بسم اللہ الرحمن الرحیم
فصل:1
ابن الوقت کی تقریب:
آج کل کا سا زمانہ ہوتا تو کانوں کان کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔ ابن الوقت کی تشہیر کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے ایسے وقت ( یہ کتاب ء1888 میں لکھی گئی تھی) میں انگریزی وضع اختیار کی جب کہ انگریزی پڑھنا کفر اور انگریزی چیزوں کا استعمال ارتداد سمجھا جاتا تھا۔ یہ تو ہماری آنکھوں دیکھی باتیں ہیں کہ ریل میں بہ ضرورت کوئی بھلا مانس چرٹ پیتا تو جان پہچان والوں سے چراتا چھپاتا۔ ایک دوست کہیں باہر بندوبست میں نوکر تھے اور جانچ پڑتال کے لیے ان کو کھیت کھیت پھرنا پڑتا تھا۔ ہندوستانی جوتی اس رپڑ میں کیا ٹھہرتی۔ ناچار انگریزی بوٹ پہننے لگے تھے مگر دو چار دن کے لیے دہلی آتے تو گھر میں کبھی کے پڑے ہوئے پھٹے پرانے لیترے ڈھونڈ کر پاؤں میں ہلگا لیتے' تب کہیں گھر سے باہر نکلتے۔ دہلی کالج ان دنوں بڑے زوروں پر تھا۔ ملکی لاٹ آئے اور تمام درسگاہوں کو دیکھتے بھالتے پھرے۔ قدردانی ہو تو ایسی ہو کہ جس جماعت میں جاتے مدرس سے ہاتھ ملاتے۔ بڑے مولوی صاحب نے طوعاً کرہاً بادل نخواستہ آدھا مصافحہ کیا تو سہی، مگر اس ہاتھ کو عضو نجس کی طرح الگ تھلگ لیے رہے۔ لاٹ صاحب کا منہ موڑنا تھا کہ بہت مبالغے کے ساتھ (انگریزی صابون سے نہیں بلکہ مٹی سے) رگڑ رگڑ کر اس ہاتھ کو دھو ڈالا۔ ابن الوقت جیسے ملامتی نہیں تو اس کے ہم خیال خال خال اور بھی چند مسلمان تھے جن کے لڑکے اکا دکا انگریزی کالج میں انگریزی پڑھتے تھے۔ اب لڑکوں میں سے اگر کوئی عربی فارسی جماعتوں میں آ نکلتا اور آنکھ بچا کر پانی پی لیتا تو مولوی لوگ مٹکے تڑوا ڈالتے۔
ہر چند تعصبات ِ لغو کی کوئی حد نہ تھی، بایں ہمہ انگریزی حکومت جیسے ان دنوں کی مطمئن تھی۔ آئندہ تابقائے سلطنت انگریزوں کو خواب میں بھی نصیب ہونے والی نہیں۔ لوگوں کو مفید و مضر کے تفرقے برے بھلے کے امتیاز کا سلیقہ نہ تھا۔ سرکار بہ منزلہ مہربان باپ کے تھی اور بھولی بھالی رعیت بجائے معصوم بچوں کے ۔ انگریزی کا پڑھنا ہمارے بھائی بندوں کے لئے کچھ ایسے نا سزا وار ہوا جیسے آدم اور اس کی نسل کے حق میں گہیوں کا کھا لینا۔ گئے تھے نماز معاف کرانے الٹے روزے اور گلے پڑے۔ انگریزی وضع کا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اس غرض سے کہ انگریزوں کے ساتھ لگاوٹ ہو،اختلاط ہو، مگر دیکھتے ہیں تو لگاوٹ کے عوض رکاوٹ ہے اور اختلاط کی جگہ نفرت۔ حاکم و محکوم میں کشیدگی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ ” دریا میں رہنا مگر مچھ سے بیر“ ۔ دیکھیں آخر کار یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
ذرا مشکل سے اس بات کا پتہ لگے گا کہ کون سی چیز ابن الوقت کو انگریزی وضع کے اختیار کرنے میں محرک ہوئی۔ وہ ایک ایسے خوشحال اور شریف خاندان کا آدمی تھا جس کے لوگ پاس وضع کو شرط شرافت سمجھتے تھے۔ شرف ِ علم ان میں متوارث تھا۔ اس خاندان کے لوگ بعض طبیب تھے۔ بعض مدرس( سرکاری نہیں) بعض مفتی بعض واعظ بعض حافظ بعض صاحب سجادہ طریقت ۔ الغرض ع “ایں خانہ تمام آفتاب است” لوگ سب نہیں تو اکثر وللاِکثَرِ حُکُمُ الکُلِّ ہر طرح کے ہنروں سے متصف اور ہر طرح کے کمالات سےمتجلّے تھے۔ شاہی قلعہ ان سب کے معاش کا متکفل تھا۔ انگریزوں کے ساتھ ان لوگوں کو اگر تعلق تھا تو اسی قدر کہ انگریزی عمل داری میں رہتے تھے وہ بھی اپنے زعم میں نہیں ۔ ابن الوقت کے کالج میں داخل ہونے کا بھی یہ سبب ہوا کہ شہر کے مشاہیر جو عربی فارسی میں مستند تھے سرکار نے چن چن کر سب کو پابند مدرسہ کرلیا تھا۔ پس ابن الوقت مدرسے میں داخل کیا گیا نہ اس غرض سے کہ مدرسے کی طالب العلمی کو ذریعہ معاش قرار دے بلکہ صرف اس لیے کہ اس کی عربی فارسی ٹکسالی ہو ۔ ابن الوقت اپنے وقت کے منتخب نہیں بھی تو اچھے لڑکوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ مناسب طبیعت کی وجہ سے اس کے بعض ہم جماعت اس سے خاص خاص چیزوں میں اچھے بھی تھے مگر اس کے مجموعی نمبر کبھی کسی سے ہیٹے نہیں رہے۔ وجہ کیا تھی کہ جس قدر وہ ریاضی میں کچا تھا، تاریخ، جغرافیہ، سیاست مدن، اخلاق وغیرہ سے جن کا اس کو شوق تھا، اس خامی کی تلافی بخوبی ہوتی رہتی تھی۔ مدرسے کی ساری پڑھائی میں اس کی پسند کی چیز تاریخ تھی، کسی ملک اور کسی وقت کی کیوں نہ ہو۔ اس کی طبیعت عام باتوں میں خوب لگتی تھی۔ جواب مضمون پر ہر سال ایک نقرئی تمغہ ملا کرتا تھا۔ چھ سال ابن الوقت مدرسے میں رہا،کسی برس کسی وقت اس نے وہ تمغہ انگریزی، عربی، فارسی،سنسکرت میں کسی کو لینے ہی نہیں دیا۔ جب موقع ملتا تھا ابن الوقت پرانی دلی کے کھنڈروں میں تعطیل کے دنوں کو ضرور صرف کرتا۔غیر ممالک کے لوگ تجارت، سیاحت یا کسی دوسری ضرورت سے شہر میں آنکلتے تو ابن الوقت اوبدا کران سے ملتا اور ان کے ملک کے حالات و عادات کی تفتیش کرتا۔ اس کا حافظہ معلومات تاریخی کے ذخیرے سے اس قدر معمور تھا کہ وہ معمولی بات چیت میں واقعات زمانہ گزشتہ سے اکثر استشہاد کیا کرتا۔ ایک بار اس نے باتوں ہی باتوں میں سلیٹ پر اپنی یاداشت سے ایشیا کا نقشہ کھینچا اور مشہور شہروں اور پہاڑوں اور دریاﺅں کے مواقع اس میں ثبت کئے ۔ پھر جو ملا کر دیکھا تو یہ بہ تفاوت ِ یسیر اکثر صحیح ۔وہ دنیا کی قوموں اور ذاتوں اور رسموں کی ٹوہ میں لگا رہتا تھا۔ مذہب کے بارے میں اس کی معلومات کتاب الملل و النمل سے کہیں زیادہ تھی ۔جب کوئی نئی کتاب جماعت میں شروع ہوتی، اس کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ اس کا مصنف کون تھا؟ کہاں کا رہنے والا تھا؟ کس زمانے میں تھا؟ کس سے اس نے پڑھا؟ اس کے معاصر کون کون تھے؟ اس کی وقاع عمری میں کون کون سی بات قابل یادگار ہے؟ تعزز اور ترفع ابن الوقت کے مزاج میں اس درجے کا تھا کہ لوگ اس کی خود داری کو منجربہ کبر خیال کرتے ۔ دوسرے کا احسان اٹھانے کی اس کو سخت عار تھی‘ یہاں تک کہ وہ استاد کی بجائے کسی ہم جماعت سے پوچھنے تک میں مضائقہ کرتا۔ وہ ہمیشہ ایسے مدرس کی جماعت میں رہنا چاہتا جس کی پرنسپل زیادہ عزت کرتا ہو اور اسی سبب سے وہ کئی بار عربی سے فارسی اور فارسی سے عربی میں بدلتا پھرا۔ ابن الوقت اپنی رائے بہ دیر قائم کرتا تھا مگر جب ایک بار قائم کر لیتا اس کو بدلنے کی گویا اس کو قسم تھی۔ اس کی یہ رائے کسی سے مخفی نہ تھی۔ کہ کسی قوم میں سلطنت کا ہونا اس بات کی کافی دلیل ہے کی اس قوم کے مراسم، عادات، خیالات، افعال، اقوال، حرکات، سکنات یعنی کل حالات فرداً فرداً نہیں تو مجتمعاً ضرور بہتر ہیں۔ وہ نہایت وثوق کے ساتھ کھلم کھلا کہا کرتا کہ سلطنت ایک ضروری اور لازمی نتیجہ ہے قوم کی برتری کا انگریزی نوکری کی نہ اس کو ضرورت تھی اور نہ طلب۔ پس وہ اپنی اسی رائے کی بنیاد پر بے غرضانہ ہر انگریز کو اگرچہ گھٹکا بے حیثیت یوریشین ہی کیوں نہ ہو، بڑی وقعت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس خیال کے آدمی کو خصوصاً جب کہ وہ کالج میں داخل بھی تھا، انگریزی خوان ہونا چاہیے تھا اور اس کے دل میں انگریزی پڑھنے کا تقاضا بھی ضرور پیدا ہوتا ہو گا مگر باپ کی وفات پا جانے سے نواب معشوق محل بیگم کی سرکار کی موروثی مختاری اس کے سر پڑی۔ ہر چند اس کے بڑے بھائی ایک اور بھی تھے اور چاہتے تو مختاری کو وہ سنبھال لیتے مگر ان کو اپنے اوراد و وظائف سے مطلق فرصت نہ تھی اور وہ آدمی تھے بھی وحشت زدہ سے، ناچار ابن الوقت کو اس سرکار کا بڑا بھاری کارخانہ سنبھالنا پڑا۔ چند روز تک ابن الوقت نے یوں بھی کر کے دیکھا کہ خارج از اوقات مدرسہ قلعے کا کام دیکھتا بھالتا۔ بیگم کی طرف سے تو خدانخواستہ کسی طرح کی سختی نہ تھی مگر خود ابن الوقت دیکھتا تھا کہ اس کا وقت دونوں کاموں کے لیے مساعدت نہیں کرتا۔ پس اس نے مجبور ہو کر مدرسے سے اپنا نام کٹوا لیا۔ پھر بھی وہ تاریخ وغیرہ اپنے ڈھب کی کتابوں کے لیے شاہی کتب خانے اور اخباروں کے واسطے مطبع سلطانی کے بلاناغہ حاضر باشوں میں تھا۔ تاریخ اور اخبار کی اس کو ایسی دھت تھی کہ وہ کبھی ان چیزوں سے ملول ہوتا ہی نہ تھا۔
ابن الوقت نے مدرسہ چھوڑا تو گو وہ عربی فارسی جماعتوں کا طالب علم تھا تاہم اس کو مشق کے لیے ریاضی کی انگریزی کتابوں سے مدد لینے کی ہمیشہ ضرورت واقع ہوا کرتی تھی۔ ناچار اس کو انگریزی کے حروف پہچاننے پڑے۔ طبیعت تھی اخاذ ( بڑی اخذ کرنے والی) حرفوں کا پہچاننا تھا کہ چند روز میں اٹکل سے سوالات کا طریقہ حل سمجھنے لگا اور یوں ریاضی کے روکن میں اس کی انگریزی کی استعداد ترقی کرتی گئی۔ جب وہ انگریزی وضع اختیار کر کے اپنے پندار میں پورا صاحب لوگ بن گیا۔ اس زمانے میں بھی وہ انگریزی سمجھ تو خاصی طرح لیتا تھا مگر زبان انگریزی میں بے تکلف بات چیت کرنے کی اس کو ساری عمر قدرت حاصل نہ ہوئی۔ ہم نے اس کو زمان طالب العلمی میں یا اس کے بعد سَبقاً سَبقاً انگریزی پڑھتے تو نہیں دیکھا اور اس کی خود داری مدرسے کے بعد اس کو سینگ کٹوا کر بچھڑوں میں کیوں ملنے دینے لگی تھی؟ مگر اتنا تحقیق معلوم ہے کہ وہ اپنی حالت کے مناسب انگریزی جاننے کے لیے بہتیری ہی کوشش کرتا تھا۔ سنے سنائے سے جو اس نے اس قدر ترقی کی، سچ پوچھو تو یہ بھی اسی کا کام تھا ورنہ اپنا تو یہ مقولہ ہے کہ آدمی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کا زبان دان، جیسا کہ زبان دانی کا حق ہے، ہو ہی نہیں سکتا۔
کیا صاحب قاموس کی حکایت نہیں سنی؟ بھلا خیر، اتنا تو سنا ہو گا کہ زبانِ عربی کی لغت کی بہت سے کتابیں ہیں، سب میں زیادہ مبسوط اور مستند قاموس ہے۔ صاحبِ قاموس ذات کا عجمی، اس کو بچپن سے زبانِ عربی کی تکمیل کا شوق ہوا۔ جہاں تک عجم میں ممکن تھا سیکھ پڑھ لیا، نجد اور تمامہ اور یمن اور شام اور حضارہ اور بداوہ میں برسوں زبان کے پیچھے خاک چھانتا پھرا۔ آخرکار ساری عمر کی تفتیش اور تلاس کے بعد قاموس بنائی تو پھر کیسی بنائی کہ ساری دنیا اس کی سند پکڑتی ہے۔ زبان دانی کا پردو خدا کو فاش کرنا تھا، عرب کی ایک بی بی سے نکاح کیا۔ رات کے وقت گھر کی لونڈی سے کہتے تھے کہ چراغ گل کر دے۔ طوطے کی ٹین ٹین کہا جائے، "اطفئی السراج" کی جگہ فارسی محاورے کے مطابق بے ساختہ "اقتلی الراج" بول اٹھے۔ بی بی تاڑ گئی۔ صبح اڑھ کر دارالقضا میں جا نالش کی۔ خدا جانے بی بی رہی یا گئی مگر میاں کی عربیت کی تو خوب کرکری ہوئی۔
انگریزی اخباروں میں جن کے اڈیٹر انگریز ہیں بابوانہ انگریزی کی ہمشہ خاک اڑائی جاتی ہے۔ اگرچہ نام تو بنگالیوں کا ہوتا ہے مگر حقیقت میں ملاحی گالیاں سبھی انگریی دانوں پر پڑتی ہیں بلکہ دوسروں پر بدرجہ اُولیٰ کیوں کہ بنگالیوں نے تو یہاں تک انگریزی میں ترقی کی ہےکہ انگریزی گویا ان کی مادری زبان ہوتی جاتی ہے اور بعض بنگالی تو انگریزی میں اس درجے کے گویا اور فصیح اور بلیغ ہو کر گزرے ہیں اور ہیں کہ انگریز بھی ان کا لوہا مانتے ہیں مگر ایسی مثالیں شاذ ہیں۔
ایک دوست ناقل تھے کہ ایک بار ان کو ایک انگریز سے ملنے کی ضرورت تھی۔ کوٹھی پر معلوم ہوا کہ یہ وقت ان کے کلب میں رہنے کا ہے۔ ناچار ان کو کلب جانا پڑا۔ چپڑاسی اطلاع کا موقع دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے اپنے کانوں سنا کہ اندر بہت سے انگریز جمع ہیں اور ہندوستانیوں کی انگریزی کی نقل کر کرکے قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ دوست یہ بھی کہنے لگے کہ جس انگریزی کی ہنسی ہورہی تھی بے شک وہ ہنسی کے قابل بھی تھی اور اہلِ زبان کو ہمیشہ دوسرے ملک والوں پر ہنسنے کا حق ہے مگر ہندوستانیوں کی انگریزی اگر ہنسنے کے قابل ہے تو اس کے مقابلے میں انگریزوں کی اردو رونے کے لائق ہے۔ ہندوستانی صرف کتاب کی مدد سے انگریزی سیکھتے ہیں، برخلاف انگریزوں کے کہ کتاب کے علاوہ ساری ساری عمر ہندوستانی سوسائٹی میں رہتے ہیں اور پھر وہی "ول ٹم کیا مانگٹا"۔
یہ مصیبت کس کے آگے روئیں کہ انگریزی عملداری نے ہماری دولت، ثروت، رسم و رواج، لباس، وضع، طور، طریقہ، تجارت، مذہب، علم، ہنر، عزت، شرافت سب چیزوں پر تو پانی پھیرا ہی تھا، ایک زبان تھی اب اس کا بھی یہ حال ہے کہ ادھر انگریزوں نے عجز و ناواقفیت کی وجہ سے اکھڑی اکھڑی، ٖلط، نا مربوط اردو بولنی شروع کی، ادھر ہر عیب کی سلطاں بہ پسندد ہنر است، ہمارے بھائی بند لگے اس کی تقلید کرنے۔ ایک صاحب کا ذکر ہے کہ اچھی خاصی ریش و بروت، آغازِ جوانی میں ولایت گئے۔ چار پانچ برس ولایت رہ کر آئے تو ایسی سٹی بھولے کہ انگریزی اردو میں بہ ضرورت کبھی بات کرتے تو رک رک اور ٹھہر ٹھہر کر اور آنکھیں میچ میچ کر جیسے کوئی سوچ سوچ کر مغز سے بات اتارتا ہے۔
فصلِ:2
ابن الوقت نے ۱۸۵۷ء کے غدر میں مسٹر نوبل ایک انگریز کو پناہ دی اور اس کے ساتھ ارتباط کا ہونا اس امر کی طرف منجر ہوا کہ ابن الوقت نے آخر کار انگریزی وضع اختیار کرلی:
ابن الوقت کے وقائع عمری میں ایک واقعہ ایسا ہے جس کو اس کی تبدیلِ وضع میں بہت کچھ دخل ہو سکتا ہے اور وہ ذرا قصہ طلب سی بات ہے۔ بہادر شاہ کے آخری عہد میں منصبِ ولی عہدی متنازع فیہ تھا، مرزا فخر الملک اور مرزا جواں بخت میں۔ مرزا فخر الملک کے اکبر اولاد اور لائق اور روادار ہونے کی وجہ سے ان کے طرف دار بہت تھے حتیٰ کہ انگریز اور اسی گروہ میں نواب معشوق محل بیگم بھی تھیں جو مرزا فخر الملک کی خالہ ہوتی تھیں۔ مرزا جواں بخت اپنی والدہ نواب زینت محل بیگم کے کھونٹے پر کودتے تھے جن کو بادشاہ کے مزاج میں بڑا درخور تھا۔ بادشاہ کا زور طلتا تو جواں بخت کو اپنے حینِ حیات تخت نشین کر دیتے مگر انگریزوں کی پچر بڑی زبردست تھی۔ مرزا جواں بخت کے ساتھ سارے برتاؤ ولی عہدی کے برتے جاتے تھے۔ صرف دو باتوں کی کسر تھی، ایک تو ولی عہدی کی تنخواہ خوانۂ شاہی کی تحویل میں رہتی تھی، دوسرے انگریزوں نے ولی عہد کا ادب قاعدہ ان کے ساتھ نہیں رکھا۔ اس کشمکش میں طرف دارانِ مرزا فخر الملک کو برے بڑے نقصان پنہچے۔نواب معشوق محل نے جو بادشاہ کی نظر کسی قدر پھری ہوئی دیکھی ' قلعے کے باہر شہر میں کشمیری دروازے کے قریب راحت گاہ'جوان کا بڑا نامی محل تھا' درست کراکے تبدیل آب ہوا کے حیلے سے شہر میں رہنے لگیں۔ قلعے کی آمدو رفت بھی بند نہیں کی مگر مال و متاع اور ساز و سامان سب کچھ راحت گاہ اٹھوالیا منگوالیا تھا۔
ہر چند دو ایک برس وہ جواں بختی شورش فرو بھی ہوگئی تھی مگر راحت گاہ میں نواب معشوق محل کا کچھ ایسا جی لگ گیا تھا کہ انہوں نے اپنا وہی قاعدہ رکھا۔صبح کا ناشتہ کر کے قلعے چلی جاتیں اور عصر کی نماز راحت گاہ میں پڑھتیں اور یہیں شب کے وقت آرام بھی فرماتیں' یہاں تک کہ دہلی کے حصے کی قیامت آئی یعنی سن ۵۷ء کاغدر۔غدر کے بعدنواب معشوق محل بیگم صاحب نے قلعے کے باہر پائوں نہیں رکھا۔ سےغدر سے کوئی ڈھائی پونے تین مہینے بعد وہ چار گھڑی رات گئے جو پہلا گولا دیوانِ عام میں گر کر پھٹا جس کے دھماکے سے سارا قلعہ ہل گیا' بس گولے کا پھٹنا تھا کہ نواب معشوق محل بیگم صاحب کے دل میں کچھ ایس اہول سمایا کہ اختلاجِ قلب کے صدمے سے تیسرے دن انتقال فرمایا۔ اِنّااللہ وَاِنّا اِلیہِ رَاجِعُون۔ بڑی نیک نیت اور خدا پرست اور سیر چشم بی بی تھیں۔خدا نے ان کو ان رسوائیوں اور فضیحتوں سے جو خاندانِ تیمور کی تقدیر میں لکھی تھیں بچالیا۔ ہاں تو غدر کے اگلے ہی دن نواب معشوق محل نے ابن الوقت کو حکم دیا کہ راحت گاہ کا سارا سامان رتی رتی اٹھوالائو اور راحت گاہ کے مکانوں میں تالے چڑھوادو۔اسباب سا اسباب تھا! بیس چھکڑے دن میں چار چار چکر کرتے تھے تب وہ الگاروں اسباب کہیں مہینے سوا مہینے میں جاکر ٹھکانے لگا۔
غدر کے چوتھے دن کا ذکر ہے کہ ابن الوقت کوئی دو گھڑی دن رہے آخری کھیپ روانہ کرنے کے بعد قلعے کی طرف چلا آرہا تھا'ایک آپ تھا اور دو نوکر'تینوں مسلح، اور ان دنوں جب دو آدمی آپس میں بات کرتے تھے تو بس غدر کا مذکور ہوتا تھا'یہ لوگ بھی اس طرح کا تذکرہ کرتے چلے جاتے تھے۔جوں محسن خان کے کنٹرے سے آگے بڑھ کر اس کھلے میدان واقع تھا،دیکھتے کیا ہیں، سڑک کے بائیں طرف کچھ انگریزوں کی لاشین پڑی ہیں۔ یہ دیکھ کر ابن الوقت کا کلیجہ دھک سے ہوگیا۔اس وقت وہ موقع ایسا خطرناک تھا کے اکیلا کیسا ہی کوئی سورما کیوں نہ ہوتا'ڈر کے مارے گھگی بنھ جاتی مگر یہ تین آدمی تھے۔ابن الوقت لاشوں کے مقابل ذرا ٹھٹکا اور نہایت غصے اور افسوس کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا:دیکھو تو ظالموں نے کیا بے جا حرکت کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہر پر بڑا سخت عذاب آنے والا ہے۔خون ناحق کبھی خالی جاتے نہیں سنا۔۔خدا جانے شاہ جہاں نے کونسی منحوس تاریخ میں اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی کہ امن کی کوئی پوری صدی اس بستی پر نہ گزری مگر اس بار تو کچھ ایسا سامان نظر آتا ہے۔کہ لوگ نادر شاہ کے واقعے کو بھول جائیں گے۔" ابن الوقت کے ساتھی بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ابھی نماز مغرب میں کوئی آدھے گھنٹے کی دیر تھی۔ادھر آفتاب کا جنازہ کفن خون آلودہ شفق پہنا کر تیار کرچکے تھے کہ قبر مغرب میں اتار دیں ادھر بے کفن کی لاشیں دیواروں کے سائے کا ماتمی کفن پہن چکی تھیں۔ دہلی جیسا شہر اور شام کا وقت اور روزوں کے دن اور ایس اموقع اور دن ہوتے تو اس مقام پر کھوئے سے کھوئے چھلتا ہوتا مگر اپنے وقت ابن الوقت چوراہے پر کھڑا دیکھ رہا تھا کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہےآدم زاد کا پتا نہیں۔شہر کے بد معاشوں کے ڈر سے لوگ کچھ دن رہے سے کواڑوں میں پتھر اڑا اڑا کر گھروں میں بند ہو بیٹھے تھے۔ابن الوقت ہکا بکا سناٹے میں کھڑا تھا کہ ایک ساتھی بولا:"حضرت!افطار کا وقت قریب ہے اور قلعہ دور ' جو ہونا تھا سو ہوا اور جو تقدیر کا لکھا ہے سو ہو کر رہے گا۔ پس معلوم ہوا کہ نا بکار تلنگو کے گیہوں کے ساتھ بہتریوں کا گھن پستا ہے'چلئے تشریف لے چلئے۔"
پن چکیوں سے ادھر تھے کے ادھر پیچھے سے پیروں کی اہٹ آئی کہ کوئی شخص لپکا ہوا چلا آرہا ہے۔ لاشوں کے دیکھنے سے یہ لوگ کچھ اس قدر ہول زدہ ہوگئے تھے کہ آواز کے ساتھ سب کے دل دھڑکنا شروع ہوئےاور بے اختیار لگے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے۔بارے شکر کہ وہ شخص نہتا تھا۔وہ تو جھپٹا ہوا چلا آرہا تھا 'ان کے قدم جو پڑے ڈھیلے' پن چکیوں سے اترتے اترتے اس نے آ ہی لیا۔ اس شخص نے دور سے ان شخصوں کی پیٹھیں ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا کہ ان میں آقا کون ہے۔ برابر آکر اس نے ابن الوقت کو مودب اور باسلیقہ نوکروں کی طرح سلام کیا۔ ابن الوقت نے آنکھ بھر کر دیکھا تو کوئی اٹھائیس تیس برس کی عمر کا جوان آدمی تھا اور انگریزی خدمت کاروں یا اردلیوں کی سی وضع رکھتا ہے۔ دوپٹہ سر سے باندھا ہے اور پٹکا کمر سے' گویا نوکری سے چلا آ رہا ہے۔ خوف اور رنج اور اضطراب ہے کہ چہرے سے ٹپکا پڑتا ہے' ہونٹوں پر پیٹریاں بندھ گئی ہیں' سانس پیٹ میں نہیں سماتا۔ ابن لوقت سے بات کرنا چاہتا ہے مگر بار بار پھر پھر کر لاشوں کی طرف کو تاکتا جاتا ہے۔ ہر چند چھوٹا میگزین بیچ میں حائل ہے مگر پھر بھی جی نہیں مانتا اور بے دیکھے رہا نہیں جاتا۔ وہ ابن الوقت کے پوچھنے کا ہی منتظر نہ رہا اور چھوٹتے ہی بولا کہ میرا نام جانثار ہے اور میں بہادر پور کے پٹھانوں میں سے ہوں۔ چار برس سے رہتک کے جنٹ مجسٹریٹ نوبل صاحن کی اردلی میں ہوں۔ ہمارے صاحب کئی مہینے سےے بیمار ہیں۔ رخصت لے کر ولایت جا رہے تھے اور بمبئی تک مجھے اپنے ساتھ لیے جاتے تھے۔ آج چوتھا دن ہے' ہم لوگ داک بنگلے میں آکر ٹھہرے۔ دوپہر کو غدر ہو گیا۔ صاحب کا مزاج نادرست تھا' بھاگ کر کہیں نہ جا سکے۔ تلنگوں نے ان کو لے جا کر کشمیری دروازے کے گارد میں قید کیا' وہاں اور بھی چند انگریزی پکڑے ہوئے تھے۔ آج سب قیدیوں کو کھڑا کر کے ناحق ناروا باڑ مار دی۔ ہمارے صاحب بھی زخمی ہو کر گرے مگر اس وقت تک ان میں جان ہے۔ میں ڈر کے مارے ان کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکا مگر آںکھ بچا کر مسجد سے پانی بدھنی ان کے پاس رکھ آیا ہوں۔ یہ خدا واسطے کا کام ہے' اگر آپ سے ہو سکے تو ہمارے صاحب کی جاب بچایئے۔ آپ کو بڑا درجہ ہو گا۔ صاحب ہیں تو انگریز مگر شریف اور شریف پرور، نیک مزاج اور پرلے درجے کے رحم دل۔ رہتک والوں سے آپ پوچھیئے' بیسوں یتیموں اور بیواؤں کئ تنخوائیں مققر کر رکھی ہیں۔ فوجداری کے مقدموں میں مجبور ہو کر جرمانہ کرتے ہیں تو اپنے پاس سے سرکار میں بھر دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر جانثار ابن الوقت کے پیروں میں گر پڑا اور کہنے لگا کہ "آپ لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے جو باتیں کر رہے تھے' میں دروازے کی آڑ میں چھپا سب سُن رہا تھا۔ اس سے مجھ کو آپ سے کہنے کی ہمت بھی پڑی اور میرا دل اندر سے گواہی دیتا ہے کہ خدا نے آپ کو ایسے وقت صرف ہمارے صاحب کی جان بچانے کو بھیجا ہے۔
ابن الوقت نے جانثار کو زمین پر سے اٹھایا اور کہا کہ جو کچھ یہ بدذات'پاجی'نمک حرام' باغی تلنگے کر رہے ہیں' کچھ شک نہیں کہ ظلم صریح ہے اور کسی مذہب و ملت میں روا نہیں اور اگر میں تمہارے صاحب کی حفاظت کر سکوں تو میں اس کو فرض انسانیت سمجھتا ہوں مگر ان لوگوں کو کس وقت باڑ ماڑی؟
جان نثار: " دوبجے۔"
ابن الوقت: " "اوہو' دو بجے! (ایک نوکر کی طرف مخاطب ہو کر) وہ جو اس وقت غیر سن پڑی تھی وہ یہی باڑ ہو گی۔ (جان نثار) اچھا پھر تم نے کیوں کر جانا کہ تمہارے صاحب ہنوز زندہ ہیں؟"
جان نثار: "حضور کے تشریف لانے سے تھوڑی دیر پہلے تک لاشوں پر دھوپ تھی اور لاشیں تو بالکل سفید پڑ گئی تھیں مگر ہمارے صاحب کے چہرے پر سرخی جھلکتی تھی اور میں نے اپنی آنکھ سے صاحب کے جسم میں حرکت بھی دیکھی ہے۔ پانی رکھنے گیا تو سانس چلتا سا دکھائی دیا ۔ خدا جانے کہاں چوٹ لگی ہے کہ بے ہوش ہیں۔ جس وقت سے صااحب ڈاک بنگلے میں پکڑے گئے اس وقت سے میں دائیں بائیں برابر صاحب کے پاس لگا رہا ہوں' ایک دم کو جدا نہیں ہوا۔ زخموں کی نسبت تو میں کچھ عرض نہیں کر سکتا مگراس وقت ان میں جان تو ضرور ہے۔ آپ للہ ذرا چل کر دیکھ لیجیئے' اگر کچھ جان باقی ہے تو ان کو اپنی حفاظت میں لیجیئے' شاید خدا کرے بچ جائیں اور اگر ہو چکے ہیں تو وہ کیا مرے' ہم جیسے پچاس غریب ان کے ساتھ مر لیے۔ ہوں تو چار کوڑی کا پیادہ اور آپ کے روبرو عرض جرنا بھی گستاخی ہے مگر جناب یہ عمل داری تو اٹھنے والی نہیں۔ یہ بھی کوئی دن کا غل غپاڑا ہے۔ اگر صاحب آپ کے طفیل سے بچ گئے تو پھر دیکھیئے گا کیسے کیسے سلوک آپ کے ساتھ کرتے ہیں۔"
ابن الوقت نے جس وقت سے سنا تھا کہ ایک صاحب مجروح ہوئے پڑے ہیں اور زندہ ہیں' اسی وقت سے وہ اپنے ذہن میں صاحب کی حفاظے کی تدبیریں سوچنے لگا تھا۔ جان نثار کی طرف ظاہر میں متوجہ رہا مگر اس کی بہت سی باتیں اس نے مطلق دھیا ن سے نہیں سنیں۔ آکر ابن الوقت نے اپنے دونوں نوکروں سے کہا : ” کیوں بھئی تمہاری کیا اصلاح ہے؟“ ایک نے کہا : ”ہم خانہ زاد جان و مال سے حاضر ہیں۔ جیسا حکم ہو تعمیل کریں۔“ ابن الوقت نے کہا : ” بس تم سے اتنی مدد درکار ہے کہ اول تو ہم سب روزے سے ہیں‘ راز داری کا حلف کریں دوسرے‘ صاحب اگر زندہ ہوں تو جو طرح بن پڑے‘ اٹھا کر گھر تک لے چلیں۔"
ابن الوقت کے دونوں نوکروں نے قبلے کی طرف کو ہاتھ اٹھا کر قسم کھائی اور چاروں شخص لوٹ کر پھر لاشوں کے پاس گئے۔ جان نثار نے سب کو نوبل صاحب کے سر پر لے جا کر کھڑا کردیا۔ جھٹپٹا ہو چلا تھا۔ جان نثار نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو بدن گرم تھا۔ خون میں لتھڑے ہونے کی وجہ سے اس وقت معلوم نہ ہوسکا کہ کہاں کہاں زخم لگے ہیں اور کس قسم کے ہیں۔ ہر چند کوئی آدمی کہیں چلتا پھرتا دکھائی نہیں دیتا تھا مگر خوف کے مارے ذرا کہیں پتا کھڑکتا تو یہ لوگ سہم جاتے ۔بارے جان نثار نے ابن الوقت اور اس کے نوکروں کی مدد سے صاحب کو چڈھی چڑھایا۔ صاحب اس قدر بے ہوش تھے کہ ان کو سنبھلنا دشوار تھا۔ سارے رستے بن الوقت اور اس کے نوکر سہارا لگاتے آئے۔ ان لوگوں کو اس سے بڑی تسلی اور تقویت تھی کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھتے تھے کسی طرف کوئی آتا جاتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ابن الوقت مجروح کو اٹھوانے کو تو اٹھوا لایا مگر اس وقت تک اس نے ذرا بھی نہیں سوچا تھا کہ گھر پہنچ کر کیا کرنا ہوگا۔ حقیقت میں اس کو اس بات کے سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی ۔ جان نثار کی درناک حکایت سنتے ہی وہ مجروح کو اتھانے دوڑا گیا اور مجروح کو اٹھائے پیچھے سارے رستے اس کی روک تھام میں لگا رہا ۔ گھر کی نکڑ پر پہنچ گیا تھا کہ اس کو تنبہ ہوا کہ میں نے یہ کیا کیا اور اس کے نباہ کی کیا صورت ہوگی۔ ابن الوقت کی بیوہ پھوپھی شروع بیوگی سے بال بچوں سمیت اسی کے گھر میں رہتی تھیں اور شوہری ترکے کی وجہ سے ان کو بڑی مقدرت تھی۔ اب ان کے بچے سیانے ہوئے تو انہوں نے اپنا مکان علیحدہ بنوانا چاہا۔ پدری ترکے سے ان کو ابن الوقت کے مکان کے پہلو میں زمین ملی تھی اور وہ زمین مدتوں سے یوں ہی پڑی تھی ۔ اب کوئی چار مہینے سے کھلے موسم کے آتے ہی اس میں مدد لگی تو اس وقت تک مکان ہر طرح سے بن بناکر تیار ہوچکا تھا۔ صرف استر کاری باقی تھی کہ غدر ہوا۔ مدد بند کردی گئی۔ سامان تعمیر کی حفاظت کے لیے اور اس غرض سے بھی کہ مکان میں رات کو چراغ چلنا ضرور ہے‘ ابن الوقت کے انہی دو نوکروں میں سے جو نوبل صاحب کے لانے میں شریک تھے ‘ باری باری سے ایک شخص رات کو آپڑتا ۔ ابن الوقت نے نوبل صاحب کو اسی خالی مکان میں اتروایا اور اپنے آدمیوں میں سے جس کی باری مکان میں سونے کی تھی‘ جان نثار کے ساتھ متعین کردیا کہ اندر سے کواڑ بند رکھو اور میرے آنے تک صاحب کے زخموں کی شست و شو کرو مگر خبردار جو کسی نے آہٹ پائی۔
ابن الوقت نے گھبراہٹ اور جلدی میں اتنا خیال البتہ کرلیا تھا کہ باغیوں اور شہر کے بدمعاشوں نے تو اس قدر سر اٹھا رکھا ہے کہ ناحق انگریزوں کے لگاﺅ کا چھدا رکھ رکھ کر لوگوں کی جان اور آبرو کے خواہاں ہیں بے کسی زبردست کے آسرے کے اتنی بڑی جوکھم اپنے سر لینا ٹھیک نہیں ۔ کل کلاں کو ” دیوار ہم گوش دارو“ خدا بری گھڑ ی نہ لائے‘ بات کھل پڑی تو میں اکیلا چنا بھاڑ کا کیا کرلوں گا ۔ پاس تھی شاہ حقانی صاحب کی خانقاہ اور ایک اعتبار سے سارا شہر ان کا معتقدتھا اور ہزارہا ولایتیوں کو اس خانقاہ سے بیعت تھی اور چالیس پچاس بلکہ بعض اوقات سو سو ولایتی فیضان تلقین حاصل کرنے کے لیے خانقاہ میں ٹھہرے رہتے تھے۔ ابن الوقت کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر شاہ حقانی صاحب اس ارادے میں میرے سر پر ہاتھ رکھیں توبس پھر کسی طرح کا خدشہ نہیں ۔ ابن الوقت کو اس بات کا بھی پورا بھروسا تھا کہ اگر شاہ صاحب راضی بھی نہ ہوئے تاہم ان کی شان اس سے ارفع ہے کہ کسی پر اس راز کو ظاہر کریں۔ پس ابن الوقت نے مکان کے اندر پاﺅں بھی نہ رکھا اور سیدھا خانقاہ کو ہولیا۔ وہاں¾ پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ ساری خانقاہ میں کچھا کھچ آدمی بھرے پڑے ہیں کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ سرغنہ باغیاں علمائے خانقاہ سے جہاد کے فتوے پر مہریں کرانے لایا ہے ۔ ظہر کے وقت سے حجت ہورہی ہے ‘ شاہ حقانی صاحب ہیں کہ کسی طرح نہیں مانتے اور انگریزوں سے لڑنے کو غدر اور ”فساد فی الارض “ کہے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت ایسے ہجوم میں شاہ صاحب تک پہنچنا اور تخلیہ کرانا کسی طرح ممکن نہ تھا۔ ناچار ابن الوقت کسی قدر ناامید ہوکر لوٹا مگر دل میں علمائے خانقاہ کے فتوے کی تصویب کرتا تھا اور اس خیال سے خوش تھا کہ ایک سرغنہ نہیں اگر ساری دنیا ایک طرف ہو تو خانقاہ والے مذہبی معاملے ڈرنے دھمکنے والے نہیں اور باغی خانقاہ والوں کا کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔ اگر خانقاہ میں سے کسی کا بال بھی بیکا ہوا تو کشتوں سے پشتے لگ جائیں گے۔ بارے ابن الوقت پھر گھر لوٹ آیا۔ جوں دروازے میں قدم رکھتا تھا کہ جان نثار نے یہ خوش خبری سنائی کہ دھونے سے صاف کرنے سے معلوم ہوا کہ کہیں کاری زخم نہیں لگا اور صاحب نے آنکھ بھی کھولی ہے مگر ضعف کے سبب بول نہیں سکتے۔
مرہم پٹی تو ہوسکتی تھی، خدا کی قدرت، صرف ٹھنڈا پانی ٹپکانے سے کوئی سوا ڈیڑھ مہینے میں سب زخم بھر آئے اور باوجودیکہ صبح و شام کی مشی بند ہوگئی تھی اور گو ابن الوقت جان نثار کی مدد سے ہر طرح کا اہتمام کرتا تھا مگر غذا میں بہت بڑا فرق واقع ہو گیا تھا، باایں ہمہ صاحب کا اصل مرض بھی جس کے علاج کے لیے ولایت جانے والے تھے، قدرے قلیل ہی باقی رہ گیا تھا۔ ان کو غالباً کثرت سے کتاب بینی کی وجہ سے ہلکا ہلکا درد سر ہر وقت رہتا تھا، اب کتاب بینی ہوئی یوئی یک قلم موقوف اور دماغ کو زحمت مطالقہ سے مل راحت اور سو دوا تو یہ بھی تھی کہ طبیعت ہوئی دوسری طرف مشغول، وہ درد سر بھی تھوڑی دیر کے لئے کبھی کبھار ہوتا تھا اور صاحب خود اس کو اختلاف غذا کی طرف منسوب کرتے تھے۔ تین مہینے نو دن نوبل صاحب ابن الوقت کے گھر رہے۔ اس عرصے میں دونوں میں اس درجے کا ارتباط بڑھا کہ آج تک کسی ہندوستانی کو کسی انگریز کے ساتھ ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ ابن الوقت نامجانست اور صاحب کی علو منزلت کے خیال سے ابتداء کسی قدر رکا رہا مگر صاحب کی کتاب اور اخبار اور کچہری اور ہوا خوری اور ملاقات سب کچھ جاکر ایک ابن الوقت کی صحبت رہ گئی تھی، وہ کسی طر ح ایک لمحے کو ابن الوقت کا اپنے پاس سے ہٹنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انسان کے اصلی خیالات کے لئے نعمت اور مصیبت کی حالتیں دو کسوٹیاں ہیں۔ نوبل صاحب کا یہ تو حال تھا کہ زخمی، معذور، محتاج، بے کس، غریب الوطن اور زندگی ہے کہ ہر وقت عرضہ خطر بلکہ نجات وہوم ہے، ہلاکت متیقن۔ مگر اللہ اللہ کس بلا کا استقلال مزاج تھا کہ ضعف و اضطراب کی کوئی حرکت تمام مدت قیام میں ان سے سرزد نہ ہوئی، وہ گیا دعوے دار مہمان تھے اور ہیکٹر مستامن۔ جانثار بے چارہ تو بھلا کس گنتی میں تھا، ابن الوقت کو اتنی خصوصیتیں اور اس قدر حقوق ہوتے ساتے ان کے پاس۔ محابا چلے جانے میں تامل ہوتا تھا۔ ابن الوقت کو تاریخ اور جغرافیہ اور اخبار کی معلومات نے پہلے انگریز پسند بنا رکھا تھا۔ پس نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں کی باتوں کا سلسلہ، سلسلہ نامتناہی تھا۔ دونوں کو کبھی آدھی آدھی رات باتوں میں گزر جاتی اور ایک بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا مگر ان کی گفتگو غالباً تین طرح کی ہوتی تھی۔ اکثر تو غدر کا تذکرہ کہ واقعات ہر روزہ سے جہاں تک ابن الوقت کو قلعے کے ذریعے سے دریافت ہوتے تھے، شروع ہرکر آخر کو امو عامہ میں بات جا پڑتی مثلاً یہ کہ غدر ہوا تو کیوں ہوا؟ کہاں تک اس آفت کے پھیلنے کا احتمال ہے؟ آیا یہ ایسا موقع ہے کہ ہندوستا کی مختلف ہندو، مسلمان، سکھ، مرہٹے، بنگالی، مدراسی، راجپوت، جاٹ، گوجر، اس میں مل کر کوشش کریں گے؟ ہندوستا کے باشندوں میں فوجی وقت کس درجے کی ہے؟ راجواڑوں میں کس کس کے بگر بیٹھنے کا خوف ہے؟ شاہ وظیفہ خوار کی دہلی کے لوگوں کی نظر میں کیا دقعت ہے؟ سرحدی قومیں جیسے گورکھے اور افغانسان کے لوگ شریک بغاوت ہوں گے یا نہیں؟ کوئی ہم عصر سلطنت ایسی بھی ہے جو ایسے وقت میں سلطنت ہندوستان کی طمع کرے؟ یہ غدر فوج کی شوزش فوری ہے یا س کی ہنڈیا مدّت سے پک رہی تھی اور رعایا بھی فوج کی شریک حال ہے؟ حکومت انگریزی سے لوگ رضامند ہیں یا ناراض اور ناراض ہیں تو کیوں؟ کہاں تک مذہبی خیال غدر کا محرک ہوا؟ مسلمانوں کے معتقدات میں یہ غدر داخل جہاد ہے یا نہیں؟ اسی طرح بات میں سے بات نکلتی چلی تی تھی۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ نوبل صاحب ابن الوقت سے ہندوستانیوں کے رسم و رواج اور طرز تمدن اور معاشرت کے حالات دریافت کرتے اور ابن الوقت ہندی کی چندی کرکے ان کو بتاتا اور سمجھاتا رہا۔ ابن الوقت، اس کی تو سدا کی عادت تھی کہ غیر ملک کے حالات کو ہر ایک سے کرید کرید کر اور کھود کھود کر پوچھا کرتا تھا ، نوبل صاحب سے اس نے خوب ہی دل کھول کر جو جو کچھ جی میں آیا تھا اور نوبل صاحب نے بھی جہاں تک زبان نے یاری دی بھلی یا بری کوئی بات اپنے وطن اور اپنی قوم کی اٹھا نہ رکھی۔ ابن الوقت نے نوبل صاحب کی ہم نشینی میں انگریزوں کے تفصیلی حالات سے اس قدر واقفیت حاصل کی کہ بس آنکھوں سے دیکھنے کی کسر باقی رہ گئی تھی ۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ ابن الوقت کو انگریزوں کے ساتھ ایک طرح کی عقیدت تو پہلے سے تھی ہی ۔ تین سوا تین مہینے نوبل صاحب کے ساتھ رہ کر اس کے خیالات اور بھی راسخ ہو گئے اور عجب نہیں اسی اثنا میں اس نے تبدیل وضع کا ارادہ کیا ہو۔ ہم کو نوبل صاحب یا ابن الوقت کے حالات غدر لکھنے منظور نہیں ، تسلسل سخن کے لیے اتنا لکھنا ضرور ہے کہ نوبل صاحب کو جس وقت سے ابن الوقت کے گھر ہوش ہوا ، آخر تک انھوں نے اپنی ذاتی تکلیف اور مصیبت کی کبھی شکایت کی ہی نہیں ۔ ہاں یہ ان کا تکیہ کلام تھا کہ افسوس میں ایسی حالت میں ہوں کہ کسی طرح اپنی قوم کی مدد اور اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتا ۔ وہ کاہل اور بیکار زندگی سے مرنے کو بہ مدارج بہتر سمجھتے تھے اور خبروں کے نہ ملنے سے ان کا وقت سخت پریشانی میں گزرتا تھا ۔ جتنی دیر ابن الوقت ان کے پاس رہتا ، باتیں کرتے ورنہ دالان میں ٹہلتے رہتے ۔ ابھی ان کے زخم اچھی طرح بھرے بھی نہ تھے کہ انھوں نے ابن الوقت پر تقاضا شروع کیا کہ کسی ڈھب سے مجھے انگریزی کیمپ میں پہنچاؤ۔ ابن الوقت ان کے بے موقع اور بے جا اصرار سے دل میں سخت آزردہ ہوتا ، مگر جانتا تھا کہ "اہل الغرض مجنون" باہر چلتے پھرتے ہوتے تو دیکھتے کہ چاروں طرف کیسی آگ لگی ہوئی ہے ، ہمارے ملک کی عورتوں کی طرح گھر کی چار دیواری میں مقید ہیں ، دنیا و مافیہا سے خاک خبر نہیں ، شاید دل میں خیال کرتے ہیں کہ میں عمدا پہلوتہی کرتا ہوں ۔ زخموں کے اچھا ہوتے ہی نوبل صاحب اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ کئی بار بگڑ بگڑ کر ابن الوقت کو دھمکایا کہ اگر مجھ کو زیادہ روکو گے تو میں نکل بھاگوں گا۔ ابن الوقت ان کی ایسی ایسی باتیں سن کر ہنستا اور کبھی جھنجھلاتا کہ ایسی ہی جان دوبھر ہے اور خود کشی کرنی ہے تو مجھی کو ثواب غذا حاصل کرنے کی اجازت دیجئے ۔
فصل :3
ابھی غدر فرو بھی نہ ہوا تھا کہ نوبل صاحب انگریزی کیمپ میں جا داخل ہوئے:
ہر چند ہر بار ابن الوقت بات کو کسی نہ کسی تدبیر سے ہنسی میں اڑا دیا کرتا تھا مگر دل میں یہ بھی سوچتا تھا کہ ایسا نہ ہو گھٹ گھٹ کر بیمار پڑ جائیں تو وہی مثل ہو کہ کھلائے پلائے کا نام نہیں رلائے کا الٹا الزام ۔ آخر یہ صلاح ٹھہری کہ نوبل صاحب حاکم فوج انگریزی کو چٹھی لکھیں اور جان نثار اس کو چھپا کر گوڑگانوہ ، رہتک ، کرنال ، تین ضلعوں کے دیہات میں چکر کاٹتا ہوا کسی جگہ پنجاب کے راستے میں جا ملے اور وہاں سے ابگریزی کیمپ میں داخل ہو ۔ جان نثار نے اس کا بیڑا اٹھایا اور چٹھی لے کر روانہ ہوا۔ اس کا پیٹھ موڑنا تھا کہ یہاں نوبل صاحب اور ابن الوقت لگے اس کی واپسی کا حساب کرنے ۔ ہر چند دونوں چپے چپے سے زمین کے جغرافیے سے آگاہ تھے مگر باوجودیکہ کئی دن تک برابر رد و کد ہوتی رہی ، جان نثار کی واپسی کی تاریخ پر متفق نہ ہو سکے۔ وجہ کیا تھی کہ جان نثار کو آمد و شد میں جن اتفاقات کے پیش آنے کا احتمال تھا اگر چہ کوئی شخص حتیٰ جان نثار بھی ان کو نہیں جان سکتا تھا مگر ابن الوقت پھر بھی ان کا کسی قدر ناقص ، ناتمام ، ادھورا اندازہ کرتا تھا اور نوبل صاحب چونکہ خود مستعجل تھے ، کسی احتمال مخالف کو اپنے ذہن میں آنے ہی نہیں دیتے تھے ۔ تاہم انھوں نے نے آپ ہی اپنے نزدیک یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جان نثار کو آج کے پندرھویں دن ضرور ضرور واپس آنا چاہیئے۔ ہرچند نوبل صاحب بڑے ہی مستقل مزاج آدمی تھے مگر سچ کہتے ہیں "الانتظار اشد من الموت" جان نثار کی واپسی کے انتظار میں تو ان سے بھی ضبط نہ ہو سکا۔ جان نثار کو گئے ہوئے ایک ہی ہفتہ گذرا تھا کہ انہوں نے مڑ مڑ کر دروازے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور دسویں دن سے تو یہ حال ہوا کہ سارے سارے دن دروازے میں کھڑے رہنے لگے۔ ہر چند ابن الوقت گھسیٹ گھسیٹ کر اندر لے لے جاتا تھا مگر قابو ملا اور دروازے میں۔ جب پندرہ دن بھی گذر گئے اور جان نثار کا کہیں پتا نہیں تو نوبل صاحب کی اس دن کی یاس دیکھ کر ابن الوقت بھی بدحواس ہو گیا۔ زخمی ہونے کی حالت میں پھر بھی ان کے چہرے پر ایک طرح کی رونق تھی یا دفعتہً ان کی حالت اس قدر جلد جلد متغیر ہونے لگی کہ جان نثار کے سامنے سے آدھے بھی نہیں رہے تھے۔ بھوک بالکل بند ہو گئی، نیند ایسی اچاٹ ہوئی کہ ساری ساری رات کروٹیں بدل بدل کر صبح کر دیتے تھے۔ آخر جان نثار کی روانگی سے انیسویں دن ابن الوقت نے کہا کہ جان نثار کو جو اس قدر دیر لگی، آپ اس کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟
نوبل صاحب: "کیا بتاؤں، جان نثار کی وفاداری پر شبہ کرنے کی تو میں کوئی وجہ نہیں پاتا۔ اس نے اس مصیبت میں جس قدر میری رفاقت کی، آپ کو معلوم ہے۔ شاید ایسا ہو کہ وہ لوگ جواب کے عوض میرے نکال لے جانے کی فکر میں ہوں اور جان نثار کو میری نشان دہی کے لئے ٹھہرا لیا ہو۔"
ابن الوقت: "میں آپ کی دل شکنی کے ڈر سے عرض نہیں کر سکتا لیکن میرا خیال تو یہ ہے کہ جان نثار کو ابھی تک انگریزی کیمپ میں پہنچنا بھی نصیب نہ ہوا ہو تو عجب نہیں۔"
نوبل صاحب: "کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میری چٹھی پکڑی گئی۔ نہیں نہیں، ایسا ہو نہیں سکتا۔ جانثار نہایت ہوشیار آدمی ہے اور اس نے چٹھی کو ضرور ایسی طرح چھپایا ہوگا کہ کوئی گمان نہ کر سکے اور خود جانثار کی صورت اور وضع ایسی ہے کہ اس پر جاسوسی یا مخبری کا گمان نہیں ہو سکتا۔ نہیں نہیں، مجھ کو پورا اطمینان ہے کہ وہ چٹھی سمیت صحیح سلامت کیمپ میں پہنچا۔"
ابن الوقت: "آپ کو کچھ مفصلات کی بھی خبر ہے؟ تمام دیہات میں لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، راستے بند پڑے ہیں، اکے دکے کی مجال نہیں کہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا قصد کرے اور ایسی بے تمیزی کہ ناحق ناروا کوئی کسی کو مار دے تو کیا لگتا ہے۔"
نوبل صاحب: "اگر آپ نے یہ حال مجھ سے پہلے کہا ہوتا تو میں ہرگز جانثار کے بھیجنے کا ارادہ نہ کرتا۔ افسوس ہے کہ میں نے اپنے فائدے کے لئے اس کی جان کو خطرے میں ڈالا۔"
ابن الوقت: "میں نے احتمال عقلی کے طور پر عرض کیا ورنہ جانثار ان گنواروں کے بس میں آنے والی اسامی نہیں۔ اس کی جان کی تو انشاء اللہ سب طرح سے خیر ہے، ہاں راستے میں کہیں اٹک گیا ہو تو خبر نہیں۔ مگر خدا نے چاہا تو صبح شام پہنچنے ہی والا ہے۔"
نوبل صاحب: "آپ صرف دیر کی وجہ سے ایسا قیاس کرتے ہیں یا۔۔۔۔۔
ابن الوقت: "(ہنس کر) نہیں، ایک کوا چھجے پر بیٹھا ہوا کاؤں کاؤں کر رہا تھا، میں نے اپنے ملک کی رسم کے مطابق شگون لیا اور کوے سے کہا جانثار آتا ہو تو اڑ جا۔ یہ کہنا تھا کہ کوا اڑ گیا۔"
ابن الوقت اور نوبل صاحب یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ باہر کے کواڑوں میں سے کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ سنتے ہی ابن الوقت بول اٹھا: "لیجئے، الحمدللہ وہ جانثار آ پہنچا۔"
ابن الوقت نے دوڑ کر کواڑ کھولے تو سچ مچ جانثار تھا۔ دور سے نوبل صاحب نے پوچھا "کہو خیر ہے؟"
جان نثار: (قاعدے کے مطابق سلام کر کے) "خداوندا حضور کے اقبال سے جواب لایا۔"
نوبل صاحب نے ایسی جلدی کی کہ جوتی کے تلے سے چٹھی نکالنا دشوار کردیا۔بارے خدا خدا کرکے چٹھی نکلی تو نوبل صاحب ا س کو بغور پڑھ رہے تھے اور ان کے منہ کی طرف ابن الوقت کی ٹکٹکی بندھی ہوئی تھی ۔نوبل صاحب کے چہرے سے فکر کے سوائے اور کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی تھی‘ چاہتے تھے کہ چٹھی کو دوبارہ پڑھیں‘ ابن الوقت نے چٹھی پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا : "آپ کو ہمارے انتظار کی قدر کرنی بھی ضروری ہے ۔چٹھی کہیں بھاگی نہیں جاتی ۔پہلے خلاصہ فرما دیجئے تب دوبارہ سہ بارہ جب تک جی چاہے پڑھا کیجئے گا۔"
نوبل صاحب : "کوئی خاطر خواہ جواب نہیں آیا ۔لکھتے ہیں کہ ابھی تک ہم لوگ دشمن کے حملوں کو ہٹا رہے ہیں ۔قلعہ شکن توپیں منگوائی گئی ہیں‘ وہ پہنچ جائیں تب ہمارے دھاوے شروع ہوں ۔اس وقت تک جہاں ہو چپ چاپ بیٹھے رہو۔جس وقت ہماری طرف سے گولے جامع مسجد کے پار جانے لگیں یا قلعے میں گرنا شروع ہوں تو جاننا کہ توپیں پہنچ گئیں اور پھر وہ امید کرتے ہیں کہ باغیوں کے پاؤں جلد اکھڑ جائیں گے۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ تمہارا آدمی سولہویں دن کیمپ میں پہنچا اور اس کے بیان سے معلوم ہوا کہ اس کو راہ میں بڑی مشکلیں پیش آئیں ۔پس تم دوبارہ اس کو بھیجنے کا قصد مت کرنا ۔شہرمیں صدہا آدمی ہندو مسلمان سرکار کے خیرخواہ موجود ہیں اور شہر کی خبریں برابر چلی آتی ہیں ۔جب موقع ہوگا تو کسی خیر خواہ کے ذریعے سے تم کو ایما کردیا جائے گا اور تم نکل آنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا اور جن صاحب کے گھر میں تم نے پناہ لی ہے ان کے تفصیل حالات اور ان کے مکان کا پتا سب تمہارے آدمی سے دریافت کرلیا گیا ہے ۔ان پر سرکار اور تمام سرکاری عہدہ دار ان ملکی وفوجی کی احسان مندی کماحقہ طور پر ظاہر کردینا اور یقین ہے کہ وہ ان تمام وعدوں سے جن کا اس وقت کرلینا بہت آسان ہے‘ اس کی بہت زیادہ قدر کریں گے ۔
ابن الوقت : اس سے بہتر اور کیا جواب ہوسکتا تھا۔اس جواب کی نسبت کافی اور شافی اور معقول اور مناسب جو کچھ کہا جائے سب بجا ہے ۔
نوبل صاحب : مگر یوں بے کار پڑے پڑے ضرور مر جاؤں گا۔
ابن الوقت : "آپ مرنے والے ہوتے تو مرنے کے بہت سے مواقع تھے‘ اب آپ کی زندگی کا میں بیمہ لیتا ہوں ۔میں جانتا ہوں کہ آپ کی طبیعت بے کاری سے اکتاتی ہے مگر جہاں اتنی مصیبتیں جھیلی ہیں‘ چند ے اور صبر کیجئے۔میں سمجھتا ہوں مہینے سوا مہینے کے آپ ہمارے مہمان اور ہیں ۔"
نوبل صاحب :افوہ! مہینے سوا مہینے ۔
ابن الوقت : اس مدت کے لیے کیا اچھا مشغلہ اس وقت خیال میں آیا ہے ۔"
نوبل صاحب : وہ کیا؟
ابن الوقت : حالاتِ غدر کی یادداشت۔
نوبل صاحب : "واہ - واہ بہت اچھی صلاح ہے ۔مگر بہت سی باتیں اب مجھ کو اچھی طرح یاد بھی نہیں رہیں ۔
ابن الوقت : جہاں تک آپ کو یاد ہے اپنی یاداشت سے لِکھیےاور زیادہ درکار ہو تومیرے پاس ہر روز کے واقعات کی تفصیلی کیفیت لکھی ہوئی تیار ہے‘ آپ چاہیں تو اسے لے سکتے ہیں ۔میرے اور آپ کےدرمیان یہ قول رہا کہ اس یاداشت سے کسی کو ضرر نہ پہنچے۔"
نوبل صاحب : "میں نہیں جانتا کہ غدر کے بارے میں گورنمنٹ کی کیا رائے ہو گی مگر باوجودیکہ غدر سے مجھ کو بڑی تکلیفیں پہنچیں‘ میں ولایت جانے سے رہا ‘ میرے اعزہ و احباب نے مجھے مرا ہوا فرض کرکے خدا جانے اپنا کیا حال کیا ہوگا‘ میں زخمی ہوا‘ میری زندگی معرضِ تلف میں رہی‘ میری گیارہ برس کی کمائی سب برباد ہوئی ۔تین مہینے ہونے کو آئے کہ میں بیکار محض پڑا سڑتا ہوں اور ابھی نہیں معلوم کہ کب تک یوں ہی پڑا سڑوں گا‘ مجھ کو اپنے یگانوں اور دوستوں کے مرنے جینے کی مطلق خبر نہیں اور یہ بھی خبر نہیں کہ اس ہنگامے کے فرو ہونے تک کیا کیا ایذائیں اور مصیبتیں پیش آنے والی ہیں ۔باوجود ان تمام صدمات کے میں اس ملک کے لوگوں کو‘ سب کو نہیں تو اکثر کو کسی قدر معذور سمجھتا ہوں ۔ میرے نزدیک غدر ایک شورش جاہلانہ ہے ۔ ہندوستانی فوج نے سرکاری قوت کے اندازہ کرنے میں غلطی کی ۔انہوں نے سمجھا کہ یہ ملک کمپنی بہادر نے ہماری مدد سے سر کیا ہے اور ہماری ہی مدد سے اس ملک پر قابض ہے ۔لوگوں کو‘ کیا رعایا کیا فوج‘ سرکاری ضوابط اور قواعد سے بھی کسی قدر نارضامندی ضروری تھی اور سرکاری عہدہ داروں نے اس نارضامندی کی مطلق پروا نہیں کی‘ اور ہزار باتوں کی ایک بات تو یہ ہے کہ صرف بہ زور شمشیر اپنی حکومت قاہرہ کو بٹھانا چاہا اور سلطنتِ مطمئنہ کی شرط ضروری ،خوشنودی رعایا ‘ افسوس ہے کہ تمام تر نہیں تو اس کو بڑا حصہ فوت ہوا اور گورنمنٹ کا منشا پا کر عہدہ داران سرکار نے بھی استمالت قلوب خلائق کی طرف ذرا توجہ نہ کی ۔اس صورت میں کمپنی بے شک ہندوستان کی بادشاہ ہے مگر اسی طرح کی بادشاہ جیسے جنگل میں شیر۔میری ہرگز یہ رائے نہیں ہے کہ غدر کی کھچڑی مدت سے پک رہی تھی یا سوچ بچار کر صلاح و مشورے سے یہ فساد ہوا۔پس اگر میری رائے پر عمل ہوا اور وہ رائے اس حیثیت سے کہ میری رائے ہے‘ ہرگز قابل وقعت نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ گورنر جنرل جیسا مدبر اور منتظم اور صاحب الرائے ضرور تمام اطراف و جوانب پر نظر کرکے حلم اور درگزر کے اصول پر عمل کرے گا اور تب ہی یہ آگ بجھے گی بھی ۔انتقام کا لینا تو ابقائے رعب اور سیاست کے لیے ضرور ہوگا مگر معمم کے ساتھ نہیں ۔جن لوگوں نے کھلم کھلا بغاوت کی اور بغاوت کو پھیلایا اور مسلح ہو کر سرکار کے مقابلے میں معرکہ آرا ہوئے اور جنہوں نے انگریزوں یا ان کے بی بی بچوں کو صرف اس وجہ سے کہ انگریز ہیں‘ ناحق‘ ناروا قتل کیا‘ ایسے اور صرف ایسے ہی لوگوں کو سخت سزا دینی چاہیے ۔
ابن الوقت : "اب مجھ کو پوراطمینان ہے کہ میرا روز نامچہ مجھ سے بہتر محفوظ ہاتھ میں رہے گا۔لیجئے کتاب حاضر ہے۔"
نوبل صاحب کے کئی ہفتے اس روز نامچے کی بدولت آسانی سے کٹ گئے اور یوں ان کی حالت منتظرہ جو تھی سو تھی ہی مگر روز نامچے کا مشغلہ نہ مل گیا ہوتا تو نوبل صاحب شاید اکتا کر اور بولا کر باہر نکل کھڑے ہوتے ۔نوبل صاحب کا روز نامچہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ غدر کے کوئی دو مہینے اور بیس یا بائیس دن بعد عشاء کی اذانیں ہورہی تھیں کہ پہلا گولا قلعے کے دیوانِ عام میں گر کر پھٹا۔سارے شہر میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اس وقت نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں ایک ہی جگہ تھے۔ جوں گولے کا دھماکہ ہوا ، ابن الوقت چونک پڑا اور یہ کہہ کر اٹھا کہ لیجئے جناب ، دہلی کی فتح اور آپ کا انشاء اللہ مع الخیر و العافیۃ کیمپ انگریزی میں داضل ہونا مبارک ، مبارک ، مبارک۔ یہ ضرور قلعے کی آواز ہے۔ جاؤں ذرا اپنی سرکار کی خبر لوں ۔ بیگم صاحب تو شہر کی توپوں کی آواز سن کر سن کر کانپ کانپ اٹھتی تھیں۔ خدا جانے یہ گولہ کس مقام پر گرا۔ الٰہی خیر ہو۔
نوبل صاحب: شاید قلعے سے توپ چلی ہو ۔
ابن الوقت: نہیں جناب ، جب قلعے پر توپیں چڑھائی گئیں تو بہت سی بیگمات بلکہ مرشد زادے حضور والا میں فریاد لے کر آئے تھے کہ ہم کو ڈر لگتا ہے ، ایسا نہ ہو کہ
کہیں ان توپوں کو چھوڑنے کا حکم ہو تو خانہ زاد آواز سنتے ہی دہل کر مر جائیں ۔ جہاں پناہ نے اسی وقت حکم دے دیا کہ قلعے کی توپوں کے گولہ انداز شہر کی فصیل کے موچوں پر پر رہیں ۔
اس وقت کا کیا گیا ابن الوقت پانچویں دن نواب معشوق محل بیگم صاحب کے پھول کر کے آیا تو نوبل صاحب کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لایا ۔ نوبل صاحب کو معلوم تو ہو ہی گیا تھا ، فرمانے لگے کہ بیگم صاحب کے انتقال کا مجھ کو سخت ملال ہے اور آپ سے جس قدر میں نے ان کی مدح سنی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑی نیک دل ملکہ تھیں مگر ایسے وقت کا مرنا میں ان کی خوش نصیبی کی دلیل سمجھتا ہوں کیوں کہ آپ کے جہاں پناہ نے اپنے ساتھ نسل تیمور اورتمام ضاندان شاہی بلکہ شہر کے برباد اور تباہ کر دینے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ۔ انھوں نے ملک گیری کی ہوس کی ، جب کہ ان کو اور ان کے اعوان و انصار کو ملک داری تو کجا ، خانہ داری کی بھی لیاقت نہ تھی ۔ انھوں نے گورنمنٹ انگریزی کے نزدیک اپنے تئیں محسن کش ، نا شکر گزار ، غدار ثابت کر دیا ۔ انھوں نے ہزار ہا خون جو غدر کی وجہ سے ہوئے اور ہو رہے ہیں اور ابھی خدا جانے کتنے اور ہوں گے ، اپنی گردن پر لیے۔
ابن الوقت : "ہر چند میں سمجھتا ہوں کہ بیگم صاحب کا ایسے وقت میں انتقال فرمانا ان کے حق میں بہت ہی بہتر ہوا مگر وہ ہماری آج کی نہیں قدیم کی سرکار تھیں۔ ہمارے سارے خاندان پر ان کے اور ان کے بزرگوں کے احسانات کے ابنار ہیں۔
نوبل صاحب: "بے شک، اپنے محسن اور مربی اور سرپرست اور آقا کی یاد کا تازہ رکھنا شرط مروت اور شیوہ وفاداری ہے مگر میں امید کرتا ہوں کہ ہماری سرکار بھی آپ پر اتنا تو ضرور ثابت کردے گی کہ وہ بھی قدر دانی اور حق شناسی میں قلعے کی کسی سرکار سے کم نہیں۔"
جس دن قلعہ شاہی پر گولے برسنا شروع ہوئے ، فوج کا ضعف اور اہل شہر کا ہراس کھل پڑا۔ لوگ لگے مال و متاع چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے اور لوگوں نے یہ بھی غضب ڈھانا شروع کیا کہ کلکتے دروازے سے لے کر لاہور دوازے تک شہر کے شمالی حصے میں شاذ و نادر کوئی مکان ان کے صدمے سے بچا ہو تو بچا ہو ورنہ تو سارے دن اور ساری رات ہر طرف سے یہی آواز چلی آتی تھی: "پھٹ پھٹ اڑا ڑا ڑا دھوں"۔
رفتہ رفتہ ابن الوقت کے محلے میں سے بھی لوگ کھسکنے شروع ہوئے، تب تو ابن الوقت کو سخت تردد پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہوا کہ ہماری عورتوں کے کانوں میں بھی بھنک پڑ جائے اور شہر سے چلے جانے کا اردہ کریں۔ چنانہ ابن الوقت نے ایک دن اس خدشے کو نوبل صاحب سے بھی بیان کیا تو انھوں نے فرمایا، جو لوگ شہروں کے جنوبی حصوں میں رہتے ہیں ان کو گولوں کے ڈر سے بھاگنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ گولہ باری صرف فوج باغی کے ڈرانے کی وجہ سے ہورہی ہے اور وہ حاصل ہوچکی ہے، کیونکہ سب کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں۔ اب سرکار کو جانوں اور عمارتوں کو نقصان کرنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ نہیں نہیں! آپ بخوبی اطمینان رکھئے، ہم لوگو گولوں کی گزند سے محفوظ ہیں۔ لیکن ہاں اگر ایسا ہوا کہ شہر کے فتح ہوجانے سے پہلے میرا جانا ٹھہر گیا تو اتنی سی احتیاط ضرور کرنا کہ مکان ہفتے عشرے کا سامان رکھ کے مضبوطی کے ساتھ اندر ہو بیٹھنا۔ فتح من فوج کے دشمن کا شہر میں داخل ہونا گویا ایک عذاب کا نازل ہونا ہے۔ سامنے پڑا ہوا آدمی بچ نہیں سکتا۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ شہر کے فتح ہونے سے پہلے میں آپ کی حفاظت کا بندوبست کرسکوں گا۔
اگلے دن جو ابن الوقت قلعہ گیا تو دیکھا جہاں پناہ بھی بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سمجھا کہ اب صبح شام انگریز داخل ہونے والے ہیں۔ وہاں کے کام کاج سے فراغت پاکر گھر کو واپس آرہا تھا کہ بادشاہ کے خاص الخاص خدمت گار یاقوت نے پیچھے سے آواز دی اور برابر آکر کہنے لگا "بھلا ہوا کہ میں نے آپ کو جاتے دیکھ لیا ورنہ آپ کے گھر میں جانا پڑتا۔ جو انگریز آپ کے گھر چھپا ہوا ہے یہ چھٹی اس کے نام کی ہے، اس کو دیجئے گا"۔ یہ کہہ کر یاقوت الٹے پاؤں لوٹ گیا۔ ابن الوقت اپنے دل میں کہتا چلا آتا تھا کہ کس برتے پتا پانی مردانگی کا وہ حال دیکھ کر ایک دن بھول کر قلعے سے باہر قدم نہ رکھا، بیدار مغزی اس درجہ کی کہ، اپنے خاص الخاص خدمت گار انگریزوں سے ملے ہوئے ہیں، تو بغاوت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ گھر آکر نوبل صاحب کو چھٹی دی۔ لکھا تھا کہ کل کا دن بیچ پرسوں دو بجے رات سے شہر پر دھاوا ہے۔ آج رات آتھ بجے سے آدھی رات تک ایک لیفٹنٹ کچھ گورے لے کر کابل دروزے کے باہر بو علی شاہ کے تکیہ میں تمہارا منتظر رہے گا۔ دیکھو، موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے۔
غدر سے بہت دنوں بعد تک شہر کے دروازہں پر پہرے کی چوکی کا ایسا سخت انتظام رہا کہ بے تلاشی کوئی گزرنے نہیں پاتا تھا۔ لوگوں میں تو یہ مشہور تھا کہ اس سے مخبری کا انسداد منظور ہے مگر فی الواقع مردم آزاری کے سوائے کوئی بات نہہں تھی یا اب یہ حال ہوگیا تھا کہ کلکتے دروازے سے لے کر کابلی دروازے تک شہر کے پانچ دروازے تو بالکل ہی بند تھے، لاہوری کھلا ہوا تھا مگر برائے نام، کیونکہ گولے کے ڈر کے مارے کسی کو اس دروازے کے باہر بھی قدم رکھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ آمد و شد کی بڑی بھر مار پہلے سے بھی دلی دروازے اور ترکمان دروازے پر تھی، جب بھاگڑ شروع ہوئی تو یہ حال ہوگیا تھا کہ سارا شہر انہیں دو دروازوں کی راہ میں امڈ ہوا نکلا چلا جاتا تھا۔ صلاح یہ ٹھہری کہ اچھی طرح جھپٹنا ہولے تو ترکمان دروازے سے نکل چلیں اور باہر باہر گھوم کر تکیہ میں جا داخل ہوں۔ نوبل صاحب جب تک ابن الوقت کے گھر رہے ہندوستانی لباس پہنا کیے اور وہ ایسے جامہ زیب آدمی تھے کہ ہندوستانی کپڑوں میں بہت ہی بھلے معلوم ہوتے تھے۔ جو کپڑے پہنے بیٹھے تھے اسی طرح ابن الوقت اور اس کے دو راز دار ملازموں کو ساتھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ نوبل صاحب نے صر ف اتنی احتیاط کی کہ چادر سے اپنا منہ چھپا لیا، جیسے کسی کی آنکھیں دکھتی ہوں۔ ابن الوقت ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے آگے آگے تھا۔ وہ ایسا نفسا نفسی کا وقت تھا کہ کوئی کسی کے حال سے معترض نہ ہوتا۔ نا کسی نے روکا نا کسی نے ٹوکا، اچھی خاصی طرح دندناتے ہوئے دروازے کے باہر جا موجود ہوئے ۔ پھر آگے اجمیری دروازے کے برابر میں گنتی کے چند آدمی نظر آئے جن کو اپنی دھن میں کسی کی کچھ سدھ نا تھی۔ وہاں سے آگے بڑھے تو مطلع صا ف تھا۔ جنگل سے زیادہ ویران، بیاباں سے بڑھ کر وحشت ناک تکیہ ابھی صاف طور پر نظر بھی نہیں آیا کہ دور سے "ہو کمزدِیر(کون آ رہا ہے)" کو آواز آئی۔ معلوم ہو اکہ نوبل صاحب کو لینے لوگ پہنچ گئے ہیں۔ نوبل صاحب کے پکار کر "فرینڈز ( دوست ہیں)" کہا تو لیفٹنٹ بریو آگے بڑھے۔ ادھر سے نوبل صاحب جھٹک کر الگ ہوئے۔ دونوں نے ہاتھ ملائے ۔ ساتھ کے گوروں نے "ہرا (نعرہ خوشی)" کے ساتھ نوبل صاحب کو نجات کی مبارک دی۔ پھر نوبل صاحب کے وہیں کھڑے کھڑے بریو صاحب سے ابن الوقت کی تقریب کی۔ وہ بیچارے مطلق اردو نہیں بول سکتے تھے ، مگر نوبل صاحب ان کی طرف سے ترجمان ہوئے کہ لیفٹنٹ صاحب آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ بھی کیمپ کو چلیں۔ ابن الوقت نے اہل عیال کی تنہائی عذر کیا تو لیفٹنٹ بریو نے کہا خدا نے چاہا تو کل نہیں پرسوں اس سے بہت پہلے ہم آپ سے مل چکیں گے اور سب سے پہلا سپاہی جو آُ کی حفاظت کے لئے آپ کے گھر حاضر ہوگا وہ شاید میں ہی ہوں گا۔ یہ کہہ کر لیفٹنٹ بریو نے جیب سے وہ چرٹ نکالے ۔ا یک نوبل صاحب کو دیا اور دوسرا ابن الوقت کو، اور دیا سلائی بھی سلگا کر ابن الوقت کے آگے کر دی۔ ابن الوقت نے لیفٹنٹ صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا اور یہ کہہ کر اپنا چرٹ نوبل صاحب کو دے دیا کہ آپ جانتے ہیں مجھےا س کی عادت نہیں ۔ ابن الوقت نے یہ کہا تو سہی مگر ان کو معلو م نہیں تھا کہ انگریزوں کی صحبت میں خدا جانے کیا کیا پینا کھانا اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ نوبل صاحب نے ابن الوقت کو نہایت درجے کی احسان مندی کے ساتھ رخصت کیا۔
جان نثار تو نوبل صاحب کے ساتھ ہو لیا اور ابن الوقت اپنے دونوں نوکروں کے ساتھ پاس کے پاس فراش خانے کی کھڑکی سے داخل ہو کر شہر کے اندر اندر خوش و خرم گھر پہنچا۔
ان دنوں دلی کے رہنے والوں میں بہت ہی تھوڑے دل مطمئن تھے اور جو قدرے قلیل معدوے چند مطمئن تھے، ان میں ایک ابن الوقت بھی تھا۔ نوبل صاحب اور لیفٹنٹ بریو نے تھوڑی دیر پہلے اس کے ساتھ اس قسم کی مدارات کی کہ سینکڑوں ہزاروں امیدیں اس کے دل میں امڈنے لگیں۔ پس اگلا دن عذر کے دوسرے دنوں کی طرح خیریت سے گزرا۔ آدھی رات کا ڈھلنا تھا کہ دلی کے حصے کی قیامت آگئی، یعنی انگریزوں کے دو طرف سے شہر پر حملہ کیا ۔ تھوڑی دیر تو توپیں چلیں اس تسلسل کے ساتھ کہ جیسے کبھی زور کی مہاوٹ میں بجلی ہے کہ برابر کوند رہی ہے اور گرجہے کہ ایک لمحے کو نہیں تھمتی اور پھر بندوقیں چلنا شروع ہوئیں۔ ابن الوقت کو دور سے بس ایسا سن پڑتا تھا کہ بھاڑ میں گویا چنوں کے گھان بھن رہے ہیں۔ پہرسوا پہر دن چڑھتے چڑھتے بارے وہ شدت تو کم ہوےئ مگر بندوقوں کی آواز پھٹ پھٹ کبھی ادھر سے ، ادھر سے چلی ہی آتی تھی۔ پھر ایسا سن پڑا کہ انگریز جابجا مکانوں میں گھس بیٹھے ہیں اور باغی ہیں کہ بولائے بولائے پڑے پھرتے ہیں۔ اصل حال نہیں کھلتا کہ جیت کس کی رہی ۔ غرض جوں توں شام ہوئی اور سچ پوچھو تو شہر کے تمام جنوبی حصے میں دن بھی رات ہی کی طرح اداس تھا ۔ بوڑھے بوڑھے آدمیوں کی ساری عمر امن میں گزری۔ ایسی لڑائیاں کسی کے خواب و خایل میں بھی نہ تھیں۔ مارکٹائی میں اگر کسی کے خون نکل آیا تو سارے شہر میں کئی کئی دن اُس کا چرچا رہتا تھا۔ اب ہر شخص اپنی جگہ ایک رائے لگاتا تھا جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کہتا تھا بس جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔ رات کو رہے سہے باغی بھی اپنا منہ کالا کر جائیں گے، شکر ہے مُدتوں میں نیند بھر کر سونا تو نصیب ہو گا۔ دوسر پیشین گوئی کرتا کہ لڑائی کا پیچھا ہی بھاری ہوتا ہے۔ انگریز اس قدر غضب ناک ہو رہے ہیں کہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں تو سہی۔ تیسرا بول پڑا کہ نہیں جی ایسا نہیں ہو سکتا۔ شہر کو مسمار کر دیں گے تو حکومت کاہے پر کریں گے؟ ڈلوں ، پتھروں پر جو تھا یہ صلاح دیتا کہ دو چار دن گھر سے باہر نکلنا ٹھیک نہیں۔ آدمی سامنے پڑا ٹھائیں سے اڑا دیا۔
فصل:4
عذر کے بعد ابن الوقت کو کیا کیا مصیبتیں پیش آئیں:
یہ اور ان سے بہت زیادہ باتیں خود ابن الوقت کے گھر میں ہو رہی تھیں کہ کوئی پہر ڈیڑھ پہر رات گئے سڑک کی طرف سے بڑے زور سے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی اور پھر معلوم ہوا کہ سوار مکان کے برابر ٹھہرا۔ چند لمحے کے بعد کسی نے ابن الوقت کا نام لے کر پکارا۔ سب کو حیرت ہوئی کہ ایسے اندھیرے میں کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا کون آیا ہو گا۔ اب الوقت نے دروازے کے پاس جا کر آہٹ لی تو معلوم ہوا کہ جان نثار ہے۔ گھبرا کر پوچھا "کیا صاحب بھی ہیں؟"
جاں نثار : "ہوں تو اکیلا مگر صاحب کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ ان کی نوکری کوڑیا پُل کے مورچے پر ہے۔ مورچہ چھوڑ کر آ نہیں سکتے۔ مجھ کو دوڑایا ہے کہ ہم سب لوگ سمجھتے تھے کہ شہر ایک دن میں فتح ہو جائے گا۔ مگر ابھی تک باغی موجود ہیں، نہیں معلوم کتنی لڑائیاں شہر پناہ کے اندر ہوں گی۔ عین لڑائی میں دوست دشمن کا امتیاز نہیں ہو سکتا۔ آپ مال و متاع کا ہرگز لالچ نہ کیجیے۔ فقط جانیں لے کر راتوں رات شہر کے باہر نکل جائیے۔ جب اچھی طرح تسلط بیٹھ جائے گا تو آپ ہم مل لیں گے۔ صبح ہوتے ہوتے خود تمہارے ہی محلے پر دھاوا ہے۔"
جلدی جلدی اتنا کہہ کر جاں نثار تو چلتا ہوا۔ ابن الوقت یہ پیام سُن کر کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد ہوش میں آیا تو سارے گھر کو سر پر اُٹھا لیا کہ چلو نکلو۔ اس وقت تک نوبل صاحب کا حال ابن الوقت نے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔ اب اس کے غُل مچانے پر جو لوگوں نے حجت شروع کی اور الکسائے تو اس کو بہ مجبوری ساری حقیقت بیان کرنی پڑی۔ رات کا وقت بال بچوں کا ساتھ اور دفعتہً گھر سے نکلنا اور وہ بھی محض بے سروسامانی سے خیر وہ تو جان ہی کچھ ایسی پیاری تھی کہ ہچکچا کر، مچل کر، نکلے پر نکلے۔ ابھی کوئی سو قدم بھی گھر سے دور نہیں جانے پائے تھے کہ جیسا جاں نثار نے کہا تھا محلے پر اولوں کی طرح گولوں کی بارش ہونے لگی۔ دو ہفتے کامل شہر کے باہر باہر خدائی خوار خاک چھانتے پڑے پھرے۔ دن کو کوٹلے میں ہیں تو رات کو عرب سرائے میں، آج پہاڑ گنج میں ہین تو کل قدم شریف جہاں جاتے کوئی کھڑے ہونے تک کا روادار نہیں ہوتا۔ بارے سنا کہ پٹیالے والے حکیم خواجہ باقی باللہ میں ہیں اور ان کی وجہ سے وہاں سرکاری پہرہ بیٹھا ہے اور امن ہے۔ رشتہ نہیں، قرابت نہیں مگر الغریقُ یتشبث باحشیش ( ڈوبتا تنکے کے سہارا پکڑتا ہے)۔ آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر چلے کہ شاید ہم وطنی کا پاس کریں۔ گرتے پڑتے سڑک کو بچائے ہوئے چلے جاتے تھے اور کچھ راہ گیر شہر کے جلا وطنوں میں سے سڑک پر بھی تھے۔ یکایک کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ سوار ہیں اور سڑک پر پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ ان لوگوں نے چاہا کہ دبے پاؤں آڑ میں ہو لیں۔ سوار گھوڑا دوڑا کر سر پر آ موجود ہوا اور مضبوط مضبوط آدمیوں کو دُن کر کشاں کشاں سڑک پر لے گیا۔ معلوم ہوا کہ لوٹ کے مال کے کچھ گٹھر ہیں۔ اُن کو اُٹھوا کر رسالے میں لے جانا چاہتے ہیں اور رسالہ وزیر آباد میں ہے۔ یہاں سے کچھ نہیں تو چار کوس اور دلی کے مزرا منشوں کے حق میں ہزار کوس۔ زبردست کا ٹھینگا سر پر قریب تھا کہ ایک گٹھر ابن الوقت کو بھی سر پر لادنا پڑے۔ اتنے میں رجال الغیب کی طرح چند انگریز گھوڑوں پر سوار آ پہنچے۔ ان کو دیکھ کر لوگ لگے فریاد کرنے کہ دیکھیے خداوند ہم کو بے گار میں پکڑتے ہیں۔ اتفاق سے انگریزوں میں نوبل صاحب تھے اور بے گاروں میں ابن الوقت۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔ آنکھوں کا چار ہونا تھا کہ نوبل صاحب گھوڑے سے کود، دوڑ کر ابن الوقت کو لپٹ گئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے مجھ کو اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ ان انگریزوں نے بھی اُتر اُتر کر ابن الوقت سے بڑے تپاک کے ساتھ ہاتھ ملائے اور انگریز تو چلے گئے نوبل صاحب وہیں ٹھہرے رہے اور سوار جو بے گار پکڑ رہتے تھے اُنہیں میں سے ایک کوتوالی کے پاس دوڑایا کہ جلد گاڑی، بہلی، رتھ، جو ملے لےآؤ۔
سواریوں کے آنے اور لوگوں کے سوار کرنے اور گھر پہنچانے میں کامل تین ساڑھے تین گھنتے لگے۔ مگر واہ رے نوبل صاحب ٹلنے کا نام ہی نہ لیا۔ ابن الوقت نے مکان پہنچ کر دیکھا کہ جنگی سپاہی باہر دروازے پر کھڑا پہرہ دے رہا ہے اور بڑے بڑے حرفوں میں اشتہار لگا ہوا ہے کہ یہ مکان خیر خواہ سرکار کا ہے کوئی اس کی طرف نظر بھر کر نہ دیکھے۔ ہوا یوں کہ جس وقت نوبل صاحب نے جاں نثار کی زبانی ابن الوقت کو شہر سے نکل جانے کے لیے کہلا بھیجا تھا اسی وقت سے تاک میں تھے۔ قابو پاتے ہی پہرہ بٹھا دیا۔ باغیوں اور شہر والوں میں سے تو بھاگنے میں کسی کو لوٹ کھسوٹ کی سوجھتی نہ تھی۔ لوگوں کو اپنی ہی جان دوبھر تھی۔ رہ گئے سرکاری سپاہی اور فوج کے سقے، دھوبی، گراس کٹ وغیرہ انہوں نے سارے شہر کو دھڑی دھڑی کر کے لوٹا۔ اوپر کا رکھا دھرا اسباب تو کسی کا ایک تنکا نہیں بچا، دبا مال بھی کھود کھود نکال لے گئے۔ ابن الوقت کے مکان پر بھی سارے دن اور پہر رات گئے تک یہی تانتا لگا رہتا تھا کہ ایک گیا ایک آیا مگر پہرہ اور اشتہار دیکھا اور کان دبا کر چلتے بنے۔ غرض خدا کے فضل سے ابن الوقت کے گھر سے ایک سوئی تک نہیں گئی۔ جیسا چھوڑ کر گئے تھے ویسا ہی آ دیکھا۔
فصل:5
کوئین وکٹوریہ نے زمام سلطنت ہند اپنے ہاتھ میں لی۔ دربارمیں ابن الوقت کو صلہ خیر خواہی ملا:
اب نوبل صاحب ابن الوقت کو گھر میں بسا کر چلنے لگے تو اس کو سمجھا گئے کہ ہر چند شہر کامل طور پر فتح ہوگیا ہے مگر مفصلات میں بدستور بدانتظامی ہے ، اکثر جگہ سرکاری تھانے تک نہیں بیٹھے۔ صاحب لوگوں میں سے کسی کو دم مارنے کی فرصت نہیں اور شاید آج رات کو جھجر پر دوڑ جانے والی ہے ، عجب نہیں مجھ کو بھی جانا پڑے۔ آپ اطمینان سے گھر بیٹھے رہیے ، جب موقع ہوگا میں خود آپ کو بلوا بھیجوں گا۔
شاموں شام جان نثار ہزار روپے کا توڑا لے کر دے گیا کہ صاحب نے مدد خرچ کے لیے دیا ہے اور پھر نوبل صاحب ایسے غائب ہوئے کہ ابن الوقت کو مدت تک ان کا کچھ حال ہی معلوم نہ ہوا کہ کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں۔اس اثناء میں شہر کے بسنے کی بندی بھی کسی قدر کھل گئی تھی۔ لوگ یوں ڈر کے مارے اپنی اپنی جگہ ٹھٹکے ہوئے تھے ، تاہم شہر میں اکثر محلّے اور محلوں میں اکثر آدمی آباد ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ امنِ عام کی منادی گلی گلی کوچےکوچے پھرنے لگی اور معلوم ہوا کہ ملکہ معّظمہ نے کمپنی سے ملک نکال کر اپنے اہتمام میں لیا اور بڑی دھوم کا جشن ہونے والا ہے۔ کل جشن ہوگا اور نوبل صاحب کی کچھ خبر نہیں ۔ کوئی چار گھڑی دن رہتے رہتے کمشنری کا چپراسی ابن الوقت کے نام کا ایک لفافہ لایا شرکت جشن کے بلاوے کا خط تھا۔ اب ابن الوقت جی ہی جی میں بہت زچ ہوا کہ مجھ کو انگریزی دربار میں جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا، حکام میں کسی سے معرفت نہیں، کیا نوبل صاحب کو ایسے ہی وقت میں مجھے چھوڑ کر چلے جانا تھا۔ بارے کشاں کشاں گیا تو نوبل صاحب کو موجود پایا۔ آج پہلا دن تھا کہ ابن الوقت نے نوبل صاحب کو ان کی اصلی شان میں دیکھا۔ بیسوں انگریز اور ہندوستانی رئیس (اگرچہ اب رئیس کہاں تھے) ان کو گھیرے ہوئے اور نوبل صاحب دربار کے اہتمام میں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر دوڑے دوڑے پھر رہے تھے۔ تھوڑی دیر تک تو ابن الوقت کو انہوں نے دیکھا تک نہیں مگر جب ان کی نظر پڑی، فوراً اس کے پاس آ کر ہاتھ ملا کر کہنے لگے: "میں رات دس بجے آیا۔ اس وقت مجھے آپ سے بات کرنے کی مطلق فرصت نہیں ۔ وہ فلاں نمبر کی کرسی آپ کی ہے، وہاں بیٹھئے۔ آج (ذرا سوچ کر) بلکہ کل بھی آپ سے نہیں مل سکوں گا۔ پرسوں نو بجے سے گیارہ بجے تک جس وقت آپ کا جی چاہے آپ مجھ سے ٹامس صاحب کی کوٹھی پر مل سکتے ہیں۔"
ابن الوقت نے شاہی دربار بہتیرے دیکھے تھے۔ ان میں ان گئے گزرے وقتوں میں رونق کہو، شان کہو، صرف درباریوں کے زرق برق کی تھی، وہ بھی پرانی جامہ واریں، دقیانوسی پشمینے۔ اس دربار میں سارے دربار شاہی کے مول تول کا تو ایک قالین ہو گا اور شامیانے اور خیمے اور میز اور کرسی اور جھاڑ فانوس اور تصاویر اور اسباب آرائش کا تو کون اندازہ کر سکتا تھا۔ ابن الوقت نے آج جانا کہ ساری رونق سادگی اور صفائی میں ہے۔ غرض شاہی اشتہار پہلے انگریزی اور پھر اردو میں پڑھا گیا، میدان دربار اور چھاؤنی اور قلعے سے تہری شاہی سلامی سر ہوئی، انگریزی باجے بجنے لگے، نذریں گزرنی شروع ہوئیں۔ اب خیر خواہان سرکار کا نمبر آیا۔ ابن الوقت دل میں اپنی خیر خواہی پر بڑا نازاں تھا۔ اب معلوم ہوا کہ خاص شہر کے خیر خواہوں کی فہرست میں اس کا نمبر 125 ہے۔ بہرکیف ابن الوقت کی نوبت آئی اور اس کا نام پکارا گیا تو صاحب کمشنر نے اس کو سامنے کھڑا کر کے اپنے ہاتھ سے نادان سنگھ جاٹ، باغی زمیندار ضلع گڑگانوہ، کے علاقہ منضبطہ میں سے موضع کھیر کاپور (خیر خواہ پور) جمعی تین ہزار روپیہ سالانہ کی سند زمین داری نسلاً بعد نسلاً دستخطی مہری لاٹ صاحب حوالے کی اور نوبل صاحب نے کمشنر صاحب کے پیچھے سے گردن نکال کر اشارے سے وہیں مبارک باد دی۔ ابن الوقت کی خیر خواہی کا چرچا تو اُسی دن سے لوگوں میں ہونے لگا تھا جس دن کہ دلی فتح ہوئی آج کے دربار نے اس کو اور بھی مشتہر کر دیا اور معرفت قرابت کے لوگ جو ہنوز شہر کے باہر خانہ بدوش پڑے پھرتے تھے آسرا پا کر کچھ تو سنتے کے ساتھ لوٹ آئے اور کچھ لوٹنے کے سامان کرنے لگے مگر ابن الوقت عجب کھرے روکھے کھردرے اکھڑ انگریزی مزاج کا آدمی تھا کہ یوں بے غرض اس سے ملو جلو ملاقات کرو خوش گپ خوش مزاج خوش صحبت اور حرف مطلب زباں پر آیا نہیں اور اس نے دو ٹوک ٹکا سا جواب پتھر کی طرح مُنہ پرکھینچ مارا نہیں، اگر سیدھی طرح سے لوگوں کو کہہ دیا کرتا کہ انگریزوں کے معاملے مقدمے میں سفارش کی چڑ ہوتی ہے یا میں صاف طور پر سفارش کرتے ہوئے ڈرتا ہوں یا موقع پاؤں گا تو کلمۃ الخیر سے دریغ نہیں کروں گا تو شاید لوگ اس سے اس قدر بے دل نہ ہوتے مگر اس کا تو حال یہ تھا کہ کسی نے پٹھے پر ا ہاتھ رکھا اور اس نے دولتیاں جھاڑنی شروع کیں۔ اگرچہ ابن الوقت کے کج مدارتی سے لوگوں کے دلوں میں اس کی طرف سے نفرت پیدا ہو گئی تھی مگر اپنی غرض کو ع مرا بہ خیر تو امید نیست بدمرساں۔ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے اور کچھ نہیں تو اتنی سی بات کے بہانے سے گھڑی دو گھڑی کو آ بیٹھتے کہ "آپ نے تو غضب ہی کی جرأت کی۔ ایسی شورش میں انگریز کو میگزین سے اُٹھا لائے اور گھر میں پناہ دی۔ مُنہ پر کہنا تو خوشامد ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ رستم کو بھی مات کیا۔"
دوسرا: خیر بہادری تو بہادری، کمال تو یہ تھا کہ ناف شہر میں مجمع مجاہدین یعنی خانقاہ کے زیر سایہ انگریز چھپا رہا اور کسی کے فرشتوں کو خبر نہ ہوئی۔
تیسرا: بھلا انگریزوں کی قدر دانی کو ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اس جان جوکھم کے صلے میں دیا تو کیا دیا، تین ہزار کی زمینداری۔ اے جناب! یہ ملک بخش دینے کے کام ہیں۔ ہائے، آج کو شاہجہان ہونا تھا۔
چوتھا: اجی ابھی کیا خبر ہے۔ انگریزوں کے یہاں زمین کے دینے کا دستور نہیں، مگر ڈپٹی کر دیں، صدرِ اعلیٰ کر دیں، کابل میں سفیر یا کسی ریاست میں وزیر بنا کر بھیج دیں، جو چاہیں سو کر سکتے ہیں اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ کریں گے، پر کریں گے۔ میں آپ کو دکھا دوں گا۔
کھلی خوشامد ہوتی تو ابن الوقت بھی ایسا نِرا احمق نہ تھا کہ سن کر اظہارِ بشاشت کرتا مگر عیار لوگ دو شالوں میں لپیٹ لپیٹ کر جوتیاں مارتے تھے اور یہ جھانسے میں آ کر فخر کے طور پر ایک ایک کے آگے خدر کی حکایتیں بیان کر کے داد چاہتا تھا۔ جب لوگ اس کو بھرے پر چڑھا لیتے تو باتوں باتوں میں یہ بھی پوچھتے "کیوں صاحب، پھر وہ انگریز کپڑے کیسے پہنتا تھا؟"
ابن الوقت: جب صاحب کو ہم لاشوں میں سے اٹھا کر لائے تو ان کے کپڑے تمام خون میں لت پت تھے۔ صاحب کو اپنے تن بدن کی مطلق خبر نہیں اور اس وقت تک ہم میں سے بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کہاں کہاں زخم لگے ہیں۔ جو کپڑے پہنے ہوئے تھے، بہتیرا چاہا کہ چیر کر الگ کر دیں مگر کپڑے اس بلا کے ڈھیٹ تھے کہ پھاڑے نہیں پھٹتے تھے۔ ہار کر قینچی سے کترے۔ جب تک صاحب ہمارے گھر رہے، یہی ہم طرح کے لوگوں کے ہندوستانی کپڑے پہنتے رہے مگر طنزاً نہیں نصیحتاً اکثر کہا کرتے افسوس، ہندوستان کے لوگ مطلق عقل سے کام نہیں لیتے۔ ایک کپڑے ہم لوگ پہنتے ہیں کہ برسوں پھٹنے کا نام نہیں لیتے اور ایک کپڑے یہ ہیں کہ پہنے اور کھسکے۔ ایسے
نازک اور مہین کپڑے عورتوں کی زیب و زینت کے لئے زیادہ مناسب ہیں۔ مردوں کو خدا نے اسی غرض سے زیادہ توانائی دی ہے کہ ان کو محنت اور مشقت کرنی ہے۔ ہندوستانیوں کا لباس ان کی کاہل اور آسائش طلبی کی دلیل ہے۔ میں دیکھتا ہوں تو اس لباس میں چستی اور چالاکی باقی نہیں رہ سکتی۔
ہم نشین: "بھلا صاحب، ان کے کھانے کا آپ نے کیا انتظام کیا تھا؟"
ابن الوقت: "انتظام کیا کرنا تھا، جو کچھ گھر میں پکتا تھا، صاحب بھی کھا لیا کرتے تھے۔ البتہ اتنا اہتمام کرنا پڑتا تھا کہ ان کے کھانے میں نمک مرچ نہیں ڈالی جاتی تھی۔ ایک نمک دان میں پسا ہوا نمک، دوسرے میں کالی مرچیں ان کے لئے الگ رکھا کرتے تھے۔ ہندوستانی کھانوں میں پلاؤ، کباب، سموسے، فیرینی، ہلکی ہلکی مٹھائیاں، زیادہ رغبت سے کھاتے تھے۔"
ہم نشین:" آپ نے ان کے برتن الگ کر دیے ہوں گے۔"
ابن الوقت: "بھائی سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے تو برتن بھانڈ کچھ الگ ولگ نہیں کیا۔ کھانا ہمارا، برتن ہمارے، پکانے والے ہم، پھر الگ کرنے کی وجہ؟"
ہم نشین: "آخر وہ تھا تو انگریز۔!"
ابن الوقت:" انگریز تھا تو ہونے دو۔ کھانے میں تو کوئی حرام چیز نہیں ہوتی تھی۔"
ابن الوقت نے اس بات کو ذرا زور سے کہا تو ہم نشین سمجھ گیا کہ میرا کہنا ناگوار طبع ہوا۔ بے چارہ تھا ابن الغرض، دم بخود ہو کر رہ گیا۔ مگر اس کے بعد سے لوگ ابن الوقت کے حقے پان سے ذرا سا احتراز کرنے لگے تھے۔
فصل:6
غدر کے بعد ابن الوقت اور نوبل صاحب کی پہلی تفصیلی ملاقات۔ ابن الوقت نے نوبل صاحب کےساتھ میز پر چھری کانٹے سے کھاناکھایا:
دربار کے مجمع میں نوبل صاحب نے اپنی ملاقات کا وقت بتا ہی دیا تھا، دربار کے تیسری دن ابن الوقت ٹامس صاحب کی کوٹحی پر جاموجود ہوا۔ کوٹھی بجائے خود ایک چھاؤنی تھی۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ زرد کوٹھی میں ہیں۔ بنگلے کا احاطہ الگ تھا۔ دیکھتا کیا ہے کہ احاطے کے بیرونی دروازے پر ملاقاتیوں کی سواریاں کھڑی ہیں۔ دروازے کے اندر چھوٹا سا مگر وسعت پیش صحن کے مناسب چمن ہے، خوب صورت، آراستہ و پیراستہ، اور اتنے ہی سے صحن میں چار مالی کام کر رہے ہیں۔ درختوں کی شادابی، سڑکوں کی صفائی، روشوں کی درستی کہے دیتی ہے کہ مالی صرف نوکری کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے شوق سے بھی کام میں لگے لپٹے رہتے ہیں۔ پر ہاں ، کیا ریوں کی قطع اور درختوں کے انتخاب سے ایک خاص سلیقہ اور نداق ظاہر ہوتا ہے جو کسی مالی کے بس کا نہیں۔ ابن الوقت اس چمن میں جابجا رکتا، ٹھٹکتا برآمدے تک پہنچا تو ملاقاتیوں کا ہجوم تھا! بعض کرسیوں پر تھے، بعض فرش پر اور بعض(شاید امیدوراہوں) برامدے کے دونوں طرف ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ نوبل صاحب کے آدمی ابن الوقت کو جان پہچان تو چکے ہی تھے، آتا ہوا دیکھ سب نے اسے کھڑے ہو کر سلام کیا اور اتنی اس کے ساتھ خصوصیت برتی کہ ایک الگ کمرے میں لے جا کر بٹھادیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک چپراسی نے آ کتر خبر دی کے صاحب کو آپ کی اطلاع ہوگئی ہے۔
ابن الوقت: پھر صاحب نے کیا فرمایا؟
چپراسی: آپ نے دیکھا کتنے آدمی آپ سے پہلے کے آئے ہوئے بیٹھے ہیں۔
اب الوقت : "کیا یہ سب ہو لیں گے تب میرا نمبر آئے گا؟"
چپراسی : "ان لوگوں کی ملاقات چار چار پانچ پانچ منٹ بلکہ صاحب نے آپ کا آنا تو سن ہی لیا ہے، لوگوں کو جلد جلد رخصت کریں گے۔ کیا کہیں صاحب، ہمارے صاحب کا مزاج ہی اس طرح کا ہے کہ کوئی آکھڑا ہو تو اس کو جواب نہیں دیتے۔ ملنے کے تو بڑے دھنی ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں چھٹی نہیں ملتی، نہیں تو اب تک کبھی کے آپ کے سلام کو حاضر ہوئے ہوتے۔ اتوار کو ضرور سارے شاگرد پیشہ پیش ہوں گے، سب لوگ بڑی آس لگارہے ہیں۔"
ادھر نوبل صاحب اپنی جگہ ابن الوقت کے خیال سے واقع میں دو ہی دو باتیں کر کے لوگوں کو اوپر تلے ٹال رہے تھے ، پھر بھی ابن الوقت کو آدھ گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔ اس کی ملاقات نوبل صاحب کے ساتھ ایسی حالت میں شروع ہوئی کہ نوبل صاحب کی اس وقت کچھ ہستی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد سے جب جب نوبل صاحب سے ملے، منصبی اور قومی تعزز ہر حال میں ان کے ساتھ تھا۔ خواجہ باقی باللہ کی سڑک پر جب کہ ابن الوقت بیکار میں پکڑا ہوا ایک گٹھراٹھانے کو تھا، نوبل صاحب کو اس نے دیکھا کئی انگریزوں کے ساتھ عربی گھوڑے پر سوار ۔ پھر دربار میں دیکھا تو دربار کا اہتمام کرتے ہوئے انگریزوں میں پیش پیش۔ پھر آج اپنے بنگلے پر کہ ملاقاتیوں کی سواریاں دروازوں پر کھڑی ہیں اور شہر کے بیسیوں رئیس سلام کے منتظر حاضر۔ شاگرد پیشہ لوگوں کی یہ کثرت کہ احاطہ بجائے خود ایک چھوٹا سا محلہ معلوم ہوتا ہے۔ ہر قسم کی متعدد سواریاں احاطے کے اس سرے سے اس سرے تک بھری پڑی ہیں۔ بنگلے کےتمام کمرے، فرش، پردہ چلمن، میز کرسی، شیشہ آلات، آرائش اور آسائش کے سامان سے سجے ہوئے ہیں، ابھی چند دن ہوئے کہ غدر کے دنوں میں اسی کوٹھی کے کسی کمرے کی چھت تک باقی نہ تھی یا اب دو ہی مہینے میں "الحکومت تصف الکرامت" نئے سرے سے مکان بھی بن گیا، رنگ بھی پھر گیا، ہر طرح کا سامان بھی مہیا ہو گیا، باغ بھی لگ گیا یعنی جہاں کچھ بھی نہ تھا وہاں سب کچھ ہوگیا۔ چار چپراسی اور پانچواں جمعدار، اتنے آدمی صاحب کے کمرے سے ایک کمرہ چھوڑ کر دروازے سے لگے بیٹھے ہیں، اندر سے آواز آئی اور دوڑے۔ نوبل صاحب کی یہ شان اگرچہ ابن الوقت کو پہلے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا مگر اس بات کا اس کو حق الیقین تھا کہ ایک غدر سے نہیں ایسے ایسے ہزاروں غدر کیوں نہ ہوں، انگریزی عمل داری جانے والی نہیں بلکہ غدر کے بعد جو تسلسل بیٹھے گا، پہلے سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوگا۔ وہ خوب سمجھے ہوئے تھا کہ اس وقت اتفاق سے کوئی انگریز بلکہ کوئی کرانی بھی نوبل صاحب کی طرح کہیں بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے، وہ حقیقت میں شیر ببر ہے، فی الحال گرد و غبار سے اور نہ اعتبارِ مآل سوار ہے۔
مگر ابن الوقت کی خود داری ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ نہ تو ا سنے اس بات کا خیال کیا کہ جو لوگ عزت میں، مقدرت میں اور شاید سرکاری خیر خواہی میں بھی اس پر ہر طرح کی ترجیح رکھتے ہیں، بر آمدے میں بٹھائے گئے ہیں اور یہ کمرے میں، اور نہ اس پر نظر کی کہ جو لوگ آنے میں اس سے اقدم ہیں، از روئے انصاف ان کو ملاقات میں بھی اقدم ہونا چاہیے۔ آدھ ہی گھنٹے کے انتظار میں یہ ایسا اکتایا کہ بار بار چہراسیوں سے ترش روئی سے پوچھتا تھا کہ اب کتنے آدمی اور ہیں؟ کہیں تم نے میری اطلاع میں یا صاحب نے سمجھنے میں تو غلطی نہیں کی؟ اس کو اپنے زعم میں منتظر بٹھائے جانے سے خجالت تھی اور وہ اس خجالت کے ٹالنے کو کمرے میں ٹہلتا اور کتابوں اور تصویروں اور دوسری چیزوں کو جگہ سے ہٹا کر دیکھتا۔ اگرچہ اس نے کسی چیز کو بے ٹھکانے نہیں کیا مگر چپراسی اس کی یہ آزادی دیکھ کر دل میں بہت نا خوش تھے اور دور ہٹ کر چپکے چپکے آپس میں کہتے تھے: " یہ بھی عجیب آدمی ہے کہ ایک دم اس سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا۔ اس کو کمرے میں بٹھانا ہی نہیں تھا۔"
جمعدار: "میاں ہوش کی بنواؤ، تمہیں خبر بھی ہے کہ یہ کون ہیں۔ غدر میں صاحب انھی کے گھر میں تھے۔ ان کو بر آمدے میں بٹھا دیتا اور صاحب کی نظر پڑ جاتی تو سب کی شامت آ جاتی۔"
چپراسی: "اجی جمعدار، خیر خواہی کی تو ہماری سر آنکھوں پر، سرکارِ دربار کا کچھ ادب بھی ہے یا نہیں؟ حاکم کی ڈیوڑھی پر امیر، رئیس، راجا، بابو، نواب، زمیندار کیا سبھی آتے ہیں، اندر جا کر چاہے صاحب کی گود میں بیٹھتے ہوں، پر باہر تو ہم نے سب کا ایک ہی قاعدہ دیکھا، ہاتھ باندھے سر جھکائے، چپ چاپ۔ کل تم نے لوہارو والے نواب کی طرف خیال نہ کیا ہوگا۔ صاحب کو غسل خانے میں دیر ہوئی تو اس کمرے میں تھے۔ کھانسی اٹھے تو آواز کی گونج کے ڈر کے مارے کھڑکی کے باہر منہ نکال کر اور رومال رکھ کر کھانسے اور میں نے اگال دان لانے کو پوچھا تو اشارے سے منع کر دیا۔"
جمعدار: "کیا مضائقہ ہے، ان کو صاحب لوگوں سے ملنے جلنے کا اتفاق نہ پڑا ہوگا۔"
چپراسی: "میں تو انعام لینے جاؤں گا تو ضرور اتنی بات ان کے منہ میں ڈال دوں گا۔"
جمعدار: "نہیں جی تمہیں کیا پڑی۔"
چپراسی: "مجھے پڑی یہ کہ اب ان سے صاحب سے ٹھہری خصوصیات۔ ان کا روز کا نہیں تو تیسرے چوتھے دن کا پھیرا ضرور ہوا کرے گا اور ہمارے انگریز صاحب کے پاس باہر کے ایک دو صاحب لوگ ہمیشہ ٹھہرے ہی رہتے ہیں۔ بعضاً انگریز ایسا بد مزاج ہوتا ہے کہ کالے آدمی کی صورت سے جلتا ہے، وہ اگر ایسی بد تمیزی دیکھ پائے تو ڈک سے بوٹ کی ٹھوکر سے خبر لے، انھیں کی نہیں بلکہ ہم لوگوں کی بھی۔"
اتنے میں نوبل صاحب کی باہر نکلنے کی آہٹ سی معلوم ہوئی، سارے چپراسی اور جس قدر لوگ ملاقات سے رہ گئے تھے، سب کے سب ایک دم سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو شخص صاحب کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اندر سے آئے تھے وہ دروازے سے سلام کر کے رخصت ہوئے۔ باقیوں کو صاحب سلامت کے بعد صاحب نے رخصت کر دیا کہ آج دیر بہت ہو گئی اور خود ابن الوقت کے کمرے میں چلے گئے۔ پہلی بات جو صاحب نے ابن اوقت سے کہی تھی وہ یہ تھی کہ میں افسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اتنی دیر انتظار کرنا پڑا۔آپ کے شہر میں مخبری کا بازار اس قدر گرم ہورہا ہے کہ جس نے کچھ نہیں کیا وہ خوف کے مارے پریشان ہے کہ دیکھئے کوئی کیا جاکر لگا دے اور حکام کی نظر ہے سخت ، اس سے لوگ اور بھی ہراساں ہیں ۔ابن الوقت کچھ کہنا چاہتا تھا کہ صاحب بول اٹھے: مجھ کو آپ سے بہت دیرتک باتیں کرنی ہیں اور کھانا میز پر رکھا جاچکا ہے ، چلئے کھاتے بھی جائیں اور باتیں بھی کرتے جائیں ۔"
ابن الوقت : میں کچھ وقت کا ایسا پابند نہیں ہوں ۔ آپ کھائیے ، میں گھر جاکر کھا لوں گا اور ابھی کچھ ایسا ناوقت بھی نہیں ہوا۔
نوبل صاحب : مسکرا کر ابن الوقت کے ساتھ کھانے کے کمرے کی طرف کو چلتے ہوئے، " کیوں ، کیا آپ کو میرے ساتھ کھانے میں کچھ احتراز ہے ؟ میں وہی نوبل ہوں کہ میں نے اور آپ نے مہینو ں ایک جگہ کھانا کھایا ہے اور آپ کو بخوبی علم ہے کہ میں اس وقت بھی ایسا ہی عیسائی تھا جیسا غدر سے پہلے اور اب ہوں اور جیسا
خدا نے چاہا ، اس کی مدد سے مرتے دم تک رہوں گا۔"
ابن الوقت : نہیں ، مجھ کو اپنی ذات سے تو اعتراض یا احتراز کچھ بھی نہیں مگرلوگ اس کو برا سمجھتے ہیں ۔
نوبل صاحب : مگر آپ بھی اس میں کچھ برائی پاتے ہیں یا نہیں ؟
ابن الوقت : نہیں ، میں تو ہرگز کس طرح کی کوئی برائی نہیں پاتا۔
نوبل صاحب : "ہندوستان کو جس کمزوری نے تباہ کیا ، اصل میں وہ یہی کمزوری ہے ۔خدا نے جیسے ان کی طبیعتیں بودی اور محکوم بنائی تھیں، ویسے ہی یہ لوگ صدا سے بودے اور محکوم رہتے چلے آئے ہیں اور جب تک یہ کمزوری ان کی طبیعتوں میں ہے ، آگے کو بھی ضرور بودے اور محکوم رہیں گے ۔"
ابن الوقت کو پہلے ہی سے انگریزوں کی طرف رجحان تھا، اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ، نوبل صاحب کا اشارہ پاتے ہی مقابل کی ایک کرسی پر ڈٹ گیا اور یہ عیسائیت کا نہیں بلکہ اس کی انگریزیت کا گویا اصطباغ تھا ۔حسن اتفاق سے اس وقت میز پر کوئی انگریز نہ تھا۔ یوں تو کئی صاحب ان کی کوٹھی میں ٹھہر رہے تھے مگر سب کے سب مل کر شکار کھیلنے چلے گئے تھے اور بہتر ہوا کہ نوبل صاحب اکیلے تھے ورنہ آج ابن الوقت کی خوب ہی ہنسی اڑی ہوتی ۔ اس نے ناواقفیت کی وجہ سے کھانے میں ایسی بے تمیزیاں کیں کہ وہ تو نوبل صاحب ہی جیسا متین آدمی تھا کہ نہ تو اس کو ہنسی آئی اور نہ اس نے کچھ برا مانا ۔ہنسنے کو کھانے کھلانے والے خدمت گار کیا کم تھے مگر نوبل صاحب کے ڈر کے مارے کسی کی کیا مجال تھی کہ مسکرا بھی لیتا ، ہنسنا تو بڑی بات ہے ۔ ابن الوقت کے بےجا حرکتیں دیکھتے اور دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے نظر کرکے رہ جاتے ، پر اپنی جگہ جاکر تو مارے ہنسی کے خوب لوٹ پوٹ ہوئے ہوں گے ۔ اس نے بے تمیزی سی بے تمیزی کی ، دائیں ہاتھ میں کانٹا لیا تو بائیں ہاتھ میں چھری ۔پھر نوبل صاحب کے بتانے سے کانٹا بائیں ہاتھ میں لیا تو چھری کو اس زور سے کانٹے پر ریت دیا کہ چھری کی ساری باڑھ جھڑ پڑی ۔خدمت گار نے میز پر سے دوسری چھری اٹھا کر دی ۔ شاید آلو ہی تھا کہ اس کو کاٹنے لگے تو اچھل کر ، بڑی خیر ہوگئی کہ ٹیبل کلاتھ (دسترخوان ) پر آگرا۔پھر جب کسی چیز کو کانٹے میں پرو کرمنہ میں لے جانا چاہتا ، ہمیشہ نشانہ خطا کرتااور جب تک باری باری سے ناک اور ٹھوڑی اور کلے یعنی تمام چہرے کو داغ دار نہیں کرلیتا ، کوئی لقمہ منہ میں نہیں لے جاسکتا۔ اس دن کھانے کے بعد کوئی اس کا منہ دیکھتا تو ضرور یہی پھبتی کہتا کہ چہرہ ہے یا دیوالی کی کلھیا ہے ۔ اس نے کہا تو نہیں مگر اس کی سسکی سے کئی دفعہ شبہ ہوا کہ ہونٹوں میں یا مسوڑھوں میں یا زبان میں کہیں نہ کہیں کانٹا چبھا ضرور۔ پھر اول مرتبہ خدمت گار چھوٹی رکابی سامنے سے ہٹانے لگا تو اس نے سمجھا کہ وہ دسترخوان بڑھانا چاہتا ہے کچھ کہنے ہی کو تھا ، خدمت گار تھا سلیقہ مند ، سمجھ گیا اور یہ کہہ کر رکابی آگے سے کھینچ کر چلتا ہوا کہ دوسری صاف پلیٹ لاتا ہوں ۔ تمام کھانے میں کوئی چھ یا سات رکابیاں بدلی گئیں مگر اس بندہ خدا نے چھری کانٹا ہاتھ سے نہ چھوڑا ، جب تک خدمت گار نے منہ پھوڑ پھوڑ کر نہیں مانگا۔ جب خدمت گار پہلی قعب اس کے برابر لایا تو اس نے دونوں کنارے پکڑ ، ساری قعب اس کے ہاتھ سے لے ، چمچے سمیت اپنے آگے رکھ لی۔ خدمت گار نے کان میں جھک کر کہا کہ اس میں سے جتنا آپ کو درکار ہو چمچے سے اپنے سامنے کی رکابی میں لے لیجئے۔ پڈنگ ( انگریزی فیرینی) کانٹے سے کھانے کی تھی اس کو جو لگی مزے کی، چمچے سے ہڑپ اور اس پر مزہ یہ کہ ذرا سی اور دینا۔ اخیر میں سب سے زیادہ جو بے تمیزی تھی وہ یہ تھی کہ فنگر گلاس (ہاتھ دھونے کا پیالہ) کا پانی اٹھا، پی لیا۔
ابن الوقت کی بعض حرکتیں حقیقت میں سخت بے جا تھین مگر واہ رے شرافت!, نوبل صاحب شروع سے آخر تک گردن جھکائے بیٹھے رہے، گویا کچھ خبر ہی نہیں۔ مگر نیچی نگاہوں سے سب کچھ دیکھ رہے تھے اور دل میں ضرور پشیمان ہوئے ہوں گے کہ میں نے ناحق اس کو کھانے میں شریک کیا۔ اس کی پشیمانی اس خیال میں سے ان کو ضرور ایذادہ ہوئی ہو گی کہ ایسی خصوصیت پر کیوں کر ہوسکتا تھا کہ عین وقت پر کھانے کی تواضع نہ کرتا۔ تواضع کرنا تو مناسب بلکہ واجب تھا اور اب تواضع کی تو آگے کو ایک راستہ کھلا اور بھلے کو آج کوئی انگریز کھانے میں شریک نہ تھا اور ہوتا تو ساری عمر ان بدتمیزیوں کی نقلیں کرکے مجھ کو چھیڑا کرا۔ نوبل صاحب جب تک میز پر رہے اسی فکر میں تھے کہ انہوں نے ابن الوقت کے ساتھ مطلق کسی قسم کی بات نہ کی، ورنہ نوبل صاحب کے میز کے چہچے تمام چھاؤنی میں مشہور تھے۔ خیر کھانے کے بعد نوبل صاحب نے ایک خدمتگار کو اشارہ کہ آپ کو غسل خانہ میں لے جاکر ہاتھ دھلواؤ۔ وہاں سامنے سنگھار میز پر قد آدم آئینہ لگا تھا، ابن الوقت نے جاتے ہی اپنا عکس دیکھا تو بے ساختہ انشاء اللہ خان کا وہ مقولہ یاد آگیا ع داڑھی کو لگا شیخ کی اب بزر قطونا اور بجنے لگی گت۔
بارے ہاتھ منہ دھو، آدمیوں کی جون میں آکر پھر نوبل صاحب کے پاس آئے۔ نہ جاننا بھی عجب مزے کی بات ہے۔ ابن الوقت کو اتنا بھی متنبہ نہ ہوا کہ معذرت کرتا۔ نوبل صاحب نے تو اپنے لئے پائپ روشن کرلیا تھا۔ ابن لوقت کی طرف سگریٹ کا بکس سرکادیا کہ اس میں تمباکو ہے روم کے علاقے میں پیدا ہوتا ہے اور چرٹ کے مقابلے بہت ہلکا ہے آپ بے تامل پیجئے اور جب چند روز اس کی عادت کیجئے گا تو میں یقین کرتا ہوں کہ آپ اس کے سامنے حقے کو منہ بھی نہ لگائیں گے۔ میں صبح و شام اور کھانے کے بعد تو پائپ پیتا ہوں اور باقی اوقات یہی سگریٹ۔ ابن الوقت گڑ کھا چکا تھا اور گلگلوں سے کاہے کا پرہیز۔ دیا سلائی سلگا، لگا انجن کی طرح بھک بھک منہ سے دھواں نکالنے۔
اب نوبل صاحب نے اپنی باتوں کا سلسلہ شروع کیا کہ جس روز آپ سے خواجہ باقی اللہ میں ملاقات ہوئی، اس کے بعد سے میں برابر دہلی کے باہر رہا۔ اسی انثاء میں ایک بار صاحب چیف کمشنر بہادر نے کرنال میں مجھے بلوا بھیجا۔ تابہ دیر غدر کے حالات استفسار فرماتے رہے اور اسی کے ضمن میں آپ کا بھی ذکر آیا۔ مجھ کو اس بات کے جاننے سے سخت حیرت ہوئی کہ چیف صاحب کو آپ کے ذاتی اور خانگی حالات مجھ سے بھی زیادہ معلوم ہیں۔ وہ آپ کے دور نزدیک ایک ایک رشتے دار سے واقف ہیں اور جو جو حرکتیں ان لوگوں سے غدر میں سرزد ہوئی ہیں ان کے پاس تاریخ وار، نام دار سب کی تحریری یاداشت موجود ہے۔ مجاہدوں کا گھروں میں ٹھہرانا، ان کے لئے چندہ جمع کرنا، روپے سے، ہتھیاروں سے، کھانے کپڑے سے ان کی مدد کرنا، مجاہدین کے ساتھ جا جا کر دمدمے بنوانا اور دھاروں میں ان کا ساتھ دینا، سرکاری میگزین کے ہتھیاروں اور سرکاری کالج کی کتابوں کا لوٹنا، انگریزی عمارتوں کا ڈھانا، انگریزوں کے مارے جانے کا تماشہ دیکھنا، لوگوں کو بغاوقت کی ترغیب دینا، نمازیں پڑھ پڑھ کر علی الاعلان انگریزی عمل داری کے غارت ہونے کی دعائیں مانگنا اور اس کے لیے وظیفے اور ختم پڑھنا اور کیا کرنا، سارے پتے کی خبریں (خدا جانے کس بھیدی نے ان کو بتائی ہیں) ان پر منکشف ہیں۔ جہاد کے اصل مہری فتوے، لوگوں کے خانگی خطوط اور تمام شاہی دفتر ان کے پاس ہے۔ غرض سب کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔ مجھ کو تو ایسا نظر آتا ہے کہ دلی کے مسلمانوں میں سے شاذ و نارد کوئی متنفس الزام بغاوت سے بچ جائے تو بچ جائے ورنہ روداد بہت ٹیڑھی ہے۔"
ابن الوقت: آپ نے کہیں میرے روزنامچے کا تو کچھ تذکرہ نہیں کیا؟
نوبل صاحب:" آپ نے ان سب تحریرات کو دیکھا ہوتا جو میں نے دیکھی ہیں تو آپ خود سمجھ لیتے کہ آپ کے روزنامچے کا نام لینا نہ صرف فضول و لاحاصل تھا بلکہ دلیل حماقت۔ اجی حضرت، نہیں معلوم ایسے ایسے کتنے روزنامچے سرکار میں پیش ہیں اور نہیں معلوم کتنے آدمی روزنامچہ نویسی کے کام پر مامور تھے۔"
ابن الوقت: تو یہ دربار اور اشتہار اور قول و قرار سب لغو۔
نوبل صاحب: نہیں نہیں۔ غدر و بغاوت کچھ لڑکوں کا کھیل تو تھا نہیں، اس کا ضروری اور لازمی نتیجہ ہندوستان کے حق میں نہایت ہی زبوں تھا۔ملکہ مظمہ اور گورنر جنرل نے حقیت میں بڑا ہی تحمل کیا ورنہ عام انگریز تو اس قدر غیض و غضب میں بھرے ہوئے ہیں کہ اگر انگریز کے ایک قطرہ خون کے عوض ہندوستانیوں کے خون کی ندیاں بہا دی جائیں تو بھی ان کی پیاس نہ بجھے ' مگر کیا کریں کچھ بس نہیں چلتا۔ شاہی حکام سے لاچار ہیں ' نہیں تو سارے شہر کو ڈھا کر مسمار کردیتے کہ چند روز کے بعد کوئی اتنا بھی نہ پہچان سکتا کہ دلی کہاں بستی تھی۔ یہ اسی اشتہار کا اثر ہے کہ جب تک شہر پناہ کے اندر لڑائی ہوتی رہی یا لڑائی کے دو تین دن بعد جو ہونا تھا سو ہولیا ' اب جان اور مال دونوں محفوظ ہیں۔ ہے کیا کہ دلی کے مسلمان سرکار کی نظر میں عموما مشتبہ ٹھہر چکے ' اب برأت کا بار ثبوت انہیں پر ہے۔ برأت ثابت کریں اور مزے سے اپنے گھروں میں آباد ہوں۔
ابن الوقت : مجھ کو دوسروں کا حال تو معلوم نہیں مگر ہمارے خاندان پر بیٹھے بٹھائے تباہی آئی۔ کم بخت اچھی خاصی طرح شہر سے اپنا منہ کالا کرگئے تھے۔میری خیر خواہی سن کر بے بلائے پھر آموجود ہوئے۔ دلی اور اس کے اطراف میں بڑی سختی ہے اور جو لوگ دور نکل گئے ہیں پھر بھی امن میں ہیں۔بلا سے ' میں تو ان لوگوں سے کہہ دوں گا کہ پھر کہیں نکل جائیں۔ سرکار کو اتنا خیال نہیں کہ متوسلانِ شاہی اور عام رعایائے انگریزی کی حالت میں بڑا فرق ہے۔ متوسلانِ شاہی پر سرکارِ انگریزی کے ایسے کیا حقوق تھے کہ ان سے وفاداری اور خیر خواہی کی توقع کی جائے۔ پھر قلعہ کیا برباد ہوا قلعہ کے ساتھ سارے شاہی نمک خوار بے موت مارے گئے۔یہ سزا کیا کم ہے کہ ان سے دوسرے مواخذے کئے جائیں ۔
نوبل صاحب : میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ میں نے آپ کے عزیزوں کی طرف سے یہی حجت پیش کی تھی اور بڑے شکر کی جگہ ہے کہ بڑے بڑے عہدہ دار کی سب ٹھنڈے ہیں۔چیف صاحب نے میری باتیں سن کر بالکل میری رائے سے اتفاق کیا اور فرمانے لگے گوڑنمنٹ ہند کے حکم سے تحقیقاتِ بغاوت کا ایک جداگانہ محکمہ قائم کرنا منظور ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ قسمتِ دلّی کے لیے تم کو اس محکمے کا کمشنر مقرر کروں' کیونکہ تمہاری رائے بالکل گورنمنٹ کی منشاء کے مطابق ہے۔ میں کیا عذر کرسکتا تھا۔ چیف صاحب کا حکم میں نے سر آنکھوں پر رکھا اور اگلے مہینے کی پہلی تاریخ سے اپنا کام شروع کردوں گا۔
ابن الوقت : بس آپ نے یہ خوشی کی خبر سنائی اور دلی کے مسلمان اگر میری طرح آپ سے واقف ہوں تو ان کے گھروں میں گھی کے چراغ جلانے چاہیں ورنہ گورنمنٹ کے حکم احکام دھرے ہی رہتے اور حکامِ اضلاع اپنے ذاتی غیض و غضب سے آفت توڑ مارتے۔
نوبل صاحب : عام انگریزوں کے غصے کا یہ حال ہے کہ ایک مجمع میں آپ کی خیر خواہی کا ذکر تھا تو جتنے تھے سب کے سب مخاصمانہ اشتباہات کرنے لگے کہ ایک شخص جس کو تم سے بلکہ سرکار انگریز سے کسی طرح کا تعلق نہیں اور جس کے خاندان میں مذہبی تعصب اس شد و مد کے ساتھ ظاہر ہو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس نے تم کو کیوں پناہ دی۔ایسے خاندان کا آدمی سچّا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں تو اس نے تمہاری پناہ دہی پر بھی سرکارِ انگریزی سے کسی طرح کا تعلّق پیدا کرنا نہیں چاہا۔ آپ تو کیمپ میں کیا جاتا اس نے بھی تو کوئی عرضی بھیجی نہ کوئی اپنا آدمی روانہ کیا اور تمہاری پناہ دہی کے سوائے اس نے اور کوئی کام خیرخواہی کا کیا نہیں پس ضرور دال میں کچھ کالا ہے ۔ ہم تو ایسا سمجھتے ہیں کہ اس نے تم کو شاید اس غرض سے زندہ رکھا کہ اس کو سرکارِ انگریزی پر زیادہ دباؤ ڈالنے کا موقع ملے اور اگر دلی فتح نہ ہوتی تو وہ ضرور تمہیں بے رحمی کے ساتھ مار ڈالتا۔ پس جن لوگوں کے نظر میں خیر خواہی کی یہ وقعت ہو ان کی سختی کا کیا ٹھکانہ ہے اور رعایا کو ایسے احکام سے کیا فلاح کی امید ہوسکتی ہے۔
ابن الوقت : یہ سچ ہے کہ میں نے سرکار انگریزی کی خیر خواہی کی نظر سے آپ کو ہرگز پناہ نہیں دی۔ سوائے اس کے کہ میں چند سال تک سرکاری کالج میں پڑھا اور کسی طرح کا تعلق مجھ کو بلکہ ہمارے خاندان میں سے کسی کو کبھی سرکار انگریزی سے نہیں رہا۔ ہم لوگ پشت ہا پشت سے شاہِ دہلی کے نمک خوار رہے ہیں۔ میں نے اپنے پندار میں آپ کی پناہ دہی سے فرض انسانیت ادا کیا ہے اور بس۔ میں نے اس خدمت کےعوض میں سرکار سے کسی صلے یا انعام کی درخواست نہیں کی اور نہ مجھ کو اس کا استحقاق یا دعوٰی ہے۔میں نے اگر کچھ سلوک کیا( اگرچہ سلوک کا نام لیتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے) تو آپ کی ذات سے کیا اور آپ نے اضعافاََ مضاعفہ مجھ کو اس کا عوض دیا۔میرا پچاس روپیہ بھی آپ پر خرچ نہ ہوا ہوگا 'آپ نے مجھ کو ہزار کا توڑا پکڑا دیا۔میں نے آپ کے میگزین لانے اور رکھنے اور بوعلی شاہ کے تکیہ تک پہنچانے میں ہرگز وہ بلکہ اس کی آدھی تہائی زحمت بھی نہیں اٹھائی جو آپ نے مجھ کو اور میرے خاندان کے لوگوں کو خواجہ باقی باللہ سےلانے میں۔آپ نے ہم لوگوں کو بیگار کی بے حرمتی سے بچالینے میں احسان کیا میں اپنے تمام خدمات کی اس ایک احسان کے مقابلے میں کچھ بھی حقیقت نہیں سمجھتا۔غرض آپ نے اپنے ذاتی احسانات اسقدر مجھ پر لادئے ہیں کہ اگر شریف ہوں تو ساری عمر کو میری گردن آپ کے سامنے خم رہے گی اور یہ زمینداری جو بے استحقاق محض مجھ کو سرکار نے دی ہے ' یہ بھی آپ ہی کا طفیل ہے۔
نوبل صاحب: آپ میں اور مجھ میں بڑا فرق ہے۔ آپ نے بے غرضانہ جوکھوں اُٹھا کر مجھ کو پناہ دی مگر خیر " حساب دوستاں در دل" آئیے کچھ ضروری باتیں کریں۔ کھیر پور جو آپ کو انعام میں ملا ہے ' میں نے دیکھا ہوا ہے۔ میں گوڑ گانوہ کے صاحب کلکٹر کے ساتھ کئی بار وہاں شکار کو گیا ہوں۔ گاؤں میں تھوڑہ سا رمنہ اور ایک بہت بڑا تالاب ہے۔ گیہوں، چاول، نیشکر، روئی، نیل سب طرح کی عمدہ پیداوار وہاں بکثرت ہوتی ہے ۔ جب وہاں میرے جانے کا اتفاق ہوا، نادان سنگھ جس کا یہ گاؤں ہے'مجھ سے ملا۔اچھی شان سے رہتا تھا۔اس کی رہنے کی گڑھی بجائے خود ایک قلعہ ہے۔نادان سنگھ کو گھوڑیوں اور بھینسوں کا بہت شوق تھا۔ ہزار ہزار روپے کی گھوڑی اس کی سواری میں رہتی تھی۔ غرض نادان سنگھ گوڑ گانوہ کے بڑے خوش حال زمینداروں میں سے تھا۔یوں تو اس کے پاس اور بھی گاؤں تھے مگر اس کا مقولہ تھا بھگوان نے کھیر پور کی دھرتی بڑی اپچاؤ کی ہے اور اس نے کھیر پور کی آبادی میں اپنی پونجی اور عمر اور آسائش کو بے دریغ خرچ کیا ہے اور وہ اسی ایک گاؤں کی آمدنی سے چھوٹا سا ایک راجہ بنا ہوا تھا۔ خیر۔ فرض کیا جائے کہ جس قدر محاصل لوگ بیان کرتے تھے اس میں مبالغہ ہو اور لوگوں کا دستور بھی ہے کہ دوسرے کی آمدنی جانچنے میں بڑے سخی بن جاتے ہیں اور خرچ کے اندازہ کرنے میں بخیل' مگر عموماََ ضلع گوڑ گانوہ کے بندو بست سے وہاں کے زمیندار اس قدر رضا مند ہیں کہ جس گاؤں کی جمع سنگین ہے اس میں بھی بعد وضع مصارف' بقدر جمع سرکاری منافع ہے تو اس حساب سے بھی آپ کی اکسٹرا اسسٹنٹ کی تنخواہ کہیں نہیں گئی۔ میں نے اس گاؤں کے انتخاب میں دو باتوں کا لحاظ کیا۔ اول تو قربِ دہلی۔دوم اس گاؤں کے رقبے میں سے ہوکر ریل نکلنے والی ہے اور ریل کی وجہ سے گاؤں کی حیثیت میں خوب ترقی ہوگی۔ میں نے آپ کے لیئے نوکری کے حاصل کرنے میں کوئی خاص جان بوجھ کر خود کوشش نہیں کی' اس لئے کہ میں نے عِزت طلب ہندوستانیوں کو اکثر انگریزوں کی مدارات کا شاکی پایا اور اگر آپ نوکری کی خواہش کریں گے تو میں ہر وقت کوشش کرنے کو موجود ہوں۔"
ابن الوقت: میں آپ سے بار بار عرض کرچکا ہوں کہ ہم لوگ پشت ہا پشت سے شاہی سرکاروں کے متوسل ہیں۔ ان سرکاروں کی مدارات کا یہ رنگ تھا کہ چھوٹی موٹی کل خدمتیں موروثی۔ یہ کتنے بڑے اطمینان کی بات تھی کہ سارے ملازم نہ صرف اپنی بلکہ اولاد کی معاش سے بھی بے فکر تھے۔ میں واقعات کے طور پر ان سرکاروں کے دستور اور قاعدے آپ سے بیان کرتا ہوں آپ ان کو درست نا درست۔' واجب نا واجب جو چاہیں سمجھیں۔ جرمانے، معطلی، موقوفی کانام بھی سارے قلعے میں کبھی کسی سے نہ سنا۔داد دہش انعام و اکرام کی کوئی حد نہ تھی۔ تیمور کی نسل نے کبھی روپے کو روپیہ سمجھا ہی نہیں۔ شاہی تنخواہیں اولاد اور اولاد پر تقسیم ہوتے ہوتے بعض کے حصے میں صرف پیسے رہ گئے تھے اور وہ بھی دو دو ڈھائی ڈھائی برس میں ملی تو ملی' ورنہ اکثر تنخواہیں محض برائے نام تبرک کی طرح۔ صرف سرکار کی داد دہش پر نوکروں کا گزر تھا۔ مگر وہ پیسے لوگوں کو ایسے عزیز تھے کہ مفتی صدرالدین خان صدر الصدور دہلی کی نقل مشہور ہے کہ قلعہ سے ڈحائی یا تین روپے ان کی تنخواہ کے بھی تھے۔ خواجہ محبوب علی خان نے تخفیف کا قلم جاری کیا تو مفتی صاحب کا نام بھی زمرہ ملازمانِ شاہی سے کاٹ دیا۔ مفتی صاحب تو مفتی صاحب' ایسے تین تین روپلی کی ان کے خدمتگاروں کو بھی پرواہ نہ تھی مگر مفتی صاحب جب سنا تو دہائی دیتے ہوئے حضور تک پہنچے اور آخر اپنی تنخواہ بحال کرکے ٹلے۔ غرض قلعے کی سرکاروں کا برتاؤ نوکروں کےساتھ ایسا تھا جیسا ماں باپ کا اپنے بال بچوں کے ساتھ۔ تو صاحب میں تو ایسی سرکاروں میں رہا ہوں اور میں خود اپنے تئیں انگریزی نوکری کے قابل نہیں سمجھتا۔"
ساتویں:7
ایک ڈپٹی کلکٹر انگریزوں کی مدارات کا شاکی:
میرے نسبتی بھائی ڈپٹی ہیں۔ برس دن ہوا رخصت لے کر انہی دنوں حج کو گئے اب آج کل میں آنے والے ہیں۔ مزاج کے ہیں تیز ، کسی حاکم سے ان کی نہیں بنتی اور برس میں دو دو بار نہیں تو بے چارے ہر برس ضرور بدلتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی آ نکلتے ہیں اور اپنے حالات بیان کیا کرتے ہیں ، ان سے میں قیاس کرتا ہوں کہ واقع میں ایک دن بھی مجھ جیسے آدمی کا انگریز دربار میں گزر ہونا مشکل ہے۔ میں نے اپنے ان بھائی صاحب سے ایک دن پوچھا تھا کہ کہیے کچھ آپ نے سرمایہ بھی جمع کیا تو کہنے لگے "اجی اللہ اللہ کرو" کیسا سرمایہ ، خدا جانے کیسے کیسے کتر بیونت کرتا ہوں کہ قرض نہ لینا پڑے۔ مجھ کو تو آئے دن کی بدلی ادھیڑے ڈالتی ہے ، ورنہ خدا کا فضل ہے میری تنخواہ خرچ کو کافی ہے بلکہ کچھ پس انداز ہورہتا ہے۔" میں : حقیقت میں آپ کو برس دن بھی کہیں جم کر رہنا نصیب نہیں ہوتا ، آخر اس کا سبب کیا ہے؟ اور بھی تو ڈپٹی ہیں "قطب از جانہ جنبد" برسوں سے ایک جگہ جمے بیٹھے ہیں۔
بھائی صاحب : خدا جانے صاحب لوگ کیا کمال کرتے ہیں۔ میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ حکام کو راضی رکھوں مگر کچھ ایسی تقدیر کی گردش ہے کہ خواہی نخواہی ناچاقی ہو ہی جاتی ہے اور بار بار کی بدلی نے مجھے اور بھی بدنام کر رکھا ہے۔ لوگ میرا نام سن کر پکار اٹھتے ہیں : "اجی وہ لڑاکو ڈپٹی کلکٹر۔
میں : آپ نے اصلی سبب اب بھی نہ بتایا کہ حکام آپ سے کیوں ناراض رہتے ہیں۔ اگر آپ کو میں سرمایہ دار دیکھتا تو شبہ کرسکتا کہ شاید آپ رشوت لیتے ہوں گے۔
بھائی صاحب: بات صاف صاف تو یہ ہے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مجھ جیسا تنگ مزاج آدمی رشوت لے بھی نہیں سکتا۔
میں: میں تو سنتا تھا کہ انگریز رشوت سے بہت چڑتے ہیں اور آپ کے فرمانے سے بالکل الٹی بات معلوم ہوتی ہے۔"
بھائی صاحب: سچ تو یہ ہے کہ مجھ کو کسی مرتشی انگریز سے معاملہ نہیں پڑا۔ نہ میں نے کبھی کسی انگریز کو رشوت دی۔ انگریزوں کی بڑی رشوت کیا ہے، ڈالی یا دورے میں گئے تو رسد یا ڈاک بٹھانے کی ضرورت ہوئی تو گھوڑا گاڑی یا شکار کو نکلے تو مانگنے کے ہاتھی وغیرہ یا خاص خاص لوگوں سے شاذ و نادر تحائف۔ سو میں ان چیزوں پر رشوت کا اطلاق نہیں کر سکتا۔ رسد میں تو اکثر نوکروں کی شرارت ہوتی ہے کہ صاحب سے بھی ایک ایک کے دو دو لیتے ہیں اور پبچ میں آپ چٹ کر جاتے ہیں اور صاحب کو خبر نہیں ہونے دیتے اور شاید کوئی میم والا صاحب ہوا اور میم ہوئی کفایت شعار، جز رس اور اس نے دھیلے انڈا اور آنے مرغی کے دام کاٹ دیے اور لکڑی گھاس مفت کہ یہ چیزیں تحصیل دار، تھانے دار دیہات سے ضرور بے قیمت لیتےہیں اور ہم کتنے ہی دام کیوں نہ دیں، اصل مالکوں کو کوڑی ملنے والی نہیں۔ تو ہاں اس کا بھی عجب نہیں۔ مگر پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ انگریزوں میں رشوت نہیں چلتی مگر ان کے حصے کی بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ ان کے اردلی، خدمت گار،شاگرد پیشہ،پیشے کے عملے لے مرتے ہیں۔اور صاحب کی آنکھ، کان اور زبان بلکہ ہم زاد جو کچھ یہی لوگ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص میری طرح ان ہم زادوں یا حرام زادوں کو راضی نہیں رکھ سکتا تو کتنا بھی بڑا عہدہ دار کیوں نہ ہو، اختیارات، حکومت، تنخواہ سب کچھ ہے مگر عزت نہیں۔اور میں چاہوں تو انگریزوں کے شاگرد پیشوں کو کچھ خرچ کر کرا کے راضی کر لے سکتا ہوںمگر مجھ کو ان کے نام سے کچھ ایک چڑ سی آ پڑی ہے کہ دوہری دوہری سواریاں رکھتا ہوں، خدا کے فضل سے نوکر بھی متعدد ہیں۔ مکان کا کرایہ، اخبار، کھانا، کپڑامیرا سارا خرچ میرے پندار میں اجلا ہے۔سال میں سینکڑوں روپے تو ہسپتال ،مدرسہ اور متفرق چندوں میں نکل جاتے ہوں گے۔یہ تمام مصارف میں خوش دلی سےکرتا ہوں لیکن ڈالیوں اور شاگرد پیشوں کے انعام میں مجھ سے ایک روپیہ خرچ نہیں کیا جاتا۔ اتنی مدت مجھے نوکری کرتے ہوئے ہوئی اور چھوٹے بڑے صدہا انگریزوں سے میری معرفت ہے۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی خوشی سے کسی انگریز کو ملنے گیا ہوںیا کسی انگریز سے مل کر میری طبیعت خوش ہوئی ہو۔ میں انگریزوں سے ملتا ضرور ہوں مگر بہ امر مجبوری۔ دفع حضرت کے لئے کہ ایسا نہ ہو مغرور سمجھا جاوں۔ یا عملوں اور اردلیوں کو جو ہمیشہ مجھ سے ناراض رہتے ہیں، چغلی کھانے کا موقع ملے۔ مجھ کو بعض ایسے کریم النفس انگریزوں سے بھی واسطہ پڑا ہے جنہوں نے صرف بہ تفاضا انصاف کارگزاری دیکھ کر مجھ کو فائدے پہنچائے ہیں،اور میں ان کا دل سے ممنون ہوںمگر انگریزوں کے عام برتاو سے میرا دل کچھ ایسا کھٹا ہو گیا ہے کہ جنہوں نے مجھ پر احسان کئے ہیں ان کے ساتھ بھی میں نے اس سے زیادہ راہ و رسم نہیں رکھی کہ جب تک افسری ماتحتی کا تعلق رہا، رہا جب وہ بدل گئے یا میں بدل گیا تو بھول کر بھی میں کسی کو عرضی نہیں بھیجتا۔ میں انگریزوں کی ملاقات کا ایسا چور ہوں کہ جب دیکھتا ہوں کہ اب بہت دن ہوگئے ہیں تو ہفتوں پہلے ارادہ کرتا ہوں اور آخر زبردستی ٹھیل کر، دھکیل کر اپنے تئیں لے جاتا ہوں تو کوٹھی پر جا کر ہمیشہ وہی بے لطفی، وہی بے عزتی، جاڑاہو، پانی برستا ہو، کڑاکے کی دھوپ ہو، لوئیں چلتی ہوں، ہندوستانی ڈپٹی نہیں، ڈپٹی کا باوا ہی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ اپنے گھر سے چار گھوڑے کی بگھی سوار ہو کر ہی کیوں نہ آیا ہو کلکٹر، ایجنٹ،اسسٹنٹ کی تو بڑی بارگاہیں ہیں اگر یوریشین ڈپٹی کلکٹر سے بھی ملنے گیا ہے (اور نہ ملے تو رہے کہاں) تو احاطے کے باہر اترنا ضرور اور احاطے بھی شیطان کی انتڑی کہ ہم جیسے پرانی فیشن کے لوگ کوٹھی تک پہنچتے پہنچتے ہانپنے لگتے ہیں اور اگر صاحب کہیں اس حالت میں دیکھ پائیں تو سمجھو ملاقات کو گئے ، نوکری نذر کر آئے،اسی دن رپورٹ دھری ہے کہ یہ شخص دس قدم پیدل نہیں چل سکتا،گویا ڈپٹی کلکٹری کو ضرور ہے کہ کم از کم ڈاکے کے ہرکارے کی چوکی تک، پوئی نہیں تو دلکی ، پیشی کا بستہ لے کر بھاگ سکے ۔ پس اس ڈر کے مارے کسی درخت کی آڑ میں یا کوئی ایسا ہی گانٹھ کا پودا ہے اور اس نے شاگرد پیشوں کو پہلے سےچکھوتیاں کرا دی ہیں۔ تو باورچی خانے یا اصطبل میں پاؤ گھنٹے، آدھ گھنٹے کھڑے کھڑے دم لیا اور جب سانس اچھی طرح پیٹ میں سمانے لگا تو رومال سے منہ ہاتھ پونچھا، ہاتھ سے داڑھی مونچھ کو سنوار، آہستہ سے عمامے کو ذرا اور جما لیا، چغے کے دامن سمیٹے اور بڑے مؤدب اور مقطع بن کر ہاتھ باندھے، نیچی نظریں کیے، ڈرتے ڈرتے، دبے پاؤں کوٹھی کی طرف کو بڑھے۔ خدمت گار اور اردلی کے چپراسیوں نے تو احاطے کے باہر ہی سے تاڑ لیا تھا، کوٹھی کے پاس آتے دیکھ کر، قصداً ادھر ادھر کو ٹل گئے۔ تھوڑی دیر زینے کے نیچے ٹھٹکے کہ کوئی آدمی نظر آئے تو اوپر چڑھنے کا قصد کریں۔ چلنے کی، باتوں کی اور چیزوں کے رکھنے اٹھنے کی آوازیں ہیں کہ چلی آتی ہیں مگر کوئی آدمی نظر نہیں آتا۔ آخر ناچار ستون کی آڑ میں جوتیاں اتار کر ہمت کر کے بے بلائے اوپر پہنچے۔ کرسی نہیں، مونڈھا نہیں، فرش نہیں، کھڑے سوچ رہے ہیں کہ کیا کریں، لوٹ چلیں۔ آئینوں میں سے دیکھ لیں۔ شرمندگی کے ٹالنے کو وہیں تھوڑی سی جگہ میں ٹہلنا شروع کیا۔ اتنے میں باورچی خانے کی طرف سے ایک آدمی آتا ہو نظر آیا۔ جی خوش ہوا کہ اس سے صاحب کا اور اردلی کے لوگوں کا حال معلوم ہو گا۔ وہ لپک کر ایک دوسرے دروازے سے اندر گھس گیا اور ادھر کو رخ بھی نہ کیا۔ غرض کوئی آدھے گھنٹے (اور اس انتظار میں تو ایسا معلوم ہوا کہ دو گھنٹے) اسی طرح کھڑے سوکھا کیے۔ بارے خدا خدا کر کے ایک چپراسی اندر سے چٹھی لیے ہوئے نمودار ہوا۔ کیا کریں اپنی غرض کے لیے گدھے کو باپ بنانا پڑتا ہے حیا اور غیرت بالائے طاق، آپ منہ پھوڑ کر اس کو متوجہ کیا: "کیوں جمعدار کچھ ملاقات کا بھی ڈھنگ نظر آتا ہے؟" بس اس کو ڈپٹی کلکڑی کا ادب سمجھو یا شکایت کا ڈر، مگر میں جانتا ہوں کہ ادب اور ڈر تو خاک بھی نہیں صرف اتنی بات کا لحاظ کہ شہر کی فوج داری سپرد ہے، خدا جانے کب آ پڑے، چار و ناچار اچٹتا ہوا سا سلام کر کے جیسے کوئی مکھی اڑاتا ہے، اس کو کہنا پڑا کہ آج ولایت کی ڈاک کا دن ہے، ملاقات تو شاید ہی ہو مگر آپ بیٹھئے، ابھی تو صاحب غسل خانہ میں ہیں۔ یہ کہہ کر وہ پھر اندر کو جانے لگا تو آخر نہ رہا گیا اور زبان سے نکلا کہ کہاں بیٹھوں اپنے سر پر۔ تب اس نے ایک ٹوٹی ہوئی کرسی، تکیہ اور ایک بازو ندارد، گویا بید کی تپائی لا کر ڈال دی۔ جس کے بعد جب کوئی چپراسی یا خدمت گار باہر آتا، یہی معلوم ہوتا کہ صاحب ابھی غسل خانے سے نہیں نکلے (الہٰی کیا غسل میت ہے)، اب کپڑے بدل رہے ہیں، اب میم صاحب کے کمرے میں ہیں، اب چھٹی لکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آخر کو معلوم ہوا کہ کھانے کی میز پر ہیں۔ یہ سن کر جی ہی تو بیٹھ گیا کہ اب کیا خاک ملاقات ہو گی۔ ارادہ ہوا کہ گھر کی راہ لیں۔ پھر خیال ہوا کہ کون وقتوں سے انتظار کر رہے ہیں، آنا تو پڑے ہی گا، دوسرے دن کا کیا بھروسہ، اتنی محنت کیوں ضائع کی، گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اور صبر کرو۔ بڑی دیر بعد چپراسی یہ حکم لے کر نکلا کہ سر رشتہ دار کو رپورٹ خوانی کے لئے بلایا ہے۔ اب رہی سہی امید اور بھی گئی گزری ہوئی۔ تب تو اپنا سا منہ لیتے ہوئے چپراسی سے یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ خیر میں تو اب جاتا ہوں، صاحب سے میرے آنے کی اطلاع کر دینا۔ تب خدا جانے چپراسی کے دل میں کیا آئی کہ کہنے لگا: "میں دو بار آپ کی اطلاع کر چکا ہوں، کچھ بولے نہیں۔ اب پھر کہے دیتا ہوں، خفا ہوں گے تو میری آدھ سیر آٹے کی فکر رکھنا۔"غرض بلائے گئے۔ صاحب کو دیکھا تو پیپ منہ میں لئے ٹہل رہے ہیں۔ بس معلوم ہو گیا کہ مطمئن ملاقات نہیں ہو سکتی۔ سر جھکائے کوئی کاغذ یا کتاب دیکھ رہے ہیں۔ اب کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں کر ان کو خبر کروں کہ میں آیا ہوا کھڑا ہوں اور کیا معلوم ہے کہ شاید جان بوجھ کر کھڑا رکھا ہو بلکہ مجھ کو تو اس بات کو بھی شبہ ہے کہ میرے آنے کی بہت دیر پہلے سے ان کو خبر تھی۔ چپراسی نے شاید نہ بھی کہا ہو مگر چاروں طرف آئینے کی کواڑ ہیں، عین سامنے کی دروازے سے آیا، درختوں کے نیچے ٹہلتا رہا پھر بڑی دیر تک برآمدے میں بیٹھا رہا: کیا اتنے عرصے میں ایک بار بھی ان کی نظر نہ پڑی ہو گی؟ ضرور پڑی ہو گی۔ خیر آخر آپ ہی سر اٹھایا "او ڈپٹی صاحب!" حاکم بالا دست ہو کر جو اتنی آؤ بھگت کرے تو اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ صاحب نے بندہ نوازی میں کچھ کمی نہیں کی۔ آنکھیں چار ہوتے ہی اپنے مقابل میز کی دوسری طرف کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اپنے گھر یا آپس میں ایک دوسرے کے گھر کرسیوں پر بیٹھنا کون نہیں جانتا لیکن میں تو اپنے سے زیادہ تنخواہ کے ہندوستانی صدر الصدرووں اور ڈپٹیوں کا انگریزوں کے رو برو کرسی پر بیٹھنا دیکھے ہوئے تھا۔ کہنے کو کرسی پر بیٹھنا مگر حقیقت میں بید پر چوتڑ ٹیکے نہ ہوں تو جیسے چاہو قسم لو۔ تم خدا کے بندے ہو، یقین ماننا، بس ڈنڈے پر الگ تھلگ جیسے اڈے پر گلدم' کرسی پر بیٹھنا ہی تھا کہ کمبخت چپراسی نے پیچھے سے ہاتھ جوڑ کر کہا" خداوند' سر رشتہ دار حاضر ہیں۔" صاحب ہیں کہ میری طرف دیکھتے جاتے ہیں اور چپراسی فرما رہے ہیں: "اچا آنے بولو۔" یعنی اچھا' سر رشتہ دار سے کہو کہ چلے آئیں۔ سبحان اللہ! سات برس اسسٹنٹ رہے' نو برس کے قریب جنٹ اور اس سولہ برس میں صرف ایک بار ڈیڑھ سال کے لیے فرلو پر ولایت گئے تھے بارہ برس دلی میں رہے اور بھاڑ جھونکا۔ چودہ برس میں حضرت نے اردو میں کیا کمال حاصل کیا ہے "اچا آنے بولو" اب میں منتظر ہوں کہ صاحب آگے کچھ تو پوچھیں تو جواب دوں اور سر رشتہ دار مردود' آگے آگے آپ' پیچھے بستہ قلم دان لیے ہوئے چپراسی' آ ہی گھسا۔ سر رشتہ دار کے روبرو مجھ سے پوچھتے ہیں تو کیا پوچھتے ہیں:"ول صاحب'گرمی بوٹ"۔ میں گردن جھکا کر " ہاں خدا وند' گرمی کے تو دن ہیں۔ میرے علاقے میں تو پولیس کی رپورٹ سے ایسا معلو ہوا ہے کہ لو سے کئی آدمی مرے۔" صاحب کو تو یہ جواب دے رہا ہوں اور دل میں کہہ رہا ہوں کہ گرمی کا تو حال معلوم تھا' ارے ظالم تجھ کو یہ بھی خدا کا ترس آیا کہ ایک بندہ خدا جس کو کچہری میں سرکار سے ایک ٹٹی ملتی ہے (ناظر اپنی بدذاتی سے تین برس کے پرانے خس کی بندھوا دیتا ہے تو وہ جانے اور اس کا ایمان) اور جس کو گھر پر بھی ٹٹ لگانے کا مقدور ہے اور جو واقع میں گرمی بھر اپنے گھر ٹٹی میں رہتا ہے' کتنی دیر سے برآمدے میں بیٹھا بھن رہا ہے' لاؤ سلام لے کر اس کو آزاد کروں۔ میں تو سمجھا تھا کہ آدمیوں کا لو سے مرنا سن کر چونک پڑے گا اور ضرور پوچھے گا کہ کس تھانے سے رپورٹ آئی' کتنے آدمی مرے' لو کا ہندوستانی کیا علاج کرتے ہیں اور کوئی لاش ڈاکٹر صاھب کے ملاحظے کو بھی آئی یا نہیں؟ غرض آدمی کا دل بولنے اور بات کرنے کو چاہے تو بہترے حیلے ہیں' پر صاحب تو کچھ پی سے گئے۔ نہیں معلوم دھیان سے نہیں سنا یا سمجھتے نہیں یا کالے آدمیوں کے مرنے کی پرواہ نہیں کی۔ اب سر رشتہ دار ہے کہ بستہ کھول' کاغذ پھیلا رہا ہے اور میری اور صاھب کی یہ تپاک کی ملاقات ہو رہی ہے کہ دونوں چپ۔ جب سر رشتہ دار کاغذ پھیلا' لگا صاحب کا منہ دیکھنے تو صاحب مجھ سے فرماتے ہیں' آُ کچ کچ۔۔۔"یعنی آپ کو کچھ اور کہنا ہے۔ یہ سنتے ہی میں تو یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا کہ نہیں میں تو صرف سلام کے لیے حاضر ہوا تھا' بہت دن ہو گئے تھے' جی ملنے کو چاہتا تھا' پھر حاضر ہوں گا۔" میری اس اخیر بات میں۔۔۔ اور باتیں ہی ایسی کون سی بہت ہوئی تھیں کہ اس کو اخیر کہوں۔۔۔۔ بلکہ دوسری بات میں "جی ملنے کو چاہتا تھا" بالکل جھوٹ تھا۔ کس مسخرے کا جی ملنے کو چاہتا ہے۔ ملاقات کے بامزہ اور بے مزہ ہونے کا معیار وقت ہے' دیر تک ملاقات رہی تو جانو کہ خوب دل کھول کر باتیں ہوئیں۔ ہماری ملاقات کیا خاک بامزہ سمجھی جائے کہ جانا اور اٹھاؤ چولہے کی طرح بیٹھنا اور گفتگو اور رخصت سب کچھ دو ہی منٹ میں ہو ہوا چکا۔ اپنے حساب سے کون ایسا تیسا ملاقات کے ارادے سے گیا تھا۔ خدا گواہ ہے صرف متھا پھٹول وہ بھی اپنے سر کا چھد اتارنے کے لیے۔ صاحب مجھ سے چاہتے ایک بات بھی نہ کرتے مگر سر رشتہ دار اور چپراسیوں کو میرا الٹے پاؤں لوٹ آنا معلوم نہ ہوتا تو مجھ کو کچھ بھی شکایت نہ تھی مگر میری تفضیح ان لوگوں کی نطروں میں ہوئی جو منصبی عزت میں میرے پاسنگ نہ تھے۔ باہر نکلا تو چپراسیوں اور خدمت گاروں کا غول کا غول موجود تھا۔ مجھ کو دیکھتے ہی سب نے فراشی سلام کیا۔ الٰہی یہ کاہے کی ایسی لمبی چوڑی تعظیم ہو رہی ہے۔ گھنٹوں میں برآدمدے میں بیٹھا سوکھا کیا' ان میں سے کسی کی صورت بھی نظر نہین پڑی' اب یہ حشرات الارض کہاں سے نکل پڑے؟ آہا! مین اتنی جان نشانی کے بعد صاحب کو ایک سلام کر لینے کا گنہ گار ہوں یہ سرکاری پیادے اس کا جرمانہ وصول کرنے کے لیے مجھ پر تعنیات ہیں۔ ہر چند کہتا ہوں' مکان پر آنا' تنخواہ پر دیکھا جائے گا' عید قریب ہے اس میں سمجھ لینا: بےحیا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ آخر میں نے ذرا ترش رو ہو کر کہا کہ اس وقت میرے پاس نہیں ہے' ہوتا تو دینے کا نام کبھی کا دے چکا ہوتا۔ ایسی ہی بےاعتباری ہے تو ایک آدمی میرے ساتھ چلو۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ایک آدمی تیار سا ہوا کہ مجھ سے پہلے آگے کوچ بکس پر بیٹھ لے۔ اتنے میں جمعدار پنسل اور کاغذ نکال میرے ہاتھ دیا کہ حضور ناظر کو رقعہ لکھ دیں۔ جب جب میں قلم اٹھاتا تھا' بےادب ہاتھ پکر لیتے تھے: "پہلے فرما دیجئے کہ آپ کیا لکھتے ہیں۔ ‘‘ اسی کشمکش میں بڑھتے بڑھتے میں تو اپنی بگھی تک جا پہنچا۔ سائیس پٹ کھولے کھڑا ہی تھا کہ پائیدان پر پاؤں رکھ‘ غڑپ بھگی کے اندر ۔ سائیس نے کھٹ سے پٹ بھیڑ دیا اور گھوڑا تھا کہ آہٹ پاتے ہی چل نکلا۔ میں نے کوچبان سے لے کر کاغذ کے پرزے میں ایک روپیہ رکھ ‘ پڑیا بنا‘ اُردلیوں کو دکھا کر نیچے پھینک دیا۔ پھر میں نے کھڑکی سے منہ نکال کر دیکھا تو ایک چپراسی نے پڑیا اٹھائی بھی۔ ایک روپیہ دیکھ کر یقینابہت ہی بگڑے ہوں گے مگر میں ان کی گالیوں کی زد سے باہر نکل چکا تھا۔ بگھی کے اندر بیٹھ کر میں نے ایک ایسا لمباسا سانس لیا جیسے کوئی مزدور سر پر سے بھاری بوجھ اتار کر۔ تمام راستہ اسی ملاقات کی ادھیڑ بن میں طے ہوا۔ بار بار خیال آتا تھا کہ سر رشتے دار اور چپراسیوں کی نظر میں میری کیا عزت رہی ، اب یہ لوگ تمام شہر میں اس کا ڈھونڈرا پیٹیں گے۔ ایسی بے حرمتی سے روٹی کمانے پر لعنت ہے۔ پھر دل کو سمجھاتا کہ عزت ایک امر اضافی ہے ‘ مجھے اپنے اقران و امثال پر نظر کرنی چاہیئے ، ان کے ساتھ بھی تو انیس بیس کے فرق سے ایسی ہی مدارس کی جاتی ہے تو جس مجلس میں سب ننگے ہیں وہاں لنگوٹی کی کیا شرم ۔ اسی حیص بیص میں گھر پہنچا۔ چند آدمی منتظر ملاقات بیٹھے ہوئے تھے مگر نہ وہ ڈپٹی تھے اور نہ میں کلکٹر کہ برآمدے میں محتاج اطلاع بیٹھے ہوں، آئے تو میں موجود نہ تھا ‘ مزے میں گاؤ تکیوں کے سہارے سے پھیل پھیل کر بیٹھے۔ گھر میں سے پان آگئے‘آدمیوں نے حُقے بھر دیئے۔ جوں مجھ کو دیکھا‘ ایک صاحب بولے ’’ اللہ اکبر ڈپٹی صاحب‘ آج تو کلکٹر صاحب سے خوب گاڑھی چھنی۔ کون وقتوں سے میں آپ کا منتطر بیٹھا ہوں۔‘‘ دوسرے صاحب: آج بندے کا ارادہ بھی کلکٹر صاحب کے سلام کو جانے کا تھا‘ معلوم ہوا کہ ڈپٹی صاحب تشریف لے گئے ہیں۔ میں نے کہا بس آج کسی کی دال نہیں گلتی ۔ تیسرے صاحب: مدت سے جدید تحصیل داری قائم ہونے کی خبر تھی‘ یہاں تک کہ بورڈ سے منظوری بھی آچکی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج اسی انتظام کے صلاح مشورے میں اتنی دیر لگی۔ لوگ آپس میں یہ باتیں کررہے ہیں اور میں کپڑے اتارتا جاتا ہوں اور اندر ہی اندر دل میں خوش ہوں کہ بھلا ہے ‘ خدا کرے لوگ ایسی ہی غلط فہمی میں مبتلا رہیں۔
فصل:8
نوبل صاحب ابن الوقت کو رفارمر بناتے ہیں:
نوبل صاحب نے اس قصے کو بہت غوراور توجہ سے سنا۔ بیچ بیچ میں کبھی مسکرانے لگتےاور کبھی استکراہ ان کے چہرے سے ظاہر ہوتا مگر انہوں نے ابن الوقت کی بات کو نہیں کاٹا ۔ جب ابن الوقت نے بات پوری کی تو فرمانے لگےکہ ہمیشہ سے میری یہ رائے ہےکہ انگریز عمل داری میں ہی بڑا خطرناک نقص ہے کہ حاکم اور محکوم ارتباط نہیں۔ یہ اجنبیت اگرسبب غدر نہ ہوئی تو غدر کی ترقی کا موجب تو ضرور ہوئی اور جب تک ہندوستان کےلوگ انگریزوں کےساتھ مانوس نہیں ہوں گے'سلطنت ایک منٹ کے لیئے بھی قابل اعتبار نہیں۔ مگر اس میں دونوں کا قصور ہے۔ انگریزی حکومت ہندوستان کی طرف ملتفت نہیں ہوتے اور ہندوستانی بوجہ نادانی انگریزوں سے پرہیز کرتے ہیں ۔ کیوں کر ایسے دو آدمیوں میں اتحاد ہوسکتا ہے جن کی زبان ایک'نہ مذہب ایک'نہ رسم عادات ایک؟پھر'اس اجنبیت کے نقصان بھی دونوں پر عائد ہیں۔ ہندوستانیوں کا تو صریح نقصان یہ ہے کہ خدا نے انگریزوں کو سلطنت کے ذریعے سے عزت اور دولت کا منبع بنادیا ہے اور اب اس غدر نے بخوبی ثابت کردیا کہ انگریزوں نہ بہ زور شمشیر حاصل کیا ہے'اس کو بہ زورشمشیر قائم رکھنے پر قادر ہیں۔ ہندوستانی جسقدر انگریزوں سے بھاگتے ہی'اسی قدرعزت سے محروم اور دولت سے بے نصیب ہیں۔اس کے مقابلے میں انگریز کب نقصان سےمحفوظ ہیں 'ضعف سلطنت سےبڑھ کر اور کیا نقصان ہوگا؟آج ااگر رعایا دوست دار ہوتی تو تلنگوں کو اول تو بغاوت کرنے کی جراءت نہ ہوتی اور خیر نادانی کر ہی بیٹھے تھے تو بغاوت اس قدر جلد نہ پھیلتی کہ گویاچٹکی بجانے میں اس سرے سے اس سرے تک آگ لگ گئی'تلنگوں نے سلگائی رعایا نے بھڑکائی۔
ابن الوقت: پھر کس طرح یہ آپس کانفاق دفع ہو۔"
نوبل صاحب:دونوں ایک دوسرے کی طرف جھکیں'سو میں سمجھتا ہوں خدا کاکوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ۔ شاید یہ غدر اسی غرض سے ہوا تھا کہ دونوں کو اپنی اپنی غلطیوں کا تنبّہ ہو۔ ابھی تو غدر کی یاداشت تازہ ہے 'چند سال بعد اور اس کی خوفناک حکایتیں سب قصے اور افسانے معلوم ہونے لگیں گے۔ایک با ر اچھی طرح پھٹ کر اس قصے کو انگور بندھے گا اور جس طرح آپ آج کے بعد کل اور کل کے بعد پرسوں کو دیکھ رہے ہیں' مجھ کو وہ دن نظر آرہا ہے اور خدا نے چاہا تو میں اس کو اپنی زندگی میں ان آنکھوں سے دیکھوں گا ۔ ہندوئوں کا کفر تو شاید مدتوں میں جاکر ٹوٹے گا کیوں کہ ان بےچاروں کے پاس رسم و رواج کے سوائے مذہب کوئی چیز نہیں ہےمگر ہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب پر بڑا ناز ہے اور جہاں تک معلوم ہوتا ہے ان کے مذہبی اصول اکثر اچھے بلکہ بہت اچھے ہیں'ان میں اور انگریزوں میں ارتباط اور اختلاط ہوجانا چنداں دشوار نہیں ہوتا۔"
ابن الوقت: بے شک ہونا تو یوں ہی چاہئے مگر میں سمجھتا ہوں یہاں کے مسلمان اس خصوص میں ہندوؤں سے بہت زیادہ شدید ہیں۔
نوبل صاحب:شدید ہیں یا دونوں کی اجنبیت کی وجہ سے ارتباط کا موقع نہیں ملا اور اس بارے میں کسی نے کوشش نہیں کی؟"
ابن الوقت: دونوں ہی باتیں ہیں۔"
نوبل صاحب: "آپ اپنی فرمائیے'میرے جتنے دوست ہیں سب ہی تو آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں بلکہ بعض تو متقاضی ہیں۔اس بات کو تو میرا دل نہیں چاہتا کہ انگریزی سوسائٹی میں اس طرح آپ کی تقریب کروں کہ گویا آپ اہلِ غرض ہیں یا امیدوارِ خدمت۔ اس وقت ساری انگریزی سوسائٹی خیر خواہی کی وجہ سے آپ کو نظرِ وقعت سے دیکھتی ہےاور میں چاہتا ہوں کہ اسی وقعت کے ساتھ آپ کو انٹروڈیوس کروں یعنی صاحب لوگوں کے ساتھ آپ کی دوستانہ اور برابری کےملاقات کرادوں مگر میں آپ سے اس بات کے کہنے کی معافی مانگتا ہوں کہ اس کے لیے آپ کو اپنی حالت کچھ بدلنی پڑے گی اور اگر آپ کو اس میں کچھ تعذر ہو نہیں ملنا بہتر ہوگا'اگرچہ اس صورت میں مجھ کو بڑی مشکل پیش آئے گی اور میں اپنے دوستوں کو شاید کوئی معقول وجہ نہیں بتاسکوں گا۔"
ابن الوقت: میں آپ سے ذرا تفصیل سے سننا چاہتا ہوں کہ آپ کس طرح کی تبدیلی کی مجھ سے توقع رکھتے ہیں؟"
نوبل صاحب:کم ازکم اس قدر کہ انگریزی مذاق کے مطابق ایک مکان درست ہو۔آپ دیکھتے ہیں کہ ہم لوگ ہمیشہ بیرون شہر'کھلے مکانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ہم لوگوں کا طریقہ نشست برخاست اور طرز ماندوبود بھی مختلف ہے۔میرے دوست آپ سے ملنے کیلئے کہتے ہی رہتے ہیں۔ کئی بار دل میں آیا کےآپ کے پاس لے چلوں'پھر سوچاکہ آپ ان لوگوں سے ملنے کیلئے تیار نہیں ہیں'ناحق شرمندگی ہوگی۔اول تو آپ کا مکان ایسی گلیوں میں واقع ہے کہ وہاں تک بگھی جا نہیں سکتی'پھر گلیاں تنگ اور نا صاف کہ کوئی صاحب لوگ ایسی پیچ در پیچ جگہ جانا پسند نہیں کرسکتا۔ آپ کا مکاں اگرچہ چنداں برا نہیں مگر صاحب لوگ کی آسائش کے لئےمیز کرسی وغیرہ کوئی سامان نہیں ان وجوہ سے میں نے کسی دوست کو آپ کے پاس لے جانے کی جراءت نہیں کی۔ تو اس بارے میں جیسا کہ اپ کو منظور ہو بیان کیجئے کہ آپ کو انگریزوں کے ساتھ جس طرح کہ میں چاہتا ہوں ملنا
پسند ہے یا نہیں؟"
ابن الوقت: یہ معاملہ ٹیڑھا ہے۔ہمارے مسلمان بھائیوں کا تعصب(یہ ایک دوسری بات ہے کہ بجا ہے یا بیجا) اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ آپ ہرگز اس کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے۔ جن لوگوں نے غدر میں آپ کا ہمارے ہاں رہنا سنا ہے ' مجھ کو ان کے تیور بھی بدلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور آج میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھانے کو تو کھالیا اور میں نے اپنے اذعان میں ہر گز خلاف مذہب اسلام نہیں کیا کیوں کہ آپ لوگ اہلِ کتاب ہیں اور ہمارے قرآن مجید میں اہل کتاب کے ساتھ کھانے کی صریح اجازت موجود ہے مگر شہر کے مسلمان اگر سن پائیں گے(اور کیوں نہ سنیں گے)کم بخت اس طرح کے جاہل ہیں کے شہر میں میرا رہنا دشوار کردیں گے اور میں ٹہرا کنبے اور جتھے کا آدمی ' عجب نہیں سب مل کر مجھ کو برادری سے خارج کردیں۔"
نوبل صاحب:" مگر آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ بے اصل تعصب کو عقل کی تائید اور مذہب کی سند محض شورشِ جاہلانہ بے ثبات ہے ۔ بے شک شروع شروع میں چند روز تک لوگ آپ کوحقارت سے دیکھیں گے اور اس سے آپ کو ضرور کسی قدر ایذا بھی ہوگی مگر تابہ کہ آپ استقلال کے ساتھ ایک طرز کو اختیار کریں گے اور کچھ شک نہیں کہ لوگوں پر اس اس نمونے کا مفید ہونا اویر سویر ثابت ہوگا پر ہوگا'تو مجھ کو پورا یقین ہے کہ لوگ اپنی غلطی پر متنبہ ہوجائیں گےاور نفرت کے عوض خود اسی طریقے کی تقلید کرنے لگیں گے۔ پس جس بات سے آپ ڈرتے ہیں 'ایذا ہے عارضی اور تکلیف ہے چند روزہ۔آپ نے سرکاری خیر خواری کےلئے کیسی جان جوکھوں اٹھائی تو کیا پنی قوم'اپنے بھائی بندوں کے مفاد کے لئے تھوڑی سی خیال ایذا کا تحمل کرنا کچھ بڑی بات ہے؟ یہ بات اچھی طرح سمجھ رکھنے کی ہے کہ پہلے ہی سے مسلمان ہندوستان کے باشندوں میں سب سے زیادہ خستہ حال تھے
اب اس غدر نے ان کو رہا سہا اور تباہ کردیا ۔معدودے چند شاید سارے ہندستان میں پورے ایک درجن بھی نہیں برائے نام کچھ رئیس تھے؛ میں سمجھتا ہوں اس غدر کی آفت سے شاذو نادر کوئی بچا ہوتو بچا ہو۔ کارطوس کے کانٹے پر بگڑے ہندو اوراس اعتبار سے بغاوت کی ابتدا ہندوؤں نے کی مگر آخر کار تھپ گئی مسلمانوں پر۔اب بغاوت کا سارا نچوڑ مسلمانوں پر ہے اور ان احمقوں نے ہم وطنی کے لحاظ سے ہندوؤں کا ساتھ دے کر اپنا ایسانقصان کرلیا کہ سالہائے دراز تک ان کے پنپنے کی کچھ توقع نہیں۔ اب ان کے فلاح کی صرف یہی ایک تدبیر ہے کہ تلافیٔ مافات کریں اور جس قدر انگریزوں سے الگ تھلگ رہے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے بھی زیادہ ان سے ٹوٹ کر ملیں اور ہمارے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ کوئی آدمی کیوں ایسی تدبیریں عمل میں نہ لائے جو اس کے حق میں مفید ہیں۔ مسلمان کتنے ہی گئے گزرے کیوں نہ ہوں، اب بھی ان کے سروں میں تعزر کے خیالات بھرے ہوئے ہیں۔ جہاں تک میں نے آزمایا ہے، مسلمانوں کے مزاج کار فرمائی کے لیے نہایت مناسب ہیں۔ میں نے ان کو کبھی ذلیل خوشامد کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ لوگ سختی اور مصیبت کو بڑے استقلال کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں جودت، ان کی عقلوں میں رسائی دوسری قوموں سے بہت زیادہ ہے۔ راست بازی، راست گوئی، دیانت، حمیت اور غیرت میں یہ لوگ اپنے ہم وطنوں سے ضرور سر بر آوردہ ہیں۔ میں نے مختلف اضلاع میں یہ تعلقِ خدمتِ سرکاری ہندوستانیوں کی اکثر قوموں کا تجربہ کیا ہے۔ خدمت گار، چپراسی، عملہ کچہری، حکام، پیشہ ور تاجر، کوئی حیثیت کیوں نہ ہو، میں نے ہمیشہ مسلمانوں کو بہت بہتر پایا ہے بہ مقابلہ دوسری قوم کے میں ان کے مذہب کو (آپ معاف کیجیے گا) سپاہیانہ مذہب خیال کرتا ہوں اور میرے نزدیک ہر مسلمان مذہباً سپاہی ہے۔ ایک مسلمان تحصیل دار صاحب میرے دوست ہیں۔ نہیں معلوم غدر میں ان کو کیا پیش آئی مگر آدمی تیز مزاج شدید الحکومت تھے، ضرور مبتلائے بغاوت ہوئے ہوں گے۔ ایک روز ہندوؤں اور مسلمانوں کے تذکرے میں کہنے لگے کہ میں بدون دیکھے ہندو فقیر کی آواز پہچان لیتا ہوں۔ ہندو فقیر جب بھیک مانگے گا گڑگڑا کر اور مری ہویئ آواز سے: "بھگوان بھلا کریں" برخلاف مسلمان فقیر کے کہ فقیری میں بھی طنطنے کو نہیں جانے دیتا "یا علی" کہہ کر جو ایک ڈانٹ بتاتا ہے تو سارا محلہ چونک پڑتا ہے۔ میں ایسا سمجھتا ہوں کہ مدتوں اس قوم میں سلطنت رہی۔ یہ تمام صفات اسی کےآثار ہیں لیکن سو برس بھی مسلمانوں پر افلاس کے اور گزرے تو ضرور ان کی نسلیں ایسی بگڑ جائیں گی کہ پھر ان کی اصلاح شاید نا ممکن ہو۔ یہ قوم ایک رفارمر کی پہلے سے محتاج تھی اور اب تو رفارمرکے ہونے نہ ہونے پر انہی کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ ہے۔ میں کہتا ہوں وہ رفارمر تمہیں کیوں نہ ہو۔ شخصی عزتیں فروع ہیں قومی عزت کی۔ کوئی شخص دولت یا ہنر یا کسی اور وجہ سے کیسا ہی قابلِ عزت کیوں نہ ہو، جب تک وہ ایک ذلیل قوم کا آدمی ہے، اس کو پوری پوری عزت کی توقع ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ ذلیل قوموں کے لوگ دولت پیدا کر کے بڑے مال دار ہو جاتے ہیں مگر ناصیہ امارت سے قومی ذلت کے داغ کو نہیں چھڑا سکتے اور سوسائٹی کبھی ان کی ایسی وقعت نہیں کرتی جس کے وہ امیری کی وجہ سے مستحق ہیں۔ میں اب نہیں غدر سے بہت پہلے اسی ہندوستان کے بڑے شہر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک بازار میں کوئی چار گھڑی دن رہے لوگوں کی آمد و شد اس کثرت سے تھی کہ اس سرے سے اس سرے تک گویا ایک میلہ لگا ہوا ہے۔ جو لوگ سواریوں پر تھے وہ اور ان کے نوکر سبھی تو چلاتے تھے، ہٹو، بچو! کون سنتا ہے۔ اتنے میں سامنے سے ایک گورا نظر پڑا، کہ اکیلا پیپ پیتا ہوا سیدھا چلا آ رہا ہے اور لوگ ہیں کہ آپ سے آپ کائی کی طرح اس کے آگے پھٹتے چلے جاتے ہیں۔ میں نے اس وقت خیال کیا تھا کہ یہ قومی تعزز کا اثر ہے۔ شخصی تعزز پر اگر قومی تعزز مستزاد ہو تو نورٌ علیٰ نور، ورنہ بدون قومی تعزز کے شخصی تعزز اصلی عزت نہیں بلکہ عزت کا ملمع ہے۔ دنیا میں نیکی کے بہت سے کام ہیں لیکن قوم کی رفارم سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں۔ یہی وہ نیکی ہے جس کا فائدہ عام اور اثر نسلاً بعد نسل باقی رہ سکتا ہے۔ جن کو آپ پیغمبر کہتے ہیں وہ بھی میری نزدیک اپنے وقت کے رفارمر تھے۔
ابن الوقت: "مسلمانوں میں رفارمر کی ضرورت کو میں تسلیم کرتا ہوں مگر یہ کام میرے بوتے کا نہیں۔ ایک آدمی بگڑا ہوا ہوتا ہے تو کوئی اس کی اصلاح کا بیڑا نہیں اٹھا سکتا نہ کہ قوم یہ کام مقدورِ بشر نہیں، قوم کے دلوں کو پھر دینا میرے نزدیک تصرفِ الٰہی ہے۔"
نوبل صاحب: "تصرفِ الٰہی ہی سہی اور سہی کا لفظ میں نے غلط کہا، مجھ کو کہنا چاہیے تھا تصرفِ الٰہی ہے لیکن دنیا میں تصرفاتِ الٰہی ہمیشہ اسبابِ ظاہری سے ہوتے ہیں۔ آئندہ کا حال کسی کو معلوم نہیں، کون کہہ سکتا ہے، شاید مسلمانوں کی تباہی حد کو پہنچ چکی ہو اور اب خدا کو ان کی حالت کا بہتر کرنا منظور ہو اور عجب نہیں اس بہتری کا یہی سامان ہو یا یہی نہ ہو تو من جملہ بہت سے اسباب کے یہ بھی ہو کہ ہم آ پ اس قسم کا تذکرہ کررہے ہیں اور خدا آپ کے دل میں ڈال دے اور آپ استقلال کے ساتھ اس کام کو شروع کریں اور آپ کی سعی مشکور ہو۔ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ دنیا کے بڑے واقعات اکثر محض خفیف اسباب سے پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے بڑے عظیم الشان درخت چھوٹے چھوٹے بیجوں سے۔ دنیا کے حالات پر نظر کرنے سے ایسی امید کی جاسکتی ہے کہ شاید تمام روئے زمین پر ترقی کا دور شروع ہوگیا ہے۔ لوگ جو اس زمانے میں پیدا ہوتے ہیں خلقتہ متقدمین سے زیادی ذہین اور روشن دماغ اور آزاد مزاج اور وسیع خیال ہوتے ہیں۔ پس اس زمانے میں رفارم کوئی ایسا مشکل کام نہیں کیوں کہ طبیعتیں خود رفارم کی طرف متوجہ ہیں، جیسے بادبانی جہاز کا باد شرط کے رخ پر لے چلنا یا ایک بوجھ کا اوپر سے نیچے کو اتارنا۔ پھر اگلے زمانوں میں رفارمر کو اپنے خیالات کا دوسروں تک پہنچانا سخت مشکل ہوتا تھا، وہ انہی لوگوں کو اپنے خیالات سے آگاہ کرسکتا تھا جن کے ساتھ اس کو بالمشافہ گفتگو کرنے کا موقع ملتا اور اس زمانے میں چھاپے اور ڈاک اور ریل نے ایسی سہولتیں بہم پہنچادی ہیں کہ ایک بات کو منشتر کرنا چاہو تو ساری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹنے کیے لیے شاید ایک مہینہ کافی ہے۔ بس ایک رفارمر کا صلہ یعنی شہرت اور شہرت بھی نیک نامی کے ساتھ اور خوشنودی سرکار انگریزی اور جو صنعتیں اس پر مترتب ہوں اور ثواب عاقبت، سب کچھ مفت ہے، اگر کسی کو خواہش ہو اور میں آپ کے لیے اس سے بہتر کوئی مشغلہ نہیں پاتا۔
ابن الوقت: ہمارے ملک میں تو یہ بالکل ایک انوکھا اور کٹھن کام ہے۔ آپ کے فرمانے سے جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے مگر بوجوہ چند در چند ہمت قصور کرتی ہے۔
نوبل صاحب: سنئے صاحب! ملک کی آب و ہوا رفارم رفارم پکار رہی ہے اور مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عن قریب پردہ غیب سے رفارمر خروج کرنے والے ہیں۔ میرا جی چاہتا تھا کہ یہ نیک نامی آپ کے حصے میں آتی اور فرض کیجئے کہ آپ کو اس کوشش میں ناکامیابی ہو، جو کبھی ہونے والی نہیں اور میں اس کا ذمّہ لے سکتا ہوں۔ تاہم آپ کا نقصان ہی کیا ہے، یہ کیا کم ہے کہ اول آپ فلاح قوم کے محرک ہوئے!
ابن الوقت: تنہائی سے طبیعت الجھتی ہے۔ ساری قوم کنفس واحدۃ میری مخالفت کرے گی۔ میں اکیلا چنا بھاڑ کا کیا کرلوں گا۔ ایسے بڑے کام کے انجام کو چاہئیں اعوان و انصار اور میں اپنے متعارفین میں کسی کو اس خیال کا نہیں پاتا۔
نوبل صاحب: میں ہندوستانی تو نہیں ہوں مگر جتنا میں ہندوستانیوں سے ملتا ہوں شاید کوئی انگریز نہ ملتا ہوگا۔ جہاں تک مجھ کو معلوم ہے جتنے انگریزی خواں ہیں، سب انہی خیالات کے ہیں اور ان کے دوست، آشنا، رشتہ دار ملا کر کم سے کم اتنے ہی اور سمجھ لیجئے۔ پھر جو لوگ انگریزوں کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں، کسی وجہ سے کیوں نہ ہو، اکثر ان میں کے بھی اور پھر اس قسم کے لوگوں کا شمار روز افزوں ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ خیالات اگر نہیں ہیں تو مسلمانوں میں اور مسلمانوں میں بھی ممالک مغربی شمالی اور اودھ اور پنجاب کے مسلماوں میں سو اودھ عیاش اور پنجاب سپاہی، دونوں کو ہندوستانی عملداریوں نے مدتوں جاہل رکھ کر ہیولی صفت بنادیا ہے جو ہر صورت کو آسانی سے قبول کرسکتا ہے۔ عسیر الانقیاد اگر ہیں تو ممالک شمالی مغربی کے مسلمان جن کو انگریزی عملداری کے امن و اطمینان نے اس بات کا موقع دیا ہے کہ اپنے علوم کی یاد کو جو فی زمانہ بالکل بے سود ہیں، تازہ رکھیں۔
آپ کو یورپ جانے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن اگر آپ گئے ہوتے تو آپ پر ثابت ہوجاتا کہ اہل یورپ کی عظمت سلطنت میں نہیں ہے بلکہ ان کی تمام عظمت ان علوم میں ہے جو جدید ایجاد ہوئے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں اور جن علوم کے ذریعے سے انہوں نے ریل اور تار برقی اور سٹیمر اور ہزار ہا قسم کی بکار آمد کلیس بنا ڈالی ہیں اور بناتے چلے جاتے ہیں اور ہر طرح کی کاری گری میں دوسرے ملکوں کے لوگوں پر سبقت لے جاکر روئے زمین کی دولت اپنے ملک میں گھسیٹ لے گئے اور گھسیٹے لیے چلے جارہے ہیں۔ جس جس طرح کے ہنر اور کمال اہل یورپ میں ہیں، ان کے ہوتے ممکن نہ تھا کہ ان کو سلطنت نہ ہو۔ سلطنت ان کے کمالات کی قیمت نہیں ہے بلکہ روکھن میں ہے اور ان کا حق لازمی ہے۔ سلطنت سے انگریزوں کو اگر کچھ مفاد ہے تو یہی کہ ان کے ملک کے چند آدمی یہاں آکر نوکری کرتے اور تنخواہ پاتے ہیں۔ اس سے بھی ہم کو انکار نہیں کہ ہندوستانیوں کے مقابلے میں انگریزوں کو بڑی نخواہ ملتی ہے اور کیوں نہ ملے؟ ان کے سفر دور و دراز کو دیکھو، اختلاف آب و ہوا کی وجہ سے ان کی جان جوکھم پر نظر کرو، ان کی اجلی شاندار کثیر المصارف طرز زندگی اور ساتھ ہی ان کی دیانتداری کا بھی خیال کرو تو معلوم ہو کہ انگریزوں کی تنخواہیں بہ واجب بڑی ہیں یا بناواجب۔ یہ بھی انگریزوں ہی کے جگر ہیں کہ ان تنخواہوں پر کیسے کیسے سخت امتحان دیتے ہیں اور اپنا دیس اور اپنے عزیز یگانے چھوڑ کر کالے کوسوں نوکری کو نکل آتے ہیں کیوں کہ یہ بات ان کے اصول زندگی میں داخل ہے کہ ہر انسان کو اپنی قوت بازو سے کمائی کرنی چاہیئے۔ جب کہ خاندان شاہی میں کا کوئی متنفس اس کلیے سے مستثنٰی نہیں اور خود ملکہ معظمہ کے بیٹے پوتے قاعدے کے مطابق چھوٹے چھوٹے عہدوں سے نوکری شروع کرتے ہیں تو دوسرے کس گنتی میں ہیں۔ یہ تنخواہیں اور یہی امتحان اور یہی پردیس اور یہی اختلاف آب و ہوا اور یہی تمام حالات ہندوستانیوں کے ہوں تو شاید گھر سے نکلنے کا نام نہ لیں۔ ولایت تو ولایت آج کسی کو برما جانے کا حکم دیا جاتا ہے تو سارے گھر میں رونا پیٹنا مچ جاتا ہے۔ اپنی ہمت کا تو یہ حال اور انگریزوں کی تنخواہوں پر حسد۔ بہرکیف یہی سہی کہ جتنے انگریز ہندوستان میں نوکر ہیں حتٰی کہ گورے سب کے سب یہاں کی تنخواہیں پا پا کر آسودہ حال ہو جاتے ہیں لیکن ان معدودے چند کے تمول سے اس ملک کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے جس میں سے ان سے دو چند سہ چند ہر سال جزائر دور دست میں جا کر سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ علم طب اور صفائی میں جو ترقی ہوئی ہے تو عمروں کا اوسط بڑھ گیا ہے، بیماری اور موت میں بہت کمی ہو گئی ہے، توالد تناسل کثرت سے ہوتا ہے، ملک کی وسعت اس قدر کثیر التعداد باشندوں کو کافی نہیں اور اہل یورپ کے تمول کا اندازہ کسی قدر آپ اس بات سے کر سکیں گے کہ وہاں دو روپے روز کی آمدنی کا آدمی سوسائٹی میں اس سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا جیسے یہاں ڈیڑھ دو آنے کا مزدور اور دس ہزار روپیہ سالانہ کہ یہ سویلین کی پنشن کی مقدار غایت ہے، سواری اور اپنے ذاتی ملازم رکھنے کے لئے مشکل سے کفالت کر سکتا ہے تو موٹی سے موٹی سمجھ کا آدمی بھی یہ بات نہیں کر سکتا کہ سلطنت کی وجہ سے یورپ میں یہ کچھ دولت پھٹ پڑی ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ خدا کو اہل یورپ کی ترقی ان کی فلاح منظور تھی کہ ملک کے ملک کو واقعات نفس الامری اور موجودات خارجی میں غور کرنے کی دھن لگا دی۔ اس غور سے سینکڑوں، ہزاروں نئے نئے اصول دریافت ہوئے جن پر عمل کرنے سے انسان کی قدرت اس قدر بڑھ گئی کہ کچھ انتہا نہیں۔ غرض یورپ کی دولت مندی کے اصل لٹکے سٹیم اور الکٹریسٹی وغیرہ یعنی ان کے علوم جدیدہ ہیں۔ بالوے کا نام تو آپ نے سنا ہوگا، اس شخص کے یہاں مرہم اور گولیوں کا کارخانہ ہے مگر اس کی آمدنی کو آپ اس پر قیاس کر سکتے ہیں کہ چار لاکھ روپیہ سالانہ تو صرف اجرت اشتہار کا خرچ ہے اور پھر کچھ بڑے کارخانوں میں اس کا شمار نہیں۔ ولایت جا کر دیکھیے تو معلوم ہو کہ تجارت کے مقابلے میں سلطنت ایک محض بے حقیقت چیز ہے۔ اگر تاجروں کے تمول کا حال میں آپ سے بیان کروں تو آپ مبالغہ سمجھیں۔ پھر ہماری ولایت کوئی سیر حاصل ملک نہیں۔ پیدوار اور معدنیات کے اعتبار سے یورپ کسی طرح ہندوستان سے لگا نہیں کھا سکتا مگر چونکہ ہندوستان کے لوگ نئے علوم سے ناواقف ہیں، خداداد سرمائے سے فائدہ اٹھانے کا سلیقہ نہیں رکھتے۔ ہندوستانیوں کی بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ مثلاً روئی ہندوستان سے ولایت جاتی اور وہ لوگ اپنی ہنرمندی سے اسی روئی کے انواع و اقسام کے کپڑے بنا کر پھر ہندوستانیوں کے ہاتھ چند در چند نفع پر فروخت کرتے۔ پس ہندوستانیوں کے پنپنے کی اگر کوئی تدبیر ہے تو یہی کہ ان میں علوم جدید کو پھیلایا جائے اور ان کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ اپنی تمام قوت عقلی واقعات میں صرف کریں۔ یہاں کے لوگ بالطبع ذہین ہوتے ہیں۔ ادھر طبعیتیں لڑانی شروع کریں اور اس کا ان کو چسکا پڑ جائے تو بس ساری شکایتیں رفع ہیں اور از بس کہ تمام علوم جدیدہ جن پر ملکی ترقی کا انحصار ہے انگریزی میں ہیں، سب سے پہلے زبان انگریزی کو رواج دینا ہوگا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی خیال کیا ہے کہ علوم جدید کی کتابیں اردو میں ترجمہ کرائی جائیں مگر میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں۔ اول تو زبان اردو میں اتنی وسعت نہیں کہ علوم جدیدہ کی تمام مصطلحات کا اردو ترجمہ ہو سکے، ناچار اکثر مصطلحات انگریزی کو اختیار کرنا پڑے گا اور ان کے تلفظ میں ضرور غلطیاں ہوں گی۔ میں نے اس طرح کی بعض طبی اور بعض کیمیاء اور بوٹنی وغیرہ کی کتابیں دیکھی ہیں' کوئی سطر انگریزی الفاظ سے خالی نہیں۔ یہ ترجمے اردو و انگریزی مخلوط ' آدھا تیتر آدھا بٹیر' مجھ کو تو سخت بد مزہ معلوم ہوتے ہیں اور پھر کسی زبان کے ایک لفظ کی دوسری زبان میں کیسی ہی ہندی کی چندی کیوں نہ کرو اس کا ٹھیک مفہوم کسی دوسری زبان میں ادا ہونا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان کے رواج دینے سے ایک غرض تو جدید علوم کا پھیلانا ہےاور دوسری غرض اور بھی ہے یعنی عموماََ انگریزی خیالات کا پھیلانا۔ اکیلے علومِ جدیدہ سے کام چلنے والا نہیں جب تک خیالات میں آزادی 'ارادے میں استقلال' حوصلے میں وسعت'ہمت میں علو'دل میں فیاضی اور ہمدردی 'بات میں سچائی معاملات میں راست بازی یعنی انسان پورا پورا جنٹلمین نہ ہو اور وہ بدون انگریزی جاننے کے ہو نہیں سکتا۔ انگریزی داں آدمی کو اخباروں اور کتابوں کے ذریعے انگریزی خیالات پر آگہی کو بہم پہنچانے کی بڑی آسانی ہوسکتی ہے۔رفارم جس کی ضرورت ہندوستان کو ترقی کیلئے ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن و ہندوستانیوں کو انگریز بنایا جائے خوراک میں'پوشاک میں'زبان میں'عادات میں'طرزِ تمدن میں'خیالات میں'ہر ایک چیز میں اور وقت اسکے لیے چپکے چپکے کوشش کر رہا ہے مگر اس کی کوشش دھیمی ہے اور اس پر نتیجے کا مترتب ہونا دیر طلب۔لوگوں کے دلوں میں خود بخود اس طرح کے خیالات بہ تقاضائے وقت پیدا ہوچکے ہیں۔ کوئی رفارمر کھڑا ہوکہ اس کی سلگتی ہوئی آگ کو جلدی سے بھڑکادے۔"
ابن الوقت: آپ کے سمجھانے سے دل میں آتا ہے کہ اس کام کو کرنا چاہئے۔ اس کے ضروری اور مفید ہونے میں تو کچھ شک نہیں مگر یہ تو فرمائیے کہ اس کی ابتدا کس طرح پر کی جائے۔
نوبل صاحب: رفارمر بننے کی بسمہ اللہ یہ ہے کہ رفارمر جو کیفیت لوگوں میں پیدا کرنی چاہتا ہے پہلے خواہ اس سے متکیف ہولے اور اپنا نمونہ دکھا کر لوگوں کو تقلید کی ترغیب دے۔"
ابن الوقت: اگر عرض کرنا سوء ادب نہ ہو تو میں کہتا ہوں کہ آپ ہی رفارمر کیوں نہیں بنتے۔ یورپ ٹہرا آپ کا وطن۔ وہاں کے حالات سے تو آپ بالتفصیل واققف ہیں' رہا ہندوستان ' آپ نےذاتی شوق سے ہر طرف کی سیر و سیاحت کی ہے' ہر قوم و ملت کے ہندوستانیوں کے ساتھ آپ کا اختلاط بھی رہا ہے اور بلاء تخصیص قوم و مذہب و ملک عام انسانی ہمدردی بھی آپ کے دل میں کچھ کم نہیں تو اس صورت میں منصب رفارمر کے لیے آپ سے بہتر کون ہوگا؟"
نوبل صاحب:" میں آپ کے ان خیالات کا شکر گزار ہوں مگر میرا یورپین ہونا منصب رفارمر کے منافی ہے۔ ہم ملکی انگریزوں میں شاذ نادر کوئی ایسا ہوگاجس کے دل میں اس طرح کے خیالات نہ گزرتے ہوں۔ ہم ہی کا ایک گروہ مشنری لوگوں کا ہےجن کی تمام ہمت اسی کام میں مصروف ہے مگر چونکہ ان کے اغراض میں مذہب کا شمول ہے' ان کی تمام کوششیں رائیگاں ہیں۔شروع شروع میں تو پادریوں نےاکژر ہنود کے نوجوان لڑکوں کو اور بعض مسلمانوں کو بھی عیسائیت کی طرف راغب کرلیا تھا اور کبھی کبھی سننے میں آتا تھا کہ فلاں ہندو یا مسلمان نے اصطباغ لیا مگر مذہب کا عجیب معاملہ ہے' دل کی تسلی کا نام مذہب ہے۔ پھر تو لوگ چوکنا ہوگئے۔ پادریوں کی بڑی چوٹ ہنود پر تھی' سو انہوں نے بھی کانٹ چھانٹ کر اپنے
مذہب کو ایسا کرلیا کہ کوئی ہندو انگریزی لکھ پڑھ کر بگڑنا چاہتا ہے تو کوئی نہ کوئی سماج اس کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے۔غرض مدتوں سے غیر مذہب کے لوگ عیسائی ہوتے ہواتے نہیں'الاشاذ ۔ اب پادریوں کی بڑی کامیابی اس پر آکر ٹھہری ہے کہ قحط کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔ کال پڑے اور صاحب ضلع سے لاوارث بچوں کو پرورش کے لئے لیں'ان کو اپنے طور پر لکھائیں پڑھائیں''تربیت کریں 'یہ بچے بڑے ہوکر عیسائی ہوں اللہ اللہ خیر صلاح ! پس یہ فرض یہ کیجئے کہ مشنری نہیں کوئی انگریز رفارمر بنا چاہے تو مذہبی بدگمانی کا کیا انسداد انگریز کی تو صورت دیکھ کر لوگ ہتے سے اکھڑ جائیں'سنتے بھی تو نہ سنیں' مانتے بھی تو نہ مانیں؛ رفارمر چاہئے اپنی قوم کا کہ وہ تردید کے عوض تائید کا اور اعتراض کی جگہ سند کا کام دے۔"
ابن الوقت: بہت خوب. خدا نے چاہا تو میں اس کام کو شروع کروں گا۔ع ہرچہ بادا ہادما کشتی در آب اندا ختیم، لیکن آپ سے توقع کرتا ہوں کہ آپ میرے مددگار رہیں گے۔"
نوبل صاحب: " نہ صرف میں بلکہ تمام انگلش کمیونٹی، اور سرکار اور خود آپ ہی کی قوم کے بہت سے اشخاص معقول پسند جن کے سروں میں یہ خیالات بھرے ہوئے ہیں اور ضعف ہمت کی وجہ سے سہارا ڈھونڈ رہے ہیں کہ کوئی مقدمتہ الجیش بنے تو ہم پیچھے ہو لیں۔ اور سنیے مجھ کو کامل یقین ہے کہ بہت جلد آپ کو اس ارادے میں کامیابی ہوگی۔ لوگوں کے مادے تیار ہیں، تھوڑے ہی دنوں میں میں آپ کو دیکھوں گا کہ ایک بڑا گروہ آپ کی رائے کی تحسین کرتا ہے، گویا وہ آپ کی امت ہیں اور آپ ان کے امام۔"
اللہ اکبر! نوبل صاحب اور ابن الوقت کون وقتوں کے باتوں میں لگے ہیں۔ گیارہ بجے کے بیٹھے بیٹھے چار بجا دیے اور باتوں کا سلسلہ ہے کہ منقطع نہیں ہونے پاتا۔ چپراسی، خدمت گار ہیں کہ آئینوں میں سے جھانک جھانک کر چلے جاتے ہیں۔ جمعدار
چپکے چپکے ایک چپراسی سے کہہ رہا ہے: " تمہی کہتے تھے نا کہ ان کو ملاقات سے پہلے کمرے میں کیوں بٹھایا، اب دیکھا اس لیے بٹھایا تھا۔ صاحب کی نظروں میں آج جو یہ ہیں دوسرا نہیں ہونے دیگا۔" اتنےمیں نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں باتیں کرتے ہوئے باہر نکلے۔ ابن الوقت کہتے ہوئے چلے آ رہے تھے کہ بیچ میں آپ کو ضرورت ہو تو بلوا بھیجئے گا ورنہ جس دن مجھ کو حاضر ہونا ہوگا ایک دن آپ کو پہلے اطلاع کردوں گا اور ہاں جان نثار خان کو اتنی اجازت دیجئے کہ یہاں کے کام سے فارغ ہو کر آج رات کو میرے پاس رہیں، علی الصباح توپ سے پہلے پھر اپنی نوکری پر آ موجود ہوں گے۔"
بری بات بھی کتنی جلد شہرت پکڑتی ہے۔ گیارہ بجے کے قریب ابن الوقت نے نوبل صاحب کے ساتھ کھانا کھایا اور ظہر کی اول جماعت کے بعد محلے کی مسجد کے نمازی آپس میں تذکرہ کر رہے تھے کہ کیوں جی، میاں ابن الوقت کی نسبت بازار میں یہ کیا چرچا ہو رہا ہے کہ کرسٹان ہو گئے؟
ایک نمازی: " کرسٹان ہونے کی تو نہیں سنی، اتنا البتہ سنا ہے کہ وہی انگریز جو ان کے یہاں غدر میں چھپا تھا، اس کو شہر میں کوئی بڑا بھاری کام ملا ہے، یہ اس کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، آج اس کے ساتھ کھانا کھا لیا۔"
دوسرا:" میاں تم بھی عجیب آدمی ہو۔۔۔ چھی چھی، انگریز کے ساتھ کھانا کھایا تو وہ کرسٹان، اس کی ہفتاد پشت کرسٹان۔ کیا کرسٹان کے سر میں سینگ لگے ہوئے ہیں؟"
تیسرا :" اس انگریز کے ساتھ انہوں نے آج کچھ نیا کھانا نہیں کھایا، سارے غدر وہ انگریز ان کے گھر رہا اور برابر ان کے ساتھ کھاتا رہا۔"
دوسرا :" دیکھو تو اس ظالم نے کیا غضب کیا ہے! خیر، انگریز کو تو چھپایا تھا تو وہ جانے اس کا ایمان جانے مگر انگریز کے ساتھ کھا کر اس کو ہم لوگوں کے ساتھ کھانا پینا
نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ شاید روزے اور نماز سب کی قضا لازم آئے گی۔ دیکھو مولوی صاحب (امام مسجد) سلام پھیر لیں تو مسئلہ پوچھا جائے۔"
پہلا :" شہر پر یہ کچھ تو آفتیں ٹوٹ رہی ہیں کہ کام والے کام سے گئے، نوکر نوکری سے، گھر والے گھر سے بے گھر ہونے اور ہنوز کسی کی جان کا بھروسا نہیں، تحقیقات بغاوت درپیش ہے۔ وہی کہاوت ہے کہ کر تو ڈر اور نہ کر تو خدا کے غضب سے ڈر۔ تم کو اگر اپنی جان دوبھر ہے تو مرنے کے سو حیلے، ہزار بہانے ہم غریبوں کو زبردستی اپنی آنچ کیوں دھکیلتے ہو؟ دیوار ہم گوش دارد، یہی بات اگر کوئی میاں ابن الوقت سے جا لگائے تو دم کے دم میں ساری مسیحت کرکری ہو جائے۔ نا بابا، ہمارا تو اس وقت سے جماعت کی نماز کو سلام ہے۔ کس کی شامت آئی ہے کہ بیٹھے بٹھائے کھنچا کھنچا پھرے۔"
اتنے میں مولوی صاحب دعا سے فارغ ہو کر منہ پر ہاتھ پھیر رہے تھے کہ اس کٹے نمازی نے مسئلہ پوچھ ہی پوچھا۔
مولوی صاحب نے جواب دیا کہ انگریز کے ساتھ کھانے سے آدمی عیسائی نہیں ہو جاتا مگر وعید "من تشبہ بقوم فھو منہم ( جو شخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت پیدا کرے وہ بھی انہی میں سے ہے۔) اس پر متوجہ ہوتا ہے، مسلمان کو اس سے محتزر رہنا چاہیے لیکن، الخیر بمحتمل الصدق والکذب (خبر میں دونوں طرح کے احتمال ہیں سچ ہو یا جھوٹ)، افواہ کا کیا اعتبار اور لو فرضنا سچ بھی ہو تو، لا تزر وازرۃ وزرا اخری (ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں لادا جائے گا)، ایک شخص کا فعل اس کے اسلاف کی طرف کیوں متعدی ہونے لگا۔
غرض اس وقت تو نمازی متفرق ہوگئے مگر اتنوں کے کان پڑی ہوئی بات سارے محلے میں ایک غل سا پڑگیا۔ ابن الوقت لوٹ کر گھر آیا تو ہر طرف سے انگلیاں اٹھتی تھیں اور جن لوگوں کا معمول صاحب سلامت میں تقدیم کرنے کا تھا، وہ بھی آنکھیں چراتے اور منہ چھپاتے تھے۔ جوں ابن اوقت نے مردانے میں پاؤں رکھا ہے کہ زنان خانے سے عورتوں نے ڈیوڑھی میں آ آ کر جھانکنا شروع کیا ۔ ابن الوقت لوگوں کی یہ مدارات دیکھ کر جی ہی جی میں کھٹکا تو سہی مگر نہ کسی نے منہ پھوڑ کر اس سے کچھ پوچھا اور نہ اس نے اپنی طرف سے ابتدا کا کرنا مناسب سمجھا۔ ابھی درباری لباس کے بوجھ سے بھی سبکدوش نہیں ہوا تھا کہ اندر سے پھوپھہ صاحب کی طلب آئی۔ ابن الوقت کے ساتھ چار آنکھیں ہوتے ہی وہ نیک بخت بی بی آپ ہی بولیں: "میں تو کچھ نہیں کہتی، بس جھوٹوں سے خدا ہی سمجھے۔ سدا سے لوگوں کو اسی گھر کی جلن رہی، پر انشاءاللہ لوگ جلیں گے اور ہم پھلیں گے۔ تیسرے پہر سے سنتے سنتے کان بہرے ہوگئے کہ دشمنوں کو انگریزوں نے اپنے مذہب میں ملا لیا، برا چاہنے والوں کو اپنا جھوٹا کھانا کھلا دیا۔ کہنے والوں کو اب گھر میں آنا ہی نہیں ملنے کا اور میں ایک ایک سے کہتی تھی کہ نوج! میرا بھتیجا اس قابل ہی نہیں، وہ تو انگریزوں کو عقل سیکھانے والا ہے۔ لاکھ جتن کریں گے ایک نہ ایک بات مغز سے ایسی اتار کر کہے گا کہ سب کے سب اس کا منہ دیکھنے لگیں گے۔ قربان جاؤں اس غفور رحیم کے کہ تم بھلے چنگے لوٹ کر آئے بیٹا۔ اگر سچ مچ انگریزوں کی نیت بدلی ہوئی دیکھ کر جیسا کہ لوگ پکارا کر رہے ہیں تو پھوپھی صدقے گئی، ایسی خیر خواہی پر لعنت بھیجوں۔ قلعہ غارت ہوا تو خیر خدا کی مرضی: جس نے جان دی ہے وہ کہیں نہ کہیں سے ان بزرگوں کے طفیل میں جن کے ہم نام لیوا ہیں، نان بھی ضرور دے گا۔"
ابن الوقت: "یہ کیا بیہودہ بات آپ سے کسی نے آ کر کہہ دی ہے۔ حقیقت تو اسی قدر ہے کہ میں نوبل صاحب کے پاس گیا تھا۔ کھانے کا تھا وقت ، انھوں نے اصرار کر کے مجھ کو بھی میز پر بٹھا لیا۔"
پھوپھی: "پھر تم نے کھایا تو نہیں۔"
ابن الوقت: "کھایا تو کیا ہوا، وہی نوبل صاحب ہیں نا جو کامل تین مہنے ہمارے گھر مہمان تھے۔"
پھوپھی: "خیر وہ الگ بات تھی۔"
ابن الوقت: "آپ تو قرآن کا ترجمہ پڑھی ہوئی ہیں۔ سورہ مائدہ کے پہلے ہی رکوع میں دیکھ لیجئے وطدعلم الزین اوتوا الکتاب حل لکم و طعامکم حل لھم ( اہل کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمہارا ان کو)، کے کیا معنے لکھے ہیں۔ پھر ایک انگریز کے ساتھ کھانا کھالینے کے علاوہ آپ بے دینی کی کوئی اور بات بھی مجھ میں دیکھی ہے۔ میں بدستور نماز پڑھتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا عین رمضان کا مہنہ تھا کہ نوبل صاحب ہمارے یہاںآئے، میں دن بھر روزہ رکھتا تھا۔ خدا کے فضل سے ایک روزہ قضا نہیں کیا اور رات کو صاحب کے ساتھ کھانا بھی کھاتا تھا۔ صبح کی تلاوت جو میرا معمول تھا، میں نے اس کو ناغہ نہیں ہونے دیا۔ میں نہیں جانتا کہ مسلمان میں اور کیا سرخاب کا پر لگا ہوتا ہے۔ مذہب کیا چیز ہے، بندے کا معاملہ خدا کے ساتھ: پس کسی شخص کو دوسرے کے مذہبی معاملے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں اور فرض کیجئے کہ نعوذ باللہ من ذالک، اگر میں کرسٹان ہونا چاہوں تو کون مجھ کو روک سکتا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ دنیا کے اعتبار سے کنگالوں کے زمرے سے نکل کر امیروں کے گروہ میں جاملوں گا، محکوموں سے حاکیموں میں، احمقوں سے عقلمندوں میں، بے عزتوں سے عزت والوں میں، مگر وہ بھی کچھ مذہب ہے جس پر دنیا کا لالچ یا خوف اثر کر سکے۔"
فصل:9
ابن الوقت تبدیل وضع کے بارے میں جاں نثار سے صلاح اور استمداد کرتے ہیں:
ابن الوقت یہ کہہ کر پھر مردانے میں چلا آیا۔ نماز مغرب کے تھوڑی دیر بعد جاں نثار آپہنچا۔ بیٹھتے کے ساتھ ہی پہلی بات اس نے یہی کی کہ " آج صاحب ہوا خوری کو بھی نہیں گئے۔ آپ کے چلے جانے کے بعد سے جو چٹھیاں لکھنے بیٹھے تو میرے شیر نے چراغ ہی جلا دیے۔ پھر مجھ کو بلا کر آپ کے پاس حاضر ہونے کا حکم دیا کہ ابھی چلے جاؤ۔ صاحب آپ سے اس قدر خوش ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ جو ملاقاتی آتا ہے آپ کا تذکرہ اس سے ضرور کرتے ہیں اور میز پر تو صاحب لوگوں میں برابر آپ ہی کا مذکور رہتا ہے۔ وہ تو آپ شہر میں رہتے ہیں اور آپ کا مکان بھی پیچ در پیچ گلیوں میں ہے اور گلیاں بھی صاحب ستھری نہیں: اگر کہیں آپ انھی لوگوں کے میل میں شہر کے باہر کسی بنگلے میں رہتے ہوتے تو دیکھتے کہ سارے سارے دن اور آدھی آدھی رات تک انگریز آپ کا پیچھا نہ چھوڑتے۔ صاحب، ہیں تو یہ لوگ کہنے کو کافر مگر مروت اور خدا ترسی اور اخلاق، غرض نیکی کی کل باتیں جیسی میں نے ان لوگوں میں دیکھیں ہم لوگوں میں تو کہیں پاسنگ بھی نہیں۔ یہ نہ ملنے تک ہوا ہیں اور ملے پیچھے ایسے ملتے ہیں کہ کیا کوئی اپنا ملے گا۔ میم صاحب گئی چھٹی والایت سے آتی ہے تو سائیسوں تک کو سلام لکھتی ہیں اور نام بہ نام ایک ایک کے بی بی بچوں کی خیرو غافیت پوچھتی رہتی ہیں۔ سامنے والی نیلی کوٹھی میں فوج کے ایک صاحب رہتے ہیں ان کی میم صاحب اور بابا لوگ بھی ہیں۔ کل نہیں پرسوں کوئی رات کے دو بجے ایک آیا کے سینے میں درد اٹھا، اسی وقت صاحب آپ جا کر ڈاکٹر کو لائے اور دونوں میاں بی بی صبح کے پانچ بجے تک اس آیا کے پاس سے ٹلے نہیں۔ بھلا آج کوئی ہندوستانی سردار ہے جو ادنیٰ نوکروں کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کرے۔ معاملے کے ایسے سچے کہ کسی نوکر کو کیسے ہی ناراض ہو کر موقوف کریں، کیا مجال کہ کسی کی تنخواہ کی کوڑی لگا رکھیں۔ ہم لوگوں کی طرح نہیں کہ پہلے چوری کی تہمت کا منصوبہ سوچ لیں، تب نوکر کے نکالنے کا نام لیں اور تنخواہ تو تنخواہ اگر نوکر تن بدن کے کپڑے سلامت لے کر عزت آبرو سے رخصت ہو جائے تو بڑا خوش نصیب۔ ہم لوگوں میں سے جو کوئی تھوڑے دنوں کے لیے بھی انگریز کو چھو گیا، پھر کسی ہندوستانی کی نوکری اس سے ہو ہی نہین سکتی۔ اگر مذہب کا فرق نہ ہوتا تو چاہے آپ اس کی نمک کی تاثیر سمجھیں، انگریز میرے نزدیک چوجنے کے قابل تھے۔ بال بجوں کی طرح نوکروں کی پرداخت کرتے ہیں۔"
ابن الوقت: "سب انگریز ایک مراج کے نہ ہوں گے۔ اتفاق سے تم کو جن لوگوں کے ساتھ معاملہ پڑا، اچھے ہی اچھے ملے۔"
جاں نثار : "ہاتھ کی پانچ انگلیاں تو کیوں کر برابر ہو سکتی ہیں۔ اچھے بُرے سبھی جگہ ہیں، مگر اتنا فرق ضرور ہے کہ انگریزوں میں اکثر اچھے اور ہم میں اکثر بُرے ہیں۔"
ابن الوقت : "میں سمجھتا ہوں شاید فوجی انگریز زیادہ اکھڑ اور بدمزاج ہوتے ہوں گے۔"
جاں نثار: " ہرگز نہیں ! ایسے بھلے مانس، دل کے سخی اور بے تکلف کہ ملکی انگریز کی دوستی نہ فوجی کی صاحب سلامت۔ ہاں دوغلے جن میں ہندوستانیوں کا تخم ملا ہوا ہے، ان کی جس قدر برائی کی جائے تھوڑی۔ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ ان کا بس چلے تو ہندوستانیوں کو کچا کھا جائیں۔ ان دنوں کا تو کچھ ٹھکانا نہیں۔ غدر کے دنوں میں ہندوستانیوں کے ہاتھ سے طرح طرح کی ایذائیں ان لوگوں کو پہنچی ہیں۔ اس سے دلوں میں غصہ بھرا ہوا ہے، اور سری کا ہوتا تو ملک میں گڈھوں کا ہل پھروا کر بھی بس نہ کرتا۔ پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ یہ انھی لوگوں کے حوصلے ہیں کہ رعیت نے اتنا ظلم کیا اور ان کو رعیت کا اجاڑنا منظور نہیں۔ صاحب تو ایسا فرماتے تھے کہ یہ پکڑدھکڑ بھی تھوڑے دن کی اور ہے۔ ہمارے یہاں تو صاحب لوگوں کا بڑا جمگٹھا رہتا ہے۔ یہ لوگ آپس میں اکثر غدر ہی کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ میں انگریزی خوب تو نہیں سمجھتا مگر اتنا معلوم ہے کہ اب رحم کی نظر زیادہ ہے۔ یہ غدر بھی ایک کسوٹی تھی۔ جس طرح کھوٹے کھرے ہندوستانی الگ پہچانے گئے، اسی طرح برے بھلے انگریز۔ جو لوگ ان میں شریف خاندانوں کے ہیں وہ در گذرہی کی رائے دیتے ہیں۔ ایک روز ہمارے صاحب تذکرہ کرتے تھے کہ ولایت میں پہلے یہ قاعدہ تھا کہ سرکار شریف خاندانوں کے لڑکوں کو اپنے خرچ سے پڑھالکھا کر ہندوستان کی نوکریوں کے واسطے تیار کرتی تھی۔ ان دنوں جو انگریز آتے تھے سب خاندانی ہوتے تھے۔ اب چند سال سے سرکار نے اس دستور کو موقوف کر کے امتحان کا طریقہ جاری کیا ہے۔ لوگ اپنے طور پر ہندوستان کی نوکری کے لیے لیاقت بہم پہنچا کر امتحان دیتے ہیں، جو امتحان پاس کرتا ہے اس کو نوکری مل جاتی ہے۔ شریف اور رذیل کا امتیاز نہیں ہوتا۔ اکثر عوام کے بلکہ دھوبی، حجام، موچی، بھٹیارے وغیرہ پیشہ وروں کے لڑکے جن کی والایت میں کچھ بھی عزت نہیں، محنت کر کے امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے تعلیم یافتہ ہونے میں کچھ شک نہیں مگر تاہم: ع اصل بداز خطا خطا نہ کند، ان کی ذات سے رعایا کو کم تر فیض پہنچتا ہے۔ مگر میں تو یہی کہوں گا کہ ان کے برے بھی ہمارے اچھوں سے اچھے اور بہت اچھے ہیں۔ آپ ان سے ملیں تو میرے کہےکی تصدیق ہو۔"
ابن الوقت: "نوبل صاحب بھی مجھ کو یہی صلاح دیتے ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ مجھ کو برابری کے دعوئے سے انگریزوں سے ملائیں۔"
جان نثار: "ملنے کا مزہ بھی برابری ہی میں ہے۔ یہ کیا کہ امیدوارانہ گئے، اردلیوں کے دھکے کھائے، سارے دن کی محنت میں دور سے سلام، نہ بات نہ چیت اور خدانکواستہ آپ کو اس طرح ملنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ چلئے ادھر ہی ایک کوٹھی کرائے لے کر رہے تو بڑا مزہ ہو۔"
ابن الوقت: "کیا تم سمجھتے ہو کہ انگریز مجھ کو اپنی سوسائٹی میں لینا پسند کریں گے؟"
جاں نثار: "آپ کو اور آپ کے غلاموں کو!آپ کی صورت شکل اور شان میں ماشاءاللہ کسی طرح کی کمی نہیں۔ خدا نے آپ کو امیر کیا ہے، کچھ یہ بات نہیں کہ آپ اونچی حیثیت سے رہ نہیں سکتے۔ انگریزی میں کسی قدر کمی ہے، سو آپ باتیں سمجھ تو سب لیتے ہیں، بولنے میں جھجک ہے، دو چار مہینے میں ملنے جلنے سے خودبخود نکل جائے گی اور سب سے بڑھ کر تو صاحب کا زبردست پایہ ہے۔ خدا ان کو سلامت رکھے، دن جاتا ہے آپ کو کچھ کام بھی ضروری ہونے والا ہے۔"
ابن الوقت: "مگرہندوستانی لوگ اس کی نسبت کیا خیال کریں گے؟"
جاں نثار: "ہندوستانی تو یہی سمجھیں گے کہ آپ کرسٹان ہوگئے اور میں تو جانتا ہوں اب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ کوئی بیسیوں آدمیوں نے تو آج ہی مجھ سے پوچھا ہے۔"
ابن الوقت: "تم انگریز کے ساتھ کھانا کھانے کو کیسا خیال کرتے ہو؟"
جاں نثار: "صاحب کے منہ سے سنا ہے کہ روم اور مصر اور ایران اور عرب کہیں کے مسلمان پرہیز نہیں کرتے، بے تکلف انگریزوں کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک کے لوگ تو بڑی چھوت مانتے ہیں۔"
ابن الوقت: "خیر جیسی پیش آئے گی، دیکھی جائے گی۔ میں نے نوبل صاحب سے وعدہ کر لیا ہے مگر انگریزوں کی شان کے مطابق سامان کا بہم پہنچنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔"
جاں نثار: "جناب، ذرا بھی مشکل نہیں۔ اس کا تو آپ خیال بھی نہ کیجئے۔ کلکتے میں جنرل سپلائیر، ایک کمپنی ہے، اس کا ایجنٹ یہاں آیا ہوا ہے۔ ایک بنگلہ تجویز کر کے اس کو دیکھایا جائے گا کہ اس طور پر اس کو سجادو۔ ہمارے صاحب نے بھی تو یہی کیا تھا۔ اس کوٹھی کی تو چھت تک بھی اکھاڑ کر لے گئے تھے۔ صاحب جھجر جاتے ہوئے اس ایجنٹ سے کہتے گئے۔اس نے ایک ہی مہنے میں مکان بھی بنوادیا اور جتنا ساز و سامان آپ دیکھتے ہیں، سب مہیا کر دیا۔ ہماری کوٹھی کے مقابل سٹرک پار 42 نمبر کا بنگلہ خالی ہے، صاحب سے بھی قریب ہے، موقع بھی اچھا ہے، شاید چالیس ، پینتالیس، ایسا ہی کچھ کرایہ ہے، اگر حکم ہو ، اس کو روک دیا جائے۔ جس مہاجن کا بنگلہ ہے، اس نے حال ہی میں اس کودرست کرایاہے، غدر میں یہ بھی بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ جنرل سپلائیر کا ایجنٹ دو ہفتے کے قریب میں جیسا فرمائے گا، سجادے گا۔ ان لوگوں میں ٹھہرانے چکانے کا دستور نہیں۔ بل بنا کر بھیج دے گا، آپ اس کی رقم چکا دینا۔ نہ ہڑ ہڑ نہ کھڑ کھڑ۔ بلکہ فرمائیے تو میں صاحب سے عرض کردوں، وہ تو خوشی خوشی اس کا انتظام کر دیں گے مگر کہیں گے وہ بھی ایجنٹ ہی سے۔"
ابن الوقت" " نہیں ، صاحب کو کیوں تکلیف دو، تمھی جس طرح مناسب سمجھو کر دھر لو۔ اور ہاں بھائی کپڑے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟"
جاں نثار: "ہر چیز میل سے بھلی معلوم ہوتی ہے۔ پیروں میں انگریزیو ہاف بوٹ، ٹانگوں میں ڈھیلے پانچوں کا پاجامہ، آدھی پنڈلیاں کھلی ہوئی یا کوٹ پتلون کے ساتھ سر پر عمامہ یا اسی طرح کی دوسری بے جوڑ چیزیں مجھ کو تو بری معلوم ہوتی ہیں۔ نقل کیجئے تو پوری پوری کیجئے ورنہ دونون جگہ ہنسی ہوگی۔ آگے آپ کو اختیار ہے۔"
ابن الوقت: "خیر، تو ایک سال کے کپروں کے لیے بھی اسی ایجنٹ سے فرمائش کر دینا اور چونکہ تم انگریزی سوسائٹی کے دستور سے بہ خوبی واقف ہو، اس بات کا خیال رکھنا کہ انگریزوں کی نظر میں سبکی نہ ہو۔"
جاں نثار: "کیا مجال، خدا نے چاہا تو آپ کی کوٹھی سر تاپا ایسی آراستہ ہوکہ لیڈیاں دیکھنے کو آئیں اور ساری چھاؤنی میں آپ کے کھانوں کا غل ہو۔ اصل چیز ہے روپیہ اور سلیقہ سو روپے کی خدا کی فضل سے آپ کے پاس کمی نہیں اور سلیقہ تو خاک چاٹ کر کہتا ہوں، پرسوں میم صاحب کی جھڑکیاں سیس، گھر کیاں سنیں، صاحب نے لاٹ گورنر کو کھانا دیا، شاہزادہ بلیجیم کی دعوت کی۔ خیر اپنے منہ سے اپنی بڑائی کرنی مناسب نہیں ، دیکھ لیجئے گا۔ اس بات کو آپ دریافت کر لیجئے کہ چھاؤنی میں جب کبھی کوئی بڑا کھانا دیاجاتا ہے، آپ کے خانہ زادی ہی کو بلاتے ہیں۔ فرنیچر کا سجانا بڑا مشکل کام ہے، اچھے اچھے چوک جاتے ہیں مگر میم صاحب نے میرے پیچھے بڑی جان ماری ہے، تب کہیں برسوں میں جا کر یہ بات حاصل ہوئی ہے۔ خیر اور سب باتوں کو تو میں دیکھ بھال لوں گا، مگر آپ کو خود بھی انگریزی قاعدہ سیکھنا چاہئے کیونکہ آپ ہوں گے صاحب خانہ۔ آؤ بھگت ، استقبال، رخصت، مزاج پرسی، تواضع وغیرہ وغیرہ بہت سے کام آپ کو اپنی ذات سے کرنے پڑیں گے۔ ایک ذرا سیبے تمیزی سے سارا کیا دھرا اکارپ ہوجاتا ہے۔ لیڈیوں کے ساتھ ملنے میں خاص کر بڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ میم صاحب کی دی ہوئی اے ٹی کٹ کی میرے پاس ایک کتاب ہے، میں آپ کے پاس بھیج دوں گا۔ ایک دفعہ وہ کتاب نظر سے گزر جائے گی تو سارے کام سدھ ہو جائیں گے اور آخر ان لوگوں کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے بھی تو آپ دیکھیں گے۔ شروع شروع میں ذرا اس کا خیال کھئے گا کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کیونکر برتاؤ کرتے ہیں۔"
نوبل صاحب بیچارے کا کچھ دوش نہیں۔ انہوں نے اپنے انگریزی خیالات کے مطابق نیک نیتی سے اپنے دوست ابن الوقت اور اس کی قوم کے حق میں مفید سمجھ کر اس کو ایک صلاح دی۔ ابن الوقت دودھ پیتا بچہ نہ تھا کہ نوبل صاحب کے جھانسے میں آگیا۔ اس کو اپنی قابلیت ، قوم کی حالت، اطراف و جوانب، نتائج و عواقب پر نظر کر کے کام کرنا تھا۔ بات یہ ہے، خود اسی کی طبیعت شروع سے اس طرف راغب تھی۔ نوبل صاحب کا کہنا اونگھنتے کوٹھیلتے کا بہانہ ہوگیا۔ اپنی قوم اور قوم کی ہر چیز کی حقارت اور انگریز اور ان کی ہر بات کی وقعت پہلے سے اس کے ذہن میں مرتکز تھی مگر وہ ایک شخص رائے تھی نہ کسی کے حق میں مفید، نہ کسی کے لیے بہ کار آمد۔ اتنی بات ابن الوقت کو نوبل صاحب نے سجھائی کہ اس خیال سے کسی طرح پر اس کو اور اس کی قوم کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ابن الوقت کی ظاہری حالت کے بدلنے میں ابھی دیر ہے مگر جاں نثار کے چلے جانے کے بعد بھی وہ اسی خیال میں مستغرق ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس کو ایسا معلوم ہوا کہ گویا نوبل صاحب کی سی کوٹحی ہے اور خانہ باغ میں کرسی بچھائے صاحب لوگوں کی شکل بنائے بیٹھاہوا ، شب ماہ کی مزے لے رہا ہوں۔ پھر وہ آپ ہی آپ چونک پڑا کہ اس حالت میں کسی نے مجھ کو دیکھا تو نہیں۔ تب وہ اس خیال کو دفع کرتا ہے کہ اوکھلی میں سردیا تو دھماکوں کا کیا ڈر۔ رہ رہ کر اس کو خیال آتا ہے کہ اپنے عزیز رشتہ دار، دوست آشنا، جان پہچان ، اہلِ محلہ، اہلِ شہر، اہلِ ملک میرے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔ یہ تصور یہ کہ رفارم پر طبیعت کو مطلقاً جمنے نہیں دینا کہ اس کا کچھ منصوبہ سوچے۔ نوبل صاحب کو زبان دیے پیچھے اس ارادے سے دست کش ہونا کسی طرح ممکن نہیں۔ کبھی جی ہی جی میں اپنے تئیں ملامت کرتا ہے کہ جلدی ناحق کی، پھرکہتا ہے اس سے بہتر اور کون سا موقع ہوگا کہ نوبل صاحب پچ پر ہیں۔ غرض ابن الوقت ہر وقت سوچ میں رہتا تھا اور زیادہ دیر تک سوچتے سوچتے گھبرا اٹھتا تھا اور چاہتا تھا کہ جو کچھ ہونا ہے پرسوں کا ہوتا کل اور کل کا ہوتا آج ہو جائے۔ صرف ایک آدمی نوبل صاحب تھے جن کے ساتھ وہ اس بارے میں صلاح یا مشورہ یا گفتگو یا بحث جو کچھ کہو کر سکتا تھا۔ وہ بھی ان دنوں کسی سرکاری ضرورت سےباہر چلے گئے تھے۔ پس ابن الوقت کا ایک مہنہ کیوں، خاصے دس دن اوپر ایک مہینہ بہت ہی پریشانی میں گزرا مگر اس کو انگریزی اے ٹی کٹ سیکھنے کی خوب مہلت ملی۔ اسی اثناء میں جاں نثار نے ضروری ادب آداب اس کو سب تعلیم کر دیے گویا انگریزی سوسائٹی کی یونیوورسٹی کا انٹرنس پاس کرادیا۔
بارے مئی 1858 ء کی تیرھیوں تاریخ تھی کہ جاں نثار نے آکر خبردی کہ" لیجئے حضرت، آج دن کے چار بجے سب سامان آپ کو مہیا ملے گا۔ دیر تو ہوگئی مگر کوٹحی کو بھی ایجینٹ نے ایسا سجایا ہے کہ پڑی جگمگا رہی ہے۔ دیکھئے گا تو پسند کیجئے گا اور آج رات کو نو بجتے بجتے صاحب بھی خدا نے چاہا تو آپہنچیں گے، آپ چاہیں آج رات کو وہیں چل کر آرام کریں، دن بھی اچھا ہے، مہورت بھی اچھی ہے، خدا مبارک کرے!"
ابن الوقت: "بہتر ہے صاحب کو آلینے دو خود دھیان کر لوں، کسی چیز کی کسر تو نہیں رہ گئی۔"
جاں نثار: " میں نے اچھی طرح خیال کر لیا ہے۔ اور وہ ایک اور ژخصوں کو بھی دیکھا لیا ہے۔ بس اگر کسر ہے تو آپ ہی کی ہے۔ انشاءاللہ ہر چیز آپ تیار پائیں گے۔"
آفتاب نکلا ہی تھا کہ اگلے دن نوبل صاحب کا بلاوا آ موجود ہوا۔ نوبل صاحب، جیسا ان کا دوستور تھا، بہت تپاک سے ملے اور کچہری کے بکس سے ایک چھٹی نکال ابن الوقت کے حوالے کی کہ "لیکئے مبارک ، ڈھائی سو کی اکسٹرا اسسٹنٹی کی منظوری آئی ہوئی چار دن سے میرے پاس رکھی ہے۔ چونکہ میں آنے کو تھا، میں نے چاہا کہ آپنے ہاتھ سے چٹھی اور اپنی زبان سے مبارک باد دوں ۔ ایک بات میں نے آپ کے بس پوچھے کی کہ مقدمات تحقیقات بغاوت میں مجھ کو آپ سے مدد لینے کی ضرورت پڑتی ، اس کام کے ختم ہونے تک میں نے آپ کو اپنے محکمے میں لے لیا ہے۔"
ابن الوقت: "آپ نے تو احسانات سے اس قدر مجھ کو لاد دیا کہ شکر گزاری کا نام منہ سے نکالنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ بھلا خیر زمیں داری تک تو مضایقہ نہ تھا، یہ اکسٹرا اسٹنٹی کیوں کر میرے سنبھالے سنبھلے گی؟"
نوبل صاحب: "ایسی سنبھلے گی کہ دوسروں کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔ ضوابط کچہری سے آپ کو ایک طرح کی ناآشنائی بے شک ہے، سو کچھ بڑی بات نہیں اور ایسی غرض سے میں نے آپ کو اپنے محکمے میں لیا ہے۔ ایک ہوشیار سامنشی آپ کے اجلاس میں تعینات کر دیا جائے گا اور وہ تھوڑے دنوں میں آپ کو ضوابط سے آگاہ کر دے گا۔ آپ کے لیے زمین داری کے ساتھ اس خدمت کی تجوزی ہو چکی تھی مگر ایک دم سے اتنی بڑی نوکری دیتے ہوئے لوگ ہچکچاتے تھے، آخر لاٹ صاحب کے یہاں سے منظوری منگوائی گئی۔ حسنِ اتفاق سے آج غدر کو بھی پورا برس ہوا، بس کل سے ضلع کی کچہری میں میرا اجلاس کے پہلو میں اجلاس شروع کیجئے۔ میں جاں نثار سے یہ بات سن کر بہت ہی خوش ہوا کہ آپ نے 44 نمبر کا بنگلہ اپنے رہنے کے لیے تجویز کیا ہے اور وہ بہ ہمہ وجوہ مرتب بھی ہوگیا ہے۔"
ابن الوقت: " شاید آپ کو یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ میں مکان کے ساتھ لباس اور تمام ہندوستانی طرز کو بھی بدلنے والا ہوں۔:
نوبل صاحب: " آہا! تو آپ کو پورا پورا رفارمڈ اور رفارمر جنٹلیمین دیکھ کر میں بہت ہی کوش ہواں گا۔"
کھانے کا وقت تھا قیرب ، نوبل صاحب نے چاہا کہ ابن الوقت بھی شریک ہو مگر اس نے عذر کیا کہ بس آج اس وقت اور معاف کیجئے ۔ اس وقت کے بدلے اگر آپ چاہیں تو میں رات کو کھانے میں وضع جدید کے ساتھ شریک ہوسکتا ہوں، مجھ کو اس حالت سے آپ کے پاس بیٹھنا ، باتیں کرنا اور آپ کے ساتھ کھانا کھانا بھلا نہیں معلوم ہوتا۔ نوبل صاحب نے اس بات کو بہت پسند کیا اور فرمایا کہ آج ڈنر پر میں آپنے احباب کو بھی جمع کروں گا اور کھانے کے بعد سب سے آپ کی تقریب بھی کرودوں گا تا کہ ایک جلسے میں سب صاحب لوگوں سے معرفت ہوجائے۔
فصل:10
ابن الوقت نے انگریزی وضع اختیار کی، نوبل صاحب نے اس کی دعوت کی:
نوبل صاحب کے پاس سے اٹھا تو جاں نثار ابن الوقت کو سیدھا اس کے بنگلے پر لے گیا اور جاتے کے ساتھ حجامت کروا، اصطباغ دے، یعنی نہلا دھلا، موسم اور وقت اور موقع کے لحاظ سے فیشن کے مطابق انگریزی سوٹ پہنا، نکتہ، دمچی، پوزی، یعنی بریسنر، ٹائی، کالر سب کس کسا کر اس کو اچھا خاصا عین مین یورپین جنٹلمین بنا دیا۔ ابن الوقت نے آئینے میں دیکھا تو اپنے تئیں انگریزوں کے ساتھ اشبہ پایا۔ بے اختیار تن کر لگا کپڑے بدلنے کے کمرے میں پینترے بدلنے۔ کھانے کے بعد اس کے کئی گھنٹے کوٹھی کی دیکھ بھال میں گزرے۔ گرمی کے دن، چاروں طرف خس کی ٹٹیاں لگی ہوئی، تھرمین ٹے ڈوٹ سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھکولے آ رہے ہیں۔ کوچ پر دراز ہونا تھا کہ آنکھ لگ گئی۔ جاگا تو ہوا خوری کے کپڑے بدل، باہر نکل گیا۔ کوئی دو گھڑی رات جاتے جاتے لوٹ کر آیا تو نوبل صاحب کے یہاں جانے کا وقت قریب تھا۔ ڈنر کے لیے تیاری شروع ہوئی۔ کچہری نہیں، دربار نہیں، کوئی پارٹی نہیں، اس پر بھی دن کے گیارہ بجے سے لے کر اب یہ تیسری دفعہ ہے کہ انگریزی تہذیب کپڑے بدلنے کی متقاضی ہے۔ سڑک بیچ تو نوبل صاحب کی کوٹھی تھی۔ جب معلوم ہوا کہ اور مہمان آنے شروع ہوئے، یہ بھی اپنے بنگلے سے اٹھ جا موجود ہوا۔ کھانے سے پہلے اور کھانے میں صاحب لوگ اس کو اجنبی سمجھ کر بار بار دیکھتے تھے، لیکن چونکہ کسی نے اس کو انٹروڈیوس نہیں کیا تھا، کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا تھا کہ تم کون ہو اور نہ یہ کسی سے بات کر سکتا تھا۔ نوبل صاحب مہمانوں کی آؤبھگت میں لگے تھے، ان سے لمحے دو لمحے کا چھٹکارا پاتے تو ابن الوقت سے ایک دو بات کر جاتے۔ ڈنر تھا کہ اچھا خاصا پہر ڈیڑھ پہر کا جھمیلا تھا۔ جہان کے قصے اور دنیا بھر کی بکواس۔ خیر خدا خدا کرکے ڈنر سے چھٹی پائی۔ ابھی سب لوگ اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہیں کہ نوبل صاحب نے کھڑے ہو کر یہ تقریر کی:
"صاحبو! یوں تو آپ صاحبوں سے اکیلے دکیلے یا مجمع میں ملنا ہمیشہ خوشی کا موجب ہوتا ہے مگر آج رات کی ملاقات ایک خاص وجہ سے بڑی، بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔ آپ کو دعوت کے رقعوں سے معلوم ہوا ہوگا کہ آج کی دعوت سے ایک نئے دوست کو آپ کی سوسائٹی میں انٹروڈیوس کرنا منظور تھا۔ (چیئرز)۔ اگرچہ میرے اکثر حالات غدر بھی آپ سب صاحبوں نے بار بار میری زبان سے سنے ہیں مگر میرے حق میں وہ ایسے دلچسپ ہیں کہ ہر بار کے بیان کرنے میں مجھ کو ایک نیا مزہ ملتا ہے اور اس سے میں قیاس اور امید بھی کرتا ہوں کہ اس محل پر ان کا بالتفصیل اعادہ کرنا نہیں گزرے گا۔ (ہرگز نہیں، ہرگز نہیں)۔ یہ ہرگز میرے خیال میں نہیں آیا کہ غدر میں مجھی پر سب سے زیادہ مصیبت پڑی مگر اتنا تو میں ضرور سمجھتا ہوں کہ میرے حصے کی مصیبت بھی کچھ کم نہ تھی۔ مجھ کو غدر نے اچانک آ دبایا جب کہ میں بہ عزم ولایت، بمبئی جاتے ہوئے علالت مزاج کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے مسافرانہ دہلی کے ڈاک بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میرا جان پہچان یا دوست یا دردمند جو کچھ سمجھو، میرا ایک ذاتی ملازم تھا جو اب بھی میرے پاس ہے اور وہ بمبئی تک میرے ساتھ جانے والا تھا۔ مجھ کو اس شدت کا درد سر تھا کہ تکیے پر سے سر نہیں اٹھا سکتا تھا۔" دفعتاً دین دین، اور علی علی، کا غل سن پڑا اور ایک منٹ بھی نہیں گزرنے پایا تھا کہ شہر کی بازاری خلقت بنگلے میں ٹوٹ پڑی۔ میرا آدمی، مجھ کو پیچھے معلوم ہوا، اس وقت میری دوا کے لیے شفا خانےگیا ہوا تھا۔ انہی لٹیروں میں سے پانچ چار خنگے مجھ کو کشاں کشاں کشمیری دروازے باغیوں کے گارد میں لے گئے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ اور چند انگریز مرد اور عورتیں اور بچے قیدیوں کی طرح زمین پر بیٹھے ہیں۔ مجھ کو بھی انہی میں بٹھا دیا مگر ہم اک دوسرے سے بات نہیں کر سکتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ درد سر جو ایک لمحے کے لیے مفارقت نہیں کرتا تھا اور جس نے مجھ کو ولایت جانے پر مجبور کیا تھا ، اس وقت بالکل زائل ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنے آدمی کو دیکھا کہ تماشائیوں میں ملا ہوا مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کا چہرہ اداس تھا اس کی صورت پریشاں ، مگر وہ ٹکٹکی باندھ کر میری طرف کو دیکھ بھی نہیں سکتا تھا اور دیکھ بھی سکتا تو وہ مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتا تھا۔ لیکن جب جب میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا کسی نہ کسی طرف اس کھڑا ہوا پایا۔ اس سے میں سمجھا کہ وہ میری مصیبت پر متاسف ہے۔ حوالات کی مصیبت کا بیان کرنا دیر طلب بات ہے اور میں اس کے تذکرے سے سکوت کرتا ہوں کیوں کہ مجھ کو کچھ اور بھی کہنا ہے۔ تیسرے دن ہم سب کو گھیر کر میگزین کے میدان میں لے گئے اور جب تک قلعے کے حوالاتی آئے ہم کو کھڑا رکھا ، پھر سب کو بٹھا کر باڑ مار دی۔ اس وقت تک بھی میں نے اپنے آدمی کو کالج کے دروازے کے پاس دیکھا۔ شاید میرا دماغ مدتوں کے درد سے سے ضعیف ہو رہا تھا کہ باڑ کے صدمے سے یا زخموں کی وجہ سے مجھ کو غش آ گیا۔ اس وقت تک جو کچھ میں نے بیان کیا وہ میری ذاتی معلومات ہے ، اس کے بعد جو میں نے آدھی رات کے بعد آنکھ کھولی اور مجھ کو ہوش آیا تو میں نے اپنے تئیں ( ابن الوقت کی طرف اشارہ کرکے ) ان کے مکان میں پایا، جن سے ملنے کو میں نے آپ صاحبوں کو بلایا ( چیرز)۔ میں یہ بات کچھ اس نظر سے نہیں کہتا کہ اپنے وفادار نوکر کی خیر خواہی کو میں اعلی درجے پر نہیں خیال کرتا ، مگر اس پر میرے احسانات اور نمک کے حقوق ثابت تھے۔ مگر ان صاحب کو بلکہ ان کے معزز خاندان میں سے کسی کو کبھی کسی انگریز سے کسی طرح کا تعلق نہیں رہا۔ انہوں نے چند سال تک دہلی کالج میں مشرقی علوم کی تعلیم پائی اور کالج چھوڑنے کے بعد اپنی موروثی خدمت پر شاہی ملازموں میں جا ملے۔ پس عام ہمدردی اور نیک دلی کے سوائے اور کوئی خیال ان کو میری پناہ وہی کا محرک نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ میری شکل و صورت کو دیکھتے ہیں کہ اگر میں بھیس بدل کر ہندوستانیوں میں ملنا چاہتا تو رنگ اور بال اور آنکھیں ، ہر چیز میرا پردہ فاش کرنے کو موجود تھی۔ اس کے علاوہ ان کا گھر خانقاہ سے جس کو مجاہدین کا اکھاڑا کہنا چاہیے ، بہت ہی قریب ہے۔ پس میرا پناہ دینا بڑی خطرناک بات تھی ، خصوصا ملازم شاہی کے حق میں۔ پھر مدارات جو انہوں نے کی ، شروع سے آخر تک یکساں تھی اور یہ بھی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ میری پناہ دہی میں کسی غرض دنیاوی کو دخل نہ تھا۔ میں ان باتوں کو چنداں اپنی احسان مندی ظاہر کرنے کے ارادے سے ذکر نہیں کرتا بلکہ آپ صاحبوں کے زہن سے اس غلط اور بے اصل خیال کو نکالنا چاہتا ہوں کہ حکومت انگریزی کا سب سے بڑا دشمن مذہب اسلام ہے۔ بانی اسلام نے بالتخصیص عیسائیوں کی نسبت قرآن میں اپنی رضامندی اور خوشنودی صاف صاف طور پر ظاہر کی ہے۔ انہوں نے اپنے معتقدید کے لیے ہمارے ساتھ کھانا اور رشتہ و پیوند کرنا جائز قرار دیا ہے اور میں نے قسطنطنیہ اور دوسری اسلامی سلطنتوں میں مسلمانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انگریزوں کے ساتھ بے تامل کھاتے پیتے ہیں اور ان کا لباس بالکل ہم لوگوں کا سا ہے ، صرف فزان (ترکی ٹوپی) کا شعار قومی مابہ الامتیاز ہے جس وہ پہچانے جاتے ہیں۔ ساتھ کھانا اور رشتہ و پیوند کرنا دو بڑے ذریعے اتحاد پیدا کرنے کے ہیں اور ان دونوں باتؤں کی اجازت سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کے پیغمبر صاحب کو منظور تھا کہ ان کے گروہ کے آدمی ہم لوگوں کےساتھ دوستانہ برتاؤ رکھیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کے سوائے اور ملکوں کے مسلمان اس حکم کی پوری پوری تعمیل کرتے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوؤں کی صحبت نے بڑے نقصان پہنچائے ہیں اور من جملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں کے مسلمان انہی کی طرح شکی اور وہمی ہو گئے ہیں ، پس جو نفرت ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریزوں سے ہے ، ہرگز مذہبی نہیں ہے بلکہ ایک رسم ہے جو انہوں نے ہندوؤں سے اخذ کی ہے اور جتنے مسلمان اپنے مذہب سے بخوبی آگاہ ہیں ، ہرگز اس نفرت میں شریک نہیں۔ مجھ کو معلوم ہے کہ دہلی کے مسلمانوں میں مستند عالم تھے ، باغیوں نے ہر چند ان پر سختی کی مگر انہوں نے جہاد کا فتوی دینے سے انکار کیا اور انہی انکار کرنے والوں میں میرے دوست بھی تھے۔ اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ باغیوں میں بہت سے مسلمان بھی ہیں مگر کون مسلمان ؟ اکثر عوام الناس ، پاجی ، کمینے ، رذیل جن کے پاس رسم و رواج کے سوائے مذہب کوئی چیز نہیں یا اگر کسی روادار مسلمان نے بغاوت کی ہے تو مذہب کو اس نے صرف آڑ بنایا ہے اور اصل میں غصہ یا لالچ یا کوئی اور سبب محرک ہوا ہے۔ جس طرح ہماری قوم ہمیشہ سے بہادری میں نامور رہی ہے اسی طرح ہمارا سچا مذہب بردباری اور درگزری میں اور خدا کی مقدس مرضی نے ہم کو ان دو صفتوں میں آزمانا چاہا۔ ہم بہادری کی آزمائش میں خدا کے فضل سے پورے اترے ، اب ہم کو دوسری آزمائش میں پورے اترنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک ہم مغلوب تھے ہم نے بہادری سے کام لیا، اب ہم کو خدا نے غلبہ دیا ہے تو چاہیے کہ بردباری اور درگزر میں اور خدا کی مقدس مرضی نے ہم کو ان دو صفتوں میں آزمانا چاہا۔ ہم بہادری کی آزمائش میں خدا کے فضل سے پورے اترے ، اب ہم کو دوسری آزمائش میں پورے اترنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک ہم مغلوب تھے ہم نے بہادری سے کام لیا ، اب ہم کو خدا نے غلبہ دیا ہے تو چاہیے کہ بردباری اور درگزر سے کام لیں۔ قدرت پا کر معاف کر دینے سے ایشیائی قومیں ہم کو ضعیف سمجھنے کے عوض بہت زیادہ طاقتور خیال کریں گی۔ سلطنت کی عمارت میں بہادری نے اگر گارے کا کام دیا ہے تو بردباری چونے گچ کا کام دے گی۔ (ابن الوقت کی طرف اشارہ کرکے) انہوں نے مجھ پر اپنا یہ ارادہ بھی ظاہر کیا ہے کہ آیندہ ہندوستانیوں یعنی کم سے کم اپنی ہم قوم مسلمانوں اور انگریزوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا اور مجھ کو پورا بھروسا ہے کہ ضرور کریں گے تو گورنمنٹ کو چاہیے کہ میری پناہ دہی سے بڑھ کر ان کی اس کوشش کی قدر کرے۔ میری پناہ دہی کے صلے میں گورنمنٹ نے ان کو ڈھائی سو روپے ماہوار منافع کی زمیں داری عطا فرمائی ہے اور اکسٹرا اسٹنٹی کی خدمت جو ہندوستانی کے لیے اعلی درجے کی نوکری ہے۔ تمام زمانہ غدر میں ان کے پاس رہنے سے مجھ کو ان کے تفصیلی حالات معلوم ہیں، علوم مشرقی کے یہ بڑے عمدہ سکالر ہیں ، انہوں نے دیلی کالج میں جغرافیہ اور تاریخ اور پولیٹیکلاکانومی اور ریاضی وغیرہ علوم بہ خوبی پڑھے ہیں۔ ان کی عام معلومات اونچے درجے کی اور قابل قدر ہیں ، ان کو اخبار بینی کا بڑا شوق ہے ، ان کے خیالات وسیع اور شگفتہ ہیں۔ غرخ آپ لوگ اگر ان کے ساتھ ارتباط پیدا کرنا چاہیں گے تو مجھ کو امید ہے کہ آپ ان کی ملاقات سے ہمیشہ محظوظ ہوں گے۔ اب شاید آپ صاحبوں کو زیادہ دیر تک باتوں میں لگائے رکھنا موجب تصدیع ہوگا۔ اس واسطے شکر قدوم پر تقریر کو ختم کرتا ہوں۔
فصل:11
انگریزی دستور کے مطابق ابن الوقت نے نوبل صاحب کی دعوت میں کھانے کے بعد تقریر کی:
نوبل صاحب بیٹھنے کو تھے کہ ابن الوقت اٹھے۔ مہمانوں میں سے کسی کو بلکہ خود نوبل صاحب کو بھی توقع نہ تھی کہ یہ بھی کچھ کہیں گے مگر کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہنا شروع کیا۔
"صاحبو! مجھ کو اس طرح کے معزز جلسے میں پہلے پہل حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے اور مجھ کو آپ صاحبوں کے روپرو بات کرنے کی عادت اور صلاحیت دونوں نہیں مگر نوبل صاحب نے ایسی مہربانی کے ساتھ میری تقریب آپ صاحبوں سے کی ہے کہ ان کی شکر گزاری کو میں اپنا فرض موقت خیال کرتا ہوں۔ میں نے اپنے پندار میں کوئی ایسا کام نہیں کیا۔ جس کے واسطے نوبل صاحب یا گورنمنٹ میری احسان مند ہے۔ میں نے نوبل صاحب کو مردوں کے انبار سے اٹھایا اور اپنے گھر لے جا کر رکھا لیکن اگر ایسا نہ کرتا تو میں مسلمان بلکہ انسان نہ تھا۔ پس میں نے اپنا فرض مذہبی بلکہ فرخ انسانیت ادا کیا اور میں نہیں سمجھتا کہ مجھ کو کسی طرح کی خاص مدح کا استحقاق حاصل ہے۔ یہ نوبل صاحب کی ذاتی شرافت اور گورنمنٹ کی فیاضی ہے کہ نوبل صاحب میرا احسان مانتے ہیں اور گورنمنٹ نے کثیر المنفعت زمیں داری اور باوقعت بیش قرار ماہانے کی نوکری مجھ کو عطا فرمائی ۔ ابھی تک غدر سے پوری پوری نجات حاصل نہیں ہوئی لیکن اس کی جڑ کٹ گئی ہے اور شاخ و برگ اگر کوشش نہ بھی کی جائے، آپ سے آپ خشک ہو کر اور گل سڑ کر خاک میں مل جائیں گے۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ نتیجے کے واقع ہونے کے بعد اس کے اسباب جستجو کی جاتی ہے لیکن مبارک ہیں وہ لوگ جو وقوع نتیجہ سے پہلے اسباب پر نظر کرتے ہیں۔ ع: مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست۔ خیر، اگر وہ موقع ہم سے فوت ہو گیا تاہم بعد الوقوع اسباب غدر کا خیال کرنا اس وقت دلچسپ اور آئندہ مفید ہو گا۔ اخبار والوں نے اس کی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ہے اور ہر شخص جو کچھ اس کے منہ میں آتا ہے کہتا ہے لیکن گورنمنٹ جس کو واقعی اسباب غدر کا جاننا سب سے زیادہ ضروری ہے، اخبار والوں کی رائے میں عمل کرے گی اور اخبار والے تو آخر اسی غرض سے خامہ فرسائی کر ہی رہے ہیں تو میں گورنمنٹ سے اور آپ سے صاحبوں سے معافی مانگ کر یہ بات کہتا ہوں کہ گورنمنٹ بڑا دھوکا کھائے گی اور گورنمنٹ کی خیر خواہی مجھ کو اس بات کے کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ شاید وہ ویسی ہی نا واقف اور بے خبر گورنمنٹ رہے گی جیسی غدر سے پہلے تھی۔ سلطنت میں رعایا اور گورنمنٹ دونوں کی اغراض وابستہ یک و گر ہیں۔ اگر ہندوستانیوں کو انگریزی سلطنت سے امن اور آزادی کے گوناگوں فائدے پہنچے ہیں جو فی الواقع ان کو کسی زمانے میں نصیب نہیں ہوئے تو اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ انگلستان اسی سلطنت کی بدولت مالا مال ہو گیا ہے اور اسی سلطنت کے برتے پر اس نے تمام یورپ کی سلطنوں کی کنی وبائی ہے۔ ممکن ہے بعض احمق ہندوستانی اسی کو انگلستان کا بڑا مفاد سمجھتے ہوں کہ انگریز بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں، یہ تو ان فائدوں کا پاسنگ بھی نہیں۔ بات یہ ہے کہ انگلستان ہنرمندی اور صناعی کا گھر ہے اور اس کے تمول کا بڑا ذریعہ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں تنہا ذریعہ تجارت ہے۔ سو ہندوستان کی سلطنت نے انگلستان کی تجارت کو ہزار ہا گونہ تو اب بڑھا رکھا ہے اور کوئی کہہ نہیں سکتا آئندہ اس میں کہاں تک افزائش ہو گی۔ پس اگر اغراض کا موازنہ کریں تو میرے نزدیک انگلستان کی اغراض کا پلہ جھکتا رہے گا۔ یہ سبب ہے کہ انگریزوں کو غدر کا زیادہ فکر ہونا چاہیے۔میں اس انگریزوں کی اقبال مندی سمجھتا ہوں کہ حسن اتفاق سے اس وقت کوئی معاصر سلطنت ہندوستان کی دعوی دار نہیں ہوئی اور اہل ہند میں اس سرے سے اس سرے تک کسی فرد بشر میں سلطنت کی صلاحیت نہ تھی اور ہندوستان کی مختلف اقوام میں اتفاق کا رنگ پیدا ہونے نہیں پایا تھا۔ انگریزوں نے اس ملک کو بہ زور شمشیر فتح کیا اور بہ زور شمشیر اس پر قابض رہے اور بہ زور شمشیر غدر کو بھی فرو کر دیا مگر زور شمشیر رعایا کے جسموں کو مسخر کر سکتا ہے نہ دلوں کو۔ یہ ملک صدہا بلکہ ہزارہا برس سے شخصی سلطنوں کا محکوم رہا ہے اور یہاں کی رعایا نے ابھی تک انگریزی سلطنت کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور یہ لوگ حکام ضلع کو بادشاہ کا اوتار خیال کرتے ہیں، پس اس ملک کے عہدہ دار ان انگریزی کے ذمے دوسرے فرائض خدمت کے علاوہ ایک بڑا ضروری فرض مزید ہے کہ ہر وقت اپنے تئیں ملکہ کا قائم مقام سمجھ کر لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کریں جو ملکہ کے لئے زیبا ہے۔ اب آپ صاحبوں میں سے ہر شخص اپنے دل میں خیال کر سکتا ہے کہ اس نے اس فرض کو کہاں تک ادا کیا ہے۔ انگریز اِالَّا مَا شَاءَ اللہ اس ملک میں ایسا روکھا مزاج بنائے رکھتے ہیں اور ہندوستانیوں کو ایسی حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہیں کہ کوئی ان کے پاس نہیں بھٹکتا تا وقتیکہ اس کو ضروری مجبور نہ کرے۔ انگریزوں اور ہندوستانیوں میں محبت اور اخلاص کا ہونا ایسا شاذ ہے جیسے شیر اور بکری میں۔ میں ہندوستانیوں کے ڈفیس میں ایک لفظ نہیں کہنا چاہتا اور اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ کوئی انگریز جنٹلمین ان کی ملاقات سے کبھی محفوظ ہو نہیں سکتا لیکن اگر بروں سے پالا پڑ جائے تو تھوڑا بہت اپنی طبیعت پر بھی جبر کرنا چاہیے۔ ع:چہ تواں کد مردماں ایستد۔ اور جو شخص اس تکلیف کا متحمل نہیں ہونا چاہتا تو اس کو ان بروں سے بھلائی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ غدر کے بعد سے ہر انگریز کو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ ہندوستانیوں نے اس کی مدد نہیں کی لیکن ذرا گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیے کہ وہ کس احسان، کس سلوک، کس مہربانی کے عوض میں اس مدد کا مستحق تھا۔ وہ شاید اپنا ایک حق بھی کسی ہندوستانی پر ثابت نہیں کر سکے گا۔ اس اصولِ منصفانہ کو پیشِ نظر رکھیں تو بغاوت کی لمبی فہرست صرف ایک فرد مختصر رہ جائے گی۔اب رہ گئی بغاوت بہ مقابلہ سرکار' سو میںآپ صاحبان کی خدمت میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہندوستانیوں کے نزدیک سرکار کوئی چیز نہیں۔ احسان فرا موشی انسان کا نیچر یعنی تقاضائےطبعیت ہے۔ غدرجس کا لوگوں نے اتنا بڑا بتنگڑ بنا رکھا ہے' میرے نزدیک انساننی نیچر کے ظہور سے کچھ زیادہ نہ تھا۔ ہر چند انگریزی عمل داری سے ہندوستانیوں کو بہت سے فائدے پہنچے تھے مگر ان کو واقعی یا ادعائی واجب یا غیر واجب چند درجہ شکائتیں بھی تھیں، پس اگر انہوں نے شکایتوں کے جوش میں فائدوں پر نظر نہ کی تو اس ضعف بشریت اور انسان کے نیچر کے نقصان کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ انگریزی اور ایشائی حکومتوں کا طرز ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہے کہ ایک کو دوسرے سے کچھ مناسبت نہیں۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں برس سے ہندوستانی خوگر تھے اپنے ہم وطنوں کی حکومت کے' جن کے دربار میں ان کی رسائی بہ آسانی ہو سکتی تھی۔ ملک کی تمام آمدنی بادشاہ کی خاص ملکیت ہوتی تھی اور وہ اس کو بلا مزاحمت جس طرح چاہتا تھا خرچ کرتا تھا مگر اس بدنصیب ملک کی ساری دولت ایشائی حکومتوں میں سدا بیہودہ نمود و نمائش اور ممنوع عیاشی میں برباد ہوا کی اور اس سے متمتع ہوتے رہے خوشامدی'خود غرض۔ بہر کیف دولت کا دریا ایک رخ کو بہتا ہے اور ان لوگوں کو سیراب کرتا رہا جن کی قسمتوں میں اس سے فائدہ اٹھانا تھا، ہندوستانی عمل داری جا کر انگریزی عمل داری کا آنا اس سے تو کسی کم نہیں کہ وہ دریاے زخار ایک سمت کو بہتے بہتے یکایک لگا بالکل سمت مخالف مین دوسری جگہ بہنے' یعنی ایک ایسی سلطنت شروع ہوئی جس کی مثال اس ملک میں نہ دید ہے نہ شنید ہے۔ خلق خدا کی ملک وکٹوریہ بادشاہ زادی کا اور حکم کمپنی بہادر کا' خلقت ایک اور اکٹھے تین تین فرماں روا اور تینوں نظر سے پوشیدہ۔ آپ صاحب یہاں کے لوگوں کی حیرت پر تعجب کریں گے تو اس میں رتی برابر منالغہ نہیں۔ انگریزی سلطنت رعایائے ہندوستان کے حق میں ایک پہیلی ہے جس کو اس وقت تک اکثر عوام الناس نہیں بوجھ سکے۔ تبدل سلطنت یوں بھی کچھ آسان بات نہیں اور پھر ایسا تبدل کہ حاکم و محکوم دونوں میں کسی طرح کی مناسبت نہیں' نہ وطن ایک' نہ زبان ایک' نہ مذہب ایک۔ پس ہندوستانیوں کے حق میں سلطنت کیا بدلی گویا ساری خدائی بدل گئی' اگلے تمام ذریعے معطل' ساری لیاقتیں بے کار' کل تدبیریں بےاثر، پس شاہی متوسل اور متوسلوں کے متوسل اور متوسلوں کے متوسلوں کے متوسل کہ ان کا مجموعہ بجائے خود ایک جم غفیر ہو گا' محض بے آسرے اور بے سہارے ہو کر بیٹھ رہے۔ اب ہر ایک منصف مزاج آدمی خیال کر سکتا ہے کہ اس گروہ کو انگریزی عمل داری سے ناخوش ہونے اور رہنے کی وجہ معقول تھی یا نہیں۔ پھر انگریزی عمل داری اتنی پرانی ہو گئی تھی کہ جن لوگوں نے بادشاہی وقت دیکھے تھے' اکثر مر کھپ گئے تھے اور چاہیے تھا کہ اس زمانے کی باتیں بھی بھول بسر جاتیں مگر ہم دیکھتے ہیں تو ان کی یادگار ہر دم تازہ ہے' اس وجہ سے کہ اب بھی چھوٹی بڑی محکوم اور مختار بہتیری ہندوستانی ریاستیں جگہ جگہ موجود ہیں اور ان میں بلا کم و کاست ایشائی حکومت کے نمونے باقی ہیں۔ اگر سرکار انگریزی کو اپنی رعایا کا خوش دل رکھنا منظور ہے تو چار دانگ ہندوستان میں اس سرے سے اس سرے تک ایک طرح کا انتظام ہونا چاہیے۔ مجھ کو بیرون شہر کسی ہندوستانی ریاست میں رہنے یا نوکری کرنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر لوگوں کے کہے سنے سے' اخبار سے بعض ریاستوں کے عام حالات معلوم ہیں اور دہلی کا قلعہ بجائے خود چھوٹی سی ریاست تھی اور میں پشت ہا پشت سے اسی شہر کا رہنے والا اور سرکار شاہی کا متوسل ہوں اور شہر اور قلعہ دونوں کا کوئی حال مجھ سے محفی نہیں۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اہل شہر اور اہل قلعہ کی زندگی ایک دوسرے سے اس قدر مختلف تھی کہ قلعی ایک دوسری دنیا معلوم ہوتا تھا۔ جب سلطنت میں غدر کی وجہ سے اتنا بڑا انقلاب ہوا ہے کہ ملکہ معظمہ نے زمام حکومت اپنے دست خاص مین لی اور کمپنی کا کچھ تعلق نہ رہا تو اس ملک کے حق میں فال نیک سمجھتا ہوں اور مجھ کو پورا بھروسا ہے کہ گورنمنٹ کے انتظامات میں یقینا بڑی بڑی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔ پس اگر کوئی مجھ سے اصلاح پوچھے تو میں پہلے اسی بات کی بڑے شد و مد کے ساٹح پیش کروں کہ گورنمنٹ اپنے تعلقات اندرونی ایشائی گورنمنٹوں کے ساتھ درست کرے۔ یہ ہندوستانی ریاستیں جن کا مجموعہ کیا رقبہ' کیا مردم شماری' کیا محاصل' کسی اعتبارسے انگریزی سلطنت سے کم نہیں' یہ استثنائے معدوے چند اس قدر پیٹ بھر کر خراب ہورہی ہیں کہ ان کی حالت نہ صرف انہی کے حق میں خطرناک ہے بلکہ انگریزی طرز انتظام، انگریزی رعایا، سبھی کے حق اور جب تک ان ریاستوں کی پوری پوری اصلاح نہ ہو، انگریزی گورنمنٹ کو کبھی اپنے انتظام کی طرف سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ ان میں سے ایک ایک ریاست، اگر اس کے انتظام میں فساد ہے، انگریزی گورنمنٹ کا استخفاف کرتا ہو۔ اس بات کو پکارے کہتا ہوں کہ ہندوستانی رئیس ہندو ہو یا مسلمان آرام طلب ہوگا، کاہل ہوگا، احمق ہوگا، عیاش ہوگا، غافل ہوگا، مسرف ہوگا، خرچ آمد سے فاضل ہوگا، غرض اس میں سب طرح کے جنون ہوں گے مگر نہیں ہوگا تو ایک جنونِ بغاوت۔سرکار نے اپنی فوجی طاقت کو ہندوستان میں خصوصاً بعد غدر ایسے زور سے ثابت کردیا جیسے آگ نے جلانے کی خاصیت کو۔ پس ہندوستانی رئیسوں کی طرف ایسا خیال بالکل لغو اور محض بے اصل ہے لیکن جس چیز سے گورنمنٹ انگریزی کو ہندوستانی ریاستوں کی طرف سے میں ڈرانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اکثر ہندوستانی رئیس اپنے چند در چند نالائقیوں اور گوناگوں بد کرداریوں کی وجہ سے ایسی خرابیاں کررہے ہیں کہ اول تو خود انہی کی رعایائے نا مہذب و ناشائستہ سے انگریزی گورنمنٹ کو ہمیشہ خائف رہنا چاہیے، دوسرے ان ریاستوں کے برے نمونے دیکھ کر رعایائے انگریزی کی طبیعتیں بگڑی چلی جاتی ہیں۔ جسد سلطنت میں یہ ریاستیں گویا برص کے چٹھے ہیں، کیوں کر اطمینان ہوسکتا ہے کہ ان چٹھوں کا فساد دوسرے اعضائے صحیح تک متعدی نہیں ہوگا۔اگر میری تقریر سے ایسا مستنبط ہوا ہو کہ میں ان ریاستوں کے ضبط کرنے کی رائے رکھتا ہوں تو مجھ سے بڑھ کر قوم و ملک کا کوئی دشمن نہیں لیکن یہ میری رائے ضرور ہے کہ ان ریاستوں کا نامنتظم حالتوں میں رہنے دینا ویسا ہی ظلم ہے جیسا ان کا ضبط کرنا۔ جب تک انگریزی گورنمنٹ اپنے تئیں ان شکمی گورنمنٹوں کا مربی اور حامی اور محافظ سمجھتی ہے اور واقع میں وہ ہے بھی تو ان کی اصلاح کا فرض لازمی ہے۔ لیکن انگریزی گورنمںٹ نے اس فرض کے ادا کرنے میں کماحقہ اہتمام نہیں کیا۔ بے شبہ سرکار کی طرف سے ایجنٹ یا ریزیڈنٹ کے نام سے ایک عہدہ دار ہر ایک ہندوستانی ریاست پر مسلط ہے مگر اس کو ریاست کے اندرونی انتظام میں حکماً کچھ مداکلت نہیں۔ وہ انی ہی بات کی نگرانی رکھتا ہے کہ ریاست میں سرکار انگریزی کا رعب و داب اچھی طرح قائم رہے اور کوئی عام بد نظمی نہ ہو۔ گر ایک باپ کی اولاد کے ساتھ وہ کرے جو انگریزی گورنمنٹ نے ہندوستانی ریاستوں کے ساتھ اب تک کیا ہے تو ہم ایسے بات کی مدح نہیں کرستکے۔ جتنا اس نے کیا، اچھا کیا مگر اس کو اس سے بہت زیادہ کرنا چاہیے تھا۔ مہذب دنیا کی نظر میں انگریزی گورنممنٹ کبھی من حیث المجموع منتظم گورنمنٹ نہیں سمجھی جائے گی تاوقتیکہ اس کی تمام شکمی گورنمنٹیں اسی طرح منتظم نہ ہوں جیسے اس کا اپنا علاقہ۔ انگریزی گورنمنٹ کبھی بیرونی دشمنوں کے خدشے سے خالی نہیں رہتی اور اس کو خالی رہنا چاہیے بھی نہیں لیکن تعجب کی بات ہے کہ میں اس شکمی ہندوستانی ریاستوں کی طرف سے کبھی خدشہ کرتے ہوئے نہیں پاتا حالانکہ اگر یہ ریاستیں نا منتظم رہیں جیسی کہ اب ہیں تو یہ اندرونی دشمن بیرونی دشمن سے بہت زیادہ خطرناک ہیں۔
اب میں آپ صاحبوں کو ایک دوسرے مطلب کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ دنیا کی قوموں میں نفرت اور عداوت کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں مگر سے سے زیادہ شدید اختلاف مذہب ہے۔ خصوصاً ہندوستانیوں کے نزدیک ہندو اپنے مذہب کے ایسے سخت متعصب ہیں کہ کسی طرح دوسرے مذہب کے لوگوں سے ملنا نہیں چاہتے۔ جو لوگ دوسری قوم کا چھوا پانی نہ پی سکیں ان سے دوستی اور اتحاد کی کیا توقع ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کے باشندوں میں انگریزوں کے ساتھ ارتباط اور اختلاط کرنے والے اگر کچھ لوگ ہیں تو مسلمان ہیں کیونکہ سچا مذہب اسلام ایسے تعصبات سے بالکل بری ہے۔ صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی مقدس آسمانی کتاب یعنی قرآن اس سے ساکت ہے بری اس میں نصاریٰ کے ساتھ مواکلت اور مناکحت دونوں کی صاف و صریح اجازت موجود ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ مواکلت اور مناکحت سے بڑھ کر دوستی پیدا کرنے کا کوئی اور بھی ذریعہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ہندوستان کی حالت میں ہم اسبات کا کافی ثبوت رکھتے ہیں کہ مذہب کہاں تک رسم و راج سے متاثر ہوسکتا ہے۔ ہندوستان میں ایک مدت سے ہندو مسلمان ملے جلے رہتے آئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں قوموں نے ایک دوسرے سے بہت باتیں اخذ کی ہیں اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ دونوں میں اختلافَ مذہب اور خاص کر مذہب ہنود کے روکھے پن کی وجہ سے جو منافرت ہونی چاہیے تھے، مدتوں کی یک جائی نے اس کو بہت کم کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی ہندو دھوتیاں اور کھڑاویں چھوڑ کر پاجامے اور جوتیاں پہننے، اپنی عورتوں کو پردے میں بٹھانے اور مسلمانوں کے علوم پڑھنے لگے۔ ہزارہا ہنود محرم میں جو مسلمانوں کا مشہور مذہبی تیوہار ہے، تعزیہ داری کرتے ہیں، مسلمانوں کی طرح مسلمان نزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں، ان سے منتیں مانتے ہیں کہ ایک قسم کی پرستش ہے۔ اسی طرح مسلمان ہندوؤں کی تقلید سے کھانے پینے کا پرہیز کرنے لگے ہیں، اپنی بیوہ عورتوں کا نکاح نہیں کرتے، اکثر نجوم کے معتقد ہیں، شادی بیاہ میں بہت سی رسمیں ہیں جن کی مذہب میں کچھ اصل نہیں، ہندوؤں سے لی گئی ہیں۔ غرض ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلاط کا یہ نتیجہ ضرور ہوا ہے کہ ایک دوسرے سے وحشت باقی نہیں رہی، لیکن یہ کیفیت کہیں صد ہا سال میں جا کر پیدا ہوئی ہے اور پھر بھی اس میں اس کو اتحاد کے درجے میں نہیں سمجھتا۔ دونوں کے دل بہ دستور ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ آج کوئی بھڑکانے والا کھڑا ہو تو مسلمانوں کے نزدیک ہندو ویسے ہی کافر اور مشرک ہیں اور ہندوؤں کی نظرمیں مسلمان ویسے ہی ہتیارے بھر شٹ اور یہ نااتفاقی انگریزی گورنمنٹ کے حق میں ایک فال مبارک اور شگون نیک ہے مگر وہیں تک کہ باہم رعایا میں ہوں۔ اب دیکھنا چاہیے کہ سرکار نے کہاں تک مزہبی نازضامندی کو اپنے مقابلے میں پیدا نہیں ہونے دیا۔ سو لوگوں میں تو یہی بات مشہور ہے کہ یہ تمام فساد چربی کے کارتوسوں کا تھا مگر میرے نزدیک یہ ایک نہایت سخیف رائے ہے۔ عوام کو ایسا مغالطہ واقع ہوسکتا ہے کیوں کہ ان کے نزدیک ہر انگریز سرکار ہے، اگرچہ وہ امریکہ کے کسی مشن کا پادری یا سودا گر یا سیاح یا بھکاری ہی کیوں نہ ہو۔ مگر جو لوگ انگریزی گورنمنٹ کے حالات سے کسی قدر بھی واقف ہیں، بہ خوبی جانتے ہیں کہ سرکار کیسی مذہب سے سرکار نہیں رکھتی اور سرکار نے ابتدائے عمل داری سے اپنے تیئس مذہیبی بکھیڑوں سے ایسا الگ تھلگ رکھا ہے کہ سرکار پر مذہبی طرف داری کا الزام، بہتان اور افترا ہے۔ لیکن رعایا کے خیالات نہ جاننے یا جان کر ان کی پروا نہ کرنے سے سرکاری عہدہ دار یعنی حاکم انگریزی سے اس طرح کی غلطی کو ہونا ممکن ہے جس سے لوگوں کو مذہبی ناخوشی پیدا ہو اور میں خیال کرتا ہوں کہ چربی کا کارتوس بھی اسی قسم کی غلطی تھی۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ ضرف کارتوس غدر کا سبب ہوا بلکہ میری رائے یہ ہے کہ غدر کا مادہ دلوں میں مدتوں سے جمع ہو رہا تھا، کارتوس اس کا محرک ہوگیا۔ غر کا اصلی سبب ہے رعایا کی نارضامندی اور اس کی بہت سی وجوہ ہیں، من جملہ ان کے کارتوس بھی ہے۔اب دیکھنا چاہیے کہ لوگوں کو صرف اسی ایک کارتوس سے شبہ ہوا کہ سرکار مذہب میں مداخلت کرنا چاہتی ہے یا سرکار کی کسی کاروائی سے لوگوں کو پہلے سے بھی بدگمانی کا موقع تھا۔ اگر سرکار انگریزی اس معنے میں مذہب سے الگ تھلگ رہی کہ اس نے ہندو اور مسلمانوں میں سے کسی کو اس کے فرائض مذہبی ادا کرنے سے نہیں روکا یا کسی کو زبردستی یا کسی طرح کا لالچ دکھا کر عیسائی نہیں کرنا چاہا تو یہ بالکل صحیح ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا لیکن مذہب کا اور خاص کر ہندوؤں کے مذہب کا بڑا ٹیٹرھا معاملہ ہے۔ ان کا مذہب ہی فی ۔۔۔۔ تارِ عنکبوت سے زیادہ بودا اور چھوئی موئی سے بڑھ کر نازک ہے۔ اس کا مدار نہ صرف دل کے خیالات پر ہے کہ ان پر کسی کا دسترس ہو نہیں سکتا بلکہ ایک ہندو بے قصدو ارادہ کھانے سے، پینے سے، چھونے سے، بے دین ہوجاسکتا ہے اور ان کے مذہب کا یہی ضعف دیکھ کر بؑض مسلمان بادشاہوں کو موقع ملا کہ ہزارہا ہندوؤں کو زبردستی مسلمان کرڈالا۔ غرض مسلمانوں کی مدارات دیکھ کر ہندو پہلے سے سہمے ہوئے تھے، اب جو آئے انگریز تو انہوں نے دیکھا کہ یہ مسلمانوں سے بھی چند قدم آگے بڑھے ہوئے ہیں یعنی جن چیزوں سے مسلمانوں کو پرہیز ہے یہ ان کو بھی نہیں چھوڑتے۔ مذہب کے پھیلانے میں سرگرمی اس درجے کی ہے کہ گلی گلی پادری وعظ کہتے، مذہبی کتابیں مفت بانٹتے پڑے پھرتے ہیں۔ چمار ہو، بھنگی ہو، ان کو اپنی ذات میں ملا لینے سے انکر نہیں۔ یوں ہندوؤں کے دلوں میں از خود سرکارِ انگریزی کی طرف سے مذہبی بدگمانی پیدا ہوئی۔ بدگمانی کی مثال اس درخت کی سی ہے کہ کائی کی طرح ذرا سا آسرا پا کر جم کھڑا ہوتا ہے اور کانس کی مانند جلانے سے لہلہاتا اور کاٹنے سے بڑھتا ہے۔ بدگمان آدمی کے ساتھ کیسا ہی سلوک، کیسی ہی بھلائی کرو، وہ ہمیشہ اس کا برا ہی پہلو سوچا کرتا ہے۔ سرکاری تعلیم سے شکرگزاری اور احسان مندی کے عوض الٹی مذہبی بدگمانی کو ترقی ہوئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ انگریز احمق اور عقل سے خارج تو ہیں نہیں کہ کھلم کھلا ظلم کر کے اپنے کو بدنام اور سوا کر لیں۔ یہ ہیں میٹھی چھری زہر کی بجھی، سر سہلائیں بھیجا کھائیں۔ دیکھو تو لوگوں کو کرسٹان بنانے کی کیا تدبیر نکالی ہے۔ ع:گڑ سے جو مرے تو زہر کیوں دو۔ پھر اس بدگمانی پر طرہ ہوا یہ کہ انگریزی خوانوں کو دیکھا تو عقیدے کے متزلزل، مذہب سے برگشتہ۔ اب بدگمانی بدگمانی نہ رہی بلکہ مرتبہ یقین کو جا پہنچی۔ یہ باتیں جو میں آپ صاحبوں کے روبرو بیان کر رہا ہوں، اگرچہ فرداً فرداً بعض ان میں کی آپ صاحبوں کی نظر میں بے وقعت بھی ہوں مگر جب آپ سب کو جمع کر کے دیکھیں گے تو آپ خود تسلیم کریں گے کہ مجموعی اسباب غدروبغاوت کے لیے کافی تھے۔ ہندوستانیوں کے معاہد کی تعظیم بھی انگریز ضرور پوری کرتے رہے ہیں۔ دہلی کی مسجد جامع ایک مشہور عمارت ہے۔ ایسا کون سا مردہ دل انگریز ہو گا کہ اس شہر کی کسی تقریب میں آنا ہو اور وہ اس مسجد کو دیکھنا نہ چاہے! یہاں تک کوئی حرج کی بات نہیں مگر جب مسلمان جوتیاں پہن کر مسجد میں جانا اپنے مذہب کی توہین کا موجب خیال کرتے ہیں تو اگرچ انگریز کے یہاں جوتی کا اتارنا خلاف تہذیب ہو مگر اس میں کیا حرج ہے کہ یا تو دروازے میں سے دوربین لگا کر دیکھ لیا کریں یا جوتی اتار کر اندر چلیں پھریں۔ پھر یہ تو مسلمانوں کا حال ہے، ندو تو خوشی سے کسی حالت میں دوسرے مذہب والے کا اپنے معابد میں جانا جائز نہیں رکھتے۔ مانا کہ عمدہ اور مشہور عمارتوں کا دیکھنا ایک طبعی شوق ہے مگر شوق کے لیے دوسروں کی دل آزاری کیا ضرور ہے۔ میں نے ایک مسلمان کے روبرو ایک بار یہ عذر پیش کیا تھا تو اس نے کیسا معقول جواب دیا کہ "کیوں صاحب آج کو تو عمارت دیکھنے کا شوق ہے، کل کو اگر کسی کو شوق ابھرا کہ دیکھیں ان کی عورتیں گھروں میں کیوں کر اٹھتی بیٹھتی ہیں تو کیا یہ لوگ ہمارے زنان خانوں میں گھسیں گے؟"
بات یہ ہے کہ معاملہ پڑا ہے نادانوں کے ساتھ۔ اگر ان کی دل جوئی مدنظر ہو تو ہزار تدبیریں ہیں اور اگر سرے سے ان کی کچھ حقیقیت ہی نہ سمجھو اور ان کی رضامندی نا رضامندی کا خیال ہی نہ کرو ، جیسا کہ ہوا، تو ھر غدر کی شکایت کیا؟ ہندوستانیوں کو حقیر سمجھنا اور ان کی خوشی نا خوشی کی مطلق پروا نہ کرنا، یہ رنگ نہ صرف عہدہ داران انگریزی کی مدارات بلکہ خود گورنمنٹ کے تمام کاموں میں بھی جھلکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ گورنمنٹ کی نیت بہ خبر ہے اور رعایا کو ہر طرح سے آسودہ اور خوش حال رکھنا چاہتی ہے مگر وہ دیکھتی ہے اپنے عہدہداروں کی آنکھوں سے اور سنتی ہے انھی عہدہداروں کے کانوں سے جن کو رعایا کے ساتھ ارتباط و اختلاط نہیں۔ بس رعایا کا دکھ درد، اس کی حاجتیں اور ضرورتیں یعنی رعایا کا بھی حال گورنمنٹ پر منکشف نہیں ہونے پاتا۔ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ سارے ہندوستان میں اس سرے سے اس سرے تک کوئی شخص ایسی معلومات اور لیاقت اور دیانت کا نظر نہیں آتا کہ گورنمنٹ اس کو رعیت کا وکیل سمجھ کر اس سے مشورہ لے اور اس کی بات پر اعتماد کرے۔ جن لوگوں پر وجاہت اور تمول کے اعتبار سے نظر پڑتی ہے مثلا ہندوستانی رئیس، اکثر مٹی کے تھوے، جن کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ دو اور دو کے ہوتے ہیں۔ پس ان کا عدم اور وجود دونوں برابر۔ اگر یہ لوگ گورنمنٹ انگریزی کو صلاح دینے کی قابلیت رکھتے ہوتے تو اپنی ہی ریاستوں کو نہ درست کرتے۔ زیادہ نہیں گنتی کے چند رئیس کچھ سمجھ دار بھی سنے جاتے ہیں۔ تو شاید کم فرصتی کا حیلہ کریں اور اصل بات یہ ہے کہ ان کو گورنمنٹ انگریزی کی مدد کا شوق کیوں ہونے لگا اور مانا کہ شوق ہو بھی تو کونسل کے خرانٹ تجربہ کار ممبروں کے ساتھ بحث کو بڑی لیاقت چاہئے۔ پس اگر کورنمنٹ ، وہی مثل ہے کہ "طفل بہ مکتب نمی رود ولے برندش" کسی ہندوستانی رئیس کو زبردستی لے جاکر کونسل میں بٹھادے تو وہ بیچارہ سوائے کہ ٹکر ٹکر بیٹھا دیکھا کرے اور بے فائدہ لوگوں کی نظر میں خفیف ہو' کیا کرسکے گا۔ کونسل کے ممبر ہیں کہ باہم رد و قدح کر رہے ہیں اور یہ سمجھتا بوجھتا خاک نہیں' اسی سوچ میں ہے کہ لاٹ صاحب کس کو ملے ہیں۔آخر جب ادائے رسم کو طور پر اس سے پوچھنے کی نوبت آئی تو لاٹ صاحب کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنا پیچھا چھڑا الگ ہوگیا۔اب رہ گئے وہ لوگ جنہوں نے انگریزی کالجوں میں تعلیم پائی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوستانیوں میں سےاگر کسی میں مشیر گورنمنٹ ہونے کی صلاحیت ہےتو ان میں ہے۔ انگریز جانتے ہیں 'اپنے ملک کے حالات سے بھی واقف ہیں خیالات بھی روشن اور وسیع ہیں' آزادی اور قومی ہمدردی کے بھی لمبے چوڑے دعوے ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ انگریزی گورنمنٹ کی ماہیت اور اس کی منشاء کو خوب پہنچے ہوئے ہیں مگر نقص سے یہ گروہ بھی خالی نہیں۔ اول تو یہ لوگ' چھوٹا منہ بڑی بات' انگریزوں سے مساوات کا دم بھرتے ہیں اور اسی وجہ سے انگریزوں کی نظر میں کھٹکتے ہیں۔ دوسرےچونکہ خود انگریزوں کی قوم کے نہیں' انکے حقوق پر بالکل نظر نہیں کرتے اور ان سے منصفانہ صلاح کی توقع نہیں۔ لیکن باایں ہمہ غایت مافی الباب یہ کہ اس راہ میں چند مشکلات پر نظر کرکے وہ راستہ چھوڑدیا جائے گا جس میں چلنا ضرور ہے؟ اگر شروع سے گورنمنٹ نے اس کا خیال کیا ہوتا توآج کو یہی ہندوستانی رئیس جن کو میں ننگِ ہندوستان کہتا ہوں' یہاں کی کونسل توخیر'ولایت کی پارلیمنٹ کے قابل ہوتے۔ لیکن گورنمنٹ نے ان ہندوستانی ریاستوں کے بارے میں بڑی غلطی کی ان کو شتر بے مہار کی طرح مطلق العنان رہنے دیا کہ پیٹ بھر کر بگڑیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ گویا ان ریاستوں کی خرابی کو گورنمنٹ انگریزی اپنے استحکام کا موجب سمجھتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ ہم ان رئیسوں کو کونسل میں بٹھانے لگیں تو شروع شروع میں ان کی کاروائی ضرورویسی ہی ہوگی جیسے تھوڑی دیر ہوئی میں نے بیان کی' لیکن اگر ہم چندے صبر کریں تو آخر ان رئیسوں کو کبھی تو غیرت آئے گی' کبھی تو شرمائیں گے۔ میں تو کہتا ہوں کہاں کے کالج اور کیسے مدرسے' رئیسوں کے حق میں تو یہی کونسل کافی ہے۔علٰی سبیل البدلیت سب کو کونسل میں بٹھایاجائے اور پھر ایک ایسا چکر بندھے کہ مثلاََ ہر پانچویں برس کونسل میں حاضر ہونے پر مجبور کئے جائیں۔ پھر دوسری ہی نوبت دیکھئے کہ ان کی حالت میں کس قدر ترقی ہوتی ہے۔ غرض گورنمنٹ کا یہ رنگ کہ وہ ملک کا انتظام رعایا کی رائے پر کرنا چاہتی ہے' ہندوستان کی گورنمنٹ میں تو ہے نہیں۔ ہندوستانیوں کی قسمت کی ڈسپاٹک' گورنمنٹ سدا سے تھی'اب بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اپنی گورنمنٹ تھی'اب اجنبی مسلط ہیں۔ ہمیشہ سے ہندوستان سارے جہان میں بدنام رہا ہے کہ اس میں چاندی سونے کی ندیاں بہتی ہیں اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ ملک ذرخیز اور سیر حاصل ہونے میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔لیکن ایک ایشیائی شاعر نے ہندوستانیوں کے حسبِ حال کیا اچھا کہا ہے:
تہی دستان قسمت راچہ سود از رہبرِ کامل
کہ خضر از آب حیواں تشنہ می آرد سکندرا
اگر آپ صبر اور توجہ سے سننا چاہیں تو قبل اس کے کہ میں اپنی جگہ پر بیٹھوں' میں آپ صاحبوں کو اس کا یقین کرادوں گا کہ ہندوستان کی رعایا پہلے کی نسبت بہت سقیم الحال ہوگئی ہے اور یوماََ فیوماسقیم الحال ہوتی چلی جاتی ہے۔ذرائع معاش کے اعتبار سے ہندوستان کے لوگ چار طرح کے ہیں: اول کسان 'دوم اہلِ حرفہ'سوم نوکری پیشہ'چہارم تجارت پیشہ۔ کسان کی قسم میں تعلقہ دار سے بلوا ہے تک زمیندار کاشتکار بہ اقسام ہم سب داخل ہیں جو زمین سے معاش پیدا کرتے ہیں۔ انگریزی عمل داری سے پہلے نہ کوئی رقبے کی پیمائش کرتا تھا اور نہ اقسام زمین دیکھتا تھا۔ پچھلی جمع پر نظر کرکے یا بہت سیان پت کی تو سرسری طور پر صورت حال دیکھ کر گائوں پیچھے اٹکل جو ایک جمع ٹھرادی'چھٹی پائی۔ اس کے ہزاروں لاکھوں میں تحریری ثبوت موجود ہیں کہ ہندوستانی گورنمنٹوں میں طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے مر سرکاری مال گزاری کے بارے میں ہمیشہ الٹی سرکار ہی مظلوم تھی۔زمیندار لوگ کار پروازان سرکاری کے ساتھ سازش کرکے جمع کم کراتے چلے جاتے تھے اور پھر جمع کے وصول کا یہ حال تھا کہ شاذ نادر کوئی بھلا مانس زمیندار وقت پر دیتا ہوگا۔ دو دو چار چار برس کی باقی داری تو ایک بات تھی۔ جب باقی بہت بڑھ جاتی تو آخر کو آدھی تہائی پر فیصلہ ہوتا تھا۔ رہے کاشتکار، ان کو تو یوں سمجھو کہ گویا سرکار کی رعیت ہی نہ تھی۔ ان کا نیک و بد، نفع و نقصان سب بہ اختیار زمیندار۔ مگر چونکہ زمینداروں کا اپنا مفاد تھا، ہر زمیندار کاشت کاروں کو اپنی دولت سمجھتا تھا، ضرورت پڑنے پر تخم و تقاوی سے اس کی مدد کرتا، خرید مویشی اور شادی بیاہ تک کے لیے اس کو قرض دیتا۔ پھر نقدی لگان کا دستور نہ تھا۔ فصل پک کر تیار ہوئی، زمیندار کا شتکار دونوں نے غلہ بانٹ لیا، کم ہوا تو کم، زیادہ ہوا تو زیادہ۔ نہ حجت نہ تکرار، اللہ اللہ خیر صلاح۔ یہ ہے خلاصہ ہندوستانی سرکاروں کا انتظام مالگزاری کا۔اب گورنمنٹ انگریزی کے انتظام کو دیکھنا چاہئے کہ اول تو مزروعہ، افتادہ، بنجر،چپے چپے زمین کی پیمائش کرائی، پھڑ مٹی کی ذات اور کھاو اور آب پاشی کے لحاظ سے کھیت کھیت کی حیثیت دریافت کی اور پھر کاغزات دہی اور لوگوں کی گواہی اور ذاتی تجربے سے یہاں تک تحقیق کیا کہ اس کھیت میں اس قدر پیداوار کی قابلیت ہے۔ اس طرح پر جزرسیکے ساتھ گاؤں کی نکاسی نکال کر ، کہنے کو آدھا اور واقع میں اچھا خاصا کسا ہوا دو تہائی۔ حق سرکار ٹھہرا دیا۔ اور اتنی کاوش پر بھی ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ غایت درجے صرف تیس برس کے لیے کہ اتنے میں زمیندار پھر کچھ پیپیں گے تو پھر نچوڑیں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سرکار اپنا ھق واجب نہ لے۔ اس نے پیمائش سے، اقسام زمین وغٰرہ کی تحقیقات سے، اپنے مطالبے کے ٹھہرانے میں اگر احتیات کی تو ٹھیک کیا، درست کیا مگر میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ رعایا اور سرکار کا تعلق من وجہ بندے اور خدا کا تعلق ہے۔ یہاں انصاف سے کام نہیں چلتا، بلکہ رحم و ریات سے ۔ سرکار کو قرار دادا جمع میں ایک سود خور بننے کی طرح دمڑی دمڑی کاحساب نہیں کرنا چاہئے تھا خصوصاََ ایسی رعیا کے ساتھ جو پچھلی سلطنتوں میں کارپروازان سلطنت کی نمک حرامی یا بددیانتی یا اپنی خود سری اور چالاکی سے چنگی کی طرح سرکاری مالکزاری ادا کرنے کی خوگررہی ہے۔ پھر بندوبست کا میعاری ہونا گروہ زمینداران کی سخت بے دلی کا موجب ہے اور اگر سچ پوچھئے تو ملکی ترقی کا مانع۔ کوئی رعایا کیسی ہی سرکار کی خیر خواہ اور اطلاعت گزار کیوں نہ ہو، کیوں پسند کرے گی کہ محنت کرے وہ، لاگت لگائے وہ اور جب زمین کی حیثیت درستی پر آئے تو سرکار محاصل میں سے آدھا تقسیم کرنے کو آموجود ہو۔ پچھلی سلطنتوں میں ہر گاؤں بجا۔ خود ایک چھوٹی سی ریاست تھا۔ اب سرکار انگریزی کے انتظام مالگزاری نے زمینداروں کو ایسا مجبور اور بے دست و پا کر دیا ہے کہ اکثر صورتوں میں زمینداری ایک مصیبت ہوگئی ہے۔سرکار نے کاشتکاروں کے ایسے حقوق تسلیم کر لیے ہیں کہ زمیندار کا کاشتکاروں پر ذرا بھی دباؤ باقی نہیں رہا۔ زمیندار کسی کاشتکار کو کھیت سے بے دخل کرنا چاہے، کیا مقدرو؟ کھیت کی پیداوار کو اٹکانا چاہے کیا طاقت؟ سختی اور تنگ طلبی کے ساتھ لگان وصول کرنا چاہے کیا مجال۔ سرکار اپنا لینا عین وقت پر زمیندار سے لیتی ہے اور جو زمندار کو کاشتکار سے پانا ہے، اس کے لیے حکم ہے کے نالش کرو، ڈگری جاری کراؤ۔ خالصہ یہ ہے کہ سرکار کے انتظام مالگزاری نے زمینداروں اور کاشتکاروں میں ہم دردی اور معاونت کی جگہ عداوت اور کشمکش پیدا کردی ہے۔اب وہ اگلے دیہی جھتے ٹوٹ پھوٹ کر گھر گھر چودھری اور کھیت کھیت زمیندارو ہوگئے۔میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں میں اس طرح کی کوئی کہاوت ہے یا نہیں مگر میں یقین کرتا ہوں، ضرور ہوگی۔ عربی میں تو ایک مشہور مثل ہے۔ "الاتفاق توۃ"۔ پس ہر ہر گاؤں ار اگلی سی زمینداری ہو، اپنی اپنی بساط کے مطابق ایک قوت ہے اور ان کا مجموعہ ایک بلا کا زور ہے، ناممکن المقاومت۔ یہ زور اگر گورنمنٹ کا مساعد ہو سکے تو میں نہیں خیال کرسکتا کہ گورنمنٹ کو روپے کی، سپاہ کی، آلاتِ خرب کی، اعوان و انصارکی، کسی قسم کی دوسری قوت درکار ہو۔ لیکن گورنمنٹ نے بجائے اس کے کہ اس قدرتی، خدا داد زور سے فائدہ اٹھائے، اس کو ضائع اور معدوم کردینا آسان سمجھا اور ضائع اور معدوم کر دیا۔ اس بارے میں گورنمنٹ کی عقل، اس جوگی کی عقل سے کچھ زیادہ تعریف کی مستحق نہیں جو اپنے ہاتھ کو خشک کرڈالتاہے، اس خیال سے کہ شاید وہ اس ہاتھ سے کسی گناہ کا مرتکب ہو۔زمیندار تو اس وجہ سے گرے کہ ان کو گورنمنٹ نے قصداً گرایا۔رہ گئے عام کاشتکار،وہ سدا سے اس بات کے خوگر تھے کہ زمیندار ان کو انگلی پکڑا کر لے چلے تو آگے کو پاؤں اٹھائیں۔ اب زمیندار تو ہوا دست کش،ان میں کھڑے رہنے کا بوتا نہیں! یہ بھی گرے اور ایسی بری طرح گرے کہ سرکار نے ان کو اپنے پندار میں گڑھے میں پڑا ہوا دیکھ کر باہر نکالا۔ یہ جو لڑکھڑائے،دھڑام سے کوئیں میں۔ زمیندار ان کو دباتے بھی تھے،ستاتے بھی تھے مگر یہ بھی نہیں دیکھ سکتے تھے کہ بگڑ جائیں،اجڑ جائیں۔ اب ان کو پالا پڑا بنیوں سے،ساہو کاروں سے ، مہاجنوں سے ،جن کا دھرم یہ ہے کہ ان تلوں کو پیلئے جہاں تک پیلا جائے اور پھر ان کی کھلی کو سانی والوں کے ہاتھ بیچ کر کوڑے سیدھے کیجئے۔ اب کاشتکاروں کا کیا حال ہے کہ ہزار میں شاید دو چار بچے ہوں تو خبر نہیں ، ورنہ سب کے سب گویا مہاجنوں کے مزدور ہیں۔ اتنا نہیں کہ کسی کے گھر سے وقت پر بیج نکل آئے۔ کھیت میں ہزار نعمتیں کیوں نہ پیدا ہوں، ان کی اور ان کی بال بچوں کی تقدیر کا سانوان ، کودوں، جو بنی اسرائیل کے من و سلوٰی کی طرح ستو باندھ کر پیچھے پڑا ہے ، کیا مجال کہ کبھی ناغہ ہو لے۔ ایک دفعہ مہاجن کو چھو جانا شرط ہے۔ غرض جتنے کسان پیشہ ہیں۔ کیا زمیندار۔کیا کاشت کار،سب تباہ اور خستہ حال ہیں۔ چونکہ سرکاری مال گزاری وقتِ مقررہ پر وصول ہو جاتی ہے، سرکار سمجھتی ہے کہ انتظامِ مال گزاری اچھا ہے، زمیندار و کاشت کار مقدور والے ہیں۔ رعایا کا اصلی حال سرکار پر منکشف ہو بھی تو کیوں کر ہو۔ جو شخص ایسی فریاد کو سرکار کے کان تک پہنچا سکتا ہے، ہو نہ ہو یورپین ہی حاکمِ ضلع ہو۔ ہندوستانی حاکموں میں سے نہ تو کسی کو ایسی وقعت اور نہ کسی میں اتنی جرات،رہا حاکمِ ضلع ،وہ حتی الوسع سوتی بھڑوں کو کیوں جگانے لگا؟ اگر وہی مجوز جمع بھی ہے تو پہلے اس کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا ضرور ہو گا اور معمولی حالتوں میں انسان سے ایسی توقع فضول ہے اور وہ مجوز جمع نہ بھی ہو تا ہم محصل تو چار و ناچار ضرور ہو گا۔ وہ جوش اظہارِ کار گزاری میں وصول جمع کو ملتوی یا موقوف نہیں کر سکتا اور پھر تخفیفِ جمع کی کی تحریک کرنا بیٹھے بٹھائے ایک جواب دہی کا مول لینا ہے۔ گورنمنٹ ایسے مین میکھ نکالتی ہے (اور اس کا حق بھی ہے) کہ اس کا رضا مند کرنا ایک مصیبت ہے۔ یہ ہے خلاصہ ہمارے انتظامِ مالگزاری کا جو کم سے کم دو ثلث رعایا پر مؤثر ہے۔
اہل حرفہ کی کیفیت کسانوں سے کہیں بدتر ہے۔ یہ سچ ہے کہ گورنمنٹ اس کے حال سے کم تر تعرض کرتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ نہیں کرتی، مگر یورپ کی کلوں نے ان کو مار پٹڑا کر دیا۔ہمارے دیکھتے دیکھتے بہت سے عمدہ اور یافت کے پیشے معدوم ہو گئے اور ہوتے چلے جاتے ہیں۔اب کہاں ہیں وہ ڈھاکے کے ململ ، بنارس کے مشروع ، اورنگ آباد کے کمخواب، بیدر کے برتن ، کالپی کے کاغذ ، کشمیر کی شالیں ، لاہور کے ریشمی ڈور ،۔ اہل یورپ کیا اس پر بند ہیں کہ جس چیز کی مانگ ہنداستان سے ہوئی ، بنائی بھیج دی؟ نہیں وہ لوگ دن رات اس ٹوہ میں لگے ہیں کہ ہنداستان میں کیا کیا چیز پیدا ہوتی ہے اور وہ انسان کے کس مصرف کی ہے اور اس ملک کے لوگوں کو کیا درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان سے ہر طرح کی پیداوار ولایت ڈھلی چلی جاتی ہے۔ کچھ تو یورپ میں کھپی اور کچھ ہندوستانیوں کے مصرف کی بن کر الٹی آ گئی۔ ہندوستانی اہلِ حرفہ تھکے تو یوں تھکے کہ یہ جو کچھ کریں اپنے ہاتھ پاؤں سے اور انسان کی قوت کا اندازہ معلوم ہے، آٹھ پہر میں آخر وہ دم بھی لے گا، آسائش بھی کرے گا اور وہاں یورپ میں کلیں ہیں کہ سارے سارے دن، ساری ساری رات، برابر ، بے تکان چل رہی ہیں۔ ہندوستانیوں میں کلوں کا ایجاد کرنا تو کجا ابھی تو کلوں سے کام لینے کے سلیقے کو بھی عمریں چاہئیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہندوستان کے اہل حرفہ کی تباہی خود انہی کی نادانی کی وجہ سے ہے مگر ہندوستانی اس درجے کے جاہل اور کاہل ہیں کہ ان میں اپنی حالت کے درست کرنے کی گدگدی خدا نے پیدا ہی نہیں کی۔ یہ تو گورنمنٹ سے چاہتے ہیں لاد دو ، لدا دو ، لادنے والا ساتھ دو، یورپ کی تمام تر ترقی کا اصلی اور حقیقی سبب علوم جدید ہیں اور اس زمانے میں وہی تعلیم مفید ہو سکتی ہے جس سے یہاں کے لوگ ان علوم سے آگہی بہم پہنچائیں اور ان کی طبیعتوں میں اس بات کا شوق پیدا ہو کر واقعات کو سوچیں اور موجودات پر غور کریں۔ سو سر رشتہ تعلیم کا اتنا اثر تو ضرور دیکھنے میں آتا ہے کہ لکھنے پڑھنے کا چرچا پہلے سے بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ جن لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا دستور نہ تھا ، وہ بھی اپنے بچوں کو پڑھانے لگے ہیں بلکہ اس قسم کے لوگ بہ کثرت ہیں۔ انگریزی کا شوق بھی برسرِ ترقی ہے اور شکر ہے کہ اگلی سی وحشت اور نفرت کا کہیں پتا نہیں۔ صرف مسلمانوں کو احمقانہ تعصب کی وجہ سے رکاوٹ ہے، وہ بھی عارضی، چند روزہ مگر اس تعلیم سے ملک کو فائدہ کے عوض الٹا نقصان پہنچنے والا ہے۔ لوگ صرف نوکری کی طمع سے پڑھتے ہیں نوکری ہی ان کے نزدیک پڑھنے کی غرض و غایت ہے، نوکری ہی کے لیے ان کو تیار بھی کیا جاتا ہے اور ان کا مبلغ علم بھی وہیں تک ہے۔ مجھ کو حقیقت میں سخت حیرت ہے کہ اتنی نوکریاں کہاں سے آئیں گی۔ میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ انگریزی عملداری میں لکھنے پڑھنے کی اس قدر کثرت کچھ اس وجہ سے بھی ہے کہ سرکاری نوکری بلا امتیاز شریف و رذیل ہر ایک کو حاصل ہو سکتی ہے اور یہی سبب ہے کہ کمینوں میں علم کا رواج زیادہ ہوتا جاتا ہے، پس اگر سچ پوچھیے تو سررشتۂ تعلیم سے جیسا کہ اب ہے ملک کا الٹا علاج ہو رہا ہے۔ ہم کو درکار تھے وہ علوم جو صنعت اور حرفت کو ترقی دیں اور اب لوگوں کو ایسی پٹی پڑھائی جاتی ہے کہ موروثی اور آبائی پیشوں اور حرفوں سے گریز اور نفرف کرتے ہیں بلکہ انھوں نے اسی عار سے بچنے کے لیے پڑھنا اختیار کیا تھا۔
اب مجھ کو صرف تجارت پیشہ لوگوں کی نسبت کچھ کہنا چاہئے، سو میں اس کو مانتا ہوں کہ انگریزی عملداری میں اس پیشے کے لوگوں کو کسی طرح کی شکایت نہیں ہونی چاہئے۔ امن میں کسی طرح کا تزلزل نہیں، مال کی آمدوشُد میں یوماً فیوماً سہولت زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے، عدالت کی کاروائی لائق اطمینان ہے، تاجر کو اور چاہئے کیا؟ مگر تجارت کو چاہئے سرمایہ اور سرمائے ہی کا تو بڑا رونا ہے۔ بس یہ پیشہ ایک محدود پیشہ ہے جس کو ہندوستان میں صرف معدودے چند اختیار کر سکتے ہیں۔ ایک۔ دوسرے، حرفے اور صنعت کا کساد عین تجارت کا کساد ہے اور یہ میں ابھی تھوڑی دیر ہوئی ثابت کر چکا ہوں کہ ہمارے ملک کی صنعت پر اوس پڑتی چلی جاتی ہے، پس اسی نسبت سے تجارت میں بھی کمی ہے۔ سچ پوچھئے تو ساری تجارت اہلِ یورپ کی مٹھی میں ہے اور میں ہندوستانیوں کو تاجر نہیں بلکہ تاجروں کا دلال سمجھتا ہوں۔ ولایت سے مال منگواتے ہیں ، اس کے طفیل میں روپے پیچھے دھیلا دمڑی آپ بھی جھاڑ کھاتے ہیں۔
اس وقت تک میں نے رعایائے ہندوستان کو چار بڑے پیشوں میں تقسیم کر کے ہر ایک کی خستہ حالی کو اپنے پندار میں دلائلِ عقلی سے ثابت کیا۔ اب میں، بہت نہیں، گنتی کی چند عام باتیں بیان کروں گا جو بلا تخصیص کسی پیشے کے عام ہندوستانیوں پر موثر ہیں اور ان میں کم و پیش ہندوستانیوں کے افلاس کا دخل ہے۔ہندوستان کے لوگ عادتا سادگی اور کفایت شعاری سے زندگی بسر کرنے والے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی ضرورتوں کو اس قدر محدود کر رکھا ہے کہ ان کو بہت سا سازوسامان درکار نہیں۔ ان کے پاس اگر روپیہ ہو تو کھانے پینے کے ضروری مصارف کے بعد اس کا ریور اپنی عورتوں کو گھڑوا دیتے ہیں یا یوں کہو کہ اس کو اس پیرائے میں جمع رکھتے ہیں۔ تو جس قوم میں عموما سادگی اور کفایت شعاری کا دستور متوارث ہو، اس کے اکثر افراد کو علیٰ قدر مراتب سرمایہ دار ہونا چاہئے اور انگریزی عملداری سے پہلے ہم میں اکثر لوگ خوش حال تھے بھی۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اَدنیٰ اور اعلیٰ سب کے خرچ بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اس کے چند در چند اسباب ہیں۔ اول یہ کہ تکلف اور آرائش اور نمود و نمائش کی نئی نئی چیزیں ولایت سے آ کر رواج پاتی ہیں اور زندگی کے لیے جدید ضرورتیں پیدا ہوتی جاتی ہیں۔ خرچ کے لیے اس کثرت سئ موجبات ترغیب جمع ہو گئے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں کہ انسان کیسا ہی جز رس کیوں نہ ہو ہاتھ کو نہیں روک سکتا۔ مثلا جہاں کہیں ریل جاری ہے، آمدوشد میں ریل کی وجہ سے اس قدر سہولت ہو گئی ہے کہ لوگ کبھی گھر سے باہر نکلنے کا نام نہیں لیتے تھے، اب ذرا ذرا سی ضرورتوں پر چل کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر ریل میں چلنا ٹھہرا تو کپڑوں کی گٹھری کو کون سنبھالتا پھرے۔ سب سے بھلا بیگ میں کپڑے اور ضرورت کی چھوٹی موٹی چیزیں بھر، اوپر سے قفل لگا، مزے سے ہاتھ میں لٹکا لیا۔ پھر سفر کا نام سفر، دور جانا ہو یا نزدیک، آخر روپیہ پیسہ بھی تھوڑا بہت ساتھ رکھنا ہی پڑتا ہے۔ نیفے میں رکھو تو مشکل، ازار بند مین باندھو تو بدنما، جیب کا بھروسہ نہیں، بار بار کا کھولنا بند کرنا، کوئی چیز گر پڑے، کیا ضرور، ہر مرتبہ خریدنا نہیں۔ لاؤ بھئی گلے میں لٹکانے کا چمڑے کا تھا خرید لیں۔ مدتوں کے لیے چھٹی ہوئی۔ لیکن کم بخت حقے کی کیا تدبیر کرنی ہوگی؟ سنا ہے کہ ریل میں تو پینا نہیں ملتا، چلتی گاڑی میں لوگ چوری چھپے کوئلے میں سلگا کر اپنا کام کر لیتے ہیں۔ پر ایسے حقے میں مزہ کیا خاک ملتا ہو گا۔ سوکھا ہوا نیچہ، خالی حقہ، اس پر گھبراہٹ کہ ایسا نہ ہو سٹیشن آ جائے۔ چرٹ سب سے اچھا کہ خاصی طرح دندناتے ہوئے پیتے چلے جا رہے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ ہوں تو کہے اور ساتھ کے بیٹھنے والے بھی دیکھ کر جی میں ضرور کہتے ہوں گے کہ ہاں بھئی یہ بھی کوئی ہیں۔ پر چرٹ میں کڑک جانے کا بڑا عیب ہے اور پھر کم بخت دھواں نہیں دیتا، سارا بکس لیں تو حفاظت سے رہے۔ بنچ کے نیچے کہیں بھی ڈال دو، کچھ پروا نہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا دیسی چرٹوں کا بکس آٹھ آنے، دس آنے کو آئے گا۔ کیا بڑی بات ہے، راستہ تو آرام سے کٹے گا۔ ریل میں نکمے بیٹھے ہوئے اس سے بہتر دوسرا مشغلہ نہیں۔ حقے میں بڑا کھٹراگ ہے نیچہ، حقہ، چلم، توا، کوئلے، خدا کی پناہ! ایک آدمی کا بوجھ تو یہی ہو گا۔ آدمی اپنے تئیں سنبھالے یا اتنے بکھیڑے کو لادے لادے پھرے۔ چرٹ کے لیے صرف ایک ڈبیا دیا سلائی کی چاہئے ہو گی، سوحقے کی صورت میں بھی رکھنی پڑی۔ سڑک کے کنارے کنارے لڑکے بیٹھے ہوئے پکار رہے ہیں "دمڑی ٹکے کے تین بکس"۔ دمڑی تو اپنے منہ سے کہتا ہے ٹکے کے تین دے گا، ایک پیسے کا ڈیڑھ۔ یہ حساب تو ٹھیک نہیں بیٹھتا، ایک بکس لیں تو کوڑیاں باندھنی پڑیں گی۔ کام کی چیز ہے، سیل بھی جائے تو جہاں دھوپ دکھائی باروت کی طرح چھٹنے لگی۔ آؤ اکھٹے تین بکس لے لو۔ پڑے رہیں گے، پھر کام آئیں گے۔ یوں ضرورتوں کا سلسلہ ہے کہ چپکے چپکے یکے بعد دیگرے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈاک کے انتظام نے باہمی خط و کتابت کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ کاتب اور مکتوب الیہ چاہے دونوں میں ایک بھی پڑھا ہوا نہ ہوا اور کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں، زیادہ نہیں تو خیر مہینے کے مہینے ایک دوسرے کی خیر صلاح کی خبر لینی تو ضرور ہے۔
یہ میرے ہوش کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں چھتری کو لازمہ امیری سمجھا جاتا تھا۔ اب یہاں تک نوبت پہنچی ہے کہ کسی بڑے بازار میں دھوپ کے وقت کھڑے ہو کر دیکھئے تو اس سرے سے اس سرے تک چھتریوں کا ایک سایہ بان تنا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کیا اب ہمارے ملک میں موم کے آدمی پیدا ہوتے ہیں کہ دھوپ لگی اور پگھلے۔ یا مثلاً ایک کپڑے پر نظر کیجئے کہ اس کے ضروری ہونے میں کچھ کلام نہیں۔ ولایت سے قسم قسم کے وضع دار کپڑے بن بن کر چلے آتے ہیں کہ خواہ مخواہ آدمی کا دل ان کے پہنے کا چاہتا ہے اور چونکہ کلوں کی وجہ سے سستا بہت ہے۔ اکثر آدمی اس کی وضع داری پر فریفتہ ہو کر بلا ضرورت بھی بنا لیتے ہیں اور پھر اس کے استعمال میں بھی چنداں احتیاط نہیں کرتے۔میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ سولزیشن (شائستگی) اور اسراف لازم و ملزوم ہیں۔ پس جس قدر ہندوستانیوں میں سولزیشن کی ترقی ہو گی، ضرور ہے کہ ان کا خرچ بڑھے۔ اگر اسی نسبت سے ہندوستانی اپنی آمدنی بھی بڑھا سکتے تو کچھ پروا کی بات نہ تھی مگر آمدنی الٹی گھٹ رہی ہے تو خرچ کی زیادتی ان کو اکھرا ہی چاہے۔ عام لوگ جن کی معلومات کا دائرہ تنگ ہے اور جن کو سوچنے اور غور کرنے کی عقل نہیں، سب کے سب بالاتفاق کہتے ہیں کہ انگریزوں کی عملداری میں امن ہے، انصاف ہے، زور نہیں، ظلم نہیں مگر خدا جانے کیا بات ہے اگلے وقتوں کی سی خیر و برکت نہیں۔ روپیہ ہے کہ ٹھیکری کی طرح اٹھا چلا جاتا ہے اور اس پر پیٹ کو روٹی ہے تو تن کو کپڑا نہیں اور کپڑا ہے تو روٹی نہیں اور ہو تو کہاں سے ہو۔ وہ اگلے سے سمے ہی گئے گزرے ہوئے۔ بزرگوں کے عیش تو بزرگوں کے ساتھ گئے، یہ تو ہماری ہوش کی بات ہے کہ ایک روپے کا غلہ ایک آدمی کے اٹھائے نہیں اٹھتا تھا۔ بھلا سمے کا کچھ ٹھکانا ہے، روپے کے چھ دھڑی گیہوں داؤدی صاف ستھرے، ساڑھے تین سیر چار سیر کا دانہ دار خالص گھی، پانچ سیر کی سفید براق کھانڈ، بیس سیر کا گڑ تو دس من کے اپلے اور اعلیٰ ھذا التیاس۔ اب چیز کو دیکھو آگ لگ رہی ہے۔ روپیہ ادھر بھنا ادھر ندا رد۔ سبب کے ٹھہرانے میں غلطی ہو مگر سمے کی شکایت بھی بے اصل نہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ اگلی سی برساتیں نہیں ہوتیں۔ زمین ہے کہ جنگل اور باغات کٹ کٹ کر برابر مزروعہ ہوتی چلی جاتی ہے اور علمِ طبعی میں یہ مسئلہ حدِ تیقن کو پہنچ گیا ہے کہدرخت بالخاصہ افراطِ بارش کے سبب ہوتے ہیں اور جنگلی علاقوں میں بارش کا بہ کثرت ہونا اس کا شاہد ہے۔ پھر زمینداروں کو تشخیص جمع میں ایسا دھر کر کسا ہے کہ گاؤں کا سارا رقبہ ہر سال جوتا بویا نہ جائے تو سرکاری جمع گھر سے بھرنی پڑے۔ پس زمیندار بہ مجبوری زمین کو مطلق دم نہیں لینے دیتے۔ ان کا بس چلے تو یک فصلی زمین سے دو اور دو فصلی سے چار فصلیں پیدا کریں۔ یوں زمین نے دم اور کمزور اور اس کی قوت پیداوار گھٹتی چلی جاتی ہے جس کو عوام بے برکتی سے تعبیر کرتے ہیں۔
لوگ انگریز عملداری کی نسبت ایسا بھی خیال کرتے ہیں کہ اس عملداری میں بے ایمانی بہت پھیلتی جاتی ہے۔ لوگوں اگلی سی راست معاملگی نہیں رہی۔ نیتوں میں فساد، دلوں میں دغا، باتوں میں جھوٹ، جس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ بات بات میں لوگ ایک دوسرے سے لڑپڑتے ہیں۔ جس عدالت میں جا کر دیکھو مقدمات کی یہ کثرت ہے کہ حاکم کو سر کھجانے تک کی فرصت نہیں اور جہاں ایک دفعہ عدالت جھانکی اور جھگڑا سریش کی طرح چمٹا۔ اول تو ایک کے اوپر ایک عدالتیں ہی اتنی ساری ہیں کہ ان شیرے کے کھیتوں میں سے نکلنا مشکل ۔ دوسرے، وکیل مختار ایسے جھانسے دیتے ہیں کہ کیسا ہی سیانا آدمی کیوں نہ ہو، ان کے دھوکے میں آہی جاتا ہے۔ پھر عدالت کے انصاف کی نسبت لوگوں کی عام رائے ہے کہ جو جیتا، وہ ہارا اور جو ہارا، سو مرا۔ اور فی الواقع عدالتوں کی کاروائیاں اس قدر الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ سٹامپ اور طلبانوں اور مختانوں اور شکرانوں کے خرچوں کے مارے فریقین ادھڑ جاتے ہیں یعنی عدالت میں مقدمہ جیتنے کے معنے یہ ہیں کہ جائداد متنازعہ فیہ نذر خرچ، عدالت۔ حقیقت میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب قاعدے قانون نسداد فساد کی غرض سے جاری کیے جاتے ہیں اور نتائج کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے گویا قانون باعثِ فساد ہے۔میرے ایک دوست ایک ہندوستانی ریاست میں نوکر ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیوں صاحب آپ کے یہاں عدالتوں کا چنداں اہتمام معلوم نہیں ہوتا اور قانون بھی آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں منضبط نہیں، پھر لوگ کیا کرتے ہوں گے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اول تو ہماری رعایا اس قدر جھگڑالو نہیں۔ کسی بات میں اختلاف ہوا بھی تو اکثر آپس میں رفع دفع کر لیتے ہیں اور جو شاذنادر ہم تک فریاد لائے تو ذرا سی کوشش میں ایک دوسرے کے حلف پر حصر کر دیتے ہیں یا پنچایت پر راضی ہوجاتے ہیں۔ وہ اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ وہاں کے لوگ جھوٹ کم بولتے ہیں اوربڑے شدومد کے ساتھ کہتے تھے کہ میں پندرہ برس سے ایک بڑے علاقے کا عامل ہوں اور صدہا مقدمے میرے ہاتھ تلے آئے، آج تک میرے کان میں یہ بھنک نہیں پڑی کہ کسی نے جھوٹا حلف اٹھایا۔اگر عدالت کو لوگوں کے اخلاق کی کسوٹی نہ سمجھا جائے تو میں ایک دوسری دلیل پیش کرتا ہوں۔ شراب خواری کی کثرت، جوشخص اس چیز کو مذہباَ ممنوع نہ سمجھے اور وہ اعتدال کے ساتھ اس کا استعمال کرے تو مجھ کو اس پر طعن کرنے کا کوئی حق نہیں اور مجھ کو اس پر طعن کرنا منظور بھی نہیں۔ میں اس موقع پر اتنا ہی ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ آیا تمول کے اعتبار سے ہندوستانیوں کے ایسی حالت ہے کہ ان کو شراب خوار بننے دیا جائے، جس سےآخر کار جواری، فضول خرچ، کاہل، عیاش چور، ڈاکو، اور انواع و اقسام کے امراض حبیث میں مبتلا ہو کر ایسی مصیبت مندانہ زندگی بسر کریں کہ عذاب ہوں اپنے حق میں اور سوسائٹی کے حق میں۔ یہ ہرگز اصول نہیں ہونا چاہئے کسی عاقل گورنمنٹ کا جو عقل کے علاوہ ایک پاکیزہ مذہب کا فخر بھی رکھتی ہے۔ اگر گورنمنٹ ایسی بری چیز کی جس کو ہمارے سچے پیغمبر ؑ نے اور آپ کے نزدیک عرب کے بڑے رفار مرنے بواجب ام الخبائث کہا ہے اور ہر ایک زمانے کے عقلاء نے اس کی برائی اور ڈاکٹروں نے اس کے نقصانات پر اجماع کیا ہے، بندی نہیں بلکہ روک کر سکتی ہے ۔تو گورنمنٹ بہ تقاضائے مصلحت ملکی کیوں اپنا سارا زور سختی کے ساتھ اس کے روکنے میں صرف نہ کرے۔
اب مجھ کو آپ صاحبوں کی سامعہ خراشی کرتے ہوئے بہت دیر ہوگئی اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں نے نوبل صاحب کی لذیذ ضیافت کو تو بے مزہ نہیں کردیا۔ بات جاپڑی اسباب غدر میں اور یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ اگر ہر روز اسی طرح کہا کروں تو کہیں ہفتوں میں جا کر ختم ہو تو ہو۔ تاہم میں نے اجمالی طور پر جس قدر بیان کیا اس سے اتنی بات تو غالب ہے، آپ صاحبوں پر ثابت ہوگئی ہوگی کہ انگریزیگورنمنٹ غدر سے پہلے تک ممدوح خلائق نہیں رہی۔ مجھ کو میرے ایمان نے اور گورنمنٹ اور رعایا دونوں کی سچی خیر خواہی نے اس کے ظاہر کرنے پر مجبور کیا۔ غدر سے پہلے تک مجھ کو انگریزی گورنمنٹ سے کسی طرح کا تعلق نہیں رہا اور سوائے اس کے کہ میں شہر میں رہتا تھا ، گورنمنٹ کا کوئی حق مجھ پھر نہ تھا مگر خدا کو یوں منظور تھا کہ مجھ سے اور نوبل صاحب سے ایک عجیب اور غیر متوقع طور پر معرفت ہو۔ میں نے صاحب کو اس افسوس ناک بے ہوشی کی حالت میں اگر لے جاکر اپنے گھر رکھا تو سوائے فرض انسانیت کے اور کوئی خیال باعث نہیں ہوا۔ اس وقت کوئی دور اندیش سے دور اندیش بھی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ غدر کا انجام کیا ہوگا۔ اور یہ اونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھے گا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جس وقت میں نے صاحب کو مردوں میں پڑا دیکھا ، میرا دل بالکل بے قابو ہوگیا تھا۔ میں نے اس وقت اتنا بھی تو نہیں سوچا کہ ان کو لے جا کر کہاں چھپاؤں گا اور کیا انتظام کروں گا کہ کسی پر ان کا میرے گھر میں ہونا ظاہر نہ ہو مگر نوبل صاحب کے بارے میں شروع سے آخر تک خدا کی قدرت کاملہ کے ایسے ایسے کرشمے دیکھے کہ بالکل عقل کام نہیں کرتی۔ پس اگر آپ سچ پوچھتے ہیں تو ان کو صرف خدا نے بچایا ہے اور میری یا کسی کی تدبیر کو اس میں کچھ دخل نہیں اور اگر ان کا بچنا خدا کی اور خدا کی قدرت کی دلیل نہیں ہے تو میرے نزدیک پھر دنیا میں کوئی چیز کسی چیز کی دلیل نہیں۔ مجھ کو جہاں تک بوبل صاحب کے بچانے سے تعلق ہے وہ میری نظر میں اس قدر بے حقیقت ہے کہ مجھ کو اس کا تذکرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔یہ صرف نوبل صاحب کریم النفسی تھی کہ انہوں نے ایک ذرا سی بات کو اس قدر رونق دی اور اگر نوبل صاحب کی خاطر سے میں اس قابل قدر ہونا تسلیم بھی کرو تو نوبل صاحب اپنی ذات سے اس کا دو چند ، چار چند اور اس سے بھی زیادہ معاوضہ کرچکے ہیں۔ پس گورنمنٹ نے جو مجھ کو جاگیر دی ، نوکری دی ، صرف احسان ہے بلا سابقہ استحقاق اور اگر اتنے بڑے احسان کو خالی شکر گزاری کے ساتھ قبول کرلوں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ بے استحقاقی کے علاوہ نااہلی کا الزام بھی اپنے اوپر لوں۔ جوں ہی مجھ کو نوبل صاحب سے معلوم ہوا کہ گورنمنٹ میرے ساتھ سلوک کرنے والی ہے ، مجھ کو سوچ پیدا ہوا کہ میں اس کے معاوضے میں گورنمنٹ کی کون سی خدمت کرسکوں گا۔ نہ تو میرے پاس مال ہے کہ گورنمنٹ کی نذر کروں ، نہ میرا پیشہ سپہ گری ہے کہ میں اپنا سر گورنمنٹ کے لیے کٹوا دوں۔ تب میں نے خیال کیا کہ میرے پاس دل ہے۔ پس میں آپ سب صاحبوں کے روبرو اس بات کو ظاہر کرتا ہوں کہ میں اپنا دل گورنمنٹ کا نذر کرچکا۔ خدا نے چاہا تو میری تمام عمر اسی میں بسر ہوگی کہ جہاں تک مجھ سے ہوسکے گا گورنمنٹ کی فلاح میں ، گورنمنٹ کے قیام و ثبات میں ، گورنمنٹ کے عام پسند ہونے میں کوشش کرتا رہوں گا۔ اے خدا ! تو میرا مدد گار رہ !
میں نے اپنی کاروائی کا منصوبہ ذہن میں ٹھہرا لیا ہے اور میں آپ صاحبوں کی اجازت سے مجملاََ اس کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔ مجھ کو ابتدائے شعور سے تاریخ اور اخبار کا بہت شوق رہا ہے اگرچہ اس سے تھوڑی دیر پہلے میں نے گورنمنٹ کے انتظام پر سختی کے ساتھ نکتہ چینی کی ہے ، با ایں ہمہ میں اقرار کرتا ہوں کہ انصاف میں ، انسانی ہمدردی میں ، رعایا کی آزادی میں ، رعایا کے مہذب بنانے میں ، ملک کی فلاح و بہبود میں ، ملک کی ترقی میں ، دنیا کی کوئی گورنمنٹ انگریزی گورنمنٹ کو نہیں پاتی۔ انگریزی گورنمنٹ میں جو نقصان ہیں عملی قسم کے ہیں ورنہ اس گورنمنٹ کے اصول ایسے عمدہ ہیں کہ ان سے بہتر نہ کبھی ہوئے اور نہ اب روئے زمین کے کسی حصے میں ہیں ، پس میں انگریزی گورنمنٹ کو ہندوستان کے حق میں خدا کی بڑی رحمت اور برکت سمجھتا ہوں۔ پس میری تمام ہمت اس میں مصروف ہوگی کہ رعایائے ہندوستان اس رحمت اور برکت سے پورا پورا فائدہ اٹھائے۔ انگریزی گورنمنٹ میں جتنے نقصان ہیں آخر کو سب کا یہی ایک سبب جاکر ٹھہرتا ہے کہ حاکم و محکوم میں اختلاط نہیں اور ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف نہیں۔ میں نے اس پیرائے میں گورنمنٹ کی خیر خواہی کا بیڑا اٹھایا ہے کہ حاکم و محکوم میں سے اجنبیت کو دور کردوں۔رعایائے ہندوستان میں سے صرف مسلمانوں کو میں اس قابل سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو ان کی تالیف و استمالت کی سرِ دست بہت ضرورت ہے۔ کچھ تو اس سبب سے اور کچھ اس وجہ سے کہ میں خود مسلمان ہوں میری کوشش مسلمانوں میں محصور رہے گی۔ میں مسلمانوں کے رگ و ریشے سے واقف ہوں اور مجھ کو ہونا چاہیے کیونکہ مجھ کو خود مسلمان ہونے کا فخر حاصل ہے۔میں بہت وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ مذہب اسلام میں کوئی بات ایسی نہیں جس کی وجہ سے گورنمنٹ مسلمانوں کی طرف سے نا مطمئن ہو۔ ہمارے پیغمبرﷺ صاحب کی زندگی کی عمر سے آدھی سے زیادہ مغلوبی کی حالت میں گذری جبکہ قریش مکہ صرف مذہبی مخالفت کیوجہ سے ان کو ان کے رفقاء کو جو ان پر ایمان لائے تھے، طرح طرح کی ایذائیں دیتے تھے اور فقط اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایک خدا کو مانتے اور بت پرستی کی مذمت کرتے تھے، ان کو کعبے کے معبد گاہ عالم میں آنے سے روکتے تھے، ان کو اپنے طور پر خدا کی عبادت نہ کرنے دیتے،ان کے ساتھ لین دین تک موقوف کر دیا تھا اور موقع پاتے تو ان پر دست درازیاں کرتے۔ اس حالت میں جو مسلسل گیارہ برس رہی،پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے معتقدین کو برابر یہی تاکید تھی کہ خدا کی راہ میں دنیوی تکلیفات کو بہ امید فلاح عاقبت صبر کے ساتھ برداشت کرو اور مذہب اسلام تھا کہ ان مزاحمتوں اور مصیبتوں میں اپنی صداقت کی وجہ سے چپکے چپکے ترقی کرتا رہاتھا۔ مسلمانوں نے ان تکلیفات سے عاجز آ کر دو بار ترک وطن بھی کیا جس کو ہجرت کہتے ہیں۔ پھر بھی لوگوں نے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ اس اثنا میں مسلمانوں کا گروہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ اپنی حفاظت کر سکتے تھے۔دوسری ہجرت کے دوسرے برس بدر کی مشہور لڑائی ہوئی جس سے اسلام کے غلبے کی ابتدا ہوئی۔جزیرہ عرب میں مسلمانوں کی بہت سی فتوحات ہوئیں جن میں سب سے مشہور اور حقیقت میں جس نے تمام جزیرہ عرب کو بت پرستی سے پاک کر دیا، فتح مکہ تھی۔ میں نے تاریخ میں صدہا فتح مند بادشاہوں اور جنرلوں کا بلادِ مفتوح میں داخل ہونا پڑھا ہے۔ آگے آگے قتل اور پیچھے پیچھےلوٹ مار۔ اور ایک فتح مند پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکے میں داخل ہونا تھا جہاں کے لوگوں نے ان کے ساتھ ایذادہی اور بے حرمتی کو کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبے میں تشریف رکھتے تھے اور شہرِ مکہ میں امن عام کی منادی ہو رہی تھی۔ غرض یہ کہ اسلام فی نفسہ ایسا عمدہ مذہب ہے کہ ادنیٰ درجے کی مغلوبیت اور اعلی مرتبے کا غلبہ دونوں حالتوں میں اس کے پیرو صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ مانا کہ انگریزی عملداری میں اسلام کو غلبہ نہیں مگر وہ اتنا مغلوب بھی نہیں جیسا ہجرت سےپہلے مکہ میں تھا۔بدون سلطنت کے جس قدر مذہبی آزادی ممکن ہے، مسلمانوں کوانگریزی عملداری میں پوری پوری حاصل ہے۔ بلکہ خود مسلمانوں کی عملداری میں بھی آزادی کا یہ رنگ نہیں۔ پس من حیث المذہب کوئی مسلمان کسی فرقے اور عقیدے کا کیوں نہ ہو، انگریزی عملداری کا شاکی ہو نہیں سکتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہندوستان مسلمان ہندوؤں کی دیکھا دیکھی کھانے میں، پینے میں،پہننے میں، نشست و برخاست میں چھوت بہت ماننے لگے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کا تنزل کا جو کچھ سبب ہو، ہندوستان کے مسلمانوں پر ہندوؤں کے اختلاط نے بہت برا اثر ڈالا ہے۔ ہندوؤں میں رہ کر یہ بھی انہیں کی طرح شکی ،ڈرپوک، پست حوصلہ، گھر گھسنے، آرام طلب ہو گئے ۔ مسلمانوں کا یہ عیب کہ انگریزوں سے پرہیز کرتے ہیں اور اس وجہ سے انگریزی عملداری کے بہت سے فائدوں سے محروم ہیں اور یومآفیومآمفلس اور بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں اور گورنمنٹ کو اپنی طرف سے بدظن رکھتے ہیں یعنی مسلمانوں کی اتنی ہندویت تو ان شاءاللہ میں دفع کر دوں گا۔ مسلمانوں کا مذہب جدید العہد ہے اور ابھی اس کی اصلیت دوسرے مذہبوں کی طرح معدوم نہیں ہوئی، پس مجھ کو اپنی کوشش میں ہر طرح کی کامیابی کی امید ہے۔ میں جانتا ہوں نصیحت کا بڑا مؤثر پیرایہ نمونے کا دکھا دینا ہے، سو میں نے یہ باتیں منہ سے نہیں نکالیں جب تک کہ میں نے خود اس وضع کو اختیار نہیں کر لیا۔ جس کو میں چاہتا ہوں کہ سبب مسلمان اختیار کریں۔ میں نے آپ سب صاحبوں کے ساتھ ایک میز پر کھانا کھایا اور آپ کے رو برو میں انگریزی لباس پہنے کھڑا ہوں اور میں یقینآویسا ہی مسلمان ہوں جیسا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ خود مسلمان جن کے مفاد کے لئے میں نے یہ وضع اختیار کی ہے، چھیڑ چھیڑ کر اور ہنس ہنس کر میری زندگی تنگ کر دیں گے مگر ان کی چھیڑ چھاڑ جیسی نا چیز ہو گی ویسی ہی بے ثبات بھی ہو گی۔ تقاضائے وقت اور تعلیم دو میرے بڑے مددگار ہیں اور ان کی تائید سے مجھ کو پورا بھروسا ہے کہ بہت جلد ایک گروہ میری وضع کی تقلید کرے گا۔ اب میں تقریر کو طوالت کی معذرت پر ختم کرتا ہوں۔"
فصل:12
ابن الوقت کا منصوبہ اور لوگوں کی مخالفت:
دنیا میں شاید قوم کی رفارم (اصلاح) سے زیادہ مشکل کوئی اور کام نہیں ہو سکتا، سو بھی یہاں پوری پوری رفارم کا کیا مذکور ہے، پوری رفارم تو وہ تھی جس کا بیڑہ ہمارے پیغمبر (ص) صاحب نے اٹھایا تھا، مبعوث ہوئے عرب میں جس اے بدتر اس وقت روئے زمین پر کوئی قوم نہ تھی۔ اس رفارم کے مقابلے میں کیا بے چارہ ابن الوقت اور کیا اس کی رفارم، وہی مِثل ہے "کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا"۔ اس کی اتنی ہی بساط تھی کہ اُس کو آپ سوجھی اور نوبل صاحب نے بھی سجھائی کہ انگریزی عملداری میں مسلمان بگڑتے چلے جاتے ہیں، یہ تھا ایک واقعۂ بدیہی۔ سبب کی تفتیش کی تو معلوم ہوا انگریزی عملداری میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر، رعیت ہو کر بادشاہ سے نفرت، محکوم رہ کر حکام سے گریز۔ یہاں تک ابن الوقت کی رائے نہایت درست تھی۔ اب اس نے قومی ہمدردی اور سرکاری خیر خواہی کے تقاضے سے چاہا کہ مسلمانوں کی وحشت اور اجنبیت کو دور کر کے حاکم و محکوم میں ارتباط و اختلاط پیدا کر دوں، بس یہ ہے خلاصہ ابن الوقت کی رفارم کا۔ اس نے سوچا کہ معاملہ ہے قوی اور ضعیف اور غالب و مغلوب میں، قوی و غالب پر تو اثر کیا ڈال سکوں گا، "نزلہ بر عضوِ ضعیف" مسلمانوں کو ترغیب دو کہ مماثلت سے، مشابہت سے، انگریزی سیکھنے سے، انگریزی تمدن اختیار کرنے سے، غرض جس جس دھب سے ممکن ہو، انگریزوں کی طرف کو جھکیں۔ ابن الوقت کے حالات مابعد سے ظاہر ہو جائے گا کہ تدبیر جو اس نے اختیار کی غلط تھی یا صحیح اور کہاں تک اس کو اپنے ارادے میں کامیابی ہوئی؟ ہم اس کو ابن الوقت کی کامیابی کی تمہید سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے اس نے آپ وہ طرز اختیار کر لی جس کو وہ رواج دینا چاہتا تھا۔ اس نے غدر کے دنوں میں نوبل صاحب کی جان بچانے سے سرکار انگریز کی خیر خواہی کی اور سرکار نے بھی اس خیر خواہی کا بدلہ دینے میں ایسی جلدی کی کہ برس کے اندر ہی اندر ابن الوقت جاگیردار بھی ہو گیا، ایک دم سے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بھی ہو گیا۔ اب اس نے قوم کی خیر خواہی کا دم بھرا اور رفارمر بنا تو رفارمروں کو جو انعام ہمیشہ سے ملتا آیا ہے اس کے لیے بھی تیار یعنی اگلے ہی دن سارے شہر میں غل تھا کہ ابن الوقت کرسٹان ہو گیا، انگریزوں کے ساتھ کھانا کھایا، انہیں کی طرح کپڑے پہنے۔ افواہ کا قاعدہ ہے کہ لوگوں کے منہ بات پڑی اور ایک ایک کی چار ہوئیں، کوئی یہ بھی کہہ دیتا تھا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اُن انگریزوں کے ساتھ گرجا میں دیکھا، آخر کو نماز ہی کو گئے ہوں گے۔
دوسرا: ارے میاں تم مسلمان ہو کر کہتے ہو' "گئے ہوں گے" توبہ کرو توبہ!
تیسرا: کیوں جی! پہلے سے تو ہم نے کوئی بات دیکھی کیا سنی بھی نہ تھی، یہ ایک دم سے ہوا تو کیا ہو۔
دوسرا: کیا خوب! یک نہ شد دو شد، تم شہر میں رہتے ہو اور اتنا معلوم نہیں (آگے کو جھک کر دبی زبان میں) کہ اس نے غدر میں انگریز کو چھپایا تھا۔
تیسرا: چھپایا تھا تو چھپانے دو اور بھی بہتیروں نے خیرخواہیاں کیں، مخبر بنے، لوگوں کے گڑے دبے مال نکلوائے، آپ کھڑے ہو کر گواہیاں دیں، پھانسیاں دلوائیں، خیر خواہی سے اور کرسٹان ہونے سے کیا تعلق؟
دورسرا: میاں بات یہ ہے کہ دنیا کا لالچ بہت برا ہوتا ہے اور دنیا بھی ایسی کہ بس غدر تو اس شخص کو پھلا ہے، کسی بچے کی تو نکسیر تک نہیں پھوٹی، ایک پیسے کے مال کا نقصان نہیں ہوا۔ گوڑ گانوے کے ضلع میں کسی بیچارے زمیندار کا کئی ہزار کا علاقہ اسی غدر کی علت میں ضبط ہوا تھا، وہ ملا، ڈپٹی کی نوکری پائی! ایک خیر خواہی میں تو اتنی ساری کرامت نہ تھی۔
چوتھا: مگر ہوا بڑا غضب! ایسا خاندانی آدمی کرسٹان ہو جائے، عالم فاضل۔ اسلام کی بڑی بے عزتی ہوئی۔
دوسرا: اسلام کو خدا نے عزت دی ہے اور انشاء اللہ تا قیامت معزز رہے گا اور علم فضل کی کچھ نہ پوچھو، شیطان معلم الملکوت تھا یعنی تمام فرشتوں کا استاد، پھر وہ علم اس کے کیا کام آیا؟
ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں جہاں دیکھو ابن الوقت ہی کا چرچا تھا۔ عوام نے تو ایک بات پکڑ پائی تھی: " کرسٹان ہو گیا کرسٹان ہو گیا۔" ان کے نزدیک انگریزوں کے ساتھ کھانا بلکہ انگریزوں کی طرح میز کرسی پر چھری کانٹے سے کھانا انگریزی لباس پہننا، سب کرسٹان ہونے ہی میں داخل تھا۔ ہندوستانی اخبار والوں کو مضمون کہاں نصیب، ان کو ایک اچھا مشغلہ ہاتھ لگا۔ ابن الوقت نے اگر شہر کا رہنا چھوڑ نہ دیا ہوتا تو لڑکوں کا اس کے پیچھے ہرو پیٹ دینا بھی کچھ تعجب نہ تھا مگر شہر کے باہر چھاؤنی میں اتنی دور جاتا ہی کون تھا اور پھر انگریزوں کے ڈر کے مارے کسی کی ایسی جرات تھی مگر ہاں کچہری میں ہر روز سو پچاس آدمی اس کو انگریزی لباس پہنے، انگریزوں کے ساتھ ٹفن کھاتے، چرٹ پیتے دیکھتے ہی تھے۔شامت تو اگر سچ پوچھو ابن الوقت کے گھر والوں کی تھی کہ ناحق لوگ ان کو آ آ کر چھیڑتے تھے اور یہ بیچارے ابن الوقت کے کارن مفت میں نکو بن رہے تھے۔
قاعدہ ہے کہ جب کسی قوم پر اوبار آتا ہے تو اس کے حرکات، سکنات، معاملات، خیالات، معتقدات سبھی میں روایت آ جاتی ہے، کیا خوب کہا ہے
ع:
ہرچہ گیرو علتی علت شود۔
مسلمانوں کو خدا نے کیسا تو عمدہ مذہب دیا تھا کہ اسی کی بدولت عرب کے وحشی، اونٹوں کے چرانے والے، اس قدر تھوڑے عرصے میں جس کی نظیر ساری دنیا کی تاریخ میں مفقود ہے، گویا تمام روئے زمین کے بادشاہ ہو گئے۔ پھر وہ مذہب سہل و سلیس ہونے کے علاوہ نظرغور سے دیکھو تو اختیاری نہیں بلکہ فطری یعنی بہ عبارت دیگر اضطراری لازمہ انسانیت کہ کسی حال میں انسان سے منفک ہو ہی نہیں سکتا۔ پیغمبر ؐ اسلام کا خاتم النبین اوعر مرسل الی کافتہ الناس ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ دائرہ اسلام بہت وسیع ہے او رپیغمبرؐ صاحب کو کثیر الاتباع ہونے پر ناز بھی تھا۔غرض ایک مسلمان تو قرون اولیٰ کے مسلمان تھے جن کی تمام ہمت گروہ مسلمانان میں مصروف تھی یا ایک مسلمان ہمارے زمانے کے مولوی ہیں کہ بات بات پر لوگوں کو کافر یعنی اسلام سے خارج ٹھہرا دیتے ہیں۔ابن الوقت تو ان کے نرا کافر ہی نہیں بلکہ مجموعہ کفار تھا۔ حنفی، شافعی، سنی، شیعہ، وہابی، بدعتی، مسلمانوں کے جتنے فرقے ہندوستان میں ہیں سب کے علماء نے قرآن کی آیتوں سے، حدیثوں سے سند پکڑ پکڑ کر بالا جماع ابن الوقت کے کفر کے فتوے لکھ دیے۔ ایک فتویٰ تو خود ہماری نظر سے گزرا، فتویٰ کا ہے کو تھا، اچھا خاصا اقلیدس کا پہلا مقالہ معلوم ہوتا تھا، کیوں کہ مربع، مستطیل، بیضوی سب شکلوں کی تو مہریں ا س میں تھیں اور پھر بعضے کف دست کے برابر چوڑے چکلے طغرے، کیسے کیسے پیچیدہ کہ ہمایوں کی بھول بھلیاں کی کیا اصل ہے۔ دلی کا فتویٰ اور دلی ہی کے علماء کی مہریں اور پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس کی مہر ہے۔ آخر نہ رہا گیا، پوچھنا ہی پڑا، کیوں صاحب یہ خادم الشریعت الغراء والملتہ البیضاء المحمدیہ الحافظ الحاج الشیخ ابو الفضائل محمد الشہیر بمعین الدین الحنفی القادری الا ریسی الماز ندرانی ثم البخاری کون بزرگ ہیں؟
صاحب فتویٰ: آپ نے نہیں پہچانا! مولوی مونا جو موچیوں کی مسجد میں جمعے کے جمعے وعظ کہا کرتے ہیں۔
ہم: بارے مولوی مونا صاحب کی مہر بھی فتووں پر ہونے لگی۔
صاحب فتویٰ: اجی حضرت! اگر ان کی مہر نہ کراؤ تو وعظ میں نام لے لے کر ایسی بے نقط سناتے ہیں کہ معاذاللہ مگر بیچارے ہیں صلح کل، اختلافی مسائل میں دونوں طرف والے مہر کرا لے جاتے ہیں ، انکار نہیں۔
ہندوستانیوں کی یہ چھیڑ چھاڑ جو اکثر گالیوں کے قیرب قریب ہوتی تھی، ابن الوقت کو بری تو کیوں لگتی نہ ہوگی مگر ظاہر میں تو اس نے کبھی اس کا اعتنا کیا نہیں، ہمشہ استکراہ کے ساتھ دوسرے کان سے نکال دیا۔ اگر ابن الوقت ایک دم سے کرسٹان ہوگیا ہوتا تو لوگ ایسے اس کے پیچھے نہ پڑتے۔ اس کے عزیز و قریب رو دھو کر اور ماوشما بک جھک کر کبھی چپ کرتے پر کرتے، مگر مشکل یہ تھی کہ ابن الوقت کا ظاہر حال بالکل انگریزیوں کا سا تھا اورپھر وہ کہتا تھا کہ میں مسلمان ہوں، اس کی اسی بات سے مسلمان چڑتے تھے۔نوبل صاحب کے ڈنر میں ملکی فوجی جتنے انگریز اس وقت دہلی میں تھے، سبھی تو موجود تھے۔ سب نے ابن الوقت کو دیکھا، حرف بہ حرف اس کی تقریر کو سنا۔ چند روز بعد ابن الوقت نے ساری چھاؤنی کو بڑا کھانا دیا۔ اس میں سب تو نہیں مگر جس جس سے نوبل صاحب کو زیادہ ربط تھا، چاروناچار آیا اور دوچار صاحب لوگ اور بھی آئے۔ بے تکلفی ہوتے ہی ہوتے ہوتی ہے، ایسا کہیں دیکھنے میں نہیں آیا کہ صاحب سلامت کے بعد ہی تپاک شروع ہوجائے اور یہاں تو رکاوٹ کی بہت سی وجوہ تھیں، اول تو بالکل ایک نئی بات تھی، شروع عملداری سے آج تک ان اطراف میں کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ کسی ہندوستانی نے انگریزی وضع اختیار کرکے برابری کے دعوے سے انگریزی سوسائٹی میں گھسنے کا ارادہ کیا ہو۔ راجہ، بابو ، نواب، بڑے بڑے عہدہ دار انگریزوں سے ملنے کی سبھی کو ضرورت واقع ہوتی تہتی تھی مگر اپنے ہندوستانی قاعدے سے ملتے تھے: سر پر پگٹری، شملہ، عمامہ، گلے میں قبا، چغہ۔ جاڑا ہوا تو اوپر سے شالی رومال، اندر کمر بندھی ہوئی، اتوار اور کچہری کا وقت بچا کر سویرے سے جا موجود ہوئے، سواری کو احاطے کے باہر چھوڑا ، چپڑاسی سے اطلاع کرائی، منتظر طلب برآمدے میں بیٹھے، بلالیے گئے، جوتیاں دروازے کے باہر اتاریں، سامنا ہوا، درو سے جھک کر سلام کیا، آہستہ سے مختصر طور پر مطلب کی دو باتیں کیں، رخصت چاہی، صاحب کا سامنا کتراتے ہوئے باہر نکلے، اردلیوں، شاگردپیشوں کا معمول دیا اور گھر کا راستہ لیا۔ابن الوقت نے ملاقات کا ایک نرالا ڈھنگ نکالا کہ جب تک کوئی دوست معرفت نہ کرادے وہ کسی انگریز سے ملتا ہی نہ تھا اور ملتا بھی تو کسی طرح کہ گوڑا ہے تو گھوڑا اور بگھی ہے تو بگھی ادھر بر آمدے میں اردلی دور سے گھوڑے کی ٹاپ سن کارڈ کے لیے منتظر کھڑا ہے، چند قدم استقبال کر، کارڈ لے بھاگا ہوا اندر گیا۔ آگے آگے اردلی، پیچھے پیچھے ابن الوقت، بیس بسوئے تو صاحب خانہ سے برامدے میں مٹھ بھیٹر ہوئی ورنہ خیر عین کمرے کے درازے میں، اور اگر صاحب خانہ اس میں مضایقہ کریں تو ابن الوقت سوار ہو یہ جا وہ جا۔ پھر ادب قاعدے کی تو خبر نہیں، آنکھیں چار ہوتے ہی ایک ساتھ دونوں کے منہ سے نکلا "گڈ مارننگ، ہو ڈو یو ڈو" ایک ساتھ ہاتھ بڑھائے، مصافحہ ہوا، دونوں اندر داخل۔ معلوم نہیں کیا باتیں ہوئیں مگر زور سے ہنسنے کی آواز تو برابر چلی آتی تھی۔غرض ابن الوقت نے انگریزیوں کے ساتھ برتاؤ ہی اس طرح کا شروع کیا کہ اکثر انگریز اس کے ملنے سے پہلو تہی سی کرتے تھے۔ پھر ابن الوقت میں زبان انگریزی کی بھی کوتاہی تھی، علاوہ بریں اس کا تعلق انگریزوں کے ساتھ بالکل جدید تھا۔ ان وجوہ سے اس کو انگریزوں نے اپنی سوسائیٹ میں لیا تو سہی مگر کشادہ دلی کے ساتھ نہیں۔ تاہم اس کا تعارف انگریزوں کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا تھا اور ہندوستانی بھائیوں کے حسد کے مشتعل کرنے کو تنا کافی تھا۔ یہی و ہ مخالفت تھی جو تمام عمر ابن الوقت کو طرح طرح کی ایذائیں دیتی اور اس کے اصل مطلب میں کھنڈت کرتی رہی۔ انگریزوں کو رشک و حسد کی کوئی وجہ نہ تھی مگر ان میں بھی اکثر بہ زعم حکومت ابن الوقت کے سخت مخالف تھے۔ اس میں شک نہیں نوبل صاحب اس کے پورے طرف دار تھے، وہ شریف تھے، معزز عہدہدار تھے، انگریزوں میں ان کی بڑی وقعت تھی ، ان کی کارگزاری اور لیاقت گورنمنٹ کے نزدیک مسلم تھی اور سب سمجھتے تکہ ایک نہ ایک دن ان کو کوئی بڑا کام ہونے والا ہے مگر آخر تھے تو ایک متنفس، ان کی مدد سے سردست اتنا بھی کیا کم تھا کہ تمول اور تعزز نے اعتبار سے ابن الوقت کو حکام وقت سے ملنے کا حوصلہ ہوا اور انگریزوں کے ساتھ جو کچھ معرفت ہوئی وہ بھی انہیں کی وجہ سے ہوئی۔ اگر نوبل صاحب کا قدم درمیان میں نہ ہوتا تو منہ سے رفارم کا نام نکالنا بھی مشکل تھا۔ عرض بہ نظر ںاہر جتنے اتفاقات مساعد کا جمع ہونا ممکن تھا، سب مہیا تھے: نوبل صاحب جیسا عالی رتبہ انگریز مرلی اور سرپرست، خود ابن الوقت خیرخواہ سرکار، جاگیردار،اکسٹرا اسٹنٹ' اپنے ہی شیر میں حاکم اور کام بھی بغاوت کی تحقیقات کہ ان دنوں کوئی حکومت اس کو لگا نہیں کھاتی تھی۔زمینداری اور نوکری ملا کر آمدنی ایسی معقول کہ جس کی ایک ٹانگ انگریزوں کی طرح ولایت میں پھنسی ہوئی نہ ہو' جس شان سے چاہے رہے'پھر جس وضع سے رہنا چاہتا تھا با اعتبار شکل و صورت اس کے قابل اور مناسب۔ با ایں ہمہ ابتدا سے جو مذا حمتیں پیش آنی شروع ہوئیں تو آخر تک بیچارے ابن الوقت کو دم نہ لینا دیا اور کوئی ہوتا توہجوم مخالفت سے گھبرا کر اس کام کو کبھی کا چھوڑ بیٹھا ہوتا مگر ابن الوقت پرلے درجے کا مستقل مزاج آدمی تھا' مشکلات کو دیکھ کر اور دلیر ہوتا'اور رنجیدہ ہوتا'افسوس کرتا'اس کو غصہ بھی آتا مگر کبھی ایک لمحہ کے لیئے بھی اس کو یہ خیال نہیں ہوا کہ جو وضع اختیار کی ہے اس کوچھوڑوںیا جس رفارم کا بیڑا چکا ہوں اس کے رواض دینے میں کوتاہی کروں۔ شروع میں مذہبی بحث ابن الوقت کے پروگرام سے بالکل خارج تھی مگر مسلمانوں نے چھوٹتے اس سے مذہبی چھیڑ نکالی جس سے ابن الوقت کو یہ خیال ہوا کہ مذہب ہی نے مسلمانوں کو بنایا اور مذہب ہی ان کو بگاڑ رہا ہے' بے مذہب کے یہ ٹکڑا تو توڑتے ہی نہیں' تاوقتیکہ ان کے دین کی اصلاح نہ دنیاوی فلاح ہرگز نہیں ہوسکتی۔ یہ سمجھ کر اس نے یہ مجبوری مسائل دین میں دست اندازی شروع کی۔ یہ بحث اگر اسی حد تک رہتی جہاں تک ابن الوقت کو اپنی رفارم میں اسکی ضرورت تھی تو چنداں حرج نہ تھا مگر بحث کا نام آیا اور طرفین سے کٹھ حجتی شروع ہوئی۔ ہمارے ہندوستان ہی میں کوڑیوں مذہب ہیں اور ہمیشہ ایک دوسرے کا رد کرتے رہتے ہیں۔ہم نے تو دیکھا کیسا' سنا بھی نہیں کہ کوئی مذہب مناظرے میں مغلوب ہوکر معدوم ہوگیا ہو بلکہ اختلاف مذاہب ہے کہ یوماََ فیوماََ بڑھتا چلا جاتا ہے۔یوں تو سنتے تھے'کہ مسلمانوں میں ستر دو بہتر فرقے ہونگے مگر ہندوستان میں سنی'شیعہ'حنفی'شافعی'صوفی گنتیکے چند فرقے دکھائی دیتے تھے۔اب ہمارے دیکھتے دیکھتےایک سُنییوں میں وہابی'بدعتی'مقلد'دوالین'ذوالین کتنے سارے تنے نکل کھڑے ہو ئے اور یہ آفت اختلاف نہ صرف ہندوستان میں ہے اور نہ فقط مذہب میں بلکہ ہر ملک میں اور ہر بات میں۔
الغرض مذہب کے اعتبار سے ابن الوقت نے ڈیڑھ اینٹ کی جدی مسجد بنا کھڑی کی۔انگریزی تعلیم آزادی کے خیالات دلوں میں پیدا کرچکی تھی اور مطلق العانی کی دھن نے ہزار ہا آدمیوں کو بے چین کر رکھا تھا اور دلوں کی بھڑاس نکالنے کے لیے موقع تاک رہے تھے۔ایسے لوگوں نے ابن الوقت کی آڑ کو بس غنیمت سمجھا اور نئے طور کے مسلمانوں کا گروہ بہت جلد کثیر الانفار ہوگیا جیسے حشرات الارض کہ برسات کا چھینٹا پڑا اور لگے رینگنے۔ اگر تبدیلِ وضع اور ترمیمِ عقائد کے ساتھ موجبات ترغیب بھی ہوں تو ہم لوگوں میں کچھ ایسی بھیڑیا(کذا) چال ہے کہ آدھے سے زیادہ مسلمان نیا طریق اختیہار کرلیتے مگر ادھر تو بھائی بندوں نے لتاڑا ادھر انگریزوں نے بے رخی کی اور تبدیلِ حالت کسی کو سزاوار نہ ہوئی ان لوگوں کی وہی مثل ہوگئی" ازیں سو راندہ وزاں سو درماندہ" یعنی پیدا ہوتے ہی کچھ ایسی اوس پڑی کہ ٹھٹر کر رہ گئے۔
فصل:13
انگریزی وضع کے ساتھ اسلام کا نبھنا مشکل ہے:
مذہب نام ہے انسان کے خاص طرح کے دل خیالات کا اور اس لفافے کو خدا نے ایسی مضبوطی کے ساتھ بند کیا ہے کہ ایک کے ضمائر پر دوسرا شخص کسی ڈھب سے مطلع ہو ہی نہیں سکتا۔ علاوہ بریں مذہب ایک معاملہ ہے بندے میں اور خدا میں اور کسی شخص کو یہ حق نہیں اور ضرورت بھی نہیں کہ دوسروں کے مذہبی معاملات میں دخل دے۔ ان اصول کی بنا پر ہم کو ابن الوقت کے مذہب سے متعرض ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر از بس کہ وہ مسلمسان کی دنیا و دین دونوں کی اصلاح کا مدعی تھا ہم کو چار و ناچار دیکھنا پڑا کہ اس کے مذہبی خیالات کیا تھے۔ ہم ان لوگوں سے سنی ہوئی کہتے ہیں جن کو ابن الوقت کے ساتھ رات دن کی نشست برخواست، ہمسائیگی اور قرابت قریبہ کے تعلقات تھے کہ اٹھارہ بیس برس کی عمر تک ابن الوقت کا یہ رنگ رہا کہ جیسے بڑے عابد متشرع مسلمان ہوتے ہیں: وہ نوافل اور مستجبات کا اس قدر اہتمام رکھتا تھا کہ ایسا اہتمام فرض واجب کا خدا ہم کو نصیب کرے، پانچوں وقت جامع مسجد کی اول جماعت کی تکبیر تحریمہ ناغہ نہیں ہونے پاتی تھی اور تہجد اور اشراق کے علاوہ تحیتہ المسجد، صلواۃ التسبیح منزل فیل، دلائل الخیرات، حزب البحر اور خدا جاتے اور کتنے اور وظائف، جمعے کے دن کبھی اس کے گھر جانے کا اتفاق ہوا ہے تو پہر دن چڑھے سے نماز جمعہ کی تیاری ہو رہی ہے۔
ایام بیض کے روزے داخل معمولات تھے، پھر مدت تک ترک حیوانات اور چلہ کشی وغیرہ مذہبی ریاضتوں کی زحمت اٹھاتا رہا۔ انہیں دنوں لوگ خیال کرتے تھے کہ شاید وہ شاہ حقانی صاحب سے بیعت کرنے والا ہے۔پھر ایک زمانے میں اس کو ہندو جوگیوں اور سنیاسیوں کی طرف میلان رہا، پھر جو سنبھلا تو اہل حدیث میں جا شامل ہوا جن کو لوگ تغتاً وہابی کہتے ہیں۔ غدر سے چند روز پہلے وہ پادریوں کا ایسا گرویدہ تھا کہ بس کچھ پوچھو ہی نہیں۔ نوبل صاحب کی صحبت میں اس کے مذہبی خیالات نے دوسرا رنگ پکڑا، یہاں تک کہ انگریزوں میں جا ملا۔اس سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے مذہبی خیالات میں ایک طرح کا تزلزل ضرور تھا مگر تبدیل وضع تک ضروریات دین میں اس کمی سرزد نہیں ہوئی بلکہ تبدیل وضع کے بعد بھی لوگوں نے اس کو مسجد میں جماعت سے نہیں، بارہا اکیلے نماز پڑھتے دیکھا، یہاں تک کہ شروع شروع میں جن دنوں اس کو نماز روزے کی بہت پرچول تھی، کچہری کے عملے، ہندو مسلمان، سب قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ کیسے کام میں مصروف ہوں، اویر سویر کی تو کہ نہیں جاتی مگر نماز ابھی تک تو چھوڑی نہیں، ہم تو ہر روز پرائیویٹ روم میں ظہر کی بلکہ جس دن دیر تک کچہری رہتی ہے، عصر کی بھی نماز پڑھتے دیکھتے ہیں۔لیکن انگریزی وضع کے ساتھ نماز روزے کا نبھنا ذرا مشکل تھا، کوٹ تو خیر اتار الگ کھونٹی پر لٹکا دیا، کم بخت پتلون کی بری مصیبت تھی کہ کسی طرح بیٹھنے کا حکم ہی نہیں، اتارنا اور پھر پہننا بھی وقت سے خالی تھا، اس سے کہیں زیادہ دقت طہارت کی تھی جو نماز کی شرط ضروری ہے۔ پھر اکثر اتفاق پیش آ جاتا تھا کہ ابن الوقت اپنے پرائیویٹ روم میں نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی صاحب اس کی کچہری میں آ نکلے اور اجلاس خالی دیکھ کر واپس چلے گئے یا نماز کا وقت ہے اور انگریزوں نے آ گھیرا ہے، ان کو چھوڑ کر جا نہیں سکتے یا کوئی صاحب کچہری برخاست کر کے جانے لگا تو ابن الوقت کے پاس سے ہو کر نکلا "کیوں مسٹر ابن الوقت! ہوا خوری کو چلتے ہو یا چلو ذرا انٹا کھیلیں۔" یہ اور اس طرح کے دوسرے اتفاقات ہر روز پیش آتے تھے اور نماز کا التزام ممکن نہ تھا کہ باقی رہ سکے۔
ایک بڑی قباحت یہ تھی کہ اکثر انگریز مطلق پابندی مذہب کو حمق اور سخافت سمجھتے تھے۔ غرض نماز پر تو انگریزی سوسائٹی کا اثر یہ دیکھا کہ پہلے، وقت سے بے وقت ہوئی، پھر نوافل، پھر سنن جا کر نرے فرض ہوئے، وہ بھی پانچوں وقت پہلی رکعت میں سورۃ عصر تو دوسری میں سورۃ کوثر، پھر جمع بین العصرین و المغربین شروع ہوا، پھر قضائے فائتہ پھر بالکل چٹ۔کھانے پینے میں احتیاط کے باقی رہنے کا کوئی محل ہی نہ تھا۔ابن الوقت کو انگریزوں کے پرچانے کی پڑی تھی اور وہ بے شراب کے پرچ نہیں سکتے تھے۔ ابن الوقت نے کون سی بات اٹھا رکھی تھی کہ وہ شراب خوری کے الزام سے ڈرتا مگر ہم کو تحقیق معلوم ہے کہ وہ شراب سے نہ بہ پاس مذہب اسلام محتزر تھا بلکہ اس وجہ سے کہ ڈاکٹر نے ا س کو ڈرایا تھا کہ اگر تم شراب پیو گے تو کوڑھی ہو جاؤ گے۔ اس پر بھی بہت سے انگریزی کھانے ہیں کہ شراب ان کے مسالے میں داخل ہے، بہتری دوائیں ہیں کہ بدون شراب کے نہیں بن سکتیں بلکہ ان لوگوں کی طب میں شراب خود دوا ہے کثیر الاستعمال۔ انگریزی تمدن اختیار کرنا اور شراب سے پرہیز رکھنا ایسا ہے کہ کوئی شخص کوئلوں کی دوکان میں رہے اور منہ کالا نہ کرے۔ رہے انگریزی سوسائٹی کے بڑے معزز ممبر کتے، کیوں کر ممکن تھا کہ جان نثار جو ابن الوقت کی تبدیل وضع میں مشاطہ کا کام دے رہا تھا، انگریزیت کی شرط ضروری کو بھول جاتا۔ اس نے پہلے ہی سے ابن الوقت کے لیے کئی قسم کے کتے بہم پہنچا رکھے تھے، ان میں بعض ایسے بھی تھے کہ ہر وقت ہم زاد کی طرح ابن الوقت کے ساتھ لگے رہتے تھے۔غرض تبدیل وضع سے ایک ہی مہینے کے اندر اندر ظاہر اسلام کا کوئی اثر ابن الوقت اور اس کے متعلقات میں باقی نہ تھا۔ اگر کوئی انجان آدمی ابن الوقت کی کوٹھی میں جا کھڑا ہوتا، ہرگز نہ پہچان سکتا تھا کہ اس میں کوئی انگریز رہتا ہے یا ہندوستانی، بھلا آدمی جس کو انگریزی کے خبط نے گھر سے، خاندان سے، ابنائے جنس سے، شہر سے، چھڑا کر تن تنہا جنگل میں لا کر ڈال دیا ہے۔ کسی انسان سے کسی طرح کی غلطی ہونا کچھ تعجب کی بات نہیں مگر یہ کہ خدا نے اس کو معصوم پیدا کیا ہو۔ ابن الوقت سے بھی ایک غلطی ہوئی کہ اس تبدیل وضع کو مفید سمجھا یہاں تک اس کی غلطی اس کے یا کسی دوسرے کے حق میں کوئی بڑی قباحت پیدا نہیں ہو سکتی تھی مگر آدمی تھا ذہین، کم بختلگا اپنے افعال کے جواز و استحسان کی تاویلیں گھڑنے۔ اول تو اصرار خلقتاً اس کے مزاج میں داخل تھا، دوسرے مسلمانوں نے جو اس کی تمام حرکات و سکنات کو ارتداد کہنا شروع کیا اس سے اس کی اور بھی بڑھتی گئی اور مسلمانوں کو تو خیر اس سے کوئی فائدہ پہنچا ہو یا نہ مگر باب تاویل مفتوح کرکے اس نے مذہب اسلام میں تو بڑا بھاری رخنہ ڈال دیا۔ انگریزی تعلیم کی گھوس عمارت مذہب کے پیچھے ایسی پنجے جھاڑ کر پڑی ہے کہ کھود کھود کر سارے مذہبوں کی جڑیں کھوکھلی کر دیں حتٰی کہ عیسائیت کی بھی۔ اسلام کے حصے کی یہ دیمک اور بھی نکل پڑی، قید مذہب سے طبیعتیں تھیں ملول اونگتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ملا۔ کیا کریں دل تو ہمارا بھی للچاتا ہے کہ چلیں ابن الوقت کے ہاتھ پر بیعت کر لیں، او امرو نواہی کی کشمکش سے نجات ملے مگر کانشنس بھی چین لینے دے۔ابن الوقت اور اس کے سارے اتباع یا یوں کہو کہ جو اس کے ہم خیال تھے۔ عقل کے کھونٹے کے بل پر کودتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انگریزی خوان جو نری ٹوٹی پھوٹی انگریزی پڑھ لینے سے اپنے تئیں بڑا دانشمند سمجھنے لگے تھے جلد اس کے مغالطے میں آ جاتے تھے۔
فصل:14
مذہب اور عقل:
ہم کو تو اس کتاب میں ان لوگوں کے ساتھ مناظرہ کرنا منظود نہیں مگر اتنا تو خواہ نہ خواہی کہنا پڑتا ہے کہ بلاشبہ مبدا فیاض نے انسان کو ظاہری باطنی جتنی قوتیں دی ہیں سب میں عقل بڑی زبردست ہے اور وہی مدار تکلیف شرع بھی ہے لیکن بیش بریں نیست کہ عقل بھی ایک قوت ہے اور جس طرح انسان کی دوسری قوتیں محدود اور ناقص ہیں مثلاََ آنکھ کے ایک خاص فاصلے پر دیکھ سکتی ہے اس سے باہر نہیں۔پھر بے روشنی کے کام نہیں دیتی'اجسام کثیف میں نفوذ نہیں کرتی 'اگر دیکھنے والا خود متحرک دیکھتا ہے اور اپنے تئیں ٹھرا ہوا' تیز حرکت مشکل معلوم ہوتی ہے جیسے لڑکے لکئی سے کھیلتے ہیں' پیالے میں تھوا سا پانی بھر کر لکڑی کھڑی کریں تو لچکی ہوئی دکھائی دے گی'شفاف پانی کی تہ کی چیزیں اوپر کو ابھری ہوئی نظر آ تی ہیں اور اسطرح کی اور بہت سی غلطیاں نظر سے ہوتی ہیں جن کی تفصیل علم مناظر میں موجود ہے'غرض جس طرح مثلاََ ہماری قوت باصرہ محدود اور ناقص ہے اس طرح عقل کی رسائی کی بھی ایک حد ہے 'وہ بھی نقصان سے بری نہیں اور اس سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں ۔غلطی کے لیے تو اختلاف رائے کی دلیل کافی ہے۔ ہند سے کے علاوہ جس کے اصول بدیہیات پر مبنی ہیں اور اسی وجہ اس میں اختلاف ہو نہیں سکتا ڈاکٹر 'فلسفی 'حج 'ایسٹرانومرز(ہیت دان) پالیٹیشنز(مدبران ملک)اہل مذاہب وغیرہ وغیرہ سبھی کو دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے لڑتے مرتے ہیں۔منطق کے قاعدےمنقبظ ہوئے'مناظرے کے اصول ٹھرائے گئے مگر اختلاف نہ کم ہوا اور نہ تاقیامت کم ہو۔"ولا یزالان مختلفین الا من رحم ربک ولنالک خلقہم۔"
جب ہست و نیست کا اختلاف ہو تو ضرور ایک بر سر غلط ہے۔اگرچہ عقل انسانی کا اختلاف رائے سے بھی مستنبط ہوسکتا ہے مگر ہم ذرااس کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں۔ دو ڈھائی سو برس کے عرصے میں اہل یورپ کو سینکڑوں باتیں ایسی دریافت ہوئیں کہ کسی کو کیمیا کا حکمی نسخہ مل گیا ہوتا اور وہ اس کو عام بھی کردیتا تو اتنا فائدہ نہ پہنچتا جتنا کہ ان ماڈرن ڈسکوریز یعنی زمانہ حال کی دریافتوں سے ہوا اور جن اقبال مندوں کو خدا نے واقعات اور موجودات نفس الامری میں غوروغوض کرنے کی دھن لگادی ہے خدا ان کی کوششوں کو مشکور و کامیاب کرتا ہے'بحر بے پایاں موجودات میں غوطے لگارہے ہیں اور معلومات جدید کے بے بہا موتی ہیں کہ برابر نکلے چلے آتے ہیں۔ "وان من شئی الاعنلناخزائنہ و مننزلہ الابقدر معلوم۔" ان ماڈرن ڈسکوریز میں سے زیادہ نہیں صرف ایک چیز عام فہم لو جس سے انگریزوں کے طفیل میں ہم بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں'ریل۔اب ہم پوچھتے ہیں کہ دنیا میں گھر گھر آگ تھی'گھر گھر ہنڈیاں پکتی تھیں'ہر ہر متنفس بھاپ سے بخوبی واقف تھا۔ سینکڑوں ہزاروں برس پہلے سٹیم (بھاپ)کی طاقت کیوں معلوم نہیں ہوئی اور یہی سوال ہر ڈسکوری کی بابت ہوسکتا ہےجو اب تک ہوئی یا آئیندہ کسی وقت میں ہو۔سر اسحاق نیوٹن جس کو سب سے پہلے مسئلہ کشش کا الہام ہوا' کہتا تھا کہ خدا کی بے انتہا قدرت کے سمندر بے شمار موتی بھرے پڑے ہیں اور میں تو ابھی کنارے پر بیٹھا ہوا بچوں کی طرح سیپیاں اور گھونگے جمع کر رہا ہوں۔ یہ مقولہ تھا اس شخص کا جس نے زمین اور آسمان کے قلابے ملا کر نظام بطلیموس کی جگہ اپنا نظام قائم کیا آج سارا یورپ اس کے نام پر فخر کرتا ہے۔ جن کو خدا نے عقل دی ہے وہ تو یوں اپنی نارسائی کا اعتراف کرتے ہیں اور ایک ہمارے زمانے کے انگریزی خواں ہیں کہ سیدھی سی اوقلیدس کی نئی شکل پوچھو تو بغلیں جھانکنے لگیں اور لن ترانیاں یہ کہ " ہمچو ما دیگرے نیست۔" پس جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جاتا ہے عقل انسانی کا قصور ہے کہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ اب سے زیادہ نہیں صرف ڈیڑھ سو برس پہلے کسی کی عقل میں یہ بات آ سکتی تھی؟ کہ مہینوں کی مسافت ہم گھنٹوں میں طے کر سکیں گے یا ہزار ہا کوس کا حال چند لمحے میں معلوم کر لیا کریں گے یا آگ سے برف جمائیں گے یا کپڑے کی کل میں کپاس بھر کر اچھے خاصے دھلے دھلائے تہ کیے ہوئے تھان نکال لیا کریں گے اور ابھی کیا معلوم کہ ہم کیا کیا کر سکیں گے مگر پھر بھی رہیں گے آدمی، عاجز، ناچیز، بے حقیقت۔بھلا آدمی کیا عقل پہ ناز کرے گا جب کہ اس کو پاس کے پاس اتنا تو معلوم ہی نہیں کہ روح کیا چیز ہے اور اس کو جسم کے ساتھ کس طرح کا تعلق ہے۔ وقت کے ازلی ابدی ہونے پر خیال کرتے ہیں تو انسان کی ہستی ایسی بے ثبات دکھائی دیتی ہے جیسے دن رات میں ایک "طرفتہ العین" بلکہ اس سے بھی کم اور اس ہستی پر انسان کے یہ ارادے اور یہ حوصلے کہ گویا زمین اور آسمان میں سمانا نہیں چاہتا۔ پھر کیسے کیسے لوگ ہو گزرے ہیں کہ اس سرے سے اس سرے تک ساری زمین کو ہلا مارا اور مر گئے تو کچھ بھی نہیں، لاکھوں قسم کی مخلوقات کا ایک چکر سا بندھا ہوتا ہے کہ زمین سے پیدا ہوتے اور اسی میں فنا ہوجاتے ہیں۔ کسی کی عقل کام کرتی ہے کہ یہ کیا ہو رہاہے اور کس غرض سے ہو رہا ہے؟جان تو ایک قسم کے نباتات میں بھی ہے مگر جانوروں کے بہت سے افعال انسان سے ملتے ہوئے ہیں بلکہ حیوانات بعض باتوں میں انسان پر بھی شرف رکھتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے تمام کمالات وہبی اور فطری ہیں، پھر وہ کون سی تکمیل ہے جس کے لیے ان کو یہ ہستی دی گئی ہے۔ انگریزوں نے تحقیقات کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا مگر شروع سے اب تک کسی ایک جگہ یا کسی ایک چیز یا کسی ایک بات کا مسلسل پتہ نہ چل سکا۔ زمانہ حال سے جس قدر پیچھے کو دور ہوتے جاتے ہیں منظر تاریخ دھندلا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اب سے چار پانچ ہزار برس پہلے کا کسی کو کچھ حال ہی معلوم نہیں کہ دنیا کا کیا رنگ تھا۔عقل انسانی کی نارسائی اس سے بھی بڑھ کر کیا ہوگی کہ آج تک کسی پر کسی چیز کی ماہیت ہی منکشف نہیں ہوئی، جانا تو کیا جانا "اغراض" وہ بھی شاید فی صد دو مثلاً پانی کہ ہم اس کا اتنا ہی حال جانتے ہیں کہ سیال ہے سہل الانقیاد ہے یعنی جو شکل چاہو آسانی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے، آمیزش سے پاک ہو تو شفاف ہے، نشیب کی طرف بہتا ہے، وزن مخصوص کے قاعدے سے 33 فٹ سے زیادہ ہوا میں بلند نہیں ہو سکتا، حرارت کے اثر سے ہوا بن جاتا ہے یا اگر علم طبعی کے کسی ماہر سے پوچھو تو شاید دو چار خواص اور بیان کر سکے گا مگر یہ سب آثار ہیں نہ ماہیت، ماہیت کا نام آیا اور عقل گم ہوئی اگرچہ ابن الوقت یا ہمارے زمانے کے بڑے سے بڑے انگریزی خواں ہی کیوں نہ ہوں۔بات کیا ہے کہ دنیا ہے عالم اسباب، یہاں واقعات کا ایک سلسلہ ہے، ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا واقع ہوتا رہتا ہے۔ ہم واقعہ متقدم کو سبب اور علت کہتے ہیں اور واقعہ متاخر کو مسبب، معلول، نتیجہ۔ اگرچہ سبب کے قرار دینے میں اکثر چند غلطیاں ہوتی ہیں مگر فرض کرو کہ ہم سبب کے قرار دینے میں غلطی نہ بھی کریں تاہم سبب اور مسبب میں جو علاقہ ہے آج تک اس کا راز کسی پر نہیں کھلا مثلاً جلانا آگ کا خاصہ ہے، مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے، مگر کوئی نہیں بتا سکتا کیوں؟ ذرا آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھو تو روئے زمین کے سارے ریگستانوں میں اتنے ذرے نہ ہوں گے جتنے ستارے آسمان میں بھرے پڑے ہیں، پھر یہ ستارے دیکھنے میں چھوٹے چھوٹے نقطے نظر آتے ہیں اور درحقیقت ایک ایک بجائے خود ایک جہان ہے کہ ہماری زمین کی اس کے سامنے کچھ بھی حقیقت نہیں۔ غرض سوچنے سمجھنے والے دنیا سر تا سر طلسم حیرت ہے۔جب دنیاوی امور میں عقل انسانی کی نا رسائی کا یہ حال ہو کہ کسی بات کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتی تو دین میں وہ کیا ہماری راہبری کرے گی۔
تو کار زمیں را نکو ساختی
کہ با آسمان نیز پرداختی
یہ دنیا تو پھر بھی عالم شہود ہے کہ ہم اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی آنکھوںسے دیکھتے اور تھوڑا یا بہت اس میں تصرف بھی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں اور دین خبر دیتا ہے کہ اس دنیا کے سوائے ایک جہان اور ہے ، یہ ظاہر ہے وہ غائب، یہ فانی ہے وہ باقی، یہ مجاز ہے وہ حقیقت، یہ تمہید ہے وہ نفس مطلب، یہ امتحان ہے وہ نتیجہ، یہ سفر ہے وہ منزلِ مقصود، یہ خواب ہے وہ تعبیر، یہ افسانہ ہے وہ حق الامر۔ ظاہر ہے کہ عقلِ انسانی اس کو جہان کے متعلق کطھ بھی نہیں جاننا چاہئیے کیونکہ وہ اس کو منتہائے رسائی سے بھی بہت دور پرے ہے لیکن خدا کی بے انتہا مہربانی سے بعید تھا کہ انسان جو اس کی مخلوقات میں سب سے افضل ہے اس جہاں سے بالکل بے خبر رہے اور جس طرح اس نے اور چیزوں کو دوسرے خواص بخشے ہیں عقل انسانی کو نیک و بد کی تمیز عطا فرمائی کہ جاہل سے جاہل اور وحشی سے وحشی بھی بھلائی کی طرف راغب ہے نہ کسی دنیاوی مفاد کی طمع سے اور برائی سے ہارب ہے اور نہ کسی دنیاوی نقصان کے خوف سے بلکہ گویا انسان کا دل مقناطیسی سوئی اور نیکی شمال کی سمت ۔ بس اس جہان کے متعلق رسائی، معلومات، واقفیت جو کچھ سمجھو یہ انسانی فطرت ہے کہ آدمی بالطبع نیکی کو پسند اور بدی کو نا پسند کرتا ہے۔ پھر انسان کی عقل اپنی طرف سے کچھ کمی نہیں کرتی، بہتیرا زور مارتی ہے کہ وہاں کی حقیقت دریافت کروں مگر کچھ پتہ نہیں
چلتا ہے۔
حال عدم نہ کچھ کھلا گزرے ہے رفتگاں پہ کیا
کوئی حقیقت ان کی کہتا نہیں بری بھلی
نیکی بدی کی امتیاز کے ساتھ اس کو اتنی بات اور بھی سوجھتی ہے کہ انسان کے ہر ایک فعل کو ایک نتیجہ لازم ہے، اگرچہ بسا اوقات بعض افعال کے نتائج اسی دنیا میں واقع ہو جاتے ہیں مگر بعض کے نہیں بھی ہوتے اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیاوی نتائج کے علاوہ طبیعتیں کسی اور نتیجے کی بھی منتظڑ رہتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک جہان اور ہونا چاہیے اور اس کی ضرورت ہے۔ نہیں معلوم کیا سبب ہے کہ دل خودبخود اندر سے گواہی دیتا ہے کہ مرنے سے تو ہمارا پیچھا چھوٹتا ہوا نظر نہیں آتا، مرے پیچھے ہم کسی حالت میں رہیں مگر رہیں گے ضرور۔ بس یہاں تک عقل کی پرواز تمام ہوئی۔
اگر یک سر موئے برتر پرم
فروغِ تجلی بسوزو پرم
مگر اس سے تو کچھ بھی کشود کار نہ ہوا۔ دل جو اس جہان کے تفصیلی حالات کے مشتاق تھے بدستور جویا کے جویا رہے۔ اب دین کی سرحد سے آگے بڑھنا چاہتے ہو تو چراغ عقل گل کرو اور آفتاب جہاں تاب وحی کو اپنا ہادی اور راہنما قرار دو۔
اس بیان سے اگرچہ مختصر ہے، معلوم ہو جائے گا کہ امور دین میں عقل انسانی کو کہاں تک مدخل ہو سکتا ہے۔ ابن الوقت نے کچھ یہ تھوڑی غلطی نہیں کی کہ مذہب کو محکوم عقل بنانا چاہا پس اس کے مذہبی رفارم کی بسم اللہ ہی غلط تھی اور اس کو نہ صرف اسلام سے اختلاف تھا بلکہ تمام دنیا کے مذاہب سے۔ یہ سچ ہے کہ انسان اپنی تمام قوتوں کے استعمال میں مجبور ہے اور نہیں ہو سکتا کہ وہ عقل رکھتا ہو اور اس سے کام نہ لے مگر ہمارا مطلب یہ ہے کہ جسمانی یا عقلی جتنی قوتیں ہیں سب کے استعمال میں اعتدال شرط ہے اور علم اخلاق کا ماحصل بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص عقل کو مذہب کی کسوٹی بنانا چاہے تو اس کو ارادے میں ویسی ہی کامیابی کی توقع رکھنی چاہئیے جیسے کہ وہ شخص رکھ سکتا ہے جو باصرہ سے سامعہ کا یا شامہ سے ذائقہ کا کام لینے کا قصد کرے۔ دین کی دولت طبیعت کی چالاکی، عقل کی تیزی اور ذہن کی رسائی سے ہاتھ آنے والی چیز نہیں، اس کے مستحق ہیں بھولے بھالے سیدھے سادے (اہل الجنتہ بلہ) ، منکسر ، منقاد، افسردہ، متواضع، خاکسار۔ ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ جو شخص دین کی باتوں میں عقل کو بہت دخل دیا کرتا ہے، شروع کرتا ہے جزئیات سے، فروغ سے، متشابہات سے اور آخر کو جا پہنچتا ہے کلیات میں، اصول میں، محکمات میں جیسا کہ ابن الوقت کو پیش آیا۔ پس جس شخص کی افتاد مزاج اس طرح ہو اس کو شروع سے احتیاط کرنی ضرور ہے، چاہیے کہ ایسے خدشات کو دور کر کے خدائے تعالیٰ جل شانہ کی عظمت، اس کی قدرت، اس کے جلال، دنیا کے انتظام، اس کے انقلابات اور کون و فساد میں فکر کیا کرے، امید ہے کہ اس کی طبیعت سنبھل جائے گی۔
فصل:15
ابن الوقت سے لوگوں کی عام نا رضا مندی:
پھر ہم یہی کہیں گے کہ اگرچہ لوگوں نے ابتداء کی تھی مگر ابن الوقت کو مذہبی چھیڑ چھاڑ کرنی مناسب نہ تھی۔ اس چھیڑ چھاڑ نے اس کی رفارم میں بڑی ہی کھنڈت کی۔ اختلافِ معتقدات کی وجہ سے یوما فیوما مسلمان اس سے متنفر ہوتے گئے اور سچ پوچھو ابن الوقت نہ رفارمر رہا نہ مجدد بلکہ مسلمانوں میں ایک نئے عقیدے کا موجد سمجھا جانے لگا اور ظاہر ہے ایسی حالت میں وہ مسلمانوں کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا تھا،کیونکہ وہ کہتا تھا صبح، تو مسلمان کہتے تھے شام اور اس کی طرف سے مسلمانوں کے دل میں کچھ ایسی بدگمانی بیٹھ گئی تھی کہ اس کی ساری تدبیریں خود غرضی پر محمول کی جاتیں تھیں۔ کچھ رفارم پر پر موقوف نہیں، ہر نئی بات کا قاعدہ ہے کہ اگر شروع شروع میں چل نکلی تو چل نکلی، ورنہ اکھڑے پیچھے ہوا کا بندھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ابن الوقت کو شروع سے آخر تک موافق و ناموافق دونوں طرح اتفاقات پیش آتے رہے بلکہ نا موافق زیادہ۔ تاہم اس کے شروع کے دو برس بڑی کامیابی کے برس تھے۔ کیونکہ نوبل صاحب اس کے حامی و سرپرست اس کے پاس موجود تھے۔ ان کی مہربانی اس کے حال پر یوما فیوما زیادہ ہوتی جاتی تھی اور اس کی مربیانہ مدارات دیکھ کر کیا انگریز، کیا ہندوستانی، کسی کو ابن الوقت کے ساتھ پرخاش کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ غدر کے بارے میں ابن الوقت اور نوبل صاحب دونوں کے خیالات پہلے ہی سے منصفانہ تھے اور اس وقت انصاف ہی کو لوگ بڑا رحم سمجھتے تھے۔غرض بغاوت کی تحقیقات میں بھی ابن الوقت کی اچھی نیک نامی ہوئی اور چونکہ نوبل صاحب کو پرداخت منظور تھی، ابن الوقت کی لیاقت اور کارگزاری نے خاصی نمود پکڑ لی اور حکام بالا دست اس کو صاحب الرائے، کثیر المعلومات، بے تعصب، منصف مزاج سمجھنے لگے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ نوبل صاحب سے کسی بارے میں رائے طلب ہوتی تو اس میں ایما کیا جاتا کہ اپنے اسسٹنٹ ابن الوقت سے بھی پوچھوکہ وہ کیا کہتے ہیں۔یہاں نوبل صاحب کا یہ حال تھا کہ بات بات میں ابن الوقت کی رائے سے استشہاد کرتے تھے۔ان کی ہر چٹھی میں یہ فقرہ ضرور ہوتا تھا کہ میرے اسسٹنٹ ابن الوقت بھی اس رائے سے متفق ہیں یا ان کو اختلاف ہے اور ان کی تحریک کو لحاظ مناسب کے لئے منسلک کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ ہو رہا تھا لیکن حسد کی آگ بھی دلوں میں بھڑک رہی تھی اور لوگ وقت کے منتظر تھے۔یوں اپنی جگہ تو ہر شخص جو جس کے منہ میں آیا بک جھک لیتا تھا ، ابن الوقت نے کبھی کسی کے کہنے کی پرواہ نہیں کی مگر حاکموں کے رو برو جو لوگ جا کر الٹی سیدھی باتیں بنا آتے تھے اس سے ابن الوقت کو اور اس کے منصوبوں کو بہت نقصان پہنچتا تھا۔ غدر کے مدتوں بعد تک سرکاری کچہریوں میں کام کی یہ کثرت رہی کہ باوجودیکہ تحقیقاتِ بغاوت کا محکمہ علیحدہ تھا ،اس پر بھی مسلمانوں کا تو اس وقت کہاں پتہ، کیونکہ یہ تھے معتوب، ہندو بنگالی بابو اور یورپین ملا کر ایک دم سے پانچ ڈپٹی کلکٹر تھے ۔ اول تو ان دنوں کی قہر مانی حکومت ، بغاوت کی تحقیقات درپیش، ہتیاروں کی تنگ طلبی، مخبری کا بازار گرم، دوسرے جتنے ہندوستانی حکام پہلے کے تھے کوئی روپوش، کوئی ماخوذ۔ غرض سب کے سب یک ظلم موقوف، نہ لیاقت دیکھی نہ وجاہت، سفارشی ٹٹوں کو آنکھیں بند کر کے بھرتی کر لیا گیاتھا،ان میں ہمت کہاں، جرات کا کیا مذکور۔ ابن الوقت بہتیرا ٹھیل ٹھیل کر ان کو اپنی راہ پر لے چلنا چاہتا تھامگر یہ پیندی کے بل بیٹھے چلے جاتے تھے۔ ان کو اگر کوئی مجبور کرتا کہ جیتے ہوئے سانپ کو پکڑ لو تو شاید کر بھی گزرتے مگر کسی طرح ممکن نہیں تھاکہ انگریزوں کے ساتھ ہاتھ ملا سکیں۔ابن الوقت کے بہت سمجھانے پر ایک بابو ڈپٹی صاحب نے یہ جواب دیا تھاہم شب شمجھتا پر شاب لوگ کا شامنا ہم باش میں رہنا نہیں سکتا"۔ کچھ ضعفِ طبیعت ، کچھ خوشامد اور کچھ ابن الوقت کے ۔۔۔۔۔ساتھ خدا واسطے کا حسد ، بعض تو اس طرح کے موذی تھے کہ حکام کو ابن الوقت کی طرف سے بد ظن کرنے کے لیے معمول اور ضرورت دونوں سے زیادہ حاکموں کے آگے جھکنے لگے تھے۔ ناچار ابن الوقت کو اپنے تئیں اپنے ہی گروہ سے الگ رکھنا پڑتا تھا مگر کہاں تک ، انگریزوں کے ساتھ اختلاط پیدا کرنے کے لیے تو یہ ساری مصیبت مول لی تھی ، ان سے ملنا اور کثرت سے ملنا تو ابن الوقت کو سب کاموں پر مقدم تھا۔ پس یہ تدبیر کیا کرتا تھا کہ انگریزوں سے ملتا تھا مگر ہندوستانیوں کا خاص کر اپنے اقران و امثال کا وقت بچا کر۔ اس کو انگریزوں سے ملنے کے بہیترے مواقع تھے ، بعض کو یہ کھانے پر بلاتا تھا اور سارے سٹیشن میں ملکی فوجی ملا کر گنتی کے چار پانچ ایسے بھی تھے جو اس کو کبھی کبھی کھانے پر بلا بھیجتے تھے۔ نوبل صاحب نے بڑی سینہ زوری سے اس کو کلب داخل کرادیا تھا ، بہتوں کے ساتھ وہیں ملاقات ہوجاتی تھی۔ پھر ہوا خوری ، کرکٹ ، انٹا شکار ، کون سے پارٹی تھی جس میں ابن الوقت کسی نہ کسی طرح اپنے تئیں لے نہیں گھستا تھا۔ بات یہ ہے کہ سارے کھیل روپے کے ہیں اور ابن الوقت کے انگریزوں کے مقابلے میں خرچ کی پروا مطلق کرتا نہ تھا۔سب سے بڑے دشمن ہندو مسلمان سب کے اور خاص کر ابن الوقت کے یوریشین تھے اور یہی لوگ شراب اور سوڈا اور لمنڈ اور چرٹ وغیرہ کی چاٹ کے مارے اس کو ہر وقت گھیرے بھی رہتے تھے۔ تبدیل وضع کی نسبت تو خیر جو چاہو سو کہہ لو ، یوں ابن الوقت بڑا متین آدمی تھا۔ وہ کہیں مدتوں میں جاکر کھلتا تھا ، سو بھی ہر ایک سے نہیں۔ اس کے سینکڑوں ملاقاتیوں میں گنتی کے چند آدمی تھے جن کے ساتھ ہمہ وقت نہیں بلکہ خاص خاص اوقات میں وہ کسی قدر بے تکلفی کرتا تھا۔ ایسے مزاج کے آدمی کا قاعدہ ہوتا ہے کہ کوئی چاہے کہ چاہے مگر وہ مخالف اور موافق سب سے اپنا ادب کرا ہی لیتا ہے۔ پس ابن الوقت کے منہ پر تو کوئی نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی رکھ سکتا تھا مگر لوگوں کے بطون اس کی طرف سے صاف نہ تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر سبھی نے تو اپنا اپنا زہر اگلا۔ امریکا کے مشن کی طرف سے ایک سکول جاری تھا۔ اس میں پڑھنے لکھنے کے علاوہ لڑکوں کو دستکاری بھی سکھائی جاتی تھی اور چونکہ ایسے مدرسے کی بہت ضرورت تھی ، لڑکے ایسے گرتے تھے کہ جیسے شہد پر مکھیاں۔ پادری صاحب بڑے ہی ملنسار آدمی تھے ، سکول میں برس کے برس جلسہ کرتے اور اس میں شہر کے سارے رودار آدمیوں کو بلاتے اور ان کی خوش کرنے کے لیے بجلی اور مقناطیس کے عجیب عجیب کرتب دکھاتے۔ جلسے کے دن قریب تھے تو انہوں نے پہلے سے ابن الوقت سے کہہ رکھا تھا کہ آپ کو ضرور آنا ہوگا اور مہربانی فرما کر لکچر بھی دیناہوگا۔انہیں دنوں ابن الوقت کے چند دوست (انگریز) متقاضی ہوئے کہ ہم کو اپنے علاقے کھیر کاپور میں لے جاکر شکار کھلاؤ۔ ابن الوقت کے پادری صاحب کا جلسہ یاد تھا مگر ان دوستوں کو بھی ٹال نہیں سکتا تھا ، ناچار گیا مگر ایسے انتظام کے ساتھ کہ جلسہ ناغہ نہ ہو۔ وہاں شکار میں اتفاق سے کوئی انگریز گھوڑے پر سے گرا اور اس کی تیمارداری نے ابن الوقت کی فرصت نہ دی۔ ناچار اس نے پادری صاحب کو عین وقت پر معذرت لکھ بھیجی۔ پادری صاحب نے بڑا ہی افسوس کیا اور ہر چند چاہا کہ کوئی اور ہندوستانی لکچر دے ، کسی نے حامی نہ بھری۔ غرض اور سب ہوا مگر پادری صاحب کا لکچر کی بڑی خوشی تھی ، وہ نہ ہوسکا۔ خیر جب تماشے وغیرہ ہوچکے تو سب لوگ آپس میں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ پادری صاحب بولے افسوس ہے کہ مسٹر ابن الوقت کے نہ ہونے سے آج ہماری خوشی ادھوری رہ گئی۔ وہ ہوتے تو مجھ کو یقین ہے بڑا عمدہ لکچر دیتے اور اس سے سامعین خوش اور طالب العلم مستفید ہوتے۔ ایک انگریز جج : بے شک مسٹر ابن الوقت بڑے گویا اور روشن خیال آدمی ہیں اور میں نے ایسا نے تکان بولنے والا ہندوستانی نہی دیکھا۔ مسٹر نوبل کے ڈنر میں جو انہوں نے پہلی سپیچ دی تھی آج تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور ہر چند آپ کے کرتب بڑے دلچسپ ہیں اور ان کے دیکھنے سے علمی مفاد بھی بہت کچھ حاصل ہوتا ہے مگر مسٹر ابن الوقت اپنی سپیچ سے ان کرتبوں کو زیادہ شاندار اور بارونق کرسکتے تھے۔" ایک یوریشین ڈپٹی کلکٹر : (ایک کائستھ ڈپٹی کلکٹر سے ذرا پیچھے کو جھک کر۔ " آپ کو معلوم ہے ابن الوقت صاحب کیوں غیر حاضر ہے؟"
کائستھ ڈپٹی کلکٹر : مین نے ابھی تھوڑی دیر ہوئی یہیں آکر سنا کہ ایک ہفتہ ہوا صاحب لوگوں کے ساتھ شکار کو گئے ہیں۔
کائستھ : ہاں صاحب ان کو سب شوق زیبا ہیں۔ ع
مربّی بیار و مربی بہ خور
ایک قسمت کے ہیٹے ، اسی تنخواہ اور انہی اقتدارات کے ڈپٹی ہم ہیں ؛ لالہ جی بیکنٹھ باشی ہوئے ، موسی مری ، خاوندوں کا رخ نہ پایا ، رخصت کو منہ سے نہ نکال سکے۔ بندگی و بے چارگی۔
یوریشین : کلکٹر صاحب کبھی چھٹی دینا نہیں مانگتا۔ میم صاحب اور مسی بابا پہاڑ جانے لگا۔
ہم صاحب سے بولا ، صاحب صاف کہا نو ہم سنتا نوبل صاحب بہت جلد ولایت جانا چاہتا۔
جنٹ مجسٹریٹ : نہیں نہیں ، انہوں نے درخواست کی تھی ، صاحب کمشنر نے روک دیا کہ تا اختتام تحقیقات بغاوت درخواست کوئی مناسب نہیں۔
یوریشین : اگر نوبل صاحب گیا تو ابن الوقت کیا کرے گا۔ شاید وہ بھی صاحب کے ساتھ ولایت جائے گا۔
جنٹ : عجب نہیں ! دیکھیں اس وقت کلکٹری کا چارج کس کے ہاتھ میں ہوتا
کائستھ : بھگوان کی دیا سے حضور والا کے دست مبارک میں ہوگا۔ مدت سے ہم سب نمک خوار دعائیں مانگ رہے ہیں۔
یوریشین : میں آپ کو کلکٹر دیکھ کر بہت خوش ہوں گا۔
جنٹ : کیا ابن الوقت صاحب میری کوٹھی میں بھی جوتی پہن کر ، ٹوپی اوڑھے ہوئے جانے کا ارادہ کریں گے؟ وہ ہندوستانی ہیں اور میں ان کو سکھاؤں گا کہ ہندوستانی کو اپنے افسروں کا ادب کس طرح سے کرنا چاہیے۔ مجھ کو نوبل صاحب کے ساتھ ابن الوقت کے بارے میں ہرگز اتفاق نہیں۔ میں ابن الوقت صاحب کو نوکری اور جاگیر دونوں کا مستحق سمجھتا ہوں لیکن صاحب لوگوں کو بے عزت کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں۔
یوریشین : میں آپ کی دانشمندانہ پالیسی کو نہایت پسند کرتا ہوں۔ آخر یہ (کایتھ کی طرف اشارہ کرکے) بھی تو ڈپٹی ہیں ، ایسے گستاخانہ خیالات ان کے دماغ میں کیوں نہیں آتے؟
کائستھ : ہم جتنے ہندو ہیں ہمارا دھرم یہی ہے کہ حاکم اور بھگوان برابر۔
جنٹ : ہم نہیں سمجھتا کہ اس خیال اور مزاج کا آدمی غدر میں باغی کیوں نہ ہوا؟
یوریشین : اس کا دل باغی ہے اور میں کبھی یقین نہیں کرتا کہ اس نے نوبل صاحب کو سچے دل سے بچایا ہوگا۔
جنٹ : مجھ کو مسٹر ۔ تمہاری اس رائے سے اتفاق نہیں ، اس کے بہتر جج نوبل صاحب ہیں جو غدر میں اس کے ساتھ رہے ہیں۔ صاحب کو پورا بھروسا ہے کہ وہ دل سے سرکار کا خیر خواہ ہے۔
یوریشین : میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ حقیقت میں یہ بات سمجھ آنی مشکل ہے کہ ایسے خیالات اور خیر خواہی دو چیزیں ایک سر میں کیوں کر جمع ہوسکتی ہیں؟ ان میں ایک اصلی ہوگی اور دوسری بناوٹ۔
ایک مسلمان رئیس : جس طرح آپ لوگوں کو ابن الوقت صاحب کی خیر خواہی میں حیرت ہے اس سے زیادہ سارے مسلمانوں کو ان کے اسلام میں ہے۔"
پادری صاحب : آخر مسلمان ابن الوقت کے مذہب کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟
مسلمان : عموما ََ عیسائی سمجھتے ہیں۔
پادری صاحب : (قہقہہ لگا کر) رہ ہرگز عیسائی نہیں اور انہوں نے ہر موقع پر اس بات کو ظاہر کیا ہے اور مجھ سے ان کی اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ مجھ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ خداوند عیسیٰ مسیحؑ کو خدا اور خدا کا بیٹا نہیں مانتے بلکہ عام مسلمانوں کی طرح ایک پیغمبر لیکن ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اگر ابن الوقت دل سے عیسائی ہوتے بلاشبہ علانیہ اقرار کرتے۔ وہ اپنی رائے کو چھپانے والے آدمی نہیں مگر ہمارا سارا کانگر یگیشن خاص کر ان کے حق میں ہمیشہ دعا کرتا ہے خداوند عیسیٰ مسیحؑ قبول کرے۔
مسلمان : اگر ابن الوقت عیسائی نہیں ہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں تو آپ ان کو اپنے ساتھ کھانا کیوں کھلاتے ہیں؟ (اس پر جنٹ یوریشین ڈپٹی کلکٹر اور دوسرے انگریز ہنس پڑے)
پادری صاحب : ہمارے مذہب میں جسمانی پاکی اور ناپاکی محض بے حقیقت چیز ہے۔ اگر ایک آدمی اپنے تئیں صاف ستھرا رکھتا ہے ، وہ اپنی سوسائٹی کی تندرستی کے لیے مناسب تدبیر کرتا ہے۔ لیکن اس سے اس کی روح (ہندوؤں کی طرف مخاطب ہوکر ، آتما) مقدس خدا کی نظر میں پاک نہیں ہوسکتی۔ آدمی کا جسم چند روزہ اور ناپائدار ہے۔ وہ ایک قاعدے کے مطابق پرورش پاتا اور آخر کو فنا ہوجائے گا۔ غرض روح اور جسم کا تعلق عارضی تعلق ہے۔ جس طرح جسم نجاست اور غلاظت سے ناپاک ہوتا ہے اسی طرح روح غصے اور لالچ اور حسد اور جھوٹ اور تکبر اور ظلم اور کتنی اور خراب باتوں سے ناپاک ہوتی ہے۔ جسمانی ناپاکی بہت آسانی سے دور ہوسکتی ہے مگر روحی ناپاکی ، بدون اس کے کہ آدمی خداوند عیسیٰ مسیح کے نام سے اصطباغ لے ، زائل نہیں ہوسکتی۔ سب آدمی خدا کے نزدیک یکساں اور ناپاک ہیں اور جو شخص اپنے تئیں پاکیزہ گردانتا ہے وہ دل کی ناپاکی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم نے ابن الوقت صاحب کو اپنے ساتھ کھانا کھلایا کیونکہ وہ ہماری طرح کے آدمی ہیں اور ہم ہر شخص کو اپنے ساتھ کھلانے کو تیار ہیں اور سب سے پہلے آپ کو اگر آپ پسند کریں گے۔" (اس جملے پر سب ہنس پڑے)۔
مسلمان : اگر ہم کو یقین ہو کہ آپ ان چیزوں سے جو مذہب اسلام میں بہ تقاضائے مصالح چند در چند حرام کی گئی ہیں ، محترز ہیں تو ہم کو آپ کے ساتھ کھانے میں ہرگز انکار نہیں۔ ہاں اگر ابن الوقت صاحب عیسائی نہیں اور مسلمان تو یقیناََ نہیں ، پھر کیا ہیں؟
پادری صاحب : وہ اپنے تئیں صاف صاف مسلمان کہتے ہیں اور بےشک مسلمان ہیں۔
مسلمان : اگر ابن الوقت صاحب مسلمان ہیں تو پھر دنیا میں کوئی کافر نہیں۔ اس طرح ہمارے ان ڈپٹی صاحب (کایتھ کے طرف اشارہ کرکے) کو بھی اختیار ہے کہ بت پرستی کرتے جائیں اور عیسائی یا مسلمان ہونے کا دعوی کریں۔
کائستھ : بھگوان نہ کرے میں عیسائی کیوں ہونے لگا۔ سب میں اتم اور پراچین ہمارا ہی دھرم ہے جو ہزارہا برس سے چلا آتا ہے اور ہر چند مسلمانوں نے بڑے بڑے جتن کیے کہ ہندو دھرم مٹ جائے ، بھگوان کا ایسا کرنا ہوا کہ آپ ہی مٹ گئے۔
جنٹ : اچھا اگر کوئی ابن الوقت صاحب کو اپنے مذہب میں لینا نہیں چاہتا تو ان کو بھی کسی مذہب کی پروا نہیں۔ وہ صرف ایک بلند نظر آدمی ہے اور دنیا میں اس قسم کے اور بہت آدمی ہوئے ہیں۔ وہ فقط اپنی نمود چاہتا ہے۔
اس کی مسلمان اور کائستھ اور یوریشین سب نے تصدیق کی۔
پادری صاحب : میں سمجھتا ہوں کہ ان کو مسلمانوں کی رفارم کا بھی بہت خیال ہے۔
مسلمان : پس جناب یہ ان کے دکھانے کے دانت ہیں۔
پادری صاحب : انہوں نے ہمیشہ انگلش سوسائٹی میں مسلمانوں کی حالت پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ وہ دل سے مسلمانوں کا خیر خواہ ہے اور اس کے دل میں اپنی قوم کی بڑی محبت ہے اور جب جب اس کو موقع ملتا ہے مسلمانوں کے فائدے میں کوشش کرتا ہے۔
مسلمان : خدا جانے اس میں کیا مصلحت ہوگی ورنہ میرے دیکھنے میں تو اس شخص نے اسلام کی تفضیح میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ مسلمانوں کے ساتھ مدارات کا حال یہ ہے کہ آپ لوگ غیر مذہب حاکم وقت ہوکر تو سیدھی طرح بات بھی کرلیتے ہیں اور ان کو مسلمانوں کی شکل سے نفرت ہے۔ غیر تو درکنار وہ شخص اپنے رشتہ داروں سے ملنے تک کا روادار نہیں۔ سبحان اللہ ، کیا حب قومی ہے۔"
جنٹ صاحب یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے! "مائی فرنڈز ! مسٹر ابن الوقت کی تھاہ میرے سوائے کسی نے نہیں پائی جلسہ برخاست!"
فصل:16
ابن الوقت کا انگریزی طرز سے متاذّی ہونا:
الغرض ابن الوقت کی نسبت لوگوں کے پاس اس قسم کے خیالات تھے۔ہندوستانی سوسائٹی میں نہ استثناء محدودے چند جنہوں نے اس کی وضع کی تقلید کر لی تھی ، کوئی اس کو پسند نہیں کرتا تھا۔ انگریزوں میں اعلٰی درجے کی انگریز وہ بھی سب نہیں ، البتہ اس کے خیالات کی قدو وقعت کرتے تھے۔ بہرکیف اس کے مخالف بہت تھے اور یہ بات خود ابن الوقت کو بھی معلوم تھی اور یہ خیال اس کو اکثر رنجیدہ رکھتا تھا۔ اس کے اپنے بی بی بچے تو سب غدر سے پہلے کےمرکھپ چکے تھے اور یہ بے تعلقی اگر باعث نہیں ہوئی تو اس کی آزادی میں موید تو ضرور ہوئی۔ تاہم وہ بھائی ، بھتیجوں اور دوسرے رشتہ داروں کی مفارقت کے خیال سے بھی متاذی ہوتا تھا۔ رشتہ دار تو رشتہ دار اس کو ہندوستانی سوسائٹی کے چھوٹ جانے کا بھی افسوس تھا اور ہم نے بتحقیق سنا ہے کہ اس نے بارہا اپنے رازداروں سے کہا کہ میرے یہاں کے کھانے کی ساری چھاؤنی میں تعریف ہے مگر میرا یہ حال ہے کہ انگریزی کھانا کھاتے ہوئے اتنی مدت ہوئی ، سچ تو یہ ہے کہ ایک دن مجھے سیری نہیں ہوئی میں اکثر خواب میں اپنے تئیں ہندوستانی کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ ابن الوقت کے خاص خدمت گار کی زبانی معتبر روایت ہے کہ ایک بار اس کو سخت تپ لاحق ہوئی اور عادت کے موافق لگا بہکنے تو وہ ہندوستانی کھانوں کے نام لے لے کر روتا تھا اور کھانے بھی پلاؤ ، زردہ ، متنجن ، بریانی نہیں بلکہ مونگ کی دال کا بھرتا ، دھوئی ماش کی پھر ہری دال ، قلمی بڑے کباب ، امرودوں کےکچالو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چٹپٹی چیزوں کو ترس گیا۔ معلوم ہے کہ ابن الوقت ابتدائے تبدیل وضع سے گھر بار چھوڑ کر باہر چھاؤنی میں جارہا تھا۔ اس کے پاس اتنے نوکر چاکر تھے کہ اس کی کوٹھی کا احاطہ بجائے خود ایک چھوٹا سا محلّہ تھا لیکن اس کی زندگی ویسی ہی اداس زندگی تھی جیسی ایک بیچلر کی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ وہ نوکروں کے حق میں بڑا سیر چشم آقا تھا۔ اس کے یہاں نوکروں کی ایسی بھاری تنخواہیں تھیں کہ دلی کی اتنی بڑی چھاؤنی میں بس دو چار ہی جگہ اور ہوں گی ، اس لیے کہ اس کے تمام نوکر سلیقہ مند اور مستعد تھے اور حقیقت بات ہے کہ انہیں نوکروں نے انگریزی سوسائٹی میں اس کی اتنی بات بھی بنا رکھی تھی۔ مگر نوکر کیسے ہی ہوشیار کیوں نہ ہوں پھر بھی مالک کی تائید کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ انگریزی زندگی ایسے بکھیڑے کی زندگی تھی کہ ابن الوقت کی جتنا وقت کچہری اور ملاقات سے بچتا تھا ، صفائی کی نگرانی اور ہر چیز کی خبر گیری کے لیے بمشکل وفا کرتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس کے نوکر انگریزی مذاق سے خوب واقف تھے مگر ابن الوقت سے خود صبر نہیں ہوسکتا تھا اور وہ اپنی طرف سے ایسی خراش تراش ایجاد کرنے لگا تھا کہ خواہی نہ خواہی اس کو دیکھنا پڑتا تھا۔ دعوت ایسے مزے کی چیز ہے کہ کھلانے والا اور کھانے والا دونوں ہی خوش ہوتے ہیں مگر ابن الوقت کے یہاں کی دعوت اس کے حق میں ایک مصیبت ہوتی تھی۔ کھانا تو کہیں جاکر رات کو نو دس بجے نصیب ہوتا اور اہتمام کی آندھی صبح سویرے سے چلنی شروع ہوجاتی تھی۔ ہم کو تو کوئی دعوت ایسی یاد نہیں کہ ابن الوقت تکان کی وجہ سے اس کے بعد علیل نہ ہوا ہو۔ پھر چھٹے چھ ماہے دعوت ہو تو خیر ، یہاں ہر مہینے کچھ نہ ہوتو بڑے کھانے دو تین۔ بلکہ بعض اوقات تو ابن الوقت گھبرا کر بول بھی اٹھتا تھا کہ یہ میں نے کہاں کا کھڑاگ اپنے پیچھے لگا لیا ہے۔
یہ تو میزبانی کی لذتیں تھیں ، مہمانی کے ذائقے ان سے بھی زیادہ تلخ۔ اگر اسٹیشن میں کسی انگریز کے یہاں کھانا ہے اور اس نے ابن الوقت کو دعوت نہیں کی اور ایسا اکثر ہوتا رہتا تھا ، تو اس کے دل پر ایک صدمہ گزر جاتا تھا اور وہ اس کو اپنی تذلیل سمجھتا تھا۔ نہ صرف انگریزی سوسائٹی میں بلکہ جی ہی جی میں اپنے نوکروں تک سے کئی کئی دن شرمندہ رہتا تھا۔ اگر اس کا بھی بلاوا ہوا تو صاحب خانہ کے گھر میں قدم رکھتے ہی اس کو ان فکروں نے آگھیرا کہ کس کی کیسی آؤ بھگت ہوئی ، کون لیڈی کس صاحب کے پاس بیٹھی اور اگر یہ پھٹیل رہ گیا یا کوئی چیز اپنے یہاں بہتر نظر پڑ گئی تو وہ دعوت اس کے لیے عداوت ہوجاتی تھی۔ الغرض انگریزی سوسائٹی کے داخل ہونے خبط نے اس کو ایسا بے چین کر رکھا تھا کہ دن رات میں دو چار منٹ کے لیے وہ بھی شاید، اس کو خوشی ہوتی ہو تو ہوتی ہو ، ورنہ جب دیکھو منقبض ، جب سنو آزردہ۔ذرا سوچنے اور خیال کرنے کی بات ہے کہ جو شخص دنیا میں اس قدر منہمک ہو ، اس کو دین داری سے کیا سروکار۔ سچی دین داری کی بڑی شناخت ہے زہد ، جتنا جس سے ہوسکے اور کجا زہد اور کجا یہ فضول و لایعنی بکھیڑے۔ سو بھی ہم نے ابھی تک سب نہیں بلکہ نمونے کے طور پر چھوٹی چھوٹی باتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ابن الوقت بیچارے مصیبت کے مارے کو ایک سے ایک سخت مشکل درپیش تھی کہ وہ تو وہی ہٹ کا پورا تھا کہ ان آفتوں کو بری طرح یا بھلی طرح جھیلتا رہا ، دوسرا تو کبھی کا بھاگ کھڑا ہوتا اور پھر ساری عمر انگریزی سوسائٹی کا نام نہ لیتا۔ ہاتھیوں کے ساتھ گنے کھانا ایسا کیا کچھ لڑکوں کا کھیل ہے۔ ابن الوقت غدر سے پہلے بھی اچھا خاص خوش حال تھا۔ قلعے کی تنخواہیں تو تھوڑی تھیں مگر اوپر سے انعام اکرام وغیرہ ملا کر بہت کچھ پڑ رہتا تھا۔ ہمارے اندازے میں ابن الوقت کی آمدنی پچاس روپے ماہوار سے ہرگز کم نہ تھی اور غدر کے بعد سے تو کچھ پوچھنا ہی نہیں ، نہ سو نہ سوا سو ، ماشاءاللہ ایک دم سے پانسو۔ اس کی آمدنی پر اچھے سے اچھا کھانا، اچھے سے اچھا پہننا ، غرض امیرانہ خرچ رکھتا مگر ہندوستانیوں کا سا ہوتا تو چند سال کے عرصے میں اس کے پاس معتدبہ سرمایا ہوجاتا لیکن اس نے کرنی چاہی انگریزوں کی ریس۔ پورا برس بھی خیریت سے گزرنے نہیں پایا تھا کہ لگا ادھار کھانے۔ جس وقت اس کو جان نثار کے نہلا دھلا کر پہلے پہل انگریزی کپڑے پہنائے تو کوٹھی کا ساز و سامان اور اپنی شان دیکھ کر اس کو اس قدر خوشی ہوئی تھی کہ اپنے آپے میں نہیں سماتا تھا اور ابھی اس خوشی کا اثر طبیعت پر باقی تھا کہ ایک چپڑاسی بڑا لمبا چوڑا لفافہ لیے ہوئے برآمدے تک آیا۔ قاعدے کے مطابق بیرے نے لفافہ کشتی میں رکھ ، نئے صاحب کے حضور پیش کیا۔ کھولا تو جنرل سپلایر کا بل تھا۔ کتنے کا؟ کچھ اوپر پانچ ہزار کا۔ پانچ ہزار کی رقم دیکھ کر قریب تھا کہ حواس خمسہ مختل ہوجائیں مگر "سنگ آمد و سخت آمد" چوں و چرا کرنے کا موقع نہیں "قہر درویش برجان درویش" ۔ دینا ہی پڑا مگر کیوں کر ، ہزار کا توڑا نوبل صاحب کو دیا ہوا سربند رکھا ہوا تھا ، وہ لیا اور یہ ہزار مشکل دو ہزار گھر میں سے فراہم کیے۔ پھر بھی سو دو ہزار اور ہوں تو پنڈ چھوٹے۔ بارے غدر سے پہلے نواب معشوق محل بیگم صاحب کی سرکار میں ابن الوقت کی معرفت گڑوالوں کا لین دین تھا ، ڈرتے ڈرتے ان کو رقعہ لکھا۔ اسامی تھی کھری اور جان دار ، انہوں نے بے تامل روپیہ حوالے کیا۔ یوں جنرل سپلایر کا پوت پورا ہوا۔ ع
رسید بود بلائے ولے بہ خیر گذشت
لیکن ابن الوقت نے تو خرچ کا دڑبا کھول دیا تھا۔ جس نسبت سے اس کی آمد بڑھی تھی اگر اسی نسبت سے خرچ بھی بڑھتا تو چنداں حرج کی بات نہ تھی ، پر اس نے لیٹتے کے ساتھ چادر کے باہر پاؤں پھیلا دیے۔ اول سرے گھر کے تیمرے ، چوہرے مکان ہوتے ساتے چالیس روپے مہینے کا بنگلہ پھر فٹن ، ٹمٹم (ٹینڈم) بروم ، پالکی گاڑی ، چار قسم کی بگھیاں اور چار کے چار گھوڑے اور ایک زین سواری کا پانچ ، دھوبی ، سقا ، چوکیدار ، فراش ، مشعلچی ، باورچی ، میٹ ، سائیس ، گراس کٹ، مہتر، مالی ، بیرا ، دو ڈھائی درجن کے قریب شاگرد پیشہ ، ان کی تنخواہیں اور تنخواہوں کے علاوہ وردی ، اسی کی مناسبت سے دوسرے مصارف باستثناء میز کہ اس کا کچھ اندازہ ہو ہی نہیں سکتا ، مہینے میں اچھے جید دو کھانے بھی ہوگئے تو ساری تنخواہ پر پانی پھر جانا کچھ بات نہیں۔ ابن الوقت نے شروع شروع میں شاید تین یا چار تنخواہیں وقت پر لی ہوں گی ، اس کے بعد سے تو خزانچی کے ساتھ معاملہ ہوگیا۔ ایک چھوڑ دو مہاجن دینے والے ، جب ضرورت ہوتئی جس سے جتنا چاہا منگوا لیا۔ تنخواہ تو اوپر خزانچی لے لیا کرتا تھا اور زمینداری کا محاصل گڑوالوں کی کوٹھی میں چلا جاتا تھا۔ ان بچہ کو انگریز بننے کی دھن میں اتنی بھی خبر نہ تھی کہ سر پر کتنا قرضہ لدتا چلا جارہا ہے۔ یہ تو اپنے ان خیالات میں مست کہ صاحب کمشنر مجھ کو مائی ڈیر (ًMy dear) ابن الوقت اور اپنے تئیں یور سِنسیرلی (Your sincerely) لکھتے ہیں۔ چیف کمشنر نے سالانہ رپورٹ میں میری کارگزاری کا شکریہ ادا کیا ہے۔ جوڈیشنل کمشنر نے ایک فیصلے میں میری نسبت یہ لکھا ہے کہ اس کے طبیعت کو قانون سے فطری مناسبت ہے۔ فنانشل کمشنر نے فلاح سرکار کا مسودہ مجھ سے طلب کیا تھا۔ ان کی چٹھی موجود ہے ، اب جو چھپ کر آیا تو میں دیکھتا ہوں ایک لفظ کا ردوبدل نہیں کیا۔ قانون شہادت کی فلانی دفعہ میرے اصرار سے بڑھائی گئی۔ لیجس لیٹیو کونسل کے لیگل ممبر نے مجھ کو چٹھی میں اطلاع دی مگر نہیں معلوم اپنی اسپیچ میں میرا تذکرہ کیوں نہیں کیا۔یا تو رپورٹر کی فروگذاشت ہے یا ممبر صاحب کو اس وقت خیال نہ رہا ہوگا۔ فلاں صاحب نے ولایت سے میرا فوٹو گراف منگوایا ہے اور لکھتے ہیں کہ میم صاحب متقاضی ہیں۔ اوہو ! مس جوزفا جو ہمارے ڈائننگ روم کی تصویروں کو بہت پسند کرتی تھی اور گھنٹوں ہمارے کتوں سے کھیلا کرتی تھی۔ ابھی ابھی ولایت کی ڈاک میں اس کی ماں کی چِٹّھی آئی ہے ، ایک بڑے سوداگر کے ساتھ اس کی شادی ہونے والی ہے۔ میجر صاحب نے آئیس کریم (ملائی کی برف) جمانے کے لیے ہمارے آدمی کو بلا بھیجا ہے ، یہاں سے برف ہی جموا کر نہ بھیج دی جائے۔ کرنیل صاحب کا اسباب نیلام ہوگا تو دو گھوڑے ہم ضرور لیں گے کیونکہ ہم نے خوب خیال کرکے دیکھا تو ہمارے دو گھوڑے ہمیشہ صاحب لوگوں کی سواری میں رہتے ہیں اور چڑیوں اور پھولوں کے گملوں کو تو ہم ان سے زبانی کہہ چکے ہیں۔ پرسوں کیا اتفاق ہوا کہ میں ٹھنڈی سڑک پر جارہا تھا ، کپتان صاحب اور ان کی میم آتے ہوئے ملے ، بڑے تپاک سے صاحب سلامتی ہوئی۔ میم صاحب کے ہاتھ میں ایک پھول تھا ، انہوں نے میری طرف پھینک دیا۔ کپتان صاحب بولے ، "مسٹر ابن الوقت میرے پاس کوئی پھول نہیں کہ میں تم کو دیتا" تو میں نے کہا : "آپ کے پاس تو نہایت خوب صورت گلدستہ ہے۔" میم صاحب نے اس کا بڑا شکریہ ادا کیا اور دونوں میاں بی بی ہنستے ہوئے برابر سے نکل گئے۔ فرنڈ آف انڈیا نے ایک آرٹیکل میں مجھ کو مسلمانوں کا مشہور رفارمر لکھا ہے۔
غرض جس طرح آدمی کو کسی بات کی زڑ نہیں لگ جاتی ، بس ابن الوقت کو انگریز بننے کی زڑ تھی۔ شروع شروع میں تو اس کو مسلمانوں کے حال پر بھی ایک طرح کی نظر تھی لیکن چند روز بعد اس کی ساری رفارم اسی میں منحصر ہوگئی تھی کہ انگریزی اوضاع و اطوار میں سے کوئی وضع اور کوئی طور چھوٹنے نہ پائے۔ کم بخت آپ بھی برباد ہورہا تھا اور اس کی دیکھا دیکھی کچھ ایسی ہوا چلی کہ مسلمانوں کے نوجوان لڑکے خصوصاََ جنہوں نے ذری سی انگریزی پڑھ لی تھی یا جو گھر سے کسی قدر آسودہ تھے تباہی کے لچھن سیکھتے چلے جاتے تھے۔ اس کے اندرونی حالات کی تو کسی کی خبر نہ تھی ، ظاہر میں دیکھتے تھے کہ انگریزوں میں ملتا جلتا ہے ، جو بات کسی ہندوستانی عہدہ دار کو نصیب نہیں اس کو حاصل ہے اور لوگوں کی نظر میں انگریزی وضع کی ہیبت بھی ہے۔ پس احمقوں کو اتنے موجباتِ ترغیب کافی تھے۔ مگر ہے یہ کہ انگریزی وضع خدا کے فضل سے جوکسی ایک کو بھلی ہو۔ سبھی نے تو اپنی اپنی جگہ تھوڑا بہت نقصان اٹھایا اور شاید نقصان نہ بھی اٹھایا ہو تو کسی کو کسی قسم کا فائدہ تو نہیں ہوا۔
کسی جگہ شروع کتاب میں لکھا جاچکا ہے کہ نوبل صاحب کو ایک طرح کا ہلکا ہلکا دردِ سر ہر وقت رہتا تھا اور اسی کے علاج کے لیے رخصت لے کر ولایت جارہے تھے کہ غدر کی وجہ سے دلی میں گھر گئے۔ کیا خدا کی شان ہے کہ دوا نہ درمن ، سارے غدر اور غدر کے بعد بھی مدتوں تک آپ ہی آپ اُس درد کا کہیں پتا نہ تھا۔ ہر چند اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے ان کا جی ولایت جانے کا چاہتا تھا مگر دیکھتے تھے کہ سلطنت متزلزل ہورہی ہے ، کام کی ہر جگہ کثرت ہے ، ایسے وقت میں تو اگر صاحب ولایت بھی ہوتے تو ان سے ایک دن وہاں نہ ٹھہرا جاتا۔ کیسے ہوسکتا تھا کہ اس حالت میں چلے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے گھر لکھ بھیجا تھا کہ جب تک تمام ملک میں انتظام سابق دستور نہ ہوجائے میں قصد نہیں کرسکتا۔ جوں جوں بغاوت فرو ہوتی گئی اس درد کی کسک ابھرتی چلی۔ ایک بار انہوں نے ولایت جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو چیف کمشنر صاحب نے فرمایا کہ تم جا تو سکتے ہو مگر میں چاہتا تھا کہ تحقیقاتِ بغاوت کا کام تمہارے ہاتھ سے اختتام پاتا۔ خیر، یہ پھر چپ ہورہے۔ لیکن درد سر روز روز زور پکڑتا جاتا تھا، یہاں تک کہ 1859ء کی گرمیوں میں تو یہ ہوگیا کہ جس روز گرمی کا اشتدار ہوتا تو سارے دن ان سے اٹھا نہیں جاتا تھا اور ڈاکٹر تو مدتوں سے کہہ رہا تھا، اب اس نے بھی سختی کی کہ اگر تم برسا ت میں ٹھہرو گے تو یقیناً ہلاک ہو جاؤ گے، میں نے تمہارے درد سر کی نسبت بہ خوبی تشخیص کر لی ہے کہ سمندر کی ہوا کے سوائے اس کی اور کوئی دوا نہیں۔ مگر صاحب کا ارادہ تھا کہ آخری رپورٹ روانہ کردوں تب جاؤں۔ کام بھی بہت سمٹ آیا تھا لیکن قاعدہ ہے کہ کام کا پیچھا ہی بھاری ہوتا ہے۔ برسات چلی آ رہی تھی اور ابھی رپورٹ کا لکھنا بھی شروع نہیں ہوا تھا مگر کیا استقلال ہے اور کس قدر کام کا درد ہے کہ ڈاکٹر بھی متقاضی تھا اور درد سر بھی بر سر ترقی تھا، نوبل صاحب کا یہ حال تھا کہ درد سر نے بہت ستایا، پڑ رہے، پھر ذرا طبیعت سنبھلی، اٹھ کھڑے بیٹھے، کام کرنے لگے۔ غرض اس بندہ خدا نے رخصت کا نام ہی لینا چھوڑ دیا۔ صاحب کمشنر نے اپنے طور پر اس کی اطلاع چیف صاحب کو دی۔ وہاں سے حکم آیا کہ باقی ماندہ کام صاحب کلکٹر کو دے دو اور تم رپورٹ کا مواد لے کر فوراً ولایت کو روانہ ہو جاؤ، چیف صاحب یقین کرتے ہیں کہ جہاز میں تمہاری طبیعت درست ہو جائے گی اور تم ولایت جا کر رپورٹ تیار کرنا اور تمہارے سفر اور قیام ولایت کا زمانہ سروس میں شمار کیا جائے گا اور تم کو پوری تنخواہ دی جائے گی۔
فصل:17
نوبل صاحب کا دفعتاً ولایت جانا ہوا اور ابن الوقت کو بنگلہ چھوڑنا پڑا:
اس حکم کے آتے ہی صاحب کمشنر نے کھڑے کھڑے صاحب کلکٹر کو جائزہ دلوا، نوبل صاحب کو تیسرے دن ولایت چلتا کیا۔ صاحب کے روانہ ہونے سے ہفتہ عشرہ پہلے ڈاکٹر نے ملاقات کی ممانعت کردی تھی۔ پس اس اثناء میں ابن الوقت کے ساتھ بھی صاحب کی کوئی تفصیلی ملاقات نہ ہونے پائی۔ غرض صاحب روانہ ہوئے تو ابن الوقت ہکا بکا سا رہ گیا۔ نہ اپنی کہی نہ ان کی سنی۔ اس کو صاحب کے جانے کا سبسے زیادہ ملال تھا مگر ذاتی محبت کی وجہ سے۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ صاحب کے جانے سے اس کو تبدیل وضع کے برے نتیجے اس قدر دق کریں گے۔
نوبل صاحب کے جاتے جاتے برسات کی آمد اور گرمی کی اشتداد کی وجہ سے ہوا مین ردایت کے آثار پیدا ہو چلے تھے۔ شہر میں تو بیماری کا زور تھا، چھاؤنی میں بھی کہیں کہیں شکایت سنی جاتی تھی۔ نوبل صاحب کو روانہ ہوئے چوتھا یا پانچواں دن تھا، کمانڈنگ افسر نے حکم عام جاری کیا کہ انگریزوں کے شاگرد پیشہ کے سوائے کوئی نیٹو چھاؤنی کی حدود میں نہ رہے، شہر کا کوئی آدمی چھاؤنی میں نہ آنے پائے اور انگریزوں کے شاگرد پیشوں میں سے بھی بنگلے پیچھے ایک آدمی ضرورت کی چیزیں لینے کو ایک بار شہر میں جائے اور دن کے سات بجے کے اندر اندر واپس آجائے او ر تاریخ حکم سے ایک ہفتے بعد اس کی پوری پوری تعمیل ہو۔ سال گذشتہ میں بھی ایسا ہی اتفاق پیش آیا تھا تو نوبل صاحب نے سمجھا دیا تھا کہ مسٹر ابن الوقت نیٹو تو ہیں مگر ان کا طرز ماند و بود بالکل ہم لوگوں کا سا ہے اور ان کے احاطے میں صفائی کے قواعد کی تعمیل پوری پوری ہوتی ہے۔ چنانچہ فوجی عہدہ داروں نے ابن الوقت کے حالات سے کچھ تعرض نہیں کیا۔ اب کی بار دو مشکلیں جمع ہوگئیں، نوبل صاحب تو تشریف لے گئے اور کمانڈنگ افسر صاحب نئے آئے ہوئے تھے۔ ابن الوقت سے صاحب سلامت تو تھی مگر کھان پان کی نوبت نہیں آئی تھی۔جنرل آرڈر دیکھ کر ابن الوقت کو بڑا تردد پیدا ہوا اور حقیقت میں بڑے تردد کا مقام تھا کیونکہ اس نے صد ہا روپے خرچ کرکے احاطے کو مدتوں کی محنت سے اپنی مرضی کے مطابق درست کیا تھا، بڑی تلاش سے کمروں کی وسعت اور ان کے مواقع کے لحاظ سے فرنیچر جمع کیا تھا، خانہ باغ کی درستی میں بہت کچھ محنت کرنی پڑی تھی۔ ابن الوقت تمام اسٹیشن کے بنگلوں اور کوٹھیوں سے واقف تھا۔ ہر طرف نظر دوڑائی کوئی بنگلہ ڈھب کا سمجھ میں نہ آیا اور جو دو چار تھے سو مشغول اور اگر مشغول نہ بھی ہوتے تاہم یہاں کا اکثر فرنیچر وہاں کے لیے بے جوڑ اور پھر خانہ باغ تو کسی طرح اٹھا لے جانے کی چیز نہیں۔ سمجھنے والے کو ابن الوقت کی یہ حالت تازیانۂ عبرت تھی۔ اسی طرح انسان ساری عمر بہ کمال اطمینان دنیا کی درستی میں لگا رہتا ہے اور اس دنیا کے ساتھ دل بستگی ہوتی ہے۔ دفعتہً اس کو دنیا چھوڑنی پڑتی ہے اور چوں کہ وہ دنیا سے مانوس تھا۔ اس کو دنیا کی ابدی مفارقت کا سخت صدمہ ہوتا ہے۔ وہ ساز و سامان دنیا میں سے کوئی چیز ساتھ نہیں لے جا سکتا اور جو ساتھ لے جا سکتا ہے یعنی اعمال، وہ عاقبت میں شاید اس سے زیادہ کارآمد نہ ہوں جیسے ایک گھر کا فرنیچر دوسرے گھر میں۔ وہ عاقبت میں اپنے لیے آسائش کی جاگہ نہیں پاتا، اور جگہ پاتا بھی ہے تو وہاں کے مناسب فرنیچر نہیں رکھتا۔ خدا اپنے فضل سے ہم کو توفیق دے کہ گرویدۂ دنیائے کے چند روزہ نہ ہوں اور عاقبت کے لیے جہاں ہم کو سدا رہنا ہے سامان کرتے رہیں۔ آمین۔
ابن الوقت اگر چاہتا تو منت سے خوشامد سے شاید کاربرآری کر لیتا مگر وہ مغرور برخود غلط نہ کسی سے پوچھا نہ گچھا۔ ایک چٹھی کمانڈنگ افسر کے نام دھر گھسیٹی کہ ہم بالکل انگریزی طور پر رہتے ہیں اور اس وجہ سے پار سال بھی ہم کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ امسال بھی ہمارے ساتھ اسی قاعدے کا برتاؤ ہونا چاہیے۔ کمانڈنگ افسر نے فوراً س کے جواب میں لکھ بھیجا کہ چھاؤنی میں لوگوں کا بہت اژدہام ہو گیا ہے اور سپاہیوں کی تندرستی کے لیے بھیڑ کا کم کرنا ضرور ہے۔ یہ پہلا انتظام ہے کہ جو لوگ فوج سے علاقہ نہیں رکھتے چھاؤنی کے اندر نہ رہیں۔ اس جواب کے بعد تدبیر کے سب راستے بند ہو گئے اور چار و ناچار بنگلہ خالی کر دینا پڑا۔ ایک ذرا سے بات میں بے چارہ ابن الوقت بیٹھے بٹھائے ہزار بارہ سو کے پھیر میں آ گیا اور کرکری ہوئی سو الگ۔ وقت پر موقع کا بنگلہ نہ ملا اور خیر یوں ہی سا ملا بھی تو اپنی غرض کو ڈیوڑھا دونا کرایہ دینا پڑا۔ نقل و حرکت میں اسباب خراب ہوا اور زیر باری کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں۔
فصل:18
سررشتہ در کے بہکانے سے صاحب کلکٹر ابن الوقت سے بدگمان ہوئے:
ابن الوقت کو حقیقت میں محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اس کو نوبل صاحب سے کس قدر تائید پہنچ رہی ہے۔ ان کا پیٹھ موڑنا تھا کہ ہر طرف سے مصیبتوں نے آ گھیرا۔ یوں بھی نوبل صاحب تنخواہ میں، عزت میں کسی طرح کلکٹر سے کم نہ تھے اور پھر کیا انگریز کیا ہندوستانی سب کو اس بات کا کامل اذعان تھا کہ بغاوت کا محکمہ عارضی ہے یہ خام ختم ہوا اور نوبل صاحب ضرور کہیں نہ کہیں کے اور بیس بسوئے تو قسمت دہلی کے کمشنر ہوں گے ورنہ کمشنر کے سیکریٹری ہو جائیں تو عجب نہیں۔ کیوں کہ چیف صاحب ان کی طرف بہت ملتفت معلوم ہوتے ہیں۔ اس خیال سے لوگوں کے دلوں میں نوبل صاحب کی بڑی ہیبت تھی اور انہیں کی وجہ سے سارا عملہ اب الوقت کے نام سے تھراتا تھا۔ اب جو میدان پایا خالی ایک دم سے سب کے سب پھر بیٹھے۔ سپردگی چارج کار و بکار جاری ہونا تھا کہ عملے لگے آپس میں اشارے کنائے کرنے سب سے پہلے کلکٹری کے چپراسی جمع ہو کر سلام کو آئے۔ ابن الوقت اپنے کام میں مصروف تھا۔ جمعدار نے چند قدم آگے بڑھ کر کہا۔ "کلکٹری کے چپراسی سلام کو حاضر ہیں۔"
ابن الوقت، (سر اٹھا کر) "یہ کیسا سلام ہے!"
جمعدار: حضور مال کے حاکم ہوئے۔ اللہ حضور کو لاٹ کرے۔
اتنے میں ایک محرر روبکاراطلاع یابی لکھوانے کے لئے دوڑا ہوا آیا گویا بڑی خوشخبری لایا۔عملے کے تیور تو بدلے ہوئے تھے سو تھے ' چونکہ ابن الوقت میں پانی مرتا تھا' اس کا یہ حال ہوگیا تھا کہ ان کی بات بات کو چھڑ خانی سمجھتا تھا۔عجب مشکل آپڑی تھی؛اگرکوئی اس کا ادب نہ کرتا تو گستاخ اور اگر کرتا تو سمجھتا کہ ہم کو بناتا ہے۔ جائزے کے کوئی چھوتھے یا پانچویں دنسر رشتہ دار نج پر رپورٹ خوانی کو گیاتو صاحب کلکٹر نے فرمایا کہ چیف کمشنر صاحب محکمہٓ بغاوت کی تخفیف کے لئے بہت مستعمبل ہیں اور جاتے جاتے کہ گئے ہیں کہ دیکھو اس کام پر خاص نگرانی رکھنا۔"
سر رشتہ دار: جہاں تک فدوی کو معلوم ہے 'ڈیڑھ دو برس کا کام باقی ہے۔
صاحب کلکٹر: ڈیڑھ دو برس!ہم سے نوبل صاحب نے کہا کہ اگر وہ ولایت جانے پر مجبور نہ ہوتے تو آخر سال تک یہ ہمہ وجوہ طے کردیتے۔
سر رشتہ دار:بے شک ' نوبل صاحب بہادر رہتے تو ایسا ہی ہوتا۔
صاحب کلکٹر: نوبل صاحب نے ہم کو کہا تھا بہت تھوڑے مقدمے فیصلہ کرنے کو ہیں اور ابن الوقت صاحب ان میں کارروائی کر رہے ہیں اور ان کے تصفیے میں زیادہ دیر نہیں ہوگی، بڑا کام مژلوں کو مرتب کرکے داخل دفترت کرنا ہے۔اسی خیال سے ہم نے ایک محرر کی تخفیف کا بھی حکم نہیں دیا۔اگر عملے یہ سمجھ کر کہ نوبل صاحب نہیں ہیں' کام میں غفلت یا کوتاہی کریں گے تو ہم ان کو سخت سزا کرنے کو موجود ہیں مگر کام ضرور آخر سال تک مکمل کرنا ہوگا۔
سر رشتہ دار: عملوں میں تو کسی کی مجال نہیں کے سر سو حکم کے خلاف کرسکے بلکہ اگر حضور کا ارشاد ہوگا تو صبح سے شام تک ان سے محنت لی جائے گی۔
صاحب کلکٹر: بس تو مثلوں کی ترتیب عملے کا کام ہے۔
سررشتہ دار:بغاوت کا عملہ فدوی کا ہی رکھوایا ہوا ہے۔ جب یہ عملہ قائم ہونے لگا تو عملہ ڈھونڈنے نہیں ملتا تھا۔ جناب نوبل صاحب بہادر نے حکم دیا تو فدوی نے چن چن کر اچھے ہوشیار عملے جمع کردئے اور فدوی کو بخوبی معلوم ہے کہ عملوں میں سے کسی کا کام پس ماندہ نہیں۔۔ مثلوں میں بڑی فردگذاشت دستخط کی ہے۔ حجور خیال فرمائیں کہ تاوقتیکہ حاکم متوجہ نہ ہو' دستخط کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔
صاحب کلکٹر: عملوں نے وقتاَ فوقتاَ احکام پر دستخط کیوں نہیں کروائے' یہ ان کا قصورہے۔اچھا ! ان سے جواب لے کر پیش کرئو ہم تمام عملہٓ بغاوت کو سزا کریں گے۔
سر رشتہ دار: حضور مالک اور خوند ہیں۔ فدوی کاو جب اس کا علم ہوا تو فدوی نے عملے کو بہت دھمکایا تھا۔حقیقت حال کا عرض نہ کرنا بھی نمک حرامی ہے۔ کہنے لگے جان کیا غضب میں ہے: کہیں تو ماں ماری جائے نہیں باپ کتا کھائے۔سر رشتہ دار صاحب!ہمارے ڈپٹی صاحب(ابن الوقت) سے کام پڑے تو معلوم ہو' نہ ان کے آنے کا ٹھکانا نہ کچہری برخاست کرنے کا ٹھکانا۔ دستخط کرانا تو بڑی بات ہے'سلام کے لیے سامنے جانے کے لیے بھی بڑاحوصلہ چاہئے۔
صاحب کلکٹر: کیا بات ہے؟آخر ہندوستانی عملے صاحب لوگوں کی پیشی میں بھی کام کرتے ہیں یا نہیں؟
سر رشتہ دار: صاحب لوگ اگر اس طرح قہر کی نظر رکھیں تو ایک دن کام نہ چلے۔ کام کے لئے کسی وقت نہ خوش بھی ہوتے ہیں اور پھر دیا بھی کرتے ہیں۔
صاحب کلکٹر: تم بھی کبھی ابن الوقت کی ملاقات کو گئے ہو؟
سر رشتہ دار: میں بے چارہ محرر'میری کیا اوقات؛ راہ میں آمنا سامنا ہوا سلام کرلیا۔
صاحب کلکٹر: تم کبھی ابن الوقت کے بنگلے پر گئے ہو؟
سر رشت دار: دو چار بار دل میں آیا پر سنا کہ اول تو اپنی وضع کے لوگوں کے سوائے کسی ہندوستانی سے نہیں ملتے اور ملتے بھی ہیں تو گھنٹوں انتظار کراتے ہیں۔ کچہری کے دنوں میں تو کہیں آنا جانا ہو نہیں سکتا' رہا اتوار ایک دن اور اسی میں اپنا اور گھر کا سارا کام کاج۔
صاحب کلکٹر: اوہو ابن الوقت نے اس قدر اپنی شان بڑھا رکھی ہے۔
سر رشتہ دار: ان کے شاہانہ خرچ ہیں، ہندوستانیوں کا کیا مقدور ہے، صاحب لوگ بھی اس طرح بے دریغ نہیں خرچ کر سکتے۔ ایک ہمارے جنٹ صاحب ہیں، ڈپٹی صاحب سے چوگنی تنخواہ پاتے ہیں، دو گھوڑوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتے۔ ایک گھوڑا میم صاحب کی سواری میں رہتا ہے۔ ان کی اپنی سواری کا گھوڑا کچھ بیمار ہو گیا تھا تو اس گرمی میں پیدل کچہری آتے تھے۔
صاحب کلکٹر: کیا ابن الوقت صاحب گھر کے بڑے امیر ہیں؟
سر رشتہ دار: ان کا خاندان تو مسلمانوں کے پادریوں کا خاندان ہے، یہ اپنی ذات سے ایک بیگم کے مختار تھے۔ بیگم صاحب قلعے کے باہر کشمیری دروازے رہتی تھی، غدر ہوا تو حکم دیا کہ تمام مال و اسباب قلعے پہنچوا دو۔ اہتمام کرنے والے ہمارے ڈپٹی صاحب۔ سنا ہے کہ کچھ کاٹھ کباڑ تو قلعہ پہنچا، باقی انہوں نے سب یہاں اپنے ہاں ڈھلوا منگوایا۔ اتنے میں بیگم صاحب مر گئی، سارا اثاثہ جہاں کا تہاں رہ گیا۔
صاحب کلکٹر: اگر ایسا ہوا تو بڑی نمک حرامی کی بات ہے اور میں کبھی خیال نہیں کر سکتا کہ ایسے شخص نے سچے دل سے نوبل صاحب کی جان بچائی ہو گی۔
سر رشتہ دار: صاحب بہادر کی قسمت اچھی تھی کہ سرکار کی طرف کی کوئی لڑائی نہیں بگڑی ورنہ مسلمان کسی دوسرے مذہب کے آدمی کو دیکھ نہیں سکتے۔ انگریز تو خیر بھلا نئے آئے ہوئے ہیں، ہم ہندوؤں کو ان کے ساتھ رہتے ہوئے سینکڑوں برس ہر گئے اور اب ان کا بس چلے تو ایک ہندو کو زندہ نہ چھوڑیں۔
صاحب کلکٹر: اگر واقع میں نوبل صاحب کی جان کو نیک ارادے سے بچایا تو اس کا یہ صلہ کچھ کم نہیں تھا کہ سرکار نے ان کی اور ان کے خاندان کی جان بخشی کی اور ان کے گھروں کو لٹنے نہیں دیا یا خیر! زمینداری تک کا بھی مضائقہ نہیں لیکن ایسے شخص کو حکومت کا ایک عہدہ دینا میرے نزدیک شاید بالکل خلافت مصلحت ہو۔ کیوں سر رشتہ دار! لوگ کیا خیال کرتے ہیں؟
سر رشتہ دار: ڈپٹی کلکٹری تو ان سے ایک دن نہ چلتی مگر نوبل صاحب بہادر کیپرورش سے سارے کام سدھ گئے اب ذرا مشکل پڑے گی، عملہ ناراض، اہل معاملہ شاکی۔"
صاحب کلکٹر: لوگوں کی نا رضا مندی کا اصل سبب کیا ہے؟
سر رشتہ دار: عملے تو سخت گیری اور بد زبانی سے ناراض ہیں اور کام بھی وقت پر نہیں نکلتا۔ اہل معاملہ دیر کی وجہ سے نالاں ہیں مہینوں لوگ پڑے جھولتے ہیں، تب بہ مشکل چھٹکارا ملتا ہے۔
صاحب کلکٹر: معلوم ہوتا ہے کہ ابن الوقت صاحب کھیل تماشے میں بہت لگے رہتے ہیں۔
سر رشتہ دار: یہ بھی ہے اور لوگ کچھ اور بھی کہتے ہیں۔ یہاں سے جو کوئی کبھی کاغذ طلب کیا گیا تو اکثر یہی جواب آیا کہ ڈپٹی صاحب کے نج پر ہے، ابھی حکم اخیر شاملِ مثل نہیں ہوا۔
صاحب کلکٹر: اب ڈپٹی صاحب کے شاہانہ خرچ کے لئے کسی آمدنی کا تلاش کرنا ضروری نہیں، انہوں نے بہت کچھ کما لیا ہو گا۔
سر رشتہ دار: اگر کمایا ہے تو پھر اتنا کمایا ہے کہ اس سے چہار چند خرچ بھی رکھیں تو اُن کو کسی طرح کی کمی نہیں۔
صاحب کلکٹر: تعجب ہے کہ کوئی نالش کیوں نہیں دائر ہوئی!
سر رشتہ دار: نوبل صاحب کے ڈر سے کسی نے دم نہیں مارا۔ اب دیکھا چاہیے، ڈپٹی صاحب بھی متردو تو معلوم ہوتے ہیں۔
صاحب کلکٹر: خیر، اب کام کا کیسا انتظار کرنا ہو گا۔
سر رشتہ دار: فدوی کے نزدیک تو مناسب یہ ہے کہ ڈپٹی صاحب کو تو صرف مثلوں کی تکمیل پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ بھی بڑا بھاری کام ہے اور باقی ماندہ مقدمات کو حضور اپنے اجلاس میں منتقل فرما لیں یا کسی حاکم ماتحت کو دے دیں۔ منشی رام سیوک صاحب کی اجلاس میں بھی کام کی کمی ہے۔ حضور کو معلوم ہے کہ منشی صاحب کیسے زبردست کام کرنے والے ہیں۔ ان کا اہلمد کہتا تھا کہ ہمارے منشی جی مقدّمے فیصلہ نہیں کرتے ، پھانکتے ہیں۔ بغاوت کے مقدمات بہت ہوں گے ہزار ہوں گے ، منشی صاحب کی تو تین حد چار مہینہ کی چٹنی ہے۔
صاحب کلکٹر : اچھا ایک روبکار لکھ دو۔
سر رشتہ دار نے وہیں کھڑے کھڑے دو سطری روبکار لکھا ، دستخط کرا چپراسی کے ہاتھ سر رشتے میں بھیج دیا۔ صاحب کلکٹر نے روبکار پر دستخط کرتے وقت پھر فرمایا کہ تم محکمہ بغاوت کی خوب نگرانی رکھنا۔
سر رشتہ دار : "فدوی بہ خوبی نگرانی رکھے گا اور کار گذاری کا ہفت روزہ حضور کے ملاحظے میں گزران دیا کرے گا لیکن حضور عندالملاقات ڈپٹی صاحب کو ذرا سا ایما فرما دیں گے تو ان کو بھی خیال ہوجائے گا۔"
صاحب کلکٹر : سرکاری کام کے لیے ہم کو زبانی کہنا کیا ضروری ہے ، تحریری حکم دینا چاہیے۔
صاحب کلکٹر تو کہیں ایک بجے ڈیڑھ بجے کچہری آتے تھے۔ سر رشتہ دار رپورٹ خوانی کرکے کوئی گیارہ بجتے بجتے کچہری پہنچا۔ یا تو ایک دن لکھنؤ کے بیلی گارڈ میں جنرل اوٹرم کا استقبال ہوا تھا یا آج سر رشتہ دار کی بہلی دور سے آتی دیکھ کر کلکٹر فوج داری کا سارا عملہ باہر نکل پڑا۔ سر رشتہ دار جو اپنی لٹو دار پگڑی سنبھالتے ہوئے اترے ، دیکھا کہ ساری ذریّات موجود ہے ، بہت بگڑے کہ آجکل کے لونڈوں کو جو ذرا بدھ چھو گئی ہو ، کیا بندر بندریا کا ناچ ہے؟ نام بنام کیفیت پیش کرکے ایک ایک پر جرمانہ کراؤں تو سہی۔ ابن الوقت کی ہوا تو روبکار جائزہ ہی سے اکھڑ گئی تھی ، آج مقدمات متدائرہ کے چھن جانے سے لوگوں کی نظر میں اس کی بات اور بھی دو کوڑی کی ہوگئی۔ روبکار میں لکھا تھا کہ مقدمات متدائرہ بلا کاروائی مزید سپرد اجلاس ہذا کیے جائیں۔ ابن الوقت نے اس پر اتنا تو لکھوا دیا کہ صاحب کلکٹر بہادر کے حکم کی تعمیل کی جائے اور پھر اس سے اجلاس پر بیٹھا نہ گیا ، اپنے پرائیوٹ روم میں جاکر چاہا کہ اخبار سے جی بہلائے مگر طبیعت کو حاضر نہ پایا۔ نوبل صاحب کے وقت میں گھر کی حکومت تھی اس نے جانا ہی نہیں کہ نوکری کیا چیز ہے اور ماتحتی کس کو کہتے ہیں۔ اب جو خلاف مزاج باتیں آنی شروع ہوئیں تو اس کو حیرت تھی کہ کلکٹر صاحب برسر پرخاش ہیں یا عجلت کی غرض سے یا محکمہ بغاوت میں اپنی کار گزاری ثابت کرنے کے لیے مقدمات کو اپنے اجلاس میں منتقل کرا لیا ہے۔ جہاں تک خیال کرتا تھا ، صاحب کلکٹر کی خصومت کی کوئی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی اور کیوں کر آتی! اس معاملے میں اس کی سمجھ بھی اوندھی تھی۔ ہر چند اس کی عہدہ ڈپٹی کلکٹری کا تھا مگر اس کے ابتدائے تقرّر سے محکمہ بغاوت میں نوبل صاحب کے نیچے کام کیا ، اس کو من حیث الخدمت حکام مال سے کسی طرح کا سروکار نہ تھا ان کا کام الگ ، اس کا الگ۔ غرض کچھ تو بے تعلقی اور کچھ پاس وضع وہ ان سب سے رہتا تھا بیگانہ وار اور یہ خبر نہ تھی کہ تقدیر یوں دفعتہََ پلٹا کھا جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ اس نے کلکٹر یا جنٹ یا اسسٹنٹ کسی سے رسم و راہ پیدا کرنے یا بڑھانے کا مُطلق اہتمام نہیں کیا کبھی اس کے ذہن میں گزرا کہ حکام وقت سے کسی صیغے کےکیوں نہ ہوں ، معرفت رکھنا معنی داخل فرائض منصبی ہے۔ ہندوستانی کے لیے ڈپٹی کلکٹری اور صدر الصدوری دو ہی جلیل خدمتیں ہیں۔ ہم نے تو جتنے سربر آوردہ ڈپٹی کلکٹر یا صدر الصدور دیکھے ، سب کا یہی دستور دیکھا کہ کلکٹر کوکلکٹر پادری اور ڈاکٹر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر مدارس اور پوسٹ ماسٹر اور مہتمم خزانہ غرض کوئی انگریز ہو ، بڑا یا چھوٹ متعہد یا غیر متعہد اور ملاقات ہو یا نہ ہو بالالتزام مہینے میں دوبار ، چار بار ، اس بنگلے پر حاضری دے آنا ضرور۔
ابن الوقت کو صاحب کلکٹر کی خصومت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ سو ایک بڑی وجہ تو اس کی بیگانگی ہی تھی ، نہ صرف کلکٹر صاحب سے ، بلکہ نوبل صاحب کے سوائے گویا تمام حکام ضلع سے ، یہاں تک کہ اس وقت حکام مال میں کوئی متنفس اس کا اتنا بھی رفیق نہ تھا کہ صاحب کلکٹر سے ذکر آجائے تو اس کے حق میں کلمتہ الخیر کہہ گزرے۔ جو شخص انگریزوں سے دل میں اکڑ رکھتا ہو ، ہندوستانیوں کو وہ کیا مال موجود سمجھ سکتا ہے۔ ابن الوقت نے ان کی استمالت کی ذرا بھی تو پروا نہ کی۔ ساری کلکٹری ، فوجداری ایک طرف تھی اور اکیلا ابن الوقت ایک طرف۔ کسی سے کچھ چھینا نہیں ، کسی کا کچھ بگاڑا نہیں، تبدیل وضع کی وجہ سے سب کے ساتھ ساتھ خدا واسطے کا بیر۔ غرض ابن الوقت نے جوں توں پرائیویٹ روم میں اکیلے پڑے پڑے وہ دن تو تیر کیا ۔ اس نے کئی بار عملے سے پوچھوایا بھی کہ اگر ہمارے کرنے کا کچھ کام ہو تو ہم اجلاس پر آئیں۔ عملے نے یہی جواب دیا کہ سر رشتہ دار صاحب مقدمات متدائرہ کے لئے بہت جلدی مچا رہے ہیں ، ہم سے کے سب انہی شلوں کے چھانٹے میں مصروف ہیں اور سرکار کے کرنے کا کام اب رہ بھی کیا گیا ہے ، یہ مثلیںٕ کلکٹر صاحب کے اجلاس میں جالیں گی تب دفتر کے داخلے کے لئے مثلوں کی ترتیب شروع ہو گی۔ اس وقت اگر احکام ترتیبی پر کہیں دستخط رہ گئے ہوں گے ، ایسے کاغذ علیحدہ رکھتے جائیں گے، بہت سے کاغذ جمع ہو گئے ، دستخط کرا لئے گئے۔
ابن الوقت کی خوداری نے اس کے حق میں ایک خرابی یہ اور کر رکھی تھی کہ وہ ہندوستانیوں کے ساتھ ملنے میں مضائقہ تو کرتا ہی تھا ،ا س سے ہر شخص اس کے پاس جاتا ہوا جھجکتا تھا اور آج کل جو کاروائیاںٕ درپردہ اس کے خلاف ہو رہی تھیں وہ ان سے مطلقا بے خبر تھا۔ نوبل صاحب کے چلے جانے کا ایک اثر یہ تو ضرور اس پر بھی منکشف ہو اکہ جو لوگ اس سے ملتے جلتے رہتے ہیں ( اور وہ تھے ہی کتنے ) پہلے ہی دن سے ملاقات میں کمی سی کرنے لگے اور اب جو یہ خبر منتشر ہوئی کہ تمام مقدمات متدائرہ صاحب کلکٹر نے اٹھوا منگوائے ،لوگوں نے اس خیال سے کہ مبادا صاحب کلکٹر دیکھ پائیں یا ان تک خبر پہنچ جائے ، اس کی کچہری کا آنا جان تک بالکل ترک کر دیا۔ ابن الوقت کے جی میں آیا بھی چلوں صاحب کلکٹر سے زبانی کہوں یا چٹھی لکھوں ، پھر سوچا اور ٹھیک سوچا کہ ابھی تک مجھ کو شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں، مقدمات منگوا لئے ، درد سر کم تربہ ! کھ میری تنخواہ تو نہیں گھٹا دی ، جاگیر تو نہیں ضبط کر لی۔ رہا لوگوں کا خیال تو انہوں نے تبدیل وضع پع مجھ کو کیا کچھ نہیں کہا اور اب تک کیا کچھ نہیں کہتے ۔ میرا ذاتی تعزز جو ہے سو ہے۔
فصل:19
صاحب کلکٹر اور ابن الوقت کا بگاڑ:
ہندی کی ایک مثل ہے "دکھتے چوٹ کنونڈے بھینٹ " ۔ رپورٹ خوانی میں سر رشتہ دار ابن الوقت کی طرف سے صاحب کلکٹر کے کان بھر چکا تھا سو اتفاق آج کو ناگہانی گویا اسی مثل کے سچ کرنے کو ، ابن الوقت کی صاحب کلکٹر سے مٹھ بھیڑ ہو گئی۔ ابن الوقت کی عادت دونوں وقت ہوا خوری کی تو تھی ہی ، کوئی ساڑھے پانچ بجتے بجتے کچہری سے سوار ہوا تو سیدھا میر ٹھ کی سڑک کو ہو لیا۔ آفتاب تھا پس پشت اور ٹھنڈی ٹھنڈی پوروا ہوا سامنے سے آ رہی تھی ۔ شاہ ورے سے بھی کوئی کوس ڈیرھ کوس آگے نکل گیا تھا کہ آفتاب نیچے لٹک آیا۔ چاندنی رات کے خیال سے دل تو ابھی لوٹنے کونہیں چاہتا تھا مگر جمنا پر کشتیوں کا پل تھا! یہ تصور ہوا ایسا نہ ہو تاریکی میں گھوڑے کا پاؤں کہیں کسی گھڑے میں جا رہے ۔ ناچار لو ٹا تو جس وقت زمینہ المساجد کے برابر آیا، نمازی مغرب کی نمازیں پڑ ھ پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے۔ دریا گنج کے نکڑ پر دور سے اس کو ایسا دکھائی دیا کہ بیچ سڑک میں کوئی انگریز اکیلا پن چکیوں کی طرف کو چلا جا رہا ہے۔ پچیس تیس قدم کا فاصلہ ہوگا کہ وہ انگریز پیچھے سے ٹاپ کی آواز سن کر کنارے ہو گیا۔ ابن الوقت برابر سے نکلا تو پہچانا کہ صاحب کلکٹر ہیں۔ باگ روک کر اس نے خود کہا : آہا مسٹر شارپ ! گڈ ایوننگ ٹویو۔ مجھےخیال نہیں تھا کہ اس وقت آپ اس سڑک پر ملیں گے ۔ اگر آپ منظور کریں تو میرا گھوڑا حاضر ہے ۔
صاحب کلکٹر: میں پیادہ پا چلنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔
ابن الوقت: آپ میری اس گستاخی کو معاف فرما دیں کہ آپ پیادہ پا ہیں اور میں سوار ہو ں ۔ یہ جانور جانور اس قدر تیز ہے کہ اگر میں اتر لوں تو یہ ضرور قابو سے باہر ہو جائے گا ۔ آپ نے شاید اس کا نام سنا ہو ۔ ہیرو یہی ہے جس نے میرٹھ کی گھڑ دوڑ میں بڑا نام پایا تھا۔ میں نےا س کو سو گنی دے کر مول لیا ہے۔
صاحب کلکٹر: میں جانتا ہوں ۔ ایسا قیمتی گھوڑا اسٹیشن میں شاید کسی کے پاس نہ ہو گا۔
ابن الوقت: میں بھی ایسا ہی خیال کرتا ہوں ۔ میں دریا پار کچھ دور تک چلا گیا تھا۔ شام کی ہوا خوری کے لئے اس سمت کو زیادہ پسند کرتا ہوں ۔ قرب دریا کی وجہ سے خوب خنکی ہوتی ہے اور سبزہ بھی اس طرف بہ کثرت ہے۔ میں یقین کرتا ہوںٕ کہ آپ نے بھی دریا کے پار دور دور سیر کی ہو گی۔
صاحب کلکٹر: چلتے پھرنے کے لئے مجھ کو جس قدر وقت ملتا ہےاور بہت تھوڑا ہے، میں اُس کو اپنے ضلع میں صرف کرنا چاہتا ہوں۔ اس لئے میری آگہی اپنے علاقے سے بڑھتی ہے۔
ابن الوقت: اگر بے موقع نہ ہو تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اب میرے پاس کچھ کام نہیں ہے۔
ابن الوقت جواب کا منتظر رہا مگر کلکٹر صاحب نے کچھ جواب نہ دیا اور پھر اس نے کہا کہ تما م مقدمات متدائرہ قریب تکمیل ہیں۔ میں سب کی کاروائی کر چکا ہوں۔"
صاحب کلکٹر: آپ کیوں سوکھے پتوں اور کانٹوں کو یاد کرتے ہیں، جب کہ باغ کی ساری ہی بہار آپ ہی کے حصے میں تھی۔
ابن الوقت نے اپنی طرف سے بہتیری کوشش کی مگر صاحب کلکٹر کسی طرح نہ کھلے ۔ تاہم دل کی کدورت بلکہ بدگمانی بھی ان کی باتوں سے مُترشح تھی۔ ابن الوقت تو اس مزاج کا آدمی نہ تھا کہ بات کو لٹکا رکھے مگر موقع ہی بونگا آ پڑا تھا کہ صاحب کلکٹر پیدل اور یہ سوار۔ اتر نہیں سکتا ، معذوری ہے۔ برابر نہیں چل سکتا بے ادبی ہے۔ آگے نہیں بڑھ سکتا بدتمیزی ہے۔ پیچھے نہیں ہٹ سکتا بے عزتی ہے۔ " نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن" ۔ آخر وہ یہ کہہ کر الگ ہو گیا کہ میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں ، قلعے میں ایک دوست اس وقت میرے منتظر ہوں گے۔
رات میں اور پھر صبح سے کچہری کے وقت تک ابن الوقت کو کئی دفعہ صاحب کلکٹر کی باتوں کا خیال آیا ۔ آخر یہی رائے قرار پائی کہ جب تک صاحب کلکٹر کی طرف سے ضابطے کی چھیڑ چھاڑ نہ ہو ، ان کی بدگمانی یا رنجش کو منہ سے بھی نہ نکالو۔ ناحق کہنے کی گنجائش ہو جائے گی کہ چور کی داڑھی میں تنکا۔ ادھر صاحب کلکٹر کے یہاں بھی مادہ تیار تھا۔ اگلے دن جونہی کچہری پہنچا، میز پر صاحب کلکٹر کا روبکا رکھا ہوا تھا کہ :-
کل شام کے وقت این جانب دریا گنج کی سڑک پر پیادہ پا چلے آتے تھے۔ ڈپٹی ابن الوقت گھوڑے پر سوار پیچھے سے این جانب کے برابر آ کر باتیں کرنے لگے، ڈپٹی صاحب سے اس بات کا جواب طلب ہو۔
دفعہ 2: ڈپٹی صاحب بلا اجازت و اطلاع این جانب دریا پار ضلع میرٹھ میں گئے اور ا ن کے بیان سے معلوم ہوا کہ اکثر جاتے رہتے ہیں۔ اس فعل کے جواز کی سند ان سے پوچھی جائے۔
دفعہ 3: جتنی بار ڈپٹی صاحب کا عبور پُل دریا جمن پر سے ہوا ہے حساب کر کے محصول بھیج دیں کیوں کہ ایں جانب یقین نہیں کرتے کہ ڈپٹی صاحب نے کبھی محصو ل دیا ہو۔
آج عملوں میں بڑی کھچڑی پک رہی تھی کہ دیکھیں ڈپٹی صاحب اس روبکا پر کیا کرتے
ہیں۔ بعض کہتے تھے کہ بس اب نہیں ٹھہرتے، استعفا تو کیا دیں گے مگر رخصت لے کر گھر بیٹھ رہیں ، نوبل صاحب پاس ولایت چلے جائیں یا شاید دوڑ دھوپ کر کے کہیں بدلی کرا لیں۔ کوئی یہ سمجھتا تھا کہ بہت سے انگریزوں سے ملاقات ہے ۔ کسی کو بیچ میں ڈال کر صفائی کر لیں گے ۔ کوئی یہ رائے بھی دیتا تھا کہ بھلے سے ہوں تو اب بھول کر بھی ا نگریزی وضع کانام نہ لیں۔ وہ کوٹ پتلون کم بخت کس کام آ رہا ہے۔ دین بھی گیا اور دنیا بھی برباد ہوئی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ ابن الوقت کو ایک امر کی طرف سے تو اطمینان ہوا کہ صاحب کمشنر کا ما فی الضمیر جلد منکشف ہو گیا۔ اب مقدمات کے اٹھوا منگوانے کی وجہ بھی سمجھ میں آئی اور دریا گنج کی سڑک پر جو اکھڑی اکھڑی باتیں انہوں نے کی تھیں ان کی بھی بدھ مل گئی۔ ابن الوقت نے فوراً ایک چھٹی صاحب کلکٹر کو لکھی کہ قبل اس کے کہ میں ضابطے کے مطابق آپ کے روبکار کا جواب دوں اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ براہ مہربانی مجھ کو ضابطے کا جواب دینے پر مجبور نہ کریں گے میں بہ منت آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مجھ کو اپنی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع دیجیے تاکہ میں بالمشافہ آپ کے تمام شہبات رفع کر دوں۔ آپ کو میرے معاملے میں کسی وجہ سے غلطی واقع ہوئی ہے اور اجنیبت کی حالت میں غلطی کا ہونا کچھ تعجب کی بات نہیں اور مجھ کو کامل یقین ہے کہ جب پوست کندہ حقیقت آپ پر ظاہر کی جائے گی آپ کا دل میری طرف سے ضرور صاف ہو جائے گا۔ میری بدقسمتی ہے کہ صرف انگریزی وضع کے سبب لوگ مجھ سے ناحق دشمنی رکھتے ہیں اور میرے حاسد بھی کم نہیں بس بہت تھوڑی توقع ہے کہ لوگ بھلائی کے ساتھ میرا تذکرہ کریں۔ میں آپ سے رعایت کی درخواست نہیں رکھتا بلکہ انصاف چاہتا ہوں اور اگر ازروئے انصاف میں آپ کی مہربانی کا مستحق نہ ثابت ہوں تو اس بے عزتی سے جو حاکم بالا دست کی ناخوشی کا ضروری نتیجہ ہے بہت بہتر ہو گا کہ میں خود کام سے علیٰحدگی اختیار کروں۔ آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ قطع نظر روحی تکلیف کے جو مجھ پر گزری ہے اس حالت سے میرا رہنا سرکار کے حق میں کسی طرح مفید نہیں۔
صاحب کلکٹر کا مزاج ابن الوقت کی طرف سے اس قدر برہم تھا کہ انہوں نے بہ استکراہ تمام اس کی چھٹی کے لفافے پر پنسل سے لکھ دیا کہ میں کسی نیٹو کو اپنی کوٹھی پر انگریزی وضع سے دیکھنا نہیں چاہتا اس پر بھی ابن الوقت نے دو دن تک روبکار کو بلا جواب ڈال رکھا۔ تیسرے دن تقاضے کاروبکار آ دھمکا۔ بہ ایں شدت کہ کچہری برخاست کرنے سے پہلے جواب نہیں دیں گے تو ضابطے کی کاروائی کی جائے گی۔ اب چار و ناچار جواب دینا ہی پڑا۔ صاحب کلکٹر کے اعتراض ان کی یا ان کے سر رشتہ دار کی نظر میں کچھ وقعت رکھتے ہوں گے ابن الوقت نے ایسے دنداں شکن جواب دیئے کہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اس نے لکھا کہ :
صاحب کلکٹر بہادر بہ حیثیت منصبی مستحق ادب ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ حکام ماتحت ان کے احکام جائز کی تعمیل کریں اور جس ملاقات کے صاحب کلکٹر بہادر شاکی ہیں حیثیت منصبی سے کچھ علاقہ نہیں رکھتی۔ مجھ کو صاحب بہادر غروب آفتاب کے بعد یکایک دریا گنج کے نکڑ پر ملے اور میں نے جب تک برابر نہیں آ گیا صاحب بہادر کو ہرگز نہیں پہچانا۔ پہچاننے کے بعد میں خلاف شیوۂ اہلیت سمجھا کہ بدون صاحب سلامت کیے چلا جاؤں اور صاحب سلامت کے بعد دفع منطنہ اجنیبت کے لیے ایک دو بات کا کرنا بھی ضرور تھا میں اس قصور کا معترف اس پر نادم اور اس کی معافی کا خواست گار ہوں۔
دفعہ 2 : میرٹھ کا ضلع شہر دہلی کی فصیل سے ملحق ہے۔ میں، ہوا خوری کے لیے اکثر دریا پار گیا ہوں۔ کوئی حکم ممانعت میرے نظر سے نہیں گزرا۔ اور نہ سرکار کا اس میں کوئی مفاد ہے کہ عہدے داروں کو نظر سے نہیں گزرا۔ اور سرکار کا اس میں کوئی مفاد ہے کہ عہدے داروں کو نظر بند رکھے۔ اگر فی الواقع کسی حکم میں اس طرح کی قید ہے تو وہ ناممکن العمل اور بےفائدہ ہونے کی وجہ سے قابل منسوخی ہے۔
صفحہ 205
دفعہ 3 : شاید صاحب کلکٹر بہادر کو خیال نہیں رہا کہ فری فنڈ فوجداری سے متعلق ہے ورنہ اجلاس کلکٹری سے کاروائی نہ فرماتے۔ علاوہ بریں چوں کہ گھاٹ مستاجری ہے مطالبۂ محصول حق مستاجر ہے۔
قاعدہ ہے کہ غصے میں انسان کی عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔ اس جواب کو سن کر صاحب کلکٹر بہادر رپورٹ کرنے کو تیار ہوئے۔ بارے سررشتہ دار نے سمجھایا کہ حضور کیوں رپورٹ کریں۔ حضور کی اتنی نا رضامندی کافی ہے۔ اب ڈپٹی صاحب کا حال کیا ہے کہ کچہری کا کوئی مذکوری تک تو ان کو سلام نہیں کرتا۔ ان کی کچہری کی طرف کوئی جا کر نہیں پھٹکتا۔ جس شخص نے اس زلزلے کی حکومت کی ہواس کے حق میں یہ بے عزتی کچھ کم نہیں۔ صبح شام خود ڈپٹی صاحب کی طرف سے استعفےٰ یا رخصت کی درخواست آنے والی ہے۔ حضور ذرا تامل فرمائیں اور اگر رپورٹ ہی کرنی منظور ہے تو ایسی زبردست رپورٹ ہو کہ وار خالی نہ جائے۔ ڈپٹی صاحب کی جڑ بہت مضبوط ہے۔ نوبل صاحب بہادر نے تعریفیں لکھ کر ان کی لیاقت اور دیانت حکام صدر کے ذہن نشین کردی ہے۔ مثلیں داخل دفتر ہورہی ہیں ، فدوی عملوں کو اشارہ کردے گا ، ساتھ کے ساتھ بے ضابطگیاں چھانٹتے جائیں گے اور اس اثناء میں عجب نہیں ڈپٹی صاحب پر کچھ مقدمات بھی دائر ہوجائیں۔"
بارے سر رشتہ دار کے سمجھانے سے صاحب کلکٹر کا طیش فرو ہوا اور رپورٹ ملتوی رہی مگر لوگوں میں یہی مشہور تھا کہ روانہ ہوگئی۔ سر رشتہ دار موذی اپنی طرف سے مقدمات دائر کرا دینے کی بہتیری کوشش کرتا تھا لیکن سچ کہا ہے :
تو پاک باش برادر مدار از کس باک
زنند جامہ ناپاک گازراں برسنگ
اس کچہری کا در و دیوار تک ابن الوقت کا دشمن ہورہا تھا مگر چونکہ اس کا معاملہ صاف تھا کسی کو اس کے سامنے پڑنے کی جرائت نہ ہوتی تھی اور یہ میرا شیر بدستور اسی شان سے کچہری جاتا تھا۔ لوگ اُس سے بہ خوف کلکٹر کنیاتے تھے اور یہ بہ حقارت کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا۔ غرض صاحب کلکٹر کی نا رضا مندی کا اس کو افسوس تھا نہ ہراس ، ملال تھا نہ خوف۔ کام تو اس سے بالکل چھین لیا گیا تھا ، یہ اپنے ساتھ اخبار کا بنڈل لاتا اور فراغت سے بیٹھا پڑھتا۔ بایں ہمہ صاحب کلکٹر کی طرف سے چھیڑ چھاڑ برابر چلی جاتی تھی۔ اپنا ہی عملہ وقت کی ہوا دیکھ کر ایسا خود سر ہوگیا تھا کہ حکم کی تعمیل اور کام کو جانفشانی کے ساتھ کرنا تو درکنار ، پابندی وقت تک کا لحاظ اٹھا دیا تھا۔ شاذونادر کوئی دن خالی جاتا ہوگا کہ صاحب کلکٹر کےیہاں سے تاکیدی روبکار نہ آتا ہو اور تاکید بھی معمولی طور کی نہیں بلکہ اس قدر سختی اور بے تہذیبی کے ساتھ کہ کوئی جابر کوتوال کسی چوکیدار کو بھی ایسے الفاظ نہیں کہتا۔ ادھر ابن الوقت اپنے عملے پر دباؤ ڈالتا تو کچھ موثر نہیں ہوتا تھا اور ہو تو کیوں کر ہو؟ دو چار بار عملوں پر جرمانہ کرکے دیکھا ، سیدھے صاحب کلکٹر کے اجلاس پر گئے اور منسوخ کرا لائے۔ چونکہ ہر طرح دق کرنا منظور تھا یہاں تک نوبت پہنچی کہ اجلاس کا کمرہ تک خالی کرا لیا۔ وہ جگہ شان دار اور آسائش کی تھی ، اس کے عوض میں کمرہ دیا گیا جس میں نہ دھوپ کی آڑ اور نہ بوچھاڑ کا بچاؤ اور عملہ ہے کہ سارے دن پتھر کی طرح چھاتی پر دھرا ہے۔ اسی اثناء میں گمنام عرضیاں بھی گزرنی شروع ہوگئیں جن میں سخت گیری اور بے انصافی کی صراحتاََ اور رشوت ستانی کی کِنایتاََ شکایتیں درج تھیں۔ ان عرضیوں کا گزرنا صاحب کلکٹر کے لیے حجت ہوگیا۔ سارے شہر میں ڈونڈی پٹی ، جگہ جگہ اشتہار آویزاں ہوئے کہ جس کو ڈپٹی ابن الوقت پر فریاد کرنی ہو بے تامل صاحب کلکٹر بہادر کی اجلاس میں حاضر ہو۔ ادھر عملوں نے مثلوں کی خوب روئی دھنکی۔ غرض ابن الوقت پر دو سوا دو مہینے پر چہار طرف سے ایسا نرغہ رہا کہ ہر روز اس کی موقوفی اور بدلی اور معطّلی اور سپُردگئ فوجداری کی گرم خبر اڑتی تھی اور پھر آپ ہی آپ ٹھنڈی پڑ جاتی تھی۔ جب زیادہ دن گزر گئے تو خود بخود لوگوں کے خیالات سے بدلنے لگے اور سمجھ گئے کہ بس کلکٹر سے اتنا ہی ہوسکتا تھا کہ کام نکال لیا ، کمرہ چھین لیا دو چار اینڈے بینڈے روبکار لکھوا دیے ، مگر واہ رے ڈپٹی صاحب ذرا جو آنکھ پر میل آیا ہو۔ کیوں نہ ہو ، مزاج میں اتنا طنطنہ رکھ لے تو حکومت کا نام لے۔کوٹ پتلون کی خوب شرم رکھی۔ پہلے تو اکثر ایک گھوڑے کی بگھی میں بھی آیا کرتے تھے جس دن سے کلکٹر کے ساتھ مورچہ لیا ، وہ دن اور آج کا دن جوڑی کے معمول کو ناغہ نہیں ہونے دیا۔ انگریزوں کے سارے کام تڑ پڑ کے ہوتے ہیں ، کلکٹر نے رپورٹ تو ضرور کی ہوگی ، مگر اب تک جو اس کا کچھ ظہور نہیں ہوا معلوم ہوتا ہے کہ صدر والوں نے مطلق لحاظ نہیں کیا۔ ہاں نوبل صاحب کا بھی بڑا زبردست کھونٹا ہے اور چاہے مفصلات کے حکام قدر نہ کریں مگر غدر کی خیر خواہیاں سرکار کے دفتر میں چڑھ چکی ہیں ، ان کو کون میٹ سکتا ہے۔ صاحب کلکٹر بہت بے جا الجھے۔ یہ بھی انہوں نے لالہ بھائی ڈپٹی کلکٹر سمجھے ہوں گے کہ ذرا گھورا اور مارے ڈر کے لگے گڑگڑانے بلکہ الٹا صاحب کلکٹر سے جواب طلب ہو تو تعجب نہیں اور ہوا ہو تو کس کو خبر ہے؟
فصل:20
ابن الوقت کی مالی مشکلات:
شروع سے سارا وبال ابن الوقت کے مال پر تھا۔ کلکٹر صاحب کے بگاڑ میں بھی وہ کئی ہزار کے پھیر میں آگیا۔ ان کی نا رضامندی کی ہوا کا پھوٹنا تھا کہ اگلے دن بلکہ شاید اسی دن خزانچی نے کہلا بھیجا کہ ایسا نہ ہو کہیں صاحب کلکٹر کے کان تک جا پہنچے۔ ڈپٹی صاحب تو ٹھہرے برابر کی ٹکر کے حاکم ، میری شامت آجائے گی ، حساب چکا دیں تو بڑی مہربانی کریں۔ اگر صرف خزانچی کا دینا ہوتا تو کوئی ترددّ کی بات نہ تھی۔ ابن الوقت نے معمول یہ رکھا تھا کہ عین تقسیم تنخواہ کے وقت کچھ زیادہ درکار ہوا تو خزانچی سے منگوا لیا۔ بس ابن الوقت خیال کرتا تھا کہ خزانچی کے بہت اڑ کر نکلیں گے تو مسا کرکے ہزار بارہ سو ، اس سے زیادہ نہیں مگر خزانچی کے تقاضے کے ساتھ اس کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر گڑوالے اپنا لینا مانگ بیٹھے تو بڑی مشکل ہوگی۔ ان کا حساب کتاب کچھ نہ ہوگا تو بھی دس کے پیٹے میں دو چار سو اِدھر اُدھر۔ اتنے کی سبیل سرِدست کہاں سے کی جائے گی؟ نوکری کا تو اب اتنا بھروسہ نہیں کہ دیکھیے مہینہ بھی پورا ہو یا نہ ہو اور مانا کہ رہی بھی تو ایسی متزلزل حالت میں تنخواہ پر مجھے کون قرض پکڑائے دیتا ہے۔ اب رہا سازوسامان ، اس میں شک نہیں کہ عمدہ ہے ، نفیس ہے ، قیمتی ہے ، مگر خریدنے میں اور بیچنے میں بڑا بل پڑ جاتا ہے اور پھر بیچنا بھی میرا بیچنا ، خوش خرید کا تو کیا مذکور ہے نیلام کرنا چاہوں تو کلکٹر کے ڈر کے مارے کوئی پاس آکر کھڑا نہ ہو۔ زمینداری کی گنجائش میں کچھ کلام نہیں ، جنگل ، باغات ، درختان ، متفرق ، سائر سوائے بہت سے رقمیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دس ہزار تو جنگل اور سر درختی سے جھاڑ لوں گا۔ مگر۔ ہا ! انعام خیر خواہی ، عطائے سرکار جس کی سند گورنمنٹ کی مہر سے مجھ کو ملی ہے ، اُس کے تو ایک تنکے کو ضائع کرنا بھی بے جا اور بدنما اور نامناسب اور موجب بدنامی ہوگا۔ سب سے بہتر تدبیر یہ ہے کہ بن پڑے تو شہر کے مکانات کو الگ کرو کیوں کہ یہ مکانات اگرچہ فی نفسہٖ بہت اچّھے ہیں شاہ جہانی وقتوں کے بنے ہوئے ، لداؤ کی چھتیں ، چوڑے چوڑے آثار ، اونچی کرسی ، وسیع شان دار ، مستحکم ، پائدار کوئی غرض مند لینے والا ہو تو ایک خاص بازار والی بارہ دری سے گڑوالوں کا سارا قرضہ اتر جائے ، جب یہ مکان بنا ہوگا تو دس ہزار کا چونا اور پانی لگ گیا ہو گا ، تہ خانوں کے روشن دانوں کی جالیاں ٹوٹ گئی تھیں اور تیس تیس روپے فی جالی لاگت آئی مگر مشکل یہ ہے کہ وہ مکان ہے مسلمان کے ڈھب کا اور مسلمانوں میں کوئی ایسا صاحبِ مقدور نظر نہیں آتا۔ بھائی حجتہ الاسلام عن قریب پنشن لے کر خانہ نشین ہونے والے ہیں اور حج کے جانے سے پہلے ذکر آیا تھا تو کہتے بھی تھے کہ موروثی مکان میں میرا گذر ہونا دشوار ہے ، کوئی موقع کا مکان معرضِ بیع میں ہو تو خیال رکھنا۔ وہ اس کو لے لیں تو سب بہتر بات ہے مگر ان کے پلے بھی دس ہزار کہاں سے آیا اور ہو بھی تو دس ہزار ایک مکان پر لگا دینا ایسا کیا آسان ہے اور پھر ان کے ساتھ بات چیت کروں تو خدا جانے کتنے دن میں جاکر بات طے ہو ، قیمت یک مشت دیں یا قسطیں ٹھہرائیں۔ آخر سوچ سمجھ کر ابن الوقت نے مولوی حجتہ الاسلام کو لکھا مگر اس طور پر کہ مجھ کو شاید فوراََ روپیہ درکار ہوا تو میں انتظار نہیں کر سکوں گا۔ ادھر اس نے کہا ، آؤ گڑوالوں کو ٹٹولو تو سہی۔ ایک آدمی کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ ڈپٹی صاحب نے اپنے حساب کی فرد مانگی ہے۔ آدمی کو پیغام پہنچانا تھا کہ گڑوالے تاڑ گئے۔ آدمی سے اتنا ہی کہا ، بہت خوب کل ہمارا مختار فرد لے کر حاضر ہوگا۔ اگلے دن خود لالہ تکوڑی مل جا موجود ہوئے اور صاحب سلامت کے بعد پہلی بات انہوں نے یہی کی : " کیوں جناب ! ہم سے ایسا کون سا قصور سرزد ہوا کہ آپ نے فرد منگوا بھیجی؟ ہم کو آپ سے ایسی توقع نہ تھی۔ آپ نے ہم کو غیر بھی نہیں دشمن سمجھا۔ ہم بھی آپ کی دیا سے بھگوان کی دی ہئوی عزت اور ساکھ رکھتے ہیں۔ دنیا میں اونچ نیچ سبھی کے ساتھ لگی ہے۔ ایسا لوبھ رکھیں تو ہماری عزت دو کوڑی کی ہو جائے۔ ڈپٹی صاحب ! لوبھ سے دولت جمع نہیں ہوتی ہے۔ ہم کو جو کچھ بھگوان نے دے رکھا ہے بزرگوں کی نیت کا پھل ہے۔ فرد کے عوض فارغ خطی حاضر ہے۔ جب بھگوان آپ کو اطمینان دے گا آہستہ آہستہ ادا کر دینا۔ لیکن اس وقت تو ہم آپ سے نہیں لے سکتے بیاج بٹے کی آپ ذرا چنتا نہ کریں ہم نے آپ کی بدولت قلعے سے بہت کچھ کمایا۔ ہم سے آنکھوں پر ٹھیکری نہیں دھری جاتی۔
ابن الوقت : خزانچی۔
تکوڑی مل : مجھ کو معلوم ہے کہ آپ کو خزانچی کا بھی کچھ دینا ہے اور مجھ کو یہ خبر بھی پہنچی ہے کہ انہوں نے اپنا لینا طلب کیا ہے یا طلب کرنے والے ہیں سو آپ کو تو بھگوان نے حاکم بنایا اپنا اپنا کرنا اپنا بھرنا۔ اول تو وہ ٹھہرے نوکر دوسرے ان کا جتنا نج ہے سب سرکاری روپے سے۔ ان سے اتنی سہار نہ ہو سکی۔ آپ حکم دیں تو خزانچی کا حساب بھی چکتا کر دیا جائے۔
ابن الوقت : نہیں ان کا حساب کچھ ایسا بہت نہیں ہے اس کی سبیل یہیں سے کر دی جائے گی اور آپ سے فرد منگوانے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سرکاری ملازم کو اپنے علاقے میں قرض لینے کی ممانعت ہے، شروع شروع میں تو مجھ کو اس ممانعت کا علم نہ تھا، علم ہوا تو میں نے پروا نہ کی۔
تکوڑی مل : آپ نے بھی بھلا اس کا خیال کیا۔ ممانعت اگر ہے بھی تو کوئی اس پر عمل کرتا کرات نہیں، صاحب کلکٹر اور جو چاہیں سو کریں، اس بارے میں کان ہلائیں تو میرا ذمہ، وہ خود کب قرض سے بچے ہیں۔ فوجی انگریزوں کی تو میں کہتا نہیں، ملکی انگریز تو ایسا کوئی برلاہی نکلے گا کہ دلی میں اس کو کام ملا ہو اور اس کا نام آپ کی کوٹھی کے بہی کھاتے میں نہ ہو اور نوکری تو آپ نے غدر کے پیچھے کی ہے، ہمار آپ کا لین دین بزرگوں کے وقت سے چلا آتا ہے پھر آپ کی نوکری دوسروں کے سری کی نہیں ہے۔ آپ ہی فرمائیں آپ کے سوائے اپنے اور بھی وطن میں حاکم ہیں آپ کے ساتھ سرکار کی خاص رعایت ہے۔ صاحب کلکٹر اس کی چھیڑ نکالیں گے بھی تو کچھ ہوتا ہواتا نہیں۔ اس بات کو تو میں بیمہ لیتا ہوں۔
فصل:21
ابن الوقت کی پھوپی زاد بہن کے شوہر حجتہ الاسلام کی آمد:
1857ء کے غدر سے پہلے حجتہ الاسلام حج کو گئے ہوئے تھے۔ غدر کی اڑتی سی خبریں انہوں نے عرب میں سنیں۔ دلی کو فتح ہوئے ایسے کوئی بیس بائیس دن ہوں گے کہ یہ واپس بمبئی پہنچے جہاں غدر کے تفصیلی حالات معلوم ہوئے۔ رخصت میں اتنی گنجائش تھی کہ چاہتے تو دلی ہو کر بلکہ فراغت سے مہینے سوا مہینے رہ کر اپنے کام پر جاتے، مگر معلوم ہوا کہ ابھی جا بجا شورش ہے اور خاص کر دلی کے مسلمانوں پر ایک طرح کا تشدد ہو رہا ہے۔ یہ صلاح ٹھہری کہ سمندر سمندر مدراس ہوتے ہوئے کلکتہ جائیں اور وہاں سے اپنے ضلع میں جا داخل ہوں۔ غرض ابن الوقت کے حالات میں جو تبدل واقع ہوا حجتہ الاسلام کی غیبت میں ہوا۔ دونوں میں رسم مراست بھی ختم ہی تھی کہ کبھی اوپر تلے کئی کئی خط آتے جاتے اور کبھی مہینوں ندارد۔ یوں تو ابن الوقت نے بڑے تپاک کے ساتھ حج سے مع الخیر واپس آنے کی مبارک باد کا خط لکھا۔ ادھر سے انعام خیر خواہی اور نوکری کی لمبی چوڑی تہنیت آئی۔ مگر تبدیل وضع کے بارے میں ابن الوقت کی طرف سے تو کیا ابتداء ہوتی حجتہ الاسلام نے بھی ایسی خاموشی اختیار کی کہ گویا خبر ہی نہیں۔ ابن الوقت کی پھوپھی نے کئی بار داماد کو لکھوا لکھوا بھیجا کہ لوگوں کے طعنوں مینوں نے زندگی دشوار کر دی ہے اب محلے میں رہنے کا ذرا بھدرک نہیں۔ تم جس طرح ہوسکے تھوڑے ہی دن کے لیے آؤ اور ہم لوگوں کا کہیں ٹھکانا کرو۔ مگر حجتہ الاسلام لطائف الحیل سے ٹالتا رہا۔اپنوں میں اور غیروں میں اتنا ہی تو فرق ہوتا ہے کہ ابن الوقت کی تبدیل وضع سے جس کو لوگ اپنے پندار میں تبدیل مذہب سمجھتے تھے، خویش و بیگانے سبھی ناراض تھے لیکن اب جو مشہور ہوا کہ صاحب کلکٹر صاحب بھی پیچھے پڑے ہیں تو غیر اکثر لگے شماتت کرنے اور اپنوں نےسناتو سب کے سب گھبرا کر ابن الوقت کی پھوپھی کے پاس دوڑے آئے کیوں کہ گھر میں سب سے بڑی بوڑھی وہی تھیں۔رشتے ناتے کے علاوہ ابن الوقت کی خیر خواہی سے تھوڑے بہت فائدے بھی ان سب کو پہنچے تھے۔ غدر کے بعد کا وقت مسلمانوں پر ایسی سختی کا گزر گیا کہ کرتوڈر اور نہ کر تو خدا کے غضب سے ڈر۔ ہزارہا ناکردہ گناہ بغاوت کی لپیٹ میں آگئے، الا ابن الوقت کے رشتے دار کہ اگر کسی نے جھوٹوں بھی ابن الوقت کا نام لے دیا تو کم سے کم اتنا تو ہوتا تھا کہ کوئی مخبر اس کی طرف آنکھ اٹھا کرنہ دیکھ سکتا تھا۔ ابن الوقت ذات سے روکھاتھا، کھرا تھا، پھر بھی لوگوں کو اس سے بڑی تقویت تھی۔ وہ کسی کا مقولہ بہت درست ہے "عنالمصاتب تذھل الاحقاد۔" اب کسی کو اس کا مطلق خیال نہ تھا کہ ابن الوقت نے ترک اسلام کیا ہے یا وہ انگریزوں کے ساتھ کھاتا پیتا ہے یا قوم اور برادری اور گھر کو چھوڑ کر انگریزوں میں جاملا ہے یا اس نے بزرگوں کے نام کو بٹا لگایا ہے یا اس نے خاندان کی آبرو کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ سارے رنج و شکوے بھول بسر کر سب کو اسی کی پڑی تھی کہ کسی طرح ابن الوقت کو اس بلا سے نجات ہو۔ اس کی پھوپھی تو اس طرح بین کر کر کے روتی تھیں جیسے کوئی مردے کو روتا ہے مگر ملا کی دوڑ مسجد، سب نے مل کر منتوں اور چلوں اور عملوں اور دعاؤں کی بھر مار کر دی اور ختم خواجگاں اور " لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین" اور "امن پجیب المضطر انا دعا و بکشف السوع" اور "قلم تقتلوہم و لکن اللہ قتلھم وما رمیت اذرمیت و لکن اللہ رمی اور اللھم انا نجملک فی نحوررھم و نعوذہک من شرورہم۔ حزب البحر و اور دلائل الخیرات اور یاسین شریف اور صلوٰۃ الحاجتہ اور اعمال حصر اللسان کے حربے صاحب کلکٹر پر چلنے شروع ہوئے۔دنیاوی تدبیروں میں سے تو اور کوئی تدبیر بن نہ پڑی مگر اس مرتبہ ابن الوقت کی ساس نے داماد کو نہیں بلکہ بیٹی کو لکھوا دیا کہ دو مہینے پورے ہو کر یہ تیسرا لگا کہ دلی کا سب سے بڑا انگریز ناحق، ناروا تمہارے بھائی ابن الوقت کے پیچھے پڑا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ کنبہ میں کوئی اس جوگا نہیں کہ اس مصیبت میں ان کا ساتھ دے۔ میں تمہارے میاں کو لکھتے لکھتے تھک گئی، آنے کی حامی نہیں بھرتے۔ خدا کے لئے تم ان کو سمجھا کر ساتھ لاؤ۔ کھانا وہاں کھاؤ تو پانی یہاں آکر پیو، وقت نکل جائے گا اور بات رہ جائے گی۔ بھلا اگر رشتے ناطے کا پاس نہ کرو تو اتنا ہی سمجھو، اگر خدانخواستہ اس کی دشمنوں پر ایسی دیسی بن گئی تو ہم کو دلی میں کون چین سے بیٹھنے دے گا؟ ہم کو تو اسی کے دم کا سہارا ہے۔ خدا اس کو جیتا رکھے اور نیک ہدایات دے اور الہٰی سدا کو اس کا بول بالا رہے! سارے کنبے کے لوگ عذر خواہی کو آئے اور تمہارے اور تمہارے میاں کے نہ آنے پر سبھی نے تو اچنبھا کیا۔ میں نے ہر ایک سے یہی کہہ دیا کہ نوکری کا معاملہ ہے، صبح شام آنے ہی والے ہیں۔ غرض جس طرح بن پڑے اپنے سو کام حرج کرو اور بہت جلد آؤ۔ تھوڑے لکھے پر بہت سا عمل کرو۔
خط پر خط تو پہلے ہی سے چلے جا رہے تھے، اب تو ایک اُدھر سے یہ تقاضا پہنچا اور ادھر ابن الوقت نے بارہ دری بیچنے کی فوری ضرورت ظاہر کی۔ حجتہ الاسلام نے سمجھایا کہ ابن الوقت کے سنبھالے کچھ سنبھلتی ہوئی نظر نہیں آتی، اب دیر کرنی کچھ ٹھیک سی بات نہیں۔ ابن السوقت کو لکھا کہ اپنی کوٹھی میں میرے ٹھہرنے کا ٹھکانہ کرو اور مجھ کو پہنچا ہوا سمجھو۔ اس اثناء میں جان نثار بھی نوبل صاحب کو بمبئ پہنچا کر آگیا بلکہ وہ صاحب سے پوچھ کر دس دن اپنے گھر میں بھی رہ آیا۔ اس نے یہاں آکر سنا کہ اتنے ہی دن میں کیا سے کیا ہوا گیا۔ چھوٹتے ہی ابن الوقت سے جاشکایت کی: "آپ نے کیا غضب کیا! اگر صاحب کو ذرا بھی معلوم ہو تو جہاز پر سوار ہو نے کا نام نہ لیں۔"
ابن الوقت: یہ کیا مناسبت تھی کہ میں اس طرح کی علالت میں اور اس پر سفر کی پریشانی، صاحب کو تکلیف دیتا اور ہر چند سرتاسر کلکٹر کی زیادتی ہے مگر جو لوگ حقیقت حال سے واقف نہیں' مجھی کو قصور وار ٹھہرائیں گے۔ اس ڈر کے مارے کسی سے اس کا مذکور بھی نہیں کرتا۔
جان نثار: جناب وہ تو کچھ صاحب کا دانہ پانی ہی زور کر رہا تھا' بمبئی پہنچتے پہنچتے صاحب اچھے خاصے تندرست تھے۔
پھر بنگلے کے چھوٹنے اس اور صاحب کے کلکٹر کے ساتھ بگاڑنے بڑھنے اور نام بنام صاحب لوگوں کے کھینچنے کی مفصل کیفیت سن کر کہنے لگا کہ جناب میں تو شروع سے لوگوں کے تیور بدلے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ وہ خدا جانے صاحب کی ایسی کیا مروت تھی' اور نری محبت بھی نہیں بلکہ دباؤ کہ کسی نے کان تک نہیں ہلایا۔ میری بھی ساری عمر انگریزوں میں ہی گذری ہے ایک ہمارے صاحب تو ذات سے فرشتہ آدمی ہیں' ایسا بشر بھی ہونا مشکل ہے اور دلی کا اتنا بڑا کمپو ہے پس دو چار ہی اس طرح کے نیک مزاج لوگ اور ہوں گے زیادہ نہیں ورنہ جناب بھلا کہیں یہ لوگ ہندوستانی کو پتیاتے ہیں۔میں نے خود صاحب کے منہ سے سنا ہے کہ اب اشراف انگریز ولایت سے بہت کم اترتے ہیں کوئی ذات کا بھٹیارا ہوتا ہے کوئی موچی کوئی درزی کوئی بوچڑ کوئی نائی تو وہ ذاتی اصلات کہاں جائے۔بڑا رنج کا مقام ہے کہ آپ نے ہزار ہا روپیہ ہمارے ہی ہاتھوں ان لوگوں کو چٹادیا اور وقت پر یہ لوگ طوطے کی طرح آنکھیں پھیر بیٹھے"
گدھے کا کھایا پاپ نہ پن"۔ صاحب کلکٹرکو تو ساری خلقت پکارے کہتی ہے کہ کانوں کے کچے ہیں۔ وہ آپ کو بری نظروں سے تو پہلے ہی دیکھتے تھے ایسا ہوا ہے کہ ہمارے ہی بھائی بندوں میں سے کسی نے موقع پا کر کچھ پھونک دیا اور اب آیا ہوں تو اس کی ٹوہ لگاتا ہوں مگر یہ تو فرمائیے کہ آپ نے اس توڑ کی کیا تدبیر کی؟"
ابن الوقت: میں نے تو کچھ بھی تدبیر نہیں کی اور کر بھی کیاسکتا تھا۔ شروع شروع میں صاحب کلکٹر سے ملنا چاہا انھوں نے انکار کیا۔ چپ ہورہا۔
جان نثار: آپ نے کسی کو بیچ میں ڈالا ہوتا۔
ابن الوقت: (ذرا تیز ہوکر) کیا تمہارا یہ مطلب ہے کہ میں کسی کی خوشامد کروں کہ صاحب کلکٹر سے میری خطا معاف کروادو۔ یہ تو مجھ سے ہوتی نہیں۔ زیادتی صاحب کلکٹر کی ہے اور ان کو معذرت کرنی چاہئے نہ الٹی مجھ کو۔
جان نثار: پھر تو اس سے بہتر تھاکہ آپ رخصت لے کر بیٹھ رہے ہوتے۔
ابن الوقت: تم کیسی نادانوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ ایسے وقت اگر رخصت کی درخواست کرتا تو لوگ یہ سمجھتے کہ ضرور دال میں کچھ کالا تھا۔ دشمنوں کو موقع ملتا صاحب کلکٹر کو حجت ہاتھ آتی اور یقیناََ بھانجی مارتے اور رخصت کو منظور نہ ہونے دیتے۔ خیر اب یہ بتاؤ کہ بھائی حجت الاسلام تشریف لارہے ہیں اور ہمارے پاس ٹھہریں گے ان کے لئے کیا انتظام کیا جائے؟ بنگلے میں بالکل گنجائش نہیں۔
جان نثار:یہ تو آپ نے بڑی خوش خبری سنائی۔ اب خدا نے چاہا سب کام سدھ ہوجائیں گے گنجائش کی نسبت جو آپ نے فرمایا ہے تو وہ مولوی آدمی ہیں ان کو ایک کمرہ بھی ہوا تو بس ہے۔ ایک کمرے کا خالی کردینا ایسا کیا مشکل ہے۔ میں اسباب کو ٹھکانے لگادوں گا۔
ابن الوقت: میں نہیں سمجھتا کہ میں ایک کمرہ بھی انکو دے سکوں گا۔ اس وقت اس بنگلے میں آٹھ کمرے ہیں' مگر اصل میں چھ تھے۔ دو کمروں میں پارٹیشن وال(پردے کی دیوار) کھڑی کرکے دو کمرے اور پیدا کئے گئے۔ ڈریسنگ روم (کپڑے پہنے کا کمرہ) بالکل نہ تھا'باتھ روم (غسل خانے) میں سے نکالنا پڑامگر ایک کمرے کے جو دو کئے گئے دونوں تنگ۔ نہیں معلوم اس بنگلے کا کیسا ڈیزائن کیا گیا تھاکہ ایک متنفس کی بھی تو اس میں بافراغت گذر نہیں ہوسکتی تھی۔لکھنے پڑھنے کی لئے کوئی جگہ ہی سمجھ میں نہیں آتی۔ ناچار اتر والے لمبے کمرے کو لائبریری(کتب خانہ) بنا کر اس کے ایک حصے کو ریڈنگ روم کرلیا۔ غرض اب تک ایک باتھ روم ہے اس کی بغل میں ایک ڈریسنگ روم اس کے پہلو میں ایک بیڈ روم سر پر ریڈنگ روم اس کے برابر لائبریری سے ملا ہوا بلئیرڈ روم، دکھن کے سرے والے کمرے میں پیانو اگرچہ بے موقع ہے پر کیا کیا جائے! اس پر بھی اسموکنگ روم کا کہیں ٹھکانہ نہیں۔ اسباب ہے کہ برامدے میں اور کچھ شاگرد پیشے کے مکانات میں بھرا پڑا ہے۔سجانے کا تو کیا مذکور ہے۔ رکھنے تک کی جگہ نہیں۔ ہندوستانیوں میں ایک برا دستور ہے نہ مجھ سے پوچھا، نہ گھچا، ایک دم سے پتھر سا کھینچ مارا کہ ہم تمہارے پاس ٹھہریں گے۔ جس وقت سے خط آیا ہے میں حیران ہوں، کیا کروں کیا نہ کروں۔
جان نثار : آپ کیوں اتنا تردد فرماتے ہیں۔ ان کو آنے دیجئے اور انہی کی رائے پر رکھیے۔ یوں تو صاحب کا بنگلہ خالی ہے مگر یہاں سے ذرا دور ہے۔
فصل:22
حجتہ الاسلام آئے اور ابن الوقت کی کوٹھی میں انہوں نے اپنا گزر نہ دیکھا:
مہینہ اور تاریخ تو یاد نہیں، پر اتنی بات کا خیال بے شک ہے کہ پانی کے برسنے کی دیر ہوئی، مسلمانوں نے صلاح کی کہ جمعہ کے دن عید گاہ میں پہلے نماز استسقاء پڑھیں اور وہیں جمعے کی نماز ہو۔ جمعرات کو عید گاہ میں صفائی ہوئی، شامیانے تنے، جا نمازیں بچھیں۔ یکایک رات کو اچھا زور کا پانی برسا، وہ سارا منصوبہ ملتوی رہا اور بدستور جمعے کی نماز جامع مسجد میں ہوئی۔ نماز کے بعد لوگ حجتہ الاسلام سے ملے اور پوچھا آپ کب تشریف لائے؟
حجتہ الاسلام : "کل بین العصر و المغرب"۔
یہ سن کر سب نے کہا : " آہا! یہ آپ ہی کے قدموں کی برکت ہے کہ خدا نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا"۔
ڈاک گاڑی ابن الوقت کے احاطے میں داخل ہوئی تو یہ ہوا خوری کو سوار ہو گئے تھے مگر نوکروں کو معلوم تھا، گاڑی آتی دیکھ سب نے نکل کر سلام کیا۔ داروغہ نے قریب جا کر اطلاع دی کہ سرکار سوار ہو گئے ہیں، کئی دن سے دریا کی طرف تشریف لے جاتے تھے، آج کسی اور طرف کو نکل گئے ہوں گے۔
حجتہ الاسلام نے پہلے اتر کر بالتفصیل اندر باہر، کوٹھی کو دیکھا۔ خدمت گار وضو کا آفتابہ لیے ساتھ ساتھ تھا۔ آخر حجتہ السلام نے خدمت گار سے کہاَ:"بھائی یہاں تو کہیں وضو کا ٹھکانہ نظر نہیں آتا، برآمدے میں لوٹا رکھ دو" اور داروغہ سے پوچھا "یہاں آس پاس کہیں مسجد بھی ہے"؟
خانساماں : (چاروں طرف دیکھ کر) کہیں نظر تو نہیں آتی۔
حجتہ السلام: تم کتنے مسلمان ڈپٹی صاحب کے ساتھ ہو؟
خانساماں : (آہستہ آہستہ انگلیوں پر گن کر) درزی ایک، سقہ دو، چوکیدار تین، باورچی کے ہاتھ تلی کے دو میٹ، کے ہوئے پانچ، دو سائیس، دو چپراسی نو، ایک میں دس (پکار کر) دس۔
حجتہ السلام: ماشاء اللہ، پھر تم اور تمہارے سرکار نمازیں کہاں پڑھتے ہو؟
داروغہ نے شرما کر گردن نیچے کر لی۔ وضو کے بعد حجتہ السلام نے اپنے خدمات گار سے پوچھا کہ تم کو وضو ہے؟
خدمات گار: جی ہاں، مجھ کو تو وضو ہے۔
حجتہ السلام: اچھا تو نیک مرد دوسرے خدمات گار کا نام ہے) کو بھی اسی طرف کو بلا لو اور کہہ دینا دونوں جانمازیں گاڑی میں سے لیتے آئیں۔ یہاں نماز وغیرہ کا کچھ اہتمام معلوم نہیں ہوتا۔ تمام کمروں میں جدھر دیکھو تصویریں ہی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ بس یہی برآمدہ ٹھیک ہے۔
یہ کہہ کر حجتہ السلام نے خود اذان کہی۔ اذان کی آواز سے کسی کے کان آشنا
نہ تھے۔ اصطبل میں گھوڑوں نے کنوتیں کھڑی کیں اور کتے لگے رونے بھونکنے۔ بارے حجتہ السلام نے اپنے دونوں نوکروں کے ساتھ جماعت کی نماز تو پڑھی مگر بہ استکراہ۔ نماز کے بعد داروغہ سے پوچھا "تہمارے سرکار کس وقت واپس آیا کرتے ہیں؟
خانساماں : داروغہ: ان دنوں تو اکثر دن چھپنے سے ذرا پہلے چلے آتے ہیں۔
حجتہ السلام: پھر کیا کرتے ہیں؟ ان کے سارے معمول بیان کرو۔
داروغہ: پہلے تو کوئی نہ کوئی صاحب ضرور ان کے ساتھ آتا تھا اور کوٹھی پر ایک دو صاحب آ موجود ہوتے تھے۔ آج کل لوگوں کا آنا جانا بہت کم ہو گیا ہے اور سرکار بھی کہیں نہیں جاتے۔ دس بجے کھانا کھاتے ہیں، اس وقت تک اخبار یا کتاب پڑھتے رہتے ہیں۔ کھانے کے بعد آدھا گھنٹہ انٹا کھیلتے ہیں، پھر چائے پی کے سونے کے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ صبح کے آٹھ بجے بیدار ہوتے ہیں، غسل کیا، کپڑے بدلے، کھانا کھایا، کچہری چلے گئے۔
حجتہ السلام: اوہو! صبح کے آٹھ بجے اٹھتے ہیں۔
خانساماں : پھر جناب رات کے بارہ بجے سے ادھر تو سوتے بھی نہیں ہوں گے۔ ان دنوں کا ٹھیک حال معلوم نہیں، صاحب لوگوں کی آمد و رفت کثرت سے تھی، رات کے دو دو بجے تک جمگھٹا رہتا تھا۔
حجتہ السلام: کھانا کس قسم کا پکتا ہے اور کون پکاتا ہے؟
خانساماں : انگریزی کھانا ہوتا ہے اور مدارس کی طرف کا کشٹیا نامی ایک باورچی ہے، وہی پکاتا ہے۔"
حجتہ السلام: کون ذات ہے؟
خانساماں ہندو مسلمان انگریز سب کا جھوٹا کھا لیتا ہے۔ اس سے پوچھو تو اپنے تئیں اروا بتاتا ہے۔ نہیں معلوم اروے کون ہوتے ہیں مگر اس کے کھانے کی تعریف ہے۔ صاحب کمشنر کے یہاں جب کوئی بڑا کھانا ہوتا ہے، اسی کو بلوا بھیجتے ہیں۔
غرض اچھے سوا ڈیڑھ گھنٹے حجتہ السلام نے داروغہ سے باتیں کیں۔ اسی اثناء میں اس کے خدمات گار نے گاڑی سے اسباب اتارنے کا پوچھا بھی مگر اس نے کہا ابھی ٹھہرو۔ تھوڑی دیر بعد کہوں گا"۔ اب نماز مغرب کا وقت قریب آیا تو خدمات گار نے کہا: "حضور کوچوان بہت جلدی مچا رہا ہے"۔
حجتہ السلام: "اس کو سمجھا دو کہ صبر کرو، مغرب کی نماز پڑھ لیں، ڈپٹی صاحب بھی آنے ہی والے ہیں، ان سے ملنے کے بعد چلیں گے۔ گھوڑے کو کھول دو، گھاس ڈال دو اور تقاضا مت کرو۔
عصر کےو قت تو کتے صرف اذان پر کھورو لائے تھے، اب اذان کے علاوہ نماز بھی جہری تھی، ایک دوسرے کتے مغرب سے ذرا پہلے دستور کے مطابق کھول بھی دئے گئے تھے بہتیرا داروغہ اور کتوں پر جو بھنگی تھا، وہ اور دوسرے لوگ سبھی تو ڈانٹتے اور دھمکاتے تھے، مگر کتے سرکار کے منہ لگے ہوئے، ایک نہ مانی اور سب کے سب نرغہ کر کے چڑھ آئے۔ ہر چند حجتہ الاسلام کو ہر حالت کے مناسب نماز کا قاعدہ معلوم تھا مگر یہ حالت ہی انوکھی تھی۔ اللہ اکبر تو وہ کہہ گزرا، اگر کہیں ایک لفظ بھی اس کے منہ سے اور نکلے تو کتے ضرور اس کا ٹینٹوا لیں۔ بارے اتنے میں ابن الوقت آ پہنچا۔ گھوڑے کی ٹاپ کی آہٹ پا کر کتے اس کی طرف لپکے اور ادھر حجتہ الاسلام نے کڑک کر اپنی اذان اور نماز تمام کی۔ نماز کے بعد دونوں بھائی ملے تو ابن الوقت نے کہا: ‘‘بنگلے کو تو آپ دیکھ چکے ہیں، اب اپنی آسائش کے موافق اسباب کے جہاں تہاں رکھنے کا حکم دیجئے اور تمام بنگلے پر تصرف کیجئے۔ افسوس ہے کہ کمرے کم ہیں اور چھوٹے ہیں لیکن میں نوبل صاحب کی کوٹھی میں بھی چلا جا سکتا ہوں۔"
فصل:23
حجتہ الاسلام اور ابن الوقت کی ملاقات اور مذہبی گفتگو کی ابتدا، بحث اسباب
حجتہ الاسلام: میں نے جس وقت دہلی آنے کا ارادہ کیا اسی وقت یہ بات بھی دل میں ٹھہرا لی تھی کہ تمہارے ہی پاس ٹھہروں گا، چنانچہ تم کو لکھ بھی بھیجا تھا۔ اب اگر تم دوسری کوٹھی میں چلے گئے تو میرا یہاں ٹھہرنا بھی بے لطف ہے۔"
ابن الوقت: لیکن تنگی کے ساتھ رہنے میں اس سے زیادہ بے لطفی ہو گی۔ میں بھی بہ مجبوری اس بنگلے میں پڑا ہوں۔ اس کی ساخت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنگلہ رہنے کے لئے نہیں بنایا گیا بلکہ شاید کسی خاص طرح کا آفس یا گودام رہا ہو گا۔ میں شروع سے چھاؤنی میں رہتا تھا۔ وہ بنگلہ اس قدر وسیع تھا کہ کبھی کبھی چار چار صاحب لوگ بھی میرے یہاں مہمان رہے ہیں، اتنا بھی تو معلوم نہیں ہوا کہ کدھر پڑے ہیں، مدت کے قیام میں اس کو میں نے اپنی مرضی کے مطابق درست کر لیا تھا۔ کمروں کی وسعت کے مناسب فرنیچر بہم پہنچایا تھا، بڑی محنت سے خانہ باغ آراستہ کیا تھا۔ گرمی کی وجہ سے کچھ یوں ہی سی روائت ہوا میں ہوئی، کمانڈنگ آفیسر نے ڈر کے مارے فوجی عہدہ داروں کے علاوہ جتنے لوگ چھاؤنی میں تھے، دفعتہً سب کو اٹھا دیا۔ ہر چند تلاش کیا، کوئی بنگلہ ڈھب کا نہ ملا۔ ہار کر یہ بنگلہ لیا تو اس میں بھی دو کمرے میں نے اپنی تجویز سے زیادہ کیے ہیں۔ اس پر بھی مطلق گنجائش نہیں۔ اسباب برآمدے میں پڑا پڑا خراب ہورہا ہے۔ لو کیلٹی چنداں بری نہیں مگر خوف ہے کہ کہیں تنگی کی وجہ سے تن درستی میں خلل نہ آجائے۔
حجتہ الاسلام : سچ ہے انسان بھی عجیب قسم کا مخلوق ہے ، پھیلنا چاہے تو یہاں تک کہ "دو بادشاہ در اقلیمے نہ گنجند" اور سکڑنے پر آئے تو اتنا کہ "دو درویش در گلیمے بخسپند "۔ مجھے تو صرف ایک کمرہ کافی ہے اور میں اپنے گھر بھی اسی طرح مختصر طور پر رہتا ہوں۔ یوں تو مکان بہتیرا وسیع ہے مگر میرے ذاتی استعمال میں صرف ایک دالان اور ایک حجرہ ہے جن دونوں کا مجموعہ تمہارے اس بڑے کمرے کے شاید برابر ہو مگر میں تو سمجھتا ہوں کچھ چھوٹا ہی ہوگا۔ سو دالان اور حجرہ بھی میرے استعمال میں اس طرح پر ہے کہ جاڑے کے دنوں میں میں تو کبھی دالان میں پاؤں بھی رکھتا ، حجرے میں میری چارپائی بچھی رہتی ہے ، چارپائی کے آگے اتنی جگہ ہے کہ فراغت سے پانچ چھ اور ذرا تنگی سے سات آٹھ آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔ لوگوں سے ملنا جلنا ، لکھنا پڑھنا ، کھانا کھانا ، نماز پڑھنا ، غرض میں اکثر ضرورتوں کے لیے وہی ایک حجرہ کفایت کرتا ہوں۔ اور جب یہ خیال کرتا ہوں کہ اتنی بڑی زمین میں سے آخر کار مجھے چند روز کے لیے ایک قبر کی جگہ ملے گی ، نہیں معلوم کہاں اور اس کا بھی پورا یقین نہیں تو بے اختیار حضرت لقمان کا مقولہ یاد آتا ہے
ع
ان ھذا لمن یموت کثیراََ ۔
ابن الوقت : مجھ کو حیرت ہے کہ اس طرح کی زندگی میں آپ کی تن درستی کیونکر باقی رہتی ہے؟
حجتہ الاسلام : اسی طرح باقی رہتی ہے جس طرح اور لاکھوں کروڑوں بندگانِ خدا کی باقی رہتی ہے اور جس طرح اب سے ڈھائی تین برس پہلے خود تمہاری رہتی تھی۔
ابن الوقت : کیا خاک باقی رہتی ہے۔ ابھی پورے دو مہینے بھی نہیں ہوئے کہ صدہا آدمی شہر میں ہیضہ کرکے مر چکے ہیں۔ لگا تو ہمارے یہاں بھی لگ چلا تھا شروع شروع میں کچھ آدمی بازار میں مرے ۔ بعض صاحب لوگوں کے شاگر پیشوں میں ہیضہ تو کئی نے کیا صرف دو آدمی ہلاک ہوئے۔ خیر ان لوگوں میں اگر ہیضہ پھیلا تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔ کیوں کہ کتنی ہی تاکید کی جائے یہ لوگ صفائی کا اہتمام جیسا چاہیے نہیں رکھتے۔ پر نہیں رکھتے۔ مگر بارک ماسٹر کے بنگلے میں صاحب لوگ اور ٹھہرے ہوئے تھے۔ چار گھنٹے میں سب نے آگے پیچھے ہیضہ کیا۔ ایک انجینیئر تو مرا باقی بچ گئے۔ چھاؤنی میں اس کا بڑا غل ہوا ور کمانڈنگ افسر نے ڈاکٹر سے کیفیت طلب کی۔ ڈاکٹر صاحب نے بہتیری ہی تحقیقات کی اور پتہ نہیں چلتا تھا کہ بارک ماسٹر کے بنگلے میں ہیضہ کہاں سے آ کودا۔ بنگلہ بڑے اونچے ٹیلے پر واقع ہے۔ اطراف و جوانب میں بنگلے کے شاگرد پیشوں میں کہیں بیماری کا نام نہیں۔ بنگلے کے آس پاس کیا بلکہ سو ڈیڑھ سو قدم کے فاصلے تک تالاب نہیں۔ نالی نہیں، خندق نہیں، کھیتی نہیں، جھاڑ جھنکار نہیں۔ قبرستان نہیں۔ چاروں طرف کفِ دست میدان پڑا ہے۔ صاف ستھرا، آخر سراغ لگاتے لگاتے کیا معلوم ہوا کہ جس گھوسی کے یہاں سے دودھ آتا ہے، بھینسوں کو موضع دکھیاری کے تالاب میں سے جا کر پانی پلاتا ہے اور دکھیاری میں اس بیماری کا بڑا زور تھا۔"
حجتہ الاسلام یہ سن کر بے اختیار ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ "واقع میں ڈاکٹر صاحب نے سبب تو خوب گھڑا۔ ہیضہ گاؤں سے تالاب میں آیا ، تالاب سے بھینس میں ، بھینس سے دودھ میں ، دودھ سے چائے میں ، چائے سے صاحب لوگوں میں۔ مگر انہی ڈاکٹر سے یہ بھی پوچھنا چاہیے تھا کہ دکھیاری میں کہاں سے آیا؟
ابن الوقت : عموماََ ہندوستانیوں کا اور خصوصاََ دیہاتیوں کا اور غرباء کا طرز تمدن اس طرح واقع ہوا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین میں ہر جگہ ہیضے کا بیج موجود ہے ، گرمی پڑی اور بیج پھوٹا۔ دکھیاری میرا دیکھا ہوا ہے ، ہوا خواری کی تقریب سے میں کئی بار اس گاؤں میں ہوکر نکلا ہوں۔ کوئی دو پونے دو سو گھر کی بستی ہے اور ابھی حال میں دس برس کے اندر اندر آباد ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ جس کسی کو گھر بنانا منظور ہوتاہے ، ایک جگہ مقرر کرکے وہیں سے مٹی کھود کھود ، دیواریں کھڑی کرلیتا ہے اور یہی سبب ہے کہ کوئی گھر نہیں جس کے پاس گھڑا نہیں۔ گھر کا کوڑا کرکٹ ، گوبر، الابلا ، انھی گڑھوں میں ڈالتے رہتے ہیں۔ ہر گھڑا کھاد کا کھتا ہے۔ برسات کے دنوں میں پانی بھر کر سارے برس پڑا سڑتا ہے۔ یہ تو بستی کی کیفیت ہے۔ گاؤں کے قریب ایک تالاب ہے ، اسی میں عورت مرد نہاتے اور مویشی پانی پیتے ہیں ، بیچ میں سنگھاڑے بوئے ہیں۔ ایک طرف کو بہت دور تک سن کر انبار پڑے ہیں اور وہیں دھوبی کپڑے دھو رہے ہیں۔
حجتہ الاسلام : کیا اسی تالاب نے انجینئر صاحب کو مارا ہے؟
ابن الوقت : نہیں جناب ! وہ تو سوانے پر کا دوسرا تالاب ہے اور گاؤں کے تالاب سے کسی قدر صاف بھی ہے۔
حجتہ الاسلام : جو کیفیت تم نے دکھیاری کی بیان کی ، حقیقت نفس الامری ہے اور دکھیاری پر کیا موقوف ہے ، تمام دیہات کا یہی بلکہ صفائی کے اعتبار سے اس سے بدتر حال ہے۔ مگر یہ تو کہو اسی حالت میں بعض جو مبتلائے ہیضہ ہوئے ان میں سے بھی بعض مرے اور بعض جیتے رہے بلکہ یوں کہوں کہ کم مبتلائے ہیضہ ہوئے اور ان میں سے بھی کم مرے تو اگر بارک ماسٹر اور کون سے چار انگریزوں کے ہیضہ کرنے کا اور اگر ان میں سے ایک انجینئر کے مرنے کا ، موضع دکھیاری بہ وسائط چند در چند ، باعث ہوا ہے تو جو لوگ بالکل ہیضے سے محفوظ رہے ان کے محفوظ رہنے کا اور جو مبتلائے ہیضہ ہوکر جان بر ہوئے ان کے جان بر ہونے کا بھی کچھ نہ کچھ سبب تو ضرور ہوگا۔یعنی اگر مرض اور موت کے لیے سبب درکار ہے تن درستی اور زندگی کے لیے بدرجہ اولٰی کیونکہ مرض اور موت کے واقعات کم ہیں اور تن درستی اور زندگی کے کہیں زیادہ۔
ابن الوقت : میں ایسا سمجھتا ہوں کہ لوگوں کے مزاج ہیں متفاوت ؛ بعض طبائع میں متاثر اور مغلوب مرض ہونے کی استعداد قوی ہوتی ہوگی ، بعض میں ضعیف۔
حجتہ الاسلام : تفاوت امزجہ سے تمہاری مراد صفراوی ، بلغمی ، وموی ، سوداوی کا اختلاف ہے کیا؟
ابن الوقت : نہیں نہیں ، ان تمام مزاجوں کے آدمیوں کے یکساں طور پر مبتلا ہوتے بھی دیکھا اور مرتے بھی دیکھا بلکہ وہ کسی خاص قسم کی کیفیت ہوگی جو طبیعت کو قبول مرض کے لیے پہلے سے آمادہ کر رکھتی ہوگی۔
حجتہ الاسالم : تو جس کو تم سبب سمجھتے تھے سبب نہ رہا کیوں کہ بدون استعداد کے اس کا عمل معطل ہے۔ اس کےعلاوہ بعض اوقات یورپ کے ایسے مقامات بھی مبتلائے ہیضہ ہوئے ہیں جن میں صفائی کے بڑے اہتمام ہیں۔ پس تمہارے اصول کے مطابق ان مقامات میں ہیضے کے پیدا ہونے کاکوئی محل ہو نہیں سکتا۔ مدتوں تک ڈاکٹر اس مرض کو متعدی مانتے رہے ، بہ ایں شدت کہ جو شخص بدقسمتی سے اس مرض کی لپیٹ میں آجاتا ، کوئی اس کی تیمارداری تک تو کھڑا نہ ہوتا ، مرے پیچھے اس کی کپڑے لتے سب جلا ڈالتے ، مکان میں دھونیاں سلگاتے ، قلعی پھرواتے ، مٹی تک کھود کر پھنکوا دیتے اور ابھی تک اکثر بندرگاہوں میں کوارنٹائن (قرنطینہ) کے قواعد کی پابندی بڑی سختی کے ساتھ مرعی ہے۔ بہرکیف مرض کے متعدی ہونے کی صورت میں ممکن ہےکہ ہیضے کا وطن اصلی اور اس کی پیدائش کی جگہ ہمارا ہی ملک ہو اور لوگوں کے اختلاط کی وجہ سے یورپ میں جا نکلتا ہے مگر اب تو بڑے بڑے ڈاکٹروں کا اجماع اس پر ہے کہ تعدیہ کی کچھ اصل نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہر چند فی زمانہ ہذا جہاں بہت سے جدید علوم ایجاد ہوئے ہیں فن طبابت میں بھی بڑی نمایاں ترقی ہوئی ہے مگر تاہم ظنی ہے۔ اور انتظام الٰہی مقتضی ہے کہ ظنی رہے۔ جب لوگ ہیضے کے متعدی ہونے کے معتقد تھے وہ بھی ایک امر مظنون تھا ، اب اگر عدم تعدیہ کے قائل ہیں تو یہ بھی امر مظنون ہے۔ ڈاکٹر اپنی طرف سے بہتیرے ٹامک ٹوئیے مارتے پھرے ہیں مگر اس وقت تک کہیں سے کچھ پتا نہیں چلا کہ ہیضہ ہے کیا چیز ، کیوں کر پیدا ہوتا اور ترقی کرتا اور کیوں کر معدوم ہوجاتا ہے؟ اور جس طرح سانپ کے کاٹے کا کوئی تریاق محقّق نہیں ، اسی طرح ہیضے کا کوئی حکمی علاج معلوم نہیں۔ پس بھائی ! ہم تو اپنے ایمان کو ڈانوا ڈول نہیں ہونے دیتے۔ دل میں یہ بات ٹھن گئی ہے کہ اپنی خوشی دینا میں آ نہیں گئے ، خدا نے پیدا کیا ہے ، اسی نے ہر فرد بشر کی حیات کی ایک مدت مقرر کردی ہے اور اس کی مدت کی خبر بھی اپنے ہی تک رکھی ہے ، کسی کو اس سے آگہی نہیں۔ وقت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا ، پھر کیوں گھبرائیں اور وعدہ پورا ہوئے پیچھے کوئی رک نہیں سکتا تو کس برتے پر اترائیں؟" اِذا جَاء اجلھم لا یستاخرون ساعتہ ولا یستقدمون۔"
ابن الوقت : آہا ! معلوم ہوتا ہے کہ آپ دنیا کو عالم اسباب نہیں جانتے بلکہ شاید عقل و تدبیر کوبھی نہیں مانتے۔
حجتہ الاسلام : بس ایسا ہی عالم اسباب مانتا ہوں کہ متصرف فی الامور وہ خود ہے اور کسی مصلحت سے اس نے اسباب کا جال پھیلا رکھا ہے۔ اسباب اور نتائج میں جو تعلق ہے اس کو میں اسرار ِ الٰہی میں سے سمجھتا ہوں ، فہم بشر سے خارج۔ اسباب کو ایجاد اور تکوین میں اتنا بھی تو مدخل نہیں جتنا ایک کاریگر کے اوزار کو اس کے عمل میں ہوتا ہے۔ کاریگر اوزار کا محتاج ہے اور خدا جل و علاشانہ کو کوئی سبب درکار نہیں۔ مگر ہاں عادت الٰہی یوں ہی جاری ہے ، اِلاَّ ماشاء اللہ ، کہ ہر واقعے کے لیے کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ اسباب نامتناہی ہیں اور ان پر بتمامہا احاطہ کرنا مقدورِ بشر نہیں ، مگر خدا نے جب جب جتنا مناسب سمجھا انسان پر منکشف کیا۔ "وما اوتیتم من العلم الا قلیلاََ"۔ اگرچہ عقلِ انسانی کسی حالت میں خطا سے محفوظ نہیں مگر اسباب کے بارے میں تو لوگ ایسی ایسی مکروہ غلطیاں کرتے ہیں کہ معاذ اللہ۔ عالمِ اسباب میں پیدا ہوئے ، عالمِ اسباب میں رہے ، کوئی واقعہ نہیں جس کے لیے ان کو سبب کی تفتیش نہ ہو اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصلی سبب کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوتا تو ادعائی اسباب ٹھہرا لیتے ہیں۔ نجوم اور جفر اور اکثر رمل اور قیافہ وغیرہ بہت سے لغویات ہیں جن کا ماخذ سوائے اسباب ادعائی کے اور کچھ نہیں اور کبھی سبب تو ہوتا ہے ٹھیک مگر اس کے شرائط کا خیال نہیں رہتا ، مثلاََ فرض کرو کہ سیسے کی ایک گولی ہو اور اسی قدوقامت کی دوسری کوئی روئی کی ہو ہلکی پھلکی اور قطب صاحب کی لاٹ پر جاکر دونوں گولیوں کو ایک ساتھ چھوڑ دیں ، تو ضرور سیسے کی گولی پہلے گرے گی۔اب یہ ایک واقع ہے اور اس کا سبب ہے ثقل مگر اس کے ساتھ ہی ایک شرط بھی ہے کہ لاٹ کی چوٹی سے زمین تک گولیوں کے رستے میں خلا نہ ہو کیوں کہ خلا ہوگی تو گرنے میں ہلکی بھاری دونوں برابر۔ پھر انسان سبب بھی اپنی مرضی کا ڈھونڈتا ہے یعنی جس قسم کے اسباب سے خوگر ہے مثلاََ اگر کوئی مریض کیسی ہی ردی حالت اس کی کیوں نہ ہو اگر کسی دوا سے دفعتاََ اچھا ہو جائے اگرچہ وہ دوا چولھے کی راکھ ہی کیوں نہ ہو تو کسی کو بھی استعجاب نہ ہو کیونکہ دوا درمن سے اچھا ہونا ایک معمولی بات ہے۔ لیکن فرض کرو کہ بجائے دوا کے کوئی شخص دم کردینے سے یا نظر بھر کر دیکھ لینے سے سلب مرض کردے تو سننے والوں میں سے تو شاید سو میں ایک کو بھی یقین نہ آئے اور دیکھنے والے بھی اکثر جادو اور نظر بندی اور مغالطہ دہی پر محمول کریں اور اس بنا پر فلاسفر اور دہری معجزات انبیا پر( علی نبینا و علیہم السّلام) بڑے شدومد کے ساتھ اعتراضات کرتے چلے آئے ہیں۔ میں نے کسی دہری کی تحریر دیکھی ہے جس میں اس نے لکھا تھا کہ قانون فطرت یا عادت اللہ شہادت کے لیے کسوٹی ہے۔ شہادت وہیں تک معتبر ہوسکتی ہے کہ قانون فطرت کے مطابق ہو۔ یعنی اس کا مقولہ یہ تھا کہ قانونَ فطرت کے خلاف ہم کسی شہادت کو نہیں مان سکتے یا بہ عبارتِ دیگر مخالفت قانونِ فطرت شہادت متہم با لکذب بلکہ مردود کرنے کو کافی ہے۔ یہ صاف مصادرہ علی المطلوب ہے۔ جب ایک شخص کہتا کہ فلاں واقعہ خلاف معمول مستمر واقع ہوا مثلاََ یہ کہ ایک شخص نے ایک ڈول پانی سے ایک لشکر کو سیراب کردیا ، تو اب صرف اس وجہ سے کہ یہ واقعہ عجیب و غریب ہے وقوع واقعہ سے انکار کرنا ہیکڑی اور ہٹ دھرمی اور کٹھ حجتی نہیں تو کیا ہے؟ "بل کذبو ابمائم یحیطوا بعلمہ و لما یاتیھم تاویلہ کذلک کذب الذین من قبلھم فلنظر کیف کان عاقبتہ الظالمین۔" اسباب کے بارے میں ایک کثیر الوقوع اور خطرناک غلطی یہ ہے کہ نتائج کو اسباب کی طرف اس طرح منسوب کیا جاتا ہے گویا اسباب ہی فاعل اور مکون اور متصرّف ہیں ، پانی غلّہ اگاتا ہے ، کونین دافعِ تپ ہے ، سنکھیا سمِ قاتل ہے اور یہی ہے مظنئہ شرک خفی ، اعاذنا اللہ منہ اور میرے پندار میں "وما یومن اکثرھم باللہ الا وہم مشرکون" میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔ غرض اسباب کا مسئلہ بڑا نازک اور مشکل اور مزلۃ الاقدم ہے۔
ابن الوقت : یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ طب کے احکام مسائل ہندسی کی طرح یقینی ہیں مگر اس فن میں اس قدر ترقی ضرور ہوئی ہے کہ یورپ میں عمروں کا اوسط بڑھا ہوا ہے۔ مردم شماری کی افزائش کا پرت زیادہ ہے ، خاص خاص امراض کے ایسے حکمی علاج دریافت ہوئے ہیں کہ سارے ملک میں کہیں ان بیماریوں کا نام نہیں۔ بہت سے روگ جو درمان پذیر نہ تھے ، اب ڈاکٹر دعوے کے ساتھ ان کا علاج کرتے ہیں۔ حفظانِ صحت کے قواعد اگرچہ ظنی ہیں مگر یقینیات کے لگ بھگ۔ غرض واقعات سے ، نتائج سے یہ بات بخوبی ثابت ہوچکی ہے کہ انسان کی تدبیر کو اس کی تندرستی اور زندگی میں بڑا دخل ہے اور اس سے انکار کرنا گویا بداہت سے انکارکرنا ہے۔
حجتہ الاسلام : کیوں ! کیا ہمارے ملک میں لوگوں کی بڑی عمریں نہیں ہوتیں؟ ہمارے یہاں بھی لوگ کثیر الاولاد ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بہت نکلیں گے جو ہمیشہ یا اکثر تندرست رہتے ہیں اور ان کو علاج کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ جو زیادہ احتیاط کرتے ہیں وہی زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔
ابن الوقت : میں خلاف قاعدہ کو داخل اتفاقیات سمجھتا ہوں۔
حجتہ الاسلام : تم نے اچھی طرح غور نہیں کیا۔ اول تو سرے سے علم طب ہی فی حد ذاتہ ، مکمل نہیں پھر ناقص و ناتمام و مظنون جیسا کچھ ہے ، اگر ساری دنیا کی مردم شماری پر نظر کی جائے تو سو میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ٹھہرے گا جو احکامِ طب کی پوری پوری پابندی رکھتا ہو۔ بات یہ ہے خداوندِ کریم نے ہر انسان کا طبیب اسی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ کیا ہے؟ اس کی طبیعت۔ انسان کی تندرستی پر داخلی اور خارجی بے شمار خطرات ہیں اور اُن میں سے خدا جانے کتنے ہیں جو اس وقت تک مخفی ہیں اور کتنے ہیں جو معلوم ہیں مگر انسان کے بس کے نہیں تو اُن کا جاننا نہ جاننا برابر۔ الغرض کسی کو خبر نہیں کہ کلک بلکہ اب سے چند لمحے بعد ، کون سی آفت اس کی تندرستی پر آنے والی ہے کہ اس کی روک تھام کرلے۔ نزولِ آفت پر فوراََ اس کی طبیعت مرض کی مقاومت پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ طبیعت صرف مدبر و معالج نہیں بلکہ اسی طبیعت مرض پر غالب آجاتی ہے ورنہ مغلوبِ مرض ہو کر آدمی ہلاک ہوجاتا ہے۔ رہ گئی دوا ، وہ صرف طبیعت کی تقویت ہے ، بلکہ مجھ سے پوچھو تو صرف طبیعت ہی کی نہیں بلکہ بیشتر اوپر والوں کی۔ بڑے بڑے حاذق طبیبوں کو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں سے مریض مرتے بھی ہیں اور شفا بھی پاتے ہیں ، مرے تو کہتے ہیں خدا نے اتنی ہی حیات لکھی تھی ، حکیم جی نے اپنی سی بہتیری کی ، زندگی ہی نہ ہو تو کیا کریں اور اچھے ہوئے تو نہ خدا ہے ، نہ تقدیر ہے حکیم صاحب ہیں اور اُن کی تشخیص و تدبیر ہے۔
ابن الوقت : آپ تو کچھ جبریوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ آپ کی تقریر کا ماحصل یہی معلوم ہوتا ہے کہ تدبیر لاحاصل ہے اور انسان کی تندرستی اور زندگی محض ایک امر تقدیری ہے ، من جانب اللہ ، ہر انسان کو اس میں کسی طرح کا مدخل نہیں۔ مگر یہ آپ ہی کی منفرد رائے ہے۔ ایک عالم طب کا معتقد ہے۔ طب سے میری مراد ہومیو پیتھی یا ایلو پیتھی یا یونانی یا وید کی ، کسی خاص طرح کی طباعت نہیں بلکہ میری غرض اسی قدر ہے کہ ساری دنیا سدا سے اس امر کی معتقد چلی آئی ہے کہ حفظِ صحت دفعِ مرض یا ابقائے حیات جن لفظوں سے چاہیے تعبیر کر لیجئے ، تدبیر پذیر ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ تدبیر فی نفسہٖ صحیح ہو یا غلط۔ جادو اور منتر اور ٹونے ٹوٹکے اور تعویذ اور گنڈے اور ہر طرح کی دوا درمن ، سب داخلِ تدبیر ہیں۔ الغرض ہر زمانے میں اس بات پر تمام عالم کا اجماع ہورہا ہے کہ زندگی اور تندرستی میں انسان کی تدبیر کو دخل ہے اور یہ میرا پہلا دعویٰ ہے اور ہر زمانے کے عقاء اور جہلاء اور حضری اور بدوی سب کا اجماع اس دعوے کا ایسا قوی ثبوت ہے کہ اس سے زیادہ قوی کوئی ثبوت ہو نہیں سکتا۔ آپ پیچ دار باتیں کرکے اصل مطلب کو کہاں گم کیے دیتے ہیں۔ میرا دوسرا دعویٰ جو پہلے دعوے پر متفرغ ہے ، یہ ہے کہ جتنی تدبیریں حفظانِ صحت کی لوگ عمل میں لاتے ہیں سب میں رو بہ صواب طب انگریزی اور اس کے متعلقات ہیں۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے واقعات پیش کرتا ہوں جن کو مردم شماری کے کاغذات سے استنباط کیا گیا ہے۔"
حجتہ الاسلام : ہاں جی ہاں ! میں تمہارے مطلب کو خوب سمجھتا ہوں تم کو اگر میرے مدعا کےسمجھنے میں کچھ تزلزل واقع ہوا ہے تو لو اب سنو ! صرف اتنی بات سے کہ ہر زمانے میں لوگ حفظانِ صحت کی تدبیریں عمل میں لاتے رہے ہیں ، لازم نہیں آتا کہ انسان کو اپنی تندرستی میں مدخل ہے۔ تم نے اتنی ہی بات ثابت کی کہ لوگوں کو حفظِ صحت کی حاجت ہے اور ہر شخص فی زعمہ اس کی کچھ تدبیر کرتا ہے ، صحیح یا غلط ، درست یا نا درست۔ اسی طرح ہر شخص کو علم مستقبلات کی حاجت ہے اور ہر زمانے میں لوگ اس کے بھی درپے رہے ہیں۔
نجوم اور رمل اور جفر اور فال اور شگون اور تعبیر خواب اور قیافہ اور سعد و نحس اور ہاتھ کی لکیریں اور سانس اور کیا اور کیا سارے پاکھنڈ اسی غرض سے ہیں اور یہ نہ سمجھنا کہ صرف ایشیا کی وحشی قومیں اس خبط میں گرفتار ہیں ، جہاں تک مجھ کو معلوم ہے اہلِ یورپ بھی اس الزام سے بری نہیں۔ غرض فکرِ مستقبل سے کوئی فرد بشر فارغ تو نہیں ، تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ انسان کو علمِ غیب میں دخل ہے پھر دخل ایک مشتبہ لفظ ہے۔ اگر اس سے ملابست مراد ہے ، اگرچہ ادنیٰ درجے ہی کی کیوں نہ ہو ، یعنی تعلق تو دنیا کا سارا کارخانہ انسان کے لیے ہے اور اس کو کل موجودات عالم سے کسی نہ کسی طرح کا تعلق ہے یا ہوسکتا ہے۔موجودات عالم میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں اس کو تصرف کا اختیار ہے۔اگرچہ اس کا اختیار محدود ہے مگر اسی اختیار کی وجہ سے اس کو "خلیفتہ اللہ فی الارض" کہا جاتا ہے۔ جسمانی توانائی کے اعتبار سے وہ چنداں زبردست مخلوق نہیں مگر عقل کے بل پر وہ آسمان تک اُچک جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا عمدہ طور پر انسان کا حال بیان کیا ہے۔
خاک کے پتلے نے دیکھ کیا ہی مچایا ہے شور
فرش سے لے عرش تک کر رہا ہے اپنا زور
سینے میں قلزم کو لیے قطرے کا قطرہ رہا
بل بے سمائی تری اف رے سمندر کے چور
وہ زمین پر بیٹھا بیٹھا اجرامِ فلکی پر اور زیادہ دست رس نہیں تو ان کی رفتار سے اپنے اوقات کو منضبط کرتا ہے۔"ھو الذی جعل الشمس ضیااََء وَ القمر نوراََ و قدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب۔ " روئے زمین پر اس نے اپنا تسلط بٹھا رکھا ہے کہ نہ صرف جمادات اور نباتات میں تصرفات اور عناصر پر حکمرانی کرتا ہے بلکہ بڑے سے بڑے قوی اور خون خوار جانور اس سے ڈرتے اور اس کی خدمت کرتےہیں۔ ہا ایں ہمہ انسان کسی کام کا فاعل مستقل اور کسی چیز میں حقیقی موثر نہیں۔ اس مطلب کو سورہ واقعہ میں بڑی ہی عمدگی سے بیان کیا ہے :
أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ ﴿٥٨﴾ أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ ﴿٥٩﴾ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ ﴿٦٠﴾ عَلَىٰ أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٦١﴾ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَىٰ فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٦٢﴾ أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ ﴿٦٣﴾ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ ﴿٦٤﴾ لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ ﴿٦٥﴾ إِنَّا لَمُغْرَمُونَ ﴿٦٦﴾ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ﴿٦٧﴾ أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ ﴿٦٨﴾ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ﴿٦٩﴾ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ ﴿٧٠﴾ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ ﴿٧١﴾ أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِئُونَ ﴿٧٢﴾ نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِينَ ﴿٧٣﴾ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ﴿٧٤﴾
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے چار چیزوں کو بیان فرمایا ہے ، اولاد اور کھیتی اور پانی اور آگ اور ان چاروں میں سے ہر ایک میں جہاں تک انسان کو دخل ہے اس میں بھی صراحت کی اور پھر تبکیت کے لیے پوچھا کہ بھلا پھر اولادکو تم نے پیدا کیا یا ہم نے اور کھیتی کو تم نے اگایا یا ہم نے اور پانی بادل سے تم نے برسایا یاہم نے اور آگ کا ایندھن تم نے بنایا یا ہم نے؟ ہم نے تمہارے لیے موت کا ٹھہراؤ کردیا ہے اور کسی کو مجال نہیں کہ ہماری پکڑ سے نکل بھاگے۔ ہم چاہیں تو کھیتی کو ڈانٹ بنا دیں کہ اس میں پھل کا کہیں نام نہ ہو ، ہم چاہیں تو پانی کو کھاری کردیں۔ غرض انسان کا اختیار اور اس کی بے اختیاری دونوں حالتیں دکھا دی گئی ہیں جس کا خلاصہ ہے۔ "امَر بین الجبر والاختیار۔"
ابن الوقت : "ہمارے آپ کے درمیان لفظی اختلاف ہے۔ انسان کا اختیار آپ بھی مانتے ہیں مگر محدود اور ہم بھی کہتے ہیں کہ انسان کا اختیار ابھی تک محدود رہا ہے مگر اس کا اختیار اس کی جہالت کی وجہ سے محدود ہے۔ اب جو نئی نئی چیزیں ایجاد ہوتی چلی جاتی ہیں تو انسان سمجھتا جاتا ہے کہ اس کو بڑی قدرت ہے۔ کتنی مدت کے بعد اب اس نے جانا کہ مثلاََ اسٹیم اور الکٹریسٹی کیا چیز ہے اور میں اس پر کیا اختیار رکھتا ہوں۔ اسی طرح اس نے اپنی تندرستی اور زندگی پر بھی اپنا اختیار معلوم کرنا شروع کیا ہے۔ بہت سے امراض کو اس نے اپنے بس میں کر لیا ہے کہ چاہے تو ان کو پیدا ہی نہ ہونے دے یا اگر پیدا ہوں بھی تو ان کو جس وقت چاہے معدوم کردے اور اگر علومِ طب اور کیمیا اور طبیعیات وغیرہ اسی نسبت سے ترقی کرتے رہے جیسے کہ پچھلے سو برس میں تو وہ دن کچھ دور نہیں کہ انسان اپنی تندرستی پر آپ حاکم ہوگا اور کیا عجب ہے کہ رفتہ رفتہ اپنی زندگی پر بھی۔"
حجتہ الاسلام: نعوذباللہ من ذلک۔ کیا تمہارے برے عقائد ہیں! تو تم حقیقت میں اس بات کے منتظر ہو کہ انسان کچھ دنوں میں معاذ اللہ، خدا ہونے والا ہے۔
ابن الوقت: دہریے تو کہتے ہیں خدا کو کس نے دیکھا ہے؟ یہ بھی لوگوں کا ایک خیال ہے۔
حجتہ السلام: لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ خدا کو دیکھا نہیں تو اس سے لازم آگیا کہ خدا ہی نہیں۔ ہم نے روح کو بھی نہیں دیکھا اور نہیں دیکھ سکتے توروح کے ہونے سے بھی انکار کرو۔
ابن الوقت" واہ واہ تعریف الجمول بالجمول! وہ روح کو کب مانتے ہیں۔
حجتہ السلام: تمام فلاسفہ کا اجماع ہے کہ آدمی کو اپنی ذات کا علم حضوری اور بد ییلت اولیں میں سے ہے۔ ہر شخص اپنے تیئں لفظ "میں" سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے میرا دل، میرا دماغ، میرا جس یعنی ہر شخص کو جسم کے علاوہ اپنی ہستی کا اذعان ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی اور ثبوت کی بھی ضرورت ہے اور اگر تمہارے نزدیک ہے تو تم کو خبط ہے اور تم قابل خطاب نہیں مگر مسلمان ہونے کا دعوی کر کے اسلام کو کیوں بد نام کرتے ہو اور لوگوں کوکیوں دھوکے میں ڈالتے ہو؟ یہ سچ ہے کہ مجامع میں،تحریرات میں تم اسلام کے نام سے فخر اور اس کی مدح و حمایت کرتے ہو مگر و اسلام ادعائی اسلام ہے جس کو صرف امتیاز قوی کہنا چاہیے۔ تم جیسے ڈھل مل یقین چند مسلمان میں نے اور بھی دیکھے ہیں۔ ان کو بھی اسی طرح کے شکوک عارض ہوئے۔ لامذہبوں اور دہریوں اور عیسائیوں، غرض اسلام کے مخالفوں سے کچھ اعتراض سن پائے، جواب سوجھے نہیں یا سوجھے اور تسکین نہیں ہوئی، اہون سمجھ کر یہ شیوہ اختیار کر لیا کہ لگے اسلام ہی کے اصول میں تاویلات کرنے۔ وہ اپنے پندار میں اسلام کی تائید کرتے ہیں مگر حقیقت میں اسلام کو کسی مخالف سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا ان کی تاویلات سے۔ انہوں نے حدیث کو تو یہ کہہ کر الگ کیا کہ پیغمبر صاحب کے ڈیڑھ سو برس بعد اس کی تدوین شروع ہوئی۔ رہ گیا قرآن اس کو مارے تاویلات کے مسخ کر دیا۔
اتنے میں اطلاع ہوئی حاضری میز پر ہے۔
فصل:24
حجت الاسلام شہر میں جا رہے ہیں:
حجتہ السلام: لو صاحب مجھ کو اجازت دو، مجھے شہر جانا ہے۔
ابن الوقت: کیا آپ میرے ساتھ کھانا کھانا یا میرے بنگلے میں رہنا خلافِ اسلام سمجھتے ہیں؟
حجتہ السلام: بس مذہبی چھیڑ چھاڑ رہنے دو۔ مذہب ایسی چیز نہیں ہے کہ مباحثے اور مناظرے سے کسی کے دل میں اتار دیا جائے بلکہ "ذلک فضل اللہ یو تیہ من یشاء۔" خداوند تعالی خاص طبعیتیں پیدا کرتا ہے جو مذہبی باتوں سے متاثر اور اس کو قبول کرلیتی ہیں۔
ابن الوقت: پھر آپ جبریوں کی سی باتیں لائے۔ اگر خدا خاص طبائع مناسبِ مذہب پیدا کرتا ہے تو پھر مواخذہ کیوں ہے؟
حجتہ السلام: مواخذہ بقدر مناسب "لایکلف اللہ نفساالا ماآتہا۔" یہ کہہ کر حجتہ الاسلام اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ ابن الوقت بھی اٹھا اور کہنے لگا: " کیا واقع میں آپ میرے پاس نہیں رہنا چاہتے؟
حجتہ السلام: نہیں بھائی نہیں۔
ابن الوقت: آخر کچھ سبب تو بتائیے۔
حجتہ السلام: بات یہ ہے کہ میرے یہاں ٹھہرنے سے تم کو بھی تکلیف ہوگی اور مجھ کو آسائش نہیں ملے گی۔
ابن الوقت: میری تکلیف کا خیال کیجئے نہیں اور آپ اپنی آسائش کے لیے بے تکلف جس طرح کہئے انتظام کر دیاجائے۔
حجتہ السلام: تم کس کس بات کا انتظام کروگے۔ اول تو میری نماز ہی کا ٹھکانا نہیں۔ جس کمرے میں جاؤ تصویر، بنگلہ کیا ہے خاص بت خانہ ہے۔ پھر تم نے کتے اس کثرت سے پال رکھے ہیں کہ اذان تک دینے کا حکم نہیں اور جب تک مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھوں، میرا جی نہیں خوش ہوتا۔ میں نے اترتے کے ساتھ ہی پہلے تمام بنگے کو اندر باہر سے بالتفصیل دیکھ لیا ہے۔ تم سمجھو تو میں ایک دن بھی ایسے مکان میں گزرنہیں کرسکتا۔ مجھ کسی طرح کا سبیتا دیکھائی نہیں دیتا۔
ابن الوقت: اچھا تو کھانا کھا کر جائیے۔
حجتہ السلام: بس کھانے سے بھی معاف ہی رکھو۔ میں آپ کے باورچی اور کھانے کا سب حال سن چکا ہوں۔
ابن الوقت: کیا ہمارا باورچی میلے کچیلے، غلچے، بٹھیاروں سے بھی گیا گزرا ہوا؟ آپ کھانے کی میز کو ایک نظر دیکھیے تو سہی۔
حجتہ السلام: بھائی جن! ظاہری صفائی تو بلاشبہ تمہارے کھانے میں بہت ہوگی۔ میں نے تم کونہیں دیکھا تو بارہا انگریزوں کو کھاتے ہوئے دیکھا ہے مگر مجھ کو تمہارے باورچی کی نسبت شبہ ہے۔
ابن الوقت: بے شک مجھ کو معلوم ہے کہ وہ سب کچھ کھاتا پیتا ہے مگر ہمارے
کھانے میں کوئی چیز ایسی نہین ہوتی کہ آپ اس سے احتراز کریں۔
حجتہ السلام: ارے میاں کیا کہتے ہو۔ میں نے خود تمہارے یہاں ایک الماری میں شراب رکھی دیکھی ہے۔
ابن الوقت: وہ صاحب لوگوں کے واسطے ہے۔ میں کبھی شراب نہیں پیتا اور اگر پیوں تو ہلاک ہو جاؤں۔ میرا پھیپڑا اس قابل نہیں۔
حجتہ السلام: جب خود تمہارے پاس شراب کا ذخیرہ ہے اور صاحب لوگوں کو پلاتے ہو اور تمہارا باورچی بھی کسی چیز سے احتراز نہیں رکھتا تو مجھ کو تمہارے کھانے کی طرف سے اطمینان نہیں۔
ابن الوقت: بوائے! ملازم: یس سر۔ کک کو بلاؤ۔" کک خاضر ہوا تو ابن الوقت نے پوچھا" آج کھانے میں کیا کیا ہے؟
باورچی: سوپ، مٹن چاپ، کٹ لس، آسٹن( آکس ٹنگ) ، بیل ریس (بوائلڈ رائس)، پڈنگ۔
ابن الوقت" ان چیزوں میں کس میں شراب پڑتی ہے؟
باورچی: کسی میں نہیں مگر پڈنگ میں خمیر کے لئے شراب کا بھپارا دینا ہوتا ہے۔
ابن الوقت: پڈنگ نشہ لاتا ہے؟
باورچی: ذرہ نہیں۔ باورچی رخصت۔
حجتہ الاسلام: آپ نے دیکھا۔
ابن الوقت: کیا دیکھا؟ آپ کے سامنے باورچی کہہ نہیں گیا کہ پڈنگ نشہ نہیں لاتا۔ اسلام میں شراب کے حرام ہونے کی اصل وجہ نشہ ہے۔ جب نشہ نہیں تو پھر کیا
حرج ہے اور اگر آپ کے نزدیک حرج ہے تو آپ پڈنگ نہ کھائیے۔
حجتہ السلام: مجھ پر خدانخواستہ ایسی کیا مصیبت پڑی ہے کہ اپنے گھر کا رزق طیب، لذیذ چھوڑ کا تمہارا پھیکا، مشتبہ بسا ہندا کھانا کھاؤں۔
ابن الوقت: یہ تو بلا کی توگرمی پڑ رہی ہے، آپ شہر میں جا کر بے فائدہ اپنی تندرستی کو خطرےمیں ڈالتے ہیں۔
حجتہ السلام: میری زندگی ایسی کونسی انوکھی زندگی ہے۔ آخر اتنا بڑا غدار شہر بستا ہے اور جو سب کا حال وہ میرا حال۔
ابن الوقت: آخر پھر ملاقات کی کیا صورت ہوگی؟
حجتہ الاسلام" تم تو میرے پاس آنے کا قصد مت کرنا۔ کیونکہ تمہارے دل میں آب و ہوا والے شہر کا پہلے ہی سے ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ کل ہے جمعہ ، مجھ کو فرصت ہونے کی نہیں۔ پرسوں لوگوں سے ملنا ملانا ہوگا۔ ان شاءاللہ اتوار کو دس بچے ساڑھے د بجے میں خود آؤں گا۔ اگر کوئی وجہ مانع نہ ہو، ذری اپنے داروغہ کو کل بعد مغرب میرے پاس بھیجنا۔ میں اس سے یہاں کے انگریزوں کے کچھ حالات دریاف کروں گا ور تمہارے بھی۔
فصل:25
حجت الاسلام ساس سے ابن الوقت کے پاس نہ ٹھہرنے کا عذر کرتے ہیں:
حجتہ الاسلام کے بے وقت گھر پہنچنے سے سب کو حیرت ہوئی۔ لوگ اس خیال سے کہ ابن الوقت کے پاس ٹھہریں گے کھاپی کر سو سلا رہے تھے۔ جوں اس نے گھر میں قدم رکھا ساس کو کہتے سنا کہ اے ہے۔ اگر کھانا بھی کھا کرنہیں آئے تو اتنی رات گئے اب کیا ہواگا؟ خاگینہ بن سکتا ہے لیکن اس بلا کی گرمی پڑ رہی ہے اور راستے کی حرارت الگ، انڈے گرم آگ ، نوج کوئی کھائے، سویاں بنی ہوئی تیار ہیں رومالی میں اور بھننے میں بھی کسر نہیں رہی مگر آخر ہے تو میدا، حاشالللہ میں تو نہیں دوں گئی، کھچڑی پیاس بہت لگائے گی۔
اتنے میں تو داماد نے سامنے آکر سلام کے بعد چھوٹتے کے ساتھ ہی کہا کہ اماں جان بڑی زور کی بھوک لگ رہی ہے۔ بارے کچھ شامی کباب فیرنی کے خونچے بچوں کے لئے لگارکھے تھے، ٹوکری میں کچھ نان خطائیاں بچ گئی تھیں۔ سیب کا مریہ، اچار، گھر میں تھا۔ جلدی سے ماما نے توا رکھ پتلے پتلے دو تین پراٹھے پکادیے۔ غرض ایسے ناوقت بھی بات کی بات میں جو کھانا مہیا ہوگیا، ابن الوقت کے یہاں اہتمام سے بھی میسرن ہیں ہوتا۔ جتنی دیر داماد کھانا کھاتا رہا ساس پاس بیٹھی باتیں کیا کیں۔
"کیوں بیٹا راستے میں ایسی کہاں دیر لگی کہ تم کو یہ وقت ہوگیا؟ میں تو سمجھی تھی کہ تم کچھ دن رہے سے بھائی کے پاس پہنچ گئے ہوگے۔"
داماد: واقع میں، میں نے عصر کی نماز بھائی کی کوٹھی پر پڑھی اورمیرا ارادہ ان ہی کے پاس ٹھہرنے کا تھا۔
ساس:" پھر ایسی کیا بات ہوئی کہ تم اتنی رات گئے چل کھڑے ہوئے؟
داماد: اگر مجھ کو بھائی کے پاس ذری سیب بھی آسائش کی توقع ہوتی تو میں ہر گز نہ آتا اور یوں سمجھتا کہ سرائے میں نہ ٹھہرا ان ہی کے یہاں ٹھہرا سہی مگر وہاں تو مسلمان کے کھڑے ہونے تک کا ٹھکانا نہیں، ٹھہرنا اور رہنا تو دوکنار۔ عصر اور مغرب دو وقت کی نماز میں نے وہاں پڑھی، میرے دل کو تسلی نہیں کہ نماز ہوئی ہے۔ اب عشاء کے ساتھ دونوں کا اعادہ کروں گا۔ آدھ کوس کے گردے میں تو وہاں کہیں مسجد کا پتا نہیں۔ جماعت تو یوں گئی گزری ہوئی۔ بنگلے میں مارے تصویروں کے اتنی جگہ نہیں ایک کونے میں کوئی ایک شخص کھڑا ہو کر دو رکعت پڑھ لے۔ ناچار بر آمدے میں نماز پڑھی تو کسی مصیبت سے کہ کتے اوپر چلے آتے ہیں۔ دو تین کتے تو ایسے خونخوار اور ہیبت ناک تھے کہ اگر بھائی عین وقت پر نہ آن پہنچیں تو ضرور لپک کر میرا ٹینٹوالیں۔
ساس: دور پار ، تمہارے دشمنوں کا۔ پھر یہ لوگ مجھ سے کیا آ آ کر کہتے تھے کہ دشمنوں نے مارے جان کے بدنام کر رکھا ہے، جو ان کو بے دین کہے وہ خود بے دین۔
داماد: شروع میں نام لے کر تو کسی نے بھی کافر کہنے کا حکم نہیں اور بھائی ابن الوقت تو اپنے تیئں چوری چھپے بھی نہیں کھلے خزانے پکار پکار کر مسلمان کہتے ہیں اور مسلمان ہیں بھی مگر ان کا رہنا سہنا کھانا پینا، سب کچھ انگریزوں کا سا ہے، سر موفرق نہیں۔
ساس: اے ہے غدر کے دنوں میں کچھ ایسی گھڑی کا پیرا اس موئے فرنگی کا آیا تھا کہ بچے کی مت پھیردی۔ ہم سے تو ایسا چھپایا ایسا چھپایا کہ دن کو گورے شہر میں گھسے اور رات کو ہم نے جانا کہ سارے غدر ہمارے گھر میں فرنگی چھپا رہا۔ جس وقت فرنگی کو لائے تھے اگر ذرا بھی مجھ کو معلوم ہو تو میں اس کو کھڑا پانی نہ پینے دوں۔ خدا جانے کمبخت کہاں سے سے ہمارے گھر آمرا تھا۔ نہ آتا تو بچہ ہاتھ سے جاتا۔ آخر میرا صبر پڑا ہی پڑا۔ کسی کی آہ کا لینا اچھا نہیں ہوتا۔ خدا نے اس کے پیچھے ایسا روگ لگایا کہ سارے سارے دن اٹوانٹی کھٹوانٹی لئے پڑا رہتا تھا۔ آخر کو جاتے ہی بن پڑی۔ کالا منہ، خدا کرے پھر آنا نصیب نہ ہو۔
داماد: آپ اس انگریز کو ناحق کوستی ہیں۔ اس نے تو اتنا بڑا بھاری سلوک اس خاندان کے ساتھ کیا ہے کہ جس کی انتہاء نہیں۔ وہ اگر اس گھر میں آ کر نہ رہا ہوتا تو آج ساری عورتیں رانڈ ہو تیں ، تمام بچے یتیم ، محلے میں گدھوں کا ہل پھرگیا ہوتا، مال و اسباب کے نام کسی کو ایک پھوٹی کوڑی نہ ملتی۔ بھائی ابن الوقت کوئی دھود پیتے بچے تھے کہ بہکائے میں آگئے۔ پڑھے لکھے ، لائق، ہوشیار، ایک دم سے ڈپٹی کلکٹر کردئے گئے اور ڈپٹی کلکٹری کو ایسا سنبھالا کہ آج ڈپٹی کلکڑوں میں کوئی ان کا مدمقابل نہیں۔ ایسے شخص کو کون بہکاسکتا ہے اور وہ کویں کسی کے بہکائے میں آنے لگا ۔ وہ چاہے تو آپ ہزاروں کو بہکا کر چھوڑدے اور پھر کیا بہکائے میں آگئے؟ کرسٹان ہوگئے؟ انگریزوں کے مذہب کو تو اب ایسا لتاڑتے اور لتھیڑتے ہیں کہ ان ہی کا جی جانتا ہوگا۔ انگریز ان کو کیا بہکاتے وہ تو الٹے ان کی اس وضع سے جلتے اور خار کھاتے ہیں اور سارا جھگڑا تو اسی بات کا ہے۔ آج وہ ہندوستانی بن کر رہیں، صاحب کلکٹر سے صفائی کرادینے کا میرا ذمہ۔
ساس: پھر بیٹا تم ہی بھائی کو کچھ سمجھاؤ۔
داماد: میں تو ہزار دفعہ سمجھاؤں مگر کوئی سمجھنے والا بھی ہے؟ یہ جو صورت پیش آئی اس کا تو کسی کو خیال بھی نہ تھا مگر ہاں ، بھائی ابن الوقت کی غیر معمولی ذہانت اور بلند نظری دیکھ کر مجھ اچھی طرح سے یاد ہے بڑے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اس لڑکے کی حالت خطرناک ہے، یہ بڑا ہو کر نہیں معلوم کیا کرے گا۔
ساس : "ابن صاحب مجھ سےکہہ گئے ہیں کہ وہ فرنگی ان کی ہوشیاری دیکھ کر لٹو ہوگیا تھا ور وہی ان کو اکسا کر لے گیا۔ اگر یہ ساتھ نہ دیں تو فرنگیوں کے لیے دلی کبھی نہ لی جائے۔ پھر میں یہی کہوں گی اس فرنگی نے میرے بچے کو کچھ کر دیا۔ خدا اس کو کھودے۔
داماد: ایک دم سے ڈپٹی کلکٹر کر دیا، جاگیردار کر دیا۔
ساس: نہیں بیٹال کچھ جادو کر دیا۔
یہ سن کر حجتہ الاسلام ہنسنے لگا۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے انگریز بالکل جادوکے قائل نہیں۔
ساس : کیا جانیں بھائی ، سنتے ہیں کہ فرنگی بڑے جادو گیر ہوتے ہیں۔ جادو کے زور سے سارے ملک لیتے چلے جاتے ہیں اور ان کو ایسا جادو آتا ہے کہ پل میں ہزاروں کوس کی خبر منگوالیں۔
داماد: "وہ عقل کا جادو ہے۔
ساس : اچھا تم ان کی بادشاہ زادی کو لکھو۔
داماد: کیا؟
ساس: یہی کہ تمہارے فرنگیوں نے ایسا ظلم کر ریکھا ہے کہ ہمارے آدمی کو بہکا کر فرنگی بنا لیا ہے۔ اگر وہ سچ مچ کی بادشاہ زادی ہے تو ضرور ہماری فریاد لے گی لیکن بعضے آدمی کہتے ہیں بادشاہ زادی کو مت لکھواؤ کمپنی کو لکھواؤ۔ کمپنی اس کی بیٹی ہے اور بادشاہ زادی نے یہ ملک بیٹی کے جہز میں دے ڈالا ہے، اب کمپنی کا حکم چلتا ہے۔ سو تم کو تواصل حال معلوم ہوگا۔ کسی ایسے کو لکھو کہ بس دیکھتے کے ساتھ ہی حکم کر دے۔ بھلا کہیں خدا کی خدائی میں ایسا بھی اندھیرہوا ہے کہ آپ ہی تو فرنگیوں نے بلایا اپنے میں ملایا اور دوسرا فرنگی ایسا ظالم آیا کہ آتے کے ساتھ لگا دشمنی کرنے۔ دیکھنا ، تم بادشاہ زادی کو یہ ساری باتیں لکھوانا، بھولنا مت۔ ذرا یہاں کے فرنگیوں کی بھی تو حقیقت کھلے کہ کسی بھلے آدمی کو دھوکا دینا ایسا ہوتا ہے۔ بادشاہی کیا گئی سارے فرنگی بے سرے ہوگئے۔
داماد: جو تدبیر کرنے کی ہوگی، بھائی ابن الوقت کب اس سے غافل ہوں گے اور ان سے بہتر سوجھے گی بھی کس کو۔ آپ تو صرف خدا کی بارگاہ میں دعا کرتی رہیے، ہزار تدبیروں کی ایک تدبیر تو یہ ہے۔ بھائی کے ذمے کوئی الزام نہیں۔ رشوت وہ نہیں لیتے، کام چور وہ نہین، نالائق نہیں۔ کلکٹر نہیں، کلکٹر کا باوا بھی ہو تو ان کا کچھ نہیں کر سکتا۔ سارا فساد صرف انگریزی وضع کا ہے۔ خدا مقلب القلوب ہے، وہی ان کے دل کو پھیرے تو پھیرے۔"
فصل:26
حجتہ الاسلام نے صاحب کلٹر مسٹر شارپ سے ابن الوقت کی صفائی کرادی:
حجتہ الاسلام جب اپنے ضلع سے چلنے لگا تو اس کو اس بات کا خیال آیا تھا کہ ایسے وقت میرے جانے سے خواہی نہ خواہی لوگ سمجھیں گے کہ بھائی کی مدد کو آئے ہیں، مگر میں کس قابل ہوں اور ان کی کیا مدد کر سکوں گا۔ بارہ دری کے لئے انہوں نے لکھا ہے سو نہ تو اس کو خریدنے کا مجھ کو مقدور ہے اور نہ میں اتنے بڑے مکان میں رہ سکتا ہوں۔ اس مکان میں رہنے کو چاہئے امیری ٹھاٹھ۔ ساری عمر رہا پردیس، ادھر کے حکام میں کسی سے معرفت نہیں، ملاقات نہیں۔ جاتا ہوں تو میرے جانے سے ان کا کچھ مطلب نہیں نکلتا اور نہیں جاتا تو مروت تقاضا نہیں کرتی۔ خیر خدا ہی آبرو رکھنے والا ہے۔ وہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔ عجیب نہیں غیب سے کوئی سامان ہو اور خدا مجھ کو بھائی ابن الوقت کی کار برداری کا ذریعہ ٹھہرائے۔ اپنے صاحب کلکٹر سے رخصت ہونے گیا تو انہوں نے پوچھا آپ ساری رخصت دلی میں صرف کریں گے یا کہیں اور بھی جانے کا ارادہ ہے؟
حجتہ الاسلام: آپ کو معلوم ہے کہ میں حج کے بعد بمبئی سے کلکتے ہو کر یہاں چلا آیا تھا اس وقت دلی جانا نہیں ہوا۔ اب تو سیدھی دِلی جاؤں گا اور غالب ہے کہ رخصت بھر وہیں رہنا ہوگا۔ اِن شاءاللہ تعالیٰ دسویں پندرھویں عرضیہ خدمت میں بھیجتا رہوں گا۔
صاحب کلکٹر : نہیں معلوم ان دنوں دِلّی میں حاکم ضلع کون ہے؟
جتہ الاسلام : شارپ صاحب نامی کوئی صاحب ہیں۔
صاحب کلکٹر : ولیم تھاڈور شارپ؟
حجتہ الاسلام : ڈبلیو- ٹی - تو ان کے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے ، وہی ہوں گے۔
صاحب کلکٹر : وہ تو ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف تھے؟
حجتہ الاسلام : کہیں اسی طرف سی بدل کر آئے بھی ہیں۔
صاحب کلکٹر : اگر ولیم تھیاڈور صاحب ہیں تو میرے رشتے دار ہیں۔ میری خالہ زاد بہن ان کو بیاہی ہوئی ہے مگر میم صاحب ان دنوں ولایت میں ہیں۔ اگر آپ صاحب سے ملنا چاہیں تو میں ان کے نام خط لکھ دوں؟
حجتہ الاسلام : میں صاحب کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا۔ اول تو ہمارے شہر کے حاکم ، دوسرے آپ کے رشتے دار۔
صاحب کلکٹر نے شارپ صاحب کے نام چٹھی اور اپنی تصویر حجتہ الاسلام کو دی کہ چٹھی کے ساتھ یہ تصویر بھی صاحب کو دیجئے گا۔ چٹھی میں حجتہ الاسلام کے متعلق یہ مضمون تھا کہ میں اس علاقے کے تمام ڈپٹی کلکٹروں میں ان کو دل سے پسند کرتا ہوں۔ اس طرف تمام سرکاری محکموں میں چھڑا بنگالی بابو ہیں ، گویا سرکاری خدمتوں کے ٹھیکہ دار ہیں۔ مجھ کو اس قوم سے دلی نفرت ہے۔ انگریزی پڑھ کر یہ لوگ ایسے زبان دراز اور گستاخ اور بے ادب اور شوخ ہوگئے ہیں کہ سرکاری انتظام پر بڑی سختی کے ساتھ نکتہ چینیاں کرتے ہیں۔اگر کہیں ان لوگوں میں ہندوستان کے بلند حصے کے باشندوں کی طرح دلی
جرات اور دلیری بھی ہوتی تو انہوں نے انگریزی حکومت کا جُو اپنی گردنوں پر سے کبھی کا اتار کر پھینک دیا ہوتا مگر شکر ہے کہ ان کی ساری بہادری زبانی ہے۔ تاہم ان کا بڑبڑانا سخت ناگوار ہوتا ہے اور میں ہمیشہ افسوس کیا کرتا ہوں کہ میں نے ایسے خود سر ، نا احسان مند اور بددل علاقے کو کیوں اختیار کیا تھا۔ حجتہ الاسلام کی وضع کے آدمی یہاں بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اپنی پرانی وضع کو بہت مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے ہیں اور اس کو دل سے پسند کرتے ہیں اور بندر کی طرح نقل کرنے کو ذلیل کام جانتے ہیں اور میں ان کو اس رائے کی وجہ سے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ غدر کے دنوں میں یہ عرب میں تھے نہایت بے باکی کے ساتھ جو ہر ایک سچے مسلمان میں ہوتی ہے ، غدر کی نسبت اپنی یہ رائے ظاہر کیا کرتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی نے مسلمانوں کی بڑی دل شکنی کی۔ اس نے ہندو مسلمان کوایک نگاہ سے دیکھا اور دونوں قوموں کی حالتوں کے اختلاف پر نظر نہ کی۔ وہ کیا عمدہ ایک مثال دیتے ہیں کہ حکومت یعنی سلطنت بمنزلہ ماں کے دودھ کے ہے ، مسلمان بجائے اس بچے کے ہیں جس کا دودھ حال میں چھڑایا گیا۔ اس کو دودھ کا مزہ بہ خوبی یاد ہے اور وہ اس کے لیے پھڑکتا ہے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو ایسے ہیں جیسے دو ڈھائی برس کے بچے کے آگے سو برس کا بڈھا۔ اس نے بھی کئی قرن گزرے ماں کا دودھ پیا تھا مگر اب کی مدت ہائے دراز سے اس کو یہ خبر نہیں کہ پھیکا تھا یا میٹھا۔ کیا اگر ایک دودھ چھٹا ہوا بچہ کھچڑی کھاتے میں منہ بناتا ہے تو اس پر سختی کی جائے گی کہ تو بڑے آدمیوں کی طرح چاؤ سے کیوں نہیں کھاتا؟ سینکڑوں برس سے ہندوؤں کے پاس نہ لٹریچر ہے اور نہ علم ان کو انگریزی کا ختیار کر لینا کیا مشکل تھا ، جیسے ایک برہنہ آدمی ایک لنگوٹی کی بھی بڑی قدر کرتا ہے لیکن مسلمان اپنی کلاسیکل لینگویج (ام الالسنہ) عربی پر واجب فخر کرتے ہیں جس کے بدون اردو اور فارسی زبانیں بالکل پھیکی معلوم ہوتی ہیں۔ لاکھوں مسلمان قرآن کی بلاغت پر سر دھنتے اور اس کو زبانی یاد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا لٹریچر زندہ لٹریچر ہے ، نہ سنسکرت اور لیٹن کی طرح کتابوں میں مدفون۔ ان کے علوم زمانے کے انقلاب کی وجہ سے مرجھا گئے ہیں مگر مرے نہیں۔ پس اگر مسلمان انگریزی سے کنارہ کشی کرتے رہے تو ان کے پاس کنارہ کشی کرنے کی وجہ تھی۔ حجتہ الاسلام اس بات پر بڑا زور دیتے ہیں کہ ظاہر میں انصاف اسی کا متقاضی ہے کہ ہندو مسلمانوں کے جملہ حقوق برابر سمجھے جائیں لیکن نظر غور سے دیکھا جاتا ہے تو یہ انصاف اس راجا کے انصاف سے زیادہ تعریف کا مستحق نہیں جس نے اپنے علاقےمیں تمام دھان پانچ پنسیری کے حساب سے بکوائے تھے۔ مسلمان س ملک کے اصل باشندے نہیں۔ وہ ملک کو فتح کرنے آئے اور رہ پڑے۔ انہوں نے زمینداروں پر قبضہ کرنے کا ایک لمحہ کے لئے بھی خیال نہیں کیا اور نہ ان کو خیال کرنے کی ضرورت تھی۔ ذرائع معاش میں سے ان دنوں نوکری زیادہ معزز سمجھی جاتی تھی اور وہ ان کی مٹھی میں تھی۔ زوال سلطنت سے معاش کا وہ ایک ذریعہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ جب کہ ہندو دوسرے تمام ذرائع پر بدستور قابض ہیں اور پھر نوکری میں آدھے کے دعوے دار۔ وہ بھی کہنے کو۔ کیونکہ نفس الامر میں ہندو تین چوتھائی سے زیادہ نوکریوں پر مسلط ہیں۔
یہ جو کچھ میں نے لکھا کہ میں نے سمجھنے میں غلطی نہ کی ہو۔ حجتہ الاسلام صاحب کی شخصی رائے ہے۔ مجھ کو اُن سے کسی کسی بات میں اختلاف بھی ہے لیکن اگر آپ ان کو بات کرنے کا موقع دیں گے تو آپ کوئی مضمون ایسا نہ پائیں گے کہ اس میں وہ معقول رائے نہ دے سکیں۔ وہ بڑے خوش تقریر آدمی ہیں اور سننے والے کو بہت جلد اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔ ایک بات حجتہ الاسلام صاحب نے اسی قسم کی مجھ سے اور بھی کہی تھی اور وہ بھی دل کو لگتی ہوئی سی ہے وہ ہندوؤں پر اپنی قوم کو اس وجہ سےبھی ترجیح دیتے ہیں کہ مذہب اسلام سلف رسپکٹ سکھاتا ہے یعنی انسان کو اس کی نظر میں معزز کرتا ہے۔ مسلمان اس میں انسانیت کی توہین سمجھتا ہے کہ اگر کوئی ایک شخص اس کے کلے پر طمانچہ مارے تو عیسائی کی طرح وہ دوسرا کلہ بھی اس کے سامنے کر دے کہ لے اور مار۔
اسلام نے خدا کی توحید کو بالکل نتھار دیا ہے اور کسی طرح کا شائبہ اس میں باقی نہیں رکھا۔ مسلمان سوائے ایک خدا کے جس کو انسان دیکھ نہیں سکتا موجودات عالم میں سے ارضی ہوں یا سماوی کسی چیز کی عبادت یعنی اعلیٰ درجے کی تعظیم نہیں کرتا۔ حجتہ الاسلام کے بیان کے مطابق اسلام خودداری اور بے تکلفی اور سادگی اور توکل اور صبر کا مجموعہ ہے۔ لیکن ہندو بندر اور سانپ اور گائے اور پیپل اور تلسی اور آگ اور پانی اور پتھر اور چاند اور سورج ہر چیز کے آگے ماتھا ٹیکتے کو تیار ہے۔ جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ آدمی سب سے ادنیٰ درجے کا مخلوق ہے اور اس کو دنیا میں ادنیٰ بن کر رہنا چاہیے۔
حجتہ الاسلام صاحب اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسلمان کار فرمائی اور حکوت کے لیے بنایا گیا ہے۔ جس طرح ہندو کارکنی اور اطاعت کے لیے۔ وہ کہتے ہیں خوشامد ابتذال اور دناءت کی باتیں مسلمان سے ہو نہیں سکتیں اور اگر کوئی مسلمان کرتا ہو تو جان لینا کہ مذہب میں پکا نہیں اور سرکاری خدمتوں میں مسلمانوں کی کمی کا ان کے نزدیک سبب یہ بھی ہے۔ میں تو ان کو ایسی باتوں میں اکثر چھیڑا کرتا ہوں اس غرض سے کہ یہ کچھ کہیں تو ایک دم گرم ہو کے بولے مسلمان چاہیں مٹ ہی کیوں نہ جائیں مگر ان کے دل پر سے یہ بات تو نہیں مٹے گی کہ انہوں نے چھ سو برس اس ملک میں حکمرانی کی ہے۔ با ایں ہمہ حجتہ الاسلام صاحب کے خیالات گورنمنٹ انگریزی کے ساتھ نہایت درجے خیر خواہانہ ہیں اور مجھ کو کامل تیقن ہے کہ اگر وہ 1857ء کے غدر میں ان اضلاع کی طرف ہوتے تو اپنے بھائی ابن الوقت کے برابر یا ان سے بھی بڑھ کر سرکاری خیر خواہی کا کوئی کارِ نمایاں کرتے۔ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے عرب میں اسلامی سلطنت کا نمونہ دیکھا ہے۔ ملک نہایت تباہی کی حالت میں ہے اور افسوس ہے کہ جس جگہ مسلمانوں کی قوم پیدا ہوئی اور جہاں ان کی سلطنت کی بنیاد پڑی اس کا یہ حال ہو کہ باوجودیکہ ہر سال بلا ناغہ لاکھوں مسلمان جاتے ہیں نہ امن ہے نہ آسائش صرف دوسرے ملکوں کے صدقات پر وہاں کے لوگوں کی گزران ہے۔ وہ لوگ تنزل کے ایسے درجے پر پہنچ گئے ہیں کہ نہ صرف بدترین نمونے مسلمانوں کے ہیں بلکہ بدترین نمونے انسانوں کے۔"
یہ چٹھی مسٹر شارپ کے پاس جمعے کی شام کو پہنچی۔ انہوں نے سمجھا کہ خود حجۃ الاسلام لے کر آئے ہیں اور اسی خیال میں پڑھتے کے ساتھ باہر نکل آئے مگر معلوم ہوا کہ ملاقات کے لیے وقت فرصت دریافت کیا ہے۔ جواب میں کہلا بھیجا کہ اوقات کچہری کے علاوہ جس وقت جی چاہے۔
اگلے دن ایسے کوئی پونے سات بجے ہوں گے حجۃ الاسلام پالکی میں سے اترتے ہی تھے کہ شارپ صاحب ہوا خوری سے واپس آئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اٹکل سے جان لیا۔ یوں تو شارپ صاحب کا معمول تھا کہ ہوا خوری سے آئے پیچھے کامل ایک گھنٹہ بعد ملاقاتیوں کی نوبت پہنچتی تھی یا گھوڑے سے اترتے کے ساتھ ہی اردلی کو حکم بھیجا کہ جو صاحب پالکی میں آئے ہیں ان کو اندر بھیج دو۔ صاحب سلامت ہوئی۔ غور سے دیکھا مہربانی سے بٹھایا اور کہا کہ وکٹر صاحب نے چٹھی میں آپ کو ایسے تفصیلی حالات لکھے ہیں کہ میں آپ سے اجنبی محض ہو کر نہیں ملتا۔ صاحب کی رائے آپ کی نسبت بڑی عمدہ ہے اور آپ اس کے مستحق ہیں۔
حجتہ : ان کی قدر دانی اور آپ کی بندہ نوازی ہے۔ وکٹر صاحب جتنی میری قدر کرتے ہیں، میں ان کی خوشنودی کی اس سے بہت زیادہ قدر کرتا ہوں۔
شارپ: ڈپٹی ابن الوقت آپ کے کیسے بھائی ہیں؟
حجتہ: میرے تو وہ کسی طرح کے بھی بھائی نہیں مگر ہاں میری بی بی ان کی پھوپھی زاد بہن ہے۔ اس رشتے سے چاہے مجھ کو بھی ان کا بھائی سمجھ لیجئے۔
شارپ: وہی تو کہوں، نہ تو آپ کی ان کی صورت ملتی ہے اور ان کی وضع تو بالکل صاحب لوگوں کی سی ہے۔ آپ ٹھہرے تو ابن الوقت صاحب ہی کے پاس ہوں گے؟
حجتہ : نہیں میں تو شہر میں ٹھہرا ہوں۔
شارپ: کیوں صاحب آپ کو تو سب خبر ہوگی، ابن الوقت صاحب نے اس وضع کے اختیار کرنے میں کیا مفاد سمجھا؟
حجتہ : بات یہ ہے کہ جن دنوں ابن الوقت کالج میں پڑھتے تھے تبھی سے ان کو انگریزیت کی طرف میلان سا تھا بلکہ ہم لوگ ان کو چھیڑا بھی کرتے تھے۔ مگر ان کی یہ کیفیت تھی کہ ہر بات میں ادبدا کر انگریزی کی جانب داری کیا کرتے۔ ان دنوں مجھ کو خوب یاد ہے۔ نیچرل فلاسفی، ایسٹرانمی کی کتابیں انگریزی سے ترجمہ ہو کر اورینٹل کلاسوں میں نئی نئی جاری ہوئی تھیں تو زمین کی کرویت، اس کی گردش، کشش ثقل، نظام شمسی وغیرہ مسائل سے ہم سب کو شروع شروع میں اچنبھا سا ہوتا تھا اور اکثر ابن الوقت کو ہم لڑکے باتوں باتوں میں بند کر دیتے۔ مگر یہ شخص قائل نہ ہوتا اور ہار کر کہتا تو یہ کہتا کہ اگرچہ میں تم کو سمجھا نہیں سکتا لیکن انگریزی اصول غلط ہو ہی نہیں سکتے۔ الغرض طفولیت سے اس شخص کے مزاج کی افتاد اسی طرح کی واقع ہوئی ہے۔ اب غدر میں اس کے بعد نوبل صاحب سے اختلاط ہوا زیادہ، میرے نزدیک تو اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔ مفاد و مطلب پر نہ پہلے نظر تھی نہ اب ہے۔
شارپ: آپ کی رائے بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے اور بدھ بھی ملتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بڑائی کے مارے اس وضع کو اختیار کیا ہے۔
حجتہ : بڑائی تو خدا کی ہے مگر خدا نے آپ لوگوں کو دنیاوی بڑائی دی ہے تو آپ کی سبھی چیزوں میں بڑائی کی شان ہے، یہاں تک کہ لباس میں تو بلاشبہ۔ جو اس لباس کو پہنے گا لوگوں کی نظروں میں بڑا دکھائی دے گا۔ مگر میں نہایت وثوق کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ شیخی، غرور و تکبر، خود پسندی، یہ باتیں تو بھائی ابن الوقت کو چھو نہیں گئیں۔ جس نے کہا جھک مارا۔ میں ان کے ساتھ بچپن سے کھیلا ہوں، پڑھا ہوں، رہا ہوں، مجھ سے بہتر کوئی ان کی خصلت اور عادت کو جان نہیں سکتا۔ غدر سے ان کے مزاج میں کچھ شیخی سما گئی ہو تو خبر نہیں، ورنہ غدر سے پہلے تک تو ان میں شیخی کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ اگر یہ خیال کیا جائے کہ نوکری اور زمینداری کے برتے پر شیخی میں آ گئے تو غدر سے پہلے بھی گرے پڑے نہ تھے۔ نواب معشوق محل بیگم کی سرکار میں تمام سیاہ و سفید کے مختار کل تھے اور خاندانی تعزز اور مقدرت دونوں کے لحاظ سے اس وقت بھی عمائد شہر میں سمجھے جاتے تھے۔ کیا ان کےپاس متعدد نوکر نہ تھے، متعدد سواریاں نہ تھیں، متعدد حویلیاں نہ تھیں؟ چار پانچ بنگلوں کا مول تو ان کی ایک بارہ دری کھڑی ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ تنخواہ بھاری نہ تھی، سو بادشاہی سرکاروں میں ان کی کیا تخصیص ہے؟ سبھی کی تنخواہیں تھوڑی ہوتی تھیں۔ مگر انعام و اکرام ملا کر دس دس روپے کا نوکر ایسی اچھی شان سے رہتا تھا کہ ہمارے یہاں سو کے تنخواہ دار کو بھی وہ بات نصیب نہیں۔ غرض شیخی کا الزام تو نرا ڈھکوسلا ہے، خودداری کہیئے تو ایک بات بھی ہے لیکن خودداری میرے نزدیک لازمہ شرافت طبعیت ہے۔ آدمی آدمی سب برابر، تاہم انتظام الٰہی اس کا مقتضی ہے کہ ان میں مراتب کا تفرقہ ہو، کوئی باپ ہے کوئی بیٹا، کوئی حاکم ہے کوئی محکوم، کوئی آقا ہے کوئی نوکر، کوئی امیر ہے کوئی غریب۔ اگر خودداری نہ ہو تو دنیا کا انتظام درہم برہم ہو جائے۔ خودداری کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جس درجے کا ہو اپنے تئیں اسی درجے کے مناسب رکھے۔ کسی کو خدا نے سواری کا مقدور دیا ہے تو ضرور ہے کہ وہ ضرورت کے وقت سواری سے کام لے۔ پھر ایک بات اور ہے کہ انگریز اور ہندوستانی دونوں قسم کے حاکم ہیں مگر آپ لوگوں کی اور ہماری حکومت میں بڑا فرق ہے۔ آپ لوگ ساری عمر ہندوستان میں رہیں پھر بھی اجنبی کے اجنبی، بر خلاف ہم لوگوں کے کہ ہم ٹھہرے اس ملک کے باشندے۔ رشتہ داری، قرابت داری، دوستی، قوم ، مذہب، راہ و رسم، طرح طرح کے تعلقات ہمارے رعایا کے ساتھ ہیں۔ پس کام میں جو آزادی آپ لوگوں کو حاصل ہیں، ہم کو خواب میں بھی میسر نہیں۔ ہم لوگوں کی حالت بڑی نازک ہے اور بھائی ابن الوقت پر تو ایک سختی اور ہے کہ اپنے ہی شہر میں ان کو کام کرنا پڑا اور کام بھی تحقیقات بغاوت کا کہ بہ حسابے کوئی متنفس اس سے بری نہیں۔ انہوں نے اپنی صفائی کی حفاظت کے لیے یا خودداری کے طور پر ملنے جلنے میں کمی سی کی ہو گی، اس کو لوگوں نے شیخی سے تعبیر کر لیا مگر یہ تو فرمائیے، آپ نے بھی ان کی کوئی شیخی کی بات دیکھی؟
شارپ صاحب نے وہ دریا گنج کا قصہ بیان کیا۔
حجتہ : ہر چند وکٹر صاحب میرے حال پر حد سے زیادہ مہربانی فرماتے ہیں مگر میں ان کا ادب بھی کرتا ہوں اور نہ صرف ان کا بلکہ کل حکام انگریزی کا، کیونکہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ یہ برتری ان کو خدا نے دی ہے اور خد ا کے کلام پاک میں حاکم وقت کی اطاعت کا حکم صریح موجود ہے۔ لیکن گستاخی معاف، اگر دریا گنج کے نکڑ پر بھائی ابن الوقت کی جگہ آپ یا وکٹر صاحب مجھ کو اچانک مل گئے ہوتے تو میں بھی وہی کرتا جو بھائی ابن الوقت نے کیا اور میں یقین کرتا ہوں کہ وکٹر صاحب کے ذہن میں ایک لمحے کے لیے بھی شبہ نہ گزرتا کہ میں نے گستاخی کی۔
شارپ : ہم بھی آپ کی نسبت ایسا شبہ نہیں کرتے کیونکہ آپ ہندوستانی وضع رکھتے ہیں۔ لیکن آپ کے بھائی ہندوستانی ہو کر صاحب لوگ بننا چاہتے ہیں اور چاہے گستاخی کے ارادے سے نہ ہو مگر ہم لوگوں کو ان کی تمام باتوں پر گستاخی کا احتمال ہوتا ہے۔ ان کی وجہ سے ہم کو دوسرے ہندوستانیوں سے ملنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ یہ لبا س ہمارا قومی شعار ہے اور اگر کوئی ہندوستانی ہمارے جیسے کپڑے پہنے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری نقل کرتا ہے یا ہم کو چھیڑتا یا چڑاتا ہے۔ کوئی ہندوستانی ہمارے لباس کو جس میں اس کو کسی طرح کی آسائش نہیں، بے وجہ نہیں اختیار کرے گا اور سوائے اس کے کہ اس کے دل میں ہمارے ساتھ برابری کا واعیہ ہو اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہ ساری تدبیر انگریزوں کو ذلیل اور ان کی حکومت کو ضعیف اور ان کے رعب کو بے قدر کرنے کی ہے۔ آپ لوگ بھی اپنے سے کم درجے والے کو برابری کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتے تو ہم اپنی رعیت کو جیسے ہم نے بہ زورِ شمشیر زیر کیا ہے، کیوں اپنی برابری کرنے دیں گے؟ آج کو تو ابن الوقت صاحب بنیں، کل کو ایک محرر، پھر ایک چپراسی، پھر ایک قلی، سب ہماری نقل کریں گے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم سلطنت سے دست بردار ہو کر ولایت کا راستہ لیں۔ نہیں نہیں! ایسا نہ ہوا ہے، نہ ہوگا اور چونکہ میں حاکم ضلع ہوں میرا فرض ہے کہ حکومت انگریزی کے مقابلے میں کسی کو سر نہ اٹھانے دوں۔ صدر والے اندھے ہیں، ان کو لوگوں سے واسطہ نہیں پڑتا لیکن ان کو سمجھایا جائے گا۔ صرف نوبل صاحب کے خیال سے میں نے اب تک درگزر کی لیکن اب میں دیکھتا ہوں تو سخت رپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگر اپنے بھائی کو سمجھا سکیں تو شاید ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
حجتہ الاسلام : میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ اس گھڑی تک مجھ سے اور بھائی ابن الوقت سے تبدیل وضع کے بارے میں تحریراً یا تقریراً کوئی بات نہیں ہوئی۔ جب اول اول انہوں نے اپنی وضع بدلی، میرے پاس دلی سے خط پر خط جانے شروع ہوئے مگر مجھ کو ابن الوقت کی طبیعت کا ابتداء سے حال معلوم تھا اور میں خوب جانتا تھا کہ یہ شخص کسی کے سمجھائے سے سمجھنے والا نہیں۔ میں نے ایک کان تو کیا بہرا اور دوسرا کیا گونگا اور خبر نہ ہوا کہ کس کو بلاتے ہیں۔ تبدیل وضع کے پیچھے ساری دنیا نے تو اس شخص کو ملامت کی، کرسٹان کہا، بے دین کہا اور اب تک کہے جاتے ہیں، برادری سے نکال دیا، کوئی اس کے ہاتھ کا چھوا پانی تھوڑا ہی پیتا ہے، کنبہ چھوٹا، رشتہ دار چھوٹے، دوست آشنا چھوٹے، غرض رسوائی اور فضیحت کا کوئی درجہ باقی نہیں رہا لیکن یہ عزیز نہ سمجھا پر نہ سمجھا۔ اب فرمائیے کہ کہنے کا کیا محل اور سمجھانے کا کونسا موقع ہے؟ وہ تو وہ ، لوگ تو ہم لوگوں کے ساتھ ملنے میں بھی مضائقہ کرتے ہیں۔ میرے لڑکے کی نسبت ایک جگہ پیام تھا۔ بہت دنوں بات لگی رہی۔ طرف ثانی کو بھی دل سے منظور تھا۔ مگر آخر جواب دیا کہ ہمارے یہاں چار لڑکیاں بیاہنے کو بیٹھی ہیں ، چاروں کی تمہارے یہاں کھپت ہوسکتی تو مضائقہ نہ تھا ، ایک کی ہم تمہارے یہاں کرکے ہم کو سارے شہر میں نکو بننا پڑے گا۔ اس سے آپ قیاس کرتے ہیں کہ ہندوستانیوں کی سوسائٹی میں ہم لوگوں کی کس قدر بے عزتی ہورہی ہے مگر کیا کریں کچھ اپنے اختیار کی بات نہیں۔ میں تو اسی غصے کے مارے دلی آتا نہ تھا لیکن بھائی ابن الوقت کی طرح وطن اور رشتہ داروں کو چھوڑا نہیں جاتا۔ بھائی ابن الوقت کی والدہ تو ان کو چھوٹے سے چھوڑ کر مر گئی تھیں ، ان کو پھوپھی نے یعنی میری ساس نے پالا۔ ان کی تبدیل وضع سے پھوپھی کے دل پر جو صدمہ ہوا ہے ، بس عرض کرنے کے قابل نہیں۔ دو برس سے وہ مجھ کو بلا رہی تھی ، پر میں نے ہی آنے کی حامی نہ بھری۔ اب جو سنا کہ بھائی ابن الوقت پر قرض خواہوں کا نرغہ ہے اور بارہ دری بیچنے کو ہیں تو میں نے زیادہ بے رخی کرنا خلافِ شیوہ انسانیت سمجھا ، چلا آیا۔
شارپ : ابن الوقت صاحب اور قرض دار۔"
حجتہ : قرض دار بھی ہزار دو ہزار کے نہیں ، دس ہزار سے کچھ زیادہ ہی تو گڑوالوں کا ہے۔
شارپ : ہم تو سنتے تھے کہ ابن الوقت صاحب کے پاس بڑا سرمایہ ہے ۔ ساری دولت تو بیگم صاحب کی انہوں سے سمیٹی اور تحقیقاتِ بغاوت میں بھی بہت کچھ پیدا کیا۔
حجتہ : بھلا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ انسان کے پاس سرمایہ ہو اور وہ مہاجن کے بھیاج بھرے اور ایسے مکان کو بیچنا چاہے جو اس کے بزرگوں کی حشمت اور ثروت کی یادگار ہے۔ اور نوکری میں کچھ پیدا کیا ہوتا تو آپ کی ناخوشی اعلیٰ ادنیٰ سب کو معلوم ہے ، دینے والے کبھی کے امنڈ پڑتے۔ غرض بھائی ابن الوقت کے بارے میں آپ کو جتنی خبریں پہنچتی ہیں ان میں رتی برابر بھی تو سچ نہیں۔ شیخی باز کہہ دیا ، بالکل بے جوڑ ، مال دار بنادیا ، سرتا سر غلط ، مرتشی بنا دیا ، تمام تر بہتان۔ بھلا اور زیادہ نہیں تو گڑوالوں کا ہی بہی کھاتہ منگوا کر ایک نظر دیکھیے ، جھوٹ سچ سب آپ پر منکشف ہوجائے گا۔
شارپ : بھلا پھر ابن الوقت صاحب اس قدر بدنام کیوں ہیں؟ ہم نے تو کسی کے منہ سے ان کی بھلائی نہیں سنی۔
حجتہ : آپ کو ہندوستانیوں کے خصائص مزاجی سے بہ خوبی آگاہی نہیں۔ ہم لوگوں میں اس طرح کا حسد ہے کہ ایک کو ایک کھائے جاتا ہے اور قاعدہ ہے کہ جب کسی قوم میں ادبار آتا ہے تو حالت کے بگڑنے سے پہلے قوم کی طبائع بگڑ جاتی ہیں۔ بھائی ابن الوقت کی حالت محسود ہونے کی ہے۔ غدر لوگوں کے حق میں عذاب تھا اور ان کے حق میں رحمت ، اوروں کے لیے مصیبت تھا ان کے لیے موجبِ فلاح و برکت۔ ہندوستانیوں کے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کیا قصور ہوگا کہ ان میں ایک شخص غدر کی تمام آفتوں سے محفوظ رہا ، سرکار نے اس کی خیر خواہی کی قدر کی ، بڑی سے بڑی خدمت دی ، جاگیردی اور حکام لگے اس کی خاطر و مدارت کرنے۔
شارپ : خیر کچھ ہی ہو ، میں تو اس کا متحملّ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ہندوستانی انگریزوں کی نقل کرے۔
حجتہ : مجھ کو بھی بہت ہی زبون معلوم ہوتا ہے۔ بھلا ہوا کہ آپ اُدھر بنگالے میں کی طرف نہ ہوئے۔ وہاں کے لوگ تو نقل کے علاوہ چھیڑتے بلکہ چڑاتے بھی ہیں۔
شارپ : وِکٹر صاحب بھی وہاں سے بہت ناراض ہیں اور وہاں کے لوگوں کی بہت شکایت لکھتے ہیں۔
حجتہ : انگریزی پڑھ پڑھ کر وہ لوگ ایسے بے باک ہوگئے ہیں کہ کسی عام حاکم کی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے کتنا ہی پھونک پھونک کر پاؤں رکھیے مگر وہ بدون گرفت کیے نہیں رہتے۔ قانون کی تو پوری پوری اطاعت کرتے ہیں لیکن کوئی حاکم چاہے کہ بے ضابطہ کوئی کاروائی کرے کیا مجال۔ ولایت تک اُس کے دھوئیں بکھیر کر بھی بس نہ کریں۔ اُن اضلاع میں دیسی اخبار ایسے پھیل پڑے ہیں جن کا شمار نہیں۔ جس اخبار کو کھول کر دیکھیے شروع سے آخر تک گورنمنٹ کی مذّمت ، حکام کی ہجو اور اس پر بھی بند نہیں ، ناولوں کے ذریعے سے فضیحت کریں ، تھیٹروں میں نقلیں نکالیں ، سوانگ بنا بنا کر سرِ بازار پھرائیں۔ یہاں توکل ہی میں جامع مسجد سے نماز پڑھ کر آرہا تھا ، دیکھتا کیا ہوں کہ ایک انگریز گھوڑے پر سوار چلا جا رہا ہے اور لوگ ہیں کہ دو طرفہ اس کو کھڑے ہو ہو کر سلام کرتے جاتے ہیں۔ میرے ساتھ اسی طرف کا ایک خدمت گار ہے ، وہ میرے پیچھے پیچھے تھا۔ یہ کیفیت دیکھ کر اس کو سخت حیرت ہوئی اور کسی سے پوچھا ، کیوں جی ، یہ کون صاحب ہیں جس کو لوگ اس طرح پر سلام کر رہے ہیں؟ اور جب اس نے سنا کہ یہ کوئی سڑک کا ٹھیکہ دار ہے تو اس کو اور بھی تعجب ہوا مگر پھر لوگوں نے اس کو سمجھا دیا کہ اس طرف انگریزوں کی حکومت کی یہی رنگ ہے۔ کوئی انگریز ہو اس کو سلام کرنا چاہیے اور نہ کرو تو بعضے تو ٹوک دیتے ہیں اور بعضے ٹھوک بھی دیتے ہیں۔
شارپ : پھر ان اضلاع میں حکومت کس چیز کا نام ہے؟
حجتہ : ہمارے یہاں صرف قانونی اختیارات کے عمل میں لانے کا نام حکومت ہے۔ اس میں بھی اس قدر پِتے کو مارنا پڑتا ہے کہ بس جو کرتا ہے اسی کا جی جانتا ہے۔ آپ گھبرائیے نہیں ، اب انگریزی کا چرچا ان اطراف میں بھی بہت ہو چلا ہے ، کوئی دن کو یہ بھی بنگالہ ہوا جاتا ہے۔
شارپ : کچھ پروا کی بات نہیں۔ اُس وقت تک ہماری سروس کی میعاد تو ہوچکے گی مگر یہ تو کہئے ، آپ کو اس کا انجام کیا معلوم ہوتا ہے؟
حجتہ : انجام کی خبر تو خدا ہی کو ہے۔ یہ باتیں بڑے لوگوں کے سوچنے کی ہیں ، کیا میں اور کیا میری رائے۔
شارپ : بھلا پھر بھی کیا ہوا ، ہر ایک انسان رائے تو رکھتا ہے ، صحیح ہو یا غلط۔
حجتہ : خیر ، آپ پوچھتے ہیں عرض کرتا ہوں کہ میرے نزدیک انگریزی تعلیم کا یہ نتیجہ تو ایک نہ ایک دن ضرور ہونا ہے کہ گورنمنٹ کا گنگا جمنی رنگ کہ کسی قدر انگریزی ہے اور کسی قدر ایشیائی اور جس کے لیے یوریشین کا لفظ نہایت مناسب ہے اور ہم اپنی زبان میں ایسا لفظ بنانا چاہیں تو مغلئی اور انگریزی کو ملا کر "مغریزی" کہہ سکتے ہیں ، غرض گورنمنٹ کا یہ دوغلا پن تو باقی رہتا نظر نہیں آتا۔ ہندوستان اور ولایت میں جو پرلے درجے کی مغایرت اور اجنبیت تھی ، یوماََ فیوماََ کم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے چند در چند اسباب ہیں ؛ انگریزی تعلیم ، انگریزی اور دیسی اخباروں کی کثرت ، ڈاک ، ریل ، تار ، سفر ولایت کی سہولت ، ہندوستانیوں اور انگریزوں دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے جاننے پہچاننے کا شوق۔ غرض جس قدر ہندوستانیوں کی آنکھیں کھلتی جاتی ہیں اسی قدر ان کے حوصلے بڑھتے جاتے ہیں۔ انجام کار ہندوستانی ضرور خواہش کریں گے کہ ہوم گورنمنٹ اور انڈین گورنمنٹ دونوں کا ایک رنگ ہو اور ولایت میں جو حقوق رعایائے سلطانی ہونے کی حیثیت سے آپ لوگوں کے تسلیم کیے گئے ہیں اور جو اختیار آپ لوگوں کو دیئے گئے ہیں ، وہی حقوق اس ملک میں ہندوستانیوں کے تسلیم کیے جائیں اور وہی اختیار اُن کو ملیں۔
شارپ : دوخواست تو معقول ہے کیونکہ 1857ء کے غدر سے ہندوستانیوں نے اپنی وفاداری کا بڑا عمدہ ثبوت دیا ہے۔"
حجتہ : غدر میں رعیت کو آپ ناحق سانتے ہیں۔ غدر سے اور رعیت سے کیا تعلق؟ غدر کیا آپ کی فوج نے۔ رعیت کیوں فوج کی ذِمہ دار ہونے لگی۔ رعیّت عبارت ہے رئیساں با اقتدار سے ، بہ حیثیت کیوں مجموعی ، زمینداروں سے ، بہ حیثیت مجموعی ، تجارت پیشوں سے ، بہ حیثیت مجموعی ، اہل حرفہ سے ، بحیثیت مجموعی ، تمام رعایا کو تو بھلا کون باغی ٹھہرا سکتا ہے ، آپ کسی ایک گروہ کا نام لیجئے کہ اس نے بہ حیثیت مجموعی تمام ملک میں بغاوت کی ہے۔ جناب بحیثیت مجموعی تو آپ کی فوج نے بھی بغاوت نہیں کی۔ بغاوت ایک جاہلانہ شورش تھی خاص خاص لوگوں کی، خاص خاص وجوہ سے ، خاص خاص مقامات میں اور ایسی شورشیں ولایت میں بھی اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ رعایا نے بحیثیت مجموعی بغاوت کی ہوتی تو معاذ اللہ وہ طوفان کسی کے روکے رکتا بھی؟
شارپ: خیر جی' وہ غدر تو گیا گزرا ہوا اور میں سمجھتا ہوں اس کا ہونا انگریزی حکومت کے حق میں مفید ہوا کیونکہ ہندوستانیوں کے دل میں یہ بھی ایک ارمان تھا سو نکل گیا۔۔ ہم لوگ ہمیشہ بلوے اور ہنگامےت کے نام سے ڈرتے تھے' اب معلوم ہوا کہ اس ملک میں بلوے اور ہنگامے ہونا بچوں کی بیچا ہے۔ سارے ملک سے ہتھیار رکھوالئے گئے ہیں اور گورنمنٹ پہلے سے کہیں زیادہ قوی اور مطمئن ہے۔مگر آپ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ بغاوت کا مادہ لوگوں کے دلوں میں موجود ہے اور یہ ضرور پھر ایک نہ ایک دن اپنا رنگ لائے گا۔کس طرح کے لوگ ہیں کہ غدر کی وجہ سے اتنی آفتیں نازل ہوئیں اور پھر باز نہ آئے۔ ان کے لئے تو خالص ایشیائی حکومت چاہئیے۔ اسی کے یہ ہمیشہ سے خوگر ہیں اور اسی سے یہ ٹھیک بھی رہتے ہیں۔
حجۃ : محال عقل ہے کہ انگریز حکومت ایسی اجلی اور مہذب اور شایستہ گورنمنٹ ہوکر وحشی اور بیہودہ اور نالائق گورنمنٹوں کا طریقہ اختیار کرے۔
شارپ: پھر آپ لوگ برٹش گورنمنٹ کی جیسی چاہئیے قدر کیوں نہیں کرتے؟
حجۃ: تمام ہندوستان میں کسی مذہب کسی قوم کا ایک متنفس بھی ایسا نہیں جو برٹش گورنمنٹ کو تہ دل سے عزیز نہ رکھتا ہو۔ ہم لوگ نیم وحشی' جاہل نامہذب جو کچھ ہیں ' سو ہیں مگر باولے نہیں کہ اپنے نفع نقصان میں امتیاز نہ کرسکیں۔ امن اور آسائش اور آزادی اور انصاف جان اور مال اور مذہب یعنی تمام، حقوق کی حفاظت اور فلاح و بہبود جو انگریزی عملداری میں ہے ہم سب سمجھتے اور سب کے لیے پہلے خدا کے اور خدا کے بعد گورنمنٹ کے بہت بہت شکر گذار ہیں۔ ہم نے ایشیائی گورنمنٹ کی مصیبت نہیں جھیلی تو بھی ہم اس کی حقیقت سے ناواقف نہیں ہیں۔ ہم نے بزرگوں سے بہت سے دردناک افسانے سنے ہیں اور ایشیائی گورنمنٹ کے نمونے اگرچہ برٹش گورنمنٹ کے طفیل پورےپورے نہیں مگر ناقص اور ادھورے جابجا ایسی ریاستوں میں اب بھی موجود ہیں اور ہم میں کے بہت لوگوں کو دوسرے ملکوں میں جانے اور رہنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ غرض پردے کی بیٹھنی والی عورتیں تک جانتی ہیں کہ انگریزی عملداری کے برابر روئے زمین پر کہیں آرام نہیں۔
شارپ: آپ یہ بھی کہتے ہیں اور آپ ہی کے بیان سے یہ بھی مستنبط ہوا کہ لوگ انگریزی عملداری سے خوش نہیں۔
حجۃ: میری زبان سے ایسے الفاظ شاید نکلے ہوں مگر خیر مطلب ایک ہی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں گنتی کے چند آدمی پولیٹیکل باتوں کے سوچنے سمجھنے کی لیاقت رکھتے ہیں اور وہ چند آدمی بھی اکثر بلکہ سب سرکار کے بنائے تیار کئے ہوئے ہیں جنہوں نے سرکاری کالجوں میں تعلیم پائی اور ان کی دو سے چار آنکھیں ہوئیں۔ غرض پولیٹیکل خیالات اس زمانے کی جدید تعلیم کے نتیجے ہیں۔جوں جوں تعلیم کا رواج ہوتا جاتا ہے' پولیٹیکل خئیالات کی کثرت ہوتی جاتی ہے۔قومی ااتفاق جس کو آپ نیشنلیٹی کہتے ہیں نہ ہندوستان میں اب ہے نہ آئیندہ اس کے قائم ہونے کی امید نہ سارے ہندوستان کا کبھی ایک مذہب ہوگا اور نہ یہاں کے باشندے کبھی ایک نیشن بنیں گے۔ پس ناراض و نا خوش جو کچھ سمجھئے نئے تعلیم یافتہ کہ یہی لوگ اخباروں میں لکچروں میں اکثر جلی کٹی کہتے رہتے ہیں سو ان کی ناراضگی اور ناخوشی بھی ہرگز مخالفانہ اور باغیانہ نہیں ہے بلکہ اسی قسم کی جیسے آپ کے عملوں میں سے کوئی شخص اپنے تئیں ترقی کا مستحق سمجھتا ہے اور اس کو اس کی خواہش کے مطابق ترقی نہیں ملتی۔ آپ فرماتے ہیں کہ غدر کے بعد بھی لوگ باز نہ آئے سو جناب من! غدر کے بعد ہندوستانی اور بھی شیخی میں آگئے۔ ان کی توقعات کی کچھ حد نہ رہی۔ کہتے ہیں کہ غدر میں لٹے کھسٹے برباد ہوئے مگر خدا نے کمپنی سے پیچھا چھڑایا۔ سوداگر لکھ پتی کروڑ پتی سہی مگر آخر ہے تو سوداگر جس نے ہر پیسے میں سے کچھ کوڑیاں بچابچا کر دولت جمع کی ہے۔ اس میں بادشاہ کی سی سیر چشمی اور فیاضی کہاں؟ اور پھر سوداگر کے علاوہ ملک کے ٹھیکیدار اور ٹھیکہ بھی معیادی ان کو بادشاہ کی طرح رعیت کی پرداخت کا خیال کیوں ہونے لگا تھا۔ غرض کچھ ملے نہ ملے(اور کیوں نہ ملے، ملے گا ہی) لوگ تو بڑی بڑی امیدیں لگا رہے ہیں۔ ملکہ کو دیکھا نہیں۔ بھالا نہیں اور دیکھنے کی امید بھی نہیں مگر خدا جانے کیا بات ہے کوئی دل نہیں جس میں ملکہ کے نام کے ساتھ جوش نہ پیدا ہوتا ہو۔
شارپ: اگر یہ صرف بنگالی بابوؤں کا غل ہے تو کچھ ہونا ہوانا نہیں ۔ان کے دماغ میں یہ خبط سمایا ہے کہ صرف ٹوٹی پھوٹی انگریزی پڑھ لینے سے ہم بھی یورپینز کی طرح کے ادمی ہیں اور ہمارے ساتھ یورپینز کی طرح ان میں نیشنیلٹی نہیں، پبلک اوپینین نہیں، آزادی نہیں، روشن ضمیری نہیں، جفا کشی نہیں، استقلال نہیں، جرات نہیں، سچائی نہیں، سچ کی تلاش نہیں، یک دِلی نہیں، اتفاق نہیں۔
حجتہ : یہ آپ کا فرمانا بالکل درست ہے مگر لوگوں میں انگریزیت چلی آتی ہے اور گورنمنٹ بھی آہستہ آہستہ ہندوستانیوں کو اختیارات دیتی جاتی ہے۔ ابھی غدر کو کے دن ہوئے، گورنمنٹ کی شان ہی دوسری ہوگئی ہے۔
اس کے بعد شارپ صاحب نے سامنے میز پر ٹائم پیس کو دیکھا تو حجت الاسلام نے کہا میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ آج میں نے آپ کا بہت سا قیمتی وقت صرف کرا دیا۔
شارپ: مجھ کو آپ کی ملاقات سے بڑی خوشی ہوئی اور جیسا کہ وکٹر صاحب نے لکھا ہے آپ بڑی معلومات اور بڑی عمدہ رائے کے آدمی ہیں اور مجھ کو ہمیشہ آپ کی ملاقات سے خوشی ہوگی۔ میں وکٹر صاحب کو بڑی شکرگزاری لکھوں گا اور میں آپ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے بھائی ابن الوقت کے بارے میں بالکل سچی سچی خبردی ورنہ مجھ کو لوگوں نے ان سے بہت ہی بد ظن کر دیا تھا۔
حجتہ : آپ کی اس قدر عنایت دیکھ کر اب تو مجھ سے بھی صبر نہیں ہو سکتا اور میں بہ منت آپ سے التماس کرتا ہوں کہ آپ بھائی ابن الوقت کی طرف سے دل صاف کر لیجیے۔
شارپ: میں نے تمام غلط خیالات کو دل سے نکال ڈالا اور میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھ سے ان کے بارے میں غلطی ہوئی۔ جو باتیں لوگوں نے مجھ سے کہیں، ان کے ظاہر حال سے ان کی تصدیق ہوئی تھی۔ میں نے ان سے سب کام نکال لیا تھا اور ہر چند صاحب کمشنر نے لکھا ہے کہ بغاوت کا محکمہ رازداری کا محکمہ ہے اور اس کے فیصلے عام قوانین کے تابع نہیں، محکمہ بغاوت کی مثلیں دوسرے عملوں کو مت دیکھنے دو اور جن مقدمات میں ابن الوقت کاروائی کر چکے ہوں، ان ہی سے فیصلہ کراؤ مگر میرا ارادہ ابن الوقت صاحب کو کام دینے کا نہ تھا اور امروز فردا میں میں رپورٹ کرتا مگر آپ نے جو حالات بیان کیے ان سے میری رائے بالکل بدل گئی۔ آج ہی ڈپٹی صاحب کو ان کے کام پر مسلط کردوں گا۔
حجتہ : کام نکال لیے جانے کو تو ان کو مطلق شکایت نہیں۔ ان کو اگر شکایت ہے تو اس بات کی ہے کہ آپ نے ان کو اپنی صفائی کے ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا ورنہ یہاں تک نوبت ہی نہ پہنچتی۔
شارپ: شکر ہے کہ میرے ہاتھ سے ان کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچا۔
حجتہ : یہ تو نہ فرمائیے، سو سائٹی میں ان کی بڑی بے وقتی ہوئی ۔
شارپ: (ذرا تامل کر کے) میں سوچ کر اس کی تلافی کردوں گا مگر انہوں نے وضع ایسی اختیار کی ہے کہ کوئی انگریز ان کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کر نہیں سکتا۔
حجتہ : آپ کو ان سے خانگی طور پر ملنے نہ ملنے کا اختیار ہے مگر میں ان کے تعزز منصبی کی حفاظت کے لیے عرض کرتا ہوں۔
شارپ: میں ضرور اس کا خیال کروں گا۔
چنانچہ اسی دن شارپ صاحب نے تحقیقاتِ بغاوت کے تمام مقدمات کامل و ناکامل سب ابن الوقت کے محکمے میں واپس کر دیے۔ روبکار میں استمالت کے الفاظ، جن سے ایک طرح کی معذرت بھی مترشح ہوتی تھی، لکھوا دیے اور ابن الوقت کے نام ایک چھٹی الگ لکھی کہ آپ کے بھائی حجتہ الاسلام سے جو میں نے آپ کے حالات سنے، میرے سارے شکوک رفع ہوگئے اور میں آپ سے اپنی غلطی کی معافی چاہتا ہوں اور اگر آپ اپنے بھائی حجتہ الاسلام کی سی وضع اختیار کریں جو آپ کی قومی وضع ہے اور جس میں آپ نے بھی اپنی عمر کا بڑا حصہ بسر کیا ہے اور جو ہر ایک ہندوستانی شریف کے لیے زیبا اور راحت بخش ہے تو مجھ میں اور آپ میں ایسی دوستی قائم ہوگی جس کو میں ساری عمر نبا ہوں گا۔"
فصل:27
حجتہ الاسلام اور ابن الوقت کی دوسری ملاقات اور پھر مذہبی بحث:
اگلے دن ابن الوقت کو تو صبح ہی سے حجتہ الالسلام کا انتظار تھا مگر یہ گھر سے کھانا وانا کھا پی کر چلے تو پہنچتے پہنچتے ساڑھے دس بج گئے تھے۔ دور سے دیکھتے ہی ابن الوقت نے کہا: آپ حقیقت میں بڑے خوش تقدیر ہیں کہ شہر میں جاتے ہی اسی رات پانی برسا اور خوب برسا۔ لُوتو اب بالکل گئی، ٹٹیاں دو چار دن کی مہمان اور ہیں۔"
حجتہ : الحمداللہ ثم الحمداللہ۔
ابن الوقت: ثم الحمداللہ کیسا؟
حجتہ: تم ایک ہی ثم لیے پھرتے ہو، خداواند کریم کے تمام بندوں پر ہمہ وقت اتنے وافراحسانات ہیں کہ ایسے ایسے لاکھوں کروڑوں ثم بھی ان کی تلافی نہیں کرسکتے مگر میں نے پہلا الحمداللہ اپنی خوش تقریری پر کہا اور درسرا اس بات پر کہ بھلا تم نے تقدیر کو تو مانا۔
ابن الوقت: یہ لفظ تو بے خیالی میں عادت کے مطابق میرے منہ سے نکل گیا ورنہ میں تقدیر کا بالکل قائل نہیں اور میرے نزدیک اسی طرح کے لغو معتقدات نے مسلمانوں کو کاہل اور نالائق بنا کر اس درجے کو پہنچایا ہے کہ روئے زمین پر ان سے زیادہ مفلس اور تباہ حال کوئی قوم نہیں۔
حجتہ: تم کیوں اس قدر مسلمانوں کے پیچھے پڑے ہو؟ کیا ریفار مر بننے کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے کہ زبردستی کوئی نہ کوئی الزام کسی کے پلے باندھ کر اپنے تیئں سرخ رد اور درسرے کو انگشت نما کیجئے۔ مسلمانوں کی کیا تخصیص ہے۔ جو شخص خدا کو مانتا ہے، کسی مذہب کا ہو، وہ ضرور تقدیر کا بھی قائل ہوگا۔ پہلے سمجھو تو سہی کہ تقدیر ہے کیا چیز؟ تقدیر کے لغوی معنی ہیں اندازہ ٹھہرنا۔ دنیا میں کوئی چیز نہیں جس کا اندازہ نہ ہو: انا کل شئی خالقناہ بقدر ۔ پس اگر دنیا ہے تو اس کے ساتھ تقدیر بھی ہے، یا دوسرے طور پر سمجھو مثلاَ تم جانور یا درخت نہیں بنائے گئے بلکہ آدمی، یہ تقدیر ہے، مرد بنائے گئے عورت نہیں، یہ تقدیر ہے۔ ہندوستان میں اور ہندوستان میں سے خاص دلی میں پیدا ہوئے، یورپ یا افریقہ یا امریکہ یاکسی دوسری جگہ نہیں، یہ تقدیر ہے۔ تیرھویں صدی کے خاص حصے میں تمہاری ہستی ہوئی، اس سے پہلے یا پیچھے نہیں، یہ تقدیر ہے۔ ایک خاص مسلمان کے گھر پیدا ہوئے، ہندو یا عیسائی یا کسی دوسری قوم یا کسی دوسرے شخص کے یہاں نہیں، یہ تقدیر ہے۔ ایک خاص حالت میں پرورش پائی، بڑے ہوئے، پڑھے، لیاقت پیدا کی، نواب معشوق محل بیگ کی سرکار کے، مختار کل ہوئے، یہ تقدیر ہے۔ غدر کے وقت اسی شہر میں موجود تھے، عین اسی زمانے میں نوبل صاحب ولایت جاتے ہوئے دلی میں ٹھہر، باغیوں نے ان کو پکڑا اور اپنے پندار میں مار ڈالا، تم جاپہنچے اور نیم جان کو اٹھا کر گھر لے گئے، مرہم پٹی کی، اچھے ہوئے، تمہارے گھر ان کا رہنا کسی طرح پر ظاہر نہ ہوا، آخر کار صحیح سلامت انگریزوں میں جا ملے، یہ سب تقدیر ہے۔ تم کو دفتہَ بھرا بھتولا گھر چھوڑ کر شہر سے نکل جانا پڑا، بے سرد سامان باہر پڑے پھرتے تھے اور قریب تھا
کہ فوج فتح مند کے سوار بیگار میں پکڑ کر تم سے مزدوری کا کام لیں کہ اتنے میں نوبل صاحب رجال الغیب کی طرح آ موجود ہوئے اور تم کو عزت اور آبرو سے لے جا کر گھر میں بسایا، جاگیر اور نوکری دلوائی، یہ سب تقدیر ہے۔ اس اثنا میں تم کو انگریز بننے کے خبط نے آگھیرا، خوب خوب ڈنر دیے اور بڑی بڑی پارٹیاں بلائیں۔ ہندوستانیوں کے ردٹھنے چھوٹنے کی تو تمہیں کیوں پروا ہونے لگی تھی، انگریز بھی بجائے خود چڑے، بگڑے۔ لیکن گھٹیا چائے اور کافی، سوڈا واٹر اور برف اور سگرٹ کے لالچ سے اور بڑھیا کچھ تو نوبل صاحب کے مروت سے اور کچھ تمہاری خیر خواہی اور تعزز منصبی کے لحاظ سے طوعا کرہاً، تم سے ملنے لگے۔ تم نے سمجھا انگریزوں نے مجھ کو اپنی سوسائٹی میں لے لیا، یہ سب تقدیر ہے۔ خدا نے ایک دم پانسو روپے ماہوار کی آمدنی کردی تھی۔ ہندوستانی بھلے آدمی بن کر رہتے تو آج کو امیر ہوئے اور کچھ نہیں تو دس بارہ ہزار روپیہ تمہارے پلے ہوتا۔ سو تم نے ایک خبط کے پیچھے ساری آمدنی پر پانی پھیرا، دس بارہ ہزار الٹا قرض کیا، اب بزرگوں کی پیدا کی ہوئی جائداد کے بیچنے کی نوبت پہنچی، یہ سب تقدیر ہے۔ اچانک نوبل صاحب کو ولایت جانا پڑا۔ ان کو منہ موڑنا تھا کہ تمہارے خوابِ پریشاں کی تعبیر سامنے آنے لگی ، یہ سب تقدیر ہے۔ تم اپنی عادت کے مطابق ہوا خوری کو گئے۔دریا گنج کے نکڑ پر صاحب کلکٹر مل گئے ، وہ پیادہ اور تم سوار ، تم نے اپنے نزدیک اچھا کیا اور ہوگیا برا۔ انہوں نے تم سے گستاخی کا جواب طلب کیا ، تمام کام چھین کر کہہ دیا کہ کچہری میں بیٹھے مکھیاں مارا کرو ، یہ سب تقدیر ہے۔ دو برس سے اماں جان مجھ کو بلا رہی تھیں اور میرا آنا نہیں ہوتا تھا ، اب جو صاحب کلکٹر کی خفگی اور بارہ دری کی فروخت کا یہ حال ہوا ، ضبط نہ ہوسکا ، رخصت لی ، وِکٹر صاحب سے ملنے گیا ، تمہارے شارپ صاحب نکلے ان کے رشتے کے بہنوئی ، انہوں نے از خود چٹھی دی ، شارپ صاحب سے ملاقات ہوئی ، تمہارا تذکرہ آیا ، خدا نے کیا ، صفائی ہوگئی، یہ سب تقدیر ہے ، کیوں ہے یا نہیں؟
ابن الوقت : توبہ ! تقدیر کیا ہے ، شیطان کی انتڑی ہے۔ کہیں پھر آپ میری زبان نہ پکڑیے گا۔ شیطان طوفان کو بھی میں مانتا وانتا خاک نہیں؟
حجتہ : تمہارے ماننے نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ جو واقعات حقہ اور نفس الامری ہیں اگر سارا جہاں ان سے انکار کرے تو بھی واقعات کا بطلان نہیں ہوسکتا۔
ابن الوقت : تو کیا آپ کے نزدیک شیطان بھی کوئی چیز ہے موجود فی الخارج؟
حجتہ : جی ہاں ! شے ہے موجود فی الخارج۔
ابن الوقت : پھر دوسری اشیائے موجود فی الخارج کی طرح ہم کو نظر کیوں نہیں آتا؟
حجتہ : ہوا اور پانی میں جو بے شمار بھنگے ہیں اور جن کو بے مدد خردبین نہیں دیکھ سکتے یا مکھی کی لاکھ آنکھیں ہیں یا چاند میں سمندر اور پہاڑ ہیں اور بڑے پلے کی دوربین سے صاف دکھائی دیتے ہیں ، آخر یہ چیزیں تو خارج میں موجود ہیں اور ہم کو نظر نہیں آتیں۔
ابن الوقت : آنکھ سے دیکھا تو دیکھا اور خرد بین کی مدد سے دیکھا تو دیکھا ، غرض کسی نہ کسی طرح دیکھا تو سہی۔
حجتہ : لیکن جس زمانے میں دور بین ، خردبین ایجاد نہیں ہوتی تھی ، لوگ ان چیزوں کو موجود فی الخارج مانتے یا نہ مانتے یا اب لاکھوں کروڑوں بندگان خدا ہیں جو خرد بین ، دور بین کے نام سے بھی آگاہ نہیں ، وہ ان چیزوں کو موجود فی الخارج مانیں گے؟ یا نہیں مانیں گے۔
ابن الوقت : نہ مانتے اور نہیں مانیں گے۔
حجتہ : ہاں مگر ان کے نہ ماننے سے یہ لازم آجائے گا کہ مکھی کی لاکھ آنکھیں نہیں؟ اسی طرح اگرکوئی شخص مثل تمہارے وجود شیطان سے انکار کرے ، صرف اس وجہ سے کہ وہ شیطان کو دیکھ نہیں سکتا تو اس کا انکار کیوں مستند ہونے لگا؟
ابن الوقت : ہم نے تو خرد بین سے مکھی کی آنکھوں اور دور بین سے چاند کے پہاڑوں کے ہونے کا یقین کیا۔ اسی طرح آپ کو ذریعہ بیان کیجئے جس سے شیطان کے ہونے کا یقین کیا جائے۔
حجتہ : وہ ذریعہ ہے خدا کے رسول کا ارشاد۔
ابن الوقت : بدیہیات میں سے تو نہ ہوا۔
حجتہ : جن کی چشم بصیرت نور ایمان سے منور ہے ان کے نزدیک بدیہی بھی نہیں بلکہ اجلی البدیہیات۔ "فانھا لا تعمی الا بصار ولکن تعمی القلوب التّی فی الصدور۔"
ابن الوقت : اگر شیطان کو موجود منفرد مانا جائے تو خدا کو ظالم اور انسان کو مجبور مطلق ماننا پڑے گا۔ کیا انصاف ہے کہ آدمی پر ایک دشمن پہناں مسلط ہو۔
حجتہ : تو تمہارا مطلب یہ ہے کہ سرے سے انسان کا پیدا کرنا ہی خلاف انصاف ہے کیوں کہ شیطان موجود منفرد ہو تو اور انسانی قوت ہو تو دونوں کا مال واحد ہے۔
ابن الوقت : خیر ، آپ کی عقل ایسے ڈھکوسلوں کو قبول کرتی ہوگی۔ کہئے تو آپ کی خاطر سے جھوٹ بول دوں ورنہ میں تو نہیں سمجھتا کہ جب تک مسلمان تقدیر اور شیطان اور اسی طرح کی دوسری لغویات کے معتقد رہیں گے ، ان کو کبھی فلاح ہو۔
حجتہ : ملاحی گالیوں کی سہی نہیں۔ خلط مبحث مت کرو۔ مقرر کرکے ایک ایک بات کہو تو جواب دیا جائے۔
ابن الوقت : آپ ہی انصاف سے کہئے کہ تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل اور قاصر الہمّت نہیں کیا؟ سب سے بڑے دین دار ، ورثہ الانبیا ، دین کے حافظ ، دین کے حامی ، دین کے رواج دینے والے مولوی مشائخ اور یہ تو ہمارے گھر کا کام ہے ، ساری حقیقت آپ کو بھی معلوم ہے ، مجھ کو بھی معلوم ہے ، مرد و زن ملا کر ڈیڑھ سو پونے دو سو آدمیوں کی گزر کس چیز پر تھی؟ خیر خیرات پر۔ جس کو دیکھو تن بہ تقدیر ہاتھ پر
ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔
حجتہ : شخصیات سے بحث کرنے میں تو غیبت ہوتی ہے اور کسی کی نیت کا حال کیا معلوم؟ مگر تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل اور قاصر الہمت کر دیا ۔ دنیا میں مسلمانوں نے کیا نہیں کیا؟ ملک گیریاں کیں ، ملک داریاں کیں، خشکی اور تری کے سفر کیے ، تجارتیں کیں ، صناعیاں کیں ، دست کاریاں کیں ، علم تحصیل کیے ، ایجادیں کیں ، غرض دنیا کے سبھی کام کیے اور ایسے کیے کہ ان کے زمانے میں دوسروں سے نہیں ہوسکتے تھے اور اب بھی زمینداری ، کاشتکاری ، دست کاری ، تھوڑی بہت تجارت ، برا بھلا پڑھنا لکھنا ، نوکری چاکری ، سبھی کچھ کرتے ہیں ، اور کرتے نہیں تو کھاتے پیتے کہاں سے ہیں؟ یہ بات دوسری ہے کہ جو چاہیے نہیں کرتے یا کرنے میں کمی کرتے ہیں مگر اس کے اسباب دوسرے ہیں ، نہ یہ کہ عقیدہ تقدیر نے ان کو کاہل کر دیا ہے۔ ہندو ، عیسائی یہودی کون ہے جو تقدیر کا قائل نہیں؟ تو اگر مجرد تقدیر پر عقیدہ رکھنا کاہلی کا باعث ہوتا ، یہ سب بھی کاہل ہوتے ، حالانکہ تم بالتخصیص مسلمانوں ہی کو ملزم ٹھہراتے ہو اور چونکہ تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں ، تقدیر پر عقیدہ رکھنا کاہلی کا سبب کیوں ہونے لگا ، بلکہ وافر مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر پر بھروسہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں نے ثابت قدمی اور استقلال مزاجی کے ساتھ کوشش کی اور آخر کو کامیاب ہوئے۔ اس کی ایک مثال تو جالوت طالوت کا قصّہ ہے کہ جب فوجِ طالوت لشکرِ جالوت کے مقابل ہوئی تو طالوت کی فوج بہت تھوڑی تھی ، لوگ کہنے لگے : "ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کی مقاومت کی طاقت نہیں۔" یہ سن کر وہ لوگ جن کو خیال تھا کہ مرے پیچھے ہم کو خدا کے پاس جانا ہے ، کہنے لگے : "اکثر ایسا ہوا ہے کہ تھوڑے لوگوں نے بہتوں کو ہرایا ہے اور خدا صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔"اس کے بعد جو طالوت والوں نے کچکچا کر دھاوا کیا تو جالوت والوں کو مار ہٹایا اور جالوت مارا گیا۔ یہ قصہ قرآن میں مذکور ہے ، اگر تم کو خیال ہو۔ اس کو پرانی کہانی مت سمجھنا۔ ایسی باتیں اکثر اب بھی واقع ہوتی ہیں کہ صرف تقدیر کے بھروسے پر لوگ ہمت کر بیٹھتے اور مشکلات پر غالب آتے ہیں۔
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
ابن الوقت : آپ تو فرماتے تھے کہ تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں ، پھر جو لوگ تقدیر پر بھروسہ کرکے کسی کام کی ہمت کر بیٹھتے ہیں ان کو کہاں سے خبر ہو جاتی ہے کہ تقدیر موافق و مساعد ہے۔
حجتہ : یہ بھروسہ کرنے والوں کے دل سے پوچھنا چاہیے ، مثلاََ طرف داران طالوت نے "وَاللہ مع الصابرین" سے مساعدت تقدیر کا اذعان کر لیا اور ان کا اذعان سچ نکلا۔ ایک زمیندار کا حال مجھ کو معلوم ہے۔ وہ کچھ بسوے ہار گیا تھا۔ سنا ہے کہ بارہ برس سے اسی دھن میں پھرتا ہے ، کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ آدمی تھا نمازی ، ایک دن مسجد میں ملا ، میں نے اس کو سمجھایا : "کیوں پریشان ہوتے ہو ، صبر کرو۔" کہنے لگا : "ناخدا ترس وکیلوں نے میرے مقدمے کو خراب کیا مگر "الحق یعلو" میرا حق کبھی نہ کبھی ضرور مجھ کو ملے گا۔" پھر سنا کہ ڈسٹرکٹ جج کو جنگل میں اس نے اکیلا پا کر اپنا سارا حال بیان کیا اور ان کو اپنی صداقت سے مطمئن کر دیا۔ جج نے کوئی تدبیر کرکے اس کے بسوے نکلوا دیے۔ یہ تو میں نے تم کو مسئلہ تقدیر کا ایک پہلو دکھایا ہے ، یعنی انجام کار فوز اور کامیابی ہو تو اذعان تقدیر سے انسان کو کس قدر تقویت پہنچتی ہے۔ وہ تقدیر کے بھروسے پر جان توڑ محنت اور محنت کو خوش دلی سے برداشت کرتا ہے۔ رہی ناکامی اس کی جراحت کا تو اذعانِ تقدیر سے بہتر کوئی مرہم نہیں۔ معتقد تقدیر حرمان کو من جانب اللہ سمجھ کر اپنے دل کو تسلی دے لیتا ہے کہ اسی میں کوئی مصلحت مضمر ہوگی۔ غرض تعجب ہے کہ تقدیر کا ایسا عمدہ مسئلہ اور تم اس پر معترض ، ایسا صحیح خیال اور تم اس سے منکر !
ابن الوقت : اگر دنیا میں اونچ نیچ ، خوشی اور رنج یعنی اختلاف حالات اور تقدیری ہے تو خدا کو دانش مند اور منصف اور رحیم ماننا مشکل ہے۔
حجتہ : تم کو سرے سے خدا ہی کا ماننا مشکل ہو رہا ہے۔ اس مشکل کو خدا آسان کرے تو پھر دین کی ساری باتیں تم کو سہل اور سلیس معلوم ہوں اور آسانی سے سمجھ میں آئیں۔ بھائی جان ! دینیات میں غور کرنے کا یہ طریقہ نہیں جو تم نے اختیار کیا ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں
گر بہ استدلال کار دیں بدے
فخر رازی رازدار دیں بدے
تمہاری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تم کو حاجت مندانہ دین کی طلب اور تلاش نہیں بلکہ تم دین کی باتوں سے اس طرح مخاصمانہ پیش آتے ہو جیسے کوئی عیار وکیل فریق مقابل کے گواہ سے۔ یوں تو دین کی نعمت نہ ملی ہے نہ ملے گی۔ ایک تدبیر تم کو میں بتاتا ہوں کہ جس وقت تمہاری طبیعت افکار دین سے بالکل فارغ اور مطمئن ہوا کرے ، تنہائی میں خصوصاََ رات کے وقت کبھی کبھی سوچا کرو کہ دنیا ہے کیا چیز؟ دنیا کا ایک بڑا بھاری عظیم الشان کارخانہ ہے۔ کہنے کو محدود ہے مگر کسی نے اس کی انتہا نہیں پائی۔ اس کارخانے کے مقابلے میں زمین کی ، باایں وسعت ، اتنی بھی تو حقیقت نہیں جیسے بڑے سے بڑے پہاڑ کے آگے ایک ذرے کی۔ کیا علم ہیئت کی باتیں خیال سے اتر گئیں؟ تم تو سب سے زیادہ ان کی طرف داری کیا کرتے تھے۔ اگر وہ سب باتیں سچی ہیں اور جب مشاہدات اور اصول ہندسہ پر مبنی ہیں تو ان کو غلط ہی کون کہہ سکتا ہے۔ ہزار دس ہزار ، بیس ہزار ، پچاس ہزار ، لاکھ کوس تک کا بھی خیر یوں ہی سا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں ، مہا سنکھ در مہا سنکھ کوسوں کے سمجھنے کو کس کی اٹکل لائیں؟ بھلا کچھ ٹھکانا ہے۔ ان دوریوں کا کہ زمین پر سے گولہ چھوٹے اور شبانہ روز متصل ایک رفتار سے سیدھا چلا جائے تو انیس برس میں جاکر آفتاب تک پہنچے۔ اللہ اکبر جل شانہ ! بڑے سے بڑے پلے کی دور بینیں ایجاد ہوئیں مگر ہم نے اجرام فلکی کا کیا دیکھا؟ ایک جھلک ، وہ بھی ان معدودے چند کو جس زمین سے بہ نسبت دوسرے بے شمار اجرام کے قریب ہیں۔ کبھی آسمان خوب صاف ہوتا ہے تو اندھیری رات میں کس کثرت سے ستارے دکھائی دیتے ہیں ! گویا گہری افشاں چھڑکی ہوئی ہے اور اگر کسی طرح اونچے سے اونچے ستارے پر پہنچنا ممکن ہوتا تو وہاں سے بھی جہاں تک اور آگے کو نظر کام کرتی ، یہی کیفیت دکھائی دیتی "وھلم جرا" پھر خدا جانے کتنے کالے کوسوں کی مسافت ہے کہ ستارے ہم کو ننھے ننھے نقطے دکھائی دیتے ہیں ورنہ جس طرح اس کا یقین ہے کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں اسی طرح جاننے والوں کو اور خاص کر تم کو اس کا اذعان ہونا چاہیے کہ ایک ایک نقطہ بجائے خود جہاں ہے ، اور جہاں بھی کیسا کہ اگر اس کو بڑا مٹکا فرض کرو تو زمین اس کے سامنے خشخاش کا نہ سہی تو رائی کا دانہ۔ جو تارے زمین سے زیادہ پاس ہیں یعنی ان کی دوری لاکھوں کوس کے پیٹے کی اندر ہی اندر ہے ، دور بین کی مدد سے ان کے حالات کسی قدر زیادہ دریافت ہوئے ہیں اور پاس پڑوس کی آخر تھوڑی بہت خبر ہونی ہی چاہیے۔ سمندر ، جھیلیں ، پہاڑ ، دھوپ چھاؤں ، ہوا ، بادل ، یہ سب چیزیں ان تاروں میں صاف دیکھ پڑتی ہیں۔ اس سے اور دوسرے بہت سے قرائن سے علمائے ہیئت قیاس کرتے ہیں اور بجا قیاس کرتے ہیں کہ زمین کی طرح ان جہانوں میں بھی جان دار آباد ہیں۔ یہاں عقل انسانی کے اوسان اور بھی گم ہیں ! بھلا اتنے بے شمار جہانوں کی کل مخلوقات کا تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں جب کہ ایک زمین کی مخلوقات کی گنتی تو درکنار تمام اقساط تک منضبط نہیں۔ "وما من دابتہ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا امم امثالکم۔" کسی کتاب میں نظر سے گزرا کہ زمانہ حال کا کوئی فلسفی خردبین میں پانی کی ایک بوند کو دیکھ رہا تھا ، سو 100 سے زیادہ طرح کے جان دار تو وہ اس ایک بوند میں بہ مشکل شمار کرسکا۔ آخر تھک کر بیٹھ رہا۔ ایک بوند میں اتنی مخلوقات ہو تو تمام کرہ آب میں جو تین چوتھائی زمین کو ڈھانکے ہوئے ہے ، کتنی مخلوقات ہوگی؟ خدا ہی کو خبر ہے۔ "وما یعلم جنود ربک الاہو " پھر زمین کے گرد ارگرد 45 میل کے دل کا ہوا کا کرہ ہے اور اس میں بھی جان داروں کی ایسی ہی یا اس سے زیادہ کثرت ہے۔ ہر چند کارخانہ قدرت الہٰی کی عظمت اور شان فہم بشر سے خارج ہے مگر جس طریق پر میں نے اجمالاً بیان کیا اگر کوئی آدمی متواتر اور متصل مدتوں تک غور کرتا رہے تو ضرور اس کے دل میں اپنی بے حقیقتی اور درماندگی اور بے وقعتی کا تیقن پیدا ہوگا، جس کو میں دین داری کی بنیاد یا تمہید سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ذہن کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے کہ اتنا بڑا کارخانہ بایں عظمت کیسی عمدگی اور کیسے انضباط کے ساتھ چل رہا ہے کہ عقل دنگ ہوتی ہے! اجرام فلکی کے اتنے بڑے بے شمار گولے کہ خدا کی پناہ اور خود زمین سب چکر میں ہیں، خدا جانے کب سے اور کیوں اور کب تک؟ اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں اور نہ بال برابر اپنی رفتار بدلتے ہیں۔ اب جو آدمیوں کو قاعدہ معلوم ہو گیا ہے تو سینکڑوں ہزاروں برس پہلے سے پیشن گوئی ہو سکتی ہے کہ فلاں ستارہ فلاں وقت فلاں مقام پر ہوگا اور وہیں ہوتا ہے۔ حساب میں اگر غلطی نہ ہو تو منٹ اور سیکنڈ کیسا، سیکنڈ کے ہزارویں حصے کی قدر بھی آگاہ پیچھا نہیں ہوسکتا۔ " والشمس تجری لمستقرلہا ذالک تقدیر العزیز العلیم ۔ والقمر قدرناہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم ۔ لا الشمس ینبغی لہا ان تدرک القمر و لا الیل سابق النہار و کل فی فلک یسبحون۔"
یہاں روئے زمین پر ایک بھنگے، ایک دانے، ایک پھل، ایک پنکھڑی، گھاس کے ایک ڈنٹھل، چھوٹی سے چھوٹی اور ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کو بھی نظر غور سے دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کی کچھ نہ کچھ غرض و غایت ہے جس کی تکمیل کا پورا پورا سامان اس چیز میں موجود ہے۔ مثلاً ریگستانی علاقوں میں اونٹ پیدا کیا گیا ہے تو اس کے پاؤں کے تلوے چوڑے اور اسفنج کی طرح پولے ہیں کہ ریت میں نہ دھنسیں۔ اس کی گردن بہت لمبی ہے تاکہ اونچے درختوں کے پتے چر سکے۔ اس کو ایک خاص طرح کا خانہ دار معدہ دیا گیا ہے جس میں کئی کئی ہفتوں کے لیے کھانا پانی بھر لیتا ہے کیوں کہ جیسے ملک میں وہ پیدا کیا گیا ہے وہاں کئی کئی دن متواتر تک پانی چارے کا نہ ملنا کچھ تعجب نہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوہان کا گودام ہے اگر اس کو ایک عرصہ خاص تک کھانا پینا کچھ نہ ملے تو کوہان کی چربی "بدل ما یتحلل" کا کام دے۔ ہرن وغیرہ جنگلی جانوروں کی ٹانگیں پتلی پتلی ہیں تاکہ شکاری جانوروں سے بچنے کے لیے پھرتی کے ساتھ بھاگ سکیں۔ ہاتھی کے ایک سونڈ لٹک رہی ہے جس سے وہ ہاتھ کا کام لیتا ہے۔ پرندوں کےجثے سبک ہیں تاکہ ہوا میں اڑ سکیں۔ دریائی جانوروں کے پنجے کھال سے جڑے ہوئے ہیں، گویا کہ ہر ایک کے پاس قدرتی چپو ہیں۔ گوشت خور جانوروں کے پنجے اور دانت ان کی غذا کے مناسب ہیں۔ نباتات میں پھل پھول کی حفاظت کے واسطے کانٹے ہیں، پوست ہیں، خول ہیں۔ سرد ملک کے جانوروں کی اون بڑی بڑی اور گھنی ہے کہ جاڑا نہ کھائیں۔ جتنے جاندار معرض تلف میں ہیں ان میں تولد تناسل کی کثرت ہے تاکہ نسل معدوم نہ ہو، مثلاً ایک ایک مچھلی لاکھ لاکھ سے زیادہ انڈے دیتی ہے۔ آدمی چونکہ ابتدائے حیات کا سامان عقل کی مدد سے بہم پہنچا سکتا ہے، سینگ اور پنجے اور اون، اس قسم کے قدرتی سامان اس کو نہیں دیے گئے۔ جس ملک میں نباتات کی کثرت ہے وہیں برسات بھی زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ وہ ملک پانی کا محتاج ہے۔ انسان اگر اپنی ہی بناوٹ میں غور کرے تو اس کا ایک ایک رواں صانع قدرت کی کمال دانش مندی اور عنایت پر گواہی دے رہا ہے :
بر ہر بن مو کہ می نہم گوش
فوارہ فیض اوست در جوش
اس کے جسم میں ایک چھوٹا اور آسان سا پرزہ ہاتھ ہے کہ دنیا میں جس قدر انسان کے تصرفات ہیں اور انسان کی بساط پر خیال کرو تو ان تصرفات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، سب اس پرزے کے ہیں۔ اہل یورپ نے عقل کے زور سے بڑی بڑی عمدہ کلیں بنائی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کلوں سے عقل انسانی کی قوت بڑی شد و مد کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے مگر مجھ کو بھی دو چار کلوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے، ایک بکھیڑا ہے کہ بیگھوں زمیں پر پھیلا ہے، سینکڑوں پرزے، ہزار ہا پیچ، بیلن، پہیے، چرخیاں، کمانیاں، خدا جانے دنیا بھر کے کیا کیا سامان جمع کیے ہیں تب جاکر وہ ایک مطلب حاصل ہوتا ہے جس کے لیے کل بنائی گئی ہے۔ یہ آدمی کی بنائی ہوئی کلوں کا حال ہے اور ایک ادنیٰ سی کل خدا کی بنائی ہوئی ہے، یہی آدمی کا ہاتھ کہ ہزار ہا قسم کے کام اس سے نکلتے ہیں، اورترکیب دیکھو تو ایسی سلیس اور مختصر کہ ایک کفِ دست ہے اور تین تین جوڑ کی پانچ انگلیاں' اللہ اللہ خیر صلاح۔ انسان کے بدن میں ایک اور ذرے بھر کی چیز آنکھ ہے۔ اس کی ساخت میں جو اندرونی حکمتیں ہیں ' ان سے بالا ستیعاب ایک کتاب بن سکتی ہے۔ مگر خارج کی احتیاطوں کو دیکھوکہ پہلے گویا ہڈیوں کا کا واک ہے جس میں نگینے کی طرح آنکھ کی تعبیہ کی ہوئی ہے۔ اوپر بھوں کا چھجے دار سائبان، سامنے پپوٹوں کا پردہ، پردے میں پلکوں کا جھالر، پھر پپوٹوں کے اندر منافذ ہیں جن میں سے آئینہ چشم کے صاف رکھنے کو ہمیشہ ایک خاص طرح کی رطوبت رستی رہتی ہے۔ یہ وہی رطوبت ہے جو زیادہ ہوکر آنسو بن جاتی ہے۔ جتنی دفعہ انسان پلک جھپکتا ہے گویا اتنی ہی دفعہ آئینے پر پچارا پھرتا ہے۔گرد دھوئیں اور کنک کی صورت میں بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں' جس کے یہ معنی ہیں کہ پچارا کافی نہیں بلکہ آئینے دھونے کی ضرورت ہے۔ "فَنبارک اللہ احسن الخالقین " میرا تو کیا منہ کہ موجوداتِ عالم میں جو اسرار حکمت مضمر ہیں' ان کا ایک شمہ بھی بیان کرسکوں۔"ولو ان مافی الارض من شجرتہ اقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعتہ ابحرما نفدت کلمات اللہ ان اللہ عزیزُ حکیم! مگر میری غرض اسی قدر ہے کہ دنیا کے کارخانوں کو اس نظر سے دیکھنا چاہیئے۔ کل میں نے آیت اللہ(ابن الوقت کے چھوٹے بھتیجے کا نام ہے) کا سبق سنا۔ وہ" عجائبِ قدرت" پڑھتا ہے۔ کسی شخص نے نیچرل فلاسفی میں سے بعض مضامین چھانٹ کر اردو میں ترجمے کردئے ہیں۔ اسی میں لکھا تھا کہ مچھر کے منہ کے آگے جو ایک پتلی سونڈ سی ہوتی ہے' وہ حقیقت میں ایک نلوا ہے۔اس نلوے میں تین اوزار'ایک توسوئی' جس کو مچھر مسام میں داخل کرتا ہے' ایک آری کہ اگر مسام کو چوڑا کرنا ہو تو اس سے کام لے اور ایک سینگی جس کی راہ خون چوستا ہے۔ اس میں اتنی بات اور بھی تھی کہ اس کی شکل خاص میں مچھر کی حیات کی مدت صرف تین دن کی ہے، ایک مقام پر تھا کہ تیتری کے ایک پر میں کھپروں کی طرح تیس ہزار دیولیاں ہیں۔ اس طرح کی باتوں کو اگر کوئی انسان سرسری طور پر نہ سنے، جیسی کہ اس کی عادت ہے، تو ہر ہر ذرہ اس بات کی گواہی دے گا کہ اس کو کسی بڑی قدرت والے 'دانش مند' ہمدان'' حاضر' ناظر'' سمیع و بصیر کسی مصلحت سے جان بوجھ کر بنایا ہے۔ ممکن نہیں کہ انسان صمیم قلب کے سے موجودات عالم میں غور و غوض کرے اور اس کا دل اندر سے نہ بولنے لگے کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ بہ ایں عمدگی و انضباط خود بخود یا اتفاقیہ طور پر تو نہیں ہوگیا' کیوں کہ واقعاتِ اتفاقی کی شان ہی دوسری ہوتی ہے' ان میں قاعدے کا کہاں پتا اور انضباط کا کیا مذکور۔ اور قاعدہ اور انضباط بھی کیسا کہ دنیا کی ابتداء سے لے کر آج کی گھڑی تک تو ان میں رتی برابر تو فرق پڑا نہیں" فلن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا ولن لسنتہ اللہ تحویلا"۔ جس غور کی طرف میں تم کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ وقت کیا چیز ہے' جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔اگرچہ وقت کی وسعت کا اندازہ بھی فہم بشر سے خارج ہے مگر خیر'جہاں تک تم سے اجرامِ فلکی کے فاصلوں کی طرح اندازہ کرتے بن پڑے' لاکھ دو لاکھ' چار لاکھ برس کا ایک محدود وسعت لے کر اُسی وُسعت کو سوچو اور تمثیلاََ یوں تصور کرو کہ وقت ایک لمبا خط ہے' اس میں سے تمھاری ہستی اگرچہ تمہارے معتقدات کے مطابق طب انگریزی پر پورا عمل کرنے سے حد طبعی سے بھی کتنی متجاوز کیوں نہ ہوجائے' تاہم اُس کو وقتِ مفروض کے ساتھ کیا نسبت ہوگی؟ شاید جیسی محیط زمین کے مقابلے میں ایک انچ کو یا اس سے بھی کم۔ یہ تو انسان کی ہستی ہےاور اس پر خدا سے انکار اور اپنی عقل پر ناز بے جا۔ انسان سے دنیا میں ہزاروںا طرح کی بیہودگیاں سرزد ہوتی ہیں۔مگر یہ سب بے ہودگیوں پر فوق لے گئی ہے کہ خدا کا ہی منکر ہو۔ بڑے افسوس کی بات ہے اور پرلے درجے کی بد قسمتی کہ عقل جو انسان کو اسی غرض دی گئی ہے کہ مخلوقات سے خالق کو پہنچانے' ورنہ دنیا کی چند روزہ زندگی تو جانور بھی بسر کرلیتے ہیں جن کو بہت سا کھانا اور پانی درکار ہوتا ہے' اور مزہ یہ ہے کہ حاجتیں کثیر اور عقل کم اور پھر انسان سے کہیں زیادہ خوشحال "تعذو خعاصاََ و تروح بطانا" غرض بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہی عقل انسان کو ایسا گمراہ کرے کہ خدا کا قائل نہ ہونے دے۔ حقیقت میں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی آدمی کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ خدا نہیں۔ تم مجھ کو اتنا تو سمجھاؤ کہ تم نے اپنے تئیں سمجھا ہے کیا؟ چندیں ہزار کے مقابلے میں تمہاری کیا حقیقت ہے اور چندیں ہزار عالم بھی نہ سہی' ان کی مخلوقات بھی نہ سہی ایک روئے زمیں پر ابتدا سے اب تک تم جیسے اور تم سے بہتر سے بہتر سے بہتر کروڑ ہا آدمی پیدا ہوئے اور اپنی زندگی میں انھوں نے کیا کچھ نہیں کیا ۔ خدا کے ایسے ایسے بھی بہت سے بے شمار بندے ہوئے ہیں جنھوں نے حکومتیں کیں، سلطنتیں کیں، اپنے زمانے میں نامی نامور ہوئے اور پھر ایسے مٹے کہ گویا پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ نہ ان کا نام ہے نہ نشان ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ تم کوئی انوکھے آدمی ہو؟ تم بھی اپنے ارادے سے پیدا نہیں ہوئے، اور قسم ہے اس ذات پاک کی کہ جس کے ہاتھ میں میری اور تمہاری دونوں کی اور سب جانداروں کی جان ہے، اپنے ارادے سے زندہ بھی نہیں ہو اور اپنے ارادے سے مرو گے بھی نہیں ، اور مرے بعد مہینے دو مہینے پیچھے نہ سہی پچاس سو دو سو ہزار برس بعد روئے زمین پر اتنا جاننے والا بھی تو نہیں ہوگا کہ ابن الوقت بھی کوئی تھے۔ بندۂ خدا ذرا تو سوچ کہ کہو، خدا بھی ہے یا تم ہی تم ہو؟
ابن الوقت: آپ نے تو ناحق ڈپٹی کلکڑی کی، آپ کو تو سلطان الواعظین ہونا چاہیے تھا۔ لیکن گستاخی معاف، جتنی باتیں آپ نے کہیں اسا طیرالاولین ہیں، مجھ کو بھی معلوم ہیں۔ آپ کی تمام تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے لاعلمی کا نام خدا رکھ چھوڑا ہے، دریافت سبب سے عاجز ہوئے خدا ماننے لگے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ مثلا آدمی پانی نہیں برسا سکتا تو کہتے ہیں خدا برساتا ہے۔ لیکن فرض کیجئے کہ کسی وقت پانی کو ہم اپنے بس میں کر لیں اور جب چاہیں برسا لیا کریں اور جب ہم کو یہاں تک پتہ لگ گیا ہے کہ ہوا بسیط نہیں، جیسا کہ متقدمین فلاسفہ خیال کرتے تھے، بلکہ آکسیجن، ہیڈروجن، نیٹروجن، تین قسم کی ہواؤں سے مرکب ہے اور ہوا میں اس درجے تک ہیڈروجن غالب ہو تو ہوا پانی بن جاتی ہے، کیا تعجب ہے کہ کسی نہ کسی دن ہم پانی کے برسانے پر قادر ہو جائیں۔ جب سے یورپ میں علوم جریدہ شائع ہونے شروع ہوئے، ثابت ہوتا گیا کہ انسان کی طاقت محدود نہیں۔ کون کہ سکتا ہے کہ انسان، جس نے ریل چلائی، تار دوڑایا اور ہزارہانئی نئی چیزیں دریافت کیں آئندہ کیا کچھ نہیں کرے گا؟
حجتہ الاسلام: میں واقعات پیش کرتا ہوں اور تم مفروضات کا حوالہ دیتے ہو۔ یہ سچ ہے کہ اس زمانے میں انسان نے اپنی قوت کو بہت بڑھا لیا ہے مگر "تانت باجی راگ پایا" معلوم ہے کہ انسان کہاں تک ترقی کر سکتا ہے۔ اس کی ساری پیری اتنی بات پر ختم ہے کہ وہ چیزوں میں ،سو بھی سب میں نہیں، کسی قدر تصرف کر سکتا ہے اور بس۔ مثلا ریل میں سوائے اس کے اور کیا دھرا ہے کہ خدا نے کسی کے ذہن کو اس طرف منتقل کر دیا کہ بھاپ میں بڑی طاقت ہے، پھر لوگ لگے اس طاقت سے کام لینے کی تدبیریں کرنے۔ رفتہ رفتہ ریل چل کھڑی ہوئی۔ مگر یہ تو فرماؤ ریل کی ایجاد میں انسان نے سب کچھ تو کیا لیکن پانی، آگ، بھاپ، لوہا، لکڑی جو جو چیزیں ریل میں کام آتی ہیں، ان میں سے کوئی چیز یا کسی چیز کی کوئی خاصیت خلق بھی کی؟ یاد رکھو دریافت کرنے اور خلق کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ مجھ کو بھی یاد ہے میں نے مدرسے میں ٹریشم صاحب کو یہ تماشا کرتے ہوئے دیکھا تھا کہ ایک شفاف بوتل میں ہوا بھرلی، تھوڑی دیر میں بوتل کے اندر پانی کی بوندیں بن جاتیں۔ اسی پر تم کو خیال ہوا ہوگا کہ آدمی پانی برسانے پر قادر ہوجائے تو تعجب نہیں۔ تم کو تو شروع سے انگریزوں کے ساتھ عقیدہ ہے، اس تماشے کی تم ہی نے کچھ عظمت کی ہوگی، میں تو کئی بار بولنے کو ہوا تھا کہ اس میں آپ نے کمال ہی کیا کیا؟ ہم تو اپنے گھروں میں ہر روز دیگچی کی چپنی سے بوندیں جھڑتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ لیکن صرف اتنی بات ہے کہ آدمی نے تھوڑی سے جگہ میں کسی تدبیر سے اس قدر ہیڈروجن جمع کر دی جتنی ہوا کے پانی بن جانے کے لیے ضرور ہے، نہ خدا سے انکار کرسکتا اور نہ خدا سے مستغنی ہوسکتا ہے اور نہ خود دعویٰ خدائی کرسکتا۔ اور جب آدمی ہی بہ ایں عقل ودانش، خدا نہ ہوسکا تو چاند، سورج، عناصر وغیرہ کسی میں بھی خدا ہونے کی لیاقت نہیں، کیوں کہ ان میں تو عقل و ارادہ کی بھی کمی ہے اور مجبور محض اور لایعقل محض معلوم ہوتے ہیں، کالجاد اور حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ نے جو چاند، سورج اور تاروں کو دیکھ کر فرمایا تھا، لا لحب الافلین کہ میں چھپ جانے والوں کو نہیں چاہتا، ان کا بھی یہی مطلب تھا۔
ابن الوقت: بات یہ ہے کہ دنیا کی پہلی کا کسی نے اتا پتا تو پایا نہیں، جو جس کی سمجھ میں آتا ہے کہتا ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ ناحق کیوں سر دکھایا، جس طرح دنیا چلی جائے، اس کو چلنے دیا جائے۔ میں تو حافظ کے اس شعر کو بہت پسند کرتا ہوں
سخن از مطرب و می گوز راز دہر کمتر جو
کہ کس نہ کشود و نہ کشاید بہ حکمت ایں معمارا
حجتہ الاسلام : اول تو شاعروں کے معقولات معاملات مذہبی میں قابل استشہاد نہیں اور پھر آپ اس کو اپنے مطلب پر بھی خوب ڈھال لے گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس راز کی جستجو کو حافظ منع کرتا ہے ، وہ وہ اسرار ہیں جن کو خدا نے آدمی سے مخفی رکھنا چاہا ہے مثلاََ "ان اللہ عندہ علم الساعتہ الغیث و یعلم ما فی الارحام و ما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر۔" یا مثلاََ وہی بات جس میں تم کو شک واقع ہو اور ابھی تھوڑی دیر ہوئی اس کی نسبت تم نے کہا کہ اگر دنیا میں اونچ نیچ ، خوشی اور رنج یعنی اختلاف حالات ، امر تقدیری ہے خدا کو دانش مند اور منصف اور رحیم ماننا مشکل یا جیسے کوئی انسان خلقِ عالم کی غرض و غایت کی تفشیش کرنا چاہے اور ہر واقعہ اور ہر موجود کے بارے میں پوچھنے لگے کہ یوں کیوں ہوا۔ یا مثلاً معلوم کرنا چاہے کہ روح کیا چیز ہے اور جسم سے کس طرح کا تعلق رکھتی ہے یا علت و معلول میں کیا علاقہ ہے؟ اس قسم کی ہزاروں باتیں ہیں کہ اس ہستی میں انسان پر منکشف ہونے والی نہیں۔ ان چیزوں کی جستجو انسان کو کرنی ضرور نہیں بلکہ جو کچھ ہورہا ہے نظر استحسان سے دیکھ خاموش ہورہے اور کسی بات کو نہ سمجھ سکے تو اعتراض نہ کرے بلکہ قصور فہم کا معترف ہو۔ علاوہ بریں تم کو البتہ اختیار ہے کہ اس قسم کے خیالات کو دل میں جگہ نہ دو لیکن اس کی ایسی مثال ہوگی کہ نصف النہار کے وقت آفتاب بڑی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور چمگادڑ اس کو نہیں دیکھنا چاہتی ، نہ دیکھے مگر آفتاب کا اس میں کیا زیاں ہے؟
گر نہ بیند بہ روز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب را چہ گناہ
چمگادڑ کا یہیں تک بس چل سکتا ہے کہ نہ دیکھے ، نہ یہ کہ دوسروں کو نہ دیکھنے دے یا آفتاب کو تیرہ و تار کردے یا اس کو اس کے معمول کے مطابق نہ نکلنے دے۔ لیکن ایک دن پرسش ہونی ہے کہ آنکھیں تھیں ، کیوں نہیں دیکھا؟ کان تھے کس لیے نہیں سنا؟ عقل تھی کس واسطے نہیں سمجھا؟
ابن الوقت : ابھی ایک بحث طے نہیں ہوئی کہ آپ نے قیامت اور اس کی باز خواست کی دوسری بات نکال کھڑی کی۔
حجتہ الاسلام : بحث مت کہو۔ میں تو مذہب کے بارے میں مناظرے اور مباحثے کا سخت مخالف ہوں اور میں نے شروع ہی میں تم سے کہہ دیا تھا کہ دین حجت اور تکرار سے حاصل ہونے والی چیز نہیں۔ دین دوا ہے بیمار کی ، تسلی ہے بے قرار کی ، متاع ہے خریدار کی ، بشارت ہے امیدوار کی ، نجات ہے گنہگار کی ، یعنی عنایت ہے پروردیگا کی۔ جو کچھ میں نے تم سے کہا ، ہرگز از راہ بحث نہیں کہا بلکہ بہ تقاضائے محبّت تم کو اپنی سمجھ کے مطابق ایک تدبیر بتائی کہ اگر اپنے دل میں صدقِ نیت کے ساتھ غور کرو تو عجب نہیں خلجان باقی نہ رہے اور قیامت اور باخواست قیامت کی بات کے نکالنے کی جو تم نے کہی تو یہ تمام زحمتیں اسی دن کے لیے ہیں۔ اگر قیامت اور قیامت کی بازخواست نہ ہوتی تو کیوں دین ڈھونڈتے اور کس لیے مذہت کی تلاش کرتے؟ بڑی مشکل تو یہی ہے کہ مرنے سے بھی آدمی کا پنڈ نہیں چھوٹتا۔ یہ زندگی دنیا تو چند روزہ ہے ، بھلی طرح بھی گزر جائے گی اور بری طرح بھی گزر جائے گی۔ پہاڑ زندگی تو وہ ہے جو مرنے سے شروع ہوگی گویا از سر نو پیدا ہوئے اور جس کی اصلاح ، دین کا مقصودِ اصلی ہے۔
ابن الوقت : خدا کے ہونے پر تو بھلا آپ نے ایک دلیل قائم کی بھی۔ ہر چند میرے دل کو اس سے تسلی نہیں ہوئی اور میں اس وقت تک یہی سمجھتا ہوں کہ لوگ ہورہے ہیں اسباب کے خوگر ، جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہیں سبب ہی سبب نظر آ رہے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے ذہن میں تعمیم کر لی ہے کہ ہر واقعے کے لیے سبب کا ہونا ضرور ہے اور سبب نہیں پاتے تو جھٹ سے خدا کے قائل ہوجاتے ہیں۔ مگر میں سننا چاہتا ہوں کہ قیامت اور بازخواست قیامت کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟
حجتہ الاسلام : میں نہیں جانتا کہ خدا کے لیے تم کس طرح کا ثبوت چاہتے ہو۔ اگر یہ مطلب ہے کہ آنکھ سے دیکھوں یا ہاتھ سے ٹٹولوں تو میں کیا کوئی بھی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ تم کو خدا کا دیدار دکھاوے گا مگر یہ تو فرماؤ کہ ثبوت دلیل سارے اذعان حاصل کرنے کے ذریعے ہیں۔ اذعان مرئیات اور ملموسات ہی پر منحصر ہے ہر گز نہیں۔ ہر شخص اپنے وجدانیات کا اذعان کرتا ہے حالاں کہ امور وجدانی نہ مرئی ہیں نہ ملموس۔ اور تعمیم پر جو تم نے اعتراض کیا کیوں کر میں سمجھوں کہ حقیقت میں تم کو شک ہے جب کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم کہتے کچھ ہو اور کرتے کچھ ہو۔"
ابن الوقت : یہ آپ نے کیا بات فرمائی؟
حجتہ الاسلام : میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ تم لوگوں پر تو اعتراض کرتے ہو کہ کثرت سے اسباب دیکھتے دیکھتے انہوں نے تعمیم کر لی ہے کہ ہر واقعے کے لیے سبب کا ہونا ضروری ہے یعنی تعمیم تمہارے تزدیک لوگوں کی غلطی ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ اگر تمہاری میز پر ایک پنسل جگہ سے بے جگہ ہو جائے تو تم کو ضرور یقین ہو گا کہ کسی نے میری میز کو چھیڑ اور بے شک تم نوکروں پر خفا ہو گے کہ کیوں میری چیزوں کو ہٹاتے سرکاتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو اور لوگ کرتے ہیں وہی تم بھی دن میں ہزاروں بار کرتے ہو۔ تمہارا نوکروں پر خفا ہونا نتیجہ ہے اس تعمیم کا جو پہلے سے تمہارے ذہن میں مرتکز ہے کہ کوئی شے از قسم جماد اپنے ارادے سے حرکت نہیں کر سکتی۔ تاوقتیکہ کوئی محرک اس کو نہ ہلائے۔ یا مثلاً تم کو اس کا تو اذعان ہے کہ جس نے بشریت کا جامہ پہنا ہے ایک نہ ایک دن ضرور مرے گا۔ لیکن تم نے کتنے آدمیوں کو مرتے دیکھا یا سُنا؟ اور تم کو محدود معلومات پر گو وہ فی حد ذاتہا کتنی ہی وافر اور وسیع کیوں نہ ہو، کلیہ قاعدہ قرار دے لینے کا کیا منصب ہے؟ بلکہ تمہارے اعتراض کا ماحصل تو حقیقت میں یہ ہے کہ کلیہ ٹھہرانا ہی غلطی ہے۔ حالاں کہ ساری دنیا اجماع ہے کہ قوائے عقلی میں سے ایک قوت تعمیم ہے اور دنیا کے کاروبار کا مدار اسی پر ہے اور قیامت اور بازخواست قیامت کا ثبوت پوچھو تو میں اسی کے لیے نہیں بلکہ کل دینیات کے لیے وہی ایک ہدایت کرتا ہوں کہ پہلے دنیا کے حالات میں غور کرنے کی عادت ڈالو اور خدا کو منظور ہے تو (میں یہ نہیں کر سکتا کہ کتنے دن میں مگر مخاصمانہ طور پر نہ ہو تو امید ہے کہ جلد) سب سے پہلے دل میں انکساری کی سی کیفیت پیدا ہو گی۔ یعنی تم پر یہ ثابت ہو جائے گا کہ میں اس عظیم الشان کارخانے میں محض ایک ذرۂ ناچیز ہوں اور میری ہستی خواب و خیال سے بھی زیادہ بے ثبات ہے۔ تب میں یقین کرتا ہوں کہ تمہارے شکوک خود بخود رفع ہو جائیں گے اور بے دلیل اور بلا ثبوت تمہار دل اندر سے گواہی دینے لگے گا کہ لاریب دنیا اور مافیہا سب کا خالق خدا ہے۔ اس کی قدرت کی حد پایاں نہیں۔ کسی بشر کا مقدور نہیں کہ اس کی صفات کمالیہ پر احاطہ کر سکے۔ وہ ہمار مالک ہے اور اس کو ہر طرح کا استحقاق ہے اور ہم پر جس طرح چاہے حکمرانی کرے۔ اس وقت تم کو قیامت اور بازخواست قیامت اور دین کی سبھی باتیں مستعبد معلوم ہوتی ہوں گی لیک اسی غور سے تمہارا سارا استعباد جاتا رہے گا کیوں کہ دین بے جوڑ باتوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اصول و فروع سب ایک دوسرے سے ملتے ہوئے ہیں ممکن نہیں کہ آدمی خدا کا اذعار کرے۔ کما ہو حق اذعانہ اور پھر دین کی کسی بات میں ذرا بھی چوں و چرا کر سکے۔ کلا لو تعلمقن علم الیقین۔ ہم تو بھائی سیدھے مسلمان ہیں خدا کو مانتے ہیں اور اس کو شرط انسانیت سمجھتے ہیں۔ دنیا کے حالات پر نظر کرتے ہیں تو عاقبت کا ہونا ایک امر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دل ہی کچھ اس طرح کا بنایا ہے کہ نیکی اور بدی میں امتیاز کرتا ہے اور خدا جانے کیوں کر بیٹھ گئی ہے کسی طرح یہ بات ذہن سے نہیں نکلتی کہ اس دنیا میں تو نہیں، ہو نہ ہو مرے بعد اس کا نتیجہ نکلے گا پر نکلے گا۔
ابن الوقت : ہمارے دل میں تو ایک لمحہ کو بھی ایسے خیالات نہیں آتے۔
حجتہ : آتے نہیں یا آنے نہیں دیتے؟ اور آتے کیوں نہ ہوں گے مگر یوں کہو کہ تم ایسے خیالات کو دل میں ٹھہرنے نہیں دیتے اور سچ ہے دنیا ہے بھی ایسی ہی جگہ اس میں کثرت سے وجوہ صارف موجود ہیں۔ اس کا فضل دست گیری کر کے تو انسان مشاغل دینوی پر غالب آ سکتا ہے۔ اس جہاں میں اور اس جہاں میں نقد و نسیہ موجود و موعود عاجل و اجل، شاہد و غائب، ظاہر و باطن، مجاز و حقیقت کا فرق ہے واقع میں ادھر سے ٹوٹنا چھوٹنا آسان کام نہیں مگر تاہم ما لا یدرک کلہ لا یترک کلہ۔ آدمی اپنی طرف سے کوشش کرے اور اس کی عنایت کا امیدوار رہے۔ میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ دین و مذہب کا اصل اصول طبیعت میں انکسار پیدا کرنا ہے۔ جس ڈھب سے ہو یوں سمجھو کہ آدمی بیمار ہے، اور دین اعتدال مزاج۔ ہم کو دین کی ویسی ہی قدر ہونی چاہیے جیسی کہ ایک شخص کو جو مرض مہلک میں مبتلا ہے تن درستی کی ہوتی ہے۔ جو شخص بیماری سے آگاہ ہے کبھی اپنا علاج آپ کرتا ہے مگر رای العلیل علیل اکثر طبیب ہی کی طرف رجوع لاتے ہیں۔ وہ نبض سے، قارورے سے، مریض کے بیان سے، مرض اور اسباب مرض کو تشخیص کر کے دوا اور پرہیز دونوں بتاتا ہے اور خدا کو منظور ہوتا ہے تو مریض اس تدبیر ظاہر پر عمل کرنے سے آخر کار جانبر ہو جاتا ہے۔ دین کے اعتبار سے ہم تم دونوں بیمار ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ تم اپنے تئیں بیمار نہیں جانتے، تمہاری بیماری درجۂ رواءت کو پہنچ گئی ہے اور تم کو خبر نہیں، تم نے علاج کی طرف بالکل توجہ نہیں کی۔ میں بیماری کو سمجھتا ہوں مگر افسوس ہے کہ طبیب نہیں۔ لیکن جس طرح دائم المرض اپنا علاج کرتے کرتے بعض دواؤں کی خاصیتیں جاننے پہچاننے لگتا ہے۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تم کو طبیعت میں انکسار پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ساز و سامان اور توزوک و احتشام در امارت اور حکومت یعنی لوازم رعونت سب سخت درجے کی بدپرہیزیاں ہیں جن کے رہتے طبیعت میں انکسار کا پیدا ہونا محال نہیں تو مشکل ہونے میں کچھ شک بھی نہیں۔ وہ غور ۔۔۔۔۔ میں نے بتایا ہے عمدہ دوا ہے اور مجھ کو بھی تلاس ہے مگر میسر نہیں۔ تم سمجھے طبیب سے میری کیا مراد ہے؟ پیر طریقت، طبیعت میں انکسار پیدا کرنے کے لیے یہ لوگ بہت سی تدبیریں کرتے ہیں۔ بعض ریاضات اور مجاہدات سے، بعض اسفار و سیاحات سے اور کوئی کوئی صرف غور و فکر یعنی مراقبات سے۔ یہ طبیعتوں کے اختلاف حالات ۔۔۔ موقوف ہے کہ کون سی تدبیر سود مند واقع ہو گی اور اس کی تعیین قابل اطمینان طبیب ۔۔۔ پیر طریقت ہی کر سکتا ہے۔ نزول مصائب کو طبائع کے رام کرنے میں اکثر سریع الاثر ۔۔۔۔۔ ہے۔
هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّ۔هَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَ۔ٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿٢٢﴾
فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنفُسِكُم ۖ مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٢٣﴾ إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٢٤﴾
اللہ کیا بیان کیا ہے۔ آدمی اگر آنکھوں پر گھیکریاں نہ رکھے، کانوں میں روئی نہ ٹھونس لے، جان بوجھ کر مگرا نہ بے تو اس کو دیندار کرنے کے لیے اتنا کافی ہے۔ مگر
نسیم غفلت کی چل رہی ہے امنڈ رہی ہیں بلا کی نیندیں
کچھ ایسے سوئے ہیں سونے والے کہ جاگنا حشر تک قسم ہے
غرض مصیبت بھی دیندار کے حق میں بڑی نعمت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بزرگان دین مصیبت کو عزیز رکھتے تھے۔ بعض قلوب خلقتہً ۔۔۔۔۔ ہوتے ہیں اور دوسرے کو مبتلائے مصیبت دیکھ کر پگھل جاتے ہیں۔ پیغمبر صاحب نے علیہ من الصلٰوۃ اکملتھا۔ شروع شروع میں انسداد بت پرستی کے لیے زیارت قبور سے منع فرمایا تھا پھر ارشاد ہوا۔ کُنت نھیتک عن زیارات القبور الافزوروھا فانھا الین للقلوب۔ خشک سالی اور وبار اور آفات ارضی و سماوی مثلاً شدید زلزلہ یا سخت آندھی یا بارش مفرط یا ژالہ زدگی وغیرہ ایسے مواقع پر بھی لوگوں کو انابت الی اللہ ہوتی ہے۔ اور بعض نفوس قدسی ایسے بھی ہیں کہ رہٹ چلتے دیکھا اور انقلاب دنیا کے خیال سے ان کی حالت متغیر ہوتی ہے
کیا وہ دنیا جس میں ہو کوشش نہ دیں کے واسطے
واسطے واں کے بھی کچھ یا سب یہیں کے واسطے
ابن الوقت : آپ تو مجھ کو راہب بنانا چاہتے ہیں۔ آپ کی یہ تعلیم خاص کر آپ کے مذہب اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ مرنا مسلم ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسی مختصر زندگی میں ہم خوش بھی رہ سکتے ہیں۔ خوشی کے بہت سے سامان ہیں اور ہم کو خوشی اور رنج دونوں کا احساس بھی ہے۔ ہمارے احساس اور سامان خوشی دونوں کے جمع ہونے سے اس کے سوائے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم کو یہ زندگی خوشی میں بسر کرنی چاہیے اور اگر ہم موت کے خوف سے جوگیوں کی طرح بھوکے اور ننگے رہ کر مر جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دنیا لغو اور لاحاصل ہے۔ کیا حال ہو گا دنیا کا اگر سب لوگ اسی خیال کے ہو جائیں۔"
حجتہ : میں تم کو دیکھتا ہوں دنیا میں اس درجے منہمک ہو کہ تم کو دین سے کچھ لگاؤ ہی نہیں۔ اگر اسلام کی بہت سے سہولتوں میں توبہ نہ ہوتی تو میں تم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح کفارہ خودکشی کی صلاح دیتا۔ تمہیں تو کیا یاد ہو گا مگر سورۃ بقر میں ہے وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ۔ فرماؤ میری کس بات سے تم نے سمجھا کہ میں رہبانیت کی تعلیم کرتا ہوں اس سے کہ دنیا کے حالات میں غور کرو یا اس سے خدا کی عظمت کو اپنے ذہن میں بٹھاؤ یا اس سے کہ طبیعت میں انکسار پیدا کرو۔
ابن الوقت : کیا ایسے خیالات رکھ کر آدمی دنیا میں خوش بھی رہ سکتا ہے پھر وہ رہبانیت ہوئی یا کیا ہوئی؟
حجتہ : اگر مذاق عقل صحیح ہو تو دین سے بڑھ کر کسی چیز میں خوشی ہو نہیں سکتی دنیا کی فانی عارضی، چند روزہ، بے ثبات خوشیوں کو خوشی سمجھنا غلطی ہے جیسے ایک لڑکا کھیل میں اپنا وقت ظائع کرنے سے یا ایک جواری جوا کھیلنے سے یا ایک افیونی افیون کے عمل سے یا ایک نادان بیمار بدپرہیزی سے خوش ہوتا ہے اصلی اور پاکیزہ اور ابدی خوشی تو وہ تھی جس کے لیے پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر اس قدر زحمت اٹھاتے کہ راتوں کو نماز میں کھڑے رہنے سے پاؤں سوج سوج جاتے۔ ساری عمر بے چھنے جو کی روکھی روٹی کبھی پیٹ بھر کر کھائی ہی نہیں۔ گر سنگی کی ایذا کو دبانے کے لیے ہمیشہ بطن مبارک پر پتھر باندھے رہتے تھے۔اکثر راتیں اہل بیت نبوی پر گزر جاتیں کہ چراغ تک نہیں جلتا تھا۔ کھجور کے کھرے بوریے پر لیٹنے سے پہلوؤں میں اور پیٹھ میں بدھیاں پڑ پڑ جاتی تھیں اور حدیث "وقرتہ عینی فی الصٰلوۃ" میں تو آپ نے فرما بھی دیا کہ میرا جی تو نماز ہی میں خوش ہوتا ہے۔
ابن الوقت : یہ تو وہی آپ عاقبت کی خوشیوں کی پھر لے دوڑے۔ میرا اعتراض تو یہ ہے کہ دین کے خیالات دنیا کی خوشی کو منغض کر دیتے ہیں۔
حجتہ الاسلام : تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ دنیا کی خوشی اور دنیا کا رنج دونوں کا مدار اکثر انسان کا اپنا خیال ہے۔ جس قدر دنیا اور دنیا کے تعلقات کی تم قدر و وقعت کرتے ہو ، اسی قدر تم دنیاوی خوشی اور رنج سے متاثر ہوسکتے ہو۔ دین جس کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے تعلقات سب ہیچ ہیں ، دنیاوی خوشیوں کو منغض نہیں بلکہ دنیاوی رنج اور خوشی دونوں کو انسان کی نظر میں حقیر اور ناچیز کر دیتا ہے۔ جو شخص غصے کو پی جائے ، انتقام نہ لے ، جھوٹ نہ بولے ، غیبت نہ کرے ، حریص و طماع نہ ہو ، جابر و سخت گیر نہ ہو ، ممسک و بخیل نہ ہو ، مغرور و متکبر نہ ہو ، نہ کسی سے لڑے نہ جھگڑے ، نہ کسی کی حسد کرے ، نہ کسی کو دیکھ کر جلے ، عافیت میں شاکر ، مصیبت میں صابر ، ہنس خلق ، بردبار ، متحمل ، متواضع ، منکسر، مستغنی ، نفس پر ضابط ، قانع ، سیر چشم ، متوکل ، ثواب عاقبت کا امیدوار ، یعنی خلاصہ یہ ہے کہ دین دار ہو ، میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر کسی اور کو بھی خوشی ہوسکتی ہے اگرچہ وہ ہفت کلیم کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا شخص آپ سے بھی خوش اور اس سے عزیز قریب دوست آشنا بھی خوش ، رضی اللہ عنہم و رضواعنہ۔ دنیا دار آدمی تب ہی خوش رہ سکتا ہے کہ جس جس چیز کو اس کا جی چاہتا جائے فی الوقت مہیا و میسر ہوتی چلی جائے مگر کسی کو ابتدائے دنیا سے آج تک یہ بات نصیب ہوئی ہے ، یا آیندہ تابقائے دنیا کسی کو اس بات کے نصیب ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ دوسرا طریقہ خوشی حاصل کرنے کا یہ ہے کہ طبیعت کو روکا ، خواہشوں کو دبایا ، حاجتوں کو کم کیا جائے اور یہی ہے خلاصہ دین کی تعلیم کا جہاں تک اس کو اصلاحِ معاش سے تعلق ہے۔
ابن الوقت : ایسے بھی کوئی ہوں گے جن کی دنیا بوجہ دین داری آرام سے گزرتی ہو گی؟ مجھے تو دین فی حد ذاتہ مصیبت کا ایک پہاڑ دکھائی دیتا ہے۔ دنیا میں سینکڑوں تو مذہب ہیں اور ہر مذہب میں ایک سے ایک عقیل ، ایک سے ایک خدا پرست ، ایک سے ایک نیک' ایک سے ایک حق پسند' ایک سے ایک راست باز اور پھر اہلِ مذاہب میں اس بلا کا محاسدہ ہے کہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتا۔ جس کو دیکھو اپنے ہی تئیں بر سر حق جانتا ہے اور تمام دنیا گمراہ ۔ نہیں معلوم آپ نے مزہب کی طرف سے کیوں کر اپنا اطمینان کرلیا ہے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ ہر شخص تقلیدی مذہب رکھتا ہے۔ ایک مسلمان اس واسطے مسلمان ہے کہ وہ اتفاق سے مسلمان گھرمیں پیدا ہوا۔
حجۃ الاسلام: دین کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے تو ہم سب کی ماشاللہ بڑی تباہ حالت ہے' ایسا کون سا بندہ بشر ہے جو مبتلائے گناہ نہیں ۔ ہماری ہمت اس طرح کی ضعیف واقع ہوئی ہے کہ ہم اس دام میں بے پھنسے رہ نہیں سکتے۔ ہماری مجال نہیں کہ دنیاوی حکومتوں کے آگے ذرا بھی سر اٹھاسکیں مگر خدائے بر حق' قادر مطلق' شہنشاہِ دو جہاں کی کی حکومت کے استخاف کو ہم نے کھیل سمجھ رکھا ہے:ع
کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ
غرض تو یوں ہر فرد بشر سے دن رات میں ہزار نالائقیاں سرزرد ہوتی ہیں مگر یہ سب سے بڑی نالائقی کی ہے کہ وہ دین کے پیرائے میں اپنی طبیعت پاجی پن کو ظاہر کرے ۔ دوسروں کو کیا الزام دے سکتا ہوںکہ میں آپ سے بدتر اور نکھتر ہوں لیکن ان مذہبی مباحثات کو تو میں نہایت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ شاید میری رائے غلط ہو' مجھ کو تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام کشاکش آپس کی ضد اور تعلی اور سخن پروری اور بے جا تعصب کی وجہ سے ہے۔خیر اول! تو شامتِ نفس سے میں دینیات میں بہت ہی تھوڑا وقت صرف کرسکتا ہوں اور جس قدر کرسکتا ہوں اور وہ میرے اپنے ہی نفس کے احتساب کو کافی نہیں ۔ میں مذہبی مباشات کو ذہن میں آنے نہیں دیتا' اگر کبھی ایسا خیال ہوا تو میں یہ کہ کر ٹال دیا کرتا ہوں : ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
اور یہی مضمون ایک جگہ قران مجید میں بھی آیا ہے : یا ایہا الذین آمنوا علیکم انفسکم لا یضر کم من ضل انا اھدیتم الی اللہ مرجعکم جمیعاَ فینبئکم بما کنتم تعملون ۔ دوسرے پر حملہ کرنے کی مصیبت سے تو یوں بچے کہ اپنی کرنی اپنی بھرنی وہ جانے اپں کا کام جانے ' نہ میں کسی کا محتسب ' نہ دین کا ٹھیکہ دار' نہ منصب ہدایت پر مامور ' مجھ کو کیا پڑی کہ دوسروں کے معاملات میں دخل دیتا پھروں ۔ "لا تزر وازرہ وزر اُخریٰ" رہ گئی اپنے معتقدات کی حما یت' سو میرے معتقدات میرے دل کی تسلی کے لیے ہیں' دوسروں کو ان سے تسلی نہ ہو' نہ ہو۔ الغرض میری سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ لوگوں میں مذہبی لڑائی کیوں ہوتی ہے اور کیا اس سے مفاد ہے؟ اگر تم میری صلاح مانو تو علم کلام کی کتاب کو تو بھول کر بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنا ۔ ایک بڑا نقصان جو طلب گار دین کو اس فن کی کتابوں کو پہنچتا ہے' یہ ہے کہ اس سےطبیعت دینیات میں متشکی ہوجاتی ہے ۔ جس ترتیب کے ساتھ میں نے تم کو دینیات پر عمل کرنے کو بتایا تو اس کا لحاظ بھی حیرت اختلاف سے بچنے کے لئے مفید ہے ۔ جب انسان اس بات کو نصب العین کر لے گا کہ میں فانی اور بے حقیقت مخلوق ہوں اور معلوم نہیں کہ بعد مرگ کیا پیش آئے' میں نہیں سمجھتا کہ ایسا آدمی ان جھگڑوں کی طرف متوجہ ہونے کے لئے اپنی طبیعت کو حاضر پائے۔ بعض باتوں سے تو وہ بہ ایں خیال اعراض کرے گا کہ میں ان سے زیادہ اہم کام میں مصروف ہوں
کیا جانیں ہم زمانے کو حادث ہے یا قدیم
کچھ ہو کہ بلا سے اپنی کہ ہیں فانیوں میں ہم
اور بعض کی نسبت وہ شاید خیال کرے کہ اگر میری سمجھ میں بھی نہیں آتا تو میری ہی فہم کا قصور ہے۔ میں مناظرے اور مباحثے کی نظر سے تو کبھی کسی مذہب کی تفتیش و تلاش کی نہیں مگر ہاں یوں ہندو' عیسائی ' پارسی' یہودی جو مذہب ہمارے ملک میں مروج ہیں' ان کے معتقدات کا حال معلوم ہے' غایب مافی الباب یہ کہ بالتفصیل نہ سہی' سو جن دلائل سے مجھ کو اس بات کا اذعان ہے کہ خدا ہے' انہی دلیلوں سے ان کا بھی تیقن ہے کہ کوئی اس کا شریک نہیں ۔ ہندوئوں اور پارسیوں سے تو یوں سستے چھوٹے' رہ گئے عیسائی اور یہودی' اس میں کچھ نہیں کہ ہیں اہلِ کتاب' دین بھی ہمارا ان کا ایک ' اختلاف اگر ہے تو شرائع کا ہے مگر وحدانیت کو انہوں نے بھی ڈگمگا رکھا ہے- پس ہم کو تو اسلام کے سوائے اپنا ٹھکانہ کہیں نظر نہیں آتا ۔ جس بات نے مجھ کو زیادہ تر مذہب اسلام کی گرویدہ کیا ' یہ کہ اسلام میں تصنع نہیں - پغمبرِاسلام نے حد بشریت سے بڑھ چڑھ کر اپنے لیےکسی تقدس یا کسی استحقاق کا دعوٰی کیا ہی نہیں - آپ پکارے کہتے تھے۔"اِنما انا بشر مثلِکم وما ادریٰ ماَ یفعل بی ولا بکمَ" لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ماشاءاللہ۔ ولو کنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر وما مسنی السوء"-پس آپ سے جب لوگوں نے معجزات دکھانے کو کہا تو آپ ﷺ نے صاف انکار کیا کہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں: وقالوا لولا انزل علیہ اٰیۃ من ربہ قل انما الآیات عنداللہََ وقالو لن نومن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعاََاوتکون لک جنتہ من نخیل و عنب فتفجر الاانہار خلالہا تلجیراََ اوتستط السماء کما زعمت علینا کسفا او تاتی باللہ والملئکتہ قبیلاََ اویکون لک بیت من زخوف او ترقی فی السماء ولن نومن لرقیک حتی تنزل علینا کتاباَ نقر وہ قُل سبحان ربی ھل الا بشرارسولاََ اکثر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ پیغمبر کو معجزات کا دکھانا ضرور ہے تاکہ لوگ اس کا پیغمبر ہونا تسلیم کریں لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں میری نظر میں معجزات کی کچھ بھی وقعت نہیں۔ میرے نزدیک پیغمبر آپ ہی سب سے بڑا معجزہ ہے:
آفتاب آمد دلیل آفتاب
مثلاَ یوسف علیہ السلام کا وہ مقولہ " معاذاللہ انہ ربی احسن مثوٰی" میرے قلب پر ایسا اثر کرتا ہے کہ اگر یوسفّ میرے سامنے اگر مردے کو جلا کھڑا کرتے تاہم مجھ کو ان کی خدمت میں ایسی عقیدت نہیں ہوتی۔ اس طرح اسلام کی ساری باتیں ایسی آسانی کے ساتھ میں آتی ہیں کہ خود بخود ان کو قبول کرلیتا ہے۔ مثلاَ توبہ'ظاہر بات ہے کہ اگر ہم سے کوئی قصورعمدا" یا خطا" سرزرد ہوجائےسوائے افسوس اور ندامت کے ہم اس کی کچھ تلافی کر ہی نہیں سکتے۔ توبہ کو عیسائیوں کے کفارے کے ساتھ مقابلہ کرکے دیکھو توتم کو اس کی خوبی معلوم ہو- پھر اسلام میں یہ کتنی بڑی عمدہ بات ہے کہ تکلیف مالایطاق نہیں- یہود اور عیسائیوں کے احکام عشرہ میں یہ باتیں بھی ہیں کہ کل کے واسطے ذخیرہ مت کرو' اگر کوئی تمہارے داہنے کلے نے پر کوئی تھپڑ کھینچ مارے' بایاں کلہ بھی اس کے سامنے کردو کہ لے اور مار اپنے جانی دشمن کے لیے اسی طرح کی دعا کرو جس طرح اپنے اکلوتے بیٹے کے حق میں کرتے ہو- اس طرح کی ان ہوئی باتوں کی جگہ اسلام تعلیم کرتا ہے: کلو و اشربو ولا تسر فوانہ لا یحب المسرفین- من حرم زینت التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزاق ط قل ھی للزین آمنوافی الحیوۃ الدنیا خالصتہ یوم القیامتہ- وجزا مشیتہ مثلہا فن عقا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لایحب الظالمین - اب تم انے دل میں انصاف کرلو کہ دونوں طریقوں میں سے کونسا ممکن التعمیل ہے اور کون ناممکن التعمیل - مباحثہ اور مناظرہ تو مجھ کو پسند نہیں' جیسا کہ میں نے تم سے باربار کہا مگر یوں اپنے طور پر میں نے مذہب کے معاملے میں برسوں کو غور کیا ہے اور اب بھی اکثر غور کرتا رہتا ہوں- اور جن وجوہ سے میں نے اسلام کو حق سمجھا اور جن دلائل سے میرے دل کو تسلی ہوئی ان کو میں نے اپنے بچوں کے گوش زد کرنے کی غرض سے جمع کر رکھا - اگر تم دیکھنا چاہو تو میں بڑی خوشی سے تم کو دوں گا- یہ مباحث دو چار دس پندرہ ملاقاتوں کے طے ہونے میں نہیں ہیں- میں یہ دعوٰ نہیں کرسکتا کہ تمہاری یا دوسروں کی بھی تشفی کرسکتا ہوں- تشفی بدون دینِ الہٰی ہو نہیں سکتی:"فمن یر داللہ ان یہلیہ یشرح صبرہ لل سلام ومن یردان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا" حرضا" کانما یصعد فی السماء" ور میں پھر ایک بار تم سے کہتا ہوں کہ طلب گار دین کو عموما اور تم کو خصوصا" نہ کسی کتاب کے دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی سے پوچھنے کی حاجت- دنیا میں جدھر کو آنکھ اٹھا کر دیکھو' دین کے دفتر کے دفتر کھلی پڑے ہیں بشرطیکہ چشمِ بصیرت وا ہو -تم ہی میں سب کچھ ہےمگر سوجھتا نہیں: وہ فی انفسکم فلا تبصرون" ایک بات کے کہنے کی اور ضرورت باقٖی ہے کہ اگر تمہارا نفس دین کی کسی بات سے مطمئن ہوجائے تو مجرد اس سے کہ تمہارے دل کو اس بات میں کسی طرح کا خلجان نہیں'نفس کے فریب میں مت آجانا- کامل کی شناخت یہ ہے کہ اعمال میں افعال 'میں 'اقوال میں اس کا اثر ظاہر ہو۔ دنیا میں کسی ملک 'کسی مذہب کا ایک متنفس بھی نہ ہے نہ ہوگا۔ جس کو مرنے کا اذعان نہ ہو مگر کتنے ہیں جن کے برتائو سے اس اذعا ن کا ثبوت ہوتا ہو؟ پکی پکی حویلیاں بن رہی ہیں' باغ نصب ہورہے ہیں ' معاملات میں ڈیوڑھی'ڈیوڑھی' دونی دونی عمر طبعی کے وعدے کئے جارہے ہیں' روز مرہ کے استعمال کی جتنی چیزیں ہیں یہاں تک کہ جوتی میں پائیداری کی نظر ہے۔ غرض توقعات کی کچھ حد و غایت نہیں اور منہ سے کہنے کو
کیا بھروسا ہے زندگانی کا
آدمی بلبلا ہے پانی کا
ہم تو ایسے اذعان کے قائل ہیں نہیں۔ قولاََ اقرار ، عملاََ انکار۔ ہاں اذعان ہے ریل کے مسافر کو جس کا ایک خاص مقام پر اترنا ہے۔ اول تو وہ سرے سے اسباب زیادہ کھولتا پھیلاتا ہی نہیں اور جو بہ مجبوری نکالا ہے تو دو دو تین تین اسٹیشن پہلے سے گری پڑی چیز کو جمع کرتا ہے۔ شاید اخیر شب ہے اور نیند کے جھونکے پر جھونکے چلے آتے ہیں مگر نہیں سوتا۔ ٹکٹ معلوم ہے کہ ہے مگر بہ نظر مزید احتیاط پھر اس کو دیکھ کو سنبھال کر جیب میں رکھتا ہے کہ وقت پر ڈھونڈنا نہ پڑے۔ ابھی ریل کی رفتار مدہم نہیں ہوئی اور بیگ ہاتھ میں لے مسافروں پر سے کود پھاند کھڑکی سے آ لگا۔ صریحاََ دیکھ رہا ہے کہ صاحب ہم بھی اسی اسٹیشن پر اتریں گے۔ کسی ایک غریب ، مصیبت مند آدمی کی نسبت بھی تم ایسا خیال کرسکتے ہو کہ دفعتہََ تو بھلا خیر ، اب سے شام تک کی اس کو مہلت دی جائے کہ نماز مغرب کے بعد تم کو مثلاًََ ضرور امریکہ چلنا ہوگا اور وہاں تمہارے لیے ہر طرح کی آسائش کا سامان مہیا ہے اور وہ وقت پر چل کھڑا ہو۔ بھلا پھر سفر موت تو دوسری ہی طرح کا سفر ہے۔ اس کے لیے تو ہم میں سے کوئی بھی تیار نہیں ، نہ آج نہ کل ، نہ برس بعد ، نہ دس برس بعد۔
ابن الوقت : بس وہی رہبانیت ! رہبانیت تو آپ کے کلام کا ترجیع بند ہے کہ دو چار باتیں کیں اور پھر ع
ما مقیمان کوئے دل داریم
حجتہ الاسلام : میں ڈپٹی کلکٹر سمجھ کر تم سے ملنے نہیں آیا ، نہ ڈپٹی کلکٹر سمجھ کر تم سے باتیں کررہا ہوں۔ ساتھ کھیلا ہوں ، ساتھ پڑھا ہوں ، عمر میں ، رشتے میں ، تم سے بڑا ہوں۔ برا نہ ماننا۔ ارے احمق ! اتنا تو سمجھ کہ میں نے ایک بات نہیں کہی جس کا حوالا قرآن سے نہ دیا ہو اور نہ دیا ہو تو اب دینے کو موجود ہوں اور دین کا یہ حال ہے "خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین بلونہم" اگر قرآن کی تعلم کا نتیجہ رہبانیت ہوتا تو پیغمبر صاحب علیہ الصٰوۃ والسّلام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس قدر تھوڑے عرصے میں ، جس کی نظیر کسی ملک کی تاریخ میں پائی نہیں جاتی ، اسلام کی اتنی بڑی وسیع اور زبردست سلطنت قائم نہ کرسکتے اور اس وقت کے اہل اسلام نہ صرف سلطنت کی وجہ سے اقوام روزگار میں ممتاز تھے بلکہ ان کے زمانے میں جتنے ہنر تھے ، سب میں اپنے اقران پر سبقت لے گئے تھے۔ پس اگر تعلیم قرآن کا نتیجہ رہبانیت ہوتا تو بزرگان دین دنیا کو اور دنیا بھی ایسی دنیا ، اس خوبی عمدگی اور شائستگی کے ساتھ سنبھال نہ سکتے۔
ابن الوقت : صاحب ، آپ برا مانئے ، یا بھلا مانئے ، میری سمجھ میں تو آپ کی دو رخی بات بالکل نہیں آتی۔ ایک طرف تو آپ دنیا سے نفرت دلاتے ہیں اور دوسری طرف رہبانیت کے نام سے بھناتے ہیں۔ جن کو آپ بزرگان دین کہتے ہیں ، ان کے دنیاوی عروج کی نسبت تو کوئی کلام کر نہیں سکتا۔ ان کی ملک گیریاں ، ان کی فتوحات ، ان کے انتظام ، ان کے ارادے ، ان کی شجاعتیں ، چار دانگ عالم میں مشہور ہیں۔ مگر جس طرح کی دین داری آپ مجھ کو تعلیم کرتے ہیں ، کوئی شخص اپنی ارادت سے جو چاہے فرض کر لے مگر تاوقتیکہ ان کے ظاہر حالات میں اس کے شواہد نہ ہوں ، دوسرا آدمی کیوں ماننے لگا۔
حجتہ الاسلام : ان کے ظاہر حالات میں ان کی اسی طرح کی دین داری کے شواہد موجود تھے اور بہ افراط موجود تھے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد کا حال تو "مشتے تمونہ از خروارے" میں تم سے خوشی کے بیان میں کہہ چکا ہوں۔ قریب قریب یہ حال اکثر اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا تھا۔ عقل پر کیا پتھر پڑ گئے ! واقعات تاریخی بھی سب بھلا ڈالے؟ یا زمان طالب العلمی میں تاریخ دانی کا وہ زور و شور تھا کہ سارا کالج لوہا مانتا تھا۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا جنہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں وطن چھوڑا ، گھر بار چھوڑا ، مال و متاع چھوڑا ، عزیز و اقارب چھوڑے اور پردیس میں پرائی روٹیوں پر ، اور وہ بھی غیر مقرر ، قناعت اختیار کی۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا جو ہمہ وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جان دینے کو موجود اور صرف موجود ہی نہیں بلکہ خدا کی راہ میں جان کے قربان کردینے کو فوز عظیم سمجھتے تھے۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا ، جن پر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم صاحب نے تجہیز جیش کی ضرورت ظاہر کی اور کسی نے سارا اور کسی نے آدھا مال بے تامل لا حاضر کیا۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا جنہوں نے وقت کے امیر المومنین کہلا کر اپنے ہاتھوں اینٹیں پاتھیں ، پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنے ، نمود و نمائش کے مواقع پر پیدل چلے ، خچروں پر سوار ہوئے۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا جنہوں نے احتساباََ اپنی حاجتوں پر دوسروں کر غنی بنایا۔ تم تجاہلِ عارفانہ تو نہیں کرتے ورنہ سیر کی کتابوں میں اس قسم کی ہزاروں باتیں ضرور تمہاری نظر سے گزری ہوں گی۔
ابن الوقت : اتنا میں بھی سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اگر کوئی مذہب اختیار کرنے کے قابل ہے تو وہ اسلام ہے۔ اب تو آپ خوش ہوئے؟
حجتہ الاسلام : قل لا تمنوا علی اسلامکم بل اللہ یمن علیکم ان ھدا کم للایمان ان کنتم صادقین۔
ابن الوقت : خیر اب دنیا کی باتیں کیجئے۔ ہمارے کلکٹر صاحب تک آپ کیوں کر پہنچے ، کیا کیا باتیں ہوئیں؟
حجتہ الاسلام : ایسی لایعنی باتیں کرنے کی مجھ کو فرصت نہیں اب دوسری ملاقات میں۔
ابن الوقت : مجھ کو آپ سے بہت سی ضروری باتوں میں مشورہ لینا ہے۔
حجتہ الاسلام : ایک بار کہہ تو دیا "دوسری ملاقات میں۔"
ابن الوقت : کب؟
حجتہ الاسلام : دیکھو ، کب انشاء اللہ اسی ہفتے کے اندر ہی اندر ، جب موقع ملے۔
ابن الوقت : بھلا اتنا تو فرمائیے صاحب کلکٹر سے میرے ملنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حجتہ : ان سے تو ملنے کا نام ہی نہ لینا۔ یہ بھی خدا جانے کیا اتفاق تھا کہ وہ اتنے بھی رو بہ راہ ہوئے بلکہ میں تو تم کو یہی صلاح دوں گا کہ یہ وضع تم کو کیا کسی کو بھی سازگار نہیں۔ اس کو قطعاََ ترک کرو اور ابھی کچھ اور خمیازہ بھگتنا باقی ہو تو اختیار ہے۔
فصل:28
ابن الوقت شہر میں پھوپھی کے گھر جاکر حجتہ الاسلام سے تیسری بار ملا اور دونوں میں پہلے پولیٹیکل اور پھر مذہبی گفتگو:
صاحب کلکٹر کے ساتھ صفائی کا ہونا تھا کہ ابن الوقت کا بازار پھر گرم ہو چلا۔ نوبل صاحب کے بعد سے ابن الوقت ، اس کا بنگلہ ، اس کی کچہری ، اس کے عملے ، اس کے ذاتی ملازم ، سبھی چیزیں گویا کوارنٹین میں تھیں کہ لوگ ان سے مٹھ بھیڑ کرتے ہوئے ڈرتے تھے ، یا کام پر مسلط ہونے کی خبر کے مشتہر ہوتے ہی بعضے تو بے غیرتی کا جامہ پہن پہن ، اسی شام کو آدھمکے۔ لیکن ابن الوقت کو ایسا جھکولا نہیں لگا تھا کہ اس قدر جلد بھول جاتا اور حجتہ الاسلام کی نصیحت اس کے کانوں میں گونج رہی تھی سو الگ۔ غرض انگریزیت کے ولولے ابن الوقت کے دل سے سلب تو نہیں ہوئے تھے پر ٹھنڈے ضرور پڑ گئے تھے۔ وہ لوگوں سے ملا مگر کچھ لمبے چوڑے تپاک سے نہیں۔ اس پر بھی جن کو ابن الوقت کی دعوتوں کی چاٹیں پڑی ہوئی تھیں ، بے صلاح دیے باز نہ رہے کہ مسٹر شارپ کو بڑا بھاری ڈنر دیا جائے اور اسٹیشن کے تمام انگریزوں کو مدعو کیا جائے۔ حجتہ الاسلام نے ابن الوقت سے ملنے کا وعدہ کیا ہی تھا اور وہ ہفتے کے اندر ہی اندر ملتے پر ملتے ، لیکن ابن الوقت کو صبر کہاں تھا ! ادھر لوگ اس کو ڈنر کے لیے الگ اکسا رہے تھے۔ حجتہ الاسلام تو اس طرح کے سیدھے سادے بے تکلف سے آدمی تھے کہ اگر ابن الوقت جھوٹوں بھی کہلا بھیجتے تو سچوں دوڑے چلے آئیں مگر اس کو بلوانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی ، کچھ رشتے یا عمر کی بڑائی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی باتوں نے ان کی بڑی وقعت اس کے ذہن میں جما دی تھی۔ آخر تیسرے دن کوئی چار چھ گھڑی رات گئے ، کبھی کے پڑے ہوئے ہندوستانی کپڑے یاد آئے ، جلدی سے بدل ، سوار ہو ، جا موجود ہوا۔ تبدیل وضع کے بعد سے یہ اس کا پہلا پھیرا تھا۔ کنبے کے لوگوں کو ، رشتہ داروں کو اور خاص کر اس کی پھوپھی کو جس قدر خوشی ہوئی بیان سے باہر ہے۔ سب نے ریجھ ریجھ کر اس سے باتیں کیں۔ ہر چند ان باتوں کا لکھنا خالی از لطف نہ تھا مگر یہ مذکور ہمارے مطلب سے خارج ہے۔ اس نے حجتہ الاسلام سے کہا : "حضرت ، لوگوں نے میری جان کھا رکھی ہے کہ صاحب کلکٹر کو ڈنر دو ، ڈنر دو۔"
حجتہ : اس وضع سے اگر تم صاحب کلکٹر سے ملنا چاہو تو میں اب ملوا لاؤں مگر مجھ سے انہوں نے کھل کر کہہ دیا کہ میں کسی ہندوستانی کو انگریزی لباس پہنے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ تم ناحق کیوں ان کے سر ہوتے ہو؟
ابن الوقت : پھر صفائی کیا خاک ہوئی؟
حجتہ : نہیں ہوئی نہ سہی ، جو تم سے بن پڑے سو کرو۔ تم بھی عجیب طرح کے ناشکر آدمی ہو۔ تمہارا کام تم کو پھر ملا ، صاحب کلکٹر نے سچ پوچھو تو ایک طرح پر معذرت کی ،کیوں کہ غلطی کا اقرار کرنا بھی معذرت ہے۔ لوگوں کی نظر میں جو تمہاری بے وقری ہو رہی تھی بالکل دھل گئی۔ جہاں تک تم کو صاحب کلکٹر کے ساتھ سرکاری تعلق ہے ، بس پوری پوری صفائی ہوگئی۔ رہ گئی یہ بات کہ وہ تمہاری انگریزی وضع کو ناپسند کرتے ہیں ، یہ ان کا ذاتی خیال ہے اور انہی کا نہیں بلکہ تمام انگریزوں کا۔ کسی کی آنکھ میں مروت زیادہ ہوئی اس نے منہ سے نہ کہا مگر دل مین وہ بھی ضرور برا مانتا ہوگا۔
ابن الوقت : میں نہیں سمجھتا کہ صاحب کلکٹر یا کسی یورپین کو ، اگرچہ وائسرائے ہی کیوں نہ ہو ، ہمارے لباس اور طرز تمدن میں دخل دینے کا انصافاََ کیا استحقاق ہے؟ اور آج کو تو لباس ہے کل کو رعایا کے مذہب میں مداخلت شروع کریں گے۔ یہ بالکل برٹش گورنمنٹ کے اصول کے خلاف ہے اور دیکھیے گا کہ آخر کار شارپ صاحب اس معاملے میں بڑی زک اٹھائیں گے۔
حجتہ الاسلام : اگر انگریزوں کی اس ملک پر حکمرانی کا استحقاق ہے تو ضرور اس بات کا بھی استحقاق ہے کہ جو چیزیں ضعف حکومت کی طرف منجر ہوں ، ان کا انسداد کریں اور تمہارا طرز لباس اور طرز تمدن ان چیزوں میں ہے جن سے ضعف کا اندیشہ ہے۔ کوئی ہندوستانی جو اپنی مانوس ، قدیمی قومی وضع چھوڑ کر تمہاری انگریزی وضع اختیار کرے گا ، اس کی غرض سوائے اس کے اور کیا ہوگی کہ وہ حکام وقت کے ساتھ برابری کا دعوے رکھتا ہے اور حاکم و محکوم میں مساوات کا ہوتا ضعف حکومت نہیں تو کیا ہے؟
ابن الوقت : تو آپ نے نزدیک رعایا کی آزادی جس پر برٹش گورنمنٹ کو بڑا فخر اور ناز ہے ، صرف دھوکا ہی دھوکا ہے۔
حجتہ : رعایا کی آزادی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انگریز حکومت سے دست کش ہوجائیں اور نہ کوئی معقول پسند آدمی انگریزوں سے اس طرح کی توقع رکھ سکتا ہے۔
ابن الوقت : یہ آپ ان انگریزوں کے خیالات بیان کر رہے ہیں جو ہندوستان میں برسر حکومت ہیں مگر ولایت والوں کا یہ حال نہیں۔ وہ ہندوستان کی اور انگلستان کی رعایا میں سرمو فرق نہیں کرتے۔ آپ شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ یہیں کے انگریز جو چاہتے ہیں سو کرتے ہیں ، وہ زمانہ گیا۔ شارپ صاحب کیا میری ایک متنفس کی وضع کے پیچھے پڑے ہیں ، ابھی تو ان کو بہت کچھ خلاف مزاج دیکھنا اور سننا ہوگا۔ وہ وقت قریب آ لگا ہے کہ اسی ملک میں سول سروس کا امتحان ہوا کرے گا۔ کسی ملکی خدمت کے لیے انگریزوں کی تخصیص باقی نہ رہے گی جیسی کہ اب ہے۔ وائسرائے کی کونسل میں برابر کے ہندوستانی ہوں گے اور کوئی قانون بدون ان کے صلاح و مشورے کے جاری نہ ہو سکے گا۔ غرض انتظام ملک میں ہندوستانی ویسے ہی دخیل ہوں گے جیسے انگلستان میں وہاں کی رعایا اور جب بادشاہ ایک ہے ، کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا کہ دونوں ملکوں کی رعیت کے ساتھ ایک طرح کا برتاؤ نہ کیا جائے۔
حجتہ : اللہ اللہ! اس خبط کا کیا ٹھکانہ ہے ! کہیں تم نے متوالی کو دوں تو نہیں کھا لی، "ایاز قدس خود شناس " انگلستان کی رعایا سی قابلیت بہم پہنچائی ہوتی، ملک پر اپنا اعتبار ثابت کیا ہوتا تو ایسی بلند پروازیاں تم کو پھبتیں بھی، "حلوا خورودن را روئے باید۔" نالیاقتی کا تو یہ حال ہے کہ نہ ہمت ہے، نہ جرات ہے، نہ اتدفاق ہے، نہ تہذیب ہے، نہ شائستگی ہے، نہ سچائی ہے، نہ سچائی کی تلاش ہے، نہ معلومات ہے ، نہ معلومات بہم پہنچانے کا شوق ہے، نہ ہنر ہے نہ تجارت ہے، نہ دولت ہے ، نہ ایجاد ہے ، نہ صناعت ہے ، غرض صلاحیت تو اگر پوچھو ، خانہ داری کی بھی نہیں اور حوصلے دیکھو تو ملک گیری کے اور ہندوستانیوں پر کیا مو قوف ہے، میں تو سمجھتا ہوں کہ تمام ایشیا کی آب وہوا میں کچھ اس طرح کی روائت آگئی ہے کہ اس سرزمین میں کوئی شخص ، جسکو ضابط اور منتظم سمجھا جائے ، پیدا ہوتا ہی نہیں ۔ بلکہ میں جب حج سے واپس آ کر بمبئی میں اترا اور یہاں کے عذر کے تفصیلی حالات سنے تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ناحق انگریزوں نے اتنی زحمت اٹھائی ، جیسے لوگوں نے بغاوت کی تھی ، زیادہ نہیں تو ایک ہی ضلع تھوڑے دنوں کے لئے بالکل چھوڑ بیٹھے ہوتے کہ ہماری عملداری سے ناخوش ہو تو خود کر کے دکھاؤ۔ تیقن ہے کہ ایک برس بھی پورا نا گزرنے پاتا کہ لوگ بدعملی سے عاجز آ کر بہ منت انگریزوں کو منا کر لے جاتے اور کبھی بھول کر بغاوت کانام بھی نا لیتے ۔ میں خیال کرتا ہوں تو انگریزی عملداری تمھاری ہی نہیں بلکہ ہم لوگوں کی بھی شرط زندگی ہو گئی ہے۔ چاقو، مقراض۔ سوئی تاگا، دیا سلائی ، انواع اقسام کے کپڑے، غرض ضرورت و آسائش کی اکثر چیزیں انگریزی ہی انگریزی دکھائی دیتی ہیں، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انگریزوں سے محض بے تعلقی ہو جائے توہمارا کیا حال ہو۔ بھلا خیر، فرض کیا کہ خدا کے فضل سے گو رنری تک کے لئے بھی بہت سے بنگالی یا دوسرے انگریز خواں ملیں گے بلکہ دور کیوں جائیں تم ہی ماشااللہ کس بات میں کم ہو ، مگر یہ تو فرماؤ ضرورت کی چیزیں بنانے ، بہم پہنچانے والا بھی کوئی ہے؟ انگریزی تعلیم کے فیضان سے گورنری ، کونسلر ، لیفٹینٹ گورنر، بورڈ کے ممبر، کمشنر، کلکٹر، جسٹس ، مجسٹریٹ، اس قسم کے لوگ تو ہمارے بنگالے میں بہتیرے نکل پڑیں گے مگر کوئی ایسا بھی ہوا کہ انگریزوں کی طرح کلیں نکالتا یا زیادہ نہ سہی تو ان ہی کے کیل پرزوں کو جما بٹھا کر ان سے کام لیتا۔ غیرت ہو تو چلو بھر پانی لے کر ڈوب مریں کہ ہمارے ملک کی پیداوار ولایت جائے اور وہاں سے بن سنور کر پھر آئے اور ہمارے ہی ہاتھوں چوگنے پچگنے داموں بکے۔ ہندوستان کا خطہ معدنیات ، نباتات ، حیوانات ، غرض جملہ اعتبارات سے تمام روئے زمین کا لب لباب ہے مگر ہم کو ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا سلیقہ نہیں تو ہماری طرف سے ہو تو بلا سے اور نہ ہو تو بلا سے۔ سب کچھ کھو کھوا کر معاش کے دو ذریعے رہ گئے تھے ، کاشتکاری اور تجارت۔ سو کاشتکاری کی برکتیں روز بروز سلب ہوتی چلی جاتی ہیں ، زمین کو مہلت تو ملتی نہیں ، اس کی قوت گئی گھٹ۔ ہم کو اس کا بھید معلوم نہیں کہ زمین میں سے کیا چیز نکل گئی ہے اور کیونکر اس کی تلافی کی جاتی ہے۔ پس اگلے وقتوں کے سے اللے تللے کی پیداوار ہوں تو کہاں سے ہوں؟ تمہاری دلی کے سواد میں رائے پتھور کا اب سے دو سوا دو ہزار پہلے کا بنا ہوا محل کھڑا ہے۔ پتھر پر ان وقتوں کے ہل ، ان وقتوں کے چھکڑے بنے ہیں۔ مدت ہوئی جب میں نے اس کو اول بار دیکھا تو خیال آیا : اللہ اکبر ! زمانے میں اتنے انقلاب ہوئے ، کتنی عملداریاں بدل گئیں ، قومیں بدل گئیں ، غرض دنیا بدل گئی ، او ر نہ بدلے تو ہل اور چھکڑے کہ جیسے تب تھے بجنسہ ویسے ہی اب بھی موجود ہیں۔ کاشتکاری ایسا تو ضروری پیشہ کہ سب کا مدار رزق اور ہمہ وقت لاکھوں آدمی اس میں مصروف ؛ یہ خدا کا حکم نہیں تو کیاہے کہ کسی کا ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوتا ہ لاؤ اس میں کوئی کام کی بات نکالیں۔ ایک کاشتکار ولایت گئے ہیں کہ مرضی کے مطابق نہ آب و ہوا ہے ، نہ موسم ہے ، نہ زمین ہے مگر کاشتکاری میں اس قدر ترقی کی ہے کہ ہمارے ہاں روجھینک کر بیگھے میں پیداوار ہو دس سیر ، تو ان کے یہاں پیدا ہو من بھر۔ بات تھی بکار آمد۔ ایسے پیچھے لپٹے ، ایسے پیچھے لپٹے ، آخر کار سوچتے سوچتے گویا پیداوار کو اپنے بس میں کر لیا۔ سیکڑوں توکلیں بنا ڈالیں کہ کھیتی کے جتنے کام ہیں ان ہی کلیوں سے پڑے ہورہے ہیں۔ وقت بچا ، ہاتھ پاؤں کی محنت بچی اور کام دیکھو تو دگنا چوگنا بھی نہیں ہزار گنا اور اس افراط پر بہتر سے بہتر۔ دوسری باتوں کا کیا مذکور ہے ، پیداوار کی ذات اور جانوروں کی نسلیں تک پلٹ گئیں۔ معاش کا دوسرا ذریعہ تجارت ہے سو اس کا واقعی حال یہ ہے کہ گودا تو اہل یورپ چٹ کرتے ہیں ، رہ گئیں خالی ہڈیاں ، ان کو چاہے میمن اور بوہرے پڑے چچوڑا کریں یا پنجابی یا مارواڑی ، یا میں چاہوں تو میں اور تم چاہو تو تم۔ خلاصہ یہ ہے کہ عقل معاش کے اعتبار سے اہل یورپ کے مقابلے میں ہمارے ملک کے لوگ ایسے ہی کودن اور کندہ ناتراش ہیں جیسے ہمارے مقابلے میں ایک بھیل یا کوئی اور جنگلی وحشی آدمی۔ ہم میں اور اہل انگلستان میں بڑی وجہ فارق تو یہ ہے۔ اس کے علاوہ انگریزوں کے ہم قوم نہیں ، ہم مذہب نہیں ، ہم وطن نہیں۔ انہوں نے
ہم کو تلوار کے زور سے مطیع کیا ہے ، جیسے کبھی ہمارے بزرگوں نے ہندوؤں پر اپنی سلطنت بٹھائی تھی۔ انگریز ہماری طرف سے کبھی مطمئن ہو نہیں سکتے اور احتیاط بھی اس کی مُقتضی ہے۔ "الحزم سوء الظن۔" تم کو تو کسی زمانے میں تاریخ دانی کا بڑا دعویٰ تھا ، خیال کرو کہ ہم لوگوں نے ہندوؤں پر کس قدر اعتبار کیا تھا۔ کہیں سینکڑوں برس سلطنت کے بعد ، وہ بھی اس وقت کی بدقسمتی جو سر پر سوار ہوئی تو ہمارے بزرگ یہیں رہ پڑے اور ہندوؤں سے اختلاط کرکے انھی کی طرح آرام طلب اور کاہل اور مبتلائے اوہام ہوگئے اور آخر کار سلطنت کھو بیٹھے غرض کہیں سینکڑوں برس کی سلطنت کے بعد ہندُؤں کو یہ بات نصیب ہوئی تھی کہ مسلمان بادشاہوں کے دربار تک پہنچے اور اعتباری کی خدمتوں پر مامور ہوئے اور جو کچھ ذرا ظہور اعتبار پیدا ہوچلا تھا ، وہ اس کمبخت 57ء کے غدر نے ملیا میٹ کردیا ۔ اب کم سے کم سو برس اطمینان کے اور گزریں ، تب بات سو بات۔ لیکن ایک بغاوت تو خدا خدا کرکے فرو ہوئی ، تم نے ابھی سے دوسری بغاوت کی چھیڑ چھاڑ شروع کردی ۔
ابن الوقت : یک نہ شد دو شد۔ گورنمنٹ سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی آپ کے نزدیک داخل بغاوت ہے۔ بس غنیمت ہوا کہ میری طرح آپ بغاوت کے محکمے کے افسر نہیں ہوئے۔
حجتہ الاسلام : قوم مفتوح کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں؟
ابن الوقت : حقوق کیوں نہیں ہوتے؟ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی وحشی اور ظالم گورنمنٹ ان کو تسلیم نہ کرے ، لیکن برٹش گورنمنٹ تو بڑی مہذّب اور عادل گورنمنٹ ہے اس سے ہر ایک طرح کا دعویٰ ہے۔
حجتہ الاسلام : اچھا ، اگر دعویٰ ہے تو اس کا فیصلہ کون کرے گا؟
ابن الوقت : وہی گورنمنٹ اور اسی کے انصاف پر تو ساری لڑائی ہے۔
حجتہ : بس بس ، یہی تو میں کہتا ہوں کہ گورنمنٹ کے انصاف پر اعتماد کرتے ہو اور اس کو عادل مانتے ہو تو اس پر پورا پورا اعتماد کرو۔ عادل گورنمنٹ رعایا کی حاجتوں اور ضرورتوں سے غافل ہو نہیں سکتی۔ گورنمنٹ کے تمام عہدہ دار ، گورنر جنرل سے لے کر ایک اسسٹنٹ تک ، اعلیٰ قدر مراتب ، سب رعایا کی خوشنودی ، رعایا کی آسائش کے فکر میں لگے ہیں۔
ابن الوقت : تو اگر ہم نے اپنی ضرورتوں کو ظاہر کر دیا تو کیا غضب ہوگیا؟ یہ من وجہ سرکار کی اعانت ہوئی یا بغاوت؟
حجتہ : ظاہر کردیا ، ظاہر کردیا ! ذرا بنگلے کے دیسی اخبار تو دیکھو تو معلوم ہوکہ رعیّت ہونے کی حیثیت سے اپنی ضرورتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کر رہے ہیں یا بیہودگی اور بے تمیزی کے ساتھ گورنمنٹ سے بھٹیاروں کی سی لڑائی لڑتے ہیں۔ سنو صاحب ! بات صاف صاف تو یہ ہے کہ رعایائے انگلستان کے سے حقوق چاہو تو یہ طلب محال ہے۔ نہ ان کی طرح کی ہم رعایا ہیں اور نہ ہی ویسے حقوق ہم کو مل سکتے ہیں اول تو ہم کو کسی حق کی طلب گاری کی ضرورت نہیں۔ طلب گاری تو ہم اس صورت میں کریں کہ گورنمنٹ کو غافل اور بے انصاف سمجھیں اور خیر "اہل الغرض مجنون" ایسی ہی بے صبری ہے کہ بیٹا بن کر سب کوئی کھاتا ہے ، باپ بن کر کسی نے نہیں کھایا۔ یہ سچ ہے کہ حکام انگریزی خود گورنمنٹ نہیں ہیں بلکہ گورنمنٹ کے ملازم ہیں مگر گورنمنٹ انہی کی آنکھوں سے دیکھتی ہے اور انہی کے کانوں سے سنتی ہے۔ ان کے دلوں میں ہماری طرف سے کسی محاسدے اور سوء مظنّہ کا پیدا ہونا ہمارے حق نہیں نہایت مضر ہے۔ لوگ زعمہم، ملک کے مفاد میں کوشش کرتے ہیں اور میرے نزدیک چلتی گاڑی میں روڑے انکارہے ہیں، ع
بن مانگے موتی ملیں اور مانگیں ملے نہ بھیک
میں جدھر خیال دوڑاتا ہوں تقدیر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ ہم میں سے بعض آدمی جو زمانہ حال کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم پا کر کچھ لیاقت پیدا کرتے ہیں"قلیل ماہم" ان کی مت یوں ماری جاتی ہے کہ مدرسے سے نکلے اور ان کو نوکری کی سوجھی۔ نوکریوں کا حال یہ ہے کہ "یک انارو صد بیمار " جس کو نوکری نہ ملی وہی گورنمنٹ سے ناراض، منہ پھلائے ہوئے، روٹھا ہوا، بڑا بڑاتا پھرتا ہے۔ اور ایک عذاب ہے اپنے حق میں، سوسائٹی کے حق میں، اور گورنمنٹ کے حق میں۔ ان ہی کو اگر خدا تو فیق دے اور تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد معاش کے لئے گورنمنٹ کے آگے ہاتھ پھیلائیں ، امیداوار دھکے نہ کھائیں اور نوکری کے علاوہ دوسرے ذریعوں سے متوکلین علی اللہ معاش کی کوشش کریں تو معاش کے لئے کتنے تو نئے ذریعے پیدا ہو جائیں اور جو ذریعے بالفعل مروج ہیں ان کی لیاقتوں کے انضمام سے ان میں بہت کچھ رونق ہو۔ باتیں جتنی چاہو بناؤ جس کے جی میں آئے رفار مربن لے۔ قومی خیر خواہی کا مدعی ہو، ملکی ہمدردی کا حیلہ کرے، اصل مطلب ہے نوکری۔ اور فرض کیا کہ سرکار نے اس شور و غل کے فرد کرنے کے لئے نوکری کو عام بھی کردیا "دھن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ" مگر اس کا نتیجہ کیا ہوگا یہی نہ کہ ہزار، دوہزار یا مثلا دس ہزار آدمیوں کی روٹی کا سہارا نکل آیا، لیکن کیا اتنی بات سے ملک میں فلاح ہوتی پڑی ہے؟ استغفراللہ، اونٹ کے منہ میں زیرا۔ اگر فی الوقع تمہارے دل میں قوم کی سچی خیر خواہی ہے تو سرکار کا ناحق پیچھا لیا ہے قوم ہی کو کیوں درست نہیں کرتے۔ یورپ میں جو آج تمام روئے زمین کی دولت پھٹ پڑی ہے کہ طوفان نوح کی طرح اوپر سے بھی برس رہی ہے اور زمین سے بھی ابل رہی ہے، نوکری تو نوکری ، سلطنت کو بھی تو اس میں دخل نہیں۔ ماشاءاللہ، چشم بد دور! ایسے ایسے ہزاروں سوداگر ہیں جو تمول کے اعتبار سے ایسی ویسی سلطنتوں کو بھی کچھ مال نہیں سمجھتے۔ خیال کرنے کی بات ہے مثلا یہی ایک ہمارے ملک کی ریل ہے کہ روئے زمانے پر کوئی سلطنت ایسی نہیں دکھائی دیتی جو اتنے بڑے مصارف کی متحمل ہوسکے اور یہ انگلستان کی رعایا کا ادنی سا کام ہے۔ پس اگر حقیقت میں ملک کی بہبود مد نظر ہے تو اس کا یہ رستہ نہیں ہے جو تم نے یا اس زمانے کے تعلیم یافتہ لوگوں نے اختیار کیا ہے۔ "ایں رہ کہ تو مے رودی بہ ترکستان است" اس کا راستہ اگر ہے تو میرے نزدیک یہی ہے کہ پہلے قوم کے خیالات کی اصلاح کرو۔ یہ بات کسی طرح ان کے ذہن میں بیٹھ جانی چاہیے کہ ہماری سرزمین سونے کی سرزمین ہے۔
مگر ہم میں سے کسی کو کیمیا کا وہ لٹکا معلوم نہیں جس سے مٹی کو سونا بنایا جاتا ہے۔ وہ لٹکا خدا نے اہل یورپ کو بتا دیا ہے آؤ ہم بھی ان سے سیکھیں اور ہمالیہ اور بندھیاچل اور ارولی پربت اور گھاٹ جتنے پہاڑ ہیں سب کو سونے کا بنا لیں۔ ہم بھی اہل یورپ کی طرح مخلوق ہیں جن تدبیروں سے انہوں نے اپنی حالت کو درست کر لیا ہے انہیں کی دیکھا دیکھی، ویسی ہی تدبیریں عمل میں لا کر ، ہم بھی کرارے ہوجائیں۔ کیوں گورنمنٹ کے دست نگر ہوں؟ کس لیے سرکار کی خوشامد کریں۔ کاہے کو حکام کے پاس حاجت لے جائیں۔ کرنے پر آئیں تو ہم بھی سب کچھ کر سکتے ہیں۔ اہل یورپ خدا کی رحمتوں اور زمین کی برکتوں کے ٹھیکے دار نہیں۔ مگر یوں کہو کہ ہم سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہاں ! گورنمنٹ میں ہزاروں کیڑے ڈالنے کو موجود۔ وہ تو گورنمنٹ ہی کچھ ایسی متحمل مزاج مل گئی ہے کہ جلی کٹی ایک کان سے سنی اور دوسرے کان سے نکال دی، جیسے ایک پہاڑ کہ آندھیان چل رہی ہیں اور وہ جس شان سے کھڑا تھا، اسی شان سے کھڑا ہے۔ 1857ء کو غدر کیا کچھ ہلکی بات تھی؟ مگر بڑے لوگوں کے بڑے ظرف۔ پہلے تو بہ تقاضائے سیاست باغیوں کا خوب ہی سرکچلا اور جب دیکھا کہ بغاوت مستاصل ہوچکی، امن عام کی مناوی پھیردی۔ جزاک اللہ
ایں کار ازتوں آید و مرداں چنیں کنند
بر عٍو و انتقام تو صد آفریں کنند
تعلیم، ڈاک، ریل، تار، قاعدے، قانون، پولیس، ایک چیز ہو تو اس کا نام بھی لیا جائے میں تو جس جس پہلو سے دیکھتا ہوں انگریزی عملداری رحمت الٰہی معلوم ہوتی ہے اور جب سے فارس اور روم کے انتظام کے نمونے دیکھ کر آیا ہوں' میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ انگریزی عملداری کو دنیا کی بہشت سمجھتا ہوں - روم اور فارس کی عملداری تو خیر دور ہے' اسی ہندوستان میں کسی مسلمان نواب یا ہندو راجا کی عملداری میں جاکر رہو تو قدرِ عافیت معلوم ہواور پھر بھی ان ریاستوں میں انگریزوں کی نگرانی اور سرپرستی کی وجہ سے بڑا امن ہے- میں یہ نہیں کہتا کہ انگریزی انتظام میں نقص نہیں- ہیں اور ہونے چاہئیں' کیونکہ انگریز بھی بشر ہیں اور ع
کہ ہیچ نفس بشر خلی از خطانہ بود
پھر سلطنت کے انتظام اور سلطنت بھی ہندوستان کی سلطنت' بڑے پیچیدہ اور نازک کام ہیں- ملک کی وسعت کو دیکھو' پھر اس بات پر بھی نظر کرو کہ کیسے کیسے مختلف الطبائع' مختلف العقائد' مختلف الحالات لوگ اس ملک میں بستے ہیں اور اس پر اجنبی محض لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنا ہے' ایسی صورت میں انتظام میں نقص کیا نقصانات کا ہونا کیا کچھ تعجب کی بات ہے؟ مگر میں دیکھتا ہوں تو حکام وقت کی نیت بہ خیر ہے ' ہمہ تن اصلاح حال رعایا میں مصروف ہیں- ہم جو چلتے بیل کی آر ماریں تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دولتی کھانے کو جی چاہا ہے-
ابن الوقت : آپ نے تو میرے سارے منصوبے ہی غلط کردیے-
حجۃ : میں نے غلط کردیے یا وہ تھے ہی غلط- میں جانتا ہوں کہ نیت تمہاری بھی خدا نا خواستہ کچھ بری نہ تھی' تم نے خیال کیا اور ٹھیک خیال کیا 'اور جس کو خدا نے ذرا سی بھی عقل دی ہے'خیال کرسکتا ہے کہ انگریزی عمل داری میں ہم مسلمانوں کے ساتھ ہر چند کسی خاص طرح کی رعایت نہیں کی جاتی(یہ بات دوسری ہے کہ ہماری حالت خاص رعایت کی مستحق ہے یا نہیں) مگر سرکار ہمارے ساتھ کسی طرح کی ضد اور مخالفت بھی تو نہیں کرتی' جو حال رعایا کا وہ ہمارا' مگر مسلمانوں میں خستہ حالی'مفلسی اور نکہت یوماَ فیوماَ بڑھتی چلی جاتی ہے-پھر تم نے خیال کیا اور ٹھیک خیال کیاکہ مسلمان اکثر بلکہ قریب کل نوکری پیشہ ہیں- کچھ آج سے نہیں بلکہ جب گھرکی سلطنت تھی' تب بھی ان کا یہی حال تھا- اب نوکری سے بھی ان کو دوسری قوموں نے گویا کہ بے دخل کردیا' الا ماشاللہ۔ تم نے سبب کی تفتیش کی اور سمجھا اور ٹھیک سمجھا کہ نوکریوں میں سرکار انگریزی کی قید لگاتی چلی جاتی ہے اور اگرچہ مسلمانوں کو انگریزوں سے مذہباَ مغایریت نہیں ہونی چاہئیے کیوں کہ انگریز بھی اہلِ کتاب ہیں اور ان کے ساتھ مناکحت اور مواکلت کی صاف اجازت قران میں موجود ہے : " و طعام الذین اُوتوالکتاب حل لکم و طعامکم حِل لہم و المحصنات مَن المومنات و المحصنات من الذین اوتواالکتاب من قبلکم انا اتیتمو ھن اجورھن محصنین غیر مسافحی ولا متخذی اخدان" لیکن از بس کہ انگریز اجنبی محض ہیں اور ان کے ساتھ ہند کے مسلمانوں کو کبھی اختلاط بھی نہیں رہا اور پشت ہا پشت سے ہندوؤں میں رہ کر وہمی سے بھی ہوگئے ہیں۔ غرض کچھ اجنبیت اور کچھ واہمہ لگے انگریزی لباس' انگریزی طرز تمدن یعنی انگریزوں کی تمام چیزوں سے حتٰی کہ زبان انگریزی سے بھی پرپیز کرنے- معاش کے لیے وہی ایک نوکری کا دروازہ تھا' سو تیغہ ہوکر اس میں ایک ذرا سا موکھا رہ گیا- یہاں تک مجھ کو تمہارے ساتھ بالکل اتفاق ہے' اس کے بعد کی تمہاری ساری کاروائی غلط ہے- اول سرے سے توتم نے یہی غلط سمجھا کہ سرکاری نوکریوں سے مسلمانوں میں خوش حالی آجائے گی- اول تو سرکار کے انتظام ایسی خبررسی اور کفایت شعاری کے ساتھ ہیں کہ جہاں ایک روپیہ خرچ ہے' سرکار وہاں آٹھ ہی آنے میں کام نکلوانا چاہتی ہے' وہ بھی بڑے مضائقہ کے ساتھ- اس کا ضروری نتیجہ ہے نوکریاں کم اورتنخواہیں تھوڑی اور اس پر ایک دنیا ہے کہ ستو باندھ کر نوکریوں کے پیچھے پڑی ہے' بنئے 'بقال'لٹھیرے'کسیرے'کنجڑے'بھٹیارے' انگریزوں کے کل شاگرد پیشہ' یہاں تک کے سائیس'گراسکٹ جن کی ہفتاد پشت میں کبھی کوئی اہلِ قلم ہوا ہی نہیں' نوکری کی دھن میں سب کے بچے مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں- پس نوکریوں سے کیا فلاح ہونی ہے؟ پھر دوسری غلطی تم سے یہ ہوئی کہ مسلمانوں اور انگریزوں میں اختلاط پیدا کرنے کے لیے تم نے انگریزی وضع اختیار کی اور تمہاری دیکھا دیکھی اور بہیتریوں نے اور تمہاری غرض بھی یہی تھی- سمجھے کچھ اور ہوگیا کچھ! ہندوستانیوں میں جیسی کچھ تمہاری رسوائی ہوئی سو ہوئی۔ بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ انگریز رہے سہے ہتے سے اکھڑ گئے۔ گئے تھے نماز معاف کروانے الٹے روزے گلے پڑے۔ "ازیں سو راندہ وزاں سو درماندہ "یہ تو چند دنیاوی قباحتیں ہیں جو تمہاری سُو تدبیر پر متفرع ہوئیں۔ رہا دین ، اس کا تم نے اور تمہارے اتباع نے مل کر ایسا استخفاف کیا کہ "باریش بابا ہم بازی" کی بھی کچھ حقیقت باقی نہیں رہی۔ ایک ایک لونڈا جس کو دین سے مس نہیں ، مناسبت نہیں ، دین کی اس کی ذہن میں قدر نہیں ، وقعت نہیں ، دین کی باتوں میں غور کرنے کی اس کی عمر نہیں ، حالت نہیں ، دین کی اس کو طلب نہیں ، تلاش نہیں ، ناواقف ، بے خبر ، برخود غلط ، چلا اسلام کا مجدد اور رفارمر بننے اور لگا اصول میں رائے زنی کرنے۔ امورِ دین میں مساہلت تو سبھی سے ہوتی ہے لیکن جو دین کا ادب رکھتے ہیں ، اپنے مساہلے پر نادم اور قصور کے معترف ہوتے ہیں
بندہ ہماں بہ کہ تقصیر خویش
عذر بدرگاہ خدا آورد
ورنہ سزاوار خداوندیش
کس نہ توانہ کہ بجا آورد
لیکن اب اس زمانے میں لوگوں کے خیالات دین کی طرف سے کچھ ایسے برگشتہ ہوئے ہیں کہ دینیات میں مساہلہ کرتے ہیں ہیکڑی کے ساتھ ، چوری اور سرزوری۔ اور آپ کرتے ہیں سو کرتے ہیں ، قومی خیرخواہی اور رفارمر بن کر دوسروں کی بات مارتے ہیں ، سو الگ اور اتنا نہیں سمجھتے کہ جب قوم کا مذہب نہ رہا ، لباس نہ رہا ، طرز تمدن نہ رہا ، علم نہ رہا ، زبان نہ رہی ، تو امتیاز قومی بھی گیا گزرا ہوا۔ پھر کیسے رفارمر اور کس کی خیرخواہی؟ اگر ہم ایک گھر کی رفارم کرنا چاہیں تو اس کہ یہ معنے نہیں کہ اس کو جڑ بنیاد سے کھود کر پھنک دیں اور از سرنو دوسرا مکان بنا کھڑا کریں۔ اسی طرح مسلمانوں کی رفارم کو تو اُسی وقت رفارم کہا جائے گا کہ مسلمان مسلمان رہیں ، یعنی باپ دادا کے مذہب کے ، وضع کے پابند ہوں۔ دور سے الگ پہچان پڑیں کہ مسلمان ہیں اور پھر ان کے دلوں میں زمانہ حال کے مطابق ترقی کی گدگدی پیدا کی جائے۔
ابن الوقت : آخر آپ کے نزدیک اس کی اور کیا تدبیر ہے؟
حجتہ الاسلام : اس کی جو تدبیر ہے خود بہ خود ہو رہی ہے : "الدبر احسن المودبین" اب مسلمانوں میں اگلی سی وحشت کا کہیں پتا بھی نہیں۔
ابن الوقت : یہ ہماری ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
حجتہ الاسلام : خیر ، تم یوں ہی سمجھو لیکن اگر ایک طرف تم نے مسلمانوں کی وحشت کو دور کیا تو دوسری طرف ان کو بے دین بنا دیا۔ یہ کیا چیند بازی ہے کہ دفع وحشت کی داد چاہو اور بے دینی کا الزام اپنے اوپر نہ آنے دو "میٹھا میٹھا ہپ ہپ ، کڑوا کڑوا تھو تھو"۔
ابن الوقت : اجی حضرت ! وہ بھولے بھالے زمانے گئے کہ لوگ جلدی سے مذہبی ڈھکوسلوں کا یقین کر لیا کرتے تھے ، اب عقل کا دور دورہ ہے۔ شاید آپ کو بھی اس سے انکار نہ ہوگا کہ آج کل کے لڑکے اگلے وقتوں کے بُڈھوں کو چٹکیوں میں اڑاتے ہیں اور عقل کے آگے تو مذہب کی دال کا گلنا ذرا مشکل ہی ہے۔ فلاسفہ یونان جس کی عقل کا لوہا ساری دنیا نے مانا ، سب کے سب لامذہب۔ علی ہذا القیاس یورپ کے شاید سو میں بمشکل پانچ ایسے نکلیں گے جو سچے دل سے مذہب کے معتقد ہوں۔
حجتہ الاسلام : مجھ کو تمہاری یہ بات تسلیم نہیں۔ میرے نزدیک ہر زمانے اور ہر ملک میں مذہب کے ماننے والے بہت زیادہ رہے ہیں بہ نسبت نہ ماننے والوں کے ، اور جہاں تک میں خیال کرتا ہوں دنیا کا اب بھی یہی رنگ ہے۔ تم کو لامذہبوں کی شہرت سے دھوکا ہوا ہوگا ، سو ایسے لوگوں کی شہرت نہ کثرت کی وجہ سے ہے بلکہ صرف اس سبب سے کہ انہوں نے دنیا سے نرالی ، انوکھی بات اختیار کی ، نکو اور انگشت نما ہوگئے۔ پھر تمہاری ہی نظر میں لامذہبوں کی عقل کی کچھ قدر اور وقعت ہوگی ، میں تو ان کو سیانے کوئے سے بڑھ کر نہیں سمجھتا۔ ضرور نہیں کہ جس کی عقل دنیا تیز ہو ، دین میں بھی اس کا فہم رسا ہو۔ خاص خاص عقلیں ، خاص خاص چیزوں ے زیادہ مناسب ہوتی ہیں۔ ایک شخص شطرنج خوب کھیلتا ہے مگر حساب کا ادنیٰ سوال حل نہیں کرسکتا۔ عقل فی حد ذاتہہ ممدوح ہے لیکن وہیں تک درجہ اعتدال میں ہو۔ "ٌخیر الامور اوسطہا" ورنہ افراط کرپزی ہے اور تفریط حمق اور دنوں مذموم ، اور یہی حال ہے فضائل کا بلکہ خدا کی تمام نعمتوں اور رحمتوں کا :
لطف حق با تو مواساہا کند
چوں کہ از حد بگرزد رسوا کند
اور فرض کیا مذہب سے انکار کرنے والے بڑے عاقل سہی' اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اپنی عقل سے جو مدار تکلیف ہے' کام نہ لیں اور خود نہ سوچیں -میں نے پچھلی ملاقات میں تم سے مفصلاَ اور مشروحاَ بیان کیا تھا کہ کہاں تک مذہب میں عقل کو دخل دینا چاہئے مگر شاید تمہارے خیال سے اتر گیا یا تم نے میرے ساتھ یہ بھی ایک چھیڑ خانی نکالی ہے تو مشغلے کے لئے اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ میں پسند نہیں کرتا کہ مذہب کے ساتھ تمسخرواستہزا کیا جائے۔
ابن الوقت : کیا آپ برا مان گئے؟
حجۃ الاسلام: اگر تحقیق حق کے طور پر بحث کرو تو میں یہاں سے تمہارے اعتراضات کے سننے اور جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے تمہاری تشفی کرنے کو موجود ہوں مگر مخاصمانہ گفتگو کرنے سے کوئی فائدہ نہیں- تم بچے نہیں اور مذہب دوا نہیں کہ پچھاڑ کر تمہارے گلے میں اتار دی جائے- طلبِ صادق پیدا کرو تو تب مذہبی مناظرے کا نام لو- یاد ہے'میں تم سے کہ چکا ہوں فکر و تدبر انسان کو مذہب کے اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔
ابن الوقت: اس کا تو میں آپ کو ہر طرح سے یقین دلا سکتا ہوں کہ استہزا کا تو خیال میرے دل میں نہیں آیا؛ ہاں مخاصمانہ کوئی بات میرے منہ سے نکلی ہوتو آپ معاف کیجئے ۔غور کرنے کا مجھے موقع نہیں ملا مگر اب کروں گا- پرسوں یا اترسوں' ذرا کی ذرا سوچنا چاہا تو ذہن اس بات کی طرف منتقل ہوگیا اگر مذہب امر ناگزیر ہو اور فرض کرلیا جائے کہ اسلام کے سوائے اور سب مذاہب باطل ہیں تو ساری دنیا میں مسلمان اور پھر ان میں بھی سچے مسلمان کتنے ہیں- کسی طرح عقل قبول نہیں کرتی کہ معدودے چند مقبول ہوں۔ باقی تمام جمِ غفیر مردود-
حجۃالاسلام : تم تو پرواز کرتے ہی خدائی کی سرحد پر جا پہنچے۔ اول دنیا کی پہیلی کو تو بوجھ چکو۔ تب ہی آخرت کی چیستان میں عقل آزمائی کرنا - یہ بھی من جملہ انہی اسرار کے ہے جن کے ادراک سے عقل بشر عاجز ہے- اگر واقع میں تم کو دین کی طلب گاری ہے تو سیدھا راستہ کیوں نہیں اختیارکرتے کہ دنیا کی ہستی اور اس کا انتظام اس بات کا مقتضی ہے کہ کوئی اسکا خالق اور صانع ضرور ہے- موجودات عالم پر نظر کرتے ہیں تو انسان کو اشرف المخلوقات پاتے ہیں کیونکہ وہ صاحب عقل و ادراک ہے کہ اس صفت میں کوئی اس کا مشارک نہیں' با ایں مہ وہ ایک عاجز و ناچیز مخلوق ہے- نتیجہ یہ ہے کہ خدائے تعالٰی کو نہ ہم دیکھ سکتے ہیں اور نہ عقل کے زور سے اس کی ذات و صفات کو پورے طور پر دریافت کرسکتے ہیں- مگر جس طرح مخلوقات سے خالق کو پہنچانتے ہیں اسی طرح انہیں مخلوقات سے اتنی باتیں اور سمجھ میں آتی ہیں کہ جس نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے ' تمام صفات کمالیہ کے ساتھ متصف ہے- بس یہ اصل دین ہے' باقی اسی کے فروع اور متمات ہیں- میں تم کو بتاؤں کہ دین کے دو حصے کرو اولاَ نفس اسلام پھر اسلام کے فرقوں میں کوئی ایک فرقہ خاص' جس کے معتقدات تم کو پسند ہوں- میں امید کرتا ہوں کہ مذہب کے متعلق جو کچھ میں نے تم سے اب تک کہا پہلے حصے یعنی نفس اسلام کی نسبت تمہاری تشفی کرسکتا ہےبشرطیکہ تم کو تشفی درکار ہو اور جب اسلام کی اصلی اور حقیقی عمدگی تمہارے ذہن میں اچھی طرح بیٹھ جائے گی' جس کی شناخت یہ ہے کہ اعمال اضطراراَ سرزرد ہونے لگیں تو میری یہ بات لکھ رکھو کہ انگریزی وضع خود تم ہی کو بہ تقاضائے مذہب وبال معلوم ہونے لگے گی- رہا دوسرا حصہ یعنی اسلام کے فرقوں میں سے کسی فرقہ خاص کی تعین اس کو کسی دوسرے وقت پر رکھو-
تمت بالخیر