قسط نمبر 41
نوشین تو گاؤں گئی ہوئی ہے۔" فرقان نے اسے بتایا۔
"مگر کوئی مسئلہ نہیں، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ انہیں اپنے فلیٹ پر لے جاؤں گا۔ وہ کون سی کوئی نوجوان خاتون ہیں کہ مسئلہ ہو جائے گا۔ تم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی محتاط ہو رہے ہو۔"
"نہیں، میں ان کے آرام کے حوالے سے کہہ رہا تھا۔ آکورڈ نہ لگے انہیں۔" سالار نے کہا۔
"نہیں لگتا یار! پوچھ لینا تم ان سے، ورنہ پھر کسی ساتھ والے فلیٹ میں ٹھہرا دیں گے، عالم صاحب کی فیملی کے ساتھ۔"
"اچھا، تم آؤ پھر دیکھتے ہیں۔"
سالار نے موبائل بند کرتے ہوئے کہا۔
"کوئی بات نہیں بیٹا! میں تمہارے پاس ہی رہ لوں گی، تم میرے بیٹے کے برابر ہو مجھے اعتماد ہے تم پر۔"
سعیدہ اماں نے مطمئن لہجے میں کہا۔
سالار نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
اس نے راستے میں رک کر ایک ریسٹورنٹ سے کھانا لیا۔ بھوک سے اس کا برا حال ہو رہا تھا اور یک دم اسے احساس ہوا کہ سعیدہ اماں بھی دوپہر سے اس کے ساتھ کچھ کھائے پئیے بغیر ہی پھر رہی ہیں۔ اسے ندامت کا احساس ہوا۔ اپنے فلیٹ کی طرف جاتے ہوئے اس نے راستے میں ایک جگہ رک کر سعیدہ اماں کے ساتھ سیب کا تازہ جوس پیا۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی بوڑھے شخص کے ساتھ اتنا وقت گزار رہا تھا اور اسے احساس ہو رہا تھا کہ یہ کام آسان نہیں تھا۔
فلیٹ میں پہنچ کر وہ ابھی سعیدہ اماں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا جب فرقان آ گیا۔
اس نے سعیدہ اماں سے خود ہی اپنا تعارف کرایا اور پھر کھانا کھانے لگا۔ چند منٹوں میں ہی وہ سعیدہ اماں کے ساتھ اتنی بے تکلفی کے ساتھ ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کر رہا تھا کہ سالار کو رشک آنے لگا۔ اس نے فرقان سے اچھی گفتگو کرنے والا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے گفتگو کے انداز میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا کہ دوسرا اپنا دل اس کے سامنے کھول کر رکھ دینے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ اتنے سالوں سے دوستی کے باوجود وہ فرقان کی طرح گفتگو کرنا نہیں سیکھ سکا تھا۔
دس منٹ بعد وہ وہاں خاموشی سے کھانا کھانے والے ایک سامع کی حیثیت اختیار کر چکا تھا جبکہ فرقان اور سعیدہ اماں مسلسل گفتگو میں مصروف تھے۔ سعیدہ اماں یہ جان کر کہ فرقان ڈاکٹر ہے، اس سے طبی مشورے لینے میں مصروف تھیں۔ کھانے کے خاتمے تک وہ فرقان کو مجبور کر چکی تھیں کہ وہ اپنا میڈیکل باکس لا کر ان کا چیک اپ کرے۔
فرقان نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ اونکولوجسٹ تھا۔ وہ بڑی تحمل مزاجی سے اپنا بیگ لے آیا۔ اس نے سعیدہ اماں کا بلڈ پریشر چیک کیا پھر اسٹیتھو سکوپ سے ان کے دل کی رفتار کو ماپا اور آخر میں نبض چیک کرنے کے بعد انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ بے حد تندرست حالت میں ہیں اور بلڈ پریشر یا دل کی کوئی بیماری انہیں نہیں ہے۔
سعیدہ اماں ایک دم بے حد ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔ سالار ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتے ہوئے کچن میں برتن دھوتا رہا۔ وہ دونوں لاونج کے صوفوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
پھر اسی دوران اس نے فون کی گھنٹی سنی۔ فرقان نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف ڈاکٹر سبط علی تھے۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا۔
"سالار نے پولیس اسٹیشن پر کسی سعیدہ نام کی خاتون کے بارے میں اطلاع دی تھی۔"
فرقان حیران ہوا۔
"جی وہ یہیں ہیں، ہمارے پاس۔"
"اللہ کا شکر ہے۔" ڈاکٹر سبط علی نے بے اختیار کہا۔
"ہاں، وہ میری عزیزہ ہیں، ہم انہیں تلاش کر رہے تھے چند گھنٹوں سے۔ پولیس سے رابطہ کیا تو سالار کا نام اور نمبر دے دیا انہوں نے۔"
فرقان نے انہیں سعیدہ اماں کے بارے میں بتایا اور پھر سعیدہ اماں کی بات فون پر ان سے کرائی۔ سالار بھی باہر لاؤنج میں آ گیا۔
سعیدہ اماں فون پر گفتگو میں مصروف تھیں۔
"ڈاکٹر صاحب کی عزیزہ ہیں یہ۔"
فرقان نے دھیمی آواز میں اس کے قریب آ کر کہا۔
"ڈاکٹر سبط علی صاحب کی؟" سالار حیران ہوا۔
"ہاں، ان ہی کی۔"
سالار نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔
"بھائی صاحب کہہ رہے ہیں تم سے بات کرانے کو۔"
سعیدہ اماں نے فرقان سے کہا۔
فرقان تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ریسیور لے کر کاغذ پر کچھ نوٹ کرنے لگا۔ ڈاکٹر سبط علی اسے ایڈریس لکھوا رہے تھے۔
سعیدہ اماں نے قدرے حیرانی سے لاؤنج کے دروازے میں کھڑے سالار کو دیکھا۔
"تم کیا کر رہے ہو؟" ان کی نظریں سالار کے ایپرن پر جمی تھیں۔
وہ کچھ شرمندہ ہو گیا۔
"میں ۔۔۔۔۔ برتن دھو رہا تھا۔"
سالار واپس کچن میں آیا اور اس نے ایپرن اتار دیا۔ ویسے بھی برتن وہ تقریباً دھو چکا تھا۔
"سالار! آؤ پھر انہیں چھوڑ آتے ہیں۔"
اسے اپنے عقب میں فرقان کی آواز آئی۔
"یہ کام بعد میں کر لینا۔"
"تم گاڑی کی چابی لو، میں ہاتھ دھو کر آتا ہوں۔" سالار نے کہا۔
اگلے دس منٹ میں وہ نیچے سالار کی گاڑی میں تھے۔ فرقان اگلی سیٹ پر تھا اور اس کے باوجود پچھلی سیٹ پر بیٹھی سعیدہ اماں سے گفتگو میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ وہ سالار کو راستے کے بارے میں ہدایات بھی دیتا جا رہا تھا۔
بہت تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ بیس منٹ میں مطلوبہ محلے اور گلی میں تھے۔ بڑی گلی میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد وہ دونوں انہیں اندر گلی میں ان کے گھر تک چھوڑنے گئے۔ سعیدہ اماں کو اب رہنمائی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنی گلی کو پہچانتی تھیں۔
وہ فخریہ انداز میں کچھ جتاتے ہوئے سالار کو بتاتی گئیں۔
"حلوائی کی دوکان۔۔۔۔۔ گٹر کے سیمنٹ والے ڈھکن۔۔۔۔۔ پرویز صاحب کا گھر۔۔۔۔۔"
"جی!" سالار مسکراتے ہوئے سر ہلاتا رہا۔
اس نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ ان کی بتائی ہوئی ساری نشانیاں صحیح تھیں۔ صرف وہ اسے ایک غلط علاقے میں لے گئی تھیں۔
"آمنہ بیچاری پریشان ہو رہی ہو گی۔" انہوں نے سرخ اینٹ کی بنی ہوئی ایک حویلی نما دو منزلہ مکان کے سامنے رکتے ہوئے275 دفعہ کہا۔
فرقان نے آگے بڑھ کر بیل بجائی۔ سالار قدرے ستائشی انداز میں حویلی پر نظریں دوڑاتا رہا۔ وہ یقیناً کافی پرانی حویلی تھی مگر مسلسل دیکھ بھال کی وجہ سے وہ اس گلی میں سب سے باوقار لگ رہی تھی۔
"تم لوگوں کو اب میں نے چائے پئیے بغیر نہیں جانے دینا۔" سعیدہ اماں نے کہا۔
"میری وجہ سے تم لوگوں کو بہت پریشانی ہوئی۔ خاص طور پر سالار کو۔ بچہ مجھے سارا دن لیے پھرتا رہا۔" سعیدہ اماں نے سالار کے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"کوئی بات نہیں، سعیدہ اماں! چائے ہم پھر کبھی پئیں گے، آج ہمیں دیر ہو رہی ہے۔"
"ہاں سعیدہ اماں! آج چائے نہیں پئیں گے۔ کبھی آ کر آپ کے پاس کھانا کھائیں گے۔"
فرقان نے بھی جلدی سے کہا۔
"دیکھ لینا، ایسا نہ ہو کہ یاد ہی نہ رہے تمہیں۔"
"لیں، بھلا کھانا کیسے بھولیں گے ہم۔ وہ جو آپ پالک گوشت کی ترکیب بتا رہی تھیں، وہی بنا کر کھلائیے گا۔"
فرقان نے کہا۔ اندر سے قدموں کی آواز آ رہی تھی۔ سعیدہ اماں کی بیٹی دروازہ کھولنے آ رہی تھی اور اس نے دروازے سے کچھ فاصلے پر ہی سعیدہ اماں اور فرقان کی آوازیں سن لی تھیں، اس لئے اس نے کچھ بھی پوچھے بغیر دروازے کا بولٹ اندر سے اتارتے ہوئے دروازہ تھوڑا سا کھول دیا۔
"اچھا سعیدہ اماں! خدا حافظ۔" فرقان نے سعیدہ اماں کو دروازے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ سالار اس سے پہلے ہی پلٹ چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کرتے ہوئے سالار نے فرقان سے کہا۔
"تمہاری سب سے ناپسندیدہ ڈش، پالک گوشت ہے اور تم ان سے کیا کہہ رہے تھے؟"
فرقان نے قہقہہ لگایا۔"کہنے میں کیا حرج ہے، ویسے ہو سکتا ہے وہ واقعی میں اتنا اچھا پکائیں کہ میں کھانے پر مجبور ہو جاؤں۔"
"تم جاؤ گے ان کے گھر؟"
سالار گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے حیران ہوا۔
"بالکل جاؤں گا، وعدہ کیا ہے میں نے اور تم نے۔"
"میں تو نہیں جاؤں گا۔" سالار نے انکار کیا۔
"جان نہ پہچان، منہ اٹھا کر ان کے گھر کھانا کھانے پہنچ جاؤں۔"
"ڈاکٹر سبط علی صاحب کی فرسٹ کزن ہیں وہ اور مجھ سے زیادہ تو تمہاری جان پہچان ہے ان کے ساتھ۔" فرقان نے کہا۔
"وہ اور معاملہ تھا، انہیں مدد کی ضرورت تھی، میں نے کر دی اور بس اتنا کافی ہے۔ ان کے بیٹے یہاں ہوتے تو اور بات تھی لیکن اس طرح اکیلی عورتوں کے گھر تو میں کبھی نہیں جاؤں گا۔" سالار سنجیدہ تھا۔
"میں کون سا اکیلا جانے والا ہوں یار! بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ جانتا ہوں میرا اکیلا ان کے ہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ نوشین بھی ان سے مل کر خوش ہو گی۔"
"ہاں،بھابھی کے ساتھ چلے جانا، کوئی حرج نہیں۔" سالار مطمئن ہوا۔
"میں جاؤں۔۔۔۔۔؟ تم کو بھی تو ساتھ چلنا ہے، انہوں نے تمہیں بھی دعوت دی ہے۔"
"میں تو نہیں جاؤں گا، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ تم ہو آنا، کافی ہے۔" سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"تم ان کے خاص مہمان ہو، تمہارے بغیر تو سب کچھ پھیکا رہے گا۔"
سالار کو اس کا لہجہ کچھ عجیب سا لگا۔ اس نے گردن موڑ کر فرقان کو دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔
"کیا مطلب؟"
"میرا خیال ہے انہیں تم داماد کے طور پر پسند آ گئے ہو۔"
"فضول باتیں مت کرو۔" سالار نے اسے ناراضگی سے دیکھا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ دیکھ لینا، پروپوزل آئے گا تمہارا اس گھر سے۔ سعیدہ اماں کو تم ہر طرح سے اچھے لگے ہو۔ ہر بات پوچھی ہے انہوں نے مجھ سے تمہارے بارے میں۔ یہ بھی کہ تمہارا شادی کا کوئی ارادہ ہے کہ نہیں اور ہے تو کب تک کرنے کا ارادہ ہے۔ میں نے کہا کہ جیسے ہی کوئی اچھا پروپوزل ملا وہ فوراً کر لے گا پھر وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بتانے لگیں۔ اب جتنی تعریفیں وہ اپنی بیٹی کی کر رہی تھیں اگر ہم اس میں سے پچاس فیصد بھی سچ سمجھ لیں تو بھی وہ لڑکی۔۔۔۔۔ کیا نام لے رہی تھیں۔۔۔۔۔ ہاں آمنہ۔۔۔۔۔ تمہارے لئے بہترین ہو گی۔"
"شرم آنی چاہئیے تمہیں ڈاکٹر سبط علی صاحب کی رشتہ دار ہیں وہ اور تم ان کے بارے میں فضول باتیں کر رہے ہو۔" سالار نے اسے جھڑکا۔
فرقان سنجیدہ ہو گیا۔
"میں کوئی غلط بات نہیں کر رہا ہوں، تمہارے لئے تو یہ اعزاز کی بات ہونی چاہئیے کہ تمہاری شادی ڈاکٹر سبط علی صاحب کے خاندان میں ہو۔۔۔۔۔"
"جسٹ اسٹاپ اٹ فرقان! یہ مسئلہ کافی ڈسکس ہو گیا، اب ختم کرو۔" سالار نے سختی سے کہا۔
"چلو ٹھیک ہے، ختم کرتے ہیں پھر کبھی بات کریں گے۔"
فرقان نے اطمینا ن سے کہا۔ سالار نے گردن موڑ کر چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
"ڈرائیونگ کر رہے ہو، سڑک پر دھیان رکھو۔" فرقان نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ سالار کچھ ناراضی کے عالم میں سڑک کی طرف متوجہ ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سعیدہ اماں کے ساتھ ان کا رابطہ وہیں ختم نہیں ہوا۔
کچھ دنوں کے بعد وہ ایک شام ڈاکٹر سبط علی کے ہاں تھے جب انہوں نے اپنے لیکچر کے بعد ان دونوں کو روک لیا۔
"سعیدہ آپا آپ لوگوں سے ملنا چاہتی ہیں، مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ میں آپ لوگوں کے ہاں انہیں لے جاؤں، میں نےا ن کو بتایا کہ شام کو وہ لوگ میری طرف آئیں گے، آپ یہیں مل لیں۔ آپ لوگوں نے شاید کوئی وعدہ کیا تھا ان کے ہاں جانے کا، مگر گئے نہیں۔"
فرقان نے معنی خیز نظروں سے سالار کو دیکھا۔ وہ نظریں چرا گیا۔
"نہیں، ہم لوگ سوچ رہے تھے مگر کچھ مصروفیت تھی اس لئے نہیں جا پائے۔" فرقان نے جواباً کہا۔
وہ دونوں ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ ان کے ڈرائینگ روم میں چلے آئے جہاں کچھ دیر بعد سعیدہ اماں بھی آ گئیں اور آتے ہی ان کی شکایات اور ناراضی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فرقان انہیں مطمئن کرنے میں مصروف رہا جبکہ سالار خاموشی سے بیٹھا رہا۔
اگلے ویک اینڈ پر فرقان نے سالار کو سعیدہ اماں کی طرف جانے کے پروگرام کے بارے میں بتایا۔ سالار کو اسلام آباد اور پھر وہاں سے گاؤ ں جانا تھا۔ اس لئے اس نے اپنی مصروفیت بتا کر سعیدہ اماں سے معذرت کر لی۔
ویک اینڈ گزارنے کے بعد لاہور واپسی پر فرقان نے اسے سعیدہ اماں کے ہاں گزارے جانے والے وقت کے بارے میں بتایا۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ وہاں گیا تھا۔
"سالار! میں سعیدہ اماں کی بیٹی سے بھی ملا تھا۔"
فرقان نے بات کرتے ہوئے اچانک کہا۔
"بہت اچھی لڑکی ہے، سعیدہ اماں کے برعکس خاصی خاموش طبع لڑکی ہے۔ بالکل تمہاری طرح، تم دونوں کی بڑی اچھی گزرے گی۔ نوشین کو بھی بہت اچھی لگی ہے۔"
"فرقان! تم صرف دعوت تک ہی رہو تو بہتر ہے۔" سالار نے اسے ٹوکا۔
"میں بہت سیریس ہوں سالار!" فرقان نے کہا۔
"میں بھی سیریس ہوں۔" سالار نے اسی انداز میں کہا۔" تمہیں پتا ہے فرقان! تم جتنا شادی پر اصرار کرتے ہو، میرا شادی سے اتنا ہی دل اٹھتا جاتا ہے اور یہ سب تمہاری ان باتوں کی وجہ سے ہے۔"
سالار نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
"میری باتوں کی وجہ سے نہیں۔ تم صاف صاف یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم امامہ کی وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔"
فرقان یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
"اوکے۔۔۔۔۔ صاف صاف کہہ دیتا ہوں ، میں امامہ کی وجہ سے شادی کرنا نہیں چاہتا پھر۔۔۔۔۔؟"
سالار نے سرد مہری سے کہا۔
"یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔" فرقان اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
"اوکے ، فائن۔ بچگانہ سوچ ہے پھر؟" سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
Then you should get rid of it (تب تمہیں اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئیے) ۔ فرقان نے نرمی سے کہا۔
I don’t want to get rid of it…. So? (میں اس سے چھٹکارا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔ پھر؟)۔
سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔ فرقان کچھ دیر لاجواب ہو کر اسے دیکھتا رہا۔
"میرے سامنے دوبارہ تم سعیدہ اماں کی بیٹی کی بات مت کرنا اور اگر تم سے وہ اس بارے میں بات کریں بھی تو تم صاف صاف کہہ دینا کہ مجھے شادی نہیں کرنی، میں شادی شدہ ہوں۔"
"اوکے، نہیں کروں گا اس بارے میں تم سے بات۔ غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
فرقان نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے صلح جوئی سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں اس لئے تمہیں بلوایا ہے۔" سکندر نے مسکراتے ہوئے سالار کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ طیبہ کے ساتھ اس وقت لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے اور سالار ان کے فون کرنے پر اس ویک اینڈ اسلام آباد آیا ہوا تھا۔
سکندر عثمان نے قدرے ستائشی نظروں سے اپنے تیسرے بیٹے کو دیکھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ان کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد اب کپڑے تبدیل کر کے ان کے پاس آیا تھا۔ سفید شلوار قمیض اور گھر میں پہنی جانے والی سیاہ چپل میں وہ اپنے عام سے حلیے کے باوجود بہت باوقار لگ رہا تھا۔ شاید یہ اس کے چہرے کی سنجیدگی تھی یا پھر شاید وہ آج پہلی بار کئی سالوں کے بعد اسے بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اور اعتراف کر رہے تھے کہ اس کی شخصیت میں بہت وقار اور ٹھہراؤ آ گیا ہے۔
انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سالار کی وجہ سے انہیں اپنے سوشل سرکل میں اہمیت اور عزت ملے گی۔ وہ جانتے تھے بہت جگہوں پر اب ان کا تعارف سالار سکندر کے حوالے سے ہوتا تھا اور انہیں اس پر خوشگوارحیرت ہوتی تھی۔ اس نے اپنی پوری ٹین ایج میں انہیں بری طرح خوار اور پریشان کیا تھا اور ایک وقت تھا، جب انہیں اپنے اس بیٹے کا مستقبل سب سے تاریک لگتا تھا۔ اپنی تمام غیرمعمولی صلاحیتوں اور قابلیت کے باوجود مگر ان کے اندازے اور خدشات صحیح ثابت نہیں ہوئے تھے۔
طیبہ نے خشک میوے کی پلیٹ سالار کی طرف بڑھائی۔
سالار نے چند کاجو اٹھا لئے۔
"میں تمہاری شادی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔"
کاجو منہ میں ڈالتے ہوئے وہ ایک دم رک گیا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ سکندر عثمان اور طیبہ بہت خوشگوار موڈ میں تھے۔
"اب تمہیں شادی کر ہی لینی چاہئیے سالار!"
سکندر نے کہا۔ سالار نے غیر محسوس انداز میں ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاجو دوبارہ خشک میوے کی پلیٹ میں رکھ دئیے۔
"میں اور طیبہ تو حیران ہو رہے تھے کہ اتنے رشتے تو تمہارے بھائیوں میں سے کسی کے نہیں آئے جتنے تمہارے لئے آ رہے ہیں۔"
سکندر نے بڑے شگفتہ انداز میں کہا۔
"میں نے سوچا، کچھ بات وات کریں تم سے۔"
وہ چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
"زاہد ہمدانی صاحب کو جانتے ہو؟" عثمان سکندر نے ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے ہیڈ کا نام لیا۔
"جی۔۔۔۔۔ ان کی بیٹی میری کولیگ ہے۔"
"رمشہ نام ہے شاید؟"
"جی۔"
"کیسی لڑکی ہے؟"
وہ سکندر عثمان کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ ان کا سوال بہت "واضح" تھا۔
"اچھی ہے۔" اس نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
"تمہیں پسند ہے؟"
"کس لحاظ سے؟"
"میں رمشہ کے پروپوزل کی بات کر رہا ہوں۔" سکندر عثمان نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
"زاہد پچھلے کئی ہفتے سے مجھ سے اس سلسلے میں بات کر رہا ہے۔ اپنی وائف کے ساتھ ایک دو بار وہ ہماری طرف آیا بھی ہے۔ ہم لوگ بھی ان کی طرف گئے ہیں۔ پچھلے ویک اینڈ پر رمشہ سے بھی ملے ہیں۔ مجھے اور طیبہ کو تو بہت اچھی لگی ہے۔ بہت well behaved ہے اور تمہارے ساتھ بھی اس کی اچھی خاصی دوستی ہے۔ ان لوگوں کی خواہش ہے بلکہ اصرار ہے کہ تمہارے ذریعے دونوں فیملیز میں کوئی رشتہ داری بن جائے۔"
"پاپا میری رمشہ کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہے۔" سالار نے مدھم اور ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
"وہ میری کولیگ ہے، جان پہچان ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت اچھی لڑکی ہے مگر میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔"
"تم کہیں اور انٹرسٹڈ ہو؟"
سکندر نے اس سے پوچھا۔ وہ خاموش رہا۔ سکندر اور طیبہ کے درمیان نظروں کا تبادلہ ہوا۔
"اگر تمہاری کہیں اور دلچسپی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہمیں خوشی ہو گی وہاں تمہاری شادی کی بات کرتے ہوئے اور یقیناً ہم تم پر بھی کوئی دباؤ نہیں دالیں گے اس سلسلے میں۔"
سکندر نے نرمی سے کہا۔
"میں بہت عرصہ پہلے شادی کر چکا ہوں۔"
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے اسی طرح سر جھکائے ہوئے مدھم لہجے میں کہا۔ سکندر کو کوئی دشواری نہیں ہوئی یہ سمجھنے میں کہ اس کا اشارہ کس طرف تھا۔ ان کے چہرے پر یک دم سنجیدگی آ گئی۔
"امامہ کی بات کر رہے ہو؟"
وہ خاموش رہا۔ سکندر بہت دیر تک بے یقینی سے اسے دیکھتے رہے۔
"اتنے عرصے سے اس لئے شادی نہیں کر رہے؟"
سکندر کو جیسے ایک شاک لگا تھا۔ ان کا خیال تھا وہ اسے بھلا چکا تھا۔ آخر یہ آٹھ سال پرانی بات تھی۔
"اب تک تو وہ شادی کر چکی ہو گی، اپنی زندگی آرام سے گزار رہی ہو گی۔ تمہاری اور اس کی شادی تو کب کی ختم ہو چکی۔"
سکندر نے اس سے کہا۔
"نہیں پایا! اس کے ساتھ میری شادی ختم نہیں ہوئی۔" اس نے پہلی بار سر اٹھا کر کہا۔
"تم نے اسے نکاح نامے میں طلاق کا اختیار دیا تھا اور۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے تم اسے ڈھونڈنا چاہتے تھے تاکہ طلاق دے سکو۔"
سکندر نے جیسے اسے یاد کرایا۔
"میں نے اسے ڈھوندا تھا مگر وہ مجھے نہیں ملی اور وہ یہ بات نہیں جانتی کہ اس کے پاس طلاق کا اختیار ہے۔ وہ جہا ں بھی ہو گی ابھی تک میری ہی بیوی ہو گی۔"
"سالار! آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ ایک دو سال کی بات تو نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ جان گئی ہو کہ طلاق کا اختیار اس کے پاس ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اب بھی تمہاری بیوی ہی ہو۔"
سکندر نے قدرے مضطرب ہو کر کہا۔
"میرے علاوہ تو کوئی دوسرا اسے یہ نہیں بتا سکتا تھا اور میں نے اسے اس حق کے بارے میں نہیں بتایا اور جب تک وہ میرے نکاح میں ہے مجھے کہیں اور شادی نہیں کرنی۔"
"تمہارا کانٹیکٹ ہے اس کے ساتھ؟" سکندر نے بہت مدھم آواز میں کہا۔
"نہیں۔"
"آٹھ سال سے اس سے تمہارا رابطہ نہیں ہوا۔ اگر ساری عمر نہ ہوا تب تم کیا کرو گے؟"
وہ خاموش رہا اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
سکندر عثمان کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتے رہے۔
"تم نے مجھ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم اس لڑکی کے ساتھ ایموشنلی انوالوڈ ہو۔ تم نے تو مجھے یہی بتایا تھا کہ تم نے صرف وقتی طور پر اس کی مدد کی تھی وہ کسی اور لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔ وغیرہ وغیرہ۔"
سالار اس بار بھی خاموش رہا۔
سکندر عثمان چپ چاپ اسے دیکھتے رہے۔ وہ اپنے اس تیسرے بیٹے کو کبھی نہیں جان سکے تھے۔ اس کے دل میں کیا تھا وہ اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ جس لڑکی کے لئے وہ آٹھ سال ضائع کر چکا تھا اور باقی کی زندگی ضائع کرنے کے لئے تیار تھا، اس کے ساتھ اس کے جذباتی تعلق کی شدت کیسی ہو سکتی تھی یہ اب شاید اسے لفظوں میں بیان کرنے کی ضروت نہیں تھی۔ کمرے میں خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا پھر سکندر عثمان اٹھ کر اپنے ڈریسنگ روم میں چلے گئے۔ ان کی واپسی چند منٹوں کے بعد ہوئی۔ صوفہ پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے سالار کی طرف ایک لفافہ بڑھا دیا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے وہ لفافہ پکڑ لیا۔
"امامہ نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔"
وہ سانس نہیں لے سکا۔ سکندر عثمان ایک بار پھر صوفے پر بیٹھ چکے تھے۔
"یہ پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے وہ تم سے بات کرنا چاہتی تھی۔ فون ناصرہ نے اٹھایا تھا اور اس نے امامہ کی آواز پہچان لی تھی۔ تب تم پاکستان میں تھے۔ ناصرہ نے تمہارےبجائے مجھ سے اس کی بات کرائی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے اس کی بات کراؤں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم مر چکے ہو۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ تم سے رابطہ کرے اور جس مصیبت سے ہم چھٹکارا پا چکے ہیں اس میں دوبارہ پڑیں۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میری بات پر یقین کر لے گی کیونکہ تم کئی بار خود کشی کی کوشش کر چکے تھے۔ وہ وسیم کی بہن تھی تمہارے بارے میں یہ سب جانتی ہو گی۔ کم از کم ایک ایسی کوشش کی تو وہ خود گواہ تھی۔ میں اسے نکاح نامے میں موجود طلاق کے اختیار کے بارے میں نہیں بتا سکا نہ ہی اس طلاق نامے کے بارے میں جو میں نے تمہاری طرف سے تیار کرایا تھا۔ تمہیں جب میں نے امریکہ بھجوایا تھا تو تم سے ایک سادہ کاغذ پر سائن لیے تھے، میں چاہتا تھا کہ مجھے ضرورت پڑے تو میں خود ہی طلاق نامہ تیار کرا لوں۔ یہ قانونی یا جائز تھا کہ نہیں ا س کا پتا نہیں مگر میں نے اسے تیار کرا لیا تھا اور میں امامہ کو اس کے بارے میں بتانا چاہتا تھا اور اسے تمام پیپرز بھی دینا چاہتا تھا مگر اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے نمبر ٹریس آؤٹ کرایا وہ کسی پی سی او کا تھا۔ اس کے کچھ دنوں بعد بیس ہزار کے کچھ ٹریولرز چیک مجھے اس نے ڈاک کے ذریعے بھجوائے اس کے ساتھ ایک خط بھی تھا۔ شاید تم نے اسے کچھ رقم دی تھی۔ اس نے وہ واپس کی تھی۔ میں نے تمہیں اس لئے نہیں بتایا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم دوبارہ اس معاملے میں انوالو ہو۔ میں امامہ کی فیملی سے خوفزدہ تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ تب بھی تمہاری تاک میں ہوں گے اور میں چاہتا تھا تم اپنا کیرئیر بناتے رہو۔"
وہ لفافہ ہاتھ میں پکڑے رنگ بدلتے ہوئے چہرے کے ساتھ سکندر عثمان کو دیکھتا رہا، کسی نے بہت آہستگی کے ساتھ اس کے وجود سے جان نکال لی تھی۔ اس نے لفافے کو ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ طیبہ اور سکندر اس کے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو دیکھ سکیں۔۔۔۔۔ وہ دیکھ چکے تھے مگر اس کے حواس چند لمحوں کے لئے بالکل کام کرنا چھوڑ گئے تھے۔ اپنے سامنے پڑی ٹیبل پر رکھے اس لفافے پر ہاتھ رکھے وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اسے ٹیبل پر رکھے رکھے اس نے اس کے اندر موجود کاغذ کو نکال لیا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔
خدا حافظ
امامہ ہاشم
سالار کو لگا وہ واقعی مر گیا ہے۔ سفید چہرے کے ساتھ اس نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو دوبارہ لفافے میں ڈال دیا۔ کچھ بھی کہے بغیر اس نے لفافہ تھاما اور اٹھ کھڑا ہوا۔ سکندر اور طیبہ دم بخود اسے دیکھ رہے تھے جب وہ سکندر کے پاس سے گزرنے لگا تو وہ اٹھ کھڑے ہو گئے۔
"سالار۔۔۔۔۔!"
وہ رک گیا۔ سکندر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
"جو کچھ بھی ہوا۔۔۔۔۔ نادانستگی میں ہوا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تم۔۔۔۔۔ اگر تم نے کبھی مجھے امامہ کے بارے میں اپنی فیلنگز بتائی ہوتیں تو میں کبھی یہ سب نہ کرتا۔ میں اس سارے معاملے کو کسی اور طرح ہینڈل کرتا یا پھر اس کے ساتھ تمہارا رابطہ کرا دیتا۔ میرے بارے میں اپنے دل میں کوئی شکایت یا گلہ مت رکھنا۔"
سالار نے سر نہیں اٹھایا۔ ان سے نظر نہیں ملائی مگر سر کو ہلکی سی جنبش دی۔ اسے ان سے کوئی شکوہ نہیں تھا۔ سکندر نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹا لیا۔
وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا، سکندر چاہتے تھے وہ وہاں سے چلا جائے۔ انہوں نے اس کے ہونٹوں کو کسی بچے کی طرح کپکپاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بار بار انہیں بھینچ کر خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ چند منٹ اور وہاں رہتا تو شاید پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا۔ سکندر اپنے پچھتاوے میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
طیبہ نے اس ساری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی، مگر سالار کے باہر جانے کے بعد انہوں نے سکندر کی دل جوئی کرنے کی کوشش کی۔
"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے جو کچھ کیا اس کی بہتری کے لئے کیا۔ وہ سمجھ جائے گا۔"
وہ سکندر کے چہرے سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا سکتی تھیں۔ سکندر ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے کمرے میں چکر لگا رہے تھے۔
"یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ مجھے سالار سے پوچھے بغیر یا اس کو بتائے بغیر یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ مجھے امامہ سے اس طرح کا جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہئیے تھا۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔"
وہ بات ا دھوری چھوڑ کر تاسف امیز انداز میں ایک ہاتھ کو مٹھی کی صورت میں بھینچے ہوئے کھڑکی میں جا کر کھڑے ہو گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گاڑی بہت محتاط انداز میں سڑک پر پھسل رہی تھی۔ سالار کئی سال بعد پہلی بار اس سڑک پر رات کے اس پہر گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ رات اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہی تھی۔ اسے لگا آٹھ سال اڑ کر غائب ہو گئے تھے۔ سب کچھ وہی تھا۔ وہیں تھا۔
کوئی بڑی آہستگی سے اس کے برابر میں آ بیٹھا۔ اس نے اپنے آپ کو فریب کی گرفت میں آنے دیا۔ گردن موڑ کر برابر والی سیٹ کو نہیں دیکھا۔ الوژن کو حقیقت بننے دیا۔ جانتے بوجھتے کھلی آنکھوں کے ساتھ۔ کوئی اب سسکیوں کے ساتھ رو رہا تھا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔
خدا حافظ
امامہ ہاشم
ایک بار پھر اس خط کی تحریر اس کے ذہن میں گونجنے لگی تھی۔
وہ سکندر عثمان کے پاس سے آ کر بہت دیر تک خط لئے اپنے کمرے میں بیٹھا رہا۔
اس نے امامہ کو کوئی رقم نہیں دی تھی مگر وہ جانتا تھا اس نے اس کا کون سا قرض لوٹایا تھا۔ موبائل فون کی قیمت، اور اس کے بلز، وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنے بیڈ پر بیٹھے نیم تاریک کمرے کی کھڑکیوں سے باہر اس کے گھر کی عمارت کو دیکھتا رہا۔ ساری دنیا یک دم جیسے ہر زندہ شے سے خالی ہو گئی تھی۔
اس نے خط پر تاریخ پڑھی، وہ امامہ کے گھر سے جانے کے تقریباً ڈھائی سال بعد بھیجا گیا تھا۔
ڈھائی سال بعد اگر وہ بیس ہزار روپے اسے بھجوا رہی تھی تو اس کا مطلب تھا وہ خیریت سے تھی۔ کم از کم اس کے امامہ کے بارے میں بدترین اندیشے درست ثابت نہیں ہوئے تھے۔ اسے خوشی تھی لیکن اگر اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ سالار مر چکا تھا تو پھر وہ اس کی زندگی سے بھی نکل چکا گیا تھا اور اس کا کیا مطلب تھا وہ یہ بھی جانتا تھا۔
کئی گھنٹے وہ اسی طرح وہیں بیٹھا رہا پھر پتا نہیں اس کے دل میں کیا آیا، اپنا بیگ پیک کر کے وہ گھر سے نکل آیا۔
اور اب وہ اس سڑک پر تھا۔ اسی دھند میں، اسی موسم میں، سب کچھ جیسے دھواں بن رہا تھا یا پھر دھند۔ چند گھنٹوں کے بعد وہ اسی ہوٹل نما سروس سٹیشن کے پاس جا پہنچا۔ اس نے گاڑی روک لی۔ دھند میں ملفوف وہ عمارت اب بالکل بدل چکی تھی۔ گاڑی کو موڑ کر وہ سڑک سے اتار کر اندر لے آیا۔ پھر دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا، آٹھ سال پہلے کی طرح آج بھی وہاں خاموشی کا راج تھا۔ صرف لائٹس کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی۔ اس نے ہارن نہیں دیا، اس لئے اندر سے کوئی نہیں نکلا۔ برآمدے میں اب وہ پانی کا ڈرم نہیں تھا۔ وہ برآمدے سے گزر تے ہوئے اندر جانے لگا، تب ہی اندر سے ایک شخص نکل آیا
قسط نمبر 42
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ برآمدے سے گزر تے ہوئے اندر جانے لگا، تب ہی اندر سے ایک شخص نکل آیا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا سالار نے اس سے کہا۔
"میں چائے پینا چاہتا ہوں۔"
اس نے جماہی لی اور واپس مڑ گیا۔
"آ جائیں۔۔۔۔۔"
سالار اندر چلا گیا۔ یہ وہی کمرہ تھا مگر اندر سے کچھ بدل چکا تھا۔ پہلے کی نسبت میزوں اور کرسیوں کی تعداد زیادہ تھی اور کمرے کی حالت بھی بہت بہتر ہو چکی تھی۔
"چائے لیں گے یا ساتھ کچھ اور بھی؟" اس آدمی نے مڑ کر اچانک پوچھا۔
"صرف چائے۔"
سالار ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
آدمی کاؤنٹر کے عقب میں اب اسٹوو جلانے میں مصروف ہو چکا تھا۔
"آپ کہاں سے آئے ہیں؟" اس نے چائے کے لئے کیتلی اوپر رکھتے ہوئے سالار سے پوچھا۔
جواب نہیں آیا۔
اس شخص نے گردن موڑ کر دیکھا۔ چائے پینے کے لئے آنے والا وہ شخص کمرے کے ایک کونے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ بالکل پتھر کے کسی مجسمے کی طرح بے حس و حرکت۔
وہ نماز پڑھ کر اس کے بالمقابل میز کے دوسری جانب کرسی پر آ بیٹھی تھی۔ کچھ کہے بغیر اس نے میز پر پڑا چائے کا کپ اٹھایا اور اسے پینے لگی۔ لڑکا تب تک برگر لے آیا تھا اور اب ٹیبل پر برگر رکھ رہا تھا۔ سالار تیکھی نظروں کے ساتھ برگر کی پلیٹ کو دیکھ رہا تھا، جو اس کے سامنے رکھی جا رہی تھی۔ جب لڑکے نے پلیٹ رکھ دی تو سالار نے کانٹے کے ساتھ برگر کا اوپر والا حصہ اٹھایا اور تنقیدی نظروں سے فلنگ کا جائزہ لیا پھر چھری اٹھا کر اس نے لڑکے سے کہا جو اب امامہ کے برگر کی پلیٹ اس کے سامنے رکھ چکا تھا۔
"یہ شامی کباب ہے؟"
وہ filling کی اوپر والی تہہ کو الگ کر رہا تھا۔
"یہ آملیٹ ہے؟" اس نے نیچے موجود آملیٹ کو چھری کی مدد سے تھوڑا اونچا کیا۔
"اور یہ کیچپ، تو چکن کہاں ہے؟ میں نے تمہیں چکن برگر لانے کو کہا تھا نا؟"
اس نے اکھڑ لہجے میں لڑکے سے کہا۔
امامہ تب تک خاموشی سے برگر اٹھا کر کھانے میں مصروف ہو چکی تھی۔
"یہ چکن برگر ہے۔" لڑکے نے قدرے گڑبڑا کر کہا۔
"کیسے چکن برگر ہے؟ اس میں کہیں چکن نہیں ہے۔" سالار نے چیلنج کیا۔
"ہم اسے ہی چکن برگر کہتے ہیں۔" وہ لڑکا اب نروس ہو رہا تھا۔
"اور جو سادہ برگر ہے اس میں کیا ڈالتے ہو؟"
"اس میں بس شامی کباب ہوتا ہے۔ انڈہ نہیں ہوتا۔"
"اور انڈہ ڈال کر سادہ برگر چکن برگر بن جاتا ہے، چونکہ انڈے سے مرغی نکلتی ہے اور مرغی کے گوشت کو چکن کہتے ہیں اس لئے directlyنہیں تو indirectly یہ چکن برگر بنتا ہے۔"
سالار نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ لڑکا کھسیانے انداز میں ہنسا۔ امامہ ان دونوں کی گفتگو پر توجہ دئیے بغیر ہاتھ میں پکڑا برگر کھانے میں مصروف تھی۔
"ٹھیک ہے جاؤ۔" سالار نے کہا۔
لڑکے نے یقیناً سکون کا سانس لیا اور وہاں سے غائب ہو گیا۔ چھری اور کانٹے کو رکھ کر سالار نے بائیں ہاتھ سے برگر کو اٹھا لیا۔ برگر کھاتے ہوئے امامہ نے پہلی بار پلیٹ سے سالار کے ہونٹوں تک بائیں ہاتھ میں برگر کے سفر کو تعجب آمیز نظروں سے دیکھا اور یہ تعجب ایک لمحے میں غائب ہو گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر برگر کھانے میں مصروف تھی۔سالار نے اپنے برگر کو دانتوں سے کاٹا ایک لمحہ کے لئے منہ چلایا اور پھر برگر کو اپنی پلیٹ میں اچھال دیا۔
"فضول برگر ہے۔ تم کس طرح کھا رہی ہو؟" سالار نے لقمے کو بمشکل حلق سے نگلتے ہوئے کہا۔
"اتنا برا نہیں ہے جتنا تمہیں لگ رہا ہے۔" امامہ نے بے تاثر انداز میں کہا۔
"ہر چیز میں تمہارا اسٹینڈرڈ بڑا لو ہے امامہ! وہ چاہے برگر ہو یا شوہر۔"
برگر کھاتے ہوئے امامہ کا ہاتھ رک گیا۔ سالار نے اس کے سفید چہرے کو ایک پل میں سرخ ہوتے دیکھا۔ سالار کے چہرے پر ایک تپا دینے والی مسکراہٹ آئی۔
"میں جلال انصر کی بات کر رہا ہوں۔" اس نے جیسے امامہ کو یاد دلایا۔
“تم ٹھیک کہتے ہو۔" امامہ نے پرسکون لہجے میں کہا۔
"میرا اسٹینڈرڈ واقعی بہت لو ہے۔" وہ ایک بار پھر برگر کھانے لگی۔
"میں نے سوچا تم برگر میرے منہ پر دے مارو گی۔" سالار نے دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"میں رزق جیسی نعمت کو کیوں ضائع کروں گی۔"
"یہ اتنا برا برگر نعمت ہے؟" اس نے تضحیک آمیز انداز میں کہا۔
"اور کون کون سی نعمتیں ہیں اس وقت تمہارے پاس۔۔۔۔۔"
"انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی جو حس ہے یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو اس میں اس کا ذائقہ محسوس کر سکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔"
"اور ان لوگوں میں ٹاپ آف دی لسٹ سالار سکندر کا نام ہو گا، ہے نا؟"
اس نے امامہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تیز آواز میں اس کی بات کاٹی۔
"سالار سکندر کم از کم اس طرح کی چیزیں کھا کر انجوائے نہیں کر سکتا۔"
اس شخص نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھ دیا۔ سالار یک دم چونک گیا۔ سامنے والی کرسی اب خالی تھی۔
"ساتھ میں کچھ اور چاہئیے؟" آدمی نے کھڑے کھڑے پھر پوچھا۔
"نہیں، بس چائے کافی ہے۔" سالار نے چائے کا کپ اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔
"آپ اسلام آباد سے آئے ہیں؟" اس نے پوچھا۔
"ہاں۔۔۔۔۔"
"لاہور جا رہے ہیں؟" اس نے ایک اور سوال کیا۔
اس بار سالار نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ وہ اب چائے کا گھونٹ لے رہا تھا۔ اس آدمی کو شبہ ہوا اس نے چائے پینے والے شخص کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھی ہے۔
"میں کچھ دیر یہاں اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔" اس نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے سر اٹھائے بغیر کہا۔
وہ شخص کچھ تعجب سے اسے دیکھتا ہوا واپس کچن میں چلا گیا اور ثانوی نوعیت کے کاموں میں مصروف گاہے بگاہے دور سے سالار پر نظریں دوڑاتا رہا۔
پورے پندرہ منٹ بعد اس نے سالار کو ٹیبل چھوڑ کر کمرے سے نکلتے دیکھا۔ وہ آدمی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ کچن سے کمرے میں واپس آیا مگر اس سے پہلے کہ وہ سالار کے پیچھے باہر جاتا، میز پر خالی کپ کے نیچے پڑے ایک نوٹ نے اسے روک لیا۔ وہ بھونچکا سا اس نوٹ کو دیکھتا رہا، پھر اس نے آگے بڑھ کر اس نوٹ کو پکڑا اور تیزی سے کمرے سے باہر آ گیا۔ سالار کی گاڑی اس وقت ریورس ہوتے ہوئے مین روڈ پر جا رہی تھی۔ اس آدمی نے حیرانی سے اس دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھا پھر ہاتھ میں پکڑے اس ہزار روپے کے نوٹ کو برآمدے میں لگی ٹیوب لائٹ کی روشنی میں دیکھا۔
"نوٹ اصلی ہے مگر آدمی بے وقوف۔۔۔۔۔"
اس نے اپنی خوشی پر قابو پاتے ہوئے زیر لب تبصرہ کیا اور نوت کو جیب میں ڈال لیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سکندر عثمان صبح ناشتے کی میز پر آئے تو بھی ان کے ذہن میں سب سے پہلے سالار کا ہی خیال آیا تھا۔
"سالار کہاں ہے؟ اسے بلاؤ۔"
انہوں نے ملازم سے کہا۔" سالارصاحب تو رات کو ہی چلے گئے تھے۔"
سکندر اور طیبہ نے بے اختیار ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا۔
"کہاں چلے گئے۔۔۔۔۔؟ گاؤں؟"
"نہیں ، واپس لاہور چلے گئے۔ انہوں نے سالار کا نمبرڈائل کیا۔ موبائل آف تھا۔ انہوں نے اس کے فلیٹ کا نمبر ڈائل کیا۔
وہاں جوابی مشین لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے پیغام ریکارڈ کرائے بغیر فون بند کر دیا۔ کچھ پریشان سے وہ دوبارہ ناشتے کی میز پر آبیٹھے۔
"فون پر کانٹیکٹ نہیں ہوا؟" طیبہ نے پوچھا۔
"نہیں موبائل آف ہے۔ اس کے فلیٹ پر آنسر فون لگا ہوا ہے۔ پتا نہیں کیوں چلا گیا؟"
"آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔۔ ناشتہ کریں۔" طیبہ نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
"تم کرو۔۔۔۔۔ میرا موڈ نہیں ہے۔"
وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔ طیبہ بےا ختیار سانس لے کر رہ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا، باہر فرقان تھا۔ وہ پلٹ کر اندر آ گیا۔
"تم کب آئے؟" فرقان نے قدرے حیرانی سے اس کے پیچھے اندر آتے ہوئے کہا۔
"آج صبح۔۔۔۔۔" سالار نے صوفے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
"کیوں۔۔۔۔۔" تمہیں گاؤں جانا تھا؟" فرقان نے اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں تو پارکنگ میں تمہاری گاڑی دیکھ کر آ گیا۔ بندہ آتا ہے تو بتا ہی دیتا ہے۔"
سالار جواب میں کچھ کہے بغیر صوفے پر بیٹھ گیا۔
"کیا ہوا؟" فرقان نے پہلی بار اس کے چہرے کو دیکھا اور تشویش میں مبتلا ہوا۔
"کیا ہوا؟" سالار نے جواباً کہا۔
"میں تم سے پوچھ رہا ہوں، تمہیں کیا ہوا ہے؟" فرقان نے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"کچھ نہیں۔"
"گھر میں سب خیریت ہے؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"تو پھر تم۔۔۔۔۔سر میں درد ہے؟ میگرین؟"
فرقان اب اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
"نہیں۔۔۔۔۔" سالار نے مسکرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کا فائدہ بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو مسلا۔
"تو پھر ہوا کیا ہے تمہیں؟ آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔"
"میں رات سویا نہیں، ڈرائیو کرتا رہا ہوں۔"
سالار نے بڑے عام سے انداز میں کہا۔
"تو اب سو جاتے۔ یہاں آ کر فلیٹ پر، صبح سے کیا کر رہے ہو؟" فرقان نے کہا۔
"کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔"
"سوئے کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟"
"نیند نہیں آ رہی۔۔۔۔۔"
"تم تو سلپنگ پلز لے کر سو جاتے ہو، پھر نیند نہ آنا کیا معنی رکھتا ہے؟"
فرقان کو تعجب ہوا۔
"بس آج نہیں لینا چاہتا تھا میں۔ یا یہ سمجھ لو کہ آج میں سونا نہیں چاہتا تھا۔"
"کھانا کھایا ہے؟"
"نہیں، بھوک نہیں لگی۔۔۔۔۔"
"دو بج رہے ہیں۔" فرقان نے جیسے اسے جتایا۔
"میں کھانا بھجواتا ہوں کھا لو۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر سو جاؤ پھر رات کو نکلتے ہیں آؤٹنگ کے لئے۔"
"نہیں، کھانا مت بھجوانا۔ میں سونے جا رہا ہوں۔ شام کو اٹھوں گا تو باہر جا کر کہیں کھاؤں گا۔"
سالار کہتے ہوئے صوفہ پر لیٹ گیا اور اپنا بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔ فرقان کچھ دیر بیٹھا اسے دیکھتا رہا ، پھرا ٹھ کر باہر چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟"
رمشہ نے سالار کے کمرے میں آتے ہوئے کہا۔ اس نے ریسیپشن کی طرف جاتے ہوئے سالار کے کمرے کی کھڑکیوں کے چند کھلے ہوئے بلائنڈز میں اسے اندر دیکھا تھا۔ کوریڈور میں سے جانے کی بجائے وہ رک گئی۔ سالار ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکائے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے ہوئے تھا۔ رمشہ جانتی تھی کہ اسے کبھی کبھار میگرین کا درد ہوتا تھا۔ وہ ریسیپشن کی طرف جانے کی بجائے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔
سالار اسے دیکھ کر سیدھا ہو گیا۔ وہ اب ٹیبل پر کھلی ایک فائل کو دیکھ رہا تھا۔
"تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟" رمشہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
"ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔"
اس نے رمشہ کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ رمشہ واپس جانے کی بجائے آگے بڑھ آئی۔
"نہیں تم ٹھیک نہیں لگ رہے۔" اس نے سالار کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"تم پلیز اس فائل کو لے جاؤ۔۔۔۔۔ اسے دیکھ لو۔۔۔۔۔ میں دیکھ نہیں پا رہا۔۔۔۔۔"
سالار نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے فائل بند کر کے ٹیبل پر اس کی طرف کھسکا دی۔
"میں دیکھ لیتی ہوں، تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہے تو گھر چلے جاؤ۔"
رمشہ نے تشویش بھرے انداز میں کہا۔
"ہاں، بہتر ہے۔ میں گھر چلا جاؤں۔" اس نے اپنا بریف کیس نکال کر اسے کھولا اور اپنی چیزیں اندر رکھنا شروع کر دیں۔ رمشہ بغور اس کا جائزہ لیتی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ گیارہ بجے آفس سے واپس گھر آ گیا تھا۔ یہ چوتھا دن تھا جب وہ مسلسل اسی حالت میں تھا۔ یک دم، ہر چیز میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔
بینک میں اپنی جاب
لمز (LUMS) کے لیکچرز
ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نشست۔۔۔۔۔
فرقان کی کمپنی
گاؤں کا اسکول۔
مستقبل کے منصوبے اور پلاننگ
اسے کوئی چیز بھی اپنی طرف کھینچ نہیں پا رہی تھی۔
وہ جس امکان کے پیچھے کئی سال پہلے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گیا تھا وہ" امکان" ختم ہو گیا تھا۔ اور اسے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ختم ہونے سے اس کے لئے سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ وہ مسلسل اپنے آپ کو اس حالت سے باہر لانے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا اور وہ ناکام ہو رہا تھا۔
محض یہ تصور کہ وہ کسی اور شخص کی بیوی بن کر کسی اور کے گھر میں رہ رہی ہو گی۔ سالار سکندر کے لئے اتنا ہی جان لیوا تھا جتنا ماضی کا یہ اندیشہ کہ وہ غلط ہاتھوں میں نہ چلی گئی ہو اور اس ذہنی حالت میں اس نے عمرہ پر جانے کا فیصلہ کیا تھا وہ واحد جگہ تھی جو اس کی زندگی میں اچانک آ جانے والی اس بے معنویت کو ختم کر سکتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ احرام باندھے خانہ کعبہ کے صحن میں کھڑا تھا۔ خانہ کعبہ میں کوئی نہیں تھا۔ دور دور تک کسی وجود کا نشان نہیں تھا۔ رات کے پچھلے پہر آسمان پر چاند اور ستاروں کی روشنی نے صحن کے ماربل سے منعکس ہو کر وہاں کی ہر چیز کو ایک عجیب سی دودھیا روشنی میں نہلا دیا تھا۔ چاند اور ستاروں کے علاوہ وہاں اور کوئی روشنی نہیں تھی۔
خانہ کعبہ کے غلاف پر لکھی ہوئی آیات، سیاہ غلاف پر عجیب طرح سے روشن تھے۔ ہر طرف گہرا سکوت تھا اور اس گہرے سکوت کو صرف ایک آواز توڑ رہی تھی۔ اس کی آواز۔۔۔۔۔ اس کی اپنی آواز۔۔۔۔۔ وہ مقام ملتزم کے پاس کھڑا تھا۔ اس کی نظریں خانہ کعبہ کے دروازے پر تھیں اور وہ سر اٹھائے بلند آواز سے کہنے لگا۔
"لبيك اللهم لبيك٭ لبيك لا شريك لك لبيك٭ إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك٭"
(حاضر ہوں میرے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک حمد وثنا تیرے لئے ہے، نعمت تیری ہے، بادشاہی تیری ہے کوئی تیرا شریک نہیں)۔
پوری وقت سے گونجتی ہوئی اس کی آواز خانہ کعبہ کے سکوت کو توڑ رہی تھی، اس کی آواز خلا کی وسعتوں تک جاری تھی۔
"لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔"
ننگے پاؤں، نیم برہنہ وہاں کھڑا وہ اپنی آواز پہچان رہا تھا۔
"لبیک لا شریک لک لبیک۔۔۔۔۔ وہ صرف اس کی آواز تھی۔ ٭ إن الحمد والنعمة لك والملك ۔"
اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اس کی ٹھوڑی سے نیچے اس کے پیروں کی انگلیوں پر گر رہے تھے۔
"لا شریک لک۔۔۔۔۔"
اس کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے تھے۔
"لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔"
اس نے خانہ کعبہ کے غلاف پر کندہ آیات کو یک دم بہت روشن دیکھا۔ اتنا روشن کہ وہ جگمگانے لگی تھیں۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی بھی اچانک بڑھ گئی۔ وہ ان آیات کو دیکھ رہا تھا۔ مبہوت سحر زدہ، کسی معمول کی طرح، زبان پر ایک ہی جملہ لئے۔۔۔۔۔ اس نے خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آہستہ ہستہ کھلتے دیکھا۔
"لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔"
اس کی آواز اور بلند ہو گئی۔ ایک درد کی طرح، ایک سانس، ایک لے۔
"لبیک لا شریک لک لبیک۔۔۔۔۔"
اس وقت پہلی بار اس نے اپنی آواز میں کسی اور آواز کو مدغم ہوتے محسوس کیا۔
“إن الحمد والنعمة۔۔۔۔۔"
اس کی آؤاز کی طرح وہ آواز بلند نہیں تھی۔ کسی سرگوشی کی طرح تھی۔ کسی گونج کی طرح، مگر وہ پہچان سکتا تھا وہ اس کی آواز کی گونج نہیں تھی۔ وہ کوئی اور آواز تھی۔
"لک و الملک۔۔۔۔"
اس نے پہلی بار خانہ کعبہ میں اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی کو محسوس کیا۔
"لا شریک لک۔۔۔۔۔"
خانہ کعبہ کا دروازہ کھل رہا تھا۔
"لبیک الھم لبیک۔۔۔۔"
وہ اس نسوانی آواز کو پہچانتا تھا۔
"لبیک لا شریک لک۔"
وہ اس کے ساتھ وہی الفاظ دہرا رہی تھی۔
"لبیک إن الحمد والنعمة۔"
آواز دائیں طرف نہیں تھی بائیں طرف تھی۔ کہاں۔۔۔۔۔ اس کی پشت پر۔ چند قدم کے فاصلے پر۔
"لک و الملک لا شریک لک۔"
اس نے جھک کر اپنے پاؤں پر گرنے والے آنسوؤں کو دیکھا اس کے پاؤں بھیگ چکے تھے۔
اس نے سر اٹھا کر خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھا۔ دروازہ کھل چکا تھا۔ اندر روشنی تھی۔ دودھیا روشنی۔ اتنی روشنی کہ اس نے بے اختیار گھٹنے ٹیک دئیے۔ وہ اب سجدہ کر رہا تھا، روشنی کم ہو رہی تھی۔ اس نے سجدے سے سر اٹھایا، روشنی اور کم ہو رہی تھی۔
وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ خانہ کعبہ کا دروازہ اب بند ہو رہا تھا۔ روشنی اور کم ہوتی جا رہی تھی اور تب اس نے ایک بار پھر سرگوشی کی صورت میں وہی نسوانی آواز سنی۔
اس بار اس نے مڑ کر دیکھا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار کی آنکھ کھل گئی۔ وہ حرم شریف کے ایک برآمدے کے ستون سے سر ٹکائے ہوئے تھا۔ وہ کچھ دیر سستانے کے لئے وہاں بیٹھا تھا مگر نیند نے عجیب انداز میں اس پر غلبہ پایا۔
وہ امامہ تھی۔ بے شک امامہ تھی۔ سفید احرام میں اس کے پیچھے کھڑی۔ اس نے اس کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی مگر ایک جھلک بھی اسے یقین دلانے کے لئے کافی تھی کہ وہ امامہ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھی۔ خالہ الذہنی کے عالم میں لوگوں کو ادھر سے ادھرجاتے دیکھ کر بے اختیار دل بھر آیا۔
آٹھ سال سے زیادہ ہو گیا تھا اسے اس عورت کو دیکھے جسے اس نے آج وہاں حرم شریف میں دیکھا تھا کسی زخم کو پھر ادھیڑا گیا تھا۔ اس نے گلاسز اتار دئیے اور دونوں ہاتھوں سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔
آنکھوں سے ابلتے گرم پانی کو رگڑتے، آنکھوں کو مسلتے اسے خیال آیا۔ یہ حرم شریف تھا۔ یہاں اسے کسی سے آنسو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں سب آنسو بہانے کے لئے ہی آتے تھے۔ اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹا لئیے۔ اس پر رقت طاری ہو رہی تھی۔ وہ سر جھکائے بہت دیر وہاں بیٹھا روتا رہا۔
پھر اسے یاد آیا، وہ ہر سال وہاں عمرہ کرنے کے لئے آیا کرتا تھا۔ وہ امامہ ہاشم کی طرف سے بھی عمرہ کیا کرتا تھا۔
وہ اس کی عافیت اور لمبی زندگی کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
وہ امامہ ہاشم کو ہر پریشانی سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
اس نے وہاں حرم شریف میں اتنے سالوں میں اپنے اور امامہ کے لئے ہر دعا مانگ چھوڑی تھی۔ جہاں بھر کی دعائیں۔ مگر اس نے وہاں حرم شریف میں امامہ کو کبھی اپنے لئے نہیں مانگا تھا۔ عجیب بات تھی مگر اس نے وہاں امامہ کے حصول کے لئے کبھی دعا نہیں کی تھی۔ اس کے آنسو یک دم تھم گئے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
وضو کے بعدا س نے عمرے کے لئے احرام باندھا۔ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس بار اتفاقاً اسے مقام ملتزم کے پاس جگہ مل گئی۔ وہاں ، جہاں اس نے اپنے آپ کو خواب میں کھڑے دیکھا تھا۔
اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے اس نے دعا کرنا شروع کی۔
"یہاں کھڑے ہو کر تجھ سے انبیاء دعا مانگا کرتے تھے۔ ان کی دعاؤں میں اور میری دعا میں بہت فرق ہے۔"
وہ گڑگڑا رہا تھا۔
"میں نبی ہوتا تو نبیوں جیسی دعا کرتا مگر میں تو عام بشر ہوں اور گناہ گار بشر۔ میری خواہشات، میری آرزوئیں سب عام ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر کبھی کوئی کسی عورت کے لئے نہیں رویا ہو گا۔ میری ذلت اور پستی کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہو گی کہ میں یہاں کھڑا ۔۔۔۔۔ حرم پاک میں کھڑا۔۔۔۔۔ ایک عورت کے لئے گڑگڑا رہا ہوں مگر مجھے نہ اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں پر۔
یہ میں نہیں تھا جس نے اس عورت کو اپنے دل میں جگہ دی، یہ تو نے کیا۔ کیوں میرے دل میں اس عورت کے لئے اتنی محبت ڈال دی کہ میں تیرے سامنے کھڑا بھی اس کو یاد کر رہا ہوں؟ کیوں مجھے اس قدر بے بس کر دیا کہ مجھے اپنے وجود پر بھی کوئی اختیار نہیں رہا؟ میں وہ بشر ہوں جسے تو نے ان تمام کمزوریوں کے ساتھ بنایا۔ میں وہ بشر ہوں جسے تیرے سوا کوئی راستہ دکھانے والا نہیں، اور وہ عورت ، وہ عورت میری زندگی کے ہر راستے پر کھڑی ہے۔ مجھے کہیں جانے کہیں پہنچنے نہیں دے رہی یا تو اس کی محبت کو اس طرح میرے دل سے نکال دے کہ مجھے کبھی اس کا خیال تک نہ آئے یا پھر اسے مجھے دے دے۔ وہ نہیں ملے گی تو میں ساری زندگی اس کے لئے ہی روتا رہوں گا۔ وہ مل جائے گی تو تیرے علاوہ میں کسی کے لئے آنسو نہیں بہا سکوں گا۔ میرے آنسوؤں کو خالص ہونے دے۔
میں یہاں کھڑا تجھ سے پاک عورتوں میں سے ایک کو مانگتا ہوں۔
میں امامہ ہاشم کو مانگتا ہوں۔
میں اپنی نسل کے لئے اس عورت کو مانگتا ہوں، جس نے آپ کے پیغمبرﷺ کی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ جس نے ان کے لئے اپنی زندگی کی تمام آسائشات کو چھوڑ دیا۔
اگر میں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نیکی کی ہے، تو مجھے اس کے عوض امامہ ہاشم دے دے۔ تو چاہے تو یہ اب بھی ہو سکتا ہے۔ اب بھی ممکن ہے۔
مجھے اس آزمائش سے نکال دے۔ میری زندگی کو آسان کر دے۔
آٹھ سال سے میں جس تکلیف میں ہوں مجھے اس سے رہائی دے دے۔
سالار سکندر پر ایک بار پھر رحم کر، وہی جو تیری صفات میں افضل ترین ہے۔
وہ سر جھکائے وہاں بلک رہا تھا۔ اسی جگہ پر جہاں اس نے خود کو خواب میں دیکھا تھا مگر اس بار اس کی پشت پر امامہ ہاشم نہیں تھی۔
بہت دیر تک گڑگڑانے کے بعد وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی اب بھی مدھم تھی۔ خانہ کعبہ روشنیوں سے اب بھی بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ لوگوں کا ہجوم رات کے اس پہر بھی اسی طرح تھا۔ خواب کی طرح خانہ کعبہ کا دروازہ بھی نہیں کھلا تھا۔ اس کے باوجود وہاں سے ہٹتے ہوئے سالار سکندر کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا تھا۔
وہ اس کیفیت سے باہر آ رہا تھا جس میں وہ پچھلے ایک ماہ سے تھا۔ ایک عجیب سا قرار تھا جو اس دعا کے بعد اسے ملا تھا اور وہ اسی قرار اور طمانیت کو لیے ہوئے ایک ہفتے کے بعد پاکستان لوٹ آیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے امریکہ جا رہا ہوں۔"
فرقان نے بے اختیار چونک کر سالار کو دیکھا۔
"کیا مطلب۔۔۔۔۔" سالار حیرانی سے مسکرایا۔
"کیا مطلب کا کیا مطلب؟ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں۔"
"یوں اچانک۔۔۔۔۔؟"
"اچانک تو نہیں۔ پی ایچ ڈی کرنی تو تھی مجھے۔ بہتر ہے ابھی کر لوں۔" سالار اطمینان سے بتا رہا تھا۔
وہ دونوں فرقان کے گاؤں سے واپس آ رہے تھے۔ فرقان ڈرائیو کر رہا تھا جب سالار نے اچانک اسے اپنی پی ایچ ڈی کے ارادے کے بارے میں بتایا۔
"میں نے بینک کو بتا دیا ہے، میں نے ریزائن کرنے کا سوچا ہے۔ لیکن وہ مجھے چھٹی دینا چاہ رہے ہیں۔ ابھی میں نے سوچا نہیں کہ ان کی اس آفر کو قبول کر لوں یا ریزائن کر دوں۔"
"تم ساری پلاننگ کیے بیٹھے ہو۔"
"ہاں یار۔۔۔۔۔ میں مذاق نہیں کر رہا۔۔۔۔۔ میں واقعی اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے جا رہا ہوں۔"
"چند ماہ پہلے تک تو تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔"
"ارادے کا کیا ہے، وہ تو ایک دن میں بن جاتا ہے۔"
سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کھڑکی کے شیشے سے باہر نظر آنے والے کھیتوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں ویسے بھی بینکنگ سے متعلق ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں لیکن یہاں میں پچھلے کچھ سالوں میں اتنا مصروف رہا ہوں کہ اس پر کام نہیں کر سکا۔ میں چاہتا ہوں پی ایچ ڈی کےدوران میں یہ کتاب لکھ کر شائع بھی کرا لوں۔ میرے پاس کچھ فرصت ہو گی تو میں یہ کام آسانی سے کر لوں گا۔"
فرقان کچھ دیر خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے کہا۔
"اور اسکول۔۔۔۔۔؟ اس کا کیا ہو گا؟"
"اس کا کچھ نہیں ہو گا۔ یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اس کا انفراسٹرکچر بھی بہتر ہوتا جائے گا۔ بورڈ آف گورنرز ہے، وہ لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ تم ہو۔۔۔۔۔ میں نے پاپا سے بھی بات کی ہے وہ بھی آیا کریں گے یہاں پر۔۔۔۔۔ میرے نہ ہونے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ سکول بہت پہلے سالار سکندر کی تھمائی ہوئی لاٹھیاں چھوڑ چکا ہے۔ آئندہ بھی اسے ان کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر میں مکمل طور پر اس سے قطع تعلق نہیں کر رہا ہوں۔ میں اس کو دیکھتا رہوں گا۔ کبھی میری مدد کی ضرورت پڑی تو آ جایا کروں گا۔ پہلے بھی تو ایسا ہی کیا کرتا تھا۔"
وہ اب تھرمس میں سے چائے کپ میں ڈال رہا تھا۔
"پی ایچ ڈی کے بعد کیا کرو گے؟" فرقان نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"واپس آؤں گا۔ پہلے کی طرح یہیں پر کام کروں گا۔ ہمیشہ کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔"
سالار نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے کو تھپکا۔
"کیا چند سال بعد نہیں جا سکتے تم؟"
"نہیں، جو کام آج ہونا چاہئیے اس آج ہی ہونا چاہئیے۔ میرا موڈ ہے پڑھنے کا۔ چند سال بعد شاید خواہش نہ رہے۔"
سالار نے چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے کہا وہ اب بائیں ہاتھ سے ریڈیو کو ٹیون کرنے میں مصروف تھا۔
"روٹری (Rotary) کلب والے اگلے ویک اینڈ پر ایک فنکشن کر رہے ہیں، میرے پاس انویٹیشن آیا ہے۔ چلو گے؟"
اس نے ریڈیو کو ٹیون کرتے ہوئے فرقان سے پوچھا۔
"کیوں نہیں چلوں گا۔ ان کے پروگرام دلچسپ ہوتے ہیں۔"
فرقان نے جواباً کہا۔ گفتگو کا موضوع بدل چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس دن اتوار تھا۔ سالار صبح دیر سے اٹھا۔
اخبار لے کر سرخیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے وہ کچن میں ناشتہ تیار کرنے لگا۔ اس نے صرف منہ ہاتھ دھویا تھا۔ شیو نہیں کی۔ نائٹ ڈریس کے اوپر ہی اس نے ایک ڈھیلا ڈھالا سویٹر پہن لیا اس نے کتیلی میں چائے کا پانی ابھی رکھا ہی تھا جب ڈور بیل کی آواز سنائی دی۔ وہ اخبار ہاتھ میں پکڑے کچن سے باہر آ گیا، دروازہ کھولنے پر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا
قسط نمبر 43
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھولنے پر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا جب اس نے سعیدہ اماں کو وہاں کھڑا پایا۔ سالار نے دروازہ کھول دیا۔
"السلام علیکم! کیسی ہیں آپ؟"
"اللہ کا شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں ، تم کیسے ہو؟"
انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کے سر پر اپنےدونوں ہاتھ پھیرے۔
"میں بھی ٹھیک ہوں، آپ اندر آئیں۔"
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک لگ تو نہیں رہے ہو۔ کمزور ہو رہے ہو، چہرہ بھی کالا ہو رہا ہے۔" انہوں نے اپنی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے اس کے چہرے پر غور کیا۔
"رنگ کالا نہیں ہوا، میں نے شیو نہیں کی۔" سالار نے بے اختیار اپنی مسکراہٹ روکی۔ وہ ان کے ساتھ چلتا ہوا اندر آ گیا۔
"لو بھلا شیو کیوں نہیں کی۔ اچھا داڑھی رکھنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ بہت اچھی بات ہے۔ نیکی کا کام ہے۔ بہت اچھا کر رہے ہو۔"
وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
"نہیں اماں! داڑھی نہیں رکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔ آج اتوار ہے۔ دیر سے اٹھا ہوں کچھ دیر پہلے ہی۔ اس لئے شیو نہیں کی۔" وہ ان کی بات پر محظوظ ہوا۔
"دیر سے کیوں اٹھے۔۔۔۔۔ بیٹا! دیر سے نہ اٹھا کرو۔ صبح جلدی اٹھ کر فجر کی نماز پڑھا کرو۔۔۔۔۔ چہرے پر رونق آتی ہے۔ اسی لئے تو تمہارا چہرہ مرجھایا ہوا ہے۔ صبح نماز پڑھ کر بندہ قرآن پڑھے پھر سیر کو چلا جائے۔ صحت بھی ٹھیک رہتی ہے اور اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔"
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔
"میں نماز پڑھ کر سویا تھا۔ صرف اتوار والے دن ہی دیر تک سوتا ہوں۔ ورنہ روز صبح وہی کرتا ہوں جو آپ کہہ رہی ہیں۔"
وہ اس کی وضاحت پر بے حد خوش نظر آنے لگیں۔
"بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ اسی لئے تو تمہارا چہرہ چمک رہا ہے۔ رونق نظر آ رہی ہے۔"
انہوں نے اپنے بیان میں ایک بار پھر تبدیلی کی۔
"آپ کیا لیں گی؟"
وہ اپنے چہرے پر کوئی تبصرہ نہیں سننا چاہتا تھا، اس لئے موضوع بدلا۔
"ناشتا کریں گی؟"
"نہیں، میں ناشتا کر کے آئی ہوں۔ صبح چھ سات بجے میں ناشتہ کر لیتی ہوں۔ گیارہ ساڑھے گیارہ تو میں دوپہر کا کھانا بھی کھا لیتی ہوں۔"
انہوں نے اپنے معمولات سے آگاہ کیا۔
"تو پھر دوپہر کا کھانا کھا لیں۔ ساڑھے دس تو ہو رہے ہیں۔"
"نہیں ابھی تو مجھے بھوک ہی نہیں۔ تم میرے پاس آ کر بیٹھو۔"
"میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔۔"
وہ ان کے انکار کے باوجود کچن میں آ گیا۔
"پورے چھ ماہ سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ تم نے ایک بار بھی شکل نہیں دکھائی۔ حالانکہ وعدہ کیا تھا تم نے۔"
اسے کچن میں ان کی آواز سنائی دی۔
"میں بہت مصروف تھا اماں جی۔۔۔۔۔"
اس نےا پنے لئے چائے تیار کرتے ہوئےکہا۔
"لو ایسی بھی کیا مصروفیت۔۔۔۔۔ ارے بچے! مصروف وہ ہوتے ہیں، جن کے بیوی بچے ہوتے ہیں نہ تم نے گھر بسایا، نہ تم گھر والوں کے ساتھ رہ رہے ہو۔۔۔۔۔ پھر بھی کہتے ہو مصروف تھا۔۔۔۔۔"
وہ ٹوسٹر سے سلائس نکالتے ہوئے ان کی بات پر مسکرایا۔
"اب یہی دیکھو، یہ تمہارے کرنے کے کام تو نہیں ہیں۔"
وہ اسے چائے کی ٹرے لاتے دیکھ کر خفگی سے بولیں۔
"میں تو کہتی ہوں یہ کام مرد کے کرنے والے ہیں ہی نہیں۔"
وہ کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے میز پر برتن رکھنے لگا۔
"اب دیکھو بیوی ہوتی تو یہ کام بیوی کر رہی ہوتی۔ مرد اچھالگتا ہی نہیں ایسے کام کرتے ہوئے۔"
"آپ ٹھیک کہتی ہیں اماں جی! مگر اب مجبوری ہے۔ اب بیوی نہیں ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔"
سالار نے چائے کا کپ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ انہیں اس کی بات پر جھٹکا لگا۔
"یہ کیا بات ہوئی، کیا کیا جا سکتا ہے؟ ارے بچے ! دنیا لڑکیوں سے بھری ہوئی ہے۔ تمہارے تو اپنے ماں باپ بھی ہیں۔ ان سے کہو۔۔۔۔۔ تمہارا رشتہ طے کریں۔ یا تم چاہو تو میں کوشش کروں۔"
سالار کو یک دم صورت حال کی سنگینی کا احساس ہونے لگا۔
"نہیں ، نہیں اماں جی! آپ چائے پئیں میں بہت خوش ہوں، اپنی زندگی سے۔۔۔۔۔ جہاں تک گھر کے کاموں کاتعلق ہے تو وہ تو ہمارے پیغمبرﷺ بھی کر لیا کرتے تھے۔"
"لو اب تم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ میں تو تمہاری بات کر رہی ہوں۔" وہ کچھ گڑبڑا گئیں۔
"آپ یہ بسکٹ لیں اور کیک بھی۔۔۔۔۔"
سالار نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
"ارے ہاں، جس کام کے لئے میں آئی ہوں وہ تو بھول ہی گئی۔"
انہیں اچانک یاد آیا، اپنے ہاتھ میں پکڑا بڑا سا بیگ انہوں نے کھول کر اندر کچھ تلاش کرنا شروع کر دیا۔
"تمہاری بہن کی شادی طے ہو گئی ہے۔"
سالار کو چائے پیتے بے اختیار اچھو لگا۔
"میری بہن کی۔۔۔۔۔ اماں جی! میری بہن کی شادی تو پانچ سال پہلے ہو گئی تھی۔"
اس نے کچھ ہکا بکا ہوتے ہوئے بتایا۔ وہ اتنی دیر میں اپنے بیگ سے ایک کارڈ برآمد کر چکی تھیں۔
"ارے میں اپنی بیٹی کی بات کر رہی ہوں۔ آمنہ کی، تمہاری بہن ہی ہوئی نا۔۔۔۔۔"
انہوں نے اس کے جملے پر بڑے افسوس کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے کارڈ تھمایا۔
سالار کو بے اختیار ہنسی آئی کل تک وہ اسے اس کی بیوی بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں اور اب یک دم بہن بنا دیا، مگر اس کے باوجود سالار کو بے تحاشا اطمینان محسوس ہوا۔ کم از کم اب اسے ان سے یا ان کی بیٹی سے کوئی خطرہ نہیں رہا تھا۔
بہت مسرور سا ہو کر اس نے کارڈ پکڑ لیا۔
"بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔ کب ہو رہی ہے شادی؟" اس نے کارڈ کھولتے ہوئے کہا۔
"اگلے ہفتے۔۔۔۔۔"
"چلیں اماں جی! آپ کی فکر تو ختم ہو گئی۔"
سالار نے" میری" کے بجائے" آپ کی" کا لفظ استعمال کیا۔
"ہاں اللہ کا شکر ہے، بہت اچھی جگہ رشتہ ہو گیا۔ میری ذمہ داری ختم ہو جائے گی پھر میں بھی اپنے بیٹوں کے پاس انگلینڈ چلی جاؤں گی۔"
سالار نے کارڈ پر ایک سرسری سی نظر دوڑائی۔
"یہ کارڈ تمہیں دینے خاص طور پر آئی ہوں۔۔۔۔۔ اس بار کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔ تمہیں شادی پر آنا ہے۔ بھائی بن کر رخصت کرنا ہے بہن کو۔"
سالار نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے چائے کا کپ لیا۔
"آپ فکر نہ کریں، میں ضرور آؤں گا۔"
وہ کپ نیچے رکھ کر سلائس پر مکھن لگانے لگا۔
"یہ فرقان کا کارڈ بھی لے کر آئی ہوں میں۔۔۔۔۔ اس کو بھی دینے جانا ہے۔"
انہیں اب فرقان کی یاد ستانے لگی۔
"فرقان کو تو آج بھابھی کے ساتھ اپنے سسرال جانا تھا۔ اب تک تو نکل چکا ہو گا۔ آپ مجھے دے دیں، میں اسے دے دوں گا۔" سالار نے کہا۔
"تم اگر بھول گئے تو؟" وہ مطمئن نہیں ہوئیں۔
"میں نہیں بھولوں گا، اچھا میں فون پر اس سے آپ کی بات کرا دیتا ہوں۔"
وہ یک دم خوش ہو گئیں۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے، تم فون پر اس سے میری بات کرا دو۔"
سالار اٹھ کر فون اسی میز پر لے آیا۔ فرقان کا موبائل نمبر ڈائل کر کے اس نے اسپیکر آن کر دیا اور خود ناشتہ کرنے لگا۔
"فرقان! سعیدہ اماں آئی ہوئی ہیں میرے پاس۔"
فرقان کے کال ریسیو کرنے پر اس نے بتایا۔
"ان سے بات کرو۔"
وہ خاموش ہو گیا، اب فرقان اور سعیدہ اماں کے درمیان بات ہو رہی تھی۔
دس منٹ بعد جب یہ گفتگو ختم ہوئی تو سالار ناشتہ کر چکا تھا۔ برتن کچن میں رکھتے ہوئے اسے خیال آیا۔
"آئی کس کے ساتھ تھیں آپ؟" وہ باہر نکل آیا۔
"اپنے بیٹے کے ساتھ۔" سعیدہ اماں نے اطمینان سے کہا۔
"اچھا، بیٹا آ گیا آپ کا؟ چھوٹا والا یا بڑا والا؟"
سالار نے دلچسپی لی۔
"میں ساتھ والوں کے راشد کی بات کر رہی ہوں۔" سعیدہ اماں نے بے اختیار برا مانا۔
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ سعیدہ اماں کے لئے ہر لڑکا اپنا بیٹا اور ہر لڑکی اپنی بیٹی تھی۔ وہ بڑے آرام سے رشتے گھڑ لیتی تھیں۔
"تو وہ کہاں ہے؟" سالار نے پوچھا۔
"وہ چلا گیا، موٹر سائیکل پر آئی ہوں اس کے ساتھ۔ آندھی کی رفتار سے چلائی ہے اس نے۔ نو بجے بیٹھی ہوں، پورے ساڑھے دس بجے ادھر پہنچا دیا اس نے۔ میری ایک نہیں سنی اس نے۔ سارا راستہ۔۔۔۔۔ بار بار یہی کہتا رہا آہستہ چلا رہا ہوں۔ یہاں اتارتے وقت کہنے لگا آپ کے ساتھ موٹر سائیکل پر میرا آخری سفر تھا۔ دوبارہ کہیں لے کر جانا ہوا تو پیدل لے کر جاؤں گا آپ کو۔۔۔۔۔"
سالار کو ہنسی آئی۔ آدھہ گھنٹہ میں طے ہونے والے راستے کو ڈیڑھ گھنٹےمیں طے کرنے والے کی جھنجھلاہٹ کا وہ اندازہ کر سکتا تھا۔ بوڑھوں کے ساتھ وقت گزارنا خاصا مشکل کام تھا۔ یہ وہ سعیدہ اماں کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات میں ہی جان گیا تھا۔
"تو واپس کیسے جائیں گی۔ راشد لینے آئے گا آپ کو؟"
"ہاں ، اس نے کہا تو ہے کہ میچ ختم ہونے کے بعد آپ کو لے جاؤں گا۔ اب دیکھو کب آتا ہے۔"
وہ اسے ایک بار پھر اپنی بیٹی اور اس کے ہونے والے سسرال کے بارے میں اطلاعات پہنچانے لگیں۔
وہ مسکراتے ہوئے بڑی فرمانبرداری سے سنتا رہا۔
اس قسم کی معلومات میں اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی مگر سعیدہ اماں اب اس کے ساتھ بینکنگ کے بارے میں تو گفتگو نہیں کر سکتی تھیں۔ ان کی باتیں رتی بھر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں مگر وہ یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے وہ ہر بات سمجھ رہا ہے۔
دوپہر کا کھانا اس نے ان کے ساتھ کھایا۔ اس نے ان کے سامنے فریزر سے کچھ نکال کر گرم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ایک بار پھر شادی کے فوائد اور ضرورت پر لیکچر نہیں سننا چاہتا تھا۔ اس نے ایک ریسٹورنٹ فون کر کے لنچ کا آرڈر دیا۔ ایک گھنٹے کے بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے وقت تک راشد نہیں آیا تو سالار نے ان کی تشویش کو کم کرنے کے لئے کہا۔
"میں گاڑی پر چھوڑ آتا ہوں آپ کو۔"
وہ فوراً تیار ہو گئیں۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے، اس طرح تم میرا گھر بھی دیکھ لو گے۔"
"اماں جی! میں آپ کا گھر جانتا ہوں۔"
سالار نے کار کی چابی تلاش کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا۔
آدھہ گھنٹہ کے بعد وہ اس گلی میں تھا جہاں سعیدہ اماں کا گھر تھا۔ وہ گاڑی سے اتر کر انہیں اندر گلی میں دروازے تک چھوڑ گیا۔ انہوں نے اسے اندر آنے کی دعوت دی، جسے اس نے شکریہ کے ساتھ رد کر دیا۔
"آج نہیں۔۔۔۔۔ آج بہت کام ہیں۔"
وہ اپنی بات کہہ کر پچھتایا۔
"بچے اسی لئے کہتی ہوں شادی کر لو۔ بیوی ہو گی تو خود سارے کام دیکھے گی۔ تم کہیں آ جا سکو گے۔ اب یہ کوئی زندگی ہے کہ چھٹی کے دن بھی گھر کے کام لے کر بیٹھے رہو۔" انہوں نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
"جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اب میں جاؤں؟"
اس نے کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"ہاں ٹھیک ہے جاؤ، مگر یاد رکھنا شادی پر ضرور آنا۔ فرقان سے بھی ایک بار پھر کہہ دینا کہ وہ بھی آئے اور اس کو کارڈ ضرور پہنچا دینا۔"
سالار نے ان کے دروازے پر لگی ہوئی ڈور بیل بجائی اور خداحافظ کہتے ہوئے پلٹا۔
اپنے پیچھے اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ سعیدہ اماں اب اپنی بیٹی سے کچھ کہہ رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"پھر کیا پروگرام ہے، چلو گے؟"
فرقان نے اگلے دن شام کو اس سے کارڈ لیتے ہوئے کہا۔
"نہیں، میں تو اس ویک اینڈ پر کراچی جا رہا ہوں۔ آئی بی ای کے ایک سیمینار کے لئے۔ اتوار کو میری واپسی ہو گی۔ میں تو آ کر بس سوؤں گا۔
"Nothing else۔ تم چلے جانا ۔، میں لفافہ دے دوں گا، وہ تم میری طرف سے معذرت کرتے ہوئے دے دینا۔" سالار نے کہا۔
"کتنے افسوس کی بات ہے سالار! وہ خود کارڈ دے کر گئی ہیں، اتنی محبت سے بلایا ہے۔"
فرقان نے کہا۔
"جانتا ہوں لیکن میں ادھر جا کر وقت ضائع نہیں کر سکتا۔"
"ہم بس تھوڑی دیر بیٹھیں گے پھر آجائیں گے۔"
"فرقان! میری واپسی کنفرم نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے میں اتورا کو آ ہی نہ سکوں یا اتوار کی رات کو آؤں۔"
"بے حد فضول آدمی ہو تم۔ وہ بڑی مایوس ہوں گی۔"
"کچھ نہیں ہو گا، میرے نہ ہونے سے ان کی بیٹی کی شادی تو نہیں رک جائے گی۔ ہو سکتا ہے انہیں پہلے ہی میرے نہ آنے کا اندازہ ہو اور ویسے بھی فرقان! تم اور میں کوئی اتنے اہم مہمان نہیں ہیں۔"
سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"بہرحال میں اور میری بیوی تو جائیں گے، چاہے ہم کم اہم مہمان ہی کیوں نہ ہوں۔" فرقان نے ناراضی سے کہا۔
"میں نے کب روکا ہے، ضرور جاؤ، تمہیں جانا بھی چاہئیے۔ سعیدہ اماں کے ساتھ تمہاری مجھ سے زیادہ بے تکلفی اور دوستی ہے۔" سالار نے کہا۔
"مگر سعیدہ اماں کو میرے بجائے تمہارا زیادہ خیال رہتا ہے۔"فرقان نے جتایا۔
"وہ مروت ہوتی ہے۔" سالار نے اس کی بات کو سنجیدگی سے لئے بغیر کہا۔
"جو بھی ہوتا ہے بہرحال تمہارا خیال تو ہوتا ہے انہیں۔ چلو اور کچھ نہیں تو ڈاکٹر سبط علی کی عزیزہ سمجھ کر ہی تم ان کے ہاں چلے جاؤ۔" فرقان نے ایک اور حربہ آزمایا۔
"ڈاکٹر صاحب تو خود یہاں نہیں ہیں۔ وہ تو خود شادی میں شرکت نہیں کر رہے اور اگر وہ یہاں ہوتے بھی تو کم از کم مجھے تمہاری طرح مجبور نہیں کرتے۔"
"اچھا، میں بھی نہیں کرتا تمہیں مجبور۔ نہیں جانا چاہتے تو مت جاؤ۔"
فرقان نے کہا۔
سالار ایک بار پھر اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف ہو چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ایک سرسبز و وسیع سبزہ زار تھا جہاں وہ دونوں موجود تھے۔ وسیع کھلے سبزہ زار میں درخت تھے مگر زیادہ بلند نہیں۔ خوبصورت بھولدار جھاڑیاں تھیں، چاروں طرف خاموشی تھی۔وہ دونوں کسی درخت کے سائے میں بیٹھنے کے بجائے ایک پھولدار جھاڑی کے قریب دھوپ میں بیٹھے تھے۔ امامہ اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے ہوئے بیٹھی تھی اور وہ گھاس پر چت لیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ ان دونوں کے جوتے کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے تھے۔ امامہ نے اس بار خوبصورت سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ ان دونوں کے درمیان گفتگو ہو رہی تھی۔ امامہ اس سے کچھ کہتے ہوئے دور کسی چیز کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے لیٹے لیٹے اس کی چادر کے ایک پلو سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ یوں جیسے دھوپ کی شعاعوں سے آنکھوں کو بچانا چاہتا ہو۔ اس کی چادر نے اسے عجیب سا سکون اور سرشاری دی تھی۔ امامہ نے چادر کے سرے کو اس کے چہرے سے ہتانے یا کھینچنے کی کوشش نہیں کی۔ دھوپ اس کے جسم کو تراوٹ بخش رہی تھی۔ آنکھیں بند کئے وہ اپنے چہرے پر موجود چادر کے لمس کو محسوس کر رہا تھا۔ وہ نیند اسے اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔
سالار نے یک دم آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنے بیڈ پر چت لیٹا ہوا تھا۔ کسی چیز نے اس کی نیند کو توڑ دیا تھا۔ وہ آنکھیں کھولے کچھ دیر بے یقینی سے اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتا رہا۔ یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں اسے ہونا چاہئیے تھا۔ ایک اور خواب۔۔۔۔۔ ایک اور الوژن۔۔۔۔۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور تب اس کو اس موبائل فون کی آواز نے متوجہ کیا، جو مسلسل اس کے سرہانے بج رہا تھا۔ یہ فون ہی تھا جو اسے اس خواب سے باہر لے آیا تھا۔ قدرے جھنجھلاتے ہوئے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر اس نے موبائل اٹھایا۔ دوسری طرف فرقان تھا۔
"کہاں تھے سالار! کب سے فون کر رہا ہوں۔ اٹینڈ کیوں نہیں کر رہے تھے؟"فرقان نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
"میں سو رہا تھا۔" سالار نے کہا اور اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس کی نظر اب پہلی بار گھڑی پر پڑی جو چار بجا رہی تھی۔
"تم فوراً سعیدہ اماں کے ہاں چلے آؤ۔" دوسری طرف سے فرقان نے کہا۔
"کیوں؟میں نے تمہیں بتایا تھا ، میں تو۔۔۔۔۔"
فرقان نے اس کی بات کاٹ دی۔
"میں جانتا ہوں، تم نے مجھے کیا بتایا تھا مگر یہاں کچھ ایمرجنسی ہو گئی ہے۔"
"کیسی ایمرجنسی؟" سالار کو تشویش ہوئی۔
"تم یہاں آؤ گے تو پتا چل جائے گا۔ تم فوراً یہاں پہنچو، میں فون بند کر رہا ہوں۔"
فرقان نے فون بند کر دیا۔
سالار کچھ پریشانی کے عالم میں فون کو دیکھتا رہا۔ فرقان کی آواز سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پریشان تھا مگر سعیدہ اماں کے ہاں پریشانی کی نوعیت کیا ہو سکتی تھی۔
پندرہ منٹ میں کپڑے تبدیل کرنے کے بعد گاڑی میں تھا۔ فرقان کی اگلی کال اس نے کار میں ریسیو کی۔
"تم کچھ بتاؤ تو سہی، ہوا کیا ہے؟ مجھے پریشان کر دیا ہے تم نے۔" سالار نے اس سے کہا۔
"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تم ادھر ہی آ رہے ہو۔ یہاں آؤ گے تو تمہیں پتا چل جائے گا۔ میں فون پر تفصیلی بات نہیں کر سکتا۔"
فرقان نے ایک بار پھر فون بندکر دیا۔
تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے آدھے گھنٹے کا سفر تقریباً بیس منٹ میں طے کیا۔ فرقان اسے سعیدہ اماں کے گھر کے باہر ہی مل گیا۔ سالار کا خیال تھا کہ سعیدہ اماں کے ہاں اس وقت بہت چہل پہل ہو گی مگر ایسا نہیں تھا۔ وہاں دور دور تک کسی بارات کے آثار نہیں تھے۔ فرقان کے ساتھ وہ بیرونی دروازے کے بائیں طرف بنے ہوئے ایک پرانی طرز کے ڈرائینگ روم میں آ گیا۔
"آخر ہوا کیا ہے جو تمہیں مجھے اس طرح بلانا پڑ گیا؟"
سالار اب الجھ رہا تھا۔
"سعیدہ اماں اور ان کی بیٹی کے ساتھ ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔" فرقان نے اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
"کیسا مسئلہ؟"
"جس لڑکے سے ان کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی اس لڑکے نے کہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے۔"
"مائی گڈنیس۔" سالار کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
"ان لوگوں نے ابھی کچھ دیر پہلے سعیدہ اماں کو یہ سب فون پر بتا کر ان سے معذرت کی ہے۔ وہ لوگ اب بارات نہیں لا رہے۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے ان لوگوں کے ہاں گیا ہوا تھا، مگر وہ لوگ واقعی مجبور ہیں۔ انہیں اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے، اس لڑکے نے بھی انہیں صرف فون پر ہی اس کی اطلاع دی ہے۔" فرقان تفصیل بتانے لگا۔
"اگر وہ لڑکا شادی نہیں کرنا چاہتا تھا تو اسے بہت پہلے ہی ماں باپ کو صاف صاف بتا دینا چاہئیے تھا۔ بھاگ کر شادی کر لینے کی ہمت تھی تو ماں باپ کو پہلے اس شادی سے انکار کر دینے کی بھی ہمت ہونی چاہئیے تھی۔" سالار نے ناپسندیدگی سے کہا۔
"سعیدہ اماں کے بیٹوں کو اس وقت یہاں ہونا چاہئیے تھا، وہ اس معاملے کو ہینڈل کر سکتے تھے۔"
"لیکن اب وہ نہیں ہیں تو کسی نہ کسی کو تو سب کچھ دیکھنا ہے۔"
"سعیدہ اماں کے کوئی اور قریبی رشتہ دار نہیں ہیں؟" سالار نے پوچھا۔
"نہیں، میں نے ابھی کچھ دیر پہلے داکٹر سبط علی صاحب سے بات کی ہے فون پر۔" فرقان نے اسے بتایا۔
"لیکن ڈاکٹر صاحب بھی فوری طور پر تو کچھ نہیں کر سکیں گے۔ یہاں ہوتے تو اور بات تھی۔" سالار نے کہا۔
"انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہاری فون پر ان سے بات کراؤں۔"فرقان کی آواز اس بار کچھ دھیمی تھی۔
"میری بات۔۔۔۔۔ لیکن کس لئے؟ سالار کچھ حیران ہوا۔
"ان کا خیال ہے کہ اس وقت تم سعیدہ اماں کی مدد کر سکتے ہو۔"
"میں ؟" سالار نے چونک کر کہا۔" میں کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟"
"آمنہ سے شادی کر کے۔"
سالار دم بخود پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
"تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟" اس نے بمشکل فرقان سے کہا۔
"ہاں، بالکل ٹھیک ہے۔" سالار کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
"پھر تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔"
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ فرقان برق رفتاری سے اٹھ کر اس کے راستے میں حائل ہو گیا۔
"کیا سوچ کر تم نے یہ بات کہی ہے۔" سالار اپنی آواز پر قابو نہیں رکھ سکا۔
"میں نے یہ سب تم سے ڈاکٹرصاحب کے کہنے پر کہا ہے۔" سالار کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
"تم نے انہیں میرا نام کیوں دیا؟"
"میں نے نہیں دیا سالار! انہوں نے خود تمہارا نام لیا ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تم سے درخواست کروں کہ میں اس وقت سعیدہ اماں کی بیٹی سے شادی کر کے اس کی مدد کروں۔"
کسی نے سالار کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچی تھی یا سر سے آسمان، اسے انداز ہ نہیں ہوا۔ وہ پلٹ کر واپس صوفے پر بیٹھ گیا۔
"میں شادی شدہ ہوں فرقان! تم نے انہیں بتایا۔"
"ہاں میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ تم نے کئی سال پہلے ایک لڑکی سے نکاح کیا تھا، مگر پھر وہ لڑکی دوبارہ تمہیں نہیں ملی۔"
"پھر؟"
"وہ اس کے باوجود یہی چاہتے ہیں کہ تم آمنہ سے شادی کر لو۔"
"فرقان۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔" وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
"اور امامہ۔۔۔۔۔ اس کا کیا ہو گا؟"
"تمہاری زندگی میں امامہ کہیں نہیں ہے۔ اتنے سالوں میں کون جانتا ہے، وہ کہاں ہے۔ ہے بھی کہ نہیں۔"
"فرقان۔۔۔۔۔" سالار نے ترشی سے اس کی بات کاٹی۔" اس بات کو رہنے دو کہ وہ ہے یا نہیں۔ مجھے صرف یہ بتاؤ کہ اگر کل امامہ آ جا تی ہو تو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا؟"
"تم یہ بات ڈاکٹر صاحب سے کہو۔" فرقان نے کہا۔
"نہیں، تم یہ سب کچھ سعیدہ اماں کو بتاؤ، ضروری تو نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قبول کر لیتی جس نے کہیں اور شادی کی ہے۔"
"وہ اگر بارات لے کر آ جاتا تو شاید یہ بھی ہو جاتا۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ وہ آمنہ سے دوسری شادی پر بھی تیار نہیں ہے۔"
"اسے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔"
"ہاں، ڈھونڈا جا سکتا ہے مگر یہ کام اس وقت نہیں ہو سکتا۔"
"ڈاکٹر صاحب نے آمنہ کے لئے غلط انتخاب کیا ہے۔ میں ۔۔۔۔۔ میں آمنہ کو کیا دے سکتا ہوں۔میں تو اس آدمی سے بھی بدتر ہوں جو ابھی اسے چھوڑ گیا ہے۔"
سالار نے بے چارگی سے کہا۔
"سالار! انہیں اس وقت کسی کی ضرورت ہے، ضرورت کے وقت صرف وہی آدمی سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے، جو سب سے زیادہ قابل اعتبار ہو۔ تم زندگی میں اتنے بہت سے لوگوں کی مدد کرتے آ رہے ہو، کیا ڈاکٹر سبط علی صاحب کی مدد نہیں کر سکتے۔"
"میں نے لوگوں کی پیسے سے مدد کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مجھ سے پیسہ نہیں مانگ رہے۔"
اس سے پہلے کہ فرقان کچھ کہتا اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔ اس نے نمبر دیکھ کر موبائل سالار کی طرف بڑھا دیا۔
"ڈاکٹر صاحب کی کال آ رہی ہے۔"
سالار نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ موبائل پکڑ لیا۔
وہاں بیٹھے موبائل کان سے لگائے سالار کو پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ زندگی میں ہر بات، ہر شخص سے نہیں کہی جا سکتی۔ وہ جو کچھ فرقان سے کہہ سکتا تھا وہ ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا تھا۔ انہیں دلائل دے سکتا تھا نہ بہانے بنا سکتا تھا۔ انہوں نے مخصوص نرم لہجے میں اس سے درخواست کی تھی۔
"اگر آپ اپنے والدین سے اجازت لے سکیں تو آمنہ سے شادی کر لیں۔ وہ میری بیٹی جیسی ہے۔ آپ سمجھیں میں اپنی بیٹی کے لئے آپ سے درخواست کر رہا ہوں، آپ کو تکلیف دے رہا ہوں لیکن میں ایسا کرنے کے لئے مجبور ہوں۔"
"آپ جیسا چاہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔"
اس نے مدھم آواز میں ان سے کہا۔
"آپ مجھ سے درخواست نہ کریں، آپ مجھے حکم دیں۔" اس نے خود کو کہتے پایا۔
فرقان تقریباً دس منٹ کے بعد اندر آیا۔ سالار موبائل فون ہاتھ میں پکڑے گم صم فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
"ڈاکٹر صاحب سے بات ہو گئی تمہاری؟"
فرقان نے اس کے بالمقابل ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔
سالار نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کچھ کہے بغیر سینٹر ٹیبل پر اس کا موبائل رکھ دیا۔
"میں رخصتی ابھی نہیں کراؤں گا۔ بس نکاح کافی ہے۔"
اس نے چند لمحوں بعد کہا۔ وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہا تھا۔ فرقان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ وہ" مقدر" کا شکار ہونے والا پہلا انسان نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سڑک پر گہما گہمی نہ ہونے کے برابر تھی۔ رات بہت تیزی سے گزرتی جا رہی تھی۔ گہری دھند ایک بار پھر ہر چیز کو اپنے حصار میں لے رہی تھی۔
سڑک پر جلنے والی سٹریٹ لائٹس کی روشنی دھند کو چیرتے ہوئے اس بالکونی کی تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں منڈیر کے پاس ایک اسٹول پر، سالار بیٹھا ہوا تھا۔ منڈٖیر پر اس کے سامنے کا فی کا ایک مگ پڑا ہوا تھا، جس میں سے اٹھنے والی گرم بھاپ دھند کے پس منظر میں عجیب سی شکلیں بنانے میں مصروف تھی اور وہ۔۔۔۔۔ وہ سینے پر دونوں ہاتھ لپیٹے یک ٹک نیچے سنسان سڑک کو دیکھ رہا تھا جو دھند کے اس غلاف میں بہت عجیب نظر آ رہی تھی۔
رات کے دس بج رہے تھے اور وہ چند منٹ پہلے ہی گھر پہنچا تھا۔ سعیدہ اماں کے گھر نکاح کے بعد وہ وہاں رکا نہیں تھا۔ اسے وہاں عجیب سی وحشت ہو رہی تھی۔ وہ گاڑی لے کر بے مقصد شام سے رات تک سڑکوں پر پھرتا رہا۔ اس کا موبائل آف تھا۔ وہ بیرونی دنیا سے اس وقت کوئی رابطہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ موبائل آن ہوتا تو فرقان اس سے رابطہ کرتا۔ بہت سی وضاحتیں دینے کی کوشش کرتا یا ڈاکٹر سبط علی رابطہ کرتے، اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے۔
وہ یہ دونوں چیزیں نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس وقت مکمل خاموشی چاہتا تھا۔ اٹھتی ہوئی بھاپ کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک بار پھر چند گھنٹے پہلے کے واقعات کے بارے میں سوچا۔ سب کچھ ایک خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ کاش خواب ہی ہوتا۔ اسے وہاں بیٹھے کئی ماہ پہلے حرم پاک میں مانگی جانے والی دعا یاد آئی۔
"تو کیا اسے میری زندگی سے نکال دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔" اس نے تکلیف سے سوچا۔
"تو پھر یہ اذیت بھی تو ختم ہونی چاہئیے۔ میں نے اس اذیت سے رہائی بھی تو مانگی تھی۔ میں نے اس کی یادوں سے فرار بھی تو چاہا تھا۔" اس نے منڈیر پر رکھا گرم کافی کا کپ اپنے سرد ہاتھوں میں تھام لیا۔
"تو امامہ ہاشم بالآخر تم میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل گئی۔"
اس نے کافی کی تلخی اپنے اندر اتاری۔
"اور اب کیا میں پچھتاؤں کہ کاش میں کبھی سعیدہ اماں کو اس سڑک پر نہ دیکھ پاتا یا میں ان کو لفٹ نہ دیتا۔ ان کا گھر مل جاتا اور میں انہیں وہاں ڈراپ کر کے آ جاتا۔ ان کو اپنے گھر نہ لاتا، نہ روابط بڑھتے، نہ وہ اس شادی پر مجھے بلاتیں یا پھر کاش میں آج کراچی میں ہی نہ ہوتا ۔ یہاں ہوتا ہی نہیں یا میں موبائل آف کر کے سوتا۔ فون کا ریسیور رکھ دیتا۔ فرقان کی کال ریسیو ہی نہ کرتا یا پھر کاش میں ڈاکٹر سبط علی کو نہ جانتا ہوتا کہ ان کے کہنے پر مجھے مجبور نہ ہونا پڑتا یا پھر شاید مجھے یہ تسلیم کر لینا چاہئیے کہ امامہ میرے لئے نہیں ہے۔" اس نے کافی کا مگ دوبارہ منڈیر پر رکھ دیا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے، پھر جیسے کوئی خیال آنے پر اپنا والٹ نکال لیا۔ والٹ کی ایک جیب سے اس نے ایک تہہ شدہ کاغذ نکال کر کھول لیا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔
خدا حافظ
امامہ ہاشم
اس نے نو ماہ میں کتنی بار اس کاغذ کو پڑھا تھا اسے یاد نہیں تھا۔ اس کاغذ کو چھوتے ہوئے اسے اس کاغذ میں امامہ کا لمس محسوس ہوتاتھا۔ اس کے ہاتھ سے لکھا ہوا اپنا نام۔۔۔۔۔ کاغذ پر تحریر ان چند جملوں میں اس کے لئے کوئی اپنائیت نہیں تھی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ امامہ کو اس کی موت کی خبر پر بھی کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ خبر اس کے لئے ڈھائی سال بعد رہائی کا پیغام بن کر آئی تھی۔ اسے کیسے افسوس ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ چند جملے اس لئے بہت اہم ہو گئے تھے۔
اس نے کاغذ پر لکھے جملوں پر اپنی انگلیاں پھیریں۔ اس نے آخر میں لکھے امامہ ہاشم کے نام کو چھوا۔۔۔۔۔ پھر کاغذ کودوبارہ اسی طرح تہہ کر کے والٹ میں رکھ لیا۔
منڈیر پر کافی کا مگ سرد ہو چکا تھا۔ سالار نے ٹھنڈی کافی کے باقی مگ کو ایک گھونٹ میں اپنے اندر انڈیل لیا۔
ڈاکٹر سبط علی ایک ہفتے تک لندن سے واپس پاکستان پہنچ رہے تھے اور اسے ان کا انتظار تھا۔ امامہ ہاشم کے بارے میں جو کچھ وہ اتنے سالوں سے انہیں نہیں بتا سکا تھا وہ انہیں اب بتانا چاہتا تھا۔ اپنے ماضی کے بارے میں جو کچھ وہ انہیں نہیں بتا پایا تھا اب وہ ان سے کہہ دینا چاہتا تھا۔ اسے اب پرواہ نہیں تھی وہ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رمضان کی چار تاریخ تھی، جب ڈاکٹر سبط علی واپس آ گئے تھے۔ وہ رات کو کافی دیر سے آئے تھے اور سالار نے اس وقت انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ وہ رات کو ان کے پاس پہلے کی طرح جانا چاہتا تھا مگر دوپہر کو خلاف توقع بینک میں ان کا فون آ گیا۔ سالار کے نکاح کے بعد یہ ان کا سالار سے تیسرا رابطہ تھا۔ وہ کچھ دیر اس کا حال احوال دریافت کرتے رہے پھر انہوں نے اس سے کہا۔
"سالار! آپ آج رات کو نہ آئیں، شام کو آجائی۔ افطاری میرے ساتھ کریں۔"
"ٹھیک ہے میں آ جاؤں گا۔" سالار نے حامی بھرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر ان کے درمیان مزید گفتگو ہوتی رہی پھر ڈاکٹر سبط علی نے فون بند کر دیا۔
وہ اس دن بینک سے کچھ جلدی نکل آیا۔ اپنے فلیٹ پر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ جب ان کے پاں پہنچا اس وقت افطاری میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔
ڈاکٹر سبط علی کا ملازم اسے اجتماع والے بیرونی کمرے کے بجائے سیدھا اندر لاؤنج میں لے آیا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے بغلگیر ہونے کے بعد بڑی محبت کے ساتھ اس کا ماتھا چوما۔
"پہلے آپ ایک دوست کی حیثیت سے یہاں آتے تھے، آج آپ گھر کا ایک فرد بن کر یہاں آئے ہیں۔"
وہ جانتا تھا ان کا اشارہ کس طرف تھا۔
"آئیے بیٹھیے۔" وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئے۔
"بہت مبارک ہو۔ اب تو آپ بھی گھر والے ہو گئے ہیں۔"
سالار نے خاموش نظروں اور پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھا۔ وہ مسکرا رہے تھے۔
"میں بہت خوش ہوں کہ آپ کی شادی آمنہ سے ہوئی ہے۔ وہ میرے لئے میری چوتھی بیٹی کی طرح ہے اور اس رشتے سے آپ بھی میرے داماد ہیں۔"
سالار نے نظریں جھکا لیں۔ اس کی زندگی میں امامہ ہاشم کا باب نہ لکھا ہوا ہوتا تو شاید ان کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ اپنے آپ پر فخر کرتا مگر سارا فرق امامہ ہاشم تھی۔ سارا فرق وہی ایک لڑکی پیدا کر رہی تھی وہ جو تھی اور نہیں تھی۔
ڈاکٹر سبط علی کچھ دیر اسے دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
"آپ اتنے سالوں سے میرے پاس آ رہے ہیں آپ نے کبھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ نکاح کر چکے ہیں۔ تب بھی نہیں جب ایک دو بار آپ سے شادی کا ذکر ہوا۔"
سالار نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
"میں آپ کو بتانا چاہتا تھا مگر۔۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے چپ ہو گیا۔
"سب کچھ اتنا عجیب تھا کہ میں آپ کو کیا بتاتا۔" اس نے دل میں کہا
"کب ہوا تھا آپ کا نکاح؟" ڈاکٹر سبط علی دھیمے لہجے میں پوچھ رہے تھے۔" ساڑھے آٹھ سال پہلے، تب میں اکیس سال کا تھا۔"اس نے کسی شکست خودہ معمول کی طرح کہا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ انہیں سب کچھ بتاتا گیا۔ ڈاکٹر سبط علی نے ایک بار بھی اسے نہیں ٹوکا تھا۔ اس کے خاموش ہونے کے بعد بھی بہت دیر تک وہ چپ رہے تھے۔
بہت دیر بعد انہوں نے اس سے کہا تھا۔
"آمنہ بہت اچھی لڑکی ہے اور وہ خوش قسمت ہے کہ اسے ایک صالح مرد ملا ہے۔"
ان کی بات سالار کو ایک چابک کی طرح لگی۔
"صالح؟ میں صالح مرد نہیں ہوں ڈاکٹرصاحب! میں تو۔۔۔۔۔ اسفل السافلین ہوں۔ آپ مجھے جانتے ہوتے تو میرے لئے کبھی یہ لفظ استعمال نہ کرتے نہ اس لڑکی کے لئے میرا انتخاب کرتے جسے آپ اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں۔"
"ہم سب اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر"زمانہ جاہلیت" سے ضرور گزرتے ہیں، بعض گزر جاتے ہیں، بعض ساری زندگی اسی زمانے میں گزار دیتے ہیں۔ آپ اس میں سے گزر چکے ہیں۔ آپ کا پچھتاوا بتا رہا ہے کہ آپ گزر چکے ہیں۔ میں آپ کو پچھتاوے سے رکوں گا نہ توبہ اور دعا سے، آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنی ساری زندگی یہ کریں، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ شکر بھی ادا کریں کہ آپ نفس کی تمام بیماریوں سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔"
اگر دنیا آپ کو اپنی طرف نہیں کھینچتی، اگر اللہ کے خوف سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، اگر دوزخ کا تصور آپ کو ڈراتا ہے، اگر آپ اللہ کی عبادت اس طرح کرتے ہیں جس طرح کرنی چاہئیے، اگر نیکی آپ کو اپنی طرف راغب کرتی ہے اور برائی سے آپ رک جاتے ہیں تو پھر آپ صالح ہیں۔ کچھ صالح ہوتے ہیں، کچھ صالح بنتے ہیں، صالح ہونا خوش قسمتی کی بات ہے، صالح بننا دو دھاری تلوار پر چلنے کے برابر ہے۔ اس میں زیادہ وقت لگتا ہے، اس میں زیادہ تکلیف سہنی پڑتی ہے۔ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ صالح ہیں کیونکہ آپ صالح بنے ہیں، اللہ آپ سے بڑے کام لے گا۔"
سالار کی آنکھوں میں نمی آ گئی انہوں نے ایک بار پھر امامہ ہاشم کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا، کچھ نہیں کہا تھا۔ کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی سے نکل گئی؟ کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ آئندہ بھی کبھی اس کی زندگی میں نہیں آئے گی؟ اسے اپنی زندگی آمنہ کے ساتھ ہی گزارنے پڑے گی؟ اس کا دل ڈوبا۔ وہ ڈاکٹڑ صاحب کے منہ سے امامہ کے حوالے سے کوئی تسلی، کوئی دلاسا، کوئی امید چاہتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب خاموش تھے۔ وہ چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
"میں آپ کے لئے اور آمنہ کے لئے بہت دعا کروں گا بلکہ میں بہت دعا کر کے آیا ہوں خانہ کعبہ میں۔۔۔۔۔ روضہ رسول ﷺ پر۔" وہ لندن سے واپسی پر عمرہ کر کے آئے تھے۔ سالار نے سر جھکا لیا۔ دور اذا ن کی آواز آ رہی تھی۔ ملازم افتاری کے لئے میز تیار کر رہا تھا۔ اس نے بوجھل دل کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ بیٹھ کر روزہ افطار کیا پھر وہ اور ڈاکٹر سبط علی نماز پڑھنے کے لئے قریبی مسجد میں چلے گئے۔ وہاں سے واپسی پر اس نے ڈاکٹر سبط علی کے ہاں کھانا کھایا اور پھر اپنے فلیٹ پر واپس آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"کل میرے ساتھ سعیدہ اماں کے ہاں چل سکتے ہو؟"
اس نے ڈاکٹر سبط علی کے گھر سے واپسی کے بعد دس بجے کے قریب فرقان کو فون کیا۔ فرقان ہاسپٹل میں تھا اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی۔
"ہاں ، کیوں نہیں۔ کوئی خاص کام ہے؟"
"میں آمنہ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔"
فرقان کچھ دیر بول نہیں سکا۔ سالار کا لہجہ بہت ہموار تھا۔ وہاں کسی تلخی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
"کیسی باتیں؟"
"کوئی تشویش ناک بات نہیں ہے۔" سالار نے جیسے اسے تسلی دی۔
"پھر بھی۔" فرقان نے اصرار کیا۔
"تم پھر امامہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟"
"تم پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ چلو گے؟"
سالارنے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے پوچھا۔
"ہاں، چلوں گا۔"
"تو پھر میں تمہیں کل ہی بتاؤں گا کہ مجھے اس سے کیا بات کرنی ہے۔"
اس سے پہلے کہ فرقان کچھ کہتا، فون بند ہو گیا
قسط نمبر 44
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم اس سے امامہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟" فرقان نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سالار سے پوچھا۔
"نہیں، صرف امامہ کے بارے میں نہیں اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو میں کرنا چاہتا ہوں۔"
"فارگاڈ سیک سالار! گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش مت کرو۔" فرقان نے ناراضی سے کہا۔
"اس کو میری ترجیحات اور مقاصد کا پتا ہونا چاہئیے۔ اب اسے ساری زندگی گزارنی ہے میرے ساتھ۔"
سالارنے اس کی ناراضی کی پرواہ کئے بغیر کہا۔
"پتا چل جائے گا اسے، سمجھ دار لڑکی ہے وہ اور اگر کچھ بتانا ہی ہے تو گھر لا کر بتانا۔ وہاں پینڈورا باکس کھول کر مت بیٹھنا۔"
"گھر لا کر بتانے کا کیا فائدہ، جب اس کے پاس واپسی کا کوئی راستہ ہی نہ ہو۔ میں چاہتا ہوں وہ میری باتوں کو سنے، سمجھے، سوچے اور پھر کوئی فیصلہ کرے۔"
"اب کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی وہ۔ تمہارا اور اس کا نکاح ہو چکا ہے۔"
"رخصتی تو نہیں ہوئی۔"
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔"
"کیوں نہیں پڑتا۔ اگر اس کو میری بات پر اعتراض ہوا تو وہ اس رشتے کے بارے میں نظر ثانی کر سکتی ہے۔" سالار نے سنجیدگی سے کہا۔
فرقان نے چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
"اور اس نظر ثانی کے لئے تم کس طرح کے حقائق اور دلائل پیش کرنے والے ہو اس کے سامنے؟"
"میں اسے صرف چند باتیں بتانا چاہتا ہوں جس کا جاننا اس لئے ضروری ہے۔" سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"وہ ڈاکٹر سبط علی کی رشتہ دار ہیں، میں اس حوالے سے اس کی بہت عزت کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے نہیں کہا ہوتا تو یہ رشتہ قائم بھی نہ ہوتا لیکن میں۔۔۔۔۔"
فرقان نے اس کی بات کاٹ دی۔
"ٹھیک ہے، تم کو اس سے جو کہنا ہے ، کہہ لینا لیکن امامہ کے ذکر کو ذرا کم ہی رکھنا کیونکہ وہ اگر کسی بات سے ہرٹ ہوئی تو وہ یہی بات ہو گی، باقی چیزوں کی پرواہ وہ شاید نہ کرے۔ آفٹر آل۔ دوسری بیوی ہونا یا کہلانا آسان نہیں ہوتا۔"
فرقان نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"اور میں چاہتا ہوں وہ یہ بات محسوس کرے،سوچے اس کے بارے میں۔۔۔۔۔ ابھی تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ تم کہتے ہو وہ خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے، اچھی فیملی سے تعلق ہے اس کا۔۔۔۔۔"
فرقان نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
"ختم کرو اس موضوع کو سالار! تم کو اس سے جو کچھ کہنا ہے، اسے جو سمجھانا ہے جا کہ کہہ لینا۔۔۔۔۔"
"میں اس سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔" سالار نے کہا۔
"میں سعیدہ اماں سے کہہ دوں گا۔ وہ تمہیں اکیلے میں اس سے بات کرا دیں گی۔"
فرقان نے اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ آدھ گھنٹہ میں سعیدہ اماں کے ہاں پہنچ گئے۔ دروازہ سعیدہ اماں نے ہی کھولا تھا اور سالار اور فرقان کو دیکھ کر وہ جیسے خوشی سے بے حال ہو گئی تھیں۔ وہ ان دونوں کو اسی بیٹھک نماکمرے میں لے گئیں۔
"سعیدہ اماں! سالار، آمنہ سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔"
فرقان نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ سعیدہ اماں کچھ الجھیں۔
"کیسی باتیں؟" وہ اب سالار کی طرف دیکھ رہی تھیں جو خود بھی بیٹھنے کے بجائے فرقان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔
"ہیں چند باتیں، جو وہ اس سے کرنا چاہتا ہے مگر پریشانی والی کوئی بات نہیں۔" فرقان نے انہیں تسلی دی۔
سعیدہ اماں ایک بار پھر سالار کو دیکھنے لگیں۔ اس نے نظریں چرا لیں۔
"اچھا۔۔۔۔۔ پھر تم میرے ساتھ آ جاؤ بیٹا! آمنہ اندر ہے۔ ادھر آ کر اس سے مل لو۔"
سعیدہ اماں کہتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئیں۔ سالار نے ایک نظر فرقان کو دیکھا پھر وہ خود بھی سعیدہ اماں کے پیچھے چلا گیا۔
بیٹھک بیرونی دروازے کے بائیں جانب تھی۔ دائیں جانب اوپر جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ بیرونی دروازے سے کچھ آ گے بالکل سامنے کچھ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد لکڑی کا ایک اور پرانی طرز کا بہت بڑا دروازہ تھا جو اس وقت کھلا ہوا تھا اور وہاں سرخ اینٹوں کا بڑا وسیع صحن نظر آ رہا تھا۔
سعیدہ اماں کا رخ انہی سیڑھیوں کی طرف تھا۔ سالار ان سے کچھ فاصلے پر تھا۔ سعیدہ اماں اب سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ وہ جب سیڑھیاں چڑھ کر صحن میں داخل ہو گئیں تو سالار بھی کچھ جھجکتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
وسیع سرخ اینٹوں کے صحن کےدونوں اطراف دیواروں کے ساتھ کیاریاں بنائی گئی تھیں جن میں لگے ہوئے سبز پودے اور بیلیں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی دیواروں کے بیک گراونڈ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ صحن کے ایک حصے میں دھوپ تھی اور دن کے اس حصے میں بھی وہ دھوپ بے حد تیز تھی۔ دھوپ نے سرخ رنگ کو کچھ اور نمایاں کر دیاتھا۔
آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر سالار نے صحن میں قدم رکھ دیا اور وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ صحن کے دھوپ والے حصے میں رکھی چارپائی کے سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ وہ شاید ابھی چارپائی سے اتری تھی۔ اس کی پشت سالار کی طرف تھی۔ وہ سفید کرتے اور سیاہ شلوار میں ملبوس تھی اور نہا کر نکلی تھی۔ اس کی کمر سے کچھ اوپر اس کے سیاہ گیلے بال لٹوں کی صورت میں اس کی پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کا سفید دوپٹہ چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ وہ اپنے کرتے کی آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کرتے ہوئے سالار کی طرف مڑی۔
سالار سانس نہیں لے سکا۔ اس نے زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی یا پھر اسے اس لڑکی سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں لگا تھا۔ وہ یقیناً آمنہ تھی۔ اس کے گھر میں آمنہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ کسی نے اس کے دل کو مٹھی میں لیا تھا۔ دھڑکن رکی تھی یا رواں وہ جان نہیں سکا۔
اس کے اور آمنہ کے درمیان بہت فاصلہ تھا آستین موڑتے ہوئے آمنہ کی پہلی نظر سعیدہ اماں پر پڑی۔
"سالار بیٹا آیا ہے۔"
سعیدہ اماں بہت آگے بڑھ آئی تھیں۔ آمنہ نے گردن کو ترچھا کرتے ہوئے صحن کے دروازے کی طرف دیکھا۔ سالار نے اسے بھی ٹھٹکتے دیکھا، پھر وہ مڑی۔ اس کی پشت ایک بار پھر سالار کی طرف تھی۔ سالار نے اسے جھکتے اور چار پائی سے دوپٹہ اٹھاتے دیکھا۔ دوپٹے کو سینے پر پھیلاتے ہوئے اس نے اس کے ایک پلو کے ساتھ اپنے سر اور پشت کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔
سالار اب اس کی پشت پر بکھرے بال نہیں دیکھ سکتا تھا مگر اسے آمنہ کے اطمینان نے حیران کیا تھا، وہاں کوئی گھبراہٹ، کوئی جلدی ، کوئی حیرانی نہیں تھی۔
سعیدہ اماں نے مڑ کر سالار کو دیکھا پھر اسے دروازے میں ہی کھڑے دیکھ کر انہوں نے کہا۔
"ارے بیٹا! وہاں کیوں کھڑے ہو، اندر آؤ۔ تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔"
آمنہ نے دوپٹہ اوڑھنے کے بعد مڑ کر اسے ایک بار پھر دیکھا تھا۔ وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر، دم بخود، بے حس و حرکت۔
آمنہ کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ وہ اب آگے گیا تھا۔
"یہ آ منہ ہے، میری بیٹی۔" سعیدہ اماں نے اس کے قریب آنے پر تعارف کرایا۔
"السلام علیکم!" سالار نے آمنہ کو کہتے سنا۔ وہ کچھ بول نہیں سکا۔ وہ اس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ اسے دیکھنا مشکل ہو گیا تھا۔
وہ نروس ہو رہا تھا۔ آمنہ نے اس کی گھبراہٹ کو محسوس کر لیا تھا۔
"سالار! تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔"
سعیدہ اماں نے آمنہ کو بتایا۔
آمنہ نے ایک بار پھر سالار کو دیکھا۔ دونوں کی نظریں میل ، دونوں نے بیک وقت نظریں چرائیں۔
آمنہ نے سعیدہ اماں کو دیکھا اور سالار نے آمنہ کی کلائیوں تک مہندی کے نقش و نگار سے بھرے ہاتھوں کو۔
یک دم اسے لگا کہ وہ اس لڑکی سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
"سالار بیٹا! اندر کمرے میں چلتے ہیں۔ وہاں تم اطمینان سے آمنہ سے بات کر لینا۔
سعیدہ اماں نے اس بار سالار کو مخاطب کیا۔
سعیدہ اماں کہتے ہوئے اندر برآمدے کی طرف بڑھیں۔ سالار نے آمنہ کو سر جھکائے ان کی پیروی کرتے دیکھا۔ وہ وہیں کھڑا اسے اندر جاتا دیکھتا رہا۔ سعیدہ اماں کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیں۔ آمنہ نے دروازے کے پاس پہنچ کر مڑتے مڑتے اسے دیکھا۔ سالار نے برق رفتاری سے نظریں جھکا لیں۔ آمنہ نے مڑ کر اسے دیکھا پھر شاید وہ حیران ہوئی۔ سالار اندر کیوں نہیں آ رہا تھا۔ سالار نے اس کی طرف دیکھے بغیر سر جھکائے قدم آگے بڑھا دئیے۔ آمنہ کچھ مطمئن ہو کر مڑ کر کمرے میں داخل ہو گئی۔
سالار جب کمرے میں داخل ہوا تو سعیدہ اماں پہلے ہی ایک کرسی پر بیٹھ چکی تھیں۔ آمنہ لائٹ آن کر رہی تھی۔ سالار کو دھوپ سے اندر آ کر خنکی کا احساس ہوا۔
"بیٹھو بیٹا!" سعیدہ اماں نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا۔ سالار کرسی پر بیٹھ گیا۔ آمنہ لائٹ آن کرنے کے بعد اس سے کچھ فاصلے پر ان کے بالمقابل ایک کاؤچ پر بیٹھ گئی۔
سالار منتظر تھا کہ سعیدہ اماں چند لمحوں میں وہاں سے اٹھ کر چلی جائیں گی۔ فرقان نے واضح طور پر انہیں بتایا تھا کہ وہ اس سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا، مگر چند لمحوں کے بعد سالار کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا یہ انتظار بے کار تھا۔وہ شاید یہ بھول گئی تھیں کہ سالار تنہائی میں آمنہ سے ملنا چاہتا تھا یا پھر ان کا یہ خیال تھا کہ وہ تنہائی صرف فرقان کی عدم موجودگی کے لئے تھی۔ سالار نے انہیں اس میں شامل نہیں کیا ہو گا یا پھر وہ ابھی سالار کو اتنا قابل اعتبار نہیں سمجھتیں کہ اپنی بیٹی کے ساتھ اسے اکیلا چھوڑ دیتیں۔
سالار کو آخری اندازہ صحیح لگا۔ وہ اس سے جو کچھ اور جتنا کچھ کہنا چاہتا تھا، سعیدہ اماں کے سامنے نہیں کہنا چاہتا تھا، وہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنے ذہن کو کھنگالنے کی کوشش کی۔ اسے کچھ تو کہنا ہی تھا، وہ کچھ نہیں ڈھونڈ سکا۔ اس کا ذہن خالی تھا۔
نیم تاریک خنک کمرے میں بالکل خاموشی تھی۔ وہ اب دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
آمنہ نے کمرے میں کوئی فینسی لائٹ روشن کی تھی۔ اونچی دیواروں والا فرنیچر سے بھرا ہوا وہ وسیع و عریض کمرہ شاید سیٹنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس میں بہت زیادہ دروازے تھے اور تمام دروازے بند تھے۔ کمرے میں موجود واحد کھڑکی برآمدے میں کھلتی تھی اور اس کے آگے پردے تھے۔ فرش کو بھاری بھر کم میرون نقش و نگار کے قالین سے ڈھکا گیا تھا اور فینسی لائٹ کمرے کو پوری طرح روشن کرنے میں ناکام ہو رہی تھی۔
کم از کم کمرے میں سالار کو تاریکی ہی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید یہ اس کے احساسات تھے یا پھر۔
مجھے اپنے optician سے آج ضرور ملنا چاہئیے۔ قریب کے ساتھ ساتھ شاید میری دور کی نظر بھی کمزور ہو گئی ہے۔
سالار نے مایوسی سے سوچا۔ سینٹر ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی آمنہ کو وہ دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر نظر قالین پر جما دی پھر اس نے یک دم آمنہ کو اٹھتے دیکھا۔ وہ دیوار کے پاس جا کر کچھ اور لائٹس آن کر رہی تھی۔ کمرہ ٹیوب لائٹ کی روشنی میں جگمگا اٹھا۔ فینسی لائٹ بند ہو گئی۔ سالار حیران ہوا۔ آمنہ نے پہلے ٹیوب لائٹ آن کیوں نہیں کی تھی، پھر اچانک اسے احساس ہوا وہ بھی نروس تھی۔
آمنہ دوبارہ پھر اس کے سامنے کاؤچ پر آ کر نہیں بیٹھی۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر سعیدہ اماں کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس بار اسے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسی طرح قالین کو گھورتا رہا۔ سعیدہ اماں کا صبر بالآخر جواب دے گیا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے کھنکھار کر سالار کو متوجہ کیا۔
"کرو بیٹا! وہ باتیں ، جو تم نے آمنہ سے تنہائی میں کرنی تھیں۔"
انہوں نے سالار کو بڑے پیار سے یاد دلایا۔
"اتنی دیر سے چپ بیٹھے ہو، میرا تو دل ہول رہا ہے۔"
سالار نے ایک گہرا سانس لیا، پھر سعیدہ اماں اور آمنہ کو باری باری دیکھا۔
"کچھ نہیں، میں بس انہیں دیکھنا چاہتا تھا۔"
اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان ہموار رکھتے ہوئے کہا۔ سعیدہ اماں کے چہرے پر بشاشت آ گئی۔
"تو اتنی سی بات تھی اور فرقان نے مجھے ڈرا ہی دیا۔ ہاں ہاں ضرور دیکھو، کیوں نہیں۔ بیوی ہے تمہاری۔" وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
"آپ ان سے کہہ دیں کہ سامان پیک کر لیں، میں باہر انتظار کرتا ہوں۔"
وہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا سعیدہ اماں سے بولا۔ آمنہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ سعیدہ اماں بھی حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"مگر بیٹا! تم تو صرف کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے اس سے، پھر رخصتی۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے میں چاہتی تھی باقاعدہ رخصت کروں اور۔۔۔۔۔"
سالار نے نرمی سے سعیدہ اماں کی بات کاٹی۔
"آپ یہ سمجھ لیں کہ میں باقاعدہ رخصت کروانے کے لئے ہی آیا ہوں۔"
سعیدہ اماں کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہیں پھر بولیں۔
"ٹھیک ہے بیٹا! تم اگر ایسا چاہتے ہو تو ایسا ہی سہی مگر افطار کے لئے رکو۔ چند گھنٹے ہی باقی ہیں ، کھانا تو کھا کر جاؤ۔"
"نہیں ، مجھے اور فرقان کو کچھ کام ہے۔ میں اسے صرف ایک گھنٹے کے لئے لے کر آیا تھا۔ زیادہ دیر رکنا ممکن نہیں ہے میرے لئے۔" وہ کھڑے کھڑے کہہ رہا تھا۔
"لیکن اماں! مجھے تو سامان پیک کرنے میں بہت دیر لگے گی۔"
آمنہ نے وہیں کرسی پر بیٹھے ہوئے پہلی بار ساری گفتگو میں حصہ لیا۔ سالار نے مڑ کر اسے دیکھے بغیر سعیدہ اماں سے کہا۔
“سعیدہ اماں! آپ ان سے کہیں یہ آرام سے پیکنگ کر لیں، میں باہر انتظار کروں گا۔ جتنی دیر یہ چاہیں۔"
وہ اب کمرے سے نکل گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرقان نے حیرانی سے سالار کو دیکھا۔ وہ بیٹھک میں داخل ہو رہا تھا۔
"تم اتنی جلدی واپس آ گئے، میں تو سوچ رہا تھا تم خاصی دیر کے بعد واپس آؤ گے۔"
سالار جواب میں کچھ کہنے کے بجائے بیٹھ گیا۔
فرقان نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
"خیریت ہے؟"
"ہاں۔"
"آمنہ سے ملاقات ہوئی؟"
"ہاں۔"
"پھر؟"
"پھر کیا؟"
"چلیں؟"
"نہیں۔"
"کیوں؟"
"میں آمنہ کو ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔"
"کیا؟" فرقان بھونچکا رہ گیا۔
"تم تو اس سے بات کرنے کے لئےآئے تھے۔"
سالار جواب دینے کے بجائے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"یہ یک دم رخصتی کا کیوں سوچ لیا؟"
"بس سوچ لیا۔"
اس بار فرقان نے اسے الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دو گھنٹے کے بعد آمنہ جب فرقان اور سالار کے ساتھ سالار کے فلیٹ پر پہنچی، تب افطار میں زیادہ وقت نہیں تھا۔ سالار نے افطاری کا سامان راستے سے لے لیا تھا۔ فرقان ان دونوں کو افطاری کے لئے اپنے فلیٹ پر لے جانا چاہتا تھا مگر سالار اس پر رضامند نہیں ہوا۔ فرقان نے اپنی بیوی کو بھی سالار کے فلیٹ پر بلوا لیا۔
افطاری کے لئے ٹیبل فرقان کی بیوی نے ہی تیار کیا تھا۔ آمنہ نے مدد کرنے کی کوشش کی تھی جسے فرقان اور اس کی بیوی نے رد کر دیا۔ سالار نے مداخلت نہیں کی تھی۔ وہ موبائل لے کر بالکونی میں چلا گیا۔ لاونج میں بیٹھے کھڑکیوں کے شیشوں کے پار آمنہ نے اسے بالکونی میں ٹہلتے موبائل پر کسی سے بات کرتے دیکھا۔ وہ بہت سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
اس نے سعیدہ اماں کے گھر سے اپنے فلیٹ تک ایک بار بھی اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ یہ صرف فرقان تھا جو وقتاً فوقتاً اسے مخاطب کرتا رہا تھا اور اب بھی یہی ہو رہا تھا۔
سالار نے وہ خاموشی افطار کی میز پر بھی نہیں توڑی۔ فرقان اور اس کی بیوی ہی آمنہ کو مختلف چیزیں سرو کرتے رہے۔ آمنہ نے اس کی خاموشی اور سرد مہری کو محسوس کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
افطار کے بعد وہ فرقان کے ساتھ مغرب کی نماز کے لئے نکل آیا تھا۔ فرقان کو مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد ہاسپٹل جانا تھا۔
مسجد سے نکل کر فرقان کے ساتھ کار پارکنگ کی طرف آتے ہوئے فرقان نے اس سے کہا۔
"تم بہت زیادہ خاموش ہو۔" سالار نے ایک نظرا سے دیکھا مگر کچھ کہے بغیر چلتا رہا۔
"کیا تمہیں کچھ کہنا نہیں ہے؟"
وہ مسلسل اس کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سالار نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔
مغرب کے وقت ہی دھند نمودار ہونے لگی تھی۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے فرقان کو دیکھا۔
"نہیں، مجھے کچھ نہیں کہنا۔"
چند لمحے ساتھ چلنے کے بعد فرقان نے اسے بڑبڑاتے سنا۔
"میں آج کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں ہوں۔"
فرقان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ ساتھ چلتے چلتے اس نے سالار کا کندھا تھپتھپایا۔
میں تمہارے احساسات سمجھ سکتا ہوں مگر زندگی میں یہ سب ہوتا رہتا ہے، تم امامہ کے لئے جو کچھ کر سکتے تھے تم نے کیا۔ جتنا انتظار کر سکتے تھے تم نے کیا۔ آٹھ نو سال کم نہیں ہوتے۔ اب تمہاری قسمت میں اگر یہی لڑکی ہے تو ہم یا تم کیا کر سکتے ہیں۔"
سالار نے بے تاثر نظروں سے اسے دیکھا۔
"اس گھر میں آنا امامہ کا مقدر نہیں تھا، آمنہ کا مقدر تھا۔ سو وہ آ گئی۔ اس سے نکاح ہوئے سات دن ہوئے ہیں اور آٹھویں دن وہ یہاں ہے۔ امامہ کے ساتھ نکاح کو نو سال ہونے والے ہیں وہ ج تک تمہارے پاس نہیں آ سکی۔ کیا تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ امامہ تمہارے مقدر میں نہیں ہے۔"
وہ پوری دلجمعی سے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
"ہماری بہت ساری خواہشات ہوتی ہیں۔ بعض خواہشات اللہ پوری کر دیتا ہے ، بعض نہیں کرتا۔ ہو سکتا ہے امامہ کے نہ ملنے میں تمہاری لئے بہتری ہو۔ ہو سکتا ہے اللہ نے تمہیں آمنہ کے لئے ہی رکھا ہو۔ ہو سکتا ہے آج سے چند سال بعد تم اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکو۔"
وہ دونوں اب پارکنگ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ فرقان کی گاڑی شروع میں ہی کھڑی تھی۔
"میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی انسان نہیں دیکھا جس کی ہر خواہش پوری ہو، جس نے جو چاہا ہو پالیا ہو پھر شکوہ کس بات کا۔ آمنہ کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزارنے کی کوشش کرو۔"
وہ دونوں اب گاڑی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ فرقان نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا مگر بیٹھنے سے پہلے اس نے سالار کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے باری باری اس کے دونوں گالوں کو نرمی سے چوما۔
"تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تم نے ایک نیکی کی ہے اور اس نیکی کا اجر اگر تمہیں یہاں نہیں ملے گا تو اگلی دنیا میں مل جائے گا۔"
وہ اب سالار کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لئے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار سر کو ہلکا سا خم کرتے ہوئے تھوڑا سا مسکرایا۔
فرقان نے ایک گہرا سانس لیا۔ آج کے دن یہ پہلی مسکراہٹ تھی جو اس نے سالار کے چہرے پر دیکھی تھی۔ اس نے خود بھی مسکراتے ہوئے سالار کی پشت تھپتھپائی اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
سالار نے گاڑی کا دروازہ بند کردیا۔ فرقان اگنیشن میں چابی لگا رہا تھا۔ جب اس نے سالار کو کھڑکی کا شیشہ انگلی سے بجاتے دیکھا۔ فرقان نے شیشہ نیچے گرا دیا۔
"تم کہہ رہے تھے کہ تم نے آج تک کوئی ایسا انسان نہیں دیکھا، جس نے جس چیز کی بھی خواہش کی ہو اسے مل گئی ہو۔"
سالار کھڑکی پر جھکے پُرسکون آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ فرقان نے الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ بے حد پُرسکون اورمطمئن نظر آرہا تھا۔
"پھر تم مجھے دیکھو کیونکہ وہ انسان میں ہوں، جس نے آج تک جو بھی چاہا اسے وہ مل گیا۔"
فرقان کو لگا اس کا ذہن غم کی وجہ سے متاثر ہورہا تھا۔
"جسے تم میری نیکی کہہ رہے ہو وہ دراصل میرا "اجر" ہے جو مجھے زمین پر ہی دے دیا گیا ہے۔ مجھے آخرت کے انتظار میں نہیں رکھا گیا اور میرا مقدر آج بھی وہی ہے جو نو سال پہلے تھا۔"
وہ ٹھہر ٹھہر کر گہری آواز میں کہہ رہا تھا۔
"مجھے وہی عورت دی گئی ہے جس کی میں نے خواہش کی تھی، امامہ ہاشم اس وقت میرے گھر پہ ہے، خداحافظ۔"
فرقان دم بخود دور جاتے ہوئے اس کی پشت دیکھتا رہا۔ وہ کیا کہہ گیا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
"شاید میں ٹھیک سے اس کی بات نہیں سن پایا۔۔۔۔۔ یا پھر شاید اس کا دماغ خراب ہوگیاہے۔۔۔۔۔ یا پھر شاید اس نے صبر کرلیا ہے۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم۔۔۔۔۔؟" سالار اب بہت دور نظر آرہا تھا۔
قسط نمبر 45
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور پہنچنے کے بعد اس کے لئے اگلا مرحلہ کسی کی مدد حاصل کرنا تھا مگر کس کی؟ وہ ہاسٹل نہیں جاسکتی تھی۔ وہ جویریہ اور باقی لوگوں سے رابطہ نہیں کرسکتی تھی کیونکہ اس کے گھر والے اس کی دوستوں سے واقف تھے اور چند گھنٹوں میں وہ اسے لاہور میں ڈھونڈنے والے تھے، بلکہ ہوسکتا ہے اب تک اس کی تلاش شروع ہوچکی ہو اور اس صورت حال میں ان لوگوں سے رابطہ کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس کے لئے صبیحہ کی صورت میں واحد آپشن رہ جاتا تھا، مگر وہ اس بات سے واقف نہیں تھی کہ وہ ابھی پشاور سے واپس آئی تھی یا نہیں۔
صبیحہ کے گھر پر ملازم کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ وہ لوگ ابھی پشااور میں ہی تھے۔
"واپس کب آئیں گے؟" اس نے ملازم سے پوچھا۔ وہ اسے جانتا تھا۔
"کیا آپ کے پاس وہاں کا فون نمبر ہے؟" اس نے قدرے مایوسی کے عالم میں پوچھا۔
"جی، وہاں کا فون نمبر میرے پاس ہے۔" ملازم نے اس سے کہا۔
"وہ آپ مجھے دے دیں۔ میں فون پر اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
اسے کچھ تسلی ہوئی۔ ملازم اسے اندر لے آیا۔ ڈرائنگ روم میں اسے بٹھا کر اس نے وہ نمبر لادیا۔ اس نے موبائل پر وہیں بیٹھے بیٹھے صبیحہ کو رنگ کیا۔ فون پشاور میں گھر کے کسی فرد نے اٹھایا تھا۔ اور اسے بتایا کہ صبیحہ باہر گئی ہوئی ہے۔
امامہ نے فون بند کردیا۔
"صبیحہ سے میری بات نہیں ہوسکی۔ میں کچھ دیر بعد اسے دوبارہ فون کروں گی۔" اس نے پاس کھڑے ملازم سے کہا۔
"تب تک میں یہیں بیٹھوں گی۔"
ملازم سر ہلاتے ہوئے چلا گیا۔ اس نے ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ صبیحہ کو فون کیا۔ وہ اس کی کال پر حیران تھی۔
اس نے مختصر طور پر اپنا گھر چھوڑ آنے کے بارے میں بتایا۔ اس نے اسے سالار سے اپنے نکاح کے بارے میں نہیں بتایا کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی صبیحہ اس سارے معاملے کو کس طرح دیکھے گی۔
"امامہ! تمہارے لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ تم اس معاملے میں کورٹ سے رابطہ کرو۔ تبدیلی مذہب کے حوالے سے پروٹیکشن مانگو۔" صبیحہ نے اس کی ساری گفتگو سننے کے بعد کہا
"میں یہ کرنا نہیں چاہتی۔"
"کیوں؟"
"صبیحہ! میں پہلے ہی اس مسئلے کے بارے میں بہت سوچ چکی ہوں۔ تم میرے بابا کی پوزیشن اور اثرورسوخ سے واقف ہو۔ پریس تو طوفان اٹھا دے گا۔ میری فیملی کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں یہ تو نہیں چاہتی کہ میرے گھر پر پتھراؤ ہو، میری وجہ سے میرے گھر والوں کی زندگی کو خطرہ ہو اور آج تک جتنی لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے کورٹ پروٹیکشن لینے کی کوشش کی ہے ان کے ساتھ کیا ہواہے۔ کورٹ دارالامان بھجوا دیتی ہے۔ وہ جیل بھجوانے کے مترادف ہے۔ کیس کا فیصلہ کتنی دیر تک ہو، کچھ پتا نہیں۔
گھر والے ایک کے بعد ایک کیس فائل کرتے رہتے ہیں۔ کتنے سال اس طرح گزر جائیں گے، کچھ پتا نہیں ہوتا اگر کسی کو کورٹ آزاد رہنے کی اجازت دے بھی دے تو وہ لوگ اتنے مسئلے کھڑے کرتے رہتے ہیں کہ بہت ساری لڑکیاں واپس گھر والوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ میں نہ تو دارالامان میں اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہی نہ ہی لوگوں کی نظروں میں آنا چاہتی ہوں۔ میں نے خاموشی کے ساتھ گھر چھوڑا ہے اور میں اسی خاموشی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔"
"میں تمہاری بات سمجھ سکتی ہوں امامہ! لیکن مسائل تو تمہارے لئے ابھی بھی کھڑے کئے جائیں گے۔ وہ تمہیں تلاش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے اور ان لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہوں گے جو تمہیں پناہ دیں گے اور وہ جب تمہیں ڈھونڈنا شروع کریں گے تو مجھ تک پہنچنا تو ان کے لئے بہت آسان ہوگا۔ تمہاری مدد کرکے ہمیں بہت خوشی ہوگی مگر میرے ابو یہی چاہیں گے کہ مدد چھپ کر کرنے کی بجائے کھل کر کی جائے اور کورٹ اس معاملے میں یقیناً تمہارے حق میں اپنا فیصلہ دے گا۔ تم ابھی میرے گھر پر ہی رہو۔ میں اس بارے میں ملازم کو کہہ دیتی ہوں اور آج میں ابو سے بات کرتی ہوں ہم کوشش کریں گے، کل لاہور واپس آجائیں۔"
امامہ نے ملازم کو بلا کر فون اس کے حوالے کردیا۔ صبیحہ نے ملازم کو کچھ ہدایت دیں اور پھر رابطہ منقطع کردیا۔
"میں صبیحہ بی بی کا کمرہ کھول رہا ہوں، آپ وہاں چلی جائیں۔" ملازم نے اس سے کہا۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں چلی آئی مگر اس کی تشویش اور پریشانی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ صبیحہ کے نقطہ نظر کو سمجھ سکتی تھی۔ وہ یقیناً یہ نہیں چاہتی تھی کہ خود صبیحہ اور اس کی فیملی پر کوئی مصیبت آئے۔ اس معاملے میں صبیحہ کے اندیشے درست تھے۔ اگر ہاشم مبین کو یہ پتا چل جاتا کہ اسے صبیحہ کی فیملی نے پناہ دی تھی تو وہ ان کے جانی دشمن بن جاتے۔ شاید اس لئے صبیحہ نے اس سے قانون کی مدد لینے کے لئے کہا تھا مگر یہ راستہ اس کے لئے زیادہ دشوار تھا۔
جماعت کے اتنے بڑے لیڈر کی بیٹی کا اس طرح مذہب چھوڑ دینا پوری جماعت کے منہ پر طمانچے کے مترادف تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس سے پورے ملک میں جماعت اور خود ان کے خاندان کو کتنی زک پہنچے گی اور وہ اس بے عزتی سے بچنے کے لئے کس حد تک جاسکتے تھے، امامہ جانتی نہیں تھی مگر اندازہ کرسکتی تھی۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں داخل ہورہی تھی جب اس کے ذہن میں ایک جھماکے کے ساتھ سیدہ مریم سبط علی کا خیال آیا تھا۔ وہ صبیحہ کی دوست اور کلاس فیلو تھی۔ وہ اس سے کئی بار ملتی رہی تھی۔ ایک بار صبیحہ کے گھر پر ہی مریم کو اس کےقبول اسلام کا پتا چلا تھا۔ وہ شاید صبیحہ کی واحد دوست تھی جسے صبیحہ نے امامہ کے بارے میں بتا دیا تھا اور مریم بہت حیران نظر آئی تھی۔
"تمہیں اگر کبھی میری کسی مدد کی ضرورت ہوئی تو مجھے ضرور بتانا بلکہ بلا جھجک میرے پاس آجانا۔"
اس نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ امامہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ بعد میں بھی امامہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں وہ ہمیشہ اس سے اسی گرم جوشی کے ساتھ ملتی رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے اس کا کیوں خیال آیا تھا یا وہ کس حد تک اس کی مدد کرسکتی تھی مگر اس وقت اس نے اس سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے موبائل سے فون کرنا چاہا مگر موبائل کی بیٹری ختم ہوچکی تھی۔ اس نے اسے ری چارج کرنے کے لئے لگایا اور خود لاؤنج میں آکر اپنی ڈائری سے مریم کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔
فون ڈاکٹر سبط نے اٹھایا تھا۔
"میں مریم سے بات کرنا چاہتی ہوں، میں ان کی دوست ہوں۔"
اس نے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے پہلی بار مریم کو فون کیا تھا۔
"میں بات کرواتا ہوں۔" انہوں نے فون ہولڈ رکھنے کا کہا۔ کچھ سیکنڈز کے بعد امامہ نے دوسری طرف مریم کی آواز سنی۔
"ہیلو۔۔۔۔۔"
"ہیلو مریم! میں امامہ بات کررہی ہوں۔"
"امامہ۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم؟" مریم نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہاں، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔"
وہ اسے اپنے بارے میں بتاتی گئی۔ دوسری طرف مکمل خاموشی تھی جب اس نے بات ختم کی تو مریم نے کہا۔
"تم اس وقت کہاں ہو؟"
"میں صبیحہ کے گھر پر ہوں، مگر صبیحہ کے گھر پر کوئی نہیں ہے۔ صبیحہ پشاور میں ہے۔"
اس نے صبیحہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں اسے نہیں بتایا۔
"تم وہیں رہو۔ میں ڈرائیور کو بھجواتی ہوں۔ تم اپنا سامان لے کر اسکے ساتھ آجاؤ۔۔۔۔۔ میں اتنی دیر میں اپنی امی اور ابو سے بات کرتی ہوں۔"
اس نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔ یہ صرف اتفاق تھا کہ اس نے ڈاکٹر سبط کے گھر کی جانے والی کال سالار کے موبائل سے نہیں کی تھی ورنہ سکندر عثمان ڈاکٹر سبط علی کے گھر بھی پہنچ جاتے اور اگر امامہ کو یہ خیال آجاتا کہ وہ موبائل کے بل سے اسے ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ لاہور آکر ایک بار بھی موبائل استعمال نہ کرتی۔
یہ ایک اور اتفاق تھا کہ ڈاکٹر سبط علی نے اپنے آفس کی گاڑی اور ڈرائیور کو اسے لینے کے لئے بھجوایا تھا، ورنہ صبیحہ کا ملازم مریم کی گاڑی اور ڈرائیور کو پہچان لیتا کیونکہ مریم اکثر وہاں آیا کرتی تھی اور صبیحہ کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی یہ جان جاتے کہ وہ صبیحہ کے گھر سے کہاں گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آدھ گھنٹہ بعد ملازم نے ایک گاڑی کے آنے کی اطلاع دی۔ وہ اپنا بیگ اٹھانے لگی۔
"کیا آپ جارہی ہیں؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"مگر صبیحہ بی بی تو کہہ رہی تھیں کہ آپ یہاں رہیں گی۔"
"نہیں۔۔۔۔۔ میں جارہی ہوں۔۔۔۔۔ اگر صبیحہ کا فون آئے تو آپ اسے بتا دیں کہ میں چلی گئی ہوں۔" اس نے دانستہ طور پر اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ مریم کے گھر جارہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ پہلی بار مریم کے گھر گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہاں جاکر اسے ایک بار پھر مریم اور اس کے والدین کو اپنے بارے میں سب کچھ بتانا پڑے گا۔ وہ ذہنی طور پر خود کو سوالوں کے لئے تیار کررہی تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
"ہم لوگ تو ناشتہ کرچکے ہیں تم ناشتہ کرلو۔"
مریم نے پورچ میں اس کا استقبال کیا تھا اور اسے اندر لے جاتے ہوئے کہا۔ اندر لاؤنج میں ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی سے اس کا تعارف کروایا گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے۔ امامہ کے چہرے پر اتنی سراسیمگی اور پریشانی تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو اس پر ترس آیا۔
"میں کھانا لگواتی ہوں۔ مریم تم اسے اس کا کمرہ دکھا دو۔۔۔۔۔ تاکہ یہ کپڑے چینج کرلے۔" سبط علی کی بیوی نے مریم سے کہا۔
وہ جب کپڑے بدل کر آئی تو ناشتہ لگ چکا تھا۔ اس نے خاموشی سے ناشتہ کیا۔
"امامہ! اب آپ جاکر سوجائیں۔ میں آفس جارہا ہوں، شام کو واپسی پر ہم آپ کے مسئلے پر بات کریں گے۔"
ڈاکٹر سبط علی نے اسے ناشتہ ختم کرتے دیکھ کر کہا۔
"مریم! تم اسے کمرے میں لے جاؤ۔" وہ خود لاؤنج سے نکل گئے۔
وہ مریم کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی آئی۔
"امامہ! اب تم سوجاؤ۔۔۔۔۔ تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے کہ تم پچھلے کئی گھنٹوں سے نہیں سوئیں۔ عام طور پر تھکن اور پریشانی میں نیند نہیں آتی اور تم اس وقت اس کا شکار ہوگی۔ میں تمہیں کوئی ٹیبلٹ لاکر دیتی ہوں اگر نیند آگئی تو ٹھیک ورنہ ٹیبلٹ لے لینا۔"
وہ کمرے سے باہر نکل گئی، کچھ دیر بعد اس کی واپسی ہوئی پانی کا گلاس اور ٹیبلٹ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
"تم بالکل ریلیکس ہوکر سوجاؤ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ تم سمجھو کہ تم اپنے گھر میں ہو۔" وہ کمرے کی لائٹ آف کرتی ایک بار پھر کمرے سے باہر نکل گئی۔
صبح کے ساڑھے نوبج رہے تھے مگر ابھی تک باہر بہت دھند تھی اور کمرے کی کھڑکیوں پر پردے ہونے کی وجہ سے کمرے میں اندھیرا کچھ اور گہرا ہوگیا تھا۔ اس نے کسی معمول کی طرح ٹیبلٹ پانی کے ساتھ نگل لی۔ اس کے بغیر نیند آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ذہن میں اتنے بہت سے خیالات آرہے تھے کہ بیڈ پر لیٹ کر نیند کا انتظار کرنا مشکل ہوجاتا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے اپنے اعصاب پر ایک غنودگی طاری ہوتی محسوس کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جس وقت دوبارہ اٹھی اس وقت کمرہ مکمل طور پر تاریک ہوچکا تھا۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر دیوار کی طرف گئی اور اس نے لائٹ جلا دی۔ وال کلاک پر رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ وہ فوری طور پر اندازہ نہیں کرسکی کہ یہ اتنی لمبی نیند ٹیبلٹ کا اثر تھی یا پھر پچھلے کئی دنوں سے صحیح طور پر نہ سو سکنے کی۔
"جو کچھ بھی تھا وہ صبح سے بہت بہتر حالت میں تھی۔ اسے بے حد بھوک لگ رہی تھی، مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ گھر کے افراد اس وقت جاگ رہے ہوں گے یا نہیں۔ بہت آہستگی سے وہ دروازہ کھول کر لاؤنج میں نکل آئی۔ ڈاکٹر سبط علی لاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا اور اسے دیکھ کر مسکرائے۔
"اچھی نیند آئی؟" وہ بڑی بشاشت سے بولے۔
"جی۔۔۔۔۔!" اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"اب ایسا کریں کہ وہ سامنے کچن ہے، وہاں چلی جائیں۔ کھانا رکھا ہوا ہے۔ گرم کریں۔ وہاں ٹیبل پر ہی کھالیں اس کے بعد چائے کے دو کپ بنائیں اور یہاں آجائیں۔"
وہ کچھ کہے بغیر کچن میں چلی گئی۔ فریج میں رکھا ہوا کھانا نکال کر اس نے گرم کیا اور کھانے کے بعد چائے لے کر لاؤنچ میں آگئی۔ چائے کا ایک کپ بنا کر اس نے ڈاکٹر سبط علی کو دیا۔
وہ کتاب میز پر رکھ چکے تھے۔ دوسرا کپ لے کر وہ ان کے بالمقابل دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ اندازہ کرچکی تھی کہ وہ اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے۔
"چائے بہت اچھی ہے۔"
انہوں نے ایک سپ لے کر مسکراتے ہوئے کہا وہ اتنی نروس تھی کہ ان کی تعریف پر مسکرا سکی نہ شکریہ ادا کرسکی۔ وہ صرف انہیں دیکھتی رہی۔
"امامہ! آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے صحیح ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی مگر فیصلہ بہت بڑا ہے اور اتنے بڑے فیصلے کرنے کے لئے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس کم عمری میں، مگر بعض دفعہ فیصلے کرنے کے لئے اتنی جرات کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ان پر قائم رہنے کے لئے ہوتی ہے۔ آپ کو کچھ عرصہ بعد اس کا اندازہ ہوگا۔"
وہ بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
"میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا مذہب کی تبدیلی کا فیصلہ صرف مذہب کے لئے ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہے۔"
وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔
"میرا خیال ہے مجھے زیادہ واضح طور پر یہ سوال پوچھنا چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کسی لڑکے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس کے کہنے پر یا اس کے لئے آپ نے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہو یا مذہب بدلنے کا۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ مت سوچنا کہ اگر ایسی کوئی وجہ ہوگی تو میں آپ کو برا سمجھوں گا یا آپ کی مدد نہیں کروں گا۔ میں یہ صرف اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو پھر مجھے اس لڑکے اور اس کے گھر والوں سے بھی ملنا ہوگا۔"
ڈاکٹر سبط اب سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس وقت امامہ کو پہلی بار مریم سے اتنی دیر سے رابطہ کرنے پر پچھتاوا ہوا اگر سالار کی بجائے ڈاکٹر سبط، جلال سے یا اس کے گھر والوں سے بات کرتے تو شاید۔۔۔۔۔" اس نے بوجھل دل سے نفی میں سر ہلادیا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔"
"کیا آپ کو واقعی یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے؟" انہوں نے ایک بار پھر پرسکون انداز میں اس سے کہا۔
"جی۔۔۔۔ میں نے اسلام کسی لڑکے کے لئے قبول نہیں کیا۔" وہ اس بار جھوٹ نہیں بول رہی تھی، اس نے اسلام واقعی جلال انصر کے لئے قبول نہیں کیا تھا۔
"پھر آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آپ کو کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔"
"مجھے اندازہ ہے۔"
"آپ کے والد ہاشم مبین صاحب سے میں واقف ہوں۔ جماعت کے بہت سرگرم اور بارسوخ لیڈر ہیں اور آپ کا ان کے مذہب سے تائب ہوکر اس طرح گھر سے چلے آنا ان کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ آپ کو ڈھونڈنے اور واپس لے جانے کے لئے وہ زمین آسمان ایک کردیں گے۔"
"مگر میں کسی بھی قیمت پر واپس نہیں جاؤں گی۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔"
"گھر آپ نے چھوڑ دیا ہے۔ اب آپ آگے کیا کریں گی؟" امامہ کو اندیشہ ہوا کہ وہ اسے کورٹ میں جانے کا مشورہ دیں گے۔
"میں کورٹ میں نہیں جاؤں گی۔ میں کسی کے بھی سامنے آنا نہیں چاہتی۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ سامنے آکر میرے لئے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوجائیں گے۔"
"پھر آپ کیا کرنا چاہتی ہیں؟" انہوں نے بغور اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"سامنے نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ میڈیکل کالج میں اپنی اسٹڈیز جاری نہیں رکھ سکیں گی۔"
"میں جانتی ہوں۔" اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
"میں ویسے بھی خود تو میڈیکل کی تعلیم افورڈ کر بھی نہیں سکتی۔"
"اور اگر کسی دوسرے میڈیکل کالج میں کسی دوسرے شہرے یا صوبے میں آپ کی مائیگریشن کروا دی جائے تو؟"
"نہیں، وہ مجھے ڈھونڈ لیں گے۔ ان کے ذہن میں بھی سب سے پہلے یہی آئے گا کہ میں مائیگریشن کروانے کی کوشش کروں گی اور اتنے تھوڑے سے میڈیکل کالجز میں مجھے ڈھونڈنا بہت آسان کام ہے۔"
"پھر۔۔۔۔۔؟"
"میں بی ایس سی میں کسی کالج میں ایڈمیشن لینا چاہتی ہوں مگر کسی دوسرے شہر میں۔۔۔۔۔ لاہور میں وہ ایک ایک کا لج چھان ماریں گے اور میں اپنا نام بھی بدلوانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ اگر آپ ان دونوں کاموں میں میری مدد کرسکیں تو میں بہت احسان مند رہوں گی۔"
ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔
"امامہ! ابھی کچھ عرصہ آپ کو یہیں رہنا چاہیے، پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ آپ کے گھر والے آپ کی تلاش میں کیا کیا طریقے اختیار کرتے ہیں۔ چند ہفتے انتظار کرتے ہیں پھر دیکھتے ہیں آگے کیا کرنا ہے۔ آپ اس گھر میں بالکل محفوظ ہیں۔۔۔۔۔ آپ کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کورٹ میں نہیں جانا چاہتیں؟ میں آپ کو اس کے لئے مجبور بھی نہیں کروں گا اور آپ کو یہ ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی یہاں تک آجائے گا یا آپ کو زبردستی یہاں سے لے جائے گا۔ آپ کے ساتھ کوئی بھی کسی بھی طرح کی زبردستی نہیں کرسکتا۔"
انہوں نے اس رات اسے بہت سی تسلیاں دی تھیں۔ اسے ڈاکٹر سبط علی کی شکل دیکھ کر بے اختیار ہاشم مبین یاد آتے رہے۔ وہ بوجھل دل کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسرے دن ڈاکٹر سبط علی شام پانچ بجے کے قریب اپنے آفس سے آئے تھے۔
"صاحب آپ کو اپنی اسٹڈی میں بلا رہے ہیں۔"
وہ اس وقت مریم کے ساتھ کچن میں تھی جب ملازم نے آخر اسے پیغام دیا۔
"آؤ امامہ! بیٹھو۔" اسٹڈی کے دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہونے پر ڈاکٹر سبط علی نے اس سے کہا وہ اپنی ٹیبل کی ایک دراز سے کچھ پیپرز نکال رہے تھے وہ وہاں رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
"آج میں نے کچھ معلومات کروائی ہیں آپ کے بارے میں کہ آپ کے گھر والے آپ کی تلاش میں کہاں تک پہنچے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔"
انہوں نے دراز بند کرتے ہوئے کہا۔
"یہ سالار سکندر کون ہے؟"
ان کے اگلے سوال نے اس کے دل کی دھڑکن کو چند لمحوں کے لئے روک دیا تھا۔ وہ اب کرسی پر بیٹھے اسے بغور دیکھ رہے تھے۔ اس کے چہرے کی فق ہوتی ہوئی رنگت نے انہیں بتا دیا کہ وہ نام امامہ کے لئے اجنبی نہیں تھا۔
"سالار۔۔۔۔۔! ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔ والے۔۔۔۔۔ گھر۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ رہتا۔۔۔۔۔۔ ہے۔" اس نے اٹکتے ہوئے کہا۔
"اس نے میری بہت مدد کی ہے۔ گھر سے نکلنے میں۔۔۔۔۔ اسلام آباد سے لاہور مجھے وہی چھوڑ کر گیا تھا۔"
وہ دانستہ رک گئی۔
"کیا اس کے ساتھ نکاح کے بارے میں بھی بتانا چاہئے؟" وہ گومگو میں تھی۔
"آپ کے والد نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے، آپ کو اغوا کرنے کے الزام میں۔"
امامہ کے چہرے کی رنگت اور زرد ہوگئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ سالار سکندر اتنی جلدی پکڑا جائے گا اور اب اس کے گھر والے یقیناً جلال انصر تک بھی پہنچ جائیں گے اور وہ نکاح اور اس کے بعد کیا وہ یہاں آجائیں گے۔
"کیا وہ پکڑا گیا؟" بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ یہ ٹریس آؤٹ کرلیا گیا تھا کہ وہ اس رات کسی لڑکی کے ساتھ لاہور تک آیا تھا لیکن اس کا اصرار ہے کہ وہ آپ نہیں تھیں۔ کوئی دوسری لڑکی تھی۔ اس کی کوئی گرل فرینڈ۔۔۔۔۔ اور اس نے اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔"
ڈاکٹر سبط علی نے دانستہ طور پر یہ نہیں بتایا کہ وہ لڑکی کوئی طوائف تھی۔
"پولیس اسے گرفتار اس کے اپنے والد کی وجہ سے نہیں کرسکی۔ اس کے ثبوت دینے کے باوجود آپ کے گھر والوں کا یہی اصرار ہے کہ آپ کی گمشدگی میں وہی ملوث ہے۔ امامہ! کیسا لڑکا ہے یہ سالار سکندر؟"
ڈاکٹر سبط نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے اچانک پوچھا۔
"بہت برا۔" بے اختیار امامہ کے منہ سے نکلا۔ "بہت ہی برا۔"
"مگر آپ تو یہ کہہ رہی تھیں کہ اس نے آپ کی بہت مدد کی ہے۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔"
"ہاں، اس نے میری مدد کی ہے مگر وہ بہت برے کردار کا لڑکا ہے۔ میری مدد شاید اس نے اس لئے کی ہے کیونکہ میں نے ایک بار اسے فرسٹ ایڈ دی تھی۔ اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی تب۔۔۔۔۔ اور شاید اس لئے بھی اس نے میری مدد کی ہوگی کیونکہ میرا بھائی اس کا دوست ہے۔ ورنہ وہ بہت برا لڑکا ہے۔ وہ ذہنی مریض ہے۔ پتا نہیں عجیب باتیں کرتا ہے۔ عجیب حرکتیں کرتا ہے۔"
امامہ کے ذہن میں اس وقت اس کے ساتھ کئے گئے سفر کی یاد تازہ تھی جس میں وہ پورا راستہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی رہی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے سرہلایا۔
"پولیس آپ کی فرینڈز سے بھی پوچھ گچھ کررہی ہے اور صبیحہ کے گھر تک بھی پولیس گئی ہے۔ صبیحہ پشاور سے واپس آگئی ہے، مگر مریم نے صبیحہ کو یہ نہیں بتایا کہ آپ ہمارے یہاں ہیں۔ آپ اب صبیحہ سے رابطہ مت کریں۔ اسے فون بھی مت کریں کیونکہ ابھی وہ اس کے گھر کو انڈر آبزرویشن رکھیں گے اور فون کو بھی وہ خاص طور پر چیک کریں گے، بلکہ آپ اب کسی بھی دوست سے فون پر کانٹیکٹ مت کرنا نہ ہی یہاں سے باہر جانا۔"
انہوں نے اسے ہدایت دیں۔
"میرے پاس موبائل ہے۔ اس پر بھی کانٹیکٹ نہیں کرسکتی؟"
وہ چونکے۔
"آپ کا موبائل ہے؟"
"نہیں، اسی لڑکے سالار کا ہے۔"
وہ سالار تک پہنچ گئے تو موبائل تک بھی پہنچ جائیں گے۔" وہ بات کرتے کرتے رک گئے۔
"جو کال آپ نے ہمارے گھر کی تھی وہ اس موبائل سے کی تھی؟" اس بار ان کی آواز میں کچھ تشویش تھی۔
"نہیں، وہ میں نے صبیحہ کے گھر سے کی تھی۔"
"آپ اب اس موبائل پہ دوبارہ کوئی کال کرنا نہ کال ریسیور کرنا۔"
وہ کچھ مطمئن ہوگئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے کچھ دنوں میں اسے ڈاکٹر سبط سے اس کی تلاش کے سلسلے میں اور خبریں موصول ہوتی رہی تھیں۔ ان کے ذرائع معلومات جو بھی تھے مگر وہ بے حد باوثوق تھے۔ اسے ہر جگہ ڈھونڈا جارہا تھا۔ میڈیکل کالج، ہاسپٹل، کلاس فیلوز۔۔۔۔ ہاسٹل، روم میٹس اور فرینڈز۔۔۔۔ ہاشم مبین نے اسے ڈھونڈنے کے لئے نیوز پیپر کا سہارا نہیں لیا تھا۔ میڈیا کی مدد لینے کا نتیجہ ان کے لئے رسوا کن ثابت ہوتا۔
وہ جس حد تک اس کی گمشدگی کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرسکتے تھے کررہے تھے، مگر وہ پولیس کی مدد حاصل کئےہوئے تھے۔ ان کی جماعت بھی اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کررہی تھی۔
وہ لوگ صبیحہ تک پہنچ گئے تھے مگر وہ یہ جان نہیں پائے تھے کہ وہ لاہور آنے کے بعد اس کے گھر گئی تھی۔ شاید یہ صبیحہ کے ان دنوں پشاور میں ہونے کا نتیجہ تھا جن دنوں امامہ اپنے گھر سے چلی آئی تھی۔ ورنہ شاید صبیحہ اور اس کے گھر والوں کو بھی کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔
مریم نے صبیحہ کو امامہ کی اپنے ہاں موجودگی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس نے مکمل طور پر یوں ظاہر کیا تھا جیسے امامہ کی اس طرح کی گمشدگی باقی اسٹوڈنٹس کی طرح اس کے لئے بھی حیران کن بات تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چند ہفتے گزر جانے کے بعد جب امامہ کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی کے ہاں محفوط ہے اور کوئی بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تو اس نے سالار سکندر کو فون کیا۔ وہ اس سے نکاح کے پیپرز لینا چاہتی تھی اور تب پہلی بار یہ جان کر اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ سالار نے نہ تو طلاق کا حق اسے تفویض کیا تھا اور نہ ہی وہ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔
ڈآکٹر سبط علی کے گھر پہنچنے کے بعد اس نے پہلی بار موبائل کا استعمال کیا تھا اور وہ بھی کسی کو بتائے بغیر اور سالار سے فون پر بات کرنے کے بعد اسے اپنی حماقت کا شدت سے احساس ہوا۔۔۔۔۔ اسے سالار جیسے شخص پر کبھی بھی اس حد تک اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا اور اسے پیپرز کو دیکھنے میں کتنا وقت لگ سکتا تھا جو اس نے انہیں دیکھنے سے اجتناب کیا اور پھر آخر اس نے پیپرز کی ایک کاپی فوری طور پر اس سے کیوں نہیں لی۔ کم از کم اس وقت جب وہ اپنے گھر سے نکل آئی تھی۔
اسے اب اندازہ ہورہا تھا کہ وہ شخص اس کے لئے کتنی بڑی مصیبت بن گیا تھا اور آئندہ آنے والے دنوں میں۔۔۔۔۔ وہ اب ہر بات پر پچھتا رہی تھی۔ اگر اسے اندازہ ہوتا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی جیسے آدمی کے پاس پہنچ جائے گی تو وہ کبھی بھی نکاح کرنے کی حماقت نہ کرتی اور سالار جیسے آدمی کے ساتھ تو کبھی بھی نہیں۔
اور اگر اسے یقین ہو تاکہ ڈاکٹر سبط علی ہر حالت میں اس کی مدد کریں گے تو وہ کم از کم سالار کے بارے میں ان سے جھوٹ نہ بولتی پھر وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے، مگر اب جب وہ انہیں بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ یہ یقین دلا چکی تھی کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ کسی بھی طرح انوالو نہیں تھی تو اس نکاح کا انکشاف اور وہ بھی اس لڑکے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ جس کی برائیوں کے بارے میں وہ ڈاکٹر سبط علی سے بات کرچکی تھی اور جس کے بارے میں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ امامہ کے والدین نے اس کے خلاف اغوا کا کیس فائل کیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اگر اب ڈاکٹر سبط علی کو یہ حقائق بتانے کی کوشش کرے گی تو ان کا ردعمل کیا ہوگا اور وہ کم ازکم اس وقت وہ واحد ٹھکانہ کھونے کے لئے تیار نہیں تھی۔
اگلے کئی دن اس کی بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی۔ مستقبل یکدم بھوت بن گیا تھا اور سالار سکندر۔۔۔۔۔ اسے اس شخص سے اتنی نفرت محسوس ہورہی تھی کہ اگر وہ اس کے سامنے آجاتا تو وہ اسے شوٹ کردیتی۔ اسے عجیب عجیب خدشے اور اندیشے تنگ کرتے رہتے۔ پہلے اگر اسے صرف اپنے گھر والوں کا خوف تھا تو اب اس خوف کے ساتھ سالار کا خوف بھی شامل ہوگیا تھا اگر اس نے میری تلاش شروع کردی اور اس کے ساتھ ہی اس کی حالت غیر ہونے لگی۔
اس کا وزن یکدم کم ہونے لگا۔ وہ پہلے بھی خاموش رہتی تھی مگر اب اس کی خاموشی میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ شدید ذہنی دباؤ میں تھی اور یہ سب کچھ ڈاکٹر سبط علی اور ان کے گھر والوں سے پوشیدہ نہیں تھا ان سب نے اس سے باری باری ان اچانک آنے والی تبدیلیوں کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن وہ انہیں ٹالتی رہی۔
"تم پہلے بھی اداس اور پریشان لگی تھیں مگر اب ایک دو ہفتے سے بہت زیادہ پریشان لگتی ہو۔ کیا پریشانی ہے امامہ؟"
سب سے پہلے مریم نے اس سے اس بارے میں پوچھا۔
"نہیں، کوئی پریشانی نہیں۔ بس میں گھر کو مس کرتی ہوں۔"
امامہ نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
"نہیں، میں یہ نہیں مان سکتی۔ آخر اب اچانک اتنا کیوں مس کرنے لگی انہیں کہ کھانا پینا بھول گئی ہو۔ چہرہ زرد ہوگیا ہے۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑنے لگے ہیں اور وزن کم ہوتا جارہا ہے۔ کیا تم بیمار ہونا چاہتی ہو؟"
وہ مریم کی کہی ہوئی کسی بات کو رد نہیں کرسکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ظاہری حالت دیکھ کر کوئی بھی اس کی پریشانی کا اندازہ باآسانی لگاسکتا ہے اور شاید یہ اندازہ بھی یہ کہ پریشانی کسی نئے مسئلے کا نتیجہ تھی مگر وہ اس معاملے میں بے بس تھی۔ وہ سالار کے ساتھ ہونےو الے نکاح اور اس سے متعلقہ خدشات کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہی تھی۔
"مجھے اب اپنے گھر والے زیادہ یاد آنے لگے ہیں۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں وہ مجھے زیادہ یاد آرہے ہیں۔"
امامہ نے مدھم آواز میں اس سے کہا اور یہ جھوٹ نہیں تھا اسے واقعی اب اپنے گھر والے پہلے سے زیادہ یاد آنے لگے تھے۔
وہ کبھی بھی اتنا لمبا عرصہ ان سے الگ نہیں رہی تھی اور وہ بھی مکمل طور پر اس طرح کٹ کر۔ لاہورہاسٹل میں رہتے ہوئے بھی وہ مہینے میں ایک بار ضرور اسلام آباد جاتی اور ایک دوبار وسیم یا ہاشم مبین لاہور اس سے ملنے چلے آتے اور فون تو وہ اکثر ہی کرتی رہتی تھی مگر اب یکدم اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ سمندر میں موجود کسی ویران جزیرے پر آن بیٹھی ہو۔ جہاں دور دور تک کوئی تھا ہی نہیں اور وہ چہرے۔۔۔۔۔ جن سے اسے سب سے زیادہ محبت تھی وہ خوابوں اور خیالوں کے علاوہ نظر آہی نہیں سکتے تھے۔
پتا نہیں مریم اس کے جواب سے مطمئن ہوئی یا نہیں مگر اس نے موضوع بدل دیا تھا۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ اس طرح اس کا ذہن بٹ جائے گا۔
قسط نمبر 46
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سبط علی کی تین بیٹیاں تھیں، مریم ان کی تیسری بیٹی تھی۔ ان کی بڑی دونوں بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی۔ جب کہ مریم ابھی میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی تھی۔ ڈاکٹر سبط نے امامہ کو اپنی بڑی دونوں بیٹیوں سے بھی متعارف کروایا تھا۔ وہ دونوں بیرون شہر مقیم تھیں اور ان کا رابطہ زیادہ تر فون کے ذریعہ ہی ہوتا تھا مگر یہ اتفاق ہی تھا کہ امامہ کے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے دوران وہ دونوں باری باری کچھ دنوں کے وہاں آئیں۔
امامہ سے ان کا رویہ مریم سے مختلف نہیں تھا۔ ان کے رویے میں اس کے لئے محبت اور مانوسیت کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن امامہ کو انہیں دیکھ کر ہمیشہ اپنی بڑی بہنیں یاد آجاتیں اور پھر جیسے سب کچھ یاد آجاتا۔ اپنا گھر۔۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔۔ بڑے بھائی۔۔۔۔۔ وسیم۔۔۔۔۔ اور سعد۔۔۔۔۔ سعد سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ ان کی جماعت کے بااثر خاندان اپنے گھروں میں اولاد ہونے کے باوجود بے سہارا یتیم بچوں میں سے کسی ایک لڑکے کو گود میں لینے لگے تھے۔ یہ اپنی جماعت کے افراد کی مستقبل میں تعداد بڑھانے کے لئے کوششوں کا ایک ضروری حصہ تھی۔ ایسا بچہ ہمیشہ عام مسلمانوں کے بچوں میں سے ہی ہوتا اور ہمیشہ لڑکا ہوتا۔ سعد بھی اسی سلسلے میں بہت چھوٹی عمر میں اس کے گھر آیا تھا۔ وہ اس وقت اسکول کے آخری سالوں میں تھی اور اسے گھر میں ہونے والے اس عجیب اضافے نے کچھ حیران کیا تھا۔
"ہم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرنے کے لئے سعد کو گود لیا ہے، تاکہ ہم بھی دوسرے لوگوں پر احسانات کرسکیں اور نیکی کا یہ سلسلہ جاری رہے۔"
اس کی امی نے اس کےا ستفسار پر اسے بتایا۔
"تم سمجھو، وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے۔"
تب اسے اپنے بابا اور امی پر بہت فخر ہوا تھا۔ وہ کتنے عظیم لوگ تھے کہ ایک بے سہارا بچے کو اچھی زندگی دینے کے لئے گھر لے آئے تھے، اسے اپنا نام دے رہے تھے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کے ساتھ بانٹ رہے تھے۔ اس نے تب غور نہیں کیا تھا کہ ایسا ہی ایک بچہ اس کے تایا اعظم کے گھر پر بھی کیوں تھا۔ ایسا ہی ایک بچہ اس کے چھوٹے چچا کے گھر پر کیوں تھا؟ ایسے ہی بہت سے دوسرے بچے ان کے جاننے والے کچھ اور بااثر خاندانوں کے گھر پر کیوں تھے؟ اس کے لئے بس یہی کافی تھی کہ وہ ایک اچھا کام کررہے تھے۔ ان کے جماعت ایک "اچھے" کام کی ترویج کررہی تھی۔ یہ اس نے بہت بعد جانا تھا کہ اس "اچھے" کام کی حقیقت کیا تھی؟
سعد اس سے بہت مانوس تھا۔ اس کا زیادہ وقت امامہ کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ وہ شروع کے کئی سال امامہ کے کمرے میں اس کے بیڈ پر ہی سوتا رہا۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد میڈیکل کالج سے وہ جب بھی اسلام آباد آتی،وہ سعد کو حضرت محمد ﷺ کے بارے میں بتاتی رہتی۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ کسی چیز کو منطقی طریقے سے نہیں سمجھایا جاسکتا تھا مگر وہ اس سے صرف ایک بات کہتی رہی۔
"جیسے اللہ ایک ہوتا ہے اسی طرح ہمارے پیغمبر محمد ﷺ بھی ایک ہی ہیں۔ ان سا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔"
وہ اسے ساتھ یہ تاکید بھی کرتی رہتی کہ وہ ان دونوں کی آپس کی باتوں کے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتائے اور امامہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کی یہ کوشش بے کار تھی۔ سعد کو بھی بچپن ہی سے مذہبی اجتماعات میں لے جایا جانے لگا اور وہ اس اثر کو قبول کررہا تھا۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتی کہ وہ میڈیکل کی تعلیم کے بعد سعد کو لے کر اپنے گھر والوں سے الگ ہوجائے گی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ کس قدر مشکل کام تھا۔
اس نے گھر سے بھاگتے ہوئے بھی سعد کو اپنے ساتھ لے آنے کا سوچا تھا مگر یہ کام ناممکن تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسے لاتے ہوئے خود بھی پکڑی جائے۔ وہ اسے وہاں چھوڑ آئی تھی اور اب ڈاکٹر سبط کے ہاں پہنچ جانے کے بعد اسے اس کا بار بار خیال آتا اگر وہ کسی طرح اسے وہاں سے لے آتی تو وہ بھی اس دلدل سے نکل سکتا تھا مگر ان تمام سوچوں، تمام خیالوں نے اپنے گھر والوں کے لئے اس کی محبت کو کم نہیں کیا نہ اپنے گھر والوں کے لئے، نہ جلال انصر کے لئے۔
وہ ان کا خیال آنے پر رونا شروع ہوتی تو ساری رات روتی ہی رہتی۔ شروع کے دنوں میں وہ ایک الگ کمرے میں تھی اور مریم کو اس کا اندازہ نہیں تھا مگر ایک رات وہ اچانک اس کے کمرے میں اپنی کوئی کتاب لینے آئی۔ رات کے پچھلے پہر اسے قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ امامہ جاگ رہی ہوگی اور نہ صرف جاگ رہی تھی بلکہ رو رہی ہوگی۔
امامہ کمرے کی لائٹ آف کئے اپنے بیڈ پر کمبل اوڑھے رو رہی تھی جب اچانک دروازہ کھلا تو اس نے کمبل سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ وہ نہیں جانتی تھی مریم کو کیسے اس کے جاگنے کا اندازہ ہوا تھا۔
"امامہ! جاگ رہی ہو؟"
اس نے امامہ کو آواز دی۔ امامہ نے حرکت نہیں کی مگر پھر مریم اس کی طرف چلی آئی اور اس نے کمبل اس کے چہرے سے ہٹا دیا۔
"میرے اللہ۔۔۔۔۔ تم رو رہی ہو۔۔۔۔۔ اور اس وقت؟"
وہ اس کے پاس ہی تشویش کے عالم میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔ امامہ کی آنکھیں بری طرح سوجی ہوئی تھیں اور اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا، مگر اسے سب سے زیادہ ندامت پکڑے جانے کی تھی۔
"اس لئے تمہیں راتوں کو نیند نہیں آتی کیونکہ تم روتی رہتی ہو اور صبح یہ کہہ دیتی ہو کہ رات کو سونے میں دقت ہوئی اس لئے آنکھیں سوجی ہوئی ہیں۔ بس تم آج سے یہاں نہیں سوؤ گی۔ اٹھو میرے کمرے میں چلو۔"
اس نے کچھ برہمی کے عالم میں اسے کھینچ کراٹھایا۔ امامہ ایک لفظ نہیں بول سکی۔ وہ اس وقت بے حد شرمندہ تھی۔
مریم نے اس کے بعد اسے اپنے کمرے میں ہی سلانا شروع کردیا۔ راتوں کو دیر تک رونے کا وہ سلسلہ ختم ہوگیا مگر نیند پر اس کا اب بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔ اسے نیند بہت دیر سے آتی تھی۔
کئی بار مریم کی عدم موجودگی میں اس کی میڈیکل کی کتابیں دیکھتی اور اسکا دل بھر آتا۔ وہ جانتی تھی سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔
صبح مریم اور ڈاکٹر سبط کے گھر سے چلے جانے کے بعد وہ سارا دن آنٹی کے ساتھ گزار دیتی یا شاید وہ سارا دن اس کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہ اسے اکیلا نہ رہنے دینے کی کوشش میں مصروف رہتی تھیں مگر ان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ پتا نہیں کن کن سوچوں میں ڈوبی رہتی تھی۔
اس نے سالار کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ جانتی تھی اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس کی ذہنی پریشانی میں اضافے کے علاوہ اس رابطے سے اسے کچھ حاصل نہیں ہونے والا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسے ڈاکٹر سبط علی کے ہاں آئے تین ماہ ہوگئے تھے جب ایک دن انہوں نے رات کو اسے بلایا۔
"آپ کو اپنا گھر چھوڑے کچھ وقت بیت گیا ہے۔ آپ کے گھر والوں نے آپ کی تلاش ابھی تک ختم تو نہیں کی ہوگی مگر چند ماہ پہلے والی تندی و تیزی نہیں رہی ہوگی اب۔۔۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ اب آگے کیا کرنا چاہتی ہیں۔"
انہوں نے مختصر تمہید کے بعد کہا۔
"میں نے آپ کو بتایا تھا میں اسٹڈیز جاری رکھنا چاہتی ہوں۔"
وہ اس کی بات پر کچھ دیر خاموش رہے پھر انہوں نے کہا۔
"امامہ! آپ نے اپنی شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟" وہ ان سے اس سوال کی توقع نہیں کررہی تھی۔
"شادی۔۔۔۔۔؟ کیا مطلب۔۔۔۔۔؟" وہ بے اختیار ہکلائی۔
"آپ جن حالات سے گزر رہی ہیں ان میں آپ کے لئے سب سے بہترین راستہ شادی ہی ہے کسی اچھی فیملی میں شادی ہوجانے سے آپ اس عدم تحفظ کا شکار نہیں رہیں گی جس کا شکار آپ ابھی ہیں۔ میں چند اچھے لڑکوں اور فیملیز کو جانتا ہوں میں چاہتا ہوں ان میں سے کسی کے ساتھ آپ کی شادی کردی جائے۔"
وہ بالکل سفید چہرے کے ساتھ انہیں چپ چاپ دیکھتی رہی۔ وہ ان کے پاس آنے سے بہت پہلے اپنے لئے اسی حل کو متنخب کرچکی تھی اور اسی ایک حل کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ سالار سکندر سے نکاح کی حماقت کرچکی تھی۔
اس وقت اگر وہ سالار سکندر سے نکاح نہ کرچکی ہوتی تو وہ بلا حیل و حجت ڈاکٹر سبط علی کی بات ماننے پر تیار ہوجاتی۔ وہ جانتی تھی ان حالات میں کسی اچھی فیملی میں شادی اسے کتنی اور کن مصیبتوں سے بچا سکتی تھی۔ اس نے آج تک کبھی خودمختار زندگی نہیں گزاری تھی۔ وہ ہر چیز کے لئے اپنی فیملی کی محتاج رہی تھی اور وہ یہ تصور کرتے ہوئے بھی خوفزدہ رہتی تھی کہ آخر وہ کب اور کس طرح صرف اپنےبل بوتے پر زندگی گزار سکے گی۔
مگر سالار سے وہ نکاح اس کے گلے کی ایسی ہڈی بن گیا تھا جسے وہ نہ نگل سکتی تھی اور نہ اگل سکتی تھی۔
"نہیں میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔"
"کیوں؟" اس کے پاس اس سوال کا جواب موجود تھا، مگر حقیقت بتانے کے لئے حوصلہ نہیں تھا۔
ڈاکٹر سبط علی اس کے بارے میں کیا سوچتے یہ کہ وہ ایک جھوٹی لڑکی ہے جو اب تک انہیں دھوکا دیتے ہوئے ان کے پاس رہ رہی تھی۔ یا یہ کہ شاید۔۔۔۔۔ وہ سالار سے شادی کے لئے ہی اپنے گھر سے نکلی تھی اور باقی سب کچھ کے بارے میں جھوٹ بول رہی تھی۔
اور اگر انہوں نے حقیقت جان لینے پر اس کی مدد سے معذرت کرلی یا اسے گھر سے چلے جانے کا کہا تو۔۔۔۔۔؟ اور اگر انہوں نے اس کے والدین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔۔؟ وہ تین ماہ سے ڈآکٹر سبط علی کے پاس تھی۔ وہ کتنے اچھے تھے وہ بخوبی جانتی تھی لیکن وہ اس قدر خوفزدہ اور محتاط تھی کہ وہ کسی قسم کا رسک لینے پر تیار نہیں تھی۔
"میں پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنوں۔ کسی پر بھی۔۔۔۔۔ شادی کر لینے کی صورت میں اگر مجھے بعد میں کبھی کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو میں کیا کروں گی۔ اس وقت تو میرے لئے شاید تعلیم حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔"
اس نے ایک لمبی خاموشی کے بعد جیسے کسی فیصلہ پر پہنچتے ہوئے ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔
"امامہ! ہم ہمیشہ آپ کی مدد کرنے کے لئے موجود رہیں گے۔ آپ کی شادی کردینے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ میرے گھر سے آپ کا تعلق ختم ہوجائے گا یا میں آپ سے جان چھڑانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ آپ میرے لئے میری چوتھی بیٹی ہیں۔"
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"میں آپ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالوں گا جو آپ چاہیں گی وہی ہوگا یہ صرف میری ایک تجویز تھی۔"
ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
"کچھ سال گزر جانے دیں اس کے بعد میں شادی کرلوں گی۔ جہاں بھی آپ کہیں گے۔" اس نے ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔ "مگر ابھی فوری طور پر نہیں۔"
ابھی مجھے سالار سکندر سے جان چھڑانی ہے۔ اس سے طلاق لینے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہے۔"
وہ ان سے بات کرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
"کس شہر میں پڑھنا چاہتی ہیں آپ؟"
ڈاکٹر سبط علی نے مزید کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔
"کسی بھی شہر میں، میری کوئی ترجیح نہیں ہے۔" اس نے ان سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنے گھر سے آتے ہوئے، اپنے سارے ڈاکومنٹس اپنے پاس موجود زیورات اور رقم بھی لے آئی تھی۔ جب ڈاکٹر سبط علی نے اس گفتگو کے چند دن بعد اسے بلاکر ملتان میں اس کے ایڈمیشن کے فیصلے کے بارے میں بتانے کے ساتھ اس کے ڈاکومنٹس کے بارے میں پوچھا تو وہ اس بیگ کو لے کر ان کے پاس چلی آئی اس نے ڈاکومنٹس کا ایک لفافہ نکال کر انہیں دیا پھر زیورات کا لفافہ نکال کر ان کی میز پر رکھ دیا۔
"میں یہ زیورات اپنے گھر سے لائی ہوں۔ یہ بہت زیادہ تو نہیں ہیں مگر پھر بھی اتنے ہیں کہ میں انہیں بیچ کر کچھ عرصہ آسانی سے اپنی تعلیم کے اخراجات اٹھا سکتی ہوں۔"
"نہیں، یہ زیورات بیچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ آپ کی شادی میں کام آئیں گے۔ جہاں تک تعلیمی اخراجات کا تعلق ہے تو آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آپ میری ذمہ داری ہیں۔ آپ کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔"
وہ بات کرتے کرتے چونکے۔ ان کی نظر اس کے ٹیبل پر رکھے چھوٹے سے کھلے بیگ کے اندر تھی۔ امامہ نے ان کی نظروں کا تعاقب کیا۔ وہ بیگ میں نظر آنے والے چھوٹے سے پستول کو دیکھ رہے تھے۔ امامہ نے قدرے شرمندگی کے عالم میں اس پسٹل کو بھی نکال کر ٹیبل پر رکھ دیا۔
"یہ میرا پسٹل ہے۔ میں یہ گھر سے لائی ہوں، میں نے آپ کو بتایا تھا مجھے سالار سے مدد لینی تھی اور وہ اچھا لڑکا نہیں تھا۔"
وہ انہیں اس کے بارے میں مزید نہیں بتا سکتی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی پستول کو اٹھا کر دیکھ رہے تھے۔
"چلانا آتا ہے آپ کو اسے؟"
امامہ نے افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سرہلایا۔
"کالج میں این سی سی کی ٹریننگ ہوتی تھی۔ میرا بھائی وسیم بھی رائفل شوٹنگ کلب میں جایا کرتا تھا کبھی کبھار مجھے بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ میں نے اپنے بابا سے ضد کرکے خریدا تھا۔ یہ گولڈ پلیٹڈ ہے۔"
وہ ان کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پستول کو دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہہ رہی تھی۔
"آپ کے پاس اس کا لائسنس ہے؟"
"ہے مگر وہ ساتھ لے کر نہیں آئی۔"
"پھر آپ اسے یہیں پر رہنے دیں۔ ملتان ساتھ لے کر نہ جائیں۔ زیورات کو لاکر میں رکھوا دیتے ہیں۔" امامہ نے سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ چند ماہ کے بعد ملتان اپنی اسٹڈیز کے سلسلے کو ایک بار پھر جاری رکھنے کے لئے آگئی تھی۔ ایک شہر سے دوسرے شہر، دوسرے سے تیسرے شہر۔۔۔۔۔ ایک ایسا شہر جس کے بارے میں اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، مگر اس نے تو خواب میں اور بہت کچھ بھی نہیں سوچا تھا۔ کیا س نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ بیس سال کی عمر میں ایک بار پھر بی ایس سی میں داخلہ لے گی۔ اس عمر میں جب لڑکیاں بی ایس سی کر چکی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے میڈیکل کالج چھوڑ دے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اپنے والدین کے لئے کبھی اس قدر تکلیف اور شرمندگی کا باعث بنے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اسجد کے بجائے کسی اور سے محبت کرے گی اور پھر اس سے شادی کے لئے یوں پاگلوں کی طرح کوشش کرے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ ان کوششوں میں ناکامی کے بعد وہ سالار سکندر جیسے کسی لڑکے کے ساتھ اپنی مرضی سے نکاح کر لے گی۔
اور کیا اس نے یہ سوچا تھا کہ ا یک بار گھر سے نکل جانے کے بعد اسے ڈاکٹر سبط علی کے گھرانے جیسا گھر مل سکے گا۔
اسے باہر کی دنیا میں پھرنے کی عادت نہیں تھی اور اسے باہر کی دنیا میں پھرنا نہیں پڑا تھا۔ اپنے گھر سے نکلتے وقت اس نے اللہ سے اپنی حفاظت کی بے تحاشا دعائیں مانگی تھیں۔ اس نے دعائیں کی تھیں کہ اسے دربدر نہ پھرنا پڑے۔ وہ اتنی بولڈ نہیں تھی کہ وہ مردوں کی طرح ہر جگہ دندناتی پھرتی۔
اور واقعی نہیں جانتی تھی کہ جب اسے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے سلسلے میں خود جگہ جگہ پھرنا پڑے گا۔ ہر طرح کے مردوں اور لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ کیسےکرے گی۔ وہ بھی اس صورت میں جب کہ اس کے پیچھے فیملی بیک گراؤنڈ نام کی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔
وہ اپنی فیملی کے سائے کے نیچے لاہور آکر میڈیکل کالج میں پڑھنا اور آگے تعلیم حاصل کرنے کے لئے باہر جانے کے خواب دیکھنا اور بات تھی۔۔۔۔۔ تب اس کے لئے کوئی مالی مسائل نہیں تھے اور ہاشم مبین احمد کے پاس اتنی دولت اور اثرورسوخ تھا کہ صرف ہاشم مبین احمد کے نام کا حوالہ کسی بھی شخص کو اس سے بات کرتے ہوئے مرعوب اور محتاط کردینے کے لئے کافی تھا۔
گھر سے نکلنے کے بعد اسے جس ماحول کے سامنے کا خدشہ تھا اس ماحول کا سامنا اسے نہیں کرنا پڑا تھا۔ پہلے سالار اسے بخریت لاہور چھوڑ گیا تھااور اس کے بعد ڈاکٹر سبط علی تک رسائی جس کے بعد اسے اپنے چھوٹے بڑے کسی کام کے لئے کسی وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
ڈاکومنٹس میں نام کی تبدیلی، ملتان میں ایڈمیشن۔۔۔۔۔ ہاسٹل میں رہائش کا انتظام۔ اس کے تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری۔۔۔۔۔ وہ اس ایک نعمت کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی وہ کم تھا۔ کم از کم اسے کسی برے ماحول میں بقا کی جنگ لڑنے کے لئے جگہ جگہ دھکے کھانے نہیں پڑے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ملتان چلی آئی، یہ اس کے لئے زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ ایک مشکل اور تکلیف دہ دور۔ وہ ہاسٹل میں رہ رہی تھی اور و ہ عجیب زندگی تھی۔ بعض دفعہ اسے اسلام آباد میں اپنا گھر اور خاندان کے لوگ اتنی شدت سے یاد آتے کہ اس کا دل چاہتا وہ بھاگ کر ان کے پاس چلی جائے۔ بعض دفعہ وہ بغیر کسی وجہ کے رونے لگتی۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ جلال انصر سے رابطہ کرے۔ اسے وہ بے تحاشا یاد آتا۔ وہ بی ایس سی کررہی تھی اور اس کے ساتھ بی ایس سی کرنے والی لڑکیاں وہی تھیں جو ایف ایس سی میں میرٹ لسٹ پر نہیں آسکی تھیں اور اب وہ بی ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل کالج میں جانے کی خواہش مند تھیں۔
"میڈیکل کالج۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر۔" اس کے لئے بہت عرصے تک یہ دونوں الفاط نشتر بنے رہے۔ کئی بار وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھ کر حیران ہوتی رہتی۔ آخر وہاں کیا تھا جو ہر چیز کو مٹھی کی ریت بنا رہا تھا۔ کئی بار اسے جویریہ سے کی جانے والی اپنی باتیں یاد آتیں۔
"میں اگر ڈاکٹر نہیں بن سکی تو میں تو زندہ ہی نہیں رہ سکوں گی۔ میں مرجاؤں گی۔"
وہ حیران ہوتی وہ مری تو نہیں تھی۔ اسی طرح زندہ تھی۔
"پاکستان کی سب سے مشہور آئی اسپیشلسٹ؟"
سب کچھ ایک خواب ہی رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ ہر چیز کے اتنے پاس تھی وہ ہر چیز سے اتنا دور تھی۔
اس کے پاس گھر نہیں تھا۔
اس کے پاس گھر والے نہیں تھے۔ اس کے پاس اسجد نہیں تھا۔ میڈیکل کی تعلیم نہیں تھی۔
جلال بھی نہیں تھا۔ وہ زندگی کی ان آسائشوں سے ایک ہی جھٹکے میں محروم ہوگئی تھی جن کی وہ عادی تھی اور اس کے باوجود وہ زندہ تھی۔ امامہ کو کبھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس قدر بہادر تھی یا کبھی ہوسکتی تھی مگر وہ ہوگئی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تکلیف میں کمی ہونا شروع ہوگئی تھی۔ یوں جیسے اسے صبر آرہا تھا۔ اللہ کے بعد شاید زمین پر یہ ڈاکٹر سبط تھے جن کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ سنبھلنے لگی تھی۔
مہینے میں ایک بار ویک اینڈ پر وہ ان کے پاس لاہور آتی۔ وہ وقتاً فوقتاً اسے ہاسٹل فون کرتے رہتے، اسے کچھ نہ کچھ بھجواتے رہتے۔ ان کی بیٹیاں اور بیوی بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ ان کے نزدیک ان کے گھر کا ایک فرد بن چکی تھی اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو میرا کیا ہوتا۔ وہ کئی بار سوچتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملتان میں اپنے قیام کے دوران بھی اس نے سالار کو کبھی اپنے ذہن سے فراموش نہیں کیا تھا۔ تعلیم کا سلسلہ باقاعدہ طور پر شروع کرنے کے بعد وہ ایک بار اس سے رابطہ کرنا چاہتی تھی اور اگر وہ پھر اسے طلاق دینے سے انکار کردیتا تو وہ بالآخر ڈاکٹر سبط علی کو اس تمام معاملے کے بارے میں بتا دینا چاہتی تھی۔
اور سالار سے رابطہ اس نے بی ایس سی کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد لاہور آنے سے پہلے کیا۔ اپنے پاس موجود سالار کے موبائل کا استعمال وہ بہت پہلے ترک کرچکی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ دو سال کے عرصہ میں سالار دوبارہ اسی موبائل کا استعمال کرنا شروع کرچکا ہے یا پھر اس نئے نمبر کو استعمال کررہا تھا جو اس نے اپنا موبائل دے دینے کے بعد دیا تھا۔
ایک پی سی او سے اس نے سب سے پہلے اس کا نیا نمبر ڈائل کیا۔ وہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے پاس موجو دموبائل کے نمبر کو ڈائل کیا۔۔۔۔۔ وہ نمبر بھی کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ اب وہ کوئی اور نمبر لئے ہوئے تھا اور وہ نمبر اس کے پاس نہیں تھا۔
اس نے بالآخر گھر کا نمبر ڈائل کیا کچھ دیر تک بیل ہوتی رہی، پھر فون اٹھا لیا۔
"ہیلو۔۔۔۔۔!" کسی عورت نے دوسری طرف سے کہا۔
"ہیلو میں سالار سکندر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔" امامہ نے کہا۔
"سالار صاحب سے۔۔۔۔۔! آپ کون بول رہی ہیں۔"
امامہ کو اچانک محسوس ہوا جیسے اس عورت کے لہجے میں یکدم تجسس پیدا ہوا تھا۔
امامہ کو پتا نہیں کیوں اس کی آواز شناسا لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اچانک اس عورت نے بڑی پرجوش آواز میں کہا۔ "امامہ بی بی آپ امامہ بی بی ہیں؟"
ایک کرنٹ کھا کر امامہ نے بے اختیار کریڈل دبا دیا۔ وہ کون تھی جس نے اسے صرف آواز سے پہچان لیا تھا۔ اتنے سالوں بعد بھی۔۔۔۔۔ اور اتنی جلدی وہ بھی سالار سکندر کے گھر پر۔۔۔۔۔
کچھ دیر اس کے ہاتھ کانپتے رہے۔ وہ پی سی او کے اندر والے کیبن میں تھی اور کچھ دیر ریسیور اسی طرح ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی۔
"جو بھی ہو مجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میں اسلام آباد سے اتنی دور ہوں کہ یہاں مجھ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ مجھے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔"
اس نے سوچا اور پی سی او کے مالک کو ایک بار پھر کال ملانے کے لئے کہا۔
فون کی گھنٹی بجنے پر اس بار فون اٹھا لیا گیا تھا۔ مگر اس بار بولنے والا کوئی مرد تھا اور وہ سالار نہیں تھا۔ یہ وہ آواز سنتے ہی جان گئی تھی۔
"میں سالار سکندر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
"آپ امامہ ہاشم ہیں؟"
مرد نے کھردری آواز میں کہا۔ اس بار امامہ کو کوئی شاک نہیں لگا۔
"جی۔۔۔۔۔" دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
"آپ ان سے میری بات کروا دیں۔"
"یہ ممکن نہیں ہے۔" دوسری طرف سے کہا۔
"کیوں؟"
"سالار زندہ نہیں ہے۔"
"کیا؟" بے اختیار امامہ کے حلق سے نکلا۔
"وہ مر گیا؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"کب۔۔۔۔۔؟"
اس بار مرد خاموش رہا۔
"آپ سے آخری بار ان کا رابطہ کب ہوا؟"
اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس آدمی نے کہا۔
"چند سال پہلے۔۔۔۔۔ ڈھائی سال پہلے۔"
"ایک سال پہلے اس کی ڈیتھ ہوئی ہے۔ آپ۔۔۔۔۔"
امامہ نے کچھ بھی اور سننے سے پہلے فون بند کردیا۔ کچھ کہنے اور سننے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ آزاد ہوچکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک انسان کے طور پر اسے اس کی موت پرافسوس ہونا چاہیے تھا مگر اسے کوئی افسوس نہیں تھا۔ اگر اس نے اس طرح اسے طلاق دینے سے انکار نہ کیا ہوتا تو یقیناً اس کے لئے دکھ محسوس کرتی مگر اس وقت ڈھائی سال کے بعد اسے بے اختیار سکون اور خوشی کا احساس ہورہا تھا۔ وہ تلوار جو اس کے سر لٹکی ہوئی تھی وہ غائب ہوچکی تھی۔
اسے اب ڈاکٹر سب علی کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں تھی وہ صحیح معنوں میں آزاد ہوچکی تھی وہ اس کا وہاں ہاسٹل میں آخری دن تھا اور اس رات اس نے سالار سکندر کے لئے بخشش کے لئے دعا کی۔
وہ اس کی موت کے بعد اسے معاف کرچکی تھی اور وہ اس کی موت پر بے پناہ خوش تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس سے فون پر بات کرنے والی وہی ملازمہ تھی جو سالار کے ساتھ ساتھ اس کے گھر میں بھی کام کرتی رہی تھی اور اس نے امامہ کی آواز کو فوراً پہچان لیا تھا۔ امامہ کے فون بند کرتے ہی وہ کچھ اضطراب اور جوش و خروش کے عالم میں سکندر عثمان کے پاس پہنچ گئی۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس دن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ گھر پر ہی تھے۔
"ابھی کچھ دیر پہلے ایک لڑکی کا فون آیا ہے۔۔۔۔۔ وہ سالار صاحب سے بات کرنا چاہتی تھی۔"
"تو تم بات کروا دیتیں۔" سکندر عثمان قدرے لاپروائی سے بولے۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ سالار بھی ان دنوں پاکستان آیا ہوا تھا اور گھر پر موجود تھا۔ ملازمہ کچھ ہچکچائی۔
"صاحب جی! وہ امامہ بی بی تھیں۔"
سکندرعثمان کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹے بچا، وہ یکدم حواس باختہ نظر آنے لگے۔
"امامہ ہاشم۔۔۔۔۔ ہاشم کی بیٹی؟" ملازمہ نے اثبات میں سر ہلادیا۔ سکندر عثمان کا سر گھومنے لگا۔
"تو کیا سالار ہر ایک کو بے وقوف بنا رہا ہے وہ ابھی تک امامہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ جانتا ہے وہ کہاں ہے۔ تو پھر یقینا وہ اس سے ملتا بھی رہا ہوگا۔" انہوں نے بے اختیار سوچا۔
"اس نے تمہیں خود اپنا نام بتایا۔؟" انہوں نے چائے کا کپ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ میں نے ان کی آواز پہچان لی اور جب میں نے ان کا نام لیا انہوں نے فون بند کردیا۔" ملازمہ نے سکندر عثمان کو بتایا۔ "مگر مجھے یقین ہے وہ ان ہی کی آواز تھی۔ مجھے کم از کم اس بارے میں کوئی دھوکہ نہیں ہوسکتا۔" اس سے پہلے کہ سکندر عثمان کچھ کہتے انہوں نےفون کی گھنٹی سنی مگر اس بار وہ ڈائننگ روم میں موجود ایکسٹینشن کی طرف بڑھ گئے اور انہوں نے فون اٹھا لیا۔ دوسری طرف موجود لڑکی ایک بار پھر سالار سکندر کا پوچھ رہی تھی۔ ان کے استفسار پر اس نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ وہ امامہ ہاشم ہی تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کیوں مگر بے اختیا ران کے دل میں آیا کہ وہ اسے سالار کے مرنے کی خبر دے دیں، تاکہ وہ دوبارہ کبھی ان کے گھر فون نہ کرے۔ انہیں اس سے بات کرکے یہ اندازہ تو ہو ہی چکا تھا کہ وہ بہت عرصےسے سالار کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکی ہے اور اس کے پاس ان کے بیان کی صداقت کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ وبارہ رابطہ نہ کرتی تو ان کی جان اس سے ہمیشہ چھوٹ سکتی تھی۔ وہ ابھی تک اس ایک سال کو اپنے ذہن سے نکال نہیں سکے تھے۔ جب امامہ کی گمشدگی کے فوراً بعد سالار پر شبہ ہونے کی وجہ سے ہاشم مبین احمد نے ان کے لئے ہر قسم کی پریشانی کھڑی کی تھی۔
بہت سے سرکاری دفاتر جہاں پہلے ان کی فرم کی فائلز بہت آسانی سے نکل آئی تھیں۔ مہینوں پھنسی رہیں۔ ان کے گھر دھمکی آمیز کالز اور خط آتے رہے۔ کئی لوگوں نے بالواسطہ طور پر ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہاشم مبین احمد کی بیٹی کی واپسی کے لئے ان کی مدد کریں۔ ایک لمبے عرصے تک سالار کی نگرانی کی گئی اور نگرانی کا یہ سلسلہ صرف پاکستان ہی نہیں باہر میں بھی جاری رہا۔ مگر جب کسی طرح بھی امامہ سے اس کے رابطے کا کوئی ثبوت یا سراغ نہیں ملا تو رفتہ رفتہ یہ تمام سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔
سکندر عثمان کی بے پناہ کوشش کے باوجود بھی ہاشم مبین کے ساتھ ان کے تعلقات بحال نہیں ہوئے مگر ان کی طرف سے عدم تحفظ کا اندیشہ ختم ہوگیا تھا اور اب ڈھائی سال بعد وہ لڑکی ایک بار پھر سالار سے رابطہ کرنا چاہتی تھی وہ کسی صورت بھی دوبارہ ان حالات کا سامنا نہ خود کرنا چاہتے تھے نہ ہی سالار کو کرنے دینا چاہتے تھے۔
اگر وہ خود ہاشم مبین احمد کی ٹکر کے آدمی نہ ہوتے تو وہ اب تک اس سے زیادہ نقصان اٹھا چکے ہوتے، جتنا نقصان انہوں نے اس ایک سال اور خاص طور پر شروع کے چند ماہ میں اٹھایا تھا۔ وہ امامہ کو اس طلاق نامے کی ایک کاپی بھجوانا چاہتے تھے جو سالار کی طرف سے انہوں نے تیار کیا تھا اور انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ جائز تھا یا نہیں۔ وہ صرف امامہ کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ سالار یا اس کے خاندان کے ساتھ اس کا تعلق ہونا چاہیے نہ ہی ہوگا۔
اگر کچھ تھا بھی تو وہ سالار کی موت اور اس سے پہلے کے تحریر شدہ اس طلاق نامے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا مگر یہ ایک اور اتفاق تھا کہ امامہ نے ان کی بات مکمل طور پر سنے بغیر فون بند کردیا انہوں نے فون کو ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ملتان کے ای پی سی او کا ثابت ہوا سالار ایک ہفتہ بعد واپس امریکہ جانے والا تھا اور انہوں نے اس ایک ہفتہ اس کی مکمل طور پر نگرانی کروائی۔ وہ ملازموں کو ہدایت دے چکے تھے کہ کسی کا بھی فون آئے وہ کسی بھی صورت سالار سے بات نہ کروائیں، چاہے فون کسی مرد کا ہو یا عورت کا جب تک وہ خود یہ نہ جان لیں کہ فون کرنے والا کون تھا۔ ملازمہ کو بھی وہ سختی کے ساتھ منع کرچکے تھے کہ وہ سالار کو امامہ کی اس کال کے باےر میں نہ بتائے۔ ایک ہفتے کے بعد جب سالار واپس امریکہ چلا گیا تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔
سر پر آئی ہوئی آفت ایک بار پھر ٹل گئی تھی۔ سالار کی واپسی کے چند ہفتے بعد انہیں ایک لفافہ موصول ہوا تھا۔
امامہ نے لاہور پہنچنے کے بعد وہ موبائل بیچ دیا تھا۔ وہ اسے واپس نہیں بھجوا سکتی تھی اور سالار کی وفات کے بعد اب یہ امکان نہیں تھا کہ کبھی اس کے ساتھ آمنا سامنا ہونے کی صورت میں وہ اسے وہ موبائل واپس دے سکے گی۔ اس نے موبائل بیچنے سے ملنے والی رقم کے ساتھ اپنے پاس موجود کچھ اور رقم شامل کی۔ وہ اندازاً ان کالز کے بل کی رقم تھی جو ڈھائی تین سال پہلے سالار نے ادا کئے ہوں گے اور چند دوسرے اخراجات جو اپنے گھر قید کے دوران اور وہاں سے لاہور فرار کے دوران سالار نے اس پر کئے تھے۔ اس کے ساتھ سکندر عثمان کے نام ایک مختصر نوٹ بھجوایا۔ ٹریولرز چیکس۔ اس کے سر پر موجود اس آدمی کا قرض بھی اتر گیا تھا۔
اس رقم اور اس کے ساتھ ملنے والے نوٹ سے سکندر عثمان کو تسلی ہوگئی تھی کہ وہ دوبارہ اس سے رابطہ نہیں کرے گی اور یہ بھی کہ اس نے واقعی ان کی بات پر یقین کرلیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملتان سے بی ایس سی کرنے کے بعد وہ لاہور چلی آئی تھی۔ اسے گھر چھوڑے تین سال ہونے والے تھے اور اس کا خیال تھا کہ اب کم از کم اسے تلاش نہیں کیا جائے گا، جس طرح پہلے کیا جاتا رہا تھا۔ اگر کیا بھی گیا تو صرف میڈیکل کالجز پر نظر رکھی جائے گی۔ اس کا یہ اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
اس نے پنجاب یونیورسٹی میں کیمسٹری میں ایم ایس سی کے لئے ایڈمیشن لے لیا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ بے حد محتاط تھی۔ یہ لاہور تھا یہاں کسی وقت کوئی بھی اسے پہچان سکتا تھا۔ ملتان میں وہ صرف چادر اوڑھ کر کالج جاتی تھی۔ لاہور میں اس نے نقاب لگانا شروع کردیا۔
لاہور میں دوبارہ واپسی کے بعد وہ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نہیں رہی تھی، وہ سعیدہ اماں کے پاس رہنے لگی تھی۔
قسط نمبر 47
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعیدہ اماں سے اس کی پہلی ملاقات ڈاکٹر سبط علی نے ملتان جانے سے پہلے لاہور میں کروائی تھی۔ سعدہ اماں کے بہت سے عزیز و اقارب ملتان میں رہتےتھے۔ ڈاکٹر سبط علی امامہ کو ان سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، تاکہ ملتان میں قیام کے دوران کسی بھی ضرورت یا ایمرجنسی میں وہ ان کی مدد لے سکے۔
سعیدہ اماں ایک پینسٹھ ستر سالہ بے حد باتونی اور ایکٹو عورت تھیں۔ وہ لاہور کے اندرون شہر میں ایک پرانی حویلی میں تنہا رہتی تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا جبکہ دو بیٹے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں مقیم تھے۔ وہ دونوں شادی شدہ تھے اور ان کے بے حد اصرار کے باوجود سعیدہ اماں باہر جانے پر تیار نہیں تھیں۔ ان کے دونوں بیٹے باری باری ہر سال پاکستان آیا کرتے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس چلے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سبط علی سے ان کی قرابت داری تھی۔ وہ ان کے کزن ہوتے تھے۔
ڈاکٹر سبط علی نے امامہ کے بارے میں پہلے ہی سعیدہ اماں کو بتا دیا تھا۔ اس لئے جب وہ ان کے ساتھ ان کے گھر پہنچی تو وہ بڑی گرمجوشی سے اس سے ملی تھیں۔ انہوں نے ملتان میں موجود تقریباً اپنے ہر رشتے دار کے بارے میں تفصیلات اس کے گوش گزار کر دی تھیں اور پھر شاید اس سب کو ناکافی جانتے ہوئے انہوں نے خود ساتھ چل کر اسے ہاسٹل چھوڑ آنے کی آفر کی جسے ڈاکٹر سبط علی نے نرمی سے رد کردیا تھا۔
"نہیں آپا! آپ کو زحمت ہوگی۔" ان کے بے حد اصرار کے باوجود وہ نہیں مانے تھے۔
"بہتر تو یہ ہے بھائی صاحب کہ آپ اسے میرے بھائیوں میں سے کسی سے گھر ٹھہرا دیں۔ بچی کو گھر جیسا آرام اور ماحول ملے گا۔
انہیں اچانک ہاسٹل پر اعتراض ہونے لگا اور پھر انہوں نے ہاسٹل کی زندگی کے کئی مسائل کے بارے میں روشنی ڈالی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی اور خود وہ بھی کسی کے گھر میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ہاسٹل بہترین آپشن تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سعیدہ اماں سے اس کی دوسری ملاقات ملتان جانے کے چند ماہ بعد اس وقت ہوئی تھی جب ایک دن اچانک اسے کسی خاتون ملاقاتی کی اطلاع ہاسٹل میں دی گئی تھی۔ کچھ دیر کے لئے وہ خوفزدہ ہوگئی تھی۔ وہاں اس طرح اچانک اس سے ملنے کون آسکتا تھا اور وہ بھی ایک خاتون۔۔۔۔۔ مگر سعیدہ اماں کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ وہ اس سے اسی گرمجوشی سے ملی تھیں، جس طرح لاہور میں ملی تھیں۔ وہ تقریباً دو ہفتے ملتان میں رہی تھیں اور ان دو ہفتوں میں کئی بار اس سے ملنے آئیں۔ ایک بار وہ ان کے ساتھ ہاسٹل سے ان کے بھائی کے گھر بھی گئی۔
پھر یہ جیسے ایک معمول بن گیا تھا۔ وہ چند ماہ ملتان آتیں اور اپنے قیام کے دوران باقاعدگی سے اس کے پاس آتی رہتیں۔ وہ خود جب مہینے میں ایک بار لاہور آتی تو ان سے ملنے کے لئے بھی جاتی۔ کئی بار جب اس کی چھٹیاں زیادہ ہوتیں تو وہ اسے وہاں ٹھہرنے کے لئے اصرار کرتیں۔ وہ کئی بار وہاں رہی تھی۔ سرخ اینٹوں کا بنا ہوا وہ پرانا گھر اسے اچھا لگتا تھا یا پھر یہ تنہائی کا وہ احساس تھا جو وہ ان کے ساتھ شئیر کررہی تھی۔ اس کی طرح وہ بھی تنہا تھیں۔ اگرچہ ان کی یہ تنہائی ان کے ہمہ وقت میل جول کی وجہ سے کم ہوجاتی تھی مگر اس کے باوجود امامہ ان کے احساسات کو بنا کوشش کئے سمجھ سکتی تھی۔
لاہور واپس شفٹ ہونے سے بہت عرصہ پہلے ہی انہوں نے امامہ سے یہ جان لینے کے بعد کہ وہ ایم ایس سی لاہور سے کرنا چاہ رہی ہے، اسے ساتھ رکھنے کے لئے اصرار کرنا شروع کردیا۔
اسی عرصے کے دوران ڈاکٹر سبط علی کی سب سے بڑی بیٹی ان کے پاس بچوں سمیت کچھ عرصہ کے لئے رہنے چلی آئیں۔ ان کے شوہر پی ایچ ڈی کے لئے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کے بھتیجے تھے۔ جانے سے پہلے وہ اپنی فیملی کو ان کے ہاں ٹھہرا گئے۔ ڈاکٹر سبط علی کے گھر میں جگہ کی کمی نہیں تھی مگر امامہ اب ان کے گھر میں رہنا نہیں چاہ رہی تھی۔ وہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی کے احسانات کا بوجھ پہلے ہی اسے زیر بار کررہا تھا۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ان کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرے اور اس کے بعد اس کے جاب کرنے پر بھی وہ اسے کہیں اور رہنے نہ دیتے لیکن اگر وہ پہلے ہی علیحدہ رہائش اختیار رکھتی تو اس کے لئے ان سے اپنی بات منوانا آسان ہوتا۔ سعیدہ اماں کا گھر اسے اپنی رہائش کے لئے بہت مناسب لگا تھا۔ وہ جاب شروع کرنے پر انہیں مجبور کرکے کرائے کی مد میں کچھ نہ کچھ لینے پر مجبور کرسکتی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی شاید یہ سب کبھی گوارا نہ کرتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر سبط علی کے لئے اس کا فیصلہ ایک شاک کی طرح تھا۔
"کیوں آمنہ! میرے گھر پر کیوں نہیں رہ سکتیں آپ؟" انہوں نے بہت ناراضی سے اس سے کہا۔ "سعیدہ آپا کے ساتھ کیوں رہنا چاہتی ہیں؟"
"وہ بہت اصرار کررہی ہیں۔"
"میں انہیں سمجھا دوں گا۔"
"نہیں، میں خود بھی ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ میں ان کے ساتھ رہوں گی تو ان کی تنہائی دور ہوجائے گی۔"
"یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ آپ ان کے پاس جب چاہیں جاسکتی ہیں، مگر ساتھ رہنے کے لئے نہیں۔"
"پلیز، آپ مجھے وہاں رہنے کی اجازت دے دیں، میں وہاں زیادہ خوش رہوں گی۔ میں اب آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں۔"
ڈاکٹر سبط علی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
پیروں پر کھڑے ہونے سے کیا مراد ہے آپ کی؟"
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
"میں آپ پر بہت لمبے عرصے تک بوجھ نہیں بننا چاہتی۔ پہلے ہی میں بہت سال سے آپ پر انحصار کررہی ہوں، مگر ساری زندگی تو میں آپ پر بوجھ بن کر نہیں گزار سکتی۔"
وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔ اسے لگا اس کے آخری جملے نے ڈاکٹر سبط علی کو تکلیف دی تھی۔ اسے پچھتاوا ہوا۔
"میں نے کبھی بھی آپ کو بوجھ نہیں سمجھا آمنہ! کبھی بھی نہیں۔ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں اور میرے لئے آپ ایک بیٹی کی طرح ہیں پھر یہ بات۔۔۔۔۔ مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔"
"میں جانتی ہوں ابو! مگر میں صرف اپنی فیلنگز کی بات کررہی ہوں۔ دوسرے پر ڈیپینڈنٹ ہونا بہت تکلیف دہ بات ہے۔ میں سعیدہ اماں کے ساتھ رہ کر زیادہ پرسکو ن رہوں گی میں انہیں پے (pay) کروں گی۔ آپ کو میں کبھی پے(pay) کرنا چاہوں بھی تو نہ کرسکوں گی۔ شاید مجھے دس زندگیاں بھی ملیں تو میں آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکتی مگر اب بس۔۔۔۔۔ اب اور نہیں۔۔۔۔۔ میں نے زندگی کو گزارنے کے سارے طریقے ابھی سیکھنے ہیں۔ مجھے سیکھنے دیں۔"
ڈاکٹر سبط علی نے اس کے بعد اسے دوبارہ اپنے گھر میں رہنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے لئے بھی ان کی احسان مند تھی۔
سعیدہ امان کے ساتھ رہنے کا تجربہ اس کے لئے ہاسٹل میں یا ڈاکٹر سبط علی کے ہاں رہنے سے بالکل مختلف تھا۔ اسے ان کے پاس ایک عجیب سی آزادی اور خوشی کا احساس ہوا تھا۔ وہ بالکل اکیلی رہتی تھیں۔ صرف ایک ملازمہ تھی جو دن کے وقت گھر کے کام کردیا کرتی تھی اور شام کو واپس چلی جایا کرتی تھی۔ وہ بے حد سوشل لائف گزارتی تھیں۔ محلے میں ان کا بہت آنا جانا تھا۔ اور نہ صرف محلے میں بلکہ اپنے رشتے داروں کے ہاں بھی اور ان کے گھر بھی اکثر کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا۔
انہوں نے محلے میں ہر ایک سے امامہ کا تعارف اپنی بھانجی کہہ کر کروایاتھا اور چند سالوں کے بعد یہ تعارف بھانجی سے بیٹی میں تبدیل ہوگیا تھا، اگرچہ محلے والے پچھلے تعارف سے واقف تھے، مگر اب کسی نئے ملنے والے سے جب وہ امامہ کو بیٹی کی حیثیت سے متعارف کرواتیں تو کسی کو کوئی تجسس نہیں ہوتا تھا۔ لوگ سعیدہ اماں کی عادت سے واقف تھے کہ وہ کتنا محبت بھرا دل رکھتی تھیں۔ ان کے بیٹے بھی امامہ سے واقف تھے بلکہ وہ باقاعدگی سے فون پر سعیدہ اماں سے بات کرتے ہوئے اس کا حال احوال بھی دریافت کرتے رہتے تھے۔ ان کی بیوی اور بچے بھی اس سے بات چیت کرتے رہتے تھے۔
ان کے بیٹے ہر سال پاکستان آیا کرتے تھے اور ان کے قیام کے دوران بھی امامہ کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ جیسے وہ ان کی فیملی کا حصہ نہیں تھی، بعض دفعہ اسے یوں ہی لگتا جیسے وہ واقعی سعیدہ اماں کی بیٹی اور ان کے بیٹوں کی بہن تھی۔ ان دونوں کے بچے اسے پھپھو کہا کرتے تھے۔
پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے بعد اس نے ڈاکٹر سبط علی کے توسط سے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں جاب شروع کردی۔ اس کی جاب بہت اچھی تھی اور پہلی بار اس نے مالی طور پر خودمختاری حاصل کرلی تھی۔ یہ ویسی زندگی نہیں تھی جیسی وہ اپنے والدین کے گھر گزارتی تھی نہ ہی ویسی تھی جیسی زندگی کے وہ خواب دیکھا کرتی تھی مگر یہ ویسی بھی نہیں تھی جن خدشات کا وہ گھر سے نکلتے وقت شکار تھی۔ وہ ہر ایک کے بارے میں نہیں کہہ سکتی مگر اس کے لئے زندگی معجزات کا دوسرا نام تھی۔ سالار سکندر جیسے لڑکے سے اس طرح کی مدد، ڈاکٹر سبط علی تک رسائی۔۔۔۔۔ سعیدہ اماں جیسے خاندان سے ملنا۔ تعلیم کا مکمل کرنا اور پھر وہ جاب۔۔۔۔۔ صرف جلال انصر تھا جس کا خیال ہمیشہ اسے تکلیف میں مبتلا کردیتا تھا اور شاید اسے مل جاتا تو وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتی۔
آٹھ سالوں نے اس میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کردی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت وہ جانتی تھی کہ اب دنیا میں اس کے نخرے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اسے کسی سے کوئی توقعات وابستہ کرنی تھیں نہ ہی ان کے پورا نہ ہونے پر تکلیف محسوس کرنی تھی۔ اس کا رونا دھونا بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جارہا تھا۔ بیس سال کی عمر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوفزدہ اور پریشان ہونے والی امامہ ہاشم آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی گئی تھی۔ نئی نمودار ہونے والی امامہ زیادہ پراعتماد اور مضبوط اعصاب رکھتی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت زیادہ محتاط بھی ہوگئی تھی۔ ہر چیز کے بارے میں، اپنی گفتگو کے بارے میں۔ اپنے طور اطوار کے بارے میں۔
ڈاکٹر سبط علی اور سعیدہ اماں دونوں کے خاندانوں نے اسے بہت محبت اور اپنائیت دی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ کوشش کرتی تھی کہ وہ کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرے، جو انہیں قابلِ اعتراض یا ناگوار لگے۔ ہاشم مبین کے گھر میں اسے یہ ساری احتیاطیں نہیں کرنی پڑتی تھیں مگر وہاں سے نکل کر اسے یہ سب کچھ سیکھنا پڑا تھا۔
سعیدہ اماں کی گمشدگی کے دوران وہ آفس میں تھی۔ چار بجے کے قریب جب وہ گھر آئی تو گھر کو تالا لگا ہوا تھا۔ اس کے پاس اس تالے کی دوسری چابی تھی، کیونکہ اس سے پہلے بھی سعیدہ اماں کئی بار اِدھر اُدھر چلی جایا کرتی تھیں۔ اسے تشویش نہیں ہوئی۔
لیکن جب مغرب کی اذان ہونے لگی تو وہ پہلی بار فکر مند ہوئی کیونکہ وہ شام کو بتائے بغیر کبھی یوں غائب نہیں ہوئی تھیں ساتھ والوں کے ہاں پتا کرنے پر اسے پتا چلا کہ ان کا بیٹا انہیں بلال کے گھر صبح چھوڑ آیا تھا۔ سعیدہ اماں پہلے بھی اکثر وہاں آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے امامہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتی تھی۔ اس نے وہاں فون کیا تو اسے پتا چلا کہ وہ دوپہر کو وہاں سے جاچکی تھیں اور تب پہلی بار اسے صحیح معنوں میں تشویش ہونے لگی۔
اس نے باری باری ہر اس جگہ پتا کیا جہاں وہ جاسکتی تھیں مگر وہ کہیں بھی نہیں ملیں اور تب اس نے ڈاکٹر سبط علی کو اطلاع دی۔ اس کی حالت تب تک بے حد خراب ہوچکی تھی۔ سعیدہ اماں کا میل جول اپنے محلے تک ہی تھا۔ وہ اندرون شہر کے علاوہ کسی جگہ کو اچھی طرح نہیں جانتی تھیں۔ انہیں کسی دوسرے جگہ جانا ہوتا تو وہ ہمسایوں کے کسی لڑکے کے ساتھ جاتیں یا پھر امامہ کے ساتھ اور یہی بات امامہ کو تشویش میں مبتلا کررہی تھی۔
دوسری طرف سالار اندرون شہر کے سوا شہر کے تمام پوش علاقوں سے واقف تھا۔ اگر اسے اندرون شہر کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات بھی ہوتیں تب بھی وہ سعیدہ اماں کے ادھورے پتے کے باجود کسی نہ کسی طرح ان کے گھر پہنچ جاتا۔
ڈاکٹر سبط علی نے رات گئے اسے سعیدہ اماں کی خیریت سے اپنے کسی جاننے والے کے پاس ہونے کی اطلاع دی اور امامہ کی جیسے جان میں جان آئی۔
مزید ایک گھنٹے بعد دروازے کی بیل بجی تھی اور اس نے تقریباً بھاگتے ہوئے جاکر دروازہ کھولا۔ دروازے کی اوٹ سے اس نے سعیدہ اماں کے پیچھے کھڑے ایک خوش شکل آدمی کو دیکھا، جس نے دروازہ کھلنے پر اسے سلام کیا اور پھر سعیدہ اماں کو خداحافظ کہتے ہوئے مڑ گیا اور اس دوسرے دراز قامت شخص کے پیچھے چلنے لگا جس کی امامہ کی طرف پشت تھی۔ امامہ نے اس پر غور نہیں کیا وہ تو بے اختیار سعیدہ اماں سے لپٹ گئی تھی۔
سعیدہ اماں اگلے کئی دن اس کے سامنے ان دونوں کا نام لیتی رہیں، سالار اور فرقان۔ امامہ کو پھر بھی شبہ نہیں ہوا کہ وہ سالار۔۔۔۔۔ سالار سکندر بھی ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔ مردہ لوگ زندہ نہیں ہوسکتے تھے اور اسے اگر اس کی موت کا یقین نہ بھی ہوتا تب بھی سالار سکندر جیسا شخص نہ تو ڈاکٹر سبط علی کا شناسا ہوسکتا تھا نہ ہی اس میں اس طرح کی اچھائیاں ہوسکتی تھیں جن اچھائیوں کا ذکر سعیدہ اماں وقتاً فوقتاً کرتی رہتی تھیں۔
اس کے کچھ عرصے بعد اس نے جس شخص کو اس رات سعیدہ اماں کے ساتھ سیڑھیوں پر کھڑے دیکھا تھا اس شخص سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی۔ فرقان اپنی بیوی کے ساتھ ان کے ہاں آیا تھا۔ اسے وہ اور اس کی بیوی دونوں اچھے لگے تھے پھر وہ چند ایک بار اور ان کے گھر آئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی شناسائی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
اسے جاب کرتے تب دوسال ہوچکے تھے۔ کچھ وقت شاید اور اسی طرح گزر جاتا۔ اگر وہ اتفاقاً ایک روز اس سڑک سے نہ گزرتی جہاں جلال کے بنائی ہوئے ہاسپٹل کے باہر اس کا نام آویزاں تھا۔ جلال انصر کا نام اس کے قدم روک دینے کے لئے کافی تھا مگر کچھ دیر تک ہاسپٹل کے باہر اس کا نام دیکھتے رہنے کے بعد اس نے طے کیا تھا کہ وہ دوبارہ اس سڑک پر کبھی نہیں آئے گی۔
جلال شادی کرچکا تھا۔ یہ وہ گھر چھوڑتے وقت ہی سالار سے جان چکی تھی اور وہ دوبارہ اس کی زندگی میں نہیں آنا چاہتی تھی مگر اس کا یہ فیصلہ دیرپا ثابت نہیں ہوا۔
دو ہفتے کے بعد فارماسیوٹیکل کمپنی کے آفس میں ہی اس کی ملاقات رابعہ سے ہوئی۔ رابعہ وہاں کسی کام سے آئی تھی۔ چند لمحوں کے لئے تو اسے اپنے سامنے دیکھ کر اس کی سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح کا ردعمل ظاہر کرے۔ یہ مشکل رابعہ نے آسان کردی۔ وہ اس سے بڑی گرمجوشی کے ساتھ ملی تھی۔
"تم یک دم کہاں غائب ہوگئی تھیں۔ کالج اور ہاسٹل میں تو ایک لمبا عرصہ طوفان مچا رہا۔"
رابعہ نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"بس میں گھر سے چلی گئی تھی۔ کیوں گئی تھی تم تو جانتی ہی ہوگی۔" امامہ نے مختصراً کہا۔
"ہاں، مجھے کچھ اندازہ تو تھا ہی مگر میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا۔ ویسے ہم لوگوں کی بڑی کم بختی آئی۔ میری، جویریہ، زینب، سب کی۔۔۔۔۔ پولیس تک نے پوچھ گچھ کی ہم سے۔ ہمیں تو کچھ پتا ہی نہیں تھا تمہارے بارے میں، مگر ہاسٹل اور کالج میں بہت ساری باتیں پھیل گئی تھیں تمہارے بارے میں۔"
رابعہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھی مسلسل بولے جارہی تھی۔
"تم اکیلی ہی گئی تھیں؟" اس نے بات کرتے کرتے اچانک پوچھا۔
"ہاں۔" امامہ انٹر کام پر چائے کا کہتے ہوئے بولی۔
"مگر گئی کہاں تھیں؟"
"کہیں نہیں، یہیں لاہور میں تھی۔ تم بتاؤ، تم کیا کررہی ہو آج کل اور جویریہ۔۔۔۔۔ باقی سب۔"
امامہ نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
"میں پریکٹس کررہی ہوں لاہور میں۔ جویریہ اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ شادی ہوگئی ہے اس کی ایک ڈاکٹر سے۔ میری بھی فاروق سے ہوئی ہے۔ تمہیں تو یاد ہوگا کلاس فیلو تھا میرا۔"
امامہ مسکرائی۔ "اور زینب؟" اس کا دل بے اختیار دھڑکا تھا۔
"ہاں، زینب آج کل انگلینڈ میں ہوتی ہے۔ ریزیڈنسی کررہی ہے وہاں اپنے شوہر کے ساتھ۔ اس کے بھائی کے ہاسپٹل میں ہی فاروق پریکٹس کرتے ہیں۔"
امامہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ "جلال انصر کے ہاسپٹل میں؟"
"ہاں، اسی کے ہاسپٹل میں۔ وہ اسپیشلائزیشن کرکے آیا ہے کچھ عرصہ پہلے لیکن بے چارے کے ساتھ بڑی ٹریجڈی ہوئی ہے۔ چند ماہ پہلے طلاق ہوگئی ہے۔ حالانکہ اتنا اچھا بندہ ہے مگر۔"
امامہ اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکی۔
"طلاق۔۔۔۔۔! کیوں؟"
"پتا نہیں، فارق نے پوچھا تھا اس سے۔ کہہ رہا تھا انڈراسٹینڈنگ نہیں ہوئی۔ بیوی بھی بڑی اچھی تھی اس کی۔ ڈاکٹر ہے وہ بھی لیکن پتا نہیں کیوں طلاق ہوگئی۔ ہم لوگوں کا تو خاصا آنا جانا تھا ان کے گھر میں۔ ہمیں کبھی بھی اندازہ نہیں ہوا کہ ایسا کوئی مسئلہ ہے دونوں کے درمیان۔ ایک بیٹا ہے تین سال کا ۔وہ جلال کے پاس ہی ہے۔ اس کی بیوی واپس امریکہ چلی گئی ہے۔"
رابعہ لاپروائی سے تمام تفصیلات بتا رہی تھی۔
"تم اپنے بارے میں بتاؤ یہ تو میں جان گئی ہوں کہ یہاں جاب کررہی ہو، مگر اسٹڈیز تو تم نے مکمل نہیں کی۔"
"ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔"
"اور شادی وغیرہ؟"
"وہ ابھی نہیں۔"
"پیرنٹس کے ساتھ تمہارا جھگڑا ختم ہوا یا نہیں؟"
امامہ نے حیرت سے اس کو دیکھا۔
"نہیں۔" پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔
وہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھی رہی پھر چلی گئی۔ امامہ باقی کا سارا وقت آفس میں ڈسٹرب رہی۔ اس نے جلال انصر کو کبھی بھلایا نہیں تھا۔ وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھی۔ اس نے صرف اپنی زندگی سے اس کو الگ کردیا تھا مگر وہاں بیٹھے ہوئے اس دن اسے احساس ہوا کہ یہ بھی ایک خوش گمانی یا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ جلال انصر کو اپنی زندگی سے الگ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ وہ صرف اس کی زندگی میں داخل ہو کر اسے کسی پریشانی سے دوچار کرنا چاہتی تھی نہ ہی اس کی ازدواجی زندگی کو خراب کرنا چاہتی تھی لیکن یہ جاننے کے بعد کہ اس کی ازدواجی زندگی پہلے ہی ناکام ہوچکی ہے اور وہ ایک بار پھر اکیلا تھا۔ اسے یاد آیا آٹھ سال پہلے وہ کس طرح اس شخص کے حصول کے لئے بچوں کی طرح مچلتی رہی تھی۔ وہ اسے حاصل نہیں کرسکی تھی۔ تب بہت سی دیواریں، بہت سی رکاوٹیں تھیں جنہیں وہ پار کرسکتی تھی نہ جلال انصر کرسکتا تھا۔
مگر اب بہت وقت گزر چکا تھا۔ ان رکاوٹوں میں سے اب کچھ بھی ان دونوں کے درمیان نہیں تھا۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ وہ ایک شادی کرچکا تھا یا اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔
"مجھے اس کے پاس ایک بار پھر جانا چاہیے، شاید وہ اب بھی میرے بارے میں سوچتا ہو شاید اسے اب اپنی غلطی کا احساس ہو۔" امامہ نے سوچا تھا۔
اس نے آخری بار فون پر بات کرتے ہوئے اس سے جو کچھ کہا تھا، امامہ اس کے لئے اس کو معاف کرچکی تھی۔ جلال کی جگہ جو بھی ہوتا وہ یہی کہتا۔ صرف ایک لڑکی کے لئے تو کوئی بھی اتنے رسک نہیں لیتا اور پھر اس کا کیرئیر بھی تھا جسے وہ بنانا چاہتا تھا۔ اس کے پیرنٹس کی اس سے کچھ امیدیں تھیں جنہیں وہ ختم نہیں کرسکتا تھا۔ میری طرح وہ بھی مجبور تھا۔ بہت سال پہلے کہے گئے اس کے جملوں کی بازگشت نے بھی اسے دلبرداشتہ یا اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
"مجھے اس کے پاس جانا چاہئے۔ ہوسکتا ہے یہ موقع مجھے اللہ نے ہی دیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ نے میری دعاؤں کو اب قبول کرلیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ کو مجھ پر اب رحم آگیا ہو۔"
وہ باربار سوچ رہی تھی۔
"ورنہ اس طرح اچانک رابعہ میرے سامنے کیوں آجاتی۔ مجھے کیوں یہ پتا چلتا کہ اس کی بیوی سے علیحدگی ہوچکی ہے۔ ہوسکتا ہے اب میں اس کے سامنے جاؤں تو۔۔۔۔۔۔" وہ فیصلہ کرچکی تھی۔ وہ جلال انصر کے پاس دوبارہ جانا چاہتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں ڈاکٹر جلال انصر سے ملنا چاہتی ہوں۔" امامہ نے ریپشنسٹ سے کہا۔
"اپائنٹمنٹ ہے آپ کی؟ اس نے پوچھا۔
"نہیں، اپائنٹمنٹ تو نہیں ہے۔"
"پھر تو وہ آپ سے نہیں مل سکیں گے۔ اپائنٹمنٹ کے بغیر وہ کسی پیشنٹ کو نہیں دیکھتے۔" اس نے بڑے پروفیشنل انداز میں کہا۔
"میں پیشنٹ نہیں ہوں۔ ان کی دوست ہوں۔" امامہ نے کاؤنٹر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔
"ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ آپ اس وقت ان سے ملنے آئیں گی؟" ریپشنسٹ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں۔" اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
"ایک منٹ، میں ان سے پوچھتی ہوں۔" اس نے ریسیور اٹھاتے ہوئے کہا۔
"آپ کا نام کیا ہے؟" وہ ریپشنسٹ کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"آپ کا نام کیا ہے؟" اس نے اپنا سوال دہرایا۔
"امامہ ہاشم۔" اسے یاد نہیں اس نے کتنے سالوں بعد اپنا نام لیا تھا۔
"سر! کوئی خاتون آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ آپ کی دوست ہیں۔ امامہ ہاشم نام ہے ان کا۔"
وہ دوسری طرف سے جلال کی گفتگو سنتی رہی۔
"اوکے سر۔" پھر اس نے ریسیور رکھ دیا۔
"آپ اندر چلی جائیں۔" ریپشنسٹ نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
وہ سر ہلاتے ہوئے دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ جلال انصر کا ایک مریض باہر نکل رہا تھا اور وہ خود اپنی میز کے پیچھے کھڑا تھا۔ امامہ نے اس کے چہرے پر حیرت دیکھی تھی۔ وہ اپنے دھڑکتے دل کی آواز باہر تک سن سکتی تھی۔ اس نے جلال انصر کو آٹھ سال اور کتنے ماہ کے بعد دیکھا تھا۔ امامہ نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ اسے یاد نہیں آیا۔
“What a pleasant surprise Imama” (کیسا خوشگوار سرپرائز ہے امامہ!)۔
جلال نے آگے بڑھ کر اس کی طرف آتے ہوئے کہا۔
"مجھے یقین نہیں آرہا، تم کیسی ہو؟"
"میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟"
وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹائے بغیر بولی۔ پچھلے آٹھ سال سے یہ چہرہ ہر وقت اس کے ساتھ رہا تھا اور یہ آواز بھی۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں، آؤ بیٹھو۔"
اس نے اپنی ٹیبل کے سامنے پڑی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ خود ٹیبل کے دوسری جانب اپنی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔
وہ ہمیشہ سے جانتی تھی۔ وہ جلال انصر کو جب بھی دیکھے گی اس کا دل اسی طرح بے قابو ہوگا مگر اتنی خوشی ،ایسی سرشاری تھی جو وہ اپنے رگ و پے میں خون کی طرح دوڑتی محسوس کررہی تھی۔
"کیا پیو گی؟ چائے، کافی سوفٹ ڈرنک؟" وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
"جو آپ چاہیں۔"
"اوکے، کافی منگوا لیتے ہیں۔ تمہیں پسند تھی۔"
وہ انٹر کام اٹھا کر کسی کو کافی بھجوانے کی ہدایت دے رہا تھا اور وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر داڑھی اب نہیں تھی۔ اس کا ہیر اسٹائل مکمل طور پر تبدیل ہوچکا تھا۔ اس کا وزن پہلے کی نسبت کچھ بڑھ گیا تھا۔ وہ پہلے کی نسبت بہت پر اعتماد اور بے تکلف نظر آرہا تھا۔
"تم آج کل کیا کررہی ہو؟" ریسیور رکھتے ہی اس نے امامہ سے پوچھا۔
"ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں کام کررہی ہوں۔"
"ایم بی بی ایس تو چھوڑ دیا تھا تم نے۔"
"ہاں، ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔"
"کونسی کمپنی ہے؟" امامہ نے نام بتایا۔
"وہ تو بہت اچھی کمپنی ہے۔"
وہ کچھ دیر اس کمپنی کے بارے میں تعریفی تبصرہ کرتا رہا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
"میں اسپشلائزیشن کرکے آیا ہوں۔"
وہ اپنے بارے میں بتانے لگا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر کسی معمول کی طرح اسے دیکھتی رہی۔ بعض لوگوں کو صرف دیکھنا ہی کتنا کافی ہوتا ہے۔ اس نے اسے بات کرتے دیکھ کر سوچا تھا۔
"ایک سال ہوا ہے اس ہاسپٹل کو شروع کئے اور بہت اچھی پریکٹس چل رہی ہے میری۔"
وہ بولتا رہا۔ کافی آچکی تھی۔
"تمہیں میرا کیسے پتا چلا؟" وہ کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے بولا۔
"میں نے آپ کے ہاسپٹل کے بورڈ پر آپ کا نام پڑھا پھر رابعہ سے ملاقات ہوئی۔ آپ جانتے ہوں گے۔ زینب بھی واقف تھی اس سے۔"
"رابعہ فاروق کی بات کررہی ہو۔ بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس کا شوہر ڈاکٹر فاروق میرے ساتھ کام کرتا ہے۔" اس نے کافی پیتے ہوئے کہا۔
"ہاں، وہی۔۔۔۔۔ پھر میں یہاں آگئی۔"
امامہ نے ابھی کافی نہیں پی تھی۔ کافی بہت گرم تھی اور بہت گرم چیزیں نہیں پیتی تھی۔ اس نے کسی زمانے میں میز کے دوسری جانب بیٹھے ہوئے شخص کو آئیڈلائز کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس میں ہر خوبی تھی، ہر وہ خوبی جو ایک مکمل مرد میں ہونی چاہیے۔ ہر وہ خوبی جو وہ اپنے شوہر میں دیکھنا چاہتی تھی۔ ساڑھے آٹھ سال گزر گئے تھے اور امامہ کو یقین تھا کہ وہ اب بھی ویسا ہی ہے۔ چہرے سے داڑھی کے ہٹ جانے کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کو اب حضرت محمد ﷺ سے محبت نہ رہی ہو۔ اپنے ہاسپٹل کی کامیابی کے قصیدے پڑھتے ہوئے بھی امامہ اس کی اسی آواز کو اپنے کانوں میں گونجتا ہوا محسوس کررہی تھی، جس آواز نے ایک بار اس کی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ آسان کردیا تھا۔
وہ اس کے منہ سے کامیاب پریکٹس اور شہرت کا سن کر مسرور تھی۔ جلال نے زندگی میں ان ہی کامیابیوں کو سمیٹنے کے لئے ساڑھے آٹھ سال پہلے اسے چھوڑ دیا تھا مگر وہ خوش تھی۔ آج سب کچھ جلال انصر کی مٹھی میں تھا۔ کم از کم آج فیصلہ کرنے میں اسے کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
"تم نے شادی کرلی؟" بات کرتے کرتے اس نے اچانک پوچھا۔
"نہیں۔" امامہ نے مدھم آواز میں جواب دیا۔
"تو پھر تم کہاں رہتی ہو،کیا اپنے پیرنٹس کے پاس ہو؟" جلال اس بار کچھ سنجیدہ تھا۔
"نہیں۔"
"پھر؟"
"اکیلی رہتی ہوں، پیرنٹس کے پاس کیسے جاسکتی تھی۔" اس نے مدھم آواز میں کہا۔
"آپ نے شادی کرلی؟" جلال نے کافی کا ایک گھونٹ لیا۔
"ہاں، شادی کرلی اور علیحدگی بھی ہوگئی۔ تین سال کا ایک بیٹا ہے میرا۔ میرے پاس ہی ہوتا ہے۔" جلال نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
"آئی ایم سوری۔" امامہ نے اظہار افسوس کیا۔
"نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ اچھا ہوا یہ شادی ختم ہوگئی۔"
“It was not a marriage, it was a mess” (یہ شادی نہیں تھی، ایک بکھیڑا تھا) ۔
جلال نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی پھر اس خاموشی کو امامہ نے توڑا۔
"بہت سال پہلے ایک بار میں نے آپ کو پروپوز کیا تھا جلال؟"
جلال اسے دیکھنے لگا۔
"پھر میں نے آپ سے شادی کے لئے ریکوئسٹ کی تھی۔ آپ اس وقت مجھ سے شادی نہیں کرسکے۔"
"کیا میں یہ ریکویسٹ آپ سے دوبارہ کرسکتی ہوں؟"
قسط نمبر 48
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا میں یہ ریکویسٹ آپ سے دوبارہ کرسکتی ہوں؟"
اس نے جلال انصر کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھا۔
"اب تو حالات بدل چکے ہیں۔ آپ کسی پر ڈیپنڈنٹ نہیں ہیں۔ نہ ہی میرے پیرنٹس کے کسی ردعمل کا آپ کو اندیشہ ہوگا نہ ہی آپ کے پیرنٹس اعتراض کریں گے۔ اب تو آپ مجھ سے شادی کرسکتے ہیں۔"
وہ جلال کا جواب سننے کے لئے رکی۔ وہ بالکل خاموش تھا۔ اس کی خاموشی نے امامہ کے اعصاب کو مضمحل کیا۔ شاید یہ اس لئے خاموش ہے کیونکہ اسے اپنی پہلی شادی یا بیٹے کا خیال ہوگا۔ امامہ نے سوچا۔ مجھے اسے بتانا چاہیے کہ مجھے اس کی پہلی شادی کی کوئی پروا نہیں ہے، نہ ہی اس بات پر اعتراض کہ اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔
"جلال مجھے آپ کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔"
جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
"امامہ! یہ ممکن نہیں ہے۔"
"کیوں ممکن نہیں ہے۔ کیا آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے؟"
"محبت کی بات نہیں ہے امامہ! اب بہت وقت گزر چکا ہے۔ ویسے بھی ایک شادی ناکام ہونے کے بعد میں فوری طور پر دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا۔ میں اپنے کیرئر پر دھیان دینا چاہتا ہوں۔"
"جلال! آپ کو مجھ سے تو کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔ میرے ساتھ تو آپ کی شادی ناکام نہیں ہوسکتی۔"
"پھر بھی۔۔۔۔ میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔" جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
"میں انتظار کرسکتی ہوں۔"
جلال نے ایک گہرا سانس لیا۔
"اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے امامہ! میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ تم سے شادی کرسکوں۔"
وہ دم سادھے اسے دیکھتی رہی۔
"یہ شادی میں نے اپنی مرضی سے کی تھی۔ دوبارہ میں اپنی مرضی نہیں کرنا چاہتا۔ دوسری شادی میں اپنے پیرنٹس کی مرضی سے کرنا چاہتا ہوں۔"
"آپ اپنے پیرنٹس کو میرے بارے میں بتا دیں۔ شاید وہ آپ کو اجازت دے دیں۔" اس نے ڈوبتے ہوئے دل کے ساتھ کہا۔
"نہیں بتا سکتا۔ امامہ دیکھو! کچھ حقائق ہیں جن کا سامنا مجھے اور تمہیں بہت حقیقت پسندی سے کرنا چاہیے۔ میں اپنے لئے تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی زمانے میں، میں بھی تمہارے ساتھ انوالو تھا یا یہ کہہ لو کہ محبت کرتا تھا۔ میں آج بھی تمہارے لئے دل میں بہت خاص جذبات رکھتا ہوں اور ہمیشہ رکھوں گا مگر زندگی جذبات کے سہارے نہیں گزاری جاسکتی۔"
وہ رکا۔ امامہ کافی کے کپ سے اٹھتے دھویں کے پار اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
"تم جب سات آٹھ سال پہلے اپنا گھر چھوڑ رہی تھیں تو میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ اس طرح نہ کرو لیکن تم نے اس معاملے کو اپنی مرضی سے ہینڈل کیا۔ اپنے پیرنٹس کو مجھ سے شادی کے لئے کنوینس کرنے کے بجائے تم مجھے مجبور کرتی رہیں کہ میں تم سے چھپ کر شادی کرلوں۔ میں ایسا نہیں کرسکا اور نہ ہی یہ مناسب سمجھا۔ مذہب کی بات اپنی جگہ، مگر مذہب کے ساتھ معاشرہ بھی تو کوئی چیز ہوتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور جس کی ہمیں پرواہ کرنی چاہیے۔"
امامہ کو یقین نہیں آیا۔ وہ یہ سب اس شخص کے منہ سے سن رہی تھی جو۔۔۔۔۔۔
"تم تو چلی گئیں مگر تمہارے جانے کے بعد تمہارا اس طرح غائب ہوجانا کتنا بڑا سکینڈل ثابت ہوا اس کا تمہیں اندازہ نہیں۔ تمہارے پیرنٹس نے پریس میں یہ خبر نہیں آنے دی مگر پورے میڈیکل کالج کو تمہارےاس طرح چلے جانے کا پتا تھا۔ پولیس نے تمہاری بہت ساری فرینڈز اور کلاس فیلوز سے تمہارے بارے میں انوسٹی گیشن کی۔ زینب بھی اس میں شامل تھی۔ خوش قسمتی سے ہم بچ گئے۔"
وہ اٹھ کھڑا ہوگیا۔
"میں نے اتنے سال محنت کرکے اپنا مقام بنایا ہے۔ میں اتنا بہادر نہیں ہوں کہ میں تم سے شادی کرکے لوگوں کی چہ مگوئیوں کا نشانہ بنوں۔ میرا اٹھنا بیٹھنا ڈاکٹرز کی کمیونٹی میں ہے اور امامہ ہاشم کی میری بیوی کے طور پر واپسی مجھے اسکینڈلائز کردے گی۔ تم سے شادی کرکے میں لوگوں سے نظریں نہیں چرانا چاہتا۔ تم اتنے سال کہاں رہی ہو، کیسے رہی ہو، یہ بہت اہم سوالات ہیں۔ میرے پیرنٹس کو تمہاری کسی بات پر یقین نہیں آئے گاور مجھے لوگوں کی نظروں میں اپنا یہ مقام برقرار رکھنا ہے تم بہت اچھی ہو مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ تم اچھی لڑکی نہیں ہو اور میں کسی اسکینڈلائزڈ لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا۔ میں برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی یہ کہے کہ میری بیوی کا کردار اچھا نہیں ہے۔ آئی ہوپ، تم میری پوزیشن کو سمجھ سکتی ہو۔"
کافی کے کپ سے اٹھتا دھواں ختم ہوچکا تھا مگر جلال انصر کا چہرہ ابھی کسی دھویں کے پیچھے چھپا نظر آرہا تھا یا پھر یہ اس کی آنکھوں میں اترنے والی دھند تھی جس نے جلال انصر کو غائب کردیا تھا۔
کرسی کے دونوں ہتھوں کا سہارا لیتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوگئی۔
"ہاں، میں سمجھ سکتی ہوں۔" اس نے اپنے آپ کو کہتے سنا۔ "خدا حافظ۔"
"آئی ایم سوری امامہ! " جلال معذرت کررہا تھا۔ امامہ نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ جیسے نیند کی حالت میں چلتے ہوئے کمرے سے باہر آگئی۔
شام کے سات بج چکے تھے، اندھیرا چھا چکا تھا۔ سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس اور نیون سائن بورڈز روشن تھے۔ سڑک پر بہت زیادہ ٹریفک تھی۔ اس پورے روڈ پر دونوں طرف ڈاکٹرز کے کلینک تھے۔ اسے یاد تھا کسی زمانے میں اس کی بھی خواہش تھی کہ اس کا بھی ایسا ہی کلینک ہو۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ وہ بھی اپنے نام کے آگے اسی طرح کوالی فیکشنز کی ایک لمبی لسٹ دیکھنا چاہتی تھی بالکل ویسے ہی جس طرح جلال انصر کے نام کے ساتھ تھیں۔ بالکل ویسے ہی جس طرح اس روڈ پر لگے ہوئے بہت سے ڈاکٹرز کے نام کے آگے تھیں۔ یہ سب ہوسکتا تھا، یہ سب ممکن تھا، اس کے ہاتھ کی مٹھی میں تھا اگر وہ ۔۔۔۔۔ وہ بہت سال پہلے اپنے گھر سے نہ نکلی ہوتی۔
وہ بہت دیر تک جلال کے ہاسپٹل کے باہر سڑک پر کھڑی خالی الذہنی کی کیفیت میں سڑک پر دوڑتی ٹریفک کو دیکھتی رہی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ یہاں سے کہاں جائے اس نے ایک بار پھر مڑ کر ہاسپٹل کے ماتھے پر جگمگاتے الیکٹرک بورڈ پر ڈاکٹر جلال انصر کا نام دیکھا۔
"تم اچھی لڑکی ہو، مگر لوگ تمہیں اچھا نہیں سمجھتے۔"
اسے چند منٹ پہلے کہے ہوئے اس کے الفاظ یاد آئے، وہاں کھڑے اسے پہلی بار پتا چلا کہ اس نے اپنی پوری زندگی یک طرفہ محبت میں گزاری تھی۔ جلال انصر کو اس سے کبھی محبت تھی ہی نہیں ۔نہ ساڑھے آٹھ سال پہلے، نہ ہی اب۔۔۔۔۔ اس کو صرف امامہ کی ضرورت نہیں تھی، اس کے ساتھ منسلک باقی چیزوں کی بھی ضرورت تھی۔ اس کا لمبا چوڑا فیملی بیک گراؤنڈ۔۔۔۔۔۔ سوسائٹی میں اس کے خاندان کا نام اور مرتبہ۔۔۔۔۔۔ اس کے خاندان کے کانٹیکٹس۔۔۔۔۔ اس کے خاندان کی دولت۔۔۔۔۔۔ جس کے ساتھ نتھی ہوکر وہ جمپ لگا کر راتوں رات اپر کلاس میں آجاتا۔۔۔۔۔۔ا ور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہی کہ وہ صرف اس کی محبت میں مبتلا تھا۔۔۔۔۔ اس کا خیا تھا کہ وہ ایک بار بھی اس کے کردار کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرے گا۔ وہ کم از کم یہ یقین ضرور رکھے گا کہ وہ غلط راستے پر نہیں چل سکتی مگر وہ پھر غلط تھی۔۔۔۔۔ اس کے نزدیک وہ اسکینڈلائزڈ لڑکی تھی جس کے دفاع میں اپنی فیملی یا دوسرے لوگوں سے کچھ کہنے کے لئے اس کے پاس کوئی لفظ نہیں تھا۔ ساڑھے آٹھ سال پہلے گھر چھوڑتے ہوئے وہ جانتی تھی کہ لوگ اس کے بارے میں بہت کچھ کہیں گے۔ وہ اپنے لئے کانٹوں بھرا راستہ، زہر اگلتی زبانیں اور طنز کرتی نظریں چن رہی تھی مگر یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان لوگوں میں جلال انصر بھی شامل ہوگا۔ زہر اگلتی باتوں میں ایک زبان اس کی بھی ہوگی۔ وہ زندگی میں کم ازکم جلال انصر کو اپنے کردار کے اچھا ہونے کے بارے میں کوئی صفائی یا وضاحت نہیں دینا چاہتی تھی۔ وہ اس کو کوئی صفائی دے ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کے لفظوں نے ساڑھے آٹھ سال بعد پہلی بار اسے صحیح معنوں میں حقیقت کے تپتے ہوئے صحرا میں پھینک دیا تھا۔ وہ معاشرے کے لئے outcast بن چکی تھی۔
"تو امامہ ہاشم یہ ہے تمہاری اوقات، ایک اسکینڈلائزڈ اور داغ دار لڑکی اور تم اپنے آپ کو کیا سمجھے بیٹھی تھیں۔"
وہ فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔ ہر بورڈ، ہر نیون سائن کو پڑھتے ہوئے۔۔۔۔۔ وہاں لگے ہوئے بہت سے ڈاکٹروں کے ناموں سے وہ واقف تھی۔ ان میں سے کچھ اس کے کلاس فیلوز تھے۔ کچھ اس سے جونیئر، کچھ اس سے سینئر اور وہ خود کہاں کھڑی تھی کہیں بھی نہیں۔
"تم دیکھنا امامہ! تم کس طرح ذلیل و خوار ہوگی، تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا، کچھ بھی نہیں۔"
اس کے کانوں میں ہاشم مبین کی آواز گونجنے لگی تھی۔ اس نے اپنے گالوں پر سیال مادے کو بہتے محسوس کیا۔ آس پاس موجود روشنیاں اب اس کی آنکھوں کو اور چندھیانے لگی تھیں۔ جلال انصر برا آدمی نہیں تھا۔ بس وہ، وہ نہیں تھا جو سمجھ کر وہ اس کی طرف گئی تھی۔ کیسا دھوکا تھا جو اس نے کھایا تھا۔ جان بوجھ کر کھلی آنکھوں کے ساتھ، وہ بھی ایک مادہ پرست تھا مکمل مادہ پرست۔ صرف اس کا یہ روپ اس نے پہلی بار دیکھا تھا اور اس کے لئے یہ سب ناقابل یقین تھا۔ وہ برا آدمی نہیں تھا اس کی اپنی اخلاقیات تھیں اور وہ ان کے ساتھ جی رہا تھا۔ امامہ ہاشم کو آج اس نے وہ اخلاقیات بتا دی تھیں۔ اس نے ایسی تضحیک اور تحقیر آٹھ سالوں میں پہلی بار دیکھی تھی اور وہ بھی اس شخص کے ہاتھوں جسے وہ خوبیوں کا مجموعہ سمجھتی رہی تھی اور خوبیوں کے اس مجموعے کی نظروں میں وہ کیا تھی؟ گھر سے بھاگی ہوئی ایک اسکینڈلائزڈ لڑکی۔ آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو اس کی آنکھوں سے امڈ رہا تھا اور اس میں سب کچھ بہہ رہا تھا، سب کچھ اس نے بے رحمی کے ساتھ آنکھوں کو رگڑا۔ اپنی چادر کے ساتھ گیلے چہرے کو خشک کرتے ہوئے ایک رکشے کو روک کر وہ اس میں بیٹھ گئی۔
دروازہ سعیدہ اماں نے کھولا تھا۔ وہ سرجھکائے اس طرح اندر داخل ہوئی کہ اس کے چہرے پر ان کی نظر نہ پڑی۔
"کہاں تھیں تم امامہ؟ رات ہوگئی میرا تو دل گھبرا رہا تھا۔ ساتھ والوں کے گھر جانے ہی والی تھی میں کہ کوئی تمہارے آفس جاکر تمہارا پتا کرے۔"
سعیدہ اماں دروازہ بند کرکے تشویش کے عالم میں اس کے پیچھے آئی تھیں۔
"کہیں نہیں اماں! بس آفس میں کچھ کام تھا اس لئے دیر ہوگئی۔"
اس نے ان سے چند قدم آگے چلتے ہوئے پیچھے مڑے بغیر ان سے کہا۔"پہلے تو کبھی تمہیں آفس میں دیر نہیں ہوئی۔ پھر آج کیا ہوگیا کہ رات ہوگئی۔ آخر آج کیوں اتنی دیر روکا انہوں نے تمہیں؟" سعیدہ اماں کو اب بھی تسلی نہیں ہورہی تھی۔
"اس کے بارے میں میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ آئندہ دیر نہیں ہوگی۔" وہ اسی طرح اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے بولی۔
"کھانا گرم کردوں یا تھوڑی دیر بعد کھاؤگی؟" انہوں نے اس کے پیچھے آتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں، میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔ میرے سر میں درد ہورہا ہے۔ میں کچھ دیر کے لئے سونا چاہتی ہوں۔"
اس نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"درد کیوں ہورہا ہے؟ کوئی دوائی دے دوں یا چائے بنا دوں۔" سعیدہ اماں کو اور تشویش لاحق ہوئی۔
"اماں! پلیز مجھے سونے دیں۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہوئی تو میں آپ سے کہہ دوں گی۔"
اس کے سر میں واقعی درد ہورہا تھا۔ سعیدہ اماں کو شاید اندازہ ہوگیا کہ ان کی تشویش اس وقت اسے بے آرام کررہی ہے۔
"ٹھیک ہے تم سوجاؤ۔" وہ جانے کے لئے پلٹیں۔
امامہ نے اپنے کمرے کی لائٹ آن نہیں کی، اس نے اسی طرح اندھیرے میں دروازے کو بند کیا اور اپنےبستر پر آکر لیٹ گئی۔ اپنا کمبل کھینچ کر اس نے سیدھا لیٹتے ہوئے اپنی آنکھوں پر بازو رکھ لیا۔ وہ اس وقت صرف سونا چاہتی تھی۔ وہ کچھ بھی یاد نہیں کرنا چاہتی تھی نہ جلال انصر سے ہونے والی کچھ دیر پہلے کی گفتگو نہ ہی کچھ اور۔۔۔۔۔۔ وہ رونا بھی نہیں چاہتی تھی۔ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔ اس کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ اسے نیند کیسے آگئی یہ وہ نہیں جانتی تھی مگر وہ بہت گہری نیند سوئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس سے تین قدم آگے کھڑا تھا۔ اتنا قریب کہ وہ ہاتھ بڑھاتی تو اس کا کندھا چھو لیتی۔ وہاں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ وہ اس کے کندھے سے اوپر خانہ کعبہ کے کھلتے ہوئے دروازے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ نور کے اس سیلاب کو دیکھ رہی تھی جس نے وہاں موجود ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا تھا۔ وہ خانہ کعبہ کے غلاف پر تحریر آیات کو باآسانی دیکھ سکتی تھی۔ وہ آسمان پر موجود ستاروں کی روشنی کو یک دم بڑھتے محسوس کرسکتی تھی۔
ان میں سے آگے کھڑا شخص تلبیہ پڑھ رہا تھا۔ وہاں گونجنے والی واحد آواز اسی کی آواز تھی۔ خوش الحان آواز۔۔۔۔۔ اس نے بے اختیار اپنے آپ کو اس کے پیچھے وہی کلمات دہراتے پایا۔ اسی طرح جس طرح وہ پڑھ رہا تھا۔ مگر زیر لب پھر وہ اپنی آواز اس کی آواز میں ملانے لگی۔ اسی کی طرح زیر لب۔۔۔۔۔ پھر اس کی آواز بلند ہونے لگی پھر اس کو احساس ہوا۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی آواز اس کی آواز کے ساتھ بلند نہیں کرپارہی تھی۔ اس نے کوشش ترک کردی۔ وہ اس کی آواز میں آواز ملاتی رہی۔
خانہ کعبہ کا دروازہ کھل چکا تھا۔ اس نے اس شخص کو آگے بڑھ کر دروازے کے پاس جاکر کھڑے ہوتے دیکھا۔ اس نے اسے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے دیکھا۔ وہ دعا کررہا تھا وہ اسے دیکھتی رہی پھر اس نے ہاتھ نیچے کر لئے۔ وہ اب نیچے بیٹھ کر زمین پر سجدہ کررہا تھا، کعبہ کے دروازے کے سامنے۔ وہ اسے دیکھتی رہی۔ اب وہ کھڑا ہورہا تھا۔ وہ پلٹنے والا تھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کی آواز شناسا تھی مگر چہرہ، چہرہ دیکھے بغیر۔۔۔۔۔۔ وہ اب مڑ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ یکدم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ کمرے میں تاریکی تھی۔ چند لمحوں کے لئے اسے لگا وہ وہیں ہو، خانہ کعبہ میں۔ پھر جیسے وہ حقیقت میں واپس آگئی۔ اس نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ جلا دی اور پھر بیڈ پر آکر دوبارہ بیٹھ گئی۔ اسے خواب پوری جزئیات سمیت یاد تھا، یوں جیسے اس نے کوئی فلم دیکھی ہو، مگر اس آدمی کا چہرہ وہ اسے نہیں دیکھ سکی تھی۔ اس کے مڑنے سے پہلے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔
"خوش الحان آواز، جلال انصر کے سوا کس کی ہوسکتی تھی۔" اس نے سوچا۔
"مگر وہ شخص دراز قد تھا۔ جلال انصر سانولا تھا، اس شخص کے احرام میں سے نکلے ہوئے کندھے اور بازوؤں کی رنگت صاف تھی اور اس کی آواز وہ شناسا تھی۔ وہ یہ پہچان نہیں پارہی تھی کہ وہ جلال کی آواز تھی یا کسی اور کی۔
خواب بہت عجیب تھا مگر اس کے سر کا درد غائب ہوچکا تھا اور وہ حیران کن طور پر پرسکون تھی۔ اس نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ آن کی۔ وال کلاک ایک بجا رہا تھا۔ امامہ کو یاد آیا وہ رات کو عشاء کی نماز پڑھے بغیر ہی سوگئی تھی۔ اس نے کپڑے بھی تبدیل نہیں کئے تھے نہ ہی سونے سے پہلے وضو کیا تھا۔ اس نے کپڑے تبدیل کئے اور اپنے کمرے سے باہر آگئی۔ سعیدہ اماں کے کمرے میں روشنی نہیں تھی۔ وہ سورہی تھیں۔ پورے گھر میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ صحن میں بلب جل رہا تھا۔ ہلکی ہلکی دھند کی موجودگی بھی بلب کی روشنی میں محسوس کی جاسکتی تھی۔ صحن کی دیواروں کے ساتھ چڑھی سبز بیلیں سرخ اینٹوں کی دیواروں کے ساتھ بالکل ساکت تھیں۔ وہ وضو کرنے کے لئے صحن کے دوسری طرف موجود باتھ روم میں جانا چاہتی تھی مگر صحن میں جانے کے بجائے وہ برآمدے کے ستون کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اپنے سوئیٹر کی آستینوں کو اوپر کرتے ہوئے اس نے اپنی شرٹ کی آستینوں کے بٹن کھولتے ہوئے انہیں اوپر فولڈ کردیا۔ چند لمحوں کے لئے اسے جھرجھری آئی۔ خنکی بہت زیادہ تھی پھر وہ ان بیلوں کو دیکھنے لگی۔ ایک بار پھر جلال انصر کے ساتھ شام کو ہونے والی ملاقات اسے یاد آرہی تھی مگر اس بار اس کی باتوں کی گونج اسے اشک بار نہیں کررہی تھی۔
دستگیری میری تنہائی کی تونے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پر جب ٹوٹتی ہیں
نور ہوجاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
ایک افسردہ سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔ گزرے ہوئے پچھلے ساڑھے آٹھ سالوں میں یہ آواز۔۔۔۔۔ اور یہ الفاظ اس کے ذہن سے کبھی معدوم نہیں ہوئے تھے اور پھر اسے کچھ دیر پہلے کے خواب میں سنائی دینے والی وہ دوسری آواز یاد آئی۔
"لبیک الھم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعمتہ لک والملک لاشریک لک۔"
وہ آواز مانوس اور شناسا تھی مگر جلال انصر کی آواز کے علاوہ وہ اور کسی آواز سے واقف نہیں تھی۔ آنکھیں بند کرکے اس نے خواب میں دیکھے ہوئے اس منظر کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ مقام ملتزم، خانہ کعبہ کا کھلا دروازہ غلاف کعبہ کی وہ روشن آیات۔۔۔۔۔ وہ پرسکون، ٹھنڈی معطر رات۔۔۔۔۔ خانہ کعبہ کے دروازے سے پھوٹتی وہ دھودھیا روشنی اور سجدہ کرتا تلبیہ پڑھتا وہ مرد۔۔۔۔۔ امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ کچھ دیر تک وہ صحن میں اتری دھند میں نظریں جمائے اس آدمی کے بارے میں سوچتی رہی۔
اس آدمی کے برہنہ کندھے کی پشت پر ہلکے ہلکے بالوں کے زخم کا ایک مندمل شدہ نشان تھا۔ امامہ کو حیرت ہورہی تھی۔ خواب کی اس طرح کی جزئیات اسے پہلے کبھی یاد نہیں رہی تھیں۔ اس نے زندگی میں پہلی بار خانہ کعبہ کو خواب میں دیکھا تھا اور وہاں بیٹھے اسے خواہش ہوئی تھی کہ کاش وہ کبھی اسی طرح مسجد نبوی ﷺ میں روضہ رسول ﷺ کے سامنے کھڑی ہو اسی طرح مسجد نبوی ﷺ خالی ہو، وہاں صرف وہ ہو، وہ اندازہ نہیں کرسکی کہ وہ کتنی دیر وہاں اسی طرح بیٹھی رہی۔ وہ اپنے گردوپیش میں تب لوٹی تھی جب سعیدہ اماں تہجد پڑھنے کے لئے وضو کرنے کی خاطر باہر صحن میں نکلی تھیں۔ امامہ کو وہاں اس وقت دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی۔
"تمہارے سر کا درد کیسا ہے؟" اس کے پاس کھڑے ہوکر انہوں نے پوچھا۔
"اب تو درد نہیں ہے۔" امامہ نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
"رات کو کھانا کھائے بغیر ہی سوگئی تھیں؟" وہ اس کے پاس برآمدے کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
وہ خاموش رہی۔ سعیدہ اماں ایک گرم اونی شال اوڑھے ہوئے تھیں۔ امامہ نے ان کے کندھے پر اپنا چہرہ ٹکا دیا۔ اس کے سن چہرے کو گرم شال سے ایک عجیب سی آسودگی کا احساس ہوا۔
"اب تم شادی کرلو آمنہ!۔" سعیدہ اماں نے اس سے کہا وہ اسی طرح گرم شال میں اپنا چہرہ چھپائے رہی۔ سعیدہ اماں پہلی بار یہ بات نہیں کہہ رہی تھیں۔
"آپ کردیں۔" وہ ہمیشہ ان کی اس بات پر خاموشی اختیار کرلیتی تھی۔ کیوں؟ وجہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی لیکن آج پہلی بار وہ خاموش نہیں رہی تھی۔
"تم سچ کہہ رہی ہو؟" سعیدہ اماں اس کی بات پر حیران ہوئی تھیں۔
"میں سچ کہہ رہی ہوں۔" امامہ نے سر ان کے کندھے سے اٹھا لیا۔
"تمہیں کوئی پسند ہے؟" سعیدہ اماں نے اس سے پوچھا۔ وہ سرجھکائے صحن کے فرش کو دیکھ رہی تھی۔
"کوئی مجھے پسند ہے؟" نہیں مجھے کوئی بھی پسند نہیں ہے۔" سعیدہ اماں کو اس کی آواز بھرائی ہوئی لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتیں اس نے ایک بار پھر ان کی شال میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔
"تمہاری شادی ہوجائے تومیں بھی انگلینڈ چلی جاؤں گی۔"
انہوں نے اس کے سر کو تھپتھپاتے ہوئے کہا اور اس کے سر کو تھپتھپاتے ہوئے انہیں احساس ہوا کہ وہ ان کی شال میں منہ چھپائے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
"آمنہ! آمنہ بیٹا کیا ہوا؟" انہوں نے پریشان ہوکر اس کا چہرہ اٹھانے کی کوشش کی۔
وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ وہ اسی طرح ان کے ساتھ لگ کر روتی رہی۔
"اللہ کے لئے۔۔۔۔۔ کچھ تو بتاؤ، کیوں رو رہی ہو؟" وہ دل گرفتہ ہوگئیں۔
"کچھ نہیں بس۔۔۔۔۔ بس ایسے ہی۔۔۔۔۔ سر میں درد ہورہا ہے۔" انہوں نے زبردستی اس کا گیلا چہرہ اوپر کیا تھا۔ وہ اب اپنی آستینوں سے چہرہ پونچھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے سعیدہ اماں سے آنکھیں نہیں ملائی تھیں۔ سعیدہ اماں ہکا بکا اسے باتھ روم کی طرف جاتے دیکھتی رہیں۔
سعیدہ اماں اس کی شادی کی بات کرنے والی اکیلی نہیں تھیں۔ اس کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹر سبط علی نے ایک بار پھر اس سے شادی کا ذکر کیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تب اس نے کیوں انکار کردیا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اب آزاد تھی۔
"مجھے کچھ عرصہ جاب کرلینے دیں اس کے بعد میں شادی کرلوں گی۔" اس نے ڈاکٹر سبط علی سے کہا تھا۔ شاید یہ پچھلے کئی سالوں سے ڈاکٹر سبط علی پر مالی طور پر ایک بوجھ بننے کا احساس تھا، جس سے وہ نجات حاصل کرنا چاہتی تھی یا پھر کہیں اس کے لاشعور میں یہ چیز تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو اس کی شادی پر ایک بار پھر اخراجات کرنے پڑیں گے اور وہ یہ چاہتی تھی کہ وہ ان اخراجات کے لئے خود کچھ جمع کرنے کی کوشش کرلے۔ اس نے یہ بات ڈاکٹر سبط علی کو نہیں بتائی تھی مگر اس نے ان سے جاب کی اجازت لے لی تھی۔
شاید وہ کچھ عرصہ ابھی مزید جاب کرتی رہتی، مگر جلال انصر سے اس ملاقات کے بعد وہ ایک تکلیف دہ ذہنی دھچکے سے دوچار ہوئی تھی اور اس نے یکدم سعیدہ اماں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ وہ نہیں جانتی تھی۔ سعیدہ اماں نے ڈاکٹر سبط علی سے اس بات کا ذکر کیا یا نہیں مگر وہ خود ان دنوں مکمل طور پر اس کے لئے رشتے کی تلاش میں سرگرداں تھیں اور اس کوشش کا نتیجہ فہد کی صورت میں نکلا تھا۔
فہد ایک کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کررہا تھا اور اس کی شہرت بھی بہت اچھی تھی۔ فہد کے گھر والے اسے پہلی ہی بار دیکھ کر پسند کرگئے تھے اور اس کے بعد سعیدہ اماں نے ڈاکٹر سبط علی سے اس رشتے کی بات کی۔
ڈاکٹر سبط علی کو کچھ تامل ہوا۔۔۔۔۔ شاید وہ اس کی شادی اب بھی اپنے جاننے والوں میں کرنا چاہتے تھے، مگر سعیدہ اماں کی فہد اور اس کے گھر والوں کی بے پناہ تعریفوں کے بعد اور فہد اور اس کے گھر والوں سے خود ملنے کے بعد انہوں نے سعیدہ اماں کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، البتہ انہوں نے فہد کے بارے میں بہت چھان بین کروائی تھی اور پھر وہ بھی مطمئن ہوگئے تھے۔
فہد کے گھر والے ایک سال کے اندر شادی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پھر اچانک انہوں نے چند ماہ کے اندر شادی پر اصرار کرنا شروع کردیا۔ یہ صرف اتفاق ہی تھا کہ ڈاکٹر سبط علی اسی دوران اپنی کچھ مصڑوفیات کی وجہ سے انگلینڈ میں تھے جب فہد کے گھر والوں کے اصرار پر تاریخ طے کردی گئی تھی۔ سعیدہ اماں فون پر ان سے مشورہ کرتی رہی تھیں اور ڈاکٹر سبط علی نے انہیں اپنا انتظار کرنے کے لئے کہا تھا۔ وہ فوری طور پر وہاں نہیں آسکتے تھے، البتہ انہوں نے کلثوم آنٹی کو واپس پاکستان بھجوا دیا تھا۔
اس کی شادی کی تیاری کلثوم آنٹی اور مریم نے ہی کی تھی جو راولپنڈی سے کچھ ہفتوں کے لئے اپنی سسرال لاہور آگئی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے اس کی شادی کی تاریخ طے ہوجانے کے بعد فون پر اس سے طویل گفتگو کی تھی۔ ان کی تینوں بیٹیوں کی شادی ان کے اپنے خاندان میں ہی ہوئی تھی اور ان کے سسرال میں سے کسی نے بھی جہیز نہیں لیا تھا، مگر ڈاکٹر سبط علی نے تینوں بیٹیوں کے جہیز کے لئے مخصوص کی جانے والی رقم انہیں تحفتاً دے دی تھی۔
"ساڑھے آٹھ سال پہلے جب آپ میرے گھر آئی تھیں اور میں نے آپ کو اپنی بیٹی کہا تھا تو میں نے آپ کے لئےبھی کچھ رقم رکھی تھی۔ وہ رقم آپ کی امانت ہے۔ آپ اسے ویسے لے لیں یا پھر میں مریم اور کلثوم سے کہہ دوں گا کہ وہ آپ کے جہیز کی تیاری پر اسے خرچ کریں۔ سعیدہ آپا کی خواہش تھی کہ شادی ان کے گھر پر ہو ورنہ میں چاہتا تھا کہ یہ شادی میرے گھر پر ہو۔ آپ کے گھر پر۔۔۔۔۔" انہوں نے اس سے کہا تھا۔
"مجھے اس بات پر بہت رنج ہے کہ میں اپنی چوتھی بیٹی کی شادی میں شرکت نہیں کرسکوں گا مگر شاید اس میں ہی کوئی بہتری ہے۔ میں پھر بھی آخری وقت تک کوشش کروں گا کہ کسی طرح شادی پرآجاؤں۔"
وہ ان کی باتوں کے جواب میں بالکل خاموش رہی تھی۔ اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا نہ ہی یہ اصرار کیا تھا کہ وہ اپنی شادی پر اپنی رقم خرچ کرے گی اور نہ ہی یہ کہ وہ شادی ان کی رقم سے نہیں کرنا چاہتی۔ اس دن اس کا دل چاہا ان کا ایک اور احسان لینے کو۔ وہ اس پر اتنے احسان کرچکے تھے کہ اب اسے ان احسانوں کی عادت ہونے لگی تھی۔ اسے صرف ان سے ایک گلہ تھا وہ آخر اس کی شادی میں شرکت کیوں نہیں کررہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فہد کے گھر والوں کا اصرار تھا کہ شادی سادگی سے ہو اور اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ امامہ خود بھی شادی سادگی سے کرنا چاہتی تھی مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ فہد کے گھر والوں کا سادگی پر اصرار دراصل کچھ اور وجوہات کی بناء پر تھا۔
اس کا نکاح مہندی والی شام کو ہونا تھا، مگر اس شام کو سہ پہر کے قریب فہد کے گھر والوں کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ نکاح اگلے دن یعنی شادی والے دن ہی ہوگا۔ تب تک اسے یا سعیدہ اماں کو کوئی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ فہد کے گھر میں کوئی مسئلہ تھا۔ مہندی کی ویسے بھی کوئی لمبی چوڑی تقریب نہیں تھی۔ صرف سعیدہ اماں کے بہت قریبی لوگ تھے یا پھر نزدیکی ہمسائے۔ نکاح کی تقریب کے لئے جس کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا وہ ان لوگوں کو سرو کردیا گیا۔
شادی کی تقریب بھی سادگی سے گھر پر ہی ہونی تھی۔ چار بجے بارات کو آنا تھا اور چھے بجے رخصتی ہونی تھی۔ لیکن بارات آنے سے ایک گھنٹہ پہلے فہد کے گھر والوں نے سعیدہ اماں کو فہد کی روپوشی کے بارے میں اطلاع دیتے ہوئے اس رشتے سے معذرت کرلی۔
امامہ کو چار بجے تک اس سارے معاملے کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ فہد کے گھر سے عروسی لباس پہلے بھجوادیا گیا تھا اور وہ اس وقت وہ لباس پہنے تقریباً تیار تھی جب مریم اس کے کمرے میں چلی آئی۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ اس نے امامہ کو کپڑے تبدیل کرنے کے لئے کہا، اس نے امامہ کو فوری طور پر یہ نہیں بتایا تھا کہ فہد کے گھر والے انکار کرکے جاچکے تھے۔ اس نے امامہ سے صرف یہی کہا کہ فہد کے گھر والوں نے شادی کینسل کردی ہے اس کے گھر میں کسی قریبی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے۔ وہ یہ بتا کر بہت افراتفری میں کمرے سے باہر نکل گئی۔ امامہ نے کپڑے تبدیل کرلئے لیکن اس وقت اس کی چھٹی حس نے اسے اس پریشانی سے آگاہ کرنا شروع کردیا تھا۔ اسے مریم کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
کپڑے تبدیل کرکے وہ اپنے کمرے سے باہر نکل آئی اور باہر موجود لوگوں کے تاثرات نے اس کے تمام شبہات کی تصدیق کردی تھی۔ وہ سعیدہ اماں کے کمرے میں چلی گئی۔ وہاں بہت سے لوگ جمع تھے۔ کلثوم آنٹی، میمونہ نورالعین آپا،۔۔۔۔۔۔ ہمسائے میں رہنے والی چند عورتیں، مریم اور سعیدہ اماں۔۔۔۔۔ مریم ،سعیدہ اماں کو پانی پلا رہی تھی۔ وہ بہت نڈھال نظر آرہی تھیں۔ ایک لمحے کے لئے اس کے دل کی دھڑکن رکی۔ انہیں کیا ہوا تھا۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی سب کی نظریں اس پر پڑیں۔ میمونہ آپا اس کی طرف تیزی سے بڑھیں۔
"آمنہ! تم باہر جاؤ۔" انہوں نے اسے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔
"اماں کو کیا ہوا ہے؟" وہ ان کی طرف بڑھ گئی۔ کلثوم آنٹی نے کمرے میں موجود لوگوں کو باہر نکالنا شروع کردیا۔ وہ سعیدہ اماں کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
"انہیں کیا ہوا ہے؟" اس نے بے تابی سے مریم سے پوچھا۔
اس نے جواب نہیں دیا۔ سعیدہ اماں کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ وہ امامہ کو دیکھ رہی تھیں مگر اسے یوں لگا جیسے وہ اس وقت اسے دیکھ نہیں پارہیں۔ گلاس ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے انہوں نے اسے ساتھ لگا کر رونا شروع کردیا۔
کمرہ خالی ہوچکا تھا۔ صرف ڈاکٹر سبط علی کی فیملی وہاں تھی۔
"کیا ہوا ہے اماں؟ مجھے بتائیں۔" امامہ نے انہیں نرمی سے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
"فہد نے اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر گھر سے جاکر کسی اور سے شادی کرلی ہے۔" مریم نے مدھم آواز میں کہا۔ "وہ لوگ کچھ دیر پہلے معذرت کرنے آئے تھے۔ وہ لوگ یہ رشتہ ختم کرگئے ہیں۔"
چند منٹ تک وہ بالکل ساکت رہی تھی۔ خون کی گردش، دل کی دھڑکن، چلتی ہوئی سانس۔۔۔۔۔۔ چند سیکنڈز سب کچھ جیسے رک گیا تھا۔
"کیا میرے ساتھ یہ بھی ہونا تھا؟" اس نے بے اختیار سوچا۔
"کوئی بات نہیں اماں! آپ کیوں رو رہی ہیں؟" اس نے بڑی سہولت سے سعیدہ اماں کے آنسو صاف کیے۔ سب کچھ ایک بار پھر بحال ہوگیا تھا سوائے اس کی رنگت کے وہ فق تھی۔
"آپ پریشان نہ ہوں۔" سعیدہ اماں کو اس کی باتوں پر اور رونا آیا۔
"یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔" امامہ نے انہیں بات مکمل کرنے نہیں دی۔
"اماں! چھوڑیں ناں۔ کوئی بات نہیں، آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ لیٹ جائیں، کچھ دیر آرام کرلیں۔" وہ انہیں پرسکون کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
"میں تمہارے دل کی حالت کو سمجھتی ہوں۔ میں تمہارے غم کو جانتی ہوں۔ آمنہ! میری بچی مجھے معاف کردو۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔" انہیں تسلی نہیں ہوپارہی تھی۔
"مجھے کوئی غم نہیں ہے اماں! کوئی تکلیف نہیں ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔" اس نے مسکراتے ہوئے سعیدہ اماں سے کہا۔
سعیدہ اماں یکدم روتے ہوئے اٹھ کر باہر نکل گئیں۔
امامہ کسی سے کوئی بات کہے بغیر ایک بار پھر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس کے بیڈ پر تمام چیزیں اسی طرح پڑی ہوئی تھیں۔ اس نے انہیں سمیٹنا شروع کردیا۔ اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس وقت وہاں بیٹھی رو رہی ہوتی مگر وہ غیر معمولی طور پر پرسکون تھی۔
"اگر میں جلال کے نہ ملنے پر صبر کرسکتی ہوں تو یہ تو پھر ایک ایسا شخص تھا جس کے ساتھ میری کوئی جذباتی وابستگی نہیں تھی۔" اس نے اپنے عروسی لباس کو تہ کرتے ہوئے سوچا۔
"زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، یہاں بھی لوگوں کے سامنے نظریں چرا کر اور سرجھکا کر چلنا پڑے گا۔ کچھ باتیں اور بے عزتی برداشت کرنی پڑے گی تو پھر کیا ہوا۔ اس میں میرے لئے نیا کیا ہے۔"
مریم کمرے میں داخل ہوئی اور اس کے ساتھ چیزیں سمیٹنے لگی۔
"ابو کو فون کردیا ہے۔" اس نے امامہ کو بتایا۔
وہ پہلی بار کچھ جھنجھلائی۔
"کیوں خوامخواہ تم لوگ انہیں تنگ کررہے ہو۔ انہیں وہاں سکون سے رہنے دو۔"
"اتنا بڑا حادثہ ہوگیا ہے اور تم۔۔۔۔۔۔"
اس نے مریم کی بات کاٹ دی۔
"مریم میری زندگی میں اس سے بڑے حادثے ہوچکے ہیں۔ یہ کیا معنی رکھتا ہے۔ مجھے تکلیف سہنے کی عادت ہوچکی ہے۔ تم سعیدہ اماں کو تسلی دو۔ مجھے کچھ نہیں ہوا میں بالکل ٹھیک ہو اور ابو کو بھی خوامخواہ تنگ نہ کرو۔ وہ وہاں پریشان ہوں گے۔"
مریم کو چیزیں سمیٹتے ہوئے وہ ابنارمل لگی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی۔ کلثوم آنٹی، سعیدہ اماں کے ساتھ یکدم اندر آگئیں۔ امامہ کو ان دونوں کے چہرے بہت عجیب لگے۔ کچھ دیر پہلے کے برعکس وہ دونوں بے حد خوش نظر آرہی تھیں۔ اس کے کسی سوال سے پہلے کلثوم آنٹی نے اسے سالار کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔ وہ دم بخود ان کی باتیں سن رہی تھی ۔
"اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو تمہارا نکاح اس سے کردیا جائے؟" آنٹی نے اس سے پوچھا۔
"سبط علی اسے بہت اچھی طرح جانتے تھے، وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔" وہ اسے تسلی دینے کی کوشش کررہی تھیں۔
"اگر ابو اسے جانتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ جیسا بہتر سمجھیں کریں۔"
"اس کا ایک دوست تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔" وہ اس مطالبے پر کچھ حیران ہوئی تھی مگر اس نے فرقان سے ملنے سے انکار نہیں کیا۔
"میرے دوست نے آٹھ نو سال پہلے ایک لڑکی سے نکاح کیا تھا۔ اپنی پسند سے۔"
وہ چپ چاپ فرقان کو دیکھتی رہی۔
"وہ آپ سے شادی پر تیار ہے، مگر وہ اس لڑکی کو طلاق دینا نہیں چاہتا۔ کچھ وجوہات کی بنا پر وہ لڑکی اس کے ساتھ نہیں رہی لیکن وہ اب بھی اسے اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کو یہ سب بتا دوں تاکہ اگر آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہو تو اس بات کو یہیں ختم کردیں گے لیکن میں آپ سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ شاید وہ لڑکی اسے کبھی بھی نہ ملے، آٹھ نو سال سے اس کا میرے دوست کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یہ ایک موہوم سی امید ہے، جس پر وہ اس کا انتظار کررہا ہے۔ ڈاکٹر سبط علی صاحب آپ کو اپنی بیٹی سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے آپ میری بہن کی طرح ہیں۔ اس وقت اس صورت حال سے نکلنے کے لئے یہی بہتر ہے کہ آپ اس سے شادی کرلیں۔ وہ لڑکی اسے کبھی بھی نہیں ملے گی کیونکہ نہ تو وہ اسے پسند کرتی تھی نہ ہی آج تک اس نے اس سے کوئی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور پھر اتنا لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔"
وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
"دوسری بیوی۔۔۔۔۔ تو امامہ ہاشم یہ ہے تمہاری وہ تقدیر جو اب تک تم سے پوشیدہ تھی۔" اس نے سوچا۔
"اگر ڈاکٹر سبط علی اس شخص کے بارے میں یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کو میرے لئے منتخب کررہے ہیں تو ہوسکتا ہے میرے لئے یہی بہتر ہو۔ میں جلال کی بھی تو دوسری بیوی بننے کے لئے تیار تھی، اس سے محبت کرنے کے باوجود۔۔۔۔۔ اور اس شخص کی بیوی بننے پر مجھے کیا اعتراض ہوگا جس سے مجھے محبت بھی نہیں ہے۔"
اسے ایک بار پھر جلال یاد آیا۔
"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کی بیوی جب بھی آئے وہ اسے رکھ سکتے ہیں۔ میں بڑی خوشی سے ان کو یہ اجازت دیتی ہوں۔" مدھم آواز میں کسی ملال کے بغیر اس نے فرقان سے کہا۔
پندرہ منٹ بعد اسے پہلا شاک اس وقت لگا تھا جب نکاح خواں نے اس کے سامنے سالار سکندر کا نام لیا تھا۔
"سالار سکندر۔۔۔۔۔ ولد سکندر عثمان۔" اسے نکاح خواں کے منہ سے نکلنے والے لفظو ں سے جیسے کرنٹ لگا تھا۔وہ نام ایسے نہیں تھے جو ہر شخص کے ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر49
"سالار سکندر۔۔۔۔۔ سکندر عثمان؟ اور پھر اس ترتیب میں۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ شخص زندہ۔۔۔۔۔ ہے؟" اس کے سر پر جیسے آسمان آگرا تھا۔ اس کے چہرے پر چادر کا گھونگھٹ نہ ہوتا تو اس وقت اس کے چہرے کے تاثرات نے سب کو پریشان کردیا ہوتا۔ نکاح خواں اپنے کلمات دوبارہ دہرا رہا تھا۔ امامہ کا ذہن ماؤف اور دل ڈوب رہا تھا اگر یہ شخص زندہ تھا تو۔۔۔۔۔۔ میں تو اب تک اس کے نکاح میں ہوں۔ میرے خدا۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ ڈاکٹر سبط علی اسے کیسے جانتے ہیں۔ اس کے ذہن میں ایک فشار برپا تھا۔ "آمنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! ہاں کہو۔" سعیدہ اماں نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ "سالار سکندر جیسے شخص کے لئے ہاں۔۔۔۔۔؟" اس کا دل کسی نے اپنی مٹھی میں لے کر بھینچا۔۔۔۔۔ وہ "ہاں" کے علاوہ اس وقت کچھ اور کہہ ہی نہ سکتی تھی۔ خوف اور شاک کے عالم میں اس نے کاغذات پر دستخط کئے تھے۔ "کاش کوئی معجزہ ہو۔ یہ وہ سالار سکندر نہ ہو۔ یہ سب ایک اتفاق ہو۔" اس نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ان سب لوگوں کے کمرے سے چلے جانے کے بعد مریم نے اس کے چہرے سے چادر ہٹا دی۔ اس کے چہرے کا رنگ بالکل سفید ہوچکا تھا۔ "کیا ہوا؟ مریم کی تشویش میں اضافہ ہوگیا۔ وہ سمجھ نہیں سکی۔ وہ اس سے کیا کہہ رہی تھی۔ اس کا ذہن کہیں اور تھا۔ "مریم! Just do me a favour" اس نے مریم کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "میں نے نکاح کرلیا ہے، مگر میں آج رخصتی نہیں چاہتی۔ تم سعیدہ اماں سے کہو میں ابھی رخصتی نہیں چاہتی۔" اس کے لہجے میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا کہ مریم اٹھ کر باہر نکل گئی وہ بہت جلد ہی واپس آگئی۔ "امامہ رخصتی نہیں ہورہی ہے۔ سالار بھی رخصتی نہیں چاہتا۔ امامہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوگئی۔ "ابو کا فون آنے والا ہے تمہارے لئے، وہ تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔" اس نے امامہ کو مزید اطلاع دی۔ وہ فون سننے کے لئے دوسرے کمرے میں آگئی۔ انہوں نے کچھ دیر بعد اسے فون کیا تھا۔ وہ اسے مبارک باد دے رہے تھے۔ امامہ کا دل رونے کا چاہا۔ "سالار بہت اچھا انسان ہے۔" وہ کہہ رہے تھے۔ "میری خواہش تھی کہ آپ کی شادی اسی سے ہو مگر چونکہ آپ سعیدہ آپا کے پاس رہ رہی تھیں اس لئے میں نے ان کی خواہش اور انتخاب کو مقدم سمجھا۔" وہ سانس لینے تک کے قابل نہیں رہی تھی۔ "مجھے یہ علم نہیں تھا کہ سالار نے اس سے پہلے کبھی شادی کی تھی مگر تھوڑی دیر پہلے فرقان نے مجھے اس کے بارے میں بتایا ہے۔ وہ صرف ضرورتاً کیا جانے والا کوئی نکاح تھا۔ فرقان نے مجھے تفصیل نہیں بتائی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میرے جاننے والوں میں سالار سے اچھا کوئی شخص ہوتا تو اس کے نکاح کے بارے میں جان لینے کے بعد میں آپ کی شادی سالار سے کرنے کے بجائے کہیں اور کردیتا لیکن میرے ذہن میں سالار کے علاوہ اور کوئی آیا ہی نہیں۔ آپ خاموش کیوں ہیں آمنہ؟" انہیں بات کرتے کرتے اس کا خیال آیا۔ "ابو! آپ واپس کب آئیں گے؟" "میں ایک ہفتے تک آرہا ہوں۔" ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔ "مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔ مجھے آپ کو بہت کچھ بتانا ہے۔" "آپ خوش نہیں ہیں؟" ڈاکٹر سبط علی کو اس کے لہجے نے پریشان کیا۔ "آپ پاکستان آجائیں پھر میں آپ سے بات کروں گی۔" اس نے حتمی لہجے میں کہا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ رات کو سونے سے پہلے وضو کے لئے باتھ روم میں گئی۔ وضو کرکے واپس آتے ہوئے اپنے کمرے میں جانے کے بجائے وہ صحن میں برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ گھر میں اس وقت کوئی مہمان نہیں تھا۔ وہ اور سعیدہ اماں ہمیشہ کی طرح تنہا تھے۔ سعیدہ اماں تھکاوٹ کی وجہ سے بہت جلد سو گئی تھیں۔ وہ ملازمہ کے ساتھ گھر میں موجود کام نبٹاتی رہی۔ ساڑھے دس بجے کے قریب ملازمہ بھی اپنا کام ختم کرکے سونے کے لئے چلی گئی۔ وہ شادی کے کاموں کی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے وہیں رہ رہی تھی۔ امامہ کچن اور اپنے کمرے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے کام نپٹاتی رہی۔ وہ جس وقت ان سب کاموں سے فارغ ہوئی اس وقت رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ وہ بہت تھک چکی تھی مگر سونے سے پہلے وضو کرنے کے بعد صحن سے گزرتے ہوئے یکدم ہی اس کا دل اپنے کمرے میں جانے کو نہیں چاہا۔ وہ وہیں برآمدے میں بیٹھ گئی۔ صحن میں جلنے والی روشنیوں میں اس نے اپنے ہاتھ اور کلائیوں پر لگی ہوئی مہندی کو دیکھا۔ مہندی بہت اچھی رچی تھی۔ اس کے ہاتھ کہنیوں تک سرخ بیل بوٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔اس نے کل بہت سالوں کے بعد پہلی بار بڑے شوق سے مہندی لگوائی تھی۔ اسے مہندی بہت پسند تھی۔ تہواروں کے علاوہ بھی وہ اکثر اپنے ہاتھوں پر مہندی لگایا کرتی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال پہلے اپنے گھر سے نکل آنے کے بعد اس نے کبھی مہندی نہیں لگائی تھی۔ غیر محسوس طور پر ان تمام چیزوں سے اس کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال کے بعد پہلی بار اس نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھوں پر نقش و نگار بنوائے تھے نہ صرف ہاتھوں پر بلکہ پیروں پر بھی۔ وہ اپنے پیروں کو دیکھنے لگی۔ شال کو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کو اس کے نیچے چھپا لیا۔ "اسجد سے جلال۔۔۔۔۔ جلال سے فہد۔۔۔۔۔ اور فہد سے سالار۔۔۔۔۔ ایک شخص کو میں نے رد کیا۔ دو نے مجھے رد کیا اور چوتھا شخص جو میری زندگی میں شامل ہوا وہ سب سے بدترین ہے۔۔۔۔۔ سالار سکندر۔" اس کے اندر دھواں سا بھر گیا۔ وہ اپنے اسی حلیے کے ساتھ اس کے سامنے تھا۔ کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیر، ہیربینڈ میں بندھے بال، چبھتی ہوئی تضحیک آمیز نظریں،دائیں گال پر مذاق اڑاتی مسکراہٹ کے ساتھ پڑنے والا ڈمپل، کلائیوں میں لٹکتے بینڈز اور بریسلٹ، عورتوں کی تصویروں والی تنگ جینز۔ وہ جیسے اس کی زندگی کے سب سے خوبصورت خواب کی سب سے بھیانک تعبیر بن کر سامنے آیا تھا۔ اس کے دل میں سالار سکندر کے لئے ذرہ برابر عزت نہ تھی۔ "میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد میری زندگی میں آئے۔" اس نے کئی سال پہلے فون پر اس سے کہا تھا۔ "شاید اسی لئے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی کیونکہ نیک مردوں کے لئے نیک عورتیں ہوتی ہیں، تمہارے جیسی نہیں۔" سالار نے جواباً کہا تھا۔ امامہ نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ "چاہے کچھ ہوجائے سالار! میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔ تم واقعی مر جاتے تو زیادہ اچھا تھا۔" وہ بڑبڑائی تھی۔ اس وقت ایک لمحے کے لئے بھی اسے خیال نہیں آیا تھا کہ سالار نے کبھی اس پر کوئی احسان کیا تھا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈآکٹر سبط علی جس رات پاکستان واپس آئے تھے اس رات امامہ ان کے گھر پر ہی تھی مگر رات کو اس نے ان سے سالار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ مریم ابھی لاہور میں ہی تھی اس لئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ اگلے دن صبح بھی وہ سب اسی طرح اکٹھے بیٹھے باتیں کرتے رہے، وہ امامہ کو ان تحائف کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ انگلینڈ سے امامہ اور سالار کے لئے لے کر آئے تھے۔ امامہ خاموشی سے سنتی رہی۔ "سالار بھائی کو تو آج افطاری پر بلائیں۔" یہ مریم کی تجویز تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے مریم کے کہنے پر سالار کو فون کیا۔ امامہ تب بھی خاموش رہی۔ وہ دوپہر کی نماز پڑھنے کے لئے باہر جانے لگے تو امامہ ان کے ساتھ باہر پورچ تک آگئی۔ "ابو! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" اس نے دھیرے سے کہا۔ "ابھی؟" ڈاکٹر سبط علی نے حیرانی سے کہا۔ "نہیں، آپ نماز پڑھ آئیں پھر واپسی پر۔" وہ کچھ دیر تشویش سے اسے دیکھتے رہے اور پھر کچھ کہے بغیر باہر چلے گئے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں سالار سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔" وہ مسجد سے واپسی پر اسے لے کر اپنی اسٹڈی میں آگئے تھے اور امامہ نے بلا کسی تمہید یا توقف کے اپنا مطالبہ پیش کردیا۔ "آمنہ! " وہ دم بخود رہ گئے۔ "میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔" وہ مسلسل فرش پر غور کررہی تھی۔ "آمنہ! آپ کے ساتھ اس کی دوسری شادی ضرور ہے لیکن اس کی پہلی بیوی کا کوئی پتا نہیں ہے۔ فرقان بتا رہا تھا کہ تقریبا ً نو سال سے ان دونوں میں کوئی رابطہ نہیں ہے اور شادی بھی نہیں، صرف نکاح ہوا تھا۔" ڈاکٹر سبط علی اس کے انکار کو پہلی شادی کے ساتھ جوڑ رہے تھے۔ "کون جانتا ہے وہ کہاں ہے، کہاں نہیں۔ نو سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔" "میں اس کی پہلی بیوی کو جانتی ہوں۔" اس نے اسی طرح سرجھکائے ہوئے کہا۔ "آپ؟" ڈاکٹر سبط علی کو یقین نہیں آیا۔ "وہ میں ہوں۔" اس نے پہلی بار سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ وہ بولنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ "آپ کو یاد ہے نو سال پہلے میں ایک لڑکے کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور آئی تھی جس کے بارے میں آپ نے مجھے بعد میں بتایا تھا کہ میری فیملی نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے۔" "سالار سکندر۔۔۔۔۔" ڈاکٹر سبط علی نے بے اختیار اس کی بات کاٹی۔ "یہ وہی سالار سکندر ہے؟" امامہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ جیسے شاک میں تھے۔ سالار سکندر سے ان کی فرقان کے توسط سے پہلی ملاقات امامہ کے گھر سے چلے آنے کے چار سال بعد ہوئی تھی اور ان کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ اس سالار کا امامہ سے کوئی تعلق ہوسکتا تھا۔ چار سال پہلے سنے جانے والے ایک نام کو وہ چار سال بعد ملنے والے ایک دوسرے شخص کے ساتھ نتھی نہیں کرسکتے تھے اور کربھی دیتے اگر وہ چار سال پہلے والے سالار سے ہی ملتے مگر وہ جس شخص سے ملے تھے، وہ حافظ قرآن تھا۔ اس کے انداز اطوار اور گفتار میں کہیں اس ذہنی مرض کا عکس نہیں پایا جاتا تھا جس کا حوالہ انہیں امامہ نے کئی بار دیا تھا۔ ان کا دھوکا کھا جانا ایک فطری امر تھا یا پھر یہ سب اسی طرح سے طے کیا گیا تھا۔ "اور آپ نے نوسال پہلے اس سے شادی کی تھی؟" وہ ابھی بھی بے یقینی کا شکار تھے۔ "صرف نکاح۔" اس نے مدھم آواز میں کہا۔ "اور پھر اس نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے تھے پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ "آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا چاہیے تھا آمنہ! میں آپ کی مدد کرسکتا تھا۔ امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ "آپ ٹھیک کہتے ہیں مجھے آپ پر اعتبار کرلینا چاہیے تھا مگر اس وقت میرے لئے یہ بہت مشکل تھا۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ میں اس وقت کس ذہنی کیفیت سے گزر رہی تھی یا پھر شاید میری قسمت میں یہ آزمائش بھی لکھی تھی اسے آنا ہی تھا۔" وہ بات کرتے کرتے رکی پھر اس نے نم آنکھوں کے ساتھ سر اٹھا کر ڈاکٹر سبط علی کو دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کی۔ "لیکن اب تو سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا۔ اب تو آپ طلاق لینے میں میری مدد کرسکتے ہیں۔" "نہیں، میں اب اس طلاق میں کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ آمنہ! میں نے اس سے آپ کی شادی کروائی ہے۔" انہوں نے جیسے اسے یاد دلایا۔ "اسی لئے تو میں آپ سے کہہ رہی ہوں۔ آپ اس سے مجھے طلاق دلوا دیں۔" "لیکن کیوں، میں کیوں اس سے آپ کو طلاق دلوا دوں؟" "کیونکہ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک۔۔۔۔۔ اچھا آدمی نہیں ہے کیونکہ میں نے اپنی زندگی کو سالار جیسے آدمی کے ساتھ گزارنے کا نہیں سوچا۔ ہم دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔" وہ بے حد دلبرداشتہ ہورہی تھی۔ "میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی ابو! میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی مگر اس بار مجھے اللہ سے بہت شکایت ہے۔" وہ گلوگیر لہجے میں بولی۔ "میں اتنی محبت کرتی ہوں اللہ سے۔۔۔۔۔ اور دیکھیں اللہ نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میرے لئے دنیا کے سب سے برے آدمی کو چنا۔" وہ اب رو رہی تھی۔ "لڑکیاں اتنا کچھ مانگتی ہیں۔۔۔۔۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا، صرف ایک "صالح آدمی" مانگا تھا۔ اس نےمجھے وہ تک نہیں دیا۔ کیا اللہ نے مجھے کسی صالح آدمی کے قابل نہیں سمجھا۔" وہ بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ "امامہ! وہ صالح آدمی ہے۔" "آپ کیوں اسے صالح آدمی کہتے ہیں؟ وہ صالح آدمی نہیں ہے۔ میں اس کو جانتی ہوں، میں اس کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔" "میں بھی اس کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔" "آپ اس کو اتنا نہیں جانتے جتنا میں جانتی ہوں۔ وہ شراب پیتا ہے، وہ نفسیاتی مریض ہے کئی بار خودکشی کی کوشش کرچکا ہے۔ گریبان کھلا چھوڑ کر پھرتا ہے۔ عورت کو دیکھ کر اپنی نظر تک نیچی رکھنا نہیں جانتا اور آپ کہتے ہیں وہ صالح آدمی ہے؟" "امامہ! میں اس کے ماضی کو نہیں جانتا، میں اس کے حال کو جانتا ہوں۔ وہ ان میں سے کچھ بھی نہیں جو آپ کہہ رہی ہیں۔" "آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرتا۔ وہ جھوٹامکار ہے میں اس کو جانتی ہوں۔" "وہ ایسا نہیں ہے۔" "ابو! وہ ایسا ہی ہے۔" "ہوسکتا ہے اسے واقعی آپ سے محبت ہو۔ وہ آپ کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہو۔" "مجھے ایسی محبت کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اس کی نظروں سے گھن آتی ہے۔ مجھے اس کے کھلے گریبان سے گھن آتی ہے۔ میں ایسے کسی آدمی کی محبت نہیں چاہتی۔ وہ بدل نہیں سکتا۔ ایسے لوگ کبھی نہیں بدلتے۔ وہ صرف اپنے آپ کو چھپا لیتے ہیں۔" "نہیں، سالار ایسا کچھ نہیں کررہا۔" "ابو! میں سالار جیسے کسی شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ ہر چیز کا مذاق اڑاتا ہے۔ مذہب کا، زندگی کا، عورت کا۔۔۔۔۔ کیا ہے جسے وہ چٹکیوں میں اڑانا نہیں جانتا۔ جس شخص کے نزدیک میرا اپنے مذہب کو چھوڑ دینا ایک حماقت ہے، جس کے نزدیک مذہب پر بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے جو صرف "What is next to ecstasy" کا مطلب جاننے کے لئے خودکشیاں کرتا پھرتا ہو، جس کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف عیش ہے۔ وہ میرے ساتھ محبت کرے بھی تو کیا صرف محبت کی بنیاد پر میں اس کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں؟ میں نہیں گزار سکتی۔" "ساڑھے آٹھ سال سے وہ آپ کے ساتھ قائم ہونے والے اس اتفاقیہ رشتے کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ آپ کو آپ کے تمام نظریات اور عقائد کو جانتے ہوئے بھی اور وہ آپ کے انتظار میں بھی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ آپ اس کے ساتھ رہنے پر تیار ہوجائیں گی۔ کیا ان ساری خواہشوں کے ساتھ اس نے اپنے اندر کچھ تبدیلی نہیں کی ہوگی؟" "میں نے اس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی۔ میں نے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔" وہ اب بھی اپنی بات پر مصر تھی۔ "مجھے حق ہے کہ میں اس شخص کے ساتھ نہ رہوں۔" "لیکن اللہ یہ کیوں کررہا ہے کہ اس شخص کو باربار آپ کے سامنے لارہا ہے۔ دو دفعہ آپ کا نکاح ہوا اور دونوں دفعہ اسی آدمی سے۔" وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔ "میں نے زندگی میں ضرور کوئی گناہ کیا ہوگا، اس لیے میرے ساتھ ایسا ہورہا ہے۔" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ "آمنہ! آپ کبھی ضد نہیں کرتی تھیں پھر اب کیا ہوگیا ہے آپ کو؟" ڈاکٹر سبط علی حیران تھے۔ "آپ مجھے مجبور کریں گے تو میں آپ کی بات مان لوں گی کیونکہ آپ کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ میں تو آپ کی کسی بات کو رد کر ہی نہیں سکتی لیکن آپ اگر یہ کہیں گے کہ میں اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ اس کے ساتھ زندگی گزاروں تو وہ میں کبھی نہیں کرسکوں گی۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ کتنا تعلیم یافتہ ہے، کتنے اچھے عہدے پر کام کررہا ہے یا مجھے کیا دے سکتا ہے۔ آپ ایک ان پڑھ آدمی سے شادی کردیتے لیکن وہ اچھا انسان ہوتا تو میں کبھی آپ سے شکوہ نہیں کرتی لیکن سالار، وہ آنکھوں دیکھی مکھی ہے جس کو میں اپنی خوشی سے نگل نہیں سکتی۔ آپ سالار کے بارے میں وہ جانتے ہیں جو آپ نے سنا ہے۔ میں اس کے بارے میں وہ جانتی ہوں جو میں نے دیکھا ہے۔ ہم پندرہ سال ایک دوسرے کے ہمسائے رہے ہیں۔ آپ تو اس کو چند سالوں سے جانتے ہیں۔" "آمنہ! میں آپ کو مجبور کبھی نہیں کروں گا۔ یہ رشتہ آپ اپنی خوشی سے قائم رکھنا چاہیں گی تو ٹھیک لیکن صرف میرے کہنے پر اسے قائم رکھنا چاہو تو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ ایک بار سالار سے مل لیں پھر بھی اگر آپ کا یہی مطالبہ ہوا تو میں آپ کی بات مان لوں گا۔" ڈاکٹر سبط علی بے حد سنجیدہ تھے۔ اسی وقت ملازم نے آکر سالار کے آنے کی اطلاع دی۔ ڈاکٹر سبط علی نے اپنی گھڑی پر ایک نظر دوڑائی اور ملازم سے کہا۔ "انہیں اندر لے آؤ۔" "ٰیہاں؟" ملازم حیران ہوا۔ "ہاں یہی پر۔" ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔ امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ "میں ابھی اس طرح اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔" اس کا اشارہ اپنی متورم آنکھوں اور سرخ چہرے کی طرف تھا۔ "آپ نے ابھی تک اسے دیکھا نہیں ہے۔ آپ اسے دیکھ لیں۔" انہوں نے دھیمے لہجے میں اس سے کہا۔ "یہاں نہیں، میں اندر کمرے میں سے اسے دیکھ لوں گی۔" وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کمرے کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔ اس نے اسے بند نہیں کیا۔ کمرے میں تاریکی تھی۔ ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج سے آنے والی روشنی اتنی کافی نہیں تھی کہ کمرے کے اندر اچھی طرح سے دیکھا جاسکتا۔ وہ اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کو مسلا۔ وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں سے وہ لاؤنج کو بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ نوسال کے بعد اس نے ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج میں نمودار ہوتے اس شخص کو دیکھا۔ جیسے وہ ایک طویل عرصہ پہلے مردہ سمجھ چکی تھی جس سے زیادہ نفرت اور گھن اسے کبھی کسی سے محسوس نہیں ہوئی تھی جسے وہ بدترین لوگوں میں سے ایک سمجھتی تھی اور جس کے نکاح میں وہ پچھلے کئی سالوں سے تھی۔ تقدیر کیا اس کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟ اپنی آنکھوں میں اترتی دھند کو انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا۔ ڈاکٹر سبط علی اس سے گلے مل رہے تھے۔ اس کی پشت امامہ کی طرف تھی۔ اس نے معانقہ کرنے سے پہلے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پھول اور ایک پیکٹ سینٹر ٹیبل پر رکھا تھا۔ معانقے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور تب پہلی بار امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔ کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیریں، ہاتھوں میں لٹکتے بینڈز، ربر بینڈ میں بندھے بالوں کی پونی، وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ کریم کلر کے ایک سادہ شلوار سوٹ پہ واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔ "ہاں ظاہر طور پر بہت بدل گیاہے۔" اسے دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا کہ یہ کبھی۔۔۔۔۔ اس کی سوچ کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ اب ڈاکٹر سبط علی سے باتیں کررہا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی اسے شادی کی مبارک باد دے رہے تھے۔ وہ وہاں بیٹھی ان دونوں کی آوازیں باآسانی سن سکتی تھی اور وہ ڈاکٹر سبط علی کے استفسار پر انہیں امامہ کے ساتھ ہونے والے اپنے نکاح کے بارے میں بتا رہا تھا۔ وہ اپنے پچھتاوے کا اظہار کررہا تھا کہ کس طرح اس نے جلال کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔ کس طرح اس نے طلاق کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔ "میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اتنی تکلیف کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ وہ میرے ذہن سے نکلتی ہی نہیں۔" وہ دھیمے لہجے میں ڈاکٹر سبط علی کو بتا رہا تھا۔ "بہت عرصے تو میں ابنارمل رہا۔ اس نے مجھ سے حضرت محمد ﷺ کے واسطے مدد مانگی تھی۔ یہ کہہ کر کہ میں ایک مسلمان ہوں، ختم نبوت پر یقین رکھنے والا مسلمان۔ میں دھوکا نہیں دوں گا اسے اور میری پستی کی انتہا دیکھیں کہ میں نے اسے دھوکا دیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ میرے نبی ﷺ سے اس قدر محبت کرتی ہے کہ سب کچھ چھو ڑکر گھر سے نکل آئی اور میں اس کا مزاق اڑاتا رہا، اسے پاگل سمجھتا اور کہتا رہا۔ جس رات میں اسے لاہور چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھے راستے میں کہا تھا کہ ایک دن ہر چیز مجھے سمجھ آجائے گی، تب مجھے اپنی اوقات کا پتہ چل جائے گا۔" وہ عجیب سے انداز میں ہنسا تھا۔ "اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ مجھے واقعی ہر چیز کی سمجھ آگئی۔ اتنے سالوں میں، میں نے اللہ سے اتنی دعا اور توبہ کی ہے کہ۔۔۔۔۔" وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ امامہ نے اسےسینٹر ٹیبل کے شیشے کے کنارے پر اپنی انگلی پھیرتے دیکھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ آنسو ضبط کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ "بعض دفعہ مجھے لگتا ہے کہ شاید میری دعا اور توبہ قبول ہوگئی۔" وہ رکا۔ "مگر اس دن۔۔۔۔۔ میں آمنہ کے ساتھ نکاح کے کاغذات پر دستخط کررہا تھا تو مجھے اپنی اوقات کا پتا چل گیا۔ میری دعا اور توبہ کچھ بھی قبول نہیں ہوئی۔ ایسا ہوتا تو مجھے امامہ ملتی، آمنہ نہیں۔ خواہش تو اللہ انسان کو وہ دے دیتا ہے کہ معجزوں کے علاوہ کوئی چیز جسے پورا کر ہی نہیں سکتی۔ میری خواہش دیکھیں میں نے اللہ سے کیا مانگا۔ ایک ایسی لڑکی جسے کسی اور سے محبت ہے۔ جو مجھے اسفل السافلین سمجھتی ہے، جسے میں نو سال سے ڈھونڈ رہا ہوں مگر اس کا کچھ پتا نہیں ہے۔ اور میں۔۔۔۔۔ میں خواہش لئے پھر رہا ہوں اس کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کی۔ یوں جیسے وہ مل ہی جائے گی، یوں جیسے وہ مل گئی تو میرے ساتھ رہنے کو تیار ہوجائے گی، یوں جیسے وہ جلال انصرکو بھلا چکی ہوگی۔ ولیوں جتنی اور ولیوں جیسی عبادت کرتا تو شاید اللہ میرے لئے یہ معجزے کردیتا پر میرے جیسے آدمی کے لئے۔۔۔۔۔ میری اوقات تو یہ ہے کہ لوگ خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بخشش مانگتے ہیں۔ میں وہاں کھڑا ہوکر بھی اسے ہی مانگتا رہا۔ شاید اللہ کو یہی برا لگا۔" امامہ کے جسم سے ایک کرنٹ گزرا تھا۔ ایک جھماکے کی طرح وہ خواب اسے یاد آیا تھا۔ "میرے اللہ!" اس نے اپنے دونوں ہاتھ ہونٹوں پر رکھ لئے تھے۔ وہ بے یقینی سے سالار کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خواب میں اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ سکی تھی۔ "کیا وہ یہ شخص تھا، یہ جو میرے سامنے بیٹھا ہے، یہ آدمی؟" اس نے خواب میں اس آدمی کو جلال سمجھا تھا مگر اسے یاد آیا جلال دراز قد نہیں تھا، وہ آدمی دراز قد تھا۔ سالار سکندر دراز قد تھا۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔ جلال کی رنگت گندمی تھی۔ اس آدمی کی رنگت صاف تھی۔ سالار کی رنگت صاف تھی۔ اس نے خواب میں اس آدمی کے کندھے پر ایک تیسری چیز بھی دیکھی تھی۔ وہ تیسری چیز؟ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا۔ وہ معجزوں کے نہ ہونے کی باتیں کررہا تھا اور ۔۔۔۔۔ اندر ڈاکٹر سبط علی خاموش تھے۔ وہ کیوں خاموش تھے۔ یہ صرف وہ اور امامہ جانتے تھے، سالار سکندر نہیں۔ امامہ نے اپنی آنکھیں رگڑیں اور چہرے سے ہاتھ ہٹا دیے۔ اس نے ایک بار پھر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس شخص کو دیکھا۔ نہ وہ ولی تھا نہ درویش۔۔۔۔۔ صرف سچے دل سے توبہ کرنےو الا شخص تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار احسااس ہوا کہ جلال اور اس کے درمیان کیا چیز آکر کھڑی ہوگئی تھی جس نے اتنے سالوں میں جلال کے لئے اس کی ایک دعا قبول نہیں ہونے دی۔ کونسی چیز آخری وقت میں فہد کی جگہ اس کو لے آئی تھی۔ اس شخص میں کوئی نہ کوئی بات تو ایسی ہوگی کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں، میری نہیں۔ ہر بار مجھے پلٹا کر اسی کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 50 (آخری قسط )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ نے اپنی آنکھیں رگڑیں اور چہرے سے ہاتھ ہٹا دیے۔ اس نے ایک بار پھر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس شخص کو دیکھا۔ نہ وہ ولی تھا نہ درویش۔۔۔۔۔ صرف سچے دل سے توبہ کرنےو الا شخص تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار احسااس ہوا کہ جلال اور اس کے درمیان کیا چیز آکر کھڑی ہوگئی تھی جس نے اتنے سالوں میں جلال کے لئے اس کی ایک دعا قبول نہیں ہونے دی۔ کونسی چیز آخری وقت میں فہد کی جگہ اس کو لے آئی تھی۔ اس شخص میں کوئی نہ کوئی بات تو ایسی ہوگی کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں، میری نہیں۔ ہر بار مجھے پلٹا کر اسی کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتے سوچا۔ اس نے ڈاکٹر سبط علی کو اسے صالح آدمی کہتے سنا۔ وہ جانتی تھی وہ یہ بات کس لئے کہہ رہے تھے۔ وہ سالار کو نہیں بتارہے تھے۔ وہ امامہ کو بتا رہے تھے۔ وہ اسے صالح قرار نہ بھی دیتے تب بھی وہ اسے صالح ماننے پر مجبور تھی۔ اس کے پاس جو گواہی تھی وہ دنیا کی ہر گواہی سے بڑھ کر تھی۔ اس کے پاس جو ثبوت تھا اس کے بعد اور کسی ثبوت کی ضرورت تھی نہ گنجائش۔ اسے کیا "بتا" دیا گیا تھا، اسے کیا "جتا" دیا گیا تھا۔ وہ جانتی تھی۔۔۔۔۔ صرف وہی جان سکتی تھی۔ افطاری کے بعد سالار اور ڈاکٹر سبط علی نماز پڑھنے کے لئے چلے گئے۔ وہ منہ ہاتھ دھو کر کچن میں چلی آئی۔ ان کے آنے سے پہلے اس نے ملازم کے ساتھ مل کر کھانا لگا دیا تھا۔ سالار کی واپسی کھانے کے بعد ہوئی تھی اور اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر سبط علی جس وقت کچن میں آئی، اس وقت امامہ کچن کی میز پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں اب بھی متورم تھیں مگر چہرہ پرسکون تھا۔ "میں نے سالار کو آپ کے بارے میں نہیں بتایا لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اب جلد از جلد اس سے مل کر بات کرلیں۔" ڈاکٹر سبط علی نے اس سے کہا۔ "مجھے اس سے کوئی بات نہیں کرنی۔" وہ پانی پیتے ہوئے رک گئی۔ "اسے اللہ نے میرے لئے منتخب کیا ہے اور میں اللہ کے انتخاب کو رد کرنے کی جرات نہیں کرسکتی۔ اس نے کہا ہے کہ وہ توبہ کرچکا ہے وہ نہ بھی کرتا ویسا ہی ہوتا جیسا پہلے تھا تب بھی میں اس کے پاس چلی جاتی اگر میں جان لیتی کہ اسے اللہ نے میرے لئے منتخب کیا ہے۔" وہ اب دوبارہ پانی پی رہی تھی۔ "آپ اس سے کہیں مجھے لے جائے۔" ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سالار جس وقت مغرب کی نماز پڑھ کر آیا تب تک امامہ فرقان کی بیوی کے ساتھ کھانے کی میز پر کھانا لگا چکی تھی۔ فرقان اور سالار کی عدم موجودگی میں اس بار آمنہ اصرار کرکے اس کے ساتھ کام کرنے لگی۔ سالار کے آنے پر وہ اپنے فلیٹ جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ سالار اور امامہ نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ "نہیں، مجھے بچوں کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔ وہ بے چارے انتظار کررہے ہوں گے۔" "آپ انہیں بھی یہیں بلوا لیں۔" سالار نے کہا۔ "نہیں بھئی، میں اس قسم کی فضول حرکت نہیں کرسکتی۔ امامہ تو پھر تمہیں پتا ہے یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے گی۔" نوشین نے اپنی بیٹی کا نام لیا۔ "سالار بڑا پیار کرتا ہے امامہ کے ساتھ۔" فرقان کی بیوی نے امامہ سے کہا۔ ایک لمحے کے لئے سالار اور امامہ کی نظریں ملیں پھر سالار برق رفتاری سے مڑ کر ٹیبل پر پڑے گلاس میں جگ سے پانی انڈیلنے لگا۔ نوشین نے حیرانی سے امامہ کے سرخ ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھا مگر وہ سمجھ نہیں پائیں۔ "تم لوگ کھانا کھاؤ۔ سحری بھی میں ملازم کے ہاتھ بھجوا دوں گی۔ تم لوگ کچھ تیار مت کرنا۔" ان کے جانے کے بعد سالار دروازہ بند کرکے واپس آگیا۔ امامہ کو مخاطب کئے بغیر وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا لیکن اس نے کھانا شروع نہیں کیا۔ امامہ چند لمحے کھڑی کچھ سوچتی رہی پھر خود بھی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اس کے بیٹھ جانے کے بعد سالار نے اپنے سامنے پڑے پلیٹ میں چاول نکالنا شروع کئے۔ کچھ چاول نکال لینے کے بعد اس نے دائیں ہاتھ سے چاولوں کا ایک چمچ منہ میں ڈالا۔ چند لمحوں کے لئے امامہ کی نظر اس کے دائیں ہاتھ سے ہوتے ہوئےاس کے چہرے پر گئی۔ سالار اس کی طرف متوجہ نہیں تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ کیا دیکھ رہی تھی۔ کھانا بہت خاموشی سے کھایا گیا۔ امامہ کو اس کی خاموشی اب بری طرح چبھنے لگی تھی۔ آخر وہ اس سے بات کیوں نہیں کررہا تھا؟ "کیا مجھے دیکھ کر اتنا شاک لگا ہے اسے؟ یا پھر؟" اسے اپنی بھوک غائب ہوتی محسوس ہوئی۔ اسے اپنی پلیٹ میں موجود کھانا ختم کرنا مشکل لگنے لگا۔ سالار اس کے برعکس بہت اطمینان اور تیز رفتاری سے کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے جس وقت کھانا ختم کیا، اس وقت عشاء کی اذان ہورہی تھی۔ امامہ کے کھانا ختم کر کرنے کا انتظار کئے بغیر وہ میز سے اٹھ کر اپنے بیڈروم میں چلا گیا۔ امامہ نے اپنی پلیٹ پیچھے سرکادی۔ وہ میز پر پڑے برتن سمیٹنے لگی جب اس نے سالار کو تبدیل شدہ لباس میں برآمد ہوتے دیکھا۔ ایک بار پھر اسے مخاطب کئے بغیر وہ فلیٹ سے نکل گیا تھا۔ امامہ نے بچے ہوئے کھانے کو فریج میں رکھ دیا۔ برتنوں کو سنک میں رکھنے کے بعد اس نے میز صاف کی اور خود بھی نماز پڑھنے چلی گئی۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ وہ عشاء کی نماز کے بعد جس وقت واپس لوٹا اس وقت وہ کچن میں برتن دھونے میں مصروف تھی۔ سالار اپنے پاس موجود چابی سے فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر آگیا۔ سالار لاؤنج سے گزرتے ہوئے رک گیا۔ کچن کے دروازے کی طرف امامہ کی پشت تھی اور وہ سنک کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کا دوپٹہ لاؤنج کے صوفے پر پڑا ہوا تھا۔ سالار نے پہلی بار اسے سعیدہ اماں کے ہاں کچھ گھنٹے پہلے دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا اور اب وہ ایک بار پھر اسے دوپٹے کے بغیر دیکھ رہا تھا۔ نوسال پہلے وضو کرتے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار امامہ کو اس چادر کے بغیر دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی جو وہ اوڑھے رکھتی تھی۔ نوسال بعد اس کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ اس نے نوسال میں کئی بار اسے اپنے گھر میں "محسوس" کیا تھا مگر آج جب وہ اسے وہاں "دیکھ" رہا تھا تو وہ دم بخود تھا۔ اس کے سیاہ بال ڈھیلے ڈھالے انداز میں جوڑے کی شکل میں لپیٹے گئے تھے اور سفید سویٹر کی پشت پر وہ یکدم بہت نمایاں ہوگئے تھے۔ نکاح نامے پر آمنہ مبین ولد ہاشم مبین احمد کو اپنی بیوی کے طور پر تسلیم کرنے کا اقرار کرتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا تھا نہ ہی ہاشم مبین احمد کے نام نے اسے چونکایا تھا۔ وہ سعیدہ اماں کی "بیٹی" سے شادی کررہا تھا۔ اس کا نام امامہ ہاشم بھی ہوتا تب بھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ کبھی نہیں آتا کہ یہ وہی امامہ تھی، کوئی اور نہیں اور اسے سعیدہ اماں کے صحن میں کھڑا دیکھ کر اسے ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ نہیں رہا تھا کہ اس کا نکاح کس سے ہوا تھا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ "تمہیں پتا ہے امامہ! نوسال میں کتنے دن، کتنے گھنٹے، کتنے منٹ ہوتے ہیں؟" خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی آواز میں جسم کو چٹخا دینے والی ٹھنڈک تھی۔ امامہ نے ہونٹ بھینچتے ہوئے نلکا بند کردیا۔ وہ اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ اتنا قریب کہ وہ اگر مڑنے کی کوشش کرتی تو اس کا کندھا ضرور اس کے سینے سے ٹکرا جاتا۔ اس نے مڑنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنی گردن کی پشت پر اس کے سانس لینے کی مدھم آواز سن سکتی تھی۔ وہ اب اس کے جواب کا منتظر تھا۔ اس کے پاس جواب نہیں تھا۔ سنک کے کناروں پر ہاتھ جمائے وہ نلکےسے گرتے ہوئے چند آخری قطروں کو دیکھتی رہی۔ "کیا ان سالوں میں ایک بار بھی تم نے میرے بارے میں سوچا؟ سالار کے بارے میں؟" اس کے سوال مشکل ہوتے جارہے تھے۔ وہ ایک بار پھر چپ رہی۔ "What is next to ecstasy؟" وہ جواب کا انتظار کئے بغیر کہہ رہا تھا۔ "تم نے کہا تھا pain تم نے ٹھیک کہا تھا It was pain " وہ ایک لمحہ کے لئے رکا۔ "میں یہاں اس گھر میں ہر جگہ تمہیں اتنی بار دیکھ چکا ہوں کہ اب تم میرے سامنے ہو تو مجھے یقین نہیں آرہا۔" امامہ نے سنک کے کناروں کو اور مضبوطی سے تھام لیا۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو روکنے کے لئے وہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ "مجھے لگتا ہے، میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ آنکھیں کھولوں گا تو۔۔۔۔۔" وہ رکا۔ امامہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ "تو سب کچھ ہوگا، بس تم نہیں ہوگی۔ آنکھیں بند کروں گا تو۔۔۔۔۔" امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے گال بھیگ رہے تھے۔ "تو بھی اس خواب میں دوبارہ نہیں جا پاؤں گا۔ تم وہاں بھی نہیں ہوگی، مجھے تمہیں ہاتھ لگاتے ڈر لگتا ہے۔ ہاتھ بڑھاؤں گا تو سب کچھ تحلیل ہوجائے گا جیسے پانی میں نظر آنے والا عکس۔" "اور تم ہو کون امامہ۔۔۔۔۔؟ آمنہ۔۔۔۔۔؟ میرا وہم۔۔۔۔۔؟ یا پھر کوئی معجزہ؟" "کیا میں تمہیں یہ بتاؤں کہ مجھے۔۔۔۔۔ مجھے تم سے۔۔۔۔۔" وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ امامہ کی آنکھوں سے نکلنے والا پانی اس کے چہرے کو بھگوتا ہوا اس کی ٹھوڑی سے ٹپک رہا تھا۔ وہ کیوں رکا تھا، وہ نہیں جانتی تھی مگر اسے زندگی میں کبھی خاموشی اتنی بری نہیں لگی تھی جتنی اس وقت لگی تھی۔ وہ بہت دیر خاموش رہا۔ اتنی دیر کہ وہ اسے پلٹ کر دیکھنے پر مجبور ہوگئی اور تب اسے پتا چلا کہ وہ کیوں خاموش ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ بھی بھیگا ہوا تھا۔ وہ دونوں زندگی میں پہلی بار ایک دوسرے کو اتنے قریب سے دیکھ رہے تھے۔ اتنے قریب کہ وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں نظر آنے والے اپنے اپنے عکس کو بھی دیکھ سکتے تھے پھر سالار نے نظریں چرانے کی کوشش کی تھی۔ وہ اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کو صاف کررہا تھا۔ "تم مجھ سے اور میں تم سے کیا چھپائیں گے سالار! سب کچھ تو جانتے ہیں ہم ایک دوسرے کے بارے میں۔" امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ سالار نے ہاتھ روک کر سراٹھایا۔ "میں کچھ نہیں چھپا رہا۔ میں آنسوؤں کو صاف کررہا ہوں تاکہ تمہیں اچھی طرح دیکھ سکوں۔ تم پھر کسی دھند میں لپٹی ہوئی نظر نہ آؤ۔" وہ اس کے کان کی لو میں لٹکنے والے ان موتیوں کو دیکھ رہا تھا جنہیں اس نے بہت سال پہلے بھی دیکھا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ آج وہ بہت قریب تھے۔ ایک بار ان موتیوں نے اسے بہت رلایا تھا۔ وہ موتی آج بھی رلا رہے تھے، اپنے ہر ہلکورے کے ساتھ، وہم سے جنبش، جنبش سے وہم بنتے ہوئے۔ وہ اپنے کانوں کی لوؤں پر اس کی محویت محسوس کررہی تھی۔ "میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں کبھی تمہارے اتنے قریب کھڑے ہوکر تم سے بات کروں گی۔" وہ مسکرایا لیکن نم آنکھوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ امامہ نے اس کے دائیں گال میں چند لمحوں کے لئے ابھرنے والا گڑھا دیکھا۔ مسکراتے ہوئے اس کے صرف ایک گال میں ڈمپل پڑتا تھا، دائیں گال میں اور نو سال پہلے امامہ کو اس ڈمپل سے بھی بڑی جھنجھلاہٹ ہوتی تھی۔ نوسال کے بعد اس ڈمپل نے پہلی بار عجیب سے انداز میں اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔ "میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی تمہارے کان میں موجود ائیررنگ کو ہاتھ لگاؤں گا اور تم۔۔۔۔۔" وہ اب اس کے دائیں کان میں ہلکورے لیتے ہوئے موتی کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے روک رہا تھا۔ "اور تم۔۔۔۔۔ تم مجھے ایک تھپڑ نہیں کھینچ مارو گی۔" امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ سالار کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ اگلے لمحے وہ گیلے چہرے کے ساتھ بے اختیار ہنسی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔ "تمہیں ابھی بھی وہ تھپڑ یاد ہے۔ وہ ایک reflex action تھا اور کچھ نہیں۔" امامہ نے ہاتھ کی پشت سے اپنے بھیگے گالوں کو صاف کیا۔ وہ ایک بار پھر مسکرایا۔ ڈمپل ایک بار پھر نمودار ہوا۔ اس نے بہت آہستگی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے ہاتھ تھام لیے۔ "تم جاننا چاہتے ہو کہ میں اتنے سال کہاں رہی، کیا کرتی رہی، میرے بارے میں سب کچھ؟" وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ رہا تھا۔ "میں کچھ جاننا نہیں چاہتا، کچھ بھی نہیں۔ تمہارے لئے اب میرے پاس کوئی اور سوال نہیں ہے۔ میرے لئے یہی کافی ہے کہ تم میرے سامنےکھڑی ہو، میرے سامنے تو ہو۔ میرے جیسا آدمی کسی سے کیا تحقیق کرے گا۔" امامہ کے ہاتھ سالار کے سینے پر اس کے ہاتھوں کے نیچے دبے تھے۔ پانی نے اس کے ہاتھوں کو سرد کردیا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ کیوں اس کے ہاتھ اپنے سینے پر رکھے ہوئے تھا۔ لاشعوری طور پر وہ اس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک ختم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی بڑا کسی بچے کے سرد ہاتھوں میں حرارت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ سویٹر کے نیچے سے اس کے دل کی دھڑکن کو محسوس کرسکتی تھی۔ وہ بے ترتیب تھی۔ تیز۔۔۔۔۔۔ پرجوش۔۔۔۔۔ کچھ کہتی ہوئی۔۔۔۔۔ کچھ کہنے کی کوشش کرتی ہوئی۔۔۔۔۔ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ اس وقت اس کے دل تک پہنچی ہوئی تھی، اسے شبہ نہیں تھا۔ وہ شخص اس سے محبت کرتا تھا، کیوں کرتا تھا؟ اس کا جواب سامنے کھڑا ہوا شخص بھی نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے اس شخص سے یہ سوال کیا بھی نہیں تھا۔ سالار کی آنکھیں پرسکون انداز میں بند تھیں نہ بھی ہوتیں تب بھی ان آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اب اسے کوئی الجھن نہیں ہورہی تھی۔ ان آنکھوں میں جو کچھ نو سال پہلے تھا اب نہیں تھا۔ جو اب تھا وہ نو سال پہلے نہیں تھا۔ "ہم کیا ہیں، ہماری محبتیں کیا ہیں، کیا چاہتے ہیں، کیا پاتے ہیں۔" اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی اترنے لگی تھی۔ "جلال انصر۔۔۔۔۔ اور سالار سکندر۔۔۔۔۔ خواب سے حقیقت۔۔۔۔۔ حقیقت سے خواب۔۔۔۔۔ زندگی کیا اس کے سوا اور کچھ ہے؟" ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ وہ سالار کے ساتھ خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار اس کے دائیں جانب تھا۔ وہ وہاں ان کی آخری رات تھی۔ وہ پچھلے پندرہ دن سے وہاں تھے۔ کچھ دیر پہلے انہوں نے تہجد ادا کی تھی۔ وہ تہجد کے نوافل کے بعد وہاں سے چلے جایا کرتے تھے۔ آج نہیں گئے، آج وہیں بیٹھے رہے۔ ان کے اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان بہت لوگ تھے اور بہت فاصلہ تھا۔ اس کے باوجود وہ دونوں جہاں بیٹھتے تھے وہاں سے وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔ وہاں بیٹھتے وقت ان دونوں کے ذہن میں ایک ہی خواب تھا۔ وہ اس رات کو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ حرم پاک کے فرش پر اس جگہ گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے سالار سورۃ رحمٰن کی تلاوت کررہا تھا۔ امامہ جان بوجھ کر اس کے برابر بیٹھنے کی بجائے بائیں جانب اس کے عقب میں بیٹھ گئی۔ سالار نے تلاوت کرتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر آہستگی سے اپنے برابر والی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ امامہ اٹھ کر اس کے برابر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ اب خانہ کعبہ کے دروازے پر نظر جمائے ہوئے تھا۔ امامہ بھی خانہ کعبہ کو دیکھنے لگی۔ وہ خانہ کعبہ کو دیکھتے ہوئے اس خوش الحان آواز کو سنتی رہی جو اس کے شوہر کی تھی۔ فبای الاء ربکما تکذبان۔ اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ نوسال پہلے ہاشم مبین نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا تھا۔ "ساری دنیا کی ذلت اور رسوائی، بدنامی اور بھوک تمہارا مقدر بن جائے گی۔" انہوں نے اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا۔ "تمہارے جیسی لڑکیوں کو اللہ ذلیل و خوار کرتا ہے۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔" امامہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ "ایک وقت آئے گا جب تم دوبارہ ہماری طرف لوٹو گی۔ منت سماجت کرو گی۔ گڑگڑاؤ گی۔ تب ہم تمہیں دھتکار دیں گے۔ تب تم چیخ چیخ کر اپنے منہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو گی۔ کہو گی کہ میں غلط تھی۔" امامہ اشک بار آنکھوں سے مسکرائی۔ "میری خواہش ہے بابا!۔" اس نے زیر لب کہا۔ "کہ زندگی میں ایک بار میں آپ کے سامنے آؤں اور آپ کو بتا دوں کہ دیکھ لیجئے، میرے چہرے پر کوئی ذلت، کوئی رسوائی نہیں ہے۔ میرے اللہ اور میرے پیغمبر ﷺ نے میری حفاظت کی۔ مجھے دنیا کے لئے تماشا نہیں بنایا، نہ دنیا میں بنایا ہے نہ ہی آخرت میں میں کسی رسوائی کا سامنا کروں گی اور میں آج اگر یہاں موجود ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں سیدھے راستے پر ہوں اور یہاں بیٹھ کر میں ایک بار پھر اقرار کرتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد کوئی پیغمبر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ وہی پیرکامل ہیں۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ ان سے کامل ترین انسان دوسرا کوئی نہیں۔ ان کی نسل میں بھی کوئی ان کے برابر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ اور میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے آنے والی زندگی میں بھی کبھی اپنے ساتھ شرک کروائے نہ ہی مجھے آخری پیغمبر محمد ﷺ کے برابر کسی کو لاکھڑا کرنے کی جرات ہو۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ زندگی بھر مجھے سیدھے راستے پر رکھے۔ بے شک میں اس کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلا سکتی۔" سالار نے سورۃ رحمٰن کی تلاوت ختم کرلی تھی۔ وہ چند لمحوں کے لئے رکا پھر سجدے میں چلا گیا۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد وہ کھڑا ہوتے ہوئے رک گیا۔ امامہ آنکھیں بند کئے دونوں ہاتھ پھیلائے دعا کررہی تھی۔ وہ اس کی دعا ختم ہونے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ امامہ نے دعا ختم کی۔ سالار نے اٹھنا چاہا، وہ اٹھ نہیں سکا۔ امامہ نے بہت نرمی کے ساتھ اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنےلگا۔ "یہ جو لوگ کہتے ہیں نا کہ جس سے محبت ہوئی وہ نہیں ملا۔ ایسا پتا ہے کیوں ہوتا ہے؟" رات کے اس پچھلے پہر نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ بھیگی آنکھوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھی۔ "محبت میں صدق نہ ہو تو محبت نہیں ملتی۔ نو سال پہلے میں نے جب جلال سے محبت کی تو پورے صدق کے ساتھ کی۔ دعائیں، وظیفے، منتیں، کیا تھا جو میں نے نہیں کر چھوڑا مگر وہ مجھے نہیں ملا۔" وہ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی نرم گرفت میں اس کے گھٹنے پر دھرا تھا۔ "پتا ہے کیوں؟ کیونکہ اس وقت تم بھی مجھ سے محبت کرنے لگے تھے اور تمہاری محبت میں میری محبت سے زیادہ صدق تھا۔" سالار نے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ اس کی ٹھوڑی سے ٹپکنے والے آنسو اب اس کے ہاتھ پر گر رہے تھے۔ سالار نے دوبارہ امامہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ "مجھے اب لگتا ہے کہ اللہ نے مجھے بہت پیار سے بنایا تھا۔ وہ مجھے کسی ایسے شخص کو سونپنے پر تیار نہیں تھا جو میری ناقدری کرتا، مجھے ضائع کرتا اور جلال، وہ میرے ساتھ یہی سب کچھ کرتا۔ وہ میری قدر کبھی نہ کرتا۔ نو سال میں اللہ نے مجھے ہر حقیقت بتا دی۔ ہر شخص کا اندر اور باہر دکھا دیا اور پھر اس نے مجھے سالار سکندر کو سونپا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تم وہ شخص ہو جس کی محبت میں صدق ہے۔ تمہارے علاوہ اور کون تھا جو مجھے یہاں لے کر آتا۔ تم نے ٹھیک کہا تھا تم نے مجھ سے پاک محبت کی تھی۔" وہ بے حس و حرکت اسے دیکھ رہا تھا۔ "مجھے تم سے کتنی محبت ہوگی، میں نہیں جانتی۔ دل پر میرا اختیار نہیں ہے مگر میں جتنی زندگی تمہارے ساتھ گزاروں گی تمہاری وفادار اور فرمانبردار رہوں گی۔ یہ میرے اختیار میں ہے۔ میں زندگی کے ہر مشکل مرحلے، ہر آزمائش میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ میں اچھے دنوں میں تمہاری زندگی میں آئی ہوں۔ میں برے دنوں میں بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔" اس نے جتنی نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا اسی نرمی سے چھوڑ دیا۔ وہ اب سر جھکائے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو صاف کررہی تھی۔ سالار کچھ کہے بغیر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ اسے زمین پر اتاری جانے والی صالح اور بہترین عورتوں میں سے ایک بخش دی گئی تھی۔ وہ عورت جس کے لئے نو سال اس نے ہر وقت اور ہرجگہ دعا کی تھی۔ کیا سالار سکندر کے لئے نعمتوں کی کوئی حد رہ گئی تھی اور اب جب وہ عورت اس کے ساتھ تھی تو اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ کیسی بھاری ذمہ داری اپنے لئے لے بیٹھا تھا۔ اسے اس عورت کا کفیل بنا دیا گیا تھا جو نیکی اور پارسائی میں اس سے کہیں آگے تھی۔ امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے جانے کے لئے قدم بڑھا دیئے۔ اسے اس عورت کی حفاظت سونپ دی گئی تھی، جس نے اپنے اختیار کی زندگی کو اس کی طرح کسی آلائش اور غلاظت میں نہیں ڈبویا، جس نے اپنی تمام جسمانی اور جذباتی کمزوریوں کے باوجود اپنی روح اور جسم کو اس کی طرف نفس کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ اس کا ہاتھ تھامے قدم بڑھاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار پارسائی اور تقویٰ کا مطلب سمجھ میں آرہا تھا۔ وہ اس سے چند قدم پیچھے تھی۔ وہ حرم پاک میں بیٹھے اور چلتے لوگوں کی قطاروں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ وہ اپنی پوری زندگی کو جیسے فلم کی کسی اسکرین پر چلتا دیکھ رہا تھا اور اسے بے تحاشا خوف محسوس ہورہا تھا۔ گناہوں کی ایک لمبی فہرست کے باوجود اس نے صرف اللہ کا کرم دیکھا تھا اور اس کے باوجود اس وقت کوئی اس سے زیادہ اللہ کے غضب سے خوف نہیں کھا رہا تھا۔ وہ شخص جس کا آئی کیو لیول 150 تھا اور جو فوٹوگرافک میموری رکھتا تھا نوسال میں جان گیا تھا کہ ان دونوں چیزوں کے ساتھ بھی زندگی کے بہت سارے مقامات پر انسان کسی اندھے کی طرح ٹھوکر کھا کر گرسکتا تھا۔ وہ بھی گرا تھا بہت بار۔۔۔۔۔ بہت مقامات پر۔۔۔۔۔ تب اس کا آئی کیولیول اس کے کام آیا تھا نہ اس کی فوٹوگرافک میموری۔ ساتھ چلتی ہوئی لڑکی وہ دونوں چیزیں نہیں رکھتی تھی۔ اس کی مٹھی میں ہدایت کا ایک ننھا سا جگنو تھا اور وہ اس جگنو سے امڈتی روشنی کے سہارے زندگی کے ہر گھپ اندھیرے سے کوئی ٹھوکر کھائے بغیر گزر رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آخری قسط (قسط نمبر 50) ختم شد