صفحات

تلاش کریں

ناولٹ:نروان(عطیہ خالد)

ایک لڑکی ایک لڑکے کے کاندھے پہ سوئی تھی

میں اجلی دھندلی یادوں کے کہرے میں کھو گیا

کیا یہ الہڑ معصوم سی لڑکی محبت آشنا ہے۔ کیا اس کا معصوم دل محبت کی حدت، تڑپ اور دیوانگی کو برداشت کرنے کے لئے بالغ ہو چکا ہے۔ کیا اس کا شعور ان تکلیفوں سے کم از کم آشنائی بھر رکھتا ہے جو اس سفر میں اس کو پیش آنے والے ہیں۔ کیا وہ جانتی تھی محبت کا سفر اس کے محبوب کے کاندھے پر سر رکھ کر سو جانے کا نام نہیں۔ محبت اس کی آنکھوں میں اترنے والے رنگوں کو دریافت کرنے کا نام نہیں، محبت اس کا ہاتھ تھام کر زندگی کے دشوار گزار راستے کو لانگھ جانے کا نام بھی نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

محبت تو اس نروان کا نام ہے جو شاید ان کے بیچ کبھی جنم لے گا؟؟

اس معصوم کو کیا خبر کہ اس لڑکے کے گھر اس کا کیسا استقبال ہونے والا ہے۔ ہو سکتا ہے وہاں بھی میرے باپ کی طرح کوئی سخت گیر اور مطلق العنان باپ، اس کی ہمراہی میں زندگی گزارنے والی کند چھری کی دھار جیسی ماں، شادی کے لئے لازوال شجاعت اور دولت کے مالک ہمراہیوں کا خواب دیکھنے والی کرخت رو بہنیں موجود ہوں۔ اس کا مسکن شہر سے دور پہاڑوں میں افتادہ ہو۔۔

زندگیوں کو زنگ آلود کر دینے والا۔۔ ۔۔ ۔۔ شاید ایسا ہی ہو۔۔ ۔ !!میں اس کے سوا کیا سوچ سکتا تھا۔

پہاڑی راستوں کے دھچکوں سے بے خبر وہ نہ جانے کتنی صدیوں کی تھکن اتارنے کو اس کے کندھے پر سر رکھ کر سو گئی تھی۔ سفر کا آغاز ہوتے ہی اس نے لڑکے کے ہاتھ کو اپنے سرد سفید ہاتھوں میں پکڑ کر بھینچا۔ یقیناً وہ کسی دلاسے کی منتظر تھی۔ پھر اس نے اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ اور چند لمحوں بعد وہ گہری نیند میں تھی۔ نجانے کب سے نیند ان آنکھوں کے لئے ترس رہی تھی۔ جو آن کی آن میں وہ اس کی پلکوں میں سما گئی تھی۔۔ ۔ لڑکے نے اسے گرنے سے بچانے کے لئے بازو کے گھیرے میں لے لیا۔ اور اپنے دھسے کو پھیلا کر اسے ڈھانپ دیا۔ لاری سے باہر سرد شام گہرا اودا دوشالہ اوڑھ رہی تھی۔

٭٭٭

میں ایک ہائی اسکول معلم ہوں۔ سرکاری معلم۔ میرے لئے یہ ایک ایسا ناگوار فرض ہے جیسے کسی سونے کے بیوپاری کے لئے کوئلے کی دلالی کرنا یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہی برا۔ میں فطرتاً آزاد تھا۔ مجھے اپنی آزادی سے عشق تھا۔ قدرت کے بنائے مناظر اور چہرے مجھے کینوس پر اتارنے کا بے حد شوق تھا۔ میرے باپ کو میرے شوق سے نفرت تھی۔ میں رنگوں سے باتیں کرنا چاہتا تھا ان سے کھیلنا میرا جنون تھا۔ اور میرے باپ کو جلد از جلد اپنا سرمایہ سود سمیت وصول کر لینے کی جلدی تھی۔ ان کو سرکاری نوکری میں میرا تابناک مستقبل نظر آتا تھا۔ ماں اور بہنیں بھی میری نوکری کی خواہش مند تھیں۔ میں نے احتجاج کیا تو میری بہنیں ماں سمیت مجھ سے روٹھ گئیں۔ میں طبیعتاً لڑائی جھگڑے سے گھبراتا تھا۔ سو میں نے سرکاری نوکری کے لئے اپلائی کر دیا۔ نوکری کے نتیجوں کے اعلان تک میں ٹیوشنز کے ذریعے جمع پیسوں سے کچھ رنگ اور کینوس لے آیا۔ برش پہلے اسٹروک سے بھی پہلے توڑ دئے گئے۔ کینوس چولہے میں جل کر ہرے نیلے رنگ کی آگ کے ساتھ دم گھوٹنے جیسی بدبو پیدا کرتا رہا۔ رنگ البتہ میری چھوٹی بہن نے جستی ٹرنکوں پر کرنے کے لئے اٹھا لئے۔ اتنا سب کرنے کے بعد بھی میرے باپ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ تو میں گھر سے اسی سیٹھ عبداللہ کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے چلا گیا گا جہاں میں پہلے پڑھا کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتا تھا۔

میرا باپ خود ایک چائے کا ہوٹل چلاتا تھا۔ وہ اتنا سخت اور کڑوا تھا کہ اس کو اپنی چائے کو میٹھا کرنے کے لئے دوگنی چینی ڈالنی پڑتی ہو گی۔۔ ۔۔ یقیناً۔ ایسا ہی تھا تبھی آج تک ہمارے گھر میں نہ کبھی مسکراہٹ چمکی نہ مٹھاس جاگی نہ ہی خوشحالی آئی۔ مجھ سے بڑی تین بہنیں ماں کے ساتھ فٹبال سینے کا کام کرتی تھیں۔ اسکول جانے کی عمر سے یہ کام کرتے کرتے ان کے خدوخال اور مزاج میں ویسی ہی کھنچاوٹ اور کساوٹ آ چکی تھی، جو دیکھنے والے کو دور سے ہی کک لگا دینے کی قدرت رکھتی تھی۔ سو ان کا اب تک آنے والا کوئی بھی رشتہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔

جوانی کی سرحد پر کھڑی وہ رات دن فٹ بال سیتیں اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دو شالوں پر علاقے کی مشہور کشیدہ کاری بھی شروع کر دی تھی۔ ماں کے باورچی خانے میں جاتے ہی وہ قدیم طرز کا نایاب ریڈیو لگا لیتیں جو حیرت ناک طور پر اب تک ناکارہ نہ ہوا تھا۔ یہ ان کی واحد تفریح تھی۔ لیکن جو نہی ساز یا گیت کی آواز باورچی خانے تک پہنچتی ماں چلا کر ان کو خبردار کرتی۔ لیکن وہ ان سنا کر کے اس کو بجائے جاتیں۔ مجھے ان کی اس معصومانہ حرکت پر بہت پیار آتا۔ چنانچہ میں نے گورنمنٹ ملازمت ملنے تک ایک نیم سرکاری سکول میں نوکری کر کے ان کے لئے ایک گراموفون خریدا تھا لیکن میرے باپ نے اس شیطان کے گھر کو اسی روز چھت سے نیچے پھینک کے پرزہ پرزہ کر ڈالا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ان تینوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ چھوٹی والی نے تو اس روز کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ ان کے دلوں کی کیفیت مجھ پر شدید درد کی صورت عیاں ہوئی۔

ایسے میں اس نوکری نے ایک عجیب عزم اور مستعدی عطا کر دی تھی۔ میں ان کے لئے کچھ کرنے کا خواب لے کر اس دور افتادہ سرد پہاڑیوں سے گھری وادی میں نوکری کے لئے چلا آیا۔ لاری نے مجھے گاؤں سے کافی دور اتار دیا تھا۔ وہاں سے میں نے بھاڑے پر خچر لے کر سفر شروع کیا۔ تین گھنٹوں بعد جب میں اپنی منزل پر پہنچا تو بالکل بجھ کر رہ گیا۔ اسکول کی عمارت کے نام پر محض ایک درخت اور ایک کرسی اور تختہ سیاہ موجود تھا۔ اور ماسٹر کی رہائش کے لئے ایک کھنڈر موجود تھا جس کے ایک حصے کی چھت اڑی ہوئی تھی۔ ابھی میں جائزہ لے رہا تھا کہ مجھے نثار خان صاحب کا نوکر ڈھونڈتا ہوا آ نکلا۔ میری تقرری کی اطلاعی چٹھی انہوں نے ہی وصول کی تھی۔

بس اس دن سے لے کر تین سال تک میں ان کا مہمان ہی رہا۔ تکلف کی نہ گنجائش تھی نہ جگہ۔ اگر ان کو انکار کرتا تو کہاں جاتا۔ اور ان کا خلوص اور محبت کسی کو بھی باندھ لینے کے لئے کافی تھا۔ مجھ سے پہلے آنے والے ٹیچرز بھی انہیں کے مہمان رہے تھے۔ یہ اور بات کہ واحد میں تھا جو تین سال تک وہاں ٹکا رہا۔ نثار صاحب خود بھی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھتے تھے۔ ان کی بڑی خواہش تھے کہ گاؤں کے بچے بچیاں پڑھ جائیں۔ اس لئے ہر آنے والے ٹیچر کو رہائش اور دیگر سہولیات مہیا کرتے۔ ان کی اپنی بیوی اور بچی کچھ سال قبل وبائی ہیضے کا شکار ہو کر دار فانی سے کوچ کر چکی تھیں۔ اب وہ اپنے ملازم کے ساتھ رہتے تھے۔ دو کمروں کا چھوٹا سا مکان تھا۔ جس میں سے ایک کمرہ اب ایک میرے استعمال میں تھا۔ مختصر سی آبادی والا یہ گاؤں جہاں بے حد خوبصورت اور دلفریب تھا وہاں ہر طرح کی سہولتوں سے مبرا تھا۔ روشنی کے لئے قدیم طرز کی لالٹینوں کا استعمال ہوتا۔ پانی چشمے مہیا کرتے۔ پتھروں اور مٹی کے بنے ہوئے مکان دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ میں ٹائم مشین میں بیٹھ کر قدرے پیچھے کو سفر کر آیا ہوں۔

رہ گئی میری ملازمت۔ تو سال بھر میں صرف سات بچے پڑھنے کے لئے آمادہ ہوئے وہ بھی اس طرح کہ میں ان کو ان کے کھیت میں جا کر فردا فرداً سبق دیتا تھا۔ مہینے بعد تنخواہ ملی۔ تو میں نے اس کا معمولی سا حصہ خود رکھ کر باقی گھر بھجوا دی۔ اور پھر یہی میرا معمول رہا۔ ایک ایک دن بیتتا رہا۔ میرا دل اس وادی میں خوب لگ گیا تھا۔ میں جو ہمیشہ سے قدرتی مناظر کا شیدا تھا۔ میرا رنگوں سے کھیلنے کا شوق یوں پورا ہو رہا تھا۔ میں نے ایک لکڑی کا اسٹینڈبنوا لیا۔ نثار صاحب شہر گئے تو رنگ اور کینوس منگوا لئے۔ اب میں جتنا چاہتا رنگوں سے کھیلتا۔ وادی کا قدرتی حسن مجھے پکارتا اور میں نکل کھڑا ہوتا۔ کبھی آبادی سے ہٹ کے قدرتی چشموں کی طرف۔ کبھی سیب اور آلو بخاروں کے باغوں کے بیچ۔ اور کبھی پہاڑی کے نیچے اور کبھی جنگلی پھولوں کے خوشوں کے درمیان۔ میری روح نکھرنے لگی تھی پرت در پرت۔

سال بھر بعد میں پہلی مرتبہ گھر گیا۔ میرے مسلسل پیسے بھیجنے کے باوجود گھر کی حالت ویسی ہی تھی۔ تینوں بہنیں سارا سارا دن فٹبال سیتی رہتیں اور اس سے ملنے والی رقم سے اپنے جہیز کی چیزیں خرید خرید کر پچھلی کوٹھری میں موجود جستی پیٹیوں میں رکھتی رہتیں۔ نہ جانے انہوں نے کب سے نیا کپڑا نہیں پہنا تھا، اچھا کھانا تو دور کی بات انہوں نے پیٹ بھر کر بھی نہیں کھایا تھا۔ روزانہ دوپہر کو تندور کی روٹیوں پر پیاز اور نمک رکھ کر سب کھا لیتے اور رات میں ابا کے آنے سے پہلے پہلے کالے چنوں کے چاول اور چٹنی پیس لی جاتی۔ اب اگر ان کو اس سے ہٹ کر کوئی غذا دی جاتی تو ان کا پیٹ یقیناً دہائیاں دیتا۔ میں جس دن گھر پہنچا سب پیاز روٹی کھا رہے تھے۔ چھوٹی میرے لیے جلدی سے انڈا تل لائی۔ لیکن میں نے کھانے سے انکار کر دیا۔ دل بھاری

ہو گیا تھا۔

ابا ہوٹل پر تھا۔ ماں اسے خبر کرنے چل دی۔ میں تینوں سے گھر کے حالات کے بارے میں پوچھنے لگا۔ غسل خانے کا دروازہ تا حال ٹوٹا ہوا تھا۔ میں نے جو پیسے گھر کی مرمت کے لئے بھیجے تھے ان سے بہنوں کے لئے زیور خرید لیا گیا تھا۔ ابا آ گیا تو کہنے لگا،

"کیوں آ گیا تم اتنا خرچہ کر کے۔ یہی پیسہ بھیج دیتا تو ام تمھاری ماں کا دوا دارو کرواتا۔ "

"کیا ہوا ماں کو؟ "

"ڈاکٹر حرام کا بچہ بولتا جگر خراب ہو گیا ہے۔ "

میں نے غور سے دیکھا تو ماں کا سفید رنگ سیاہ پڑ رہا تھا۔ میں نے ابا کو اپنے پاس موجود سارا روپیہ دیا کہ ماں کا اچھی سے اچھی جگہ علاج کروائیں۔ لیکن ابا کے انداز سے لگتا تھا کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔

چھ مہینے بعد ماں کی تشویشناک حالت کا تار آیا۔ افتاں و خیزاں میں ہر ممکن کوشش کرتا آدھی رات ڈھلے گھر پہنچ گیا۔ ماں کی حالت بہت خراب تھی۔ تینوں بہنیں اس کے سرہانے بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں۔ جب میں نے ماں کو پکارا اس کے بخار کی حدت سے جلتے ماتھے کو بوسہ دیا، اس نے لمحے بھر کو آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور پھر اس کے ہوش جاتے رہے۔ صبح صادق سے پہلے ہی اس نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ تینوں بہنوں کی سسکیوں نے میرے دل میں شگاف ڈال دئے۔ ابا کو تو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا۔ نجانے کیسا تھا ابا کا دل جس میں زندگی بھر کی ساتھی کے لئے بھی کوئی گنجائش نہ تھی کہ وہ اس کا دوا دارو کرواتا۔ بنا کسی دوا علاج کے میری ماں تڑپتی اس دنیا سے چلی گئی تھی۔ میں اتنا دلگیر ہوا کہ اس کے جنازے کے دوسرے ہی دن واپس چلا آیا۔ اور پھر لوٹ کر گھر نہ گیا۔

٭٭٭

سڑاک سڑاک کی آواز کے ساتھ چھڑی لہرا رہی تھی۔ مارنے والے کا ہاتھ کسی جناتی طاقت سے چل رہا تھا۔ آس پاس موجود افراد اس قوت کو مزید انگیخت کر رہے تھے۔ نجانے کیسا حظ تھا جو ان دھیرے دھیرے بلند ہوتی سسکیوں میں پوشیدہ تھا۔ ایک ایسا محبوب عمل جو جتنا طویل ہوتا نتائج اتنے خوشگوار ہوتے۔ وہ اس کی دبی دبی سسکیوں کو سریلے گیت کی طرح سنتیں چائے کے گھونٹ بھر رہی تھیں۔

" دیکھو میرا ہاتھ "چھڑی لہرانے والی نے اپنا ہاتھ دوسریوں کے سامنے کیا۔ جس پر سرخ لکیر سی ابھر آئی تھی۔

" اوہ" وہ ایک ساتھ فکر مندی سے بولیں اور ان میں سے قریب ترین نے زمین پر اوندھے وجود کی پسلی میں ایک ٹھڈا جمایا۔ لیکن کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی۔ غالباً وہ بے ہوش ہو چکی تھی یا اس میں سسکنے کی سکت بھی باقی نہ رہی تھی۔

"آپا اپنا ہاتھ اس پانی میں ڈالیں کہیں نیل نہ پڑ جائے "، چھوٹی نے نمک ملے نیم گرم پانی کا برتن سامنے رکھا۔

"کہیں مر مرا تو نہیں گئی۔ "

"بہت ڈھیٹ ہڈی ہے۔ اب تک نہیں مری تو ...۔۔ اب اس ذرا سی ٹھوکر سے مر جائے گی۔ "

آج امروز کی بارات تھی۔ ڈھولک اور گیتوں کی آواز وادی میں بکھر رہی تھی

اس منحوس کی وجہ سے وہ محروم تھیں۔ جرم اس کا تھا اور سزا ان تینوں کو بھی سنا دی گئی تھی۔ پھر وہ اس سے بدلہ کیوں نہ لیتیں۔

کسی نوجوان نوخیز حسین لڑکی کے در پر کسی بارات کا نہ آنا، شہنائیوں کا نہ گونجنا۔۔ ۔۔ کوئی چھوٹی محرومی تھی۔ کسی حسین غنچہ سے چٹکنے کی آزادی چھین کر اْس کی پتیاں کرخت دھاگوں سے باندھ دئے جانے کی تکلیف۔۔ ۔ کوئی ان کلیوں سے پوچھتا جو باپ کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو رہی تھیں۔ ان کی مانگوں میں کبھی افشاں نہ چمکنے والی تھی۔

وہ نامراد تھیں۔

وادی میں پھلجھڑیاں اور آتش بازی کے شور کے ساتھ نوجوانوں کے مستی بھرے نعروں کی آواز گونج رہی تھی۔ بارات واپس ہو رہی تھی۔ مقامی بارات تھی۔ ان سے کہیں کم خوبصورت حرا کے مقدر کا ستارہ کیسا چمکا تھا۔ سفید گھیر دار شلوار قمیض پر شیشوں والی سرخ واسکٹ اور ٹوپی پہنے سرخ و سفید امروز گھوڑی پر بیٹھا کیساشاندار لگتا ہو گا۔ حرا نے ان کے خاندانی رواج کے مطابق گلا ناری رنگ کا سنہری کام سے بوجھل فراک پہنا ہو گا۔ انار کی کلیوں سے اپنے لب و رخسار کو رنگین کئے، خاندانی بھاری زیورات سے سجی بنی کیسی جچ رہی ہو گی۔۔

کیا نخرہ ہو گا اس کا اور کیسا فخریہ انداز!!اور امروز کیسے مسکرا مسکرا کر اس کی طرف دیکھتا ہو گا!کیسی سرگوشیاں کرتا ہو گا۔۔

وہ تینوں اپنے اپنے بستروں پر پڑی اپنے دلوں کی حسرتوں کو اپنے ہی ظالم ناخنوں سے نوچ نوچ کر حظ اٹھا رہی تھیں۔۔ ۔۔ ۔۔

٭٭٭

اگست ۲۲۔

شام کے دہلیز پر اترتے ہی انار پر بیٹھیں ڈھیروں بلبلیں شور مچا دیتی ہیں۔ بیری پپیہا پی کہاں پی کہاں کی تان لگاتا نہیں تھکتا اور رات بھر چکور میرے دل کے ساتھ چک پھیریاں کھاتا پھرتا ہے۔ آج تم کو گئے دو مہینے

تین دن گزر گئے۔

تمہاری کنہار۔

٭٭٭

" مت نام لیا کرو اس حرامی کا میرے سامنے۔ دماغ خراب کر دیا ہے تم سب نے میرا۔ "ماں کی شکایت پر بابا غصے سے کانپنے لگ گیا۔

"اور مت آنے دیا کرو اس منحوس کو میرے سامنے۔۔ ورنہ مجھے قبیلے کا اصول توڑ دینا پڑے گا۔ چاہے مجھے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ "بابا نے کف اڑایا۔

’’کیوں نہ لوں اس کا نام۔ تم ہی تو کہتے تھے میری صندل ایسی نہیں۔ "ماں نے نفرت سے کہا۔ اور اس کے بخار سے جلتے وجود کو دھکا دے کر پچھلے کمرے میں گرا ڈالا۔

ماں کو اس سے شدید نفرت تھی۔ صرف ماں کو نہیں بلکہ اس کی تینوں بہنیں بھی اس سے نفرت کرتی تھیں۔ ان سب کے پاس اس سے نفرت کی بڑی ٹھوس وجہ تھی۔ اس سرخ وسفید قبیلے میں وہ کالا رنگ لے کر پیدا ہوئی تھی۔ وہ بالکل کالی تھی۔

کیا صرف اس لئے ؟؟

نہیں نہیں ! ماں کو اس کی غلطیوں پر غصہ آ جاتا تھا۔ وہ غلطیاں بھی تو کتنی کرتی تھی۔ وہ ہمیشہ ماں کی ہی حمایت میں سوچتی تھی۔

جبکہ ماں۔۔ ۔۔ وہ کہتی تھی ان کی سات پشتوں میں کبھی کوئی کالا تو کیا کم سفید بھی نہ ہوا تھا۔ سب کے سب بیحد گورے تھے نازک اور خوبصورت۔ کرن، حلیمہ اور وردہ بھی سارے گاؤں کی لڑکیوں سے زیادہ حسین تھیں۔ سبز آنکھوں گلابی گالوں والی۔ ان کے سامنے تو وہ اور بھی کالی دکھتی تھی۔ کمزور اور لاغر۔ بچپن سے ہی احساس محرومی کچھ ایسا دل میں بیٹھ گیا تھا کہ وہ اپنے نصیب پر قانع نہ ہوتی تو کیا کرتی۔ ہر دن ہر پل اسے تضحیک کا نشانہ بننا پڑتا تھا۔

ماں کو اگر اس کی رنگت کے بارے اشارے بھی مل جاتا تو وہ اس کو اپنے پیٹ میں نہ ہرگز ہر گز نہ رکھتی، جنم دینا تو دور کی بات۔۔ ۔

زچہ خانے میں اس پر پڑنے والی ماں کی پہلی نظر تو بے ساختہ تھی۔۔ ایک دم سے اپنی محنت کا نتیجہ دیکھنے کے لیے للچائی ہوئی۔۔ ۔ تجسس اور فطری مامتا سے مالا مال۔ اور کچھ زچہ خانے میں روشنی بھی ناکافی تھی۔ اس لئے ماں نے اسے سینے سے بھی لگا لیا۔ ورنہ بعد میں کئی بار اس کا دل چاہا کہ اس بدصورت کالے سے لوتھڑے کا گلا دبا دے۔ لیکن وہ اتنی بہادری کی مالک نہیں تھی یا شاید وہ اپنے سفید مومی ہاتھوں کو اس کے کالے خون سے داغدار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یقیناًاس کا خون بھی کالا ہی ہوتا۔ لیکن اس نے اتنی بے اعتنائی برتی کہ اس کا مر جانا یقینی تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اس کی نگہداشت انا کے سپرد تھی۔ جس کو اپنی مالکن اور چھوٹی مالکنوں کے کاموں سے ہی فرصت نہ ملتی کہ وہ اس کی مناسب دیکھ بھال کر سکتی۔ سخت موسم میں ناکافی کپڑوں اور گیلے رہنے کی وجہ سے اکثر وہ بیمار ہو جاتی لیکن خود ہی لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہو جاتی۔ ہاں بابا اس سے محبت کرتا تھا۔ باقی بہنوں سے زیادہ نہیں تو ان جتنی تو ضرور ہی۔

اس کا بچپن تو ایسے تمام ہوا جیسے کبھی آیا ہی نہ تھا اور اب وہ تھی اور ماں اور بہنوں کی خدمت۔ صبح سے شام تک وہ جتی رہتی۔ اس کی دنیا محض گھر کی چاردیواری تک محدود تھی۔ جب کہ ماں اور بہنیں خوب گھومتی پھرتیں۔ وردہ بڑی تھی اور کچھ زیادہ ہی سرکش تھی۔ وہ اکثر ہی گاؤں کے ساتھ ساتھ موجود چنار کے جنگل تک بھی چلی جاتی تھی۔ اس کو کوئی خوف نہ تھا۔ اور جب وہ وہاں سے لوٹتی تو اس کے قندھاری گالوں کی سرخی پر نظر نہ ٹھہرتی، آنکھیں جگر جگر کرتیں اور ہونٹوں سے قہقہے چپک جاتے۔ صندل اس کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتی اور سوچتی اگر وہ بھی کسی دن چنار کے گھنے جنگلوں میں کچھ گھڑیاں گزار آئے تو۔۔ وہ بھی خوبصورت ہو سکتی ہے۔ خوبصورت نہ سہی قبول صورت تو ضرور ہی ہو جائے گی۔ وہ اپنے سیاہ ہاتھوں کو سامنے پھیلا کر دیکھتی۔ جو اکثر گیلے رہنے کی وجہ سے کھردرے دکھتے تھے۔ جب کہ اس کی بہنوں کی انگلیاں تو مکھن سے بنی ہوئیں لگتی تھیں۔

اس کی راتیں اسی سوچ میں گزرتیں کہ کیسے وہ ماں کو راضی کرے کہ وہ اس کو کچھ دیر کے لئے سامنے پہاڑی پر موجود چنار کے اس سدا بہار جنگل تک جانے کی اجازت دے دے۔ لیکن نہ ماں کبھی راضی ہوتی نہ ہی اس کی اجازت لینے کی نوبت آتی۔ ماں کے پاس اس کو بتانے کے لئے ہمیشہ ڈھیر سارے کام ہوتے۔ وہ بکریاں سنبھالتی۔ گائے کو چارہ ڈالتی۔ ان کے کمرے کو صاف کرتی۔ مرغیوں کا ڈربہ صاف کرتی۔ کھانا پکاتی کپڑے دھوتی۔ اس کے علاوہ بابا کے ساتھ جا کر سیب کے باغ کی دیکھ بھال بھی کرتی۔ بابا اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا۔ اس کو باغ کے سب سے میٹھے سیب اور آلو بخارے کھانے کے لئے دیتا۔ اور وہ اس عنایت پر شکر گزار ہو کر بابا کے ہاتھوں کو عقیدت و محبت سے چوم لیتی۔ بابا مطمئن ہو کر لیٹ جاتا اور وہ پرندوں کو اڑانے کے لئے مخصوص آوازیں نکالتی لمبی چھڑی لہراتی درختوں کے بیچ روشوں پر بھاگتی پھرتی۔

٭٭٭

۱۱ستمبر

ہر طرف پھول ہی پھول ہیں۔ گلاب کی بیلیں دیواروں کو لانگھ کر ہمسایوں کے گھر تک چلی گئیں ہیں۔ گذشتہ سال جو گل داؤدی کے پودے لگائے تھے سب کے سب پھولوں سے لدے ہوئے ہیں۔ خوبانی کے درخت پر اتنا پھل آیا ہے کہ شاخیں زمین کو چھو رہی ہیں۔ وادی تو موسم گل اوڑھ بیٹھی ہے۔ میں برہن کیسے کہہ دوں کہ موسم گل آ گیا ہے ؟

لالہ اور ثمن شہر جا رہے ہیں۔ سو جلدی جلدی خط لکھ رہی ہوں۔ ہاں تمھاری خواہش کے مطابق جو تم کتابیں لائے تھے میں ان کو پڑھ رہی ہوں۔ ان کو پڑھتے پڑھتے ہی سو جاتی ہوں۔

تمھاری کنہار۔

٭٭٭

وردہ کو کسی کیڑے نے پیر پر کاٹ لیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چلنا نا ممکن ہو رہا تھا۔ صبح سے صندل نمک کی ٹکور کر کے تھک چکی تھی۔ بابا نے دوائی بھی لا کر دی تھی۔ اس نے چندن کا لیپ بھی دو بار کیا تھا لیکن ابھی بھی اس سے پیر زمین پر رکھا نہیں جا رہا تھا۔ ماں کو تو خالہ کنیزاں نے دو روز سے اپنے ہاں بلا رکھا تھا۔ کرن اور حلیمہ بہت دیر سے اپنی سہیلیوں کے ہمراہ کھیلنے گئی ہوئی تھیں۔ صندل چاہ رہی تھی کہ ماں آ جاتی تو وہ سکون سے رات کے لئے کھانا تیار کر لیتی۔ ورنہ وردہ تو ہر تھوڑی سی دیر بعد اسے آواز دے لیتی۔

"صندل ادھر آؤ۔ مجھے تم سے کچھ کام ہے۔ "

"ہاں بولو "صندل سبزی کی ٹوکری پکڑے پکڑے اندر آ گئی۔

"صندل سنو تم فوراً سامنے پہاڑی پر چلی جاؤ۔ ‘‘

" کیا؟‘‘

’’کہاں چلی جاؤں ؟‘‘ یہ وردہ اس سے کیا کہہ رہی تھی۔ اس نے حیرانی سے وردہ کو دیکھا۔

" سنو!تم نیچے جنگلی گلابوں کی سیدھ سے پہاڑی پر چڑھنا شروع کرنا تو دائیں ہاتھ گیارہ چناروں کا جھنڈ ہو گا۔ گیارہواں چنار سب سے اونچا سب سے بوڑھا اور سب سے شاندار ہے۔ اس چنار کے پیچھے ایک بڑا سا سرخ پتھر ہے۔۔ وہاں ایک لڑکا ہو گا.تم نے اسے ضرور دیکھا ہو گا۔ وہ گاؤں میں اجنبی نہیں ہے۔ "وردہ نے اس کی حیرت کو پوری طرح نظرانداز کر دیا۔

"میں کسی لڑکے کو نہیں جانتی۔ تم مجھ سے کس قسم کی باتیں کر رہی ہو۔ "

"صندل!تم اسے دیکھتے ہی پہچان لو گی۔ وہ بے حد خوبصورت ہے۔ اس کا رنگ ہمالیہ کی برف کی طرح سفید ہے اور آنکھیں بالکل کالی ہیں۔ اس کے دائیں رخسار پر بڑا سا تل ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ بالکل سنگ مر مر کے سفید مجسموں جیسا دکھتا ہے۔ یہ چٹ تم اس کو دے دینا۔ "وردہ کی آواز میں بے قراری اور عجلت تھی۔ بہت سوچ کر اس نے صندل کو بھیجنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

صندل نے اپنے حیرت سے کھلے ہوئے منہ کو ہاتھ سے بند کیا۔ اور وردہ کے پلنگ سے دور جا کھڑی ہوئی۔ بے شک اس کی زندگی چار دیواری تک محدود تھی۔ اور وہ کبھی گھر کے باہر کے لوگوں سے نہیں ملی تھی لیکن وہ جوان تھی اور سمجھدار بھی۔ وہ کان رکھتی تھی، آنکھیں رکھتی تھی اور دماغ بھی۔۔ ۔

"جلدی کرو! صندل اپنی چادر کو لپیٹو اور جاؤ۔ "

"نجانے وہ کب سے انتظار کر رہا ہو گا"اس نے زیر لب کہا۔

"وردہ مجھے تو باہر کا راستہ بھی نہیں معلوم؟ "

"کیسی بات کرتی ہو۔ باہر آنگن سے سامنے کی پہاڑی اور چنار کا جنگل اندھے کو بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ‘‘

"تم کرن کو بھیج دو یا حلیمہ کو۔ "وہ منمنائی۔

"ان کا تو نام بھی مت لینا۔ صرف تم پر ہی میں اعتبار کر سکتی ہوں۔ ‘‘

"اتنا وقت نہیں ہے صندل۔ وہ واپس چلا گیا تو میں کہیں کی نہیں رہوں گی۔ "وردہ کا رنگ زردی مائل ہونے لگا تھا۔ اب کے اس نے بجائے غصے کے بے بسی سے کہا۔ اور صندل کی آمادگی محسوس کرتے ہی اس نے پھر سے اپنا لہجہ بدل لیا تھا۔

"سنو!اپنا چہرہ اچھی طرح چھپا لو۔ اس کے سامنے اپنی آنکھیں جھکا کے رکھنا۔ اور اپنے چہرے سے چادر سرکنے نہ دینا۔ اور اسے یہ دے دینا۔ "وردہ نے ایک مشکبار کاغذ تہہ کر کے سرخ ریشمی تھیلی میں ڈال کر اس کے ہاتھ میں تھمایا۔

"جاؤ۔ "

"جلدی جاؤ۔ "اس نے بازو لہرا کر حکم دیا۔

٭٭٭

یکم نومبر

وادی کا جوبن اپنی جولانی پر ہے۔ پردیسی پرندوں کے غول کے غول چناروں پر اتر آتے ہیں۔ ان کی مدھر چہچہاہٹ سے وادی بھر رہی ہے۔ تم نے جو فیروزی چونچ والی چڑیوں کا جوڑا لا کر دیا تھا ان کے انڈوں میں سے تین بچے نکلے ہیں، دو کی چونچیں فیروزی ہیں اور تیسرے کی سرخ۔ میں گھنٹوں ان کے پاس بیٹھی تمھاری باتیں کیا کرتی ہوں۔ ثمن کہتی ہے کنہار دیوانی ہو گئی ہے۔ بھلے سے کہے مجھے کسی کے کہے کی پرواہ نہیں۔

شہابی شام اس وقت سرمئی آنچل اوڑھ رہی ہے۔ اس قدر خوبصورت شامیں اور میں بیراگن اکیلی۔۔ پیام بھیج بھیج کے ہار رہی ہوں۔

میرے پردیسی کو تو جیسے کسی پیام کی پرواہ ہی نہیں۔

کنہار

٭٭٭

سامنے نظر آنے والی پہاڑی اتنی بھی قریب نہیں تھی۔ ان کے گھر سے وہاں تک پہنچنے میں نصف گاؤں پار کرنا پڑتا تھا۔ اور صدیوں سے بہتی چھوٹی سدا بہار نیلی ندی کا لکڑی کا پل بھی۔ صندل سامنے پہاڑی پر نظریں جمائے تیزی سے قدم اٹھا رہی تھی۔ تیزی اور گھبراہٹ میں اس نے بیسیوں مرتبہ ٹھوکریں کھائیں۔ وہ آج تیسری بار گھر سے اتنی دور آئی تھی۔ پہلی دو بار وہ اپنے خالہ زاد کی شادی میں گئی تھی۔ لیکن اس وقت وہ سب بہنیں ساتھ تھیں۔ اس کے دل میں خوف کی بجائے خوشی تھی۔

آج جب کہ اس کی دیرینہ آرزو پوری ہونے جا رہی تھی، وہ آرزو جس کے پورا ہونے کے لئے وہ ہر روز خواب دیکھتی تھی..... وہ خوش ہونے کی بجائے سخت گھبراہٹ کا شکار تھی۔

نارنجی شام گلابی گوٹ لگا زریں آنچل اوڑھ رہی تھی۔ زیادہ تر گھروں کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اکا دکا دہقان مکئی کے بورے خچروں پر لادے اس کے قریب سے گزرے۔۔ بوڑھے کمہار بابا اپنی بیل گاڑی پر رنگا رنگ برتن لادے کچھ دور اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اپنے گھر کے راستے کی طرف مڑ گئے۔ اس کے دل نے اصرار کیا کہ وہ ایک نظر تو ان کے نقشین پیالوں کو دیکھ لے جن کی خوبصورتی کا چرچا دور دراز تک پھیلا ہوا تھا۔ لیکن اس نے دل کی ایک نہ سنی۔ نیلی ندی کے پل پرسے گذرتے ہوئے اس نے اس کے اچھلتے ہوئے ٹھنڈے میٹھے پانی کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔ ندی پورے زور شور سے اپنا سفید دودھیا جھاگ اڑائے بہہ رہی تھی۔ پل پار کرنے کے بعد گاؤں کا آبادی والا حصہ پیچھے رہ گیا تھا۔ پہاڑی کے بالکل نیچے جنگلی گلابوں کے جھنڈ تھے۔ جن کی مہک نے اس کی سانسوں کے گرد دلفریب جال بن دیا تھا۔ لیکن وہ ان سے نظر پھیر کر پہاڑی پر قدم جمانے لگی۔ پہلے ہی قدم پر اس کا پیر پتھر سے زخمی ہو گیا لیکن اس نے اپنی رفتار میں کمی نہ آنے دی۔ اس کی برق رفتاری تو تیز رو اور مشاق گھوڑیوں کو بھی شرماتی تھی۔

بلند قامت شاندار چنار اس کے قریب تھے۔ اس نے پہلے تنے کو چھوا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ کی سیاہی کم ہو گئی ہے۔ دلفریب مسکراہٹ نے اس کے چہرے کو روشن کر دیا۔

ایک دو تین۔۔ ۔۔ ۔۔ پورے گیارہ چناروں کا وہ مبہوت کرتا ہوا جھنڈ دائیں طرف موجود تھا۔ ان کی شاخیں دور آسمان میں آپس میں مل رہی تھیں۔۔ ۔۔ ۔ زرد تھال ان کے پیچھے جا رہا تھا۔ اس کے سر سے چادر اتر گئی تھی۔ چہرہ کھلا ہوا تھا۔ وہ سب بھول کر کھلکھلائی اور چناروں کو چھو چھو کر دیکھنے لگی۔

اس کی رنگت تبدیل ہو رہی تھی۔ اس کے رخساروں پر سورج اپنا قندھاری رنگ مل رہا تھا۔ گھور سیاہ آنکھوں میں بے شمار جگنو آن بسے تھے۔ وہ خوبصورت ہو رہی تھی خوبصورت ترین۔ وہ بے حد خوش تھی۔ ہنس رہی تھی اور دائروں میں گھوم رہی تھی۔۔ ڈوبتا سورج، گھنا سیاہی مائل سبزہ اور پہاڑ اس کو دیکھ کر کھلکھلا رہے تھے۔، وہاں موجود بلبلوں اور میناؤں کے سریلے گیت اسے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔۔ ۔۔ ان کے علاوہ دو انسانی آنکھیں بھی اس روپ کو نہار رہی تھیں۔ ان کا ارتکاز ہی تھا جس نے شیاما کو چونکایا اور اسے خیال آیا کہ وہ کہاں ہے اور کیوں ہے ؟ اس نے جلدی سے اپنی چادر میں خود کو چھپا کر چاروں طرف دیکھا۔ تبھی درختوں کے پیچھے پتھر پر بیٹھے نوجوان پر اس کی نظر پڑی۔ وہ قریباً بھاگتی ہوئی اس کی طرف آئی۔ بالکل معدوم ہوتی ہوئی روشنی میں بھی اس نوجوان کے رخسار کا تل نمایاں تھا۔ اس نے ہاتھ میں موجود ریشمی تھیلی کو اس کی طرف بڑھایا۔

"یہ وردہ نے آپ کے لئے بھیجا ہے۔ "لرزتی ہوئی آواز وہ بولی۔

"کون وردہ؟"

اس نے کرنٹ کھا کر اپنا ہاتھ پیچھے کیا لیکن وہ تھاما جا چکا تھا۔

"میں کسی وردہ کو نہیں جانتا۔ "

اوہ!تو یہ کون ہے پھر؟

"وردہ، حلیمہ اور کرن کے ساتھ آپ سے پڑھتی رہی ہے۔ "اس نے یاد دلانا چاہا

"اور آپ؟ آپ کون ہیں ؟ میں تو آپ کو پڑھانا چاہتا ہوں۔ "آواز میں اشتیاق کا جہاں آباد تھا۔ اس نے یکلخت ہاتھ کھینچ کر چھڑایا اور واپس بھاگی۔

"سنئے۔ میری بات تو سنئے "لیکن وہ کان بند کر کے بھاگتی چلی گئی۔ اپنی ساری طاقت لگا کر بھاگتی رہی۔ یہاں تک کہ گھر آ گیا۔۔

٭٭٭

گھر داخل ہونے تک اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ رات اتر آئی تھی۔ وہ اپنی سانسیں برابر کرتی باورچی خانے میں گھس گئی۔ اس کی آہٹ سن کر اس کو پکارتی وردہ کا گلا اب بیٹھ رہا تھا لیکن صندل بہری ہوئی چولہے کی آگ تیز کئے انگاروں کی پھلجھڑیوں سے کھیلتی رہی۔ وہ خوفزدہ نہیں تھی۔ وہ حیرت زدہ تھی۔ بہت زیادہ حیرانی نے اس کے کان بند کر دئے تھے۔ جب بابا نے دودھ کی بالٹی اس کے قریب رکھ کر پکارا۔

" بچے ! روٹی تیار ہے ؟ "تو وہ ایسے حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگی جیسے انہوں نے اس سے کسی اجنبی زبان میں سوال کر لیا ہو۔

"وہ بابا! "اس کی زبان لڑکھڑائی۔

خدا جیتا رکھے چچا نثار کو جنہوں نے اسی وقت ایک خوان اپنے نوکر کے ہاتھ بھجوایا تھا۔ گزشتہ روز وہ صندل سے حلیم کی ترکیب پوچھ کر گیا تھا۔ تندوری روٹیوں اور حلیم نے صندل کو فوری باز پرس سے بچا لیا تھا۔

اس نے وردہ کے کمرے میں ہی دسترخوان بچھا دیا تھا۔ اس کی شعلے اگلتی نگاہوں سے نگاہیں چار کئے بغیر۔

"کھانا کھاؤ وردہ۔ میں نے تمھیں دوا بھی پلانی ہے۔ "بابا نے وردہ کو مخاطب کیا تو صندل جلدی سے باہر نکل کر بکریوں اور گائے کی کوٹھری کی طرف چلی گئی۔ ابھی تک پہلی برفباری نہیں ہوئی تھی، سو موسم اچھا تھا لیکن رات میں خنکی بڑھ جاتی تھی۔ اس خیال سے اس نے بڑی سی ترپال دوہری کر کے ان کی کوٹھری کو ڈھانپ دیا۔ جھانک کر مرغیوں کے ڈربے کے اندر دیکھا۔ گرم کمبل سے ڈھکے ڈربے میں وہ مزے سے سونے کی تیاری میں دبکی پڑی تھیں۔ اس نے سارے آنگن کا جائزہ لے کر لالٹین کو دھیما کر کے برآمدے میں لٹکا دیا۔

بابا اب وردہ کو دوائی پلا رہے تھے۔ اس نے پھرتی سے دسترخوان سمیٹ کر ابلتے دودھ کے نیچے لکڑیاں بجھا کر دودھ کو جالی سے ڈھانپ دیا اور باورچی خانے کا دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔ اب وہ فارغ تھی۔ ماں کی غیر موجودگی میں وہ وردہ کے کمرے میں سوتی تھی۔ بابا اپنے کمرے میں چلے گئے تو وہ بھی جی کڑا کر کے اس کے پاس آ گئی۔

"وردہ آؤ تم کو غسلخانے میں لے چلوں "اس نے بنا اس کی طرف دیکھے ہاتھ بڑھایا جس کو وردہ نے نوچنے کے انداز میں تھاما۔ واپسی پر بستر پر بیٹھتے بیٹھتے بھی اس نے اپنے ناخنوں کو صندل کی کھال کے اندر تک گھسا دیا۔

"مجھ سے معافی مانگو ورنہ میں تمھارا کوئی بھی کام نہیں کروں گی۔ "صندل کے لہجے نے وردہ کو پتھر کر ڈالا تھا۔ اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نہیں تھے وہ تو ایک للکار تھی جس نے وردہ کو ہیبت زدہ کر ڈالا تھا۔ وہ وجہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ شام تک اس کے آگے دم نہ مارنے والی اس چوہیا کو آخر کس بات نے شیرنی بنا ڈالا تھا۔

"کیا وہ تم کو ملا؟ "بہت دیر اپنا حوصلہ جمع کرنے کے بعد وردہ نے پست سی آواز میں پوچھا۔ صندل نے اپنے اوپر سے لحاف اتار کر ایک دم اس کی سرخ مخملی تھیلی اس کے آگے واپس پھینک کر کہا،

"نہیں۔ اب مجھے دوبارہ آواز مت دینا۔ "اور لحاف سر تک تان لیا۔

٭٭٭

۱۶ دسمبر

کل شام سے برفباری ہو رہی ہے۔ پہاڑوں کا سرخ رنگ سفید پڑ چکا ہے۔ میں لحاف میں لپٹی تمھارے خط کو حفظ کر رہی ہوں۔

ثمن اور لالہ ہر روز کی طرح لڑ رہے ہیں۔ ثمن کہتی ہے نجانے کس منحوس گھڑی میں ان کا سنجوگ ہوا تھا جو ایک دن بھی سکھ اور سکون کا نصیب نہیں۔

میرا دل چاہتا ہے ثمن سے کہوں ساعت تو کوئی بھی بری نہیں ہوتی۔ برائی تو انسان کے اختیار میں ہے کرے چاہے نہ کرے۔ تم کیا کہتے ہو؟

تمھاری کنہار

٭٭٭

یہ کیا ہو رہا تھا۔ وردہ صندل کو دیکھتی تو ڈر جاتی۔ جب سے اس نے چناروں کے جنگل کا بھید پایا تھا وہ کیسی بے خوف ہو گئی تھی۔ دو بدو جواب نہ بھی دیتی تو منمنانا بھی چھوڑ دیا تھا اس نے۔ وہ اپنی بہنوں کی طرح بدتمیز اور مغرور نہیں ہو سکتی تھی لیکن اب وہ بزدل بھی نہیں رہی تھی۔ اس کا احساس کمتری ختم ہو چکا تھا۔ یوں بھی وہ خوبصورت ہوتی جا رہی تھی۔ اس کا جوبن اپنے نکھار پر تھا۔ اس کی سانولی رنگت گندم کے پکے ہوئے خوشوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہو چکی تھی۔ رخسار قندھاری انار سے بڑھ کر خو شرنگ ہو گئے تھے۔ سیاہ بالوں کی ریشمی چوٹی سے کاکل نکل نکل کر لہرانے لگے تھے۔ آنکھوں میں تو کسی نے موتی کوٹ کر بھر دئے تھے۔ وہ اپنے کاموں میں مگن بار بار نظر اٹھا کر سامنے پہاڑی پر موجود چناروں کے جنگل کی طرف دیکھتی تو وردہ کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے۔

ماں ہر دوسرے تیسرے دن خالہ کی طرف چلی جاتی تھی۔ خالہ کے دو بیٹوں کی شادی کی تیاری تھی۔ ماں کا سارا دھیان اس طرف تھا۔ تیسرے امروز کے لئے خالہ نے وردہ کا ہاتھ مانگا تھا ماں کو شروع سے یقین تھا کہ خالہ اس کے لئے وردہ کا ہی نام لے گی۔ ماں کا اطمینان ایسا غلط نہیں تھا۔ لیکن وردہ کو بے قرار کرنے کے لئے کافی تھا۔

ماں نے شہر جانے والیوں سے اس کے لئے بھی کپڑے منگوائے تھے۔

"کیا بات ہے وردہ کیا تم کو کپڑے پسند نہیں۔ "ماں نے اس کی بد دلی نظر انداز کرتے ہوئے بنفشی رنگ کا دوپٹہ اس کے کندھے پر ڈالا۔ اسی وقت صندل اندر داخل ہوئی۔ ماں کے ہاتھوں میں پھیلے ہوئے آنچل کا کچھ حصہ اس کے سر پر بھی پڑ گیا۔ جو جھک کر چائے کے برتن تپائی پر رکھ رہی تھی۔ ماں نے جیسے بد شگونی کے ڈر سے آنچل کھینچ کر اپنے کلے پیٹے۔

"یہ اسی کلموہی کو دے دیں جوڑا۔ "وردہ آنچل جھٹک کر غرائی۔

"کیسی بد شگونی کی بات کرتی ہو۔ یہ تمھارے نکاح کا جوڑا ہے۔ کوئی خیرات نہیں۔

"کوئی نکاح نہیں ہو رہا میرا، "وہ چلائی۔

"اس بد ذات کا نکاح کیوں نہیں کر دیتیں آپ اس منحوس امروز سے۔ "وہ ماں کے آگے تن کر کھڑی ہو گئی تھی۔

"ہائے لڑکی تیرے منہ میں خاک۔ کیا اول فول بک رہی ہے "، ماں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔ تو وہ بستر میں گر کر رونے لگی۔

٭٭٭

دو تین دن بعد وردہ کا پاؤں ٹھیک ہو گیا تو وہ خود اس جگہ جا پہنچی تھی جہاں وہ روزانہ اپنے محبوب سے ملنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کا انتظار انتظار ہی رہا۔۔ ۔ وہ کئی روز لگاتار جاتی رہی لیکن وہ نہ آیا۔ اب وہ کس کے ہاتھ پیام بھیجے ؟ اس کام کے لیے اس نے چھوٹے بچوں کو چنا اور ان کے ہاتھ کئی پیام بھیجے۔ لیکن وہ رقعے واپس بھیج دیتا۔۔ وہ جرات کر کے اس کے راستوں پر کھڑی ہوتی۔ مگر وہ راستہ بدل لیتا۔ ایک روز تو اس نے پکارا بھی لیکن اس نے کہہ دیا کہ وہ اس کو نہیں جانتا۔

وہ گزرگاہ تھی۔ ورنہ وہ اس کے پیروں سے لپٹ جاتی۔ وہ روتی ہوئی لوٹ آئی۔ اور ہنڈیا بھونتی ہوئی صندل کے آگے ہاتھ جوڑ دئے۔

" صندل اس سے کہو مجھ سے بات کرے۔ وہ میری طرف دیکھے .۔ وہ میرے ساتھ ایسا نہ کرے۔ صندل تم اس سے کہو۔ "وہ مرجھا رہی تھی۔

"وردہ وہ تم سے آشنائی کا اقرار نہیں کرتا۔ ‘‘صندل نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

"وہ جھوٹ بولتا ہے۔ "وردہ چیخ اٹھی۔

"اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کو کون سچ بولنے پر راغب کر سکتا ہے ؟ "

"تم صندل! تم!!‘‘

’’میں ؟؟‘‘صندل کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ دھڑ دھڑ کرتے دل پر رکھ لیا۔

’’ وہ تمھاری سنے گا۔ " وردہ نے صندل کے ہاتھ تھام کر منت کی۔

"وردہ وہ میری کیوں سنے گا۔ "صندل نے حیرانی سے پوچھا۔

"وہ تمھاری ہی تو سنے گا۔ "

کیا وردہ وہ راز پا گئی تھی جو ابھی صندل نے اپنی سانسوں تک سے سانجھا نہیں کیا تھا۔ ابھی تو جو بھی تھا دل اس پر پوری طرح امانت دار تھا اور پہریدار بھی۔

"صندل۔ تم بات کو سمجھو۔ میں کہیں کی نہیں رہوں گی۔ میں برباد ہو جاؤں گی۔ اس نے مجھے قول دیا تھا۔ ‘‘

’’میں اس کو کس کا نام دوں گی۔۔ ؟؟‘‘

"کس کو؟ "صندل کی آواز سرسرائی اور ٹانگیں لرزنے لگیں۔

کاش!کاش!! وردہ خاموش ہو جائے۔

"اس کو جو کچھ مہینوں بعد میری گود میں آ جائے گا۔ ؟"وردہ خاموش نہیں ہوئی۔

صندل کو کسی نے آسمان تک اٹھایا اور پھر یکلخت چھوڑ دیا۔ اس کی ذات ریزہ ریزہ ہو کر اس چھوٹی سی وادی میں بکھر گئی۔ اس نے اپنے کان بند کرنے چاہے۔ لیکن کان بند کر لینے سے کیا ہوتا۔ بات کی سنگینی تو بھالے کی صورت دل میں اتر چکی تھی۔ اس کے سینے سے گرم گرم لہو ابل رہا تھا۔

"وہ کہتا ہے وہ کسی وردہ کو نہیں جانتا۔ "آواز صندل کی قبر سے آئی۔

"وہ جھوٹ بولتا ہے۔ "وردہ روتے روتے جھک گئی۔ صندل کو اپنی بہن پر بے حد ترس آیا۔ اور اپنی بدنصیبی پر یقین۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

"ٹھیک ہے۔ "اس نے کہا۔

" اب رات گہری ہو چکی ہے۔ میں کل شام جاؤں گی۔ "اس نے اپنی بہن پر ترس نہیں کھایا اپنی بدنصیبی کے کاغذ پر دستخط کر دئے۔

٭٭٭

۳جنوری

کئی دنوں سے ثمن گھر گئی ہوئی ہے۔ نجانے کیسی ہے ان کی محبت۔ جھوٹی ضد اور انا میں لپٹی ہوئی۔ دونوں میں سے کوئی بھی جھکنا نہیں جانتا۔ اب کے تو ثمن کچھ زیادہ ہی غصے میں ہے۔ کیا ہم بھی ایسے ہی لڑا کریں گے ؟میرا دل انجانے وسوسوں کا شکار ہے۔ تم آ جاؤ۔

کنہار

٭٭٭

ساری رات صندل کواسں اجنبی کی آنکھوں نے تڑپائے رکھا۔ وہ آنکھیں جھوٹی نہیں تھیں نہ ہی وہ لہجہ جھوٹا تھا۔

"سنئے !میں آپ کو جاننا چاہتا ہوں۔ "

"شادی کریں گی مجھ سے۔ میں وقت گذاری نہیں کر رہا۔ ایک دو بار آپ کو نیچے چشمے پر پانی بھرتے دیکھا۔ پھر نثار صاحب نے بتایا کہ مزے دار کھانے آپ کے ہاں سے آتے ہیں۔ "وہ اس کا خوف زائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’ مجھے آپ کے کھانے بہت پسند آئے ہیں۔ مرے معدے کا رستہ سیدھا سیدھا دل تک جاتا ہے۔۔ سنیے میں آپ کے جواب کا انتظار کروں گا۔۔ جس روز بھی آپ آنے کا ارادہ کریں گی میں آپ کو یہیں ملوں گا۔ "اس نے اس کے پیچھے چلتے چلتے اس کے درمیان تعلق استوار کرنے کی کوشش کی۔

"میں عورت کی عزت کرنا جانتا ہوں۔ میں باقاعدہ اپنے گھر والوں کے ذریعے پیام بھیجوں گا۔ "اب کے وہ بے حد سنجیدہ تھا۔۔

’’ سنیئے صندل کیا آپ میرے پیام کو اپنے قرار سے زندگی بخشیں گی۔ ؟؟ "

"صندل! میں آپ کے اقرار کا منتظر ر ہوں گا۔ میں چا ہوں گا کہ میری محبت بے نشاں نہ رہے۔ وہ نوازی جائے۔ "

پہاڑی کا موڑ مڑنے سے قبل وہ اس کے پیچھے آتا آتا رک گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایک ساتھ دیکھ لئے جائیں۔ وہ واقعی عورت کی عزت کرنا جانتا تھا۔ صندل جب جنگلی پھولوں کی جھاڑیوں کے قریب سے گزری تو گلاب کھلکھلائے۔ صندل ان سے نظر چرائے بھاگتے قدموں سے چلتی ندی پر پہنچ گئی۔ ندی نے اس سے چھیڑ خانی کرنی چاہی تو اس نے ڈپٹنے جیسے آثار چہرے پر لاد لئے اور بھاگتی چلی گئی۔

٭٭٭

۲۱فروری

برف باری خوب ہو رہی ہے۔ ساری وادی سفید پیرہن اوڑھے بیٹھی ہے۔ سارا دن سوائے کمروں میں بیٹھ کر لالٹینوں کی زرد روشنی میں شالوں اور سوزنیوں پر کڑھائی کے کوئی کام نہیں۔ تمھارے لئے بہت خوبصورت سیاہ دوشالہ تیار کیا ہے۔ اماں کہتی ہیں لالے کو دے دو۔ ثمن کی نیت بھی خراب ہے۔ لیکن بھلا میں کیسے مان جاؤں۔۔ ۔۔ ۔

اور بنا دوں گی ویسا ہی۔ یہ نہیں دوں گی۔ کیوں دوں ؟ اس کے تو ایک ایک دھاگے میں میری پوروں سے نکلنے والے خون کی بوندیں شامل ہیں۔۔ محبت کی خوشبو ہے۔ بہت سجے گا تم پر۔ شیشوں والی سیاہ واسکٹ تو کب کی مکمل ہو چکی۔

سامنے شیشم پر کھٹ کھٹ بڑھئی لگاتار اپنی چونچ مار رہا ہے۔ میرے خط لکھتے لکھتے اس نے اپنے آشیانے کے لئے جگہ بنا لی ہے۔ ہاں پچھلے صحن میں جو جامن اور خوبانی کے درخت تم نے لگائے تھے وہ ثمن نے کٹوا دئے ہیں۔ کہتی ہے بلاوجہ کا جنگل بنا چھوڑا تھا کنہار نے۔ میں نے پچھلی کھڑکی ہی بند کر دی ہے۔۔ ۔۔

نہ صحن پر نظر پڑے گی نہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

کنہار

٭٭٭

شام ہوتے ہی اس نے خود کو سیاہ چادر میں لپیٹ لیا۔ اور چناروں کی طرف چل پڑی۔ آج اس کو ایک بھی ٹھوکر نہیں لگنے والی تھی وہ جانتی تھی۔ اس نے گاؤں کی گلیاں طے کیں۔ بوڑھے کمہار بابا نقشین پیالے لے کر اس کے قریب سے گذرے۔

"بیٹی کیا میرے شاہکاروں کو سیکھنے کے لئے تمھارے پاس ایک نظر بھی نہیں۔۔ تمھاری انگلیاں کسی ماہر فنکار سے مستعار لی گئیں معلوم ہوتی ہیں۔ کچھ گھڑیاں میرے پاس گزارو۔ آخر تم اتنی جلدی میں کیوں ہو؟"

"بابا آپ کے فن پاروں کو خدا عظیم قدردان عطا کرے۔ اس وقت میں میں بہت عجلت میں ہوں۔ مجھ پر کسی مظلوم کا حق طلب کرنے کی ذمہ داری ہے۔ مجھے غاصب سے اس کا حق وصولنا ہے۔ ‘‘

"اچھا!تو پھر واقعی تمھاری عجلت قابل تعریف ہے۔ لیکن سنو یہ نیلا پیالہ لیتی جاؤ۔ اس مظلوم کو میری طرف سے تحفتاً دے دینا۔ "بابا نے اپنے جھریوں بھرے ہاتھوں سے ایک نقرئی نقشوں والا خوبصورت سا چھوٹا سا پیالہ اسے پکڑا دیا۔ اور اپنی خمیدہ کمر کے باوجود بڑی ہمت سے اپنی بیل گاڑی ہانکتے ہوئے لے کر اپنے گھر کی طرف مڑ گئے۔

درمیان میں موجود نیلی ندی نے اپنے لکڑی کے پل تلے سے اچھل کر اس کو آوازیں دیں۔ لیکن اس نے کان نہ دھرے۔ وہ پیالے کو اپنی چادر میں چھپائے پل کو پار کر کے پہاڑی تک پہنچ گئی۔ جنگلی گلابوں کی جھاڑیوں نے سابقہ آشنائی جتانی چاہی لیکن اس نے ان کو نظر بھر کر بھی نہ دیکھا اور پہاڑی پر چڑھتی چلی گئی۔۔ نہ اس کا سانس پھولا نہ وہ گھبرائی۔ اس کے قدموں کی تیزی حیران کن تھی۔

ایک۔ دو۔ تین پورے گیارہ چناروں کو گنتی اس کی نظر اس پتھر پر جا رکی۔ وہ وہاں موجود تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی تیزی سے اس کی طرف آیا۔

" مرحبا! " وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکا۔

"چشم ما روشن دل ما شاد "وہ گنگنایا۔

"کسی شریف آدمی کو اپنے وعدے سے پھر جانا زیب نہیں دیتا۔ "

"پھر آدمی بھی وہ جس کا سینہ علم کا گہوارہ ہو۔ "صندل کے لفظ لفظ کو اس نے سن کر دل میں محفوظ کیا۔

"آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ خاتون محترم۔ "نوجوان ادب مگر مضبوطی سے بولا۔

"میں آپ کے دھوکے میں آنے والی نہیں۔ بہتر ہے کہ آپ میری بہن کو جو آپ کی وجہ سے تباہی کے گڑھے میں جا گری ہے اس کا ہاتھ تھام لیں اور اس کو اس شدید غم سے نجات دلائیں۔ "

اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بھی کہتی ان دونوں کو گھیر لیا گیا۔ بابا نے اس کی طرف دیکھا اور گر پڑے۔ امروز اور اس کے بھائیوں نے اس کو کس کس کے طمانچے لگائے۔ دوسرے آدمی اس نوجوان پر پل پڑے اور اسکوبے دردی سے مارنے لگے۔ حملہ اچانک ہوا تھا اور وہ بہت سارے تھے۔ ان کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔۔ مار کھاتے کھاتے نوجوان کی نظر صندل پر پڑی جو گر چکی تھی اس کی چادر اس کے قدموں میں تھی۔ نقشین پیالہ چور چور ہو کر اس کے ہاتھوں کو زخمی کر چکا تھا۔ اور امروز اسے بری طرح اپنی لکڑی کی چپل سے مار رہا تھا۔ وہ نوجوان اپنے موجود گھیرے کو توڑ کر اس کو بچانے کے لئے بڑھا لیکن امروز کے بڑے بھائی نے اس کی ٹانگ پر گولی مار دی۔ اب وہ ان دونوں کو گھسیٹتے ہوئے گھر تک لائے تھے۔ صندل کو گھر میں دھکیل کر وہ اس نوجوان کی طرف چلے گئے تھے۔ گھر میں ماں اور خالہ اس پر چیل کی طرح جھپٹی تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں موجود چھڑیاں سڑاک سڑاک اس کا بدن اور لباس ادھیڑ رہی تھیں۔

اس کا دل اس افتاد کو سمجھ کر بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اوپر سے بے رحم مار نے اس کی جان نکال دی تھی۔ وہ اپنا سر اور ستر چھپائے بے دم سی گول مول پڑی تھی۔

"مجھے تو کئی دن سے شبہہ تھا کہ یہ شام کو آخر کہاں جاتی ہے روزانہ ماں کے جاتے ہی۔ "یہ وردہ تھی۔

’’معلم کو تو دیکھو کیسا منحوس اور کمینہ نکلا۔ یہ تعلیم دینے آیا تھا گاؤں والوں کو۔ "یہ خالہ تھیں۔

"خالہ تو کہتی تھیں کہ یہ تو پڑھنے نہیں جاتی۔ "امروز کی چھوٹی بہن بولی

" ہاں !اسی بات کی تو حیرانی ہے۔ "کرن کو اپنی بہن سے اس حرکت کی امید نہیں تھی۔

"میں تو کہتی ہوں یہ لڑکے ہوتے ہی آوارہ ہیں۔ معلم کا پیشہ اختیار کر لینے سے دلوں کی کمیں گی تو دور نہیں نہ ہو جاتی۔ "بڑی زریں بولیں

"معلم کا تو ذکر ہی بے کار ہے۔ اسے ہم جانتی ہیں۔ پچھلے کتنے عرصے سے وہ ہمیں پڑھا رہا ہے۔ اس کی آنکھ میں خیانت کی جھلک تک کبھی نظر نہیں آئی۔ ‘‘وردہ نے لاشعوری طور پر معلم کے بلند کردار کی گواہی دی۔

’’یہ تو اس کا قصور ہے جو جا جا کر اس ورغلاتی رہی۔ جانے کیسے ؟"وردہ کا لہجہ آگ لگا رہا تھا۔ وہ مار رہی تھیں، گالیاں دے رہی تھیں۔ ان کے الفاظ اس کا کلیجہ کچل رہے تھے۔ بدن تو سارا کا سارا زخموں سے چور چور تھا۔

٭٭٭

رات ہی کو گاؤں کی پنچایت بیٹھ گئی۔ اپنے اپنے دھسے اور گرم لوئیاں لپیٹے بزرگ بڑے سردار کے گھر جمع ہو گئے۔ جہاں شمعدان روشن کر کے آتشدانوں میں آگ روشن کر دی گئی تھی۔

ایک طرف نثار صاحب کے ساتھ وہ مضروب معلم بیٹھا تھا۔ جس کا چہرہ چوٹوں کے نشانوں سے بھرا ہوا تھا لیکن گردن اٹھی ہوئی تھی۔ وہ تمام الزامات کی تردید اپنے انداز سے کر رہا تھا۔

دوسری طرف صندل کا باپ اور خالہ کے بیٹے تھے۔ صندل کا باپ ہاتھ پاؤں چھوڑے گردن ایک طرف ڈالے ستون کے سہارے بیٹھا ہوا تھا۔ جب کہ لڑکے تنفر کا نشان بنے مٹھیاں بھینچے بیٹھے تھے۔ حسب دستور پہلے الزام سنایا گیا۔ ابھی سردار نے اپنی بات پوری بھی نہ کی تھی کہ صندل کا باپ اپنا سر ستون سے پٹخ پٹخ کر رونے لگا۔ امروز نے اس کو گھسیٹ کر پیچھے کیا۔ اور دوسرے جوانوں کو اشارہ کیا کہ اس کو سنبھالیں تاکہ وہ خود کاروائی میں حصہ لے سکے۔

اب ملزم کی باری تھی،

"جناب یہ الزام سراسر غلط ہے۔ "نوجوان مضبوطی سے سر اٹھائے اٹھائے بولا۔

"کیسے غلط ہے۔ کیا ہم بیس لوگ اندھے ہیں۔ یا ہمارا دماغ الٹ گیا ہے۔ "شہ روز بولا۔

"کیا وہ لڑکی تم سے ملنے نہیں آئی تھی۔ "سردار نے نوجوانوں کے ابلتے جوش کو دیکھتے ہوئے خود سوال کیا۔

"آئی تھی۔ بالکل آئی تھی۔ "

پھر۔۔ تم کیسے کہتے ہو الزام جھوٹا ہے۔ "امروز سے چپ رہنا دشوار تھا۔

"میں ایک معلم ہوں۔ اور میرے پاس لڑکیاں بھی پڑھنے آتی ہیں۔ میں گزشتہ تین سالوں میں خان صاحب کی بیٹیوں کو پڑھاتا رہا ہوں۔ کیا اس سے قبل لڑکیوں کو پڑھانے پر کبھی مجھ پر کوئی پابندی لگی؟ "

"وہاں چنار کے جھنڈ کے نیچے کون سا کلاس ہو رہا تھا۔ "شہہ روز بولا

"وہ لڑکی مجھ سے اپنی بہن کے لئے وقت لینے آئی تھی۔ جو اس سال شہر جا کر امتحان دینا چاہتی ہے۔ "

’’ہونہہ! پاگل بناتا ہے۔ تو وہ لڑکی خود کیوں نہ آئی؟"شہہ زور نے کف اڑایا

"اس لئے کہ میں نے اس کی بات سننے سے انکار کر دیا تھا۔ "معاملے کی نوعیت ہی تبدیل ہوئی جا رہی تھی۔ شہہ روز دو زانو بیٹھا ہوا تھا۔ وہ شدید غیض کے عالم میں تقریباً کھڑا ہو گیا۔

"یہ جھوٹ بکتا ہے۔ "

"تم نے اس کی بات کیوں نہیں سنی؟ "سردار نے شہہ روز پر غصیلی نظر ڈالتے ہوئے نوجوان سے خود پوچھا۔

"میں اس بات کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ "نوجوان معلم نے جواب دیا۔

"یہ گستاخی ہے۔ تم کو ہمارے قاعدے کا علم ہے۔ تم کو جواب دینا ہو گا۔ یہ پنچائت کا اصول ہے ‘‘

"میں معذرت خواہ ہوں۔ مجھے جواب دینے پر مجبور نہ کیا جائے۔ "

"بات بہت بڑھ چکی ہے نوجوان۔ تم کو معاملہ فہمی سے کام لینا چاہئے۔ "سردار کو امروز، شہہ روز اور بہروز کی خون آشام نگاہیں نظر آ رہی تھیں۔

"کیا تم اس بات سے انکار کرتے ہو کہ وہ لڑکی تم سے ملنے آئی تھی۔ "انہوں نے اپنا سوال دوہرایا

ہرگز نہیں محترم. وہ مجھے اپنی بڑی بہن کا پیام پہچانے آئی تھی۔ "معلم نے ذرا بھی جھجکے بغیر جواب دیا۔

پنچائیت برخواست کی جاتی ہے۔ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔ تب تک ملزمان کی جان و آبرو کی حفاظت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ یعنی دونوں کی کل شام تک کے لئے حفاظت اب سارے گاؤں والوں پر فرض تھی۔ سوائے یہ کہ مشیت ایزدی ان کی موت کا پیام لے آئے۔

٭٭٭

’’صندل اٹھو۔ دودھ پی لو"کرن نے اس کو ہلائے بغیر کہا۔ اسے اس کے زخمی وجود کو ہاتھ لگاتے ڈر لگ رہا تھا۔ وہ ابھی بھی بے یقین تھی کہ صندل ایسا کر سکتی ہے۔

"اٹھو دودھ پی لو۔ "کرن نے آہستہ آواز میں پھراسے پکارا۔

صندل ساری ہمت لگا کر اٹھ بیٹھی۔ اور کرن کے دودھ والے گلاس کو پرے کر دیا۔

"پنچایت نے کیا کہا۔ "اسے فیصلہ جاننے کی فکر تھی۔

"فیصلہ کل ہو گا۔ "

"ہائے "صندل نے دل پر ہاتھ رکھا۔

"امروز شہہ روز اسے راتوں رات ختم کر دیں گے۔ "

"کر دیں۔ اچھا ہے ناں۔ خس کم جہاں پاک۔ "اس نے نفرت سے کہا اور حیرت سے صندل کے رستے زخموں کو دیکھا۔ کیا یہ واقعی اس سے ملنے گئی تھی۔

"تم وردہ کو بلا لاؤ۔ "وہ بولی

"وردہ کو؟ وہ بھلا یہاں کیوں آئے گی۔ "اس کو یقین ہوا کہ چوٹ نے اس کے دماغ کو الٹا ڈالا ہے۔

"ہاں کرن۔ بلاؤ وردہ کو۔ تم کو چھوٹی نیلی ندی کے سدا بہتے پانی کی قسم۔ اسے بلا لاؤ۔ "اس نے اپنے گاؤں کا سب سے بڑا واسط دے ڈالا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ نیلی ندی کا پانی تب تک بہتا رہے گا جب تک سچ کا ساتھ دینے والے اس گاؤں میں زندہ رہیں گے۔

اور وہ وردہ کو بلا لائی۔

"وردہ! وہ کہتا ہے وردہ جھوٹ بولتی ہے۔ وردہ!اس نے نیلی ندی کے سرچشمے کی قسم کھائی ہے۔ "

صندل نے اپنے سوجے ہوئے زخمی ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھام کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔

"بول!بتا!میری بہن۔ کیسے ؟کیسے وہ اتنا پر یقین تھا۔ اس کی آنکھوں میں سچائی کا رنگ تھا۔ بول وردہ جلدی بول!۔ "اس نے پوری طاقت سے اسے جھنجھوڑ ڈالا۔ اس کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ وردہ کے لب بھنچے ہوئے تھے۔ وہ ایک لفظ بھی نہیں بولی۔

"تو نے جھوٹ کیوں بولا وردہ۔ تو نے ایسا کیوں کیا۔ تو نے ایسا بہتان کیوں باندھا۔ "کرن حیرت سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ وردہ کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں کرن نے اس کا خون نچڑتے دیکھا۔ اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ اور صندل کا چہرہ سورج کی تابناکی لئے ہوئے تھا۔

"میں نے جھوٹ نہیں۔۔ ۔۔ "وہ جملہ پورا نہیں کر سکی۔

" تم نے جھوٹ بولا وردہ "شیاما نے ایک ایک لفظ پورے زور سے بولا۔ وردہ نے اس کے سرد سوجے ہوئے ہاتھوں سے خود کو آزاد

کروایا اور کمرے سے نکلتے ہوئے بولی،

"مار نے اس کے دماغ پر اثر ڈال دیا ہے۔ کرن تم اس کی باتوں کی طرف دھیان مت دو اور فوراً باہر آؤ۔ کسی نے تم کو یہاں دیکھ لیا تو۔۔ ۔۔ ۔ !"وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر تیزی سے باہر چلی گئی۔ کرن صندل کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی.

"صندل!تم کیوں گئی تھیں اس سے ملنے "، اس کی آواز میں دکھ سے بڑھ کر تجسس تھا۔

"مجھے خوشی ہے کہ وہ سچا تھا۔ میرا دل سچا تھا۔ "صندل کو مسکراتا دیکھ کر کرن کو واقعی لگا کہ اس کی بہن پاگل ہو گئی ہے۔ وہ تاسف سے سر ہلاتی وہاں سے چلی گئی

٭٭٭

دکھ کی کچھ فصلیں کبھی کاٹی نہیں جاتیں۔ وہ تمام عمر خون چوستی ہیں اور سرسبز رہتی ہیں۔ وہ جن سینوں پر اگ آتی ہیں ان کے نوحے کبھی نہیں پڑھے جاتے۔ نہ ان کے جیتے جی ان کو نوازا جاتا ہے نہ ہی ان کے مرقدوں پر کوئی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے۔

دکھ کی وہ رات بھی بہت لمبی تھی، بہت کالی اور بے رحم۔ اس کے دامن میں لپٹی صبح خون رنگی تھی۔ صندل کے دل میں کہرام مچا تھا جس کے اظہار کے لئے اس کے پاس آنسو تھے۔۔ ۔۔ ۔ دبی دبی سسکیاں۔ وہ کسی ایسی نوجوان بیوہ کی طرح کراہتی تھی جس کا سہاگ اولین رات ہی کو اجاڑ دیا گیا ہو۔ وہ اپنے خالی ہاتھوں کی مٹھیوں میں اپنی ساری تڑپ کو بھینچ بھینچ کر سسکیاں لیتی اس کال کوٹھری میں بے بس پڑی تھی اور اس کے محبوب کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔

گاؤں کے زیادہ تر افراد تو مارے ندامت کے گھروں میں منہ چھپائے پڑے تھے کہ پنچائت کے فیصلے سے پہلے اس نوجوان کا فرار ان کی روایات پر طمانچہ تھا۔۔ ۔۔ ۔ پنچائت کا فیصلہ روکنے کے بعد معلم کو سردار کے گھر ہی روک لیا گیا تھا تاکہ اس کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن امروز نہایت مکاری سے پہلے ہی سردار کی حویلی میں چھپ گیا تھا۔ اس نے معلم کے لئے لے جانے والے دودھ میں ہلدی کے ساتھ زہر ملا دیا تھا۔ اس کام میں حویلی کا ملازم خاص اس کے ساتھ شامل تھا۔ عمدہ زرعی زمین کے ایک ٹکڑے اور سفیدگھوڑی کے عوض یہ سودا کچھ برا نہیں تھا۔ لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ معلم جانے کس وقت فرار ہو چکا تھا۔ صبح فجر کے بعد جب سردار نے اس کے کمرے کا تالا کھولا تو وہ خالی تھا۔ تیسری منزل پر بنے ہوئے اس کمرے کی باغ کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ کسی کو بھی اس کے فرار کا اندیشہ نہ تھا اس لئے اس کھڑکی کی طرف کسی کا دھیان بھی نہ گیا۔ اس کی ٹانگ پر لگنے والی گولی نے صرف گوشت پھاڑا تھا۔ لیکن پھر بھی اس کے لئے بھاگنا ممکن نہیں تھا۔ کھڑکی کے بالکل نیچے نوک دار پتھروں کا فرش تھا۔ پھر وہ کیسے ان پر اتر گیا تھا۔ جو بھی ہوا ہو وہ کمرے میں موجود نہیں تھا۔ اور اس کی چادر کھڑکی کی سلاخ سے بندھی لٹک رہی تھی۔ اس کی تلاش میں ہر طرف سوار دوڑائے گئے لیکن بے سود۔

امروز اور شہہ روز یوں اپنا شکار نکل جانے پر تڑپ رہے تھے۔

کاش کہ گولی اس کے سینے میں اتار دی گئی ہوتی۔ کم از کم ان کی غیرت و حمیت پر بٹہ تو نہ لگتا۔ سردار بھی خاموش تھے۔ اور متاسف بھی۔ ان کو وہ نوجوان بھاگنے والا نہیں لگتا تھا۔ اس نے جس بے خوفی سے سارے معاملے کو سنا اور سوال جواب کئے تھے وہ اس کی جرات سے بہت متاثر تھے۔ انہیں اپنے اندازے کی غلطی پر افسوس سے زیادہ حیرت تھی۔ امروز اور اس کے ساتھیوں نے کھڑکی سے کودنے اور پھر باغ سے بھاگنے اور گھوڑی پر بیٹھنے تک کے سارے سراغ دکھا کر گاؤں والوں کو مطمئن کر دیا تھا۔ گاؤں کے کھوجی نے بھی یہی سراغ لگائے تھے۔

اب رہ گئی تھی صندل اس کے لئے اس کی بہنیں اور ماں ہی کافی تھیں۔

٭٭٭

کیا تھا کنہار اگر ہماری بھی آج ہی رخصتی ہو جاتی۔ "میں نے کنہار کی طرف جھک کر سرگوشی کی۔

"او! او! "لڑکیوں نے شور مچا دیا۔

"چلو اب باہر مردانے میں چلو۔ "

’’کنہار کہے گی تو میں جاؤں گا "میں نے مزید پھیل کر بیٹھتے ہوئے اپنا ہاتھ کنہار کی طرف دیوان پر جما دیا۔

"ٹھہرو میں ابھی ثمن کو بلاتی ہوں۔ وہی نکالے گی اس کو۔ "یہ دل جلی عذرا تھی بڑے ماموں کی بیٹی۔

"بلاؤ۔ بلاؤ جس کو چاہے بلاؤ۔ لیکن اس سے پہلے تم سب نکلو اور جاتے ہوئے کمرے کا دروازہ بھیڑتی جانا۔ "میں نے شرارت کی۔

"کیا ا ا! "وہ سب مل کر اتنی زور سے چلائیں کہ مجھے لگا کہ ان کی آواز ساری وادی میں سنی گئی ہو گی۔

"اتنا چلانے کی بجائے تم سب یہاں سے جاؤ۔ میں کنہار سے اجازت لے کر خود ہی چلا جاؤں گا۔ "

"ہاں بالکل صحیح کہہ رہا ہے شاذل۔ "امینہ نے مفاہمت کی راہ نکالی اور سب لڑکیوں کو نکال کر باہر کر دیا۔

"شکریہ امینہ۔ تمھارا ادھار رہا۔ "میں نے کمرے سے نکلتے ہوئے باہر کھڑی امینہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔ بچپن سے ہمیشہ امینہ میرا ساتھ دیتی آئی تھی چاہے چھپ کچی خوبانیاں یا آلوبخارے چرانے کا معاملہ ہو، چاہے دوپہروں کو درختوں پر چڑھ کر چڑیوں کے گھونسلوں میں جھانکنے کا۔ امینہ ہمیشہ میری ہر غلطی اپنے سر لینے تیار رہتی۔ اس کی وجہ سے میں اکثر بابا اور لالے کی مار سے بچ جاتا۔

کنہار ہمارے چھوٹے چچا کی بیٹی اور امروز، شہہ روز کی بہن تھی۔ میری بہن ثمن کی شادی اسی کے بڑے بھائی شہہ روز سے ہوئی تھی اور اسی شادی میں چھپ چھپ کر دیکھتی شرمیلی کنہار مجھے بھا گئی۔ ثمن سے بات کی تو وہ بے حد خوش ہوئی۔ مہینے بعد ہمارا نکاح ہو گیا۔ رخصتی دو سال بعد طے پائی تھی۔ میں خاندان کا بلکہ پورے گاؤں میں پہلا لڑکا تھا جس نے میٹرک اعلی نمبروں سے پاس کی تھی۔ مجھے بچپن میں ہی میرے سب سے چھوٹے ماموں اپنے ساتھ شہر لے گئے تھے۔ اس لئے میری تعلیم ممکن ہوئی تھی ورنہ ہمارے گاؤں میں تو کوئی اسکول بھی نہ تھا۔ اب ماموں کی خواہش تھی کہ میں مزید پڑھوں اور گاؤں میں آ کر اسکول کھولوں۔ اس لئے مجھے ابھی شہر ہی رہنا تھا۔

’’کنہار خدا کا شکر ہے کہ تم کو لکھنا پڑھنا آتا ہے۔ مجھے خط لکھتی رہنا۔ تمھارے لفظوں کے سہارے جدائی کا عرصہ گذارنا آسان ہو گا۔ ""میں نے اس کے خوبصورت چہرے پر پھیلے ہوئے گلال کو دیکھتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

معلم کے فرار کی داستان کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ اس کا باپ اپنے بیٹے کا پتہ کرتے کرتے پہنچ گیا۔ سردار کی زبانی ساری کہانی سن کر اپنے یکلخت سفید ہو جانے والے سر پر خاک ڈالتا وہ بوڑھا سارے گاؤں کا سر جھکا گیا۔ اس کو روتا دیکھ کر سارے گاؤں والے غم اور شرمندگی کی دلدل میں ڈوب گئے۔

وہ زار زار روتا اپنے بیٹے کو پکارتا رہا۔ اور تین دن بعد لوٹ گیا۔ اس کی آنکھیں غم سے اندر دھنس گئیں تھیں اور اس کی خاموش زبان سے بد دعائیں پھوٹتی محسوس ہو رہی تھیں۔ سردار اس کو خود شہر جانے والی لاری تک چھوڑنے گئے اور ہاتھ جوڑ کر اس سے بار بار معافی مانگتے رہے۔

اس واقعے کے کچھ عرصے بعد نیلی ندی کا پانی کم ہونے لگا۔ پہلے پہل اسے صرف ایک واہمہ سمجھا گیا۔ لیکن جب پانی نصف سے بھی کم رہ گیا تو اس کے بارے میں چہ میگوئیاں عام ہو گئیں۔ لوگ خوف زدہ تھے۔ بڑے بوڑھے ایک دوسرے سے نظریں چراتے اور نوجوان ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے۔

گاؤں والوں کی پانی کی ضرورت یہی ندی اور دو چشمے پوری کرتے تھے۔ اس لئے ان کی پریشانی بجا تھی۔ جس روز امروز کی شادی ہوئی اور صندل کو اس کی بہنوں نے بے رحمی سے مارا اسی صبح چھوٹا چشمہ سوکھ گیا۔

ایسا پہلی بار ہوا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ چشمے ہمیشہ سے اسی طرح بہتے آئے تھے۔ بوڑھے کمہار بابا سب سے عمر رسیدہ شخص تھے۔۔ ۔ انہوں نے نیلی ندی کا پانی کم ہوتا دیکھ کر ہی اعلان کر دیا تھا کہ گاؤں والوں کو مظلوم کی آہ لگی ہے۔ انہوں نے معلم اور صندل پر بہتان باندھا ہے۔ اور اب چشمے کے سوکھنے پر وہ علی الاعلان کہتے پھرتے،

’’گاؤں والے پانی کی بوند بوند کو ترس جائیں گے۔ ‘‘

سارے گاؤں میں سکوت سا چھا گیا تھا۔ بے خبر چھوٹے بچے کھلکھلاتے تو مائیں ان کو جانے کون کون سے اندیشوں سے ڈرا کر خاموش کرا دیتیں۔ موسم گل آیا تو وادی پھولوں سے بھر گئی۔ لیکن جلد ہی سب پھول مرجھا گئے۔ سیبوں اور خوبانیاں کے کچے پھلوں میں رس نہیں پڑا۔ انار کی کلیاں درختوں سے جھڑ گئیں۔ مکئی کے سرسبز بھٹوں میں دودھ جیسا میٹھا رس خواب ہو گیا۔

لوگوں کی سوالیہ نگاہوں سے شہہ روز اور امروز کا گھر سے نکلنا دوبھر ہو گیا۔ صندل کا باپ لوگوں کی باتیں سنتا اور نیلی ندی کے سوکھتے پانی کو دیکھ کر گھر آ جاتا اور اپنی کھاٹ پر کروٹ کے بل گھٹنوں کو جوڑ کر لیٹ جاتا۔ اس کا دل چاہتا کہ وہ صندل کو پاس بلائے اور اس سے پوچھے وہ سب جو اس کو کہنے کی اجازت نہ دی گئی تھی۔

٭٭٭

انجانے خدشوں کے ڈر سے صندل کو ماں اور بہنوں نے کچھ بھی کہنا چھوڑ دیا تھا۔ بلکہ سب اس کا خیال رکھنے کی کوشش کرتیں۔ وردہ نے کھانا پکانا شروع کر دیا تھا۔ حلیمہ اور کرن باقی کام کرتیں۔ اب وہ آزاد تھی۔ اس کو اب کوئی بھی کام کے لئے نہ پکارتا۔ وہ صبح بابا کے ساتھ باغ کی رکھوالی کے لئے چلی جاتی۔۔ باغ کی روشوں پر گھومتی پھرتی۔ بلبلوں سے ایسے باتیں کرتی جیسی وہ اس کی ہمراز سہیلیاں ہوں۔ کوئلوں کی طرح کوکتی۔ پپیہے کی طرح پی کہاں پی کہاں کی آوازیں اس کے حلق سے عجب سوز لئے نکلتیں جو بھی سنتا اس کا دل پگھل کر بہنے لگتا۔ بابا تو اپنی کھاٹ پر لیٹا اپنے آنسو پونچھتا جاتا۔ باغ میں کچھ دیر راکھی کرنے کے بعد وہ کمہار بابا کے گھر چلی جاتی اور ان سے برتن گھڑنے کا فن سیکھتی۔ اس کی انگلیوں کو کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی انگلیاں تو پیدائشی نقاش تھیں۔ فن ان میں بسا ہوا تھا۔ وہ صراحیوں، پیالوں، گلدانوں پر ایسے ایسے نقش ابھارتی، مینا کاری کرتی کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھتے۔ کمہار بابا حیرت سے اس کی انگلیوں کو مشاقی سے چلتا دیکھتے۔ ان کے ظروف کی شہرت ملک بھر میں پھیل رہی تھی۔ بڑے بڑے تاجر ان کے چھوٹے سے گاؤں میں آنے لگے۔ وہاں کے بنے نمدے، سوزنیاں اور دوشابے دور دور جانے لگے۔ گاؤں والوں کی آمدنی بڑی تیزی سے بڑھنے لگی۔ دل ہی دل میں سب ہی صندل کے شکرگزار تھے۔ صندل ان سب باتوں سے بے نیاز دن بھر برتنوں کو رنگتی رہتی۔

شام کے گلابی چنر اوڑھتے ہی چنار اس کو پکارنے لگتے تو وہ ہواؤں میں تیرتی ہوئی ان تک جا پہنچتی۔ نیلی ندی اپنے پل تلے ساکت ہو کر اس کو بھاگتا دیکھتی، جنگلی گلاب سر جھکائے اپنی شاخیں سمیٹ کر اس کو راستہ دے دیتے۔ پتھروں نے اس کے پیروں سے الجھنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ بھاگتی جاتی بھاگتی جاتی اور پھر بوڑھے چنار سے لپٹ جاتی۔ اس کے آنسو چنار کے سینے کو بھگو دیتے اور اس کی شاخیں اس کے بے قرار وجود کو خود سے لپٹا لیتیں۔ اس کی بے قراریوں کو قرار آ جاتا۔ اندھیرا پھیلنے تک وہ چناروں سے ان کہی کہتی رہتی اور پھر لوٹ آتی۔

اس کی ماں کو لگتا کہ اس کے گھر صندل نے نئے سرے سے جنم لیا ہے۔ وہ اس کے سانولے سلونے چہرے کو دیکھتی جاتی جس کی تابناکی اور حسن دن بہ دن بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا کہ اس کے چہرے پر وہ سارے بوسے ثبت کر دے جو پہلے روز سے اس کا حق تھے۔ لیکن کچھ فرض قضا ہو جائیں تو ان کی ادائیگی ممکن نہیں رہتی۔ ان کی ادائیگی کی حسرت ہمیشہ دلوں پر آویزاں رہتی ہے داغ کی صورت۔

٭٭٭

گاؤں میں کسی کی بھی شادی ہوتی تو بابا کی فکر مندی سوا ہو جاتی۔ وہ سارا سارا دن سوچتا رہتا۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر باہر نکل جاتا۔ نہ جانے کتنے سوچ بچار کے بعد اس نے بڑے جتنوں سے ساتھ والے گاؤں کے دو غریب ہاریوں کو سیب کے ایک باغ کی قیمت دے کر وردہ اور کرن کی شادی کر دی۔ کرن نے تو آنسو بہا کر احتجاج کیا لیکن وردہ میں تو اتنی سکت بھی نہ تھی۔ شادی کی صبح صندل کمہار بابا کے گھر چلی گئی تھی۔ اور جب لوٹی تو اس کے ہاتھ میں دو بلوریں پیالے تھے جن کی نقاشی آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ اس نے وہ پیالے جہیز کے ٹرنک پر رکھ دئے اور خود پچھلی کوٹھری میں جا کر لیٹ گئی۔ وردہ اور کرن رخصت ہو گئیں، حلیمہ نے کھانا پکانے کا کام سنبھال لیا۔ جانور سنبھالنے کے لئے ماں نے ایک نوکر رکھ لیا۔ صندل کوئی کام کرنا چاہتی تو ماں اس کو نرمی سے روک دیتی۔ اتنی نرمی سے کہ صندل حیران رہ جاتی۔

نیلی ندی کا پانی کم ہوتا جا رہا تھا۔ چھوٹا چشمہ سوکھ چکا تھا۔ بڑے چشمے کے پانی کی مٹھاس کم ہوتی جا رہی تھی۔۔ ۔۔ وہ نمکین ہو رہا تھا بالکل آنسوؤں جیسا نمکین۔ گاؤں والوں کی سرشام ہونے والی پنچایتیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ گاؤں کی دوسری پہاڑی پر موجود چشموں کا پانی لانے کی مشقت نے مردوں اور عورتوں کی کمر توڑ دی تھی۔ ان کے گھروں میں رقم کے ڈھیر جمع ہونے لگے لیکن پانی کی قلت جان لیوا تھی۔ کھیتوں کی سیرابی کا کام تو اب نا ممکن تھا۔ گاؤں میں سخت قحط پڑ نے والا تھا۔ گھروں میں موجود اناج کو سنبھالنے کی باتیں کی جانے لگی تھیں۔

فضل کسان وہ پہلا آدمی تھا جس نے گاؤں سے ہجرت کی تیاری کی۔ اس کے آٹھ بچے تھے۔ اس کا بھائی جو دو گاؤں چھوڑ کر رہتا تھا ملنے آیا تو اس نے اپنے بھائی کو گاؤں چھوڑ نے کا مشورہ دیا۔ وہ اپنے بھائی کو اتنی دور پہاڑی سے پانی ڈھوتے دیکھ کر رو پڑا تھا۔ وہ ایسا کب تک کر سکتا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اس کا خاندان اپنا سامان سمیٹ کر بیل گاڑی میں لاد چکا تھا۔ جب کمہار بابا نے سردار کے دروازے پر دستک دی۔

"فضل ہجرت کے لئے تیار کھڑا ہے۔ وہ اپنے بھائی کے پاس چلا جائے گا۔ لیکن باقی جن کے سب بھائی بند اسی گاؤں میں بستے ہیں وہ کیا کریں گے۔ "

سردار نے سر جھکا لیا۔ ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔

"سردار! سب گاؤں والے صندل بیٹی سے معافی مانگ لیں "کمہار بابا کی آواز آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھی۔

"میں اس کام کے لئے سب کو کیسے مجبور کر سکتا ہوں ؟ "

کمہار بابا خاموشی سے لوٹ آئے۔ اور فضل کسان کا خاندان ہجرت کر گیا۔ اور اس کے کچھ روز بعد دینے بڑھئی نے بھی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ شہر کو رخت سفر باندھ لیا۔ لوگوں کی سرگوشیوں میں خوف بتدریج بڑھ رہا تھا۔

شہہ روز کا ایک سال کا بیٹا تھا اس کا بخار اترنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ دن بدن اس کی حالت کمزور ہو رہی تھی۔ شہہ روز اور اس کی بیوی کی پریشانی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ وہ کئی بار اس کو شہر کے ڈاکٹروں کو بھی دکھا لائے تھے۔ لیکن اس کی حالت روز بروز گرتی گئی۔ شہہ روز اپنی ساری جائیداد لٹا کر بھی اسے بچا لینا چاہتا تھا۔ لیکن وہ ہر دن موت کے قریب ہوتا گیا۔ جب لگا کہ اس کی سانسیں ختم ہو رہی ہیں تو شہہ روز چپ نہ رہ سکا۔ وہ بھاگا بھاگا سردار کے پاس آیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کر لیا۔۔

"سردار معلم بھاگا نہیں تھا۔ میں نے امروز کے ساتھ اس کو وہاں سے اغوا کر لیا تھا۔ اور پھر اس کو پتھر سے باندھ کر دریا میں پھینک دیا تھا۔ "

"سردار میں ہر سزا کے لئے تیار ہوں۔ مجھے سزا دے دو خدا کے لئے۔۔ تاکہ میرا بچہ بچ جائے۔ "وہ چلا رہا تھا۔

شہہ روز کا اعتراف جنگل کی آگ کی طرح گاؤں میں پھیلا۔ اپنے کمرے کے دروازے پر صندل نے یہ خبر سنی اور گر پڑی۔ پھر سات دن اس نے مرتی جیتی حالت میں گزار دئے۔ اس کی آنکھوں میں انتظار کی جوت بجھ گئی۔

٭٭٭

کافوری سپید تھال سیاہ بادلوں کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ فضا میں گہری خنکی تھی۔ جھینگروں کی آواز اس کے بیکراں سکوت میں حائل ہونے کی بجائے اس کا حصہ بن رہی تھی۔

وہ دریا کے برفیلے پانیوں میں تیر رہی تھی بل کھا رہی تھی، اس کے نرت بھاؤ بے حد دلنواز تھے۔ میں دریا کنارے پتھر پر بیٹھا اس کو نہار رہا تھا۔

"آ جاؤ میری جل پری، میری صندل! "میں نے ہاتھ بڑھایا تو اٹھلاتی لہراتی وہ فوراً چلی آئی۔

اس کا سفید لبادہ کاندھوں سے ڈھلک ڈھلک جاتا تھا۔ میں نے اس کے لباس کی سرسراہٹ کو سنا۔۔ ۔۔ ۔ میرا دل بہکنے کو آمادہ تھا۔

وہ بھی تو مجھے اکسا رہی تھی منا رہی تھی اپنی دلنواز مسکراہٹ سے، اپنے سبک قدموں سے رقص کرتی ہوئی میرے سنگ سنگ چل رہی تھی۔

اس کے دلکش نقوش میرے دل کو سرور بخش رہے تھے۔

میں اس کی غزال نینوں کی چمک میں ڈوب چکا تھا۔۔ ۔۔

اس کے گداز لبوں کا کٹاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ کس قدر من موہنا تھا۔۔ ۔۔

نہ جانے کس پل اس نے مجھ سے ہاتھ چھڑا لیا۔ اور گہرے پانیوں میں چھپ گئی۔ آنکھ کھلنے پر میں اکیلا تھا۔ ہمیشہ کی طرح۔۔ ۔

اس کی طرف بڑھے ہوئے میرے ہاتھ میں اس کے ریشمی لبادے کی سرسراہٹ رہ گئی تھی۔ اردگرد اس کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ خود کہیں نہیں تھی۔ کہیں بھی نہیں۔

تنہائی مجھے بری طرح ڈسنے لگی۔ میں نے اٹھ کر کینوس کے سامنے موجود بلب جلا لیا اور اس پردے پر اس کے دلنشیں نقش ابھارنے لگا۔

٭٭٭

میں نے اپنی بیساکھی کندھے کے نیچے دبائی اور لاری سے اتر گیا۔ میں نے لالچ میں کچھ زیادہ سامان خرید لیا تھا۔ میرا تھیلا میری طاقت سے زیادہ بھاری ہو گیا تھا۔ لاری کے ایک اور چکر کا خرچہ بچاتے بچاتے مجھے رکشے پر اس سے دوگنا خرچ کرنا پڑ گیا تھا۔

برف باری کی وجہ سے اور بھاری تھیلے کی وجہ سے مجھے لاری تک آنے کے لئے رکشہ کرنا پڑ گیا تھا۔ لاری سے اتر کر میں تھیلا گھسیٹتا ہوا گھر میں داخل ہو گیا۔ اندر والا کمرہ خوب گرم تھا۔ تھیلا اتار کر سکون کا احساس دوچند ہو گیا۔ امن فوراً پانی لے آئی تھی۔

"آج کافی برف باری ہو گئی ہے ناں "

"ہاں "میں خالی گلاس اسے پکڑاتے ہوئے لیٹ گیا۔

"بھائی!اتنا بھاری تھیلا بازار سے اٹھا کر کیسے لاری تک اٹھا کر لائے۔ "وہ سامان نکالتے ہوئے بولی۔

"رکشہ لے لیا تھا۔ "

"اچھا کیا۔ کہیں جو ٹانگ میں درد شروع ہو جاتی دوبارہ تو۔ "اس نے جلدی جلدی سب سامان ٹھکانے لگا دیا۔

"کھانا لے آؤں ؟میں نے کڑھی، چاول پکائے ہیں۔ "کھانا کھاتے کھاتے میں اسے خریداری کی تفصیل بتاتا رہا۔

"بھئی امن کڑھی تو بیحد لذیذ بنی ہے۔ "تعریف سن کر اس کے چہرے پر روشنی سی پھیل گئی۔

"ہاں کیا بنا بھائی آپ کی نوکری کا؟ ‘‘امن کو علم تھا کہ میں شہر میں نوکری تلاش رہا ہوں۔

’’ہو جائے گی نوکری بھی۔ جب اللہ نے چاہا تو۔ ‘‘میں نے اس سے زیادہ خود کو تسلی دی۔

"آپ کی نوکری ہو جائے گی تومیں بالائی کے لڈو بنا کر بانٹوں گی۔ "امن نے محبت سے لبریز لہجے میں کہا۔

"اچھا بھئی امن، چائے پلا دو تو میں ذرا سلیم کی بیٹھک کا چکر لگا لوں۔ "میں نے ہاتھ دھوتے ہوئے کہا۔ اور کچھ دیر میں چائے پی کر میں بیساکھی بغل میں دبائے ساتھ والے سلیم کی بیٹھک میں چلا آیا جہاں آج رات کی محفل جمی تھی۔ چاچا احمد دین کئی دنوں بعد بخار سے اٹھا تھا۔

"ارے آؤ آؤ اسفند باؤ! بڑی لمبی عمر ہے تمھاری۔ تمھارا ہی ذکر ہو رہا تھا۔ سلیم بتا رہا تھا کہ تم یہاں سے جانا چاہتے ہو؟ "

"کیوں باؤ کیا بات ہو گئی جو تم نے ایسا سوچا۔ "

"بات تو کوئی نہیں چاچا۔ سوچتا تھا شہر چلا جاؤں تو شاید کوئی مستقل کام مل مل جائے۔ "

"کام؟"چوپال پر موجود افراد نے میری بیساکھی اور مفلوج ہاتھ کی طرف ترحم بھری نگاہوں سے دیکھا۔

"کیا کام کرنا چاہتے ہو باؤ تم؟ "

"کوئی بھی کام۔ شہروں میں تو رات کو پہریداری کا کام بھی مل جاتا ہے۔ "میں نے امید کا دامن جھاڑ پونچھ کر سنوار کر پکڑ لیا۔

"ہمم!تم ہماری بات مان لیتے تو اچھا تھا۔ ایک جال ہم تمھارے نام کا بھی ڈال دیتے۔ مالک تمھارے نام کی مچھلیاں بھلا نہ دیگا۔ "

"نہیں، چاچا نہیں۔ "مجھے ان غریبوں سے اس طرح لینا گوارا نہیں تھا۔ پہلے ہی مچھلیوں کے ذریعے ملنے والی آمد ان کی گزر بسر کے لئے بے حد قلیل تھی۔ ساتھ ساتھ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹتے، نمدے بناتے۔ تب کہیں جا کے بال بچوں کا پیٹ بھرتا۔ میرے لئے پہلے ہی وہ بہت کچھ کر چکے تھے۔ میں تو وہ احسان بھی اتارنے کے قابل نہیں تھا۔

بابا رخصت ہو گئے۔ میرا دل اب گھر میں نہیں لگتا تھا۔ میں نے چھوٹی امن سے مچھیروں کی بستی منتقل ہونے کی بابت پوچھا تو وہ راضی ہو گئی۔ یوں بھی میں گھر سجیلہ اور ثنا کو دے چکا تھا۔ سو اب وہاں رہنا مناسب نہیں لگتا تھا۔ دونوں بہنوں اور بہنوئیوں کے روکتے روکتے بھی میں امن کے ساتھ مچھیروں اور لکڑ ہاروں کی بستی میں چلا آیا۔ میں تصویریں بنا کر اتنا کما لیتا تھا کہ ہم دونوں بھائی بہن کا گزارا ہو جاتا تھا کسی نہ کسی طرح۔ ایک ہاتھ کی وجہ مجھے دقت ہوتی لیکن میں ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔ ابھی تو مجھے امن کا بیاہ کرنا تھا۔

٭٭٭

رات ابھی ایک پہر ہی بیتی تھی کہ دروازے پر نامانوس سی دستک ابھری۔

’’خدا خیر کرے، ‘‘برفباری تو ابھی بھی ہو رہی تھی۔ میں نے مسافرکا خیال کرتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔ میرے سامنے وہی جوڑا کھڑا تھا جو میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میرے اترنے کے بعد غالباً وہ بھی اتر گئے تھے۔

’’پہلے اندر آ جاؤ۔ ‘‘میں نے نوجوان کو تعارف کے لئے منہ کھولتے دیکھ کر کہا۔

’’ اپنے گیلے فیرن اور جوتے اتار کر منہ ہاتھ دھو لو۔ ‘‘میں نے حمام کے نیچے آگ تیز کرتے ہوئے کہا۔ اور خود امن کو جگانے چل دیا۔ خشک گرم کپڑے، کھانے اور کشمیری چائے کے بعد میں نے ان کو بستر مہیا کر دئے۔ ان کی آنکھیں اندرونی تھکن اور کشمکش کی غماز تھیں۔

’’آرام سے بے فکر ہو کر سو جاؤ۔ اٹھو گے تو باتیں کریں گے۔ اتنی باتیں جتنی تم چاہو گے۔ ‘‘میں کہہ کر کمرے سے نکل آیا۔ مجھے تو دوبارہ نیند نہیں آئی۔ ساری رات میں کینوس اور رنگوں سے کھیلتا رہا۔ صبح کاذب دہلیز پر آن کھڑی ہوئی تو امن بھی اٹھ کر چلی آئی۔ میں اور امن اپنے روزمرہ کے معمولات میں مشغول ہو گئے۔ آج تو مہمان تھے۔ اور میں ان کی بہترین ضیافت کرنا چاہتا تھا۔

٭٭٭

گاؤں کا سکوت مکینوں کو ہولانے لگا تھا۔ ندی پر پانی پینے آنے والے ہرن چوکڑیاں بھول چکے تھے۔ ان کی آنکھوں کا سہم دلوں کو بوجھل کرتا تھا۔ بارہ سنگھے تو پہلے ہی ندی پر آنا چھوڑ گئے تھے۔ انہوں نے پہاڑی کے دور پرے ایک چشمہ ڈھونڈھ لیا تھا۔

ایک ملگجی سی صبح شہہ روز کا بچہ دم توڑ گیا۔ اسی روز ثمن بھی اس کو چھوڑ گئی۔ وہ علی اعلان کہتی تھی کہ وہ اپنے بچے کے قاتل کے ساتھ نہیں

رہ سکتی۔۔ امروز اور بہروز سارا سارا دن اندر کمروں میں لیٹے رہتے۔ نیلے پانیوں کو گواہ بنا کر کھائی گئیں جھوٹی قسمیں سارے گاؤں کی تباہی کا سامان بن رہی تھیں۔

صندل کی ماں رات دن اس کی صحتیابی کے لئے دعاؤں میں لگی ہوئی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ صندل اس کی اکلوتی اولاد ہے جس سے بچھڑنا اس کے لئے جان لیوا ہے۔ حلیمہ چناروں پر نظریں جمائے اپنے کام نپٹائے جاتی۔ چنار جن کے تلے دفن کئے جانے کی خواہش کے سوا صندل نے کوئی بھی بات نہیں کی تھی۔

ہائے۔۔ ۔۔ ۔ صندل مرنے والی تھی۔

اس کے بابا کو صندل کی موت کے ساتھ سارے گاؤں کی سسکتی ہوئی موت نظر آ رہی تھی۔ وہ ہر کچھ دیر بعد صندل کے سرہانے جا کھڑے ہوتے۔ ماں تو پہلے ہی اس کی پٹی سے لگی ہوئی تھی۔

"صندل!گاؤں والوں کو معاف کر دے میری بچی۔ "آخر بابا نے کہہ دیا۔

صندل نے تڑپ کر آنکھیں کھول دیں۔ یہ بابا کیا کہہ رہے تھے۔ گاؤں والوں کا بھلا کیا قصور تھا۔ صندل کی جان لبوں پر آ رکی تھی جب وردہ آ پہنچی۔ اس کو ماں نے پچھلے دو روز سے بلاوا بھیج رکھا۔ وہ اپنی کوکھ میں اٹھائے بوجھ سے گھبرائی ہوئی تھی۔ شہہ روز کے بیٹے کے گزرنے اور بیوی کے چھوڑ جانے کے قصے اس کے سسرال تک جا پہنچے تھے۔ وہ صنوبر کے کمرے میں جلے پاؤں کی بلی کی طرح چک پھیریاں کھاتی پھر رہی تھی۔ صنوبر کی خالی آنکھوں میں ایک سوال تھا۔

کیا اب بھی وردہ اپنے گناہ کا اعتراف نہ کرے گی؟؟؟

اب جب کہ سب جان گئے تھے۔۔ ۔۔ ۔

اب جب کہ ہر گزرتا دن صندل کی برئیت کا نقارہ بجا رہا تھا۔۔ ۔۔

اب بھی۔۔ ۔ ؟؟؟

سات دن آس نراس کی کیفیت میں گزر گئے۔ صندل کی پتلیاں وردہ کی طرف تکتی رہیں اور تکتے تکتے ہی اس کی روح کا ملول پنچھی اڑ گیا۔۔ اس کی بھنچی ہوئی مٹھیاں کھل گئیں لیکن اس کی منتظر آنکھیں بند نہ ہوئیں۔ جب اسے اس کی آخری آرامگاہ تک پہچانے کی تیاری کر لی گئی۔ جنگلی گلابوں نے اس کے بدن کو ڈھک دیا۔۔ ۔ اس کی آنکھیں کھلی رہیں۔ ان کھلی آنکھوں سمیت بوڑھے سوگوار چنار تلے جب اس کو دفنایا گیا تو نیلی ندی کا رہا سہا پانی بھی سوکھ گیا۔۔ گاؤں والوں سے ان کی رہی سہی زندگی بھی روٹھ گئی تھی۔ ایک کے بعد ایک خاندان ہجرت کرنے لگا۔

٭٭٭

کنہار کب سے پچھلے آنگن میں بیٹھی چڑیوں کو دانہ ڈال رہی تھی۔ اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں جنہیں وہ بار بار چادر کے پلو سے صاف کرتی جا رہی تھی۔

ادھر ثمن نے واپس آنے کے بعد سسے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ کنہار کا اور شاذل کا رشتہ کسی صورت قایم نہیں رہ سکتا۔ شاذل کو بھی کنہار کو طلاق دینی ہی ہو گی۔ کیسی آسانی سے وہ یہ نوکیلے لفظ کنہار کے کلیجے میں اتار آئی تھی۔۔ ۔ نہ اس کو کنہار کے چہرے پر پھیلی زردی نظر آتی تھی نہ ہی وہ اس کے بہتے آنسو دیکھتی تھی۔ اس کی ایک ہی ضد تھی کہ کنہار اس کے بچے کے قاتلوں کی بہن ہے وہ اس کے بھائی کے گھر بیاہ کر نہیں آئے گی۔

میں دونوں گھرانوں میں ہونے والی ساری گفتگو کو جانتا تھا۔ سمجھتا تھا۔ میں بابا سے الجھ پڑا۔

’’مجھے کنہار ہی سے شادی کرنی ہے۔ مجھے آپ کے جھگڑوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ‘‘

’’بے غیرت کے بچے، کیسے لینا دینا نہیں۔ ابھی تو وہ بیاہ کر گھر نہیں آئی۔ آ بھی گئی ہوتی تب بھی تجھ کو طلاق دینی پڑتی۔ ‘‘

’’عزت ہے وہ میری۔ بیوی ہے میری۔ ‘‘

’’بکواس بند کرو شاذل، شہہ روز معلم کا قاتل ہے۔ اور قاتل کی بہن ہمارے گھر نہیں آئے گی۔ اب کسی بحث کی ضرورت نہیں۔ ‘‘خان بات ختم کر کے اٹھ گئے۔

اب مجھے کسی طرح کنہار سے رابط کرنا تھا۔ میں سیدھا امینہ کے گھر جا پہنچا۔ امینہ تو جیسے بن کہے سب سمجھتی تھی۔ اس نے مجھے چائے پلاتے ہوئے اگلے روز دوپہر میں آنے کے لئے کہا۔ چچی کے کسی عزیز کی وفات ہو گئی تھی۔ چچا چچی نے وہاں جانا تھا۔ اس نے اشارتاً مجھے سارا پروگرام سمجھایا۔ لیکن وہ بہت ڈر رہی تھی۔ اس کا ڈر بے جا نہیں تھا۔

’’تم پریشان مت ہو۔ میں کچھ کرتی ہوں۔ ‘‘اس نے اپنا ڈر چھپا کر مجھے تسلی دی۔ اگلے روز میں دوپہر میں ہی امینہ کے گھر جا پہنچا۔

’’تمھیں کسی نے یہاں آتے ہوئے دیکھا تو نہیں ؟‘‘ اس نے دوبارہ پوچھتے ہوئے کھڑکی سے گلی میں جھانکا۔ گلی سنسان تھی۔ اس نے مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ ایک گھر چھوڑ کر کنہار کا گھر تھا۔ اس نے مجھے گلی کے آخری موڑ پر کھڑے ہونے کو کہا اور خود داخلی دروازے کے ساتھ بنی ہوئی چھوٹی سی دیوار لانگھ گئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ لوٹ آئی۔

’’میری کنہار سے بات کل ہی ہو گئی تھی۔ آج تو بس میں اس کو اشارہ دینے کے لئے گئی تھی۔ شکر ہے مجھے کسی نے دیکھا نہیں۔ چچا جان اور چچی جان تو تعزیت کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ باقی تینوں بھائی کھانا کھانے بیٹھے ہوئے ہیں۔۔ بس کھانا دے کر کچھ منٹوں میں کنہار ہماری طرف آ جائے گی۔ ‘‘اس نے چوکنی نظروں سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے مجھے بتایا۔ اب ہم گھر داخل ہونے کے بعد دروازے سے لگ کر کھڑے تھے۔ تاکہ کنہار کو دستک نہ دینی پڑے۔ امینہ کا بھائی بھی اپنے باغ کا پھل لے کر شہر گیا ہوا تھا۔ اس کے بھی جلدی لوٹنے کا اندیشہ نہیں تھا۔ ابھی ہم کو کھڑے پانچ منٹ بھی نہ گذرے تھے کہ کنہار نے دروازے سے جھانکا۔

’’جلدی سے نکل جاؤ۔ ‘‘امینہ نے کنہار کا یخ بستہ ہاتھ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ مانو وقت میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ اور نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ابھرنے والے رنگوں نے میرا دل ہلا دیا تھا۔ وہ ایک محب کی آنکھیں تھیں۔ غم و یاس سے معنون۔۔ ۔

آہ!محبت کے نصیب میں جدائی ہے۔۔

محب کا کلیجہ دو نیم ہو جائے تو محبت سنورتی ہے۔۔

جن کی محبت بے نشاں رہ جائے۔ بے نام۔ بے ثمر۔۔ ان بے قرار دلوں کی کہانیاں کوئی نہیں لکھتا۔

ان کے گیت گنگنائے نہیں جاتے۔۔ ۔

میں نے امینہ کے سر پر بوسہ دیا اور کنہار کو لے کر گلی کی پچھلی طرف آ گیا۔ جہاں گھوڑا پہلے ہی سے باندھ رکھا تھا۔ لمحوں بعد ہم گھوڑے پر بیٹھے اڑے جا رہے تھے۔ لمحہ لمحہ اپنے گاؤں سے دور۔ میں نے سوچ سمجھ کر پہاڑی کے پیچھے والا راستہ اختیار کیا تھا جو عموماًسنسان رہتا تھا۔ ایک گھنٹے میں ہم لاری اڈے پر پہنچ چکے تھے۔ کوئی بھی لاری اس وقت شہر جانے کو تیار نہیں تھی۔ سب مزید مسافروں کے انتظار میں تھیں۔ ایک چھوٹے سے ٹرک والا دوگنے کرائے کا سن کر راضی ہو گیا۔ تین گھنٹوں بعد اس نے ہمیں بڑے اڈے تک پہنچا دیا۔ یہاں سے شہر کے لئے بس ملنے کا قوی امکان تھا۔ لیکن تیزی سے بڑھتی برفباری نے صورتحال مخدوش کر دی تھی۔ گھبراہٹ الگ طاری تھی۔ حالانکہ ہمارا نکاح ہو چکا تھا۔ ہم میاں بیوی تھے۔ لیکن اس طرح سے چھپ کر نکلنے نے ہم دونوں کو پریشان کر دیا تھا۔ ہم نے ٹرک میں ہی سفر جاری رکھا۔ چار گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم نے شہر سے دو گاؤں پہلے ہی ایک لاری اڈے پر ٹرک چھوڑ دیا۔ میں اپنا کوئی نشان نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ وہاں سے ہمارے اگلے گاؤں جانے والی لاری میں سوار ہوتے ہوتے برف باری تیز ہو چکی تھی۔ اگلے اسٹاپ پر تقریباً سارے ہی مسافر اتر گئے تھے۔ باقی رہ جانے والے دو لڑکوں نے لاری میں ہی رات گزارنے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی اتر کر سڑک کنارے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے کھوکھے سے چائے پی رہے تھے۔ سرد رات گہری ہو رہی تھی۔ لڑکے چائے پینے کے ساتھ ساتھ کھوکھے کے مالک سے گپ شپ کرنے لگے۔

’’شہری مسافر ہو باؤ؟‘‘کھوکھے کے مالک نے مجھ سے پوچھا۔

’’ہاں چاچا‘‘ میں نے چائے ختم کر لی تھی۔ اٹھ کر مالک کے پاس چلا آیا۔

’کہاں جاؤ گے ‘‘آدمی باتونی تھا۔

’’بس اگلے اسٹاپ تک۔ ‘‘میں نے برفباری کو دیکھتے ہوئے قریب کی جگہ کا نام لیا۔

’’لو اگلے اسٹاپ کے لئے تو لاری ابھی پندرہ منٹ پہلے نکل گئی۔ اب تو برف باری بھی تیز ہو گئی۔ سب لاریاں بند‘‘

’’اوہ۔ اچھا‘‘

’’یہاں کوئی مسافر خانہ ہے چاچا۔ ‘‘میں نے ٹرک چھوڑنے میں غلطی کی۔ جب کہ کسی کا پیچھا کرنے کی امید نہیں تھی۔ لیکن میرا ارادہ احتیاطا بالکل خاموشی سے اپنے دوست کے پاس جانے کا تھا۔

’’مسافر خانہ تو نہیں۔ یہاں معلم اسفندیار کا گھر ہے۔ کسی مسافر کو ضرورت ہو وہ اپنے گھر ٹھہرا لیتے ہیں۔ بھلے آدمی ہیں۔ ابھی تمھارے آگے آگے اسی لاری سے اتر کر گھر گئے ہیں۔ یہ ساتھ والی گلی میں پہلا گھر ان کا ہی ہے۔ ‘‘خدا کا نام لے کر میں نے کنہار کا ہاتھ پکڑ کر معلم اسفند یار کے دروازے پر دستک دی۔

٭٭٭

عشق ایک سر بستہ راز ہے جس پر کھلتا ہے اسی پر کھلتا ہے۔۔ کسی دوسرے کے بس میں اس کے اوصاف کا بیان کہاں۔۔ عاشق اپنی جان سے گزر کر اس کی کنہ کو پہنچتے ہیں۔ اس وصل کی کیفیت اور لذت کا علم بس انہی کو ہے۔۔ ۔

معلم اسفند یار کو اپنی کہانی سناتے وقت میں نے ان کی آنکھوں سے محبت کو بہتے دیکھا۔

’’اچھا تو ثمن نے شہہ روز سے طلاق لے لی؟‘‘۔ ‘‘ایک گہری سانس نے کمرے کے ماحول کو یخ بستہ کر دیا تھا۔

’’آپ کیسے جانتے ہیں ان کو؟‘‘میری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔

’’غلام نبی خان صاحب اور ان کے گھر والے کیسے ہیں ؟‘‘انہوں نے سوال کے جواب میں سوال کیا۔

’’غلام نبی چاچا!‘‘میں سامنے چارپائی سے اٹھ کر ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

’’صندل بوڑھے چناروں تلے آپ کی منتظر ہے۔ ‘‘میرا گلا رندھ گیا۔ میں ان کے گھٹنے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

عشق کے نصیب میں غم ہے۔

عشق آزردگی ہے۔۔ رنج ہے۔۔ آنسو ہے۔

محب اس کے گرد طواف کرتا ہے عمر بھر اس کا نام جپتا ہے۔ اسی سے زندگی پاتا ہے۔

معلم اسفند نے اپنے ادھورے بازو میں مجھے سمیٹ لیا۔

’’آؤ!تمھاری محبت کو زندگی دے دیں۔ ‘‘ معلم اسفند کو اپنی کہانی سناتے ہوئے میں ان کی آنکھوں سے بہنے والی محبت کو دیکھا اور حیرت زدہ رہ گیا۔ میں نے ایک چھوٹی فوکسی کرائے پر لے لی۔ برف باری بالکل رک چکی تھی۔

ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر معلم اسفند یار بیٹھے تھے۔ پیچھے میں اور کنہار۔ فوکسی چناروں کے جنگل کی طرف اڑی جا رہی تھی۔ لمبی مسافت کے بعد ہم جنگل میں اتر کر ٹھہر گئے اور معلم اسفندیار نے گاؤں میں جا کر سردار امان اللہ کے دروازے پر دستک دی۔

٭٭٭

امروز اور شہہ روز نے مجھے بھاری پتھر کے ساتھ باندھ کر دریا سے نیچے پھینک دیا تھا۔ جہاں سے مجھے ان مچھیروں کے جال نے نکال لیا۔ بہت دنوں تک بڑی جانفشانی سے وہ میری دیکھ بھال کرتے رہتے۔ لیکن میرے چہرے اور ٹانگ کے زخم بہت خراب ہو گئے تھے۔ ٹانگ میں زہر تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس لئے ان کے ماہر جراح نے میری ٹانگ گھٹنے سے اوپر تک کاٹ دی۔ یوں میری جان بچ گئی۔ شدید برفیلے پانی میں رہنے کی وجہ سے میرا یک ہاتھ بھی مفلوج ہو گیا تھا۔ میرا دل اب واپس گھر جانے کو نہیں چاہتا تھا۔ میں مچھیروں کے ساتھ ہی رہنے لگا۔ ان کے بچوں کو پڑھا دیتا۔ ان کے خط لکھ دیتا۔ پھر ایک روز مچھیروں کی شادی کی تقریب نے مجھے اپنی بہنوں کی یاد میں تڑپا دیا۔ میں گھر چلا گیا۔

بابا کی حالت خراب تھی۔ وہ تو مجھے مردہ تسلیم کر چکے تھے۔ ان کو مجھے زندہ دیکھ کے یقین ہی نہ آتا تھا۔ میری معذوری کو دیکھ کر وہ زیادہ دن جی نہیں پائے۔ میں نے ان کی زندگی میں ثنا اور سجیلہ کی شادی اپنے چچا زاد بھائیوں سے کر دی۔ وہ بہت غریب تھے۔ بابا کا ہوٹل ان کو دے دیا اور اپنا گھر بھی۔ سجیلہ اور ثنا نے جو کچھ بھی جمع کیا تھا ان کے کام آ رہا تھا۔

بابا رخصت ہو گئے۔ میرا دل اب گھر میں نہیں لگتا تھا۔ میں نے امن سے مچھیروں کی بستی منتقل ہونے کی بابت پوچھا تو وہ راضی ہو گئی۔

یوں بھی میں گھر سجیلہ اور ثنا کو دے چکا تھا۔ سو اب وہاں رہنا مناسب نہیں لگتا تھا۔ دونوں بہنوں اور بہنوئیوں کے روکتے روکتے بھی میں امن کے ساتھ مچھیروں اور لکڑ ہاروں کی بستی میں چلا آیا۔ میں تصویریں بنا کر اتنا کما لیتا تھا کہ ہمارا گزارا ہو جاتا تھا کسی نہ کسی طرح۔ ایک ہاتھ کی وجہ مجھے دقت ہوتی لیکن میں ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔ ابھی تو امن کا بیاہ کرنا تھا۔

زندگی سرک ہی رہی تھی اسی طور کہ گھر میں اجنبی مہمان اتر آئے۔ ایسے مہمان کہ سارے کھرنڈ اتر گئے۔ دل کے رستے ہوئے زخموں پر نمک پاشی ہو گئی۔

٭٭٭

کنہار اور شہروز کو میرے ساتھ رہتے ہفتہ ہو رہا تھا۔ وہ مجھے پہچان نہیں سکے تھے۔ دریا میں گرنے سے میں نے صرف اپنا ہاتھ اور ٹانگ نہیں کھوئی تھی میرا چہرہ بھی زخموں سے اٹ گیا تھا۔ جو مندمل ہونے کے باوجود نشان چھوڑ گئے تھے۔ مجھے کوئی پہچان سکتا یہ نا ممکن نہ سہی بہت مشکل ضرور تھا۔ جس دن شہ روز نے اپنی کہانی مجھے سنائی میں صندل کے متعلق پوچھنے سے خود کو روک نہیں سکا۔

غلام نبی خان صاحب کا نام لینا تھا کہ وہ چونک گیا۔ میرے گھٹنے پر دباؤ ڈالتے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔

" آپ معلم اسفند یار۔۔ ۔ ؟"اس کی آواز میں لرزش اور بے یقینی تھی۔

"آہ صندل چناروں تلے آج بھی منتظر ہے۔ اس کی آنکھوں میں انتظار کا موسم آج بھی ساکت ہے۔ "

صندل یہ دنیا چھوڑ گئی تھی۔ اس کے عشق کا یہ اولین تقاضہ تھا۔ میرے مرنے کی خبر سن کر وہ کیونکر جیتی رہ سکتی تھی۔ "

" آہ! میری صندل!‘‘

٭٭٭

’’مجھے بے حد رنج ہے کہ تمھارے معاملے میں ہم سے کوتاہی ہوئی۔ تمھیں انصاف نہ ملا۔ تم بے قصور ہو کر قصور وار کی طرح سزا کا شکار ہوئے۔۔ ۔ ہم سب تم سے اس بات کی معافی مانگتے ہیں۔ ‘‘سردار نے رنجیدگی سے کہا۔

’’بہروز اور امروز تمھارے خطا کار ہیں۔ تم ان کے لئے جو سزا تجویز کرو۔۔ ۔ وہ ان کو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘ابھی سردار کا جملہ مکمل نہ ہوا تھا کہ امروز اور بہہ روز میرے پیروں میں آگرے۔ وہ رو رو کر معافیاں مانگ رہے تھے۔

"مجھے ہرجانہ چاہئے۔ "

"، تم ہماری سب زمینیں اور باغ لے لو۔ "امروز کا باپ بولا۔

’’بس میرے بیٹوں کو معاف کر دو۔ "

"مجھے زمین جائیداد کا کوئی لالچ نہیں۔ میں ایک معلم ہوں۔ دوکاندار نہیں۔ مول بھاؤ کرنا میری سرشت میں نہیں۔ "

"پھر تم کیا ہرجانہ چاہتے ہو۔ "امروز حیرانی سے بولا۔

’’ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پیر کے بدلے پیر، جان کے بدلے جان۔۔ ‘‘ زمین ساکت ہو کر اپنے مدار پر ٹھہر کر انتظار کرنے لگی فیصلے کا۔ فضا میں اڑتے پرندوں نے اپنے پروں کو سمیٹ لیا اور معلق ہو گئے۔

جان کے بدلے جان۔۔ ۔۔

"میں سب معاف کرتا ہوں۔ مجھے اپنی محبت کی امان چاہیے۔ "

"لیکن وہ تو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ "بات ادھوری رہ گئی۔ صندل کا نام لینے کی ہمت کسی ایک کی بھی نہ ہوئی۔

"مجھے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘میں نے سارے مجمعے پر نظر ڈالی۔

"مجھے ہرجانے میں شاذل اور کنہار کی جان کی امان چاہیے۔ "

"شاذل اور کنہار"پنچائیت میں سرگوشیاں بھنبھناہٹ میں بدلیں اور پھر بلند تر ہونے لگیں۔

"وہ تمھارے پاس ہیں ؟ "شاذل کا باپ دھاڑا۔

"سردار میں اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتی معاف کرتا ہوں۔ بس میری شرط ہے کہ شاذل اور کنہار کو امان دی جائے۔ "

"ہم بے غیرت نہیں ہے۔ کنہار کا باپ اٹھ کھڑا ہوا. "اس کے ہاتھ دیواروں پر لٹکی ہوئی بندوقوں کی طرف بڑھے۔ سردار کی ایک للکار نے اسے روک دیا۔

"معلم کے کہنے کی بات ہی نہیں۔ ان دونوں کا نکاح ہو چکا ہے۔ وہ باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ان کو نقصان پہچانے والے کو سخت سزا دی جائے گی۔ "

’’ بہتر ہے کہ دونوں گھرانے اس شادی کو خوشدلی سے قبول کر لیں۔ "میں نے سردار سے بات کر لی تھی چناروں کے جنگل میں موجود شاذل اور کنہار تک سردار کا ہرکارہ پہنچ کر انہیں ساتھ ہی لے آیا تھا۔ دونوں کے گھر والوں کے پاس اس فیصلے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ مجبوراً چپ تھے اور سر نیہوڑائے کھڑے تھے۔

کنہار اور شاذل نے اندر آ کر سردار کے گھٹنوں کو چھوا۔ سر سے پیر تک سیاہ چادر میں چھپی کنہار کے سر پر ہاتھ پھیر کر سردار نے اسے زنانے میں بھیج دیا۔ کنہار کے باپ نے سردار کا اشارہ سمجھ کر شاذل کو گلے لگا لیا۔ اس کے انداز میں کڑواہٹ تھی۔ اس کڑواہٹ کو دور ہونے کے لئے ایک عرصہ درکار تھا۔ فی الحال تو اس بات کا قبول کر لیا جانا ہی بہت تھا۔ اس ساری کاروائی کو آنسوؤں کی دھند کے پیچھے سے دیکھتے ہوئے صندل کے باپ کو لگا جیسے صندل نے ابھی ابھی دم توڑا ہو۔ ابھی بھی اس کی منتظر آنکھیں کھلی ہوں۔ وہ پنچائیت کے اختتام سے پہلے ہی باہر نکل گیا۔

٭٭٭

صبح کاذب کے وقت جب میں نے چناروں تلے ایستادہ تربت کو اپنے بے قرار آنسوؤں سے تر کیا، اس پر جنگلی گلابوں کی پتیاں بکھیر بکھیر کر رویا، اپنے ہاتھوں کی بے بسی اور تڑپ سے کتبے کو چھوا تو دونوں چشموں اور نیلی ندی میں پانی اچھل آیا۔ صندل کی بے قرار جلتی ہوئی منتظر آنکھوں کو محبت نے سہلا کر بند کر دیا تھا۔ گاؤں بھر میں سکون کی ہوا چل پڑی تھی۔

جس روز اسی تربت کے قریب چناروں کے جھنڈ تلے میں نے گاؤں کے بچوں کی کلاس لی اور امن اور بہروز کا نکاح ہوا تو مکئی کے بھٹوں میں دودھ پیدا ہو گیا تھا۔ انار اور آڑو کے پھول لہلہا اٹھے تھے۔ نیلی ندی کو گواہ بنا کر کھائی گئی جھوٹی قسموں کے آسیب نے گاؤں والوں کو آزاد کر دیا تھا۔ گاؤں میں زندگی لوٹ آئی تھی۔

٭٭٭

ماخذ:

https: //www.deedbanmagazine.com/blog/nrwn

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید