۔
اس سے پہلے محمد بن قاسم نے فارس کے ان علاقوں کو فتح کیا تھا جو ابھی سلطنت اسلامیہ میں شامل نہیں ہوئے تھے، اس وقت شیراز کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی یہ معمولی سی ایک چھاؤنی تھی محمد بن قاسم نے تھوڑے سے عرصے میں کچھ علاقے فتح کیے پھر کردوں کے بے حد خطرناک فتنے کو ختم کیا، اور شیراز کو دارالسلطنت قرار دے کر اسے شہر بنانا شروع کیا ،آج کے شیراز کی بنیاد محمد بن قاسم نے رکھی تھی اور اپنی زندگی میں ہی اسے بڑا اور ہر لحاظ سے اہم شہر بنادیا تھا۔
اس یتیم اور کمسن مجاہد نے ابھی نقطہ عروج تک پہنچنا تھا اس کا بڑا ہی سخت امتحان ابھی باقی تھا ،عروج کی پہلی سیڑھی پر اس کا قدم اس وقت کے خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس روز دیکھ رکھا تھا جس روز محمد بن قاسم نے سالانہ کھیلوں کے مقابلے میں خلیفہ کے بھائی سلیمان بن عبدالملک کو شکست دی تھی، سلیمان کو توقع تھی کہ اس کا بھائی خلیفہ ہے اور وہ اس کی عزت بچا لے گا اور اس پر محمد بن قاسم کی فتح تو محض کھیل قرار دے گا ۔لیکن خلیفہ نے محمد بن قاسم کی جیت میں اسکے ڈھکے چھپے جوہر دیکھ لیے تھے۔
اسی روز خلیفہ نے محمد بن قاسم کو اپنے پاس بلایا اور اس کے ساتھ باتیں کیں، خلیفہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ لڑکا غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے وہ اسی عمر میں سپہ سالاری کی سطح کے امور کو سمجھتا اور ان کا تجربہ کر سکتا ہے۔
ابن یوسف !،،،،،،خلیفہ نے حجاج بن یوسف سے کہا ۔۔۔خدا کی قسم یہ لڑکا عظیم سالار بنے گا، اور آنے والی نسلیں اس کے نقش قدم پر چلیں گی، اس جیسے انسان اپنی قوم کے لئے خدا کا بہت بڑا انعام ہوا کرتے ہیں، اسے لے جاؤ یوسف کے بیٹے اسے سالاری کے عہدے پر رکھ لو ۔
مؤرخوں نے اس دور کے وقائع نگاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کا رنگ گلابی ساتھا، آنکھیں بڑی تھیں،اور ان میں جو چمک تھی وہ دوسروں کو مسحور کر لیتی تھیں، پیشانی چوڑی تھی، بازو سیڈول اور لمبے تھے ،جسم بھرا بھرا تھا ،اور آواز بھاری تھی جس میں رعب اور جلال تھا لیکن زبان شیریں تھی، چہرہ کھلا رہتا اور ہونٹوں پر تبسم تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم بصرہ آیا ہوا تھا جہاں اس کا چچا حاکم تھا ۔
محمد !،،،،،حجاج نے کہا۔۔۔ مرنے سے پہلے میں اپنی ایک خواہش پوری کرنا چاہتا ہوں۔ کیسی خواہش چچا جان !،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔
یہ ان خواہشوں میں سے ہے جو عزم بن جایا کرتی ہیں۔۔۔ حجاج نے کہا ۔۔۔میں سندھ کی راجدھانی کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اس ملک کو خلافت اسلامیہ کے زیر نگیں لانا چاہتا ہوں، مجھے یوں نظر آرہا ہے جیسے میرا یہ عزم تم پورا کرو گے۔
امیرالمومنین کے حکم کی ضرورت ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں آپ کا یہ عزم ان شاءاللہ پورا کروں گا۔
یہی ایک رکاوٹ ہے ۔۔۔حجاج بن یوسف نے کہا۔۔۔ امیرالمومنین ابھی اجازت نہیں دے رہا، میں اس کوشش میں ہوں کہ مجھے ایسا جواز مل جائے کہ میں امیر المومنین کو مجبور کر دوں کہ سندھ پر حملے کی اجازت دے دے، سندھ بلکہ ہندوستان سے اسلام کے خلاف بہت بڑا فتنہ اٹھ رہا ہے ،تمھارے اتالیق نے تمہیں بتایا ہوگا کہ جنگ قادسیہ میں سندھ کے راجہ نے فارسیوں کو اپنی فوج بھیجی تھی اور ہاتھی بھی دیے تھے۔
ہاں چچا جان !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔
اور اس سے دو سال پہلے جنگ سلاسل میں آتش پرستوں کی فوج میں ہندو چاٹ بھی تھے جو اپنے آپ کو زنجیروں میں باندھ کر لڑے تھے۔
یہ واقعہ 633 عیسوی (12 ہجری) کا ہے جب مسلمان فارس کی عظیم جنگی قوت کے خلاف لڑ رہے تھے اس جنگ میں خالد بن ولید سپہ سالار تھے اور ان کے مقابل فارسیوں کا مشہور جرنیل ہرمز تھا ،اس کی جارحانہ قیادت کی دہشت تمام عرب ممالک پر اور ہندوستان پر بھی طاری تھی، اس کے مقابل جو آیا اس نے بہت بری شکست کھائی، لیکن وہ خالد بن ولید کے مقابل آیا تو اس کے پاؤں کے نیچے زمین ہلنے لگی، اس سے پہلے فارس کی فوج خالد بن ولید کے ہاتھوں بہت ہی بری شکست کھا چکی تھی۔
فارسیوں اور سندھیوں کی آپس میں لڑائیاں ہوچکی تھی ،ان کے درمیان جنگ و جدل کا سلسلہ چلتا رہتا تھا ،ایک بار ہرمز نے سندھ پر بحری بیڑے سے حملہ کیا تھا ۔سندھی اس اچانک اور شدید حملے کی تاب نہ لا سکے ہرمز نے سندھ کے کسی علاقے پر قبضہ نہ کیا وہ مال غنیمت اور ہزاروں سندھیوں کو قیدی بنا کر لے گیا تھا، یہ سب ہندو جاٹ تھے۔
فارسیوں کو حضرت خالد بن ولید ہر میدان میں شکست دیتے آگے ہی آگے بڑھتے گئے تو ہرمز نے مجاہدین اسلام کو شکست دینے کے لئے یہ اقدام کیا کہ سندھ کے اس وقت کے راجہ کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرلیا تاکہ وہ اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں، دوسرا اقدام یہ کیا کہ اس کے پاس جو ہندو جاٹ قیدی تھے اور وہ غلاموں کی زندگی بسر کر رہے تھے ان سب کو ہرمز نے باعزت زندگی اور بہت اچھی تنخواہ پیش کرکے اپنی فوج میں شامل کر لیا یہ سب تجربے کار سپاہی اور عہدے دار تھے انہیں اس نے وہی حقوق دے دیے جو فارس کی اپنی فوج کو حاصل تھے اس کے علاوہ ان ہندو جاٹوں کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کی نفرت پیدا کی گئی۔
یہ تھے وہ سپاہی جو پانچ یا سات یا اس سے کچھ زیادہ کی ٹولی بنا کر اپنے آپ کو ایک زنجیر سے باندھ لیتے اور لڑتے تھے، اس طرح کسی ٹولی سے ایک دو سپاہی بھاگنا چاہتے تو بھاگ نہیں سکتے تھے، دوسرا فائدہ یہ تھا کہ ان کی دشمن فوج آگے بڑھتی تو سپاہیوں اور گھوڑوں کے قدموں کے آگے زنجیر آکر انہیں گرا دیتی تھی۔
میں جانتا ہوں چچا جان!،،،،، محمد بن قاسم نے حجاج سے کہا۔۔۔ ابن ولید کی ایک ایک بات جو مجھے اتالیق میں سنائی تھی میرے ذہن پر نقش ہے، ان زنجیروں کی وجہ سے اس جنگ کو جنگ سلاسل کہتے ہیں، یہ سب ہندوستان کے غیر مسلم سپاہی تھے یہ جنگ کاظمہ کے مقام پر لڑی گئی تھی اور ہرمز ابن ولید کے ہاتھوں ذاتی مقابلے میں مارا گیا تھا۔
پھر مجاہدین نے فارسیوں کو بڑی شرمناک شکست دی تھی۔
میرے جاسوس سندھ میں موجود ہیں حجاج نے کہا انہوں نے باغیوں کے بہروپ میں سندھ میں پناہ لے رکھی ہے وہ مجھے خبریں بھیجتے رہتے ہیں، راجہ داہر نے اپنا دماغ یہاں تک خراب کر لیا ہے کہ اس نے بحری قزاقوں کی پشت پناہی اور پرورش شروع کردی ہے۔
سراندیپ اور مالا بار سے مسلمان حج کے لئے آتے ہیں اور ہمارے تاجر ادھر جاتے آتے رہتے ہیں مجھے اطلاع مل رہی ہے کہ سندھی قزاق ان کے دو تین جہازوں پر حملے کر چکے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوئے ان کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس بادبانی کشتیاں ہیں جن سے وہ بڑے جہاز کو روک نہیں سکتے، ایک جہاز پر انہوں نے جلتے ہوئے تیر بھی پھینکے ہیں، جہاز کے ملاحوں نے جہاز کا رخ پھیر لیا، صرف ایک بادبان کو جلتے ہوئے فلیتے والے دو تیر لگے تھے وہ بادبان جل گیا تھا ملّاحوں نے دوسرے بادبانوں کو بچالیا اور نکل آئے ۔
ہمیں ان جہازوں کی حفاظت کا کوئی انتظام کرنا پڑے گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔
میں صرف ایک انتظام جانتا ہوں ۔۔۔حجاج بن یوسف نے کہا۔۔۔ اگر سندھ پر قبضہ نہ ہوسکے تو سندھ کا ساحل ہمارے قبضے میں ہونا چاہیے، سندھ کی سب سے بڑی بندرگاہ دبیل ہے۔
امیرالمومنین سے اجازت لے دے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ پھر دبیل کی بندرگاہ مجھ سے لے لیں۔
میں اجازت لینے کی کوشش کروں گا۔۔۔ حجاج نے کہا ۔۔۔لیکن اجازت شاید نہ ملے ، میں راجہ داہر کی لاش عرب کے گھوڑوں کے قدموں تلے کچلے اور مسلے ہوۓ دیکھنا چاہتا ہوں، راجہ داہر اپنی بہن کا خاوند ہے ۔
دوسرے دن محمد بن قاسم شیراز چلا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ایک مہینہ گزرا ہوگا دوپہر کے ذرا بعد کا وقت تھا بصرہ میں حجاج بن یوسف کھانا کھا کر آرام کر رہا تھا اسے باہر شور سنائی دیا ،اس کے محافظ شاید کسی کو روک رہے تھے، اس شور میں حجاج کو کسی کی پکار سنائی دی۔ یاحجاج۔۔۔ یاحجاج۔۔۔ یاحجاج۔۔۔ یاحجاج مدد ۔۔۔مدد یا حجاج۔۔۔ حجاج نے دربان کو بلایا اور پوچھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔
ایک خستہ حال آدمی ہے ،یا حجاج دربان نے کہا ،کہتا ہے، سراندیب سے آیا ہوں اور قزاقوں نے جہاز کو لوٹ لیا اور مسافروں کو قید کر لیا ہے۔
اسے فوراً لے آؤ۔۔۔ حجاج نے کہا ۔۔۔فوراً میرا منہ مت دیکھو۔
حجاج سے صبر نہ ہوا وہ دربان کے پیچھے پیچھے باہر نکل گیا، اس کے محل کے باہر ایک آدمی گھوڑے پر سوار تھا گھوڑا بری طرح ہانپ رہا تھا، اور یہ گھوڑا پسینے سے نہایا ہوا تھا، سوار کا سر جھکا ہوا تھا اس کی تھوڑی اس کے سینے کے ساتھ لگی ہوئی تھی، اس نے سر اٹھایا اس کی آنکھیں نیم وا تھیں، منہ کھلا ہوا اور ہونٹ سفید ہوگئے تھے، اس کے چہرے پر گرد تھی۔
یا حجاج ۔۔۔حجاج کو دیکھ کر وہ بولا اور گھوڑے سے اترتے گر پڑا، سنبھل کر اٹھا اور کہنے لگا سندھ کے قزاقوں نے جہاز لوٹ لیا اور مسافروں کو راجہ کے محل میں لے گئے ہیں، سوار کو پانی پلایا گیا، حجاج کے کہنے پر اسے اندر لے جانے لگے لیکن اس نے کہا کہ اسکی بات سن لی جائے۔ یہیں سن لو اس نے کہا ۔۔۔موت مجھے اتنی مہلت نہیں دے گی، میں عرب کی ایک بیٹی کی پکار لایا ہوں، یہ سن لیں، میں زندہ نہیں رہ سکوں گا۔
یہ واقعہ یوں ہوا کہ سراندیپ میں عرب کے مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی سراندیپ کا حکمران ان مسلمانوں کے اخلاق اور کردار سے بہت متاثر تھا، اس نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کے ساتھ دوستی کر لینی چاہئے، اس نے دوستی کا اظہار اسطرح کیا کہ آٹھ جہازوں میں تحائف لادے اور انہیں خلیفہ کو پیش کرنے کے لئے جہاز روانہ کردیئے، ان تحائف میں گھوڑے اور دیگر جانور بھی تھے، اور کچھ تعداد حبشی غلاموں کی تھیں، ان کے علاوہ بیش قیمت تحائف تھے یہ تحائف ان مسلمانوں کے ساتھ جا رہے تھے جو سراندیب سے عرب جا رہے تھے، ان میں کچھ تعداد تاجروں کی تھی جو آتے جاتے رہتے تھے، ان میں بعض اپنے عزیز رشتہ داروں سے ملنے جا رہے تھے، اور کچھ عمرہ کرنے جا رہے تھے، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو سراندیپ میں پیدا ہوئے اور یہیں جوان ہوگئے تھے، وہ اپنا وطن دیکھنے کے لئے عرب جا رہے تھے، ان مسافروں کے ساتھ ان کی بیویاں اور بچے بھی تھے ان میں چند ایک ضعیف العمر بھی تھے۔
سراندیپ اور مالابار سے عربوں کے جو جہاز عرب کو جاتے آتے تھے ان کے ملاحوں کو کہا گیا تھا کہ وہ سندھ کے ساحل سے بہت دور رہا کریں، یہ سندھ کے قزاقوں سے بچنے کی ایک ترکیب تھی مگر یہ آٹھ جہاز جب سندھ کے ساحل سے ابھی پیچھے ہی تھے کہ موسم بگڑ گیا اور ہوا کا رخ بدل گیا اور ہوا کی کیفیت طوفانی ہو گئی، اس زمانے میں جہاز ہوا کے رحم و کرم پر چلا کرتے تھے، یہ جہاز چھوٹے بھی تھے انہیں راستے پر رکھنے کی بہت کوشش کی گئی ہوا اتنی تیز و تند اور مخالف ہوگئی کہ جہاز راستے سے ہٹتے ہٹتے سندھ کے ساحل کے قریب چلے گئے۔
اچانک ایک اور طوفان آگیا یہ انسانوں کا طوفان تھا جو بہت سی کشتیوں پر آیا تھا، یہ سندھی قزاقوں کا ایک گروہ تھا جو نکامراہ کہلاتا تھا۔ ان کی تعداد بے شمار تھی انہوں نے آٹھوں جہازوں کو گھیرے میں لے کر ان پر تیروں کا مینہ برسا دیا، پھر رسّے پھینک کر جہازوں پر چڑھ گئے، مسافر فوجی نہیں تھے کہ وہ مقابلہ کرتے ان میں سے جنہوں نے تلواروں سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی انہیں قتل کردیا گیا ،جہازوں میں بڑا ہی قیمتی سامان تھا قزاقوں نے یہ سارا مال تو لوٹنا ہی تھا، وہ مسافروں کو بھی پکڑ کر لے گئے مسافروں میں عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی انہیں دبیل لے جایا گیا اور قید خانے میں ڈال دیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
اس خستہ حال سوار نے حجاج بن یوسف کو یہ سارا واقعہ سنایا ،اس کی آواز دبتی جا رہی تھی، اور زبان ہکلانے لگی تھی۔
حجاج نے اس کے آگے مشروب رکھے، اور کچھ کھانے کو کہا، مگر اس نے یہ کہہ کر کھانے پینے سے انکار کردیا کہ میں عرب کی ایک بیٹی کی پکار پہنچانے تک زندہ رہوں گا۔
وہ عرب کی سرزمین کی ایک جوان بیٹی ہے یا حجاج!،،،،، اس نے اٹک اٹک کر کہا۔۔۔میں اس کا نام نہیں جانتا وہ بنی یربوعہ کی خاتون ہے، جب ہم سب کو دبیل کے ساحل پر قزاقوں نے اتارا تو انہوں نے ہم سب کو کوڑے مارنے شروع کر دیے، وہ ہمیں مار مار کر آگے لے جا رہے تھے، بن یربوعہ کی یہ جوان عورت روک گئی اس نے عرب کی طرف منہ کرکے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا ئے اور چلّا چلّا کر کہا۔۔۔ یا حجاج اغثنی ۔۔۔یاحجاج اغثنی۔۔۔ (اے حجاج میری مدد کو پہنچ ،اے حجاج میری مدد کو پہنچ)
حجاج نے اس نیم جان سوار کی ہکلاتی لڑکھاتی زبان سے یہ الفاظ سنے تو وہ جوش میں اٹھ کھڑا ہوا اور بلند آواز میں بولا ۔۔۔لبیک ۔۔۔لبیک ۔۔۔میں حاضر ہوں ،میں حاضر ہوں۔
مورخ بلاذری نے اس عورت کا نام نہیں لکھا ،یہ لکھا کہ یہ یربوعہ قبیلے کی تھی بعض مورخوں نے یربوع لکھا ہے ،اور بعض نے یربوعیہ لیکن زیادہ تر نے یربوعہ لکھا ہے ۔
یا حجاج!،،،، اس سوار نے کہا ۔۔۔وہاں سے کوئی قیدی نہیں نکل سکتا تھا ،وہ ایک عرب تھا جس نے مجھے اور میرے ایک ساتھی کو وہاں سے نکالا، میں اور میرا یہ ساتھی قیدیوں کی قطار میں پیچھے تھے ،وہاں تو ہڑبونگ مچی ہوئی تھی، ساحل پر ٹوٹی پھوٹی کشتیاں پانی کے باہر پڑی ہوئی تھیں، ہمیں ان کے قریب سے گزارا جا رہا تھا، قزاق آگے تھے ایک آدمی آیا اس نے میرا بازو پکڑا اور عربی میں کہا جھک جائیں، ادھر اس نے اپنے ساتھی کا بازو پکڑ لیا اس طرح ہم دونوں جھک کر ٹوٹی ہوئی ایک بڑی کشتی کی اوٹ میں ہو گئے، اس عرب نے ہم دونوں کو دو کشتیوں کے درمیان بیٹھا کر چھپا لیا ،وہ بہت بوڑھا تو نہیں تھا لیکن جوانی سے اور آگے نکل گیا تھا۔
قزاق تمام قیدیوں کو ہانکتے ہوئے دبیل لے گئے، تو اس عرب نے کہا میرا نام بلال بن عثمان ہے میں نے جوانی میں اپنے آپ کو عرب سے جلاوطن کیا تھا ،خلافت نے مجھے باغی قرار دے دیا تھا، میں دبیل میں نہیں ہوتا یہاں سے بہت دور راجہ داہر کے محل میں ہوتا ہوں، میں اس کی رانی کا محافظ ہو وہ آج کل سمندر کی سیر کے لئے یہاں آئی ہوئی ہیں، میں نے دیکھا کہ یہ تو میرے وطن کے مسافر ہیں جنہیں قزاق پکڑ کر لا رہے ہیں، میں ادھر آ گیا میں زیادہ دیر یہاں رک نہیں سکتا میں تمہیں دو گھوڑے دوں گا سیدھا بصرہ پہنچو اور حاکم بصرہ کو اطلاع دو، راستے میں رکنا نہیں حجاج بن یوسف کو بتانا کہ یہ قزاق راجہ داہر کے اپنے آدمی ہیں اور راجہ نے دبیل کا جو حاکم مقرر کر رکھا ہے وہ ان قزاقوں کی پشت پناہی کرتا ہے، قزاقوں کے چنگل سے نکل بھاگنا ممکن نہیں تھا اتفاق کی بات تھی کہ رانی سمندر کی سیر کے لیے دبیل آئی ہوئی تھی اور بلال بن عثمان اس کے ساتھ تھا ،بلال نے کسی طرح دو گھوڑوں کا انتظام کردیا اور شام کے بعد دونوں کو دبیل سے نکال دیا۔
میرے ساتھی کا گھوڑا راستے میں پیاس اور تھکن سے گر پڑا۔۔۔ اس سوار نے حجاج بن یوسف کو بتایا ۔۔۔میرا ساتھی گھوڑے کے نیچے آگیا میں نے رک کر دیکھا گھوڑا تڑپ تڑپ کر مر گیا اور میرا ساتھی اس کے نیچے کچلا گیا ،میں نے پھر گھوڑے کو ایڑ لگا دی بہت آگے آکر اپنی ایک چوکی دیکھی وہاں سے گھوڑا بدلا پھر ایک چوکی سے یہ گھوڑا بدلا، میں پانی کا گھونٹ پینے کے لیے بھی نہیں روکا ۔
اسکی آواز ڈوبنے لگی، وہ چپ ہو گیا اس کی آنکھیں بند ہونے لگی، اس کے ہونٹوں سے سرگوشی پھسلی۔۔۔ یا حجاج اغثنی۔۔۔ اغثنی۔۔۔ اس کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔
حجاج بن یوسف کا یہ حال ہو گیا جیسے وہ آگ کا گولا ہو اور ہر طرف گھومتا اور اڑتا پھر رہا ہو۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس وقت مکران اسلامی سلطنت میں شامل تھا۔ حجاج نے محمد بن ھارون بن زراع نمری کو وہاں کا حاکم مقرر کیا تھا ۔حجاج نے داہر کے نام ایک خط لکھا جس میں اس نے لکھا کے اس نے عرب کے جن مسافروں کو اپنے قید خانے میں ڈال رکھا ہے انہیں باعزت طور پر رہا کرکے انہیں اسی جہازوں میں بٹھایا اور عرب روانہ کرے، اور وہ تمام سامان ایک ایک چیز ان جہازوں پر لاد کر بھیجے، اور عورتوں بچوں اور دیگر تمام مسافروں کو جو تکلیف دی گئی ہے اس کا معقول تاوان ادا کرے۔
حجاج نے خلیفہ کی مہر لگوانے کے بجائے اس خط پر اپنے دستخط کیے اور خط براہ راست راجہ داہر کو بھیجنے کی بجائے قاصد کے ساتھ مکران کے حاکم محمد بن ہارون کو اس تحریری حکم کے ساتھ بھیجا کہ وہ اپنے اعلی افسر کو اس قاصد کے ساتھ داہر کے پاس بھیجے، حجاج نے محمد بن ہارون کو یہ بھی لکھا کہ سندھ کے راجہ سے قیدیوں کی رہائی کی درخواست نہیں کرنی بلکہ اسے کہنا ہے کہ اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ ہمارے مسافروں کو رہا کردے، تمام مال و اموال جانور اور حبشی غلام واپس کر دے۔ حجاج نے محمد بن ہارون کو یہ بھی لکھا کہ اپنے جاسوس سندھ میں داخل کر دے اور جو جاسوس پہلے ہی وہاں موجود ہیں انہیں اور تیز کر دے۔
حجاج بن یوسف راجہ داہر پر بجلی بن کر گرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا ،آخر اسے ایسا جواز مل گیا کہ وہ انتقام کا شعلہ بن گیا ،اس کا چین اور سکون اور اس کی نیند اڑ گئی، راجہ داہر کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس نے سندھ پر حملے کا منصوبہ بنانا شروع کردیا ۔
راجہ داہر کا جواب آگیا قاصد نے حجاج بن یوسف کو بتایا کہ وہ مکران کے حاکم محمد ہارون کے ایک اعلی افسر کے ساتھ سندھ کی راجدھانی برہمن آباد گیا راجہ داہر وہاں تھا، اسے حجاج کا تحریری پیغام دیا گیا جو عربی جاننے والے ایک آدمی نے پڑھ کر داہر کو اس کی زبان میں سنایا ،داہر کا ردعمل کچھ بھی نہ تھا جیسے وہ اپنی رعایا میں سے کسی نادار آدمی کی عرض سن رہا ہو، محمد بن ھارون کے ایلچی کو داہر نے اس کے رتبے کے مطابق تعظیم نہ دی، اس کے رویے میں بے رخی تھی اس نے مختصر سا جواب دیا کہ جہازوں کو بحری قزاقوں نے لوٹا ہے اور سندھ کا حکم اور قانون ان پر نہیں چلتا۔
مشہور ومعروف مورخ محمد قاسم فرشتہ نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔ حجاج کے خط کا جواب جو داہر نے دیا تھا وہ بھی فرشتہ نے لکھا ہے ،فرشتہ لکھتا ہے کہ حجاج کا خط محمد بن ہارون کا خاص ایلچی لے کر داہر کے پاس گیا اور داہر نے یہ جواب دیا کہ جس قوم نے جہازوں کو لوٹا اور مسافروں کو قید میں رکھ لیا ہے وہ شوکت اور قوت رکھنے والی قوم ہے ،اور سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ تم اس قوم سے اپنا مال اور قیدی واپس لے لوگے۔
فرشتہ لکھتا ہے کہ راجہ داہر کے ان الفاظ کا دراصل مطلب یہ تھا کہ تمہارے جہازوں کو ہم نے لوٹا ہے اور تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
حجاج بن یوسف نے خلیفہ ولید بن عبدالملک کو ابھی تک اس حادثے سے بے خبر رکھا ہوا تھا۔ جب داہر کا جواب آگیا تو حجاج نے خلیفہ کے نام بڑالمبا پیغام لکھا اور داہر کا جواب بھی اس میں شامل کیا ،اس نے خط میں پورا واقعہ لکھا آخر میں اس نے لکھا کہ اسے سندھ پر حملے کی اجازت دی جائے۔
ایوان خلافت سے جواب آیا کہ حملہ نہ کیا جائے ۔
خلیفہ ولید نے کوئی وجہ نہ لکھی کہ حملہ کیوں نہ کیا جائے۔
حجاج اس جواب سے جل اٹھا اس نے خلیفہ کو ایک اور خط لکھا جس میں اس نے خلیفہ کی غیرت اور اس کے وقار کو بیدار کرنے کی کوشش کی ،اس نے یہ بھی لکھا کہ ان جہازوں میں جو عورتیں آ رہی تھی ان میں بیشتر عمرہ کرنے غالبا حج کے لئے آ رہی تھیں، اور اب وہ ایک ہندو راجہ کی قید میں ہیں۔
امیرالمومنین!،،،، حجاج نے آخر میں لکھا۔۔۔ معلوم ہوتا ہے آپ یہ سوچ کر حملے کی اجازت نہیں دے رہے کہ اتنی دور محاذ کھولنے پر بہت خرچ اٹھے گا ،میں امیرالمومنین سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس حملے اور اس کے بعد کی جنگ پر جو خرچہ آئے گا میں اگر زیادہ نہیں تو اس سے دوگنی رقم خزانے میں جمع کروا دوں گا ۔
خلیفہ نے حملے کی اجازت دے دی۔
حجاج نے اسی وقت فوج کے ان دستوں کو جنہیں اس نے پہلے ہی سندھ کی طرف کوچ کرنے کے لئے تیاری کا حکم دے رکھا تھا کوچ کا حکم دے دیا ،اس فوج کا سپہ سالار عبداللہ بن نبہان تھا ،کوچ بہت ہی تیز تھا دیکھتے ہی دیکھتے عبداللہ بن نبہان دبیل پہنچ گیا۔
حجاج سے ایک بھول ہو گئی تھی اسے جاسوسوں نے راجہ داہر کی جنگی طاقت کی صحیح رپورٹ دی تھی مگر اس نے داہر کی فوج کی لڑنے کی اہلیت کا صحیح اندازہ نہ کیا۔ وہ خوش فہمی میں مبتلا رہا۔
دوسری چوٹ یہ پڑی کہ عبداللہ بن نبہان پہلے روز ہی شہید ہو گیا ۔ مورخ لکھتے ہیں کہ عبد اللہ نے شجاعت اور قیادت میں کوئی کسر نہ رہنے دی لیکن وہ شہید ہو گیا اور فوج میں کھلبلی بپا ہو گئی، اس سے داہر کی فوج نے یہ فائدہ اٹھایا کہ قلعے سے باہر آکر بڑا شدید جوابی حملہ کیا مسلمان اس حملے کی تاب نہ لاسکے اور پسپا ہوگئے۔
حجاج نے یہ صدمہ سہ لیا، اور ایک اور سالار بدیل بن طہفہ کو سندھ پر حملے کا حکم دیا۔ حجاج بن یوسف نے اس شکست کا صدمہ سہ تو لیا لیکن اس نے نیند چین اور سکون اپنے اوپر حرام کرلیا ۔وہ طبعاً غصیلا آدمی تھا جابر تھا ۔اس کی فطرت میں قہر بھرا ہوا تھا ۔ظلم و تشدد پر اتر آتا تو لگتا تھا جیسے یہ شخص رحم کے نام سے بھی واقف نہیں۔
مسلمان قبائل کے وہ سردار جو خلافت سے باغی ہو مکران بھاگ آئے یہاں آباد ہو گئے تھے کسی نہ کسی شرط پر واپس اپنے وطن جا سکتے تھے، لیکن یہ حجاج بن یوسف کا خوف تھا جو انھیں واپس نہیں جانے دے رہا تھا، یہ سردار اموی خلافت کے ہی باغی تھے وہ جانتے تھے کہ خلیفہ شاید بخش دے، حجاج نہیں بخشے گا۔
وہ حجاج جس نے خلیفہ ولید بن عبدالملک بھی دوبکتا تھا شکست کو کس طرح برداشت کر لیتا، اسے جب اطلاع ملی تھی کہ اس کا بھیجا ہوا سالار عبداللہ بن نبہان شہید ہوگیا اور فوج بری طرح پسپا ہوئی ہے تو اس نے ایک اور سالار بدیل بن طہفہ کو بلایا اور اسے سندھ پر حملے کا حکم دیا۔
اور تم نے بھی میدان میں پیٹ دکھائی تو ان باغی سرداروں کے پاس چلے جانا جو مکران میں زندگی کے باقی دن پورے کر رہے ہیں۔۔۔ حجاج نے بدیل بن طہفہ سے کہا۔۔۔ ان پر عرب اور عراق کے دروازے بند ہوچکے ہیں، عبداللہ کی طرح وہیں مر جانا ،مجھے دبیل کا قلعہ اور داہر کی لاش چاہیے۔
تیرا اقبال بلند ہو ابن یوسف!،،،،، بدیل بن طہفہ نے کہا۔۔۔ عبداللہ نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی میں وہاں سے واپس آئے ہوئے سپاہیوں سے پوچھ چکا ہوں کہ سبب کیا ہوا اپنی شکست کا، سب نے اپنے سالار کی تعریف کی کہتے ہیں وہ دشمن سے مغلوب ہوکر نہیں مرا، وہ دشمن پر غالب آنے کے لئے ان کے قلب میں چلا گیا تھا ،مگر داہر ہاتھی پر سوار تھا ابن نبہان کی شجاعت اور شہادت پر سندھ کی ریت نہ ڈال ابن یوسف!،،،، تو امیر عراق ہے، خدائی طاقت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کر۔
خدا کی قسم ابن طہفہ!،،،،، میں تیری جرات پر خوش ہوں۔۔۔ حجاج نے کہا ۔۔۔یہ ندامت ہے جو مجھ سے ایسی باتیں کرا رہی ہے ذرا سوچ خلیفہ سندھ پر حملے سے خوش نہیں تھا ،میں نے اسے بہت مشکل سے راضی کیا اور اس سے حکم لیا تھا ،مجھے شکست نے اتنا شرمندہ نہیں کیا جتنا امیرالمومنین کے اس پیغام نے بے حال کیا ہے جو شکست کی اطلاع ملنے پر اس نے مجھے بھیجا ہے ،اس نے کہا ہے کیا اب بھی نہیں سمجھو گے کہ میں نے تجھے سندھ پر حملے سے کیوں روکا تھا۔
کیا اب ایوان خلافت سے ہمیں حملے کی اجازت مل جائے گی؟،،،، بدیل نے پوچھا۔ مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔۔۔ حجاج نے کہا ۔۔۔یہ میری شکست ہے، یہ اسلام کی شکست ہے ،میں نے اسے فتح میں بدلنا ہے، میں امیرالمومنین کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ سندھ پر حملہ اور قبضہ کیوں ضروری ہے ،تو بھی سمجھ لے ابن طہفہ مجھے دو آدمیوں نے شکست دی ہے راجہ داہر نے، اور خلیفہ ابن عبد الملک نے، اگر تو نے بھی وہی کیا جو پہلے ہو چکا ہے تو میرے ہاتھ ہمیشہ کے لئے بندھ جائیں گے، اور وہ ہندی ان مسلمانوں کو کمزور اور بے آسرا سمجھنے لگیں گے جو ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں اور سراندیپ میں آباد ہیں، سندھ کے ڈاکو ان کے جہازوں کو لوٹتے اور انہیں قیدی بناتے رہیں گے۔
ایسا نہیں ہوگا ابن یوسف!،،،،، بدیل بن طہفہ نے کہا۔
اور یہ بھی سوچ ابن طہفہ !،،،،حجاج نے کہا۔۔۔ مجھے اپنے وطن اور اپنے مذہب کی ایک بیٹی نے پکارا تھا وہ داہر کی قید میں ہے اس کی پکار مجھ تک پہنچانے والے نے میرے سامنے جان دے دی تھی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس وقت جب بصرہ میں حجاج بن یوسف سالار بدیل بن طہفہ کو سندھ پر حملے کے لیے تیار کر رہا تھا راجہ داہر اپنی راجدھانی اروڑ میں اپنے خاص کمرے میں بیٹھا تھا، اس نے مکران میں مقیم عرب کے باغی سرداروں کے امیر محمد حارث علافی کو بلایا تھا۔
حجاج کے بھیجے ہوئے سالار عبداللہ بن نبہان کی شکست کے بعد داہر علافی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔
کیا تم خوش نہیں ہو کہ میں نے تمہارے دشمنوں کو بھگا دیا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے محمد حارث علافی سے پوچھا۔
نہیں !،،،،علافی نے کہا۔۔۔ یہ شکست بنو امیہ کی نہیں یہ اسلام کی شکست ہے ،یہ سلطنت اسلامیہ کی شکست ہے۔
پھر تم ہماری فتح پر خوش نہیں ہو،،، راجہ داہر نے کہا ۔
مہاراج !،،،،علافی نے کہا۔۔۔ آپ کی آنکھیں اور آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ میرے ساتھ کوئی خاص بات کرنا چاہتے ہیں ،کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ نے مجھے جس بات کے لئے بلایا ہے وہ بات کریں۔
ہاں علافی!،،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ مجھے مشورہ دو، کیا عرب پھر حملہ کریں گے؟
اگر ان میں غیرت ہوئی تو ضرور حملہ کریں گے۔۔۔ علافی نے کہا۔۔۔ خلیفہ شاید منہ موڑ جائے، عراق کا امیر حجاج بن یوسف ہٹ کا پکا ہے، وہ اس شکست کو ہضم نہیں کرے گا، اس نے معلوم کر لیا ہوگا کہ آپ کی فوج کس طرح لڑتی ہے، وہ دوسری بار شکست نہیں کھائے گا ۔
کیا تم میری مدد کو نہیں آؤ گے؟،،،، راجہ داہر نے پوچھا ۔۔۔تمہارا وطن اب یہ ہے عرب نہیں ۔
مہاراج! علافی نے کہا۔۔۔ ہم جہاں کہیں بھی رہے ہمارا وطن عرب ہے، ہم اپنے ہموطنوں کے خلاف نہیں لڑیں گے۔
اگر عرب کی فوج نے پھر حملہ کیا تو مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہو گی۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔۔اس مدد کی جو قیمت مانگو گے دونگا۔کہو گے تو تم جہاں رہتے ہو اس علاقے کو تمہاری آزاد ریاست بنا دو گا وہاں تمہارا راج ہوگا۔
ہم آپ کی یہ مدد کریں گے کہ آپ کے خلاف نہیں لڑیں گے۔۔۔۔ علافی نے کہا ۔۔۔۔ہم غیر جانبدار رہیں گے۔
سوچ لو علافی!،،،،، داہر نے کہا۔۔۔ میں نے تمہیں آباد کیا ،میں تمہیں برباد بھی کرسکتا ہوں ،تمہیں اپنے ملک سے نکال سکتا ہو تم سب کو قید میں ڈال سکتا ہوں۔
مہاراج !،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔ہمارے متعلق جو بھی فیصلہ کریں سوچ سمجھ کر کریں ،اور اپنے وزیر بدہیمن سے مشورہ کرلیں، میں ایک بار پھر آپ سے کہتا ہوں کہ ہم آپ کی یہ مدد کریں گے کہ عرب کی فوج نے حملہ کیا تو ہم غیر جانبدار رہیں گے، یہ مت بھولیں کہ آپ نے جن عربوں کو لوٹا اور انھیں قید میں رکھا ہوا ہے ان کے ساتھ ہمارا بھی کچھ رشتہ ہے ان میں عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ آپ ہمیں ملک سے نکالنے کی دھمکی دے رہے ہیں اس کے جواب میں ہم اپنے قیدیوں کو رہا کرانے کا ارادہ کر سکتے ہےہیں، آپ نے تو دھمکی دی ہے ہم کچھ کر کے دکھائیں گے۔
میں تم لوگوں کو کس طرح یقین دلاؤ کہ میں کچھ نہیں جانتا یہ قیدی کہاں ہیں؟،،،، راجہ داہر نے کہا ۔۔۔نہ میں نے حکم دیا ہے کہ ان جہازوں کو لوٹ لیا جائے، جہازوں کو لوٹنے والے بڑے طاقتور قبیلے کے لوگ ہیں تم نے بھی مجھ پر وحی الزام عائد کردیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے تم پر بھروسہ اور اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
قسط نمبر 07,06
ہاں ابن یوسف!،،،، سالار بدیل نے کہا ۔۔۔میں اس صورتحال کے لئے تیار ہوں لیکن ایک بات کہہ دیتا ہوں کہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال اسی روز شروع ہوگیا تھا جس روز مسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکرائیں تھیں، میں پوری کوشش کروں گا کہ جو بھی میرے سامنے آئے وہ زندہ نہ رہے ،لیکن ابن یوسف میں ڈر رہا ہوں کے مسلمان پر تلوار اٹھاتے میرا ہاتھ کانپ جائے گا۔
پھر اس مسلمان کی تلوار تمہارا سر تمھارے جسم سے الگ کردے گی۔۔۔ حجاج نے کہا۔۔۔ میں خلیفہ کی اجازت کے بغیر اتنی بڑی اور اتنی دور جو جنگی کارروائی کررہا ہوں وہ اسلام کے وقار کے لیے ہی تو ہے، لیکن یہ مت بھولیں کہ جس طرح ولید بن عبدالملک مسند خلافت پر بیٹھے رہنے کے لیے اپنے سگے بھائی کا گلا کاٹنے سے بھی باز نہیں آتا اسی طرح میں بھی اپنی عمارت کے تحفظ کے لئے چند ایک مسلمانوں کا خون بہانے سے دریغ نہیں کروں گا ،میں خلافت کا وقار تو ہوں لیکن میں اتنا طاقتور بننا چاہتا ہوں کہ خلیفہ مجھ سے باز پرس کرنے کی جرات بھی نہ کرسکے ،اور ابن طہفہ تیری قسمت میرے ہاتھ میں ہے، اگر تو سندھ کو فتح کر لے گا تو میرے حکم سے تو ہی وہاں کا امیر ہو گا۔
حجاج بن یوسف کا کردار یہی تھا کہ وہ اس وقت کے خلیفہ کی طرح اقتدار پسند تھا لیکن قوم کے دشمن کو وہ دشمن سمجھتا تھا اس نے یہ اظہار نمایاں طور پر کر دیا تھا کہ وہ خود ایک طاقت بننا چاہتا ہے، لیکن راجہ داہر نے جن مسلمان مسافروں کو لوٹ کر قید میں ڈال دیا تھا ان کی رہائی کے لیے حجاج انتقام کے جذبے سے پاگل ہوا جارہا تھا، لیکن اسے شک بھی ہوجاتا تھا کہ فلاں کا سر اس کے اقتدار کے خلاف اٹھ رہا ہے تو وہ سر حجاج کی تلوار سے کٹ جاتا تھا۔
ابن طہفہ !،،،،،،حجاج نے سالار بدیل سے کہا۔۔۔ اب تم عمان واپس نہیں جاؤ گے، میں تمہیں صرف تین سو آدمی دے رہا ہوں، میں نے مکران کے امیر محمد بن ہارون کو پیغام بھیج دیا ہے کہ وہ تمہیں تین ہزار سوار دے گا، تم سیدھے مکران اس کے پاس پہنچ جاؤں وہ تمہیں آگے کی باتیں بھی بتادے گا ،میں نے جو جاسوس وہاں بھیجے ہوئے ہیں ان کا رابطہ محمد بن ھارون کے ساتھ ہے۔
*<=========۔=======>*
راجہ داہر نے اپنے وزیر بدہیمن کو بلایا ۔
کیا میرا دانشمند وزیر آنے والے وقت کی خبر دے سکتا ہے؟،،،،، داہر نے اس سے پوچھا۔۔۔ کیا عرب سے ایک اور آندھی آئے گی۔
آندھیاں تو آیا ہی کرتی ہیں مہاراج !،،،،بد ہیمن نے کہا ۔۔۔کچھ پورب سے کچھ پچھم سے، دیکھنا یہ ہے کہ ہم آندھی کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں، میں یہ بتا سکتا ہوں کہ عرب سے آندھی ضرور آئے گی مسلمان اتنی جلدی شکست نہیں مانا کرتے، مہاراج کو چوکس رہنا چاہیے۔
رمل کا راجہ ہم پر چڑھ دوڑا تھا تو تم نے مشورہ دیا تھا کہ عرب کے ان مسلمانوں کو میدان میں اتار دو جنہیں میں نے مکران میں اپنی پناہ میں رکھا ہوا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ میں نے تمہارے مشورے پر عمل کیا تو ان عربوں نے ہی میرے دشمن کو بھگا دیا، میں نے اب پھر انھیں کہا کہ عرب کی فوج حملہ کرے تو وہ میری مدد کریں لیکن ان کے سردار نے انکار کردیا ،وہ کہتا ہے کہ عرب کے مسافروں کو رہا کرو، اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ مسلمان مسلمان کے خلاف نہیں لڑے گا، مجھے بتاؤ کہ میں ان مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرو انہیں احسان فراموشی کا مزہ چکھا دوں۔
نہیں مہاراج!،،،،، وزیر بریمن نے کہا۔۔۔ دشمنوں کی تعداد میں اضافہ نہ کریں ،انہیں دشمن بنایا تو یہ پیٹھ پر وار کریں گے ان کے ساتھ دوستی گہری کرلیں، اور ان کے درمیان اپنے جاسوس چھوڑ دیں، معلوم کریں کہ ان کے ارادے کیا ہیں، انہیں دوست بنائیں لیکن ان پر بھروسہ نہ کریں، مسلمانوں کو ہمیشہ اپنا دشمن سمجھو، انہیں وہیں محدود رہنے دیں اگر انہیں ہر طرف گھومنے پھرنے کی اجازت دی گئی تو یہ اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کردیں گے، یہ وہ خطرہ ہے جو مہاراج کے سائے میں پرورش پا رہا ہے، اور یہ وہ اندھیرا ہے جو مہاراج کے چراغ کے نیچے ناچ رہا ہے۔
اگر انہوں نے عرب کے حملہ آوروں کی درپردہ بھی مدد کی تو میں ان سب کو قتل کرا دوں گا ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔سندھ میں اور سارے ہندوستان میں صرف ایک مذہب رہے گا اور یہ مذہب ہمارا ہوگا ،ہندومت،
کیا مہاراج نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان قیدیوں کو رہا کردیا جائے تو کیا ہوگا ؟
نہیں بدہیمن !،،،،،راجہ داہر نے کہا۔۔۔ میں نے یہ کبھی نہیں سوچا، انہیں رہا کردیا تو عرب کے حاکم مجھے کمزور سمجھنے لگیں گے، دوسری وجہ یہ ہے کہ میں عرب کے ایلچی کو جواب دے چکا ہوں کہ قیدی میرے پاس نہیں، اب میں کس منہ سے کہہ دو کہ وہ میرے پاس ہیں، نہیں میں ایسا نہیں کہہ سکتا اب ان قیدیوں کی باقی عمر قید خانے میں ہی گزرے گی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷*
تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ جہازوں کے مسافر اروڑ کے قید خانے میں بند کیے گئے تھے، اس قید خانے کے حاکم کا نام قُبلہ تھا تاریخ میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کا مذہب کیا تھا بہرحال وہ مسلمان نہیں تھا۔
آج اس قید خانے کا کوئی نشان نہیں ملتا۔
راجہ داہر کے زمانے میں یہ ایک مشہور قیدخانہ تھا اس کی اندرونی فضا پر ہیبت طاری رہتی تھی اس میں جب کسی قیدی کو داخل کیا جاتا تو وہ انسانیت سے خارج ہو جاتا تھا۔ اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو تا تھا۔
اس قید خانے کا ایک تہ خانہ تھا جس میں چھوٹی بڑی جہازوں کے مسافروں کو ان کوٹھریوں میں رکھا گیا تھا، ان میں پورے پورے کنبے بھی تھے ہر کمبے کے افراد کو ایک ایک کوٹھری دی گئی تھی۔
ان کی قید کی پہلی رات تھی آدھی رات سے کچھ دیر پہلے قید خانے کا حاکم انہیں دیکھنے کے لئے آیا، جب ان قیدیوں کو یہاں لایا گیا تھا تو قُبلہ نے انہیں دیکھا تھا ،ان میں جوان اور خوبصورت عورتیں بھی تھیں، قُبلہ جسے دو مورخوں نے کُبلا لکھا ہے ،ان عورتوں کے خیال سے ہی رات کو قید خانے کے دورے پر آیا تھا، ہر قیدی کو وہ اپنا ذاتی غلام سمجھتا تھا قیدی عورتیں اس کی ملکیت ہوتی تھیں، یہ قیدی جو عرب کے سمندری مسافر تھے مسلمان ہونے کی وجہ سے قبلہ سے اچھے سلوک کی توقع رکھ ہی نہیں سکتے تھے۔
وہ جب اس جگہ پہنچا جہاں سے تہ خانے کی سیڑھیاں اترتی تھی، تو اسے مترنم سے گونج سنائی دی، جیسے بہت سے آدمی مل کر گنگنا رہے ہوں، قُبلہ اوپر ہی رک گیا اور سننے لگا ،اس گونج کا ترنم اسے اچھا لگ رہا تھا، قید خانے میں وہ بیڑیوں اور زنجیروں کی جھنکار سنا کرتا تھا، یا دوروں یا کوڑوں کے زناٹے دار آواز اس کے کانوں میں پڑتی تھی، اور ان کی چیخیں اسے سنائی دیا کرتی تھی جن کے برہنہ جسموں پر درے کوڑے برستے تھے ،جس جہنم میں کربناک آہ وزاری رہتی تھی وہاں ترنم خوابوں کی آواز لگتا تھا۔
قُبلہ کے ساتھ قید خانے کے چند ایک ملازم تھے اس نے ان کی طرف دیکھا۔
یہ آج والے نئے قیدی ہیں۔۔۔ اسے قید خانے کے ایک افسر نے بتایا۔۔۔ جس وقت سے آئے ہیں عبادت میں مصروف ہیں۔
قُبلہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترا ،تہ خانے میں یہ گونج اسے اور زیادہ اچھی لگی۔
وہ کوٹھریوں کے سامنے سے گزرنے لگا کسی کوٹھڑی میں دو قیدی تھے کسی میں تین یا چار اور کسی کوٹھڑی میں پورا کنبہ بند تھا ،سب قبلہ رو ہوکر دوزانو بیٹھے تھے اور بیک زبان کلمہ طیبہ کا ورد ذرا بلند آواز میں کر رہے تھے، ان میں سے کسی ایک نے بھی دروازے کی طرف نہ دیکھا کہ کون گزر رہا ہے۔
قُبلہ آخری کوٹری تک چلا گیا اس نے ایک سنتری کے کان میں کچھ کہا۔
تمام قیدی خاموش ہو جائیں ۔۔۔سنتری نے اعلان کیا۔۔۔ حاکم کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
قیدی خاموش ہوگئے اور کوٹھریوں کے دروازے کی سلاخوں کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے، انہوں نے لعن طعن کا ایسا شور بپا کردیا کہ کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون کیا کہہ رہا ہے، دروازوں کو تالے لگے ہوئے تھے۔ سنتریوں نے سلاخوں پر کوڑے اور ڈنڈے مارنے شروع کر دیے ایک ہڑبونگ تھی جس پر قابو پانا محال نظر آتا تھا۔
کوئی ایک آدمی بات کرو ۔۔۔قُبلہ نے کہا۔۔۔ میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
ادھر آ ۔۔۔ایک بوڑھے عرب نے کہا ۔۔۔کون ہے تو ؟ میرے ساتھ بات کرو۔
قُبلہ اس کوٹھڑی کے دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔
کیا تو اس قید خانے کا حاکم ہے؟،،،،،، بوڑھے نے غصے سے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔۔۔ کس جرم میں ہمیں قید میں ڈالا ہے۔
میں کسی کو قید میں نہیں ڈال سکتا ۔۔۔قُبلہ نے کہا ۔۔۔اور میں کسی کو اپنی مرضی سے یہاں سے نکال بھی نہیں سکتا ،میں حکم کا پابند ہوں مجھے برا بھلا مت کہو، میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ،تم سب مل کر کیا گا رہے تھے، یہ آواز مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی ۔
کیا اس آواز نے تیرے دل کو موم نہیں کیا؟،،،، بوڑھے نے پوچھا۔
میں نے کچھ اثر ضرور محسوس کیا ہے۔۔۔ قُبلہ نے جواب دیا ۔۔۔مجھے اس گیت کے الفاظ بتاو ۔
یہ بوڑھا عرب مالابار میں بہت عرصہ رہا تھا اور ہندوستان کے کچھ علاقوں میں اس کی تجارت پھیلی ہوئی تھی، اس لئے یہاں کی زبان بول سکتا تھا۔
یہ گیت نہیں۔۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔یہ ہمارا کلمہ ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور عبادتوں کے لائق نہیں، اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اس کے علاوہ ہم قرآن کے مختلف آیات کا بھی ورد اسی طرح آواز ملا کر کرتے ہیں۔
اس سے تمہیں کیا حاصل ہو گا؟،،،،،قُبلہ نے پوچھا ۔
سکون قلب، اللہ کی خوشنودی۔۔۔بوڑھے نے کہا ۔۔۔اور اس جہنم سے رہائی ملے گی۔
کیا تمہیں یقین ہے کہ تم سب کو رہا کردیا جائے گا ؟،،،،قُبلہ نے پوچھا۔
اگر ہم گنہگار ہوتے تو اس قید کو سزا سمجھ کر قبول کرلیتے۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ پھر ہم اللہ سے قید سے رہائی نہ مانگتے، گناہوں کی بخشش مانگتے، ہمیں بے گناہ پکڑا گیا ہے۔ ہمارا حلال مال لوٹا گیا ہے، اللہ ہماری مدد کرے گا، تم سے اور تمہارے راجہ سے ہم کچھ نہیں مانگتے ،راجہ کی قسمت میں تباہی لکھ دی گئی ہے۔
کیا تم اس کی تباہی کی دعائیں مانگتے ہو؟۔۔۔ قُبلہ نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ ہم کسی کے لئے بری دعا نہیں مانگا کرتے، سزا اور جزا اللہ کے اختیار میں ہے، تو نیکی کرے گا تو ثمر پائے گا، کسی پر ظلم کرے گا تو تجھ پر ظلم کیا جائے گا۔
بوڑھے عرب نے ایسے انداز سے قید خانے کے حاکم کے ساتھ باتیں کیں کہ وہ جس برے ارادے سے ان قیدیوں کو دیکھنے آیا تھا وہ ارادہ اس کے دل سے نکل گیا، وہ راجہ داہر کے حکم کے بغیر قیدیوں کو رہا نہیں کرسکتا تھا ،لیکن اس نے جو اثر قبول کیا تھا وہ قیدیوں کے حق میں جاتا تھا۔
تاریخ میں قُبلہ کے متعلق لکھا گیا ہے کہ وہ دانشور تھا، صاحب علم اور اہل قلم تھا، حیرت ہے کہ ایسے شخص کو قید خانے کا دروغا کیوں مقرر کیا گیا تھا ۔
قید خانوں کے دروغا عموماً طبعاً قصائی ہوتے تھے، جو بے بس اور مجبور انسانوں کی ہڈیاں توڑ کر دلی خوشی محسوس کرتے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷_÷=÷*
جس روز سالار بدیل بن طہفہ بصرہ سے تین سو سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوا، اس رات بلال بن عثمان اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ اس قید خانے کے باہر جس میں مسلمان مسافر قید تھے دیوار کے ساتھ کھڑا تھا، ان کے پاس ایک رسّہ تھا جس کے ایک سرے کے ساتھ لوہے کا وہ شاخہ کنڈہ بنا ہوا تھا، رات آدھی گزر گئی تھی بلال اور اس کے ساتھی جہاں کھڑے تھے وہاں دلدل سی تھی زمین اونچی نیچی تھی، اور وہاں ٹیکریاں بھی تھیں، رات تاریک تھی بلال نے دن کے وقت ادھر آکر یہ جگہ دیکھی تھی اور کمان پھینکنے کے لئے اسے یہی جگہ موزوں لگی تھی، دیوار کے اوپر قلعوں کی طرح چھوٹی چھوٹی برجیاں بنی ہوئی تھیں، اس نے دیکھا تھا کہ قید خانے کے چاروں کونوں پر بڑی برجیاں تھیں، اور ہر برجی میں ایک سنتری موجود تھا۔
بلال اپنے ساتھیوں کو ایک ایسی ٹیکری پر لے گیا جو دیوار کے زیادہ قریب تھی اور ذرا زیادہ اونچی تھی، اس پر کھڑے ہوکر بلال نے اپنے ہاتھوں رسّہ دیوار پر پھینکا، کمند دیوار کے اوپر اٹک گئی، رات کی خاموشی میں لوہے کے کنڈے کے گرنے کی آواز اتنی زیادہ سنائی دی کہ سنتریوں نے بھی سن لی ہو گی، بلال اور اس کے ساتھی ٹیکری سے اتر کر دیوار کے ساتھ لگ گئے، اوپر کی آواز سننے کی کوشش کرنے لگے۔
کچھ دیر تک اوپر کوئی آواز کوئی آہٹ نہ سنائی دی ،سب سے پہلے بلال نے رسّی کو پکڑا اور پاؤں دیوار کے ساتھ لگا کر اوپر گیا، دیوار قلعوں جیسی تھی، اونچی منڈیر سی تھی، اور اس کے ساتھ دیوار اتنی چوڑی تھی کہ اس پر ایک گھوڑا آسانی سے چل سکتا تھا، بلال اوپر جاکر منڈیر کے اوٹ میں بیٹھ گیا، اس کا ایک ساتھی اوپر آ رہا تھا وہ بھی آ گیا، اور اس کے بعد ایک اور ساتھی اور اس کے بعد چوتھا ساتھی بھی آ گیا، ان کے پاس تلواریں تھیں اور ایک ایک خنجر کمر بند میں اڑسا ہوا تھا۔
ان میں سے کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ قید خانے کے اندر کیا ہے، انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ عرب کے مسافر کہاں بند ہیں، قید خانہ بہت وسیع تھا بعض دیواروں کے ساتھ ڈنڈو والی مشعلیں جل رہی تھیں، بلال نے قیدیوں کی رہائی کی اسکیم جذبات سے مغلوب ہو کر بنائی تھی، اسے سب سے پہلے تو یہ معلوم کرنا چاہیے تھا کہ قید خانے کے اندر کی دنیا کیسی ہے، اس نے محمد حارث علافی کے ساتھ مل کر یہ طے کیا تھا کہ وہ راستے میں حائل ہونے والے سنتریوں کو مار ڈالیں گے اور ان کے ہتھیار قیدیوں کو دے دیں گے پھر وہ سنتریوں پر غالب آ کر قید خانے کا بڑا دروازہ کھلوائیں گے اور باہر آ جائیں گے، پھر تمام قیدیوں کو مکران بھیج دیں گے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
بلال نے تین ساتھیوں کو وہیں چھوڑا جہاں انہوں نے کمند ڈالی تھی، وہ کونے والی ایک برجی کی طرف چل پڑا وہ جھک کر یا دبے پاؤں نہیں چل رہا تھا بلکہ اس کی چال ایسی تھی جیسے وہ اس قید خانے کا دروغا ہو، وہ چونکہ کئی برسوں سے محل کے حفاظتی دستے میں تھا اس لئے وہ وہاں کی فوجی اصطلاح اور مخصوص آواز میں باتیں کر سکتا تھا۔
جب وہ برجی کے قریب پہنچا تو وہاں کے سنتری نے اسے پکارا ۔۔۔کون ہے؟،،،،
اوئے،،،، سنتری نے کہا۔
ہاہاہا ۔۔۔بلال نے کہا ۔۔ادھر ہی کھڑا رہ۔ سنتری اسے قید خانے کا کوئی عہدہ دار سمجھ کر برجی کے اندر ہی کھڑا رہا، بلال نے تلوار نکالی برجی کے اندر اندھیرا تھا برجی کوئی جھوپڑی کمرہ نہیں تھ،ا معمولی سی موٹائی کے چار ستونوں پر چھت کے اوپر برجی ہر طرف سے کھلی تھی بلال نے اس کے اندر جاتے ہیں تلوار کی نوک سنتری کی شہ رگ پر رکھ دی، برچھی تلوار پھینک دے،،،، بلال نے کہا۔
سنتری نے دونوں ہتھیار اتار کر پھینک دیے، بلال نے اسے فرش پر
بٹھا دیا اور تلوار اس کی شہ رگ پر ہی رکھی۔
عرب کے قیدی کہاں ہیں؟،،،، بلان نے اس سے پوچھا۔۔۔صحیح بتا اور فوراً بتا۔
سنتری نے اسے بتایا کہ وہ تہ خانے میں ہیں۔ راستہ بتا۔۔۔ بلال نے کہا۔۔۔ اور یہ بھی بتا کہ کوٹھریوں کی چابیاں کہاں ہوگی؟
میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گا ۔۔۔سنتری نے کہا ۔۔۔نہ یہ قید خانہ میرے باپ کا ہے نہ میرا باپ یہاں کا راجہ ہے، ہم تو پیٹ کے خاطر نوکری کر رہے ہیں، نہ تم میری جان کے پیچھے پڑو ،نہ میں تمہارے راستے میں آتا ہوں۔ میری گردن سے تلوار ہٹا لو۔
بلال نے اس کی گردن سے تلوار ھٹالی، اب بولو ۔۔۔بلال نے کہا۔
میں نے تمہارے ساتھ دوستوں کی طرح بات کی ہے۔۔۔ سنتری نے کہا۔۔۔ میرے ساتھ دوستوں کی طرح بولو اگر تم اکیلے ہو یا پانچ سات آدمی ہوں تو میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ یہیں سے واپس چلے جاؤ۔
کیوں؟
اگر تم قیدیوں کو رہا کرانے آئے ہو تو نہیں کرا سکو گے۔۔۔ سنتری نے کہا ۔۔۔میں تمہیں کہتا ہوں کہ تمہارا جو ارادہ ہے وہ مجھے بتاؤ پھر میں تمھیں صحیح راستہ بتاؤ گا، اگر مجھ پر اعتبار نہیں تو جو پوچھتے ہو وہ بتا دیتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ بہت بری طرح ناکام ہو گے۔
پہلے یہ بتاؤ کہ تمہیں میرے ساتھ ایسی محبت کیوں پیدا ہوگئی ہے ؟،،،،بلال نے پوچھا۔۔۔ کیا تم موت سے اتنا زیادہ ڈرتے ہو، ایک میں ہوں جو اپنے وطن کے قیدیوں کی خاطر اپنی جان پر کھیل رہا ہو ،اور ایک تم ہو،،،،
میں کس کی خاطر اپنی جان پر کھیلوں۔۔۔ سنتری نے کہا۔۔۔ ان بے گناہوں کی خاطر جنہیں لوٹ کر یہاں بند کر دیا گیا ہے، ایسا گناہ راجہ مہاراجہ ہی کر سکتے ہیں ،میں اس وجہ سے اپنی جان دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگا کہ عرب کے ان بے گناہ قیدیوں کو کوئی چھڑانے آئے تو میں راستے میں آ جاؤں اور انہیں رہا نہ ہونے دوں، اگر میرا بس چلے تو میں خود کوٹھریاں کھول کر انہیں باہر نکال دوں ،اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ان قیدیوں کی وجہ سے ہمارے ملک پر آفت آ رہی ہے، یہ آفت تمہارے وطن عرب سے آئے گی، میرا خیال تھا کہ تمہیں اتنی عقل نہیں ہو گی۔۔۔ بلال نے سنتری سے کہا۔۔۔ لیکن تم دانشمندی کی باتیں کر رہے ہو۔
تم ٹھیک کہتے ہو میرے عربی دوست!،،،، سنتری نے کہا۔۔۔ مجھے یہ باتیں میرے باپ نے بتائی ہیں، وہ کہتا ہے کہ ہمارا راجہ ایک بار عربی فوج کو شکست دے کر خوش ہو رہا ہے ،لیکن وہ عربوں کو اچھی طرح نہیں جانتا، عربی لشکر ایک بار پھر آئے گا، ہمارا راجہ اپنے آپ کو آسمانوں کا دیوتا سمجھ بیٹھا ہے، اسے ابھی اس کے بہت بڑے گناہ کی سزا ملنی ہے، اس نے اپنی بہن کو بیوی بنا رکھا ہے ۔
اب مجھے بتاؤ جو میں پوچھتا ہوں۔۔۔ بلال نے کہا ۔
سنتری نے اسے وہاں سے نیچے اترنے کا راستہ دکھایا اور چابیوں کے متعلق بتایا کہ وہ سنتری کے پاس نہیں ہوتی، چابیاں ایک اور کمرے میں رکھی جاتی تھیں، وہ کمرہ باہر سے مقفل ہوتا تھا یہ قید خانے کا دفتر تھا، وہاں دو سنتری موجود رہتے تھے، کمرے کی چابی ان کے پاس ہوتی تھی، یہ دونوں سنتری عام قسم کے سپاہی نہیں بلکہ عہدے دار ہوتے تھے ،سنتری نے اسے یہ بھی بتایا کہ سارے قیدخانے میں سنتری کہاں کہاں موجود ہوتے ہیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس سنتری کے سر پر پگڑی تھی بلال نے جھپٹا مار کر اس کی پگڑی اتار لی اور بجلی کی سی تیزی سے اسے اوندھے منہ فرش پر گرا دیا، بڑی تیزی سے اس کے دونوں ہاتھ پیٹھ پیچھے کرکے پگڑی کے ساتھ باندھ دیے، اسی پگڑی سے اس کے پاؤں باندھے اور جو پگڑی بچ گئی تھی وہ پھاڑ کر اس کے منہ پر باندھ دی، میں تمہیں جان سے نہیں مارونگا۔ میرے دوست!،،،، بلال نے کہا ۔۔۔لیکن میں تم پر اعتبار بھی نہیں کرسکتا، کوئی آئے گا تو تمہیں کھولے گا۔
بلال اس جگہ واپس آ گیا جہاں اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے، انہیں ساتھ لے کر وہ پھر اسی برجی میں واپس گیا اس برجی کے فرش پر ایک موٹا تختہ رکھا ہوا تھا وہ ہٹایا تو اس کے نیچے سیڑھی لگی ہوئی تھی چاروں اس سیڑھی سے اتر گئے سنتری نے جو راستے بتائے تھے وہ بھول بھلیوں جیسے تھے، بعض جگہ ایسے پتہ چلتا تھا جیسے وہ غار میں سے گزر رہے ہوں، ان اندھیرے راستوں میں سے گزر کر وہ اس کمرے میں پہنچے جہاں سنتری نے بتایا تھا کہ چابیاں رکھی جاتی ہیں ،وہاں سلاخوں والا ایک دروازہ تھا جو کھلا ہوا تھا یہ ایک ڈیوڑھی تھی جس کے دوسری طرف باہر والا دروازہ تھا یہ بہت ہی مضبوط دروازہ تھا جس کے اندر کی طرف دو بہت بڑے تالے لگے ہوئے تھے، یہ بڑے قلعوں کے دروازوں جیسا تھا، اس ڈیوڑھی کے دائیں اور بائیں دو کمرے تھے ایک کے باہر تالا لگا ہوا تھا اور دوسرا کھلا ہوا تھا، بلال اور اس کے ساتھی کمرے میں گئے جو کھلا ہوا تھا ڈیوڑھی میں دو مشعلیں دیواروں کے ساتھ لگی ہوئی جل رہی تھیں، بلال نے ایک مشعل اپنے ہاتھ میں لے لی اور چاروں کمرے میں داخل ہوگئے۔
دو چارپائیاں پڑی ہوئی تھیں جن پر دو آدمی سوئے ہوئے تھے، انہوں نے ان دونوں کو جگایا وہ ہڑبڑا کر اٹھے ننگی تلوار دیکھ کر وہ خوف سے کانپنے لگے۔
تہ خانے کی چابیاں نکالو۔۔۔بلال نے کہا۔۔۔ اور باہر کے دروازے کی چابیاں بھی ہمارے حوالے کر دو۔
ان میں سے ایک کمرے کی دیوار کے ساتھ جا کھڑا ہوا اور وہاں سے ایک پتھر نکالا ،کسی اجنبی کو شک بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ پتھر دیوار میں سے الگ کیا جا سکتا ہے، سنتری نے دیوار میں ہاتھ ڈال کر ایک چابی نکالی اور بلال کے آگے کر دی۔
میں تہ خانے اور صدر دروازے کی چابیاں مانگ رہا ہوں۔۔۔ بلال نے کہا۔۔۔ سنتری ڈرا ہوا کمرے سے نکلا اور اس نے سامنے والے مقفل کمرے کا تالا کھولا پھر اس نے بلال کی طرف دیکھا، بلال مشعل لے کراس تک گیا ،وہ بلال کو کمرے میں لے گیا، ایک دیوار کے ساتھ بڑی بڑی چابیوں کے گچھے لٹک رہے تھے وہ گچھے اتار کر بلال کو دے دیے اور اسے بتایا کہ تہ خانے کی کوٹھریوں کی چابیاں کونسی ہے، اور صدر دروازے کی تالوں کی کون سی ۔
یہ خاصا فراخ کمرہ تھا۔ ایک دیوار کے ساتھ تو چابیاں لٹک رہی تھیں اور دو دیواروں کے ساتھ بہت سی چابیاں رکھی ہوئی تھی، اور دیوار سے تلواریں اور بھالے بھی لٹک رہی تھیں، ان چاروں نے ان دونوں سنتریوں کو انہی کی پگڑی ویسے اسی طرح باندھ دیا جس طرح بلال نے برجی والے سنتری کو باندھا تھا۔
باہر نکل کر انہوں نے اس کمرے کا دروازہ بند کیا اور تالا لگادیا ،مشعل دیوار کے ساتھ لگا دی جہاں سے بلال نے اتاری تھی، اور چاروں قید خانے کے اندر چلے گئے۔
وہاں بارکوں کی طرح پتھروں کے لمبے لمبے کمرے تھے ،اور کہیں ایک ہی قطار میں کوٹھریاں تھیں، ہر کمرے اور کوٹھری میں مشعل جل رہی تھی قیدی سوئے ہوئے بھی تھے اور کراہ بھی رہے تھے، کمروں سے مشعلوں کی روشنی باہر آرہی تھی، اس روشنی میں بارکوں اور کوٹھریوں کے سنتری ٹہلتے دکھائی دے رہے تھے، یہ چاروں ساتھی ان بارکوں اور کوٹھریوں کے عقب سے گزرتے جا رہے تھے۔
اس طرح وہ سنتریوں سے بچتے بچاتے اس جگہ تک پہنچ گئے جہاں تہ خانہ تھا، یہ ایک غار سا تھا جس کے دور اندر روشنی تھی ،برجی والے سنتری نے بلال کو بتایا تھا کہ اس غار جیسی جگہ میں خاصہ آگے جا کر دائیں کو گھومنا ہے وہاں سے بڑی چوڑی سیڑھیاں تہ خانے میں اترتی تھیں، اس رہنمائی کے مطابق یہ چاروں عربی آگے ہی آگے بڑھتے گئے اور اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے سیڑھیاں نیچے اترتی تھیں، نیچے دو مشعلیں جل رہی تھیں جن کی روشنی اوپر تک آرہی تھی ،تہخانے میں اتر کر بلال نے نعرہ لگانے کے انداز سے کہا۔۔۔ خدا کی قسم آج تم سب اس جہنم سے نکل آئے ہو۔
قیدی سوئے ہوئے تھے آدھی رات کے بہت بعد کا وقت تھا بلال کی للکار پر سب جاگ اٹھے اور شوروغل بپا ہوگیا۔
خاموش رہو !،،،،،،بلال نے کہا۔۔۔ ابھی تمہارا ایک اور سفر باقی ہے ہوسکتا ہے ہمیں لڑنا پڑے ،جس طرح اچانک شور اٹھا تھا اسی طرح خاموشی طاری ہوگئی ،بلال نے پہلی کوٹھری کے تالے میں چابیاں لگائی تو تالا نہ کھلا یہ تو چابیوں کا پورا گچھا تھا ،بلال ایک ایک چابی تالے میں ڈال کر گھمانے لگا کوئی ایک بھی چابی تالے کو کھول نہ سکی۔
معلوم ہوتا ہے ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔۔۔ بلال کے ایک ساتھی نے کہا ۔۔۔اس کافر نے ہمیں غلط چابیاں دے دی ہیں۔
چاروں ایک ہی کوٹھری کے سامنے اکٹھے کھڑے تالے میں چابیاں ڈال رہے تھے، ایک ہلکا سا زناٹہ اس کے ساتھ دھیما سا ایک دھماکا ہوا اور اس کے ساتھ ایک آدمی کی کرب ناک ہائے سنائی دی سب نے بدک کر دیکھا بلال کا ایک ساتھی آگے کو جھکا ہوا تھا اس کی پیٹ میں برچھی اتری ہوئی تھی اور وہ گر رہا تھا، باقی ساتھیوں نے اوپر دیکھا اوپر والی آخری سیڑھی پر چھ سات آدمی کھڑے تھے، ان کے ہاتھوں میں دور سے پھینکنے والی برچھیاں تھیں ،بلال نے دیکھا کہ ان میں وہ سنتری بھی تھا جس نے دیوار کی برجی میں بلال کو راستہ بتایا تھا اور جسے بلال نے اس کی پگڑی سے باندھ آیا تھا۔
میرے عربی دوست!،،،،، اس سنتری نے اوپر کھڑے کھڑے کہا ۔۔۔۔میں نے تمہیں خبردار کردیا تھا کہ نیچے نہ جاؤ لیکن تم نے مجھ پر اعتبار نہ کیا ،تمہارا خیال تھا کہ میں شاید ساری رات بندھا رہوگا ،مجھے معلوم تھا کہ کچھ ہی دیر بعد مجھے کھولنے والے آجائیں گے، تمہارے ساتھ میں نے دوستی کا حق ادا کیا تھا اب میں ان کا حق ادا کر رہا ہوں جن کا نمک کھاتا ہوں، یہاں سے کبھی کوئی قیدی نکل کے نہیں گیا، اب تم بھی یہیں رہو گے، اس قید خانے سے صرف جلاد تمہیں رہائی دلاسکتا ہے۔
تلواریں پھینک دو۔۔۔ یہ سنتریوں کے عہدے دار کی آواز معلوم ہوتی تھی، اس نے کہا۔۔۔ تلواریں پھینک کر اوپر آ جاؤ ورنہ برچھیاں تمہارے جسموں سے پار ہو جائیں گی۔
دوستوں!،،،،،، بلال نے اپنے ساتھیوں سے آہستہ سے کہا۔۔۔ ان لوگوں نے زندہ تو ہمیں پھر بھی نہیں چھوڑنا ،آؤ لڑ کر مرتے ہیں۔
چاروں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں وہ کمانوں سے نکلے ہوئے تیروں کی طرح سیڑھیاں چڑھ گئے ،اوپر والے ہاتھوں میں برچھیاں لیے تیار تھے، بلال کے دو ساتھی ایک وار بھی نہ کرسکے اور سینوں میں برچھیاں لیے سیڑھیوں سے لڑکھڑاتے ہوئے نیچے آئے۔ بلال اور اس کے ساتھی نے ایک ایک آدمی کو لے لیا ان کی تلواریں اوپر والوں کے پیٹھوں میں اتر گئی تھیں، لیکن دونوں کو اور وار کرنے کا موقع نہ ملا، بلال کا ساتھی بیک وقت تین برچھیوں کے زد میں آگیا ،بلال کا پاؤں پھسلا اور وہ سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا نیچے گرا ،وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ سنتریوں نے اسے دبوچ لیا اور زندہ پکڑ لیا، اسے گھسیٹ کر لے گئے اور اوپر لے جا کر ایک ایسی کوٹھری میں بند کردیا جو انسانی خون کی بدبو سے بھری ہوئی تھی ،یوں لگتا تھا جیسے یہاں ہر روز انسان زبح ہوتے ہیں، دیواروں پر خون کے چھیٹے لگے ہوئے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اگلے روز راجہ داہر اپنے محل کے خاص کمرے میں لمبےلمبےڈگ بھرتا ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر بڑے غصے میں ٹہل رہا تھا، اس کی بہن مائیں رانی جو اس کی بیوی بھی تھی سر جھکائے بیٹھی تھی۔
میں نے تمہارے کہنے پر ان چاروں کو محافظ دستے میں رکھ لیا تھا ۔۔۔راجہ داہر مائیں رانی سے کہہ رہا تھا۔۔۔ میں نے تمہاری بات مان لی ورنہ میں ایسا خطرہ کبھی مول نہ لیتا ،تمام ملک میں دیکھ لو نہ کوئی راجہ نہ کسی کی رعایہ کسی مسلمان پر بھروسہ کرتی ہے، گاؤ ماتا کا گوشت کھانے والے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا، تم کہتی ہوں کہ میں نے پانچ سو عربی مسلمانوں کو اپنے سائے میں رکھا ہوا ہے کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ میں نے انھیں کہاں رکھا ہوا ہ،ے اور اب مکران کے اس علاقے میں جہاں وہ رہتے ہیں میں نے ان پر پہرے بٹھا دیے ہیں، ان کے اردگرد کچھ خانہ بدوش قبیلوں نے جا ڈیرے ڈالے ہیں، وہ خانہ بدوش نہیں وہ سب میری فوج کے سپاہی اور عہدہ دار ہیں جو اپنے بال بچوں کو ساتھ لےکر ظاہری طور پر وہاں خانہ بدوش کی طرح رہ رہے ہیں ،عرب سے ایک حملہ اور آئے گا میں اس خطرے کو نظرانداز نہیں کرسکتا کہ یہ اپنے بھائیوں کے دشمن ہوتے ہوئے بھی ان کا ساتھ دیں گے۔
میں نے انہیں وفا دار اور دیانت دار جان کر آپ سے کہا تھا کہ انھیں حفاظتی دستے میں رکھ لیں۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔۔۔اسے میری ناتجربے کاری کہہ لیں،،،،، انہوں نے اپنے کیے کی سزا پا لی ہے ۔وہ جو زندہ پکڑا گیا ہے ،،،،بلال بن عثمان ،،،،اسے آپ عمرقید دیں گے یا،،،،،،،
میں ایسے نمک حرام کو جینے کا حق نہیں دے سکتا ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ میں نے حکم دے دیا ہے کہ اس سے پہلے یہ اگلواؤ کہ اس کے ساتھ اور کون کون تھا ،ہو سکتا ہے اس کا رابطہ علافی کے ساتھ یا ان عربوں میں سے کسی اور کے ساتھ ھو، اور ان لوگوں نے اس کی پشت پناہی کی ہو، قید خانے والے اس سے اگلوا لے گے، اس نے کچھ نہ بتایا تو اسے جلاد کے حوالے کر دوں گا۔
مائیں رانی کے چہرے پر کوئی ایسا تاثر نہیں تھا جس سے پتہ چلتا کہ بلال کی قسمت کا یہ فیصلہ سن کر اس کا ردعمل کیا ہے، بلال سے اسے اتنی محبت تھی کہ اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اس نے بلال کو محل کے باڈی گارڈ دستے میں رکھ لیا تھا، اور اس خیال سے بلال اسے چھوڑ کر چلا نہ جائے اس نے بلال کے چاروں ساتھیوں کو بھی باڈی گارڈ دستے میں رکھ لیا تھا، آج وہ بلال جس پر وہ مر مٹی تھی موت کے منہ میں آ گیا تھا اور یہ موت بڑی ہی اذیت ناک تھی۔
صبح سویرے سویرے قید خانے کے دروغہ نے راجہ داہر کو خود آ کر اطلاع دی تھی کہ رات کو قید خانے میں کیا ہوا ہے، داہر نے اسی وقت وہ حکم دے دیا تھا کہ بلال بن عثمان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، اس نے بلال کی سزا بھی سنا دی تھی،،، موت،،، بلال کے ساتھیوں کی لاشوں کے متعلق داہر نے حکم دیا تھا کہ انہیں دفن نہ کیا جائے نہ جلایا جائے تینوں لاشیں باہر پھینک دی جائیں۔
بلال کے ساتھ وہ سلوک شروع ہوچکا تھا جس کا راجہ داہر نے حکم دیا تھا، اسے ایک بہت بڑے اور چوڑے پہیے پر پیٹھ کے بل لیٹا دیا گیا تھا ،اس کے بازو اوپر کرکے کلائیاں پہیے کے ساتھ باندھی گئی تھی، اور پاؤں فرش پر گاڑے ہوئے کنڈوں کے ساتھ رسی سے بندھے ہوئے تھے، پہیہ ایک ہی جگہ نصب تھا ،دو آدمی پہیہ کو ذرا سا چلاتے تھے تو بلال یوں محسوس کرتا تھا جیسے اس کے بازو کندھے سے اور ٹانگیں کولہوں سے الگ ہو رہی ہوں۔ بولو تمہارے ساتھ اور کون تھا ۔۔۔اس کے جسم کو یوں دونوں طرف کھینچ کر پوچھتے تھے۔۔۔ کیا مکران والے عرب تمہاری کارروائی سے واقف تھے؟،،،، بلال کے جسم سے پسینہ پھوٹ رہا تھا اور درد کی شدت سے اس کے دانت بج رہے تھے۔۔۔ نہیں!،،، وہ ہر بار کہتا میرے ساتھی یہی تین آدمی تھے جو مارے گئے ہیں۔
عربوں کے سردار علافی نے تمہیں کیا کہا تھا۔۔۔ اس سے پوچھتے تھے۔
میں کبھی مکران گیا ہی نہیں۔۔۔ بلال کا یہی ایک جواب تھا ۔
اسے کچھ دیر اسی طرح رکھتے تھے کہ اس کا جسم اوپر کو اور نیچے کھنچا ہوا ہوتا تھا، دوپہر تک اس پر غشی طاری ہونے لگی اسے پہیے سے کھولا گیا تو وہ گر پڑا ،کوشش کے باوجود وہ اٹھ نہ سکا ،اسے فرش پر ہی پڑا رہنے دیا گیا وہ پانی مانگتا تھا تو پانی کا پیالہ اس کے منہ کے قریب لے جا کر پیچھے کر لیا جاتا تھا، پیاس سے اس کا منہ کھل گیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
رات کو اسے اسی کوٹھری میں پھینک کر دروازے کو تالا لگا دیا گیا جس میں اسے گزشتہ رات بند کیا گیا تھا ،اس کوٹھری کے تعفن میں اس کے اپنے پسینے کی بدبو بھی شامل ہو گئی تھی ،وہ اوندھے منہ فرش پر پڑا تھا چھوٹے بڑے کیڑے مکوڑے اس کے جسم پر رینگنے لگے، بعض کیڑے اسے کاٹتے تھے وہ جسم کو کھجلاتا اور تڑپتا تھا ،آدھی رات کے وقت کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور اسے گھسیٹ کر پھر وہی لے گئے جہاں وہ سارا دن پہیے کے ساتھ بندھا اور کھینچا رہا تھا، اب اس کے پاؤں سے دو رسیاں باندھ کر چھت کے ساتھ الٹا لٹکا دیا گیا، اس کے بازو نیچے کو لٹک رہے تھے، ہاتھ فرش سے چھے سات انچ اوپر تھے، اس حالت میں اسے ایک کوڑا مارتے اور پوچھتے تھے۔۔۔ کہو مکران والے عرب تمہارے ساتھ تھے۔
نہیں۔
چمڑے کے کوڑے کا زناٹا سنائی دیتا اور بلال کے جسم پر ایک اور گہری سرخ لکیر ابھرآتی۔
اور کون تھا تمہارے ساتھ؟
جو تھے وہ مارے گئے ہیں۔
او بدنصیب انسان !،،،،اسے آخر کہاں گیا ۔۔۔کیوں اتنی بری موت مرتے ہوں، سچ بولو اور عیش کرو،،،، تمہارے ساتھ ان تینوں آدمیوں کے علاوہ کوئی اور ضرور تھا۔
ہاں!،،،،، اس نے جواب دیا۔۔۔ میرے ساتھ اللہ تھا۔
اسے ایک اور کوڑا مارا گیا، اس کا الٹا لٹکا ہوا جسم کانپنے لگا۔
بلا اپنے اللہ کو۔۔۔ اسے کہا گیا۔۔۔ کہہ اسے وہ تجھے اور دوسرے قیدیوں کو چھوڑا لے۔ اللہ ان سب کو چھوڑ آئے گا۔۔۔ بلال نے کہا۔۔۔ اللہ آ رہا ہے۔
رات گزر گئی بلال بے ہوش ہو گیا اسے چھت سے اتار کر کوٹھری میں پھینک آئے اسے کھانے پینے کے لئے کچھ نہ دیا گیا صبح وہ ہوش میں آیا اور اب دوسرے طریقوں سے اس کے جسم کو توڑا جانے لگا، وہ دن بھی گزر گیا رات کو اسے تھوڑے سے وقت کے لئے آرام دیا گیا، پھر اسے اسی کمرے میں لے گئے وہ فوراً ہی بیہوش ہو گیا ۔
صبح راجہ داہر کو اطلاع دی گئی کہ بلال کسی اور کا نام نہیں بتاتا، جو ازیت اسے دی گئی ہے وہ سانڈ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔ راجہ داہر کو بتایا گیا ۔۔۔معلوم ہوتا ہے اس کے ساتھ یہی تین ساتھی تھے جو مارے گئے تھے، اور مکران کے عرب اس کی اس کارروائی سے ناواقف لگتے ہیں۔
جلاد کے حوالے کردو۔۔۔ راجہ داہر نے حکم دیا۔۔۔ لیکن اسے کھانے پینے کے لئے کچھ دے دو ،کسی کو بھوکا اور پیاسا مارنا اچھا نہیں ہوتا ۔
بلال کو کھانا دیا گیا پانی بھی دیا گیا ،اس سے اس کی زبان میں بولنے کی طاقت واپس آ گئی ،شام کو اسے بتایا گیا کہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے۔
کوئی آخری خواہش یا بات ہو تو بتا دو۔۔۔ داروغہ نے اس سے پوچھا ۔
میری خواہش ایک ہی ہے۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔ ان بے گناہ مسافروں کو رہا کر دو ،عورتوں اور بچوں کو ہی چھوڑ دو۔
یہ ہمارے بس میں نہیں ۔۔۔قُبلہ نے کہا ۔
میں نے مائیں رانی کی بہت خدمت کی ہے۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔ اگر وہ یہاں آ سکے تو میں اسے آخری بار دیکھ لوں، اور اس سے معافی مانگ لوں۔
یہ بھی نہیں ہوسکتا۔۔۔ دروغہ نے کہا ۔۔۔رانی کو ہم کیسے بلا سکتے ہیں ۔
مرنے سے پہلے مجھ پر یہ کرم کرو۔۔۔بلال نے کہا۔۔۔مائیں رانی تک میرا پیغام پہنچا دو وہ آجائے گی، قید خانے کا حاکم اچھا آدمی تھا، اسے ایک خیال آ گیا۔
بلال !،،،،،، اس نے بلال سے کہا۔۔۔ اگر تمہیں یہ توقع ہے کہ مائیں رانی تمہارے پیغام پر آجائے گی تو اسے یہ بھی کہوں کہ تمہیں معافی دلا دے، وہ راجہ سے ہر بات منوا سکتی ہے، ہو سکتا ہے وہ تمہیں موت کی سزا سے بچا لے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
صبح مائیں رانی قیدخانے میں آگئی، بلال کو بجا طور پر توقع تھی کہ مائیں رانی اس کے کہنے کے بیغیر ہی اسے معافی دلاں دے گی۔
مائیں رانی رانیوں کی طرح آئی، اس کے ساتھ بڑی شاندار وردی میں دس بارہ محافظ تھے، وہ اس کوٹھری کے سامنے آن کھڑی ہوئی، سلاخوں میں سے اسے بلال فرش پر بیٹھا ہوا نظر آرہا تھا ،وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھا تھا،مائیں رانی کے بلانے پر وہ اٹھا اور دروازے کے قریب آگیا۔
آ گئی رانی!،،،،، بلال نے کہا۔۔۔ مجھے امید تھی کہ تم ضرور آؤ گی۔
اور مجھے امید نہیں تھی کہ تم اتنا بڑا جرم کرو گے۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔
میں اپنے وطن کے معصوم قیدیوں کو رہا کرانا چاہتا تھا۔۔۔ بلال نے کہا۔۔۔ یہ کام تم کر سکتی تھی لیکن تم نے ٹال دیا تھا۔
مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں اس کام پر کس نے اکسایا تھا ۔۔۔مائیں رانی نے پوچھا اور کہا۔۔۔ تم تو عقل اور ہوش والے آدمی تھے تم دوسروں کی باتوں میں آ گئے تھے، مجھے بتاؤ وہ کون ہے؟
اس سوال پر تو ان لوگوں نے میری ہڈیاں بھی توڑ دی ہیں۔۔۔۔بلال نے کہا۔۔۔ میرے جسم کے جوڑ الگ ہوگئے ہیں، میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں، کوئی جواب ہوتا تو میری یہ حالت نہ ہوتی۔
مائیں رانی محبت کا واسطہ دے کر اس سے پوچھنے لگی کہ اس کی اس کاروائی میں اور کس کس کا ہاتھ تھا ۔بلال اپنی زبان پر نہ لایا کہ اس نے اس اقدام کی اسکیم محمد حارث علافی سے مل کر بنائی تھی ۔
مائیں رانی بلال سے یہی راز لینے آئی تھی، ورنہ ایک رانی بلال جیسے مجرم کو ملنے نہ آتی۔
مائیں!،،،، بلال نے کہا ۔۔۔کیا تم مجھے سزائے موت سے بچا سکتی ہو ،راجہ صرف تمہاری بات مانتا ہے، مجھے بچا لو تو میں اس ملک سے ہی نکل جاؤں گا۔
نہیں!،،،،،، مائیں رانی نے کہا ۔۔۔میں نے تم سے ایک بات پوچھی ہے اور تم نے جھوٹ بولا ہے میرے ساتھ ۔
نہیں رانی نہیں۔۔۔ بلال نے کہا۔۔۔ کچھ سچ ہوتا تو میں بتا دیتا ،میں تمہارے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا، تمہارے ساتھ میرا تعلق ایسا نہیں کہ میں تم سے کچھ چھپاؤں گا ،میں تو تم سے زندگی مانگ رہا ہوں رانی !،،،،مجھے بچا لو۔
بلال کی جسمانی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ زیادہ دیر پاؤں پر کھڑا نہ رہ سکا اس نے سلاخوں کا سہارا لے لیا ،اس کی ذہنی حالت جسم سے زیادہ خراب تھی ایسی ظالمانہ اذیتوں نے اسے ذہنی لحاظ سے مردہ کر دیا تھا ،اسی لئے وہ زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا، وہ اپنی قدرتی حالت میں ہوتا تو یوں نہ گڑگڑاتا ۔
میں تمہیں نہیں بچا سکتی۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔
وہ وقت یاد کرو رانی!،،،، جب تم نے مجھ سے محبت کی بھیک مانگی تھی۔۔۔ بلال نے کراہتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ پھر جس بے تابی سے تم مجھے چوری چوری اپنے پاس رکھتی تھی وہ ملاقاتیں نہ بھولو۔
محبت!،،،، رانی نے طنزیہ کہا۔۔۔ بلال وہ محبت نہیں تھی، اگر وہ محبت ہی تھی تو اس کا تعلق صرف جسم کے ساتھ تھا، مجھے تمھاری ضرورت تھی اور میں نے تمہیں ایسے ہی پالا تھا جیسے پالتو جانور کو گھر میں رکھتے ہیں ،وہ وقت گزر گیا ہے جوانی گزر گئی ہے، اسی لیے میں تمہیں کہا کرتی تھی کہ مذہب کا نام نہ لیا کرو ،اگر تمہاری محبت میرے دل میں اتری ہوئی ہوتی تو میں تمہاری خاطر تمہارے مذہب میں داخل ہو جاتی، یا پھر تمہیں اپنے مذہب میں داخل کرلیتی، اب تم ہمارے مجرم ہوں، اپنے جرم کو دیکھو اگر تم راجہ داہر ہوتے تو کیا تم ایسے مجرم کو بخش دیتے؟
مائیں رانی وہاں سے ہٹی اور تیز تیز چل پڑی۔ قُبلہ اس کے انتظار میں کھڑا تھا ۔
کیا حکم ہے مہارانی۔۔۔ قُبلہ نے پوچھا۔
وہی جو پہلے تھا۔۔۔مائیں رانی نے کہا۔
مائیں انی قیدخانے سے نکلی تو بلال کو کوٹھری سے نکالا گیا ،اس سے چلا نہیں جاتا تھا ،اسے گھسیٹ کر لے گئے اور قید خانے کے اندر ایک احاطے میں داخل کردیا ،اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دیے گئے اور اس کے پاؤں بھی باندھ کر اسے گھٹنوں کے بل بیٹھا دیا گیا ،جلاد نے اس کا سر جھکا دیا اور ایک چوڑی تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا۔
*<======۔==========>*
قسط نمبر 07
بلال کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دیے گئے اور اس کے پاؤں بھی باندھ کر اسے گھٹنوں کے بل بٹھا دیا گیا ،جلاد نے اس کا سر جھکا دیا اور ایک چوڑی تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس سے ایک دو روز بعد سالار بدیل بن طہفہ تین سو سپاہیوں کے ساتھ مکران پہنچ گیا ،وہاں کے امیر محمد بن ہارون نے تین ہزار سواروں کو تیاری کا حکم دے رکھا تھا سالار بدیل نے صرف ایک رات مکران میں قیام کیا اور نماز فجر کے فوراً بعد دیبل کی طرف کوچ کیا ۔
مؤرخوں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ابھی یہ پتا نہیں چلا تھا کہ جہازوں کے مسافروں کو کہاں رکھا گیا ہے، سالار بدیل بن طہفہ کو بھی معلوم نہیں تھا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مکران کے امیر محمد بن ھارون کو بھی معلوم نہیں تھا، حجاج بن یوسف کا حکم یہ تھا کہ سب سے پہلے دبیل پر قبضہ کیا جائے، یہ سندھ کی واحد بندرگاہ تھی، بندرگاہ ہاتھ آجانے سے سمندر کے راستے کمک اور رسد بھیجنے میں آسانی ہو جاتی تھی، اس حکم کے تحت سالار بدیل نے دیبل کا رخ کیا۔
راجہ داہر نے خلافت کے باغی اور جلاوطن عربوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے خانہ بدوشوں کے بھیس میں اپنی فوج کے آدمی اور ان کے بیوی بچے مکران بھیج دیے تھے، ان میں سے کسی نے سالار بدیل کی فوج کو دیبل کی طرف جاتے دیکھا لیا، وہ ایک تیز رفتار اوٹنی پر سوار ہوا اور اوٹنی کو دیبل کے سمت دوڑا دیا ،دیبل والے بے خبر تھے شترسوار مسلمانوں کی فوج سے ایک روز پہلے دیبل پہنچ گیا، اور اس نے دیبل کے حاکم کو بتایا کہ عربوں کی فوج آ رہی ہے اس نے فوج کی تعداد بھی بتا دی۔
دیبل کے لوگوں !،،،،،سرکاری ہرکارے سارے شہر میں اعلان کرنے لگے، عرب کے مسلمانوں کو ایک بار پھر موت ادھر لا رہی ہے ،،،،ہوشیار،،،، خبردار،،،، جوان آدمی تیار اور ہتھیار بند ہو کر شہر میں تیار رہیں، اپنی فوج باہر جاکر لڑی گی ،دیول مندر کی ان پر مر مٹنے کا وقت آگیا ہے، دیبل میں ہندوؤں کا بہت بڑا مندر تھا جس کا نام دیول تھا۔
اسی پر اس شہر کا نام پڑا، مندر تو دیول کہلاتا رہا لیکن شہر کا نام دیول سے بگڑ کر دیبل ہوگیا۔
دیبل کے ہندو حاکم نے اسی شتر سوار سے کہا کہ وہ اروڑ چلا جائے اور راجہ داہر کو عرب فوج کی آمد کی اطلاع دے، اس نے اپنی فوج کو قلعے سے نکالا اور دیبل سے تھوڑی دور آگے لے گیا ،وہ علاقہ اونچا نیچا تھا اور چٹانیں بھی تھیں، اس نے فوج کو چٹانوں کے پیچھے اور کچھ نفری کو نشیبی جگہوں پر بٹھا دیا ،یہ انداز گھات کا تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ گھات بہت ہی خطرناک تھی۔
سندھیوں کے حوصلے اس لئے بلند تھے کہ وہ پہلے ایک مسلمان سالار کو شکست دے چکے تھے، اور وہ سالار ان کے ہاتھوں شہید بھی ہو گیا تھا ،اور پھر جس طرح مسلمانوں کی فوج میں کھلبلی مچی اور جس انداز سے یہ فوج پسپا ہوئی تھی اس سے بھی سندھیوں کے دل بہت مضبوط ہوگئے، ان سندھی ہندوؤں کے کمانڈر نے انہیں یہی جنگ یاد دلائی اور ان کے حوصلوں کو مزید مضبوط کیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
سالار بدیل بن طہفہ اپنی فوج کے ساتھ بظاہر بے خبر چلا آ رہا تھا، لیکن اس نے عربوں کے فن حرب و ضرب کے اصولوں کے مطابق اپنے کچھ آدمی بہت آگے بھیج دیے تھے، ان میں سے دو آدمی واپس آئے اور انہوں نے سالار بدیل کو بتایا کہ آگے دشمن کی فوج موجود ہے، ان دونوں نے جو دیکھا تھا وہ تفصیل سے سنایا، سالار بدیل بن طہفہ تجربے کار جنگجو تھا وہ جان گیا کہ دشمن کو اس کی پیش قدمی کی اطلاع قبل از وقت مل گئی ہے اس نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا دو حصوں کو اس نے راستے سے ہٹا دیا جو دیبل کی طرف جاتا تھا، اس نے ایک حصے کو راستے سے دور ہٹ کر دائیں طرف سے آگے بڑھنے کو کہا ،اور دوسرے حصے کو راستے کے دوسری طرف کچھ دور دور پیش قدمی جاری رکھنے کو کہا، تیسرے حصے کو اس نے اپنی زیر کمان رکھا اور سیدھا اسی راستے پر چلتا آیا جو دیبل کو جاتا تھا اور جو اس علاقے میں سے گزرتا تھا جہاں ہندو فوج گھات میں بیٹھی تھی، بدیل نے راستے سے ہٹ کر آگے بڑھنے والے حصوں کے کمانداروں کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ آگے دشمن گھات میں ہے، ان دونوں حصوں کو اس نے پوری ہدایات دے دی تھی۔
دشمن گھات میں بیٹھا تھا اس نے بھی اپنے کچھ آدمی مسلمانوں کی پیش قدمی کی خبر دینے کے لئے آگے بھیج رکھے تھے لیکن وہ دیکھ نہیں سکے تھے کہ مسلمانوں کی فوج اپنی ترتیب بدل چکی ہے، دشمن کے ان آدمیوں کی نظر سالار بدیل کے دستوں پر رہی، ان دستوں کو دشمن کے آدمی ساری فوج یا ساری فوج کا ہراول سمجھتے رہے سالار بدیل نے اپنی رفتار سست کر لی تھی وہ اپنے دونوں بازوؤں کو گجات کے علاقے میں پہنچ جانے کا موقع دے رہا تھا۔
آخر دونوں ہی دستے اس علاقے کے باہر باہر پہنچ گئے جہاں دشمن کی فوج سالار بدیل کے انتظار میں بیٹھی تھی، دونوں حصوں نے دونوں طرف سے دیبل کی فوج پر حملہ کر دیا ان دونوں حصوں کی صورت ایسی تھی جیسے سالار بدیل دشمن کو اپنے دونوں بازوؤں میں دبوچ لیا ہو،گھات میں بیٹھا ہوا دشمن خود گھات میں آگیا ہندو اس صورتحال کے لئے تیار نہیں تھے ان میں کھلبلی مچ گئی۔
زیادہ تر نقصان دیبل کی فوج کا ہورہا تھا اگر سورج غروب نہ ہو جاتا تو دشمن کے آدھی فوج وہی رہتی، جوں جوں شام گہری ہوتی گئی دشمن کے سپاہی لڑائی سے غائب ہو تے گئے آخر تاریکی نے لڑائی ختم کر دی۔
سالار بدیل کی فوج کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ اسی وقت دیبل کی طرف پیش قدمی کے قابل نہ رہی، سپاہی مکران سے آرہے تھے اور اسی حالت میں انھیں لڑنا پڑا شام تک وہ تھک کر چور ہو چکے تھے وہیں پڑاؤ کیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
صبح سالار بدیل بن طہفہ فوج کو دیبل کی طرف کوچ کا حکم دیا، دشمن کے سپاہیوں کی لاشیں جنگ کے میدان میں بکھری ہوئی تھیں انہیں اٹھانے کوئی نہیں آیا تھا، ان لاشوں کو رات بھر لومڑیاں بھیڑیے وغیرہ کھاتے رہے تھے ،اور صبح گدھوں کے گول اتر رہے تھے۔
مسلمانوں کی فوج زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ ایک طرف سے زمین سے گرد کے بادل اٹھتے نظر آنے لگے سالاروں اور سپاہیوں کے لیے یہ گرد کوئی عجیب چیز نہیں تھی یہ فوج آ رہی تھی اور یہ فوج سندھ کی ہی ہوسکتی تھی ۔
سالار بدیل نے اپنی فوج کو لڑائی کی ترتیب میں کرلیا، گرد آگے ہی آگے بڑھتی آرہی تھی جب زیادہ قریب آئی تو اونٹ اور گھوڑے نظر آنے لگے، یہ راجہ داہر کی فوج تھی جو اس نے دیبل کی فوج کی مدد کے لیے بھیجی تھی۔ مؤرخوں کے مطابق اس فوج کی تعداد چار ہزار تھی یہ گھوڑ سوار اور شترسوار دستے تھے آگے آگے چار ہاتھی تھے ایک ہاتھی پر راجہ داہر کا بیٹا جیسیہ سوار تھا ،اس فوج کی کمان جیسیہ کے ہاتھ میں تھی یہ فوج اروڑ سے اسی وقت چل پڑی تھی جب دیبل سے اروڑ اطلاع پہنچی تھی کہ عرب کی فوج دیبل کی طرف آ رہی ہے ،راجہ داہر نے اپنے بیٹے کو فوج دے کر روانہ کر دیا تھا ،اس فوج کو ابھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ دیبل کی فوج شکست کھا کر بھاگ گئی ہے۔
سالار بدیل نے اپنی پیش قدمی روک لی اور فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر کے پھیلا دیا، اب مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے کچھ کم ہوگئی تھی، پہلے روز کی لڑائی میں کئی سپاہی شہید اور زخمی ہوئے تھے، دشمن کو یہ برتری حاصل تھی کہ تمام تر فوج گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھی اور اس کے پاس ہاتھی بھی تھے، یہ صرف چار ہزار ہی تھے لیکن بہت نقصان کر سکتے تھے۔
سالار بدیل نے دشمن کو حملے میں پہل کرنے کا موقع دیا اور اپنے پہلوؤں کے دستوں کو اور زیادہ پھیلا دیا، ہندو سواروں نے بڑا ہی زور دار حملہ کیا مسلمانوں نے پہلوؤں میں جاکر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن داہر کا بیٹا جیسیہ چابکدستی اور مہارت سے اپنے دستوں کو لڑا رہا تھا ،سالار بدیل نے اپنے دستوں کو بڑی خوبی اور جاں بازی سے لڑایا یہ ایک خونریز معرکہ تھا ،ہاتھیوں کے ہودوں سے تیروں کی بوچھاڑیں گر رہی تھیں، جیسیہ ایک ہاتھی پر سوار تھا ،دن کے پچھلے پہر لڑائی میں مزید شدت پیدا ہوگئی، سالار بدیل اس ارادے سے آگے بڑھا کے جیسیہ کے ہاتھی تک پہنچ کر اسے گرا دے، سالار بدیل اپنے محافظوں کے ساتھ جیسیہ کے ہاتھی تک پہنچ گیا، سالار بدیل ہاتھی کی سونڈ کاٹنے کے لئے آگے ہوتا تھا تو ہاتھی کے ہودے سے برچھیاں آتی تھیں، ایک بار یوں ہوا کہ سالار بدیل ہاتھی کے سامنے چلا گیا پیچھے سے کسی مسلمان کی برچھی ہاتھی کو لگی ہاتھی بڑی زور سے چنگھاڑا سالار بدل جو گھوڑے پر سوار تھا ہاتھی کے قریب چلا گیا تھا ہاتھی کی چنگھاڑ پر سالار بدیل کا گھوڑا بدک گیا ۔بدکا بھی ایسا کے سالار بدیل گھوڑے سے گر پڑا، اس سے اچھا موقع اور کونسا ہو سکتا تھا اور سپاہیوں نے اسے گھیر لیا اور اسے اٹھنے کی بھی مہلت نہ دی اسے پکڑ لیا گیا کہ اسے جنگی قیدی رکھا جائے گا۔
چھوڑ دو اسے!،،،، راجہ داہر کے بیٹے جیسیہ نے کہا ۔۔۔اسے زندہ رہنے کا حق نہ دو ۔
سالار بدیل کو چھوڑ دیا گیا وہ ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ ہاتھی کے ہودے سے جیسیہ کی پرچھی آئی جو سالار بدیل کی گردن سے ذرا نیچے سینے میں اتر گئی، بدیل گرا اور شہید ہو گیا۔
یہ معرکہ شام تک لڑا گیا مگر مسلمان مرکزی کمان ختم ہو جانے کی وجہ سے اکھڑ چکے تھے، وہ کچھ دیر انفرادی طور پر لڑتے رہے اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جو کمان کے بغیر لڑنے کا نکلا کرتا ہے۔ مسلمان کٹنے اور بھاگنے لگے اور اندھیرا گہرا ہونے تک جو نکل سکے نکل گئے، اندھیرے کی وجہ سے جیسیہ نے ان کا تعاقب نہ کیا ورنہ سب مارے جاتے یا پکڑے جاتے اور ان کی باقی زندگی ہندوؤں کی غلامی میں گزرتی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
حجاج بن یوسف کو جب اطلاع ملی تو صدمے سے اس کا سر جھک گیا ،جیسے برچھی اس کے سالار بدیل بن تحفہ کے سینے میں اتری تھی وہ حجاج کے سینے سے بھی پار ہو گئی ہو، اس نے سر اٹھایا تو اس کا چہرہ گہرا سرخ ہو چکا تھا آنکھوں میں قہر اتر آیا تھا۔
بدیل بن طہفہ ایسا بزدل تو نہ تھا۔۔۔ حجاج نے غصے سے کہا ۔۔۔دشمن کی ایک فوج کو شکست دے کر دوسری سے ہار کیوں گیا۔
امیر عراق!،،،، ان تین عہدے داروں میں سے جو دیبل کے میدان جنگ سے واپس آئے تھے ایک نے کہا ۔۔۔تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، اور اللہ ابن طیفہ کی شجاعت اور شہادت قبول فرمائے ،وہ بزدل نہیں تھا وہ تو دشمن کے قلب میں چلا گیا تھا ،اس نے ہندوؤں کا حصار توڑ دیا تھا، اس کی تلوار نے ہندو سالار کے محافظوں کا مقابلہ کیا تھا ، پھر اس نے گھوڑے کو دشمن سالار کے ہاتھی کے اردگرد دوڑایا اور اوپر آتی برچھیوں سے جس طرح اپنے آپ کو بچا یا وہ بیان نہیں ہو سکتا، خدا کی قسم ابن طہفہ ڈرپوک نہیں تھا۔
کیا تو اس کے ساتھ تھا۔۔۔ حجاج نے پوچھا۔ ہاں امیر عراق!،،،،، اس عہدیدار نے کہا ۔۔۔میں جو بیان کررہا ہوں یہ میں نے اپنی آنکھوں دیکھا ہے، میں اس کے ساتھ تھا اسے پرچھی لگی تو میں اس سے ذرا ہی پیچھے تھا۔
اور تو بھاگ آیا ۔۔۔حجاج نے غصے سے کہا۔۔۔ اور تو اس کے ساتھ مرا نہیں، تو نے میرے شیر جیسے سالار کو اکیلا چھوڑ دیا۔
چچ نامہ میں مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف نے تلوار نکالیگا اور اس عہدیدار کا سرتن سے کاٹ دیا، یہ شخص بزدل نہ ہوتا تو اپنے سالار کے ساتھ جان دے دیتا۔۔۔ حجاج نے کہا۔ اور تلوار اپنے خادم کی طرف پھینک دی جو دروازے میں کھڑا تھا۔
اس دوسری شکست کی اطلاع بھی دمشق میں خلیفہ ولید بن عبدالملک کو پہنچ چکی تھی۔ خلیفہ کا پیغام آیا کہ حجاج دمشق آئے۔
امیرالمومنین!،،،، حجاج نے پیغام کا جو دراصل حکم تھا تحریری جواب دیا، اگر آپ مجھے اس جواب طلبی کے لئے بلا رہے ہیں کہ منع کرنے کے باوجود میں نے دوسری بار سندھ پر حملہ کرنے کے لیے فوج بھیجی اور شکست کھائی ہے اور اتنا زیادہ نقصان کیا ہے تو میں ابھی دمشق نہیں آؤں گا ،میں نے آپ سے پہلے حملے کی اجازت اس شرط پر لی تھی کہ اس حملے میں جو مالی نقصان ہو گا میں اس سے دوگنا خزانے میں جمع کراؤنگا۔
اب میں اس وقت امیرالمومنین کے سامنے آؤں گا جب میں اپنی شرط پوری کرنے کے قابل رہوں گا ،ہمارے لیے اب سندھ پر قبضہ پہلے سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے، میں نے فیصلہ کر لیا ہے اب میں اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ بھیجوں گا ،مجھے امید ہے کہ امیرالمومنین کی غیرت کا بھی یہی تقاضہ ہوگا ،اور مجھے روکا نہیں جائے گا، اور مجھے اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع دیا جائے گا۔
ولید بن عبدالملک حجاج بن یوسف کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا ،حجاج ایک طاقت بن چکا تھا اور حجاج کی فطرت میں جو قہر بھرا ہوا تھا اس سے خلیفہ ولید خائف بھی رہتا تھا ۔
اس دوران ایک سالار عامر بن عبداللہ حجاج کے پاس آیا۔
یا حجاج!،،،،، سالار عامر نے کہا ۔۔۔اگر آپ مجھے سندھ پر حملے کے لئے بھیجا جائے تو پہلی دو شکستوں کا انتقام بھی لوں گا، مال و اموال کا جو نقصان ہوا ہے وہ بھی پورا کروں گا ۔
اگر تیرے دل میں کوئی اور لالچ نہیں، اور اگر تو صرف سالاری کی خواہش نہیں رکھتا تو میں تیرے جذبے کی تعریف کروں گا۔۔۔ حجاج نے کہا۔۔۔ لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ مہم محمد بن قاسم سر کرے گا۔
حجاج بن یوسف کو سالار بدیل بن طہفہ سے بہت پیار تھا اور وہ بدیل کی شجاعت اور جارحانہ قیادت سے متاثر تھا۔ بدیل شہید ہو گیا تو حجاج نے ایک روز مسجد کے موذن کو بلایا۔ اللہ تیری آواز کو اور زیادہ دور تک پہنچائے، اور تجھ پر ابر رحمت برسائے، آج سے یوں کیا کر کہ ہر اذان کے بعد بدیل بن طہفہ کا نام اونچی آواز میں لیا کر تا کہ میں اسے بھول نہ پاؤں اور اس کے خون کا بدلہ لینے تک اس کے لیے دعا کرتا رہوں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
اس وقت محمد بن قاسم امیر فارس تھا اور شیراز میں مقیم تھا، کچھ دن پہلے حجاج نے اسے حکم بھیجا تھا کہ یہ کے علاقے میں جو قبائل سر کشی کر رہے ہیں وہ باتوں سے سیدھے راستے پر آنے والے نہیں ان پر باقاعدہ حملہ کرو ایسی سرکشی کو فوج کشی سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
محمد بن قاسم اس مہم کی تیاریاں مکمل کرچکا تھا کہ اس کے پاس حجاز کا ایک اور قاصد پہنچا، حجاج کا پیغام بالکل مختصر تھا۔
میرے بھائی کے بیٹے!،،، پیغام میں لکھا تھا۔۔۔ وہ وقت آگیا ہے جس وقت کے لئے میں نے تیری پرورش کی تھی، رے کی مہم کو ترک کردو شیراز میں ہی انتظار کرو ،میں فوج بھیج رہا ہوں سندھ پر حملہ کرنا ہے اور میں سندھ کو سلطنت اسلامیہ میں دیکھنا چاہتا ہوں، باقی ہدایات بعد میں دونگا سندھ میں ہماری دو بار ناکامی کی تفصیل قاصد سے سن لینا۔
حجاج کی تمام تر سرگرمیاں سندھ پر حملے کے لیے فوج تیار کرنے اور جنگی سازوسامان اور رسد اکٹھی کرنے پر مرکوز ہو گئی ،ایک جمعے کے روز اس نے بصرہ کے لوگوں کو اکٹھا کرکے خطبہ دیا تقریباً تمام مؤرخوں نے اس کے اس خطبے کو لفظ بلفظ لکھا ہے۔
اے لوگو!،،،،، حجاج نے خطبے میں کہا۔۔۔ اس حقیقت سے تم سب کو واقف ہونا چاہیے کہ وقت بدلنے والا ہے اور وقت دو دھاری تلوار کی مانند ہے، یہ کبھی ہمارے حق میں ہو جاتا ہے اور کبھی ہمارے خلاف رخ بدل لیتا ہے، وقت جب ہمارے حق میں ہو تو ہمیں سست اور بے خبر نہیں ہو جانا چاہیے ایسے وقت اپنی فوج کو تربیت دو اور اپنی تربیت بھی کرو ،اور جب وقت اچانک پلٹا کھا کر ہمارا دشمن ہو جائے تو اس کے لائے ہوئے مصائب اور مشکلات کا مقابلہ دلجمعی سے کرو، مصائب کو شکست دو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرو اس کی ذات باری کی نوازشوں کو یاد رکھو، ورنہ اللہ اپنی نعمتوں کے دروازے بند کر دے گا۔
میں اپنے سالار بدیل بن طہفہ کی یاد کو دل سے مٹا نہیں سکتا ،میرے کانوں میں اسکی پکار گونجتی رہتی ہے،،،،،،حجاج انتقام،،، حجاج انتقام،،،، میں ابن طہفہ کی پکار کا جواب دیتا رہتا ہوں کہ خدا کی قسم میں عراق کی ساری دولت ابن طہفہ کے خون کا بدلہ لینے پر صرف کر دوں گا، میرے قہر کا شعلہ انتقام لینے تک نہیں بجھے گا۔
اے لوگو!،،،، عرب کی آبرو ہی نہیں اسلام کی آن تمہیں پکار رہی ہے، سندھ کے ایک ہندو راجہ نے ہماری عورتوں اور ہمارے بچوں کو اپنی قید میں رکھ کر ہمیں للکارا ہے ،دشمن کو بتا دوں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ بہت دیر تک،،،، لبیک،،، لبیک،،، یا حجاج لبیک،،، کے نعرے گونجتے اور گرجتے رہے۔
*<==========۔======>*
قسط نمبر 09،08
حجاج کا قاصد جب محمد بن قاسم کے پاس شیراز پہنچا تو محمد بن قاسم نے بڑی تیزی سے پیغام قاصد کے ہاتھ سے لیا اور پڑھا اس کے چہرے کے تاثرات میں نمایاں تبدیلی آئی اس نے جھٹکے سے پیغام ایک طرف رکھ دیا جیسے پھینک دیا ہو۔
میرا چچا اتنا بوڑھا تو نہیں ہوا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ پھر اس کا دماغ سوچنے سے معذور کیوں ہو گیا ہے؟،،،، کیا سندھ پر حملے کے لئے کوئی اور سالار نہیں تھا؟،،،، کیا وہ بھول گیا ہے کہ میں سرکش قبائل کی سرکوبی کے لئے جا رہا ہوں؟،،،، میں نہ گیا تو کیا ان کی شرکشی بڑھ نہ جائے گی ؟،،،،کیا ابھی تک سندھ کے راجہ سے اپنے قیدی نہیں چھڑائے جا سکے؟
امیر شیراز!،،،،، قاصد نے کہا ۔۔۔آپ پر اللہ کی رحمت ہو ،دو سالار سندھ کی سرزمین پر اپنی جانیں دے چکے ہیں۔
سالار محمد بن قاسم نے چونک کر پوچھا ۔۔۔جلدی بتاؤ وہ کون تھے؟
پہلا سالار عبداللہ بن نبہان گئے اور شہید ہو گئے۔۔۔ قاصد نے کہا۔۔۔ اور ہمارے لشکر نے شکست کھائی پھر بدیل بن طہفہ گئے اور وہ بھی شہید ہوگئے اور ان کی شہادت ہماری شکست کا باعث بنی ،سالار عامر بن عبداللہ نے آپ کے چچا ابن یوسف امیر بصرہ کو کہا تھا کہ اب انھیں سندھ پر حملے کا موقع دیا جائے، لیکن امیر بصرہ نے کہا کہ سندھ کا فاتح میرے مرحوم بھائی کا بیٹا ہی ہو گا۔
محمد بن قاسم کے چہرے پر جو تبدیلی آئی تھی وہ کچھ اور ہی قسم کی تھی وہ اٹھ کر کمرے میں آہستہ آہستہ ٹہلنے لگا اس نے اپنے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ رکھے تھے اور اس کا سر جھکا ہوا تھا، قاصد کی نظریں اس پر لگی ہوئی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔
ابن نبہان اور ابن طہفہ شکست کھانے والے سالار تو نہیں تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے رک کر قاصد سے پوچھا۔
خدا کی قسم وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں آگے بڑھنے والوں میں سے تھے ۔۔۔قاصد نے کہا۔۔۔ دونوں دشمن کے قلب میں چلے گئے،
قاصد کو سندھ پر دونوں حملے کی جو تفصیلات معلوم تھیں وہ اس نے محمد بن قاسم کو سنائی اور اسے بتایا کہ حجاج بن یوسف کی جذباتی حالت کیا ہو رہی ہے۔
اس کی حالت ایسی ہی ہونی چاہیے۔۔۔ محمد بن قاسم نے قاصد سے کہا۔۔۔ ہم پر سونا اور کھانا حرام ہو جانا چاہیے، ہم پر اپنی بیویاں حرام ہو جانی چاہیے، کچھ دیر آرام کر لے اور واپس چلا جا میرے چچا سے کہنا کہ تیرے بھائی کا بیٹا تیرا عہد پورا کرے گا، اپنے قیدیوں کو میں ہی آزاد کراؤنگا، اور اگر اللہ مجھ پر راضی رہا تو سندھ کے سب سے اونچے مندر پر اسلام کا پرچم لہراؤنگا۔
قاصد کے جانے کے فوراً بعد محمد بن قاسم نے اپنے مشیروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ حجاج بن یوسف کا کیا حکم آیا ہے۔
امیر محترم!،،،،، ایک سالار نے کہا ۔۔۔حجاج کا یہ کہنا کہ رے پر فوج کشی روک دی جائے، کوئی اچھا فیصلہ نہیں، سندھ پر حملے کے لئے صرف آپ جا رہے ہیں آپ یہاں سے اپنے محافظ دستے کے سوا کوئی نفری نہیں لے جا رہے، اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی غیر حاضری میں ہم رے کی مہم جاری رکھیں۔
اگر ہم نے یہ مہم روک دی تو قبائل کی سرکشی بغاوت بن جائے گی ۔۔۔دوسرے سالار نے کہا۔۔۔ آپ کے جانے کے بعد ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو نہیں رہ سکتے۔
میں آپ کو اجازت دیتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن یہ سوچ لینا کہ حجاج سندھ میں دو دفعہ شکست کے بعد تیسری شکست کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرے گا، اور وہ بخشے گا بھی نہیں، آپ سب اسے جانتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس کی جذباتی حالت کیا ہو رہی ہوگی۔
اس کے باوجود ہم باغیوں کے خلاف اس جنگی کارروائی کو ملتوی نہیں کریں گے۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔
حجاج کے اوپر اللہ بھی ہے۔۔۔ دوسرے سالار نے کہا ۔۔۔ہمیں حجاج کی نہیں اللہ تعالی کی خوشنودی چاہیے۔
محمد بن قاسم کی اپنی جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہو گئی تھی جیسے وہ ان دونوں سالاروں کی بات دھیان سے سن ہی نہ رہا ہو، اس نے مکران اور سندھ کا نقشہ سامنے رکھ کر سالاروں کے ساتھ صلح مشورہ شروع کردیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
حجاج بن یوسف کی جذباتی کیفیت کا اندازہ کوئی کم ہی کر سکتا تھا اس پر تو دیوانگی کی کیفیت طاری تھی، وہ حجاج بن یوسف جو کسی کی غلط بات یا حرکت پر برہم ہوتا تو اس کی گردن اڑا دیتا تھا، اور کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے اپنی ہی قوم کے آدمیوں کو قتل کرنا اس کا شغل ہو، تاریخیوں سے یہی سامنے آتا ہے کہ حجاج ذرا سی بھی غلطی برداشت نہیں کرتا تھا اور انتہائی سخت سزا دیتا تھا ،اس کی تلوار نے دشمن کا اتنا خون نہیں بہایا تھا جتنا اس نے اپنی قوم کا بہا دیا تھا ،وہ حجاج کس طرح برداشت کرسکتا تھا کہ ایک ہندو راجہ بے گناہ اور نہتے مسلمان بحری مسافروں کو لوٹ بھی لے اور قید میں بھی ڈال دے، اس صورتحال میں پتہ چلا کہ حجاج غلطی کرنے والوں کے لئے ہی ظالم نہیں تھا بلکہ دشمن کے لئے وہ آسمانی بجلی تھا۔
بصرہ کی راتیں بھی جیسے بیدار اور سرگرم رہنے لگی تھیں، حجاج بھاگ دوڑ کے ساتھ ساتھ جو احکام دیتا تھا اس کی فوری تعمیل چاہتا تھا۔ شامی دستوں میں سے اس نے چھ ہزار پیادہ اور سوار خود جاکر منتخب کئے اور انہیں بصرہ میں جمع کر لیا ،یہ دستے دن رات تیغ زنی کی گھوڑ سواری اور تیر اندازی کی مشق کرتے تھے، سپاہی تھک کر چور ہو جاتے تھے لیکن حجاج کا حکم تھا کے تھکن سے کوئی گر پڑتا ہے تو اسے درّے مار کر اٹھاؤ،
اس ٹریننگ کی نگرانی وہ خود بھی کرتا تھا اور جب دیکھتا تھا کہ سپاہیوں کے جسم ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں تو انہیں اکٹھا کرکے کہتا تھا کہ اسلام اور عرب کی آبرو کے محافظ تم ہو، اور یہ سوچ لو کہ سندھ میں ایک ہندو راجہ نے جن عورتوں اور بچوں کو قید میں ڈال رکھا ہے وہ تمہاری مائیں ہیں، تمہاری بہنیں ہیں، تمہاری بیٹیاں ہیں۔
اور میں آج تیسری بار کہہ رہا ہوں۔۔۔ ایک روز حجاج نے اپنے دستوں سے کہا۔۔۔ کہ عرب کی ایک عورت نے جو اسلام کی بیٹی ہے مجھے پکارا ہے اور میں نے اس کی پکار کا جواب دیا ہے ،کیا میں اکیلا ان قیدیوں کو رہا کرا سکتا ہوں؟،،،، کیا تمہاری غیرت گوارا کرے گی کہ میں تمہاری ماؤں بیٹیوں کو بھول جاؤ ؟،،،،نہیں میں انہیں نہیں بھولوں گا میں اکیلا جاؤں گا.
ہم جائینگے۔۔۔ دستوں کی صفوں میں ایک دھماکا ہوا۔۔۔ ہم جائیں گے۔۔۔ یہ ایک گرج تھی۔ حجاج ان دستوں کو ایسے ہی جذباتی اور پرجوش طریقے سے خطاب کرتا تھا، اس کا اثر ایسا ہوتا تھا کہ دن بھر کی جنگی مشقوں کے تھکے ہوئے سپاہیوں کے چہروں پر تازگی آجاتی تھی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس کے ساتھ ساتھ بصرہ کے گھوڑ دوڑ کے میدان میں حجاج نے تیغ زنی اور کشتی وغیرہ کے مقابلوں کا اہتمام کر دیا تھا، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے عراق اور شام کی ساری آبادی اور تمام گھوڑے اور اونٹ بصرہ میں آگئے ہوں، حجاج نے دور دور تک منادی کرا دی تھی اور یہ اعلان کیا تھا کہ بصرہ میں گھوڑ دوڑ، نیزہ بازی، ہتھیاروں کی لڑائی، بغیر ہتھیاروں کی لڑائی اور کشتی وغیرہ کے مقابلے ہوں گے اور جو آدمی یہ مقابلے جیتے گے یا ان مقابلوں میں اچھے جنگجو ثابت ہونگے انہیں فوج میں بھرتی کیا جائے گا، عہدے بھی دیے جائیں گے اور انہیں باہر لڑائی پر بھیجا جائے گا جہاں وہ بے انداز مال غنیمت کے حق دار ہو گے۔
اس دور میں قومی جذبہ تو اپنی جگہ تھا ہی مال غنیمت کی کشش بھی موجود تھی، یہ فوجی قسم کا میلہ کئی دنوں سے چل رہا تھا اور روز بروز اس کی رونق بڑھتی جا رہی تھی۔ جو لوگ دور تھے وہ کچھ دنوں بعد پہنچے تھے اور ابھی تک چلے آ رہے تھے، حجاج نے یہ اہتمام بھی کیا تھا کہ بصرہ کے بہت سے آدمی مقابلوں میں شامل ہونے والوں کو اور تماشائیوں کو بتاتے رہتے تھے کہ سندھ کے ایک راجہ نے عرب کے بہت سے آدمیوں عورتوں اور بچوں کو قید میں ڈال دیا ہے اور ان کا بحری جہاز لوٹ لیا ہے، حجاج کے یہ آدمی لوگوں کو بھڑکاتے رہتے تھے اس طریقے سے لوگوں کے دلوں میں وہ جذبہ بیدار ہو گیا جو حجاج بیدار کرنا چاہتا تھا۔
دو تین مرتبہ اس نے خود مقابلے میں شریک ہونے والوں اور تماشائیوں سے خطاب کیا تھا، اور اس نے وہی الفاظ کہے تھے جو اس نے سالار بدیل بن طہفہ کی شہادت کی اطلاع کے بعد بصرہ کی جامع مسجد میں جمعہ کے خطبے میں کہے تھے۔
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ خلیفہ عبد الملک بن مروان ہر سال دمشق میں جنگی کھیلوں کے مقابلے کر آیا کرتا تھا اور یہ ایک ایسا میلہ ہوتا تھا جس میں دور دور سے لوگ مقابلوں میں شریک ہونے کے لئے اور دیکھنے کے لیے آتے تھے، حجاج بصرہ میں جب اسی قسم کے مقابلے کروا رہا تھا تو یہ وہی دن تھا جب دمشق میں خلیفہ نے مقابلے کروانے تھے، ہر سال انہی دنوں دور دراز کے علاقوں کے لوگ دمشق روانہ ہو جایا کرتے تھے اور دمشق کی چہل پہل میں اضافہ ہونے لگتا تھا ،لیکن اب دمشق کے جو باشندے تھے وہ بھی وہاں سے غائب ہو گئے تھے۔
مقابلوں کا پانچواں یا چھٹا دن تھا مقابلوں والے میدان کے ارد گرد تماشائیوں کا ایسا ہجوم تھا جیسے یہ انسانی سروں کا سمندر ہو ۔
چار چار گھوڑ سوار ایک دوسرے کو گھوڑے سے گرانے کی کوشش کر رہے تھے یہ بغیر ہتھیار کے لڑائی تھی جس میں اپنے حریف کو گھوڑے سے صرف گرانا ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے گھوڑے کو اپنے قبضے میں بھی لیا جاتا تھا، اس مقابلے میں سوار جان کی بازی تک لگا دیا کرتے تھے۔
چار چار سوار اس مقابلے میں الجھے ہوئے تھے، زمین سے اٹھتی ہوئی گرد آسمان کی طرف جارہی تھی تماشائیوں کا شوروغل زمین و آسمان کو ہلا رہا تھا ،حجاج بن یوسف ان گھوڑوں کے ارد گرد اپنا گھوڑا دوڑا رہا تھا مقابلے میں اس کی موجودگی کچھ اور ہی رنگ پیدا کر رہی تھی، مقابلے میں بے پناہ جوش و خروش پیدا ہوگیا تھا ،حجاج لڑنے والوں کی حوصلہ افزائی بڑی بلند آواز میں کر رہا تھا۔
حجاج کے عقب میں ایک گھوڑا اس طرح آیا جیسے مقابلہ کرنے والے گھوڑوں کی اڑائی ہوئی گرد میں سے نکلا ہو، اس کے سوار نے گھوڑا حجاج کے گھوڑے کے پہلو میں کر لیا۔
حجاج مقابلے میں اس قدر محو تھا کہ اسے محسوس ہی نہ ہوا کہ اس کے پہلو کے ساتھ ایک اور گھوڑا لگا ہوا چلا آ رہا ہے۔
کیا بصرہ کا امیر مجھے گھوڑے سے گرائے گا؟۔۔۔
حجاج کو للکار سنائی دی اس نے اس خیال سے چونک کر ادھر دیکھا کہ کون گھوڑ سوار اسے مقابلے کے لئے للکار رہا ہے، اس نے دیکھا کہ وہ خلیفہ ولید بن عبدالملک تھا۔
خلیفہ کو اپنے ساتھ دیکھ کر حجاج نہ حیران ہوا اور نہ اس نے پریشانی کا اظہار کیا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ خلیفہ دمشق سے آیا ہے، خلافت کا ہیڈکوارٹر دمشق میں تھا۔
حجاج نے اپنے گھوڑے کا رخ بدلا اور خلیفہ کے گھوڑے کو ایک طرف دھکیلتا دباتا ہوا کچھ دور لے گیا پھر وہ دونوں تماشائیوں میں سے نکل گئے اور کچھ دور جا کر رکے۔
معلوم ہوتا ہے ابن یوسف مجھے گھوڑے سے نہیں مسند خلافت سے گرانا چاہتا ہے۔۔۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے کہا۔۔۔ تم نے مجھے اتنا بھی نہ بتایا کہ بصرہ میں تم یہ اہتمام کر رہے ہو ،کیا تم نہیں جانتے تھے کہ انہی دنوں دمشق میں یہی مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں؟
خلیفۃ المسلمین!،،،، حجاج نے اپنی مخصوص رعب دار آواز میں کہا۔۔۔ آپ کے مقابلے ایک تفریح ہوتی ہے، اور یہ مقابلے جو میں کروا رہا ہوں یہ ایک ضرورت ہے ،میں سندھ پر حملے کے لئے ایک فوج تیار کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے مخبروں نے آپ کو ساری صورت حال سے آگاہ کردیا ہے، نہ کرتے تو اس وقت آپ بصرہ میں نہ ہوتے۔
اور تم نے مجھے رسمی طور پر بھی اطلاع نہ دی کہ ہماری فوج دوسری بار سندھ سے پسپا ہو چکی ہے ۔۔۔خلیفہ ولید نے کہا۔۔۔ اب تم تیسرے حملے کی تیاری کر رہے ہو، کیا یہ شرمساری ہے جس نے تمہیں مجھ تک آنے سے روکے رکھا ہے؟
خلیفۃ المسلمین!،،،، حجاج نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ۔۔۔میں اگر شرمسار ہوں تو صرف اللہ کے سامنے، آپ اس دنیا میں اس وقت آئے تھے جب میں جوان ہو چکا تھا ،جو میں جانتا ہوں وہ آپ نہیں جانتے اور جو میں کر سکتا ہوں وہ آپ نہیں کرسکتے، آپ کی نظر خلافت کی مسند تک محدود ہے، میری نظر اسلام اور عرب کی آبرو کو دیکھ رہی ہے، میں جانتا ہوں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں آپ یہ جانتے ہیں کہ میں حملے سے پہلے آپ سے باقاعدہ اجازت لوں، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ اجازت نہیں دیں گے ،میں نے آپ سے وعدہ کر رہا ہے کہ سندھ کی لڑائی میں جو خرچ آئے گا میں اس سے دو گنا مال بیت المال میں جمع کراؤنگا۔ اور اب سندھ کی سرزمین آپ کے حضور پیش کروں گا۔
حجاج!
ابن عبدالملک!،،،،، حجاج نے اسے کچھ کہنے نہ دیا اور بولا اگر میں نے اپنے قیدیوں کو رہا نہ کروایا تو کل ہمارا یہی دشمن یہاں آکر ہماری بیٹیوں کو اٹھا کر لے جائے گا، اور اگر ہم نے یہ دو شکست ہضم کر لی تو پھر آپ خلافت کی مسند پر نہیں دشمن کے قید خانے میں بیٹھے ہوئے ہونگے۔
خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب حجاج بن یوسف کے تیور دیکھے اور اس کی باتیں سنی تو اس کی زبان بند ہو گئی، دراصل خلافت اسلامیہ اس دور میں داخل ہو چکی تھی جب قومی غیرت سمٹ سکڑ کر ایوان خلافت تک محدود رہ گی تھی، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خلیفہ سندھ پر حملے کے حق میں نہیں تھا، آرام اور اطمینان سے حکومت کرنا چاہتا تھا ،یہ تفصیل سے بتایا جاچکا ہے کہ حجاج بن یوسف بڑا سخت گیر آدمی تھا اس کا نام سن کر اچھے اچھے جابر مسلمانوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا ،لیکن دشمن پر تو عذاب الہی بن کر نازل ہوتا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷*
شامی فوج میں سے جو دستے حجاج نے سندھ پر حملے کے لیے منتخب کیے تھے ان کی نفری چھ ہزار تھی ،جن میں اکثریت گھوڑ سواروں کی تھی یہ سب جوان آدمی تھے ایک بھی ادھیڑ عمر سپاہی نہیں لیا گیا تھا ،اس کے علاوہ جو فوج حجاج نے جنگی کھیلوں کے مقابلے میں سے تیار کی تھی اس کی نفری کسی تاریخ میں نہیں ملتی غالباً وہ بھی چھ یا سات ہزار تھی یہ رضاکار فوج تھی۔
حجاج نے اس فوج کی ہر ایک ضرورت اس طرح پوری کی جیسے یہ سپاہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے افراد تھے، مثلا سوئی دھاگا تک ہر ایک سپاہی کو دیا گیا تھا ،فوج کی خوراک کا انتظام یہاں تک کیا گیا کہ عرب کے لوگ کھانے کے ساتھ سرکہ زیادہ استعمال کرتے تھے بلکہ اس کو اپنی مرغوب غذا سمجھتے تھے، اتنا زیادہ سرکہ فوج کے ساتھ نہیں بھیجا جاسکتا تھا ،حجاج نے یہ انتظام کیا کہ روئی کے بڑے گٹھے سرکہ میں ڈبو دیے جب روئی نے مکمل طور پر سرکے کو چوس لیا تو یہ گٹھے خشک ہونے کے لیے رکھ دیے گئے اس نے سالاروں اور کمانڈروں کو بتایا کہ ہر کھانے کے ساتھ ضرورت کے لئے روئی نکال کر پانی میں ڈوبئی جائے اور اسے نچوڑ لیا جائے۔
فوجیوں کے ذاتی اخراجات کے لیے حجاج نے تیس ہزار دینار الگ ساتھ دیئے اور حکم دیا کہ سپاہی کی ضرورت فراخدلی سے پوری کی جائے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حجاج نے فوج کی ضروریات کا خیال حد سے زیادہ رکھا تھا ،سرکے والی روئی کے گٹھے اور سامان خوردونوش بحری جہازوں پر لادا گیا، چونکہ فوج میں پیدل دستے بھی تھے اس لیے ان کی سواری کے لئے چھ ہزار تیزرفتار اونٹنیاں ساتھ بھیجی گئی کئی ہزار اونٹ الگ تھے جن پر ضرورت کا سامان لادا گیا تھا۔
بحری جہازوں سے جو سامان بھیجا جا رہا تھا اس میں منجیقیں بھی تھیں ان میں ایک منجیق اتنی بڑی تھی کہ اسے پانچ سو آدمی کھینچتے تھے تو اس سے پتھر دور جاتا تھا، یہ منجیق اتنی وزنی پتھر پھینکتی تھی جسے کئی آدمی دھکیل کر منجیق تک لاتے تھے، اس منجیق سے پھینکا ہوا پتھر قلعے کی دیوار میں شگاف کردیتا تھا، اس کا نام عروس تھا۔
جب یہ فوج بصرہ سے شیراز کو روانہ ہوئی تو بصرہ کے تمام لوگ اور گردونواح کے لوگ بھی راستے کے دونوں طرف اکٹھے ہوگئے تھے، ان میں عورتیں بھی تھیں، نوجوان لڑکیاں اور بچے بھی تھے ،حجاج نے فوج میں اور لوگوں میں جیسے آگ بھر دی تھی، لوگوں کے نعروں اور دعاؤں میں مجاہدین کا لشکر بصرہ سے روانہ ہوا، حجاج بن یوسف بہت دور تک لشکر کے ساتھ گیا آخر ایک بلند جگہ رک گیا لشکر کے آخری سپاہی کے گزر جانے تک حجاج ہاتھ ہوا میں ہلاتا رہا ،لوگ لشکر کو جاتا دیکھتے رہے پھر یہ لشکر اپنی ہی اڑائی ہوئی گرد میں چھپ گیا اور لوگ بہت دیر اس گرد کو آسمان کی طرف جاتا دیکھتے رہے، ان کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں ،بوڑھوں اور بچوں کی دعائیں ان کے ساتھ گئی، اس لشکر کا سالار جہم بن زحر جعفی تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم بڑی بیتابی سے اس لشکر کے انتظار میں تھا ،اس کی بیتابیوں کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات گھوڑے پر سوار ہوتا اور بصرہ سے آنے والے راستے پر دور تک چلا جاتا، ایک روز وہ اپنے کام میں مصروف تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور اس کے کانوں میں وہ آواز پڑی جس کے انتظار میں وہ بے چین اور بے قرار تھا۔
افق سے گرد اٹھ رہی ہے۔۔۔ اطلاع دینے والے نے کہا۔
خدا کی قسم یہ اندھی نہیں گھوڑا تیار کرو۔۔۔ محمد بن قاسم نے حکم دیا ۔۔۔اور دوڑتا ہوا باہر نکلا۔
وہ اچھل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اس نے ایڑ لگا دی ،اس کا محافظ دستہ دستور کے مطابق اس کے پیچھے چلا گیا اس طرح محمد بن قاسم نے بہت دور جا کر لشکر کا استقبال کیا ،اب محمد بن قاسم اس لشکر کا سالار تھا۔ سالار جہم بن زحر جعفی اس لشکر کے ساتھ ہی رہا لیکن اسے محمد بن قاسم کے ماتحت رہنا تھا۔
حجاج نے سندھ تک آپ نے فوج کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کا یہ انتظام کیا تھا کہ مکران تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں قائم کردی گئیں تھیں جن میں تیز رفتار گھوڑے اور اونٹ تیار رکھے گئے تھے، یہ آنے جانے والے قاصدوں کے لئے تھے تاکہ وہ انتہائی تیز رفتار پر جائیں اور ہر چوکی سے گھوڑا یا اونٹنی تبدیل کریں۔
مورخوں کے اندازے کے مطابق بصرہ سے دیبل تک پیغام ایک ہفتے سے کم دنوں میں پہنچ جاتا تھا، جبکہ عام مسافروں کے لیے یہ مسافت کم از کم ڈیڑھ مہینے کی تھی۔
سالار جہم بن زحر جعفی کی زبانی حجاج نے محمد بن قاسم کو جو ہدایات بھیجی تھی ان میں ایک یہ تھی کہ ابن قاسم حجاج کی ہدایت کے بغیر حملہ نہ کرے، دیبل تک سندھ کے علاقے میں دو تین چھوٹے چھوٹے قلعے تھے انھیں تہ تیغ کرکے محمد بن قاسم کو دیبل تک پہنچنا تھا ،لیکن دیبل سے دور حجاج کی ہدایت کا انتظار کرنا تھا ،جس روز یہ لشکر شیراز پہنچا تو اس سے اگلے ہی دن محمد بن قاسم نے الصبح مکران کی طرف کوچ کر دیا ،مکران کا وہ حصہ جو مسلمانوں کے قبضے میں تھا اس کا امیر محمد بن ھارون تھا اسے پہلے اطلاع دی جاچکی تھی کہ لشکر آ رہا ہے۔ تاریخیوں میں لکھا ہے کہ جب لشکر مکران پہنچا تو امیر محمد بن ھارون اپنے محافظ دستے کے ساتھ راستے میں کھڑا تھا لیکن وہ گھوڑے کے اوپر اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ دونوں ہاتھ زین پر رکھے آگے کو جھکا ہوا تھا۔
محمد بن قاسم کو قدرتی طور پر توقع ہو گئی کہ امیر مکران گھوڑا دوڑاتا اس تک پہنچے گا لیکن اس کا گھوڑا آہستہ آہستہ چلا، محمد بن قاسم کو کچھ شک ہوا اس نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور محمد بن ھارون تک پہنچا جب ہاتھ ملایا تو محمد بن قاسم نے دیکھا کہ محمد بن ہارون کا ہاتھ کانپ رہا ہے اسے بڑا تیز بخار تھا ،اسے باہر نکلنا ہی نہیں چاہیے تھا لیکن اپنے لشکر کے استقبال کے لئے وہ باہر نکل آیا اس کے بعد محمد بن ھارون صحت یاب نہیں ہو سکا وہ بیماری کی حالت میں ہی محمد بن قاسم کا ساتھ دیتا رہا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ادھر محمد بن قاسم اپنی فوج لے کر مکران پہنچا ادھر بحری جہاز اور بڑی بادبانی کشتیاں مکران کے ساحل پر آ لگی، اس قدر سامان تھا جسے اتارنے کے لیے کئی دن درکار تھے۔ متعدد جہازوں سے اس خیال سے سامان نہ اتارا گیا کہ ان جہازوں کو دیبل تک لے جانا تھا۔ سامان کی چھانٹی اور تقسیم بھی بہت دنوں کا کام تھا۔
اتنے زیادہ جہاں جو کشتی اور ہزارہا اونٹوں اور گھوڑوں اور اتنی زیادہ فوج کو چھپایا نہیں جاسکتا تھا، یہ توقع ختم ہو چکی تھی کہ دشمن کو بے خبری میں جا دبوچیں گے۔
وہ پانچ چھ سو باغی عرب جنہیں راجہ داہر نے مکران میں آباد کر دیا تھا کہیں دور نہیں تھے وہ مکران کے ہی ایک علاقے میں موجود تھے اس علاقے میں ہندو بھی رہتے تھے لہذا یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ راجہ داہر بے خبر رہے گا وہ اپنی راجدھانی اروڑ (موجودہ روہڑی) میں تھا اور اسے یہ خطرہ ہو ہر وقت نظر آتا رہتا تھا کہ عرب سے مسلمان آئیں گے اور اب وہ زیادہ جنگی طاقت کے ساتھ آئیں گے وہ چوکنا تھا اور اس نے دیبل میں مقیم اپنی فوج کو چوکس رکھا ہوا تھا۔
محمد بن قاسم اس علاقے میں اجنبی تھا ،اس علاقے سے وہ واقف نہیں تھا، ریگزار ہونے کی وجہ سے کچھ اپنائیت سی نظر آتی تھی، عرب کے گھوڑے اور اونٹ ریتیلی زمین کے عادی تھے لیکن اس علاقے سے واقفیت ضروری تھی، رات کے وقت محمد بن قاسم مکران کے امیر محمد بن ھارون کے پاس بیٹھا سندھ کا نقشہ دیکھ رہا تھا ،امیر مکران اسے اہم مقامات اور فاصلے بتا رہا تھا۔
ابن ہارون!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں نے اسی عمر میں کئی دشمن دیکھ لئے ہیں، اور میں نے لڑائیوں کا تجربہ بھی حاصل کر لیا ہے، لیکن ابھی غداروں سے پالا نہیں پڑا، اس علاقے میں ایک دو نہیں سینکڑوں غدار موجود ہیں۔
کیا تم ان عربوں کی بات کر رہے ہو جنہیں راجہ داہر نے پناہ میں رکھا ہوا ہے۔۔۔ امیر مکران محمد بن ہارون نے پوچھا۔
میں صرف بات نہیں کررہا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں پریشان ہوں ان کی تعداد زیادہ ہے اور یہ سب جنگجو ہیں یہ راجہ داہر کا ہی ساتھ دیں گے، اس نے ان پر بہت بڑا احسان کیا ہے ۔
پہلی دونوں لڑائیوں میں ہمیں کہیں سے بھی اطلاع نہیں ملی کہ ان میں سے کوئی عرب داہر کی طرف سے لڑائی میں شریک ہوا ہو۔۔۔ محمد بن ہارون نے کہا ۔۔۔ہمارے جاسوسوں نے بھی کوئی ایسی خبر نہیں دی، انہوں نے یہ بتایا تھا کہ داہر نے علافی کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی لیکن علافی رضامند نہیں ہوا تھا ۔
آپ پر اللہ کی رحمت ہو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔آپ کی عمر اور تجربے کو دیکھتے ہوئے میں آپ کی بات کو تسلیم کرتا ہوں، لیکن اس پر بھی غور کریں کہ اس سے پہلے عرب سے اتنی فوج نہیں آئی تھی، میں حیران ہوں کہ امیر عراق وشام حجاج بن یوسف نے سالار عبداللہ بن نبہان، اور سالار بدیل بن طہفہ کو اتنی تھوڑی فوج کیوں دی تھی، اب اتنی زیادہ فوج کو دیکھ کر راجہ داہر ادھر ادھر سے مدد حاصل کرے گا ،مدد کے سلسلے میں وہ ان عربوں کو ضرور پکارے گا اور انہیں کسی نہ کسی طرح رضامند کر لے گا کہ اس کی مدد کو آئیں۔
کیا ہم علافیوں کو راجہ داہر سے دور رکھنے کی کوشش کرسکتے ہیں؟،،،،، امیر مکران نے کہا ۔۔۔وہ اس کی ایک لڑائی لڑ چکے ہیں، ایک بڑا طاقتور راجہ راجہ داہر کا دشمن تھا جس نے اس پر حملہ کیا تھا اگر ہمارے یہ عرب بھائی اس کی مدد کو نہ پہنچتے تو ہمارے بہری مسافروں کو لوٹنے اور قید کرنے کے لیے داہر موجود نہ ہوتا ۔
کیا تم پسند کرو گے کہ محمد حارث علافی کو یہاں بلایا جائے؟
کیا اسے بلایا جاسکتا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا.
بلانے پر شاید نہ آئے۔۔۔ محمد بن ہارون نے کہا ۔۔۔میں اسے خفیہ طور پر پیغام بھیج سکتا ہوں اور ایک جگہ بتا سکتا ہوں جہاں ہم دونوں چلے جائیں گے، یا تم اکیلے چلے جانا اور اس کے ساتھ بات کر لینا۔
میں تو وہاں تک جانے کے لئے تیار ہو جہاں وہ رہتا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
نہیں ابن قاسم !،،،،،محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ تم بڑی جرات والے جنگجو اور بڑے قابل سالار ہو سکتے ہو، لیکن اپنے جس بھائی کے دل میں دشمنی ہو اس کے متعلق یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس وقت وہ کیا کر بیٹھے گا، اسے ایسی جگہ بلانے کی کوشش کریں گے جو نہ ہماری جگہ ہوگی نہ آسکی ۔
امیر مکران نے اپنے ایک آدمی کو بلایا۔
ابن ہرثمہ !،،،،،محمد بن ہارون نے اس آدمی سے کہا ۔۔۔یہ کام تم ہی کرسکتے ہو، بنو اسامہ کے سردار حارث علافی کو ایک پیغام دینا ہے پیغام دینا،،،،،پیغام دینا تو کوئی مشکل نہیں اصل کام یہ ہے کہ اسے ایک جگہ بلانا ہے۔
بلانے کا مقصد کیا ہے ؟،،،،امیر مکران۔
اسے کہنا محمد بن ھارون تمہیں ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔ امیر مکران نے کہا۔
کیا میں اسے یہ بتا سکتا ہوں کہ عرب سے فوج آئی ہے اور اس کے متعلق وہ کوئی بات کرے تو میں کیا کہوں؟
اگر اسے معلوم ہے تو یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا کہ فوج نہیں آئی۔۔۔ محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ فوج کیوں آئی ہے ،تو خود عقل والا ہے ہم اسے ملنا چاہتے ہیں ہمارا مقصد وہ خود سمجھ لے گا، وہ دانش مند آدمی ہے، محمد بن ہارون نے ابن ہرثمہ کو ایک جگہ بتائی اور کہا کہ علافی کل عشاء کی نماز کے بعد وہاں پہنچ جائے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کو مکران میں آئے ہوئے آٹھ روز گزر چکے تھے بحری جہازوں اور کشتیوں سے سامان اتارا جا چکا تھا، اور دیبل پر حملے کی صورت میں جس سامان کی ضرورت تھی وہ مطلوبہ جہازوں پر لادا جا رہا تھا، محمد بن قاسم نے حرب و ضرب کے اسلامی اصولوں کے مطابق جاسوس ان علاقوں میں بھیج دیے تھے جہاں پیش قدمی اور حملے کرنے تھے۔ فوج حملے کی تیاریاں کر رہی تھی مکران کے اس علاقے میں جہاں عرب کی فوج اتری تھی بہت ہی گہما گہمی تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے راتوں کو بھی سب جاگتے رہتے ہیں۔ راجہ داہر دربار لگائے بیٹھا تھا کہ دربان نے اندر آ کر اطلاع دی کہ ایک شتر سوار کوئی ضروری خبر لے کر آیا ہے ،اسے فوراً اندر بلا لیا گیا وہ آدمی دوڑتا ہوا اندر آیا اور دستور کے مطابق فرش پر دوزانو ہوا راجہ کے آگے ہاتھ جوڑے اور جھک کر دوہرا ہو گیا۔
کیا خبر لائے ہو؟
پانی۔۔۔۔ ایک گھونٹ پانی۔۔۔ خبر لانے والے کے منہ سے پوری طرح آواز بھی نہیں نکل رہی تھی اس کا منہ پیاس سے کھل گیا تھا۔
مہاراج کی جئے ہو ۔۔۔اس آدمی نے پانی پی کر کہا ۔۔۔وہ فوج نہیں انسانوں گھوڑوں اور اونٹوں کا دریا ہے جو عرب سے آیا ہے اور مکران میں آ روکا ہے، سمندری جہازوں سے جو سامان اترا ہے اس کا کوئی حساب اور شمار نہیں ،فوج کی جو تعداد ہے وہ میں بتا نہیں سکتا سمندر پر جہاز اور کشتیاں اتنی زیادہ ہے کہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔
یہ ایک آدمی سرحدی چوکی سے آیا تھا اس کی چوکی سندھ اور مکران کی سرحد پر تھی اسے کسی مسافر نے بتایا تھا کہ مکران میں عربوں کی فوج اتر رہی ہے ،وہ خود بھیس بدل کر اور اونٹ پر سوار ہو کر وہاں گیا اور اپنی آنکھوں دیکھا وہ حیرت زدہ ہی نہیں خوف زدہ بھی تھا ،اسے وہاں پتہ چلا تھا کہ خشکی کے راستے بھی فوج آئی ہے اور سمندر سے بھی، وہ الٹے پاؤں چلا اور اپنی چوکی پر صرف یہ اطلاع دی کہ وہ اروڑ جا رہا ہے اس نے اونٹ دوڑا دیا راستے میں اس نے دو اونٹ بدلے اور کم سے کم وقت میں اروڑ پہنچا، اس نے داہر کو جو رپورٹ دی اس میں مبالغہ بھی تھا۔
راجہ داہر نے دربار برخاست کیا اور اپنے فوجی اور دیگر مشیروں کو بلایا جن میں اس کا دانشمند وزیر بدہیمن خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔
داہر نے انہیں بتایا کہ عرب ایک بار پھر حملے کے لیے آئے ہیں، اسے جو تفصیلات معلوم ہوئی تھی وہ اس نے انہیں بتائیں۔
ہمارے ہاتھوں دو سالار مروا کر اور وہ شکستیں کھا کر ان عربوں کو ہماری طاقت کا اندازہ ہوا ہے۔۔۔۔۔راجہ داہر نے اپنے مشیروں وغیرہ سے کہا ۔۔۔اسی لئے اب یہ زیادہ فوج اور زیادہ سامان ساتھ لائے
ہیں ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے، انہیں موت بار بار یہاں لے آتی ہے، اب ایک بڑی فوج کو بازی پر لگانے آئے ہیں ہم یہ بازی بھی جیت لیں گے،،،،، تم سب کیا مشورہ دیتے ہو؟
اس کے فوجی مشیروں سرداروں نے جو مشورے دیے ان میں ٹھوس مشورے کم تھے اور دیسی ڈھینگیں زیادہ تھیں، جیسی داہر نے ماری تھی، انھیں ایک احساس تو یہ تھا کہ لڑنا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی تھا کہ اپنے راجہ کی خوشنودی کی خاطر اس کی ہاں میں ہاں بھی ملانی ہے، اس کا صرف ایک وزیر بدہیمن تھا جو سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ،جب سب باری باری بول چکے تو بدہیمن بولا۔
میدان جنگ میں تلوار چلا کرتی ہے تکبر نہیں۔۔۔ بدہیمن نے کہا۔۔۔ مہاراج جہاں تیر اڑا کرتے ہیں وہاں تکبر کی اڑان ختم ہوجاتی ہے، ہرقل نے بھی مسلمانوں کو کمزور سمجھا تھا یزدگرد نے بھی کہا تھا کہ عرب کے مسلمان اس کے گھوڑے تلے کچلے جائیں گے ،یہ کوئی فرضی قصہ کہانی نہیں کہ مسلمانوں نے اتنی بڑی دو طاقتوں کا نام و نشان مٹا دیا ہے۔
ہاں !،،،،،راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں مسلمانوں نے ہندوستان کے ہاتھیوں کو بھگا دیا تھا، کیا نام تھا اس جگہ کا؟
قادسیہ!،،،،، وزیر بدہیمن نے کہا ۔۔۔یہ مسلمان ان ہی کی اولاد ہیں یہ ہماری فوج کو بھی بھگا سکتے ہیں، اب اگر وہ زیادہ فوج لائے ہیں تو اس فوج کا کمانڈر بھی زیادہ تجربے کار ہو گا ،ہوسکتا ہے حجاج بن یوسف خود کماندر ہو جسے وہ سالار کہتے ہیں، کیا مہاراج ان عربی مسلمانوں سے سنا نہیں کہ حجاج کتنا جابر آدمی ہے ،اس کے متعلق ان عربوں نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ خلیفہ کو تو کچھ سمجھتا ہی نہیں وہ اپنا قانون اور اپنا حکم چلاتا ہے۔
اگر وہی سپہ سالار ہوا تو کیا ہو گا؟،،،،، راجہ داہر نے پوچھا۔۔۔ میں اپنی فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھوں گا۔
اور یہ بھی سوچ لیں مہاراج !،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ لڑائیاں صرف میدان میں نہیں لڑی جاتیں، ہر لڑائی تیر اور تلوار سے ہی نہیں لڑی جاتی ،ہر لڑائی میں فتح طاقتور کی ہی نہیں ہوتی، اور کمزور کی قسمت میں ہار نہ ہی نہیں لکھا ہوتا ،کمزور چاہے تو طاقتور کو اپنے پاؤں میں بٹھا سکتا ہے۔
وہ کیسے؟،،،،، راجہ داہر نے کچھ حیران سا ہو کر پوچھا۔۔۔ اور جواب کا انتظار کیے بغیر بولا۔۔۔ اگر ہمارا وزیر یہ چاہتا ہے کہ ہم میدان میں نہ اترے اور کوئی فریب کاری کرکے دشمن کو شکست دے دیں تو ہمارا خون ہمیں اس کی اجازت نہیں دے گا ،ہم میدان میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑیں گے اور تلوار کے جوہر دکھائیں گے، ہم نے جنہیں دو بار گھٹنوں بٹھایا ہے تیسری بار بھی انہیں بھگادینگے۔
لیکن اب بات کچھ اور ہے مہاراج!،،،،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔ اگر حجاج اس لشکر کا سپہ سالار ھے تو میدان جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوگا ،میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مہاراج اپنے محل میں بیٹھے رہیں گے، لڑنا تو ہے ہی فوجیں آمنے سامنے ضرور آئے گی، لیکن دشمن کو کمزور کر کے سامنے لایا جائے تو اس کی گردن جلدی کٹ جائے گی۔۔۔۔۔مہاراج پوچھتے ہیں وہ کیسے۔۔۔۔ وہ اس طرح کے ایک کمزوری ایسی ہوتی ہے جو طاقتور کو کمزور اور کمزور کو طاقتور بنا دیتی ہے، جس طرح راجہ راج سنگھاسن سے جدا نہیں ہوسکتا، اسی طرح مرد عورت کے بغیر نہیں رہ سکتا ،اور جس طرح بادشاہ اپنے تاج میں دنیا کا سب سے زیادہ قیمتی ہیرا جوڑنا چاہتا ہے اس طرح ہر مرد دنیا کی سب سے زیادہ حسین عورت کو اپنی ہوس کی تسکین کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔
بات ذرا صاف کرو ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اور بات وہ کرو جو عمل میں آ سکتی ہو۔
عورت ایک نشہ ہے۔۔۔ داہر کے دانشمند وزیر بدہیمن نے کہا۔۔۔ دولت اس نشے کو اور تیز کرتی ہےاور جب حکومت مل جاتی ہے تو نشہ مکمل ہو جاتا ہے، اور یہ نشہ انسان کی عقل اور غیرت کو سلا دیتا ہے ،پانچ سو عربی مسلمان ایک مدت سے ہمارے ساتھ ہیں میں نے انہیں بڑی غور سے دیکھا ہے ان کی فطرت کی گہرائی میں جاکر جانچا ہے، اور ان سے ان حاکموں کے متعلق معلوم ہوا ہے، جو عرب کے حکمران ہیں، میں نے ان میں یہ کمزوری دیکھی ہے تلوار سے پہلے انہیں عورت سے مارو انہیں دولت سے اندھا کرو۔
کیا تم حجاج اور اس کے لشکر کی بات کر رہے ہو؟،،،،،، راجہ داہر نے پوچھا۔
نہیں !،،،،بدہیمن نے جواب دیا ۔۔۔میں ان عربوں کی بات کررہا ہوں جنہیں آپ نے اپنے سائے میں رکھا ہوا ہے ،مہاراج پچھلی لڑائی میں دیکھ چکے ہیں کہ ان عربوں نے عربوں کے خلاف لڑنے سے انکار کردیا تھا۔
انکار کردیا تھا حالانکہ ان کی اس قبیلے کے ساتھ دشمنی ہے جس قبیلے کے قبضے میں خلافت ہے، یہ لوگ بنو اسامہ کے ہیں اور خلیفہ بنو امیہ سے تعلق رکھتا ہے، اس دشمنی کے باوجود انہوں نے لڑنے سے انکار کیا اب ضرورت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ان کے خلیفہ کے قبیلے کی اور حجاج کی دشمنی کو ہوا دے کر بھڑکایا جائے، اور کوئی طریقہ اختیار کیا جائے کہ ان کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے۔
اب مجھے وہ طریقہ بتاؤ جن سے میں ان باغی عربوں کے خون کو گرما دوں۔۔۔ داہر نے کہا۔ مہاراج کی جے ہو!،،،،، بدہیمن نے کہا ۔۔۔یہ کام میرا ہے، مہاراج اپنی فوج کو تیار کریں۔ مبدہیمن نے کچھ دیر سوچ کر کہا ۔۔۔لڑائی کے داؤ پیچ مہاراج خود بہتر سمجھتے ہیں، لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ کہیں بھی قلعے سے باہر فوج نکال کر نہ لڑا جائے ،مسلمان دیبل پر آئیں گے مہاراج کی راجدھانی کی اتنی قیمت نہیں جتنی دیبل کی ہے، کیونکہ دیبل بندرگاہ ہے، مکران سے دیبل کے راستے میں دو قلعے ہیں مسلمان انہیں سر کریں گے اور وہ سر کر لیں گے، لیکن اس کا فائدہ مہاراج کو پہنچے گا، وہ اس طرح کے وہاں مسلمانوں کی طاقت صرف ہو گی اور انہیں بہت دن محاصرے میں بیٹھنا پڑے گا اس سے یہ ہوگا کہ ان کے پاس رسد اور خوراک کا جو ذخیرہ ہے وہ کم پڑ جائے گا ،اس طرح دیبل تک پہنچتے ان کی آدھی طاقت ضائع ہو جائے گی، وہ دیبل کو محاصرے میں لیں تو بھی مہاراج اپنی راجدھانی میں رہیں ،فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمان جب یہاں تک پہنچیں گے تو وہ تھکن سے چور ہوں گے، اس وقت ہم باہر سے ان عربوں سے حملہ کروائیں گے جو مکران میں آباد ہیں۔
راجہ داہر کے وزیر بدہیمن کے مشوروں میں اتنا وزن تھا کہ داہر اور اس کے سالار اسی وقت مسلمانوں کا حملہ روکنے کا پلان بنانے لگے، اس میں انہوں نے زیادہ زور ان زمین دوز اور تخریبی طریقوں پر صرف کیا جو بدہیمن کے دماغ میں آرہے تھے، بدہیمن زمین کے نیچے سے وار کرنا چاہتا تھا ،اس دوران راجہ داہر نے اپنے ایک سالار سے کہا کہ وہ عقلمند قسم کے آدمی مکران بھیجے جو عربوں کی فوج کی صحیح نفری معلوم کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ عربوں کا سپہ سالار کون ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷÷=÷=÷*
امیر مکران محمد بن ھارون، اور محمد بن قاسم کو توقع نہیں تھی کہ حارث علافی ان سے ملنے پر راضی ہوجائے گا ،لیکن یہ ایک معجزے سے کم نہ تھا کہ علافی نے نہ صرف یہ کہ مقررہ وقت اور جگہ پر آنے کا وعدہ کیا بلکہ جو آدمی ملاقات کا پیغام لے کر گیا تھا اسے علافی نے عزت و احترام سے رخصت کیا تھا۔
محمد بن ھارون اور محمد بن قاسم چند ایک محافظوں کو ساتھ لے کر گئے، یہ مشورہ محمد بن ھارون کا تھا کہ محافظوں کو ساتھ رکھنا چاہیے وہ کہتا تھا علافیوں کے ساتھ دشمنی اس قسم کی ہے کہ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، محمد بن قاسم اکیلا جانا چاہتا تھا۔
جب وہ ملاقات کی جگہ پہنچے تو وہاں حارث علافی اکیلا کھڑا تھا ،وہ نخلستان کی قسم کی جگہ تھی، محمد بن ھارون اس جگہ سے واقف تھا وہاں پہنچنے سے ذرا پہلے محمد بن ھارون محافظوں کو بتایا تھا کہ جب اس جگہ پہنچیں تو وہ اس جگہ کے اردگرد پھیل جائیں اور چوکس رہیں کہ کوئی اور ان کے گھیرے کے اندر نہ آئے۔
چاندنی رات تھی صحرا کی چاندنی ٹھنڈی اور شفاف ہوا کرتی ہے، علافی اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے کھڑا تھا، محمد بن ھارون اور محمد بن قاسم گھوڑے سے اترے اور اس تک پہنچے، علافی نے دونوں کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
ہم دونوں ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔۔۔ محمد بن ہارون نے حارث علافی سے کہا ۔
اور ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں۔۔۔ علافی نے کہا۔۔۔ اور محمد بن قاسم کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔میں اس نوجوان کو پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔۔۔ قاسم کے بیٹے تم ہی ہو ؟،،،،حجاج کے بھتیجے ؟
میں ہی ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اور میں اس فوج کا سپہ سالار ہوں جو یہاں آئی ہے۔
کیا دو سالار مروا کر حجاج نے جنگ کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا ہے ۔۔۔علافی نے کہا ۔۔۔کیا اسی عمر میں تم اتنے تجربے کار ہوگئے ہو کہ جو جنگ دو منجھے ہوئے سالار ہار گئے ہیں وہ تم جیت لو گے، تم میں اس سے بڑھ کر اور کیا خوبی ہوسکتی ہے کہ تم حجاج کے بھتیجے ہو۔
فتح اور شکست اللہ کے اختیار میں ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں آپ کو یہ بتانے نہیں آیا کہ مجھ میں کیا خوبیاں ہیں، یہ ضرور کہوں گا کہ حجاج نے مجھے سپہ سالار اس لیے نہیں بنایا کہ میں اس کا بھتیجہ ہوں، کیا ہم وہ بات نہ کریں جس کے لئے میں نے آپ سے ملنے کی خواہش کی تھی؟
بات وہی ہو جائے تو اچھا ہے۔۔۔ علافی نے کہا۔۔۔ لیکن میں ایک بات کہوں گا تم لوگوں نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا کہ اتنے سارے محافظوں کو ساتھ لے آئے ہو، اعتبار تو مجھے تم پر نہیں کرنا چاہیے تھا کیوں کہ میں تمہارا باغی ہوں مجھے اپنی گرفتاری سے ڈرنا چاہیے تھا ،لیکن میں اکیلا آگیا ہوں میرے ساتھیوں نے مجھے روکا تھا۔
خدا کی قسم !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔آپ نے جو اعتماد مجھ پر کیا ہے اس کی قیمت میں نہیں دے سکتا اللہ دے گا ،آپ کو امیر مکران نے نہیں میں نے بلایا ہے اور میں نے آپ کو عرب کی آبرو اور اسلام کی عظمت کے نام پر بلایا ہے، میں آپ کو حکم نہیں دے سکتا گزارش کی ہے کہ ملاقات کا موقع دو، جس قانون کے آپ باغی ہیں میں آپ کو اس قانون کی دھونس نہیں دے رہا۔
اور میں جانتا ہوں تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہو ؟،،،،،حارث علافی نے کہا۔۔۔ اور تم نہیں جانتے کہ جن قیدیوں کو تم آزاد کرانے آئے ہو انہیں آزاد کرانے کے لیے تین باغی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں ،وہ قید خانے میں داخل ہوگئے تھے لیکن اللہ کو منظور نہ تھا ،میں اپنے بہت سے آدمیوں کے ساتھ قید خانے سے کچھ دور انتظار کرتا رہا ،میں نے قیدیوں کو اپنے پاس چھپانا پھر انھیں عرب تک پہنچانا تھا، وہ جو قیدیوں تک پہنچ گیا تھا اس کا نام بلال بن عثمان تھا۔
حارث علافی نے اس کوشش کی تفصیل سنائی جو قیدیوں کو رہا کرانے کے لئے کی گئی تھی، لیکن ناکام ہوگئی تھی۔
میں انہی قیدیوں کو آزاد کرانے آیا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن میں واپس جانے کے لئے نہیں آیا مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے ۔
کیا اموی خلیفہ نے تمہیں کہا تھا کہ علافیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنا ،یا تم حجاج کے مشورے پر عمل کررہے ہو،،،،،، اس نے محمدبن ہارون کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔ یہ سوچ امیر مکران کی بھی ہو سکتی ہے۔
نہیں میرے دوست!،،،، محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ یہ ابن قاسم کی اپنی سوچ ہے ۔
میں شیراز سے آرہا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں دمشق نہیں گیا، اور میں بصرہ بھی نہیں گیا، میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ میرے سالاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ باغی عرب جو مکران میں ہیں وہ عداوت کی بنا پر سندھ کے راجہ کا ساتھ دیں گے، میں خود یہی خطرہ محسوس کر رہا ہوں،،،،،،میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری مدد نہ کرے لیکن یہاں کے راجہ کا بھی ساتھ نہ دیں ورنہ اسلام کی تاریخ میں یہ منحوس اور مکروہ حقیقت آجائے گی کہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے اپنے بھائیوں کو شکست دلانے کے لئے ہندوؤں کا ساتھ دیا تھا، میں جانتا ہوں آپ کے دل میں ہمارے خلاف کدورت بھری ہوئی ہے۔
میرے عزیز ابن قاسم!،،،،، علافی نے کہا ۔۔۔تم پر اللہ کی رحمت ہو، تم اپنی عمر سے زیادہ دانش مند ہوں میرے دل میں اور ہر باغی عرب کے دل میں کدورت بھری ہوئی ہے ،لیکن یہ بنو امیہ کے خلاف ہے تم اموی نہیں ثقفی ہو ،تمہیں شاید کسی نے بتایا ہوگا کہ جب سعید بن اسلم کلابی مکران میں امیر مقرر ہوا تھا تو ہمارا ایک سردار سفہوی بن لام الحامی مکران آیا ،امیر مکران سعید بن اسلم کلابی نے اسے کوئی حکم دیا۔ سفہوی نے اسے کہا کہ تمہارا حکم ماننے کو میں اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ سعید بن اسلم نے اسے قید میں ڈال دیا پھر اسے قتل کرا دیا،،،،،
ابن قاسم!،،،،، تیرے چچا حجاج نے بھی ہمارے ساتھ دشمنی پیدا کر لی تھی ،سفہوی ہم میں سے تھا علافیوں میں سے تھا، میرے قبیلے کے کچھ آدمیوں نے امیر مکران سعید کو قتل کرکے سفہوی کے قتل کا انتقام لیا۔
ہاں !،،،،محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ سعید کو قتل کرنے والے تمہارے ہیں دو بیٹے تھے ایک کا نام معاویہ اور دوسرے کا نام محمد تھا۔
پھر ابن قاسم!،،،،، علافی نے کہا ۔۔۔تمہارے چچا حجاج نے ہمارے قبیلے کے ایک سردار سلیمان علافی کو قید میں ڈالا اسے قتل کیا اور اس کا سر کاٹ کر سعید بن اسلم کلابی کے گھر بھیج دیا کہ ان کے جذبہ انتقام کی کچھ تسکین ہو جائے۔
یہ ہماری خاندانی دشمنیاں ہیں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں آپ کو یہ دشمن دکھا رہا ہوں جس نے آپ کو دوست بنا رکھا ہے۔
مت بتاؤ مجھے ابن قاسم !،،،،،حارث علافی نے کہا ۔۔۔مجھے ایسا نہ سمجھو کہ خاندانی دشمنی کی خاطر میں اپنی قوم اور اپنے مذہب کے دشمن کو دوست بنا لوں گا ،مایوس نہ ہو علافی تمہاری مدد کریں گے، لیکن تمہارے ساتھ نہیں ہوں گے، ہماری دشمنی حکمران سے ہے ،اپنے وطن اور اپنے مذہب سے نہیں، برے اور نااہل حکمران کے خلاف کوئی کاروائی کرنا غداری نہیں، بلکہ نااہل اور خود غرض حکمران سے اپنے ملک کو آزاد کرانا حب الوطنی ہے ،ہم اپنے وطن کے باغی نہیں، ہم ایوان خلافت کے باغی نہیں ہیں، ہم ان کے باغی ہیں جو خلافت کے اہل نہ تھے مگر مسند خلافت پر قابض ہوگئے ہیں۔
مورخ بلاذری لکھتا ہے کہ حارث علافی محمد بن قاسم سے اور محمد بن قاسم حارث علافی سے بہت متاثر ہوا ،علافی نے وعدہ کیا کہ وہ راجہ داہر کا ساتھ نہیں دے گا اور وہ درپردہ راجہ داہر کی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا ۔اس نے یہ نہ بتایا کہ وہ کیا طریقہ اختیار کرے گا نہ اس نے محمد بن قاسم سے پوچھا کہ وہ کس طرح پیش قدمی کرے گا ،اور اس کا پہلا حملہ کہاں ہوگا۔
یہاں کی فوج لڑنے میں کیسی ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ کیا یہ لوگ اتنی بے جگری سے لڑتے ہیں کہ انہوں نے دو بار ہماری فوج کو شکست دی ہے، اور دونوں فوجوں کے سالار کو مار ڈالا تھا؟
اگر ان پر اپنا خوف طاری کر دو گے تو داہر کی فوج کی بہادری ختم ہوجائے گی۔۔۔علافی نے کہا ۔۔۔یہاں کے سپاہی بہادر نہیں تو بزدل بھی نہیں، پہلی دو لڑائیوں میں وہ اس لئے بہادر ہو گئے تھے کہ تمہاری فوجوں نے تھوڑی تعداد میں حملہ کیا تھا، اور بڑی عجلت میں حملہ کیا تھا ،حجاج نے داہر کی فوج کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں کیا تھا ،اتنی دور آ کر حملہ کرنے کے اہتمام ہی کچھ اور ہوتے ہیں، مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ تم اپنے ساتھ کیا کیا لائے ہو؟،،،،،اتنے زیادہ سازوسامان اور اتنے زیادہ گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ تم کوئی جذبہ بھی لائے ہو تو کوئی لشکر تمہارے مقابلے میں بہادر نہیں، اگر تم اپنے چچا حجاج اور خلیفہ کو خوش کرنے کے لئے آئے ہو تو داہر کی فوج بہت بہادر ثابت ہوگی اور شکست تمہارا مقدر ہوگی۔
*محمدبن قاسم*
*قسط نمبر/9*
حارث علافی اور محمد بن قاسم کی یہ ملاقات تاریخی حیثیت کی حامل ہے، اگر یہ پانچ سو باغی عرب محمد بن قاسم کے خلاف داہر کی مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے تو محمد بن قاسم کی لڑائیوں کی تاریخ مختلف ہوتی، یہ محمد بن قاسم کے تدبر کا نہایت اہم مظاہرہ تھا کہ اس نے ان باغیوں کے سردار کو ملاقات پر آمادہ کر لیا ،علافی نے یہ وعدہ کر دیا تھا کہ وہ داہر کا ساتھ نہیں دے گا، لیکن امیر مکران محمد بن ھارون تذبذب میں میں پڑا رہا اسے توقع نہیں تھی کہ علافی نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا بھی کرے گا۔
محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو پیش قدمی کرنے کے لیے تیار کرلیا لیکن اسے مکران میں کم و بیش ایک مہینہ گزارنا پڑا ،اس تاخیر کی وجہ یہ ہوئی کہ بحری جہازوں سے جو سامان آرہا تھا اس میں سے ابھی کچھ سامان نہیں پہنچا تھا، اس سامان میں منجیقیں بھی تھیں اور سب سے زیادہ ضروری وہ بڑی منجیق تھی جس کا نام عروس تھا ،آخر منجیقیں بھی آگئی انہیں جہازوں سے اتار کر فوج کو کوچ کا حکم دے دیا گیا یہ 712عیسوی تھا۔
امیر مکران محمد بن ھارون بیمار تھا جب فوج روانہ ہونے لگی تو محمد بن قاسم نے دیکھا کہ امیر مکران گھوڑے پر سوار اسکی طرف آرہا ہے محمد بن قاسم نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور اس تک جا پہنچا۔
اب آپ آرام کریں۔۔۔ محمد بن قاسم نے اس کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لئے دونوں ہاتھ آگے کیے اور کہا۔۔۔ اور میرے لیے دعا کریں اور اپنی دعاؤں کے ساتھ مجھے اور میری فوج کو رخصت کریں۔
کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ میں کس لباس میں آیا ہوں ۔۔۔محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ کیا میرے سر پر خود نہیں دیکھ رہے، کیا میری کمر کے ساتھ تمہیں تلوار نظر نہیں آ رہی، تم میرے بچے ہوں میں تمہیں اکیلا نہیں جانے دوں گا، میں تمہارے ساتھ جانے کے لئے آیا ہوں ۔
تاریخیوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم اسے روک نہ سکا محمد بن ھارون اس کے باپ کی عمر کا آدمی تھا اس نے امیر مکران کو ساتھ لے لیا۔
محمد بن قاسم کا اصل ہدف دیبل تھا لیکن راستے میں قنز پور نام کا ایک شہر آتا تھا یہ شہر آج بھی موجود ہے آج اس کا نام پنجگور ہے، یہ ایک مضبوط قلعہ بند شہر تھا اسے نظر انداز بھی کیا جا سکتا تھا لیکن اس قلعے کی مضبوطی اور وسعت کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ داہر نے اس میں خاصی زیادہ فوج رکھی ہوں گی، اس لیے اس فوج کو بیکار کرنا ضروری سمجھا گیا۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ جاسوسوں نے بھی یہی اطلاع دی تھی کہ اس قلعے میں فوج زیادہ ہے جسے نظرانداز کیا گیا تو یہ فوج خطرناک ثابت ہوسکتی ہے چنانچہ اس قلعے کو محاصرے میں لے لیا گیا۔
آگے جاکر اعلان کے گئے کہ قلعے کے دروازے کھول دیے جائیں اور قلعہ ہمارے حوالے کر دیا جائے اس صورت میں ہر شہری کو امان دی جائے گی اور ان کی عزت اور جان و مال کی پوری حفاظت کی جائے گی اور اگر ہم نے اپنی کوشش سے قلعہ فتح کر لیا تو کسی کے جان و مال کی حفاظت ہماری ذمہ داری نہیں ہوگی ہر شہری کو جزیہ دینا پڑے گا ،اس اعلان کے جواب میں قلعے کی دیواروں کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آئیں یہ اعلان تھا کہ ہمت ہے تو قلعہ فتح کر لو۔
محمد بن قاسم نے قلعے کے دروازے توڑنے کے لئے آدمی آگے بھیجے لیکن اوپر سے برچھیوں اور تیروں کی ایسی بوجھاڑیں نے آئیں کہ یہ آدمی بری طرح زخمی اور شہید ہوئے۔
دیوار میں شگاف ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن جو بھی آگے گیا وہ لہولہان ہو کر وہیں گرا یا واپس آیا ،یہاں ضرورت محسوس ہونے لگیں کہ سب سے بڑی منجیق عروس کو استعمال کیا جائے، لیکن اس کا استعمال اتنا آسان نہیں تھا اس کی بجائے محمد بن قاسم نے چھوٹی منجیقوں سے شہر پر پتھر برسائے ان منجیقوں کو پیچھے ہٹانے کے لئے قلعے کی فوج نے دلیری اور جاں بازی کا یہ مظاہرہ کیا کہ قلعے کے تین چار دروازے کھلے اور اندر سے بہت سے گھوڑسوار تیرانداز نکلے وہ گھوڑے دوڑاتے ہوئے منجیقیں چلانے والوں پر تیر برساتے چلے گئے بیشتر اس کے کہ ان کا تعاقب کیا جاتا یا مسلمان سوار گھوڑے دوڑا کر قلعے میں داخل ہوجاتے دشمن کے تیر انداز سوار قلعے کے اندر چلے گئے اور دروازے پھر بند ہوگئے۔
دن پر دن گزرتے جا رہے تھے اور قلعہ پہلے کی طرح محفوظ کھڑا تھا ۔قلعے کی فوج کے حوصلے اور مزاحمت میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی تھی ،محمد بن ھارون بیماری کے باوجود گھوڑے پر سوار قلعے کے اردگرد گھوڑا دوڑاتا اور سپاہیوں کو ہدایات دے رہا تھا محمد بن قاسم نے اسے کئی بار روکا کہ وہ پیچھے اپنے خیمے میں چلا جائے لیکن وہ ہر بار یہی جواب دیتا تھا کہ تم میرے بچے ہو میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔
ایک مہینہ گزر گیا معلوم ہوتا تھا کہ قلعے میں رسد اور خوراک کی کمی نہیں، ان علاقوں میں پانی سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی معلوم ہوتا تھا کہ قلعے کے اندر یعنی شہر میں پانی کی بھی کوئی کمی نہیں۔
قاسم کے بیٹے!،،،، ایک روز محمد بن ہارون نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ یہ قلعہ اتنی آسانی سے سر نہیں ہوسکے گا سرنگ لگانے کا انتظام کیا جائے یا دیواروں پر کمند پھینکی جاۓ۔
امیر مکران !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں یہ قلعہ سر کرسکتا ہوں لیکن میں اپنی جنگی طاقت یہیں پر زائل نہیں کرنا چاہتا، ہلہ بولنے کی بجائے ہم کچھ دن کچھ بھی نہیں کریں گے آرام سے بیٹھے گے لیکن شہر پناہ کے اندر کسی کو آرام اور چین نہیں ملے گا، ان کے پاس آخر کتنی خوراک ہو گی اور پانی کا ذخیرہ بھی ختم ہونے والا ہو گا، ہمیں اپنی طاقتیں یہیں صرف کر دینے کی بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ شہری بھوک اور پیاس سے مجبور ہو کر اپنی فوج کے لیے مصیبت کھڑی کردیں۔
*=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷=*
محمد بن قاسم نے ایک اور مہینہ وہیں پر گزار دیا یہ پتا نہ چلایا جاسکا کہ شہر کے اندر خوراک اور پانی کی کیا کیفیت ہے، یہ تبدیلی دیکھی گئی کے شہر پناہ سے تیروں کی جو بوجھاڑ آتی رہتی تھی ان میں کمی آگئی، ایک روز فجر کی نماز کے فوراً بعد مسلمانوں کی فوج نے ان احکام کی تعمیل نہایت سرعت سے کی جو احکام محمد بن قاسم نے گزشتہ رات سالاروں کو دیے تھے، چھوٹی منجیقیں آگے لے گئے تھے اور تیرانداز منجیقوں کے ساتھ اور کچھ آگے رکھے گئے، قلعے کے دروازے کے سامنے سوار دستے تیار کھڑے کردیئے گئے تاکہ اندر سے سوار حملے کے لیے باہر نکلے تو ان پر ہلہ بول دیا جائے۔
سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ قلعے کے اندر پتھر گرنے لگے اب چونکہ منجیقیں آگے کر لی گئی تھیں اس لیے ان کے پھینکے ہوئے پتھر شہر پناہ کے اوپر سے جاکر شہر کے اندر گرتے تھے ،شہر پناہ سے منجیقوں پر تیر پھینکنے کے لئے ہندو تیر انداز نظر آئے ادھر سے مسلمان تیر اندازوں نے ان پر تیروں کا مینہ برسا دیا منجیقوں کو بیکار کرنے کے لئے پہلے کی طرح قلعے کے دروازے سے ایک بار پھر کھلے بیشتر اس کے کے قلعے کے سوار تیر اندازی کے لئے باہر آتے مسلمان سواروں نے رات کے احکام کے مطابق گھوڑوں کو ایڑ لگائی اندر والے سوار باہر نہ آ سکے اور قلعے کے دروازے پر بند ہوگئے، مسلمان سوار قلعے میں داخل نہ ہو سکے لیکن ان کی یہ کامیابی بھی کافی تھی کہ انہوں نے شہر کے تیرانداز سواروں کو باہر نہ آنے دیا اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ منجیقیں شہر پر پتھر برساتی رہیں۔
سندھ کی تاریخ لکھنے والے تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ شہر میں ایک تو پانی کی قلت شہریوں کو پریشان کرنے لگی تھی اور پتھر تو پہلے بھی ان پر پھینکے گئے تھے لیکن اب ژالہ باری کی طرح پتھر گر رہے تھے، لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تین چار روز سنگ باری جاری رہی تو شہریوں نے واویلا بپا کردیا اور فوج کو مجبور کرنے لگے کہ قلعے پر سفید جھنڈا چڑھا دے، فوج خود تنگ آچکی تھی شہر کے اندر ایسی افراتفری پھیلی کے قلعہ دار کو بتائے بغیر کچھ لوگوں نے جن میں فوجی بھی شامل تھے شہرپناہ پر سفید جھنڈے چڑھا دیے پھر شہر کے دروازے کھل گئے ۔
محمد بن قاسم کی فوج قلعے میں داخل ہوئی قلعے دار کو حکم دیا گیا کہ جو جزیہ مقرر کیا جائے گا وہ شہریوں سے وصول کرکے فاتح فوج کے حوالے کیا جائے۔
قلعے میں جو فوج تھی اس کے کمانڈر سے لے کر سپاہیوں تک سب کو جنگی قیدی بنا لیاگیا ۔محمد بن قاسم وہاں رک نہیں سکتا تھا قلعے کے انتظامات کے لیے کچھ نفری وہاں چھوڑی گئی اور محمد بن قاسم نے اگلے شہر کی طرف کوچ کیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
اگلا شہر ارمن بیلہ تھا محمد بن قاسم نے جنگ کے نفسیاتی پہلو کو بھی سامنے رکھا اس نے قنزپور کے چند ایک شہریوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمان لشکر سے بہت آگے نکل جائیں اور ارمن بیلہ میں جا کر لوگوں کو بتائیں کہ وہ قلعے کو بچا نہیں سکیں گے، اور اگر بچانے کی کوشش کریں گے تو بہت زیادہ نقصان اٹھائیں گے، یہ آدمی ارمن بیلہ چلے گئے بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے وہاں جاکر ایک تو یہ خوف پھیلایا کہ مسلمان بڑے زبردست لوگ ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی مشہور کیا کہ ان کے پاس معلوم نہیں جنات میں یا ایسی طاقت ہے کہ سارے شہر پر پتھروں کا مینہ برسا دیتے ہیں، دہشت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی طرف سے یہ اضافہ کیا کہ مسلمان جتنے دہشتناک لگتے ہیں دل کے اتنے ہی نرم اور رحم دل ہیں، ان کی فوج لوٹ مار نہیں کرتی اور شہریوں سے کچھ پیسے بطور جزیہ لے کر ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پوری حفاظت کرتی ہے۔
جب محمد بن قاسم کی فوج نے ارمن بیلہ کے قلعہ بند شہر کو محاصرے میں لیا تو وہاں بھی مزاحمت کا سامنا ہوا لیکن صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ مزاحمت برائے نام ہے مختصر یہ کہ کچھ دنوں بعد اس قلعے پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ محمد بن قاسم کے حملے کا پلان ایسا تھا کہ وہ اپنی فوجی طاقت کو بچا رہا تھا اور فوج کو اگلی لڑائیوں کے لئے تیار کر رہا تھا، اس کے لیے فوج کو آرام دینا بہت ضروری تھا ارمن بیلہ کو فوج کے آرام کے لئے بہترین جگہ تصور کیا گیا اس جگہ زیادہ دیر رکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کے امیر مکران کی بیماری تشویشناک حد تک پہنچ گئی طبیب جو فوج کے ساتھ تھے بیماری پر قابو پانے کی پوری کوشش کرتے رہے لیکن مرض قابو میں نہیں آ رہا تھا ،آخر ایک روز محمد بن ھارون خالق حقیقی سے جا ملا اسے ارمن بیلہ میں ہی دفن کردیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
آج کا حیدرآباد اس زمانے میں نیرون کہلاتا تھا اس شہر کی بنیاد نبوت اور ہجرت مدینہ کے درمیانی عرصے میں رکھی گئی تھی، اس وقت کا اس کا نام نیرون تھا جب مغلوں نے اس علاقے کو فتح کیا تو اس کا نام حیدر آباد رکھ دیا گیا کیونکہ اسے حیدر قلی ارغون نے نئے سرے سے تعمیر کرایا تھا ،جب محمد بن قاسم قنز پور کو فتح کر چکا تو نیرون میں ایک سادھو داخل ہوا اس کے بال لمبے اور مٹی سے اٹے ہوئے تھے، اس نے جوگیا رنگ کا موٹے کپڑے کا لمبا سا کرتا پہن رکھا تھا، اس کے پاؤں میں لکڑی کی کھڑاویں تھیں اس کے پیچھے پیچھے کچھ اسی لباس میں ملبوس اس کے چیلے تھے، وہ شہر میں نعرے لگانے لگا۔۔۔۔ لوگوں گناہوں کی معافی مانگ لو آفت آ رہی ہے۔
لوگ اسے روکتے تھے لیکن ایسے لگتا تھا جیسے وہ کسی کی سن ہی نہیں رہا وہ دونوں بازو ہوا میں لہراتا تھا اور کچھ نہ کچھ بولتا جا رہا تھا۔
شہر خالی کردو۔۔۔ بھاگ جاؤ۔۔۔ آگ ہی آگ ہے۔۔۔ آسمان سے پتھر برسیں گے۔
اس کا انداز ایسا تھا کہ جو اس کی بات سنتا تھا وہ اثر قبول کرتا تھا لوگ اس کے چیلوں سے پوچھتے تھے کہ سادھو مہاراج کہاں سے آئے ہیں اور یہ کیا کہہ رہے ہیں؟
چیلے لوگوں کو بتاتے تھے کہ سادھو مہاراج تین چار مہینوں سے خاموش بیٹھے تھے ایک روز رات کو باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے تھے آخر ان کے منہ سے بڑی بلند آواز میں یہ الفاظ نکلے۔۔۔ آسمان سے پتھر برسیں گے۔
نیرون راجہ داہر کی عملداری میں تھا ،داہر تو کٹر برہمن تھا لیکن اس نے نیرون کا جو حاکم مقرر کر رکھا تھا وہ بدھ مت کا پیروکار تھا اس کا نام سندر تھا۔ راجہ داہر نے بدھ مت کے مندروں کو تقریباً بند کردیا تھا لیکن جہاں بدھ مت موجود تھے وہاں وہ کہیں نہ کہیں عبادت کرتے تھے۔
یہ سادھو اور اس کی صدائیں ایک ہی روز میں سارے شہر میں مشہور ہو گئی یہاں تک کہ حاکم نیرون سندر تک یہ صدائیں پہنچائی گئیں، اس نے حکم دیا کہ اس سادھو کو فوراً اس کے سامنے لایاجائے، سندر نے یہ ضرورت اس لئے محسوس کی تھی کہ اسے بتایا گیا تھا کہ سارے شہر پر خوف و ہراس طاری ہوچکا ہے، چونکہ ہندوؤں کا مذہب توہمات اور چند ایک اوٹ پٹانگ رسومات کا مجموعہ ہے اس لیے وہ سادھوؤں کی باتوں کو برحق مانتے تھے، آج بھی ہندوؤں کے مذہبی عقائد ویسے کے ویسے ہیں۔
حاکم نیرون کے آدمی سادھو کو اس کے پاس لے گئے اس نے سادھو سے پوچھا کہ وہ کیا صدائیں لگاتا پھر رہا ہے۔
یہ صدائیں میری نہیں۔۔۔ سادھو نے کہا ۔۔۔یہ آسمان کی آواز ہے، آسمان سے پتھر برسے گے ،سمندر پار سے ایک طاقتور راجہ آیا ہے اس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا، جس بستی کے لوگ اس کا مقابلہ کرتے ہیں اس پر وہ آسمان سے پتھر برساتا ہے۔
کیا تم عرب کی فوج کی بات کر رہے ہو؟،،،،، سندر نے پوچھا ۔۔۔وہ فوج جس نے قنزپور کو فتح کیا ہے۔
ہم قنزپور نہیں گئے۔۔۔ سادھو نے کہا۔۔۔ ہم دنیا کو تیاگ بیٹھے ہیں ،ہم جنگل میں رہتے ہیں ہم نے وہاں آسمان کی آوازیں سنی ہے۔
سادھو مہاراج!،،،،، سندر نے کہا ۔۔۔ہمیں صرف یہ بتا دیں کہ آپ کو میرے شہر پر اتنا رحم کیوں آیا ہے؟،،،،، کیا آپ دوسری بستیوں میں بھی گئے ہیں اور لوگوں کو خبردار کیا ہے۔
وہ سب پاگل ہیں ۔۔۔سادھو نے کہا ۔۔۔ان کے راجہ نے ان کو پاگل کیا ہے، اس شہر میں اس لئے آیا ہوں کہ یہاں کا راجہ ہندو نہیں بدھ ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ بدھ مت امن کا پرچار کرتا ہے اگر تیرے دل میں امن کی خواہش ہے تو اس سے پناہ مانگ جو پتھروں کا مینہ برساتا ہے، ہماری بات نہیں مانے گا تو خود بھی تباہ ہو گا اور اس شہر کی مخلوق کو بھی تباہ کرائے گا ،تیری اپنی بیٹیاں دوسروں کے قبضے میں چلی جائیں گی اور اس شہر میں کوئی جوان عورت نہیں رہے گی لوٹ مار ہوگی خون بہے گا آگ لگے گی نیکی کر اور اس مخلوق کو بچالے۔
یہ صحیح ہے کہ بدھ مت امن اور شانتی چاہتا ہے دنیا کا یہ واحد مذہب ہے جس کی تاریخ میں کسی لڑائی کا ذکر نہیں ملتا ،اس وقت جب نیرون راجہ داہر جیسے کٹر برہمن کی عملداری میں تھا بدھ مت کے پیروکار بھی کٹر تھے اور وہ راجہ داہر سے نالاں بھی تھے کہ وہ بدھ مت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور بدھوں پر بے پناہ تشدد کرتا ہے ،اس کے ساتھ اس سادھو کی صدائیں شامل ہو گئیں اور پھر یوں ہوا کہ جب یہ سادھو اپنے چیلوں کے ساتھ وہاں سے چلا گیا تو تین چار شتر سوار شہر میں داخل ہوئے وہ بڑی خستہ حالت میں تھے بات کرتے اور کانپتے تھے، انہوں نے کہیں بیٹھ کر لوگوں کو سنایا کہ وہ قنزپور سے سے بھاگ کر آئے ہیں، انہوں نے مسلمانوں کے حملے کا ذکر ایسے بھیانک طریقے سے کیا کہ سننے والوں پر خوف طاری ہو گیا انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی فوج کاسیلاب اس طرف آ رہا ہے اور جب وہ آتے ہیں تو بستیوں پر بڑے بڑے پتھر گرتے ہیں۔
ان کی سنائی ہوئی یہ خوفناک باتیں جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئیں، اور حاکم نیرون کے کانوں تک جا پہنچیں۔
نیرون میں راجہ داہر کے احکام پہنچ چکے تھے کہ مسلمانوں کی فوج مکران میں اتر آئی ہے اور اب وہ پہلے والی فوج نہیں بلکہ یہ بڑی طاقتور فوج ہے ،جب محمد بن قاسم نے قنزپور فتح کر لیا تو راجہ داہر نے پھر اپنے راج کے تمام قلعوں کو اطلاع بھیجی کہ مسلمانوں نے قنزپور فتح کر لیا ہے ،داہر نے سب کو یہ پیغام بھی بھیجا کہ مسلمانوں کے پاس ایسا انتظام ہے کہ وہ قلعوں کے اندر بڑے بڑے پتھر پھینک سکتے ہیں، داہر نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ان پتھروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
حاکم نیرون کے لیے یہ پتھر عجیب چیز تھی اس کے علاوہ وہ بدھ تھا اس نے جب اپنے شہر کی آبادی کو دیکھا ہوگا تو یقیناً اس کے دل میں آئی ہو گی کہ ان بے گناہ کو مروانا کتنا بڑا پاپ ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم ارمن بیلہ میں اپنی فوج کو دیبل پر حملے کے لیے تیار کر رہا تھا اس کی اگلی منزل دیبل تھی اور وہ جانتا تھا کہ ہار جیت کا فیصلہ دیبل کے میدان جنگ میں ہی ہوگا ۔فوج آرام بھی کر رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی محمد بن قاسم اسے قلعہ شکنی کی ٹریننگ بھی دے رہا تھا اور فوج کو خطبے کی صورت میں یہ بتاتا تھا کہ اس جنگ کا مقصد ملک گیری نہیں۔
انہی دنوں اسے اطلاع دی گئی کہ دو اجنبی ہندو اس سے ملنا چاہتے ہیں، اس نے دونوں کو بلایا یہ دونوں اجنبی سندھی لباس میں تھے ان کے ماتھے پر تلک لگے ہوئے تھے، اور وہ ہر لحاظ سے برہمن لگتے تھے، لیکن وہ جب محمد بن قاسم کے سامنے گئے تو انھوں نے السلام علیکم کہا۔
تم دونوں نے مجھے خوش کرنے کے لئے میرے مذہب کا سلام کیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اگر یہ سلام تمہارے دل سے نکلے تو تم روحانی سکون محسوس کرو گے، کیا تم ان الفاظ کے معنی سمجھتے ہو؟
آپ پر سلامتی ہو۔۔۔ ان میں سے ایک نے جواب دیا۔
تمہیں یہ معنی کس نے بتائے ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے پوچھا۔
یہ ہمارے اپنے مذہب کے الفاظ ہیں ۔۔۔ایک نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ ہم دونوں مسلمان ہیں اور ہمیں اپنے سردار حارث علافی نے بھیجا ہے ۔
اس نے کوئی پیغام دیا ہے۔
ہاں سالار اعلی !،،،،،ایک نے جواب دیا۔۔۔ دیبل سے آگے ایک شہر ہے جس کا نام نیرون ہے وہاں کا حاکم بدھ ہے وہ راجہ داہر کا مقرر کیا ہوا حاکم ہے، لیکن اس نے راجہ داہر کو بتائے بغیر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا ہے اس نے چوری چھپے اپنے دو تین آدمیوں کو بصرہ بھیجا تھا، وفد آپ کے چچا حجاج بن یوسف سے مل کر واپس آ گیا ہے، حاکم نیرون حجاج کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں لڑے گا، اس کی بجائے وہ امن کا وعدہ کرتا ہے، اور اس پر جو جزیہ عائد کیا جائے گا وہ بخوشی ادا کرے گا،،،،،،حجاج نے امن کا یہ معاہدہ قبول کر لیا ہے، لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جزیہ کتنا مقرر ہوا ہے البتہ یہ پتہ چلا ہے کہ حجاج نے حاکم نیرون کو پیغام بھیجا ہے کہ اس کی اس کے خاندان کی اور اس کے شہر کے لوگوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمان فوج پر ہو گی، اور مسلمان فوج کی طرف سے اسے دوستی اور محبت ملے گی۔
کیا یہ معجزہ نہیں ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔ یقین نہیں آتا کہ راجہ کے حاکم نے اپنے آپ ہی ایک شہر حملہ آوروں کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کے حوالے کر دیا ہو، مجھے یہ خبر غلط معلوم ہوتی ہے ،حارث علافی کے دل میں کچھ اور تو نہیں؟
نہیں سالار اعلی !،،،،،ان دونوں میں سے ایک نے کہا ۔۔۔اسے آپ معجزہ نہ سمجھے یہ ہم دونوں کا کارنامہ ہے میں سادھو بن کر نیرون گیا تھا اور وہاں کے لوگوں پر خوف طاری کر دیا تھا میرا یہ دوست میرے ساتھ تھا دو اور آدمی بھی میرے ساتھ تھے ،یہ میرے چیلوں کے بھیس میں تھے یہاں کے لوگوں وہمی ہیں آفات سے بہت ڈرتے ہیں ،ہم نے نیرون میں اتنا خوف و ہراس طاری کر دیا تھا کہ حاکم شہر نے مجھے بلایا ،۔میں نے اس پر بھی خوف و ہراس طاری کردیا، لیکن ایسی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ وہ بدھ مت کا پیروکار ہے اور بدھ لڑنا تو دور کی بات ہے ہتھیار کو ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔
کیا تم یہ کارنامہ دوسرے شہروں میں بھی کرسکتے ہو؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
نہیں سالار اعلی!،،،،، محمد بن قاسم کو جواب ملا ۔۔۔باقی تمام شہروں کے حاکم ہندو ہیں اور کہیں نہ کہیں پکڑے جانے کا خطرہ بھی ہے ،پھر بھی ہم اس کوشش میں ہیں کہ آپ کے لیے راستہ صاف کرتے رہیں
*قسط نمبر/10*
یہ گزشتہ رات کی باتیں تھیں، صبح راجہ داہر پوچھ رہا تھا کہ وہ بدھ ابھی تک نہیں آیا، اس کا مطلب اپنے نیرون کے حاکم سندر سے تھا جس نے درپردہ اپنا ایلچی بصرہ حجاج بن یوسف کے پاس اس درخواست کے ساتھ بھیجے تھے کہ اس سے جزیہ لیا جائے اور نیرون پر حملہ نہ کیا جائے، حجاج نے یہ پیشکش قبول کر لی تھی اور محمد بن قاسم کو اطلاع دے دی تھی کہ وہ جب نیرون پہنچے گا تو اس کا مقابلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ شہر اسے پیش کیا جائے گا۔
نیرون (حیدرآباد) کا حاکم بدھ مت کا پیروکار تھا اور اس کا پورا نام سندر شمنی تھا، راجہ داہر کو معلوم ہو چکا تھا کہ سندر نے عربوں کی اطاعت قبول کر لی ہے لیکن اس نے سندر سے باز پرس نہیں کی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی بھی شہر کا حاکم کسی بھی وقت خودمختاری کا اعلان کر سکتا ہے، عام طور پر ایسا نہیں ہوتا تھا لیکن باہر کے حملے کی صورت میں اکثر حاکم حملہ آور کی اطاعت لڑے بغیر قبول کرلیتے تھے، داہر عقلمند راجہ تھا وہ اس حالت میں جب غیر ملکی حملہ آور فوج اس کے ملک میں داخل ہو چکی تھی اپنے کسی حاکم پر جبر نہیں کرنا چاہتا تھا ،جبر سے اپنی راج دھانی سے دور کسی شہر کے حاکم کو اپنے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔
داہر کو توقع تھی کہ عرب کے پہلے دو سالاروں کی طرح اس کی فوج محمد بن قاسم کو بھی دیبل سے آگے نہیں بڑھنے دے گی، لیکن اب اسے صورتحال کچھ اور ہی نظر آ رہی تھی، اس لیے اس نے سندر شمنی کو اروڑ بلایا ،سندر کو ایک دو روز پہلے اروڑ پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں آیا تھا اس نے راجہ داہر کے حکم کی تعمیل میں اٹھ دوڑنا ضروری نہیں سمجھا تھا، راجہ داہر پیچ و تاب کھا رہا تھا ،اس نے وزیر بدہیمن کو بلایا۔
میرے دانشمند وزیر۔۔۔ راجہ داہر نے بدہیمن سے کہا ۔۔۔وہ ابھی تک نہیں آیا ،کیا میں یہ سمجھوں کہ وہ عرب کے حملہ آوروں سے مل گیا ہے؟
عربوں سے ملا ہے یا نہیں ،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ وہ مہاراج سے ضرور بے پرواہ ہو گیا ہے ،وہ آئے گا ضرور آئے گا۔
تمہاری عقل و دانش کیا کہتی ہے۔۔۔ داہر نے پوچھا۔۔۔ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟۔۔۔ میں اپنی حکم عدولی برداشت نہیں کرسکتا۔
مہاراج حکم عدولی برداشت کریں ۔۔۔بدہیمن نے کہا۔۔۔ وہ آئے تو اس سے نہ پوچھیں کہ وہ فوراً کیوں نہیں آیا ،اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسے وہ اپ کی ٹکر کا راجہ ہے، میں جانتا ہوں مہاراج اسے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی اطاعت نہ کرے۔
ہاں !،،،،راجہ داہر نے کہا ۔۔۔میں اسے یہی کہنا چاہتا ہوں۔
اور اسے یہ بھی کہیں کہ وہ مسلمانوں کو اطاعت کے دھوکے میں رکھے۔۔۔ بدہیمن نے کہا۔۔۔ ان کے لیے شہر کے دروازے کھول دے اور ان کا استقبال کرے، جب مسلمانوں کی تمام فوج اندر آجائے تو دروازے بند کردے اور اپنی فوج سے اس پر حملہ کر دے، مسلمان فوج قلعہ مل جانے سے لڑنے کے لئے تیار نہیں ہو گی ،سندر شہر کے لوگوں کو تیار کرے کہ وہ اپنے مکانوں کی چھتوں پر بڑے بڑے پتھر جمع کر لیں، مسلمان جب اچانک حملے سے بوکھلا کر گلیوں میں جائیں تو لوگ اوپر سے ان پر پتھر پھینکیں۔
اگر وہ نہ مانے تو کیا کروں؟
مہاراج !،،،،بریمن نے کہا ۔۔۔کیا آپ زہریلے ناگ کو اپنے گھر میں پالنا پسند کریں گے؟،،،، آگ اور ناگ سے کھیلنے کا نتیجہ آپ جانتے ہیں،،،،،،،، آگ پر پانی ڈالا جاتا ہے اور ناگ کا سر کچلا جاتا ہے۔
یہ کام راجدھانی میں نہ ہوں تو اچھا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
راجدھانی میں کیوں ہو ۔۔۔بدہیمن نے کہا۔۔۔ وہ واپس جائے گا تو راستے میں ناگ کا سر کچل دیا جائے گا ،اور مشہور یہ کریں گے کہ اسے عربوں نے قتل کیا ہے، اور نیرون میں یہ خبر پھیلائیں گے کہ حاکم نے راجدھانی سے واپسی پر اپنے ساتھ دو نہایت ہی خوبصورت لڑکیاں لے جارہا تھا عرب فوجی لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ محافظ ہونگے ۔۔۔داہر نے کہا۔
فوج تو نہیں ہوگی۔۔۔ برہمن نے کہا ۔۔۔دس بارہ محافظ ہونگے، حملہ ان کے کسی پڑاؤ پر ہوگا ،جب سب سوئے ہوئے ہونگے، یہ انتظام میرا ہو گا مہاراج ،آپ سمجھیں کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔
اسی شام کو سندرشمنی اروڑ پہنچ گیا، راجہ داہر کو اطلاع ملی کہ وہ آرہا ہے تو وہ آگے چلا گیا سندر کا استقبال کیا سندر کے ساتھ صرف چھے محافظ تھے اس کا سامان اونٹوں پر لدا ہوا تھا، راجہ داہر نے عجیب چیز یہ دیکھی کہ محافظوں نے پگڑیاں اس طرح سروں پر لپیٹی ہوئی تھیں کہ ان کے حصوں نے ان کے چہرے بھی چھپا رکھے تھے، ان کی صرف آنکھیں دکھائی دیتی تھیں۔
انہوں نے چہرے ڈھانپے ہوئے کیوں ہیں؟،،،،، راجہ داہر نے محافظوں کے متعلق سندر سے پوچھا ۔
مجھے اس طرح زیادہ اچھے لگتے ہیں ۔۔۔سندر شمنی نے کہا۔۔۔ زیادہ خوفناک لگتے ہیں، محافظ ایسے ہو نے چاہیے کہ جو دیکھے اس پر خوف طاری ہوجائے۔
راجہ داہر نے اس کی یہ بات ہنسی میں ٹال دی، اس کے سامنے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ مسئلہ تھا ،وہ سندر کو اپنے خاص کمرے میں لے گیا ۔
کیا یہ سچ ہے کہ تم نے مسلمانوں کی اطاعت کو قبول کر لی ہے؟،،،، راجہ داہر نے اس سے پوچھا۔
ہاں مہاراج !،،،،،سندر نے کہا ۔۔۔یہ بالکل سچ ہے ۔
اور تم نے جزیہ دینا قبول کیا ہے ؟
ہاں میاراج !،،،،سندر نے جواب دیا ۔۔۔میں نے اس شہر کے لوگوں کے لئے جس کا میں حاکم ہو امن و امان کا سودا کیا ہے۔
نہیں سندر شمنی!،،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ تم نے میری عزت اور غیرت اپنی عزت اور غیرت اور شہر کے لوگوں کی عزت اپنے دشمن کے ہاتھ بیچ ڈالی ہے، اور ساتھ رقم بھی دی ہے، کیا تم یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ وہ غیر ملک اور غیر مذہب کی قوم ہے جس نے ہمیں غلام بنانے کے لئے حملہ کیا ہے۔
مہاراج!،،،، سندر نے کہا ۔۔۔میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس غیر قوم نے اپنی فوج ہمارے ملک میں کیوں بھیجی ہے؟،،،، اسے آپ نے خود بلایا ہے۔
سندر!،،،،، داہر نے کہا ۔۔۔تم عربوں کے ایلچی نہیں تم میرے حاکم ہو ،تم اپنے راج اپنے ملک کی بات کرو ،تمہیں اپنے ملک کے لئے لڑنا ہے۔
میرا مذہب مجھے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ سندر نے کہا۔۔۔ اور اس حالت میں میں لڑا ہی نہیں سکتا جبکہ ہم خود ظالم ہیں ،مہاراج نے ان عربوں کو کس گناہ میں قید میں ڈالا ہے جو اپنے ملک کو جا رہے تھے، انہیں آپ کے سمندری لٹیروں نے لوٹا پھر انہیں پکڑ کر قیدخانے میں ڈال دیا۔
مجھے معلوم نہیں وہ کہاں ہیں؟،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ انہیں لوٹنے والے وہ لوگ ہیں جن کا پیشہ ہی یہی ہے، اور وہ میری گرفت سے باہر ہیں۔
وہ دیبل کے قیدخانے میں ہیں مہاراج!،،، سندر نے کہا ۔۔۔اب بھی وقت ہے ان قیدیوں کو رہا کردیں۔
میں تمہارا حکم نہیں مان سکتا ۔۔۔داہر نے کہا۔۔۔ تم میرا حکم مانو گے۔
میں مہاتما بدھ کا حکم مانو گا مہاراج !،،،،سندر شمنی نے کہا ۔
پھر تم نے نیرون کو چھوڑ دو اور یہاں آجاؤ۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
نیرون سے کہوں کہ مجھے چھوڑ دے۔۔۔ سندر نے کہا۔۔۔ مہاراج نیرون کا ایک بچہ بھی کہہ دے کہ سندر شمنی کو یہاں سے لے جاؤ تو میں اپنے آپ کو دریائے سندھ کی لہروں کے حوالے کر دوں گا ،مجھے مہاراجہ حکم سے وہاں سے ہٹائیں گے تو وہاں کے لوگ آپ کی حکم عدولی پر اتر آئیں گے۔
کن لوگوں کی بات کرتے ہو۔۔۔ راجہ داہر نے گرج کر کہا ۔۔۔یہ لوگ ہماری رعایا ہیں، ہم چاہیں تو انہیں بھوکا مار دیں چاہے تو ان کی جھولیاں بھردیں۔
تکبر میں نہ آئیں مہاراجہ!،،،، سندر شمی نے کہا ۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پیدا کرنے والے کو عزیز ہیں، جنہیں مہاراج اپنا محتاج سمجھتے ہیں ان کے قہر و غضب سے ڈریں انہیں جنگ کے تنور میں نہ پھینکیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مہاراج کا راج اسی آگ میں جل جائے، خدا اپنے بندوں کی آواز سنتا ہے، خدا کے بندوں کو امن اور محبت عزیز ہے ،بدھ مت امن کا علمبردار ہے، اسلام عام لوگوں کا مذہب ہے جو محبت کا سبق دیتا ہے۔
کیا تم اس اسلام کی باتیں کرتے ہو جس کی فوج ہمارے بستیاں اجاڑنے کو آ گئی ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
انہوں نے میرے شہر کے لوگوں کو امن دیا ہے۔۔۔ سندر شمنی نے کہا۔۔۔ وہ امن اور پیار کے جواب میں امن اور پیار ہی دیتے ہیں ،آپ ان سے محبت کی توقع کیوں نہیں رکھتے ہیں، آپ کے باپ دادا نے عرب کے ان مسلمانوں کو فارسیوں سے شکست دلانے کے لیے ہاتھی بھیجے تھے، فارسیوں نے سندھ اور مکران پر ہمیشہ حملے کیے ہیں، سندھ کے کئی ہزار جاٹوں کو وہ پکڑ کر لے گئے تھے، فارسی تو آپ کے خاندان کے دشمن تھے لیکن آپ کے پیتا جی نے فارسیوں کے ساتھ صرف اس لیے دوستی کرلی تھی کہ ان کی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی تھی، آپ کے باپ دادا نے ان کی مدد کی پھر مکران میں مسلمانوں کے خلاف چھیڑ چھاڑ جاری رکھی، آپ نے عرب کے مسلمانوں کو ہمیشہ مشتعل کیا ہے، ان کے باغی عرب سے نکل کر آئے تو آپ کے باپ دادا نے انہیں مکران میں پناہ دی اور انہیں عربوں کے خلاف اکساتے اور بھڑکاتے رہے، اب مہاراج نے ان کے جہاز لوٹے اور آدمیوں کے ساتھ ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی قید میں ڈال دیا ہے، اب آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ اسلام کی فوج ہماری بستیاں اجاڑنے کے لیے آ گئی ہیں۔
تم پر مسلمانوں کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
مہاراج کہہ رہے تھے کہ میں نیرون کا حاکم نہ رہوں ۔۔۔سندر نے کہا ۔۔۔یہ فیصلہ نیرون کے لوگ کریں گے، اگر آپ نے مجھے نیرون سے زبردستی ہٹایا تو وہاں کے لوگ آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، لوگ امن کی زندگی چاہتے ہیں ،ہوسکتا ہے فوج بھی لوگوں کے ساتھ ہو جائے ۔
راجہ داہر سندر دشمنی کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ مسلمانوں کو جزیہ نہ دے، اور ان کی اطاعت قبول نہ کرے ،لیکن سندر قائل نہ ہوا۔
داہر نے اپنے وزیر بدہیمن کو بلایا۔
سندر شمنی آج رات کو ہی واپسی کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے بدہیمن سے کہا ۔۔۔انہیں عزت سے رخصت کریں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
بدہیمن اسی وقت باہر نکل گیا ،راجہ داہر سندر کو اپنے ساتھ کھانے پر لے گیا اور بہت دیر باتوں میں لگائے رکھا، داہر نے سندر کو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ مسلمانوں کی اطاعت سے باز آجائے تو اسے نیرون کا خود مختار حاکم بنا دیا جائے گا ،سندر نے یہ پیشکش ہنس کر ٹال دی۔
بدہیمن کمرے میں داخل ہوا۔
داہر کے یوں بات کرنے کا مطلب یہ تھا کہ سندر آج رات کو ہی واپس چلا جائے، سندر نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ اور اس کا یہ کہنا کہ عزت سے رخصت کریں، ایک اشارہ تھا۔
کیا حاکم نیرون تیار ہیں؟،،،، بدہمن نے پوچھا۔ ہاں !،،،،،،بدہیمن نے کہا ۔۔۔تیار ہوں کچھ دیر بعد سندر شمنی قلعے سے اس طرح نکل رہا تھا کہ اس کے گھوڑے کے پیچھے چھے نقاب پوش محافظوں کے گھوڑے تھے، آگے راجہ داہر کے محافظوں کا دستہ جا رہا تھا ،بدہیمن گھوڑے پر سوار سندر کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا ،چاندنی رات تھی صحرا کی چاندنی بڑی شفاف اور رات سرد تھی، راجہ داہر نے سندر کو احترام سے رخصت کرنے کے لیے اپنا محافظ دستہ بھیجا تھا جسے کچھ دور جاکر واپس آ جانا تھا۔
یہ جلوس خاموشی سے چلا جا رہا تھا رات خاموش تھی گھوڑوں کے قدموں کی آوازوں کے سوا کوئی آواز نہیں تھی، جلوس قلعے سے کوئی ایک میل دور چلا تو بدہیمن نے سندر کو روک لیا ،اس سے ہاتھ ملایا اور ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا، داہر کے محافظوں نے گھوڑے راستے کے دائیں اور بائیں کھڑے کردیے اور سب نے تلوار نکال کر آگے کو جھکا دیں ،سندر اور اس کے محافظ ان کے درمیان سے گزر گئے، داہر کے محافظوں نے تلوار ناموں میں ڈالی بدہیمن نے انہیں واپسی کا حکم دیا اور اپنا گھوڑا دوڑا دیا ،محافظوں نے بھی گھوڑے کو ایڑ لگائی اور وہ قلعے میں داخل ہو گئے، بدہیمن سیدھا راجہ داہر کے پاس گیا۔
تمہارا بندوبست ناکام تو نہیں ہو جائے گا ؟،،،،،راجہ داہر نے بدہیمن سے پوچھا ۔
صبح اس کی اور اس کے چھ محافظوں کی لاشیں قلعے میں لائی جائیگی۔۔۔ بدہیمن نے جواب دیا۔۔۔ میں نے بیس آدمی بھیجے ہیں ان پر کسی کو شک نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی فوج کے چنے ہوئے سپاہی اور عہدہ دار ہیں، وہ اونٹوں پر گئے ہیں اور وہ مسافروں کے بھیس میں ہیں میں نے پانچ عورتیں بھی ساتھ بھیج دی ہیں تاکہ دیکھنے والے انہیں مسافر ہی سمجھیں ،سندر نے سب سے پہلے کہیں پڑاؤ ضرور کرنا ہے، جہاں بھی وہ پڑاؤ کرے گا وہاں کچھ دیر سوئے گا ضرور ،اس کے محافظ بھی سو جائیں گے پھر وہ کبھی نہیں اٹھیں گے۔
اس بدھ کو نیرون زندہ نہیں پہنچنا چاہیے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔
نہیں پہنچے گا مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ آپ نیرون کا کوئی اور حاکم مقرر کردیں۔ نیرون کا حاکم میرا اپنا بیٹا جیسیہ ہوگا ۔۔۔داھر نے کہا۔
اور مہاراج !،،،،،،،،بدہیمن نے کہا ۔۔۔سندر کے ساتھ جو محافظ آئے تھے وہ اپنی فوج کے آدمی نہیں تھے وہ عرب کے مسلمان لگتے تھے، ان کی صرف پیشانیاں اور آنکھیں نظر آتی تھیں، جب سندر آپ کے پاس تھا تو یہ محافظ قلعے میں ادھر ادھر ٹہلتے ہر طرف دیکھتے اور آپس میں سرگوشیوں میں باتیں کرتے رہے تھے، ان کی چال ڈھال بھی مجھے مختلف لگتی تھی، پھر میں نے ان کے گھوڑوں کی زین دیکھی یہ ہمارے ملک کی بنی ہوئی نہیں تھی۔
اسی لئے ان کے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شخص نے عربوں کی فوج کے ساتھ تعلق پیدا کر لیا ہے اور اس نے اپنے لئے عرب محافظ رکھ لئے ہیں ۔
آج رات نہ وہ رہے گا نہ اس کے عرب محافظ۔۔۔ بدہیمن نے کہا۔
جب بدہیمن راجہ داہر کے ساتھ یہ باتیں کر رہا تھا اس وقت سندر چھ محافظوں کے ساتھ نیرون کے راستے پر جا رہا تھا، فوجوں اور مسافروں کے آنے جانے کا یہی راستہ تھا جو ریگستان میں سے گزرتا تھا، آدھے راستے میں ایک سرسبز جگہ تھی جہاں پانی مل جاتا تھا۔
یہ چھے محافظ عرب تھے، پانچ محمد بن قاسم کی فوج کے تجربے کار سپاہی تھے اور چھٹا حارث علافی کا بھیجا ہوا آدمی تھا جو عرصے سے یہاں رہنے کی وجہ سے یہاں کی زبان بول سکتا تھا، یہ محافظ نیرون اس طرح پہنچے تھے کہ سندر نے ایک آدمی محمد بن قاسم کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا کہ اسے راجہ داہر کی طرف سے جان کا خطرہ ہے۔ حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو اطلاع دے دی تھی کہ نیرون کے حاکم سندر نے اطاعت قبول کر لی ہے اس لئے اسے تحفظ دیا جائے اور شہر کے لوگوں کے جان و مال اور عزت کا خیال رکھا جائے۔
سندر کا یہ مطالبہ ابھی پورا نہیں کیا جاسکتا تھا کہ محمد بن قاسم اپنے ایک دو دستے نیرون بھیج دے، محمد بن قاسم کو بتدریج آگے بڑھنا تھا اس نے علافی کے ساتھ خفیہ رابطہ رکھا ہوا تھا اس نے اس سے پوچھا کہ اسے کیا کرنا چاہیئے؟
نیرون میں آپ کے جاسوسوں کی موجودگی ضروری ہے۔۔۔ علافی نے جواب دیا ۔۔۔اور اپنا ایک آدمی بھیجا تھا اس نے کہا تھا میں جو آدمی بھیج رہا ہوں یہ آپ کے جاسوسوں کے ساتھ نیرون جائے گا وہ نیرون کے حاکم سندر سے ملے گا اور اسے کہے گا کہ ان سب کو اپنے محافظ بنا کر رکھ لیں، سندر کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے اس لئے وہ ویسے ہی کرے گا جیسے اسے آپ کہیں گے ،یہ جاسوس سندر پر بھی نظر رکھیں گے کہ وہ دھوکہ تو نہیں دے رہا۔
اس طرح یہ چھ عرب سندر کے پاس چلے گئے تھے ،محمد بن قاسم کے نظام جاسوسی کے سربراہ شعبان ثقفی نے ان آدمیوں کو خاص ہدایات دے کر بھیجا تھا۔
اروڑ کے راج دربار سے جب سندر کا بلاوا آیا تھا تو سندر کو معلوم تھا کہ وہاں کیا باتیں ہونگی، لیکن اس نے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا تھا، وہ جرات مند اور بے باک آدمی تھا، وہ اپنے ان محافظوں کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا جو پہلے سے اس کے پاس تھے وہ فوج کے آدمی تھے جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔ عربی محافظ شعبان ثقفی کے خاص آدمی تھے انہوں نے سندر کو مشورہ دیا کہ وہ انھیں ساتھ لے چلے، اور یہ انہوں نے ہی سوچا تھا کہ ان کے چہرے سے ڈھانپے ہوئے ہوں تاکہ اروڑ میں کسی کو شک نہ ہو کہ یہ عرب ہیں، نیرون میں ان کے مطلق کے مشہور کیا گیا تھا کہ یہ ان عربوں میں سے ہیں جو عرب سے بھاگ کر آئے اور یہاں آباد ہو گئے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
سندر رات کو اروڑ سے نیرون کے واپسی سفر پر روانہ ہوا تھا، رات گزر گئی صبح طلوع ہوئی سورج صحرا کے افق سے ابھرا اور اوپر ہی اوپر اٹھتا آیا، راجہ داہر کی آنکھ کھلی تو اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ بدہیمن آیا؟
نہیں آیا مہاراج!،،،، اسے جواب ملا ۔
جوں ہی آئے اسے اندر بھیج دینا۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
بہت سا وقت گزر گیا تو راجہ داہر نے پوچھا کہ بدہیمن نہیں آیا؟
وہ نہیں آیا تھا۔
راجہ داہر نے کہا کہ اسے فوراً بلایا جائے۔ اسے بلانے گئے تو وہ گھر میں نہیں تھا اسے ادھر ادھر ڈھونڈنے لگے تو پتہ چلا کہ وہ قلعے کی دیوار پر کھڑا ہے بدہیمن دیوار پر کھڑا نیرون کی طرف دیکھ رہا تھا ،نیرون کی طرف سے آنے والا راستہ دور تک نظر آرہا تھا صحرا کی ریت دھوپ میں چمکنے لگی تھی بدہیمن کی نظریں جو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی وہ اسے نظر نہیں آرہا تھا ،وہ ان بیس شتر سواروں کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا جنہیں اس نے سندر اور اس کے چھ محافظوں کو قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ انہیں اب تک واپس آ جانا چاہیے تھا لیکن جہاں تک آنکھیں دیکھ سکتی تھیں وہ آتے نظر نہیں آرہے تھے، اسے بتایا گیا کہ مہاراج بلا رہے ہیں وہ مایوسی کے عالم میں قلعے کی دیوار سے اترا اور راجہ داہر کے پاس گیا۔
تم جانتے ہو میں کس خبر کا انتظار کررہا ہوں؟،،،،،، راجہ داہر نے کہا ۔
میں بھی اسی خبر کا منتظر ہو مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ میں ان کی راہ دیکھ رہا ہوں ہوسکتا ہے سندر رات کو کہیں روکا ہی نہ ہو، اگر وہ دن کو کہیں روکا اور وہ اور محافظ سو گئے تو بھی انہیں صاف کر دیا جائے گا۔
رات کو تو وہ کہیں نہ کہیں ضرور رکے گا ،وہ نیرون نہیں پہنچ سکتا مہاراج ،میرا خیال ہے وہ دور نکل گئے ہیں کل تو وہ ضرور آ جائیں گے۔
وہ دن گزر گیا رات گزری اگلی صبح طلوع ہوئی بدہیمن پھر قلعے کی دیوار پر جا چڑھا اور اس کی نظریں صحرا کو کھوجنے لگیں، اسے شتر سواروں کا قافلہ واپس آتا نظر نہ آیا، راجہ داہر اس سے زیادہ بے چین تھا ،آخر وہ چوتھے روز دوپہر کو واپس آئے قاتلوں کے اس گروہ کا کمانڈر بدہیمن کے سامنے جا کھڑا ہو گیا۔
کام کر آئے ہو۔۔۔ بدہیمن نے پوچھا ۔
کمانڈر نے سر ہلا کر بتایا کہ کام نہیں ہوا۔ کیوں؟،،،،،، بدہیمن نے گرج کر پوچھا۔۔۔ کیا وجہ ہوئی، تم سب ان عورتوں میں مگن ہوگئے ہو گے جنہیں تمہارے ساتھ بھیجا گیا تھا۔
نہیں مہاراج !،،،،،کمانڈر نے جواب دیا۔۔۔ ہم تو کہیں سانس لینے کو بھی نہیں رکے ہم نیرون کے قریب سے واپس آئے ہیں وہ ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آئے، انھوں نے شاید راستہ بدل لیا تھا۔
بدہیمن کا منہ لٹک گیا اس نے راجہ داہر کو بتایا کہ شکار ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
شکار نہیں ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔نیرون ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
اب کچھ اور سوچ رہا ہوں وہ کدھر نکل گئے ہیں بدہیمن نے کہا۔۔۔ کیا انھیں شک ہو گیا تھا۔ سانپ نکل گیا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ پیچھے جو لکیر چھوڑ گیا ہے اسے مت دیکھتے رہو ،سوچنا یہ ہے کہ نیرون کے لوگوں کو کس طرح سندر کے خلاف کیا جائے، لوگ امن چاہتے ہیں اس شخص نے لوگوں کے ذہنوں میں معلوم نہیں کیا ڈال دیا ہے کہ وہ بزدل ہو گئے ہیں، اور اسی کی سنتے ہیں اور اسی کی بات کو سچ مانتے ہیں۔
کچھ کریں مہاراج!،،،، بدہیمن نے کہا۔
کب کرو گے؟،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ معلوم ہوتا ہے تمہاری عقل جواب دے گئی ہے ،اور میرے دل پر ویسے ہی ایک وہم بیٹھ گیا ہے کہ میں نے سندر کو نیرون کی حاکمیت سے سبکدوش کیا تو شاید آسمان گر پڑے گا ،میں اسے اس کے گھر میں قتل کرا دوں گا، یہ نہ ہوا تو میں اسے واپس بلا لوں گا اگر اس نے نیرون نہ چھوڑا تو میں اس کے خلاف فوجی کاروائی کروں گا۔
آپ کچھ بھی نہ کریں تو بہتر ہے۔۔۔ بدہیمن نے کہا ۔۔۔حالات ہمارے حق میں نہیں، دشمن طوفان کی طرح آ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا جبر بغاوت کی آگ بھڑکا دے ہمیں اب جو بھی کارروائی کرنی ہے سوچ سمجھ کر کرنی ہے ۔مہاراج اپنی غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں، ایک طرف بدھوں کو آپ نے اتنا زیادہ دبا کر رکھا ہوا ہے کہ ان کی عبادت گاہوں پر پابندی عائد کر دی ،اور دوسری طرف بدھوں کو ہی شہروں کا حاکم بنا دیا ،دیکھ لیں کتنے شہروں کے حاکم بدھ ہیں ، اگر سب نے سندر شمنی جیسا رویہ اختیار کرلیا تو ہمارے لئے مشکل پیدا ہو جائے گی۔
ابھی نیرون کی بات کر۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اگر عربی فوج دیبل سے آگے بڑھ آئی تو نیرون کو اڈا بنا لے گی۔
بدہیمن گہری سوچ میں گم ہو گیا، راجہ داہر کچھ نہ کچھ بولتا رہا اور بدہیمن جیسے اسکی سن ہی نہ رہا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
اس وقت جب راجہ داہر اور اس کا وزیر بدہیمن نیرون کے مسئلے میں الجھے ہوئے تھے، سندر نیرون میں زندہ اور سلامت بیٹھا تھا ۔
وہ قتل ہونے سے اس طرح بچ گیا تھا کہ بدہیمن راجہ داہر کے محافظ دستے کے ساتھ سندر کو احترام اور شاہی اعجاز سے رخصت کرنے کے لئے دور تک اس کے ساتھ گیا تھا اور وہاں سے بدہیمن محافظ دستے کے ساتھ واپس آگیا تھا۔
جب بدہیمن بہت دور واپس چلا گیا اور سندر اپنے چھ محافظوں کے ساتھ خاصہ آگے نکل گیا تو اس کے محافظوں میں سے ایک جو عمر میں سب سے بڑا تھا رک گیا، اور اس نے سب کو روک لیا اس کا نام ابن یاسر تھا وہ شعبان ثقفی کا خاص آدمی تھا۔
حاکم نیرون!،، اس نے سندر سے کہا۔۔ آپ کو مہاراجہ یہاں بلاتا رہتا ہوگا؟
ابن یاسر نے اس عرب کی معرفت بات کی تھی جو مکران میں آباد تھا اور وہ یہاں کی زبان جانتا تھا۔
ہاں !،،،،،سندر نے جواب دیا۔۔۔ کبھی کبھی بلاتا ہے، یا شہروں کے حاکم خود بھی راجدھانی میں آتے رہتے ہیں۔
کیا ہر بار ایسے ہی ہوتا ہے کہ آپ شام کو یہاں آئے اور رات کو ہی آپ کو رخصت کردیا گیا ؟۔۔۔۔ابن یاسر نے پوچھا۔
نہیں!،،،،،، سندر نے جواب دیا ۔۔۔میرے ساتھ یہ پہلی بار ہوا ہے ،جو حاکم یہاں آتا ہے اسے دو تین دن یہاں رکھا جاتا ہے اور اس کی خاطر تواضع کی جاتی ہے ۔
کیا آپ نے خود کہا تھا کہ ابھی واپس جانا چاہتے ہیں؟
نہیں !،،،سندر نے جواب دیا ۔۔۔راجہ نے خود ہی اپنے وزیر سے کہا کہ حاکم نیرون ابھی واپس جا رہے ہیں۔
کیا آپ کو اسی طرح اعجاز کے ساتھ ہمیشہ رخصت کیا جاتا ہے جس طرح آج کیا گیا ہے؟ نہیں !،،،،سندر نے جواب دیا ۔۔۔اور کچھ حیران سا ہو کر بولا میں خود حیران ہوں کہ مجھے اتنا اعجاز کیوں دیا گیا ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ راجہ مجھے کہہ رہا ہے کہ میں آپ لوگوں کی اطاعت ترک کر دوں اس مقصد کے لیے راجہ میری خوشامد کرنا چاہتا ہو گا ۔
آپ اسے کیا جواب دے آئے ہیں؟
میں نے صاف کہہ دیا ہے کہ میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس سے ہٹونگاں نہیں۔۔۔ سندر نے جواب دیا ۔۔۔میں نے اسے یہ بھی کہا ہے کہ میں اپنے شہر کے لوگوں اور ان کی بیوی بچوں کو امن و امان اور عزت و آبرو دینا چاہتا ہوں۔
پھر یہ راستہ بدل دیں۔۔۔ ابن یاسر نے کہا۔ کیوں ؟،،،،سندر نے پوچھا۔۔۔ راستہ کیوں بدل دیں۔
راستے میں آپ پر حملہ ہو گا۔۔۔ ابن یاسر نے کہا ۔۔۔آپ کو نیرون تک زندہ نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔
میرا خیال ہے کہ راجہ داہر ایسی حرکت نہیں کرے گا ۔۔سندر نے کہا۔۔۔۔ یہ تمہارا وہم ہے۔
حاکم نیرون !،،،،،ابن یاسر نے کہا ۔۔۔ہم نے آپ کے ملک کی دھوکہ بازیوں اور فریب کاریوں کے بہت قصے سنیں ہیں ،لیکن آپ نے عرب کی سرزمین کی ذہانت اور دور اندیشی اور نظر کی گہرائی کے قصے نہیں سنیں، جب آپ نے راجہ کے پاس محل کے اندر بیٹھے ہوئے تھے تو ہم باہر ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہے تھے، ایک آدمی کو ہم نے دیکھا جو لباس اور چال ڈھال سے شاہی خاندان کا آدمی لگتا تھا، پتہ چلا کہ وہ راجہ داہر کا بہت ہی دانشمند وزیر ہے، رات کے وقت آپ کے رخصت ہونے سے بہت پہلے میں نے اسے قلعے کے دروازے کے قریب دیکھا، اونٹوں کا ایک قافلہ قلعے سے نکلا اس قافلے میں کچھ عورتیں بھی تھیں، میں نے دیکھا کہ اس نے قافلے والو کے ساتھ کچھ باتیں کی تھیں، پھر اس نے قافلہ میں سے ایک آدمی کو روک کر اس کے کان میں کچھ بات کی، اونٹ باہر نکل گئے تو یہ وزیر بھی باہر چلا گیا میں ایک طرف ہو گیا اس کا انداز بتا رہا تھا کہ یہ کوئی خاص معاملہ ہے، وہ واپس آیا تو دیکھا کہ محل کے محافظوں کو تیار کر رہا تھا ،پھر جب دیکھا کہ یہ محافظ ہمارے ساتھ جا رہے ہیں اور پھر انہوں نے دور جا کر آپ کو سلامی دی تو مجھے کچھ شک ہوا میں نے آپ سے اتنے زیادہ جو سوال کیے ہیں یہ اسی شک کی بنا پر کیے تھے، مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اونٹوں کا جو قافلہ ہمارے آگے آگے روانہ کیا گیا ہے وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے، بلکہ فوج کے خاص آدمی تھے یہ میرا پختہ قیاس ہے کہ راستے میں ہم پر حملہ ہوگا۔
میں تمھاری بات پر یقین کر لیتا ہوں۔۔۔ سندر نے کہا ۔۔۔کیونکہ وجوہات ایسی ہے کہ ایک نا ایک دن مجھے قتل ہی ہونا ہے راستہ بدل لو۔
راستہ ہمیں آپ ہی بتا سکتے ہیں۔۔۔ ابن یاسر نے کہا۔۔۔ ہم تو یہاں اجنبی ہیں۔
ایک راستہ ہے ۔۔۔سندر نے کہا۔۔۔ وہ دراصل راستہ نہیں، ادھر سے اگر ہم جائیں تو نیرون جلدی پہنچیں گے لیکن بڑا ہی مشکل راستہ ہے، بھٹکنے کا خطرہ بھی ہے ،کیونکہ مٹی اور ریت کی گھاٹیاں ٹیلے اتنے زیادہ ہیں کہ ان میں سے گزرتے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ گھومتے مڑتے کہیں واپس ہی نہ چل پڑیں، آگے کچھ علاقہ دلدلی ہے۔
جیسا بھی ہے ۔۔۔ابن یاسر نے کہا ۔۔۔ہم اسی طرف چلیں گے۔
اس طرح سندر اپنے عربی محافظوں کے ساتھ دشوار گزار علاقوں سے گزرتا زندہ اور سلامت نیرون جا پہنچا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
چند دن گزرے ہوں گے کہ آدھی رات کے وقت نیرون کے لوگوں نے کسی لڑکی کی بڑی ہی بلند اورکرخت چیخیں سنی جو دل دہلا دینے والی تھی، کئی لوگ گھروں سے باہر نکل آئے یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ جس لڑکی کی یہ چیخیں ہیں وہ کہاں ہے، لوگ ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر لڑکی کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے ،کہ کئی ایک گھبرائی ہوئی آوازیں سنائی دیں کہ اوپر دیکھو لوگوں نے اوپر دیکھا تو رات کی تاریکی میں انہیں آگ کے تین چار شعلے شہر کے اوپر بڑی تیزی سے چکروں میں اڑ رہے تھے۔
ان شعلوں سے شہر کے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی زیادہ تر لوگ اپنے اپنے گھروں کے اندر دبک گئے اور کچھ لوگ شہر سے باہر کو بھاگ اٹھے۔
نیرون کا حاکم سندر شمنی بھی جاگ اٹھا اور باہر آکر اس نے ان شعلوں کو دیکھا ،وہ چونکہ حاکم تھا اور شہر کا امن و امان اور لوگوں کی حفاظت اس کی ذمہ داری تھی، اس لئے وہ کہیں پناہ لینے کی بجائے شہر میں آگیا اور اوپر شعلوں کو دیکھنے لگا، شعلے شہر کے اوپر اڑ رہے تھے اور ان میں سے زناٹے دار آوازیں نکل رہی تھیں، کسی کو ہوش نہیں تھی کہ دیکھتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ شہر میں ہندوؤں کی جو مندر تھے ان میں بڑے گھنٹے اور گھنٹیاں بجنے لگیں ،اس کے ساتھ ہی پنڈتوں نے سنکھ بجانے شروع کردیئے، گھنٹیوں کی آوازوں اور سنکھوں کی بے سوری اور چیخ نما آوازوں سے دہشت میں اضافہ ہوگیا ،یہ خطرے سے بچنے کے لئے پنڈت بجا رہے تھے۔
یہ بھیانک سلسلہ کوئی ایک گھنٹہ جاری رہا۔ ہندو اپنے گھروں میں اپنی عبادت میں اور بدھ اپنی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ سندر کے ساتھ اس کے محافظ بھی تھے وہ اپنے گھر کی طرف چلا گیا اس نے دیکھا کہ اس کے عربی محافظ اس کے محل نما مکان کے باہر کھڑے تھے۔
میرے دوستوں !،،،،اس نے عربی محافظوں سے کہا ۔۔۔ہندو اور بدھ اپنی اپنی عبادت کر رہے ہیں ،اور اس آفت سے بچنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں ،تم اپنی عبادت شروع کردو، معلوم نہیں یہ کیا آفت نازل ہو رہی ہے تم اپنے طریقے سے اپنے خدا کو یاد کرو مجھے ڈر ہے کہ ان میں آگ کا ایک بھی گولا نیچے آگیا تو شہر جل جائے گا۔
حاکم نیرون!،،،، ایک عربی محافظ نے کہا۔۔۔ ہمارا خدا ہمیں اس طرح نہیں ڈرایا کرتا۔
کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ آفت آسمان سے آئی ہے۔۔۔ سندر نے ذرا غصے سے کہا ۔
حاکم نیرون!،،،، ابن یاسر نے کہا۔۔۔ آپ اندر چلے جائیں۔
سندر ابھی اپنے گھر میں داخل نہیں ہوا تھا کہ لڑکی کی چیخیں بند ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی شعلے بھی غائب ہو گئے۔
کچھ لوگ رات ہی کو شہر کے سب سے بڑے مندر میں چلے گئے ،اور باقی صبح ہوتے ہی مندر کی طرف چل پڑے مندروں کی گھنٹیوں گھنٹے اور سنکھ ساری رات بچتے رہے تھے، شہر کا بڑا مندر ایک وسیع و عریض اور کم و بیش دس گز اونچے چبوترے پر کھڑا تھا ،مندر چبوترے کے درمیان میں تھا اور اس کے ارد گرد چبوترے پر بہت کھلی جگہ تھی، چبوترے پر چڑھنے کے لیے کئی ایک سیڑھیاں تھیں، صبح وہاں اس قدر ہندو اکٹھے ہوگئے تھے کہ سیڑھیوں پر چبوترے کے اوپر اور مندر کے اندر تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں رہی تھی، ان لوگوں میں عورتیں بھی تھیں، بچے بھی تھے، مندر کے اندر پنڈت بتوں اور مورتیوں کے آگے ہاتھ جوڑے گڑگڑا رہے تھے ،جو لوگ مندر کے اندر نہیں پہنچ سکے تھے وہ باہر ہی ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئے تھے اور بار بار اپنے سروں کو جھکاتے تھے۔
اے لوگوں!،،،،، بڑے پنڈت نے پراتھنا سے فارغ ہو کر بلند آواز سے کہا کہ شہر پر بہت بڑی مصیبت آنے والی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر میں ایسے مذہب کے لوگ آگئے ہیں جنہیں ہمارے دیوتا پسند نہیں کرتے، ایک مصیبت سمندر کی طرف سے آرہی ہے ، یہ عرب کے مسلمانوں کی فوج ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ،اگر تم نے یہ سوچا کہ اس ملیچھ فوج کے لیے شہر کے دروازے لڑے بغیر کھول دو گے تو دیوتا اس شہر کو جلا کر راکھ کر دیں گے۔
لوگ خوفزدگی کے عالم میں مندر سے واپس آئے اور تمام دن رات اس آگ کے شعلوں کی باتیں کرتے رہے، اور سارے شہر پر خوف و ہراس طاری رہا۔
*<=======۔==========>*
قسط نمبر 11
اگلی رات پھر اسی وقت یعنی آدھی رات کے وقت ایک لڑکی کی چیخیں بلند ہونے لگی جو گزشتہ رات کی طرح بڑی ہی کرخت تھی اور اس کے ساتھ ہی آگ کے شعلوں بگولوں کی صورت میں شہر کے اوپر اوپر چکر کھانے اور اڑنے لگے، لوگ گزشتہ رات کی طرح گھروں میں دبک گئے مندروں میں گھنٹیاں گھنٹے اور سنکھ بجنے لگے۔
رات خوف وہراس میں گزر گئی ،صبح لوگ پھر مندروں میں چلے گئے ان ہندوؤں میں بدھ مت کے جو تھوڑے سے پیروکار تھے وہ اپنی عبادت گاہ میں گئے اور اس کے ساتھ ہی سارے شہر میں اس قسم کی باتیں سنی سنائی جانے لگیں کہ شہر میں کوئی ناپاک لوگ آگئے ہیں، اور یہ بھی کہ شہر کے حاکم نے مسلمانوں کے خلاف نہ لڑنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ غلط معلوم ہوتا ہے، اور دیوتا سب کو خبردار کر رہے ہیں۔
دن کے وقت لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ لڑکی کی چیخیں سنائی دینے لگی ،شہر کے درمیان کی جگہ خالی تھی ان میں بعض جگہ کھلے میدانوں جیسی تھی ایسی کئی جگہوں سے زمین سے آگ کے فوارے پھوٹے اور کچھ دور اوپر تک چلے گئے، یہ شعلے پانی کے فوارے کی طرح خاصہ اوپر تک جا رہے تھے لوگ کام کا چھوڑ کر اپنے گھروں کو بھاگنے لگے ،ماؤں کو اپنے بچوں کا ہوش نہ رہا اور کسی کو یہ بھی خیال نہ آیا کہ یہ تو دیکھیں کہ یہ جو چیخیں سنائی دے رہی ہیں یہ کہاں سے اٹھ رہی ہیں اور چیخنے والی کون ہے؟
رات آئی لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ یہ چیخیں پھر ابھرنے لگیں ایسا لگتا تھا جیسے چیخنے والی کوئی ایک ہی ہے اور وہ ہوا میں اڑ رہی ہے، اس رات ہوا میں پھر وہی آگ کے بگولے اڑنے لگے اور اس کے ساتھ ہی کئی جگہوں سے زمین سے آگ فواروں کی طرح نکلنے لگی یہ سلسلہ روزمرہ کی طرح کوئی ایک گھنٹہ جاری رہا اگلے روز بڑے مندر کا پنڈت دو پنڈتوں کو ساتھ لے کر سندر شمنی کے یہاں گیا۔
مہاراج!،،،،،،،بڑے پنڈت نے سندر سے کہا۔۔۔ ہم تین راتیں سوئے نہیں ہیں ،چنگاریاں چل کر دیکھیں ہم نے وہ تجربے کار نجومیوں اور جوتشوں کو بلایا ہے، انہوں نے اپنا حساب کتاب کیا ہے اور ہم نے اپنے طریقے سے معلوم کیا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے، وہ اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ ہمارے دیوتاؤں کا اشارہ ہے کہ ہم اس شہر کی حفاظت میں اپنی جان لڑا دیں، ہمیں یہ اشارہ بھی ملا ہے کہ اس شہر کی زمین میں مہارشیوں اور مہنتوں کی ہڈیاں کی راکھ دفن ہے، ہم نے سنا ہے کہ آپ نے یہ شہر ایک کچّے اور غلط مذہب کے لوگوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ،آپ کا مذہب معلوم نہیں کیا کہتا ہے اگر آپ غور کریں تو آپ کا مذہب بھی اجازت نہیں دے گا کہ کسی ایسے مذہب کے لوگوں کو اس شہر میں آنے دیا جائے جو مذہب ہمارے مذہبوں کے بالکل الٹ ہے، نجومی اور جوتشی کہتے ہیں کہ حاکم اپنے فیصلے پر اڑا رہا تو اس شہر کو تباہی سے کوئی بھی نہیں بچاسکے گا ،مہاراج لوگوں پر رحم کریں کئی لوگ شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
مجھے سوچنے دو ۔۔۔سندرشمنی نے دبی دبی زبان سے کہا۔۔۔ ذرا سوچنے دو ۔
پنڈتوں کے جانے کے بعد سندر نے ابن یاسر کو بلایا اور اسے بتایا کہ پنڈت اسے کیا بتا گئے ہیں اور وہ کیا سوچ رہا ہے۔
میں اگر تم لوگوں سے کہو کہ تم سب یہاں سے چلے جاؤ تو تم کیا کرو گے۔۔۔ سندر نے ابن یاسر سے پوچھا ۔۔۔میں نے ابھی کوئی فیصلہ تو نہیں کیا لیکن مجھے شہر کے لوگوں کا خیال آتا ہے میں نے تمہارے سالار کی اطاعت انہی لوگوں کو امن و امان میں رکھنے کے لیے قبول کی ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا مذہب لڑنے کی اجازت نہیں دیتا ،اب لوگوں پر یہ جو آفتاب آن پڑی ہے۔
آپ صرف تین دن انتظار کریں ۔۔۔ابن یاسر نے کہا ۔۔۔مجھے امید ہے کہ اس آفت کو ہم ختم کردیں گے۔
تم اسے کس طرح ختم کر سکتے ہو؟،،،، سندر نے کہا۔۔۔ تم اس طاقت کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہو جو کسی کو نظر ہی نہیں آتی؟
صرف تین دن حاکم نیرون!،،،،، ابن یاسر نے کہا ۔۔۔صرف تین دن۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ابن یاسر کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ سندر اور محمد بن قاسم کے درمیان رابطے کا کام کرے، وہ اسی وقت کھانے پینے کا کچھ سامان لے کر روانہ ہو گیا وہ ان دنوں کا واقعہ ہے جن دنوں محمد بن قاسم ارمن بیلہ میں تھا اور دیبل کی طرف کوچ کی تیاریاں کررہا تھا ۔
ابن یاسر کے سامنے ایک سو میل سے زیادہ فاصلہ تھا اور اس کے پاس صرف تین دن تھے وہ اپنے سربراہ شعبان ثقفی کو نیرون کی صورتحال بتانے اور رہنمائی لینے کے لیے جا رہا تھا ،وہ مان نہیں رہا تھا کہ نیرون پر دیوتاؤں کا قہر نازل ہو رہا ہے، وہ مسلمان تھا اور مسلمان کے لئے دیوتا کوئی معنی نہیں رکھتے کہ ان کا وجود ہے۔
وہ دوپہر سے کچھ پہلے نیرون سے نکلا تھا اور آدھی رات سے کچھ دیر پہلے منزل پر پہنچ گیا، اس کی منزل اس کی طرف بڑھی آرہی تھی، وہ اس طرح کے محمد بن قاسم نے حکم دے دیا تھا کہ الصبح تمام فوج دیبل کی طرف کوچ کرے گی، کوچ اندھا دھن نہیں کیا جاتا تھا کچھ آدمی مسافروں کے بہروپ میں آگے بھیج دیے جاتے تھے جو آگے کے تمام علاقے کو دیکھتے جاتے تھے، یہ دشمن کا علاقہ تھا اور محمد بن قاسم دو قلعہ فتح کر کے تیسرے قلعے کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا ،یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ دشمن کی فوج قلعوں میں دبکی بیٹھی ہوگی، توقع یہ تھی کہ راجہ داہر کے دستے گھات میں ہونگے اور شب خون بھی ماریں گے،
ان خطروں کے پیش نظر محمد بن قاسم کی فوج کے کچھ آدمی رات کو ہی آگے دیبل کی طرف چلے گئے تھے جو کہ جنگی لحاظ سے یہ علاقہ نازک اور خطرناک تھا، اس لئے ان آدمیوں کے ساتھ شعبان ثقفی خود ساتھ گیا تھا، یہ پارٹی ارمن بیلہ سے کئی میل دور آ گئی تھی انہیں ایک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دیے شعبان ثقفی نے اپنے آدمیوں کو راستے سے ہٹا کر بٹھا دیا اور اپنی طرف بڑھتے ہوئے گھوڑے کا انتظار کرنے لگا ،گھوڑا تیز رفتار سے آ رہا تھا جب قریب آیا تو شعبان ثقفی نے راستے میں آکر اسے روک لیا اور فوراً ہی دوسرے آدمیوں نے اٹھ کر اسے گھیرے میں لے لیا۔
کون ہو ؟،،،،شعبان ثقفی نے پوچھا ۔۔۔کہاں جا رہے ہو؟
شعبان ثقفی نے عربی میں بات کی تھی اس کے ساتھ مکران کا رہنے والا ایک آدمی تھا جو عربی بولتا اور سمجھتا تھا ،اس نے سندھی زبان میں شعبان ثقفیی کا سوال دہرایا ۔
میں ابن یاسر ہوں۔۔۔ وہ گھوڑے سے کود آیا۔۔۔ میں نے اپنے استاد کی آواز پہچان لی تھی ،آپ کہاں یہاں کیسے؟
فجر کی نماز کے فوراً بعد دیبل کی طرف پیش قدمی ہو رہی ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ تم جانتے ہو ہم آگے کیوں جارہے ہیں، ہراول دستے چل پڑے ہوں گے، تم کیسے آئے کوئی خاص خبر ہے؟
ابن یاسر نے اپنے شعبے کے سربراہ شعبان ثقفی کو بتایا کہ نیرون میں کیا ہو رہا ہے ، اور یہ بھی بتایا کہ سندر کو راجہ داہر نے بلایا اور اس پر زور دیا تھا کہ وہ اطاعت قبول کرنے والا معاہدہ توڑ دے لیکن وہ انکار کر آیا ہے۔
میں اب یہ پوچھنے آیا ہوں کے نیرون میں جو پراسرار آگ شہر کے اوپر گھومتی ہے یہ کیا ہوسکتا ہے؟،،،،،،ابن یاسر نے پوچھا ۔۔۔اور ہمیں کیا کرنا چاہیے، اگر ہم نے ایک دو دن اور کچھ نہ کیا تو نیرون ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
آؤ ابن یاسر!،،،،، شعبان ثقفی نے اسے راستے سے ہٹا کر بٹھا لیا اور بولا ۔۔۔میں تمہیں بتاتا ہوں آگ کے یہ گولے کہاں سے آتے ہیں ۔
شعبان ثقفی نے اسے سارا معاملہ سمجھایا اور بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو ساتھ ملا کر کیا کرے۔
مجھے ابھی واپس چلے جانا چاہیے ۔۔۔ابن یاسر نے اونگھتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ مجھے گھوڑا بدل دیں، میں نے اپنے گھوڑے کو آرام کی مہلت نہیں دی تھی۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں بھی آرام کی ضرورت ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔تم گھوڑے کی پیٹھ پر سو جاؤ گے، لیکن ابن یاسر ہم سو گئے تو ہماری تاریخ بھی اور قوم کی تقدیر بھی سو جائے گی، اسلام کو ہماری قربانی کی ضرورت ہے، جا میرے رفیق اللہ تیرے ساتھ ہے۔
ابن یاسر تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوا اور ایڑ لگا دی، ریگستان کی کھنک اور خاموش رات میں کچھ دیر تک اس کے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیتے رہے اور رات پھر خاموش ہوگئی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اگلے دن کا پچھلا پہر تھا جب ابن یاسر نیرون میں داخل ہوا اور اپنے ساتھیوں کے کمرے میں گیا، وہ اتنا تھکا ہوا تھا کہ چارپائی پر گرتے ہی سو گیا، اس کے گھوڑے کے جسم سے پسینہ یوں ٹپک رہا تھا جیسے گھوڑا پانی سے نکل آیا ہو۔
آدھی رات سے کچھ پہلے پھر وہ چیخیں سنائی دینے لگی کسی لڑکی بچی کی معلوم ہوتی تھی، یہ تو ہر رات کا معمول بن گیا تھا ابن یاسر نے بہت سو لیا تھا اس کے ساتھی جاگ اٹھے اور اس کی بھی آنکھ کھل گئی چیخوں کے ساتھ فضا میں گڑگڑاہٹ بھی سنائی دے رہی تھی جو فضا میں گھومتی پھرتی محسوس ہوتی تھی۔
ابن یاسر اچھل کر اٹھا اور تلوار نکالی، میرے ساتھ آؤ دوستوں!،،،،، اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔۔۔آج کے بعد یہ آگ کے بگولے نظر نہیں آئیں گے۔
اس کے پانچوں ساتھی تلوار اٹھائے اس کے پیچھے نکل گئے مندر کے گھنٹے اور پنڈتوں کے سنکھ بج رہے تھے اوپر آگ کے بگولے گھوم رہے تھے اور ان میں چلتی ہوئی چکی جیسی آوازیں آرہی تھیں، شہر کا کوئی ایک بھی فرد باہر نظر نہیں آرہا تھا، چاند افق سے کچھ اوپر اٹھ آیا تھا یہ پورا نہیں رہا تھا ،اس کی چاندنی میں دور تک دیکھا جا سکتا تھا۔
ابن یاسر کے دو دنوں کی غیر حاضری میں پراسرار آگ کے بگولوں اور چیخوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا تھا اور دن کو ایک آدھ گھنٹے کے لیے زمین سے آگ اور پانی کے فوارے نلکتے تھے، مکان خالی ہو گئے تھے لوگ شہر سے چلے گئے تھے، پہلے پہل جب یہ پراسرار اور خوفناک سلسلہ شروع ہوا تو بعض لوگ گھروں سے نکل آتے تھے لیکن دو دنوں سے انہوں نے باہر آنا چھوڑ دیا تھا۔
ابن یاسر بڑے مندر کی طرف جا رہا تھا اور وہ اپنے ساتھیوں کو بتاتا جا رہا تھا کہ شعبان ثقفی نے اسے کیا بتایا ہے، وہ جوں جوں مندر کے قریب ہوتے جا رہے تھے آواز اور زیادہ بلند ہوتی جا رہی تھی، یہ چیخیں مندر کے اندر ہیں یا مندر کے چبوترے پر۔۔۔ ابن یاسر نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔۔۔اور یہ کسی جن یا ہندوؤں کی دیوی کی چیخیں نہیں یہ انسانی چیخیں ہیں، اور ہمیں چیخنے والی کو پکڑنا ہے۔
ابن یاسر !،،،،،اس کے ایک ساتھی نے کہا ۔۔۔تم غیبی مخلوق کو تو ہاتھ ڈالنے نہیں جارہے؟،،،، میں ڈر سا محسوس کر رہا ہوں کہ تم آسمانی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہو۔
تم میں سے جس کسی کے دل پر ذرا سا بھی خوف ہے وہ سورہ فاتحہ کا ورد کرتا رہے۔۔۔ ابن یاسر نے کہا۔۔۔ قرآن کے سامنے کوئی غیبی مخلوق یا آسمان کی آگ نہیں ٹھہر سکتی نہ دل پر کوئی خوف رہتا ہے ۔تین مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر اس کے یہ الفاظ "ایاک نعبدو و ایاک نستعین" ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں" دہراتے رہو ۔
اس کے ساتھیوں نے یہ ورد شروع کر دیا ،اور وہ مندر کی طرف بڑھتے گئے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=*
ابن یاسر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کشادہ گلی میں داخل ہوگیا جو کچھ آگے جا کر ختم ہو جاتی تھی اور وہاں سے کوئی پچاس گز آگے مندر تھا، چاند کچھ اور اوپر آ گیا تھا اور اس کی شفاف چاندنی مندر پر پڑ رہی تھی، جب یہ چھ عرب گلی میں سے نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی جس کی عمر کا کوئی اندازہ نہیں ہوسکتا تھا مندر کے چبوترے کی سیڑھیاں چڑھتی اور چینختی جارہی تھی، چبوترے پر جاکر وہ مندر کے بڑے دروازے کی طرف دوڑی اندر سے دو آدمی نکلے انہوں نے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اسے گھسیٹ کر چبوترے کی سیڑھیوں تک لائے اور اسے اٹھا کر سیڑھیوں سے نیچے چھوڑ دیا ،لڑکی کی چیخیں اور زیادہ کرخت اور بلند ہوگئی اور وہ پھر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
مندر کے اندر سے جب دو آدمی نکلے تھے تو ابن یاسر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک درخت کی اوٹ میں ہو گیا اور بیٹھ گیا تھا، لڑکی سیڑھیاں چڑھنے لگی لیکن تیسری یا چوتھی سیڑھی سے اس کا پاؤں پھسل گیا اور وہ پھر نیچے آ پڑی، اس دوران شہر کے اوپر آگ کے بگولے اڑ رہے تھے، ایسی ہیبت ناک حالت میں اپنے دل کو مضبوط رکھنا خاصا مشکل تھا، دل کی مضبوطی کے لئے عرب کے یہ چھ مجاہد اللہ کے کلام کا ورد کر رہے تھے۔
لڑکی کے قد اور جسم سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کوئی جوان لڑکی نہیں وہ بارہ چودہ سال کی بچی معلوم ہوتی تھی ،وہ چیختی ہوئی اٹھی اور سیڑھیاں چڑھ گئی ،وہ مندر کی طرف چلنے لگی تو اس کی چیخیں خاموش ہوگئیں اور وہ گر پڑی، اس کے ساتھ ہی فضا میں آگ کے جو گولے اور بگولے اڑ رہے تھے وہ غائب ہو گئے اور نیرون کی رات بالکل خاموش ہوگئی ایسا لگتا تھا جیسے یہ شہر نہیں بلکہ قبرستان ہے۔
مندر میں سے وہی دو آدمی باہر آئے انہوں نے لڑکی کو اٹھایا اور اندر لے گئے۔
ابن یاسر اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر مندر کے سامنے سے اوپر جانے کی بجائے ایک طرف سے اوپر گیا ،پہلے وہ خود بڑے دروازے میں داخل ہوا یہ ایک راہداری تھی جو سرنگ کی مانند تھی، آگے کچھ روشنی نظر آرہی تھی، یاسر نے اپنے ساتھیوں کو اشارے سے بلایا اور سرگوشی کی کہ کسی قسم کی آواز پیدا نہ ہو ،وہ راہداری کی دیوار کے ساتھ ایک قطار میں دبے پاؤں بڑھتے گئے اندر سے ایک دو آدمیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، آگے جاکر راہداری کے ساتھ دائیں اور بائیں سے تاریک راہداریاں ملتی تھیں، ابن یاسر آگے بڑھتا گیا ،بولنے کی آوازیں آگے تھیں۔
وہ ایک دروازے تک پہنچ گئے یہ ایک کشادہ کمرہ تھا اس کے فرش پر چٹایاں بچھی ہوئی تھیں، درمیان میں ایک چبوترا تھا جس پر ایک بت بیٹھا ہوا تھا اور یہ بالکل عریاں تھا ،دیواروں کے ساتھ تراشے ہوئے پتھروں کے اسی قسم کے اور بھی بت تھے، اس کمرے کی چاروں دیواروں میں ایک ایک دروازہ تھا ،اس کمرے کے دو دیواروں میں مٹی کے دیئے رکھے ہوئے تھے جو جل رہے تھے۔
ابن یاسر اپنے ساتھیوں کے آگے آگے تھا کسی کی باتیں سنائی دے رہی تھی، یاسر دیوار کے ساتھ ساتھ ایک دروازے کے قریب گیا یہ ایک اور کمرہ تھا جو زیادہ کشادہ نہیں تھا ،یہ شاید پنڈتوں کا رہائشی کمرہ تھا، عبادت والا کمرہ شاید کسی اور طرف تھا ،اس رہائشی کمرے میں تین چار دیے جل رہے تھے، کوئی دریچہ اور کوئی روشن دان نہیں تھا،اندر جلتے ہوئے تیل کی بدبو تھی ،اس رہائشی کمرے میں چار آدمی تھے اور دو جوان اور بڑی ہی خوبصورت لڑکیاں تھیں، یہ سب گول دائرے میں بیٹھے تھے ان کے درمیان بارہ تیرہ سال عمر کی سنولے رنگ کی ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی، اس کا چہرہ مریضوں جیسا تھا ،اس کی آنکھوں سے اور ہر طرف دیکھنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ اسے کہیں سے زبردستی اٹھا کر لائے ہیں، اور اس پر دہشت طاری ہے، ایک پنڈت نے ہاتھ بڑھا کر اس کے سر پر رکھا اور اس کا ماتھا چوما جیسے یہ اس کی بچی ہو۔
ایک لڑکی نے ایک پیالا اٹھا کر اس کے ہونٹوں سے لگایا معلوم نہیں اس پیالے میں کیا تھا لڑکی بےتابی سے پینے لگی جب وہ پی چکی تو اس نے رونا شروع کردیا ۔۔۔مجھے چھوڑ دو اس نے روتے روتے کہا۔۔۔ مجھے گھر جانے دو ۔۔۔اس نے اپنے سینے پر ہاتھ پھیر کر کہا۔۔۔ میرے اندر آگ لگی ہوئی ہے۔
چونکہ روشنی اتنی زیادہ نہیں تھی اور ابن یاسر دروازے کے ساتھ اس طرح لگا کھڑا تھا کہ اندر والوں کو اچھی طرح نظر نہیں آتا تھا، اور چونکہ اندر والے لڑکی کے ساتھ الجھے ہوئے تھے اس لیے وہ دروازے کی طرف نہ دیکھ سکے، ابن یاسر نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور دروازے میں کھڑے ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا، اس کے جواب میں ان چھ عرب مجاہدوں نے اتنی زور سے اللہ اکبر کہا کہ مندر جیسے ہل گیا ہو، مندر کے کمرے بند سے تھے ان چھے مجاہدین کی گرج کچھ دیر مندر کی محدود اور مقید فضا میں آگ کے بگولوں کی طرح گھومتی اور برستی رہی۔ مجاہد بڑی تیزی سے اندر گئے اور ان سب کو گھیرے میں لے لیا مندر کے اندر بیٹھے ہوئے آدمی اس قدر ڈر گئے تھے کہ ان کے منہ سے آواز بھی نہیں نکلی تھی۔
سب لوگ دیوار کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ ابن یاسر نے کہا۔
وہ سب دیوار کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ان میں تین تو صاف طور پر پنڈت نظر آتے تھے چوتھا آدمی عجیب سے حلیے کا تھا، اور دو جوان لڑکیاں اور ایک یہ چھوٹی بچی تھی ۔
ابن یاسر نے اپنے ساتھی کو جو سندھ کی زبان بولتا اور سمجھتا تھا اپنے پاس بلا کر کہا کہ میری ان کے ساتھ باتیں کراؤ ۔اسکے ساتھی نے ترجمانی شروع کردی۔
چھوٹی لڑکی دوڑ کر ابن یاسر کی ٹانگوں سے لپٹ گئی اور وہ رو رو کر کہنے لگی کہ یہ لوگ اسے گھر سے اٹھا لائے ہیں۔
یہ تمہیں کیا کہتے ہیں؟،،،، ابن یاسر نے کہا۔
لڑکی نے اس آدمی کی طرف دیکھا جو پنڈت نہیں لگتا تھا، پھر اس نے بازو لمبا کر کے اس آدمی کی طرف اشارہ کیا لیکن اس کے ساتھ وہ ابن یاسر کی ٹانگوں میں سکڑنے لگی۔ جیسے بہت ہی ڈری ہوئی ہو، اس آدمی کی شکل و صورت تھی ہی بڑی ڈراؤنی ،اس کا چہرہ خودرا اور کرخت تھا ،اس کی داڑھی بھی تھی جس کے آدھے بال سفید تھے اس نے مونچھیں مروڑ کر اوپر کو کی ہوئی تھیں، اس کی آنکھیں گہری سرخ تھیں،اس کے سر پر پگڑی نما ٹوپی سی تھی، اس کے بازوؤں میں چوڑیوں جتنے بڑے رِنگ تھے جو شاید لکڑی کے بنے ہوئے تھے، اس نے سیاہ کپڑے کا لمبا سا چغہ پہن رکھا تھا، اس کے گلے میں موٹے منکوں کی مالا تھی، یہ آدمی کسی پہلو مذہبی پیشوا نہیں لگتا تھا اور وہ تھا ہی نہیں۔
ابن یاسر نے جھک کر لڑکی کو اٹھایا اور اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا اور دلاسہ دیا اور کہا کہ وہ کسی سے نہ ڈرے۔
یہ شخص مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیتا تھا ۔۔۔لڑکی نے بتایا۔۔۔ ایک ہاتھ سے میرا سر پکڑ لیتا تھا اور دوسرا ہاتھ آہستہ آہستہ میرے ماتھے پر پھیرتا تھا ،پھر میری آنکھوں میں دیکھتا تھا دیکھتے دیکھتے میرے جسم کے اندر جلن شروع ہوجاتی تھی، یہ اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ میری چیخیں نکلتی تھیں، یہ پنڈت مجھے گھسیٹ کر کسی نہ کسی گلی میں چھوڑ آتے تھے مجھے اتنی ہی ہوش ہوتی تھی کہ میں مندر کی طرف بھاگتی تھی، اور مجھے گھسیٹ کر پھر باہر پھینک آتے تھے، کبھی تو مجھے ہوش ہی نہیں رہتی تھی جب میں ہوس میں آتی تھی تو جلن کم ہونے لگتی تھی، پھر یہ مجھے شربت پلاتے تھے اور میرے ساتھ پیار کرتے تھے، مجھے یہاں سے لے چلو یہ آدمی مجھے کھا جائے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
میرے دوستوں!،،،،، ابن یاسر نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔۔۔ شعبان نے مجھے یہی بتایا تھا، اس نے کہا تھا کہ ڈرنا نہیں یہ اس ملک کی شعبدہ بازی معلوم ہوتی ہے ،دل مضبوط کرکے اس میں کود جانا ،شعبان نے یہ بھی کہا تھا کہ تم اسلام کے مجاہد ہو اور تمہارے پاس بڑا ہی زبردست تعویذ ہے جس کے سامنے کوئی جادو اور کوئی شعبدہ نہیں ٹھہر سکتا،،،، یہ ڈراؤنی شکل والا ادمی جادوگر ہے۔
ابن یاسر نے یہ بات عربی زبان میں کی تھی جسے پنڈت وغیرہ نہ سمجھ سکے، اور ابن یاسر کے ساتھیوں کے حوصلے بڑھ گیئے، ابن یاسر نے مندر کے ان آدمیوں کو اور دونوں لڑکیوں سے بھی کہا کہ وہ آگے ہو کر جھک جائیں ان کی گردنیں اڑائیں جائیں گی۔
ڈراونی شکل والے آدمی نے دونوں ہاتھ بلند کرکے کچھ بڑبڑانا شروع کر دیا اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنا جادو چلانا چاہتا ہے ،ابن یاسر نے اس کے اوپر اٹھے ہوئے بازوؤں میں سے ایک پر بڑی زور سے اپنی تلوار ماری پھر اس کے منہ پر بڑی زور سے گھونسا مارا وہ پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگا، ابن یاسر کے دونوں ساتھیوں نے اسے پکڑ کر پیٹھ کے بل گرلیا، اس کے سینے پر پاؤں رکھ کر تلوار کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی۔
کیا تم جادوگر ہو؟،،،،،ابن یاسر نے پوچھا، یاشعبدہ باز ہو فوراً بولو، ورنہ گردن کٹ جائے گی ۔
اس نے ہاتھ جوڑے اور سر ہلایا جیسے اس نے اعتراف کیا کہ وہ شعبدہ باز ہے۔
پنڈت الگ کھڑے کانپ رہے تھے اور رحم کی بھیک مانگ رہے تھے، ابن یاسر نے اس خطے کی زبان بولنے والے ساتھی سے کہا کہ ان پنڈتوں سے کہو کہ انہیں زندہ نہیں چھوڑا جا سکتا ،اور ان کی لاشیں شہر سے دور پھینک آئیں گے جہاں انہیں صحرا کے درندے کھائیں گے۔
ابن یاسر کے اس ساتھی نے جب پنڈتوں کی زبان میں انہیں بتایا کہ ابن یاسر نے کیا کہا ہے تو پنڈت اس قدر خوفزدہ ہوئے کے تینوں نے گھٹنے ٹیک کر ہاتھ جوڑے، بڑا پنڈت اٹھا اور ابن یاسر کے ساتھی کو الگ لے گیا، اور اس کے کان میں کچھ کہا، اس ساتھی نے ہنستے ہنستے ابن یاسر کو بتایا کہ یہ پنڈت کہہ رہا ہے ان دونوں لڑکیوں کو لے جاؤ اور اس کے ساتھ یہ ہمیں بہت سا سونا اور رقم دے گا، اس کے عوض جان بخشی چاہتے ہیں۔
ابن یاسر نے شعبدہ باز کو گرایا ہوا تھا جب اس کرخت صورت آدمی نے سر ہلا کر اعتراف کر لیا تو ابن یاسر نے اسے اٹھایا ،ابن یاسر کے کہنے پر اس نے کہا کہ وہ بتائے گا کہ یہ سب کیا ہے، بلکہ کر کے بھی دکھا دے گا۔
یہاں نہیں ۔۔۔۔ابن یاسر نے کہا ۔۔۔سب حاکم نیرون کے پاس چلو اور اس کے سامنے بتاؤ کہ تم یہ شعبدہ کس طرح کررہے تھے اور اس کا مقصد کیا تھا ۔
ان سب کو سندرشمنی کے پاس لے جایا گیا وہ سویا ہوا تھا اسے جگایا گیا اور بتایا گیا کہ پراسرار آگ کا معمہ حل ہو گیا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷÷=÷=÷*
ابن یاسر نے حاکم نیرون سندر کو بتایا کہ وہ کہاں چلا گیا تھا اور وہاں سے کیا ہدایات لایا تھا ،پھر وہ کس طرح ان پر اسرار آگ کے بگولوں اور چیخوں کے دوران مندر میں داخل ہوا، اور اس نے کیا دیکھا ،ابن یاسر کے کہنے پر پہلے چھوٹی لڑکی نے بتایا کہ اس کے ساتھ یہ لوگ کیا عمل کرتے تھے، پھر شعبدہ باز سے کہا گیا کہ وہ بولے، سندر نے اسے کہا کہ اس نے ذرا سی بھی جھوٹ بولا تو اسی وقت اس کے دونوں بازو کاٹ دیے جائیں گے اور اسی حالت میں اسے دور پھینک آئیں گے۔
شعبدے باز نے بڑے اطمینان سے اپنا آپ ظاہر کردیا اور جو کمال وہ دکھا رہا تھا وہ بھی اس نے بیان کیا اس نے بتایا کہ اس سارے ملک ہند میں صرف تین آدمی ہیں جو یہ کام کر سکتے ہیں۔
یہ آگ جو آپ لوگ شہر کے اوپر گھومتی پھرتی دیکھتے رہے ہیں یہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔یہ بے ضرر چیز ہے اسے آپ نظر کا دھوکا بھی کہہ سکتے ہیں ،لیکن یہ ایک علم ہے جسے حاصل کرنے کے لیے اپنے من کو اور اپنے جسم کو ایسی تکلیفوں میں رکھنا پڑتا ہے جو ہر آدمی برداشت نہیں کرسکتا ،اس آگ سے کسی ایک آدمی کو یا اس کے گھر کی کچھ چیزوں کو جلایا جا سکتا ہے ،لیکن اس آگ میں یا اس آگ کا شعبدہ دکھانے والے کسی بھی جادوگر میں اتنی طاقت نہیں کہ اس سے وہ کسی بستی کو جلا دے، اور وہ آگ جو فوارے کی طرح زمین سے پھوٹتی تھی وہ بھی کوئی آگ نہیں تھی جادو کا کرشمہ تھا، اسی طرح پانی کے جو فوارے پھوٹ دے رہے ہیں ان میں اگر آپ ہاتھ رکھتے تو آپ کے ہاتھ خشک رہتے، اس پانی میں پانی والا کوئی وصف نہیں تھا۔
تم نے شعبدہ بازی یہاں آکر کیوں کی؟۔۔۔ حاکم نیرون نے پوچھا۔
دولت کی خاطر ۔۔۔شعبدےباز نے جواب دیا۔۔۔ مہاراج داہر میں ایک اپنے جیسے مہاراجہ دوست سے کہہ کر مجھے اپنے پاس بلوایا تھا انہوں نے مجھے بتایا کہ نیرون کے حاکم اور لوگوں کو ڈرانا ہے، انہوں نے ایک آدمی میرے ساتھ بھیجا تھا اس آدمی نے ان پنڈتوں کو بتایا تھا کہ جب میں اپنے علم کا یہ کمال دکھاؤں گا تو پنڈت شہر میں کیا پرچار کریں گے اور آپ کے پاس آکر کیا کہیں گے، مہاراج نے مجھے اتنا زیادہ انعام دینے کو کہا تھا جو میری سات پشتو کے لئے کافی تھا۔
اس معصوم بچی کو تم کیوں جلاتے رہے ہو؟،،،،،، سندر نے کہا۔
اس عمر کے بچے کو خواہ لڑکی ہو یا لڑکا ایک خاص طریقے سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔۔۔ اس نے جواب دیا ۔۔۔یہ لڑکی اپنے ماں کے ساتھ مندر میں آئی تھی اتفاق سے میں نے اسے دیکھا تو پنڈت جی مہاراج سے کہا کہ یہ لڑکی زیادہ موزوں ہے لڑکی چلی گئی اور شام کو ایک پنڈت نے معلوم نہیں کس طرح اسے اٹھا لایا،،،،، مہاراج یہ ہمارا علم ہے میں آپ کو سمجھا نہیں سکتا کہ اس عمر کے بچے کو کس طرح اس شعبدے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے ،ایسے انسانی ذریعے کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا، اگر کسی خاندان کو پریشان کرنا ہو تو اس خاندان کے کسی ایک فرد پر یہ عمل دور بیٹھ کر کیا جاتا ہے، اسے ایک دورہ سا پڑتا ہے پھر اس گھر پر جادوگر یا شعبدہ باز پتھر گراتا چاہے ان کی چیزوں کو آگ لگانا چاہے یا جو بھی کرنا چاہے کرتا ہے،،،،،، میں آپ کو الفاظ میں نہیں سمجھا سکتا اگر مہاراج اجازت دیں تو میں کر کے دکھا سکتا ہوں ،آپ شہر کے اوپر آگ کے بگولے دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ دکھا دوں گا ،زمین سے آ گ یا پانی دونوں پھوٹتے دیکھنا چاہتے ہیں تو دکھا دوں گا۔
ہم جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ دیکھ لیا ہے۔۔۔ سندر نے کہا ۔۔۔۔تم اس شہر سے نکل جاؤں لیکن اپنی وطن کا رخ کرو اروڑ کی طرف نہ جانا۔
حاکم نیرون!،،،،، ابن یاسر نے کہا ۔۔۔اسے ابھی جانے نہ دیں ،ضرورت یہ ہے کہ شہر کے لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ کوئی آسمانی آفت نہیں تھی، صبح سارے شہر میں منادی کرا کے تمام لوگ ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور انہیں اصل حقیقت دکھائی جائے گی، صبح ہونے میں تھوڑی سی دیر باقی تھی سندر نے حکم دیا کے ابھی منادی والے بلا لیے جائیں اور لوگوں کو فلاں میدان میں جمع کیا جائے۔
جب سورج طلوع ہوا تو نیرون شہر کا بچہ بچہ ایک میدان میں آ گیا تھا ،سندرآیا اس کے ساتھ یہ شعبدہ باز اور پنڈت تھے، سندر کے کہنے پر ایک آدمی کی آواز بہت بلند تھی آگے کیا گیا اسے بتا دیا گیا تھا کہ اس نے کیا کہنا ہے، اس نے لوگوں کو بتایا کہ جسے وہ آسمانی آفت سمجھتے رہے ہیں وہ شعبدہ تھا اور یہ سیدھے سادے امن پسند لوگوں کو ڈرانے کے لیے اور انہیں جنگ میں جھونکنے کے لئے دکھایا جا رہا تھا ،اور اب ان کے سامنے یہ شعبدہ دکھایا جا رہا ہے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ڈرے نہیں ،شعبدہ باز سے کہا گیا کہ وہ اپنا کمال دکھائے، اس بچی کو بھی وہاں بلایا گیا لوگوں سے کہا گیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں اور میدان کے درمیان بہت سی جگہ خالی چھوڑ دیں۔
شعبدہ باز نے لڑکی کے سر پر ایک ہاتھ رکھا دوسرا ہاتھ اس کے ماتھے پر پھیرنے لگا اور چند لمحوں بعد لڑکی نے تڑپنا اور چیخنا شروع کر دیا ،اس کے ساتھ ہی فضا میں آگ کے آٹھ دس بگولے گرنے اور اڑنے لگے، لوگ ڈر کر پیچھے ہٹنے لگے انہیں کہا گیا کہ وہ نہ ڈریں،
شعبدہ باز نے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کیے اور آسمان کی طرف منہ کرکے کچھ بڑبڑایا آگ کے بگولے غائب ہو گئے اور میدان سے آگ کا فوارہ یا لمبوترا شعلہ اوپر کی طرف جانے لگا، جیسے زمین سے آگ پھوٹ رہی ہو، اس سے تھوڑی دور پانی کا فوارہ پوٹا ان دونوں فواروں کی بلندی کم و بیش بیس گز تھی۔
ابن یاسر آگے بڑھا اور ان فواروں کی طرف چلا گیا پہلے وہ آگ کے فوارے میں سے گزرا آگے جاکر وہ واپس آیا اور پانی کے فوارے سے گزرا ،اسے نہ آگ نے جلایا نہ پانی اسے بھیگو سکا، واپس آکر اس نے سندر کو بتایا کہ آگ اور پانی میں جا کر اسے نہ تپش محسوس ہوئی نہ ٹھنڈک۔
بچی چیخ رہی تھی اس کی ماں اس کے باپ کے ساتھ دوڑتی ہوئی آئی اور دونوں اپنی بچی کے پاس جانے لگے لیکن شعبدہ باز نے انہیں روک دیا تھوڑی دیر بعد بچی کی چیخیں بند ہوگئیں وہ گر پڑی اور آگ اور پانی کے فوارے غائب ہو گئے۔
لوگوں کو ایک بار پھر بتایا گیا کہ انہیں کیوں اور کس نے خوفزدہ کیا ہے، اس شعبدہ باز کو نیرون سے نکال دیا گیا۔
پنڈت جی !،،،،،مہاراج سندرشمنی نے پنڈتوں سے کہا ۔۔۔۔جو مذہب شعبدہ بازی کا سہارا لیتا ہے وہ لوگوں کے دلوں میں اپنے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے ،،،،جاؤ میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷÷=÷*
712 عیسوی 92ہجری کے ایک جمعہ کے روز محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ دیبل کے مضافات میں پہنچ گیا ،شعبان ثقفی نے اسے یہ رپورٹ دی تھی کہ راستہ صاف ہے اور راجہ داہر کی فوج کا ایک بھی آدمی نظر نہیں آیا ،اس طرح اسلامی فوج بڑی اچھی رفتار سے دیبل پہنچ گئی تھی، راجہ داہر کی فوج کا کوئی آدمی باہر ہو ہی نہیں سکتا تھا کیوں کہ اس نے تمام قلعےداروں کو حکم بھیج دیا تھا کہ قلعہ بند ہو کر لڑنا ہے اس نے سختی سے کہا تھا کہ اپنے دستوں کو باہر لا کر کھلے میدان میں نہیں لڑنا۔
مؤرخوں کے مطابق محمد بن قاسم نے ارمن بیلہ سے حجاج بن یوسف کو پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ فلاں روز دیبل کی طرف کوچ کر رہا ہے، حجاج بن یوسف نے اسے پہلے ہی پیغام بھیج دیا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ جب تک وہ نہ کہیے لڑائی شروع نہ کی جائے، حجاج نے لکھا تھا کہ دشمن دشنام طرازی اور طعنہ زنی کرے تو بھی مشتعل ہوکر حملہ نہیں کرنا، ان تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حجاز نے بصرہ میں بیٹھ کر سندھ کے محاذ کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا۔
محمد بن قاسم جمعہ کے دن دیبل کے مضافات میں جمعہ کی نماز سے کچھ وقت پہلے پہنچ گیا ،اس کے حکم سے ایک بلند آواز مجاہد نے ایک اونچی جگہ کھڑے ہوکر اذان دی ،اس سرزمین پر یہ پہلی اذان تھی، نماز کے وقت تمام لشکر نماز کے لئے صف بصف ہو گیا اس دور کے دستور کے مطابق امامت محمد بن قاسم نے کی، کیونکہ وہ سپہ سالار تھا اور سپہ سالار ہی امامت کے فرائض سرانجام دیتا تھا، تاریخ اسلام کے اس کمسن مجاہد نے جمعہ کا خطاب دیا۔
،،،،،، اور عہد کرو اللہ تبارک وتعالی سے کہ اس زمین پر ہماری یہ نماز آخری نہیں ہوگی، اور دعا کرو کہ خدائے ذوالجلال ہمارے رکوع و سجود قبول فرمائے، راہ شہادت کے ہمسفروں ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے، ہم اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں جو اس ملک کی آخری سرحدوں تک پہنچانا ہے، اور ہم بے گناہ قیدیوں کو رہا کرانے آئے ہیں جنہیں کفار نے قید خانے میں بند کررکھا ہے، اس راجہ نے اسلام کی غیرت کو للکارا ہے اور یہ راجہ بے بہرہ ہے کہ اسلام کے پاسبان جب آتے ہیں تو وہ اسلام اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اور اسلام واپس جانے کے لئے نہیں آیا کرتا،،،،،
یاد کرو ان عظیم مجاہدین کو جن کی قبروں کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی، یہ کل کا واقعہ ہے کہ انہوں نے کسی میدان میں شکست نہیں کھائی تھی، انہوں نے قیصر روم کی جنگی طاقت کا گھمنڈ توڑا کر اس کی سلطنت کی سرحدیں سمیٹ دی تھیں، مدائن میں کسریٰ کے محل ہمارے باپوں کے فاتحانہ نعروں سے آج بھی لرز رہے ہیں ،سیاہ چٹانوں جیسے ہاتھیوں کو کاٹنے اور میدان جنگ سے بھگانے والے مجاہدین کو یاد کرو فارسیوں اور رومیوں جن شہنشاہیت کی جنگی طاقتیں دہشت ناک تھی آج دیکھو ان دونوں کی سرحدیں کتنی دور پیچھے چلی گئی ہیں ،ان بچھو کا زہر کس نے مارا تھا ،تم جیسے مجاہدین نے، اور آج جس راجہ نے ہمیں یہاں آنے پر مجبور کیا ہے یہ قیصر روم کی برابری کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ،فارسیوں کا عشر عشیر بھی نہیں ،خدا کی قسم میں تکبر نہیں کر رہا جن کے تم بیٹھے ہو اور جن کے پوتے ہو وہ غیرت و حمیت والے تھے ،جوان اور شجاعت والے تھے۔
میں امیر بصرہ حجاج بن یوسف کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں، اللہ تعالی کا ذکر ہر وقت کرتے رہو اللہ سے مدد اور فتح کے طلبگار رہو، اور جب لڑائی سے مہلت ملے تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد کرتے رہو اللہ تمہارے ساتھ ہے۔
حجاج بن یوسف کی ہدایات کے مطابق محمد بن قاسم نے دیبل کے قلعے کے کچھ قریب جاکر اپنی فوج کو خیمہ زن کیا اور خیمہ گاہ کے ارد گرد ایک خندق کھدوائی جو بارہ گز چوڑی اور چھ گز گہری تھی، حجاج نے اسے لکھا تھا کہ رات کو بیدار رہنا ہے تاکہ دشمن بے خبری میں حملہ نہ کر دے، حجاج نے خاص طور پر لکھا تھا کہ جو لوگ قرآن پڑھ سکتے ہیں وہ قرآن پڑھتے رہیں اور انہیں قرآن پڑھائے جو نہیں پڑھ سکتے، تلاوت قرآن کے علاوہ نفل پڑھتے رہیں اور خیمہ گاہ کے اردگرد سنتری گھومتے پھرتے رہیں۔
محمد بن قاسم نے راتوں کی عبادت کا یہ سلسلہ شروع کردیا ہر رات خیمہ گاہ سے تلاوت قرآن کی مقدس اور مترنم آوازیں بلند ہوتیں، اور سندھ کی فضا میں تیرتی دور دور تک جا پہنچتی تھی، اس کے ساتھ ہی سپاہی سے لے کر سالار تک نوافل پڑھتے تھے ساری رات خیمہ گاہ مشعلوں سے روشن رہتی تھیں، لیکن اصل روشنی نور خدا کی تھی جسے وہی محسوس کر سکتے تھے جو اپنے وطن سے دور بے گناہ قیدیوں کو چھڑانے آئے تھے،اور ساری دنیا کو یہ بتانے آئے تھے ،،،،،کیوں کر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں۔۔۔اس دوران دن کے وقت دیبل کے قلعے سے ایک دو دستے باہر آتے اور مسلمانوں پر حملہ کرتے لیکن خندق انہیں آگے نہیں آنے دیتی تھی، ہندوؤں کے یہ دستے تیر برساتے تھے محمد بن قاسم کے لئے حکم تھا کہ وہ کوئی جوابی کارروائی نہ کرے لیکن دشمن کے تیر انداز کو پیچھے ہٹانے کے لئے تیراندازی ضروری تھی ،حجاج کا مقصد یہ تھا کہ اپنی فوج ان چھوٹی چھوٹی جھڑپوں میں اپنی توانائی ضائع نہ کرے، دشمن یہ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کو قلعے سے باہر ہی الجھا کر رکھا جائے، محمد بن قاسم نے یہ ساری صورتحال سمجھتے ہوئے خیمہ گاہ میں رہنا ہی بہتر سمجھا۔ آخر ایک روز بصرہ سے حجاج کا پیغام آیا کہ دیبل کو محاصرے میں لے لیا جائے اور اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے جو اقدام ضروری ہے وہ جانوں کی قربانی دے کر بھی کیا جائے۔
محمد بن قاسم اسی حکم کے انتظار میں تھا پیغام ملتے ہی اس نے حکم دے دیا کہ رات کو دیبل کے قلعے کو محاصرے میں لے لیا جائے گا ،خیمہ گاہ قلعے کی دیواروں سے نظر آتی تھیں اس لیے دن کے وقت ایسی کوئی حرکت نہیں کی جاسکتی تھی جس سے یہ پتا چلتا کہ خیمہ گاہ اکھاڑے جارہے ہیں اور مسلمان کوئی کاروائی یا نقل و حرکت کرنے والے ہیں۔ سورج غروب ہوتے ہی خیمہ گاہ میں سرگرمی شروع ہوگئی اور دستے اس طرف سے نکلنے لگے جدھر خندق نہیں کھودی گئی تھی یہ تھوڑی سی جگہ اسی مقصد کے لئے رکھی گئی تھی، اسلامی فوج کے جو دستے باہر نکلتے تھے وہ احکام اور ہدایات کے مطابق قلعے کے اردگرد محفوظ فاصلے پر پھیلتے جارہے تھے، آدھی رات تک محاصرہ مکمل کر لیا گیا اور چھوٹی منجیقیں ایسی جگہوں پر رکھ دی گئیں جہاں سے قلعے کے دروازوں پر اور قلعے کے اندر بھی پتھر پھینکے جا سکتے تھے۔
علی الصبح قلعے کی دیواروں پر گھومتے پھرتے سنتریوں نے اعلان کرنے شروع کر دیے کہ محاصرہ ہو گیا ہے، خبردار ہو جاؤ، اس اعلان سے شہر میں ہربونگ مچ گئی تیرانداز دیواروں پر آ گئے شہر کے جو لوگ لڑنے کے قابل تھے وہ بھی پھینکنے والی برچھیاں اٹھائے دیوار پر پہنچ گئے اور باقی جو تھے وہ بھی لڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔
محمد بن قاسم قلعے کے اردگرد گھوڑا دوڑاتا پھر رہا تھا وہ دیوار کا کوئی نازک مقام دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا ،اس قلعے میں ایک سہولت یہ نظر آرہی تھی کہ اس کے ارد گرد خندق نہیں تھی، اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ قلعہ بہت مضبوط ہے، یہ تو محمد بن قاسم نے بھی دیکھ لیا تھا،قلعے کی دیوار عمودی نہیں بلکہ ذرا ڈھلانی بنائی گئی تھی، ایسی دیوار کو بہت ہی خطرناک سمجھا جاتا تھا وہ اس لئے کہ محاصرہ کرنے والے جب دیوار کے قریب جاتے تھے تو دیوار کے اوپر سے وہ صاف نظر آتے تھے اور بڑی آسانی سے تیروں کا یا برچھیوں کا نشانہ بنتے تھے ،ایسی دیوار میں سرنگ بھی نہیں کھودی جا سکتی تھی۔ محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ چھوٹی منجیقوں سے شہر کے اندر پتھر پھینکے جائیں ،اس حکم کے ساتھ ہی شہر پر سنگ باری شروع ہو گئی دیوار پر دشمن کے جو تیر انداز تھے انھوں نے بے خوف و خطر تیروں کی بوچھاڑ منجیقوں پر پھینکنا شروع کر دیں ،ان سے منجیقوں والے کئی سپاہی زخمی ہوگئے اس لئے منجیقیں پیچھے کرنی پڑی، اس سے یہ نقصان ہوا کہ پتھر شہر کے اندر نہیں جا سکتے تھے، کیونکہ فاصلہ زیادہ ہو گیا تھا
ہندوؤں نے دلیری کا یہ مظاہرہ کیا کہ قلعے کے پہلو والے ایک دو دروازے کھلتے تھے اندر سے سوار دستے سرپٹ نکلتے اور مسلمانوں پر حملہ کرکے اسی رفتار سے قلعے کے اندر چلے جاتے تھے، مسلمانوں نے ان حملوں کا توڑ کیا قلعے کے باہر لڑائیاں ہوئیں لیکن ہندو سواروں کا انداز یہ تھا کہ وہ جم کر نہیں لڑتے تھے بلکہ شب خون کے انداز سے گھوڑے دوڑاتے ضرب لگاتے اور واپس جانے کی کوشش کرتے تھے، ایسے حملوں میں ان کا نقصان تو ہوتا تھا لیکن وہ اسلامی فوج کا بھی خاصا نقصان کر جاتے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے کہا کہ وہ ایسے جانباز سوار الگ کر لیں جو اس وقت قلعے کے اندر جانے کی کوشش کریں جب اندر کا کوئی دستہ باہر آجائے، یہ طریقہ آزمایا گیا لیکن قلعے کے دروازے فوراً بند ہوجاتے تھے ،مسلمان سواروں اور پیادوں نے دشمن کے باہر آنے والے دستوں کو گھیرے میں لینے کی بھی کوشش کی لیکن گھیرے میں لینے کے لیے دیوار کے قریب جانا پڑتا تھا اور اوپر سے ان پر تیروں کا مینہ برسنے لگتا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
یہ خونریزی کئی دن جاری رہی رات کے وقت کچھ جاں باز آگے دیوار کے قریب بھیج دیئے گئے ان کے پاس دیوار کو توڑنے اور سرنگ کھودنے کا سامان تھا لیکن وہ زخمی اور شہید ہونے کے سوا کچھ نہ کر سکے، کیونکہ رات کو بھی دشمن کے سپاہی دیوار پر چوکس رہتے تھے، وہ اوپر سے تیر بھی چلاتے اور ان جانبازوں پر جلتی ہوئی مشعلیں بھی پھینکتے تھے۔
پھر ایک طریقہ اور آزمایا گیا منجیقوں کو آگے کیا گیا اور ان کے ساتھ بہت سے تیرانداز بھیجے گئے، یہ تیر انداز اپنے سامنے دیوار کے اوپر بہت تیزی سے تیر چلاتے تھے تاکہ اوپر والے تیرانداز سر نہ اٹھا سکیں، اور منجیقوں کو تیروں کا نشانہ نہ بنا سکیں، اس طرح منجیقیں شہر پر پتھر پھینکتی رہیں،
شہر کے اندر کی کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ سنگ باری سے خوف وہراس پھیلتا جا رہا تھا لیکن اندر کی فوج اور لڑنے والے شہریوں کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ وہ شہر کے لوگوں کا حوصلہ بھی مضبوط کرتے رہتے تھے، شہر میں بہت بڑا مندر تھا جو دیول کہلاتا تھا اسی کے نام پر اس شہر کا نام دیول رکھا گیا تھا جو دیبل بن گیا، اسے ایک بہت اونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا تھا اس کے کئی گنبد تھے جو مسجدوں کے گنبدوں کی طرح گول نہیں تھے بلکہ مخروطی اور چوکور تھے ،ان کے درمیان ایک گنبد تھا جس کی بلندی اتنی زیادہ تھیں کہ کئی میل دور سے نظر آتا تھا ،بعض مورخوں نے اس کی بلندی ایک سو بیس فٹ کے لگ بھگ لکھی ہے، اس گنبد کے اوپر ایک لمبا بانس کھڑا تھا جس کے ساتھ سبز رنگ کا بہت بڑا جھنڈا لہراتا رہتا تھا۔
اس جھنڈے کے متعلق کئی حکایت مشہور تھیں ،جن میں ایک یہ تھی کہ بہت دور سے گزرتے ہوئے مسافر اس جھنڈے کو دیکھ لیتے تھے تو ان کا سفر آسان ہو جاتا تھا، یہ ہندوؤں کا عقیدہ تھا کہ جھنڈا ایک دیوتا نے اپنے ہاتھوں یہاں لگایا تھا، یہ بھی مشہور تھا کہ اس جھنڈے کی وجہ سے دیبل ناقابل تسخیر شہر ہے اور جو کوئی اسے فتح کرنے کی نیت سے آئے گا وہ زندہ نہیں رہے گا اور اس کی فوج تباہ ہوجائے گی، وہ مسلمان سالار عبداللہ بن نبہان اور بدیل بن طہفہ دبیل سے پرے ہی شہید ہوگئے تھے اور دونوں کی فوجوں کو بہت بڑا نقصان اٹھا کر پسپا ہونا پڑا تھا ،اس سے ہندوؤں نے اس حکایت کو عقیدہ بنا لیا تھا کہ دیبل کو کوئی فتح نہیں کرسکتا اور یہ بھی کہ دیبل کی حفاظت دیوتا کر رہے ہیں۔
محمد بن قاسم کو ہندوؤں کے ان عقیدوں کا علم نہ تھا وہ اسے ایک مندر ہی سمجھ رہا تھا۔ اسلامی فوج کی یہ توقع ہزار کوشش کے باوجود پوری نہیں ہوسکتی تھی کہ دیوار کو کہیں سے توڑ لیا جائے گا ،زمین سے دیوار کئی گز چوڑی تھی اور اوپر جاکر یہ تنگ ہوجاتی تھی، پھر بھی یہ اتنی چوڑی تھی کہ تین گھوڑے پہلو بہ پہلو اس پر چل سکتے تھے۔
کئی دن گزر گئے تو ہندوؤں نے دیوار پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔۔۔ جدھر سے آئے ہو ادھر ہی چلے جاؤ۔۔۔ دیوار کے اوپر سے ایک للکار سنائی دینے لگی۔۔۔ اپنے پہلے دو سالاروں کی موت اور ان کی فوجوں کے انجام سے عبرت حاصل کرو یہ دیوتاؤں کا شہر ہے ان کے قہر سے بچو۔
یہ للکار بار بار سنائی دیتی تھی مسلمان مرعوب تو نہ ہوئے لیکن انہیں یہ خیال ضرور آیا کہ یہ قلعہ جانوں کی بہت بڑی قربانی دے کر ہی سر کیا جا سکے گا۔
*<=======۔==========>*
قسط نمبر 12
رات کا وقت تھا ڈراؤنا سا سکوت طاری ہو گیا تھا کوئی زخمی کراہتا تھا تو سکوت میں ذرا سا ارتعاش پیدا ہوتا، اور رات پھر خاموش ہو جاتی تھی۔ اس دور کے رواج کے مطابق کی عہدیدار اور سپاہی اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لائے تھے عورتیں اور بچے خیمہ گاہ میں تھے عورتیں زخمیوں کی مرہم پٹی اور تیماداری کر رہی تھیں دن کے وقت مجاہدین اپنے زخمی ساتھیوں کو محاصرے سے ذرا پیچھے تک پہنچادیتے اور عورتیں انہیں اٹھا کر خیمہ گاہ میں لے جاتی تھیں۔
محمد بن قاسم نے سالاروں کو اپنے خیمے میں بلایا ہوا تھا اور سب ملکر قلعہ سر کرنے کا پلان بنا رہے تھے، محمد بن قاسم کا ایک محافظ خیمے میں داخل ہوا اس نے بتایا کہ ایک ہندو رشی کو پکڑ کر لائے ہیں ،وہ محاصرے کے اردگرد گھومتا پھر رہا تھا اسے پکڑا گیا تو اس نے کہا کہ وہ سپہ سالار سے ملنا چاہتا ہے ۔
وہ جاسوس ہی ہوسکتا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔۔ اسے اندر لے آؤ اور ترجمان کو بلاؤ خیمے میں ایک آدمی داخل ہوا وہ کوئی پنڈی یا رشی تھا۔
اس سے پوچھو کہ یہ یہاں کیا کررہا تھا ؟،،،،محمد بن قاسم نے ترجمان سے کہا۔
آپ پر اللہ کی رحمت ہو اس پنڈت نے عربی زبان میں کہا۔۔۔ اور ہنس پڑا کہنے لگا ۔۔۔میں عرب ہوں اور مجھے اپنے سردار حارث علافی نے بھیجا ہے۔
پھر یہ بہروپ کیوں؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
یہ اس لئے کہ میں دن کو سفر پر تھا اس نے جواب دیا۔۔۔ اور مجھے یہاں آنا تھا اگر میں اس بہروپ کے بغیر آتا تو دن کو کوئی ہندو مجھے پہچان لیتا اور راجہ داہر تک یہ اطلاع بھیج دیتا کہ جن مسلمانوں کو اس نے پناہ دے رکھی ہے وہ درپردہ محمد بن قاسم کے پاس جاتے ہیں، تو راجہ ہمارے لئے کوئی مشکل پیدا کرسکتا تھا ۔
کوئی پیغام لائے ہو؟
ہاں سالار اعلی !،،،،،اس آدمی نے کہا۔۔۔ سردارعلافی نے کہا ہے کہ مندر کے اوپر جو جھنڈا لہرا رہا ہے اسے گرانے کی کوئی ترکیب کریں ،سنا ہے آپ کے پاس ایک بہت بڑی منجیق ہے اس کا پھینکا ہوا پتھر مندر کے بڑے گنبد تک پہنچ سکتا ہے، لیکن گنبد اتنا کچا نہیں کہ وہ تین پتھروں سے ٹوٹ جائے گا پتھر پھینکتے رہیں، وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بولا ،،،،میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اللہ آپ کو فتح و نصرت عطا فرمائے، مجھے جلدی چلے جانا چاہیے، جھنڈا گر پڑا تو دیبل آپ کا ہے ،،،،وہ خیمے سے نکل گیا۔
تاریخ سندھ میں چچ نامہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ دیبل شہر سے ایک برہمن باہر آیا اور اس نے محمد بن قاسم سے کہا کہ مندر کے گنبد پر پتھر پھینکے جائیں اور جھنڈے کو گرایا جائے اور اس شہر کی فتح کا یہی راز ہے۔
اس روایت پر یقین نہیں کیا جاسکتا ،سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ قلعے کے بند دروازوں سے ایک برہمن باہر کس طرح آ گیا ،دوسرے یہ بھی غور طلب ہے کہ ایک برہمن نے اپنے مندر پر پتھر پھینکنے کو کیوں کہا ہوگا ،برہمن تو مذہب کے ٹھیکے دار تھے اور وہ اپنے آپ کو مذہبی پیشوا کہلاتے تھے، کسی برہمن سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ مسلمانوں سے کہے کہ مندر کو توڑ دے، قابل یقین یہی ہے کہ محمد بن قاسم کو یہ مشورہ حارث علافی نے دیا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
صبح ہوتے ہی محمد بن قاسم نے اپنی فوج کے ایک آدمی جعونہ سلمی کو بلایا، یہ شخص منجیق سے صحیح نشانے پر پتھر پھینکنے کا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا، محمد بن قاسم کے حکم پر وہ فوراً اپنے سپہ سالار کے پاس پہنچا محمد بن قاسم اسے باہر لے گیا اور مندر کے جھنڈے کی طرف اشارہ کیا۔
جعونہ اسلمی !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ مندر کے اوپر وہ جھنڈا دیکھ رہے ہو اسے گرانا ہے اور اسے گرانے کے لئے گنبد کو توڑنا ضروری ہے ،میں یہ جانتا ہوں اس گنبد کو بڑے پتھروں سے توڑا جاسکتا ہے، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ تم پتھر نشانے پر پھینک سکو گے یا نہیں۔
بڑی منجیق سے پتھر پھینکنے کے لئے پانچ سو آدمی اسے کھینچ کر پیچھے کرتے تھے، اس کا نام عروس تھا اور جعونہ اسلمی واحد آدمی تھا جو اتنی بڑی منجیق سے بہت بڑا پتھر نشانے پر پھینکا کرتا تھا، وہ شامی تھا۔ سالاراعلی کی عمر دراز ہو ۔۔۔جعونہ اسلمی نے محمد بن قاسم سے کہا ۔۔۔اللہ ہم سب کا حامی و مدد گار ہوں میں تین پتھروں سے اس گنبد کو توڑ دوں گا، ایک بھی پتھر نشانے سے نہیں ہٹے گا۔
اگر تو اس گنبد کو توڑ کر جھنڈا گرا دے تو میں تجھے دس ہزار درہم انعام دوں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔
اور اگر میں تین پتھروں سے گنبد کو توڑ نہ سکا تو سالار اعلی میرے دونوں ہاتھ کاٹ دیں۔ خدا کی قسم مجھے تم جیسے مجاہدوں کی ضرورت ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تیں پتھروں کی شرط نہیں گنبد توڑو جھنڈا گراؤ اور انعام لو۔
بڑی منجیق عروس کو محمد بن قاسم کے حکم سے قلعے کے مشرق کی طرف لے گئے کیونکہ سورج طلوع ہو رہا تھا اور اسی طرف سے گنبد زیادہ صاف نظر آتا تھا، بڑے بڑے وزنی پتھر اکٹھے کر لیے گئے تھے۔
جعونہ اسلمی نے بسم اللہ پڑھی اور منجیق کی پوزیشن درست کی ،فاصلے کا اندازہ کیا پھر اس نے منجیق کے پیچھے تھوڑی سی زمین کھدوا کر منجیق کو پیچھے کرایا ، پچھلا حصہ کھودی ہوئی جگہ میں اتر گیا تو منجیق آگے سے اٹھ گئی ،منجیق کو اس پوزیشن میں وہ اس لیے لایا تھا کہ پتھر زیادہ اوپر اور آگے کی طرف دور تک جائے۔
شام کے رہنے والے اس نشانہ باز کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے پھینکے ہوئے پتھر اس ملک کی تاریخ بدل ڈالیں گے اور وقت کا دھارا رخ موڑ لے گا۔
اس نے پہلا پتھر منجیق میں رکھوایا اس کے اشارے پر پانچ سو کے لگ بھگ مجاہدین نے رسّے کھینچے منجیق کا پتھر پھینکنے والا حصہ پیچھے ہٹتے ہٹتے آخر حد تک پہنچ گیا ،جعونہ اسلمی کے اشارے پر رسّے بیک وقت چھوڑ دیے گئے ،بڑا ہی وزنی پتھر اُڑا اور اوپر اور آگے کو اڑتا گیا قلعے کی دیوار سے آگے نکل گیا اور سیدھا گنبد کے اوپر والے حصے میں لگا ،دھماکہ دور دور تک سنائی دیا اس کے ساتھ ہی مجاہدین نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔
جعونہ اسلمی نے دوسرا پتھر رکھوایا جب یہ پتھر چھوڑا گیا تو جعونہ اسلمی نے کہا ۔۔۔گنبد کھڑا نہیں رہ سکتا۔۔۔ پتھر نشانے پر لگا اور یہ پتھر نیچے کو آنے کی بجائے گنبد میں ہی غائب ہوگیا جیسے اسے گنبد نے نگل لیا ہو، وہاں بہت بڑا سوراخ ہو گیا تھا جھنڈے کا بانس جھک گیا۔
تیسرے پتھر کے لئے جعونہ اسلمی نے منجیق کی پوزیشن ذرا سی بدلی پتھر رکھوایا رسّے کھینچے گئے، اور جب رسّے چھوڑے گئے تو جعونہ اسلمی نے پتھر کی اڑان دیکھ کر نعرہ لگایا ۔۔۔جھنڈا کھڑا نہیں رہ سکتا۔۔۔ پتھر، پہلے پتھر کے بنائے شگاف سے ذرا اوپر لگا، یہ اس مخروطی گنبد کی چوٹی تھی اور اس نے بانس کو پکڑ رکھا تھا یہ حصہ اڑ گیا، یہ پتھر بھی گنبد کے اندر چلا گیا ،بانس آہستہ آہستہ ٹیڑھا ہوا اور گنبد کے اوپر گرا وہاں سے پھسلتا جھنڈے کو اپنے ساتھ لیے ہوئے نیچے چلا گیا ۔۔۔محمد بن قاسم کے مجاہدین نے جو نعرہ تکبیر بلند کیا وہ رعد کی کڑک کی مانند تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
گنبد پر پہلا پتھر لگا ہی تھا کہ شہر کے لوگ باہر نکل آئے اور مندر کی طرف اٹھ دوڑے تھے، دوسرا پتھر گنبد کے اندر چلا گیا اور گنبد کے پتھر بھی اندر گرے تو اندر جو پنڈت اور دوسرے لوگ عبادت میں مصروف تھے دوڑتے باہر کو آئے اور جب جھنڈا گرا تو لوگوں میں بھگدڑ بپا ہو گئی، ان کے لئے یہ قیامت کی نشانی تھی عورتوں نے رونا اور چلانا شروع کردیا۔
قلعے کی فوج نے شہر کے دروازے کھولے اور فوج روکے ہوئے سیلاب کی طرح باہر آ گئی ،شہر کے لوگ بھی زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کے لئے اپنی فوج کے ساتھ باہر آگئے، اور ان سب نے اسلامی فوج پر ہلہ بول دیا ،مجاہدین آمنے سامنے کی لڑائی کے لیے تیار تھے ہندو پاگلوں کی طرح آئے تھے ان کی کوئی ترتیب نہیں تھی مجاہدین نے پیچھے ہٹ کر جوابی ہلہ بولا تو ہندو فوج قلعے کے اندر چلی گئی اور دروازے بند ہو گئے۔
محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ تمام منجیقوں سے شہر پر پتھر برسائے جائیں، دیوار کے اوپر ایک بھی سپاہی نہیں رہا تھا جھنڈا گرنے سے وہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے ،مجاہدین نے دیوار پر کمند پھینکی اور اوپر چڑھنے لگے سب سے پہلے جو مجاہد دیوار پر چڑھا اس کا نام آج تک تاریخ میں محفوظ ہے وہ تھا "سعدی بن خزیمہ" وہ کوفہ کا رہنے والا تھا، دوسرا مجاہد جو دیوار پر گیا اس کا نام عجل بن عبدالملک بن قیس دینی تھا وہ ال جاروو میں سے تھا ،اور بصرہ کا رہنے والا تھا۔
شہر پر پتھر گر رہے تھے افراتفری مچی ہوئی تھی، مجاہدین ایک دوسرے کے پیچھے دیوار چڑھتے جارہے تھے کئی کمندیں پھینکیں گئیں تھیں، انہوں نے اندر سے دروازے کھول دیے اور محمد بن قاسم کی فوج سیلاب کی طرح دروازوں میں داخل ہوئی۔
پہلے اپنے قیدیوں کو دیکھو محمد بن قاسم نے ایک سالار سے کہا۔۔۔ اگر وہ اسی قلعے میں ہیں تو ہندو انہیں قتل کردیں گے، دیبل کی گلیوں میں خون بہنے لگا کسی پر رحم نہ کرو محمد بن قاسم بڑی بلند آواز سے کہہ رہا تھا یہ لوگ رحم کے قابل نہیں۔
شہر کے لوگوں نے اور سپاہیوں نے اسلامی فوج کو بہت طعنے دیے تھے، دیوار کے اوپر سے ان کا مذاق اڑایا تھا اب وہ مجاہدین کی للکار سن رہے تھے۔
بلاؤ اپنے دیوتاؤں کو تمہیں بچائیں ۔
اپنے بتوں سے مدد مانگو۔
کہاں ہے دیوتاؤں کا قہر۔
محمد بن قاسم اپنے محافظوں کے ساتھ قید خانے کی طرف گھوڑا دوڑاتا جا رہا تھا محمد بن قاسم اپنے محافظ دستے کے ساتھ قید خانے کی طرف جا رہا تھا محافظوں نے قلعے کے ایک آدمی کو رہبر کے طور پر ساتھ لے لیا تھا ،رہبر کا گھوڑا ان کے آگے آگے جا رہا تھا۔
عرب کی فوج شہر میں پھیل گئی ایک مکان سے تین عربی سپاہی نکلے وہ دو جوان عورت کو گھسیٹ کر لارہے تھے، دو مقامی آدمی اندر سے نکلے اور عربی سپاہیوں کے آگے آ کر دو زانو بیٹھ گئے ،انہوں نے ہاتھ جوڑ کر سپاہیوں سے التجاء کی کہ وہ ان عورتوں کو نہ لے جائیں، ایک سپاہی نے تلوار نکالی اور وار کرنے کو اوپر اٹھائی۔
روک جا !،،،،،،اس مسلمان سپاہی کو للکار سنائی دی،،،،،،تلوار نیچے کر لے، اس نے تلوار نیچے کرکے ادھر دیکھا اس کا سالار اعلی محمد بن قاسم آرہا تھا، اسی نے اسے للکارا تھا ۔
محمد بن قاسم نے ان سپاہیوں کے قریب جاکر گھوڑا روکا ،کیا تم دونوں عرب ہو؟
ہاں سالار!،،،،،،،، ایک نے تعظیم سے کہا ۔۔۔ہم عرب ہیں۔
کیا تم مسلمان نہیں ہو؟
الحمدللہ سالار!،،،،عرب دوسرے نے کہا۔۔۔ ہم مسلمان ہیں۔
کیا تمہارے خون میں فارسیوں کے خون کی ملاوٹ ہے یا رومیوں کے خون کی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔خدا کی قسم میرے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہتّوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔۔۔ وہ گرج کر بولا چھوڑ دو انہیں۔
محمد بن قاسم نے عورتوں اور ان کے آدمیوں کو اشارہ کیا کہ وہ اندر چلی جائیں اور وہ اپنے قاصدوں سے مخاطب ہوا جو اس کے ساتھ تھے۔
سارے شہر میں گھوم جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور اعلان کرتے جاؤ کے صرف فوج کے آدمیوں کو پکڑو شہر کے لوگوں، ان کی عورتوں، اور بچوں پر ہاتھ اٹھانے والے کی سزا موت ھوگی، اس وقت تاریخ اسلام کا یہ کمسن اور بیدار مغز سالار بہت جلدی میں تھا، جن قیدیوں کو وہ رہا کرانے کا عزم لے کر آیا تھا وہ خطرے میں تھے، محمد بن قاسم ان کے قتل سے پہلے قیدخانے میں پہنچ جانے کی کوشش میں تھا ،جس طرح شہر میں بھگدڑ مچ گئی تھی ایسی ہی افراتفری قید خانے کے اندر بپا ہو چکی تھی، قید خانے کے چاروں کونے پر سنتریوں کی مچانے بنی ہوئی تھیں، سنتریوں نے جب دیکھا کہ مندر کا جھنڈا گر رہا ہے تو وہ مچانوں سے اتر آئے اور قید خانے میں پاگلوں کی طرح دوڑتے پھرے۔
دیول گر رہا ہے۔۔۔ وہ چلاتے پھر رہے تھے۔۔۔ دیول کا قہر آ رہا ہے۔۔۔ لوگ قلعے سے بھاگ رہے ہیں۔
قیامت جو قید خانے کے باہر باپا تھی وہ پتھروں کی اونچی اور مضبوط دیواروں کے اندر بھی بپا ہوگئی ،بڑے دروازے والے سنتری نے دروازہ کھول دیا ،قید خانے کے تمام قیدی نکل بھاگے، کوٹھریوں میں جو قیدی بند تھے وہ سالاخوں کے ساتھ ٹکرانے لگے وہ نکل نہیں سکتے تھے۔
باہر کی خبر تہہ خانے تک بھی پہنچ گئی جہاں عرب کے قیدی بند تھے، سب قبلہ رو ہو کر بیٹھ گئے اور یاد الٰہی میں مصروف ہوگئے،انہیں ابھی معلوم نہیں تھا کہ مسلمان فوج شہر میں داخل ہو گئی ہے انہیں صرف یہ احساس تھا کہ وہ قید خانے میں نہیں بلکہ موت کی آغوش میں بیٹھے ہیں، صبح طلوع ہوئی تھی تو وہ اسے اپنی زندگی کی آخری صبح سمجھتے تھے، سورج غروب ہوتا تھا تو وہ سمجھتے تھے کہ ان کی زندگی کا آخری سورج ڈوب گیا ہے، وہ ہر روز مرتے اور زندہ ہوتے تھے، انہیں یہ علم ہو گیا تھا کہ عرب کی فوج نے شہر کا محاصرہ کر لیا ہے، عبادت تو وہ پہلے بھی کرتے تھے عبادت کے سوا ان کی اور کوئی مصروفیت تھی بھی نہیں، لیکن محاصرے کی خبر سن کر ان کا ہر لمحہ عبادت اور دعا میں گزرنے لگا تھا۔
انہوں نے اسلامی دستور کے مطابق اپنا ایک امیر مقرر کر لیا تھا ،وہ عمرع بن عوانہ تھا۔ شام کا رہنے والا تھا، جس روز باہر کی بھگدڑ اور نفسانفسی قیدخانے میں پہنچی اس روز عمر بن عوانہ نے آدمیوں اور عورتوں کو آخری پیغام دیا۔
اس فیصلے کا وقت آگیا ہے کہ ہم رہا ہوں گے یا قتل۔۔۔۔اس نے کہا۔۔۔۔ دعا کرو اللہ قیدخانے کے سنتریوں سے پہلے عرب کے سپاہیوں کو ہم تک پہنچا دے، اگر سنتری تمہیں باہر نکالنے لگے تو ان سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرنا، مرنا ہی ہے تو لڑتے ہوئے مرنا، اگر ہم سب کو اکٹھے نکالا گیا تو قیدخانے میں ہی ہم سب ان پر ٹوٹ پڑیں گے، ہر وقت زبان پر اللہ کا نام رکھو۔
وہ اپنی کوٹھری کی سالاخوں کے ساتھ لگا بول رہا تھا، قیدی چار کشادہ کوٹھریوں میں بند تھے سب نے اپنے امیر کی آواز پر لبیک کہی، عورتیں بھی لڑنے کے لئے تیار ہو گئیں۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
تہ خانے میں جو سیڑھیاں اترتی تھیں ان پر قدموں کی دھمک سنائی دینے لگی۔
سیڑھیوں کے ساتھ والی کوٹھڑی سے آواز اٹھی خبردار دروازے کھلتے ہی اندر گھسیٹ لینا یہ آواز عربی زبان میں تھی۔
تمام قیدی تیارہوگئے کوٹھریوں میں خاموشی طاری ہو گئی، جسے بھاری قدموں کی دھمک توڑ رہی تھی، سب سے پہلے قید خانے کا دروغہ قیدیوں کو نظر آیا اس کا نام قُبلہ تھا، تاریخ میں اس کا مذہب نہیں لکھا خیال ہے کہ وہ بدھ تھا ،اس کے آتے ہی اس کے ہاتھ میں چابیوں کا گچھا تھا اس کے پیچھے جو آدمی سامنے آئے وہ اس قید خانے کے سنتری نہیں تھے۔
خدا کی قسم تم عرب کے مجاہد ہو۔۔۔ایک کوٹھری سے آواز بلند ہوئی۔۔۔ تمہارے جسموں سے عرب کی خوشبو آتی ہے۔
اور اس کے بعد تہہ خانے کا منظر انتہائی جذباتی ہو گیا ،قیدی ان سے لپٹ رہے تھے جو انہیں چھوڑانے آئے تھے، یہ محمد بن قاسم کے محافظ دستے کے سپاہی تھے، سب پر خوشی اور فتح کی رقت طاری تھی۔
فوراً اوپر آؤ۔۔۔ محافظوں کے کماندار نے کہا۔۔۔ سالار اعلی انتظار کر رہے ہیں۔
محمد بن قاسم اوپر قید خانے کے وسط میں کھڑا تھا وہ گھوڑے پر سوار تھا اور اس کی نظریں اس تاریک راہداری کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں جس میں اس کا محافظ دستہ غائب ہو گیا تھا، اسے سب سے پہلے قیدی خواتین نظر آئیں وہ اپنی نجات دہندہ کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھیں، لیکن دھوپ میں آئیں تو ان کی آنکھیں چوندھیا گئیں انہوں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے وہ ایک لمبے عرصے بعد دھوپ میں آئیں تھیں، انہیں سورج کی روشنی اور تپش سے محروم کردیا گیا تھا ان کے پیچھے جو بھی قیدی باہر آیا اس نے سرجھکا کر دونوں ہاتھ اوپر آنکھوں پر رکھ لئے
آنکھیں کھولو۔۔۔ عمربن عوانہ نے جذبات کی شدت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔اپنے فاتح سالار کو دیکھو جو فرشتہ بن کر اترا ہے۔
محمد بن قاسم گھوڑے سے کود آیا اور دوڑتا ہوا آگے گیا سب سے آگے جو عورتیں تھیں ان کی آنکھوں نے سورج کی چمک کو قبول کر لیا تھا، اور ان کی اپنی کوشش بھی یہی تھی کہ ان کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہو جائیں ،انہوں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان ان کے سامنے اس طرح موجود تھا کہ اس کا ایک گھٹنا زمین پر تھا اور دوسرا گھٹنا سامنے تھا وہ زمین پر ایک زانو تھا اور اس کے بازو دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے یہ محمد بن قاسم تھا، جو قیدیوں کے استقبال کو اس پوزیشن میں زمین پر بیٹھ گیا تھا، عورتیں اس کے قریب آ کر رک گئیں۔
کیا میں نے عہد پورا کردیا ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے جذباتی لہجے میں کہا۔۔۔ کیا تم اللہ کے حضور گواہی دوں گی کہ یہ ہے اسلام کا وہ فرزند جس نے ہمیں کفار کی کال کوٹھریوں سے نکالا تھا۔
ایک ادھیڑ عمر عورت اس کی طرف لپکی اور اسے اٹھا کر گلے لگا لیا پھر اس کے چہروں پر بوسوں کی بوچھاڑ کردی۔
خدا کی قسم!،،،،،، اس خاتون نے کہا ۔۔۔اہل ثقیف کی مائیں ایسا بیٹا پھر نہیں جنیں گیں، ہر قیدی جذبات اور عقیدت سے دیوانہ ہو کر محمد بن قاسم سے لپٹ لپٹ کر ملا ۔
محمد بن قاسم رہا کرائے ہوئے قیدیوں کے ساتھ قید خانے کے دفتر میں گیا ،اس نے قید خانے میں ان قیدیوں کا شور سنا جو بند کوٹھریوں کی سلاخوں کو جھنجھوڑ رہے تھے، اور جو قیدی باہر تھے وہ اپنے پاؤں میں پڑی ہوئی آہنی بیڑیوں کو پتھروں سے توڑنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ سب پنجروں میں بند پرندوں کی طرح تڑپ رہے تھے پھڑپھڑا رہے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
دروغہ کو پکڑ کر لاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔۔ اور اسے قتل کر دو ۔
محافظ دوڑ پڑے قید خانے میں ہر جگہ دیکھا محافظوں کو صرف قیدی دکھائی دئے ان سے پوچھا دروغہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا، محمد بن قاسم جب قید خانے میں داخل ہوا تھا تو اسے دروغہ مل گیا تھا، اس نے فوراً بتادیا تھا کہ عرب کے قیدی کہاں ہیں، اس نے چابیاں لیں اور محافظ کے ساتھ تہہ خانے کی طرف چل پڑا تھا ،جس وقت قیدی باہر آکر محمد بن قاسم سے ملے تھے اس وقت دروغہ وہاں سے کھسک گیا تھا، نکل بھاگنے کا موقع اچھا تھا۔
دو قیدی بیڑیوں سمیت قدم گھسیٹتے قیدخانے کے بڑے دروازے سے نکل رہے تھے انہوں نے بتایا کہ دروغہ باہر چلا گیا ہے ،دو محافظوں نے باہر کو گھوڑے دوڑا دئیے انہوں نے دروغہ کو پہلے دیکھا تھا تھوڑی ہی دور گئے تو انہیں دروغہ جاتا نظر آ گیا اسے پکڑ کر محمد بن قاسم کے پاس لے آئے۔
کیا تو سمجھتا تھا کہ دیبل سے زندہ نکل جائے گا ؟،،،،محمد بن قاسم نے اس سے ترجمان کی معرفت پوچھا۔
اے فاتح سالار!،،،،، دروغہ نے کہا ۔۔۔۔اگر میں زندہ نکل جانے کی کوشش میں ہوتا تو آپ کے ان آدمیوں کو اتنی آسانی سے نہ مل جاتا۔
کیا تو زندہ نکلنے کی کوشش میں نہیں تھا؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔ کیا تو قتل ہونا چاہتا ہے؟
نہیں !،،،،دروغہ نے کہا۔۔۔ اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہو گی کہ آپ فاتح ہیں اس کے سوا آپ کے پاس میرے قتل کی کوئی اور وجہ موجود نہیں۔
کیا ان بے گناہوں کو اتنا عرصہ قید میں رکھنا کوئی جرم نہیں ؟،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہارا یہ جرم کیسے بخش دوں؟
کیا ان بے گناہوں کو اتنا عرصہ زندہ رکھنا جرم ہے ؟،،،،دروغہ نے کہا۔۔۔ انہیں ہمارے راجہ کے حکم سے قید میں ڈالا گیا تھا ،اور انھیں آرام اور عزت سے میرے حکم سے رکھا گیا تھا ،انھیں قید میں ڈالنے کی سزا کا حقدار راجہ داہر ہے ،اور اگر انہیں قید خانے میں کوئی تکلیف پہنچائی گئی ہے تو اس کی سزا ملنی چاہیے، پہلے ان قیدیوں سے پوچھ لیں سالار محترم۔
چچ نامہ میں مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے اپنے قیدیوں سے پوچھا کہ قید خانے میں ان کے ساتھ ان لوگوں کا سلوک کیسا رہا ؟،،،،،،تمام قیدیوں نے بتایا کہ یہ دروغہ ہر روز تہہ خانے میں آتا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا ،تمام قیدیوں نے اس کے سلوک
کی بہت تعریف کی۔
سالار محترم !،،،،،دروغہ نے کہا ۔۔۔آپ نہیں جانتے کہ میں نے ان قیدیوں میں جو دو نوجوان لڑکیاں ہیں ان کو میں نے دیبل کے حاکم سے بڑی مشکل سے بچا کر رکھا ہے، کبھی کبھی وہ قید خانے میں آیا کرتا تھا ،میں اس کے آنے کی اطلاع پر ان دو لڑکیوں کو ایک جگہ چھپا دیا کرتا تھا، اور سالار محترم اروڑ سے راجہ داہر کا حکم آیا تھا کہ عرب کی فوج کا دیبل کا محاصرہ کامیاب ہوگیا اور عرب فوج شہر میں داخل ہو گئی تو ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، وہ وقت آ گیا تھا میں نے اپنے راجہ کے اس حکم کی تعمیل نہ کی۔
جیل سے سنتری بھاگ گئے تھے ۔۔۔محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔راجہ داہر کا قانون اور حکم ختم ہوگیا تھا، پھر تم نے ہمارے قیدیوں کو آزاد کیوں نہ کر دیا۔
آزاد کر دیتا تو سنتری بھاگنے سے پہلے انہیں قتل کردیتے ۔۔۔۔۔دروغہ نے جواب دیا ۔۔۔۔سنتریوں کو معلوم تھا کہ عرب کی فوج ان قیدیوں کو رہا کرانے کے لئے آ رہی ہے، انہوں نے دیول پر پتھر گرتے اور پھر جھنڈے کو بھی گرتے دیکھا تھا ،یہ ان قیدیوں سے انتقام لے لیتے لیکن میں نے تہہ خانے کا دروازہ بند کرا دیا تھا ،سب کے بھاگ جانے کے بعد میں یہاں موجود رہا ،میں نے عہد کیا تھا کہ ان قیدیوں کو عربی فوج کے حوالے کرکے یہاں سے جاؤنگا، میں اپنا عہد پورا کرکے جا رہا تھا، میں بھاگ نہیں رہا تھا۔
تم ان پر اتنے مہربان کیوں رہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
اس لئے کے یہ بے گناہ تھے ۔۔۔دروغہ نے جواب دیا۔۔۔ اگر آپ نے مجھے قتل کرانا ہے تو تلوار ان قیدیوں میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیں اور اسے کہیں کہ وہ مجھے قتل کریں۔
قیدی پہلے ہی محمد بن قاسم کو بتا چکے تھے کہ اس دروغہ نے انہیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دی۔
تمہیں اسلام قبول کر لینا چاہیے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہاری قدروقیمت صرف اسلام میں جانی پہچانی جائے گی ،تم پر کوئی جبر نہیں میں تمہیں قبول اسلام کی دعوت دے کر ایک نیکی کر رہا ہوں اس کا اندازہ تمہیں اسلام میں آکر ہوگا۔
تاریخیوں میں یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے، دروغہ نے اسلام قبول کرلیا یہ واضح نہیں کہ اس کا نام قُبلہ اسلامی تھا یا پہلے ہی اس کا نام یہی نام تھا اور یہ بدلا نہیں گیا ،تاریخیوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ہندوستان کے کسی اور علاقے کا رہنے والا تھا، اور وہ ہندوستان کا مشہور دانشور، صاحب علم ،اور اہل قلم تھا ۔محمد بن قاسم نے اس کی یہ خوبیاں بھانپ لی، اور نہ صرف قید خانے کا دروغہ رہنے دیا ،بلکہ دیبل کا جو امیر مقرر کیا گیا دروغہ قُبلہ کو اس کا مشیر بنا دیا۔ حمید بن ورداع نجدی کو دیول کا امیر یا حاکم مقرر کیا گیا تھا۔ اسے محمد بن قاسم نے کہا کہ وہ انتظامی امور اور دیگر معاملات میں قُبلہ سے مشورہ لیا کرے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
محمد بن قاسم ابھی قیدخانے میں تھا اور اس نے قبلہ کو دروغہ قیدخانا مقرر کردیا۔
کیا یہاں ایسے اور بھی بے گناہ قیدی ہیں؟،،،، محمد بن قاسم نے قبلہ سے پوچھا۔
جس ملک کا حکمران سچ سننا پسند نہ کرتا ہو اس ملک کے قیدخانے سچ بولنے والوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔۔قبلہ نے جواب دیا۔۔۔ یہاں کئی بے گناہ ہوں گے۔
یہ فیصلہ تم خود کرو قبلہ !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔۔ جنہیں بے گناہ سمجھتے ہو انہیں رہا کر دو،اور جو مجرم ہے ان کی سزائیں اگر جرم کی نسبت زیادہ ہے تو کم کردو، اب اسلامی عدل و انصاف کے اصول چلیں گے۔
عرب کے جن قیدیوں کو رہا کرایا گیا تھا ان کے متعلق محمد بن قاسم نے حکم دیا کے انہیں فوراً کشتیوں میں عرب کو بھیج دیا جائے۔ اس نے ان قیدیوں کے ساتھ بہت باتیں کیں۔
،،،، تم اللہ کا شکر صرف اس پر بجا نہ لاؤ کہ تم اس قیدخانے سے زندہ و سلامت نکل آئے ہو،جس سے تم جیسے قیدی زندہ نہیں نکلا کرتے، بلکہ اللہ نے تمہیں بہت بڑی سعادت بخشی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے قیدیوں سے کہا۔۔۔ تم یہاں قید نہ ہوتے تو میں یہاں نہ آتا، میں آگیا ہوں تو میں اس کفرستان کے گوشے گوشے میں اسلام کا نور پھیلاؤنگا، تمہاری قید نے میرے لیے نہیں اسلام کے لئے راستے کھول دیے ہیں، اس ملک کی تاریخ میں جب یہاں اسلام کی آمد کا ذکر آئے گا تو اسلام سے پہلے تمہارا ذکر ہوگا ،سندھ کی فتح کے ساتھ تمہارا ذکر ہو گا ،تم نے قید کی جو اذیت برداشت کی ہے اللہ اسکا تمہیں اجر دے گا، دعا کرتے رہنا کہ میں جو عزم لے کر آیا ہوں وہ پورا کر سکوں، تمہاری رہائی پر ہی میرا کام ختم نہیں ہوا، میرا کام اب شروع ہوا ہے ،
قیدی دعائیں دیتے رخصت ہوئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
دیبل کا ہندو حاکم بھاگ گیا تھا اسے بہت ڈھونڈا گیا گھر گھر دیکھا گیا اس کا سراغ نہ ملا ،وہ نیرون پہنچ گیا تھا اسے نیرون میں ہی پناہ مل سکتی تھی، وہ اروڑ میں راجہ داہر کے پاس جاتا تو داہر اسے شکست اور اپنی فوج کو چھوڑ کر بھاگ آنے کے جرم میں قتل کرا دیتا، اسے معلوم تھا کہ نیرون کا حاکم سندرشمنی امن پسند آدمی ہے۔
داہر کو جب اطلاع ملی کہ دیول پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے تو وہ صحیح معنوں میں آگ بگولا بن گیا، کوئی بھی اس کے سامنے نہیں جاتا تھا، ایسی جرات اسکا دانشمند وزیر بدہیمن ہی کرسکتا تھا ،وہ اندر چلا گیا۔
کیا لینے آئے ہو ؟،،،،راجہ داہر نے گرج کر بدہیمن سے کہا۔۔۔ کہاں گئی تمہاری دانشمندی؟
مہاراج!،،،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔ ہماری فوج نے عرب کے حملہ آوروں کو دو بار شکست دی تھی، اس سے ہماری فوج نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اُسے کسی میدان میں شکست تو ہو ہی نہیں سکتی ،ہماری فوج پر فتح کا نشہ سوار ہوگیا تھا ،مسلمانوں کے دباؤ کو ہمارے سپاہی برداشت نہ کر سکے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ دیول کا جھنڈا گر پڑا تھا۔۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔عرب کے ان مسلمانوں نے مندر کے گنبد پر پتھر پھینکے تھے، گنبد ٹوٹا تو جھنڈا گر پڑا ،ہماری قسمت اس جھنڈے کے ساتھ وابستہ ہیں ،اگر وہاں اس سے چار گنا زیادہ فوج ہوتی تو وہ بھی بھاگ جاتی۔
مہاراج!،،،،، بدہیمن نے کہا ۔۔۔سوال آپ کے راج بھاگ کا ہے، اگر مسلمان اسی طرح فتح پر فتح کرتے آئے تو اپنا انجام سوچ لیں ،آپ تخت سے تہہ خانے تک پہنچ جائیں گے، آپ نے مجھ پر ہمیشہ اعتماد کیا اور مجھے دانشمند سمجھا ہے ،اور آپ کو میری وفاداری پر بھی شک نہیں تو میں آپ سے امید رکھتا ہوں کہ میری کسی بات سے آپ خفا نہیں ہوں گے۔
نہیں ہونگا ۔۔۔راجہ داہر نے جھنجلا کر کہا ۔۔۔تم بات کرو اور فوراً کرو، دیبل پر قبضہ ہو گیا ہے تو یوں سمجھو کہ دشمن نے ہماری شہ رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ ہماری شکست کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی قسمت بےجان چیزوں کے ساتھ وابستہ کر دی ہے، وہ ایک جھنڈا تھا جو گر پڑا تھا وہ کپڑے کا ٹکڑا تھا اور ایک بانس کے ساتھ بندھا ہوا تھا، پنڈتوں نے دلوں میں یہ عقیدہ ڈال دیا کہ یہ جھنڈا دیوتاؤں نے اپنے ہاتھوں یہاں لہرایا تھا ،یہ گر پڑا تو سمجھو ہم سب گر پڑے، اور دیوتاؤں کا قہر آ گیا ،اگر اپنی فوج کو اور اپنے لوگوں کو یہ بتایا جاتا کہ یہ جھنڈا ہماری عظمت اور عزت کا نشان ہے، دشمن اس تک نہ پہنچنے پائے ،اگر جھنڈے کو ہم یہ درجہ دیتے تو دیول کی فوج اور وہاں کے لوگ اپنی جانیں لڑا دیتے۔
انہوں نے جانے لگا دی تھیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔وہ سب دروازے کھول کر باہر نکلے اور دشمن پر حملہ کردیا تھا۔
میں جانتا ہوں مہاراج!،،،، بدہیمن نے کہا ۔۔۔وہاں سے آئے ہوئے دو آدمیوں میں سے میں نے پوری تحقیقات کی ہے، ہماری فوج اور دیبل کے شہریوں کا باہر نکل کر مسلمانوں پر جو حملہ کیا تھا وہ حملہ نہیں تھا وہ تو خودکشی کی کوشش تھی، یہ بھی عقیدہ ہے کہ جھنڈا گر پڑے تو دشمن پر اندھا دھند ٹوٹ پڑو اور مارے جاؤ۔
وہ تو مارے جاچکے ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ میں دیول کے حاکم کو اور وہاں کے فوجی حاکم کو بھی زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا، معلوم نہیں وہ کہاں ہے؟
مہاراج کو ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ بدہیمن نے کہا ۔۔۔انہیں زندہ رہنے دیں ،اور انہیں شرمسار کریں، وہ کوشش کریں گے اور اگلی لڑائی میں اپنے چہروں سے شکست کا داغ دھو ڈالیں گے،لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے مہاراج اگر ان کے دلوں پر یہ دہشت طاری رہی تو دیول کا جھنڈا گر پڑا تھا اس لیے ان پر دیوتاؤں کا قہر گرتا رہے گا، تو وہ ہر میدان میں شکست کھائیں گے
کیا میں انہیں یہ کہو کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرلیں۔۔۔راجہ داہر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔ کیا میں یہ کہوں کہ مسلمانوں کا مذہب سچا ہے ؟،،،،جس کے ماننے والوں نے دیول کا جھنڈا گرا کر ہمارے دیوتاؤں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے، بدہیمن تم دانشمند ہو تم میں مجھ سے زیادہ عقل ہو سکتی ہے، لیکن میرا یہ عہد سن لو کہ سندھ میں اسلام نہیں آئے گا۔
وہ تو آ گیا ہے مہاراج!،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔ مہاراج نے پہلے ہی اسلام کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے، جن عربوں کو مہاراج نے اپنے سائے اور شفقت میں رکھا ہوا ہے وہ ہمارے نہیں اپنے مذہب کے لوگوں کے ہمدرد ہیں ،کیا مہاراج نے سوچا ہے کہ مسلمانوں کے سالار کو کس نے بتایا تھا کہ اس جھنڈے کو گرا دو تو دیبل والوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی، شہر کے دروازے بند تھے اندر سے باہر کوئی نہیں گیا، یہ ایک راز تھا جو ان عربوں نے حملہ آور سالار کو دیا ہے ،جنہیں ہم نے مکران میں آباد کر رکھا ہے ۔
ان کے خلاف میں اب کیا کرسکتا ہوں؟
مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ انہیں اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں ان سے ایک راز لینے کی کوشش کریں، ان سے پوچھیں کہ منجنیق کس طرح بنائی جاتی ہے؟،،،، ہوسکتا ہے انھیں میں منجنیق بنانے والے ایک دو کاریگر ہوں، اگر ہمیں دس بارہ منجنیقیں مل جائیں تو ہم مسلمان فوج کے پڑاؤ پر رات کے وقت پتھر اور آگ کے گولے برسا سکیں گے، جب ان کی فوج ایک جگہ سے کوچ کرے گی تو ہم انھیں اگلے پڑاؤ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔
یہ راز تم حاصل کرنے کی کوشش کرو۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اگر ان میں کوئی کاریگر نہ ملے تو ان میں سے ایسے آدمی تیار کرو جو عرب کی فوج میں ان کے وفادار بن کر شامل ہو جائیں اور منجنیقوں کو اچھی طرح دیکھ لیں کہ اس کی ساخت کیا ہے، اور کس لکڑی سے بنتی ہے، میں منجنیقیں بنانے والے کو اتنا انعام دوں گا جو اس کی سات پشتوں میں ختم نہیں ہوگا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
دیبل کی شکست راجہ داہر کے لئے معمولی سی چوٹ نہیں تھی اور وہ کوئی ایسا اناڑی بھی نہیں تھا کہ وزیر کے مشورے کے بغیر کچھ سوچ ہی نہ سکتا ،وہ تجربے کار اور عیار قسم کا جنگجو تھا، ہندومت کے سوا کسی اور مذہب کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتا تھا، اس کے وزیر اس کی فوج کے سالار اور مشیروں اور پنڈتوں تک کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ دوسرے ہی لمحے وہ کیسی خوفناک کارروائی کا حکم دے دے، وہ شکست کھانے والے فوجی افسروں کو بخشنے والا نہیں تھا۔
اس نے بدہیمن کو رخصت کردیا اور کمرے کے دروازے بند کرکے تنہائی میں بیٹھ گیا، اس کے درباری اور حاکم وغیرہ باہر کھڑے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے، انہیں معلوم تھا کہ راجہ آگ اگلنے والا پہاڑ ہے اگر یہ پھٹ پڑا تو معلوم نہیں کس کس کو بھسم کر ڈالے گا۔
بہت دیر بعد اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس نے حکم دیا کہ جے سینا کو فوراً بلایا جائے۔
جے سینا راجہ داہر کا اپنا بڑا بیٹا تھا ،جو کسی دوسری بیوی میں سے تھا اس نے اپنی سگی بہن کو بھی بیوی بنا رکھا تھا لیکن کہتا تھا کہ وہ اس کی بہن ہی ہے۔
جے سینا سندھ کی فوج میں سالار تھا جسے فوجی حاکم کہا جاتا تھا، جس وقت داہر نے اسے بلایا اس وقت وہ اپنے دستوں کے ساتھ نیرون کے مضافات میں کسی جگہ خیمہ زن تھا، اسی وقت قاصد روانہ ہو گیا۔
جے سینا آدھی رات کے وقت آ پہنچا ،راجہ داہر اس کے انتظار میں جاگ رہا تھا اس نے اپنے بیٹے کو آرام تک نہیں کرنے دیا اور اپنے پاس بٹھا لیا ۔
میرے عزیز بیٹے!،،،، اس نے کہا ۔۔۔کیا تم نے اس خطرے کا اندازہ کیا ہے جو ہمارے سر پر آگیا ہے؟
میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔۔۔ جے سینا نے کہا ۔۔۔میں حیران ہوں کہ آپ ابھی تک سوچوں میں پڑے ہوئے ہیں میں فوراً دیول پر حملہ کرنے کی سوچ رہا ہوں۔
جوان اور بوڑھے میں یہی فرق ہوتا ہے ۔۔۔داہر نے کہا۔۔۔ جوان آدمی کرکے سوچتا ہے اور بوڑھا سوچ کر کرتا ہے، تم نے نہیں سوچا کہ نیرون ہاتھ سے نکل چکا ہے، میں زہر کا یہ گھونٹ اپنے حلق سے کبھی نہیں اتاروں گا۔
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عرب کی حملہ آور فوج کا سالار مجھ سے بھی چھوٹی عمر کا ہے۔۔۔ جے سینا نے کہا۔۔۔ آپ مجھے صرف اس لیے کم عقل نہ سمجھیں کہ میں جوان ہوں۔
میں تمہارا اور اس کا مقابلہ نہیں کر رہا ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اس وقت جو صورتحال ہے اس پر غور کرو اور جو میں کہتا ہوں وہ کرو ،اور یہ بھی سوچ لو کہ اب یہ جنگ کی صورت بدل چکی ہے، اب یہ دو ملکوں یا دو بادشاہوں کی جنگ نہیں، یہ دو مذہبوں کی جنگ بن گئی ہے، مسلمانوں نے دیول کا متبرک جھنڈا گرا کر ہمارے مذہب کو اور ہمارے دیوتاؤں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے، اب ہم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ دیوتاؤں کی توہین کرنے والا ان کے قہر سے نہیں بچ سکتا، یہ بھی سوچ لو کہ ہم نے اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی تو یہ سیاہ دھبہ میرے خاندان کے چہرے پر لگا رہے گا کہ اس خاندان نے ہندوستان میں اسلام کے لیے دروازے کھولے تھے، اتنی زیادہ باتوں کا وقت نہیں، ارمن بیلہ اور دیبل کا ہاتھ سے نکل جانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن جنگی نقطہ نگاہ سے یہ بڑی خطرناک صورت ہے، دشمن کو وہ مضبوط اڈے مل گئے ہیں ،دیبل بندرگاہ ہے اب دشمن کو سمندر کے راستے کمک رسد اور ہر طرح کی مدد آسانی سے ملتی رہے گی ،ادھر نیرون کے حاکم سندرشمنی نے پہلے ہی مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے۔
پیتا مہاراج !،،،،،جے سینے کہا۔۔۔ نیرون کو ہم اس طرح بچا سکتے ہیں کہ میں اپنے دستے نیرون میں بھیجوں اور وہاں کے حاکم سندر شمنی کو اس کے گھر میں نظر بند کر دوں۔
نہیں! ،،،،راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اگر تم ایسا کرو گے تو وہاں کے لوگ تمہارے خلاف ہو جائیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے خلاف ہتھیار اٹھائیں، کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہمارے وزیر بدہیمن نے لوگوں کو مرعوب کرنے اور وہاں کے حاکم کے خلاف بھڑکانے کے لئے شعبدہ بازی کا انتظام کیا تھا، لیکن وہ بری طرح ناکام رہا، مجھے بتایا گیا تھا کہ ہمارے اس ناکامی کے پیچھے عربوں کا ہاتھ تھا جو سندرشمنی کے بلانے پر یا وہ خود ہی نیرون میں آگئے تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندرشمنی کا عربوں کے ساتھ درپردہ رابطہ ہے۔
اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس شخص کو ہمیشہ کے لیے غائب کر دو ۔۔۔جے سینا نے کہا۔
اگر ایسا کرنا ہوتا تو میں کبھی کا اسے غائب کر چکا ہوتا۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔لیکن اس حالت میں جب کہ حملہ آور ہمارے قلعوں پر قابض ہو چکے ہیں اور ان کے جاسوس ہمارے محلات تک پہنچ رہے ہیں میں کوئی خطرہ مول نہیں لوں گا ،خطرہ یہ ہے کہ نیرون میں بدھ مت کے لوگ جمع ہو گئے ہیں وہ خانہ جنگی پر اتر آئیں گے، اور اس کا فائدہ حملہ آور مسلمان کو پہنچے گا، میں نے یہ سوچا ہے کہ جب مسلمان کی فوج دیبل سے آگے بڑھے گی تو میں نیرون کے حاکم سندرشمنی کو کسی خاص اور ضروری کام کے بہانے اپنے پاس بلا لوں گا ،میرا خیال یہ ہے کہ مسلمان دیبل سے نیرون پر ہی آئیں گے، تم ابھی واپس چلے جاؤ اور اپنے دستے برہمن آباد لے جاؤ ،تمہیں دریا عبور کرنا پڑے گا لیکن یہ بہت ضروری ہے وہ اس لئے کہ دشمن جب تمہارے سامنے آئے تو دریا تمہاری پیٹھ کے پیچھے ہو، اس طرح دشمن تمہارے عقب میں نہیں آ سکے گا، نیرون میں اپنی فوج کا جو حاکم ہے اس سے ملنا اور کہنا کہ وہ نیرون کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔
اور اگر لوگوں نے اپنی ہی فوج کے لئے کوئی مشکل پیدا کر دیں تو کیا کارروائی کی جائے؟
جیسی صورتحال پیدا ہو وہ اس کے مطابق کارروائی کرے ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اگر وہ کسی طرح مجھ تک اطلاع پہنچا سکے تو پہنچا دے، میں کچھ وقت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا ،اس کا ایک طریقہ یہ اختیار کر رہا ہوں کہ میں مسلمانوں کے سالار محمد بن قاسم کو ایک خط لکھ رہا ہوں ،میں اسے ڈرانے کی کوشش کروں گا ،میں جانتا ہوں کہ جو اپنے وطن سے اتنی دور آئے ہیں وہ الفاظ سے نہیں ڈرا کرتے، لیکن اس طرح ہمیں تیاری کا اور اپنے دستے مختلف جگہوں پر بھیجنے کا وقت مل جائے گا۔
جے سینا اسی وقت روانہ ہو گیا۔
*<=======۔==========>*
*قسط نمبر/13*
دیبل میں اذان گونج رہی تھی ،محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے ان فوجیوں کو جو بھاگ نہیں سکے تھے قیدی بنا لیا تھا ،اس فوج میں سے زیادہ تر آدمی محمد بن قاسم کے اس حکم کے تحت مارے گئے تھے کہ کسی کو بخشا نہ جائے، دیبل کے شہریوں نے بھی دیول کا جھنڈا گرنے کے بعد مسلمان فوج پر ہلہ بولا تھا لیکن محمد بن قاسم نے عام معافی کا اعلان کردیا ،اس طرح کچھ لوگ شہر سے بھاگ کر مضافات میں ہی کہیں چھپ گئے تھے وہ آہستہ آہستہ واپس آگئے۔
محمد بن قاسم نے مال غنیمت اپنی فوج میں تقسیم کیا اور بیت المال کا حصہ جنگی قیدیوں کے ساتھ سمندر کے راستے عراق بھیج دیا۔ اس نے حمید بن ورداع نجدی کو امیر دیبک مقرر کیا ۔
دیبل کو مکمل طور پر اسلامی شہر بنانے کے لئے محمد بن قاسم نے شہر کے وسط میں ایک مسجد کی تعمیر شروع کردی ،اس مسجد کی بنیادوں کی کھدائی میں بسم اللہ محمد بن قاسم نے اپنے ہاتھوں کی، آج اس مسجد کا کہیں نام و نشان ہے نہ دیبل کہیں نظر آتا ہے، اس کے کھنڈر بھی وقت اور زمانے کی نذر ہو چکے ہیں، لیکن تاریخ میں دیبل ایک سنگ میل کی طرح زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اس شہر کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ یہاں ہندوستان کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔
دو تاریخ نویسوں نے اس وقت کی تحریروں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ دیبل کے لوگ محمد بن قاسم کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ وہاں کے بت تراشوں نے محمد بن قاسم کا مجسمہ بنالیا تھا ،کسی اور مستند مورخوں نے اس کی تصدیق نہیں کی، لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کا اور اس کی فوج کا سلوک وہاں کے شہریوں کے ساتھ اتنا مشفکانہ تھا کہ لوگ اس کی پوجا کرنے پر بھی اتر آئے تھے، محمد بن قاسم کو بڑی تیزی سے آگے بڑھنا چاہیے تھا لیکن وہ شہری انتظامات مکمل کیے بغیر آگے بڑھنا مناسب نہیں سمجھتا تھا، تاریخ اسلام کے اس کمسن سالار کے سامنے ایک مقصد تھا وہ ان بادشاہوں جیسا نہیں تھا جو دولت اور ملک گیری کی ہوس لے کر حملہ کرتے اور بستیوں کی بستیاں اجاڑتے چلے جاتے ہیں۔
محمد بن قاسم نے جاسوسی کا نظام خالد بن ولید جیسا بنا رکھا تھا بلکہ اس نے جاسوسی خالد بن ولید سے ہی سیکھی تھی، اسی مقصد کے لیے اس نے شعبان ثقفی کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا، وہ خود اپنی فوج کے ساتھ دیبل میں تھا لیکن جاسوسوں کی معرفت وہ نیرون اور اروڑ تک پہنچ چکا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ایک روز دیبل شہر کے دروازے کے باہر آٹھ شاہی سوار آ کر رکے، انھوں نے بتایا کہ وہ اروڑ سے آئے ہیں اور راجہ داہر کا پیغام لائے ہیں ۔
محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی۔
ان کے لیے دروازہ کھول دو ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔ ایلچی کو میرے پاس بھیج دو اور اس کے محافظوں کو عزت سے رکھو اور ان کی خاطر مدارت کرو ۔
راجہ داہر کا ایلچی جب محمد بن قاسم کے سامنے آیا تو وہ رکوع کی طرح جھک گیا پھر اس نے پر تکلف سے الفاظ کہنے شروع کردیئے ترجمان اس کے الفاظ کا ترجمہ کرتا جا رہا تھا۔
کیا اتنا کافی نہیں ہے کہ یہ یہاں آگیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اسے کہو کہ ہم اپنے سامنے کسی کا اس طرح جھکنا پسند نہیں کرتے، نہ ہی ہمارا مذہب اسکی اجازت دیتا ہے کہ کوئی انسان کسی انسان کے سامنے اس طرح جھکے، اس سے پیغام لے لو اور اسے باہر بٹھاؤ۔
ایلچی نے پہلا عربی سالار دیکھا تھا جو فاتح بھی تھا ،اس سالار کی بات سن کر وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ نوجوان بھی ہے، سالار بھی ہے، اور فاتح بھی ہے لیکن اس میں اخلاق بھی ہے، اس نے پیغام محمد بن قاسم کے حوالے کیا اور باہر نکل گیا۔
محمد بن قاسم نے کھول کر دیکھا یہ پیغام راجہ داہر نے اپنی زبان میں لکھا تھا ،محمد بن قاسم نے پیغام اپنے ترجمان کے حوالے کردیا ترجمان پیغام پڑھنے لگا تاریخوں میں یہ پیغام لفظ بلفظ محفوظ ہے ،یہ اس طرح ہے۔
یہ پیغام چچ کے بیٹے داہر کی طرف سے ہے جو سندھ کا بادشاہ اور ہندوستان کا راجہ ہے، یہ خط اس داہر کی طرف سے ہے جس کا حکم دریاؤں جنگلوں صحراؤں اور پہاڑوں پر چلتا ہے، یہ پیغام عرب کے کم عمر اور ناتجربہ کار سالار محمد بن قاسم کے نام ہے جو انسان کے قتل میں بے رحم اور مال غنیمت کا حریص ہے ،اور جس نے اپنی فوج کو تباہی اور موت کے منہ میں پھینکنے کی حماقت کی ہے،،،،،
ائے کمسن لڑکے تم سے پہلے بھی تمہارے وطن کے سالار اپنے دماغوں میں یہ خبط لے کر آئے تھے کہ وہ سندھ کو اور پھر ہندوستان کو فتح کریں گے، کیا تو نے ان کا انجام نہیں دیکھا یاسنا، ہم نے اسی شہر دیبل میں ان کو ایسی شکست دی تھی کہ وہ زندہ واپس نہ جا سکے، وہ دیبل کی دیواروں تک بھی نہیں پہنچ سکے تھے، اب یہی خبط تم اپنے دماغ میں لے کر آ گئے ہو دیبل کو فتح کرکے اور اس شہر کے اندر بیٹھ کر تم بہت خوش ہوں گے، لیکن میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کے اس شہر کی فتح پر غرور نہ کرنا یہ چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں تاجر بیوپاری اور دکاندار رہتے ہیں، یہ لوگ جنگجو نہیں نہ کبھی انہیں لڑائی سے واسطہ پڑا ہے، ان پر دو تین پتھر پھینکے تو انہوں نے ڈر کر شکست تسلیم کر لی ،دیبل میں ہماری کوئی اتنی فوج بھی نہیں تھی، تم اسے اتنی بڑی فوج اور ہماری شکست نہ سمجھو اگر ہمارا ایک بھی بہادر سالار وہاں ہوتا تو تمہارا انجام تمہارے وطن کے پہلے سالاروں جیسا ہوتا ،تم اور تمہارا ایک بھی سپاہی زندہ نہ ہوتا، میں تمہاری نوجوانی پر رحم کرتا ہوں اور تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ایک قدم آگے نہ بڑھانا جہاں تک پہنچے ہو وہی سے واپس چلے جاؤ ،آگے آؤ گے تو تمہارا سامنا میرے بیٹے جے سینا سے ہوگا ،تم نہیں جانتے کہ اس کے قہر اور غضب سے بڑے جابر اور جنگجو بادشاہ بھی پناہ مانگتی ہیں، اور ہندوستان کے راجہ اور مہاراجہ اس کے آگے ماتھے رگڑتے ہیں ،میرا بیٹا سندھ ،مکران، اور توران کا حکمران ہے، اس کے پاس ایک سو جنگی ہاتھی ہیں جو بدمست ہو کر لڑتے اور دشمن کو کچلتے ہیں، اور جے سینا خود ایک سفید ہاتھی پر سوار ہوتا ہے جس کا مقابلہ نہ گھوڑے کرسکتے ہیں نہ وہ بہادر سپاہی جوبرچھی برادر ہوتے ہیں،،،،
تم صرف ایک فتح پر اتنے مغرور ہوگئے ہو کہ تمہاری عقل پر پانی پڑ گیا ہے، تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو تمہارے پہلے سالار بدیل کا ہوا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم یہ پیغام سن کر مسکرایا اس نے اپنے سالار و نائب سالاروں اور امیر محمد بن وداع نجدی کو بلایا اور ترجمان سے کہا کہ وہ ان سب کو یہ پیغام پڑھ کر سنائے، ترجمان نے پیغام ایک بار پھر پڑھا اور تمام حاضرین مسکرانے لگے۔
اس شخص نے مجھے مغرور کہا ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے شگفتہ سے لہجے میں کہا ۔۔۔کیا یہ شخص کم عقل اور کمینہ نہیں، میں جو جواب لکھوانا چاہتا ہوں وہ آپ سب سن لیں اور اپنی رائے اور مشورے دیں۔
محمد بن قاسم نے انہیں بتایا کہ وہ کیا لکھنا چاہتا ہے، سب نے مشورہ دیا کہ ایسے شخص کو شریفانہ جواب نہیں ملنا چاہیے ،سب نے جو مشورے دیے ان سے پیغام تیار ہوا ،محمد بن قاسم نے کاتب کو بلا کر پیغام لکھوایا یہ خط بھی تاریخوں میں محفوظ ہے، جو اس طرح ہے۔
یہ خط اس محمد بن قاسم ثقفی کی طرف سے ہے جو شرکش اور مغرور مہاراجوں اور بادشاہوں کا سر نیچا کرنا جانتا ہے ،اور جو مسلمانوں کے خون کا انتقام لیے بغیر نہیں رہتا ہے، تو کافر، جاھل ،مغرور، اخلاق کا منکر اور اپنی سگی بہن کا خاوند ہے ،اور جسے احساس نہیں کہ وقت اور زمانہ بدلتے دیر نہیں لگتی اور حالات تکبر اور غرور کو کچل دیتے ہیں،،،،،
تم نے جہالت اور حماقت سے جو لکھا ہے وہ میں نے پڑھا ہے، اس میں سوائے تکبر و غرور اور چھچھورے پن کے کچھ بھی نہیں ،مجھے اس سے بھی واقفیت ہوئی کے تمہارے پاس طاقت ہے ہتھیار ہیں اور ہاتھی بھی ہیں، میں نے سمجھ لیا کہ تم انہی چیزوں پر بھروسہ کرتے ہو، میرے پاس طاقت بھی کم ہے اور ہاتھی بھی نہیں لیکن ہماری سب سے بڑی طاقت خداوند تعالی کا کرم اور فضل ہے،،،،،
آئے عاجز انسان سواروں، ہاتھیوں ،اور لشکر پر کیوں ناز کرتا ہے، ہاتھی تو ایک کمزور اور انسان جیسا عاجز جانور ہے جو ایک مچھر کو بھی اپنے جسم سے نہیں ہٹا سکتا ،اور تم میرے جن گھوڑوں اور سواروں کو اپنے ملک میں دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئے ہو وہ اللہ کے سپاہی ہیں اور اللہ کے فرمان کے مطابق فتح انہیں کے لیے لکھی گئی ہے، اور یہی غالب آئیں گے کیونکہ یہ اللہ کی جماعت ہے (حزب اللہ) ہیں،،،،،،،
ہم تمھارے ملک پر لشکر کشی کبھی نہ کرتے لیکن تمہاری بداعمالیوں ،اسلام دشمنی ،اور تکبر نے ہمیں مجبور کر دیا ہے، تم نے سراندیپ کے مسلمانوں کے بحری جہاز کو روک کر ان کو لوٹا اور پھر ان کو قید کر لیا حالانکہ خلیفۃ المسلمین کی برتری اور حکومت کو دنیا کے تمام ملک تسلیم کرتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ خلیفۃ المسلمین نبوت کا نائب ہوتا ہے۔
صرف تم ہو جس نے سرکشی کی اور ہمارے ساتھ دشمنی شروع کی ،تم بھول گئے تھے کہ تمہارے باپ دادا ہماری خلافت کو خراج ادا کرتے تھے جو تم نے روک دیا ہے، پھر تم نے بیہودہ حرکتیں کیں اور دوستانہ تعلقات رکھنے کی بجائے دوستی کے منکر ہوئے اور پھر تم نے اپنی اشتعال انگیز حرکتوں کو جائز سمجھا، تمہاری کرتوت کو دیکھتے ہوئے مجھے خلافت سے حکم ہوا کہ تمھیں سبق سکھاؤں مجھے یقین ہے کہ میرا اور تمہارا مقابلہ جہاں کہیں بھی ہو گا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے جو ظالموں اور مغرورں کو مغلوب کرنے والا ہے تم پرغالب آؤں گا، اور تم ذلت کا منہ دیکھو گے تمہارا سر کاٹ کر عراق بھیجوں گا یا اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا،،،،،،،
جسے تم اپنے ملک پر لشکر کشی کہتے ہو یہ ہمارے لئے جہاد فی سبیل اللہ ہے ،میں نے یہ فرض اللہ تبارک و تعالی کی خوشنودی کے لئے قبول کیا ہے، اور میں اسی کی ذات کے فضل و کرم کا طلبگار ہوں وہی مجھے فتح عطا فرمائے گا۔
یہ پیغام راجہ داہر کے ایلچی کو دے کر رخصت کر دیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
آج سندھ کے زمینی خدوخال وہ نہیں رہے جو آج سےایک ہزار دو سو سال پہلے تھے، دریائے سندھ نے بارہا اپنا راستہ بدلا ہے آج یہ بتانا ممکن نہیں کہ محمد بن قاسم کے دور میں سندھ کا راستہ کیا تھا، کون کون سی بستیاں اس کنارے اور کون سی اس کنارے تھیں ،اس وقت کی متعدد بستیوں اور قصبوں کے نام و نشان بھی نہیں رہے۔
دریائے سندھ کے معاون دریا بھی تھے یہ سب اب خشک نالے بن چکے ہیں ،چھوٹی بڑی ندّیاں بھی تھیں ان میں ایک ساکرہ نالہ بھی تھا جس کی گہرائی بڑی کشتیوں کے لئے کافی تھی۔
ایسے ہی برہمن آباد اس دور میں ایک شہر ہوا کرتا تھا راجہ داہر نے اپنے بیٹے جے سینا کو اس کے دستوں کے ساتھ برہمن آباد بھیج دیا تھا ،آج اس شہر کے کہیں کھنڈرات بھی نظر نہیں آتے، بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ یہ آج کا منصورہ ہے، مختلف مورخوں کی تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برہمن آباد منصورہ سے سات آٹھ میل دور ہوا کرتا تھا۔
یہ تو گمنام بستیاں تھیں جو زمانے کی ریت میں دب گئی، لیکن ایسی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہو کر جو مر کر بھی زندہ رہتی ہیں یہ بستیاں اپنا نام و نشان مٹا کر بھی زندہ ہیں، ان بستیوں سے وہ مجاہد گزرے تھے جو سینوں میں اللہ کا پیغام لے کر بڑی دور سے آئے تھے، وہ کفر کی تاریکیوں میں اسلام کا نور بکھیرتے گئے تھے، ان میں سے بہت سے لوٹ کے نہیں آئے تھے وہ اللہ کی راہ میں خاک و خون میں تڑپے اور سندھ کی ریت کے ذروں کے ساتھ ریت ہوگئے تھے ،اللہ کی راہ ان بستیوں میں سے گزرتی تھی انہی کے صدقے ان بستیوں کے نام آج بھی زندہ ہیں اور تا ابد زندہ رہیں گے۔
اس وقت جب راجہ داہر دو سو بیس میل دور اروڑ میں اپنے بیٹے جے سینا سے کہہ رہا تھا کہ یہ جنگ اب دو ملکوں یا دو بادشاہوں کی نہیں یہ دو مذہبوں کی جنگ بن گئی ہے۔ اُس وقت دیبل میں محمد بن قاسم جمعہ کے خطبے میں کہہ رہا تھا کہ ہم جس مقصد کے لئے یہاں آئے تھے وہ پورا ہو چکا ہے، ہم نے قیدی رہا کرانے ہیں سندھ کی فوج کو سزا بھی دے لی ہے اور مال غنیمت، جزئے، اور جنگی قیدیوں کی صورت میں راجہ داہر سے ہرجانہ بھی وصول کر لیا ہے، لیکن سمجھنے کی کوشش کرو کے ہم پر ایک اور فرض عائد ہو گیا ہے،
ہم نے دیکھا ہے کہ اس مندر کا گنبد ٹوٹا اور جھنڈا گرا تو ان لوگوں کے حوصلے ختم ہوگئے محمد بن قاسم نے خطبے میں کہا۔۔۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک جھنڈا لہرا رہا ہے انہیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی یہ لوگ دیوتا پرست اور بت پرست ہیں، ان کے دل اللہ کے نام سے بے بہرہ اور خالی ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں کہ سب سے بڑی قوت اللہ ہی، انہیں کسی نے بتایا نہیں یہ ہمارا فرض ہے کہ انھیں ذہن نشین کرایا جائے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ کے بندے ہو کر یہ اللہ کے نام سے بھی واقف نہیں، ان کا خدا یہ جھنڈا تھا ہم انہیں خدا سے روشناس کرائیں گے، یہ ملک بت خانہ ہے۔
اور جب راجہ داہر اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا کہ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ دیوتاؤں کی توہین کرنے والوں پر قہر نازل ہوگا ،اُس وقت محمد بن قاسم کہہ رہا تھا کہ ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو بتائیں کہ جن دیوتاؤں اور دیویوں کے تم بت اور مورتیاں بنا کر پوجتے ہو وہ اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکی کو بھی نہیں اڑا سکتے۔
تم اس ملک کے لوگوں سے جہاں بھی ملو ان کے ساتھ پیار، محبت اور تعظیم سے پیش آؤ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور انہیں بتاؤں کہ خدا ہم سب کا خالق ہے لیکن تم نے اپنے خداؤں کی تخلیق اپنے ہاتھوں کی ہے ،اگر ہم یہ کام نہیں کرتے تو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جسے گمراہ دیکھو اسے صراط مستقیم دکھاؤ ،یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی اندھے کو ٹھوکریں کھاتا دیکھتے ہو تو اس کا ہاتھ تھام کر اسے اس راستے پر ڈال دیتے ہو ،جس پر ٹھوکریں نہیں لگتیں۔
راجہ داہر اسے دو مذہبوں کی جنگ کر رہا تھا، تو محمد بن قاسم نے بھی اسے حق و باطل کا معرکہ بنا دیا تھا، اس نے حجاج بن یوسف کو اطلاع دے دی تھی اور حجاج کا اجازت نامہ بھی آ گیا تھا ،اور حجاج نے اسے لکھا تھا کہ وہ کمک اور رسد بھیج رہا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کے اپنے جاسوس بھی تھے اور ان کے ساتھ دیبل کے چند آدمی مل گئے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا ،ان کے علاوہ علافی نے محمد بن قاسم کو درپردہ اپنے چار آدمی دے دیے تھے جو اس خطے کی زبان بولتے اور سمجھتے تھے ،محمد بن قاسم نے انہیں آگے بھیج رکھا تھا اور کچھ جاسوس نیرون کے اندر بھی تھے، شعبہ جاسوسی کا سالار شعبان ثقفی بھی بہروپ میں نیرون تک ہوا آیا اور اردگرد کا علاقہ دیکھ آیا ان کی رپوٹوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ راجہ داہر باہر آکر نہیں لڑنا چاہتا، اس سے یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا تھا کہ وہ باہر آ کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا ،محمد بن قاسم جانتا تھا کہ راجہ داہر اِس دور دراز علاقے میں کھلے میدان کی جنگ لڑے گا جہاں تک پہنچتے محمد بن قاسم کی فوج پیش قدمی اور محاصروں کی تھکی ہوئی ہو گی، اور شہیدوں اور زخمیوں کی وجہ سے اس کی نفری بھی کم ہو چکی ہو گی، اور یہ فوج دیبل کی بندرگاہ سے بہت دور ہو گی، اس طرح سندھ کی فوج نے محمد بن قاسم کی فوج کے رسد اور کمک کے راستے کاٹ دینے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو دشمن کی اس نیت سے آگا ہ کر دیا۔
آپ تجربے کار ہیں ۔۔۔اس نے سالاروں سے کہا ۔۔۔رسد اور کمک کو رواں اور محفوظ رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم سندھ کے راجہ کے دارالحکومت اروڑ تک کچھ قلعے فتح کر لیں کچھ بستیاں لے لیں اور ان میں اپنی تھوڑی نفری چھوڑتے جائیں جو گشت کے ذریعے رسد اور کمک کی آمدورفت کو محفوظ رکھے۔
آگے سے آنے والے جاسوسوں نے اگلے قلعے کی رپورٹ دی تھی جن کے مطابق آگے ایک مقام سیسم تھا اور اس سے آگے نیرون (حیدرآباد) تھا محمد بن قاسم کی منزل نیرون تھی وہاں تک کا فاصلہ اس وقت کی پیمائش کے مطابق پچیس فرسنگ تھا ایک فرہنگ ساڑھے پانچ میل کے لگ بھگ ہوتا تھا۔
ایک چھوٹا دریا جس کا نام ساکرا تھا دیول کے قریب سمندر میں گرتا تھا ،اور نیرون کے قرب وجوار سے گزر کر آتا تھا ،محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ تمام منجنیقیں کشتیوں میں لاد کر کشتیاں دریائے ساکرا میں جو ساکرا نالہ کہلاتا تھا لائی جائیں، ان کے علاوہ بے شمار رسد اور دیگر جنگی سامان بھی کشتیوں میں لاد نے کا حکم دیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
چند ہی دنوں بعد کشتیوں کا ایک بیڑہ دیبل سے نیرون کی طرف ساکرا نالے میں جا رہا تھا، ان میں بادبانی کشتیاں بھی تھیں اور چپو والی بھی، ان میں تیر انداز بھی جارہے تھے کہ دشمن حملہ کرے تو اسے دریا کے قریب نہ آنے دیا جائے، دریا کے دونوں کنارے کے ساتھ گھوڑسوار جا رہے تھے یہ اس بیڑے کی حفاظت کا انتظام تھا۔
باقی فوج جاسوسوں کے بتائے ہوئے راستے پر جا رہی تھی، گائیڈ ساتھ تھے شعبان ثقفی نے اپنے آدمی آگے اور دائیں اس مقصد کے لئے بھیج دیے تھے کہ کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اسے پکڑ لیں، کوشش کی جارہی تھی کہ نیرون تک یا داہر تک اسلامی فوج کی پیشقدمی کی اطلاع نہ پہنچ سکے ،لیکن یہ ممکن نہیں تھا، یہ دریا تھا اور دریا کے کنارے چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جن کی آبادی نے فوج کو جاتے دیکھا ،کئی آدمی دریا کے کنارے ملے وہ دیہاتی اور سادہ لوح لوگ تھے۔
موسم سخت گرم تھا ساون کی برسات ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، یہ عرب کی فوج تھی جو عرب کی گرمی کی عادی تھی اور ریگستان بھی ان کے لیے نیا اور تکلیف دے نہیں تھا ،لیکن سندھ کی گرمی کچھ اور قسم کی تھی۔
کشتیاں سیسم کے مقام پر پہنچ گئیں کچھ وقفے سے فوج بھی پہنچ گئی محمد بن قاسم نے وھاں پڑاؤ کا حکم دیا ،گرمی جلا رہی تھی کشتیوں کو بھی وہیں روک لیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
رات کے وقت بصرہ سے ایک قاصد آیا ،وہ خشکی کے راستے آیا تھا ،پہلے دیبل گیا وہاں سے اسی راستے پر چل پڑا جس راستے پر فوج جا رہی تھی، آخر سیسم کے مقام پر محمد بن قاسم تک پہنچا وہ حجاج بن یوسف کا پیغام لایا تھا حجاج نے لکھا تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ؛
حجاج بن یوسف کی طرف سے سالار محمد بن قاسم کے نام ،ہمارے دلی ارادوں کا اور ہماری ہمت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمہیں ہر حال میں فتح و نصرت حاصل ہو اور انشاءاللہ تم فتحیاب ہوکر واپس آؤ گے، اور اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے ہمارے دین کا دشمن اس دنیا میں سزا پائے گا، اور اپنے بت کے عذاب میں ہمیشہ پڑا رہے گا ،ایسا خیال کبھی دل میں نہ لانا کے دشمن کے ہاتھی، گھوڑے، زروجواہرات اور اس کا تمام مال و اسباب تمہاری ملکیت میں آجائے گا، اس کی بجائے کیا یہ بہترین نہیں کہ تم اپنے رفیقوں اور تمام مجاہدین کے ساتھ پر مسرت زندگی بسر کرو ،لالچ نہیں رکھو گے تو تمہاری زندگی پر مسرت ہوگی،،،،،،،
تمہارا وصول یہ ہو کہ ہر کسی کی تعظیم و تکریم کرو ،اور چھوٹے بڑے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ،دشمن کے ملک پر فتح پا کر بھی اس ملک کے لوگوں کو یہ یقین دلاوں کے یہ ملک تمہارا ہے، جب کبھی کوئی قلعہ فتح کرو تو اس میں سے ضروریات کی جو بھی چیزیں ملیں وہ اپنے پاس نہ رکھا کرو، یہ سب اپنے لشکر پر اور فوج کو تیار کرنے پر صرف کرو، اگر کوئی شخص کھانے پینے کی چیزیں زیادہ رکھتا ہے تو اس سے مت چھینو اور اس کو مت ٹوکو،،،،،،
کس شہر کو فتح کرو وہاں اشیاء کی قیمتیں مقرر کر دو ،جو مال و اسباب خصوصا غلہ دیبل میں پڑا ہے وہ فوج کی رسد کے طور پر استعمال کرو، ایسا نہ ہو کہ وہ دیبل میں ذخیرے کے طور پر پڑا رہے اور خراب ہو جائے، جو شہریاخطہ فتح کر لو سب سے پہلے اس کا مضبوط کرو اور پھر دیکھو کہ وہاں کے لوگ بغیر خوف و ہراس کے مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں ،مفتوحہ علاقے کے لوگوں کی دلجوئی کرو اور پوری کوشش کرو کہ وہاں کے کسان دیگر پیشہ ور لوگ اور تاجر آسودہ حال ہوں، اور وہاں کی کھیتیاں ویران نہ ہو جائیں، اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ 20رجب 93 ہجری 712 عیسوی۔
حجاج بن یوسف نے اس خط میں محمد بن قاسم کے حوصلے کو تازگی بخشی، اس نے اپنے سالاروں اور کماندروں کو بلا کر یہ خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ یہ تمام لشکر کو سنایا جائے۔
ایک دو روز قیام کرکے محمد بن قاسم نیرون کی طرف روانہ ہوا ،کشتیاں چل پڑی ساتویں روز یہ لشکر بلہار کے مقام پر پہنچا۔
یہاں پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ،دریا جس میں کشتیاں جا رہی تھی بہت پرے ہو گیا تھا اور فوج کا راستہ خاصہ دور چلا گیا تھا ،پانی کی قلت پیداہوگئی گھوڑے پیاس سے بے چین ہوتے اور ہنہناتے تھے، لشکر کی حالت بھی دگرگوں ہونے لگی ایک دو روز میں پانی کے ذخیرے کا آخری قطرہ بھی ختم ہو گیا صورت ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ کوچ ناممکن نظر آنے لگا ،محمد بن قاسم نے دوپہر کے وقت جب زمین اور آسمان جل رہے تھے تمام لشکر کو اکٹھا کیا اور کہا کہ نماز استسقاء ادا کی جائے۔
تمام لشکر قبلہ رو ہو کر صف آراء ہو گیا امامت کے فرائض محمد بن قاسم نے ادا کیے تاریخوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اس نے رقت آمیز آواز میں دعا مانگی اس کی دعا کے الفاظ تاریخ میں محفوظ ہیں جو اس طرح ہیں۔
ائے اپنے گمراہ اور پریشان حال بندوں کو راستہ دکھانے والے، اے فریادیوں کی فریاد سننے والے، اپنے ان الفاظ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے صدقے ہماری فریاد سن لے۔
تاریخ اسلام کے اس کمسن سالار پر ایسی رقت طاری ہوئی کے اس سے آگے اسکی زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا مجاہدین کے لشکر میں سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ،متعدد مورخوں نے لکھا ہے کہ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس قدر مینہ برسا کے ریگزار سمندر کی صورت اختیار کرگیا تمام لشکر نے پانی ذخیرہ کر لیا اس سے اگلے روز محمد بن قاسم نے نیرون کی طرف کوچ کا حکم دے دیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
لشکر نیرون سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا کہ ایک شتر سوار جو اسی علاقے کا مسافر معلوم ہوتا تھا سامنے سے آتا نظر آیا ،وہ سیدھا لشکر کے اس حصے میں داخل ہو گیا جس حصے میں محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار چلا جا رہا تھا، وہ مسلمان جاسوس تھا اور نیرون سے آیا تھا ۔
کیا خبر لائے ہو ؟،،،،محمد بن قاسم نے اس سے پوچھا۔
سالار اعلی!،،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔نیرون کا حاکم سندر شمنی نیرون سے غیر حاضر ہے۔
کہاں چلا گیا ہے
اروڑ!،،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔راجہ داہر کے بلاوے پر گیا ہے۔
شہر کے لوگ کیا کہتے ہیں؟،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
شہر کے لوگ نہیں لڑیں گے۔۔۔ جاسوس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن ان کے راجہ نے نیرون کی فوج کے حاکم کو بدل ڈالا ہے ،فوج شہر کے لوگوں کو ڈراتی پھر رہی ہے کہ مسلمان شہر میں داخل ہو گئے تو لوٹ مار کریں گے، اور بچوں اور خوبصورت عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، اور وہ کسی گھر میں کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے غلہ بھی اکٹھا کرکے خود کھا لیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج مقابلہ کرے گی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
ہاں سالار اعلی!،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔فوج مقابلے کے لیے تیار ہے۔
محمد بن قاسم نے پیشقدمی تیز کرکے نیرون شہر کو محاصرے میں لے لیا ،اور اس طرح کے اعلان شروع کردیئے کہ فوج نے قلعہ ہمارے حوالے نہ کیا اور ہم نے قلعہ لے لیا تو کسی فوجی کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
مورخ لکھتے ہیں کہ نیرون کے حاکم سندرشمنی کی اروڑ میں طلبی ایک سازش تھی ،راجہ داہر نے اس اطلاع پر کے مسلمان کی فوج نیرون کی طرف بڑھ رہی ہے سندر شمنی کو ایک ضروری کام کے بہانے اروڑ بلا لیا، پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ نیرون کے اس حاکم نے راجہ داہر کو بتائے بغیر حجاج بن یوسف کی طرف اپنا وفد بھیج کر دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا، اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی تھی، حجاج نے اسے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی تھی۔
حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ جب نیرون پہنچے گا تو اسے شہر کے دروازے کھلے ہوئے ملیں گے، لیکن محمد بن قاسم کے لیے شہر کے دروازے بند تھے ،اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ منجیقوں سے شہر پر سنگباری کریں یا نہ کریں، سنگ باری سے شہریوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ،جاسوس نے بتایا تھا کہ شہری نہیں لڑنا چاہتے لیکن فوج ان پر غالب آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اروڑ میں راجہ داہر نے سندرشمنی کو ویسے ہی روکا تھا ،اسے توقع تھی کہ اس نے نیرون میں اپنی فوج کا جو حاکم سالار بھیجا ہے وہ مسلمانوں کے محاصرے کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ ایک صبح راجہ داہر نے سندرشمنی کو بلایا پتہ چلا کہ سندرشمنی کمرے میں نہیں ہے ،اسے ہر جگہ تلاش کیا گیا لیکن وہ نہ ملا ،وہ ملتا بھی کہاں اس وقت وہ اروڑ سے بہت دور پہنچ چکا تھا، اس کے گھوڑے کی رفتار خاصی تیز تھی، اس کے محافظ بھی اروڑ سے لاپتہ تھے۔ وہ سب اس کے ساتھ نیرون کو جا رہے تھے۔
سندر شمنی کے محافظ دراصل عرب کے مسلمان تھے جنہیں شعبان ثقفی نے بھیجا تھا وہ وہاں کی زبان روانی سے بولنے لگے تھے۔ ہوا یوں تھا کہ آدھی رات کے لگ بھگ محمد بن قاسم کے ایک جاسوس کو محمد بن قاسم کے کہنے پر اروڑ بھیجا گیا تھا، اسے زبانی سندر شمنی کے لئے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ نیرون میں جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے اس میں ہم کیا کریں، جاسوس کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ اس نے سندر شمنی کے ساتھ کیا بات کرنی ہے۔
جب یہ جاسوس سندر شمنی کے پاس اروڑ پہنچا اور اسے پیغام دیا تو اس وقت سندر شمنی کو خیال آیا کہ راجہ داہر نے اسے نیرون سے دور رکھنے کے لئے اروڑ میں پابند کر رکھا ہے، وہ اسی وقت اٹھا اور نہایت خاموشی سے اپنے محافظوں سے کہا کہ وہ اس طرح اپنے گھوڑوں کو باہر لائیں کہ کسی کو شک نہ ہو۔
کسی کو شک ہو یا نہیں انہیں اروڑ سے نکلنا تھا اور کم سے کم وقت میں نیرون پہنچنا تھا۔ وہ جب نیرون پہنچے اس وقت سورج بہت اوپر آچکا تھا سندر شمنی محاصرے میں سے گزر کر شہر کے ایک دروازے پر آیا ،محاصرہ ابھی خاموش تھا مسلمان فوج نے کوئی کارروائی شروع نہیں کی تھی ،کئی دن گزر گئے تھے۔
اپنے حاکم کو دیکھ کر اندر کی فوج نے دروازہ کھول دیا۔
سندرشمنی نے دروازہ بند نہ کرنے دیا اس نے اپنے ایک محافظ کو محمد بن قاسم کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ آؤ اور شہر میں داخل ہو جاؤ۔
فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ سندر شمنی نے محمد بن قاسم کا شاہانہ استقبال کیا بیش قیمت تحفے بھی پیش کئے، اور مسلمان فوج کو شہر میں داخل کر کے اعلان کیا کہ معاہدے کے مطابق نیرون کے لوگ محمد بن قاسم کے وفادار رہیں گے۔
یہ خطرہ نظر آ رہا تھا کہ نیرون کی فوج مزاحمت کرے گی لیکن شہر کے لوگوں نے ایسی پرمسرت اور ہنگامہ خیز فضا پیدا کردی کہ فوج کچھ بھی نہ کرسکی، اس فوج کے حاکم نے یہ ضرور سوچ لیا ہو گا کہ اس نے کوئی مزاحمت کی تو مسلمانوں کی فوج اور خود نیرون شہر کے لوگ نیرون کی فوج کے ایک سپاہی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
*<=======۔==========>*
*قسط نمبر/14*
نیرون کا ہاتھ سے نکل جانا راجہ داہر کے لیے ایک اور چوٹ تھی لیکن اب اس کا رد عمل و ایسا نہیں تھا جیسا ارمن بیلہ اور دیبل کی شکست کے بعد ظاہر ہوا تھا۔
مہاراج!،،،،،، ایک فوجی مشیر نے کہا ۔۔۔عربوں کو نیرون سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے ۔
ہمیں حکم دیں مہاراج !،،،،ایک اور بولا ہم سندر شمنی کو اور اس کے خاندان کے بچے بچے کو قتل کر کے ان کے سر آپ کے قدموں میں حاضر کر دیں گے۔
سنا ہے وہ لڑکا سا ہے۔۔۔ داہر کے ایک اور فوجی حاکم نے کہا ۔۔۔اور او چھی چالیں چلتا ہے ،اپنے فیصلے کو بدلیں۔
اسے اروڑ تک نہیں پہنچنا چاہیے مہاراج !،،،ایک اور نے کہا۔۔۔ ہم اسے نیرون میں ہی ختم کر سکتے ہیں۔
ہاں معراج!،،،، فوجی مشیر نے کہا۔۔۔ ہم نیرون کا محاصرہ کر لیتے ہیں اسکی منجنیقیں ابھی دریا میں کشتیوں پر رکھی ہوئی ہیں۔
راجہ داہر کمرے میں اس طرح ٹہل رہا تھا کہ اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے اور سر ذرا سا جھکا ہوا تھا، جب کوئی اسے مشورہ دیتا تھا تو وہ ذرا رکتا اور ٹیڑھی آنکھ سے اسے دیکھ کر چل پڑتا تھا، ہر مشورے پر اس کے ہونٹوں پر تبسم سا آجاتا تھا ،وہاں جتنے بھی مشیر اور حاکم موجود تھے ان سب نے اپنے اپنے مشورے دے ڈالے ،پھر داہر کے اس شاہانہ کمرے میں سکوت طاری ہو گیا ،داہر کے قدموں کی ہلکی ہلکی آہٹ اس سکوت کو منتشر کرتی تھی۔
آخر داہر رک گیا اس کا انداز یہ ہوا کرتا تھا کہ بولنے والے کی پوری بات چلتے چلتے بھی سن لیتا تھا لیٹے لیٹے بھی سن لیتا تھا ،لیکن جب وہ جواب میں بولتا تھا یا کوئی حکم نامہ جاری کرتا تھا تو وہ اپنی کرسی پر جا بیٹھتا، تلوار اپنے سامنے رکھ لیتا تلوار کا ہیرو سے مرصع دستہ اس کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ اپنے چہرے پر ایسا بارعب تاثر پیدا کرلیتا جیسے تمام تر ہندوستان پر اس کی حکمرانی ہو ،اس وقت تمام درباری مکمل انہماک سے اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔
یہ تمام مشورے سن کر وہ اپنے مخصوص انداز سے تخت کی تین سیڑھیوں پر چڑھا بیٹھا اور اس نے سب پر نگاہ دوڑائی۔
وہ یہاں تک پہنچے گا ۔۔۔راجہ داہر نے مہاراجوں کے لہجے میں کہا ۔۔۔ہم اسے یہاں تک آنے دیں گے، لیکن وہ یہاں اپنی تلوار ہماری جوتیوں کے نیچے رکھنے کے لیے آئے گا، وہ کسی عربی ماں کا نادان بچہ اس وقت اپنے آپ کو جنگل کا شیر سمجھ رہا ہے، ہم اسے یہی بتا رہے ہیں کہ مورکھ بالک تو شیر ہے ،،،،،راجہ داہر مسکرایا اور بولا ،،،یہ شیر اروڑ کی دیواروں سے دور آ بیٹھے گا اور اپنے زخم چاٹے گا،،،،،،،، کیا تم نہیں جانتے کہ سندھ کی دھرتی کا سپوت جے سینا اس کے راستے میں پہاڑ بن کر کھڑا ہے، برہمن آباد میں ایک عربی بیٹے اور ایک سندھی بیٹے کا مقابلہ ہوگا، پھر اس ملک میں ہندو مت رہےگا یا اسلام، یہ اپنے سینوں پر لکھ لو کہ ہم نے محمد بن قاسم کو اور اس کی فوج کو نہیں روکنا بلکہ ایک مذہب کو روکنا ہے، اور یہ وہ مذہب ہے جو تھوڑے سے عرصے میں دور دور تک پھیل گیا ہے، کیا تم جانتے ہو اس کی وجہ کیا ہے؟،،،،،،، اس نے بڑے مندر کے پنڈت کی طرف دیکھا جو وہاں موجود تھا اس نے پنڈت سے کہا ۔۔۔رشی مہاراج انہیں بتائیں۔
اسلام اس لیے پھیل گیا ہے کہ اس کے مقابلے میں آنے والے مذہب سچے نہیں تھے۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔ایک طرف آگ کو پوجنے والے ایرانی تھے، دوسری طرف صلیب کے پجاری عیسائی تھے، ان مذہبوں میں کوئی طاقت نہیں تھی ،ہندومت دیوتاؤں کا مذہب ہے ہمارے دیوتا آگ برسا سکتے ہیں، پہاڑوں کو اٹھا کر جہاں چاہیں لے جا کر اپنے دشمنوں پر گرا سکتے ہیں، یہ مسلمان آگ اور صلیب کے پجاریوں کے دھوکے میں یہاں آ نکلے ہیں۔
اور ہمارا دھرم اور دھرم ہے جس پر ہماری عورتیں اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اپنے دھرم اور اپنی دھرتی پر قربانی دینے والی عورتوں کو دیوتا دھرتی سے اٹھا کر آکاش پر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے سائے میں رکھتے ہیں ۔
مہاراج کی جے ہو ۔۔۔ایک فوجی حاکم نے کہا۔۔۔ ہماری عورتیں اس وقت قربانی دین گی جب ہم کٹ چکے ہوں گے۔
تم نہیں سمجھے میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہماری جوان عورتیں اس جنگ میں شامل ہو چکی ہیں۔
تم نہیں سمجھے۔۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔وہ نوجوان ہے کیا نام لیتے ہو اس کا، ہاں محمد بن قاسم ،وہ تلوار کو اور لڑائی بھڑائی کو کھلونا اور کھیل سمجھ رہا ہے ،وہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ دیوتاؤں کی آگ سے کھیل رہا ہے۔ ہماری ایک خوبصورت لڑکی اس کے سامنے چلی گئی تو اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑے گی ،کسی نادان بچے کو معمولی سا کھلونا دکھا دو تو اپنا قیمتی کھلونا چھوڑ کر معمولی سے کھلونے کی طرف لپکا آئے گا ،،،،،کیا ایسا نہیں ہوتا؟
لیکن ہمیں یہی حسین ہتھیار استعمال نہیں کرنا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہم جب اسے کھلے میدان میں اپنے سامنے لائیں گے تو وہ اپنے سب داؤپیچ بھول جائے گا اور ہم اسے ایسی بری حالت میں لے آئیں گے کہ وہ ہمارے سامنے جھک کر کہے گا مہاراج مجھے اپنی پناہ میں لے لو۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
راجہ داہر کی اس مجلس میں اس کا وزیر بدہیمن نہیں تھا ،بدہیمن اسی محل کے ایک کمرے میں راجہ داہر کی بہن مائیں رانی کو جو داہر کی بیوی بھی تھی لیے بیٹھا تھا، جس حسین حربے کا ذکر راجہ داہر کر رہا تھا اس کے استعمال کی تمام تر ذمہ داری بدہیمن اور مائیںرانی نے سنبھال رکھی تھی۔
تاریخ شاہد ہے کہ دو قوموں نے فریب کاری عیاری اور انتہائی بے غیرتی کو تلوار سے زیادہ خطرناک ہتھیار بنایا ہے، ایک یہودی اور دوسرے ہندو، یہودی کبھی بھی کھلی جنگ میں مسلمانوں کے سامنے نہیں آئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ زمین دوز محاذ آرائی جاری رکھی اور اس زمین دوز جنگ میں انھوں نے دو ہتھیار استعمال کیے ایک زر و جواہرات اور دوسرا انتہائی حسین اور تربیت یافتہ لڑکیاں ،ہندو کی تاریخ بھی بے حیائی بے غیرتی اور جنسیت سے بھری پڑی ہے، انھوں نے مسلمانوں سے شکست کھائی تو تحفوں کے طور پر اپنی بیٹیاں دے دیں اور ان بیٹیوں کے ذریعے اسلامی سلطنتوں کی جڑیں کھوکھلی کر دیں، اس کی سب سے بڑی اور عبرت ناک مثال مغل شہنشاہ اکبر کی ہے جسے ہندو آج تک مغل اعظم کہتے ہیں، ہندوؤں نے اس کا حرم اپنی انتہائی اور بے حد عیار لڑکیوں سے بھر دیا تھا ،ہندوستان کے اس طلسماتی ہوس نے اس مسلمان بادشاہتوں کو اس حد تک گمراہ کردیا تھا کہ اس نے دین الہی کے نام سے اسلام کا چہرہ ہی مسخ کر دیا تھا۔
جو قوم اپنی بہو بیٹی کو خواہ وہ سہاگ کی ایک ہی رات گزار کر بیوہ ہو جائے اپنے ہاتھوں چتا پر کھڑا کر کے زندہ جلا دیتی ہے اس کے لیے یہ حربہ معمولی نہیں کہ دشمن کو کمزور کرنے کے لیے بیٹیوں کو استعمال کرے یہ ان کے گھر میں شامل ہے ،ان کے پنڈت چانکیہ کی تحریر ارتھ شاستر کے عنوان سے آج بھی ہندو اور ان کے لیڈر عقیدت مندی سے پڑھتے ہیں، یہ کتاب اس وقت سے صدیوں پہلے لکھی گئی جب محمد بن قاسم اسلام کا پرچم لئے ہندومت کے لئے ایک عظیم چیلنج بن کر سندھ کے ساحل پر اترا تھا، مؤرخ شہادت پیش کرتے ہیں کہ راجہ داہر اپنے پنڈت چانکیہ کا اتنا معتقد تھا کہ اسے پیغمبری کا درجہ دیتا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کا استقبال نیرون والوں نے یوں کیا تھا جیسے کوئی اوتار زمین پر اتر آیا ہو، اس نے وہاں کے حاکم سندر کو خودمختاری عطا کردی لیکن قتوال اپنا مقرر کیا جس کا نام ذہلی بصری تھا ۔پھر اس شہر کے انتظامات کے متعلق احکام جاری کئے، اور ان شہر میں جس پہلی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا وہ ایک مسجد تھی، آج یہ کہنا مشکل ہے کہ حیدرآباد میں وہ کون سی قدیم مسجد ہے جس کی بنیاد کھودنے کے لیے پہلی کدال محمد بن قاسم نے بسم اللہ پڑھ کر اپنے ہاتھوں چلائی تھی۔
محمد بن قاسم فوراً ہی پیش قدمی نہیں کرسکتا تھا ،حجاج بن یوسف کی ہدایات کے مطابق پیش قدمی سے پہلے یہ ضروری تھا کہ رسد اور کمک کے راستوں کو محفوظ کیا جائے، محمد بن قاسم اچھی طرح سمجھتا تھا کہ راجہ داہر کی یہ کوشش ہے کہ عرب فوج کی رسد اور کمک کا راستہ زیادہ سے زیادہ لمبا ہوجائے تاکہ عربی فوج اس کی حفاظت کا مستحکم انتظام نہ کر سکے۔
راستوں کی حفاظت کے انتظامات کے علاوہ جاسوسوں کو آگے بھیجنا بھی ایک پیچیدہ کام تھا، عربی فوج جوں جوں سندھ کے اندر آتی جا رہی تھی جاسوسوں کا کام مشکل ہوتا جا رہا تھا ،اب ضرورت یہ تھی کہ عربی جاسوسوں کے ساتھ مقامی جاسوس بھی رکھے جائیں۔
حجاج بن یوسف کی تمام تر توجہ اور سرگرمیوں کا مرکز سندھ بن گیا تھا، باقاعدگی سے کمک بھیچ رہا تھا، اس کے لئے دیبل بڑا ہی کارآمد اڈہ بن گیا تھا زیادہ تر کمک اور جنگی سامان سمندر کے راستے آتا تھا۔
محمد بن قاسم نے ایک کام اور کیا نیرون کی فوج نے بغیر لڑے شہر اس کے حوالے کر دیا تھا اس فوج کا جو حاکم تھا وہ اپنے تین چار جونیئر کمانڈروں کے ساتھ معلوم نہیں کس وقت نیرون سے بھاگ گیا تھا ۔محمد بن قاسم کو یہ بتایا گیا تھا کہ نیرون کی فوج لڑنے کے لئے تیار تھی اور یہ بھی کہ یہ فوج اس حد تک تیار تھی کہ نیرون کے حاکم کا حکم نہیں مانے گی، لیکن نیرون کے حاکم نے دروازے کھلوا دئیے اور شہریوں نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ نہ خود لڑیں گے نہ فوج کو لڑنے دیں گے۔
ان اطلاعوں سے محمد بن قاسم نے یہ تاثر لیا تھا کہ یہ فوج کسی بھی وقت خطرہ بن سکتی ہے اس خطرے کے پیش نظر اس نے نیرون کی فوج ایک میدان میں اکٹھا کیا اور ایک ترجمان کے ذریعے اس فوج سے خطاب کیا۔
ملک ہند کے سپاہیوں!،،،، تمہارے دلوں میں اب بھی یہ خوف موجود ہوگا کہ ہم تم سب کو قتل کردیں گے، ھونایہی چاہیے تھا ،یہی دستور چلا آرہا ہے کہ جس ملک کو فتح کرو اس کی فوج کو زندہ نہ رہنے دو لیکن یہ دستور ان فاتحین کا ہوتا ہے جو ملک کو فتح کرنے کے لیے آتے ہیں، وہ مفتوحہ فوج کو اس لیے ختم کر دیتے ہیں کہ ان کے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے، ہم ملک گیری اور بادشاہی کے حوصلے کر نہیں آئے ہیں، ہم اللہ کا ایک پیغام لے کر آئے ہیں لیکن ہم یہ پیغام جو ایک عقیدہ ہے اور ایک سچا مذہب ہے تم پر اس لیے مسلط نہیں کریں گے کہ تم نے ہمارے آگے ہتھیار ڈالے ہیں، ہمارے ہاتھوں وہ قتل ہوتے ہیں جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں، ہم تمہیں معاف کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب کو دیکھو اگر تمہیں اس میں صحیح راستہ نظر آتا ہے تو اسے اختیار کر لو اور یہ بھی سوچو کہ تمہارے جو بت اور جو مرتیاں ہمیں اس شہر میں داخل ہونے سے نہیں روک سکی وہ تمہاری کیا مدد کر سکتی ہیں، وہ تو اپنے اوپر سے ایک مکھی بھی نہیں اڑا سکتی یہ سب انسانوں کے بنائے ہوئے خدا ہیں عبادت کے لائق صرف ایک خدا ہے جس نے انسانوں کو بنایا ہے،،،،،،،
یہ بھی سن لو کہ ہم نے تمھیں جو آزادی دی ہے اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ تم گھروں میں بیٹھ کر اور چوری چھپے ہمارے خلاف کارروائیاں کرتے پھرو ،تمہاری کوئی حرکت ہم سے چھپی نہیں رہے گی اور تمہاری زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ہمارے کانوں تک پہنچے گا،،،،،،، اور ہم تمہیں یہ بھی اجازت دیتے ہیں کہ تم میں سے جو یہاں سے جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے لیکن اسے دوبارہ یہاں آنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔
اس دور کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کئی آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ اس خوف سے مرے جا رہے تھے کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے گا ،انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی جان بخشی کردی گئی ہے ۔
محمد بن قاسم کا فیصلہ سن کر انہوں نے عرب کے شہزادے کی جے ہو کے نعرے سے زمین و آسمان ھلا دیے۔
کچھ ایسا ہی خوف شہریوں پر بھی طاری تھا پنڈتوں نے مندروں میں یہ پراپیگنڈا کیا تھا کہ مسلمان بہت ظالم ہیں اور وہ جہاں جاتے ہیں وہاں کسی گھر میں کچھ نہیں چھوڑتے اور جوان عورتوں کو گھروں سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
یہ سب جھوٹ ثابت ہوا اور شہر کی فضا میں امن و امان کی خوشبوئیں مہکنے لگیں ،ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس مسجد کی بنیاد محمد بن قاسم نے رکھی تھی اس کی تعمیر میں نیرون کے فوجیوں اور شہریوں نے بلا اجرت حصہ لیا تھا۔
عشاء کی نماز کے بعد محمد بن قاسم اپنے کمرے میں سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ نیرون کی کچھ عورتیں اسے ملنے آئی ہیں، محمد بن قاسم نے انہیں اسی وقت بلا لیا۔
وہ سات آٹھ جوان لڑکیاں تھیں اور ان کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر عورت تھی وہ سب ہندو تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت تھیں، اندر آکر انہوں نے ہاتھ جوڑ کر ہندوانہ طریقے سے سلام کیا، ادھیڑ عمر عورت نے آگے بڑھ کر محمد بن قاسم کے پاؤں پر ماتھا رکھ دیا محمد بن قاسم پیچھے ہٹ گیا، پھر لڑکی آگے بڑھی کسی نے اس کے ہاتھ پکڑ کر چومے کسی نے اس کی عبا پکڑ کر آنکھوں سے لگائی اور والہانہ عقیدت اور تشکر کا اظہار کیا ،محمد بن قاسم نے ترجمان کو بلایا اور اس کے ذریعے ان سب کے ساتھ بات کی۔
تم سب کیوں آۓ ہو؟،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
ہم بہت دنوں بعد خشک گھاس اور بھوسے کے نیچے سے نکلی ہیں۔۔۔ ادھیڑ عمر عورت نے جواب دیا۔۔۔۔ہمارے آدمیوں نے ان لڑکیوں کو چھپا دیا تھا۔
کیوں؟
ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان جس شہر کو فتح کرتے ہیں سب سے پہلے وہاں کی خوبصورت عورتوں کو اکٹھا کرکے آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔۔۔۔ ادھیڑ عمر عورت نے کہا۔۔۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مسلمان وحشی قوم ہے اور ان کی خصلت درندوں جیسی ہے ،جب شہر کے دروازے کھولے گئے تھے تو جوان عورتوں اور جوان لڑکیوں کو جہاں جگہ ملی وہاں چھپا دیا گیا تھا ،لیکن ایسے نہ ہوا جیسے ہمیں بتایا گیا تھا ،آج پتہ چلا کہ آپ نے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے اگر آپ کی فوج نے وہ سب کچھ کرنا ہوتا جس سے ہمیں ڈرایا گیا تھا تو اب تک کرچکی ہوتے، ہم جہاں جہاں چھپی ہوئی تھی وہاں سے نکلیں پھر ہم باہر آئیں اور ہر طرف گھومتی پھرتی رہیں، آپ کی فوج نے ہماری طرف دیکھا بھی نہیں۔
تمہیں کیا ڈر تھا؟،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہاری جوانی پیچھے رہ گئی ہے اور تم بڑھاپے میں داخل ہو گئی ہو۔
میں ان لڑکیوں کو آپ کے پاس لائی ہوں۔۔۔ ادھیڑ عمر عورت نے کہا۔۔۔ آپ دیکھیں یہ کتنی خوبصورت ہیں، کیا کوئی فاتح انہیں نظرانداز کرسکتا ہے؟،، انہوں نے مجھے کہا تھا کہ یہ آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے آپ کے پاس آنا چاہتی تھیں، انہوں نے مجھے کہا میں ان کے ساتھ چلو ،جسے تم نے عجیب سمجھ رکھا ہے۔
یہ ہمارے لیے عجیب نہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہم اتنی دور سے یہاں کوئی دنیا کا اور عیش و عشرت کا لالچ لیکر نہیں آئے ،اور نہ ہی ہم نے تمھیں غلام بنایا ہے ،تمہاری عزت اور جان و مال کی حفاظت ہمارا فرض ہے یہ ہمارے مذہب کا حکم ہے،،،، تم سب اپنے گھر کو چلی جاؤ۔
ان لڑکیوں کے انداز سے پتہ چلتا تھا جیسے وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہتیں، ایک تو وہ غیر معمولی طور پر حسین اور دلکش تھیں، دوسرے ان کے ناز و انداز تھے جو اشتعال انگیز تھے ۔
کچھ دیر بعد محمد بن قاسم کے ایک بار پھر کہنے پر یہ لڑکیاں کمرے سے نکلنے لگیں لیکن ایک لڑکی جو ان سب میں بہت زیادہ خوبصورت تھی وہیں کھڑی رہی۔
میں کچھ دیر اور آپ کے سائے میں رہنا چاہتی ہوں ۔۔۔اس لڑکی نے محمد بن قاسم سے کہا۔
کیا کروں گی یہاں رہ کر؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
آپ انسان نہیں لگتے۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔آپ اوتار ہیں میں کچھ جاننا چاہتی ہوں کچھ سمجھنا چاہتی ہوں۔
ادھیڑ عمر عورت دوسری لڑکیوں کے ساتھ باہر نکل گئی اور لڑکی جو اندر رہ گئی تھی وہ باہر نہ آئی ،کچھ دیر انتظار کر کے یہ عورت لڑکیوں کو ساتھ لے کر چلی گئی کچھ دیر بعد ترجمان بھی باہر نکل آیا اور یہ لڑکی اندر ہی رہی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
تین چار روز بعد یہ خبر نیرون شہر میں پھیل گئی کے ہندوؤں کے مندر کا بڑا پنڈت اپنے کمرے میں مرا پڑا ہے ،محمد بن قاسم نے غیرمسلموں کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی ہندو اپنے مندر میں جاتے تھے اور بدھ اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتے تھے ،یہ خبر محمد بن قاسم تک بھی پہنچی اس نے حکم دیا کہ معلوم کیا جائے کہ پنڈت کس طرح مرا ہے۔ جاسوسوں کا سربراہ شعبان ثقفی گیا تو اس نے لاش کو دیکھتے ہی کہا کہ اسے زہر دیا گیا ہے، اس نے محمد بن قاسم کو یہی رپورٹ دی۔
اب یہ معلوم کرو کہ اسے زہر دینے والا کوئی مسلمان تو نہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔ شعبان ثقفی نے مندر کے چھوٹے پنڈتوں اور ان کے ان بالکو کو جو مندر میں رہتے تھے اکٹھا کر لیا اور باری باری ان سے پوچھا کہ ان میں سے پنڈت کے ساتھ کسی کی دشمنی تو نہیں تھی، یہ انکشاف ہوا کے ایک بڑی خوبصورت لڑکی آدھی رات کے وقت مندر میں آئی تھی اور وہ بڑے پنڈت کے کمرے میں چلی گئی تھی، کسی کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کس وقت وہاں سے نکلی تھی ۔
اس لڑکی کا نام شومو رانی تو نہیں ؟،،،،شعبان ثقفی نے پنڈتوں سے پوچھا۔
یہی نام ہے۔۔۔۔ ایک پنڈت نے کہا۔
اس لڑکی کا نام اس پنڈت کے سوا اور کوئی نہیں جانتا تھا ،جب ثشعبان ثقفی نے یہ نام سنا تو وہ مندر میں گیا اور پنڈت کے کمرے میں اچھی طرح دیکھا وہاں ایک پیالہ پڑا ہوا تھا جس میں ایک دو گھونٹ شربت بچہ ہوا تھا شعبان ثقفی نے یہ پیالہ اٹھا لیا اور مندر سے باہر آ گیا اس نے کہا کہ ایک کتّا یا بلی لائی جائے۔ دو تین آدمی ایک کتے کو پکڑ لائے شعبان ثقفی کے کہنے پر کتے کا منہ کھولا گیا اس نے پیالے میں بچاہوا شربت کتے کے منہ میں انڈیل دیا پھر اس نے کہا کہ اسے چھوڑ دو، کتے کو چھوڑ دیا گیا ڈرا ہوا کتا ایک طرف دوڑ پڑا لیکن زیادہ دور نہ جا سکا دوڑتے دوڑتے روکا اور وہیں رک گیا پھر اس کا جسم بالکل ہی ساکت ہو گیا۔
وہ لڑکی کہاں ہے ؟،،،،شعبان سفینے مندر کے پنڈتوں اور پجاریوں سے پوچھا۔
سب نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔
شعبان سختی نے ان سب کو مندر کی دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا وہ سات آٹھ تھے شعبان ثقفی نے دس باری تیر اندازوں کو بلایا اور انہیں ان سب کے سامنے پندرہ بیس قدم دور کھڑا کرکے کہا کہ کمانوں میں ایک ایک تیر چڑھا لیں۔
اب وہی زندہ رہے گا جو بتائے گا کہ لڑکی کہاں ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے ان ہندوؤں سے کہا ۔۔۔کون بتائے گا۔
شعبان ثقفی نے چند لمحے انتظار کیا ان میں سے کوئی بھی نہ بولا شعبان نے تیر اندازوں کو اشارہ کیا تو انہوں نے کمانیں سیدھی کر کے کھینچ لیں، میں بتاؤں گا ان میں سے ایک بلبلا اٹھا۔
شعبان ثقفی نے اسے الگ کرلیا اس آدمی نے بتایا کہ انہیں رات کو ہی پتہ چل گیا تھا کہ شومو نے پنڈت کو زہر پلا کر مار دیا ہے ،پتہ اس طرح چلا کے ایک پنڈت بڑے پنڈت کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا اور شومو باہر نکل رہی تھی اس پنڈت نے دیکھا کہ بڑاپنڈت بستر پر تڑپ رہا تھا وہ بڑی مشکل سے اتنا ہی کہہ سکا کہ اسے پکڑ لو مجھے زہر پلا گئی ہے۔ شومو کو پنڈت کے کہنے پر پکڑ لیا گیا اور صبح جب شہر کے دروازے کھلے تو لڑکی کو مردانہ لباس پہنا کر باہر لے گئے۔
کہاں ؟،،،،شعبان ثقفی نے پوچھا۔
وہ تو اروڑ کا آدھا راستہ طے کر چکے ہوں گے ۔۔۔پنڈت نے بتایا ۔۔۔اروڑ پہنچتے ہی اسے قتل کردیا جائے گا۔
ہاں ۔۔۔۔شعبان ثفی نے کہا ۔۔۔پنڈت کا قتل معمولی جرم نہیں ہوسکتا ہے۔
اس لڑکی کو پہلے کچھ دن اذیتیں دی جائیں۔۔۔ اس ہندو نے کہا۔۔۔ اس کا جرم صرف یہ نہیں کہ اس نے پنڈت کو زہر دے کر مارا ہے، بلکہ اس کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اسے جس آدمی کو زہر دینے کے لئے بھیجا گیا تھا اسے اس نے نہیں دیا اور پنڈت کی جان لے لی ۔
زہر کسے دینا تھا؟،،،، ثعبان ثقفی نے پوچھا۔ آپ کے سالار محمد بن قاسم کو۔۔۔ اس نے جواب دیا۔
لڑکی نے مندر میں واپس آکر بتایا ہوگا کہ اس نے ہمارے سالار کو زہر کیوں نہیں دیا ۔
نہیں !،،،،،اس نے جواب دیا ۔۔۔وہ آئی اور پنڈت کے کمرے میں چلی گئی تھی۔
اس مندر میں اور کیا سازش ہورہی تھی۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اگر تم بیمار کتے کی طرح تڑپ تڑپ کر مرنا نہیں چاہتے تو سچ بولنا اس وقت تمہاری زندگی میرے ہاتھ میں ہے۔
جھوٹ نہیں بولوں گا ۔۔۔اس نے کہا۔۔۔ رات کو ایک عورت کچھ لڑکیوں کو ساتھ لے کر آپ کے سالار کے پاس گئی تھی یہ ایک سازش تھی ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کے دلادہ ہیں ،ہمارے راجہ کا وزیر بدہیمن دانش مند آدمی ہے وہ کہتا تھا کہ عربی فوج کا سالار نوجوان ہے اور وہ اس جال میں آ جائے گا اور عیش و عشرت میں مگن ہو کر پیش قدمی روک دے گا، شومو نے اس کے پاس ٹھہرنا تھا اور اس پر اپنا جادو چلائے رکھنا تھا، پھر ایک روز ہمارے راجہ نے آپ کی فوج کو محاصرے میں لے کر ختم کر دینا تھا محاصرہ یا حملہ ہوتے ہی شومو نے آپ کے سالار کو زہر دے دینا تھا ۔
کس طرح؟
لڑکی نے جو انگوٹھی پہن رکھی تھی اس کے اوپر ڈھکنا لگا ہوا تھا ۔۔۔اس نے جواب دیا۔۔۔ قریب سے دیکھ کر بھی کسی کو شک نہیں ہوتا تھا کہ انگوٹھی پر ڈھکنا لگا ہوا ہے اور اس کے نیچے اتنا زہریلا سفوف بھرا ہوا ہے جو چند لمحوں میں انسان کی جان لے سکتا ہے، اس لڑکی نے بڑی آسانی سے آپ کے سالار کے پانی یا شربت میں انگوٹھی کا ڈھکنا اٹھا کر زہر ڈال دینا تھا ،لیکن میں یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ سازش الٹ کیسے گئی ،آپ نے میری جان بخشی کی ہے میں اس کا یہ صلہ دیتا ہوں کہ آپ کو خبردار کر رہا ہوں کہ اپنے سالار کو بچا کر رکھنا ،یہ ہندوستان ہے یہ اصرار اور طلسمات کی سرزمین ہے ،آپ قلعے سر کر سکتے ہیں میدان جنگ میں لڑ سکتے ہیں لیکن ایک نہ ایک دن آپ اور آپ کا سالار اس طلسم ہوش ربا میں گم ہوجائے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ہندوؤں نے اتنی تیزی سے کارروائی کی تھی کہ اس ادھیڑ عمر عورت اور تمام لڑکیوں کو بھی نیرون سے نکال دیا تھا، مندر میں جتنے پنڈت اور ان کے آدمی تھے ان سب کو گرفتار کر لیا گیا تھا،ان سب نے اپنے جرم کا اعتراف کر کیا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کو قتل کرنے کی سازش پر عمل کر رہے تھے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سازش کا خالق راجہ داہر کا وزیر بدہیمن ہے اور مائیں رانی بھی اس کے ساتھ شامل ہے۔
ہم نے تمہیں مذہب کی آزادی دے دی تھی۔۔۔ شعبان ثقفی نے مندر کے بڑے پنڈت سے کہا۔۔۔ اور ہم نے تمہیں اس پر بھی مجبور نہیں کیا کہ اسلام قبول کر لو لیکن تم نے ہماری اس فیاضی کا یہ صلہ دیا کہ ہمارے سالار کو قتل کرنے کی سازش کی اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہو۔
ارے عرب سے آنے والے حملہ آور۔۔۔ پنڈت نے عجیب سی مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔میں اپنے آپ کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرسکتا ہوں ،لیکن میں مذہب سے محروم نہیں ہو سکتا، ہم نے آپ کے صرف سالار کو قتل نہیں کرنا تھا قتل ہونے والوں میں آپ بھی شامل تھے، اور آپ کے تمام چھوٹے بڑے سالاروں کو بھی ہم نے قتل کرنا تھا،،،،،،،،، آپ کے ساتھ ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں یہ ہمارے مذہب کا معاملہ ہے ہم نے یہ سوچ کر اتنا بڑا خطرہ مول لیا تھا کہ ہم پکڑے گئے تو قتل کردیئے جائیں گے، جس طرح آپ اپنے مذہب اور عقیدے پر جان قربان کردیتے ہیں اسی طرح ہم بھی اپنے مذہب پر قربان ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
تم کم عقل ہو پنڈت !،،،،شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ باطل کے پجاریوں کا یہی انجام ہوتا ہے، خدا ان کی عقل پر پردے ڈال دیتا ہے ان کے کان بند ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں ، دیکھ بھی سکتی ہیں لیکن انہیں نظر کچھ بھی نہیں آتا اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ فریب نظر آتا ہے اور وہ باطل کی پرچھائیاں ہوتی ہیں۔
اے نادان عرب!،،،، پنڈت نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔میں تیرے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتا، میری گردن تیرے جلاد کی تلوار کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہے،،،،،،،،، اور میں تجھے یہ بتا دیتا ہوں کہ تم اس خطے میں اسلام تو پھیلا دو گے لیکن ہندومت زہر کی طرح اس خطے کے لوگوں کی رگوں میں موجود رہے گا، اور آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا رہے گا، ہماری روحیں بدروحیں بن کر اس خطے پر منڈلاتی رہیں گی ،،،،پنڈت نے ہاتھ آگے کیا اور شہادت کی انگلی اوپر کرکے کہا ،،،،میری پیشن گوئی سن لے تمہارے سالار محمد بن قاسم نے آخر قتل ہونا ہے ،اگر وہ ہندوؤں کے ہاتھوں قتل نہ ہوا تو اپنوں کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا ۔
وہ کیوں؟،،،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا ۔
میری آنکھیں بہت دور تک دیکھ سکتی ہیں ۔۔۔پنڈت نے کہا ۔۔۔تمہاری قوم کا زوال شروع ہو چکا ہے۔۔۔۔ اے عرب کے سالار !،،،،میں جوتشی اور نجومی نہیں میں اپنی عقل کی آنکھوں سے جو دیکھ رہا ہوں وہ بتا رہا ہوں۔
تم عقل کے کورے ہو پنڈت!،،،، شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اور پنڈت کو اپنے سپاہیوں کے حوالے کردیا۔
اسی روز محمد بن قاسم نے حکم دے دیا کہ مندر بند کر دیے جائیں اور ہندو گھروں میں عبادت کیا کریں، اس کے ساتھ ہی محمد بن قاسم نے یہ حکم بھی دیا کہ ان تمام پنڈتوں اور ان کے آدمیوں کو جو اس سازش میں شریک تھے قتل کردیا جائے۔
*<============۔=====>*
*قسط نمبر/15*
اس وقت جب ان سب کو قتل کیا جارہا تھا راجہ داہر کی راجدھانی اروڑ میں شومو ایک ایسی مجرم کی حیثیت سے بدہیمن اور مائیں رانی کے سامنے کھڑی تھی جس نے قتل سے زیادہ سنگین جرم کیا تھا۔
اسے وہاں تک بھوکا اور پیاسا پہنچایا گیا تھا، تمام راستے اس کے ہاتھ رسیوں سے بندھے رہے تھے سفر کی صعوبت بھوک اور پیاس سے اسکی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ وہ اچھی طرح کھڑی بھی نہیں ہو سکتی تھی۔
بدہیمن اور مائیں رانی اس سے پوچھتے تھے کہ اس نے محمد بن قاسم کی بجائے اپنے پنڈت کو زہر کیوں دیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں وہ صرف اتنا کہتی تھی کہ پانی پلاؤ ،لیکن اسے پانی نہیں دیا جا رہا تھا۔
اگر میں پیاس سے مر گئی تو تمہیں اس سوال کا جواب کون دے گا۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ میں جھوٹ تو نہیں بول رہی کہ تم مجھے پیاسا رکھ کر سچ بولنے پر مجبور کر رہے ہو۔
آخر اسے پانی پلایا گیا اور کھانے کے لئے بھی کچھ دیا گیا۔
اس انتہائی حسین لڑکی نے جو بیان دیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ سازش کے تحت وہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ محمد بن قاسم کے پاس گئی ان کے ساتھ جو ادھیڑ عمر عورت تھی اس نے محمد بن قاسم کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی فوج نے شہر کی عورتوں کی عزت آبرو کا پورا پورا خیال رکھا ہے، پھر جس طرح انھیں ٹریننگ دی گئی تھی اس کے مطابق شومو محمد بن قاسم کے پاس بیٹھ گئی، دوسری سب لڑکیاں باہر نکل گئیں وہ چونکہ اس ڈرامے کو جانتی تھی اس لئے انہوں نے اس لڑکی کا انتظار نہ کیا۔
تم جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے اسے کہا۔۔۔ وہ تمہارا انتظار کر رہی ہوں گی۔
کیا آپ مجھے کچھ دیر اور اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں دے سکتے؟،،،، شومو نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا۔۔۔ اب لڑکی نے عربی بولنی شروع کردی۔
تم عرب کی بیٹی نہیں ،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہماری زبان کہاں سے سیکھی ہے۔
میں نے صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکران میں رہنے والے ایک عرب سے یہ زبان سیکھی ہے۔ مجھے عربی آدمی اچھے لگتے ہیں ،اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ مجھے کچھ دیر تنہائی میں اپنے پاس بیٹھنے دو۔
کیا کرو گی میرے پاس بیٹھ کر؟
میں جانتی ہوں کہ ایسا حکم آپ نے ہی دیا ہو گا کہ شہر کے لوگوں کو اور ان کی عورتوں کو پریشان نہ کیا جائے۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا درجہ اوتار سے کم نہیں، میرا خیال تھا کہ آپ بہت بوڑھے ہوں گے اتنے دانشمندی کسی معمر آدمی میں ہی ہوسکتی ہے، لیکن آپ کو دیکھا تو پتہ چلا کہ آپ اپنی سیرت اور فطرت سے زیادہ خوبصورت ہیں، میں تو آپ کی پوجارن بن گئی ہوں۔
تمہارے مذہب میں یہی خرابی ہے کہ تم کسی انسان سے متاثر ہوتے ہو تو اس کی پوجا کرنے لگتے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کیا تم جس سے ڈرتے ہو اس کی پوجاری بن جاتے ہو، میں جو بھی حکم دیتا ہوں وہ اپنے اللہ کے احکام کے مطابق ہوتا ہے ۔
میں تو اپنا مذہب بھی چھوڑنے پر تیار ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ اگر آپ مجھے اپنے پاس رکھ لیں تو میں واپس نہیں جاؤں گی۔
میں تمہیں صرف ایک صورت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہوں کہ تمہارے ساتھ شادی کر لو۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ لیکن میں شادی کرنے نہیں آیا ،اور نہ میں ان بادشاہوں میں سے ہوں جو کسی شہر کو فتح کرکے وہاں کی خوبصورت لڑکیوں میں سے ایک دو انتہائی حسین لڑکیوں کو اپنی بیوی یا داشتائیں بنالیتے تھے، میں یہاں کسی مقصد کے لیے آیا ہوں۔
اس لڑکی نے بدہیمن اورمائیں رانی کو تفصیل سے سنایا کہ اسے جس طرح بتایا سمجھایا اور سنایا گیا تھا اس نے محمد بن قاسم کے جذبات کو مشتعل کرنے کی بہت کوشش کی، الفاظ سے حرکات سے اپنے اوپر جذبات کی دیوانگی طاری کرکے بھی اس کی جوانی کو بھڑکانے کی کوشش کی لیکن وہ یوں ہنستا اور مسکراتا رہا جیسے اس کا جسم بہت بوڑھا اور آسمان سے گرنے والے اولوں کے مانند یخ بستہ ہو چکا ہے۔
آخر اس کم عمر سالار نے اس لڑکی کو اس طرح اپنے پاس بلایا جیسے اولوں کا انبار پگھل گیا ہو، شومو اس کے سامنے اتنی قریب جا کھڑی ہوئی کہ اس کا لباس محمد بن قاسم کے لباس کو چھو رہا تھا ،محمد بن قاسم نے شومو کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا شومو نے اپنا دوسرا ہاتھ محمد بن قاسم کے ہاتھ پر رکھ دیا، وہ بہت خوش ہوئی کہ اس نے شکار مار لیا ہے، محمد بن قاسم کا انداز ہی ایسا تھا جیسے اس پر لڑکی کے حسن کا طلسم طاری ہو گیا ہو۔
محمد بن قاسم نے اس کی وہ انگلی پکڑ لی جس میں انگوٹھی تھی، یہ سونے کی وزنی انگوٹھی تھی اس کا اوپر والا حصہ ذرا بھرا ہوا تھا اور بہت اچھا لگتا تھا۔
بہت خوبصورت انگوٹھی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے انگوٹھی کے اوپر والے حصے پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
آپ رکھ لو ۔۔۔۔شومو نے کہا۔۔۔ شاید آپ کی چھوٹی انگلی میں آجائے۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اس میں میرے لئے جو لائی ہو وہ مجھے دے دو۔
شومو نے بڑی تیزی سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور دوسرا ہاتھ انگوٹھی پر رکھ دیا اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، محمد بن قاسم نے ہاتھ آگے کرکے اس کا انگوٹھی والا ہاتھ پھر پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچا شومو نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہ کی محمد بن قاسم نے انگوٹھی کے اوپر والے حصے پر اپنے انگوٹھے سے ذرا سا دباؤ ڈالا تو ڈھکنا کھل گیا اس نے دیکھا اس میں تھوڑا سا سفوف پڑا ہوا تھا۔
محمد بن قاسم کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ شومو کا رنگ پہلے ہی اڑ گیا تھا اب اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔
اب جھوٹ بولوں گی کہ تم میرے لئے نہیں لائی تھی؟
شومو نے آہستہ سے سر ہلایا اور اس کے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی،،،،، نہیں۔
تم نے زہر مجھے کس طرح دے سکتی تھی۔
میں سمجھی تھی یہ کام مشکل نہیں ہو گا۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ اگر مندروں میں بیٹھے ہوئے ہمارے پروہت مہاتما پنڈت اور رشی مجھ جیسی لڑکی کو دیکھ کر دوپہر کی دھوپ میں رکھے ہوئے موم کی طرح پگھل جاتے ہیں، تو میں خوش تھی کہ آپ جیسا نوجوان میرے اشاروں پر ناچے گا، مجھے بتایا گیا تھا کہ مسلمان شراب نہیں پیتے اور مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہمارے حسن اور جوانی کا نشہ شراب سے زیادہ مدہوش اور بد مست کرنے والا ہے، میں نے آپ پر اپنا نشہ طاری کرکے آپ کو پانی یا شربت بلانا تھا، اب اگر میں ایک بات کہوں گی تو آپ نہیں مانیں گے۔
تم نے جو کہنا ہے کہ دو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔
میں شاید آپ کو زہر نہ پلاتی۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ میں جو جذبہ لے کر آئی تھی اسے آپ کے سراپا اور آپ کے کردار نے توڑ دیا، آپ نہیں مانیں گے آپ کہیں گے کہ میں سزا سے بچنے کی کوشش کر رہی ہوں ،مجھ پر ایک کرم کریں مجھے سزا دینے کے لئے دوسروں کے حوالے نہ کریں مجھے یہ زہر اپنے منہ میں ڈال لینے دیں یہ زہر اتنا تیز ہے کہ مرتے ذرا دیر نہیں لگے گی، پھر میری لاش جہاں چاہیں پھینک دینا۔
نہیں لڑکی!،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اگر تم عرب ہوتی تو میں اپنی تلوار سے تمہارا یہ جسم ، جس میں تمہیں یہاں بھیجنے والے سمجھتے ہیں کہ شراب سے زیادہ نشہ ہے دو حصوں میں کاٹ دیتا، لیکن میری تلوار دشمن کی عورت پر نہیں اٹھے گی ،اسلام اتنا بے رحم مذہب نہیں میں تمہیں باقی عمر پچھتانے کے لیے اور تمہارے راجہ داہر اور اس کے وزیر کو شرمسار کرنے کے لئے یہاں سے زندہ بھیجوں گا۔
آپ انسان نہیں ۔۔۔شومو نے کہا۔۔۔ میں عربی میں بات کر رہی ہوں اس لئے آپ کو فرشتہ کہوں گی، پہلے میں نے آپ کو دھوکا دینے کے لیے کہا تھا کہ مجھے اپنے پاس رکھ لیں، لیکن اب میں سچے دل سے کہتی ہوں کہ مجھے اپنی لونڈی بنا لیں، آپ کے قریب نہیں آؤنگی آپ کو دیکھ کر زندہ رہوں گی مجھے اپنی پوجارن بنالیں ۔
میں تمہارے ہر سوال کا اور ہر خواہش کا جواب دے چکا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم پہلے بھی تم جیسی تین چار لڑکیاں راجہ داہر کے پاس بھیج چکے ہیں، انہوں نے مکران میں پناہ گزین عربوں کے ساتھ شادیاں کر لی تھیں، تم شاید انہیں جانتی ہوگی وہ بھی داہر کے وزیر بدہیمن کی بھیجی ہوئی تھیں ان کا بھی وار خالی گیا تھا ،میں نے ان لڑکیوں سے کہا تھا کہ اپنے راجہ داہر سے کہنا کہ لڑائی مرد آمنے سامنے آکر لڑا کرتے ہیں اور لڑائی تلوار سے لڑی جاتی ہے۔
میں ان لڑکیوں کو جانتی ہوں۔۔۔ شومو نے کہا۔
اور اب تم بدہیمن سے اور اپنے راجہ سے کہنا کہ ائے بے غیرت راجہ سامنے آ کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ اروڑ کے قلعے کی دیواریں تجھے میری تلوار سے اور اللہ کی سپاہیوں کی پرچھیوں اور تیروں سے بچا لی گی۔
روایت ہے کہ یہ ہندو لڑکی محمد بن قاسم کے سامنے یوں دو زانو ہو گئی اور ہاتھ اپنی عبادت کے انداز سے جوڑ لئے جیسے محمد بن قاسم کوئی دیوتا ہو یا ہندو دیوی مالائی داستانوں کا کوئی طلسماتی کردار ہو ،لڑکی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
اے بدقسمت لڑکی !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم اس مذہب کے پیروکار ہیں جو عورت کو اپنی آبرو جانتا ہے، ہم عورت کی ان پر اپنی جان قربان کر دیا کرتے ہیں ،عورت سے جان کی قربانی نہیں مانگا کرتے، تم جانتی ہو گی کہ تیرے راجہ نے عربی مسلمانوں کے صرف جہاز ہی نہیں لوٹے بلکہ جہازوں کے مسافروں کو قید خانے میں ڈال دیا تھا، ہم نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے حملہ تو کرنا ہی تھا لیکن ذرا سوچ سمجھ کر، مجھ سے پہلے ہمارے دو سالار یہاں آ کر بہت بری شکست کھاکر مارے گئے تھے ،اس لیے ہم نے پوری تیاری کرکے حملہ کرنا تھا، لیکن میرے چچا حجاج بن یوسف کو ایک قیدی عورت کا پیغام ملا تو حجاج نے اسی وقت مجھے حکم بھیجا کہ جہاں کہیں بھی ہو اور کچھ بھی کر رہے ہو سب چھوڑ دو اور سندھ کو روانہ ہو جاؤ، تمہیں فوج مل جائے گی میں نے کوئی تیاری نہیں کی تھی میرے دل میں اللہ اور اللہ کے رسول کا نام تھا۔
اپنے قیدی رہا کرا لیے ہیں؟،،،شومو نے کہا۔
ہم نے اس پورے شہر کو ایک ظالم راجہ سے آزاد کرا لیا ہے جس شہر کے قیدخانے میں ہمارے قیدی تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کیا تو اس راجہ کو ظالم نہیں کہے گی جو تجھ جیسی لڑکیوں کو اپنے دشمن کے پاس بھیج دیتا ہے، کیا تو نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ تیرا ایک خاوند ہو جو دلیر ہو، اور مردِ میدان ہو، اور تو اس کی بہادری پر فخر کرے۔
اے عرب کے بہادر شہزادے!،،،،، شومو نے کہا ۔۔۔میں اور مجھ جیسی بہت سی لڑکیاں اس قابل نہیں رہیں کہ ہم بیویاں بن کر عزت والے گھروں میں آباد ہوں، ہمارا شعور بیدار ہوا تو ہمیں یہ تربیت دی جانے لگی تھی، ہماری حِسّیں مار دی گئی ہیں ،ہم سب ان کے کھلونے ہیں جنہوں نے ہمیں اس کام کے لئے تیار کیا ہے، ہم اپنے پنڈتوں کا بھی دل بلایا کرتی ہیں، لیکن آپ نے آج میری حِسیّں بیدار کردی ہیں۔
اب تم چلی جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔کہاں جاؤں گی؟
بڑے مندر میں۔
میں تمہارے ساتھ دو محافظ بھیجوں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔
نہیں!،،،، شومو نے کہا ۔۔۔میں اکیلی جاؤں گی۔
اور وہ اکیلی چلی گئی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
میں مرنے سے پہلے سب کچھ اگل دینا چاہتی ہوں ۔۔۔اس نے بدہیمن اورمائیں رانی کو محمد بن قاسم کی ملاقات کی تفصیل سنا کر کہا۔۔۔ میں مندر چلی گئی مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ مسلمانوں کا سالار میرے ساتھ ساتھ چلا آرہا ہے، یا شاید وہ جادوگر ہے اور اس نے مجھ پر جادو کر دیا ہے، میں جادو کے اثر میں چلتی مندر میں پہنچی میں نے ارادہ کیا تھا کہ انگوٹھی میں بھرا ہوا ظاھر اپنے منہ میں جا کر میں نے مٹی اور پتھر کے بتوں کو شرمسار کر کے مرنا تھا۔
بدہیمن نے اس کے منہ پر بھرپور تھپڑ مارا۔
کیا تو اس ملچھ مسلمان سے اتنی متاثر ہو کر آئی تھی کہ اپنے دیوتاؤں کی اور اپنے بھگوان کی بھی ہتیا کرنے پر اتر آئی تھی؟،،،،، بدہیمن نے دانت پیس کر کہا۔
میں اس کے جسم کی ایک ایک بوٹی کاٹ کر اسے مارونگی۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ یہ اس لٹیرے سالار کی بیوی پھر لونڈی بننا چاہتی تھی۔
رانی بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔۔۔ بدہیمن نے کہا ۔۔۔آگے بول کیا ہوا۔
شومو کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی جو اور زیادہ کھل گئی،،،،،، پھر یہ ہوا کہ میں مندر میں داخل ہوئی۔۔۔ شومو نے کہا ۔۔۔دوسری لڑکیاں مندر کے تہ خانے میں جا کر سو گئی تھیں صرف بڑا پنڈت جاگ رہا تھا۔
بدہیمن نے اس کے منہ پر ایک اور تھپڑ مارا کہا،،،، پنڈت جی مہاراج جاگ رہے تھے،،، بدہیمن نے کہا۔
میں نے جو کہہ دیا ہے پھر بھی وہی کہوں گی۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ میرے دل سے جس کا احترام نکل گیا ہے اس کا نام نفرت سے لونگی۔
جو کہتی ہے اسے کہنے دو۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔۔۔بک کیا بکتی ہے۔
بڑا پنڈت میرے انتظار میں جاگ رہا تھا۔۔۔ شومو نے کہا ۔۔۔مجھے دیکھتے ہی اس نے پوچھا کہ کام کر آئی ہوں،،،،، میں نے کہا کر آئی ہوں،،،، پنڈت نے خوشی سے نعرہ لگایا اور بازو پھیلا کر آگے بڑھا اس نے مجھے بازوؤں میں سمیٹ لیا اور اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گیا ،اس کے تھوک کی بدبو ابھی تک میرے گالوں پر موجود ہے ،اس نے مجھے بستر پر گرا لیا اور بد مست سانڈ کی طرح پھنکارنے لگا، میرا ارادہ بدل گیا مرد کا وجود میرے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی اس کے پاس میں دو بار پہلے بھی آچکی تھی ،لیکن میں اب پتھر نہیں رہی تھی ،ایک وہ مرد تھا جس کے پاس مجھے بھیجا گیا تھا لیکن اس نے مجھے عزت سے رخصت کیا، گناہ کی دعوت کو بھی وہ میرا بہت بڑا گناہ سمجھتا تھا اسی جرم میں وہ مجھے قتل کرا سکتا تھا لیکن اس نے میری انگوٹھی میں زہر دیکھ کر بھی اور میرے اس اعتراف پر بھی کہ میں نے یہ زہر اسے دینا تھا اس نے مجھے بخش دیا اور کہنے لگا کہ میں تمہارے ساتھ اپنے محافظ بھیجوں گا ،ایک یہ مرد ہے جس کے دل میں مندر کا بھی احترام نہیں،،،،،،،،،،،،،
میں نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ تم لوگ مجھے سزائے موت ہی دو گے تو میں خود ہی یہ زہر منہ میں ڈالوں گی ،لیکن میرے دل میں اس پنڈت کی ایسی نفرت بیٹھ چکی تھی کہ میرا ارادہ بدل گیا، میں یہ کہتے ہوئے بستر سے اٹھی کے پانی پی لو میں نے پنڈت سے کہا کہ آپ بھی پانی پی لیں ،پنڈت نے کہا کیا یہ رات پانی پینے والی ہے، یہ کہہ کر اس نے طاق نے سے ایک صراہی اور دو پیالے اٹھائے اور بولا یہ پیو اور ہمیں بھی پلاؤ، میں نے دونوں پیالوں میں صراحی سے تھوڑی تھوڑی شراب ڈالی میری پیٹھ پنڈت کی طرف تھی میں نے انگوٹھی کھول کر زہر اس کے پیالے میں ڈال دیا اور ذرا سا ہلا کر پیالہ اس کے ہاتھ میں دے دیا ،اس نے ایک ہی گھونٹ میں شراب پی لی مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ زہر اتنا تیز ہے،،،،،،،،،،
شراب کے چند گھونٹ اس کے حلق سے اترے ہی تھے کہ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی شہ رگ پر رکھی پھر اس کے ہاتھ اس کے سینے پر آگئے اس کے منہ سے صرف یہ الفاظ نکلے کہ تو نے کیا پلا دیا ہے، میں نے کہا پنڈت جی مہاراج یہ کسی نہ کسی کو تو پلانا ہی تھا،،،،،،،،،، میں باہر کو چل پڑی دروازے میں پہنچی تو اپنا ایک آدمی دروازے میں داخل ہوا کمرے میں فانوس جل رہا تھا پنڈت اب ایک ہاتھ سینے پر اور ایک پیٹ پر رکھے ہوئے آگے کو جھک گیا تھا، وہ آدمی دوڑ کر پنڈت تک پہنچا میں دروازے میں سے نکل گئی پنڈت نے مرتے مرتے اسے بتایا ہوگا کہ میں اسے زہر پلا کر جا رہی ہوں ،میں ایک طرف دوڑ پڑی ۔
کہاں جانا تھا تم نے ؟،،،مائیں رانی نے پوچھا۔
میں نے کچھ بھی نہیں سوچا تھا کہ میں کہاں جاؤں گی۔۔۔ شومو نے کہا ۔۔۔میں اپنے آپ میں تھی ہی نہیں اب یاد آتا ہے کہ میرا رخ کس طرف تھا جدھر مسلمان کے سالار رہتے تھے، لیکن مجھے رخ بدلنا پڑا کیونکہ مجھے اپنے پیچھے دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی وہ مجھے پکڑنے کے لیے آ رہے تھے، میں ایک گلی میں داخل ہوگئی لیکن آگے سے یہ گلی بند تھی اور اس طرح انہوں نے مجھے پکڑ لیا، مجھے واپس مندر میں لے گئے پنڈت مر چکا تھا پھر تم لوگ جانتے ہو کہ مجھے یہاں تک کس طرح پہنچایا گیا۔
اگلے روز صبح سویرے اس ادھیڑ عمر عورت کو جو لڑکیوں کے اس گروہ کو محمد بن قاسم کے پاس لے گئی تھی اور ان تمام لڑکیوں کو سواریوں میں بند کرکے اونٹوں پر لاد کر شہر کے بڑے دروازے سے نکالا گیا تھا، اسکے بعد یہ خبر نکالی گئی تھی کہ بڑا پنڈت مر گیا ہے۔
اس لڑکی کو بیدردی سے مارا گیا تھا۔
جس رات شومو محمد بن قاسم کے پاس آئی تھی اس سے اگلی صبح شعبان ثقفی محمد بن قاسم کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ ابھی ایسی خبر ملی ہے کہ مندر کا بڑا پنڈت مرا پڑا ہے ،شعبان ثقفی نے یہ بھی بتایا کہ اس نے لاش دیکھی ہے لاش کی حالت سے اور پنڈت کے منہ سے نکلی ہوئی جھاگ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسے زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے۔
ہاں !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اسے زہر ہی دیا گیا ہوگا، اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اسے زہر کس نے دیا ہے،،،،،، میں تمہیں بلانے ہی لگا تھا ،رات کو میرے یہاں کچھ مہمان آئے تھے ،،،،محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کو رات کا سارا واقعہ سنایا ،شومو کی ہر ایک بات اور ہر ایک حرکت سنائی۔
میں نے تمہیں یہ کہنا تھا کہ یہ مندر بند کر دو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ یہ راجہ داہر کے تخریب کاروں کا خفیہ اڈہ بن گیا ہے،،،،، مجھے یقین ہے کہ پنڈت کو زہرا سی لڑکی نے دیا ہے، جو رات کو میرے پاس آئی تھی۔
شعبان ثقفی دوڑا مندر تک پہنچا اس نے دیکھا کہ ایک پیالے میں تھوڑا سا پانی باقی تھا یہ چند قطرے دراصل شراب تھی پانی نہیں تھا، شعبان ثقفی نے ایک کتا منگوایا اور چند قطرے اس کے منہ میں انڈیلے اتنے سے زہر سے ہی کتا مر گیا ،اس کے بعد شعبان ثقفی نے جو کاروائی کی وہ پہلے سنائی جاچکی ہے۔
ابن قاسم !،،،،،،شعبان ثقفی نے مندر سے واپس آکر محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ آپ شاید ان خطروں کو خاطر میں نہیں لا رہے جو آپ کے اور ہم سب کے ارد گرد منڈلا رہے ہیں، آپ جنگی چالوں اور حرب و ضرب کے ماہر ہو سکتے ہیں لیکن دشمن کی ان چالوں کو نہیں سمجھ سکتے جو وہ زمین کے نیچے چلتا ہے، اور میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ جو میں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں وہ آپ نہیں سمجھ سکتے، آئندہ کوئی بھی اجنبی مرد یا عورت میری اجازت کے بغیر آپ تک نہیں پہنچے گا۔
شعبان ثقفی ادھیڑ عمر آدمی تھا اور جاسوسی اور سراغ رسانی کے معاملے میں اس کی ذہانت عرب کی تمام تر فوج میں مشہور تھی، ان معاملات میں محمد بن قاسم اسکے سامنے محض ایک طفل مکتب تھا۔
محمد بن قاسم کو نیرون بغیر لڑے مل گیا تھا وہاں تک منجنیقیں کشتیوں پر لے جائی گئی تھیں، جب نیرون کا محاصرہ کیا گیا تھا تو تمام منجنیقیں ساتھ نہیں لے جائی گئی تھیں ان میں سے چند ایک محاصرے کے ساتھ رکھی گئی تھیں باقی سب کشتیوں میں ہی رہنے دی گئی تھیں اور کشتیاں دریا ساکرہ کے کنارے بندھی ہوئی تھیں، دریائے نیرون سے کچھ میل دور سب سے بڑی منجنیق عروس ابھی دریا میں تھی، تمام منجنیقیں محاصرے میں استعمال نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ محمد بن قاسم کو معلوم تھا کہ نیرون کے حاکم سندر شمنی نے حجاج بن یوسف کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے اور اس نے جزیہ کی ادائیگی بھی قبول کر لی ہے ،توقع یہ تھی کہ نیرون میں مزاحمت نہیں ہوگی۔
چونکہ اس تمام علاقے پر محمد بن قاسم کی فوج کا قبضہ ہوچکا تھا اس لئے ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ ان منجنیقوں کو جو ابھی کشتیوں پر رکھی تھیں کوئی نقصان پہنچائے گا ،پھر بھی پوری رات دریا کے کنارے منجنیقوں کے لیے گشتی پہرہ رہتا تھا، وہاں ماہی گیروں کی کشتیاں بھی بندھی رہتی تھیں، ان سب کو وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
محمد بن قاسم کی اگلی منزل سہون تھی راستے میں چھوٹے چھوٹے ایک دو قلعے اور بھی تھے لیکن ان کے متعلق محمد بن قاسم کو کوئی غم نہ تھا ،سمندر شمنی نے محمد بن قاسم کو بتایا تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے قلعے کس نوعیت کے ہیں اور انہیں سر کرنا کتنا آسان ہے ،سہون کا حاکم بھی بدھ تھا ۔
بدھ جنگ و جدل اور کسی بھی قسم کی خونریزی کو گناہ سمجھتے تھے اس لئے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ سہون بھی کسی مزاحمت کے بغیر مل جائے گا، لیکن وہاں کی فوج ہندو تھی اس لیے یہ خطرہ تھا کہ یہ فوج پورا مقابلہ کرے گی۔
سندر شمنی نے اپنا ایک ایلچی سہون کے حاکم کی طرف بھیج دیا تھا اس نے سہون کے حاکم کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ لڑائی سے گریز کرے اور جب مسلمان فوج وہاں پہنچے تو قلعے کے دروازے کھول دے، یہ جاسوس ابھی واپس نہیں آیا تھا ،اسی لئے محمد بن قاسم کوچ نہیں کر رہا تھا ،رسد اور کمک کا بھی انتظار تھا۔
ایک روز اطلاع ملی کہ منجنیقوں والی کشتیوں پر جو سپاہی رات کو پہرہ دیتے ہیں ان میں سے دو مرے پڑے ہیں اور دو لاپتہ ہیں۔
پہرہ دینے کا طریقہ یہ تھا کہ چھ سات دنوں کے لئے چار سپاہی وہاں چلے جاتے تھے اور وہاں ایک خیمے میں رہتے تھے، دو دو آدمی باری باری تھوڑے سے وقت کے لئے ٹہلتے ٹہلتے تمام کشتیوں کو جو دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں دکھ آتے تھے، یہ واقعہ بڑا عجیب تھا کہ دو سنتری غیر حاضر تھے اور دو مرے پڑے تھے دونوں کو خنجر مارے گئے تھے۔
محمد بن قاسم اور شعبان ثقفی اپنے محافظ دستے کے ساتھ وہاں پہنچے انہوں نے دیکھا کہ دونوں کی لاشیں دریا کے کنارے ایک دوسرے سے کچھ دور پڑی ہوئی تھیں، شعبان ثقفی نے زمین دیکھی قدموں کے جو نشان تھے ان سے پتا چلتا تھا کہ زیادہ لڑائی نہیں ہوئی دونوں کی تلواریں نیام میں تھیں جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں مقابلے کا موقع ملا ہی نہیں تھا۔
ان پر اچانک حملہ کیا گیا ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔یہ کسی دھوکے میں مارے گئے ہیں ۔
تو کیا ان کے قاتل ان کے اپنے ہی ساتھی ہیں جو لاپتہ ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔خدا کی قسم میں یہ بات نہیں مانوں گا۔
شعبان ثقفی نے زمین کو دیکھنا شروع کیا یہ غیر آباد اور ریتیلا علاقہ تھا ،قدموں کے نشان صاف نظر آ رہے تھے انھیں دیکھ دیکھ کر شعبان ثقفی کنارے سے دور ہی دور ہٹتا گیا اور یہ نقوش پا اسے مقتول سنتریوں کے غیرحاضر ساتھیوں کی لاشوں تک لے گئے ،ان دونوں کو بھی خنجروں سے مارا گیا تھا وہاں سے زمین کو دیکھتے ہوئے شعبان ثقفی چل پڑا اور یہ نقوش پا دریا کے کنارے پر اس جگہ آ گئے جہاں منجنیق والی آخری کشتی کھڑی تھی۔
جب منجنیقیں گنی گئیں تو پتہ چلا کہ ایک چھوٹی منجنیق کم ہے۔
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ یہ دشمن کی کارروائی ہے وہ ایک منجنیق لے گیا ہے۔
یہ معلوم کرنا بہت مشکل تھا کہ ایک منجنیق کو کس طرح لے جایا گیا ،شعبان ثقفی نے اس خطرے کا اظہار کیا کہ اب راجہ داہر بھی اپنے کاریگروں کو یہ منجنیق دکھا کر منجنیقیں بنوا لے گا۔
منجنیق عربوں کی ایجاد ہے، پہلی منجنیق ہندوستان میں عرب لائے تھے، یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ منجنیقوں کی افادیت دیکھ کر راجہ داہر یا اس کے دانشمند وزیر نے یہ سوچا ہوگا کہ کسی طرح ایک منجنیق ہاتھ آ جائے اور اس طرح کی منجنیقیں تیار کر لی جائیں، عربوں نے عروس جیسی منجنیق بنا لی تھی جس سے اتنے وزنی پتھر اتنی دور تک پھینکے گئے تھے کہ مندر کو توڑ دیا گیا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کا محافظ دستہ اس کے ساتھ تھا، جس کنارے کے ساتھ کشتیاں بندھی ہوئی تھیں اس کنارے پر دونوں طرف محافظ دستے کے سواروں کو دوڑا دیا گیا ،شعبان ثقفی خود بھی ایک طرف چلا گیا اور دوسری طرف محمد بن قاسم گیا ،دونوں بہت دور تک چلے گئے لیکن انہیں کوئی سراغ نہ ملا نہ زمین پر کوئی ایسا نشان ملا جس سے یہ پتہ چلتا کہ منجنیق یہاں کشتی سے اتاری گئی ہے ،دونوں واپس آ گئے۔
ابن قاسم!،،،، شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ آپ واپس چلے جائیں میں دوسرے کنارے پر جا رہا ہوں اپنے دو محافظ میرے ساتھ رہنے دیں ،آپ کا یہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں ہمارا دشمن دوسرے طریقے اختیار کر رہا ہے۔
ہمارا اب نیرون میں رہنا بھی ٹھیک نہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہمیں اب فوراً یہاں سے کوچ کرنا چاہیے، دشمن ہماری منجنیق صرف اس مقصد کے لئے لے گیا ہے کہ وہ ایسی منجنیق تیار کرے، میں اسے اتنی مہلت نہیں دوں گا کہ وہ ایک بھی منجنیق بنا سکے۔
ہو سکتا ہے میں انہیں راستے میں ہی پکڑ لوں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔منجنیق کو اتنی تیزی سے کہیں لے جانا آسان نہیں آپ چلے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ چھپے ہوئے دشمن کے تیر آپ تک پہنچ جائیں۔
محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ سپاہیوں کی لاشوں کو اٹھایا جائے اور جنازے کے لیے سب کو اکٹھا کیا جائے۔
یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ منجنیق رات کو کس وقت چورای گئی ہے، اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرف لے گئے ہیں۔ شعبان ثقفی کے ساتھ دو تین اپنے سوار تھے اور اس نے محمد بن قاسم کے دو محافظ بھی اپنے ساتھ رکھ لیے تھے وہ ان سب کو دریا کے کنارے کنارے ایسی جگہ لے گیا جہاں دریا کا پاٹ چوڑا تھا انہوں نے گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور دوسرے کنارے پر چلے گئے وہاں سے وہ کنارے کنارے پر بہت دور نکل گئے۔
ایک جگہ انہیں ایک خالی کشتی نظر آئی جو آدھی سے زیادہ خشکی پر تھی اس کشتی پر منجنیق لگدی ہوئی تھی جو اب کشتی میں نہیں تھی، کنارے پر صاف نشان تھے کہ منجنیق وہاں اتاری گئی تھی، اس منجنیق کے چار پہیے تھے، ریتیلی زمین پر اور اس سے آگے جیسی بھی زمین تھی اس پر ان پہیوں کے نشانات کو چھپانا نا ممکن تھا ،شعبان ثقفی نے یہ نشان دیکھے وہاں ہاتھیوں کے قدموں کے نشان بھی تھے اور گھوڑوں کے قدموں کے نشان بھی صاف نظر آ رہے تھے۔ شعبان ثقفی سمجھ گیا کہ منجنیق ہاتھیوں سے کھینچی گئی ہے ،وہ ہاتھی کی طاقت اور رفتار سے واقف تھا پھر بھی وہ کئی میل دور تک چلا گیا جس راستے پر منجنیق لے جائی گی تھی، وہ کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا وہ ویرانہ تھا کہیں صحرا اور کہیں جنگل تھا، یہ علاقہ نیرون سے کئی میل دور تھا۔
بہت ہی دور جاکر شعبان ثقفی رک گیا اس نے اندازہ کر لیا تھا کہ منجنیق کس طرف اور کہاں لے جائی گی ہے، وہاں سے شعبان ثقفیی واپس نیرون آگیا۔
*<========۔=========>*
*قسط نمبر/16*
ابن قاسم !،،،،،،،شعبان ثقفی نے واپس آکر محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ ہمارے چاروں سپاہیوں کو انہیں آدمیوں نے قتل کیا ہے جو منجنیق لے گئے ہیں، اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ منجنیق سیوستان لے جائی گی ہے، ہمیں فوراً کوچ کرنا چاہئے آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ دشمن کو ھم مہلت ہی نہ دیں کہ منجنیق بنانا تو دور کی بات ہے وہ منجنیق کو اچھی طرح دیکھ بھی نہ سکے۔
سیوستان وہی مقام تھا جو آجکل سہون کے نام سے مشہور ہے۔
نیرون سے محمد بن قاسم نے سیوستان کو ہی جانا تھا لیکن اتنی جلدی نہیں جتنی جلدی اب اسے کوچ کرنا پڑا ،وہ جوں جوں سندھ کے اندر آتا جا رہا تھا زیادہ محتاط ہوتا جا رہا تھا، کیوں کہ وہ راجہ داہر کی اس چال کو سمجھ گیا تھا کہ عرب فوج لڑتے لڑتے اور پیش قدمی کرتے کرتے تھک کر چور ہو جائے، اور زیادہ سے زیادہ جنگی طاقت اکٹھی کرکے اروڑ کے میدان میں اس فوج کو ایک ہی ہلّے میں ختم کردیا جائے۔
نیرون کے حاکم شندر شمنی نے خفیہ طور پر اپنا ایک ایلچی سیوستان کے حاکم کے پاس بھیجا ہوا تھا ،وہاں کے حاکم کو یہ کہنا تھا کہ وہ عرب فوج کا مقابلہ نہ کرے، سیوستان کا حاکم بھی بدھ تھا، محمد بن قاسم نے اس ایلچی کی واپسی کا انتظار کرنا تھا ایلچی دو روز بعد واپس آیا۔
سیوستان اب ایک قلعہ نہیں بلکہ پہاڑ بن گیا ہے ۔۔۔ایلچی نے محمد بن قاسم کی موجودگی میں سندر شمنی کو بتایا ۔۔۔راجہ داہر نے سیستان کے بدھ حاکم کو اپنے پاس بلا لیا ہے اور اس کی جگہ اپنے بھتیجے بجے رائے کو وہاں کا حاکم بنا کر بھیج دیا ہے، آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ راجہ داہر نے اپنے بھتیجے کو کیوں بھیجا ہے؟،،،،، بجے رائے نے آتے ہی فوج کو نئے سرے سے تیار کرنا شروع کر دیا تھا، قلعہ تو پہلے ہی مضبوط تھا لیکن بجے رائے نے اپنی فوج کو ایسی تربیت دے دی ہے کہ محاصرے کی کامیابی آسانی سے حاصل نہیں ہو سکے گی، اس کے علاوہ قلعے کے دفاع کے لئے ایک اور چیز آگئی ہے یہ ہے ایک منجنیق جو معلوم نہیں کہاں سے لائی گئی ہے۔
یہ منجنیق کب وہاں پہنچی ہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
میری موجودگی میں وہاں پہنچی ہے۔۔۔ ایلچی نے جواب دیا ۔۔۔میں نے اسے قلعے میں آتے دیکھا تھا ،اسے دو ہاتھی کھینچ رہے تھے اور اس کے ساتھ بارہ تیرہ گھوڑ سوار تھے، میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ یہاں کی فوج منجنیق کہاں سے لائی ہے، یہاں کوئی کاریگر ایسا نہیں جو منجنیق بنا سکے۔
یہ منجنیق یہاں سے چرائی گئی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اور پوچھا کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اس منجنیق کا وہ کیا بنائیں گے؟
اسے انہوں نے شہر پناہ کے بڑے دروازے کے اوپر دیوار پر رکھ دیا ہے۔۔۔ ایلچی نے جواب دیا۔۔۔ اور انہوں نے بڑے بڑے پتھروں کے ڈھیر منجنیق کے ساتھ لگوا دیے تھے۔ محمد بن قاسم ہنس پڑا۔
خدا کی قسم!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔یہ لوگ جاھل ہیں ایک طرف وہ اتنے دلیر ہیں کہ انہوں نے یہاں آکر ہمارے چار آدمیوں کو قتل کیا اور منجنیق لے گئے، اور دوسری طرف وہ اتنے احمق ہیں کہ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ منجنیق کہاں اور کس طرح استعمال ہوتی ہے،،،،،آگے بات کرو۔
سیوستان کی زیادہ تر آبادی بدوھوں کی ہے۔۔۔ ایلچی نے کہا۔۔۔ میں شہر میں گھومتا پھرتا رہا ہوں شہر کے لوگ لڑائی نہیں چاہتے مگر بجے رائے انہی ڈراتا رہتا ہے کہ مسلمان آگئے تو کسی گھر میں کچھ نہیں چھوڑیں گے، اور شہر کی تمام جوان لڑکیوں کو اپنی فوج میں تقسیم کردیں گے، یہ وہی پروپیگنڈہ ہے جو ہر جگہ ہوتا آیا تھا ،لیکن مسلمانوں کا طرز عمل اور مفتوحہ بستیوں اور قلعہ بند شہروں کے لوگوں کے ساتھ ان کا سلوک اور رویہ اتنا اچھا اور دشمن کے پروپیگنڈے کے خلاف ہوتا تھا کہ یہ پروپیگنڈہ بے اثر ہو جاتا تھا ،دیبل فتح ہوا تو وہاں کے کچھ لوگ اور تاجر وغیرہ دوسرے شہروں میں گئے تھے، نیرون سے بھی کچھ لوگ سیوستان اور دوسرے شہروں میں گئے تھے، وہ جہاں جاتے وہاں کے مسلمانوں کے حسن سلوک کا ذکر کرتے تھے۔
ایسا ہی سیوستان میں ہو رہا تھا، ارمن بیلہ، دیبل اور نیرون کے بعض لوگ سیوستان پہنچے تھے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں کو بتایا تھا کہ مسلمان فوج فصل کو خراب نہیں کرتی، مفتوحہ شہر میں لوٹ مار نہیں کرتی، دکانداروں کا مال نہیں اٹھاتی، اور مسلمانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ بیان کی گئی کہ عورتوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سندر کے ایلچی نے بتایا کہ سیوستان میں فوج اور شہریوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس بدھ ایلچی نے جب دیکھا تھا کہ سیوستان کا حاکم بدل گیا ہے تو وہ ایلچی سے جاسوس بن گیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم نے نیرون میں انتظامی امور کے لئے کچھ آدمی رہنے دیے، اور فوج کا ایک عدد سطح بھی وہاں چھوڑ دیا ،اور سیوستان کی طرف کوچ کر گیا ،تاریخوں میں تاریخ، دنوں ،اور مہینوں کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے یقین سے یہ لکھنا ناممکن ہے کہ محمد بن قاسم نے کون سے مہینے کی کس تاریخ کو کوچ کیا ،ان راستوں کے متعلق بھی اختلاف موجود ہیں جن راستوں پر محمد بن قاسم ایک جگہ سے دوسری جگہ گیا تھا۔
محمد بن قاسم اب زیادہ محتاط ہوگیا تھا اس نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کرکے کوچ کیا ،خود درمیان والے حصے کے ساتھ رہا اس کے علاوہ اس نے ہر اول دستہ آگے بھیج دیا تھا جو سوار تھا ،دائیں اور بائیں شتر سواروں کے دستے تھے جو فوج سے دور دور آگے بڑھتے جارہے تھے، یہ اہتمام اس لیے کیا گیا تھا کہ ایک منجنیق کی چوری سے محمد بن قاسم کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ دشمن پہلو سے یا فوج کے عقبی حصے پر رسد کے چھکڑوں پر شب خون کی طرز کے حملے کرسکتا ہے۔
محمد بن قاسم نے حکم دیا تھا کہ کوچ بہت تیز ہو اور پڑاؤ کم سے کم کیے جائیں، فوج کی نفری راجہ داہر کی فوج کے مقابلے میں خاصی کم تھی لیکن یہ فوج تیزوتند سیلاب کی مانند جارہی تھی،،،،،، اسلام ہندوستان میں داخل ہو رہا تھا،،،،، اور راجہ داہر حق کے سیلاب کو روکنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا ،اس نے اپنی فوج کو مختلف قلعوں میں بڑی خوبی سے تقسیم کردیا انہیں دفاعی انتظامات کے تحت اس نے سیوستان سے بدھ حاکم کو ہٹایا اور اپنے سگے بھتیجے کو وہاں بھیج دیا تھا ،وہ فوج کا بھی حاکم تھا اور قلعے کا بھی۔
تیسرے دن عرب کی یہ فوج موج کے مقام پر پہنچی ،یہ مقام سیوستان کے انتظام کے تحت آتا تھا ،زیادہ تر مورخوں نے لکھا ہے کہ موج کوئی بستی نہیں تھی موج کا مطلب ندی یا دریا تھا جہاں محمد بن قاسم نے پڑاؤ کیا تھا ،وہاں سے سیوستان سہون قریب ہی تھا۔ یہ جگہ سرسبز تھی پانی کی بہتات تھی اس لئے وہاں ایک بستی تھی جس میں بدھ مت کے پیروکار آباد تھے اور آبادی کے لحاظ سے یہ ایک قصبہ تھا ۔فتوح البلدان میں بھی یہی لکھا ہے کہ اس علاقے میں بدھ آباد تھے۔ مشہور اور مستند تاریخ بلاذری نے لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم وہاں پہنچا تو اس علاقے کے بدھوں کے راہبوں کا ایک وفد محمد بن قاسم کے پاس گیا، بدھوں کے راہیب شمنی کہلاتے تھے، انہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ امن اور دوستی چاہتے ہیں کیونکہ محبت اور امن ان کے مذہب کا بنیادی اصول ہے۔
چچ نامہ کی روایت یہ ہے کہ بدوھوں نے سیوستان کے حاکم بجے رائے کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ، آپ قلعہ بند ہیں اور آپ کے پاس فوج ہے، ہم کمزور ہیں اور ہم لڑنا جانتے بھی نہیں ،ہم لڑنا چاہیں تو بھی نہیں لڑ سکتے کیونکہ ہم بدھ ہیں اور ہم مہاتما بدھ کے اس فرمان کی حکم عدولی نہیں کر سکتے کہ فوجوں سے بستیاں روندی جاسکتی ہیں، تلوار سے جسم کاٹے جاسکتے ہیں اور تیروں سے سینے چھلنی کئے جاسکتے ہیں لیکن انسانوں کے دل نہیں جیتے جا سکتے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم مسلمان سالار کی اطاعت قبول نہ کریں تو کچھ فوج بھیج دیں لیکن ہم نہیں لڑیں گے۔
بجے رائے نے اس پیغام کا یہ جواب دیا کہ بدھوں کے وفد کو حقارت سے دیکھا اور حکم دیا کہ انھیں واپس بھیج دو۔
اس کے بعد شمنیوں کا وقت محمد بن قاسم کے پاس گیا اور کہا کہ اگر وہ ان کی بستیوں پر قابض ہونا چاہتا ہے تو یہ سوچ لے کے اسے ذرا سی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا، اگر آپ ہم سے گھوڑوں اور اونٹوں کے لیے چارہ لینا چاہتے ہیں تو لے لیں۔۔۔۔ایک شمنی نے کہا ۔۔۔آپ لشکریوں کے لیے اناج بھی لے سکتی ہیں اور آپ نقد رقم کا مطالبہ کریں گے تو ہم وہ بھی ادا کریں گے۔
امن اور دوستی سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں ،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔آپ نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے تو ہم آپ کو ضمانت دیتے ہیں کہ آپ کی بستیوں کی حفاظت اور آپ کے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہونگے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
محمد بن قاسم نے وہاں سے کوچ کیا تو سیوستان جا پہنچا، اس قلعہ بند شہر کے دروازے بند تھے اور وہاں کی فوج شہر کے ہر طرف دیوار پر کھڑی تھی، بجے رائے کو اطلاع مل گئی تھی کہ عرب فوج آ رہی ہے اس نے قلعے کا دفاع مضبوط کرلیا۔
عرب فوج نے دیکھا کہ ایک منجنیق بڑے دروازے کے اوپر دیوار پر رکھی ہوئی تھی، محمد بن قاسم کے حکم سے ایک نائب سالار آگے گیا اور اس نے اعلان کیا کہ مقابلے کیے بغیر قلعے کے دروازے کھول دو اگر ہم نے لڑ کر قلعہ فتح کیا تو ہم جزیہ بھی وصول کریں گے اور تاوان بھی، اور ہم شہر سے مال غنیمت بھی اکٹھا کریں گے اور ہم فوج کے حاکموں کو زندہ نہیں رہنے دیں گے۔
آگے آؤ،،،،، دیوار کے اوپر سے اعلان ہوا۔۔۔ قلعہ فتح کر کے دیکھاؤ۔
منجنیق دیوار کے قریب کرلو محمد بن قاسم نے حکم دیا۔
جب منجنیقیں آگے لے جائی گئیں تو دیوار کے اوپر سے تیروں کا مینہ برس پڑا اس کے ساتھ ہی جو منجنیق دیوار پر لگائی گئی تھی اس سے پتھر پھینکے جانے لگے عرب فوج دیوار کے قریب چلی گئی لیکن کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی تھی جہاں منجنیقوں سے مسلسل سنگ باری کرکے دیوار میں شگاف ڈالا جاسکتا۔
قلعے کے اندر کی صورتحال بجے رائے اور اس کی فوج کے لئے ٹھیک نہیں تھی، قلعے کے شہریوں کا ایک وفد بجے رائے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ وہ قلعے کے دروازے کھول دے، بجے رائے نے غصے کے عالم میں اس وفد کو دھتکار دیا۔
مہاراج !،،،،شہریوں کے وفد نے کہا۔۔۔ آپ کو شہریوں سے کوئی تعاوان نہیں ملے گا شہر میں زیادہ آبادی بدھوں کی ہے ۔
بجے رائے نے وفد کے ان تمام آدمیوں کو قید خانے میں بھیج دیا ،اور اس نے یہ حکم جاری کیا کہ جو لوگ نہیں لڑنا چاہتے وہ گھروں میں بند ہوجائیں اور باہر نہ نکلیں، اور جو لوگ لڑنا چاہتے ہیں وہ ہتھیار بند ہو کر دیوار پر چلے جائیں۔
بجے رائے نے مسلمانوں کی فوج کے لیے یہ دشواری پیدا کردی کہ جس طرف سے مسلمان دیوار میں سرنگ لگانے کے لئے آگے بڑھتے ان پر تیروں کی بوچھاڑ آنے لگتی ،بجے رائے نے یہ دلیرانہ اقدام بھی کیا کہ شہر کا ایک دروازہ کھلتا اور سیکڑوں گھوڑسوار باہر آکر گھوڑے سرپٹ دوڑاتے محمد بن قاسم کی فوج پر ہلہ بولتے اور واپس چلے جاتے۔
محمد بن قاسم نے سب سے بڑی منجنیق عروس سے نشان پر پتھر پھینکنے کے ماہر جعونہ سلمیٰ کو طلب کرلیا۔
تم دیکھ رہے ہو جعونہ!،،،، محمد بن قاسم نے اسے کہا۔۔۔ ہندوؤں نے ہماری چرائی ہوئی منجنیق دیوار پر لگا دی ہے ،اور ہم پر پتھر پھینک رہی ہے، چھوٹی منجنیق سے اسے نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ،تم نے دیبل کے مندر کا گنبد توڑ کر جھنڈا گرایا تھا اب اس منجنیق کو اڑا دو۔
اڑ جائے گی سپہ سالار!،،،،، جعونہ سلمیٰ نے کہا ۔۔۔میں صرف تین پتھر پھینکو گا ۔
اس نے عروس کو آگے کیا اور تین وزنی پتھر پاس رکھوا لیے اس منجنیق کو پانچ سو آدمی کھینچتے تھے تو اتنا وزنی پتھر مطلوبہ فاصلے اور نشانے پر جاتا تھا۔ جعونہ اس کو موزوں جگہ پر رکھوا کر اس میں پہلا پتھر رکھوایا۔ منجنیق کھینچ کر چھوڑی گئی تو پتھر دیوار پر رکھی ہوئی منجنیق کے ایک طرف لگا اور منجنیق ایک طرف جھک گئی۔
دوسرا پتھر منجنیق کو سامنے سے لگا منجنیق ٹوٹی بھی اور اتنے زیادہ وزنی پتھر کے دھکے سے نیچے کو گئی اور قلعے کے اندر نیچے جا پڑی۔
محمد بن قاسم کے حکم سے تمام منجنیقوں سے شہر پر سنگ باری شروع کردی گئی، اس کے جواب میں بجے رائے نے دستے باہر بھیج کر محاصرین پر حملے جاری رکھے، مسلمان سوار دستے دشمن کے سواروں کا تعاقب کرتے تھے لیکن دشمن کے سوار دستے قلع کے اندر چلے جاتے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس طرز کی جنگ سات آٹھ روز جاری رہی، ایک رات محمد بن قاسم کی فوج کے آدمی دو آدمیوں کو پکڑ لائے ان کا حلیہ بہت برا تھا ان کے کپڑے کیچڑ سے لت پت تھے اور وہ کہتے تھے کہ قلعے کے اندر سے آئے ہیں اور مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس جانا چاہتے ہیں ،انھیں محمد بن قاسم کے پاس لے جانے کی بجائے شعبان ثقفی کے پاس لے گئے، وہ جاسوس بھی ہو سکتے تھے۔
میں کیسے مان سکتا ہوں کہ تم قلعے کے اندر سے آئے ہو ؟،،،،شعبان صفی نے کہا۔۔۔ کیا صرف تم دونوں کے لئے قلعے کے دروازے کھول دیے گئے تھے؟
اور کیا تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ قلعے کے دروازوں سے ہی اندر باہر آ جا سکتے ہیں۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ وہ جس طرف چٹانیں اور ٹیلے ہیں اس طرف دیوار کے نیچے نالے کے پانی کے نکلنے کا راستہ ہے، چونکہ اس طرف چٹانیں اور ٹیلے ہیں اور جگہ جگہ پانی جمع ہے اور دلدل بھی ہے اس لئے وہ راستہ کسی کو معلوم نہیں، اور ویسے بھی کوئی اس طرف جا نہیں سکتا ،ہم دونوں اس راستے سے رینگ رینگ کر نکلے ہیں، اور یوں نکلنا آسان نہیں تھا
کیا مقصد تھا کہ تم باہر آئے ہو؟،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا۔
ہم بدھ ہیں۔۔۔ باہر آنے والوں میں سے ایک نے جواب دیا۔۔۔ کیا نیرون اور موج والوں نے تمہیں بتایا نہیں کہ سیوستان کے اندر زیادہ تر آبادی بدھ لوگوں کی ہے، اور یہاں ہمارے شمنی بھی ہیں؟،،،،،،،، اور تم لوگ یہ تو جانتے ہوں گے کہ بدھ مت کے لوگ کسی کے ساتھ لڑائی نہیں کیا کرتے، کیا نیرون میں سندر شمی نے آپ کا استقبال نہیں کیا تھا؟ تم قلعے کے اندر جو پتھر پھینک رہے ہو وہ ہمارے گھروں پر گر رہے ہیں، ہم لوگ پرامن طریقے سے زندگی بسر کر رہے ہیں، ہم میں کسان بھی ہیں، بیوپاری بھی ہیں، کچھ لوگ کاریگر ہیں، ہم میں کوئی ایک بھی آدمی نہیں جو راجہ کی فوج کا سپاہی ہو۔
ہمیں یہ بتاؤ کہ ہم تمہاری کیا مدد کر سکتے ہیں ؟،،،،،شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔۔تم لوگ شہر کے اندر رہتے ہو تمہیں پتھروں سے کس طرح بچایا جاسکتا ہے۔
تم نہیں ہم تمہاری مدد کو آئے ہیں۔۔۔ ایک بدھ نے کہا ۔۔۔ہم جس راستے سے باہر آئے ہیں تم اس راستے سے اندر جا سکتے ہو، لیکن وہ راستہ سرنگ کی طرح کھلا کرنا پڑے گا۔نیچے زمین کچی ہے تم ابھی سرنگوں کھودو اور صبح تک تمہارے بہت سے آدمی اندر چلے جائیں گے، ہمارے شمنیوں نے کہا ہے کہ تمہارے آدمیوں کو اندر مدد مل جائے گی، ہم دونوں تمہیں وہ جگہ دکھا دیتے ہیں۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
شعبان ثقفی اسی وقت ان دونوں کو محمد بن قاسم کے پاس لے گیا اور اسے یہ ساری بات سنائی ،محمد بن قاسم فوراً وہاں پہنچا اور دیکھا کہ قلعے کی دیوار کے ساتھ اس طرف کا علاقہ اس قابل نہیں کہ وہاں کھڑا بھی رہا جاسکتا ہو ۔ وہاں بدبو بھی تھی اور کھڈ اور ٹیلے بھی تھے، محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کو ساتھ لے کر پانی کے باہر نکلنے کا راستہ دیکھا۔
محمد بن قاسم نے وہیں کھڑے کھڑے ایک ترکیب سوچ لی اور اسی وقت اس پر عمل شروع کردیا، اس نے قلعے کے اس حصے پر جس طرف پانی کا راستہ تھا سنگ باری کا حکم دیا لیکن کوئی منجنیق اس طرف نہ رکھی اس کے ساتھ ہی اس نے سرنگ کھودنے والے آدمیوں کو کہا کہ صبح سے پہلے سرنگ مکمل کر لی جائے۔
یہ سرنگ اس نوعیت کی تھی کہ یہ پانی کا راستہ تھا اسے کھلا کرنا تھا زمین سخت تھی، اس کی کھدائی شروع کر دی گئی لیکن یہ مشکل پیدا ہوگئی کہ سرنگ کھودی گئی تو باہر جو پانی جمع تھا واپس سرنگ میں آگیا، اندر سے باہر گیا ہوا پانی تھا اور اس میں بارش کا پانی بھی بہت تھا محمد بن قاسم وہیں کھڑا رہا اور سرنگ کھودنے والے بڑی تیزی سے اپنا کام کرتے رہے ،ادھر سنگباری اس قدر تیز کردی گئی کے اندر سے اس طرف آنے والے کی کوئی جرات نہیں کرتا تھا، سرنگ کھودنے والے کمر سے اوپر تک پانی میں ڈوبے ہوئے اپنا کام کر رہے تھے محمد بن قاسم نے جب دیکھا کہ پانی اوپر ہی اوپر چڑھتا رہا ہے تو اس نے اپنے اور بہت سے آدمی بلا کر پانی کا ایسا راستہ کھدوا دیا جس سے پانی پھر باہر کو واپس آنے لگا، قلعے کی دیوار نیچے سے بہت چوڑی تھی سرنگ کو زیادہ تر نیچے رکھنا تھا اسلامی فوج میں سرنگ کھودنے کے ماہر موجود تھے، انہوں نے بڑی خوبی سے اور بڑی تیزی سے اپنا کام کیا۔
صبح ابھی تاریکی جب سرنگ مکمل ہوگئی سب سے پہلے منتخب جانبازوں کو سرنگ میں داخل کیا گیا ،چونکہ وقت بہت کم تھا اس لئے سرنگ زیادہ کشادہ نہ کی جاسکی، دو آدمی پہلو بہ پہلو ذرا سا جھک کر اس میں سے گزر سکتے تھے، مشکل یہ تھی کہ پانی جو اندر سے آرہا تھا وہ سخت بدبو دار تھا ،یہ مجاہد اپنے چہروں پر کپڑے لپیٹے سرنگ میں سے آگے نکلتے گئے۔
جونہی پہلے دو آدمی اندر پہنچے انہوں نے پچھلے والوں کو بتایا اور پیچھے والوں نے قلعے کے باہر تک پیغام پہنچا دیا کہ سنگ باری روک دی جائے۔
ایک تو یہ دو بدھ ان کے ساتھ تھے جو باہر آئے تھے اور ان کا ایک ساتھی اندر ان کے انتظار میں کھڑا تھا، انہوں نے محمد بن قاسم کے ان جانبازوں کو ایک قریبی دروازے تک پہنچا دیا دروازے کی حفاظت کے لئے چند ایک ہندو سپاہی وہاں موجود تھے انہیں تو توقع ہی نہیں تھی کہ مسلمان قلعے کے اندر آ جائیں گے، مسلمان جانباز ان پر ٹوٹ پڑے ذرا سی دیر میں ان کا صفایا کرکے دروازہ کھول دیا۔
مسلمانوں کی فوج اشارہ ملتے ہی رکے ہوئے سیلاب کی طرح اس دروازے سے اندر آ گئی پھر ایک اور دروازہ کھول لیا گیا راجہ داہر کے بھتیجے بجے رائے نے بوکھلاہٹ کی حالت میں مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اب ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا تھا اور وہ دراصل بھاگ نکلنے کے جتن کر رہا تھا، سورج کی پہلی کرنوں نے دیکھا کہ سیوستان کے دروازے کے اوپر ایک برج پر محمد بن قاسم کا اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
جب بجے رائے کے فوجیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو بجے رائے کہیں نظر نہ آیا اس کی فوجیوں نے بتایا کہ بجے رائے اپنی بیویوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ رتھوں پر سورج نکلنے سے پہلے بڑے دروازے سے نکل گیا تھا۔ محمد بن قاسم نے اس کے تعاقب کا حکم دیا ،لیکن سیوستان کے قلعے دار نے بتایا کہ وہ راستے میں نہیں ملے گا کیونکہ وہ اب تک سیسم پہنچ چکا ہو گا۔
محمد بن قاسم نے بجے رائے کی فوج کے ان کمانڈروں کو اکٹھا کیا جو بھاگ نہیں سکے تھے، انہیں کہو کہ مجھے وہ آدمی دے دیں جنہوں نے ہماری منجنیق چورائی تھی اور ہمارے چار مجاہدوں کو قتل کیا تھا، محمد بن قاسم نے کہا اگر یہ پس و پیش کرتے ہیں تو ان سب کی گردنیں کاٹ دو ،اور انکے گھروں کا تمام مال و اسباب مال غنیمت میں رکھ لو۔
شعبان ثقفی ان کمانڈروں سے مخاطب ہوا اور انہیں محمد بن قاسم کا حکم سنایا اور یہ بھی کہا کہ انھیں لاعلمی کا اظہار کرنے کی صورت میں فوراً قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اور زمین پر لٹا کر ان پر گھوڑے دوڑائے جائیں گے۔
ان کمانڈروں نے بتادیا کہ منجنیق چورانے اور مسلمان سپاہیوں کو قتل کرنے والے کون تھے، تمام ہندو فوجی اب جنگی قیدی تھے انہیں ایک طرف بیٹھا دیا گیا تھا ان میں سے دس آدمیوں کو اٹھاکر محمد بن قاسم کے سامنے کھڑا کردیا گیا، ان کی تعداد چودہ تھی، صرف دس موجود تھے اور چار بھاگ گئے تھے، ان کے ساتھ اس گروپ کے انچارج کے طور پر ایک کمانڈر گیا تھا اس نے خود ہی اپنے آپ کو پیش کردیا۔
ان کے بیانات سے معلوم ہوا کہ منگنیق کی چوری کی اسکیم راجہ داہر اور اس کے وزیر بدہیمن نے بنائی تھی اور یہ کام بجے رائے کے سپرد کیا تھا، بجے رائے نے اپنے منتخب انتہائی دلیر فوجی اس کام پر مامور کیے تھے اور ان کا ایک کمانڈر جو تجربے کار سالار تھا ان کے ساتھ بھیجا تھا، ان کے ایک جاسوس نے بتایا تھا کہ کچھ منجنیقیں ابھی تک کشتیوں میں رکھی ہوئی ہیں اور کشتیاں دریا کے کنارے پر بندھی ہوئی ہیں، جاسوس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہاں چار آدمی پہرے کے لئے ایک خیمے میں موجود رہتے ہیں۔
چودہ آدمی ایک کمانڈر کے ساتھ گھوڑوں پر دور کا چکر کاٹ کر نیرون سے دور دور اس جگہ پہنچے جہاں دریائے ساکرہ میں منجنقوں والی کشتیاں بندھی ہوئی تھیں، ان میں سے دو آدمی عام سے مسافروں کے بھینس میں کشتیوں کے پہرے داروں کے پاس گئے۔
ہم آپ کو آپ کے خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہماری مدد کریں۔۔۔ ان میں سے ایک نے روتے ہوئے کہا۔۔۔ ہم بدھ مذہب کے آدمی ہیں اور سفر میں ہیں ہمارے ساتھ دو جوان بیٹیاں ہیں، یہاں سے تھوڑی دور رہزنوں نے ہمیں روک لیا ہے وہ ہماری لڑکیوں کو گھسیٹ کر لے جارہے ہیں، انہوں نے ہم سے رقم اور زیورات بھی چھین لیے ہیں، ہمارے ساتھ دو بوڑھے آدمی ہیں ان دونوں کو رہزنوں نے قتل کردیا ہم دونوں ادھر بھاگ آئے ہیں ہم چونکہ مہاتما بدھ کے پیروکار ہیں اس لئے ہم ہتھیار لے کر نہیں چلتے، نہ ہم کسی کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں۔
کیا وہ رہزن گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار ہیں؟،،،،، عربی پہرےداروں نے پوچھا ۔
نہیں !،،،،انہیں جواب ملا۔۔۔ وہ پیدل جا رہے ہیں، ہم نے سنا ہے کہ مسلمان مظلوموں کی مدد کرتے ہیں اور ظالموں کو قتل کردیتے ہیں، اب یہاں آپ کی بادشاہی ہے ہماری مدد کریں۔
ان ہندو فوجیوں نے جو بہروپ میں تھے مظلومیت کی ایسی اداکاری کی کہ عربی پہرے داروں کو جوش آ گیا ،انہوں نے ان ہندوؤں کی مدد کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان میں سے دو تلواریں اور برچھیاں لے کر ان کے ساتھ دوڑ پڑے ان کے پاس گھوڑے نہیں تھے وہ پیدل دوڑے جا رہے تھے۔
دور سے عورتوں کی چیخوں اور آہ وزاری کی آوازیں آ رہی تھیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ رہزن ابھی دور نہیں گئے، پہرے دار اور تیز دوڑ پڑے اور اس جگہ جا پہنچے جہاں سے عورتوں کی چیخیں اٹھ رہی تھیں، وہاں درخت بھی تھے اور گھنی جھاڑیاں بھی تھیں، وہاں سے چار پانچ آدمی اٹھے انہوں نے خنجروں سے ان دونوں پہرےداروں کو قتل کردیا۔
بجے رائے کے ان فوجیوں کے باقی ساتھی چھپتےچھپاتے پہرےداروں کے خیمے کے پاس پہنچ گئے دو پہرے دار خیمے میں لیٹے ہوئے تھے ہندو فوجیوں نے انھیں اٹھنے کی مہلت نہ دی اور انھیں خنجروں سے قتل کردیا۔
یہ کام کر کے یہ فوجی دریا کے کنارے اکٹھے ہوئے اور منجنیقوں والی کشتیوں کی قطار میں جو آخری کشتی تھی وہ کھولی اور اسے چپو مارتے ہوئے لے گئے، بہت دور دوسرے کنارے کے ساتھ دو جنگی ہاتھی کھڑے تھے جو اس گروہ کے ساتھ لائے گئے تھے، انہوں نے کشتی خشکی پر کھینچ لی اور منجنیق اتار کر رسّوں سے ہاتھیوں کے ساتھ باندھ دی ،یہ جنگی ہاتھی تھے جو بڑی تیز رفتار سے دوڑ سکتے تھے، انکے مہاوتوں نے انہیں اور زیادہ تیز دوڑ آیا اور رات ہی رات کئی میل دور نکل گئے جہاں ان کے تعاقب میں کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔
ان لوگوں نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ اس منجنیق کو راجہ داہر کی راجدھانی اروڑ تک پہنچانا تھا ،لیکن بجے رائے نے یہ غلطی کی کہ اس منجنیق کو قلعے کی دیوار پر رکھوا دیا ،وہ کہتا تھا کہ عرب کی فوج سیوستان کو فتح کرنے کے لئے آئے گی تو وہ صرف ایک منجنیق سے عربوں کا محاصرہ توڑ دے گا ، لیکن ہوا یہ کہ عرب کی فوج آئی تو اس نے عروس سے دو پتھر پھینک کر اس منجنیق کو توڑ بھی دیا اور دیوار سے گرا بھی دیا۔
بجے رائے کو شاید معلوم نہیں تھا کہ راجہ داہر منجنیق کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے، داہر یہ منجنیق اپنے کاریگروں کو دکھا کر اس طرح کی بہت سی منجنیقیں بنوانا چاہتا تھا، یہ انکشاف بھی ہوا کہ راجہ داہر نے عربوں سے جنہیں اس نے مکران میں آباد کر رکھا تھا پوچھا تھا کہ ان میں سے منجنیقیں بنانے والا کوئی کاریگر ہے؟
علافی نے اسے جواب بھیجا تھا کہ یہاں کوئی ایسا عرب نہیں جو منجنیق تیار کر سکے۔ حقیقت یہ تھی کہ علافیوں میں دو آدمی منجنیق بنا سکتے تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ منجنیق اپنے عرب بھائیوں کے خلاف استعمال ہوگی ، محمد بن قاسم نے اس گروہ کے کمانڈر اور دس کے دس آدمیوں کو قتل کروا دیا۔
*<=========۔========>*
*قسط نمبر/17*
سیوستان کی فتح اس راستے کا ایک اور سنگ میل تھی جس راستے سے اسلام ہندوستان میں داخل ہو کر آگے بڑھ رہا تھا ،یہ راستہ اسلام کی شاہراہ تھا جس پر مجاہدین اسلام اپنے لہو کے نشان چھوڑ کے آگے ہی آگے بڑھے چلے جا رہے تھے، یہ سفر اتنا آسان نہ تھا جتنی آسانی سے یہ احاطہ تحریر میں آ جاتا ہے، یہ بڑا ہی کٹھن سفر تھا سرزمین عرب کے سپوت ہندوستان کی ریت میں شہید ہو کر دفن ہو رہے تھے، کوئی یہاں، کوئی وہاں ،عرب کے بچے یتیم ہو رہے تھے سہاگن بیوہ ہو رہی تھیں۔
وہ ملک گیری کی ہوس لے کر نہیں آئے تھے نہ وہ لوٹ مار کے لیے آئے تھے نہ انہیں جاہ و جلال اور زروجواہرات سے پیار تھا ،وہ مفتوح علاقوں کو دیتے زیادہ وہاں سے لیتے بہت کم تھے، ان کا حسن اخلاق دشمن کے دلوں کے جھنڈے سرنگوں کر دیتا تھا اسلام کے یہ سرفروش جسموں کو نہیں دلوں کو فتح کر رہے تھے۔
دل تلوار سے نہیں پیار سے فتح ہوا کرتے ہیں۔
مفتوح اسی فاتح کو فاتح اعظم کہتے ہیں جو ان کے دلوں کو فتح کر لیتے ہیں، ان مجاہدین کا تو یہ عالم تھا کہ بنی نوع انسان کے لئے ریشم وہ کمخواب کی طرح نرم و گداز تھے، لیکن راجہ داہر جیسے اسلام دشمن اور عیار بادشاہوں کے لیے سراپا فولاد تھے، اور آسمانی بجلیوں کی طرح اس کے لشکر اور اس کی شہنشاہیت پر گرتے تھے۔
تاریخ اسلام کا کمسن سپہ سالار محمد بن قاسم ابھی سیوستان میں ہی تھا پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سیوستان وہی جگہ ہے جو آجکل سہون شریف کہلاتی ہے، اس نے آگے بڑھنا تھا لیکن مسلمان سالاروں کا یہ اصول رہا ہے کہ جس شہر کو یہ فتح کرتے تھے وہاں کے نظم و نسق اور انتظامیہ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر کے آگے بڑھتے تھے، ان کا اصول یہ بھی تھا کہ انتظامیہ کو ایسے خطوط پر چلایا جائے کہ حکومت کو محصولات کا بھی نقصان نہ ہو اور مفتوحہ شہر کے عوام پر بھی مالی بوجھ نہ پڑے، اور ساتھ ہی ساتھ انھیں عدل انصاف ملے، ان کے انہی اصولوں نے اسلام کو مقبول عام مذہب بنایا ہے۔
ظاہر ہے کہ ایسے انتظامات میں اور عمال مقرر کرنے میں وقت لگتا ہے، ان انتظامات کے خاطر محمد بن قاسم کو سیوستان میں رکنا پڑا۔
اس نے حجاج بن یوسف کے نام پیغام لکھوایا جس میں سیوستان کی فتح کی خوشخبری دی اور اپنی فوج کے احوال و کوائف بھی لکھے، یعنی یہ کہ اس کے ساتھ کتنی نفری سوار اور پیادہ رہ گئی ہے کتنے شدید زخمی ہو کر بیکار اور کتنے شہید ہو چکے ہیں، اپنے ہتھیار اور رسد کی کیفیت بھی لکھی پھر اس نے لکھا کہ دشمن کے قلعے کہاں کہاں ہیں جو فتح کرنے ہیں، اور دشمن کی فوج کہاں کہاں ہے۔
بلاذری نے لکھا ہے اور اس کی تائید دو یوروپی مورخوں نے کی ہے کہ حجاج بصرہ میں بیٹھا سندھ کے محاذ کو کنٹرول کر رہا تھا اور کبھی کوئی ایسا حکم بھی بھیج دیتا تھا جو محمد بن قاسم کی بنائی ہوئی اسکیم کے مطابق نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً محمد بن قاسم کسی طرف پیش قدمی کرنے والا ہے اور بصرہ سے حجاج کا پیغام آ جاتا ہے کہ فلاں طرف جاؤں تمہیں دشمن فلاح پوزیشن میں ملے گا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ حجاج کے لیے ایسے احکام اندھا دھن یا قیاس آرائی پر مبنی نہیں ہوتے تھے اس کا اپنا بھی جاسوسی کا ایک نظام تھا جس کے ذریعے اسے محاذ کی تمام اطلاعیں اور صحیح صورتحال ملتی رہتی تھیں، پیغام رسانی کا انتظام ایسا تیز رکھا گیا تھا کہ سندھ کے اندرونی علاقوں میں سے بھیجا ہوا پیغام صرف ایک ہفتے میں بصرہ پہنچ جاتا تھا، اور اسی رفتار سے بصرہ کا پیغام ہر اس جگہ پہنچا دیا جاتا تھا جہاں اس وقت محمدبن قاسم ہوتا تھا، اس طرح اس کی جنگیں ہدایت بالکل صحیح ہوتی تھی اور بروقت پہنچتی تھی۔
*=÷==÷==÷=÷۔=÷=÷*
محمد بن قاسم ابھی سیوستان میں تھا شہر کے انتظامات تقریباً مکمل ہو چکے تھے پیش قدمی کی تیاریاں تھیں، قلعے میں اس کی فوج کی گہماگہمی تھی شہر کی رونقیں پھرسے زندہ ہو گئی تھیں، گھر گھر میں سکون اور اطمینان تھا وہ خوف وہراس جو مسلمانوں کے قلعے میں داخل ہوتے ہی لوگوں پر طاری ہو گیا تھا وہ ختم ہو چکا تھا، مسلمان فوجیوں نے حسن سلوک سے لوگوں کو یہ تاثر دیا تھا کہ وہ مفتوح ضرور ہیں لیکن غلام نہیں۔
سورج لب بام تھا ،قلعے کے دروازے بند ہونے میں تھوڑا سا ہی وقت باقی تھا باہر کھیتوں میں کام کاج کرنے والے لوگ اندر آگئے تھے اور جب دروازے بند ہونے کا وقت آیا تو دو آدمی قلعے کے بڑے دروازے پر آ رکے ،ان کے ساتھ دو اونٹنیاں تھی ایک پر ایک عورت اور دوسری اونٹنی پر دو عورتیں سوار تھیں، دونوں آدمی پیدل تھے عورتوں کے گھونگٹ لٹکے ہوئے تھے دونوں آدمیوں کے چہرے گرد سے اٹے ہوئے اور کپڑے بھی گرد آلود تھے پتہ چلتا تھا کہ بہت دور سے آئے ہیں۔
کون ہو تم لوگ؟،،،، دروازے کے اوپر ایک بروج سے آواز آئی۔۔۔۔ کہاں سے آئے ہو؟،،، کیوں آئے ہو؟
بڑی دور سے آئے ہیں ۔۔۔ایک آدمی نے منہ اوپر کر کے جواب دیا ۔۔۔ہم پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔
اندر آؤ اور ڈیوڑھی میں رک جاؤ۔۔۔ اوپر سے آواز آئی۔۔۔ جلدی کرو دروازہ بند ہو رہا ہے۔ دونوں آدمی اونٹوں کو ساتھ لے کر اندر چلے گئے، پہرے داروں کے کماندار نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے اور کیوں آ رہے ہیں؟ انہوں نے کسی گمنام سی جگہ کا نام لے کر بتایا کہ وہاں ان کا جینا حرام ہو گیا ہے، ان کی اپنی فوج انہیں تنگ کرتی ہے۔
ہم غریب لوگ ہیں۔۔۔ ان میں سے بڑی عمر کے آدمی نے کہا ۔۔۔ہمارے پاس کچھ بھی نہیں جو ہم دے دلاکر سکون کی زندگی بسر کریں، یہ دو بہنیں ہیں جو ہماری بدقسمتی سے جوان ہے اور خوبصورت بھی ہیں، ہم انہیں فوجیوں سے بچاتے ہیں، یہی ہماری دولت ہے اور یہی ہماری عزت ہے۔
تمہیں کسی مسلمان نے تو پریشان نہیں کیا؟
نہیں!،،،،، اس نے جواب دیا ۔۔۔مسلمان آجاتے تو پھر کوئی خطرہ ہی نہ رہتا، ہم یہ سن کر آۓ ہیں کہ مسلمان ہر کسی کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں اور کسی کے مال اموال پر ہاتھ نہیں ڈالتے ،آپ ہم دونوں کو قلعے سے نکال دیں ان دونوں لڑکیوں اور ان کی ماں کو اپنی پناہ میں لے لیں، ہم تو بہت دنوں سے ریگستان میں بھٹکتے پھر رہے ہیں، بیشمار راتیں آسمان تلے گزاری ہیں ،اور دن دھوپ میں جھلستے گزرتے رہے ہیں۔
انہوں نے اپنی بپتا ایسے انداز سے سنائی کے مسلمان پہرے داروں کے دل پسیج گئے، ان کے کماندار نے انھیں کہا کہ وہ اندر چلے جائیں اور پوچھیں کہ سرائے کہاں ہے؟،،، وہاں جا کر رہیں، رہنے کو جگہ ملے گی کھانے پینے کا انتظام بھی ہے۔
تمہارا مذہب کیا ہے ؟
ہم بدھ ہیں۔۔۔ انہوں نے جواب دیا۔
سرائے میں ڈیرہ ڈالو۔۔۔ کمانڈر نے کہا ۔۔۔پھر اپنی عبادت گاہ میں جاکر اپنے شمنی (بدھوں کا مذہبی پیشوا) سے ملنا وہ تمہارے مستقل ٹھکانے کا انتظام کر دے گا ،شہر میں کئی مکان خالی پڑے ہیں یہ ان ہندوؤں کے مکان ہیں جو یہاں سے بھاگ گئے ہیں۔
مسافروں نے جھک کر شکریہ ادا کیا اور اندر چلے گئے۔
اس وقت قلعے کی دیوار پر ایک سپاہی مغرب کی اذان دے رہا تھا، اسکی آواز سریلی تو تھی لیکن اس آواز میں کچھ ایسا تاثر بھی تھا کہ یہ مسافر روک کر اسے دیکھنے لگے، انہوں نے پہلی بار اذان سنی تھی انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ مسلمانوں کی فوج میدان میں اکٹھی ہو رہی تھی اور سپاہی صفیں باندھ رہے تھے، یہ مسافر وہاں سے دور ہٹ گئے اور دیکھنے لگے کہ یہ مسلمان کیا کرنے والے ہیں ؟،،،،،انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ جب اذان ہو رہی تھی تو اتنی زیادہ فوج میں سے کوئی ذرا سی آواز بھی نہیں اٹھی تھی، جونہی اذان ختم ہوئی فوجیوں کی آوازیں سنائی دینے لگی وہ صفیں سیدھی کر رہے تھے، پھر صفیں سیدھی ہو گئی اور ایک آدمی ان کے آگے کھڑا ہوگیا ،اس کا منہ بھی اسی طرف تھا جس طرف ہر کسی کامنہ تھا۔
یہ ایک مشہور واقعہ ہے جو متعدد مورخوں نے لکھا ہے ،اور تاریخ معصومی میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
مسلمان فوج مغرب کی نماز باجماعت پڑھ رہی تھی اس وقت کے دستور کے مطابق محمد بن قاسم امامت کے فرائض انجام دے رہا تھا ،محمد بن قاسم کی آواز میں بھی ایک خاص قسم کی سوز تھا اور یہ آواز بڑی جاندار تھی، اس نے جب قرات کی تو یہ مسافر اور زیادہ متاثر ہوئے اور مسلمانوں کی اس جماعت کو رکوع اور سجود کرتے انہماک سے دیکھتے رہے، ان کے انداز سے پتہ چلتا تھا جیسے وہ اپنی بپتا اور سفر کی صعوبتوں کو بھول گئے ہوں۔
انہوں نے اونٹنیوں کو وہیں بٹھا دیا اور عورتیں اتر آئی تھیں، دونوں لڑکیاں محمد بن قاسم کو دیکھ رہی تھیں۔
یہ تو بچہ سا ہے ۔۔۔بوڑھی عورت نے کہا ۔۔۔۔
اور دیکھو کتنا پیارا ہے۔
دونوں لڑکیاں دور سے محمد بن قاسم کو اس طرح دیکھ رہی تھیں جیسے ان کی نظریں اس نوجوان سالار کے وجود کے ساتھ چپک گئی ہوں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
نماز ہوچکی فوج وہاں سے جانے لگی محمد بن قاسم وہیں کھڑا تھا، بعض سپاہی عقیدت مندی سے اس سے ہاتھ ملاتے اور وہاں سے ہٹ جاتے تھے، اس طرح ہجوم کم ہوتے ہوتے اتنا سا رہ گیا کہ محمد بن قاسم تھا ،دو تین سالار تھے اور شعبان ثقفیی کے علاوہ تین چار محافظ تھے۔
دونوں مسافر آگے بڑھے، آگے انھیں نیرون کا ایک نومسلم مل گیا جس سے انہوں نے پوچھا کہ مسلمانوں نے یہ کیا کیا ہے؟
انھیں بتایا گیا کہ انہوں نے عبادت کی ہے۔
اور یہ کون ہے جو سب سے آگے کھڑا تھا؟
یہ ہمارا سپہ سالار ہے ۔۔۔مسلمان نے جواب دیا ۔۔۔جس طرح تم اپنی فوج کے سالار کو فوج کا حاکم کہتے ہو عبادت کے وقت یہ ہمارا امام ہوتا ہے۔
کیا ہم اسے مل سکتے ہیں۔۔۔ ایک مسافر نے پوچھا اور کہا ۔۔۔ہم بڑی دور سے آپ کے سالار کی اور آپ سب کی تعریف سن کر آئے ہیں۔
آگے چلے جاؤ۔۔۔ مسلمان فوجی نے کہا ۔۔۔وہاں تمہیں پتہ چلے گا کہ ہمارے سالار سے مل سکو گے یا نہیں؟
وہ اس طرف چل پڑے جہاں محمد بن قاسم کھڑا تھا ،دونوں لڑکیاں اور ان کی ماں بھی ان کے ساتھ ساتھ جا رہی تھیں، محمد بن قاسم نے انہیں دیکھا تو آہستہ آہستہ ان کی طرف چل پڑا دونوں مسافر اس تک پہنچے گھٹنے زمین پر ٹیک کر انہوں نے ہاتھ جوڑے اور اتنا جھک گئے جیسے سجدے میں جا رہے ہوں ،دونوں لڑکیوں نے محمد بن قاسم کے قریب جاکر اور ان آدمیوں کی طرح دو زانو ہو کر محمد بن قاسم کی عبا پکڑی اور اسے چوما۔
ان سے پوچھو یہ کیا چاہتی ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے اپنے ترجمان سے کہا ۔
ترجمان نے ان سے ان کی زبان میں پوچھا تو ان مسافروں نے وہی کہانی سنائی جو انہوں نے قلعے کے دروازے پر پہرے داروں کے کماندار کو سنائی تھی، دونوں لڑکیوں نے گھونگھٹ اٹھائے تو سب نے دیکھا کہ وہ بہت ہی خوبصورت تھیں، انہوں نے ترجمان کی طرف دیکھا اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے،،،،،اپنے راجہ سے کہو کہ ہمیں اپنے محل میں نوکری دے دے۔۔۔ لڑکیوں نے التجا کی ہم یہیں محفوظ رہ سکتی ہیں ۔
چونکہ محمد بن قاسم وہاں موجود تھا اس لئے کوئی اور آدمی اس کی نمائندگی میں جواب نہیں دے سکتا تھا ترجمان نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ لڑکیاں کیا درخواست کر رہی ہیں، ان لڑکیوں نے جو الفاظ کہے تھے ترجمان نے وہی عربی زبان میں دہرائے ۔
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔
شہنشاہیت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی سے کہا۔۔۔ یہ غریب لوگ سمجھتے ہیں کہ ان بادشاہوں کو خدا نے بادشاہوں کے روپ میں ہی زمین پر اتارا ہے، ہم ان لوگوں کو کیسے سمجھائیں کہ ساری دنیا کا شہنشاہ صرف ایک ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے،،،،،،، یہ مجھے بھی بادشاہ اور راجہ سمجھ رہے ہیں۔
اس نے ترجمان کی معرفت لڑکیوں سے کہا۔۔۔ ہم میں کوئی راجہ نہیں اور کوئی رعایا نہیں اور ہمارا کوئی محل بھی نہیں، ہم کسی عورت کو ملازم نہیں رکھا کرتے، ہماری زندگی میدان جنگ میں گزر جاتی ہے، تم اپنے آدمیوں کے ساتھ سرائے میں چلی جاؤ وہاں تمہاری عزت محفوظ رہے گی اور تمہاری ہر ضرورت پوری ہو گی ۔
ہم آپ سے کچھ نہیں لینگے۔۔۔ ایک لڑکی نے کہا۔۔۔ ہم آپ کی خدمت کے لیے یہاں لونڈیاں بن کر رہنا چاہتی ہیں۔
کیوں ؟،،،،محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔ میں تمہارا راجہ یا دیوتا تو نہیں۔
آپ ہمارے دیوتاؤں سے زیادہ اونچے اور اعلی ہیں ۔۔۔لڑکی نے کہا۔۔۔ ہمارے اپنے مذہب کے لوگوں کی نیت ہم پر خراب رہتی ہے ہمارے پنڈت جو دیوتاؤں کے ایلچی بنے ہوئے ہیں ہماری عزت کے ساتھ کھیلنے سے باز نہیں آتے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم اپنی عزت بچانے کی خاطر آپ کے پاس آ گئی ہیں، ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کے سائے میں عورتوں کی عزت و آبرو محفوظ رہتی ہے۔
محمد بن قاسم انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ کسی عورت کو یا کم از کم ان جیسی خوبصورت لڑکیوں کو اپنے ہاں ملازم نہیں رکھے گا ۔ لیکن دونوں لڑکیاں ضد کرتی رہیں کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں ،،،،وہ کہتی تھیں کہ محمد بن قاسم دیوتا ہے اور وہ اس کی پوجا کرنا چاہتی ہیں۔ لڑکیاں بارہا کبھی محمد بن قاسم کا ہاتھ پکڑ کر چومتی اور کبھی اس کی عبا کا دامن پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا لیتیں، ان کے ساتھ جو آدمی تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور کہنے لگے کہ محمد بن قاسم ان لڑکیوں کو اپنے پاس رکھ لے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
شعبہ جاسوسی کا سربراہ شعبان ثقفی الگ کھڑا بڑی غور سے ان لڑکیوں کو ان کے ساتھ کے آدمیوں کو اور بوڑھی عورت کو دیکھ رہا تھا، ان سب کے لباس اس علاقے کے غریب کسانوں جیسے تھے۔
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کی طرف دیکھا۔
شعبان ثقفی آگے بڑھا۔
میرے ساتھ آؤ۔۔۔ اس نے دونوں لڑکیوں کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ میں نے ملازم رکھ لوں گا۔
لڑکیوں نے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا تو اس نے مسکرا کر سر سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس کے ساتھ چلیں جائیں۔ شعبان ثقفی نے بوڑھی عورت اور دونوں آدمیوں سے کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلیں، اس طرح وہ ان سب کو اپنے ساتھ لے گیا۔
شام گہری ہوچکی تھی جگہ جگہ مشعلیں جل اٹھی تھیں، شعبان ثقفی انہیں ایک کمرے میں لے گیا لڑکی کو اپنے ساتھ رکھا اور باقی جو ان کے ساتھ تھے انھیں باہر بٹھا دیا اور دروازہ بند کرلیا ،کمرے میں دو تین دیے جل رہے تھے اس نے دونوں لڑکیوں کی اوڑھنیاں اتار دیں اور ان کے بالوں کو بڑی غور سے دیکھا، پھر دونوں کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کی انگلیاں دیکھی، بازو ننگے کرکے دیکھے پھر ان کے جوتے اتروائے اور پاؤں دیکھے۔
تم نے ٹھیک سنا ہے کہ مسلمان عورتوں کی عزت کا خیال رکھتے ہیں ۔۔۔شعبان ثقفی نے انہیں کہا۔۔۔ یہاں تمہاری عزت محفوظ رہے گی ،ہم تم جیسی عورتوں کو صرف قتل کیا کرتے ہیں، لیکن جس طریقے سے ہم قتل کرتے ہیں وہ بڑا ہی بھیانک ہے، اگر تم سچ بولو گی تو ایسی اذیت ناک موت سے بچ جاؤں گی، اور ہو سکتا ہے کہ جس طرح تم آۓ ہو اسی طرح ہم تمہیں عزت سے رخصت کر دیں۔
دونوں لڑکیوں نے تڑپ تڑپ کر پوچھنا شروع کردیا کہ انہیں کس گناہ میں قتل کیا جائے گا، ان کا احتجاج کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ وہ شعبان ثقفی کے ساتھ لپٹ لپٹ جاتی تھیں، ان کا یہ انداز اشتعال انگیز تھا ،جسے شعبان ثقفی جیسا سراغ رساں اور جہاندیدہ آدمی ہی سمجھ سکتا تھا کہ اس انداز میں مظلومیت اور بے گناہی نہ ہونے کے برابر تھی، اس نے ان کے بال ہاتھوں پاؤں اور بازو ننگے کر کے دیکھے تھے، یہ ہاتھ اور پاؤں اور یہ بال کسان عورتوں کے نہیں تھے ،اور جس بے تکلفی سے ان لڑکیوں نے محمد بن قاسم کے ساتھ باتیں کی تھیں وہ پسماندہ اور جاھل کسان کی بیٹیوں والا نہیں تھا۔
وہ لوگ احمق ہیں جنہوں نے تمہیں یہاں بھیجا ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ تم کسی غریب اور محنت و مشقت کرنے والے کسان کی بیٹیاں لگتی بھی ہو یا نہیں ،،،،،،،،خود ہی بتا دو کہ تمہارا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟،،،، کیا ہمارے سالار کو زہر دینا ہے یا صرف جاسوسی کرنا ہے؟
بیشتر اس کے کے دونوں لڑکیاں اپنے ردعمل کا اظہار کرتیں شعبان ثقفی نے ان دونوں میں سے ایک کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا اور پھر اپنا بازو اس کی پیٹھ پیچھے کر کے اسے اپنے ساتھ یوں لگا لیا، جیسے وہ اس لڑکی کے حسن اور اتنے کشش جسم کا گرویدہ ہو گیا ہو ،اس نے لڑکی کے گال پر آہستہ سے تھپکی دی اور اسے اپنے بازو میں بھینچ لیا۔
بولو !،،،،،اس نے بڑے پیار سے لڑکی سے کہا۔۔۔ میں چاہوں تو تمہیں اور تمہارے ساتھ کی لڑکی کو بھی شہزادیاں بنا کر یہاں رکھ سکتا ہوں ،اور یہ بھی میرے ہاتھ میں ہے کہ تم دونوں کے ہاتھ باندھ کر گھوڑے کے پیچھے باندھ دوں اور گھوڑاسرپٹ دوڑا دوں۔
آپ کون ہیں؟،،،، لڑکی نے اس سے پوچھا ۔۔۔کیا آپ بھی سالار ہیں؟
یہاں سب کچھ میں ہوں ۔۔۔ثعبان ثقفی نے جواب دیا ۔۔۔میں جو پوچھ رہا ہوں تم اس کا جواب دو۔
لڑکی نے شعبان ثقفی کے بازو سے آزاد ہونے کی کوشش نہ کی بلکہ اپنا ایک بازو اس کی کمر میں ڈال دیا اور ایسا انداز اختیار کرلیا جیسے لڑکی نے اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیا ہو ۔ دوسری لڑکی کے ہونٹوں پر تبسم سا آ گیا۔
اچانک شعبان ثقفی نے اس لڑکی کو جھٹکے سے پرے ہٹا دیا اور دروازہ کھول کر دونوں آدمیوں کو اندر بلایا ،وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکیاں تربیت یافتہ بے حیا ہیں اور یہ یقینا جاسوس ہیں۔
کیا تم لوگوں میں عقل کی اتنی کمی ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے ان سے پوچھا۔۔۔ کیا تم عرب کے لوگوں کو کم عقل سمجھتے ہو ،یا تم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کے ہم یہاں کے لوگوں کے طور طریقے رہن سہن وغیرہ کو نہیں سمجھتے، میں ہاتھ اور پاؤں دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ اس آدمی کا پیشہ کیا ہے؟
اتنا کہہ کر اس نے جھپٹا مار کر ایک آدمی کا ہاتھ پکڑا اور اس ہاتھ کو الٹا سیدھا کرکے دیکھا، تمہارے پورے خاندان میں کسی نے کبھی کھیتی باڑی نہیں کی ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ اب اتنا بتا دو کہ فوج میں تمہارا عہدہ کیا ہے؟
اگر آپ ہمیں خود اندر نہ بلاتے تو ہم خود ہی اندر آنے والے تھے ۔۔۔دوسرے آدمی نے کہا۔۔۔ اب اگر ہم بات کریں گے تو آپ کہیں گے کہ ہم سزا سے بچنے کے لئے اعتراف کر رہے ہیں ، ہم دونوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اندر آکر آپ کو صاف بتا دیں کہ ہم بودھیر کے راجہ کاکا کے بھیجے ہوئے جاسوس ہیں ۔
ہمیں اس قلعے سے بھاگے ہوئے بجے رائے نے تیار کیا تھا۔۔۔۔ دوسرے آدمی نے کہا۔۔۔ یہ دونوں لڑکیاں بجے رائے کے اپنے خاندان کی ہیں۔
کیا بجے رائے یہاں سے بھاگ کر سیسم پہنچ گیا ہے؟،،،، شعبان صفی نے پوچھا ۔
ہاں!،،،،، اس آدمی نے جواب دیا ۔۔۔اسے راجہ کاکا نے پناہ دی ہے اور وہ دونوں آپ کے خلاف جنگی تیاریاں کر رہے ہیں۔
جب محمد بن قاسم کی فوج سیوستان کے قلعے میں سرنگ لگا کر داخل ہوئی تھیں تو راجہ داہر کا بھتیجا بجے رائے جو یہاں کی فوج کا حاکم تھا اپنے خاندان کو ساتھ لے کر نکل بھاگا تھا ،محمد بن قاسم کا ارادہ یہ تھا کہ اس کا تعاقب کیا جائے ابھی اپنے جاسوس یہ نہیں بتا سکے تھے کہ بجے رائے کس طرف نکل گیا ہے، محمد بن قاسم کو اس علاقے اور راجہ داہر کی فوج کے متعلق جو اہم معلومات ملی تھی ان میں ایک یہ بھی تھی کہ داہر کی فوج کی زیادہ تر کمان اس کے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کے ہاتھ میں ہے، ان میں ایک جے سینا تھا جو اس کا اپنا بیٹا تھا ،اور دوسرا بجے رائے تھا جو سیوستان سے بھاگ گیا تھا ۔
محمد بن قاسم کی یہ کوشش تھی کہ ان دونوں کو گرفتار یا ہلاک کردیا جائے تو راجہ داہر کی فوج کافی کمزور ہو سکتی ہے، اس لیے وہ بجے رائے کے تعاقب کی سوچ رہا تھا۔
سیوستان سے آگے محمد بن قاسم کا ٹارگیٹ سیسم کا قلعہ تھا جو ریاست بودھیر کا پایہ تخت تھا وہاں کا راجہ کا کا تھا، جو بدھ مت کا پیروکار تھا، یہ ریاست کہنے کو تو آزاد تھی لیکن راجہ داہر نے اسے اپنے پاؤں کے نیچے رکھا ہوا تھا، اور کاکا کو یہ لالچ دے رکھا تھا کہ اس پر کسی دشمن نے حملہ کیا تو وہ اسے فوج کی مدد دے کر بچا لے گا۔
یہ ایک بڑی اچھی اطلاعات ہیں جو ان جاسوسوں نے شعبان ثقفی کو دی تھی ،قیمتی اس لئے کہ محمد بن قاسم کو اطلاع ملی تھی کہ سیسم کوئی اتنا مضبوط قلعہ نہیں اس کے علاوہ وہ وہاں کا راجہ بدھ ہے، چونکہ بدھ خونریزی کو گناہ سمجھتے ہیں اس لئے محمد بن قاسم کو توقع تھی کہ جس طرح پہلے بدھ حاکم اس کی اطاعت قبول کرچکے تھے اسی طرح کا کا بھی اس کا استقبال دوستوں کی طرح کرے گا، لیکن ان جاسوسوں کے کہنے کے مطابق وہاں صورتحال بالکل مختلف تھی، سوچنے والی بات یہ تھی کہ یہ جاسوس کس حد تک سچ بول رہے تھے یہ دھوکہ بھی ہو سکتا تھا اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ انہیں اسی مقصد کے لئے بھیجا گیا ہو کہ سیوستان جا کر ایسی اداکاری کرو کہ تم پر جاسوسی کا شک کیا جائے اور فورا تسلیم کر لو کہ تم جاسوس ہو اور اپنی جان بچانے کے لئے یہ خبر دو کہ بجے رائے سیسم میں پناہ لیے ہوئے ہے اور راجہ کاکا کے ساتھ مل کر جوابی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمیں چھوڑ نہیں دیں گے۔۔۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔ ہمارا جرم ہی کچھ ایسا ہے جس کا اعتراف کر کے ہم نے اپنی گردنیں آپ کی تلواروں کے نیچے رکھ دی ہیں ،ہم آپ کو یقین نہیں دلا سکتے کہ ہمارے اعراف کا جو باعث بنا ہے وہ کس حد تک سچ ہے۔
تم دونوں عقلمند آدمی معلوم ہوتے ہو ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اور میں تمہیں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ان آدمیوں میں سے ہو جو تم جیسے جاسوسوں کو تیار کیا کرتا ہے، تم جھوٹ بولو میں تمہیں بتا دوں گا کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ، کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اپنی جان بچانے کے سوا اور کیا وجہ ہے کہ تم نے اپنی اصلیت بے نقاب کردی ہے۔
ہم نے پہلی بار مسلمانوں کی عبادت دیکھی ہے۔۔۔ ایک نے کہا ۔۔۔اذان بھی پہلی بار سنی ہے، اس سے پہلے ہمیں زبانی بتایا گیا تھا کہ مسلمان اذان دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، لیکن یہ آواز پہلی بار سنی اور یہ نماز پہلی بار دیکھی، ہم آخر انسان ہیں ہم نے بدھوں کو عبادت کرتے دیکھا ہے، اپنے مندروں میں جا کر خود بھی عبادت کی ہے، ہم ہندو ہیں اور ہمارا تعلق چّنہ قوم سے ہے، ہماری عبادت میں وہ بات نہیں جو ہم نے آج آپ کی عبادت میں دیکھی ہے، ہم پر ایسا اثر ہوا ہے جو ہم شاید الفاظ میں بیان نہ کر سکیں۔
میں اتنی لمبی چوڑی داستان نہیں سنوں گا۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔مجھے صرف یہ بتاؤ کہ تمہارا یہاں آنے کا مقصد کیا تھا، اپنی مدح اور اپنے مذہب کی تعریفیں میرے دل کو موم نہیں کر سکے گی۔
ہمارا مقصد صرف یہ دیکھنا تھا کہ آپ یہاں سے کس طرف پیش قدمی کریں گے۔۔۔ جاسوس نے کہا۔۔۔ یہ بھی دیکھنا تھا کہ آپ کی فوج کی نفری کتنی ہے اور کس کیفیت میں ہے ،اور یہ بھی کہ آپ کو کمک اور رسد مل رہی ہے یا نہیں، اگر مل رہی ہے تو کس راستے سے آتی ہے۔
ان لڑکیوں کو ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ شعبان ثقفی نے پوچھا کیا تم دونوں آدمی یہ کام نہیں کر سکتے تھے؟
یہ معلومات حاصل کرنے کے لئے اونچے رتبے کے آدمیوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا تھا۔۔۔ اس نے جواب دیا۔۔۔ اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کا سالار نوجوان آدمی ہے اور وہ لڑکیوں کے جال میں آ جائے گا، لیکن لڑکیوں کے جال میں آنے والے سوچا نہیں کرتے، دیر نہیں کیا کرتے، ہم نے وہیں باہر دیکھ لیا تھا کہ آپ کے سالار کو ان لڑکیوں کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں۔
اسے لڑکیوں کے ساتھ دلچسپی ہو کیسے سکتی ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ ہماراسالار ہی نہیں ہمارا امام بھی ہے، اگر سالار بدکار ہو تو فوج پر کچھ اثر نہیں ہوتا، لیکن امام گنہگار ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی نماز قبول نہیں ہوتی، اور اللہ کے حضور امام جوابدہ ہو گا،،،،،،،،،،لیکن تم نہیں سمجھو گے کہ میں کیا کہہ رہا ہو تم اپنی بات کرو،،،،،،،،،،،،، ہم پہلے بھی تمہارے راجہ داہر کو اس کی بھیجی ہوئی انہی جیسی لڑکیوں کو اس کے پاس اس پیغام کے ساتھ واپس بھیج چکی ہیں، کہ وہ ہم سے اپنے آپ کو اپنے ملک کو اور اپنے باطل عقیدے کو حسین اور آبرو باختہ لڑکیوں کے ذریعے نہیں بچاسکے گا ،اب اس کے بھتیجے نے اپنے خاندان
کی دو لڑکیوں کو ڈھال بنا یا ہے۔
ہم آپ سے رحم کی التجا نہیں کریں گے۔۔۔ ایک جاسوس نے کہا۔۔۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہماری طرف سے ایک پیغام راجہ کاکا اور بجے رائے کو پہنچ جائے، ہم انہیں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم اس قوم کے مقابلے میں نہیں جم سکو گے جس کی عبادت اتحاد اور صف بندی کا سبق دیتی ہے، اور جو ایک امام کی پیروی میں جھکتی سجدے کرتی اور اٹھتی ہے۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ ہندوؤں کی یہ جاسوس مسلمان فوج کی باجماعت نماز سے اتنے متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ واپس چلے جائیں گے اور اپنے حاکموں سے کہیں گے کہ وہ مسلمانوں کی فتح کا راز لے آئے ہیں، اور وہ راز ان کا نظم و نسق اور ایک امام کی پیروی ہے۔
ان جاسوسوں نے مسلمانوں کی فتح کا دوسرا راز یہ پایا تھا کہ ان کا سالار جو نوجوانی کے عالم میں تھا اتنی حسین لڑکیوں کو ٹھکرا رہا تھا۔
شعبان ثقفی اس جاسوس گروہ پر سنتری کھڑے کرکے محمد بن قاسم کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ یہ جاسوسوں کا ٹولہ ہے، اس ٹولے کے ساتھ جو باتیں ہوئی تھی اس نے وہ بھی محمد بن قاسم کو سنائیں، قلعے کے بڑے دروازے کے پہرے داروں سے تصدیق کرائی گئی کے یہ جاسوس اسی شام قلعے میں داخل ہوئے تھے اور یہ اس سے پہلے یہاں نہیں تھے۔
محمد بن قاسم نے کہا کہ انھیں قلعے سے نکال دیا جائے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم کسی کی جان بخشی نہیں کیا کرتا دشمن کے لئے وہ سراپا قہر تھا، لیکن اس نے کچھ سوچ کر ان جاسوسوں کی جان بخشی کردی۔
ہمارے سپہ سالار نے حکم دیا ہے کہ تمہیں زندہ سلامت واپس بھیج دیا جائے۔۔۔ شعبان ثقفی نے واپس آکر ان جاسوسوں سے کہا۔۔۔ بجے رائے اور راجہ کاکا سے کہنا کہ بہت جلد ان سے ہماری ملاقات ہوگی، ہم انہیں منجنیقوں کے پتھروں سے اور تیروں سے قلعے کے اندر اپنا سلام پہنچائیں گے۔
آدھی رات کا وقت تھا جب قلعے کا دروازہ کھول کر اس ٹولے کو باہر نکال دیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
بتایا جا چکا ہے کہ بجے رائے سیوستان سے بھاگ کر سیسم کے قلعے میں راجہ کاکا کے پاس چلا گیا تھ،ا اس نے کا کا کو بتایا کہ مسلمانوں کا لشکر سیلاب کی مانند آرہا ہے، اور کا کا اپنے دفاع کی تیاری کرلے۔
تم جانتے ہو ہم بدھ ہیں۔۔۔ راجہ کاکا نے کہا۔۔۔ ہم محبت کے پجاری ہیں کسی کے خون کے پیاسے نہیں۔
لیکن مسلمان ہر اس انسان کے خون کے پیاسے ہیں جو مسلمان نہیں۔۔۔ بجے رائے نے کہا ۔۔۔میں جانتا ہوں تم اور کیا کہو گے میں تمہیں کچھ اور کہنے کی مہلت نہیں دوں گا، بدھوں کی وجہ سے پورا ملک ہاتھوں سے جا رہا ہے، نیرون جیسا شہر سندر نے مسلمانوں کے حوالے کردیا ہے ،موج کے بدھوں نے ہمارے ساتھ بےوفائ کی ہے اور ان کی غداری سے سیوستان مسلمانوں کے پاس چلا گیا، اب تم انہی جیسی باتیں کرنے لگے ہو ،تم اپنے مذہب کو بہانہ بنا کر بزدل ہو گئے ہو ،جن مسلمانوں کے آگے تم ہتھیار ڈالنے اور دوستی کا معاہدہ کرتے ہو وہ تمہاری جوان بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہیں۔
ایسا نہیں ہوتا بجے رائے!،،،، کا کا نے بھڑک کر کہا۔۔۔نیرون میں تم نے نہیں دیکھا میں معلوم کر چکا ہوں۔
مسلمان نہیں تو ہم تمہاری بیٹیوں کے ساتھ رنگ رلیاں منائیں گے۔۔۔ بجے رائے نے کہا۔۔۔ کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارا راج داہر کے رحم و کرم پر ہے، اگر تم نے بھی ہمیں دھوکہ دیا تو ہم تمہارے خاندان کے بچے بچے کو ختم کردیں گے، میرا ساتھ دو مجھے سیوستان کی شکشت کا بدلہ لینا ہے، تم نہیں جانتے راجہ داہر کو مجھ پر کتنا بھروسہ ہے ۔
پھر بتاؤ میں کیا کروں ۔۔۔کاکا نے پوچھا؟
اپنی نیت بدل لو۔۔۔ بجے رائے نے کہا۔۔۔ چنہ قوم تمہاری رعایا ہے اور یہ جنگجو قوم ہے، اس کے جوان آدمیوں کی مجھے ایک فوج بنا کر دو۔
کاکا دبک گیا اس نے اپنی نیت بدل لی اور وہ بجے رائے کے ساتھ محمد بن قاسم کی پیش قدمی اور جنگی چالوں کی باتیں کرنے لگا پھر دونوں محمد بن قاسم کو شکست دینے کا منصوبہ تیار کرنے لگے۔
یہ کیسے پتہ چلے گا کہ محمد بن قاسم ادھر ہی آئے گا ۔۔۔بجے رائے نے کہا۔۔۔ میں یہ فرض کرکے کہ مسلمان ادھر ہی آئیں گے قلعے میں محصور ہوکر نہیں لڑنا چاہتا، راجہ داہر کا حکم ہے کہ قلعہ بند ہو کر لڑو اس طرح ہم قلعے پر قلعے مسلمانوں کو دیتے چلے جارہے ہیں، میں میدان میں ان سے لڑوں گا سیوستان کی شکست نے مجھے کہیں کا نہیں رہنے دیا ،لیکن یہ کیسے پتہ چلے گا کہ سیوستان سے مسلمان کس طرف جائیں گے۔
ہم اپنے جاسوس بھیجیں گے۔۔۔ کاکا نے کہا۔۔۔ میرے پاس کوئی ایسی لڑکی نہیں جو جاسوسی کے لیے جا سکے، ایک دو بڑی ہی خوبصورت لڑکیوں کی ضرورت ہے ۔
لڑکیاں مجھ سے لو۔۔۔ بجے رائے نے کہا۔۔۔ میرے خاندان میں بڑی خوبصورت اور ہوشیار لڑکیاں ہیں۔
اس نے اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ بات کی تو یہ دو لڑکیاں بخوشی جاسوسی کے لئے تیار ہو گئیں، کاکا نے انہیں بتایا کہ سیوستان میں جاکر کیا کرنا اور کس طرح کرنا ہے ،کاکا کو معلوم نہ تھا کہ جس کام کے لیے وہ ان لڑکیوں کو بھیج رہا ہے وہ اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھتا تھا، اسے غالبا یہ توقع تھی کہ جس طرح راجہ مہاراج اور بادشاہ کسی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر فورا اسے محل کی زینت بنا لیتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی لڑکیوں کو دیکھتے ہی اپنے دین اور مذہب کو بھول جائے گے اور لڑکیاں اس کے سینے سے تمام راز نکال لیں گی۔
کاکا اپنی دنیا میں جو دیکھ رہا تھا اس کے مطابق اس کی سوچ یہی ہونی چاہیے تھی، وہ جانتا تھا کہ مندروں میں پنڈی، رشی اور مہارشی بھی خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو عیش و عشرت کے لئے اکٹھا کیے رکھتے ہیں، اور اس بدکاری پر وہ مذہب کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں، کاکا کی سوچ غالبا یہ بھی تھی کہ وطن سے اتنی دور آ کر مسلسل لڑتے رہنے والوں کو عورت کی تشنگی زیادہ محسوس ہوتی ہے، انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے، تاریخ بھی یہی قصے سناتی ہے کہ فاتح بادشاہ مفتوحہ شہر میں سب سے پہلا جو تحفہ مانگتے تھے وہ مفتوح شہر کی انتہائی خوبصورت لڑکیاں ہوتی تھیں، فاتح بادشاہ کی فوج بھی مفتوحہ شہر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے شہر کی عورتوں پر ہلہ بولتی تھی۔
کاکا نے جو سوچا تھا وہ ٹھیک سوچا تھا لیکن اس کی سوچ نے اسے یوں دھوکا دیا کہ وہ جان نہ سکا کہ محمد بن قاسم کوئی دنیاوی حوصلے کر نہیں آیا اور اس کی زندگی کا مقصد یہ نہیں کہ وہ فاتح کہلائے اور مفتوح لوگ اس کے آگے سجدے کریں۔
انہوں نے جس بوڑھی عورت کو ان لڑکیوں کے ساتھ بھیجا تھا وہ بجے رائے کے خاندان کی پرانی ملازمہ تھی اور انتہائی چالاک اور عیار تھی وہ تو اس خاندان کے افراد کو بھی انگلیوں پر نچاتی تھی ،جو دو آدمی جاسوسی کے لئے ان کے ساتھ بھیجے گئے تھے وہ فوج کے عہدے دار تھے اور وہ تیغ زنی ،نیزا بازی اور گھوڑ سواری کے ماہر تھے، وہ عقلمند تو تھے لیکن ان میں وہ عقل نہیں تھی جو جاسوسوں میں ہونی چاہیے تھی، جاسوس کو تو اپنے جذبات کو مارنا پڑتا ہے لیکن یہ سیوستان گئے تو مسلمانوں کو با جماعت نماز پڑھتے دیکھ کر ہی موم ہوگئے پھر انہوں نے فوراً ہی اپنی اصلیت بے نقاب کر دی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اور ایک روز ان کے بھیجے ہوئے جاسوسوں کا یہ ٹولہ واپس آ گیا بجے رائے اور راجہ کاکا نے خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا، انھوں نے حیران ساہو کے پوچھا کہ لڑکیوں کو کیوں واپس لے آئے ہو؟
ان جاسوسوں کے ساتھ جو بیتی تھی وہ انہوں نے سنا ڈالی۔ بجے رائے اور کاکا کے منہ لٹک گئے، انہوں نے دونوں آدمیوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا تم دونوں کو جلاد کے حوالے کردیا جائے تو یہی بہتر ہوگا۔۔۔ بجے رائے نے کہا۔
انہیں ہاتھ پاؤں باندھ کر دور ریگستان میں پھینک دیا جائے۔۔۔ کاکا نے کہا۔۔۔ یہ بھوکے اور پیاسے تڑپ تڑپ کر مر جائیں تو یہ سزا بھی ان کے لئے تھوڑی ہو گی، ہم نے انہیں بھیجا کس لیے تھا اور یہ کر کے کیا آئے ہیں۔
ہم آپ کے لئے ایک بڑا ہی قیمتی راز لائے ہیں۔۔۔ ان دونوں میں سے ایک آدمی نے کہا۔۔۔ راز یہ ہے کہ آپ اس قوم کو شکست نہیں دے سکتے، ہم نے انہیں جس طرح عبادت کرتے دیکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی صفوں میں کہیں بھی شگاف پیدا نہیں ہو سکتا ،ہم نے وہاں کی غیر مسلم آبادی کو پرسکون اور خوش باش زندگی گزارتے دیکھا ہے۔
انھوں نے مسلمانوں کی باجماعت نماز سے جو تاثر لیا تھا وہ بیان کیا۔
دونوں لڑکیوں پر خاموشی طاری تھی صاف پتہ چلتا تھا کہ ان کے چہروں پر جو اداسی اور مایوسی سی چھائی ہوئی ہے وہ اس لئے نہیں کہ وہ اپنی مہم میں ناکام رہی ہیں، بلکہ انہیں افسوس ہو رہا تھا کہ انھیں سیوستان سے بڑی جلدی نکال دیا گیا تھا، وہ بھی کچھ ایسا ہی تاثر لے کر آئی تھیں جیسا ان کے ساتھی مرد لائے تھے۔
اگر آپ ان مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہیں تو اپنی فوج میں وہی اخلاق اور اتحاد پیدا کریں جو ہم مسلمانوں میں دیکھ آئے ہیں۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔۔۔ یا کوئی اور طریقہ اختیار کریں، ہم دونوں کو کوئی اور ایسا کام دے دیں جو کوئی اور نہ کر سکے اور جس میں جان ضائع ہونے کا خطرہ ہو ،ہم وہ کام کرکے دکھائیں گے۔
تاریخی حوالوں سے پتا نہیں چلتا کہ ان دو آدمیوں کو کسی خطرناک مہم پر پھر کبھی بھیجا گیا تھا یا نہیں ،لیکن بجے رائے اور کاکا نے محمد بن قاسم کو شکست دینے کا ایک اور طریقہ سوچ لیا جو یہ تھا کہ محمد بن قاسم سیوستان سے سیسم کی طرف پیش قدمی کرے تو راستے میں کسی پڑاؤ پر شب خون مارا جائے انہوں نے ایک اسکیم تیار کرلی، کاکا جو مذہبی لحاظ سے بدھ تھا، ذات کا چنہ تھا ، اس نے اسی روز حکم دے دیا کہ چنہ قوم میں سے ایک ہزار انتہائی دلیر اور شہسوار جوان آدمی ان کے سامنے لائے جائیں۔
دو تین دنوں میں چنہ قوم کے ایک ہزار منتخب شہسوار سیسم کے قلعے میں آگئے، کاکا نے یہ آدمی بجے رائے کے سپرد کر کے اسے کہا کہ انہیں وہ مسلمانوں کے پڑاؤ پر شب خون مارنے کے لئے تیار کرے، اس کا مطلب یہ تھا کہ انھیں باہر لے جا کر عملی ٹریننگ دی جائے۔
اسی روز سے ان ایک ہزار آدمیوں کی ٹریننگ شروع ہوگئی بجے رائے خود انہیں باہر لے جاتا اور کہیں فرضی مسلمانوں کے پڑاؤ کا نشان لگا کر سواروں کو بتاتا کہ حملہ کس طرح کرنا ہے ،وہ انہیں یہ سبق دیتا تھا کہ ایک جگہ رک کر اور جم کر نہیں لڑنا بلکہ ہلہ بول کر اور ضرب لگا کر آگے نکل جانا ہے اور دور سے گھوم کر پھر ہلا بولنا ہے، اس طرح کئی روز ان کی ٹریننگ ہوتی رہی۔
محمد بن قاسم نے سیوستان سے کوچ کیا وہ سیسم کی طرف جا رہا تھا اس نے اپنے سالاروں سے کہا کہ پیش قدمی بہت تیز ہوگی، جاسوسوں نے اسے بتایا تھا کہ راستے میں چند ایک قلعے ہیں جنہیں سر کرنا ضروری ہے ،مقامی گائیڈ ساتھ تھے۔
تاریخ اسلام کے اس کمسن اور عظیم فاتح سالار کی داستان شجاعت سنانے میں یہ دشواری قدم قدم پر سامنے آتی ہے کہ اس وقت کی کئی چھوٹی بڑی بستیوں کے آج نشان ہی نہیں ملتے، ان میں ایک دو شہر بھی تھے ان کے کھنڈر بھی کہیں نظر نہیں آتے، کوئی ایسا ریکارڈ بھی نہیں جس سے ان بستیوں اور شہروں کے درمیانی فاصلے معلوم ہو سکے، تاریخوں میں ان بستیوں کے صرف نام
*قسط نمبر/18*
یہ بتانا ممکن نہیں کہ محمد بن قاسم نے راستے میں کتنے اور کہاں کہاں پڑاؤ کئے، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ راستے میں دو تین ایسے قلعہ بند مقام آ گئے تھے جنہیں سر کرنا ضروری تھا ایسے تمام قلعے سر کیے گئے اور ہر قلعے پر آٹھ آتھ دس دس دن لگ گئے فاصلہ بھی زیادہ تھا اس لیے سیسم تک پہنچتے کم و بیش تین مہینے گزر گئے۔
آخر محمد بن قاسم ایک مقام تک پہنچ گیا جو بندھان کہلاتا تھا، یہ سیسم تک پہنچنے کے لیے آخری پڑاؤ تھا، یہاں عام پڑاؤ کی نسبت زیادہ دن روکنا تھا کیونکہ یہاں سے سیسم کو محاصرے میں لینے کے لیے تیار ہو کر آگے بڑھنا تھا ،فوج کو آرام کی بھی ضرورت تھی کیونکہ اس فوج نے بڑی تیز رفتار پر کوچ کیا تھا اور راستے میں محاصروں کی لڑائی بھی لڑنی پڑی تھی۔
سیسم کے قلعے میں کاکا اور بجے رائے کو اطلاع مل گئی کہ مسلمانوں کی فوج آگئی ہے اور بندھان کے مقام پر خیمہ زن ہو چکی ہے، یہ اطلاع ملتے ہی بجے رائے نے چنّہ قوم کے ان ایک ہزار آدمیوں کو بلایا اور انہیں بھڑکانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف وہی باتیں کیں جو ہر غیر مسلم حکمران یا حاکم اپنی فوج اور اپنے عوام کو بتایا کرتا تھا، مثلا یہ کہ مسلمان گھروں کو لوٹ لیتے ہیں جوان عورتوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، اور ایسا قتل عام کرتے ہیں کہ کسی بچے کو بھی زندہ نہیں رہنے دیتے، بجے رائے نے ان آدمیوں سے یہ بھی کہا کہ عوام کی عزت جان اور ان کے مال کی حفاظت ہمارا فرض ہے ورنہ ہم سب مسلمانوں کے بے دام غلام ہو جائیں گے۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ علاقہ بدھیہ کے ایک قبیلے نے جس کا کسی بھی تاریخ میں نام نہیں لکھا اپنے طور پر یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ مسلمانوں کے پڑاؤ پر شب خون ماریں گے، ان کے بڑوں نے از خود حملہ کرنے کی بجائے یہ بہتر جانا کے سیسم کے قلعے میں جاکر راجہ کاکا کو بتایا جائے کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنا ایک وفد سیسم قلعے کو روانہ کر دیا۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس قبیلے کو کاکا اور بجے رائے نے مسلمانوں پر شب خون مارنے کے لیے اکسایا اور تیار کیا تھا۔
مگر ہیگ جو زیادہ مستند معلوم ہوتا ہے لکھتا ہے کہ یہ قبیلہ جو غالباً جاٹ تھا اپنے مذہب پر مر مٹنے والا قبیلہ تھا، ان لوگوں نے سنا تھا کہ عرب کے مسلمان اپنا مذہب پھیلانے آئے ہیں اور وہ جہاں جاتے ہیں وہاں کے لوگوں کو جبراً مسلمان بناتے ہیں اور جو ان کا مذہب قبول نہ کرے اسے قتل کر دیتے ہیں ،چنانچہ اسلام کو روکنے اور اپنے مذہب کو بچانے کے لیے یہ لوگ مسلمانوں کے پڑاؤ پر رات کو ہلہ بولنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔
بہرحال اس واقعے پر تمام مؤرخین متفق ہیں کہ اس قبیلے کا وفد سیسم قلعے میں گیا اور راجہ کاکا کو اپنا ارادہ بتایا، اس کی زیادہ خوشی بجے رائے کو ہوئی، اس نے پنڈتوں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ شب خون مارنے کے لیے شُبھ رات بتائیں، اور یہ بھی معلوم کریں کہ فتح کے لیے کوئی بلیدان (قربانی) دینے کی ضرورت ہے یا نہیں، اگر ہے تو کیا دیا جائے۔
پنڈت مندر میں چلے گئے اور آنے والے وقت کے پردے چاک کرنے کے عجیب وغریب ڈھنگ آزمانے لگے۔
اگر تم لوگ عرب کے اس فوج کو پڑاؤ میں ختم کر دو تو میں تمہیں جھولیاں بھر کر انعام دوں گا۔۔۔ بجے رائے نے انہیں کہا۔۔۔ اور جو آدمی مسلمانوں کے سالار محمد بن قاسم کو زندہ پکڑ کر لائے گا وہ فوج میں بہت بڑا عہدہ راجہ کے دربار میں اعلی رتبہ اور اس مسلمان سالار کے سر کے برابر وزنی سونا دیا جائے گا، اور وہ بدھیہ کی جس لڑکی کو پسند کرے گا اس کے ساتھ اس کی شادی کردی جائے گی، اور جو آدمی محمد بن قاسم کا سر لائے گا اسے اس سر کے وزن سے دگنا سونا دیا جائے گا اور ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی بھی اسے دی جائے گی۔
اور ہم تمہیں اکیلے نہیں چھوڑ رہے ہیں۔۔۔ کاکا نے کہا۔۔۔ ہم تمہارے ساتھ چنّہ ذاتی کے ایک ہزار سوار بھیجیں گے ،تم سب ان کے ساتھ مل کر حملہ کرو گے۔
مہاراج کی جئے ہو ۔۔۔وفد کے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔ہم اس لئے میدان میں اترے ہیں کہ مہاراجہ داہر کی فوج مسلمانوں کو نہیں روک سکی ،ہم مسلمانوں کو اس قابل رہنے ہی نہیں دیں گے کہ وہ آگے بڑھ سکیں، وہ یہاں ہماری تلواروں اور برچھیوں سے مرنے آئے ہیں ہم آپ سے انعام لینے نہیں آئے ہم اپنا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں۔
پنڈت مہاراج شُبھ رات بتائیں گے؟،،،، بجے رائے نے کہا۔۔۔ اور جس رات تم حملہ کرنے جاؤ گے وہ تمام رات پنڈت مندر میں عبادت کرتے رہیں گے یہ تمہاری کامیابی کی ضمانت ہو گی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
پنڈت نے دو روز بعد کی ایک رات بتائی اور حملے کا وقت آدھی رات سے ذرا بعد کا بتایا۔ کوئی بلیدان ؟،،،،بجے رائے نے پوچھا۔
ایک کنواری ۔۔۔پنڈت نے کہا۔۔۔ حملے کی روانگی سے پہلے ایک کنواری کے خون کے چھینٹے حملہ کرنے والوں کے راستے پر پڑنے لازم ہیں، اور اس کنواری کا سر کُنبھ (منچھر) جھیل کے پانی میں ڈوبا ہوا ہو، اور حملے کے لئے جانے والا ہر آدمی اس جھیل سے ایک ایک گھونٹ پانی پی کر جائے۔
شُبھ رات آ گئی اس قبیلے سے کم و بیش آٹھ سو آدمی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح ہوکر سیسم قلعے میں جمع ہو گئے، ان کے ساتھ ایک ہزار چنّہ جنگجو شامل ہوگئے، یہ ایک ہزار سوار تھے، اور دوسرے قبیلے کے آٹھ سو آدمیوں میں پیادے بھی تھے اور سوار بھی، ادھر بجے رائے ان ایک ہزار آٹھ سو آدمیوں کو آخری ہدایات دے رہا تھا اور انتہائی اشتعال انگیز الفاظ میں ان کا خون گرما رہا تھا۔
ادھر مندر میں پندرہ سولہ برس کی ایک کنواری ہندو لڑکی کی گردن کاٹ کر خون ایک بالٹی میں اکٹھا کیا جا رہا تھا اس کا سر ایک چوڑی طشتری پر رکھ دیا گیا اور پنڈت بھجن گا رہے تھے۔
کچھ دیر بعد ایک پنڈت یہ طشتری اٹھائے وہاں گیا جہاں شب خون مارنے والوں کا اجتماع تھا، شام کا دھندلکا سیاہ ہو چکا تھا ،بے شمار مشعلیں جل رہی تھیں، طشتری پر کنواری کا سر جس پنڈت نے اٹھا رکھا تھا اس کے دائیں اور بائیں دو مشعل برادر تھے اور پیچھے چار پنڈت بھجن گنگناتے جا رہے تھے۔
بجے رائے نے آگے بڑھ کر پنڈت کے ہاتھ سے طشتری لے لی اور وہ ایک چبوترے پر جا کھڑا ہوا ،اس نے طشتری اونچی کرکے شب خون کے لئے جانے والوں کو لڑکی کا سر دکھایا، اس کے ساتھ دو مشعلیں بھی بلند ہو گئی تاکہ لشکر کا ہر آدمی اسے دیکھ سکے، سر کے بال سر کے اوپر جوڑے کی طرح لپیٹ دیے گئے تھے آنکھیں بند اور منہ ذرا سا کھلا ہوا تھا۔
یہ سر جھیل میں پھینک دیا جائے گا۔۔۔ بجے رائے نے بلند آواز سے کہا ۔۔۔پھر یہ طشتری جھیل کے کنارے رکھ دی جائے گی، تم سب اس جھیل سے ایک ایک گھونٹ پانی پی کر جاؤ گے ،اور جب تم مسلمانوں کو ختم کرکے یا آدھی فوج کو مار کر اور باقی کو بھگا کر آؤ گے تو جس کے ہاتھ میں محمد بن قاسم کا سر ہو گا وہ سر اس طشتری میں رکھ کر ہمارے پاس لائے گا،،،،،،،، یہ مت بھولنا کہ تمھاری کامیابی کی خاطر اس کنواری لڑکی نے اپنی جان کی قربانی دی ہے، اس لڑکی کا خون قلعے سے باہر لے گئے ہیں یہ خون اس راستے میں چھڑکا جائے گا جس پر سے تم لوگ گزرو گے۔
اس لڑکی کا سر تن سے جدا کرنے والا پنڈت بجے رائے کے ہاتھ سے طشتری لے کر قلعے کے دروازے کی طرف چل پڑا اس کے پیچھے پیچھے چار پنڈت بھجن گنگنا رہے تھے، اور وقفے وقفے سے سنکھ بجتا تھا ،مندر میں عبادت ہو رہی تھی، جھیل دور نہیں تھی پنڈت نے جھیل کے کنارے پر رک کر لڑکی کا سر زور سے پھینکا کنارے سے کچھ دور جھیل میں سر کے گرنے کی آواز آئی اور رات پھر خاموش ہوگئی۔
رات کچھ اور گزر گئی تو قلعے کے دروازے سے گھوڑے اور پیادے باہر آنے لگے، سوار بھی پیدل آرہے تھے ان سب نے جھیل سے ایک ایک گھونٹ پانی پی کر پیش قدمی کرنی تھی، وہ جھیل پر آ کر پانی پینے اور ایک جگہ اکٹھے ہونے لگے۔
بجے رائے اور راجہ کاکا بھی باہر آ گئے تھے گھوڑوں نے بھی پانی پیا اور ان کے سوار ان کی پیٹھوں پر چڑھ بیٹھے۔
حجاج بن یوسف کا کردار تو کچھ اور تھا لیکن وہ اپنے مذہبی عقیدے کو نہیں بھولتا تھا وہ جب بھی محمد بن قاسم کو پیغام بھیجتا تھا تو جنگی نوعیت کی ہدایت کے بعد یہ ضرور لکھتا تھا کہ اللہ سے ہر وقت مدد کے طلبگار رہو، اور پیش قدمی کے دوران پڑاؤ کرو تو فوج کو چوکس اور بیدار رکھو، بیدار رہنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو آدمی قرآن پڑھ سکتے ہیں وہ رات کو تلاوت کرتے رہیں، اور انہیں قرآن پڑھائیں جو پڑھنا نہیں جانتے ،نوافل زیادہ سے زیادہ پڑھے جائیں، نماز کے بعد اللہ تبارک و تعالی سے فتح و کامرانی کی دعا مانگو اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد کرتے رہو۔
اس رات سیسم سے کچھ دور پڑاؤ میں محمد بن قاسم کی فوج تلاوت قرآن کررہی تھی، جو قرآن پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ نوافل پڑھ رہے تھے، پڑاؤ میں مشعلیں جل رہی تھیں، صبح اس لشکر کو سیسم کی طرف بڑھنا تھا ،توقع تھی کہ فوج دوپہر تک یہ فوج سیسم پہنچ جائے گی اور محاصرہ کر لے گی۔
محمد بن قاسم نے اپنی فوج سے کہا تھا کہ مجاہدین عبادت اور تلاوت کے ساتھ ساتھ کچھ آرام بھی کر لیں، لیکن اس رات کوئی ایک بھی آدمی آرام نہیں کر رہا تھا انہوں نے کچھ رات آرام کر لیا تھا۔
اس رات زخمی بھی عبادت میں مصروف تھے، فوج کے بعض سالاروں ، ان سے چھوٹے عہدیداروں، اور بعض سپاہیوں کی بیویاں اور بچے بھی ساتھ تھے، یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ فوجی جہاں کہیں بھی جاتے اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے جاتے تھے، محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ بھی ایسے کئی کنبے تھے، ان کی عورتیں زخمیوں کی دیکھ بھال کررہی تھیں۔
ادھر اٹھارہ سو منتخب جنگجو مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر شب خون مارنے آ رہے تھے۔ مسلمان اس قسم کی فوری معرکہ آرائی کے لیے تیار نہیں تھے، صرف سنتری چوکس تھے، ان میں گشتی سنتری بھی تھے جو کیمپ سے کچھ دور دور گشت کر رہے تھے، شب خون کی صورت میں وہ اپنی فوج کو قبل از وقت خبردار کر سکتے تھے، لیکن شب خون بڑا ہی تیز حملہ ہوتا ہے، اگر شب خون مارنے والے جو صحیح معنوں میں اتنے تیز ہوا کرتے تھے وہ قبل از وقت دشمن کو اطلاع ملنے کے باوجود سمجھنے کی مہلت نہیں دیا کرتے تھے۔
شب خون دراصل مسلمانوں کا طریقہ جنگ تھا اس سے وہ دشمن کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا کرتے تھے کہ دشمن کی فوج حملہ کرنے یا حملہ روکنے کے قابل نہیں رہتی تھی، اب دیکھنا یہ تھا کہ بجے رائے اور کاکا کے چھاپہ مار کس حد تک مسلمان چھاپہ ماروں کے معیار تک پہنچ سکتے تھے، خطرہ یہ تھا کہ مسلمان بے خبر تھے اور انہیں شب خون کی توقع نہیں تھی، ایک پہلو اور زیادہ خطرناک تھا وہ یہ کہ مسلمانوں کے کیمپ میں عورتیں اور بچے بھی تھے اور رسد کا ذخیرہ بھی ساتھ تھا۔
ہندو چھاپہ مار ایک کنواری لڑکی کی قربانی دے کر آئے تھے، اور ان کی کامیابی کے لئے سیسم کے مندر کے گھنٹے اور سنکھ بج رہے تھے ،اور پنڈت بھجن گا رہے تھے ۔
محمد بن قاسم اور اس کے مجاہدین اللہ کے بھروسے پر تلاوت اور عبادت میں مصروف تھے۔
شب خون کی کامیابی کی صورت میں اسلام کے اس سیلاب کو وہیں پر صرف روک ہی نہیں جانا تھا بلکہ اسے واپس بحیرہ عرب میں گم ہو جانا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷÷*
تاریخوں میں صحیح طور پر وہ جگہ نہیں لکھی گئی جہاں مسلمانوں کا یہ پڑاؤ تھا، یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ جگہ یسم سے آدھے دن کی مسافت جتنی دور تھی، اور وہ جگہ اس علاقے کی عام سطح زمین سے نیچے تھی، یہ نشیبی زمین ہموار بھی نہیں تھی اس میں تین ساڑھے تین میل لمبائی اور کم و بیش ڈیڑھ میل چوڑائی میں جگہ جگہ ٹیلے کھڑے تھے جو بھربھری مٹی کے تھے ،وہا ہرے بھرے درخت بھی خاصے تھے اور ایک جگہ پانی اتنا زیادہ جمع تھا کہ لمبا چوڑا تالاب بنا ہوا تھا، یہ گہری جگہ سیسم کی طرف جانے والے راستے سے ذرا دور ہٹی ہوئی تھی۔
یہ محمد بن قاسم کی عقلمندی تھی کہ اس نے عام راستے سے پیش قدمی نہیں کی تھی، اور اس نے آخری پڑاؤ ایسی جگہ کیا تھا جس کے خدوخال نے اتنے بڑے لشکر کو رسد کے چھکڑوں میں چھپا لیا تھا ،یہ بھی ایک وجہ تھی کہ مسلمان اپنے آپ کو شب خون اور اچانک حملے سے محفوظ سمجھتے تھے لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بجے رائے اور کاکا نے مسلمانوں کے کیمپ پر شب خون مارنے کے لیے اٹھارہ سو آدمی بھیجے تھے تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کا پڑاؤ کہاں ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کے کیمپ سے رات بھر تلاوت قرآن کی مترنم آوازیں اٹھتی رہی ،تھوڑے تھوڑے وقفے سے کسی زخمی کے کرہانے کی آواز بھی اس مقدس ترنم میں شامل ہوجاتی تھی ،اور اس عورت کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دیتی تھی جو کرہانے والے زخمی تک دوڑ کر پہنچتی تھی، توقع تھی کہ کیمپ کی ان آوازوں میں سیسم کے چھاپہ ماروں کے گھوڑوں اور پیادوں کے قدموں کی ہنگامہ خیز آوازیں بھی شامل ہو جائیں گی، لیکن کیمپ کی آوازیں آہستہ آہستہ خاموش ہوتی گئی اور کیمپ سے فجر کی اذان کی مقدس اور مترنم سدا ابھری اور سندھ کی خنک فضا کی لہروں میں تیرتی ہوئی دور دور تک پہنچنے لگی۔
سیسم کے مندر کے گھنٹے اور سنکھ ابھی تک بج رہے تھے، بجے رائے اور کاکا قلعے کی دیوار پر آن کھڑے ہوئے تھے، وہ اپنے چھاپہ ماروں کی واپسی کی راہ دیکھ رہے تھے اس وقت تک چھاپہ ماروں کو واپس آ جانا چاہیے تھا، وہ طشتری جھیل کے کنارے پر رکھی ہوئی تھی جس میں کسی ایک چھاپہ مار نے محمد بن قاسم کا سر رکھ کر بجے رائے کو پیش کرنا تھا۔
مسلمانوں کے کیمپ میں فجر کی نماز کے لیے جماعت کھڑی ہو گئی تھی کیمپ کی فضا خاموش تھی اس میں محمد بن قاسم کے قرات تیر رہی تھی، اور درختوں پر بھی جیسے وجد طاری ہو گیا تھا گھوڑے اور اونٹ خوراک کے لیے بےچین ہونے لگے تھے۔
بجے رائے اور کاکا قلعے کی دیوار پر کھڑے اس طرف دیکھ رہے تھے جس طرف سے ان کے چھاپہ ماروں نے واپس آنا تھا، پو پھٹنے لگی تھی پھر افق پر شفق نمودار ہوئی، صحرا کی شفق بڑی ہی حسین ہوا کرتی ہے لیکن اس صبح کی شفق بجے رائے اور کاکا کو بہت بری لگ رہی تھی ،وہ شفق کی بجائے شب خون مارنے والوں کے گھوڑوں کی گرد دیکھنا چاہتے تھے۔
افق سے سورج نے سر اٹھایا اور اس کی پہلی کرنیں اس خطے کو منور کرنے لگی، بجے رائے کی بے قراری غصے کی صورت اختیار کر گئی وہ دیوار پر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔
کیا وہ سب مارے گئے ہیں ؟،،،،،اس نے رک کر کہا ۔۔۔میں مان نہیں سکتا ۔ میں بتاتا ہوں کیا ہوا ہے ۔۔۔کاکا نے کہا۔۔۔ وہ مسلمانوں کو تباہ کرکے ان کا مال لوٹنے میں لگ گئے ہیں اور ان کی عورتوں کو گھسیٹ رہے ہونگے،،،، آجائیں گے ،،،،وہ آتے ہی ہونگے۔
وہ دیکھو !،،،،،بجے رائے نے بے تابی سے کہا۔
افق سے گرد اٹھ رہی تھی جو گہری اور بلند ہوتی گئی پھر ابھرتا ہوا سورج اس گرد میں چھپ گیا ،زمین سے گرد کے بادل اٹھتے رہے، پھر اس گرد میں سے گھوڑے اور پیادے نظر آنے لگے، بجے رائے اور کاکا دیوار سے دوڑتے ہوئے اترے ،نیچے ان کے گھوڑے کھڑے تھے وہ بڑی تیزی سے گھوڑوں پر سوار ہوئے ایڑ لگائی گھوڑے سرپٹ دوڑ پڑے اور قلعے سے نکل گئے۔
دونوں کہیں رکنے کی بجائے گھوڑے دوڑاتے گئے اور واپس آتے ہوئے چھاپہ ماروں تک جا پہنچے ،ان کی توقع کے خلاف چھاپہ ماروں نے فتح اور کامیابی کا کوئی نعرہ نہ لگایا ان کے کمانڈر کے چہرے پر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔
میں ناکامی کی خبر نہیں سنوں گا ۔۔۔بجے رائے نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
کمانڈر نے بجے رائے کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھا اور منہ سے کچھ نہ کہا۔ تمام سوار اور پیادے رک گئے تھے بجے رائے ان سب کے اردگرد گھوما اور سب کے چہروں کو دیکھا ان سب میں کوئی ایک بھی زخمی نہیں تھا، بجے رائے واپس کمانڈر تک آیا اس کی تلوار کا دستہ پکڑ کر بڑے زور سے تلوار نیام سے نکالی اور تلوار کو دیکھا تلوار چمک رہی تھی۔
تلوار ویسی ہی ہے جیسی گئی تھی ۔۔۔بجے رائے نے کہا ۔۔۔نیام سے نکلی ہی نہیں۔۔۔ اس نے گرج کر کہا۔۔۔ تم بولتے کیوں نہیں۔
مہاراج کی جئے ہو ۔۔۔چھاپہ ماروں کے کمانڈر نے بے جان سی آواز میں کہا ۔۔۔ہم مسلمانوں کے پڑاؤ تک پہنچ ہی نہیں سکے۔
کیوں ؟،،،،،،بجے رائے نے سخت غصیلی آواز میں پوچھا۔۔۔ کہیں مر گئے تھے تم ، یا ڈر کر وہاں تک پہنچے ہی نہیں۔
مہاراج نے ہماری رہنمائی کے لئے جو دو آدمی بھیجے تھے وہ ہمیں اس جگہ لے گئے جہاں بتایا گیا تھا کہ محمد بن قاسم نے پڑاؤ کیا ہے۔۔۔۔چھاپہ ماروں کے کمانڈر نے کہا۔۔۔ لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا پھر وہ کہنے لگے کہ انہیں غلطی لگی ہے وہ یہ کہہ کر ہمیں وہاں سے بہت دور ایک اور جگہ لے گئے وہاں بھی کچھ نہیں تھا اس طرح وہ ہمیں گھماتے پھراتے رہے اور پو پھٹنے لگی شب خون کا وقت گزر گیا تھا واپس آ جانا ہی بہتر تھا، اگر ہم دن کی روشنی میں اتنے بڑے لشکر کے سامنے جاتے تو مہاراج جانتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہونا تھا۔
اس کمانڈر کی تلوار ابھی تک بجے رائے کے ہاتھ میں تھی غصے سے وہ چل رہا تھا اس نے بڑی تیزی سے تلوار گھمائی اور یہ تلوار کمانڈر کی گردن کو کاٹتی ہوئی آگے نکل گئی، کمانڈر کا سر زمین پر جاپڑا اور اس کا دھڑ گھوڑے سے لڑھک آیا اور اس کا خون زمین کو لال کرنے لگا۔
اس کا سر جھیل میں پھینک دو ۔۔۔بجے رائے نے کہا۔۔۔ وہ دو آدمی کہاں ہیں جو انہیں محمد بن قاسم کے پڑاؤ تک لے جانے کے لئے ساتھ بھیجے گئے تھے۔
وہ دوگائیڈ تھے جنہوں نے بتایا تھا کہ مسلمانوں نے فلاں جگہ پڑاؤ کیا ہے، انھیں اس تمام نفری میں دیکھا گیا وہ ان چھاپہ ماروں میں نہیں تھے، وہاں سے بھاگ نہیں گئے تھے وہ گھوڑوں پر سوار تھے اس اجتماع میں سے نکل کر بھاگتے تو سب کو نظر آ جاتے ان چھاپہ ماروں کے نائب کمانڈر نے بتایا کہ واپسی پر وہ ان کے ساتھ نہیں تھے۔
ایک پیادہ چھاپہ مار اپنے کمانڈر کے جسم سے جدا کیا ہوا سر اٹھا کر جھیل کی طرف جا رہا تھا، یہ وہی جھیل تھی جس میں ایک کنواری لڑکی کا سر پھینکا گیا تھا ،کچھ دیر بعد اس کمانڈر کا سر بھی اسی جھیل کی تہہ میں پہنچ گیا، جس کی فتح کے لیے ایک لڑکی کا سر کاٹا گیا تھا ،جھیل کے کنارے چاندی کی ایک خالی طشتری پڑی تھی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ان چھاپہ ماروں کے دونوں گائیڈ کہیں بھی نظر نہ آئے، بجے رائے نے حکم دے دیا تھا کہ جہاں کہیں وہ ملے وہی ان کے سر کاٹ کر اسی جھیل میں پھینک دیے جائیں اور ان کے جسموں کو جلانے کی بجائے قلعے سے دور پھینک دیا جائے۔
وہ دونوں بجے رائے اور کاکا کو نہیں مل سکتے تھے وہ اس وقت مسلمانوں کے کیمپ میں بجے رائے کے عتاب سے محفوظ بڑے آرام سے بیٹھے تھے ،یہ وہی دو جاسوس تھے جو ایک بوڑھی عورت اور دو لڑکیوں کو ساتھ لے کر ایک شام سیوستان کے قلعے میں پناہ گزین بن کر داخل ہوئے تھے اور انھیں شعبان ثقفی نے پکڑ لیا تھا ،انہوں نے اعتراف کر لیا تھا کہ وہ جاسوس ہیں محمد بن قاسم کے حکم سے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔
اس آخری پڑاؤ میں جب محمد بن قاسم فجر کی باجماعت نماز سے فارغ ہو کر اپنے خیمے کی طرف جا رہا تھا تو دو گشتی سنتری ان دونوں ہندوؤں کو پکڑ کر لائے پہلے وہ انہیں شعبان ثقفی کے پاس لے گئے اور اسے بتایا کہ دونوں شعبان ثقفی سے ملنا چاہتے ہیں۔ سنتریوں نے ان دونوں کی تلواریں لے لیں تھیں شعبان ثقفی نے انھیں دیکھتے ہی پہچان لیا۔
تم پھر آ گئے ہو ۔۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اب کوئی اور لڑکیاں لائے ہو، لیکن اب تمہیں زندہ نہیں جانے دیا جائے گا، وہ تو ہمارے سالار اعلی کی رحمدلی تھی کہ تم سب کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
ہم اس احسان کا صلہ دے چکے ہیں۔۔۔ ان دونوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔ اور اب ہم زندہ رہنے اور ہمیشہ کے لئے آپ کے ساتھ رہنے کے ارادے سے آئے ہیں۔
شعبان ثقفی ان پر اعتبار نہیں کرسکتا تھا، لیکن وہ جو بات سنا رہے تھے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ،انہوں نے بتایا کہ بجے رائے اور راجہ کاکا کو انہوں نے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتے ان دونوں حاکموں کے ساتھ ان کی جو باتیں ہوئیں تھیں وہ انہوں نے شعبان ثقفی کو سنائیں۔
پھر ایسے ہوا ۔۔۔ان میں سے ایک نے کہا ۔۔۔کہ ہم نے بجے رائے سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا خطرناک کام بتائیں جس میں جان چلی جانے کا خطرہ ہو ،ہم وہ کام کر دکھائیں گے، لیکن جاسوسی نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ ہم میدان جنگ میں لڑنے والے آدمی ہیں وہ تو ہمیں قتل کر دینے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن انہوں نے آپ کے پڑاؤ پر شب خون مارنے کی باتیں شروع کر دیں ،یہ مشورہ انہیں ہم نے ہی دیا تھا کہ محمد بن قاسم کو کسی اور طریقے سے شکست دینے کی کوشش کریں، یہ طریقہ رات کا حملہ ہی ہو سکتا تھا ہم نے انھیں بتایا کہ یہ کام ہم کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کے لشکر کو دیکھتے رہے اور جہاں وہ آخری پڑاو کریں وہاں رات کو ہم اپنی فوج کو لے جائیں اور سوئے ہوئے مسلمانوں کو کاٹ دیں۔
ان دونوں جاسوسوں نے شعبان ثقفی کو تمام اسکیم بتائی جو انہوں نے شب خون کے لئے بنائی تھی ،ان دونوں جاسوسوں کو یہ کام دیا گیا تھا کہ وہ کسی اور بھینس میں سیسم کی طرف آنے والے راستے پر چلے جائیں اور مسلمان جہاں پڑاؤ کریں وہ دیکھ کر واپس آ جائیں۔
ہم آپ کے سالار کی عقلمندی کی بہت ہی تعریف کرتے ہیں ۔۔۔ایک جاسوس نے کہا ۔۔۔آپ کا سالار فوج کو اس علاقے میں سے گزار کر لایا جس میں سے کوئی عام راستہ نہیں گزرتا، وہ علاقہ گزرنے کے قابل ہی نہیں لیکن آپ کا لشکر ادھر سے گذرا اور پڑاؤ ایسی جگہ کیا جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں اتنی بڑی فوج پڑاؤ کر سکتی ہے، یہ تو اتفاق کی بات تھی کہ ہم دونوں نے آپ کے لشکر کو دیکھ لیا تھا، ہم نے واپس آکر بجے رائے کو بتایا کہ محمد بن قاسم نے کہاں پڑاؤ کیا ہے، ہم نے ان سے درخواست کی کہ شب خون مارنے والوں میں ہمیں شامل کر لیا جائے اور ہم چھاپہ ماروں کی رہنمائی بھی کریں گے۔
مختصر یہ کہ انہیں چھاپہ ماروں کے گائیڈ بنا دیا گیا اور وہ مقررہ رات ان کے ساتھ گئے۔
کیا ہم انہیں سیدھے آپ کے پڑاؤ تک نہیں لا سکتے تھے؟،،،، ایک جاسوس نے کہا۔۔۔ لا سکتے تھے لیکن ہم آپ کو پہلے بتا چکے ہیں کہ ہم آپ کے کردار سے اور آپ کی عبادت سے کتنے متاثر ہوئے تھے اور پھر آپ کے سالار نے ہمیں زندہ سلامت سیوستان کے قلعے سے نکال دیا تھا، ہم دونوں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ اس احسان کا بدلہ دیں گے، وہ ہم نے یوں دیا کہ چھاپہ ماروں کو آپ کے پڑاؤ سے بہت دور گھماتے پھراتے رہے اور ظاہر یہ کیا کہ ہم راستے سے بھٹک گئے ہیں، اس طرح گھومتے پھرتے رات گزار دی چھاپہ ماروں کو میں نے واپسی کا راستہ دکھا دیا تھا، ہم دونوں سحر کی تاریکی میں ادھر ادھر ہو گئے ہمیں کوئی بھی نہ دیکھ سکا کے ہم چھاپہ ماروں کے اس لشکر سے نکل گئے ہیں، جب چھاپہ مار دور نکل گئے تو ہم نے آپ کے پڑاؤ کا رخ کر لیا اور آپ کے پاس پہنچ گئے ،آپ حاکم ہیں آپ چاہیں تو ہمیں مروا دیں لیکن ہم اسلام کو قول کرنے آئے ہیں۔
کیا تمہیں اپنے مذہب سے اتنی زیادہ نفرت ہو گئی ہے؟،،،،، شعبان صفی نے پوچھا۔
پہلے نہیں تھی۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ ایک تو آپ کی عبادت نے ہمارے دل ہمارے مذہب سے پھیرے ہیں ،اور اب اپنے مذہب سے نفرت اس لیے ہوئی ہے کہ اہنے شب خون کی کامیابی کے لئے سیسم کے مندر میں ایک نوجوان کنواری لڑکی کی جان کی قربانی دی گئی ہے، اور اس کا سر کاٹ کر جھیل میں پھینک دیا گیا تھا،،،،،،اس نے شعبان ثقفی سے پوچھا؟،،،، کیا آپ بھی انسانی قربانی دیا کرتے ہیں۔
ہاں !،،،،،شعبان ثقفی نے جواب دیا۔۔۔ ہم انسانی قربانیاں دے کر ہی یہاں تک پہنچے ہیں، لیکن ہم کمسن اور کنواری لڑکیوں کی قربانی نہیں دیا کرتے، بلکہ انھیں کی جان اور انہیں کی عزت پر اپنی گردنیں کٹوا دیا کرتے ہیں، یہ کنواریاں ہمارے مذہب کی ہو یا کسی اور مذہب کی۔
ظلم و ستم دیکھیں ۔۔۔ایک جاسوس نے کہا۔۔۔ جس لڑکی کی گردن کاٹی گئی تھی اس کے خون کے چھیٹے اس راستے پر ڈالے گئے تھے جس راستے پر چھاپہ ماروں نے روانہ ہونا تھا،،،،،،، ہم نے سنا تھا کہ ہمارے مذہب میں انسانی جان کی قربانی دی جاتی ہے لیکن ایسی قربانی پہلی بار دیکھی ہے، اور ہم دونوں نے اس لڑکی کی ماں کو باپ کو اور اس کے دو چھوٹے بھائیوں کو آہ وزاری اور فریاد کرتے بھی دیکھا ہے ،،،،،،،آپ کے مذہب میں ایسا نہیں ہوتا؟
نہیں !،،،،،شعبان ثقفی نے جواب دیا۔۔۔ ہم صحیح راستے سے گزرتے ہیں اور غلط راستے پر چلنے والا کوئی دشمن جنگی طاقت کے گھمنڈ میں ہمارے راستے میں رکاوٹ بن جائے تو ہم اپنے راستے پر اس باطل پرست دشمن کے خون کا چھڑکاؤ کرتے جاتے ہیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
شعبان ثقفی ان دونوں ہندوؤں کو محمد بن قاسم کے پاس لے گیا اور اسے بتایا کہ گزشتہ رات ہم پر کیا قیامت آرہی تھی اور ان دونوں نے کس طرح ٹالی ہے۔
یہ خدائے ذوالجلال کا فضل و کرم ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میرے چچا حجاج نے یہ جو بار بار ہمیں ہدایت دی ہے کہ ہر وقت اللہ کی مدد کے طلبگار رہو اور رات کو تلاوت اور عبادت کرو ،وہ ویسے ہی نہیں دی تھی، جہاں اس قدر زیادہ ذکر الہی ہو رہا ہو وہاں انسانی جانوں کی قربانی دینے والے آ کر اندھے ہو جاتے ہیں۔
اس نے ان دونوں سے پوچھا۔۔۔۔ سیسم کا راجہ کا کا کیا ارادہ رکھتا ہے؟
وہ لڑنے والا آدمی نہیں ۔۔۔جاسوس نے جواب دیا۔۔۔ وہ تو بجے رائے کی باتوں میں آ گیا تھا اگر آپ ہمارا مشورہ مایں تو کاکا کی طرف اپنا ایلچی بھیجیں اور صلح کی بات کریں، لیکن بجے رائے نہیں مانے گا ۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ نہ مانے تو کیا ہوگا۔ ایک جاسوس نے کہا ۔۔۔اس کے پاس کوئی فوج نہیں وہ تو اس قلعے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
یہ تو جنگی امور تھے جن کے متعلق محمد بن قاسم نے ان دو آدمیوں کے ساتھ بحث مباحثہ یا تبادلہ خیالات نہیں کرنا تھا ،اس نے شعبان ثقفی سے کہا کہ ان دونوں آدمیوں کو نہایت عزت اور احترام سے رکھا جائے اور انہیں اچھی قسم کا لباس پہنایا جائے ۔
اس سے زیادہ ہماری اور عزت افزائی کیا ہوسکتی ہے کہ آپ ہمیں اپنے مذہب میں داخل کرلیں۔۔۔۔ ایک جاسوس نے کہا ۔۔۔اور اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کی فوج میں مسلمان کی حیثیت سے شامل ہو جائیں۔
دونوں نے محمد بن قاسم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور شعبان ثقفی سے کہا کہ ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے، انہیں فوری طور پر فوج میں شامل نہ کیا۔
اللہ کا فضل و کرم شامل حال تھا محمد بن قاسم کو معلوم نہیں تھا کہ سیسم میں کیا ہو رہا ہے، اس نے اپنی فوج کو پیش قدمی کا حکم دیا یہ حکم تو رات کو ہی دے دیا گیا تھا کہ صبح کو سیسم محاصرے میں لینے کے لیے پیش قدمی ہوگی ،اس حکم کے مطابق تمام فوج تیار تھی۔
چاچ نامہ میں متعدد غیر ملکی مورخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے نباۃ بن حنظلہ کو جو خصوصی عقل و دانش کا مالک تھا ایلچی کے طور پر فوج کے کوچ سے پہلے چار محافظوں کے ساتھ سیسم کو اس ہدایت کے ساتھ روانہ کردیا کہ وہ سیسم کے راجہ کاکا سے کہے کہ وہ خونریزی کے بغیر ہماری اطاعت قبول کرلے ،اس صورت میں اس کی حیثیت برقرار رہے گی اور اس کی نہ صرف جان ومال کی بلکہ تمام علاقے کے تحفظ اور دیگر مسائل کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہوگی۔
نباۃ بن حنظلہ محمد بن قاسم سے اطاعت اور دوستی کے متعلق مزید ہدایت لے کر تیزرفتاری سے روانہ ہو گیا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
ادھر تاریخی حوالوں کے مطابق سیسم کے قلعے میں یہ صورتحال پیدا ہو چکی تھی کہ بجے رائے اور کاکا میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔
شب خون کی ناکامی کو میں بہت برا شگون سمجھ رہا ہوں۔۔۔ کاکا نے بجے رائے سے کہا۔۔۔ یہ ایک بڑا صاف اشارہ ہے کہ ہم نے محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ بہت برا ہوگا۔
بزدل نہ بنوں کا کا!،،،،،،، بجے رائے نے کہا۔۔ ابھی محاصرہ ہوا ہی کہاں ہے، میں راجہ داہر کی طرف پیغام بھیج کر فوج منگوا لوں گا، تمہارے پاس بھی فوج ہے اور اٹھارہ سو جنگجو تو یہی ہیں جنہیں ہم نے شب خون مارنے کے لیے بھیجا تھا، ہم انہیں پہلے ہی باہر بھیج دیں گے جب مسلمان فوج ہمارے قلعے کا محاصرہ کرے گی تو یہ منتخب جنگجو عقب سے محاصرے پر حملہ کر دیں گے۔
بجے رائے!،،،،،، کا کا نے کہا ۔۔۔۔تم میں یہی ایک وصف ہے کہ تم راجہ داہر کے بھتیجے ہو، سیوستان میں تمہارے پاس فوج کی کمی نہیں تھی اگر تم میں ایسی ہی جنگی اہلیت ہوتی تو وہاں سے بھاگ نہ آتے ، میں جو کہہ رہا ہوں وہ سمجھنے کی کوشش کرو میں مذہب کا بدس ہوں، بدھ مت اس طرح کسی انسان کی جان کی قربانی کی اجازت نہیں دیتا، لیکن تم نے میرے سامنے ایک معصوم لڑکی کا سر تن سے جدا کر دیا اور اس کا سر جھیل میں ڈال دیا اس سے تمہیں کیا حاصل ہوا،،،،،، ناکامی اور مایوسی،،،،،، اب اس معصوم لڑکی کی روح کا قہر ہم پر نازل ہو گا ،اس سے پہلے کہ تمہارے گناہ کا قہر میری قوم پر نازل ہو میں اس گناہ کا کفارہ ادا کروں گا ،اس کی ایک ہی صورت ہے کہ میں اپنے علاقے میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لوگوں کا خون نہ بہنے دوں۔
تو کیا تم مجھے مسلمانوں کے حوالے کرنا چاہتے ہو؟،،،،، بجے رائے نے پوچھا۔
ہونا تو یہ چاہئیے تھا ۔۔۔کاکا نے کہا ۔۔۔جس طشتری میں تم نے ایک معصوم لڑکی کا سر کٹوا کر رکھا تھا اور جس پر تم محمد بن قاسم کا سر رکھنا چاہتے تھے اس طشتری پر تمہارا سر رکھا جائے ،لیکن میں تمہارے ساتھ بے وفائی نہیں کروں گا، تم یہاں سے نکل جاؤ۔
بجے رائے نے دیکھا کہ اپنے ساتھ فوج نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجبور اور بے بس ہے اور کاکا مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے، تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ قلعے سے نکل گیا ۔
کاکا اسے رخصت کر کے قلعے کے دیوار پر چڑھ گیا اور اس طرف دیکھنے لگا جس طرف سے محمد بن قاسم کی فوج کی آمد کی توقع تھی، اسے دور دورتک گرد اڑتی نظر نہ آئی وہ و دیوار پر ٹہلتا رہا۔
کچھ دیر بعد اسے دور سے پانچ گھوڑسوار آتے نظر آئے وہ دیوار پر کھڑا دیکھتا رہا وہ قلعے کے صدر دروازے کے اوپر کھڑا تھا۔ سوار قریب آئے تو اسے ان کے لباس اجنبی سے لگے، اسے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ عرب سوار ہیں، سوار دروازے کے سامنے آ کر رک گئے۔
پیشتر اس کے کہ دروازے کے پہرے داروں کا کماندار باہر نکل کر ان سے پوچھتا کہ وہ کیوں آئے ہیں ،اوپر سے کاکا نے ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟،،،، اور کیوں آئے ہیں۔ نباۃ بن حنظلہ کے ایک محافظ نے جو اس خطے کی زبان بھی سمجھتا اور بولتا تھا بتایا کہ اس سے کیا پوچھا گیا ہے۔
میں عرب کی فوج کے سپہ سالار محمد بن قاسم کا ایلچی ہوں۔۔۔ نباۃ بن حنظلہ نے کہا۔ تمہارا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟،،، کاکا نے پوچھا۔
دوستی کا پیغام لایا ہوں۔۔۔ نباۃ نے کہا ۔۔۔یہ آپ کو بھی پسند نہ ہو گا کہ انسانوں کا خون انسانوں کے ہاتھوں بہ جائے، ایک معصوم لڑکی کی گردن کاٹ کر آپ نے کیا حاصل کرلیا ہے۔
کا کا تو پہلے ہی دوستی کے لئے تیار تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ محمد بن قاسم تک کس طرح پہنچے ،اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ محمد بن قاسم دوستی قبول کرے گا یا نہیں ،اگر کرے گا تو اس کی شرائط قابل قبول ہوگی یا نہیں، وہ دوڑتا ہوا نیچے آیا اور قلعے کا دروازہ کھلوا کر باہر گیا اس نے نباۃ بن حنظلہ کا استقبال خندہ پیشانی سے کیا۔
اگر میں آپ کی فوج کے لیے شہر کے دروازے کھول دو تو آپ کا رویہ کیا ہو گا ؟۔۔۔ کاکا نے پوچھا۔۔۔ آپ کی شرائط کیا ہوگی؟ نباۃ نے اسے وہ شرائط بتائیں جو محمد بن قاسم نے اسے بتائی تھی۔
کاکا نے حیرت زدہ ہو کر ان شرائط کو قبول کرلیا اسے جیسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی طاقتور حملہ آور اس قسم کی شرائط پیش کرسکتا ہے۔
کیا آپ ہمارے سالار سے ملنے کے لیے میرے ساتھ چلنا پسند کریں گے ؟،،،،،نباۃ نے پوچھا۔۔۔ میں نے ایک اور شرط ابھی نہیں بتائی، آپ کو بجے رائے اپنے تمام خاندان سمیت ہمارے حوالے کرنا ہو گا۔
آپ دیر سے پہنچے ہیں۔۔۔ کاکا نے کہا۔۔۔ وہ مجھے آپ کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کررہا تھا لیکن میں اس کی بات نہیں مان رہا تھا ،اس نے جب میرا یہ فیصلہ دیکھا تو وہ آپ کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کے لئے اپنے خاندان کے بچے بچے کو ساتھ لے کر بہت دیر ہوئی نکل گیا ہے ،،،،،،،،،،،میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ کاکا بیش قیمت تحائف لے کر جو اونٹوں پر لدے ہوئے تھے نباۃ بن حنظہ کے ساتھ محمد بن قاسم سے ملنے جا رہا تھا۔
محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ ادھر ہی آ رہا تھا ان کی ملاقات راستے میں ہوئی کاکا نے محمد بن قاسم کو اطاعت اور ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا، اور محمد بن قاسم نے اسے یقین دلایا کہ وہ اس کی اور اس کے خاندان کی ہی نہیں بلکہ اس کے عوام کے جان و مال کی بھی حفاظت کا ذمہ دار ہوگا،
محمد بن قاسم کا کا کے ساتھ سیسم کے قلعے میں داخل ہوا۔
تحفۃ الکرام " میں مذکور ہے کہ محمد بن قاسم نے کاکا سے پوچھا کہ اس ملک میں جس کی بہت زیادہ عزت افزائی کی جاتی ہے اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
اس خطے میں کرسی کو بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔۔۔ کاکا نے کہا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ایک ریشمی کپڑا دیا جاتا ہے، جو وہ شخص اپنے سر پر لپیٹ لیتا ہے۔
محمد بن قاسم نے باقاعدہ ایک تقریب میں کاکا کو اپنے برابر ایک کرسی پر بٹھایا اور بیش قیمت ریشمی کپڑے لے کر اس کے سر پر لپیٹ دیا، وہاں کے لوگوں پر اس تقریب کا اتنا اچھا اثر پڑا کہ وہ دلی طور پر مسلمانوں کو پسند کرنے لگے۔
یہاں مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
دونے نے لکھا ہے کہ کاکا بجے رائے کو قلعے میں چھوڑ کر محمد بن قاسم سے ملنے کے لئے چلا گیا تھا، اور نباۃ بن حنظلہ اسے راستے میں ملا تھا جو اسے محمد بن قاسم کے پاس لے گیا تھا، اور اس نے اطاعت قبول کر لی تھی، اور محمد بن قاسم جب سیسم گیا تو شہر کے دروازے بند تھے، اور بجے رائے مقابلے کے لیے تیار تھا، دو دن لڑائی ہوتی رہی ،آخر بجے رائے مارا گیا اور قلعہ فتح ہوگیا۔
ایک اور روایت بہت حد تک قابل یقین معلوم ہوتی ہے کہ کاکا نے محمد بن قاسم کی اطاعت بغیر لڑے قبول کر لی تھی لیکن اردگرد کے علاقے میں جو علاقہ بدھیہ کہلاتا تھا بغاوت بھڑک اٹھی تھی، اس بغاوت کے پیچھے بجے رائے کا ہاتھ تھا یہ علاقہ کاکا کے زیر نگیں تھا ،اس میں اپنے آدمیوں کو بھیج کر باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن باغی تعداد میں بھی اور تخریبی سرگرمیوں میں بھی بڑھتے گئے کاکا نے آخر محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ باغیوں کی سرکوبی کا جو طریقہ بہتر سمجھتا ہے وہ طریقہ اختیار کرے۔
محمد بن قاسم نے اپنے ایک نائب سالار عبدالملک بن قیس کو فوج کی کچھ نفری دے کر حکم دیا کہ وہ باغیوں کی بستیوں پر حملے کرے قتل کرے آگ لگائے اور جو کاروائی بہتر سمجھتا ہے کرے۔
باغی گروہ فوج کی بیرونی چوکیوں پر حملے کرتے اور لوگوں کے گھروں کو لوٹتے تھے۔ عبدالملک بن قیس نے باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے شروع کیے بعض مقامات پر باقاعدہ لڑائیاں لڑی گئیں اور ایسی ہی ایک لڑائی میں جب باغی اپنی بہت سی لاشیں چھوڑ کر بھاگے تو ان کے جو آدمی قیدی بنے تھے انہوں نے بتایا کہ ان لاشوں میں بجے رائے اور اس کے دو تین سرداروں کی لاشیں بھی ہونگی، لاشوں میں دیکھا گی
*قسط نمبر/19*
اس وقت جب محمد بن قاسم نرون میں واپس آگیا تھا۔ دو آدمی ایسے تھے جو راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے دونوں اس آواز کے منتظر رہتے تھے ۔۔۔۔محاذ سے قاصد آیا ہے۔۔۔ اور کبھی تو دونوں کی بے تابی ایسی ناقابل برداشت ہوجاتی تھی کہ وہ اپنے اپنے قلعے کی دیوار پر جا کھڑے ہوتے اور محاذ کی طرف سے آنے والے راستے پر نظریں جما لیتے تھے، ایک ہیجانی کیفیت تھی جو دونوں پر طاری رہتی تھی، ایک راجہ داہر تھا جو اپنی راجدھانی اروڑ میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ دوسرا حجاج بن یوسف تھا جو بصرہ میں سندھ سے آنے والے قاصد کے انتظار میں بے چین رہتا تھا۔
راجہ داہر کے راج کو مسلمان روندتے چلے جارہے تھے اور سندھ کی ریت سے مسجدوں کے مینار ابھرتے آرہے تھے، راجہ داہر اپنی زمین پر ہندومت کے سوا کسی اور مذہب، کسی اور عقیدے کا وجود برداشت نہیں کرتا تھا ۔اس نے کئی بستیوں میں بدھوں کی عبادت گاہیں بند کرادی تھیں، وہ صرف ان علاقوں میں بدھوں کے ہاتھوں پر مجبور تھا جہاں ان کی اکثریت تھی اور جہاں کے حاکم بدھ تھے، مگر اب ایک ایسا مذہب اس کے ملک میں داخل ہو گیا تھا جو اس کی رعایا کے دلوں میں داخل ہوتا چلا جا رہا تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ راجہ داہر نے اپنی نوجوانی میں ہی محسوس کر لیا تھا کہ ایک نہ ایک روز اس کا سامنا اسلام سے ضرور ہوگا، اور وہ یوں ہوا کہ عرب کے مسلمان مکران کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گئے، یہ اس وقت کی بات ہے جب محمد بن قاسم ابھی پیدا نہیں ہوا تھا ۔اس نے باغی علافیوں کو اسی لئے اپنے ملک میں پناہ دی تھی کہ انھیں وہ عرب کی خلافت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کرے گا، اس نے عربوں کے تجارتی جہاز اس امید پر لٹوائی اور ان کے مسافروں کو قید کر لیا تھا کہ سراندیپ کو آنے جانے والے عرب اس سے ڈر جائیں گے اور سندھ کبھی آنے کی جرات نہیں کریں گے۔
داہر کو یہ کاروائی بہت مہنگی پڑی تھی، اس کارروائی سے پہلے اس میں اور اس کے دانشمند وزیر نے بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس قوم کی غیرت کو للکار رہے ہیں، داہر کے دماغ پر صرف یہ خبط سوار ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کو سندھ میں داخل نہیں ہونے دے گا، اس کے ذہن سے یہ حقیقت بھی نکل گئی تھی کہ اس وقت کی دو بہت بڑی جنگی قوتیں ۔۔۔۔رومی اور فارسی۔۔۔۔ مسلمانوں کے ہاتھوں سے پٹ چکی ہے اور ان کے صرف نام باقی رہ گئے ہیں۔
اب راجہ داہر اروڑ میں بیٹھا صرف شکست کے پیغام سن رہا تھا ۔
ہمیں شمنی دھوکہ دے گئے ہیں۔۔۔راجہ داہر یہی رٹ لگا رہا تھا۔
مہاراج !،،،،،اس کی بہن مائیں رانی نے جو اس کی بیوی بھی تھی کہا۔۔۔ دیبل کا قلعہ دار تو شمنی نہیں تھا ،بجے رائے تو ہمارا اپنا بھتیجا تھا، ایسا نہ سوچیں اس طوفان کو روکیں، فوج اکٹھی کریں، اب میدان میں نکلنے کا وقت آگیا ہے۔
کیا تم دیکھ نہیں رہی ہوں کہ ہم کتنی فوج اکٹھی کر چکے ہیں ۔۔۔داہر نے کہا۔۔۔ تم طوفان کسے کہہ رہی ہو؟ ،،،،محمد بن قاسم کی شکست میرے ہاتھوں لکھی ہے، کیا وہ ہمارے ہاتھیوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔
مہاراج کی جے ہو ،،،،،،،داہر کے وزیر بدہیمن نے کہا ۔۔۔آپ کی دہشت سے آپ کے دشمن کانپتے ہیں لیکن آپ کا یہ غلام وزیر یہ کہنے کی جرات ضرور کرے گا کہ جس فوج کے سالار اتنی حسین اور دلکش لڑکیوں کو دھتکار دیتے ہیں وہ ہاتھیوں کا بھی مقابلہ کر سکتے ہیں، مسلمان شراب بھی نہیں پیتے۔
لیکن میں انہیں اروڑ تک نہیں پہنچنے دوں گا۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ابھی وہ ہمارے راجکمار جے سینا کے مقابلے میں نہیں آئے، میں عرب کی اس فوج کو ختم کر کے بدھوں کو غداری کی سزا دوں گا، سندھ میں ایک بھی بدھ زندہ نہیں رہے گا، وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا کچھ دیر سوچ کر بولا،،،، کیا مجھے یہ بتانے والا کوئی بھی نہیں کہ عربی فوج اب کس طرف پیش قدمی کرے گی؟
یہ راز لینا بہت مشکل ہے۔۔۔ بدہیمن نے کہا۔۔۔ سیسم سے محمد بن قاسم اپنی فوج نیرون لے گیا ہے، ہمارا خیال تھا کہ وہ آگے آئے گا لیکن وہ نیرون واپس چلا گیا ہے۔
راز عورت لے سکتی ہے۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ یا پھر شراب ہے جو پتھر کے اندر چھپا ہوا راز بھی نکال سکتی ہے۔
مسلمان ان دونوں چیزوں سے دور رہتے ہیں، میں نے جو لڑکیاں بھیجی تھی ان کا حسن زہریلے ناگ کا زہر مار دیتا ہے ،مگر اس نوجوان سالار پر کچھ اثر نہیں ہوا۔
آئندہ کوئی لڑکی وہاں نہ بھیجی جائے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ رانی تم اب اروڑ کی عورتوں کو عربی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کرو، انہیں بتاؤ کے بھاگنے یا اپنے آپ کو دشمن کی فوج کے حوالے کرنے یا اپنے مردوں کے پیچھے چھپنے کی بجائے مردوں کے دوش بدوش لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، انہیں بتاؤ کہ دشمن کس قسم کا ہے، اور اگر تم بزدل بنی رہی تو تم مسلمان کے بچے جنوں گی ،ان کے خون کو گرماؤ رانی!،،،،، انہیں کہو کہ جب تک سانس چلتی رہے لڑنا ہے، ان کی غیرت کو بھڑکاؤ۔
میں عورتوں کی ایک فوج تیار کر سکتی ہوں مہاراج!،،،،، مائیں رانی نے کہا۔
اورتم بدہیمن!،،،،، راجہ داہر نے اپنے وزیر سے کہا۔۔۔ بِیٹ کو کوئی عقل والا آدمی بھیجو جو دسایو کو بتائے کے مسلمانوں نے نیرون کے بعد سیوستان اور سیسم کے قلعے بھی لے لئے ہیں، اور وہاں کے اور ان کے اردگرد کے علاقوں کے لوگ جو ہماری رعایا تھے اب عرب کے مسلمانوں کی رعایا بن گئے ہیں ،اسے کہو کہ اپنے لوگوں کو فوج میں بھرتی کرو اور مسلمانوں کی فوج پر عقب سے حملہ کرنے کے لئے تیار رہو ،تم خود جانتے ہو کیا کہنا ہے، اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ دسایو ہمارا وفادار حاکم اور دوست ہے وہ پیٹھ نہیں دکھائے گا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷*
بِیٹ رن کَچھ کا ایک بڑا قلعہ تھا اس زمانے میں رن کچھ کشہا کہلاتا تھا ۔ یہ تمام علاقہ نشیبی تھا ،اس لئے اسے وادی کہتے ہیں، اس علاقے کا حاکم راجہ دسایو تھا، اسے راجہ داہر نے ہی حاکم بنایا تھا لیکن وہ خود مختار تھا اور راجہ داہر کا ایک بازو بنا ہوا تھا ،اس کے دو بیٹے تھے ایک کا نام راسل اور دوسرے کا نام موکو تھا، وہ راسل کا چھوٹا بھائی تھا اور جوان تھا دونوں بھائی تیغ زن، شہسوار اور میدان جنگ میں دشمن کے چھکے چھڑا دینے کی اہلیت اور جرات رکھتے تھے۔
موکو اپنے بڑے بھائی راسل سے مختلف فطرت کا آدمی تھا وہ اپنی رعایا سے محبت کرتا تھا، اس کی یہ عادت اسکے باپ اور بھائی کو پسند نہیں تھی وہ موکو کے دماغ میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے تھے کہ رعایا راجہ اور حاکم کی غلام اور محتاج ہوتے ہیں، اور یہ کہ رعایا کو روٹی دینے کی بجائے اس کے آگے روٹی پھینکنی چاہیے ،موکو کو یہ باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔
موکو کی شادی کی باتیں ہونے لگی اس کی ہونے والی دلہن حاکموں کے خاندان سے تھی، لیکن موکو نے شادی کا وعدہ کسی اور سے کر رکھا تھا ،وہ لڑکی اس کی رعایا میں سے تھی اور وہ فوج کے معمولی سے عہدے دار کی بیٹی تھی، موکو سے وہ ملتی ملاتی رہتی تھی، موکو نے اپنے باپ کو بتایا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا، تو باپ پریشان ہو گیا اس نے موکو کو پیار سے سمجھایا پھر دھمکیاں دیں کہ اسے راج کی جانشینی سے محروم کر دیا جائے گا۔
مجھے اس لڑکی کے ساتھ جنگل میں اور جھوپڑے میں رہنا پڑا تو رہوں گا۔۔۔ موکو نے باپ سے کہا۔۔۔ مجھے راج سے نہیں اس لڑکی سے محبت ہے۔
دسایو نے لڑکی کے باپ سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو راجکمار سے ملنے سے روکے ورنہ اسے فوج کی عہدیداری سے محروم کر دیا جائے گا۔
لڑکی کے باپ نے جب لڑکی کو بتایا کہ راجہ نے اسے کیا حکم دیا ہے، تو لڑکی نے باپ سے کہا کہ موکو اس کی خاطر راج کی جانشینی چھوڑ رہا ہے تو وہ اس سے ملنے سے کبھی باز نہیں آئے گی، موکو اسے جب بلائے گا اور جہاں بلائے گا وہ وہاں پہنچے گی، باپ کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے اسی وقت بیٹی کا گلا دبا کر اسے مار ڈالا اور دسایو کے دربار میں جا پہنچا۔
مہاراج نے حکم دیا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو راجکمار موکو سے ملنے سے روکوں۔۔۔ اس نے اعلان کیا۔۔۔ میں حکم بجا لایا ہوں مہاراج،،،، اپنی بیٹی کا گلا گھونٹ کر مہاراج کی لاج رکھ لی ہے۔
شاباش دسایو نے کہا ۔۔۔بول اپنی بیٹی کے خون کی کیا قیمت چاہتا ہے۔
وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا قیمت یا انعام مانگے کہ اچانک موکو دربار میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں برچھی تھی اس کی طرف لڑکی کے باپ کی پیٹھ تھی۔
ادھر دیکھ۔۔۔ موکو نے للکار کر کہا۔۔۔ میں تجھے تیرے بیٹی کے خون کی قیمت دیتا ہوں، لڑکی کے باپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا موکو نے پوری طاقت سے اسے برچھی ماری برچھی کی انی اس کے دل میں اتر گئی، موکو نے برچھی کھینچی، اس کا شکار گر پڑا، دوسرا وار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کوئی درباری موکو کو پکڑنے کے لئے آگے نہ گیا، کیونکہ وہ دسایو کا بیٹا تھا۔
اسے پکڑ لو۔۔۔ دسایو نے حکم دیا ۔۔۔اسے کال کوٹھری میں بند کردو۔
موکو نے تلوار نکالی اب اس کے پاس دو ہتھیار تھے، اس نے درباریوں پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ دوڑائی۔
آگے آ ،،،،،اس نے سب کو للکارا ہمت کرو۔
اس کا بڑا بھائی راسل خالی ہاتھ اس کی طرف آیا۔
چلے جاؤ موکو!،،،،، راسل نے اسے کہا۔۔۔ یہاں سے چلے جاؤ۔
موکو دربار سے نکل گیا اس نے باپ سے کہہ دیا تھا کہ اسے کال کوٹھری میں بند کرنے کے لئے پکڑنے کی کوشش کی گئی تو اس کا نتیجہ بہت برا ہوگا ،موکو لوگوں میں ہر دل عزیز تھا ،دسایو اور راسل کو یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ موکو کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو لوگ اس کے ساتھ ہوکر بغاوت نہ کردیں، لڑنے والے جو جنگجو تھے وہ بھی موکو کو بہت پسند کرتے تھے۔
موکو نے اپنے باپ اور بڑے بھائی سے کہا کہ اسے الگ کر دیا جائے ورنہ وہ ان کے لئے مصیبت بن جائے گا ۔
دسایو اور راسل نے آپس میں صلح مشورہ کرکے یہی بہتر سمجھا کے کَچھ علاقہ موکو کو دے کر اسے الگ کردیا جائے، چنانچہ اسے سورتھ کا علاقہ دے دیا گیا یہ علاقہ رن کَچھ کا ہی حصہ تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
تاریخوں میں یہ واقعہ تفصیل سے نہیں لکھا گیا کہ موکو کے دل میں محمد بن قاسم کی محبت کس طرح پیدا ہوئی تھی، تاریخ معصومی میں کچھ واضح اشارے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ موکو شکار کا شوقین تھا اور شکار کے لئے بہت دور نکل جایا کرتا تھا، شکار کے دوران اس کی ملاقات ان عربوں میں سے کسی کے ساتھ ہو گئی تھی جنہیں راجہ داہر نے اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی، ان سے اسے مسلمانوں کے رسم و رواج اور اسلامی تعلیمات کا پتہ چلا تھا ،کیونکہ وہ خود راجہ اور رعایا کے فرق کو تسلیم نہیں کرتا تھا اس لئے اسے اسلام کا یہ اصول بہت پسند آیا تھا کہ کوئی انسان دوسرے سے برتر نہیں۔
اس کے بعد اسے پتہ چلا کہ مسلمان جس شہر اور جس علاقے کو فتح کرتے ہیں اس کے لوگوں کو اپنا غلام نہیں بناتے بلکہ انہیں وہ پورے حقوق دیتے ہیں جو آزاد اور باعزت شہریوں کو ملنے چاہیے ۔
مورخ متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ موکو نے کھلم کھلا مسلمانوں کے حق میں باتیں کرنی شروع کردی تھیں۔
اس کی یہ باتیں جب بھی دسایو اور راسل کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف کرنے کی کوشش شروع کر دی اور اسے احساس دلانے لگے کہ وہ ایک ملک کا راجکمار ہے اور مسلمان اس کے ملک کے اور اس کے مذہب کے دشمن ہیں ۔
لیکن موکو نے اپنے باپ اور بڑے بھائی کی کسی بات کو تسلیم نہ کیا، اس کے دل میں اترا ہوا یہ کانٹا نہیں نکل سکتا تھا کہ جس لڑکی کو وہ چاہتا تھا اسے اس کے باپ نے قتل کروا دیا تھا، لڑکی کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ رعایا میں سے تھی۔
محمد بن قاسم کے ساتھ اب مقامی آدمی بہت ہو گئے تھے یہ سب اس کے جاسوس بن گئے تھے ،وہ شعبان ثقفی کے ماتحت کام کرتے تھے، اور شعبان ثقفی نے انہیں ٹریننگ دے کر جاسوس اور مخبر بنا لیا تھا، عرب کے جاسوس بھی تھے لیکن وہ چہرے اور قد کاٹھ سے پہچانے جاتے تھے، صرف ان عربوں کو سندھ میں جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا تھا جن کا رنگ سیاہ تھا۔
یہ زیادہ تر بدو تھے، جو پیدائش سے موت تک زندگی آسمان تلے گزارتے تھے، انہیں سندھ کی زبان سکھاں دی گئی تھی پھر بھی ان کے پکڑے جانے کا خطرہ موجود رہتا تھا، اب جبکہ مسلمانوں نے سندھ کے اتنے زیادہ علاقے فتح کرلئے تھے اور مفتوحہ لوگوں کے دل موہ لئے تھے، کئی مقامی آدمی محمد بن قاسم کے باقاعدہ جاسوس بن گئے تھے۔
محمد بن قاسم نے ان جاسوسوں کو دور دور تک پھیلا دیا تھا ان میں سے دو جاسوس رن کَچھ کے علاقے میں بھی گئے ہوئے تھے، ان میں سے ایک واپس نیرون آیا اور شعبان ثقفی کو موکو کے متعلق بتایا کہ وہ مسلمانوں کی طرف مائل ہے، اس نے یہ تمام واقعہ سنایا جو اوپر بیان کر دیا گیا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ موکو کی طرف اگر ایلچی بھیجا جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دوستی کا معاہدہ کر لے گا، بلکہ وہ اطاعت بھی قبول کر لے گا۔
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو یہ ساری بات سنائی اور کہا کہ وہ خود موکو کے پاس جائے گا۔
محمد بن قاسم نے اسے اجازت دے دی اور اس کے ساتھ جو محافظ بھیجے وہ تاجروں کے بھیس میں تھے۔
شعبان ثقفی جنوبی ہندوستان کا تاجر بن کر گیا تھا ،محمد بن قاسم کے پاس بہت قیمتی اشیاء تھیں جو اسے دیبل، نیرون ،سیوستان ،اور سیسم سے حاصل ہوئی تھیں، شعبان ثقفی ان میں سے کچھ بیش قیمت اشیا اپنے ساتھ لے گیا دوسری اشیاء جو اونٹوں پر لادکر لی جائیں گئیں ان میں زیادہ تر اناج اور ایسی ہی خوردونوش کی چیزیں تھیں۔
یہ قافلہ دو تین دنوں کی مسافت طے کرکے سورتھ پہنچا ،وہاں کے لوگ جن میں زیادہ تر تاجر اور دکاندار تھے اکٹھے ہوگئے۔
شعبان ثقفی نے بیش قیمت چیزیں جو محلات میں رہنے والوں کے ہی کام آسکتی تھیں لے کر موکو کے یہاں چلا گیا ،اس نے موکو کو اطلاع بھیجوائی کے جنوبی ہند کا ایک تاجر کچھ قیمتی چیزیں لایا ہے۔
اسے موکو نے اندر بلایا شعبان ثقفی نے اپنا قیمتی مال موکو کے آگے رکھ دیا ،موکو نے کچھ چیزیں پسند کی اور ان کی قیمتیں پوچھی۔
میرا خیال ہے مہاراج نے قیمت ادا کرچکی ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔
کیا کہہ رہے ہو تم۔۔۔ موکو نے پوچھا ،میں تمہیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
میں نے یہاں آ کر سنا ہے کہ آپ مسلمانوں کے معترف اور خیر خواہ ہیں، اور آپ اپنی رعایا کو اللہ کی مخلوق سمجھتے ہیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔آپ نے دیکھا نہیں میں مسلمان ہوں اور میں جنوبی ہند میں کاروبار کرتا ہوں، ہم مسلمان کسی کا احسان نہیں بھولا کرتے، مجھے آپ کی یہ بات بھی اچھی لگی ہے کہ آپ خدا کے بندوں میں اونچ نیچ کو نہیں مانتے، میں یہ چیزیں بیچنے کے لیے لایا ہوں لیکن ان میں سے آپ کو جو پسند ہے وہ میری طرف سے تحفے کے طور پر لے لیں۔
نہیں !،،،،،،موکو نے کہا۔۔۔ اگر میں نے مسلمانوں کے حق میں کوئی اچھی بات کہہ دی ہے تو میں اس کے عوض کسی مسلمان سے کوئی تحفہ قبول نہیں کروں گا، تم ایسا تو نہیں کر رہے کہ مجھے تحفہ دے کر خوش کرو گے اور میرے لوگوں کو اناج وغیرہ مہنگے داموں دوگے، میں اپنے لوگوں کے ساتھ یہ دھوکہ برداشت نہیں کروں گا۔
کیا آپ منڈی میں سے کسی کو بلا کر میرے اناج تیل اور دوسری اشیا کے بھاؤ نہیں پوچھیں گے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔مسلمان دھوکہ کھا لیا کرتے ہیں دھوکہ دیا نہیں کرتے۔
شعبان ثقفی نے اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے باتوں کا رخ موڑ دیا، یہی اس کا فن تھا جس میں اسے کمال حاصل تھا اس نے موکو کو اپنے اثر میں لے کر محمد بن قاسم کا ذکر چھیڑدیا۔
اگر آپ عرب کی فوج کا مقابلہ کریں گے تو آپ کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا ۔۔۔۔شعبان ثقفی نے آخر میں کہا۔۔۔ اگر آپ محمد بن قاسم کے ساتھ پہلے ہی دوستی کا معاہدہ کر لیں گے تو آپ اسی طرح یہاں کے حاکم رہیں گے جس طرح اب ہیں ۔ آپ کو مزید فائدہ یہ ملے گا کہ آپ کی اور آپ کی رعایا کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہوگی۔
مجھے یقین نہیں آتا ۔۔۔موکو نے کہا ۔۔۔کیا کوئی فاتح مفتوح لوگوں کے ساتھ ایسا اچھا سلوک کر سکتا ہے۔
دیبل سے معلوم کرا لیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔نیرون میں خود جاکر دیکھ لیں، کئی اور بستیاں مسلمانوں کے قبضہ میں آئی ہیں ،کیا آپ مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں؟
تم تاجر ہو ۔۔۔۔موکو نےکہا۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ایسی باتیں نہیں کرسکتا ،اگر میں مسلمانوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہوں گا تو تم میری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔
آپ اپنا ارادہ بتائیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ میں عرب فوج کے سالار محمد بن قاسم کے ساتھ بات کر سکتا ہوں۔
میں خود عرب کے سالار کے پاس نہیں جاؤں گا۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تمہارا سالار مجھے بزدل سمجھے گا، دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا باپ اور میرا بھائی اسی لیے میرے دشمن بنے ہوئے ہیں کہ میں مسلمانوں کو اچھا سمجھتا ہوں، وہ کہیں گے کہ میں نے لڑے بغیر مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ہے۔
میں آپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ آپ محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لیں گے تو آپ اس جگہ کے حاکم رہیں گے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔آپ پر صرف یہ شرط عائد کی جائے گی کہ محمد بن قاسم کو آپ کی مدد کی ضرورت ہو گی تو آپ اس کی مدد کریں گے۔
تم اپنی حیثیت سے بڑھ کر بات کر رہے ہو۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ اور تم مجھے ورغلا رہے ہو، ایک سالار کی طرف سے ایسی بات منہ سے نہ نکال جو سالار پوری نہ کرنا چاہے، تم اپنے دماغ کو تجارت تک ہی رکھو۔
میں اپنے سالار کی طرف سے بات کر رہا ہوں مہاراج !،،،،شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اسی نے مجھے بھیجا ہے میں تاجر نہیں ، نہ جنوبی ہند کے ساتھ میرا کوئی تعلق ہے ،میں محمد بن قاسم کا ایلچی ہوں، یہ چیزیں محمد بن قاسم کے تحائف ہیں جو اس نے آپ کے لئے بھیجے ہیں ۔
پھر تم اس بہروپ میں کیوں آئے ہو ؟،،،،موکو نے پوچھا۔
اس لیے کہ آپ میری ان باتوں سے ناراض بھی ہو سکتے تھے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ اگر میں ایلچی کے روپ میں آتا تو ہو سکتا تھا کہ آپ مجھے قید میں ڈال دیتے یا میری بےعزتی کر کے مجھے یہاں سے نکال دیتے، میں نے اپنا آپ اس وقت ظاہر کیا ہے جب یقین ہو گیا ہے کہ آپ دوستی کا معاہدہ کر لیں گے۔
اپنے سالار سے کہنا کہ میں اس کی دوستی قبول کرلونگا۔۔۔ موکو نے کہا ۔۔۔تم اسی بھیس میں یہاں سے چلے جاؤ ،تمہاری اصلیت کا کسی کو پتہ نہ چلے۔
شعبان ثقفی تحائف وہیں چھوڑ کر منڈی میں گیا اس کے آدمی جو تاجروں کے روپ میں اس کے ساتھ آئے تھے سامان بیچ چکے تھے، انہیں ساتھ لے کر وہ نیرون کو روانہ ہو گیا۔ اس کے آدمیوں نے لوگوں سے موکو اور اس کے باپ دسایو اور بھائی راسل کے حالات اور فوجی طاقت وغیرہ کے متعلق معلومات حاصل کر لی تھیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
شعبان ثقفی نے نیرون پہنچ کر محمد بن قاسم کو تفصیل سے بتایا کہ رن کَچھ کے سیاسی اور فوجی حالات کیا ہیں، اس رپورٹ میں دو اہم باتیں تھیں ایک یہ کہ موکو دوستی کے معاہدے پر آمادہ تھا اور دوسری بات یہ کہ راجہ داہر نے رن کَچھ کے حاکم دسایو کی مدد کے لئے ایک فوجی حاکم (جرنیل) جابین کو بھیج دیا تھا ،جابین دبیل کا حاکم تھا اور وہاں سے شکست کھا کر بھاگا تھا ،وہ خوش قسمت تھا کہ دبیل سے زندہ نکل آیا تھا ،داہر کو غالبا یہ پتہ چل گیا تھا کہ محمد بن قاسم کا رخ رن کَچھ کی طرف ہوگا۔
محمد بن قاسم نیرون کے قریبی مضافات میں ایک بلند ٹیکری پر خیمے میں ٹھہرا ہوا تھا آج اس ٹیکری کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی، اتنی صدیاں جو گزر گئی ہیں، ان کے موسموں کی تغیرات نے زمین کے خدوخال بدل ڈالے ہیں ،بلندیاں پستیوں سے جا ملی ہیں اور پستیوں کو اڑتی ریت نے بھر کر بلند کردیا ہے، اگر کچھ زندہ ہے تو وہ محمد بن قاسم کا نام ہے جس نے سندھ کی پستیوں کو بھی بڑا ہی بلند مرتبہ عطا کیا تھا۔
یہ ٹیکری سرسبز اور خوشنما تھی اس کے اردگرد سبزہ زار تھا سایہ دار درخت تھے ۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ محمد بن قاسم کو یہ جگہ اتنی اچھی لگی تھی کہ اس نے سندر شمنی کے محل میں رہنے کی بجائے اس ٹیکری پر رہنا پسند کیا، اس کے سامنے بڑا لمبا سفر تھا اس نے سارے ملک ہند میں اسلام پھیلانے کا عہد کر لیا تھا۔
اس کے مجاہدین کا جذبہ اس کے عہد کے عین مطابق تھا، مجاہدین جہاں شہید ہوتے تھے وہیں انہیں دفن کردیا جاتا تھا ،اور اس طرح سندھ شہیدوں کا خطہ بنتا جا رہا تھا، آج ان کی قبروں کے نشان بھی نہیں رہے، ان کے نام بھی نہیں رہے، وہ عرب کے ریگزار کے گمنام بیٹے تھے مگر سندھ کی ریت کے ذرے ذرے میں ان کے نام زندہ ہیں، ان کا یہ فخر زندہ ہے کہ ہندوستان کے بت کدے میں وہ اسلام لائے تھے اور کفر کی تاریکیوں کو انھوں نے اسلام کے نور سے منور کیا تھا۔
محمد بن قاسم جب نیرون کی ایک خوشنما اور سرسبز ٹیکری پر ٹھہرا ہوا تھا تو اس کے نظام جاسوسی کے سربراہ شعبان ثقفی نے اسے رن کَچھ کے متعلق تفصیلات سنائی، اس وقت محمد بن قاسم کے سامنے وہ خط پڑا ہوا تھا جو حجاج بن یوسف نے لکھا تھا، یہ خط اسے سیسم میں ملا تھا، حجاج نے لکھا تھا کہ محمد بن قاسم واپس نیرون چلا جائے اور دریائے سندھ عبور کرکے راجہ داہر کو میدان میں گھسیٹے، حجاج کا خیال یہ تھا کہ داہر کو شکست دے دی گئی تو ہندوستان کے دروازے کھل جائیں گے۔
شعبان ثقفی کی رپورٹ سن کر محمد بن قاسم نے کاتب کو بلایا اور حجاج بن یوسف کے نام خط لکھوانے لگا ،اس نے خط میں اپنی فتوحات کی پوری تفصیل لکھوائی اور ان امیروں کے نام بھی لکھوائے جو اس نے مفتوحہ قلعوں میں مقرر کیے تھے، شہیدوں کی اور شدید زخمی ہوکر معذور ہونے والوں کی تعداد لکھی، اپنی فوج اور رسد وغیرہ کی کیفیت لکھی اور آخر میں رن کَچھ کے حالات اور سندھ میں اس خطے کی اہمیت لکھی، اور آخر میں لکھا کہ رن کچھ کا ایک حاکم ہماری اطاعت قبول کرنے پرآمادہ ہے اگر اس کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تو ہماری مہم آسان ہو جائے گی۔
یہ خط قاصد کو دے کر محمد بن قاسم نے نیرون سے رن کَچھ کی طرف کوچ کیا، اور تین چار دنوں کی مسافت کے بعد ایک جگہ پڑاؤ کیا۔
کسی بھی تاریخ میں اس جگہ کا نام نہیں لکھا صرف یہ لکھا ہے کہ اس جگہ محمد بن قاسم نے رک کر حجاج بن یوسف کی طرف سے اپنے خط کے جواب کا انتظار کیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
حجاج بن یوسف کا جواب بہت جلدی آ گیا مؤرخوں نے اس کے خط کا پورا متن عربی سے ترجمہ کر کے لکھا ہے، محمد بن قاسم نے اپنے خط میں حجاج کو بہت زیادہ تعظیم وتکریم دی تھی اور کچھ القاب بھی استعمال کئے تھے، حجاج نے اس انداز تحریر کو پسند نہ کیا اس نے محمد بن قاسم کو جو خط لکھا وہ اس طرح ہے۔
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
عزیز بیٹے کریم الدین محمد بن قاسم !،،،،،تجھ پر اللہ کی رحمت اور کرم ہو ،تیرا خط تکلفات اور القاب سے بھرپور تھا ،سمجھ نہیں آئی تو نے ایسا کیوں کیا، احوال وکوائف جو تو نے لکھے ہیں میں نے پورے غور سے پڑھے، میرے عزیز بیٹے!،،،، تجھے ہو کیا گیا ہے، اپنی رائے اپنی عقل اور تدبر سے کام کیوں نہیں لیتا ،میری خواہش اور دعا ہے کہ مشرق کےتمام بادشاہوں پر تو غالب آئے، اور کفار کے تمام شہر اور قلعے تیرے قبضے میں ہو، تو خود کفر کے سر کو ختم کرنے سے کیوں عاجز آ رہا ہے؟،،، کیا تو اپنے آپ کو ان پر مسلط نہیں کر سکتا ؟،،،وہ تو اسلام پر غالب آنے کے منصوبے بنا رہے ہیں ،مجھے امید ہے کہ ان کے منصوبے ناکام ہونگے اور تو فتح اور کامران ہو گا، دل کو مضبوط رکھ میرے عزیز ،اور کفار کے دفاع کو توڑنے کے لئے تو جس قدر بھی مال خرچ کرسکتا ہے کر دے، دشمن پر انعام و اکرام کا مینہ برسا دے، دشمن کا کوئی حاکم جاگیر یا حاکمیت مانگتا ہے اسے دے دے ،اور اسے اپنے پاؤں کے نیچے رکھ ،کسی کو نہ امید نہ کر، ان کی درخواستوں کو قبول کر، اور انہیں کے قوانین ان پرنافذ کر، اور وہ امن کا معاہدہ چاہیں تو انہیں امن دے لیکن خود ان پر مسلط رہے،،،،،
دشمن پر غالب آکر اسکی سلطنت اپنے ہاتھ میں لینے کے چار طریقے ہیں، ایک یہ کہ صلح ہمدردی دشمن کی چھوٹی سی لغزش اور بہت بڑے مطالبے سے جسم پوشی اور اس کے ساتھ رشتے داری کے تعلقات، دوسرا طریقہ ہے فیاضی سے مال خرچ کرنا، مخالفت کو انعام اور عطیات سے سے دباؤ ،تیسرا طریقہ یہ ہے کہ دشمن مخالفت کے درپردہ خطرناک طریقے اختیار کرے اور حالات تیرے خلاف ہو جائیں تو گھبرانے کی بجائے دماغ کو حاضر رکھ ،اور تیری رائے اور فیصلہ صحیح ہو ، ہر وقت مغلوب دشمن کے مزاج پر نظر رکھ، چوتھا طریقہ ہے رعب اور دبدبہ، جرات ،قوت کا استعمال کر، کہ دشمن اور اس کے حمایتی سر نہ اٹھ سکیں،،،،،،،،،
دشمنوں کو بے اثر اور بے کار رکھنے کے لئے طریقے استعمال کر اور کوئی کافر حکمران اطاعت اور امن قبول کرے اسے موثر اور بڑے سخت عہدنامے میں جکڑ لے، اور جو بھی خراج خود مقرر کرے وہ قبول کرلے، اور بہت جلدی وصول کر،،،،،،، اور میرے بیٹے قاصدوں کے معاملے میں بہت محتاط رہ، مفتوحہ علاقوں میں تو جس قاصد کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کرے اس کے متعلق یقین کرلے کے فولاد جیسا مضبوط دل رکھتا ہے، اور وہ کسی کے فریب میں نہیں آسکتا، تجھے اس کی عقل پر دور اندیشی اور ایمان کی پختگی پر پورا اعتماد ہونا چاہیے، وہ دل اور عقیدے کا اتنا مضبوط ہو کہ دشمن کے کسی آدمی یا عورت یا کسی اور لالچ کے جال میں نہ آ جائے، اور اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو تیرے نقصان کا باعث بن جائے، مت بھولنا میرے عزیز بیٹے ہندوستان بڑے خوبصورت اور دلنشین مکروفریب کا ملک ہے، قاصدوں اور ایلچیوں کے انتخاب میں محتاط رہنا،،،،،،،
داہر کی چالوں سے خبردار رہنا اس کی طرف اپنے کسی معتمد واصد یا ایلچی کو بھیجو تو اسے سختی سے نصیحت کرنا کہ دشمن کے درمیان جا کر اسکی باتوں میں نہ آجائے،
اسے پیغام اچھی طرح ذہن نشین کرا دو ، اور وہ جب کسی راجہ یا بادشاہ کے دربار میں پیش ہوکر پیغام دے تو اس پر بادشاہ کا خوف نہ ہو اور اس کے سرداروں اور حاکموں سے بھی نہ ڈرے، راجہ یا بادشاہ اس سے کچھ پوچھیں تو وہ جرات سے جواب دے ،اور بادشاہ پیغام کا جو جواب دے وہ اچھی طرح سنے اور تجھ تک پہنچائے تاکہ کوئی غلط فہمی نہ رہے، یہ بھی یاد رکھ میرے عزیز بیٹے قاصد کو یہ بتاؤ کہ تم سارے لشکر کے امام ہو اور لشکر کی فتح اور شکست تمہارے ہاتھ میں ہے، قاصد ہمیشہ اپنے مذہب کا ہو جو پاک مذہب ہے، وہ پروقار ہونا چاہیے اس کی باتوں میں اثر ہو ،وہ کفار کے بادشاہ کے دربار میں کھڑا ہوکر کہنے کی جرات رکھتا ہوں کہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لاؤ ،اگر اللہ کو وحدہٗ لاشریک تسلیم کرو گے تو تمہارے شہر، بستیاں، کھیتیاں ،اور جان و مال محفوظ رہیں گے ،اگر اپنے باطل عقیدوں کو دل میں رکھ کر اللہ کی وحدانیت سے منہ موڑو گے تو ہم تمہیں بخشیں گے نہیں لڑائی کے لئے تیار ہو جاؤ،،،،،،،
تو اب داہر کے مقابلے کو جارہا ہے یاد رکھ میرے عزیز وہ دریا مہراں اور پائے سندھ کے پار ہے، اور تو دریا کے سامنے والے کنارے پر ہوگا ،داہر کو دریا پار کرنے کا موقع نہ دینا اسے للکار کر کہنا کہ ہم دریا کے پار آکر لڑیں گے، پھر یہ بھی دھیان میں رکھ کہ لڑائی کے لیے وہ میدان منتخب کر جو کشادہ ہو تاکہ اپنے پیادے اور سوار دشمن کے پیادوں اور سواروں کو اچھی طرح دیکھ سکیں اور ان کو پینترا بدلنے کے لئے کافی جگہ مل جائے، ہر پیادہ اور سوار گھوم پھر کر لڑے اور تیرے لشکر کو یہ سہولتیں میسر آئے یا نہ آئے اللہ پر توکل رکھ ،فتح و شکست اسی کی ذات باری کے اختیار میں ہے، اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو، اللہ کے لئے لڑو اور اللہ سے ہی مدد کے طلبگار رہو، اس کے کرم اور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، دلجمعی سے لڑو اور دیکھو کہ پردہ غیب سے کیا ظہور پذیر ہوتا ہے، اور اللہ کے حضور سے کس کی بادشاہی کے خاتمے کا حکم جاری ہوتا ہے،،،،،
اور میں نے کہا ہے کہ داہر کو دریا عبور کرنے کا اختیار نہ دینا ،یہ میں پھر کہتا ہوں کہ تو جب اس کے بالمقابل ہو اور درمیان میں دریا ہو تو اسے کہنا کہ دریا ہم عبور کریں گے، اس طرح اس پر تیرا رعب بیٹھے گا، اور اس کے لشکر پر یہ اثر ہوگا کہ جو لشکر اتنی دور سے آکر دریا بھی عبور کررہا ہے اور مقابلے کے لئے بھی تیار ہے تو یہ لشکر قوی اور دلیر ہے،،،،،،،،
تو نے دیکھ لیا ہے اور میں تجھے یہ یقین دلاتا ہوں کہ تیرے ساتھ جو لشکر ہے یہ اللہ کی جماعت ہے انہوں نے کہیں بھی پیٹھ نہیں دکھائی اور آگے جا کر بھی کسی میدان میں پیٹھ نہیں دکھائی گے، جان کی بازی لگا کر لڑیں گے یہ اللہ کے فضل و کرم پر بھروسہ کرنے اور ثابت قدم رہنے والے مجاہدین ہیں،،،،،،،
دریا ایسی جگہ سے عبور کرنا جہاں تیرے لشکر کے پاؤں جم سکے ،ایسا نہ ہو کہ دریا آدھے لشکر کو اپنے ساتھ ہی لے جائے ،جس راستے کے متعلق تجھے یقین ہو کہ بلکل سیدھا اور محفوظ ہے اس پر بھی احتیاط سے چلنا، اور لشکر کو بھی احتیاط رکھنا لشکر کو میمنہ، میسرہ، قلب، ہراول، اورساقہ میں ترتیب دے کر آگے بڑھنا، پیادوں کو اگے رکھنا اور برگستوانیوں کو درمیان میں نہ رکھنا۔۔۔۔*
برگستوانی ذرہ کی ایک قسم تھی، جو گھوڑوں کو پہنائی جاتی تھی، حجاج بن یوسف زرہ پوش گھوڑوں کو قلب میں رکھنے کی بجائے پہلو اور عقب میں رکھنا چاہتا تھا تاکہ لشکر محفوظ رہ سکے، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں اور کمانڈروں کو بلا کر انہیں حجاج بن یوسف کا خط پڑھ کر سنایا اور انھیں بتایا کہ کس طرف پیش قدمی ہو گی۔
میرے رفیقو !،،،،محمد بن قاسم نے سالاروں اور کمانڈروں سے کہا ۔۔۔خدا کی قسم ہم حجاج بن یوسف کے آگے جواب دہ نہیں، نہ ہم حجاج کی خوشنودی کے لئے وطن سے اتنی دور آ کر اپنی جان بازی پر لگائے ہوئے ہیں، حجاج کی آواز امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز ہے ،ہمیں حجاج نہیں اللہ دیکھ رھا ھے، اللہ کی خوشنودی کے لئے لڑو، ہم سب کو اللہ کے حضور جانا ہے اور جواب دینا ہے۔
محمد بن قاسم کو احساس تھا کہ ان سالاروں اور ان کے ماتحتوں کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں وہ سب ثابت قدم رہنے والے تھے، یہ ان کے جذبے کا کرشمہ تھا کہ وہ جدھر جاتے تھے دشمن ان کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے جاتے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محرم الحرام 93 ہجری ، 7-11-12- عیسوی) جب محمد بن قاسم کی عمر 18 سال تھی وہ رن کَچھ کے ایک قلعہ اشبہار تک پہنچ چکا تھا، یہ ایک مضبوط قلعہ تھا اسلامی فوج نے اسے محاصرے میں لے لیا اس قلعے کا خود مختار حاکم دسایو تھا ،اس نے اردگرد کے دیہات کے لوگوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے قلعے میں اکٹھا کر لیا تھا، ان میں برچھی نشان پر پھیکنے کے ماہر اور تیر انداز بھی تھے اور تلوار کے دھنی بھی۔
محمد بن قاسم نے اعلان کرایا کہ قلعہ ہمارے حوالے کر دو تو امان میں رہو گے، اگر ہم نے قلعہ خود سر کر لیا تو تم سب کا انجام بہت برا ہوگا ۔
آگے آؤ۔۔۔ قلعے کی دیوار کے اوپر سے آوازآئی۔۔۔ قلعہ خود سر کرو۔
قلعے کی دیوار پر تیر اندازوں کی دیوار کھڑی تھی یہ لوگ مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے تھے۔ محمد بن قاسم نے اپنے تیر اندازوں کو آگے کیا تو دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ شروع ہو گیا، تیروں کے سائے میں مسلمانوں کا ایک جیش دروازہ توڑنے کے لئے آگے بڑھا تو دیوار کے اوپر سے برچھیاں آنے لگیں تین مسلمان بری طرح زخمی ہو کر پیچھے ہٹ آئے،
مسلمانوں نے دیوار تک پہنچنے کی کوشش بار بار کی ان کا مقصد یہ تھا کہ دیوار تک پہنچ جائیں تو سرنگ کھود لیں، لیکن اوپر سے آنے والی پرچھیاں اور تیروں کی بوچھاڑ انہیں دیوار تک نہیں پہنچنے دیتی تھیں، دیوار پر دسایو نے ایک ہجوم کھڑا کر رکھا تھا مسلمانوں کا کوئی تیر ضائع نہیں ہوتا تھا ہجوم میں سے کسی نہ کسی کو لگ جاتا تھا۔
مسلسل سات دن مسلمان دروازے تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ،ادھر دیوار پر ہجوم تھا اس میں سے بہت سے آدمی زخمی ہوچکے تھے، یہ لوگ فوجی نہیں تھے انھیں دیہات سے بلا کر دیوار پر کھڑا کردیا گیا تھا ،انہوں نے جب اپنے ساتھیوں کو تیروں سے زخمی ہوتے اور تڑپتے دیکھا تو ان کا حوصلہ جواب دے گیا۔
محمد بن قاسم نے اپنا آخری حربہ استعمال کیا یہ منجنیقوں کی سنگ باری تھی، تمام منجنیقیں ساتھ نہیں لے جائی گئیں تھیں، دو یا تین ساتھ تھیں۔ ان سے دروازے پر پتھر پھینکے جانے لگے اس کے ساتھ ہی قلعے والوں نے دیکھا کہ مسلمان اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور دیوار تک پہنچ رہے ہیں تو ان کے حوصلے پست ہونے لگے۔
آٹھویں روز قلعے پر سفید جھنڈا چڑھا دیا گیا اور دسایو نے قلعے کا دروازہ کھولنے کا حکم دے دیا، اس نے محمد بن قاسم کا استقبال کیا اور امن کی درخواست کی ،محمد بن قاسم نے درخواست قبول کرکے اس پر جزیہ اور سالانہ خراج عائد کیا اور وہاں اپنا ایک حاکم مقرر کردیا ،اشبہار کے لوگوں میں بھگدڑ اور افراتفری بپا ہوگئی تھی انھیں توقع تھی کہ مسلمان لوٹ مار کریں گے، اور اس دور کے رواج کے مطابق خوبصورت عورتوں کو گھروں سے نکال کر لے جائیں گے، لیکن مسلمان فوج نے ایسی کوئی حرکت نہ کی اور ایک ہی روز میں شہر میں امن بحال ہوگیا۔
رن کَچھ کا ایک اور بڑا قلعہ بِیٹ تھا ۔ دیبل کا شکست خوردہ فوجی حاکم جابین بیٹ میں حاکم تھا ۔محمد بن قاسم نے بیٹ کا محاصرہ کرلیا اور قلعے پر تابڑ توڑ حملے شروع کرادئیے جابین نے بڑی جلدی ہتھیار ڈال دیے اور یہ اہم قلعہ بھی مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
*<=========۔========>*
*قسط نمبر/20*
سورتھ کا قلعہ ابھی باقی تھا اس کا حاکم موکو تھا ،محمد بن قاسم نے موکو کو صلح اور دوستی کا پیغام بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ شعبان ثقفی نے کہا کہ موکو کے پاس وہ خود جائے گا اور اسے اس کا وعدہ یاد دلائے گا۔ محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کو ہی بھیج دیا اس کے ساتھ محافظ دستے کے بیس سوار بھیجے گئے تھے۔
موکو کو جونہی اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا ایلچی آیا ہے تو اس نے اسے فوراً بلا لیا۔
اب شعبان ثقفی تاجروں کے بہروپ میں نہیں تھا اس کے لباس سے اس کے رتبے کا اندازہ ہوتا تھا۔
موکو اسے دیکھ کر مسکرایا اور اسے عزت اور احترام سے بٹھایا، اسے اس نے پوری تعظیم دی جو ایک سالار کو یا کسی دوسرے بادشاہ کے ایلچی کو ملنی چاہیے۔
میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ میں اپنے وعدے پر قائم ہوں۔
تو پھر معاہدہ ہو جانے میں دیر نہیں لگنی چاہیے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ ہمارے سالار اعلی اور لشکر کے امام محمد بن قاسم نے کہا ہے کہ آپ کا راج اسی طرح قائم رہے گا اور اس کی اور آپ کی تمام رعایا کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہوگی، کیا آپ ہمارے سالار سے ملنا پسند کریں گے، یا وہ آ جائیں اور آپ ان کے لئے قلعے کے دروازے کھول دیں۔
میرے محترم دوست !،،،،،،موکو نے کہا ۔۔۔تم یہ تو جانتے ہو کہ میں اس علاقے کا حاکم اور خاندانی طور پر راجکمار ہوں، لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ ہمارا خاندان ان جنگجو خاندانوں میں سے ہے جنہیں لوگ اپنا اور اپنے ملک کا محافظ سمجھتے ہیں ،وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکمرانی اور بادشاہی کا حق انہیں جنگجو خاندانوں کو حاصل ہے، اگر میں تمہارے سالار سے ملنے کے لئے چلا جاؤں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اطاعت قبول نہیں کی بلکہ شکست قبول کی ہے، تم مجھے پہلی بار ملے تھے تو میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میرا اپنا بھائی اور باپ میرے دشمن بنے ہوئے ہیں، ہماری دشمنی ایسی نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں، لیکن وہ دونوں کہتے ہیں کہ میں اپنے خاندان کے لیے بدنامی کا باعث بنتا ہوں۔
لیکن وہ دونوں تو ہتھیار ڈال چکے ہیں ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔وہ تو بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
یہی ایک وجہ ہے کہ میں دوستی کے معاہدے کے لیے تمہارے سالار کے پاس نہیں جانا چاہتا موکو نے کہا۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ دوستی کا معاہدہ نہیں کریں گے ؟۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ کیا آپ ہمارا مقابلہ کرسکیں گے؟
یہ الگ بات ہے کہ میں مقابلہ کرسکوں گا یا نہیں۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کروں گا، لیکن اس کا کوئی اور طریقہ اختیار کروں گا، میں اپنی اس رعایا کو جس میں میں ہر دل عزیز ہوں یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ میں نے بزدلوں کی طرح مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالے ہیں۔
مجھے تمہاری بات سمجھنے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے۔۔۔ شعبان صفی نے کہا۔۔۔ مجھے شک ہونے لگا ہے کہ تم ہمیں دھوکہ دے رہے ہو۔
میرے عربی دوست !،،،،،،موکو نے کہا۔۔۔ میں نے تمہارے سالار تک پہنچنے کا جو طریقہ سوچا ہے وہ میں تمہیں بتاتا ہوں، کچھ دنوں بعد میری ایک بہن کی شادی ہو رہی ہے یہ شادی ہو گی اور میں وہاں جاؤں گا، میں تمہیں دن اور وقت بتا دیتا ہوں اور ایک جگہ بھی بتا دوں گا ،تمہارے کم از کم ایک ہزار آدمی مجھ پر حملہ کریں گے اور مجھے گرفتار کرلیں گے ،میرے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہوں گے تم اگر مجھے اس طرح پکڑ لو گے تو مجھ پر یہ الزام نہیں آئے گا کہ میں نے لڑے بغیر مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
شعبان ثقفی کو یہ تجویز اچھی لگی، موکو نے اسے ایک راستہ سمجھایا ،جو ساکرا کی طرف جاتا تھا، اور ایک ایسی جگہ بتائی جہاں زمین کٹی پھٹی تھی، ٹیلے اور ٹھیکریاں بھی تھیں، اور یہ زمین ہر لحاظ سے گھات لگانے کے قابل تھی۔
شعبان ثقفی موکو کے ساتھ ضروری تفصیلات طے کرکے واپس آ گیا ۔
وہ قلعے سے نکل گیا تو موکو نے اپنے فوجی کمانڈروں کو بلایا۔
تم جانتے ہو کہ راجہ دسایو نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال کر ان کی اطاعت قبول کرلی ہے۔۔۔ موکو نے ان سب سے کہا ۔۔۔مسلمانوں نے مجھے بھی اور ہم سب کو بھی میرے باپ کی طرح بزدل سمجھ لیا ہے ،تم نے دیکھا ہے کہ ابھی ابھی مسلمان فوج کے سالار کا ایلچی میرے پاس آیا تھا، وہ یہ پیغام لے کر آیا تھا کہ ہم بغیر لڑے ان کی اطاعت قبول کر لیں، میں نے اس ایلچی کو دھتکار کر رخصت کر دیا ہے۔
اسے زندہ نہیں جانے دینا تھا ۔۔۔ایک کمانڈر نے کہا۔۔۔۔وہ ہماری غیرت کو للکارنے آیا تھا۔ ہاں، مہاراج!،،،، ایک دو اور نے کہا ۔۔۔اس کا سر کاٹ کر اس کے سالار کی طرف بھیج دینا تھا۔
میں نے ایسے ہی سوچا ہے۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ لیکن یہ بزدلوں کی حرکت ہے، جنگجو اکیلے آدمی کو نہیں مارا کرتے، وہ دشمن کے لشکر کا مقابلہ کیا کرتے ہیں،،،،، تمام لوگوں سے کہہ دو کہ میں نے دشمن کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، لوگوں سے کہو کہ لڑائی کے لیے تیار رہیں،،،،، میں دو روز بعد اپنی بہن کی شادی پر ساکرا جا رہا ہوں ،اس شادی پر تم سب کو جانا تھا ،لیکن تمہارا یہاں رہنا زیادہ ضروری ہے، کیوں کہ خطرہ ہے کہ دشمن میری غیر حاضری میں حملہ کرسکتا ہے ،مجھے پوری امید ہے کہ میری غیر حاضری میں حملہ ہوا تو تم مجھے اپنے ساتھ سمجھتے ہوئے دشمن کے ایسے چھکے چھوڑاؤ گے کہ وہ سوائے بھاگنے کے اور کچھ نہیں کر سکے گا۔
موکو نے اپنی فوجیوں اور شہریوں میں جوش و خروش پیدا کر دیا ۔
مورخوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ موکو خود سر آدمی تھا یہ بتانا ناممکن ہے کہ اس خاندان پر حملہ ہوا تھا ،اور جنگی حالات پیدا ہو گئے تھے پھر انہوں نے اپنی لڑکی کی شادی ملتوی کیوں نہیں کی تھی۔
تاریخوں میں اتنا ہی اشارہ ملتا ہے کہ موکو اپنی بہن کی شادی پر ساکرا جا رہا تھا اور اس نے شعبان ثقفی سے کہا تھا کہ راستے میں اس پر حملہ کر کے اسے گرفتار کر لیا جائے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو موکو کی اسکیم سنائی۔
کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہم ایک ہزار مجاہدین کو بھیج دیں تو وہاں دو تین ہزار آدمی گھات میں موجود ہوں اور وہ ہماری ایک ہزار نفری کو ختم کردیں۔
خطرہ مول لینا پڑے گا ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، ہم یوں کر سکتے ہیں کہ ان ایک ہزار آدمیوں کو آگے بھیج کر ان کے پیچھے پانچ چھ سو سوار کچھ فاصلے پر رکھ کر بھیج دیں۔
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کی تجویز منظور کر لی جس خطرے کا اس نے اظہار کیا تھا وہ بے بنیاد نہیں تھا ،دھوکہ دہی اور فریب کاری ہندو کی فطرت میں شامل ہے جو شروع سے ہی ہندو کی فطرت کا لازمی حصہ بنی رہی ہے ،محمد بن قاسم ہندو کی اس فطرت سے اچھی طرح واقف تھا ،اس طرح اس نے اس خطرے کو محسوس کیا اور اپنے ایک ہزار مجاہدین کو بچانے کے لیے تین سو سوار تیار کر لیے ،جنہوں نے ان ایک ہزار مجاہدین سے ڈیڑھ دو میل کا فاصلہ رکھ کر پیچھے پیچھے جانا تھا ،ایک ہزار مجاہدین کو الگ کر لیا گیا اور ان کی کمان سالار نباۃ بن حنظلہ کو دی گئی ،اسے اور اس ایک ہزار نفری کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ کیا کاروائی کرنی ہے، انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ مقابلہ نہ ہونے کے برابر ہوگا، اور ہو سکتا ہے کہ مقابلہ بہت ہی سخت ہو اور گھیرے میں آ جانے کا خطرہ بھی ہے ،انہیں مزید جنگی ہدایات بھی دی گئی اور مقررہ دن سے ایک رات قبل یہ دستہ نباۃ بن حنظلہ کی زیر کمان روانہ ہو گیا۔
وہ جگہ غالبا بہت دور نہیں تھی یہ دستہ عام راستے سے ہٹ کر دشوار گزار علاقے سے گزرتا ہوا طلوع آفتاب سے پہلے ہی اس مقام تک پہنچ گیا، جو موکو نے شعبان ثقفی کو بتایا تھا۔
وہاں سے ایک کشادہ پگڈنڈی گذرتی تھی اس کے دائیں اور بائیں کے علاقے میں ٹیلے بھی تھے، گہرے کھڈ بھی تھے، اور کہیں کہیں ریتیلی چٹانیں بھی تھیں، یہ علاقہ اور اس کے خد و خال گھات کے لئے نہایت موزوں تھے۔
نباۃ بن حنظلہ کے ایک ہزار آدمیوں کو زمین کے ان نشیب فراز نے چھپا لیا۔
تین سو سوار جو اس دستے کے پیچھے آ رہے تھے وہ بھی پہنچ گئے، لیکن انہیں وہاں نہ روکنا تھا انہیں وہاں سے تقریبا ایک میل دور ایک ایسی گہرائی میں بھیج دیا گیا جہاں وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتے تھے، اس گہرائی کے قریب ایک آدمی کو ایک اونچے ٹیلے پر بٹھا دیا گیا جہاں سے وہ اس جگہ کو دیکھ سکتا تھا جہاں ایک ہزار آدمیوں کو گھات میں بیٹھا دیا گیا تھا ،اس کا کام یہ تھا کہ وہ دیکھتا رہے اور جب اسے اس طرف سے اشارہ ملے تو وہ سوار دستے کو بتائے، اس کے اشارے پر سوار دستے کے ایک ہزار مجاہدین کی مدد کو پہنچنا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
آدھا دن گزر چکا تھا جب دور سے ایک گھوڑسوار قافلہ آتا نظر آیا ، نباۃ بن حنظلہ ٹیلے کے سامنے کھڑا دیکھ رہا تھا، پگڈنڈی سے ہٹ کر ایک ٹیلے کے پیچھے ہو گیا ،اور اس نے اپنے مجاہدین کو تیاری کا حکم دیا ،وہ خود ٹیلے کی اوٹ سے اپنی طرف آتے ہوئے قافلے کو دیکھنے لگا، وہ موکو کو نہیں پہچانتا تھا، لیکن گھوڑسوار جو کچھ اور قریب آ گئے تھے کوئی عام سے مسافر نہیں لگتے تھے، وہ جب اور قریب آئے تو اس نے دیکھا کہ ان سواروں کے آگے آگے جو سوار آرہا تھا اس کا لباس شاہانہ تھا اور اس کا گھوڑا بھی اعلٰی نسل کا تھا، اس کے پیچھے جو گھوڑسوار آ رہے تھے وہ فوجی ترتیب میں تھے، ان کے پاس جو برچھیاں تھیں وہ انہوں نے اس طرح سیدھی پکڑ رکھی تھی کہ ان کی انی اوپر کو تھی۔
نباۃ بن حنظلہ نے دور دور تک نگاہ دوڑائی اسے کہیں کوئی پیادہ یا سوار دستہ ادھر آتا نظر نہ آیا۔
یہ قافلہ موکو کا ہی تھا ،اس کے ساتھ جو سوار تھے ان کی تعداد ایک سو سے کچھ کم تھی، جونہی موکو گھات کے قریب آیا نباۃ بن حنظلہ نے اپنے مجاہدین کو اشارہ کیا ایک ہزار نفری طوفان کی طرح اٹھی اور جس طرح اسے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا اس نے موکو اور اس کے محافظوں کو ذرا سی دیر میں گھیرے میں لے لیا۔
تمام سوار اپنے ہتھیار نیچے پھینک دو ۔۔۔نباۃ بن حنظلہ نے ترجمان کی معرفت موکو کے سوار محافظ دستے کو للکار کر کہا۔۔۔ ہتھیار پھینک کر گھوڑوں سے اتر آؤ، اور گھوڑوں کو چھوڑ کر الگ کھڑے ہو جاؤ، نباۃ بن حنظلہ موکو کے قریب چلا گیا اور اسے کہا ،،،،،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موکو تم ہی ہو ،کیا تم اپنے ساتھ اپنے محافظوں کو ہمارے ہاتھوں مروانا پسند کرو گے؟
تم لوگ کیا جانتے ہو۔۔۔۔ موکو نے نباۃ بن حنظلہ سے پوچھا۔
موکو کے سوار محافظوں نے ابھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔
سب سے پہلے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے یہ سوار تلواریں اور برچھیاں پھینک کر گھوڑوں سے اتر آئیں۔۔۔ نباۃ بن حنظلہ نے جواب دیا۔۔۔ اگر یہ ہمارے ہاتھوں اپنے جسموں کے ٹکڑے کروانا چاہتی ہیں تو میرا حکم بے شک نہ مانے۔
اور اگر یہ ہتھیار ڈال دیں تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔۔۔ موکو نے پوچھا۔
اگر تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو تو انہیں آزاد کر دیا جائے گا، مجھے امید ہے کہ تم ہمیں ان سواروں کے قتل کے گناہ سے بچا لو گے، تم دیکھ رہے ہو کہ تم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
یہ باتیں موکو کے محافظوں کو سنانے کے لیے کی جا رہی تھیں، صرف موکو اور نباۃ جانتے تھے کہ یہ ایک ناٹک کھیلا جا رہا ہے، اس ناٹک کا اختتامیہ یوں ہوا کہ نباۃ بن حنظلہ کے اشارے پر اس کے چند مجاہدین نے موکو کو پکڑ لیا اس کے محافظوں نے مسلمانوں کی اتنی زیادہ نفری دیکھ کر ہتھیار ڈال دیے، نباۃ بن حنظلہ ان سب کو قیدی بنا کر لے گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم نے موکو کا استقبال عزت اور احترام سے کیا اور اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
کیا آپ ایسے اطاعت قبول نہیں کر سکتے تھے؟،،،، محمد بن قاسم نے موکو سے پوچھا۔۔۔ یہ کھیل کھیلنے کی کیا ضرورت تھی۔
سمجھنے کی کوشش کریں میرے عربی دوست!،،،، موکو نے کہا ۔۔۔راجہ داہر ہمارا عزیز ہے ،اور آقا بھی، سندھ ہمارا وطن ہے جو ہمارے باپ دادا نے ورثے کے طور پر پیچھے چھوڑا ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ راجہ داہر کا راج قائم رہے گا تو ہم بھی سر بلند رہیں گے ،راجہ داہر نے ہم پر جو مہربانیاں کی ہیں ان کا صلہ یہ نہیں کہ ہم ان کے دشمن کے ساتھ مل جائیں ،لیکن جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس دشمن کو ہم شکست نہیں دے سکتے تو اپنی فوج کو کٹوانا اور اپنی رعایا کو لٹوا کر مروانا نیکی اور دانشمندی نہیں،،،، اس نے مسکرا کر کہا ،،،،دانشمندی یہ ہے کہ نئے حالات سے فائدہ اٹھایا جائے۔
اس طرح موکو نے محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لی، چچ نامہ میں مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے موکو کو اپنے برابر بٹھایا اور اسے ایک لاکھ درہم انعام کے طور پر دیا ،جب محمد بن قاسم اس کے قلعے میں گیا تو اس کے سرداروں اور خاندان کے چیدہ چیدہ افراد کو خلعت اور عربی گھوڑے تحفے کے طور پر دیئے ،اس کے علاوہ بیٹ اور سورتھ کی حکومت بھی موکو کو عطا کردی ،اور یہ فرمان بھی جاری کیا کہ یہ علاقہ موکو کی آئندہ نسلوں کی ملکیت اور حکومت میں رہے گا ،محمد بن قاسم نے موکو سے صرف یہ مدد مانگی کہ وہ اتنی کشتیاں فراہم کردیں جس سے دریا پار کیا جاسکے، موکو کے لیے اتنی زیادہ کشتیوں کی فراہمی کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اروڑ میں راجہ داہر کے محل کے اندر اور باہر سناٹا طاری تھا ،اگر کسی کی آواز سنائی دیتی تھی تو وہ داہر کی آواز تھی ،اس کی آواز میں قہر اور عتاب تھا، قہر اور عتاب تو ہونا ہی تھا ،کچھ ہی دیر میں اسے اطلاع ملی تھی کہ دسایو اس کے بڑے بیٹے راسل اور چھوٹے بیٹے موکو نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی ہے، اور موکو مسلمانوں کے ساتھ مل گیا ہے، یہ اطلاع دینے والا اس کا اپنا فوجی حاکم جابین تھا۔
تم پہلے دیبل سے بھاگے تھے۔۔۔ راجہ داہر نے جابین سے کہا۔۔۔ اور اب وہاں سے بھی بھاگ آئے ہو جہاں میں نے تمہیں بھیجا تھا کہ تمہاری موجودگی میں ان کے حوصلے مضبوط رہیں گے اور تم ان سب کو اپنی کمان میں لے کر اس طرح لڑاؤ گے کہ عرب کی فوج کو پسپا کرو دو گے، لیکن تم انہیں ہتھیار ڈالنے کے لئے وہاں چھوڑ کر خود بھاگ آئے۔
مہاراج !،،،،،جابین نے کہا۔۔۔ دیبل سے میں اس لئے بھاگا تھا کہ دیول کا جھنڈا گر پڑا تھا، پورے لشکر اور شہر کے لوگوں پر خوف طاری ہو گیا تھا ،اور ان میں ایسی بھگدڑ مچی کے دیوار سے تمام تیرانداز نیچے کو بھاگ آئے، اور ان سب نے میری اجازت کے بغیر دروازے کھول دیے تھے اور مسلمانوں پر ہلہ بول دیا ، شکست تو ہونی ہی تھی، ادھر دسایو، راسل، موکو کے خلاف ہو گئے تھے، اور موکو پہلے ہی مسلمانوں کا خیر خواہ بنا ہوا تھا، میں ان کی کیا مدد کرتا جب یہ آپس میں ہی پھٹے ہوئے تھے۔
میں تمہیں زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا۔۔۔ راجہ داہر نے اسے کہا۔۔۔ لیکن میں تمہیں ایک اور موقع دینا چاہتا ہوں۔
یہی عرض میں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔جابین نے کہا۔۔۔ لیکن مہاراجہ میری بہادری اور جنگی اہلیت دیکھنی ہے تو مجھے کسی قلعہ میں بند کرکے نہ لڑائیں، میں میدان میں لڑنے اور لڑانے والا آدمی ہوں۔
اب ہم میدان میں ہی لڑیں گے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔میں نے جو سوچا تھا وہ سب بیکار گیا، مجھے امید تھی کہ میرے فوجی حاکم اور قلعہ دار عربوں کا محاصرہ کہیں بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے، اور محمد بن قاسم کی جنگی طاقت دو تین قلعوں کے محاصرے میں ہی ختم ہو جائے گی، اور وہ اپنے زخم چاٹتا ہوا واپس چلا جائے گا ،لیکن سب نے مجھے مایوس اور شرمسار کیا، مسلمانوں کی طاقت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی، میرے اپنے حاکموں نے حملہ آوروں کے ہاتھ مضبوط کیے۔
مہاراج کی جے ہو ۔۔۔جابین نے کہا۔۔۔ اب ہمیں محاصروں کی جنگ ترک کر دینی چاہیے، مسلمانوں کا حوصلہ یہی سوچ کر مضبوط ہوا ہے کہ ہم قلعے کے باہر شاید لڑ ہی نہیں سکتے۔
میں مسلمانوں کو دریا میں ڈبو کر ہی دم لونگا۔۔۔ راجہ داہر نے گرج کر کہا ۔۔۔تم میری نظروں سے دور ہو جاؤ ،میدان میں لڑنے کی تیاری کرو، تم سب نے مجھے دھوکا دیا ہے آدھا ملک دشمن کو دے کر مجھے مشورے دینے آئے ہو۔
اس کے بعد داہر کے محل پر خاموشی طاری ہوگئی اس خاموشی کو داہر کی گرجدار آواز توڑتی تھی، اور اس آواز کا پیدا کیا ہوا ارتعاش کچھ دیر قائم رہتا ،پھر آہستہ آہستہ ساکن ہو جاتا، داہر حکم دے رہا تھا اس کے قاصد کسی نہ کسی کو بلانے کے لئے دوڑ رہے تھے۔
داہر نے حکم دیا کے وہ تمام لشکر جسے مسلمانوں کے خلاف تیار کیا گیا تھا فوراً کوچ کر جائے، اس کے ساتھ ہی اروڑ میں افراتفری اور بھاگ دوڑ شروع ہوگئی ،داہر اب کسی کے ساتھ سوائے جنگ کے اور کوئی بات کرتا ہی نہیں تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اگلا تصادم راجہ داہر کے ساتھ ہی ہوگا، حجاج بن یوسف نے بھی اسے یہی لکھا تھا کہ اب قلعوں کو نظر انداز کرکے راجہ داہر کو للکارو ،حجاج نے لکھا تھا کہ داہر سے ہتھیار ڈلوا لیے گئے تو ہندوستان کے دروازے کھل جائیں گے، محمد بن قاسم نے موکو سے اور کچھ مانگنے کی بجائے صرف کشتیاں مانگی تھی، اس کے ذہن پر تو اب صرف دریائے سندھ سوار تھا جسے اس نے عبور کرنا تھا۔
محمد بن قاسم نیرون واپس آگیا اس نے شعبان ثقفی اور دیگر سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ اب کھلے میدان میں لڑائی ہو گی اور داہر کو للکارا جائے گا۔
میں نے آپ سب کو مشورے کے لئے بلایا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔کیا یہ صحیح نہیں ہوگا کہ داہر کو ہم پیغام بھیجیں کہ وہ ہماری اطاعت قبول کرلے، اگر وہ لڑنا ہی چاہتا ہے تو اس سے پوچھا جائے کہ وہ دریا عبور کر کے اس طرف آنا چاہتا ہے یا ہم دریا عبور کرکے اس کے سامنے آئیں، میں اسے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جب اس کا لشکر دریا عبور کر رہا ہوگا تو ہماری طرف سے اس پر ایک بھی تیر نہیں چلے گا ،اور اسکے لشکر کو اطمینان سے دریا پار کرنے کا موقع دیا جائے گا، اور اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم دریا پار کر کے اس کی طرف آئیں تو وہ ہمارے لشکر کو کسی رکاوٹ اور مزاحمت کے بغیر دریا پار کرنے دے۔
سب نے اس پیغام پر غوروخوض کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ داہر کے پاس اپنا ایلچی بھیجا جائے، جو اس کے ساتھ یہ بات کرے۔
ابھی یہ سالار محمد بن قاسم کے پاس بیٹھے ہی ہوئے تھے کہ اطلاع ملی ایک آدمی آیا ہے، اسے اندر بلا لیا گیا وہ شعبان ثقفی کا بھیجا ہوا جاسوس تھا، اور وہ اروڑ سے آیا تھا ،اس نے اطلاع دی کہ راجہ داہر نے بہت بڑا لشکر اروڑ سے باہر بھیج دیا ہے ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ لشکر کہاں خیمہ زن ہو گا، البتہ یہ یقین ہے کہ راجہ داہر پورے غیض و غضب سے لڑنے کے لیے آ رہا ہے ۔
محمد بن قاسم نے اس جاسوس سے تفصیلی رپورٹ لی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
جیسا کہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ راجہ داہر کے پاس ایلچی بھیجا جائے جو اسے قائل کرے کہ وہ خونریزی کے بغیر مسلمانوں کی شرائط قبول کرلے، محمد بن قاسم نے دو افراد کو ایلچی مقرر کیا ان میں ایک مولانا اسلامی تھے۔
کسی بھی تاریخ میں ان کا پورا نام نہیں آیا ہر مؤرخ نے مولانا اسلامی ہی لکھا ہے، وہ دیبل کے رہنے والے ہندو تھے اور انہوں نے محمد بن قاسم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا، اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک تھی لیکن مولانا اسلامی اسلام کے ایسے شیدائی ہوئے کہ انہوں نے اسلام کے متعلق بڑی تیزی سے علم حاصل کیا ،محمد بن قاسم نے اسلام کے لئے ان کی لگن دیکھی تو انہیں مولانا اسلامی کا خطاب دیا ، یہی ان کا نام بن گیا۔
دوسرے جس آدمی کو ایلچی نامزد کیا گیا وہ شام کے ملک کا رہنے والا تھا ،علم و فضل میں اور گفتگو کے فن میں اسے ملکہ اور مقام حاصل تھا، اور وہ محمد بن قاسم کے خاص معتمدوں میں سے تھا ،اس کانام بھی مورخوں نے نہیں لکھا صرف شامی لکھا ہے۔
محمد بن قاسم نے ان دونوں کو ہدایات دیں اور اچھی طرح ذہن نشین کرایا کے راجہ داہر کے ساتھ کیا بات چیت کرنی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں ابن قاسم !،،،،شامی نے کہا۔۔۔ ہم صرف تیری نہیں بلکہ خلافت اسلامیہ کی نمائندگی کریں گے ۔
اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تمہاری حفاظت اور کامیابی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، میں تمھاری حفاظت کے لیے اپنے حفاظتی دستے کے بیس منتخب سوار بھیج رہا ہوں، اور زاد راہ ایک اونٹنی پر تمہارے ساتھ جارہا ہے، مولانا اسلامی اور شامی گھوڑوں پر سوار ہوئے اور رخصت ہو گئے، اس قافلے کو گھوڑوں اور اوٹنی سمیت کشتیوں پر دریاپار کرایا گیا تھا ایک گائیڈ ان کے ساتھ تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ قافلہ اروڑ پہنچا یہ راجہ داہر کو اطلاع ملی تو اس نے دربار میں بلا لیا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ مولانا اسلامی اور شامی نے اپنی حیثیت کا یہ مظاہرہ کیا کہ اپنے بیس سوار محافظوں کو ساتھ لے کر داہر کے دربار تک گئے ،سواروں کو دربار کے سامنے دو صفوں میں کھڑا کیا ہر سوار کے ہاتھ میں برچھی تھی اوپر کو اٹھی ہوئی برچھیوں کی انیاں چمک رہی تھیں۔
دونوں ایلچی گردن اونچی اور سینے تانے ہوئے داہر کے دربار میں داخل ہوئے، وہاں ترجمان کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مولانا اسلامی دیبل کے رہنے والے تھے وہ اسی خطے کی زبان بولتے تھے۔
تم سب پر اللہ کی سلامتی ہو۔۔۔ مولانا اسلامی نے کہا۔
راجہ داہر انہیں گھور رہا تھا اس کے ماتھے پر شکن پڑ گئے۔
کیا تم دونوں شاہی آداب سے واقف نہیں ؟۔۔۔۔راجہ داہر نے اپنے لہجے میں رعونت پیدا کرکے کہا ۔۔۔یا تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ تم ایک راجہ کے دربار میں داخل ہو رہے ہو۔
مہاراجہ کے دربار میں ۔۔۔۔کسی درباری کی آواز سنائی دی ۔۔۔یہ سندھ کے مہاراجہ کا دربار ہے، جس کی ہیبت سے سب کانپتے ہیں۔
مولانا اسلامی نے شامی کو بتایا کہ راجہ داہر اور اس کے درباری کیا کہہ رہے ہیں۔
تم جانتے ہو انہیں کیا جواب دینا ہے۔۔۔ شامی نے کہا ۔۔۔سر ذرا اونچا کر کے بات کرو۔
ہم صرف اللہ کے دربار کے آداب جانتے ہیں ائے راجہ !،،،،،مولانا اسلامی نے کہا۔۔۔ کسی انسان کے آگے جھکنا ہمارے مذہب میں گناہ ہے۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم دیبل کے رہنے والے ہو۔۔۔ راجہ داہر نے مولانا اسلامی سے کہا۔۔۔ تم ہمارے ملازم تھے تم اچھی طرح جانتے ہو کے دربار میں جسے بھی آنے کا شرف بخشا جاتا ہے وہ جھک کر آداب بجا لاتا ہے، اور بعض سجدے بھی کرتے ہیں، تمہیں دربار میں آکر آداب کا خیال رکھنا اور جھکنا چاہیے تھا۔
میں جب آپ کا ملازم تھا تو جھکا کرتا تھا ۔۔۔مولانا اسلامی نے کہا۔۔۔ اب مسلمان ہوں سجدے کے لائق صرف اللہ ہے، آپ اللہ کے گمراہ بندے ہیں، میں آپ کو وہ روشنی دکھانے آیا ہوں جس نے مجھے کفر کی تاریکی میں سیدھا راستہ دکھایا ہے۔
تم خوش قسمت ہو کے ایلچی بن کر آئے ہو۔۔۔ راجہ نے غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ ورنہ میں تم دونوں کو قتل کرا دیتا پھر تم سمجھ جاتے کہ سجدے کے لائق کون ہے۔
مولانا اسلامی نے شامی کو بتایا کہ داہر نے کیا کہا ہے۔
اسے کہو کہ ہم دونوں کے قتل سے عرب کی فوج کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا ۔۔۔شامی نے مولانا اسلامی سے کہا۔۔۔ لیکن ہمارے خون کی جو قیمت تمہیں دینی پڑے گی اسے تم تصور میں نہیں لا سکتے، ہمارے خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے تمہیں ایک ایک آدمی کا خون دینا پڑے گا۔
مولانا اسلامی نے اپنی زبان میں یہی الفاظ دہرائے راجہ داہر یوں سیدھا ہوکر پیچھے ہٹا جیسے اسے شدید جھٹکا لگا ہو، غصے سے اس کا چہرہ دمکنے لگا، دربار پر سناٹا طاری ہو گیا تمام درباری اپنے مہاراجہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ابھی ان دونوں ایلچیوں کے قتل کا حکم صادر ہوتا ہے۔
ہماری برداشت سے باہر ہے کہ تم جیسے بدتمیز آدمی کچھ دیر اور ہمارے دربار میں کھڑے رہیں۔۔۔ راجہ داہر نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔کہو کیا پیغام لائے ہو ،جو کہنا ہے جلدی کہو اور رخصت ہو جاؤ۔
اور ہم ایسے راجہ کے دربار میں کھڑا رہنا برداشت نہیں کر سکتے جس میں اتنا سا بھی اخلاق نہیں کہ ایک سالار اعلی کے ایلچیوں کو بیٹھنے کے لئے کہتا۔۔۔ شامی نے کہا ۔۔۔ہم اللہ کا پیغام لائے ہیں، کیا آپ اللہ کا پیغام قبول کریں گے، اسے اسلام کہتے ہیں۔
نہیں !،،،،،راجہ داہر نے کڑک کر کہا۔۔۔ کوئی اور بات کرو ،جب تمہارا لشکر میرے لشکر کے سامنے آئے گا تو تم اللہ کا پیغام بھول جاؤ گے۔
اگلی بات یہ ہے۔۔۔ مولانا اسلامی نے کہا۔۔۔ ہمارے سالار محمد بن قاسم نے پوچھا ہے کہ تم دریا پار کر کے آؤ گے یا ہم دریا پار کر کے آئیں، ہمارے سالار نے کہا ہے کہ تم دریا پار کرو یا ہم کریں دونوں پر لازم ہوگا کہ راستہ چھوڑ دیں، دریا عبور کرتے وقت نہ ہم تمہیں چھیڑیں گے نہ تم ہمیں چھیڑو گے۔
ہمارے جواب کا انتظار کرو۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
اور اپنے ایک وزیر کو جس کا نام سیاکر تھا ساتھ لے کر ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔
تین چار مورخوں نے داہر اور ایلچیوں کی پوری گفتگو لکھی ہے اور داہر نے وزیر سیاکر کے ساتھ جو صلح مشورہ کیا تھا وہ بھی لکھا ہے۔
اس نے سیاکر سے پوچھا کہ مسلمانوں کو دریا کے اس طرح آنے دیا جائے یا ہمیں اپنا لشکر دریا کے پار لے جانا چاہیے؟
بات بالکل صاف ہے مہاراج!،،،، سیاکر نے کہا۔۔۔ مسلمانوں کو ادھر آنے دیں لڑائی کے وقت دریا ان کے پیچھے ہوگا، ان کے پیچھے ہٹنے کی جگہ ہی نہیں ہوگی ،یہ بھی سوچیں کہ ان کی رسد ختم ہو گئی تو کہاں سے لائیں گے، ہم ان کی کشتیاں جلا دیں گے، ہم چونکہ اس طرف ہوں گے اس لیے ہمیں رسد کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
راجہ داہر دربار میں آیا۔
اپنے سالار سے کہنا کہ دریا پار کر کے ادھر آ جائیں۔۔۔راجہ داہر نے دونوں ایلچیوں سے کہا۔۔۔ اور اسے کہنا کہ تم زندہ واپس نہیں جاسکوگے، اور اسے کہنا کہ تمہاری کوئی شرط ہمیں منظور نہیں، جس کا مذہب سچا ہوگا وہ فتحیاب ہو گا، تم دریا پار کر کے ادھر آجاؤ ہم تمہیں اختیار دیتے ہیں دریا میں تمھارے لشکر پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا ، بے خوف ہو کر دریا عبور کرو ہم لڑائی کے لیے تیار ہیں۔
مولانا اسلامی اور شامی واپس آگئے، نیرون پہنچ کر انہوں نے محمد بن قاسم کو وہ گفتگو سنائی جو داہر کے ساتھ ہوئی تھی پھر اس کا جواب سنایا ۔
الحمدللہ !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم یہی چاہتے تھے
چچ نامہ میں یہ بھی شامل ہے کہ مولانا اسلامی اور شامی کے واپس آنے کے فوراً بعد راجہ داہر نے باغیوں کے سردار کو بلایا اور اس سے بھی مشورہ لیا، ان باغیوں کے جس سردار کا اس داستان میں ذکر آیا ہے وہ محمد علافی تھا ،جس کا پورا نام محمد حارث علافی تھا ، وہ محمد بن قاسم سے ملا تھا اور اس نے یقین دلایا تھا کہ باغی عرب راجہ داہر کے احسان کا صلہ دینے کے لئے عربوں کے خلاف نہیں لڑیں گے ،محمد حارث علافی نے راجہ داہر کو بھی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ وہ اس کا ہر حکم مانیں گے لیکن ایسی کسی کارروائی میں شامل نہیں ہونگے جو محمد بن قاسم کے خلاف جاتی ہو۔
اب محمد بن قاسم کے ایلچیوں کے جانے کے بعد راجہ داہر نے جس علافی سردار کو مشورے کے لئے بلایا تھا چچ نامہ میں اس کا نام محمد علافی نہیں لکھا صرف یہ لکھا ہے کہ خاندان علافی کے سردار کو بلایا ،یہ کوئی اور سردار ہوگا ، بہرحال یہ تاریخی حقیقت ہے کہ راجہ داہر نے ایک علافی سردار کو بلایا اور محمد بن قاسم کے ایلچیوں کے ساتھ اس کی جو گفتگو ہوئی وہ سنائی اور اس سے پوچھا کہ اس کی کیا رائے ہے۔
میں تمہاری رائے اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ تم بھی عرب ہو۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اپنے ہم وطنوں کی خصلتوں اور لڑنے کے طریقوں سے واقف ہو، میں ان کی عادت جاننا چاہتا ہوں ۔
میری رائے یہ ہے کہ آپ کے وزیر کا مشورہ ٹھیک نہیں ۔۔۔علافی سردار نے کہا ۔۔۔پہلی بات یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی فوج میں چنے ہوئے تجربے کار سالار ہیں، اور اس فوج کے سپاہی جوان آدمی ہیں ادھیڑ عمر آدمی شاید ایک بھی نہیں سوائے سالاروں اور کماندروں کے، یہ نہ بھولیں کہ مسلمان جب جنگ کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو وہ عزیز واقارب کو اور اپنی جانوں کو اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں اور اللہ پر ہی ان کا بھروسہ ہوتا ہے ،مسلمان بے مقصد نہیں لڑتے وہ جنگ کو جہاد کہتے ہیں، مسلمان کسی لالچ سے یا اپنی بادشاہی کو پھیلانے کے لئے نہیں لڑتے اور وہ اللہ سے مدد مانگتے ہیں اور اپنے مذہب کو پھیلانے کے لئے لڑتے ہیں ،اس طرح وہ جنگ کو ایک مذہبی عقیدہ سمجھتے ہیں وہ پیچھے ہٹنے کا نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا راستہ دیکھا کرتے ہیں ،کوئی رکاوٹ آجائے تو اسے ختم کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔
میں کچھ اور پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔تمہارے عرب بھائی دریا کو اپنے پیچھے رکھ کر کس طرح لڑیں گے، اور وہ رسد کا کیا انتظام کریں گے، وہ دریا کے اس طرف آجائیں گے تو میں ان کی رسد کی کشتیاں روک دوں گا۔
آپ اس طرح مسلمانوں کو رسد سے محروم نہیں کر سکیں گے ۔۔۔علافی سردار نے کہا۔۔۔ آپ ایک حکم جاری کریں کہ جو کوئی آدمی عربی لشکر کو غلّہ، لکڑی، یا کھانے پینے اور ضرورت کی کوئی چیز دیتا ہوا پکڑا گیا اسے اسی وقت قتل کر دیا جائے گا ،اس طرح مسلمانوں کو پریشان کریں لیکن وہ اتنی جلدی پریشان ہونے والے نہیں، دریا پار کرکے وہ اس طرف لڑیں گے تو بھی ان کے جذبے میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
راجہ داہر اپنے فیصلے پر قائم رہا کہ مسلمانوں کو دریا پار کرنے دے گا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم نے جب مولانا اسلامی اور شامی کو راجہ داہر کے پاس اروڑ بھیجا تھا اسی وقت اس نے ایک تیز رفتار قاصد کو ایک خط دے کر حجاج بن یوسف کی طرف بھیج دیا تھا، اس نے لکھا تھا کہ تین اور راج اور حاکم اس کی اطاعت میں آگئے ہیں، اور اب وہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے ساتھ راجہ داہر کی راجدھانی اروڑ کی طرف کوچ کر رہا ہے، اور راستے میں کہیں اپنے خط کے جواب کا انتظار کرے گا۔
نیرون سے محمد بن قاسم کے لشکر کا کوچ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ہوا، کسی بھی تاریخ میں اس راستے کا تعین نہیں کیا گیا جو محمد بن قاسم نے اختیار کیا تھا، یہ پتہ چلتا ہے کہ منجنیقیں کشتیوں پر لے جائی گئیں تھیں، لشکریوں کے بیوی بچے بھی کشتیوں پر جا رہے تھے، رسد اونٹوں اور بیل گاڑیوں پر لدی ہوئی تھیں، یہ لشکر اسلام تھا جو کفرستان میں پانی پر تیرتا اور ریت پر چلتا جا رہا تھا۔
راجہ داہر کی نیندیں حرام ہو گئی تھی ،وہ جنگجو تھا خوفزدہ نہیں تھا ،اس کے ذہن میں کوئی الجھن نہیں تھی اس کے احکام واضح اور دوٹوک تھے اس نے اپنی فوج کو ایک نعرہ دے دیا ،اسلام آگے نہیں جائے گا۔
اس نے مندروں کے پروہتوں اور پنڈتوں سے کہہ دیا تھا کہ مندروں کے گھنٹے اور سنکھ بجتے رہیں، اور عبادت ہر وقت جاری رہے، اس نے لوگوں کے لیے اعلان کیا تھا کہ مندروں میں زیادہ سے زیادہ نذرانے اور چڑھاوے چڑھائیں۔
یہ کسی حملہ آور بادشاہ کا لشکر نہیں جو آرہا ہے۔۔۔ داہر نے پنڈتوں اور پجاریوں سے کہا تھا۔۔۔ یہ ایک مذہب آرہا ہے اگر تم نے اسے راستہ دے دیا تو ان مندروں کا نام و نشان نہیں رہے گا ،تمہارے مال اموال تمہارے نہیں رہیں گے، تمہاری بیٹیاں تمہاری نہیں رہیں گی انہیں مسلمان لے جائیں گے۔
اپنی فوج اور رعایا کو مشتعل کرنے اور ان کے جذبے میں جان ڈالنے کے لیے راجہ داہر نے مسلمانوں کے خلاف ایسی بے بنیاد باتیں پھیلا دیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ مسلمان وحشی اور جنگلی قوم ہے ،عورتوں کو ڈرانے کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا، اور انھیں کہا گیا کہ مسلمانوں سے بچنا چاہتی ہو تو مردوں کی طرح لڑنا سیکھو اور مردوں کے دوش بدوش لڑنے کا حوصلہ پیدا کرو۔
اپنی راجدھانی میں مائیں رانی نوجوان لڑکیوں اور جوان عورتوں کو تیغ زنی برچھی بازی اور گھوڑ سواری کی ٹریننگ دے رہی تھی۔
اروڑ اور گرد و نواح کے علاقے میں جو افراتفری بپا ہو گئی تھی جوان آدمی فوج میں بھرتی ہونے کے لئے آ رہے تھے ،بھرتی ہونے والوں کو ٹریننگ دی جا رہی تھی، راجہ داہر نے دور دور تک اپنا پروپیگنڈا پہنچا دیا تھا۔ لوگوں کو مسلمانوں سے ڈرایا بھی جا رہا تھا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جارہا تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے ذہن اور اپنی اپنی عقل و ذہانت کے مطابق سرگرم تھا، زیادہ تر لوگ لڑنے کے لئے تیار ہو رہے تھے، اور ایسے بھی کم نہ تھے جو اس علاقے سے بھاگ جانے کی تیاریاں کر رہے تھے، ان میں وہ لوگ تھے جن کے پاس دولت تھی یا وہ لوگ جن کی بیٹیاں جوان تھیں۔
محمد بن قاسم کا لشکر چلا جا رہا تھا۔
مجاہدین اسلام کا لشکر راوڑ کے مضافات میں جا پہنچا۔
یہ بتانا ممکن نہیں کہ راوڑ کا محل وقوع کیا تھا ،اس کے متعلق بہت ہی اختلاف پایا جاتا ہے، ایک انگریز نے لکھا ہے کہ راوڑ اروڑ (روہڑی) سے بیس یا پچیس میل مغرب یا، جنوب مغرب میں کنگری کے قریب نشیبی علاقے میں واقع تھا لیکن دوسروں نے اس کا محل وقوع بہت ہی مختلف بتایا ہے، ایران کے ایک مصنف مرزبان زرتشتی نے فارسی زبان کی ایک کتاب میں جو اس نے عیسوی 1612 میں لکھی تھی راوڑ کا ذکر کیا ہے، خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ سولہویں یا سترویں صدی تک موجود تھا پھر یہ ویران ہوا اور اس کے بعد اس کا نام و نشان ہی مٹ گیا، محکمہ آثارقدیمہ بھی اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں بتاتا۔
بہرحال یہ مقام دریائے سندھ کے کنارے پر واقع تھا اور محمد بن قاسم اس سے تھوڑی ہی دور خیمہ زن ہوا تھا ،مورخ لکھتے ہیں کہ محمدبن قاسم وہاں حجاج بن یوسف کی ہدایات کے انتظار میں رک گیا ،اس نے حجاج کو خط لکھا تھا کہ وہ اروڑ کی طرف کوچ کر رہا ہے، وہاں ایسے بھی یہ آخری پڑاؤ کرنا ہی تھا۔ کیونکہ لشکر مسلسل کوچ کی حالت میں تھا اور کشتیوں کے ملاح بھی تھک چکے تھے کیونکہ وہ دریا کے الٹے رخ جا رہے تھے۔
دوسرے ہی دن بصرہ سے حجاج کا قاصد آ گیا، حجاج نے محمد بن قاسم کو جو ہدایات لکھی تھی وہ آج تک تاریخوں میں لفظ بلفظ موجود ہیں اس کا یہ خط بہت ہی طویل ہے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج کو شاید پوری طرح یقین نہیں تھا کہ محمد بن قاسم داہر کے مقابلے میں فتح یاب ہوگا، اس نے ہدایات تو بہت لکھیں لیکن اللہ پر توکل رکھنے کے متعلق بھی بہت کچھ لکھا مثلاً یہ اقتسابات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
،،،،، پانچ وقت کی نمازوں میں خلوت و جلوت میں تمہارے لیے یہی دعا کرتا رہتا ہوں کہ خدائے تعالی تمہیں کافروں پر غالب کرے، اور تمہارے دشمن ذلیل و خوار ہوں، ازل میں جو حکم مقدر ہوچکا ہوتا ہے پر وہ مراد سے بھی وہی ظاہر ہوتا ہے، میں اللہ تبارک و تعالی کے حضور آہ و زاری
سے عرض کرتا رہتا ہوں کہ اے باری تعالی تو ایسا بادشاہ ہے کہ تیرے سوا دوسرا کوئی خدا نہیں،،،،، جس طرح بھی ممکن ہو اور جس طرح تم بہتر سمجھو دریا عبور کرو، اور اللہ سے مدد کی التجا کرتے رہو ،اسی کی رحمت کو اپنی پناہ سمجھو، رضائے الہی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی شجاعت اور طاقت کا مظاہرہ کرنا، تائید الہی فرشتوں کی امداد اور مجاہدین کی تلوار تمہیں اپنے دشمن پر غلبہ دے گی۔
آگے چل کر حجاج نے دو طریقے لکھے جو اختیار کرکے محمد بن قاسم کو دریا عبور کرنا تھا۔
پھر حجاج نے لکھا۔
،،،،، جب دشمن بھاگے تو فوراً اس کے مال و اموال اور اس کے خزانے پر قبضہ کرنا ،لیکن دھوکے اور فریب سے بچنے کی کوشش کرنا، پھر دشمن کو اسلام کی طرف راغب کرنا اور جو غیر مسلم اسلام قبولک
*قسط نمبر/21*
محمد بن قاسم پر یہ آفت ناگہانی اکیلی نہیں آ پڑی تھی کہ گھوڑوں میں کوئی پراسرار بیماری پھیل گئی اور تمام گھوڑے نیم مردہ ہو گئے گھوڑے مرنے بھی لگے تھے، اس سے کچھ دن پہلے سیوستان کے قلعہ بند شہر سیسم میں بڑی سنگین نوعیت کا ایک واقعہ ہوگیا تھا جس نے محمد بن قاسم کے پاؤں جکڑ لئے تھے۔
سیوستان کی فتح سنائی جاچکی ہے یہ جنگ سیسم کے قلعے میں لڑی گئی تھی ،راجہ داہر کا بھتیجا بجے رائے وہاں سے بھاگ گیا تھا لیکن وہ اسی علاقے میں گھومتا پھرتا رہا اور بڑی جلدی پتہ چل گیا کہ وہ محمد بن قاسم کے خلاف سیوستان کے لوگوں کو بغاوت کے لیے تیار کر رہا ہے، محمد بن قاسم نے ایک نائب سالار عبدالملک بن قیس کو کچھ نفری دے کر باغیوں کی سرکوبی کے لیے بھیجا تھا، جس نے تھوڑے سے وقت میں باغیوں کو کچل ڈالا اور بجے رائے بھی ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا، اس کے بعد محمد بن قاسم تھوڑی سی نفری سیسم میں چھوڑ کر نیرون چلا گیا اور اب وہ اروڑ سے کچھ دور خیمہ زن تھا۔
اس دوران سیسم کے قلعے میں امن وامان رہا جو ہندو اور بدھ وہاں سے بھاگ گئے تھے وہ بھی مسلمانوں کے اچھے سلوک اور فیاضی کو دیکھ کر واپس آ گئے تھے، شہر کے مضافات میں رہنے والے لوگوں کو پتہ چلا کہ مسلمانوں کی حکومت ہر کسی کو انصاف اور حقوق دیتی ہے اور لوگوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار بن جاتی ہے تو باہر کے کئی خاندان شہر میں منتقل ہوگئے اس طرح اس شہر کی آبادی بڑھ گئی۔
محمد بن قاسم کے مقرر کیے ہوئے حاکم، عمال، اور فوجی دیکھ نہ سکے کہ باہر سے آنے والے زیادہ تر لوگ ہندو ہیں، مسلمانوں نے بودھوں اور ہندوؤں کو مذہبی آزادی دے دی تھی اس لیے ان کے مندروں کی رونق عود کر آئی، یہ بھی کسی نے نہ سوچا کہ ہندوؤں کے بڑے مندر میں رات کو بھی ہندو عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔
اس شہر میں تاجروں کے قافلے تو آتے ہی رہتے تھے، لیکن اب قافلے پہلے سے زیادہ آنے لگے، ایک ایک قافلہ چالیس سے پچاس اونٹوں تک کا ہوتا تھا، ان کے مال کے خریدار زیادہ تر ہندو ہوتے تھے، ہر قافلے کے ساتھ آدمی زیادہ آتے تھے، یہ کسی نے نہ دیکھا کہ ایک قافلے کے ساتھ جتنے آدمی آتے ہیں اتنے واپس نہیں جاتے۔
مال کی خریداری اس طرح ہو رہی تھی کہ کپڑا بوریوں میں بند ہوتا تھا ،بعض بوریاں کھولی نہیں جاتی تھیں، دوچار ہندو یہ بوریاں خرید لیتے اور اونٹوں پر لادکر اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے، وہ بوریا گھروں کے اندر کھلتی، اور ہر بوری سے ایک آدمی برآمد ہوتا تھا، ان آدمیوں کو رات کے وقت ہندو بانٹ لیتے اور ایک ایک دو دو کو اپنے گھروں میں لے جا کر چھپا دیتے۔
ایک روز ایک ہندو رشی جس کی داڑھی بڑی لمبی اور سر کے بال بھی لمبے تھے، قلعے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں تریشول تھا ،اس نے ماتھے پر تین رنگوں کی لمبوتری لکیریں ڈالی ہوئی تھیں، اس کے ساتھ پانچ چھ چلے تھے ان کے حلیے بھی اپنے رشی جیسے تھے۔
چونکہ وہ مذہبی پیشوا تھا اس لئے اسے اس قلعے کے دروازے پر نہ روکا گیا، وہ شہر میں داخل ہوا۔
اس شہر کی کایا پلٹ جائے گی۔۔۔ اس نے تریشول اوپر کرکے کہا ۔۔۔زمین بدل جائے گی۔۔۔ آسمان بدل جائے گا ۔۔۔وہ کہتا جارہا تھا۔۔۔ میں خوشخبری لے کر آیا ہوں ،،،،مسلمان رحم دل بادشاہ ہیں۔
وہ کچھ نہ کچھ کہتا مندر تک جا پہنچا، ہندوؤں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ رشی مندر کے اندر چلا گیا پنڈتوں نے لوگوں سے کہا کہ رشی مہاراج بڑا لمبا سفر پیدل طے کر کے آئے ہیں انہیں آرام کی ضرورت ہے ،یہ کل صبح سب کو درشن دیں گے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
وہ رات سیسم قلعے کی ایک پراسرار رات تھی، قلعے کے دروازے بند تھے سنتری بے فکری سے برجوں میں بیٹھے تھے، وہ ذرا سی دیر کے لئے باہر نکلتے اور ادھر ادھر دیکھ کر پھر برج میں جا کر بیٹھ جاتے تھے ،انہیں کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا تھا ،سیوستان پر مسلمانوں کا قبضہ تھا، بغاوت دبائی جا چکی تھیں، اور باغیوں کا سردار بجے رائے مارا جا چکا تھا۔
شہر پر قبرستان جیسا سکوت طاری تھا لوگ گھروں میں گہری نیند سو رہے تھے، اس خاموشی اور اس سکوت میں ایک طوفان انگڑائیاں لے رہا تھا ،اس طوفان نے خاموش راتوں میں پرورش پائی تھی، اور اب یہ سب کچھ اپنے ساتھ اڑا اور بہا لے جانے کے لئے تیار ہو چکا تھا، اور اس طوفان نے ہندوؤں کے مندر سے اٹھنا تھا۔
اس رات مندر کے ایک خاص کمرے میں دس بارہ آدمی بیٹھے تھے ان میں ایک تو اس مندر کا بڑا پنڈت تھا، دوسرا وہ رشی تھا جو اسی روز شہر میں داخل ہوا تھا، لیکن مندر میں اس کا حلیہ کچھ اور تھا اس کی داڑھی اتنی لمبی نہیں تھی نہ اس کے بال لمبے تھے ،اس کے ماتھے پر رنگ دار لکیریں بھی نہیں تھیں ،اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا،،،، وہ رشی نہیں تھا کسی پہلو سے مذہبی پیشوا نہیں تھا، وہ سیوستان کے ایک حصے کا حاکم چند رام ہالہ تھا۔
اس کے ساتھ پانچ آدمی تھے جو شہر میں اس کے ساتھ اس کے چیلوں کے بہروپ میں داخل ہوئے تھے ، یہ سیوستان کے ٹھاکر تھے جو چندرام ہالہ کے ساتھ ایک بہت بڑی سازش کی تکمیل کے لئے آئے تھے۔
شام گہری ہوتے ہی ایک ایک دو دو ہندو مندر میں آنا شروع ہوگئے تھے، ان کی تعداد چالیس پچاس کے درمیان تھی اور یہ راجہ داہر کی فوج کے منتخب جنگجو تھے، یہ سب تاجروں کے قافلوں کے ساتھ تاجروں کے ملازم، محافظ، اور شتربان بن کر آئے تھے اور یہی رہ گئے تھے، انہوں نے وقت مقرر کر رکھا تھا مقامی ہندوؤں کے گھروں میں باہر کے جو ہندو چھپے ہوئے تھے وہ ایک ایک کر کے گھروں سے نکلنے لگے وہ دبے پاؤں چھپتےچھپاتے مندر تک پہنچ رہے تھے، یہ بھی داہر کی فوج کے آدمی تھے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
مسلمان حاکم اطمینان کی نیند سوئے ہوئے تھے انھیں یقین تھا کہ شہر میں امن وامان ہے اور اگر امن و امان تباہ ہوا بھی تو باہر کے حملے سے تباہ ہو گا ،ان کے ذہن میں یہ خدشہ تو آیا ہی نہیں تھا کہ شہر کے اندر سے بھی تباہی اٹھ سکتی ہے، دیوار پر جو گشتی سنتری تھے ان کی تعداد تھوڑی تھی اور وہ چوکس بھی نہیں تھے۔
مندر اب جنگی آپریشن روم بن چکا تھا ،چند رام ہالہ ہدایات دے رہا تھا ہندو فوجیوں میں سے بعض کے پاس تلواریں اور باقی برچھیوں سے مسلح تھے۔
یہ چند رام ہالہ کی زمین دوز سازش تھی، اس نے سیسم کے مندر کے بڑے پنڈت کو سب سے پہلے اعتماد میں لیا اور پھر خود کسی بہروپ میں سیسم آیا اور اپنی آنکھوں دیکھا تھا کہ قلعے میں مسلمان فوج کی تعداد کتنی ہے اور رات کو کہاں کہاں سنتری ہوتی ہیں ،اس نے پنڈت کو اپنی اسکیم بتائی تھی ، اس کے تحت ہندو فوجیوں نے تاجروں کے بہروپ میں آنا اور ہندوؤں کے گھروں میں چھپنا تھا، سیسم کے ہندوؤں کو مندر سے یہ ہدایت ملی تھی کہ وہ بہروپ میں آنے والے فوجیوں کو اپنے گھروں میں چھپا لیں۔
کسی بھی مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ راجہ داہر کو اس سازش کا علم تھا یا نہیں۔
ہندو فوجی مندر اور گھروں سے نکل آئے انہیں جس طرح بتایا گیا تھا وہ اکیلے اکیلے بھی دو دو اور تین تین اکٹھے بھی شہر میں پھیل گئے، اکیلے اکیلے سنتری کو دبوچ لینا کوئی مشکل کام نہ تھا، مسلمان فوج کی نفری قلیل تھی اور سوئی ہوئی تھی ،ان پر چندرام کے آدمیوں نے حملہ کردیا مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا ان میں کچھ زخمی اور شہید ہوئے اور باقی قیدی بنالئے گئے۔
سیسم کے دو مسلمان حاکم و عبدالملک بن قیس اور حمید بن وردع نجدی کے محافظوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن نقصان اٹھایا۔
صبح طلوع ہوئی تو سیسم کے قلعے سے مسلمانوں کا پرچم اتر چکا تھا اور راجہ داہر کا جھنڈا لہرا رہا تھا، مسلمان حاکم اور سپاہی چندرام ہالہ کے قیدی تھے، ایک روایت یہ ہے کہ چندرام ہالہ نے تمام مسلمانوں کو قلعے سے نکال دیا تھا، اور کوئی
قیدی اپنے پاس نہیں رکھا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کو اروڑ کے قریب خیمہ گاہ میں اطلاع ملی کے سیسم پر دشمن کا قبضہ ہو گیا ہے، محمد بن قاسم کو بتایا گیا کہ یہ طوفان شہر کے اندر اٹھا تھا ،محمد بن قاسم نے اپنے ایک تجربے کار سالار محمد بن مصعب کو ایک ہزار سوار اور دوہزار پیا دے کر کہا کہ وہ کہیں روکے بغیر سیسم پہنچے اور قلعے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے۔
خدا کی قسم ابن مصعب!،،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں یہ نہیں سن سکوں گا کہ تم نے باغیوں کو بخش دیا ہے ،اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہیں کتنی جلدی واپس بھی آنا ہے، حالات سے تم واقف ہو۔
ابن قاسم !،،،،،محمد بن مصعب نے کہا۔۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے اچھی خبر سنو گے۔
ایک ہزار سوار اور دوہزار پیادے بہت تیز چلتے دو روز بعد سیسم پہنچ گئے اور قلعے کا محاصرہ کر لیا۔
چند رام !،،،،محمد بن مصعب نے اعلان کرایا۔۔۔ قلعے سے باہر آجاؤ ورنہ آتشیں تیروں سے ہم شہر کو آگ لگا دیں گے، اور تم میں سے کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
ہندوؤں نے دیواروں کے اوپر سے تیر برسائے لیکن ان کی نفری تھوڑی تھی اس کے علاوہ شہر کے لوگوں نے چند رام ہالہ کے ساتھ تعاون نہ کیا، شہر کا کوئی ایک بھی آدمی ان کے ساتھ نہیں تھا، مورخوں کی تحریروں کے مطابق وہ ہندو بھی ان کے ساتھ نہیں تھے جنہوں نے ہندو فوجیوں کو اپنے گھروں میں چھپا کر رکھا تھا۔
مختلف مورخوں کے حوالے سے چچ نامہ فارسی میں تفصیل سے لکھا ہے کہ سیسم کے سرکردہ بدھوں نے چند رام کو گھیر لیا، شہر کے دوسرے لوگ جن میں کچھ ہندو بھی تھے باہر آگئے انہوں نے چند رام کو مجبور کر دیا کہ وہ قلعے کے دروازے کھول دے۔
لیکن کیوں؟،،،،، چند رام نے پوچھا ۔۔۔کیا تم اپنے ملک پر ایک غیر قوم کا قبضہ پسند کرتے ہو۔
شہر کے لوگوں کا شور و غوغا اتنا زیادہ بڑھا کے چندرام ہالہ مجبور اور بے بس ہو گیا ،اس کے پاس فوجی نفری تھوڑی تھی اس نے سیسم کے پنڈتوں پر بھروسہ کیا تھا ،اسے توقع یہ تھی کہ شہر کے تمام لوگ مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور وہ مسلمانوں کو غیر ملکی حملہ آور سمجھ کر ان کے خلاف ہو جائیں گے، اور وہ یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ یہ حملہ ان کے ملک پر ہی نہیں بلکہ مذہب پر بھی ہے، لیکن لوگ کچھ اور سوچ رہے تھے، وہ مسلمانوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے تھے، مسلمانوں نے انہیں امن اور عدل و انصاف دیا تھا، بیگار اور فوج میں جبری بھرتی ممنوع قرار دے دی تھی، مسلمانوں کے ان اثرات کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ سندھ کے چنہ قوم کی بیشتر تعداد نے اسلام قبول کر لیا تھا، آج کا طویل ترین آدمی عالم چنہ اسی قوم سے تعلق رکھتا ہے۔
سیسم کے لوگ ایسے جوش میں آئے کہ چند رام ہالہ کو یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ لوگ اسے اور اس کے آدمیوں کو جنہوں نے دھوکے سے قلعے پر قبضہ کیا تھا قتل کردیں گے، لوگوں نے آگے بڑھ کر قلعے کا دروازہ کھول دیا۔
محمد بن مصعب اپنے سوار اور پیادہ دستوں کے ساتھ شہر میں داخل ہو گیا، سندھ کی تاریخ لکھنے والے تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ شہر کے سرکردہ افراد نے آگے بڑھ کر محمد بن مصعب کا استقبال کیا اور معذرت بھی پیش کی کہ چندرام ہالہ دھوکے سے قلعے پر قابض ہو گیا تھا، محمد بن مصعب نے حکم دیا کے چند رام ہالہ کو پیش کیا جائے، لوگوں نے دیکھا کہ چند رام غائب تھا اس کی تلاش شروع ہوئی تو کسی نے بتایا کہ وہ مندر میں چھپا ہوا ہے۔ اسے مندر سے پکڑا گیا اس کے فوجیوں کو جو بھیس بدل کر وقتاً فوقتاً شہر میں داخل ہوتے تھے پکڑ لیا گیا ،وہ ان ہندوؤں کے گھروں میں چھپنے کی کوشش کررہے تھے جنہوں نے انہیں پہلے گھر میں چھپا رکھا تھا اب کوئی ہندو انہیں اپنے گھر میں داخل نہیں ہونے دے رہا تھا وہ اس جرم کی سزا سے ڈرتے تھے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
کچھ دیر بعد سیسم کے ایک وسیع میدان میں اسلامی فوج کے ان چند ایک شہیدوں کی لاشیں اکٹھی رکھی ہوئی تھیں جنہیں چند رام ہالہ کے آدمیوں نے شہید کیا تھا ،ایک طرف چندرام ہالہ بڑے مندر کے چار پانچ پنڈت اور ان کے پیچھے وہ تمام فوجی کھڑے تھے جنہوں نے ان مجاہدین کو قتل کیا اور قلعے پر قبضہ کیا تھا۔
چندرام ہالہ کے فوجیوں سے تفصیلی بیانات لے کر معلوم کر لیا گیا تھا کہ یہ دھوکہ کس طرح عمل میں آیا تھا۔
محمد بن مصعب اپنے کمانداروں کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھا اور یہ گھوڑے لاشوں کے قریب کھڑے تھے ،وہاں سے ذرا پیچھے ہٹ کر شہر کے لوگوں کا ہجوم تماشائیوں کے گول دائرے کی طرح کھڑا تھا، مکانوں کی چھتوں پر عورتوں کا ہجوم تھا اتنے بڑے ہجوم پر خاموشی طاری تھی ہر کوئی دم بخود تھا ،یہ موت کا سکوت تھا سب جانتے تھے کہ موت اپنا کھیل کھیلنے والے ہے، مجرموں کی گردنیں اڑنے والی تھیں، وہ پنڈت جو دیوتاؤں کے ایلچی بنے ہوئے تھے مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑے تھے ،محمد بن مصعب نے ایک مقامی آدمی کو ساتھ لے رکھا تھا جو سندھی اور عربی زبان روانی سے بول اور سمجھ سکتا تھا۔
شہر کے لوگوں ۔۔۔محمد بن مصعب نے کہا، اور ترجمان ساتھ ساتھ بلند آواز سے بولتا گیا۔۔۔ ان لوگوں کا جرم تمہارے سامنے ہے ہم فاتح ہیں، ہم چاہیں تو انتقام میں ان مجرموں کے ساتھ ان تمام ہندوؤں کے بچے سے بوڑھے تک کو قتل کر دیں جنہوں نے ان مجرموں کو اپنے گھروں میں پناہ دی تھی، لیکن ہم جسموں کو نہیں دلوں کو فتح کیا کرتے ہیں،،،،،، ان مجرموں نے جنہیں قتل کیا ہے ان کی لاشیں تمہارے سامنے پڑی ہیں، خدا کی قسم میری تلوار نیام میں تڑپ رہی ہے کہ میں اپنے مقتولین کے خون کا انتقام اس پورے شہر سے کیوں نہیں لیتا، لیکن جس طرح تم لوگوں نے ہمارے لئے قلعے کے دروازے کھولے ہیں اور جس محبت سے ہمارا استقبال کیا ہے میں اس کا صلہ ضرور دوں گا،،،،،،، میں چند رام ہالہ، اس کے ٹھاکروں اور اس کے فوجیوں کو پھر شہر کے ان تمام افراد کو جنہوں نے انہیں پناہ دی اپنے ان آدمیوں کے قتل کے جرم میں قتل کرنا مناسب فیصلہ سمجھتا ہوں۔
محمد بن مصعب نے یہ الفاظ منہ سے نکالے ہی تھے کہ لوگوں کے ہجوم کی خاموشی ٹوٹ گئی ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا ،چھتوں پر جو عورتیں کھڑی تھیں ان میں سے کئی عورتوں نے باذو اوپر کرکے اونچی آواز میں رونا شروع کردیا یہ وہ عورتیں جن کے گھروں میں چند رام ہالہ نے اپنے آدمیوں کو چھپایا تھا
،،،،،"جو فیصلہ ہونا چاہیے تھا وہ میں نے سنا دیا ہے لیکن میں شہر کے لوگوں کو یہ صلہ دیتا ہوں کہ تم فیصلہ کرو کہ ان قاتلوں اور دھوکہ بازوں کے ساتھ کیا سلوک ہو،،،، محمد بن مصعب کہہ رہا تھا ،،،میں چندرام ہالہ، اس کے ٹھاکروں اور مندر کے بڑے پنڈت کی جان بخشی نہیں کروں گا باقی جو ہیں ان کا فیصلہ تم کرو،،، "
شہر کے دو تین سرکردہ آدمی محمد بن مصعب کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔
اے سالار عرب !،،،،،ایک آدمی نے کہا ۔۔۔ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔
ہم عرض کرتے ہیں کہ قتل کے جرم میں انہیں قتل کیا جائے جنہوں نے یہ جرم کروایا ہے، پنڈت مہاراج کو لوگ مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں اس لئے اس کی ہر بات مانتے ہیں، چندرام ہالہ نے لوگوں کو اپنے فوجیوں سے ڈرا کر اپنے آدمیوں کو لوگوں کے گھروں میں چھپایا تھا ،اس کے ساتھ پنڈت نے ان لوگوں کو مذہب کے نام پر بھڑکایا تھا ،اگر آپ ہمارا فیصلہ قبول کریں تو قتل ان چند ایک آدمیوں کو ہونا چاہیے جنہوں نے یہ جرم کروایا ہے۔
محمد بن مصعب نے سیسم کے حاکم عبدالملک بن قیس اور حمید بن وداع نجدی کی طرف دیکھا جو پاس ہی کھڑے تھے دونوں نے تائید میں سر ہلائے ،اس کے فوراً بعد چندرام ہالہ مندر کے تین پنڈتوں ،باہر سے آئے ہوئے ٹھاکروں، اور شہر کے دو تین سرکردہ ہندوؤں کی لاشیں شہیدوں کی لاشوں کے قریب تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہوگئی تھیں، ان کی گردنیں تن سے جدا کر دی گئی تھیں۔
تاریخوں میں ایک اور چیز آئی ہے جو اس طرح بیان کی گئی ہے کہ محمد بن مصعب نے سیسم سے ایک قاصد محمد بن قاسم کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ سیسم کے حالات معمول پر آگئے ہیں اور مجرموں کو سزا دے دی گئی ہے۔
محمد بن قاسم پریشانی کے عالم میں اس خبر کا انتظار بڑی بے صبری سے کر رہا تھا یہ خوشخبری ملتے ہی اس نے اسی قاصد کے ہاتھ پیغام کا جواب دیا جواب کچھ اس طرح تھا۔
محمد بن قاسم سالار اعلیٰ عساکر عربی کی طرف سے،،،،، محمد بن مصعب کے نام خداوند تعالی سے مجھے یہی امید تھی کہ اس کی ذات باری ہماری دعائیں اور عبادتیں قبول کرلے گی، تم نے وہ کامیابی حاصل کر لی ہے جس کا تم نے ذمہ لیا تھا ،اب وہاں کے عمال میں صرف ان مقامی آدمیوں کو رہنے دو جو وہاں کے شمنیوں کی نظر میں قابل اعتماد ہوں، ہندوؤں پر کبھی بھروسہ نہ کرنا ،میرا یہ پیغام عبدالملک بن قیس اور حمید بن وداع نجدی کے لیے بھی ہے، اب میں تم سے اور اپنے دونوں حاکموں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ ایک اور کامیابی حاصل کرو گے، تم جب واپس آؤں تو تمہارے ساتھ مقامی بودھوں کی کم از کم چار ہزار ایسی نفری ہونی چاہیے جو جنگجو ہو اور ہمارے مجاہدین کی طرح جرات والے ہوں، وہاں کے شمنی سرداروں اور سرکردہ آدمیوں کی ضمانتیں لے کر ان آدمیوں کو فوج میں لینا ہے۔
مورخ لکھتے ہیں کہ محمدبن مصعب جب سیسم سے محمد بن قاسم کے پاس واپس آیا تو اس کے ساتھ اپنے دستوں کے علاوہ چار ہزار مقامی آدمیوں کی فوج تھی، یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ کس قوم کے آدمی تھے لازمی طور پر ان میں چنہ قوم کے آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
سیسم کے حالات بہتر ہوئے تو گھوڑوں میں وباء پھوٹ پڑی گھوڑوں کی کمی ہو سکتی تھی حجاج بن یوسف کو پیغام بھیج دیا گیا تھا لیکن اتنی دور سے گھوڑوں کا جلدی پہنچنا آسان نہیں تھا ممکن ہی نہیں تھا خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ راجہ داہر حملہ کر دے گا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ داہر کو پتہ چل چکا تھا کہ مسلمانوں کے گھوڑے کسی بیماری کی وجہ سے بیکار ہوگئے اور مرنا شروع ہوگئے ہیں اس نے محمد بن قاسم کو پیغام بھیجا تھا کہ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ واپس چلا جائے محمد بن قاسم نے اسے بہت سخت اور توہین آمیز جواب دیا تھا
محمد بن قاسم نے ایک انتظامیہ کیا کہ تیراندازوں کی بہت سی نفری کو دریا کے کنارے بھیج دیا ان کے لئے حکم یہ تھا کہ وہ کنارے کنارے چلتے پھرتے رہے اور جہاں انہیں داہر کی فوج دریا عبور کرتی نظر آئے اس پر تیروں کا مینہ برسا دے
مسلمانوں کے پاس آتشی پیر بھی تھے ان کے اگلے سروں پر ایسے آتشگیر سیال میں کپڑے بیگو کر باندھے جاتے تھے جسے آگ لگا کر تیر چلاتے تو تیر کی اتنی زیادہ رفتار کے باوجود آگ ہوا میں نہیں بجتی تھی یہ تیر جہاں کرتے وہاں آگ لگا دیتے تھے
تاریخ ایسی شہادت بھی پیش کرتی ہے کہ اس دور میں مسلمانوں نے ایسے تیر بنا لیے تھے جو کمان سے نکلتے تھے تو ہوا کی رگڑ سے انہیں آگ لگ جاتی تھی یہ تھا کہ داہر کی فوج کشتیوں میں دریا پار کرنے لگے تو کشتیوں کو دریا کے وسط میں آنے دیا جائے پھر ان پر آگ والے تیر پھینکے جائیں محمد بن قاسم کا دوسرا حکم یہ تھا کہ رات کو خواب بیدار رہے
مسلمانوں کو صرف یہ فائدہ حاصل تھا کہ راجہ داہر کی فوج دریا کے پار تھی۔
راجہ داہر کے یہاں یہی مسئلہ زیر بحث تھا کہ عرب کی فوج پرحملہ کیا جائے یا اسے دریا عبور کرنے اور اپنے سامنے آنے دیا جائے، اس کے وزیر اور جنگی مشیر کہتے تھے کہ اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہوگی کہ دشمن گھوڑوں سے محروم ہوگیا ہو اور اسے نئے گھوڑے لانے کی مہلت دی جائے۔
سردار محمد حارث علافی راجہ داہر کے ساتھ ہی تھا داہر نے اسے کچھ دن پہلے بلا کر کہا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کی فوج کے خلاف اس کی مدد کرے، اور اپنے پانچ سو عربوں کو جنہیں داہر نے پناہ دے رکھی تھی ایک دستے کی صورت میں اس کی فوج میں شامل کر دیں۔
سردار علافی نے انکار کر دیا تھا ،اس نے کہا تھا کہ مسلمان ہوکر وہ مسلمان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائے گا ،راجہ داہر نے اسے اپنے احسانات جتائے تھے، لیکن علافی نہیں مانا تھا۔
کیا تم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ ہمارے ساتھ رہو۔۔۔ راجہ داہر نے اسے کہا تھا ۔۔۔ہمیں کوئی مشورہ ہی دے دیا کرو۔
ہاں !،،،،علافی نے کہا تھا ۔۔۔میں یہ کر سکتا ہوں اس طرح باغی عربوں کا سردار محمد حارث علافی راجہ داہر کے ساتھ تھا ۔
ہمارا دوست علافی بھی یہاں موجود ہے راجہ داہر نے کہا ۔۔۔دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں کیا مشورہ دیتا ہے۔
مہاراج !،،،،محمد حارث علافی نے کہا ۔۔۔آپ کی فوج کے تمام حاکم حملہ کرنا چاہتے ہیں، اگر میں مشورہ دوں تو شاید انھیں اور آپ کو بھی پسند نہ آئے ۔
سب نے اسے کہا کہ وہ بلاجھجک اپنا مشورہ اور تجویز پیش کرے۔
میں عرب ہوں !،،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔عربوں کو آپ نے لڑتے دیکھ لیا ہے ان کی پیش قدمی ان کی جنگی کامیابیوں کو دیکھا ہے، آپ نے ان میں اپنے آدمی بھیجے کہ وہ وہاں تباہی مچائیں لیکن آپ کو کامیابی نہ ہوئی سوائے ایک منجنیق کے جو آپ کے آدمی وہاں سے چوری کرکے لے آئے تھے، آپ سمجھتے ہوں گے کہ عربوں کے متعلق اور ان کی جنگی قابلیت کے متعلق سب کچھ جان لیا ہے، لیکن ان کے متعلق آپ بہت کچھ نہیں جان سکے، جو میں جانتا ہوں، وہ آپ نہیں جانتے۔
کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ عربی فوج گھوڑوں کے بغیر ہمارا مقابلہ کرسکے گی؟،،،، راجہ داہر نے پوچھا ۔۔۔کیا عرب کے پیادے ہمارے ہاتھیوں کو بھی پسپا کر دیں گے۔
کر دیں گے مہاراج !،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔وہ اسی ملک کے ہاتھی تھے جو فارس کے آتش پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف چٹانوں کی طرح ان کے سامنے کھڑے کردیئے تھے، ان کے مہاوت بھی آپ کے ہیں ملک کے تھے، ان ہاتھیوں کی سُنڈوں پر آہنی خول چڑھے ہوئے تھے، اور باقی جسم کے اردگرد آہنی زنجیر لٹک رہی تھی، وہ قادسیہ کی لڑائی تھی کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عرب کے مسلمانوں نے ان ہاتھیوں کو کس طرح میدان جنگ سے بھگایا تھا ،ہمارے پیادوں نے ان ہاتھیوں کی سونڈے کاٹ دی تھیں،،،،،، اور مہاراج عرب کے مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ شروع شروع میں ان کے پاس گھوڑے ہوتے ہی نہیں تھے، کون سی جنگ ہے جو انہوں نے ہاری تھی ،میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ صرف اس وجہ سے عرب کی فوج کو کمزور نہ سمجھ لینا کہ ان کے گھوڑے بیمار ہوگئے ہیں، اور یہ بھی نہ سمجھ لینا کہ اس فوج کا سالار کم عمر ہے۔
اگر تم عرب نہ ہوتے تو عربوں کی اتنی تعریف نہ کرتے ۔۔۔راجہ داہر کے ایک فوجی حاکم نے کہا۔
میرے عزیز دوست!،،،،، علافی بولا ۔۔۔کیا تمہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ ہماری دشمنی اسی خلیفہ کے ساتھ ہے جس نے حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم کو اتنا بڑا اعزاز بخشا ہے، اور شاید تم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ محمد بن قاسم کے دماغ میں یہ ٹھونس کر بھیجا گیا ہے کہ علافیوں کو ویسا ہی دشمن سمجھنا جیسے ہندو ہیں۔
لیکن تم دشمنی کی بجائے دوستی کا حق ادا کر رہے ہو۔۔۔ اسی فوجی حاکم نے کہا ۔۔۔تمہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ میرا پورا قبیلہ تمہارے ساتھ ہے۔
تم ہمارے رسم و رواج نہیں جانتے۔۔۔ علافی نے کہا۔۔۔ دشمنی انسانوں کی ہوتی ہے، اس زمین کو دشمن نہیں سمجھا جاتا جس پر انسان پیدا ہوتے ہیں، میں تمہیں سچے دل سے پوری ہمدردی سے یہ مشورہ دیتا کہ محمد بن قاسم پر حملہ نہ کرنا ورنہ ایسا نقصان اٹھاؤ گے کہ مسلمان سیدھے بلارکاوٹ اروڑ تک پہنچیں گے، تم سمجھتے ہو گے کہ دریا پار کر جاؤ گے، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہاری کشتیاں اس کنارے سے چلے گی تو وہ اس کنارے پہنچے گی نہ واپس آ سکیں گی، ان کے پاس منجنیقیں ہیں اور آتشی تیر ہیں، جو کشتیوں کو جلا کر راکھ کر دیں گے۔
راجہ داہر اناڑی نہیں تھا دوراندیش تھا، اس نے اس وقت تک مسلمانوں کے ہاتھوں جو کھویا تھا اس سے وہ بہت محتاط ہو گیا تھا ،اس نے علافی کے مشورے کو قبول کرلیا اور فیصلہ کیا کہ مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا جائے گا، اور انہیں دریا عبور کر کے اس طرف آنے کی مہلت دی جائے گی۔
میں تم سب کو ایک بار پھر کہتا ہوں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔کہ عرب فوج ادھر آئے گی تو سامنے ہم اپنے ہاتھیوں کے ساتھ ایک پہاڑ کی طرح کھڑے ہونگے اور پیچھے یہ گہرا اور تیز دریا ہوگا ،وہ ہمارے ہاتھ کاٹیں یا پیچھے ہٹ کر ڈوب مریں گے۔
محمد بن قاسم کی کیفیت یہ تھی کہ اس کی نیندیں حرام ہوگئی تھی
راتوں کو دریا کے کنارے گھوڑا دوڑاتا دور تک نکل جاتا تھا، اس نے کئی بار اپنے سالاروں سے کہا تھا کہ راجہ داہر اتنا کم عقل نہیں ہوسکتا کہ ہماری اتنی بڑی کمزوری کو جانتے ہوئے بھی حملہ نہ کرے۔
رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تھی تیرانداز دریا کے کنارے چار چار پانچ پانچ کی ٹولیوں میں گشت کر رہے تھے، ان کی نظریں دریا کی وسعت کو دیکھ رہی تھیں، دریا میں ذرا سی بھی کوئی غیر معمولی آواز اٹھتی تو جو تیر انداز یہ آواز سنتے چونک کر رک جاتے دریا کی لہروں کو غور سے دیکھتے اور اس وقت وہاں سے ہٹتے جب انہیں یقین ہو جاتا کہ کسی دریای مخلوق نے سر باہر نکالا اور ڈبکی لگائی تھی۔
تیر اندازوں کی ایک ٹولی چلتے چلتے رک گئی دریا کی سطح پر انہیں ایک سایہ تیرتا نظر آیا، وہ روک کر دیکھنے لگے سایہ آگے ہی آگے بڑھتا رہا تھا پھر صاف نظر آنے لگا کے یہ ایک چھوٹی کشتی ہے اور دو آدمی کشتی کو چپوؤں سے کھینچ رہے ہیں، تیر انداز بیٹھ گئے تاکہ کشتی والے انہیں دیکھ نہ سکیں۔
پانی کا بہاؤ بڑا تیز تھا کشتی کچھ آگے جا کر کنارے لگی اور دو آدمی کشتی میں سے نکلے ،تیر انداز جھکے جھکے چھپتےچھپاتے ان تک جا پہنچے اور انہیں گھیرے میں لے لیا، ان دونوں نے عربی زبان میں بات کی لب و لہجہ بھی عربی تھا لیکن صرف عربی زبان سے یقین نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یہ دوست ہیں اور دشمن کے آدمی نہیں، انہوں نے کہا کہ وہ محمد بن قاسم کے پاس جانا چاہتے ہیں، تیر اندازوں نے انھیں پکڑ لیا اور مشکوک آدمیوں کی حیثیت سے انہیں خیمہ گاہ میں لےگئے اور وہاں کے سنتریوں کے حوالے کر کے خود دریا کے کنارے آ گئے۔
انہیں شعبان ثقفی کے حوالے کیا گیا انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے سردار محمد حارث علافی کی طرف سے آئے ہیں، شعبان ثقفی کا خفیہ رابطہ علافی کے ساتھ تھا ،وہ یقیناً ان آدمیوں کو جانتا ہوگا وہ اسی وقت انہیں محمد بن قاسم کے پاس لے گیا۔
محمد بن قاسم بہت کم سوتا تھا اس نے سب سے کہہ رکھا تھا کہ وہ سو جائے تو رات کسی بھی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اسے جگہ لیا جائے۔
کیا خبر لائے ہو ۔۔۔ابن قاسم نے ان آدمیوں کو اپنے خیمے میں بٹھا کر پوچھا۔
ہمارے سردار نے آپ کے نام پیغام دیا ہے ۔۔۔ان دونوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔ اس نے کہا ہے کہ راجہ داہر کو اس نے منوا لیا ہے کہ وہ آپ پر حملہ نہ کرے۔
کیا اس نے راجہ داہر سے درخواست کی تھی؟
نہیں سالار اعلیٰ !،،،،،اس آدمی نے کہا ۔۔۔ہمارے سردار نے راجہ داہر کو مشورہ دیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر حملہ کیا تو اسے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا ،،،،علافی کے ان آدمیوں نے محمد بن قاسم کو وہ تمام باتیں سنائیں جو راجہ داہر کے ساتھ علافی کی ہوئی تھی، اور داہر کے اپنے فوجی حاکموں نے اسے جو مشورے دیے تھے وہ بھی سنائے۔
سالار اعلی!،،،، اس قاصد نے کہا ۔۔۔سردار علافی نے کہا ہے کہ آپ جتنی جلدی ہو سکے گھوڑوں کا انتظام کریں، جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے یہ وقت آپ کا دشمن ہوتا جا رہا ہے، سردار نے کہا ہے کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں آپ کو گھوڑے نہیں دے سکتا کیونکہ داہر کو پتہ چل جائے گا پھر میں آپ کی یہ مدد بھی نہیں کر سکوں گا جو اب کر رہا ہوں، اور آپ کو یہاں کے اندرونی حالات اور خفیہ باتوں کا علم ہوتا جارہا ہے ۔
کیا حارث اس راجہ داہر کے ساتھ ہی رہتا ہے؟
ہاں سالار اعلی!،،،،، قاصد نے جواب دیا۔۔۔ راجہ داہر اسے آپ کے خلاف اکسا رہا تھا لیکن سردار نے صاف انکار کردیا ،وہ صرف اس پر راضی ہوا تھا کہ مشاورات کے لئے اس کے ساتھ رہے گا۔
اور سردارعالی !،،،،دوسرے قاصد نے کہا ۔۔۔یہ بھی ہمارے سردار نے اس لئے قبول کیا ہے کہ راجہ داہر کے ساتھ رہنے سے اس کے ارادوں اور عزائم کا پتا چلتا رہے گا،،،، ہم چار آدمی ہیں جنھیں سردار نے اپنے محافظوں کے طور پر اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے، ہم بڑا خطرہ مول لے کر یہاں تک پہنچے ہیں، ایک چھوٹی کشتی چوری کی تھی اب اسی کشتی پر واپس جائیں گے، اور اس طرح جانا پڑے گا کہ ہمیں کوئی دیکھ نہ سکے۔
حارث سے کہنا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اسکا اجر تمہیں اللہ دے گا ،،،،دونوں قاصد واپس چلے گئے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
بصرہ میں حجاج بن یوسف کو جب اطلاع ملی کہ محمد بن قاسم کے تمام گھوڑے کسی نامعلوم بیماری میں مبتلا ہو کر بیکار ہوگئے ہیں اور مرنے بھی لگے ہیں تو وہ پریشانی سے نڈھال ہوگیا، اتنا بڑا صدمہ برداشت کر گیا اس نے اسی وقت حکم دیا کے بصرہ میں فوج کے جتنے بھی گھوڑے ہیں فورا حاضر کیے جائیں ،تھوڑی سی دیر میں دوہزار گھوڑے قصرِ امارت کے سامنے آ کھڑے ہوئے، حجاج نے دوسری کارروائی یہ کی کہ شہر کی تمام مسجدوں کے اماموں کو علماء اور کئی دیگر متقی افراد کو طلب کیا۔
سندھ میں ہم پر جو آفت نازل ہوئی ہے اس کا علاج صرف دعا ہے۔۔۔ حجاج نے اماموں اور علماء وغیرہ سے کہا۔۔۔ سندھ میں اپنے سوار دستوں کے تمام گھوڑے کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں، گھوڑے مرنا شروع ہوگئے ہیں، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے نوجوان سپہ سالار کا کیسی ہولناک مصیبت میں گرفتار ہوگا ،وہ دشمن کا ملک ہے دشمن اس پر حملہ کرے گا تو نتیجہ کیا ہو گا، دشمن ضرور حملہ کرے گا، اس نوجوان لڑکے اور اسکے لشکر کو صرف دعائیں بچا سکتی ہیں، اللہ کے حضور گڑگڑاؤ، اور روؤ ، سجدے کرو اور اللہ سے دعا مانگو۔
پھر حجاج نے منوں کے حساب سے روئی اور سرکہ فوراً اکٹھا کرنے کا حکم دیا، جوں جوں روئی آتی جا رہی تھی حجاج کے حکم سے اسے سرکے میں بھگوتے تھے ،اور دھوپ میں رکھتے جا رہے تھے روئی آتی رہی سرکہ بھی آتا رہا سرکے میں بھیگی ہوئی روئی خشک ہو جاتی تھی تو اسے پھر سرکے میں بھگو دیتے تھے تاکہ روئی زیادہ سے زیادہ سرکہ اپنے اندر جذب کر لے۔
جب روئی خشک ہو گئی تو اس کی گانٹھیں بنا کر دو ہزار گھوڑوں کے ساتھ سندھ روانہ کردی گئیں، یہ گھوڑے جس آدمی کی ذمہ داری میں بھیجے گئے اس کا نام طیار تھا وہ گھوڑوں کے امراض کا ماہر تھا۔
حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کے نام پیغام بھیجا جس میں اس نے لکھا کہ گھوڑوں کو اس خطے کی غذا ہضم کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے، اور یہ غذا گھوڑوں کو راس نہیں آئی، سرکے میں بھگو کر خشک کی ہوئی روئی بھیجی جا رہی ہے تھوڑی سی روئی پانی میں ڈال کر نیچوڑو گے تو تمہیں سرکہ حاصل ہوگا، سرکے کے علاوہ یہ پانی ہر روز دو تین مرتبہ گھوڑوں کے منہ میں ڈلواتے رہنا گھوڑے صحت یاب ہو جائیں گے۔
مسجدوں میں دعائیں مانگی جا رہی تھیں، نوافل پڑھے جا رہے تھے سارے شہر بصرہ میں یہ خبر پھیل گئی، عورتیں گھروں میں دعائیں مانگنے لگیں، گھر گھر وظیفہ پڑھے جانے لگے، خلیفہ وقت کو بھی محمد بن قاسم کو درپیش صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا تھا، خلیفہ عبدالملک ہر جمعے کے خطبے میں لوگوں کو محمد بن قاسم اور اس کے لشکر کی نجات اور کامیابی کی دعا کے لئے کہنے لگا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اللہ تبارک وتعالی نے دعائیں قبول کرلیں، دوہزار تازہ دم گھوڑے بروقت پہنچ گئے ورنہ خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ حجاج کے بھیجے ہوئے گھوڑوں سے پہلے داہر کے گھوڑے آ جائیں گے، جن پر مسلح سوار ہوں گے، دوہزار گھوڑوں کے ساتھ بیمار گھوڑوں کا علاج بھی پہنچ گیا، اس نے بہت سے بیمار گھوڑوں کو بچا لیا۔
محمد بن قاسم نے اس مقام پر قیام ضرورت سے زیادہ لمبا کر دیا ،حجاج اسکے اس پیغام کا منتظر رہا کہ دریا عبور کرلیا گیا ہے اور داہر کی فوج کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی ہے، لیکن کوئی پیغام نہیں آرہا تھا، حجاج کو اپنے خفیہ ذرائع سے معلوم ہوا کہ محمد بن قاسم بلا وجہ وہاں رکا ہوا ہے، حجاج کو یہ اطلاع بھی ملی تھی کے سیسم پر ایک ہندو حاکم نے دھوکے سے قبضہ کر لیا تھا اور اس سے قبضہ چھڑا لیا گیا ہے، حجاج اس اطلاع پر بہت برہم ہوا کہ سیسم میں صرف سرغناؤں کو سزائے موت دی گئی ہے اور جو ہندو فوجی دھوکے سے قلعے میں داخل ہوئے تھے اور جن ہندوؤں نے انہیں اپنے گھروں میں چھپایا تھا ان سب کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
حجاج نے یہ ساری باتیں سامنے رکھ کر محمد بن قاسم کو تحریری پیغام بھیجا جو تاریخوں میں محفوظ ہے۔
،،،،، میں حیران ہوں کہ تم ابھی تک وہی ہوں اور ابھی تک دریا عبور کرنے کی کوشش نہیں کی، کیا تم دشمن پر رحم کرنا چاہتے ہو، مجھے تمہارا یہ رویہ پسند نہیں کہ دشمن کو امان دیتے اور جان بخشی کرتے رہو ،عداوت پیدا ہوجائے تو امان نہیں دینی چاہئے، تم گنہگار اور بے گناہ کو یکساں سمجھتے ہو، دشمن کہے گا کہ یہ تمہاری کمزوری ہے کیا تم بھول گئے ہو کہ خدائے ذوالجلال نے تمہیں ایسی عقل سے نوازا ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتی تم اس عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟،،،،،،، اور تم وہاں بیکار بیٹھے دشمن کو مزید تیاری کا موقع دے رہے ہو، تمہارے مشیر کیا کر رہے ہیں میرا یہ پیغام انہیں بھی سنا دینا،،،،،، جنگ میں دشمن کو دھوکہ دیا جاتا ہے ظاہر کچھ اور کرکے کیا کچھ اور جاتا ہے، تم وقت ضائع کرتے رہو گے تو جنگ کے اخراجات بڑھتے جائیں گے، حکومت اور حکمت عملی کی طرف توجہ دو، لشکر کی جرات مندی اور بے خوفی کو نظر انداز نہ کرنا، لشکریوں کے حوصلے دور اندیشی اور ظرف کی کشادگی سے مضبوط کرو، راست گو رہو راست گو کا احترام کرو، ثابت قدم رہو اور ذکر ہی اور عبادت دل و جان سے ادا کرو،،،،،
مجھے یہاں بیٹھے دریائے مہران سندھ نظر آرہا ہے، دریا بیٹ کے قریب سے عبور کرنا کیوں کہ وہاں دریا تنگ ہے پانی گہرا اور تیز ہے لیکن وہی سے پار جانا آسان ہوگا ،کشتیوں کا پل بنا لینا مقامی لوگوں کو استعمال کرنا وہ تمہیں کشتیاں اکٹھی کر دیں گے، اصل مدد تو اللہ سے مانگنا، اللہ کو اپنے ساتھ سمجھنا جب تم بے خوف ہو کر دریا عبور کرو گے اور حوصلے سے دشمن کو للکارو گے تو وہاں کے لوگوں پر تمہارا رعب بیٹھ جائے گا اور وہ دل و جان سے تمہاری اطاعت قبول کریں گے۔
اس پیغام کے ساتھ حجاج نے خلیفہ کا حکمنامہ بھیجا تھا جس کے تحت محمد بن قاسم کو سندھ کا امیر (گورنر) مقرر کیا گیا تھا ،حجاج نے لکھا تھا کہ اس نے خلیفہ سے یہ حکم نامہ بہت سی باتیں کر کے حاصل کیا ہے، تمہیں اب ثابت کرنا ہے کہ تم اس التجاء کے اہل ہو، تمہیں آزادی سے حکومت کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے۔
محمد بن قاسم اپنے حالات کو خود ہی بہتر سمجھتا تھا اس نے جاسوسوں کو ہر طرف پھیلا رکھا تھا، عرب کے باغی علافی اس سلسلے میں اس کی مدد کر رہے تھے، داہر کی فوج دوسرے کنارے پر تھی وہ ہاتھیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا تھا ،ہندوستان سے مزید ہاتھی آرہے تھے اس نے اپنی فوجی حاکموں سے کہا تھا کہ وہ اسی لڑائی کو فیصلہ کن بنائے گا ،اور اسی میدان میں مسلمانوں کا نام و نشان مٹا کر سندھ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم محتاط ہو کر آگے بڑھنا چاہتا تھا حجاج کے پیغام نے اسے گرما دیا ،وہ حجاج کے ان الفاظ کو برداشت نہ کر سکا کہ تم وہاں بیکار بیٹھے ہو اور وقت ضائع کر رہے ہو۔
میرا چچا ہمیں تیر سمجھتا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں
*قسط نمبر/22*
محمد بن قاسم نے محمد بن مصعب کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ ہراول کے دستوں کی کمان لے لے اور کشتیوں کے پل سے پار چلا جائے اور بہت آگے نکل جائے۔
ابن مصعب !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم جانتے ہو ہراول کا کام کیا ہوتا ہے، اگر دشمن تم پر حملہ کردے تو تمہارا قاصد وہاں سے نکلنے کی کوشش کرے اور پیچھے آکر اطلاع دے، یہ احتیاط کرنا کے قاصد کوئی مقامی آدمی نہ ہو، عربی ہو۔
محمد بن مصعب اپنے ساتھ کچھ دستے لے کر روانہ ہو گیا اور پل سے گزر گیا اس کے بعد محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ باقی لشکر کشتیوں کے پل تک چلا جائے، محمد بن قاسم کوچ کا حکم دے کر خود کشتیوں کے پل کے قریب جا کھڑا ہوا پھر لشکر پہنچ گیا اور کشتیوں کے پل سے دریا عبور کرنے لگا۔
محمد بن قاسم کھڑا دیکھتا رہا گھوڑے کشتیوں میں قدم رکھتے آگے بڑھتے گئے پیادے بھی جا رہے تھے اتنے زیادہ گھوڑوں اور پیادوں کے ہجوم کے نیچے کشتیاں زور زور سے ہلنے لگیں، سوار اپنے گھوڑوں کی باگیں پکڑے پیدل ان کے ساتھ جا رہے تھے محمد بن قاسم کھڑا دیکھ رہا تھا۔
ایک ہی بار کشتیوں پر زیادہ ہجوم ہو گیا گھوڑوں کے ساتھ اونٹ بھی بے شمار تھے ان پر رسد لدی ہوئی تھیں، بیل گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں کشتیوں سے نہیں گزاری جاسکتی تھیں اس لیے اونٹوں کا انتظام کرلیا گیا تھا ،گھوڑے اونٹ اور انسان اتنے زیادہ ہو گئے کشتیاں بہت زیادہ ڈولنے اور اوپر نیچے ہونے لگیں، دریا نے ایک جان کی قربانی لے لی، اس شہید کا نام صرف توراب لکھا گیا ہے، وہ بنی حنظلہ میں سے تھا ،وہ پل کے وسط تک پہنچ چکا تھا شاید گھوڑوں سے بچنے کے لئے وہ کسی کشتی پر اتنا زیادہ دائیں بائیں ہو گیا کہ ہلتی ہوئی کشتیوں پر اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور دریا میں جا پڑا وہاں دریا بہت زیادہ تیز اور بہت گہرا تھا، دریا اسے اپنے ساتھ ہی لے گیا کوئی اس کی مدد کو نہ پہنچ سکا وہ ڈوب کر شہید ہو گیا ،دریائے سندھ نے مسلمانوں سے پہلی قربانی لے لی۔
محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف کے قاصد کو روک کر رکھا تھا کیونکہ وہ دریا عبور کر کے اسی قاصد کے ساتھ حجاج کو پیغام بھیجنا چاہتا تھا کہ اس نے دریا عبور کر لیا ہے، اس نے قاصد کو اس وقت بھی اپنے ساتھ رکھا جب کشتیوں کا پل بن رہا تھا، جب فوج اس پل سے گزر رہی تھی تو یہ منظر بھی قاصد کو دکھایا۔
طیار نام کا جو آدمی گھوڑوں کی بیماری دیکھنے آیا اور سرکہ لایا تھا اسے بھی محمد بن قاسم نے اپنے ساتھ رکھا، طیار کو محمد بن قاسم نے فوج کی تقسیم بھی دکھائی اور اپنی فوج میں اس نے مقامی آدمیوں کے جو سوار اور پیادہ دستے شامل کیے تھے وہ بھی دکھائے۔
تم دونوں میری تمام کاروائیاں اور کارگزاری دیکھ لی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے دونوں کو اپنے ساتھ دریا کے پار لے جا کر کہا ۔۔۔کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ میں اتنا لمبا خط نہیں لکھوا سکتا کہ یہ تمام کارروائیاں اس میں شامل کرو، امیر بصرہ حجاج بن یوسف کو یہ سب زبانی سنا دینا جو تم نے دیکھا ہے، اور یہ بھی کہنا کہ مجھے سندھ کا امیر نہ بنایا جاتا تو بھی میں نے اپنا فرض ادا کرنا ہے جس کے لیے میں یہاں آیا ہوں، اور میں یہاں واپس جانے کے لئے نہیں آیا ،جب تک زندہ ہوں بت پرستوں کے اس ملک میں دور دور تک اسلام کا نور پہنچاؤں گا، لاریب اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے اور محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں یہ پیغام لے کر اس ملک میں داخل ہوا ہوں۔
پھر اس نے حجاج کے نام پیغام لکھوایا جو قاصد کو دے کر اسے واپس جانے کو کہا طیار بھی قاصد کے ساتھ چلا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
دریا کے پار جا کر محمد بن قاسم اپنے گھوڑے کو بلند جگہ پر لے گیا ،اس کا لشکر اس کے سامنے کھڑا تھا۔
مجاہدین !،،،،،،وہ بڑی بلند آواز سے لشکر سے مخاطب ہوا۔۔۔ دریا کے اُس طرف معاملہ کچھ اور تھا اِس طرف کچھ اور ہے ، اب تم اس طاقتور دشمن کے بالمقابل آگئے ہو جس کے آدھے علاقے پر تم قابض ہو چکے ہو، یہ راجہ داہر ہے جو اسلام کا دشمن ہے، اس نے پانج سو عربی مسلمانوں کو یہاں پناہ دے کر انہیں عربوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کئی بار کی ہے،،،،،،، اس نے ہمیں ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے بے انداز جنگی طاقت اکٹھی کر رکھی ہے، اس نے کہا تھا کہ ہم جب یہاں تک پہنچیں گے تو ہم تھکے ہوئے ہوں گے، اس لئے یہ ہمیں آسانی سے شکست دے سکے گا، کیا تم یہ ثابت کرو گے کہ اس نے جو سوچا تھا وہ ٹھیک تھا۔
نہیں،،،، نہیں،،،، لشکر سے سور اٹھا ۔۔۔ہم تھکے ہوئے نہیں ہیں۔
آفرین !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہارے جسم تھک سکتے ھیں روحیں ایمان اور جذبے سے تروتازہ ہیں ،لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارے سامنے کیا آنے والا ہے،،،،،، اسلام کا یہ دشمن جنگی ہاتھی بھی لا رہا ہے، سنا ہے اس نے ہاتھیوں کو کسی طریقے سے بدمست کر رکھا ہے، اس کا خیال ہے کہ یہ اسلام کی پیش قدمی کو ہاتھیوں سے روک لے گا،،،،،، نہیں روک سکے گا، قادسیہ کی جنگ یاد کرو آتش پرست بھی ہاتھی لائے تھے، تمہارے باپ دادا نے ان ہاتھیوں کی سنڈیں کاٹ ڈالی تھیں، وہ ہاتھی بھی اسی ملک کے تھے اور وہ اسی راجہ داہر کے باپ دادا نے بھیجے تھے ،ہاتھی لگتے خوفناک ہیں لیکن تمہارے جذبے تمہاری تلواروں اور تمہاری برچھیوں کے آگے یہ ریت کے ٹیلے ثابت ہو نگے ، اگر تلوار استعمال کرنی ہو تو ہاتھی کی سونڈ کاٹنے کی کوشش کرو، اگر برچھی مارنی ہے تو ہاتھی کی آنکھ میں برچھی مارو، اگر تیر چلانا ہے تو ذرا دور سے فیل بان پر تیر چلاؤں جو ہاتھی کے سر پر بیٹھا ہوگا ،اس کے ہاتھی کے ہودے میں جو آدمی ہوں گے ان پر تیر چلاؤ،،،،،،،،
اب یہ سوچ لو کہ تم اس طرح لڑو گے کہ تمہارے سامنے بہت بڑی جنگی طاقت ہوگی اور تمہارے پیچھے دریا ہوگا ،تمہارا دشمن کہتا ہے کہ آگے آؤ گے تو تمہیں اس کے ہاتھی کچل ڈالیں گے ،اور پیچھے ہٹو گے تو دریا میں ڈوب جاؤ گے، اس کا کہنا غلط نہیں لیکن تم نے اللہ کا نام لے کر اسے غلط ثابت کرنا ہے، تمہاری زبان پر ذکر الہی ہونا چاہیے، اور دل کو یقین دلاتے رہو کہ خدائے عزوجل تمہارے ساتھ ہے، ایسا کر دکھاو کے دشمن کے ہاتھی دشمن کی فوج کو ہی کچل ڈالیں اور اپنی فوج کو روندتے ہوئے بھاگ جائیں، ایسا ہی ہوگا ان شاء اللہ۔
ان شاءاللہ،،،، ان شاءاللہ،،،،،، لشکر سے کی آوازیں اٹھیں۔
اور میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ سوچ لو۔۔۔ محمد بن قاسم کہہ رہا تھا ۔۔۔اگر میدان جنگ سے بھاگنا ہے تو یہیں سے واپس چلے جاؤ، اگر میدان جنگ سے ایک آدمی بھاگا تو اس کے ساتھ دو تین اور آدمی بھاگ اٹھیں گے، پھر دیکھی دیکھا کچھ اور آدمی جنگ سے نکل جائیں گے، کیا یہ اچھا نہیں کہ یہیں سے آگے نہ جاؤ، میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ جو آدمی کسی بھی وجہ سے آگے نہیں جانا چاہتا وہ باہر آ جائے اور واپس چلا جائے۔
صرف تین آدمی لشکر سے باہر آئے اور محمد بن قاسم کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے۔ کسی بھی مورخ نے ان تینوں کے نام نہیں لکھے صرف یہ واقعہ لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ تین آدمی سامنے آئے، اور محمد بن قاسم نے قدر برہم ہوکر ان کے ساتھ بات کی۔
کیا تم بزدل ہو گئے ہو؟،،،، محمد بن قاسم نے ایک سے پوچھا۔
نہیں سالار اعلی!،،،،،، اس نے کہا ۔۔۔بزدل ہوتا تو گھر سے ہی نہ آتا، آیا تو کہیں کبھی بزدلی نہیں دیکھائی، میری ایک ہی بیٹی ہے اس کی ماں مر چکی ہے اسے میں ایک دوست کے گھر چھوڑ آیا تھا اب وہ جوان ہو گئی ہے، کیا یہ میرا فرض نہیں کہ میں اس کی پرورش اور نگہداشت خود کرو۔
ہاں !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ پہلی ذمہ داری جوان اور بے آسرا بیٹی کی ہے ،جاؤ پہلے بیٹی کا فرض ادا کرو۔
اور تم !،،،،محمد بن قاسم نے دوسرے سے پوچھا ۔
میری ماں بہت بوڑھی ہے دوسرے نے کہا۔۔۔ کوئی ایسا رشتے دار اور دوست نہیں جو اس کی دیکھ بھال کر سکے، مجھے ہر وقت اس کا خیال آتا ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگلی لڑائی میں ماں کی یاد مجھے گمراہ نہ کر دے۔
ماں کی خدمت پہلا فرض ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ آج ہی واپس چلے جاؤ ۔
اور میں مقروض ہوں سالار عرب!،،،،، تیسرے نے کہا ۔۔۔ڈرتا ہوں کہ مارا گیا تو قرض کون ادا کرے گا، میرا کوئی رشتہ دار نہیں ۔
کیا تم قرض ادا کرنے کے قابل ہو گئے ہو؟ ہاں سالار اعلٰی!،،،،، اس مجاہد نے جواب دیا۔۔۔ اتنی رقم اکٹھا ہوگئی ہے ۔
جاؤ !،،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔پہلے قرض ادا کرو، قرض دینے والے نے تم پر اعتبار کیا ہے، ان تینوں کو وہیں سے واپس بھیج دیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم اپنی فوج کو منظم کر رہا تھا، وہ بہت ہی محتاط ہو کر آگے بڑھنا چاہتا تھا، کیونکہ یہ میدان کی پہلی جنگ تھی اور دشمن بہت طاقتور تھا ،راجہ داہر نے اسی جنگ کے لئے اپنی طاقت محفوظ رکھی تھی ،اور اس نے ہر طرف یہ حکم بھیجا تھا کہ قلعہ بند ہو کر مسلمانوں کا مقابلہ کرو ،وہ شکست پر شکست برداشت کرتا رہا لیکن کسی کو کمک نہیں دی تھی۔
جاسوس جو پہلے ہی آگے چلے گئے تھے وہ آ کر آگے کی اطلاعیں دینے لگے تھے، آگے جیور نام کا ایک بڑا گاؤں تھا جو باقاعدہ قلعہ تو نہیں تھا لیکن اس کے اردگرد دیوار تھی اور دروازے بھی تھے، محمد بن قاسم کو اڈہ بنانے کے لئے ایک جگہ کی ضرورت تھی، جیور ہی بہتر جگہ ہو سکتی تھی، وہاں داہر کی فوج کی کتنی نفری ہے اور گاؤں کیسا ہے۔
محمد بن قاسم نے پیش قدمی کا حکم دیا ،اس کے مقامی جاسوس پہلے ہی آگے چلے گئے اور وہاں جو فوجی مقیم تھے انہیں بتایا کہ مسلمانوں کی فوج طوفان کی طرح آرہی ہے یہاں سے بھاگو ورنہ مارے جاؤ گے، اس کا خاطر خواہ اثر ہوا داہر کے فوجی بھاگ گئی، گاؤں میں بھی بھگدڑ مچ گئی جاسوسوں نے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی انہیں کہا کہ مسلمان غیر فوجیوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے نہ ہی کوئی اور نقصان پہنچاتے ہیں، اس طرح گاؤں کے لوگ رک گئے لیکن خوف وہراس قائم رہا۔
مہاراج کی جے ہو !،،،،،راجہ داہر کو ایک آدمی نے اُکھڑی ہوئی اور قدرے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔عرب کا لشکر آ گیا ہے، دریا کے اس طرف آ گیا ہے، اور اب جیور میں ہے، ہماری فوج کے آدمی وہاں سے بھاگ آئے ہیں، جیور پر عربوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔
ہمارے آدمیوں نے اچھا کیا ہے کہ وہاں سے بھاگ آئے ہیں۔۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ یہ تھوڑے سے سپاہی اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، اب بھاگنے کی باری مسلمانوں کی ہے ،ان میں کوئی بہت ہی خوش قسمت ہو گا جو عرب تک زندہ پہنچے گا، وہ میرے جال میں آگئے ہیں، اتنے زیادہ قلعے لے کر ان کے دماغ پھر گئے ہیں، یہ بدبخت سمجھ نہیں سکے کہ یہ شہر اور قلعے جو انہوں نے لیے ہیں یہ فیصلہ کن شکست کے راستے کی منزلیں تھیں۔
مورخ لکھتے ہیں کہ راجہ داہر کے چہرے پر بشاشت تھی اطمینان تھا اور وہ کسی سے مشورے بھی نھیں لیتا تھا ،اس کے جسم میں اتنی عمر کے باوجود عجیب طرح کی پھرتی اور دماغ میں مستعدی آ گئی تھی، اس نے یہ خبر سن کر کہ عرب فوج جیور پر قابض ہو گئی ہے ،اپنے ایک فوجی کمانڈر راجکیش کو بلایا ۔
راجکیش کو بھی اطلاع مل چکی تھی کہ مسلمان دریا پار کر آئے ہیں وہ شاید گھبرایا ہوا تھا۔
راجکیش!،،،،، راجہ داہر نے اس کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہارا رنگ اڑا ہوا نہیں ،کیا تم نے بھی اپنے اوپر عربوں کا خوف طاری کر رکھا ہے؟
نہیں مہاراج!،،،،، راجکیش نے کہا۔۔۔ خوف کیسا لڑائی سے پہلے چہروں کے رنگ کچھ دیر کے لیے تو اڑ ہی جاتے ہیں، میرے لئے کیا حکم ہے مہاراج۔
شکار جال میں آ گیا ہے ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ لیکن میں اسے یہ اعزاز نہیں دونگا کہ خود اپنی فوج لے کر اس کے سامنے چلا جاؤں، وہ مجھے میدان جنگ میں ڈھونڈے گا میں اسے نہیں ملوں گا، اس کے ساتھ کھیلوں گا اسے گھماؤں پھراؤنگا ،،،،،،جیور سے اس طرف جو جھیل ہے وہ تم نے سیکڑوں بار دیکھی ہے، ایک ہزار سوار اور ایک ہزار اپنے ساتھ لے لو اور اس جھیل کے اس طرف جا کر ڈیرہ ڈال دو، دشمن پر نظر رکھو ،میں تمہارے پیچھے رہوں گا۔
راجکیش ایک ہزار سوار اور ایک ہزارپیا دے لے کر جھیل کے کنارے خیمہ زن ہوا۔
محمد بن قاسم کو اطلاع ملی تو اس نے اپنے ایک کمانڈر صحرز بن ثابت قیسی کو دو ہزار سوار اور پیادے دے کر جھیل پر بھیج دیا۔
دو مورخوں نے قیسی کو الدمشکی لکھا ہے۔ ایک اور کمانڈر محمد زیاد المعبدی کو ایک ہزار سوار دے کر اسی جھیل کے ایک اور کنارے بھیج دیا۔
ابن ثابت !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ دشمن اپنی طرف والے کنارے پر خیمہ زن ہے، تم اس کے ساتھ والے کنارے پر خیمہ گاڑ لو اور ہر وقت چوکس رہو ، تمہارا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ دشمن کے سر پر سوار رہو،،،،، اور تم محمد زیاد!،،، صحرز کے بالمقابل کنارے پر ڈیرہ جما لو، اور تم بھی دشمن کو یہ تاثر دو کہ اس کے سر پر سوار ہو۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اس دوران محمد بن قاسم کو حجاج بن یوسف کا تحریری پیغام ملا ،جس میں اس نے عبادت، دعاء اور راتوں کو ذکر الہی پر زیادہ زور دیا تھا ،اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ تمہیں جنگ کا اصل تجربہ اب ہوگا ،اس کے ساتھ ہی حجاج نے بہت سی عملی ہدایات لکھی تھیں، آخر میں اس نے لکھا تھا کہ تم نے خداوند تعالی پر بھروسہ رکھا اور اپنے ایمان اور جذبے کو اللہ کی خوشنودی کے لئے قائم رکھا تو فتح ہر حال میں تمہاری ہو گی۔
اب دونوں طرف کے لشکر فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار تھے، راجہ داہر بھی میدان میں آگیا تھا، اس نے اپنے بیٹے جے سینا کو اپنے پاس بلا لیا، اس وقت جے سینا کچھ دستے اپنے ساتھ لے کر ایسے مقام پر خیمہ زن تھا جہاں سے وہ دسایو کا راستہ روک سکتا تھا کہ دسایو محمد بن قاسم کی مدد کو نہ پہنچ سکے، راجہ داہر نے اسے اس کے دستوں کے ساتھ اپنے پاس بلا لیا۔
میرے بہادر بیٹے!،،،،،، داہر نے اسے کہا۔۔۔ اب ہمیں بکھر کر نہیں رہنا چاہیے، دشمن اس میدان میں آ گیا ہے جہاں میں اسے لانا چاہتا تھا، تم سب کو کچھ سمجھتے ہو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، یہ زمین یہ دیس تمہارا ہے، میں اس دشمن کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ایک ھی بار سارا لشکر اس کے سامنے لے جاؤ اور اسے للکاروں، میں عرب کے اس نوجوان سالار کو پیغام بھیج کر کہہ چکا ہوں کہ تم اوچھے سالار ہو ،میں اسے آہستہ آہستہ کمزور کر کے مارنا چاہتا ہوں۔
پیتا جی مہاراج!،،،،، جے سینا نے کہا ۔۔۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو یہ کام میرے سپرد کریں، اس اوچھے سالار سے پہلی جھڑپ میں لونگا۔
میں نے تمہیں اسی لیے بلایا ہے ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔میں ابھی بتا نہیں سکتا کہ عرب کے یہ مسلمان میدان کی لڑائی لڑنے میں کیسے ہیں ،اور ان کا طریقہ کیا ہے، تم ذرا سنبھل کر آگے بڑھنا اور یہ دیکھنا کہ ان کا طریقہ اور انداز کیا ہے، پہل انہیں کرنے دینا، ہو سکتا ہے محمد بن قاسم یہ سمجھ کر سامنے آجائے کہ میں خود وہاں موجود ہوں ،تم ہاتھی پر سوار رہنا اور اپنی فوج کے درمیان رہنے کی کوشش کرنا ،اگر محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ ہوا تو خود اس تک پہنچنے کی بجائے اپنے دستوں سے بہت ہی دلیر اور بہادر آدمی چن کر محمد بن قاسم کو گھیرے میں لے کر مارنے کی یا زندہ پکڑنے کی کوشش کرنا۔
*<========۔=========>*
*قسط نمبر/23*
ماہ رمضان 93 ہجری ، 7/ 11 /12 عیسوی سے کچھ دن پہلے ایک اور واقعہ ہو گیا، راجہ داہر نے علافیوں کے سردار محمد حارث کو ایک بار پھر کہا کہ وہ اپنے باغی عربوں کو سندھ کی فوج میں ایک الگ سوار دستے کی صورت میں شامل کردے۔
مہاراج!،،،،، محمد حارث علافی نے کہا ۔۔۔آپ مجھے ساری عمر یہی بات کہتے رہیں تو میرا جواب وہی ہو گا جو پہلے دے چکا ہوں ،آج آپ کو اس دھمکی کا جواب بھی دوں گا جو آپ مجھے پہلے دے چکے ہیں، اس دن آپ نے مجھے کہا تھا کہ آپ نے ہمیں پناہ دی تھی اور اور پھر آپ نے یہ دھمکی دی تھی کہ آپ ہمیں اپنے ملک سے نکال دیں گے، اب اگر آپ ہمارے خلاف کوئی کاروائی کریں گے تو عرب کی یہ فوج ہمارے تحفظ کے لیے لڑے گی، محمد بن قاسم کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہم ان کے مخالف کی مدد نہیں کریں گے، وہ ہمیں اپنے بھائی سمجھتے ہیں، ہم پر کوئی مشکل آ پڑی تو وہ ہماری مدد کو پہنچیں گے، یہ عرب کی سرزمین کا کردار ہے، پھر اسلام کا رشتہ ایسا ہے جس سے ہم منحرف نہیں ہو سکتے۔
کیا عرب کا کردار یہ ہے کہ جو تم پر کوئی احسان کرے اسے یہ صلہ دو جو تم دے رہے ہو ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ مجھے خطرہ نظر آتا ہے کہ تم مجھے دھوکہ بھی دو گے۔
نہیں!،،،، حارث علافی نے کہا ۔۔۔آپ نے مجھے مشوروں وغیرہ کے لیے اپنے ساتھ رہنے کو کہا تھا اور دیکھ لے میں آپ کے ساتھ ہوں ،کہیں بھی آپ کو غلط مشورہ نہیں دیا، حارث علافی بولتے بولتے چپ ہو گیا اس نے کچھ سوچا اور بولا ،،،،،اگر آپ اپنے احسان کا اور زیادہ صلہ چاہتے ہیں تو میں یہ کر سکتا ہوں کہ جے سینا کی لڑائی سے پہلے میں یہ خبر لا سکتا ہوں کہ جے سینا کے سامنے مسلمانوں کا جو لشکر آئے گا اس کے ساتھ محمد بن قاسم ہو گا یا نہیں، اگر آپ کوئی اور بات معلوم کرنا چاہیں تو وہ بھی مجھے بتا دیں میں مسلمانوں کے پاس چلا جاؤں گا میں انہیں دوستی اور اسلام کے رشتے کا دھوکہ دوں گا ،اور میں جاسوسی آپ کے لئے کروں گا۔
یہ بات سن کر راجہ داہر بہت خوش ہوا اس نے حارث علافی سے کہا کہ وہ جاسوسی کر سکے تو یہی صلہ کافی ہے۔
محمد حارث علافی اسی روز روانہ ہوگیا اور محمد بن قاسم کے پاس پہنچا ۔
ابن قاسم !،،،،،حارث علافی نے محمد بن قاسم سے کہا ۔۔۔میں راجہ داہر کا جاسوس بن کر آیا ہوں، وہ مجھے ہر وقت مجبور کرتا رہتا ہے کہ میں تمام باغی عربوں کو سندھ کی فوج میں شامل کردوں، لیکن میں کچھ کر رہا ہوں وہ تمہیں معلوم ہے، اس نے مجھے کہا تھا کہ میں صلح مشورے کے لئے اس کے ساتھ رہا کروں ،میں نے اس کی یہ بات اس لئے مان لی ہے کہ اس کے ارادے معلوم ہو جاتے ہیں ،اور مجھ سے اس کا کچھ بھی چھپا ہوا نہیں رہتا۔
ہاں حارث!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم ہمارے لیے جو کچھ کر رہے ہو یہ ایک عبادت ہے، اب تم کس طرح آئے ہو؟
میں داہر کا جاسوس بن کر آیا ہوں۔۔۔ حارث علافی نے کہا ۔۔۔میں نے اسے خود کہا تھا کہ میں جاسوسی کروں گا اور مسلمانوں کے پاس ان کا دوست بن کر جاتا رہونگا، میں یہ معلوم کرنے آیا ہوں کے پہلی لڑائی میں جو داہر کی طرف سے اس کا بیٹا جے سینا لڑے گا تم کتنی فوج لاؤ گے، اور کیا تم خود اپنی فوج کے ساتھ ہو گے یا نہیں ،لیکن میں تمہیں بتانے آیا ہوں کہ تمہاری پہلی لڑائی جے سینا کے ساتھ ہوگی اور داہر اس کے ساتھ نہیں ہوگا، تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ راجہ داہر تمہیں چھوٹی چھوٹی لڑائیوں سے کمزور کرنا چاہتا ہے، پہلی لڑائی میں تم خود شامل نہ ہونا اور اپنے کم سے کم دستے استعمال کرنا، جے سینا ہاتھی پر سوار ہوگا اور اپنے فوج کے قلب میں ہوگا ، اپنے ایسے سالاروں کو آگے کرنا جنہیں جنگوں کا زیادہ تجربہ ہوگا، فتح اور شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے ،تمہارے سالار کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جے سینا کے لشکر کا بہت ہی برا حال کر دیں، صرف یہ نہ دیکھیں کہ جے سینا کی فوج تتر بتر ہوگئی ہے اور تم جیت گئے ہو، جے سینا کی فوج کو پسپا نہ ہونے دینا، اگر میدان تمہارے ہاتھ رہا تو دشمن کا قتل عام کرنا ،یہ ایک دہشت ہوگی جو داہر کے باقی تمام لشکر پر طاری ہو جائے گی، اور یہ تمہیں لڑائیوں میں بہت فائدہ دے گی۔
ایسا ہی ہوگا علافی!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ جب سندھ میرے ہاتھ میں آجائے گا تو تمھارے ماتھے پر بغاوت کا جو دھبہ لگا ہوا ہے وہ میں اپنے ہاتھوں سے صاف کروں گا۔
میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں ابن قاسم!،،،،، علافی نے کہا۔۔۔ میں نے تم سے حجاج بن یوسف سے اور خلیفہ وقت سے کچھ نہیں لینا، کچھ نہیں مانگنا، میں اللہ کی خوشنودی اور اسلام کی سربلندی کے لئے سرگرداں ہوں،،،،، اب تم یوں کرو گے مجھے یہاں سے نکال کر یہ اعلان کر دو کہ یہ شخص جو باغی علافیوں کا سردار ہے ہمارے پاس راجہ داہر کا جاسوس بن کر آیا تھا، اپنے آدمیوں سے کہوں کہ مجھے دھکے دیتے ہوئے دشمن کی خیمہ گاہ کے سامنے چھوڑ آئیں۔
میں ایسا نہیں کر سکوں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اے معزز علافی
تم مجھ سے یہ گناہ کیوں کروانا چاہتے ہو۔
یہ میں بہتر سمجھتا ہوں۔۔۔ حارث علافی نے جواب دیا۔۔۔ تمہارا دشمن وہ سامنے دیکھ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں شک ہوجائے کہ میں چونکہ مسلمان ہوں اس لئے راجہ داہر کو دھوکا دے رہا ہوں، میں دشمن کو دکھانا چاہتا ہوں کہ تم نے مجھے دھکے دے کر یہاں سے نکلوایا ہے، اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ تم میری اصلیت سمجھ گئے تھے۔
محمد بن قاسم نے ایسے ہی کیا جیسے حارث علافی نے کہا تھا، محمد بن قاسم کے لشکر کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ ایک ناٹک کھیلا جا رہا ہے، وہ اسے سچ سمجھے، کہ علافیوں کا سردار دوستی کا دھوکہ دے کر ہندوؤں کا جاسوس بن کر آیا تھا، محمد بن قاسم نے یہ حکم دیا تھا کہ اسے دھکے دیتے اور گھسیٹتے ہوئے دشمن کی خیمہ گاہ تک پہنچا دیا جائے۔
مسلمان سپاہیوں نے حارث علافی پر لعن طعن شروع کردی اور اسے تین چار آدمیوں نے اپنے آگے کر لیا اور دھکیلتے ہوئے اپنی خیمہ گاہ سے باہر لے گئے پھر دشمن کی خیمہ گاہ کے قریب جا پہنچے اور علافی کو دھکے دے کر خود وہیں کھڑے رہے ،انہوں نے بلند آواز سے راجہ داہر کے فوجیوں کو پکارا، ادھر سے بہت سے فوجی باہر نکل آئے ان میں ان کا سالار راجکیش بھی تھا۔
یہ لو اپنا جاسوس!،،،،، مسلمانوں نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ یہ مسلمان نہیں تم کافروں جیسا کافر ہے، مسلمان لعن طعن کرتے رہے اور علافی راجکیش کے پاس چلا گیا ،وہاں سے وہ راجہ داہر کے پاس گیا۔
مہاراج!،،،،، اس نے راجہ داہر سے کہا۔۔۔ آپ عربوں کی دانشمندی اور ذہانت تک نہیں پہنچ سکتے، میں نے محمد بن قاسم سے آپ کے کام کی باتیں معلوم کر لی تھیں، لیکن محمد بن قاسم کو شک ہو گیا کہ میں جاسوسی کر رہا ہوں، اس کے ساتھ شعبان ثقفی نام کا ایک آدمی ہے جسے خدا نے بہت زیادہ عقل اور فہم و فراست دی ہے، اس سے کچھ بھی نہیں چھپایا جاسکتا اسی نے مجھے پہچانا تھا یہ تو عرب ہو نے کی وجہ سے محمد بن قاسم نے رحم کیا کہ مجھے زندہ چھوڑ دیا ورنہ مجھے قتل کر دیا جاتا، انھوں نے میری بہت بےعزتی کی ہے اور وہاں سے دھکے دے کر نکالا ہے۔
پھر میں کیا سمجھوں؟،،،،،راجہ داہر نے پوچھا۔۔۔ کیا محمد بن قاسم خود آئےگا۔
ہو سکتا ہے وہ اپنا ارادہ بدل دے۔۔۔ علافی نے جواب دیا ۔۔۔یہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پہلی لڑائی میں محمد بن قاسم ساتھ نہیں ہوگا، اور وہ اپنے دستے استعمال کرے گا ،میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ بہت محتاط ہو کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
اس واقعہ سے محمد بن قاسم کے کیمپ میں ہی غلط فہمی پیدا نہیں ہوئی تھی، بلکہ تاریخ نویسوں کو بھی غلط فہمی ہو گئی تھی کہ علافی واقعی راجہ داہر کا جاسوس بن کر مسلمانوں کے کیمپ میں گیا تھا، معصومی اور بلاذری نے صحیح واقعہ لکھا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ محمد حارث علافی نے راجہ داہر کو دھوکہ دیا تھا اور داہر کو غلط باتیں بتا کر اس طرح گمراہ کیا تھا کہ داہر نے پہلی لڑائی میں جے سینا کو پوری نفری دی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ماہ رمضان سے پہلے ہی ایک روز محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ راجہ داہر کے دو دستے جھیل کے کنارے خیمہ زن تھے وہ خیمہ گاہ سمیٹ کر چلے گئے تھے، اپنے دیکھ بھال والے آدمیوں کو آگے بھیجا گیا تو پتہ چلا کہ جھیل سے ڈیڑھ دو میل دور دوسری طرف یہ دستے اور چند اور سوار اور پیادہ دستے جنگی تربیت میں منظم ہو رہے ہیں، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ منظم ہوکر حملہ کر دیں، اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ لڑائی کے لئے للکاریں، محمد بن قاسم نے خود آگے جاکر دیکھا اور اندازہ کیا کہ دشمن کی نفری کتنی اور کس قسم کی ہے ،یعنی کتنے سوار اور کتنے پیارے ہیں۔
شعبان ثقفی نے اپنے فرائض کے مطابق کچھ آدمی بہت دور دور یہ دیکھنے کے لیے بھیج دیے کہ داہر کے کوئی اور دستے آرہے ہیں یا نہیں۔
محمد بن قاسم کو تو حارث علافی سے پتہ چل ہی چکا تھا کہ پہلی لڑائی داہر کا بیٹا جے سینا لڑے گا ،محمد بن قاسم نے انہیں دستوں کو جو جھیل کے کنارے خیمہ زن تھے حکم دیا کہ وہ جے سینا کے مقابلے کے لئے آگے چلے جائیں، ان کے ساتھ ایک دو مزید سوار دستے بھیجے گئے تھے۔
جے سینا کے ساتھ مسلمانوں کی نسبت زیادہ نفری تھی ہاتھی بھی اس کے ساتھ تھے جو جو چنگھاڑ رہے تھے اور بے قابو ہو رہے تھے وہ اس طرح منہ زور ہو رہے تھے اس سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں کچھ کھلا کر یا کسی اور طریقے سے بد مست کیا گیا ہے۔
دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں، جے سینا اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق آگے بڑھنے کی بجائے یہ کوشش کر رہا تھا کہ مسلمان پہلے حملہ کریں محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو پہلے سے ہی ہدایت دے رکھی تھی ،عرب کے مسلمانوں کے جنگی دستور کے مطابق محمد بن قاسم کے دستے کے چار حصوں میں تقسیم تھے دائیں پہلو، بائیں پہلو، اور قلب کے پیچھے ایک سوار دستہ ریزور کے طور پر رکھا گیا تھا ،جسے ہر اس جگہ پہنچنا تھا جہاں مدد کی ضرورت تھی۔
صحرز بن ثابت قلب کے دستوں کے ساتھ تھا، ادھر داہر کا بیٹا جے سینا اپنی فوج کے قلب میں ہاتھی پر سوار تھا ۔
صحرز بن ثابت عربکے دستور کے مطابق گھوڑے پر سوار تلوار ہاتھ میں لئے دونوں فوجوں کے درمیان چلا گیا۔
تم میں کون اتنا بہادر ہے جو میرے مقابلے میں آئے گا۔۔۔ صحرز نے للکار کر کہا۔
دشمن کی فوج میں کوئی ہلچل نہ ہوئی نہ ادھر سے کوئی جواب آیا نہ کوئی آدمی صحرز کے مقابلے کے لئے نکلا ۔
کیا داہر کا بیٹا جے سینا یہاں نہیں ہے۔۔۔ صحرز نے للکار کر کہا ۔۔۔ہاتھی پر آ جاؤ جے سینا ۔
اس طرف کی فوج میں کوئی حرکت نہ ہوئی، صحرز بن ثابت نے گول چکر میں گھوڑا دوڑاتا اور تلوار لہرا لہرا کر جے سینا کو للکارنا شروع کردیا لیکن سندھ کی فوج ساکت و جامد کھڑا رہی، یہ رواج سندھ اور ہندوستان میں نہیں تھا کہ لڑائی سے پہلے دونوں طرف سے ایک ایک آدمی عموماً سالار سامنے آتا اور ان میں تیغ زنی کا مقابلہ دونوں میں سے ایک کے مارے جانے تک ہوتا تھا ، ایسے دو تین مقابلے ہوتے اور اس کے بعد لڑائی شروع ہوتی تھی یہاں یہ رواج نہیں تھا۔
صحرز بن ثابت واپس آ گیا اور اس نے درمیان والے دستے کو حملے کا حکم دیا ،سوار تیزی سے آگے بڑھے اور ذرا ہی دیر بعد گھوڑے گھوڑوں سے اور تلواریں تلواروں سے ٹکرانے لگیں، مسلمان سوار آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنے لگے جیسے وہ ہندوؤں کے دباؤ کو برداشت نہ کر سکے ہوں، اس دوران دائیں اور بائیں پہلو والے دستے باہر کی طرف پھیل گئے تھے جس دستے نے حملہ کیا تھا وہ پیچھے ہٹ گیا، پیچھے والے پیادہ دستے نے آگے بڑھ کر سواروں کی جگہ لے لی۔ مسلمانوں کا یہ حملہ زیادہ زور دار تھا اب ہندو دستے پیچھے ہٹنے لگے۔
ایک صف ہاتھیوں کی تھی ان کے ہودوں میں جو آدمی تھے وہ برچھیاں پھینکتے تھے اور ان میں تیر انداز بھی تھے، مسلمان تیرانداز زیادہ تر فیل بانوں اور ہاتھیوں کو نشانہ بنا رہے تھے، لیکن بھاگتے دوڑتے ہوئے تیروں کو نشانے پر پھینکنا مشکل تھا، مسلمان زیادہ تر ہاتھیوں کی طرف سے ہی خطرہ محسوس کر رہے تھے، ہاتھیوں کی چنگھاڑ بڑی ہی خوفناک تھی اور صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کئی مسلمان پیا دے ہاتھی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اس کے راستے سے دور ہٹ جاتے تھے۔
ہاتھیوں سے مت ڈرو ۔۔۔سالاروں کے کہنے پر دو تین مجاہدین کی بڑی بلند للکار سنائی دینے لگی،،،، یہ قادسیہ والے ہاتھی ہیں، ان کی سنڈیں کاٹ دو، ہم نے قادسیہ میں ہاتھیوں کو کاٹ دیا تھا۔
یہ للکار سنائی دیتی رہی،،،، مجاہدین ہاتھیوں کے قریب جانے لگے لیکن ان کے ہودوں میں تین تین چار چار جو آدمی تھے وہ اوپر سے برچھیاں پھینکتے یا تیر چلاتے تھے ،ان کے قریب جانے والے زخمی ہوتے یا ادھر ادھر بھاگ جاتے تھے۔
آخر دمشق کے ایک مجاہد ابو اسحاق نے ایسی مثال پیش کر دی کہ مجاہدین کا خوف دور ہو گیا۔
ابواسحاق ناصری ایک ہاتھی کی طرف دوڑ کر گیا اس وقت ہودے کے برچھی بازوں کی توجہ اس طرف نہیں تھی، لیکن وہ ہاتھی کے قریب گیا تو فیل بان نے اسے دیکھ لیا ،اس کے شور پر ہودے سے ایک پرچھی آئی جو ناصری کے بائیں کاندھے میں لگی، ناصری نے پرواہ نہ کی اس میں اور ہاتھی میں ابھی آٹھ دس قدم کا فاصلہ تھا، فیل بان نے ہاتھی کا منہ ناصری کی طرف کردیا ،ہاتھی بڑی زور سے چنگھاڑ کر آیا، ناصری بڑا گہرا زخم کھا چکا تھا وہ گرنے یا بھاگ جانے کی بجائے ایک ہی جست میں ہاتھی تک پہنچا ،ہاتھی نے بد مستی سے سونڈ اوپر کرلی تھی ناصر نے تلوار کا وار اتنی زور سے کیا کہ سونڈ درمیان سے کٹ گئی اور اس کا آگے والا حصہ زمین پر آگیا۔
ہاتھی ایسے چنگھاڑ پڑا جیسے بجلی کڑک رہی ہو ، وہ ایک طرف کو دوڑ پڑا، ابواسحاق ناصری نے ایک اور زور دار وار ہاتھی کی پچھلی ٹانگ پر کیا، تلوار سے ہڈی کا کٹ جانا تو ممکن نہ تھا لیکن تلوار ٹانگ کو کاٹتی ہڈی تک پہنچ گئی، اس وار سے ہاتھی کی ٹانگ دوہری ہو گئی، ہودے سے برچھی باز لڑھک کر نیچے آ پڑے، ناصری ان میں سے صرف ایک کو مار سکا ،باقی اٹھ کر بھاگنے لگے لیکن مجاہدین نے انہیں کاٹ کر ڈھیر کردیا، ہاتھی سیدھا کھڑا ہو کر چنگھاڑتا ہوا دوڑتا جا رہا تھا، کٹی ہوئی ٹانگ اور کٹی ہوئی سونڈ سے جو خون بہ رہا تھا وہ کھلے ہوئے نلکے سے نکلتے ہوئے پانی کے مانند بہہ رہا تھا۔
خدا کی قسم میں نے ایک ہاتھی کی سونڈ کاٹ ڈالی ہے،،،، ابواسحاق ناصری اچھل اچھل کر چلا رہا تھا،،،، ہاتھیوں سے مت ڈرو ،،،،خدا کی قسم میں نے ایک ہاتھی کی سونڈ کاٹ ڈالی ہے۔
زخمی ہاتھی فیلبان کے قابو سے نکل گیا تھا اور وہ اپنے ہی دستوں کی طرف دوڑا جا رہا تھا اس نے اپنے ہی چند آدمیوں کو کچل ڈالا تھا۔
ابواسحاق ناصری شدید زخمی تھا وہ لڑنے کے قابل نہیں رہا تھا لیکن اس نے اپنے ساتھیوں کو یہ دکھا دیا کہ ان کے مقابلے میں ہاتھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے ،بلکہ گھوڑے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، ناصری کو تو اس کے دو ساتھی پیچھے چھوڑ آئے، ہاتھی کے ہودے سے آئی ہوئی برچھی نے اس کے کندھے اور بازو کا جوڑ الگ کردیا تھا، لیکن اس نے ساتھیوں کے دلوں سے ہاتھیوں کا خوف نکال دیا۔ اس کے بعد مجاہدین ہاتھیوں پر ٹوٹ پڑنے لگے ۔
کچھ دیربعد جے سینا کی فوج کے لئے اس کے ہاتھی مصیبت بن گئے ،وہ برچھی یا تلوار کے زخم سے بے قابو ہوجاتے اور اندھا دھن ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے تھے، انہوں نے اپنے دستوں کی ترتیب درہم بر ہم کر دی۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
جے سینا ابھی پیچھے تھا مسلمانوں نے اب تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے تھے، دس بارہ سوار جے سیما کو ڈھونڈ رہے تھے لیکن وہ اپنے قلب میں اپنے محافظوں کے نرغے میں تھا۔
لڑائی بہت تیز اور خونریز ہوگئی تھی، عربی سالاروں نے اگلی چال چلنے کے لیے موزوں صورت حال پیدا کر لی تھی، انہوں نے پہلو کے دستے دائیں اور بائیں پھیلا دیے تھے۔ انہوں نے یہ خطرہ بھی مول لیا کہ محفوظ (ریزور) دستوں کی آدھی نفری سے بھی حملہ کرادیا ،جے سینا کی توجہ سامنے کے حملوں اور جوابی حملوں پر تھی ،اس کے ہاتھیوں نے الگ بھگدڑ مچا رکھی تھی، کئی ہاتھیوں کو مجاہدین زخمی کر چکے تھے ،بعض کے فیل بانوں کو انہوں نے تیروں سے مار گرایا تھا، چند ایک تیر اندازوں نے کسی کے حکم کے بعد آتشی تیر ہودوں پر چلا دئیے ،دو تین ہودوں کو جو لکڑی کے بنے ہوئے تھے آگ لگ گئی، اس سے کچھ نقصان نہ ہوا کیونکہ ہودوں کے لکڑی موٹی ہونے کی وجہ سے جلدی آگ نہیں پکڑتی تھی، ہودوں میں جو برچھی باز تھے انہوں نے آگ کو پھیلنے نہ دیا، سالاروں نے یہ یہ تیر رکوا دیئے کیوں کہ یہ کسی اور جگہ چلائے جاتے تھے۔
جب عربی فوج کے پہلوؤں کے دستے بہت باہر کو چلے گئے تو سالار صحرز بن ثابت نے انھیں پہلوؤں اور عقب سے حملے کا اشارہ دے دیا۔ ہندوؤں کے لئے یہ حملہ نگاہانی اور غیر متوقع تھا، جے سینا کو اپنے دستوں کی ترتیب بدلنے کی مہلت نہ مل سکی۔
اب لڑائی جے سینا کی سپاہ کے قتل عام کی صورت اختیار کرگئی، سپاہیوں کے لیے نکل بھاگنے کے راستے مسدود ہو چکے تھے، محمد بن قاسم دور کھڑا دیکھ رہا تھا، اس نے ایک قاصد سے کہا کہ وہ صحرز بن ثابت تک پہنچنے کی کوشش کرے اور اسے کہے کہ ہمیں جنگی قیدیوں کی ضرورت نہیں کسی کو زندہ نہیں رہنے دینا۔
محمد بن قاسم راجہ داہر کی فوج کے لئے دہشت بن جانے کے ارادے سے یہ حکم دے رہا تھا، ابھی راجہ داہر سے اس کا مقابلہ ہونا تھا اور اسے معلوم ہو چکا تھا کہ داہر نے فیصلہ کن جنگ کے لیے کمک تیار کر رکھی ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
جے سینا کے سامنے اب ایک ہی راستہ تھا اور وہ راستہ فرار کا تھا، عرب مجاہدین نے اس کی فوج کو گھیرے میں لے لیا تھا اس کی فوج میں بھگدڑ مچ چکی تھی، ہندو سپاہی اب جان بچانے کے لیے لڑ رہے تھے، راجکیش مارا جاچکا تھا۔
مسلمان سوار جو جے سینا کو ڈھونڈ رہے تھے وہ گتھم گتھا قسم کی لڑائی میں پھنس گئے، میدان جنگ قیامت کا منظر پیش کررہا تھا۔ گھوڑے لاشوں کو اور ان زخمیوں کو روند رہے تھے جو اٹھ نہیں سکتے تھے، ہاتھیوں کی چنگھاڑی اور گھوڑوں کا دوڑنا اور ہنہنانا اور زخمیوں کی آہ و بکا زمین و آسمان پر لرزہ طاری کر رہی تھی، سندھ کی ریتیلی مٹی اتنی اڑ رہی تھی کہ زمین سے اٹھنے والا بادل بن گئی، گرد کا یہ بادل اتنا گہرا ہو گیا اور اتنا پھیل گیا کہ میدان جنگ کو چشم فلک سے اوجھل کر دیا ۔
حق و باطل کا یہ معرکہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا تھا۔
گرد نے جے سینا کے ہاتھیوں کو چھپا لیا تھا۔ کسی کی للکار سنائی دی کہ ہاتھی بھاگ گئے ہیں۔
ہاتھی زخمی ہوئے تھے وہ اب بھاگے جا رہے تھے، میدان جنگ سے نکل گئے تھے، کسی کا فیل بان تھا کسی کا نہیں تھا ،کسی کے ہودے میں ایک دوبرچھی باز تھے، کئی ہودے خالی تھے، یا ان میں ایک دو لاشیں پڑی ہوئی تھیں
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
راجہ داہر میدان جنگ کی خبر سننے کے لیے بے تاب تھا، دن گزر گیا تھا سورج افق کے قریب چلا گیا تھا، کوئی خبر نہیں آ رہی تھی۔ جے سینا ان کے تعاقب میں چلا گیا ہوگا ۔۔۔راجہ داہر نے اپنے وزیروں مشیروں وغیرہ سے کہا ۔۔۔اس نے مسلمانوں کو بھگا دیا ہے۔
بھاگ کر جائیں گے کہاں۔۔۔۔ایک درباری نے کہا۔۔۔ دریا میں دوڑیں گے ڈوب چکے ہونگے۔
میرا سپوت ان کا فیصلہ کرچکا ہے۔۔۔ داہر نے کہا ۔۔۔وہ بھاگ گئے ہیں، جے سینا کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔
اس وقت راجہ داہر باہر کھڑا تھا دور سے ایک ہاتھی آتا نظر آیا۔
وہ اطلاع گئی ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اس نے اطلاع بھیج دی ہے۔
ہاتھی آہستہ آہستہ چلا آرہا تھا راجہ داہر نے غصے سے کہا کہ فیل بان کو اشارہ کرو جلدی آئے۔
راجہ داہر کے ایک سوار محافظ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ہاتھی تک پہنچا، اس ہاتھی کے پیچھے کچھ دور ایک اور ہاتھی آرہا تھا ،محافظ نے ہاتھی کے اردگرد گھوڑا دوڑایا اور واپس آ گیا۔
مہاراج کی جے ہو !،،،،،محافظ نے کہا ۔۔۔ہاتھی زخمی ہے، اس کی پچھلی دونوں ٹانگوں میں گہرر زخم ہیں، فیلبان بھی زخمی ہے ،اس کے کندھے میں تیر اترا ہوا ہے، ہودا خالی ہے۔
ہاتھی قریب آیا تو فیل بان جس کا سر ڈول رہا تھا ،اترنے لگا تو گر پڑا ،ہاتھی کا خون اتنا زیادہ بہ گیا تھا کہ وہ روکا اور اس کی ٹانگیں دوہری ہو گئی اور وہ پھر بیٹھ گیا ،ہودے میں داہر کے دو سپاہی مرے پڑے تھے، فیل بان کے منہ میں پانی ڈالا گیا، تیر پٹھے میں اترا ہوا تھا اسے نکالنا آسان نہیں تھا۔
لڑائی کی کیا خبر ہے؟،،،،، راجہ داہر نے اس سے پوچھا۔
سب کٹ گئے ہیں۔۔۔ فیلبان نے اونگھتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ سب ہاتھی کاٹ گئے،،، اور وہ بیہوش ہو گیا۔
اتنے میں پیچھے والا ہاتھی پہنچ گیا ،اس کا فیل بان زخمی نہیں تھا لیکن اس کے ہودے میں کوئی بھی نہیں تھا، اس فیل بان نے میدان جنگ کی پوری کیفیت بیان کی۔
ہاتھی تو ایک بھی سلامت نہیں رہا۔۔۔ فیل بان نے کہا ۔۔۔میرے ہودے میں چار آدمی تھے چاروں کو عربی سالاروں نے برچھیوں سے گھائل کر کے نیچے پھینک دیا تھا ،میں نے بڑی مشکل سے اپنے ہاتھی کو وہاں سے نکالا ہے۔
جے سینا کہاں ہے؟،،،،، راجہ داہر نے پوچھا۔
کچھ پتہ نہیں مہاراج!،،،،، فیلبان نے روندھی ہوئی آواز میں جواب دیا ۔۔۔کچھ پتہ نہیں کسی کو کسی کا ہوش نہیں رہا تھا ،گرد اتنی زیادہ اڑ رہی تھی کہ اپنا آپ بھی نظر نہیں آتا تھا، لڑائی بہت دور دور تک پھیل گئی ہے ۔
کیا مسلمان بھاگے نہیں ؟،،،،،راجہ داہر نے پوچھا۔
نہیں مہاراج !،،،،،فیل بان نے جواب دیا ۔۔۔نہ وہ خود بھاگ گئے ہیں نہ ہمارے کسی آدمی کو انہوں نے بھاگنے دیا ہے، یہ تو ہاتھی تھے جو چیختے چنگھاڑتے وہاں سے نکل آئے ہیں، اپنا کوئی آدمی شاید ہی بچ کر آجائے،،،،،،،، راج کمار جے سینا کو میں نے کہیں نہیں دیکھا، عرب کے سپاہیوں نے ہاتھیوں پر ایسے سخت حملے کیے تھے کہ ہاتھی بھی منہ موڑ گئے،،،،،،، گستاخی معاف مہاراج!،،،، اپنا کوئی آدمی شاید ہی زندہ واپس آئے گا، راجکیش بھی مارے گئے ہیں، میں نے انہیں خود تلواروں سے کٹتے اور گرتے دیکھا ہے۔
جے سینا نہیں کٹ سکتا ،،،،،،راجہ داہر نے اکھڑی اکھڑی سی آواز میں کہا۔۔۔۔ ہمارا سپوت گرنے والوں میں سے نہیں ،سواروں کا ایک دستہ بھیج دو اور ہمارے سپوت کو ڈھونڈ کر لاؤ ۔
اتنے میں دو اور ہاتھی چلے آ رہے تھے ان کے جسموں سے بھی خون بہ رہا تھا، ایک پر فیلبان موجود تھا دوسرا فیلبان کے بغیر تھا۔
سواروں کا ایک دستہ حاضر ہو گیا اس دستے کے کمانڈر کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ لڑائی میں شامل ہونے کی بجائے کسی طرح جے سینا کو ڈھونڈ کر اپنی حفاظت میں لے لے اور اسے واپس لے آئے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
جب فیل بان راجہ داہر کو میدان جنگ کی حالات سنا رہے تھے، اس وقت محمد بن قاسم کے مجاہدین میدان جنگ میں جے سینا کو ڈھونڈ رہے تھے، محمد بن قاسم نے حکم بھیجا تھا کہ جے سینا کو زندہ پکڑنے کی کوشش کی جائے۔
پہلے اسے دس بارہ سوار ڈھونڈتے رہے تھے لیکن وہ گھمسان کی لڑائی میں الجھ کر اپنے آپ کو بھی گم کر بیٹھے، چند ایک پیادہ مجاہدین تھے جنہوں نے عہد کر لیا کہ وہ جے سینا کو زندہ پکڑیں گے۔
ان پیادوں نے جے سینا کو دیکھ لیا، وہ ہاتھی پر سوار تھا اس کے ساتھ تین برچھی باز تھے، اس کے ہودے کی دیواریں زیادہ اونچی تھیں، اور ان کی لکڑی زیادہ موٹی تھی، اور اس کا ہاتھی دوسرے تمام ہاتھیوں کی نسبت زیادہ تندرست اور قدوقامت میں بڑا تھا ،اس وقت میدان جنگ کی صورتحال اس کے لئے مہلک ہو چکی تھی وہ اپنے بکھرے ہوئے دستوں کو مسلمانوں کی تلواروں سے کٹتا اور برچھیوں سے چھلنی ہوتا دیکھ رہا تھا، یہ صورتحال اس کے بس سے باہر ہو گئی تھی، اب وہ بھاگ نکلنے کا راستہ دیکھ رہا تھا ،اس نے اپنا جھنڈا چھپا لیا تھا تاکہ مسلمانوں کو پتہ نہ چلے کہ وہ اس ہاتھی پر موجود ہے، معلوم نہیں محمد بن قاسم کے ان چند پیادہ مجاہدین کو کس طرح پتہ چلا کہ یہ ہاتھی جے سینا کا ہے اور وہ اس میں موجود ہے، شاید ہاتھی کی جسامت ہودے کی ساخت اور سجاوٹ سے انہوں نے اندازہ کیا ہوگا کہ یہ شاہی ہاتھی ہے، انہوں نے اس ہاتھی کو گھیرے میں لے لیا لیکن فیل بان جب ہاتھی کو دوڑاتا تھا تو اس کے سامنے کوئی نہیں ٹھر سکتا تھا، مجاہدین پیچھے سے اس پر برچھیوں اور تلواروں کے وار کرنے کے لئے آگے بڑھتے تھے تو ہودے میں سے برچھیاں اور تیر آتے تھے، وہ آگے ہوتے تھے تو ہاتھی ان پر دوڑا دیا جاتا تھا۔
مجاہدین نے بہت کوشش کی کہ ہاتھی کو زخمی کر کے بے بس کر لیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے، اور ہاتھی میدان جنگ سے نکل گیا ،ان پیادے مجاہدین کے آگے رکاوٹیں بہت تھیں، کہیں گھوڑے مرے پڑے تھے، اور انسانوں کی لاشوں کے انبار بھی تھے، لڑائی بھی ہو رہی تھی، گرد بھی اڑ رہی تھی، اس حالت میں جے سینا کا ہاتھی کہیں غائب ہو گیا۔
اس دور کے تاریخ نویسوں کے حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ سورج غروب ہو چکا تھا اور شام بہت گہری ہوگئی تھی، جب جے سینا کا ہاتھی اپنے ٹھکانے پر پہنچا اس وقت راجہ داہر بہت بری ذہنی حالت میں باہر کھڑا تھا، اپنے بیٹے کو دیکھ کر وہ زمین پر دو زانو ہو گیا اور ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا، پھر اٹھ کر اپنے بیٹے سے بغلگیر ہو گیا۔
جے سینا کی ذہنی حالت اتنی بگڑی ہوئی تھی کہ اس کے منہ سے بات بھی نہیں نکلتی تھی۔
چچ نامہ میں مختلف حوالوں سے سندھ کی اس پہلی لڑائی کی جو تفصیلات تحریر ہے ان کے مطابق جے سینا کا تمام لشکر مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گیا تھا ،تمام سے مراد نوے فیصد کہی جاسکتی ہے، اور یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ راجہ داہر نے جو پلان بنایا تھا وہ پہلے مرحلے میں ہی تباہ و برباد ہو گیا ۔
دلبرداشتہ نہ ہو راجکمار!،،،،،، راجہ داہر نے جے سینا سے کہا ۔۔۔ہمارا کچھ نہیں بگڑا، ہم ان عربوں کو راوڑ کے میدان میں ختم کردیں گے ، نیا چاند نظر آنے دو چند ہی دن باقی ہیں اگلا مہینہ رمضان کا ہے مسلمان روزے رکھتے ہیں سارا دن پانی بھی نہیں پیتے، ہم اسی مہینے میں انہیں لڑائی کے لئے للکاریں گے۔
*<===========۔======>
*قسط نمبر/24*
شعبان 93 ہجری کی وہ رات تاریک تھی۔
اس رات کے تاریکی خون کی بو سے اوجھل تھی۔
بے شمار مشعلوں کے شعلے تاریکی میں تیرتے پھر رہے تھے ،زخمیوں کی آہ و بکا رات کا جگر چاک کر رہی تھی، مجاہدین ٹولیوں میں بٹے ہوئے داہر کے مرے ہوئے زخمی فوجیوں کے ہتھیار اور دیگر ساز و سامان اکٹھا کر رہے تھے ،کچھ ٹولیاں اپنے شہیدوں کی لاشیں اٹھا رہی تھیں، ایک دو ٹولیاں زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پیچھے لا رہی تھیں، ان کی مرہم پٹی وہ عورتیں کر رہی تھیں جو محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ آئی تھیں، یہ مجاہدین کی بیویاں بیٹیاں یا بہنیں تھیں، ہر لڑائی کے بعد زخمیوں کی دیکھ بھال وہی کرتی تھیں، مشکیزے اٹھائے پانی پلاتیں پھرتی تھیں۔
گھوڑ سوار کا ایک دستہ داہر کی فوج کے ان گھوڑوں کو پکڑ رہا تھا جن کے سوار مارے گئے یا زخمی ہو کر گر پڑے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنی توجہ مال غنیمت پر مرکوز نہ کی اسے معلوم تھا کہ یہ راجہ داہر کی فوج کے چند ایک دستے تھے اور ابھی اس کی فوج کا بہت بڑا حصہ تازہ دم اروڑ کے گرد و نواح میں تیار کھڑا ہے ،رات کے وقت لڑائی روک دی جاتی تھی لیکن شب خون کا خطرہ ہر وقت رہتا تھا، محمد بن قاسم نے ُنے دو سالاروں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے اہنے دستوں کو میدان جنگ سے کچھ دور لے جائیں اور ان راستوں پر گشت کرتے رہیں جن راستوں سے یا جس طرف سے دشمن کے شب خون کا امکان تھا، یہ دفاعی انتظام لازمی تھا کیونکہ دشمن اناڑی نہیں تھا، راجہ داہر کی یہ سوچ کے اس نے اپنی زیادہ تر اور زیادہ اچھی فوج کو اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا تھا ایک ایسے جنگجو کی سوچ تھی جو فن حرب و ضرب کو نہایت اچھی طرح سمجھتا تھا۔
محمد بن قاسم خود اس معرکے میں شامل نہیں ہوا تھا رات کو وہ گھوڑے پر سوار میدان جنگ میں گھوڑا دوڑاتا پھر رہا تھا، اسکے ساتھ مشعل برادر محافظ تھے وہ میدان جنگ سے دور تک چلا گیا جہاں اس کے سوار دستے گشت کر رہے تھے۔
میرے رفیقو!،،،،، اس نے دونوں سالاروں سے کہا۔۔۔ یہ ابتدا ہے اسے دشمن کا انجام نہ سمجھنا، اللہ تمہیں ایسی ہی فتوحات سے نوازے ،لیکن یہ خیال رکھنا کے صرف ایک معرکہ جیت کر اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جانا کہ دشمن اگلی لڑائی میں بھی اسی طرح تمہارے ہاتھوں تباہ ہوگا، راجہ داہر نے اپنے بیٹے کو یہ چند ایک دستے دے کر اور انہیں ہم سے لڑا کر یہ دیکھا ہے کہ ہم کس طرح لڑتے ہیں، اور وہ ہمیں کس طرح شکست دے سکتا ہے، اگلے میدان میں ہمیں زیادہ محتاط ہو کر لڑنا ہوگا۔
ابن قاسم!،،،، ایک سالار خریم بن عمرو مدنی نے کہا۔۔۔ غم نہ کر ، ہم اس روز اپنے آپ کو فاتح کہیں گے جس روز راجہ داہر کا سر تیرے قدموں میں پڑا ہو گا ،اسلام کے راستے میں اس چٹان کو توڑ پھوڑ کر ہم کہیں گے کہ یہ ہے وہ فرض جس کی ادائیگی کے لئے ہم آئے تھے۔
اور ابن قاسم !،،،،،دوسرے سالار دارس بن ایوب نے کہا ۔۔۔بیشک ہماری یہ فتح آخری فتح نہیں لیکن ہم نے ایک ایسی فتح پائی ہے جو آخری ہے، ہمارے مجاہدین ہاتھیوں سے ڈرتے تھے اور اب میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ داہر کے ہاتھی مجاہدین سے ڈرنے لگے ہیں۔
بیشک،،،، بیشک ،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں نے اسلام کے سپاہیوں کو ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹتے دیکھا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم اپنے زخمیوں کو دیکھنے چلا گیا ،زخمیوں کے لیے خیمے لگا دیے گئے تھے، زمین پر گھاس اور کپڑے بچھا کر زخمیوں کو لٹایا گیا تھا ،وہاں جاکر محمد بن قاسم گھوڑے سے اترا گیا ،وہ ہر خیمے کے اندر جاتا اور زخمیوں کے ساتھ باتیں کرتا تھا، ایک خیمے میں گیا خیمے کے اندر دو مشعلیں جل رہی تھیں، ایک بڑھیا ایک زخمی کو پانی پلا رہی تھی، اس سے پہلے اس بڑھیا اور اس زخمی کے درمیان کچھ باتیں ہو چکیں تھیں۔
زخمی کی مرہم پٹی ہو چکی تھی یہ بڑھیا جس کے چہرے پر بڑھاپے نے چند ایک لکیریں گہری کردی تھیں اسے پانی پلانے آئی تھی۔
تو کس کی ماں ہے؟،،،، زخمی نے بڑھیا سے پوچھا۔
اس وقت میں ان تمام زخمیوں کی ماں ہوں جنہوں نے عرب کی لاج رکھنے کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔۔۔ بڑھیا نے جواب دیا۔۔۔ اور پوچھا تجھے یہ خیال کیوں آیا ہے کہ میں کسی اور کی ماں ہوں؟
تو میری بھی ماں ہے۔۔۔ زخمی نے کہا ۔۔۔میری ماں ہوتی تو وہ ایسے ہی پیار سے مجھے پانی پلاتی، مجھے کوئی اور خیال آ گیا تھا ،،،،،تو اس عمر کو پہنچ گئی ہے کہ اب ہمیں تمہاری خدمت کرنی چاہیے۔
تیرا قبیلہ کونسا ہے؟،،،، بڑھیا نے پوچھا۔
میں بنو امیہ میں سے ہوں۔۔۔ زخمی نے جواب دیا۔۔۔۔اور تو؟
میں علافیوں میں سے ہوں۔۔۔ بڑھیا نے جواب دیا۔
علافی!،،،، زخمی نے چونک کر پوچھا ۔۔۔کیا ہمارے لشکر میں کوئی علافی قبیلے کا آدمی بھی ہے جس کی تو ماں ہے؟
نہیں!،،،، بڑھیا نے جواب دیا۔۔۔ علافی قبیلے کا کوئی آدمی بنو امیہ کے لشکر میں نہیں ہوسکتا، ہو بھی کیسے سکتا ہے دشمنی دلوں میں گہری اتر گئی ہے۔
پھر تو یہاں کیسے پہنچ گئی ہے؟،،،، زخمی نے کہا ۔۔۔علافی تو باغی ہیں وہ سب یہاں آگئے تھے اور راجہ داہر کی پناہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
میں اکیلی نہیں آئی ۔۔۔بڑھیا نے جواب دیا ۔۔۔چار عورتیں اور بھی آئی ہیں، ہم تمہارے لشکر کے ساتھ عرب سے نہیں آئیں، ہم مکران سے آئی ہیں۔
تم نے یہ دریا کس طرح پار کیا ہے؟
کیا کشتیوں کا پل نہیں بنا تھا؟،،، بڑھیا نے کہا۔۔۔ ہم اس پل سے آئی ہیں، کسی نے نہیں روکا۔
میں تیرے ہاتھ سے پانی نہیں پیونگا۔۔۔ زخمی نے کہا ۔
اتنے میں محمد بن قاسم خیمے میں داخل ہوا، زخمی نے بڑھیا سے کہا کہ وہ اٹھ جائے سپہ سالار محمد بن قاسم آگیا ہے، اسے پتہ نہ چلے کہ تو علافی قبیلے کی ہے۔
بوڑھیا اٹھ کھڑی ہوئی اس نے محمد بن قاسم کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ماتھے کوچوما۔
قاسم کے بیٹے!،،،،، بڑھیا نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ کیا تو بھول چکا ہے کہ تیرے باپ دادا بنوثقیف میں سے تھے، کیا بنو امیہ کا نمک تیرے خون میں اتنا زیادہ شامل ہو گیا ہے کہ تو نے اپنے لشکر میں علافیوں کی ایسی دشمنی پیدا کر رکھی ہے کہ یہ زخمی میرے ہاتھ سے پانی بھی قبول نہیں کر رہا۔
محمد بن قاسم کے پوچھنے پر بڑھیا نے اسے بتایا کہ وہ علافی قبیلے کی عورت ہے، اور یہاں تک کس طرح پہنچی ہے۔
تو نہیں جانتا ہے قاسم !،،،،بڑھیا نے کہا۔۔۔ تو نہیں جانتا کہ علافیوں کی عورتیں کس طرح ہماری فتح کی دعائیں مانگ رہی ہیں، ذرا سوچ کے میں اس عمر میں یہاں تک کس طرح پہنچی ہونگی ،اور تجھے دیکھنے کی بڑی خواہش تھی، میں تیری آنکھوں میں خالد بن ولید ، سعد بن وقاص ،ابوعبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ رہی ہوں،،،،، اپنے اس زخمی مجاہد سے کہہ کہ میرے ہاتھ سے پانی پی لے میں نے اس میں زہر نہیں ملایا ہے۔
میں علافیوں کو اپنا دشمن نہیں دوست سمجھتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے احترام سے بڑھیا سے کہا۔۔۔ اس زخمی کو معلوم نہیں کہ علافی کس طرح ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔
محمد بن قاسم نے خشمگیں نگاہوں سے زخمی کی طرف دیکھا، زخمی ان نگاہوں کو سمجھ گیا ،اتنا زیادہ زخمی ہونے کے باوجود وہ اٹھ بیٹھا اور اس نے دونوں ہاتھ بڑھیا کی طرف پھیلا دیے، بڑھیا نے اس کے قریب بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے اسے پانی پلایا۔
قبیلے ایک دوسرے کے دشمن ہو سکتے ہیں۔۔۔ بڑھیا نے کہا ۔۔۔لیکن یہ دشمنی اسلام کا رشتہ نہیں توڑ سکتی، جس روز یہ رشتہ ٹوٹ گیا اس روز اسلام بھی ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
صبح طلوع ہوئی تو دور دور تک راجہ داہر کے فوجیوں کی لاشیں بکھری نظر آنے لگی، ان میں سے کوئی فوجی اٹھنے کی کوشش کرتا اور پھر گر پڑتا تھا ،شہیدوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا گیا تھا اور مجاہدین ان کی قبریں کھود رہے تھے، سب کا مشترکہ جنازہ پڑھا گیا اور عرب کے یہ سرفروش سندھ کی ریت میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو گئے۔
محمد بن قاسم نے حجاج کے نام خط لکھوایا، جس میں اس نے اس پہلے کھلے معرکے کی تفصیل لکھی، اور اسے اس پہلی فتح کی خوشخبری سنائی، اس سے پہلے محمد بن قاسم نے قلعے فتح کیے تھے، یہ پہلی جنگ تھی جو کھلے میدان میں لڑی گئی تھی۔
قاصد کو خط دے کر محمد بن قاسم نے کہا کہ کہیں ر کے بغیر یہ خط حجاج بن یوسف تک لے جائے۔
حسب معمول ساتویں دن حجاج بن یوسف کا خط اسی قاصد کے ذریعہ آگیا ،حجاج نے محمد بن قاسم اور اسکے لشکر کو مبارکباد لکھی تھی، کچھ ہدایات بھی لکھی تھی ،اور اس نے یہ لکھا کہ اب محمد بن قاسم وہاں پہنچے جہاں راجہ داہر نے اپنی فوج جمع کر رکھی ہے،،،،،،، کبھی نہ بھولنا کہ خدا کی مرضی کے بغیر شان و شوکت اور فتح و کامرانی حاصل نہیں ہو سکتی ہے، آخر میں لکھا اللہ پر یقین رکھو گے اور آہ وزاری سے اس کی مدد کے ملتجی رہو گے تو ہر میدان میں فتح پاؤ گے۔
چند دنوں بعد یہ میدان صاف ہوچکا تھا، جے سینا کے لشکر کی لاشیں دریا میں پھینکی جا چکی تھیں، مرے ہوئے گھوڑے اور دو چار ہاتھی بھی گھسیٹ کر دریا میں پھینک دیئے گئے تھے، وہاں اب زخمی مجاہدین کے خیمے اور شہیدوں کی قبریں رہ گئی تھیں، اور محمد بن قاسم کا لشکر تھا جو پیش قدمی کی تیاریاں مکمل کر چکا تھا۔
ایک شام سورج غروب ہوتے ہی تمام لشکر کی نگاہیں مغرب کی طرف افق کے اوپر کچھ ڈھونڈ رہی تھیں، اچانک کسی نے نعرہ لگایا،،،، نظر آگیا،،،، یہ نعرہ خوشی کے ہنگامے کی صورت اختیار کرگیا ۔
مجاہدین کے لشکر کو ماہ رمضان کا چاند نظر آگیا تھا۔
راجہ داہر کو بھی ماہ رمضان کا چاند دیکھ کر خوشی ہوئی، وہ اسی ماہ کے انتظار میں تھا، اس نے اپنے بیٹے جے سینا سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کے سامنے اس وقت آئے گا جب رمضان شروع ہوچکا ہوگا اور مسلمان دن بھر بھوکے اور پیاسے رہا کریں گے۔
آدھی رات کا عمل ہوگا کہ ایک مقامی نومسلم آیا اور شعبان ثقفی کے خیمے میں چلا گیا ،وہ جاسوس تھا اس نے بتایا کہ راوڑ کے قریب راجہ داہر کی فوج اکٹھا ہو رہی ہے، جاسوس کو یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ فوج کسی طرف پیش قدمی کرے گی یا وہیں محمد بن قاسم کی فوج کا انتظار کرے گی یا اس فوج کو للکارے گی، بہرحال جاسوس کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ فوج جنگی ترتیب میں ہو رہی ہے۔
شعبان ثقفی نے جاسوس کو ساتھ لیا اور محمد بن قاسم کے خیمے میں چلا گیا، محمد بن قاسم گہری نیند سے جاگا اور جاسوس سے پوری رپورٹ سنی اس کے بعد وہ سو نہ سکا، اس نے شعبان ثقفی سے کہا کہ وہ خود آگے چلا جائے اور راجہ داہر کی فوج کی نفری اور دیگر کوائف دیکھے۔
شعبان ثقفی کو معلوم تھا کہ اس نے کیا دیکھنا ہے، وہ چلا گیا محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ وہ وقت آگیا ہے جس کا انھیں انتظار تھا ،اور دشمن بھی اسی وقت کے لئے تیار تھا۔
راجہ داہر کی ذاتی جنگی تیاری شہانہ تھی، تاریخوں میں اس کے ہاتھی کا رنگ سفید لکھا گیا ہے، دراصل سفید نہیں تھا سفید ہاتھی ایک مہوارہ ہے، داہر کے ہاتھی کا رنگ دوسرے ہاتھیوں کی نسبت ہلکا اور صاف تھا ،اس لئے دوسرے ہاتھیوں میں وہ الگ تھلگ لگتا اور اسی وجہ سے سفید کہلاتا تھا، یہ دیوقامت ہاتھی تھا قد اور جسامت کے لحاظ سے تمام ہاتھیوں سے بڑا تھا، اسے کبھی کسی مادہ کے قریب نہیں جانے دیا گیا تھا اس لئے یہ بد مست رہتا تھا، دوسرے جنگی ہاتھیوں کو بھی اسی طرح بدمست رکھا جاتا اور لڑائی سے پہلے انہیں شراب پلائی جاتی تھی، اس حالت میں انھیں ان کے مہاوت ہی قابو میں رکھ سکتے اور اپنے اشاروں پر چلاتے تھے، راجہ داہر کے ہاتھی پر جو ہودہ باندھا جاتا وہ اس کی شان و شوکت کے عین مطابق اور کشادہ، اس میں پھینکنے والی بہت سی پرچھیاں اور تیروں کا ذخیرہ رکھا جاتا تھا، ایک یا دو آدمی داہر کے ہودے میں برچھیاں اور تیر اسے دینے کے لئے رہتے تھے، داہر کے تیر دراصل تیر نہیں تھے ان کے دونوں سرے تیروں کی طرح ہی نوکیلے تھے، لیکن ان کی شکل پہلی کے چاند کے مانند یا آسٹریلیا کے حبشیوں کے مشہور ہتھیار بوم رینگ جیسی تھی، داہر کے ان مڑے ہوئے تیر کا اندرونی کنارہ تلوار کی طرح تیز دھار ہوتا تھا، بوم رینگ ہاتھ سے پھینکی جاتی ہے لیکن راجہ داہر نے یہ خاص تیر گوپھن میں ڈال کر پھینکا کرتا تھا، گوپھن رسّیوں کی بنی ہوئی ہوتی تھی، اس میں یہ تیر رکھ کر گوپھن کو سر کے اوپر گھماتے اور اس کا سرا چھوڑ دیتے تھے تیر بوم رینگ کی طرح یا چرخی کی طرح گھومتا جاتا اور دشمن کا جو آدمی اس کی زد میں آتا اس کا جسم کٹ جاتا تھا، اگر کوئی گردن اس کے راستے میں آجاتی تو گردن صاف کٹ جاتی اور تیر آگے نکل کر ایک اور آدمی کو زخمی کر سکتا تھا، گوپھن سے تیر نشانے پر پھینکا جا سکتا تھا لیکن اس کے لئے مہارت کی ضرورت ہوتی تھی۔
راجہ داہر کے ہودے میں دو انتہائی خوبصورت اور نوجوان لڑکیاں ہوتی تھیں، بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ لڑائی کے دوران ایک لڑکی راجہ داہر کو شراب اور دوسری پان کے بیڑے دیتی جاتی تھی، لیکن دو تاریخ نویسوں نے اس کی تردید کی ہے جو صحیح معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ 93 ہجری تک پان اس طرح کھانے کا رواج شروع نہیں ہوا تھا ، شراب تو مہاراجہ پیتے ہی تھے، لیکن ایسے نہیں کہ لڑائی کے دوران پیتے ہی چلے جاتے اس سے ہوش و حواس گم ہو جانے کا خطرہ ہوتا تھا، راجہ داہر ہوشمند جنگجو تھا اور وہ میدان جنگ میں ہوش میں رہتا تھا، یہ درست ہے کہ ہودے میں اس کے ساتھ دو خوبصورت کنیزیں رہتی تھیں اور شراب بھی ساتھ رہتی تھی جو داہر ضرورت کے مطابق پیتا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
راجہ داہر جب ہاتھی پر سوار ہونے لگا تو مائیں رانی نے اس کے ماتھے پر اپنی انگلی سے تلک لگایا اور اس کے دونوں گالوں کو چوما، مائیں رانی اس کی بہن تھی اور بیوی بھی، بڑے پنڈت نے داہر کے گلے میں جنیو ڈالا ، یہ لال اور سفید دھاگے ہوتے تھے جو ہندو اپنے گلے میں قمیض کے اندر ڈال کر رکھتے تھے، پنڈتوں کی ایک قطار الگ لگی ہوئی تھی وہ بھجن گنگنا رہے تھے، راجہ داہر کا ہاتھی پر سوار ہونا ایک تقریب تھی اس نے ہودے میں پاؤں رکھا تو وہ دو کنیزوں نے جو پہلے سے ہودے میں موجود تھیں اپنے کندھے داہر کے بغلوں میں رکھ دیے جس طرح بیساکھیوں سے کسی لولے لنگڑے کو سہارا دیا جاتا ہے، داہر ان حسین بیساکھیوں پر اپنے جسم کا وزن ڈال کر ہودے میں داخل ہوا ،اس کے اشارے پر مہاوت نے ہاتھی چلا دیا بدمست ہاتھی سونڈ اوپر کرکے بڑی زور سے چنگھاڑا اس کے ساتھ ہی ایک نعرہ بلند ہوا،،،، داہر مہاراج کی جے ہو،،،، یہ نعرہ تین مرتبہ لگا ہاتھی ایک دو مرتبہ پھر چنگھاڑا ایک دو قدم آگے جاتا اور پھر پیچھے ہٹ آتا تھا، جیسے مہاوت کا حکم ماننے سے انکار کر رہا ہو۔
اس طرح ہاتھی چنگھاڑتا اور تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں جا رکا جہاں داہر کی فوج کھڑی تھی، فوج کے آگے ایک سو جنگی ہاتھی کھڑے تھے، جن کے ہودوں میں تین تین چار چار نیزہ باز اور تیرانداز چاک و چوبند استادہ تھے، ان کے پیچھے دس ہزار گھوڑ سوار تھے، جن کے سروں پر آہنی خود تھے اور وہ نیم زرہ پوش تھے، پندرہ ہزار نفری کی پیادہ فوج دائیں اور پندرہ ہزار بائیں طرف کھڑی تھی ،فوج کو داہر کے حکم سے اس ترتیب میں کھڑا کیا گیا تھا کیونکہ داہر نے فوج سے خطاب کرنا تھا۔
پوتر دھرتی کے سپوتوں !،،،،راجہ داہر نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ آج یہ دھرتی تم سے خون کی قربانی مانگ رہی ہے ،سر مانگ رہی ہے، سر کٹوا کر اپنی دھرتی کے حوالے کر دو، میں تمہارے ساتھ ہونگا ، میں تم سب کے ساتھ اپنا سر کٹواؤنگا، لیکن دشمن کے ایک ایک سو آدمیوں کے سر کاٹ کر اپنی جان دینی ہے۔ مجھے دیوی دیوتاؤں کا اشارہ ملا ہے کہ میرا سر میرے جسم کے ساتھ رہے گا اور عرب تک جائے گا ،عرب کی دھرتی تمہارا انتظار کر رہی ہے تم فتح کے نعرے لگاتے اس دیس میں جاؤ گے جہاں سے اسلام نے سر اٹھایا ہے، اسلام کا سر کچل دینا ہے، وہاں اذان ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں گی، وہاں سنکھ بجیں گے ،مندروں کے گھنٹے بجیں گے۔
دھرتی ماتا کی جائے ہو،،،،، "
داہر مہاراج کی جائے ہو ،،،،"
راجہ داہر کی آواز جئے کاروں میں دب گئی اور وہ خاموش ہو گیا۔
دلوں سے یہ خوف نکال دو کہ مسلمان بہت بہادر ہیں ۔۔۔راجہ داہر نے ہاتھ اوپر کر کے فوج کو خاموش کرایا اور پہلے سے زیادہ بلند آواز سے بولا۔۔۔ یہ مت سوچو کہ انھوں نے راج کمار جے سینا کے لشکر کو کاٹ دیا ہے، یہ بھی مت سوچو کہ انہوں نے ہمارے بہت سے قلع لے لیے ہیں، انہوں نے یہ فتح بدھوں کی مدد سے حاصل کی ہے۔ یہ بدھوں کی غداری ہے مسلمان اس نشے میں دریا پار کر آئے ہیں کہ وہ آگے بڑھتے آئیں گے اور ہم ان کے آگے بھاگتے جائیں گے، میں نے خود انہیں یہاں تک آنے دیا ہے اب وہ دریا کے پار زندہ نہیں جا سکیں گے، اب ہم دریا کے پار جائیں گے پھر ہم انہیں کے کشتیوں اور جہازوں میں سمندر پار جائیں گے،،،،، یہ سوچ لو کہ تم نے جان کی بازی نہ لگائی اور مسلمانوں کا خوف اپنے دلوں پر سوار رکھا تو تمہاری جوان بیٹیاں بہنیں اور بیویاں مسلمانوں کی لونڈیاں بنیں گی، تمہارے مال و اموال زیور اور رقمیں مسلمان لوٹ لیں گے ،تمہارے مویشی اور تمہارے گائے مسلمانوں کے ہاتھوں زبح ہوگی اور وہ انہیں کھائیں گے، کیا تم گاؤ ماتا کی یہ بے حرمتی برداشت کر لو گے۔
نہیں،،، نہیں،،، فوج سے شور اٹھا ۔۔۔گاؤ ماتا کا ہتیا چار نہیں ہونے دیں گے۔
تاریخوں کے مطابق داہر نے اپنے لشکر کے خون کو گرما دیا انہیں دیوتاؤں کے قہر سے ڈرایا اور انہیں دیوتاؤں کی خوشنودی اور انعامات کے سبز باغ دکھائے۔
اس نے گزشتہ رات اپنی فوج کے حاکم و سالاروں کو بلا کر احکام دیے تھے ان کے اور اپنے وزیروں اور مشیروں سے مشورے بھی لیے تھے اس کے مشیروں میں محمد حارث علافی بھی تھا جسے داہر اپنا مخلص دوست اور عقلمند مشیر سمجھتا تھا ،لیکن علافیوں کے اس سردار کی وفاداری عرب اور اسلام کے ساتھ تھی، اگر اس وقت خلافت بنو امیہ کی نہ ہوتی تو یہ پانچ سو عرب مکران میں نہ ہوتے۔
راجہ داہر نے اپنے فوجی کمانڈروں کو یہ احکام دیے تھے کہ اپنے لشکر کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے سے دور دور رکھنا ہے، اس نے سوچا یہ تھا کہ مسلمانوں کی فوج بھی اس کی فوج کے ہر حصے سے لڑنے کے لئے حصوں میں بکھر جائے گی، پھر داہر کی فوج کے دو تین بڑے حصے یکجا ہو کر مسلمانوں پر پہلوؤں سے یا عقب سے حملہ کر دیں گے۔
انہیں بکھیر کر مارنا ہے،،، داہر نے کہا تھا آمنے سامنے کی جنگ اس وقت شروع ہوگی جب عربی فوج تھک کر چور ہو چکی ہو گی اور اس کی بہت سی نفری زخمی اور ہلاک ہوچکی ہوگی ،نیا چاند نظر آتے ہی جیور کی طرف پیش قدمی ہوگی، لیکن عربوں پر دو سوار اور ایک پیادہ دستے سے حملہ ہو گا، یہ دستے پیچھے ہٹتے آئے نگے پھر ایک اور دستہ ایک اور طرف سے حملہ کرے گا۔
داہر نے اپنے سالاروں کو یہ منصوبہ اور یہ طرز جنگ رات کو ہی ذہن نشین کرا دیا ، صبح جب وہ اپنے لشکر کا حوصلہ جوشیلے اور جذباتی الفاظ سے بڑھا رہا تھا اسکے فوراً بعد اس نے دستوں کو منصوبے کے مطابق تقسیم کرنا اور دو سوار اور ایک پیادہ دستے کو جیور کی طرف جانے کا حکم دینا تھا ،جہاں اس کے بیٹے جے سینا کی لڑائی محمد بن قاسم کے چند ایک دستوں کے ساتھ ہوئی تھی، داہر کو مخبروں نے اطلاع دی تھی کہ مسلمانوں کی فوج ابھی وہی ہے اور اس کی پیش قدمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
راجہ داہر نے (مورخوں کے مطابق) ان الفاظ پر اپنا خطاب ختم کیا ،،،،،،،،،اسلام میری زندگی میں سندھ میں داخل نہیں ہوگا ،اگر ہم نے اس مذہب کو یہی نہیں روکا تو یہ سارے ہند میں پھیلے گا اور اس پاپ کا قہر ہمارے بچوں پر گرے گا ،ہم مر جائیں گے تو ہمیں کتوں اور چوہوں کے روپ میں دوسرا جنم ملے گا۔
اس کے بعد اس نے دستوں کو منصوبے کے مطابق تقسیم ہونے کا حکم دیا ۔
دستے تقسیم ہو چکے تو انہیں اپنے اپنے علاقے میں جانے کو کہا گیا۔
دستی جا رہے تھے کہ ایک شتر سوار اونٹ کو دوڑاتا لایا اور راجہ داہر کے ہاتھی کے قریب جا رکا۔
عربی فوج وہاں سے آگے آ گئی ہے۔۔۔ شتر سوار نے کہا ۔۔۔اور یہاں سے کچھ دور رک گئی ہے۔
بتایا جا چکا ہے کہ محمد بن قاسم کو ایک جاسوس نے اطلاع دی تھی کہ داہر کی فوج تیاری کی حالت میں راوڑ کے قریب جمع ہو رہی ہے، محمد بن قاسم نے اسلام کے فن حرب و ضرب کے اصولوں کے مطابق دشمن کو تیاری کی حالت میں دبوچنے کے لئے رات ہی رات اپنی فوج کو تیار کیا اور سحری ختم ہونے سے پہلے پیش قدمی کا حکم دے دیا، پیش قدمی بہت تیز تھی ،اتنی تیز کے دن کے پچھلے پہر تک محمد بن قاسم کا لشکر راوڑ سے تقریباً چار میل دور تک پہنچ گیا۔
اس سے داہر کو یہ نقصان اٹھانا پڑا کہ اس کا منصوبہ تقریبا بیکار ہو گیا، پھر بھی داہر نے اپنے دستوں کو جہاں تک ممکن ہو سکا تقسیم کرکے اپنے اپنے علاقے میں بھیج دیا ،داہر کو معلوم نہیں تھا کہ اب اس کی کوئی بھی نقل و حرکت خفیہ نہیں رہی، اس نے دستوں کو جس طرح ادھر ادھر بھیج دیا تھا وہ محمد بن قاسم کو اس کے جاسوسوں اور مخبروں کے ذریعے معلوم ہو رہا تھا، راجہ داہر کو رخصت کرنے کے لئے جو لوگ آئے تھے وہ وہاں سے واپس چل پڑے، ان میں پنڈت بھی تھے کچھ درباری بھی تھے، مشیر بھی تھے، راجہ داہر کی بیویاں، اور داشتائیں بھی تھیں، اور ان میں مائیں رانی بھی تھی، اور حارث علافی بھی تھا۔
مائیں رانی اپنی پالکی میں بیٹھ کر واپس جانے کی بجائے کسی سے کہہ کر گھوڑا منگوایا اور اس پر سوار ہو گئی، حارث علافی اپنے گھوڑے پر سوار سب سے الگ جا رہا تھا۔ مائیں رانی اپنا گھوڑا اس کے قریب لے گئی۔
علافی !،،،،،،مائیں رانی نے محمد بن حارث علافی سے پوچھا ۔۔۔مہاراج تمہارے مشوروں کو بڑی جلدی قبول کرلیتے ہیں،،،،، کیا تم یہ مشورے مہاراج کے ساتھ وفاداری کے طور پر پیش کرتے ہو ،یا تمہاری خفیہ وفاداری کسی اور کے ساتھ ہے۔
تم نے یہ کیوں پوچھا ہے؟،،،،، علافی نے پوچھا۔۔۔ کیا تمہیں میری وفاداری پر شک ہے؟
ہاں!،،،،،،، مائیں رانی نے جواب دیا ۔۔۔کبھی کبھی شک سا ہونے لگتا ہے، تم آخر عرب ہو، اور یہ تم خود کہہ چکے ہو کہ مسلمان ہوکر تم کسی مسلمان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاؤ گے، اس سے مجھے شک ہوتا ہے کہ تم درپردہ عرب کی فوج کے ساتھ ہو اور مہاراج کو ایسے مشورے دے رہے ہو جن کا فائدہ عربوں کو پہنچتا ہے۔
کوئی ایک ایسا مشورہ بتا سکتی ہوں؟
تم نے مہاراج کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن قاسم کو دریا کے اس طرف آنے دو ۔۔۔مائیں رانی نے کہا ۔۔۔مہاراج اس لئے مان گئے کہ وہ تمہارے ملک کی فوج کو شکست دیں گے، تو دریا انہیں بھاگنے نہیں دے گا، تم اگر یہ مشورہ دیتے تو بہتر ہوتا کہ عربوں کو دریا پار کرنے کا موقع دو اور وہ جب دریا پار کر رہے ہوں تو ان پر تیروں اور برچھیوں کا مینہ برسا دو۔
رانی !،،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔مہاراج بچے نہیں اناڑی اور نادان نہیں ،وہ محمد بن قاسم سے زیادہ تجربے کار سالار ہیں، وہ اچھے اور برے کو پہچانتے ہیں، تم وہ بات کرو جو تمہارے دل میں ہے،،،،، تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میری ہمدردیاں محمد بن قاسم کے ساتھ ہیں ،اور میں تم لوگوں کو دھوکا دے رہا ہوں۔
ہاں !،،،،مائیں رانی نے کہا ۔۔۔میں یہی کہنا چاہتی ہوں، اور میں تمہیں یاد بھی لانا چاہتی ہوں کہ مہاراج نے تمہارے قبیلے کو مکران میں پناہ دے رکھی ہے اس دیس میں کسی مسلمان کو پناہ نہیں مل سکتی،،،،،،،،،،، تمہارے ساتھ دو آدمی تھے ایک موجود ہے دوسرا کہاں ہے؟
مائیں رانی !،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔مہاراج کو جو دھوکے تم نے دیے ہے وہ مجھے معلوم ہے، تم مہاراج کی بہن ہو اور ان کی بیوی بھی ہو لیکن تم نے اپنے جذبات کی تسکین کا ذریعہ عرب کے ایک جوان آدمی کو بنایا کہو، تو تمہیں اس کا نام بتادوں،،،،،، اور تم نے میرے جس آدمی کے متعلق پوچھا ہے کہ یہاں موجود نہیں وہ کبھی کبھی رات کو بھی میرے پاس موجود نہیں ہوتا ،میں جانتا ہوں وہ کہاں ہوتا ہے۔
وہ اب کہاں ہے ۔۔۔مائیں رانی نے کھسیانے سے لہجے میں پوچھا۔
رانی !،،،،،،علافی نے گھوڑا روک کر مائیں رانی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔ مجھے شک کی نگاہوں سے دیکھنا چھوڑ دو، تمہارا ایک راز میرے سینے میں چھپا ہوا ہے۔
مائیں رانی چپ ہو گئی۔
اور میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں رانی!،،،، محمد بن حارث علافی نے کہا ۔۔۔مہاراج محمد بن قاسم کو شکست نہیں دے سکے گے۔
یہ تمہاری خواہش ہے ۔۔۔مائیں رانی نے کہا۔
نہیں !،،،،علافی نے کہا۔۔۔ یہ میری پیشن گوئی ہے، حالات بتا رہے ہیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
علافی کا وہ آدمی جس کے متعلق مائیں رانی پوچھ رہی تھی وہ اس وقت وہاں سے تھوڑی ہی دور ایک آدمی کے پاس کھڑا تھا ،وہ آدمی محمد بن قاسم کا ایک جاسوس تھا، علافی کا آدمی اسے بتا رہا تھا کہ راجہ داہر نے جنگ کا کیا منصوبہ بنایا ہے۔
اگر علافیوں کی طرف سے محمد بن قاسم کو جاسوسوں کی مدد نہ ملتی، تو بھی وہ داہر کے جال میں آنے والا نہیں تھا ،اس نے اپنی فوج چار میل دور اس لیے روک لی تھی کہ وہ محتاط تھا ،اس نے دشمن کی نقل و حرکت اور اس علاقے کے خدوخال کو دیکھنا تھا، جو اس کے جاسوس اسے دکھا رہے تھے، اس کے ساتھ جو فوج تھی اس میں بارہ ہزار سوار تھے، جے سینا کو شکست دے کر اس کی فوج کے بہت سے گھوڑے مسلمانوں نے پکڑ لیے تھے، اس سے یہ فائدہ ہوا کہ پیادے بھی سوار بن گئے ،عربوں کے ساتھ جو پیادہ فوج تھی وہ مقامی آدمیوں کی تشکیل دی گئی تھی، یہ سب مسلمانوں کے حسن سلوک اور فیاضی سے متاثر ہو کر ان کی فوج میں شامل ہوئے تھے، ان کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ تھی، اس کے مقابلے میں راجہ داہر کی پیادہ فوج کی تعداد تیس ہزار تھی، محمد بن قاسم کی فوج میں تیراندازوں کی تعداد ایک ہزار تھی، جس میں نفت انداز بھی تھے یہ آگ لگانے والے تیر پھینکتے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنی فوج کی تقسیم اس طرح کی کہ خود قلب میں رہا اور اپنے ساتھ سالار صحرز بن ثابت کو رکھا، دائیں بازو پر سالار جہم بن زحر جعفی، اور دائیں بازو پر سالار ذکوان بن غلوان بکری کو رکھا، محفوظہ جو قلب سے پیچھے تھا سالار نباۃ بن حنظلہ کلابی کے سپرد کیا، اور آگے یعنی مقدمۃالجیش کی کمان سالار عطا بن مالک قیسی کو دی۔
عرب کے مجاہدوں!،،،، محمد بن قاسم نے اعلان کیا۔۔۔ اگر میں مارا جاؤں تو میری جگہ سپہ سالار صحرزبن ثابت ہوگا ،اور اس کے مارے جانے کی صورت میں سعید سپہ سالاری کے فرائض سنبھالے گا۔
محمد بن قاسم نے دیکھا کہ داہر کی فوج مختلف حصوں میں تقسیم ہو کر ادھر ادھر ہو گئی ہے تو اس نے اس کے مطابق اپنی فوج کو نہ بکھیرا ،مرکزی مقام اپنے پاس رکھی اور یہ معلوم کر لیا کہ راجہ داہر کی فوج کا زیادہ نفری والا حصہ کہاں ہے، داہر کا پلان یہ تھا کہ اس حصے میں مسلمانوں کی فوج پر حملہ کرنا تھا ،داہر کو توقع یہ تھی کہ مسلمان تیاری کی حالت میں نہیں ہونگے، مگر مسلمانوں کی بروقت بلکہ قبل از وقت پیش قدمی نے صورتحال بالکل ہی بدل ڈالی تھی،
محمد بن قاسم نے سالار عطا بن مالک قیسی کو حکم دیا کہ وہ دشمن کی فوج کے بڑے حصے پر حملہ کرے۔
اس سالار کا حملہ بڑا تیز اور زوردار تھا، ہندو تو اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ میدان جنگ میں ان کی حکمرانی ہوگی اور وہ مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق گھماتے لڑاتے اور بھاگتے پھریں گے، مگر یہ حکمرانی مسلمانوں کے ہاتھ آ گئی، عطا بن مالک کے حملے کا مقابلہ ہندوؤں نے جم کر کرنے کی کوشش کی انہیں امید تھی کہ ان کا مہاراجہ انہیں مدد دے گا لیکن محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو ایسی ترتیب میں پھیلا رکھا تھا کہ داہر کی فوج کے اس حصے کو کسی طرف سے بھی مدد نہیں پہنچ سکتی تھی۔
داہر کے ان دستوں کے لیے صرف ایک راستہ کھلا تھا جو پسپائی کا راستہ تھا وہ پسپا ہونے لگے، محمد بن قاسم دیکھ رہا تھا اس نے اپنے سالار کو قاصد کی زبانی حکم بھیجا کہ دشمن کے تعاقب نہیں جانا۔
دشمن کے ان دستوں کے ساتھ ہاتھی بھی تھے لیکن مجاہدین کے دلوں سے ہاتھیوں کا خوف نکل گیا تھا ،اب محمد بن قاسم کے حکم سے ان ہاتھیوں کے مقابلے کے لیے آتشی تیر چلانے والے تیر انداز استعمال کیے گئے، انہوں نے آگ والے تیر ہاتھیوں کی آنکھوں کا نشانہ لے کر چلائے، چونکہ ہاتھی متحرک تھے اس لیے ان کی آنکھوں میں تیر مارنا بہت مشکل تھا، آگ والا تیر جب ہاتھی کو کہیں بھی لگتا تھا تو چنگھاڑنے اور بے قابو ہو کر بھاگنے لگتا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
داہر نے بدلی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی اپنے بکھرے ہوئے دستوں کو یکجا نہ کیا اور خود میدان جنگ میں نہ آیا، محمد بن قاسم بھی پیچھے رہا اور اپنے دستوں کو آگے پیچھے کرتا رہا ،اس طرح یہ جنگ چھوٹے چھوٹے اور جھڑپوں تک محدود رہی ،جونہی سورج غروب ہوتا تھا دونوں طرف کے لڑنے والے دستے پیچھے ہٹ آتے تھے، رات کو سوائے گشت کے کوئی کارروائی نہیں ہوتی تھی۔
راجہ داہر اس کوشش میں تھا کہ جس طرح اس نے اپنے دستے بکھیر رکھے ہیں اسی طرح محمدبن قاسم بھی اپنی فوج کو بکھیر دے، لیکن تاریخ اسلام کا یہ کمسن داہر کی چال کو بھانپ گیا تھا، ایک تو اس کی اپنی جنگی فہم و فراست تھی اور دوسری یہ کہ اسے محمد علافی نے اطلاع بھیج دی تھی کہ داہر کا پلان کیا ہے۔
نہیں،،،،،،، میں اور انتظار نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔راجہ داہر نے سات آٹھ روز کی جھڑپوں کے بعد اپنے فوجی حاکموں سے کہا۔۔۔ دشمن محتاط ہوگیا ہے، ہمارا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے، اور ہمارے سپاہی بھی ضائع ہو رہے ہیں ، میں اب مسلمانوں کو للکاروں گا۔
اب للکارنے کا وقت آگیا ہے مہاراج!،،،،، ایک فوجی حاکم نے راجہ داہر سے کہا ۔۔۔مسلمان تھک چکے ہیں۔
نہیں !،،،،داہر نے کہا۔۔۔ تم لوگوں میں یہی خرابی ہے کہ غور نہیں کرتے، آنکھیں کھول کر دیکھتے نہیں،،،،،، تمہارا دشمن نہ کمزور ہوا ہے نہ تھکا ہے، وہ محتاط ہوگیا ہے ،اور ہمارے پھندے میں نہیں آرہا ،فوج کو ایک جگہ کرلو۔
اسی رات کا واقعہ ہے داہر اپنے خیمے میں بیٹھا شراب اور دو کنیزوں سے دل بہلا رہا تھا وہ اپنے فوجی کمانڈروں کو آمنے سامنے کی لڑائی کے احکام اور ہدایات دے چکا تھا، اسے دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیے آواز قریب آتی جا رہی تھی، داہر نے دربان کو بلا کر پوچھا کہ یہ کون آرہا ہے، اتنے میں گھوڑا خیمے کے سامنے آ رکا ، دربان باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ مائیں رانی خیمے میں داخل ہوئی، اسکے چہرے پر گھبراہٹ تھی، وہ جس تیزی سے خیمے میں داخل ہوئی تھی اس سے پتہ چلتا تھا کہ کوئی بہت بڑا واقعہ یا حادثہ ہو گیا ہے۔
کیا ہوا رانی!،،،،، داہر نے اٹھتے ہوئےپوچھا اسوقت یہاں کیوں آئی ہو؟
رانی خیمے کے وسط میں رک گئی تھی، اس نے کنیزوں کو دیکھ کر سر کا اشارہ کیا دونوں باہر نکل گئیں، دربان پہلے ہی باہر جا چکا تھا۔ رانی نے داہر کے قریب جاکر اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے۔
مہاراج !،،،،اس نے گھبراہٹ سے کانپتی ہوئی آواز میں داہر سے کہا۔۔۔ لڑائی میں نہ جانا، پیچھے رہ کر حکم دیتے رہنا۔
کیا کہہ رہی ہو رانی!،،،، داہر نے غصیلی آواز میں پوچھا۔
اگر میں آپ کی صرف بیوی ہوتی تو ایسی بات کبھی نہ کہتی۔۔۔ مائیں رانی نے رندھیائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میں آپ کی بہن ہوں ،بہن اپنے بھائی کو ،،،،نہیں ،نہیں،،،،ایسا نہیں ہوگا۔
اوہ رانی !،،،،،،داہر نے رانی کو گلے لگاکر کہا ۔۔۔تم کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر آئی ہو، اس نے شراب کا پیالہ اٹھا کر رانی کی طرف بڑھا دیا،،،، یہ پی لو دل مضبوط ہو جائے گا۔
مائی رانی نے پیالے پر ہاتھ مارا پیالہ داہر کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر جاپڑا، مجھے شراب نہیں بھلا سکتی۔۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ آپ لڑائی میں شامل نہ ہوں ،،،،،،،میں نے بہت بڑا خواب دیکھا ہے، آپ پانی میں ڈوب جاتے ہیں میں آپ کو زندہ نکالنے کے لئے آگے بڑھتی ہوں تو ہمارے اپنے آدمی آپ کی گردن کاٹ کر سر تن سے جدا کر دیتے ہیں۔۔۔۔ مائیں رانی چپ ہو گئی ،اور یوں خلا میں ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے لگی جیسے اسے کوئی ڈراونی چیز نظر آ رہی ہو ،اس نے داہر کو دیکھا تو اس کے قریب جا کر فرش پر گھٹنے ٹیک دیے اور دونوں بازو داہر کی ٹانگوں کے گرد لپیٹ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔ نہ جائیں مہاراج !،،،اس لڑائی میں نہ جائیں۔
میں میدان جنگ میں نہ گیا تو ہماری فوج کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا ۔۔۔۔داہر نے کہا۔۔۔ مسلمانوں کو پتہ چلا کہ سندھ کا مہاراجہ اپنی فوج کے ساتھ نہیں ہے تو وہ مجھے بزدل کہیں گے، کیا تم دیکھ نہیں رہی ہو کہ وہ کس طرح بڑھے چلے آ رہے ہیں ،مجھے پنڈتوں نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو یہی تباہ و برباد کرنا میرا فرض ہے، اور دیوتاؤں نہیں یہ فرض مجھے سونپا ہے۔
اور انھیں پنڈتوں نے میرا خواب سن کر مجھے کہا ہے کہ مہاراج کو کسی طرح آگے جانے سے روک لو۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔۔۔وہ کہتے ہیں خواب میں کسی کو پانی میں ڈوبتے دیکھنا اچھا نہیں ہوتا۔
راجہ داہر نے مائیں رانی کو ساتھ لیا اور خیمے سے نکل گیا، وہ اسے بہلا رہا تھا لیکن مائیں رانی کی جزباتی حالت بگڑتی جارہی تھی، راجہ داہر نے اسے اٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دیا اور اپنے دو محافظوں کو حکم دیا کہ وہ مائیں رانی کے ساتھ جائیں اور اسے راوڑ کے قلعے میں داخل کر کے آئیں۔
*<========۔=========>*
*قسط نمبر/25*
(9 /رمضان المبارک 93 ہجری )کی صبح راجہ داہر کی فوج میدان میں لڑائی کی ترتیب میں کھڑی تھی، ایک سو جنگی ہاتھی فوج کے آگے کھڑے تھے، ان کے پیچھے راجہ داہر اپنے دیوہیکل ہاتھی پر ہودے میں کھڑا تھا ،اس کے قریب اس کا بیٹا جے سینا گھوڑے پر سوار تھا۔ ہاتھی بدمست تھے چنگھاڑ رہے تھے، ایک دو قدم آگے ہوتے پھر پیچھے ہٹ جاتے، یہ ان کی بے چینی اور بے قراری کا اظہار تھا ،یوں لگتا تھا جیسے ان ہاتھیوں کو بھی احساس تھا کہ مسلمان ان کے دشمن ہیں، ان کے ہودوں میں نیزہ باز اور تیرانداز کھڑے تھے۔
محمد بن قاسم اپنی فوج کو داہر کی فوج کے سامنے لے گیا، اس نے اپنے سالاروں اور نائب سالاروں کو اس طرح کمان دی کہ ابو ماہر ہمدانی کو آگے ہاتھیوں کے سامنے رکھا ،اس کی کمان میں جو دستے دیے گئے ان میں تمام مجاہدین پوری فوج میں سے چنے ہوئے نڈر اور تجربے کار تھے، اور وہ ہاتھیوں کے مقابلے کا تجربہ رکھتے تھے۔
مخارق بن کعب راسی، مسعود بن الشعری کلبی، سلمان ازدی، اور زیاد بن جلیدی ازدی، کو محمد بن قاسم نے اپنے ساتھ قلب میں رکھا، دائیں پہلو کے دستوں کی کمان جہم بن زحر جعفی کو، اور بائیں پہلو کے دستوں کی کمان ذکوان بن غلوان بکری کے سپرد کی، محفوظہ کی کمان نباۃ بن حنظلہ کلابی کے پاس تھی۔
محمد بن قاسم نے چار بڑے ہی تجربے کار اور غیر معمولی طور پر بہادر مجاہدین۔۔۔۔ بشر بن عطیہ، محمد بن زیاد عبدی، مصعب بن عبدالرحمن ثقفی، اور خریم بن عروہ مدنی۔۔۔۔ کو بلایا۔
میرے عزیزو!،،،،،،، محمد بن قاسم نے انہیں کہا ۔۔۔میں تمہیں ایسا فرض سونپ رہا ہوں جس کا صلہ میں نہیں دے سکوں گا، اس کا اجر تمہیں اللہ سے ملے گا، جس کی راہ میں تم خون کے نذرانے دینے گھروں سے نکلے ہو۔
ہمیں وہ فرض بتا ابن قاسم!،،،،، ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ خدا کی قسم ھم صلے اور آجر کے بغیر فرض ادا کریں گے۔
راجہ داہر تمہارا شکار ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اپنے ساتھ چند آدمی لے سکتے ہو داہر کے ہاتھی کو گھیرے میں لے کر اتنا زخمی کرنا ہے کہ گر پڑے، داہر کو زندہ پکڑ لاؤ تو بہتر ہے، زندہ نہ رہے تو اس کا سر کاٹ کر لے آؤ، اس نے بے گناہ عربوں کو قید میں رکھا تھا، ان میں عورتیں اور بچے بھی تھے میں اسے معاف نہیں کرسکتا۔
ایسے ہی ہوگا سپہ سالار!،،،، ایک نے کہا۔۔۔ ایسے ہی ہوگا ۔
محمد بن قاسم نے ایک بار پھر اعلان کیا۔۔۔۔ ائے اہل عرب !،،،میں شہید ہوجاؤں تو صحرز بن ثابت میری جگہ سپہ سالار ہوگا، وہ بھی شہید ہو جائے تو سعید اس کی جگہ لے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
لڑائی شروع ہونے والی تھی کہ محمد بن قاسم کو پہلی مایوسی ہوئی، اس کی نظرداہر پر تھی لیکن داہر کا ہاتھی اسے پیٹھ پر اٹھائے پیچھے جا رہا تھا، پہلے تو یہ سمجھا گیا کہ داہر جگہ بدل رہا ہے لیکن وہ اپنے لشکر کے بہت پیچھے چلا گیا اس کے بعد ہاتھیوں کو بھی فوج کے آگے سے ہٹا لیا گیا۔
ابن ثابت !،،،،محمد بن قاسم نے سالار سحر ز بن ثابت کو حکم دیا ۔۔۔آگے بڑھو اور اللہ کا نام لے کر حملہ کرو۔
صحرز کے سوار دستے سر پٹ دوڑے ادھر سے بھی چند ایک سوار دستے بڑھے ،شدید اور خونریز تصادم ہوا، نقصان یہ ہوا کہ صحرز بن ثابت پہلے ہلّے میں ہی شہید ہو گیا ،خطرہ یہ تھا کہ دشمن کے ہاتھی چڑھ دوڑیں گے، محمد بن قاسم نے نفت اندازوں کو جو آگ والے تیر انداز تھے آگے کیا اور حکم دیا کے وہ ہاتھیوں کو نشانہ بنائے، لیکن داہر ہاتھیوں کو شاید فیصلہ کن حملے کے لئے محفوظ رکھنا چاہتا تھا، اس نے تمام ہاتھیوں کو پیچھے کر لیا۔
صحرز شہید کے دستوں کو پیچھے ہٹا لیا گیا، اب سعید نے حملہ کیا ،ایک بار پھر گھمسان کا معرکہ ہوا، راجہ داہر احتیاط سے اپنے دستوں کو احکام دے رہا تھا ،اس نے سعید کے حملے کے جواب میں اپنا ایک سوار دستہ آگے بڑھایا، مگر محمد بن قاسم نے عطا بن مالک قیسی کو بروقت آگے کردیا، عطا کا دستہ پا برکاب تھا اس کی تیز حرکت نے داہر کے دستے کو سعید کے دستوں تک پہنچنے ہی نہ دیا۔
تاریخ معصومی اس جنگ کے تفصیلی بیان میں مستند معلوم ہوتی ہے، راجہ داہر کو مسلمانوں میں تھکاوٹ کے آثار نظر نہیں آرہے تھے، اور مسلمان اس کی اتنی زیادہ جنگی طاقت اور ہاتھیوں سے مرعوب ہوتے بھی نہیں لگتے تھے، مسلمان جب حملہ کرتے تو رعد کی کڑک جیسا اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے تھے، ان کے نعرے جاندار اور ان کا جوش و جذبہ تروتازہ تھا۔
راجہ داہر نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا ،وہ تو مجاہدین کے دباؤ سے پیچھے ہٹ ہی رہے تھے، محمد بن قاسم نے داہر کے اس حکم کو دھوکہ سمجھا کہ داہر اس خیال سے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹا رہا ہے کہ مجاہدین اس کے دستوں کے پیچھے لگے رہیں گے اور اتنا آگے چلے جائیں گے کہ انہیں دوسرے دستوں سے گھیرے میں لے کر ختم کر دیا جائے گا، اس خطرے کے پیش نظر محمد بن قاسم نے سعید اور عطا کو پیچھے ہٹا لیا۔
دونوں فوجوں کے درمیان اب لڑنے والا کوئی دستہ نہیں تھا، لیکن میدان خالی بھی نہیں تھا وہاں لاشیں بکھری پڑی تھیں زخمی پڑے کراہ رہے تھے، ان میں سے بعض اٹھنے اور چلنے کی کوشش میں گر پڑتے تھے، دونوں طرف سے دو دو تین تین آدمی دوڑے جاتے اور اپنے اپنے زخمی کو اٹھا کر یا سہارا دے کر پیچھے لے آتے تھے۔
محمد بن قاسم نے ایک پارٹی الگ کر رکھی تھی، یہ مشکیزہ برادر پارٹی تھی یہ وہ آدمی تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے لڑائی کے قابل نہیں تھے، یا یہ خادم قسم کے آدمی تھے، وہ پانی سے بھرے ہوئے مشکیزے اٹھائے دونوں فوجوں کے درمیان پڑے ہوئے زخمیوں کے منہ میں پانی ڈال رہے تھے، اسی پارٹی کے آدمی نے اپنے دستوں میں گھوم پھر کر مجاہدین کو پانی پلاتے تھے۔
ایک روایت ہے کہ محمد بن قاسم نے پانی پلانے والوں میں ایک آدمی کو دیکھا جو اس کے سامنے سے گزر گیا تھا، محمد بن قاسم کو شک ہوا کہ یہ آدمی نہیں عورت ہے ،اگر عورت نہیں تو نوجوان لڑکا ہے۔
محمد بن قاسم نے اسے بلایا اور گھوڑے کی پیٹھ سے جھک کر اسے ذرا غور سے دیکھا۔
اگر میری آنکھیں مجھے دھوکہ نہیں دے رہی تو تم مرد نہیں ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اہل ثقیف کی آنکھیں دھوکا نہیں کھایا کرتی،،،،، پانی پلانے والی نے کہا ۔۔۔میں عورت ہوں، اور میں اکیلی نہیں ہوں، کئی اور عورتیں مشکیزے اٹھائے پانی پلاتی رہی ہیں۔
کیا تو اپنے خاوند کے ساتھ آئی ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ تیرا بھائی بھی آیا ہوگا تیرے ساتھ؟
ابن قاسم!،،،، عورت نے کہا ۔۔۔یہ سب میرے بھائی ہیں میں اپنے خاوند کے ساتھ آئی ہوں یہ سب میرے بیٹے ہیں، اور یہ عورت اپنے لشکر میں غائب ہو گئی۔
پانی صرف زخمی پیتے تھے، دن کے وقت کوئی اور مجاہد ماہ رمضان کی وجہ سے پانی نہیں پیتا تھا۔
محمد بن قاسم کو یہ فیصلہ کرنے کی مہلت نہ ملی کہ عورتوں کو میدان جنگ میں رہنے دیا جائے یا انہیں پیچھے زخمیوں کے پاس بھیج دیا جائے، مہلت اس لیے نہ ملی کہ راجہ داہر نے ہاتھیوں کو آگے کردیا تھا ، ہاتھی دوڑتے چنگھاڑتے آرہے تھے، ان کے ہودوں میں کھڑے آدمی ہاتھوں میں برچھیاں تول رہے تھے۔
محمد بن قاسم کے اشارے پر سعید اور عطاء کے سوار دستے فوراً چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو گئے، یہ تقسیم پہلے سے طے شدہ تھی، ہر گروہ نے ایک ایک ہاتھی کو گھیرنا تھا، سواروں کے پہنچنے تک تیر اندازوں نے ہاتھیوں پر آگ والے تیر برسائے، ہاتھیوں میں کھلبلی مچانے کے لیے یہی تیر کافی تھے۔
دو تیر ایک ہاتھی کے ہودے میں کھڑے ایک پرچھی باز کو لگے اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی، اس نے ہودے میں ناچنا شروع کر دیا اس کی آگ نے اس کے ایک ساتھی کو بھی زد میں لے لیا ،دونوں اوپر سے کودے اور زمین پر آپڑے ،وہ سنبھلنے یا بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مجاہدین کے گھوڑوں کے نیچے آگئے۔
سورج غروب ہو گیا ہاتھیوں اور مجاہدین کا معرکہ عروج پر تھا کہ فیل بانوں نے ہاتھیوں کو واپس لے جانا شروع کردیا، شام ہوتے ہی لڑائی بند کر دی جاتی تھی، اس رواج کے مطابق ہاتھی ادھر چلے گئے اور گھوڑے ادھر آ گئے، تین چار ہاتھی زخمی ہوگئے تھے، فیل بانوں کے قابو سے نکل گئے انہوں نے اپنے لشکر کی صفوں میں ادھم بپا کردیا۔۔۔ پھر تاریکی نے میدان جنگ پر سیاہ پردہ ڈال دیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
10 رمضان المبارک بروز جمعرات تاریخ اسلام اور تاریخ ہند کا ایک اہم ترین دن ہے، اس روز حق و باطل کے معرکے کا فیصلہ کن مرحلہ شروع ہوا تھا۔
گزشتہ رات مجاہدین نے ذرا سا بھی آرام نہیں کیا تھا، انہیں بتایا گیا تھا کہ اگلا روز بہت خطرناک ہو گا، اور اس کے لیے غیر معمولی طور پر تیاری کی ضرورت ہوگی۔
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ داہر دور اپنے ہاتھی پر سوار تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔محمد بن قاسم اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا ۔۔۔وہ دیکھ رہا تھا کہ ہم کس حالت میں ہیں، اور آمنے سامنے جنگ میں ہمارا انداز اور ہماری لڑنے کی اہلیت کیسی ہے، اس نے آخر میں ہاتھیوں سے حملہ کرایا تھا ،وہ جائزہ لے رہا تھا کہ ہم ہاتھیوں کا مقابلہ کس طرح کریں گے،،،،، اس نے رمضان میں جنگ یہ سوچ کر شروع کی ہے کہ دن کو ہم بھوکے اور پیاسے ہوں گے اس لیے ہم میں لڑنے کی ہمت نہیں ہوگی ،،،،،،کل کا سورج کچھ اور ہی نظارہ دیکھے گا۔
سحری کے وقت لشکر نے کھا پی لیا، میدان جنگ میں انہوں نے اپنے کسی زخمی ساتھی کو نہیں رہنے دیا تھا، سب کو اٹھا کر لے آئے تھے، اور عورتیں ان کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔
محمد بن قاسم کو خبریں مل رہی تھیں کہ دشمن کیا کر رہا ہے، راجہ داہر نے اپنے کمانڈروں کو بتا دیا تھا کہ آنے والا دن فیصلہ کن دن ہوگا ،اور یہ محمد بن قاسم کی زندگی کا آخری دن ہوگا، اور اس کی فوج میں جو زندہ رہیں گے ان کی باقی زندگی داہر کی غلامی میں گزرے گی، اور یہ بدترین غلامی ہوگی۔
ہماری فوج کا وہ آدمی خوش قسمت ہو گا جو محمد بن قاسم کا سر میرے پاس لائے گا۔۔۔ راجہ داہر نے کہا تھا۔۔۔ اس آدمی کو ہم اپنے دربار میں جگہ دیں گے، اور وہ چار دیہات کا مالک اور قلعے دار ہوگا۔
رات کو مائیں رانی پھر آگئی ،وہ خوش تھی کہ داہر لڑائی میں شریک ہونے کی بجائے پیچھے رہا تھا، وہ اسے کہہ رہی تھی کہ اگلے روز بھی وہ پیچھے رہے، اور اپنے لشکر کو لڑائے، داہر نے اسے کہا تھا کہ وہ آگے نہیں جائے گا ،اس نے مائیں رانی کا دل بہلانے کے لئے جھوٹ بولا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
صبح ہوئی تو دریائے سندھ کے کنارے میدان میں کچھ اور ہی منظر تھا، داہر کا تمام تر لشکر لڑائی کی ترتیب میں کھڑا تھا، راجہ داہر لشکر کے وسط میں اپنے ہاتھی پر سوار تھا، اس کے ساتھ اس کا بیٹا جے سینا تھا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ اس روز داہر کی شان ہی کچھ اور تھی، اس کے آگے پیچھے دائیں اور بائیں دس ہزار زرہ پوش سوار کھڑے تھے، دس ہزار گھوڑوں کا رعب ہی کافی تھا ،تیس ہزار پیادہ فوج تھی، اپنے درمیان اپنے راجہ کو دیکھ کر فوجی اور زیادہ چاک و چوبند نظر آتے تھے۔
داہر کے ساتھ ہودے میں دو خوبصورت کنیزیں بھی موجود تھیں، اور ہودے میں برچھیوں اور ٹیڑھے تیروں کے علاوہ شراب کا ذخیرہ بھی رکھا ہوا تھا، داہر کے ہاتھی کے دائیں اور بائیں ٹھاکر گھوڑوں پر سوار کھڑے تھے۔
محمد بن قاسم نے جب دشمن کی فوج کو دیکھا تو اپنی فوج کی کمان میں کچھ تبدیلیاں کردیں، اس نے دشمن کے تیور بھاپ لیے تھے، اس نے تیرانداز دستے کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ،یہ غالبا اس لئے کیا تھا کہ دشمن کی فوج کا پھیلاؤ اپنی فوج کی نسبت بہت زیادہ تھا، ہر حصے کو اس نے تیاری کا حکم دیا، ہر تیر انداز نے ایک ایک تیر کمان میں ڈال لیا۔
اب کے محمد بن قاسم نے اپنے لشکر کو اس ترتیب میں رکھا کہ ایک صف میں قبیلہ عالیہ کے لوگ تھے، دوسری صف میں قبیلہ تمیم کے جنگجوؤں کی تھی ، تیسری صف بکر بن وائل کے مجاہدین تھے ،چوتھی صف میں عبدالقیس کے ساتھ اس کا قبیلہ تھا، اور پانچویں صف میں ازدی قبیلے کے جنگجو تھے۔
یہ ترتیب مکمل ہوجانے کے بعد محمد بن قاسم گھوڑا دوڑاتا اپنے پورے لشکر میں گھوم گیا، پھر لشکر کے سامنے گھوڑا روکا اور اس نے اپنے مجاہدین سے جو خطاب کیا وہ آج بھی لفظ بلفظ تاریخ میں محفوظ ہے۔
اے اہل عرب!،،،، تم باطل کے پجاریوں کا لشکر اپنے سامنے دیکھ رہے ہو، یہ لشکر نہ صرف یہ کہ تمہارا راستہ روکنے کے لئے آیا ہے بلکہ یہ ہمیں تباہ و برباد کرنے کے ارادے سے ہمارے مقابل آن کھڑا ہوا ہے ، یہ کفار اپنے باطل مذہب کے لئے لڑنے نہیں آئے ،بلکہ اپنے اہل و عیال مال و اموال اپنے گھروں اور اپنے خزانوں کے تحفظ کے لئے جانوں کی بازی لگانے آئے ہیں ،ان کے دلوں میں ان دنیاوی چیزوں کی اتنی محبت ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک انداز سے لڑیں گے، یہ جنگ معمولی جنگ نہیں ہوگی، تمہیں بڑے ہی مضبوط حوصلے کی ضرورت ہے، تم راہ حق پر جذبہ شہادت لے کر وطن سے نکلے ہو، اور تمہاری ٹکر باطل کی قوتوں سے ہے ،اس لئے اللہ تبارک و تعالی تمہاری مدد کرے گا، ہر وقت اللہ کی مدد کے طلبگار رہو، تمہارے دلوں میں کوئی خوف پریشانی اور وہم نہیں ہونا چاہیے، ہماری تلواریں ان کفار کے خون کی پیاسی ہیں ،یہ ہمارے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوں گے،،،،،،، اگر تم دنیا کے جاہ و جلال کو بھی سامنے رکھوں تو تمہیں ان کفار سے بے انداز مال و دولت حاصل ہوگا، تمہیں اس جہان میں بھی صلہ ملے گا اور اس کا اجر اگلے جہان میں اللہ دے گا،،،،،،،، یہ خیال رکھو کہ جس کسی کو جہاں کہیں بھی کھڑا کیا گیا ہے، اور اسے حرکت کے لیے جو علاقہ دیا گیا ہے وہاں سے وہ نہ ہٹے، ایسا نہ ہو کہ دائیں پہلو کے آدمی بائیں پہلو میں چلے جائیں، یا پہلوؤں کے آدمی قلب میں جا گھسے، صرف اس صورت میں کوئی آدمی اپنی جگہ چھوڑ سکتا ہے کہ وہ کسی کی مدد کرتے ہوئے کسی اور جگہ جا پہنچا ہو،،،،،،،، یاد رکھو فتح نیک اور پرہیز گار کو حاصل ہوتی ہے، اللہ کو وہ لوگ عزیز ہیں جن کا مقصد نیک ہوتا ہے، لڑائی کے دوران آیات قرآنی کا ورد جاری رکھو اور لاحول ولاقوۃ پڑھتے رہو ،
محمد بن قاسم کا خطاب ختم ہوا تو ایک دو آدمی قبیلہ بکر بن وائل اور ایک دو آدمی بنی تمیم کے محمد بن قاسم کے سامنے آن کھڑے ہوئے ۔
خدا کی قسم!،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم لوگ کوئی شکایت لے کر نہیں آئے کہ یہ وقت شکوے اور شکایتوں کا نہیں۔
خدا تجھے فتح و نصرت عطا فرمائے۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ ہم سب سے پہلے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے آئے ہیں، کفار کے لشکر کو دیکھ یہ ہاتھی بدمست کی طرح ہمارے سامنے کھڑا ہے، اور دیکھ کے ان کے ہتھیار کتنے اچھے اور کتنے عمدہ ہیں، یہ بھی دیکھ کے ان کے پاس راجاؤں جیسے ہاتھی ہیں، دشمن کے چہرے کو دیکھ وہ اپنے ہاتھوں اور اپنی زرہ پر کس قدر مسرور ہے، کیا تو ہمیں اجازت نہیں دے گا کہ ہمارے قبیلے سب سے پہلے کفار پر حملہ کریں۔
خدا کی قسم تم مجھے عزیز ہو!،،،،ائے بنی تمیم اور ائے بنی بکر بن وائل ۔۔۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ تم اپنی پوری طاقت اور ایمان کے جذبے سے کفار کا مقابلہ کرو گے، محمد بن قاسم اپنے لشکر سے مخاطب ہوا ۔۔۔اے اہل عرب!،،،، بنی تمیم اور بنی بکر بن وائل لڑائی کی بسم اللہ کرنے کو بیتاب ہیں، مجھے یقین ہے کہ تم سب انہی کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے لئے بے تاب اور بے قرار ہو۔
ان دونوں قبیلوں کے دستوں نے اللہ اکبر کا ایسا نعرہ لگایا کہ زمین وآسمان ہلتے ہوئے محسوس ہونے لگے، اس نعرے کے بعد تمام لشکر سے نعرے بلند ہونے شروع ہوگئے، اس کا یہ فائدہ ہوا کہ مجاہدین کے لشکر میں اگر کسی کے دل پر خوف و ہراس تھا تو وہ نکل گیا،، گھوڑا ہنہنانے اور زمین پر سُم مارنے لگے، جیسے وہ بھی لڑائی کے لئے بے تاب ہو گئے ہوں، محمد بن قاسم نے ہاتھ بلند کرکے لشکر کو خاموش کرایا۔
اے اہل عرب !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔ خداوند تعالی سے بخشش مانگو اور استغفار کرو، خداوند تعالی نے مسلمانوں کو دو نعمتیں عطا کی ہیں، ایک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ،اور دوسری نعمت یہ کہ اللہ توبہ استغفار کو قبول کرتا ہے، اگر دل کو مضبوط رکھو گے تو خداوند تعالی تمہیں دشمن پر غالب کرے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دونوں فوجوں کے درمیان جا گھوڑا روکا۔ سلیمان بن نبہان اور ابو فضہ قشیری۔۔۔ محمد بن قاسم نے بڑی بلند آواز سے حکم دیا ۔۔۔اپنے ساتھ چالیس سوار لے کر دشمن کے سامنے جاؤ اور دشمن کو للکارو۔
یہ اس زمانے کی جنگوں کا دستور تھا کہ پورے پورے لشکر کے تصادم سے پہلے اس طرح چند آدمیوں کے جیش آگے بھیج کر مقابلہ کرایہ جاتا تھا، ابو فضہ حبشی غلام ہوا کرتا تھا، لیکن تھوڑی ہی عرصہ پہلے اسے آزاد کردیا گیا، اسے نے سلیمان بن نبہان اور چالیس چنے ہوئے سواروں کو ساتھ لیا اور یہ سب مجاہدین نعرے لگاتے ہوئے بڑی تیزی سے دشمن کی طرف بڑھے۔
راجہ داہر نے اپنے دو تین سواروں کو کچھ نفری دے کر مسلمانوں کے خلاف جیش کے مقابلے کے لئے آگے بھیجا ،داہر خود بھی اپنے ہاتھی پر سوار ہو کر مسلمانوں کے خلاف جیش کے مقابلے کے لئے آگے بڑھا۔ مسلمانوں کے سالار نے دھماکے کی طرح نعرہ تکبیر بلند کیا ،تو ایک طرف ہاتھی سواروں نے باطل کا نعرہ بلند کیا، جیش کے چالیس سواروں نے دوبُدو معرکے کی بجائے ایسی چال چلی کے گھوم کر دشمن کے سواروں کے عقب میں چلے گئے، ایک طرف سے ابو فیضہ نے اور دوسرے پہلو سے سلیمان بن نبہان نے اکیلے اکیلے اتنا تیز حملہ کیا کہ جو کوئی اس کے سامنے آیا وہ ان کی تلواروں سے کٹ کر گرا ،تڑپا ،اور مرا۔
مجاہدین نہایت پھرتی سے ایسی چال چل گئے تھے کہ داہر کے سوار بوکھلا گئے اس کے کی سوار گر چکے تھے باقی جو بچے وہ بھاگ کر اپنے لشکر میں جا گھسے، ابو فضہ میدان میں گھوڑا دوڑاتا دشمن کو للکار رہا تھا، داہر نے سواروں کا ایک اور جیش جس میں دو تین ٹھاکر بھی تھے آگے کیا ،ابو فضہ صحیح معنوں میں آسمانی بجلی بنا ہوا تھا اس نے داہر کے سواروں کو سنبھلنے کی یا لڑائی کی پوزیشن میں آ نے کی مہلت ہی نہ دی اور ان پر ٹوٹ پڑا ،اس جارحانہ قیادت کا اس کے سواروں پر ایسا اثر ہوا کہ وہ آگ کے بگولے بن گئے ابو فضہ کے ساتھ سلیمان بن نبہان بھی تھا اس کی پھرتی بھی کچھ کم نہ تھی، لیکن ابو فضہ کی بے خوفی بے مثال تھی۔
داہر کے اس سوار جیش کا انجام وہی ہوا جو پہلے جیش کا ہوا تھا، اب کے داہر نے تیسرا سوار جیش آگے کیا جس کی نفری خاصی زیادہ تھی، تاریخ میں یہ اعدادوشمار نہیں ملتے کہ ان چالیس مسلمان سواروں میں سے کتنے زخمی اور شہید ہوئے، البتہ یہ بالکل واضح ہے کہ یہی سوار داہر کے تینوں سوار جیشوں سے لڑے اور انہوں نے دشمن کے تیسرے جیش کو بھی پہلے جیشوں کی طرح کاٹا اور جو بچ نکلے وہ بھاگ کر اپنے لشکر میں جاگھسے۔
مسلمانوں کی صفوں میں داد و تحسین اور فتح و نصرت کے نعرے بلند ہونے لگے، یہ تو گھٹاؤں کی گرج اور بجلی کی کڑک تھی دشمن کے سپاہ پر ان نعروں کا اور اپنے سواروں کے تین جیشوں کے انجام کا نفسیاتی اثر ضرور پڑا ہوگا، ابو فضہ قشیری داہر کے لشکر کے قریب جا جا کر للکار رہا تھا ۔
وہ گھوڑا دوڑاتا اور دشمن کو للکارتا تھا۔
آگے آؤ بت پرستوں!،،،،،، ابو فضہ نے داہر کے سواروں کی بکھری ہوئی لاشوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔ اپنے ان مردوں کو اٹھانے آؤ،،،،،ہمت کرو،،،،،، آؤ،،، اٹھاؤ،،، انہیں ان کے گھوڑے لے جاؤ ،،،داہر کے مرے ہوئے سواروں اور گرے ہوئے زخمیوں کے گھوڑے میدان میں گھوم پھر رہے تھے محمد بن قاسم نے اپنے چند سوار آگے بھیجے کے دشمن کے گھوڑوں کو پکڑ لائیں، اس طرح دشمن کے متعدد گھوڑے مجاہدین کے پاس آگئے اور انہیں پیچھے بھیج دیا گیا۔
سندھ کی دھرتی کے سپوتوں !،،،،،،راجہ داہر نے چلا کر کہا ۔۔۔ان اسلامیوں کو دائیں اور بائیں سے گھیر کر کاٹ دو، میں ان کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
داہر کے پاس لشکر اتنا زیادہ تھا کہ وہ اپنے پہلوؤں کے دستوں کو اور زیادہ پھیلا کر دائیں اور بائیں سے حملہ کرا سکتا تھا، اس کا حکم ملتے ہی اس کے پہلوؤں کے دستے پھیلنے لگے ،اور سامنے والے دستوں نے محمد بن قاسم کے درمیان والے دستوں پر حملہ کردیا، محمد بن قاسم نے اپنے دونوں پہلوؤں کے سالار جہم بن جحر جعفی اور ذکوان بن غلوان بکری کو حکم دیا کہ وہ دائیں اور بائیں کو اتنا زیادہ پھیل جائیں کہ دشمن ان کے پہلوؤں پر نہ آ سکے۔
راجہ داہر کے لشکر کا حملہ دراصل وسیع پیمانے کا ہلّہ (چارج) تھا اس نے کوئی چال نہیں چلی تھی اسے توقع تھی کہ وہ اپنی تعداد کی زیادتی اور ہاتھیوں کی بدولت مسلمانوں پر غالب آجائے گا ۔ لیکن محمد بن قاسم نے اپنے دماغ کو حاضر رکھا اور اپنے دستوں کو جنگی فہم وفراست کے مطابق استعمال کیا۔
اے اہل عرب !،،،،،،،،،لڑائی کے شوروغل اور قیامت خیزی میں محمد بن قاسم کی للکار سنائی دی۔۔۔ کفار کا لشکر بکھر گیا ہے ،اس کی کوئی ترتیب نہیں رہی انہیں چن چن کر ختم کرو۔
اپنے سالار کی للکار سن کر مجاہدین میں نیا حوصلہ اور ولولہ پیدا ہو گیا ،انہوں نے اپنی صفوں میں انتشار پیدا نہ ہونے دیا ،سالاروں نے دشمن کی بے ترتیبی سے فائدہ اٹھایا دشمن کو زرہ بھی کوئی فائدہ نہ دے سکی مجاہدین نے پہلوؤں کے دستے اتنا زیادہ باہر کو نکال دیے کہ آسانی سے دشمن کے پہلوؤں سے آگے چلے گئے اور اسکی منتشر اور بے ترتیب سپاہ پر ہلہ بول دیا۔
جن مؤرخوں نے اس معرکے کی تفصیلات لکھی ہیں وہ متفقہ طور پر بیان کرتے ہیں کہ راجہ داہر نے باؤلے پن کی کیفیت میں یہ حملہ کرایا تھا، اس کا لشکر سوار اور پیادہ بری طرح کٹنے اور مجاہدین کی برچھیوں سے چھلنی ہونے لگا ،اس ابتر کیفیت میں داہر اپنے ہاتھیوں کو صحیح اور کارگر طریقے سے استعمال نہ کر سکا ،ہاتھیوں کے آگے اس کے اپنے ہی گھوڑسوار آ جاتے اور ان کے لئے رکاوٹ بنتے تھے۔
پھر ایسے ہوا کہ داہر کا لشکر پسپا ہونے لگا، یہ صورتحال داہر کے لیے قطع ناقابل برداشت تھی ،وہ بہت پیچھے تھا اور اس نے محفوظہ (ریزور)میں زیادہ تعداد والے اور سوار دستے رکھے ہوئے تھے، اس نے ان میں سے چار سو سوار منتخب کیے اور انہیں اپنے ساتھ لے کر میدان جنگ میں داخل ہوا ،سوار زرہ پوش تھے ان کے پاس تلواریں اور لمبی برچھیاں تھیں، اور ان کے پاس ڈھالیں بھی تھیں، داہر اپنے ہاتھی پر سوار تھا، جس سے تاریخوں میں سفید ہاتھی کہا گیا ہے، داہر کے ہاتھ میں گوپھن تھی جس میں وہ دونوں طرف سے نوکیلے اور ٹیڑھے تیر پھینک رہا تھا یہ تلوار نما یہ مجاہدین کو کاٹنے لگے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم نے ہاتھیوں کے مقابلے کے لئے الگ الگ جیش مقرر کررکھے تھے اور اس نے راجہ داہر کے ہاتھی کو گھیر کر مارنے کا کام چار مجاہدین کے سپرد کیا تھا لیکن وہ چاروں کہیں اور الجھ گئے تھے، داہر کے چار سو سواروں نے داہر کے ہاتھی کو اپنے حصار میں رکھا ہوا تھا، یہ کریک ٹروپ تھا جو اپنے راجہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے غیر معمولی بہادری کے مظاہرے کر رہا تھا۔ مجاہدین کا جانی نقصان بڑھ گیا۔
میدان جنگ میں دشمن کی طرف سے اعلان ہونے لگے۔۔۔ مہاراج میدان میں آگئے ہیں،،،، مہاراج ہمارے ساتھ ہییں،،،مہاراج عرب کی فوج کو کاٹ رہے ہیں،،، ہندو فوجیوں نے داہر کو میدان میں دیکھ بھی لیا اس سے ان کے گرتے ہوئے حوصلے پھر تازہ ہو گئے، مجاہدین کو شدید مزاحمت کا سامنا ہونے لگا ۔
اس صورتحال میں مجاہدین کی فوج کا سوار شجاع حبشی گھوڑا دوڑاتا محمد بن قاسم کے پاس آیا۔
سالار محترم!،،،،،،، شجاع حبشی نے کہا ۔۔۔داہر اور اس کے ہاتھیوں کو زخمی کرنے تک مجھ پر کھانا پینا اور سونا حرام ہے ،میں داہر کا سر کاٹ کر لاؤں گا یا شہید ہو جاؤں گا۔
اس نے پروا ہی نہیں کی کہ اس کا سالار کیا کہتا ہے اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور قیامت خیز معرکے میں گم ہو گیا۔
محمد بن قاسم کے سواروں نے داہر کے ان چار سو سواروں کا مقابلہ شروع کر دیا تھا۔ شجاع حبشی کو داہر کے ہاتھی تک پہنچنے کا موقع مل گیا، لیکن اس کا گھوڑا ہاتھی کو دیکھ کر بدک گیا ،شجاع گھوڑے کو دوسری طرف سے لے گیا اور اسے پھر ہاتھی کی طرف لایا، پھر گھوڑے نے ہاتھی کے قریب جاکر خود ہی رخ بدل لیا اور دور نکل گیا،
داہر کے سواروں کو مسلمان سواروں نے الجھا لیا تھا اس لئے داہر کے ہاتھی کی طرف اسکی توجہ نہیں رہی تھی، شجاع حبشی کے سر پر پگڑی تھی اس نے پگڑی اتاری اور گھوڑے کو روک لیا گھوڑے کی آگے ہو کر اس نے پگڑی گھوڑے کی آنکھوں پر باندھ دی اب گھوڑا لگام کے اشاروں پر چلنے اور دائیں بائیں مڑنے لگا۔
شجاع حبشی گھوڑے کو پیچھے سے ہاتھی کے قریب لے گیا اور تلوار کا بھرپور وار کرکے ہاتھی کی سونڈ کاٹ ڈالی ،سونڈ پوری نہ کٹی البتہ زخم گہرا تھا ، شجاع حبشی ہاتھی سے دور ہٹ گیا ،دوسرے وار کے لیے گھوڑے کو موڑنے لگا داہر نے اس پر اپنا مخصوص تیر پھینکا جو شجاع کی گردن پر لگا گردن کٹ گئ اور سر ایک طرف ڈھلک گیا، شجاع حبشی گھوڑے سے گرا اور شہید ہو گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
میدان جنگ کی صورتحال میں اچانک تبدیلی آگئی ،یہ شاید راجہ داہر کی للکار سے آئی یا اس کے کمانڈروں نے مسلمانوں سے بچنے کے لئے آخری ہلہ بولا ،مسلمان نو دنوں سے مسلسل لڑ رہے تھے، داہر نے اپنے لشکر کا خاصہ حصہ بچا کر رکھا ہوا تھا، وجہ کچھ بھی ہو ، یہ کہ جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا، داہر نے اپنے محفوظہ کے سوار دستوں کو بھی حملے کا حکم دے دیا، ہندوؤں کا حملہ اتنا شدید تھا کہ مجاہدین کے قدم اکھڑ گئے ،ترتیب درہم برہم ہو گئی، پھر ان میں کھلبلی مچ گئی ان کے لئے زیادہ دشواری ہاتھیوں نے پیدا کر رکھی تھی، داہر اپنے مخصوص تیر بڑی تیزی سے پھینک رہا تھا ،ان کی ہلاکت خیزی نے مجاہدین پر خوف و ہراس طاری کر دیا تھا اور وہ اپنے سالاروں کے احکام سننے سے قاصر ہوگئے۔
مجاہدین اسلام!،،،،،، محمد بن قاسم نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا ۔۔۔میں تمہارا سپہ سالار محمد بن قاسم زندہ ہوں، تمہارے ساتھ ہوں، لڑ رہا ہوں، پیٹھ نہ دکھانا اپنے دلوں سے خوف اتار دو۔
معصومی نے لکھا ہے کہ موکو دسایو کا بیٹا جس نے محمد بن قاسم کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا تھا اپنے آدمیوں کے ساتھ آگیا۔ موکو کو معلوم تھا کہ داہر نے مسلمانوں کو شکست دے دی تو وہ اسے گرفتار کرکے قتل کرادے گا ،اس کی نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ مسلمانوں کی مدد کرے۔
محمد بن قاسم تو بہت ہی پریشان ہو گیا تھا اس نے موکو کو دیکھا تو اس کے دل کا سہارا ملا وہ ایک بار پھر اپنے لشکر کو للکارنے لگا۔
خریم بن عمرو مدنی کہاں ہو؟،،،،، اس نے پکارا ۔۔۔ذیلی محمد بن مصعب کہاں ہو،،،، نباۃ بن حنظلہ کلابی ،،،،دارس بن ایوب کہاں ہو،، محمد بن زیاد عبدی،،، تمیم بن زید کہاں ہو،،،، میرے ساتھیوں،،،، میرے عزیزو ،،،،میرے تیغ زن کہاں ہیں ،،،میرے محافظ ،،،،،،میرے تیر انداز کدھر گئے ،،،،،،تم اسلام کے محافظ ہو،،،،،، میرے سالاروں!،،،،، سب کا حوصلہ بڑھاؤ۔
اس پکار اور للکار کا کچھ اثر ہوا ،مسلمانوں کو کمک تو کہیں سے بھی نہیں مل سکتی تھی لیکن موکو اپنے علاقے کے بہت سے آدمی لے کر آگیا تو یہی کمک کافی تھی، محمد بن قاسم اور دوسرے سالاروں نے مجاہدین کو یکجا کرنا شروع کردیا اور انہیں ذرا پیچھے لے آئے، زوردار حملے کا حکم دیا اور موکو بھی اپنے آدمیوں کے ساتھ اس حملے میں شامل ہوگیا۔
ہندوؤں نے جم کر مقابلہ کیا لیکن زیادہ دیر جم نہ سکے، لڑائی بہت ہی خون ریز تھی، محمد بن قاسم نے اپنے سالار وغیرہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہندو فوج بھاگ گئی تو اس کے سامنے پورا ملک ہند ہے جہاں بھی جائیں گے انھیں پناہ بھی مل جائے گی اور مدد بھ،ی لیکن ہمیں سوائے موت کے کوئی بھی پناہ نہیں دے گا سارا ملک کفار کا ہے، چنانچہ مسلمانوں نے آخر میں جو ہلہ بولا وہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا۔
یہ معرکہ جیتنے کے لئے محمد بن قاسم نے وہ ہتھیار بھی استعمال کیا جو میدان جنگ میں اور خاص طور پر گھمسان کی لڑائی میں استعمال نہیں کیا جاتا تھا ،نہ استعمال ہوسکتا تھا، یہ ہتھیار منجنیقیں ہیں، ان میں پتھر ڈالے جاتے ہیں پھر انہیں کھینچا جاتا اور جب چھوڑا جاتا تو پتھر آگے دور تک چلے جاتے تھے، مگر یہ لڑائی جو لڑی جا رہی تھی یہ گتھم گتھا قسم کی لڑائی تھی اپنی منجنیقوں کے پتھر اپنے ہی آدمیوں اور گھوڑوں کو تباہ کر سکتے تھے، منجنیقیں محاصرے میں لیے ہوئے قلعے کے دیوار پر پتھر پھینکنے کے لئے بنائی گئی تھیں محمد بن قاسم نے منجنیقیں چلانے والوں سے کہا کہ وہ چھوٹی منجنیقوں سے ہاتھیوں پر پتھر پھینکیں، یا وہاں پتھر پھینکے جہاں دشمن کے سواروں کا جمگھٹا نظر آئے،
پیچھے سے چھوٹی منجنیقیں لائی گئیں اور پتھر پھینکے جانے لگے، لیکن مجاہدین نے شوروغل کیا کہ سنگ باری روک دی جائے، ان سے مجاہدین بھی خطرے میں آگئے تھے۔
ابن حوقِل جو مؤرخ ہے، جس نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کو جلدی ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور اس نے سوچا کہ تمام ہدف متحرک ہے اور حرکت بھی اتنی تیز کہ پتھر چھوڑتے چھوڑتے اصل ہدف سے نکل جاتا ہے اور اپنے آدمی زد میں آ جاتے ہیں، سنگ باری ساکن ہدف پر کی جاتی تھی، محمد بن قاسم نے سنگ باری روک دی لیکن جو پتھر پھینکے جا چکے تھے ان سے ہندوؤں پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ، پتھروں کی زد میں خواہ مجاہدین ہی آئے لیکن ہندوؤں کے لئے منجنیقیں دہشت ناک چیز تھی ، دیبل کا مندر ایک منجنیق نے ہی توڑا تھا، اب اروڑ کے میدان میں بھی منجنیقوں نے دشمن کو نفسیاتی نقصان پہنچایا ، سنگباری رکنے کے باوجود راجہ داہر کا لشکر خوفزدہ رہا۔
متعدد ہاتھی بری طرح زخمی ہو کر بے قابو ہوگئے تھے وہ چیختے چنگھاڑتے پھرتے تھے، انکے لئے اپنے اور پرائے کی پہچان ختم ہوگئی تھی، ابھی کئی ہاتھی صحیح سلامت تھے محمد بن قاسم نے ان پر آگ کے تیر چلانے کا حکم دیا ،تیر اندازوں نے آگ برسانی شروع کی تو کئی ایک ہاتھیوں کے ہودے جل اٹھے، ان میں سے آدمی اور مہاوت بھی کود آئے مجاہدین نے ان ہاتھیوں کو تلواروں اور برچھیوں سے کاٹا، ہاتھیوں کو مجاہدین نے پکڑنے کی کوشش نہ کی کیونکہ اسے وہ کام کی چیز نہیں سمجھتے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ہندو پسپائی کے لیے لڑ رہے تھے لیکن پسپائی خودکشی کی کامیاب کوشش تھی ،وہ کٹ رہے تھے یہ صورتحال دیکھ کر راجہ داہر نے اپنے مہاوت سے کہا کہ وہ ہاتھی کو لڑائی کے اندر لے چلے۔
اب داہر زندگی اور موت کا معرکہ لڑنے آیا وہ دائیں بائیں اپنے مخصوص تیر بھی پھینکتا اور جہاں پرچھی کی ضرورت سمجھتا وہاں برچھی پھینکتا تھا ، مورخ لکھتے ہیں کہ اس پر دیوانگی طاری ہو گئی تھی اس کا جسم تیز چلنے والی مشین کی طرح متحرک تھا، اس کے بازو مشینی تیزی سے تیر اور برچھیاں پھینک رہے تھے، دو بڑی حسین کنیزیں اسے شراب پیش کرتی تھیں لیکن تیز حرکت کرنے والے ہاتھی کے ہودوں میں پاؤں پر کھڑا نہیں رہا جاسکتا جام چھلکتے تھے اور کنیزیں گرگر کر اٹھتی تھیں، داہر ان کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔
محمد بن قاسم کے تیر اندازوں نے اسی ہاتھی کو نشانہ بنانا شروع کردیا داہر اکیلا ان کا مقابلہ کر رہا تھا، ایک آتشی تیر اس کے ہودے میں لگا اور ہودے کو آگ لگ گئی ہاتھی کی پیٹھ پر ریشمی چادر پڑی ہوئی تھی جو اس کے گھٹنوں تک لٹکی ہوئی تھی اس چادر کو بھی آگ لگ گئی، فیل بان ہاتھی سے کود گیا لیکن داہر ہودے میں موجود رہا جیسے وہ اپنے آپ کو زندہ جلا دینا چاہتا ہو۔
دونوں کنیزوں کی چیخیں سنائی دینے لگی وہ زندہ جلنے لگی تھیں لیکن داہر نے دونوں کنیزوں کو اٹھا کر ہودے سے نیچے پھینک دیا کسی مسلمان پیادے نے انہیں دوڑتے گھوڑوں سے بچانے کے لئے پکڑ لیا اور میدان جنگ سے باہر لے جا کر ادھر بھیج دیا جہاں مجاہدین کی خواتین زخمیوں کی مرہم پٹی کر رہی تھیں۔
ہاتھی آگ کی لپیٹ میں تھا قریب ہی جھیل تھی، اپنی قدرتی حِس نے اس کا رخ جھیل کی طرف کردیا، وہ دوڑتا ہوا جھیل میں اتر کر بیٹھ گیا ،مجاہدین نے ہاتھی اور داہر پر تیر چلائے، ہاتھی بڑے آرام سے سونڈ میں پانی بھر بھر کر اپنے منہ میں ڈالتا رہا کبھی وہ سونڈ میں پانی بھر کر اپنے جسم پر چھڑک دیتا۔
سورج غروب ہو چکا تھا داہر ہاتھی سے جھیل میں اتر گیا اور دوسرے کنارے تک جا پہنچا، اسے چند ایک مجاہدین نے گھیر لیا داہر نے تلوار نکالی اور اکیلے ان سب کا مقابلہ کیا آخر ایک مجاہد کی تلوار پیچھے سے اس کی گردن پر پڑی جس سے گردن کٹ گئی لیکن جسم سے الگ نہ ہوا۔
داہر کو ہلاک کرنے والے مجاہد کا نام قاسم بن ثعلبہ بن عبداللہ بن حصین تھا ، وہ قبیلہ بنو طے کا آدمی تھا، ایک روایت یہ ہے کہ داہر کو بنی کلاب کے ایک آدمی نے قتل کیا تھا۔
لیکن فتوح البلدان میں ابن کلبی کے حوالے سے تحریر ہے کہ داہر کو قاسم بن ثعلبہ نے ہلاک کیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا دسویں کا چاند تو روشن تھا لیکن میدان جنگ کا غبار اتنا زیادہ تھا کہ چاندنی بجھی بجھی سی لگتی تھی، راجہ داہر کی جنگی قوت کچلی جا چکی تھی، اس کی بچی کھچی فوج راوڑ کے قلعے میں جا رہی تھی، محمد بن قاسم نے دو تین سالاروں کو حکم دیا کہ وہ راوڑ کے قلعے میں داخل ہو جائیں ایسا نہ ہو کہ بھاگے ہوئے کفار قلعہ بند ہوجائیں اور ہمیں ایک اور لڑائی لڑنی پڑے۔
محمد بن قاسم کے چند ایک دستے گھوڑے سرپٹ دوڑاتے قلعے کی طرف گئے، قلعے کے دروازے کھلے ہوئے تھے کیونکہ میدان جنگ سے بھاگے ہوئے سپاہی آ رہے تھے، انہیں قلعے میں ہی پناہ مل سکتی تھی۔ مسلمانوں کے سوار دستے بھی قلعے میں داخل ہوگئے، محمد بن قاسم صبح کے وقت قلعے میں داخل ہوا اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ داہر مارا جاچکا ہے، اس نے حکم دیا کے معلوم کرو داہر کہاں ہے، یا وہ کس انجام کو پہنچا ہے۔
یہ کام شعبان ثقفی کا تھا اس نے پتہ چلا لیا کہ داہر جھیل کے کنارے مارا گیا تھا، وہاں جا کے دیکھا تو لاش وہاں نہیں تھی، کسی نے بتایا کہ راوڑ کے مندر کے بڑے پنڈت کو اس طرف جاتے دیکھا گیا تھا جہاں قتل ہوا تھا۔ شعبان ثقفی نے اس پنڈت کو بلا کر پوچھا کہ وہ وہاں کیوں گیا تھا؟
ہم نے آپ لوگوں کی رحمدلی کے بہت قصّے سنے ہیں۔۔۔ پنڈت نے کہا۔۔۔ میں سچ بولوں گا اس کے عوض مجھ پر یہ کرم کریں کہ مجھے اور میری بیوی بچوں کو امان دے دیں۔
امان دے دی۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔بولو۔
مجھے رات کو بتایا گیا تھا کہ مہاراج داہر مارے گئے ہیں۔۔۔ پنڈت نے کہا۔ ۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ لاش کو کہاں اور کس طرح جلایا جائے، آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم لوگ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں یہ تو راجہ کی لاش تھی اسے ایک عام لاش کی طرح تو نہیں جلانا تھا، لیکن آپ کی فوج وہاں موجود تھی، میں نے کہا کہ لاش کو یہی کیچڑ میں دبا دو جب مسلمان آگے چلے جائیں گے تو لاش کو پورے احترام اور اعزاز کے ساتھ جلائیں گے،،،،،،،، چلیئے لاش دیکھ لیں۔
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو اطلاع دی محمد بن قاسم خود وہاں گیا اور کیچڑ سے لاش نکلوائی، داہر کے چہرے پر بھی زخم تھے جن سے چہرہ بگڑ گیا تھا ،ایک روایت یہ ہے کہ داہر سر سے ننگا تھا اس کے سر پر اتنی زیادہ طاقت سے تلوار ماری گئی تھی کہ اس کی کھوپڑی اوپر سے نیچے گردن تک کٹ گئی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
*قسط نمبر/26*
محمد بن قاسم دہشت کا دوسرا نام بن گیا تھا، قدیم تحریروں میں جو غالبا کسی تاریخ میں شامل نہیں ہوتی اس وقت کی غیر مسلم دانشورں کی ایک نہایت اچھی مثال ملتی ہے، اس کے الفاظ کچھ اس قسم کے ہیں کہ سانپ جب چوہے کو پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگتا ہے تو چوہا دوڑ نہیں سکتا ،سانپ کی دہشت سے چوہے کی قوت مفلوج ہو جاتی ہے، اس نے لکھا کہ کسی قلعے میں اطلاع پہنچی تھی کہ محمد بن قاسم کی فوج قلعے کا محاصرہ کرنے آرہی ہے تو اس قلعے کی فوج دم بخود ہو جاتی تھی اور قلعہ دار کوئی ایسی جنگی چال سوچنے کے قابل نہیں رہتا تھا جسے محمد بن قاسم کو قلعے تک پہنچنے سے پہلے روک لیا جاتا ، یا محاصرہ توڑا جاسکتا، تمام فوج میں خوفزدگی کا عالم طاری ہوجاتا تھا، انہیں میں رہنے والے غیر فوجیوں یعنی شہریوں کی حالت اس سے بھی زیادہ بری ہو جاتی تھی۔
دہشت زدگی کی یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوئی تھی جب محمد بن قاسم نے دریائے سندھ کے مشرقی علاقے کے تقریباً تمام قلعے لے لیے تھے، لیکن محمد بن قاسم کی فوج جب مفتوحہ قلعے میں داخل ہوتی تھی تو صرف ایک ہی دن گزرنے کے بعد فوجیوں اور شہریوں کو خوفزدگی سے نجات مل جاتی تھی، یہ محمد بن قاسم کے احکام اور حسن سلوک کے اثرات تھے ،مفتوحہ لوگوں کو یہ توقع ہوتی تھی کہ ہر فاتح بادشاہ کی طرح محمدبن قاسم بھی فوجیوں اور شہریوں کا قتل عام کرے گا ،لوٹ مار ہوگی اور جوان عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں چلی جائیں گی۔
ہندو تاریخ نویسوں نے محمد بن قاسم پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ کسی کی جان بخشی نہیں کرتا تھا ،یہ غلط نہیں لیکن وہ صرف ذمہ دار افراد کو سزا دیتا تھا اور یہ سزا موت ہوتی تھی بغاوت کرنے والوں بغاوت پر اکسانے والوں اور بلاضرورت مزاحمت کرنے والوں کے لئے، محمد بن قاسم کے پاس سزائے موت سے کم کوئی سزا نہیں تھی جیسا کہ پہلے کئی مقامات پر بیان ہوچکا ہے کہ اسلام کا یہ کمسن مجاہد مفتوحہ شہر میں داخل ہو کر سب سے پہلے شہریوں کی عزت جان اور مال کی حفاظت کا حکم دیتا تھا ،حکم دینے کی ضرورت بھی نہیں تھی یہ حکم تو مسلمان فاتحین کے لیے ایک آئین کی حیثیت رکھتا تھا، اور اسے خدا کا حکم سمجھا جاتا تھا۔ جب اس حکم پر عمل ہوتا تھا تو مفتوحہ لوگوں کے دلوں سے دہشت اتر جاتی اور اس کی جگہ محبت پیدا ہوجاتی اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ کئی ہندو اسلام قبول کرلیتے۔
راجہ داہر کو شکست دے کر اور اس کی لاش سے اس کا سر کاٹ کر جب محمد بن قاسم راوڑ کے قلعے میں داخل ہوا تو اس کے ان جاسوسوں نے جنہیں شعبان ثقفی نے پہلے ہی قلعے میں داخل کردیا تھا محمد بن قاسم کو اپنی رپورٹیں پیش کیں، وہاں چند ایک ہندو فوجی افسر تھے جو میدان جنگ سے بھاگے ہوئے سپاہیوں کو مسلمانوں کی فوج پر جوابی حملہ کرنے کے لئے تیار کر رہے تھے اور اس کے ساتھ شہریوں کو بھی بھڑکا رہے تھے کہ وہ لڑنے کے لئے فوجیوں کے ساتھ ہو جائیں، ان میں سے دو تین افسر ایسے بھی تھے جنہوں نے میدان جنگ سے بھاگے ہوئے جے سینا کو راوڑ میں نہیں ٹھہرنے دیا تھا اور اسے کہا تھا کہ وہ برہمن آباد چلا جائے اور محمد بن قاسم کے مقابلے کے لئے فوج تیار کرے، برہمن آباد سے چند ایک ٹھاکر اسی سلسلے میں راوڑ آئے تھے۔
شعبان ثقفی نے ان تمام فوجی افسروں، ٹھاکروں، اور دو پنڈتوں کو بھی جنہوں نے مذہب کا واسطہ دے کر لوگوں کو جنگ کے لئے اکسایا تھا ایک جگہ اکٹھا کر لیا، اس نے فوجیوں اور شہریوں سے تفتیش کی کہ جنگ کی تیاری کرنے والے اور کون کون تھے اس طرح کچھ اور آدمی پکڑے گئے۔
محمد بن قاسم نے ان سب کو قتل کروا دیا لیکن یہ حقیقت تاریخوں میں محفوظ ہے کہ جو شہری اور فوجی لڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے تھے انہیں محمد بن قاسم نے معاف کر دیا۔ تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ اسلام کے اس کمسن سالار نے تجارت پیشہ اور کسی ہنر مند کو اور کسی کسان کو سزائے موت نہ دی، ان تمام پیشہ ور کو اس نے بالکل ہی معاف کردیا اس کا اصول یہ تھا کہ معاشرے کا نظام یہی لوگ چلاتے ہیں اگر انہیں بھی قتل کر دیا جاتا تو شہریوں کی زندگی درہم برہم ہو کے رہ جاتی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اب محمد بن قاسم اور اس کے مجاہدین کی دہشت برہمن آباد میں پہنچ گئی تھی، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ راجہ داہر کا بیٹا جے سینا میدان جنگ سے بھاگ کر برہمن آباد پہنچ گیا تھا، دیگر چند ایک فوجی عہدیداروں کے علاوہ اس کے ساتھ کچھ ٹھاکر بھی تھے، ٹھاکر سرداری کے درجے کے افراد ہوا کرتے تھے، ان کے متعلق مشہور تھا کہ جان دے دیتے ہیں میدان جنگ سے بھاگتے نہیں، لیکن یہ ٹھاکر بھی بھاگ گئے تھے، جے سینا کو تو داہر اپنا شیر بیٹا کہا کرتا تھا ،جہاں جہاں تک داہر کا راج تھا جے سینا شیر کے بیٹے کے نام سے مشہور تھا ،لیکن لوگوں نے شیر کو بھی شکست کھا کر اور اپنے باپ کی لاش میدان میں چھوڑ کر اور بھاگ کر برہمن آباد میں پناہ گزین ہو تے دیکھا تو ان پر دہشت طاری ہو جانا قدرتی امر تھا۔
تاریخ نویسوں کی تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جے سینا کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی، وہ برہمن آباد کے قلعے میں داخل ہوا تو سب سے پہلے وہاں کے بڑے مندر میں گیا، پنڈت ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
کیا تم نے مہاراج کو لڑائی شروع کرنے کی شُبھ گھڑی بتائی تھی؟،،،، جے سینا نے پنڈتوں سے پوچھا ۔
ہاں راجکمار!،،،، بڑے پنڈت نے جواب دیا۔
اور تم نے یہ بھی کہا تھا کہ فتح مہاراج کی ہوگی؟
کہا تھا راجکمار!،،،،، بڑے پنڈت نے جواب دیا۔
کیا تم نے سن لیا ہے کہ مہاراج کو صرف شکست نہیں ہوئی بلکہ وہ مارے بھی گئے ہیں۔۔۔ جے سینا نے قہرآلود آواز میں کہا ۔۔۔اور اب تم مجھ سے یہ توقع رکھو گے کہ میں تمھیں زندہ رہنے کا حق دے دوں گا، تم نے جھوٹ بولا تھا مہاراج کو دھوکا دیا ہے۔
اگر راجکمار کا یہی حکم ہے تو ہم مرنے کے لیے تیار ہیں۔۔۔ بڑے پنڈت نے کہا ۔۔۔لیکن راجکمار اپنی تلوار سے ہماری گردنیں کاٹنے سے پہلے یہ سن لیں کہ مہاراج پر دیوتاؤں کا قہر گرا ہے، اور یہ قہر ہم سب پر گرے گا، ہمارے مندروں میں مسلمانوں کے گھوڑے بندھے ہوئے ہونگے۔
کیسا قہر؟،،،، جے سینا نے پوچھا۔
جو مرد اور عورت ایک ماں کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں وہ میاں بیوی نہیں ہو سکتے۔۔۔ پنڈت نے کہا۔۔۔ مہاراج نے اپنی سگی بہن کو اپنی بیوی بنا رکھا تھا۔
لیکن وہ میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔۔۔ جے سینا نے کہا ۔
اس سے پہلے کہ پنڈت کچھ کہتا ایک نسوانی آواز مندر کے اندر گو جی۔
ہاں، ہم میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔
سب نے ادھر دیکھا مائیں رانی جو مندر کے اندر کسی اوٹ میں کھڑی تھی سامنے آگئی، یہ اسی کی آواز تھی۔
ہم میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔۔۔ مائیں رانی نے ان کے قریب آ کر ایک بار پھر کہا پھر بولی۔۔۔ لیکن میرا بھائی میری جوانی اور جوانی کے ارمانوں کا قاتل تھا، اس نے مجھے اس لیے اپنی بیوی بنایا تھا کہ میری شادی کسی اور سے ہوگی تو وہ تخت و تاج پر قبضہ کر لے گا اور مہاراج کو بن باس مل جائے گا ،اس کے دل میں یہ وہم تم جیسے پنڈتوں نے ڈالا تھا ،کیا اس سے بہتر نہیں تھا کہ مجھے قربان کر دیا جاتا، مندر میں میرا سر کاٹ کر میرے خون سے ہری کرشن کے پاؤں دھوئے جاتے، لیکن میرا بھائی کُند چھری سے میری جوانی کے جذبات اور امنگوں کو آہستہ آہستہ کاٹتا رہا، اور تم جو مذہب کے ٹھیکیدار بنے رہتے ہو مہاراج کو روکنے کی جرات نہ کرسکے، مہاراج نے اپنے راج کے لئے مجھ سے قربانی لی اور میری جوانی کی قربانی دے کر بھی اپنے راج کو بچا نہ سکے۔
ہاں !،،،،بڑے پنڈت نے کہا ۔۔۔ہم راجکمار سے یہی بات کرنا چاہتے تھے جو رانی نے کہہ دی ہے، یہ قہر ہے جو مہاراج کے راج پر گرا ہے۔ تو اب کیا ہوگا؟،،،، جے سینا نے پوچھا ،کیا ہمیں کوئی بلیدان (قربانی) کرنا ہوگا ،اگر کسی کنواری کا خون چاہتے ہو تو میں اس شہر کی تمام کنواریوں کو آپ کے سامنے کھڑا کر دوں گا۔
نہیں ۔۔۔مائیں رانی نے گرج کر کہا ۔۔۔یہ سب جھوٹ ہے کئی معصوم جانیں قربان کی جا چکی ہیں اب کسی کنواری کا خون نہیں بہایا جائے گا۔
رانی!،،،،، جے سینا نے اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے مہاراجوں کے رعب سے کہا۔۔۔ لڑنا اور مرنا ہمارا کام ہے، تم ایک عورت ہو تمہارا حکم نہیں چلے گا۔
اب کسی کا حکم نہیں چلے گا ۔۔۔رانی نے عتاب آلود لہجے میں کہا ۔۔۔مہاراج کے مرنے کے بعد میں رانی ہوں۔
اس سے پہلے کہ میری تلوار تمہارے سر کو نیچے پھینک دے میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔۔۔ جے سینا نے کہا۔۔۔ اور اس نے حکم دیا اسے لے جاؤ یہ پاگل ہو گئی ہے۔
دو تین آدمی لپکے اور مائیں رانی کو گھسیٹ کر مندر سے باہر لے گئے، اس کی چیخ نما آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
جس وقت جے سینا مائیں رانی کو دھمکی دے رہا تھا کہ وہ اس کا سر کاٹ دے گا اس وقت محمدبن قاسم مال غنیمت کا معائنہ کر رہا تھا۔ راوڑ کے قلعے سے بے انداز مال غنیمت ملا تھا ،اس میں دو خاص چیزیں تھیں ایک راجہ داہر کی نو جوان بھانجی تھی جس کا نام تاریخوں میں حسنہ درج ہوا ہے، اور دوسری چیز راجہ داہر کا سر تھا۔
محمد بن قاسم کے حکم سے مال غنیمت کا پانچواں حصہ خلافت کے لئے الگ کیا گیا راجہ داہر کا سر بھی خلافت کے حصے میں شامل کیا گیا اور خلافت کے حصے میں حسنہ بھی تھی ،محمد بن قاسم نے حسنہ کو بھی خلافت کے حصے میں شامل کردیا ،اس نے یہ سارا مال اور جنگی قیدی کعب بن مخارق رابسی کے حوالے کیے۔
ابن مخارق!،،،،،، محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔ یہ مال غنیمت خلافت کے بجائے حجاج بن یوسف تک پہنچنا چاہیے، اور اسے یہ پیغام دے دینا ۔
محمد بن قاسم کا یہ پیغام بھی تاریخوں میں محفوظ ہے۔
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
خادم اسلام محمد بن قاسم کی طرف سے امیر عراق حجاج بن یوسف کے نام
السلام علیکم
اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم اور آپ کی رہنمائی سے سندھ کے سانپ کو کچل دیا گیا ہے، اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن اور عرب کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والے راجہ داہر کا سر بھیج رہا ہوں ،اور اس کی ایک بھانجی جو ہندوستان کے حسن و جمال کا نمونہ ہے آپ کو پیش کررہا ہوں ،یہ اس راجہ کا سر اور یہ لڑکی اس راجہ کی بھانجی ہے جس نے ہماری عورتوں اور بچوں کو دیبل میں قید کر رکھا تھا،،،،،،،
میں نے ان آیات قرآنی کا ورد ہمیشہ زبان پر رکھا ہے جو آپ مجھے بتاتے رہے ہیں، لشکر رات کو تلاوت قرآن اور عبادت میں مصروف رہتا ہے ،ہر حالت میں اللہ کی مدد کے طلبگار رہتے ہیں یہ اللہ کی مدد ہے کہ ہم نے راجہ داہر کو بہت بری شکست دی ہے ،اس کا بیٹا جے سینا بھاگ گیا ہے، میں اس وقت تک راوڑ میں ہوں ،یہاں کے لوگوں کو میں نے امن وامان دیا ہے، اور جو ابھی تک لوگوں کو بغاوت پر اکسا رہے تھے انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے،،،،،،، آپ کی اجازت چاہیے کہ میں برہمن آباد کی طرف کوچ کروں، جے سینا بھاگ کر وہاں پہنچ گیا ہے اور میرے مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا ہے، برہمن آباد کے راستے میں دو مضبوط کھلے ہیں ایک بہرور ہے اور دوسرا دہلیلہ، انہیں سر کرنا اور ان میں جو فوجی ہیں انھیں تباہ کرنا ضروری ہے ،ورنہ یہ عقب سے ہم پر حملہ کریں گی،،،،،،،،
آپ اس عظیم فتح کی خوشخبری جن کو سنائیں گے انہیں میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ ہماری کامیابی کے لیے دعا کریں۔
یہ مال غنیمت شوال 93 ہجری کے مہینے میں راوڑ سے روانہ ہوا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
ادھر اللہ کو مدد کے لئے پکارا جا رہا تھا ،ادھر جے سینا ہندوستان کے راجوں مہاراجوں کو مدد کے لئے پکار رہا تھا، اس نے اپنے ایلچی ہر طرف بھیج دیے، سب کو یہی پیغام بھیجا کہ اس کے باپ نے اسلام کے سیلاب کو روکنے کے لئے اپنی جان دے دی ہے، اور معلوم ہوا ہے کہ اسلامی فوج کے لشکر نے اس کا سر کاٹ کر عرب کو بھیج دیا ہے، اس نے سورگ باشی راجہ داہر کی کنواری بھانجی کو بھی عرب بھیج دیا ہے، اس نے کئی پنڈتوں کو بھی قتل کرا دیا ہے، اگر آپ سب اسے روکنے کے لیے اکٹھے نہ ہوئے تو آپ سب کے سر عرب چلے جائیں گے، اور ان کے ساتھ آپ کی جوان اور کنواری بیٹیاں بھی جائیں گیں، اور ہمارا مذہب جو دیوی دیوتاؤں کا سچا مذہب ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔
اس کے پیغام کے الفاظ بہت ہی اشتعال انگیز تھے اس نے جن راجوں وغیرہ کو پیغام بھیجیں ان میں اس کا اپنا بھائی گوپی بھی تھا ،جو راوڑ کے قلعے کا حاکم تھا اور راوڑ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجانے کے بعد کہیں اور چلا گیا تھا ،اس نے اپنے بھتیجے دار سینہ کو بھی پیغام بھیجا جو قلعہ بھاٹیہ میں تھا وہ اس قلعے کا حاکم نہیں بلکہ قلعے کا مالک تھا۔ جے سینا نے چندر کے بیٹے ڈھول کو بھی پیغام بھیجا۔
اس کے اپنے قریبی رشتے داروں نے تو اسے مایوس نہ کیا ،لیکن مختلف جگہوں کے حاکموں نے اس کے ساتھ ملنے کی بجائے راوڑ جاکر محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لی۔
بہرور، اور دہلیلہ کے حاکموں نے آپس میں صلح مشورہ کرکے جے سینا کو پیغام کا جواب دیا کہ وہ اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکیں گے، کیونکہ مسلمانوں کا لشکر بہت قریب ہے اور قلعوں کو خالی چھوڑ کر نکل جانا عقلمندی نہیں، انہوں نے جے سینا کو یقین دلایا کہ وہ اپنے اپنے قلعے میں رہ کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں گے اور محاصرے کو لمبا کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ بھی کہ وہ اپنے دستے باہر بھیج کر مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچاتے رہیں گے تاکہ وہ برہمن آباد تک پہنچے تو ان کی نفری کم ہو چکی ہو۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
مال غنیمت اور جنگی قیدیوں کا قافلہ جس کا امیر کعب بن مخارق رابسی تھا کوفہ میں داخل ہوا تو شہر کے لوگ امڈ کر باہر آ گئے، کعب مخارق اور اس کے ساتھ جو مجاہدین تھے وہ بازو لہرا لہرا کر،،، فتح مبارک ہو ،،،فتح مبارک ہو،،، کے نعرے لگانے لگے، عورت مجاہدین کے قریب آ گئیں ،کوئی اپنے باپ کا کوئی اپنے بھائی یا بیٹے کا ،اور کوئی اپنے خاوند کا نام لے کر پوچھتی تھیں کہ وہ کیسا ہے۔
حجاج کوفہ میں تھا یہ مال غنیمت پہلے دمشق خلیفہ عبدالملک کے پاس جانا چاہیے تھا لیکن حجاج کے پاس جارہا تھا کیونکہ حجاج خلیفہ پر غالب آیا رہتا تھا، دوسرے یہ کہ اس سندھ کی فتح حجاج کا عزم تھا ،خلیفہ اتنی زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کرتا تھا، حجاج کی شخصیت کے سامنے خلیفہ کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی۔
حجاج نے جب لوگوں کا شور و غوغا سنا تو اس نے اپنے دربان سے پوچھا کہ کیسا شور ہے۔ اسے بتایا گیا کہ سندھ سے مال غنیمت آیا ہے۔ حجاج جس حالت میں تھا اسی میں دوڑتا باہر نکلا اور قافلے کے استقبال کے لئے آگے چلا گیا ،وہ کعب بن مخارق سے بغلگیر ہو گیا۔
حجاج نے سارے شہر میں منادی کرا دی کہ تمام آدمی جامع مسجد میں جمع ہوں جہاں نماز کے بعد انہیں سندھ کی نئی خبری سنائی جائیں گی۔
ظہر کی نماز کا وقت تھا کوفہ کے لوگ جامع مسجد میں جمع ہوگئے اور حجاج کی امامت میں نماز پڑھی نماز کے بعد حجاج کے حکم سے راجہ داہر کا سر نیزے پر اڑسا گیا اور نیزہ حجاج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اس نے نیزہ اوپر کرکے لوگوں کو دکھایا۔
کوفہ کے لوگوں حجاج نے کہا۔۔۔ یہ اس مجرم کا سر ہے جس نے ہمارے جہازوں کو اپنے ساحل کے قریب روک کر لوٹ لیا، اور ہمارے ان آدمیوں کو اور ان کی بیوی بچوں کو بھی قید میں پھینک دیا تھا جو ان جہازوں میں سوار تھے اور سراندیپ سے حج کا فریضہ ادا کرنے آ رہے تھے، اسے اپنی طاقت پر اتنا بھروسہ تھا کہ ہماری بات ہی نہیں سنتا تھا آج اس کا سر دیکھ لو،،،،،،، لوگو!،،، محمد بن قاسم اور مجاہدین کی فتح کے لیے دعا کرتے رہا کرو یہ تمہاری دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مجاہدین فتح پر فتح حاصل کرتے جا رہے ہیں،،،،، لیکن ان کے لئے کمک بہت کم ہے، کیا تم اس جہاد میں شریک نہیں ہونا چاہو گے، سندھ کے محاذ پر کمک کی ضرورت ہے، اگر تم لوگ وقت پر نہ پہنچے تو سندھ میں مجاہدین کے دل ٹوٹ جائیں گے، خدا کی قسم تم نہیں چاہو گے کہ مجاہدین صرف اس لئے ہار جائیں کہ ان کی نفری کم ہو گئی تھی، یا مسلسل لڑتے لڑتے ان کے جسم ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔
حجاج اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ لوگوں نے "لبیک لبیک،،،،، یا حجاج لبیک ،،،،کے نعرے لگانے شروع کر دیے، اور بہت سے ایسے آدمیوں نے جو لڑنے کے قابل تھے اور جو مسلسل پیش قدمی اور لڑائی کی صعوبتوں کو برداشت کرسکتے تھے سندھ کے محاذ پر جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیا۔
حجاج نے حکم دیا کہ ان تمام آدمیوں کو باقاعدہ طور پر فوج میں شامل کر لیا جائے اور ان کی تربیت بھی شروع ہوجائے۔
حجاج نے تمام تر مال غنیمت خلیفہ ولید بن عبدالملک تک پہنچانے کے لئے دمشق بھیج دیا، اس نے راجہ داہر کی بھانجی حسنہ کو بھی خلیفہ کے پاس بھیج دیا ،مال غنیمت کے ساتھ حجاج نے خلیفہ کے نام ایک خط بھی لکھا جس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کو پسند نہیں تھا کہ سندھ کی فتح کی مہم شروع کی جائے، لیکن میں نے آپ سے اپنا فیصلہ منوا لیا، آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ سندھ پر حملے اور وہاں کی تمام تر جنگ کے اخراجات میں پورے کروں گا ،بلکہ آپ کو اخراجات سے خاصی زیادہ رقم پیش کروں گا، آپ دیکھ رہے ہیں کہ سندھی سے کتنی بار اور ہر بار کتنا مال غنیمت آچکا ہے اور اس میں کس قدر سونا اور کتنی قیمتی اشیاء آئی ہیں۔
حجاج بن یوسف نے یہ بھی لکھا کہ یہ تو زر و جواہرات ہیں جو دنیا میں جاہ و جلال قائم رکھتے ہیں، اگلی دنیا کی بھی سوچیں جہاں ہم سب نے لوٹ کے جانا ہے، وہاں زروجواہرات اور دنیاوی جاہ و جلال اور گھوڑوں ہاتھیوں پر سوار لشکر کام نہیں آئیں گے ،میرے کمسن بھتیجے نے اسلام اور سرزمین عرب کے سب سے بڑے دشمن راجہ داہر کو شکست ہی نہیں دی بلکہ اس کا سر کاٹ کر بھیجا ہے، اور میں یہ سر آپ کی طرف بھیج رہا ہوں، یہ یہ وہ سر ہے جس میں بادشاہی کا غرور اور فطور سمایا ہوا تھا، جس نے اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اسلام کی صداقت کو قبول کرنے کی بجائے دشمنی کی تھی، اور اس میں کیا شک ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو خدائے ذوالجلال کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں۔
حجاج نے خلیفہ کو یہ تفصیل بھی لکھی کہ محمد بن قاسم کی فتوحات میں کیا تازہ اضافہ ہوا ہے، اور آگے کیا ہوگا، تاریخوں میں لکھا ہے کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ جب مال غنیمت کا قافلہ دمشق میں داخل ہوا تو کوفہ کی طرح دمشق کے بھی لوگ باہر آ گئے وہ تکبیر کے نعروں کے ساتھ ساتھ جنگی قیدیوں پر طعنوں کے تیر برسا رہے تھے اور طنزیہ قہقہے بھی لگاتے تھے، دمشق کی گلیوں میں اسی ایک آواز کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ محمد بن قاسم نے سندھ کے بادشاہ کو ہلاک کردیا ہے ،گلی کوچے میں صرف محمد بن قاسم کا نام سنائی دے رہا تھا۔
ایک آواز یہ بھی سنائی دے رہی تھی کہ محمد بن قاسم نے انتقام لے لیا ہے، سارے شہر میں جشن کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی، بعض نے جوش میں آکر نقارے بجانے شروع کر دیے تھے۔
صرف ایک آدمی تھا جس کے چہرے پر مسرت کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا اس پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی سنجیدگی کی پرچھائیاں کبھی کبھی گہری ہوجاتی تھیں، چہرے کے تاثرات سے اور اس کے انداز سے پتہ چلتا تھا جیسے اسے محمد بن قاسم کی فتح و نصرت سے کوئی دلچسپی نہ ہو، کبھی یوں بھی لگتا تھا جیسے اسے فتح کے یہ نعرے تکلیف دے رہے ہیں، یہ تھا خلیفہ وقت کا بھائی سلیمان بن عبدالملک۔۔۔۔۔ وہ الگ تھلگ کھڑا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
کعب بن مخارق رابسی خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوا وہاں کچھ اور مصاحبین بھی موجود تھے، کعب بن مخارق نے حجاج بن یوسف کا تحریری پیغام پیش کیا جو خلیفہ نے اس سے لے کر پڑھنا شروع کردیا ،وہ جوں جوں پڑھتا جاتا تھا اس کے چہرے پر رونق آتی جا رہی تھی، پھر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، پیغام پڑھ کر اس نے کہ ابن مخارق سے کہا کہ وہ پیغام پڑھ کر سب کو سنائے۔
اس کے بعد خلیفہ نے باہر آکر مال غنیمت دیکھا اور اس سے سونے کے علاوہ جو قیمتی اشیاء تھی وہ الگ کرا دیں ،پھر اس نے کہا کہ راجہ داہر کی بھانجی کو پیش کیا جائے۔
لڑکی کو اس کے سامنے لایاگیا خلیفہ ولید کچھ دیر تو اس لڑکی کو دیکھتا ہی رہا لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
آئے لڑکی،،،،،، ولید بن عبدالملک نے ترجمان کی معرفت راجہ داہر کی بھانجی سے کہا۔۔۔ تیرے دل میں ابھی اپنی خوش قسمتی کا احساس پیدا نہیں ہوا اگر تو وہیں رہ جاتی تو تیرا انجام بہت برا ہوتا۔
اس میں خوش قسمتی والی بات کیا ہے؟،،،،،،، لڑکی نے پوچھا ۔۔۔یہ کوئی خوش قسمتی نہیں کہ یہاں میں ہر کسی کی داشتہ بنوں گی، عورت کی قسمت میں یہی کچھ لکھا ہے، میں نے مسلمانوں کے متعلق تو کچھ اور سنا تھا لیکن آپ ایک بے بس لڑکی کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔
ہم تمہیں اس طرح قید خانے میں نہیں رکھیں گے جس طرح تمہارے ماموں راجہ داہر نے ہمارے بحری مسافروں کو لوٹ کر انہیں دیول کے قید خانے میں قید کردیا تھا ۔۔۔خلیفہ ولید بن عبدالملک نے کہا ۔۔۔ان قیدیوں میں عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی تھے
کیا ان کا انتقام مجھ سے لیا جائے گا؟،،،، لڑکی نے پوچھا۔
انتقام جس سے لینا تھا اس سے لیاجاچکاہے۔۔۔ ولید بن عبدالملک نے کہا۔۔۔ تم ہر کسی کی داشتہ نہیں بنوں گی، کسی ایک آدمی کی بیوی بنوں گی، اگر تم سندھ میں رہ جاتی جہاں تمہارے ماموں کی فوجیں میدان چھوڑ کر بھاگ رہی ہیں، ہتھیار ڈال قید ہو رہی ہیں ،اور ہماری تلواروں سے کٹ رہی ہیں، تو تم وہاں سے کسی اور طرف بھاگتے ہوئے نہ جانے کس کے ہاتھ چڑھ جاتی، اور کس کس کی داشتہ بنتی، کیا تم کوئی ایک بھی واقعہ سنا سکتی ہوں کہ ہماری فوج نے کوئی شہر فتح کرکے کسی سالار عہدے دار یا سپاہی نے تم جیسی کسی لڑکی پر ہاتھ اٹھایا ہو، یا اس کی عزت کا پاس نہ کیا ہو ،کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جس سالار نے تمہیں یہاں بھیج دیا ہے وہ نوجوان ہے، کیا وہ تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا۔
بے شک میں نے دیکھا ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ پھر بھی میں ڈر رہی ہوں کون ہے جو میرے ساتھ شادی کرے گا؟
میں کروں گا ۔۔۔خلیفہ نے کہا۔۔۔ تمہیں اپنا مذہب چھوڑنا پڑے گا ،اور تم ہمارے مذہب کے مطابق سچے دل سے مجھے قبول کرو گی۔
خلیفۃ المسلمین !،،،،،وہاں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔کیا میری یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی کہ میں اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لوں۔
بے شک اسے میں نے اپنے لئے پسند کیا تھا۔۔۔ ولید بن عبدالملک نے کہا۔۔۔ لیکن میں تمہاری خواہش کو رد نہیں کروں گا تمہی اس کے ساتھ شادی کر لو۔
تاریخ میں اس آدمی کا نام عبداللہ بن عباس لکھا ہے جس نے خلیفہ سے یہ لڑکی مانگی تھی، کسی بھی تاریخ میں عبداللہ بن عباس کے متعلق یہ تفصیل نہیں ملتی کہ اس پر خلیفہ نے اتنی شفقت کیوں کی تھی کہ جس لڑکی کو اس نے اپنے لئے پسند کیا تھا وہ لڑکی اسے دے دی۔
عبداللہ بن عباس نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی لڑکی بڑا لمبا عرصہ عبداللہ بن عباس کے عقد میں رہی لیکن اس کے بطن سے ایک بھی بچہ پیدا نہ ہوا۔
راجہ داہر کا سر نیزے کی انی میں اڑس کر سارے شہر میں گھما پھرا کر اس کی نمائش کی گئی، سعودی عرب میں یہ رواج آج بھی ہے کہ جسے سزائے موت دی جاتی ہے اس کی گردن سرعام تماشائیوں کے ہجوم کے سامنے تلوار کی ایک ہی وار سے کاٹ دی جاتی ہے، پھر جلاد مرنے والے کا سر نیزے کی انی میں اڑس کر نیزہ بلند کرتا اور تمام تماشائیوں کو دکھاتا ہے۔
اس کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کا رویہ بالکل بدل گیا ،اور اس نے سندھ کی مہم میں پوری طرح دلچسپی لینی شروع کردی، اور اس نے حجاج کو مبارک کا پیغام بھیجا ،اور لکھا کہ محمد بن قاسم تک بھی اسکی مبارک اور دعائیں پہنچائی جائیں۔
*=÷÷÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
حجاج بن یوسف نے کعب بن مخارق رابسی کے ہاتھ محمد بن قاسم کے نام پیغام بھیجا جس میں اس نے پہلے کی طرح محمد بن قاسم کی حوصلہ افزائی کی اور اسے ہدایات دی کہ اب وہ کس طرح آگے بڑھے اس سے پہلے محمد بن قاسم کو لکھا تھا کہ راجہ داہر پر فتح پا لی گئی تو آگے پیش قدمی تیز ہوجائے گی، حجاج نے پہلے کی طرح اب بھی اپنے پیغام میں تلاوت قرآن اور عبادت پر زور دیا ،اور ایک بار پھر آیت الکرسی کی فضیلت بیان کی۔
محمد بن قاسم نے راوڑ کا شہری انتظام رواں کردیا اور عمال مقرر کردیئے اس دوران اس نے بہرور میں اپنے جاسوس بھیج دیے تھے، معلوم یہ کرنا تھا کہ وہاں کتنی فوج ہے قلعے کی دیواریں کیسی ہیں اور دیگر دفاعی انتظامات کیا ہیں، قلعے کی ساخت اور مضبوطی کا جائزہ لینے کے لئے شعبان ثقفی خود بھیس بدل کر گیا تھا اور قلعے کے ارد گرد کچھ دیر گھومتا پھرتا رہا تھا ،دوسرے جاسوس مقامی آدمی تھے ان کا بہروپ آسان تھا وہ راوڑ سے بھاگے ہوئے شہری بن کر گئے تھے اور کچھ دن وہاں رہ کر نکل بھی آئے تھے۔
بہرور اروڑ سے آگے ایک قلعہ تھا جس کے متعلق پہلے کہا جاچکا ہے کہ سر کرنا ضروری تھا ،اب جاسوسوں نے آ کر محمد بن قاسم کو جب یہ بتایا کہ اس قلعے میں فوج کی نفری سولہ ہزار ہے تو اس قلعے پر حملہ اور اس نفری کا خاتمہ ضروری ہو گیا، محمد بن قاسم کا اصل اور سب سے بڑا ہدف تو برہمن آباد تھا جہاں تک محمد بن قاسم اپنے لشکر کو دور کا چکر کاٹ کر لے جا سکتا تھا اور اس طرح بہرور اور اس سے آگے ایک اور قلعہ دہلیلہ کو نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن ان قلعوں میں دشمن کی جو اتنی زیادہ فوج تھی اسے نظر انداز کرنا بہت بڑی جنگی لغزش تھی۔
محمد بن قاسم نے ماہ شوال 93 ہجری کے آخری دنوں میں راوڑ سے کوچ کیا اور بہرور تک پہنچ گیا، محمد بن قاسم کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ اس نے دشمن کو بے خبری میں جا لیا ہے ،کیونکہ جوں ہی اس نے اپنے لشکر کو محاصرے کی ترتیب میں کیا دیواروں سے اور قلعے کے برجوں سے تیروں کا مینہ برس پڑا، تیروں کی یہ بوچھاڑیں اچانک آئی تھیں جب مسلمان قلعے کا محاصرہ کر رہے تھے تو ایسے پتہ چلتا تھا جیسے اس قلعے میں کوئی بھی نہیں، دیواروں کے اوپر دشمن کے سپاہی نظر آتے تھے لیکن ان کا انداز ایسا تھا جیسے وہ خوفزدہ ہوں اور مسلمانوں پر تیر چلانے سے گریز کر رہے ہوں، اسی دھوکے میں مسلمان دیوار کے اتنے قریب چلے گئے کہ دشمن کے تیروں کی بوچھاڑوں کی زد میں آگئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محاصرہ اکھڑ گیا کئی ایک مجاہدین زخمی اور شہید ہو گئے۔
اچانک افراتفری سی مچ گئی اس صورتحال سے دشمن نے یہ فائدہ اٹھایا کہ قلعے کا صدر دروازہ اور ایک اور دروازہ کھولا سواروں کے دستے اندر سے یوں نکلے جیسے سیلاب بند توڑ کر نکلا ہو، ان سواروں کا مسلمانوں پر حملہ بڑا ہی شدید تھا ایک بار تو مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے جتنی دیر میں وہ سنبھلتے دشمن کے سوار ایک زوردار وار کرکے واپس قلعے کے اندر جا رہے تھے۔
محمد بن قاسم کو اپنے طور طریقوں اور چالوں پر نظرثانی کرنی پڑی اس نے اپنے تمام دستوں کو پیچھے ہٹا لیا ،شہیدوں کی لاشیں ابھی تک دشمن کے سامنے پڑی تھیں، اور بعض شدید زخمی جو اٹھنے کے قابل نہیں تھے وہی بے ہوش پڑے تھے جہاں گرے تھے، ان سب کو رات کے وقت اٹھایا گیا، اگلے دن محمد بن قاسم نے کوئی کارروائی نہ کی زیادہ تر وقت زخمیوں کی مرہم پٹی میں صرف ہوا ،اور ان زخمیوں کو پیچھے بھیجا گیا جو لڑنے کے قابل نہیں تھے، اس روز محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو بلایا اور ان کے ساتھ صلح مشورہ کرکے نئی حکمت عملی ترتیب دی، تمام سالاروں کو احساس ہو گیا تھا کہ اس قلعے کو آسانی سے سر نہیں کیا جاسکے گا۔
اگلے روز محمد بن قاسم نے ایک مقام پر تیر اندازوں کو اکٹھا کیا اور دیواروں میں شگاف ڈالنے اور سرنگ کھودنے والے تربیت یافتہ آدمیوں کو بھی ساتھ لیا ،اس نے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ سامنے دائیں اور بائیں دیوار پر اس قدر تیز تیر برسائیں کہ دیوار سے کسی کا سر اوپر نہ اٹھ سکے۔
تیر اندازوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی، تیروں کی بوچھاڑیں ایک دوسری کی پیچھے دیواروں پر پڑنے لگیں تو دیوار کے اس حصے سے دشمن کے سپاہی اوٹ میں ہو گئے، محمد بن قاسم نے دیواروں میں شگاف ڈالنے والوں کو تیز دوڑایا کہ وہ دیوار تک پہنچ جائیں، وہ پہنچ گئے اور انہوں نے دیوار میں نقب لگانی شروع کر دی، کام آسان معلوم ہوتا تھا کیونکہ دیوار گارے اور پتھروں کی بنی ہوئی تھی، پتھر نکلتے آ رہے تھے لیکن یہ دیوار مکانوں کی دیواروں کی طرح سیدھی نہیں تھی بلکہ مخروطی تھی ،نیچے سے بہت چوڑی تھی اس میں نقب لگانے کا مطلب یہ تھا جیسے سرنگ کھودی جا رہی ہو۔
اس پارٹی میں آدمی اتنے زیادہ تھے جو دیوار میں سرنگ جیسی نقب لگا سکتے تھے، لیکن اسی دیوار کے دور کے کونے پر کھڑے سپاہیوں نے دیکھ لیا کہ دیوار توڑی جا رہی ہے، انہوں نے یہ انتظام کیا کہ بڑے بڑے پتھر لکڑی کے شہتیر اور چلتی ھوئی لکڑیاں اوپر جمع کرلیں پہلے انہوں نے دیوار پر پتھر رکھے خود اوٹ میں رہے ان کے صرف ہاتھ اوپر تھے، انہوں نے اوپر سے پتھر لڑکانے شروع کردیئے اس کے ساتھ ہی چلتی ھوئی لکڑیاں اس طرح نیچے پھینکیں کہ لکڑی دیوار کے اوپر والے سرے پر رکھ کر چھوڑ دیتے تھے تو یہ دیوار کی ڈھلوان سے لڑکتی نیچے آ جاتی تھی۔
دشمن نے یہ جو ہتھیار استعمال کیا یہ مسلمانوں کے لئے بڑا ہی نقصان دہ ثابت ہوا، جہاں دیوار میں نقب لگائی جارہی تھیں وہاں جلتی ہوئی لکڑیوں کے شعلے اٹھنے لگے، ایک دو آدمی جھلس بھی گئے، دشمن نے چند ایک جانوں کی قربانی دے کر یہ کامیابی حاصل کی کہ مسلمانوں کو دیوار سے بھگا دیا ،دشمن نے قربانی اس طرح دی کہ اس کے آدمی جب پتھر یا لکڑیاں نیچے کو لٹکانے کے لیے سر اوپر اٹھاتے تھے تو تیروں کا نشانہ بن جاتے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کا یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا اور اس نے دروازوں کو توڑنے کی اسکیم بنائی، لیکن دشمن کے تیر انداز دروازے کے قریب نہیں جانے دیتے تھے، کئی طریقے اختیار کیے گئے لیکن قلعے کی فوج نے کوئی بھی طریقہ کامیاب نہ ہونے دیا بلکہ دشمن نے اپنی اس دلیرانہ کاروائی کو جاری رکھا کہ کبھی سوار اور کبھی پیادا دستے بڑی تیزی سے باہر آجاتے اور محاصرے میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے کسی ایک حصے پر ہلہ بول کر اسی تیزی سے واپس چلے جاتے۔
اس وقت تک محمد بن قاسم یہ سمجھ چکا تھا سندھ کی فوج کا یہ خاص انداز ہے کہ باہر آ کر حملہ کرتے اور واپس چلے جاتے ہیں، اس کا یہ طریقہ مسلمانوں کے شب خون اور دن کے چھاپوں جیسا تھا جو وہ دشمن کی پیش قدمی کرتی ہوئی فوج کے پہلو یا عقب پر مارتے اور غائب ہو جاتے، محمد بن قاسم نے ہندوؤں کی اس نوعیت کے حملوں کا یہ توڑ سوچا کہ محاصرے کے دستوں کو تیار رکھا جائے اور جب ہندوؤں کے دستہ ہلہ بولنے کے لئے باہر آئیں تو انہیں گھیرے میں لے لیا جائے اور واپس نہ جانے دیا جائے۔
دو تین روز بعد دو دروازوں میں سے حسب معمول دشمن کے سوار دستے نکلے اب مسلمان اس کے لئے تیار تھے انہوں نے دائیں اور بائیں سے آگے ہو کر ان دستوں کو نرغے میں لے لیا لیکن مسلمانوں کے جو سپاہی دیوار اور دروازوں کے قریب چلے گئے تھے ان پر دیوار سے تیر آنے لگے وہ اتنے قریب تھے کہ دیوار کے اوپر سے ان پر پتھر بھی پھینکے گئے اس طرح گھیرہ ٹوٹ گیا، ہندو سوار گھوڑے دوڑاتے اور کوئی مسلمان سامنے آتا تو اسے کچلتے واپس چلے گئے۔
محمد بن قاسم نے ایک قربانی دینے کا فیصلہ کیا اس نے منتخب جاں باز صدر دروازے کے سامنے اکٹھے کرلئے اور دشمن کے اگلے حملے کا انتظار کرنے لگا ،اگلا حملہ تین روز بعد آیا محمد بن قاسم نے اپنے منتخب جانبازوں کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ کیا کرنا ہے، جونہی صدر دروازہ کھلا جاں باز کود کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور گھوڑوں کو ایڑ لگا دی گھوڑے سر پٹ دوڑے صدر دروازے سے دشمن کے سوار نکل رہے تھے، مسلمان سواروں کے پاس برچھیاں تھیں۔
دونوں طرفوں کے گھوڑے آپس میں ٹکرائے پھر برچھیاں اور تلواریں ٹکرانے لگیں، مسلمان سوار تو باہر تھے اس لیے ان کے پاس دائیں بائیں آگے پیچھے حرکت کرنے کے لئے بہت جگہ تھی، ہندو سوار دروازے میں سے آرہے تھے اس لیے وہ آسانی سے پینترے نہیں بدل سکتے تھے، وہ پیچھے ہٹ رہے تھے اور مسلمان انہیں دباتے اور کاٹتے جا رہے تھے۔
توقع یہ تھی کہ مسلمان سوار قلعے میں داخل ہو جائیں گے، محمد بن قاسم خود ان کے قریب ہو گیا اور انھیں للکارنے لگا ،دیوار سے ایک تیر آیا جو محمد بن قاسم کے آگے زین میں اتر گیا ،اس کی زندگی اور موت کے درمیان صرف بال برابر فاصلہ رہ گیا تھا، ایک سوار نے دیکھ لیا محمد بن قاسم نے اس تیر کو اتنی سی بھی اہمیت نہ دی کہ اسے زین سے نکال کر پھینک دیتا، وہ چلا چلا کر اپنے سواروں کو ہدایات دے رہا تھا۔
جس سوار نے محمد بن قاسم کی زین میں تیر اترتے دیکھا تھا وہ گھوڑا دوڑا کر اس کے پاس آیا ۔
سالار اعلی !،،،،،،،،،سوار نے محمد بن قاسم سے کہا ۔۔۔آپ یہاں سے چلے جائیں، آپ نہ رہی تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔
یہاں سے چلے جاؤ ۔۔۔۔محمد بن قاسم نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔۔اپنی جگہ پر رہو ۔
اس سوار نے اپنے سالار اعلی کی ڈانٹ اور اس کے حکم کی پرواہ نہ کی لپک کر اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی محمد بن قاسم چلا رہا تھا لیکن اس سوار نے اس کے گھوڑے کی لگام نہ چھوڑی اور اسے تیروں کی زد سے دور لے گیا۔
قاسم کے بیٹے !،،،،سوار نے اپنے اور محمد بن قاسم کے رتبے کے فرق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ تم قیمتی انسان ہو مجھ جیسے ایک ہزار سپاہی مارے گئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہ سوار محمد بن قاسم کو خاموش اور حیران چھوڑ کر گھوڑا دوڑاتا لڑائی میں شامل ہونے کے لئے گیا تو اوپر سے ایک تیر آیا جو اس کی ہنسلی سے ذرا نیچے سینے میں دور تک اتر گیا ،وہ گھوڑے پر ایک طرف کو گرنے لگا محمد بن قاسم نے دیکھ لیا اس نے گھوڑا دوڑایا اور اس تک پہنچ کر اسے گرنے سے بچا لیا اور اس کے گھوڑے کو بھی اپنے گھوڑے کے ساتھ پیچھے لے آیا۔
تم زندہ رہنا ابن قاسم!،،،،،، سوار نے کہا۔۔۔ اور اس کا سر محمد بن قاسم کے کندھے پر ڈھلک گیا ،تاریخ نے اس سپاہی کا نام ہشام بن عبد اللہ لکھا ہے وہ کوفہ کی ایک نواحی بستی کا رہنے والا تھا۔
دشمن کے ساتھ معرکہ جاری تھا اسے شاید یہ خطرہ نظر آگیا تھا کہ مسلمان قلعے میں داخل ہو جائیں گے چنانچہ قلعے کے دروازے بند ہوگئے دشمن کے جو سوار باہر رہ گئے تھے انہیں مسلمانوں نے کاٹ ڈالا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷==÷=÷*
کسی سالار نے یہ مشورہ دیا کہ بغیر لڑے محاصرہ جاری رکھا جائے تاکہ قلعے والوں کو باہر سے خوراک وغیرہ نہ مل سکے اور وہ کچھ عرصے بعد بھوک اور پیاس کے مارے خود ہی ہتھیار ڈال دیں گے، اس زمانے میں محاصروں کو اکثر طول دیا جاتا تھا ،بعض محاصرے دو دو سال اور اس سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہتے تھے، اور ایک دن قلعے والے خود ہی دروازے کھول دیتے اور ان کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا تھاکہ کچھ کھانے کے لئے دو۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے یہ مشورہ رد کردیا اور کہا ۔۔۔میرے پاس اتنا وقت نہیں، ہماری منزل بہت دور ہے اور زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اس کے علاوہ میں دشمن کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ ہم اس کی طاقت سے خائف ہو کر دور بیٹھ گئے ہیں اب رات کو بھی لڑائی جاری رہے گی۔
محمد بن قاسم نے تما
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
*قسط نمبر/27*
محمد بن قاسم نے وہاں سے ہندوستان کے مختلف راجوں کو خطوط لکھے کہ وہ اسلام قبول کرلیں، اس خطوط میں نے ایسی کوئی دھمکی نہ دیں کہ وہ اسلام قبول نہیں کریں گے تو ان پر حملہ کیا جائے گا یا ان سے جزیہ وصول کیا جائے گا، اس نے اسلام کی بنیادی تعلیمات اور خوبیاں لکھیں اور یہ بھی لکھا کہ اس نے اس وقت تک جو شہر فتح کئے ہیں وہاں کے لوگوں سے معلوم کیا جائے کہ انہیں اسلام کی یہ خوبیاں عملی طور پر نظر آتی ہیں یا نہیں۔
محمد بن قاسم ابھی دہلیلہ میں ہی تھا کہ اسے اطلاع ملی کے چار آدمیوں کا ایک وفد اسے ملنا چاہتا ہے، یہ چاروں ہندو تھے، محمد بن قاسم سے ملنے سے پہلے انہیں شعبان ثقفی کے پاس لے جایا گیا تھا، یہ شعبان ثقفی کا حکم تھا کہ کوئی اجنبی محمد بن قاسم سے ملنا چاہے تو اسے اس کے پاس لایا جائے یہ محمد بن قاسم کی حفاظت کا انتظام تھا، ملاقات کے بہانے آنے والے اجنبی اس پر قاتلانہ حملہ بھی کر سکتے تھے۔
محمد بن قاسم کے پوچھنے پر ان چاروں آدمیوں نے اپنا تعارف یہ کرایا کہ وہ راجہ داہر کے وزیر سیاکر کی طرف سے آئے ہیں ،اور سیاکر محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کرنا چاہتا ہے اور وہ اسلام قبول کرے نہ کرے ہمیشہ محمد بن قاسم کے ساتھ رہے گا۔
سیاکر راجہ داہر کا نہایت دانہ اور قابل وزیر تھا، اور شعبان ثقفی اور محمد بن قاسم تک اس کی قابلیت کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی، جب ان دونوں کو معلوم ہوا کہ سیا کر ان کی اطاعت قبول کرکے مسلمان ہونا چاہتا ہے تو محمد بن قاسم کو قدرتی طور پر خوشی ہوئی، اس نے چار آدمیوں کے اس وفد کو معافی کا پروانہ دے کر رخصت کر دیا، چند ہی روز بعد سیاکر خود محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوا۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے حملے سے پہلے جن عورتوں اور بچوں کو راجہ داہر کے حکم سے قید کیا گیا تھا اور جو واقعہ اس حملے کی وجہ بنا ان میں وہ ساری کی ساری عورتیں دیبل کے قیدخانے میں نہیں تھیں ،دیبل کی فتح کے وقت وہاں پر قید عورتوں کو دیبل کے قید خانے سے رہا کرایا گیا تھا ،بعض عورتوں کو دوسرے قید خانوں میں بھی رکھا گیا تھا ،تاریخ کو ان عورتوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں لیکن تاریخوں میں لکھا ہے کہ چند قیدی عورتیں داہر کے اس وزیر سیاکر کے قبضے میں تھیں جو وہ محمد بن قاسم کی خوشنودی کے لئے اپنے ہمراہ لے کر آیا ،اور جنہیں محمد بن قاسم نے فوراً عرب بھیجوا دیا۔
سیاکر جن عورتوں کو لایا ان کی تعداد دس کے لگ بھگ تھی، یہ کوئی خوبصورت اور جوان لڑکیاں نہیں تھیں بلکہ محنت مشقت کرنے والی عورتیں تھیں یہ غالباً سراندیب سے عرب کو جانے والے تاجروں کی نوکرانیاں تھیں اور بدو قبائل سے تعلق رکھتی تھیں، محمد بن قاسم کو ان عورتوں کے متعلق پہلے علم ہی نہیں تھا اسے یہ بتایا گیا تھا کہ تمام قیدی مرد اور عورتیں دیبل کے قید خانے میں بند تھیں، جب ان عورتوں کو داہر کا وزیر سیاکر محمد بن قاسم کے پاس لایا تو محمد بن قاسم نے ان کے ساتھ عربی میں بات کی ،اس کے جواب میں عورتوں نے بھی عربی میں بات کی۔
تم سے یہ لوگ کیا کام لیتے رہتے ہیں؟،،،، محمد بن قاسم نے ان سے عربی زبان میں پوچھا۔
اروڑ کے محل میں جھاڑو اور کپڑے دھونے کا کام ہمارے سپرد تھا ۔۔۔ایک عورت نے جواب دیا ۔۔۔ہم اسی طرح کے نیچ کام کیا کرتی تھیں۔
کیا وہاں تمہیں کسی طرح تنگ یا پریشان کیا جاتا تھا؟
ہم اپنے مالکوں کے یہاں بھی یہی کام کرتی تھیں۔۔۔ ایک اور عورت بولی۔۔۔ ہندوؤں کے اس محل میں بھی ہم سے یہی کام لیا جاتا تھا، یہ اپنا بچا کچا کھانا ہمیں دے دیتے تھے۔
ان کے ساتھ باتیں ہوئیں تو معلوم ہوا کہ یہ پیدائشی غلام ہیں، جو اتنا بھی احساس نہیں رکھتیں کہ وہ کس کی نوکرانیاں ہیں، انہیں اتنا ہی یاد رہ گیا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔
سالار محترم !،،،،داہر کے وزیر سیاکر نے ترجمان کی معرفت کہا۔۔۔ اپنا اعتماد پیدا کرنے کے لئے یہی ایک تحفہ بہتر سمجھتا تھا جو لے آیا ہوں۔
تمہیں اب ہماری اطاعت قبول کرنے کا خیال کیوں آیا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔ کیوں کہ میں اب آزادی سے سوچنے کے قابل ہوا ہوں ۔۔۔سیاکر نے جواب دیا۔۔۔ میں راجہ کا وزیر تھا، لیکن اپنے تمام خاندان سمیت راجہ کا قیدی تھا، ہم راجہ کو مشورے تو دیا کرتے تھے لیکن یہ سوچنا پڑتا تھا کہ راجہ کس قسم کے مشورے پسند کرتا ہے، جب اس نے عرب کے جہاز لوٹے اور مسافروں کو قید میں ڈالنے کا حکم دیا تھا تو میں نے اسے کہا تھا کہ عربوں کی نظر پہلے ہی سندھ پر لگی ہوئی ہے، اور عرب پہلے مکران کے ایک حصے پر قابض ہیں، اس لئے عربوں کو اشتعال نہ دلایا جائے، لیکن وہ نہ مانا اس کا دماغ تو اس طرح خراب ہوا کہ ہماری فوج نے آپ کے دو سالاروں کو یکے بعد دیگرے شکست دی، راجہ داہر پر دراصل ایک اور وزیر کا زیادہ اثر تھا جس کا نام بدہیمن تھا، اس وزیر نے ہی اسے مشورہ دیا تھا کہ اپنی سگی بہن کے ساتھ شادی کر لو۔
کیا تمہارے مذہبی پیشواؤں نے راجہ داہر کو یہ نہیں بتایا تھا کہ مذہب سگے بھائی بہن کو آپس میں میاں بیوی بننے کی اجازت نہیں دیتا؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
مذہبی پیشوا !،،،،،سیاکرنے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔مذہبی پیشوا بھی اس کی خواہشوں، اس کی پسند و ناپسند ،اور اس کی توہمات کے غلام تھے، ہمارے راجہ کو مذہب کے بجائے اپنا راج پارٹ زیادہ پیارا تھا ،اسے پنڈتوں نے بتایا تھا کہ تمہارا بہنوئی تمہارے راج پارٹ پر قبضہ کرے گا، تو بدہیمن نے راجہ کو کہا تھا کہ بہن کو اپنی بیوی بنا لو تو بہنوئی کا وجود ہی ختم ہوجائے گا، جن پنڈتوں نے یہ شادی کرائی تھی انہیں پنڈتوں نے مجھے کہا تھا کہ راجہ کا یہ پاپ معلوم نہیں راج دربار پر اور رعایا پر کیا عذاب لائے گا ،وہ عذاب آیا میں ایک پاپی راجہ کا وزیر بنا رہا لیکن دل پر یہ خوف رہا کہ مجھے کوئی نہ کوئی سزا ضرور ملے گی، میں اپنی روح کی تسکین کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں، اگر آپ مجھے قبول کریں تو میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔
عرب کا ایک آدمی محمد حارث علافی بھی راجہ داہر کے دربار میں ہوتا ہے ؟۔۔۔محمد بن قاسم نے پوچھا۔
وہ اب داہر کے بیٹے جے سینا کے ساتھ ہے۔۔۔ سیاکر نے کہا ۔
وہ کیسا آدمی ہے ؟،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ اس کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں۔
وہ دوغلا آدمی ہے۔۔۔ سیاکر نے جواب دیا۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ وہ آپ کو بڑے قیمتی راز دیتا رہا ہے، لیکن وہ اتنا ہی وفادار راجہ کا بھی تھا ،،،،،،میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ عرب کے حکمرانوں کا باغی ہے لیکن اسلام کا باغی نہیں،،، یہ اسی کی بدولت ہے کہ آپ کے باغی عرب غیرجانبدار ہیں ، راجہ داہر نے انہیں بہت لالچ دیے تھے لیکن علافی نے انھیں درپردہ کہہ دیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے، راجہ داہر نے انہیں دھمکی دی کہ وہ انہیں اپنے علاقے سے نکال دے گا، محمد حارث علافی نے میری موجودگی میں راجہ داہر سے کہا تھا کہ ان عربوں کو اس نے یہاں سے نکل جانے کو کہا تو یہ سب عرب سے آئی ہوئی فوج کے بڑے مضبوط ساتھی بن جائیں گے، اور یہ اروڑ کی راجدھانی کے لیے زبردست خطرہ پیدا کردیں گے۔
محمد بن قاسم ایسا اناڑی یا جذباتی نہیں تھا کہ دشمن کے وزیر کو اس کی باتوں میں آکر اعتماد میں لے لیتا، اس نے سیاکر کو بظاہر قبول کرلیا اور حکم جاری کردیا کہ اسے اپنے ساتھ رکھا جائے، اور اسے وہ درجہ دیا جائے جو اسے راجہ داہر کے یہاں حاصل تھا ۔
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی سے کہا کہ وہ اس شخص پر گہری نظر رکھے اور دیکھے کہ یہ کسی اور نیت سے تو نہیں آیا۔
*=÷==÷=÷۔÷=÷=÷*
محمد بن قاسم نے دہلیلہ سے کوچ کیا ،فاصلہ زیادہ نہیں تھا آگے ایک چھوٹا دریا تھا جو جلوالی نہر کہلاتا تھا ،گزرتی صدیوں نے سندھ کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں کو خشک کرکے ان کی گذرگاہوں کا بھی نام و نشان نہیں رہنے دیا، اس زمانے میں یہ دریا موجود تھے اور آب و تاب سے بہتے تھے۔
مسلمان فوج نے جلوالی نہر کے مشرق کی طرف آخری پڑاؤ کیا، محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے بیٹے جے سینا کو ایک تحریری پیغام بھیجا ،جس میں اس نے لکھا تھا کہ تم نے اپنے باپ کا انجام دیکھ لیا ہے ،سندھ تمہارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، تم کب تک بھاگے بھاگے پھرو گے اور کہاں تک بھاگوں گے ،برہمن آباد میں تم نے پناہ لی ہے اسے بھی عارضی سمجھو، تمھارے لشکر، تمہارے ہاتھی، اور گھوڑے ہم سے کوئی قلعہ نہیں بچا سکے ،اور کسی بھی میدان میں ہمارے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکے، تمہارے لیے ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ اسلام قبول کر لو پھر تم نہ صرف زندہ رہو گے بلکہ وقار اور عزت کی زندگی گزارو گے، اگر یہ منظور نہیں تو ہماری اطاعت قبول کر لو پھر تم ہمارے قیدی نہیں رہو گے نہ ہم تمھیں غلام بنائیں گے، تمہاری عزت اور حیثیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا، اگر یہ بھی منظور نہیں تو ہم آرہے ہیں ایک ایسی لڑائی کے لئے تیار ہو جاؤ جو تم نہیں جیت سکو گے، ہمیں اپنے اللہ پر بھروسہ ہے اور وہی ہماری فتح کا ضامن ہے۔
قاصد پیغام لے کر چلا گیا اور واپس بھی آگیا اس نے بتایا کہ اسے قلعے کے دروازے پر روک کر پوچھا گیا کہ وہ کیوں آیا ہے، اس نے بتایا کہ راجکمار جے سینا کے نام سالار عرب امیر سندھ محمد بن قاسم کا پیغام لایا ہوں۔ اسے قلعے دار کے پاس لے گئے۔
کیا یہ پیغام کسی اور کو دے سکتے ہو ؟،،،،،قلعے دار نے پوچھا ۔۔۔اور اسے بتایا جے سینا نایہاں نہیں ہے۔
نہیں!،،،، قاصد نے جواب دیا ۔۔۔راجہ داہر کے بعد وہی ہے جو فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔
جے سینا یہاں نہیں آیا۔۔۔ قلعے دار نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں تم کیا پیغام لائے ہو اس کا جواب میں ہی دونگا، پڑھ کر سناؤ۔
قاصد مقامی آدمی تھا اور وہ نو مسلم تھا اس نے پیغام سنا دیا۔
قلعے دار نے قہقہ لگایا۔
میں جانتا تھا پیغام یہی ہوگا ۔۔۔قلعے دار نے کہا ۔۔۔تمہارے سالار کا دماغ چل گیا ہے، سنا ہے وہ ابھی بچہ ہے، راجہ داہر کے مرجانے سے ہم سب نہیں مر گئے، لڑنے کے لیے صرف جے سینا ہی نہیں جے سینا خود اسلام قبول کر لے تو اسے کون روک سکتا ہے، لیکن وہ کسی کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ تمہارے سالار کی اطاعت قبول کریں، جے سینا مفرور ہے، تم واپس چلے جاؤ اور اپنے سالار سے کہو کہ آجائے اور قلعہ لے لے۔ ہماراسالار تو آئے گا ہی ۔۔۔قاصد نے کہا۔۔۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اپنے فوجی کے قتل عام کے ذمہ دار تم ہو گے۔
تم چلے جاؤ ۔۔۔قلعے دار نے کہا۔۔۔ یہ پیغام جے سینا کے نام ہے ،اور وہ یہاں نہیں ہے اور اس قلعے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے، اگر اس کا کچھ تعلق ہے تو یہ بھی سن لو کہ جے سینا ہمیں حکم دے گیا ہے کہ مسلمانوں کی فوج آجائے تو اس کا مقابلہ بے جگری سے کرنا۔
قاصد جب محمد بن قاسم کو پیغام کا جواب قلعے دار کی زبانی دے چکا، تو اس سے کچھ دیر بعد برہمن آباد سے ایک جاسوس آیا جس نے یہ خبر دی کہ جے سینا چند دن برہمن آباد میں رہا تھا ،اس نے اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا تھا، اس نے دوسرے قلعوں سے بھاگے ہوئے فوجیوں کو بھی اس فوج میں شامل کر لیا ہے ،اور اب وہ برہمن آباد میں نہیں ہے، جاسوس نے بتایا کہ جے سینا چینسر کی طرف چلا گیا ہے۔
وہ مدد اکٹھی کرتا پھر رہا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہم اس کا انتظار نہیں کریں گے ۔
برہمن آباد میں ہندوؤں کی جو فوج تھی اس کی تعداد چالیس ہزار تھی اور اس فوج کو بڑی سخت لڑائی لڑنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔
محمد بن قاسم نے برہمن آباد کی جنگ کے لیے اپنا طریقہ کار بدل لیا ،اس نے قلعے کا محاصرہ کرنے کی بجائے قلعے کے ذرا قریب ہوکر اپنی خیمہ گاہ کے ارد گرد خندق کھدوا لی اور اپنے ایک دو آدمیوں کو آگے بھیجا کہ وہ قلعے کے قریب جاکر اعلان کریں کہ قلعے کے دروازے کھول دو اگر ہم نے قلعہ لڑ کر لیا تو کسی کی بھی جان بخشی نہیں کی جائے گی۔
یہ آدمی آگئے اور انھوں نے کئی بار اعلان کیا لیکن اس کے جواب میں قلعے سے ان پر تیر آئے اور وہ واپس آگئے محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو باہر نکالا۔
دوپہر کا دن تھا اور رجب 93 ہجری کی پہلی تاریخ تھی قلعے کے دروازے کھلے روکے ہوئے سیلاب کے مانند قلعے سے ایک لشکر نکلا اس کے آگے آگے دس بارہ آدمی ڈھول بجا رہے تھے، بڑی تیزی سے یہ لشکر جو مختلف دروازوں سے نکلا تھا لڑائی کی ترتیب میں آگیا اور مسلمانوں پر حملہ کر دیا ،حملہ بڑا ہی زور دار تھا ایک بار تو محمد بن قاسم کے لشکر مجاہدین کے پاؤں اکھڑ گئے، انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ برہمن آباد کی فوج یہ دلیرانہ کارروائی کرے گی۔
محمد بن قاسم نے یہ حملہ روک تو لیا لیکن اسی میں شام ہو گئی ،لڑائی کے دوران دشمن کے ڈھول بجتے تھے اور اس کی فوج کا جوش اور لڑنے کا جذبہ ذرا سا بھی کم نہ ہوا۔
شام ہوتے ہی ہندو فوج قلعے میں واپس چلی گئی اس کی واپسی کا انداز ایسا تھا کہ آہستہ آہستہ پیچھے سے سپاہی اور سوار قلعے کے دروازے میں غائب ہو تے گئے۔ مسلمان جب ان کے تعاقب میں آگے گئے تو دیوار کے اوپر سے ان پر تیروں کا مینہ برسنے لگا مسلمان اپنی خیمہ گاہ میں واپس آگئے۔
*=÷==÷=÷۔=÷=÷=÷*
رات کو محمد بن قاسم نے تمام سالاروں کو بلایا اور دشمن کے لڑنے کے اس طریقے کے متعلق تبادلہ خیالات کیا، انہیں اپنی تجویزیں بتائیں اور ان سے مشورہ لیا۔
ہندو اس کوشش میں ہے کہ ہم قلعے کو محاصرے میں نہ لے سکیں۔۔۔ آخر میں محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔وہ میدان میں لڑنا چاہتے ہیں ہم ان کی یہ خواہش پوری کر دیں گے، لیکن انہیں قلعے کی سہولت حاصل ہے ہم ان کا تعاقب نہیں کر سکتے آپ سب کی عمر اور تجربہ مجھ سے زیادہ ہے میں آپ سب کے مشوروں کا احترام کرتا ہوں،،،،،،، ایک تو یہ حقیقت سامنے رکھیں کہ ہمارے مجاہدین تھک چکے ہیں ان کے جذبے نہیں تھکے، لیکن گوشت اور ہڈیوں کا جسم ایک نہ ایک دن ٹوٹنے پھوٹنے لگتا ہے ،دوسری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ قلعے کو محاصرے میں رکھنا ضروری ہے، اگر ہم محاصرہ نہیں کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے دشمن کے لئے کمک اور رسد کے راستے کھلے رکھے ہوئے ہیں، جے سینا قلعے میں نہیں، وہ اردگرد کے حاکموں اور راجوں سے مدد لینے گیا ہوا ہے، اس کا راستہ روکنا ہے وہ اکیلا واپس نہیں آئے گا فوج لے کر آئے گا ،یہ تو آپ نے دیکھ لیا ہے کہ دشمن کی اس فوج میں کتنا جوش و خروش پایا جاتا ہے ،اس فوج میں عزم ہے۔
ابن قاسم!،،،،،، محمد بن قاسم کے باپ کی عمر کے ایک سالار نے کہا۔۔۔ اتنا زیادہ جوش و خروش ٹھنڈا بھی ذرا جلدی ہو جایا کرتا ہے، اگر تو کچھ پریشان ہے تو اسے دماغ سے نکال دے، اللہ نے تجھے ہم سے زیادہ عقل اور جنگی صلاحیتیں عطا کی ہیں، انہیں کام میں لا ہم تیرے ساتھ ہیں، رات کو لشکر تلاوت قرآن اور عبادت میں مصروف رہتا ہے، ہم اللہ کو نہیں بھولے اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔
جہاں تک عبادت کا تعلق تھا محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کی ہدایات کے مطابق آیت الکرسی کا ورد زیادہ کرتا تھا، لڑائی شروع ہونے سے پہلے وہ آیت الکرسی ضرور پڑھتا تھا ،نماز کے علاوہ رات کو نوافل بھی ادا کرتا تھا، اور اس کے ساتھ نئی سے نئی جنگی چالیں سوچتا رہتا تھا۔
کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ منجنیق اور نفت کے تیر رات کو قلعے کے اندر پھینکیں؟،،،،، ایک سالار نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ یہ بڑا شہر ہے میں یہاں کی آبادی پر یہ قہر نازل نہیں کرنا چاہتا، عورتیں اور بچے بھی مارے جائیں گے آگ اور پتھروں کا استعمال وہاں کرنا مناسب ہوتا ہے جہاں محاصرہ لمبا ہوتا جاتا ہے، اور دشمن ہمارا نقصان کئے چلا جاتا ہے، یہاں ابھی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی، پہلے دیکھ لیں کہ دشمن کتنے دن مقابلے میں ڈٹا رہتا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷*
دوسرے دن برہمن آباد کی فوج نے پھر وہی کاروائی کی پہلی ،ڈھول بجانے والے دس بارہ آدمی ایک دروازے سے نکلے ان کے بعد ایک دروازے سے پیادے اور دوسرے سے سوار نکلے، محمد بن قاسم نے رات کو سالاروں سے صلاح و مشورہ کرکے جو اسکیم بنائی تھی اس کے مطابق سالاروں نے اپنے دستوں کو صبح طلوع ہوتے ہی خیمہ گاہ سے نکال کر ان جگہوں پر کھڑا کردیا تھا جو گزشتہ رات طے ہوئی تھی، سوار دستے پہلوؤں پر کھڑے کئے گئے تھے درمیان میں پیادہ دستے تھے،
گزشتہ روز کی لڑائی میں یہ دیکھا گیا تھا کہ ہندو فوج قلعے سے دور نہیں آتی تھی اور اس کی کوشش یہ بھی تھی کہ قلعے کی دیوار کے قریب رہا جائے، محمد بن قاسم نے پہلے ہی سوچی ہوئی اسکیم کے مطابق درمیان میں رکھے ہوئے پیادہ دستوں کو آگے بڑھا دیا اور وہ دشمن کے ساتھ الجھ گئے ،ان کے سالار کو علم تھا کہ کیا کرنا ہے، جب لڑائی شدت اختیار کر گئی تو پیادہ دستے اس طرح پیچھے ہٹنے لگے جیسے دشمن کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے اور پسپا ہو رہے ہوں ،دشمن کے دستے مسلمانوں کے پیادہ دستوں کے ساتھ ہی آگے آ گئے، دشمن کے دستوں کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ قلعے سے دور چلے گئے ہیں، محمد بن قاسم نے اپنے پہلوؤں والے سوار دستوں کو اشارہ کردیا ،سواروں نے سرپٹ گھوڑے دوڑائے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دشمن کے پہلوؤں اور عقب سے بھی ان پر ٹوٹ پڑے، یہ مسلمانوں کی ایک خاص چال تھی جو سب سے زیادہ خالد بن ولید نے چلی تھی، اس کے بعد یہ اسلامی طریقہ جنگ بن گئی تھی، وہی چال محمد بن قاسم نے چلی اور برہمن آباد کی فوج کی اچھی خاصی سوار اور پیادہ نفری کو خاک و خون کے جال میں پھانس لیا۔
ہندو کٹنے لگے، ان کی پسپائی کا راستہ مسدود ہو چکا تھا، کیونکہ ان کے عقب میں بھی مجاہدین تھے لیکن ہندو فوج کا کمانڈر دانشمند تھا اس نے قلعے سے ایک سوار دستہ نکالا جس نے ان مجاہدین پر ہلہ بول دیا جو قلعے کے دستوں کے عقب میں تھے اس حملے سے گھیرا ٹوٹ گیا اور ہندو نکل گئے، لیکن وہ بے شمار لاشیں گرے ہوئے زخمی ہتھیار اور گھوڑے پیچھے چھوڑ گئے، یہ معرکہ شام سے کچھ وقت پہلے ختم ہو گیا، شام تک مجاہدین اپنے شہیدوں کی لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا کر خیمہ گاہ میں لے آئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
رات کے وقت محمد بن قاسم نے کچھ دستے خیمہ گاہ سے نکالے اور انہیں قلعے کے ارد گرد دیوار سے دور دور محاصرے میں بٹھادیا، یہ محاصرہ اس قسم کا تھا کے دستوں کے درمیان فاصلہ تھا یعنی جگہ خالی تھی، یعنی یہ مجاہدین کی پوری فوج کا محاصرہ نہیں تھا، دستوں کو قلعے کے اردگرد رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ باہر سے قلعے والوں کو کوئی مدد نہ مل سکے۔
اس سے اگلے روز قلعے سے باہر نکل کر حملہ کرنے والے ہندو دستوں کا مقابلہ اس طرح کیا گیا کہ جونہی دستے باہر آنے لگے تو پہلوؤں کے سواروں نے گھوڑے دوڑا دیے اور جتنی نفری باہر آئی تھی اس پر حملہ کر دیا، اس نفری نے واپس اندر چلے جانے کی بہت کوشش کی تھی لیکن انہیں دروازوں میں سے اندر جانا تھا اور ہر کوئی اندر جانے کی جلدی میں تھا اس لیئے گھوڑے دروازے میں پھنسے جا رہے تھے، اور پیادے بھی ان میں پھنس گئے، کچھ کچلے بھی گئے۔
چند دن اور یہی سلسلہ چلتا رہا قلعے سے فوج نکلتی اس کے ساتھ ڈھول بج رہے ہوتے کبھی تو بڑا خونریز معرکہ لڑا جاتا کبھی مسلمان انہیں دروازے سے ہی نکلنے نہ دیتے پھر ایک دو دنوں کے وقفے سے قلعے سے دستے نکلتے اور تصادم کے بعد لاشیں اور زخمی پیچھے چھوڑ کر چلے جاتے، پھر یہ وقفہ بڑھنے لگا اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی فوج خاصا نقصان اٹھا چکی ہے، نقصان تو باہر پڑا نظر آتا رہتا تھا، دشمن کی جو لاشیں اور جو شدید زخمی باہر رہ جاتے تھے انہیں اٹھا لے جانے کی کوئی جرات نہیں کرتا تھا ،پہلے معرکے کے بعد شام کے دھندلکے میں ہندو اپنی لاشیں اور زخمی اٹھانے آئے تھے لیکن مسلمان تیر اندازوں نے انہیں تیروں کا نشانہ بنا ڈالا تھا، اس کے بعد انھوں نے ایسی جرات نہیں کی تھی ،پہلے دنوں کی لاشیں گلنے سڑنے لگیں تھیں اور تعفن اتنا بڑھ گیا تھا کہ دور دور تک کھڑا نہیں رہا جاسکتا تھا، رات کو اس علاقے کے بھیڑئے لومڑی اور گیدڑ وغیرہ کچھ لاشوں کو کھا جاتے تھے۔
*==÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ذوالحجہ 94 ہجری کے ایک روز مسلمانوں کے لئے کمک اور رسد متوقع تھی لیکن یہ قافلہ نہ پہنچا، دو دن مزید انتظار کیا گیا لیکن بے سود ،لیکن ایک رات ان دستوں میں سے ایک پر شب خون مارا گیا جو محاصرے کے ہوئے تھے، ان سے مجاہدین کو کچھ نقصان پہنچا محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ شب خون مارنے والے قلعے میں سے نہیں نکلے تھے بلکہ باہر سے آئے تھے یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ کون تھے ۔
اس سے اگلی رات پھر ایسا ہی شب خون پڑا اور اپنے ایک اور دستیے کا کچھ نقصان ہو گیا،
مسلمانوں کی فوج کا جانی نقصان پہلے ہی خاصا ہوچکا تھا اب ان شبخونوں نے کچھ نقصان کیا ،ادھر سے رسد اور کمک بھی نہیں آ رہی تھی ،محمد بن قاسم کے حکم سے دو آدمیوں کو دہلیلہ اور بہرور بھیجا گیا کہ وہ معلوم کر کے آئیں گے کمک اور رسد کیوں نہیں آئی، یہ دونوں قلعے دور نہیں تھے ایک ہی دن میں جا کر واپس آیا جا سکتا تھا، لیکن تین دن تک دونوں واپس نہ آئے۔
دو اور آدمی بھیجے گئے شام سے ذرا پہلے ایک آدمی اس حالت میں واپس آیا کہ اس کے کپڑے خون سے لال تھے اور وہ گھوڑے کی پیٹھ پر جھکا ہوا بیٹھا تھا، اس نے بتایا کہ دہلیلہ سے ابھی وہ دور ہی تھے کہ چار آدمیوں نے ان پر حملہ کر دیا اس کا ایک ساتھی مارا گیا اور یہ زخمی حالت میں واپس آ سکا ،اس سے کچھ شک ہوا، شک یہی ہو سکتا تھا کہ رسد کو بھی راستے میں روکا جا رہا ہے۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے کہا کہ جو دستے محاصرے میں لگے ہوئے ہیں وہ رات کو تیار رہیں اور شب خون مارنے والوں میں سے کسی ایک دو کو پکڑنے کی کوشش کریں۔
شب خون ہر رات کا معمول بن گیا تھا آخر ایک روز شب خون مارنے والوں میں سے دو کو گرا لیا گیا، انہیں محمد بن قاسم کے پاس لائے، وہ کچھ بتاتے نہیں تھے، محمد بن قاسم نے حکم دیا کے دونوں کو ایک گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھوڑا دوڑا دو، وہ جانتے تھے کہ وہ کتنی بری موت مریں گے انہوں نے راز کی بات اگل دی ،انہوں نے بتایا کہ یہ جے سینا کی فوج ہے جو وہ ایک مقام بھاٹیہ سے تیار کر کے لایا ہے، اس علاقے کا حاکم رمل تھا جو رومل بادشاہ کے نام سے مشہور تھا، ان آدمیوں نے بتایا کہ جے سینا فوج کو برہمن آباد لا رہا تھا لیکن اسے پتا چلا کہ برہمن آباد تو محاصرے میں ہے تو اس نے برہمن آباد سے دور ہی پڑاؤ کر لیا ،اور وہاں سے وہ اپنے دستے شب خون مارنے کے لیے بھیج رہا تھا۔
ان قیدیوں نے یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کے لئے برہمن آباد کی طرف جو کمک اور رسد آئی تھی وہ جے سینا کے دستے راستہ روک کر لوٹ لیتے تھے، پہلے جو دو آدمی بھیجے گئے تھے انہی جے سینا کے آدمیوں نے پکڑ کر مار ڈالا تھا ،جے سینا نے اپنے آدمی اس طرح پھیلا دئیے تھے کہ بہرور اور دہلیلہ کی طرف سے کوئی مسلمان برہمن آباد کی طرف جارہا ہوتا تو اسے قتل کر دیتے تھے۔
محمد بن قاسم نے سالاروں کو بلا کر اس صورتحال سے آگاہ کیا اور انہیں کہا کہ ہر سالار اپنے اپنے دستوں میں سے چن کر کچھ آدمی دے تاکہ جے سینا کا تعاقب کیا جائے۔ سالاروں نے فوراً چن کر آدمی نکالے، محمد بن قاسم نے ان کا الگ دستہ بنا دیا ،کسی بھی تاریخ میں اس دستے کی نفری نہیں لکھی گئی کہ کتنی تھی ،یہ واضح ہے کہ اس دستے کے ساتھ اس نے موکو، نباۃ بن حنظلہ کلابی، عطیہ تغلبی، صارم بن صارم ہمدانی، اور عبد الملک مدنی کو عہدے دار مقرر کیا، اس دستے کی کمان دو آدمیوں کو دی گئی ایک موکو تھا اور دوسرا خریم بن عمر المدنی، موکو ابھی تک ہندو ہی تھا ،لیکن وہ اپنی وفاداری ثابت کرچکا تھا ،اور اس میں دوسری خوبی یہ تھی کہ مقامی آدمی ہونے کی وجہ سے وہ ان علاقوں سے واقف تھا۔
*=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
اس دوران ایک شب خون اور پڑا اس میں سے بھی تین آدمیوں کو پکڑ لیا گیا، انہوں نے بتایا کہ جے سینا کس جگہ اپنا اڈا بنا رکھا ہے، اسی روز یہ دستہ جو خاص طور پر اس مہم کے لیے تیار کیا گیا تھا موکو اور خریم بن عمر المدنی کی قیادت میں اس علاقے کی طرف چل پڑا ،تینوں قیدیوں کو بھی ساتھ لے لیا گیا تھا کہ ان کی اطلاع غلط ہوئی تو انہیں قتل کر دیا جائے، انہیں رہنما بنانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ موکو ساتھ تھا اور وہ ان تمام علاقوں سے واقف تھا۔
یہ دستہ سورج غروب ہوتے ہی چل پڑا ،برہمن آباد سے کئی میل دور پہنچے تو اچانک دو گھوڑے جو کہیں رکے کھڑے تھے سرپٹ دوڑ پڑے ان کے پیچھے چار سواروں کو دوڑا دیا لیکن یہ ان دونوں سواروں تک نہ پہنچ سکے، ان چاروں کو کہا گیا تھا کہ تعاقب میں بہت دور نہ جائیں اور انہیں یہ شک پیدا ہو گیا تھا کہ یہ سوار جے سینا کے ہی ہونگے چاروں مسلمان سوار واپس آ گئے۔
اس خصوصی دستے کی پیشقدمی کی رفتار تیز کردی گئی، جے سینا کے اڈے کا علاقہ ابھی خاصا دور تھا صبح تک پہنچ جانے کی توقع تھی، اس دستے کے گھوڑوں کی رفتار تیز تو تھی لیکن گھوڑے سرپٹ نہیں دوڑ رہے تھے، نہ ہی اتنی دور تک انہیں دوڑایا جاسکتا تھا۔
رات بھر چلتے رہے اور صبح وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں ہر طرف ایسے نشان تھے جیسے یہاں کسی فوج کا پڑاؤ رہا ہو خیمیں لگا کر اکھاڑے گئے تھے، گھوڑے اپنے نشان چھوڑ گئے تھے، اس سمت کو معلوم کرنا مشکل نہ تھا جس سمت یہ گھوڑے گئے تھے، مسلمان دستہ کچھ دور تک گیا راستے میں کچھ آدمی ملے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک فوج آدھی رات کے کچھ بعد یہاں سے گزری ہے، ان مقامی آدمیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ راجہ داہر کے بیٹے جے سینا کی فوج تھی، وقت اور فاصلے سے حساب لگایا گیا تو تعاقب بیکار نظر آیا۔
اس مسلمان دستے کے عہدے داروں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ وہاں سے بہرور اور دہلیلہ کی طرف کوچ کیا جائے تاکہ اس علاقے میں جے سینا کا کوئی آدمی نہ رہے، ایک جگہ سواروں اور گھوڑوں کو آرام دینے اور کچھ کھانے پینے کے لیے کچھ دیر کے لیے پڑاؤ کیا گیا پھر یہ دستہ چل پڑا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ دو شترسوار دکھائی دئیے، مسلمانوں کے دستے کو دیکھ کر وہ راستہ بدل لیے ان کے پیچھے پانچ چھے سواروں کو دوڑایا گیا ،اگر وہ مشکوک آدمی نہ ہوتے تو راستہ نہ بدلتے انہوں نے اپنے خلاف یوں شک پکا کر دیا کہ اونٹوں کو تیز دوڑا دیے، گھوڑے ان تک پہنچ گئے اور ان دونوں کو پکڑ لائے، پہلے تو ان دونوں نے خوفزدگی اور سادگی کا اظہار کیا لیکن ان کے پہلوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی بچھیوں کی انیاں رکھی گئیں تو انہوں نے بتادیا کہ وہ جے سینا کے سپاہی ہیں، ان سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ جے سینا چترور کے علاقے میں چلا گیا ہے اور اس نے برہمن آباد کے اردگرد اور برہمن آباد اور بہرور کے درمیانی علاقے میں جو فوجی پھیلا رکھے تھے انہیں پیغام بھیج دیے تھے کہ وہ اس علاقے کو چھوڑ دیں اور اگر وہ اس کے ساتھ رہنا چاہیں تو چترور آ جائیں یا اپنے گھروں کو چلے جائیں ۔
دو تین دن محمد بن قاسم کا ترتیب دیا ہوا دستہ اس سارے علاقے میں گھوم پھر کر واپس آیا اور اس کے فورا بعد کمک اور رسد بھی پہنچ گئی۔
برہمن آباد کے محاصرے کو چھ مہینے گزر چکے تھے ڈیڑھ دو مہینوں سے اندر کی فوج نے باہر آکر حملے کرنے چھوڑ دیے تھے، محمد بن قاسم نے اپنی پوری فوج کو خیمے سے نکال کر قلعے کو پوری طرح محاصرے میں لے لیا تھا اور اس نے دیوار میں نقب یا سرنگ لگانے کا ارادہ کرلیا تھا، اس سے پہلے قلعے کے اندر سنگ باری اور آتش بازی ضروری تھی لیکن محمد بن قاسم شہری آبادی کو کوئی بھی نقصان پہنچانے سے گریز کر رہا تھا۔
ایک روز محمد بن قاسم نے سندھی زبان میں تین چار چھوٹے چھوٹے پیغام لکھوائے، انہیں تیروں کے ساتھ باندھا، رات کے وقت دیوار کے قریب جاکر یہ تیر اس طرح چھوڑے گئے کہ شہری آبادی میں گرے، یہ تو معلوم ہی تھا کہ شہری آبادی کس طرف ہے ،یہ پیغام کی ایک ہی تحریر تھی، جو کچھ اس طرح تھی کہ غیر فوجی لوگ اپنی فوج کو مجبور کریں کہ قلعے کے دروازے کھول دیں ورنہ ہم شہر پر پتھر اور آگ برسائیں گے، اگر شہری ہمارے ساتھ تعاون کریں تو قلعہ فتح ہونے کی صورت میں کسی شہری کو پریشان نہیں کیا جائے گا ان کی عزت جان اور مال کی پوری حفاظت کی جائے گی۔
تین چار دن گزرے تو دو آدمی مسلمانوں کے لشکر میں آئے، انہوں نے بتایا کہ وہ رات کو قلعے کے اندر سے نکلے تھے، بند قلعے میں سے کسی کا باہر آنا یا اندر جانا ممکن نہیں ہوتا تھا ،لیکن ان دونوں نے بتایا کہ شہر کے پانچ ،سات صاحب حیثیت ہندو جن میں مندر کا بڑا پنڈت بھی شامل تھا ایک دروازے کے پہرے پر کھڑے فوجیوں کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ وہ مسلمانوں تک پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ قلعہ لے لو لیکن ہماری جان بخشی کی ضمانت دو ،ان چھے مہینوں کے محاصرے میں شہر کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ لوگوں نے ایک وقت کھانا شروع کردیا تھا اور پانی کی بھی قلت پیدا ہوگئی تھی ،تجارت پیشہ لوگوں کو تو بہت ہی نقصان ہو رہا تھا ،فوج بھی تنگ آ چکی تھی، ان دو آدمیوں کے بیان کے مطابق آدھی فوج جو باہر آکر لڑتی رہی تھی ماری جا چکی ہے، مسلمانوں کے پھینکے ہوئے پیغامات جو تیرا کے ذریعے اندر پہنچائے گئے تھے شہریوں کے ہاتھ لگ گئے تھے، ان سے انہیں یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ مسلمان انہیں پورے حقوق دیں گے۔
شہر کے جو معزز افراد فوجیوں سے ملے تھے انھیں فوجیوں نے بتایا کہ وہ خود ہتھیار ڈالنا مناسب نہیں سمجھتے، انھوں نے اس وفد کو رازداری سے یہ طریقہ بتایا کہ وہ ایک دو دنوں میں جربطری دروازے سے باہر نکلیں گے اور مسلمان پر حملہ کریں گے، ہم بھاگ کر اندر آ جائیں گے اور یہ دروازہ کھلا چھوڑ دیں گے۔
محمد بن قاسم نے شہریوں کے ان نمائندوں کو یقین دلایا کہ ان کی شرائط پوری کی جائیں گی، وہ دونوں رات کے اندھیرے میں گئے اور فوجیوں نے ان کے لئے دروازہ کھول دیا، دو تین دنوں بعد جربطری دروازہ کھلا محمد بن قاسم اسی کا منتظر تھا اندر سے کچھ نفری نکلی، مسلمانوں کا ایک دستہ تیار تھا محمد بن قاسم کے اشارے پر اس دستے نے ہندو فوجیوں پر حملہ کیا وہ بھاگ کر اندر چلے گئے اور دروازہ کھلا رہنے دیا ،محمد بن قاسم کا یہ دستہ قلعے میں داخل ہو گیا اور اس کے پیچھے مجاہدین کا تمام تر لشکر اس دروازے میں داخل ہو گیا، قلعے میں
جو فوج تھی وہ دوسرے دروازے سے نکل بھاگی۔
*<=========۔========>*
*قسط نمبر/28*
برہمن آباد محمد بن قاسم کی فتوحات کا ایک اور سنگ میل تھا، مجاہدین نے قلعے پر اسلامی پرچم چڑھاکر برہمن آباد کو اسلام کا ایک اور روشنی کا مینار بنا دیا۔
برہمن آباد کا قلعہ جو ایک قلعہ بند شہر تھا تکبیر اور رسالت کے نعروں سے لرز رہا تھا، شہر میں بھگدڑ بپا ہوگئی تھی، شہر کے لوگ اس ڈر سے بھاگنے اور چھپنے کی کوشش کر رہے تھے کہ فاتح فوج ان کے گھروں پر ٹوٹ پڑے گی اور کچھ بھی نہیں چھوڑے گی، لوگ اپنی جوان لڑکیوں اور بچوں کو چھپاتے پھر رہے تھے ،بعض نے اپنی لڑکیوں کو مردانہ لباس پہنا دیے تھے، بہت سے لوگ بڑے مندر میں جا چھپے تھے۔
اے لوگو !،،،،،مندر میں پناہ لینے والے ہجوم سے بڑے پنڈت نے کہا۔۔۔ مت ڈرو،،، مت بھاگو ،،،ہم نے تمہارے لئے امن و امان کی ضمانت لے لی ہے، مسلمانوں کے لیے شہر کے دروازے ہم نے خود کھلوائے ہیں، تم پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا، جاؤ گھروں کے دروازے کھلے رکھو، تمہاری دہلیزوں پر کسی مسلمان فوجی کا قدم نہیں پڑے گا۔
ادھر شہر میں محمد بن قاسم کا یہ حکم بلند آواز سے مجاہدین تک پہنچایا جا رہا تھا کہ سوائے ان افراد کے جو ابھی تک لڑنے پر آمادہ ہوں، کسی شہری، فوجی، مرد، عورت اور بچے پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، کسی کے گھر میں جھانکنے سے گریز کیا جائے۔
یہ اعلان عربی اور سندھی زبانوں میں دہرائے جارہے تھے، سندھی زبان میں اس لئے کے موکو اپنی فوج کے ساتھ محمد بن قاسم کے ساتھ تھا ،اور محمد بن قاسم کی فوج میں نومسلم سندھی بھی تھے جو ابھی عربی زبان نہیں سمجھتے تھے۔
محمد بن قاسم نے دوسرا حکم یہ دیا کہ کسی فوجی کو نہ بھاگنے دیا جائے، اس نے اپنے سالاروں سے کہا تھا کہ ایک جگہ سے بھاگی ہوئی فوج دوسری جگہ جاکر وہاں کی فوج کے ساتھ جا ملتی ہے۔
ابن قاسم !،،،،شعبان ثقفی نے مسکرا کر کہا۔۔۔ میں نے کچھ اور دیکھا ہے اور جو میں دیکھتا ہوں وہ کوئی اور نہیں دے سکتا، ایک جگہ سے بھاگی ہوئی فوج دوسری جگہ کی فوج کو اتنا ڈراتی ہے کہ اس کا لڑنے کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے ،بھاگنے والوں کو بھاگ جانے دیں اور جنہیں بھاگنے سے روکنا ہے وہ میری نظروں میں ہیں بلکہ میرے جال میں ہیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ایسی ہی بھگدڑ اور افراتفری اس محل میں بھی بپا ہو گئی تھی جس میں راجہ داہر آ کر ٹھہرا کرتا تھا، اس کے بیٹے یہاں ٹھہرتے تھے اور کبھی کبھی اس کی کوئی رانی کچھ دنوں کے لئے یہاں آیا کرتی تھی، محل میں اطلاع پہنچی کے عرب کی فوج قلعے میں داخل ہو گئی ہے تو کسی نے یقین نہ کیا۔
ہو نہیں سکتا ۔۔۔داہر کے ایک وزیر نے غصے سے کہا ۔۔۔چھے چاند ڈوب چکے ہیں مسلمانوں کو شہر کی دیوار کے قریب آنے کی جرات نہیں ہوئی، تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔
یہ راجہ داہر کا وہی وزیر تھا جس کا نام سیاکرتھا ،اور جو برہمن آباد کے محاصرے سے قبل محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کرچکا تھا ،محمد بن قاسم نے پہلے تو اسے اپنے ساتھ رکھا پھر سیاکر کی درخواست پر اسے برہمن آباد بھیجوادیا ،وہ برہمن آباد کی فتح کے بعد علی الاعلان اطاعت قبول کرنا چاہتا تھا۔
مہاراج !،،،،،ایک اور آدمی نے آ کر اطلاع دی۔۔۔ مسلمان قلعے میں آگئے ہیں، رانی کو یہاں سے نکال دیں۔
رانی سو رہی ہے ،،،،سیاکرنے کہا۔۔۔ جب تک میں مسلمانوں کو نہ دیکھ لوں رانی کو نہ جگانا۔
یہ راجہ داہر کی رانی لاڈلی تھی، مورخوں نے اس کا نام صرف لاڈی لکھا ہے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ لاڈی جو ابھی جوانی کی عمر میں بھی تھی راجہ داہر کی چہیتی رانی تھی، وہ راجہ کے امور اور مسائل میں عملی طور پر دلچسپی لیتی تھی، اس کی زیادہ تر دلچسپی فوج کے ساتھ تھی ،سندھ کی فوج کو ہرقلعے اور ہر میدان میں شکست ہوئی اور یہاں کے قلعہ بند شہر اور قصبے پکے ہوئے پھل کی طرح ایک ایک کر کر محمد بن قاسم کی جھولی میں گرگئے، تو رانی لاڈلی ایک روز راجہ داہر کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔
کیوں لاڈی !،،،،،راجہ داہر نے اسے پوچھا تھا۔۔۔ آج تمہارے چہرے پر ہلکے ہلکے بادلوں کے سائے سے کیوں نظر آ رہے ہیں ۔
میرے چہرے پر نہیں مہاراج!،،،، لاڈی نے جواب دیا تھا ۔۔۔سارے سندھ پر بڑے گہرے بادلوں کے سائے پھیلتے جارہے ہیں، یہ عرب سے اٹھی ہوئی سیاہ گھٹائیں ہیں جن کے سائے مہران کی لہروں سے ادھر آ گئے ہیں، اور مہاراج کی غیرت کو للکار رہے ہیں۔
کیا ہم مر گئے ہیں رانی!،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہم نے انہیں خود ادھر آنے دیا ہے،،،، راجہ داہر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
مہاراج !،،،،،رانی لاڈی نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔۔۔ آج سے نہ میں آپ کی رانی ہوں نہ آپ میرے راجہ ہیں، اگر آپ کے دل میں میرا پیار ہے تو یہ پیار سندھ کی دھرتی کو دے دیں، اگر آپ کو اس دھرتی کی بجائے میرے ساتھ پیار ہے تو محمد بن قاسم کا سر لے آئیں یا اپنا سر کٹوا دیں، میں اب محمد بن قاسم کا یا آپ کا کٹا ہوا سر دیکھنا چاہتی ہوں، مسلمانوں کے قدم راوڑ سے آگے نہ بڑھیں، ان عربوں نے مہران کے پانی کو ناپاک کر دیا ہے،،،،،، آپ کا ہاتھ صرف اس روز میرے جسم کو چھو سکے گا جس روز محمد بن قاسم کا سر میرے سامنے زمین پر پڑا ہو گا، اور اس کی فوج جھاڑو کے بکھرے ہوئے تنکوں کی طرح مہران میں سمندر کی طرف بہی جا رہی ہو گی۔
داہر کوئی بزدل راجہ نہیں تھا کہ اسے بھڑکانے اور مشتعل کرنے کی ضرورت پڑتی، وہ اپنی رانی کے جذبے کو سمجھتا تھا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
ایسے ہی ہو گا اس نے کہا،،،، ایسے ہی ہوگا،،، ہمارے جسم پر پہلا حق سندھ کا ہے تمہارا نہیں، تم ٹھیک کہتی ہو میں تمہارے پاس محمد بن قاسم کا سر لے آؤنگا، یا ہماری لاش آئے گی، جس کے ساتھ سر نہیں ہوگا۔
پھر ایسے ہی ہوا رانی لاڈلی نے بڑے جوش اور جذبے اور بڑے پیار سے داہر کو میدان جنگ کی طرف رخصت کیا تھا، داہر کے ہاتھی کی سونڈ کو اسنے چوما تھا ،وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنے مہاراج اور مہاراج کے دیوہیکل ہاتھی کو جو سفید ہاتھی کے نام سے مشہور تھا آخری بار زندہ دیکھ رہی ہے، لاڈی کو محمد بن قاسم کا سر تو نہ ملا اپنے مہاراج کی لاش ملی جس کے ساتھ مہاراج کا سر نہیں تھا ،اس وقت رانی لاڈی برہمن آباد میں تھی۔
راوڑ کے میدان سے بھاگے ہوئے فوجی جن کی تعداد بہت تھوڑی تھی برہمن آباد پہنچ رہے تھے، لاڈی نے ان سب کو اپنے سامنے کھڑا کرایا پھر حکم دیا کہ برہمن آباد کی تمام فوج اس کے سامنے لائی جائے۔
کیا تم زندہ رہنے کے قابل رہ گئے ہو؟،،،، رانی لاڈی نے اپنی فوج سے کہا گھوڑے پر سوار تھی۔۔۔ کیا تم اپنی بیویوں کا سامنا کر سکو گے، تم سے زیادہ ناپاک اور کون ہوگا جن کی دھرتی پر دوسرے ملک سے آئی ہوئی تھوڑی سی فوج دندناتی پھر رہی ہے، تمہارے مہاراجہ نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کا سر لائیں گے یا اپنا سر کٹوا دیں گے، مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ مہاراج کی لاش مل گئی ہے لیکن سر کے بغیر ہے، تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تمہارے جسموں کے ساتھ تمہارے سر موجود ہیں،،،،،،، تم گھروں میں بیٹھ جاؤ اب ہم لڑیں گی ،میں عورتوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑاؤنگی، اگر ہم ہار گئے تو مسلمان ہمیں اپنے ساتھ لے جائیں گے، ہم خوش ہونگے کہ ایک بہادر قوم کی لونڈیاں بن گئی ہیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ لاڈی کی تقریر اس قدر اشتعال انگیز تھی کہ اس کی فوج نے جوش و خروش سے جائے کار لگانے شروع کر دیے، گھوڑے بھی جیسے بے چینی سے کھر مارنے لگے تھے ،لاڈی نے اس فوج میں سے کچھ عہدیدار ،ٹھاکر اور سپاہی چنے، کسی بھی تاریخ میں ان منتخب افراد کی صحیح تعداد نہیں ملتی ایک اشارہ ملتا ہے کہ یہ تعداد کم از کم ڈیڑھ ہزار اور زیادہ سے زیادہ دو ہزار تھی۔ اور یہ اس فوج کی کریم تھی یا جیسے دودھ سے بالائی اتاری گئی ہو، لاڈی نے اس دستے کو اپنی کمان میں لے لیا اور اس کی ٹریننگ شروع کردی۔
ٹریننگ کے دو پہلو تھے ایک جسمانی دوسرا جذباتی ،جسمانی طور پر تو یہ سپاہی وغیرہ تربیت یافتہ ہی تھے، اور انہیں لڑائی کا تجربہ بھی تھا ،لیکن جذباتی لحاظ سے انہیں وہ اس قدر مشتعل کرتی تھی کہ وہ راوڑ جاکر مسلمانوں پر حملہ کر دینے کو بے تاب ہونے لگے تھے ،ان کی تنخواہیں دوسری فوج کی نسبت سہ گناہ تھی، اور انہیں ایسی مراعات دی گئی تھی جو دوسری فوج کو کبھی نہیں دی گئی تھی، پھر اس دستے کے لیے نقد انعام مقرر کیا گیا جو انہیں مسلمانوں کو شکست دینے کے بعد ملنا تھا، نقد انعام کے علاوہ وہ ایک انعام یہ بھی مقرر کیا گیا تھا کہ فتح پر ہر فرد کو ایک ایک جوان لڑکی دی جائے گی۔
محمد بن قاسم نے جب برہمن آباد کو محاصرے میں لیا تھا تو قلعے کے اندر سے فوج کے دو تین دستے باہر آ کر مسلمانوں پر حملے کرتے اور واپس قلعے میں چلے جاتے تھے یہ حملے زیادہ تر لاڈی کا یہ دستہ کرتا تھا ،محاصرے کے آخری دو مہینوں میں رانی لاڈی نے اس دستے کو اپنے پاس رکھ لیا تھا، اسے امید تھی کہ مسلمان محاصرہ اٹھا کر چلے جائیں گے اور اس وقت ان پر یہ دستہ حملہ کرے گا، رانی لاڈی نے اس دستے کو باؤلا اور خونخوار بنا دیا تھا۔
یہ دستہ محل کے قریب ہی کہیں رکھا گیا تھا۔ محمد بن قاسم کی فوج اس طرح شہر میں داخل ہوگئی کہ اس دستے کو خبر ہی نہ ہوئی، لیکن محمد بن قاسم کے جاسوس کے سربراہ شعبان ثقفی کو قلعے میں داخل ہوتے ہی پتہ چل گیا تھا کہ یہاں جانبازوں کا ایک دستہ بھی ہے، برہمن آباد میں شعبان ثقفی کے جاسوس بھی موجود تھے جو سندھ کے باشندے تھے، جب مسلمان قلعے میں داخل ہوئے تو ان جاسوسوں نے شعبان ثقفی کو قلعے کے اندر کی تمام رپورٹ دی تھی ،ان میں چند ایک بڑے قیمتی راز تھے اور اس دستے کے متعلق بھی جاسوسوں نے تفصیلی رپورٹ دی تھی، شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو بتا کر ایک دستہ ساتھ لیا اور اس دستے کو گھیرے میں لے لیا، اتنی محنت سے تیار کیا ہوا جانبازوں کا دستہ لڑنے کے لیے تیار بھی نہیں ہوا تھا کہ پکڑا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
اس دستے کے پکڑے جانے سے محل والوں کو یقین ہوا کہ محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ شہر میں داخل ہو گیا ہے، اس وقت وزیر سیاکر نے رانی لاڈی کو جگایا دن کا وقت تھا اور وہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔
رانی !،،،،،سیاکرنے اسے کہا ۔۔۔عرب کی فوج شہر میں آ گئی ہے۔
تم مسلمانوں سے اتنے خوفزدہ ہو کہ وہ محاصرے سے تھکے ہارے بیٹھے ہیں ،اور تمہیں شہر کے اندر نظر آ رہے ہیں ۔۔۔رانی لاڈی نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔کیا میں تم جیسے دانشمند سے یہ توقع رکھوں؟
رانی !،،،،،،سیاکر نے رعب دار لہجے میں کہا۔۔۔ اٹھو اور یہاں سے نکلو، تمہارا حکم مجھ پر چل سکتا ہے مسلمانوں پر نہیں۔
میرے شیر کہاں ہیں؟،،،،، رانی لاڈی بڑی تیزی سے اٹھی اور بولی۔۔۔ انہیں کہو وہ وقت آ گیا ہے جس کے لیے میں نے،،،،،
تمہارے شیر اب مسلمانوں کے قیدی ہیں۔۔۔سیاکر نے کہا ۔۔۔ کیا تم فرار ہونا چاہتی ہو یا اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کروں گی۔
مجھے یہاں سے نکالو ۔۔۔رانی لاڈی نے کہا۔۔۔ میں مردانہ لباس پہن لیتی ہوں۔
اس نے اپنی کنیزوں کو بلا کر کہا ۔۔۔مہاراج داہر کے کپڑے اور تلوار نکال لو اور مجھے پہناؤ۔
تھوڑے سے وقت میں وہ راجہ داہر کے لباس میں ملبوس ہو گئی اور باہر کو چل پڑی، لیکن محل کے احاطے سے نکلی بھی نہیں تھی کہ پندرہ سولہ مسلمان سوار محل کے احاطے میں داخل ہوئے، ان کے آگے آگے شعبان ثقفی تھا اس نے لاڈی کو روک لیا۔
میں تمہاری اطاعت قبول کرچکا ہوں۔۔۔ رانی لاڈی نے اپنی آواز میں مردوں جیسا بھاری پن پیدا کرتے ہوئے کہا۔۔۔ میں لڑنے والوں میں سے نہیں۔
اے خاتون !،،،،،شعبان ثقفی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اگر بھیڑ شیر بن سکتی ہے تو تم یقیناً آدمی ہو، لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ سندھ اور ہند نے ابھی تک ایسا خوبصورت آدمی پیدا نہیں کیا جس کا چہرہ عورتوں جیسا ہو ،اپنے ہاتھ سے پگڑی اتار دو اور بتاؤ تم کون ہو ،اس نے اپنے سواروں سے کہا محل میں جا کر ہر اس مرد اور عورت، آقا اور غلام کو پکڑ لو جو وہاں موجود ہے۔
سواروں کے جانے کے بعد شعبان ثقفی نے گھوڑا لاڈی کے گھوڑے کے قریب کیا اور ہاتھ لمبا کرکے لاڈی کے سر سے پگڑی اتار دی، اس کے لمبے بال اس کے کندھوں اور پیٹھ پر بکھر گئے۔
کیا تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ ہم عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے؟،،،،، شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ تم کوئی معمولی عورت نہیں ہو راجہ داہر کے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے؟
میں مہاراج داہر کی بیوی ہوں۔۔۔ لارڈی نے کہا ۔۔۔رانی لاڈی۔
وہ دستہ کہاں ہے جسے تم نے ہمارے مقابلے کے لیے تیار کیا تھا ؟،،،،،شعبان ثقفی نے پوچھا ۔
میں نے سنا ہے کہ اسے تمہارے مقابلے میں آنے کی مہلت ہی نہیں ملی۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔اگر اسے مہلت مل جاتی تو مجھے مردانہ بہروپ نہ دھارنا پڑتا ۔
کچھ دیر بعد رانی لاڈی محمد بن قاسم کے سامنے کھڑی تھی۔
اسے محل میں لے جاؤ۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اسے اپنے کپڑے پہننے دو اور اسے عزت اور احترام سے وہیں رکھو۔
اسے اس کے محل میں پہنچا دیا گیا اور راجہ داہر کے وزیر سیاکر کو محمد بن قاسم کے سامنے لے جایا گیا اور اسے بتایا گیا کہ سیاکر راجہ داہر کا منظور نظر ہے اور دانشمند وزیر ہے، محمد بن قاسم نے اسے پہچان لیا کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی مل چکا تھا۔
میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارے شہر کے لوگوں کے ساتھ آپ کی فوج کیا سلوک کر رہی ہے؟،،،،،، سیاکرنے محمد بن قاسم سے پوچھا ۔
وہی سلوک جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔کسی کو جنگی قیدی یا غلام نہیں بنایا جائے گا، تمہاری یہ حیثیت برقرار رہے گی، تمہاری رانی کو میں نے اس کے محل میں بھیج دیا ہے ۔
تیسرے یا چوتھے دن محمد بن قاسم کو اطلاع ملی کہ کم و بیش ایک ہزار آدمی جن کے سر بھی منڈے ہو ئے ہیں آبرو اور مونچھیں بھی استرے سے صاف کی ہوئی ہیں ،ملنے آئے ہیں۔
محمد بن قاسم باہر نکلا ان ایک ہزار آدمیوں کو دیکھا وہ ہجوم کی صورت میں نہیں بلکہ ایک ترتیب میں کھڑے تھے، اور سب کا حلیہ اور لباس ایک جیسا تھا ۔
یہ کون لوگ ہیں ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے سندھی ترجمان سے کہا۔۔۔ ان سے پوچھو یہ یہاں کی فوج کے کوئی خاص دستے معلوم ہوتے ہیں۔
ترجمان نے ان سے پوچھا۔
ہمارا تعلق کسی فوج کے ساتھ نہیں۔۔۔ ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر کہا ۔۔۔ہم برہمن ہیں، ہمارے بہت سے ساتھیوں نے خودکشی کرلی ہے ،ہم آپ کو ان کی لاشیں دکھا سکتے ہیں۔
تم لوگوں نے خودکشی کیوں کی؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔۔کیا تمہارا مذہب خودکشی کی اجازت دیتا ہے۔
نہیں!،،،،، ان برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ جنہوں نے خود کشی کی ہے انہوں نے راجہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کیا ہے، لیکن ہم اس کے وفادار ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں اونچی ذات دی، اور ہم ان لوگوں کے وفادار ہیں جو ہمیں اونچی ذات کا سمجھ کر ہمیں بڑا اونچا درجہ دیتے ہیں۔
کیا تم لوگ مجھ سے اپنا اونچا درجہ تسلیم کروانے آئے ہو؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
ہم یہ پوچھنے آئے ہیں کہ ہمارے متعلق یعنی برہمن ذات کے متعلق آپ کا فیصلہ کیا ہوگا؟۔۔۔ ان کے نمائندے نے پوچھا۔
اگر تم لڑنے والوں میں سے نہیں اور لڑنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے تو ہم تمہیں امن و امان میں رکھیں گے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ لیکن ہم تمھیں دوسرے انسانوں سے برتر تسلیم نہیں کریں گے ،ہمارا مذہب امیر کو غریب پر کبیر کو صغیر پر بالادستی کی اجازت نہیں دیتا ،میں اس فوج کا سپہ سالار ہو اور تمہارے ملک کا امیر مقرر کیا گیا ہوں، لیکن میں اپنے اللہ کا ویسا ہی سپاہی ہوں جیسے میری فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہے، مجھے امامت کے فرائض بھی سونپے گئے ہیں یہ فرائض ایسے ہی ہیں جیسے تمہارے سب سے بڑے پنڈت یا پروہت کے ہوتے ہیں، لیکن اللہ کی نگاہ میں میرا درجہ اور میرا ثواب اتنا ہی ہے جتنا میرے پیچھے نماز پڑھنے والوں کا ہے، مجھے کسی بھی مقتدی پر ذرا سی بھی برتری حاصل نہیں،،،،،، ہم تمہیں یہاں کے لوگوں کے برابر رکھیں گے اور انہیں جیسے حقوق دیں گے، اور اگر تم کسی اور طریقے سے لوگوں پر اپنی برتری جتاؤگے تو یہ ایسا جرم ہوگا جسے ہمارے دین کا ضابطہ معاف نہیں کرے گا۔
ہم آپ کے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔۔۔ برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ اے سالار اسلام!،،، ہمیں یہ بتا دیں کہ ہمیں اپنے مندر میں عبادت کی آزادی حاصل ہوگی یا نہیں ،یا آپ تلوار کی نوک پر ہمیں اپنا مذہب قبول کرنے پر آمادہ کریں گے۔
میں یہ حکم جاری کرچکا ہوں کہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے، نہ کسی طریقے سے بے حرمتی کی جائے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم کسی غیر مسلم کو قبول اسلام پر مجبور نہیں کریں گے، میں تمہیں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے مذہب کی تعلیمات کو غور سے دیکھنا اور یہ بھی دیکھنا کہ ہم لوگ ان تعلیمات کے مطابق عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
ہمارا راجہ مارا گیا ہے ۔۔۔برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ ہم اس کے وفادار تھے، اس کے ماتم میں ہم نے اپنے سر منڈوادیئے ہیں، یہ ہمارے یہاں کا رواج ہے کہ باپ مر جاتا ہے تو سب سے بڑا بیٹا استرے سے سر منڈوا دیتا ہے، اب آپ ہمارے راجہ ہیں ہم آپ کے ساتھ ویسے ہی وفادار رہیں گے جیسے اپنے راجہ کے ساتھ تھے۔
مورخوں نے محمد بن قاسم اور ان پنڈتوں کی اس گفتگو کے بعد لکھا ہے کہ محمد بن قاسم راجہ داہر کے خاندان کے افراد کے متعلق صحیح معلومات لینا چاہتا تھا ،اس نے ان برہمنوں سے کہا کہ وہ اس کے وفادار ہیں تو یہ بتائیں کہ راجہ داہر کے خاندان کے وہ افراد کہاں کہاں ہیں جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
یہاں صرف رانی لاڈی ہے۔۔۔ بڑے برہمن نے کہا ۔۔۔اسے آپ اپنے پاس لے آئے ہیں ،اس نے فوج میں سے بہت سے آدمیوں کو نکال کر اپنے ساتھ رکھ لیا تھا ،یہ بڑے وحشی اور خونخوار سپاہی تھے، آپ نے انھیں بھی پکڑ لیا ہے، رانی لاڈی آپ کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی تھی ،اسے آپ زہر سے بھری ہوئی ایک ناگن سمجھیں، آپ نے اس کا زہر مار ڈالا ہے۔
ہم اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے ایک اور بات آپ کو بتا دیتے ہیں ۔۔۔ایک اور برہمن نے کہا۔۔۔ رانی لاڈی جوان عورت ہے، آپ نے اس کا حسن دیکھ لیا ہے ، کی آواز میں میوسیقی کا ترنم ہے، اس کے جسم میں طلسماتی سی کشش ہے، اور آپ نوجوان ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ طلسم آپ کی جوانی کو اندھا کر دے۔ محمد بن قاسم نے کچھ بھی نہ کہا اس کے چہرے پر جو تاثر پہلے تھا وہی رہا۔
دوسری عورت جو آپ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی تھی وہ مائیں رانی ہے۔۔۔ برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ مہاراج داہر کے ساتھ اس عورت کے دو رشتے تھے، وہ مہاراج کی سگی بہن تھی اور اس کی بیوی بھی تھی، ہم پہلے ہی ڈرتے تھے کہ ہم پر بھگوان کا قہر ٹوٹے گا، یہ کلجگ کی نشانی ہے کہ بھائی نے اپنی بہن کو بیوی بنا لیا ۔
مائیں رانی کہاں ہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
ہم کوئی پکی بات نہیں بتا سکیں گے۔۔۔ برہمن نے کہا۔۔۔ سنا ہے اس نے اپنے آپ کو ستی کر لیا ہے ۔
کہاں ؟
یہیں !،،،،،برہمن نے جواب دیا ۔۔۔اسی شہر میں آپ کو وہ جگہ تلاش کرنی پڑے گی، ہم نے سنا ہے کہ مائیں رانی نے ایک غیر آباد مقام پر لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ لگائیں اور خاموشی سے ان لکڑیوں پر بیٹھ گئی ۔
محمد بن قاسم نے ان برہمنوں کو رخصت کر دیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
ان کے جانے کے بعد محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کو بلایا اور اسے مائیں ایرانی کے متعلق برہمنوں کی بات سنا کر کہا کہ دیکھا جائے کہ برہمنوں کی یہ بات کہاں تک صحیح ہے۔
برہمن وہاں سے چل پڑے تھے ،وہ خوش تھے کہ ایک تو ان کی جان بخشی ہوئی اور دوسرے یہ کہ انہیں مذہبی آزادی مل گئی ہے۔
شعبان ثقفی نے انہیں روک لیا اور ان سے پوچھا کہ انہوں نے کس سے سنا ہے کہ مائیں رانی نے خودسوزی کی ہے ۔
برہمنوں نے اسے بتایا ،اور اس غیر آباد مکان کی نشاندہی بھی کی جس میں مائیں رانی نے اپنے آپ کو نذر آتش کیا تھا۔
شعبان ثقفی اپنے دو تین آدمیوں کے ساتھ اس طرف چلا گیا، ویران مکان کے علاقے میں جو آباد مکان تھے ان کے مکینوں سے پوچھا تو اسے تین آدمیوں سے پتہ چلا کہ انہوں نے ایک رات مندر کے تین پنڈتوں کو فلاں طرف جاتے دیکھا تھا ،ان میں سے ایک نے بتایا کہ بہت دیر بعد اس نے تین پنڈتوں میں سے صرف دو کو واپس جاتے دیکھا تھا، شعبان ثقفی نے اس آدمی کو ساتھ لیا اور یہ آدمی اسے ایک مکان تک لے گیا جو آبادی سے الگ تھلگ تھا، اس کے اردگرد گھنے درخت تھے اور ایک طرف بلند ٹیلہ تھا ،اس کے دو دروازے تھے دونوں بند تھے ،دونوں کے کواڑوں کو ڈھکیلا تو یہ اندر سے بند تھے، دستک دی تو اندر سے کوئی جواب نہ ملا۔
تم اندر والوں کو پکارو!،،،،،، شعبان ثقفی نے اس آدمی سے کہا۔۔۔ جو اسے مکان دکھانے آیا تھا ۔۔۔انہیں کہو کہ تم پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور کسی قسم کی سختی نہیں کی جائے گی۔
یہاں کوئی نہیں رہتا ۔۔۔۔اس آدمی نے کہا۔۔۔ اگر کوئی اندر ہے تو وہ اس مکان کا مکین نہیں ہوسکتا، ہو سکتا ہے کوئی یہاں آکر چھپ گیا ہو آپ دروازہ توڑ دیں۔
شعبان ثقفی نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا تو انہوں نے ایک دروازے کے کواڑ توڑ دیے، پھر شعبان ثقفی اور اس کے آدمی تلوار نکال کر بڑی تیزی سے اندر گئے، مکان بڑا ہی ہیبت ناک تھا ،اس کا صحن نہیں تھا کمرے ہی کمرے تھے، یا تنگ سی راہداریاں تھیں، جلتے ہوئے یا جلے ہوئے گوشت کی اس قدر زیادہ بدبو تھی کہ سب نے منہ اور ناک پر کپڑے رکھ لئے، سب کی آنکھوں میں بھی چبھن ہونے لگی، جیسے دھوئیں سے ہوا کرتی ہے۔ راہداریوں میں اندھیرا بھی تھا سرنگ جیسی ایک راہداری کے اگلے سرے سے دن کی روشنی آرہی تھی، وہاں تک پہنچے تو چھوٹا سا ایک صحن آ گیا، جو اردگرد دیواروں کی وجہ سے چوکور کنواں لگتا تھا۔
وہاں جلی ہوئی لکڑیوں کا انبار تھا ،ان کی راکھ پر تین جلی ہوئی لاشیں پڑی تھیں، جو جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو گئی تھی، چہرے نہیں پہچانے جاتے تھے لاشیں پھولی ہوئی تھیں چہرے بھی اس طرح کھلے ہوئے تھے کی آنکھیں ، ناکیں اور ہونٹ غائب ہوگئے تھے۔
کسی کمرے یا رہداری میں دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی، ان کے پیچھے آدمی دوڑتے گئے تو دو آدمی باہر کے دروازے میں پکڑے گئے، وہ اندر سے بھاگ کر جارہے تھے ان کی تلاشی لی گئی تو ان سے پگھلے ہوئے سونے کے کچھ ٹکڑے برآمد ہوئے ،انہوں نے خوف کے مارے بتا دیا کہ وہ مائیں رانی کے ملازم تھے، انہیں معلوم تھا کہ مائیں رانی، ایک پنڈت اور ایک نوکرانی کے ساتھ ستی ہو رہی ہے، یہ دونوں جانتے تھے کی مائیں رانی نے زیورات پہن رکھے تھے، چنانچہ وہ سونا اٹھانے آئے تھے۔
شعبان ثقفی اور محمد بن قاسم کو ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ کون زندہ جل گیا اور اسے کس نے جلایا ،شعبان ثقفی صرف یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ مائیں رانی زندہ جل گئی ہے ،وہ مندر میں چلا گیا اور اسے پتا چل گیا کہ اس رات کون سے دو پنڈت اس مکان سے واپس آئے تھے، ان دونوں کو شعبان ثقفی نے الگ کر کے پوچھا ان میں سے ایک خاصا بوڑھا تھا۔
وہ مائیں رانی ہی تھی۔۔۔ بوڑھے پنڈت نے کہا۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو ایک پنڈت اور اپنی ایک نوکرانی کے ساتھ جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتی تھی زندہ جلا لیا۔
ہم جانتے ہیں کہ ستی تمہاری رسم ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ لیکن رانی لاڈی نے اپنے آپ کو کیوں نہیں جلایا؟
مائیں رانی بھی اپنی جان لینے والی عورت نہیں تھی۔۔۔ پنڈت نے جواب دیا۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اس مکان میں اپنی نوکرانی کے ساتھ چھپنے کے لئے آئی تھی، اسے بھاگ نکلنے کا موقع نہیں ملا تھا ،اس نے سوچا تھا کہ جب شہر میں امن و امان ہو جائے گا تو وہ بھیس بدل کر نکل جائے گی اور اروڑ پہنچ کر فوج کو آپ کے مقابلے کے لئے تیار کرے گی، اس نے کہا تھا کہ وہ خود میدان جنگ میں اترے گی اور اپنے بھائی کے خون کا انتقام لے گی، لیکن جس مکان میں اس نے پناہ لی وہ مکان انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں تھا۔
کیوں؟،،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا۔۔۔ کیا یہ مکان گرنے والا تھا ۔
نہیں !،،،،،،بوڑھے پنڈت نے جواب دیا۔۔۔ اس مکان میں بدروحوں کا بسیرا ہے، اس میں جتنے بھی لوگ رہے ہیں وہ دو تین دن رہ کر بھاگ نکلے، اس میں جو لوگ رہے ہیں ان سب نے خوفزدگی کی حالت میں بتایا کہ رات کو مکان کے اندر دو تین عورتوں کی بڑی پیاری پیاری باتیں سنائی دیتی ہیں، جی چاہتا ہے کہ ان عورتوں کو ڈھونڈ کر اور ان کے پاس بیٹھ کر باتیں سنی جائیں، کہتے ہیں کہ جو کوئی ان آوازوں کے پیچھے چل پڑے وہ تھوڑی سی دیر بعد پاگل سا ہونے لگتا ہے، پھر وہ اپنی جان لینے کے طریقے سوچنے لگتا ہے۔
کیا یہ سب جھوٹ نہیں؟،،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا۔۔۔ تمہارے مذہب میں یہی خرابی ہے کہ اپنے اوپر پر اسرار اور خوفناک سا وہم طاری کر لیتے ہو اور پھر اس کی عبادت کرنے لگتے ہو۔
نہیں ائے عربی!،،،،، پنڈت نے کہا۔۔۔ میں مذہب کی بات نہیں کرتا ،میں نے وہ بیان کیا ہے جو دیکھا ہے، مائیں رانی نے ہمیں وہاں بلایا تھا اور ہم تین آدمی وہاں گئے تھے۔ مائیں رانی نے انھیں کہا کہ یہ آوازیں سنو، آواز میں نے بھی سنی جو دو نوجوان لڑکیوں کی معلوم ہوتی تھیں، وہ ہنس رہی تھیں ان کی ہنسی میں سوریلاپن تھا، آوازیں اور باتیں ایسی تھیں جیسے یہ لڑکیاں ہنس کھیل اور ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہی ہوں، میں نے اس مکان کی یہ باتیں پہلے سنی تھیں اس لئے میں جانتا تھا کہ یہ بد روحوں کی باتیں ہیں، مائیں رانی کہنے لگی کہ میں ان لڑکیوں کے پاس جا رہی ہوں، میں نے اسے روکا اور کہا کہ یہ لڑکیاں اسے نہیں ملے گیں اور اگر وہ ان کے پیچھے گئیں تو وہیں پہنچ جائے گی جہاں پر یہ لڑکیاں پہنچی ہوئی ہیں،،،،،،،،،
خود میرا دل بھی یہی چاہتا تھا کہ ان لڑکیوں کو دیکھو لیکن میں اور میرا یہ ساتھی وہاں سے بھاگ آئے، اگلی صبح میں وہاں گیا تو وہاں یہ منظر دیکھا کہ لکڑیاں جمع کی ہوئی تھیں مائیں رانی اپنا وہ سارا سامان جو اس نے پقلعے سے فرار ہونے کے لیے رکھا تھا ساتھ لائی تھی، اس سامان میں ہیرے جواہرات کے علاوہ بہت سے قیمتی کپڑے تھے اور جو کچھ بھی اس کے پاس تھا وہ اس نے لکڑیوں پر رکھا ،خود بھی کھڑی ہوگئی پنڈت اور نوکرانی بھی مائیں رانی کے پاس جا کھڑی ہوئی، مجھے دیکھ کر اس نے کہا کہ ہمارے پاس آ جاؤ ہم تمہیں ایسی جگہ لے جارہے ہیں جو اس دنیا سے بہت زیادہ خوبصورت ہے، میں نے انہیں روکا لیکن وہ مجھے بلاتی رہیں، اس کے ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعل تھی جو اس نے جھک کر لکڑیوں کے ڈھیر کے پہلوؤں کے ساتھ رکھی وہاں سے لکڑیاں جلنے لگیں تو اس مشعل کا شعلہ دوسری طرف سے اس ڈھیر کے ساتھ لگایا ،میں وہاں سے بھاگ آیا۔
آپ پھر وہاں جائیں اس راکھ کے ڈھیر میں آپکو ہیرے اور جواہرات ملیں گے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
بعض تاریخوں میں غلط بیانی کی گئی ہے کہ رانی لاڈی کو محمد بن قاسم کے سامنے لایا گیا تو اسلام کی عسکری تاریخ کا یہ نوجوان سپہ سالار رانی لاڈی کے حسن سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کے ساتھ شادی کر لی، یہ ایک بے بنیاد روایت ہے جو محمد بن قاسم کی شخصیت اور اس کے کردار کو مجروح کرنے کے لئے کسی نے گڑھی اور تاریخ کے دامن میں ڈال دی ہے۔
برہمن آباد کو محمد بن قاسم ایک مضبوط فوجی اڈا بنانا چاہتا تھا اس نے جتنے بھی شہر اور قصبے فتح کیے تھے ان کا انتظام نہایت اچھا کیا تھا اور محصولات ایسے لگائے تھے جو کسی بھی شہری کے لئے بوجھ نہیں تھے، لیکن برہمن آباد کے انتظامات کو محمد بن قاسم نے بہت ہی زیادہ احتیاط اور توجہ سے ترتیب دیا، ایک تو اسلام کی تعلیمات ہی ایسی تھی کہ مقتول لوگوں پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا تھا، اور دوسرے یہ کہ برہمن آباد کے لوگوں کو زیادہ مطمئن رکھنا تھا، کیونکہ برہمن آباد کو عسکری مستقر بنانا تھا۔ محمد بن قاسم نے جو احکامات جاری کئے وہ مختصراً اس طرح تھے، جن ہندوؤں نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کر لیا تھا انہیں وہی حقوق دیے گئے جو عرب کے مسلمانوں کو حاصل تھے، یعنی عربی مسلمان اور ہندوستانی نو مسلم کو مساوی حقوق دیے گئے۔
اعلان کیا گیا کہ جو ہندو اور جو بدھ اسلام قبول نہیں کریں گے ان پر زبردستی اسلام مسلط نہیں کیا جائے گا ،لیکن انہیں جزیہ دینا پڑے گا، جزئیے کی شرح یہ مقرر کی گئی، دولت مند اڑتالیس درہم سالانہ یعنی تیرہ روپے، متوسط طبقے کے لوگ چوبیس درہم فیکس یعنی ساڑھے چھ روپے سالانہ اور متوسط درجے سے نیچے کے ہر فرد پر بارہ درہم یعنی سوا تین روپے سالانہ جزیہ عائد کیا گیا۔
پنڈتوں کو خصوصی مراعات دی گئی، جن کے پاس سرکار کی دی ہوئی عاراضی یا دیگر جائیداد تھی اس کی ملکیت انہی لوگوں کے پاس برقرار رکھی گئی ،شہر کے جن لوگوں کے مکانوں کو نقصان پہنچا تھا یا ان کی اپنی فوج نے جن تاجروں اور کسانوں سے پیسہ اور گلہ جبراً لے لیا تھا انہیں نقد معاوضہ دیا گیا، جس کی مجموعی رقم ایک لاکھ بیس ہزار درہم تھی۔
شہری انتظامیہ کے تمام بڑے عہدوں پر برہمن فائز تھے انہیں انہیں عہدوں پر رہنے دیا گیا۔ قلعے کے دروازوں پر فوج کے جو افسر مقرر تھے انہیں اپنے عہدوں پر رہنے دیا گیا ،اس وقت کے دروازوں کے ذمہ دار افسروں کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں سونے کا ایک کڑا پڑا ہوا ہوتا تھا جسے بہت بڑا اعجاز سمجھا جاتا تھا، قلعے کے بعض افسر بھاگ گئے تھے ان کی جگہ محمد بن قاسم نے ہندو افسر مقرر کیے اور انہیں ان کے رواج کے مطابق ہاتھوں اور پاؤں میں سونے کے کڑے پہنائے ،عہدے دار مقرر کرکے محمد بن قاسم نے انتظامیہ کے تمام افسروں اور دیگر عمالوں کو بلایا۔
ہم فاتح ہوتے ہوئے بھی تمہاری حیثیت برقرار رکھی ہیں۔۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کیا ہم تمہیں غلاموں کا درجہ نہیں دے سکتے تھے، تم نے ہمارے ہاتھوں ایسی شکست کھائی ہے کہ تم اٹھنے کے قابل نہیں رہے، لیکن ہم نے تمہیں غلام نہیں بننے دیا، میں تم سے یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کے شہر کے لوگوں کو رعایا اور غلام نہ سمجھنا، ان سے وہ محصولات وصول کرو جو میں نے عائد کی ہے، اگر کوئی شخص کوئی محصول ادا کرنے میں دشواری محسوس کرے تو اس پر جبر اور ظلم نہیں کرنا، اس کی اطلاع مجھ تک پہنچے کہ میں متعلقہ افسر سے بات کرکے اس شخص کے لیے سہولت پیدا کر سکوں،،،،،،،
تمہارا دوسرا فرض یہ ہے کہ حکومت اور رعایا کے مابین ایسے تعلقات قائم رکھنے ہیں کہ رعایا میں بداعتمادی پیدا نہ ہو،
اسے لازمی سمجھو کہ لوگ دلی طور پر محسوس کریں کہ حکومت ان کی اپنی ہے، اگر کوئی آدمی یا مفسدین کا کوئی گروہ خفیہ طور پر لوگوں میں بداعتمادی اور بدامنی پھیلا رہا ہو تو فوراً اوپر اطلاع دوں کہ مفسدین کا قلع قمع کیا جاسکے، اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ کی بے حرمتی کرے یا نقصان پہنچائے تو یہ مت سوچو کہ وہ فاتح اور حاکم قوم کا فرد ہے، اس کے خلاف ویسے ہی کاروائی کرو جیسے کسی اور مذہب کے شہری کے ساتھ ہوگی۔
یہ مرعات معمولی درجے کی نہیں تھی اس کے علاوہ ہندوؤں کے لئے یہ مرعات غیر متوقع تھی، انہیں تو توقع یہ تھی کہ مسلمان معاشی لحاظ سے ان کی کھال بھی اتار لیں گے ،اور معاشرتی لحاظ سے انھیں اچھوتوں کا درجہ دیں گے، انہوں نے محمد بن قاسم کی اس فیاضی کا اثر قبول کیا، مندر کے بڑے پنڈت نے تمام پنڈتوں اور سرکردہ برہمنوں کو بلا کر لوگوں کے لیے ایک پیغام دیا، جو تاریخ میں محفوظ ہے اس نے کہا کہ یہ پیغام برہمن آباد کے گرد و نواح کے لوگوں تک پہنچایا جائے پیغام کے الفاظ یہ تھے۔
اے لوگو!،،،،،، یقین کرو کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے اور اس کی خاندانی حکومت ختم ہوگئی ہے، اب سندھ پر عربوں کی حکمرانی ہے، عربوں کے متعلق یہ سن لو کہ ان کی نگاہ میں امیر اور غریب بڑا اور چھوٹا شہری اور دیہاتی برابر ہیں، یہ ان کے مذہب کا حکم ہے اور ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ یہ پیغام تم سب تک پہنچایا جائے، عرب کے ان مسلمانوں نے ہمارے ساتھ اور بھی وعدے کیے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم ان کے وفادار رہیں اور غداری نہ کریں، اگر ہم نے وفاداری کی بجائے غداری کی تو ہم سب کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا ،اس سے بڑی نوازش اور کیا ہو سکتی ہے کہ برہمن جاتی کو جو رتبہ اور ان کو جو حیثیت پہلے حاصل تھی وہ برقرار رکھی گئی ہے، اور مسلمانوں کی حکومت کا کاروبار ان کے ہاتھ میں دیا گیا ہے، ہم پر محصولات اتنے تھوڑے عائد کئے گئے ہیں جو ہر فرد آسانی سے ادا کرسکتا ہے، اگر کوئی شخص ان کی ادائیگی سے گریز کرے تو اس کے لئے اچھا یہ ہوگا کہ وہ سندھ سے نکل کر ہندوستان کے کسی اور علاقے میں چلا جائے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
راجہ داہر کا وزیر سیاکر خاص طور پر محمد بن قاسم کا وفادار ثابت ہوا اس نے اپنی خدمات محمد بن قاسم کو پیش کردی اور اسے مشورے دینے لگا۔
محمد بن قاسم نے اپنے جو افسر مقرر کیے ان میں ایک وداع بن حمیدالبحری کو عدلیہ کا سربراہ تعینات کیا، نوبہ بن وارس کو راوڑ کا قلعے دار بنایا اور اسے کہا کہ وہ جس قدر کشتیاں فراہم کرسکتا ہے کرے، اور کوئی اجنبی کشتی گزرتی دیکھے جس میں جنگی سامان ہو تو اسے روک لے ،کشتیاں اکٹھی کرنے کے لئے حکم ابن زیاد عبدی کو بھی مقرر کیا گیا، اس سے پہلے جو شہر اور قصبے فتح کیے جاچکے تھے ان سب کے لئے حاکم مقرر کئے یہ سب مسلمان تھے، طیح نام کا ایک سابق غلام تھا جس نے ہر محاصرے اور راوڑ کے میدان میں ایسی جاں بازی کا مظاہرہ کیا تھا جس میں جسم اور عقل کے استعمال کی مساوی ضرورت تھی ،محمد بن قاسم اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے طیح کو مکران کے ایک علاقے کا حاکم مقرر کردیا ،اور اس کے ماتحت علوان بکری اور قیس بن ثعلبہ کو مقرر کیا، انہیں تین سو نفری کا ایک دستہ بھی دیا ،چچ نامہ فارسی میں لکھا ہے کہ یہ تینوں مکران میں ہی آباد ہوگئے انہوں نے مقامی عورتوں کے ساتھ شادیاں کیں اور آج بھی ان کی نسلیں مکران میں آباد ہیں۔
محمد بن قاسم کی اگلی منزل اروڑ تھی راستے میں کچھہ اور بھی قلعے آتے تھے اور راستے میں ہندوؤں کی دو ایسی قومیں آباد تھیں جو راجہ داہر اور اس کے خاندان کے لیے مستقل خطرہ بنی رہتی تھیں، دراصل یہ جاٹ قوم تھی جس کے دو قبیلے تھے ایک سمہ اور دوسرا لاکھا، محمد بن قاسم کو مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ جاٹوں کے یہ دونوں قبیلے آزاد اور خودمختار رہتے ہیں اور وہ قانون کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے، یہ وہی جاٹ قوم تھی جسے ایرانیوں کے خلاف لڑایا گیا تھا، ایرانیوں نے سندھ پر حملہ کیا تھا ،اس وقت جاٹ سندھ کی فوج میں تھے ،ایرانیوں نے مکران کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور ہزاروں جاٹوں کو جنگی قیدی بنا کر ایران پہنچا دیا تھا، ان جاٹوں کو غلاموں جیسی حیثیت دی گئی تھی، لیکن جاٹوں کی قسمت اس طرح جاگ اٹھی کے خالد بن ولید نے ایرانیوں کو پے بہ پے شکستیں دیں تو ایرانیوں کی وہ ہیبت ناک جنگیں قوت جس کی دہشت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے لگی، اور ایران کی سلطنت جو وسیع وعریض تھی سکڑنے لگی، اس دگرگوں صورتحال میں ایرانیوں نے سندھ کے ہندو جاٹوں کو غلامی کی حیثیت سے نکال کر فوج میں بھرتی کر لیا اور انہیں وہی حقوق اور وہی مرعات دی جو ایران کے فوجیوں کو حاصل تھیں۔
جاٹوں ج
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
*قسط نمبر/29*
کچھ دنوں بعد محمد بن قاسم نے یہاں سے بھی کوچ کیا اور سمہ قوم کے علاقے میں جا پڑاؤ کیا ،یہ وہ علاقہ تھا جہاں صرف جاٹ قوم رہتی تھی، اور جو سخت سزاؤں کے باوجود قابو میں نہیں آتی تھی۔
محمد بن قاسم کا خیمہ گاڑا جا رہا تھا کہ دور سے بہت سی ڈھول بجنے کی آواز آنے لگی، ڈھولوں کے ساتھ لوگوں کا شور بھی تھا، ڈھولوں اور انسانوں کا یہ شوروغوغا آگے ہی آگے بڑھتا آیا۔
محمد بن قاسم نے کہا کہ معلوم کیا جائے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ڈھول بجاتے چلے آ رہے ہیں۔
یہ جاٹ ہیں سالار اعلی!،،،،،،، وزیر سیاکرنے کہا ۔۔۔۔یہ ان کا رواج ہے کہ کسی کا استقبال کرنے نکلتے ہیں تو ڈھول بجاتے اور ناچتے ہوئے اس کا استقبال کرتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ کے استقبال کو آ رہے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ اتنے احمق نہیں ہونگے کہ ہم پر حملہ کرنے آئے ہونگے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اور گھوڑے پر سوار ہو کر اس طرف گھوڑا دوڑا دیا جس طرف سے جاٹ آ رہے تھے۔
محمد بن قاسم کا محافظ دستہ اس کے پیچھے گیا، جاٹ ننگے سر اور ننگے پاؤں ناچتے چلے آ رہے تھے، وہ اپنا کوئی گیت بھی گا رہے تھے ،محمد بن قاسم نے اس بے پناہ ہجوم کے سامنے جا گھوڑا روکا اور گھوڑے سے کود کر اترا ،جاٹوں کا شور اور زیادہ بلند ہو گیا اور وہ پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے ڈھول پیٹنے لگے ،پھر ان کے تین چار آدمی جو سردار معلوم ہوتے تھے آگے آئے اور انہوں نے محمد بن قاسم کے ساتھ مصافحہ کیا، محمد بن قاسم کے ساتھ ترجمان بھی تھا اس کی معرفت جاٹوں کے سردار کے ساتھ باتیں ہوئیں، انہوں نے اپنے ایک سردار کو آگے کر دیا کہ وہ ان کی نمائندگی کرے۔
ہم آپ کے استقبال کے لئے آئے ہیں۔۔۔ جاٹوں کے سردار نے کہا۔۔۔ معلوم نہیں آپ ہمارے استقبال کو قبول کریں گے یا نہیں۔
اگر تم لوگ اس راستے سے ہٹ آؤ جس پر تم چلے جا رہے ہو تو میں تمھارا صرف استقبال ہی قبول نہیں کروں گا بلکہ تمہیں اپنا دوست بنا کے رکھو گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اگر وہی طور طریقے رکھو گے تو تمہیں اس سے زیادہ سزائیں ملیں گی جو یہاں کے راجوں سے ملتی رہی ہیں,,,,,,,,, کیا تم اپنے کسی ایسے سردار کو میرے پاس بھیجو گے جس کے ساتھ میں ہر قسم کی بات کرسکوں۔
ہاں !،،،،جاٹوں کے اس سردار نے کہا ۔۔۔ہم اسے بھیجیں گے۔
یہ لوگ ناچ کود اور گا بجا کر چلے گئے، محمد بن قاسم نے ان کے آگے تشکر اور اطمینان کا اظہار کیا ۔
کچھ دیر بعد ایک بوڑھا جاٹ جس کا نام بہوریا تھا محمد بن قاسم کے پاس آیا، اس کے ساتھ تین چار آدمی اور تھے، محمد بن قاسم نے اسے عزت و احترام سے اپنے خیمے میں بٹھایا، شعبان ثقفی اوردو اور سالار محمد بن قاسم کے ساتھ موجود تھے
اے بزرگ سردار !،،،،محمد بن قاسم نے ترجمان کی معرفت سے اس سے پوچھا۔۔۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ یہاں کیوں آئے ہو؟
آئیے عربی فوج کے حاکم!،،،، بوڑھے بہوریا نے جواب دیا ۔۔۔میرے قبیلے نے جس طرح تمہارا استقبال کیا ہے اسے تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا مقصد کیا ہے، یہ ہمارا رواج ہے کہ جسے ہم دل سے چاہتے ہیں اس کا استقبال اسی طرح کیا کرتے ہیں جس طرح تمہارا کیا ہے، تم ہمارے علاقے میں آئے ہو اور ہم خوش ہوئے ہیں۔
یہ علاقہ تمہارا نہیں میرے بزرگ!،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔یہ علاقہ اس وقت تمہارا ہوگا جب تم مجھ پر ثابت کرو گے کہ تم اس قابل ہو کہ میں تمہیں اس علاقے کا سردار بنا دوں،،،،،،،،تم تو جنگجو تھے پھر تم ڈاکو اور رہزن کیوں بن گئے؟
اس لئے کے راجہ چچ نے ہمیں انسان سمجھنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ بوڑھے بہوریا نے کہا۔۔۔ جب ان پر ایران والوں نے حملہ کیا تو ہمیں لڑایا گیا ،اگر ہم لوگ جانیں نہ لڑاتے تو ایرانی پورے کا پورا سندھ لے لیتے، چچ اور اس کے بیٹے داہر کا نام و نشان نہ ہوتا، یہ ہم جاٹ ہی تھے جنھوں نے ایرانیوں کو مکران سے آگے نہ آنے دیا ،لیکن ہمیں مدد نہ ملی اور لڑنے والے جاٹ ایرانیوں کے قیدی ہوگئے، ایرانیوں نے انہیں مویشیوں کی طرح رکھا ،اور جب تم جیسے مسلمانوں نے ایرانیوں کی کمر توڑ ڈالی اور ان کی طاقت کا سورج غروب ہونے لگا تو انہوں نے جاٹوں کو سپاہی بناکر عزت دی اور مسلمانوں کے خلاف عرب میں لڑایا، پھر وہ مسلمانوں کے قیدی ہوئے، ادھر ہم جو ان کی اولاد تھے اس وجہ سے سزا بھگتنے لگے کہ ہمارے باپ اور ہمارے بھائی میدان جنگ میں قید ہوگئے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم لوگ قافلوں کو لوٹنے لگے۔
بوڑھے بہوریا کا انداز ایسا پر اثر تھا کہ محمد بن قاسم انہماک سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
تم نہیں جانتے ائے سالار عرب!،،،،، بہوریا نے کہا ۔۔۔ہمارے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ تم نہیں جانتے، ایک موٹی چادر یا کمبل کے سوا ہم جسم پر کوئی اور کپڑا نہیں ڈال سکتے، ہم پاؤں میں جوتے نہیں پہن سکتے، سر پر پگڑی نہیں لپیٹ سکتے، ہم شہسوار کی اولاد ہیں لیکن ہمیں گھوڑے کی سواری کی اجازت نہیں، اگر ہم میں سے کوئی سردار حاکم کی منظوری سے گھوڑے پر بیٹھے تو وہ گھوڑے پر زین نہیں ڈال سکتا، ہمارے کئی خاندانوں کے بچے، بوڑھے، جوان، مرد، اور عورتیں زندہ جلا دیے گئے ہیں، ہم نے راجہ کے خلاف یہ جنگ شروع کررکھی ہے کہ جہاں ہمارا ہاتھ پڑ جاتا ہے وہاں ہم لوٹ مار کرتے ہیں، کیا تم بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کرو گے؟
اس سوال کا جواب تم خود دے سکتے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اگر تم اپنے آپ کو اسی سلوک کے قابل سمجھو گے تو میری طرف سے تمہارے ساتھ اس سے زیادہ برا سلوک ہوگا ،مجھے عرب سے حکم آیا ہے کہ جو سرکشی بغاوت اور بدامنی پھیلاتی ہیں انہیں قتل کر دیا جائے، اور جو پرامن طریقے سے زندگی بسر کرنے والے ہیں انہیں پوری عزت دی جائے، اور ان سے اتنا ہی جزیہ لیا جائے جو وہ آسانی سے ادا کرسکیں، پھر مجھے حکم ملا ہے کہ تم میں سے جو کوئی اپنی خوشی سے اسلام قبول کرلے اس سے جزیہ بھی نہ لیا جائے اس کے بجائے معمولی سا عشر لیا جائے،،،،،، اور یہ میرے مذہب کا حکم ہے کہ تمام انسان مساوی ہیں مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں، اگر فرق ہے تو صرف فرائض کا ہے تمہاری ذمہ داریاں میری ذمہ داریوں سے مختلف ہیں،،،،،، کیا تم میری ان باتوں کو سمجھ سکتے ہو؟
میں تم سے زیادہ سمجھتا ہوں بیٹے!،،،،، بہوریا نے کہا۔۔۔ تم نے ابھی دنیا نہیں دیکھی تمہاری عمر گھوڑے کی پیٹھ پر اور خیموں میں گزر رہی ہے، میں جہاندیدہ ہو کمسن لڑکے!،،، ہمیں انسانوں کا درجہ دو گے تو ہم تمہیں ایسے ہی انسان بن کر دکھائیں گے جیسے تمہاری فوج کے یہ آدمی ہیں،،،، اور یہ بھی نہ سمجھنا کہ میں یہ باتیں تمہارے یا تمہاری فوج کے خوف سے کہہ رہا ہوں میں جانتا ہوں کہ تمہارے مذہب کے اصول اور حکم کیا ہیں، میں تمہارے مذہب کو قبول کرو یا نہ کرو یہ بعد کی بات ہے لیکن میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمہارا مذہب راجہ داہر کے مذہب سے جو میرا بھی مذہب ہے بہت اچھا ہے، میں نے سنا ہے کہ تم نے جو جگہیں فتح کی ہے وہاں کسی پر ظلم نہیں کیا۔
کیا تمہارے سب قبیلے تمہارا حکم مانتے ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
حکم ہی نہیں مانتے بلکہ مجھے بھگوان کا درجہ دیتے ہیں۔۔۔ بہوریا نے کہا۔۔۔ مجھے بتاؤ تم کیا منوانا چاہتے ہو؟
میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم انسانوں کی طرح رہو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور انسانوں جیسی عزت ہم سے لو، ہمارے مذہب کو دیکھو، اگر میرا کوئی حاکم یا سپاہی کسی کے ساتھ زیادتی کرے تو اس کی شکایت کرو، اسے وہی سزا ملے گی جو راجہ داہر تمہیں دیتا رہا ہے۔
پھر سن لے ائے عربی!،،،،، بہوریا نے کہا۔۔۔آج سے ہم ویسے ہی انسان بن گئے ہیں جیسے تم کہہ رہے ہو،،،،،،،، اور ہم نے تمہاری اطاعت قبول کی، ہم پر جو بھی محصول عائد کرو گے ہم خوشی سے ادا کریں گے۔
اور آج سے تمہیں اجازت ہے کہ جیسا کپڑا پہننا چاہتے ہو پہنو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کوئی آدمی ننگے سر ننگے پاؤں نہ رہے ، تم سب گھوڑوں پر زین ڈال کر سواری کر سکتے ہو ،کچھ عرصے بعد جب میں دیکھوں گا کہ تم نے اپنی عزت اور میرا اعتماد بحال کرلیا ہے تو میں تمہیں فوج میں بھرتی ہونے کا حق بھی دے دوں گا۔
اس طرح وہیں جاٹ قوم جو سرکش، وحشی، اور باغی، رہزن، اور ڈاکو مشہور تھی ایک باعزت قوم کی طرح محمد بن قاسم کی اطاعت میں آگئی، محمد بن قاسم نے بہوریا کو اپنی برابری میں بٹھا کر کچھ تحفے دیے اس کے سر پر پگڑی لپیٹی اور اس کے پاؤں میں جوتے ڈالے۔
ابن قاسم!،،،،، ایک سالار خریم بن عمرو نے عربی زبان میں کہا ۔۔۔ہم پر سجدہ شکر واجب ہو گیا ہے کہ یہ وحشی قوم ہماری مطیع اور فرماں بردار ہو گئی ہے۔
چاچ نامہ فارسی میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم ہنس پڑا اور بولا ۔۔۔اے ابن عمرو!،،،، اگر تو سجدہ شکر کو واجب سمجھتا ہے تو میں تجھ ہی کو اس علاقے کا حاکم مقرر کرتا ہوں.
بہوریا کو رخصت کرنے کے لیے جب سب خیمے سے نکلے تو جو جاٹ باہر کھڑے تھے وہ ڈھول بجا کر اپنا ایک مخصوص ناچ ناچنے لگے، جب وہ ناچ چکے تو خریم بن عمرو نے اپنی جیب سے انہیں بیس دینار بطور انعام دیے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کے ذہن سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا اور اس نے وہاں سے کوچ کیا ،آگے والا علاقہ بھی جاٹوں کا تھا یہ جاٹوں کے دو قبیلے تھے ایک لاکھا اور ایک سمہ کے علاوہ ایک چھوٹا سا قبیلہ سہتہ بھی تھا، انہیں شاید بہوریا کے طرف سے اطلاع مل چکی تھی کہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی گئی ہے، یہ لوگ بھی ننگے پاؤں اور ننگے سر دوڑے آئے اور انہوں نے بھی اطاعت قبول کرلی اور محمد بن قاسم نے ان کے سرداروں کو بلا کر اعلان کیا کہ وہ اچھے کپڑے پہن سکتے ہیں اور وہ تمام مراعات جو اس نے بہوریا کو بتائی تھی ان کو بھی حاصل ہوگی۔
عرب کے ان مجاہدین کی ایک کٹھن منزل قریب آ گئی تھی، یہ تھا اروڑ جو راجہ داہر کی راجدھانی تھی، محمد بن قاسم نے اپنے جو جاسوس اور دیکھ بھال کے لیے دیگر آدمی آگے بھیج رکھے تھے ،ان سب کو بلایا اور ان کی معلومات کے مطابق نقشہ تیار کیا، بتایا گیا کہ راجہ داہر کے ایک بیٹے گوپی نے اروڑ کو اپنا دارالحکومت بنا رکھا ہے، یہ بھی بتایا گیا کہ گوپی کے سامنے کسی کو یہ کہنے کی جرات نہیں ہوتی کہ راجہ داہر مارا جاچکا ہے ،محمد بن قاسم نے اروڑ کا رخ کیا غروب آفتاب کے وقت ایک مقام پر جا رکا جو اروڑ سے تقریبا ایک میل کے فاصلے پر تھا، اور وہیں خیمے گاڑ دیئے، اروڑ کو محاصرے میں لینے سے پہلے محمد بن قاسم نے خیمہ گاہ میں بڑی عجلت سے ایک مسجد تعمیر کروائی اور جو پہلا جمعہ آیا اس نے جمعہ کا خطبہ دیا اس کے فوراً بعد قلعے کا محاصرہ کر لیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
شہر کے اندر افراتفری پیدا ہوگی مسلمانوں کی دہشت پہلے ہی اس شہر میں پہنچی ہوئی تھی ،مورخ لکھتے ہیں کہ فوج کے حوصلے بھی مضبوط نہیں تھے کیونکہ اس فوج تک ایسی کوئی خبر نہیں پہنچی تھی کہ مسلمانوں کو فلاں جگہ سے پسپا کردیا گیا ہے، یہاں مسلمانوں کی صرف فتوحات اور پیش قدمی کی خبریں پہنچتی رہی تھیں،
اروڑ کے بڑے مندرمیں گھنٹیاں اور گھڑیال بجنے لگے، لوگ مندر کی طرف دوڑے گئے ایک ہجوم تھا جو اتنے بڑے مندر میں سما نہ سکا، لوگ باہر کھڑے ہو گئے۔
اے لوگو !،،،،،،بڑے پنڈت نے اعلان کیا ۔۔۔مت ڈرو !،،،مہاراج داہر بہت بڑی فوج لے کر آرہے ہیں، تم نے دیکھا ہو گا کہ مہاراج کے راجکمار گوپی جو شہر سے باہر تھے یہاں پہنچ گئے ہیں ،اسی طرح مہاراج داہر بھی آ جائیں گے، ایسی باتوں پر یقین نہ کرنا کے مہاراج راوڑ میں مارے گئے تھے، مسلمانوں کو موت یہاں لے آئی ہے۔
اس طرح پنڈتوں نے اپنا معمول بنا لیا کہ صبح و شام یہی اعلان کرتے رہتے کہ راجہ داہر بہت بڑی فوج لے کر آرہا ہے، اور وہ مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کرے گا، اور مسلمان راجہ داہر کی فوج اور قلعے کی فوج کے درمیان پیس دیے جائیں گے۔
محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے مخصوص انداز جنگ سے قلعے کو سر کرنے کی سر توڑ کوشش شروع کردی، یہ طریقہ بھی کئی بار اختیار کیا گیا کہ دیوار کے کسی مقام پر بڑی تیز اور بہت زیادہ تیراندازی کی گئی اور دیوار میں نقب لگانے والے آدمی آگے بھیجے گئے لیکن دیوار کے اوپر قلعے کہ جو سپاہی کھڑے تھے انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا ،تیر کھا کر گرتے رہے لیکن گرنے سے پہلے انہوں نے نقب لگانے والوں پر تیر بھی پھینکے اور برچھیاں بھی، محمد بن قاسم چند مرتبہ یہ کوشش کر کے پیچھے ہٹ آیا۔
تم واپس عرب کیوں نہیں چلے جاتے۔۔۔ قلعے کے اوپر سے آواز آئی۔۔۔ کیا تم نے ہمارے ہاتھوں ہی مرنا ہے۔
دیوار پر جس قدر فوجی تھے ان سب نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا، پھر وہ مسلمانوں پر طنز و دشنام کے تیر برسانے لگے، بار بار یہ للکار سنائی دیتی تھی کہ مسلمانوں تمھیں موت یہاں لے آئی ہے،،،، اب بھی وقت ہے واپس چلے جاؤ۔
راجہ داہر زندہ ہے۔۔۔ ایک اور دبنگ آواز سنائی دی ۔۔۔اس کے آنے سے پہلے یہاں سے بھاگ جاؤ۔
یہ اطلاع تو محمد بن قاسم کو پہلے ہی مل چکی تھی کہ اس شہر میں لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ راجہ داہر فوج لے کر آرہا ہے، محمد بن قاسم نے رات کو اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں اس صورتحال سے آگاہ کیا، اس نے کہا کہ جب تک قلعے کی فوج اور شہر کے لوگوں کو یہ یقین نہیں دلایا جاتا کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے اور وہ کوئی فوج لینے نہیں گیا تب تک ان کے حوصلے بلند رہیں گے، اس مسئلے پر بحث مباحثہ ہوا تو کسی نے ایک حربہ سوچ لیا، محمد بن قاسم نے اس پر غور کیا تو اسے یہ اچھا لگا۔
یہ حربہ رانی لاڈی تھی، راجہ داہر کی اس رانی کو محمد بن قاسم نے اپنے لشکر کے ساتھ رکھا ہوا تھا، اس نے رانی لاڈی کو بلایا اور اسے بتایا کہ اروڑ کے لوگ قلعہ ہمارے حوالے نہیں کر رہے ہیں، اور انھیں یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ راجہ داہر زندہ ہے۔
کیا تم اروڑ کے فریب خوردہ لوگوں پر رحم نہیں کرنا چاہوں گی ؟،،،،،محمد بن قاسم نے رانی لاڈی سے کہا ۔۔۔تم دیکھ رہی ہو کہ محاصرے کا ایک مہینہ گزر گیا ہے، میں اور زیادہ انتظار نہیں کروں گا، اگر کچھ دن اور قلعے کی فوج نے مزاحمت اور دشنام طرازی جاری رکھی تو میں منجنیقوں سے شہر پر پتھر برساؤ گا ،اور تم جانتی ہو کہ ہمارے پاس آگ والے تیر بھی ہیں جو شہر پر برسے تو تمام شہر جل کر راکھ ہو جائے گا ۔
مجھے یہ بتاؤ کہ میں کیا کر سکتی ہوں؟،،،، رانی لاڈی نے پوچھا ۔۔۔کیا تم مجھے قلعے کے اندر بھیج سکتے ہو۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے جواب دیا ۔۔۔یہ شاید تمہارے لئے اچھا نہ ہو، وہ کہہ سکتے ہیں کہ تم بخوشی ہمارے ساتھ رہ رہی ہو، تم میرے ساتھ دیوار تک چلو اور ان لوگوں کو بتاؤ کہ راجہ داہر مارا جاچکا ہے، اور انہیں بتاؤ کہ وہ کس تباہی سے دوچار ہوں گے ۔
ہاں!،،،،،، رانی لاڈی نے کہا۔۔۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷÷*
ایک تو راجہ داہر کا ہاتھی تھا جس کا رنگ عام ہاتھیوں کی نسبت ہلکا تھا ،اس لئے اسے سفید ہاتھی کہا جاتا تھا، اور ایک اونٹ تھا جس کا رنگ سیاہ تھا اور وہ بہت بڑا اونٹ تھا ،داہر کا سفید ہاتھی اور راوڑ کی جنگ میں مارا گیا تھا، اس کا سیاہ اونٹ جو اس کی سواری کے لیے فوج کے ساتھ رہتا تھا محمد بن قاسم کے قبضے میں تھا، تاریخ میں لکھا ہے کہ راجہ داہر اور رانی لاڈی اکٹھے اس اونٹ پر سواری کیا کرتے تھے۔
محمد بن قاسم نے رانی لاڈی کو اس اونٹ پر سوار کیا خود گھوڑے پر سوار ہوا، لاڈی کے چہرے پر نقاب تھا محاصرے تک پہنچ کر محمد بن قاسم رک گیا ،اور اس نے رانی لاڑی کو آگے بھیجا،رانی لاڈی صدر دروازے کے قریب پہنچی تو اس نے اونٹ روک لیا اور چہرے سے نقاب اٹھا دیا ، قلعہ دار دیوار کے اوپر کھڑا تھا۔
اروڑ کے لوگوں !،،،،،،رانی لاڈی نے بلند آواز سے کہا ۔۔۔مجھے پہچانو میں تمہاری رانی ہوں،،،، اپنے حاکموں کو بلاؤں میں ان سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔
تھوڑی ہی دیر بعد دیوار کے اوپر شہر کے حاکم نمودار ہوئے، ان میں راجہ داہر کا بیٹا گوپی بھی تھا۔
ہم نے تمہیں پہچان لیا ہے رانی!،،،، کسی نے اوپر سے کہا ۔۔۔کہو کیا کہنا چاہتی ہوں؟
مان لو کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔وہ زندہ ہوتا تو میں ان مسلمانوں کی قیدی نہ ہوتی، راجہ کا سر اور اس کا جھنڈا ان لوگوں نے اپنے ملک بھیج دیا ہے۔
مورخ لکھتے ہیں کہ اتنا کہہ کر رانی زار و قطار رونے لگی، لیکن قلعے کے اوپر سے جو آوازیں آئیں ان سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں یقین نہیں آرہا۔
تم جھوٹ کہتی ہو۔۔۔ گوپی نے کہا۔۔۔ تم پر ان لٹیروں اور گائے کا گوشت کھانے والوں کا جادو چل گیا ہے، مہاراج داہر زندہ ہیں ،وہ اتنا بڑا لشکر لے کر آرہے ہیں کہ ان مسلمانوں کی اور تمہاری ایک بوٹی بھی نہیں ملے گی، ان کے ساتھ مل کر تم نے اپنے آپ کو ناپاک کر لیا ہے۔
میں تمہیں بہت بڑی تباہی سے بچانا چاہتی ہوں ۔۔۔رانی لاڈی نے روتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ مسلمان شہر کو جلا کر راکھ کر دیں گے ۔
دیوار کے اوپر سے اسے برا بھلا کہا جانے لگا۔
رانی !،،،،محمد بن قاسم نے آواز دی اور بلند آواز سے کہا ۔۔۔واپس آ جاؤ، ان لوگوں کی قسمت میں تباہ ہو جانا ہی لکھا جاچکا ہے تو اس تحریر کو کوئی نہیں مٹا سکتا ۔
رانی لاڈی واپس آگئی۔
زیادہ تر مورخوں نے لکھا ہے کہ رانی لاڈی کی بات پر گوپی اور دوسرے حاکموں کو یقین تو نہ آیا لیکن ایک شک ضرور پیدا ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ محاصرے کو ایک مہینہ گزر گیا تھا اور راجہ داہر کو غائب ہوئے اور زیادہ عرصہ گزر گیا تھا لیکن وہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا ۔
شہر میں ایک بوڑھی جادوگرنی تھی، جو الٹے سیدھے عمل کرتی اور شعبدے دکھاتی تھی، گوپی تین چار فوجی حاکموں کو ساتھ لے کر اس جادوگرنی کے پاس گیا اور اسے کہا کہ وہ بتائے کہ راجہ داہر کہاں ہے؟
اس نے کہا کہ وہ اگلے روز میدان میں کھڑے ہو کر جواب دے گی۔
گوپی تو شاید درپردہ جادوگرنی کے پاس گیا ہوگا ،لیکن کانوں کان شہر کے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ جادوگرنی کل فلاں جگہ اس سوال کا جواب دے گی، اگلے روز اس شہر کے لوگ اس میدان میں اکٹھے ہونے لگے ،بوڑھی جادوگرنی عجیب و غریب لباس میں ملبوس نمودار ہوئی ،اس کے ہاتھ میں سیاہ مرچ کے پودے کی ایک شاخ تھی وہ ایک اونچی جگہ جا کھڑی ہوئی اور سیاہ مرچ کی شاخ بلند کی۔
اے لوگو !،،،،،،اس نے کانپتی ہوئی مگر بلند آواز میں کہا۔۔۔ کیوں وہم میں پڑے ہوئے ہو، میں دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہوا آئی ہوا، سارے ہندوستان کو دیکھ آئی ہوں، مجھے تمہارے راجہ کا کہیں سراغ نہیں ملا ،وہ زندہ ہوتا تو میرے جادو کے زور سے کھینچا ہوا مجھ تک پہنچ جاتا، میرے علم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، راجہ داہر زندہ نہیں اگر تمہیں یقین نہ آئے تو میرے ہاتھ میں سیاہ مرچ کی یہ ہری شاخ دیکھ لو ،یہ پودا یہاں نہیں اگتا یہ میں سراندیب سے توڑ لائی ہوں،،،،،،،،،راجہ داہر کا انتظار چھوڑ دو اور اپنی سلامتی کی فکر کرو۔
جادوگرنی کے اس اعلان سے سب لوگ بہت مایوس ہوئے لوگوں نے مسلمانوں کی منجنیقوں اور آتشیں تیروں کی تباہی کے بڑے خوفناک قصے سن رکھے تھے، انہوں نے اسی وقت قلعہ مسلمانوں کے حوالے کرنے کی باتیں شروع کردیں، اس کا اثر فوج پر بھی ہوا ان میں لڑنے کا جو جذبہ تھا وہ بری طرح مجروح ہوا، ایک دو فوجی حاکموں نے بھی مسلمانوں کے حسن سلوک اور عدل و انصاف کی باتیں شروع کر دیں۔
رات کا وقت تھا کہ مسلمانوں کے محاصرے میں ایک جگہ ایک تیر گرا، اس کے ساتھ ایک باریک کپڑے کا ایک ٹکڑا بندھا ہوا تھا اور اس پر عربی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا، یہ تیر اٹھا کر شعبان ثقفی تک پہنچایا گیا ،یہ پیغام قلعے کے اندر سے آیا تھا اور پیغام بھیجنے والا علافیوں کے قبیلے کا ایک آدمی تھا جو اروڑ میں ملازم تھا۔
کسی بھی مورخ نے اس کا نام نہیں لکھا ، پیغام یہ تھا کہ راجہ داہر کا بیٹا گوپی قلعے سے بھاگ رہا ہے، گوپی نے جب دیکھا کہ شہر کے لوگ حوصلہ ہار بیٹھے ہیں اور ایسا امکان بھی پیدا ہو گیا ہے کہ وہ فوج کے خلاف ہو جائیں گے تو گوپی نے وہاں سے بھاگ نکلنے کا فیصلہ کر لیا اور وہ رات کو کسی طرف سے نکل گیا۔
محمد بن قاسم کے لئے یہ اطلاع بڑی کارآمد تھی اس نے اس قلعہ بند شہر کے لوگوں اور فوجیوں کا حوصلہ جلد ہی توڑنے کے لئے فوج کو حکم دیا کہ بلند آواز سے نعرے لگا کر دیوار پر کھڑے فوجیوں پر تیزی سے تیر برسائیں اور باقی فوج شہر کے دروازوں پر ٹوٹ پڑے۔
محمد بن قاسم کے حکم کی جب تعمیل ہوئی تو مسلمانوں کے نعروں کی گرج شہر کے اندر سنائی دینے لگی ،اس سے لوگ اور فوجی ہمت ہار بیٹھے، آخر شہر کا ایک دروازہ کھلا اور کچھ آدمی جو فوجی نہیں لگتے تھے باہر نکلے، انہوں نے ذرا پیچھے رک کر کہا کہ انھیں شہر کے تاجروں اور دوسرے لوگوں نے بھیجا ہے، ان کے اس اعلان پر انہیں آگے بلایا گیا اور محمد بن قاسم سے ملوایا گیا۔
ہم دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے آئے ہیں۔۔۔ اس وفد کے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔آپ کا مقابلہ اس یقین کے ساتھ ہوتا رہا ہے کہ راجہ داہر زندہ ہے اور فوج لے کر آرہا ہے، اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ وہ زندہ نہیں، راج دربار کا یہ حال ہے کہ وہاں راجکمار گوپی تھا لیکن وہ ہمیں بے یارومددگار چھوڑ کر قلعے سے نکل گیا ہے، نہ ہم میں آپ کے مقابلے کی ہمت ہے نہ ہماری فوج ، ہم آپ کی اطاعت قبول کرتے ہیں، ہماری جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت آپ کے ذمہ ہے۔
تم لوگوں نے عقل مندی سے کام لیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن جب تک تمہاری فوج دیواروں پر اور قلعے کے اندر موجود ہے ہم تم لوگوں پر اعتبار نہیں کرسکتے، دیواروں سے تمام فوجی نیچے چلے جائیں اور قلعے کے تمام حاکم قلعے سے باہر آجائیں۔
وفد واپس چلا گیا مسلمان دیکھتے رہے کچھ ہی دیر بعد دیوار کے اوپر جو ہندو فوجی کھڑے تھے وہ غائب ہونے لگے، پھر جس دروازے سے وہ وفد باہر آیا تھا اس سے بہت سے فوجی حاکم جو سالاری کے رتبے کے تھے باہر آئے ،سب نے اپنی تلوار محمد بن قاسم کے آگے رکھ دی، اور شہر کی چابی اسے پیش کی گئی۔
محمد بن قاسم اپنی فوج کے آگے شہر میں داخل ہوا شہر میں اس کی نظر ایک مندر پر پڑی جسے وہ لوگ نوبہار کہتے تھے، اس کے قریب سے گزرتے اس کی نظر دروازے کے اندر چلی گئی دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک بت کے آگے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں، محمد بن قاسم گھوڑے سے اترا اور اس بت خانے کے اندر چلا گیا، یہ ایک خوبصورت پتھر سے تراشا ہوا گھوڑا تھا اس پر پتھر سے تراشا ہوا ایک دیوتا سوار تھا، سوار کے دونوں آستینوں پر چمڑے کے بازوبند چڑھے ہوئے تھے جن میں زروجواہرات جڑے ہوئے تھے، محمد بن قاسم نے ایک بازوبند اتار لیا۔
اس عبادت گاہ کا پروہت کون ہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا اور کہا ۔۔۔اسے بلاؤ ۔
ایک پجاری دست بستہ محمد بن قاسم کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
اس بت کا دوسرا بازوبند کہاں ہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
نہیں معلوم!،،،،،، پوجاری نے جواب دیا ۔
اس بت سے پوچھو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔
یہ کیسے بتا سکتا ہے ۔۔۔بوڑھا پوجاری ہنس کر بولا ۔۔۔یہ تو پتھر ہے۔
پھر تم اس کی کیوں پوجا کرتے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔جسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا بازو بند کس نے اتار لیا ہے، وہ تمہارے کس کام آتا ہوگا ؟
پجاری خاموش ہو گیا اور محمد بن قاسم ہنستا ہوا باہر نکل آیا۔
*<=======۔==========>*
*قسط نمبر/30*
محمد بن قاسم کی ہنسی اور مسکراہٹ میں اسلام کا نور تھا، آج کے سندھ کی ریت کے ذرے بھی اسلام کے نور سے جگمگا اٹھے تھے، اروڑ جو اسلام کے دشمن راجہ داہر کے وسیع و عریض راج کا مرکز تھا محمد بن قاسم اور اس کے مجاہدین کے قدموں میں پڑا تھا۔ راجہ داہر تو مارا جا چکا تھا لیکن اروڑ داہر کے مرنے کے بعد بھی اس کفرستان کا اعصابی مرکز تھا اسے تہ تیغ کرنا بہت ہی ضروری تھا۔
شہر میں بھگدڑ اور افراتفری بپا تھی محمد بن قاسم کی فوج ابھی شہر میں داخل ہو ہی رہی تھی شہر کے لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ان پر جبر اور تشدد نہیں ہوگا پھر بھی لوگ خوف و ہراس سے قلعے میں سے نکل بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ جب دیکھتے تھے کہ شہر پناہ کے دروازوں سے نکلنا ممکن نہیں رہا کیوں کہ دروازہ پر مسلمانوں کا پہرا کھڑا ہو گیا تھا تو لوگ گھروں میں گھس کر دروازے بند کر لیتے مگر خوفزدگی کا یہ عالم تھا کہ وہ گھروں میں بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے تھے اور بھاگتے پھر رہے تھے۔
محمد بن قاسم نے حکم دیا کے شہر میں اعلان کر دیا جائے کہ شہر کے ہر مرد، عورت، بوڑھے، اور بچے کو امان دی جاتی ہے، شہر والوں کے مال و اموال اور ان کی عورتوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، یہ اعلان سورج غروب ہونے تک ہوتا رہا تھا کہ ہر گھر میں پہنچ جائے۔ محمد بن قاسم نے کہا اور یہ اعلان بھی کیا جائے کہ شہر کے لوگ ان آدمیوں کو گھروں سے باہر نکالے جو ہمارے خلاف جنگ میں شریک تھے، اگر اروڑ کا کوئی فوجی کسی گھر میں چھپا ہو ا مل گیا تو اس گھر کے تمام افراد کو جن میں عورتیں اور بچے شامل نہیں ہونگے قتل کر دیا جائے گا۔
فتوح البلدان میں ذکر ہے کہ محمد بن قاسم نے حکم دے دیا کہ جو لوگ فوجی اور شہری لڑائی میں شریک تھے انہیں قتل کر دیا جائے۔
ابھی محمد بن قاسم راجہ داہر کے محل میں نہیں پہنچا تھا سب سے پہلے وہ اس بت خانے میں چلا گیا تھا جسے نوبہار کہتے تھے، اس کا ذکر ہو چکا ہے وہیں سے باہر آکر اس نے شہریوں کو امن و امان دینے کا پھر جنگ میں شریک ہونے والوں کے قتل کا حکم دیا تھا، پھر وہ آہستہ آہستہ اروڑ کے محل کی طرف چل پڑا ،اسے اطمینان تھا کہ اس کے احکام پر عمل ہورہا ہے اور فوج کا ہر فرد اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے ،ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ فوج کے بعض آدمی چوری چھپے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہونگے، گھروں میں داخل ہو کر لوگوں کو پریشان کر رہے ہونگے ،اگر مجاہدین کو اس قسم کا لالچ ہوتا تو وہ اتنی فتوحات بھی حاصل نہ کرسکتے ۔
ان فوجیوں اور شہریوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی جو اروڑ کے دفاع میں لڑے تھے، ان کے ہاتھوں متعدد مجاہدین شہید اور زخمی ہوئے تھے۔
محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار ادھر ادھر دیکھتا جا رہا تھا اس کے پیچھے پیچھے محافظوں کے گھوڑے تھے اور چار قاصد بھی گھوڑوں پر سوار ساتھ ساتھ جا رہے تھے ،ایک ترجمان بھی ساتھ تھا جو عربی اور سندھی زبانیں روانی سے بولتا تھا، ایک بڑھیا سامنے سے آتی نظر آئی، اس کا حال حلیہ یہ بتا رہا تھا کہ مجذوب ہے، اس نے سر پر رومال باندھ رکھا تھا ،اس کے سفید بال رومال سے باہر لٹک رہے تھے، رومال پر سرخ رنگ کی پٹی لپیٹی ہوئی تھی جس نے اس کی پیشانی ڈھانپ رکھی تھی، گلے میں کھجور جتنے موٹے کسی رنگوں کے موتیوں کی مالا لٹک رہی تھیں اس نے ایک لمبا چغی پہنا ہوا تھا جو کندھوں سے پاؤں تک چلا گیا تھا ،اس کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے، پاؤں پر کپڑے لپٹے ہوئے تھے اس کا قد لمبوترا تھا۔
وہ محمد بن قاسم کے گھوڑے کے بالمقابل آ رہی تھی ایک محافظ نے اپنا گھوڑا آگے کیا اور اس بڑھیا کو راستے سے ہٹنے کو کہا، لیکن بڑھیا کچھ کہے بغیر محافظ کے گھوڑے کے پہلو سے آگے نکل آئی، اس کے ایک ہاتھ میں ڈیڑھ دو فٹ لمبی کسی پودے کی شاخ تھی ،اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک تسبیح تھی جس کے دانے کانچ کے بلوروں جیسے موٹے تھے لیکن ان میں چمک نہیں تھی، اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا لیکن اس کے چہرے پر جلال سا تھا اور اس کی آنکھوں میں ایسا تاثر تھا جیسے اس کی نظریں دوسروں کی آنکھوں سے ان کے دلوں میں اتر رہی ہو ۔
دوسرا محافظ آگے بڑھا اس نے اپنا گھوڑا اس پگلی سی بھڑیا اور محمد بن قاسم کے گھوڑے کے درمیان کردیا۔
مت آ میرے راستے میں آئے فاتح سوار !،،،،،بڑھیا نے محافظ سے کہا ۔۔۔اپنے سالار سے کہہ کہ فتح پر اتنا نہ اِترائے۔
ترجمان نے محمد بن قاسم کو عربی زبان میں بتایا کہ بڑھیا نے کیا کہا ہے۔
اس کے راستے سے ہٹ جاؤ !،،،،،،محمد بن قاسم نے اپنے محافظ سے کہا۔
محافظ نے اپنا گھوڑا ہٹا لیا تو بڑھیا محمد بن قاسم کے قریب آ گئی۔
ایک گھوڑسوار گھوڑا دوڑاتا آیا اور محمد بن قاسم کے قریب آکر گھوڑا روکا ،وہ شعبان ثقفی تھا ۔
ابن قاسم !،،،،،،،شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ کیا تم جان چکے ہو یہ بڑھیا کون ہے؟
ابھی نہیں شعبان!،،،
یہ جادو گرنی ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اس کے متعلق مجھے مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ اس نے لوگوں اور راجہ داہر کے بیٹے گوپی کو بتایا تھا کہ راجہ مارا جاچکا ہے، کہتے ہیں کہ اس نے اپنے جادو کے ذریعے معلوم کیا تھا کہ راجہ داہر زندہ نہیں۔
کیا تیرا جادو ان زندہ لوگوں کو دیکھ سکتا ہے جنہیں تیری نظر نہیں دیکھ سکتی ؟،،،،،محمد بن قاسم نے بوڑھی جادوگرنی سے پوچھا۔
کیا تو میرے ہاتھ میں یہ ڈالی نہیں دیکھ رہا۔۔۔ جادوگرنی نے کہا ۔۔۔یہ سرخ مرچ کے پودے کی ڈالی ہے جو راجہ داہر کی سلطنت میں کہیں نہیں ملے گی، یہ پودا یہاں نہیں اگتا، کیا تو بتا سکتا ہے کہ یہ میرے ہاتھ میں کہاں سے آ گیا؟
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے جواب دیا۔
تو نہیں بتا سکے گا ۔۔۔جادوگرنی نے کہا۔۔۔ تجھے صرف قلعے اور فوجی نظر آتی ہیں، تو صرف فتح اور شکست کو سمجھتا ہے، تجھے یہ معلوم نہیں کہ تیرا کل کا دن کیسا ہو گا، تیری زندگی کا سورج طلوع ہو گا یا نہیں تو نہیں جانتا۔
میں صرف یہ جانتا ہوں کہ آج کا دن اپنے ان فرائض کی ادائیگی میں گزرے جو خدا نے میرے سپرد کیے ہیں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور جب میں خدا کے سامنے جاؤں تو میں یہ کہہ سکوں کہ میں نے اپنے فرائض سے آنکھیں نہیں پھیریں۔
محمد بن قاسم نے اس عورت کے ساتھ جو مجذوب اور پاگل لگتی تھی اتنی سنجیدگی سے اس لئے بات کی تھی کہ اس کے بولنے کے انداز اور الفاظ میں ایسا تاثر تھا جو گواہی دیتا تھا کہ یہ عورت مجذوب نہیں پاگل بھی نہیں۔
کیا تو گھوڑے سے نہیں اترے گا ؟،،،،جادوگرنی نے کہا ۔۔۔تو گھوڑے سے ضرور اترے گا، تیرا چہرہ اور تیری آنکھیں بتا رہی ہیں کہ تو ان بادشاہوں جیسا نہیں جو مجھ جیسوں کو پاؤں تلے کچلے جانے والے کیڑے سمجھتے ہیں ۔
محمد بن قاسم گھوڑے سے اتر آیا ،جادوگرنی نے اس کے سر پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ اس کی انگلیاں محمد بن قاسم کے سر پر، انگوٹھا ناک کی سیدھ میں اوپر پیشانی کے درمیان تھا۔ جادوگرنی نے محمد بن قاسم کی آنکھوں میں جھانکا اور فوراً اپنا ہاتھ اس کے سر سے ہٹا کر ذرا پیچھے ہٹ گئی۔
راجہ داہر مر چکا ہے اور سب کہتی ہیں کہ وہ زندہ ہے۔۔۔ جادوگرنی نے کہا۔۔۔ اور تو زندہ ہے لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ نہیں،،،،،، آگے مت سنو۔۔۔ وہ چپ ہو گئی اور ایک طرف چل پڑی۔
محمد بن قاسم نے اپنا بازو اس کے آگے کر کے اسے روک لیا۔
میں اس سے آگے سنوں گا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم مجھے میری موت کی خبر نہیں سنانا چاہتی، تم شاید نہیں جانتی کہ ہم موت کو قبول کر کے گھروں سے نکلے ہیں، گزرنے والے ہر لمحے کو ہم زندگی کا آخری لمحہ سمجھتے ہیں ،موت ہمیں ڈرا نہیں سکتی، دشمن کی کمان سے نکلا ہوا کوئی بھی تیر میرے سینے میں اتر سکتا ہے، تم مجھے میری موت کی خبر سنائی تو مجھ پر کچھ اثر نہیں ہو گا۔
تو میدان جنگ میں نہیں مرے گا ۔۔۔جادوگرنی نے کہا۔۔۔ اور تیری عمر لمبی بھی نہیں، تیرا ستارہ بہت اونچا چلا گیا ہے اور بڑی تیزی سے اونچا گیا ہے، اسے اب ٹوٹنا ہے۔
کب ؟
اسی عمر میں۔۔۔ جادوگرنی نے جواب دیا۔۔۔۔ لیکن اس کی روشنی نہیں بجھے گی ۔
محمد بن قاسم ہنس پڑا اسکے چہرے پر جو تاثر تھا اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ آئی۔
ہر بادشاہ اور ہر مہاراجہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے۔۔۔ جادوگرنی نے کہا ۔۔۔ساری رعایا کی عمر اس اکیلے کو مل جائے لیکن ایک روز موت اچانک آ جاتی ہے اور وہ رعایا کی آنکھوں کے سامنے دفن ہو جاتا ہے۔
میرا مذہب ایسی بادشاہی کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ مجھے یہ معلوم کرنے کی خواہش ہی نہیں کہ میں کب تک زندہ رہوں گا۔
تم نے ابھی آگے جانا ہے۔۔۔ جادوگرنی نے کہا ۔۔۔اور وہ چل پڑی۔
محمد بن قاسم نے اسے نہ روکا محمد بن قاسم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم اروڑ کے محل کے احاطے میں داخل ہوا، ریگزار میں اتنے سرسبز اور حسین نخلستان کو دیکھ کر اس نے گھوڑا روک لیا اور ہر سُو دیکھا ،اس کے ہونٹوں پر جو لطیف سی مسکراہٹ تھی وہ نکھر آئی ۔
یہاں وہ لوگ رہتے تھے جو سمجھتے تھے کہ موت بھی ان کے حکم کی پابند ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
کسی بھی مورخ نے نہیں لکھا کہ اس وقت راجہ داہر کے خاندان کے کون کون سے افراد محل میں موجود تھے، اس کے بیٹے گوپی کے متعلق پتہ چلا ہے کہ وہ اروڑ سے بھاگ گیا تھا، وہ اپنے خاندان اور ملازموں کو بھی ساتھ لے گیا تھا ،صرف راجہ داہر کی رانی لاڈی وہاں تھی، وہ محمد بن قاسم کے ساتھ قلعے میں داخل ہوئی تھی اور اسے محمد بن قاسم نے کہا تھا کہ وہ محل میں چلی جائے، محمد بن قاسم گھوڑے سے اتر کر محل میں داخل ہوا تو لاڈی باہر آ گئی اور محمد بن قاسم کے سامنے آ رکی۔
کیا آپ نے ان تمام لوگوں کے قتل کا حکم دیا ہے جو آپ کے خلاف جنگ میں شریک تھے؟۔۔۔رانی لاڈی نے محمد بن قاسم سے پوچھا ۔
ہاں !،،،،،محمد بن قاسم نے جواب دیا ۔۔۔ہم صرف اسی کی جان بخشی کیا کرتے ہیں جو ہمارے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
فاتح بادشاہوں کا دستور تو یہی ہے۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا۔۔۔ لیکن آپ کا دستور یہ نہیں ہونا چاہیے ،آپ تو انسان دوستی کا دعوی کیا کرتے ہیں۔
اگر تم میرے جنگی معاملات میں دخل نہ دو تو میرے دل میں تمہاری عزت موجود رہے گی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم اپنے لوگوں کو بچانا چاہتی ہو، ان لوگوں نے تمھاری بات بھی نہیں مانی تھی، انہوں نے تمہارا مذاق اڑایا تھا اور تم پر بہت برے الزامات لگائے تھے۔
دونوں باتیں غلط ہیں ۔۔۔رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔میں آپ کے جنگی معاملات میں دخل نہیں دے رہی، نہ میں اپنے آدمیوں کو بچانا چاہتی ہوں ،میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ ان لوگوں نے اس ڈر سے ہتھیار نہیں ڈالے تھے کہ آپ کی فوج شہر میں داخل ہوگئی تو لوٹ مار کرے گی اور کسی کی عزت اور آبرو نہیں رہنے دے گی۔
ہم مفتوحہ قلعے کی فوج اور لڑنے والے شہریوں کو اس لئے ختم کردیتے ہیں کہ وہ ایک جگہ سے بھاگ کر دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں اور وہاں کی فوج کے ساتھ مل کر اسے مضبوط بنادیتے ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ دشمن کی جنگی قوت کو کمزور کیا جائے۔
میں کسی اور مقصد کے لئے آپ سے کہہ رہی ہو کہ قتل عام کا حکم نہ دیں۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا۔۔۔ کوئی شک نہیں کہ آپ مجھ سے زیادہ عقل والے ہیں، یہ عقل ہی ہے جو آپ کو عرب سے اروڑ تک لے آئی ہے اور یہاں پہاڑوں جیسے قلعے آپ کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکیں، لیکن عقل کبھی دھوکا بھی دیتی ہے، آپ اروڑ کے لوگوں کو نہیں جانتے ،یہ شہر صنعت اور زراعت کا مرکز ہے، فوجی بھی فارغ وقت میں کھیتی باڑی کرتے ہیں، اور ان میں کاریگر بھی ہیں، دوسرے لوگ کاریگر بھی ہیں معمار اور کاشتکار بھی ہیں، جنگی ہتھیار اور سازوسامان بنانے والے بھی ہیں ،تاجر ایسے ہیں کہ انہوں نے تمام ملک ہند میں تجارت پھیلا رکھی ہے، یہ صحیح ہے کہ یہ لوگ بھی فوج کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف لڑے تھے اور انہوں نے اپنے ذاتی ملازموں کو بھی آپ کے خلاف لڑایا تھا ،اور ان لوگوں نے عہد کیا تھا کہ قلعہ بغیر لڑے آپ کے حوالے نہیں کریں گے، فاتحین کے رواج کے مطابق انھیں آپ کے ہاتھوں قتل ہی ہونا چاہیے لیکن ان کے قتل سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ ان کاریگروں، کاشت کاروں اور تاجروں کو قتل کردیں گے جن کے محصولات سے آپ کی سلطنت کا کاروبار چلے گا ،ورنہ آپ کا خزانہ خالی ہو جائے گا، پھر آپ ان لوگوں پر جبر کرکے محصولات وصول کریں گے جو آپ کو ایک ایک مٹھی دانہ دینے کے بھی قابل نہیں ہونگے۔
ایسا تو ہرگز نہیں تھا کہ محمد بن قاسم نے ایک ہندو عورت کے کہنے پر ان لوگوں کے قتل کا فیصلہ منسوخ کردیا، البتہ وہ رانی لاڈی کی بات سمجھ گیا اس نے اپنے سالاروں، مشیروں ،اور خصوصا شعبان ثقفی سے صلح مشورہ کرکے قتل کا فیصلہ منسوخ کردیا
یہ فیصلہ اروڑ کے محل میں ہوا تھا، جب سالار اور مشیر وغیرہ چلے گئے تو ایک آدمی محمد بن قاسم کے پاس آیا اور اس نے عربی زبان میں بات کی، وہ ادھیڑ عمر کا آدمی تھا ۔
خدا کی قسم تیری زبان میں عرب کے صحرا کی چاشنی ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن تو ہم میں سے نہیں، میرے ساتھ آنے والوں سے نہیں۔
سلامتی ہو تجھ پر ابن قاسم!،،،،،،،، اس آدمی نے کہا۔۔۔ میں ان میں سے ہوں جو بغاوت کے جرم میں جلا وطن ہیں ،میرا نام حمود ہے، حمود بن جابر، میں اس محل میں ملازم رہا ہوں، میری دشمنی خلیفہ سے ہو سکتی ہے، اپنے وطن اور اپنے مذہب اور اپنے وطن کے سالاروں سے تو میری کوئی دشمنی نہیں،،،،،،،، اور مجھے یقین ہے کہ تجھے معلوم ہوگا کہ جنہیں بنوامیہ نے اپنا دشمن اور باغی کہا وہ کس طرح درپردہ تیری مدد کرتے رہے۔
ابن جابر !،،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم سب کو اجر اللہ دے گا ،حجاج بن یوسف نے مجھے یہاں اپنی بادشاہی میں نئے ملک شامل کرنے کے لئے نہیں بھیجا، تو جانتا ہے ہم یہاں کیوں آئے ہیں، میں یہاں آیا تو ایک بت کے آگے کچھ لوگوں کو سجدے میں پڑا دیکھا ،میں نے نظر بچا کر بت کا بازوبند اتار لیا، بت کو پتہ نہ چلا ،اس بت کی عبادت کرنے والوں کے ہاتھ سے قلعہ نکل گیا اور انہیں شکست ہوئی مگر یہ لوگ ابھی تک اس بے جان بت کے آگے سجدہ کررہے تھے ،اگر میں انہیں یہ نہ بتاؤ کے عبادت کے لائق صرف اللہ ہے اور فتح و شکست اسی کے ہاتھ میں ہے تو کیا میں گنہگار نہیں ہوں ہوگا ،میں اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے گھر سے نکلا ہوں۔
میں ایک بات کرنے آیا ہوں ابن قاسم !،،،،،،حمود بن جابر نے کہا ۔۔۔تو نے اروڑ کی فوج اور شہر کے ان لوگوں کو جو تیرے خلاف لڑے تھے بخش دیا ہے ۔
کیا میں نے ٹھیک نہیں کیا؟
ابن قاسم !،،،،،،حمود نے کہا۔۔۔۔ میں تجھے یہی بتانے آیا ہوں کہ تیرا فیصلہ ٹھیک ہے، لیکن اس قوم سے ہوشیار رہنا ان کے جسموں کو قتل نہ کرنا ان کے جسموں کے اندر جو انسان ہے انہیں قتل ہونا چاہیے، ان پر بتوں کا جو بھوت سوار ہے اس کی جان بخشی نہ کرنا، انہیں اسلام کی روشنی پیار سے دیکھا، کوئی اور طریقہ اختیار کرو ورنہ یہ سمجھ لو کہ تو نے سانپوں کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی سے کہا کہ وہ شہر میں زیادہ سے زیادہ مخبر پھیلا دے اور ہر گھر کے اندر کے حالات بھی معلوم کرتا رہے ،اس حکم کے تحت جو مخبر بنائے گئے وہ سب کے سب مقامی لوگ تھے شہر کے انتظامات اور نظم و نسق کو نئی شکل دی گئی ،محمد بن قاسم نے رواح بن اسد کو اروڑ کا حاکم مقرر کیا ۔
چونکہ اروڑ کے لوگوں کو بخش دیا گیا تھا اس لئے ان کے دلوں اور ان کی سوچوں کو اپنی طرف مائل کرنا ضروری تھا اس کے لئے محمد بن قاسم نے مذہبی امور کے لیے الگ حاکم مقرر کردیا، یہ تھا موسی بن یعقوب بن محمد بن شیبان بن عمان ثقفی، شہر کا قاضی بھی اسی کو مقرر کیا گیا۔
ابن یعقوب !،،،،،محمد بن قاسم نے ان سے خصوصی ہدایات دیتے ہوئے کہا ،،،،،اہل ثقیف کو آپ پر فخر ہے ،آپ مجاہد بھی ہیں ،عالم بھی ہیں ،ہم نے کفرستان میں آکر اپنی عدالت قائم کی ہے ،ان غیر مسلموں کو عمل سے بتانا ہے کہ عدل و انصاف کیا ہوتا ہے، انہیں دکھانا ہے کہ مسلمانوں کی عدالت اللہ کے احکام کی پابند ہوتی ہے اور اس عدالت میں امیر اور غریب حاکم اور محکوم ایک ہوتے ہیں، اللہ کا قانون دنیاوی رتبوں سے انسانوں کی اونچ نیچ کا تعین نہیں کرتا۔
چچ نامہ فارسی میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے موسی بن یعقوب سے کہا کہ وہ قرآن کی اس آیت کو مشعل راہ بنائے،
*یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر*
محمد بن قاسم کو اب آگے بڑھنا تھا لیکن وہ یہ دیکھنے کے لئے رکا رہا کہ اروڑ کی سرکاری مشینری کس طرح چل رہی ہے، اور جزیہ کی وصولی میں کوئی دشواری تو نہیں پیش آرہی، دیکھنے والی بات یہ تھی کہ اروڑ کے لوگوں کا درپردہ رویہ کیا ہے اور ان کے دلوں میں کوئی خطرناک ارادے پرورش نہ پا رہے ہوں۔
مخبر اپنا کام کر رہے تھے ان کی اطلاع آئی امید افزا تھی لوگوں نے اپنا کاروبار شروع کردیا تھا شہر کے حالات معمول پر آگئے تھے چونکہ محمد بن قاسم نے شہر کے لوگوں پر اسلام قبول کرنے کی پابندی عائد نہیں کی تھی اور عبادت گاہوں پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی اس لئے تمام غیر مسلم مسلمانوں کے ممنون تھے ان کی عزت بھی محفوظ تھی ان کے مویشی اور مال و اموال بھی محفوظ تھے، ان کی اپنی فوج ان سے اناج بلاقیمت لے لیا کرتی تھی یا برائے نام پیسے دے دیا کرتی تھی لیکن مسلمان ان سے پوری قیمت دے کر اناج اور دیگر اشیاء خریدتے تھے ان کے ساتھ مسلمانوں کا یہ سلوک خلاف توقع تھا، حالانکہ انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ مسلمان مفتوحہ لوگوں پر جبروتشدد نہیں کرتے۔
ایسے اچھے سلوک اور رویے کا اثر اروڑ کے لوگوں پر ایسا پڑا کے انہوں نے بظاہر دل سے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی تھی، مذہبی امور کے حاکم اور قاضی موسی بن یعقوب نے اسلام کی تبلیغ شروع کردی تھی اور چند ایک ہندو خاندانوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، پھر بھی محمد بن قاسم کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا رات کو اس نے رانی لاڈی کو بلایا،
لاڈی عالم شباب میں تھی اور اس کا حسن بے مثال تھا وہ راجہ داہر پر طلسم کی طرح چھائی رہتی تھی مگر داہر کے جسم سے شباب کبھی کا رخصت ہوچکا تھا ،اس وقت لاڈی نوجوان تھی اب تو داہر کے جسم سے روح بھی رخصت ہو چکی تھی، لاڈی نے محمد بن قاسم کو اعتماد میں لے لیا تھا اور اس کے دل میں اپنا اعتماد پیدا کر لیا تھا، یہ پہلا موقع تھا کہ محمد بن قاسم نے اسے رات کو بلایا تھا رات کو بلانے کا مطلب وہ سمجھتی تھی۔
وہ جب محمد بن قاسم کے کمرے میں داخل ہوئی تو تاریخ اسلام کا یہ نوجوان اسے دیکھ کر حیران رہ گیا اس نے اس جواں سال رانی کو عام اور قدرتی حالت میں دیکھا تھا اور اس رات تک وہ سادگی میں ہی رہی تھی وہ بیوہ ہو چکی تھی اور فاتح سالار کے پاس اس کی حیثیت قیدی کی تھی وہ اب رانی نہیں تھی کہ بن ٹھن کر رہتی وہ سادہ کپڑوں میں ملبوس رہتی تھی مگر محمد بن قاسم کے بلانے پر آئی تو بن ٹھن کر آئی ریشمی کپڑوں بناؤ سنگھار اور فانوس کی پیلی روشنی میں وہ محمد بن قاسم سے چھوٹی لگتی تھی، اس کے ہونٹوں پر جو تبسم تھا وہ اس کے جذبات کے وبال کا پتا دیتا تھا ۔
مجھے معلوم تھا ایک رات تم مجھے بلاؤ گے۔۔۔ رانی لاڈی نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ تمہارے شباب نے آخر تمہیں مجبور کرہی دیا ۔
محمد بن قاسم ہنس پڑا۔
میں نے تمہیں مجبور ہوکر ہی بلایا ہے لاڈی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اب تم اگر بناؤ سنگھار کے بغیر آتی تو میں شاید زیادہ خوش ہوتا۔
میں ایک خوبصورت شکریہ بن کر آئی ہوں۔۔۔ لاڈی نے کہا۔۔۔ تم نے مجھے جو عزت دی ہے اس کا شکریہ بناؤ سنگھار کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا، میں قیدی تھی تمہاری، لیکن تم نے مجھے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں قیدی ہوں میں تمہیں کہا کہ اروڑ کے لوگوں کو قتل نہ کرو تم نے میری بات مان لی، اگر میں اب بھی رانی ہوتی تو تمہیں اپنے تخت پر بیٹھاتی، مگر اب میرے پاس کچھ نہیں اب میں تمہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی ہوں ،اب میرے پاس اپنا صرف وجود ہے جو میں صلے کے طور پر پیش کرنے آئی ہوں۔
مجھے صلہ ہی چاہیے لاڈی!،،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔۔ لیکن صلے میں تمہیں قبول نہیں کروں گا، میری ضرورت صرف اتنی ہے کہ سچے دل سے میری رہنمائی کرو، اور جو میں نہیں جانتا وہ مجھے بتاؤ ،اگر مجھے تمہاری ضرورت ہوتی تو یہ آدمی اس کمرے میں موجود نہ ہوتا جو تمہاری اور میری باتیں ہم دونوں کی زبان میں ہم دونوں کو سنا رہا ہے، جذبات تم لے کر آئی ہو وہی جذبات میرے ہوتے تو اس آدمی کی ضرورت نہیں تھی، ان جذبات کی زبان ساری دنیا میں سمجھی جاتی ہے۔
محمد بن قاسم نے اسے الگ بیٹھا دیا۔
میں نے تم سے ایک دو باتیں پوچھنی ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میری اگلی منزل بھاٹیہ ہے ،میں معلوم کر چکا ہوں کہ بھاٹیہ کتنا بڑا قصبہ ہے اور وہاں فوج کتنی ہے اور وہاں کے راجہ کا نام ککسہ ہے ،مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ ککسہ راجہ داہر کا چچا زاد بھائی ہے، کیا تم بتا سکتی ہو کہ وہ کیسا آدمی ہے، کیا وہ راجہ داہر کی طرح اکھڑا مزاج ہے؟
نہیں !،،،،،،لاڈی نے جواب دیا ۔۔۔۔وہ راجہ داہر کی طرح اکھڑ مزاج نہیں ،وہ دانشمند ہے اور دانشمندی سے فیصلہ کرتا ہے، میدان جنگ کا دلیر شہسوار ہے، اور تیغ زنی میں کوئی اسے شکست نہیں دے سکتا، بشرطیکہ ایک آدمی کے مقابلے میں ایک آدمی میدان میں اترے ،تمہیں شاید معلوم نہیں کہ ککسہ تمہارے خلاف لڑ چکا ہے، وہ راجا داہر کے ساتھ تھا، راجہ داہر کو ککسہ کا بہت سہارا تھا مگر وہ مارا گیا اور ککسہ اروڑ میں آگیا، تمہاری فوج کی اطلاع ملی کے اروڑ کی طرف آ رہی ہے تو ککسہ یہاں سے بھاٹیہ چلا گیا۔
وہ لڑے بے غیر قلعہ ہمارے حوالے نہیں کرے گا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میرے مجاہد اس سے قلعہ لے لیں گے لیکن خون بہت بہہ جائے گا ،میں چاہتا ہوں کہ وہ لڑے بغیرہی ہماری اطاعت قبول کر لے۔
اگر اجازت دو تو میں اس کے پاس چلی جاؤں گی۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔اور اس سے کہوں گی کہ آخر اسے شکست ہی کھانی ہے تو کیوں نہ وہ خونریزی کے بغیر ہی تمہاری اطاعت قبول کر لے۔
نہیں لاڈی !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ وہ کہے گا کہ مسلمانوں کا سپہ سالار بزدل ہے، کہ اس نے ایک عورت کو فتح کا ذریعہ بنایا ہے، میں تم سے صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں عقل کتنی ہے ؟
وہ اروڑ کا رہنے والا ہے۔۔۔ لاڈی نے کہا ۔۔۔ہم نے دیکھ لیا ہے کہ اروڑ کے لوگ عقل مند ہیں دیانت دار اور وفادار ہیں ،ککسہ ان لوگوں سے زیادہ عقلمند ہے، لڑنے کا یا نہ لڑنے کا فیصلہ کرے گا تو سوچ سمجھ کر کرے گا، میری ضرورت ہوئی تو میں اس کے پاس چلی جاؤں گی۔
رانی لاڈی محمد بن قاسم کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر مایوسی کا گہرا تاثر تھا، وہ کچھ اور سوچ کر آئی تھی لیکن مورخوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عورت عقل و دانش والی تھی، اچھے برے کی تمیز بھی رکھتی تھی ،وہ محمد بن قاسم کو آپ کہتی رہی اور بے تکلفی سے اس نے تم بھی کہا لیکن اس رات اس نے محسوس کرلیا کہ مسلمانوں کا یہ نوجوان سالار جسم نہیں روح ہے، یا یہ خوبصورت نوجوان سرتاپا روحانی قوت ہے ۔
رانی لاڈی کمرے سے نکل گئی اور فوراً ہی واپس آگئی۔
مجھے معاف کر دو گے محمد بن قاسم؟،،،،، اس نے کہا۔۔۔ میں تمہیں ناپاک کرنے آئی تھی۔
کیا تم مجھ پر اپنا جادو چلا کر مجھے نقصان پہنچانے کا ارادہ لے کر آئی تھیں؟،،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔۔وہ کیا تم یہ امید لے کر آئی تھیں کہ مجھ پر اپنا یہ حسین آسیب طاری کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گی؟
مت سوچو ایسی بات محمد بن قاسم !،،،،،لاڈی نے کہا ۔۔۔میرا کوئی ارادہ ایسا نہیں جس سے تمہیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ،تم دیوتا ہو ،حسین اور جوان عورت کو دیکھ کر تو بادشاہ انسانوں کی سطح سے بھی نیچے آ جایا کرتے ہیں، میں نے تمہیں بھی ایسا ہی بادشاہ سمجھا تھا۔
تم بھی اسی لئے انسانوں کی سطح سے نیچے اتر آئی تھیں کہ تم شاہی خاندان کی عورت ہو۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
نہیں!،،،،، لاڈی نے کہا ۔۔۔۔میری رگوں میں شاہی خاندان کا خون نہیں ،میں تو معمولی سے ایک تاجر کی بیٹی ہوں جسے راجہ داہر نے دیکھا تو اپنے لیے پسند کر لیا ،میرے دل میں عام لوگوں کی محبت ہے، اسی لیے میں نے قلعے کے دروازے کے قریب آکر اروڑ کی فوج سے کہا تھا کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے، اور وہ تمہاری اطاعت قبول کر لیں، پھر میں نے تمہیں کہا تھا کہ لڑنے والوں کو قتل نہ کرنا ،اب میں تمہیں یہ بتاتی ہوں ککسہ تمہاری اطاعت کو قبول کر لے گا ،خون کا ایک قطرہ نہیں بہے گا ۔
رانی لاڈی کمرے سے نکل گئی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
چند دنوں بعد محمد بن قاسم مجاہدین کے لشکر کے ساتھ بھاٹیہ کے قریب پہنچ گیا، یہ قلعہ بن قصبہ دریائے بیاس کے مشرقی کنارے پر واقع تھا، سلطان محمود غزنوی کے دور میں بھی یہ قصبہ موجود تھا اس کے بعد اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا ،اور اب تو اس کے کھنڈرات بھی نہیں ملتے۔
مجاہدین کے لشکر کے ساتھ رانی لاڈی بھی تھی، اسے ان عورتوں کے ساتھ رکھا گیا تھا جو مجاہدین کی بیویاں وغیرہ تھیں، محمد بن قاسم نے اسے اپنے ساتھ اس لئے رکھا تھا کہ کسی نہ کسی موقع پر اس کی ضرورت محسوس ہو سکتی تھی۔
مجاہدین نے بھاٹیہ سے کچھ دور آخری پڑاؤ کیا،قلعے کے متعلق ضروری معلومات لینے کے لئے جاسوسوں کو آگے بھیج دیا گیا، محمد بن قاسم کا خیمہ نصب کیا جا چکا تھا ،جس میں وہ ابھی داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ کسی نے اسے بتایا کہ قلعے کی طرف سے چھ سات گھوڑسوار آرہے ہیں اور ان کے پیچھے تین اونٹ ہیں، محمد بن قاسم خیمے کے باہر کھڑا رہا اور کچھ دیر بعد گھوڑ سوار اور ان کے پیچھے تین اونٹ اسے بھی نظر آنے لگے، اس نے حکم دے دیا کہ یہ سوار اگر اس کے پاس آنا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے۔
سوار اسی سے ملنے آ رہے تھے، اس کے خیمے سے کچھ دور شعبان ثقفی نے انہیں روک لیا، شعبان نے حکم نامہ جاری کرنا تھا کہ کسی اجنبی کو اس وقت تک محمد بن قاسم کے قریب نہ جانے دیا جائے جب تک وہ خود اس اجنبی کو اچھی طرح نہ دیکھ لے، محمد بن قاسم پر قاتلانہ حملے کا امکان اور خطرہ ہر وقت موجود رہتا تھا ،ان سواروں کو شعبان ثقفی نے ٹھوک بجا کر دیکھا اور ان کی تلوار اپنے پاس رکھ لی ،ان کے کمر بندوں کو اچھی طرح ٹٹول کر دیکھا کہ ان کے کپڑوں کے نیچے خنجر نہ ہو، اپنا اطمینان کرکے اس نے انھیں محمد بن قاسم تک جانے دیا اور خود بھی ان کے ساتھ آیا۔
یہ راجہ ککسہ کے بھیجے ہوئے حاکم ہیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔راجہ کے تحفہ لائے ہیں۔
محمد بن قاسم انہیں تپاک سے ملا، خیمے میں بٹھایا اور ان کے خاطرتواضع کا حکم دیا ۔
ہم یقیناً آپ کو قتل کرنے کے لیے نہیں آئے۔۔۔ ایک حاکم نے کہا ۔۔۔ہم سے تلوار لے کر آپ کے اس حاکم نے ہماری عزت نہیں کی، ہم جنگجو لوگ ہیں، میدان جنگ میں قتل کرتے اور قتل ہوتے ہیں۔
محمد بن قاسم کے حکم سے ان کی تلواریں آگئیں جو اس نے ان حاکموں کو احترام سے پیش کیا ۔
انہوں نے محمد بن قاسم کو راجہ ککسہ کے تحائف پیش کیے۔
ان تحائف کا مطلب کیا ہے ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔کیا تمہارا راجہ یہ چاہتا ہے کہ میں اس کے قلعہ بند شہر کی طرف دیکھے بغیر آگے نکل جاؤں، یا وہ میری اطاعت قبول کرلے گا ۔
اگر آپ آگے نکل جائیں تو ہم آپ کو فوج کے لیے اناج دے دیں گے۔۔۔ حاکموں کے اس وفد کے سربراہ نے کہا ۔۔۔ گھوڑوں کے لیے خشک اور ہرا چارہ بھی دیں گے۔
میں بھیک مانگنے نہیں آیا میرے معزز مہمان!،،،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اناج اور چارا ہم خود لے لیا کرتے ہیں، ہمیں قلعہ چاہیے میرے اس ارادے پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی ،کیا تمہارا راجہ اطاعت قبول نہیں کرے گا؟
کرے گا !،،،،،حاکم نے جواب دیا۔۔۔ اس نے ہمیں اجازت دی ہے کہ آپ کو ہماری پہلی شرط قبول نہ ہو تو ہم آپ کی اطاعت قبول کرنے کی شرائط پر بات کریں، اطاعت قبول کرنے کی صورت میں راجہ کی حیثیت کیا ہوگی؟ ،،،میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ راجہ ککسہ راجہ داہر جیسا نہیں ،وہ دانش مند ہے اس کے پاس علم بھی ہے ،فوج کے حاکموں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ آپ کا مقابلہ کیا جائے اور قلعہ اس صورت میں دیا جائے جب کوئی فوج زندہ نہ رہے، لیکن راجہ نے جو فیصلہ سنایا اس نے ہم سب کو حیران کر دیا۔
کیا آپ لوگ بھی لڑنے کے لیے تیار تھے ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔
آپ ایک جنگجو قوم کے سپہ سالار ہیں۔۔۔ وفد کے سربراہ نے جواب دیا۔۔۔ اپنے قلعے کے دفاع میں لڑنے کو آپ جرم نہیں کہیں گے، دشمن کا مقابلہ کوئی گناہ نہیں، یہ بھی سوچ سپہ سالار ہم نے راجہ کا نمک کھایا ہے، راجہ داہر نے ہمیں روپے دیے ہیں، اس دھرتی نے ہمیں عزت دی ہے، اناج اور پانی دیا ہے، ہم لڑنے کے لیے کیوں تیار نہ ہوتے، کیا آپ اپنے ان حاکموں کو اچھا سمجھیں گے جو لڑنے سے منہ موڑے گے؟
بے شک آپ سچے اور وفادار ہیں... محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ راجہ ککسہ نے آپ کو لڑنے سے کیوں روک دیا ہے؟
وہ دانشمند ہے ۔۔۔سربراہ حاکم نے کہا۔۔۔ اس نے کہا کہ میں نے مسلمانوں کو میدان میں لڑتے دیکھا ہے، میں نے داہر کو گرتے اور مرتے دیکھا ہے، میں نے ہاتھیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں لہو لہان ہو ہو کر بھاگتے دیکھا ہے ،انہوں نے دیبل اور نیرون لے لیا ہے، سیوستان اور برہمن آباد لے لیا ہے، وہ بھاٹیہ بھی لے لیں گے،،،،،،عربی سالار!،، راجہ ککسہ نے کہا کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہم آخر مارے جائیں گے، ان سپاہیوں کو اس لئے مروا دینا کہ یہ ہمارا دیا کھاتے ہیں اور ہم نے انہیں لڑنے اور مرنے کے لیے پالا پوسا ہے عقل مندی نہیں یہ ظلم ہے، اور جب دشمن فاتح بن کر شہر میں داخل ہو گا تو وہ اپنا نقصان شہر کے لوگوں سے پورا کرے گا، ایک ایک جان کے بدلے بیس بیس جانیں لے گا ،شہر کی نوجوان لڑکیوں کو مال غنیمت میں شامل کرے گا، رعایا کے جان و مال اور عزت کی حفاظت راجہ کا فرض ہے، اس نے کہا کہ راجہ دیکھ رہا ہے کہ وہ رعایا کو دشمن سے صرف اس طرح بچا سکتا ہے کہ اپنا راج دشمن کے حوالے کر دے تو اسے یہ قربانی دے دینی چاہیے، ہم جہاں لڑ سکتے تھے وہاں اس امید پر لڑے کے دشمن کو بھگا دیں گے، اب حالات کچھ اور ہیں۔
میں آپ کے راجہ کی قدر دل و جان سے کرتا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔وہ دانشمند آدمی ہے، اسلام میں اس آدمی کا درجہ بہت اونچا ہے جو اللہ کے بندوں کے مال و اموال جان اور عزت کو اپنے رتبے پر قربان نہ کرے بلکہ اپنا رتبہ جاہ و جلال اپنی رعایا پر قربان کر دیے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا آپ کا راجہ میرے پاس آجائے؟،،،، اس کے رتبے کا پورا خیال رکھا جائے گا۔
تاریخوں میں ہے کہ محمد بن قاسم نے ککسہ کے بھیجے ہوئے وفد کی بہت عزت کی اور انھیں اس احترام سے رخصت کیا جس کے وہ حقدار تھے، اس نے اس ملاقات کو ہتھیار ڈالنے کی تقریب نہ بنایا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اگلے ہی روز علی الصبح محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ راجہ ککسہ آرہا ہے ۔
محمد بن قاسم فوراً خیمے سے نکلا گھوڑے پر سوار ہوا اور ککسہ کے استقبال کے لئے خیمہ گاہ سے آگے نکل گیا۔
شعبان ثقفی اس کے محافظوں کو ساتھ لے کر اس کے پیچھے گیا، ککسہ گھوڑے سے اتر آیا، اسے پوری تعظیم دینے کے لئے محمد بن قاسم بھی گھوڑے سے اتر کر اور آگے جاکر ککسہ سے ملا، ترجمان ساتھ تھا۔
کیا آپ راجہ داہر کے چچا زاد بھائی ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے قبضہ سے پوچھا ۔
میں اس پر فخر تو نہیں کرسکتا کہ میں راجہ داہر کا چچا زاد بھائی ہوں۔۔۔ ککسہ نے کہا۔۔۔ لیکن مجھے اس پر فخر ہے کہ میں اس سے بالکل مختلف ہوں، مختلف سے مراد یہ نہیں کہ وہ بہت دلیر تھا جس نے آپ کی اطاعت قبول نہیں کی، اور میں بزدل ہوں کہ بغیر لڑے آپ کی اطاعت قبول کر رہا ہوں۔
میں آپ کی قدر کرتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا،، اور اسے اپنے خیمے میں لے آیا۔
ککسہ کے ساتھ جب محمد بن قاسم کی باتیں ہوئیں تو انکشاف ہوا کہ ککسہ دانشور اور فلسفی ہے ،اس نے محمد بن قاسم کی اطاعت باقاعدہ طور پر قبول کر لی صرف یہ شرط پیش کی کہ بھاٹیہ شہر کے لوگوں کو امن و امان میں رکھا جائے اور انھیں تجارت کی عبادت اور شہریت کا پورا حق دیا جائے۔
محمد بن قاسم ککسہ سے اتنا متاثر ہوا کہ اسے اپنا مشیر بنا لیا ،ان علاقوں کے کئی ایک مقامات اور امور ایسے تھے جن کے لئے کسی مقامی مشیر کی ضرورت تھی، مشیر کا دانش مند اور صاحب اثر اور رسوخ ہونا بہت ضروری تھا، ککسہ سے بہتر اور کوئی مشیر نہیں ہوسکتا تھا ،محمد بن قاسم نے اسے خزانے کا وزیر بھی بنا دیا، اور اس پر اتنا اعتماد کیا کہ اسے مشیر مبارک کا خطاب دیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=*
بھاٹیہ کو محمد بن قاسم نے ایک مضبوط فوجی اڈا بنا دیا اور اپنی اگلی منزل کے تعین میں مصروف ہوگیا، اس منصوبہ بندی میں ککسہ کے مشورے بہت مفید ثابت ہوئے ،فیصلہ کیا گیا کہ اگلی منزل اسکلند ہوگی، بعض تاریخوں میں اسے عسقلند بھی لکھا گیا ہے، یہ اس زمانے کا مشہوراور خاصا بڑا شہر تھا۔
ایک روز رانی لاڈی محمد بن قاسم کے پاس آئی اور اس نے ایسی درخواست کی جس نے محمد بن قاسم کو تذبذب میں مبتلا کردیا ،جب سے ککسہ نے اطاعت قبول کی اور محمد بن قاسم اس کے شہر میں داخل ہوا تھا رانی لاڈی پہلی بار محمد بن قاسم کے پاس آئی تھی۔
کیا میں نے آپ کو کہا نہیں تھا کہ کا ککسہ نہیں لڑے گا۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔میں اسے جانتی تھی کہ حالات کو سمجھ کر فیصلہ کرنے والا آدمی ہے۔
اگر یہ شخص لڑنے کی حماقت کرتا تو اسے بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
اگر ککسہ قلعے کے دفاع میں لڑتا تو میں اسے لڑنے سے روک سکتی تھی۔۔۔ لاڈی نے کہا ۔۔۔اس پر میرا اتنا اثر ہے کہ میں اس سے اپنی بات منوا سکتی ہوں۔
اللہ کو جو منظور تھا وہ ہوچکا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم نے دیکھا ہے کہ میں نے اس کی وفاداری اور اس کی دانشمندی کی کتنی قیمت ادا کی ہے، کیا تم ککسہ سے مل چکی ہو؟
نہیں !،،،،،،رانی لاڈی نے جواب دیا۔۔۔ آپ کی اجازت کے بغیر میں اپنے کسی آدمی سے نہیں ملتی۔
تم اس سے مل سکتی ہو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔
میں یہی اجازت لینے آئی ہوں۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔میں اسے صرف ملنا ہی نہیں چاہتی بلکہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔
یہ سن کر محمد بن قاسم خاموش ہو گیا ،اس نے محسوس کیا ہوگا کہ یہ دونوں مل کر کوئی سازش نہ کرلیں۔
آپ خاموش کیوں ہو گئے ہیں؟،،،، رانی لاڈی نے پوچھا۔۔۔ آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ میں اس سے ملوں، آپ کے دل میں کسی بھی قسم کا شک یا وہم ہے تو وہ دل سے نکال دیں، ککسہ کے ساتھ اس کے خاندان کی عورتیں ہیں میں ان کے ساتھ رہوں گی، اگر آپ مجھے اپنا قیدی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتی، میں آپ کو یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ ککسہ کے ساتھ میرا رہنا آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ہاں لاڈی !،،،،،محمد بن قاسم نے اپنی سوچ سے بیدار ہو کر کہا۔۔۔ جاؤ میں تمہیں ککسہ کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہوں۔
رانی لاڈی ککسہ کے پاس چلی گئی ۔
اسی شام شعبان ثقفی محمد بن قاسم کے پاس آیا۔
ابن قاسم!،،،،، اس نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ اس عورت کو ککسہ کے پاس بھیج کر تم نے اپنے لیے خطرہ پیدا کرلیا ہے ،تم میرے سپہ سالار اور
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
*قسط نمبر/31*
محمد بن قاسم کے لشکر نے دریا عبور کرلیا ککسہ کے کہنے پر ان ماہی گیروں کو جن کی کشتیاں پل کیلئے استعمال کی گئی تھیں بے دریغ معاوضہ دیا گیا ،محمد بن قاسم نے انہیں اناج بھی دیا۔
قلعے کو جب محاصرے میں لیا گیا تو شہر کی دیواروں سے تیروں کی بوچھاڑ آنے لگی۔
ککسہ گھوڑے پر سوار قلعے کے اس دروازے کے سامنے چلا گیا جس کے اوپر دیوار پر سیہرا کھڑا تھا۔
سیہرا!،،،،،،، ککسہ نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ مجھے پہچانو میں داہر کا چچا زاد بھائی ککسہ ہوں۔
تم ان لٹیروں کے ساتھ یہاں کیا لینے آئے ہو؟،،،،،، سیہرا نے پوچھا ۔۔۔کیا تم دادا پر دادا کا دھرم بیچ بیٹھے ہو۔
دروازہ کھول دو۔۔۔ ککسہ نے کہا۔۔۔ اندر آکر تمہیں بتاؤں گا میں ان کے ساتھ کیوں آیا ہوں۔
یہ دروازہ صرف راجہ داہر کے لیے کھلے گا۔۔۔ سیہرا نے کہا۔
راجہ داہر نہیں آئے گا ۔۔۔ککسہ نے کہا ۔۔۔وہ مارا جا چکا ہے اس کا سر عرب چلا گیا ہے، اس کی رانی لاڈی میرے ساتھ ہے۔
رانی لاڈی بہت پیچھے تھی ککسہ نے اشارہ کیا تو وہ گھوڑے پر سوار ہوکر ککسہ کے پاس جار کی، اس نے چہرہ چادر میں چھپا رکھا تھا۔
مجھے دیکھ سیہرا!،،،،،،، رانی لاڈی نے چہرے سے چادر ہٹا کر کہا۔۔۔ تم نے مجھے دیکھا ہوا ہے، راجہ داہر زندہ ہوتا تو میں مسلمانوں کے ساتھ نہ ہوتی، قلعے کے دروازے کھول دو ،ککسہ کی طرح تمہیں بھی عزت ملے گی، تم قلعے کے حاکم رہو گے۔
شہر کی گلیوں کو اپنی فوج اور لوگوں کے خون سے دھونے کی کوشش مت کرو ککسہ نے کہا۔۔۔ بھیانک انجام سے بچو، دیکھو میں ان مسلمانوں کی فوج کا حاکم ہوں۔
اگر راجہ داہر ان عربوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے تو اس کے خون کا بدلہ لیں گے۔۔۔ سیہرا نے کہا۔۔۔ آگے آؤ اور قلعے کے دروازے خود کھولنے کی کوشش کرو، تم نے اپنی غیرت دے کر ان عربوں سے رتبہ لیا ہے، بیشتر اس کے کہ دو تیر تیری آنکھوں میں اتر جائیں یہاں سے ہٹ جاؤ۔
یہ وہی منظر تھا جو اروڑ کے محاصرے میں اس وقت پیدا ہوا تھا جب رانی لاڈی نے قلعے کے قریب جاکر اعلان کیا تھا کہ راجہ داہر زندہ نہیں ہے، اروڑ والوں نے اس پر طنز اور دشنام کے تیر برسائے تھے ،اب اسکلند کے محاصرے میں قلعے کی دیواروں سے ککسہ اور رانی لاڈی پر ویسے ہی لعن طعن برسنے لگی۔
راجہ داہر کو قتل کرنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا۔۔۔ دیوار کے اوپر سے ایک آواز آئی۔۔۔ اگر داہر قتل ہو ہی گیا ہے تو اسے تم دونوں نے قتل کرایا ہے۔۔۔ یہ آواز سیہرا کی تھی ۔۔۔ہم راجہ کے قتل کا انتقام لیں گے۔
ککسہ !،،،،،ایک آواز آئی۔۔۔ ہمارے پاس آ جاؤ، ڈاکو کی اس قوم کے دھوکے میں نہ رہو۔
ککسہ !،،،،،محمد بن قاسم نے آگے بڑھ کر کہا۔۔۔ لاڈی رانی!۔۔۔۔ان کے نام تو وہ پکار سکتا تھا اس سے آگے وہ مقامی زبان نہیں بول سکتا تھا، اس نے ترجمان سے کہا ان دونوں کو واپس بلاؤ، اروڑ والوں کی طرح ان کی قسمت پر بھی مہر لگ گئی ہے ۔
دونوں واپس آ گئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم نے محاصرے کا حکم دیا، دستے محاصرے کی ترتیب میں ہو ہی رہے تھے کہ شہر کے ایک طرف کے دروازے کھلے، صدر دروازہ بھی کھلا اور اندر سے سوار اور پیادہ دستے جئے کارے لگاتے باہر نکلے، باہر آکر وہ لڑائی کی ترتیب میں آنے کی بجائے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے، مسلمان بھی کسی ترتیب میں نہیں تھے وہ جس پوزیشن میں تھے اسی میں دشمن سے الجھ پڑے، یہ گتھم گتھا قسم کا معرکہ تھا جو زیادہ دیر نہ لڑا گیا۔
دونوں طرف سپاہی زخمی ہو رہے تھے، مسلمان سالار اپنے لشکر کو کسی ترتیب میں لانے کی کوشش کر رہے تھے ،وہ اس قسم کی پوزیشن میں آنا چاہتے تھے کہ قلعے کے دروازوں تک پہنچ جائیں تاکہ سیہرا کی فوج قلعے میں واپس نہ جا سکے، لیکن سیہرا نے یہ خطرہ پہلے ہی پیش نظر رکھا ہوا تھا، مسلمان جب دروازوں کی طرف جاتے تھے تو ان کا راستہ روک لیا جاتا تھا ،شدید مزاحمت کا سامنا ہوتا تھا۔
محمد بن قاسم کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اس کے دشمن کی کوئی ترتیب ہے یا نہیں، اس میں لڑنے اور مرنے کا عزم موجود ہے اور یہ عزم اتنا پختہ ہے کہ اس میں دیوانگی کی جھلک صاف نظر آتی ہے، میدان جنگ میں ایسے باؤلے پن سے زیادہ دیر نہیں لڑا جا سکتا، لیکن دشمن کو یہ سہولت حاصل تھی کہ اس کے عقب میں قلعہ بند شہر تھا۔ محمد بن قاسم نے چیخ چلا کر اپنی فوج کو پیچھے ہٹانا شروع کر دیا ،اس نے غالبا یہ سوچا تھا کہ دشمن بھی آگے آ جائے گا اور قلعہ دور ہوجائے گا ،یا محمد بن قاسم نے اس خیال سے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹانا چاہتا تھا کہ انہیں کسی ترتیب میں کرلیں تاکہ سالار آسانی سے اور ضرورت کے مطابق کمان کرسکیں۔
سیہرا نے دیکھا کہ مسلمان پیچھے ہٹ رہے ہیں تو اس نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹا لیا، جس تیزی سے ہندو سپاہی معرکے سے نکل کر دروازوں میں داخل ہوئے اس سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں پہلے ہی کوئی اشارہ بتا دیا گیا تھا جو ملتے ہی وہ واپس قلعے میں چلے گئے۔
یہ معرکہ بڑا ہی خون ریز تھا، دونوں طرف بہت نقصان ہوا، ہندوؤں نے اپنے زخمیوں کی بھی پرواہ نہ کی انہیں وہیں چھوڑ کر قلعے کے دروازے اندر سے بند کر لیے، ان کے کئی زخمی آہستہ آہستہ چلتے قلعے کی طرف جا رہے تھے مسلمانوں نے انہیں تیروں کا نشانہ بنانا شروع کردیا ،جب قلعے کے دروازے بند ہوگئے تو مجاہدین نے اپنے زخمیوں اور شہیدوں کو اٹھانا شروع کیا ،ان کے ساتھ جو عورتیں تھیں وہ دوڑی گئیں اور زخمیوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی وغیرہ اپنے ذمے لے لیں۔
محمد بن قاسم نے سالاروں کو اکٹھا کیا اور ان کے ساتھ صلح مشورہ کیا، سب کی رائے یہ تھی کہ دشمن اسی انداز سے لڑے گا، اس صورتحال میں محمد بن قاسم نے کہا کہ قلعے کا محاصرہ کر لیا جائے، لیکن اس قسم کی لڑائی کے لیے بھی دستوں کو تیار رکھا جائے جو آج ہمیں لڑنی پڑی ہے ،دشمن ایک طرف سے باہر آئے تو دوسری طرف کے دستے بھی مدد کو پہنچ جائیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
دوسرے دن مسلمان محاصرہ مکمل کرچکے تھے ،محمد بن قاسم قلعے کے اردگرد گھوم پھر کر دیکھتا رہا کہ کہیں سے دیوار نقب کے قابل نظر آجائے، دیوار کے اوپر ایک ہجوم کھڑا تھا فوج کے ساتھ شہر کے لوگ بھی تھے، ان میں تیر انداز بھی تھے اور برچھیاں پھینکنے والے بھی، قلعے کی دیوار کے قریب جانے کی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ ہوتا رہا ،صرف تیر اندازی سے قلعے سر نہیں کیے جا سکتے تھے ،لیکن کوئی اور صورت بھی نظر نہیں آتی تھی، ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا، محاصرے کی صورت میں ایسا ممکن نہیں تھا کہ تمام لشکر باجماعت نماز پڑھتا، اذان دی گئی اور دستوں نے الگ الگ باجماعت نماز پڑھی۔
مسلمانوں نے ابھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ شہر کے مشرقی دو دروازے کھلے اور قلعے کی فوج یوں باہر نکلی جیسے سیلاب نے بند توڑ دیا ہو، اس فوج کے لیے یہ موقع اچھا تھا، مسلمان نماز پڑھ رہے تھے سیہرا نے فوج کو باہر نکالنے میں کچھ وقت ضائع کر دیا تھا، اگر یہ فوج چار پانچ منٹ پہلے باہر آتی تو مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچا سکتی تھی، کیونکہ اسے مسلمان باجماعت کھڑے ملتے، اب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے سواروں کے گھوڑے ذرا دور کھڑے تھے لیکن اللہ تبارک و تعالی نے ان کی مدد کی ،پیادوں نے اپنی تلوار اپنے پاس رکھی ہوئی تھی، بعض کے پاس بلم تھے وہ بھی انھوں نے قریب ہی رکھے ہوئے تھے۔
ہندو فوج نے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ گھوڑسوار زیادہ تھے مسلمان سواروں میں سے بعض صورتحال دیکھ کر اپنے گھوڑوں کی طرف جانے کی بجائے پیادوں کی طرح دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئے، کئی سوار اپنے گھوڑوں تک پہنچ گئے اور سوار ہوکر لڑائی میں شامل ہوگئے ،حملہ چونکہ ایک طرف ہوا تھا اس لئے محمد بن قاسم نے دوسری طرف سے کچھ دستے اس طرف بھیج دیے۔
یہ لڑائی بہت خونریز تھی ہندو فوج بری طرح بپھری ہوئی تھی اس کے لڑنے کے انداز میں قہر اور غضب تھا، مسلمان جلدی سنبھل گئے تھے ورنہ ان کا بہت ہی نقصان ہوتا ،سنبھلتے سنبھلتے نقصان تو ہو گیا لیکن وہ ناقابل برداشت نقصان سے بچ گئے ،مسلمانوں کے دوسرے دستے تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آئے ان کے انداز میں بھی قہر تھا جو ہندؤوں پر خوب گرا۔
اب کے محمد بن قاسم نے پھر کوشش کی کہ ہندوؤں کی واپسی کا راستہ روک لے لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہندو حملہ آور قلعے سے زیادہ دور نہیں آئے تھے، اور دوسری وجہ یہ کہ مسلمان دیوار کے قریب ہوتے تھے تو دیوار کے اوپر سے ان پر تیر آتے تھے اور پھینکنے والی برچھیاں بھی۔
ہندو دستوں کا یہ حملہ خاصا مہنگا پڑا، بے شک مسلمانوں پر نماز کی حالت میں حملہ ہوا تھا لیکن وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار تھے، گزشتہ روز تو انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ قلعے کے اندر سے فوج آ کر ان پر حملہ کر دے گی اور یہ حملہ بہت ہی زور دار ہوگا، دوسرے دن قلعے کے جو دستے باہر آئے انہیں لینے کے دینے پڑ گئے، شام سے ذرا پہلے قلعے سے نکلے ہوئے یہ دستے اپنی تقریبا آدھی نفری کو لاشوں اور زخمیوں کی صورت میں پیچھے چھوڑ کر چلے گئے۔
*=÷=۔=÷=÷=÷=÷=÷*
اس کے بعد قلعے کے دستے باہر نہ آئے، انھوں نے شہر کے دفاع کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ دیوار کے اوپر سے تیر اور پتھر برسانے شروع کر دیئے، مورخ بلاذری اور میرمعصوم نے لکھا ہے کہ اس قلعے پر چھوٹی چھوٹی منجنیقیں دکھائی دیں، جن سے ڈیڑھ دو کلو وزنی پتھر پھینکا جاتا تھا ، یہ منجنیقیں عربوں کی منجنیقوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں، وہ تو کھلونے سے تھے لیکن ان سے مسلسل اور تیز سنگ باری کی جا سکتی تھی، کیونکہ یہ چھوٹے سائز کے پتھر پھینکتی تھی ، عربوں کی منجنیقیں اتنی بڑی تھیں کہ ان سے من من کے پتھر بھی پھینکے جا سکتے تھے۔
تیروں اور پتھروں کا تو جیسے مینہ برستا رہتا تھا ،محمد بن قاسم نے دیوار تک پہنچنے والے جانباز منتخب کیے ،اور ایک روز ان کی ایک ٹولی کو اس طرح دیوار کی طرف بھیجا کہ تیر اندازوں نے آگے ہو کر دیوار کے کچھ حصے پر بے تحاشا تیر برسائے لیکن اوپر سے بھی تیر اور پتھر آئے، جانبازوں کی پہلی ٹولی دیوار تک پہنچ گئی لیکن قلعے کا دفاع کرنے والوں نے اپنی جانوں کو داؤ پر لگا دیا قلعے کی دیوار باہر سے عمودی نہیں ڈھلانی تھی، ہندو ٹوکروں میں پتھر بھر کر اوپر سے لڑکا دیتے تھے، ان میں کئی ہندو مسلمانوں کی تیروں کا نشانہ بنے لیکن جو مسلمان دیوار تک پہنچ گئے وہ پتھروں کا نشانہ بن گئے۔
محاصرے کے ساتویں روز محمد بن قاسم نے اپنا آخری حربہ استعمال کیا اس نے شہر پر منجنیقوں سے پتھر پھینکنا شروع کر دیے، پھر آگ والے تیر پھینکے جن سے شہر میں کئی جگہوں پر آگ لگ گئی، سنگباری اور آتش بازی کا سلسلہ صبح شروع کیا گیا تھا اور شام تک جاری رکھا گیا ،شہر کے لوگوں نے واویلا بپا کر دیا۔
شام سے کچھ دیر پہلے قلعے کے ایک طرف کے دروازے کھلے اور پہلے دونوں کی طرح اندر سے فوج باہر آئی اور مسلمانوں پر حملہ کردیا، اب یوں پتہ چلتا تھا جیسے قلعے کی تمام فوج باہر آگئی ہے، اس کے ساتھ شہر کے لوگ بھی تھے، دشمن کا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ محاصرہ توڑ کر دسے اس طرف بلا لئے گئے ،سورج غروب ہو گیا تو قلعے کی فوج واپس قلعے میں چلی گئی۔
رات زخمیوں کی آہ و بکا میں گزر گئی، صبح ہوئی تو قلعے پر جگہ جگہ سفید جھنڈے نظر آئے، محمد بن قاسم نے اسے دھوکہ سمجھا، کچھ دیر بعد قلعے کا ایک دروازہ کھلا اور پانچ آدمی باہر آئے ،ان میں سے ایک نے بلند آواز سے کہا کہ وہ سپہ سالار سے ملنا چاہتے ہیں، انہیں آگے آنے کو کہا گیا ،وہ آگے آئے تو ان سے تلواریں لے لی گئیں، انہیں شعبان ثقفی کے حوالے کر دیا گیا وہ انھیں محمد بن قاسم کے پاس لے گیا۔
ہم آپ کی اطاعت قبول کرنے آئے ہیں ۔۔۔ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ ہمیں صرف امن اور اپنے خاندان کی سلامتی چاہیے۔
کیا حاکم قلعہ میں اتنی جرات نہیں تھی کہ خود آتا؟،،،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ اس نے تمہیں کیوں بھیجا ہے، اطاعت قبول کرنے کا یہ طریقہ تو نہیں، اس کے خود نہ آنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں ابھی رعونت باقی ہے۔
اے عرب کے سپہ سالار !،،،،،شہریوں کے وفد کے سربراہ نے کہا ۔۔۔وہ یہاں ہوتا تو آتا، ہم آئے ہیں تو یہ ثبوت ہے کہ وہ نہیں ہے ،وہ قلعے سے بھاگ گیا ہے۔
کب ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ وہ کیسے بھاگ گیا ہے۔
اس نے بھاگ نکلنے کا موقع پیدا کر لیا تھا۔۔۔ وفد کے سربراہ نے کہا۔۔۔ ہم پہلے نہیں سمجھ سکے، کل جب آپ کے پھینکے ہوئے پتھروں سے شہر کے لوگ اور فوجی ہراساں تھے ،اور آپ کے تیروں سے کئی جگہوں پر آگ لگی ہوئی تھی، عورتوں اور بچوں کی چیخوں سے آسمان پھٹ رہا تھا ،ہم قلعے کے حاکم سیہرا کے پاس گئے، شہر کے لوگ اطاعت قبول کرنا چاہتے تھے، ہم نے اسے کہا کہ ہم قلعے کو عرب کی فوج سے نہیں بچا سکیں گے، اس سے پہلے کہ پورا شہر جل کر راکھ ہو جائے پھر ہم سب اپنی جوان بیٹیوں اور بچوں کے ساتھ عرب کے قیدی ہو جائیں اور عرب تمہارا سر قلم کر دیں کیوں نہ عرب کی اطاعت قبول کر لیں، اس طرح ہم اپنی عزت اور مال بچا سکیں گے ،اور شہر بھی مزید تباہی سے بچ جائے گا،،،،،،،،،، سیہرا جو بہت ہی چالاک اور زیرک ہے سوچ میں کھو گیا ،پھر اس نے کہا کہ ہم عربوں کے بہت آدمی زخمی اور ہلاک کر چکے ہیں وہ ہمیں اپنی فوج کا اتنا زیادہ نقصان معاف نہیں کریں گے، اب اگر ہم ان کی اطاعت قبول کریں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، پھر وہ ہم سے جزیہ بھی لیں گے اور تاوان بھی، اور وہ اس پر بھی راضی نہیں ہونگے، ہماری عورتوں اور ہمارے زروجواہرات کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، اور ہم سب کو غلام بناکر عرب بھیج دیں گے،،،،،،، اس نے مندر سے دو پنڈتوں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ ہمیں سمجھائیں۔ پنڈتوں نے ہمیں لڑائی کے لیے تیار کرنا شروع کردیا، دنیاوی نقصان اور ذلت کے ساتھ اگلے جنم کی اذیتوں سے ڈرایا، اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ تم سب اگلے جنم میں کتے اور گیدڑ ہو گے۔
تم کہنا یہ چاہتے ہو کہ سیہرا اور پنڈتوں نے تمہیں لڑنے پر مجبور کیا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
ہم یہی کہنا چاہتے ہیں سپہ سالار مہاراج !،،،،،وفد کے سربراہ نے کہا۔۔۔ ہم پوری پوری باتیں اس لئے سنا رہے ہیں کہ آپ ہمیں بے قصور سمجھیں اور ہماری درخواست پر غور کریں، انہوں نے ہمیں ڈرا کر اور بھڑکا کر کہا کہ آج تمام فوج باہر نکل کر مسلمانوں پر ایسا زبردست حملہ کرے گی کہ مسلمان بھاگ جائیں گے، لیکن انہیں بھاگنے کے قابل نہیں چھوڑا جائے گا ،سرکاری ہرکارے سارے شہر میں گھوم گئے کہ تمام وہ لوگ جو لڑنے کے قابل ہیں اپنے ہتھیاروں کے ساتھ فوج کے ساتھ مل جائیں، اور آج شام مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر نے کے لئے ان پر حملہ کیا جائے، اس اعلان پر شہر کے تمام آدمی فوج کے ساتھ مل گئے اور سورج غروب ہونے سے پہلے کچھ دیر پہلے فوج اور شہر کے آدمیوں نے باہر نکل کر آپ پر حملہ کیا،،،،،،،، شام گہری ہو گئی تو ہماری فوج اور شہر کے آدمی جو بچ گئے تھے قلعے میں واپس آگئے، رات کو ہم سیہرا کے محل میں گئے تو وہ وہاں نہیں تھا، اس کے خاندان کا کوئی ایک بھی فرد وہاں نہیں تھا ،ایک نوکر موجود تھا اس نے بتایا کہ جب لوگ اپنی فوج کے ساتھ حملہ کرنے کے لیے باہر نکلے تو سیہرا نے اپنے زر و جواہرات سمیٹنے شروع کر دیئے، اس نے گھوڑے تیار رکھے ہوئے تھے جب سورج غروب ہو گیا تو ایک فوجی دوڑتا آیا اور سب کو گھوڑوں پر سوار کرایا قیمتی اشیاء ایک گھوڑے پر لادی اور وہ چلا گیا، یہ معلوم نہیں کہ وہ کون سے دروازے سے نکلا تھا۔
محمد بن قاسم نے ان کی درخواست منظور کر لی اور سوائے جزیے کے ان پر کوئی تعاوان عائد نہ کیا ،اور انھیں بتایا کہ انھیں وہی شہری حقوق حاصل ہوں گے جو انہیں پہلے حاصل تھے۔
قلعے میں داخل ہونے کے بعد شعبان ثقفی نے مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کی کے سیہرا کس طرف فرار ہوا تھا، معلوم ہوا کہ سیہرا فرار کا ارادہ کر چکا تھا ،لیکن محاصرے کی وجہ سے فرار ممکن نہ تھا، آخر اسے یہ ترکیب سوجھی کے اس نے تمام فوج اور شہر کے آدمیوں سے محاصرے کے ایک حصے پر اتنا زور دار حملہ کرایا کہ مسلمانوں کو ایک طرف کے تمام دستے ان دستوں کی مدد کے لئے بھیجنے پڑے جن پر حملہ کیا گیا تھا ،حملہ شام سے ذرا پہلے کیا گیا تھا سورج غروب ھو گیا تو سیہرا اپنے خاندان اور خزانے کے ساتھ خالی طرف سے نکل گیا ،مندر کے دونوں بڑے پنڈت بھی بھاگ گئے تھے، لوگوں نے جب دیکھا کہ ان کا حاکم بھی نہیں رہا اور مذہبی پیشوا بھی نہیں رہے تو انہوں نے یہ وفد محمد بن قاسم کی طرف بھیجا کہ ان کی جان بخشی کر کے انہیں پناہ دی جائے۔
زیادہ تر مورخوں نے لکھا ہے کہ اسکلند قلعے کی فوج کی چار ہزار نفری ماری گئی تھی، اور زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔ محمد بن قاسم نے عتبہ بن سلمہ تمیمی کو اسکلند کا حاکم مقرر کیا۔
*===÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷*
آج کا سندھ فتح ہوچکا تھا، اُس وقت راجہ داہر کی سلطنت دور تک پھیلی ہوئی تھی، ملتان بھی اسی خاندان کی سلطنت میں تھا ،محمد بن قاسم کی اگلی منزل ملتان تھی ،اس نے اس علاقے کا جو نقشہ تیار کیا تھا وہ دیکھا، اور اس نے جو مقامی رہنما ساتھ رکھے ہوئے تھے انہوں نے اسے بتایا کہ ملتان سے پہلے ایک اور شہر سکّہ ہے جو فتح کرنا ضروری ہے۔
آج سکّہ کا کہیں نشان بھی نہیں ملتا، یہ دریائے چناب کے مشرقی کنارے پر ملتان کے بالمقابل واقع تھا، سکہ اور ملتان کے درمیان اگر دریا نہ ہوتا تو یہ دونوں مل کر ایک ہی شہر بن جاتے، سکّہ کا حاکم راجہ داہر کے بھتیجے بجے رائے کا نواسہ بجھرا تھا، اور ملتان کا حاکم راجہ داہر کے بھائی چندر کا بیٹا کورسیہ تھا، جسے بعض مورخوں نے گورسنگھ لکھا ہے، لیکن زیادہ تر شہادت یہ ملتی ہے کہ کورسیہ صحیح نام ہے۔
ککسہ نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ کورسیہ کے لڑنے کا بھی اندازہ یہی ہوگا وہ اپنی فوج کو قلعے سے باہر لڑائے گا، اور بہتر یہی ہوگا کہ اس کی فوجی طاقت کو قلعے سے باہر ہی کھلی لڑائی میں کمزور کیا جائے۔ محمد بن قاسم کو یہ مشورہ اس لئے پسند آیا کہ وہ سنگ باری اور آتشبازی کو پسند نہیں کرتا تھا ،اس سے شہر کے لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑتا تھا انہی لوگوں سے جزیہ اور دیگر محصولات وصول کرنے ہوتے تھے، ان کے گھر اور سامان جلا دینے کی صورت میں وہ کہتے تھے کہ وہ تو تباہ ہوگئے ہیں جزیہ کہاں سے دیں۔
ایک روز محمد بن قاسم نے اسکلند سے کوچ کیا، اب کے پھر ہراول دستے کی کمان ککسہ اور زائدہ بن عمیر طئی کے پاس تھی، ہراول سے آگے جاسوسوں کی ٹولی مقامی لوگوں کے لباس میں چلی گئی تھی، یہ کوچ کا معمول تھا کہ جاسوسوں کو مقامی بھیس میں آگے بھیج دیا جاتا تھا ،وہ راستے کے خطروں کو دیکھتے اور پیچھے آکر سپہ سالار کو خبردار کرتے تھے، کہیں گھات کا اور کی شب خون کا خطرہ ہوتا تھا اس کے علاوہ بھی خطرے ہو سکتے تھے۔
سکّہ والے مسلمانوں کی پیش قدمی سے بے خبر نہیں تھے، راجہ داہر کی موت معمولی واقعہ نہیں تھا، پہلے تو سب کو یہی بتایا جاتا رہا کہ وہ زندہ ہے اور ہندوستان سے فوج لینے گیا ہے، لیکن اس کے بعد بھاٹیہ اور اسکلند بھی ہاتھ سے نکل گئے اور وہاں کے بھاگے ہوئے حاکم سکہ اور ملتان جا پناہ گزین ہوئے تو سب کو یقین ہو گیا کہ داہر مارا جا چکا ہے، اس خبر نے سب کو چوکس کر دیا تھا، سکہ کے حاکم نے اپنے جاسوس قلعے سے دور تک بھیج دیے تھے۔
محمد بن قاسم جب سکہ کے گردونواح میں پہنچا تو سکہ کی فوج قلعے کے باہر تیاری کی حالت میں موجود تھی، محمد بن قاسم نے اپنے لشکر کو دور ہی روک لیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷==÷=÷*
اسلام کے محافظوں!،،،،،،، محمد بن قاسم نے اپنے لشکر سے خطاب کیا۔۔۔ دشمن ہمارا راستہ روک کر کھڑا ہے، اس نے شہر کو اپنی پیٹھ کے پیچھے رکھا ہوا ہے، ہم شہر کا محاصرہ نہیں کرسکیں گے ،یہاں بھی ہمیں اسکلند والی لڑائی لڑنی پڑے گی، یاد رکھو دشمن کے پاس قلعہ ہے جو پسپائی کی صورت میں اسے پناہ میں لے لے گا، مگر ہمارے لئے کوئی پناہ نہیں، ہماری پناہ کھلا آسمان ہے، ہمارے اردگرد دیوار نہیں اور اوپر چھت بھی نہیں، ہمارے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے، اس سے زیادہ محفوظ اور مضبوط کوئی پناہ نہیں، یہ ہمارا ایمان ہے، یہ دل میں بٹھالو کہ ہم پسپا ہوئے تو اس ملک میں ہمارا کوئی ٹھکانہ اور کوئی پناہ نہیں ،ساحل بہت دور ہے وہاں تک ہمیں کوئی زندہ نہیں پہنچنے دے گا، ہمارا وطن بہت دور ہے اب یہی ہمارا وطن ہے، جہاں ہم نے مسجدیں بنا دی ہیں، یہاں کے بہت سے لوگوں نے ہمارا مذہب قبول کر لیا ہے، اس زمین میں ہمارے شہیدوں کا خون جذب ہو چکا ہے، یہ زمین اب ہمارے لئے مقدس ہوگئی ہے ،اگر اب ہم نے پیٹھ دکھائی تو ہم ذلت کی موت مریں گے اور اگلے جہان میں ہمارا ٹھکانا جہنم ہوگا،،،،،،،،،،، میں جانتا ہوں تم تھک کر چور ہو چکے ہوں تمہارے جسم ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں، پھر بھی تم کفر کے قلعوں کو روندتے چلے جا رہے ہو، یہ روحانی طاقت ہے تم اب جسم نہیں رہے ہو، اور اللہ تبارک وتعالی تمھارے ساتھ ہے تم اللہ کا نور بکھیرتے جا رہے ہو، تم خوش نصیب ہو کہ اللہ نے یہ فرض تمہیں سونپا ہے ،دل میں اللہ کا نام رکھو اللہ تمہیں فتح و نصرت سے نوازے گا۔
مجاہدین کے اس لشکر کی تعداد کم رہ گئی تھی ،عرب سے کمک آ گئی تھی لیکن اتنی نہیں جتنی کمی واقع ہو گئی تھی، رسد بھی پہنچ گئی تھی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ لشکر کی جسمانی حالت خاصی بگڑ چکی تھی۔
سکہ کے حاکم بجھرا نے مسلمانوں کے لشکر کو دیکھا تو اس نے اپنی فوج کو لڑنے کی ترتیب میں کرلیا ،لیکن محمد بن قاسم نے دور ہی پڑاؤ ڈال دیا ،مجاہدین بڑا لمبا سفر کر کے آئے تھے وہ بہت تھکے ہوئے تھے ،گھوڑے پیاسے تھے، اس کیفیت میں ایسی فوج کے مقابلے میں آنا جو تازہ دم تھی عقل مندی نہیں تھی، رات کو پڑاؤ کے اردگرد گشتی پہرہ لگا دیا گیا اور کئی مجاہدین رات کو تلاوت قرآن کرتے اور نوافل پڑھتے رہے، حجاج بن یوسف محمد بن قاسم کو ہدایات اور احکام بھیجتا رہا، وہ زیادہ زور یاد الہی پر دیتا تھا،محمد بن قاسم نے اسے اپنے حالات سے باخبر رکھا ہوا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
دوسرے دن کا سورج طلوع ہوا تو مسلمان جنگی ترتیب میں سکہ کی فوج کے سامنے کھڑے تھے۔
محمد بن قاسم نے اسلامی فن حرب و ضرب کے مطابق درمیان کے دستوں کو آگے بڑھایا، ادھر سے بھی درمیان کے دستے آگے آئے اور خونریز تصادم شروع ہو گیا ،ہدایت کے مطابق لڑنے والے دستوں کو ان کے سالار نے پیچھے ہٹانا شروع کردیا، محمد بن قاسم نے دائیں بائیں کے دستوں کو پہلوؤں کی طرف پھیلا کر دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کرنے کا حکم دیا ،لیکن دشمن کے پہلوؤں کے دستے چوکس تھے وہ دفاعی پوزیشن میں آ گئے اس لئے محمد بن قاسم کی یہ چال کارگر نہ ہوئی۔
شام سے کچھ دیر پہلے بجھرا نے اپنی فوج کو قلعے میں واپس بلالیا، محمد بن قاسم نے قلعے کا محاصرہ نہ کیا، اس کے بجائے یہ اہتمام کیا کہ قلعے کی دوسری اطراف کچھ سوار نفری بھیج دی جن کے ذمے یہ کام تھا کہ کسی کو قلعے سے نکل کر کہیں جانے نہ دیں، نہ کسی باہر سے آنے والے کو قلعےے میں جانے دیں، مقصد یہ تھا کہ باہر کی دنیا سے قلعے کا رابطہ توڑ دیا جائے۔
محمد بن قاسم نے رات کو اپنے سالاروں کو بلا کر بتایا کہ وہ لڑتے لڑتے پیچھے ہٹتے آئیں تاکہ دشمن قلعے سے دور آ جائے، یہ کوشش تو کی گئی تھی جو کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس چال کو کامیاب بنانا تھا، خطرہ یہ تھا کہ قلعے کی فوج کے پیچھے قلعہ تھا، مسلمان پہلوؤں اور عقب میں جانے کی کوشش کرتے تھے تو دیوار کے اوپر سے برچھیاں اور تیر آتے تھے۔
چار پانچ دن اسی قسم کی جنگ جاری رہی، قلعے سے دستے نکلتے لڑائی ہوتی اور قلعے کے دستے واپس قلعے میں چلے جاتے، ان کا نقصان تو بہت ہو رہا تھا لیکن مسلمان بھی نقصان اٹھا رہے تھے، دشمن کے جوش و خروش میں ذرا سی بھی کمی نہیں آ رہی تھی، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے کہا کہ وہ مجاہدین کو روک روک کر لڑائیں، آگے بڑھ کر ٹکر لیں اور پیچھے ہٹیں، مجاہدین سے کہیں کہ وہ اپنے آپ کو تھکائیں نہیں، تیروں اور پھینکنے والی برچھیوں کا استعمال زیادہ کریں، پہلو کے دستوں کو پھیلا کر دشمن کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنے کی ترکیبیں کریں تاکہ اسے لڑنے کا موقع کم ملے اور اسے تھکان زیادہ ہو۔
یہ ایک خاص طریقہ جنگ تھا جس میں مسلمان سالار اور سپاہی مہارت رکھتے تھے، وہ جم کر نہیں لڑتے تھے ہلہ بول کر ادھر ادھر ہو جاتے تھے، دستوں کو چھوٹے چھوٹے جیشوں میں تقسیم کر دیا گیا اور جیش باری باری آگے جاتے اور ہلہ بولتے تھے ،اس طرح اپنا نقصان کم اور دشمن کا نقصان زیادہ ہوتا تھا، یہ طریقہ جنگ تین چار دن آزمایا گیا، قلعے کی لیکن کو نقصان خاصہ ہوا لیکن اس میں لڑنے کا جذبہ کم نہیں ہوا تھا۔
محمد بن قاسم نے ایک طریقہ یہ بھی آزمایا کہ قلعے کے ایک طرف لڑائی جاری رکھی اور کچھ نفری دوسری طرف بھیج کر ادھر کے دروازوں تک پہنچنے کی کوشش کی، ادھر دو دروازے تھے ان کے اوپر دیوار پر تیروں کی بوچھاڑ مرکوز کی گئی تاکہ اوپر سے کوئی تیر یا برچھی نہ آئے، لیکن اوپر والے آدمی جانوں کی قربانی دے رہے تھے اور تیر کھا کھا کر گر بھی رہے تھے، انہوں نے مجاہدین کو دروازوں تک نہ پہنچنے دیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کو شعبان ثقفی نے بتایا کہ دیوار پر جتنے بھی آدمی ہیں وہ سب شہر کے لوگ ہیں اور فوج باہر آ کر لڑنے کے لیے تیار رہتی ہے، قلعے کے جو دستے لڑنے کے لیے باہر آتے تھے وہ اپنے زخمیوں کو باہر چھوڑ کر قلعے میں چلے جاتے تھے، لاشوں اور زخمیوں کو دیکھ کر پتہ چلتا رہتا تھا کہ قلعے کی فوج کا کتنا نقصان ہوا ہے، مسلمان قلعے کی فوج کے کسی بھی زخمی کو نہیں اٹھاتے تھے، انہیں مرنے کے لئے وہیں پڑے رہنے دیا جاتا تھا ،شعبان ثقفی دو چار زخمیوں کو ہر روز اٹھوا لاتا ان کی مرہم پٹی کراتا اور انہیں کھلا پلا کر ان سے قلعے کے اندر کی حالات پوچھتا تھا ،زخمی اپنی جانیں بچانے کے لئے سب کچھ بتا دیتے تھے، زخمیوں نے بتایا تھا کہ دیوار پر شہر کے آدمی ہیں جو تیر اور برچھیاں پھینکتے ہیں، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے مندر میں حلف اٹھایا ہے کہ ان میں اگر صرف ایک آدمی زندہ رہ گیا تو وہ بھی لڑتا ہوا مارا جائے گا بھاگے گا نہیں، کچھ دنوں کی لڑائی کے بعد زخمیوں کو اٹھا کر لایا گیا انہوں نے بتایا کہ فوج کی نفری تیزی سے کم ہو رہی ہے اور رسد اور خوراک بھی کم رہ گئی ہے، رسد ملتان سے ہی آسکتی تھی لیکن قلعے کے باہر مجاہدین کی حکمرانی تھی ان کی موجودگی میں باہر سے کوئی چیز قلعے تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔
محمد بن قاسم نے شہر کے لوگوں کو مخاطب کرکے اعلان کرائے کہ وہ اپنی فوج کا ساتھ چھوڑ دیں ورنہ انہیں بڑی خوفناک قیمت ادا کرنی پڑے گی، اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ قلعے کی فوج کا نقصان دیکھو یہ فوج زیادہ دن نہیں لڑ سکے گی اور آخر قلعہ ہم نے لے لینا ہے ، تمہارا فائدہ اس میں ہے کہ ہمارا استقبال کرو ہم تمہیں پورے حقوق دیں گے۔ بلند آواز والے آدمیوں نے قلعے کے اردگرد گھوم پھر کر یہ اعلان کئی بار دہرایا ،اس کے جواب میں شہر کے لوگوں نے مسلمانوں کا مذاق اڑایا، انہیں پنڈتوں نے یقین دلایا تھا کہ فتح ان ہی کی ہوگی اور مسلمان بڑی بری طرح تباہ ہونگے، وہ اعلان سن کر قہقہے لگاتے اور اسلام کو بھی برا بھلا کہتے تھے۔
مسلمانوں !،،،،،،قلعے کی دیوار سے ایک آواز آئی ۔۔۔ہم نے مندر میں کھڑے ہو کر قسم کھائی ہے کہ تمہیں تباہ کردیں گے یا خود تباہ ہو جائیں گے۔
یہ آواز محمد بن قاسم کے کانوں تک پہنچ گئی اس وقت تک مسلمانوں کے تین سالار اور سترہ بہترین عہدیدار (جونیئر) کمانڈر شہید ہوچکے تھے، محمد بن قاسم کسی ہندو کی اس للکار پر بھڑک اٹھا ،وہ پہلے ہی اپنے اتنے قابل اور دلیر سالاروں اور عہدیداروں کی شہادت کی وجہ سے غم و غصے سے بھرا ہوا تھا۔
خدا کی قسم!،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں اس شہر کا نام و نشان مٹا دوں گا۔
اس کے بعد محمد بن قاسم نے اپنے اوپر نیند حرام کر دی ، سترہ دن لڑائی جاری رہی اٹھارہویں صبح کے دروازے کھلے اور فوج باہر نکلی، یہ خاص طور پر نظر آیا کہ اس فوج میں پہلے والا جوش و خروش نہیں تھا، ایک مسلمان دستہ آگے بڑھا تو قلعے کی فوج کی پچھلی صف کے آدمی قلعے کے اندر بھاگ گئے، محمد بن قاسم نے بھانپ لیا کہ دشمن میں کوئی نہ کوئی کمزوری پیدا ہو گئی ہے، اس میں دم خم نظر نہیں آرہا تھا، محمد بن قاسم نے شدید ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔
سالاروں نے تنظیم اور ترتیب کو توڑے بغیر ہلہ بولا، دشمن دروازوں کی طرف دوڑا تیر اندازوں کو کہا گیا کہ وہ دیواروں پر تیر اندازی کریں، قلعے کے دستے دیوار اور مجاہدین کے درمیان پھنس گئے، ان میں سے جنہیں موقع ملتا تھا وہ دروازوں میں داخل ہوتے تھے ان کے ساتھ مسلمان بھی قلعے میں داخل ہونے لگے، آخر مسلمان فوج کے کئی دستے اندر چلے گئے ،یہ دیکھ کر دیواروں پر جو شہری تیر چلا رہے تھے بھاگ اٹھے۔
کچھ دیر قلعے کے اندر لڑائی ہوئی لیکن قلعے کی بچی کچھی فوج نے ہتھیار ڈال دیے، اور پتہ چلا کہ قلعے کا حاکم بجھرا رات کو اپنے خاندان سمیت قلعے سے فرار ہوگیا تھا، فوج کو صبح دوسرے کمانڈروں نے قلعے سے نکل کر لڑنے کا حکم دیا تھا، لیکن سپاہی لڑنے پر آمادہ نہیں تھے، قلعے کی آدھی سے زیادہ فوج سترہ دنوں میں ماری جا چکی تھی۔
بلاذری نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے دوسو پندرہ سپاہی، سترہ عہدیدار اور تین سالار شہید ہوئے تھے، کسی بھی تاریخ میں شہید ہونے والے سالاروں کے نام نہیں لکھا۔
محمد بن قاسم نے حکم دیا کے تمام فوجیوں اور شہریوں کو گرفتار کر لیا جائے ،اس حکم کی فوری تعمیل کی گئی عورتوں اور بچوں کو الگ کر لیا گیا، محمد بن قاسم نے دوسرا حکم یہ دیا کہ اس شہر اور شہر پناہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے۔
اس طرح اس شہر کا نام وہ نشان اسی دور میں مٹ گیا تھا۔
*<======۔===========>*
*قسط نمبر/32*
ایک شہر کی تباہی نے ہندوستان میں دور دور تک تہلکہ مچادیا ،راجوں اور مہاراجوں پر لرزہ طاری ہو گیا، داہر اپنی زندگی میں اپنے اردگرد کے راجوں مہاراجوں کو عرب سے آئے ہوئے مسلمان کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی تھی، اس کا خاندان اور وزیر، مشیر اور فوجی حاکم جانتے تھے کہ وہ ہندوستان کے تمام حکمرانوں کو ایک محاذ پر اکٹھا کرنے کے جتن کر رہا ہے اسی لیے اس کے مارے جانے کے بعد مشہور ہو گیا تھا کہ وہ ہندوستان کے دورے پر چلا گیا ہے اور بہت بڑی فوج لے کر آرہا ہے، اس کے اپنے بیٹے بھی اس خبر کو سچ مانتے تھے، مگر محمد بن قاسم کی ضرب کاری نے داہر کے پسماندگان اس کی فوج اور رعایا کو یقین دلادیا کہ داہر مارا جا چکا ہے۔
مبصّر اور مؤرخ لکھتے ہیں کہ داھر کسی ایک مقام کسی ایک میدان یا کسی ایک محاصرے میں مسلمانوں کو شکست دے دیتا تو اس کے راج کے اردگرد کے راجے اور مہارجے اس کے محاذ پر آجاتے اور یہ ایک متحدہ محاذ بن جاتا، لیکن مسلمان تیزوتند سیلاب کی مانند بڑے آرہے تھے ،ان کے قدموں میں سندھ کے قلعے ریت کے گھروندوں کی مانند گرتے جارہے تھے ،اور داہر اپنی راجدھانی سے باہر نہیں نکل رہا تھا، اس نے سوچا تو ٹھیک تھا کہ محمد بن قاسم کی فوج اس کی راجدھانی سے دور ہی تھک کر چور ہو جائے گی تو وہ اپنے لشکر کے ساتھ اس کے سامنے آئے گا اور بڑی آسانی سے اس فوج کا نام و نشان مٹا دے گا ،لیکن اس کے پڑوسی راجہ اور مہاراجہ یہ دیکھ رہے تھے کہ داہر اپنے قلعے دیتا چلا جا رہا ہے اور خود سامنے نہیں آتا۔
وہ سامنے آیا تو اپنے سفید ہاتھی سمیت مارا گیا ،یہ خبر سن کر داہر کے پڑوسی اور زیادہ محتاط ہوگئے، انہیں یہ سوچ پریشان کرنے لگی کہ داہر مارا جاسکتا ہے تو مسلمانوں کے مقابلے میں آنے کے لیے دس بار سوچنا پڑے گا، پھر انہوں نے دیکھا کہ داہر کے بیٹے اور بھتیجے جو نامی گرامی جنگجو تھے اور میدان جنگ کا تجربہ بھی رکھتے تھے وہ مسلمانوں کی فوج کے آگے آگے بھاگے آ رہے تھے، وہ ایک قلعے سے اپنی فوج اور رعایا کو بغیر بتائے چھپ کر بھاگتے اور اگلے قلعے میں جا پناہ لیتے، ان حالات میں ان راجوں اور مہاراجوں نے یہی بہتر سمجھا کہ وہ اپنی اپنی جنگ لڑیں اور اپنے فیصلے آزادانہ طور پر کریں کہ انھیں لڑنا چاہیے یا مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا یا اطاعت قبول کرنے کا معاہدہ کر لینا چاہئے۔
مسلمانوں کے ہاتھوں سکّہ کی تباہی نے ہندوستان کے مہاراجوں کو لرزہ براندام کردیا تھا ،ان کے لیے بہتر یہی تھا کہ وہ محمد بن قاسم کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیتے، لیکن وہ اب اپنے اپنے فیصلے خود ہی کرنا چاہتے تھے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم تباہ شدہ سکہ سے کچھ دور کھڑا شہر کے ملبے کے انبار کو دیکھ رہا تھا، نہ جانے اسے کیا کیا خیال آ رہے تھے، پھر وہ ایک اونچی جگہ پر کھڑا ہوا اور اس کی نگاہیں مجاہدین کے لشکر پر گھومنے لگی، ان میں کئی زخمی تھے ان کے زخموں پر پٹیاں بندھی تھیں، یہ بتانا ممکن نہیں ہے کہ محمد بن قاسم کے ذہن میں کیا کیا خیال آ رہے تھے، سوائے اس کے کہ اس کے چہرے پر جو تاثرات تھے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔
محمد بن قاسم جو اسوقت تک پیدل چل رہا تھا گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑے کا رخ دریا کی طرف کردیا، یہ دریائے چناب تھا جو سکہ اور ملتان کے درمیان حائل تھا، اگر درمیان میں دریا نہ ہوتا تو ملتان اور سکہ ایک ہی شہر ہوتے، اصل شہرتو ملتان تھا، ملتان کا قلعہ بہت مضبوط تھا، ابھی یہ معلوم کرنا تھا کہ یہ قلعہ کتنا مضبوط ہے اس کی ساخت کیسی ہے اور اس کے اندر فوج کتنی ہے؟
تین چار آدمی جو اس علاقے کے مقامی لباس میں ملبوس تھے محمد بن قاسم کی طرف آ رہے تھے، ان میں سے ایک کو محمد بن قاسم پہچانتا تھا، وہ شعبان ثقفی تھا ،وہ بھی وہاں کے مقامی لباس میں ملبوس تھا ،محمد بن قاسم اسے ہر بہروپ میں پہچان لیتا تھا ، یہ آدمی محمد بن قاسم کے پاس پہنچ کر رک گئے اور شعبان ثقفی نے دو آدمیوں کو آگے کیا۔
ابن قاسم !،،،،،شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ یہ دو آدمی یہاں کے مانجھی ہیں، یہ بتاتے ہیں کہ سکہ کا حاکم بجھرا ان کی کشتی پر دریا کے پار گیا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ وہ ملتان کے قلعے میں چلا گیا ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ان لوگوں نے یہ بھی بتایا ہوگا کہ سکہ سے کتنی فوج اور دوسرے لوگ بھاگ کر ملتان گئے ہیں۔ اتنے زیادہ نہیں کہ ہم پریشان ہو جائیں ان دونوں کے علاوہ میں نے دوسرے سے پوچھا ہے ،ان دونوں کو بجھڑا کے آدمیوں نے پکڑ لیا تھا اور انہیں زبردستی دریا کے پار لے گئے تھے۔
ان دونوں مانجھیوں کو چھوڑ دیا گیا، محمد بن قاسم شعبان ثقفی کو الگ لے گیا اور اس سے پوچھا کہ جن آدمیوں کو ملتان بھیجا گیا ہے وہ واپس آئے ہیں یا نہیں۔
سکہ کی فتح کے اگلے ہی روز جاسوسوں کو ملتان بھیج دیا گیا تھا ،یہ جاسوس مقامی لوگ تھے اور یہ مسلمان کے پکے وفادار تھے، ان میں زیادہ تر موکو کے دیے ہوئے آدمی تھے، موکو اپنی فوج کے ساتھ محمد بن قاسم کے ساتھ تھا ،موکو کی فوج زیادہ تو نہیں تھی لیکن مقامی ہونے کی وجہ سے یہ بڑی کارآمد ثابت ہو رہی تھی۔
یہ جاسوس اسی رات واپس آگئے جس روز محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی سے پوچھا تھا کہ جاسوس واپس آئے ہیں یا نہیں، یہ آدمی سکہ سے بھاگے ہوئے لوگوں کے بہروپ میں ملتان قلعے کے اندر چلے گئے تھے، انہوں نے مصیبت کے مارےہوئے لوگوں جیسی اداکاری کی تھی، ایک تو انہوں نے یہ معلوم کیا کہ ملتان کے قلعے میں کتنی فوج ہے، اور قلعے کا دفاع کیسا ہے، یہ تمام ضروری معلومات حاصل کرنے کے علاوہ ان آدمیوں نے ملتان کے لوگوں اور فوجیوں میں بہت دہشت پھیلائی، دہشت پھیلانے کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ وہ الگ الگ ہو کر لوگوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کرلیتے یا جہاں کہیں چند آدمی بیٹھے ہوتے وہاں جا بیٹھتے اور محمد بن قاسم کی فوج کی طاقت اور دلیری کے واقعات ایسے انداز اور الفاظ میں بیان کرتے کہ سننے والوں پر خوف طاری ہوجاتا۔
یہ ایک طرح کا نفسیاتی حملہ تھا جو کامیاب نظر آتا تھا، سکہ سے جو فوجی بھی بھاگے تھے وہ ملتان کے فوجیوں کو بتارہے تھے کہ مسلمان لڑنے میں اس قدر تیز اور لیڈر ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ خود بزدل نہیں اپنی بزدلی پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ مسلمانوں کے لڑنے کے جذبے اور بہادری کو اس طرح بیان کرتے تھے جیسے مسلمانوں کی طاقت مافوق الفطرت ہے، اس طرح یہ بھگوڑے فوجی ملتان کی فوج میں دہشت پھیلا رہے تھے۔
قلعے میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ سکہ کا حاکم بجھرا بھی فرار ہوکر ملتان میں آ گیا ہے، اس خبر نے بھی ملتان کی فوج میں خوف پھیلا دیا تھا، لیکن بجھرا خوفزدہ نہیں تھا ،ملتان کا حاکم راجہ کورسیہ تھا جسے بعض مورخوں نے کورسنگھ لکھا ہے، لیکن صحیح نام کورسیہ ہی ہوسکتا ہے، راجہ داہر کے خاندان کے افراد کے نام ایسے ہی تھے، کورسیہ داہر کا بھتیجہ تھا وہ داہر کے بھائی چندر کا بیٹا تھا ،بجھرا کورسیہ کا حوصلہ مضبوط کر رہا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
مہاراج !،،،،،،ایک فوجی حاکم نے کورسیہ سے کہا۔۔۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہم ملتان کو عرب کے مسلمانوں کی آخری منزل بنا دیں اور ملتان ان مسلمانوں کا قبرستان بن جائے، اگر ملتان بھی ہاتھ سے نکل گیا تو اسلام کا یہ سیلاب کہیں بھی روک نہیں سکے گا، آنے والی نسلیں ہمیں ذلیل و رسوا کرتی رہیں گی کہ ہم نے پورا سندھ مسلمانوں کو دے دیا تھا اور ہم اس جرم کے مجرم ہیں کہ ہندوستان میں اسلام کے لیے دروازے ہم نے کھولے تھے۔
تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔۔۔کورسیہ نے کہا ۔۔۔کیا تم ہمیں یہ بات اس لئے کہہ رہے ہو کہ ہم بزدلی دکھائی گے، کیا ہم لڑنے سے منہ موڑ جائیں گے۔
نہیں مہاراج!،،،،، اس بوڑھے فوجی حاکم نے کہا۔۔۔ میں یہ بتانے آیا ہوں کہ ککسہ اور سکّہ سے جو فوجی اور دوسرے لوگ بھاگ کر آئے ہیں وہ یہاں کے فوجیوں اور سارے شہر میں مسلمانوں کے متعلق ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں جن سے فوج اور شہر میں خوف پیدا ہوگیا ہے، سب سے زیادہ خطرناک بات جو بتائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان وحشیوں اور درندوں کی طرح لڑتے ہیں، لیکن جو لوگ ان کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور جو لڑے بغیر ان کی اطاعت قبول کرلیتے ہیں ان کے ساتھ مسلمان سگے بھائیوں جیسا سلوک کرتے ہیں، وہ گھروں کو لوٹتے نہیں بلکہ تحفظ دیتے ہیں ،یہ بھی مشہور کیا جا رہا ہے کہ مسلمان کسی کو مجبور نہیں کرتے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرلے،،،،،،، اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے مہاراج!،،، لوگوں کو یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ بجھرا مہاراج بھی سکہ سے بھاگ آئے ہیں۔
یہ جھوٹ ہے۔۔۔ بجھرا نے کہا۔۔۔ وہ کورسیہ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ میں لڑنے سے منہ موڑ کر نہیں بھاگا، میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ،کسی غدار نے قلعے کا ایک دروازہ کھول دیا تھا ،،،،،،،،،،تمام فوج کو اور شہر کے لوگوں کے سرکردہ آدمیوں کو اکٹھا کرو میں انہیں بتاؤں گا کہ شہر میں جو باتیں پھیلائی جارہی ہیں وہ سب جھوٹی ہیں اور یہ دشمن پھیلا رہا ہے۔
اسی روز فوج کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا شہر کے سرکردہ افراد کو بھی بلا کر فوج کے ساتھ کھڑا کیا گیا ،کورسیہ اور بجھرا گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے، بجھرا نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور اس کی اجتماع کے قریب جا رکا۔
دیش کے پنڈتوں !،،،،،،بجھرا نے بڑے ہی بلند آواز سے کہنا شروع کیا ۔۔۔ہمیں بتایا گیا ہے کہ شہر میں ایسی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں جنہیں لوگ سچ سمجھ کر اپنے اوپر مسلمانوں کا خوف طاری کر رہے ہیں، یہ افواہ تمہارے اپنے بھائی پھیلا رہے ہیں، یہ سب اپنے دیش کے غدار ہیں، یہ ان بزدل حاکموں کے آدمی ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے اور ان کی غلامی قبول کر لی ہے، مسلمانوں نے انہیں عہدے بھی دیے ہیں اور نقد انعام بھی دیے ہیں، میرے متعلق یہ مشہور کیا جا رہا ہے کہ میں لڑائی سے منہ موڑ کر سکہ کے قلعے سے بھاگ آیا ہوں ، یہ جھوٹ ہے کسی غدار نے قلعے کا دروازہ کھول دیا تھا ،یہ میری بہادری ہے کہ میں قلعے سے نکل آیا ہوں، اگر میں بزدل ہوتا تو یہاں نہ آتا کسی اور طرف نکل جاتا، یہاں میں لڑنے کے لیے آیا ہوں اور تم دیکھوگے کہ میں کس طرح ملتان کو ان عربوں کا قبرستان بناتا ہوں،،،،،،،،
یہ بالکل غلط ہے کہ مسلمان وحشیوں اور درندوں کی طرح لڑتے ہیں، اور یہ بھی غلط ہے کہ مسلمانوں کے آگے جو ہتھیار ڈال دے اور ان کی اطاعت قبول کرلے اسے وہ اپنا بھائی بنا لیتے ہیں، وہ کسی کو معاف نہیں کرتے، گھروں کو لوٹ لیتے ہیں اور تمام جوان عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں، سکہ کا انجام دیکھ لو اس وحشی قوم نے پورے شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا ہے اور اس شہر کی تمام لڑکیاں ان کے پاس ہیں ،اگر تم لوگوں نے ذرا سی بھی بزدلی دکھائی تو اس خوبصورت شہر کا اور تمہارا یہی انجام ہوگا ،بچے بچے کو لڑنا پڑے گا ورنہ تم سب مارے جاؤ گے، یا ان مسلمانوں کے غلام بن جاؤ گے، تمہاری باقی زندگی بھوکے پیاسے مشقت کرتے گزرے گی، وہی لوگ آرام اور اطمینان سے رہیں گے جو اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو جائیں گے، لیکن یہ آرام اور اطمینان چند دن رہے گا کیونکہ ایسے لوگوں پر آسمان سے قہر نازل ہوگا یہ اپنا مذہب چھوڑنے کی سزا ہوگی۔
بجھرا کی یہ تقریر جوش اور اشتعال انگیز ہوتی گئی ،وہ دروغ گوئی میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہا تھا، فوج اور لوگوں پر اس کا وہی اثر ہوا جو بجھرا پیدا کرنا چاہتا تھا ،فوج نے اور شہر کے لوگوں نے جو بلائے گئے تھے مسلمانوں کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیئے، شہر کے اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوگئے اور وہ بھی نعرے لگانے لگے۔
بججرا اور کورسیہ نے قلعے کے دفاعی انتظامات کو اور زیادہ مضبوط بنانا شروع کردیا۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ ملتان کے قلعے پر چھوٹی چھوٹی منجنیقیں رکھی ہوئی ہیں جن سے چھوٹے سائز کے پتھر پھینکے جاتے ہیں، جاسوسوں نے یہ خاص طور پر دیکھا کہ ملتان کی فوج کے پاس آگ والے تیر نہیں تھے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
سکہ کو چونکہ زمین کے ساتھ ملا دیا گیا تھا اس لئے وہاں ایسی ضرورت نہیں تھی کہ شہری انتظامیہ کے لیے حاکم اور عمال مقرر کیے جاتے، محمد بن قاسم نے رات کے وقت دریا پر کشتیوں کا پل بنوایا، جب یہ پل بنایا جارہا تھا اس وقت مجاہدین کا ایک دستہ کشتیوں کے ذریعے دریا کے پار چلا گیا تھا ،یہ ایک حفاظتی انتظام تھا ،خطرہ تھا کہ کشتیوں کا پل بنانے کے دوران دشمن حملہ کر دے گا۔
صبح طلوع ہوئی تو مجاہدین کا آدھے سے زیادہ لشکر دریا پار کر چکا تھا، منجنیقیں بڑی کشتیوں پر پار لے جائی جا رہی تھیں، محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ ملتان سے تھوڑی دور خیمہ گاہ بنا لی جائے ،محمد بن قاسم خود دریا کے کنارے کھڑا اپنے لشکر کو کشتیوں کے پل سے گزرتے دیکھ رہا تھا اور اس کا جو لشکر پار چلا گیا تھا اس نے ایک طرف خیمیں گاڑنے شروع کر دیئے تھے۔
ملتان شہر میں اس خبر نے ہڑبونگ بپا کر دی کہ مسلمانوں کی فوج آ گئی ہے، بجھرا اور کورسیہ دوڑتے نکلے اور شہر کی دیوار پر چڑھ گئے، انہوں نے دیکھا کہ مسلمان خیمے گاڑ رہے تھے۔
میں حکم دیتا ہوں کہ قلعے کے دروازے مضبوطی سے بند کر دیے جائیں۔۔۔ کورسیہ نے کہا ۔۔۔اور ہر دروازے کی حفاظت پر جو سپاہی ہوں ان کی تعداد دگنی کردی جائے۔
نہیں کورسیہ!،،،،،،، بجھرا نے کہا ۔۔۔۔ہم مسلمانوں کو اتنی مہلت نہیں دیں گے کہ وہ قلعے کا محاصرہ کر سکیں ،ہم انہیں قلعے سے دور ختم کردیں گے، ہم ان پر باہر نکل کر حملہ کریں گے ،،،،،،،،فوج کو تیاری کا حکم دے دو اور سارے شہر میں اعلان کردو کہ مسلمانوں کا لشکر آ گیا ہے اور تمام وہ آدمی جو تیر اندازی اور برچھیاں نشانی پر پھینکنے کا تجربہ رکھتے ہیں وہ شہر کی دیوار پر پہنچ جائیں ،اور وہ تمام لوگ جو گھوڑ سواری اور تیغ زنی کا تجربہ رکھتے ہیں وہ قلعے کے صدر دروازے کے قریب اکٹھے ہو جائیں۔
شہر میں نقارہ بجنے لگے اور مسلمانوں کی آمد کی اطلاع اور کورسیہ کے احکام بڑی بلند آواز سے سنائی دینے لگے، جن لوگوں کے پاس زیورات اور زیادہ رقمیں تھیں انہوں نے یہ مال و دولت اپنے مکانوں کی دیواروں میں اور فروشوں کے نیچے چھپانا شروع کر دیا ،شہر کے لوگ ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے اور فوج بڑی تیزی سے تیار ہو رہی تھی۔
ادھر مجاہدین کے لشکر نے دریا پار کر لیا تھا اور خیمیں گاڑے جا رہے تھے، ملتان کے قلعے کا ایک دروازہ کھلا اور فوج کے سوار دستے باہر نکلنے لگے ان کے باہر نکلنے کی رفتار خاصی تیز تھی باہر نکل کر یہ سوار دستے لڑائی کی ترتیب میں ہورہے تھے، مسلمان ابھی خیمہ گاہ کی تنصیب میں مصروف تھے۔
ملتان کی جو فوج باہر آئی تھی اس کی کمان بجھرا کے ہاتھ میں تھی، وہ للکار کر قلعے سے باہر آیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک ہی ہلّے میں ختم کردے گا، کروسیہ نے بھی یہی بہتر سمجھا کہ بجھرا ہی حملے کی قیادت کرے، کیونکہ اسے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا تجربہ ہو چکا تھا وہ جانتا تھا کہ میدان جنگ میں مسلمانوں کے انداز اور طور طریقے کیا ہیں۔
کورسیہ اور بجھرا نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہایت اچھا دیکھا تھا مسلمان ابھی خیمہ گاڑ رہے تھے رات کو وہ دریا عبور کرتے رہے تھے اس لئے ایک پَل بھی نہیں سو سکے تھے، محمد بن قاسم نے یہ اہتمام کر رکھا تھا کہ زیادہ نفری والے ایک دستے کو خیمہ گاہ کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔
یہ دستہ تیاری کی حالت میں قلعے اور خیمہ گاہ کے درمیان موجود تھا۔
بجھرا نے اپنے سواروں کو حملے کے لیے ایڑ لگانے کا حکم دیدیا، ان سواروں کی تعداد مسلمانوں کے اس دستے سے دو گنا تھی جو خیمہ گاہ کی حفاظت کے لیے موجود تھا ،محمد بن قاسم نے دشمن کے گھوڑوں کو طوفان کی طرح آتے دیکھا تو اس نے محسوس کر لیا کہ اس کا حفاظتی دستہ جس میں سوار بھی تھے پیادے بھی اس حملے کو نہیں روک سکے گا ،اس نے حکم دیا کہ جو کوئی جس حالت میں ہے ہتھیار لے کر لڑائی کی ترتیب میں آجائے۔
حملہ آور زیادہ تیز تھے مجاہدین بھی گھوڑوں پر زین کس رہے تھے کہ ملتان کے دستے خیمہ گاہ کے حفاظتی دستے تک آن پہنچے، اور سندھ کی جنگ کا ایک اور خونریز معرکہ شروع ہو گیا، بجھرا کے دستوں کا یہ حملہ بظاہر بے ترتیب ہلّے جیسا تھا لیکن وہ چوکنا تھا، اسے احساس تھا کہ جو مسلمان خیمہ گاہ میں مصروف ہیں وہ فوراً تیار ہو کر اس پر جوابی حملہ کریں گے، اس نے اپنے کمانڈروں کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مسلمان پیچھے ہٹنے لگے تو اپنے دستوں کو ان کے تعاقب میں نہ جانے دیں ورنہ مسلمانوں کے گھیرے میں آ جائیں گے۔
محمد بن قاسم کے ایک بار تو ہوش اڑ گئے اسے معلوم تھا کہ قلعے میں خاصی زیادہ فوج ہے اگر حملہ آور اس کے مجاہدین پر غالب آگئے تو قلعے سے دشمن کے مزید دستے باہر آجائیں گے اور لڑائی میں شامل ہوکر جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیں گے، ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ عرب سے ابھی کمک نہیں پہنچی تھی۔
خیمہ گاہ والی فوج تیار ہوگئی حملہ آور خیمہ گاہ کے حفاظتی دستے پر غالب آ رہے تھے۔ محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور سالاروں سے کہا کہ وہ حملہ آوروں کے عقب میں جانے کی کوشش کریں اور دونوں پہلوؤں سے بھی دشمن پر حملہ کریں۔
سالاروں نے بڑی عجلت میں اپنے دستوں کو گھیرا ڈالنے کی ترتیب میں کیا اور حملے کے لئے آگے بڑھے، بجھرا نے دیکھا تو اس نے چلا چلا کر اپنے دستوں کو پیچھے ہٹانا شروع کردیا۔
ان کے پیچھے جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا ۔۔۔انہیں پیچھے ہٹنے کی مہلت نہ دو ،،،،،محمد بن قاسم کے احکام قاصدوں کے ذریعے سالاروں تک پہنچ رہے تھے، یہ قاصد اس کام کے ماہر تھے وہ گھمسان کی گتھم گتھا لڑائی میں بھی پیغام پہنچا دیا کرتے تھے، اور کبھی کوئی قاصد مارا بھی جاتا تھا بعض پیغام بلند آواز والے آدمیوں کے ذریعے بھی پہنچائے جاتے تھے۔
مجاہدین کے دستے دشمن کو گھیرے میں لینے کے لئے دور سے پہلوؤں کی طرف ہو رہے تھے لیکن بجھرا اپنے دستوں کو پیچھے ہٹا رہا تھا، پیچھے ہٹے ہٹتے بجھرا کے دستے قلعے کے قریب پہنچ گئے، محمد بن قاسم نے سالاروں کو پیغام بھیجے کہ وہ قلعے کے دروازے تک پہنچ جائیں اور جب بجھرا کے دستے قلعے میں داخل ہونے لگیں تو اپنے مجاہدین بھی قلعے میں داخل ہو جائیں ،لیکن کورسیہ نے یہ خطرہ بھانپ لیا تھا اس نے اپنا ایک دستہ قلعے کے باہر بھیج دیا اس کے لئے یہ حکم تھا کہ جب بجھرا کے دستے دروازوں میں داخل ہو رہے ہوں تو یہ دستہ مسلمانوں کو روک لے اور انہیں دروازوں کے قریب نہ آنے دیں، قلعے کی دیوار پر جو فوجی اور شہر کے لوگ کھڑے تھے ان کے لئے حکم تھا کہ مسلمان قلعے کے قریب آئیں تو ان پر تیروں ،برچھیوں اور پتھروں کا مینہ برسا دیں۔
پھر ایسے ہی ہوا قلعے سے آئے ہوئے دستے بڑی تیزی سے پیچھے ہٹتے گئے انہوں نے مسلمانوں کو گھیرا مکمل نہ کرنے دیا، انہوں نے جانی نقصان بہت اٹھایا لیکن مسلمانوں کے ہاتھ آئے بغیر قلعے میں چلے گئے، کچھ جاں باز مجاہدین تھے جنہوں نے ان کے پیچھے قلعے کے دروازے میں داخل ہونے کی کوشش کی یہ ایک خودکش کوشش تھی جو کامیاب نہ ہوسکی، کامیابی کا کوئی امکان تھا ہی نہیں دشمن کے گھوڑ سوار ایک ہی بار کئی کئی دروازے میں سے اندر کو جاتے تھے تو دروازے میں ہی پھنسے رہتے اور بڑی مشکل سے آگے نکلتے تھے، محمد بن قاسم کے جو جانباز اندر جانے کی کوشش میں ان کے درمیان آگئے وہ بری طرح پھنس گئے، اگر ان میں سے دو چار اندر چلے بھی جاتے تو شہادت کے سوا کچھ بھی حاصل نہ کر سکتے۔
جس جانباز نے دشمن کے پیچھے یا دشمن کے ساتھ قلعے میں داخل ہونے کی سب سے پہلے کوشش کی تھی اس کا نام تاریخوں میں آج تک محفوظ ہیں، یہ تھا زائدہ بن عمیرطائی ،اس کے سوا تاریخ میں اور کسی کا بھی نام نہیں ملتا، زائدہ کا نام بلاذری نے لکھا ہے، اس خودکش اقدام کی طرح زاہدہ نے ڈالی، یہ ایک غیر معمولی اور بے مثال شجاعت تھی، زائدہ کو دیکھ کر کئی جانباز اس کے پیچھے چلے گئے لیکن ان میں سے دو تین ہی زندہ رہ سکے تھے، زائدہ بن عمیر کی لاش نہیں مل سکی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زائدہ قلعے کے اندر جا کر شہید ہو گیا تھا۔
ادھر بجھرا اپنے دستوں کے ساتھ قلعے میں داخل ہوا قلعے کا دروازہ بند ہوا اور ادھر سورج غروب ہو گیا ،مجاہدین باہر رہ گئے دیوار کے اوپر سے ان پر تیروں اور چھوٹی برچھیوں کی بوچھاڑیں آنے لگیں جن سے چند ایک مجاہدین اور چند ایک گھوڑے زخمی ہوگئے، سالاروں نے اپنے دستوں کو فوراً پیچھے ہٹا لیا۔
دستور اور معمول کے مطابق مجاہدین کی مستورات پانی کے مشکیزے اور پیالے اٹھائے دوڑی آئیں اور زخمیوں کو پانی پلانے اٹھانے اور پیچھے لانے میں مصروف ہوگئیں، ان کی مدد کے لئے کچھ آدمی پیچھے رہ گئے اور باقی خیمہ گاہ میں واپس چلے گئے۔
مجاہدین کا یہ لشکر خیمہ گاہ کو درست کرنے میں لگ گیا، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں اور ان کے ماتحت چھوٹے سے چھوٹے عہدوں کے عہدے داروں کو بلایا۔
آج کی لڑائی سے ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ دشمن کے لڑنے کا انداز کیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔پچھلے تین چار قلعے کی فوج بھی اسی انداز سے لڑی تھی، یہاں بھی دشمن نے وہی طریقہ اختیار کیا ہے، اس قلعے کے حاکم کورسیہ کو سکہ کے حاکم بجھرا نے یہ طریقہ بتایا ہوگا ،اپنے مجاہدین کو بتادوں کہ یہاں بھی ہمیں ہر روز لڑائی لڑنی پڑے گی اور دشمن ہمیں محاصرہ نہیں کرنے دے گا، محمد بن قاسم نے انہیں کچھ ضروری ہدایات دیں جن میں ایک یہ تھی کہ ایک سوار دستہ قلعے کے اردگرد تیاری کی حالت میں گشت پر رہے تاکہ قلعے کی فوج کو کہیں سے بھی کمک اور رسد نہ مل سکے اور قلعے میں سے کوئی نکل کر کہیں جا نہ سکے، اس دستے کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ لڑائی کی صورت میں اس دستے کا سالار محسوس کرے کہ لڑائی میں مدد کی ضرورت ہے تو وہ خود فیصلہ کرے اور محمد بن قاسم کے حکم کا انتظار کیے بغیر ہی آدھی نفری مدد کے طور پر بھیج دے۔
میرے عزیز رفیقوں!،،،،،، محمد بن قاسم نے جنگی نوعیت کی ہدایات اور احکام دے کر کہا۔۔۔ اپنے دستوں سے کہنا کہ یہ ہے وہ منزل جس تک ہم بخیروخوبی پہنچ گئے ہیں تو ہمارے لیے ہندوستان کا دروازہ کھل جائے گا۔۔۔۔۔ میر معصوم لکھتا ہے کہ محمد بن قاسم بولتے بولتے جذباتی سا ہو گیا اور اس کے چہرے پر ہلکی سی سرخی آگئی، اس نے کہا ملتان اسلام کی روشنی کا مینار ہوگا ،کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے والے مسافر اس مینار کی روشنی سے رہنمائی حاصل کریں گے، اور یہ روشنی قیامت تک اللہ کا نور بکھیرے کرتی رہے گی، آنے والی نسلیں اور ان نسلوں کے بعد آنے والی نسلیں ملتان کے نام کے ساتھ تمہیں بھی یاد کریں گی،،،،،،، اپنے مجاہدین سے کہہ دو کہ ہم ملتان نہ لے سکے تو اپنی جانیں دے دیں گے پیچھے نہیں جائیں گے، مجاہدین کو بتا دو کہ جنت کا دروازہ آگے ہے اور پیچھے دوزخ کا منہ کھلا ہے، ہمارے لئے یہ حکم الہی ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور اپنے لہو کے چمکتے ہوئے قطروں سے کفرستان میں اللہ کا نور بکھیریں، ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے، یہی ہمارا مقدر ہے اور یہ ایک درخشاں مقدر ہے، ہم سب خوش نصیب ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے یہ سعادت ہمیں عطا فرمائی ہے کہ یہ مقدس فریضہ ہم پائے تکمیل تک پہنچائیں،،،،،،،،، اور مجاہدین سے کہنا کہ تم خلیفہ کے لئے اور حجاج بن یوسف کے لیے نہیں لڑ رہے، ہم یہاں اپنی حکومت نہیں بلکہ اللہ کی حکمرانی قائم کرنے آئے ہیں۔
رات کو ہی سالاروں نے اپنے اپنے دستوں کو اکٹھا کرکے محمد بن قاسم کا پیغام ان تک پہنچا دیا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ مجاہدین کی جسمانی حالت وہی ہوچکی تھی جس میں راجہ داہر انہیں دیکھنا چاہتا تھا ، مجاہدین جسمانی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ چکے تھے لیکن ان کے جذبے اور جوش و خروش میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی تھی ،ان کی حرکات میں اور ان کے نعروں میں وہی جان اور وہی ولولہ تھا جو سندھ میں داخل ہوتے وقت تھا، جوں جوں ان کے جسم شل ہوتے جا رہے تھے ان کی روحانی قوت بیدار ہوتی چلی جا رہی تھی، محمد بن قاسم کے پیغام نے ان میں نئی روح پھونک دی۔
فجر کی اذان ایک مجاہد نے ایک ٹیکری پر کھڑے ہو کر دی، اس اذان میں کوئی اور ہی تاثر تھا سحری کے سناٹے میں اذان کی مقدس صدا تیرتی ہوئی ملتان کے قلعے کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھی، اللہ کا یہ پیغام قلعے کے بند دروازوں کے اندر بھی سنائی دے رہا تھا، تھکے ماندے مجاہدین نماز کے لیے تیار ہونے لگے کچھ دیربعد تمام لشکر باجماعت کھڑا ہوگیا اور محمد بن قاسم کی کی امامت میں نماز پڑھی۔
*=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
نماز کے فوراً بعد کچھ کھا پی کر مجاہدین قلعے کو محاصرے میں لینے کے لئے تیار ہوگئے، سالاروں نے اپنے اپنے دستوں کو اس ترتیب میں کر لیا جو انھیں بتائی گئی تھی جب دستے قلعے کی طرف چلے تو مجاہدین کی مستورات اور بچوں نے ہاتھ پھیلا کر انہیں دعاوں سے رخصت کیا، سورج کی پہلی کرنیں نمودار ہوئیں۔
مجاہدین ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ قلعے کے اس طرف والے دو دروازے کھلے اور قلعے کی فوج کے کچھ دستے بڑی تیزی سے باہر آئے، باہر آتے ہی وہ لڑائی کی ترتیب میں ہوتے چلے گئے، اس روز بھی ان دستوں کا کمانڈر بجھرا تھا، قلعے کی دیوار کے اوپر انسانی دیوار کھڑی تھی، یہ تیر اندازوں اور برچھی پھیکنے والوں کا ہجوم تھا، باہر آنے والے دستوں اور دیوار کے اوپر کھڑے انسانوں کا انداز اور ان کے جے کار بتا رہے تھے کہ وہ شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں، پچھلے دنوں کی طرح اس قلعے کی دیوار کے اوپر سے بھی مسلمانوں پر طنز اور دشنام کے تیر آنے لگے، ہندو مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے تھے۔
مجاہدین کا ایک سوار دستہ دور کا چکر کاٹ کر قلعے کی پچھلی طرف جا رہا تھا۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دستوں کو لڑائی میں زیادہ نہیں الجھانا اس کی بجائے دفاعی طریقہ اختیار کرنا اور دشمن کے لیے موقع پیدا کرتے رہنا کہ وہ آگے بڑھ بڑھ کر حملے کریں، محمد بن قاسم کا مقصد یہ تھا کہ دشمن اپنی طاقت ضائع کرتا رہے، اسلام کا یہ کمسن سالار اس جنگ کو طول دینا چاہتا تھا، اس نے اپنے دستوں کو پھیلا رکھا تھا تاکہ ان کے مطابق دشمن کو بھی پھیلنا پڑے اور جہاں موقع نظر آئے پہلو سے اس پر شدید حملہ کردیا جائے۔
سورج غروب ہونے سے پہلے تک لڑائی جاری رہی مسلمانوں نے اپنا انداز دفاعی رکھا محتاط ہو ہو کر لڑتے بھی رہے یہاں بھی وہی دشواری تھی جو پہلے قلعوں میں پیش آئی تھی، وہ یہ کہ دشمن کے عقب میں نہیں جایا جاسکتا تھا کیونکہ پیچھے قلعے کی دیوار تھی اور دیوار پر تیر انداز اور برچھی انداز ہجوم کی صورت میں کھڑے تھے ،ان کی وجہ سے دشمن کا عقب محفوظ تھا۔
بجھرا کے دستے آہستہ آہستہ قلعے میں واپس جانے لگے اب کے پھر چند ایک جانبازوں نے قلعے میں داخل ہونے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ،لیکن محمد بن قاسم نے انہیں روک دیا ،قلعے کے تمام دستے واپس چلے گئے۔ محمد بن قاسم نے خود میدان جنگ میں گھوم پھر کر دشمن کے نقصان کا اندازہ لگایا اور اپنے دستوں کا نقصان بھی دیکھا، تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ اس روز قلعے کی فوج کا جانی نقصان خاصا زیادہ تھا اور زخمیوں کی تعداد تو اور ہی زیادہ تھی، اس کے مقابلے میں مجاہدین کا جانی نقصان نہایت معمولی تھا ،زخمیوں کی تعداد ذرا زیادہ تھی لیکن زخم شدید نہیں تھے۔
محمد بن قاسم نے جب دشمن کے اور اپنے نقصان کا تناصب دیکھا تو وہ بہت خوش ہوا کہ اس کی چال کامیاب رہی، اس نے اس رات سالاروں کو اکٹھا کر کے کہا کہ ہر روز لڑنے کا یہی طریقہ اختیار کریں ،دشمن کو دھوکے میں رکھیں کہ ہم تھکے ہوئے ہیں اور اسے یہ تاثر دیتے رہیں جیسے ہم شدید حملہ برداشت نہیں کریں گے اور بھاگ اٹھے گے، اس طرح دشمن تابڑ توڑ حملہ کرتے رہے گا اور اس کی طاقت زائل ہوتی رہے گی۔
*<=======۔==========>*
*قسط نمبر/33*
محمد بن قاسم کی اس چال نے ملتان کی فوج کو بہت نقصان پہنچایا، ہر روز وہ بہت سی لاشوں اور زخمیوں کو باہر چھوڑ کر قلعے میں واپس چلے جاتے تھے، مجاہدین دشمن کے زخمیوں کو پکڑ کر لاتے تھے لیکن ایسے زخمیوں کو وہ نہیں اٹھاتے تھے جن کے متعلق یقین ہوجاتا تھا کہ وہ مر جائیں گے، دشمن کی لاشیں مسلمانوں کو اٹھا کر ایک وسیع گڑھے میں دفن کرنی پڑتی تھی، اگر نہ کرتے تو یہ گل سڑ کر بہت بدبو پیدا کرتی تھی۔
یہ لڑائی مسلسل دو مہینے ہوتی رہی، پورے دو مہینے مسلمانوں کے لڑنے کا انداز وہی رہا جو پہلے روز تھا ،دو مہینوں بعد دشمن اس حالت میں آگیا جس حالت میں محمد بن قاسم اسے لانا چاہتا تھا ،محمد بن قاسم کے اندازے کے مطابق قلعے کی فوج کی تقریباً آدھی نفری ماری جا چکی تھی، پھر بھی قلعے میں بہت فوج موجود تھی اور شہری بھی لڑنے کے لیے تیار تھے ،محمد بن قاسم ملتان کو نہایت اہم مقام سمجھتا تھا تو دشمن بھی اس کی اہمیت سے واقف تھا ،کورسیہ اور بجھرا کو یہ احساس تھا کہ ملتان ہاتھ سے نکل گیا تو نہ صرف یہ کہ سندھ ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کا ملک بن جائےگا بلکہ یہ بھی ہوگا کہ مسلمان اسلام کا پرچم ہندوستان میں بہت دور تک لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس لئے قلعے کے یہ دونوں حاکم ملتان کو مسلمانوں سے بچانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار تھے، دو مہینوں بعد قلعے کی فوج نے باہر آ کر لڑنا چھوڑ دیا۔ محمد بن قاسم نے دو دن انتظار کیا دشمن باہر نہ آیا تیسری صبح محمد بن قاسم نے قلعے کو محاصرے میں لینے کا حکم دیا ،نہایت تیزی سے دستے قلعے کے اردگرد پھیل گئے، ہر دروازے کے بالمقابل اتنے فاصلے پر جہاں تک تیر نہیں پہنچ سکتے تھے دستوں نے جاکر جگہ سنبھال لی۔
محمد بن قاسم کو پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ اس قلعے میں چھوٹے سائز کی منجنیقیں ہیں جن سے سنگ باری کی جاتی ہے۔ مسلمانوں نے جب قلعے کا محاصرہ کیا تو دیواروں پر منجنیقیں نظر آنے لگیں، پھر ان منجنیقوں سے پتھر اڑنے لگے چونکہ منجنیقیں چھوٹی تھیں اس لئے ان سے چھوٹے پتھر پھینکے جاتے تھے، مسلمان پتھروں کی زد سے پیچھے ہو گئے اس سنگ باری کے جواب میں محمد بن قاسم نے اپنی بڑی منجنیقوں سے بڑے سائز کے پتھر پھینک کر شہر کو لرزہ براندام کر سکتا تھا ،لیکن اس نے منجنیقوں کے استعمال سے اس لیے اجتناب کیا کہ سنگ باری سے زیادہ نقصان شہریوں کو پہنچے گا اور بچے بھی مارے جائیں گے، منجنیقوں کا استعمال اس وقت کرنا تھا جب کوئی اور چارہ کار نہ رہتا۔
محمد بن قاسم قلعے کے اردگرد گھومتا پھرتا رہا وہ دیوار میں کوئی کمزور جگہ دیکھ رہا تھا لیکن کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آرہی تھی، تھوڑے تھوڑے وقفے سے تیر اندازوں کے جیش آگے جاتے اور دیوار کے اوپر کھڑے آدمیوں پر بڑی تیزی سے تیر چلاتے تھے، ان سے دشمن کے کچھ آدمی مارے تو جاتے تھے لیکن دشمن کے لیے یہ کوئی ایسا نقصان نہیں تھا جو قلعے کے دفاع کو کمزور کر دیتا۔
یہ سلسلہ کچھ دن چلا ،ایک روز محمد بن قاسم کو یہ اطلاع دی گئی کہ اپنے پاس اناج کی کمی ہو گئی ہے، اناج اور خوراک کا دیگر سامان نیرون، برہمن آباد اور اروڑ میں تھا ،لیکن وہ جگہیں اتنی دور تھیں کہ اناج وغیرہ فوری طور پر نہیں آ سکتا تھا ،فوج کا کوچ تو بہت تیز ہوا کرتا تھا لیکن رسد کی رفتار اتنی زیادہ نہیں ہوسکتی تھی، رسد اونٹوں اور گاڑیوں پر لے جائی جاتی تھیں، گاڑیوں کو بیل اور گدھے کھینچتے تھے۔
یہ صحیح ہے کہ رسد بہت دور پڑی تھی لیکن کسی بھی تاریخ میں یہ وجہ نہیں لکھی گئی کہ محمد بن قاسم نے پہلے ہی ایسا انتظام کیوں نہ کیا کہ ملتان کی جنگ کے دوران اناج وغیرہ منگوالیتا، سالاروں نے بھی دھیان نہ دیا کہ رسد ناکافی رہ گئی ہے اور ایک دو دنوں بعد ختم ہو جائے گی، وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ محمد بن قاسم اور اس کے سالار جنگ میں اتنے زیادہ الجھے رہے کہ وہ رسد کی طرف دھیان ہی نہ دے سکے۔
اناج ابھی بالکل ختم نہیں ہوا تھا محمد بن قاسم نے اس کی تقسیم پر پابندی عائد کردی ،اس سے یہ ہوا کہ ہر مجاہد کو ہر روز آدھی خوراک ملتی تھی، تین مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ باربرادری کے لئے گدھے بھی تھے، بعض مسلمانوں نے بھوک سے تنگ آکر ان گدھوں کو ذبح کر کے کھانا شروع کردیا۔
مشہور مورخ بلاذری نے لکھا ہے کہ تنگ سی ایک نالی قلعے کی دیوار کے نیچے سے گزرتی تھی اور نیچے نیچے سے ہی دوسری طرف چلی جاتی تھی، یہ نالی شہر کے اندر ہی پانی کے ذخیرے کے لیے استعمال ہوتی تھی، ایک زخمی ہندو مسلمانوں کے پاس قید تھا اس کے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے جب مسلمانوں کے ہاں خوراک کی کمی واقع ہو گئی اور ہر کسی کو جن میں سالار بھی شامل تھے آدھی خوراک ملنے لگی تو قیدیوں کو بھی اس حکم کے مطابق آدھی خوراک دی جانے لگی، قیدی یہ سمجھے کہ انہیں قیدی ہونے کی وجہ سے خوراک تھوڑی دی جا رہی ہے، اس زخمی نے بھوک سے تنگ آکر مسلمانوں کی منت سماجت شروع کردی کہ زخموں نے پہلے ہی اسے کمزور کر دیا ہے اس لیے اسے خوراک پوری دی جائے، اسے بتایا گیا کہ لشکر میں اناج کی کمی واقع ہو گئی ہے۔
اس زخمی ہندو نے زخموں اور بھوک سے تنگ آکر ایک راز بے نقاب کر دیا۔
تم لوگ فاقہ کشی کر رہے ہو۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔ میں تمہیں ایک جگہ بتاتا ہوں، وہاں سے ایک ندی کا پانی چھوٹی سی ایک نالی کے ذریعے قلعے کے اندر جاتا ہے، شہر کے لوگ وہی پانی پیتے ہیں اور یہی پانی جانوروں کو بھی پلایا جاتا ہے، چونکہ پانی اس قدرتی ذریعے سے اپنے آپ ہی مل جاتا ہے اس لیے شہر میں کنوئیں بہت ہی کم ہیں، اگر تم لوگ یہ پانی روک لو تو شہر کے لوگ پیاسے بلبلا کر باہر نکل آئیں گے، میں نے یہ راز بتا کر بہت بڑا گناہ کیا ہے، تمام فوج سے مندر کے سامنے قسم لی گئی تھی کہ دشمن کا قیدی بن جانے کی صورت میں شہر کا اور فوج کا کوئی راز اور خاص طور پر پانی کی یہ نالی دشمن کو نہیں بتائیں گے، میں نے یہ گناہ بھوک اور زخموں سے تنگ آکر کیا ہے، اس کا مجھے صرف یہ معاوضہ دے دو کہ مجھے کھانے کے لئے پوری خوراک دو، اور میرے زخموں کو جلدی ٹھیک کر دو، میں نے تمہیں جو راز دیا ہے اس کی قیمت کا اندازہ تمہیں چار پانچ دنوں بعد معلوم ہو جائے گا۔
اس زخمی نے نالی کی نشاندہی کر دی، اس سے پہلے مجاہدین نے اس نالی کو دیکھا ہوگا اور اسے نظر انداز کردیا ہوگا ،یا یہ اتنی ڈھکی چھپی ہوئی تھی کہ اسے دیکھا ہی نہ جا سکا ،اس زخمی ہندو کی نشاندہی پر یہ نالی دیکھی گئی اور اسے بند کر دیا گیا، اس طرح شہر کی پانی کی سپلائی بند ہو گئی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
تین چار روز بعد جنگ میں اچانک شدت آ گئی جو اس نوعیت کی تھی کہ مجاہدین بہت آگے خطرناک مقام تک پہنچ کر قلعے کی دیوار کے اوپر بہت زیادہ تعداد میں اور بہت زیادہ تیزی سے تیر چلانے تھے ،اور دیوار کے اوپر جو لوگ تھے وہ اب تیروں سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ بڑی دلیری سے مسلمان تیر اندازوں پر تیر برچھیاں اور پتھر پھینکتے تھے، جنگ میں شدت کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان بھوک سے پریشان تھے اور وہ اس کوشش میں تھے کہ قلعہ جلدی سر کرلیں تاکہ کے اندر کھانے کو کچھ ملے، ملتان کے لوگ اس وجہ سے اتنے دلیر ہو گئے تھے کہ ان کا پانی بند ہو گیا تھا اور وہ پیاسے مرنے لگے تھے۔
دو تین دن اور گزر گئے ایک روز پہلے کی طرح قلعے سے بہت سے دستے نکلے اور انھوں نے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا ،مسلمانوں نے جم کر مقابلہ کیا اور ان دستوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے، دشمن کے دستے بہت سی لاشیں اور بے شمار زخمیوں کو چھوڑ کر واپس چلے گئے، دیکھا گیا کہ بعض معمولی زخمی سپاہی جو نہایت آسانی سے قلعے میں واپس جا سکتے تھے مگر واپس نہ گئے، انہوں نے اپنے آپ کو مجاہدین کے حوالے کردیا، انہوں نے سب سے پہلے پانی مانگا ،اس سے پتہ چلا کہ شہر میں فوج اور لوگوں کا پیاس کے مارے بہت برا حال ہو رہا ہے ،ان کے گھوڑے بھی پیاسے تھے، اکثر گھوڑے پیاس کی وجہ سے سست ہوجاتے یا بے لگام ہو جاتے ، اگلے دو روز شہر کی فوج کا یہی انداز رہا کے باہر آکر چند ایک دستے مسلمانوں پر حملہ کرتے اور واپس چلے جاتے تھے اور ان کے جو آدمی پیچھے رہ جاتے وہ پانی کے سوا کچھ نہیں مانگتے تھے، انہوں نے بتایا کہ شہر میں پانی نہیں مل رہا ،کنوئیں نہ ہونے کے برابر تھے۔ جو تھے وہاں سے ہر کوئی پانی نہیں لے سکتا تھا ،یہ پانی کافی بھی نہیں ہوسکتا تھا ،فوج کو اس طرح پانی دیا جا رہا تھا جیسے دوائی دی جاتی ہے، فوج کے گھوڑوں کو پانی پلانا ضروری تھا انہیں بھی پانی نہیں مل رہا تھا، شہر میں مختلف جگہوں پر کنوؤں کی کھدائی شروع ہوگئی تھی، لیکن پانی نے ایک دو دنوں میں تو نہیں نکل آنا تھا۔
محمد بن قاسم کے لیے اپنی فوج کی خوراک مسئلہ بنی ہوئی تھی، تیز رفتار قاسدوں کو برہمن آباد اور اروڑ بھیج دیا گیا تھا کہ رسد بہت جلدی روانہ کی جائے، اب دیکھنا یہ تھا کہ پہلے مسلمان بھوک سے بے حال ہوتے ہیں یا محصور فوج پیاس سے بے حال ہو کر ہتھیار ڈالتی ہے، ملتانیوں کے لئے نجات کا یہی ایک راستہ تھا کہ اس شرط پر قلعے کے دروازے کھول دیتے کہ مسلمان پانی کی نالی کھول دیں ،اس سے اگلے روز ملتان کی فوج پھر باہر نکلی اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوئی، محمد بن قاسم نے اس فوج کی یہ کمزوری بھانپ لی تھی کہ سپاہی پیاسے ہیں اس نے حکم دیا کہ اب جارحانہ انداز اختیار کیا جائے اور دشمن پر دائیں بائیں سے شدید حملے کیے جائیں، اس حکم کی تعمیل جوش و خروش سے کی گئی حالانکہ مجاہدین پوری خوراک نہ ملنے کی وجہ سے نڈھال سے ہوئے جارہے تھے، جذبہ تو اپنی جگہ قائم تھا، لیکن مجاہدین نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ وہ قلعہ سر کریں گے تو پیٹ بھر کھانا ملے گا، بہرحال وہ خوش قسمت تھے کہ انہیں پانی مل رہا تھا وہ اپنے گھوڑوں کو بھوکا نہیں رہنے دیتے تھے انہیں چرنے چگنے کے لئے چھوڑ دیتے اور عورتیں ان کے لئے گھاس کاٹ لاتیں اور درختوں کے پتے بھی توڑ لاتی تھیں۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
اس روز کے معرکے میں قلعے کی فوج کا ایک حاکم سالار زخمی ہوگیا، اس کی فوج قلعے میں واپس چلی گئی اور وہ زخموں کی وجہ سے پیچھے رہ گیا، مسلمانوں کے لئے وہ ایک قیمتی قیدی تھا وہ اسے پیچھے لے آئے، اس سے معلومات حاصل کرنا شعبان ثقفی کا کام تھا، اسکی مرہم پٹی ہوگئی تو شعبان ثقفی اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ اس کی فوج کی نفری کتنی رہ گئی ہے، اور وہ کس حالت میں ہے، اور وہ کتنی دن اور قلعے کے دفاع میں لڑ سکتی ہے؟
میرے عربی دوست !،،،،،اس ہندو فوجی حاکم نے کہا ۔۔۔میں سپاہی ہوتا تو تمہیں قلعے کے اندر کے حالات اور اپنی فوج کی حالات بتا دیتا، میں فوج کے حاکموں میں سے ہوں، اور میں برہمن ہوں، تم شاید نہیں جانتے کہ برہمن ہندوؤں کی سب سے اونچی ذات ہے، اور مندروں کے پنڈت صرف برہمن ہوتے ہیں، ملک اور مذہب کا جتنا پاس برہمن کو ہوتا ہے اتنا اور کسی ذات کو نہیں ہوسکتا ،مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ میں اپنی فوج اپنے مذہب اور اپنے ملک کے ساتھ غداری کروں گا ،کہ تمہیں اپنے راز اور اپنی کمزوریاں بتادوں۔
تم نہیں بتاؤ گے تو تمہارا کوئی اور آدمی بتا دے گا۔۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ پھر تم ہم سے ہمدردی اور اچھے سلوک کی توقع نہ رکھنا میں تمہیں بخشوں گا نہیں، اس قلعے کی خاطر ہماری بہت سی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
اور اس قلعے کی خاطر میں اپنی جان دینے کے لئے تیار ہوں۔۔۔ ہندو حاکم نے کہا۔۔۔ تم مجھے جو سزا دینا چاہتے ہو دو، میں ہر طرح کی اذیت برداشت کر لوں گا اور خوشی سے جان دے دوں گا ،لیکن تم نے ابھی میری پوری بات نہیں سنی، میں پہلے ہی ایک اذیت میں مبتلا ہوں، مجھے ذرا سوچنے دو۔
مجھے بتاؤ !،،،،،شعبان صفی نے کہا۔۔۔ میں تمہیں سوچنے میں مدد دوں گا۔
قلعے کے اندر لوگ پیاس سے مر رہے ہیں۔۔۔ ہندوں حاکم نے کہا۔۔۔ ابھی اتنی زیادہ موتیں نہیں ہوئی، اگر ان لوگوں کو تین دن اور پانی نہ ملا تو وہ مرنے لگے گے، کنوئیں بہت تھوڑے ہیں، ان کا پانی فوج کو اور گھوڑوں کو پلا دیا جاتا ہے، فوجیوں کو بہت تھوڑا پانی مل رہا ہے، حاکموں کے گھروں میں پورا پانی جاتا ہے ،میں بھی پیاسا نہیں رہا، لیکن جب سے میں نے پیاسے مرے ہوئے دو بچوں کو دیکھا ہے مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے میں نے انہیں پیاس سے مارا ہے۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہر میں کنوئیں کھودے جا رہے ہیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔ ان کنوؤں سے پانی نکلنے تک کئی لوگ پیاس سے مر چکے ہونگے ۔۔۔ہندو فوجی حاکم نے کہا۔۔۔ میں انہیں بچانا چاہتا ہوں، میں اپنے آپ کو بہت بڑا گنہگار سمجھتا ہوں کہ میں پانی پیتا رہوں اور لوگوں کے بچے پیاسے مر رہے ہوں، ماؤں کو پانی نہیں ملے گا تو وہ بچوں کو دودھ کہاں سے پلائیں گی ،ان کی چھاتیاں خشک ہو جائیں گی۔
پھر تمہاری فوج ہتھیار کیوں نہیں ڈالتی؟،،،،،، شعبان ثفی نے پوچھا۔
فوج ہتھیار نہیں ڈالے گی۔۔۔ ہندو فوجی حاکم نے کہا ۔۔۔اور میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں گزشتہ رات راجہ کروسیہ قلعے سے بھاگ گیا ہے، وہ اپنے خاندان کو ساتھ لے گیا ہے۔
وہ کس طرف نکلا ہے؟
پہلے دیکھ لیا گیا تھا۔۔۔ حاکم نے جواب دیا۔۔۔ اس طرف تمہارا کوئی آدمی نہیں تھا، راجہ کورسیہ ہی تو قلعے کا حاکم تھا۔
بجھرا کہاں ہے؟،،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا۔۔۔۔ وہ تو قلعے میں ہی ہوگا۔
فوج کو اسی نے اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔۔۔ ہندو حاکم نے کہا۔۔۔ لیکن وہ تمہیں نہیں ملے گا، تم قلعے میں داخل ہوں گے تو وہ قلعے سے نکل جائے گا ،تم میری بات سنو میں جانتا ہوں تم شہر کے لئے پانی نہیں کھولو گے ۔
تم جاؤ اور قلعے کے دروازے کھلواؤ۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ میں شہر کے لیے پانی کھلوا دوں گا۔
میں قلعے کے دروازے نہیں کھولوا سکتا۔۔۔ حاکم نے کہا۔۔۔ قلعے میں داخل ہونے کا راستہ بتا دوں گا ،اور یہ میں اس لئے بتاؤں گا کہ میری قوم کے بچے پیاسے نہ مر جائیں، تم قلعے میں داخل ہونے سے پہلے پانی کھلوا دینا ۔
ایسا ہی ہوگا۔۔۔ شعبان ثفی نے کہا۔
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ مسلمانوں کو قلعے کی دیوار کی ایک جگہ بتائی گئی جہاں دیوار کمزور تھی اندر کی طرف دیوار میں دراڑ پڑ گئی تھی ،یہ دیوار اس طرف تھی جس طرف دریا تھا۔
محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی، اس نے بڑی منجنیقیں اس طرف لے جا کر دیوار پر سنگ باری کا حکم دیا، ان منجنیقوں میں عروس بھی تھی جو سب سے بڑی اور بہت وزنی پتھر پھینکنے والی منجنیق تھی، ان تمام منجنیقوں سے دیوار کے کمزور مقام پر پتھر پھینکے جانے لگے اور دیوار ٹوٹنے لگی، سنگ باری جاری رکھی گئی اور دیوار میں بہت بڑا شگاف ہوگیا ،لیکن یہ شگاف زمین سے اتنا اونچا تھا کہ گھوڑے اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتے تھے ،منجنیقوں کو ایسی پوزیشن اور ایسے فاصلے پر رکھا گیا کہ پتھر شگاف کے نیچے لگے۔
تھوڑی ہی دیر بعد شگاف کے نیچے سے دیوار ٹوٹنے لگی اور شگاف نیچے کو لمبا ہونے لگا۔ شعبان ثقفی کے مشورے پر محمد بن قاسم نے حکم دیا کے شہر کا پانی کھول لیا جائے، پانی کی نالی کھول دی گئی پانی شہر میں داخل ہوا تو لوگ جو پانی کو ترس رہے تھے پانی پر ٹوٹ پڑے، فوجی بھی پیاسے تھے انہوں نے بھی پانی پر دھاوا بول دیا ،قلعے کے اندر افراتفری بپا ہو گئی، دیوار کا شگاف تھوڑا ہی اونچا رہ گیا تھا عربی سواروں نے گھوڑے دوڑا دیے اور گھوڑے کود کود کر شگاف کے اندر جانے لگے، اندر کی فوج نے مقابلہ کیا محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ شہر کے کسی مرد عورت اور بچے پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، اور کسی فوج کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔
چچ نامہ فارسی میں مختلف مورخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ قلعے کے اندر ملتان کے جو فوجی مجاہدین کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ان کی تعداد چھ ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔
شہر میں محمد بن قاسم کے حکم سے اعلان ہونے لگے کہ شہر کے لوگ بھاگنے کی کوشش نہ کریں اپنے گھروں کے دروازے کھلے رکھیں، کسی فوج کو پناہ نہ دیں، راجہ کے خاندان کے کسی فرد کو شہر کا کوئی باشندہ اپنے گھر میں نہ چھپائے ،ہماری فوج کا کوئی آدمی کسی گھر میں داخل نہیں ہو گا، تمہارے مال و اموال محفوظ رہیں گے۔
لوگوں میں بھگدڑ بپا تھی ادھر مجاہدین شہر میں داخل ہورہے تھے ،ادھر شہر کے لوگ دوسرے دروازوں کی طرف اٹھ بھاگے، مجاہدین نے دروازے بند کردیئے، اس وقت تک کچھ لوگ بھاگ چکے تھے، بھاگ جانے والوں میں بجھرا اور اس کا خاندان بھی تھا۔
شہر کے لوگوں کو قلعہ سر ہونے کی خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ انھیں پانی مل گیا ،لوگ حوضوں پر ٹوٹ پڑے جن میں پانی کا ذخیرہ جمع ہورہا تھا، پانی کی خاطر لوگوں نے اپنے گھروں کی بھی پرواہ نہ کی، انہیں توقع یہ تھی کہ فاتح فوج گھروں میں لوٹ مار کرے گی لیکن اعلان ہونے لگے کہ فاتح فوج کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گی ،لوگوں نے دیکھا کہ ان کے گھر اور ان کی جوان لڑکیاں محفوظ ہیں ،کوئی مسلمان فوجی ان کے کھلے ہوئے دروازے کی طرف بھی نہیں دیکھ رہا تھا ،لوگ حیرت زدہ تھے کہ وہ بالکل محفوظ تھے۔
محمد بن قاسم نے شہر کے ہندو حاکموں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ شہر کے چند ایک سرکردہ افراد کو بلائیں، کچھ دیر بعد شہر کے آٹھ دس معزز افراد آگئے، ان کے چہروں پر خوف زدگی کے آثار تھے، محمد بن قاسم نے انہیں احترام سے بٹھایا۔
تمہارے شہر میں جو انقلاب آیا ہے وہ تم نے دیکھ لیا ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہم فاتح ہیں ،لیکن یہاں کے لوگوں کو ہم مفتوح نہیں سمجھیں گے، میں تمہارا بادشاہ نہیں ہوں اور تم میری رعایا نہیں ہو۔
ہم آپ کے وفادار رعایا ہیں ۔۔۔ایک معمر ہندو نے اٹھ کر ہاتھ جوڑ کر اور جھک کر کہا۔۔۔ ہم ہمیشہ رعایا رہے ہیں ،اور آپ کی بھی رعایا بن کر رہیں گے، ہم یہی جانتے ہیں کہ ایک راجہ چلا گیا ہے اور اس کی جگہ ایک بادشاہ آ گیا ہے۔
ہم تمہیں وہ بتانے آئے ہیں جو تم نہیں جانتے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ساتھ جو باتیں کر رہا ہوں یہ باتیں میری نہیں یہ میرے مذہب کے اصول اور احکام ہیں ،جن کا میں پابند ہوں، اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں اور کوئی رعایا نہیں، حکمرانی صرف اللہ کی ہوتی ہے ہمارے ذمے یہ کام ہے کہ اللہ کے احکام کی پیروی کریں اور دوسروں سے بھی پیروی کروائیں، اپنے آپ کو آزاد سمجھو آزادی سے اپنی عبادت کرو، تمہارے مندروں کے دروازے کھلے رہیں گے، کسی مسلمان کو مندر کے اندر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
کیا آپ ہمیں مسلمان ہونے پر مجبور کریں گے؟،،،،، ایک اور ہندو نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم تمہیں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کریں گے ،ہمارا مذہب ایسا ہے کہ تم جب اسے عملی صورت میں دیکھو گے تو اپنے ہاتھوں مجبور ہو جاؤ گے کہ اس مذہب کو قبول کر لوں،،،،،،،،،،،،،، شہر کے لوگوں سے کہہ دو کہ وہ تمام ڈر اور خوف دلوں سے نکال دیں اور باعزت زندگی بسر کریں، انہیں یہ بھی کہہ دیں کہ کسی نے غداری کی یا کسی بھی طرح ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تو اسے عبرتناک سزا دی جائے گی، اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم شہر کے لوگوں سے کچھ رقم وصول کریں گے، جسے ہم جزیہ کہتے ہیں، یہ رقم اتنی تھوڑی ہو گی کہ ایک غریب آدمی بھی ادا کر سکے گا، جب ہم جزیہ وصول کر لیں گے تو ہم پر فرض عائد ہوجائے گا کہ ہم تمہاری تمام ضروریات پوری کریں اور تمہارے وہ حقوق پورے کریں جو ہمارے مذہب نے ہر انسان کو دیے ہیں۔
آپ جزیہ مقرر کریں ۔۔۔ایک سرکردہ ہندو نے کہا ۔۔۔ہم بہت جلدی یہ رقم آپ کے حوالے کر دیں گے۔
یہ رقم میرا وہ حاکم وصول کرے گا جیسے میں اس کام کے لئے مقرر کروں گا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں اس شہر کے ان لوگوں سے جو امیر کبیر ہیں اور زیادہ رقم دے سکتے ہیں جزیہ کے علاوہ مزید رقم لینا چاہتا ہوں، یہ رقم اس لئے لی جائے گی کہ میری فوج کو بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی ہے، اور زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس اضافی رقم کو تم لوگ تاوان سمجھو یا کچھ اور، تمہیں یہ رقم جسکی میں کوئی حد مقرر نہیں کرتا ادا کرنی پڑے گی۔
بلاذری فتوح البلدان میں لکھتا ہے کہ شہر کے تمام لوگوں نے جزیہ کی رقم ادا کر دی اور شہر کے جو امیر اور خوشحال لوگ تھے انہوں نے اضافی رقم الگ کر دیں جو ساٹھ ہزار درہم کی مالیت کی تھی، محمد بن قاسم نے یہ ساٹھ ہزار درہم اپنی فوج میں تقسیم کردیئے۔ ملتان پنچانوے ہجری/عیسوی 713-14 میں فتح کیا گیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷==÷=÷=*
مورخ لکھتے ہیں کہ ملتان کے لوگوں نے ایسا سکون اور اطمینان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا جو وہ اپنی معاشرتی زندگی میں اب دیکھ رہے تھے، تاجر ،کاریگر اور کاشتکار اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے اور شہر کی زندگی نئے جوش اور ولولے سے شروع ہوگئی ،محمد بن قاسم ملتان سے آگے بڑھنے کے لئے پلان بنانے لگا، اس نے جزیہ کی رقم اور ککسہ اور سکہ سے وصول کئے ہوئے جزیہ کی رقم بھی حجاج بن یوسف کو بھیج دی۔
تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ محمد بن قاسم کو ایک مسئلہ پریشان کر رہا تھا، اسے معلوم تھا کہ حجاج بن یوسف خلیفہ ولید بن عبدالملک سے سندھ پر حملے کی اجازت یہ وعدہ کرکے لی تھی کہ سندھ کو فتح کرنے میں جو رقم خرچ ہوگی اس سے دوگنی رقم حجاج بن یوسف خزانے میں جمع کرائے گا ،محمد بن قاسم ملتان میں بیٹھا حساب کر رہا تھا کہ ملتان کا جزیہ ملا کر وہ خزانے میں کتنی رقم جمع کرا چکا ہے، یہ رقم خاصی تھوڑی تھی، حجاج بن یوسف کا وعدہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا، بیشتر مورخوں نے لکھا ہے کہ مطلوبہ رقم اس وجہ سے پوری نہیں ہوسکتی تھی کہ محمد بن قاسم طبعاً کشادہ ظرف اور فیاض تھا، ایک طرف تو یہ عالم تھا کہ وہ کم سے کم جو سزا دیتا وہ سزائے موت ہوتی تھی ،وہ کسی کو معاف نہیں کرتا تھا ،ایک ہی بار کئی کئی آدمیوں کو قتل کروا دیتا تھا ،لیکن نرم دل اتنا کہ اسے پتہ چلتا کہ کچھ لوگ جزیہ ادا کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ تنگدست ہیں تو محمد بن قاسم انہیں جزیہ معاف کردیتا تھا، اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جزیہ کی رقم تھوڑی مقرر کرتا تھا اور تاوان عائد کرنے سے گریز کرتا۔
اس نے جو قلعے سر کیے تھے وہاں سے خزانے ملنی چاہیے تھے لیکن وہ جس قلعے میں داخل ہوا وہاں خزانہ خالی ملتا ،یہ خزانہ ہرقلعے کے حاکم کے ساتھ ہی چلا جاتا تھا جو قلعے میں مسلمانوں کے داخل ہونے سے پہلے ہی فرار ہو جاتا تھا ،اس داستان میں سنایا جاچکا ہے کہ داہر کے بیٹے اور بھتیجے قلعہ فتح ہونے سے پہلے ہی بھاگ نکلتے تھے، ان کے بھاگنے کی ایک وجہ یہ ہوتی تھی کہ انہیں اپنا خزانہ مسلمانوں سے بچا کر اپنے ساتھ لے جانا ہوتا تھا ،ملتان میں بھی ایسا ہی ہوا کچھ خزانہ راجہ کروسیہ کے ساتھ اور باقی بجہرا کے ساتھ نکل گیا تھا، حجاج بن یوسف نے اپنے ایک خط میں خلیفہ کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کا ذکر کیا تھا ،وہ ذکر نہ کرتا تو بھی محمد بن قاسم کو احساس تھا کہ اپنی چچا کا یہ وعدہ پورا کرنا ہے ،اب وہ پریشان ہونے لگا تھا کیونکہ سندھ فتح ہوچکا تھا اور رقم ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔
وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا سالار تھا، اس کا کوئی ذاتی مقصد نہیں تھا ،اس کی کوئی ذاتی خواہش نہیں تھی، نہ ہی اس کی کوئی ذاتی عزائم تھے، وہ اپنی نوجوانی اور اپنی جان اللہ کے سپرد کر چکا تھا ،یہ اس کی نیت اور نیک عزم کا فیض تھا کہ ہر مشکل میں اللہ اس کی مدد کرتا تھا، اگر محمد بن قاسم کو اس نالی کا پتہ نہ چلتا جو شہر کے لوگوں کو پانی مہیا کرتی تھی تو ملتان کی فتح شاید ناممکن ہو جاتی، ناممکن اس لئے کہ اس کی اپنی فوج نیم فاقہ کشی تک پہنچ گئی تھی اور مجاہدین نڈھال سے ہوتے جارہے تھے، اب اسے اس پریشانی کا سامنا تھا کہ وہ رقم پوری نہیں ہورہی تھی جو اس نے خلیفہ کو ادا کرنی تھی، اس کی یہ پریشانی یہ سوچ کو اور زیادہ بڑھ جاتی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ خلیفہ یہ حکم دے دے کے مزید پیش قدمی روک دی جائے۔
کچھ دن گزر گئے محمد بن قاسم نے ملتان کے شہری انتظامات کو رواں کردیا، ایک روز وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شہر کو دیکھنے کے لیے نکلا ،شعبان ثقفی اس کے ساتھ تھا اور چار گھوڑسوار محافظ بھی اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے، محمد بن قاسم نے ملتان کی فتح کے پہلے روز ہی کہہ دیا تھا کہ یہاں ایک ایسی مسجد تعمیر کی جائے جو آنے والی نسلوں کے لیے مقدس اور خوبصورت یادگار بھی ہو، اس مسجد کے لیے جگہ کا انتخاب کرلیا گیا تھا، بنیاد کھودی جارہی تھی ،محمد بن قاسم تعمیر کا کام دیکھنے کے لیے جا رہا تھا ،وہ بڑے مندر کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ دو پنڈت مندر کے باہر کھڑے تھے محمد بن قاسم کو دیکھ کر وہ دونوں دوڑ کر مندر میں چلے گئے ،محمد بن قاسم جب مندر کے سامنے سے گزرا تھا تو اس مندر کا بڑا پنڈت جو خاصا معمر تھا باہر نکلا، مندر اونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا تھا، چبوترے کی بارہ چودہ سیڑھیاں تھیں، بوڑھا پنڈت پہلے تو ہاتھ جوڑ کر جھکا پھر وہ آہستہ آہستہ چبوترے کی سیڑھیاں اترنے لگا ،اس خیال سے کہ بوڑھا پنڈت کچھ کہنا چاہتا ہے محمد بن قاسم نے گھوڑا روک لیا۔
پنڈت آہستہ آہستہ سیڑھیوں سے اتر آیا اور وہ محمد بن قاسم کے گھوڑے کے پہلو میں آ روکا، اس نے دونوں ہاتھوں سے محمد بن قاسم کا اس طرف والا پاؤں پکڑ لیا جو رکاب میں تھا، پھر اس نے اپنا ماتھا محمد بن قاسم کے پاؤں پر رکھ دیا ،محمد بن قاسم نے بڑی تیزی سے اپنا پاؤں کھینچ لیا، پنڈت سیدھا ہوا اور ہاتھ جوڑ کر اس نے اوپر دیکھا اور اپنی زبان میں کچھ کہا ،ایک ترجمان محمد بن قاسم کے ساتھ رہتا تھا وہ آگے آیا اور محمد بن قاسم کو بتایا کہ پنڈت کیا کہتا ہے، اس نے کہا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ تنہائی میں ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہے، محمد بن قاسم گھوڑے سے اترا اور اس عمر رسیدہ پنڈت کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگا، اس نے پنڈت کو ایک سیڑھی پر بٹھا دیا اور خود نیچے والی سیڑھی پر بیٹھ گیا ، اس کے اشارے پر ترجمان اس کے پاس آ گیا دونوں کے درمیان ترجمان کے ذریعے باتیں ہوئیں۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا پنڈت نے کہا۔۔۔ کون یقین کرسکتا ہے کہ بادشاہ نیچے اور رعایا کا ایک آدمی اس سے اونچی جگہ پر بیٹھا ہے۔
صرف مسلمان یقین کر سکتے ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ میرے ساتھ وہ بات کریں جس کے لئے آپ نے مجھے روکا ہے،،،،،،، میں آپ کی بات کا جواب دے دیتا ہوں آپ مجھ سے بڑے ہیں اور میں بہت چھوٹا ہو آپ کے بیٹوں کے بیٹوں جیسا ہوں
پنڈت کو جیسے دھچکا لگا ہو، یہ حیرت کا دھچکا تھا جس سے وہ ذرا پیچھے ہو گیا۔
میں مجبور ہو گیا ہوں کے آپ کو ایک راز بتا دوں۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔یہ ایک انعام ہوگا جو میں آپ کو دینا چاہتا ہوں، اگر میں بڑھاپے کی وجہ سے کوئی ایسی ویسی بات کہہ دو تو مجھے معاف کر دینا، میں نے اس روز آپ کو دیکھا تھا جس روز آپ قلعے میں داخل ہوئے تھے ،میں نے سنا تھا کہ عربی سالار چھوٹی عمر کا ہے تو میں نے خیال کیا کہ تیس پینتیس سال عمر کا ہوگا ،لیکن آپ کو دیکھ کر تو میں بہت حیران ہوا اور سوچا کے یہ تو بچہ ہے اور یہ بچہ عرب کا شہزادہ ہوگا اور شہزادوں جیسی چھچھوری حرکتیں کرے گا، میں نے اپنے ساتھ کے پنڈتوں اور اپنے بالکوں سے کہا کہ شہر کے لوگوں سے کہہ دو کہ اپنی جوان بیٹیوں کو چھپا دیں یا زندہ دفن کر دیں، میں نے لوگوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ سونے چاندی کے زیورات اور رقم زمین میں دبا دیں، مجھے یہ خطرہ بھی نظر آ رہا تھا کہ اس مندر کو گرا دیا جائے گا، اگر گریا نہ گیا تو بند کردیا جائے گا اور ہمیں آپ قتل کرا دیں گے، یا ہمیں اپنا غلام بنا کر نیچ اور گھٹیا کاموں میں لگا دیں گے۔
میں اس عمر میں ذلیل و خوار ہونے سے ڈرتا تھا ،میں ایک خستہ حالت جھوپڑے میں جا کر چھپ گیا، میری دیکھ بھال کے لئے ایک آدمی میرے ساتھ تھا، وہ ہر روز مجھے شہر کی خبریں سناتا تھا، مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ شہر میں امن وامان ہے اور فاتح فوج نے لوگوں کے گھروں کو نہیں لوٹا اور کوئی ایک بھی جوان لڑکی لاپتہ یا بے آبرو نہیں ہوئی،،،،،،،،میں کل اس جھوپڑے سے نکلا ہوں ،مندر میں آیا تو اسے اسی حالت میں پایا جس حالت میں میں اسے چھوڑ گیا تھا، مردوں اور عورتوں کو عبادت کرتے دیکھا وہ سب آپ کی تعریفیں کر رہے تھے میں بہت خوش تھا مجھے یقین کرنا پڑا کہ آپ انسان کے روپ میں دیوتا ہیں، آپ نے مجھے میرا مندر واپس کردیا ہے میری ساری دنیا یہ مندر ہے میں رات کو شہر کے ایک بڑے آدمی سے ملا تھا اور اسے کہا تھا کہ میں عرب کے سالار سے ملنا چاہتا ہوں، اس نے کہا کہ وہ آپ کے ساتھ میری ملاقات کرا دے گا ،ابھی ابھی مجھے دو پنڈتوں نے بتایا کہ آپ آرہے ہیں میں آپ سے ملنے کے لئے باہر آگیا۔
آپ میرے ساتھ کوئی ضروری بات کرنا چاہتے تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
ہاں اس نے ادھر ادھر دیکھا پھر سرک کر محمد بن قاسم کے قریب ہوکر رازدارانہ لہجے میں بولا۔۔۔ آپ نے میرے شہر کے لوگوں پر اور میرے مندر پر جو کرم کیا ہے اس کا میں آپ کو صلہ دے رہا ہوں ،،،،،،،،بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ اس بستی میں ایک راجہ آیا تھا وہ کشمیر کا راجہ تھا اس کا نام جسوبن تھا ،وہ اپنے خزانے کا تمام سونا جو سفوف کی صورت میں تھا اپنے ساتھ لایا تھا۔
پنڈت مہاراج !،،،،،محمد بن قاسم نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔۔خزانوں کے قصے بہت برا نے ہوگئے ہیں، آپ نے بھی وہی قصہ سنانا شروع کر دیا ہے، پہلے مجھے یہ بتائیں کہ یہ اتنے پرانے زمانے کا قصہ ہے جب آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ،تو آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔
محمد بن قاسم کی اکتاہٹ اس کی فطرت کا قدرتی ردعمل تھا، وہ مرد میدان اور مرد مومن تھا ،اس وقت اسے خزانے کی ضرورت تھی لیکن وہ اس بوڑھے پنڈت کی باتوں میں آنے سے گریز کررہا تھا، یہ دھوکہ بھی ہوسکتا تھا، یہ ایک معمر ہندو تھا جس کی رگ اور ریشے میں اپنا مذہب رچا بسا ہوا تھا، اس کا متعصب ہونا لازمی تھا ،محمد بن قاسم نے ٹھیک کہا تھا کہ مدفون خزانوں کے قصے پرانے ہو چکے ہیں ،اور لوگوں نے ایسے خیالی خزانوں کے عجیب و غریب کہانیاں گھڑ رکھی ہیں۔
آپ کا یہ شک کہ میری یہ بات سچ نہیں ہو سکتی یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ دانشمند ہیں۔۔۔ بوڑھے پنڈت نے کہا ۔۔۔لوگ تو خزانے کا نام سن کر اسے حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگا دیا کرتے ہیں، مگر آپ شک میں پڑ گئے ہیں، آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ائے بوڑھے پوجاری اگر تمہیں معلوم ہے کہ فلاں جگہ ایک راجہ خزانہ دفن کرکے مر گیا تھا تو تم نے کیوں نہ نکال لیا ،میں اس کا یہ جواب دوں گا کہ میری اکیلی ذات ہے، میں نے خزانے کو کیا کرنا ہے، اور پھر یہ بات بھی ہے کہ میں نے دنیا کا لالچ دل سے نکال دیا ہے، آپ بادشاہ ہیں بادشاہی کا کاروبار چلانے کے لیے خزانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
خزانہ کہاں ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ اور کشمیر کے راجہ نے اس خزانے کو دفن کیوں کر دیا تھا۔
یہاں قریب ہے۔۔۔ بوڑھے پنڈت نے کہا ۔۔۔میں آپ کے ساتھ چلوں گا ۔
کشمیر کا راجہ جسوبن زیادہ وقت عبادت میں گزارتا تھا ،یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملتان کا کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق تھا یا یہ علاقہ جسوبن کا اپنا تھا ،یہ تو میں ٹھیک طرح نہیں بتا سکتا البتہ یہ ٹھیک بتا سکتا ہوں کہ وہ اس مندر میں آ کر بیٹھ گیا تھا اور اس نے دنیا سے منہ موڑ لیا تھا ،اس نے مندر سے تھوڑی دور ایک وسیع حوض بنایا جو ایک سو قدم سے ذرا زیادہ لمبا اور اتنا ہی چوڑا تھا ،اس حوض کے درمیان اس نے چھوٹا سا مندر بنوایا اور اس مندر میں جاکر بیٹھ گیا،،،،،،،
میرے دادا پردادا میں سے جو اس وقت یہاں کاپنڈت تھا وہ مہارشی تھا وہ راجہ جسوبن کے ساتھ ساتھ رہتا تھا ،جسوبن نے عمر کے آخری دنوں میں مندر کے تہ خانے میں سونے کے سفوف سے بھرے ہوئے چالیس مٹکے رکھے اور کئی من وزنی سونا اینٹوں اور زیورات کی شکل میں رکھا ،یہ تمام سونا اس نے دفن کر دیا تھا، اس کے اوپر اس نے سونے کا ایک انسانی بت بنوا کر رکھ دیا تھا کہ کسی کو شک نہ ہو کہ اس کے نیچے سونا دفن ہے، مندر کے اردگرد اس نے درخت لگوا دیے تھے،،،،،،
مجھ تک جسوبن کی جو بات پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے باپ نے سونے اور خزانے سے دل لگایا تھا ،اور جسوبن کو بھی اس نے یہی سبق دیا تھا، جسوبن کی جوانی سونے میں کھیلتے اور عیش و عشرت میں گزری ،اسے اپنے ماں باپ کے ساتھ بہت پیار تھا، پہلے اس کا باپ مرا پھر اس کی ماں بھی مر گئی ،اس نے ویدوں اور سیانوں سے کہا کہ جو اس کے باپ کو موت سے بچا لے گا اسے وہ اس کے وزن کے برابر سونا دے گا، لیکن کوئی بھی اس کے باپ کو نہ بچا سکا، اس کی ماں بیمار ہوئی تو بھی اس نے یہی انعام مقرر کیا تھا، مگر ماں کو بھی موت سے کوئی نہ بچا سکا،،،،،،
ہم سب کو پیدا کرنے والے نے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے جسوبن کو ایک اور جھٹکا دیا، ایک نوجوان رقاصہ کے ساتھ اسے بہت محبت تھی، ایک روز وہ بیمار ھوگئی جسوبن نے اعلان کیا کہ جو کوئی اس کی رقاصہ کو صحت یاب کر دے گا اسے وہ اس کے اور رقاصہ کے وزن کے برابر سونا دے گا، دور دور سے وید، سنیاسی، جوگی اور سیانے علاج کیے مگر رقاصہ مرگئی،،،،،، رقاصہ کی لاش کو جب لکڑیوں کے ڈھیر پر رکھ کر آگ لگائی گئی تو جسوبن بچوں کی طرح رونے لگا ،مجھ جیسے ایک بوڑھے جوگی نے اسے اپنے ساتھ لگایا اور کہا کہ مہاراج کے خزانے میں جتنا سونا ہے وہ سارا دے دو تو تم زندگی کا صرف ایک سانس بھی نہیں خرید سکتے، تم زندہ انسانوں کو سونے میں تولتے ہو، یہ دیکھ انسان کا انجام ،اس رقاصہ کے حسین جسم نے تم جیسے راجہ پر جادو کردیا تھا ،دیکھ لو وہ جسم اور اس کا حسن جل کر راکھ ہو رہا ہے، اپنا سارا سونا اس آگ کے حوالے کردو تو سونا پگھل جائے گا تمہاری رقاصہ کو یہ آگ تمہیں واپس نہیں دے گی،،،،،، اپنی روح کی تسکین کا سامان کر، مندر میں آ، جھک جا ، عبادت کر،،،،،،
جسوبن کا دل اتنا دکھی تھا کہ وہ مندر میں جا کر پوجا پاٹ کرنے لگا ،اس کے دل سے دنیا اور دولت کی محبت نکل گئی، پھر وہ عبادت میں ہی مصروف رہنے لگا وہ یہاں آ گیا اور تمام سونا زمین میں دفن کر کے اوپر مندر بنا دیا ،میں نے مان لیا ہے کہ آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں وہ آپ کی مدد کر رہا ہے، آپ جہاں جاتے ہیں وہاں کے لوگ آپ سے خوش ہوتے ہیں، آپ یہ سونا مندر کے نیچے سے نکال لیں۔
میں نے سنا ہے کہ مدفون خزانے کے ساتھ بدقسمتی اور نحوست وابستہ ہوتی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔۔پورانے مدفون خزانوں کے قصے جو میں نے سنے ہیں ان میں یہ ضرور آتا ہے کہ جو کوئی بھی کسی خزانے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا وہ بری طرح ہلاک ہوا ۔
مجھے یقین ہے کہ آپ اس مدفون خزانے کو اپنی ذاتی ملکیت میں نہیں رکھیں گے۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔میں آپ کو مشورہ بھی یہی دونگا کہ اسے آپ اپنا ذاتی خزانہ نہ بنائیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ کوئی خیالی قصہ نہیں، چچ نامہ فتوح البلدان اور تاریخ معصومی میں اس مدفون خزانے کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے، اور اس کی نشاندہی اس پنڈت نے ہی کی تھی یہ بیان ہو چکا ہے کہ پنڈت نے محمد بن
٭٭٭٭٭٭٭###
*آخری قسط نمبر/34*
حوض دور نہیں تھا اس وقت ملتان کے گردونواح کے خدوخال کچھ اور تھے ،کھڈ نالے، ٹیلے، اور گھاٹیاں زیادہ تھیں، ایک ویرانے میں حوض والا مندر تھا، محمد بن قاسم کے زمانے میں یہ مندر غیرآباد ہوچکا تھا، عبادت تو دور کی بات ہے اس مندر کے قریب سے کوئی نہیں گزرتا تھا، اسے آسیبی مندر بھی کہا جاتا تھا ،اور زیادہ تر لوگ یقین سے کہتے تھے کہ گنہگاروں کی بدروحیں اس مندر میں لے جائی جاتی ہیں، اور وہاں انہیں سزا بھی ملتی ہے، اور انہیں نیک بھی بنایا جاتا ہے، مندر کے علاقے میں گیدڑ بھیڑیا کتا یا ایسا کوئی بھی جانور دیکھتے یا چیلوں اور گِدھوں کو دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ بد روحیں ہی ہوسکتی ہیں، لوگوں میں یہ خوف و ہراس اس بوڑھے پنڈت کے باپ دادا اور پر دادا نے مندر سے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے پیدا کیا ہوگا،کیونکہ وہاں منوں کے حساب سے خزانہ مدفون تھا۔
محمد بن قاسم پنڈت کے ساتھ وہاں پہنچا، سب گھوڑے سے اتر گئے، پنڈت نے نہ جانے کس خیال سے محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ اکیلا اس کے ساتھ چلے، حوض خشک تھا اس میں اترنے کے لئے سیڑھیاں تھیں، پنڈت سیڑھیوں سے اترنے لگا ،اس کے پیچھے محمد بن قاسم اترا ،آگے مندر کی چند ایک سیڑھیاں تھیں، دونوں ان پر چڑھ کر مندر میں داخل ہوگئے ،وہ جوں جوں آگے بڑھتے جارہے تھے اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔
پنڈت اندھیرے میں بائیں جانب غائب ہو گیا ۔اس کی صرف یہ آواز سنائی دی۔۔۔ ادھر،،، محمد بن قاسم بائیں کو موڑا یہ سیڑھیاں تھیں جو نیچے کو جاتی تھیں، وہ نیچے اترنے لگا بدبو اتنی کے برداشت نہیں ہوتی تھی، اچانک اتنی زور سے پھڑپھڑانے کی آواز اٹھی کہ محمد بن قاسم جیسا دلیر آدمی گھبرا گیا ،اس کے ساتھ ہی اوں اوں کی ہلکی ہلکی بے شمار آوازیں آنے لگیں، بیٹھ جاؤ،،،، پنڈت کی آواز آئی۔۔۔ بڑے چمگادڑ ہیں۔
محمد بن قاسم بیٹھ گیا ،چمگادڑوں کا غول جھکڑ کی طرح ان کے اوپر سے گزرنے لگائے، چیلوں جتنی بڑے چمگادڑ تھے، جن کے پروں کی ہوا پنکھوں جیسی تھی، یہ مندر ان کا خاموش مسکن تھا، اور یہ خاموشی دو انسانوں نے توڑدی ،چمگادڑ ڈر ڈر کر باہر کو بھاگ رہے تھے۔
سیکڑوں چمگادڑ مندر کے تہ خانے سے نکل گئے، لیکن وہ جس دھماکہ نما پھڑپھڑاہٹ سے اڑے تھے اس کی گونج ابھی تک مندر میں بھٹک رہی تھی، پنڈت سیڑھیاں اترنے لگا، محمد بن قاسم سنبھل سنبھل کر قدم نیچے رکھتا اتر گیا اور سیڑھیاں ختم ہوگئیں، پنڈت اس کا ہاتھ پکڑ کر دائیں کو لے گیا ،اندھیرا سیاہ کالا ہوگیا ،چند قدم آگے پنڈت اسے بائیں طرف لے گیا۔
اس راہداری میں ہلکی ہلکی روشنی تھی یا اندھیرا کام ہو گیا تھا، محمد بن قاسم کو سرسراہٹ سے سنائی دی جیسے کوئی آدمی دبے پاؤں آ رہا ہو، محمد بن قاسم نے فوراً تلوار نکال لی۔
اسے نیام میں ہی رہنے دو ۔۔۔پنڈت نے کہا۔۔۔ یہ اس تاریک دنیا کی مخلوق ہے، سانپ ہوگا، دیکھو کتنی بدبو ہے، یہ گیدڑوں یا بچھوؤں کے بچے ہونگے، آوازیں نہیں سنائی دے رہی ہے آپ کو؟
محمد بن قاسم ہلکی ہلکی آوازیں سن رہا تھا اس نے تلوار نیام میں ڈالی، کچھ اور آگے گئے تو ایک کمرہ آگیا ،سامنے والی دیوار میں چھت کے ساتھ چھوٹا سا دریچہ تھا جو جالوں سے اٹھا ہوا تھا اور اس میں سے ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی ،کمرے کے وسط میں ایک آدمی کھڑا تھا چونکہ روشنی کم تھی اور اس کے پیچھے تھی اس لئے آدمی کے چہرے کے خدوخال دکھائی نہیں دیتے تھے، وہ سیاہ سایہ تھا اور وہ وار کرنے کی تیاری کی حالت میں تھا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم نے اس خیال سے اسے یہاں قتل کرنے کے لیے لایا گیا ہے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور اس آدمی پر وار کرنے کے لیے لپکا ،بوڑھے پنڈت نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
روک جا عربی سالار!،،،،،،، پنڈت نے کہا ۔۔۔یہ کوئی زندہ انسان نہیں یہ سونے کا وہ بت ہے جو راجہ جیسوبن نے بنوا کر یہاں رکھا تھا ،اس کے نیچے سونے کے سفوف کے مٹکے، زیورات اور سونے کی اینٹیں رکھی ہیں، اپنے آدمیوں کو بلا کر یہ بت ہٹاؤ اور اس جگہ سے فرش اکھاڑو، لیکن ایسے آدمیوں کو یہاں لاؤ جس کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ سونے کی چمک سے ٹوٹ نہ جائے، بلازری نے لکھا ہے کہ سونے کے اس بت کی آنکھوں میں یاقوت جڑے ہوئے تھے جو اندھیرے میں چمکتے تھے، اس بت کا ذکر کرنے والے کسی اور مؤرخ نے یاقوت کا ذکر نہیں کیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
اس وقت تک مسلمانوں کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ سونے کی چمک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی ،محمد بن قاسم شعبان ثقفی اور چار محافظوں کو باہر حوض سے اوپر کھڑا کرآیا تھا، لیکن وہ سب دبے پاؤں حوض میں اتر آئے اور مندر کے اندر چلے گئے تھے، محمد بن قاسم کو معلوم تھا کہ مندر میں وہ پنڈت کے ساتھ اکیلا نہیں، اس نے تالی بجائی اور وہ پانچوں اس کے پاس پہنچ گئے، محمد بن قاسم نے شعبان کو بتایا کہ اس بت کو ہٹانا اور اس کے نیچے سے سونا نکالنا ہے۔
شعبان ثقفی بہتر جانتا تھا کہ اس کام کے لئے کتنے اور کون کون سے آدمی موزوں ہیں، وہ ان سب کو لے آیا مندر کے اندر مشعلیں جلا کر رکھ دی گئیں، اور شام تک سونے کا بت اور فرش کے نیچے سے برآمد ہونے والا تمام سونا مندر کے باہر پڑا تھا ۔
فتوح البلدان (بلازری)میں لکھا ہے کہ سفوف (پاؤڈر )کی شکل میں تھا ، وہ چالیس مٹکوں ملکوں میں بھرا ہوا تھا ،اینٹوں یعنی ٹکڑوں اور زیورات کی صورت میں جو سونا تھا اس کا وزن دو سو تیس من تھا، سونے کے بت کو ملا کر اس تمام سونے کا وزن ایک ہزار تین سو بیس (1320)من تھا، بیشتر مؤرخ سونے کے اسی وزن پر متفق ہیں۔
اس کے دوسرے ہی روز محمد بن قاسم کو حجاج بن یوسف کا خط ملا جس میں اس نے ملتان کی فتح کی مبارک لکھی اور یہ بھی لکھا کہ میں نے خلیفہ سے وعدہ کیا تھا کہ سندھ کی جنگ پر جتنا پیسہ خرچ ہو گا میں اس سے دوگنا خزانے میں جمع کر آؤں گا، الحمدللہ میں سرخرو ہو گیا ہوں ، حساب کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ اب تک تمہاری فوج پر ساٹھ ہزار نقرتی درہم خرچ ہوئے ہیں ،اور تم نے اب تک نقد اور قیمتی اشیاء کی صورت میں جو کچھ بھیجا ہے اس کی مالیت ایک لاکھ 20ہزار نقرتی درہم ہے، اس خط میں حجاج بن یوسف نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں ایک ایسی شاندار مسجد تعمیر کرائیں جو تاقیامت اس ملک میں اسلام لانے والوں اور اسلام کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کی یادگار رہے، اب جمعہ کے خطبے میں خلیفہ کا نام نہ لیا جائے، اور تم خلیفہ کے نام کا سکہ بھی جاری کر دو۔
ان اخراجات میں جو حجاج بن یوسف نے لکھے تھے سکہ اور ملتان کی فتح کے اخراجات شامل نہیں تھے، اور ایک لاکھ بیس ہزار درہم میں جو محمد بن قاسم نے بھیجے تھے، یہ سونا شامل نہیں تھا جو ملتان کے حوض والے مندر سے برآمد ہوا تھا ،محمد بن قاسم نے یہ خط ملتے ہی مندر سے برآمد ہونے والے سونے کا پانچواں حصہ خلافت کا علیحدہ کرکے کشتیوں کے ذریعے دیبل بھیجا ،اور دیبل سے یہ سونا عراق کو جہاز کے ذریعے بھیج دیا گیا۔
جنگ کے اخراجات اور مال غنیمت کے حساب کتاب میں مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ سندھ کی جنگ پر چھ کروڑ درہم خرچ ہوئے، اور مال غنیمت کی صورت میں جو واپس ملا وہ بارہ کروڑ درہم کی مالیت کا تھا ،ان مؤرخوں نے حجاج بن یوسف کا جو خط پیش کیا ہے اس میں اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہم نے اپنے خون کا بدلہ لے لیا ہے، اور جو خرچ کیا وہ واپس مل گیا، چھ کروڑ مزید مل گئے، اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن راجہ داہر کا سر الگ ملا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
محمد بن قاسم نے داؤد بن نصر بن ولید عمانی کو ملتان کا حاکم مقرر کیا ،خریم بن عبدالملک تمیمی ،عکرمہ بن ریحان شامی اور احمد بن خزیمہ بن عتبہ مدنی کو ملتان کے تحت آنے والے علاقوں کے مختلف حصوں کا حاکم بنایا، یہ بہت ہی وسیع و عریض علاقہ تھا جس کے انتظامات سوچ سمجھ کر کیے گئے ،محمد بن قاسم نے ملتان میں جو فوج اپنے ساتھ رکھی اس کی تعداد پچاس ہزار تھی اور یہ سب گھوڑ سوار تھے ،اس میں سندھ کے مختلف علاقوں کے سوار بھی تھے، ملتان کے علاقے میں مختلف جگہوں پر جو فوج رکھیں گئیں اس میں سواروں کے ساتھ پیادے بھی تھے۔
ملتان فتح ہوجانے سے آج کا پورا پنجاب اور کچھ حصہ کشمیر کا بھی اسلامی سلطنت میں آگیا تھا، چھوٹی موٹی ریاستوں کے راجوں نے محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لی تھی، محمد بن قاسم نے اب آج کے بھارت کی حکمرانیوں کی طرف تو جہ دیدیں، ان میں سب سے بڑی ریاست قنوج تھی۔
ایک روز محمد بن قاسم اپنے سالاروں اور مشیروں کو بلایا اور ان سے اگلی پیش قدمی کے لئے صلح مشورہ کیا، فیصلہ ہوا کہ قنوج کے راجہ کو قبول اسلام کی دعوت دی جائے، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں پر نظر دوڑائی اور نظر ایک سالار پر ٹھہر گئی۔
ابو حکیم شیبانی!،،،،، محمد بن قاسم نے اس سالار سے مسکرا کر کہا ۔۔۔خدا کی قسم اس مہم کے لیے مجھے تم ہی موزوں نظر آتے ہو۔
بہتر ہوں یا نہیں ابن قاسم!،،،،، ابو حکیم شیبانی نے کہا ۔۔۔بہتر بن کے دکھاؤں گا ،یہ سعادت مجھ کو ہی دو۔
دو دس ہزار سوار اپنے ساتھ لو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ رسد اور دیگر سامان اکٹھا کر لو، قنوج تک کا فاصلہ بھی دیکھ لو ،رہنمائی کے لئے تمہارے ساتھ مقامی آدمی ہوں گے۔
یہ انتظام میرا ہے ابن قاسم!،،،، ابو حکیم شیبانی نے کہا ۔۔۔راجہ قنوج سے کیا کہنا ہے؟
اسے کہنا کہ اسلام قبول کرلو۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم جانتے ہو کہ قبول اسلام کی دعوت کن الفاظ میں اور کس طرح دینی ہے، اگر وہ اس سے انکار کرے تو اسے کہنا کہ اطاعت قبول کرے اور جزیہ ادا کردے، یہ بھی کہنا کہ سمندر سے لیکر کشمیر تک کے کی راجوں نے اسلام قبول کر لیا ہے، اور جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا انھوں نے جزیہ ادا کرنے کا اقرار کیا ہے۔
اگر وہ ہماری شرائط ماننے کی بجائے ہمیں میدان جنگ میں آنے کے لئے للکارے تو میرے لئے کیا حکم ہے؟،،،، ابو حکیم شیبانی نے پوچھا ۔۔۔کیا میں ان دس ہزار سواروں سے اس کے مقابلے میں،،،،،،
نہیں ابو حکیم!،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم اودھے پور تک جاؤ گے ،وہاں سے تمہارے ساتھ ایک ایلچی جائے گا ،اپنے دستوں کو تم راستے میں چھوڑ جاؤ گے، یہاں ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے، بعض مورخوں نے یا بعد کے تاریخ نویسوں نے اودھے پور کو دیپالپور لکھا ہے جو صحیح نہیں، محمد بن قاسم خود دیپالپور تک نہیں آیا تھا۔
ابو حکیم شیبانی دس ہزار سواروں کے ساتھ روانہ ہو گیا نہ جانے کتنے دنوں بعد اودھے پور پہنچا ،اس نے اپنی سوار فوج وہیں چھوڑی اور اودھےپور سے ایک ایلچی کو ساتھ لے کر قنوج گیا ،اس کے ساتھ چند سو سواروں کا دستہ گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
قنوج کا راجہ رائے ہر چند تھا ،اسے اطلاع ملی کہ عرب کا ایک سالار آیا ہے اور اس کے ساتھ اودھے پور کا ایک عہدے دار ہے ،رائے ہر چند نے انہیں اسی وقت بلایا ،وہ بلند تخت پر شاہانہ انداز سے بیٹھا ہوا تھا ،اس کے پیچھے بڑی حسین لڑکیاں نیم برہنہ کھڑیں مور کے پروں کا مورچل ہلا رہی تھیں، ایک چوبدار دائیں اور ایک بائیں کھڑا تھا، اودھے پور کے ایلچی کے علاوہ ایک ترجمان بھی ابو حکیم کے ساتھ تھا ۔
ائے عربی !،،،،رائے ہر چند نے ایسے لہجے میں کہا جس میں رعونت کی جھلک تھی۔۔۔ میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو ،لیکن میں تمہاری زبان سے سنوں گا ،کہوں کیا کہنے آئے ہو؟
ابو حکیم شیبانی نے اپنا پیغام دیا۔
کسی غلط فہمی میں یہاں تک آ گئے ہو ۔۔۔قنوج کے راجہ نے کہا ۔۔۔اس ملک پر ڈیڑھ ہزار سال سے میرے خاندان کی حکمرانی ہے، آج تک اس زمین پر کسی بیرونی حملہ آور کو قدم رکھنے کی جرات نہیں ہوئی ،اور تم یہ جرات کر رہے ہو کہ ہمیں اپنا مذہب قبول کرنے کو کہہ رہے ہو، اور ہم تمہارا مذہب قبول نہیں کریں گے تو تم ہم سے جرمانہ وصول کرو گے۔
اے راجہ!،،،، ابو حکیم نے کہا ۔۔۔سندھ کے راجہ داہر نے بھی یہی کہا تھا وہ بھی تمہاری طرح ویسے ہی تخت پر بیٹھ کر ایسی ہی باتیں کیا کرتا تھا، کہاں ہے راجہ داہر، اس کا تخت کہاں ہے؟
ایسی گستاخی کرنے والوں کو ہم معاف نہیں کیا کرتے۔۔۔ رائے ہر چند نے کہا ۔۔۔اسے ایسی سزا دیا کرتے ہیں کہ سننے والے اور دیکھنے والے کانپنے لگتے ہیں، لیکن تم ایک ایلچی کو ساتھ لائے اور سفیر بن کر آئے ہو، اپنے سپہ سالار محمد بن قاسم سے کہنا کہ فوج ساتھ لے کر خود آئے ،ہم اس کے پیغام کا جواب تلوار سے دیں گے ۔
ابو حکیم شیبانی واپس ملتان آیا اور محمد بن قاسم کو راجہ قنوج کا جواب سنایا، اور یہ بھی بتایا کہ اس راجہ نے کیسی رعونت سے جواب دیا تھا، محمد بن قاسم نے اسی وقت قنوج کی طرف کوچ کی تیاری کا حکم دیا۔
،،،،لیکن،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تیاری اتنی مکمل ہوکہ وہاں جاکر رسد کی یہ صورت پیدا نہ ہوجائے جو ملتان کے محاصرے میں پیدا ہو گئی تھی، یہ بھی سوچ لو کہ قنوج کی فوج تازہ دم ہو گی، ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس کی ذات باری نے ہر میدان اور ہرمشکل میں ہماری مدد فرمائی ہے، اور ہمیں اللہ ہی کی مدد پر بھروسہ کرنا چاہیے، لیکن تم سب جانتے ہو کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو جہاد کے لئے اپنی تیاریاں مکمل رکھتے ہیں، یہ ہندوستان کے حکمرانوں کو اپنی فوجوں کی افراط پر اور ہاتھیوں پر ناز ہے ،راجہ ہرچند تک یہ خبر پہنچ گئی ہوگی کہ داہر نے ہمیں ہاتھیوں سے ہی ڈرایا تھا، مگر اس کے ہاتھیوں پر جب مجاہدین کا ڈر طاری ہوا تو ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کو کچل کچل کر بھاگنا شروع کردیا ،قنوج کے راجہ کا بھی غرور اس کے اپنے ہاتھی ہی کچلیں گے۔
قنوج کی طرف کوچ کی تیاریاں شروع ہوگئیں، مجاہدین کو آرام کرنے کے لیے ابھی کچھ اور بھی دن دینے تھے، اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے بھی کچھ دن درکار تھے۔
دو تین دنوں بعد بصرہ سے حجاج بن یوسف کا قاصد آیا، محمد بن قاسم نے کہہ رکھا تھا کہ حجاج کا قاصد جب بھی آئے اسے کوئی نہ روکے، یہ ایک دستور بن گیا تھا کہ حجاج کے قاصد سیدھے محمد بن قاسم کے پاس جایا کرتے تھے، یہ قاصد بھی اس کے خیمے کے سامنے آکر گھوڑے سے اترا اور آواز دے کر خیمے کے اندر چلا گیا ،محمد بن قاسم جوش مسرت سے اٹھا اور اس نے پیغام لینے کے لیے ہاتھ آگے کیا ،محمد بن قاسم کو توقع ہو گی کہ اس نے جو سونا بھیجا تھا وہ حجاج تک پہنچ گیا ہوگا، اور حجاج نے اسے خراج تحسین کا خط لکھا ہوگا، مگر قاصد کھڑا رہا اس کے پاس کوئی تحریری پیغام نہیں تھا، اس کے چہرے پر تھکن تو تھی لیکن اداسی زیادہ تھی۔
خدا کی قسم!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کوئی ایسی بات ہوگئی ہے جو تم اپنی زبان پر لانے سے ڈرتے ہو۔
ہاں امیر سندھ !،،،،،قاصد نے کہا ۔۔۔اور اس کی آواز رقت میں دب گئی ،اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، بولو،،،، محمد بن قاسم نے گرج کر کہا ۔۔۔مجھے فتح کی خوشیوں میں صدمہ دو،،، اور بولو امیر بصرہ حجاج بن یوسف کا انتقال ہو گیا ہے،،،،،،، قاصد نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
اوہ !،،،،،محمد بن قاسم نے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ لئے اس کے منہ سے آہیں نکلنے لگیں، پھر وہ بچوں کی طرح رو پڑا۔
اس نے دربان کو بلا کر کہا کہ سب کو فوراً بلاؤ ۔
دربان سمجھتا تھا کہ سب میں کون کون آتا ہے، ذرا سی دیر میں تمام سالار اور شہری انتظامیہ کے حاکم اور مشیر وغیرہ آگئے۔
ہمارے سروں سے ایک سایہ اٹھ گیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ حجاج بن یوسف دنیا سے اٹھ گیا ہے۔
سناٹا طاری ہو گیا محمد بن قاسم کے دہکتے ہوئے چہرے کا یہ حال ہو گیا تھا جیسے رات کے آخری پہر کے چمکتے ہوئے ستارے کی چمک ماند پڑ گئی ہو، اس ستارے کا زوال شروع ہو چکا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
یہ گزر چکا ھیکہ حجاج بن یوسف کتنا سخت اور جابر تھا اپنا حکم منوانے کیلئے وہ ظلم کی انتہا کر دیا کرتا تھا، اسکے ظلم کے شکار کئی تابعی بزرگ بھی ہوئے، ان میں حضرت سعید بن جبیر جو کے ایک تابعی بزرگ تھے، ایک دن ممبر پر بیٹھے ھوۓ یہ الفاظ ادا کیے کہ "حجاج ایک ظالم شخص ھے"
ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ھیں تو آپکو دربار میں بلا لیا اور پوچھا۔
کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ھیں؟؟
تو آپ نے فرمایا۔۔۔۔ ھاں،،،،،بالکل تو ایک ظالم شخص ھے۔
یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ھو گیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کر دیے۔
جب آپ کو قتل کیلیے دربار سے باہر لے کر جانے لگے تو آپ مسکرا دیے۔
حجاج کو ناگوار گزرا اسنے پوچھا کیوں مسکراتے ھو۔
تو آپ نے جواب دیا۔۔۔ تیری بےوقوفی پر ،اور جو اللہ تجھے ڈھیل دے رھا ھے اس پر مسکراتا ھوں۔
حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے زبح کر دو، جب خنجر گلے پر رکھا گیا تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا۔
اے اللہ میرے چہرہ تیری طرف ھے، تیری رضا پر راضی ھوں ،یہ حجاج نہ موت کا مالک ھے نہ زندگی کا۔
جب حجاج نے یہ سنا تو بولا اسکا رخ قبلہ کی طرف سے پھیر دو۔
جب قبلہ سے رخ پھیرا۔
تو آپ نے فرمایا،،،،، یااللہ رخ جدھر بھی ھو تو ھر جگہ موجود ھے،،،، مشرق مغرب ھر طرف تیری حکمرانی ھے،،،،میری دعا ھے کہ میرا قتل اسکا آخری ظلم ھو،،،،،، میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا۔
جب آپکی زبان سے یہ جملہ ادا ھوا اسکے ساتھ ھی آپکو قتل کر دیا گیا اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ھو گیا۔
ایک سمجھدار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ھے جب کوی خوشی خوشی مسکراتا ھوا اللہ کی رضا پر راضی ھو جاتا ھے۔
یہ پہلے گزر چکا ھیکہ حجاج بن یوسف کو عبد الملک نے مکہ، مدینہ طائف اور یمن کا نائب مقرر کیا تھا ،اور اپنے بھائی بشر کی موت کے بعد اسے عراق بھیج دیا جہاں سے وہ کوفہ میں داخل ہوا، ان علاقوں میں بیس سال تک حجاج کا عمل دخل رہا اس نے کوفے میں بیٹھ کر زبردست فتوحات حاصل کیں۔
اس کے دور میں مسلمان مجاہدین، چین تک پہنچ گئے تھے، حجاج بن یوسف نے ہی قران پاک پر اعراب لگوائے، الله تعالی نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا۔ حجاج حافظ قران تھا، شراب نوشی اور بدکاری سے بچتا تھا، وہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا، مگر اسکی تمام اچھائیوں پر اسکی ایک برائی نے پردہ ڈال دیا تھا اور وہ برائی کیا تھی ؟
*ظلم*
حجاج بہت ظالم تھا، اسنے اپنی زندگی میں ایک خوں خوار درندے کا روپ دھار رکھا تھا،،،،،ایک طرف موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے ،اور دوسری طرف وہ خود الله کے بندوں،اولیاؤں اور علماء کے خوں سے ہولی کھیل رہا تھا۔ حجاج نے ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کو قتل کیا ہے ،اس کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں اسی اسی ہزار قیدی ایک وقت میں ہوتے جن میں سے تیس ہزار عورتیں تھیں، اس نے جو آخری قتل کیا وہ عظیم تابعی اور زاہد و پارسا انسان حضرت سعید بن جبیر رضی الله عنہ کا قتل تھا۔
انہیں قتل کرنے کے بعد حجاج پر وحشت سوار ہو گئی تھی، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا، حجاج جب بھی سوتا، حضرت سعید بن جبیر اس کے خواب میں ا کر اسکا دامن پکڑ کر کہتے،،،،، کہ اے دشمن خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا، میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟ جواب میں حجاج کہتا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا ہے۔۔؟
اس کے ساتھ حجاج کو وہ بیماری لگ گئی جسے زمہریری کہا جاتا ہے ،اس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی ،وہ کانپتا تھا ،آگ سے بھری انگیٹھیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اسکی کھال جل جاتی تھی، مگر اسے احساس نہیں ہوتا تھا، حکیموں کو دکھانے پر انہوں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہے ،ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا۔
تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب نسل کے کیڑے چمٹے ھوۓ تھے اور اتنی بدبو تھی جو پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر پھیل گئی۔ درباری اٹھ کر بھاگ گئے، حکیم بھی بھاگنے لگا، حجاج بولا تو کدھر جاتا ھے علاج تو کر۔۔۔۔۔حکیم بولا تیری بیماری زمینی نہیں آسمانی ھے،،،،،،اللہ سے پناہ مانگ۔
حجاج جب مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ الله علیہ کو بلوایا اور انسے دعا کی درخواست کی۔
وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا ،مگر تو باز نہ آیا،،،،،،آج حجاج عبرت کا سبب بنا ہوا تھا،،،،، وہ اندر ،باہر سے جل رہا تھا ،،،،،وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا،،،،حضرت بن جبیر رضی الله تعالی عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی موت ہو گئی تھی۔
جب دیکھا کہ بچنے کا امکان نہیں تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آۓ۔
وہ بولا ،،،،،،،میں مر جاؤں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ھو تو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا ۔کیوں کہ لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہی چھوڑیں گے۔ اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا اور اسکی موت واقع ھوئی۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ہم ابھی قنوج کی طرف کوچ نہیں کریں گے۔۔۔ محمد بن قاسم نے بوجھل آواز میں کہا۔۔۔ مجھے امید ہے کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بنے گا، ہم نے اسکا قرض چکا دیا ہے، اس نے ہم پر جو خرچ کیا تھا اس سے دوگنا ہم نے قومی خزانے کو دیا ہے، اور پورے ایک ملک کا سلطنت اسلامیہ میں اضافہ کیا ہے ،وہ ہمارے عزم کے آگے دیوار کھڑی نہیں کرے گا، پھر بھی ہمیں محتاط ہو جانا چاہیے، کوئی دوسرا حجاج پیدا نہیں ہوگا جو خلیفہ پر غالب آکر اسے شہنشاہی سے روکے رکھے گا، اور اس کی طرف سے ہمیں حوصلہ افزا پیغام آتے رہیں گے، اب ایسا نہیں ہو گا ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دشمن میں الجھے ہوئے ہوں اور عراق سے حکم آجائے کہ رک جاؤ نیا امیر آرہا ہے، ہمارے لئے خاموش بیٹھنا بھی ٹھیک نہیں۔۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔۔۔ورنہ دشمن ہمارے سر پر چڑھ آئے گا وہ سمجھے گا کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں، یا تھک گئے ہیں، یا کوئی اور وجہ ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے قابل نہیں رہے۔
اور اگر ہم نے اپنے اوپر ماتمی کیفیت طاری کرلی تو سارے لشکر میں لڑنے کا جذبہ سرد پڑ جائے گا ۔۔۔۔ایک اور سالار نے کہا ۔۔۔ہمیں کسی نہ کسی طرف فوج کشی کرنی چاہیے۔ یہ بڑے اچھے مشورے تھے محمد بن قاسم نے صرف قنوج کی طرف پیش قدمی روک دی، باقی مہمات کو جاری رکھا آج ان قصبوں اور شہروں کے نام و نشان مٹ چکے ہیں جہاں کے ہندو حاکموں نے بغیر لڑے اطاعت قبول کر لی تھی۔
جو مقامات سلطنت اسلامیہ میں شامل ہوئے ان میں ایک شہر کیرج نام کا بھی تھا، اس کے متعلق اتنا ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر آج کے بھارت میں تھا ،لیکن کسی مورخ نے اس کا محل وقوع نہیں لکھا نہ ہی نشان دہی کی ہے کہ آج بھی یہ شہر فلاح جگہ موجود ہے۔ تاریخوں میں یہ تفصیلات ملتی ہے کہ کیرج پر محمد بن قاسم نے اپنی قیادت میں حملہ کیا تھا ،کیرج کے راجہ کا نام دوہر تھا، دوہر اپنی فوج قلعے سے باہر لے آیا اور بڑی ہی خونریز لڑائی ہوئی، راجہ دوہر خود فوج کے ساتھ تھا
تاریخوں میں آیا ہے کہ راجہ دوہر کے غیض و غضب کا یہ عالم تھا کہ وہ گھوڑے پر سوار مسلمانوں کی صفوں میں گھس آیا ،وہ محمد بن قاسم کو للکار رہا تھا، اس کے سامنے جو آتا تھا وہ گھائل ہو کر گرتا ،محمد بن قاسم اسکی للکار پر اس کی طرف گیا ،لیکن اپنے جواں سپہ سالار کی جان کو زیادہ قیمتی سمجھتے ہوئے چار محافظوں نے آگے بڑھ کر راجہ دوہر کو گھیرے میں لے لیا ،دوہر کے ساتھ بھی محافظ تھے، محمد بن قاسم اور دوہر کے محافظوں میں بڑی ہی غضبناک لڑائی ہوئی، محمد بن قاسم کے محافظوں کا لڑنے کا انداز ایسا تھا کہ وہ دوہر کو بھی گھیرے میں رکھنا چاہتے تھے، چار میں سے تین محافظ شہید ہوگئے اور چوتھے نے راجہ دوہر پر ایسے وار کیے جو دوہر بچا نہ سکا اور گھوڑے سے گر پڑا، وہ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے اپنے ہی ایک محافظ کا گھوڑا اس پر چڑھ گیا، گھوڑے کا ایک پاؤں دوہر کے سینے پر پڑا وہ تلوار کے گہرے زخموں سے ہی مر رہا تھا گھوڑے نے اس کا کام جلدی تمام کردیا۔
اپنے راجہ کی موت نے کیرج کی فوج کا حوصلہ توڑ دیا ،مجاہدین نے ایسا ہلہ بولا کہ کچھ فوج قلعے میں چلی گئی اور کچھ نفری ادھر ادھر بھاگ گئی، مجاہدین قلعے میں داخل ہوگئے، اس سے بہت سارا علاقہ مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا۔
جمادی الثانی 96 ہجری کا مہینہ تھا ،ایک روز خلیفہ کا ایک قاصد محمد بن قاسم کے پاس یہ حکم لے کر آیا کہ فوج جہاں ہے وہیں رک جائے اور کسی طرح بھی پیش قدمی نہ کی جائے
کیا تم بتا سکتے ہو وہاں کے حالات کیا ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے قاصد سے پوچھا۔۔۔ یہ حکم کیوں بھیجا گیا ہے۔
قاصد بڑے ذہین ہوا کرتے تھے جن قاصد کو دوسرے ملکوں میں بھیجا جاتا تھا وہ عموماً فوج کے عہدے دار اور فہم و فراست والے ہوتے تھے۔
امیر سندھ !،،،،،قاصد نے محمد بن قاسم کو بتایا ۔۔۔اب وہاں کے وہ حالات نہیں ہیں جو حجاج بن یوسف کی زندگی میں تھے، خلیفہ ولید بن عبدالملک بیمار ہیں اس بیماری سے شاید وہ جانبر نہ ہو سکے، خلافت کی جانشینی پر کھینچا تانی شروع ہوگئی ہے، معلوم ہوتا ہے بنو امیہ کا یہ خاندان خلافت کے جھگڑے میں آپس کے خون خرابے میں ختم ہوجائے گا ،مرحوم خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنی جگہ اپنے اس بیٹے ولید بن عبدالملک کو خلافت کے لئے اپنا جانشین نامزد کیا تھا، اور ولید کے بعد ولید کے چھوٹے بھائی سلیمان کو جانشین بنایا تھا ،مگر ہمارے خلیفہ ولید اپنے بیٹے عبدالعزیز کو اپنا جانشین مقرر کر چکے ہیں،،،،،
امیر سندھ آپ کیلئے مجھے ایک خطرہ نظر آرہا ہے ،،،،،آپ کے چچا مرحوم حجاج بن یوسف خلیفہ ولید کے ساتھ تھے، بنو امیہ کے بڑے بڑے سرداروں کو حجاج نے اپنے زیراثر رکھا ہوا تھا، اور انہیں کہہ رکھا تھا کہ عبدالعزیز کو ہی خلیفہ تسلیم کریں اور سلیمان کی مخالفت کریں ،اس وجہ سے سلیمان اور حجاج کی بول چال بند ہوگئی تھی، لیکن سلیمان کی کوئی حیثیت نہیں ،وہ حجاج جیسے جابر آدمی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا تھا، وہ حجاج کو اپنا دشمن سمجھتا تھا، حجاج انتقال کرگیا سلیمان کو سر اٹھانے کا موقع مل گیا ہے ،اس کے ارادے خطرناک معلوم ہوتے ہیں،،،،،
خلیفہ ولید بن عبدالملک دور اندیش ہے وہ تو اب بستر سے بڑی مشکل سے اٹھتے ہیں، انہوں نے مشرقی ملکوں کے ہر حاکم اور سالار کو حکم بھیجا ہے کہ جہاں ہو وہی رہو ورنہ خطرے میں پڑ جاؤ گے، انہیں غالبا اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکیں گے، انہوں نے اس خطرے کو دیکھتے ہوئے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اور دوسرے ملکوں میں گئے ہوئے سالار لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہوں اور سلیمان یہ حکم بھیج دیں کہ لڑائی بند کردو ،اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پسپا ہوکر واپس آ جاؤ ،اس ادھیڑ عمر با شعور قاصد نے کہا،،،،،، افق سے اندھیرا سا اٹھتا نظر آرہا ہے یہ زوال کا اندھیرا ہے۔
محمد بن قاسم جو پہلے ہی حجاج بن یوسف کی وفات کے صدمے سے نہیں سنبھلا تھا، خلیفہ ولید بن عبدالملک کی بیماری سے اور زیادہ پریشان ہو گیا ،پریشانی میں اضافہ ان حالات نے کیا جو خلافت کی جانشینی پر پیدا ہو رہے تھے، سلیمان بن عبدالملک سے محمد بن قاسم کوئی اچھی توقع نہیں رکھ سکتا تھا، سلیمان کے دل میں محمد بن قاسم کے خلاف لڑکپن سے ہی کدورت بھری ہوئی تھی ۔
تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے آہ بھر کر قاصد سے کہا۔۔۔ افق سے اندھیرا اٹھ رہا ہے اللہ ہم سب پر رحم کرے۔
قاصد کے جانے کے چند دنوں بعد دوسرا قاصد یہ خبر لے کر آ گیا کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک فوت ہوگیا ہے، اور سلیمان بن عبدالملک نے خلافت سنبھال لی ہے۔
،،،،،،اور آپ کے لئے حکم ہے کہ نئے خلیفہ کی بیعت کریں۔۔۔۔قاصد نے کہا ۔۔۔۔اطاعت اور وفاداری کا حلف نامہ دیں۔
محمد بن قاسم نے نئے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کردی، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے دل پر پتھر رکھ کر سلیمان کی وفاداری قبول کرنی پڑی ہوگی، اس نے سالار وغیرہ کو بلایا اور یہ خبر انہیں سنائی، ولید بن عبدالملک کی وفات سے زیادہ افسوسناک خبر یہ تھی کہ اب مسند خلافت پر سلیمان بن عبدالملک بیٹھ گیا تھا ،کہاں ان سالاروں کا وہ جوش و خروش کہ آگے ہی آگے بڑھنے کے لیے ہر دم تیار نظر آتے تھے، اور کہاں یہ افسردگی اور مایوسی جیسے یہ سستانے کے لئے یہاں آ گرا ہو۔
ان سالاروں میں سے بعض محمد بن قاسم سے دگنی عمر کے اور کچھ سہ گنا عمر کے تھے، انہوں نے اپنے معاشرے کو جتنا سمجھا تھا اتنا محمد بن قاسم نہیں سمجھتا تھا ،محمد بن قاسم مرد میدان تھا، فن حرب و ضرب اور عسکری قیادت کی صلاحیت خداداد تھی، مگر وہ ذاتی مفاد پرستی اور سیاست سے ناواقف تھا ،وہ نہیں سمجھتا تھا کہ لوگ ذاتی سیاست بازی میں کیوں پڑ جاتے ہیں، اور ذاتی دوستی اور دشمنی کی خاطر کس طرح پوری قوم کے وقار کو تباہ کر دیتے ہیں، وہ انسانی فطرت کے اس پہلو کو نہیں سمجھتا تھا ،یہ تو اس کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی تھی کہ اقتدار کی ہوس کار اور ان کی ذاتی سیاست اسے کس چکی میں پیسے گی۔
کچھ دن اور گزر گئے ایک روز دمشق سے ایک آدمی بلال بن ہشام آیا، اتنے لمبے سفر کی تھکن کے علاوہ وہ گھبراہٹ کے عالم میں تھا، اس وقت محمد بن قاسم کیرج میں تھا وہ، شعبان ثقفی کے ساتھ کہیں باہر کھڑا تھا، بلال بن ہشام ان کے قریب جاکر گھوڑے سے اترا، پہلے وہ محمد بن قاسم پھر شعبان ثقفی سے بغلگیر ہو کر ملا ،وہ رو رہا تھا ،اسے محمد بن قاسم کے خیمے میں لے گئے۔
ابن قاسم!،،،،، بلال نے کہا۔۔۔ اگر تو زندہ رہنا چاہتا ہے تو خودمختاری کا اعلان کر دے ،یہ اتنا بڑا ملک جو تو نے فتح کیا ہے اس کا مختار کل بن جا، اور اسے خلافت سے آزاد کردے، اپنی سلطنت بنا لے۔
ہوا کیا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ وہاں کے حالات کیسے ہیں۔
یہ پوچھو کہ وہاں کیا نہیں ہوا ۔۔۔بلال بن ہشام نے کہا ۔۔۔وہاں سلیمان بن عبدالملک کی تلوار چل رہی ہے ،مرحوم خلیفہ اور مرحوم حجاج کے جتنے بھی حامی اور ساتھی تھے ان میں سے زیادہ تر کو سلیمان نے قتل کروا دیا ہے، اور باقیوں کو عہدوں سے معزول کرکے ان پر ایسے جھوٹے الزام لگائے ہیں کہ وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں، جس کی طرف اشارہ کر کے کہہ دو کہ یہ حجاج کا ساتھی تھا ،اسے سلیمان قتل کروادیتا ہے،،،،،،، اور ابن قاسم!،،،، سلیمان ایسا باؤلا ہو گیا ہے کہ اس نے چین کی فاتح قتیبہ بن مسلم، اور اندلس کے فاتح موسی بن نصیر، کو گرفتار کرکے بیڑیاں ڈال دی ہیں، ان کے خاندان کو اس نے بھکاری بنا دیا ہے، میں نے سنا ہے کہ ان دونوں فاتحین کو وہ ذلیل و خوار کرکے مارے گا، بعد میں ایسے ہی ہوا تھا، سلیمان نے موسی بن نصیر کو مکہ بھیج دیا اور اسے مجبور کیا تھا کہ وہ عمرہ اور حج کے لیے آنے والوں سے بھیک مانگے۔
یہ الگ داستان ہے ،فقیر *محمدساجداشرفی* جس نے اس داستان کو مرتب کیا ہے، جملہ قارئیں کی دعاؤں کا طالب ہے، ان شاءاللہ اگر حیات باقی رہی تو یہ داستان جو کسی دوسرے سلسلے میں سنائی جائے گی۔
سلیمان نے تمام امیر تبدیل کر دیے ہیں ۔۔۔بلال بن ہشام نے کہا ۔۔۔مشرقی ملکوں کا امیر یزید بن مہلب کو بنا دیا ہے، تو شاید جانتا ہوگا کہ یزید بن مہلب کی تیرے خاندان کے ساتھ کتنی پرانی دشمنی ہے، حجاج کا تو وہ جانی دشمن تھا، یزید بن مہلب نے ایک خارجی صالح بن عبدالرحمن کو خراج کے محکمے کا حاکم مقرر کردیا ہے، یہ تمہارے خاندان کا دوسرا دشمن ہے، ان دونوں نے میری موجودگی میں اعلانیہ کہا ہے کہ ہم بنو ثقیف کو خاک میں ملا دیں گے،،،،،،،،،،، ابن قاسم!،،، اب کوئی ثقفی زندہ نہیں رہے گا، تو بھی ثقفی ہے، تیری معزولی کے احکام آرہے ہی، تجھے معلوم ہوگا کہ حجاج نے صالح بن عبد الرحمن کے بھائی کو مروا دیا تھا ،کیونکہ وہ فتنہ پرور خارجی تھا ،اب صالح کہتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لے گا ،تو اس کا پہلا شکار ہوگا ابن قاسم !،،،معزولی سے پہلے خودمختاری کا اعلان کر دے۔
ہاں ابن قاسم!،،،، شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔سمندر سے سورت تک اپنا جو لشکر پھیلا ہوا ہے وہ سب تیرے ساتھ ہے، اس ملک کے ہندو بھی تیرے ساتھ ہیں، سب تیرے وفادار ہیں ،ہم سب تیرے ساتھ ہیں ،خود مختار ہو جاؤ۔
نہیں !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں خودمختاری کی طرح ڈال دی تو بہت سے ایسے ملک ہیں جہاں مجھ جیسے سالار امیر ہیں وہ بھی خود مختار ہو جائیں گے، پھر سلطنت اسلامیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی ۔
دوسرے سالار بھی آگئے ،انہوں نے بھی محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ خودمختاری کا اعلان کر دے اور جب تک سلیمان خلیفہ ہے خلافت سے تعلق توڑے رکھے، لیکن محمد بن قاسم نہیں مانا، وہ کہتا تھا کہ خلافت کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی نہیں کرے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
دمشق میں سلیمان کے حکم سے اس کے مخالفین کا خون بہتا رہا ، حجاج کے خاندان کے افراد کو پہلے عہدوں اور رتبوں سے معزول کیا گیا ،پھر انہیں قتل کرایا جانے لگا، اس خاندان کی مستورات کو بھی نہ بخشا گیا ،پھر محمد بن قاسم کی معزولی کا حکم آ گیا ،اور اس کی جگہ یزید بن کبشہ کو سندھ کا امیر مقرر کیا گیا۔
تاریخوں میں یہ واضح نہیں کہ محمد بن قاسم کے خلاف الزام کیا تھا، الزام عائد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یہ خاندانی ،ذاتی اور سیاسی عداوت اور انتقام کا معاملہ تھا ،کیونکہ الزام واضح نہیں اس لئے اسلام دشمن عناصر نے نہایت بہبود الزامات گڑھ کر محمد بن قاسم پر تھوپی ہیں، جن میں وہ بڑی خوبصورت ہندو لڑکیوں کا نمایاں ذکر کیا گیا ہے، اگر محمد بن قاسم پر الزام ہوتا یا اس نے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہوتا تو اسے گرفتار کرکے قاضی کی عدالت میں پیش کیا جاتا،
ہم ان مفروضوں کا ذکر نہیں کریں گے جو تاریخ کے دامن میں ڈال دیئے گئے ہیں، سندھ کا نیا امیر یزید بن کبشہ سندھ آیا تو مشرقی ممالک کے امیر یزید بن مہلب کا بھائی معاویہ بن مہلب بھی اس کے ساتھ تھا۔
ابن قاسم !،،،،نئے امیر نے آتے ہی حکم دیا۔۔۔ معاویہ بن مہلب تمہیں گرفتار کرکے دمشق لے جائے گا، خلیفہ نے اسے اسی مقصد کے لیے میرے ساتھ بھیجا ہے۔
محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا ۔
فاتح سندھ ،ہندوستان میں اسلام لانے والے کمسن مجاہد، اور بے شمار مسجدیں تعمیر کرنے والے کے کپڑے اتروا کر ٹاٹ کے کپڑے پہنائے گئے، جو اخلاقی قیدیوں کو پہنائے جاتے تھے، اس کے پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں۔
خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے محسوس نہ کیا کہ اس نے اسلام کو ہتھکڑیاں ڈال دی ہیں، اور اب اسلام اس سے آگے نہیں بڑھ سکے گا جہاں تک اسے محمد بن قاسم نے پہنچایا ہے۔ محمد بن قاسم کے سالار اور سپاہی حاکم اور محکوم دیکھ رہے تھے، اور ان کے آنسو بہہ رہے تھے،،،،محمد بن قاسم نے سب پر نگاہ ڈالی اور بلند آواز سے عربی کا ایک شعر کہا۔
۔
انہوں نے مجھے ضائع کردیا ہے، اور کیسے جوان کو ضائع کیا ہے جو مرد میدان تھا، سرحدوں کا محافظ تھا۔
۔
محمد بن قاسم کو اعراق لے گئے۔خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اس کے سامنے نہ آیا۔
خراج کے حاکم صالح بن عبدالرحمٰن نے حکم دیا کہ اسے واسطہ کے قید خانے میں قید کردو جہاں اس کے اور حجاج کے خاندان اور قبیلے کے لوگ قید ہیں
قید خانے کے دروازے پر کھڑے ہو کر محمد بن قاسم نے کہا
تم نے مجھے واسطہ میں قید کر دیا اور زنجیر ڈال کر بیکار کر دیا تو کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! مجھ سے یہ اعجاز