جلد اول |
فہرست
حمد.. 4
نعت.... 6
سببِ تصنیف....... 8
مناجات... 23
باب اول.. 26
باب دوم. 61
اس عہد میں دنیا بھر کی عام حالت... 99
باب سوم ۔ پیغمبر آخر الزمان کی ولادت سے قبل کا زمانہ. 111
با ب چہارم. 151
باب پنجم۔ آفتاب ہدایت کا طلوع.. 188
باب ششم..... 261
باب ہفتم... 295
حواشی.. 347
کروں گا موم اک دن پتھروں کو
اگر تاثیر ہے میری زباں میں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمد
اسی کے نام سے آغاز ہے اس شاہنامے کاہمیشہ جس کے در پر سر جھکا رہتا ہے خامے کا
اسی نے ایک حرف کُن سے پیدا کر دیا عالم
کشاکش کی صدائے ہاؤ ہو سے بھر دیا عالم
نظام آسمانی ہے اسی کی حکمرانی میں
بہار جاودانی ہے اسی کی باغبانی میں
اسی کے نور سے پر نور ہیں شمس و قمر تارے
وہی ثابت ہے جس کے گرد پھرتے ہیں یہ سیارے
زمیں پر جلوہ آرا ہیں مظاہر اس کی قدرت کے
بچھائے ہیں اسی داتا نے دسترخوان نعمت کے
یہ سرد و گرم خشک و تر اجالا اور تاریکی
نظر آتی ہے سب میں شان اسی اک ذات باری کی
وہی ہے کائنات اور اس کی مخلوقات کا خالق
نباتات و جمالات اور حیوانات کا خالق
وہی خالق ہے دل کا اور دل کے نیک ارادوں کا
وہی مالک ہمارا ہے اور ہمارے باپ دادوں کا
بشر کو فطرت اسلام پر پیدا کیا جس نے
محمد مصطفیٰؐ کے نام پر شیدا کیا جس نے
نعت
محمد مصطفیٰ محبوبِ داور سرورِ عالموہ جس کے دم سے مسجودِ ملائک بن گیا آدم
کیا ساجد کو شیدا جس نے مسجودِ حقیقی پر
جھکایا عبد کو درگاہِ معبودِ حقیقی پر
دلائے حق پرستوں کو حقوقِ زندگی جس نے
کیا باطل کو غرقِ موجۂ شرمندگی جس نے
غلاموں کو سریرِ سلطنت پر جس نے بٹھلایا
یتیموں کے سروں پر کر دیا اقبال کا سایا
گداؤں کو شہنشاہی کے قابل کر دیا جس نے
غرورِ نسل کا افسون باطل کر دیا جس نے
وہ جس نے تخت اوندھے کر دئے شاہان جابر کے
بڑھائے مرتبے دنیا میں ہر انسان صابر کے
دلایا جس نے حق انسان کو عالی تباری کا
شکستہ کر دیا ٹھوکر سے بت سرمایہ داری کا
محمد مصطفیٰؐ مہرِ سپرِ اَوجِ عرفانی
ملی جس کے سبب تاریک ذروں کو درخشانی
وہ جس کا ذکر ہوتا ہے زمینوں آسمانوں میں
فرشتوں کی دعاؤں میں موذن کی اذانوں میں
وہ جس کے معجزے نے نظم ہستی کو سنوارا ہے
جو بے یاروں کا یارا بے سہاروں کا سہارا ہے
وہ نورِ لَم یزل جو باعث تخلیقِ عالم ہے
خدا کے بعد جس کا اِ سمِ اعظم اِ سم اعظم ہے
ثنا خواں جس کا قرآن ہے ثنا میں جس کی قرآن میں
اسی پر میرا ایماں ہے وہی ہے میرا ایماں میں
سببِ تصنیف
اسی کے اِ سم اعظم سے بڑھی جرأت مرے دل کیکہ میں نے ڈال دی بنیاد ایسے کارِ مشکل کی
تمنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام کر جاؤں
اگر کچھ ہو سکے تو خدمت اسلام کر جاؤں
مسلمانوں پہ ہے مردہ دلی چھائی ہوئی ہر سو
سکوتِ مرگ نے چادر ہے پھیلائی ہوئی ہر سو
عزیمت ہے نہ جرات ہے نہ ہے تاب و تواں باقی
فقط حسرت سے تکنے کے لئے آسماں باقی
نظر آتے ہیں اب وہ صف شکن بازو نا شمشیریں
مقدر کی طرح سوئی پڑی ہیں آج تکبیریں
گئی دنیا ہے آقائی محمدؐ کے غلاموں کی
بھلا بیٹھے ہیں یاد اپنے سلف کے کارناموں کی
ارادہ ہے کہ پھر ان کا لہُو اِ ک بار گرماؤں
دلِ سنگیں سخن کے آتشیں تیروں سے برماؤں
سناؤں ان کو ایسے ولولہ انگیز افسانے
کرے تائید جن کی عقل بھی تاریخ بھی مانے
کیا فردوسی مرحُوم نے ایران کو زندہ
خُدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ
عجم کا شاہنامہ بس وہ فردوسی کا حصہ تھا
تخیل ہی کا ہنگامہ تھا یعنی ایک قصہ تھا
مگر اس کی زباں اس کا بیاں اعجاز ہے گویا
کہاں کی رستمی وہ خود ہی تیر انداز ہے گویا
تقابل کا کروں دعویٰ یہ طاقت ہے کہاں میری
تخیل میرا ناقص نامکمل ہے زباں میری
زبان پہلوی کی ہم زبانی ہو نہیں سکتی
ابھی اردو میں پیدا وہ روانی ہو نہیں سکتی
نجیف و ناتوں بے علم و بے مقدور ہستی ہوں
غم و اندوہ جس میں بس رہے ہیں میں وہ بستی ہوں
کہاں ہے اب وہ دور غزنوی کی فارغ البالی
غلامی نے دبا رکھی ہے میری ہمتِ عالی
مگر سینے میں دل رکھتا ہوں جس میں جوشِ غیرت ہے
سراسر راکھ ہے لیکن ابھی تک پُر حرارت ہے
کیا ہے روح کو زندہ مدینے کی ہواؤں نے
جگایا خواب سے احساس کی غیبی نداؤںنے
نوید صُبح بخشی ہے سکوتِ شام نے مجھ کو
مخاطب کر لیا ہے قوتِ الہام نے مجھ کو
بظاہر میں جو تصویر سُخن میں رنگ بھرتا ہوں
کسی آواز کے ارشاد کی تعمیل کرتا ہوں
مشکلات
رہا سینے میں چھپ کر فرض کا احساس برسوں تکرہی اس راستے میں سنگ بن کر یاس برسوں تک
وسائل ڈھونڈتا پھرتا رہا ہوں کام کرنے کے
کشائش کو حریف گردش ایام کرنے کے
غریبوں میں نظر آیا مجھے منظر تباہی کا
امیروں نے روا رکھا طریقہ کم نگاہی کا
تمنا تھی اگر مل جائے کوئی غزنوی مجھ کو
ذرا آرام سے رہنے دے فکر زندگی مجھ کو
تو اس آغاز کو انجام کی منزل پہ لے جاؤں
جہازِ آرزو مقصود کے ساحل پہ لے جاؤں
مزرا قطب الدین ایبک1
انہی افکار میں بیٹھا تھا میں اک دن جھکائے سردر آرام گاہِ شاہِ قطب الدین ایبک پر
وہ قطب الدین وہ مرد مجاہد جس کی ہیبت سے
یہ دنیا از سر نو جاگ اُٹھی تھی خوابِ غفلت سے
اکھاڑیں ہند سے جس نے ستمگاری کی بنیادیں
رکھیں ہر دل میں انسانی رواداری کی بنیادیں
وہ جس کی جراتِ بیباک سے سفاک ڈرتے تھے
وہ جس کے بازوؤں کی دھاک سے افلاک ڈرتے تھے
وہ قطب الدین جس کے دامنِ تسخیر کا سایا
قُلوبِ راجگانِ ہند کو دامن میں لے آیا
لکھی ہے ذرے ذرے کی جبیں پر داستاں جس کی
ہے سُرخی داستانِ فاتحِ ہندوستاں جس کی
وہ جس کی ذات پر لفظِ غلامی ناز کرتا تھا
ترقی کا تخیل عرش تک پرواز کرتا تھا
لئے بیٹھی ہے دہلی قلب میں نقشِ نگیں جس کا
لقب تاریخ میں ہے تاجدارِ اولیں جس کا
یہاں لاہور میں سوتا ہے اک گمنام کُوچے میں
پڑی ہے یاد گارِ دولتِ اسلام کوچے میں
نجس ، ناپاک کوچہ جس میں کوئی بھی نہیں جاتا
وہاں سویا ہوا ہے مسندِ دہلی کا لَکھ داتا2
یہ تربت ماتمی ہے اُن حجازی شہسواروں کی3
مسلمانوں نے مٹی بیچ لی جن کے مزاروں کی
یہاں تک ابرِ باراں کی رسائی ہو نہیں سکتی
گھٹا روتی ہوئی آتی ہے لیکن رو نہیں سکتی
شعاعوں سے یہاں خورشید دامن بھر نہیں سکتا
فلک اس پر ستاروں کو نچھاور کر نہیں سکتا
یہ تُربت چادر میتاب سے محروم رہتی ہے
نگاہوں سے چھپی رہتی ہے نامعلوم رہتی ہے
یہاں سہرے کہاں ، کیا ذکر پھولوں کے چڑھاوے کا
کوئی ساماں نہیں ہے اہلِ ظاہر کے دکھاوے کا
نہ پڑھتا ہے یہاں پر فاتحہ کوئی نہ روتا ہے
کسے معلوم ہے اس چھت کے نیچے کون سوتا ہے
ادھر لاہور کی دنیا کا ایماں سوز نظارا
جہاں تہذیبِ نو پھرتی ہے بازاروں میں آوارہ
ادھر اک تُربتِ خاموش کا اندوہگیں منظر
الم انگیز، حسرت خیز عبرت آفریں منظر
نہیں ہے چار گز ٹکڑا زمیں کا جس کی قسمت میں
یہ تربت آسماں رفعت ہے میری چشم عبرت میں
میں اکثر شہر کے پر شور ہنگاموں سے اُکتا کر
سکوں کی جستجو میں بیٹھ جاتا ہوں یہاں آ کر
مرے نزدیک اس تربت سے اب بھی شان پیدا ہے
مزار مردِ غازی سے عجب ایمان پیدا ہے
یہاں آتے ہی مجھ پر غلبہ احساس ہوتا ہے
کسے معلوم دل اس وقت کس کے پاس ہوتا ہے
یہاں میں حال کو ماضی کے دریا میں ڈبوتا ہوں
تصور کے طفیل اک اور ہی دنیا میں ہوتا ہوں
تخیل مجھ کو لے جاتا ہے اک پر ہول میداں میں
جہاں باہم بپا ہوتی ہے جنگ انبوہِ انساں میں
نظر آتا ہے لہراتا ہوا اسلام کا جھنڈا
بہر سو نور پھیلاتا ہوا اسلام کا جھنڈا
مقابل میں گھٹائیں دیکھتا ہوں فوج باطِ ل کی
نظر آتی ہے فرعونی خُدائی اوج باطِ ل کی
حق و باطل کی آویزش کا منظر دیکھتا ہوں میں
نظر آتی ہیں تلواریں مجھے سر دیکھتا ہوں میں
صدائیں نعرہ ہائے جنگ کی آتی ہیں کانوں میں
بلند آہنگ تکبیریں سما جاتی ہیں کانوں میں
نظر آتے ہیں مجھکو سرخرو چہرے شہیدوں کے
لہو کی ندیاں کھلتے ہوئے گلشن امیدوں کے
عَلم کے سائے میں سلطان غازی کا بڑھے جانا
سرِ دشمن پہ افواج حجازی کا چڑھے جانا
وہ حملہ آوروں کی خون کے دریا میں غرقابی
وہ باطل کی شکست فاش وہ حق کی ظفر یابی
وہ امن و صلح سے معمور ہو جانا فضاؤں کا
زمانے بھر کے سر سے دور ہو جانا بلاؤں کا
یہ سب کچھ دیکھتا ہوں میں تصور کی نگاہوں سے
ملاقاتیں ہوا کرتی ہیں غازی بادشاہوں سے
مجھے محسوس ہوتا ہے مجاہد مرد میں بھی ہوں
پرانے لشکر اسلام کا اک فرد میں بھی ہوں
شہادت کے رجز پڑھتا ہوں میدانِ شہادت میں
رجز پڑھتا ہوا بڑھتا ہوں میدانِ شہادت میں
عظیم الشان ہوتا ہے یہ منظر پاکبازی کا
شہیدوں کی خموشی غلغلہ مردانِ غازی کا
مرا جی چاہتا ہے اب نہ اپنے آپ میں آؤں
اسی آزاد دنیا کی فضا میں جذب ہو جاؤں
سکوں کی راہ میں حائل ہے جب تک گردشِ گردوں
قلم سے کام لینے کا ارادہ ملتوی کر دوں
ضمیر کی آواز
تصور ہی میں اک دن میرے پہلو سے ندا آئیکہ او بھولے ہوئے عہد گذشتہ کے تماشائی
تیرا طرز تصور اک طرح کی بت پرستی ہے
یہ مجبوری نہیں کم ہمتی کوہ تاہ دستی ہے
نظر آ جائے جس کو منزل مقصود کا رستہ
رہے پھر بھی وہ زنجیر تامل ہی میں پا بستہ!
یہی تو صبح محتاجی یہی شام غریبی ہے
کسی کے آسرے پر بیٹھ رہنا بدنصیبی ہے
یہ دنیاوی وسائل کی طلب بھی کوئی حیلہ ہے ؟
خدا پر رکھ نظر غافل خدا تیرا وسیلہ ہے
یہ غفلت کیوں ہے اے خاموش عزلت کے سودائی
ملا ہے درگہ حق سے تجھے سامان گویائی
قلم سے زندہ کر سکتا ہے تو ان کارناموںکو
سنا سکتا ہے پھر پیغام آزادی غلاموں کو
نہ شاہوں سے توقع رکھ نہ دنیاوی امیروں سے
عظیم الشان ہے یہ کام نکلے گا فقیروں سے
عوام الناس میں ہنگامہ احساس پیدا کر
دلوں کو ازسر نو حسن حریت پہ شیدا کر
اٹھے نام خدا جب بت شکن بن کر قدم تیرا
ہزاروں غزنوی پیدا کرے زورِ قلم تیرا
مسلمانوں کے دل میں شعلہ غیرت کو بھڑکا دے
نہیب رعد بن کر کفر کی غیرت کو دھڑکا دے
بتا دے فرشیوں کو عرش کا پیغام زندہ ہے
وہی ایمان قائم ہے وہی اسلام زندہ ہے
وہی اسلام جو راہ نجاتِ ابن آدم ہے
وہی اسلام جو رمز حیاتِ اہلِ عالم ہے
وہی اسلام یعنی عدل کا قانون پائندہ
وہی اسلام یعنی علم کا مضمون تابندہ
وہی اسلام جو بھٹکے ہوؤں کو راہ پر لایا
کیا جس نے گنہ گاروں کے سر پر عفو کا سایا
وہی اسلام بخشی جس نے مجبوروں کو مختاری
اخوت سے بدل دی جس نے خوئے مردم آزاری
وہی اسلام جس نے زیر دستوں کی حمایت کی
وہی اسلام جس نے کاٹ دی جڑ ظلم و بدعت کی
وہی اسلام جس نے بادشاہی دی غلاموں کو
وہ اب بھی زندہ کر سکتا ہے اپنے کارناموں کو
تیری دشواریوں کو بھی وہی آسان کر دے گا
امیدوکامرانی سے تیرے دامن کو بھر دے گا
اگر اسلام کے فرزند پھر آمادہ ہو جائیں
مٹا دیں تفرقے توحید کے دلدادہ ہو جائیں
تو سب کچھ آج بھی ان کا ہے زیر چرخ مینائی
در حق کی غلامی میں ہے دنیا بھرکی آقائی
اٹھا خامہ اٹھا ہمت کو مصروف عمل کر دے
پہاڑوں کی طرح اپنے ارادوں کو اٹل کر دے
خدا و مصطفیٰ کا نام لے اور کام کرتا جا
مبارک ہے یہ خدمت ، خدمت اسلام کرتا جا
یہی در ہے جہاں شاہانِ دنیا سر جھکاتے ہیں
سوالی بن کے آتے ہیں ، مرادیں لے کے جاتے ہیں
اسی گلشن میں تیرا غنچہ اُمید کھلنا ہے
اسی درگاہ سے مل جائے گا جو تجھ کو ملنا ہے
دو عالم میں رسول پاکؐ تیری لاج رکھیں گے
جہانِ بے نیازی کا ترے سر تاج رکھیں گے
مبارک ہو تیرے آغاز کا انجام ہو جانا
مبارک ہو تجھے فردوسی اسلام ہو جانا
مناجات
الٰہی انتہائے عجز کا اقرار کرتا ہوں
خطا و سہو کا پتلا ہوں استغفار کرتا ہوں
ہوائے شوق کی ہر موج طوفانی رہی اب تک
مری کشتی غریق بحر نادانی رہی اب تک
اگرچہ روح میں اک شور محشر خیز لایا تھا
اگرچہ شیشہ دل درد سے لبریز لایا تھا
رہی لیکن سکوں میں زندگی کی جستجو مجھ کو
دماغ خام نے رکھا شہید رنگ و بو مجھ کو
مری تسکین و راحت تھی جہان نغمہ و گل میں
سمجھتا تھا کہ ہے فردوس گوش آواز بلبل میں
اگرچہ روح میں موجود تھی لہروںکی طغیانی
رہا شرمندہ ساحل مرا ذوقِ تن آسانی
میں سمجھا تھا سکونِ خواب کو سامان بیداری
مری نا تجربہ کاری ! مری نا تجربہ کاری !
یہ تیرا فضل ہے بیشک کہ اب تک زندہ ہوں یا رب
گذشتہ زندگانی پر بہت شرمندہ ہوں یا رب
ترے لطف و کرم نے آج میری رہنمائی کی
مری پستی نے اٹھ کر بام ہستی تک رسائی کی
کہاں ہے قسمت خوابیدہ میں یہ کیف بیداری
نشاط زندگی کا چشمہ نکلی شعلہ رفتاری
پہاڑوں میں جہاں بہتی ہے آب تُند کی دھارا
مری آنکھوں نے دیکھا آج وہ پُر جوش نظارا
نظر آئیں مجھے اٹھتی ہوئی بڑھتی ہوئی موجیں
وفور جوش میں موجوں کے سر چڑھتی ہوئی موجیں
مجھے توفیق دے ان گرم رو موجوں سے مل جاؤں
مرا مقصد یہ ہے اسلام کی فوجوں سے مل جاؤں
روانی سے مبدل ہو چکی افتادگی میری
اسی میدان کی جانب ہے اب آمادگی میری
وہی میدان جس میں گونجتی ہیں زندہ تکبیریں
جہاں مرقوم شمشیروں پہ ہیں پائندہ تقدیریں
وہی میدان یعنی آخری منزل عبادت کی
جہاں بکھری پڑی ہے خاک پر دولت شہادت کی
قلم ہی تک نہ رکھ محدود یارب ولولہ میرا
بڑھا دے حوصلہ میرا ، بڑھا دے حوصلہ میرا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انی جاعل فی الارض خلیفۃ
باب اول
خلافت انسانی ، اور کائنات کے اندیشے
خُدا نے حضرتِ آدمؑ کو دنیا کی خلافت دی
جہاں میں اپنا نائب کر کے بھیجا یہ سعادت دی
یہی مخلوق تھی فردوس سے جس کو نکالا تھا
اسی نے دانہ گندم پہ سب کچھ بیچ ڈالا تھا
بظاہر اس تقرر سے نئے فتنوں کے ساماں تھے
زمین و آسماں جن ملائک سخت حیراں تھے
لگے سرگوشیاں کرنے کہ انساں ہے بہت سادہ
ادھر شیطان کا لشکر شرارت پر ہے آمادہ
یہ بیچارہ دوبارہ دامِ شیطاں میں نا آ جائے
کہ دانہ کھا چکا ہے اب کہیں دھوکہ نا کھا جائے
صدائے روح الامین
دلِ مخلوق میں یوں راہ اندیشے نے جب پائی
تسلی کے لئے فورا ندا جبریلؑ کی آئی
کہ اے طاعت گزارو ذات باری کے پرستارو
بنام حضرتِ حق امن و راحت کے طلبگارو
نگاہ غور سے دیکھو ذرا آدم کی پیشانی
نظر آتی نہیں کیا ایک خاص الخاص تابانی ؟
یہی جلوہ ہے تخلیقِ جہاں کی علت غائی
اسی کی روشنی ہے دیدہ ہستی کی بینائی
یہی جلوہ ہے پہلے جس کو سجدہ کر چکے ہو تم
اسی نعمت سے دامانِ بصیرت بھر چکے ہو تم
ہوا ابلیس اسی کے سامنے جھکنے سے انکاری
یہی تھا امتیاز آدم کا جس سے جل گیا ناری
اسی سے دشمنی رکھنے کی کھائی ہے قسم اس نے
عبودیت کی چادر سے نکالا ہے قدم اس نے
اسی کی ضد پہ اس باغی کو ہیں ارمان شاہی کے
گیا ہے لے کے دنیا میں وہ منصوبے تباہی کے
مشیت ہے کہ اب طاقت کا وہ بھی امتحاں کر لے
مشیت کے مقابل خبثِ باطِ ن کو عیاں کر لے
یہ ظاہر ہے کہ شیطاں اب بڑی طاقت دکھائے گا
زمانے میں قیامت ڈھائے گا فتنے اٹھائے گا
یہ سچ ہے مدتوں اولاد آدم راہ بھولے گی
وہاں ابلیس کی کھیتی پھلے گی اور پھولے گی
وہ دن بھی آئے گا جب آخری اک سامنا ہو گا
حق و باطل میں گویا فیصلہ کن معرکہ ہو گا
مشیت ہے کہ آدم ہی کرے گا اس کو پست آخر
یہی اقبالِ پیشانی اسے دے گا شکست آخر
یہی وہ نور ہے جس سے زمانہ جگمگائے گا
یہی آدم کا رتبہ عرش اعظم تک اٹھائے گا
ملے ابلیس سے کتنی ہی قوت اہل ظلمت کو
بجھا سکتا نہیں کوئی مگر شمع ہدایت کو
یہ جلوہ دم بہ دم دنیا کو راہ حق دکھائے گا
یہی رہبر ہر اک گمراہ کو منزل پہ لائے گا
مسلسل منتقل ہوتا رہے گا نیک بندوں میں
خدا کے مُرسلوں پیغمبروں میں حق پسندوں میں
نشان اسلام کا اللہ نے عالم میں رکھا ہے
کہ نورِ احمدیؐ پیشانی آدم میں رکھا ہے
اسی کی بندگی ہے خاکیوں کے ناز کا باعث
اسی کا عکس ہے مٹی میں ہر اعجاز کا باعث
مقدر ہے اسی کو آخری پیغامِ دیں ہونا
مقدر ہے اسی کو رحمۃ للعٰلمینؐ ہونا !
عجب نغمہ تھا یہ جس سے زمین و آسماں گونجے
صدا اللہ اکبر کی اٹھی کون و مکاں گونجے
مشیت نے رخ امید سے پردہ جو سر کایا
سمجھ میں نوریوں کے آیہ لا تفنطوا آیا
زمانہ ہو گیا شاداں ندا جبریلؑ کی سن کر
زمین و آسماں جن و ملائک نے جھکایا سر
ترانے حمد باری کے ہوئے جاری زبانوں پر
درود و نعت نغمہ بن کے گونجے آسمانوں پر
فرشتے شان احمدؐ دیکھنے کو صبر کھو بیٹھے
زمیں پر جھک پڑے تارے ہمہ تن چشم ہو بیٹھے
افزائش نسل آدم اور ابلیس کا مکر و فریب
کیا تہذیب کا آغاز آدمؑ اور حوا نے
رکھی بنیاد سوز و ساز آدمؑ اور حوا نے
زمینیں جوت کر دنیا میں جنت کی بنا ڈالی
بڑی خوبی سے انسانی خلافت کی بنا ڈالی
ہوا شیطان بھی مشغول مکاری کے دھندوں میں
مگر اللہ کے بندے نہ آئے اس کے پھندوں میں
زمیں پر پھولنے پھلنے لگی اولاد آدم کی
لگے شوکت بڑھانے خوب آدم زاد آدم کی
یہ نقشہ دیکھ کر ابلیس اپنے دل میں گھبرایا
حسد بن کر دِ ل فرزندِ آدم میں اتر آیا
لڑائی ٹھن گئی نیکی بدی کی خانہ دل میں
یہ پہلی جنگ تھی روئے زمیں حق و باطل میں
ہوا شیطاں کا تابع اول اول نفسِ امارہ
کہ عورت کے لئے قابیل نے ہابیل کو مارا
یہ پہلا واقعہ تھا قتل کا دنیائے ہستی میں
جنم پایا گنہ نے اس طرح انساں کی بستی میں
زمیں پر رفتہ رفتہ بڑھ چلی جب نسل انساں کی
حسد کا چل گیا جادو بن آئی خوب شیطاں کی
خود انسانوں کی لشکر آ گئے ابلیس کے ڈھب پر
ہَوَا و حِ رص کا افسُوں مسلط ہو گیا سب پر
بدی نے چار سو کچھ اس طرح پھیلائی گمراہی
کہ آئی قبضہ ابلیس میں انسان کی شاہی
وبائے شرک پھیلی چار سو دنیائے انساں میں
نہ کوئی فرق رکھا اَہرمَن میں اور یزداں میں
اٹھایا اس طرح شیطاں نے فتنہ خود ستائی کا
معاذاللہ ، بندوں نے کیا دعویٰ خدائی کا
حسد کے لشکروں نے روند ڈالا باغِ عالم کو
بزعم خود مسخر کر لیا اولادِ آدم کو
زمیں کا بادشہ گویا یہی مردُود بن بیٹھا
کہیں شداد بن بیٹھا کہیں نمرود بن بیٹھا
نتیجہ کیا ملا دنیا کو انسانی خلافت سے
زمیں کا گوشہ گوشہ ہو گیا آلودہ ذلت سے
فرشتے دم بخود تھے آسمانوں کو بھی سکتہ تھا
ترس آتا تھا لیکن کوئی بھی کچھ کر نہ سکتا تھا
ستارے منتظر تھے خواب کی تعبیر روشن کے
کہ دیکھیں دن پھریں کس روز اس برباد گلشن کے
نور احمدیؐ
وہ نور احمدیؐ جس سے شرف تھا روئے آدم کا
ہدایت کے لئے تاریکیوں میں پے بہ پے چمکا
جنابِ شیثؑ کا روئے مبارک اس سے روشن تھا
یہی ادریسؑ کی لوح جبیں پر جلوہ افگن تھا
اسی کے دم سے مرسل کا شرف تھا نوع انساں میں
یہی قبلہ نما تھا نوحؑ کے بیڑے کا طوفاں میں
اسی نے غرق ہونے سے بچائی کشتی ہستی
ہوئی آباد اسی کے دم سے پھر اجڑی ہوئی بستی
اشارہ تھا اسی جانب صحیفوں کی بشارت کا
اسی سے سلسلہ جاری رہا رشد ہدایت کا
بڑے طوفان کے بعد آدمی ڈرتا رہا برسوں
ترقی کے لئے ذکرِ خدا کرتا رہا برسوں !
عروجِ زندگی حاصل کیا جب نسلِ انساں نے
وہی پھندے ہوا و حرص کے پھیلائے شیطاں نے
شراب اس مرتبہ ایسی پلائی بے وفائی کی
کہ مٹی اور پتھر کے بتوں نے بھی خُدائی کی
جہاں پر قہر ڈھایا بادشاہوں نے خُدا بن کر
وبالِ بت پرستی چار سو پھیلا وبا بن کر
ابراہیم خلیل اللہ
کیا نمرود نے بابل میں جب دعویٰ خُدائی کا
جہاں میں عام شیوہ ہو گیا جب خُود ستائی کا
اندھیرا ہی اندھیرا کُفر نے ہر سمت پھیلایا
تو ابراہیمؑ کو اللہ نے مبعوث فرمایا
مٹا ڈالے بتوں کو توڑ کر اوہام مرسل نے
دیا بندوں کو پھر اللہ کا پیغام مرسل نے
کیا شیطان کو رسوا عدوئے جان و دیں کہہ کر
کیا سینوں کو روشن لَا اُ حِ بُ الٰافِ لِ ین کہہ کر
مگر نمرود کو بھائیں نہ یہ باتیں بھلائی کی
کہ مسند چھوڑنی پڑتی تھی کافر کو خدائی کی
ہوا یہ بندہ شیطاں خلیلؑ اللہ کا دشمن
چراغ حق بجھانے کو کیا آتشکدہ روشن
خلیلؑ اللہ کو اس نے بھڑکتی نار میں ڈالا
مگر اللہ نے نمرود کا منہ کر دیا کالا
بروئے کار آیا آج پھر وہ نور پیشانی
ہوئی آگ اک پل میں کوثر و تسنیم کا پانی
حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کی ہجرت
ہوئی یہ آتش نمرود تختہ باغ جنت کا
ہوا الہام ابراہیمؑ کو بابل سے ہجرت کا
کہ یہ بھی خدمت تبلیغ کا اک پاک حیلہ ہے
سفر کہتے ہیں جس کو کامرانی کا وسیلہ ہے
مشیت تھی کہ ابراہیمؑ سے کچھ کام لینا تھا
انہی ہاتھوں سے بھر کر معرفت کے جام دینا تھا
وطن کو چھوڑ کر نکلا خدائے پاک کا پیارا
برادر زادہ تھا ہمراہ یا تھیں حضرتِ ساراؓ
اندھیری شب کے دامن سے مہِ تاباں نکل آیا
بحکمِ حق تعالیٰ جانبِ کنعاں نکل آیا
یہاں وعدہ کیا حق نے کہ ہاں اے بندہِ ذیشاں
تری اولاد کی قسمت میں ہے یہ خطۂ کنعاں
مقدر ہو گئی اولاد میں دارین کی شاہی
تو پیغمبر دیار مصر کی جانب ہوا راہی
یہ ایسا دور تھا انسان سب کافر ہی کافر تھے
زمیں آباد تھی اللہ کے بندے مسافر تھے
حضرت ابراہیمؑ کا عقد ثانی فرعون کی بیٹی حضرت ہاجرہؓ سے
دیارِ مصر پر اس عہد میں رقیون حاکم تھا4
تکلف برطرف شیطان کا قانون حاکم تھا
یہاں رقیون نے حضرت کی زوجہ چھیننا چاہی5
مگر دے دی اسے اللہ نے فی الفور آگاہی
کہ یہ ساراؓ ہے ابراہیمؑ حق آگاہ کی بیوی
خدا کے پاک پیغمبر خلیلؑ اللہ کی بیوی
اگر نیت میں فرق آیا ترے حق میں برا ہو گا
نشاں دنیا میں تیرا اور نہ تیری نسل کا ہو گا
ہوا فرعون خائف ایک پیغمبرؑ کے آنے سے
خُدائی کر رہا تھا مصر میں وہ اک زمانے سے
تھی اس کے گھر میں اک دختر وہ کر دی ساتھ سارہؓ کے
پیغمبرؑ کے لئے یوں نذر بھیجی ہاتھ سارہؓ کے
پلٹ آیا پیغمبرؑ پھر یہاں سے جانب کنعاں
یہ لڑکی ہاجرہؓ بھی ساتھ تھی وابستہ داماں
یہ لڑکی ہر طرح مانند سارہؓ پاک طینت تھی
تقدس اس کا زیور تھا شرافت اس کی زینت تھی
اسے ساراؓ نے پیغمبرؓ کی زوجیت میں دے ڈالا
کہ ہونے والا تھا دنیا میں اس کا مرتبہ بالا
حضرت اسمٰعیلؑ کی ولادت، ماں بیٹے کی ہجرت
جنابِ ہاجرہؓ تھیں زوجۂ ثانی پیمبرؓ کی
ملا فرزند اسمٰعیلؑ انہیں خوبی مقدر کی
ہوا ساراؓ کو رشک اس امر سے دل میں ملال آیا
نکل جائے یہاں سے ہاجرہؓ بس یہ خیال آیا6
مشیت کو ادھر کچھ اور ہی منظورِ خاطر تھا
کہ نورِ احمدیؐ بچے کی پیشانی سے ظاہر تھا
ہوا ارشاد دونوں کو عرب کی سمت لے جاؤ
خدا کے آسرے پر وادی بطحا میں چھوڑ آؤ
خدا کے حکم سے مرسل نے جب رخت سفر باندھا
جناب ہاجرہؓ نے دوش پر لخت جگر باندھا
پیمبرؑ اپنا بیٹا اور بیوی ہمعناں لے کر
چلا سوئے عرب پیری میں بختِ نوجواں لے کر
خدا کا قافلہ جو مشتمل تھا تین جانوں پر
معزز جس کو ہونا تھا زمینوں آسمانوں پر
چلا جاتا تھا اس تپتے ہوئے صحرا کے سینے پر
جہاں دیتا ہے انساں موت کو ترجیح جینے پر
وہ صحرا جس کا سینہ آتشیں کرنوں کی بستی ہے
وہ مٹی جو سدا پانی کی صورت کو ترستی ہے
وہ صحرا جس کی وسعت دیکھنے سے ہول آتا ہے
وہ نقشہ جس کی صورت سے فلک بھی کانپ جاتا ہے
جہاں اک اک قدم پر سو طرح جانوں پر آفت تھی
یہ چھوٹی سی جماعت بس وہیں گرمِ مسافت تھی
پیمبرؑ زوجہ و فرزند یوں قطعِ سفر کرتے
خدا کے حکم پر لبیک کہتے اور دکھ بھرتے
بالآخر چلتے چلتے آخری منزل پر آ ٹھہرے
پئے آرام زیر دامنِ کوہ صفا ٹھہرے
یہ وادی جس میں وحشت بھی قدم دھرتی تھی ڈر ڈر کے
جہاں پھرتے تھے آوارہ تھپیڑے بادِ صر صر کے
یہ وادی جو بظاہر ساری دنیا سے نرالی تھی
یہی اک روز دین حق کا مرکز بننے والی تھی
یہ وادی جس میں سبزہ تھا نہ پانی تھانہ سایا تھا
اسے آباد کردینے کو ابراہیمؑ آیا تھا
یہیں ننھے سے اسمٰعیلؑ کو لا کر بسانا تھا
یہیں پر نور سجدوں سے خدا کا گھر بسانا تھا
حضرت ابراہیمؑ کی دعا
سحر کے وقت ابراہیمؑ نے اٹھ کر دعا مانگی 7
سکون قلب مانگا خوئے تسلیم و رضا مانگی
کہ اے مالک عمل کو تابعِ ارشاد کرتا ہوں
میں بیوی اور بچے کو یہاں آباد کرتا ہوں
اسی سنسان وادی میں انہیں روزی کا ساماں دے
اسی بے برگ و سامانی میں شانِ صد بہاراں دے
الٰہی نسل اسمٰعیلؑ بڑھ کر قوم ہو جائے
یہ قوم اک روز پابندِ صلوۃ و صوم ہو جائے
اسی وادی میں تیرا ہادیؐ موعود ہو پیدا
کرے جو فطرتِ انسان کو تیرے نام پر شیدا
بشارت تیری سچی ہے ترا وعدہ بھی سچا ہے
بس اب تو ہی محافظ لے یہ بیوی اور بچہ ہے
وادی غیر ذی زرع میں ماں بیٹے کی تنہائی
پیمبرؑ نے دعا کے بعد اس وادی سے رخ موڑا
جناب ہاجرہؓ کو اور بچے کو یہیں چھوڑا
جناب ہاجرہؓ بیٹھیں تھیں اس صحرائے وحشت میں
سنبھالے طفل عالیشان کو آغوش الفت میں
یہاں صحرا ہی صحرا تھا چٹانیں ہی چٹانیں تھیں
جناب ہاجرہؓ یا ایک بچہ دو ہی جانیں تھیں
نہ دانہ تھا نہ پانی تھا بھروسہ تھا فقط رب پر
بڑھی جب دھوپ کی گرمی تو جان آنے لگی لب پر
زمیں کا ذرہ ذرہ مہر کی صورت چمکتا تھا
بہت بیتاب تھی ماں گود میں بچہ بلکتا تھا
عطش سے کرب و بے چینی جو دیکھی اپنے جائے میں
لٹایا خاک پر بچے کو ایک پتھر کے سائے میں
صفا و مروہ پر ہر سو تلاش آب میں ڈوریں
بلند و پست پر فکر شے نایاب میں ڈوریں
کبھی اس سمت جاتی تھیں کبھی اس سمت جاتیں تھی 8
خیال آتا تھا بچے کا تو فوراَ لوٹ آتیں تھیں
تڑپتے دیکھ کر بچے کو بڑھ جاتی تھی بے تابی
ٹپک پڑتی تھی اشک یاس سے پانی کی نایابی
بہت ڈھونڈا نہ کچھ آثار پانی کے نظر آئے
جدھر اٹھی نظر جھلسے ہوئے ٹیلے نظر آئے
یوں ہی بس سات بار آئیں گئیں پانی نہیں پایا
چٹانیں سرخ پائیں دشت شعلہ آفریں پایا
قیامت کی گھڑی تھی پڑ گئے تھے پاؤں میں چھالے
چلی جائی تھیں آنکھیں آب میں بچے میں دل ڈالے
سنی آواز ننھے کے بلکنے اور رونے کی
تڑپ اٹھیں کہ ساعت آ گئی ہے جان کھونے کی
پلٹ آئیں تو دیکھا دور سے ننھا تڑپتا ہے
کہ جس پتھر کے سائے میں لٹایا تھا وہ تپتا ہے
رگڑتے ایڑیاں دیکھا زمیں پر اپنے بچے کو
پکارا ہاجرہؓ نے کانپ کر اللہ سچے کو
قریب آئیں تو پر کھولے ہوئے جبریلؑ کو پایا
انگوٹھا چوستے سائے میں اسمٰعیلؑ کو پایا
ٹھٹک کر رہ گئیں اک اور نظارہ نظر آیا
قریبِ پائے اسمٰعیلؑ فوارہ نظر آیا
زمیں پر ایڑیاں بچے نے رگڑی تھیں بہ ناچاری
ہوا تھا چشمہ آب سرد و شیریں کا وہاں جاری
یہ پہلا معجزہ تھا پائے اسمٰعیلؑ کم سن سے
کہ چشمہ جس کا زمزم نام ہے جاری ہے اس دن سے
بیاباں میں خدا کی رحمتیں جب اس طرح پائیں
جھکیں پیش خدا اور شکر کا سجدہ بجا لائیں
بجھائی سیدہ ؓ نے پیاس بچے کو ملی راحت
کھجوریں خلد کی رکھ کر فرشتہ ہو گیا رخصت
قبیلہ بنی جرہم کو پانی کی تلاش9
جناب ہاجرہؓ نے مینڈھ باندھی گرد پانی کے
یہیں رہنے لگے سائے میں سقفِ آسمانی کے 10
بہت سے طائرانِ خوشنوا اڑتے ہوئے آئے
یہاں پانی پیا ٹھہرے ترانے حمد کے گائے
کئی دن بعد دیکھا قافلہ آتا ہے صحرا سے
نگاہوں سے ٹپکتا ہے کہ ہیں یہ لوگ بھی پیاسے
عرب کا اک قبیلہ نام تھا جس کا بنی جرہم
اسی کے لوگ تھے یہ پیاس کے مارے ہوئے بیدم
خدا کے فضل سے دن ان بچاروں کے بھلے آئے
نوائے طائراں سن کر اسی جانب چلے آئے
یہاں آتے ہی دیکھا اک چشمہ آبِ جاری کا
ہوا میں جس کے دم سے لطف تھا بادِ بہاری کا
کنارِ آب اِ ک عورت کی صورت بھی نظر آئی
اور اس کی گود میں بچے کی دولت بھی نظر آئی
نظر آتا تھا اطمینان ان مسرور چہروں پر
شعاع مہر تھی قربان دو پُر نور چہروں پر
ندا آئی کہ اے جرہم کے بچو، بادیہ گردو
ادب کی جا ہے اے بوڑھو، جوانو،عورتو، مردو
یہ وہ عورت ہے قربان عورتیں جس کی شرافت پر
یہ ایسی ماں ہے مائیں رشک کھائیں جس کی قسمت پر
یہ ام المسلمیںؓ ہے اور شہزادی ہے صحرا کی
اسی کے نازنیں قدموں سے آبادی ہے صحرا کی
یہ عورت اور اس کی گود میں بچہ جو لیٹا ہے
یہ پیغمبرؑ کی بیوی ہے ، وہ پیغمبرؑ کا بیٹا ہے
بنی جرہم ادب سے سر جھکائے سامنے آئے
جو کچھ تھا پاس ان کے ، نذر دینے کے لئے لائے
کنارِ آب زمزم آج خیمے ہو گئے برپا
بڑا خیمہ تھا سب سے ہاجرہؓ اور اس کے بیٹے کا
غرض یہ ہے بنی جرہم نے اب ڈیرا یہیں ڈالا
کیا خوش ہاجرہؓ کو ، یعنی اسمٰعیلؑ کو پالا
کنعان میں حضرت اسحٰقؑ کی ولادت اور حضرت ابراہیمؑ کا پھر عرب میں آنا
خلیلؑ اللہ پھر کنعان میں آ کر رہے برسوں
الم فرزند و زوجہ کی جدائی کے سہے برسوں
دعا کی ایک بیٹا دے الٰہی بطنِ ساراؓ سے
جو ہو فرزندِ اول کی طرحممتاز دنیا سے
بڑھے اس کی بھی ذریت ، شرف یہ بھی الٰہی دے
ہدایت کے لئے پیغمبری دے اور شاہی دے
خدا نے دے دیا اسحٰقؑ سا فرزند ساراؓ کو
مرادِ دِ ل بر آئی مل گیا دلبند ساراؓ کو
کئی برسوں کے بعد اک دن ندا آئی پیمبرؑ کو
کہ جا اور دیکھ دشت خشک میں فرزندِ اکبر کو
باَ امراللہ پھر رہوارِ ہمت پر کیا کوڑا
خلیلؑ اللہ نے پیری میں ارضِ شام کو چھوڑا
یہاں آ کر خدا کی شان کا نقشہ نظر آیا
جہاں مٹی کے تودے تھے وہاں چشمہ نظر آیا
بہت بشاش دیکھا ہاجرہؓ کا چہرہ انور
ہوئے مسرور ابراہیمؑ ، اسمٰعیلؑ سے مل کر
جواں فرزند کے چہرے پہ نورِ حق نما پایا
بنی جرہم کے لوگوں کو وفا سے آشنا پایا
بہ فرطِ شُکرِ نعمت سر بسجدہ ہو گئے حضرت
تھکے ہارے ہوئے تھے نیند آئی سو گئے حضرت
حضرت اسمٰعیل کی قربانی
بشارت خواب میں پائی کہ اٹھ ہمت کا ساماں کر
پئے خوشنودی مولیٰ اسی بیٹے کو قرباں کر
خلیلؑ اللہ اٹھے خواب سے دل کو یقیں آیا
کہ آخر امتحاں بندے کا مالک نے ہے فرمایا
اٹھا مرسل اسی عالم میں رسی اور تبر لے کر
پئے تعمیل چل نکلا خدا کا پاک پیغمبرؑ
پہاڑی پر سے دی آواز اسمٰعیلؑ ادھر آؤ
ادھر آؤ خدائے پاک کا ارشاد سن جاؤ
پدر کی یہ صدا سن کر پسر دوڑا ہوا آیا
رکا ہرگز نا اسمٰعیلؑ گو شیطاں نے بہکایا
پدر بولا کہ بیٹا آج میں نے خواب دیکھا ہے
کتاب زندگی کا اک نرالا باب دیکھا ہے
یہ دیکھا ہے کہ میں خود آپ تجھ کو ذبح کرتا ہوں
خدا کے نام سے تیرے لہو میں ہاتھ بھرتا ہوں 11
سعادتمند بیٹا جھک گیا فرمانِ باری پر
زمین و آسماں حیراں تھے اس طاعت گزاری پر
رضا جوئی کی یہ صورت نظر آئی نہ تھی اب تک
یہ جرات پیشتر انساں نے دکھلائی نا تھی اب تک
عجب بشاش تھے دونوں رضائے رب عزت پر
تامل یا تذبذب کچھ نا تھا دونوں کی صورت پر
کہا فرزند نے اے باْپ اسمٰعیلؑ صابر ہے
خدا کے حکم پر بندہ پئے تعمیل حاضر ہے
مگر آنکھوں پر اپنی آپ پٹی باندھ لیجے گا 12
مرے ہاتھوں میں اور پیروں میں رسی باندھ دیجے گا
مبادا آپ کو صورت پہ میری رحم آ جائے
مبادا میں تڑپ کر چھوٹ جاؤں ہاتھ تھرائے
پسر کی بات سن کر باپ نے تعریف فر مائی
یہ رسی اور پٹی باندھنی ان کو پسند آئی
ہوئے اب ہر طرح تیار دونوں باپ اور بیٹا
چھری تھامی پدر نے اور پسر قدموں میں آ لیٹا
پچھاڑا اور گھٹنا سینہ معصوم پر رکھا
چھری پتھر پہ رگڑی ہاتھ کو حلقوم پر رکھا
زمیں سہمی پڑی تھی ، آسماں ساکن تھا بیچارہ
نہ اس سے پیشتر دیکھا تھا یہ حیرت کا نظارہ
پدر تھا مطمئن بیٹے کے چہرے پر بحالی تھی
چھری حلقوم اسمٰعیلؑ پر چلنے ہی والی تھی
مشیت کا مگر دریائے رحمت جوش میں آیا
کہ اسمٰعیلؑ کا اک رونگٹا کٹنے نہیں پایا
ہوئے جبریلؑ نازل اور تھاما ہاتھ حضرت کا
کہا بس ، امتحاں مقصود تھا ایثار و جرات کا
اطاعت اور قربانی ہوئی منظورِ یزدانی 13
جزا یہ ہے کہ جنت سے یہ برا آگیا ہے بہر قربانی
ہمیشہ کے لئے اس خوابِ صادق کا ثمر لیجے
اسی برے کو بیٹے کے عوض قربان کر دیجے
مٹی قربانی انسان اسمٰعیلؑ کے صدقے
حیات نو ملی ایمان کی تکمیل کے صدقے
خطاب اس دن سے اسمٰعیلؑ نے پایا ذبیح اللہ
خدا نے آپ ان کے حق میں فرمایا ، ذبیح اللہ 14
تعمیر خانہ کعبہ
کہا جبریلؑ نے ہاں اے خدا کے محترم بندو
پھلو پھولو جہاں میں اے رضا کے آرزو مندو
یہ ارض پاک جس کے گرد پہرے ہیں چٹانوں کے
ازل سے جس کے آگے سر جھکے ہیں آسمانوں کے
یہ مٹی جس میں دن بھر آتشیں کرنیں نہاتی ہیں
ہوائیں جس کے ذرہ ذرہ کو سر پر اٹھاتی ہیں
یہی منبع ہے نورِ حق کی دریا بار موجوں کا
کہ مرکز ہے یہی اک امتِ وسطی کی فوجوں کا 15
یہی نافِ زمیں ہے اور یہی مرکز ہے عالم کا 16
مقدر ہے یہیں پر اجتماع اولادِ آدم کا
طلوعِ مہرِ ظلمت پاش اسی مٹی سے ہونا ہے
یہیں وہ ابر ہے دامانِ عصیاں جس کو دھونا ہے
عبادت کا نشاں قائم کرو اس ہو کی بستی میں
تمہیں اول گنے جاؤ شمارِ حق پرستی میں
بشارت پا کے دونوں پاک بندے اک جگہ آئے
جہاں جبریلؑ نے کعبہ کے نقشے ان کو سکھلائے
خلیلؑ اللہ اس معبد کی دیواریں اٹھاتے تھے 17
ذبیح اللہ چونا اور پتھر دیتے جاتے تھے
کیا تیار اک مدت میں کعبہ ان بزرگوں نے
خدا آگاہ و خوش اخلاق خوش باطن بزرگوں نے
وفورِ شوق میں اِ ک اِ ک سے آگے بڑھتا جاتا تھا
مرادیں مانگتا تھا اور دعائیں پڑھتا جاتا تھا 18
پتہ اِ ن کو دیا جبریلؑ ہی نے سنگِ اسود کا
خلیلؑ اللہ نے اس کو مقامِ رُکن پر رکھا
مکمل ہو گئی تعمیر بیت اللہ کی اِ ک دن
بزرگوں کو مقدس کام سے فرصت ملی اِ ک دن
یہاں سے اٹھ کے پیغمبر فرازِ کوہ پر آیا
زبانِ وَحی نے چاروں طرف اعلان فرمایا
کہ اے لوگوں یہاں حج و عبادت کے لئے آؤ
خلوص اور صدق نیت نذر دینے کے لئے لاؤ
یہی مرکز ہے سارے دہر میں ایمان والوں کا
جھکے گا سر یہیں پر آ کے اونچی شان والوں کا
یہاں اہلِ طواف اہلِ قیام اہلِ قعود آئیں
یہاں اہلِ رکوع آئیں یہاں اہلِ سجود آئیں
کوئی پیدل چلے کوئی سوارِ ناقہ لاغر
کریں حج و عبادت پاک رکھیں یہ خدا کا گھر
یہ گھر اللہ کا ہے اور وہی تم کو بلاتا ہے 19
ہمارا کام تھا تبلیغ ، دیکھیں کون آتا ہے
اولین حج اکبر
یہاں پر اولین احرام باندھا باپ بیٹے نے
عبودیت کا عہد تام باندھا باپ بیٹے نے
صدا لبیک کی گونجی پہاڑوں پر چٹانوں پر
فرشتوں نے سنے نغمے زمیں و آسمانوں پر
ادا کی رسمِ قربانی کمالِ صدق نیت سے
طوافِ خانہ کعبہ کیا جوشِ اطاعت سے
فرشتوں نے منائی عید آ کر اس بیاباں میں
کہ پہلا حج اکبر تھا یہی تاریخ انساں میں
باب دوم
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات اور اسمٰعیل اور اسحٰق علیہ السلام کی اولادیں
ادائے فرض کر کے باپ بیٹے سے ہوا رخصت
بجا لانا تھی ملک شام میں تبلیغ کی خدمت
مگر فرزند سے ہر سال آ کر مل بھی جاتے تھے
ادائے حج کی خاطر اس طرف ہر سال آتے تھے
پھر اس محنت کے بعد آرام سے سونے کا دن آیا
خلیل اللہ کے واصل بحق ہونے کا دن آیا 20
بالآخر جا بسے حضرت دیارِ جاودانی میں
بقا ہے بس خدا کی ذات کو اِ س دارِ فانی میں
رسالت آج فرزندانِ ابراہیم نے پائی
خدا نے یہ امانت اب انہیں تفویض فرمائی
ذبیح اللہ ہوئے مرسل عرب کے رہنے والوں پر
ہوئے مامور اہلِ شام پر اسحٰق پیغمبر
خدا کے فضل سے ہستی ہوئی دلشاد دونوں کی
بڑھی ہر دو ممالک میں بہت اولاد دونوں کی
بنی اسرائیل
ہوئے اسحٰق کے فرزند اسرائیل پیغمبر
ملے فرزند انہیں بارہ بفضلِ حضرت داور
ان ہی میں حضرت یوسف نے مرسل کا لقب پایا
خدا نے ان کو اہلِ مصر پر مبعوث فرمایا
یہ ایسے تذکرے ہیں جو زبانوں پر فسانہ ہیں
برادر حضرت یوسف کے مشہور زمانہ ہیں 21
یہودی قوم کا آغاز انہیں بارہ سے ہوتا ہے
یہودہ اِن کا جد ، اسحٰق پیغمبر کا پوتا ہے
مگر شیطاں نے ان پر بھی دامِ شرک پھیلایا
تو انبوہِ کثیر اس قوم کا حق سے پلٹ آیا
یہ قوم اپنے کو خاصانِ خدا کی قوم کہتی تھی
مگر کرتوت ایسے تھے بہت معتوب رہتی تھی
ہوئے اس قوم میں اکثر جلیل الشان پیغمبر
چلانا چاہتے تھے جو اسے حق و صداقت پر
یہودی جانے بوجھے راہِ حق کو بھول جاتے تھے
وہ اپنے رہنماؤں پر ہمیشہ ظلم ڈھاتے تھے
کیا تھا مصر میں فرعون نے دعویٰ خدائی کا
یہودی قوم دم بھرتی تھی اس سے آشنائی کا
عتاب آخر کیا شاہنشہوں کے شاہ نے ان پر
مسلط کر دیا فرعون کو اللہ نے ان پر
کہ یہ بھی اِ ک طریقہ تھا انہیں رستے پہ لانے کا
انہیں ٹھوکر لگا کر خوابِ غفلت سے جگانے کا
بہت پستی دکھائی آخر اِ س افتاد نے ان کو
لگائیں ٹھوکریں فرعون کی بیداد نے ان کو
مگر فرعون کے ظلم و ستم جب بڑھ گئے حد سے
لگے عبرت پکڑنے لوگ اِ ن کی حالتِ بد سے
خدائے پاک نے موسیٰکو ان میں کر دیا پیدا
جو بچپن ہی سے آزادی و حریت پہ تھے شیدا
ظہورِ نورِ حق موسیٰ کو سینا پر نظر آیا
خدا نے جانبِ فرعون انہیں مبعوث فرمایا
یدِ بیضا کے ساتھ اِس خطہ ظلمت میں در آئے
یہودی قوم کو آزاد کر کے مصر سے لائے 22
جگایا قوم کی تقدیر کو آوازِ موسیٰ نے
کیا فرعون کو غرقابِ نیل اعجازِ موسیٰ نے 23
عصائے موسوی نے پتھروں کو آب کر ڈالا 24
بیابانوں کو ان کے واسطے شاداب کر ڈالا
یہی وہ قوم ہے جس کے لئے نعمت کے مینہ برسے
کہ اترے من و سلویٰ اِ ن کی خاطر آسماں پر سے 25
مگر جب آزمائش آ پڑی یہ قوم گھبرائی
رہی باطل کی طالب اور راہِ حق سے کترائی
کہا موسیٰ نے " اٹھ اے قوم باطل کی مقابل ہو
تری عزت بڑھے جگ میں ترا ایمان کامل ہو
تو بولی قوم اے موسیٰ ہمیں آرام کرنے دے
خدا کی نعمتیں ملتی ہیں اِ ن سے پیٹ بھرنے دے
خدا کو ساتھ لے جا اور باطل سے لڑائی کر
ہمارے واسطے خود جا کے قسمت آزمائی کر
ہمیں کیوں ساتھ لے جاتا ہے دنیا سے اجڑنے کو
خدا اور اُس کا پیغمبر بہت کافی ہے لڑنے 26
ڈرایا بارہا موسیٰ نے ان کو قہر باری سے 27
مگر اس قوم کو مطلب رہا مطلب برآری سے
کبھی رفعت پر آئی بھی تو سوجھی اس کو پستی کی
کہ چھوڑی حق پرستی اور گوسالہ پرستی کی
رکھی دنیا میں راہ و رسم حرص خام سی اس نے
دکھائی سرکشی تورات کے احکام سے اس نے
دلائی حضرت داؤد نے اس قوم کو شاہی
مگر اس نے نہ چھوڑی کم نگاہی اور گمراہی
زبور اس قوم کو بخشی گئی لیکن نہ یہ مانی
یہ اپنی حمد کرتی تھی بجائے حمد ربانی
بڑی شوکت ملی اس قوم کو عہد سلیماں 28 میں
عظیم الشان ہیکل ہو گئی تعمیر کنعاں میں
مگر یہ قوم اکثر راہ پر آ کر پلٹتی تھی
نہ دینداری میں بڑھتی تھی، نہ بے دینی سے ہٹتی تھی
اسے ایوب و زکریا و یحیی نے بھی سمجھایا
چلن اس قوم کا لیکن نہ راہ راست پر آیا
ہو منزل گمرہی جن کی وہ کیونکر راہ پر آئیں
ملیں اس قوم سے پیغمبروں کو سخت ایذائیں
یہ جھٹلاتی رہی ہر اک نصیحت کرنے والے کو
یہ اندھی تھی، اندھیرا جانتی تھی ہر اجالے کو
مسیح ابن مریم نے بہت اس کو ہدایت کی
مگر یہ آخری دم تک رہی منکر رسالت کی
یہ جھٹلاتی رہی انجیل کی سچی منادی کو
یہ سولی پر چڑھانے لے گئی اس پاک ہادی کو
خلیل اللہ سے جو وعدہ کیا تھا حق تعالیٰ نے
وہ پورا کر دیا ہر طور سے اس ذات والا نے
وطن بخشا گیا اس کو نمونہ باغ جنت کا
مگر اس قوم میں جذبہ نہ تھا اس کی حفاظت کا
ملی اسحٰق کی اولاد کو شان حکومت بھی
متاع دنیوی بھی اور روحانی رسالت بھی
مگر اس قوم نے ٹھکرا دیا ہر ایک نعمت کو
یہ بھڑکاتی رہی ہر دور میں اللہ کی غیرت کو
نتیجہ یہ ہوا کفران نعمت کی سزا پائی
عمل جیسے کیے ویسی در حق سے جزا پائی 29
خدا سے سرکشی کی سر جھکایا پائے دشمن پر
رہا اغیار کا پنجہ مسلط اس کی گردن پر
سبھی اہل ستم کرتے رہے اس پر ستم رانی 30
فنیقی ، بابلی، مصری، اسیری اور رومانی
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
کہ جس نے اپنے ہاتھوں اپنی خو خصلت نہیں بدلی
عرب میں بنی اسماعیل کے پھولنے پھلنے کا بیان
ذبیح اللہ کی اولاد کا بھی ماجرا سن لو
وہاں وعدہ خدا کا کس طرح پورا ہوا سن لو
گھرانے میں نبی جرہم کے پیغمبر نے شادی کی 31
خدا کے گھر سے قسمت جاگ اٹھی اس خشک وادی کی
پسر بارہ دیئے اللہ نے اس پاک ہستی کو 32
بسایا یوں عرب کی ہر بلندی اور پستی کو
بسائیں بستیاں گیارہ نے کوہ و دشت و صحرا میں
رہا قیدار بیت اللہ کی خدمت کو بطحا میں
قریب کعبۃ اللہ شہر مکہ کی بنا ڈالی
پسر اس کے ہوئے کعبے کے خادم شہر کے والی
انقلابات عالم اور عرب
بنی آدم کی دنیا میں ہزاروں انقلاب آئے
جہاں میں سینکڑوں طوفان اٹھے لاکھوں عذاب آئے
بہت قومیں اٹھیں اور چھا گئیں میدان ہستی پر
پھریرے خوب اڑائے ہر بلندی اور پستی پر
غنیم مرگ کے قدموں تلے روندی گئیں آخر
اکڑ کر چلنے والے دب گئے زیر زمیں آخر
خزاں منڈلا گئی شدادیوں کے سبز گلشن پر
سیاہی چھا گئی آبادیوں کے روز روشن پر
ہوئے پیوند خاک آخر اسیری اور کلدانی
سر افرازوں کی شوکت موت نے کچھ بھی نہیں مانی
نہیں رہتا ہمیشہ ساز ہستی ایک ہی دھن پر
کھنڈر ہنسنے لگے بابل کے نمرودی تمدن پر
ہوا دریا میں بیڑہ غرق فرعونی خدائی کا
فسانہ رہ گیا ہندوستانی دیوتائی کا
بگاڑیں خاک نے شکلیں فلاطونی خیالوں کی
دھری ہی رہ گئیں سب حکمتیں یونان والوں کی
سکندر اور اس کے وہ عظیم الشان منصوبے
کہیں ابھرے نہیں بحر فنا میں اس طرح ڈوبے
فقط اہل عرب اس منقبل دنیا میں ایسے تھے
کہ روز اولیں سے آج تک ویسے کے ویسے تھے
یہ ملک ایسا تھا حاصل ان کو آزادی کی نعمت تھی
قبیلے آپ خود مختار تھے اپنی حکومت تھی
عرب پر کوئی دشمن حملہ آور ہو نہ سکتا تھا
کوئی فاتح بری نیت سے اس جانب نہ تکتا تھا
کوئی لشکر ہوا بھولے سے اس کی فتح پر مائل
تو صحرائے عرب ہوتا تھا اس کی راہ میں حائل
ہوئے جو لوگ اس پر حملہ آور مر گئے پیاسے
یہ خطہ رہ گیا اوجھل نگاہ اہل دنیا سے
بڑھی اولاد اسمٰعیل میں عدنان 33 کی شوکت
عرب کو آل اسمٰعیل سے حاصل ہوئی قوت
یہودی قوم پر دنیا میں جب کوئی بلا آئی 34
تو اس نے آل اسماعیل کے گھر میں اماں پائی
خدا کے نام پر اب تک یہودی اور عدنانی
ادا کرتے تھے مکے میں رسوم حج و قربانی
مگر ہونے لگے جب قلب مائل بت پرستی پر
بنی جرہم نے قبضہ کر لیا مکے کی بستی پر 35
مگر پھر آل اسماعیل قابض ہو گئی اس پر
عرب میں تھی یہ طاقتور بفضل حضرت داور
مکہ پر یمن والوں کا حملہ اول اور قریش کی مدافعت
کیا حملہ یمن کے لشکروں نے اہل مکہ پر
غرض یہ تھی کہ اپنے گھر میں لے جائیں خدا کا گھر
یمن میں ان دنوں حسان نامی ایک حاکم تھا
اسے مکے کی رونق دیکھ کر دل میں خیال آیا
کسی صورت سے توڑوں آل اسمعیل کی شوکت
اسی کعبے کے دم سے ان کی دنیا بھر میں ہے عزت
اگر کعبہ گرادوں اس کے پتھر ساتھ لے جاؤں
یمن میں ان سے اک کعبہ نیا تعمیر کرواؤں
یہ ہو جائے تو پھر سب لوگ میری سمت آئیں گے
کریں گے عاجزی نذریں نیازیں ساتھ لائیں گے
یہ سوچا اور چڑھ دوڑا یمن کی فوج کو لے کر
کیا آ کر اچانک اس نے حملہ شہر مکہ پر
یہاں پر خادم کعبہ کنانہ کا گھرانا تھا
اسی میں فہر بن مالک تھا جو مرد یگانہ تھا
یمن کی اس جسارت سے بہادر طیش میں آیا
مسلح کر کے سارا خانداں میدان میں لایا
مقابل ڈٹ گیا یہ شیر لاتعداد فوجوں کے
چٹانوں کی طرح رو کے تھپیڑے تند موجوں کے
شکست فاش دی اس نے یمن والوں کے لشکر کو
تعاقب کر کے قبضے میں لیا لشکر کے افسر کو
یہ ایسی فتح تھی 36 جس سے قریش اس کا لقب ٹھہرا
یہ اک نامی قبیلہ بن گیا ، فخر عرب سارا
قریش اہل عرب میں نام ہے اس ویل مچھلی کا
سمندر میں کوئی ثانی نہیں جس کی بڑائی کا
قریش اولاد اسماعیل میں تھے سب سے طاقتور
یہی کعبے کے خادم تھے یہی تاجر یہی افسر
قصی 37 ابن کلاب ان میں بڑا ہی شان والا تھا
بڑا زیرک مدبر تھا ، بڑے سامان والا تھا
ہوا عبد مناف 38 اس کا پسر ، اس کا پسر ہاشم 39
پسر تھے اور بھی سردار تھا سب کا مگر ہاشم
پسر ہاشم کا عبدالمطلب 40 سردار مکہ تھا
یہی تھا خادم کعبہ یہی مختار مکہ تھا
مگر اس خدمت کعبہ کے معنیٰ اور ہی کچھ تھے
یہ فرزندان اسمعیل یعنی اور ہی کچھ تھے
عرب میں زمانہ جاہلیت
الگ تھے ساری دنیا سے مگر یہ لوگ خوش دل تھے
انہیں آزادیوں کی زندگی کے عیش حاصل تھے
مگر آزادیوں نے ان کو کھویا دین و دنیا سے
ہوئے گمراہ یہ برگشتہ ہو کر حق تعالیٰ سے
کیا اخلاف نے اسلاف کے اوصاف کو زائل
رہِ حق چھوڑ کر سب پرستی پر ہوئے مائل
شجاعت تھی مگر اس کا ہدف اپنے ہی بھائی تھے
یہ سب اک دوسرے کو ذبح کرنے میں قصائی تھے
فصاحت کا تھا استعمال ہجو اور خودستائی میں
نظر میں کوئی جچتا ہی نہ تھا ساری خدائی میں
بیاں کرتے تھے اپنے شرمناک اور فحش کاموں کو
سر بازار کہہ دیتے تھے اپنے کارناموں کو
رعونت نے دماغوں میں ہوائے خود سری بھر دی
خشونت ایک عادت دوسری عادت تھی بے دردی
عرب اولاد اسمعیل سے معمور تھا سارا
گناہوں کی جہالت کے نشے میں چور تھا سارا
جو صحرائی تھے قتل و رہزنی میں خوب ماہر تھے
نشانِ بربریت ان کے چہروں ہی سے ظاہر تھے
ترقی اور تمدن کی ہوا ان تک نہ آتی تھی
کوئی مرکز نہ تھا خانہ بدوشی ان کو بھاتی تھی
بہادر تھے مگر سب کے سب آپس میں لڑتے تھے
قبیلہ در قبیلہ معرکے ہر سال پڑتے تھے
جو شہری تھے وہ فن و پیشہ و حرفت سے عاری تھے
مگر مکر و دغا بازی میں پورے کاروباری تھے
نہ کوئی کام کرتے تھے نہ کوئی کام آتا تھا
انہیں بے کار و کاہل بیٹھ رہنا دل سے بھاتا تھا
یہ جائز جانتے تھے مال کھا جانا یتیموں کا
لٹانا دعوتوں میں مال شیوہ تھا کریموں کا
پدر فرزند کی بیواؤں کا حق چھین لیتے تھے
پسر اپنی حقیقی ماؤں کا حق چھین لیتے تھے
کوئی معیار ہی باقی نہ تھا شرم و شرافت کا
کہ رتبہ بھیڑ بکری سے بھی کم تھا ایک عورت 41 کا
زنا و فحش کاری سے بڑی ان کو ارادت تھی
شرابیں پی کے ننگے ناچنے کی عام عادت تھی
شرافت کو ڈبو دیتے تھے جب عورت پہ مرتے تھے
کہ جس عورت پہ مرتے تھے اسے بدنام 42کرتے تھے
زناکاری کی ترغیبیں سرِ بازار دیتے تھے
یہ اپنی بیویوں تک کو جوئے میں ہار دیتے تھے
یہ اپنی بیٹیوں کو سانپ سے بدتر سمجھتے تھے
یہ ان کے قتل کو عزت کا ایک جوہر 43سمجھتے تھے
اگر جن بیٹھتی دختر کوئی تقدیر کی ہیٹی
چھچھوندر سے بری معلوم ہوتی تھی اسے بیٹی 44
گڑھا اک کھود کر دختر کو زندہ گاڑ دیتی تھی
کوئی بچھو تھا دامن میں کہ دامن جھاڑ دیتی تھی
کوئی کم بخت بد اختر اگر زندہ بھی رہتی تھی
ہمیشہ باپ کے اور بھائیوں کے ظلم سہتی تھی
غلاموں لونڈیوں پر وہ مظالم توڑتے تھے یہ
کہ ان کو موت سے پہلے نہ ہرگز چھوڑتے تھے یہ
عرب میں ہر طرف تھا دور دورہ بت پرستی کا
کوئی اندازہ کر سکتا ہے ان لوگوں کی پستی 45 کا
خدا کہتے تھے مٹی، آگ ، پانی کو ہواؤں کو
پہاڑوں اور دریاؤں کو بجلی کو گھٹاؤں کو
زمیں پر خاک پتھر اور شجر معبود تھے ان کے
فلک پر انجم و شمس و قمر معبود تھے ان کے
مرادیں مانگتے تھے ہر وجود بے حقیقت سے
نہ تھا محروم کوئی جز خدا ان کی عبادت سے
وہ کعبہ جو خدائے واحد و قہار کا گھر تھا
وہ کعبہ جو خدائے مالک و مختار کا گھر تھا
وہی کعبہ جسے پیغمبروں کی سجدہ گاہ کہیے
وہی کعبہ جسے تقدیس کا نورِ نگہ کہیے
وہ کعبہ جو خدا کے بت شکن بندوں کا معبد تھا
جسے پاکیزہ رکھنا فطرتِ انساں کا مقصد تھا
اسی کعبے کو یاروں نے صنم خانہ بنا ڈالا
دلوں سے ظالموں نے نقش وحدت کا مٹا ڈالا
نہ سوجھا کوئی فرق ان کو خدا میں اور پتھر میں
کہ رکھے تین سو ساٹھ بت اللہ کے گھر میں
عرب میں جس قدر انسان تھے ان سے سوا بت تھے
یہ خلقت تھی خدا کی اور خلقت کے خدا بت تھے
جدا اک اک خدا تھا ہر قبیلے ہر گھرانے کا
کوئی بت فتح پانے کا کوئی بت بھاگ جانے کا
بازار عکاظ
یہاں پر کھینچ کر ہلکا سا نقشہ ان کے میلوں کا
دکھا دوں حال بے دینی کا جھگڑوں کا جھمیلوں کا
حدود مکہ سے دس کوس پر چھوٹا سا میداں ہے
جہاں خیمے لگے ہیں جمع اک انبوہ انساں ہے
عرب کے لوگ اس انبوہ کو بازار کہتے ہیں
برس کے بعد آ کر اس جگہ کچھ روز رہتے ہیں
بنو کلب و بنو نہد و بنو تغلب ، بنو کندہ
بنو اوس و بنو خزرج ، بنو دوس و بنو عذرہ
بنو لحم و بنو مرجح، بنو طے و بنو اسلم
جہینہ اور خزاعہ اور بجیلہ اور بنو خشعم
یہ قحطانی قبائل دور سے میلے میں آئے ہیں
سب اپنے اپنے بچوں بیویوں کو ساتھ لائے ہیں
ہوازن اور عدنان اور اطفان اور اعصر بھی
غنی بھی ، بابلہ بھی ، عبس بھی ذبیان و عامر بھی
قریش و سعد و نصر و کعب و مرہ بھی فزارہ بھی
بنی تیم و بنی عدی سلول اور آل قارہ بھی
یہ عدنانی قبائل اور شاخیں بھی سبھی ان کی
عرب کی سرزمینِ خشک اب تک مِ لک ہے جن کی
جوان و پیر و مردو زن یہاں آئے ہوئے ہیں سب
غرور و عجب سے چہروں سے چہروں کا چمکائے ہوئے ہیں سب
تمازت سے بچانے کو کھڑے ہیں جا بجا خیمے
زمیں کے جسم پر یہ سوز کے چھالے ہیں یا خیمے
حجازی بدوؤں نے کالے کمبل تان رکھے ہیں
کھڑے ہیں اونٹ بھی اور ساتھ ہی سامان رکھے ہیں
یمن، نجد و عراق و شام کے سوداگر آئے ہیں
پکھا لیں کملیاں ستو کھجوریں ساتھ لائے ہیں
کوئیں ہیں چند نخلستان میں جن کے گرد میلا ہے
گرے پڑتے ہیں پانی کے لیے لوگوں کا ریلا ہے
جوانان عرب کیا اینڈتے پھرتے ہیں راہوں میں
دلوں کے ولولے ڈوبے ہوئے ہیں سب گناہوں میں
ہزاروں نیم عریاں عورتیں ہر سمت پھرتی ہیں
نہ گھیریں آ کے مرد ان کو تو خود جا جا کے گھرتی ہیں
قبائل کے جو ہیں سردار پتلے ہیں رعونت کے
عیاں ہیں ان کے ہر انداز سے انداز نخوت کے
کمر سے نیچے ہیں تہبند باقی جسم ننگے ہیں
وجاہت پر مگر تکرار ہے جھگڑے ہیں دنگے ہیں
ہیں ایسے مرد بھی ان میں کہ منہ پر ہے نقاب ان کے
حیا ان کی نرالی ہے انوکھے ہیں حجاب ان کے
کمر سے کھول کر تہبند گھٹنوں پر لپیٹے ہیں
نہیں کچھ ستر کی پروا کہ یہ آدم کے بیٹے ہیں
شرابیں پی رہے ہیں اور قے بھی کرتے جاتے ہیں
شکم میں اور دامن میں نجاست بھرتے جاتے ہیں
دوشیزہ لڑکیاں مردوں کے آگے دف بجاتی ہیں
نشے میں جھومتی ہیں ناچتی ہیں اور گاتی ہیں
ذرا سی بات پر تلوار کھنچ جاتی ہے آپس میں
غضب کا شور و غوغا ہے کہیں گالی کہیں قسمیں
جاہلیت کی عبادت
سر شام اس سیہ کاری کا دامن اور بڑھتا ہے
شراب عیش پر دیوانگی کا رنگ چڑھتا ہے
صدائیں سیٹیوں کی اور گھڑیالوں کی آتی ہیں
عبادت کے لیے ان بیوقوفوں کو بلاتی ہیں
مثنٰے اپنے بت کا ہر قبیلہ ساتھ لایا ہے
یہ مٹی کے خدا ہیں ان کو گہنوں سے سجایا ہے
بتوں پر اونٹ بکرے آدمی قربان ہوتے ہیں
غریب ان پتھروں کے واسطے بیجان ہوتے ہیں
قریش اپنے ہبل کا ایک مثنیٰ لے کے آئے ہیں
اسی کے گرد ان لوگوں نے خیمے بھی لگائے ہیں
بٹھا رکھا ہے پتھر کے خدا کو ایک پتھر پر
کھڑے ہیں گرد اس کے اہل مکہ ساکت و ششدر
بھجن گاتی ہیں جاہل عورتیں اور دف بجاتی ہیں
بہا کر اونٹ کا خون اپنی قربانی چڑھاتی ہیں
وہ دیکھو دے رہی ہیں خون کے چھینٹے عزیزوں پر
وہ چھڑکا جا رہا ہے خون ہی کھانے کی چیزوں پر
وہ دیکھو سب اسی پتھر کے آگے سر جھکاتے ہیں
جبیں پر کالے کالے خون کے ٹیکے لگاتے ہیں
بپا ہے وحشیانہ سیٹیوں کا شور ہر جانب
عقیدت دیکھیے ہے چیخنے پر زور ہر جانب
پجاری چیختے ہیں، ناچتے ہیں، گھنٹ بجتے ہیں
پرستش ہے یہی ان کی جسے مذہب سمجھتے ہیں
اچھلتے کودتے سب لوگ گرد اس بت کے پھرتے ہیں
ہر اک چکر کے بعد اکبارگی سجدے میں گرتے ہیں
قبائل محو ہیں اس لعنتی طرزِ عبادت میں
یہ میلہ کہلم ڈوبا ہوا ہے بحر لعنت میں
یہ نقشہ دیکھ کر سورج نے آنکھیں بند کر لی ہیں
زمیں نے ہر طرف تاریکیاں دامن میں بھر لی ہیں
شاعری کے برے پہلو
اکھاڑہ شاعری کا دیدنی ہے اس جھمیلے میں
کہ اکثر لوگ اسی کے واسطے آئے ہیں میلے میں
جوان و پیر و مردو زن ہیں یک جا ہر قبیلے کے
بڑے ٹھسے سے ہیں بیٹھے ہوئے افسر قبیلے کے
یہاں بوڑھے جوانوں سے زیادہ تن کے بیٹھے ہیں
جواں بھی کم نہیں مد مقابل بن کے بیٹھے ہیں
حسینہ عورتیں بیٹھی ہوئی نخرے دکھاتی ہیں
یہ اپنے شوہروں اور آشناؤں کو لبھاتی ہیں
تبسم ہے کہ بجلی ہے نگاہیں ہیں کہ چھریاں ہیں
حیا کیسی کہ آدھے سے زیادہ جسم عریاں ہیں
یہ عشوے اور غمزے مرد ہی ان کو سکھاتے ہیں
حیا و شرم کے جوہر یہ ظالم خود مٹاتے ہیں
ہزاروں نازنیں آنکھیں حیا داری سے خالی ہیں
نقاب افگندہ ہیں ان میں جو طبعاً شرم والی ہیں
غرض یہ سب کے سب گھیرے ہوئے بیٹھے ہیں میداں کو
مزے سے سن رہے ہیں شاعروں کے سوزو حرماں کو
قبیلے اپنے اپنے شاعروں پر ناز کرتے ہیں
قصائد اپنی اپنی شان میں سن کر بپھرتے ہیں
وہ اٹھ کر ایک شاعر بر سر میدان آیا ہے
خود اپنی شان میں پورا قصیدہ کہہ کے لایا ہے
قبیلہ میرا ایسا ہے ، میں خود ایسا ہوں ویسا ہوں
میں چاندی ہوں میں سونا ہوں میں دھیلا ہوں میں پیسہ ہوں
وہ پتھر بھی خدا میرا، یہ پتھر بھی خدا میرا
وہ مجھ کو پالنے والا ہے یہ حاجت روا میرا
فلاں ابن فلاں ہوں اس لیے پکا دلاور ہوں
تخیل ہے مرا خونیں سمندر میں شناور ہوں
بہت سی عورتوں سے عشقبازی کر چکا ہوں میں
اب اس پر مر رہا ہوں، پہلے اس پر مر چکا ہوں میں
فلاں کی اور فلاں کی عصمتیں میں نے بگاڑی ہیں
یہ سب بستی ہوئی آبادیاں میں نے اجاڑی ہیں
یہ عورت مجھ پر مرتی ہے ، وہ عورت مجھ سے ڈرتی ہے
یہ مجھ سے ملتفت ہے اور وہ پرہیز کرتی ہے
میں اس کو چھوڑ دوں گا اور اسے قابو میں لاؤں گا
بغیر وصل دہنے ہاتھ سے کھانا نہ کھاؤں گا
غرض یہ شاعری دکھلا کے شاعر بیٹھ جاتا ہے
تو پھر اک دوسرا آتا ہے اور محفل جماتا ہے
بہا دیتا ہے سوکھے دشت میں دریا فصاحت کے
دکھا دیتا ہے نقشے کھینچ کر اپنی حماقت کے
یہ شاعر اس طرح جن عورتوں کا نام لیتے ہیں
جنہیں فحش و زناکاری کے یوں الزام دیتے ہیں
مزا یہ ہے کہ ان میں سے یہیں موجود ہیں اکثر
پھر ان میں بعض شوہر دار ہیں اور بعض بے شوہر
وہ سب بیٹھی ہوئی ہنستی ہیں اس افشاء حالت پر
کوئی ذلت کا دھبہ ہی نہیں گویا شرافت پر
ذرا کچھ آنکھ شرمائی تو اس نخرے سے شرمائی
بھری محفل میں گویا حسن و خوبی کی سند پائی
غرض شاعر پہ شاعر باری باری آئے جاتے ہے
زبان گرم سے بزم سخن گرمائے جاتا ہے
کوئی اترا رہا ہے آبِ خنجر کی روانی پر
کوئی اکڑا ہوا ہے اپنے فخر خاندانی پر
کسی کو فخر ہے اپنی شجاعت پر سخاوت پر
کسی کو ناز ہے اپنی فصاحت پر بلاغت پر
کوئی کہتا ہے ہم نے رہزنی میں نام اچھالا ہے
کوئی کہتا ہے ہم نے عشق کو سانچے میں ڈھالا ہے
کوئی کہتا ہے ہم سفاک ہیں ، ظالم ہیں ، قاتل ہیں
کوئی کہتا ہے ہم بے کار ہی رہنے میں کامل ہیں
بتاتا ہے کوئی تعداد لونڈی اور غلاموں کی
وہ لڑکا اتنے داموں کا یہ لڑکی اتنے داموں کی
یہ طرز خو ستائی اک زمانے سے نرالی ہے
یہ ہے اس ڈھول کی آواز جو اندر سے خالی ہے
میلے میں جنگ کا آغاز
یہ محفل گرم تھی لیکن یہاں اک اور گل پھولا
اٹھا شور اک طرف سے شاعر اپنی داستاں بھولا
پڑی افتاد کوئی ہو ئی بزم سخن برہم!
کوئی طوفان اٹھا جس نے کر دی انجمن برہم
جمے تھے کان ان کے شاعروں کی داستانوں پر
مغلظ گالیاں کیوں آ گئیں ان کی زبانوں پر
یہ کیوں گالی گلوچ اور مار دھاڑ آپس میں ہوتی ہے
یہ عورت کون ہے کیوں پیٹتی ہے اور روتی ہے
یہ کیوں اٹھی ہے خلقت تیغِ خوں آشام لے لے کر
پکارے جا رہے ہیں کیوں قبیلے نام لے لے کر
نظر آتی ہیں کیوں ہر سمت تلواریں ہی تلواریں
یہ کس نے مار ڈالا سرخ کیوں کر ہو گئیں دھاریں
سبب اس برہمی کا کچھ نہیں کھلتا خدا جانے
یہ باہم جنگ کیوں کرنے لگے ہیں اٹھ کے دیوانے
سبھی الجھے ہوئے ہیں کون سنتا کون کہتا ہے
مگر لاشوں پہ لاشیں گر رہی ہیں خون بہتا ہے
کوئی اتنا نہیں جو اس لڑائی کا سبب پوچھے
فروزاں کیوں ہوئی یہ آتش قہر و غضب پوچھے
کسی پر چل گیا خنجر کسی پر چل گیا بھالا
گرا جو زخم کھا کر اس کو قدموں نے کچل ڈالا
فغاں ہے شور ہے چیخیں ہیں شوریدہ نوائی ہے
بتوں کی منتیں ہیں اور بھوتوں کی دہائی ہے
لہو سے اس زمیں کا نامہ اعمال دھلُتا ہے
بہت سے کشت و خوں کے بعد اتنا حال کھلتا ہے
کہ اک لڑکی نقاب اوڑھے ہوئے بیٹھی تھی بیچاری
ودیعت تھی جسے فطرت کی جانب سے حیا داری
شرارت کے لیے تاکا اسے عیاش لڑکوں نے
اسے دھوکے سے ننگی کر دیا اوباش لڑکوں نے
بہت سے لوگ بیٹھے تھے کسی نے بھی نہیں روکا
لگے ٹھٹھا اڑانے جب وہ لڑکی کھا گئی دھوکا
مفر کی اس پجاری کو نہ جب صورت دکھائی دی
تو لڑکی نے وہیں اپنے قبیلے کی دہائی دی
دہائی سن کے لڑکی کے لواحق طیش میں آئے
چمک تلوار کی دیکھی تو وہ لڑکے بھی گھبرائے
بچاؤ کی کوئی صورت نہ سوجھی ان رذیلوں کو
تو گھبرا کر پکار اٹھے شریر اپنے قبیلوں کو
صدا سنتے ہی ان کے لوگ بھی دوڑے ہوئے آئے
گھٹاؤں کی طرح دونوں طرف کے جوش ٹکرائے
اٹھا اب خنجروں کی بجلیوں میں جوش بیداری
لگے سر کٹ کے گرنے خون کی بارش ہوئی جاری 46
پڑی بنیاد جونہی دو گھرانوں میں لڑائی کی
تو لازم تھا کوئی کوشش کرے ان میں صفائی کی
مگر ان کی شریعت اور تھی جس پر یہ تھے عامل
کہ سب کے سب قبیلے ہو گئے اس جنگ میں شامل
کوئی اس کی حمایت میں کوئی اس کی حمایت میں
رہیں گے اب یہ سب مشغول جنگِ جاہلیت میں
یہ سارے خود کو اسمعیل کی اولاد کہتے ہیں
مگر ہم تو انہیں مادر پدر آزاد کہتے ہیں
اس عہد میں دنیا بھر کی عام حالت
ہندوستان
عرب سے بھی زیادہ حال تھا بدحال دنیا کا
کہ سر ابلیس کے رستے میں تھا پامال دنیا کا
مگن تھا گلشن ہندوستاں جنت نشان بن کر
یہاں بھی موت چھائی ایک دن فصل خزاں بن کر
دکھائے تھے بہت کچھ آریوں نے گیان کے جلوے
بہت چمکے تھے رام اور کرشن سے ایمان کے جلوے
یہ ہادی تھے مگر ان کو خدا کہنے لگے ہندو
نرو مادہ کو دیوی دیوتا 47کہنے لگے ہندو
حکومت آ گئی ایسے ستمگاروں کے ہاتھوں میں
ہوئے تقسیم انساں اونچی نیچی چار ذاتوں میں 48
غلط سمجھے یہ بدھی مان گوتم کی بشارت کو
بلائے بت پرستی نے کیا برباد بھارت کو
اجاڑا وام مارگ پنتھ 49 نے ایمان کا گلشن
سیہ کاری نے پھونکا دھرم کا کن گیان کا گلشن
نظر میں گھٹ گئی کچھ اس طرح انسان کی قیمت
کہ عصمت بن گئی ہر عیش کے سامان کی قیمت
چین
ہوئی برباد کنفیوشس 50 کی وہ تہذیب آئینی
جہالت سے شکستہ ہو گئی ہر لعبتِ چینی
گرے غش کھا کے چینی بدھ کی تصویر کے آگے
حوادث نے جگایا بھی نہیں جاگے ، نہیں جاگے
ایران
متاع فارس کو آتشکدوں 51 نے خاک کر ڈالا
یہ پاک آتش ملی ایسی کہ قصہ پاک کر ڈالا
سکندر کی چلی آندھی گلستان جم و کے پر
تباہی چھا گئی ایران پر توران پر رَے پر
رہی اس قتل گہ میں خونِ انسانی کی ارزانی
کیانی ظالموں سے بڑھ کے نکلی آل ساسانی
مٹے اس ملک میں انسانیت کے عام جوہر بھی
کہ گھر میں ڈال لیتے تھے مجوسی اپنی دختر بھی
یورپ
فرنگستان میں ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا
یہاں بھیڑیں تھیں جن کو بھیڑیوں نے آ کے گھیرا تھا
وہ رومانی حکومت اک جہاں میں دھوم تھی جس کی
ہمیں تہذیب عریاں آج بھی معلوم ہے جس کی
وہ شیطانی تمدن وہ گنہ کا آخری مامن
وہ شہر پومپی آئی وہ ظلم و جور کا مسکن
وہی رفعت گناہوں نے جسے پستی پہ دے مارا
کرو اس آخری شب کا مری آنکھوں سے نظارا
شہر پومپی آئی کی آخری رات
سیاہی بن کے چھایا شہر پر شیطان کا فتنہ
گناہوں سے لپٹ کر سو گیا انسان کا فتنہ
پناہیں حسن نے پائیں سیہ کاری کے دامن میں
وفاداری ہوئی روپوش ناداری کے دامن میں
میسر ہیں زری کے شامیانے خوش نصیبی کو
اڑھا دی سایہ دیوار نے چادر غریبی کو
مشقت کو سکھا کر خوبیاں خدمت گذاری کی
ہوئیں بے خوف بے ایمانیاں سرمایہ داری کی
لیا آغوش میں پھولوں کی سیجوں نے امیری کو
مہیا خاک ہی نے کر دیئے آسن فقیری کو
تڑپنا چھوڑ کر چپ ہو گئے جی ہارنے والے
مزے کی نیند سوئے تازیانے مارنے والے
وہ روحانی وہ جسمانی عقوبت کم ہوئی آخر
غلامی بیڑیوں کے بوجھ سے بے دم ہوئی آخر
ہوئے فریادیوں پر بند ایوانوں کے دروازے
کہ خود محتاج درباں ہیں جہانبانوں کے دروازے
ادائے ناز سے جا سوئی غفلت بادشاہوں کی
سرور و کیف بن کر چھا گئیں نیندیں گناہوں کی
شرابیں پی پلا کر ہو گئے خاموش ہنگامے
بالآخر نیند آئی سو گئے پر جوش ہنگامے
تھما جب زندگی کا جوش پر خاشِ اجل جاگی
عمل کو دیکھ کر مدہوش پاداشِ عمل جاگی
اٹھایا موت نے پتھر جہنم کے دہانے سے
جہاں آتش کا دریا کھولتا تھا اک زمانے سے
بلندی سے تباہی کے سمندر نے کیا دھاوا
چٹانوں کے جگر سے پھوٹ نکلا آتشیں لاوا
دکھا دی آگ ایوانوں کو مظلومی کی آہوں نے
اٹھائے شعلہ ہائے آتشیں بے کس نگاہوں نے
اٹھیں مختار بن کر بے کسی کے خون کی موجیں
حصار مرگ نے محصور کر لیں جنگ جو فوجیں
نہ حسن و عشق نے پائی اماں قہر الٰہی سے
دبی پاداش امیری سے فقیری سے نہ شاہی سے
ستاروں کی نگاہوں نے دھواں اٹھتا ہوا دیکھا
مگر خورشید نے کچھ بھی نہ مٹی کے سوا دیکھا
یورپ ، عیسائی ہو جانے کے بعد
وہ رومانی کہ جن کی دھاک سے افلاک ڈرتے تھے
جو شہروں کو جلا کر ایک دم میں خاک کرتے تھے
خود ان کے شہر کا جلنا نمونہ تھا یہ عبرت کا
یہ قدرت کی طرف سے تازیانہ تھا نصیحت 52 کا
مگر یہ لوگ باز آئے نہ ظلم و جور سے ہرگز
کوئی راحت نہ پائی دہر نے اس دور سے ہرگز
یہ پیرو ہو گئے آخر مسیح ابن مریم کے
تو لازم تھا کہ ان کے دل میں نور ایمان کا چمکے 53
مگر یہ سب پجاری بن گئے تصویر عیسیٰ کے
رکھا مریم کا بت بھی ساتھ ہی اندر کلیسا 54ہے
اندھیرا شرک کا ان مشرکوں کی عقل پر چھایا
کہ عیسیٰ کو خدائے پاک کا فرزند ٹھہرایا
بدل دی سر بسر انجیل کی تعلیم قصوں میں
خدا کو کر دیا تقسیم پورے تین حصوں میں
خدا ، روح القدس ، عیسی یہ تین ان کے خدا ٹھہرے 55
جفا و ظلم ان کی زندگی کا مدعا ٹھہرے
یہی مذہب مسلط ہو گیا یورپ کے خطے پر
اسی کے سامنے مصر و حبش نے بھی جھکایا سر 56
یہ فتنے جب مسیح ناصری کے نام پر جاگے
یہودی ان سے تنگ آئے تو پھر کنعان سے بھاگے
ہوئے قابض زمین شام پر شاہان یونانی
مقابل ہو گئے آتش پرستوں کے یہ نصرانی
لڑائی چھڑ گئی ایرانیوں کی اہل یوناں سے
جہانداری کی اس بازی کے بدلے بارہا پانسے
کبھی نصرانیوں کی فتح، گہ آتش پرستوں کی
یہ جنگ اک موت تھی گویا غریبوں زیردستوں 57 کی
یہودیوں کی عام حالت
یہودی قوم کی حالت کا قصہ سن چکے ہو تم
سر ان لوگوں کی نافرمانیوں پر دھن چکے ہو تم
یہ سب راندے گئے ٹھکرا کے عیسیٰ کی منادی کو
یہ سولی پر چڑھانے لے گئے اس پاک ہادی کو
صحائف میں جہاں موقع ملا تحریف کر ڈالی
یہودی قوم کی ہر صفحہ پر تعریف کر ڈالی
رہے برباد دنیا میں مِلا نیت کا پھل ان کو
وطن سے بے وطن کرتے رہے ان کے عمل ان کو
پراگندہ ہوئے آخر فرنگ و مصر و بربر میں
عرب میں آ بسے کچھ ارض یثرب میں
مگر فتنے اٹھانا بس گیا تھا ان کی فطرت میں
دغا مکر و فریب احسان فراموشی تھی خصلت میں
بیاں کر دی ہے میں نے مختصر حالت زمانے کی
یہاں سے ابتدا ہوتی ہے اب میرے فسانے کی
ساقی نامہ
فضاؤں میں مسلط لشکرِ جنات ہے ساقی
قیامت خیز طوفان ہے اندھیری رات ہے ساقی
اٹھی ہے لعنتی تہذیبِ نو سیلاب کی صورت
ہے جس کے حلقہ ہر موج میں گرداب کی صورت
تلاطم خیز طوفان ہے گناہوں کے تھپیڑے ہیں
الٰہی خیر ہو ایمان کے کمزور بیڑے ہیں
ہوائے شیطنت کمزور بیڑوں کو ڈبوتی ہے
مگر اولاد آدم تختہ غفلت پہ سوتی ہے
میں انسانوں کو اس طوفانِ ذلت سے بچاؤں گا
میں ان سوئے ہوے شیروں کی غیرت کو جگاؤں گا
وہ ضیغم جو تیرہ سو برس پہلے دہاڑے تھے
وہی پنجے جو حق نے سینہ باطل میں گاڑے تھے
مجھے ان کو اٹھانا ہے مجھے ان کو جگانا ہے
پرانی گونج سے غوغائے باطل کو مٹانا ہے
پلا ساقی پلا وہ شعلہ صہبائے ایمانی
کہ اڑ جائیں دھواں بن کر وساوسہائے شیطانی
دہانِ خامہ میں ٹپکا وہ بادہ اپنے ساغر سے
کہ جس کا قطرہ قطرہ تازیانوں کی طرح برسے
شراب معرفت کا از سر نو جام بھر ساقی
رگوں میں پھر پرانا آتشیں اسلام بھر ساقی
پِلا مجھ کو پلا ساغر اسی صہبائے وحدت کا
کہ جس کی موج سے منہ پھیر دوں ہر فوجِ کثرت کا
مئے توحیدِ کُہنہ کا اٹھا سر بستہ خُم ساقی
سنا مُردہ دلوں کو پھر وہی آوازِ قم ساقی
مری فطرت کو ساقی بے نیازِ دو جہاں کر دے
پیالہ سامنے دھر دے قلم میں زندگی بھر دے
زمانے میں نہیں مقصود میرا جُز خدا کچھ بھی
مرے منہ سے نہ نکلے صداقت کے سوا کچھ بھی
باب سوم ۔ پیغمبر آخر الزمان کی ولادت سے قبل کا زمانہ
غلبہ باطل اور شیطان کا غرور
اندھیرا چھا چکا جب ظُلم کا دنیائے ہستی پر
ہوا شیطان مسلط ہر بلندی اور پستی پر
پہاڑوں پر چڑھا شیطان زمین پر اک نظر ڈالی
نظر آئی اسے ہر مملکت ایمان سے خالی
بہت خوش ہوا ناز و تکبر عود کر آیا
ہنسا اور کفر کے کلمے زبان نحس پر لایا
کہ میں ہوں ‘ میں ہی میں ہوں بادشہ اقصائے عالم کا
مرے قدموں کے نیچے تخت ہے اولادِ آدم کا
زمیں کو چار جانب سے مری ظلمت نے گھیرا ہے
مرے دامن کے نیچے اب اندھیرا ہی اندھیرا ہے
یہی انسان ہے، کیا وہ اسی انسان کا دَر تھا
ازل میں سامنے جس کے مرا جھکنا مقدر تھا
مرے قدموں پہ ہے اب مرے سجدے کا طالب تھا
ابد تک میں ہی غالب ہوں ازل کے دن یہ غالب تھا
اگر میں راندہ درگاہِ باری ہوں تو یہ بھی ہے
اگر میں قابلِ دوزخ ہوں ناری ہوں تو یہ بھی ہے
یہ کہہ کر تن گیا منحوس پر پھیلا دیئے اپنے
مُرید اور چیلے چانٹے نام شیطاں کا لگے جپنے
پیغمبر آخرالزماں کے والد عبداللہ
زمین سے آسماں تک واقعی گہری سیاہی تھی
کہ جزم ماہ سے شاہی اس کی تابماہی تھی
یکایک جا پڑیں اس کی نگاہیں سنگِ اسود پر
ہوا لرزہ سا طاری شیطنت پر فطرتِ بد یر
یہ پتھر مرکزِ عالم کا اک ثابت ستارا تھا
اسے جنت سے حق نے ساتھ آدم کے اتارا تھا
قریبِ سنگِ اسود ایک جوانِ ہاشمی دیکھا
گروہِ ابنِ آدم میں نرالا آدمی دیکھا
نظر آیا کہ اس کے گرد ہے اک نور کا ہالا
زمین پر جس کے باعث ہے فروغِ عالمِ بالا
وہی نورِ ازل معصوم چہرے سے ہویدا ہے
ازل سے جاودانی کامرانی جس پہ شیدا ہے
نرالے نوجواں کو دیکھ کر شیطان تھرایا
جھلک ایمان کی دیکھی تو بے ایمان تھرایا
زمیں ہلنے لگی کمبخت ایسے زور سے کانپا
خدا کی قدرتیں غافل نہیں ، شیطان نے بھانپا
یہ عبد المطلب کا نوجواں فرزند عبداللہ
نہیں ہے ملتفت کیوں جانبِ اصنامِ بیت اللہ
اُٹھا رکھی ہے کیوں سُوئے فلک پُر نُور پیشانی
نظر آتا ہے کیوں ایوانِ فرش و عرش نُورانی
ڈرا شیطان سمجھ میں آگیا مقصد مشیت کا
نظر ایا کہ یہ لڑکا ہے جو ہر آدمیت کا
دلِ ناپاک سے بُغض و حسد کا اِک دھُواں اُٹھا
جگہ سے اپنی مثلِ شعلہ آتش فشاں اُٹھا
اُٹھا غصے میں اور اس نوجواں سے جنگ کی ٹھانی
مشیت کے مقبل اپنی حیثیت نہ پہچانی
لگا اِ ک وسوسہ بن کر جواں کے گرد منڈلانے
نگاہ دل کی عفّت کو لگا رستے سے بھٹکانے
رہا کچھ دیر تک شیطان اپنی سعی باطل میں
نہ داخل ہو سکا لیکن یہ عبداللہ کے دل میں
خدا کا فضل تھا ہر دم شریکِ حالِ عبداللہ
نبی کا سایہ اقبال تھا اقبال عبداللہ
بنتِ مُرّالخثمیہ اور شیطان
جواں نے کعبہ سے جب گھر کی جانب قصد فرمایا
تو شیطاں اس سے پہلے جانبِ مکہ چلا آیا
یہاں پر بنتِ مُرّالخثمیہ اک حسینہ تھی
حسینہ تھی مگر اطوار و عادت میں کمینہ تھی
وہ پہلے سے جمال و حسنِ عبداللہ پہ مرتی تھی
مگر عرضِ تمنا کر نہیں سکتی تھی ڈرتی تھی
اچانک ہو گیا اس پر مسلط رنگ شیطانی
رگوں میں بے حیائی بن کے دوڑا خون حیوانی 58
ادھر سے آ رہا تھا یہ جوان پاک سیرت بھی
جسے آنکھیں جھکا کر شہر میں چلنے کی عادت تھی
ہوئی آ کر اچانک اب وہ عورت راہ میں حائل
نکالیں منہ سے بے شرمی کی باتیں سخت لاطائل
کہا سو اونٹ لے لے اور مری جانب توجہ کر
شراب وصل کی خاطر گری ہوں تیرے قدموں پر
مرے گھر میں شراب ناب بھی موجود ہے پیارے
در اندازوں کا رستہ ہر طرف مسدود ہے پیارے
کہاں جاتا ہے آ مل کر جوانی کے مزے لوٹیں
اندھیری رات میں جوش نہانی کے مزے لوٹیں
حیا و شرم کے باعث ادھر گردن خمیدہ تھی
ادھر عورت وفور جوش خوں سے آبدیدہ تھی
اب اس نے اس طرح دست جواں کو زور سے کھینچا
زبردستی اٹھا کر لے ہی جائے گی اسے گویا
سردار عبداللہ کی پاکیزگی
بدی کے جوش کو پایا جو یوں ایمان کا طالب
جوان ہاشمی کی شرم پر غصہ ہوا غالب
کراہت اور نفرت سے جھٹک کر ہاتھ عورت کا
زباں سے اس طرح گویا ہوا پتلا شرافت کا
مجھے معلوم ہے کرتے نہیں اشراف کام ایسا
سمجھتا ہوں میں بد تر موت سے فعل حرام ایسا
اگر تو عقد کو کہتی تو شاید مان جاتا میں
مطابق رسم قومی کے تجھے بیوی بناتا میں
مگر تو نے بے شرمی دکھائی اور بہکایا!
شریف انساں پہ لازم ہے بچانا دین و عزت کا
متانت سے کہا جو کچھ کہا جھڑکا نہ دی گالی
فقط جاتے ہوئے مردانہ غصے کی نگہ ڈالی
دکھائی مرد عالی ظرف نے جب شوکت ایماں
ہوئی شرمندہ عورت پست ہو کر رہ گیا شیطاں
غرض اس حادثے کے بعد عبداللہ گھر پہنچا
سلامت لے کے ایماں کو پسر پیش پدر پہنچا
جلال ہاشمی سے مشتعل تھا چہرہ انور
کہ تھا عورت کی گستاخی کا صدمہ زخم تھا دل پر
پدر نے برہمی کا حال اس سے پوچھنا چاہا
پسر چپ تھا کہ چپ رہنا ہی غیرت کا تقاضا تھا
کہا بابا طبعیت آج گھبرائی ہوئی سی ہے
اداسی کی گھٹا دل پر مرے چھائی ہوئی سی ہے
اجازت ہو تو میں بہر شکار اک دن چلا جاؤں
دل آبادی سے گھبرایا ہوا ہے اس کو بہلاؤں
پدر بولا کہ اے جان پدر اچھا چلے جانا
مگر دو ایک مسلح خادموں کو ساتھ لے جانا
مجھے اکثر تمہاری جان کا رہتا ہے ڈر بیٹا
نہ جانے بات کیا ہے کیوں ہے یہ بیم و خطر بیٹا
وہاں دن بھر ٹھہرنا شام ہوتے ہی چلے آنا
جونہی سورج چھپے تم شہر کے اندر چلے آنا
شیطان اور یہودی
ادھر ان باپ بیٹوں میں تو یہ تقریر ہوتی تھی
شکار آہوان دشت کی تدبیر ہوتی تھی
ادھر شیطان ناکامی پہ سر دھنتا ہوا نکلا
خود اپنے دل سے لعنت کی صدا سنتا ہوا نکلا
نظر دوڑائی ہر جانب بلندی پر کھڑے ہو کر
بھیانک تھا ڈرانا تھا پہاڑوں کا سیہ منظر
تھا آدھی رات کا عالم خموشی ہی خموشی تھی
اندھیرے کے سبب سے ہر گنہ کی عیب پوشی تھی
حرم سے فاصلے پر دامن کہسار کے اندر
نظر آئی اسے اک روشنی سے غار کے اندر
مسافر کچھ وہاں بیٹھے ہوئے اس کو نظر آئے
خیال آیا کہ شاید میرا مطلب ان سے بر آئے
اڑا شیطان فوراََ اس پہاڑی سے دھواں بن کر
پہنچ کر اس جگہ کچھ دیر ٹھہرا غار کے در پر
مسافر تھے یہودی قوم کے یہ پانچ سوداگر
کہ پلٹے جا رہے تھے شہر مکہ سے سوئے خیبر
یہاں ٹھہرے تھے شب کو ، صبح دم پھر اٹھ کے چلنا تھا
حجازی بدوؤں سے راہ کترا کر نکلنا تھا
پڑھے لکھے تھے باتیں کر رہے تھے قوم و مہذب کی
انہیں تو رات میں سوجھتی تھی اپنے مطلب کی
کیا ذکر ایک نے تورات کی پیش گوئی کا
کہ صحرائے عرب میں ظاہر اک سچا نبی ہو گا
سنی یہ بات تو اک دوسرا دعوے سے بول اٹھا
نبی ہو گا تو وہ بیشک ہماری قوم سے ہو گا
پیمبر جز بنی یعقوب پیدا ہو نہیں سکتا
کسی سے بھی زمانے میں یہ دعویٰ ہو نہیں سکتا
کہا پھر تیسرے نے ہم پہ راضی حق تعالیٰ ہے
ہماری برگزیدہ قوم سب قوموں سے بالا ہے
کہا چوتھے نے وہ سچا نبی یثرب سے اٹھے گا
جو سچ پوچھو تو وہ ہو گا ہمارے ہی قبیلے کا
تڑپ کر پانچواں بولا نہیں ہم میں سے ہو گا وہ !
اگر ہو گا تو بیشک بالیقیں ہم میں سے ہو گا وہ !!
غرض پانچوں ہی اپنی بات پر اصرار کرتے تھے
دلیلیں دیتے تھے غصے میں بھرتے تھے بپھرتے تھے
ادھر شیطاں کہ عیاری و مکاری میں ہے ماہر
بظاہر اک مقدس شکل میں ان پر ہوا ظاہر
سفید اس کی بھویں براق سی داڑھی تھی نورانی
چمکتی تھیں مثال شعلہ آنکھیں اور پیشانی
عصا ہاتھوں میں اور لانبی سی اک تسبیح گردن میں
بہت ڈھیلی عبا چھپ جائے انساں جس کے دامن میں
اندھیرے سے نکل کر روشنی میں اس طرح آیا
یہودی ڈر گئے اور دفعتاً ہر ایک چلایا
کہ اے ربی ہمارے حال پر لطف و کرم فرما
ترے بندے ہوئے جاتے ہیں کرتے ہیں تجھے سجدہ
مگر شیطاں نے دی ان کو تسلی اور یوں بولا
نہایت عارفانہ شان سے اس نے دہن کھولا
کہ اے بچو میں اترا ہوں تمھیں تلقین کرنے کو
تمھارے مذہبی میلان پر تحسین کرنے کو
نبی کے مسئلے پر تم جھگڑتے تھے جو آپس میں
میں سنتا تھا وہاں بیٹھا ہوا بیت المقدس میں
خیال آیا کہ چل کر تم کو سیدھی راہ بتلاؤں
یہودی قوم کے اک فائدہ کی بات سمجھاؤں
سنو اک بات کہتا ہوں بہت ہی راز داری کی
مخالف ہیں تمھارے طاقتیں پروردگاری کی
وہ عبدالمطلب جو آج کل سردار مکہ ہے
قریش ہاشمی ہے مالک و مختار مکہ ہے
پسر ہے اس کا عبداللہ تم اس کو جانتے ہو گے
اسے مکہ میں دیکھا ہو گا اور پہچانتے ہو گے
وہی لڑکا ہے جس کے صلب سے ہو گا نبی پیدا
مشیت آج کل ہے آل اسمعیل پر شیدا
مرے بچو نبی پیدا ہوا گر اس گھرانے میں
نہیں ہے پھر کوئی اپنا ٹھکانا اس زمانے میں
وہ اسمٰعیل کی اولاد کو شاہی دلائے گا
یہودی قوم کے حصے میں پھر کچھ بھی نہ آئے گا
یہودی قوم پر گویا خدا نے قہر ڈھایا ہے
مجھے یہ امر پوشیدہ فرشتوں نے بتایا ہے
یہ قصہ سنتے ہی جوش آ گیا پانچوں لعینوں کو
حسد سے بھر دیا شیطان نے تاریک سینوں کو
وہ بولے واقعی ہم پر ہمیشہ ظلم ہوتا ہے
نوازش دوسروں پر ہے خدا ہم کو ڈبوتا ہے
کہا شیطاں نے ایسی بات منہ سے مت نکالو تم
بھلا چاہو تو اس لڑکے کو جا کر مار ڈالو تم
سحر کے وقت وہ ان وادیوں میں آنے والا ہے
شکارِ آہواں سے اپنا دل بھلانے والا ہے
اٹھو تم بھی یہاں سے اور کرو جا کر شکار اس کا
نہ جانے دو یہاں سے آج زندہ زینہاںاس کو
کہاں تک رنج اٹھاؤ گے یہ جھگڑا ہی چکا ڈالو
کوئی خطرہ نہیں ہے دل سے اندیشہ مٹا ڈالو
تم اس کار عظیمہ مری امداد پاؤ گے
بڑی شوکت ملے گی مال لاتعداد پاؤ گے
مری امداد سے تم کو حکومت ہاتھ آئے گی
یقیں رکھو تمھاری بادشاہی پھر نا جائے گی
نہ مانو گے تو پھر اس کا ملے گا تم کو خمیازہ
جو چاہو تو ابھی کر لو مری طاقت کا اندازہ
یہ کہہ کر ایک پتھر پر نگاہ شیطان نے ڈالی
اڑا پتھر جگہ سے باوجود بے پرو و بالی
بلندی پر تڑاقے سے پھٹا شعلہ ہوا پیدا
پھر اس سے اک ہیولیٰ پانچ گھوڑوں کا ہوا پیدا
مرصع تھے یہ گھوڑے جنگ کے ہر ساز و ساماں سے
یہ ساماں بھی مرصع تھا عقیق و لعل و مرجاں سے
کہا شیطاں نے ، یہ لو میں تمہیں رہوار دیتا ہوں
ہر اک کو ایک اک شمشیرِ جوہر دار دیتا ہوں
سحر کے وقت نکلو غار سے میدان میں آؤ
وہیںاس نوجواں کو قتل کو ڈالو جہاں پاؤ
یہ کہہ کر دیکھتے ہی دیکھتے شیطان غائب تھا
اسے مدِ نظر اس وقت اظہارِ عجائب تھا
یہودی رہ گئے حیران اس زورِ کرامت پر
بھروسا ہو گیا اب ان کو اس کاہن کی قوت پر
لگے کہنے کہ یہ طاقت نہ دیدہ نے شنیدہ ہے
یہ بڈھا واقعی کوئی بڑا ہی برگزیدہ ہے
ہم اس کی بات پر پورا عمل کر کے دکھا دیں گے
حصول بادشاہی کے لئے جانیں لڑا دیں گے
سردار عبداللہ پر یہودیوں کا حملہ
اٹھیں مشرق سے نورانی شعاعیں برچھیاں تانے
بچھا رکھے تھے لیکن دام کوہ دشت و صحرا نے
مگر سورج نے ان کو مکر کی پاداش دی آخر
اندھیرے کو اجالے نے شکست فاش دی آخر
ادھر پانچوں یہودی بھی اندھیرے غار سے نکلے
یہ بزدل گھڑ چڑھے اس دامن کہسار سے نکلے
جوان ہاشمی کی جستجو تھی ان کمینوں کو
کہ شیطاں نے حسد سے بھر دیا تھا ان کے سینوں کو
بہر سو جھانکتے پھرنے لگے حیران و سرگرداں
لئے دل میں امید و بیم کا دریائے بے پایاں
یکایک فاصلے پر ٹاپ گھوڑے کی سنائی دی
بالآخر نوجوان کی چاند سی صورت دکھائی دی
یہ عبداللہ تھا، اور اس گھڑی بالکل اکیلا تھا
مسلح خادموںکو دور پیچھے چھوڑ آیا تھا!
تعاقب میں ہرن کے آ رہا تھا برق دم گھوڑا
سوار ہاشمی نے تاک کر تیر قضا چھوڑا !
نشانے پر پڑا ناوک نشانہ ہو گیا آہو
گرا گر کر اٹھا آہو، پھر اٹھا ، پھر گرا آہو
وہیں ناوک فگن بھی دوسری ساعت میں آ پہنچا
اتر کر زین سے ، نخچیر آہو کے قریب آیا
ارادہ تھا کہ باندھوںذبح کر کے پشت توسن سے
سراسر بے خبر تھا کید صیادان پر فن سے
یہودی گھڑ چڑھوں نے دفعتاً پیدل کو آ گھیرا
نظر تلوار آئی دیدہ حیراں جدھر پھیرا
مگر یہ شیر تلواروں کے سائے سے نہ گھبرایا
مثال برق کوندا ، پشت توسن پر چلا آیا
پکارا ! یہ تو بتلاؤ ، کہ حملے کا سبب کیا ہے
وہ بولے ، ایک ہی مقصد ہے ، تجھ کو قتل کرنا ہے
پانچ شیطان ، ایک بندہ رحمان
غرض پانچوں نے تلواروں سے حملہ کر دیا یکدم
اکیلا بھڑ گیا ناچار ان سے ہاشمی ضیغم
لئے پہلے تو جھک کر وار اپنی ڈھال پر اس نے
چرا کر جسم سارا کر لیا زیر سپر اس نے
بڑی پھرتی سے پھر مشتاق گھوڑے کو دیا کاوا
ذرا ہٹ کر، سنبھل کر ان پہ نیزے سے کیا دھاوا
یہ نیزہ ایک کے پہلو سے پہلو توڑ کر نکلا
بقیہ عمر کا رشتہ فضا سے جوڑ کر نکلا
یہودی چیخ اٹھے یہ سانحہ یکدم گزرنے سے
ہوئے اب اور بھی سفاک ، اک ساتھی کے مرنے سے
ہوئے محتاط ، گھیرا نوجواں کو اس طریقے سے
کہ لڑنا ہو گیا اس کے لئے مشکل سلیقے سے
مگر پھر بھی وہ نعرے مار کر ان پر جھپٹتا تھا
برابر زخم کھاتا تھا، مگر پیچھے نا ہٹتا تھا
اگرچہ یہ بہادر ہمت و جرات میں یکتا تھا
مگر وہ چار تھے ، کم عمر تھا یہ اور تنہا تھا
دکھائی اس جری کے بازوؤں نے دیر تک چستی
بالآخر خون بہ جانے سے آئی جسم میں سستی
وہب بن عبد مناف والد سیدہ آمنہ ؓ
بنو زہرہ میں اک مرد معمر وہب نامی تھا
قریشی نسل میں یہ شخص بھی ماہ تمامی تھا
تھی اس کے گھر میں اک دختر جو ایسی پاک سیرت تھی
کہ اس کی ذات سے لفظ حیا داری عزت تھی
عرب میں آمنہ مشہور تھا نام اس عفیفہ کا
اسی کی گود گہوارہ بنی دین حنیفہ کا
بہت ہی فکر رہتی تھی پدر کو عقد دختر کی
بنی ہاشم میں تھی اس کو تلاش و جستجو بر کی
روایت ہے کہ اس دن ہو گیا تھا اونٹ گم اس کا
وہ اس کو ڈھونڈا پھرتا تھا اس جانب بھی آ نکلا
بلندی سے اسے اس جنگ کا نقشہ نظر آیا
یہودی قاتلوں کے بس میں اک لڑکا نظر آیا
نظر آیا وہ لڑکا برسرِ پیکار چاروں سے
بہت ہی تن دہی سے لڑ رہا تھا پختہ کاروں سے
خیال آیا کہ ملنی چاہیے امداد لڑکے کو
مبادا قتل کر دیں مل کے یہ جلاد لڑکے کو
مگر اٹھا جونہی امداد کرنے کے ارادے سے
نہ جانے کیوں الجھ کر رہ گیا اپنے لبادے سے
پھر اٹھا جب دوبارہ پاؤں پھسلا ایک پتھر سے
چٹان ابھری ہوئی تھی ایک وہ ٹکڑا گئی سر سے
اٹھا پھر تیسری بار اور چاہا جلد اتر جاؤں
جوان ہاشمی کو قتل ہونے سے بچا لاؤں
مگر اب کے ہوا اک اژدہا اس راہ میں حائل
کہ جس کے خوف سے ساری عزیمت ہو گئی زائل
یہ مرد اب دور ہی بیٹھا ہوا حسرت سے تکتا تھا
جوان ہاشمی کے واسطے کچھ کر نہ سکتا تھا
نظر آیا کہ لڑکا سست ہے زخموں کی شدت سے
یہودی پے بہ پے حملے کئے جاتے ہیں قوت سے
خیال آیا مری آواز سے شاید وہ ڈر جائیں
یہاں اک شخص کو موجود سمجھیں اور باز آئیں
مگر جونہی یہ سوچا اور نعرہ مارنا چاہا
وہیں گھونٹا کسی نے حلق اور بٹھلا دیا چپکا
حقیقت میں یہ سب شیطان کی فتنہ طرازی تھی
مدد کے راستے میں ہر رکاوٹ حیلہ سازی تھی
رہی جب اس برح ہر مرتبہ تدبیر ناکارہ
نظر آیا نہیں تقدیر سے انسان کا چارہ
مگر اس بے گنہ کا قتل میں ہونا نہ دیکھوں گا
نہیں کچھ اور کر سکتا تو آنکھیں بند کرلوں گا
مگر اتنے میں اس کو اور ہی نقشہ نظر آیا
زمیں سے تا فلک اک نور کا جلوہ نظر آیا
نظر آیا اترنا چار نورانی فرشتوں کا
اور ان کو دیکھتے ہی بھاگنا ان بد سرشتوں کا 59
گرا کر قاتلوں کو بھاگ اٹھے رہوار شیطانی
زمیں پر سر پٹکتے رہ گئے غولِ بیابانی
جواں نے ا ب تعاقب کر کے مارا ان لعینوں کو
نہ شیطاں دے سکا کوئی سہارا ان لعینوں کو
یہ صورت دیکھ کر مرد معمر ہو گیا حیراں
یقیں آیا، کہ ہے یہ ہاشمی لڑکا بہت ذیشاں
اٹھا تو راستے میں اب نہ کوئی اژدہا دیکھا
وہاں پہنچا تو پانچوں قاتلوں کا سر کٹا دیکھا
پڑے تھے پانچ لاشے ایک اک سے دور سب تنہا
کھڑا تھا اک جگہ فرزند عبدالمطلب تنہا
غرض زخمی جواں کو ساتھ لے کر وہب گھر آیا
یہ سارا ماجرا اس کے پدر کو جا کے بتلایا
پھر اپنی نیک دختر بیاہ دی اس شیر صولت سے
خوشی اس بیاہ کی سب نے منائی شان و شوکت سے
بہم دولہا دلہن تھے صورت و سیرت میں لاثانی
قسم کھاتی تھی ان کا نام لے کر پاک دامانی
وہ نور لم یزل جس کی ضیا تھی روئے انور میں
نظر آنے لگی اس کی جھلک تقدیر مادر میں
سردار عبداللہ کا انتقال
گئے پھر کچھ دنوں کے بعد سوئے شام عبداللہ
وہاں سے پلٹے آتے تھے کہ آئی موت بھی ناگاہ
جوانی میں ہوا یثرب کے اندر انتقال ان کا
رہا اب آمنہ کے واسطے رنج و ملال ان کا
لیے بیٹھی تھیں اب گھر میں امانت اپنے شوہر کی
کہ تھی بطنِ صدف میں روشنی اک پاک گوہر کی
اصحاب فیل کا بیان
ہوئی شیطان کو اس مرتبہ بھی سخت ناکامی
تو قبضے میں کیا اک شخص اس نے ابرہہ 60 نامی
یہ حاکم تھا یمن کا اور حبش کی فوج کا افسر
تھا اس کے پاس خونی ہاتھیوں کا اک بڑا لشکر
یمن میں ڈالی تھی بنیاد اس نے اک کلیسا 61 کی
دیا تھا حکم پوجا ہو یہاں تصویرِ عیسیٰ کی
مگر آئے نہ اس ڈھب پر بتوں کے پوجنے والے
اگرچہ ابرہہ نے ملک پر ڈورے بہت ڈالے
اگرچہ نام حق سے سر بسر یہ لوگ عاری تھے
بتانِ کعبہ کے اہلِ عرب لیکن پجاری تھے
کوئی رونق نہ پائی جب یمن والے کلیسا نے
کسی کا دل نہ کھینچا الفتِ تصویرِ عیسیٰ نے
در تثلیث پر گردن جھکائی جب نہ انساں نے
تو یہ پٹی پڑھائی ابرہہ کو نفسِ شیطاں نے
کہ مکے میں جو کعبہ ہے اسے جب تک نہ ڈھاؤ گے
اٹھا کر سنگِ اسود کو یہاں جب تک نہ لاؤ گے
وہاں جب تک براہیمی عبادت گاہ باقی ہے
عرب والوں میں رسمِ حجِ بیت اللہ باقی ہے
تمہارے اس کلیسا کی طرف کوئی نہ آئے گا
تمہارا دین دنیا میں کبھی رونق نہ پائے گا 62
خدا کے خانہ وحدت کو ڈھا دینا ہی لازم ہے
نشان حق زمانے سے مٹا دینا ہی لازم ہے
پڑا اس خوئے بد پروار شیطاں کا بڑا کاری
کہ فوراً ابرہہ اشرم نے کی حملے کی تیاری
ہوا تیار خونی ہاتھیوں کا اک بڑا لشکر
چلا مکے کی جانب ابرہہ اس فوج کو لے کر
تھا آگے آگے اک فیل سفید اس کی سواری میں
اکڑ کر ابرہہ بیٹھا تھا اک زریں عماری میں
رواں تھیں پیچھے پیچھے ہاتھیوں کی جنگجو فوجیں
سمندر کی اندھیری رات میں طوفان کی موجیں
یہ لشکر جا رہا تھا کعبۃ اللہ کے گرانے کو
زمیں سے نام حق کا مرکزی نقطہ مٹانے کو
یمن سے مکہ تک آبادیاں جو راہ میں آئیں
وہاں اس فوج نے بربادیاں ہر سمت پھیلائیں
کبھی دیکھے نہ تھے ہاتھی عرب کے رہنے والوں نے
اثر ان پر کیا شمشیر و خنجر نے نہ بھالوں نے
مشرکین کا فرار
یہ خبریں اہل مکہ نے سنیں اور سخت گھبرائے
دلوں پر وسوسے شیطان نے فی الفور پھیلائے
اگرچہ بت پرستی کی نہیں رکھی تھی حد کوئی
ہبل اور لات و عزی نے نہ کی ان کی مدد کوئی
قریش ان ہاتھیوں سے خوف کھا کر دفعتاً بھاگے
پہاڑوں میں چھپے جا کر کوئی پیچھے کوئی آگے
یہ سب خوف و خطر تھا بت پرستی ہی کا خمیازہ
کہ برہم ہو چکا تھا ان کی یک جہتی کا شیرازہ
دلائی ان کو عبدالمطلب نے گو بہت غیرت
نہ دکھلائی مگر نسلِ قریشی نے کوئی جرات
تھے عبدالمطلب یا بیٹے پوتے ان کے دس بارا
یہی باقی تھے ، باقی شہر خالی ہو گیا سارا
سپہ اولاد تھی والد سپہ سالار مکہ تھا
یہی کعبے کا خادم تھا، یہی سردارِ مکہ تھا
سردار عبدالمطلب اور ابرہہ اشرم کی گفتگو
سحر کے وقت اک بدویہ مکے میں*خبر لایا
کہ لشکر فیل والوں نے حرم کی حد پہ ٹھیرایا
چراگاہوں میں خاک اڑنے لگی ہے ظلم کے مارے
پکڑ کر اونٹ عبدالمطلب کے لے گئے سارے
ہوئے تیار عبدالمطلب بھی یہ خبر سن کر
تنِ تنہا چلے گھوڑے پہ چڑھ کر جانبِ لشکر
وہاں پہنچے تو ان کو ابرہہ نے دور سے دیکھا
کہ اک مرد معمر آ رہا ہے بے دھڑک تنہا
نشاں چہرے سے ظاہر ہیں بزرگی کے امارت کے
شرافت کے نجابت کے تقدس کے طہارت کے
وہ ان کی پیشوائی کے لیے باہر نکل آیا
بڑی عزت سے اپنی بارگہ میں لا کے بیٹھا
کہا فرمائیے کیا نام ہے کیا کام ہے صاحب؟
بیاں کیجے یہاں آنے کا اپنے مقصد و مطلب
کہا اہلِ عرب کہتے ہیں عبدالمطلب مجھ کو
نہیں ہے آپ سے کوئی غرض کوئی طلب مجھ کو
ہنکا لائے ہیں میرے اونٹ جا کر آپ کے چاکر
میں آیا ہوں کہ لے جاؤں یہاں سے اونٹ لوٹا کر
سنی یہ بات تو حیران ہو کر ابرہہ بولا
کہ شاید تم نے اپنی بات کو دل میں نہیں تولا
یہ ظاہر ہے میں آیا ہوں یہاں کعبہ گرانے کو
تمہارے جدِ امجد کی عبادت گاہ ڈھانے کو
تعجب ہے ، کہ اک ناچیز شے کا ذکر کرتے ہو
نہیں کعبے کی فکر اونٹوں کی اپنے فکر کرتے ہو
تمہیں لازم تھا عزت کے مطابق گفتگو کرتے
خدا کا گھر بچانے کے لیے کچھ آرزو کرتے
اصحاب فیل کے حملے کی صبح
بالآخر نور نے اس سحر کے آثار بھی میٹے
ہوئے تیار عبدالمطلب اور ان کے سب بیٹے
دعا مانگی جناب آمنہ کو پاس بٹھلا کر
کہ اے کعبہ کے مالک ، نصرت غیبی مہیا کر
یہ عالی شان بچہ جو ابھی ہے بطن مادر میں
بشارت تھی کہ اس کا نور چمکے گا تیرے گھر میں
اسی کے واسطے سے ہم دعا کرتے ہیں اے مالک
سوا تیرے کسی سے ہم نہیں ڈرتے ہیں اے مالک
بچا لے یورشِ دشمن سے اپنے گھر کی حرمت کو
بچا لے آلِ اسمٰعیلّ کے سامانِ عزت کو
دعائیں مانگ کر اٹھے فرازِ کوہ پر آئے
یہاں سے فوجِ دشمن کے انہیں نقشے نظر آئے
غبار اٹھتا نظر آیا حرم کے اک کنارے سے
فلک کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا اس نظارے سے
چڑھی آتی تھی کعبے پر گھٹا ظلمت کی صحرا سے
ستارے ڈر کے مارے ہو گئے روپوش دنیا سے
سحر نے بسترِ مشرق سے لی جب اٹھ کے انگڑائی
افق پر کالے کالے ہاتھیوں کی چھاؤنی چھائی
ہنسا شیطاں کہ بر آنے لگی اس کی امید آخر
بڑھایا ابرہہ نے فوج سے فیلِ سفید آخر
قطاریں ہاتھیوں کی پیچھے پیچھے بڑھتی آتی تھیں
بروئے کعبہ یہ کالی گھٹائیں چڑھتی آتی تھیں
کہیں آنکس کہیں تیغے کہیں برچھے چمکتے تھے
مہاوت ہاتھیوں کو ریلتے تھے کفر بکتے تھے
حرم کی حد میں یوں جب چیرہ دستی کا سماں دیکھا
زمیں نے خوف سے تھرا کے سوئے آسماں دیکھا
ہاتھی سجدے میں
اٹھائی تیغ، اب غصے میں عبدالمطلب اٹھے
فدائے کعبہ ہو جانے کو با غیظ و غضب اٹھے
مگر اٹھتے ہی ان کو اور ہی نقشا نظر آیا
جلالِ ربِ کعبہ کا عجب جلوا نظر آیا
حرم کی حد میں آیا ابرہہ تو رک گیا ہاتھی
پئے تعظیم کعبہ عاجزی سے جھک گیا ہاتھی
گرا سجدے میں سر ایسا کہ پھر اوپر نہیں اٹھا
ہزار آنکس پڑے تن پر مگر یہ سر نہیں اٹھا
یکایک ابرہہ نے مڑ کے دیکھا فوج کی جانب
حرم کی سرزمیں پر بڑھنے والی موج کی جانب
نظر آیا قطاراں در قطاراں رک گئے ہیں سب
بروئے کعبہ سجدے کر رہے ہیں جھک گئے ہیں سب
تعجب اور گھبراہٹ کا ہنگامہ ہے پیش و پس
مہاوت مارتے ہیں ہاتھیوں پر پے بہ پے آنکس
پڑے ہیں اس طرح ہاتھی کہ جنبش ہی نہیں کرتے
خدا کا ڈر ہے دل میں آج شیطاں سے نہیں ڈرتے
اصحاب فیل کا حشر
نکالی ابرہہ نے تیغ ہاتھی سے اتر آیا
مخاطب کر کے اپنی فوج کو کم بخت چلایا
کہ بزدل ہاتھیوں کو چھوڑ کر آگے بڑھیں فوجیں
بہادیں آج کعبے کو اٹھیں لہریں، چڑھیں موجیں
یہ کہنا تھا کہ چھائی آسماں پر ایک بدلی سی
فضا میں روشنی مہر کر دی جس نے گدلی سی
بلندی پر سے عبدالمطلب حیرت سے تکتے تھے
کہ وہ خطہ جہاں یہ لوگ ایسا کفر بکتے تھے
وہاں زیر فلک ساری فضا پر چھا گئیں چڑیاں
خدا جانے کہاں سے جمع ہو کر آ گئیں چڑیاں
یہ ننھی منی چڑیاں تھیں ابابیلوں کا لشکر تھا
ذرا سی چونچ میں نازک سے ہر پنجے میں کنکر تھا
نہ کی جب ابرہہ نے اک ذرا بھی حرمت کعبہ
ابابیلوں نے کی آ کر یکایک نصرتِ کعبہ
بلندی سے ابابیلوں نے پھینکے اس طرح کنکر
کہ چھلنی کی طرح سے چھد گئی یہ فوج بد اختر
وہ ظالم ابرہہ اور اس کے ساتھی ایک ساعت میں
پڑے تھے سب کے سب دھنکی ہوئی روئی کی صورت میں
وہ فوجیں اور وہ ہاتھی اور ان کے ہانکنے والے
خدا کے قہر نے اک آن میں پامال کر ڈالے 63
یہ زندہ معجزہ دکھلا دیا اس مہرِ انور نے
چھپا رکھا تھا جس کو عصمتِ دامانِ مادر نے
یہ پوتا واسطے سے جس کے دادا نے دعا مانگی
وہ جس کے نام سے نادیدہ تائیدِ خدا مانگی
وہ بچہ آمنہ کے گھر میں پیدا ہونے والا تھا
وہ نور اب چند ہی دن میں ہویدا ہونے والا تھا
جہاں کے واسطے امن و اماں کے دور باقی تھے
وہ دن آنے کو تھا بس دو مہینے اور باقی تھے
با ب چہارم
ختم المرسلیں، رحمۃ للعالمین کی ولادتِ با سعادت
طلسم کن سے قائم بزمِ ہست و بود ہو جانا
اشارے ہی سے موجودات کا موجود ہو جانا
عناصر کا شعور زندگی سے بہرہ ور ہونا
لپٹ کر آب و خاک و باد و آتش کا بشر ہونا
یہ کیا تھا، کس لیے ، کس کے لیے تھا، مدعا کیا تھا؟
یونہی تھا یا کوئی مقصد تھا، آخر ماجرا کیا تھا؟
وہ جلوہ جو چھپا بیٹھا تھا اپنے راز پنہاں میں
درآیا کیوں تماشا بن کے وہ بازار امکاں میں
یہ کس کی جستجو میں مہرِ عالمتاب پھرتا تھا
ازل کے روز سے بیتاب تھا بیخواب پھرتا تھا
یہ کس کی آرزو میں چاند نے سختی سہی برسوں
زمیں پر چاندنی برباد و آوارہ رہی برسوں
یہ کس کے شوق میں پتھرا گئیں آنکھیں ستاروں کی
زمیں تو تکتے تکتے آ گئیں آنکھیں ستاروں کی
کروڑوں رنگتیں کس کے لیے ایام نے بدلیں
پیا پے کروٹیں کس دھن میں صبح و شام نے بدلیں
یہ کس کے واسطے مٹی نے سیکھا گل فشاں ہونا
گوارا کر لیا پھولوں نے پامالِ خزاں ہونا
یہ سب کچھ ہو رہا تھا ایک ہی امید کی خاطر
یہ ساری کاہشیں تھیں ایک صبح عید کی خاطر
مشیت تھی کہ یہ سب کچھ تہِ افلاک ہونا تھا
کہ سب کچھ ایک دن نذرِ شہِ لولاک ہونا تھا
خلیل اللہ نے جس کے لیے حق سے دعائیں کیں
ذبیح اللہ نے وقتِ ذبح جس کی التجائیں کیں
جو بن کر روشنی پھر دیدہ یعقوبّ میں آیا
جسے یوسفّ نے اپنے *حسن کے نیرنگ میں پایا
کلیم اللہ کا دل روشن ہوا جس ضو فشانی سے
وہ جس کی آرزو بھڑکی جوابِ لن ترانی سے
وہ جس کے نام سے داؤد نے نغمہ سرائی کی
وہ جس کی یاد میں شاہِ سلیماں نے گدائی کی
دل یحیی میں ارماں رہ گئے جس کی زیارت کے
لبِ عیسیّٰ پہ آئے وعظ جس کی شانِ رحمت کے
وہ دن آیا کہ پورے ہو گئے تورات کے وعدے
خدا نے آج ایفا کر دیئے ہر بات کے وعدے
مرادیں بھر کے دامن میں مناجاتِ زبور آئی
امیدوں کی سحر پڑھتی ہوئی آیاتِ نور آئی
نظر آئی بالآخر معنی انجیل کی صورت
ودیعت ہو گئی انسان کو تکمیل کی صورت
اندھیری رات کے پردے سے کی حق نے سحر پیدا
ہوا بہر بصیرت کحل ما زاغ البصر پیدا
ربیع الاول امیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا
دعاؤں کی قبولیت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا
خدا نے ناخدائی کی خود انسانی سفینے کی
کہ رحمت بن کے چھائی بارھویں شب اس مہینے کی
ازل کے روز جس کی دھوم تھی وہ آج کی شب تھی
ارادے ہی میں جو مرقوم تھی وہ آج کی شب تھی
مشیت ہی کو جو معلوم تھی وہ آج کی شب تھی
جو قسمت کے لیے مقسوم تھی وہ آج کی شب تھی
نئے سر سے فلک نے آج بختِ نوجواں پایا
خزاں دیدہ زمیں پر دائمی رنگِ بہار آیا
ادھر سطح فلک پر چاند تارے رقص کرتے تھے
ادھر روئے زمیں کے نقش بنتے تھے سنورتے تھے
سمندر موتیوں کو دامنوں میں بھر کے بیٹھے تھے
جبل لعل و جواہر کو مہیا کر کے بیٹھے تھے
زمرد وادیوں میں سبزہ بن کر ہر طرف بکھرا
ہوئی باران رحمت ہر شجر کا رنگِ رخ نکھرا
ہوائیں پے بہ پے اک سرمدی پیغام لاتی تھیں
کوئی مژدہ تھا جو ہر گوشِ گل میں کہہ سناتی تھیں
گلے پھولوں سے ملتے جا رہے تھے پھول گلشن میں
گلے مل مل کے کھلتے جا رہے تھے پھول گلشن میں
تبسم ہی تبسم تھے نظارے لالہ زاروں کے
ترنم ہی ترنم تھے کنارے جوئباروں کے
جہاں میں جشن صبح عید کا سامان ہوتا تھا
فقط شیطان تنہا اپنی ناکامی پہ روتا تھا
نظر آئیں جو محکم فطرتِ کامل کی بنیادیں
دھڑک کر زلزلے سے ہل گئیں باطل کی بنیادیں
ستوں مکے میں قائم ہو گئے جب دینِ بیضا کے
گِرے غش کھا کے چودہ کنگرے ایوانِ کسریٰ کے
سر فاران پہ لہرانے لگا جب نور کا جھنڈا
ہوا اک آہ بھر کر فارس کا آتشکدہ ٹھنڈا
بجائی آج اسرافیل نے پر کیف شہنائی
ہوئی فوج ملائک جمع زیر چرخ مینائی
ندا آئی دریچے کھول دو ایوانِ قدرت کے
نظارے خود کرے گی آج قدرت شانِ قدرت کے
یکایک ہو گئی ساری فضا تمثال آئینہ
نظر آیا معلق عرش تک اک نور کا زینہ
خدا کی شان رحمت کے فرشتے صف بہ صف اترے
پرے باندھے ہوئے سب دین و دنیا کے شرف اترے
سحاب نور آ کر چھا گیا مکے کی بستی پر
ہوئی پھولوں کی بارش ہر بلندی اور پستی پر
ہوا عرش معلیٰ سے نزولِ رحمتِ باری
تو استقبال کو اٹھی حرم کی چاردیواری
صدا ہاتف نے دی اے ساکنانِ خطہ ہستی
ہوئی جاتی ہے پھر آباد یہ اجڑی ہوئی بستی
مبارک باد ہے ان کے لیے جو ظلم سہتے ہیں
کہیں جن کو اماں ملتی نہیں برباد رہتے ہیں
مبارک باد بیواؤں کی حسرت زا نگاہوں کو
اثر بخشا گیا نالوں کو فریادوں کو آہوں کو
ضعیفوں بیکسوں آفت نصیبوں کو مبارک ہو
یتیموں کو غلاموں کو غریبوں کو مبارک ہو
مبارک ٹھوکریں کھا کھا کے پیہم گرنے والوں کو
مبارک دشتِ غربت میں بھٹکتے پھرنے والوں کو
خبر جا کر سنا دو شش جہت کے زیردستوں کو
زبردستی کی جرات اب نہ ہو گی خود پرستوں کو
معین وقت آیا زور باطل گھٹ گیا آخر
اندھیرا مٹ گیا ظلمت کا بادل چھٹ گیا آخر
مبارک ہو کہ دورِ راحت و آرام آ پہنچا
نجات دائمی کی شکل میں اِ سلام آ پہنچا
مبارک ہو کہ ختم المرسلیں ْ تشریف لے آئے
جناب رحمۃ للعالمیں ْ تشریف لے آئے
بصد انداز یکتائی بغایت شانِ زیبائی 64
امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی
ندا ہاتف کی گونج اٹھی زمینوں آسمانوں میں
خموشی دب گئی اللہ اکبر کی اذانوں میں
حریم قدس سے میٹھے ترانوں کی صدا گونجی
مبارک باد بن کر شادیانوں کی صدا گونجی
بہر سو نغمہ صل علی گونجا فضاؤں میں
خوشی نے زندگی کی روح دوڑا دی ہواؤں میں
فرشتوں کی سلامی دینے والی فوج گاتی تھی
جناب آمنہ سنتی تھیں یہ آواز آتی تھی
سلام
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی
سلام اے فخرِ موجودات فخرِ نوع انسانی
سلام اے ظلِ رحمانی، سلام اے نورِ یزدانی
ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی
سلام اے سرِ وحدت اے سراجِ بزمِ ایمانی
زہے یہ عزت افزائی، زہے تشریف ارزانی
ترے آنے سے رونق آ گئی گلزارِ ہستی میں
شریکِ حال قسمت ہو گیا پھر فضلِ ربانی
سلام اے صاحبِ خلقِ عظیم انساں کو سکھلا دے
یہی اعمالِ پاکیزہ یہی اشغالِ روحانی
تری صورت، تری سیرت، ترا نقشا، ترا جلوہ
تبسم، گفتگو، بندہ نوازی، خندہ پیشانی
اگرچہ فقر فخری رتبہ ہے تیری قناعت کا
مگر قدموں تلے ہے فرِ کسرائی و خاقانی
زمانہ منتظر ہے اب نئی شیرازہ بندی کا
بہت کچھ ہو چکی اجزائے ہستی کی پریشانی
زمیں کا گوشہ گوشہ نور سے معمور ہو جائے
ترے پرتو سے مل جائے ہر اک ذرے کو تابانی
حفیظ بے نوا کیا ہے گدائے کوچۂ الفت
عقیدت کی جبیں تیری مروت سے ہے نورانی
ترا در ہو مرا سر ہو مرا دل ہو ترا گھر ہو
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی
سلام ، اے آتشیں زنجیرِ باطل توڑنے والے
سلام، اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے
آنحضرت کے دادا عبدالمطلب کو خبر ملتی ہے
تھے عبدالمطلب کے بیٹے پوتے اور دس بارا 65
پھلا پھولا نظر آتا تھا اپنا خانداں سارا
اگرچہ بولہب، عباس، حمزہ اور ابو طالب
سبھی زندہ تھے عبداللہ کا غم تھا مگر غالب
جوانی کے دنوں میں اک نرالا خواب 66 دیکھا تھا
درختِ نسل ہاشم اس قدر شاداب دیکھا تھا
کہ اس کے سائے میں دونوں جہاں معلوم ہوتے تھے
مکان و لامکاں دو ٹہنیاں معلوم ہوتے تھے
وہ عبداللہ کو اس خواب کی تعبیر سمجھے تھے
اسی رخ کو کتابِ نور کی تفسیر سمجھے تھے
جوانی ہی میں لیکن ہو گیا جب انتقال ان کا
رہا بوڑھے پدر کے قلب میں رنج و ملال ان کا
جوانا مرگی فرزند سے ناشاد رہتے تھے
بچاری حاملہ بیوہ بہو کا رنج سہتے تھے
طواف کعبہ کرنا صبح کا معمول تھا ان کا
دعا بن کر ہوا کرتا تھا ظاہر مدعا ان کا
دعا یہ تھی کہ یارب نعمتِ موعود مل جائے
بنو ہاشم کا مرجھایا ہوا گلزار کھل جائے
یونہی اک روز معمولاً طواف کعبہ کرتے تھے
فلک کو دیکھتے تھے اور آہِ سرد بھرتے تھے
اچانک صبح کی پہلی کرن ہنستی ہوئی آئی
مبارک باد کہہ کر یہ خبر دادا کو پہنچائی
کہ رحمت نے تری سوکھی ہوئی ڈالی ہری کر دی
تری بیوہ بہو کی گود اپنے نور سے بھر دی
ملا ہے آمنہ کو فضلِ باری سے یتیم ایسا
نہیں ہے بحرِ ہستی میں کوئی در یتیم ایسا
کعبہ مقصود عالم کا طوافِ کعبہ
اٹھا سردارِ مکہ یہ نوید جاں فزا سن کر
ادائے شکر کر کے جلد پہنچا آمنہ کے گھر
جناب آمنہ تھیں شوہر مرحوم کے گھر 67 میں
مجسم سورہ والشمس کی تفسیر تھی بر میں
نظر آتی تھی آج اس گھر میں آبادی ہی آبادی
انگوٹھا چوستا تھا اس جگہ انسان کا ہادی
حسیں آنکھیں کہ جن سے کلفتیں معدوم ہوتی تھیں
فلک کو کچھ سبق دیتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں
اٹھایا گود میں دادا نے عالی قدر پوتے کو
دکھانے لے چلا حق کا مقامِ صدر پوتے کو
شجر رستے میں استادہ ہوئے تعظیم کی خاطر
حجر قدموں کے آگے بچھ گئے تسلیم کی خاطر
طواف کعبہ کرنے جا رہا تھا قبلہ عالم
کہ جس کی ذات سے حق کی بنائیں ہو گئیں محکم
وہی کعبہ جو ابراہیم کے ایمان کا گھر تھا
جو انسانوں کے ہاتھوں ہر بتِ بے جان کا گھر تھا
بلائیں لے رہا تھا آج گویا گرد پھر پھر کر
ھو اللہ احد کہتے تھے بت سجدے میں گر گر کر
یہاں سے ہو کے عبدالمطلب فی الفور گھر پلٹے
خدا سے خیر و برکت کی دعائیں مانگ کر پلٹے
امانت آمنہ کی آمنہ کے بر میں پہنچا دی
غلاموں لونڈیوں نے اس خوشی میں پائی آزادی 68
بشارت کے مطابق آمنہ نے نام بتلایا
فرشتوں نے بتایا تھا کہ احمد ہے ترا جایا
کہا دادا نے اے بیٹی مرا پوتا محمد ہے 69
کہ دنیا بھر کے انسانوں سے اعلیٰ اور امجد ہے
عرب کی دودھ پلائیاں۔۔ حلیمہ 70 سعدیہ کی غریبی
شریفان عرب کا قاعدہ تھا اس زمانے میں
کہ بچے ان کے پلتے تھے کسی بدوی گھرانے میں
اسی مقصد سے بدوی عورتیں ہر سال آتی تھیں
بڑے شہروں سے نوزائیدہ بچے لے کے جاتی تھیں
پلا کر دودھ اپنا پالتی تھیں نونہالوں کو
عوض دولت میں دینا پڑتا تھا اولاد والوں کو
جو بچے اس طرح سے کاٹتے تھے دن رضاعت کے
بڑے ہو کر نظر آتے تھے وہ پتلے شجاعت کے
یہ بچے سختیوں کو کھیل بچوں کا سمجھتے تھے
یہ تلواروں کی جھنکاروں کو اک نغمہ سمجھتے تھے
چنانچہ شہر میں امسال بھی کچھ عورتیں آئیں
بیابانوں سے اپنے ساتھ نہریں دودھ کی لائیں
قریشی نسل کے اطفال کی ہر دل میں خواہش تھی
امیروں کا کوئی بچہ ملے یہ سخت کاہش تھی
یہ دایہ عورتیں تھی سعد کے بدوی 71 قبیلے کی
انہیں میں تھی حلیمہ سعدیہؓ اور اس کا شوہر بھی
حلیمہ قافلے بھر میں غریب اور سب سے کم تر تھی
پھر اس کی اونٹنی بھی دُبلی پتلی اور لاغر تھی
گھروں میں مقدرت والوں کے پہنچیں عورتیں ساری
حلیمہؓرہ گئی ڈیرے پہ بیٹھی شرم کی ماری
وہ زر داروں کے بچے لے کے واپس لوٹ بھی آئیں
حلیمہؓ سعدیہ نے دو کھجوریں بھی نہیں پائیں
بالآخر قافلے کی واپسی کا روز آ پہنچا
بچاری کے لئے اِ ک ناوکِ دلدوز آ پہنچا
شکستہ خاطری سے اب دلِ مایوس بھر آیا
مرادیں سب نے پائیں ہائے مَیں نے کچھ نہیں پایا!
اٹھی اس سوچ میں جا کر طوافِ کعبہ آؤں
وہاں سے آ کے سوچوں گی کہ ٹھہروں یا چلی جاؤں
مری قسمت بھلی ہوتی تو کوئی طفل مل جاتا
غریبی ہیں میں اس کو پال لیتی مجھ سے ہل جاتا
بلا سے دودھ کم ہے تو بھی وہ مجھ کو خوشی دیتا
مرا بچہ بچارا اُونٹنی کا دودھ پی لیتا!
یہ باتیں سوچتی تھی دل ہی دل میں روتی جاتی تھی
کوئی بچہ نظر آئے تو بیکل ہوتی جاتی تھی
اچانک اس کو اس کو عبدالمطلب نے دور سے دیکھا
حلیمہ کو بلایا رنج و غم کا ماجرا پوچھا
کہا میں سعدیہ عورت ہوں یعنی بدویہ دایا
حلیمہ نام ہے ، میں ے کوئی بچہ نہیں پایا
قبیلے والیاں لائی ہیں کیسے پھول سے لڑکے
رہی جاتی ہوں میں اور قافلے کا کوچ ہے تڑکے
ہنسے یہ سُن کے عبدالمطلب اور ہنس کے فرمایا
کہ ہاں اے نیک بی بی ! اے حلیمہ سعدیہ دایا
حلیمی اور سعادت خوبیاں دو پاس ہیں تیرے
انہی دونوں کے باعث کام سارے راس ہیں تیرے
مرے پاس ایک بچہ ہے پدر جس کا نہیں زندہ
مگر اک خاص جلوے سے ہے چہرہ اس کا تابندہ
تمہارے ساتھ والی عورتیں بھی گھر میں آئی تھیں
زر و انعام پانے کی امیدیں ساتھ لائی تھیں
یتیم اور بے سر و سامان بچہ تو اگر چاہے
اسے لے جا اگر بدلہ چاہے اور نہ زر چاہے
یہ کہہ کر ایک ہلکا سا تبسم آگیا لب پر
یہ معنی تھے مرا بچہ ہے بالا مال و جاں سب پر
حلیمہؓ نے کہا دریافت کر لوں اپنے شوہر سے
مبادا وہ خفا ہو اور میری جان پر برسے
یہ کہہ کر جلدی جلدی آئی حلیمہؓ اپنے ڈیرے پر
کہا قسمت سے بچہ مل گیا ہے مجھ کو اے شوہر!
مگر اس کا پدر زندہ نہیں، کہہ دو تو لے آؤں
یہاں سے قافلے ساتھ خالی گود کیا جاؤں
ہماری ساتھنیں بچوں کی دولت لے کے جائیں گی
ہنسیں گی مجھ پہ طعنے دیں گی سو باتیں بنائیں گی
کہا شوہر نے ہاں لے آؤ شاید کچھ بھلائی ہو
ہماری بہتری اس طفل کی صورت میں آئی ہو
اگرچہ اُونٹنی کا اور تمہارا دودھ بھی کم ہے
مگر مالک کی رحمت پر بھروسہ ہے تو کیا غم ہے
آنحضرتؐ کے بچپن کی برکات
حلیمہ ؓ جلد عبدالمطلب کے پاس لوٹ آئی
وہ اس کو لے کے گھر پہنچے کتاب نور دکھلائی
جو دیکھا آمنہؓ کو آمنہؓ کے لال کو اس نے
خوشی سے تج دیا دنیا کے جاہ و مال کو اس نے
یہی وہ ماں تھی جس سے مادرِ گیتی کی عزت تھی
یہی بچہ تھا جس سے خالقِ ہستی کی عظمت تھی
حلیمہ نے اُٹھایا آ کے بچہ دستِ اُلفت پر
برستا تھا تبسم سادگی بن بن کے صورت پر
کسی نے بھی نہ پائی تھی وہ دولت مل گئی اُس کو
جو تھی معنی ہی معنی اب وہ صورت مل گئی اس کو
چلی ڈیرے کی جانب آج ایسے نور کو لے کر
مہ و خورشید صدقے ہو رہے تھے جس کے قدموں پر
پلایا دودھ اس طفل کو تو ہو گئی حیراں
کہ چھاتی بن گئی دودھ کی اک نہر بے پایاں
یہ برکت روزِ اول ہی دیکھی جب حلیمہ نے
ہوئی حیران ، اندیشے مٹائے سب حلیمہ نے
کیا سیراب اپنے دودھ سے اپنے پسر کو بھی
سُلا کر دونوں بچوں کو خوشی سے خود بھی جا سوئی
یتیم مکہ صحرائی گھر کی طرف
بڑھائے اپنے اپنے اونٹ سب نے نور کے تڑکے
کجاووں پر تھیں دایہ عورتیں اور ساتھ کے لڑکے
اُٹھا شوہر حلیمہ کا اور اپنی اونٹنی لایا
حلیمہ اور دونوں بچوں کو اک ساتھ بٹھلایا
چلا خود آپ پیدل اُونٹنی دُبلی تھی بیچاری
کسی صورت نہ ہو سکتی تھی اس پر سب اسواری
جب آئے تھے تو پیچھے تھک کے رہ جاتے تھی منزل سے
وہ اپنے آپ ہی کو لے کے چل سکتی تھی مشکل سے
مگر آج اس نے دکھلائی کچھ ایسی تیز رفتاری
جو آگے چل رہی تھیں اب وہ پیچھے رہ گئی ساریں
یکایک ہمرہوں کے پاس سے جس دم گزرتی تھی
تو ہر عورت تعجب کا وہیں اظہار کرتی تھی
وہی پہلی ہے تیری اُونٹنی یا اور ہے کوئی
نہیں پہلی کہاں، ایمان سے کہنا اور ہے کوئی!
حلیمہؓ کہتی تھی ہاں ہاں وہی تو ہے وہی تو ہے
یہ سر ، یہ ناک ہے ، یہ تھوتھنی ہر شے وہی تو ہے
یہ سن کر عورتیں بیچاری حیران ہوتی تھیں
نگاہیں گِرد پھر پھر کر بلا گردان ہوتی تھیں
حلیمہؓ کی سواری اس قدر جب تیز دم دیکھی
سوار اس اُونٹنی پر ہو گیا اب اس کا شوہر بھی
مگر یہ ہو گئی تیز رَو اور برق دم ایسی
کہ سارے قافلے سے پہلے منزل پر پہنچتی تھی
بیاباں پر ابر رحمت کا سایہ
بچاری اُونٹنی کا دودھ کم کیا تھا بہت کم تھا
مگر اس مرتبہ منزل پہ آ کر جب اسے دوہا
تو اتنا دودھ نکلا جو زیادہ تھا ضرورت سے
لگے منہ دیکھے اک دوسرے کا دوں حیرت سے
کہا شوہر نے اے بی بی یہ اس بچے کی برکت ہے
اسی کا صدقہ ہے ورنہ ہماری کیا لیاقت ہے
حلیمہ ؓ نے کہا واللہ ! میں بھی ہوں بہت حیراں
نظر آتا ہے مجھ کو ہاشمی لڑکا بہت ذی شاں
مسرت ہوتی ہے جب اس کا چہرہ دیکھتی ہوں میں
کہ اس پر طُور کے پھولوں کا سہرا دیکھتی ہوں میں
غرض اس شان سے مائی حلیمہ اپنے گھر آئی
متاعِ دُنیوی اور اُخروی آغوش میں لائی
یہاں پر قحط تھا ہر سو، نہ دانا تھا نہ چارہ تھا
کہ اب مینہ نہ برسا یہاں پر جس کا سہارا تھا
مویشی مر رہے تھے لوگ فاقے کر رہے تھے سب
بتوں سے اپنے اپنے دیوتا سے ڈر رہے تھے سب
حلیمہ کی زمیں*کا حال سب لوگوں سے بدتر تھا
نکمی تھی زمیں اس کا زیادہ حصہ بنجر تھا
وہ لے آئی لیکن گھر میں اس سامان رحمت کو
مٹایا جس کی ذات پاک نے ہر ایک زحمت کو
حلیمہ اور کنبہ بکریوں کے دودھ پر جیتے
پلاتے دودھ مہمانوں کو بھی اور آپ بھی پیتے
قبیلے والے بھی سیراب تھے اس ابر رحمت سے
یتیمی کے سبب انکار تھا جس کی رضاعت سے
سبھی حیران تھے لیکن انہیں اس کی خبر کیا تھی
کہ رحمت کی نظر مفلس حلیمہ ہی کی جویا تھی
رہے محروم اس دولت سے دولت ڈھونڈنے والے
سبھی کچھ پا گئے دامانِ رحمت ڈھونڈنے والے
حلیمہ کا گھرانہ خوش تھا اپنی خوش نصیبی پر
یہ بچہ ایک دامن تھا یتیمی پر غریبی پر
تھا اک سادہ سے گھر مین دولتِ کونین کا وارث
رضاعی ماں حلیمہ تھی رضائی باپ تھا حارث 72
رضائی بہنیں شمیہ73 اور انیسہ بس یہی دو تھیں
عفیفہ تھیں محبت کرنے والی تھیں دُعا گو تھیں
رضاعی بھائی دو74 تھے جن میں عبداللہ ہمسن تھا
یہ سب نگران تھے جب اللہ کا محبوب کمسن تھا
رضاعت سے بعثت تک کا بیان
نجاتِ دوجہاں تھی جس کے دامانِ کریمی میں
وہ بچہ پل رہا تھا آج آغوشِ یتیمی میں
وہ بچہ ہاں وہ بچہ جو سبق آموزِ دنیا تھا
گلِ تقدیس تھا لیکن نظر افروزِ صحرا تھا
تمنا تھی حفیظ اے کاش عُمرِ نوحؑ مل جاتی
مے قالب کو اک جبریلؑ کی سی روح مل جاتی
بیاں کرتا میں حالِ نونہالِ گلشنِ خوبی
دکھاتا قدرتِ حق کا کمالِ شانِ محبوبی
وہ بچپن کا زمانہ کس طرح گزرا بیاں کرتا
حقیقت کا فسانہ پردے پردے میں عیاں کرتا
بیاں کرتا حلیمہؓ کیسا اس پر جان دیتی تھی
بیاں کرتا نایسہ گود میں کس طرح لیتی تھی
بیاں کرتا کہ شیماں لوریاں دیتی تھی کیا کہہ کر
جسے ھٰذَا اَخُلِیٰ75 کا خیال آتا تھا رہ رہ کر
بیاں کرتا تھا بھیڑ اور بکریاں بھی سجدے کرتی تھیں
فضائے دشت کی چڑیاں بھی دم الفت کے بھرتی تھیں
بیاں کرتا تھا کہ سورج شرق پر کیوں جگمگاتا تھا
بیاں کرتا زمیں پر چاند کیوں چادر بچھاتا تھا
بیاں کرتا ستارے رات بھر کیوں رقص کرتے تھے
بیاں کرتا کہ صبح شام کیوں یہ رنگ بھرتے تھے
بیاں کرتا کہ فطرت خود بخود کس طرح پلٹتی ہے
اندھیرے سے تجلی کی سحر کیونکر نکلتی ہے
بیاں کرنا ہے شقِ صدر کی اصلی حقیقت کو
ہوا کیوں چاک سینہ اور تھی اس کی ضرورت کیا؟
بیاں کرتا کہ حضرت کا بچپن کس طرح گزرا
لڑکپن کے چمن سے سروِ گلشن کس طرح گزرا
بیاں لازم تھا صحرائی وطن سے گھر میں آنے کا76
ั محمد (ص) کت دوبارہ دامنِ مادر میں آنے کا77
مدینے کے سفر میں ماں کی ہمراہی بیان کرتا
پدر کے مدفنِ راحت سے آگاہی بیاں کرتا78
بیاں کرتا وفات آمنہؓ کا حالِ حسرت زا
بیاں کرتا مقدس ہو گیا کیوں خطہ ابوا79
بیاں کرتا کہ جب اٹھتا ہے سر سے سایۂ مادر
یتیم اس وقت آنسو پونچھتے ہیں منہ سے کیا کہہ کر
بیاں کرتا کہ جب غُربت میں یہ صدمہ گزرتا ہے
تو شش سالہ یتیم اس وقت کیسا صبر کرتا ہے
بیاں کرتا کہ پھر مکے میں آئے حضرت والا80
بیاں کرتا کہ عبدالمطلب نے کتنے دن پالا
وہ عبدالمطلب کا سایۂ شفقت 81بھی اُٹھ جانا
وہ اس نورِ حقیقی کا ابو طالب82 کے گھر آنا
چچا کا پرورش کرنا بھتیجے کا بڑے ہونا
وہ کرنا کام کاج اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونا
وہ سن دس سال کا دن بکریوں کی گلہ بانی 83کے
لڑکپن سادگی کا پیش خیمے نوجوانی کے
یہ گلہ بانی اقوام کی تمہید تھی گویا
سلف کے ہادیانِ قوم کی تائید تھی گویا
چچا کے ساتھ ارض شام کا لمبا سفر کرنا
یہودی اور مسیحی راہبوں کے دل میں گھر کرنا84
نرالی تھی متانت جس طرح اس کے لڑکپن کی
نرالی تھی جوانی بھی جوانِ پاک دامن کی
شرافت ہو جہاں حسن ازل کا دائمی گہنا
سکھاتا ہے وہی پاکیزہ رہنا خوش چلنا رہنا
الگ رہنا وہ رسم رزم و بزم جاہلیت85 سے
وہ نفرت شرک سے اور مشرکوں کے ساتھ شرکت سے
وہ عہد تام 86مظلوموں کی امداد و اعانت کا
وہ آوازہ صداقت کا دیانت کا امانت کا
وہ خوش خلقی وہ دانائی وہ شان نیک کرداری
صداقت کی تجارت پیشگی وہ راست گفتاری87
یہ سب کچھ میں بیاں کرتا نہایت لطف لے لے کر
تواریخی و قرآنی حوالے ساتھ دے دے کر
بیاں کرتا خدیجہ88 کی شرافت کو نجابت کو
وہ جس کا مال لے کر آپ نکلے تھے تجارت کو
بیاں کرتا کہ آیا کس طرح پیغام89 شادی کا
سبق دیتا جہان شوق کو عالی نہادی کا
بیاں کرتا کہ یہ شادی بشر کی خوش نصیبی تھی
محمدؐ پاک شوہر تھا خدیجہ ؓ پاک بی بی تھی90
بیاں کرتا کہ گزری ازدواجی زندگی کیسی91
نظر والوں کو ملتی روح کی تابندگی کیسی
محبت ہی سے تہذیب و تمدن کی بنیادیں
بیاں کرتا کہ دیں اللہ پاک نے کیسی پاک اولادیں92
بیاں کرتا کہ قاسم طیب و طاہر یہ تھے بیٹے
کہ بچپن ہی میں جو آرام سے تُربت میں جا لیٹے
خدیجہؓ ہی سے حق نے آپ کو سب بیٹیاں بھی دیں
یہ زینبؓ اور رقیہ ؓ ام کلثوم ؓ اور زہراؓ تھیں
بیاں کرتا محبت کس قدر تھی رشتہ داروں سے
عزیزوں دوستوں سے ، شہریوں اور یاروں سے
بیاں کرتا عرب میں عام تھا لطف و کرم اس کا
یتیموں اور بیواؤں کے دل میں تھا بھرم اس کا
بیاں کرتا کہ سارا ملک کہتا تھا امیں اس کو
چنا تھا رحمت باری نے ختم المرسلیں اس کو
قبائل کا بہم تعمیر کعبہ کے لیے آنا
وہ سب کا سنگ اسود کے اٹھانے پر بگڑ جانا93
لہو94 سے ہاتھ بھرنا لڑنے مرنے کی قسم کھانا
گھٹاؤں کی طرح غصے کے طوفانوں کا ٹکرانا
وہ ہٹ وہ ضد وہ اپنوں کا سراسر غیر ہو جانا
مگر خیرا لامیںؐ کا آ کے وجہ خیر ہو جانا95
وہ چادر کا بچھانا اس پہ رکھنا سنگ اسود کا
یہ زندہ معجزہ قبل نبوت تھا محمدؐ96 کا
وہ پتھر نصب کرنا آپ خود جھگڑے کا چک جانا
وہ ہر اک جنگجو کا آشتی کی سمت جھک جانا
یتیموں کی خبر لینا غلاموں کی مدد کرنا
طلب کرنے سے نفرت خود سوالی کو نہ رد کرنا
بیاں کرتا میں ساری حالتیں قبل نبوت کی
طبیعت کا وہ سوز و ساز وہ تسکین خلوت کی
غریبوں پر ترس کھانا خدا کے خوف سے ڈرنا
وہ چھپ چھپ کر حرا 97کے غار میں یاد خدا کرنا
وہ صبح نور کا نظارہ وہ جبرئیلؑ کا آنا
ادب سے وہ نبوت کا لباس نور پہنانا
وہ اقراء کا سبق وہ ایک امیؐ کا سبق پڑھنا
وہ ہمت کی بلندی اور ذوق وشاق کا بڑھنا
وہ کثرت کے مقابل ایک قوت لے کے آ جانا
وہ فرمان خدا یعنی نبوت لے کے آ جانا
مصنف کا اعتراف عجز
میں یہ سب کچھ بیاں کرتا مگر ہمت نہیں پڑتی
یہ نازک مرحلے ہیں اور مری جرات نہیں پڑتی
ادب اے خامۂ گستاخ جھک جا سر نگوں ہو جا
تحیت خیز نظاروں میں عقل و ہوش کو کھو جا
بیاں کرتا یہ آخری گفتگو کیا ہے !
اگر کہہ دے کوئی تیرا بیاں کیا اور تو کیا ہے !
مرا منہ اور سرکار محمدؐ کی ثنا خوانی
مجھے معلوم ہے اپنے سخن کی تنگ دامانی
نہیں ہر گز کوئی دعویٰ نہیں ہے لب کشائی کا
دہن کیا ہے مرا ہاں ایک کاسہ ہے گدائی کا
میں حیثیت سوالی کے سوا کچھ بھی نہیں رکھتا
متاع بے کمالی کے سوا کچھ بھی نہیں رکھتا
نہ یارائے سخن سنجی نہ دعوائے زباں دانی
اگر کچھ پاس ہے تو بس عقیدت کی فراوانی
مگر ہاں مدعا ہے خدمت اسلام مدت سے
کہ میں نے بھی پئے ہیں چند قطرے جام وحدت کے
کروں سیرت نگاری یہ نہیں ہے حوصلہ میرا
حق و باطل کی آویزش ہے اصلی معرکہ میرا
رسول پاکؐ کی سیرت سے واقف اک زمانہ ہے
مجھے بعثت کے بعد اب نقطہ اصلی پہ آنا ہے
باب پنجم۔ آفتاب ہدایت کا طلوع
مقصد بعثت، مظلوم دنیا کی دعائیں
وہ مقصد جس کی خاطر آپ اس دنیا میں آئے تھے
وہ قرآں جس کو انسانوں کو خاطر آپ لائے تھے
وہ پیغام محبت وہ نجات اولاد آدم کی
زمین صدق پر رکھنا نئی بنیاد عالم کی
اب اس کا وقت آ پہنچا تھا اب وہ کام ہونا تھا
زمیں تیار کرنا ، نخل حق کا بیج بونا تھا
اندھیرا چھا چکا تھا کفر کا دنیائے ہستی پر
زبردستی تسلط پاچکی تھی زیر دستی پر
الستی مے کشوں سے ہو چکا تھا مے کدہ خالی
کہ دنیا ہو گئی تھی بادۂ غفلت کی متوالی
کوئی گوشہ نہ ملتا تھا مظلوم اماں پائیں
کوئی سنتا نہ تھا ان کی یہ بیچارے کہاں جائیں
کوئی شفقت نہ کرتا تھا یتیموں پر غلاموں پر
یہ مر جاتے تھے بھوکے اور بک جاتے تھے داموں پر
ضعیفوں اور بیواؤں کو روٹی بھی نہ ملتی تھی
غضب سے مزد مزدوروں کو کھوٹی بھی نہ ملتی تھی
ستم سے تنگ آ کر خودکشی کر لی شریفوں نے
دعا کو دست رعشہ دار اٹھائے تھے ضعیفوں نے
اقراء
اٹھا غار حرا سے ابر رحمت شان حق لے کر
جب اقرا باسم ربک الذی خلق98 لے کر
سنایا آ کے اہل بیت کو مژدہ رسالت کا
امیں ایمان پہلے ہی سے تھا حق صداقت کا
کہا اس خالق ہستی کے جلوے پر رہو شیدا
اسی کا نام لینا چاہیے جس نے کیا پیدا
وہ جس نے گوشت کے اک لوتھڑے کو زندگی بخشی
بنائی شکل انساں اور ایسی برتری بخشی
ذریعے سے قلم کے جس نے دی تعلیم انساں کو
اس وہ کچھ سکھایا جو نہ آ سکتا تھا ناداں کو
`````````````````````````````````````
خدیجہؓ اور علیؓ ابن ابی طالب ہوئے مومن
ابھی شیر خدا دس سال کے بچے ہی تھے کمسن
جناب زیدؓ جو اک بندہ آزاد کردہ تھے
علیؓ کے بعد وہ بھی دامن اسلام میں آئے
صدیق ؓ کا ایمان
ابوبکرؓ آئے ان کو بھی یہی پیغام پہنچایا
خدا کے دین کی تلقین کی اسلام پہنچایا
کہا مجھ کو مرے رب نے نبوت دے کے بھیجا ہے
ہدایت دے کے بھیجا ہے شریعت دے کے بھیجا ہے
میں آیا ہوں کہ بندوں کو خدا کے در پہ لے جاؤں
نجات دنیوی و اخروی کی راہ دکھلاؤں
کہا ابوبکرؓ 99نے سرکارؐ آمنا و صدقنا
مرے مالک میرے مختار آمنا و صدقنا
مرے ماں باپ آل اولاد قربان اس شریعت پر
محمدؐ کے خدا پر اور محمدؐ کی رسالت پر
یہ کہہ کر جھک گئے بوبکر ؓ چومے ہاتھ حضرتؐ کے
ہوئے مشغول تبلیغ آپ بھی اب ساتھ حضرتؐ کے
یہ وہ ایمان تھا جس کا خدا نے ذکر فرمایا
یہ وہ انسان تھا جس نے لقب صدیق ؓ کا پایا
السابقین الاولین
ابوبکرؓ آج اس توحید حق کا جام لے آئے
کہ جس سے حضرت عثمانؓ 100بھی اسلام لے آئے
زبیرؓ 101 و سعدؓ و طلحہ ؓ عبدالرحمن ؓ بو عبیدہ بھی
علیؓ کے بھائی جعفرؓ اور بیوی ان کی اسما ؓ بھی
غرض ایمان لائے سب سے پہلے اپنے گھر والے
پھر آئے دوست اس حلقہ میں دل والے نظر والے
برس چالیس پورے اس نبیؐ کو سب نے دیکھا تھا
مروت سے بھری پاکیزگی کو سب نے دیکھا تھا
یہ چند افراد سب سے پیشتر حق کے قریں آئے
در توحید پر السابقین الاولین آئے
مقدر تھی سعادت ان رضا کے بہرہ مندوں کو
خدا نے آپ خود ہی چن لیا تھا اپنے بندوں کو
یہ چھوٹی 102 سی جماعت ذکر حق کرتی تھی چھپ چھپ کے
شہادت گاہے الفت میں قدم رکھتی تھی چھپ چھپ کے
انہیں معلوم تھا جس روز کھولا راز کا دامن
عرب ہو یا عجم سارا جہاں ہو جائے گا دشمن
مگر وہ روز جلد از جلد منہ دکھلانے والا تھا
کہ تبلیغ علانیہ کا فرماں آنے والا تھا
ملا ہو جس کو یہ فرماں کہ ہاں فاصدع بما تؤ مر103
خدا کے حکم کو پھر کھول کر کہتا نہ وہ کیونکر
پہاڑی کا وعظ : اعلائے کلمۃ اللہ
چڑھا کوہ صفا پر ایک دن اسلام کا ہادی
نظر کے سامنے تھی پستی انساں کی آبادی
صدا دی اے قریشی عورتو مردو ادھر آؤ!
یہ اپنے کام دھندے آج تہ کر دو ادھر آؤ !
مثال رعد ہادی کی صدا گونجی ہواؤں میں
زمیں سے آسماں تک غلغلہ اٹھا فضاؤں میں
یہ کڑکا سن کے خلقت گھر سے نکلی اس طرف آئی
بڑھی انبوہ در انبوہ، دوڑی صف بصف آئی
اکٹھے ہو گئے آ کر جوان و پیر و مرد و زن
بنی آدم کا جنگل بن گیا یہ کوہ کا دامن
خطاب ان سے پیغمبرؐ نے کیا اللہ کے بندو
خلیلؑ اللہ کے پوتو! ذبیح اللہ کے فرزندو!
کھڑا ہوں میں تمہارے سامنے ایسی بلندی پر
وہ جانب مجھ پر روشن ہے جہاں اچھا برا منظر
اگر میں تم سے یہ کہہ دوں کہ اس کہسار کے پیچھے
پہاڑوں کی بلند اور آہنی دیوار کے پیچھے
چھپی ہے رہزنوں کی فوج تم پر وار کرنے کو
گھروں کے لوٹنے کو شہر کے مسمار کرنے کو
یہ کہہ دوں اگر میں تم سے تو کیا تم مان جاؤ گے
یقیں آ جائے گا مجھ پہ کوئی شک نہ لاؤ گے ؟
کہا لوگوں نے ہاں سچا ہے تو یہ جانتے ہیں سب
تو بچپن سے صادق ہے امیں ہے مانتے ہیں سب
بھلا اس قول پر کیسے یقیں ہم کو نہ آئے گا
بلا چون و چرا مانیں گے کوئی شک نہ لائے گا
یہ سن کر پھر بلند آواز سے سچا نبیؐ بولا
اسی انداز سے قرآن ناطق نے دہن کھولا
کہ اے لوگو میرا کہنا نہایت غور سے سن لو
میں کہتا ہوں کہ باز آ جاؤ ظلم و جور سے سن لو
بہائم کی صفت چھوڑو ذرا انسان بن جاؤ
برے اعمال سے توبہ کرو شرماؤ شرماؤ
فواہش اور زناکاری مٹا دو نیک ہو جاؤ
خدا کو ایک مانو اور تم بھی ایک ہو جاؤ
یغوث و لات و عزیٰ کچھ نہیں بے جان پتھر ہیں
جنہیں تم پوجتے ہو وہ تو خود تم سے کمتر ہیں
ہی خالق وہی سچا خدا معبود ہے سب کا
وہی مطلوب ہے سب کا وہی مسجود ہے سب کا
بتوں کی بندگی کے دام سے آزاد ہو جاؤ
خدا کے دامن توحید میں آباد ہو جاؤ
پھنسا رکھا ہے شیطان نے تمہیں باطل کے پھندے میں
نہ رکھا فرق تم نے کچھ خدا میں اور بندے میں
تمہارے واسطے میں دولت اسلام لایا ہوں
جو ابراہیمؑ لائے تھے وہی پیغام لایا ہوں
خدائے قادر و قہار پر ایمان لے آؤ
جہان کے مالک و مختار پر ایمان لے آؤ
جہالت چھوڑ دو قرآن پر ایمان لے آؤ
بتوں کو توڑ دو رحمٰن پر ایمان لے آؤ
اگر ایمان لے آئے تو بچ جاؤ کے اے لوگو
فلاح دنیوی و اخروی پاؤ گے اے لوگو
نہ مانو گے تو بربادی کا بادل چھانے والا ہے
برا وقت آنے والا ہے ، برا وقت آنے والا ہے
مشرکین کا غیظ و غضب
خدا کا نام تو گویا قہر تھا بت خانہ دل پر
گرا دی حق نے بجلی تودہ بارود باطل پر
غضب کی آندھیاں منڈلا گئیں لوگوں کی صورت پر
نگاہیں سرخ ہو کر چھا گئیں نور نبوت پر
غضب میں بھر گئے سارے قریش ان وعظ کو سن کر
کہ ان کے پتھروں کو کہہ دیا تھا آپ نے پتھر
جسے دیکھو اسی کے منہ سے کف تھی کفر بکتا تھا
خدا واحد ہے ، گویا سمجھ میں آ نہ سکتا تھا
بتوں اور دیوتاؤں کی مذمت جرم تھی گویا
ہوا وہ شور و شر برپا قیامت آ گئی گویا
انہیں تو حق سے نفرت تھی یہ باتیں کس طرح سنتے
کھٹکنے لگ گئے کانٹے جنہیں وہ پھول کیا چنتے
ابو لہب بن عبدالمطلب کا کفر
مثال شعلہ اٹھا بولہب، چیخا، دہن کھولا
خبردار او بھتیجے اس سے آگے اور اگر بولا
ہمارے دیوتا ناراض ہو جائیں تو پھر کیا ہو
تو اتنا ہی بتا دے مینہ نہ برسائیں تو پھر کیا ہو
اہانت اک خدا کے نام سے اتنے خداؤں کی
مذمت سارے معبودوں کی دیوی دیوتاؤں کی
نبوت کیا ترے ہی واسطے تھی اس زمانے میں
نبوت کے لئے کیا تو ہی تھا میرے گھرانے میں 104
یہی باتیں سنانے کو ہمیں تو نے بلایا ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آیا یہ کیا تو نے سنایا ہے
تری باتوں پہ ہر گز کان دھر سکتا نہیں کوئی
کہ اس توہین کو برداشت کر سکتا نہیں کوئی
غرض ایسی باتیں کر کے سب نے راہ لی گھر کی
پسند آئی نہ ان کو بات کوئی پیغمبر کی
مگر اس رحمت عالم کا دل تھا توحید کا گھر تھا
نہ آسکتی تھی مایوسی کہ یہ امید کا گھر تھا
بنو ہاشم میں تبلیغ حضرت علی ؓ کا ایمان
کیا دولت کدے پر ایک دن سامان دعوت کا
بنی ہاشم کو یعنی اپنے 105 کنبے کو بلا بھیجا
چچا تھا بو لہب، عباسؓ ، حمزہ ؓ اور ابو طالب
یہ عبدالمطلب کے جانشین سر کردہ و غالب
اکٹھے ہو گئے سب بھائی بہنیں بیویاں106 بچے
کہ ان میں کچھ تو تھے ذی ہوش اور کچھ عمر کے کچے
کھلا کر سب کو کھانا رحمت عالمؐ نے فرمایا
عزیز و میں تمہارے واسطے اک چیز ہوں لایا
وہ چیز اسلام پر ایمان ہے جو دین بیضا ہے
متاع بے بہا ہے اور کفیل دین کو دنیا ہے
بتاؤ آپ میں سے کون میرا ساتھ دیتا ہے
بتاؤ کون اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیتا ہے 107
یہ سن کر منہ لگے اک اک دوسرے کا سب کے سب تکنے
ابو لہب لعیں پھر جاتا تھا اور کچھ بکنے
کہ طفل سیزدہ سالہ ابن ابی طالب
رہی جس کی صداقت مصلحت پر عمر بھر غالب
وہ اٹھا اور بولا میں اگر چہ عمر میں کم ہوں
مری آنکھوں میں ہے آشوب گویا چشم پر نم ہوں
بھری محفل میں لیکن آج یہ اعلان کرتا ہوں
کہ میں سچے نبیؐ پر جان و دل قربان کرتا ہوں
میں اپنی زندگی بھر ساتھ دوں گا یا رسولؐ اللہ
یقیں کیجئے کہ قدموں میں رہوں گا یا رسولؐ اللہ
جھکے شیر خدا جب بات اپنی برملا کہہ کر
رسولؐ اللہ نے سر پر ہاتھ رکھا مرحبا کہہ کر
بڑے بوڑھے جو چپ تھے کھلکھلا کر ہنس پڑے سارے
انہیں معلوم کیا تھا جانتے کیا تھے وہ بیچارے
کہ یہ لڑکا وہ جس پر ہنس رہے تھے اس حقارت سے
پہاڑوں کے جگر تھرا اٹھیں گے اس کی ہیبت سے
بنی ہاشم ہنسی میں بات اڑا کر ہو گئے راہی
علی ؓ کو ہو گئی حاصل مگر دارین کی شاہی
اسلام لانے والوں 108 پر مصائب کے پہاڑ
علانیہ ادھر سے دین کا اعلان ہوتا تھا
ادھر سے شہر میں تضحیک کا سامان ہوتا تھا
مسلسل پھولنے پھیلنے لگا اسلام کا پودا
مخالف تھے قریش اب بڑھ چلا کچھ اور بھی سودا
نبیؐ کو اور مسلمانوں کو تکلیفیں لگیں ملنے
وہ تکلیفیں کہ جن سے عرش اعظم بھی لگا ہلنے
غضب کے ظلم ہوتے تھے مسلماں ہونے والوں پر
خزاں آتی تھی دل میں تخم وحدت بونے والوں پر
لٹاتے تھے کسی کو تپتی تپتی ریت کے اوپر
کسی کے سینہ بے کینہ پر رکھے گئے پتھر
مسلماں بیبیوں پر چابکوں کا مینہ برستا تھا
کنیزوں کو شکنجے میں کوئی بے ذر کستا تھا
بلالؓ و یاسرؓ و عمارؓ و خبابؓ اور سمیہؓ
صہیبؓ و بوفکیہہ ؓ اور لبینہؓ اور نہدیہؓ
زنیرہ ؓ اور عامرؓ تھے غلام لونڈیاں ان کی
مسلماں ہو گئے تھے آ گئی آفت میں جاں ان کی
محمدؐ کی محبت میں ہزاروں ظلم سہتے تھے
خدا پر تھی نظر ان کی زباں سے کچھ نہ کہتے تھے
یہ ظلم ان کو خدا سے دور کر سکتے نہ تھے ہر گز
نشے صہبائے وحدت کے اتر سکتے نہ تھے ہر گز
ستم ہائے فراواں کی بڑھی جب حد سے بے دردی
تو ان کی حضرتِ بو بکرؓ 109 نے قیمت ادا کر دی
اخوت مذہب اسلام کا پتھر ہے بنیادی
غلاموں کو دلائی ہے اسی جذبے نے آزادی
مسلماں ہونے والوں سے غلامی کی مٹی ذلت
کہ آڑے آ گئی عثمانؓ اور بو بکرؓ کی ہمت
اکابر قریش کی ابو طالب کو دھمکی
شرارت میں کمی کوئی نہ کی اشرار مکہ نے
مسلمانوں کو بے بس کر دیا کفار مکہ نے
مگر ا س پر بھی جب بڑھتے رہے پیرو محمدؐ کے
تو باہم مشورے ہونے لگے ایذائے بیحد کے
ابو جہل و امیہ، بو لہب، عقبہ ابو سفیاں
ولید و عاص و عتبہ الغرض جتنے بھی تھے ذیشاں 110
یہ فرزندان تاریکی جو نور حق سے چندھیائے
ہوئے اک دن اکٹھے اور ابو طالب کے گھر آئے
کہا ہم کو بھتیجا آپ کا بے دین کہتا ہے
ہمارے دین کو انسان کی توہین کہتا ہے
برا کہتا ہے وہ چھوٹے بڑے سارے خداؤں کو
ہبل کو لات کو عزیٰ کو دیوی دیوتاؤں کو
ہمارے باپ داداؤں کو بھی گمراہ کہتا ہے
سوا اپنے خدا کے سب کو غیر اللہ کہتا ہے
بس اب برداشت کر سکتے نہیں ہم اس کی جرات کو
کسی دن دیکھ لیں گے اس کو اور اس کی نبوت کو
تم اس کا ساتھ چھوڑا کرو یا کرو تنبیہ سمجھاؤ
وگرنہ جنگ کا ساماں کرو میدان میں آؤ
چچا کی فہمائش
یہ کہہ کر چل دیے سب لوگ ابو طالب بھی گھبرائے
انہیں ڈر تھا مبادا قوم ہی سے جنگ چھڑ جائے
بلایا آپ کو نرمی سے بولے جان عم دیکھو
تمہیں لازم ہے ڈالو اس چچا پر بار کم دیکھو
تم اپنے دین کی تلقین کو رہنے دو جانے دو
بڑھاپے میں ہماری شان پر دھبہ نہ آنے دو
میں بوڑھا ہوں اکیلا کل عرب سے لڑ نہیں سکتا
میں آر بھی جاؤں تو سارا قبیلہ اڑ نہیں سکتا
بھتیجے کا جواب
چچا کے دامن شفقت کو بھی ہٹتا ہوا پایا
تو ہو کر آب دیدہ ہادی بر حق نے فرمایا
قسم اللہ کی سارا جہاں بھی ہوا اگر دشمن
یہ سب شیطان کے ساتھی بڑھیں ہو کر بشر دشمن
جفا و ظلم کی آندھی چلے طوفان آ جائیں
مٹانے کو مرے شداد اور ہامان آ جائیں
کسی دھمکی کسی ڈر سے مرا دل گھٹ نہیں سکتا
مجھے یہ فرض ادا کرنا ہے اس سے ہٹ نہیں سکتا
مرے ہاتھوں میں لا کر چاند سورج بھی اگر رکھ دیں
مرے پیروں تلے روئے زمیں کا مال و زر رکھ دیں
خدا کے کام سے میں باز ہر گز رہ نہیں سکتا
یہ بت جھوٹے ہیں میں جھوٹوں کو سچا کہہ نہیں سکتا
میں سچا ہوں تو بس میرے لئے میرا خدا بس ہے
کسی امداد کی حاجت نہیں اس کی رضا بس ہے
مرا ایمان ہے ہر شے پہ قادر حق تعالیٰ ہے
وہی آغاز کو انجام تک پہنچانے والا ہے
ابو طالب کا تاثر
ابو طالب نے حیرت سے بھتیجے کہ طرف دیکھا
جلال مصطفیٰؐ میں مرد کامل سر بکف دیکھا
کہا اے جان عم اب میں کسی سے ڈر نہیں سکتا
جہاں میں کوئی تیرا بال بیکا کر نہیں سکتا
تبلیغ حق کا دشوار گذار رستہ، کفار کی ایذا رسانی اور توہین
پیمبرؐ دعوت اسلام دینے کو نکلتا تھا
نوید راحت و آرام دینے کو نکلتا تھا
نکلتے تھے قریش اس راہ میں کانٹے بچھانے کو
وجود پاک پر سو سو طرح کے ظلم ڈھانے کو
امیہ بو لہب بو جہل عقبہ سخت دشمن تھے
شقاوت پیشہ تھے بیداد گر تھے اور پر فن تھے
خدا کی بات سن کر مضحکے میں ٹال دیتے تھے
نبیؐ کے جسم اطہر پر نجاست ڈال دیتے تھے
کوئی گالی سنتا تھا کوئی پتھر اٹھاتا تھا
کوئی قرآن پر ہنستا تھا 111کوئی منہ چڑاتا تھا
حرم کی سر زمیں پر آپ پڑھتے تھے نماز اکثر
ہمیشہ اس گھڑی کی تاک میں رہتے تھے بد گوہر
قریشی مرد اٹھ کر ارہ میں آوازے کستے تھے
یہ ناپاکی کے چھرے چار جانب سے برستے تھے
کوئی حضرتؐ کی گردن گھونٹتا 112 تھا کس کے چادر میں
کوئی دیوانہ پتھر مارتا تھا آپ کے سر میں 113
قریشی عورتیں کانٹے بیابانوں سے لاتی تھیں
گزرگاہ گل گلزار وحدت میں بچھاتی تھیں 114
نجاست گھر کے دروازے پر لا کر پھینک جاتی تھیں
جھگڑتی بدزبانی کرتی تھیں فتنے اٹھاتی تھیں
کلام حق کو سن کر کوئی کہتا تھا یہ شاعر ہے
کوئی کہتا تھا کا ہن ہے کوئی کہتا تھا ساحر ہے
مگر وہ منبع حلم و صفا خاموش رہتا تھا
دعائے خیر کرتا تھا جفا و ظلم سہتا تھا
قریش کی طرف سے مادی ترغیبات۔۔ عتبہ کی گفتگو
قریش اک دن اکٹھے ہو کر بیٹھے اور یہ سوچا
کہ ظلم اتنے کئے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا
محمدؐ اس قدر صابر ہے کیوں؟ یہ ماجرا کیا ہے
نمود و نام کا طالب نہیں تو چاہتا کیا ہے ؟
بہم اک مشورے کے بعد محفل سے اٹھا عتبہ
رسول پاکؐ سے تنہائی میں جا کر ملا عتبہ
کہا جس دن سے تم کہنے لگے ہو خود کو پیغمبرؐ
بڑی بھاری مصیبت ڈال دی ہے قوم کے سر پر
رواج و رسمِ قومی کی برائی کرتے پھرتے ہو
غلاموں مفلسوں 115سے آشنائی کرتے پھرتے ہو
برا کہتے ہو کیش مذہبِ اجداد و آبا کو
کہا کرتے ہو تم دوزخ کا ایندھن 116 لات و عزّیٰ کو
پرانے دین سے تم پھیرتے جاتے ہو لوگوں کو
خدا اک ہے انوکھی بات سمجھاتے ہو لوگوں کو
قریش اس ذلت و توہین سے تنگ آ چکے ہیں سب
بظاہر ہر طریقے سے تمھیں سمجھا چکے ہیں سب
بتاؤ تو صحیح سہی آخر تمھارا مدّعا کیا ہے ؟
بہت اچھے تھے پہلے تم،تمھیں آخر ہوا کیا ہے ؟
رسومِ عام میں پہلے بھی شرکت تم کرتے تھے
ہمارے دیوتاؤں کی عبادت تم کرتے تھے
تمھیں ہم نیک طینت جانتے تھے کچھ نہ کہتے تھے
تمھارا مرتبہ پہچانتے تھے کچھ نہ کہتے تھے
یہ کیا جادو ہے کیا افسوں ہے جس میں کھو گئے ہو تم
روایات قدیمہ کے مخالف ہو گئے ہو تم
تمھاری اس روش نے قوم میں ہے تفرقہ ڈالا
نہ ہو گا اس طریقہ سے تمھارا مرتبہ بالا
اگر دولت کی خواہش ہو تو دولت تم کو دلوائیں
تمھارے واسطے ہم جمع کر کے مال و زر لائیں
عرب کی سلطنت چاہو تو یہ بھی کچھ مشکل نہیں
کہ سارے ملک کو کر دیں گے ہم اس بات پر مائل
کسی عورت پہ عاشق ہو تو ناممکن نہیں یہ بھی
ہمیں کہہ دو تمھارا کام کر دیں گے ہمیں یہ بھی
نہیں ہے گر نمود و نام و شاہی سے غرض تم کو
تو پھر ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ہے کوئی مرض تم کو
اگر یہ ہے تو کہہ دو صاف جس سے ہم سمجھ جائیں
کریں اس کا تدارک اور دوائیں ڈھونڈ کر لائیں
مسلّط کوئی جن ہے یا کوئی آسیب آتا ہے
ستاتا ہے تمھیں اس قسم کی باتیں سکھاتا ہے
ہمیں تم صاف کہہ دو ہم کسی عامل کو بلوائیں
کوئی تعویذ ڈھونڈیں کوئی ٹونا ٹوٹکا لائیں
مگر اس کام سے باز آؤ یہ ضدی روش چھوڑو
مقدّس دیوتاؤں کو برا کہنے سے منہ موڑو
تمھارے ان طریقوں سے بڑا طُوفان آئے گا
تمھارے پیروں میں کوئی بھی جینے نہ پائے گا
عتبہ کی حیرت
کہا میں تم کو ارشاداتِ ربّانی سناتا ہوں
ہدایت کے لئے آیاتِ قرآنی سناتا ہوں
یہ فرما کر پڑھیں حٰم کی آیاتِ 117 قرآنی
سنیں عتبہ نے، سن کر ہو گیا غرقابِ حیرانی
اٹھا چپ چاپ اپنے ساتھیوں کے رو برو آیا
کہا میں نے تو اس کو ساحر و کاہن نہیں پایا
وہ شاعر بھی نہیں کچھ اور ہے طرز کلام اس کا
میں کہتا ہوں کہ لوہا مان لیں گے خاص و عام اس کا
نہ مال و جاہ کی خواہش نہ ہے دھمکی کا ڈر اس کو
مناسب ہے کہ اب رہنے دو اس کے حال پر اس کو
اگر اس شخص کو اہلِ عرب نے مار ہی ڈالا
چلو چھٹّی ہوئی آئی ہوئی کو موت نے ٹالا
اگر یہ غالب آیا ملک پر آخر برا کیا ہے
تم اس کی قوم ہو سب کے لیے اچھّا ہی اچھّا ہے
وہ بولے اور لیجے یہ بھی اب ہم کو ڈبوتا ہے
دلِ عتبہ پہ جادو چل گیا معلوم ہوتا ہے
غرض کوئی نہ کی پروا پرستارانِ باطل نے
رسولؐ اللہ کو اب اور ایذائیں لگیں ملنے
ابی طالب کے ڈر سے قتل اگرچہ کر نہ سکتے تھے
مگر تضحیک اور تذلیل کرنے سے نہ تھکتے تھے
ابوجہل اور عتبہ کرتے تھے گستاخیاں ایسی
کہ سن کر بھی جنھیں برداشت کر سکتا نہیں کوئی
حضرت حمزہ ؓ کا ایمان لانا
شجاعِ نامور فرزند عبدالمطلب حمزہؓ
وہ عم ِّ مصطفیٰ عالی نسب والا حسب حمزہؓ
وہ حمزہؓ 118 جس کو شاہِ شہسوارانِ عرب کہئے
جسے جان عرب لکھیے جسے شانِ عرب کہیے
اگرچہ اب بھی اپنے کفر کی حالت پہ قائم تھے
مگر فخر رسل کی دائمی اُلفت پہ قائم تھے
مشیّت تھی کہ ان کے دم سے تقویت ملے حق کو
مٹے باطل سے شان ظاہری،شوکت ملے حق کو
چلے آتے تھے اِ ک دن دشت سے وہ پشتِ تو سن پر
شجاعت اور جلالِ ہاشمی تھا اپنے جوبن پر
سوئے خانہ چلے جاتے تھے رستے میں یہ سن پایا
بھتیجےؐ کو میرے بوجہل نے صدمہ ہے پہنچایا
یہ سن کر جوشِ خون سے روح میں غیظ و غضب دوڑا
پلٹ کر سوئے کعبہ عبدالمطلب دوڑا
وہاں بُوجہل اپنے ساتھیوں میں گھِر کے بیٹھا تھا
مثیلِ اَبرہَہ تھا ہاتھیوں میں گھِر کے بیٹھا تھا
کیا حمزہؐ نے نعرہ او ابوجہل، او خرِ بزدل !
محمدؐ مصطفیٰ کے دین میں اب میں بھی ہوں شامل
سنا ہے مَیں نے تو میرے بھتیجےؐ کو ستاتا ہے
ہمیشہ گالیاں دیتا ہے اور فتنے اٹھاتا ہے
اگر کچھ آن رکھتا ہے تو آ میرے مقابل ہو
کہ تیری بدزبانی کا چکھا دوں کُچھ مزا تُجھ کو
بلا لے ساتھیوں کو اور حمایت کرنے والوں کو
ذرا مَیں بھی تو دیکھوں اُن کمینوں کو رذالوں کو
یہ کہہ کر گھُس پڑے حمزہؐ گروہِ بد سگاں لامیں
گریباں سے پکڑ کر کھینچ لائے اس کو میداں میں
کماں تھی ہاتھ میں وہ سر پہ ناہنجار کے ماری
گِرا سر سے ہو گیا ناپاک خوں جاری 119
سبھی دبکے کھڑے تھے چھا گیا تھا ایک سنّاٹا
مگر حمزہؐ نے کھا کر رحم اس کا سر نہیں کاٹا
کہا گر آج سے میرے بھتیجےؐ کی طرف دیکھا
تیرے ناپاک چمڑے میں شُتر کی لید بھر دوں گا
یہ کہہ کر چل دئیے مشرک بھلا کیا ٹوک سکتے تھے
کہیں روباہ بھی اس شیرِ نر 120کو روک سکتے تھے
ابوجہل اس لیے دبکا پڑا تھا فرش کے اوپر
مبادا واپس آ کر قتل کر دے عم ِّ پیغمبرؐ
یہاں سے جا کے حمزہ ؓ جلد تر ایماں لے آئے
بھتیجے کی محبت میں چچا نے مرتبے پائے
حضرت عمرؓ کے ایمان لانے کا بیان، دشمنان دین میں نبیؐ کے قتل کی تجویزیں
عمر ؓ ابن خطاب اس وقت تک ایماں نہ لائے تھے
حجاب کفر میں تھے دامن حق میں نہ آئے تھے
غیور و صائب الرائے بہادر تیغ افگن تھے
مگر سچے نبیؐ کے اور مسلمانوں کے دشمن تھے
غریبوں حق پرستوں کو اذیت دیتے رہتے تھے
مسلماں ان کے ہاتھوں سے ہزاروں رنج سہتے تھے
جناب حضرت حمزہؓ بھی جب ایمان لے آئے
تزلزل پڑ گیا باطل میں اہل مکہ گھبرائے
مسلمانوں کی روز افزوں ترقی سے لگے ڈرنے
نبیؐ کو قتل کر دینے کی تجویزیں لگے کرنے
کوئی بولا غضب ہے ، اپنی طاقت گھٹتی جاتی ہے
کہ دنیا دین آبائی سے پیچھے ہٹتی جاتی ہے
یہی حالت رہی تو ایک دن ایسا بھی آئے گا
ہُبُل کے واسطے کوئی چڑھاوا بھی نہ لائے گا
کوئی بولا یہ مذہب پھیلنے سے رک نہیں سکتا
محمدؐ زندہ ہیں جب تک یہ جھگڑا چُک نہیں سکتا
کہا بوجہل نے دیکھو یہ نرمی کا نتیجہ ہے
پکارا بو لہب میں کیا کروں میرا بھتیجا 121 ہے
عمرؓ نبی کے قتل کا بیڑا اٹھاتے ہیں
عمر ؓ بولے یہ قصہ ہی چکا دیتا ہوں میں جا کر
کہ دیتا ہوں تمھیں سر ہادی اسلامؐ کا لا کر
بدی کے غلغلے اس محفل حق پوش میں اٹھے
عمرؓ نے کھینچ لی تلوار پورے جوش سے اٹھے
چلے اس زندگی بخش جہاں کے قتل کرنے کو
تمنائے مکان ولا مکاں کے قتل کرنے کو
نعیم ؓ 122اک مرد عاقل سے ہوئی مٹ بھیڑ رستے میں
وہ بولے آج کیا ہے تم نظر آتے ہو غصے میں
کہا میں قتل کرنے جا رہا ہوں اس پیمبرؐ کو
کہ جس نے ڈال رکھا ہے مصیبت میں عرب بھر کو
وہ بولے تم کو گھر کا حال بھی معلوم ہے بھائی
کہ ہے اسلام کی حامی تمھاری اپنی ماں جائی
تمھارے گھر میں بستا ہے خدا کا نام مدت سے
کہ بہنوئی تمھارا لا چکا اسلام مدت سے
یہ سن کر اور بھی غیظ و غضب طوفان پر آئے
عمر ؓ تلوار کھینچے اپنے بہنوئی کے گھر آئے
غضب ٹوٹا عمر دہلیز پر جس وقت چڑھتے تھے
وہ دونوں حضرت خبابؓ 123 سے قرآن پڑھتے تھے
عمر ؓ داخل ہوئے جب گھر کے اندر سخت غصے میں
سنی آہٹ تو فوراَ چھپ گئے خباب ؓ پردے میں
کہا کیا پڑھ رہے تھے تم وہ بولے تم سے کیا مطلب!
کہا دونوں مسلماں ہو چکے ہو جانتا ہوں سب !
بہن بہنوئی کو آخر عمر نے اس قدر مارا
کہ زخموں سے نکل کر خون کی بہنے لگی دھارا
بہن بولی عمر124 ! ہم کو اگر تو مار بھی ڈالے
شکنجوں میں کسے یا بوٹیاں کتوں سے نچوا لے
مگر ہم اپنے دینِ حق سے ہر گز پھر نہیں سکتے !
بلندی معرفت کی مل گئی ہے گِر نہیں سکتے !
دہن سے نامِ حق آنکھوں سے آنسو،منہ سے خوں جاری
عمر ؓ کے دل پر اس نقشے سے عبرت ہو گئی طاری
کہا اچھا دکھاؤ مجھ کو وہ آیاتِ قرآنی
سمجھ رکھا ہے جن کو تم نے ارشاداتِ ربانی
بہن بولی بغیرِ غسل اس کو چھو نہیں سکتے
یہ سن کر اور حیرت چھا گئی منہ رہ گئے تکتے
اُٹھے اور غسل کر کے لے لیا قرآن ہاتھوں میں
اسی کے ساتھ آئی دولتِ ایمان ہاتھوں میں
حضرت عمرؓ کا ایمان
کلامِ ِ پاک کو پڑھتے 125 ہی آنسو ہو گئے جاری
خدائے واحد و قدّوس کی ہیبت ہوئی طاری
وہ دل سخت وہ سخت دل جو آہن و فولاد کا دل تھا
مُسلمانوں کے حق میں جو کسی جلّاد کا دل تھا
شعاعِ نور نے اس دل کو یکسر موم کر ڈالا
ہوئی تسکین بہ نکلا قدیمی کفر کا چھالا
اُڑی کافور کی صورت سیاہی رنگِ باطل کی
یکا یک آج روشن ہو گئیں گہرائیاں دل کی
اسی عالم میں اُٹّھے جانبِ کوہِ صفا دوڑے
نکل کر نرغۂ شیطاں سے جیسے پارسا دوڑے
عمرؓ آستانہ نبوت پر
رسول اللہؐ تھے اُس سم مقیمِ ِ خانہ ارقم ؓ 126
حضوری میں جنابِ حمزہؓ و بوبکرؓ تھے ہمدم
نحیف و ناتواں کُچھ اور اہل اللہ بیٹھے تھے
خدا پر تکیہ تھا سرکارِ عالی جاہ بیٹھے تھے
عمرؓ آئے مسلّح، آ کے دروازے پہ دی دستک
اسی انداز میں تھے ہاتھ میں تلوار تھی اب تک
صحابہ ؓ نے جونہی سُوراخ میں سے جھانک کر دیکھا
چمک تلوار کی آئی نظر روئے عمر دیکھا
صحابہ کو ہُوئی تشویش ان کے رنگِ ظاہر سے
عمرؓ کا دبدبہ کچھ کم نہ تھا اِک فوجِ قاہر سے
رسُول اللّہؐ سے آ کر عرض کی اِ ک طرفہ ساماں ہے
عمر ؓ در پر کھڑے ہیں ہاتھ میں شمشیرِ برّاں ہے
کہا حمزہؓ نے جاؤ جس طرح آتا ہے آنے دو
اسے اندر بلاؤ جس طرح آتا ہے آنے دو
ادب ملحوظ رکھے گا تو خاطر سے بٹھائیں گے
نمونہ اس کو ہم خُلقِ محمّدؐ کا دکھائیں گے
اگر نیت نہیں اچھی تو اس کو قتل کر دوں گا
اسی کی تیغ سے سر کاٹ کر چھاتی پر دھر دُوں گا 127
رسول اللّہؐ سن کر مسکرائے اور فرمایا
بُلا لو دیکھ لیں کس دھُن میں ہے ابنِ خطاب آیا
عمر ؓ داخل ہوئے گھر میں تو اُٹّھے حضرتِ والا
ہُوا ضَو ریز سرِ ّشاخِ ِ طُوبیٰ پر قدِ بالا
کہا چادر کا دامن کھینچ کر اے عُمرؓ کیا ہے ؟
چلا تھا آج کس نیت سے کس نیّت سے آیا ہے ؟
عُمرؓ کے جسم پر اِ ک کپکپی ہو گئی طاری
وہیں سر جھُک گیا آنکھوں سے آنسو ہو گئے جاری
ادب سے عرض کی حاضر ہوا ہوں سر جھکانے کو
خُدا پر اور رسولِ پاکؐ پر ایمان لانے کو
یہ کہنا تھا کہ ہر جانب صدائے مرحبا گونجی
فضا میں نعرہ اللّہ اکبر کی صدا گونجی
حضرت عمرؓ کی شانِ ایمان
عمرؓ رخصت ہوئے ایمان لا کر شہر کی جانب
چلے بے خوف ہو کر بانیانِ قہر کی جانب 128
وہاں لوگ بیٹھے تھے عمرؓ کے منتظر سارے
کسی کے قتل ہونے کی خبر کے منتظر سارے
عمرؓ آ کر پکارے اے قریش ،اے قہر کے بیٹو!129
سنو اے عقل کے اندھو،سنو تقدیر کے بیٹو
یہ بت جھوٹے ہیں بے شک پوجنا بے سود ہے سب کا
خدا واحد ہے خالق ہے وہی معبود ہے سب کا
کوئی جھٹلائے مجھ کو یا کرے میرا یقیں کوئی
محمّدؐ ہیں رسول اللہؐ اس میں شک نہیں کوئی
نہ ہو گا کچھ بھی حاصل مکر سے حجت سے حیلے سے
فلاحِ ِ دین و دُنیا ہے محمّدؐ کے وسیلے سے
حقیقت کا تمھارے سامنے اظہار کرتا ہوں
مَیں توحید و رسالت کا بہ دل اقرار کرتا ہوں
کتاب اللہ پر قرآن پر ایمان لایا ہوں
خدائے واحد و رحمٰن پر ایمان لایا ہوں
یہ سن کر زلزلہ سا آ گیا ایوانِ باطل میں
بہت صدمہ ہوا دل کی امیدیں رہ گئیں دل میں
اٹھے سب طیش کھا کر پِل پڑے اس مرد غازی پر
کیا اُن بھیڑیوں نے اس شیرِ حجازی پر
مگر وہ میدان وفا غالِب رہا سب پر
خدا غالب ہوا نامِ خدا غالِب رہا سب پر
ہجرت حبشہ، ایذا دہی کی انتہا،طرح طرح کی عقوبتیں
عمر ؓ کی حق پسندی سے بڑھی اسلام کی شوکت
عَلَی الاعلان اب ہونے لگی تبلیغ کی خدمت
قریش اب ہو چکے تھے درحقیقت خُوں کے پیاسے
یہ باطل محو کرنا چاہتا تھا حق کو دنیا سے
ستم ایجاد تھے لاکھوں ستم ایجاد کرتے تھے
کوئی جلّاد کیا کرتا جو یہ جلاد کرتے تھے
زمین و آسماں جب دھوپ کی گرمی سے تپتے تھے
غضب کی دل لگی تھی ریت پر مسلم تڑپتے تھے
جھُلس کر سرخ ہو جاتی تھی جب چھاتی چٹانوں کی
ہم آغوشی ہُوا کرتی تھی ان سے بے زبانوں کی
نِشان سجدۂ توحید تھا جن کی جبینوں پر
دھرے رہتے تھے پہروں سخت پتھر ان کے سینوں پر
جو ابراہیمؑ کے پوتوں کو پھول اور باغ دیتے تھے
سلاخیں سُرخ کر کے لوگ ان کو داغ دیتے تھے
مثالِ نوح جو انسان کے بیڑے تراتے تھے
انھیں یہ لوگ پہروں آب میں غوطے کھلاتے تھے
غلاموں تک نہ تھا محدود یہ لطف و کرم ان کا
کہ تھا ہر بندۂ توحید پر ظلم و ستم ان کا
ابوُبکرؓ و عُمرؓ عثماںؓ 130 علیؓ تک کو ستاتے تھے
ابُوذرؓ پر زبیرؓ و سعدؓ پر سَو ظلم ڈھاتے تھے
وہ مصعبؓ عبدالرحمنؓ اور جعفرؓ بن ابی طالب
وہ سب کے سب بہادر جو کہ تھے یک جان و دو قالب
قیامت خیز ایذائیں غضب کے رنج سہتے تھے
تشدّد منع تھا اِس واسطے خاموش رہتے تھے
وطن کی سرزمین پھرنے لگی جب آسماں بن کر
ہَوَا دم گھوٹنے کے واسطے پھیلی دھُواں بن کر
حقوقِ زندگی بھی چھِن گئے جب اہلِ وحدت سے
حَبَش کی سمت ہجرت کا ملا فرماں 131 نبوّت سے
مُسلمانوں کی اِ ک تعداد نکلی بے وطن ہو کر
حبش یعنی نجاشی کی حکومت 132 میں بنایا گھر
مگر اس امر کی جب اہلِ مکہ نے خبر پائی
تعاقُب کے لیے فوراً سفارت ایک بھجوائی
مدبّر عَمرو ابن العاص 133 جوتھے اُن دنوں کافر
سفارت لے کے دربارِ نجاشی میں ہُوئے حاضر
نجاشی کے حضور آ کر جھُکے ظُلم کے بانی
تحائف اور نذریں پیش کر کے عرض گزرانی
کہ اے شاہِ حبش یہ سلطنت قائم رہے دائم
ہمارے شہر سے بھاگ آئے ہیں کچھ قوم کے مجرم
حبش میں آ بسے ہیں ہر طرح آزاد پھرتے ہیں
مبلِغ اک نئے مذہب کے ہیں دلشاد پھرتے ہیں
یہودی اور نصرانی مذاہب سے بھی جلتے
نیا اِ ک دین قائم کر لیا ہے جس پہ چلتے ہیں
پکڑ کراس اس سفارت کے حوالے کیجیے اُن کو
اسی خاطر ہم آئے ہیں ہمیں دے دیجیے اُن کو
نجاشی کے مصاحب جو کہ سب کے سب تھے نصرانی
خلافِ اہلِ دیں ہر شخص نے تائید کی ٹھانی
نجاشی انصاف کی راہ پر
یہ سازش کی ہم آہنگی نجاشی نے بری سمجھی
گُلوئے عدل پر ایسی عدالت اِ ک چھری سمجھی
مسلمانوں کو بھی اس نے بلایا اور فرمایا
کہ تم کو قید کرنے کے لیے یہ وفد ہے آیا
تمھارا جرم کیا ہے قوم کیوں ناراض ہے تم سے ؟
کسی کو قتل کر ڈالا کہ بگڑی کوئی شَے تم سے ؟
تمھارا دین کیا ہے کیا وہ دُنیا سے نرالا ہے ؟
جسے تم یہ سمجھتے ہو کہ سب دینوں سے بالا ہے
دربارِ نجاشی میں حضرتِ جعفرؓ کی تقریر
جنابِ حضرت جعفرؓ اٹھے تقریر کرنے کو
عَلی الاِعلان دِینَ اللّہ کی تفسیر کرنے کو
کہا اے بادشہ ہم لوگ کافر اور جاہل تھے
ہم اِ س دارِ مشقت میں نکمّے اور کاہل تھے
بہت بدکار تھے بت پوجتے مردار کھاتے تھے
غریبوں کو شریفوں کو ضعیفوں کو ستاتے تھے
یتیموں پر غلاموں لونڈیوں پر ظلم ڈھاتے تھے
پڑوسی زیردستوں کو زبردستی دکھاتے تھے
یہ حالت تھی برادر کا برادر جان لیوا تھا
گناہوں کا سمندر، ناؤ کا شیطان کھیوا تھا
دقیقہ کون سا باقی رہا تھا ڈوب جانے میں
سہارا کوئی بھی حاصل نہ تھا ہم کو زمانے میں
تکلّف برطرف،جاتے تھے ہم سیدھے جہنّم میں
اسی اثناء میں ایک سچّا نبیؐ پیدا ہوا ہم میں
نبیؐ !شہرہ ہے ساری قوم میں جس کی امانت کا
کوئی منکر نہیں جس کی صداقت کا دیانت کا
وہ آیا اور اُس نے دعوتِ اسلام دی ہم کو
نکالا موت کے پنجے سے بخشی زندگی ہم کو
ہمیں تلقین کی ان پتھروں کا پُوجنا چھوڑو
زنا سے جھوٹ سے چوری سے سر زوری سے منہ موڑو
ہمیں تلقین کی اک دوسرے کے حق کو پہچانو
سبھی انسان ہو انسانیت دکھلاؤ نادانو
ہمیں اس نے نماز و روزہ کے ارکان سکھلائے
پسند آیا ہمیں یہ دین ہم ایمان لے آئے
بس اتنی بات تھی جس پر ہوئے اہل وطن دشمن
ہمیں جی کھول کر دیتے رہے رنج و محن دشمن
ہمارا جُرم یہ ہے بت پرستی چھوڑ دی ہم نے
ملی ہم کو اذیت اپنی بستی چھوڑ دی ہم نے
ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ پھر گمراہ ہو جائیں
یہاں حاضر ہیں ہم اب آپ ہی انصاف فرمائیں
نجاشی راہِ ہدایت پر
سچائی کا اثر ظاہر ہوا قلبِ نجاشی پر
وہ بولا کونسا بُرہان لایا ہے وہ پیغمبرؐ
سنائیں حضرتِ جعفرؓ نے چند آیاتِ قرآنی
نجاشی کے مکدّر دل نے پائی جن سے تابانی
ہوا دل پر اثر آنکھوں سے آنسو ہو گئے جاری
کہا لاریب اللہ کی کتابیں ایک ہیں ساری
قسم اللہ کی اعجاز ہے انجیل و قرآں میں
اسی کے نطق کی آواز ہے انجیل و قرآں میں
نجاشی کا تہیّہ
کیا اب یوں مخاطب اہل مکہ کے سفیروں کو
کہ جاؤ کہہ دو اپنے بھیجنے والے شریروں کو
کہ جو مظلوم میرے دامنِ دولت میں آئے گا
وہ خود جائے تو جائے کوئی لے جانے نہ پائے گا
مُسلمانوں سے بولا تم حَبش کو اپنا گھر سمجھو
مُجھے اپنا معین وہم خیال وہم نظر سمجھو
یہ دنیا اک مسافر خانہ ہے ہم سب مسافر ہیں
خدا منزل ہے سب کی حنیف ہے اُن پر جو کافر ہیں
رسول اللّہؐ کے خلاف اہلِ مکّہ کا معاہدہ
شرارت اہلِ مکہ کی کسی صورت نہ کام آئی
سفارت بھی حبش سے یوں ہی بے نیل و مرام آئی
شریروں کو بڑی شرمندگی تھی اپنی ہیٹی کی
اکٹّھے ہوکے پھر اہلِ ستم نے اِ ک کمیٹی کی
بنی ہاشم کے گھر سے بُو لہب بھی ساتھ شامل تھا
کہ ہر ایذا دہی کے وقت اس کا ہاتھ شامل تھا
صلاح و مشورے کے بعد اب یہ بات طے پائی
کہ اک تحریر لکھوا کر درِ کعبہ پہ لٹکائی
لکھا یہ تھا،تعلق قطع ہے اب آلِ ہاشم 134 سے
نہ رکھیں آج کے دن سے وہ کوئی واسطہ ہم سے
رفاقت،بیاہ ، شادی،ناطہ ،رشتہ ،دوستی، الفت
مروّت ،لین دین اور ملنا جلنا سب کا سب رخصت
تواضع،گفتگو،بیع و شریٰ سب ترک کرتے ہیں
کوئی آ کر نہ پوچھے گا وہ جیتے ہیں کہ مرتے ہیں
ہمارے شہر میں ڈھونڈیں نہ چیزیں کھانے پینے کی
نہیں پرواہ ہمیں اب ان کے مرنے اور جینے کی
ہمارے ان کے باہم کام دھندے بند ہیں سارے
قریش اس باہمی تحریر کے پابند ہیں سارے
ابُو طالب لئیے بیٹھے رہیں اپنے بھتیجے کو
مریں گے بھوکے پیاسے خُود سمجھ لیں گے نتیجے کو
محمّدؐ جو ہمیں ہر بات میں گمراہ کہتا ہے
خدا کو ایک اور خود کو رسول اللّہ کہتا ہے
ابُو طالب اگر اس کو ہمارے ہاتھ میں دے دیں
جواس کے ساتھ والے ہیں سب اس کے ساتھ میں دے دیں
ہم ان کو قتل کر ڈالیں تو پھر یہ عہد ٹوٹے گا
لہُو ان کا دوبارہ نخلِ الفت بن گے پھوٹے گا
غرض یہ عہد135لِکھوا کر درِ ِ کعبہ پہ لٹکایا
ابُو طالب کے پاس اِ ک ہاشمی فوراً خبر لایا
ابُو طالب کی ثابت قدمی
ابوطالب نے فرمایا عجب اُلٹا زمانہ ہے
یہ اچھّی دوستی ہے واہ کیا عمدہ بہانہ ہے
وہ صبحِ نور جس کے چہرہ انور کی برکت سے
کیا کرتے ہیں باراں کی تمنّا ابرِ رحمت سے
وہ دامن جو یتیموں کو پناہیں دینے والا ہے
جو اندھوں کو بصیرت کی نگاہیں دینے والا ہے
وہ جس نے اجڑی پُجڑی آدمیت کو سنوارا ہے
جو بے یاروں کا یارا بے سہاروں کا سہارا ہے
وہی جو ابر رحمت 136 بن کے جانوں کو بخشے
چمن کو رنگ بخشے اور بُلبل کو زباں بخشے
وہی جو نوعِ انساں کو غُلامی سے رہائی دے
وہی جو پنجۂ مرگ دوامی سے رہائی دے
یہ انسان دامِ ِ مرگ اس کے غلاموں پر بچھاتے ہیں
حرم کے طائروں کو شانِ صیّادی دکھاتے ہیں
اسی کے باغ پریہ برق شُعلہ ریز ہوتی ہے
اسی کے بے زبانوں پر چھُری اب تیز ہوتی ہے
وہ جس کا نام لینے سے پلٹ جاتی ہیں تقدیریں
اسی کو قتل کر دینے کی اب ہوتی ہیں تدبیریں
کریں بیداد ہم پر اور ہمیں سے داد بھی چاہیں
ہمارا قتل ہو اور ہم سے پھر امداد بھی چاہیں
ہمیں منظور ہے قطعِ ِ تعلّق اہلِ مکہ سے
نہیں ہم چاہتے رسمِ ِ تملّق اہلِ مکہ سے
یہ کہہ کر آلِ عبدالمطّلب کو گھر میں بلوایا
کیا کنبہ اکٹھاّ اور سارا حال بتلایا
بنی ہاشم اگرچہ آج تک ایماں نہ لائے تھے
مگر اہلِ حمیت ہاشمی ماؤں کے جائے تھے
اکٹھے ہو گئے شعب ابی طالب 137 میں آ آ کر
یہیں پر تھے رسولِ پاک و اہلِ بیت پیغمبرؐ
فقط اک بُو لہب سب سے الگ تھا سب کا دشمن تھا
نہایت سنگدل،بے رحم،بے ایمان و پر فن تھا
شُعبِ ابی طالب میں محصوری کا زمانہ
بڑی سختی کرتے تھے قریش اس گھر کی نگرانی
نہ آنے دیتے تھے غلّہ اِ دھر تا حدِ امکانی
کوئی غلّے کا سوداگر اگر باہر سے آ جاتا
تو رستے ہی میں جا کر بُو لہب کمبخت بہکاتا
پہاڑوں کا درہ اک قلعہ محصور تھا گویا
خُدا والوں کو فاقوں مارنا منظور138تھا گویا
رسول اللہؐ لیکن مطمئن تھے اور صابر تھے
خُدا جس حال میں رکھے اسی حالت پہ شاکر تھے
وہ حمزہ ؓ کا شکارِ آہواں کے واسطے جانا
کبھی کُچھ بھی نہ ملنا اور خالی ہاتھ آ جانا
وہ بچّوں کا تڑپنا ماہی139 بے آب کی صورت
علیؓ کے ضبط میں غصے کے پیچ و تاب کی صورت
عمرؓ کا ہاتھ اکثر قبضہ شمشیر پر رکھنا
نبیؐ کے حکم پر سر تکیہ تقدیر پر رکھنا
نبیؐ کے حکم کی تعمیل کرنا اور چپ رہنا
غضب کو ضبط کرنا قہر اپنی جان پر سہنا
وہ بھوکی بچّیوں کا روٹھ کرفی الفَور من جانا
خُدا کا نام سن کر صبر کی تصویر بن جانا
تڑپنا بھوک سے کُچھ روز آخر جان کھو دینا
وہ ماؤں کا فلک کو دیکھ کر چپ چاپ140 رو دینا
گزارے تین سال اس رنگ سے ایمان والوں نے
دکھا دی شانِ استقلال اپنی آن والوں نے
رضا و صبر سے دن کٹ گئے ان نیک بختوں کے
کہ کھانے کے لیے ملتے رہے پتّے درختوں کے
دکھائی شکل اس آغاز کے انجام نے اِ ک دن
چچا کودی خبر اس مصدرِ الہام نے اِ ک دن
کہ دیمک کھا چکی ہے ظالموں کے عہد ناموں کو
شکستہ کر دیا اللّہ نے باطل کے خامے کو
ہے عبرت کا سبق اس انتباہِ آسمانی میں
فقط نامِ خدا باقی ہے اس تحریر فانی میں
شکستِ معاہدہ باطل
ابی طالب اٹھے گھر سے نکل کر شہر میں آئے
تھے جِن کے دستخط اس عہد نامے پروہ بُلوائے
کہا،میرے بھتیجے سے ملی ہے یہ خبر مجھ کو
دکھاؤ چل کے وہ تحریر اپنی اِ ک نظر مجھ کو
میں اُس کو چھوڑ دوں گا قول ہے اس کا اگر باطل
وہ حق پر ہے تو پھر اس عہد نامے کا اثر باطل
تبختر کی ادا سے ہنس پڑا بُوجہلِ بد گوہر
اتارا عہد نامہ دیکھ کر سب رہ گئے ششدر141
کہو ظاہر پرستو!کیا یہ امرِ ِ اتفاقی تھا
جو فانی تھا وہ فانی تھا،جو باقی تھا وہ باقی تھا
عام الحزن 142۔۔ابُو طالب اور حضرت خدیجة الکبریٰ ؓ کی وفات
مِلا اس قید سے آخر مُسلمانوں کو چھُٹکارا
اسی انداز سے بہنے لگی تبلیغ کی دھارا
روایت ہے کہ دسواں سال تھا عہد نبوت کا
کہ ٹوٹا آخری رشتہ بھی انسانی حمایت کا
ابُو طالب سدھارے جانبِ ملکِ عدم آخر
اٹھا سر سے چچا کا سایہ لطف و کرم آخر
وہ اُمّ المؤمنین ؓ جو مادرِ گیتی کی عزّت ہے
وہ اُمّ المؤمنین ؓ قدموں کے نیچے جس کے جنّت ہے
خدیجہؓ طاہرہ یعنی نبیؐ کی با وفا بی بی
شریکِ راحت و اندوہ پابندِ رضا بی بی
دیارِ جاودانی کی طرف راہی ہوئیں وہ بھی
گئیں دنیا سے آخر سائے فردوسِ ِ بریں 143 وہ بھی
یہ بی بی تھیں وہ ہمدردِ یتیمی تھے مُحمّدؐ کے
یہ دونو ں غمگسارانِ قدیمی تھے مُحمّدؐ کے
مشیّت کو مگر مد نظر تھی شانِ یکتائی
محمّدؐ کی یہ تنہائی ہی سامانِ یکتائی
قریش اس وقت تک نامِ ِ ابوطالب سے ڈرتے تھے
عرب کے لوگ ان کے مرتبے کا پاس کرتے تھے
ابوطالب کے اٹھ جانے سے ڈر جاتا رہا دل سے
یہ ہستی اک سِ پرتھی ہٹ گئی مدِ ّ مقابل سے
غُلامانِ محمّدؐ تھے حبش کے ملک میں اکثر
یہاں مکّے میں چند افراد تھے یارانِ پیغمبرؐ
دکھائی اور سرگرمی پئے تبلیغ سرورؐ نے
تو باطِل آخری کوشش کے منصوبے لگا کرنے
ہادی اسلام کا سفر طائف
وہ ہادیؐ جو نہ ہو سکتا تھا غیر اللہ سے خائف
چلا اک روز مکے سے نکل کر جانبِ طائف
دیا پیغامِ حق طائف کے رئیسوں 144کو
دکھائی جنس روحانی کمینوں کو خسیسوں کو
نبیؐ کے ساتھ یہ بدبخت پیش آئے رعونت سے
جو سرکردہ تھا ان میں ،بول اٹھا فرط حقارت سے
اگر اللہ تجھے ایسوں کو نبیؐ پاک کرتا ہے
تو گویا پردہ کعبہ کو خود ہی چاک 145 کرتا ہے
کہا اک دوسرے نے واہ وہ بھی ہے خُدا کوئی
پیمبرؐ ہی نہیں ملتا جسے تیرے سوا کوئی146
ظرافت کی ادائے طنز سے اِ ک تیسرا بولا
نہایت بانکپن سے سانپ نے گویا دہن کھولا
اگر مَیں مان لوں تم کر رہے ہو راست گفتاری
توہے تم سے تخاطب میں بھی گستاخی بڑی بھاری
اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو ڈرنا چاہئے تم سے
مُجھے پھر بات بھی کوئی نہ کرنا چاہیے تم سے
یہ طعنِ سوقیانہ سُن کے بھی ہادی نہ گھبرایا
اُٹھا اور اُٹھ کے اطمینان و آزاری سے فرمایا
کہ حق پر دل نہیں جمتا تو اچھا خیر جانے دو!
یہ پیغامِ ِ ہدایت شہر والوں کو سنانے دو!
یہ کہہ کر شہر کی جانب چلا اسلام کا ہادی
سُنایا قیدیانِ لات کو پیغامِ آزادی
مگر بھڑکا دیا لوگوں کو اِن تینوں شریروں نے
دکھائی شیطنت شیطان کے سچّے مشیروں نے
پتّھروں کی بارش
بڑھے انبوہ در انبوہ پتھر لے دیوانے
لگے مینہ پتھروں کا رحمتؐ عالم پہ برسانے
وہ ابرِ لطف جس کے سائے کو گلشن ترستے تھے
یہاں طائف میں اس کے جسم پر پتھر برستے تھے
وہ بازو جو غریبوں کا سہارا دیتے رہتے تھے
پیا پے آنے والے پتّھروں کی چوٹ سہتے تھے
وہ سینہ جس کے اندر نورِ حق مستور رہتا تھا
وہی اب شقّ ہوا جاتا تھا اس سے خون بہتا تھا
فرشتے جن پہ آ آ کر جبینِ شوق رکھتے تھے
وہ پائے نازنیں زخموں کی لذت آج چکھتے تھے
جگہ دیتے تھے جن کو حاملانِ عرش آنکھوں پر
وہ نَعلین مبارک خاک و خوں سے بھر گئیں یکسر
بشر کی عیب پوشی کے لیے جس کو اتارا تھا
بشر کی چیرہ دستی سے وہ دامن پارا پارا تھا
زمیں کا سینہ شق تھا اور فلک کا رنگِ رخ فق تھا
کہ ساری عمر کا حاصل شکارِ جورِ ناحق تھا
حضورؐ اس جور سے چور ہو کر بیٹھ جاتے تھے
شقی آتے تھے بازو تھام کر اوپر اٹھاتے تھے 147
اسی ’’مہماں نوازی‘‘ کا نمونہ پھر دکھاتے تھے
خدائے قاہر و قہّار کا صبر آزماتے تھے
یہ جسمانی عقوبت اس پہ طرہ رنجِ ِ رُوحانی
خدا کا مضحکہ کرتے تھے یہ بیداد کے بانی
کوئی کہتا تھا میں ایسے خدا سے ڈر نہیں سکتا!
کہ جو اپنے پیمبرؐ کی حفاظت کر نہیں سکتا!!
غرض یہ بانیانِ شر یہ فرزندانِ تاریکی
نبیؐ پر مشق کرتے جا رہے تھے سنگباری کی
مگر اس رنگ میں جب تک زباں دیتی رہی یارا
دعائے خیر ہی کرتا رہا اللّہ کا پیارا
بالآخر جان کر بے جان ،ان لوگوں نے منہ موڑا
لہُو میں اس وُجودِ پاک کو لتھڑا ہوا چھوڑا
آپؐ سے بد دعا کی خواہش اور رحمت للعالمینؐ کا جواب
غلامِ با وفا زید ابنِ حارث ڈھونڈتا آیا
متاعِ نور کو طائف سے کندھوں پر اُٹھا لایا
حدِ نخلہ 148میں آ پہنچا بحالِ خستہ و غمگیں
وہاں چشمے پہ لا کر زخم دھوئے پٹیاں باندھیں
کہا سرکار ان لوگوں کے حق میں بد دعا کیجیے !
شکایت اِ س جفا و جور کی پیشِ خدا کیجے !
زمیں کو حکم دیجیے ان لعینوں کو ہڑپ کر لے
اسی کا بوجھ ہیں یہ لوگ ان کو پیٹ میں بھر لے
فلک کو حکم دیجیے پھٹ پڑے اِ ن کینہ کاروں پر
بجائے آب،برسے آگ طائف کی پہاڑوں پر
جنابِ رحمة للعالمینؐ نے ہنس کے فرمایا
کہ مَیں اس دہر میں قہر و غضب بن کر نہیں آیا
اگر کچھ لوگ آج اسلام پر ایماں نہیں لاتے !
خدائے پاک کے دامانِ وحدت میں نہیں آتے
مگر نسلیں ضرور ان کی اُسے پہچان جائیں گی
درِ ِ توحید پر اِک روز آ کر سر جھکائیں گی!
میں ان کے حق میں کیوں قہرِ الٰہی کی دعا مانگوں
بشر ہیں بے خبر ہیں کیوں تباہی کی دعا مانگوں
پتّھر مارنے والوں کے لئے آنحضرتؐ کی دعائے خیر
یہ فرما کر نبیؐ نے ہاتھ اُٹھا کر اک دُعا مانگی
خُدا کا فضل مانگا خوئے تسلیم و رضا مانگی
دعا مانگی الٰہی قوم کو چشمِ بصیرت دے
الٰہی رحم کر ان پر انھیں نورِ ِ ہدایت دے
جہالت ہی نے رکھا ہے صداقت کے خلاف ان کو
بچارے بے خبر انجان ہیں کر دے معاف ان کو
فراخی ہمّتوں کو،روشنی دے ان کے سینوں کو
کنارے پر لگا دے ڈُوبنے والے سفینوں کو
الٰہی فضل کر کہسار طائف کے مکینوں پر
الٰہی پھول برسا پتھروں والی زمینوں پر
وہی جوشِ تبلیغ اور یمنیوں اور یثربیوں کا ایمان لانا
رسول اللّہؐ پھر طائف سے مکے کی طرف آئے
برائے دعوت و تبلیغِ حق پھر سر بکف آئے
یہاں بہرِ تجارت سب قبائل آتے جاتے تھے
رسولِ پاک انھیں جا کر پیامِ حق سناتے تھے
بہت سے خوش نصیب اللّہ پر ایمان لے آئے
گھروں کی سمت پلٹے دولتِ عرفان لے آئے
طفیل ابنِ عُمردوسی149 یمن کا شاہزادہ تھا
حضورِ سرورِ دیںؐ اس کا آنا بے ارادہ تھا
قریشِ مکّہ نے بہکا دیا تھا اس کو آتے ہی
کہ انساں عقل کھو دیتا ہے اس کے پاس جاتے ہی
قضا کار ایک دن یہ ہو گیا دو چار حضرت سے
سُنا قرآن ،پھر معمور تھا نورِ ہدایت سے
مسلماں بن کے خُوش قسمت یمن کی سمت لَوٹ آیا
پئے تبلیغ حق اہلِ وطن کی سمت لَوٹ آیا
اسی صورت سویدِ ؓ 150 یثربی ایمان لائے تھے
ایاس ابنِ معاذ اوسی 151 اسی صورت سے آئے تھے
اسی صورت سے چند افراد 152آئے ارضِ یثرب سے
پسند آیا انھیں اسلام ہی سارے مذاہب سے
وطن میں جا کے سب نے دینِ بیضا کی منادی کی
کہ لوگو جاگ اٹھی قسمت ہماری خشک وادی کی
وہ پیغمبرؐ کہ جس کا منتظر سارا زمانہ تھا
وہ پیغمبرؐ نوشتوں153 کے مطابق جس کو آنا تھا
اسی کو دیکھ کر آئے ہیں ہم مکّے کی بستی میں
خُدا کا نام لیتا ہے جہانِ بت پرستی میں
سنو ہم نے کلام اس کا سنا ہے اپنے کانوں سے
جو صُورت ہم نے دیکھی کہہ نہیں سکتے زبانوں سے
خدا کے فضل سے ہم سب مُسلماں ہوکے آئے ہیں
دلوں سے بت پرستی کی نجاست دھوکے آئے ہیں
اہلِ ِ یثرب میں اسلام
یہ سن کر غلغلہ سا پڑ گیا اطرافِ یثرب میں
اُخُوّت از سرِ نو آ چلی اشرافِ یثرب میں
یہاں کے رہنے والے اوس و خزرج کے قبائل تھے
نہایت با مروّت ،اہل دل اہلِ وسائل تھے
یہ باہم بھائی بھائی تھے مگر آپس میں لڑتے تھے
بڑی مدّت سے خانہ جنگیوں میں گھر اُجڑتے تھے
یہُودی بھی یہاں تھے اور معزّز سمجھے جاتے تھے
یہ ساہوکار دھنّا سیٹھ بن کر سود کھاتے تھے
بتوں کو چھوڑ کر اور حُبِّ مال و جاہ کو تج کے
مُسلماں ہو چلے آخر گھرانے اوس و خزرج کے
لیا جانے لگا ختم الرّسلؐ کا نام یثرب میں
لگا ہر سمت پھلنے پھولنے اسلام یثرب میں
حَسَد کرنے لگی قومِ یہود اس دین و ملّت سے
بنے بیٹھے تھے وہ لوگوں کے آقا ایک مدّت سے
باب ششم
ہجرت نبویؐ ۔۔مسلمانان مکہ کی ہجرت یثرب
یہاں مکے مین دنیا تنگ تھی ایمان داروں پر
کہ روندے جا رہے تھے پھول کے سے جسم خاروں پر
نبوت نے اجازت دی کہ یثرب میں چلے جاؤ
وطن والوں کے اس ظلم و تعدی سے اماں پاؤ
بشارت ہے وہاں پر امن بخشے گا خدا تم کو
یہاں صبح وطن ہے ، خندہ دنداں نما تم کو
صحابہ پر اگر چہ قہر کے بادل برستے تھے
بچارے سانس آزادی سے لینے کو ترستے تھے
نہ تھا آسان منہ اپنے وطن سے موڑ کر جانا
رسول پاک کو مکے میں تنہا چھوڑ کر جانا
مگر فرمانِ محبوب خداؐ فرمانِ باری تھا
مسلمانوں کا شیوہ، شیوہ طاعت گزاری تھا
مشرکین مکہ کے ارادے
صحابہ رفتہ رفتہ جانب یثرب ہوئے راہی
قریشی قافلوں کو مل گئی فی الفور آگاہی
دلوں میں خوش ہوئے ظالم کہ اب حسرت ہوئی پوری
محمدؐ اور اس کے ساتھیوں میں ہو گئی دوری
مسلماں جا چکے ارض حبش میں اور یثرب میں
یہ اچھا وقت ہے سب ٹل گئے وقت مناسب میں
ابو بکرؓ و علیؓ باقی ہیں لیکن دو کی ہستی کیا
بہادر ہی سہی ہم پر کریں گے پیش دستی کیا
جو چند افراد ہیں کچھ اور وہ کمزور 154 ہیں سارے
کہ اب بھی چھپتے پھرتے ہیں ہمارے خوف کے مارے
یہ اچھا وقت ہے اب قتل کر ڈالو محمدؓ کو
مٹا دو آج تنہائی میں اس نور مجرد کو
تساہل اب نہیں اچھا کہ طوفاں چڑھتے جاتے ہیں
حبش میں اور یثرب میں مسلماں بڑھتے جاتے ہیں
مشاورت قتل
جبیر و عقبہ و عتبہ ابو جہل و ابو سفیاں
نضر بو بختری حارث امیہ اور اک شیطاں
یہ سب ایوان ندوہ میں اکٹھے ہو گئے آ کر
قبائل کے نمائندے بٹھائے ساتھ بلوا کر
تھا شیطاں نجد کے اک بے حیا بوڑھے 155کی صورت میں
کہ چل کر دور سے آیا تھا آج اس بزم لعنت میں
ہوئے ایوان کے در بند، تقریریں لگی ہونے
نبیؐ کو قتل کر دینے کی تدبیریں لگی ہونے
نظر آتی تھی اس بوڑھے کو ہر تجویز میں خامی
وہ کہتا تھا مبادا پیش آ جائے کوئی خامی
بالآخر سوچ کر بوجہل نے اک بات بتلائی
یہی تجویز اس شیطان بوڑھے کو پسند آئی
کہا اس نے کہ ہر کنبے سے اک اک آدمی چن لو
کوئی باقی نہ رہ جائے قبیلہ یہ ذرا سن لو
یہ نکلیں آج شب کو لے کے خون آشام تلواریں
محمدؐ پر یہ تلواریں سبھی یکبارگی ماریں
نبی کا جسم عبرت کا نظارہ ہو کے رہ جائے
مجسم نور وحدت پارہ پارہ ہو کے رہ جائے
یہی تجویز اچھی ہے ، یہی ترکیب ہے کامل
کہ ہو گا اس طرح ہر اک قبیلہ قتل میں شامل
کریں ایس خون کا دعویٰ مسلماں یا بنی ہاشم
تو مل کر سب قبیلے جنگ میں ان سے نپٹ لیں ہم
غرض طے پا گئی آخر یہی تجویز شیطانی
قسم کھا کھا کے لوگوں نے نبی کے قتل کی ٹھانی
ہجرت کی رات
سفینہ مہر کا جس دم شفق کے خون میں ڈوبا
کیا تاریکیوں نے دن پہ چھا جانے کا منصوبا
کئی فتنے جگا کر رات نے پھیلا دیے دامن
فضا پر لشکر ظلمات نے پھیلا دیے دان
مسلط ہو گئیں خاموشیاں دنیائے ہستی پر
ستاروں کی نگاہیں جم گئیں مکے کی بستی پر
نہیں تھا دامن کعبہ پہ زمزم اشک جاری تھا
چٹانیں دم بخود تھیں وادیوں پر ہول طاری تھا
نظر آتی ہو جس میں روشنی وہ ایک ہی گھر تھا
مصلے پر وہاں جو شخص بیٹھا تھا پیمبر تھا
عبادت ختم کی تسکین اطمینان سے اس نے
اٹھا، باندھی کمر اللہ کے فرمان سے اس نے
جگایا نیند سے شیر خدا کو اور فرمایا
کہ فرماں ہجرت یثرب کا ہے میرے لیے آیا
مثال موسیٰؑ و داؤدؑ ہجرت 156 فرض ہے مجھ پر
کمال دین حق اتمام حجت فرض ہے مجھ پر
اٹھو دیکھو کہ تلواروں سے گھر محصور ہے میرا
کہ میری قوم کو اب قتل ہی منظور ہے میرا
نکلنا اور اس عالم میں تلواروں پہ چلنا ہے
مگر حکم خدا ہے اس لیے مجھ کو نکلنا ہے
یہ چادر اوڑھ لو! سو جاؤ آ کر میرے بستر پر
محافظ ہے وہی رکھو بھروسہ شانِ داور پر
یہ مال و زر انہی لوگوں کا میرے پاس امانت ہے
امانت کا ادا کرنا ہی اسلامی دیانت ہے
خدا حافظ ہے دیکھو دل میں اندیشہ نہ کچھ لانا
یہ چیزیں ان کی پہنچا کر سوئے یثرب چلے آنا
علی ؓ نے حکم کی تعمیل کی اور اوڑھ لی چادر
بہ اطمینان آ کر سو گئے حضرت کے بستر پر
ارادہ کر لیا جب سرور عالمؐ نے چلنے کا
تو دیکھا راستہ مسدود ہے گھر سے نکلنے کا
درازوں میں سے جھانکا ہر طرف گہرا اندھیرا تھا
مگر پہرے کھڑے تھے گھر کو جلادوں نے گھیرا تھا
اندھیرے میں چمک اٹھتی تھیں بجلی کی طرح دھاریں
نظر آیا کہ ہیں ہر سمت تلواریں ہی تلواریں
یہ آدھی رات کا عالم یہ ہیبت ناک نظارہ
مگر ڈرتا تھا باطل سے وہ اللہ کا پیارا
وہ دراتا ہوا وحدت کا دم بھرتا ہوا نکلا
تلاوت سورہ یس کی کرتا ہوا نکلا
گری برق نظر اس مجمع قاتل کی آنکھوں پر
کہ پٹی خیرگی کی بندھ گئی باطل کی آنکھوں پر
کھنچی ہی رہ گئیں خوں ریز خوں آشام شمشیریں
کسی نے کھینچ دی ہوں جس طرح کاغذ کی تصویریں
خدا نے خاکِ غفلت ڈال دی کفار کے سر میں
رسول پاک پہنچے حضرت صدیق کے گھر میں
سنایا دوست کو فرمان حق یثرب کی ہجرت کا
نوید زندگی بخشی دیا مژدہ رفاقت کا
بعجلت دختر صدیقؓ نے سامان کو باندھا
نطاق اپنی اتاری اس سے توشہ دان کو باندھا
حبیب حق کی خوشنودی صلہ تھا جوشِ خدمت کا
شرف پایا ہوئیں ذات النطاقین آج سے ا سماؓ 157
غارِ ثور 158
ہوئے آزاد باطل کے حصار قہر سے دونوں
ابھی کچھ رات باقی تھی کہ نکلے شہر سے دونوں
نبیؐ نے خانہ کعبہ کو دیکھا اور فرمایا
کہ اے پیارے حرم میری تری فرقت کا وقت آیا
ترے فرزند اب مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے
تری پاکیزگی کا وعظ تک کہنے نہیں دیتے
جدائی عارضی ہے پھر بھی دل کو بے قراری ہے
کہ تو اور تیری خدمت مجھ کو دنیا بھر سے پیاری ہے
یہ فرماتا ہوا آگے بڑھا اسلام کا ہادیؐ
سرا سر موم ہو کر رہ گئی یہ سنگ دل وادی
چڑھائی سخت تھی سنگین و ناہموار رستہ تھا
نکیلے پتھروں کا فرش تھا پر خار رستہ تھا
نبیؐ کے پائے نازک ہر قدم پر چوٹ کھاتے تھے
دل صدیقؓ کے جذبات زخمی ہوتے جاتے تھے
نہ دیکھا جا سکا پائے محمدؐ کی جراحت کو
بصد اصرار کندھوں پر اٹھایا شان رحمت کو
اندھیرا ، پتھروں کے ڈھیر، کوہِ ثور کی گھاٹی
خدا ہی جانتا ہے یہ مسافت جس طرح کاٹی
بالآخر دو مسافر نزد غارِ ثور آ ٹھہرے
مقدر تھا یہیں نورانیوں کا قافلہ ٹھہرے
گئے اندر ابو بکر ؓ اور اس کو صاف کر آئے
عبا کو چاک کر کے روزنوں میں اس کے بھر آئے 159
مہ و خورشید نے برج سفر میں استراحت کی
کہ تھا نوروز تاریخ یکم تھی سن ہجرت کی
ازل سے سو رہی تھی خاک کی توقیر جاگ اٹھی
یکایک اس اندھیرے غار کی تقدیر جاگ اٹھی
سحر کا نور خندہ زن تھا باطل کی لیاقت پر
افق کے غرفہ مشرق سے جب خورشید نے جھانکا
نظر آیا تماشا قاتلوں کی چشم حیراں کا
گروہ اشقیا کو سرنگوں ہوتا ہوا پایا
علی ؓ کو سایہ شمشیر مین سوتا ہوا پایا
سحر کا نور خندہ زن تھا باطل کی لیاقت پر
بہت جز بز تھا انبوہ قریش اپنی حماقت پر
حقیقت کھل گئی جس وقت غافل ہوش میں آئے
بہت بپھرے ، بہت ہی اچھلے کودے جوش میں آئے
بہت کچھ کھینچا تانی کی علی ؓ کو خوب دھمکایا160
یہاں سے پھر یہ مجمع خانہ صدیق ؓ پر آیا
ہوا معلوم انہیں بو بکرؓ بھی گھر میں نہیں سوئے
یہ ایسی بات تھی جس نے حواس و ہوش بھی کھوئے
بہم لڑنے لگے اک دوسرے کی داڑھیاں نوچیں
محمدؐ کو پکڑ لینے کی ترکیبیں کئی سوچیں
انعام کا اعلان اور تلاش
کیا اعلان آخر جو کوئی جرات دکھائے گا
پکڑ لائے گا تو انعام میں سو اونٹ پائے گا
لگے کچھ جمع ہو کر شہر ہی میں ہا و ہو کرنے
بہت سارے مسلح ہو کے نکلے جستجو کرنے
لگائے ہر طرف چکر بہت لمبے بہت چوڑے
پہاڑوں پر چڑھے وادی میں گھومے دشت میں دوڑے
تعاقب میں کئی مشرک دہان غار تک پہنچے
کئی بار اس مقام سید ابرار تک پہنچے
سنی بو بکرؓ نے قدموں کی آہٹ دل ہوا پر غم
کہا دشمن قریب آئے ہیں اے فخر بنی آدم
کہا اللہ ساتھی ہے تو کیا اندیشہ دشمن
رکھ ان اللہ معنا پر نظر اے دوست لا تحزن161
قافلہ نبوت مدینے کے راستے میں
اٹھا رکھی نہ اہل مکہ نے باقی کسر کوئی
نہیں پہنچا خدا کے پاک بندوں تک مگر کوئی
مسافر تین روز و شب رہے اس غار کے اندر
غذا ملتی رہی تازہ بفضل خالق اکبر
سکوں افشا ہوا دنیا پہ چوتھی رات کا سایا
تو عامر162 گھر سے اک ناقہ کی جوڑی ساتھ لے آیا
ادب سے عرض کی بوبکر نے اے رحمتِ باری
سوارِ ناقہ ہو کر کیجیے چلنے کی تیاری
ہوا ارشاد اس ناقہ کی قیمت طے کرو پہلے
کہ ہم قیمت بغیر اس کو نہ لیں گے سوچ لو پہلے
اشارا تھا مدد جز رحمتِ یزداں نہیں لیتے
خدا کی راہ میں انسان کا احساں نہیں لیتے
بقیمت لے کے ناقہ شان رحمت نے سواری کی
بڑھیں یثرب کی جانب نکہتیں بادِ بہاری کی
رسول اللہؐ اور صدیق ؓ تھے اک پشت ناقہ163 پر
تھا عامر دوسری پر اور اس کے ساتھ اک رہبر164
بظاہر چند اہل کارواں معلوم ہوتے تھے
مگر ان کے جلو میں دو جہاں معلوم ہوتے تھے
عرب کی دھوپ
یہ شب چلتے ہی گزری اور دن کی دوپہر آئی
رب کی دھوپ نے شان تمازت اپنی دکھلائی
اٹھا طوفانِ آتش اس بیابانی سمندر میں
سمایا آ کے سو سو ہاویہ ایک ایک پتھر میں
زمیں انگارے اگلی آگ برسی آسمانوں سے
دھواں اٹھنے لگا جھلسی ہوئی کالی چٹانوں سے
فضا تھرا گئی سیلِ حرارت کے دریڑوں سے
ہوا گھبرا گئی امواج حدت کے تھپیڑوں سے
ازل کے روز سے یہ خاک یونہی پاک ہوتی تھی
وضو کرتی تھی ہر ذرے کا منہ کرنوں سے دھوتی تھی
کیا کرتی تھی غسلِ آفتابی اس لیے وادی
کہ گزرے گا یہاں سے ایک دن اسلام کا ہادی
کیا آرام اک پتھر کے سائے میں رسالت نے
مہیا کر لیا دودھ اس جگہ بھی جوش خدمت165 نے
ہوئی جس وقت ہلکی دھوپ کی وہ شعلہ سامانی
پیا شیرِ مصفا آپ نے چلنے کی پھر ٹھانی
سراقہ ابن مالک ابن جعشم کا تعاقب
مقرر ہو چکا تھا اس طرف انعام اونٹوں کا
گرفتاری کی خاطر بچھ چکا تھا دام اونٹوں کا
سراقہ ابن مالک کو ہوس نے آج اکسایا
چڑھا گھوڑے کے اوپر اور نبی کو ڈھونڈنے آیا
مگر چلتے ہی ٹھوکر لی صبا رفتار گھوڑے نے
جگایا روح خوابیدہ کو پہلی بار گھوڑے نے
یہ اک تنبیہ تھی لیکن سمجھ اس کو نہیں آئی
کہ بعد از صد تامل پھر تعاقب ہی کی ٹھہرائی
نظر آیا اسے اب قافلہ ایمان والوں کا
ہوس نے بھر دیا سو اونٹ سے دامن خیالوں کا
سراقہ خوش ہوا گھوڑے کا دوڑاتا ہوا دوڑا
نہایت زعم سے نیزے کو چمکاتا ہوا دوڑا
گرایا اک جگہ بار دگر راکب کو مرکب نے
جھنجھوڑا روح خوابیدہ کو دستِ قدرتِ رب نے
یہ غیبی تازیانہ تھا یہ تنبیہ الٰہی تھی
ہوا ثابت کہ فالوں میں تعاقب کی مناہی تھی
پھر اکسایا اسے انعام ملنے کی امیدوں نے
خطاب قاتلِ اسلام ملنے کی امیدوں نے
بڑھا پھر چڑھ کے گھوڑے پر جہالت کے اعادے سے
اسی بے رحم نیت سے اسی قاتل ارادے سے
مگر اس مرتبہ دامِ بلا میں پھنس گیا گھوڑا
روایت ہے کہ رانوں تک زمیں میں دھنس گیا گھوڑا 166
دکھائی پے بہ پے آخر جو قسمت نے نگوں ساری
سراقہ کے دلِ وحشی پہ ہیبت ہو گئی طاری
پڑا ہاتھوں میں رعشہ ڈر سے نیزہ گر گیا اس کا
یہ نقشہ دیکھ کر اس کام سے دل پھر گیا اس کا
آنحضرتؐ کی ایک معجز نما پیش گوئی
پکارا یا محمدؐ بخش دیجیے گا خطا میری
میں گمراہی میں تھا بیشک بدی تھی رہنما میری
میں تائب ہوں مجھے اک امن کی تحریر مل جائے
ترے دربار رحمت میں مجھے توقیر مل جائے
انوکھی التجا تھی مسکرایا قوم کا ہادیؐ
پھر اس کو بے تامل امن کی تحریر لکھوا دی
سراقہ سے مخاطب ہو کے یوں ملہم نے فرمایا
اگرچہ تو ابھی اللہ پر ایماں نہیں لایا
نرالے رنگ ہیں لیکن خدا کی شان والا کے
تیرے ہاتھوں میں کنگن دیکھتا ہوں دست کسریٰ کے
تحیر خیز تھے معجز نما الفاظ حضرت کے
عیاں فرما دیئے تھے آپ نے اسرار قسمت کے
جہاں کو جلوے اس پیشن گوئی کے نظر آئے
کہ یہ کنگن سراقہ نے عمر ؓ ے عہد میں پائے 167
بریدہ اسلمی اور اس کے ساتھی
سراقہ امن کی تحریر لے کر گھر پلٹ آیا
اعادہ پھر سفر کا رحمت عالم نے فرمایا
ستارے ہم سفر تھے رات کو اور دن کو سورج تھا
منازل میں لقف تھا مدلجہ تھا اور مرحج تھا
حداید اور اذاخر اور رابغ راہ میں آئے
مقامات جدا جد بھی اقامت گاہ میں آئے 168
ابھی یہ قافلہ دامانِ منزل تک نہ تھا پہنچا
گرفتاری کی خاطر اور اک انبوہ آ پہنچا
یہ ستر آدمی تھے دشت ہی گھربار تھا ان کا
جواں ہمت بریدہ اسلمی سردار تھا ان کا
اسی انعام کا لالچ انہیں بھی کھینچ لایا تھا
یہ فتنہ راستے میں اہل مکہ نے اٹھایا تھا
مگر اسلام کی دولت لکھی تھی ان کی قسمت میں
بریدہ آ گیا آتے ہی دامانِ نبوت میں 169
شرف پایا جو اس نطقِ خدا سے ہم کلامی کا
تہیہ کر لیا سب نے محمدؐ کی غلامی کا
بتوں کو چھوڑ کر دنیائے باطل سے جدا ہو کر
چلے یثرب کی جانب ہمرکاب مصطفیٰ ہو کر
محبت میں بریدہ نے اتارا اپنا عمامہ170
اسے نیزے میں باندھا اور یہ جھنڈا اس طرح تھاما
کہ اسلامی پھریرا آج لہرایا فضاؤں میں
معاً اللہ اکبر کی صدا گونجی ہواؤں میں
یہ جھنڈا امن و راحت کی بشارت دیتا جاتا تھا
طلوع صبح وحدت کی شہادت دیتا جاتا تھا
کہ عدل و بذل کا مختار امن و صلح کا حامی
مجسم رحمت عالم محمد مصطفیؐ نامی
وہ ابر لطف جس سے ہر گل گلزار خنداں ہے
انیس بے کساں ہے درد مند درد منداں ہے
جہاں کو از سر نو نور سے معمور کرنے کو
دلوں سے کفر کا رنگ کدورت دور کرنے کو
وہ جس کا اک اشارہ روح مردہ کو جلاتا ہے
وہی تشریف لاتا ہے وہی تشریف لاتا ہے
قبا میں ورود مسعود 171۔۔ الانتظار ، الانتظار
طلوع بدر کے ساماں ہوئے بزم کواکب میں
کئی دن سے یہ روشن ہو چکا تھا ارضِ یثرب میں
نکل کر شہر سے خلقت قبا تک چل کے آتی تھی
تمنا رنگ حسرت بن کے آنکھوں میں سماتی تھی
ہوا کرتی تھی فرشِ راہ اٹھ کر بار بار آنکھیں
ہمہ تن انتظار آنکھیں ہمہ تن انتظار آنکھیں
بھٹکتا تھا تصور منزلوں میں اور راہوں میں
سحر سے شام تک اک شکل رہتی تھی نگاہوں میں
کئی دن تک نہ جب صورت دکھائی شاہِ والا نے
بہت مضطر ہوئے شمع نبوت کے یہ پروانے
ہوئیں کوتاہ آخر انتظار دید کی گھڑیاں
نگاہوں کے لیے آئیں نمازِ عید کی گھڑیاں
کسی نے دی خبر اے لو رسول اللہؐ آ پہنچے
جناب حضرت صدیقؓ بھی ہمراہ آپہنچے 172
غل اٹھا لیجیے ذروں کے گھر میں آفتاب آیا
زمین و آسماں کا نور جس کے ہمرکاب آیا
اکٹھے ہو گئے ہر سمت سے طالب زیارت کے
شعاعوں کی طرح سے گرد خورشید رسالت کے
نظر آئی جونہی پہلی جھلک روئے منور کی
سلامی گونج اٹھی نعرہ اللہ اکبر کی
پیمرؐ نے قبا میں چند دن آرام فرمایا
مروت نے بلطف خاص فیض عام فرمایا
سبھی پہلے مہاجر اس جگہ موجود تھے سارے
اکٹھے ہو گئے تھے چاند کے چاروں طرف تارے
علی مرتضیٰؓ بھی تیسرے ہی روز آ پہنچے
چلے مکے سے تنہا پا پیادہ تا قبا پہنچے
وہ اہل مکہ کو ان کی امانت دے کے آئے تھے
انہیں اسلام کا درسِ دیانت دے کے آئے تھے
ہوئے حاضر تو پا سوجے ہوئے تھے خون جاری تھا
نبی کا دیدہ ہمدرد محو اشکباری تھا
اساس دین محکم تھی نبی کی خاطر عالی
قبا میں سب سے پہلے ایک مسجد 173 کی بنا ڈالی
یہ مسجد اولیں بنیاد تھی طاعت گذاری کی
صفا کی صدق کی تقویٰ کی اور پرہیز گاری کی
قافلہ نبوت شہر یثرب کی طرف
اٹھی اک روز آواز بلند اللہ اکبر کی
سواری جانب یثرب چلی محبوب داور کی
نماز جمعہ کا وقت مبارک راہ میں آیا
یہاں حضرت نے خطبہ جمعہ کا ارشاد فرمایا
کیا تھا بہر ملت جمعہ کا آغاز حضرت نے
امام المرسلیں کی اقتدا کی آج امت 174نے
نبیؐ اپنے مدینے میں
ہوا چاروں طرف اقصائے عالم میں پکار آئی
بہار آئی، بہار آئی، بہار آئی، بہار آئی
جوان و پیر و مرد و زن سراپا چشم بیٹھے تھے
بہار آنے کو تھی گلشن سراپا چشم بیٹھے تھے
اب استقبال کو دوڑے بنی نجار175 سج سج کر
بڑھے انصار بن کر اوپچی، ہتھیار سج سج کر
جنوبی سمت سے اٹھا ایک نورانی غبار آخر
سوادِ شہر میں داخل ہوا ناقہ سوار آخر
فضا میں بس گئیں توحید کی آزاد تکبیریں
یہ تکبیریں تھیں باطل کے گلو پر تیز شمشیریں
مہاجر پیچھے پیچھے چل رہے تھے سر بکف ہو کر
کھڑے تھے راہ میں انصار ہر سو صف بہ صف ہو کر
درو دیوار استادہ ہوئے تعظیم کی خاطر
زمیں کیا آسماں بھی جھک گئے تسلیم کی خاطر
مسلماں بیبیاں گھر کی چھتوں پر جمع ہو ہو کر
نظر سے چومتی تھیں عصمتِ دامانِ پیغمبر
زباں پر اشرق البدر علینا کی صدائیں تھیں
دلوں میں ما دعی للہ داع کی دعائیں تھیں 176
کہیں معصوم ننھی بچیاں تھیں دف بجاتی تھیں
رسول پاک کی جانب اشارے کر کے گاتی تھیں
کہ ہم ہیں بچیاں نجار کے عالی گھرانے کی
خوشی ہے آمنہ کے لال کے تشریف لانے کی
مسلمانوں کے بچے بچیاں مسرور تھے سارے
گلی کوچے خدا کی حمد سے معمور تھے سارے
نبوت کی سواری جس طرف سے ہو کے جاتی تھی
درود و نعت کے نغمات 177 کی آواز آتی تھی
شوق میزبانی
رسول اللہ سلام انصار کا لیتے ہوئے گزرے
زباں سے خیرو برکت کی دعا دیتے ہوئے گزرے
ہر اک مشتاق تھا پیارے نبی کی میہمانی کا
تمنا تھی شرف بخشیں مجھی کو میزبانی کا
ہر اک مشتاق اپنی اپنی قسمت آزماتا تھا
بصد آداب و منت راہ میں آنکھیں بچھاتا تھا
بہت ہی کشمکش تھی اشتیاق میزبانی کی
نبیؐنے اس عقیدت کی نہایت قدردانی کی
کہا تم سب مرے بھائی ہو آپس میں برابر ہو
تونگر ہے وہی جو زہد و تقویٰ میں تونگر ہو
اقامت کو مگر میں نے خدا پر چھوڑ رکھا ہے
کہ ناقے کو فقط اس کی رضا پر چھوڑ رکھا ہے
سبھی پیارے ہو تم ہر ایک سے مجھ کو محبت ہے
جہاں ناقہ ٹھہر جائے وہیں جائے اقامت ہے
رکی یک بارگی ناقہ بحکم حضرت باری
جہاں اک سمت بستے تھے ابو ایوب انصاریؓ
پڑی تھی ایک جانب کچھ زمیں ویران و افتادہ
مشیت تھی اسی کو پاک کر دینے پر آمادہ
تھے وارث دو ہی لڑکے 178 داغ تھا جن پر یتیمی کا
انہی کے حال پر سایہ ہوا ابر کریمی کا
یہی وہ فرش تھا ملنا تھا جس کو عرش کا پایا
نبی نے ان یتیموں کو بلایا اور یہ فرمایا
کہ بچو یہ زمیں تم بیچنا چاہو تو ہم لے لیں
جو قیمت مانگو ہم دے کر تمہیں دام و درم لے لیں
وہ بولے نذر ہے حضرت نے نامنظور فرمایا
انہیں بو بکرؓ کے ہاتھوں سے پورا دام دلوایا
یہ افتادہ زمیں ہے سجدہ گاہ شوق اس دن سے
یہیں تسکین پاتی ہے نگاہِ شوق اس دن سے
صحابہ سے کہا جب تک نہ ہو مسجد کی تیاری
ہمارے میزباں ہونگے ابو ایوب انصاریؓ
فلک نے رشک سے دیکھا اس انصاری ؓ کی قسمت کو
ابو ایوبؓ گھر میں لے گئے سامانِ رحمت کو
مبارک منزلے کاں خانہ را ماہے چنیں باشد
ہمایوں کشورے کاں عرصہ را شاہے چنیں باشد
دارالامانِ مدینہ
ابو ایوبؓ کے گھر میں حبیب کبریاؐ ٹھہرے
مگر جب ہو گئی تیار مسجد اس میں آ ٹھہرے
ملی اظہار حق کی آج انسانوں کا آزادی
بہ آزادی لگا تبلیغ کرنے صلح کا ہادی
بھٹکتے پھرنے والوں کو خدا کی راہ پر لایا
بتوں میں گھرنے والوں کو در اللہ پر لایا
یہاں آتے تھے غیر اللہ سے رشتہ توڑنے والے
صدائے آخرت پر حب دنیا چھوڑنے والے
زمانے کے ستائے درد کے مارے ہوئے آتے
نبیؐ کے دامن رحمت میں آرام و سکوں پاتے
کوئی ترکی کوئی تازی کوئی حبشی کوئی رومی
سبھی یکساں تھے زیرِ سایہ دامان معصومی
تھے انصار و مہاجر اک نمونہ شانِ وحدت کا
کہ اس تسبیح میں تھا رشتہ محکم اخوت کا
تماشوں رنگ رلیوں کی جگہ پائی عبادت نے
فسادوں اور جھگڑوں کو مٹایا ذوقِ وحدت نے
مسلماں تھے کہ تھے زہد و ورع کی زندہ تصویریں
نمازیں اور تسبیحیں اذانیں اور تکبیریں
تجارت اور زراعت یا دعائیں یا مناجاتیں
مشقت کے لیے دن تھے عبادت کے لیے راتیں
یہ بستی کاٹتی تھی وقت نیکی سے بھلائی سے
نہایت آشتی سے امن سے صلح و صفائی سے
ہدایت کی سعادت پر ہزاروں شکر کرتے تھے
خدا پر تھی نظر سب کی ، خودی کا دم نہ بھرتے تھے
نبیؐ کا حکم اور قرآں دستور العمل ان کا
صداقت بن گئی آئینہ ظاہر اور باطن کا
ضیائے حق سے رشک طور سینا بن گیا یثرب
نبی کا آستاں بن کر مدینہ بن گیا یثرب
باب ہفتم
مدینے پر جنگ کے بادل اور قریش مکہ کا جوش غضب
مدینے میں ضیا افگن ہوئے جب حضرت والا
خدا نے کر دیا جب ظلمت باطل کا منہ کالا
قریش اس تازہ ناکامی سے کھسیانے ہوئے ایسے
یہ قتل و خون کے مشتاق دیوانے ہوئے ایسے
کہ فورا ہو گئے پختہ ارادے کشت و غارت کے
مدینے تک بڑھائے حوصلے اپنی شرارت کے
وہ مسلم جن پہ بیداد و جفا کرنے کے عادی تھے
ہمیشہ جن پہ ظلم ناروا کرنے کے عادی تھے
ہنسا کرتے تھے یہ ظالم تڑپتے دیکھ کر جن کو
ستانے کا تہیہ کر چکے تھے عمر بھر جن کو
لٹاتے تھے جنہیں تپتی ہوئی بالو کے بستر پر
رگ گردن رہا کرتی تھی جن کی نوک خنجر پر
جنہیں آزاد رہ کر سانس لینے کی مناہی تھی
خطا جن کی فقط پابندی امرِ الٰہی تھی
قریش ان کی یہ آزادی گوارا کس طرح کرتے
بھلا صلح و صفا کا یہ نظارا کس طرح کرتے
وہ جن کی سرد آہیں بھی چھپی رہتی تھیں سینے میں
وہ اب آواز سے قرآن پڑھتے تھے مدینے میں
اگرچہ تین سو فرسنگ پر بستے تھے بیچارے
مگر چلتے تھے رہ رہ کر دلِ کفار پر آرے
نبی کے اس طرح زندہ نکل جانے کا غصہ تھا
زمانے پر سے نازک وقت ٹل جانے کا غصہ تھا
یہ غصہ تھا کہ پیاسی رہ گئیں خونخوار تلواریں
زمیں پر کیوں نہ بہ نکلیں مقدس خون کی دھاریں
قریش مکہ کی دھمکی
ہوئی جب ہر طرح ناکام ہر تزویر ہر سازش
غرور و عجب کو صدمہ ہوا زخمی ہوئی نازش
نہایت طیش کھایا دانت پیسے اہل مکہ نے
بالآخر جنگ کی ٹھانی نبی سے اہل مکہ نے
مدینے والوں کو اک اشتعال انگیز خط لکھا
ڈرایا اور دھمکایا بہت ہی تیز خط لکھا
کہ اپنے سر پہ خود ہی جنگ کو بلوا لیا تم نے
ہمارے مجرموں کو اپنے ہاں ٹھہرا لیا تم نے
تمہیں لازم ہے خط کو دیکھتے ہی یہ کڑی ٹالو
محمدؐ اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر ڈالو
وگرنہ یاد رکھو ہم نے بھی سوگند اٹھا لی ہے
قسم اپنے ہبل کی لات کی عزیٰ کی کھا لی ہے
کہ ہم سب مل کے تم لوگوں پہ فورا حملہ کر دیں گے
گلی کوچے تمہارے شہر کے لاشوں سے بھر دیں گے
جوانوں کو تمہارے چیل کووں کو کھلائیں گے
تمہاری عورتوں کو لونڈیاں اپنی بنائیں گے
عبداللہ بن ابی ۔ منافق
یہ خط مکہ سے عبداللہ ابی کے نام پر آیا
اور اس نے دیکھتے ہی ساتھیوں کو اپنے دکھلایا 179
مدینے کا یہ بدقسمت مسلمانوں سے جلتا تھا
رسول اللہ کے آنے سے کفِ افسوس ملتا تھا
مسلمانوں کی آمد سے مٹا تھا اقتدار اس کا
کہ جب مشرک تھے لوگ ان پر تھا پورا اختیار اس کا
یہ اس بستی کے دارالامن بن جانے سے جلتا تھا
چھنی تھی ہاتھ سے شاہی ، کف افسوس ملتا تھا۔
رسول اللہ کی تعلیم سے سب ہو گئے یکساں
اخوت آ گئی اور بھائی بھائی بن گئے انساں
خیال اس کا یہ تھا میں بادشہ ہوں اس مدینے کا
مگر اب کوئی بھی پرساں نہیں تھا اس کمینے کا
مسلمانوں سے جب لڑنے کے منصوبے لگا کرنے
یہ سن کر، آپ سمجھایا اسے آ کر پیمبر نے
کہا اے بیوقوفو کیا اجڑنا چاہتے ہو تم
کہ اپنے بھائی بندوں ہی سے لڑنا چاہتے ہو تم
تمہارے بھائی بیٹے سب کے سب پکے مسلماں ہیں
اگر ان سے لڑو گے خود تمہارے ہی یہ نقصاں ہیں
یہ سن کر چل دیے سب ساتھ والے اس منافق کے
خدا نے دست و بازو کاٹ ڈالے اس منافق کے
منافق چپ ہوا، اور چپ ہی رہنے کی ضرورت تھی
بظاہر چپ تھا لیکن دل میں کینہ تھا کدورت تھی
یہودی ہر طرح جھٹلا چکے تھے اس پیمبر کو
صلیب مرگ تک پہنچا چکے تھے اس پیمبر کو
بھلا وہ شخص جو اس ظلم کو مذموم ٹھہرائے
جو پیغمبر کو پیغمبر کہے معصوم ٹھہرائے
یہودی اس کو پیغمبر اگر جانیں تو کیوں جانیں
اسے سمجھیں تو کیا سمجھیں، اسے مانیں تو کیا مانیں
غرض یہ لوگ بھی اندر ہی اندر سخت دشمن تھے
دغا باز اور محسن کش تھے مکار اور پر فن تھے
رسول اللہ کی عظمت کے گرچہ دل سے قائل تھے
مگر یہ ان کی فطرت تھی عداوت ہی پہ مائل تھے
بباطن سازشیں تھیں اور بظاہر کچھ نہ کرتے تھے
معاہد180 ہو چکے تھے اوس و خزرج سے بھی ڈرتے تھے
مسلماں ہونے والے اوس و خزرج کے قبائل تھے
اگرچہ زر میں کم تھے زور میں مد مقابل تھے
یہ انصار رسول اللہ خوش تھے فقر و فاقے میں
زراعت پر لگے رہتے تھے یثرب کے علاقے میں
ہدایت پا کے اپنی خوبی قسمت پہ نازاں تھے
خدا کے فضل یعنی آیہ رحمت پہ نازاں تھے
قریش مکہ کی غارت گری
حسد کی ہر طرف جب عام بیماری لگی بڑھنے
مسلمانوں کو پھر جینے کی دشواری لگی بڑھنے
کیا اس طرح آغاز شرارت اہل مکہ نے
کہ رہزن بن کے ڈالی طرح غارت 181 اہل مکہ نے
پھرا کرتے تھے بیرون مدینہ اونٹ میداں میں
انہیں کرز ابن جابر لے گیا روزِ درخشاں میں
قریش مکہ نے ڈالی جو طرح*جنگ مغلوبہ
کیا باطل نے شمع حق بجھا دینے کا منصوبہ
حدِ برداشت سے گزری تعدی اہلِ باطل کی
زیادہ صبر کرنا بے حسی تھی دینِ کامل کی
صحابہ حضرت اقدس سے اکثر التجا کرتے
مگر لڑنے سے ان کو منع شاہ دوسرا کرتے
یہودی مل گئے مکہ کے ان وحشی لعینوں سے
توقع تھی خلاف عہد کی ہر دم کمینوں سے
ہوئی تنگ اس قدر آخر مسلمانوں کی عافیت
کہ اندر شہر کے رہ نہ سکتے تھے بخیریت
نکلتے تھے تو گھر جاتے تھے قزاقوں کے دستوں میں
بچارے دن دہاڑے قتل ہو جاتے تھے رستوں میں
خدا کا نام لینا اک نرالا رنگ لایا تھا
نبی صابر تھے فرمان جہاد اب تک نہ آیا تھا
اذن جہاد
بالآخر وقت آیا رحمت حق جوش میں*آئی
کہ اذن جنگ بن کر غیرت حق جوش میں آئی
معا جبریل لے کر آیہ قرآں 182ہوئے نازل
جہاد فی سبیل اللہ کے فرماں ہوئے نازل
یہ حکم آیا کہ ہاں اب ان غریبوں کو اجازت ہے
بچارے بے وطن آفت نصیبوں کو اجازت ہے
وہ جن پر ظلم کے بیداد کے بادل برستے ہیں
جو اپنے ہی وطن میں سانس لینے کو ترستے ہیں
جو ناحق کے ستم سہتے ہیں اور مغموم رہتے ہیں
وطن کو چھوڑ کر بھی بے کس و مظلوم رہتے ہیں
خطا جن کی فقط یہ ہے کہ وہ اسلام لے آئے
جو دنیا کو لٹا کر اک خدا کا نام لے آئے
جنہیں دشمن تہیہ کر چکے ہیں تنگ کرنے کا
ہے ان کو اذن حملہ آوروں سے جنگ کرنے کا
خدا ظالم کے منصوبوں کو رد کرنے پہ قادر ہے
خدا مظلوم لوگوں کی مدد کرنے پہ قادر ہے
نہ دے اللہ اگر حملوں کے سد باب کی جرات
یونہی بڑھتی رہے ہر ایک شیخ و شاب کی جرات
یہ معبد خانقاہیں صومعے یکسر اجڑ جائیں
منادر اور گرجے بیخ سے بن سے اکھڑ جائیں
مساجد جن کے اندر ذکر حق کثرت سے ہوتا ہے
جہاں انسان آ کر معصیت کے داغ دھوتا ہے
گرا دیں لوگ آ کر ان عماراتِ مقدس کو
نہیں منظور یہ اللہ کی ذات مقدس کو
شرط جہاد
رسول اللہ نے اک دن بصد تاکید و پابندی
سنایا اہل ایماں کو یہ فرمانِ خداوندی
کہا راہ خدا میں تم کو لڑنے کی اجازت ہے
خدا کے دشمنوں کو دفع کرنے کی اجازت ہے
مگر تم یاد رکھو صاف ہے یہ حکم قرآں کا
ستانا بے گناہوں کو نہیں شیوہ مسلماں کا
نہیں دیتا اجازت پیش دستی کی خدا ہرگز
مسلمان ہو تو لڑنے میں نہ کرنا ابتدا ہرگز
فقط ان سے لڑو جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں
فقط ان سے لڑو جو تم پہ جینا تنگ کرتے ہیں
قریش کی دوسری دھمکی
قریش مکہ نے ٹھانی ہوئی تھی قتل و غارت کی
مسلماں بھی لگے تدبیر کرنے اب حفاظت کی
قبائل کا بھی خطرہ تھا دیار ارض یثرب میں
کہ بود و باش تھی جن کی دیار ارضِ یثرب میں
یہ خطرہ تھا مبادا اہل مکہ سے وہ مل جائیں
رسد کو لوٹ لیں اہل مدینہ پر ستم ڈھائیں
خبر تھی فتنہ آئندہ کی محبوب داور کو
معاہد کر لیا اس واسطے ان میں سے اکثر کو
یہ کوشش تھی کہ دب جائے فساد و جنگ کا فتنہ
نہ اٹھے اس جہاں میں کوئی خونیں رنگ کا فتنہ
مگر اب کر چکے تھے اہل مکہ خوب تیاری
نہ ان کو بیٹھنے دیتی تھی خوئے مسلم آزاری
مسلمانوں کو لکھ کر بھیج دی بو جہل نے دھمکی
کہ پہلے ہی سے اب تم فکر کر لو اپنے ماتم کی
محمد کو بڑا ہی صاحب اعجاز سمجھے ہو
یہاں سے بچ نکلنے کو خدائی راز سمجھے ہو
تمہیں یہ ناز ہو گا آ بسے ہیں اب مدینے میں
سمجھتے ہو گے ہم آزاد ہیں اب مرنے جینے میں
ذرا دم لو کوئی ساعت ٹھہر جاؤ ہم آتے ہیں
تمہارا نام ہی اب لوح ہستی سے مٹاتے ہیں
قافلہ تجارت اور ابو سفیان کے منصوبے
یہ خالی ایک دھمکی ہی نہ تھی کفار مکہ کی
بہت بد ہو چکی تھیں نیتیں اشرار مکہ کی
نبیؐ پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے
بس اپنے قافلے کے منتظر کفار بیٹھے تھے
ابو سفیاں گیا تھا شام کی جانب تجارت کو
نکلنا تھا اسی کی واپسی پر قتل و غارت کو
تجارت کے منافع پر مدار جنگ تھا سارا
تجارت کیا تھی گویا کاروبار جنگ تھا سارا
قریشی تاجروں کا قافلہ جب لوٹ کر آیا
ابو سفیاں منافع کی رقم تھیلوں میں بھر لایا
پہنچ کر مکہ میں اب جنگ کا سامان کرنا تھا
مگر ڈر تھا کہ یثرب کے حوالی سے گزرنا تھا
دغا ہوتی ہے جس دل میں وہی چھاتی دھڑکتی ہے
فسادِ بلغمی سے آنکھ رہ رہ کر پھڑکتی ہے
ابو سفیان کے دل میں بھی ہزاروں وہم آتے تھے
خیالی وسوسے ہی بھوت بن بن کر ڈراتے تھے
خیال آیا مسلماں نیک و بد پہچان جاتے ہیں
محمدؐ آدمی کے دل کی باتیں جان جاتے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو مقصد سمجھ لیں اس تجارت کا
مبادا جان لیں سامان ہے یہ قتل و غارت کا
چلے ہیں قاتلوں کے ہم دہانِ آز بھرنے کو
قبائل ہیں یہ سارا مال و زر تقسیم کرنے کو
سمجھ جائیں یہ سونا قبر کے اندر سلائے گا
سمجھ جائیں کہ یہ کپڑا کفن ان کو پہنائے گا
سمجھ جائیں کہ ان کی صبح پر شام آنے والی ہے
منافع کی یہ دولت جنگ میں کام آنے والی ہے
کہیں ایسا نہ ہو اس قافلے کا حال کھل جائے
سرِ منزل نہ پہنچیں اور ساری چال کھل جائے
ہمارا قافلہ مکے پہنچ جائے تو بہتر ہے
کسی صورت مدینے پر بلا آئے تو بہتر ہے
یہ کیا ہے آج آگے پاؤں دھرتے ہول آتا ہے
مدینے کے حوالی سے گزرتے ہول آتا ہے
اگر اہل مدینہ رستے میں ہی ٹوک لیں ہم کو
ارادوں سے ہمارے باخبر ہوں روک لیں ہم کو
اکارت جائیں گے مکے میں پھر سامان لڑائی کے
ہوا ہو جائیں گے امکان خنجر آزمائی کے
یہ سارا مال اگر اہل مدینہ چھین لے جائیں
تو شاید جا کے تلواریں خریدیں قلعے بنوائیں
بڑی دقت ہے پھر اللہ والوں کو مٹانے میں
محمد ہی کا مذہب پھیل جائے گا زمانے میں
کوئی ترکیب ایسی ہو کہ ہم بچ کر نکل جائیں
لڑائی کے لئے مکے سے واپس لوٹ کر آئیں
نئے مذہب کی جڑ تیغ و تبر سے کاٹ دیں آ کر
مدینے کی زمیں لاشوں سے یکسر پاٹ دیں آ کر
شرارت
ابو سفیان الجھتا آ رہا تھا ان خیالوں سے
کیا اب مشورہ بزدل نے ساتھ والوں سے
بہت سوچا بالآخر اک شرارت تازہ طے پائی
بلا کر مرد ضمضم نام کو ترکیب یہ سمجھائی
کہا یہ کام اگر کر دے تو اتنا مال پائے گا
ملیں گے اونٹ سونا بھی کئی مثقال پائے گا
چلا مکے کی جانب اونٹ پر چڑھ کر یہ ہرکارا
بڑھا دو منزلے کرتا ہوا و حرص کا مارا
مشرکین میں اشتعال کی چال
ادھر اس قافلے کے منتظر بیٹھے تھے مدت سے
لڑائی چھیڑنا مقصود تھی فخرِ نبوت سے
فقط اس کارواں کی واپسی کا تھا خیال ان کو
کہ تھی لڑنے سے پہلے آرزوئے حفظِ مال ان کو
قریش اک روز بیٹھے کر رہے تھے جنگ کی باتیں
ابو جہل ان کو سکھلاتا تھا قتلِ عام کی گھاتیں
اچانک اک صدا اٹھی کہ فریاد اے نبی غالب
اٹھو دوڑو، کرو فی الفور امداد، اے نبی غالب
یہ چیخیں اور فریادیں سنیں تو اہلِ شر دوڑے
بہت بیتاب ہو ہو کر اٹھے آواز پر دوڑے
نظر آیا کہ وادی میں کھڑا ہے اک شتر تنہا
اور اس کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا ہے اک بشر ننگا
برہنہ جسم ننگِ خانداں معلوم ہوتا ہے
تباہی اور فلاکت کا نشاں معلوم ہوتا ہے
شتر کی پیٹھ پر کاٹھی بھی رکھی ہے الٹا کر
نظر آتا ہے آیا ہے کہیں سے کان کٹوا کر
فغاں کرتا ہے چیخیں مارتا ہے روتا جاتا ہے
پیاپے سینہ کوباں ہو کے بے کل *ہوتا جاتا ہے
صدا دیتا ہے اے لوگو مری فریاد کو پہنچو
تمہارا مال و زر لٹنے کو ہے امداد کو پہنچو
محمد بدلا لینا چاہتے ہیں برملا تم سے
سمجھتے ہیں کہ جھیلے ہیں بہت جور و جفا تم سے
مسلماں قافلے کی تاک میں نکلے ہیں اے یارو
اٹھو، دوڑو، بڑھو، چل کر انہیں روکو انہیں مارو
مجھے ڈر ہے کہ جو ہونا تھا اب تک ہو چکا ہو گا
ابو سفیان بچارا جان اپنی کھو چکا ہو گا
پڑے سوتے ہو تم سونا تمہارا الٹ گیا ہو گا
تمہارا کارواں سارے کا سارا الٹ گیا ہو گا
پکڑ کر لے گئے ہوں گے مسلماں ساتھ والوں کو
نکالو جلد اپنی فوج، دوڑاؤ رسالوں کو
ارے تم سن رہے ہو، تم سے کچھ بھی بن نہیں پڑتی
میری فریاد کی برچھی کسی دل میں نہیں گڑتی
ابو جہل کی آتش افروزی
اب اہل شہر پہچانے کہ ضمضم ہے یہ ہرکارا
گھڑی میں شہر اس کے گرد اکھٹا ہو گیا سارا
وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ہر سو تکتا جا تا تھا
دو ہتڑ پیٹتا جاتا تھا ظالم بکتا جاتا تھا
الجھنے کے لئے تیار تھے پہلے ہی دیوانے
لگے یہ حال سن کر سانپ کے مانند بل کھانے
چنگاری پڑ گئی بارود میں شعلہ بھڑک اٹھا
دلِ ہر ثانی نمرود میں شعلہ بھڑک اٹھا
لگتی تلووں میں آگ ایسی کہ نتھنوں سے دھواں نکلا
غضب کی شکل میں آنکھوں سے مغز استخواں نکلا
غرور عجب نے دل کی سیاہی رخ پہ دوڑا دی
غضبناکی نے آنکھوں کو روائے سرخ پہنا دی
یہ ایسی بات تھی جو وہم میں بھی نہ آ سکتی تھی
تصور میں یہ صورت منہ کبھی دکھلا نہ سکتی تھی
مسلمانوں کی یہ جرات کہ ان کا قافلہ روکیں
جو اب تک چھپتے پھرتے تھے انہیں میدان میں ٹوکیں
انہیں ٹھیکہ ملا تھا اہل دنیا کو ستانے کا
کسی کو حق نہ تھا مد مقابل بن کے آنے کا
مسلماں اور ان کے کارواں پر حملہ آور ہوں
خبر سن لیں یہ تو بھتنے اور جامے سے باہر نہ ہوں
وہ ہرکارا تو پلٹا صورت شیطاں بہکا کر
لگے بس گھولنے یہ سانپ پیچ و تاب کھا کھا کر
بھرے بیٹھے تھے پہلے سے ہی بہانہ اور ہاتھ آیا
اٹھا ابو جہل اک تقریر کی لوگوں کو بھڑکایا
کہا بیوقوفو سوچتے کیا ہو، کمر باندھو
اٹھاؤ نیزہ و خنجر اٹھو تیغ و تبر باندھو
مسلمانوں کو مکے سے نکل جانے دیا تم نے
وہ موقع خوب تھا افسوس ٹل جانے دیا تم نے
محمدؐ کو یہیں پر ختم کر دو، میں نہ کہتا تھا
مسلمانوں سے قبرستان بھر دو میں نہ کہتا تھا
مدینے میں پہنچ کر اب یہ جرات مل گئی ان کو
تمہیں پر حملہ آور ہوں یہ ہمت مل گئی ان کو
تمہیں ان کو سزا دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی
نیا مذہب مٹا دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی
تمہارے سامنے ہستی ہی کیا ہے اس جماعت کی
مسلماں کیا ہیں اک بے رنگ سی تصویر غربت کی
وہ خود ہیں جنگ کے طالب حیا تم کو نہیں آتی
تمہارا قافلہ لٹتا ہے چھاتی پھٹ نہیں جاتی
لطیمہ 183 ہو گیا تاراج تو پچھتاؤ گے یارو
تم اپنی بیویوں کو عیش سے ترساؤ گے یارو
یہ بھالے برچھیاں پیکان کس دن کام آئیں گے
تمہارے جنگ کے سامان کس دن کام آئیں گے
چلو میدان میں جرات آزماؤ دیکھتے کیا ہو
قریشی نسل کی شوکت دکھاؤ دیکھتے کیا ہو،
ہمارے تین سو اور ساٹھ ہیں، تنہا خدا ان کا
بھلا اتنے خداؤں سے لڑے گا کیا خدا ان کا
اٹھو اے لار و عزیٰ و ہبل کے پوجنے والو
عرب سے ایک خدا کے نام کا دھبہ مٹا لو
قریش مکہ کی چڑھائی
قیامت آ گئی ہر شخص تیاری لگا کرنے
ہر اک تائید خونریزی و خونخوار لگا کرنے
درستی ہو گئی جھٹ نیز و شمشیر و خنجر کی
چڑھی آندھی مدینے کی طرف باطل کے لشکر کی
قریشی نسل کے مردان جنگی سر بکف ہو کر
بڑے گھوڑوں پہ یا اونٹوں پہ چڑھ کر صف بصف ہو کر
نصر، بونجتری، حرث ابن عامر تھے یہ سب افسر
ابو جہل اور عتبہ اور شیبہ تھے یہ سر لشکر
چلے وہ سب کے سب جن کو پیمبر سے عداوت تھی
منبہ اور رقعہ عاص بن ہشام و عقبر بھی
بنی ہاشم بھی ان کے ساتھ شامل تھے مجبوری
کہ بزدل سمجھے جاتے گر بتاتے کوئی معذوری
اگر چہ با خبر تھے اس برائی کے نتیجے سے
چلے عمِ بنی عباس بھی لڑنے بھتیجے سے
عقیل ابن ابی طالب بھی ان کے ساتھ شامل تھا
نہیں تھا بو لہب 184 اس کی بدی کا ہاتھ شامل تھا
قریشی سورما اکشر شریکِ فوِ ج باطل تھے
کہ سب جنگ آزمودہ تیغ زن تھے اور قاتل تھے
یہ لشکر مشتمل تھا ساڑھے گیارہ سو جوانوں پر
دلوں میں بغض، نعرے کفر کے ان کی زبانوں پر
یہ لشکر بڑھ رہا تھا کعبہ توحید ڈھانے کو
مسلمانوں سے لڑنے کو مدینے کے گرانے کو
مدینے کی طرف بڑھتا چلا آتا تھا یہ لشکر
گزر گاہوں میں لوگوں پر غضب ڈھاتا تھا یہ لشکر
زمینِ دشت کی چھاتی سے آہوں کا غبار اٹھا
فلک بھی کانپ کر العظمۃ للہ پکار اٹھا
آگ لگا کر ابو سفیان مکے پہنچ گیا
ابو سفیان اور ان کا قافلہ بالکل سلامت تھا
مگر ظالم کا یہ فتنہ لگا دینا قیامت تھا
وہ لے کر مال و دولت منزل مقصود پر پہنچا
نہ آیا پیش کوئی حادثہ اور اپنے گھر پہنچا
پہنچ کر مکے میں یہ قافلہ دو روز سستایا
سوئے لشکر مگر اک تیز رو قاصد کو دوڑایا
کہ ہم بچ کر نکل آئے لطیمہ بھی سلامت ہے
اگر چاہو تو لوٹ آؤ لڑائی بے ضرورت ہے
اگر سارے عرب کو مشتعل کرنا ضروری ہو
مدینے کی زمیں کو خون سے بھرنا ضروری ہو
تو واپس لوٹ آؤ تاکہ بند و بست ہو جائے
مسلمانوں کی ہستی جس سے بالکل پست ہو جائے
تجارت کا منافع بانٹ دو سارے قبائل میں
کہ ہو گی اس سے وسعت اہل مکہ کے وسائل میں
قبائل ان مسلمانوں کا جینا تنگ کر دیں گے
وہ ان کے کھیت، میداں، راستے لاشوں سے بھر دیں گے
مدینے کے یہودی بھی ہمارے دوست ہیں سارے
ابھی خاموش بیٹھے ہیں وہ حلف صلح کے مارے
انہیں لالچ دیا جائے کہ وہ بھی عہد کو توڑ دیں
یہ مجبوری کی ظاہر داریاں رکھنے سے منہ موڑیں
اگر کچھ خرچ کرنے سے یہ ہو جائے تو کیا کہنا
کہ ہو گا اوس و خزرج کو بھی مشکل شہر میں رہنا
بہر سونا کہ بندی کر کے پھر ہم بھی کریں دھاوا
لگا دیں آگ، کر دیں مسجدوں کو راکھ کا آوا
مزا جب ہے ہمیں بھی حملہ کرنے کا مزا آئے
کہ ان کے بھاگنے کا راستہ مسدود ہو جائے
پلٹ آنا اگر ہونا مناسب خیر بڑھ جاؤ
مسلمانوں کے سر پر بھوت کی مانند چڑھ جاؤ
ہماری ضرورت ہو تو کہہ دو ہم بھی آ جائیں
نہیں کچھ اور خیر اس لوٹ ہی کا مال پا جائیں
ابو جہل کا جواب ابو سفیان کے قاصد کو
ہنسا بو جہل یہ پیغام سب کر تن کے یوں بولا
کہ یہ دفتر نصیحت کا ابو سفیان نے کیوں کھولا
اسے کہہ دو لطیمہ رکھ کے جلد آ جائے لشکر میں
وہ چالیں ہی نہ بتلائے ہمیں بیٹھا ہوا گھر میں
قبائل میں کریں کیوں مفت جا کر بادیہ گردی
مسلماں چیز ہی کیا ہیں کریں اتنی جو سردردی
مٹانے کے لئے ان کے یہ جنگی فوج کافی ہے
خس و خاشاک کی خاطر یہی اک موج کافی ہے
چڑھائی ہو چکی ہے اب پلٹ چلنا ہے نا ممکن
مسلمانوں کے سر سے موت کا ٹلنا ہے نا ممکن
ابو سفیان سے کہہ دینا کہ تم سمجھے ہو کیا ہم کو
تمہارا مدعا جو کچھ بھی تھا معلوم تھا ہم کو
جو قاصد تم نے بھیجا تھا اسے پہچانتے تھے ہم
تمہارے کارواں کو بھی سلامت جانتے تھے ہم
سمجھ لی بات ہم نے قوم ساری مشتعل کر دی
لگا دی آگ رگ رگ میں تمنا جنگ کی بھر دی
یہ لشکر جمع ہو کر بہرِ قتل و خوں نکل آیا
نکلنا تھا جو مطلب مال و زر سے یوں نکل آیا
ہوا مفتوح پہلا مرحلہ اب تم بھی آ جاؤ
سلامت ہے تمہارا قافلہ اب تم بھی آ جاؤ
اگر تم عیش کرنے کے لئے بیٹھے ہو مکے میں
مزے سے پیٹ بھرنے کے لئے بیٹھے ہو مکے میں
تو لشکر میں ہمارے عیش و عشرت کی کمی کیا ہے
یہاں ہر چیز ہے موجود ہر نعمت مہیا ہے
شرابیں ناچ گانا کھانا پینا ساتھ لائے ہیں
بھلا لگتا ہے جن چیزوں سے جینا ساتھ لائے ہیں
بہت سی گانے والی عورتیں ہمراہِ لشکر ہیں
انہیں کے حسن سے معمور یہ خرگاہ لشکر ہیں
انہیں سے منزلوں میں اہتمامِ عیش رہتا ہے
کہ ہر سردار کا خیمہ مقامِ عیش رہتا ہے
ہماری رات غرقِ بادہ سر جوش رہتی ہے
صدائے چنگ و دف گلبانگِ نوشا نوش رہتی ہے
کبھی چشمِ فلک نے یہ نرالے رنگ دیکھے ہیں
نظر سے گزرے ہیں یہ عیش، ایسے رنگ دیکھے ہیں
مگر یہ مت سمجھ لینا کہ ہم بیہوش و غافل ہیں
ارے خود آ کے دیکھو ویسے ہی سفاک و قاتل ہیں
ہمارا جوش ہر منزل پہ دونا ہوتا جاتا ہے
کہ ہر مے نوش دل سے زنگِ حسرت دھوتا جاتا ہے
یہ قومی آن کی باتیں ہیں متوالے نہیں ہیں ہم
دکھانا ہے کہ ہر رنگ میں مسند نشیں ہیں ہم
قریشی نسل کی شانِ امارت کے امیں ہم ہیں
عرب کا کون مالک ہے ؟ ہمیں ہم ہیں ہمیں ہم ہیں
عرب کے رہنے والوں کو دکھا کر بزم کا نقشہ
بتا دیں بر سر میداں جما کر رزم کا نقشہ
یہ ساری عشرتیں اہل وغا کا دل لبھائیں گی
ہمیں جنگاہ تک لے جائیں گی پھر لوٹ آئیں گی
وہاں ہم کیا کریں گے ، یہ نہ پوچھو بس سمجھاؤ
مسلمانوں کی حالت دیکھنی چاہو تو جلد آؤ 185
تفنگ و نیزہ و خنجر، شراب و نغمہ و ساقی
مجھے یہ تو بتاؤ شہر میں کیا چیز ہے باقی
مرا مطلب یہ ہے بزدل نہ کہلاؤ ابو سفیان
مجھے تم جانتے ہو منہ نہ کھلواؤ ابو سفیان
صورتِ حالات کی نزاکت، نبی صلعم کا مشورہ صحابہ سے
ادھر گاو زمیں تھرا رہی تھی بد نہادوں سے
ادھر اہل مدینہ بے خبر تھے ان ارادوں سے
وہی اک ملہمِ صادق، وہی اک دیدہ بینا
اسی کا قلب تھا جس پر تھا سارا حال آئینہ
اسے معلوم تھا آغاز و انجام اس چڑھائی کا
اس کا دل تھا جس میں درد تھا ساری خدائی کا
وہ سب کچھ جانتے ہیں جو اماں دیتے ہیں جانوں کو
خبر ہوتی ہے خونی بھیڑوں کی گلہ زبانوں کو
رسول اللہ نے اک دن مسلمانوں کو بلوایا
بٹھایا مسجدِ نبوی میں سب کو اور فرمایا
کہ دو جانب سے اٹھ کر جنگ کا طوفان آتا ہے ،
قریشی فوج آتی ہے ، ابو سفیان آتا ہے
ابو سفیان پلٹ آیا ہے لے کر شام کی دولت
قبائل میں یہ زر تقسیم کر دینے کی ہے نیت
اٹھائے گا قبائل کو تمہارے سر پہ لائے گا
مدینے پر قیامت ڈھائے گا فتنے اٹھائے گا
ادھر مکے سے لشکر چل چکا ہے لڑنے مرنے کو
تمہارے دین و امن صلح کے برباد کرنے کو
اٹھے ہیں اہل مکہ تاخت و تاراج کی خاطر
چلا آتا ہے باطل حق سے استمزاج کی خاطر
حلیفوں میں تمہارے ہیں یہودی اور کافر بھی
حمایت میں مسلمانوں کی ہیں کمزور و لاغر بھی
کرو قطع نظر اس سے کہ ان کا دین ہے کیسا
کہ دین و مذہب و ملت میں ہے اکراہ نازیبا
وہ عربانی بلندی پر ہیں یا پستی میں بستے ہیں
تمہارے دامنوں میں امن کی بستی میں بستے ہیں
بہت لوگ طرز غیر جانبدار رکھتے ہیں
بچارے بال بچے رکھتے ہیں گھر بار رکھتے ہیں
مدینے پر ہوا حملہ تو گھبرائیں گے بیچارے
جفا و ظلم کی چکی میں پس جائیں گے بیچارے
مسلمانوں پہ لازم ہے حمایت ان حلیفوں کی
مبادا آبرو بگڑے شریفوں کی ضعیفوں کی
قریش مکہ کی یورش کا باعث صرف مسلم ہیں
کہ اب تک باوجود ضعف، دین اللہ پہ قائم ہیں
وہ حق سے پھیر لینا چاہتے ہیں تم کو جبریہ
تمہیں پہ فرض ہے اس یورش بے جا کا دفعیہ
اگر چہ مفلس و نادار ہو تعداد میں کم ہو
قریش مکہ سے سامان میں افراد میں کم ہو
مہاجر بے وطن ہیں بے نواز کچھ بھی نہیں رکھتے
غریب انصار بھی دل کے سوا کچھ نہیں رکھتے
سواری اور ہتھیاروں کی حالت بھی نہیں اچھی
گھروں میں بعض بیماروں کی حالت بھی نہیں اچھی
مسلمانوں مگر اس راہ میں اللہ کافی ہے
جہاد فی سبیل اللہ میں اللہ کافی ہے
تمہارا عندیہ کیا ہے لڑیں یا بند ہو بیٹھیں
چلیں میدان میں یا شہر کے پابند ہو بیٹھیں
مہاجرین کا مشورہ
ابو بکر و عمر نے عرض کی اے ہادی دوراں
ہمارے مال، جاں، اولاد سب اسلام پر قرباں
غلامان محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پروا نہیں کرتے
اٹھے مقداد اٹھ کر عرض کی اے سرور عالم
نہیں ہیں قوم موسیٰ کی طرح کہہ دینے والے ہم
کہا تھا اس نے اے موسیٰ آرام کرنے دے
جہاں کی نعمتیں ملتی ہیں ان سے پیٹ بھرنے دے
خدا کو ساتھ لے جا اور باطل سے لڑائی کر
ہمارے واسطے خود جا کے قسمت آزمائی کر
ہمیں کیوں ساتھ لے جاتا ہے دنیا سے اجڑنے کو
خدا اور اس کا موسیٰؑ ہی بہت کافی ہیں لڑنے کو
معاذ اللہ مثیل امت موسیٰ نہیں ہیں ہم
جہاں میں پیروان دین ختم المرسلیںؐ ہیں ہم
ہمارا فخریہ ہے ہم غلامان محمدؐ ہیں
ہمیں باطل کا ڈر کیا زیر دامان محمدؐ ہیں
مسلماں کو ڈرا سکتے ہیں کب یہ نیز ہ و خنجر
لڑیں گے سامنے ہو کر عقب پر دائیں بائیں پر
بزرگان مہاجر نے دکھائی جب توانائی
رسول اللہؐ نے سن کر دعائے خیر فرمائی
انصار کا جوش ایمان
صف انصار کی جانب اٹھیں آنکھیں نبوت کی
تو سعد ابن معاذؓ اٹھے دکھائی شان جرات کی
ادب سے عرض کی انصار ہیں ہم یا رسول اللہؐ
غلام سید ابرار ہیں ہم یا رسول اللہؐ
خدا نے ہم غریبوں پر عجب احسان فرمایا
کہ ختم المرسلیں اس شہر میں تشریف لے آیا
جہاں میں اس سے بڑھ کر کوئی عزت مل نہیں سکتی
کسی کو بھی ابد تک اب یہ دولت مل نہیں سکتی
خدائے پاک کے فرمان پر ایمان لائے ہم
رسول اللہؐ پر قرآن پر ایمان لائے ہم
تو کیا اب موت کے ڈر سے یہ دولت ہم گنوا دیں گے
بھلا دیں گے احساں بار لغت سر پہ لا دیں گے
تعالی اللہ یہ شیوہ نہیں ہے با وفاؤں کا
پیا ہے دودھ ہم لوگوں نے غیرت دار ماؤں کا
صداقت دیکھ کر رکھا تھا ان قدموں پہ سر ہم نے
کہ مانا آپ کو روشن دلائل دیکھ کر ہم نے
قسم اللہ کی جس نے نبیؐ مبعوث فرمایا
سبھی کچھ پا لیا جس وقت ہم نے آپ کو پایا
گدائی کے در کی ہماری پادشاہی ہے
ہمیں تو آپ کا ارشاد ہی وحی الٰہی ہے
ہمیں میدان میں لے جائیے یا شہر میں رہئے
کسی سے صلح کو فرمائیے یا جنگ کو کہئے
ہمارا فرض ہے تعمیل کرنا رائے عالی کی
ہماری زندگی تکمیل ہے ایمائے عالی کی
ہمارا مرنا جینا آپ کے احکام پر ہو گا
کسی میدان میں ہو خاتمہ اسلام پر ہو گا
اگر ارشاد ہو بحر فنا میں کود جائیں ہم
ہلاکت خیز گرداب بلا میں کود جائیں ہم
نبیؐ کا حکم ہو تو پھاند جائیں ہم سمندر میں
جہاں کو محو کر دیں نعرہ اللہ اکبر میں
قریش مکہ تو کیا چیز ہیں دیووں سے لڑ جائیں
سنان نیزہ بن کر سینہ باطل میں گڑ جائیں ہم
وعدہ نصرت الٰہی
نظارہ دیکھ کر انصار کے جوش اطاعت کا
اٹھا عرش معلیٰ کی طرف چہرہ نبوت کا
یہ وحدت آج وحدت کے مبلغ کو پسند آئی
اٹھا کر ہاتھ حضرت نے دعائے خیر فرمائی
دعا کے بعد لوگوں کو نوید فتح و نصرت دی
برائے جنگ یثرب سے نکلنے کی اجازت دی
کہا دونوں میں تم کو اک جماعت ہاتھ آئے گی
خدا نے وعدہ فرمایا ہے نصرت ہاتھ آئے گی
رہے گا بول بالا قدرت حق سے صداقت کا
گرے گا جڑ سے کٹ کے نخل کفر و ظلم و بدعت کا
فلک پر تھوکنے والے زمیں پر سرنگوں ہونگے
یقین رکھو کہ خود سر حملہ آور سرنگوں ہونگے
مجاہدین اسلام جہاد کے رستے پر
نماز صبح پڑھ کر ہو گئی چلنے کی تیاری
اٹھا خود مسجد نبوی سے ابر رحمت باری
دکھانا شان حق منظور تھی ہادی کامل کو
مدینے سے نکل کر روکنا تھا فوج باطل کو
دوم تھا سال ہجری بارھویں تھی ماہ رمضاں کی
کہ نکلی مختصر سی اک جماعت اہل ایماں کی
نکل کر شہر سے تعداد دیکھی جانثاروں کی
تو گنتی تین سو تیرہ تھی ان طاعت گذاروں کی
سلاح جنگ یہ تھا آٹھ تلواریں تھیں چھ زرہیں
غناء کا رنگ یہ تھا چیتھڑوں میں بیسیوں گرہیں
کمانیں اور نیزے ، چوبہائے نا تراشیدہ
حدود کفش سے آزاد پائے آبلہ دیدہ
زیادہ لوگ پیدل تھے سواری پر بہت تھوڑے
کہ ستر اونٹ تھے بہر سواری اور دو گھوڑے
ہلا دیتی تھی کہساروں کو جن کی دھاک پیدل تھے
جناب حمزہ کیا خود صاحب لو لاک پیدل تھے
علیؓ اور بولبابہ اور جناب سید عالمؐ
یہ تینوں باری باری سے شریک ناقہ تھے باہم
ابو بکرؓ و عمرؓ اور عبد رحمٰنؓ اک سواری پر
منازل طے کئے جاتے تھے اپنی اپنی باری پر
سمندر میں اٹھا کرتی ہے جیسے موج بے پروا
اسی صورت رواں تھی غازیوں کی فوج بے پروا
کھجوریں تک میسر تھیں نہ جن کے پیٹ بھرنے کو
یہ اللہ کے مجاہد تھے چلے تھے جنگ کرنے کو
بہت سے سر بسر محروم گھوڑے سے اور ناقے سے
بہت ایسے تھے جن کی رات بھی کٹتی تھی فاقے سے
خیال عظمت ملت مکیں تھا ان کے سینوں میں
کوئی ساماں نہ تھا ذوق یقیں تھا ان کے سینوں میں
یہ چند افراد اٹھے تھے ضعیفوں کی حمایت کو
شریروں کے مقابل میں شریفوں کی حمایت کو
چلے تھے یہ مجاہد آج میدان شہادت میں
محمدؐ کی ہدایت پر محمدؐ کی قیادت پر
کفار کا ڈیرا میدان بدر میں
زرہ پہنے ہوئے جب لشکر نور سحر نکلا
شر خاور اٹھا بہر مدد سینہ سپر نکلا
فضائے دہر سے اب اٹھ چلی شب کی علمداری
خدا دینے لگا باطل کو پاداش سیہ کاری
شعاعیں برچھیاں بن کر اندھیروں کی طرف لپکیں
بلائیں بھاگ اٹھیں اپنے ڈیروں کی طرف لپکیں
تکبر، ظالم، گستاخی، دل آزاری، من و مائی
تشدد، کینہ توزی، ناز، خود بینی، خود آرائی
ستانے کے طریقے قتل کر دینے کی ایجادیں
یہ بچے مادر شب کے اندھیرے کی یہ اولادیں
ہوئے آ آ کے سب شامل گروہ اہل باطل میں
یہ فتنے آ بسے کفار کے تہ خانہ دل میں
خودی نے بھر دیئے تھے کبر کے طوفان ہر سر میں
ڈبونے جا رہے تھے کشتیِ حق آب خنجر میں
لگایا بدر کے میدان میں کفار نے ڈیرا
یہاں تدبیر کی تزویر کو تقدیر نے گھیرا
ابو جہل کا غرور
یہاں بو جہل نے آتے ہی پھر لوگوں کو بھڑکایا
دلایا جوش سب کو اور خود بھی جوش میں آیا
کہا یہ دن وہ ہے جس کی طلب تھی ایک مدت سے
اکٹھے ہیں صنادید قریش اس وقت قسمت سے
ہمارے پہلواں بھاری ہیں سو سو پہلوانوں پر
مدینے بھر میں شور الحذر ہو گا زبانوں پر
یہ خود سر پہلواں کیا پھر کبھی ساتھ آنے والے ہیں
بھلا ایسے مواقع پھر کبھی ہاتھ آنے والے ہیں
یہ سارے مہربانی ہے ہمارے دیوتاؤں کی
چڑھائی ہو گئی ہے اک خدا پر سب خداؤں کی
کریں گے جب یہ مل کر تین سو اور ساٹھ تقدیریں
اٹھیں گی ساتھ ساڑھے گیارہ سو خوں ریز شمشیریں
میں دیکھوں گا کہ وہ تنہا خدا کس کام آتا ہے
کہاں لے جا کے مٹھی بھر جماعت کو چھپاتا ہے
یہ برچھے بجلیاں بن بن کے جن کے پھل چمکتے ہیں
کہاں ہیں آج وہ سینے جو ان کو روک سکتے ہیں
ذرا دیکھو تو یہ خونخوار جوہر دار شمشیریں
یہ شمشیریں پہاڑوں پر گریں تو بیخ تک چیریں
یہ خنجر دیکھتے ہو جو کھنچے جاتے ہیں تن تن کر
تڑپتے ہیں کہ تیریں موج خوں میں مچھلیاں بن کر
ہمارے تیر دیکھو ان کا مینہ جس دم برستا ہے
تو لاکھوں بسملوں کا کھیت پانی کو ترستا ہے
رسد کو دیکھو نظارا کرو سامان جنگی کا
ہے چہروں سے ظاہر دبدبہ مردان جنگی کا
نظارے ہی سے اصحاب محمدؐ کانپ جائیں گے
ہمارے ہر سپاہی کو وہ اک جلاد پائیں گے
مسلمانوں کے حق میں واقعی پتھر ہے دل ان کا
نہیں پتھر نہیں ، پتھر سے کچھ بڑھ کر ہے دل ان کا
محمدؐ خود کہیں گے ہاں یہ جلادوں کا لشکر ہے
یہ نمرودوں کی فوجیں ہیں یہ شدادوں کا لشکر ہے
ہمارے نام کی ہیبت عرب پر بیٹھ جائے گی
مسلماں قتل ہونگے دھاک سب پر بیٹھ جائے گی
یہاں اک دن ٹھہر کر پھر بڑھو باقاعدہ ہو کر
اچانک اس طرح سے جا پڑو اہل مدینہ پر
کہ ان کے بھاگنے کی سعی بھی ناکام ہو جائے
کوئی بچنے نہ پائے یعنی قتل عام ہو جائے
علم کفار کا لہرا گیا وادی کے دامن پر
اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا اس روز روشن پر
بڑی ترتیب سے خیمے لگائے اہل باطل نے
رسد بٹنے لگی، لحم شتر سب کو لگا ملنے
زمیں کے جسم سے ہر خیمہ اک پر سوز چھالا تھا
کہ میخوں ہی سے جس نے بدر کا دل چھید ڈالا تھا
لگا اس شان و شوکت پر دماغ چرخ چکرانے
غضب کے سازو ساماں لے کے آئے تھے یہ دیوانے
زمین و آسماں حیران تھے ، کیا ہونے والا ہے
قیامت آ رہی ہے ، حشر برپا ہونے والا ہے
مسلمانوں کی کمزور جماعت
ادھر سے جا رہی تھی اک جماعت حق ستوں کی
بباطن روزہ داروں کی بظاہر فاقہ مستوں کی
نہ ان کے پاس خیمے تھے نہ سامان رسد کوئی
نہ ان کی پشت پر تھا جز خدا بہر مدد کوئی
نہ زرہیں تھیں، نہ ڈھالیں تھیں نہ خنجر تھے نہ شمشیریں
فقط خاموش تسکیں تھی، فقط پر جوش تکبیریں
کوئی ساماں نہیں تھا ایک ہی سامان تھا ان کا
خدا واحد، نبی صادق ہے ، یہ ایمان تھا ان کا
بنا کر اپنے سینوں کی سپر آیات قرآں کو
بظاہر چند تنکے روکنے آئے تھے طوفاں کو
انہی کے نور سے ہر سو اجالا ہونے والا تھا
انہی کے دم سے حق کا بول بالا ہونے والا تھا
قطعہ تاریخ
شاہنامہ اسلام جلد اول
نسخہ شاہنامہ اسلام
ہست ہم نغمہ زار و ہم تاریخ
زانکہ از خامہ ابو الاثر است
اثر خامہ، گفتہ ام تاریخ
1430ھ
حواشی
1 سلطان قطب الدین ایبک سلطان شہاب الدین غوری کا ترکی غلام اور اس کی فوج کا سپہ سالار تھا ۔ جب سلطان شہاب الدین نے دہلی فتح کی تو قطب الدین کو ہندوستان کی حکومت تفویض کی ۔ قطب الدین نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور نہایت شجاعت کے ساتھ اطرافِ ہند کو علم اسلام کے نیچے لایا جب سلطان محمد غوری کا سنہ 1602 میں انتقال ہو گیا تو قطب الدین ہندوستان کا فرمانروا تسلیم کیا گیا اس طرح اس خاندان کی حکومت کی بنیاد پڑی جو تاریخ میں خاندانِ غلاماں کے نام سے مشہور ہے ۔
2 سلطان قطب الدین شجاع بہادر اور فاتح ہونے کے ساتھ ہی اتنا رحم دل فیاض اور سخی تھا کی ہندوستان کے لوگ اسے لَکھ داتا کہہ کر پکارتے تھے آج اس کی تربت ایسی جگہ ہے جسے کوئی جانتا بھی نہیں ۔ لاہور میں انارکلی بازار سے جو راستہ میو ہسپتال کو جاتا ہے اس پر ایک ہندو کے مکان کی دیوار میں اس کی تربت ہے جہاں ایک پتھر پر کندہ ہے "" یہ ہے آخری آرام گاہ سلطان قطب الدین ایبک کی جو چوگان کھیلتا ہوا گھوڑے سے گرا اور مر گیا "" تاریخ وفات سنہ 1210
3 میرے دور کے مسلمانوں کی بے غیرتی کا عالم دیکھیے آج پاکستان بن چکا ہے لیکن آج پاکستان بن جانے پر بھی اس مرد مجاہد یعنی اسلامی سلطنت کے اولین بانی کو آسمان نصیب نہیں ہوا حفیظ دسمبر سنہ 1949
4 رقیون اصل میں بابل کا ہی باشندہ تھا جس نے مصر میں حکومت قائم کر لی تھی ۔ اور فرعون لقب اختیار کیا
5 ان روایات کا اصل مفہوم یہ ہے کہ فرعون مصر نے زبردستی حضرت ساراؓ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے چھیننا چاہا ۔ لیکن حضرت ساراؓ کی پاکباز غیور شخصیت نے اسے بتایا کہ ابراہیم علیہ السلام اور اس کی زوجہ عام انسانوں سے بہت بلند ہیں ۔ وہ مرغوب ہو گیا ۔ حضرت ساراؓ کی پاکبازی سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنی بیٹی آجر یا ہاجرہؓ جس کو وہ ساراؓ ہی کی طرح پاکباز دیکھنا چاہتا تھا ساراؓ کے ساتھ کر دی
6 حضرت ساراؓ کے اولاد نا تھی آپ نے اپنی خوشی اور تمنا سے ہاجرہؓ کا عقد اپنے شوہر ابراہیم علیہ السلام سے کیا ۔ حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے اسمٰعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اب حضرت ساراؓ پیغمبر علیہ السلام کی بیوی ہونے کے باوجود عورت بھی تھیں ۔ آپ کو رشک آیا اور یہ رشک اسمٰعیل علیہ السلام اور ہاجرہؓ کے دیس نکالے جانے کا سبب بنا ۔ لیکن دراصل دنیا کے لئے خیر و برکت کا باعث بنا ( مصنف)
7 انی اسکنت من ذریتی بوا د غیرذی زرع ( پ 13 ابراہیم 6 ع 37 ) میں نے اپنی ذریت کو بے آب و گیاہ وادی میں آباد کیا ہے
8 مسلمان حاجی ان بھی مناسک حج ادا کرتے وقت صفا و مروہ پر دوڑتے ہیں ۔ یہ حضرت ہاجرہؓ کی اس سعی کی یادگار ہے جو آپ نے پانی کی تلاش میں فرمائی تھی
9 یہ قبیلہ عرب کے قدیم ترین قبائل میں سے تھا ( تفصیل کے لئے دیکھو سیرت النبی)
10 یہ عجیب بات ہے اور اسے معجزہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ زمزم کا پانی بھوک اور پیاس دونوں کے لئے اکتفا کرتا ہے میں نے بے شمار حاجیوں سے سنا کہ انہوں نے کئی کئی دن محض زمزم کے پانی پر گزر کی اور انہیں اشتہا نہیں ہوئی ۔ میں نے خود پانچ دن رات تجربہ کیا اور قسمیہ کہتا ہوں کہ سوائے آب زمزم میں نے کچھ کھایا پیا نہیں ۔ مجھے بھوک قطعاًَ محسوس نہیں ہوئی ( حفیظ)
11 فلما بلغ معہ السعی قال یا بنی انی اری فی المنام انی اذ بحک فا نظر ماذ تری ( پ ۲۳ الصفت ۳ ع ۱۰۲)
ترجمہ :۔ پھر جب وہ لڑکا اس کے ساتھ ہو لیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھ کو ذبح کر رہا ہوں تیری کیا رائے ہے
12 یابت افعر ما تو مر ستجدنی ان شا اللہ من الصبرین ( پ ۲۳ الصفت ۳ ع ۱۰۲)
ترجمہ :۔ ابا ۔ آپ کو جو حکم ہوا ہے کر گزریے خدا نے چاہا تو میںثابت قدم رہوں گا
13 یا ابراہیم قد صدقت الرویا انا کذلک نجزی المحسنین ( پ ۲۳ الصفت ۳ ع ۱۰۵)
ترجمہ :۔ اے ابراہیم علیہ السلام تو نے خواب کو سچا کر دکھایا ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزا دیتے ہیں
14 وفدیناہ بذبح عظیم ( پ ۲۳ الصفت ۳ ع ۱۰۷)
ترجمہ :۔ اسمٰعیل کی قربانی کے بدلے ہم نے بڑی قربانی قائم کی
15 وکذلک جعلنکم امۃ وسطا لنکو نرا شھدآ ٗ علی الناس ( پ ۲ البقر ۱۷ ع ۱۴۳)
ترجمہ :۔ ہم نے تم کو بہترین امت بنایا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے خدا کی شہادت ادا کرو
16 یاد رکھنا چاہیے کہ مکہ کا نام لغت کی کتابوں میں نافِ زمین ہے انساں کے جسم میں ناف بھی ٹھیک وسط میں نیں ہوتی بلکہ تقریباً میں ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مکہ بھی وسطِ حقیقی کے قریب تر واقعہ ہے ڈیڑھ درجے کا جو تفاوت ہے وہ اس لئے ہے کہ مکہ نافِ زمین ثابت ہو ( رحمۃ للعٰلمین)
17 و اذیرفع ابراہیم القو اعدمن البیت و اسمٰعیل ( پ ۲ البقرہ ۱۵ ع ۱۲۷)
ترجمہ :۔ اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل کعبے کی دیواریں اٹھا رہے تھے
18 ان سے ایک مراد یہ بھی تھی " ربنا و ا بعث فیہم رسولا منھم یتلو اعلیھم ایتک و یعلمھم الکتب و الحکمۃ و یزکیھم ( پ ۱ البقرۃ ۱۵ ع ۱۲۹)
ترجمہ :۔ اے ہمارے پروردگار ! اس جماعت کے اندر ہی ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کرنا جو ان لوگوں کو تیری آیتیںسنایا کرے اور ان کو کتاب اور خوش فہمی کی تعلیم دیا کرے اور ان کو پاک کر دے
19 و طھر بینی للطائفین و القائمین وارکع السجود ۔ و اذن فی الناس بالحج یا تو ک رجالا و علی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق
( پ ۱۷ الحج ۱۴ ع ۲۷)
ترجمہ :۔ ہمارا گھر طواف کرنے والوں قیام کرنے والوں رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک کر اور تمام لوگوں کو پکار دے کہ حج کو آئیں پیدل بھی دبلی اونٹنیوں پر بھی اور ہر دور دراز گوشے سے آئیں گے ۔
20 پیدائش کے باب ۲۵ درس ۹ میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو ان کے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام اور اسحٰق علیہ السلام نے دفن کیا ( سر زمینِ شام میں مقامِ خلیل آپ کا مدفن مبارک ہے ) ( مراۃالانساب)
21 حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے غلام بنا کر فروخت کر ڈالا تھا بکتے بکتے وہ فرعون مصر کی بیوی زلیخا کے ہاتھ لگے وہاں بہت اتار چڑھاؤ اور تکالیف کے بعد آپ فرعونِ مصر کے نائب ہو گئے ۔ یہ قصہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام پیغمبر کو جب اپنے گمشدہ بیٹے کا پتہ ملا تو وہ اپنے خاندان کے افراد کو جن کی تعداد ستر تھی ساتھ لے کر مصر چلے گئے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کی بڑی خاطر داری کی حضرت یعقوب علیہ السلام کے انتقال کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بھتیجے مصر میں ہی رہے اور پھلنے پھولنے لگے جب حضرت یوسف علیہ السلام کا انتقال ہو گیا تو رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کو مصریوں نے ذلیل کر کے غلام بنانا شروع کر دیا تورات کتاب پیدائش میں سب مذکور ہے اور قرآن کریم میں یہ حالات بیان کئے گئے ہیں ۔ ( مصنف)
22 مسلمانوں کو حضرت موسیٰ کے حالات جہاں بھی ملیں غور خوض سے مطالعہ کرنے چاہیئں قرآن مجید میں بار بار موسیٰ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے
23 واذ فرقنابکم البھر فا نجینکم و اغر قنا ال فرعون
ترجمہ :۔ اور جب ہم نے دریا کو تمھارے لئے شق کر دیا اور تم کو بچا لیا اور آل فرعون کو غرق کر دیا
24 اذ استصقی موسیٰ لقومہ فقلنا اضرب بعصاک الحجر ۔ فانفجرت منہ اثنثا عشرۃ عینا ( پ ۱ البقرۃ ۷ ع ۶۰)
ترجمہ :۔ اور یاد کرو جب موسیٰنے اپنی قوم کے لئے پانی کی دعا مانگی تو ہم نے حکم دیا اپنا عصا پتھر پر مارو پس فوراَ اس سے بارہ چشمے پھوٹ بکلے ( اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی خاندان تھے )
25 وانزلنا علیکم المن و سلوی ( پ ۱ البقرۃ ۷ ع ۵۷)
ترجمہ :۔ اور پہنچایا تمھارے پاس من و سلویٰ ۔
26 فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھہنا قاعدون ( پ ۶ المائدہ ۳ ع ۱۴)
ترجمہ :۔ تم اور تمھارا پروردگار جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں
27 ولقد جاءکم موسیٰ بالبینت ثم اتخذتم العجل من بعدہ و انتم ظلمون (پارہ نمبر 1، البقرہ ، ع: 11، آیت 92) اور موسیٰ تمہارے پاس صاف صاف دلیلیں لائے . مگر اس پر بھی تم نے (موسیٰ کے طور پر جانے کے بعد) گوسالہ کو (معبود) تجویز کر لیا. اور تم ظلم کر رہے تھے
28 حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت حضرت ابراہیم سے 958 برس بعد کا زمانہ تھا. آپ نے یروشلم میں
خدائے واحد کی عبادت کے لیے بیت المقدس (ہیکل) تعمیر کیا جو کعبے کے بعد دوسرا بیت اللہ ہوا. (دیکھو تفصیل کے لیے رحمۃ للعلمین)
29 ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (پ:13، الرعد، ع: 1، آیت:11) اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو نہ بدلے
30 مسیق بادشاہ مصر نے یروشلم پر حملہ کر کے مح شاہی اور بیت المقدس کو لوٹا، پھر بخت شاہ بابل نے یروشلم پر حملہ کیا1401 ابراہیمی میں اسے فتح کر لیا. اور یہود کے بادشاہ یہوبکین کو اس کے امراء اور اہل خانہ سمیت گرفتار کر لیا. شاہ سلیمان کا خزانہ ، بیت المقدس کا نذرانہ لوٹ لیا . دس ہزار بہادروں اور پیشہ وروں کو پابجولاں کر کے بابل لے گیا.بخت نصر نے اپنے چچا صدقیاہ کو کنعان کا بادشاہ بنا دیا تھا. آخر بیت المقدس ، سلیمان کے قصر اور تمام شہر کو جلا کر خاک کر دیا. فصیلیں ڈھا دیں اور جتنے لوگ زندہ تھے سب کو پکڑ کر بابل لے گیا. ان قیدیوں میں حضرت ذوالکفل بھی تھے جن کی نبوت کا آغاز حضرت ابراہیم سے 1406 سال بعد ہوا.آپ کے بعد حضرت عزیر کی نبوت کے زمانہ میں ایران نے بابل کو فتح کیا تو بنی اسرائیل کو بابل کی غلامی سے نجات ملی .بیالیس ہزار آدمی پھر یروشلم چلے گئے .فنیقی بھی اب پھر حملہ آور ہوئے . رومی تو اس طرح قابض ہوئے کہ آخر اسلام نے ان کو وہاں سے نکالا.
31 اسمعیل علیہ السلام کی شادی عرب کے اس قبیلہ جرہم کے سردار مضاض کی بیٹی سے ہوئی تھی جو حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اجازت لے کر چشمہ زمزم کے قریب آباد ہو گیا تھا.(مصنف)
32 ان بارہ بیٹوں کے نام یہ تھے .(1) بنایوث یا بنایوط (2) قیدار (3) اوباقیل (4) سیام (5) مشماع (6)دوماہ (7) مسا (8)حدر(9) یتمار (10(لیطور (11)ناخیش (12) قیدماہ. یہی بارہ رئیس تھے جن کے متعلق خدا نے حضرت ابراہیم کو بشارت دی تھی کہ اسمعیل کے حق میں میں نے تیری دعا قبول کی. دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے آبرو مند کرونگا اور اس قدر بڑھاؤں گا کہ اس سے بارہ رئیس پیدا ہوں گے . اور میں اسے ایک بڑی قوم بناؤں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا. ان بارہ رئیسوں میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی بستیاں بسائیں جو ان کے ناموں پر مشہور تھیں. ان کی اولاد اتنی بڑھی کہ حجاز سے نکل کر شام ، عراق اور یمن میں*پھیل گئی. انہوں نے حکومت اور تجارت اختیار کی
33 اکثر نسب ناموں میں عدنان سے حضرت اسماعیل تک آٹھ نو پشتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن بقول علامہ شبلی رح یہ صحیح نہیں. انہوں نے ثابت کیا ہے کہ عدنان سے حضرت اسماعیل تک چلیس پشتوں کا فاصلہ ہے (دیکھیے سیرت النبی حصہ اول)
34 حضرت موسی نے جب مصر سے ہجرت کی تھی تو عرب ہی میں آ کر پناہ لی تھی. اور عرب ہی کے ایک پہاڑ پر آپ کو نبوت تفویض ہوئی پھر جب وہ بنی اسرائیل کو مصر سے آزاد کر کے لائے تو بیابان عرب ہی میں انہوں نے چالی سال پورے کیے تھے .حضرت داؤد بھی بادشاہ سموئیل کی وجہ سے ہجرت کر کے عرب ہی میں آ کر ٹھہرے تھے . جب بنی اسرائیل کو بخت نصر نے تباہ و برباد کیا تو انہیں معد بن عدنان ہی نے عرب میں عزت و احترام سے رکھا تھا .(رحمۃ للعالمین)
35 عدنان کے بعد اس قوم پر بنی جرہم کا قبیلہ غالب آگیا. اگرچہ وہ ان کے ماموں ہی تھے تاہم انہوں نے ان کو مکے سے نکال دیا.(رحمۃ للعالمین)
36 دیکھو تمدن عرب از علامہ جرجی زیدان
37 قصی کا نسب نامہ اس طرح ہے قصی ابن کلاب ، ابن مرہ، ابن کعب، ابن نوی، ابن غالب، ابن فہر(یعنی قریش اول)، ابن مالک، ابن نضر، ابن کنانہ، ابن مدرکہ، ابن الیاس، ابن مضر، ابن نزار، ابن معد، ابن عدنان، عدنان سے 40 پشت اوپر حضرت اسمعیل . (دیکھو سیرت النبی)
قصی سے پہلے قریش میں تفرقہ پڑ گیا تھا. اور وہ ادھر ادھر متفرق ہو گئے تھے . کعبے کی تولیت قبیلہ خزاعہ کے ہاتھ میں آ گئی تھی مگر قصی نے از سر نو قریش کو جمع کیا. خزاعیوں کے ہاتھ سے کعبے کی خدمت حاصل کی اور قریش کو دوبارہ سرداری کی مسند پر بٹھایا . ایک قسم کی جمہوری حکومت قائم کی.بہت سی اصلاحیں کیں.(سیرت النبی)
38 قصی کے تین بیٹے تھے .عبد مناف ، عبدالدار ، عبدالعزی . یہی عبد مناف پیغمبر اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے جد اور عبدالدار حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے جد تھے .(مصنف)
39 عبد مناف کے بیٹے ہاشم حضرت سرور کائنات کے پردادا تھے . یہ قریش میں بہت ممتاز اور مقتدر تھے . ان کی اولاد بنو ہاشم یا ہاشمی کہاتی ہے . (مصنف)
40 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دادا
41 ایک عورت کے ایک سے زیادہ خاوند ہونے کا رواج جو نہایت ادنیٰ اقوام میں پایا جاتا تھا. ان میں موجود تھا مرد جس قدر عورتوں سے چاہتا شادی کر سکتا تھا. اور اس کے علاوہ جیسا کہ یورپ میں آج کل بھی رواج ہے اپنے لیے محبوبہ بھی رکھ سکتا تھا. ان میں نیوگ کی رسم بھی جاری تھی. عورت محض ایک جائیداد سمجھی جاتی تھی. اس کا اپنے متوفی خاوند یا دوسروں کی وراثت میں کوئی حصہ تسلم نہ کیا جاتا تھا. بلکہ وہ خود جائیداد موروثہ کا ایک حصہ قرار پا کر ورثے میں چلی جاتی تھی اور وارث چاہتا تو اس سے نکاح کر لیتا چاہتا تو کسی دوسرے سے کرا دیتا . یہاں تک کہ بیٹے اپنے باپ کی عورتوں کو ورثہ کا حصہ سمجھ کر ان سے شادی کر لیتے اور ان کو انکار کا حق نہ تھا.(خیر البشر23)
42 مرد و عورت کے تعلقات میں نہایت درجے کا فحش بھی تھا. ناجائز تعلقات کے نہایت گندے قصے کھلے اشعار میں فخریہ بیان کیے جاتے . بڑے بڑے مشہور قصائد میں جو اپنی فصاحت میں لاثانی سمجھے جاتے ہیں. ایسے فحش اور ننگے الفاظ میں ان تعلقات کا ذکر ہے کہ جن کی برداشت زبان اور کان نہیں کر سکتے .(خیر البشر ص: 42)
43 وحشیانہ پن میں انتہاء کو پہنچا ہوا طریق لڑکی کو زندہ در گور کرنے کا تھا. پانچ چھ سال کی لڑکی کو باپ جنگل میں لے جاتا اور ایک گڑھے کے کنارے پر کھڑی کر کے دھکا دے کر گرا دیتا. چیختی چلاتی ہوئی مغموم جان پر مٹی ڈال کر چلا آتا
44 بعض اوقات نکاح کے وقت بیوی سے معاہدہ کر لیا جاتا تھا کہ اگر لڑکی پیدا ہو گی تو اسے مار ڈالا جائے گا. اس صورت میں غریب ماں سے اس فعل کا ارتکاب کرایا جاتا اور ستم یہ کہ اکثر کنبے کی عورتوں کو اکٹھا کر کے یہ کام کیا جاتا .(خیر البشر ص:52)
45 کنتم علی شفا حفرۃ من النار (پ: 4، آل عمران، ع: 11، آیت : 103) تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے
46 یہ جنگ فجار ثانی کہلاتی ہے . یہ بنی عامر اور بنی کنانہ میں شروع ہوئی اور بعد ازاں سب کے سب قبائل کوئی ادھر کوئی ادھر شامل ہو کر مدتوں لڑتے رہے
47 ہندوستان کے ایرین ایسے وہم پرست ہو گئے کہ مخلوق میں سے کوئی چیز ایسی نہ رہی جس کو انہوں نے نہ پوجا ہو.
48 برہمن سب سے افضل ، ان سے اتر کر چھتری ، ان سے گھٹیا ویش اور تینوں سے گھٹیا شودر . آخر الذکر ایسے بد نصیب کہ ہندو مذہب ان کو جینے کا حق بھی نہیں دیتا . حتی کہ جس زمین پر اوپر کی تین قومیں چلتی پھرتی ہوں شودر کا سایہ بھی پڑ جائے تو وہ زمین گویا ناپاک ہو گئی.(مصنف)
49 خود ہندو محققین یہ کہتے ہیں کہ ویدک مذہب میں خرابیاں پیدا کرنے والے وام مارگی ہیں ان لوگوں نے مذہب کی آڑ میں بدمعاشیوں اور فواحش کو رواج دیا اور دیوی دیوتاؤں کے ایسے قصے گھڑے جن سے ان کے لیے حرامکاری کا جواز ثابت ہو.
50 کنفیوشس چین کا ایک بہت بڑا مصلح مسیح سے کچھ مدت پہلے گزرا ہے .(مصنف)
51 موجودہ زمانہ کے پارسی اب بھی آگ کو خدا کا سب سے بڑا مظہر سمجھتے ہیں. اس مذہب کی ابتداء زرتشت سے ہوئی. پارسیوں کا عقیدہ ہے کہ زرتشت مسیح سے تیرہ سو برس پہلے شہر رَے یا ارمیاہ میں پیدا ہوا تھا. زرتشت اگرچہ مذہب توحید کا مبلغ تھا. لیکن اس کے ماننے والوں نے اس کی تعلیم کو مسخ کر کے یزدان و اہرمن دو خداؤں کی پرستش شروع کی.چونکہ یزدان روشنی کا منبع خیال کیا جاتا تھا اس لیے آگ کی تعظیم کرنے لگے . اور آخر کار آگ ہی کے پجاری بن گئے . (مصنف)
52 وکم اھلکنا قبلھم من قرن ھم اشد منھم بطشا فنقبوا فی البلاد ھل من محیص. ( پ 26، ق ، ع: 3، آیت: 36) کتنی قومیں ہلاک ہو گئیں جو ان سے زیادہ مضبوط تھیں. انہوں نے شہروں کو چھان ڈالا تھا. ہے کوئی جگہ بھاگنے کی
53 دین عیسوی اپنے ابتدا ہی میں بدعتیوں کی خلل اندازی سے مسخ ہو گیا تھا . پولوس یا سینٹ پال نے یونان اور روم کے شہروں میں پھر پھر کے دین مسیحی کو مشرکین کے عقائد کے قالبوں میں ڈھالا اور پھیلانا شروع کیا. جس کا نتیجہ یہ ہوا، کہ بہت جلد جو پیٹر اور زیوس دیوتاؤں کو ماننے والے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا یعنی ابن اللہ کہنے اور خدا کی خدائی کا شریک اور منتظم ماننے گرداننے لگے .(مصنف)
54 رومن کیتھولک عیسائی اب تک گرجوں میں مسیح کی تصویر کو پوجتے ہیں. اور ان کے کئی فرقے ایسے ہیں . جو خدا اور اس کی والدہ حضرت مریم کے پرستار ہیں . اور نعوذ باللہ ان کو خدا کی بیوی کہتے ہیں.(مصنف)
55 335 ء قسطنطین اعظم شہنشاہ روم نے یہی پولوس کا سکھایا ہوا دین عیسوی قبول کیا . اور خود عیسائی مورخین اس امر کے قائل ہیں کہ اس نے اس دین کو بزور شمشیر پھیلانے کی ابتدا کی.(مصنف)
56 ابی سینا چوتھی صدی مسیحی میں ہوا.
57 چھٹی صدی عیسوی میں یہ جنگ زوروں پر تھی.(مصنف)
58 رحمۃ للعالمین جلد دوم صفحہ 106 سردار عبداللہ کی عفت نفس کا ایک واقعہ ابونعیم و خرابطی و ابن عساکر نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ فاطمہ بنت مرالخثعمیہ نے ان سے اظہار محبت کیا اور اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے سو اونٹوں کا عطیہ ان کو دینا چاہا ۔ لیکن انہوں نے اس درخواست کے جواب میں یہ قطعہ پڑھا :۔
اماالحرام فاللمات دونہ
والحل لا حل فاسبینہ
فکیف الی الموء الذین تبعینہ
یحم الکریم عرضہ و دینہ
ترجمہ:۔ فعل حرام کے ارتکاب کرنے سے تو مر جانا ہی اچھا ہے حلال کو بیشک میں پسند کرتا مگر اس کے لئے اعلان ضروری ہے تم مجھے بہکاتی اور پھسلاتی ہو مگر شریف انسان کو لازم ہے کہ اْپنی عزت اور دین کی حفاظت کرے
59 تذکرہ الرسول و آباء العدول صفحہ 32 ۔ یہودیوں نے علامات نور محمدی آپ میں پاکر چند ایک بار ہلاکت کا قصد کیا مگر ہمیشہ ناکام رہے ایک مرتبہ آپ شکار کے لئے گئے تھے دشت میں تنہا پا کر آپ کی ہلاکت کا قصد کیا اتفاق سے اس وقت وہب ابن عبد مناف والد حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں آ گئے انہوں نے دیکھا کہ چند سوار غیب سے ظاہر ہوئے اور حضرت عبداللہ کے دشمنوں پر حملہ کر کے ان کو بھگا دیا یہ حال دیکھ کر ان کے دل میںآرزو پیدا ہوئی کہ اپنی صاحبزادی حضرت آمنہ کا عقد آپ سے کر دیں
60 اسے ابربۃ الاشرم کہتے تھے ۔ کیونکہ اس کے ہونٹ اور ناک کسی لڑائی میں نیزے کی انی سے چھد گئے تھے ۔ یہ شخص اگرچہ حبش کا باجگزار تھا۔ مگر یمن میں حاکم علی الاطلاق بنا ہوا تھا۔ اس کا مذہب عیسائی تھا۔ ﴿مصنف﴾
61 یہ کلیسا یمن کے پایہ تخت صنعا میں ابرہہ نے تعمیر کیا تھا ۔
62 دیکھو تفسیر غلبہ روم از مولٰنا ظفر علی خاں، ص: 13-14
63 الم تر کیف فعل ربک باصحب الفیل۔ الم یجعل کیدھم فی تضلیل ۔ وارسل علیھم طیرا ابابیل ۔ ترمیہم بحجارۃ من سجیل ۔ فجعلھم کعصف ماکول۔(پ:30، الفیل، ع: 1، ﴾
تو نے دیکھا کہ تیرے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ۔ کیا اس نے اس گروہ کے کیا دانہ منصوبوں کو باطل نہیں کیا۔ اور ان کے مقابلے کے لیے ابابیلوں کا لشکر نہیں بھیجا۔ جو ان پر سنگریزوں کی بوچھاڑ کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے جسم کھائے ہوئے بھس کی طرح ہو گئے ۔
64 ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی ۔ یا ایھا الذین اٰ منو صلو علیہ و سلموا تسلیما۔ (پ:22، الاحزاب، ع: 56،﴾ تحقیق اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو تم بھی اس پر بہت درود و سلام بھیجو۔
65 بیان کیا جاتا ہے کہ عبدالمطلب کے بہت بیٹے تھے ۔ حارث، زبیر، ابوطالب، عبدالکعبہ، عبداللہ، ابولہب، مقومحجل، مغیر، حمزہ، ضرار، قسم، عباس، غیداق، مصعب، مگرمؤرخین کو دس کے حالات معلوم ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی اولاد چلی اور اب تک نسل باقی ہے ۔ یہ سب مطلبی کہلاتے ہیں۔ زبیر، ابوطالب، اور عبدالکعبہ اور عبداللہ یہ چاروں ایک ماں کے بطن سے تھے ۔(دیکھو رحمۃ للعلمین۔جلد دوم۔ ص: 75)
66 مولوی عبدالحلیم شرر نے اپنی کتاب خاتم المرسلین میں اس خواب کی تفصیل عبدالمطلب کی زباں سے اس طرح بیان کی ہے "عبدالمطلب کا بیان ہے کہ میں ایک دن کعبہ کے کٹہرے کے اندر سو رہا تھا ناگہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت زمین سے اگا اور بڑھنے لگا۔دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے جا لگا اور اس کی ٹہنیاں مشرق و مغرب تک پھیل گئیں۔ پھر اس میں ایک روشنی نظر آئی۔ جس سے صاف روشنی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ اہل عرب و عجم اس ے سامنے جھک رہے ہیں۔ اور وہ درخت باعتبار عظمت و روشنی ساعت بساعت بڑھتا جا رہا ہے ۔اسی حالت میں قریش میں سے بعض لوگ تو اس کی ٹہنیوں سے لپٹ گئے اور بعض نے ارادہ کیا کہ اسے کاٹ ڈالیں جب اس کے قریب پہنچے تو ایک نورانی نوجوان نمودار ہوا جس سے خوشبو کی لپیٹیں آ رہی تھیں۔ اس نے آتے ہی ان سب کو مار کے ہٹا دیا اور ایسے حملے کیے کہ ان کی پیٹھیں توڑ ڈالیں ۔ اور آنکھیں نکال لیں۔ یہ دیکھ کر میں نے چاہا کہ ہاتھ بڑھا کر درخت کی کوئی شاخ پکڑ لوں مگر نہ پا سکا۔(ختم المرسلین﴾
67 یہ مکان بطاح میں واقع تھا۔ اور بعد کے زمانے میں ابو یوسف کا مکان کہلاتا تھا۔ آنحضرت نے یہ مکان بعد فتح مکہ عقیل بن ابی طالب کو دے ڈالا تھا۔ عقیل کے بعد ان کی اولاد نے حجاج بن یوسف کے بھائی محمد یوسف کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اس نے جب اپنا مکان تعمیر کیا تو اس مکان کو بھی اس میں شامل کر لیا۔ اور اسی وجہ سے محمد بن یوسف کے نام سے مشہور ہوا۔ ابن عباس کے زمانے میں خلیفہ ہارون الرشید کی ماں خیز ران نے اس متبرک زمین کو اپنے قبضہ میں کر کے وہاں ایک مسجد تعمیر کرا دی۔(کامل۔ ابن اثیر﴾
68 اور تو اور ابو لہب نے بھی آپ کی ولادت کا مژدہ سن کر اپنی لونڈی ثوبیہ نامی کو آزاد کر دیا تھا۔ یہی وہ خوش نصیب عورت ہے جس نے پہلے پہل آنحضرت کی دایہ بننے اور دودھ پلانے کی سعادت حاصل کی۔
69 دادا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نام محمد اور ماں نے خواب میں ایک فرشتے سے بشارت پا کر احمد رکھا۔ (رحمۃ للعالمین) حدیث میں ہے کہ زمین پر میرا نام محمد اور آسمان پر احمد ہے ۔ (دیکھو خطبات احمدیہ ۔ سر سید احمد کے مضامین)
70 حضرت حلیمہ سعدیہ کا اسلام لانا ثابت ہے ۔ ابن ابی خثیمہ نے تاریخ میں ابن جوزی نے حدار میں۔ منذری نے مختصر سنن ابی داؤد میں ابن حجر نے "اصابہ" میں ان کے اسلام لانے کی تصریح میں ان کے اسلام لانے پر ایک مختصر رسالہ لکھا ہے ۔ جس کا نام التحفۃ الجسیمہ فی الاسلام حلیمہ، ہے ۔ عہدِ نبوت میں جب وہ آپ کے پاس آئیں تو آپ "میری ماں" کہہ کر لپٹ گئے ۔ (سیرت النبی)
71 ہوازن کا قبیلہ جو بنی سعد بھی کہلاتا تھا ، فصاحت و بلاغت میں مشہور ہے ? ابن سعدؓ نے طبقات میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ میں تم سب سے فصیح تر ہوں کیونکہ میں قریش کے خاندان سے ہوں اور میری زبان سعد کی زبان ہے
72 مائی حلیمہ کے شوہر حارث بن عبدالعزی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد مکے میں آئے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے ? آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا کہ ’’ یہ آپ کیا کہتے ہیں ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ ہاں وہ دن آئے گا میں تجھ کو دکھا دوں گا کہ میں سچ کہتا تھا ‘‘ حارث فورا ایمان لے آئے ب(سیرت النبی)
73 ان کا نام ھذاقہ تھا ، شیمہ کے لقب سے مشہور تھیں
74 عبداللہ ور شیمہ کا اسلام لانا ثابت ہے ? باقیوں کا حال معلوم نہیں(سیرت النبی )
75 شیما ء آپ کو لوری دیتی اور یہ مصرعے پڑھتی تھی۔ ھٰذا اِ خ لی لم تلدہ امی ولیس من النسل ابی وعمی فانمہ اللھم قیما تنمی ترجمہ: یہ میرا بھائی ہے جونہ میری ماں کے بطن سے ہے نہ میرے باپ اور چچا کی نسل سے اے اللہ اسے بڑھا کر بڑا کر (سیرت الحبیب جلد1)
76 دو برس کی رضاعت کے بعد اول بار حلیمہ آپ کو لیکر مکہ میں آئیں ۔ لیکن حلیمہؓ کو آپ سے محبت ہو گئی تھی اور غیبی برکات کے سبب آپ کو جدا کرنے کو جی نہ چاہتا تھا ۔ نیز مکے میں ان دنوں وبا پھیلی ہوئی تھی ۔ اس لئے بصد اصرار واپس لے گئیں۔ (خاتم المرسلین)
77 اس میں اختلاف ہے کہ حضرت حلیمہؓ کے ہاں کتنے برس رہے ۔ ابنِ اسحاق نے وثوق کے ساتھ چھ برس لکھا ہے ۔ (سیرت النبی)
78 آپ (ص) کی والدہ آپ (ص) کو ساتھ لیکر مدینے گئیں۔ چونکہ آنحضرت کے دادا کی ننہال خاندان نجار میں تھی ۔ اس لئے وہیں ٹھہریں۔ حضرت آمنہؓ اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لئے گئی تھیں۔ جو مدینہ میں مدفون تھے ۔ (سیرت النبی)
79 واپس آتے ہوئے جب مقام ابوا پر پہنچیں تو سیدہؓ کا انتقال ہو گیا اور اسی جگہ مدفون ہوئیں۔ ابوا ایک گاؤں کا نام ہے جو حجفہ سے 23 میل پر واقع ہے ۔ (رحمۃ للعالمین)
80 مدینے کے سفر میں حضرت آمنہ کے ساتھ ام ایمنؓ بھی تھیں جو حضرت آمنہ کی لونڈی تھیں۔ آنحضرت (ص) کو حلیمہ سے پہلے کچھ دن دودھ بھی پلا چکی تھیں۔ چنانچہ جب حضرت آمنہ کا ابوا میں انتقال ہو گیا تو ام ایمن آنحضرت کو ساتھ لیکر مکہ میں آئیں (مصنف)
81 عبدالمطلب نے بیاسی برس کی عمر پائی اور حجون میں مدفون ہوئے ۔ آنحضرت کی عمر آٹھ برس کی تھی۔ عبدالمطلب کا جنازہ اُٹھا تو آپ فرط محبت سے آنسو بہاتے ہوئے ساتھ ساتھ گئے تھے (سیرت النبی ص)
82 عبدالمطلب نے مرت وقت اپنے بیٹے ابو طالب کو آنحضرت کی تربیت سپر دکی اور ابو طالب نے اس فرض کو اپنی موت کے دن تک اس طرح نباہا کہ نظیر نہیں ملتی ۔ عبدالمطلب کے دس بیٹے مختلف ازواج سے (موجود) تھے ان میں سے آنحضرت ص کے والد عبداللہ اور ابو طالب ماں جائے بھائی تھے ، اس لئے عبدالمطلب نے آپ کو ابو طالب ہی کے آغوشِ تربیت میں دیا۔ ابو طالب آپ سے اس قدر محبت رکھتے تھے کہ آپ کے مقابلے میں اپنے بچوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ سوتے تو آنحضرت جو ساتھ لیکر اور باہر جاتے تو آپ کو ساتھ لے کر جاتے ۔ (سیرت النبی ص)
83 طبقات میں ابن سعد نے جلد اول میں بخاری نے کتاب الاجارہ میں آنحضرت ص کا قول نقل کیا ہے کہ میں قراریط پر بکریاں چرایا کرتا تھا ۔ ابراہیم حربی کے قول کے مطابق قراریط ایک مقام کا نام ہے جو اجیاد کے قریب ہے ۔ (مصنف)
84 مورخین نے بحیرا راہب کا قصہ تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ۔ بصرہ کے مقام پر اس راہب نے آسمانی کتابوں کی بشارتوں اور پیش گوئیوں کے مطابق دیکھ کر آپ کو پہچان لیا۔ اسی طرح بعض یہودیوں کے کاہنوں نے آپ کو پہچان لیا کہ یہی وہ نبی ص ہیں جن کی خبر انبیائے سلف دیتے چلے آرہے ہیں۔ ( مصنف)
85 آپ نے لڑکپن میں بھی نہ تو کبھی بتوں کی تعظیم کی ، نہ کوئی چڑھاوا چڑھایا، بلکہ بتوں پر چڑھائی ہوئی چیزیں بھی کبھی استعمال نہ کی۔ جوانی میں جب تک نبوت تفویض نہ ہوئی تھی آپ ملت حنفیہ ابراہیمیہ کے پابند تھے اور سچے خدائے ذوالجلال کے سوا کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ آپ خانہ کعبہ میں جاتے تھے اور اسے معبد الہی مانتے تھے لیکن آپ نے کبھی ان بتوں کی طرف خیال نہ کیا ۔ جو اندرون کعبہ مشرکین نے رکھ چھوڑے تھے ۔ ساری قوم ان بتوں سے حاجتیں طلب کرتی تھی مگر آپ کعبہ میں جا کر بتوں سے منہ پھیر کر فرماتے تھے ’’ لبیک حقا تعبا وصدقا عذت بما عاذنہ ابراہیم" یعنی اللہ تیری درگاہ میں حاضر ہوں، حق پسندی ،عبادت گزری اور سچائی کے ساتھ اور اس سے پناہ مانگتا ہوں جس سے ابراہیم نے پنا ہ مانگی (مصنف)
86 آنحضرت ص نے مکہ کے چند آدمیوں کو ساتھ لیکر ایک عہد باندھا تھا کہ ہم میں ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکے میں نہ رہنے پائے گا۔آنحضرت ص عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدہ کے مقابلے میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دئے جاتے تو میں نہ لیتا۔ اور آج بھی ایسے معاہدے کے لئے کوئی بلائے تو میں حاضر ہوں۔ (مصنف)
87 آپ نے جوانی میں کاروبار تجارت اختیار کیا ۔ اور اسی سلسلے میں یمن ، شام ، بصرہ وغیرہ کے سفر بھی کئے ۔ اور مکے میں کامیاب دیانتدار اور خوش معاملہ تاجر کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔ بعض لوگ تجارت میں آپ کے شریک بھی رہے ہیں ۔ چنانچہ سائب بن ابی سائب آپ کے شریک تھے ۔ سائب کا بیان ہے کہ میں آپ کی معاملت اور دیانت دونوں سے ہمیشہ خوش رہا ۔ دیکھو رحمۃ للعالمین۔
88 اُم المؤمنین حضرت خدیجہؓ ایک شریف النفس پاکیزہ اخلاق (قریش کے ایک معزز گھرانے کی) خاتون تھیں۔ آ پ کے والد کا نام خویلد تھا جو مکے کے معزز رئیس تھے ۔ آپ کا سلسلہ نصب پانچ پشت اوپر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سلسلہ نصب سے مل جاتا ہے ۔یعنی خدیجہ ابن خویلد ابن اسد ابن عبدالعزیٰ ابن قصی ، عبدالعزی حضرت عبدالمطلب کے دادا عبد مناف بن قصی کے بھائی تھے ۔
89 خدیجہ بیوہ ہو چکی تھیں۔ آپ کی تجارت اس بیوگی کی حالت میں بھی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ آپ نے آنٍحضرت کی تاجرانہ دیانت و امانت ، راست بازی ، حسن معاملت اور پاکیزہ سیرت کا شہرہ سنا تو آنحضرت کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لے کر جائیں۔ بصری ٰسے واپسی پر حضرت خدیجہ نے آپ کے پاس شادی کا پیغام بھیجا ۔ تاریخ معین پر ابو طالبؓ ، حمزہؓ اور تمام رؤسائے خاندان خدیجہ کے مکان پر تھے ۔ ادھر سے عمرو بن اسد یعنی حضرت خدیجہ کے چچا نے خطبہ پڑھا۔ ادھر سے ابو طالب نے ۔ پانچ سو طلائی درہم مہر مقرر ہوا تھا۔ (مصنف)
90 حضرت خدیجہ چونکہ نہایت شریف النفس اور پاکیزہ اخلاق تھیں ۔ جاہلیت میں لوگ ان کو طاہرہ کے نام سے پکارتے تھے (مصنف)
91 آنحضرت کی شادی عمر کے ۲۴ سال کی اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال کی تھی۔ آنحضرت نے خدیجہ کی زندگی میں دوسری شادی نہ کی۔ (مصنف)
92 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جس قدر اولادیں ہوائیں (بجز حضرت ابراہیم کے ) حضرت خدیجہ ہی کے بطن سے ہوئیں۔ (مصنف)
93 کعبہ کی تعمیر سیلاب وغیرہ کے سبب کمزور ہو گئی ۔ لہٰذا قریش نے ارادہ کیا کہ اسے دوبارہ تعمیر کر دیں۔ عرب کے تمام قبائل اس مذہبی کام میں حصہ لینے کے لیے اکٹھے ہو گئے اور عمارت کے مختلف حصے آپس میں تقسیم کر لیے تاکہ کوئی قبیلہ اس شرف سے محروم نہ رہ جائے ۔ لیکن حجر اسود کے نصب کرنے کا موقع آیا تو سخت جھگڑا ہوا۔ ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ یہ خدمت اس کے ہاتھ سے انجام پائے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کی تلواریں کھنچ گئیں۔ سیرت النبی ص)
94 عرب میں دستور تھا کہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتا ہے تو پیالے میں خون بھر کر اس میں انگلیاں ڈبو لیتا تھا ۔ اس موقع پر بھی بعض دعویدار قبائل نے یہ رسم ادا کی اور مرنے مارنے کی ٹھان لی۔ (سیرت النبی ص)
95 چار دن تک ہنگامہ برپا رہا ۔ آخر ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے معمر تھا رائے دی کہ کل کی صبح کو سب سے پہلے جو شخص حرم میں داخل ہو وہی ثالث قرار دیا جائے گا۔ کرشمہ ربانی دیکھو کہ سب سے پہلے لوگوں کی نظریں جس نور پر پڑیں وہ جمال جہاں تاب محمدی تھا ۔ آپ کو دیکھ کر شور مچ گیا۔ امین آگیا ۔ امین آگیا۔ اور سب نے بخوشی آپ کو ثالث مان لیا۔ (سیرت النبی ص)
96 رحمت عالم نے فرمایا جو قبائل دعوے دار ہیں سب ایک ایک سردار کا انتخاب کریں ۔ پھر آنحضرت نے اپنی چادر بچھا کر دست نبوت سے سنگ اسود کو اٹھایا اور اپنی چادر پر رکھ دیا ۔ اور قبائل کے منتخب سرداروں سے کہا اب اس چادر کے کنارے پکڑ کر سنگ اسود کو اٹھا ؤ اور مقررہ مقام پر لے چلو۔ چنانچہ سب نے اٹھایا ۔ جب چادر موقع کے برابر آ گئی تو رحمت عالم نے حجر اسود کو پھر اٹھایا اور خود نصب فرمایا۔ (گویا اشارہ تھا کہ دین الہی کا آخری تکمیلی پتھر بھی انہی ہاتھو سے نصب ہو گا)
97 مکہ معظمہ سے تین میل پر ایک غار ہے جس کو غار حرا کہتے ہیں۔ آپ مہینوں جا کر قیام فرماتے اور مراقبہ کرتے ۔ کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے ۔ وہ ختم ہو چکتا تو پھر گھر تشریف لے جاتے ۔ اور پھر واپس جا کر مراقبہ میں*مصروف ہو جاتے ۔ (مصنف)
98 نبوت کا دیباچہ تھا کہ خواب میں آپ پر اسرار منکشف ہونے شروع ہوئے ۔ ایک دن جب کہ آپ حسب معمول غار حرا میں محو مراقبہ تھے فرشتہ غیب نظر آیا جو آپ سے کہہ رہا تھا۔
اقرا باسم ربک الذی خلق ہ خلق الانسان من علق ہ اقرا و ربک الالکرام ہ الذی علم بالقلم ہ علم الانسان ما لم یعلمہ (اقراء0پ 30 سورہ العلق ع 1)
ترجمہ: پڑھ اس خدا کا نام جس نے کائنات کو پیدا کیا اور جس نے انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا ۔ پڑھ تیرا خدا کریم ہے ۔ وہ جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں۔
99 ابوبکر بن ابی قحافہ دولتمند ماہر انساب، صائب الرائے اور فیاض تھے ۔ جب وہ ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے اور مکے میں ان کا عام اثر تھا ۔ معززین شہر ان سے ہر بات میں مشورہ کرتے تھے ۔ آپ آنحضرت کے پرانے دوست اور لڑکپن کے رفیق تھے اور مدتوں سے فیضیاب تھے ۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ کبار صحابہ ان ہی کی تبلیغ سے ایمان لائے ۔ (مصنف)
100 عثما ن بن عفانؓ خاندان امیہ کے ایک دولت مند رکن تھے ۔
101 زبیرؓ بن عوام آنحضرت کی پھوپھی کے بیٹے اور حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے ۔ سعد بن ابی وقاصؓ۔ طلحہؓ بن عبیداللہ ، عبدالرحمنؓ بن عوف، ابو عبیدہؓ ابن الجراح ، اسماؓ بنت عمیس ، ابو سلمہؓ عثمان بن مظعون۔ عبیدہؓ بن حارث بن عبدالمطلب، سعیدؓ ابن زید اور ان کی بیوی فاطمہؓ بنت خطاب، ہمشیرہ حضرت عمر فاروق(عمر فاروق اس وقت حالت کفر میں تھے )۔ اسماءؓ بنت ابی بکرؓ عبداللہؓ بن مسعود ، عمارؓ بن یاسر ، خبابؓ ابن الارث، ارقمؓ، صہیبؓ رومی ان خوش قسمت اصحاب میں سے تھے جو السابقین الاولین کہلائے ۔ (مصنف)
102 احتیاط کی جاتی تھی کہ محرمان خاص کے سوا کسی کو خبر نہ ہونے پائے ۔ نماز کے وقت آنحضرت کسی پہاڑی میں چلے جاتے اور وہاں نماز پڑھتے ۔ (سیرت النبی)
103 فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین ( پ 14 سورۃ الحجر 94)
ترجمہ: پس تجھے جو حکم ہوا ہے واشگاف کہہ دے ۔ اور مشرکین کی کوئی پرواہ نہ کر۔
104 ابو لہب یہ خیال کرتا تھا کہ آل ہاشم میں اس وقت سب سے بڑا میں ہوں۔ اس لے نبوت اگر ملنی تھی تو مجھے ملنی چاہئے تھی
105 و انذر عشیرتک الاقربین (پ19 الشعراء ) اور اپنے نزدیکی خاندان والوں کو خدا سے ڈرا۔
106 یہ سب بنی ہاشم ہی تھے ۔ ان کی تعداد چالیس یا ایک کم یا ایک زیادہ تھی۔ (رحمۃ للعالمین)
107 دیکھو رحمۃللعالمین۔
108 حضرت بلال حبشی النسل تھے ۔ امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ ٹھیک دوپہر کے وقت امیہ ان کو عرب کی جلتی ہوئی ریت پر لٹاتا اور پتھر کی چٹان سینے پر رکھ دیتا۔ یہ وہی بلال ہیں جو مؤذن کے لقب سے مشہور ہیں۔ حضرت یاسر اور ان کے بیٹے عمار اور اب کی بیوی سمیہ مسلمان ہو گئے تو ابو جہل نے ان کو شدید عذاب پہنچائے ۔ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو عذابوں میں مبتلا دیکھ کر فرمایا ۔ اصبروا یا ال یاسرفان موعدکم الجنۃ۔ ترجمہ (یاسر والو صبر کرو تمہارا مقام جنت ہے ) ابو جہل نے بی بی سمیہ کے اندام نہانی میں نیزہ مارا ور وہ تڑپ کر ہلاک ہو گئیں۔ حضرت خباب بن الارت کے سر کے بال کھینچے جاتے تھے اور گردن مروڑ دی جاتی۔ گرم پتھروں سے داغ دیا جاتا۔ (رحمۃ للعالمین)
حضرت صہیب رومی مشہور ہیں۔ مگر ان کے والد سنان کسریٰ کی طر ابلہ کے حاکم تھے ۔ رومیوں کے حملے کے سبب تباہ حال ہو گئے ۔ ایک عرب نے ان کو خریدا۔ مکے میں عبداللہ بن جدعان نے روپیہ دے کر ان کو آزاد کر دیا تھا۔ یہ مسلمان ہو گئے ۔ ابو فکیہہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے ۔ امیہ ان کا گلا گھونٹتا ، مارتا گھسیٹتا مگر وہ راہ خدا سے نہ ہٹے ۔ ان کے سینے پر ایسے وزنی پتھر رکھے جاتے تھے کہ ان کی زبان باہر نکل آتی ۔ (رحمۃللعلمین)
بسنیتہ ایک کنیز تھی حضرت عمر جس وقت تک ایمان نہ لائے تھے ان کو اتنا مارتے کہ خود تھک جاتے ۔ اور وہ اسلام پر قائم رہی۔ نہدیہ اور زنیرہ بھی کنیزیں عامر بھی غلام تھے ۔ (سیرت النبی)
109 حضرت ابو بکر کے دفتر فضائل کا پہلا باب یہی کے کہ انہوں نے بے دریغ دولت صرف کر کے مظلوم مسلمان لونڈی اور غلاموں کو بھاری بھاری داموں پر خرید کر کے آزاد کر دیا۔ (مصنف)
110 ابو جہل اب ہشام، امیہ بن خلف، عقبہ بن معیط، ابو سفیان بن حرب بن امیہ، ولید بن مغیرہ (حضرت کا خالد باپ) عاص بن وائل سہمی (عمر بن عاص کا باپ) عتبہ بن ربیعہ (امیر معاویہ کا نانا) (مصنف)
111 قرآن مجید کی آیت ذیل میں اسی طرف اشارہ ہے :۔ لا تسمعو الھذ االقراٰن والغفوا فیہ لعلکم تغلبون (پ24 حم السجدہ )
ترجمہ:۔ اس قرآن کو نہ سنو اس میں گڑ بڑ ڈال دو۔ شاید تم غالب آؤ۔
112 ابو لہب بن عبدالمطلب آنحضرت کا چچا تھا۔ مگر آپ کو سب سے زیادہ ایذا دیتا تھا۔ آپ کے دروازے پر محض ستانے کے لیے نجاست ڈال دیتا۔ ایک مرتبہ کچھ اونٹ ذبح ہوئے تھے ۔ ان کی اوجھیں پڑی تھیں۔ ابو جہل نے دل لگی کی راہ سے کہا۔ اس اوجھ کو کون لے کر اس شخص پر ڈالتا ہے ؟ عقبہ بن ابی معیط نے کہا میں حاضر ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اوجھ اٹھائی۔ آپ سجدے میں تھے کہ سر اور دونوں شانوں کے درمیان رکھ دی۔ اور سب لوگ قہقہے لگانے لگے ۔ آپ اسی طرح ساکت و صامت سجدے میں پڑے رہے ۔ سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہرا کو خبر ہوئی۔ اگر چہ وہ کمسن تھیں۔ مگر تاب آئی۔ دوڑی ہوئی آئیں اور اس نجاست کو دونوں ہاتھوں سے ہٹایا۔ (خاتم المرسلین)
113 ایک دفعہ بہت سے قریش نے جن میں اشراف قریش شامل تھے ۔ آنحضرت پر وار کیا۔ عقبہ بن ابی معیط نے آپ کے گلے میں چادر ڈال کر اس قدر مروڑا کہ آپ کا دم رکنے کے قریب آگیا۔ اتنے میں حضرت ابو بکر جھپٹ کر آئے اور ان لوگوں کے ہاتھ سے آپ کو یہ کہہ کر چھڑایا۔ اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ وقدجاء کم بالبینت (پ24 المومن )
ترجمہ۔ تم ایک شخص کو محض اس لئے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے ۔ اللہ میرا پروردگار ہے اور تمہارے پاس روشن دلائل لایا ہے ۔
114 ام جمیل ابو سفیان کی بہن تھی۔ وہ سو کام چھوڑ کے جاتی اور خاردار جھاڑیوں کا ایک بوجھ پیٹھ پر لاد کے لاتی اور آپ کے راستے میں بچھا دیتی۔ چونکہ آپ صبح اٹھنے کے عادی تھے اور اندھیرے منہ سے طواف کعبہ کیا کرتے تھے اس لئے آپ کو ان کانٹوں سے سخت تکلیف پہنچتی۔ (مصنف)
115 حضرت نوح کے خاص مقربین کی نسبت بھی کفار اسی طرح کہا کرتے تھے وَمَانَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِ لاّالَّذِ یْنَ ھُمْ اَرَازلُْنَاانھیں بَادِ یَ الَّرأْیِ وَمَاَنریٰ َلکُمْ عَلَیْنَا مِ نْ فَضْل بَلْ َنظُنُّکُمْ کٰٰذِ بِ یْنَ0 ع٣آیت ٢٧
لوگوں نے تیری پیروی اور ہم تو بظاہر یہی دیکھتے ہیں کہ کی ہے جو رذیل ہیں۔اس لئے ہم تم میں کوئی برتری نہیں پاتے بلکہ ہماری نظر میں تم سب جھوٹے ہو
116 اِ نَّکُمْ وَمَاتَعْبُدُوْنَ مِ نْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ (پ١٧ الانبیاء ع٧0 ٩٨)
تم اور جن چیزوں کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو سب دوزخ کا ایندھن ہونگی
117 قُلْ اِ نّمَااَناَبَشَرمِ ّثلُکُمْ یُوْحیٰ اِ لَیَّ اَنَّمَآ اِ لٰھُکُمْ اِ لٰہ وَّاحِ د فَاسْتَقِ یمُوْا اِ لَیْہِ وَاسْتَغْفِ رُوْہُ ط(پ٢٤ حٰم السجدہ ع ١ 0 ٦)
کہہ دے میں تمھارے جیسا بشر ہوں۔وحی کی جاتی ہے میری طرف کہ تمھارا خدا صرف وہی ایک خدا ہے ۔پس سیدھے اس کے حضور میں جاؤ اور معافی طلب کرو۔
قُلْ اَئِ نّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِ الّذِ یْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِ یْ یَوْمَیْنِ وَتَجَْعَلُوْنَ لَہ' اَنْدَاداًط ذٰلِ کَ رَبُّ الْعَالَمَیْنَ 0 (پ٢٤ حٰم السجدہ ع٢آیت ٩)
کہہ دے کیا تم لوگ اس خدا کو جھٹلاتے ہو جس نے دو دن میں یہ زمین پیدا کر دی۔اور تم خدا کے شریک قرار دیتے ہو وہی ہے سارے جہاں کا پروردگارٍ!
118 حضرت حمزہ بن عبدالمطلب آنحضرتؐ کے برادر رضاعی بھی تھے ۔یعنی آنحضرتؐ نے حضرت ثوبیہ کا دودھ بھی پیا تھا۔ثوبیہ حضرت حمزہ کو بھی دودھ پلا چکی تھی ۔از مصنف )
119 (دیکھو خاتم المرسلین)
120 حضرت حمزہ کا خطاب اسداللہ واسد رسولہ بھی تھا(دیکھو۔رحمة للعالمین جلددوم)
121 (ابو لہب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا سب سے بڑا دشمن تھا جب آنحضرت تبلیغ کے لئے جاتے تو یہ پیچھے سے پکارتا لوگوں یہ دیوانہ ہے اس کی باتوں میں نہ آنا)
122 نعیم بن عبداللہ حضرت عمر ہی کے خاندان کے ایک معزز شخص تھے ( سیرت النبی )
123 حضرت خباب بن الارث بنی تمیم میں سے تھے جاہلیت میں غلام بنا کر فروخت کر دئیے گئے تھے ام انمار نے خرید لیا تھا یہ ان دنوں ایمان لائے تھے جب آنحضرت ارقم کے گھر میں موجود تھے اور اس وقت تک صرف چھ سات شخص ایمان لا چکے تھے آپؓ نے اسلام کی محبت میں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھائی تھیں ان کو گرم ریت پر لٹا کر سینے پر پتھر رکھ دئے جاتے تھے ان کی پشت ان صدمات سے برص کے سفید داغوں کی طرح بالکل سفید پڑ چکی تھی ( سیرت النبی )
124 حضرت عمر کے بہنوئی کا نام سعید بن زید تھا اور بہن کا نام فاطمہ بنت خطاب ( مصنف )
125 فاطمہ نے قرآن کے اجزا لا کر سامنے رکھ دئیے ،عمر نے اٹھا کر دیکھا تو یہ سورت تھی:۔
سَبَّحَ لِ لّہ مَافِ ی السِ ّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَالْعَزِ یْزُالْحَکِ ی ْمُں(پ٢٧الحدید ع آیت١)
ترجمہ:۔آسمان و زمین میں جو کچھ ہے خدا کی تسبیح پڑھتا ہے ۔اور خدا ہی غالب حکمت والا ہے ۔
ایک ایک لفظ پران کا دل مرعوب ہوتا جاتا یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے آمِ نُوْابِ اللّہِ وَرَسُوْلِ ہ خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ تو بے اختیار پُکار اٹھے :۔
اَشْھَدُاَنْ لّااِ لٰہَ اِ لّااللّہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمّداًرَّسُوْلْ
میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں،اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔
126 ارقم کا مکان کوہِ صفا کی تلیٹی پرتھا۔اور رسول اللہؐ وہاں پناہ گزین تھے (سیرت النبی)
127 دیکھو سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم
128 حضرت عمر سے پہلے پچاس کے قریب آدمی ایمان لا چکے تھے ،عرب کے مشہور بہادر سید الشہداء حضرت حمزہ بھی مسلمان ہو چکے تھے ،تاہم مسلمان اپنے فرائض مذہبی ادا نہیں کر سکتے تھے ،کعبہ میں نماز ادا کرنا تو گویا ناممکن ہی تھا لیکن حضرت عمر کے ایمان سے حالت بدل گئی ۔
انھوں نے علانیہ اسلام کا اظہار کیا،کافروں نے شدت کے ساتھ مخالفت کی لیکن وہ ثابت قدم رہے ،یہاں تک کہ مسلمانوں کو ساتھ لے جا کر نماز ادا کی ۔ابن ہشام اس واقعہ کو عبد اللّہ بن مسعود کی زبانی اس طرح لکھتا ہے کہ عمر اسلام لائے تو قریش سے لڑے ،یہاں تک کہ کعبے میں نماز پڑھی ،اور ان لوگوں کے ساتھ ہجوم نے بھی پڑھی۔(مصنف)
129 فہر قریش اول کا نام تھا
130 حضرت عثمان بن عفان کے اسلام لانے کی خبر ان کے چچا کو ہوئی تو وہ ان کو طرح طرح کی ایذائیں دینے لگا،اکثر اوقات کھجور کی صف میں لپیٹ کر باندھ دیتا اور نیچے دھواں دیا کرتا تھا۔(طبری)
131 والّذین ھاجروا فی اللہ من بعد ماظلموا لنبوئنّھم فی الدّنیا حسنة(ً پ١٤النّحل ع ٦ آیت ٤١)
اور وہ لوگ جنھوں نے اللّہ کی راہ میں ہجرت کی اس کے بعدظلم ہوئے ہم انھیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے ۔
132 سب سے پہلے حضرت عثمان بن عفان اور ان کی زوجہ یعنی آنحضرتؐ کی بیٹی سیدہ رقیہ نے ہجرت اختیار کی،آنحضرتؐ نے فرمایا حضرت لوط کے بعد عثمان پہلا شخص ہے جس نے راہِ خدا میں ہجرت کی ہے ۔یہ پہلا قافلہ ١٢ مردوں اور چار عورتوں پر مشتمل تھا،رات کی تاریکی میں مکے سے نکلے اور جدہ کی بندرگاہ سے جہاز پر سوار ہو کر حبش کو چلے گئے تھے ،ان کے بعد اور بھی مسلمان جن میں ٨٣ مرد اور ١٨ عورتیں تھیں ،ان کے قافلہ سالار حضرت جعفر طیّار حضرت علی کے بھائی تھے (تاریخ العمران)
133 عمرو بن العاص جو بعد میں مسلمان ہوئے اور فاتح مصر کے نام سے مشہور ہیں،اس وقت کافر تھے اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے
سفارت نے جس میں عمرو بن عاص اور عتبہ بن ربیعہ جیسے سرکردہ لوگ تھے ،نجاشی شاہِ حبش کے درباریوں اور پادریوں کو جاتے ہی گانٹھ لیا تھا کہ دربار میں ان کی طرف سے تائید ہی ہو گی۔ (دیکھو۔سیرت النبی)
134 کیونکہ بنی ہاشم اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر قبیلے کی عصبیت سبب سے نبیؐ کا ساتھ نہیں چھوڑتے تھے (رحمة للعالمین)
135 اس معاہدہ کا ذکر طبری نے اور ابنِ سعد نے تفصیل کیا ہے ،نبی کریمؐ کو قتل کے لیے حوالے کر دینے کا تذکرہ مواہب لدنیہ میں ہے (سیرت النبی)
136 ابُو طالب کے قصیدے کا پہلا شعر ہے
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمال الیتامی عصمة للارامل
وہ گورا شخص جس کے چہرے کی برکت سے بارانِ رحمت کی دعا کی جاتی ہے (جو)یتیموں کے لئیے پناہ اور دُکھیا عورتوں کو دکھ سے نجات دینے والا ہے
137 شعب ابی طالب پہاڑ کے ایک درّے کا نام ہے جو خاندان بنو ہاشم کی موروثی ملکیت تھی
138 دیکھو خاتم المرسلین صفحہ120,122.123,سیرت النبیؐ صفحہ ٢٢٨،سیرت خیرالبشرصفحہ ٧٢،سیرت رحمة للعالمین صفحہ ٥٣۔
139 بنی ہاشم کے بچے بھوک سے اس قدر رویا کرتے تھے کہ ان کی آواز گھاٹی سے باہر سنائی دیتی۔(زادالمعاد)
140 صحابہ کی زبان سے مذکور ہے کہ طلحہ کے پتّے کھا کھا کر بسر کرتے تھے سیرت النبی٢٢٨۔
141 ابوطالب قریش کے پاس آئے اور آنحضرتؐ کا فرمان بیان کیا۔ابوجہل نے کہا اس عہد نامے کی حفاظت کرتے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ ضائع ہو گیا ہو،پھر رؤسائے قریش کو ساتھ لیکر کعبہ میں پہنچے ،دیکھا تو دیمک اس پارچے کو کھا چکی تھی اور عجیب بات یہ تھی کہ جہاں جہاں اللّہ محمّد کا لفظ لکھا تھا صرف وہی جگہ باقی تھی(عادة العرب)
142 بعثتِ نبوت کا دسواں سال تاریخِ اسلامی میں عام الحزن کے نام سے مشہور ہے ،کیونکہ آپؐ کے دو ایسے رفیق و غمگسار اُٹھ گئے جن سے آپ کو بہت تقویت ملتی تھی ،آنحضرتؐ کی مشکلات پہلے سے بھی بڑھ گئیں،اور ایک اور سختی کا زمانہ شروع ہوا(سیرت خیرالبشر)
143 حضرت خدیجہ نے رمضان ١٠نبوی میں وفات پائی ،آپ کی عمر ٦٥ برس ہوئی۔مقام حجون میں دفن کی گئیں ،آنحضرتؐ خود ان کی قبر میں اترے اُس وقت تک نمازِ ِ جنازہ شروع نہیں ہوئی تھی۔(سیرت النبیؐ)
144 طائف میں بڑے بڑے امراء اور اربابِ اثر رہتے تھے عمیر کا خاندان رئیس القبائل تھا،یہ تین بھائی تھے ،عبد یالیل،مسعود،حبیب
145 سیرت النبیؐ۔
146 کنایہ یہ تھا کہ ہم عرب کے اتنے بڑے رئیس ہیں ،خدا کو چاہیے تھا کہ پیغمبری ہمیں دیتا،چنانچہ حق تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :
وقالوالولانزّل ھٰذالقراٰن علی رجل مّن القریتین عظیم ۔۔پ٢٥،الزخرف،ع ٣ ،آیت ٣١)
وہ کہتے ہیں کہ قرآن کو اترنا تھا،تو ان دو شہروں(مکہ اور طائف)میں سے کسی رئیسِ اعظم پر اترنا تھا
147 یہ پوری تفصیل مواہبِ لدنیہ بحوالہ موسیٰ بن عقبہ اور طبری وابن ہشام میں ہے ؛(مصنف)
148 نخلہ طائف اور مکّے کے درمیان ایک مقام ہے ،آپ نے طائف سے واپسی پر یہاں چند روز قیام فرمایا۔ (سیرت النبی)
149 طفیل ا بن عمرو یمن کے مشہور فرمانوی قبیلہ دَوس کے ایک معزّز رکن اور نامی گرامی شاعر تھے ۔وہ کسی کام سے مکّے میں آئے انھیں رسول اللہؐ کے متعلق کچھ بھی معلوم نہ تھا۔اکابر قریش طفیل کے مرتبے کو جانتے تھے ،وہ اُّن کے پاس آئے اور کہا اتنا خیال رکھنا کہ محمّدؐ نام ایک شخص ہے اس سے نہ ملنا وہ بڑا جادوگر ہے ،اُس کا کلام باپ بیٹے میں تفرقہ ڈال دیتا ہے ،طُفیل نے ان کے مشورے پر عمل کرنے کا تہیّہ کر لیا جب کبھی باہر نکلتا۔کانوں میں روئی ٹھونس لیتا۔لیکن اتفاق سے آنحضرتؐ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے ، طفیل نے بھی باوجود کانوں میں روئی ہونے کے اُ س آواز کو سنا۔دل میں خیال آیا کہ یہ تو حماقت ہے کہ کسی کی آواز نہ سنوں۔بُری بات ہو گی تو نہ مانوں گا۔چنانچہ کانوں سے روئی نکالی اور اللہ کا کلام سننے لگا۔کلام کی سچائی نے اثر کیا ۔اور آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا۔اور چپ چاپ اپنے وطن چلا گیا،وہاں جا کر اپنے کُنبے کو مسلمان کیا،اور قوم میں تبلیغ کرنے لگا۔۔ (خاتم المرسلین۔صفحہ ١٢٩۔١٣٠)
150 سوید ابن ثابت ارضِ ِ یثرب کا مشہور و معروف شجاع اور عالم تھا اس کو امثال لقمان کا ایک نسخہ ہاتھ آ گیا تھا،جس کو وہ کتاب آسمانی سمجھتا تھا،وہ ایک مرتبہ حج کے لیے آیا،رسولؐ خدا اُس کے پاس تشریف لے گئے ،اس نے امثالِ لقمان پڑھ کر سنائیں۔آپؐ نے فرمایا۔میرے پاس اس سے بہتر چیز ہے ۔یہ کہہ کر قرآن مجید کی چند آیات پڑھیں۔وہ اسلام کا معتقد ہو کر لوٹا اور یثرب کے لوگوں پراس واقعہ کا اظہار کیا۔وہ انھی دنوں جنگِ ابعاث میں شہید ہو گیا۔روضة الانف میں اور طبری میں یہ ذکر موجود ہے ۔(مصنف)
151 ارضِ یثرب میں اوس و خزرج نامی ایک خاندان یعنی قحطان کے دوقبیلے آباد تھے ۔مگر ایامِ ِ جاہلیت میں دونوں میں جنگ رہا کرتی تھی۔قبیلہ اَوس کو خزرج کے مقابلے میں شکست ہوئی تو اس کے عمائدین کے پاس خزرج کے مقابلے میں انھیں اپنا حلیف بنانے کے لیے آئے اِ س سفارت میں ایاس بن ابن معاذ بھی تھے ۔رسول اللّہؐ کو اُن کا آنا معلوم ہوا تو آپؐ ان کے پاس تشریف لے گئے ۔اور قرآن مجید کی چند آیات ان کو سنائیں ۔ایاس نے ساتھیوں سے کہا۔تم جس غرض سے آئے ہو۔یہ کام تو اس سے بھی بہتر ہے لیکن اس سفارت کے قافلہ سالار نے اس کے منہ پر کنکریاں مار کر کہا۔ہم اس کام کے لیے نہیں آئے ۔اس کے بعد یہ سفارت وطن کو پلٹی۔ایاس آنحضرتؐ کی ہجرت سے پہلے انتقال کر گیا۔لوگوں کا بیان ہے کہ مرتے وقت ایاس کی زبان پر تکبیر جاری تھی۔(سیرت النبیؐ)
152 حج کے زمانے میں عرب کے قبائل مکّے میں آئے تھے ۔اور آنحضرتؐ اس موقع پران کے ڈیروں پر جا جا کر تبلیغ فرماتے تھے سن ١٠ ع میں ایسا ہی ہوا۔مقامِ عقبہ کے پاس (جہاں اب مسجد عقبہ ہے )قبیلہ خزرج کے چند اشخاص آپ کو نظر آئے ۔آپ نے ان کو دعوتِ اسلام دی۔ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا دیکھو یہود اس اولیّت میں ہم سے بازی نہ لے جائیں ۔یہ کہہ کر سب نے اسلام قبول کر لیا۔یہ چھ شخص تھے ۔دوسرے سال بارہ اشخاص آئے اور بیعت کی ۔اور خواہش کی کہ کوئی معلّم ہمارے ساتھ ارکانِ اسلام سکھانے کے لیے دیا جائے ۔آپؐ نے مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ کردیا۔مصعب ہاشم بن عبدمناف کے پوتے اور سابقین اسلام میں تھے ۔مصعب کی کوشش سے یثرب میں اسلام پھیلنے لگا ۔اگلے سال بہتر٧٢ آدمیوں نے مکّے اور مقامِ منا میں بیعت کی ۔(سیرت النبی)
153 اہلِ یثرب نے یہودیوں سے سن رکھا تھا کہ ایک موعود نبیؐ کے آنے کا زمانہ قریب ہے یہودی تورات عیسائی انجیل کی پیشگوئیوں کی بنا پر موعود نبیؐ کے مُدتوں سے منتظر تھے (دیکھو طبری)
154 حضرت صدیق اور حضرت علی کے علاوہ چند ایسے لوگ مکہ میں باقی رہ گئے تھے جو مفلسی کے ہاتھوں مجبور تھے اور مدتوں ہجرت نہ کر سکے یہ آیت انہی کی شان میں ہے
والمستضعفین من الرجال وا لنساء------------
ترجمہ:۔ کمزور مرد، عورتیں اور بچے یہ کہتے ہیں کہ اے خدا ہم کو اس شہر سے نکال کہ یہاں کے لوگ ظالم ہیں
155 تدبیر قتل پر غور کرنے کے لیے دار الندوہ میں اجلاس خفیہ کا اعلان کیا گیا، دارالندوہ کو قصی ابن کلاب نے قائم کیا تھا، اس اجلاس میں نجد کا ایک تجربہ کار بوڑھا شیطان بھی آ کر شامل ہو گیا تھا ﴿رحمة اللعالمین﴾
156 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے ہجرت کی اور حضرت داؤد نے بھی ساؤل بادشاہ کے ظلم کے سبب سے ہجرت کی ـ دیکھو کتاب سموائیل ـ 13،13،14 بحوالہ رحمة اللعالمین ـ
157 اس موقع پر توشہ دان کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملتی تھی۔ حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی اسماء نے فوراً اپنی کمر کی پیٹی اتاری اور پھاڑ کر دو حصے کر لیے ۔ ایک سے ناشتہ دان کو باندھا ۔ حضرت رسالت اسماء کی اس مستعدی پر خوش ہوئے اور فرمایا کہ اسماء خدا جنت میں تمہیں دو پیٹیاں عطا کرے گا۔ پیٹی کو عرب میں نطق کہتے ہیں۔ چنانچہ آنحضرت کے ارشاد فیض بنیاد کے سبب اسماء کا لقب ذات النطاقین ہو گیا ۔ یعنی دو پیٹیوں والی۔ (ابن سعد ، ابن ہشام )
158 یہ غار مکہ سے تین میل جانب جنوب ہے ۔ پہاڑ کی چوٹی پر تقریبا ایک میل بلند ہے ۔ چڑھائی بہت ہی سخت ہے یہاں سے سمندر دکھائی دیتا ہے ۔ (مصنف )
159 حضرت صدیق اکبر غار میں داخل ہوئے ۔ فرش صاف کیا ۔ جہاں کہیں سوراخ تھے اور سانپ بچھو کا خطرہ تھا۔ آپ نے اپنی عبا کو پھاڑا اور ان سوراخوں کو بند کر دیا۔ (دیکھو سیرت ابن ہشام ، رحمۃ للعالمین )
160 ظالموں نے حضرت علی کو پکڑا اور حرم میں لے جا کر تھوڑی دیر محبوس رکھا ۔ پھر چھوڑ دیا ۔۔ (سیرت النبی )
161 خدا پاک نے حضرت ابو بکر صدیق کے اس خلوص کا اعتراف قرآن مجید میں بھی فرمایا ہے ۔ گویا جس معیت الہی میں نبی واصل تھا۔ اس میں ابو بکر کو بھی شامل کر لیا۔ سورہ توبہ میں ہے
الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذ اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین اذھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا۔ (پارہ ۔۔ 10 ، سورہ التوبہ ، ع ۔ 6۔ آیت ۔۔ 40
اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو یقیناً اللہ نے اس کی مدد کی جب اسے کافروں نے نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے کا دوسرا تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے ۔ اور جب اس نے اپنے رفیق سے کہا غمگین نہ ہو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔
162 عامر بن فہیرہ صدیق اکبر کا غلام تھا۔ حضرت صدیق چلتے ہوئے اسے ہدایات دے آئے تھے ۔ (مصنف )
163 اس ناقہ کا نام قصویٰ تھا۔ اور آنحضرت نے اسے ابو بکر سے بقیمت خریدا تھا۔
164 عبداللہ بن اریقط کو کچھ اجرت پر رہبری کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
165 آنحضرت نے آرام فرمایا تو حضرت صدیق اکبر تلاش میں نکلے کہ کہیں سے کچھ کھانے کو مل جائے تو لائیں پاس ہی ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا۔ اس سے کہا بکری کا تھن صاف کر دے ۔ پھر اس کے ہاتھ صاف کرائے اور دودھ دوہایا ۔ برتن کے منہ پر کپڑا لپیٹ دیا کہ گرد نہ پڑ جائے ۔۔ (سیرت النبی )
166 گھوڑے نے ٹھوکر کھائی تو سراقہ نے ترکش سے فال دیکھنے کے لیے تیر نکالے کہ حملہ کرنا چاہیے یا نہیں۔ جواب میں نکلا نہیں ۔ مگر اس نے تعاقب نہیں چھوڑا۔ آخر ایسا ہوا کہ گھوڑا رانوں تک دھنس گیا ۔ (یہ مفصل واقعہ صحیح بخاری سے مصنف رحمۃ للعالمین نے درج کیا ہے
167 یہ تحریر عامر بن فہیرہ نے چمڑے پر لکھی تھی۔ لکھنے کا سامان حضرت ابو بکر کے ساتھ تھا۔ سراقہ بعد میں اسلام لائے اور جب ایران فتح ہوا اور مال غنیمت میں کسریٰ کے زیورات بھی آئے تو حضرت عمر نے دیکھا کہ سراقہ کے حصہ میں کسریٰ کے کنگن تھے ۔
168 آپ کی ہجرت کے مقامات یہ تھے ۔ خیمہ ام معبد۔ اسفل احج۔ خرار ۔ ثینۃ المرہ ۔ مدلجہ ۔ مدلجہ مجاج ۔ مرحج مجاج۔ مرحج ذی العضوین ۔ بطن ذی کشد۔ جداجد۔ اجرد ۔ ذی سلم ۔ عبابید۔ فاجہ ۔ عرج ثینۃ العائر ۔ جشجاثہ ۔ قبا۔ مدینہ ۔(خاتم المرسلین۔)
169 یہ واقعہ علامہ شبلی نے نہ جانے کیوں چھوڑ دیا۔ رحمۃ للعالمین میں تفصیل سے مذکور ہے ۔ بریدہ اسلمی اپنی قوم کا سردار تھا۔ اسی انعام کے حاصل کرنے کے لیے ستر آدمی لے کر تلاش میں نکلا تھا۔ مگر آنحضرت سے گفتگو ہوتے ہی ایمان لے آیا تھا۔
170 دیکھو رحمۃ للعالمین
171 مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر جو بالائی آباد ہے اس کو عالیہ یا قبا کہتے ہیں ۔ یہاں انصار کے بہت سے خاندان آباد تھے ۔ یہ فخر ان کی قسمت میں تھا کہ سب سے پہلے رسول خدا نے انہی کی مہمانی قبول کی ۔ اکابر صحابہ یہاں پہلے ہی سے مہمان تھے ۔ (مصنف )
172 صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت نے قبا میں 14 دن قیام فرمایا تھا۔ بعض ارباب سیر نے تین دن اور بعض نے چار دن لکھا ہے مگر صحیح بخاری کی روایت قرینِ قیاس ہے ۔
173 یہی مسجد ہے جس کی شان میں قرآن مجید فرماتا ہے :
لمسجد اسس علی التقویٰ من اول یوم احق ان تقوم فیہ۔ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا۔ واللہ یحب المتطھرین۔ (پارہ ۔ 11۔ التوبۃ رکوع 13۔ آیت 108
وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جن کو پاکیزگی بہت پسند ہے اور خدا پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
174 سر راہ بنی سالم کے محلے میں نماز جمعہ ادا فرمائی ۔۔(سیرت ابن ہشام(
175 بنی نجار آنحضرت کے دادا کے رشتہ دار تھے ان کو نبی کے آنے کی سب سے زیادہ مسرت تھی۔ (العادۃ العرب )
176 مدینے کی معصوم لڑکیاں گھروں میں گا رہی تھیں۔
اشرق البدر علینا , من ثنیات الوداع , وجبت شکر علینا , ما دعی للہ داع
چاند نے طلوع کیا , کوہ وداع کی گھاٹیوں سے , ہم پر شکر واجب ہے , جب تک دعا مانگنے والے دعا مانگیں
177 راہ میں ننھی لڑکیاں دف بجا کر گاتی تھیں:
نحن جوارین بنی النجار , یا حبذا محمدا من جار
ہم نجار کے خاندان کی لڑکیاں ہیں , محمد کتنے پسندیدہ ہمسایہ ہیں
178 ان لڑکوں کا نام سہل بن عمرو سہیل بن عمرو تھا۔ معاذ بن عفرا کی تولیت میں تھے ۔ (خاتم النبیین)
179 عبداللہ بن ابی مدینے کا ایک با اثر شخص تھا۔ اس نے تاجپوشی کے لیے سونے کا تاج بنوا رکھا تھا۔ لیکن جب اوس و خزرج کے قبائل مسلمان ہو گئے تو تاجداری کا خیال ہی جاتا رہا۔ اگرچہ رسول اللہ روح و جسم دونوں پر حاکم تھے ۔ لیکن آپ کی زندگی فقر و فاقہ کی زندگی تھی۔ ابن ابی کے ارادے دل ہی دل میں رہ گئے تھے ۔ اس لیے وہ اور اس کے چند ساتھی اسلام کے مخالف تھے اور عمر بھر مخالف رہے اور منافقین کہلائے ۔
180 آنحضرت نے مدینے میں تشریف لاتے ہی یہودیوں اور مسلمانوں میں ایک معاہدہ کرایا تھا۔ (دیکھو ابن ہشام )
181 ان دنوں مدینہ میں یہود اور منافقین کے گروہ مسلمانوں کو امن و امان سے رہتے دیکھ کر حسد سے اندھے ہو رہے تھے ۔ اور آئے دن سازشوں میں مصروف رہتے تھے ۔ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو غارت کردینے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ کرزا ابن جابر مدینے کی دیواروں تک غارت کرتا تھا۔ (سیرت النبی )
182 اذن للذین یقاتلون بانھم ظلمو وان اللہ علی نصرھم لقدیر الذین اخرجوا من دیارہم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ ولو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوت و مسجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا و لینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز ۔( پ : 17، الحج، ع : 6، آیت : 40
ان کو لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے جن سے لڑائی کی جاتی ہے اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور تحقیق اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے وہ لوگ جو ناحق اپنے گھروں سے نکالے گئے اس لیے کہ انہوں نے پروردگار کو اپنا خدا کہا ۔ اور اگر بعض لوگوں پر سے بعض کو اللہ دور نہ کرتا۔ تو البتہ گرا دیئے جاتے نرسا کے صومعے درویشوں کے عبادت خانے یہود اور نصاریٰ کے اور مسجدیں کہ جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے اور اللہ اپنے مدد کرنے والوں کی مدد کرتا ہے اور اللہ ہی البتہ زور آور اور غالب ہے ۔
183 مال و اسباب منافع تجارت کو لطیمہ کہتے ہیں
184 ابو لہب بہت بوڑھا تھا اس نے اپنی بجائے ایک آدمی روپیہ دے کر مقرر کر دیا تھا (العادۃ العرب)
185 ابو سفیان اپنے تجارتی قافلے کو لے کر مکہ پہنچ گیا تو اس نے ایک قاصد ابو جہل کے پاس بھیجا کہ ہم سمالت ہیں۔ تم پھر واپس پلٹ آؤ۔ پھر پورے جنگی سامان کے ساتھ چڑھائی کرینگے ۔ ابو جہل نے قاصد کے ذریعے ابو سفیان کو کہلا بھیجا کہ اب پلٹنا ممکن نہیں۔ اس طرح جوش ٹھنڈا ہو جائے گا۔ لہذٰا تم بھی آ کر حملے میں شامل ہو جاؤ۔ ابو سفیان نے پیغام پایا تو چند سوار لے کر چلا اور آ کر قریش کے لشکر میں شامل ہو گیا (تاریخ العمران)
متن کا ماخذ:
(آن لائن اشاعت ۔ القلم ریسرچ لائبریری)
www.alqlmlibrary.org /
تدوین و تصحیح اور ای بک:اعجاز عبید