صفحات

تلاش کریں

ناول - مراۃ العروس (مولوی ڈپٹی نزیر احمد)



  • باب پہلا: تمہید کے طور پر عورتوں کے لکھنے پڑھنے کی ضرورت اور ان کی حالت کے مناسب کچھ نصیحتیں
  • باب دوسرا: قصے کا آغاز اور جن لوگوں کا اس قصے میں بیان ہے، ان کے مختصر حالات
  • باب تیسرا: اکبری کی بدمزاجی اور اس کا سسرال سے روٹھ کر چلا آنا
  • باب چوتھا: اکبری کی شرارتیں، پھوہڑ پن، حمق اور بدمزاجیاں عین عید کے دن بے لطفی سے چلا جانا، ضمنا اصغری کی مدح
  • باب پانچواں: الگ گھر کرنے پر ساس (اکبری کی ماں) اور داماد (محمد عاقل) کا مباحثہ
  • باب چھٹا:ماں سے محمد عاقل کے الگ ہونے کی صلاح
  • باب ساتواں:اکبری کا الگ گھر اور اس کی بدانتظامی
  • باب آٹھواں:ایک کٹنی کا اکبری کو ٹھگنا
  • باب نواں:اصغری کا بیاہ اور اس کا مختصر حال
  • باب دسواں:بیاہی ہوئی لڑکیوں کے لیے عمدہ نصیحت
  • باب گیارہواں:بیاہ کے بعد اصغری کا برتاؤ اور بتدریج انتظام خانہ داری میں اس کا دخل
  • باب بارہواں:اصغری نے ماما عظمت کی چوری پکڑی وہ لگی اس سے دشمنی کرنے
  • باب تیرھواں:اصغری پر ماما کا پہلا وار
  • باب چودھواں: اصغری پر ماما کا دوسرا وار
  • باب پندرھواں:اصغری پر ماما کا تیسرا وار
  • باب سولہواں:خط اصغری کی طرف سے۔ ماما کی شرارتوں کے دفعے کا آغاز
  • باب سترھواں:ماما کی چوتھی شرارت
  • باب اٹھارھواں:اصغری نے کس حکمت سے اپنے میاں کو شب برات میں انار پٹاخے پھوڑنے سے باز رکھا
  • باب انیسواں: اصغری کے باپ اور سسرے کا آنا، لوگوں کا حساب کتاب ہونا اور آخر کار ماما عظمت کا رسوا ہو کر نکالا جانا
  • باب بیسواں:گھر میں دوسری ماما رکھنے کی صلاح
  • باب اکیسواں:گھر کے خرچ کا تعین
  • باب بائیسواں:ماما عظمت کی جگہ دیانت النساء رکھی گئی، اصغری کا انتظام خانہ داری
  • باب تئیس واں:اصغری نے اپنے میاں سے کھیل کود چھڑا کر اس کو پڑھنے پر متوجہ کیا
  • باب چوبیسواں:اصغری نے لڑکیوں کا مکتب بٹھایا
  • باب پچیسواں:اصغری کا انتظام مکتبی
  • باب چھبیسواں:انتظام مکتب کے متعلق ایک دلچسپ حکایت
  • باب ستائیسواں:اصغری اپنے میاں کو نوکری کے رستے پر لگاتی ہے
  • باب اٹھائیسوں: اصغری کے سمجھانے سے محمد کامل پردیس کو نکلا اور ترقی پائی
  • باب انتیسواں:محمد کامل کی آوارگی، اصغری نے جا کر اِس کی اصلاح کی اور جاتے وقت بہن اور بہنوئی کو گھر میں بسا گئی
  • باب تیسواں:اصغری کی صلاح سے مولوی محمد فاضل نے پنشن لی اور بڑے بیٹے محمد عاقل کو اپنی جگہ رکھوا دیا
  • باب اکتیسواں:محمودہ کی منگنی
  • باب بتیسواں:محمودہ کا بیاہ
  • باب تینتیسواں:اولاد کے تعلق پر ایک عمدہ نصیحت
  • باب چونتیس واں:خط

باب پہلا: تمہید کے طور پر عورتوں کے لکھنے پڑھنے کی ضرورت اور ان کی حالت کے مناسب کچھ نصیحتیں

جو آدمی دنیا کے حالات میں کبھی غور نہیں کرتا اس سے زیادہ کوئی احمق نہیں۔ غور کرنے کے واسطے دنیا میں ہزاروں طرح کی باتیں لیکن سب سے عمدہ اور ضروری آدمی کا پنا خیال ہے کہ جس روز سے آدمی پیدا ہوتا ہے زندگی میں اس کو کیا باتیں پیش آتیں اور کیوں کر اس کی حالت بدلا کرتی ہے۔
انسان کی زندگی میں سب سے اچھا وقت لڑکپن کا ہے۔ اس عمر میں آدمی کو کسی قسم کا فکر نہیں ہوتا۔ ماں باپ نہایت شفقت اور محبت سے اس کو پالتے ہیں اور جہاں تک بس چلتا، اس کو آرام دیتے ہیں۔ اولاد کے اچھا کھانے، اچھا پہننے سے ماں باپ کو خوشی ہوتی ہے بلکہ ماں باپ اولاد کے آرام کے واسطے اپنے اوپر تکلیف اور رنج تک گوارا کرلیتے ہیں۔ مرد جو باپ ہوتے ہیں، کوئی محنت مزدوری سے کماتے ہیں، کوئی پیشہ کرکے، کوئی سوداگری کرکے، کوئی نوکری۔ غرض جس طرح بن پڑتا ہے اولاد کی آسائش کے واسطے روپے کے پیدا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ عورتیں جو ماں ہوتی ہیں۔ کوئی ماں سلائی کا کام سیتی ہے، کوئی گوٹا بنتی ہے، کوئی ٹوپیاں کاڑھتی ہے یہاں تک کہ کوئی مصیبت کی ماری ماں چرخہ کات کر، چکی پیس کر، ماماگیری کرکے بچوں کو پالتی ہے۔ اولاد کی محبت جو ماں کو ہوتی ہے، ہرگز بناوٹ اور ظاہرداری کی نہیں ہوتی بلکہ سچی اور دلی محبت ہے اور خدائے تعالی نے، جو بڑا دانا ہے یہ ممتا اس لئیے ماں باپ کے پیچھے لگادی ہے کہ اولاد پرورش پائے۔ ابتدائے عمر میں بچے نہایت بے بس ہیں، نہ بولتے نہ سمجھتے، نہ چلتے نہ پھرتے۔ اگر ماں باپ محبت سے اولاد کو نہ پالتے تو بچے بھوکوں مرجاتے۔ کہاں سے ان کو روٹی ملتی، کس طرح کپڑا بہم پہنچاتے اور کیوں کر بڑے ہوتے؟ آدمی پر کیا موقوف ہے، جانوروں میں بھی اولاد کی مامتا بہت سخت ہے۔ مرغی بچوں کو دن بھر پروں میں چھپائے بیٹھی رہتی ہے اور اناج کا ایک دانہ بھی اس کو ملتا ہے تو آپ نہیں کھاتی، بچوں کو بلاکر چونچ سے ان کے آگے سرکا دیتی ہے اور اگر چیل یا بلی اس کے بچوں پر حملہ کرنا چاہے تو مطلق اپنی جان کا خیال نہ کرکے لڑنے اور مرنے کو موجود ہوجاتی ہے۔ غرض ہو نہ ہو یہ خاص محبت ماں باپ کو صرف اسی لئیے خدا نے دی ہے کہ ننھے ننھے بچوں کو جو ضرورت ہو اٹکی نہ رہے۔ بھوک کے وقت کھانا اور پیاس کے وقت پانی۔ سردی سے بچنے کو گرم کپڑا اور ہر طرح کی آرام کی چیز وقت مناسب پر مل جائے۔ دیکھنے سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ پھڑک اس وقت تک رہتی ہے جب تک بچوں کو اس کی ضرورت احتیاج ہوتی ہے۔ جب مرغی کے بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ ان کو پروں میں چھپانا چھوڑ دیتی ہے اور جب بچے چل کر پھر کر اپنا پیٹ بھرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو مرغی کچھ بھی ان کی مدد نہیں کرتی بلکہ جب بہت بڑے ہوجاتے ہیں تو ان کو اس طرح مارنے کو دوڑتی ہے گویا وہ ان کی ماں نہیں۔ آدمی کے ماں باپ کا بھی یہی حال ہے جب تک بچہ ہوتا ہے، ماں دودھ پلاتی ہے اور اس کو گود میں لادے لادے پھرتی ہے۔ اپنی نیند خراب کرکے بچے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے۔ جب بچہ اتنا سیانا ہوا کہ کچھڑی کھانے لگا، ماں دودھ بالکل چھڑادیتی ہے اور وہی دودھ جس کو برسوں پیار سے پلاتی رہی، سختی اور بے رحمی سے نہیں پینے دیتی۔ کڑوی چیزیں لگالیتی ہے اور بچہ ضد کرتا ہے تو مارتی اور گھرکتی ہے چند روز کے بعد بچوں کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ گود میں لینا تک ناگوار ہوتا ہے۔ کیا تم نے اپنے چھوٹے بہن بھائی کو اس بات پر مار کھاتے نہیں دیکھا کہ ماں کی گود سے نہیں اترتے۔ ماں خفا ہورہی ہے کہ کیسا ناہموار بچہ ہے کہ ایک دم نہیں چھوڑتا۔ ان باتوں سے یہ مت سمجھو کہ ماں کی محبت نہیں رہی۔ نہیں نہیں محبت تو ویسی ہی ہے مگر ہر حالت کے ساتھ ایک خاص طرح کی محبت ہوتی ہے اور اولاد کا حال یکساں نہیں رہتا۔ آج دودھ پیتے ہیں، کل کھانے لگے اور کام کرنے کے واسطے ماریں کھاتے ہیں۔ اگرچہ بے وقوفی سے بچے نہ سمجھیں مگر ماں باپ کے ہاتھوں سے جو تکلیف بھی تم کو پہنچے وہ ضرور تمہارے اپنے فائدے کے واسطے ہے۔ تم کو دنیا میں ماں باپ سے الگ ہوکر بہت دنوں جینا پڑے گا۔ کسی کے ماں باپ تمام عمر زندہ نہیں رہتے۔ خوش نصیب ہیں وہ لڑکے لڑکیاں جنہوں نے ماں باپ کے جیتے جی ایسا ہنر اور ایسا ادب سیکھا جس سے ان کی تمام زندگی خوشی اور آرام میں گزری، اور نہایت بدقسمت ہے وہ اولاد جنہوں نے ماں باپ کی زندگی کی قدر نہ کی اور جو آرام ماں باپ کی وجہ سے ان کو میسر ہوا اس کا اکارت اور ایسے اچھے فراغت اور بے فکری کے وقت کو سستی اور کھیل کود میں ضائع کیا۔ عمر بھر رنچ و مصیبت میں کاٹی۔ آپ عذاب میں رہے اور ماں باپ کو اپنے سبب عذاب میں رکھا۔ مرنے پر کچھ موقوف نہیں، شادی بیاہ ہوئے پیچھے اولاد ماں باپ سے جیتے جی چھوٹ جاتی ہے۔ لڑکوں لڑکیوں کو ضرور سوچنا چاہئیے کہ ماں باپ سے الگ ہوئے پیچھے ان کی زندگی کیوں کر گزرے۔
دنیا میں بہت بھاری بوجھ مردوں کے سر پر ہے۔ کھانا، کپڑا اور روزمرہ کے خرچ کی سب چیزیں روپے سے حاصل ہوتی ہیں اور سارا کھڑاگ روپے کا ہے۔ عورتوں کو بڑی خوشی کی بات ہے کہ اکثر روپیہ پیدا کرنے کی محنت سے محفوظ رہتی ہیں۔ مردوں کو دیکھو روپے کے لئیے کیسی کیسی سخت محنتیں کرتے ہیں۔ کوئی بھاری بوجھ سر پر اٹھاتا ہے۔ کوئی لکڑیاں چیرتا، سنار، لوہار، ٹھٹھیرا، کسیرا، کندلہ گر، زرکوب، دبکیہ، تارکش، ملمع ساز، جڑیا، سلمہ ستارہ والا، بٹیہ، جلدساز، مینا ساز، قلعہ گر، سادہ گر، صیقل گر، آئینہ ساز، زر دوز، منھیار، نعل بند، نگینہ ساز، کامدانی والا، سان گر، نیاریا، ڈھلیہ، بڑھئی، خرادی، ناریل والا، کنگھی ساز، بنس پھوڑ، کاغذی، جولاہا، رفوگر، رنگریز، چھیبی، دستاربند، درزی، علاقہ بند، نیچہ بند، موچی، مہرکن، سنگ تراش، حکاک، معمار، دبگر، کمہار، حلوائی، تیلی، تنبولی، رنگ ساز، گندھی وغیرہ جتنے پیشے والے ہیں، کسی کا کام جسمانی اور دماغی تکلیف سے خالی نہیں، اور روپے کی خاطر یہ تمام تکلیف مردوں کو سہنی اور اٹھانی پڑتی ہے۔ لیکن اس بات سے یہ نہیں سمجھنا چاہییے کہ عورتوں کو کھانے اور سو رہنے کا سوا دنیا کا کوئی کام مطلق نہیں بلکہ خانہ داری کے تمام کام عورتیں ہی کرتی ہیں۔ مرد اپنی کمائی عورتوں کے آگے لا کر رکھ دیتے ہیں اور عورتیں اپنی عقل سے اس کو بندوبست اور سلیقے کے ساتھ اٹھاتی ہیں۔ پس اگر غور سے دیکھو تو دنیا کی گاڑی میں جب تک ایک پہیہ مرد اور دوسرا عورت کا نہ ہو چل نہیں سکتی۔ مردو کو روپیہ کمانے سے اتنا وقت نہیں بچتا کہ اس کو گھر کے کاموں میں صرف کریں۔ اے لڑکو! وہ بات سیکھو کہ مرد ہوکر تمہارے کام آئے اور اے لڑکیو! ایسا ہنر ایسا حاصل کرو کہ عورت ہونے پر تم کو اس سے خوشی اور فائدہ ہو۔ بے شک عورت کو خدا نے مرد کی نسبت کسی قدر کمزور پیدا کیا ہے لیکن ہاتھ، پاؤں، آنکھ، یادداشت، سوچ، سمجھ سب چیزیں مردوں کے برابر عورتوں کو دی گئی ہیں۔ لڑکے ان ہی چیزوں سے کام لے کر ہر فن میں طاق اور ہر ہنر میں مشاق ہوجاتے ہیں۔ لڑکیا اپنا وقت گڑیاں کھیلنے اور کہانیاں سننے میں کھوتی ہیں۔ ویسی ہی بے ہنر رہتی ہے اور جن عورتوں نے وقت کی قدر پہچانی اور اس کو کام کی باتوں میں لگایا۔ ہنر سیکھا، لیاقت حاصل کی، وہ مردوں سے کسی بات میں ہیٹی نہیں رہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کو دیکھو، عورت ذات ہو کر کس دھوم اور کس شان اور کس ناموری اور کس عمدگی کے ساتھ اتنے بڑے ملک کا انتظام کر رہی ہیں کہ دنیا میں کسی بادشاہ کو آج تک یہ بات نصیب نہیں۔ جب ایک عورت نے سلطنت جیسے کٹھین کام کو اور سلطنت بھی ماشاءاللہ اس قدر وسیع اور ایسے نازک وقت کہ بات منہ سے نکلی اور اخبار والوں نے بتنگڑ بنایا، اتنی مدت دراز تک سنبھالا اور ایسا سنبھالا کہ جو سنبھالنے کا حق ہے۔ تو اب عورتوں کی خداداد قابلیت میں کلام کرنا نری ہٹ دھرمی ہے۔
بعض نادان عورتیں خیال کرتی ہیں کہ کیا لکھ پڑھ کر ہم کو مردوں کی طرح نوکری کرنی ہے لیکن اگر کسی عورت نے لکھ پڑھ لیا ہے اور اس نے نوکری نہیں کی تو اس کا لکھنا پڑھنا اکارت بھی نہیں گیا۔ اس کو اور بہتیرے فائدے پہنچے جن کے مقابلے میں نوکری کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ جو لوگ علم کو صرف نوکری کا وسیلہ سمجھ کر پڑھتے ہیں ان کو علم کی قدر نہیں۔ سچ پوچھو تو علم کے آگے نوکری ایسی ہے جسے سودے کے ساتھ روکھن۔ کہاں سے بیان قوت لائیں کہ تم کو علم کے فائدے سمجھائیں۔ ظاہر کی دو آنکھیں تو ہمارے تمہارے سب کے منہ پر ہیں۔ کبھی اندھے فقیروں کی دعا سنو۔ کس حسرت سے کہتے ہیں۔ "بابا آنکھیاں بڑی نعمت ہیں۔" شاید کوئی بھی ایسا سنگ دل نہ ہوگا جس کو اندھوں کی معذوری اور بے کسی پر رحم نہ آتا ہو، لیکن دل کے اندھے جن کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا ان سے کہیں زیادہ قابل رحم ہیں۔ انگریزوں کی ولایت میں تو اندھوں کی تعلیم کا ایسا عمدہ انتطام ہے کہ اندھے ٹٹول ٹٹول کر اچھی طرح اخبار اور کتابیں پڑھ لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے اندھے بھی بعض ایسے بلاکے ذہین ہوتے ہیں کہ سوئی پروئیں، سئیں، اکیلے سارے شہر کے گلی کوچوں میں بے دھڑک دوڑے دوڑے پھریں۔ کھوٹا کھرا روپیہ پرکھیں۔ قرآن کا حفظ کرلینا تو اندھے کے لئیے معمولی بات ہے۔ غدر سے پہلے پہلے شہر میں گنتی کے دوچار مادرزاد اندھے مولوی بھی تھے۔ غرض آنکھوں کا اندھا ہونا مصیبت ہے، مگر نہ ایسی کہ جیسے دل کا اندھا (یعنی جاہل ہونا) افسوس کورئی دل کے نقصانات سے لوگ واقف نہیں اور یہی وجہ ہے کہ عالم و فاضل ہونا تو درکنا، ہزار پیچھے ایک بھی پڑھا لکھا نظر نہیں آتا۔
یہ تو مردوں کا مذکور ہے، جن کو پڑھ لکھ کر روٹی کمانی ہے۔ عورتوں میں پڑھنے لکھنے کا چرچا اس قدر کم ہے کہ دلی جیسے غدار شہر میں اگر مشکل سے سو سوا سو عورتیں، وہ بھی شاید حرف شناس نکلیں بھی تو اس کو چرچا نہیں کہہ سکتے۔ پھر اگر چرچا نہ ہو تو خیر چنداں مضائقے کی بات نہیں۔ مصیبت تو یہ ہے کہ اکثر عورتوں کے لکھانے پڑھانے کو عیب اور گناہ خیال کرتے ہیں ان کو خدشہ یہ ہے کہ ایسا نہ ہو لکھنے پڑھنے سے عورتوں کی چار آنکھیں ہوجائیں۔ لیکن مردوں سے خط و کتابت کرنے اور خدانخواستہ کل کلاں ان کی پاک دامنی اور پردہ داری میں کسی طرح کا فتور واقع ہو۔ یہ صرف شیطانی وسوسے ہیں اور ملک کی خصوصا عورتوں کی بدقسمتی لوگوں کو بہکا اور بھڑکا رہی ہے۔ اول تو ہم ایک ذری سی بات یہی پوچھتے ہیں کہ علم انسان کی اصلاح کرتا ہے یا الٹا اس کو بگاڑتا اور خرابی کے لچھن سکھاتا ہے؟ اگر بگاڑتا ہے تو مردوں کو بھی پڑھنے لکھنے کی مناہی ہونی چاہئیے تا کہ بگڑے نہ پائیں اور مرد بگڑیں گے تو کبھی کبھی ان کا بگاڑ عورتوں میں اثر کرے گا پر کرے گا۔ دوسرے انصاف شرط ہے۔ بے شک بعض پڑھے لکھے مرد بھی آوارہ بدوضع ہوتے ہیں۔ لیکن کیا علم نے ان کو آوارگی اور بدوضعی سکھائی؟ نہیں نہیں، آوارگی اور بدوضعی انہوں نے بری صحبت میں سیکھی یا کھجلی اور کوڑھ کی طرح ان کو اڑ کر لگی اور پڑھ لکھ کر ان کی برائی، مثلا چھٹانک بھر ہے تو نہ پڑھنے کی صورت میں یقین جانو سیر سوا سیر ہوتی۔ بایں ہمہ، مثلا سو پڑھے لکھوں پر نظر ڈالو تو کوئی اکادکا شامت زدہ خراب ہو تو ہو ورنہ خدا نے چاہا تو اکثر نیک، بھلے مانس، ماں باپ کا ادب کرنے والے، بھائی بہنوں سے محبت رکھنے والے، بڑے کو بڑے اور چھوٹے کو چھوٹے کی جگہ سمجھنے والے، دنگے فساد اور بری صحبت سے دور بھاگنے والے، روزے رکھنے والے، سچ بولنے والے، غریبوں پر ترس کھانے والے، غصے کے پی جانے والے، بزرگوں کی نصیحت پر چلنے والے، لحاظ شرم والے، جیسا کپڑا میسر آیا شکرگزاری کے ساتھ کھانے والے ملیں گے۔ ہماری بھی ساری عمر ایسے ہی لوگوں میں گزری ہے۔ ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ جو شخص علم کو بدنام کرتا ہے، آسمان پر تھوکتا ہے اور چاند پر خاک ڈالتا ہے۔ بےشک بعض برے لوگوں نے بری کتابیں دنیا میں پھیلادی ہیں اردو میں اس قسم کی کتابیں بہت کم ہیں اور جو ہیں بسلسلہ درس سے خارض اور ان کا پڑھنا اور سننا کیا مرد کیا سب ہی کے حق میں زبون ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ آنکھ بری جگہ بھی پڑ سکتی ہے یا زبان سے بعض نالائق کوستے، جھوٹ بولتے، گالیاں بکتے، بلاضرورت قسم کھاتے یا لوگوں کے پیٹھ پیچھے ان کی بدیاں روتے ہیں جس کو غیبت کہتے ہیں، نہ آنکھیں پھوری جاتی ہیں نہ زبان کاٹی جاتی ہے۔ تو صرف علم نے کیا قصور کیا ہے کہ ایک لغو اور بے اصل احتمال کی بنیاد پر عورتوں کو اس کے بے انتہا دینی اور دنیاوی فائدوں سے محروم رکھا جائے؟ کیا اتنا نہیں ہوسکتا کہ بےہودہ کتابوں کو مستورات کی نظر سے نہ گزرنے دیں؟ علاوہ بریں آدمی کے دل کو خدا نے بنایا ہے آزاد۔ جب انسان کو کسی پر مجبور کیا جائے تو وہ چار و ناچار اس کام کو کرتا ہے، مگر نہ اس عمدگی اور خوبی کے ساتھ جیسا کہ خود اپنے دل کے تقاضے سے ۔ کہاں تو دوسروں کی زبردستی اور کہاں اپنا شوق۔ مثلا لڑکے بعض تو وہ ہیں جن کو خود پڑھنا کا مطلق شوق نہیں۔ اس واسطے کہ نادان ہیں، بے سمجھ ہیں۔ اتنا نہیں جاتنے کہ آج کو جی لگا کر پڑھ لکھ لیں گے تو بڑے ہوئے پیچھے ہمارے ہی کام آئے گا۔ دنیا میں ہماری عزت و آبرو ہوگی۔ دنیا اور دین دونوں میں ہمارا بھلا ہوگا۔ تو ایسے بدشوق لڑکے کبھی خوشی سے مدرسے نہیں جاتے۔ گھر والوں نے زبردستی دھکیل دیا یا مکتب کے لڑکے آئے اور ٹانک کر لے گئے، زبردستی گئے، بےدلی سے بیٹھے رہے، چھٹی ملی، نہ کچھ پڑھا نہ لکھا، کورے واپس آئے۔ دوسرے قسم کے لڑکے وہ ہیں جن کی قسمت میں خدا نے کچھ بہتری لکھی ہے وہ آپ سے بے کہے، بے بھیجے، بے بلائے وقت سے پہلے مدرسے کو دوڑے چلے جاتے ہیں۔ جاتے ہی آموختہ پڑھا، مطالعہ کیا، سبق لیا اور آخر وقت تک اس میں لگے لپٹے رہے۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ ان دونوں قسم کے لڑکوں میں کس سے امید کی جاسکتی ہے کہ لکھ پڑھ کر امتحان پاس کرلے گا، گھر بیٹھے اس کو نوکری کے لئیے بلاوے آئیں گے۔ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ بےشک جس کو شوق ہے اسی کو فوق ہے۔
اسی طرح ہماری عورتوں میں حیا، پاکدامنی، پردہ داری، نیکی جو کچھ سمجھو خدا کے فضل و کرم سے بہتر ہی ہے۔ مگر برا مانو یا بھلا مانو، ابھی تک ہے مجبوری کی۔ یعنی، مذہب اور ملکی رواج اور مردوں کی حکومت نے عورتوں کو زبردستی نیک بنا رکھا ہے لیکن اگر خود عورتوں کے دل میں نیکی کا تقاضا ہو تو سبحان اللہ نور علٰی نور۔ ایک تو سونا کھرا، اوپر سے ملا سہاگہ، کیا کہنا ہے۔ مگر دل سے نیکی کے تقاضے کے پیدا ہونے کے علم کے سوا اور کوئی تدبیر ہی نہیں۔ بس جو لوگ عورتوں کو علم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ گویا ان کو سچی اور حقیقی پاکیزہ اور بے لوث اور کھری اور پائیدار نیک دلی سے روکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خدا نے جاہل رہنے کے لئیے نہیں بنایا۔ جس حالت میں عورتیں اب ہیں، اس کے لیے انہیں اتنی عقل کی کیا ضرورت ہے؟ بس خدا نے جو عورتوں کو اتنی ساری عقل دی ہے ضرور کسی بڑے کام کے لیے دی ہے۔ یعنی، علم حاصل کرنے کے لیے۔ لیکن اگر عورتیں عقل سے علم حاصل کرنے کا کام نہ لیں۔ تو ان کی مثال ایسی ہوگی جیسے ہندوؤں کے جوگی جو اپنا ہاتھ سکھا کر مصلحت الٰہی کو باطل کرتے ہیں۔ کیوں صاحب ہاتھ کا خشک اور بے کار کردینا بہتر یا اس کو نیک کام میں لاکر دنیا کا فائدہ اور دین کا ثواب حاصل کرنا بہتر؟ مسلمانوں کی تشفی کے لیے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی بات ہو نہیں سکتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی علیہ اللہ تعالٰی عنہہ سر بر آوردہ تھیں۔ ایک دن دونوں بیٹھی ہوئی باتیں کررہی تھیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم آنکلے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف اشارہ کر کے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان فرمایا کہ ان کو بھی لکھنا سکھاؤ۔ ہر چند پردہ نشینی کی وجہ سے دنیا کے بہت سے کام عورتوں کو معاف ہیں لیکن پھر بھی خیال کرو تو عورتیں نری نکمی نہیں ہیں۔
خانہ داری بدون عورت کے ایک دن نہیں چل سکتی۔ مرد کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو ممکن نہیں کہ عورت کی مدد کے بدون گھر چلاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کے مرنے کو خانہ ویرانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پس اگر دنیا کے کسی کام میں بھی بکارآمد ہے تو بڑے تعجب کی بات ہے کہ خانہ داری کے اتنے بھاری کام میں جو مردوں کے سنبھالے نہ سنبھلے بکارآمد نہ ہو۔ پر یوں کہو کہ لوگوں کو اپنے معاملات پر غور کرنے اور سوچنے کی عادت نہیں۔ اگلے لوگ بری یا بھلی جو راہ نکال گئے ہیں، دائیں بائیں کچھ نہیں دیکھتے۔ بھیڑوں کی طرح اس پر آنکھیں بند کيے چلے جاتے ہیں۔ خانہ داری منہ سے کہنے کو تو ایک لفظ ہے مگر اس کے معنی اور مطلب پر نظر کرو تو پندرہ بیس کے فرق سے خانہ داری اور دنیا داری ایک ہی چیز ہے۔ خانہ داری میں جو کام کرنے پڑتے ہیں ان کی فہرست منضبط نہیں ہوسکتی۔ شادی، غمی، تقریبات، مہمان داری، لین دین، نسبت نامہ، پیسنا، پکانا، سینا پرونا، خدا جانے کتنے بکھیڑے ہیں، جس نے گھر کیا ہو اسی کو کچھ خبر ہوگی۔ لیکن اس خانہ داری میں اولاد کی تربیت بھی اور کسی کام میں عورتوں کو علم کی ضرورت شاید نہ بھی ہو، مگر اولاد کی تربیت تو جیسی چاہیے بے علم کے ہونی ممکن نہیں۔ لڑکیا تو بیاہ تک اور لڑکے اکثر دس برس کی عمر تک گھروں میں تربیت پاتے ہیں اور ماؤں کی خو بو ان میں اثر کرجاتی ہے۔ پس اے عورتو! اولاد کی اگلی زندگی تمہارے اختیار میں ہے چاہو تو شروع سے ان کے دلوں میں ایسے اونچے ارادے اور پاکیزہ خیال بھر دو کہ بڑے ہوکر نام و نمود پیدا کریں اور تمام عمر آسائش میں بسر کرکے تمہارے شکرگزار رہیں! اور چاہو تو ان کے افتاد کو ایسا بگاڑ دو کہ جوں جوں بڑے ہوں خرابی کے لچھن سیکھتے جائیں اور انجام تک اس ابتدا کا تاسف کریں۔ لڑکوں کو بولنا آہا اور تعلیم پانے کا مادہ حاصل ہوا۔ اگر ماؤں کو لیاقت ہو تو اسی وقت سے بچوں کو تعلیم کر چلیں۔ مکتب یا مدرسے بھیجنے کے انتظار میں لڑکوں کے کئی برس ضائع ہوجاتے ہیں۔ بہت چھوٹی عمر میں نہ تو خود لڑکوں کو مدرسے جانے کا شوق ہوتا ہے اور نہ ماؤں کی محبت اس بات کو گوارا کرتی ہے کہ ننھے ننھے بچے جو ابھی اپنی ضرورتوں کے ضبط پر قادر نہیں ہیں استاد کی قید میں رکھے جائیں۔ لیکن اگر مائیں چاہیں اسی وقت میں ان کو بہت کچھ سکھا پڑھا دیں۔ لڑکے مدرسے میں بیٹھنے کے بعد بھی مدتوں تک بے دلی سے پڑھا کرتے ہیں اور کہیں بہت دنوں میں ان کی استعداد کو ترقی ہوتی ہے۔ اس تمام وقت میں ان کو ماؤں سے یقینا بہت مدد مل سکتی ہے۔ اول تو ماؤں کی سی شفقت اور دلسوزی کہاں؟ دوسرے رات دن کا برابر پاس رہنا، جب ذرا طبیعت متوجہ دیکھی جھٹ کوئی حرف پہنچوادیا۔ یا کچھ گنتی ہی یاد کرادی۔ کہیں پورپ پچھم کا امتیاز بتا دیا۔ مائیں تو باتوں باتوں میں سکھا سکتی ہیں اور ماؤں کی تعلیم میں ایک یہ کتنا بڑا لطف ہے کہ لڑکوں کی طبیعت کو وحشت نہیں ہونے پاتی اور شوق کو ترقی ہوجاتی ہے۔ اولاد کی تہذیب ان کی پرورش کی تدبیر، ان کی جان کی حفاظت ان کے اختیار میں ہے۔ اگر خدا نخواستہ کہیں اس سلیقے میں کمی ہو تو اولاد کی زندگی معرض خطر میں ہے۔ اہسا کون کمبخت ہوگا جس کو ماؤں کی محبت میں کلام ہو۔ لیکن وہی محبت اگر نادانی کے ساتھ برتی جائے تو ممکن ہے کہ بجائے نفع کے الٹا نقصان پہنچائے۔ ذرا انصاف کرو، کیا ہزاروں جاہل اور کم عقل مائیں ایسی نہیں ہیں جو اولاد کے ہر ایک مرض کو نظرگزار اور پرچھانواں اور جھپیٹا اور آسیب سمجھ کر بجائے دوا کے جھاڑ پھونک اتار کیا کرتی ہیں؟ ورنہ مناسب علاج کا اثر تم ہی سمجھ لو کیا ہوتا ہوگا۔ عرض یہ کہ کل خانہ داری کی بلکہ یوں کہو کہ دنیاداری کی درستی موقوف ہے عقل پر عقل کی علم پر۔ اس بات کو ہر کوئی تسلیم کرے گا کہ عورت میں سب سے بڑا ہنر یہ ہونا چاہئیے کہ جس کے پلے بندھی ہے آپ اس سے راضی رہے اور اس کو اپنے راضی اور خوش رکھے۔
تم نے بہشت اور دوزخ کا نام سنا ہوگا۔ سچ مچ کی دوزخ اور بہشت تو دوسرے جہان کی چیزیں ہیں، مرے پیچھے ان کی حقیقت کھلے گی۔ لیکن ان کی شکلیں گھر گھر دنیا میں موجود ہیں اور ان کی پہچان کیا ہے؟ میاں بی بی کا آپس کا پیار و اخلاص۔ جس گھر میں میاں بیوی محبت اور سازگاری سے زندگی بسر کرتے ہیں، بس سمجھ لو کہ ان کو دنیا ہی میں بہشت ہے اور اگر آئے دن کی لڑائی ہے، جھگڑا ہے، یہ اس سے خفا، وہ اس سے ناراض تو جانو دونوں جیتے جی جہنم میں ہیں۔ سازگاری کے ساتھ ساری مصیبتیں انگیز کی جاسکتی ہیں بلکہ اس کی ایذا تک محسوس نہیں ہوتی اور سازگاری نہیں تو زندگی میں کچھ مزہ داری نہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ سازگاری کے لیے عورتوں کو زیادہ اہتمام کرنا ہوگا اس لیے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا پلا بالکل ہلکا ہے۔ کچھ راہ چلتے کی صاحب سلامت نہیں کہ تم روٹھے ہم چھوٹے بلکہ مرنے بھرنے کا تعلق ہے۔ سازگاری پیدا کرے کے لیے جو تدبیریں عورت کے اختیار کی ہیں ان سب میں بہتر سے بہتر ہمارے سمجھنے کی لیاقت ہے۔ لڑکیاں شرم کے مارے منہ سے نہ کہیں لیکن دل سے تو ضرور جانتی ہیں کہ کوارپتے کے دن تھوڑے ہیں۔ آخر بیاہی جائیں گی۔ بیاہے پیچھے بالکل نئی طرح کی زندگی بسر کرنا پڑتی ہے، جیسا کہ تم ماں اور نانی اور خالہ اور کنبے کی تمام عورتوں کو دیکھتی ہو۔ کوارپتے کا وقت تو بہت تھوڑا ہے۔ اس وقت کا اکثر حصہ تو بےتمیزی میں گزر جاتا ہے۔ وہ پہاڑ سی زندگی تو آگے آرہی ہے جو طرح طرح کے جھگڑوں اور انواع و اقسام کے بکھیڑوں سے بھری ہوئی ہے۔ اب تم غور کرو کہ تم کوئی انوکھی لڑکی تو ہو نہیں کہ بیاہ ہوئے پیچھے تم کو کچھ اور بھاگ لگ جائیں گے۔ جو دنیا جہان کی بہو بیٹیوں کو پیش آتی ہے وہ تم کو بھی پیش آئے گی۔ پس سوچنا چاہئیے کہ بیاہ ہوئے پیچھے عورتیں کس طرح زندگی بسر کرتی ہیں، کیسی ان کی عزت کی جاتی ہے، کہاں تک مرد ان کی خاطر داری کرتے ہیں۔ خاص طور پر لوگوں کی حالت پر تو بالکل غور مت کرو بعض جگہ اتفاق سے زیادہ ملاپ ہوا، عورت مرد پر غالب آگئی اور جہاں زیادہ ناموافقت ہوئی عورت کا دفتر بالکل اٹھ گیا۔ یہ تو بات ہی الگ ہے۔ ملک کے عام دستور اور عام رواج کو دیکھو۔ سو عام دستور کے موافق ہم تو عورتوں کی کچھ خاص قدر دیکھتے نہیں۔ ناقصات العقل تو ان کا خطاب ہے۔ تریاہٹ، تریا چرتر مردوں کے زبان زد۔ عورتوں کے مکر مذمت قرآن میں موجودہ ان کید کن عظیم یعنی، مرد لوگ عورتوں کی ذات کو بے وفا جانتے ہیں۔

اسپ و زن و شمشیر وفادار کہ دید

ایک شاعر نے عورتوں کی وجہ تسمیہ میں بھی ان کی مذمت پیدا کی ہے۔

اگر نیک بودے سر انجام زن
زنان رامزن نام بودے نہ زن

یہ سب باتیں کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ خانہ داری کے برتاؤ دیکھو تو گھر کی ٹہل خدمت کے علاوہ دنیا کا کوئی عمدہ کام بھی عورتوں سے لیا جارا ہے یا کسی عمدہ کام کے صلاح یا مشورے میں عورتیں شریک ہوتی ہیں؟ جن گھروں میں عورتوں کی بڑی عزت اور بڑی خاطرداری ہے وہاں بھی جب عورت سے پوچھا جاتا ہے تو یہی "کیوں بی" آج کیا ترکاری پکے گی؟ لڑکی کے ٹاٹ بافی جوتی منگواؤگی یا ڈیڑھ حاشیہ کی؟ چھالیہ مانک چندی لوگی یا جہازی؟ زردہ پوربی لینا منظور ہے یا امانت خانی؟ رضائی کو اودی گوٹ لگے گی یا سرمئی؟ اس کے سوا کوئی عورت بتادے کہ کبھی مردوں نے اس سے بڑی باتوں میں صلاح لی ہے یا کوئی بڑا کام اس کے اختیار میں چھوڑ دیا ہے؟ پس اے عورتو! کیا تم کو ایسے برے حالوں میں جینا ناخوش نہیں آتا؟ اپنی بے اعتباری اور بےوقری پر افسوس نہیں ہوتا؟ کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ مردوں کی نظر میں تمہاری عزت ہو، تمہاری عقل پر ان کو اعتماد اور بھروسا ہو؟ تم نے اپنے ہاتھوں اپنا وقار رکھا ہے اپنے کارن نظروں سے گری ہو۔ تم کو قابلیت ہو تو مردوں کو کب تک خیال نہ ہوگا؟ تم کو لیاقت ہو تو مردوں کو کہاں تک پاس نہ ہوگا؟ مشکل تو ہے کہ تم صرف روٹی دال پکالینے اور پھٹا پرانا سی لینے کو لیاقت سمجھتی ہو۔ پھر جیسی لیاقت ہے، ویسی قدر ہے۔ تمہاری اس بالفعل کی حالت اور جہالت پر ایک بدعقلی اور ایک مکر و فریب کیا اگر دنیا بھر کے الزام تم پر لگائے جائیں تو واجب اور سارے جہان کی برائیاں تم میں نکالی جائیں تو بجا۔
اے عورتو ں تم مردوں کے دل بہلاوا اور ان کی زندگی کا سرمایہ عیش، ان کی آنکھوں کی بہار و باغ، ان کی خوشی کو زیادہ اور ان کے غم غلط کرنے والیاں ہو۔ اگر تم کو مردوں سے بڑے کاموں کے انتظام کا سلیقہ ہو تو مرد تمہارے پاؤں دھو دھو کر پیا کریں اور تم کو اپنا سرتاج بنا کر رکھیں۔ تم سے بہتر ان کا غم گسار، تم سے بہتر ان کا اصلاح کار، تم سے بہتر ان کا خیر خواہ اور کون ہوگا۔ لیکن بڑے کاموں کا سلیقہ تم کو حاصل ہو تو کیوں کر؟ گھر کی چار دیواری میں تو تم قید ہو۔ کسی سے ملنے کی تم نہیں۔ کسی سے بات کرنے کی تم نہیں۔ عقل ہو یا سلیقہ،آدمی آدمی سے سیکھتا ہے۔ مرد لوگ پڑھ لکھ کر عقل و سلیقہ حاصل کرتے ہیں اور جو پڑھے لکھے نہیں وہ بھی ہزاروں طرح کے لوگوں سے ملتے، دس سے دس قسم کی باتیں سنتے ہیں۔ اس پردے سے تم کو نجات کی امید نہیں۔ بہت کچھ ہمارے ملکی دستور اور رواج نے اور کسی قدر مذہب نے پردہ نشینی کو عورتوں پر فرض و واجب کردیا ہے اور اب اس رواج کی پابندی بہت ضروری ہے۔ پس سوائے لکھنے پڑھنے کے اور کیا تدبیر ہے کہ تمہاری عقلوں کو ترقی ہو؟ بلکہ مردوں کی نسبت عورتوں کو پڑھنے لکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ مرد تو باہر چلنے پھرنے والے ٹہرے۔ لوگوں سے مل جل کر بھی تجربہ حاصیل کرلیں گے۔ تم گھر میں بیٹھی بیٹھی کیا کرو گی؟ سینے کی بقچی سے عقل کی پڑیا نکال لوگی یا اناج کی کوٹھڑی سے تجربے کی جھولی بھر لاؤگی؟ پڑھنا لکھنا سیکھو کہ پردے میں بیٹھے بیٹھے ساری دنیا کی سیر کرلیا کرو۔ علم حاصل کرو کہ گھر کے گھر میں زمانے بھر کی باتیں تم کو معلوم ہوا کریں۔ پھر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا ان ہی چند گھروں سے عبارت نہیں ہے جس میں تم رہتی ہو یا آتی جاتی ہو، اور نہ دلی یا ان تھوڑے شہروں سے عبارت ہے جن کے نام تم نے سنے ہیں۔ خیر تمام دنیا کے حالات بیان کرنے کا تو محل نہیں۔ تم کو شوق ہو تو پڑھ لکھ کر جغرافیہ اور تاریخ کی کتابوں کی سیر کرنا۔ تب جانو گی کہ دنیا کتنی بڑی ہے۔ کیسے کیسے ردو بدل اس میں ہوتے آئے ہیں۔
بہر کیف اس وقت کا یہ رنگ ہے کہ سارے ہندوستان پر انگریز قابض ہیں۔ ان لوگوں میں مرد، عورت، امیر، غریب، نوکری پیشہ، سوداگر، اہل حرفہ، کاری گر، زمین دار، کاشت کار سب کے سب پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور اسی سے خدا نے ان کو ترقی دی ہے کہ کہاں ان کی ولایت اور کہاں ہندوستان۔ چھ سات ہزار میل کا فاصلہ اور بیچ میں سمندر۔ مگر علم کے زور سے اس ملک میں آئے، علم ہی کے زور سے اس کو اس خوبی اور عمدگی کے ساتھ چلارہے ہیں کہ روئے زمین کی کسی سلطنت میں ایسا امن و انصاف اور ایسا انتظام نہیں۔ کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں کہ دانش مند منصف اور خداترس بادشاہ کو رعیت اپنی اولاد سے بڑھ کر پیاری ہوتی ہے۔ پس انگریز جس دن اس ملک میں آئے اسی دن سے اس بات کے پیچھے پڑے ہیں کہ ہندوستان کے لوگ لکھیں پڑھیں، لیاقت حاصل کریں کہ ان کا افلاس دور ہو۔ ظلم زبردستی کرنا تو انگریزوں کا دستور نہیں مگر جہاں تک سمجھانے سے، لالچ دکھانے سے ہوسکتا ہے علم کو ترقی دے رہے ہیں۔ گاؤں گاؤں مدرسے بٹھادئیے ہیں۔ پڑھنے والوں کو وظیفے اور انعام دئیے جاتے ہیں۔ جو لوگ امتحان پاس کرتے ہیں ان کو نوکری ملتی ہے۔ سو خدا کے فضل سے اتنا تو ہوا ہے کہ لکھنے پڑھنے کا بہت رواج ہوگیا ہے اور ہوتا جاتا ہے۔ یہی ایک ڈھنگ ہے تو کوئی دن کو دھوبی، سقے، مزدور تک لکھنے پڑھنے لگیں گے۔ بھلا پھر ان پڑھ اور جاہل اشراف لوگوں کی، مرد ہوں یا عورت کیا عزت باقی رہ جائے گی؟
انگریزی عمل داری میں ہزاروں قسم کی نئی چیزیں چل پڑی ہیں۔ ان میں سے ایک عجیب اور بڑے کام کی ریل ہے جس کی وجہ سے مہینوں کے رستے گھنٹوں میں طے کیے جاتے ہیں اور وہ بھی کس سہولت اور آسائش کے ساتھ کہ سفر کا سفر اور تفریح کی تفریح۔ یہی سبب ہے کہ لوگ جیسے پردیس کے کام سے گھبراتے تھے، اب سفر کے لیے بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ یہ ہماری یاد کی بات ہے کہ جب کوئی حج کا ارادہ کرتا تو یہ سمجھ کر گھر سے نکلتا کہ بس مجھ کو لوٹ کر آنا نہیں۔ یا اب ریل اور دخانی جہازوں کے طفیل میں یہ حال ہوگیا ہے کہ ذیقعد میں گھر سے نکلے، محرم کے آخر ہوتے ہوتے مکے مدینے دونوں کی زیارت کرکے اصل خیر آموجود ہوئے۔ اور لوگوں میں خیر مگر نوکری پیشہ تو شاذونادر کوئی گھر کے گھر موجود ورنہ جس کو سنو پردیس۔ لیکن پردیس سے آپس کے تعلقات تو نہیں چھوٹتے۔ ایک بار بڑے دن کی تعطیل میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ذرا گورکھپور اور دلی کے فاصلے تو دیکھو اور باوجود یہ کہ گورکھپور سے دلی تک برابر ریل نہ تھی۔ آٹھ دن کی چھٹی میں آنے جانے کو اور پورے پانچ دن دہلی میں ٹہرنے کو۔ دیکھو بھلے کو انگریز کی عمل داری ہوگئی تھی کہ ہم نے یہ آرام بھی دیکھ ليے۔
خیر تو غرض یہ کہ چھٹی میں دلی آیا ہوا تھا کہ ایک بی بی اپنے میاں کے نام خط لکھوانے آئیں۔ بتاتی گئیں، میں لکھتا گیا۔ بہت سی باتیں ان کے منہ تک آتی تھیں مگر لحاظ کے مارے کہہ نہیں سکتی تھیں۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ان کو سمجھایا کہ خدا نے تمہاری روزی اتاری پردیس میں، اور پردیس بھی مہینے دو مہینے کا نہیں بلکہ ساری عمر کا۔ اس سے تم آپ لکھنا کیوں نہیں سیکھ لیتیں؟ تو وہ بڑی حسرت کے ساتھ کہنے لگیں، بھلا کہیں اب میری عمر لکھنا سیکھنے کی ہے؟ بال بچوں کے بکھیڑے میں پندرہ پندرہ دن گزر جاتے ہیں کہ سردھونے کی نوبت نہیں آتی۔ بچپن میں قرآن پڑھا تھا خیر شکر ہے استانی جی کی برکت سے بھولا تو نہیں مگر مشکل سے گھڑیوں میں جاکر ایک مہینا بھی چھوڑدوں تو سارا قرآن سپاٹ ہوجائے۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ جب تم کو قرآن یاد ہے تو لکھنا سیکھ لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ ہر روز تو تم پڑھ لیتی ہوگی۔ وہ بولیں، ہاں، کچھ یوں ہی سی اٹک اٹک کر اور اکثر لفظ رہ جاتے ہیں۔ مگر چھپا ہوا خاصی طرح سے نکال لیتی ہوں
۔ میں نے کہا، بس تو تم کو استاد کی ضرورت بھی نہیں۔ نقل کرتے کرتے لکھنا آجائے گا۔ ان بیبی نے دل میں میری بات کو تسلیم تو کیا مگر کہنے لگیں، شرم سی آتی ہے۔ تب تو میں نے خوب آڑے ہاتھوں لیا کہ دوسروں کے پاس حاجت لے جاتے ہوئے، دوسری کی خوشامد کرتے ہوئے، دوسروں پر چبا چبا کر اپنے حالات ظاہر کرتے ہوئے تم کو شرم نہیں آتی اور لکھنا سیکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ کیا لکھنا کچھ عیب ہے یا گناہ ہے؟ میں نے سنا کہ اس کے بعد سے ان بی بی نے اپنا خط کسی سے نہیں لکھوایا اور پھر تو ان کو لکھنے کا ایسا شوق ہوا کہ جن بیبیوں کے مرد پردیس میں تھے خط لکھنے کو اب ان کے سر ہوتی تھی۔
لکھنے کو لوگوں نے ناحق بدنام کررکھا ہے کہ مشکل ہے، مشکل۔ کچھ بھی مشکل نہیں۔ لیکن فرض کرو کہ پڑھنے کی نسبت لکھنا کسی قدر مشکل ہے بھی تو ویسے ہی اس کے مصنفین بھی ہیں۔ جو شخص پڑھنا جانتا اور لکھنا نہیں جانتا، اس کی مثال اس گونگے کی سی ہے جو دوسروں کی سنتا اور اپنی نہیں کہہ سکتا۔ اگر کوئی شخص شروع شروع میں کسی کتاب سے زیادہ نہیں، ایک سطر، دو سطر روز نقل کرلیا کرے اور اسی قدر اپنے دل سے بنا کر لکھا کرے اور اصلاح لیا کرے اور نقل کرنے اور لکھنے سے جھینپے اور جھجکے نہیں تو ضرور چند مہینوں میں لکھنا سیکھ جائے گا۔ خوش خطی سے مطلب نہیں۔ لکھنا ایک ہنر ہے جو ضرورت کے وقت بہت کام آتا ہے۔ اگر غلط ہو یا حرف بدصورت اور نادرست لکھے جائیں تو بیدل ہوکر مشق کو موقوف مت کرو۔ کوئی کام ہو، ابتدا میں اچھا نہیں ہوا کرتا۔ اگر کسی بڑے عالم کو ایک ٹوپی کترنے اور سینے کو دو، جس کو کبھی اتفاق نہ ہوا ہو، وہ ضرور ٹوپی خراب کرے گا۔ چلنا پھرنا جو تم کو اب ایسا آسان ہے کہ بے تکلف دوڑی دوڑی پھرتی ہو، تم کو شائد یاد نہ رہا ہو کہ تم نے کس مشکل سے سیکھا۔ مگر تمہارے ماں باپ اور بزرگوں کو بخوبی یاد ہے کہ پہلے تم کو بے سہارے بیٹھنا نہیں آتا تھا۔ جب تم کو گود سے اتار کر نیچے بٹھاتے۔ ایک آدمی پکڑے رہتا یا تکیے کا سہارا لگا دیتے تھے۔ پھر تم نے گرپڑ کر گھٹنوں کے بل چلنا سیکھا، پھر کھڑا ہونا، لیکن چارپائی پکڑ کر۔ پھر جب تمہارے پاؤں مضبوط ہوگئے، رفتہ رفتہ چلنا آگیا۔ مگر صدہا مرتبہ تمہارے پاؤں میں چوٹ لگی اور ہر روز تم کو گرتے سنا۔ اب وہی تم ہو کہ خدا کے فضل سے ماشاءاللہ دوڑی دوڑی پھرتی ہو اسی طرح ایک دن لکھنا بھی آجائے گا۔ اور فرض کرو کہ تم کو لڑکوں کی طرح اچھا لکھنا نہ بھی آیا، تاہم بقدر ضرورت تو آجائے گا اور یہ مشکل تو نہ رہے گی کہ دھوبن کے کپڑوں کی دھلائی اور پیسنے والی کی پسائیوں کے واسطے دیوار پر لکیریں کھینچتی پھرو یا کنکر پتھر جوڑ کر رکھو۔ گھر کا حساب کتاب، لینا دینا، زبانی یاد رکھنا بہت مشکل ہے اور بعض مردوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو روپیہ پیسے گھر میں دیا کرتے ہیں، اس کا حساب پوچھا کرتے ہیں۔ اگر زبانی یاد نہیں ہے تو مرد کو شبہ ہوتا ہے کہ یہ روپیہ کہاں خرچ ہوا اور آپس میں ناحق کا رنج و فساد ہوتا ہے۔ اگر عورتیں اتنا لکھنا سیکھ بھی لیا کریں کہ اپنے سمجھنے کے واسطے کافی ہو تو کیسی اچھی بات ہے۔
لکھنے پڑھنے کے علاوہ سینا پرونا، کھانا پکانا یہ دونوں ہنر ہر ایک لڑکی کو سیکھنے ضرور ہیں۔ کسی آدمی کو حال معلوم نہیں ہے کہ آئندہ اس کو کیا اتفاق پیش آئے گا۔ بڑے امیر اور بڑے دولتمند یکایک غریب اور محتاج ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی ہنر ہاتھ میں پڑا ہوتا ہے ضرورت کے وقت کام آتا ہے۔ یہ ایک مشہور بات ہے کہ اگلے وقتوں کے بادشاہ باوجود دولت و ثروت کے، ضرور کوئی ہنر سیکھ رکھا کرتے تھے تا کہ مصیبت کے وقت کام آئے۔ یاد رکھو! دنیا میں کوئی حالت قابل اعتبار نہیں اگر تم کو اس وقت آرام و فراغت میسر ہے، خدا کو شکر کرو کہ اس نے اپنے مہربانی سے ہمارے گھر میں برکت اور فراغت دی ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ تم اس آرام کی قدر نہ کیا کرو یا آئندہ کے واسطے اپنا اطمینان کرلو کہ یہی آرام ہم کو ہمیشہ کے واسطے حاصل رہے گا۔ آرام کے دنوں میں عادتوں کا درست رکھنا ضرور ہے۔ اگرچہ خدا نے تم کو نوکر چاکر بھی دئیے ہوں لیکن تم کو اپنی عادت نہیں بگاڑنی چاہئیے۔ شاید خدانخواستہ مقدور باقی نہ رہے تو یہ عادت بہت تکلیف دے گی۔ آپ اٹھ کر پانی نہ پینا یا چھوٹے چھوٹے کاموں میں نوکروں یا چھوٹے بھائی بہنوں کو تکلید دینا اور آپ احدی بن کر بیٹھے رہنا نامناسب اور عادت کے بگاڑنے کی نشان ہے۔ تم کو اپنا کام سب آپ کرنا چاہئیے۔ بلکہ اگر تم چست و چالاک رہو تو گھر کے بہت سے کام تم اٹھاسکتی ہو۔ اور اگر تم تھوڑی سی محنت بھی اختیار کرو تو اپنی ماں کو بہت کچھ مدد اور دلاسا لگا سکتی ہو۔ خوب غور کے کے اپنا کوئی کام ایسا مت چھوڑو جس کو ماں اپنے ہاتھوں کرے یا دوسروں کو اس واسطے بلاتی تکلیف دیتی پھرو۔ رات کو جب سونے لگو، اپنا بچھونا اپنے ہاتھ سے بچھالیا کرو اور صبح سویرے اٹھ کر آپ تہہ کرکے احتیاط سے مناسب جگہ رکھ دیا کرو، اپنے کپڑوں کی گٹھڑی اپنے اہتمام رکھو، جب کپڑے بدلنے ہوں، اپنے ہاتھ سے پھٹا ادھڑا درست کرلیا کرو۔ میلے کپڑوں کی احتیاط کرو۔ جب تک دھوبن کپڑے لینے آئے، ان کو علیحدہ کھونٹی پر لٹکا رکھو۔ اگر کپڑے بدل کر میلے کپڑے اٹھا کر نہ رکھوگی تو شاید چوہے کاٹ ڈالیں یا پڑے پڑے زیادہ میلے ہوجائیں اور دھوبن ان کو خوب صاف نہ کرسکے۔ یا شاید زمین کی نمی اور پسینے کی تری سے ان میں دیمک لگ جائے۔ پھر دھوبن کو اپنے میلے کپڑے آپ دیکھ کر دیا کرو اور جب دھو کر لائے خود دیکھ لیا۔ شاید کوئی کپڑا کم لائی ہو یا کہیں سے پھاڑ دیا ہو یا کہیں پہ داغ باقی نہ رہ گئے ہوں۔ اس طرح جب تم اپنے کپڑوں کی خبر رکھو گی، تمہارے کپڑے خوب صاف دھلا کریں گے اور کوئی کپڑا گم نہ ہو گا۔ جو زیور تم پہنے رہتی ہو، بڑے داموں کی چیز ہے۔ شام کو سونے سے پہلے اور صبح کو جب سو کر اٹھو، خیال کرلیا کرو کہ سب ہیں یا نہیں۔ اکثر بے خبر لڑکیاں کھیل کود میں زیور گرادیتی ہیں اور کئی کئی دن کے بعد ان کو معلوم ہوتا ہے کہ بالی گرگئی، چھلا نکل پڑا۔ کیا معلوم ذرا سی چیز کس کی نظر پڑگئی اور اس نے اٹھالی یا کہیں مٹی میں دب دبا گئی۔ تب وہ غافل لڑکیاں زیور کے واسطے افسوس کرکے روتی اور تمام گھر گو جستجو میں حیران کر مارتی ہیں۔ اور جب ماں باپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکی زیور کو احتیاط سے نہیں رکھتی اور کھو دیتی ہے تو وہ دریغ کرنے لگتے ہیں ۔
تم کو ہمیشہ یہ خیال کرنا چاہئیے کہ گھر کے کاموں میں سے کون سا کام تمہارے کرنے کا ہے، بے شک چھوٹے بھائی بہن اگر روتے اور ضد کرتے ہیں تو تم ان کو سنبھال سکتی ہو تاکہ ماں باپ کو تکلیف نہ دیں۔ منہ دھلانا، ان کے کھانے اور پانی کی خبر رکھنا، کپڑا پہنانا، یہ سب کام اگر تم چاہو تو کرسکتی ہو۔ لیکن اگر تم اپنے بھائی بہنو سے لڑو اور ضد کرو تو تم خود اپنا وقار کھوتی اور ماں کو تکلیف دیتی ہو۔ وہ گھر کا کام دیکھے یا تمہارے مقدمے کا فیصلہ کیا کرے۔ گھر میں جو کھانا پکتا ہے، اس کو اس غرض سے نہیں دیکھنا چاہئیے کہ کب پک چکے گا اور کب ملے گا۔ گھر میں جو کتا اور بلی یا دوسرے جانور پلے ہیں، وہ اگر پیٹ بھرنے کی امید سے کھانے کے منتظر رہیں تو مضائقہ نہیں۔ لیکن تم کو غور کرنا چاہئیے کہ سالن کس طرح بھونا جاتا ہے، نمک کس انداز میں ڈالتے ہیں۔ اگر ہر ایک کھانے کو غور سے دیکھا کرو تو یقین ہے چند روز میں تم پکانا سیکھ جاؤ گی اور تم کو ہنر آجائے گا جو دنیا کے تمام ہنروں میں سے زیادہ ضرورت کی چیز ہے۔ معمولی کھانوں کے علاوہ تکلف کے چند کھانوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ کباب، پلاؤ، میٹھے چاول، زردہ، متنجن، چٹنی، مربہ، فرنی سب مزے دار کھانے ہیں۔ ہر ایک کی ترکیب یاد رکھنی چاہئیے۔ بعض کھانے تکلف کے تو نہیں ہوتے لیکن ان کا مزےدار پکانا تعریف کی بات ہے۔ جیسے مچھلی، کریلے۔ سینا تو چنداں دشوار نہیں، قطع کرنا خاص طور پر ضرور سمجھ لینا چاہيے۔ ہم نے اکثر بےوقوف عورتوں کو دیکھا ہے کہ اپنے کپڑے دوسری عورتوں کے پاس قطع کرانے کے لیے پھرا کرتی ہیں اور ان کو تھوڑی سی بات کے لیے خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ مردانے کپڑوں میں انگرکھا کسی قدر مشکل ہے۔ تم اپنے بھائیوں کے انگرکھے قطع کیا کرو۔ دو چار انگرکھے قطع کرنے سے سمجھ میں آجائے گا۔

باب دوسرا: قصے کا آغاز اور جن لوگوں کا اس قصے میں بیان ہے، ان کے مختصر حالات

اب تم کو ایک مزے کا قصہ سناتے ہیں جس سے معلوم ہوجائے گا کہ جہالت اور بےہنری سے کیا کیا تکلیفیں پہنچتی ہیں۔
دلی میں اندیش خانیوں کا ایک بڑا مشہور خاندان ہے مدت سے اس خاندان کے مردوں کے نام اندیش خاں پر چلے آتے ہیں جیسے دوراندیش خاں، مآل اندیش خاں، خیراندیش خاں وغیرہ۔
اس سے یہ لوگ اندش خانی کہلائے۔ ان لوگوں کا اتنا بڑا خاندان تھا کہ شہر میں شریفوں کا کوئی محلہ نہ ہوگا جس میں دو چار گھر اندیش خانیوں کے ہوں۔ یہ لوگ سب کے سب نوکری پیشہ اور اکثر ہندوستانی سرکاروں میں ممتاز خدمتوں پر مامور تھے۔
دوراندیش خاں جن کے خانگی حالات سے یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے پنجاب کے پہاڑی اضلاع کی طرف سے تحصیل دار تھے۔ نوکری اور تنخواہ تو کچھ ایسی بہت بڑی نہ مگر آدمی لائق، دیانت دار اور کارگزار کہ اتنی صفتیں نوکروں میں کم ہوتی ہیں۔ اس سے انگریزوں میں اچھی آبرو پیدا کی تھی۔ ہم سے اور دوراندیش خاں صاحب سے جب اول اول ملاقات ہوئی کہ اس کو بھی اب چار سوا چار برس ہونے آئے تو ان کی عمر ایسی کوئی چوالیس پینتالیس برس کے قریب رہی ہوگی۔ بہت ہی خوش رو آدمی تھے۔ کشیدہ قامت، بدن کے اکہرے، جامہ زیب، داڑھی کھچڑی ہوچلی تھی۔ ہم تو سمجھے تھے کہ دادا اور نانا ہوگے تو عجب نہیں مگر ایسی بہت اولاد بھی نہ تھی، صرف دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ یہ چاروں بچے گنگا جمنی طور پر پیدا ہوئے یعنی، سب سے بڑی پہلونٹی کی اکبری، اس کے اوپر خیر اندیش، اوپر اصغری، اصغری کے بعد سب سے چھوٹا مآل اندیش، ایک دن کچھ یوں ہی مذکور آگیا کہ اولاد کم ہے تو بولے کہ خدا اصغری کی عمر میں برکت دے اور اس کو صاحب نصیب کرے اور انشاءاللہ ہوگی۔ مجھے تو بیٹا بیٹی کسی کی تمنا باقی نہیں۔
دور اندیش خان بیس برس پورے ہوکر اکیسویں میں لگے تھے کہ ان کا بیاہ اور اکبری پیدا ہوئی بیاہ کے کہیں دس ساڑھے دس برس بعد۔ ہم سمجھتے کہ زیادہ تر اس انتظار کے سبب اور کسی قدر پہلونٹی کی ہونے کی وجہ سے بھی اکبری کے ساتھ ایسے چونچلے برتے گئے کہ انہوں نے اکبری کے مزاج پر بہت ہی اثر کیا۔ نہ تو اس نے کچھ لکھا پڑھا، نہ کوئی ہنر سیکھا نہ عقل حاصل کی اور نہ اپنی عادتوں کو سنوارا۔ بس اکبری میں سوائے اس کے کہ وہ ایک شریف خاندان کی بیٹی تھی، تعریف کی کوئی بات ہی نہ تھی۔ پیدا ہونے کے ساتھ اس کو نانی نے اپنی بیٹی بنایا اور اس قدر اس کی نازبرداری کی کہ اس کے رونے اور مچلنے کے ڈر سے وہ بے چاری کسی کی شادی بیاہ میں شریک نہیں ہوسکتی تھی۔ اکبری ماں کو آپا اور باپ کو بھائی کہتی تھی۔ اور کہتی کیا تھی اس طرح پر اس کو سمجھایا اور سکھایا گیا تھا۔ وہ بات بات پر ماں باپ سے ردوکد رکھتی کہ گویا، دونوں اوپر تلے کی بہنیں ہیں۔ ماں کے ساتھ لڑتے جھگڑتے دیکھ ڈانٹے اور دھمکانے کا کیا مذکور، نانی الٹی اس کی حمایت لیتیں اور بگڑ بگڑ کر بیٹی سے کہتیں۔ " پھر بھائی، بچے کی بات کا برا کیوں مانو
دوراندیش خاں جہاں نوکر ہوتے اکثر بی بی بچوں کو اپنے پاس بلا بھی لیا کرتے تھے۔ جب کبھی ایسا اتفاق ہوا نانی نے اکبری کو کسی نہ کسی بہانے سے روک لیا اور جب سے پیدا ہوئی بیاہ کی گھڑی تک، ایک لمحے کے لیے اپنے سے جدا نہ کیا اور یوں اکبری نانی کے احمقانہ لاڈ کی وجہ سے ماں اور باپ دونوں کی تنبیہہ سے مطلقا آزاد ہی رہی اور بے سری اٹھی۔ اصغری کا حال اس کے خلاف تھا۔ سارے چونچلے اور ارمان تو اکبری پر ختم ہوچکے تھے یہ اپنی خوش نصیبی سے اپنے ماں باپ کے یہاں تیسری جگہ تھی۔ اس نے پرورش پائی بڑوں کی نگرانی میں۔ بزرگوں کی روک ٹوک میں اس نے چھوٹی سی عمر میں قرآن مجید کا ترجمہ اور مسائل کی اردو کتابیں پڑھ لی تھیں۔ لکھنے میں بھی عاجز نہ تھی اگر ماں دلی میں ہوتی اور باپ باہر نوکری پر تو جب تک دلی میں رہتی گھر کا حال باپ کو ہر ہفتے کے ہفتے لکھ بھیجا کرتی۔ ہر ایک طرح کا کپڑا سی سکتی تھی اور انواع و اقسام کے مزے دار کھانے پکانا جانتی تھی۔ تمام محلے میں اصغری خانم کی تعریف تھی۔ ماں کے گھر کا تمام بندوبست اصغری خانم کے ہاتھوں میں تھا۔ جب کبھی باپ رخصت لے کر گھر آتا، خانہ داری کے انتظام میں اصغری سے صلاح پوچھتا۔ روپیہ پیسہ کوٹھڑیوں اور صندوقوں کی کنجیاں سب کچھ اصغری کے اختیار میں رہا کرتا تھا۔ اصغری کی نیک نیتی اور سلیقہ مندی دیکھ کر ماں باپ دونوں دل و جان سے اصغری کو چاہتے بلکہ محلے کے سب لوگ اس کو پیار کرتے تھے۔ مگر اکبری خودبخود اپنی چھوٹی بہن سے ناراض رہا کرتی بلکہ اکیلا پاکر مار بھی لیا کرتی تھی لیکن اصغری ہمیشہ آپا کا ادب کرتی اور کبھی ماں سے اس کی چغلی نہ کھاتی۔ دونوں بہنوں کی منگنی اتفاق سے ایک ہی گھر میں ہوئی۔ محمد عاقل اور محمد کامل دو حقیقی بھائی تھے۔ اکبری کا بیاہ بڑے محمد عاقل سے ہوا تھا اور اصغری کی بات محمد کامل کے ساتھ ٹھہر چکی تھی مگر بیاہ نہیں ہوا تھا۔

باب تیسرا: اکبری کی بدمزاجی اور اس کا سسرال سے روٹھ کر چلا آنا

کنبے کے لوگوں میں اکبری کی بدمزاجی، بے ہنری اور شرارتوں کی اس قدر شہرت تھی کہ جہاں کہیں اس کی منگنی کا پیغام جاتا کوئی حامی نہیں بھرتا تھا۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ نہ سان نہ گمان ایک دم سے مردوں ہی مردوں میں ایک ساتھ دونوں بہنوں کی بات ٹہر گئی۔ حسن اتفاق سے دوراندیش خاں اور مولوی محمد فاضل میں پرانی راہ و رسم تھی۔ دونوں نے ایک استاد سے پڑھا بھی تھا۔ ایک مرتبہ دور اندیش خاں رخصت لے کر دلی میں آرہے تھے۔ راہ میں مل گئے محمد فاضل۔ انہوں نے بہ اصرار ان کو اپنے پاس ٹہرایا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اندیش خاں نے اپنی دونوں بیٹیاں مولوی صاحب کو دینی منظور کرلیں۔ جب کنبے والوں کو معلوم ہوا تو کسی نے محمد عاقل کی ماں سے کہا بھی کہ سمدھیانے کا کیا پوچھنا مگر بڑی لڑکی کو لوگ مزاج کی بہت تیز بتاتے ہیں۔ محمد عاقل کی ماں اس طرح کی نیک عورت تھی کہ ہر چند اکبری کے حالات سنے سنائے سب کو معلوم تھے تاہم اس نے یہی جواب دیا کہ استخوان اچھی چاہئیے۔ خدا رکھے امیر گھر کی بیٹی ہے۔ بڑی پھڑک کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ نانی کو تھا ارمان اور ارمان کی جگہ تھی۔ انہوں نے کسی بات میں بچی کے دل کو میلا ہونے نہیں دیا۔ لاڈ پیار میں آکر کچھ ضد کرنے لگی ہوگی، سو بچے اپنی اپنی جگہ ضد بھی کیا کرتے ہیں۔ بیاہ کی دیر ہے، آپ ہی ٹھیک ہوجائے گی۔
مگر یہ صرف بڑی بی کا خیال تھا۔ اکبری بیاہ ہونے سے درست تو کیا ہوتی، اس نے چوتھے پانچویں ہی مہینے میاں سے تقاضا کرنا شروع کیا کہ ہم سے تمہاری ماں کے ساتھ نہیں رہا جاتا، ہم یا تو رہیں گے اپنے میکے میں یا اگر ایسی ہی زبردستی ہے تو کسی دوسرے محلے میں چل رہو۔ ہم سے یہ دن رات کی کل کل نہیں سہی جاتی۔ محمد عاقل ہکا بکا سا ہو کر منہ دیکھنے لگا اور بولا۔ "آخر کچھ بات بھی ہے؟ مجھ سے تو آج تک اماں جان نے تمہاری کوئی شکایت نہیں کی۔"
اکبری:لو اور سنو۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے! 
وہ میری شکایت کیا کرتیں؟ شکایت کرتا ہے کمزور۔ شکایت کرتا ہے وہ جس کا کوئی بس نہیں چلتا۔ شکایت کرتا ہے مظلوم۔
محمد عاقل: خدانخواستہ تم پر کسی نے کیا ظلم کیا؟ کچھ بتاؤگی بھی؟
اکبری: ایک ہو تو بتاؤ سارے دن ان کو میرا پیٹنا ہے۔
محمد عاقل: تم نے کچھ معلوم بھی کیا کہ کیا چاہتی ہیں؟
اکبری: چاپتی کیا ہیں؟ میرے پاس کسی کے آنے اور بیٹھنے تک کی روادار نہیں۔ تیوری تو ان کی میں جانتی ہوں، خدا نے چڑھی ہوئی بنائی ہے۔ مگر آج تو انہوں نے چنیا اور زلفن اور رحمت اور سلمتی منہ در منہ سب کی فضیحتی کی۔
محمد عاقل: تم کو ان لڑکیوں کا کچھ حال بھی معلوم ہے؟ چنیا تو بھٹیاری ہے، زلفی بخشو قلعی گر کی کوئی ہے، رحمت سقنی ہے اور اس کالی کلوٹی سلمتی کو میں نے اکثر مولن کنجڑے کی دکان پر دیکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ضرور اس کی بیٹی ہوگی۔ مولن سے اس کا نقشہ بھی ملتا ہوا ہے۔ بھلا پھر یہ لوگ اس قابل ہیں کہ تم ان کو اپنی سہیلیاں بناؤ؟ محلے کے بھلے آدمی سنیں گے تو کیا کہیں گے؟ غریب ہونا کچھ عیب کی بات نہیں ہے مگر ایسے لوگوں کی عادتیں اچھی نہیں ہوتیں، اس خیال سے والدہ نے ان لڑکیوں کے آنے کی ممانعت کی ہوگی، سو یہ تو کوئی برا ماننے کی بات نہیں۔
اکبری: بس تم ماں بیٹوں کی مرضی تو مجھے قید میں ڈالنے کی ہے۔ سارے دن اکیلے چپ بیٹھے بیٹھے آدمی کا دم گھٹ جائے نوج!
محمد عاقل: اکیلی کیوں بیٹھو، گلی کی گلی میں قاضی امام علی، حکیم شفاءالدولہ، منشی ممتاز احمد، مولوی روح اللہ، میر حسن رضائی، آغائی صاحب وغیرہ کوڑیوں سے اشراف بھرے پڑے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بہو بیٹیوں سے ملو چشم ما روشن، دل ما شاد۔
اکبری: ان سے ملے میری جوتی۔ ان سے ملے میری بلا۔ تم بھی وہی ہماری اماں جیسی دہائی لائے۔ وہ بھی بہت میرے پیچھے پڑا کرتی تھیں منہیاری کی بیٹی بنو سے نہ مل۔ وہ بنی ہوئی تھی میری سہیلی بھلا اس سے کیسے نہ ملتی؟ اماں کی ضد میں، میں نے بنو کے ساتھ ایک چھوڑ دو گڑیوں کے بیاہ کیے اور اماں سے چرا چرا کر اناج اور پیسے اور کپڑے اور کوڑیاں اتنی چیزیں بنو کو دیں کہ اماں بھی زچ ہوگئیں۔ نانی اماں کی ڈر کے مارے مارتیں تو کیا، بہتیرا کوستی تھیں، برا بھلا کہتی تھیں مگر ہم نے بنو سے ملنا نہ چھوڑا۔
محمد عاقل نے کہا "تم نے بہت جھک مارا۔"
یہ سن کر وہ احمق عورت بولی "دیکھو خدا کی قسم! میں نے کہہ دیا کہ مجھ سے زبان سنبھال کر بولا کرو۔ نہیں تو پیٹ پیٹ کر اپنا خون کرڈالوں گی۔"
یہ کہہ کر وہ رونے لگی اور اپنے ماں باپ کو کوسنا شروع کیا: الٰہی! اس اماں باوا کا برا ہو، کیسی کم بختی میں مجھ کو دھکیل دیا ہے۔ مجھ کو اکیلا پاکر سب نے ستانا شروع کیا ہے۔ الٰہی میں مرجاؤں، میرا جنازہ نکلے اور غصے کے مارے پان کھانے کی پٹاری جو چارپائی پر رکھی تھی لات مار کر گرادی۔ تمام کتھا چونا توشک پر گرا۔ اونی دریس کا لحاف پائنتی تہہ کیا ہوا رکھا تھا چونے کے لگتے ہی اس کا تمام رنگ کٹ گیا۔ پٹاری گرنے کے غل سن کر سامنے کے دالان سے ساس دوڑی آئیں۔ ماں کو آتے دیکھ کر بیٹا تو دوسرے دروازے سے چل دیا لیکن اپنے دل میں کہتا تھا، ناحق میں نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑا۔ ساس نے آکر دیکھا تو چار پیسے کا کتھا جو کل چھان پکا کر کلہیا میں بھردیاتھا سب گرپڑا ہے۔ توشک کتھے میں لت پت ہے آتے ہی ساس نے بہو کو گلے سے لگالیا اور اپنے بیٹے کو ناحق بہت کچھ برا بھلا کہا۔ اتنی دل جوئی کا سہارا اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہوا۔ ہر چند ساس نے منت کی اور سمجھایا، اس مکار عورت پر مطلق اثر نہ ہوا۔ ہمسائے کی عورتیں رون پیٹنے کی آواز سن کر جمع ہوگئیں۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ بخوشو قلعی گر کی بیٹی زلفن سمدھیانے دوڑ گئی اور ایک ایک کی چار چار لگائییں۔ نانی کی بے تدبیریوں نے تو اکبری کو غارت ہی کیا تھا نہ اچھی طرح پوچھا نہ گچھا، سنتے کے ساتھ ڈولی پر چڑھ آپہنچیں، بہت کچھ لڑیں جھگڑیں، آخر اکبری کو اپنے ساتھ لے گئیں۔

باب چوتھا: اکبری کی شرارتیں، پھوہڑ پن، حمق اور بدمزاجیاں۔اس کا عین عید کے دن بے لطفی سے چلا جانا، ضمنا اصغری کی مدح

اکبری گئی تو ایسی بے طوری تھی کہ شاید اس کو برسوں سسرال کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ مگر اتفاق سے اس کی سگی خالہ محمد عاقل کے گھر کے قریب رہتی تھیں۔ اگر یہ نیک بخت تتوتھنبو نہ کرتیں تو سسرال میں اکبری کی ایک دن بھی گزر نہ ہوتی۔ اکبری کا چلاجانا سن کر خالہ نہ بہت افسوس کیا کہ اگر مجھ کو وقت پر ذرا بھی لڑائی کی خبر ہوتی تو اکبری کی ایسی کیا مجال تھی کہ چلی جاتی۔ میں تو اس کو ڈولی میں سے گھسیٹ لیتی۔ انہوں نے یہ خیال کیا تھا کہ اکبری تو نری احمق ہے۔ رہیں نانی، ان کو خدا نے بیٹھے بٹھائے نواسی کا عشق لگادیا ہے۔ مگر ہاں آپا (اکبری کی ماں) بیٹی کو بٹھانے والی نہیں۔ جب دیکھا کہ بہت دن ہوگئے اور جانبین سے سلام و پیام تک متروک ہے تو بھانجی کی مامتا کی ماری خود گئیں اور ماں اور نانی دونوں کے سامنے اکبری کو بہت کچھ لعنت ملامت کی، سمجھایا، دھمکایا، ڈرایا اور اپنی ماں سے کہا کہ تمہاری باؤلی محبت اس کی ضرور گھر سے اجاڑ کر رہے گی۔ بارے رمضان کی تقریب سے زبردستی بھانجی کو سسرال لولائیں کہ سمدھن اکیلی ہیں اوپر سے آرہا ہے رمضان۔ غصے کو تھوک ڈالو اور چل کر ساس کا ہاتھ بٹاؤ۔ اب تم بچی نہیں رہیں تمہاری عمر بال بچہ ہونے کی ہے۔ بھاری بھر کم بنو اور گھر کو گھر سمجھو۔ لڑو یا جھگڑو تم اپنی عمر اسی گھر میں بسر کرنی ہے۔
چند روز تک محمد عاقل مزاج دار بہو سے ناخوش رہا۔ آخر کو خلیا ساس نے میاں بی بی کا ملاپ کرادیا لیکن مزاجوں جب ناموافقت ہوتی ہے تو ہر ایک بات میں بگاڑ کا سامان موجود ہوتا ہے محمد عاقل نے ایک دن اپنی ماں سے کہا کہ آج میں نے دوست کی دعوت کی ہے افطاری اور کھانے کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔ ماں نے جواب دیا "تین دن سے افطار کے وقت مجھ کو لرزہ چڑھتا ہے۔ مجھ کو اپنی خبر تک نہیں رہتی۔ خدا ہمسائی کا بھلا کرے کہ وہ بےچاری آ کر پکا جاتی ہے۔ تم نے دعوت سے پہلے گھر میں پوچھ تو لیا ہوتا۔"
محمد عاقل نے بی بی کی طر ف
اشارہ کرکے کہا "یہ کیا اتنے کام کی بھی نہیں ہیں؟" بہو کو اتنا ضبط کہاں تھا کہ اتنی بات سن کر چپ رہے۔ سنتے ہی بولی "اپنی ماں سے پوچھو کہ بیٹے کا بیاہ کیا ہے یا لونڈی مول لی ہے؟ لو صاحب، روزے میں چولہا جھونکنا!"
محمد عاقل نے سوچا، اب اگر میں ردوکد کرتا ہوں تو پہلے کی طرح رسوائی ہوگی۔ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور افطار کے واسطے بازار سے کچھ مول لے آیا۔ غرض بات ٹل گئی۔
اب محمد عاقل کو دوسری آفت پیش آئی۔ عید سے بے چارے نے ایک ہفتہ آگے مزاج دار بہو صاحب کے جوڑے کی تیاری شروع کی۔ ہر روز طرح طرح کے کپڑے رنگ برنگ کی چوڑیا، ڈیڑھ حاشیہ اور سلمہ ستارے کی کامدار جوتیاں لاتا۔ مزاج دار کی خاطر تلے کچھ نہیں آتا اور پھر کم بخت اپنے منہ سے پھوٹتی بھی نہ تھی کہ ایسی چیز لادو۔ یہاں تک کہ عید کا ایک دن باقی رہ گیا۔ مجبور ہوکر اکبری خانم کی خالہ کے پاس گیا۔ انہوں نے آواز سن کر اندر بلایا۔ بلائیں لیں، پیار سے بٹھایا اور پوچھا "کہو اکبری خانم تو اچھی ہے؟"
محمد عاقل نے کہا "صاحب آپکی بھانجی تو عجیب مزاج کی عورت ہیں۔ میرا تو دم ناک میں آگیا۔ جو ادا ہے سو نرالی اور جو بات ہے سو ٹیڑھی۔"
خلیا ساس نے کہا "بیٹا اس کا کچھ خیال مت کرو۔ ابھی کم عمر ہے بال بچے ہوں گے، گھر کا بوجھ پڑے گا مزاج خودبخود درست ہوجائے گا اور آخر اچھے لوگ بروں سے بھی نباہ دیتے ہیں۔ بیٹا تم کو خدا نے سب لائق کیا ہے، ایسی بات نہ ہو کہ لوگ ہنسیں، آخر تمہاری ناموس ہے۔"
محمد عاقل نے کہا "جناب میں تو خود اسی خیال سے درگزر کرتا رہتا ہوں۔ اب دیکھیے کل عید ہے۔ اس وقت تک نہ چوڑیاں پہنی ہیں نہ کپڑے بنائے ہیں۔ ذرا آپ چل کر سمجھادیجئیے۔ میں نے بہت کچھ کہا، اماں نے بہت کچھ منتیں کیں، نہیں مانتیں۔"
خلیا ساس نے کہا اچھا تمہارے خالو ابا نماز پڑھنے مسجد میں گئے ہیں، آلیں تو ان سے پوچھ کر چلتی ہوں۔"
غرض خالہ اماں نے جاکر چوڑیاں پہنچائیں، کپڑے قطع کیے، جلدی کے واسطے سب مل کر سینے بیٹھیں۔ خالہ نے کہا "بیٹی پاجامے میں کلیا تم لگاؤ، گوٹ تمہاری ساس کتریں، میں تمہارے دوپٹے میں توئی ٹانگتی ہوں۔"
جب اکبری کلیا لگا چکی تو اس نے اترا کر خالہ سے کہا "لو بھئی تمہارے ابھی دو پلے باقی ہیں اور میں دونوں پائنچوں میں کلیاں لگابھی چکی۔"
خالہ نے دیکھا تو سب کلیاں الٹی اکبری کی ساس کے لحاظ سے منہ پر تو کچھ نہ کہا لیکن چپکے چپکے دو چار چٹکیاں ایسی لیں کہ اکبری کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اشارے سے کہا دیدوں پھوٹی، سوجھ تو۔ الٹی کلیاں لگا کر بیٹھی ہے۔ اکبری نے اپنا سیا ہوا سب ادھیڑا اور پھر کلیاں لگانا شروع کیں۔ جب لگا چکی تو خالہ نے پھر دیکھا تو سب میں جھول۔ اب تو خالہ سے نہ رہا گیا اور اکبری کی ساس کی آنکھ بچا کر ایک سوئی اکبری کے ہاتھ میں چبھودی اور کلیاں پھر ادھیڑ کر آپ لگائیں۔ غرض خدا خدا کرکے مزاج دار بہو کا جوڑا سل کر تیار ہوا۔ اکبری کی خالہ اپنے گھر کو رخصت ہوئیں۔
اگلے دن بچے عید کی خوشی میں سویرے سے جاگے کسی نے رات کی مہندی گھولی۔ کسی نے کھلی اور بیسن کے لیے غل مچایا۔ کسی نے اٹھتے کے ساتھ ہی عیدی مانگنی شروع کی، محمد عاقل بھی نماز صبح سے فارغ ہوکر حمام میں غسل کرنے چلاگیا۔ نہادھو کر چارگھڑی دن چڑھے واپس آیا۔ لڑکوں کو دیکھا کہ کپڑے بدل بدلا عید کے واسطے تیار بیٹھے ہیں لیکن مزاج دار بہو صاحب حسب عادت پڑی سورہی ہیں۔ محمد عاقل نے اپنی چھوٹی بہن محمودہ سے کہا "محمودہ اپنی بھابی کو جگادو۔"
پہلے تو محمودہ نے تامل کیا، اس واسطے کہ یہ مزاج دار بہو سے بہت ڈرتی تھی۔ جب سے بیا ہوا مزاج دار بہو نے ایک دن بھی اپنی چھوٹی نند کے ساتھ محبت سے بات نہیں کی تھی اور نہ کبھی اس کو اپنے پاس آنے اور بیٹھنے دیا تھا۔ لیکن بھائی کے کہنے سے عید کی خوشی میں محمودہ دوڑی چلی گئی اور کہا "بھابی اٹھو" بھابی نے اٹھنے کے ساتھ محمودہ کے ایک طمانچے رسید کیا۔ محمودہ رونے لگی۔ باہر سے بھائی آواز سن کر دوڑا اس جو روتا دیکھ کر گود میں اٹھالیا اور پوچھا "کیا ہوا؟"
محمودہ نے روتے روتے کہا "بھابی جان نے مارا۔"
مزاج دار بہو نے کہا "دیکھو جھوٹی نامراد۔ آپ تو دوڑتے ہیں گری اور میرا نام لگاتی ہے۔"
محمد عاقل کو غصہ تو بہت آیا لیکن مصلحت وقت سمجھ کر ضبط کیا۔ محمودہ کو پیار سے چمکار کر چپ کیا اور بی بی سے کہا "خیر اٹھو۔ نہاؤ، کپڑے بدلو۔ دن چڑھ گیا ہے۔ میں عیدگاہ جاتا ہوں۔"
مزاج دار بہو نے ناک بھوں چڑھا کر کہا۔ "میں ایسے سویرے نہیں نہاتی۔ سردی کا وقت ہے تم اپنی عیدگاہ جاؤ میں نے کیا پلا پکڑ رکھا ہے۔"
محمد عاقل کو ایسی روکھی بات سن کر بہت افسوس ہوا اور مزاج دار سدا کی ایسی کم بخت کی ہمیشہ اپنے میاں کو ناخوش رکھتی تھی۔ اتنے میں محمد عاقل کی ماں نے پکارا بیٹا جاؤ، بازار سے دودھ لاؤ تو خیر سے عیدگاہ سدھارو۔
محمد عاقل نے کہا "بہت خوب۔ پیسے دیجئیے۔ میں دودھ لائے دیتا ہوں۔ لیکن اگر میرے واپس آنے تک انہوں نے کپڑے نہ بدلے تو سب کپڑے چولہے میں رکھ دوں گا۔"
محمد عاقل تو دودھ لینے بازار گیا، ماں کو معلوم تھا کہ لڑکے کا مزاج بہت برہم ہے اور طبیعت بھی اسی طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اول تو اس کو غصہ نہیں آتا اور جو کبھی آتا ہے تو اس کی عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔ ایسا نہ ہو سچ مچ نئے کپڑے جلادے۔ جلدی سے بہو کے پاس آئیں اور کہا۔
"بیٹی خدا کے لیے برس کے برس دن تو بدشگونی مت کرو۔ اٹھو، نہاؤ، کپڑے بدلو۔"
مزاج دار نے کہا "نہیں بی، میں تو اس وقت نہیں نہاتی۔ ٹھہر کر نہالوں گی۔"
بارے ساس نے منت سماجت کرکے بہو کو نہلا دھلا کر کنگھی چوٹی کر، کپڑے پہنا محمد عاقل کے آنے سے پہلے دلہن بنا کر بٹھادیا۔ محمد عاقل یہ دیکھ کر خوش ہوا۔ عیدگاہ چلتے ہوئے محمودہ سے پوچھا "کہو بی تمہارے لیے بازار سے کون سا کھلونا لائیں؟"
محمودہ نے کہا "اچھی خوبصورت سی رحل لادینا۔ اس پر ہم سی پارہ رکھیں گے اور قلم دوات رکھنے کے لئیے ایک ننھی سی صندوقچی۔"
مزاج دار خودبخود بولی "اور ہمارے لیے؟"
محمد عاقل نے کہا "جو تم فرمائش کرو، لیتا آؤں۔"
مزاج دار نے کہا "بھٹے اور سنگھاڑے اور جھڑبیری کے بیر اور مٹر کی پھلیاں اور ڈھیر ساری نارنگیاں ایک ڈفلی، ایک خنجری۔"
یہ سن کر محمد عاقل ہنسنے لگا اور کہا "ڈفلی اور خنجری کا کیا کروگی؟"
مزاج دار احمق نے جواب دیا "بجائیں گے اور کیا کریں گے؟"
محمد عاقل سمجھا کہ ابھی تک اس بےوقوف میں بے تمیز بچوں کی طرح کھانے اور کھیلنے کے پست خیالات موجود ہیں۔ کپڑے بدلنے سے جو خوشی محمد عاقل کو ہوئی تھی، سب خاک میں مل گئی اور اسی افسردہ دلی کی حالت میں عیدگاہ چلاگیا۔
اس کا جانا تھا کہ مزاج دار نے ایک اور نئی بات کی۔ ساس سے کہا "ہم کو ڈولی منگادو۔ ہم اپنی ماں کے گھر جائیں گے۔"
ساس نے کہا "بھلا یہ جانے کا کیا موقع ہے؟ چار مہنے کے بعد تو تم ماں کے گھر سے اب آئی ہو۔ عین عید کے دن جانا، بالکل نامناسب ہے۔"
مزاج دار نے کہا "میرا جی بہت گھبراتا ہے۔ دل الٹا چلا آتا ہے۔ مجھ کو اپنے میکے کی سہیلی باسو منہیار کی بیٹی بنو بہت یاد آتی ہے۔"
ساس نے کہا "بیٹی نوج! کسی کو کسی سے ایسا عشق ہو جیسا کہ بنو کا ہے۔ اگر ایسا ہی دل چاہتا ہے تو اسی کو بلا بھیجو۔"
مزاج دار نے کہا "واہ بڑی بے چاری بلانے والی۔ ایسا ہی بلانا تھا تو کل اس کو بلوا کر چوڑیاں پہنوائی ہوتیں۔"
ساس نے کہا "بیٹی مجھ کو کیا معلوم تھا کی یکایک تم کو اس کی یاد گدگدائے گی۔"
مزاج دار نے کہا "خیر بی بحث سے کیا فائدہ؟ ڈولی منگوانی ہے تو منگوادو، نہیں تو میں بوا سلمتی کے ابا سے منگوا بھیجوں۔"
ساس نے کہا "لڑکی تیری کوئی عقل ماری گئی ہے؟ میاں سے پوچھا نہیں، گچھا نہیں، آپ ہی آپ چلیں۔ اور مجھ کو تو اپنا بڈھا چونڈا نہیں منڈوانا ہے جو لڑکے کے بے اجازت ڈولی منگوادوں۔"
مزاج دار نے کہا "کیسا میاں اور کیسا پوچھنا؟ آپ اب کوئی اپنے ماں باپ سے عید بقر عید کو بھی نہ ملا کرے؟" اتنا کہہ کر مولن کنجڑے سے ڈولی منگوائی، یہ جا وہ جا۔
تھوڑی دیر بعد محمد عاقل عیدگاہ سے لوٹا اور گھر گھستے ہی پکارا "لوبی اپنی خنجری اور ڈفلی، لو بجاؤ۔"
دیکھا تو سب چپ ہیں۔ ماں سے پوچھا "کیا ہوا؟ خیر تو ہے؟"
محمودہ نے کہا "بھابی جان چلی گئیں۔"
محمد عاقل نے حیران ہوکر پوچھا "ایں، کیوں کر گئیں؟ کہاں گئیں؟ کیوں جانے دیا؟"
ماں نے جواب دیا "بیٹھے بٹھائے یکا یک کہنے لگیں، میں تو اپنی اماں کے ہاں جاؤں گی۔ میں نے ہر چند منع کیا، ایک نہ مانی۔ مولن سے ڈولی منگوا چلی گئیں۔ میں روکتی رہ گئی۔"
محمد عاقل یہ سن کر غصے کے مارے تھرا اٹھا اور چاہا کہ سسرال جاکر اس نابکار عورت کو سزا دے۔ یہ سوچ کر باہر نکلا۔ ماں سمجھ گئی۔ جاتے کو پکارا۔ اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ ماں نے کہا "شاباش! بیٹا شاباش! میں تم کو پکار رہی ہوں اور تم سنتے ہو، جواب نہیں دیتے۔ تیرھویں صدی میں ماؤں کا یہی وقر رہ گیا ہے؟" یہ سنتے ہی محمد عاقل الٹے پاؤں پھرا۔ ماں نے کہا "بیٹا یہ تو بتا، اس دھوپ میں کہاں جاتا ہے۔ ابھی عیدگاہ سے آیا ہے۔ اب پھر باہر چلا۔ ماں صدقے گئی، جی زندہ ہوجائے گا۔"
محمد عاقل نے کہا "بی میں کہیں نہیں جاتا۔ مسجد میں حافظ جی سے ملنے جاتا ہوں۔"
ماں نے کہا "لڑکے ہوش میں آ۔ میں نے دھوپ میں اپنا چونڈا سفید نہیں کیا۔ لو صاحب، ہمیں سے باتیں بنانے چلا ہے! حافظ جی کے پاس جاتا ہے تو انگرکھا اور دوپٹہ اتار کر رکھ جا۔"
یہ سن کر محمد عاقل مسکرانے لگا۔ ماں نے ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس جانماز پر بٹھالیا اور اس کے سر کی طرف دیکھ کے بولی "عیدگاہ آنے جانے میں تمہارے بال تمام گردآلود ہوگئے ہیں۔ ذرا تکیے پر سررکھ کر لیٹ جاؤ تو میں صاف کردوں۔"
محمد عاقل ماں کے کہنے سے ذرا کے ذرا لیٹ گیا۔ محمودہ بھائی کو لیٹا دیکھ کر پنکھا جھلنے لگی کچھ تو عیدگاہ آنے جانے کی تکان، ادھر پنکھے کی ٹھنڈی ہوا، اور ماں نے جو دست شفقت سر پر پھیرا تو سب سے زیادہ اس کی راحت۔ غرض محمد عاقل سوگیا، جاگا تو دن ڈھل چکا تھا اور وہ غصہ بھی دھیما ہوگیا تھا۔
ماں نے کہا "لو ہاتھ منہ دھوؤ۔ وضو کرکے ظہر کی نماز پڑھو۔ وقت تنگ ہے۔ پھر آؤ تو تم کو کام بتائیں۔"
نماز پڑھ کر محمد عاقل آیا تو ماں نے کہا "لو سسرال جاؤ اور تجھے میری جان کی قسم ہے جو تو وہاں کچھ لڑا یا بولا۔"
محمد عاقل نے کہا "تو مجھ کو مت بھیجو۔"
ماں نے کہا "لڑکے، خیر منا۔ الٰہی کیسی بری زبان ہے۔ سسرال تو تیری، اور بھیجوں کسی اور کو۔ لو، یہ ایک روپیہ تو اپنی سالی اصغری کے ہاتھ میں عیدی کا دینا اور یہ ایک اٹھنی اپنی خلیا ساس کے بیٹے میاں مسلم کو اور آدھے کھلونے بھی لیتے جاؤ۔ ایک خوان میں سویاں اور دودھ اور مٹھائی کی ٹوکری بھی ماما عظمت کے ہاتھ اپنے ساتھ لے جاؤ۔ دیکھو، خبردار کچھ بولنا مت۔"
محمد عاقل نے کہا "اور اماں خنجری اور ڈفلی بھی لیتا جاؤں؟"
ماں نے کیا "کہیں ایسی بات وہاں مت بول اٹھنا۔"
غرض محمد عاقل ساس کے گھر پہنچے۔ گھر میں اکبری خانم اپنی سہیلیوں کے ساتھ اودھم مچا رہی تھیں اور باہر گلی میں تمام غل کی آواز چلی آتی تھی۔ ماما عظمت اندر گئی۔ اصغری نے ماما کو دور سے دیکھ کر دبی آواز سے کہا "اے بی آپا، اے بی آپا، چپ کرو۔ تمہاری سسرال سے ماما آئی ہے۔" عظمت نے اندر پہنچ کر محمد عاقل کو بلایا "صاحب زادے، آئیے۔" غرض محمد عاقل اندر گئے۔ ساس کو سلام کیا۔ انہوں نے کہا "جیتے رہو، عمردراز ہو۔" اتنے میں اصغری بھی اپنی اوڑھنی سنبھال سنبھول کوٹھری سے نکلیں اور نہایت ادب سے جھک کر بہنوئی کو سلام کیا۔ اصغری کو بہنوئی نے ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر بٹھالیا اور روپیہ دیا۔ اصغری ماں کی طرف دیکھنے لگی۔ ماں نے کہا "کیا ہوا؟ لے لو۔ عیدی کا ہے۔" اصغری نے روپیہ لے کر پھر سلام کیا اور ادب سے ذرا پرے کو سرک کر ہو بیٹھی۔ پھر اٹھ کر نہایت سلیقے کے ساتھ اجلا دسترخوان بہنوئی کے آگے لا بچھایا اور ایک رکابی میں سویاں، ایک پیالے میں دودھ، طشتری میں قند اور ایک چمچہ لا کر سامنے رکھ دیا۔
محمد عاقل نے عذر کیا کہ مجھ کو عیدگاہ میں زیادہ دیر ہوگئی، ابھی تھوڑی دیر ہوئی، میں نے کھانا کھایا ہے۔
ساس نے کہا "کیا مضائقہ ہے۔ سویاں تو پانی ہوتی ہیں۔ کھاؤ بھی۔"
جب تک محمد عاقل سویاں کھاتا رہا، اصغری الائچی ڈال ایک مزے دار پان بنالائی۔ کھانے کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ تھوڑی دیر بعد محمد عاقل نے کہا "جناب میں رخصت چاہتا ہوں۔"
ساس نے کہا "اب کہاں جاؤگے؟ یہیں سو رہنا۔"
محمد عاقل: آج عید کا دن ہے آئے گئے سے ملنا ہے۔ دوسرے کہیں کچھ بھیجنا بھجوانا بھی ہے اور میں اماں سے رات کے واسطے کہہ بھی نہیں آیا۔"
ساس: ملنے کا تو اب وقت نہیں شام ہونے کو آئی۔ اور بھیجنے بھجوانے کو سمدھن کافی ہیں۔ (ہنس کر) تم کچھ سمدھن کا دودھ نہیں پیتے۔ آخر عظمت جائے گی، خبر کردے گی۔
غرض محمد عاقل نے کچھ حیلے کیے، ساس نے ایک نہ مانی اور محمد عاقل کو زبردستی رہنا پڑا۔ چار گھڑی رات گئے جب کھانے پینے سے فارغ ہوئے، اصغری نے برتن بھانڈا، گری پڑی چیز سب ٹھکانے سے رکھی۔ باہر کے دروازے کی زنجیر بند کی۔ کوٹھڑیوں کو قفل لگا کر کنجیاں ماں کے حوالے کیں۔ باہر کے دالان اور باورچی خانے کا چراغ گل کیا۔ ماں اور آپ اور بہنوئی سب کو پان بنا کردئیے اور اطمینان سے جاکر سو رہی۔

باب پانچواں: الگ گھر کرنے پر ساس (اکبری کی ماں) اور داماد (محمد عاقل) کا مباحثہ

اب ساس نے محمد عاقل سے کہا "کیوں بیٹا، تم میاں بی بی میں کیا آئے دن کی لڑائی رہا کرتی ہے؟ اکبری کی تو ایسی بری عادت ہے کہ کبھی بھول کر بھی سسرال کی بات منہ سے نہیں کہتی۔ نہیں تو دنیا جہان کی بیٹیوں کا دستور ہوتا ہے کہ سسرال کی ذرا ذرا سی بات ماؤں سے لگایا کرتی ہیں۔ نہیں معلوم اس کو کیا خدا کی سنوار ہے۔ بہتیرا پوچھ پوچھ کر اپنا منہ تھکاؤ، حاشا کہ یہ کچھ بھی بتائے۔ لیکن ٹولے محلے بات کانوں کان پہنچ جاتی ہے اوپری لوگوں سے میں بھی گھر بیٹھے سنا کرتی ہوں۔"
محمد عاقل نے ساس سے یہ بات سن کر تھوڑی دیر تامل کیا۔ لحاظ کے سبب جواب منہ سے نہیں نکلتا تھا مگر اس نے خیال کیا کہ مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا ہے اور خود انہوں نے چھیڑ کر پوچھا ہے۔ ایسے موقع پر سکوت کرنا سراسر خلاف مصلحت ہے۔ بہتر ہے عمر بھر کا زہر اگل ڈالے۔ شاید آج کی گفتگو میں آئندہ کے واسطے کوئی بات نکل آئے۔
غرض محمد عاقل نے شرماتے شرماتے کہا "آپ کی صاحب زادی موجود ہیں ان ہی سے پوچھئے۔ ہمارے یہاں ان کو کیا تکلیف پہنچی؟ خاطر داری و مدارت میں کسی طرح کی کمی ہوئی یا ان سے کو لڑا یا کسی نے ان کو برا کہا؟ آپ کو معلوم ہے گھر میں ہم گنتی کے آدمی ہیں۔ والدہ سے تمام محلہ واقف ہے۔ ایسی نیک مزاج اور صلح کل ہیں کہ تمام عمر ان کو کسی سے لڑنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اگر کوئی ان کو دس باتیں سخت کہہ بھی جائے تو چپ رہ جاتی ہیں۔ محمد کامل دن بھر لکھنے پڑھنے میں رہتا ہے۔ صبح کا نکلا رات کو گھر آتا ہے۔ کھانا کھایا اور سو رہا میں نے اس کو ان سے کبھی بات کرتے بھی نہیں دیکھا۔ محمودہ ان کی صورت سے ڈرتی ہے۔ رہا میں تو موجود بیٹھا ہوں جو شکایت ہو، مجھ سے بے تکلف بیان کریں۔"
محمد عاقل کی ساس اب بیٹی کی طرف مخاطب ہوکر بولیں "ہاں بھائی جو کچھ تمہارے دل میں ہو، تم بھی صاف صاف کہ گزرو۔ بات کا دل میں رہنا اچھا نہیں ہوتا۔ دل میں رکھنے سے رنج بڑھتا اور فساد زیادہ ہوتا ہے
اکبری گرچہ جھوٹ بولنے پر بہت دلیر تھی لیکن اس وقت محمد عاقل کے روبرو بات کہتے بن نہ پڑی۔ جی ہی جی میں ڈر رہی تھی کہ میں نے بہت سی جھوٹ جھوٹ باتیں ماں سے آکر لگائی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہیں اس وقت قلعی کھل جائے۔ یہ سوچ کر اس نے اس بات کو ہی ٹال دیا اور کہا کہ ہم تو الگ گھر کریں گے۔
اکبری کی ماں نے داماد سے کہا "کیوں بھائی، تم کو الگ رہنے میں کیا عذر ہے؟ خدا کا فضل ہے خود نوکر ہو، خود کماتے ہو۔ کسی بات میں ماں کے محتاج نہیں، اپنا کھانا، اپنا پہننا پھر دوسرے کا دست نگر ہوکر رہنے سے کیا فائدہ؟ بیٹا بہو کیسے ہی پیارے ہوں پھر بھی جو آرام الگ رہنے میں ہے ماں باپ کے گھر کہاں۔ جو چاہا سو کھایا جو چاہا سو پکایا اور غور کرنے کی بات ہے ماں کے ساتھ رہ کر لاکھ کماؤ پھر بھی نام نہیں۔ لوگ کیا جانیں تم اپنا کھاتے ہو یا ماں باپ کے سر پڑے ہو۔"
محمد عاقل کہا "آرام کی پوچھئے تو ہم کو جو اب حاصل ہے، الگ ہوئے پیچھے اس کی قدر معلوم ہوگی۔ دونوں وقت پکی پکائی کھالی اور بے فکر ہو کر بیٹھ رہے۔ الگ ہونے پر آٹا، دال، گوشت، ترکاری، تیل، نمک، ایندھن سبھی کا فکر کرنا پڑے گا اور آپ ہی انصاف سے فرمائیے خانہ داری میں کتنے بکھیڑے ہیں۔ بے سبب ان آفتوں کو اپنے سرلینا میرے نزدیک تو عقل کی بات نہیں۔ رہا یہ کہ جو چاہا سو کھایا اور جو چاہا سو پکایا، تو یہ اب بھی حاصل ہے ان ہی سے پوچھئے کبھی کوئی فرمائش کی ہے جس کی تعمیل نہ ہوئی ہو؟ بڑے کنبوں میں البتہ اس طرح کی تکلیف ہوا کرتی ہے۔ ایک دل میٹھے چاول کو چاہتا ہے، دوسرے کو بھونی کھچڑی چاہئیے، تیسرے کو پلاؤ درکار ہے، چوتھے کو قورمہ کھانا منظور ہے پانچویں کو پرہیزی کھانا حکیم نے بتایا ہے۔ دس کے واسطے دس ہنڈیاں روز کے روز کہاں سے آئیں؟ ہمارے یہاں کنبہ کون سا بہت بڑا ہے۔ فرمائش کریں تو ہم، نہ کریں تو ہم۔ اس کو بھی جانے دیجئے۔ اگر ان کو ایسا ہی لحاظ ہے تو آپ کھانے کا اہتمام کیا کریں۔ خود والدہ کئی مرتبہ کہہ چکی ہیں۔ ان ہی سے پوچھئے کہا ہے یا نہیں؟ اور نام کو جو آپ نے فرمایا تو یہ میرے نزدیک محض خیال خام ہے۔ اپنے آرام سے کام ہے لوگ جو چاہیں سو سمجھیں۔ اور فرض کیجئے لوگوں نے یہی جانا کہ ہم ماں باپ کے سر ہیں تو اس میں ہماری کیا بے عزتی ہے؟ ماں باپ ہیں، کوئی غیر نہیں ماں باپ نے ہم کو پالا، پرورش کیا، کھلایا، پہنایا، پڑھایا، لکھایا، شادی بیاہ کیا۔ ان سب باتوں میں بےعزتی نہیں ہوئی تو اب کون سا سرخاب کا پر ہم میں لگ گیا ہے کہ ان کا دست نگر ہونا ہماری بےعزتی کا موجب سمجھا جائے؟
ساس نے جواب دیا "اگر سب تمہاری طرح سمجھا کریں تو کیوں الگ ہوں؟ دنیا کا دستور ہے، ہوتی چلی آئی ہے اور ہوتی چلی جائے گی کہ بیٹے ماں باپ سے جدا ہوجاتے ہیں اور میں تو جانتی ہوں دنیا میں کوئی بہو ایسی نہ ہوگی جس کا میاں کماؤ اور وہ ساس نندوں میں رہنا پسند کرے۔"
محمد عاقل نے کہا "یہ آپ کا فرمانا درست ہے۔ اگر بیٹے ماں باپ سے جدا نہ ہوا کرتے تو شہر میں اتنے گھر کہاں سے آتے۔ لیکن ہر ایک کی حالت جدا ہے۔ الگ ہو کر رہنا میری حالت کے لیے ہرگز مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ دس روپے کا تو میں نوکر۔ اتنی آمدنی میں الگ گھر کا سنبھالنا نہایت مشکل نظر آتا ہے۔ اور پھر اس نوکری کا بھی اعتبار نہیں۔ خدانخواستہ الگ ہوئے پیچھے نوکری جاتی رہی تو پھر باپ کے گھر آنا مجھ پر نہایت شاق ہوگا۔ اس وقت البتہ بے عزتی ہوگی کہ میاں الگ ہوگئے تھے پھر جھک مار کر باپ کے ٹکڑوں پر آپڑے۔ لوگوں کی ریس اس معاملے میں ٹھیک نہیں۔ آدمی کو اپنے حال پر نظر کرنی چاہئیے۔ وہ نقل آپ نے سنی ہے کہ ایک شخص نے بازار سے نمک اور روئی مول لی۔ نمک خچر پر لادا اور روئی گدھے پر۔ راہ میں ایک ندی واقع ہوئی۔ ندی تھی پایاب۔ اس شخص نے خچر اور گدھے دونوں کو لدا لدایا پانی میں اتار دیا۔ بیچ ندی میں پہنچ کر خچر نے غوطہ لگایا۔ تھوڑی دیر بعد سر ابھارا تو گدھے نے پوچھا "کیوں یار، خچر، یہ تم نے کیا کیا؟" خچر نے جواب دیا "بھائی تم بڑے خوش قسمت ہو تم پر لدی ہے روئی اس کا بوجھ ہے ہلکا۔ مجھ کم بخت پر ہے نمک۔ بوجھ کے مارے میری کمر کٹ کر لہولہان ہوگئی ہے۔ یہ ہمارا مالک ایسا بے رحم ہے کہ اس کو مطلق ہماری تکلیف کا خیال نہیں۔ اناپ شناپ جتنا چاہے لاد دیتا ہے۔ میں نے سمجھا کہ منزل تک پہنچتے پہنچتے کمر ندارد ہے۔ آؤ غوطہ لگاؤ۔ نمک پانی میں بھیگ کر کچھ تو گھل جائے گا۔ جس قدر ہلکے ہوئے، غنیمت۔ مالک بہت کرے چھ سات ڈنڈے اور مارلے گا۔ سو یوں بھی راہ بھر ڈنڈے کھاتا آیا ہوں۔ دیکھو اب میرا بوجھ آدھا رہ گیا ہے۔" گدھے بیوقوف نے بھی خچر کی ریس کرکے غوطہ لگایا۔ روئی بھیگ کر اور وزنی ہوگئی۔ سر ابھارا تو ہلا نہ جاتا تھا۔ خچر ہنسا اور کہا کیوں بھائی گدھے۔ کیا حال ہے؟ گدھے نے کہا "یار، میں تو مرا جاتا ہوں۔" خچر نے کہا "اے احمق، تو نے میری ریس تو کی لیکن اتنا تو سمجھ لیتا کہ تیری پیٹھ پر روئی ہے نمک نہیں۔" اماں جان، ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی ریس کرنے سے میرا حال اس گدھے کا سا ہو۔"
ساس نے کہا "بھائی تم تو کسی سے قائل ہونے والے ہو نہیں اور نہ میں تمہاری طرح منطق پڑھی ہوں میں تو سیدھی بات یہ جانتی ہو کہ دس روپے مہینا تم کماتے ہو۔ خدا کا فضل ہے۔ سستا سماں ہے۔ بال بچے نہیں۔ اللہ رکھے، دو میاں بی بی۔ خاصی طرح گوشت روٹی کھاؤ، نین سکھ، تن زیب پہنو۔ آئندہ کا فکر تمہاری طرح کیا کریں تو دنیا کا کارخانہ بند ہوجائے۔ نوکری تو نوکری، زندگی کا اعتبار نہیں۔ جتنے دن جینا ہے، ہنسی خوشی سے تیر کردینے چاہیئیں۔"
محمد عاقل نے کہا "یہی تو میں سوچتا ہوں خوشی الگ ہوگر رہنے میں ہے یا ساتھ میں؟"
ساس نے کہا "دلیل اور حجت سے کیا مطلب؟ سیدھی بات یہی کیوں نہیں کہتے کہ مجھ کو ماں سے الگ ہونا منظور نہیں ہے۔ ایک بات تم سے بی بی نے کہی اس کو قبول کرنے میں تم کو اس بلا کا تامل ہے اور پھر کہتے ہو کہ ہم ان کی خاطر داری میں کمی نہیں کرتے۔ آرام اور خوشی کیا چیز ہے؟ جس میں بی بی خوش ہو اور جس کو وہ آرام سمجھے۔"
اس کے بعد باتوں میں رنجش و تراوش ہونے لگی محمد عاقل نے سکوت اختیار کیا۔ رات بھی زیادہ ہوگئی تھی محمد عاقل نے ساس سے کہا "اب آپ آرام کیجئے میں اس مضمون کو پھر سوچوں گا۔" یہ لوگ تو سورہے، محمد عاقل رات بھر اسی خیال کی ادھیڑ بن میں لگا رہا۔ صبح کو اٹھا تو دیکھا کہ اصغری جھاڑو دے رہی ہے اس کو دیکھ کر اصغری نے سلام کیا اور کہا "بھائی صاحب وضو کے واسطے گرم پانی موجود ہے۔"
محمد عاقل نے کہا "نہیں بھائی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔"
اصغری نے کہا "بھائی صاحب چلے نہ جائیے گا۔ آپ کے واسطے چائے بنائی ہے۔ لیکن سادی پیجئیے گا یا دودھ کی؟"
محمد عاقل نے کہا "جیسی مل جائے۔"
اصغری بولی "آپ کی آواز کچھ بھاری بھاری لگتی ہے۔ شاید نزلے کی تحریک ہے۔ دودھ ضرر کرے گا۔"
محمد عاقل نے کہا "نزلے کی تحریک تو نہیں۔ رات کو اماں جان کے ساتھ بہت دیر تک باتیں کرتا رہا۔ بدخوابی البتہ ہے۔"
محمد عاقل نماز پڑھ کر واپس آیا تو دیکھا کہ ساس نماز سے فارغ ہو کر پان کھا رہی ہیں۔ سلام کرکے بیٹھ گیا۔ اصغری نے سینی لا کر سامنے رکھ دی۔ چائے دان میں گرما گرم چائے، دو پیالیاں، دو چمچے اور ایک طشتری میں قند۔ محمد عاقل نے چائے پی۔ خوش ذائقہ، رنگ، بو، باس درست۔ پی کر جی باغ باغ ہوگیا۔ اکبری حسب عادت پڑی سوتی تھی۔ محمد عاقل نے کہا "اماں جان ان کو بھی نماز کی تاکید کیجئیے۔"
ساس نے کہا "بیٹا یہ اپنی نانی کی بہت چہیتی ہیں۔ ان کی محبت نے ان کی خصلت، ان کی عادت، سب خراب کر رکھی ہے۔ جب یہ چھوٹی تھیں اور میں کسی بات پر گھرک بیٹھتی تو کئی کئی دن مجھ سے بولنا چھوڑ دیتی تھیں۔ اور یہ تو کیا مجال تھی کہ اکبری کو کوئی ہاتھ لگادے۔ اکبری بات بات پر ضد کرتیں، چیزوں کو توڑتی پھوڑتیں۔ ان کے ڈر کے مارے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا۔ اسی بات پر اکبری کے باپ سے روز بگاڑ رہتا تھا۔"
محمد عاقل رخصت ہونے لگا۔ چلتے چلتے ساس نے کہا "بیٹا، رات کی بات یاد رکھا اور ضرور اس کا کچھ بندوبست کرنا۔"

باب چھٹا: ماں سے محمد عاقل کے الگ ہونے کی صلاح

راہ میں محمد عاقل رات کی ان باتوں کو سوچتا آیا۔ گھر میں پہنچا تو ماں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر فکر معلوم ہوتا ہے۔ سمجھا، ضرور آج سسرال میں لڑا۔ پوچھا "محمد عاقل، آخر میرے کہنے پر عمل نہیں کیا۔"
محمد عاقل: اماں، سچ کہتا ہوں، لڑائی بھڑائی کچھ بھی نہیں ہوئی۔
ماں: پھر سست کیوں ہے؟
محمد عاقل: کچھ بھی نہیں سوتا اٹھ کر آیا ہوں اس سبب سے شاید آپ کو میرا چہرہ اداس معلوم ہوتا ہوگا۔
ماں: لڑکے! ہوش میں آ۔ تجھ کو سوتا اٹھ کر کبھی تھوڑا ہی دیکھا ہے۔ سچ بتا، کیا بات ہے؟
محمد عاقل نے آخر مجبور ہو کر رات کا تمام قصہ ماں کے روبرو بیان کیا۔ سنتے کے ساتھ ہی ماں کو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ لیکن عورت تھی بڑی دانش مند، کہنے لگی "ہر چند کہ میری تمنا یہ تھی کہ جب تک میرے دم میں دم ہے، تم سب کو اپنے کلیجے سے لگائے رہوں اور تم دونوں بھائی اتفاق سے رہو۔ لیکن میں دیکھتی ہوں تو سامان الٹے ہی الٹے نظر آتے ہیں۔ لو، آج میں تم سے کہتی ہوں کہ بیاہ کے بعد دوسرے مہینے سے مزاج دار بہو کو ارادہ الگ گھر کرنے کا ہے۔ تم جو دس روپے مہینے کے مہینے لاکر مجھ کو دیتے ہو، ان کو نہایت ناگوار ہوتا ہے۔ آئے دن میں تمہاری بی بی کی سہیلیوں سے سنتی رہتی ہوں کہ بہو بلی ماروں کے محلے میں مکان لیں گی، زلفن کو ساتھ لے جائیں گی۔ جب تک یہ سب لڑکیاں اکٹھی بیٹھی رہتی ہیں، یہی مشورہ، یہی مذکورہ آپس میں رہا کرتا ہے۔ میں نے تمہاری خلیا ساس کے منہ پر ایک مرتبہ یہ بات بھی رکھ دی تھی کہ مزاج دار بہو کو اگر ہمارے ساتھ رہنا ناگوار ہے تو اپنا کھانا کپڑا الگ کرلیں۔ مگر رہیں اسی گھر میں پھر تمہاری ساس سے معلوم ہوا کہ مزاج دار بہو کو یہ بھی منظور نہیں۔ آدمی بیاہ خوشی اور آسائش کے واسطے کرتا ہے۔ روز کی لڑائی، آئے دن کا جھگڑا نہایت بری بات ہے۔ اگر تمہاری بی بی کو یہی منظور ہے اور الگ رہنے سے ان کی خوشی ہے تو بسم اللہ ہم کو عذر نہیں۔ جہاں رہو، خوش رہوں، آباد رہو۔ خدا نے ایک مامتا اولاد کی ہمارے پیچھے لگادی ہے، سو کبھی تم ادھر کو آنکلے، ایک نظر دیکھ لیا، صبر آگیا۔ گھر کے دھندے سے چھٹکارا ملا، میں آپ چلی گئی، تم کو دیکھ آئی۔"
یہ کہنا تھا کہ محمد عاقل کا جی بھر آیا۔ بے اختیار رونا شروع کیا۔ سمجھا کہ آج ماں سے جدائی ہوتی ہے۔ ماں بھی روئی۔ تھوڑی دیر بعد محمد عاقل نے کہا "میں تو الگ نہیں رہوں گا۔ بی بی رہے یا جائے۔"
ماں نے کہا "ارے بیٹا یہ بھی کہیں ہوتی ہے؟ اشرافوں میں کہیں بی بیاں بھی چھوٹی ہیں؟ تم کو اپنی عمر ان ہی کے ساتھ کاٹنی ہے۔ ہمارا کیا ہے؟ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں آج مرا کل دوسرا دن۔ میری صلاح مانو، جو وہ کہیں سو کرو۔ ہم نے جس دن سے تمہارا بیاہ کیا، اسی دن سے تم کو الگ سمجھا۔ نہ تم انوکھے بیٹے نہ میں انوکھی ماں۔ کون بیٹا ساری عمر ماں کے ساتھ رہا؟"
محمد عاقل نے اپنے دوستوں سے بھی صلاح پوچھی۔ سب نے یہی کہا کہ رفع فساد بہتر ہے اور ساتھ رہنے پر کیا منحصر ہے ماں سے الگ رہو اور ان کی خدمت اطاعت کرو۔ جب سب لوگوں نے یہی صلاح دی۔ محمد عاقل نے بھی کہا، خیر الگ رہ کر بھی دیکھ لوں۔ اگر یہ عورت سنبھل جائے اور گھر کو گھر سمجھے، بدمزاجی، نافرمانی، بدزبانی چھوڑ دے تو الگ رہنا عیب نہیں، گناہ نہیں۔ یہی نا کہ خانہ داری کی فکر کرنا پڑے گی اور تنگی سے گزرے گی۔ سو دنیا میں رہ کر فکر سے کسی حالت میں نجات نہیں۔ اب کچھ فکر نہیں تو ہر روز کا فساد بجائے خود عذاب ہے اور تنگئ رزق کا اندیشہ بھی بے جا ہے۔ جو مقدر میں ہے، بہرحال پہنچے گا۔ آدمی کی سعی و تدبیر کو اس میں کیا دخل ہے۔ یہ سوچ کر محمد عاقل نے الگ ہونے کا ارادہ مصمم کرلیا۔ اتفاق سے اسی کے مکان سے متصل ایک مکان بھی خالی تھا۔ ایک روپیہ ماہواری کرائے پر ٹھہرالیا بلکہ سرقفلی دے کر سر خط بھی لکھ دیا۔ کنجی لے لی اور سسرال کہلا بھیجا کہ مکان قرار پاگیا ہے۔ اب آؤ تو نئے مکان اٹھ چلیں اور اپنی ماں سے بھی کہہ دیا کہ یہی تارکش والا مکان لے لیا ہے۔ ماں نے جتنا اسباب بہو مزاج دار کا تھا، کپڑوں کے صندوق، برتن، فرش، مسہری، پلنگ سب علیحدہ کوٹھڑی میں رکھوایا۔ شام کو مزاج دار بہو بھی آ پہنچیں۔ صبح کو اٹھ، ماں نے کوٹھڑی کھول، محمد عاقل سے کہا لو بھائی، اپنی چیزیں دونوں میاں بی بی خوب دیکھ بھال لو۔"
محمد عاقل نے کہا "اماں، تم کیا کہتی ہو؟ کوئی غیر جگہ تھی؟"
ماں نے کہا "بیٹا، یہ بات نہیں۔ ایسا نہ ہو اٹھانے بٹھانے میں کوئی چیز ادھر ادھر ہوجائے" اور ماما سے کہا "عظمت، تم اور ہمسائی یہ سب اسباب تارکش والے گھر پہنچادو۔"
اکبری کی سہیلیاں چنیا، رحمت، زلفن، سلمتی آ پہنچیں اور بات کی بات میں سارا اسباب اٹھا کر ادھر سے ادھر لے گئیں۔

باب ساتواں: اکبری کا الگ گھر اور اس کی بدانتظامی

مزاج دار بہو ہنسی خوشی نئے گھر میں آکر بسیں۔ تین دن تک دونوں وقت محمد عاقل کی ماں نے کھانا بھیجا۔ چوتھے دن محمد عاقل نے بی بی سے کہا "لو صاحب، اب کچھ کھانے کا بندوبست شروع ہو۔"
مزاج دار نے کہا یہ سب اسباب بے ٹھکانے پڑا ہے۔ یہ رکھا جائے تو فراغت سے ہنڈیا چولہے کو دیکھوں۔ ابھی تو مجھ کو فرصت نہیں۔"
غرض سات روز تک تنور پر روٹی پکتی رہی۔ رات کو کباب اور دن کو ملائی اور کبھی دہی بازار سے منگواتے اور دونوں میاں بیوی روٹی کھالیتے۔ آخر محمد عاقل نے روز کہہ کہہ کر مزاج دار سے کھانا پکوایا۔ مزاج دار نے کبھی کھانا پکایا نہ تھا۔ روٹی پکائی تو عجیب صورت کی نہ گول نہ چوکھونٹی۔ ایک کان ادھر نکلا ہوا اور چار کان ادھر۔ کنارے موٹے۔ بیچ میں ٹکیا۔ کہیں جلی کہیں کچی۔ دھوئیں میں کالی۔ اور دال جو پکائی تو دال الگ پانی الگ غرض مزاج دار ایسا لذیذ اور لطیف کھانا پکاتی تھی کہ جس کو دیکھ کر بھوک بھاگ جائے۔ سالن بدرنگ، بدمزہ۔ نمک کبھی زہر اور کبھی پھیکا پانی۔ دو ایک دن تو محمد عاقل نے صبر کیا۔ آخرکار اس نے اپنی ماں کے گھر جاکر کھانا شروع کردیا۔ مزاج دار نے بھی اپنے آرام کا ٹھکانا کرلیا۔ دونوں وقت بازار سے کچوریاں اور ملائی، کندا، کھویا، ربڑی، کباب منگوا کر کھالیا کرتی۔ کھانا جو پکتا، زلفن وغیرہ کھا کھا کر موٹی ہوئیں۔
ان بلیوں کے بھاگوں میں چھینکا ٹوٹا۔ لیکن دس روپے مہینے میں یہ چکوتیاں کیوں کر ہوسکتی تھیں، چپکے چپکے اسباب بکنے لگا۔ مگر محمد عاقل کو اصلا اس کی خبر نہ تھی۔
ایک روز محمد عاقل تو نوکری پر گیا تھا، مزاج دار بہو دوپہر کو سوگئی۔چنیا جو آئی، اس نے دیکھا، بہو بے خبر سورہی ہیں۔ اس نے اپنے بھائی میرن کو جا خبر کی۔ وہ بڑا شاطر بدمعاش تھا۔ مزاج دار تو سوتی کی سوتی رہیں۔ میرن آکر دن دہاڑے تمام برتن چرا کر لے گیا۔ مزاج دار اٹھ کر جو دیکھیں تو گھر میں جھاڑو دی ہوئی ہے۔ کوٹھڑی کو قفل لگا ہوا تھا۔ اس کا اسباب تو بچا، جو چیز اوپر تھی ایک ایک کرکے سب لے گیا۔ اب پانی تک کو کٹورا نہ رہا۔ محمد عاقل نوکری پر سے آیا تو سن کر بہت مغموم ہوا۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔ بی بی سے خوب لڑا اور خوب اپنا سر پیٹا۔ آخر رو دھو کر بیٹھ رہا۔ قرض دام کرکے ہلکی ہلکی دو پتیلیاں مول لایا۔ چھوٹے چھوٹے برتن ماں سے مانگ لیے۔ لگن، توا، رکابی ساس نے بھیج دئیے۔ غرض کسی طرح کام چل نکلا۔

باب آٹھواں: ایک کٹنی کا اکبری کو ٹھگنا

اتفاق سے ان دنوں ایک کٹنی شہر میں وارد تھی اور ہر جگہ اس کا غل تھا۔ محمد عاقل نے بھی بی بی سے کہہ دیا تھا کہ کسی اجنبی عورت کو گھر میں مت آنے دینا۔ ان دنوں ایک کٹنی آئی ہوئی ہے۔ کئی گھروں کو لوٹ چکی ہے۔ لیکن مزاج دار شدت سے بے وقوف تھی اس کی عادت تھی کہ ہر ایک سے جلد گھل مل جانا۔ ایک دن وہی کٹنی حجن کا بھیس بنا، اس گلی میں آئی۔ یہ مکار حجن بے وقوف عورتوں کو پھسلانے کے لیے طرح طرح کے تبرکات اور صدہا قسم کی چیزیں اپنے پاس رکھا کرتی تھی۔ تسبیح، خاک شفا، زمزمیاں، مدینہ منورہ کی کھجوریں، کوہ طور کا سرمہ، خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا، عقیق البحر اور مونگے کے دانے اور ناد علی، پنج سورہ اور بہت سی دعائیں۔ گلی میں آکر جو اس نے اپنی دکان کھولی تو بہت سی لڑکیاں جمع ہوگئیں۔ مزاج دار نے بھی سنا۔ زلفن سے کہا "گلی سے اٹھنے لگے تو حجن کو یہاں بلا لانا۔ ہم بھی تبرکات کی زیارت کریں گے۔" زلفن جا کھڑی ہوئی اور حجن کو بلا لائی۔ مزاج دار نے بہت خاطر داری سے حجن کو پاس بٹھایا اور سب چیزیں دیکھیں۔ سرمہ اور ناد علی دو چیزیں پسند کیں۔ حجن نے مزاج دار کو باتوں ہی باتوں میں تاڑ لیا کہ یہ عورت جلد ڈھب پر چڑھ جائے گی۔ ایک پیسے کا بہت سا سرمہ تول دیا اور دو آنے کو ناد علی حوالے کی اور فیروزے کی ایک انگوٹھی تبرک کے طور پر اپنے پاس سے مفت دی۔ مزاج دار ریجھ گئی۔ اس کے بعد حجن نے سمندر کا حال، عرب کی کیفیت اور دل سے جوڑ کر دو چار باتیں ایسی کیں کہ مزاج دار نے کمال شوق سے سنا اور اس کی طرف ایک خاص التفات کیا۔ حجن نے پوچھا "کیوں بی تمہارے کوئی بال بچہ نہیں؟"
مزاج دار نے ایک آہ کھینچ کر کہا "ہماری تقدیر ایسی کہاں تھی؟"
حجن نے پوچھا "بیاہ کو کتنے دن ہوئے؟"
مزاج دار نے کہا "ابھی برس روز نہیں۔"
مزاج دار کی بے عقلی کا اب حجن کو یقین ہوا اور دل میں کہنے لگی کہ اس نے تو اولاد کا نام سن کی ایسی آہ کھینچی جیسے برسوں کا امیدوار۔ حجن نے کہا "ناامیدی کی بات نہیں تمہاری تو اتنے بچے ہوں گے کہ تم سنبھال بھی نہ سکو گی۔ البتہ بالفعل اکیلے گھر میں جی گھبراتا ہوگا۔ میاں کا کیا حال ہے؟"
مزاج دار نے کہا "ہمیشہ مجھ سے ناخوش رہا کرتے ہیں۔"
غرض پہلی ہی ملاقات میں مزاج دار نے حجن کے ساتھ ایسی بے تکلفی کی کہ اپنا حال جز و کل اس سے کہہ دیا اور حجن نے باتوں ہی باتوں میں تمام بھید معلوم کرلیا۔ ایک پہر کامل حجن بیٹھی رہی۔ رخصت ہونے لگی تو مزاج دار نے بہت منت کی کہ اچھی بھی حجن، اب کب آؤگی؟ حجن نے کہا "میری بھانجی موم گروں کے چھتے ہی رہتی ہے اور بہت بیمار ہے۔ اسی کے علاج کے واسطے میں آگرے سے آئی ہوں۔ اس کے دوا معالجے سے فرصت کم ہوتی ہے۔ مگر انشاءاللہ دوسرے تیسرے دن تم کو دیکھ جایا کروں گی۔"
اگلے دن حجن پھر آموجو د ہوئی اور ایک ریشمی ازاربند لیتی آئی۔ مزاج دار دور سے حجن کو آتے دیکھ کر خوش ہوگئی اور پوچھا "یہ ازار بند کیا ہے؟"
حجن نے کہا "بکاؤ ہے۔"
مزاج دار نے پوچھا "کتنے کا ہے؟"
حجن نے کہا "چار آنے کا۔ محلے میں ایک بیگم رہتی ہیں، اب غریب ہوگئی ہیں۔ اسباب بیچ بیچ کر گزر کرتی ہیں۔ میں اکثر ان کی چیزیں بیچ دیا کرتی ہوں۔"
مزاج دار اتنا سستا ازار بند دیکھ کر لوٹ ہوگئی۔ فورا پیسے نکال حجن کے ہاتھ پر رکھ دئیے اور بہت گڑگڑا کر کہا "اچھی بی! جو چیز بکاؤ ہوا کرے پہلے مجھ کو دکھا دیا کرو۔"
حجن نے کہا "بہت اچھا۔ پہلے تم، پیچھے اور۔"
اس کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہوا کیں۔ چلتے ہوئے حجن نے ایک بٹوا نکالا، اس میں کپڑے اور کاغذ کی کئی تہوں میں تھوڑی سی لونگیں تھیں۔ ان میں سے دو لونگیں حجن نے مزاج دار کو دیں اور کہا کہ دنیا میں ملاقات اور محبت اس واسطے ہوا کرتی ہے کہ ایک دوسرے کو فائدہ ہو۔ یہ دو لونگیں میں تم کو دیتی ہوں۔ ایک کو تم اپنی چوٹی میں باندھ لو، دوسری بہتر تھا کہ تمہارے میاں کی پگڑی میں رہتی۔ پر تمہارے میاں شاید شبہ کریں۔ خیر تکیے میں سی دو اور ان کا اثر آج ہی دیکھ لینا۔ لیکن اتنی احتیاط کرنا کہ پاک صاف جگہ میں رہیں اور اپنے قد کے برابر ایک کلاوہ مجھ کو ناپ دو۔ میں تم کو ایک گنڈا لادوں گی۔ میں جب حج کو گئی تھی تو اسی جہاز میں ایک بھوپال کی بیگم بھی سوار تھیں۔ شاید تم نے نام سنا ہو، بلقیس جہانی بیگم۔ سب کچھ خدا نے ان کو دے رکھا تھا۔ دولت کی کچھ انتہا نہ تھی۔ نوکر، چاکر، لونڈی، غلام، پالکی نالکی سبھی کچھ تھا۔ ایک تو اولاد کی طرف سے رنجیدہ رہا کرتی تھیں، کوئی بچہ نہ تھا، دوسرے نواب صاحب کو ان کی طرف مطلق التفات نہ تھا۔ شاید اولاد نہ ہونے کے سبب محبت نہ کرتے ہوں۔ ورنہ بیگم صورت میں چندے آفتاب چندے مہتاب۔ اور حسن و دولت پر مزاج ایسا سادہ کہ ہم جیسے ناچیزوں کو برابر بٹھانا اور پوچھنا۔ بیگم کو فقیروں پر پرلے درجے کا اعتقاد تھا۔ ایک دفعہ سنا کہ تین کوس پر کوئی کامل وارد ہے۔ اندھیری رات میں گھر سے پیادہ پا ان کے پاس گئیں اور پہر تک ہاتھ باندھے کھڑی رہیں۔ فقیروں کے نام کے قربان جائیے۔ ایک مرتبہ جو شاہ صاحب نے آنکھ اٹھا کر دیکھا، فرمایا کہ جا مائی، رات کو حکم ملے گا۔ بیگم کو خواب میں بشارت ہوئی کہ حج کو جا اور مراد کا موتی سمندر سے نکال لا۔ صبح کو اٹھ کر حج کی تیاریاں ہونے لگیں۔ پانسو مسکین بیگم نے آپ کرایہ دے کر جہاز پر سوار کرائے ان میں سے ایک میں بھی تھی۔ ہر وقت کا پاس رہنا، بیگم صاحبہ (الٰہی دونوں جہان میں سرخرو) مجھ پر بہت مہربانی کرنے لگیں اور سہیلی کہا کرتی تھیں۔ دس دن تک برابر جہاز پانی میں چلا۔ گیارہویں دن بیچ سمندر کے ایک پہاڑ دکھائی دیا۔ ناخدا نے کہا "کوہ حبشہ یہی ہے۔" ایک بڑا کامل فقیر اس پر رہتا تھا۔ جو گیا بامراد آیا۔ بیگم صاحبہ نے ناخدا سے کہا کہ کسی طرح مجھ کو اس پیاڑ پر پہنچا۔ ناخدا نے کہا حضور جہاز تو پہاڑ تک نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ اگر آپ ارشاد کریں تو جہاز کو لنگر کریں اور آپ کو ایک کشتی میں بٹھا کر لے چلیں۔ بیگم نے کہا خیر یہی سہی۔ پانچ عورتیں بیگم کے ساتھ کوہ حبشہ پر گئی تھیں۔ ایک میں اور چار اور۔ پہاڑ پر پہنچے تو عجیب طرح کی خوشبو مہک رہی تھی۔ چلتے چلتے شاہ صاحب تک پہنچے۔ ہو کا مقام نہ آدمی نہ آدم زاد، تن تنہا شاہ صاحب ایک غار میں رہتے تھے۔ کیسی نورانی شکل تھی، جیسے فرشتہ۔ ہم کو دعا دی، بیگم کو بارہ لونگیں دیں اور کچھ پڑھ کر دم کردیا۔ مجھ سے کہا، چلی جا۔ آگرے اور دلی میں لوگوں کے کام بنا۔ بیٹی، ان بارہ لونگوں میں سے دو لونگیں یہ ہیں۔ ہم سب حج کرکے لوٹے تو نواب صاحب یا بیگم کی بات نہ پوچھتے تھے یا یہ نوبت ہوئی کہ ایک مہینے آگے سے بمبئی میں آکر بیگم کو لینے کو پڑے تھے۔ جوں ہی بیگم نے جہاز پر سے پاؤں اتارا، نواب صاحب نے اپنا سر بیگم کے قدموں پر رکھ دیا اور رو رو کر خطا معاف کرائی۔ چھ برس میں بھوپال میں حج سے واپس آکر ٹہری۔ فقیر کی دعا کی برکت سے لگاتار اوپر تلے اللہ رکھے چار بیٹے بیگم کو میرے رہتے ہوچکے تھے۔ پھر مجھ کو اپنا دیس یاد آیا۔ بیگم سے اجازت مانگی۔ بہت روکا میں نے کہا کہ شاہ صاحب نے مجھ کو دلی، آگرے کی خدمت سپرد کی ہے۔ مجھ کو وہاں جانا ضرور ہے۔ یہ سن کر بیگم نے چار و ناچار مجھ کو رخصت کیا۔"
دو لونگیں، اس کے ساتھ دو ورق کی حکایت دلچسپ۔ مزاج دار دل و جان سے معتقد ہوگئیں۔ حجن تو لونگیں دے کر رخصت ہوئی۔ مزاج دار بہو نے غسل کر، کپڑے بدل، خوشبو لگائی ایک لونگ بسم اللہ کرکے اپنی چوٹی میں باندھی اور میاں کے پلنگ کی چادر اور تکیوں کے غلاف بدل، ایک لونگ کسی تکیے میں رکھ دی۔ محمد عاقل جو گھر آیا، بی بی کو دیکھا، صاف ستھری، پلنگ کی چادر بے کہے بدلی ہوئی۔ خوش ہوا اور التفات کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔
مزاج دار نے کہا۔ "دیکھو ہم نے آج ایک چیز مول لی ہے۔" یہ کہہ کر ازاربند دکھایا۔
محمد عاقل نے کہا "کتنے کو لیا ہے؟"
مزاج دار نے کہا "تم آنکو کتنے کا ہے۔"
وہ ازار بند خاص لاہور کا بنا ہوا نہایت عمدہ تھا۔ چوڑا چکلا، کلابتوں کے لچھے دار لڑیں۔

محمد عاقل نے کہا "دو روپے سے کسی طرح کم نہیں۔"
مزاج دار: چار آنے کو لیا ہے۔
محمد عاقل: سچ کہو۔
مزاج دار: تمہارے سر کی قسم، چار ہی آنے کو لیا ہے۔
محمد عاقل: بہت سستا ہے۔ کہاں سے مل گیا؟
مزاج دار: ایک حجن بڑی نیک بخت ہے۔ بہت دنوں سے گلی میں آیا کرتی ہے۔ کسی بیگم کا ہے بیچنے کو لائی تھی۔ یہ کہہ کر سرمہ، ناد علی، فیروزے کی انگوٹھی بھی مزاج دار نے دکھائی۔ طمع ایسی چیز ہے کہ بڑا سیانا آدمی بھی دھوکا کھا جاتا ہے۔ جنگلی جانور، مینا، طوطا، لعل، بلبل ّدمی کی شکل سے بھاگتے ہیں، لیکن دانے کی طمع میں جال میں پھنس جاتے ہیں اور زندگی بھر قفس میں قید رہتے ہیں۔ اسی طرح محمد عاقل اپنا فائدہ دیکھ کر خوش ہوا اور جب مزاج دار نے کہا کہ وہ حجن بیگم کا تمام اسباب جو بکنے کو نکلے گا، میرے پاس لانے کا وعدہ کرگئی ہے تو محمد عاقل نے کہا "ضرور دیکھنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہ ہو چوری کا مال ہو۔ پیچھے خرابی پڑے۔ ہاں حجن کوئی ٹھگنی نہ ہو۔"
مزاج دار نے کہا "خدا خدا کرو! وہ حجن ایسی نہیں ہے۔"
غرض بات گئی گزری ہوئی۔ محمد عاقل سے جو آج ایسی باتیں ہوئیں، لونگوں پر مزاج دار کا اعتقاد جم گیا۔ اگلے دن زلفن کو بھیج حجن کو بلایا اور آج مزاج دار بیٹی بنیں اور حجن کو ماں بنایا۔ رات کے وقت محمد عاقل سے پھر حجن کا ذکر آیا۔ محمد عاقل نے کہا "دیکھو، ہوشیار رہنا۔ اس بھیس میں کٹنیاں اور ٹھگنیاں بہت ہوا کرتی ہیں۔" لیکن طمع نے خود محمد عاقل کی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ اتنی موٹی بات وہ نہ سمجھا کہ دو روپے کا مال چار آنے میں کوئی بے وجہ بھی دیتا ہے۔ محمد عاقل کو مناسب تھا کہ قطعا حجن کے آنے کی ممانعت کرتا اور سب چیزیں اس کو پھروادیتا۔ مزاج دار کو اتنی عقل کہاں تھی کہ اس تہہ کو سمجھتی۔ کئی دن کے بعد مزاج دار نے حجن سے پوچھا "کیوں بی آج کل بیگم کا کوئی سامان نہیں لاتیں؟"
حجن نے جان لیا کہ اس کو اچھی چاٹ لگ گئی ہے۔ کہا "تمہارے ڈھب کی کوئی چیز نکلے تو لاؤں۔" دو چار دن کے بعد جھوٹے موتیوں کی ایک جوڑی لائی اور کہا "لو بی، خود بیگم کی نتھ کے موتی ہیں۔ نہیں معلوم ہزار کی جوڑی ہے یا پانچ سو کی۔ پنامل جوہری کی دکان پر میں نے دکھائی تھی۔ لٹو ہو ہو گیا۔ دو سو روپے زبردستی میرے پلے باندھے دیتا تھا۔ میں بیگم سے پچاس روپے میں لائی ہوں۔ تم لے لو۔ پھر ایسا مال نہ ملے گا۔"
مزاج دار نے کہا "پچاس روپے نقد تو میرے پاس نہیں ہیں۔"
حجن نے کہا "کیا ہوا بیٹی۔ پہنچیاں بیچ کر لے لو۔ نہیں تو آج یہ موتی بک جائیں گے۔" حجن نے ایسے ڈھب سے کہا کہ مزاج دار فورا اپنا زیور کا صندوقچہ اٹھا لائی اور حجن کو پہنچیاں نکال حوالے کردیں۔ حجن نے مزاج دار کا زیور دیکھ کر کہا "اے ہے! کیسی بے احتیاطی سے زیور مولی گاجر کی طرح ڈال رکھا ہے۔ بیٹی دھگدگی میں ڈورا ڈلواؤ۔ بالی پتے، گلوبند، بازوبند میلے چکٹ ہوگئے ہیں۔ میل سونے کو کھائے جاتا ہے۔ ان کو اجلواؤ۔"
مزاج دار نے کہا "کون ڈورے ڈلوائے اور کون اجلوا کر لائے۔ ان سے کہتی ہوں تو وہ کہتے ہیں مجھے فرصت نہیں۔"
حجن نے کہا "اوئی بیٹی! یہ کون سا بڑا کام ہے۔ لو موتی رہنے دو۔ میں ابھی ڈورا ڈلوادوں اور جو زیور ملا ہے، نکال دو۔ میں ابھی اجلوا دوں۔"
مزاج دار نے سب زیور حوالے کیا۔ حجن نے کہا "زلفن کو بھی ساتھ کردو۔ سنار کے پاس بیٹھی رہے گی۔ میں پٹوے سے ڈورے ڈلواؤں گی۔"
مزاج دار نے کہا "اچھا۔" یہ کہہ کر زلفن کو آواز دی۔ آئی تو حجن نے کہا "لڑکی ذرا میرے ساتھ چل۔ سنار کی دکان پر بیٹھی رہیو۔"
حجن نے زیور لیا۔ زلفن ساتھ ہوئی۔ گلی سے باہر نکل کر حجن نے رومال کھولا اور زلفن سے کہا، لاؤ اجلوانے کا الگ کرلیں اور ڈورا ڈلوانے کا الگ۔ زیور کو الگ کرتے کرتی حجن بولی "ایں! ناک کی کیل کیا ہوئی؟"
زلفن نے کہا "اسی میں ہوگی۔ ذرا بھر کی تو چیز ہے۔ اسی پوٹلی میں دیکھو۔"
پھر حجن آپ ہی آپ بولی "اے ہے! پان دان کے ڈھکنے پر رکھی رہ گئی۔ اری زلفن، دوڑ کر جا۔ جلدی سے لے آ۔"
زلفن بھاگی بھاگی آئی اور دروازے سے چلائی "بی بی ناک کی کیل پان دان کے ڈھکنے پر رہ گئی ہے۔ حجن نے مانگی ہے۔ جلدی دو۔ حجن گلی کے نکڑ پر دیبا بنئے کی دکان کے آگے بیٹھی ہیے۔"
یہ کہنا تھا کہ مزاج دار بہو کا ماتھا ٹھنکا۔ زلفن سے کہا "باؤلی ہوئی ہے؟ کیسی کیل؟ میرے پاس کہیں تھی؟ تو نے دیکھی ہے؟ اری کم بخت! دوڑ۔ دیکھ تو حجن کہیں چلی نہ جائے۔"
زلفن الٹے پاؤں دوڑی گئی۔ حجن کو ادھر ادھر دیکھا، کہیں پتہ نہ تھا۔ مزاج دار سے آکر کہا "بی حجن کا تو کہیں پتہ نہیں۔ میں بازار تک دیکھ آئی۔ اتنی دیر میں نہیں معلوم کہاں غائب ہوگئی۔"
یہ سن کر مزاج دار سر پیٹنے لگی "ہائے! میں لٹ گئی! ہائے میں لٹ گئی! ارے لوگو! خدا کے لیے دوڑیو۔"
موم گروں کے چھتے تک لوگ دوڑے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کہیں کی بہتی بہاتی مہینے بھر سے کرائے پر آکر رہی تھی۔ چار دن سے مکان چھوڑ چلی گئی۔ اب کیا ہوسکتا تھا۔ محمد عاقل نے آکر سنا تو سر پیٹ لیا اور بیوی سے کہا "اری! تو گھر کو خاک سیاہ کرکے چھوڑے گی۔ میں تو تجھ کو پہلے سے جانتا ہوں۔"
مزاج دار نے کہا "چل دور رہو۔ اب باتیں بنانے کھڑا ہوا ہے۔ ازار بند دیکھ کر تو نے مجھ سے کہا تھا کہ بیگم کا اسباب ضرور دیکھنا۔"
غرض خوب مزے کی لڑائی دونوں میاں بی بی میں ہوئی۔ تمام محلہ جمع ہوگیا۔ بات پر بات چلی تو معلوم ہوا کہ اسی حجن نے کنچنی کی گلی میں احمد بخش خان کی بی بی کا تمام زیور اس حیلے سے ٹھگ لیا کہ ایک فقیر سے دونا کرادوں گی۔ رائی کے کٹرے میں میاں مستیا کی بیٹی سے ایسی محبت بڑھائی کہ اس کا زیور بہانے سے اڑا لے گئی۔ غرض زیور تو کیا گزرا ہوا۔ باتیں بہت سی رہ گئیں۔ برتن چوری جاچکے تھے۔ زیور یوں غارت ہوا۔ ہزار روپے کے موتیوں کی جوڑی جو لوگوں نے دیکھی تو تین پیسے کی تھی۔ تھانے میں اطلاع ہوئی۔ لوگوں نے بطور خود بہت ڈھونڈا، حجن کا سراغ نہ ملا پر نہ ملا۔
اکبری کو جہیز میں جو کپڑے ملے تھے، ان کا حال سنئیے۔ جب تک ساس کے ساتھ رہیں، ساس دسویں دن نکال کر دھوپ دے کرتی تھیں۔ شروع برسات میں الگ ہوکر رہیں۔ کپڑوں کا صندوق جس کوٹھڑی میں جس طرح رکھا گیا تھا، تمام برسات گزر گئی، اس کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ وہیں اسی طرح رکھا رہا۔ جاڑے کی آمد میں دولائی کی ضرورت ہوئی تو صندوق کھولا گیا۔ بہت سے کپڑوں کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ چوہوں نے کاٹ کاٹ کر بغارے ڈال دئیے تھے۔ کوئی کپڑا سلامت نہیں بچنے پایا۔
اکبری کا جتنا حال تم پڑھا، اس سے تم کو معلوم ہوگا کہ اکبری کو نانی کے لاڈ پیار نے زندگی بھی کیسی مصیبت میں رکھا۔ لڑکپن میں اکبری نے نہ تو کوئی ہنر سیکھا نہ کچھ اس کے مزاج کی اصلاح ہوئی۔ جب اکبری نے ساس سے جدا ہوکر الگ گھر کیا، برتن بھانڈا، کپڑا زیور سب کچھ اس کے پاس موجود تھا۔ چونکہ خانہ داری کا سلیقہ نہیں رکھتی تھی، چند روز میں تمام مال و اسباب خاک میں ملادیا اور ایک برس میں ہاتھ کان سے ننگی رہ گئی۔ اگر محمد عاقل بھی اس کی طرح احمق اور بدمزاج ہوتا تو شاید ایک دوسرے سے قطع تعلق ہوجاتا، لیکن محمد عاقل نے ہمیشہ عقل و شرافت کو برتا۔ ہم کو اکبری کے اتنے حالات معلوم ہیں کہ اگر ہم سب کو لکھنا چاہیں تو ایسی تین چار کتابیں بنیں مگر اکبری کے حالات پڑھنے سے کبھی تو غصہ آتا ہے اور کبھی طبیعیت کڑھتی ہے۔ اس سے اس کے زیادہ حالات لکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس کی چھوٹی بہن اصغری کا حال کیوں نہ لکھیں کہ بات بات پر پڑھنے والوں اور سننے والوں کا سب کا جی خوش ہوجائے۔

باب نواں: اصغری کا بیاہ اور اس کا مختصر حال

یہ لڑکی اپنی ماں کے گھر ایسی تھی جیسے گلاب کا پھول یا آدمی کے جسم میں آنکھ۔ ہر ایک طرح کا ہنر، ہر ایک طرح کا طور سلیقہ اسے حاصل تھا۔ دانائی، ہوشیاری، ادب، قاعدہ، مروت، نیک دلی، ملنساری، خداترسی، حیا، لحاظ سب صفتیں خدا نے اصغری کو عنایت کی تھیں۔ لڑکپن سے اس کو کھیل کود ہنسی اور چھیڑ سے نفرت تھی۔ پڑھنا یا گھر کا کام کرنا۔ کبھی اس کو واہیات بکتے یا کسی سے لڑتے نہیں دیکھا۔ محلے کی جتنی عورتیں تھیں، سب اس کو بیٹیوں کی طرح چاہتی تھیں۔ بے شک زہے قسمت اس ماں باپ کی کہ جن کی بیٹی اصفری تھی اور خوشا نصیب اس گھر کے جس میں اصغری بہو بن کر جانے والی تھی۔ اب خدا کے فضل و کرم سے اصغری کی عمر تیرہ برس کی ہوئی۔ بات تو اس کی محمد کامل سے ٹھیری ٹھہرائی تھی، اب چرچا ہونے لگا کہ مہینا اور دن مقرر ہوجائے۔ ادھر محمد کامل کی ماں اکبری کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ مثل ہے، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اکبری کے تصور سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ درپردہ محمد کامل کی ماں کا ارادہ تھا کہ چھوٹے لڑکے کی منگنی کسی اور جگہ کروں کہ محمد عاقل کو کسی طرح معلوم ہوگیا اور اس نے ماں سے کہا "اماں میں نے سنا ہے کہ تم محمد کامل کی منگنی چھڑانی چاہتی ہو۔"
ماں نے کہا "کیا بتاؤں، بیٹا۔ بڑی سوچ میں ہوں۔ کیا نہ کرو۔ تم سے میری آنکھ سامنے نہیں ہوتی خدا نے مجھ کو تمہارا گنہگار بنادیا۔ دیکھئے محمد کامل کی قسمت کیسی ہے۔"
محمد عاقل نے کہا "اماں، میں سچ کہتا ہوں، اصغری ہزار لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ عمر بھر چراغ لے کر ڈھونڈوگی تو اصغری جیسی لڑکی نہ پاؤ گی۔ صورت سیرت دونوں میں خدا نے لائق فائق بنایا ہے۔ ہرگز اندیشہ مت کرو بسم اللہ کرکے بیاہ ڈالو اور بڑی بہن پر مت خیال کرو یہ تو آپ نے سنا ہوگا۔

نہ ہر زن زن است نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد

اپنا اپنا مزاج ہے اور اپنی اپنی طبیعیت

گل جو چمن میں ہیں ہزار، دیکھ ظفر ہے کیا بہار
سب کا ہے رنگ جدا جدا، سب کی ہے بو الگ الگ

تمہاری بڑی بہو کو لاحول ولا قوۃ اصغری سے کیا نسبت

چہ نسبت خاک را با عالم پاک

اور خدارا تم میری بات کا یقین کرو۔ مجھ کو اپنے بارے میں تم سے ذرا بھی شکایت نہیں۔ اس خیال کو طبیعت سے نکال ڈالو۔ میں خوب جانتا ہوں کہ کوئی کسی کے دل میں نہیں گھستا۔ ظاہر حال پر سب کی نظر پڑا کرتی ہے اور انجام کی خبر خدا کو ہے یوں تو جس کو بٹھاآگی کامل کی بی بی ہوگی۔ تمہاری بھوج ہوگی اور ہماری بھاوج۔ مگر اماں پھر کہتا ہوں کہ اصغری میری جانی بوجھی ہوئی لڑکی ہے۔ وہ شاید بڑی بہو کو بھی ٹھیک کرلے گی۔ ہے تو چھوٹی مگر سارا محلہ اس کا ادب کرتا ہے اور وہ ہے بھی اسی قابل۔ دیکھو، خدا کے لیے کہیں اصغری کو نہ چھوڑنا۔"
محمد عاقل نے جو اصغری کی اس قدر تعریف کی تو بات پکی ہوگئی۔ غرض دونوں سمدھیانے کی صلاح سے یہ امر قرار پایا کہ بقر عید کے اگلے دن اصل خیر سے نکاح ہو۔ اصغری کا باپ دور اندیش خان پہاڑ پر نوکر تھا۔ اس کو خط گیا۔ خط پہنچتے ہی خاں صاحب کی باچھیں کھل گئیں۔ اصغری کو سب بچوں میں بہت چاہتا تھا۔ فورا رخصت کی درخواست کی۔ جواب صاف ملا۔ بہت زور مارے، ایک نہ چلی۔ جاڑے کی آمد تھی۔ دورہ شروع کو تھا، بےچارگی کیا کرتا۔ قہر درویش بر جان درویش۔ چپ ہو کر بیٹھ رہا۔ لیکن بڑا بیٹا خیر اندیش خان تھا۔ پانسو روپے نقد دے کر اس کو گھر روانہ کیا اور سب پس و پیش سمجھادیا۔ گھر پر زیور، کپڑا، برتن سب پہلے سے موجود تھا۔ خیر اندیش خان نے مکان پر پہنچ کر چاول، گھی، گیہوں، مصالحہ، نمک سب بقدر ضرورت خرید لیا۔ اصغری کے کپڑوں میں مصالحہ ٹکنا شروع ہوا۔ ماں کا ارادہ تھا کہ اصغری کو بڑی بہن سے بڑھ چڑھ کر جہیز ملے۔ جوڑے بھی اس کے زیادہ ہوں برتن بھی استعمال کی وزنی دئیے جائیں۔ زیور کے عدد بھی زیادہ ہوں۔ اصغری آخر اسی گھر میں رہتی تھی۔ جو بات ہوتی اس کو ضرور معلوم ہوجاتی۔ جب اصغری نے سنا کہ مجھ کو آپا سے زیادہ جہیز ملنے والا ہے تو اس کو رنج ہوا اور اس فکر میں ہوئی کی کسی تدبیر سے اماں کو منع کردوں۔ آخر اپنی خالہ زاد بہن تماشا خانم سے شرماتے شرماتے کہا "میں نے ایسا سنا ہے۔ مجھ کو اس نہایت سوچ لگا ہے۔ کئی دن سے نہایت فکر میں تھی۔ الٰہی کیا کروں! اچھا ہوا تم آنکلیں۔ بوجہ ہم عمری تم سے کہنے میں تامل نہیں۔ کوئی اماں کو اتنی بات سمجھا دے کہ مجھ کو آپا سے زیادہ ایک چیز نہ دیں۔"
تماشا خانم نے سن کر کہا "تم بھی بوا کوئی تماشے کی عورت ہو۔ وہی کہاوت ہے، گدھے کو نون دیا، اس نے کہا میری آنکھیں دکھتی ہیں۔ خدا دلواتا ہے۔ تم کیوں انکار کرو؟"
اصغری نے کہا تم دیوانی ہو اس میں کئی قباحتیں ہیں۔ آپا کے مزاج سے تم واقف ہو۔ ان کو ضرور رنج ہوگا۔ ناحق اماں سے بدمزگی ہوگی۔ مجھے سے بھی ان کو بدگمانی پیدا ہوگی۔"
تماشا خانم نے کہا "بوا اس میں بدمزگی کی کیا بات ہے؟ اپنی اپنی قسمت ہے۔ اور سمجھنے کو سو طرح کی باتیں ہیں۔ ان کی بسم اللہ کی شادی ہوئی۔ روزہ کشائی ہوئی۔ چار برس تک منگنی رہی۔ تیز تیوہار ان کا کون سا نہیں ہوا؟ ان کی کسر ادھر سمجھ لیں۔"
اصغری نے کہا "سچ ہے، مگر نام تو جہیز کا ہے۔ چھوٹی کو زیادہ ملے گا تو بڑی کو رنج ہوگا ہی۔ ایک محلے کا رہنا، روز کا ملنا ملانا۔ جس بات سے دلوں میں فرق پڑے، وہ کیوں کی جائے؟"
تماشا خانم نے کہا "بہن ناحق تم اپنا نقصان کرتی ہو۔ اجی، مہینے دو مہینے میں سب بھول جائیں گے۔"
اصغری نے کہا "ابے بی، اللہ اللہ کرو۔ نفع نقصان کیسا؟ کہیں ماں باپ کے دینے سے پوری پڑتی ہے اور جہیز سے عمریں کٹتی ہیں؟ خدا اپنی قدرت سے دے۔ تم اس بات میں اصرار مت کرو۔ نہیں تو میں کوئی دوسری تدبیر کروں گی۔"
غرض اصغری کی ماں تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ بھی سوچ کر اپنے ارادے سے باز رہیں۔ دل میں کہنے لگیں "دینے کے سو ڈھب ہیں دوسری جگہ سمجھ لوں گی۔" الغرض روز مقررہ کو ساعت نیک میں نکاح ہوگیا۔ مبارک سلامت ہونے لگی۔ خیر اندیش خاں ایسا منتظم آدمی تھا کہ اکیلے نے نہایت خوبی کے ساتھ بہن کا بیاہ کردیا۔ باراتیوں کی مدارات اعلی قدر مراتب خوب ہوئی۔ حق حقوق والوں کو خاصی طرح راضی کردیا۔ جب اصغری کی رخصت کا وقت آ پہنچا، گھر میں آفت برپا تھی۔ ماں پر تو نہایت درجے کا صدمہ تھا۔ محلے کی بیبیوں کا یہ حال تھا کہ آ آ کر اصغری کو گلے سے لگا کر روتی تھیں۔ اور ہر ایک کے دل سے دعا نکلتی تھی۔ اصغری ان دعاؤں کا بڑا بھاری جہیز لے کر سسرال میں داخل ہوئی۔ وہاں کی جو رسمیں تھیں، ادا ہوئیں۔ رونمائی کے بعد اصغری خانم کو تمیزدار بہو کا خطاب ملا۔ آگے چل کر تم کو معلوم ہوجائیگا کہ اصغری خانم نے خانہ داری کو کس طرح سنبھالا، کیا کیا مشکلیں اس کو پیش آئیں اور اس نے اپنی عقل سے کیوں کر ان کو رفع کیا۔
ذرا اصغری کی حالت کا اکبری کی حالت سے مقابلہ کرنا چاہيے۔ اصغری کی ماں دوسری بیٹی اور ساس کی دوسری بہو تھی۔ دونوں طرف ارمان اور حوصلے اکبری کے بیاہ میں نکل چکے تھے۔ اکبری سولہ برس کی بیاہی گئی تھی اور اصغری بیاہ کے وقت پوری تیرہ برس کی بھی نہ تھی۔ جب اکبری کا بیاہ ہوا اس کا دولہا محمد عاقل دس روپے کا نوکر تھا اور اصغری کا دولہا محمد کامل ہنوز پڑھ رہا تھا۔ محمد عاقل کی نسبت محمد کامل کم علم اور کم عقل تھا۔ اکبری کامل دو برس تک بچوں کے بکھیڑے سے آزاد رہی اور اصغری کو خدا نے بیاہ کے دوسرے برس ہی چھوٹی سی عمر ماں بنادیا۔ اکبری کو کبھی شہر سے باہر نکلنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اصغری برسوں سفر میں رہی۔ پس بہرحال، اصغری کی حالت اکبری کے مقابلے میں اچھی نہ تھی مگر اصغری کی چھٹپن سے تربیت ہوئی تھی۔ روز بروز گھر میں برکت زیادہ ہوتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ اکبری کا نام بھی کوئی نہیں جانتا اور خانم کے بازار میں تمیزدار بہو کا وہ عالیشان محل کھڑا ہے کہ آسمان سے باتیں کرتا ہے اور اصغری خانم کے نام سے ہی وہ خانم بازار مشہور ہوا۔ جوہری بازار میں وہ اونچی مسجد جس میں حوض اور کنواں ہے، تمیزدار بہو ہی کی بنوائی ہوئی ہے۔ خاص بازار سے آگے بڑھے کر لال ڈگی کی بغل میں تمیز گنج اسی کا ہے۔ مولوی محمد حیات کی مسجد میں اب تک بیس مسافروں کو اس کے لنگر خانے سے خمیری روٹی اور چنے کا قلیہ دونوں وقت پہنچا کرتا ہے۔ قطب صاحب میں اولیاء مسجد کے برابر سرائے اسی تمیزدار بہو کی بنوائی ہوئی ہے۔ رمضان کے رمضان فتح پوری میں بمبئی کے چھاپے پانسو قرآن اسی کی طرف سے تقسیم ہوا کرتے ہیں۔ ہزار کمبل آتے جاڑے میں مسکینوں کو اس کے گھر سے ملتے ہیں۔
جب خیر اندیش خان نے اپنے باپ دور اندیش خاں کو اطلاع کی کہ خدا کے فضل و کرم سے خیر و خوبی کے ساتھ ہمشیرہ عزیزہ کا عقد ذی الحجہ کی گیارہویں تاریخ مہر فاطمہ (رض) پر ہوگیا، دور اندیش خان نے دو رکعت نماز نفل شکرانہ ادا کی۔ لیکن بیٹی کی مفارقت کا قلق بہت دنوں تک رہا۔

باب دسواں : بیاہی ہوئی لڑکیوں کے لیے عمدہ نصیحت

اصغری کے نام شادی ہوجانے کے بعد دور اندیش خان نے جو خط لکھا، وہ دیکھنے لائق ہے۔ اتفاق سے ہم کو اس کی نقل ہاتھ آگئی تھی۔ وہ خط یہ ہے:۔
آرام دل و جانم برخوردار اصغری خانم سلمہا اللہ تعالی۔ دعا اور اشتیاق دیدہ بوسی کے بعد واضح ہو کہ تمہارے بھائی خیر اندیش کے لکھنے سے تمہاری رخصت کا حال معلوم ہوا۔ برسوں سے یہ تمنا دل میں تھی کہ اس فرض کو میں اپنے اہتمام خاص سے ادا کروں مگر حاکم نے رخصت نہ دی۔ مجبور رہا۔ یہ بات تم پر ظاہر ہوئی ہوگی کہ سب بچوں میں تم سے مجھ کو ایک خاص طرح کا انس تھا اور میں اس بات کو بطور اظہار احسان نہیں لکھتا بلکہ تم نے اپنی خدمت گزاری اور فرماں برداری سے خود میرے اور سب کے دل میں جگہ پیدا کی تھی۔ آٹھ برس کی عمر سے تم نے میرے گھر کا تمام بوجھ اپنے سر پر اٹھا رکھا تھا۔ مجھ کو ہمیشہ یہ بات معلوم ہوتی رہی کہ تمہارے سبب بیگم یعنی تمہاری ماں کو بڑی بے فکری حاصل ہے۔ جب کبھی اس اثناء میں مجھ کو گھر جانے کا اتفاق ہوا، تمہارا انتظام دیکھ ہمیشہ میرا جی خوش ہوا۔ اب تمہارے رخصت ہوجانے سے ایسا نقصان ہوا کہ اس کی تلافی شاید اس عمر میں ہونے کی مجھ کو امید نہیں ہوسکتی۔ خدا تم کو جزائے خیر دے اور اس خدمت کے صلے میں میرے دعاؤں کا اثر تم پر ظاہر ہو۔ خیر اندیش خان کے خط سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تم نے اکبری خانم سے زیادہ جہیز نہیں لینا چاہا۔ اس سے تمہاری بلند نظری اور عالی ہمتی ثابت ہوتی ہے۔ مگر میں اس کا نعم البدل بھیجتا ہوں۔ وہ یہ خط ہے۔ اس کو تم بطور دستورالعمل کے اپنے پاس رکھو اور ان نصیحتوں پر عمل کرو۔ انشاءاللہ تعالٰی ہر ایک مشکل تم پر آسان ہوگی اور اپنی زندگی آرام و آسائش میں بسر کروگی۔
سمجھنا چاہیے کہ بیاہ کیا چیز ہے۔ بیاہ صرف یہی بات نہیں کہ رنگین کپڑے پہنے، مہمان جمع ہوئے، مال و اسباب و زیور پایا۔ بلکہ بیاہ سے نئی دنیا شروع ہوتی ہے نئے لوگوں سے معاملہ کرنا اور نئے گھر میں رہنا پڑتا ہے۔ جس طرح پہلے بچھڑوں پر جوا رکھا جاتا ہے، آدمی کے بچھڑوں کو جوا بیاہ ہے۔ بیاہ ہوا، لڑکی بی بی بنی، لڑکا میاں بنا۔ اس کے یہی معنی ہیں کہ دونوں کو پکڑ کر دنیا کی گاڑی میں جوت دیا۔ اب یہ گاڑی قبر کی منزل تک ان کو کھینچنی پڑے گی۔ پس یہ بہتر ہے کہ دل کو مضبوط کرکے اس مہم کا سر انجام کیا جائے اور زندگی کے دن جس قدر ہوں، عزت، آبرو، صلح کاری، اتفاق سے کاٹ دئیے جائیں۔ ورنہ لڑائی بھڑائی، جھگڑے، بکھیڑے، شور و شر، فساد اور ہائے وادیلا سے دنیا کی مصیبت اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔
اب تم کو، اے میری پیاری بیٹی، اصغری خانم، سوچنا چاہیے کہ میاں بی بی میں خدا نے کتنا فرق رکھا ہے۔ مذہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام بہشت میں اکیلے گھبرایا کرتے تھے۔ ان کے بہلانے کو خدا نے حضرت حوا کو جو سب سے پہلی عورت دنیا میں گزری ہیں، پیدا کیا۔ پس عورت کا پیدا کرنا صرف مرد کی خوش دلی کے واسطے تھے اور عورت کا فرض ہے، مرد کو خوش رکھنا۔ افسوس کی دنیا میں کس قدر کم عورتیں اس فرض کو ادا کرتی ہیں۔ مردوں کا درجہ خدا نے عورتوں پر زیادہ کیا، نہ صرف حکم دینے سے بلکہ مردوں کے جسم میں زیادہ قوت اور ان کی عقلوں میں روشنی دی ہے۔ دنیا کا بندوبست مردوں کی ذات سے ہوتا ہے۔ مرد کمانے والے اور عورتیں ان کی کمائی کو مناسب موقع پر خرچ کرنے والیاں اور اس کی نگہبان ہیں۔ کنبہ بطور کشتی ہے اور مرد اس کے ملاح ہیں۔ اگر ملاح نہ ہو تو کشتی پانی کی موجوں میں ڈوب جائے گی یا کسی کنارے پر ٹکر کھا کر پھٹ جائے گی۔ کنبے میں اگر مرد منتظم نہیں تو اس میں ہر طرح کی خرابی کا احتمال ہے۔ کبھی نہیں خیال کرنا چاہئیے کہ دنیا میں خوشی صرف دولت سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر چہ اس میں بھی شک نہیں کہ دولت اکثر خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ بہت بڑے اور اونچے گھروں میں لڑائی اور فساد ہم زیادہ پاتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ صرف دولت سے تو خوشی نہیں ہوتی۔ برخلاف اس کے اکثر خاندانوں میں خوشی صرف اتفاق اور صلح کاری کے سبب ہے۔ وہ دال روٹی اور گاڑھے دھوتر میں زیادہ آرام سے ہیں، بہ نسبت نوابوں اور بیگم کے جن کا تمام عیش آپس کی ناسازگاری سے تلخ رہتا ہے۔ اے میری پیاری بیٹی اصغری خانم! اتفاق پیدا کرو اور صلح کاری کو غنیمت جانو۔
اب دیکھنا چاہيے کہ اتفاق کن باتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ نہ صرف اس بات سے کہ بی بی اپنے میاں سے محبت کرے بلکہ محبت کے علاوہ اس کو میاں کا ادب کرنا بھی لازم ہے۔ بڑی نادانی ہے اگر بی بی میاں کو برابر کے درجے میں سمجھے۔ بلکہ اس زمانے میں عورتوں نے ایسا خراب دستور اختیار کیا ہے جو ادب کے بالکل خلاف ہے۔ جب چند سہیلیاں آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتی ہیں تو اکثر تذکرہ ہوتا کہ فلانی کا میاں اس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ رکھتا ہے۔ ایک کہتی ہے "بوا، میں نے تو یہاں تک ان کو دبایا ہے کہ کیا مجال جو میری بات کو کاٹیں یا الٹ کر جواب دیں۔" دوسری فخر کرتی ہے۔ "جب تک گھڑیوں خوشامد نہ کریں میں کھانا نہیں کھاتی۔" تیسری بڑائی مارتی ہے "میں تو دس مرتبہ پوچھتے ہیں تب ایک جواب مشکل سے دیتی ہوں۔" چوتھی ڈینگ کی لیتی ہے "چاہے وہ پہروں نیچے بیٹھے رہیں، بندی کو پلنگ سے اترنا قسم ہے۔" پانچویں شیخی بگھارتی ہے "جو میری زبان سے نکلتا ہے، پورا کراکے رہتی ہوں۔" شادی بیاہ کے ٹونے ٹوٹکے بھی اس غرض سے نکلے ہیں کہ میاں مطیع و فرماں بردار رہے۔ کہیں تو دلہن کی جوتی پر کاجل پاڑ کر میاں کے سرمہ لگایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر بھر جوتیا ں کھاتا رہے اور چوں نہ کرے۔ کہیں نہاتے وقت دلہن کے پاؤں کے نیچے بیڑا رکھا جاتا ہے اور میاں کو کھلایا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنے کہ پیروں پڑتا رہے۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ عورتیں مردوں کا درجہ اور اختیار کم کرنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن یہ تعلیم بہت بری ہے اور ہرگز قباحت سے خالی نہیں۔ مردوں کو خدا نے شیر بنایا ہے۔ اگر دباؤ زبردستی سے کوئی ان کو زیر کرنا چاہے تو ناممکن ہے۔ بہت آسان ترکیب ان کو زیر کرنے کی خوشامد اور تابعداری ہے۔ اور جو احمق عورت اپنا دباؤ ڈال کر مرد کو زیر کرنا چاہتی ہے وہ بڑی غلطی میں ہے۔ وہ شروع میں تخم فساد بوتی ہے اور اس کا انجام ضرور فساد ہوگا۔ اگرچہ اس کو بالفعل نہیں سمجھتی۔ اصغری خانم! میری صلاح یہ ہے کہ تم گفتگو اور نشست و برخاست میں بھی اپنے میاں کا ادب ملحوظ رکھنا۔ مذہب میں میاں بی بی کے متعلق بہت سے احکام ہیں اور چونکہ تم نے قرآن کا ترجمہ اور اردو کے بہت سے مذہبی رسالے پڑھے ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ وہ احکام تھوڑے بہت ضرور تمہارے خیال میں ہوں گے۔ ان احکام کا مجموعہ خانہ داری کے لیے بڑا دستور العمل ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی تعمیل میں تن دہی نہیں کرتے اور انہیں انواع و اقسام کی خرابیاں پیش آتی ہیں۔ میں نے حدیث کی کتاب میں پڑھا تھا کہ اگر خدا کے سوائے دوسرے کو سجدہ کرنا روا ہوتا تو پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بی بی کو حکم دیتا کہ اپنے میاں کو سجدہ کیا کرے۔ بس اسی بات سے تم خیال کرسکتی ہو کہ میاں بی بی میں کیا نسبت ہے۔ اب اس کے ساتھ ملکی رواج کو ملاؤ کہ بی بی نہ تو میاں کو چھوڑ سکتی ہے، نہ بدل سکتی ہے نہ اس سے کسی وقت کسی حال میں بے نیاز ہوسکتی ہے۔ تو سوائے اس کے کہ سچے دل سے آپ اس کی ہورہے اور اطاعت سے، فرماں برداری سے، خوشامد سے، جس طرح ممکن ہو، اس کو اپنا کرکے، عافیت کی، عزت آبرو کی زندگی بسر کرے، دوسری تدبیر ہے اور نہ ہونی ممکن ہے۔
کیا وجہ ہے کہ شادی بیاہ ایسے چاؤ سے ہوتا ہے اور چوتھی کے بعد ہی بہو سے ساس نند کا بگاڑ شروع ہوجاتا ہے؟ یہ مضمون غور کے قابل ہے۔
بیاہ کے بعد پہلے تک لڑکا ماں باپ میں رہا اور صرف ان ہی کے ساتھ اس کو تعلق تھا۔ ماں باپ نے اس کو پرورش کیا اور توقع کرتے رہے کہ بڑھاپے میں ہمارے خدمت کرے گا۔ بیاہ کے بعد بہو ڈولی سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ماں باپ کو چھوڑ دیں۔ پس لڑائی ہمیشہ بہو کی طرف سے شروع ہوتی ہے۔ اگر بہو کنبے میں مل کر رہے اور کبھی ساس کو معلوم نہ ہو کہ بیٹے کو ہم سے چھڑانا چاہتی ہے تو ہرگز فساد پیدا نہ ہو۔ یہ تو سب کوئی جانتا ہے کہ بیاہ کے بعد ماں باپ کے ساتھ تعلق چند روزہ ہے۔ آخر گھر الگ ہوگا۔ میاں بی بی جدا ہوکر رہیں گے۔ دنیا میں یہی ہوتی آئی ہے لیکن نہیں معلوم کم بخت بہوؤں میں بے صبری کہاں کی پڑجاتی ہے کہ جو کچھ ہونا ہو اسی دم ہوجائے۔ بہوؤں میں ایک عیب چغلی کا ہوتا ہے جو بنیاد فساد ہے۔ وہ یہ کہ سسرال کی ذرا سی بات آ کر ماں سے لگاتی ہیں اور مائیں خود بھی کھود کر پوچھا کرتی ہیں۔ لیکن اس کہنے اور پوچھنے سے سوائے اس کے لڑائیاں پڑیں اور جھگڑے کھڑے ہوں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
بعض بہوؤیں اس طرح کی مغرور ہوتی ہیں کہ سسرال میں کیسا ہی اچھا کھانا اور کیسا ہی اچھا کپڑا ان کو ملے، ہمیشہ حقارت سے دیکھتی ہیں۔ ایسی باتوں سے میاں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ اصغری اس کی تم کو بہت احتیاط چاہیے۔ سسرال کی ہر ایک چیز قابل قدر ہے اور تم کو ہمیشہ کھانا کھا کر اور کپڑے پہن کر بشاشت ظاہر کرنی چاہيے۔ جس سے معلوم ہو کہ تم نے پسند کیا۔ نئی دلہن کو اس بات خیال بھی ضرور رکھنا چاہیے کہ سسرال میں بے دلی سے نہ رہے۔ اگرچہ اوپری ہونے کے سبب اجنبی لوگوں میں جی نہیں لگتا؟ لیکن جی کو سمجھانا چاہیے۔ نہ یہ کہ روتے ہوئے گئے، وہاں رہے تو روتے رہے۔ جاتے دیر نہیں ہوئی آنے کا تقاضا شروع ہوا۔ رفتہ رفتہ انس پیدا کرنے کے واسطے چالوں کا رواج بہت پسندیدہ ہے۔ اس سے زیادہ میکے کا شوق ظاہر کرنا سسرال والوں کو ضرور ناپسند ہوتا ہے۔
گفتگو میں درجہ اوسط ملحوظ رہے۔ یعنی نہ اتنی بہت کہ خودبخود بک بک، نہ اتنی کم کہ غرور سمجھا جائے۔ بہت بکنے کا انجام برا ہوتا۔ جب رات دن کی بکواس ہوگی، ہزاروں طرح کا تذکرہ ہوگا۔ نہیں معلوم کہ کس تذکرے میں کیا بات منہ سے نکل جائے۔ نہ اتنی کم گوئی اختیار کرنا چاہیے کہ بولنے کے واسطے لوگ خوشامد اور منت کریں۔ ضد اور اصرار کسی بات پر زیبا نہیں۔ اگر کوئی بات تمہاری مرضی کے خلاف بھی ہو، اس وقت ملتوی رکھو۔ پھر کسی دوسرے وقت بطرز مناسب طے ہوسکتی ہے۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تم کو اپنے ہاتھوں سے کرنا عار نہ سمجھنا چاہیے۔ چھوٹوں پر مہربانی اور بڑوں کا ادب ہر دلعزیز ہونے کے واسطے بڑی عمدہ تدبیر ہے۔ اپنا کوئی کام دوسروں کے ذمے نہیں رکھنا چاہیے اور اپنی کسی چیز کو بےخبری سے پڑا نہ رہنے دو کہ دوسرے اس کو اٹھالیں گے۔ جب دو آدمی چپکے چپکے باتیں کریں، ان سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔ پھر ان کی تفتیش بھی مت کرو کہ یہ آپس میں کیا کہتے تھے اور خواہ مخواہ یہ بھی مت سمجھو کہ کچھ ہمارا ہی تذکرہ تھا۔ اپنا معاملہ شروع سے ادب لحاظ کے ساتھ رکھو۔ جن لوگوں میں بہت جلد حد درجے کا اختلاط پیدا ہوجاتا ہے اسی قدر جلد ان میں رنجش پیدا ہونے لگتی ہے۔ فقط میں چاہتا ہوں کہ تم ہرروز بلاضرورت بھی اس خط کو کم سے کم ایک دفعہ پڑھ لیا کرو تاکہ اس کا مطلب پیش نظر رہے، والدعا۔
حررہ
خیر اندیش خان
باپ کا خط پا کر اصغری کے دل میں جوش محبت نے عجیب اثر پیدا کیا اور بے اختیار رونے کو جی چاہا۔ لیکن نئی بیاہی تھی، سسرال میں رو نہ سکی۔ ضبط کو کام میں لائی اور باپ کے خط کو آنکھوں سے لگا بہت احتیاط سے وظیفے کی کتاب میں رکھ لیا۔ ہر روز بلاناغہ اس کو پڑھتی اور اس کے مطلب پر غور کرتی تھی۔

باب گیارہواں: بیاہ کے بعد اصغری کا برتاؤ اور بتدریج انتظام خانہ داری میں اس کا دخل

جب تک اصغری نئی بیاہی ہوئی رہی تو اس کا جی بہت گھبراتا۔ اس واسطے کہ دفعتاً ماں کا گھر چھوڑ کر نئے گھر اور نئے آدمیوں میں رہنا پڑا۔ یہ تو کام اور انتظام کی خوگر تھی، بے شغل ایک گھڑی چین نہ تھا، یہاں مہینوں بند کوٹھڑی میں چپ چاپ بیٹھنا پڑا۔ ماں باپ کے گھر میں جو آزادی حاصل تھی، باقی نہ رہی۔ یہاں سسرال میں آتے ہی اس کی ہر ایک بات کو لوگ دیکھنے اور تاکنے لگے۔ کوئی منھ دیکھتا ہے، کوئی چوٹی کی لمبائی کو ناپتا ہے، کوئی قد کی اٹھان کو تاڑتا ہے، کوئی زیور ٹٹولتا ہے، کوئی کپڑے پہچانتا ہے۔ کھاتی ہے تو لقمے پر نظر۔ نوالہ کتنا بڑا کھولا۔ کیوں کر چبایا اور کس طرح نگلا۔ اٹھتی ہے تو دیکھتے ہیں کہ دوپٹہ کیوں کر اوڑھا۔ پائنچے کس طرح اٹھائے۔ سوتی ہے تو وقت پر نگاہ ہے۔ کس وقت سوئی، کب اٹھی۔ الغرض جملہ حرکات و سکنات اس کی زیر نظر تھیں۔ ایسی حالت میں اصغری کو سخت تکلیف ہوتی تھی لیکن از بس کہ عاقلہ اور تربیت یافتہ تھی، ایسے سخت امتحان میں کامل نکلی اور سب ادائیں اس کی سسرال والوں کو بھائیں۔ بات کی نہ تو اس قدر بہت کہ لوگ کہیں، لڑکی ہے، چار دن کی بیاہی ہوئی، کس بلا کی بک بک لگا رکھی ہے۔ نہ اتنی کم کہ بدمزاج اور توزے پیٹی سمجھیں۔ کھانا کھایا تو نہ اتنا زیادہ کہ محلے میں چرچا ہو، نہ ایسا کہ ساس نندیں سر
تھکا کر بیٹھ رہیں اور یہاں اثر نہ ہو۔ سوئی تو نہ اتنا سویرے کہ چراغ میں بتی پڑی، لاڈو میری تخت چڑھی، اور نہ اتنی دیر تک کہ گویا مُردوں سے شرط باندھ کر سوئی تھی۔
دستور ہوتا ہے کہ نئی دلہن کو محلے کی لڑکیاں گھیرے رہا کرتی ہیں۔ اصغری کے پاس بھی جب دیکھو، دس پانچ موجود۔ لیکن اصغری نے کسی سے خصوصیت پیدا نہ کی۔ اگر کوئی لڑکی تمام دن بیٹھی رہ گئی تو یہ نہ کہا کہ بوا اپنے گھر جاؤ۔ اگر کوئی نہ آئی تو یہ نہ پوچھا کہ بوا تم کہاں تھیں؟ اصغری کے اس طرز ملاقات سے رفتہ رفتہ لڑکیوں کا انبوہ کم ہو گیا۔ خصوصاً محلے کی کمیّوں کی لڑکیاں تو چاٹ آشنا ہوتی ہیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ نہ تو پان پر پان ملتا ہے نہ کچھ سودے سلف کا چرچا ہے، کھسیانی ہو کر چھ سات دن میں آپ ہی آپ سے الگ ہو گئیں۔ اصغری نے پہلے ہی اپنی نند محمودہ سے رابطہ بڑھایا۔ محمودہ لڑکی تو تھی ہی، تھوڑے سے التفات میں رام ہو گئی۔ دن بھر اصغری کے پاس گھسی رہا کرتی۔ بلکہ ماں کسی کسی وقت کہہ بھی اٹھتی کہ اس بھاوج پر اتنی مہربان ہو۔ بڑی بھاوج کے تو سائے سے بھاگتی پھرتی تھیں۔ محمودہ اس کا جواب دیتی، " وہ تو ہم کو مارتی تھیں۔ ہماری چھوٹی بھابی جان تو ہم کو پیار کرتی ہیں"۔
محمودہ کی ملاقات سے اصغری نے اپنا کام خوب نکالا۔ اول تو تمام گھر بلکہ تمام کنبے اور محلے کا حال محمودہ سے پوچھ پوچھ کر معلوم کیا اور جو بات شروع میں شرم و لحاظ کے سبب خود نہ کہہ سکتی تھی، محمودہ کے ذریعے سے کہا کرتی۔ اصغری نے گھر کے کام میں بتدریج اس طرح دخل دینا شروع کیا کہ شام محمودہ سے روئی منگا کر چراغ کی بتیاں بٹ دیا کرتی۔ ترکاری بنا لیتی، محمودہ کا پھٹا ادھڑا کپڑا سی دیتی، ساس اور میاں کے لئے پان بنا دیا کرتی۔ شدہ شدہ باورچی خانے تک جانے اور ماما عظمت کو بھوننے بگھارنے میں صلاح دینے لگی۔ یہاں تک کہ اصغری کی رائے پر کھانا پکنے لگا۔ جب سے اصغری نے کھانے میں دخل دینا شروع کیا، گھر والوں نے جانا کہ کھانا بھی عجیب نعمت ہے۔ پھر تو یہ حال ہو گیا کہ جس دن اصغری کسی وجہ سے ماما عظمت کی صلاح کار نہ ہوتی ، کھانا پھکا پھکا پھرتا۔

باب بارہواں: اصغری نے ماما عظمت کی چوری پکڑی وہ لگی اس سے دشمنی کرنے

ساس بہووں کی لڑائی بھی کچھ معمولی بات ہے۔ اصغری یوں لڑنے کے قابل نہ تھی تو اس کا ہنر باعثِ فساد ہوا۔ ماما عظمت اس گھر میں ایسی دخیل کار تھی کہ کاموں کا مدار ایک اس ماما پر تھا۔ سودا سلف، کپڑا غرض جو کچھ بازار سے آتا سب ماما عظمت کے ہاتھوں آتا۔ زیور تک عظمت بنوا کر لاتی۔ جس چیز کی ضرورت ہوتی تو ماما عظمت کی معرفت لی جاتی۔ غرض یہ کہ ماما عظمت مردوں کی طرح اس گھر کی منتظم تھی۔ جب سے اصغری نے کھانے میں دخل دیا تو ماما عظمت کا غبن ظاہر ہونے لگا۔ ایک دن پسندوں کے کباب پک رہے تھے اور اصغری باورچی خانے میں بیٹھی ہوئی ماما عظمت کو بتاتی جاتی تھی۔ جب گوشت پس کر تیار ہوا اور دہی مصالحے ملنے کا وقت آیا اصغری نے ماما سے کہا "دہی مجھے چکھا لو۔ کھٹا اور باسی ہو گا تو کباب بگڑ جائیں گے۔" ماما نے دہی کا دونا نکال اصغری کے ہاتھ میں دیا۔ اصغری نے چکھا تو کھٹا چونا۔ کئی دن کا باسی۔ نیلا نیلا پانی الگ اور دہی کی پھٹکیاں پھٹکیاں الگ۔ اصغری نے کہا "اے ہے کیسا برا دہی ہے ۔ یہ تو ہرگز کبابوں میں ڈالنے کے لائق نہیں۔ ماما جلد جاؤ اور ٹکے کا اچھا تازو میٹھا دہی دیکھ کر لاؤ۔"
ماما نے کہا "اوئی بیوی! سیر بھر گوشت کے کبابوں میں ٹکے کا دہی! اونٹ کے منہ میں زیرہ کیا ہو گا؟ یہ دہی جو تم نے ناپسند کیا ایک آنے کا ہے۔"
اصغری کو سن کر حیرت ہوئی۔ بولی کہ ہمارے گھر تو آئے دن کباب پکتے رہا کرتے ہیں۔ ہمیشہ سیر بھر گوشت میں ڈیڑھ پیسے کا دہی پڑتا تھا۔ اس حساب سے تو ٹکے کا میں نے زیادہ سمجھ کر منگوایا کہ کباب خوب نرم اور سرخ ہوں۔
ماما نے کہا "بیوی، تم اپنے محلے کا حساب کتاب رہنے دو۔ بھلا کہاں چاندنی چوک اور کہاں ترکمان دروازہ۔ جو چار چاندنی چوک میں پیسے کی ہے وہ یہاں ایک آنے کی نہیں ملتی۔ یہ خاک ملا تو اجڑی نگری سونا دیس ہے۔ یہاں ہر چیز کا توڑا ہے۔ ہر شے کا قحط رہتا ہے۔"
چونکہ کھانے میں دیر ہوتی تھی، اصغری یہ سن کر چپ ہو رہی اور ماما سے کہا " خیر، جتنے کا ہو جلد لاؤ۔" لیکن اصغری ایسی بھولی نہ تھی کہ ماما کی بات کو تسلیم کر لیتی۔ اپنے دل میں کہنے لگی "ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ دمڑی چھدام فرق ہو تو مضائقہ نہیں۔ یہ غضب کہ ایک شہر کے دو محلوں میں سُگئے چوگنے کا فرق!" اس وقت سے اصغری بھی تاک میں ہوئی۔ اگلے دن ماما پان لائی تھی۔ اصغری نے دیکھ کر کہا "تم بالکل ہرے پتّے اُٹھا لاتی ہو۔ ان میں نہ تو لذت ہوتی ہے نہ کچھ مزا ہوتا ہے۔ اب تو جاڑے کی آمد ہے۔ کرارے پکے پان ڈھونڈ کر لایا کرو۔"
ماما نے کہا۔ "پکے پکے پان تو پیسے کے دو آتے ہیں اور یہاں اللہ رکھے آدھی ڈھولی روز کا خرچ ہے۔ اس خیال سے میں نئے پان لاتی ہوں۔"
اتنے میں اصغری کے اپنے گھر سے اس کی اپنی ماما کفایت النساء خیر صلاح کی خبر کو آ نکلی۔ پانوں کا تذکرہ تو در پیش تھا ہی، اصغری نے اپنی ماما سے پوچھا۔ "کیوں بی کفایت النساء، تم کو آج کل کیسے پان ملتے ہیں؟"
کفایت نے کہا "بیوی پیسے کے بارہ۔"
اصغری نے صندوقچہ کھول کر دو پیسے کفایت النساء کے ہاتھ میں دیے اور کہا "اسی محلے کے پنواڑی سے پان لے آؤ۔"
کفایت النساء بڑے بڑے کرارے دلدار تیس پان لے آئی۔ اصغری نے کہا "چاندنی چوک کی نسبت بھی پیسے پیچھے تین پان زیادہ ملے۔"
کفایت النساء نے کہا "بیوی، یہ محلہ شہر کا پھاٹک ہے۔ جو چیز شہر میں آتی ہے اسی دروازے سے آتی ہے۔ گوشت، اناج، پان، یہ چیزیں اس محلے میں سستی ملتی ہیں۔ البتہ ہری ترکاری سبزی منڈی سے سیدھے کابلی دروازے سے ہو کر شہر میں جاتی ہے۔ وہ کسی قدر مہنگی ملتی ہو گی۔ پرانے پان تیس ملے، نئے لیتی تو چالیس ملتے۔"
اصغری نے کہا "یہ نامراد ماما عظمت تو ہر چیز میں یوں ہی آگ لگاتی ہے۔ کفایت النساء تم دو چار دن یہاں رہو۔ میں اماں سے کہلا بھیجوں گی۔ وہاں کا کام دو چار دن میں ہر کوئی دیکھ بھال لے گا۔"
کفایت النساء نے کہا "بیوی میں حاضر ہوں۔ خدا نہ کرے، کیا یہاں وہاں دو گھر ہیں؟"
غرض چار دن کفایت النساء کے ہاتھوں ہر طرف کا سودا بازار سے آیا اور ہر چیز میں ماما عظمت کا غبن ثابت ہوا۔ لیکن یہ سب باتیں اس طرح ہوئیں کہ اصغری کی ساس کو خبر تک نہ ہوئی۔ اصغری نے جانا یا کفایت النساء نے یا ماما عظمت نے۔ اس واسطے کہ اصغری بہت مروت اور لحاظ کی عورت تھی۔ اس نے سمجھا کہ اسی بڑھیا ماما عظمت کو بد نام اور رسوا کرنے سے کیا فائدہ۔ رات کے وقت کھانے سے فارغ ہو کر کوٹھے پر اصغری پان کھا رہی تھی۔ کفایت النساء بھی پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ اتنے میں ماما عظمت آئی۔ کفایت نے کہا "کیوں بوا عظمت، یہ ماجرا کیا ہے؟ چوری کون نوکر نہیں کرتا۔ دیکھو، یہ گھر والی موجود ہے۔ سات برس تک برابر ان کی خدمت کی۔ کئی برس سے گھر کا سب کاروبار یہ اٹھائے ہوئے تھیں۔ اللہ رکھے امیر گھر اور امیری خرچ۔ ہزاروں روپے کا سودا ان ہی ہاتھوں سے آیا۔ حق دستوری یہ کیوں کر کہیں کہ نہیں لیا۔ اتنا لیا تو ہم نوکروں کا دھرم ہے۔ خدا بخشے، چاہے مارے، لیکن اس سے زیادہ ہضم نہیں ہو سکتا ۔ آگے بڑھ کر نمک حرامی میں داخل ہے۔"
عظمت نے کہا "بوا، میرا حال کون نہیں جانتا۔ اب میری بلا چھپائے۔ میں تو چراتی اور لوٹتی ہوں۔ لیکن نہ آج سے بلکہ سدا سے میرا یہی کام ہے۔ ذرا میری حالت پر بھی نظر کرو کہ اس گھر میں کسی بلا کا کام ہے۔ اندر باہر میں اکیلی آدمی۔ اور نوکریوں کا کام میرے اکیلے دم پر پڑتا ہے۔ پھر، بوا بے مطلب تو کوئی اپنی ہڈیاں یوں نہیں پیلتا۔ بیوی کئی مرتبہ مجھ کو موقوف بھی کر چکی ہیں۔ پھر آخر مجھے ہی کو بلوایا۔ سمجھ کا پھیر ہے۔ کوئی یوں سمجھا کوئی یوں سمجھا۔ چار آدمی کے بدلے میں اکیلی ہوں۔ چار کی تنخواہ بھی مجھے اکیلی کو ملنی چاہیے۔"
اس ماما عظمت کی حقیقت اس طرح ہے کہ یہ عورت پچیس برس سے اس گھر میں تھی اور ہمیشہ لوٹنے پر اتارو۔ ایک دن کی بات ہو تو چھپ چھپا جائے،' آئے دن اس پر شبہ
ہوتا رہتا تھا۔ مگر تھی چالاک۔ گرفت میں نہیں آتی تھی۔ کئی مرتبہ نکالی گئی۔ جب موقوف ہوئی، بنئے، بزاز، سنار، قصائی، کنجڑے جن سے ان کی معرفت اچاپت قرض اُٹھتی تھی، تقاضے کو موجود ہوئے۔ اس ڈر کے مارے پھر بلائی جاتی تھی۔ یوں چوری اور سر زوری ماما عظمت کی تقریر میں لکھی تھی۔ جتا کر لیتی اور بتا کر چراتی۔ دکھا کر نکالتی اور لکھا کر مکر جاتی۔ گھر میں آمدنی کم اور عادتیں بگڑی ہوئی۔ کھانے میں امتیاز، کپڑے میں تکلف۔ سب کارخانہ قرض پر تھا اور قرض کی آڑھت ماما عظمت کے دم سے تھی۔ کھلے خزانے کہتی تھی کہ میرا نکالنا آسان بات نہیں۔ گھر نیلام کرا کے نکلوں گی۔ اینٹ سے اینٹ بجا کر جاؤں گی۔ اصغری نے جو حساب کتاب میں روک ٹوک شروع کی تو ماما عظمت اصغری کی جانی دشمن ہو گئی اور اپنے بچاؤ کے لئے بدلہ لینے کی نظر سے تدبیریں سوچنے لگی اور اس فکر میں ہوئی کہ کامل اور اس کی ماں سے اصغری کو برا بنائے ۔ اصغری کو اس کی مطلق خبر نہ تھی۔ بلکہ اصغری نے جب دیکھا کہ ماما گھر کی مختار کل ہے، نہ اپنی عادت سے باز آئے گی نہ نکلے گی تو پھر اپنے جی میں کہا کہ پھر ناحق کی جھک جھک سے کیا فائدہ۔ میں مفت میں ماما سے کیوں بری ہوں۔ باورچی خانے کا جانا اور کھانے میں دخل دینا موقوف کیا۔ گھر والوں کو اصغری کے ہاتھ کی چاٹ لگ گئی تھی۔ پہلے ہی وقت سے منہ بنانے لگے۔ کوئی کہتا "اے ہے گوشت منہ میں کچر کچر ہوتا ہے۔" کوئی کہتا "دال میں نمک زہر ہو گیا ہے۔ زبان پر نہیں رکھی جاتی۔" لیکن اصغری سے کون کہہ سکتا تھا کہ تم کھانا پکواؤ۔ مجبوراً جیسا برا بھلا ماما عظمت پکا ریندھ کر رکھ دیتی، کھانا ہی پڑتا تھا۔

باب تیرھواں: اصغری پر ماما کا پہلا وار

ایک دن، برسات کے موسم میں، بادل گھرا ہوا تھا۔ ننھی ننھی پھوار پڑ رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ محمد کال نے کہا "آج تو کڑھائی کو دل چاہتا ہے۔ لیکن بشرطیکہ تمیز دار بہو اہتمام کریں۔ اصغری کوٹھے پر رہا کرتی تھی۔ اس کو خبر نہیں کہ محمد کامل نے کڑھائی کی فرمائش کی۔ ماما عظمت گھی، شکر، بیسن وغیرہ سامان لے آئی اور کامل سے کہا "صاجزادے، لیجیے، سودا تو میں لے آئی۔ جاؤں، بہو صاحب کو بلا لاؤں۔"
کوٹھے پر گئی تو اصغری سے کڑھائی کا بھی تذکرہ تک نہیں آیا۔ اسی طرح الٹے پاؤں اتر آئی اور کہا "بہو کہتی ہیں میرے سر میں درد ہے۔" ماما عظمت سے معمولی کھانا تو پک نہیں سکتا تھا، کڑھائی کیا خاک تلتی۔ سب چیزوں کا ستیاناس ملا کر رکھ دیا۔ کس چاؤ سے تو محمد کامل نے فرمائش کی تھی۔ بدمزہ پکوان کھا کر بہت اداس ہوا۔ کوٹھے پر گیا تو بی بی کو دیکھا بیٹھی ہوئی اپنا پائجامہ سی رہی ہیں۔ جی ہی میں بہت نا خوش ہوا کہ ایں! سینے کو سر میں درد نہیں اور ذرا کڑھائی کو کہا تو درد سر کا بہانہ کر دیا۔
یہ پہلی ناخوشی محمد کامل کو اصغری سے پیدا ہوئی۔ اور دستور ہے کہ میاں بیوں میں بگاڑ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں پیدا ہوتا ہے۔ از بس کہ اکثر چھوٹی کی عمر میں بیاہ ہو جاتا ہے، خدا کے فضل سے عقل مصلحت اندیش نہ میاں میں ہوتی ہے نہ بی بی میں۔ اگر ذرا سی بات بھی خلاف مزاج دیکھی تو میاں اپنے کو اکڑائے بیٹھے ہیں اور بی بی الگ منہ اوندھائے لیٹی ہیں۔ اور جب ایک جگہ کا رہنا سہنا ہو تو مخالفت کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بیشتر واقع ہونا کیا تعجب ہے، یہ مخالفت کثرت سے ہوتے ہوتے دونوں طرف سے لحاظ پاس جاتا ہے اور تمام عمر جوتوں میں دال بٹتی رہتی ہے۔ سب سے بہتر تدبیر یہ ہے کہ میاں بی بی شروع سے اپنا معاملہ دوسروں کے ساتھ صاف رکھیں اور ادنیٰ رنجش کو پیدا نہ ہونے دیں ورنہ یہی چھوٹی چھوٹی رنجشیں جمع ہو کر آخر کو فسادِ عظیم ہو جائیں گی۔ رنجش کو پیدا نہ ہونے دینے کی حکمت یہ ہے کہ جب کوئی ذرا سی بات بھی خلافِ مزاج واقع ہو اس کو دل میں نہ رکھیں۔ رو در رو کر کہہ صاف کر لیا کریں۔ اگر محمد کامل بی بی سے بطور شکایت پوچھتا کہ کیوں صاحب ذرا سا کام نہ ہو سکا تم سے اور درد سر کا بہانہ کر دیا؟ اس وقت دو چار باتوں میں معاملہ طے ہو جاتا اور ماما عظمت کی فطرت کھل پڑتی لیکن محمد کامل نے منہ پر تو لگائی مہر اور دل میں دفتر شکایت لکھ چلا۔ اصغری کو محمد کامل کی کم التفاتی سے کھٹکا ہوا اور سمجھی کہ خدا خیر کرے! لڑائی کا آغاز نظر آتا ہے۔ ساس کو دیکھا تو ان کو بھی کسی قدر مکدر پایا۔ حیرت میں تھی کہ الہیٰ کیا ماجرا ہے!

باب چودھواں: اصغری پر ماما کا دوسرا وار

ابھی یہ بات طے نہیں ہوئی تھی کہ ماما نے ایک شرارت اور کی۔ رمضان کا قرب تھا۔ محمد کامل کی ماں نے ماما عظمت سے کہا "ماہ رمضان آتا ہے۔ ابھی سے سب تیاری کر چلو۔ برتن چھوٹے بڑے سب قلعی کرانے ہیں، مکان میں برس بھر ہوا سفیدی نہیں ہوئی۔ لالہ ہزاری مل سے کہو کہ جس طرح ہو سکے کہیں سے پچاس روپے دے۔ عید کا خرچ سر پر چلا آتا ہے۔"
ماما عطمت بولی "تمیز دار بہو اپنی ماں کے ہاں مہمان جائیں گی اور سنا ہے تحصیلدار بھی آنے والے ہیں۔ ضرور دونوں بیٹیوں کو بلا بھیجیں گے۔ بلکہ ایک جگہ تو اس بات کا مذکور تھا کہ تمیز دار بہو کا ارادہ ہے کہ باپ کے ساتھ چلی جائیں۔ بہو جائیں گی تو چھوٹے صاجزادے بھی جائیں گے۔ پھر بیوی تمہاری اکیلا دم ہے۔ مکان میں قلعی ہو کر کیا ہو گی اور برتن قلعی ہو کر کیا ہوں گے؟ ہزاری مل کم بخت تو ایسا بے مروت ہو گیا کہ ہر روز تقاضے کو اس کا آدمی دروازے پر کھڑا رہتا ہے۔ وہ قرض کیوں کر دے گا۔"
محمد کامل کی ماں یہ سن کر سرد ہو گئی۔ سرد ہونے کی بات ہی تھی۔ میاں تو جس دن سے لاہور گئے، پھر کر گھر کی شکل نہ دیکھی۔ چھٹے مہینے برسویں دن جی میں خیال آیا تو کچھ خرچ بھیچ دیا ورنہ کچھ سروکار نہیں۔ محمد عاقل ماں سے الگ ہو چکا تھا۔ صرف کامل کا دم گھر میں تھا۔ اس کے گئے پیچھے مطلع صاف تھا۔ محمد کامل کی ماں نے ماما سے پوچھا "اری، سچ بتا۔ تمیز دار بہو ضرور جائیں گی؟"
ماما بولی "بیوی، جانے نہ جانے کی تو خدا جانے۔ جو سنا تھا کہہ دیا۔"
محمد کامل کی ماں نے پوچھا "اری کم بخت، کس سے سنا؟ کیوں کر معلوم ہوا؟"
ماما بولی "سننے کی تو پوچھو تو کفایت النساء سے میں نے سو روپے قرض مانگے تھے۔ اس نے کہا کہ میں دے تو دیتی لیکن پہاڑ پر جانے والی ہوں۔ تب میں نے اس سے حال پوچھا تو معلوم ہوا کہ سب بات ٹھیک ٹھاک ہو چکی ہے۔ بس اتنی دیر ہے کہ تحصیل دار آئیں، عید کی صبح کو یہ سب روانہ ہو جائیں گے۔ اور سننے پر کیا منحصر ہے، خدا کو دیکھا نہیں تو عقل سے پہچانا ہے۔ بیوی، کیا تم کو تمیزدار بہو کے ڈھنگوں سے نہیں سمجھ پڑتا؟ دیکھو پہلے تو بہو گھر کا کام کاج بھی دیکھتی بھالتی تھیں، یا تو کوٹھے پر سے نیچے اترنا بھی قسم ہے۔ خط باپ کے نام چلے آتے ہیں۔ سوائے جانے کے ایسا کون سا معاملہ ہے؟"
محمد کامل کی ماں یہ حال سن کر سناٹے میں رہ گئی۔ اسی سوچ میں بیٹھی تھی کہ محمد کامل باہر سے آیا۔ کامل کو پاس بلا کر پوچھا "محمد کامل، ایک بات پوچھتی ہوں۔ سچ سچ بتاؤ گے؟“
محمد کامل نے کہا "اماںِ بھلا ایسی کون سی بات ہے جو تم سے چھپاؤں گا؟"
محمد کامل کی ماں نے جو کچھ ماما سے سُنا تھا حرف بحرف محمد کامل سے کہا۔
محمد کامل نے کہا "اماں، میں سچ کہتا ہوں، مجھ کو اس کی مطلق خبر نہیں۔ نہ مجھ سے تمیزدار بہو نے اس کا تذکرہ کیا۔"
محمد کامل کی ماں بولی "ہمارے سامنے کا بچہ اور ہم سے ہی باتیں بناتا ہے۔ اتنی بڑی بات اور تجھ کو خبر نہیں ؟"
محمد کامل نے کہا "تم کو یقین نہیں آتا۔ تمہارے سر کی قسم، مجھ کو معلوم نہیں۔"
اتنے میں ماما بھی آ تنلی۔ محمد کامل کی ماں نے کہا "کیوں بی عظمت، محمد کامل تو کہتا ہے مجھ کو معلوم نہیں۔"
ماما نے کہا "میاں تم برا مانو یا بھلا مانو۔ تمہاری بیوی جانے کی تیاری تو کر رہی ہیں۔ تم سے شاید چھپاتی ہوں۔ یہ مزاج دار بہو نہیں کہ ان کے پیٹ میں بات نہیں سماتی تھی۔ یہ تمیز دار بہو ہیں کہ کسی کو اپنا بھید نہ دیں۔"
محمد کامل کی ماں نے پوچھا "بھلا محمد کامل، یہ بات سچ کہو تو تمہارا کیا ارادہ ہے؟"
محمد کامل نے کہا "بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ تم کو اکیلا چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ اور تمیز دار بہو کی بھی ایسی کیا زبردستی ہے کہ بے پوچھے گچھے چلی جائیں گی۔ میں آج تمیز دار بہو
سے پوچھوں گا کہ کیوں جی کیا بات ہے۔"
محمد کامل کی ماں نے کہا "اس نامراد ماما کی بات کا کیا اعتبار ہے۔ ابھی بہو سے بھی مذکور مت کرو۔ جب تحقیق ہو جائے گی، اس وقت دیکھا جائے گا۔"
اس طرح کی باتوں سے ماما عظمت اصغری کو ساس اور میاں سے برا بنانے کی فکر میں تھی اور اصغری سے ہر چند کسی نے کچھ کہا سنا نہیں، لیکن وہ بھی ان سب کو قیافے سے سمجھ گئی تھی کہ ضرور کچھ کشیدگی ہے۔ اصغری کے پاس محمودہ بڑی جاسوس تھی۔ ذرا ذرا سی بات اصغری سے کہتی اور ماما کی بد ذات بھی سب اصغری پر کھل گئی تھی۔ لیکن اصغری ایسی احمق نہ تھی کہ جلد بگڑ بیٹھتی۔ وہ اس فکر میں ہوئی کہ اس معاملے میں اپنی طرف سے کچھ كہا سننا مناسب نہیں۔ آخر کبھی نہ کبھی بات کھلے گی۔ اصغری نے اپنے دل میں کہا کہ بھلا عظمت رہ تو سہی۔ انشاء اللہ تعالیٰ تجھ کو بھی کیسا سیدھا بناتی ہوں۔ اب یہاں تک تیرے مغز چل گئے ہیں کہ گھر کے گھر میں فساد ڈلواتی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ تجھ کو وہاں ماروں گی کہ پانی نہ ملے اور ایسا تجھ کو اُجاڑوں گی کہ محلے میں آنا نصیب نہ ہو۔
ماما عظمت کی شامت سر پر سوار تھی۔ تیسرا وار اصغری پر اور صحیح کیا۔

باب پندرھواں: اصغری پر ماما کا تیسرا وار

ہزاری مل کو تو عادت تھی کہ جب کبھی ماما عظمت کو اپنی دکان کے سامنے آتے جاتے دیکھتا تو ادبدا کر چھیڑتا کہ کیوں ماما ہمارے حساب کتاب کا بھی کچھ فکر ہے؟ اور ساتویں آٹھویں دن گھر پر تقاضا کہلا بھیجتا۔ ایک دن حسبِ معمول ماما عظمت سودا سلف کو باہر جاتی تھی۔ ہزاری مل نے ٹوکا۔ ماما بولی "اے لالہ، یہ کیا تم نے مجھ سے آئے دن کی چھیڑ خانی مقرر کی ہے؟ جب مجھ کو دیکھتے ہو تقاضا کرتے ہو۔ جن کو دیتے ہو، ان سے مانگو۔ ان سے تقاضا کرو۔ میں بے چاری غریب آدمی، ٹکے کی اوقات۔ مجھ سے اور مہاجنوں کے لین دین سے واسطہ؟"
"ہزاری مل نے کہا "یہ بات تم نے کیا کہی کہ مجھ سے واسطہ نہیں؟ دکان سے تو تم لے جاتی ہو۔ ہاتھ کو ہاتھ پہچانتا ہے۔ ہم تو تم کو جانتے ہیں اور تمہاری ساکھ پر دیتے ہیں۔ ہم گھر والوں کو کیا جانیں۔"
ماما نے کہا "اے لالہ، ہوش میں آؤ۔ ایسے گھر کے بھولے، میری ایسی کیا حیثیت تم نے دیکھ لی؟ میرے پاس نہ جائیداد، نہ دولت اور تم نے سینکڑوں روپے آنکھ بند کر کے مجھ کو دے دیے۔ اگر مجھ کو دیا ہے تو تم کو بھی قسم ہے، جاؤ مجھی سے لے لینا۔ میرے محل جو کھڑے ہوں گے۔ سرکار میں عرضی لگا کر نیلام کرا لینا۔"
ماما کی ایسی اکھڑی اکھڑی باتیں سن کر ہزاری مل بہت سٹپٹایا اور لگا ماما سے ملاوٹ کی باتیں کرنے "آج تو تم کسی سے لڑ کر آئی معلوم ہوتی ہو۔ بتاؤ تو کیا بات ہے؟ بیوی صاحب نے کچھ کہا یا صاحب زادے کچھ خفا ہوئے؟ یہاں تو آؤ بات سنو۔"
ادھر تو ماما سے یہ کہا اور ادھر دکان پر جو لڑکا بیٹھتا تھا ایک پیسہ اس کے ہاتھ میں دیا کہ دوڑ کر دو گلوریاں بنوا کر لاؤ اور دیکھ ذرا سا زردہ بھی الگ ہتھیلی میں لیتے آئیو۔ جب ماما بیتھ گئی تو پھر ہزاری مل نے ہنس کر پوچھا۔ "معلوم ہوتا ہے آج ضرور کسی سے لڑی ہو۔"
ماما نے کہا "خدا نہ کرے۔ کیوں لڑنے لگی۔ بات پر بات میں نے بھی کہہ دی۔ رتی برابر جھوٹ کہا ہو تو لو میرا کان پکڑ لو۔"
ہزاری مل: "یہ تو ٹھیک ہے۔ بہوار تو مالک کے ہاتھ ہے۔ پر تمہارے ہاتھوں سے ہوتا ہے یا نہیں؟ نہ تو ہمارے نام رقعہ نہ چٹھی۔ تم نے مالک کے نام جو مانگا سو دیا۔"
ماما : "ہاں یوں کہو۔ اس سے میں کب مکرتی ہوں؟ ہزاروں میں کہہ دوں لاکھوں میں کہہ دوں۔ اور ہماری بیوی بھی (روئیں روئیں سے دعا نکلتی ہے) بے چاری کبھی تکرار نہیں کرتیں۔"
ہزاری مل : "ماما، بیگم صاحب تو حقیقت میں بڑی امیر ہیں۔ واہ! کیا بات ہے۔" پھر ہزاری مل نے آہستہ سے پوچھا "چھوٹی بہو صاحب کا کیا حال ہے؟ کیسی ہیں؟ اپنی بڑی بہن کے ڈھنگوں پر ہیں یا اور طرح کا مزاج ہے؟"
ماما : "لالہ کچھ نہ پوچھو۔ بیٹی تو امیر گھر کی ہیں پر دل کی بڑی تنگ ہیں۔ دمڑی کا سودا بھی
جب تک چار مرتبہ پھیر نہ لیں پسند نہیں آتا۔ ہاں خدا رکھے ہنر سلیقہ تو دنیا کی بہو بیٹیوں سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ کھانا عمدہ سے عمدہ، سینے میں درزیوں اور مغلانیوں کو مات کیا ہے۔ لیکن لالہ امیری کی بات نہیں۔ اول اول تو مجھ پر بھی روک ٹوک شروع کی تھی۔ سو لالہ تم جانے پر میرا کام کیا بے لاگ ہوتا ہے۔ آخر کو تھک کر بیٹھ رہیں۔ بیگم صاحب تو دلی آدمی ہیں۔ ان ہی کے دم قدم کی برکت سے گھر چلتا ہے۔ ہم غریب بھی ان ہی کا دامن پکڑے ہوئے ہیں۔ بہتیرا لوگوں نے بیگم صاحب کو بھڑکایا، لیکن خدا سلامت رکھے۔ ان کے دل پر میل نہ آیا اور کسی طرح کا کلام انہوں نے منہ پر نہ رکھا۔"
ہزاری مل: "سنا ہے چھوٹی بہو کو بڑا بھاری جہیز ملا۔"
ماما نے چھرٹتے کہا "خاک! بڑی سے بھی اترتا ہوا۔"
ہزاری مل: "بڑا ترجب ہے! ان کے بیاہ کے وقت تو خاں صاحب تحصیل دار تھے۔ بڑی بیٹی سے زیادہ دینا لازم تھا۔"
ماما: "اے ہے! تحصیل دار کا کچھ دوش نہیں۔ اس بے چارے نے تو بڑی بڑی تیاریاں کی تھیں، یہی چھوٹی کھوٹی منہ بولی تھیں۔ اماں باوا کی خیر خواہی کے مارے کہہ کہہ کے سب چیزیں کم کرائیں۔"
ہزاری مل: "اگر یہی حال ہے تو بڑی بہن کی طرح یہ بھی الگ گھر لیں گی۔"
ماما: الگ کرنا کیسا، یہ تو بڑے گُل کھلائیں گی۔ بڑی بہو بد مزاج تھیں لیکن دل کی صاف۔ اور یہ زبان کی میٹھی اور دل کی کھوٹی۔ کوئی کیسا ہی جان مار کر کام کرے، ان کی خاطر تلے نہیں آتا۔ بات بھی کہیں گی تو تہہ کی۔ منہ پر کچھ، دل میں کچھ۔ نہ باب، یہ عورت ایک دن نباہ کرنے والی نہیں۔ اب تو پہاڑ پر باپ کے پاس جانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔"
ہزاری مل: "لاہور سے ان دنوں کوئی خط آیا؟"
ماما: "ہر روز انتظار رہتا ہے۔ نہیں معلوم کیا سب ہے۔ کوئی خط نہیں آیا۔ بیوی خرچ کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ رمضان سر پر آ رہا ہے۔ بلکہ پرسوں، اترسوں مجھ سے کہتی تھیں، ہزاری مل سے پچاس روپے اور قرض لانا۔"
ہزاری مل قرض کا نام سن کر چونک پڑا اور کہا "پچھلا حساب چکا دیں تو آگے کو کہا
انکار ہے۔ بڑی بی دیکھنا، بیگم صاحب کو اچھی طرح سمجھا کر کہہ دینا کہ جہاں سے بن پڑے، روپے کا فکر کریں۔ اب میرے ساجھی میرے روکے میں نہیں رکتے۔ ایسا نہ ہو کل کلاں کو مجھے بات دینی آ جائے۔"
ماما: "تمہارا روپیہ خدا ہی نکلوائے گا تو نکلے گا۔ بیگم صاحب کہاں سے دیں گی۔ بال بال تو قرض دار ہو رہی ہیں۔ مودی الگ جان کھاتا ہے، بزاز جدا شور مچاتا ہے۔"
ہزاری مل: "مجھ کو دوسرے لین داروں سے کیا واسطہ؟ ہماری دکان کا حساب تو بیگم صاحب کو بے باق کرنا ہی پڑے گا۔ میں تو بیگم صاحب کی سرکار کا بڑا لحاظ کرتا ہوں، لیکن میرا ساتھی چھدامی لال اب کسی طرح نہیں مانتا۔ اگر وہ یہ حال سن پائے تو آج نالش کر دے۔"
ماما: یہ سب حال بیگم صاحب سے کہہ تو میں دوں گی، لیکن گھر کا ذرا ذرا حال مجھ کو معلوم۔ نالش کرو، فریاد کرو، نہ روپیہ ہے نہ دینے کی گنجائش۔ روپیہ ہوتا تو قرض کیوں لیا جاتا؟"
اتنی باتوں کے بعد ماما عظمت ہزاری مل سے رخصت ہو کر سودا سلف لے کر گھر میں آئی تو محمد کامل کی ماں نے پوچھا "تو بازار جاتی ہے تو ایسی بے فکر ہو جاتی ہے کہ کھانا پکانے کا کچھ خیال تجھ کو نہیں رہتا۔ دہکھ تو، کتنا دن چڑھا ہے۔ اب کس وقت گوشت چڑھے گا، کب پکے گا، کہ کھانا ملے گا؟"
ماما : "بیوی، موئے ہزاری مل کے جھگڑے میں اتنی دیر ہو گئی۔ وہ جانہار ہر روز مجھ کو آنے جانے پر ٹوکا کرتا ہے۔ آج میری جان جل گئی اور میں نے کہا کہ کیا تو نے مجھے روز کی چھیٹر خانی مقرر کی ہے۔ کیوں مرا جاتا ہے۔ ذرا صبر کر۔ لاہور سے خرچ آنے دے تو تیرا اگلا پچھلا سب حساب کتاب بے باق ہو جائے گا۔ وہ موا تو میرے سر ہو گیا اور بھرے بازار میں لگا مجھ کو فضيحت کرنے۔"
محمد کامل کی ماں : "ہزاری مل کو کیا ہو گیا ہے؟ وہ تو ایسا نہ تھا۔ آخر برسوں سے ہمارا اس کا لین دین ہے۔ سویرے بھی دیا ہے، دیر کر کے بھی دیا ہے۔ کبھی اس نے تکرار نہیں کی۔"
ماما: "بیوی، کوئی اور مہاجن دکان میں ساجھی ہوا ہے۔ اس موئے نے جلدی مچا رکھی ہے۔ جس جس پر لینا تھا، سب سے کھڑے کھڑے وصول کر لیا۔ جس نے نہیں دیا، نالش کر دی۔
ہزاری مل نے کہا کہ بیگم صاحب سے بہت بہت ہاتھ جوڑ کر میری طرف سے کہہ دینا کہ میرے بس کی بات نہیں۔ جس طرح ہو سکے، دو چار دن میں روپے کی راہ نکال دیں، ورنہ چھدامی لال ضرور نالش کر دے گا۔"
اس خبر کو سنتے ہی محمد کامل کی ماں کو سخت تردد پیدا ہوا۔ امیر بیگم، ان کی چھوٹی بہن، خانم بازار میں رہتی تھیں۔ وہ ذرا خوش حال تھیں۔ محمد کامل کی ماں نے ماما عظمت سے کہا کہ لاہور سے تو خط کا جواب تک نہیں آتا، خرچ کی کیا امید ہے۔ اگر سچ مچ ہزاری مل نے نالش کر دی تو کیا ہو گا؟ میرے پاس تو اتنا اثاثہ بھی نہیں کہ بیچ کر ادا کر دوں گی۔ اور نالش ہونے پر دنیا میں بھی بے عزتی ہے۔ نام تو سارے شہر میں بد ہو گا۔ ڈولی لے آؤ۔ میں امیر بیگم کے پاس جاتی ہوں۔ دیکھوں وہاں کوئی صورت اگر نکل آئے۔
ماما : "بیوی، نالش تو ہوئی دھری ہے۔ جس نے منہ سے کہا، اس کو کرتے کیا دیر لگتی ہے۔ اور چھوٹی بیگم بے چاری کے پاس کہاں سے روپیہ آیا؟ وہ تو ان دنوں خود حیران ہیں۔"
محمد کامل کی ماں: "آخر پھر کچھ کرنا تو پڑے گا۔"
ماما نے پاس جا کر چپکے سے کہا "مہینے بھر کے واسطے تمیز دار بہو اپنے کڑے دے دیتیں تو بات رہ جاتی۔ بالفعل ان کڑوں کو گروی رکھ آدھے تہائی ہزاری مل کے بن جاتے۔ مہینے بھر میں میاں یا تو خرچ بھیج دیتے یا میں کسی اور مہاجن سے لے آتی۔"
محمد کامل کی ماں : "اری، تو کوئی دیوانی ہوئی ہے؟ خبردار! ایسی بات مجھ سے بھی مت نکالنا۔ اگر رہنے کا مکان تک بھی بک جائے تو بلا سے۔ مجھ کو منظور ہے۔ لیکن بہو سے کہنے کا منہ نہیں۔"
ماما : "بیوی، میں نے تو اس خیال سے کہا کہ بہو ہوئی، بیٹی ہوئی، کچھ غیر نہیں ہوتیں۔ اور کیا خدا نہ کرے بیچ ڈالنے کی نیت ہے۔ مہینے بھر کا واسطہ ہے۔ چیز صندوقچے میں نہ پڑی رہی، مہاجن کے پاس رکھی رہی، جس میں اس کی خاطر جمع رہے۔"
محمد کامل کی ماں : "پھر بھی بہو بیٹی میں بڑا فرق ہوتا ہے اور بہو بھی نئی بیاہی ہوئی کہ اگر سچ پچھو تو ابھی اچھی طرح اس کی گھونگھٹ بھی نہیں کھلی۔ بھلا اس سے کوئی ایسی بات کہہ سکتا ہے؟ خبردار! پھر زبان سے ایسی بات مت نکالو۔ ایسا نہ ہو محمودہ کے کان پڑ جائے اور بہو سے جا لگائے۔"
ماما: "صاحبزادی تو ابھی کھڑے ہوئے سن رہی تھیں۔ مگر ابھی ان کو ان باتوں کی سمجھ نہیں۔ "
محمد کامل کی ماں : "ڈولی لے آؤ۔ میں بہن تک جاؤں تو سہی۔ پھر جیسی صلاح ٹھہرے گی دیکھا جائے گا۔"
محمد کامل کی ماں تو سوار ہو خانم کے بازار سدھاریں اور محمودہ نے سب حال تمیز دار بہو کو جا سنایا۔

باب سولہواں: خط اصغری کی طرف سے۔ ماما کی شرارتوں کا دفعے کا آغاز

اصغری کو اور کچھ تو نہ سوجھی، فوراً اپنے بڑے بھائی خیر اندیش خاں کو یہ خط لکھا :
جناب برادر صاحب معظم مکرم سلامت
تسلیمات کے بعد مطلب ضروری عرض کرتی ہوں کہ مدت سے میں نے اپنا حال آپ کو نہیں لکھا۔ اس واسطے کہ جو عریضہ جناب والد صاحب کی خدمت میں بھیجتی ہوں آپ کی نظر سے بھی گزرا ہو گیا۔ اب ایک خاص بات ایسی پیش آئی ہے کہ آپ ہی کی خدمت میں اس کا عرض کرنا مناسب سمجھتی ہوں۔ وہ یہ کہ جب سے میں سسرال آئی، کسی طرح کی تكليف مجھ کو نہیں پہنچی اور بڑی آپا کو جن باتوں کی شکایت رہا کرتی تھی، آپ کی دعا سے وہ باتیں میرے ساتھ نہیں ہیں۔ سب لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں خوش رہتی ہوں۔ لیکن ایک ماما عظمت کے ہاتھوں سے وہ ایذا ہے جو کسی بد مزاج ساس اور بد زبان نند سے بھی نہ ہوتی۔ یہ عورت اس گھر کی پرانی ماما ہے اور اندر باہر کا سب کام اسی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس عورت نے گھر کو لوٹ کر خاک سیاہ کر دیا۔ اتنا قرض ہو گیا ہے کہ اس کے ادا ہونے کا سامان نظر نہیں آتا۔ کسی طرح کا بندوبست گھر میں نہیں ہے، میں نے چند روز معمولی کاروبار خانہ داری میں دخل دیا تھا تو ہر چیز میں غبن، ہر بات میں فریب پایا گیا۔ میری روک ٹوک سے ماما میری دشمن ہو گئی اور اس دن سے ہر روز تازہ فساد کھڑا کئے رہتی ہے، اب تک ہر چند کوئی قباحت کی بات پیدا نہیں، لیکن اس ماما کا رہنا مجھ کو سخت ناگوار ہے۔ مگر اس کا نکلنا بھی بہت دشوار ہے۔ تمام بازار کا قرض اس کی معرفت ہے۔ موقوفی کا نام بھی سن پائے تو قرض خواہوں کو جا بھڑکائے۔ پھر قرض کا نہ حساب ہے نہ کتاب۔ زبانی تکوں پر سب کا لینا دینا ہو رہا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ سب لوگوں کا حساب اور قرض لینے کا دستور آئندہ کے واسطے موقوف ہو۔ ماما نکال دی جائے۔ یقین ہے کہ جناب والد صاحب کے ساتھ آپ بھی رمضان میں تشریف لائیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ مہربانی فرما کر لاہور ہو کر آئیں اور ابا جان کو جس طرح بن پڑے کم سے کم دو ہفتے کے واسطے اپنے ساتھ لوا لائیے۔ آپ سب لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ بخوبی طے ہو جائے گا۔ میں اس خط کو سخت تشویش کی حالت میں لکھ رہی ہوں۔ مہاجن آمادۂ نالش ہے۔ ماما نے صلاح دی ہے کہ میرے کڑے گروی رکھے جائیں۔ اماں جان روپے کے بندوبست کے واسطے اسی وقت خالہ جان کے پاس گئی ہیں۔
فقط
ادھر تو اصغری نے بھائی کو خط لکھا اور ادھر اپنی خالہ سے کہلا بھیجا کہ میں اکیلی ہوں۔ بوا تماشا خانم کو دو دن کے واسطے بھیج دیجیے۔ میں نے سنا ہے کہ وہ آپ کے یہاں مہمان آئی ہوئی ہیں۔ غرض شاموں شام بی تماشا خانم آ پہنچیں۔ ڈولی سے اترتے ہی پکاری "اللہ بی اصغری! ایسا بھی بے مروت کوئی نہ ہو۔ میں نے خالو ابا کا خط تم سے منگوا بھیجا تھا۔ تم نے نہ دیا۔"
اصغری نے کہا "اوئی! کون مانگے آیا؟"
تماشا خانم بولی ”دیکھو یہی ماما عظمت موجود ہیں۔ کیوں بی، اس جمعے کو تم ہمارے گھر گئی تھیں۔ میں نے تم سے کہہ دیا تھا یا نہیں؟"
عظمت بولی "ہاں بی بی، انہوں نے کہا تھا، مجھ کم بخت ستری، بہتری کو بات یاد نہیں رہتی۔ یہاں آتے آتے گھر کے دھندے میں بھول گئی۔"
اصغری نے آہستہ سے کہا "تم کو تو لوٹنا اور فساد ڈلوانا یاد رہتا ہے۔" اور تماشا خانم سے کہا "خط موجود ہے اور ایک اور نئی کتاب بھی آئی ہوئی ہے۔ بڑے مزے کی باتیں اس میں ہیں۔ وہ بھی تم لیتی جانا۔"
اصغری نے ماما کا سب حال ذرا ذرا تماشا خان سے کہا۔ تماشا خانم مزاج کی تھیں بڑی تیز، اسی وقت جوتی لے کر اٹھیں اور ماما کو مارنے چلیں۔ اصغری نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا اور کہا "خدا کے لئے آپ ایسا غضب مت کرنا۔ ابھی جلدی مت کرو۔ سب بات بگڑ جائے گی۔"
تماشا خانم نے کہا "تم یوں ہی پس و پیش لگا کر اپنا وقر کھوتی ہو۔ بوا، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی، خدا کی قسم مردار کو مارے جوتیوں کے ایسا سیدھا بناتی کہ عمر بھر یاد رکھتی۔"
اصغری نے کہا "دیکھو انشاء اللہ اس نمک حرام پر مفت کی مار پڑے گی۔ کوئی دن کی دیر ہے۔"
اس کے بعد تماشا خانم نے پوچھا۔ " تمہاری ساس اپنی بہن کے یہاں کس غرض سے گئی ہیں؟"
اصغری نے کہا "وہ بے چاری بھی اس نامراد ماما کے ہاتھوں در بدر ماری ماری پھرتی ہیں۔ کوئی مہاجن ہے، اس کا کچھ دینا ہے، ماما نے آج آ کر کہا تھا کہ وہ نالش کرنے والا ہے، اسی کے روپے کی فکر میں گئی ہیں۔
تماشا خانم نے ماما سے پوچھا "عظمت، کون سا مہاجن ہے؟"
عظمت بولی "ہزاری مل۔"
تماشا خانم: "وہی ہزاری مل نا جس کی دکان جوہری بازار میں ہے؟"
عظمت: "ہاں بیوی وہی۔"
یہ سن کر تماشا خانم نے اصغری سے کہا "اس سے تو ہماری سسرال میں بھی لین دین ہے۔ بھلا کیا موئے کی طاقت ہے جو نالش کرے۔ میں یہاں سے جا کر تمہارے بھائی جان سے کہوں گی۔ دیکھو تو کیسا ٹھیک بناتے ہیں۔
دو دن تماشا خانم اصغری کے پاس رہیں، تیسرے دن رخصت ہوئیں اور چلتے چلتے کہہ گئیں کہ "بوا اصغری، تم کو میرے سر کی قسم۔ جب تمہارے سسرے آئیں اور یہ سب معاملہ مقدمہ پیش ہو، مجھ کو ضرور بلوانا اور عظمت کو تو بس میرے حوالے کر دینا۔"
وہاں محمد کامل کی ماں کو ان کی بہن نے ٹھہرا لیا کہ اے ہے آپا! کبھی کبھار تو تم آتی ہو۔ بھلا ایک ہفتہ تو رہو۔ لیکن آدمی ہر روز یہاں تمیز دار کی خیر خبر کو آتا تھا۔

باب سترھواں: ماما کی چوتھی شرارت

ماما عظمت نے بیٹھے بٹھائے ایک بد ذاتی اور کی۔ ان دنوں لاٹ صاحب کی آمد آمد تھی۔ شہر کی صفائی کے واسطے حاکم کی طرف سے بہت تاکید ہوئی۔ ہر محلے اور ہر کوچے میں اشتہار لگائے گئے کہ سب لوگ اپنے اپنے کوچے اور گلیاں صاف کریں۔ دروازوں پر سفیدی کرا لیں۔ بد روئیں صاف رکھیں۔ اگر کسی جگہ کوڑا پڑا ملے گا تو جرمانہ کیا جائے گا۔ اس مضمون کا ایک اشتہار اس محلے کے پھاٹک پر بھی لگایا گیا۔ ماما عظمت جا کر محلے کے پھاٹک ہے وہ اشتہار اُکھاڑ لائی اور چپکے سے اپنے دروازے پر لگا رہا۔ پھر اندھیرے منہ خانم کے بازار میں محمد کامل کی ماں کو خبر کرنے دوڑی گئی۔ ابھی مکان کے کواڑ بھی نہیں کھلے تھے کہ اس نے جا آواز دی۔ کامل کی ماں نے آواز پہچانی اور کہا "ارے دوڑو! کواڑ کھولو! عظمت ایسے وقت کیوں بھاگی آئی ہے۔"
عظمت سامنے آئی تو پوچھا "مام خیریت ہے؟"
عظمت بولی "بیوی مکان پر اشتہار داشتار کیا ہوتا ہے۔ (اے ہے، مجھ بڑھیا کو تو سیدھا نام بھی نہیں آتا) لگا ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے ہزاری مل نے نالش کر دی۔"
محمد کامل کی ماں نے اپنی بہن سے کہا "لو بوا، میں تو جاتی ہوں۔ ہزاری مل کو بلوا کر سمجھاؤں گی۔ خدا اس کے دل میں رحم ڈالے۔"
بہن بولی "آپا میں شرمندہ ہوں کہ مجھ سے روپے کا بندوبست نہ ہو سکا۔ لیکن میرے گلے کا توڑا موجود ہے۔ اس کو لیتی جاؤ۔ گروی رکھنے سے کام نکلے تو ورنہ بیچ ڈالنا۔"
محمد کامل کی ماں نے کہا "میں توڑا لے جاتی ہوں مگر اس کا روپیہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک توڑے سے کیا ہو گا؟"
بہن بولی "آخر انہوں نے بھی تو کہا ہے کہ میں کسی دوسرے مہاجن سے قرض لا دوں گا۔ تم بسم اللہ کر کے سوار ہو۔ وہ آتے ہیں تو میں ان کو بھی پیچھے سے بھیجتی ہوں۔"
غرض محمد کامل کی ماں مکان پر پہنچی۔ دروازے پر اُتری۔ اشتہار لگا دیکھا افسوس کی حالت میں چپ آ کر بیٹھ گئیں۔ ساس کی آمد سن کر اصغری کوٹھے پر سے اتری۔ سلام کیا۔ ساس کو مغموم دیکھ کر پوچھا۔ "آج اماں جان، آپ کا چہرہ بہت اداس ہے۔"
ساس: "مہاجن نے نالش کر دی ہے۔ روپے کی صورت کہیں سے نہیں بن پڑتی۔ امیر بیگم نے بھی جواب دے دیا اور مکان پر اشتہار لگ چکا۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔"
اصغری : "آپ اس کا ہرگز فکر نہ کیجئے۔ اگر ہزاری مل نے نالش کر دی ہے تو پھر حرج نہیں۔ تماشا خانم کی سسرال میں اس کا لین دین ہے۔ تماشا خانم نے مجھ سے پکا وعدہ کیا ہے کہ ہزاری مل کو سمجھا دیں گی اور اگر نہیں مانے گا تو اس کے روپے کی کچھ سبیل ہو جائے گی۔ آپ اتنا فکر کیوں کرتی ہیں؟ ہزاری مل کو جو اپنی طرف سے کرنا تھا کر چکا۔"
ساس: :کامل ہوتا تو میں اس کو ہزاری مل کے پاس بھیجتی۔"
اصغری : "یوں آپ کو اختیار ہے۔ لیکن میرے نزدیک مہاجن سے ڈرنا کسی طرح مناسب نہیں ورنہ اس کو آئندہ کے والے دلیری ہو جائے گی اور آئے دن نالش کا ڈراوا دکھایا کرے گا۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ ادھر کا اشارہ نہ ہو اور باہر سے کوئی دباؤ اس پر پڑ جائے کہ نالش کی پیروی سے باز رہے۔"
محمد کامل کی ماں: "تماشا خانم ابھی لڑکی ہیں۔ کچہری دربار کی باتیں کیا جائیں۔ ایسا نہ ہو ان کے بھروسے میں کام بگڑ جائے اور موقع ہاتھ سے جاتا رہے۔"
اصغری: تماشا خانم بے شک لڑکی ہیں مگر میں نے بات خوب پکی کر لی ہے اور مجھے کو اطمینان ہے۔"
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ میاں مسلم نے دروازے پر آواز دی۔ اصغری نے کہا "دیکھے، مسلم آیا ہے۔ ضرور اس معاملے میں کچھ خبر لایا ہو گا۔" اصغری نے محمود کو اشارہ کیا۔ محمودہ کوٹھڑی میں چلی گئی۔ مسلم کو اندر بلایا اور پوچھا "مسلم، کیا خبر لائے۔"
مسلم نے کہا "آپا نے تم کو سلام کہا ہے اور مزاج کا حال پوچھا ہے اور کہا ہے کہ ہزاری مل کو بلوایا تھا۔ بہت کچھ ڈرایا دھمکایا ہے۔ اس نے وعدہ کر لیا ہے کہ نالش نہ ہوگی۔"
یہ بات سن کر محمد کامل کی ماں کو کسی قدر تسلی ہوئی۔ لیکن اصغری حیرت میں تھی کہ تماشا خانم نے تو یہ کہلا بھیجا کہ ہزاری مل نالش کر بیٹھا۔ یہ کیا بات ہے؟ اور اشتہار کا معاملہ بھی عجب ہے! میں گھر میں بیٹھی رہی۔ مجھ کو خبر نہیں۔ حاکم کا اشتہار ہوتا تو کوئی چپڑاسی پیادہ پکارتا، آواز دیتا۔ مسلم رخصت ہوا تو محمودہ سے اصغری نے کہا "جاؤ دروازے پر جو کاغذ لگا ہوا ہے اس کو چپکے سے اکھاڑ لاؤ۔" محمودہ کاغذ اکھاڑ لائی۔ اصغری نے پڑھا تو صفائی کا حکم تھا۔ نالش کا کچھ مذکور نہ تھا۔ سمجھ گئی کہ یہ بھی اس عظمت کی چالاکی ہے۔ ساس پر تو حال ظاہر نہیں کیا لیکن ان کا اچھی طرح اطمینان کر دیا کہ آپ دلجمعی سے بیٹھی رہیے۔ نالش کا ہر گز کھٹکا نہیں۔

باب اٹھارھواں: اصغری نے کس حکمت سے اپنے میاں کو شب برات میں انار پٹاخے پھوڑنے سے باز رکھا

ساس نے کہا "تمہارے کہنے سے نالش کی طرف سے تو دلجمی ہوئی۔ لیکن شپب برات اور رمضان سر پر چلا آتا ہے۔ دونوں تہواروں میں خرچ ہی خرچ ہے۔ لاہور سے خط آنا موقوف ہے۔ خرچ کا فکر تو میرا لہو خشک کیے ڈالتا ہے۔
اصغری نے کہا "رمضان کے تو ابھی بہت دن پڑے ہیں۔ خدا مسبب الاسباب ہے۔ اس وقت تک غیب سے کوئی سامان پیدا ہو جائے گا۔ ہاں شب برات کے چار ہی دن رہ گئے ہیں۔ سو شب برات کوئی ایسا تہوار نہیں جس میں بہت خرچ درکار ہو۔"
ساس نے کہا "میرے گھر تو سال در سال شب برات میں بیس روپے اٹھتے ہیں۔ پوچھو، یہی عظمت خرچ کرنے والی موجود ہے۔"
اصغری نے کہا "خرچ کرنے کا عجب ہے، لیکن ایک ضرورت کے واسطے اور ایک بے ضرورت۔ سو شب برات میں کوئی اسی ضرورت نہیں جس کے واسطے اتنا روپیہ درکار ہو۔"
ساس نے کہا "بوا، پیر، پغمبر، بڑے بزرگوں کی فاتحہ مقدم ہے، پھر لوگوں کے گھر بھیجنا بھجوانا ضرور ہے۔ لو، کہنے کو تو ذرا سی بات ہے۔ پانچ روپے کی ایک رقم تو اصل خیر سے تمہارے میاں اور بی بی محمودہ کے انار پٹاخوں کی ہے۔ محمد کامل کا بیاہ ہو گیا ہے تو کیا ہے، خدا رکھے اس کے مزاج میں تو ابھی تک بچپن کی باتیں چلی آتی ہیں۔ جب تک سو انار، بیس گڈی پٹاخے نہ لے چکے گا، میری جان کھا جائے گا اور محمودہ بھی رو رو کر برا حال کر لے گی۔"
اصغری: "اماں جان، مسلمانوں میں شب برات کی کچھ رسم سی پڑ گئی ہے، ورنہ دین میں تو اس کی کچھ اصل وصل ہی نہیں ہے۔ ہمارے ابا کو شب برات کی ایسی چڑ ہے کہ دوسروں کے یہاں کا آیا ہوا میٹھا نہ آپ کھائیں اور نہ ہم لوگوں کو کھانے دیں۔ اول تو ابا شہر میں جم ہی جم ہوتے ہیں، لیکن جس برس آپا کا بیاہ ہوا ان کو شب برات یہیں ہوئی تھی۔ اماں بہتیرا لڑیں، جھگڑیں مگر ابا نے کہا، میں تو یہ بدعت اپنے گھر میں ہونے دینے کا نہیں۔ اور یوں خرچ کو کہو تو مجھ سے دس کی جگہ بیس لو اور غریبوں کو دو پر شب برات کے نام سے تو میں ایک پھوٹی کوڑی دینے والا نہیں۔"
اصغری کی ساس: "تمہارے سسرے کا بھی یہی کہنا ہے۔ شب برات کا حلوا، عید کی سویاں، بیوی کا کونڈا، صحنک، منت، عرش، قبروں کی چادر، پنکھا، بسنت، پھول والوں کی سیر، سلطان جی کی سترھویں، سہرا، کنگنا، منڈھا، نوبت، نقارہ، ڈھولک، ساچق، آرائش، مولوی تو سب ہی چیزوں کو منع کرتے ہیں۔ پر کم بخت دنیا بھی تو نہیں چھوڑی جاتی۔ اب کسی کے یہاں سے حصہ، بخرہ آئے تو خواہی نہ خواہی پڑتا ہے۔ اور یہ بھی نہیں ہو سکتا، جیسے ہمسائی کیا کرتی ہیں کہ لینا روا دینے کے نام کو الٹا توا۔ پھر گھر کے مردوں کے نام سے یوں تو کون دیتا ہے۔ برسوں دن تیوہار کے منانے ان کی ارواح کو دو چباتی اور کوڑی بھر میٹھے کا ثواب بن جاتا ہے تو اس سے کیا گئے گزرے ہوئے؟"
اصغری : "ایسا ہی شب برات کا کرنا ضرور ہے تو فاتحہ کے واسطے پانچ چھ سیر کا میٹھا بہت ہو
گا۔ رہا بھیجنا بھجوانا تو ادھر سے آیا ادھر گیا۔ اور محمودہ اب پٹاخوں کے واسطے ضد نہیں کریں گی۔ میں ان کو سمجھا لوں گی۔ غرض شب برات تو میری طرف سے آئی گئی ہوئی۔ اس کے واسطے آپ قرض کا فکر نہ کیجیے۔ کسی معمول میں بھی کمی ہو تو مجھ کو الاہنا دیجیے۔
ساس سے تو یہ باتیں ہوئیں لیکن اصغری سوچ میں تھی کہ میاں کو انار پٹاخوں سے کسی طرح باز رکھوں گی۔ آخر کار اس حکمت سے اصغری نے میاں کو سمجھایا کہ بات بھی کہہ گزری اور میاں کو ناگوار بھی نہ ہوا۔ محمد کامل کے سامنے چھیڑ کر محمودہ سے پوچھا "کیوں بوا، تم نے شب برات کے واسطے کیا تیاری کی؟"
محمودہ بولی "بھائی انار پٹاخے لائیں گے تو ہم کو بھی دیں گے۔"
ابھی محمد کامل کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ اصغری نے کہا "بھائی ایسی واہیات چیز تمہارے لئے کیوں لانے لگے؟ انار پٹاخوں میں کیا مزا ہوتا ہے؟"
محمودہ: "بھائی جان، جب انار پٹانے چھوٹتے ہیں تو کئی بہار ہوتی ہے۔"
اصغری: "محلے میں سینکڑوں انار چھوڑیں گے۔ کوٹھے پر سے تم بھی دیکھ لینا۔"
محمودہ: "واہ اور ہم نہ چھوڑیں؟"
الصغری: "تم کو ڈر نہیں لگلتا؟"
محمودہ : "میں اپنے ہاتھوں سے تھوڑے ہی چھوڑتی ہوں۔"
اصغری : "پر جس طرح تم نے اپنے انار چھوٹتے دیکھے، ویسے ہی محلے کے۔ اور محمودہ سنو، یہ بہت برا کھیل ہے۔ اس میں جل جانے کا خوف ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے محلے میں ایک لڑکے کے ہاتھ میں انار پھٹ گیا تھا۔ دونوں آنکھیں پھوٹ کر چوپٹ ہو گئیں۔ اس کو دیکھنا بھی ہو تو دور سے۔ اور محمود تم اماں جان کا حال دیکھتی ہو؟ اداس ہیں یا نہیں؟"
محور: "اداس تو ہیں۔"
اصغری: "کبھی تم نے یہ بھی غور کیا کہ کیوں اداس ہیں؟"
محمودہ: "یہ تو معلوم نہیں۔"
اصغری: "واہ! اسی پر تم کہتی ہو کہ میں اماں کو بہت چاہتی ہوں۔"
محمودہ: "اچھی بھابھی جان، اماں کیوں اداس ہیں؟"
اصغری: "خرچ کی تنگی ہے۔ مہاجن قرض نہیں دیتا۔ اس سوچ میں ہیں کہ محمودہ اناروں کے واسطے ضد کرے گی تو کہاں سے دوں گی۔"
محمودہ: "تو ہم انار نہیں منگائیں گے۔"
اصغری: "شاباش! شاباش! تم بہت ہی اچھی بیٹی ہو (اور محمودہ کو گلے لگا کر پیار کیا)۔"
محمودہ : "اگلے برس جب خدا کرے گا اماں کا ہاتھ بافراغت ہو گا، ابا خرچ بھیجیں گے تو اب کے بدلے کے انار پٹاخے بھی ہم سب ہی چھوڑیں گے۔ کیوں نہ بھابھی جان؟"
اصغری: "چھوڑ تو لو گی مگر محمودہ انار پٹاخوں کا چھوڑنا گناہ کی بات ہے۔ اللہ میاں بڑے ناراض ہوتے ہیں۔"
محمودہ: "اے ہے، پھر یہ سب لوگ جو اتنی آتش بازی چھوڑتے ہیں؟"
اصغری : "لوگوں کی بھلی چلی۔ لوگ جھوٹ نہیں بولتے؟ چوری نہیں کرتے؟ پرایا حق نہیں مارتے؟"
محمودہ: "پھر ہم کو اماں جان نے تو کبھی منع نہیں کیا۔"
اصغری: "اس خیال سے کہ تمہارا جی کڑھے گا۔"
محمودہ: بھلا اس میں گناہ کی کیا بات ہے؟ کسی کے لگ نہ جائے؟"
اصغری: "محمودہ، اللہ تعالیٰ کے یہاں چل کر رتی رتی کا حساب دینا ہو گا۔ انار پٹاخے تو بڑے داموں کی چیز ہے، اگر کوئی آدمی پانی بھی بے سبب لنڈھاتا ہے، اس سے بھی اللہ میاں پوچھیں گے کہ تو نے ہمارا پانی بے وجہ لنڈھایا کیوں؟ اسی طرح پر وقت کا، روپے پیسے کا، کھانے کا، کپڑے کا، تندرستی کا، غرض خدا نے جتنی نعتیں اپنی مہربانی سے دی ہیں سب کا حساب کتاب دینا پڑے گا۔ اور جب تم بتاؤ گی کہ ہم نے اتنے پیسوں کے انار پٹاخے لئے اللہ میاں کہیں گے کہ تم نے یہی پیسے کسی غریب محتاج کو کیوں نہ دیے؟ لوگ بھوکے مریں اور کوڑی کوڑی کو ترسیں اور تم میری دی ہوئی دولت کو یوں آگ لگاؤ۔ اس وقت محمودہ تم کیا جواب دو گی؟ تم اللہ میاں سے ڈرتی نہیں؟"
محمودہ: "اے ہے! بھابھی جان، اب کیا کروں؟"
الصغری: "آگے کو توبہ کرو۔"
محمودہ: "تو الہ میاں میری خطا معاف کر دیں گے؟"
اصغری: "بے شک، معاف کر دیں گے۔ وہ تم کو اماں جان سے بہت زیادہ چاہتے ہیں۔"
محمودہ: "اللہ میاں مجھے اتنا کیوں چاہتے ہیں؟"
اصغری : "اس واسطے چاہتے ہیں کہ انہوں نے تم کو بنایا ہے، پیدا کیا ہے۔ تم اپنے پالے ہوئے بلّی کے بچے کو کیسا چاہتی ہو۔"
محور: "تو کیسے توبہ کروں؟"
اصغری : "دل سے پکا ارادہ کر لو کہ پھر ایسا نہیں کرو گی۔"
محمودہ: "میں انار پٹاخے منگوانے کی بھی نہیں، اور کوئی مفت بھی دے گا تو نہیں لوں گی۔
اصغری نے پھر محمودہ کو پیار کیا۔ محمد کامل چپ بیٹھا ہوا یہ سب باتیں سنتا رہا۔ چونکہ معقول بات تھی اس کے دل نے قبول کر لی۔ اس وقت نیچے اتر کر ماں کے پاس گیا اور کہا "اماں میں نے سنا ہے تم شب برات کی سوچ میں بیٹھی ہو۔ تم میرا فکر مت کرو۔ مجھ کو انار پٹاخے درکار نہیں۔ اور محمودہ کہتی ہے کہ میں نہیں منگاؤں گی۔ اور ہم دونوں نے توبہ بھی کر لی ہے۔"
غرض خرچ کی ایک رقم تو یوں کم ہوئی۔ فاتحہ کے واسطے دو روپے میں خاصا میٹھا بن گیا۔ بھیجنے کے واسلے اصغری نے خود اہتمام کیا۔ جب باہر سے حصہ آیا، گھر میں نہ ٹھہرنے دیا۔ دے کر آدمی باہر نکلا اور اس نے کہا، فلانی جگہ پہنچا دو۔ جس جس کو دینا تھا سب کو نام بنام پہنچ گیا اور دو روپے میں اچھی خاصی شب برات ہو گئی۔ عظمت یہ بندوبست دیکھ کر جل ہی تو گئی۔ اس واسطے کہ اس کی بڑی رقم ماری گئی۔ جتنا باہر سے آتا وہ سب لیتی اور جو گھر سے جاتا، آدھا اس میں سے نکالتی۔ اور شب برات کا حلوا جو خشک کر رکھتی تھی، مہینوں پنجیری کی طرح پھانکتی۔

باب انیسواں: اصغری کے باپ اور سسرے کا آنا، لوگوں کا حساب کتاب ہونا اور آخر کار ماما عظمت کا رسوا ہو کر نکالا جانا

شب برات کے بعد اصغری کے باپ کی آمد شروع ہوئی اور نو دس دن بات کی بات میں گزر گئے۔ رمضان سے چار دن پہلے دور اندیش خاں صاحب دہلی میں داخل ہوئے۔ اصغری نے پہلے سے اپنے باپ کی سن رکھی تھی اور ساس اور میاں سے ٹھہر گیا تھا کہ جس دن تحصیل دار صاحب آئیں گے اسی دن میں ان سے ملنے جاؤں گی۔ جب اصغری کو باپ کے آنے کی خبر معلوم ہوئی فوراً ڈولی منگا جا پہنچیں۔ باپ نے گلے سے لگا لیا اور آب دیدہ ہوئے۔ دیر تک حال پوچھتے بتانے رہے اور اصغری سے کہا، آپ کے حکم کے مطابق خیر اندیش خاں لاہور گئے ہیں اور انشاء اللہ كل یا پرسوں سمدھی صاحب کو لے کر داخل ہوں گئے۔ ان کا ایک خط بھی مجھ کو راہ میں مل گیا تھا۔ سمدھی صاحب کو رخصت مل گئی ہے۔ غرض اس رات بھر اور اگلے دن بھر اصغری ماں کے یہاں رہی اور شام کے قریب باپ سے کہا کہ اگر اجازت دیتے تو آج میں چلی جاؤں۔
باپ نے کہا "اجی، ایک ہفتہ تو رہو۔ ہم ان کو کہلا بھیجیں گے۔"
اصغری نے کہا "جیسا آپ ارشاد فرمائیں، تعمیل کروں۔ لیکن ابا جان کے آنے سے پہلے گھر میں موجود رہنا، مصلحت معلوم ہوتا ہے۔"
باپ نے سوچ کر کہا "ہاں، بات تو ٹھیک ہے۔"
غرض اصغری باپ سے رخصت ہو مغرب سے پہلے گھر آ موجود ہوئیں۔ اگلے دن کھانے کے وقت مولوی محمد فاضل صاحب (محمد کامل کے باپ) بھی آ پنچے۔ یہ مولوی صاحب
لاہور کے ایک رئیس کی سرکار میں مختیر تھے۔ پچاس روپے مہینہ تنخواہ مقرر تھی اور مکان اور سواری رئیس کے ذمے۔ خیر اندیش خاں اصغری کی تحریر کے موافق لاہور گیا اور اصغری کا خط مولوی محمد فاضل صاحب کو دکھایا۔ مولوی صاحب بہو کا خط دیکھ کر باغ باغ ہو گئے۔ اور یوں شاید رخصت نہ بھی لیتے، اب بہو کو دیکھنے کے اشتیاق میں رئیس سے بہت کہہ سن کر ایک مہینے کی رخصت لے کر خیر اندیش خاں کے ساتھ ہو لئے۔ چونکہ اصغری بیاہ کے بعد سسرے کے سامنے نہیں ہوئی تھی سسرے کو آتا دیکھ کر کوٹھے پر جا بیٹھی۔ کامل کی ماں حیرت میں تھی کہ یہ کیوں کر آ گئے! غرض کھانے کے بعد باتیں شروع ہوئیں۔ مولوی صاحب نے بیوی سے کہا "سنو صاحب، مجھ کو تمہاری چھوٹی بہو نے کھینچ بلایا ہے۔" پھر سب حال خط کا اور خیر اندیش خاں کے جانے کا بی بی سے بیان کیا اور کہا کہ بہو کو بلاؤ۔
ساس کوٹھے پر گئیں اور کہا "بیٹی، چلو شرم کی کیا بات ہے۔ تم تو ان کی گودوں میں کھیلی ہو۔"
اس کے کہنے سے اصغری اٹھ کر ساتھ ہو لی اور سر کو جھک کر سلام کیا اور ادب سے علیحدہ بیٹھ گئی۔ مولوی صاحب نے کہا "سنو بھائی۔ ہم تو صرف تمہارے بلائے ہوئے آئے ہیں۔ تمہارا خط دیکھ کر ہمارا جی بہت خوش ہوا۔ خدا تمہاری عمر اور نیک بختی میں برکت دے۔ حقیقت میں ہمارے گھر کے اچھے نصیب ہیں جو تم ہمارے گھر میں آئیں اور مجھے یقین ہوا کہ اس گھر کے کچھ دن پھرے۔ ان شاء اللہ تمہاری مرضی اور تمہاری رائے کے موافق سب انتظام کیا جائے گا۔"
غرض دو چار دن تو مولوی صاحب ملنے ملانے میں رہے، پھر اول کے دو چار روز روزے کے سبب گھر کے کام کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ ایک دن بہو کو پاس بٹھایا اور ماما عظمت سے کہا "ہمارے رہتے سب حساب کتاب کر لو۔ جس جس کو دینا ہے سب لکھا دو تا کہ جس کو جتنا مناسب ہو دیا جائے اور جو باقی رہ جائے اس کی قسط بندی کر دی جائے۔"
ماما نے کہا "ایک کا حساب ہو تو زبانی بھی یاد رکھا جائے۔ بنیا، بزاز، قصائی، کنجڑا، حلوائی، سب ہی کا دینا ہے۔ اور ہزاری مل کا بڑا بھاری حساب الگ ہے۔ جس کو جتنا ہو، مجھ کو دیجیے لے جا کر آپ کے نام جمع کرا دوں۔"
مولوی صاحب تو سیدھے سادے آدمی تھے، دینے کو آمادہ ہو گئے۔ اصغری نے کہا۔ "یوں على الحساب دینے سے کیا فائدہ؟ پہلے ہر ایک کا قرضہ معلوم ہو تب اس کو سوچ سمجھ کر دینا چاہیے۔"
ماما نے کہا "کھانے سے فراغت پاؤں تو جا کر ہر ایک سے پوچھ آؤں گی۔"
اصغری: "پوچھ آنے سے کیا ہو گا؟ جس کو لینا ہو یہاں آ کر حساب کر جائے۔"
ماما : "بیوی، آپ نے تو ایک بات کہہ دی۔ اب میں کہاں کہاں بلاتی پھروں اور وہ لوگ اپنے دھندے سے کب چھٹی پاتے ہیں جو میرے ساتھ چلے آئیں گے؟"
اصغری : "کوئی روز روز کا بلانا نہیں ہے۔ ایک دن کی بات ہے۔ جا کر بلا لاؤ۔ شام کے کھانے کا کچھ بندوبست ہو جائے گا۔ تم آج یہی کام کرو۔ اور لینے والے تو دینے کا نام سن کر دوڑیں گے۔ ہزاری مل نالش کرنے دو دو کوس کچہری پر تو گیا یہاں آتے کیا اس کے پاؤں میں مہندی لگی ہے؟ اور دور کون ہے؟ کنجڑا، قصائی بنیا، حلوائی، سب اسی گلی میں ہیں۔ صرف بزاز اور ہزاری مل دور ہیں۔ ان کو کل پر رکھو۔ یہ مشکل حساب آج طے ہو جائے۔"
ماما عظمت کی کسی طرح مرضی نہ تھی کہ حساب ہو، لیکن اصغری نے باتوں میں ایسا دبایا کہ کچھ جواب نہ بن پڑا۔ سب سے پہلے حلوائی آیا۔ پوچھا "لالہ، تمہارا کیا پاتا ہے؟"
حلوائی: "تیس روپے۔"
پوچھا گیا "کیا کیا چیز تمہارے یہاں سے آئی؟ تیس روپے تو بہت زیادہ بتاتے ہو۔"
حلوائی : "صاحب، تیس روپے بھی کچھ بہت ہوتے ہیں۔ ایک رقم دس سیر شکر تو اسی شب برات کو آئی۔"
محمد کامل کی ماں: "ارے! کیسی شکر؟ اب کے مرتبہ ہمارے گھر جو کچھ پکا پکایا بازار سے نقد آیا۔"
یہ سن کر ماما عظمت کا رنگ فق ہو گیا اور حلوائی سے بولی "وہ دس سیر شکر تو نے ان کے حساب میں کیوں لکھ لی؟ وہ تو میں دوسرے کے واسطے لے گئی تھی اور تجھ کو جتا بھی دیا تھا۔"
حلوائی : "مجھ سے تو تم نے کسی گھر کا نام نہیں لیا۔ اسی سرکار کے نام سے لائی ہو۔ ورنہ
مجھے کیا فائدہ تھا کہ دوسرے کی چیز ان کے نام لکھ لیتا؟ اور مجھ سے تو اور کسی سرکار سے اچاپت بھی نہیں۔"
غرض ماما کھسیانی باتیں کرنے لگی۔ مولوی صاحب نے کہا "بھلا شکر کی رقم تو رہنے دو۔ اور چیزیں بتاؤ۔"
غرض اسی طرح بہت سی چیزیں اس نے بتائیں جو عمر بھر گھر میں نہیں آئی تھیں۔ چار سیر بالو شاہی مولود شریف کے واسطے اور مزہ یہ کہ یہاں کبھی کسی نے مولود کی مجلس نہیں کی۔ صرف چھ سات روپے تو سچ نکلے، باقی سب جھوٹ۔ مولوی صاحب کا جی جل گیا اور بے طرح ان کو غصہ آیا۔ پوچھا، "کیوں ری نمک حرام عظمت! ایسا ہی دنیا بھر کا قرض تو نے اس گھر پر کر رکھا ہے اور یوں تو نے گھر کو خاک میں ملایا ہے؟"
حلوائی ہو چکا تو کنجڑا آیا۔ اس نے کہا "میاں میرا تو حساب معمولی ہے۔ دو آنے روز کی ترکاری؟"
محمد کامل کی ماں : "ارے! سیر بھر ترکاری میرے گھر میں آتی ہے۔ دو آنے روز کی ہوئی؟"
کنجڑا: "حضرت، میری دکان سے ماما تین سیر لاتی ہے۔"
ماما: "تین سیر لاتی ہوں۔ سیر بھر تمہارے نام سے، سیر بھر اپنی بیٹی کے واسطے اور سیر بھر دوسرے گھر کے واسطے۔ میں کیا مکرتی ہوں؟ یہ موا سب تمہارے نام بتاتا ہے۔"
کنجڑا : "اری بڑھیا بے ایمان! ہمیشہ سے تو اسی گھر کے حساب میں تین سیر لاتی رہی اور جب روپیہ ملا اس گھر سے ملا۔"
قصائی اور بنئے کا حساب ہوا تو اس میں بھی ہزاروں فریب نکلے اور ثابت ہوا کہ ماما اسی گھر کے سودے میں اپنی بیٹی خیراتن اور اپنی دو تین ہمسائیوں کے گھر پورے کرتی تھی۔ اسی گھر کے نام سے سودا لاتی اور دوسری جگہ بیچ ڈالتی غرض شام تک پھٹکل حساب ہوا اور اب بزاز اور ہزاری مل باقی رہے۔ مولوی صاحب نے آہستہ سے یہ بھی کہا کہ ایسا نہ ہو عظمت بھاگ جائے۔
اصغری : "گھر بار، لڑکے بچے، مکان چھوڑ کر کہاں بھاگ جائے گی؟ ہاں شاید غیرت مند ہو تو کچھ کھا پی لے۔ مگر ایسی غیرت مند ہوتی تو ایسا کام کیوں کرتی؟ تا ہم حفاظت ضرور ہے،
لیکن فقط اسی قدر کہ باہر آتی جاتی کو کوئی دیکھتا رہے۔
مولوی کے خدمت گار جو ساتھ آئے تھے، ایک کو چپکے سے کہہ دیا کہ ماما کو آتے جاتے دیکھتے رہو۔ جب کھانے سے فارغ ہوئی یا چپکے سے اُٹھی باہر چلی۔ خدمت گار دبے پاؤں پیچھے پیچھے ساتھ ہوا۔ ماما پہلے تو اپنے گھر گئی اور وہاں سے کچھ بغل میں مار تیر کی طرح سیدھی بزاز کے مکان پر جا کر اس کو آواز دی۔ بزاز گھبرا کر باہر نکلا کہ "بڑی بی، تم اس وقت کہاں؟"
عظمت: "مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں۔ جس جس کا دینا ہے سب کا حساب ہوتا ہے۔ کل تم بھی بلائے جاؤ گے تو ایسی بات مت کرنا جس میں میری فضیحت ہو۔"
بزاز : "حساب میں تمہاری فضیحت کی کیا بات ہے؟"
ماما : "لالہ، تم تو جانتے ہو یہ کم بنت لالچ بہت برا ہوتا ہے۔ سرکار کے حساب میں اپنے واسطے بھی تمہاری دکان سے کبھی کبھی لٹھا، نین سکھ اور دریس لے گئی ہوں۔"
بزاز : "کیا معلوم تم اپنے واسطے کیا لے گئی ہو؟"
ماما: "مجھ کو اس وقت حساب کا تو ہوش نہیں، لیکن دو چار تھان، دریس اور لٹھے، نین سکھ کے اور دس گز اودا قند میرے حساب میں نکلے گا تو میرے ہاتھ کی چار چوڑیاں سولہ روپے کی ہیں گھس گھسا کر ایک روپیہ کم ہو گیا ہو گا۔ پندرہ روپے میرے نام سے کم کر دینا اور دو چار روپے جو میرے نام نکلیں گے، میں دینے کو موجود ہوں۔
بزاز : "چوڑیاں تم دیتی ہو۔ خیر، میں لئے تو لیتا ہوں، لیکن رات کا وقت ہے۔"
عظمت: "اس وقت میری عزت تمہارے ہاتھ ہے۔ جس طرح ہو سکے بچاؤ۔"
بزاز سے رخصت ہو سیدھی ہزاری مل کے گھر پہنچی۔ وہ بھی حیران ہوا اور بولا کہ اس وقت تم کہاں؟ اس کے پاؤں پڑ کر رو کر کہنے لگی کہ مجھ سے ایک خطا ہو گئی ہے۔
ہزاری مل: "بات تو کہو۔"
عظمت: "چار مہینے ہوئے لاہور سے خرچ آیا تھا۔ اور مولوی صاحب نے سو روپے تم کو بھیجے تھے، وہ میرے پاس خرچ ہو گئے اور سرکار میں ڈر کے مارے میں نے ظاہر نہیں کیا۔ اب مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں۔ تم کو حساب کے واسطے طلب کریں گے۔ میں اس روپے کا ٹھکانہ لگا دوں گی۔ تم اس رقم کو ظاہر مت کرنا۔"
ہزاری مل: "دو چار روپے کی بات ہوتی تو میں چھپا بھی لیتا اکٹھے سو روپے تو میرے کیے چھپ نہیں سکتے۔"
ماما: "کیا سو روپے کا بھی میرا اعتبار نہیں؟"
ہزاری مل: "صاف بات تو یہ ہے کہ تمہارا ایک کوڑی کا بھی اعتبار نہیں۔ جس گھر سے تم نے عمر بھر پرورش پائی انہی کے ساتھ تم نے یہ سلوک کیا تو دوسرے کے ساتھ کب چوکنے والی ہو۔"
عظمت: "ہاں لالہ، جب برا وقت آتا ہے تو اپنے دشمن ہو جاتے ہیں۔ خیر اگر تم کو اعتبار نہیں تو لو یہ میری بیٹی کی پہنچیاں اور جوشن رکھ لو۔"
ہزاری مل: "ہاں یہ معاملے کی بات ہے۔ لیکن دن ہو تو مال پرکھا جائے۔ تب معلوم ہو کتنے کا ہے۔ لیکن اٹکل سے تو سب مال پچاس ساٹھ کا ہو گا۔"
ماما: "اے ہے لالہ! ایسا غضب تو مت کرو۔ ابھی چار مہینے ہوئے نو عدد بنوائے تھے۔ سوا سو کی لاگت کے ہیں۔"
ہزاری مل: "اس میں برا منانے کی کیا بات ہے۔ تمہاری چیز، سو کی ہو یا دو سو کی۔ کوئی نکالے لیتا ہے؟ تلوانے سے جتنی ٹھہرے معلوم ہو جائے گا۔"
یہ سب بندوبست کر کے ماما گھر واپس آئی۔ مولوی صاحب کے خدمت گار نے پاؤں دبانے میں یہ سب حال مولوی صاحب سے بیان کیا اور محمد کامل کی ماں کے ذریعے اصغری کو معلوم ہوا۔ صبح ہوئی تو بزاز اور ہزاری مل طلب ہوئے۔ حساب میں کچھ حجت ہونے لگی۔ ماما چڑھ چڑھ کر بولتی تھی۔ بزاز نے کہا "تو بڑھیا ٹر ٹر کیوں کرتی ہے؟ اٹھا اپنی چوڑیاں۔ تو پندرہ روپے کی بتاتی تھی۔ بازار میں نو روپے کی آنکتے ہیں۔ ہزاری مل نے پہنچیاں اور جوشن سامنے رکھ دیے اور عظمت سے کہا۔ "نہیں صاحب، یہ مال ہمارے کام کا نہیں۔"
مولوی صاحب نے بزاز اور ہزاری مل سے پوچھا "کیوں بھائی، یہ چیزیں کیسی ہیں؟"
تب دونوں نے رات کی حکایت بیان کی اور عظمت کے منہ پر گویا لاکھوں جوتیاں پڑ رہی تھیں۔ جب حساب طے ہو گیا اور مولوی صاحب نے دینے کو روپیہ نکلا تو جتنا واجبی تھا آدھا آدھا سب کا دے دیا اور کہا کہ میں نے لاہور سے روپیہ منگایا ہے دس پانچ دن میں آتا ہے تو باقی بھی دے دیا جائے گا۔ سب لوگوں نے پوچھا کہ ماما کی طرف جو ہمارا نکالا، وہ ہم
کس سے لیں؟ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مسلم مکتب سے جاتے ہوئے ادھر آ نکلا اور یہ باتیں سنتا گیا۔ وہاں جا کر تماشا خانم سے کہا کہ آج تو آپا اصغری کے دروازے پر بڑی بھیڑ جمع ہے۔ ان کے سسرے حساب کر رہے ہیں۔ تماشا خانم سنتے کے ساتھ ڈولی میں چڑھ آ پہنی۔ اتری تو اصغری سے گلہ کیا کیوں جی، تم نے مجھ کو خبر نہ کی تو کیا ہوا۔"
اصغری: ابھی تو حساب در پیش ہے۔ یہ بکھیڑا ہو چکا تو میں تم کو خبر کرتی۔"
غرض مولوی صاحب نے لوگوں سے کہا کہ جو ماما سے لیتا ہے، وہ ماما سے لو اور عظمت کی طرف متوجہ ہو کر بولے۔ "حضرت، ان کا روپیہ ادا کرو۔"
عظمت نے نیچی آنکھیں کر کے کہا "میرے پاس بیٹی کا زیور ہے۔ اس میں یہ لوگ اپنا اپنا سمجھ بوجھ لیں"۔ بیٹی کا تمام زیور کنجڑے، قصائی، بنئے، بزاز کے حساب میں آدھے داموں پر لگ گیا۔ ہزاری مل کے سو روپے کے واسطے رہنے کا ٹھیکرا گروی رکھنا پڑا۔ لکھا پڑھی کے کاغذ پر ہو کر چار بھلے مانسوں کی گواہی ہو گئی۔ مولوی صاحب نے عظمت سے کہا۔ "بس، اب آپ خیر سے سدھاریئے۔ تم جیسے نمک حرام، دغا باز، بے ایمان آدمی کا ہمارے گھر میں کچھ کام نہیں۔"
اصغری : "ان میں نمک حرامی کے علاوہ ایک صفت اور بھی تھی۔ وہ یہ کہ گھر میں فساد ڈلوانے کی فکر میں تھیں۔ کیوں عظمت وہ کڑھائی کی بات یاد ہے جو محمودہ کے بھائی نے فرمائش کی تھی اور تو نے میری طرف سے جھوٹ جا کہہ دیا تھا کہ بہو کہتی ہیں میرے سر میں درد ہے۔ بول تو سہی؟ کب تو نے مجھ سے کہا تھا اور کب میں نے درد سر کا عذر کیا تھا؟"
عظمت: "بیوی تم کوٹھے پر قرآن پڑھ رہی تھیں۔ میں کہنے کو اوپر گئی۔ تم کو پڑھتے دیکھ کر الٹی پھر آئی۔"
اصغری: "بھلا پہاڑ پر جانے کی بات تو نے کس غرض سے کی تھی؟ میں نے تجھ سے صلاح کی تھی یا تو نے مجھ کو کہتے سنا تھا؟"
اس کا کچھ جواب عظمت کو نہ آیا۔ پھر اصغری نے اشتہار نکال کر مولوی صاحب کے سامنے ڈال دیا اور کہا۔ "دیکھئے یہ بیوی عظمت ان گنوں کی ہیں۔ خود تو محلے کے پھاٹک سے اشتہار اکھاڑ لائی اور مکان پر لگایا اور خود اماں جان سے کہنے کو دوڑی گئی۔"
اصغری یہ باتیں کہہ رہی تھی اور مولوی صاحب کا چہرہ سرخ ہو ہو جاتا تھا۔ ادھر تماشا خانم دانت پیس رہی تھی۔ مولوی صاحب نے کہا۔ "تجھ کو نکالنا ہی کافی نہیں۔ تو بڑی بد ذات عورت ہے۔" یہ کہہ کر اپنے خدمت گار کو آواز دی اور کہا۔ "بہادر، اس ناپاک کو کوتوالی لے جا۔ رقعے میں اس کا سب حال ہم لکھے دیتے ہیں۔"
اصغری نے مولوی صاحب سے کہا "بس، اب یہ اپنی سزا کو پہنچ گئی۔ کوتوال سے اس کو معاف رکھیے اور ماما کو اشارہ کیا "چل دے۔" بلکہ دروازے تک ماما کے ساتھ گئی۔
عرض ماما عظمت اپنے تکوں کے پیچھے یہاں سے نکالی گئی۔ گھر پہنچی تو بیٹی بلا کی طرح لپٹی۔ "میں نہ کہتی تھی اماں ایسی لوٹ تو نہ مچاؤ۔ سو دن چور کے تو ایک دن شاہ کا۔ ایسا نہ ہو کسی دن پکڑی جاؤ۔ تم کسی کی مانتی تھیں۔ خوب ہوا۔ جیسا کیا ویسا پایا۔ اب سسرال میں میرا نام تو بد مت کرو۔ جہاں تمہارا خدا لے جائے چلی جاؤ۔ میرے گھر میں تمہارا کام نہیں۔ زیور کو میں نے صبر کیا۔ تقدیر میں ہو گا تو پھر مل رہے گا۔" اس طور پر خدا خدا کر کے اصغری نے اپنے دشمن کو نکال پایا اور گھر کو عذاب سے نجات دی۔

باب بیسواں: گھر میں دوسری ماما رکھنے کی صلاح

جب عظمت کا فیصلہ ہو گیا تو اصغری نے باپ کے پاس جانے کی پھر اجازت لی اور راضی خوشی رخصت ہو، ماں کے گھر آئی۔ ایک ہفتہ برابر یہاں رہی اور جس جس بات میں باپ سے صلاح لیتی تھی، اطمینان سے پوچھا گچھا۔
خان صاحب: "عظمت نکل گئی؟"
اصغری: "سب آپ کے طفیل سے بخیر انجام ہوا۔ یہ بڑے بھائی لاہور جاتے، نہ ابا جان آتے، نہ یہ برسوں کا حساب طے ہوتا، نہ عظمت نکلتی۔"
خان صاحب: "اب گھر کا انتظام کیوں کر ہو گا؟"
اصغری : "ماما کے نکلتے میں تو ادھر چلی آئی۔ اب انتظام کیسا مشکل ہے۔ اسی عظمت کی خرابی تھی۔ اب انشا اللہ میں سب دیکھ بھال لوں گی۔
خان صاحب: "اور کیا کیا باتیں تم نے گھر میں ایجاد کیں؟"
اصغری : "ابھی میں نے کچھ دیکھا بھالا نہیں۔ شروع سے عظمت کا جھگڑا درپیش آیا۔ اب البتہ ارادہ ہے کہ ہر ایک کو سوچوں اور انتظام کروں۔ خدا نے چاہا تو آپ کو خط کے ذریعے سے اطلاع دیتی رہوں گی۔"
خان صاحب نے نکاح کے بعد سے اصغری کا دس روپے مہینہ مقرر کر دیا تھا۔ انہوں نے اصغری سے پوچھا "اگر تم کو خرچ کی تکلیف رہتی ہو تو میں کچھ روپے تم کو اور دیتا ہوں۔"
اصغری : "وہی دس روپے میری ضرورت سے زیادہ ہیں۔ بلکہ آج تک کا روپیہ سب میرے پاس جمع ہے۔ زیادہ لے کر کیا کروں گی۔ جب ضرورت ہو گی تو میں خود مانگ لوں گی۔"
غرض باپ سے اصغری رخصت ہو گئی۔ سسرال میں آ کر دیکھا کہ ساس چولہا پھونک رہی ہیں۔ اصغری نے حیرت سے پوچھا "ایں! اب تک کوئی ماما نہیں رکھی گئی؟"
ساس: "آنے کو تو کئی عورتیں آئیں، پر تنخواہ سن کر ہمت نہیں پڑتی کسی کو نوکر رکھنے کی۔ عظمت بری تھی مگر آٹھ آنے مہینے پر تیس برس اس نے نوکری کی۔ اب جو ماما آتی ہے، دو روپے اور کھانے سے کم کا نام نہیں لیتی۔"
اصغری: "ماما تو ایک میری نظر میں بھی ہے، لیکن خواہ وہ زیادہ مانگتی ہے۔ کفایت النساء کی چھوٹی بہن دیانت النساء۔ پکانا سینا سب جانتی ہے اور ایک دفعہ کفایت النساء نے بھی کہا تھا کہ کوئی اچھا ٹھکانا ہو تو دیانت النساء نوکری کرنے کو موجود ہے۔"
محمد کامل کی ماں: "وہ کیا تنخواہ لے گی؟"
اصغری : "وہ تو اپنے منہ سے تین روپے اور کھانا مانگتی ہے، لیکن سمجھانے سے شاید دو روپے پر راضی ہو جائے۔"
محمد کامل کی ماں : "دو روپے اور کھانا دینا ہو تو دروازے پر بھوندو بھٹیارے کی بی بی چینا کی ماں منتیں کرتی ہے۔"
اصغری: "چینا کی ماں کو تو میں چار آنے پر بھی نہ رکھوں۔"
محمد کامل کی ماں: "اے کیوں؟"
اصغری : "پاس کا رہنے والا آدمی برا۔ آنکھ بچی اور جو چیز چاہی گھر میں لے جا کر رکھ آئی۔ اور جب گھر سے گھر ملا ہے تو ہر گھڑی چینا کی ماں اپنے گھر جائے گی اور شاید رات کو بھی اپنے گھر رہے۔"
محمد کامل کی ماں : "بخشو کی بیوی نے اپنی بیٹی زلفن کے واسطے مجھ سے کئی مرتبہ کہا ہے۔ زلفن تو سید فیروز کے بنگلے رہتی ہے۔"
اصغری: "وہی زلفن نہ جو خوب بنی ٹھنی رہتی ہے؟"
محمد کامل کی ماں: "بنی ٹھنی کیا رہی ہے، نئی بیاہی ہوئی ہے۔ نئے نئے کپڑے لتے کا ذرا شوق ہے۔"
اصغری: "ایسا آدمی بھی نہیں رکھنا چاہیے۔"
محمد کامل کی ماں : "خود زلفن کی ماں نوکری کرنے کو راضی ہے۔"
اصغری : "ان کے ساتھ ایک دم چھلا چھوٹی بیٹی کا لگا ہوا ہے۔ وہ ایک دم ماں کو نہیں چھوڑتی۔ پس نام تو ایک آدمی کا ہو گا اور کھائیں گے دو دو۔"
محمد کامل کی ماں: "اور تو کوئی آدمی میرے خیال میں نہیں آتا۔"
اصغری: ؛دیکھو، اسی دیانت النساء کو بلاؤں گی۔"
کامل کی ماں: "اور تنخواہ کا کیا ہو گا؟"
اصغری: "ایمان دار آدمی تو کم تنخواہ پر ملنا محال ہے۔ ان لوگوں کو دو کی جگہ تین دینے گوں ہیں لیکن ماما عظمت جیسی کو آٹھ آنے دے کر گھر لٹوانا منظور نہیں۔ وہ کہاوت سچ ہے، گراں بہ حکمت ارزاں بہ علّت۔"
اس وقت کھانا تو ساس بہوؤں نے مل کر پکا پکوا لیا۔ کھانے کے بعد اصغری محمودہ کو ساتھ لے کر کوٹھے پر چلی گئی۔ جب تک مولوی صاحب رہے اصغری نے کوٹھے پر سے اترنا بہت کم کر دیا تھا۔ صرف صبح و شام نیچے اترتی تھی۔ بلکہ محمودہ کو بھی منع کر دیا تھا کہ بے وقت نیچے مت جایا کرو۔ محمودہ تو لڑکی تھی اس نے پوچھا "اچھی بھابی جان، کیوں؟"
اصغری نے کہا "بڑوں کے سامنے ہر وقت نہیں چلتے پھرتے۔"

باب اکیسواں: گھر کے خرچ کا تعین

کھانے کے بعد گھر کے حساب کتاب میں مولوی صاحب سے اور بی بی سے لڑائی ہونے لگی۔ بی بی کو شکایت تھی کہ تم خرچ بہت تھوڑا بھیجتے ہو۔ یہاں شادی بیاہ، برادری کا لینا دینا، آنا جانا، تیز تیوہار سب مجھ کو کرنا پڑتا ہے۔ مولوی صاحب کہتے تھے کہ بیس روپے مہینہ تھوڑا نہیں ہے۔ تم کو انتقام کا سلیقہ نہیں۔ اسی سبب سے گھر میں بے برکتی رہتی ہے۔ اتنے میں مولوی صاحب نے محمودہ کو آواز دی۔ محمودہ آئی تو کہا "بھابی کو بلا کر لا۔"


اصغری نے طلب کی خبر سنی تو حیران ہوئی کہ اس وقت کیوں بلایا۔ محمودہ سے پوچھا "کیا ہو رہا ہے؟" محمودہ نے کہا "لڑائی ہو رہی ہے۔" اصغری گئی تو مولوی صاحب نے کہا :
"کیوں بیٹا، اب انتظام کون کرے گا۔"
اصغری نے کہا "اماں جان کریں گی جس طرح اب تک کرتی تھیں۔"
مولوی صاحب نے کہا "ان کے انتقام کا نتیجہ تو دیکھ لیا۔ بیس روپے مہینہ جس گھر میں آتا ہو اس کی یہی صورت ہوتی ہے کہ نا سلیقے کا کوئی برتن ہے نہ عزت کی کوئی چیز۔ اگر کسی وقت ایک چمچ شربت درکار ہو تو خدا نے چاہا اس کا سامان بھی گھر میں نہ نکلے گا۔"
اصغری: "اماں جان کا اس میں کیا قصور ہے؟ عظمت نامراد نے گھر خراب کیا۔"
مولوی صاحب: "ان میں انتظام کی عقل ہوتی تو عظمت کی کیا طاقت تھی؟ عظمت نوکر تھی یا گھر کی مختار تھی؟"
اصغری : "پچیس برس کا پرانا آدمی جب لوٹنے پر کمر باندھے تو اس کے فریب کو کون جان سکتا ہے؟ ایسے پرانے آدمی پر تو شبہ بھی نہیں ہو سکتا۔"
مولوی صاحب: "تم کو آخر شبہ ہوا یا نہ ہوا۔"
اصغری: "مجھ کو کیا شبہ ہوا، اس نے نالش کا ذکر چھیڑ کر سوئی بھڑوں کو جگایا۔"
اتنے میں ساس بولیں۔ "پچاس میں سے تم اپنے اکیلے دم کے واسطے تو تیس روپے رکھو اور یہاں کنبے کے واسطے بیس۔"
مولوی صاحب : "گھر کا خرچ اور باہر کہیں برابر ہو سکتا ہے۔ تم نے تو مجھے کو اکیلا سمجھ لیا اور خدمت گار، سواری، مکان، کپڑا لتا؟"
بیوی: "سواری اور مکان تو سرکار سے ملتا ہے۔"
مولوی صاحب: "گھوڑا، دانہ گھاس تو مجھ کو اپنی گرہ سے کھلانا پڑتا ہے۔ چار روپے کا سائیس اور مکان کی مرمت۔ پھر سرکار دربار کے موافق حیثیت، لینا دینا، ہزار بکھیڑے ہیں۔ نہیں معلوم میں کسی طرح گزران کرتا ہوں۔"
اصغری نے ساس کی طرف مخاطب ہو کر کہا "اماں جان بیس روپے میں تکرار کرنے سے فائدہ؟ جتنا ہے ہزار شکر ہے۔ خدا ابا جان کی کمائی میں برکت دے۔ یہ بھی ہزاروں ہیں۔"
ساس: "بیٹی مجھ سے تو بیس میں گھر نہیں چلتا۔"
اصغری نے اشارے سے اس کو روکا اور مولوی صاحب سے کہا "آپ چاہے دو روپے اور کم دیجئے لیکن جو کچھ دیں ماہ بہ ماہ ملا کرے۔ جب وقت پر پیسہ پاس نہیں ہوتا تو ناچار قرض لینا پڑتا ہے اور قرض سے گھر کی رہی سہی برکت بھی اڑ جاتی ہے۔"
مولوی صاحب: "ہندوستانی سرکاروں میں تنخواہوں کا دستور قاعدہ بہت خراب ہے۔ کبھی چھٹے مہینے تقسیم ہوتی ہے کبھی برسویں دن ملتی ہے۔ اس سبب سے خرچ کا معمول نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہزاری مل سے میں کہہ جاؤ گا کہ ہر مہینے تم کو بیس روپے دے دیا کرے۔"
اصغری: "مہاجن دے جائے گا تو وہ آپ سے سود مانگے گا۔"
مولوی صاحب: "نہیں، سود کیا لے گا۔ ہماری سرکار میں بھی اس کا لین دین ہے۔ وہاں سے حکم آجائے گا۔"
اصغری: "ہاں تو اس کا مضائقہ نہیں۔"
غرض بیس روپے تنخواہ ٹھہر گئی۔ لیکن محمد کامل کی ماں کو ناگوار ہوا اور الگ لے جا کر اصغری سے گلہ کیا۔ اصغری نے کہا "گھر تو بیس میں انشاء اللہ میں چلا لوں گی۔ اس کا آپ
کی فکر نہ کیجیے۔ اور مولوی صاحب واقع میں تیس روپے سے کم میں اپنی حیثیت درست نہیں رکھ سکتے۔ مختار کی نوکری میں اول تو اوپر سے آمدنی کی کوئی صورت نہیں اور ہو بھی تو مولوی صاحب کیوں لینے لگے؟ پس گئی بوٹی نپا شوربا۔ مولوی صاحب خود تکلیف میں رہیں اور دو چار روپے گھر میں زیادہ بھی آئے تو مناسب نہیں۔"
یہ سن کر ساس چپ ہو رہیں۔

باب بائیسواں: ماما عظمت کی جگہ دیانت النساء رکھی گئی، اصغری کا انتظام خانہ داری

اصغری نے دیانت النساء کو بلا بھیجا اور کہہ سن کر دو روپے اور کھانے پر راضی کر لیا اور جتا دیا کہ دیانت النساء خبردار! کوئی بات ایسی نہ ہو کہ تمہارے اعتبار میں فرق آئے۔ جس طرح تمہاری بڑی بہن ہمارے گھر رہتی ہے اسی طرح تم رہنا۔
دیانت النساء نے کہا "بیوی! خدا اس گھڑی کو موت دے کہ پرائے مال پر نظر کروں۔ ضرورت ہو تو تم سے مانگ کر کھا لوں اور نہ ملے تو بھوکی بیٹھی رہوں پر بے حکم نون تک چکھنا حرام سمجھتی ہوں۔"
عید کے اگلے دن مولوی صاحب تو لاہور سدھارے اور ضرورت کی سب چیزیں اصغری نے اکٹھی منگوا لیں۔ اور آئندہ ہمیشہ فصل پر سستی دیکھ کر اکٹھی چیزیں لے رکھتی تھی۔ مرچ، پیاز، دھینا، اناج، دالیں، چاول، کھانڈ، گھی، لکڑی، اپلے، سکھانے کی ترکاریاں ہر چیز وقت مناسب پر خرید لی جاتی تھی۔ ماما ملا کر پانچ آدمی تھے۔ دونوں وقت میں سیر بھر گوشت آتا تھا۔ اس میں دیانت النساء دو طرح کا کر لیتی تھی۔ کبھی آدھے میں ترکاری اور آدھا سادہ۔ کبھی آدھے میں کباب۔ ان کے علاوہ دن کو ایک وقت دال، ساتویں دن پلاؤاور چاولوں کا معمول تھا۔ گھر میں دو تین قسم کی چٹنی کوئی چاشنی دار کوئی عرق کوئی عرق منعناع کی، کوئی سرکے کی۔ دو چار قسم کا اچار مربہ بنا رکھا۔ ان کے علاوہ شربت انار، لیموں کی سکنجبین، شربت بنفشہ، شربت نیلو فر، شربت فالسہ کی ایک ایک بوتل بنا لی۔ ہر طرح کا ضروری سامان گھر میں رہا کرتا تھا۔ باوجود اس سامان کے پندرہ روپے سے زیادہ خرچ نہیں ہوتا تھا۔ پانچ روپے جو بچتے تھے اس سے بڑے بڑے پینسرے اور دس سیرے دو پتیلے ایک سینی، کچھ چھوٹے چمچے، دو لوٹے، ایک عدد چائے کے لوازم، اس قسم کی چیزیں خرید ہوئیں۔ دو صندوق بنوائے گئے۔ الماریاں ایک باورچی خانے میں، ایک اسباب کی کوٹھری میں۔ بیٹھنے کے تخت پرانے تھے وہ درست ہوئے۔ دو پلنگ تیار ہوئے۔ خلاصہ یہ کہ اصغری نے اسی بیس روپے میں گھر کو وہ جلا دی کہ ظاہر حال میں بڑی رونق معلوم ہوتی تھی۔ ہر چیز میں کفایت اور انتظام کو دخل دیا۔
عظمت کے وقتوں میں ہمیشہ محمودہ کے واسطے تین چار پیسے کا روز سودا بازار سے آتا تھا۔ اس واسطے کہ کبھی دستر خوان میں ایک ٹکڑا نہیں بچا۔ اب دونوں وقت دو چار روٹیاں دستر خوان میں رہنے لگیں۔ کبھی بھنتے میں سے دو بوٹیاں محمودہ کے لئے نکال رکھیں۔ کبھی ایک چٹکی کھانڈ نکال دی۔ کبھی مربے کی ایک پھانک دے دی۔ روز کا سودا موقوف ہوا۔ کسی دن کبھی کبھار جو محمودہ کا جی چاہا تو کچھ منگوا لیا۔ اس گھر سے فقیر کو عمر بھر ایک چٹکی آٹا یا آدھی روٹی نہیں ملی تھی۔ اب دونوں وقت دو دو روٹیاں فقیروں کو بھی دی جانے لگیں۔ گھر میں جو کچھ اسباب تھا، عجب بے سلیقگی سے ساگ مولی کی طرح پڑا رہتا تھا۔ اب ہر ایک چیز ٹھکانے لگی۔ کپڑوں کی گٹھڑیاں ہیں تو کپڑے اچھی طرح تہہ کئے ہوئے ترتیب سے بندھے ہیں۔ اناج پانی کی کوٹھڑی میں ہر ایک شے احتیاط سے ڈھکی ہوئی ہے۔ برتن صاف ستھرے اپنی جگہ رکھے ہیں۔ چینی کے الگ، تانبے کے الگ۔ گویا گھر ایک کل تھی۔ جب کوک دیا کل اپنی معمول سے چلنے لگی۔ رفتہ رفتہ دو دو چار چار روپے پس انداز ہونے لگے اور اصغری ان کو بطور امانت علیحدہ جمع کرتی گئی۔ جب سے اصغری نے گھر کا اہتمام اپنے ہاتھ میں لیا، قرض لینا ختم ہو گیا۔ بھول کر بھی دمڑی چھدام تک کی چیز بازار سے ادھار نہ آئی۔ اصغری گھر کا سب حساب ایک کتاب میں لکھا کرتی تھی۔ جب کوئی چیز ہو چکنے پر آئی اور دیانت النساء نے اطلاع کی کہ بیوری دو دن کا اور ہے۔ اصغری نے کتاب
نکال کر دیکھی کہ کس تاریخ کو کتنا گھی آیا اور کتنے روز کے حساب سے خرچ ہوا۔ اگر بے حساب ہوا تو دیانت سے باز پرس کی۔ مجال نہ تھی کہ کسی چیز میں فضول خرچی ہو اور بے حساب اٹھ جائے۔ پسائی والی کی پسائیاں اور دھوبن کی دھلائیاں تک کتاب میں لکھی جاتی تھیں۔

باب تئیس واں: اصغری نے اپنے میاں سے کھیل کود چھڑا کر اس کو پڑھنے پر متوجہ کیا

جب ہر ایک چیز کا معمول بندھ گیا اور انتظام بیٹھ گیا، اصغری دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوئی۔ محمد کامل پڑھتا لکھتا تو تھا لیکن ویسی ہی بے تدبیری اور بے شوقی سے جس طرح آزاد مختار لڑکے پڑھا کرتے ہیں۔ باپ تو باہر رہتے تھے۔ محمد عاقل گو بڑا بھائی تھا لیکن دونوں بھائیوں میں صرف ڈھائی برس کی بڑائی چھٹائی تھی۔ محمد کامل پر اس کا دباؤ کم تھا بلکہ نہیں تھا۔ پس محمد کامل صبح و شام سبق بھی پڑھتا تھا اور ہم عمر لڑکیوں میں گنجفہ۔ شطرنج، چوسر بھی کھیلا کرتا تھا۔ بعض مرتبہ کھیل میں مصروف ہوتا تو پہر پہر بھر رات گئے گھر آتا۔ اصغری کو یہ حال معلوم تھا۔ لیکن موقع ڈھونڈتی تھی کہ ایسے ڈھب سے کہنا چاہیے کہ ناگوار خاطر نہ ہو۔ ایک روز محمد کامل بہت رات گئے آیا اور شاید بازی جیت کر آیا تھا۔ خوش تھا۔ آنے کے ساتھ کھانا مانگا۔۔ دیانت النساء سالن گرم کرنے دوڑی۔ محمد کامل سمجھا کہ ابھی پکا رہی ہے۔ پوچھا "ابھی تک تمہاری ہنڈیا چولہے سے نہیں اتری؟"
اصغری نے کہا "کئی دفعہ اتر اتر کر چڑھ چکی ہے۔ ایسے نا وقت تم کھانا کھاتے ہو کہ کھانا ٹھنڈا ہو کر مٹی ہو جاتا ہے۔ یا ایسا بندوبست کرو کہ سویرے کھا جایا کرو یا کھانا باہر منگوا لیا کرو۔ ادھر تمہارے انتظار میں اماں جان کو ہر روز تکلیف رہتی ہے۔
محمد کامل : "تم لوگ میرے منتظر رہتے ہو؟ میں تو جانتا تھا کہ تم کھا لیا کرتی ہو گی۔"
اصغری : "خدا رکھے، مردوں کے ہوتے عورتوں کو کھانا ٹھونس بیٹھنا کیا مناسب ہے؟"
محمد کامل : "دو چار روز کی بات ہو تو گزر ہو سکتی ہے۔ اور میری ہی نا رضا مندی کا خیال ہے تو میں خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ تم لوگ کھانا کھا لیا کرو۔"
اصغری اس وقت تو چپ ہو رہی۔ کوٹھے پر پھر محمد کامل نے خوب چھیڑ کر اسی بات کو كہا تو اصغری بولی "تعجب کی بات ہے۔ تم اپنے معمول کے خلاف نہیں کر سکتے اور ہم لوگوں سے کہتے ہو کہ اپنا معمول توڑ دیں۔ تم ہی سویرے چلے آیا کرو۔"
محمد کامل : "کھانے کے بعد باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا اور مجھ کو نیند دیر سے آتی ہے۔ گھر میں بے خلل پڑے پڑے جی گھبراتا ہے۔ اس واسطے میں قصداً دیر کر کے آتا ہوں کہ کھانے کے بعد سو رہوں۔"
اصغری : "شغل تو اپنے اختیار میں ہے۔ آدمی اپنے وقت کو ضبط کر لے تو ہزاروں کام ہیں۔ ایک پڑھنے کا شغل کیا کم ہے۔ میں اپنے بڑے بھائی کو دیکھا کرتی تھی کہ آدھی آدھی رات تک کتاب دیکھتے اور جس دن اتفاق سے سو جاتے تو بڑا افسوس کیا کرتے تھے۔ تم پڑھنے میں محنت کم کرتے ہو۔ اسی واسطے بے شغلی سے تمہارا جی گھبراتا ہے۔"
محمد کامل: "اور کیا محنت کروں؟ دونوں وقت میں پڑھ لیتا ہوں اور یاد کر لیتا ہوں۔"
اصغری: "نہیں معلوم تم کیا پڑھنا پڑھتے ہو۔ جس دن عظمت کا حساب کتاب ہوا تھا، ابا جان تم سے حساب پوچھے تھے اور تم بتا نہیں سکتے تھے۔ مجھ کو شرم آتی تھی۔"
محمد کامل: "حساب دوسرا فن ہے۔ میں عربی پڑھتا ہوں۔ اس سے اور حساب سے کیا واسطہ؟"
اصغری : "پڑھنا لکھنا اسی واسطے ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی کام اٹکا نہ رہے۔ بڑے بھائی فارسی بہت بڑھ گئے ہیں، لیکن نوکری نہیں کی۔ ابا کہا کرتے ہیں کہ حساب کتاب اور کچہری کا کام جب تک نہ سیکھو گے نوکری کا خیال مت کرو۔ اب مال اندیش مدرسے میں پڑھتا ہے اور حساب کتاب میں بڑے بھائی سے زیادہ ہوشیار ہے۔ ابا اس سے بہت خوش ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ دو برس مدرسے میں اور پڑھو پھر تم کو کہیں نہ کہیں نوکری کرا دوں گا۔"
کامل : "تم میں بھی مدرسے میں داخل ہو جاؤں؟"
اصغری : "مدرسے میں داخل ہونے پر کیا منحصر ہے۔ یوں شہر میں کیا سکھانے والے نہیں
ہیں؟ جتنا وقت تم کھیل میں ضائع کرتے ہو، اس میں صرف کیا کرو۔"
محمد کامل: "کھیل کیا میں دن رات کھیلتا ہوں؟ کبھی گھڑی دو گھڑی کو بیٹھ گیا۔"
اصغری: "کھیلنا افیون کی سی عادت ہے۔ تھوڑے سے شروع ہو کر بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ لت پڑ جاتی ہے اور پھر اس کا چھوٹنا مشکل ہوتا ہے۔ اول تو یہ کھیل گناہ ہیں۔ اس کے علاوہ آدمی کو دوسرے کمال حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔ کام کاج کے آدمی کبھی نہیں کھیلتے۔ نکمے لوگ البتہ اسی طرح دن کاٹتے ہیں۔ ان کھیلوں میں جیسا بازی جیتنے سے جی خوش ہوتا ہے، ہارنے سے رنج بھی ہوتا ہے اور جس طرح وہ خوشی بے اصل ہوتی ہے، یہ رنج بھی ناحق ہوتا ہے۔ اور اکثر کھیلتے کھیلتے آپس میں مفت کی تکرار ہو جاتی ہے۔ میری صلاح مانو تو ان کھیلوں کو بالکل موقوف کرو۔ لوگ تمہارے منہ پر تو کچھ نہیں کہتے۔ لیکن پیچھے ہنستے ہیں۔ پرسوں اترسوں کی بات ہے کہ تم کو کوئی مردوا بلانے آیا تھا۔ ماما نے جواب دیا کہ باہر سدھار گئے ہیں۔ اس مردود نے طعنے کے طور پر اپنے ساتھ والے سے کہا میاں، ماسٹر حسینی کے مکان پر چلو۔ وہاں شطرنج کے جمگھٹے میں ملیں گے۔ ابا جان کا شہر میں بڑا نام ہے۔ لوگ ان کے معتقد ہیں۔ ایسی جگہ جانے سے آدمی بدنام ہوتا ہے۔ میں نے ابا جان کو افسوس کرتے سنا کہ ہائے ہماری تقدیر! دو لڑکوں میں کوئی بھی ایسا نہ ہوا کہ اس کو دیکھ کر جی خوش ہوتا۔ عاقل کو کچھ لکھایا پڑھایا تھا۔ اب وہ بھی اپنی نوکری کے پیچھے ایسا پڑا ہے کہ لکھا پڑھا بھی بھول گیا۔ یہ چھوٹے صاحب ہیں، ان کو کھیل کود سے فرصت نہیں۔ بلکہ ہمارے ابا جان کو بھی کسی نے اس کی خبر کر دی۔ مجھ سے پوچھتے تھے۔ میں نے کسی طرح اس وقت بات کو ٹال دیا۔"
اصغری کی نصیحت نے محمد کامل پر بہت عمدہ اثر کیا اور اس نے کھیلنا بالکل چھوڑ دیا، پہلے کی نسبت عربی پر بھی زیادہ محنت کرنے لگا اور ایک مدرس سے مدرسے کے باہر حساب کتاب بھی سیکھنا شروع کر دیا۔ خدا نے وقت میں بڑی برکت دی ہے۔ اس کو انتظام کے ساتھ مصرف کرنے سے چند روز میں محمد کامل کی استعداد عربی بھی درست ہو گئی اور حساب اور ریاضی کی بھی کتابیں نکل گئیں۔

باب چوبیسواں: اصغری نے لڑکیوں کا مکتب بٹھایا

محمد کامل تو ادھر مصروف رہا، اصغری نے اسی عرصے میں ایک اور کارخانہ جاری کیا۔ اس محلے میں حکیم روح اللہ خان ہڑے نامی گرامی آدمی تھے۔ حکیم صاحب خود تو سرکار مہاراجا پٹیالہ میں دیوان تھے لیکن گھر بار، لڑکے بچے سب اسی محلے میں تھے۔ مکان، محلات، نوکر چاکر، بڑا کارخانہ تھا اور یہ گھر شہر کے اونچے گھروں میں گنا جاتا تھا۔ اونچی جگہ رشتے ناطے، اونچے لوگوں سے راہ و رسم حکیم صاحب کے چھوٹے بھائی فتح اللہ خاں بہت مدت تک والی اندور کی سرکار میں مختارِ کُل رہے اور جب اس سرکار میں منشی عمو جان کو بڑا دخل ہوا، مصلحتِ وقت سمجھ کر کنارہ کش ہو گئے۔ لیکن لاکھوں روپیہ گھر میں تھا۔ نوکری کی کچھ پروانہ تھی۔ ہزاروں روپے کی املاک شہر میں خرید کر لی تھی۔ سینکڑوں روپے ماہواری کرائے کا چلا آتا تھا۔ بڑی شان سے رہتے تھے۔ ڈیوڑھی پر سپاہیوں کا گارد، اندر باہر تیس چالیس آدمی نوکر، گھوڑا، ہاتھی، پالکی بھی سواری کو موجودہ۔
فتح اللہ خاں کی دو بیٹیاں تھیں، جمال آرا اور حسن آرا۔ جمال آرا نواب اسفند یار خاں کے بیٹے سے بیاہی گئی تھیں۔ لیکن ایسی ناموافقت ہوئی کہ آخر کار قطع تعلق ہو گیا۔ کچھ خدا نخواستہ طلاق نہیں ہوئی تھی لیکن کسی طرح کا واسطہ باقی نہیں رہا تھا۔ جہیز کا اسباب تک پھر آیا تھا۔ حسن آرا کی نسبت نواب جھجر کے خاندان میں ہوئی۔ ان لڑکیوں کی خالہ شاہ زمانی بیگم اسی محلے میں رہتی تھیں جس میں اصغری کا میکہ تھا۔ اس محلے میں تو اصغری کی لیاقت کا شور تھا۔ شاہ زمانی بیگم بھی اصغری کے حال سے خوب واقف تھیں۔ شادی بیاہ میں کئی مرتبہ ان کو دیکھا تھا۔ شاہ زمانی بیگم اپنی چھوٹی بہن حسن آرا کی ماں سے ملنے کے لئے آئیں۔ دنیا کا دستور ہے کہ کوئی فرد بشری رنج سے خالی نہیں اور یہ امر کچھ منجانب اللہ ہے۔ اگر ہر طرف سے خوشی ہی خوشی ہو تو انسان خدا کو بھی بھول کر بھی یاد نہ کرے اور نہ اپنے تئیں بندہ سمجھے۔ شاہ زمان کی چھوٹی بہن سلطان کو دنیا کے سب عیش میسر تھے لیکن لڑکیوں کی طرف سے رنجیدہ خاطر رہا کرتی تھیں۔ ادھر جمال آرا بیاہ برات ہو ہو کر اجڑی ہوئی گھر بیٹھی تھیں اور حسن آرا کے مزاج کی افتاد ایسی بُری پڑی تھی کہ اپنے گھر ہی میں سب سے بگاڑ تھا۔ نہ ماں کا لحاظ، نہ آپا کا ادب، نہ باپ کا ڈر۔ نوکر ہیں کہ آپ نالاں ہیں۔ لونڈیاں ہیں کہ الگ پناہ مانگتی ہیں۔ غرض حسن آرا سارے گھر کو سر پر اُٹھائے رہتی تھی۔ شاہ زمانی بیگم کے آنے سے چاہیے تھا کہ بڑی خالہ سمجھ کر حسن آرا دو گھڑی کو چپ ہو کر پیٹھ جاتی، کیا ذکر! شاہ زمانی بیگم کو پالکی سے اترے دیر نہ ہوئی تھی کہ لگاتار دو تین فریادیں آئیں کہ بیگم صاحب دیکھئے چھوٹی صاحبزادی نے میری نئی اوڑھنی لیر لیر کر ڈالی۔ اب مجھے کون بنا کر دے گا؟ سوسن نے فریاد مچائی کہ بیگم صاحب، چھوٹی صاحب زاری نے میرے گلے میں چلتا بھر لیا۔ گلاب بلبلا اٹھی کہ ہائے! میرا کان خونا خون ہو گیا۔ دائی چلّائی کہ دیکھئے میری لڑکی کم بخت کے ایسے زور سے لکڑی ماری کہ بازو میں بدھی پڑ گی۔ باورچی خانے سے مام نے دہائی دی، اچھی خدا کے لئے کوئی ان کو سمجھاتا۔ سالن کی پتیلیوں میں مٹھیاں بھر بھر کر راکھ جھونک رہی ہیں۔
شاہ زمانی بیگم نے آواز دی۔ "حسنا، یہاں آؤ۔"
خالہ کی آواز پہچان کے بارے حسن آرا چلی تو آئی لیکن نہ سلام نہ دعا۔ ہاتھوں میں راکھ، پاؤں میں کیچڑ۔ اسی حالت میں دوڑ خالہ سے لپٹ گئی۔ خالہ نے کہا "حنسا، تم بہت شوخی کرنے لگی ہو۔"
حسن آرا نے کہا۔ "اس سنبل چڑیل نے فریاد کی ہو گی۔ یہ کہہ کر خالہ کی گود سے نکل لپک کر سنبل کا سر کھسوٹ لیا۔ بہتیرا خالہ ایں ایں کرتی رہی، ایک نہ سنی۔
شاہ زمانی بیگم اپنی بہن کی طرف مخاطب ہو کر بولیں "بوا سلطانہ، اس لڑکی کے لئے تو خدا کے والے کوئی استانی رکھو۔"
سلطانہ بیگم : باجی اماں، کیا کروں؟ مہینوں سے استانی کی تلاش میں ہوں۔ کہیں نہیں ملتی۔
شاہ زمانی بیگم: اوئی بوا۔ تمہاری بھی کہاوت وہی ہے، ڈھنڈورا شہر میں، بچہ بغل میں۔
خود تمہارے محلے میں مولوی محمد فاضل کی چھوٹی بہو، لاکھ استانیوں کی ایک استانی ہے۔
سلطانہ: مجھ کو آج تک اطلاع نہیں۔ دیکھو میں آدمی بھیجتی ہوں۔
یہ کہہ کر اپنے گھر کی داروغہ کو بلایا کہ مانی جی کوئی مولوی صاحب اس محلے میں رہتے ہیں، باجی اماں کہتی ہیں ان کی چھوٹی بہو بہت پڑھی لکھی ہیں۔ دیکھو، اگر استانی گیری کی نوکری کریں تو ان کو بلا لاؤ۔ کھانا کپڑا اور دس روپیہ مہینہ پان زردے کا خرچ ہم دینے کو حاضر ہیں۔ اور جب لڑکی پہلا سیپارہ ختم کرے گی اور ادب قاعدہ سیکھ جائے گی تو تنخواہ کے علاوہ استانی جی کو ہم یوں بھی خوش کر دیں گے۔
مانی جی مولوی صاحب کے گھر آئیں۔ محمد کامل کی ماں سے صاحب سلامت ہوئی۔ پوچھا "اچھی بی، مولوی صاحب کی بیوی تم ہی ہو؟"
دیانت النساء: "ہاں، یہی ہیں۔ آؤ بیٹھو۔ کہاں سے آئیں؟"
مانی: "تمہاری چھوٹی بہو کہاں ہیں؟"
محمد کامل کی ماں: "کوٹھے پر ہیں۔"
مانی : "میں ان کے پاس اوپر جاؤں گی۔"
دیانت النساء: آپ اپنا پتہ نشان بتائیے۔ بہو صاحب یہیں آ جائیں گی۔"
مانی جی: "میں حکیم صاحب کے گھر سے آئی ہوں۔"
محمد کامل کی ماں نے نام بنام سب چھوٹے بڑوں کی خیر و عافیت پوچھی اور مانی سے کہا۔ "تمیزدار بہو سے کیا کام ہے؟"
مانی جی: "وہی آئیں تو کہوں۔"
تمیز دار بہو کے نیچے اُترنے کا وقت آ گیا تھا، کیونکہ عصر کی نماز پڑھ کر اصغری نیچے اتر آتی تھی اور مغرب اور عشاء دونوں نمازیں نیچے پڑھا کرتی تھی۔ اصغری کو مانی جی نے دیکھا تو استانی گیری کی نوکری کے واسطے کہتے ہوئے تامل کیا۔ باتوں ہی باتوں میں اتنا کہا کہ بیگم صاحب کو اپنی چھوٹی لڑکی کا تعلیم کرانا منظور ہے۔ بڑی بیگم صاحب نے ذکر کیا تو بیگم صاحب نے مجھ کو بھیجا۔
اصغری: "دونوں بیگم صاحبوں کو میری طرف سے بہت بہت سلام کہنا کہ جو کچھ برا بھلا مجھ کو آتا ہے، مجھ کو کسی طرح کا عذر نہیں۔ اسی واسطے انسان پڑھتا لکھتا ہے کہ دوسرے کو
فائدہ پہنچائے۔ اور بڑی بیگم صاحب کو معلوم ہو گا کہ میں اپنے محلے میں کتنی لڑکیوں کو پڑھائی تھی اور میرا جی بہت چاہتا ہے کہ بیگم صاحب کی لڑکی کو پڑھاؤں۔ لیکن کیا کروں، نہ تو بیگم صاحب لڑکی کو یہاں بھیجیں گی اور نہ ان کے گھر میرا جانا ہو سکتا ہے۔
مانی جی نے تنخواہ کا نام تو نہ لیا لیکن دبی زبان سے اتنا کہا کہ بیگم صاحب ہر طرح سے خرچ پات کی ذمے داری کرنے کو موجود ہیں۔
اصغری: "یہ ان کی مہربانی ہے۔ ان کی ریاست کو یہی بات زیبا ہے لیکن ان کے زیرِ سایہ ہم غریب بھی پڑے ہیں تو خدا ننگا بھوکا نہیں رکھتا۔ بن داموں کے لونڈی بن کر خدمت کرنے کو تو میں حاضر ہوں اور اگر تنخواہ دار استانی درکار ہو تو شہر میں بہت ملیں گی۔"
اس کے بعد مانی جی نے اصغری کا حال پوچھا اور جب سنا کہ تحصیل دار کی بیٹی ہے اور مولوی صاحب بھی پچاس روپے ماہواری کے نوکر ہیں تو ان کو ندامت ہوئی کہ نوکری کا اشارہ ناحق کیا۔ اصغری کی گفتگو سن کر مانی لٹو ہو گئی۔ ہر چند نوابی کارخانے دیکھے ہوئے تھے مگر اصغری کی شستہ تقریر سن کر دنگ ہو گئی اور معذرت کی کہ بی مجھ کو معاف کرنا۔
اصغری : "کیوں تم مجھ کو کانٹوں میں گھسیٹی ہو؟ اول تو نوکری اور نوکری بھی حکیم صاحب کے گھر کی، کچھ عیب نہیں، گناہ نہیں۔ اور پھر ناواقفیت کے سبب اگر تم نے پوچھا تو کیا مضائقہ؟
غرض مانی جی رخصت ہوئی اور وہاں جا کر کہا "بیگم صاحب استانی تو واقع میں لاکھ اُستانیوں کی ایک اُستانی ہے، جس کی صورت دیکھنے سے آدمی بن جائے۔ پاس بیٹھنے سے انسانیت حاصل کرے۔ سایہ پڑ جانے سے سلیقہ سیکھے۔ ہوا لگ جانے سے ادب پکڑے لیکن نوکری کرنے والی نہیں۔ تحصیل دار کی بیٹی ہے۔ رئیس لاہور کے مختار کی بہو۔ گھر میں ماما نوکر ہے۔ دالان میں چاندنی بچھی ہے۔ سوزنی گاؤ تکیہ لگا ہے۔ اچھی خوش گزارن زندگی، بھلا ان کو نوکری کی کیا پروا ہے۔
شاہ زمانی بولیں "سچ ہے بوا سلطانہ، تم نے مانی جی کو بھیجا تو تھا لیکن مجھ کو یقین نہ تھا کہ وہ نوکری کریں گی۔"
مانی جی : "لیکن وہ تو ایسی آدمی ہیں کہ مفت پڑھانے کو خوشی سے راضی ہیں۔"
سلطانہ نے پوچھا "کیا یہاں آ کر؟"
مانی جی: "بھلا بیگم صاحب جو نوکری کی پروا نہیں کرتا وہ یہاں کیوں آنے لگا۔"
سلطانہ: "کیا لڑکی وہاں جایا کرے گی؟"
شاہ زمانی : "اس میں قباحت کی بات ہے؟ دو قدم پر تو گھر ہے۔ اور مولوی صاحب کو تم نے ایسا کیا سمجھا، بھائی علی نقی خاں کی سگی پھوپھی زاد بہن کے بیٹے ہیں۔"
سلطانہ : "ایک حساب سے تو ہماری برادری ہے۔"
شاہ زمانی : "لو خُدا نہ کرے، کہ ایسے ویسے ہیں۔ پہلے ان کا کام خوب بنا ہوا تھا۔ جب سے رئیس بگڑا ہے، بے چارے غریب ہو گئے۔ پھر بھی ماما ہمیشہ رہی۔ ڈیوڑھی پر بھی ایک دو آدمی رہتے ہیں۔"
سلطانہ : "حسن آرا وہیں چلی جایا کرے گی۔"
اگلے دن شاہ زمانی بیگم اور سلطانہ بیگم دونوں بیٹی حسن آرا کو لے کر اصغری کے گھر آئیں۔ باوجودے کہ اصغری کے یہاں غریبی سامان تھا لیکن اس کے انتظام اور سلیقے کے سبب بیگموں کی وہ مدارات ہوئی کہ ہر طرح کی چیز وہیں بیٹھے بیٹھے موجود ہو گئی۔ دو چار طرح کا عطر، جوگھڑا، الائچی، چکنی ڈلی، چائے، بات کی بات میں سب موجود ہو گیا۔ خوب مزے کی گلوریاں تیار ہو گئیں۔ دونوں بہنوں نے اصغری سے کہا کہ مہربانی کر کے اس کو دل سے پڑھا دیجیے۔
اصغری: "اول تو خود مجھ کو کیا آتا ہے مگر جو چار حرف بزرگوں کی عنایت سے آتے ہیں انشاء اللہ ان کے بتانے میں اپنے مقدور بھر دریغ نہ کروں گی۔"
چلتے ہوئے سلطانہ بیگم اصغری کو اشرفی دینے لگیں۔
اصغری : "اس کی بھی ضرورت نہیں۔ بھلا یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ میں پڑھائی آپ سے لوں۔"
سلطانہ : "استغفر اللہ! پڑھوائی؟ مارا منہ ہے۔ بسم اللہ کی مٹھائی ہے۔"
اصغری: "شروع میں تبرک کے طور پر مٹھائی بانٹ دیا کرتے ہیں۔ سو اشرفی کیا ہو گی بچوں کا منہ میٹھا کرنے کو سیر آدھ سیر مٹھائی کافی ہے۔"
یہ کہہ کر دیانت کی طرف اشارہ کیا۔ وہ کوٹھری میں سے ایک قاب بھر کر مکتیاں نکال لائی۔ اصغری نے خود فاتحہ پڑھ کر پہلے حسن آرا کو دی اور بھری قاب دیانت کو اٹھا دی کہ سب بچوں کو بانٹ دو۔
سلطانہ نے کہا "اچھا تم نے مجھ کو شرمندہ کیا۔"
اصغری : "ہم بے چارے غریب کس لائق ہیں۔ لیکن یہاں جو کچھ ہے، وہ بھی آپ ہی کا ہے۔ البتہ میرا دینا یہی ہے کہ حسن آرا بیگم کو پڑھا دوں۔ سو خدا وہ دن کرے کہ میں آپ سے سرخ رو ہوں۔"
غرض دنیا سازی کی باتیں ہو ہوا کر شام زمانی بیگم چلی گئیں اور حسن آرا کو اصغری کے حوالے کر گئیں۔

باب پچیسواں: اصغری کا انتظام مکتبی

اصغری نے جس طرز پر حسن آرا کو تعلیم کیا، اس کی ایک کتاب جدا بنائی جائے گی۔ اگر یہاں وہ سب لکھا جاتا تو یہ کتاب بہت بڑھ جاتی۔ اس مقام پر اتنا ہی مطلب ہے کہ حسن آرا کے بیٹھتے ہی محلے کا محلہ ٹوٹ پڑا۔ جس کو دیکھو اپنی لڑکی کو لئے چلا آتا ہے۔ لیکن اصغری نے شریف زادیوں کو چن لیا اور باقیوں کو حکمت عملی سے ٹال دیا کہ میں آئے دن اپنی ماں کے گھر جاتی رہتی ہوں، پڑھنا پڑھانا جب تک جم کر نہ ہو بے فائدہ ہے۔ پھر بھی بیس لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ لیکن اصغری کو کسی لڑکی سے لینے لوانے کی قسم تھی۔ بلکہ ایک دو روپیہ اس کا اپنا لڑکیوں پر خرچ ہو جاتا تھا۔ صبح سے دوپہر تک پڑھنا ہوتا اور پھر کھانے کے واسطے چار گھڑی کی چھٹی۔ اس کے بعد لکھنا اور پہر دن رہے سے سینا۔ سینے کا کام گنجائشی تھا۔ اس واسطے کہ نہ صرف سینا سکھایا جاتا تھا بلکہ ہر طرح کی جالی کاڑھنا، ہر ایک طرح کی سلائی، ہر ایک طرح کی قطع، مصالحہ بنانا اور ٹانگنا۔ اول اول تو اس کا سامان جمع کرنے میں اصغری کے دس روپے خرچ ہوئے۔ لیکن پھر تو اسی کام سے بچت ہونے لگی۔ جو کام لڑکیاں کرتیں، دیانت اس کو چپکے سے بازار میں لگا آتی۔
اس طور پر رفتہ رفتہ مکتب کی ایک بڑی رقم جمع ہو گئی۔ جو لڑکی غریب ہوتی، اسی رقم سے اس کے کپڑے بنائے جاتے۔ کتاب مول لے دی جاتی۔ لڑکیوں کے پانی پلانے اور پنکھا جھلنے کے واسطے خاص ایک عورت نوکر تھی اور مکتب کی رقم سے اس کو تنخواہ ملتی تھی۔ لڑکیوں کا یہ حال تھا کہ اور استانیوں کے پاس جاتے ہوئے ان کا دم فنا ہوتا تھا، لیکن اصغری کی شاگردیں اس پر عاشق تھیں۔ ابھی سو کر نہیں اٹھی کہ لڑکیاں خود بخود آنی شروع ہوئی۔ پہر رات گئے تک جمع رہتی تھیں اور مشکل سے جاتی تھیں۔ اس واسطے کہ اصغری سب کے ساتھ دل سے محبت کرتی تھی اور پڑھانے کا طریقہ ایسا اچھا رکھا تھا کہ باتوں باتوں میں تعلیم ہوتی تھی۔ نہ یہ کہ صبح سے ریں ریں کا چرخہ جو چلا تو دن چھپے تک بند نہیں ہوتا۔ جس طرح اصغری کو اس کے باپ نے پڑھایا تھا اسی طرح اصغری اپنی شاگردوں کو پڑھاتی تھی۔ پس یہ لڑکیاں شاگرد کی شاگرد اور سہیلی کی سہیلی تھیں۔ جب کسی لڑکی کا بیاہ ہوا، کتب کی رقم سے اس کو تھوڑا بہت زیور چڑھایا جاتا تھا۔
اگر اصغری اپنے مکتب کو پڑھانا چاہتی تو تمام شہر کے مکتب اجڑ جاتے۔ عورتیں اپنی لڑکیوں کے واسطے خوشامد کرتی تھیں اور خود لڑکیاں دوڑ دوڑ کر آتی تھیں۔ اس واسطے کہ وہ مکتبوں کی دن بھر کی قید، استانیوں کی سختی، پڑھنا کم مار کھانا، کام کرنا بہت۔ دن بھر پڑھے تو صرف دو حرف۔ صبح و شام تو معمولی مار اور جہاں چپ کی اور استانی جی کی نظر پڑ گئی، آفت آئی اور کام پوچھو تو صبح آتے کے ساتھ گھر میں جھاڑو دی۔ استانی جی اور استاد جی اور دس بارہ خلیفہ جی بلکہ پڑوسیوں تک کے بچھونے تہہ کیے اور چار چار پانچ پانچ نے مل کر کم بخت بھاری بوجھل چارپائیاں اٹھائیں۔ پھر دو چار کی شامت آئی تو سی پارہ لے کر بیٹھیں، منہ سے آواز نکلی اور استانی جی نے بینٹھی پھینٹنی شروع کی اور دو چار جو کسی اچھے کا منھ دہکھ کر آئی تھیں کام دھندے میں لگ گئیں۔ کسی نے استانی جی کے لڑکے کو گود میں لیا۔ بوجھ کے مارے کولہا ٹوٹا جاتا ہے لیکن مار کے ڈر سے گردن پر بلا سوار ہے اور وقت ٹالتی پھرتی ہیں۔ پیٹی ہوئی لڑکیوں کی آواز کان میں چلی آ رہی ہے۔ اس عذاب سے یہ مصیبت غنیمت معلوم ہوتی ہے۔ کسی نے رات کے جھوٹے برتن مانجے شروع کر دبے ہیں۔ کٹے پڑے گئے ہیں اور کندھے رہ رہ جاتے ہیں لیکن چھوٹی بہن پٹ رہی ہے اور چلا رہی ہے "اچھی اُستانی جی میں مر گئی۔ اچھی، میں تم پر واری گئی۔ اچھی، خدا کے لئے۔
اچھی رسول کے لئے۔ اچھی می خلیفہ جی کی لونڈی ہو گئی۔ ہائے رے! ہائے رے! اوئی ماں! ان کاموں سے فراغت پائی تو مصالحہ پیسنے، آٹا گوندھنے، آگ سلگانے، گوشت بگھارنے کا وقت آیا۔ پھر دوپہر کو استانی جی ہیں کہ سو رہی ہیں اور معصوم بچے پنکھا جھل رہے ہیں اور دل ہی دل میں دعا مانگ رہے ہیں کہ الہی! ایسی سوویں کہ پھر نہ اٹھیں۔ غرض معمولی مار اور جہاں چپ کی اور استانی جی کی نظر پڑ گئی، آفت آئی۔ اور کام پوچھو تو صبح سبق یاد نہیں کرتیں۔ تمہارے سبب ہمارے کتب کا نام بدنام ہوتا ہے۔ میں تمہاری اماں جان کو بلا کر کہہ دوں گی کہ "بی تمہاری لڑکی یہاں نہیں پڑھتی۔ اس کو تم کسی دوسری استانی کے پاس بٹھاؤ۔" اتنا كہا کہ لڑکی کا دم فنا ہوا۔ پھر سبق ہے کہ نوک زباں پر یاد ہے یا جس نے سبق یاد نہیں کیا، اس سے کہا گیا کہ لڑکیاں دوپہر کو سنیں گی اور تم پڑھنا۔ یہ کہنا تھا کہ اس نے جلدی جلدی سبق حفظ کیا۔
مکتب میں محمودہ اور حسن آرا دو خلیفہ تھیں۔ نہ یہاں جھاڑو دینی ہے، نہ بچھونے اٹھانے ہیں، نہ چار پائیاں ڈھونی ہیں، نہ برتن مانجھے ہیں، نہ خلیفاؤں کو لادے لاوے پھرنا ہے۔ بلکہ خود لڑکیوں پر ایک عورت نوکر تھی۔ محبت اور آرام، پڑھنا، لکھنا، سینا، تین کام۔ خوب شوق سے لڑکیاں تعلیم پاتی تھیں۔ اس مقام پر ،کتب کی ایک حکایت لکھی جاتی ہے جس سے اصغری کا طرزِ تعلیم مختصر طور پر معلوم ہو جائے گا۔

باب چھبیسواں: انتظام مکتب کے متعلق ایک دلچسپ حکایت

سفیہن ایک عورت تھی اور فضیلت اس کی بیٹی، کوئی دس برس کی ہو گی۔ اس فضیلت کو خود بخود پڑھنے لکھنے اور سینے پرونے کا شوق تھا، سفیہن یہ چاہتی تھی کہ فضیلت تمام گھر میں جھاڑو دے، لیپے، پوتے، برتن مانجے، لیکن اس کا اپنے کاموں میں دل نہ لگتا۔ ماں کے کہے سنے سے کرتی مگر وہی بے دلی سے۔ سفیہن جو ایک دن فضیلت پر نا خوش ہوئی تو
ساتھ لے جا کر اصغری کے مکتب میں بٹھا آئی اور کہا کہ استانی جی، یہ لڑکی بڑی مگمی ہے۔ جس کام کو کہتی ہوں ٹکا سا جواب دے رہی ہے، اس کو ایک ادب دو کہ گھر کے کام پر اس کا جی لگے۔ اصغری نے جو دیکھا تو فضیلت کو اپنے ڈھب کا پایا۔ ادھر فضیلت کو اپنی مرضی کی استانی ملی۔ نور کے تڑکے آتی تو دوپہر کو کھانا کھانے جاتی، کھانا کھایا اور پھر بھاگی۔ پانی مکتب میں آ کر پیتی اور تیسرے پہر کی آئی آئی کہیں چار گھڑی رات گئے جاتی۔ کبھی سفیہن اس کی خبر لینے مکتب میں آتی تو کئی دفعہ اس کو لڑکیوں کے ساتھ گڑیاں کھیلتے دیکھا۔ دو چار دفعہ ہنڈ کلیا پکاتے۔ ایک دن چار گھڑی رات گئی ہو گی، فضیلت کو جانے میں دیو ہوئی۔ سفیہن کا جی جل کر خاک ہو گیا اور بولی کہ "واہ استانی جی! اچھا تم نے لڑکیوں کا ناس مار رکھا ہے۔ جب کبھی فضیلت کو دیکھنے آئی کبھی میں نے اس کو پڑھتے نہ پایا۔ مکتب کیا ہے، اچھا کھیل خانہ ہے۔ تب ہی تو لڑکیاں دوڑ دوڑ کر آتی ہیں۔"
سفیہن کی یہ بات سب ہی لڑکیوں کو ناگوار ہوئی اور خصوصاً اس کی لڑکی فضیلت کو مگر استانی جی کے ادب سے کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ آخر خود استانی جی نے کہا کہ بوا اگر تمہاری مرضی کے موافق تمہاری لڑکی کی تعلیم نہیں ہوتی تو تم کو اختیار ہے کہ اپنی لڑکی کو اٹھا لے جاؤ۔ مگر مکتب پر ناحق کا الزام مت لگاؤ۔ بھلا میں تم سے پوچھتی ہوں، فضیلت نے مائی جی کے مکتب میں کتنے دنوں پڑھا؟"
سفیہن نے کہا "میراں جی کے چڑھے چاند اس کو بٹھایا تھا۔ مدار پڑھا۔ خواجہ معین الدین بھر پڑھتی رہی۔ ماہ رجب سے تمہارے ہاں ہے۔"
اصغری نے پوچھا ”مائی جی کے ہاں فضیلت نے کیا پڑھا؟"
سفیہن نے کہا "تین مہینے میں والمحصنات کا پارہ اور آدھا لا یحب اللہ۔"
امیری نے کہا "تین مہینے میں ڈیڑھ سی پارہ تو مہینے میں آدھا سی پارہ ہوا۔ یہاں تمہاری فضیلت ماہ رجب سے ہے اور اب خالی کا چاند چڑھا ہے۔ چار مہینے ہوئے وما ابری نفسی کا سی پارہ کل ختم ہوا یعنی ساڑھے سات سی پارے پڑھے۔ اس حساب سے مہینے پیچھے ایک سی پارے کے قریب ہوتا ہے۔ مائی جی کے مکتب سے دونا۔ اور جب فضیلت یہاں آئی تو کالی لکیر تک آپ کو کھینچنی نہیں آتی تھی۔ اب نام لکھ لیتی ہے اور بساط کے موافق حرف بھی برے نہیں ہوتے۔ بیس تک پوری گنتی نہیں جانتی تھی۔ اب پندرہ کا پہاڑا یاد کرتی
ہے۔ سینے میں قینچی تک سیدھی بھرنی نہیں آتی تھی۔ اب اس کے ہاتھ کا بخنیہ دیکھو۔ لائیو عقیلہ، ذرا بقچہ۔ فضیلت نے جو کرتی میں بخیہ کیا ذرا ان کو دکھانا اور فضیلت کے ہاتھ کا کیکری مرمرا، بوٹیاں، لہریا، چھڑیاں، خانہ توڑ، دیکھت بھولی، خاکہ، تار شمار، چنبیلی کا جال، ترپن، بیل، برا بھلا جیسا کچھ ہو تو وہ بھی اُٹھاتی لاؤ۔"
فضیلت بولی۔ "استانی جی میں جا کر لے آؤں۔" فضیلت دوڑی دوڑی جا اپنا کشیدہ اٹھا لائی۔ سفیہن ایک ایک بات کے دس دس جواب سن کر ہکا بکا ہو کر رہ گئی۔
اصغری نے کہا "بوا، بولو۔ کچھ انصاف بھی ہے؟ چار مہینے میں تمہاری لڑکی اور کیا سیکھ لیتی۔"
سفیہن تو ایسی شرمندہ ہوئی کہ گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اب اُستانی جی سے آنکھ سامنے نہیں کر سکتی تھی۔ سفیہن کم بخت کے آنے سے محمودہ کی مزے کی کہانی تو رہ گئی، سب لڑکیاں لگیں اس کی طرف گھور گھور کر دیکھنے۔ سفیہن نے کہا "استانی جی، مجھ کو اس کی کیا خبر تھی۔ فضیلت دن بھر تو یہاں رہتی ہے۔ رات کو ایسی دیر کر جاتی ہے کہ کھانا کھایا اور سوئی۔ مجھ کو اس کے پوچھنے گچھنے کا اتفاق تو ہوتا نہیں۔ دو چار مرتبہ جو میں ادھر کو نکلی تو بھی گڑیاں کھیلتے پایا، کبھی ہنڈا کلہیا پکاتے، کبھی کہانیاں سنتے۔ اس سے مجھ کو خیال ہوا کہ یہ اپنا وقت کھیل کود میں کھوتی ہے۔ اب تو میرے منہ سے بات نکل گئی۔ معاف کیجئے۔"
اصغری: "بے شک تمہارا شبہ بے جا نہیں تھا۔ لیکن میں کھیل ہی کھیل میں ان کو کام کی باتیں سکھاتی ہوں۔ ہنڈیا کلہیوں میں لڑکیاں ہر ایک طرح کے کھانے کی ترکیب سیکھتی ہیں۔ مصالحہ کا اندازہ، نمک کی اٹکل، ذائقے کی شناخت، بو باس کی پہچان ان کو آتی ہے۔ کیوں فضیلت پرسوں جمعہ تھا، تم لوگوں نے مل کر کتنا زردہ پکایا تھا؟ اس کی ترکیب اور حساب کتاب تو ہم کو سناؤ۔"
فضیلت نے کہا "حساب تو محمودہ بیگم نے اپنی کتاب میں لکھ رکھا ہے مگر ترکیب میں نے بموجب آپ کے فرمانے کے خوب دھیان لگا کر دیکھ لی ہے اور اچھی طرح سمجھ میں آ گئی ہے۔ سیر بھر چاول تھے۔ پہلے ان کو لگن میں بھگویا۔ شاید دھیلے کی ہار سنگھار کی ڈنڈیاں منگوائی تھیں۔ پیسے بھر ملی تھیں۔ ان کو کوئی سیر پانی میں جوش دیا۔ جب ابال آ گیا اور رنگ کٹ گیا تو چھان کر عرق میں چاول نچوڑ کر ڈال دیے۔ چاول ادھ کچرے ہو گئے اور
ایک کنی رہی تو چاولوں کو کپڑے پر پھیلا دیا کہ جتنا پانی ہے سب نکل جائے۔ پھر آدھ پاؤ گھی دیگچی میں لونگوں کا بگھار دے کر کڑکڑایا اور چاول ڈال دیے۔ اوپر سے چاولوں کے ہم وزن کھانڈ دی اور اٹکل سے اتنا پانی ڈال دیا کہ چاولوں کی جو ایک کنی باقی رہی تھی گل جائے۔ پھر کوئی ایک چھٹانک کشمش گھی میں کڑکڑا کر جب پھول گئی، چاولوں میں ڈال دی اور اوپر تلے انگارے رکھ دم دے دیا۔"
اصغری : "ترکیب تو درست ہے لیکن چاولوں کو جو میں نے دیکھا تو بیٹھ گئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے کپڑے پر پھیلا کر ٹھنڈے پانی سے ان کو دھویا نہیں۔" پھر اصغری سفیہن کی طرف مخاطب ہو کر بولی۔ "کیوں بوا؟ زردہ تو تمہاری لڑکی نے ٹھیک پکایا؟ یہ سب ہنڈ کلہیا کی بدولت۔ بوا محمودہ، تم اپنے زردے کا حساب تو سناؤ۔"
محمودہ جا حساب کی کتاب اٹھا لائی اور کہا "استانی جی، چھ سیر کے چاول، سیر بھر پونے تین آنے کے اور ایک پیسے کی ڈنڈیاں اور لونگیں۔ دو سیر کا گھی ہے۔ پان پاؤ منگوایا۔ پاؤ بگھارتے وقت ڈالا اور چھٹانک بھر کشمش کڑکڑا کر دم دیتے وقت۔ ڈیڑھ آنے کا گھی ہوا اور چو سیری کھانڈ سیر بھر چار آنے کی، ایک پیسے کی کشمش۔ کل پونے گیارہ آنے کے پیسے خرچ ہوئے۔ دس لڑکیوں کا ساجھا تھا۔ پونے دو آنے تو میرے تھے اور فضیلت ایک، عقیلہ دو، حسن آرا تین، امتہ اللہ چار، عالیہ پانچ، سلمیٰ چھ، ام البنین سات، شکیلہ، جمیلہ، دونوں بہنیں نو۔ سب کا ایک ایک آنہ۔"
اصغری : "محمودہ تم نے دھوکا کھایا۔"
محمودہ نے سوچا تو کہا "ہاں استانی جی، چاولوں میں کوڑیاں بچیں، وہ نامراد بنئے نے ہضم کیں۔ اے ہے! ڈنڈیاں اور لونگیں ان ہی کوڑیوں میں آ جائیں تو ایک پیسہ بچتا۔ دیانت جا تو، بنئے سے کوڑیاں مانگ کر لا۔"
اصغری: "ایں ایں کیا کرتی ہو؟ کوڑیوں کا معاملہ پرسوں کی بات۔ اب کچھ مت کہو۔ تمہاری غلطی کی سزا ہے کہ اتنا نقصان سہو۔" اصغری حسن آرا کی طرف مخاطب ہو کر بولی "زردے کی ترکیب اور لاگت تو معلوم ہوئی۔ بھلا دیگچہ بھرا سیر بھر زردہ تم نے کیا کیا؟"
حسن آرا : "منجھولی دو رکابیاں چوڑی دار بھر کر تو اللہ کے نام کی مسجد میں بھیج دیں۔ باقی میں تیرہ طشتریاں بھری گئیں۔ مکتب میں ہم سب پچیس لڑکیاں ہیں۔ دو دو میں ایک ایک طشتری آئی، تیرھویں طشتری میں میں اکیلی تھی۔"
اصغری : کیا تم نے دوہرا حصہ لیا؟
حسن آرا : نہیں تو۔ میری طشتری آدھی ہی تھی۔ سب سے پوچھ لیجئے۔
اصغری : تم برادری سے الگ کیوں رہیں؟
حسن آرا تو چپ ہوئی، امتہ اللہ نے کہا " استانی جی، ان سب کے ساتھ کھاتے گھن آتی ہے۔"
حسن آرا: نہیں استانی جی۔ گھن کی بات نہیں۔ میں دسترخوان پر سب لڑکیوں سے پیچھے آئی۔ اس لئے اکیلی رہ گئی۔ آپ محمودہ سے دریافت لر لیجئے۔
امتہ اللہ: کیوں، تم ابھی تھوڑی دیر ہوئی میرا جھوٹا پانی پینے پر لڑ نہیں چکیں؟
حسن آرا: میں لڑی تھی یا صرف اتنی بات کہی تھی کہ جتنی پیاس ہوا کرے ، اسی قدر پانی لیا کرو۔ گلاس میں جھوٹا پانی چھوڑ دینا عیب کی بات ہے۔
پھر اصغری نے محمودہ سے پوچھا " وہ رسالہ خوان نعمت جو میں نے تم کو دیا تھا، اس میں کے تم سب کھانے پکا کر دیکھ چکیں یا ابھی نہیں؟
محمودہ نے تھوڑی دیر تامل کر کے کہا، "میں اپنی دانست میں سب پکوا چکی ہوں بلکہ کئی کئی بار نوبت آ چکی ہے۔ جتنی بڑی لڑکیاں ہیں ، معمولی روز مرہ کے کھانوں کی ترکیب سب کو معلوم ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ہر قسم کے کباب، سیخ کے، پسندوں کے ، شامی، گولیوں کے، کوفتے، معمولی پلاؤ ، قورمہ پلاؤ، کچی بریانی، نور محلی، زردہ ، متنجن، سموسے ، میٹھے سلونے، قلمی بڑے، دہی بڑے، سہال، سہو، گھی تلی دال ، کچوریاں، پاپڑا، بورانی، فیرینی، حلوا، سوہن، پپڑی کا، نرم اندر سے کی گولیاں، سب چیزیں بار بار پک چکی ہیں اور سب لڑکیوں نے پکتے دیکھیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے پکائی ہیں۔ اور یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے مکتب میں ہنڈ کلھیا کا تو نام ہے، جو چیز پکتی ہے خاصے ایک کنبے کے لائق پکتی ہے اور حسن آرا کو تو چٹنیوں اور مربوں سے بہت شوق ہے۔ یہ چیزیں ان کے سوائے اور لڑکیاں ذرا کم ہی جانتی ہیں۔"
اس کے بعد اصغری نے سفیہن سے کہا " بوا اب تم کو یہاں کی ہنڈ کلھیا کا فائدہ تو معلوم ہو گیا ہو گا۔ رات زیادہ ہو گئی۔ بعض لڑکیوں کے گھر دور ہیں۔ اگر کل آؤ تو گڑیوں کی سیر تم کو دکھائیں اور شام تک رہو تو کہانیاں بھی سنوائیں۔
سب لوگ رخصت ہوئے ۔ سفیہن چلتے چلتے اصغری کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی کہ استانی جی ، للہ میرا قصور معاف کیجئے گا۔
اگلے روز جو سفیہن آئی تو لڑکیوں کے کاڑھے ہوئے کشیدے، لڑکیوں کے بنے ہوئے گوٹے، لڑکیوں کے موڑے ہوئے گوکھرو، لڑکیوں کی بنائی ہوئی توئیاں اور چنیا، لڑکیوں کے قطع کئے ہوئے اور سیئے ہوئے مردانے اور زنانے کپڑے، اصغری نے سب دکھائے جن کے دیکھنے سے سفیہن کو نہایت اچھنبا ہوا۔ اس کے بعد لڑکیوں کی گڑیوں کے گھر دکھائے۔ ان کی گھروں میں خانہ داری کا سب لوازمہ فرش، فروش، گاؤ تکیے، اگالدان، چلمچی، آفتابہ، پٹاری، پردہ، چلمن، چھت گیری، پنکھا، مسہری، ہر طرح کے برتن، ہر طرح کا سامان آرائش، اپنے اپنے ٹھکانے سے رکھا ہوا تھا اور گڑیاں ایسی سجی ہوئی تھیں کہ عین مین شادی کے گھر میں مہمان جمع ہیں۔ جب گڑیوں کے گھروں کو دیکھ چکی تو اصغری نے سفیہن سے کہا کہ لڑکیاں کھیل کھیل میں گھر کا بندوبست، ہر طرح کی تقریبات، چھٹی، دودھ، چھٹائی، کھیر چٹائی، بسم اللہ، روزہ، منگنی ، عیدی، سانونی، محرم کی قفلیاں اور گوٹا، تیز تیوہار، ساچق، برسات، بہواڑ، بیاہ، چالے، چوتھی کی راہ و رسم سے واقفیت حاصل کرتی ہیں۔ بوا سفیہن، تمہاری لڑکی تو ابھی تھوڑے دنوں سے آتی ہے، جو لڑکیاں میرے مکتب میں بہت دنوں سے ہیں، جیسے یہ بیٹھی ام البنین، یا میری نند محمودہ یا حسن آرا، توبہ توبہ کر کے کہتی ہوں کہ اگر ان کو کسی بڑے بھرے پرے گھر کا انتظام اس وقت سونپ دیا جائے تو ان شاءاللہ ایسا کریں گی جیسے کوئی مشاق اور تجربہ کار کرتی ہے۔ میں صرف پڑھنے پر تاکید نہیں کرتی۔ پڑھنے کے علاوہ ان کو دنیا کا کام بھی بتاتی ہوں جو چند روز بعد ان کے سر پڑے گا۔
یہ کہہ کر اصغری نے حسن آرا کو بلایا اور کہا کہ بوا، تمہاری گڑیا کا گھر تو خوب آراستہ ہے۔ صرف ایک کسر ہے کہ تمہاری گڑیوں کے پاس رنگین جوڑے نظر نہیں آتے۔ کیا تم کو رنگنا نہیں آتا؟
حسن آرا: رنگ تو محمودہ بیگم نے مجھ کو بہت سے سکھا دیے ہیں۔ یوں ہی آلکسی کے مارے نہیں رنگے۔
اصغری: بھلا بتاؤ تو؟
حسن آرا: استانی جی، برسات کے رنگ، سرخ، نارنجی، گل انار، گل شفتالو، سروئی، دھانی،
اودا، جاڑے کے گیندئی، جوگیا، عنابی، کاہی، تیلی، کاکریزی، سیاہ، نیلا، گلابی، زعفرانی،کوکئی، کرنجوی، اور گرمی کے پیازی، آبی، چنپئی، کپاسی، بادامی، کافوری، دودھیا، خشخاشی، فالسئی، ملا گیری، سیندوریا رنگ تو بہت ہیں مگر میں وہی بیان کئے جو اکثر پہنتے ہیں۔
اصغری: رنگوں کے نام تو تم نے بہت گنوا دیے، بھلا یہ تو بتاؤ کہ یہ سب رنگ تم کو رنگنے بھی آتے ہیں؟
حسن آرا: میں نے ان ہی رنگوں کے نام لیے ہیں جو مجھ کو خود رنگنے آتے ہیں۔
اصغری: بھلا بتاؤ تو سروئی کیوں کر رنگتے ہیں؟
حسن آرا: کاہی قند اچھے گہرے رنگ کی آدھ گز منگوائی اور پانی کو خوب جوش کر کے پھٹکڑی کی ڈلی اوپر سے قند کا ٹکڑا ڈال کر ہلا دیا۔ پھٹکڑی کی تاثیر سے قند کا رنگ کٹ جائے گا۔ بس اس میں کپڑا رنگ لیا۔
اصغری: بھلا قند نہ ملے؟
حسن آرا: تو ٹیسو کے پھولوں کو جوش دے کر پھٹکڑی پیس کر ملا دی۔ سروئی ہو جائے گا۔ لیکن لکا کپاسی ہو گا۔ اچھا سروئی بے قند کے نہیں رنگا جاتا اور اگر قند کی جگہ بانات کا رنگ کاٹا جائے تو وہ عمدہ رنگ آتا ہے کہ سبحان اللہ! لیکن ان دنوں مجنٹن ایسا چلا ہے کہ سب رنگوں کو مات کیا ہے۔ کپڑے تو کپڑے مٹھائی کھانے کا گوٹا مجنٹن میں نہایت خوش رنگ رنگا جاتا ہے۔ بڑی آپا جان نے مجنٹن کے رنگ کا زردہ پکا کر بھیجا تھا۔ زعفران سے بہتر رنگ تھا۔
اصغری خانم نے گھبرا کر پوچھا " حسن آرا کہیں تم نے وہ مجنٹن کے رنگے ہوئے چاول کھائے تو نہیں؟
حسن آرا: میں نے کھائے تو نہیں ۔ لیکن استانی جی، کیوں؟ کچھ بری بات ہے؟
اصغری خانم: اے ہے! مجنٹن میں سنکھیا پڑتی ہے۔ خبردار! مجنٹن کی کوئی چیز زبان پر مت رکھنا۔
حسن آرا: میں نے تو مجنٹن کا رنگا ہوا گوٹا محرم میں بہت کھایا۔
اصغری خانم: کیا ہوا۔ رمق برابر مجنٹن میں تو بہتیرا گوٹا رنگا جاتا ہے۔ اس سبب سے تم کو کچھ نقصان نہ ہوا۔ لیکن یاد رکھو کہ اس میں زہر ہے۔
حسن آرا: مجنٹن کی رنگی ہوئی مٹھائی لوگ منوں کھاتے ہیں۔
اصغری خانم: بہت برا کرتے ہیں۔ زہر جب اپنی مقدار پر پہنچ جائے گا، ضرور اثر کرے گا۔
شام ہوئی تو لڑکیاں اپنے اپنے کشیدے اور کتابیں معمول کے مطابق کھیلنے اور کہانیاں اور پہیلیاں کہنے سننے کو آ بیٹھیں۔ اصغری نے سفیہن سے کہا کہ یہاں چڑے چڑیا کی کہانیاں نہیں ہوتیں۔ کہانیوں کی ایک عمدہ کتاب ہے، منتخب الحکایات جس میں بڑی اچھی اچھی کہانیاں ہیں اور ہر ایک کہانی ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔ اب یہ لڑکیاں اسی کتاب کی کہانیوں سے جی بہلائیں گی۔ کہانیاں کہنے سے ان کی تقریر صاف ہوتی ہے۔ ادائے مطلب کی استعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اور جب کبھی مجھ کو فرصت ہوتی ہے تو میں کہانیوں کے بیچ بیچ میں ان سے الجھتی جاتی ہوں اور جیسی ان کی سمجھ ہے، یہ میری بات کا جواب دیتی ہیں۔ اگر نادرست ہوتا ہے ، میں بتا دیتی ہوں۔ پہیلیوں کے بوجھنے سے ان کی عقل کو ترقی اور ان کے ذہنوں کو تیزی ہوتی ہے۔ لیکن تم ان میں بیٹھ کر سیردیکھو۔ مجھ کو آج عالیہ کی ماں نے بلا بھیجا ہے۔ ان کے بچے کا جی اچھا نہیں۔ بہت بہت منتیں کہلا بھیجی ہیں۔ نہ جاؤں گی تو برا مانیں گی اور میرا جی نہیں مانتا۔
سفیہن: ہاں، میں نے بھی سنا ہے کہ ان کے لڑکے نے کئی دن سے دودھ نہیں پیا۔ بیچاری بہت ہراساں ہو رہی ہیں۔ اے ہے! خدا کرے نگوڑا جیتا رہے۔ بڑی اللہ آمین کا بچہ ہے۔ دس برس میں پھڑک پھڑک کر خدا نے یہ صورت دکھائی ہے۔ عالیہ کے اوپر یہی تو ایک بچہ پیدا ہوا ہے۔ استانی جی، تم کو علاج کے واسطے بلایا ہو گا۔
اصغری: علاج ولاج تو مجھ کو کچھ بھی نہیں آتا۔ ایک مرتبہ پہلے اسی لڑکے کو پیاس ہو گئی تھی۔ میں زہر مہرہ، بنسلوچین، گلاب کا زیرا، چھوٹی الائچی، زیرے کی گری، کباب، چینی، خرفہ ، اسی طرح کی دو چار دوائیں بتا دی تھیں۔ خدا کا کرنا، لڑکا اچھا ہو گیا۔
سفیہن: استانی جی، تم تو ماشاءاللہ اچھی خاصی حکیم بھی ہو۔
اصغری: اجی اللہ اللہ کرو۔ حکیموں کا درجہ تو بہت بڑا ہے۔ میں بے چاری کیا حکیمی کروں گی۔ پر بات یہ ہے کہ ہمارے میکے میں دوا درمن کا بہت خیال ہے۔ جب میں چھوٹی تھی، جو دوا آتی ، میں ہی اس کو چھانتی، بناتی اور خیال رکھتی۔ اسی طرح پرسنی سنائی دو چار دوائیں​
یاد ہیں جس کو ضرورت ہوئی بتا دی۔ اور بچوں کا علاج تو عورتیں ہی کر لیا کرتی ہیں۔ جب مشکل آ پڑتی ہے تو حکیم کے پاس لے جاتے ہیں۔
سفیہن: استانی جی، تم نے مہربانی کر کے مجھ کو اپنے مکتب کا سب انتظام تو دکھایا۔ اللہ ذرا دم کے دم ٹھہر جاؤ تو میں دیکھ لوں کہ لڑکیاں کیوں کر کہانیاں کہتی ہیں اور کہانیوں میں کیوں کر تم تعلیم کرتی ہو۔
اصغری: بوا، مجھ کو تو دیر ہوتی ہے۔ پر خیر، تمہاری خاطر ہے۔ اچھا لڑکیو، آج کس کی باری ہے؟
محمودہ: باری تو امتہ اللہ کی ہے لیکن فضیلت سے کہلائیے۔
اصغری: اچھا فضیلت جس کتاب میں سے تمہارا جی چاہے، جلدی سے کوئی بہت چھوٹی سی کہانی پڑھو۔
فضیلت نے کہانی شروع کی کہ ایک تھا بادشاہ ۔۔۔۔
اصغری: بادشاہ کس کو کہتے ہیں؟
فضیلت: جیسے دہلی میں بہادر شاہ تھے۔
اصغری: یہ تو تم نے ایسی بات کہی کہ جو دہلی اور بہادر شاہ کو جانتا ہو وہی سمجھے۔
فضیلت: بادشاہ کہتے ہیں حاکم کو۔
اصغری: تو کوتوال تھانے دار بھی بادشاہ ہیں؟
ٍفضیلت: نہیں کوتوال تھانے دار تو بادشاہ نہیں ہیں۔ یہ تو بادشاہ کے نوکر ہیں۔
اصغری: کیوں؟ کیا کوتوال حاکم نہیں ہے؟
فضیلت: حاکم تو ہے لیکن بادشاہ سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے اور سب پر حکم چلاتا ہے۔
اصغری: ہمارا بادشاہ کون ہے؟
فضیلت: جب سے بہادر شاہ کو انگریز پکڑ کر کالے پانی لے گئے، تب سے تو کوئی بادشاہ نہیں۔ یہ سن کر سب لڑکیاں ہنس پڑیں۔
اصغری: فضیلت، تم بڑی نادان ہو۔ تم نے خود کہا کہ جو سب سے بڑا حاکم ہو اور سب پر حکم چلائے، وہ بادشاہ ہوتا ہے اور یہ بھی جانتی ہو کہ بہادر شاہ کو انگریز پکڑ کر کالے پانی لے گئے تو انگریز بادشاہ ہوئے یا نہ ہوئے؟
فضیلت: ہاں، ہوئے تو سہی۔
اصغری: اچھا، اب بتاؤ ہمارا کون بادشاہ ہے؟
فضیلت: انگریز۔
اصغری: کیا انگریز کسی خاص شخص کا نام ہے؟
فضیلت: نہیں۔ سینکڑوں ہزاروں انگریز ہیں۔
اصغری: کیا سب انگریز بادشاہ ہیں؟
فضیلت: اور گیا۔
یہ سن کر اور لڑکیاں ہنس پڑیں۔
اصغری نے حسن آرا کی طرف اشارہ کیا کہ تم جواب دو۔
حسن آرا : استانی جی، ہمارا بادشاہ ملکہ وکٹوریہ ہے۔
اصغری : مرد ہے یا عورت؟
حسن آرا: عورت ہے۔
اصغری: کہاں رہتی ہیں؟
حسن آرا: لندن میں۔
اصغری: لندن کہاں ہے؟
حسن آرا : انگریزوں کی ولایت میں ایک بہت بڑا شہر ہے۔
اصغری: کتنی دور ہو گا؟
حسن آرا : میں نے ایک کتاب میں چار ہزار کوس لکھا دیکھا ہے؟
اصغری: کوس کتنا لمبا ہوتا ہے؟
حسن آرا : استانی جی، سلطان نظام الدّین کو تین کوس کہتے ہیں۔
یہ سن کر محمودہ ہنسی اور کہا کہ 1760 گز کا ہوتا ہے۔
اصغری نے محمودہ سے پوچھا کہ اس مرتبہ میں جو قطب صاحب گئی تھی۔ اور تم بھی میرے ساتھ تھیں، تم نے دیکھا ہو گا کہ یہاں سے جاتیوں کو بائیس ہاتھ، فاصلے سے سڑک پر پتھر گڑے تھے اور ان پتھروں پر کچھ لکھا ہوا بھی تھا۔ بھلا وہ پتھر کیسے تھے؟
محمودہ : میں اٹکل سے یہی سمجھی تھی کہ کوسوں کے پتھر ہیں۔ لیکن گاڑی ایسی تیز تھی کہ
پتھروں پر نگاہ نہیں جمتی تھی۔ میں خوب نہیں پڑھ سکی کہ ان پر کیا لکھا تھا۔
اصغری : وہ کوسوں کے پتھر نہیں، میلوں کے پتھر تھے، آدھے کوس کا میل ہوتا ہے۔ ہر میل پر پتھر گڑا ہے اس میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ یہاں سے دہلی اس قدر میل ہے اور قطب صاحب اتنے میل۔ اس کے بعد اصغری پھر حسن آرا کی طرف مخاطب ہوئی اور پوچھا "ہاں بوا، لندن کس طرف ہے؟"
حسن آرا : اتر میں ہے۔
اصغری: وہ ملک گرم ہے یا سرد؟
حسن آرا: یہ تو میں نہیں جانتی۔
محمودہ : بڑا سرد ہے۔ جتنا اتر کو جاؤ گرمی کم ہوتی جاتی ہے اور جتنا دکھن کو چلو گرمی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔
سفیہن: اچھی استانی جی، عورت بادشاہ ہے؟
اصغری: اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
سفیہن: تعجب کی کیا بات کیوں نہیں، عورت ذات کیا کرتی ہو گی؟
اصغری : جو مرد بادشاہ کرتے ہیں، وہی عورت کرتی ہے۔ ملک کا بندوبست، رعیت کا پالنا۔
سفیہن : عورت تو کیا خاک کرتی ہو گی، کرتے تو سب انگریز ہوں گے۔ برائے نام عورت کو بادشاہ بنا رکھا ہو گا۔
اصغری: یہ سب انگریز ملکہ کے نوکر ہیں۔ ہر ایک کا کام الگ ہے، ہر ایک کا اختیار جدا ہے۔ اپنے اپنے کام پر سب مستعد رہتے ہیں۔ اور جب مرد بادشاہ ہوتے ہیں تب بھی اکیلا بادشاہ ساری دنیا کو اٹھا کر اپنے سر پر نہیں رکھ لیا کرتا۔ نوکر چاکر ہی سب کام کیا کرتے ہیں۔
سفیہن: میرا جی تو قبول نہیں کرتا کہ عورت ذات بادشاہت کر سکے۔
اصغری : تم نے بھوپال کی بیگم کا نام بھی سنا ہے؟
سفیہن: کیوں، سنا کیوں نہیں؟ خود میرے سسر بھوپال میں نوکر ہیں۔
اصغری : بس اسی طرح سمجھ لو۔ بھوپال ذرا سا ملک ہے اور ملکہ وکٹوریہ کے پاس بڑی سلطنت ہے۔ جس طرح بھوپال کی بیگم اپنے چھوٹے ملک کا بندوبست کرتی ہیں، ملکہ وکٹوریہ اپنی بڑی سلطنت کا انتظام کرتی ہیں۔ بھوپال چھوٹی سرکار ہے، نوکر چاکر کم ہیں اور تھوڑی تنخواہ پاتے ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کی سرکار بڑی عالی جاہ سرکار ہے۔ بڑے کارخانے، لاکھوں نوکر، تنخواہیں بیش قرار۔
سفیہن: اچھی، ملکہ کا کوئی میاں ہے؟
اصغری : ہاں۔ مگر موت پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ چاند کو بھی خدا نے داغ لگا دیا ہے۔ کئی برس ہوئے ملکہ بیوہ ہو گئیں۔
سفیہن: ملکہ کی کوئی اولاد ہے؟
اصغری : ہاں، خدا رکھے بیٹے، پوتے، بیٹیاں، نواسیاں سب کچھ ہے۔
سفیہن: اچھی، ملکہ اس ملک میں کیوں نہیں آتیں؟
اصغری: وہاں بھی بڑا ملک ہے۔ وہاں کے کاموں سے فرصت نہیں ملتی۔ اور بادشاہوں کا جگہ سے ہلنا ایسی کیا آسان بات ہے؟ لیکن ان دنوں ان کا منجھلا بیٹا آنے والا ہے۔ بڑی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ میں نے اخبار میں دیکھا ہے۔
سفیہن: اچھی، ملکہ کو ہزاروں کوس دور بیٹھے یہاں کی خبر ہوتی ہو گی؟
اصغری : کیوں نہیں۔ ذرا ذرا خبر ہوتی ہے۔ ڈاک برقی پر رات دن خبریں آتی جاتی ہیں۔ ہزاروں اخبار ولایت جاتے ہیں۔
سفیہن: ملکہ کو کیوں کر دیکھیں؟
اصغری : کیوں کر بتاؤں؟ لیکن ان کی تصویر البتہ دیکھ سکتی ہو۔
سفیہن: خیر، تصویر ہی دیکھ لیتے۔
اصغری : ہوا تم بھی تماشے کی باتیں کرتی ہو۔ کیا تم نے روپیہ دیکھا ہے؟
سفیہن: کیوں نہیں دیکھا۔
اصغری : عورت کا چہرہ جو بنا ہے وہ ملکہ کی تصویر ہے۔ خطوں کے ٹکٹوں پر ملکہ کی تصویر ہے۔ اور میرے پاس ملکہ کی بڑی عمدہ تصویر ہے۔ میرے ابا کو کسی انگریز نے دی تھی۔ وہ انہوں نے میرے پاس بھیج دی تھی۔ محمودہ، زری میرا صندوقچہ تو اٹھا لاؤ۔
صندوقچے میں سے اصغری نے ملکہ کی تصویر نکال کر دکھائی اور سب لڑکیوں نے نہایت شوق سے ملکہ کی تصویر کو دیکھا۔
سفیہن: کیا اچھی تصویر ہے! عین مین ملکہ کھڑی ہیں۔ پس بولنے کی دیر ہے۔
اصغری: بے شک یہ تصویر ہو بہو ملکہ کی ہے۔ روپے کے چہرے سے ملا کر دیکھو کتنا فرق ہے۔ یہ تصویر ہاتھ کی بنائی نہیں ہے۔ ایک آئینہ ہوتا ہے۔ اس کو مصالح لگا کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ خود بخود جیسے کا تیسا عکس اتر آتا ہے۔
سفیہن: ملکہ کی صورت تو بہت ہی پاکیزہ ہے۔
اصغری: اب صورت کی پاکیزگی کو کیا دیکھتی ہو۔ ایک تو عمر۔ دوسرے بیوگی کا رنگ۔ اور سب سے بڑھ کر ملک داری کے ترددات۔ پر ہاں، میں نے ملکہ کی اس وقت کی تصویر دیکھی تھی جب ان کا نیا نیا بیاہ ہوا تھا۔ بلا مبالغہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے چودھویں رات کا چاند۔
سفیہن : کیوں استانی جی، جب ملکہ کے بیٹے ہیں تو باپ کے مرنے پر بڑا بیٹا تخت پر کیوں نہ بیٹھا؟
اصغری : یہ تخت ملکہ کے شوہر کا نہیں بلکہ ملکہ نے اپنے چچا سے پایا ہے۔ اور ملکہ نے تخت نشین ہونے کے بہت دنوں بعد اپنا بیاہ کیا۔
سفیہن: ہاں تو یوں کہو کہ ملکہ کے شوہر بادشاہ نہ تھے۔
اصغری : نہیں نہیں۔ مگر وہ شاہی خاندان سے تھے۔
سفیہن: مجھے تو رہ رہ کر یہی خیال آتا ہے کہ عورت سے ملک کا بندوبست کیا ہوتا ہو گا۔
اصغری: تم کیسی لغو اور لا یعنی باتیں کرتی ہو! تم نے ملکہ کو اپنی جیسی یا میری جیسی عورت سمجھ رکھا ہے۔ اس سے تم کو تعجب ہوتا ہے۔ لیکن بیوی بنو، خدا جن کے رتطے بڑے کرتا ہے، ویسا ہی حوصلہ اور ویسی ہی عقل بھی ان کو دیتا ہے۔ نہ سب مرد یکساں اور نہ سب عورتیں یکساں۔ ہم کو اس کا کیا سوچ پڑ گیا کہ ملکہ اپنی عقل سے ملک کا بندوبست کرتی ہیں، جیسا کہ واقعی ہے یا کرتے سب کچھ وزیر اور صلاح کار ہیں اور ملکہ صرف برائے نام ہیں، جیسا کہ تم شبہ کرتی ہو۔ ہم کو تو بس اتنا کرنا ہے کہ ملکہ کی عملداری میں (خدا ان کو سلامت رکھے) امن چین سے بیٹھے ہیں۔ کسی طرح کا زور نہیں، ظلم نہیں بھینٹ نہیں، بیگار نہیں، لوٹ نہیں گھسوٹ نہیں، مار نہیں، دھاڑ نہیں، لڑائی نہیں، جھگڑا نہیں۔ تم کو اس عمل داری کی جب قدر آئے کہ کسی دوسری عملداری میں جا کر رہو۔ اور گئی تو میں بھی نہیں اور خدا نہ لے جائے لیکن تاریخ کی کتابوں میں دیکھتی ہوں، اخبار پڑھتی ہوں، بعض ظالم بادشاہوں نے لوگوں کو ایسا ایسا ستایا ہے کہ ان کے حالات دیکھ کر کلیجا تھر کرنپنے لگتا ہے۔ اور اب بھی دنیا میں سبھی طرح کے بادشاہ ہیں۔ لیکن خلق اللہ کو جیسا کچھ آرام ہماری وکٹوریہ کی عمل داری میں ہے، روئے زمین پر کہیں نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ملکہ یہاں ہمارے پاس رہتی ہوتیں تو ہم لوگوں کو ان کی ذات سے بہت فائدے پہنچتے۔ پھر بھی میں نے تحقیق سنا ہے کہ جب یہاں کی رعایا کی ذرا سی تکلیف بھی سن پاتی ہیں تو ان کا دل ہے چین ہو جاتا ہے۔ اور ملکہ کی رحمدلی اور خدا ترسی کی حکایتیں جو کبھی کبھی اخبار میں نظر سے گزرتی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بے شک ان کو لوگوں کی پرداخت کا بہت بڑا خیال ہے اور سمجھتی ہوں کہ ہو نہ ہو ملکہ نے اپنے بیٹے کو بھی اسی غرض سے بھیجا ہے کہ اپنی آنکھوں سے رعیت کا حال دیکھو اور مجھ سے آ کر کہو۔
سفیہن: ملکہ کے بیٹے کب تک آنے والے ہیں؟
اصغری : ابھی روانگی کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔ مگر آنا ٹھہر چکا ہے۔ میں سمجھتی ہوں، اصل خیر سے شاید ڈیڑھ دو مہینے میں داخل ہو جائیں گے۔
سفیہن: یہاں دلی میں بھی آئیں گے؟
اصغری: ضرور۔ تمام ہندوستان میں پھریں گے۔ دلی تو بڑا مشہور شہر ہے۔ سینکڑوں برس تک مسلمان بادشاہوں کا دارالسلطنت رہا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہاں نہ آئیں۔
سفیہن: ہم کو کیا، ہماری طرف سے آئے نہ آئے دونوں برابر۔ ہم ان کو دیکھ تو سکتے ہی نہیں۔
اصغری : اور دیکھ بھی سکتیں تو کیا کرتیں؟ آنے دو میں ان کی تصویر بھی تم کو دکھا دوں گی۔
سفیہن: استانی جی، اگر ملکہ کے بیٹے کی تصویر تمہارے پاس ہے تو ابھی دکھا دو نا۔
اصغری: میرے پاس ہے بھی نہیں اور میں نے دیکھی بھی نہیں۔ مگر ابا کلکتہ کے دربار میں جانے والے ہیں۔ انہوں نے مجھ کو لکھا ہے کہ بن پڑا تو تمام شاہی خاندان کے لوگوں کی تصویریں تمہارے لئے لاؤں گا۔
سفیہن: حسن آرا نے لندن کو چار ہزار کوس بتایا تو کہیں برسوں میں یہاں سے وہاں تک آتے جاتے ہوں گے۔
اصغری: نہیں۔ سمندر سمندر ایک مہینے میں با فراغت پہنچ جاتے ہیں۔
سفیہن: اے ہے! سمندر ہو کر جانا پڑتا ہے۔ نوج! انگریزوں کے بھی کیسے دل ہیں۔ ان کو سمندر سے ڈر نہیں لگتا؟ میرے تو سمندر کے نام سننے سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔
اصغری: سمندر سے ڈرنے کی کیا بات ہے؟ مزے میں جہاز میں بیٹھ لیے۔ اچھا خاصا خانہ رواں بن گیا۔
سفیہن: اے ہے! استانی جی، ڈوبنے کا کیسا بڑا کھٹکا ہے۔ لو، پار سال کی بات ہے۔ نواب قطب الدّین خاں کے ساتھ میری خلیا ساس حج کو گئی تھیں۔ کچھ ایسی گھڑی کی گئیں کہ پھر لوٹ کر آنا نصیب نہیں ہوا۔
اصغری خانم : ہاں، اتفاق کی بات ہے۔ جہاز کبھی کبھار ڈوب بھی جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ آئے دن ڈوبا کریں تو سفر دریاء کا کوئی نام نہ لے۔ اب تو دریا کا راستہ خشکی کی سڑکوں سے زیادہ آباد ہو رہا ہے۔ ہزاروں لاکھوں جہاز رات دن آتے جاتے رہتے ہیں۔ انگریز اور ان کے بیوی بچے اور کُل انگریزی اسباب سب جہاز کی راہ یہاں آتا ہے۔
سفیہن: انگریزوں کی عورتوں کا کیا ذکر اور ہماری ان کی کیا ریس۔ وہ تو باہر پڑی پھرتیاں ہیں۔ سنتی ہوں، ننھے ننھے بچوں کو ولایت بھیج دیتی ہیں اور ان کا دل نہیں کڑھتا۔ نہیں معلوم کس قسم کی مائیں ہیں۔ کیونکر ان کے دل کو صبر آتا ہے۔ پھر باہر کی پھرنے والیاں اور پتھر کے کلیجے۔ ان کو ایک سمندر کیا، ہوا پر اڑنا بھی مشکل نہیں۔
اصغری خانم : باہر کے پھرنے کی جو تم نے کہی تو ان کے ملک میں پردے کا دستور نہیں۔ غدر کے دونوں میں ہم لوگ ایک گاؤں میں بھاگ کر گئے تھے۔ وہاں بھی پردے کا دستور نہ تھا۔ سب کی بہو بیٹیاں باہر نکلتی تھیں۔ لیکن میں تو چار مہینے وہاں رہی۔ باہر کی پھرنے والیوں میں وہ لحاظ دیکھا کہ خدا ہم سب پردے والیوں کو نصیب کرے۔ اور بچوں کو ولایت بھیج دینے سے تم کیوں کر سمجھیں کہ اولاد کی محبت نہیں البتہ ان لوگوں کی محبت عقل کے ساتھ ہے۔ یہاں کی ماؤں کی طرح باؤلی محبت نہیں کہ اولاد کو پڑھنے سے روکیں، ہنر حاصل کرنے سے باز رکھیں، نام کو تو محبت اور حقیقت میں اولاد کے حق میں کانٹے بوتی ہیں۔ اولاد کو ناہموار اٹھاتی جاتی ہیں اور محبت کا نام بدنام کرتی ہیں۔
یہاں پہنچ کر سب نے سکوت کیا اور فضیلت نے اپنی کہانی پھر شروع کی : اس بادشاہ کے کوئی بیٹا نہ تھا۔ اکیلی ایک بیٹی تھی۔ بادشاہ نے یہ سمجھ کر میرے بعد یہی لڑکی وارث سلطنت ہو گی، اس لڑکی کو خوب پڑھایا اور لکھوایا اور ملک داری کا قانون قاعدہ سب اچھی طرح سکھایا اور اپنے جیتے جی اسی کو ملک کا کام سونپ دیا۔ فضیلت یہاں تک پہنچی تھی کہ اصغری خانم نے کہا "بوا، تم جھپ جھپ مانی کہانی کہتی جاتی ہو اور میرے دل میں پوچھنے کی ہزاروں باتیں بھری ہیں۔ پر کیا کروں دن تو ہو چکنے پر آیا اور مجھے کو عالیہ کے گھر جانا ضرور ہے۔ شام کے وقت کسی کے گھر عیادت کو جانا بھی منع ہے۔ میں تو اب نہیں ٹھہر سکتی۔ تم لڑکیاں آپس میں کہو سنو۔" اور سفیہن سے کہا "لو بوا۔ اللہ بیلی۔ میں تو جاتی ہوں۔ تمہارا دل چاہے تو تم بیٹھی رہو یا کل پھر آ جانا۔ یہاں تو روز یہی ہوا کرتا ہے۔"
غرض اصغری خانم تو عالیہ کے گھر روانہ ہوئیں اور سفیہن ایسی ریجھیں کہ پہر رات تک لڑکیوں میں بیٹھی رہ گئیں۔ اصغری خانم کے پیچھے محمودہ اور حسن آرا نے کہانی کے بیچ بیچ میں خوب خوب مزے کی باتیں نکالیں۔
اس بیان سے اصغری کے مکتب کا انتظام اور اس کی تعلیم اور تلقین کا طریقہ بخوبی ظاہر ہے۔ اصغری بے شک حسن آرا کو بہت چاہتی تھی اور اس سے زیادہ اپنی نند محمودہ کو۔ حسن آرا کو اس خوبی سے پڑھایا کہ دو ہی برس میں اچھی خاصی طرح بے تکلف اردو لکھ پڑھ لیتی تھی۔ نہ اگلی سی بد مزاجی باقی رہی نہ پہلا سا چڑچڑا پن۔ بڑی غریب، لکھی پڑھی، ہنر مند، ہوشیار، نیک، پیاری بیٹی بن گئی۔ جمال آرا کا برسوں کا اجڑا ہوا گھر اصغری کی بدولت خدا نے پھر آباد کیا۔ لیکن یہ تمام قصہ دوسری کتاب میں لکھا جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ حکیم جی کا تمام گھر، چھوٹے بڑے، اصغری کے پاؤں دھو دھو کر پیتے تھے۔ سلطانہ بیگم نے لاکھ لاکھ جتن کیے کہ اصغری کچھ لے مگر اس خدا کی بندی نے اپنی آن نہ توڑی۔ جب حسن آرا کا بیاہ ہونے لگا تو بڑے حکیم صاحب نے مولوی محمد فاضل کا دباؤ ڈال کر ہزار روپے کے جڑاؤ کڑے دیے اور کہا "سنو! تم میری پوتی اور نواسیوں کے برابر ہو۔ میں تم کو استانی گیری کی رو سے نہیں دیتا۔ بلکہ اپنا بچہ سمجھ کر دیتا ہوں۔ اور نہ لو گی تو مجھ کو سخت ملال ہو گا۔ ادھر مولوی صاحب نے سمجھایا تو اصغری نے کڑے لے لیے۔

باب ستائیسواں: اصغری اپنے میاں کو نوکری کے رستے پر لگاتی ہے

ادھر تو اصغری اپنے مکتب میں مصروف تھی، ادھر محمد کامل بے روز گاری سے گھبراتا تھا۔ ایک دن اصغری سے کہنے لگا "اب میرا دل بہت گھبراتا ہے۔ اگر تمہاری صلاح ہو تو میں تحصیل دار صاحب کے پاس پہاڑ پر چلا جاؤں اور ان کے ذریعے سے نوکری تلاش کروں۔"
اصغری نے تھوڑی دیر تامل کر کے کہا کہ نوکری تو بہت ضرور ہے۔ اس واسطے کہ تم دیکھتے ہو کیسی تنگی سے گھر میں گزر ہوتی ہے۔ ابا جان اب بڈھے ہوئے۔ مناسب یہ ہے کہ وہ گھر بیٹھیں اور تم کما کر ان کی خدمت کرو۔ علاوہ اس کے محمودہ بڑی ہوتی جاتی ہے۔ میں اس کی منگنی کی فکر میں ہوں۔ اور خدا راس لائے تو ارادہ یہ ہے کہ بہت اونچی جگہ اس کا بیاہ ہو اور میں تدبیر کر رہی ہوں۔ انشاء اللہ اسی برس اس کی بات ٹھہری جاتی ہے۔ لیکن اس کے واسطے بڑا سامان درکار ہو گا۔ اس وقت تک کسی قسم کی کوئی چیز موجود نہیں۔ بھائی جان اول تو الگ ہیں اور پھر ایسی تھوڑی نوکری میں ان کی بسر اوقات نہیں ہو سکتی، دوسرے کو کہاں دے سکتے ہیں۔ بس سوائے اس کے تم نوکری کرو اور کوئی صورت نہیں۔ لیکن پہاڑ پر جانے کی میری صلاح نہیں۔ ابا تو تمہارے واسطے کوشش کریں گے اور غالب ہے کہ جلد تر تم کو اچھی نوکری مل جائے گی۔ لیکن کسی کا سہارا پکڑ کر نوکری کرنا کچھ ٹھیک سی بات نہیں۔ بلا سے تھوڑی ہو، پر اپنے قوت بازو سے ہو۔ گو ابا کوئی غیر نہیں ہیں۔ رشتے میں بھی تم سے ان کا ہاتھ اونچا ہے۔ ان سے لینا کیا بلکہ مانگنا بھی عیب نہیں۔ پھر بھی خدا کسی کا احسان مند نہ کرے۔ سدا کو آنکھ جھک جاتی ہے۔ انہوں نے منہ پر نہ رکھا تو اللہ رکھے کنبے میں سو آدمی ہیں رو در رو نہ کہیں گے تو پیٹھ پیچھے ضرور کہیں گے کہ دیکھو سسرے کے سہارے نوکر ہو گئے۔
محمد کامل: پھر کیا کروں؟ لاہور چلا جاؤں؟
اصغری : لاہور میں کیا دھرا ہے؟ رئیس کی سرکار خود تباہ ہے۔ ابا جان کو بھی نہیں معلوم، پہلے کا لحاظ مان کر وہ کس طرح پچاس روپے دیتا ہے۔ نئے آدمی کی گنجائش اس کی سرکار میں کہاں؟
محمد کامل: اور بہت سرکاریں ہیں۔
اصغری : جب سے انگریزی عملداری ہوئی، سب رئیس اسی طرح تباہ ہیں۔ پچھلے نام نمود کو نباہتے ہیں۔ اس سے دس پانچ صورتیں ان کے یہاں لگی لپٹی رہتی ہیں ۔ سو بھی کیا خاک برسوں تنخواہ نہیں ملتی۔
محمد کامل: پھر کیا علاج؟
اصغری: انگریزی نوکری تلاش کرو۔
محمد کامل : انگریزی نوکری تو بے سعی سفارش کے نہیں ملتی۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مجھ سے بہتر بہتر مارے مارے پھرتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا۔
اصغری : ہاں سچ ہے۔ لیکن جب آدمی کسی بات کا ارادہ کرے تو خدا پر توکل کر کے ناامیدی کا تصور ذہن میں نہ آنے دے۔ مانا کہ ہزاروں نوکری کی جستجو میں لا حاصل پھرتے ہیں لیکن جو نوکر ہیں وہ بھی تو تم ہی جیسے آدمی ہیں۔ اور سو بات کی ایک بات تو یہ ہے کہ نوکری تقدیر سے ملتی ہے۔ بڑے بڑے لائق دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اور خدا کو دینا منظور ہوتا ہے تو نہ وسیلہ نہ لیاقت۔ چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ گھر سے بلا کر نوکر رکھ لیتے ہیں۔
محمد کامل: تو عرض یہ ہے کہ گھر بیٹھا رہوں۔
اصغری : یہ ہرگز میرا مطلب نہیں۔ جہاں تک اپنے سے ہو سکے ضرور کوشش کرنی چاہیے۔
محمد كامل: یہی تو مشکل ہے کہ کیا کوشش کروں؟
اصغری : جو لوگ نوکری پیشہ ہیں ان سے ملاقات پیدا کرو۔ ان سے محبت بڑھاؤ۔ ان کے ذریعے سے تم کو نوکری کی خبر لگتی رہے گی اور ان ہی کے ذریعے سے تم کسی حاکم تک بھی پہنچ جاؤ گے۔
محمد کامل نے یہی کیا کہ نوکری پیشہ لوگوں سے ملاقات کرنی شروع کی۔ یہاں تک کہ سر رشتہ دار، تحصیل دار ایسے لوگوں میں بھی آنے جانے لگا۔ روز کے آنے جانے سے معلوم ہوا کہ ان کو بھی نوکری کی جستجو ہے۔ یہاں تک کہ بندہ علی بیگ نے جو کچہری میں اظہار نویس تھے، کامل سے کہا کہ میاں نوکری کی تلاش ہے تو میرے ساتھ کچہری چلا کرو۔ چندے امیدواری کرو۔ سر رشتے کے کام سے واقفیت بہم پہنچاؤ۔ حاکموں کو صورت دکھاؤ۔ اسی طرح کبھی ڈھب لگ جائے گا۔ محمد کامل کچہری جانے اور بندہ علی بیگ کے ساتھ کام کرنے لگا۔ یہاں تک کہ حاکم سے دستخط کرا لاتا۔ عام لوگ اس کو جاننے پہچاننے لگے۔ اسی اثنا میں چھوٹے چھوٹے عہدے داروں کی دو چار عرضیاں بھی محمد کامل کو مل گئیں۔ کسی عملے کو رخصت کی ضرورت ہوئی وہ آدھی تہائی تنخواہ پر اس کو عوضی دے گئے۔ یہاں تک کہ اتفاق سے ایک دس روپے کا مہینے روزنامہ نویس تین مہینے کی رخصت پر گیا تھا۔ تین مہینے بعد اس نے استعفیٰ بھیج دیا اور مولوی محمد کامل صاحب اس کی جگہ منتقل ہو گئے۔ کبھی کبھی اصغری سے نوکری کا تذکرہ ہوتا تو محمد کامل حقارت کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ کیا واہیات نوکری ہے۔ دن بھر پیسنا اور دس روپلی۔ نہ اوپر سے کچھ پیدا ہے نہ آئندہ کو ترقی کی امید۔ میں تو اس کو چھوڑ دوں گا۔ اصغری ہمیشہ ایسے خیالات پر ملامت کرتی کہ سکت درجے کی ناشکری تم کرتے ہو۔ وہ دن بھول گئے کہ امیدواری بھی نصیب نہ تھی یا اب بر سرکار ہو تو قدر نہیں کرتے۔ گھر کے گھر میں دس روپے کیا کم ہیں۔ اپنے بڑے بھائی کو دیکھو کہ کئی برس تک سوداگر کے یہاں دس روپے کی نوکری کرتے رہے۔ اور جب تم نوکری سے ایسے دل برداشتہ ہو، تم سے کام بھی کیا خاک ہوتا ہو گا۔ آخر کو نوکری خود چھوٹ جائے گی۔ اور اسی طرح تھوڑے سے بہت بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ابا پہلے آٹھ روپے مہینے کے نقل نویس تھے۔ اب خدا کے فضل سے تحصیل دار ہیں۔ اور خدا نے چاہا تو اور بھی بڑھیں گے۔ اوپر کی آمدنی پر بھی بھول کر بھی نظر مت کرنا۔ حرام کے مال میں ہرگز برکت نہیں ہوتی۔ تقدیر سے بڑھ کر مل نہیں سکتا۔ پھر آدمی کیوں نیت کو ڈانواں ڈول کرے۔ اگر اس سے زیادہ ملنے والا ہے تو خدا حلال سے بھی دے سکتا ہے۔

باب اٹھائیسوں: اصغری کے سمجھانے سے محمد کامل پردیس کو نکلا اور ترقی پائی

غرض اصغری ہمیشہ محمد کامل کو سمجھاتی رہتی تھی یہاں تک کہ جس حاکم کے پاس محمد کامل نوکر تھا اُس کی بدلی سیالکوٹ کو ہوئی، یہ حاکم محمد کامل پر بہت مہربانی کرتا تھا۔ دن کو کچہری میں یہ حال معلوم ہوا، شام کو محمد کامل گھر میں آیا تو بہت افسردہ خاطر تھا۔
اصغری نے پوچھا ’’خیریت ہے، آج کیوں اُداس ہو۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’کیا بتاؤں جیمس صاحب کی بدلی سیالکوٹ کو ہوگئی، وہی تو اپنے ایک مہربان حال تھے، اب کچہری میں رہنے کا مزہ نہیں۔‘‘
اصغری نے بہت دیر تک سکوت کیا، پھر کہا کہ ’’بے شک جیمس صاحب کا بدل جانا افسوس کی بات ہے، لیکن نہ اس قدر کہ جتنا تم کو ہے۔ دوسرا جو اُن کی جگہ آئے گا خدا اُس کے دل میں بھی رحم ڈال دے گا۔ آدمی کو آدمی پر بھروسہ نہیں رکھنا چاہیے۔‘‘
اصغری نے پوچھا ’’جیمس صاحب کب جائیں گے؟‘‘
محمد کامل نے کہا ’’کل شام کو ڈاک میں سوار ہوجائیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تم ان کے بنگلے پر نہیں گئے؟‘‘
محمد کامل نے کہا ’’اب کیا جانا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’واہ یہی تو ملنے کا وقت ہے، کچھ نہ ہوگا تو کوئی چٹھی پروانہ تم کو دے جائیں گے ۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’اچھا صبح کو جاؤں گا۔‘‘
بہت سویرے کپڑے پہن پہنا محمد کامل جیمس صاحب کے بنگلے پر گیا۔ جیمس صاحب نے کہا ’’محمد کامل ہم اب سیالکوٹ جاتا ہے اور ہم تم سے بہت راضی تھا۔ اب تم چاہے تو ہمارا ساتھ سیالکوٹ چلے، ہم تم کو وہاں نوکری دے گا، نہیں اپنا پاس سے پندرہ روپیے دے گا۔‘‘
محمد کامل نے سوچ کر کہا کہ ’’اس کا جواب میں حضور کو پھر حاضر ہوکر دوں گا، اپنی والدہ سے پوچھ لوں۔‘‘
غرض محمد کامل گھر لوٹ کر آیا تو ذکر کیا کہ جیمس صاحب مجھ کو ساتھ لیے جاتے ہیں۔ محمد کامل کی ماں نے تو سنتے ہی غل مچایا۔ اصغری بھی سناٹے میں ہوگئی۔
آخر محمد کامل نے پوچھا کہ ’’صاحبو بتاؤ کہ میں جاکر کیا جواب دوں؟‘‘
محمد کامل کی ماں بولیں کہ ’’جواب کیا دینا ہے اب کیا وہ تیرے لیے بیٹھا رہے گا یا تیرے لیے سپاہی بھیج رہا ہے۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’نہیں بی میں اس سے وعدہ کر آیا ہوں۔ اپنے جی میں کہے گا ہندستانی کیسے خود مطلبی ہوتے ہیں، چلتے وقت ہم سے جھوٹ بولا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’اچھا جاکر کہہ آؤ کہ میرا جانا صاحب نہیں ہوسکتا۔‘‘
محمد کامل نے اصغری سے پوچھا ’’کیوں صاحب تمھاری کیا صلاح ہے؟‘‘
اصغری نے کہا ’’صلاح اور ہوتی ہے اور دل کی خواہش اور ہوتی ہے۔ دل کی خواہش تو یہ تھی کہ تم یہاں رہو، گھر کا انتظام صرف تمھارے دم سے ہے۔ آخر گھر میں کوئی مرد بھی چاہیے اور صلاح پوچھو تو جانا مناسب ہے۔ جب ایک حاکم خود بے کہے تم کو ساتھ لیے جاتا ہے تو ضرور اپنی جگہ پہنچ کر بہت سلوک کرے گا۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’پانچ روپیے کے واسطے کیا دو تین سو کوس کا سفر۔ میرا تو دل جانے کو نہیں چاہتا وہ مثل ہے (گھر کی آدھی نہ باہر کی ساری)۔
اصغری نے کہا ’’یوں تم کو اختیار ہے لیکن ایسا موقع تقدیر سے ملا ہے پھر ہاتھ نہ آئے گا اور سفر کون نہیں کرتا۔ ہمارے ابّا، تمھارے ابّا، دیکھو ان لوگوں نے عمریں سفر میں تیر کردیں اور بالفعل پانچ سن لیے گئے، پیچھے دیکھو گے کتنے پانچ ہیں اور اگر نہیں جاتے تو پھر دس روپیے سے بے دلی مت ظاہر کرنا۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’تو یہاں کی نوکری کو استعفا دے جاؤں اور فرض کیا کہ وہاں کچھ صورت نہ ہوئی تو اُدھر سے بھی گیا اور اِدھر سے بھی گیا۔‘‘
اصری نے کہا ’’اوّل تو یہ فرض کرنا کہ وہاں کچھ صورت نہ نکلے، خلاف عقل ہے ۔ جیمس صاحب اتنا بڑا حاکم اور تم کو کام دینا چاہے اور صورت نہ نکلے، میری سمجھ میں تو نہیں آتا اور پھر استعفا کیوں، مہینے دو مہینے کی رخصت لو۔‘‘
محمد کامل نے کہا ’’ہاں رخصت منظو رہوئی پڑی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’منظور ہونے کو کیا ہوا اُسی جیمس صاحب سے کہو وہ چٹھی لکھ دے گا۔‘‘
غرض اصغری نے زبردستی جوت کر محمد کامل کو جانے پر راضی کیا۔ اپنے پاس سے پچاس روپیے نقد دیا اور چھ جوڑے نئے کپڑے بنوادیے۔ دیانت کے بیٹے رفیق کو ساتھ کردیا۔ مولوی محمد کامل سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ اُدھر اصغری نے مولوی محمد فاضل صاحب کو یہ تمام حال خط میں لکھا اور یہ بھی لکھ دیا کہ جیمس صاحب سیالکوٹ کو جاتے ہوئے ضرور لاہور ہوکر جائیں گے، اگر ایسا ہوسکے کہ آپ وہاں اُن سے ملاقات کرکے ان کی سفارش کچھ رئیس سے کرادیں تو بہت مفید ہوگا۔ مولوی صاحب نے جیمس صاحب کی جستجو کی اور رئیس کے کچھ دیہات ضلع سیالکوٹ میں بھی تھے۔ مولوی صاحب نے رئیس کی طرف سے صاحب کی دعوت کی اور رئیس کے باغ میں ٹھہرایا۔ کھانے کے بعد صاحب اور رئیس دونوں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے کہ مولوی صاحب نے جیمس صاحب سے کہا دہلی کی رعایا کو آپ کی مفارقت کا بہت قلق ہے۔ اگرچہ آپ صرف دو برس دہلی میں حاکم رہے لیکن آپ کے انصاف، آپ کی شُرفاپروری سے وہاں کے لوگ بہت خوش تھے۔ایک بندہ زادہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھا۔ اُس کے لکھنے سے سب حال معلوم ہوتا رہتا تھا۔
صاحب نے پوچھا ’’کیا کوئی آپ کا لڑکا بھی میری کچہری میں تھا۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’محمد کامل۔‘‘
صاحب نے کہا ’’وہ تو ہمارے ساتھ آتا ہے، وہ آپ کا بیٹا ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’آپ کا غلام ہے۔‘‘
رئیس نے اس تقریب میں صاحب سے کہا کہ ’’مولوی صاحب ہماری ریاست کے قدیم الخدمت ہیں اور ہم کو ہر طرح سے ان کی پرداخت مرکوز خاطر رہتی ہے لیکن آپ تو جانتے ہیں اب گنجائش نہیں۔ پس اگر آپ ان کے بیٹے کی پرورش فرمائیں گے تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔‘‘
جیمس صاحب پہلے سے محمد کامل کے حال پر ملتفت تھا ایسے وقت مناسب پر تقریب ہوگئی کہ جیمس صاحب کو بہت خیال ہوگیا۔ اوّل تو جوان عمر، دوسرے شریف، تیسرے رئیس کا سفارشی، چوتھے خود صاحب کا رفیق، پانچویں لائق۔ اتنے حقوق محمد کامل کو حاصل ہوگئے۔ صاحب نے پہلے دن کچہری کرتے ہی محمد کامل کو پچاس روپیے کا نائب سررشتہ دار کیا اور مولوی محمد فاضل صاحب کو خط لکھا کہ ’’بالفعل ہم نے آپ کے بیٹے کوپچاس کی نوکری دی ہے اور ہم جلد اس کی ترقی کریں۔ آپ رئیس کی خدمت میں اطلاع کردیجیے۔‘‘
مولوی صاحب نے بطرزِ مناسب صاحب کا شکریہ ادا کیا اور وہ محمد کامل جو کبھی امیدواری کا محتاج تھا اور چھوٹے چھوٹے عہدہ داروں کی عوضیاں کرتا تھا اور صرف دس روپیے کا روزنامچہ نویس تھا اور پندرہ کے وعدے پر اصغری کے جوتنے سے جیمس صاحب کے ساتھ سیالکوٹ آیا تھا اب ایک دم سے پچاس کا عہدہ دار ہوگیا۔ محمد کامل کی ماں اگرچہ آتے وقت ناخوش ہوئی تھیں، پچاس کا نام سن کر ان کی بانچھیں بھی کھِل گئیں۔ اب تو گھر میں چوگنی برکت ہوگئی۔ اصغری کا انتظام اور بیس کی جگہ اب ساٹھ روپیے مہینہ گھر میں آنے لگا۔ کیا پوچھنا ہے،

باب انتیسواں: محمد کامل کی آوارگی، اصغری نے جا کر اِس کی اصلاح کی اور جاتے وقت بہن اور بہنوئی کو گھر میں بسا گئی


محمد کامل آخر ایک ہی برس میں سررشتہ دار ہوگیا لیکن سررشتہ دارہونے تک سنبھلا ہوا تھا، خرچ بھی برابر آتا تھا، خط بھی متواتر چلے آتے تھے لیکن آخر جوان آدمی تھا، خود مختار ہوکر رہا، صحبت بری مل گئی بہک چلا، خطوں میں کمی ہونی شروع ہوئی۔ اصغری فکر میں رہی کہ اب کیا تدبیر کروں۔ آخر کو سوائے اس کے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ خود جانا چاہیے۔ ہر چند اصغری نے سیالکوٹ جانے کا عزم مصمم کرلیا تھا لیکن تماشا خانم کو صلاح کے واسطے بلا بھیجا اور سب حال اس سے کہا۔
تماشا خانم نے کہا ’’بوا کوئی دیوانی ہوئی ہے، شہر چھوڑکر اب کہاں سیالکوٹ جاتی پھرے گی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’مجھ کو شہر سے کیا مطلب، میں تو جس کے ساتھ وابستہ ہوں وہیں شہر ہے۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’اَے ہے کنبے والے کیا کہیں گے۔ ہمارے کنبے میں سے آج تک کوئی باہر نہیں گیا۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اس میں عیب کی کیا بات ہے، آخر یہی کہیں گے کہ میاں کے پاس چلی گئی تو بُرا کیا کیا اور کنبے کی رسم کو جو پوچھو، پچھلے دنوں نہ ڈاک تھی نہ ریل نہ رستے آباد تھے۔ عورتوں کا سفر کرنا بہت مشکل تھا۔ اس سبب سے لوگ نہیں جاتے تھے۔ اب کیا مشکل ہے۔ اگر آج ڈاک میں بیٹھوں اور خدا اصل خیر رکھے تو پرسوں سیالکوٹ داخل، گویا میرٹھ گئے۔‘‘
تماشا خانم نے کہا ’’کیا طلبی کا خط آیا ہے۔‘‘
اصغری نےکہا ’’خط تو نہیں آیا۔‘‘
تماشا خانم بولی ’’بن بُلائے جانا تو مناسب نہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’تم مناسب نامناسب دیکھتی ہو اور میں کہتی ہوں کہ اگر میں نہ جاؤں گی تو عمر بھر کو گھر غارت ہوجائے گا۔‘‘
تماشا بولی ’’اے آپا ایسی تم کیوں گری پڑتی ہو تم کو ان کی کیا پروا ہے۔ خدا تمھارے مکتب کو سلامت رکھے۔ تم دس کو روٹی کھلایا کرو۔‘‘
اصغری نے کہا ’’واہ آپ کی بھی کیا سمجھ ہے۔ یہ مکتب تو میں نے اپنا جی بہلنے کے واسطے بٹھالیا ہے۔ کچھ مجھ کو اس سے کمائی کرنی منظور نہیں۔ خدا جانے تم کو یقین آئے یا نہ آئے آج تک میں نے مکتب کی رقم سے ایک پیسہ اپنے اوپر خرچ نہیں کیا۔ صرف پچاس روپیے نقد اور بیس کپڑے کے واسطے تمھارے بھائی جان کو سیالکوٹ جاتے ہوئے ضرور دیے تھے، سووہ بھی قرض داخل۔ اور باقی کوڑی کوڑی کا حساب لکھا ہوا موجود ہے، دیکھ لو۔
ورتوں کی کمائی بھی کوئی کمائی ہے۔ اگر عورتوں کی کمائی سے گھر چلا کریں تو مرد کیوں ہوں؟
میرا اپنا گھر بنا رہے تو میں ایسے ایسے دس مکتبوں کے اجڑنے کی بھی پروا نہیں کرتی۔
تماشا خانم: ایسی بھری برست میں کہاں جاؤ گی۔ جاڑا آنے دو۔ اس وقت کھلے موسم میں دیکھ لینا۔
اصغری: اے ہے! دیر کرنا تو غضب ہے۔ اب جو کام سمجھانے سے نکلے گا پھر بڑے جھگڑوں سے بھی طے نہ ہو گا۔
تماشا خانم: اے ہے آپا۔ گھر چھوڑتے ہوئے تمہارا جی نہیں کڑھتا؟
اصغری: کیوں نہیں کڑھتا؟ کیا میں آدمی نہیں ہوں؟ لیکن یہ تھوڑی دیر کا کڑھنا بہتر ہے یا عمر بھر کا جلاپا؟
تماشا خانم: تم نے اپنی ساس سے بھی اجازت لی؟
اصغری: بھلا وہ اجازت دیں گی؟ لیکن ہماری ساس بیچاری سیدھی آدمی ہیں۔ میں سمجھاؤں گی تو یقین ہے کہ نہ روکیں گی۔
غرض ایک دن اصغری ن ے اپنا ارادہ اور اس کی وجوہات اپنی ساس سے بیان کیں۔ بات معقول تھی۔ اس میں کون گفتگو کر سکتا تھا۔ اصغری کا جانا ٹھہر گیا۔ ایک روز جا کر اصغری سب کچا حال اپنی ماں سے بھی کہہ آئی۔ مکتب کے واسطے لڑکیوں کو سمجھا دو کہ محمودہ تم سب کو پڑھانے کو بہت ہیں۔ میں صرف دو مہینے کو جاتی ہوں۔ سب لڑکیاں بدستور آیا کریں۔ رخصت ہونے کی تقریب سے پہلے اپنی آپا کے پاس گئی۔ محمد عاقل سے پوچھا "کیوں بھائی تمیز دار بہو، تم جاتی ہو۔ مکتب کو کیا کر چلیں؟"
اصغرہ: مکتب اور گھر بار سب آپ کے حوالے کیے جاتی ہوں۔
محمد عاقل: واہ! کیا خوب! نہ مجھ کو گھر سے تعلق نہ مکتب سے واسطہ، میں کیا کر سکتا ہوں؟
اصغری: تعلق رکھنا نہ رکھنا سب آپ کے اختیار میں ہے۔
محمد عاقل: تمیز دار بہو، تم کو یہ بات کہنی زیب نہیں دیتی۔ بھلا میرا کیا اختیار ہے؟ گھر تمہاری آپا نے چھڑوایا۔ رہا مکتب، سو لڑکیوں کا ہے۔ لڑکوں کا مکتب ہوتا تو میں خوشی سے سب کو پڑھا دیا کرتا۔
اصغری: اب آپا اور آپ دونوں گھر چل کر رہیے۔ اماں جان اکیلی ہیں۔
محمد عاقل: اپنی بہن کو سمجھاؤ۔
اصغری: سمجھانے کی کیا ضرورت۔ آپا تو خود جانتی اور سمجھتی ہیں۔ یہاں اکیلے آپ کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ نہ بچوں کو کوئی سنبھالنے والا ہے نہ گھر کا کوئی دیکھنے والا۔ دکھ سکھ آدمی کے ساتھ ہیں۔ بے ضرورت جدا رہنا مناسب نہیں۔ اور پچھلی باتیں گئی گزری ہوئیں۔ آپس کی نااتفاقی کیا اور آپ کی رنجش کیسی۔
اکبری جدا گھر کرنے کا مزہ خوب چکھ چکی تھی اور بہانہ ڈھونڈھتی تھی کہ پھر ساتھ رہنے کو کوئی کہے۔ فوراً راضی ہو گئی اور اصغری دونوں کو اپنے ساتھ لوا لائی۔ محمد کامل کی ماں کو اصغری کے جانے کا قلق تھا۔ اب ان کی بھی تسلی ہو گئی کہ خیر ایک بہو گئی، دوسری موجود ہے۔ محمودہ کو البتہ بڑا فکر تھا کہ دیکھئے کیا ہو۔ لیکن اصغری نے محمودہ کی تسلی کی اور سمجھایا کہ وہ باتیں نہیں ہیں، ادھر اپنی آپا کو سمجھا دیا کہ اب محمودہ بڑی ہو گئی ہے، کوئی سخت بات اس کو نہ کہیے گا۔ مکتب کے واسطے محمد عاقل سے اتنا کہہ دیا کہ پڑھانا لکھانا وغیرہ سب محمودہ کر لیا کریں گی، آپ صرف بالائی انتظام کی خبر لے لیا کیجیے اور مکتب کی رقم کا حساب کتاب محمودہ کو لکھا دیا کیجئے۔
الغرض اصغری رخصت ہوئی۔ ڈاک پر سوار ہو کر سیدھی سیالکوٹ پہنچیں۔ یہاں محمد کامل دفعتہً اصغری کے پہنچنے سے سخت متعجب ہوا اور پوچھا "خیریت ہے؟ کہیں اماں سے لڑ کر تو نہیں آئیں؟"
اصغری: توبہ کرو۔ کیا اماں جان میرے برابر کی ہیں کہ میں ان سے لڑنے جاؤں گی؟ اس چار برس میں کبھی تم نے مجھ کو ان سے یا کسی اور سے لڑتے دیکھا؟
یہاں محمد کامل نے خوب ہاتھ پاؤں نکالے تھے اور بری صحبت میں مبتلا تھا۔ خوشامدی لوگ جمع تھے اور وہ اس کو الو بنائے ہوئے تھے۔ بازار رشوت گرم تھا۔ ناچ رنگ کا احتراز باقی نہ رہا تھا۔ امیری ٹھاتھ تھے۔ تنخواہ سے چار چند کا معمولی خرچ۔ اگر یہی چال چندے اور رہتا تو ضرور جیمس صاحب کو بدگمانی پیدا ہوتی اور آخر کو نوکری جاتی رہتی۔ اچھے وقت اصغری جا پہنچی۔ فوراً اس نے ہر طرف سے رخنہ بندیاں کیں اور سمجھایا کہ تم کو خدا نے سو روپے کا نوکر دیا۔ اس کا یہی شکریہ ہے کہ تم کو اس پر قناعت نہیں؟ محمد کامل نے کہا "جو خوشی سے دے، اس میں کیا قباحت ہے؟" ان دنوں لوگ روپے کے اس قدر حاجت مند ہیں کہ عزت تک کی پروا نہیں کرتے، مگر روپیہ مٹھی سے نہیں چھوڑتے۔ آدمی اپنے اوپر قیاس کرے کہہم کسی کو کیا دیا کرتے ہیں۔ ایک زکوٰۃ کی بھی کچھ اصل ہے۔ سینکڑے پیچھے برسویں دن چالیسواں حصہ ڈھائی روپے۔ وہی دیتے ہوئے جان نکلتی ہے۔ لوگوں کے پاس ایسا کون سا خزانہ قارون بھرا پڑا ہے کہ وہ تم کو بے مطلب دے جاتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ کام بگڑتا ہے، نہ دیں گے تو مقدمہ خراب ہو گا، عاجز آ کر قرض دام دے کر، گھر والیوں کے زیور بیچ کر رشوت دیتے ہیں۔"
محمد کامل: میں خود نہیں لیتا۔ پھر اس میں کیا ڈر ہے؟
اصغری: اول تو رشوت چھپ نہیں سکتی۔ علاوہ اس کے فرض کیا آدمی پر ظاہر نہ ہوئی، خدا جو پردوں میں دیکھتا ہے، وہ تو جانتا ہے۔ بندوں کا گناہ جمع کرنا اور عاقبت کی جواب دہی سمیٹنا بڑی بےباکی کی بات ہے۔
غرض سمجھا بجھا کر اصغری نے محمد کامل سے توبہ کرائی۔ چند روز رہ کر اصغری نے پوچھا "یہ چار آدمی جن کو باہر کھانا جاتا ہے کون لوگ ہیں؟"
محمد کامل: نوکری کے امیدوار ہیں۔ بےچار غریب الوطن ہیں۔ میں نے کہا، خیر، جب تک تمہاری نوکری لگے، تب تک میرے پاس رہو۔
اصغری: پھر اب تک ان کو نوکری نہیں ملی؟
محمد کامل: نوکری تو ملتی ہے لیکن ان کی حیثیت سے کم ہے۔
اصغری: جب ان کی حالت یہ ہے کہ دوسرے کے سر پڑے ہوئے روٹیاں کھاتے ہیں تو حیثیت سے کیا بحث باقی رہی۔ تھوڑی بہت جو ملے کر لیں۔
محمد کامل: خدا جانے تم کیا کہتی ہو۔ عزت گھٹ کر کیوں کر کر لیں؟
اصغری: کم درجے کی نوکری میں تو بےعزتی ہوتی ہے اور دوسرے کے سرڈھئی دینے میں بےعزتی نہیں۔ جب ان لوگوں میں اتنی غیرت نہیں تو اور عادتیں بھی ان میں بری ضرور ہوں گی۔ ان سے کہو کہ یا نوکری کریں یا رخصت ہوں۔
محمد کامل: میری مورت مقتضی نہیں ہوتی کہ جواب دوں۔
اصغری: جب ان میں مروت نہیں تو تم کو مروت کا لحاظ کیا ضرور ہے؟ اگر ہم سے بچے تو کنبے میں بہت غریب ہیں۔ ان کا حق مقدم ہے۔ غیروں کو اور غیروں بھی ایسوں کو دینے سے کیا فائدہ؟ اور یہ ضرور نہیں کہ تم سختی سے جواب دو۔ کسی طور پر ان کو سمجھا دو۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہی لوگ محمد کامل کے شیطان تھے۔ اصغری نے حکمت عملی سے ان کو ٹالا۔ نوکروں میں جو بدوضع تھے، چھانٹ چھانٹ کر نکالے گئے اور ڈیڑھ برس رہ کر اندر سے باہر سب انتظام درست کر دیا۔
اب میاں مسلم کی شادی ہونے والی تھی۔ اصغری کی طلب میں خط گیا اور تماشا خانم نے بہت اصرار کے ساتھ لکھا۔ از بس کہ بہت دن ہو چکے تھے، اصغری نےدہلی آنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اپنے دل میں سوچتی کہ محمد کامل کو اکیلا چھوڑنا مصلحت نہیں۔ محمد کامل سے کہا کہ مسافرت تنہا رہنا مناسب نہیں۔ کوئی اپنا رشتہ دار ساتھ رہنا ضرور ہے۔ سو میرے نزدیک تم اپنے خالہ زاد بھائی محمد صالح کو بلا لو۔ وہ تمہارے ساتھ کچہری کا کام بھی کر سکیں گے اور شاید کہیں ان کی نوکری بھی لگ جائے۔ امیر بیگم کو خط لکھا گیا اور اصغری کے رہتے محمد صالح پہنچ گیا۔ یہ لڑکا پرلے درجے کا نیک بخت تھا۔ اس بامسمیٰ اور محمد کامل سے عمر میں بڑا۔
اب اصغری کو اطمینان ہوا تو سیالکوٹ سے رخصت ہو لاہور پہنچی۔ یہاں مولوی محمد فاضل کے پاس ایک ہفتہ مقیم رہی۔

باب تیسواں: اصغری کی صلاح سے مولوی محمد فاضل نے پنشن لی اور بڑے بیٹے محمد عاقل کو اپنی جگہ رکھوا دیا

مولوی محمد فاضل صاحب کی عمر ساٹھ برس کے قریب تھی۔ مختاری کی نوکری میں محنت تھی بہت۔ روز بلا ناغہ سب حاکموں کی کچہری میں رئیس کے مقدمات کی خبر لینا اور صبح و شام عملوں میں جانا۔ بےچارے مولوی صاحب رات کو آتے تو بہت تھک جاتے تھے۔
اصغری نے کہا "ابا جان، اب آپ کی عمر اس مشقت کے قابل نہیں۔ مناسب ہے کہ آپ گھر بیٹھنے کا فکر کیجئے۔ ایک کتاب میں میں نے پڑھا ہے کہ انسان عمر کے تین حصے کرے۔ پہلا حصہ بچپن کا، دوسرا دنیا کے کاموں کے بندوبست کا، تیسرا آرام اور یادِ الہٰی کا۔ بس اب آپ گھر چل کر آرام سے بیٹھیے۔"
مولوی صاحب: اول تو رئیس نہیں چھوڑتا، دوسرے آخر میری جگہ کوئی کام کرنے والا بھی چاہیے۔
اصغری: رئیس سے جب آپ اپنی ضعیفی کا عذر کیجئے گا تو گمان غالب ہے کہ مان جائے اور کام کرنے کو بھائی جان کیا کم ہیں؟"
مولوی صاحب: وہ کچہری دربار کا دستور قاعدہ کیا جانیں۔
اصغری: چند روز ان کو بلا کر ساتھ رکھیے۔ دیکھنے بھالنے سے سب معلوم ہو جائے گا۔ وہ تو مولوی آدمی ہیں۔ ہندو لوگ تو اوٹ پٹانگ فارسی کی دو چار کتابیں پڑھ کر کچہری کی نوکری کرنے لگتے ہیں۔
مولوی صاحب کو اصغری کی بات پسند آئی۔ اصغری تو دہلی پہنچی اور مولوی صاحب نے محمد عاقل کو بلا بھیجا۔ چند روز میں عاقل نے باپ کا سب کام اٹھا لیا اور رئیس کو اپنی خدمت سے خوش کیا۔ تب مولوی صاحب نے رئیس سے کہا کہ اب یہ لڑکا آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ مجھ کو آزاد فرمائیے۔
رسم است کہ مالکان تحریر
آزاد کنند بندہِ بے پیر
رئیس صاحب کا دل بڑا سخی تھا۔ بیس روپے تا حیات مولوی صاحب کی پنشن کر دی۔ مولوی صاحب کی جگہ محمد عاقل کو پوری تنخواہ پر رکھ لیا۔

باب اکتیسواں: محمودہ کی منگنی

اصغری دہلی آئی تو اس نے محمودہ کا فکر کیا۔ حسن آرا جھجر سے میکے آئی تھی اور ان ہی دنوں جمال آرا بھی سسرال سے چھوٹی بہن سے ملنے کے لئے آ پہنچی۔ حکیم جی کا تو تمام گھر اصغری کا مرید تھا۔ دونوں بہنیں۔ اصغری کے آنے کی خبر سن کر دوڑی ہوئی آئیں۔ ہر طرح کی باتیں رہیں۔ جمال آرا نے کہا "استانی جی، کیسا جی تم میں پڑا تھا کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ بھلا حسن آرا تو تمہاری شاگرد ہیں، لیکن میں شاگردوں میں سے بھی زیادہ ہوں، میرا اجڑا ہوا گھر تم نے ہی بسوایا۔
اصغری: میں کس لائق ہوں۔
جمال آرا: واہ استانی جی! میں تو جیتے جی تمہارا سلوک نہیں بھولوں گی۔ اور کیا کروں، تم ہم لوگوں کی خدمت کسی طرح قبول نہیں کرتیں۔ نہیں تو اپنی کھال کی جوتیاں تم کو بنوا دیتی، تب بھی تمہارا حق شاید ادا نہ ہوتا۔
اصغری: اول تو کچھ خدمت مجھ سے بن نہیں پڑی اور باقتضائے سرداری کوئی کام آپ کو پسند ہوا تو بیگم صاحب، آپ کو خدا نے اس قابل بنایا ہے۔ ہم غریبوں کا خوش کر دینا کیا بڑی بات ہے۔
حسن آرا: اے ہے، استانی جی! تم اپنے منھ سے کیسی بات کہتی ہو؟
اصغری: سنو، بوا حسن آرا۔ استانی گیری اور شاگردی تو اب باقی نہیں۔ وہ مکتب تک تھی۔ اب اللہ رکھے تم بیاہی گئیں۔ ادھر تم پوتڑوں کی امیر اور امیروں کی سرتاج۔ ادھر یہ سردار اور سرداروں کی بیٹی بہو۔ اب اس شہر میں تم سے بڑھ کر تو دوسرا امیر نہیں۔ تم تک پہنچ کر جو آدمی محروم رہے تو اس کی قسمت کا قصور ہے۔
حسن آرا: اچھی استانی جی کیا بات ہے؟
اصغری: بوا بڑا مشکل کام ہے۔ تم وعدہ کرو کہ مجھ کو ناامید نہ کرو گی تو کہوں۔
حسن آرا اور جمال آرا نے جانا کہ کسی نوکری کے واسطے کہیں گی۔ دونوں نے کہا "استانی جی، خدا کی قسم! تمہارے واسطے ہم دل و جان سے حاضر ہیں۔ لو ہم کو تو بڑی تمنا ہے کہ تم ہم سے کوئی فرمائش کرو۔"
اصغری: وہ کام میرے نزدیک تو بڑا ہے لیکن اگر آپ دونوں صاحب دل سے آمادہ ہوں تو کچھ حقیقت نہیں۔
دونوں بہنوں نے کہا "استانی جی، خدا جانتا ہے، ہمارے کرنے کا کام ہو تو ہم کو دریغ نہیں۔"
جب خوب پکا وعدہ کرا لیا تو اصغری نے کہا "میری آرزو ہے کہ محمودہ کو اپنی فرزندی میں قبول کرو۔"
یہ سن کر دونوں بہنوں نے سکوت کیا۔ پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ جب دونوں اٹھنے کو ہوئیں تو اصغری نے ایک ہاتھ سے تو حسن آرا کا دوپٹہ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے جمال آرا کا اور کہا "میں اپنا حق اب لڑ جھگڑ کر لوں گی اور جب تک میرا سوال پورا نہ ہو گا، خدا کی قسم جانے نہ دوں گی۔"
حسن آرا: استاجی جی، بھلا اس میں ہمارا کیا اختیار ہے۔ ابھی تو ارجمند خاں لڑکا ہے۔ دوسرے ایسی باتوں میں ماں باپ کے ہوتے بہنوں کی کون سنتا ہے۔
اصغری: بڑی اور بیاہی ہوئی بہنیں بھی ماں باپ کے برابر ہوتی ہیں۔ اور رشتے ناطے بغیر سب کی صلاح کے نہیں ہوا کرتے۔ ایسا ممکن نہیں کہ تم سے مشورہ نہ ہو۔
حسن آرا: ابھی ہمارے یہاںتو کچھ تذکرہ کہیں کا نہیں ہے۔
اصغری: تم کو معلوم نہ ہو گا۔ علوی خاں کے یہاں رقعہ گیا تھا۔ واپس آیا۔
جمال آرا: استانی جی، تم نے سنا ہے تو گیا ہو گا۔ مگر ہم سے اس معاملے میں اس وقت تک کچھ بات چیت نہیں ہوئی۔ علوی خاں میں کیا برائی تھی۔ خدا جانے رقعہ پھر واپس کیوں لیا ہو گا۔
اسی طرح بات میں بات اور ہونے لگی۔
اصغری: صاحبو، میرا مطلب رہا جاتا ہے۔ ہاں ناں کا جواب مجھ کو دیجیے۔
جمال آرا: استانی جی، بھلا ہم کیوں کر ہامی بھر سکتے ہیں؟
اصغری: دولت، سیرت، صورت تین چیزیں ہوتی ہیں۔ دولت تو ہم غریبوں کے پاس نام کو نہیں۔ رہی سیرت سو بوا حسن آرا تم محمودہ سے بخوبی واقف ہو۔ دو برس تمہارا اس کا ساتھ رہا۔ سچ کہنا شرم، لحاظ، ادب، قاعدہ، نیک بختی ہر کام کا سلیقہ اور ہر طرح کا ہنر لکھنا، پڑھنا، سینا، پرونا، پکانا یہ سب باتیں محمودہ میں ہیں یا نہیں؟ کچھ اس پر موقوف نہیں کہ محمودہ میری نند یا میری شاگرد ہے۔ نہیں۔ وہ لڑکی کچھ خدا نے ہمہ صفت موصوف پیدا کی ہے۔ کیوں بوا حسن آرا، میں کچھ بڑھ چڑھ کر کہتی ہوں تو تم بولو۔
حسن آرا: استانی جی، بھلا چاند پر کوئی خاک ڈال سکتا ہے۔ محمودہ بیگم ماشاءاللہ بڑے گھروں میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ بھلا کوئی محمودہ بیگم کا پاسنگ تو ہوئے۔
اصغری: اور صورت، سو ناک، کان آنکھ جیسے آدمی میں ہوتے ہیں، محمودہ میں بھی ہیں۔ وہ بھی آدمی کا بچہ ہے۔ جوان ہونے پر کچھ اس سے زیادہ صورت نکل آئے گی۔
جمال آرا: اسے استانی جی، محمودہ بیگم کو آدمی کا بچہ کہتی ہو۔ خدا کی قسم حور کا بچہ۔ بڑے گھروں میں اونچی دکان پھیکا پکوان، ہم نے تو کوئی صورت دار نہ دیکھا۔ ہم ہی دونوں بہنیں موجود ہیں خدا کی قسم بعض لونڈیاں ہم سے اچھی ہیں۔ اور محمودہ تو چندے آفتاب اور چندے ماہتاب۔ اس صورت کے آدمی کہاں نظر آتے ہیں۔
اصغری: پھر بوا سوائے غریبی کے اور ہم میں کیا برائی ہے؟ اگرچہ چھوٹا منھ بری بات ہے لیکن علی نقی خان مرحوم کی دو چار پشتیں نہیں گزریں۔ آخر ہم بھی ان ہی کے نام لیوا ہیں۔
دونوں بہنوں نے کہا "استانی جی، تم ہماری سرتاج ہو اور ہم اور تم کیا دو دو ہیں۔ ایک ذات ایک خون۔"
اصغری: پھر کیا تامل ہے؟ میری درخواست کو قبول فرمائیے۔
حسن آرا: اچھا استانی جی، آج ہم اس بات کا مذکور اماں سے کریں گے۔
اصغری: مذکور نہیں، مذکور تو میں بھی کر سکتی ہوں۔ بلکہ دل سے اس میں مدد کرو۔ اور اب یہ بات چھڑی ہے تو ایسا ہو کہ پوری ہو جائے۔
دونوں بہنوں نے وعدہ کیا کہ استانی جی، جیسا آپ کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ ویسا ہی ہو گا۔ غرض کہ اس وقت دونوں بہنیں رخصت ہو گئیں۔ اگلے دن اصغری خود سلطانہ بیگم سے ملنے گئی۔ دو سو روپے کا بہت عمدہ شالی رومال جو سیالکوٹ سے لائی تھی، سلطانہ بیگم کو نذر کی۔ سلطانہ بیگم نے کہا "استانی جی، تم تو ہم کو بہت شرمندہ کرتی ہو۔ ہم کو تمہاری خدمت کرنی چاہیے نہ کہ الٹا تم سے لیں۔"
اصغری: یہ رومال میں نے صرف آپ کے لئے فرمائش کر کے بنوایا تھا اور یہ تو آپ کو قبول کرنا ہی ہو گا۔ ڈیڑھ برس سے اسی امید میں میری گٹھڑی میں بندھا تھا کہ دہلی چل کر میں خود پیش کروں گی۔
سلطانہ بیگم: میں اس کو بطور تبرک لے لیتی ہوں۔ لیکن مجھ کو خدا کی قسم شرم آتی ہے۔ کبھی آپ نے بھی تو کچھ فرمائش کی ہوتی کہ میرا دل خوش ہوتا۔
اتنا سہارا پا کر اصغری دست بستہ کھڑی ہو گئی اور اپنا مطلب بیان کیا۔
سلطانہ بیگم: اچھا استانی جی، آپ بیٹھیے تو سہی۔
اصغری: اب میں اپنی مراد لے کر ہی بیٹھوں گی۔
سلطانہ بیگم نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا اور کہا کہ بیٹا بیٹیوں کے کام مشکل ہیں۔ کمہار کے ہاتھ سے دمڑی کا پیالہ لیتے ہیں تو اچھی طرح ٹھونک بجا کر لیتے ہیں اور یہ تو عمر بھر کی کمائیوں کے بیوپار ہیں۔ برے سوچ بچار اور صلاح مشورے سے ہونے کے ہیں۔ آپ نے ذکر کیا، اب میں ان کے باپ اور اپنی بڑی بہن سے، کنبے کے اور دو چار آدمیوں سے پوچھوں گچھوں۔ پھر جیسا ہو گا دیکھا جائے گا۔ اور ابھی تو ارجمند خاں لڑکا ہے۔ اس کے بیاہ کی کیا جلدی ہے۔
اصغری: حوصلے سے بڑھ کر میں نے سوال کیا ہے۔ جس طرح مصر میں کوئی بڑھیا عورت سوت کی انٹی لے جا کر حضرت یوسفؑ کی خریدار بنی تھی۔ اسی طرح میرے پاس غریبی اور عاجزی کے سوا کچھ دینے کو نہیں۔ صرف آپ کی مہربانی درکار ہے۔
ہر چند سلطانہ بیگم نے زبان سے کچھ نہ کہا لیکن انداز سے معلوم ہوا کہ بات ناگوار نہ ہوئی۔ چلتے ہوئے اصغری، جمال آرا اور حسن آرا سے کہتی آئی کہ اب اس کا نباہ آپ لوگوں کے اختیار میں ہے۔ اصغری کے جانے کے بعد دونوں بہنوں نے محمودہ کی حد سے زیادہ تعریف کی۔ سلطانہ تو نیم راضی ہو گئی، لیکن شاہ زمانی بیگم کی بھی ایک بیٹی تھی، دل دار جہاں اور مدت سے شاہ زمانی اپنی بیٹی کے لئے ارجمند کو تکے بیٹھی تھی۔ ابھی تک اپنی بہن سے کچھ اس کا تذکرہ نہیں کرنے پائی تھی۔ جب اصغری نے محمودہ کی نسبت گفتگو کی تو سلطانہ بیگم نے شاہ زمانی بیگم سے پچھوا بھیجا کہ آپ کے نزدیک یہ بات کیسی ہے۔ شاہ زمانی بیگم یہ حال سن کر بہت سٹ پٹائی اور اس فکر میں ہوئی کہ کسی طرح محمودہ کی بات دب جائے تو دلدار جہاں کی ٹپس جما دوں۔ اس وقت تو اتنا ہی کہلا بھیجا کہ میں سوچ کر جواب دوں گی۔ اگلے دن خود بدولت آ موجودہ ہوئیں اور جب ذکر چلا تو سلطانہ سے کہا کہ کہاں تم اور کہاں مولوی صاحب! زمین آسمان کا جوڑ۔ یہ بات یہاں لایا تو کون لایا؟
سلطانہ نے کہا "استانی جی۔"
شاہ زمانی: دیکھو! میں خود استانی جی کے پاس جاتی ہوں۔
حسن آرا کو ساتھ لے جھٹ سے اصغری کے پاس جا دھمکیں اور کہنے لگیں کہ استانی جی، تم تو ایسی عقلمند ہو اور تم نے اتنا نہ سمجھا کہ ایسے رشتے برابر کی ٹکر دیکھ کر کیے جاتے ہیں؟ علوی خان کے گھر سے صرف اتنی بات پر رقعہ پھرا کہ انہوں نے سونے کا چھپر کھٹ نہیں مانا۔ بھلا تم محمودہ کو کیا دو گی؟
اصغری: بیگم صاحب، میں نے لڑکی کے بیاہ کا ذکر چھیڑا تھا۔ کچھ لڑکی کے مول تول کا پیغام نہیں دیا۔ شہر میں اگرچہ اب کل رسمیں بگڑ گئی ہیں لیکن وضع دار لوگوں میں لینے دینے کا چکوتا کہیں نہیں سنا۔ جو بیٹے دے گا، وہ کیا اٹھا رکھے گا؟ باقی رہی برابری، سو ظاہر ہے کہ دولت کے اعتبار سے ہم کو کچھ نسبت نہیں۔ یہاں تو علوی خاں کا چوتھائی بھی نہیں۔ لیکن آپ تو لڑکا بیاہتی ہیں۔ آپ کو امیری غریبی سے کیا بحث؟ لڑکی دینی ہو تو انسان یہ بھی سوچ کرے کہ بھائی لڑکی کا گزر دیکھ لو یا کوئی غریب ہو اور بہو کے جہیز پر ادھار کھائے بیٹھا ہو، وہ امیر گھر ڈھونڈے تو جائے سر ہے۔ آپ تو بیٹی لیتی ہیں اور سب کچھ خدا کا دیا ہوا آپ کے ہاں موجود ہے۔ آپ کو صرف لڑکی دیکھنا ہے سو محمودہ کاکوئی حال آپ سے مخفی نہیں۔ صورت، شکل، ذات جو کچھ بری بھلی ہے، وہ آپ کو معلوم ہے۔
شاہ زمانی: کیا ہوا۔ پھر بھی جوڑ دیکھ کر بات کی جاتی ہے۔
اصغری: بیگم صاحب، خطا معاف۔ اب جوڑ کہاں ہے۔ جوڑ تو ان دنوں تھا جب علی نقی خاں نے اسی گھر میں بہن کو بیاہ دیا تھا، یا یہ وہی گھر ہے کہ بیٹی لینے کے واسطے بھی جوڑ نہیں۔ اب کیا اس گھر میں کیڑے پڑگئے ہیں۔ دولت نہیں سو یہ بڑا بول خدا کو نہیں بھاتا۔‘‘
اصغری نے شاہ زمانی کو ایسا آڑے ہاتھوں لیا کہ بات نہ بن پڑی اور شاہ زمانی نے کہا ’’اُستانی جی تم تو خفا ہوتی ہو۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بیگم صاحب میری کیا مجال ہے، مجھ کو تو امید تھی کہ آپ اس بات میں امداد کیجیے گا نہ کہ خود آپ ہی کو ناگوار ہے۔‘‘
شاہ زمانی نے کہا ’’اُستانی جی برا مانو یا بھلا جوڑ نہیں ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’دولت میں ہم جوڑ نہیں ہیں۔ ذات میں برابری کا دعویٰ ہے۔ ہنر میں انشاء اللہ وہ ہمارے جوڑ نہ ٹھہریں گے۔ کیا مضائقہ ایک بات میں وہ کم ایک بات میں ہم کم، ہماری ایسی بہو دنیا میں چراغ لے کر ڈھونڈھتی پھریں گی تو نہ ملے گی۔‘‘
شاہ زمانی بیگم نے کہا ’’اُستانی جی اقبال مند خاں کے لڑکے کا رقعہ کیوں نہیں منگواتیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’میں نے سنا تھا کہ آپ کے گھر بات ہورہی ہے اس سے میں نے خیال نہیں کیا اور رقعوں کی کیا کمی ہے، لڑکیوں کو لڑکے بہت اور لڑکوں کو لڑکیاں بہت۔ میں نے تو یہ سوچا تھا کہ ہنر اور دولت کا ساتھ ہے۔ یہ چیز امیروں کے لائق ہے اور امیر اس کو زیبا ہیں۔ بات ٹھہر جائے تو دونوں کے لیے اچھا ہے لیکن اگر منظور نہیں ہے تو آپ دلدار جہاں سے نسبت کر دیجیے۔‘‘
شاہ زمانی نے کہا ’’ابھی دلدار بچہ ہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس کو غیر جگہ دوں، رشتے میں رشتہ بے لطفی سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘
شاہ زمانی تو یہ کہہ کر رخصت ہوئیں، حسن آرا بیٹھی رہ گئی۔ خالہ نے کہا بھی کہ ’’بیٹا چلو۔‘‘
حسن آرا بولی ’’آپ چلیے۔ میں اُستانی جی سے کئی برس میں ملی ہوں، باتیں کروں گی۔‘‘
جب شاہ زمانی چلی گئی تو حسن آرا نے کہا ’’اُستانی جی اماں تو راضی ہیں، یہی حضرت بات کو بگاڑ رہی ہیں، منھ سے انکار کرتی ہیں تو کرنے دو۔ ان کا اصل مطلب یہی ہے کہ دلدار کی بات ٹھہر جائے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اب تقدیر کی بات ہے۔ بھلا ان کے ہوتے ہماری کیا اصل ہے، لیکن بوا حسن آرا میں نے تو کچھ بے جا بات نہیں سوچی تھی، پیوند میں پیوند ملتا دیکھ لیا تھا۔تمھارا اتنا بڑا گھر اور اللہ آمین کا ایک لڑکا جو کچھ مال و متاع ہے سب اسی کا ہے، پس اتنے بڑے کارخانے کے سنبھالنے کو بھی بڑی عقل درکار ہے اور بڑا سلیقہ چاہیے۔ محمودہ غریب گھر کی ہے تو کیا ہے، اللہ رکھے حوصلہ اور سلیقہ امیروں جیسا ہے۔ تمھارے گھر میں اگر کوئی بے سلیقہ آئی اور جہیز کے چھکڑے لائی تو کس کام کے۔ اُس کو اپنے جہیز کا رکھنا اٹھانا مشکل پڑجائے گا۔ تمھارے گھر کا انتظام کیا کرسکے گی۔ محمودہ تو ماشاء اللہ ملک کا انتظام کرنے والی ہے پھر بوا حسن آرا یہ بات سوچنی چاہیے کہ رشتہ ناتا کس غرض سے ہوتا ہے۔ دنیا میں جہاں تک ہوسکے میل ملاپ کو بڑھانا چاہیے۔ گھر کے گھر میں نسبت ناتا کرلیا تو کیا شادی بیاہ۔ جب کرے غیر جگہ۔‘‘
حسن آرا بولی ’’اُستانی جی میں نے اور آپا نے خوب طرح پر اماں سے کہا ہے اور اب یہ سب باتیں میں اماں سے اور کہوں گی۔ امید تو ہے کہ یہی بات ورر ہے۔‘‘
غرض اصغری نے یہ سب پٹی پڑھاکر حسن آرا کو رخصت کیا۔ وہاں شاہ زمانی نے سلطانہ سے جاکر کہا ’’بوا میں نے تو اُستانی کے منھ پر صاف کہہ دیا کہ تمھارا ان کا جوڑ نہیں۔‘‘
آدمی کو سمجھ کر بات منھ سے نکالنی چاہیے لیکن پیچ یہ آپڑا تھا کہ شاہ زمانی اپنے منھ سے اپنی لڑکی کے واسطے نہیں کہہ سکتی تھی۔ شاہ زمانی کے دل میں تو یہ بات تھی۔ لیکن یہ سوچے ہوئے تھی کہ مردوں مردوں میں بات ہوجائے گی۔ اب محمودہ کی بات میں غریبی پر بڑا اعتراض تھا۔ آخر شاہ زمانی سے الگ ہوکر سلطانہ بیگم نے اپنی دونوں بیٹیوں سے جو صلاح کی تو حسن آرا نے کہا ’’اماں بات صاف تو یہ ہے کہ خالہ اماں دلدار کے واسطے تجویز کرتی ہیں۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’بھلا ارجمند سے بھی تو ہنسی ہنسی میں پوچھو۔‘‘
جمال آرا نے بھائی کو بلایا اور کہا کہ ’’کیوں بھائی تمھاری شادی بیاہ کی تجویز ہورہی ہے۔ تم بھی تو کچھ بولو، دلدار جہاں سے راضی ہو۔‘‘
ماں کے منھ پر تو لحاظ کے سبب ارجمند کچھ نہ بولا لیکن اشارے سے اپنی بہنوں سے انکار کیا۔ اس کا انکار جمال آرا اور حسن آرا کو حجت ہوگیا۔
حسن آرا نے کہا ’’صورت، شکل، ہنر سلیقہ یہ باتیں تو محمودہ کے پاسنگ بھی کسی لڑکی میں نہ ملیں گی۔ اس کا ذمہ تو میں کرتی ہوں۔ ہاں چاہو کہ سونے کا چھپرکھٹ ملے سو یہ ان بے چارے غریبوں کے پاس کہاں۔‘‘
سلطانہ بولی ’’بوا اصل تو لڑکی کا دیکھنا ہے، خدا کے فضل سے ہمارے گھر میں خود کسی چیز کی کمی نہیں، ہم کو بھاری جہیز لے کر کیا کرنا ہے۔‘‘
جمال آرا نے کہا ’’پھر کیا تامل ہے بسم اللہ کیجیے۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’گو غریبی ہے لیکن اُستانی جی بڑی چال کی آدمی ہیں، منھ سے نہیں کہتیں تو کیا ہے وقت پر حیثیت سے بڑھ کر کریں گی۔‘‘
سلطانہ نے کہا ’’اچھا تمھارے ابا آلیں تو ان سے بھی صلاح پوچھی جائے۔‘‘
چھوٹے حکیم صاحب آئے تو جمال آرا اور حسن آرا نے محمودہ کے مقدمے کو اس طرح پیش کیا جیسے کچہری میں وکیل اپنے مؤکل کے مقدمے کو پیش کرتے ہیں۔ غرض چھوٹے حکیم صاحب نے بھی محمودہ کی بات کو پسند کیا۔ اب تو دونوں بہنیں بے تحاشا اصغری کے پاس دوڑی گئیں۔ محمد کامل کی ماں کو اصلاً ان باتوں کی خبر بھی نہ تھی، انھوں نے پوچھا بھی کیا ہے۔ بیگم صاحب اس طرح کیوں دوڑتی ہو، پائچے تو اٹھاکر چلو۔
حسن آرا نے کہا ’’کچھ نہیں اُستانی جی کے پاس جاتے ہیں۔‘‘
اصغری کے پاس جاتے ہی حسن آرا نے کہا ’’لیجیے اُستانی جی مبارک ہو،ہمارا انعام دلوائیے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’خدا تم سب صاحبوں کو بھی مبارک کرے اور انعام دینے کا میرا کیا منھ ہے، میرا انعام ہے دعا، سو شبانہ روز میں تمھاری دعا گو ہوں۔‘‘
حسن آرا نے کہا ’’نہیں اُستانی جی ہم تو آج اپنا منھ ضرور میٹھا کرائیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بیٹھیے بیٹھیے مٹھائی کھائیے گا۔ دیانت کو بلایا اور پانچ روپیے نکال اُس کے ہاتھ دیے اور کہا گھنٹے والے کی دکان پر سے بہت عمدہ قلاقند اور دریبے کے نکّڑ سے پیٹھے کی مٹھائی اور شاہ مدار کی گلی سے موتیا پاگ اور چاندنی چوک سے لوزات اورنیل کے کڑے سے گھی کی تلی دال اور خانم کے بازار سے نمش ابھی جاکر لاؤ۔‘‘
اتنے میں دونوں کو گلوریاں بناکر دیں اور مٹھائی کی ٹوکری آموجود ہوئی۔ اصغری، اکبری، حسن آرا سب نے مل کر خوب کھائی اور جو بچی مکتب میں بھیج دی۔
اب چلتے ہوئے اصغری نے کہا ’’اس وقت تک میں نے اماں جان کو خبر نہیں کی تھی، اب ان سے تذکرہ کرکے انشاء اللہ پرسوں اچھی تاریخ اور اچھا دن ہے، معمولی رسم ادا ہوجائے۔‘‘
یہ دونوں تو رخصت ہوئیں۔ اصغری نے ساس سے کہا ’’اماں جان کچھ محمودہ کی بھی فکر ہے۔‘‘
ساس بولیں ’’کیا فکر کروں، کہیں سے بات بھی آئے۔ میں ایک جگہ سوچے بیٹھی ہوں محمد صالح کے ساتھ محمودہ کا بیاہ کردوں گی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’کجا محمد صالح اور کجا محمودہ۔ بھائی محمد صالح کی عمر بھائی جان سے کچھ کم نہ ہوگی۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولیں ’’ہاں عاقل چھ مہینے محمد صالح سے بڑا ہے۔ ایک ہی برس کے دونوں پیدا ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’بھلا پھر تھوڑا فرق ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’اور تو کہیں سے سلام پیام نہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’میں نے ایک بات سوچی ہے اگر آپ کو پسند ہو تو ذکر چلاؤں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے پوچھا ’’وہ کیا!‘‘
اصغری بولی ’’حکیم فتح اللہ خاں کے لڑکے سے۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولیں ’’بھلا بیٹی جھونپڑے کا رہنا اور محلوں کے خواب دیکھنا!کجا حکیم جی کا گھر، آج ان کے یہاں وہ دولت ہے کہ شہر میں ان کا ثانی نہیں اور کجا ہم غریب کہ رہنے تک کا جھونپڑا بھی درست نہیں۔ یہاں کی بات کیا ان کی خاطر میں آئے گی۔ ناحق کہہ کر بھی پشیماں ہونا ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’وہ دولت مند ہیں تو اپنے واسطے ہیں ہم کیا خدا نہ کرے کچھ ان کے دست نگر ہیں، وہ اپنے پلاؤ زردے میں مست ہیں تو ہم اپنے دال دلیے میں مگن ہیں۔ ذات میں ہم ان سے ہیٹے نہیں۔ ہنر جو ماشاء اللہ ہماری محمودہ میں ہے وہ ان کے بڑوں میں بھی نصیب نہ ہوا ہوگا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’بوا دولت کے آگے ہنر ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے۔ سونے کا چھپرکھٹ پہلے بنوالوں، تب ان سے بات کرنے جاؤں، ہرگز ہرگز تم اس کا خیال مت کرو۔ اے لو علوی خاں میں کیا برائی تھی، رقعہ بھیج کر انھو ں نے الٹا منگوالیا۔ بوا غریبوں کی کھپت غریبوں میں ہوسکتی ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’ہزار دولت کی ایک دولت تو خوب صورتی ہے، چشم بددور ہماری محمودہ سے بہتر کنبے میں تو ڈھونڈھ لیں۔‘
محمد کامل کی ماں بولیں ’’بوا تم کیسی لڑکیوں کی سی باتیں کرتی ہو۔ حسن بھی ہمسری کی حالت میں پوچھا جاتا ہے اور پھر یہ بات منھ سے کہنے کی ہے کہ ہماری لڑکی خوب صورت ہے اور میں تو نہیں سمجھتی کہ خوب صورتی کیا بلا ہے۔ بڑی بڑی خوب صورتوں کو دیکھا ہے کہ جوتیوں کے برابر قدر نہیں اور بدشکلیں ہیں کہ لالوں کی لال بنی بیٹھی ہیں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’خوب صورتی بھی ایسی چیز ہے کہ آدمی اس پرفریفتہ نہ ہو، مگر اکثر آدمی جن کی صورت اچھی ہوتی ہے، سیرت کے خراب اور مزاج کے گندے ہوتے ہیں۔ ان کو اپنی صورت پر ناز ہوتا ہے، اس وجہ سے ان کی دال کہیں نہیں گلنے پاتی اور ان کا مزاج ان کے حسن کی قیمت گھٹا دیتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک گھوڑا ہے، رنگ کا صاف، ہاتھ پاؤں کا اچھا، بال بھونری سے پاک، جوڑ بند کا درست لیکن بدرفتار، کٹر ہے، دولتّی الگ چلاتا ہے، سواری میں الف ہوتا ہے، الٹ جاتا ہے۔ ایسے نامراد گھوڑے کی صورت لے کر کوئی کیا کرے۔ لیکن اگر پاکیزگی صورت کے ساتھ شائستہ قدم باز اور غریب بھی ہو تو نایاب چیز ہے جیسی ہماری محمودہ، صورت سیرت دونوں ماشاء اللہ ایک کا جواب ایک ۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’آخر کچھ دینے کو بھی چاہیے، ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہ تمھارے مکتب کی لڑکی پڑھ رہی تھی۔ شعر:
یامکن با فیل باناں دوستی
یادرے افراز بربالاے پیل
ہم غریبوں کے پاس ان کی شان کے لائق دینے لینے کو کہاں! ناحق بیٹھے بٹھائے اپنی ہنسی کرانی کیا ضرور ہے اور فرض کیا بات ہو بھی گئی اور لڑکی وہاں نظروں میں حقیر رہی تو نقصان مایہ و شماتت ہمسایہ۔‘‘
اصغری نے کہا ’’عزت اور ذلت کچھ جہیز پر منحصر نہیں، میاں بیوی کی موافقت تو اور ہی چیز ہے۔ جمال آرا کیا کم جہیز لے کر گئی تھیں لیکن ایک دن بھی سسرال میں رہنا نصیب نہ ہوا۔ دور کیوں جاؤ ہماری آپا کو بھی ہمارے برابر ملا تھا پھر کیوں روز لڑائی ہوتی ہے۔ یہ تو اپنا اپنا مزاج اور اپنا اپنا سلیقہ ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولیں ’’یہ تو میں نے مانا کہ میاں بیوی کا پیار اخلاص جہیز پر موقوف نہیں۔ لیکن کنبے قبیلے کے لوگ بے کہے کب باز آتے ہیں اور لڑکے نے خیال نہ کیا تو کیا ہے ساس نندیں ہی موقع پاکر کبھی بات میں بات کہہ گزریں۔ آخر دل کو برا لگتا ہی ہے، ایک تو بیٹی والے کا یوں ہی سر نیچا ہوتا ہے اس پر دان جہیز واجبی اور غضب ہے۔ نہ بوا یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔‘‘
اصغری نے کہا ’’کنبے والوں سے کیا مطلب، کنبے والے ہر روز تھوڑے ہی پاس بیٹھے رہتے ہیں، ہاں ساس نندوں کے رات دن کے طعنے بے شک غضب کا سامنا ہے، سو حسن آرا اور جمال آرا طعن و تشنیع کا تو کیا ذکر، محمودہ کے پاؤں دھو دھوکر پیا کریں گی۔ ایسا بھی کیا اندھیر ہے، کیا بیاہ ہونے کے ساتھ آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لیں گی۔حسن آرا کو جیسی محبت محمودہ کے ساتھ ہے، آپ تو دیکھتی ہیں۔ رہیں جمال آرا سو دل کی خدا جانے، ظاہر میں جب ملتی ہیں، بچھی جاتی ہیں۔ میں بھی تو آخر جیتی بیٹھی ہوں۔ محمودہ کو بری طرح رکھیں گی تو مجھ کو کیا منھ دکھائیں گی اور سوبات کی ایک بات تو میں یہ جانتی ہوں کہ ساس نندیں بھی ہوا کو دیکھا کرتی ہیں۔ لڑکے کو ریجھا ہوا دیکھیں گی تو کسی کی مجال نہیں کہ محمودہ کو آنکھ بھر کر دیکھ لے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’آخر تمھاری مرضی کیا ہے، شربت کے پیالے پر نکاح پڑھا دوں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’یہ تو میرا مطلب نہیں اور نہوت میں شربت بھی نہیں جڑتا تو کیا بیٹا بیٹی کے کام کاج نہیں کرتے۔ دینا دلانا بھی ایک دنیا جہاں کی رسم ہے، جتنی چادر دیکھے اتنے پاؤں پھیلائے، مقدور موافق جو بن پڑا دیا، نہ بن پڑا نہ دیا۔ نام نمود کے پیچھے گھر کا دیوالہ نکال بیٹھنا بھی عقل کی بات نہیں۔ میرے مکتب میں سلمیٰ لڑکی پڑھتی ہے، اس کے ابّا کو غدر کے پیچھے سرکار سے دس ہزار روپیہ انعام کا ملا تھا، کسی میم کی جان بچائی تھی۔ دس ہزار روپیہ ان کو اتنا تھا کہ عمر بھر آبرو سے رہتے۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی بیاہنے کو اٹھے۔ شیخی میں آکر دس ہزار سرکار کا دیا ہوا اٹھا بیٹھے اور ہزار پانچ سو اوپر سے قرض لے کر لگا دیا۔ اُس وقت تو خوب ہر طرف سے واہ واہ ہوئی، اب گھر میں اس قدر تنگی ہے کہ کھانے تک حیران ہیں۔ بیاہ میں مجھ کو بھی بلاوا آیا تھا۔ سامان دیکھ کر میرے تو ہوش اُڑ گئے بلکہ شاید سلمیٰ کی اماں نے جی میں برا مانا ہو۔ میں نے تو کہہ دیا تھا کہ بوا بیٹا بیٹی کا دینا آنکھوں سکھ کلیجے ٹھنڈک، گھی کہاں گیا کھچڑی میں مگر اپنی ہنڈیا کی خیر منانی بھی ضرور ہے۔‘‘
کہنے کو تو میں اتنا کہہ گزری مگر پیچھے مجھ کو پچھتاوا بھی آیا کہ سلمیٰ کی بہن سمجھی ہوگی کہ ’’اُستانی جی لینا ایک نہ دینا دو، ناحق بھانجی مارتی ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’ہاں سچ ہے مگر کمبخت دنیا میں رہنا ہے، کیا کریں، کہاں جائیں، ہو یا نہ ہو، کرنا ہی پڑتا ہے۔ دنیا کی سی نہ کریں تو نکّو کون بنے، انگشت نما کون ہو۔‘‘
میں نے مولوی اسحاق صاحب کے درس میں سنا تھا کہ ’’اگلے وقتوں میں عرب کے لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے تھے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اماں جان دور کیوں جاؤ، ہمارے ملک میں راجپوت بھی تو یہی غضب کرتے تھے، اب انگریزوں کی روک ٹوک سے بندی ہوئی ہے۔ اس پر بھی کئی دفعہ بھنک سن پڑی ہے کہ چوری چھپے خون ہوئے۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا ’’عقل کیا کرے، غیرت نہیں قبول کرتی۔‘‘
اصغری بولی ’’غریبی میں غیرت کی کیا بات ہے، دنیا میں غریب لوگ زیادہ ہیں۔ اگر غریب ہونا غیرت کی بات ہے تو دنیا میں بے عزت بہت ہیں۔ امیری غریبی سب اپنی اپنی قسمت ہے، سب یکساں کیوں کر ہوجائیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولی ’’اَے ہے بلاسے شادی بیاہ میں بہت خرچ کرنے کی تو کچھ انگریزی سرکار سے مناہی ہوجاتی تو جھگڑا مٹتا۔‘‘
اصغری ’’اخبار سے تو معلوم ہوتا ہے کہ انگریز لوگ کچھ بندوبست کرنے والے ہیں۔ ہمارے شہر کے رئیس بھی تو سب بلائے گئے تھے اور سنا ہے کہ خرچ کی ایک حد باندھی گئی ہے۔ مہر کا اندازہ مقرر ہوا ہے، مگر یہ کام ہم لوگوں کے کرنے کے ہیں، سب ایکا کرکے جتنے خرچ فضول ہیں، موقوف کریں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’خرچ کے فضول ہونے کی جو تم نے کہی تو جس کو خدا نے دیا ہے کچھ فضول نہیں۔ ہاں جس کے پلے کوڑی نہیں اُس کو تو سبھی فضول ہے۔‘‘
اصغری ’’یہ نہ فرمائیے شادی بیاہ میں تو واجبی خرچ کم ہے، فضول باتوں میں بہت روپیہ اٹھ جاتا ہے۔ ہمارے خاندان میں تو ناچ تماشا، باجا گاجا، آتش بازی، نوبت نقارہ، کچھ ہوتا ہواتا نہیں مگر جن کے یہاں ہوتا ہے اسی میں سیکڑوں ہزاروں پر پانی پھر جاتا ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’ناچ تماشا جن کے یہاں ہوتا ہو وہ جانیں، بھلا ہمارے یہاں کون خرچ فضول ہے۔‘‘
اصغری ’’کیوں نہیں منگنی، تیج تیوہار، ساچق، مہندی ،برات، بہوڑا، چوتھی، چالے بہت بھاری بھاری جوڑے، جڑاؤ گہنا سبھی فضول ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’تو سیدھی یہی ایک بات کیوں نہیں کہتیں کہ سرے سے بیاہ ہی فضول ہے۔‘‘
اصغری ہنسنے لگی اور کہا کہ ’’بیاہ تو فضول نہیں مگر اُس کے لازمے البتہ ناحق کے ڈھکوسلے ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’بھلا رسمیں تو رسمیں تم تو کپڑوں اور زیور کو بھی فضول بتاتی ہو۔‘‘
اصغری ’’نرے کپڑے اور نرا زیور توکام کی چیز ہے، مگر بھاری بھاری جوڑے۔ آپ ہی انصاف فرمائیے کہ کس کام آتے ہیں۔ خود میرے جوڑے پڑے گلتے ہیں، گھر میں پہننے سے کمبخت دل کُڑھتا ہے۔ کبھی کبھار شادی بیاہ میں پہن گئے یا عید بقرعید کو ذرا کی ذرا نکلے، باقی بارہ مہینے گٹھری میں بندھے رکھے ہیں۔ آئے دن دھوپ دینا مفت کا درد سر اور جو بیچنے اٹھو تو مال کا مول نہیں ملتا۔ مصالح کے دام تک بھی نہیں کھڑے ہوتے اور یہی حال جڑاؤ زیور کا ہے۔ مولوی کفایت اللہ کی بیٹی کا بیاہ آپ نے سنا ہے، پس ایسے بیاہ مجھ کو پسند ہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’کون مولوی کفایت اللہ؟‘‘
اصغری ’’لڑکیوں کے مدرسوں کے افسر۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’وہ تو شاید شہر کے رہنے والے نہیں ہیں۔‘‘
اصغری ’’نہیں آگرے کی طرف کے رہنے والے ہیں۔ بیوی بچوں کو اپنے پاس بلالیا ہے، بیٹی کی منگنی اسی شہر میں کی تھی۔ بیوی کی مرضی یہ تھی کہ اپنے شہر میں جاکر بیٹی کا بیاہ کریں۔ یہاں سے بارات جائے۔ مولوی صاحب نے بیوی کو سمجھا بجھاکر راضی کرلیا۔ ایک دن دوچار میل ملاپ والو ں کو بلا بھیجا، مہمان جو گھر میں پہنچے تو سنا کہ بیٹی کا نکاح ہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد سمدھی لڑکے کو ساتھ لے آموجود ہوئے۔ شرع محمدی نکاح پڑھا دیا، اللہ اللہ خیر صلاح۔ دان جہیز جم ہی جم دیا نکاح کے بعد پانچ سو روپیے نقد مولوی صاحب نے بیٹی داماد کے آگے لاکر رکھ دیے اور کہا کہ بس بھائی میری کمائی میں تمھاری تقدیر کا اسی قدر تھا، اگر میں چاہتا تو اس میں مہمانداری بھی کردیتا اور دنیا کے دستور موافق ایک دو بھاری جوڑے بھی بنالیتا مگر میں نے سوچا تو یہی مناسب معلوم ہوا کہ نقد روپیہ تم کو دینا بہتر ہے، اب تم جس طرح چاہو اس کو کام میں لاؤ۔‘‘
محمد کامل کی ماں سن کر بولیں کہ ’’ہاں پردیس میں مولوی صاحب جو چاہتے سو کرتے، کہنے سننے والا کون تھا۔‘‘
اصغری ’’کیوں کہنے سننے والی گھر والی بیوی اور پردیس پر کیا موقوف ہے، ہمت چاہیے۔ کرنے والا ہو تو شہر میں بھی کرگزرے۔ کہنے والوں کو بکنے دیا، اپنے کام سے کام۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’کیا تم نے محمودہ کا اسی طرح کا اونگھتا اُداس نکاح تجویز کیا ہے۔‘‘
اصغری ’’بے شک میں تو لوگوں کے کہنے سننے کی کچھ پروا نہیں کرتی۔ میرا بس چلے تو محمودہ کا نکاح کفایت اللہ کی بیٹی کا جواب ہو۔ انھو ں نے دوچار مہمان بھی بلائے تھے اور میرے نزدیک اس کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’نہ بوا خدا کے لیے ایسا غضب تو مت کرو، اس بڑھوتی میں میری تو یہی ایک بچی بیاہنے کو ہے، اب کیا میں قبر سے کسی کا بیاہ برات کرنے پھر آؤں گی۔‘‘
اصغری ’’نہیں۔ ایسا تو میرا بھی ارادہ نہیں ہے، مگر البتہ یہ بات ضرور میں نے اپنے دل میں ٹھان رکھی ہے کہ نہ تو ایک پیسا قرض کا لیا جائے اور نہ کوئی جائداد گروی رکھی جائے، جو کچھ جوڑا بٹورا اس کے نام کا رکھا ہے اور جو کچھ اس کی تقدیر ہے عین وقت پر ہوجائے، بس کافی ہے۔‘‘
محمد کامل کی ماں ’’سبحان اللہ! ایسا ہو تو کیا بات ہے مگر جب دوسری طرف والے بھی حامی بھریں۔‘‘
اصغری نے کہا ’’اور اگر وہ راضی ہوجائیں۔‘‘
محمد کامل کی ماں بولی ’’ان کا راضی ہونا کیا ہنسی ٹھٹا ہے۔ اللہ آمین کا ایک تو بیٹا، نہیں معلوم کیا کیا حوصلے ان کے دلوں میں ہیں۔ وہ تو برابر کی ٹکر کا گھر دیکھ کر بات کریں گے اور سب ارمان نکالیں گے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’جب سے میں سیالکوٹ سے آئی ہوں اس بات کی تدبیر کررہی ہوں۔ اُدھر سب ٹھیک ٹھاک ہوگیا ہے۔ ابھی جمال آرا اور حسن آرا بھاگی ہوئی آئی تھیں، چھوٹے حکیم صاحب کو بھی منظور ہے۔ شاہ زمانی بیگم نے اپنی بیٹی کے واسطے بہت بہت تدبیریں کیں، خدا کے فضل سے کوئی کارگر نہ ہوئی۔ اب دیر نہیں کرنی چاہیے۔ پرسوں دن بھی اچھا ہے۔ اُدھر سے مٹھائی آجائے، بات پکی ہوجائے۔ پھر بیاہ کو دیکھا جائے گا۔‘‘
محمد عاقل کی ما ںیہ سن کر حیران رہ گئیں او رکہا کہ ’’بات تو بہت اچھی ہے، ہماری لیاقت سے کہیں زیادہ ہے لیکن ان کے لائق سامان ہم سے ہونا مشکل ہے۔‘‘
اصغری نے کہا ’’خدا مسبب الاسباب ہے۔ جب محمودہ کی تقدیر ایسے اونچے گھر میں لڑی ہے تو خدا اپنی قدرت سے وقت پر کچھ سامان بھی کردے گا۔‘‘
محمد کامل کی ماں نے کہا’’اپنے سسرے کو آنے دو، مٹھائی کے واسطے ان سے پوچھ دوں۔‘‘
تھوڑی دیر میں مولوی صاحب آئے اورمنگنی کا حال سن کر بہت خوش ہوئے او رکہا کہ ’’بے تامل پرسوں مٹھائی آئے۔‘‘
اصغری نے حسن آرا کو کہلا بھیجا، روز مقررہ پر پانچ من مٹھائی اور سو روپیے آگئے۔ سَوا من مٹھائی اور سوا سو روپیہ گیا۔ ہر طرف سے مبارک سلامت ہوگئی۔

باب بتیسواں: محمودہ کا بیاہ

منگنی کا ہونا تھا کہ چھوٹے حکیم صاحب نے بیاہ کا تقاضا شروع کیا اور مولوی صاحب سے کہلا بھیجا کہ ’’مدت سے میرا ارادہ حج کو جانے کا ہے اور صرف اسی بات کا انتظار ہے۔ زندگی کا اعتمادنہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ رجب کے مہینے میں عقد ہوجائے۔‘‘
مولوی صاحب نے اصغری سے پوچھا۔ اصغری نے کہا ’’بالفعل یہ کہلا بھیجنا چاہیے کہ ہم فکر میں ہیں، جہاں تک ہوسکتا ہے تدبیر کرتے ہیں۔ سامان مختصر جو دینا منظور ہے اگر اس عرصے میں جمع ہوا جاتا ہے تو ہم کو بھی یہ فرض آخر ادا کرنا ہے جس قدر جلد ہو بہتر۔‘‘
حکیم صاحب نے پھر کہلا بھیجا کہ ’’میں نے جہیز اور سامان کی امید سے آپ کے یہاں رشتہ نہیں کیا، مجھ کو لڑکی چاہیے آپ سامان کی فکر کچھ نہ کیجیے۔‘‘
ادھر سے جواب گیا کہ ’’بہت خوب ہم کو بھی رجب میں عقد کردینا منظور ہے۔‘‘
ستائیس تاریخ رجب کی مقرر ہوئی اور دونوں طرف سامان ہونے لگے۔ سامان کا شروع ہوتا تھا کہ مولوی صاحب کو فکر پیدا ہوا۔ کبھی کہتے تھے ہزاری مل سے قرض لوں، کبھی سوچتے گھی کا کٹڑا بیچ ڈالوں یا گروی رکھ دوں۔ اصغری نے مولوی صاحب کو پریشان دیکھ کر پوچھا "آپ نے کیا تدبیر کی ہے؟"
مولوی صاحب نے کہا "کیا بتاؤں۔ شادی کی تاریخ سر پر چلی آتی ہے اور روپے کی صورت کہیں سے بن نہیں پڑتی۔ ہزاری مل سے میں نے روپیہ مانگا تھا۔ وہ بھی ٹال گیا۔ گھی کے کٹڑے کو جدا کر دینے کا ارادہ کیا تھا۔ کوئی خریدار نہیں کھڑا ہوتا۔"
اصغری نے کہا "ہرگز ہرگز آپ قرض نہ لیجیے اور نہ جائیداد فروخت کیجیے۔ قرض سے بد تر کوئی چیز نہیں اور جائیداد کا جدا ہونا کیا مشکل ہے۔ لیکن اس کا بہم پہنچنا بہت دشوار ہوتا ہے۔"
مولوی صاحب: "قرض تو لوں نہیں اور جائیداد کو جدا نہ کروں تو کیا میں کیمیا گر ہوں یا دستِ غیب جانتا ہوں؟ روپیہ کہاں سے آئے؟"
اصغری : پہلے گھر کا حساب دیکھ لیجیے۔ کپڑے تو کچھ پہلے سے تیار ہیں۔ صرف تھوڑا سا مصالح درکا ہو گا۔ سو میرے جوڑوں میں بعضے بہت بھاری ہیں۔ ان میں سے کم کر کے اتنا مصالح نکل آئے گا کہ محمودہ کے جوڑوں کو کافی ہو جائے گا۔ برتن بھی موجود ہیں۔ کوئی مول لینا نہیں۔ کاٹ، کباڑ، سامان بالائی یہ سب میں اپنا دے دوں گی۔ بے فائدہ پڑا پڑا خراب ہوتا ہے اور میرے کسی مصرف کا نہیں۔ اور آخر آپ کے پاس بھی کچھ روپیہ نقد ہو گا۔"
مولوی صاحب: "صرف پانچ سو روپیہ ہے۔"
اصغری : "بس بہت ہے۔ جب میں سیالکوٹ جانے لگی، کتب کی رقم چار سو روپے تھی۔ وہ امانت رکھی ہے۔ میرے پیچھے دو سو روپے اور ہوا۔ سو آدھا آپا کا حق ہے اور سو روپیہ محمودہ کا یہ ملا کر مکتب کی رقم کے پان سو ہو جائیں گے۔ محمودہ کے چھوٹے بھائی کو میں نے خط لکھا ہے اس طور پر ڈیڑھ ہزار روپے نقد اس وقت موجود ہے۔ ہزار کے کڑے جو حسن آرا کے بیاہ میں مجھ کو ملے تھے میرے کس کام کے ہیں۔ میرا ارادہ تھا کہ محمودہ کو چڑھا دوں۔ لیکن پھر غور کیا تو اس گھر کے کڑے اسی گھر میں جانے مناسب معلوم نہیں ہوتے۔ میں ان کو بیچ ڈالوں گی۔ وہ تماشا خانم کی معرفت بازار میں بھیجئ تھے۔ پنا مل تیرہ سو روپیہ دیتا تھا۔ محمودہ کی تقدیر سے اگر کوئی حاجت مند مل گیا تو انشاء اللہ پندرہ سو روپے مل جائیں گئے۔ اور ایک تدبیر یہ ذہن میں آتی ہے کہ آپ بھائی جان کے لانے کو لاہور جائیے اور رئیس پر رخصت کی تقریب میں یہ بات ظاہر کر دیجیے۔ رئیس بڑا سیر چشم ہے۔ امید ہے ضرور کچھ مدد کرے گا۔ ہمیشہ سے ہندوستانی سرکاروں کا دستور رہا ہے کہ ایسی تقریبات میں اپنے معتد نوکریوں کی اعانت کی ہے۔"
غرض اصغری نے سسرے کو لاہور بھیجا۔ مولوی صاحب رئیس صاحب کے سلام کو جو گئے تو رئیس نے پوچھا "مولوی صاحب کیوں کر تشریف لائے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ بندہ زادی کا عقد ہے۔ اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ محمد عاقل کو ایک مہینہ کی رخصت مرحمت ہو۔ اور یہ تو عرض نہیں کر سکتا کہ حضور کے خاندان سے کوئی شریک ہو لیکن اگر دیوان صاحب جو دہلی میں ہیں، سرکار کی طرف سے زینت دہ محفل ہوں تو ہم چشموں میں میرے لیے افزائش آبرو کا باعث ہو گا۔
رئیس نے محمد عاقل کی رخصت بھی منظور کی اور مولوی صاحب کو آنے جانے کا خرچہ بھی دیا اور دیوان صاحب کو حکم بھیج دیا کہ ہماری طرف سے مولوی صاحب کی محفل میں شریک ہونا اور پان سو روپے نیوتے کا دینا۔ اصغری کی صلاح سے بیٹھے بٹھائے یہ پان سو روپے مفت کے آ گئے۔ اور جڑاؤ کڑے تماشا خانم کی معرفت نواب حاتم زمانی بیگم تک پہنچے دیکھ کر لوٹ ہو گئی اور آنکھ بند کر کے دو توڑے حوالے کیے۔ اب تو روپے کی ہر طرف سے ریل پیل ہو گئی۔ اصغری کا اہتمام۔ عمدہ سے عمدہ جوڑے تیار ہوئے اور چوہرا زیور بنا۔ وہ شادی ہوئی کہ مولوی صاحب کی تو کئی پشتوں میں نہ ہوتی تھی۔ سمدھیانے والے بھی سامان دیکھ کر دنگ ہو گئے۔ جو سامان تھا متعدد اور بیش قیمت اور جو چیز تھی نئے طور کی۔ دو جوڑے تو بیٹے والوں کی طرف سے آئے۔ ایک ریت کے واسطے کرکری تاش کا۔ دوسرا چوتھی کے واسطے کار چوبی کا۔ اور گہنے جہیز اور چڑھاوے کے ملا کر تو بے انتہا تھے۔ ناک میں نتھ اور کیل۔ ماتھے کو ٹیکا، جھومر، بنیا، کانوں میں بالی، پتے جڑاؤ اور سارے چھپکے کے بالے، کان کے جھالے، مگر، مرکیاں، بجلیاں، کرن پھول، جھمکے، گلے میں گلو بند، طوق، چمپا کلی، کنٹھی، توڑا، رھگدگی، چندن ہار، زنجیر مالا، بازو، پرجوشن، نورتن، بھوج بند، نونگے، ہاتھوں میں کڑے، نوگیریاں، چوہے دتیاں، لچھے، دست بند انگلیوں میں انگوٹھی، چھلے جوڑ، پاؤں میں پازیب، چوڑیاں، چٹکی، چھلے، کار چوبی، جال دار، مصالح دار سب ملا کر پچاس جوڑے، دو سو برتن اور اسی حیثیت کا بالائی سامان۔ غرض بڑی دھوم دھام سے عقد ہو گیا۔
محمودہ رخصت ہوئیں۔ قمر آستانی بیگم سسرال سے خطاب ملا۔ حکیم فتح اللہ خاں بڑے متقی پرہیز گار باخدا آدمی تھے۔ مدتوں سے حج کا ارادہ کر رہے تھے۔ لیکن صرف ارجمند خاں کے بیاہ کے منتظر تھے۔ اب بیاہ ہونے کے بعد چند روز تک بہو کا رنگ ڈھنگ دیکھتے رہے۔ میاں دیکھنے کی کیا حاجت تھی۔ محمودہ تو بی اصغری کی نگرانی میں تربیت پائی تھی۔ کسی طرح کی کور کسر اس میں باقی نہ تھی۔ حکیم صاحب نے جس قدر آزمایا بہو کو ہنر مند عاقلہ، سلیقہ شعار پایا۔ کچھ تو خربوزہ میٹھا اور کچھ اوپر سے ملا قند۔ اول تو محمودہ اپنی ذات سے اچھی اور اس پر اصغری کی تعلیم کی صلاح۔ بھلا پھر کیا پوچھنا تھا۔ غرض حکیم صاحب کو خوب یقین ہو گیا کہ قمر آستانی اچھی خاصی طرح گھر کو سنبھال لیں گی۔ اب حکیم صاحب نے یکایک زور شور کے ساتھ عرب جانے کی تیاریاں کرنی شروع کیں۔ یا تو حج کی نیت تھی یا ہجرت کا ارادہ کر لیا۔ نقد کی قسم سے جو کچھ تھا اپنے ساتھ لیا۔ مکانات، دکانیں، کپڑے، گنج، دیہات، سرائیں سب کچھ بیٹے کے نام لکھ رہا۔ رشتے ناطے کے لوگوں نے جیسا دستور ہے سمجھایا بھی لیکن حکیم صاحب کو تو خدا کی دھن تھی۔ ایک نہ سنی۔ خدا کا نام لے چل کھڑے ہوئے اور دنیا بھر کی جائدار بیٹے بہو کو دے گئے۔
محمودہ اگرچہ بیاہی جا چکی تھی لیکن پھر بھی اصغری کا ادب لحاظ پہلے سے زیادہ کرتی تھی۔ ذرا ذرا بات میں اصغری سے صلاح لیتی۔ اب البتہ اصغری کو اپنی عقل آزمانے کا موقع ملا۔ بڑا کارخانہ، بڑے کام، وہ وہ انتظام کیے کہ ارجمند خاں کو خدا جھوٹ نہ بلوائے وقت کا بادشاہ، وزیر بنا دیا۔ کوئی سرکار اس کے مقابلے کی دہلی کیا دور دور نہ تھی۔ ابھی تک تو اصغری مفلسی میں تھی۔ از دست بستہ چہ خیر و از پائے شکستہ چہ سیر۔ لیکن اب خدا رکھے دولت ثروت نصیب ہوئی۔ انتظام کا قابو، بندوبست کا موقع من مانا ملا۔ ان حالات میں جو جو کام اس عورت نے کیے اللہ چاہے تو قیامت تک زمانے میں یادگار رہیں گے۔ مگر افسوس ہے کہ ان کے لکھنے کی فرصت نہیں۔ پھر بھی اگر نصیحت ماننے والا اور بات کا سننے اور سمجھنے والا ہو تو جس قدر لکھا جا چکا کم نہیں۔ ہر طرح کی صلاح، ہر قسم کی تعلیم اس میں موجود ہے۔ کہنے کو قصہ اور حکایت ہے لیکن حقیقت میں نصیحت اور ہدایت۔

باب تینتیسواں: اولاد کے تعلق پر ایک عمدہ نصیحت

اب اس کتاب کو ختم کرنے سے پہلے ایک بات اور لکھنی ضرور ہے۔ وہ یہ کہ اصغری بہت چھوٹی سی عمر میں ماں بن گئی تھی۔ ابھی تک کچھ اس کی اولاد کا تذکرہ نہیں ہوا۔ اصغری کے بچے تو بہت ہوئے لیکن خدا کی قدرت زندہ کم رہے۔ صرف ایک لڑکا محمد اکمل خواجہ جو اخیر میں محمودہ کی بیٹی مسعودہ سے بیاہا گیا زندہ رہا۔ یہ لڑکا کئی بچوں کے اوپر پیدا ہوا۔ اس سے پہلے محمد عادل ایک بیٹا اور بتول ایک لڑکی مر چکے تھے۔ بچوں کی پرورش میں احتیاط تو بہتیری ہوتی ہے۔ سردی گرمی کا بچاؤ۔ کھانے تک کا وقت بندھا۔ اندازہ اور خبرداری یہ کہ ثقیل اور ردی چیز کہیں منہ میں نہ ڈال لیں۔ دانت نکلنے شروع ہوئے اور مسوڑوں میں نشتر دیا گیا کہ ایسا نہ ہو دانتوں کی تکلیف کو بچہ سہار نہ سکے۔ چار برس کے ہوئے اور چیچک کے بچاؤ کی نظر سے ٹیکا لگوا دیا گیا۔ جہاں تک آدمی کی عقل کام کرتی ہے، سب طور کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ لیکن تقدیر کے آگے کسی کی حکمت نہیں چلتی۔ محمد عادل چار برس کا ہو کر مرا۔ پیچش ہوئی۔ دست بند کرنے کی دوا دی۔ بخار آنے لگا۔ سرسام ہو گیا۔ پلا پایا لڑکا ہاتھ سے جاتا رہا۔
ابھی اس کا داغ تازہ تھا کہ بتول سات برس کی ہو کر بیمار پڑی۔ کچھ ایسے بلا کے دست چھوٹے کے جان لے کر بند ہوئے۔ دنیا جہاں کی دوائیں۔ لیکن موت کب مانتی ہے دوا کو۔ ایک ہی ہفتے میں لڑکی تحلیل ہو کر چلی گئی۔ بتول کے مرنے کا اصغری پر بہت بڑا صدمہ ہوا۔ اول تو لڑکی، دوسرے کچھ مرنے والی تھی یا کیا اسی ماں پر فریفتہ تھی کہ ایک دم الگ نہ ہوتی تھی۔ ماں نماز پڑھتی ہے تو جائے نماز پر بیٹھی ہے۔ ساتھ سونا، ساتھ اٹھنا، ماں کی دوا تک کو چکھ لینا ضرور۔ اور اس چھوٹی سی عمر میں بس پڑھنے میں دھیان، قرآن کا ترجمہ شروع تھا۔ جب محمد عادل مرا تو عورتوں نے اصغری کے ایمان میں خلل ڈالنا شروع کیا تھا۔ کوئی کہتی کوکھ کا خلل ہے، قہر علی شاہ کا علاج کرو۔ کوئی کہتی دودھ پر نظر ہے، چوراہے میں اتار رکھواؤ۔ کوئی کہتی مسان کا دکھ ہے، رمضان شاہ سے گڑانت کراؤ۔ کوئی کہتی مکان اچھا نہیں، میر علیم سے کلواؤ۔ کوئی کہتی سفر میں آئی گئی ہو کوئی چڑیل لپٹ گئی ہے۔ کچھوچھے چلو۔ گنڈے اور تعویز، عمل، ٹونے اور ٹوٹکے تو دنیا جان کے لوگ بتاتے تھے۔ لیکن واہ ری اصغری! یوں اوپر تلے دو بچے مرے لیکن سدا خدا پر شاکر رہی۔ کسی نے کچھ کہا بھی تو یہی جواب دیا "خدا کو جب منظور ہو گا تو یوں بھی فضل کر سکتا ہے۔ بتول کے مرنے کی خبر جب دور اندیش خاں صاحب کو ہوئی تو بہت مضطرب ہوئے اور اس اضطراب میں بیٹی کے نام یہ خط لکھا۔

باب چونتیس واں: خط

برخورداری اصغری خانم کو دعا کے بعد معلوم ہو کہ اس وقت دہلی کے خط سے مجھ کو بتول کے انتقال کا حال معلوم ہوا۔ میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مجھ کو رنج نہیں ہوا۔ مگر میری عقل اس قدر بے جا نہیں ہوئی کہ نادان آدمیوں کی طرح بے صبری کروں۔ مجھ کو بڑا تردد تمہارا ہے۔ عجب نہیں تم پر یہ صدمہ بہت شاق ہوا ہو۔ لیکن ہر حالت میں انسان کو عقل سے مشورہ لینا چاہیے۔ عقل ہم کو اسی واسطے بخشی گئی ہے کہ رنج ہو یا خوشی، ہم اپنی عقل سے اس میں مدد لیں۔ دنیا کے حال پر غور کرنا نہایت ضرور ہے اور یہ غور فائدے سے خالی نہیں۔ امین، آسمان، پہاڑ، جنگل، دریا، انسان، حیوان، درخت لاکھوں طرح کی چیزیں دنیا میں ہیں اور دنیا کا ایک بڑا بھاری کارخانہ ہے۔ دن میں ایک معمول کے ساتھ آفتاب کا نکلنا، پھر رات کا ہونا اور چان ستاروں کا چمکنا۔ کبھی گرمی، کبھی سردی، کبھی برسات، اور پانی کے اثر سے انواع و اقسام کے رنگ برنگ پھلوں اور پھولوں کا پیدا ہونا اور ایک وقت خاص تک تازہ و شاداب رہ کر مرجھانا اور ناپید ہو جانا ہر ایک بات غور کرنے والے کو برسوں سوچنے کو کافی ہے۔ خود آدمی کا اپنا حال غور کرنے کو کیا کم ہے۔ کیونکہ آدمی پیدا ہوتا اور کیوں کر پرورش پاتا اور بڑا ہوتا اور کیوں کر لڑکپن اور جوانی اور بڑھاپے کی حالتیں اس پر گزرتی ہیں اور کیوں کر آخر اس دنیا سے سفر کر جاتا ہے۔ یہ بڑا عمدہ اور دلچسپ اور مشکل مضمون ہے۔ یہ سب کارخانہ کسی مصلحت سے خدا نے جاری کر رکھا ہے اور جس تک وہ چاہے گا، اسی طرح یہ کارخانہ جاری رہے گا۔
دنیا کی مردم شماری سے ثابت ہوا ہے کہ ایک گھنٹے میں ساڑھے تین ہزار آدمی کے قریب دنیا میں مرتے ہیں۔ یعنی ہر ایک پل میں ایک آدمی، اور اسی قدر پیدا بھی ہوتے ہوں گے۔ اب حساب کر لو کہ ایک مہینے میں کئی لاکھ آدمی دنیا میں مرتے اور پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھر غور کرو کہ سات ہزار برس سے یہی تار چلا آتا ہے۔ بڑے بڑے زبردست بادشاہ، بڑے بڑے عالم، بڑے بڑے حکیم یہاں تک کہ بڑے بڑے پیغمبر جنہوں نے مردوں کو زندی کیا، خود موت سے نہ بچ سکے۔ دنیا میں جو پیدا ہوا ہے، یہ خدا کا ضروری حکم ہے کہ وہ ایک دن مرے۔ پس اگر یہ حکم کسی دن ہم پر یا ہمارے کسی عزیز یا قریب پر جاری کیا جائے تو ہم کو شکایت اور فریاد کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ مضمون سرسری نہیں ہے۔ اس کو خوب غور کرو اور جب تم کو موت کی حقیقت معلوم ہو جائے گی تو سمجھو گی کہ کسی کے مرنے پر رنج کرنے تعلق پر موقوف ہے۔ اگر ہم سنیں کہ مثلاً ملک چین کا بادشاہ مر گیا، ہم پر اس خبر کا مطلق اثر نہیں ہوتا۔ اس واسطے کہ ہم کوا س سے کچھ تعلق نہ تھا۔بلکہ محلے میں اگر کوئی غیر آدمی مر جائے جس سے کسی قسم کا واسطہ نہیں تو ہم کو بہت کم رنج ہو گا۔ بلکہ شاید نہ بھی ہو، غرض ہم کو رنج اس شخص کے مرنے کا ہوتا ہے جس سے ہم کو تعلق ہے اور جتنا تعلق قوی اس قدر رنگ زیادہ، نانی کی بھتیجی خالہ کی بہو کی پھوپھی کی بھانجی اگر مرے تو کیا؟ دور کا واسطہ، دور کا رشتہ، بلکہ رشتے ناطے پر کیا موقوف ہے۔ محبت ملاپ میں بھی رنج ہوتا ہے۔ اب سوچنا چاہیے کہ ہم کو کس سے زیادہ تعلق ہے۔ اس کے واسطے کوئی قاعدہ مقرر نہیں۔ قریب کا رشتہ ہو اور سدا کی لڑائیاں، ہمیشہ کے بگاڑ، تو ایسے رشتے دار غیر داخل۔ لیکن غیر سے رشتہ نہیں، قرابت نہیں لیکن محبت ملاپ بہت کچھ تو وہ رشتے داروں سے بڑھ کر ہے۔ پس ہر ایک شخص موافق اپنے حالات کے خاص تعلق رکھتا ہے۔ یہ دنیاوی تعلقات سب فائدے اور غرض سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اپنا سگا ہمارے فائدے میں خلل انداز ہو، ضرور ہے کہ ہم سے چھوٹ جائے۔ اسی طرح اگر غیر آدمی ہمارے کام آئے، ضرور ہے کہ ہم کو مثل اپنوں کے عزیز ہو۔ لیکن وہ فائدہ جس سے تعلق پیدا ہوتا ہے۔ ضرور نہیں کہ صرف روپے پیسے کا ہو، اگرچہ اکثر اسی قسم کا ہوتا ہے۔ کبھی امید اور توقع سے بھی تعلق پیدا ہوتا ہے۔ بہت لوگ ہمارے دوست ہیں جو ہم کو کچھ دے نہیں دیتے، لیکن یہ توقع کہ اگر کبھی ہم کو کسی طرح کی ضرورت ہو تو یہ کام آنے والے ہیں، تعلق کے پیدا ہوانے کی وجہ ہوتی ہے۔میں اس بحث کو بہت طول دے سکتا ہوں اور جس قدر اس بحث کو طول دیا جائے مناسب ہے۔ لیکن اصل مطلب میرا اس خط میں صرف اولاد کے تعلق سے بحث کرنا ہےاور اگر فرصت ملے گی تو ان شاء اللہ اس تعلق پر ایک کتاب لکھ کر تم کو بھیج دوں گا۔
یہ تعلق جو اولاد سے ہے، عام ہے۔ کوئی ماں باپ بلکہ کوئی جانور تک اس سے خالی نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف فائدے اور غرض پر اس کی بنا نہیں بلکہ خداوند عالم جو بڑا دانشمند ہے، اس کا انتظام چاہتا ہے کہ ضرور ماں باپ کو اپنی اولاد سے محبت ہو۔ اولد چند سال تک محتاج پرورش ہوتی ہے تاکہ اس کی پرورش اچھی طرح ہو۔ ماں باپ کو اولاد کی محبت لگا دی کہ اس محبت کے تقاضے سے بچوں کو پالیں اور بڑا کریں۔ یہاں تک کہ بڑی ہو کر خود دنیا میں رہنے سہنے لگیں۔ یعنی ماں باپ پرورش اولاد کے واسطے ان کے خدمت گزار رہیں۔ پس اولاد کا پال دینا صرف اتنا تعلق تو خدا کی طرف سے ماں باپ کو دیا گیا۔ باقی یہ بکھیڑے کہ اب اولاد کی تمنا ہے، نہیں ہے تو دوا ہے اور علاج ہے، تعویز گنڈا ہے، عمل ہے اور دعا ہے، یا اولاد ہوئی تو یہ فکر ہے کہ بیٹے ہوں، بیٹیاں نہ ہوں یا جو ہوں، زندہ رہیں، یہ خود انسان کی اپنی ہوس طمع کے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اولاد کی تمنا جو خدا کی مرضی سے زیادہ اپنے دل میں پیدا کی کس وجہ سے ہوتی ہے؟ بے شک فائدے اور غرض کے واسطے ہوتی ہے۔ لیکن فائدے کئی قسم کے ہیں۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ اولاد سے نام چلتا ہے۔ بعض کو یہ خیال ہوتا ہے کہ بڑھاپے میں ہمارے مددگار ہوں گے۔ بعض کو یہ تصور ہوتا ہے کہ ہمارا مال دولت ہمارے بعد لیں گے۔ اب ان خیالات پر غور کرو۔ کس قدر بے ہودہ اور غلط ہیں۔ نام چلنا کیا معنی کہ لوگ یہ جانیں کے فلانے کے بیٹے، فلانے کے پوتے ہیں، اول تو جب ہم خود دنیا میں نہ رہے تو اگر کسی نے ہم کو جانا تو کیا، نہ جانا تو کیا۔ علاوہ اس کے غور کرو کہ کہاں تک نام چلتا ہے۔ کسی آدمی سے اس کے باپ دادوں کے پوچھو، شائد داد تک تو سب کوئی بتا سکے گا۔ اس سے اوپر خود کو نہیں معلوم کہ ہمارے پڑدادا اور سکڑدادا کون بزرگ تھے۔ دوسرے لوگوں کو ان کے مردوں کی ہڈیاں اکھاڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ پس بالفرض نام چلا بھی تو ایک یا دو پشت۔ آگے خیر صلاح۔ اور ایک یا دو پشت نام چلنا بھی صرف خیالی بات ہے۔ دس برس سے میں پہاڑ پر ہوں۔ ہزاروں آدمی مجھ کو جانتے ہیں اور ہزاروں کو میں جانتا ہوں۔ لیکن نہ وہ میرے باپ کو جانیں اور نہ میں ان کے باپوں سے واقف۔ نہ کچھ باپ کا نام بتانے یا پوچھنے کی کبھی ضرورت باقی ہوتی ہے۔
دوسری وجہ تمنائے اولاد سے یہ فائدہ ہے کہ بڑھاپے میں مدد گار ہوں۔ سو یہ بھی خیال واہیات ہے۔ یہ کیوں کر یقین ہے کہ ان کے بڑے ہونے تک یہ زندہ رہیں گے؟ اور بالفرض زندگی کا اتفاق ہوا بھی تو اولاد کا مددگار ہونا محض خیالی بات ہے۔ ان وقتوں میں ہم ایسی اولاد بہت کم پاتے ہیں جن کو ماں باپ کا ادب ملحوظ یا جن کو والدین کی خدمت گزاری کا خیال ہوتا ہے۔ ادب اور خدمت گزاری تو درکنار اب تو اکثر اولاد سے ماں باپ کو ایذا اور تکلیف پہنچتی ہے۔ جس اولد کی لوگ تمنا کرتے ہیں، شروع سے آخر تک ان کے ہاتھوں سے رنگ پاتے ہیں۔ جب تک چھوٹے ہیں، پالنا ایک مصیبت ہے۔ آج آنکھیں دکھتی ہیں، کبھی پسلی کا دک، کبھی دانت نکلتے ہیں، کبھی چیچک نکلی ہے۔ خدا خدا کر کے بڑے ہوئے تو ان کےکھانے، کپڑے کا فکر، آدمی نہیں معلوم کن حالات میں ہے۔ نوکر ہے یا نہیں۔ پیسہ پاس ہے یا نہیں۔ ان کو جہاں سے ہو سکے، دینا ضرور۔ ماں باپ کو افاقہ ہو تو ان کو کچھ نہ ہو تو بھی سودے سلف کے لیے کہیں نہ کہیں سے روز کے روز پیسہ دھیلہ دینا ہی پڑتا ہے۔ عید ہو، بقر عید ہو، تیوہار ہو، لاؤ بھاؤ، سودا کھانے کو چار ٹکے پیسے۔ یہاں تک بھی غنیمت ہے۔ اب ماں باپ چاہتے ہیں کہ لڑکا کام سیکھے، پڑھے اور لڑکا ایسا پاجی ہے کپ پڑھنے کے نام سے کوسوں بھاگتا ہے۔ جب تک مکتب کے چار لڑکے ٹانگ کر نہ لے جائیں، قسم ہے۔ اور اگر کسی طرح گیا بھی تو طفل بہ مکتب نمی رودد لے برندش۔ ذرا استاد کی آنکھ بچی کہیں چوراہے پر جا نکلے، کہیں نہر پر کھڑے بیڑیاں کھیلتے ہیں، کہیں بازاروں میں خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ اور ذرا بڑاے ہوئے تو ماں باپ کو جواب دینے لگے۔ بڑوں کی صحبت، بدمعاشوں کا ساتھ، نہ ناچ کا پرہیز ہے، نہ بری صحبت سے گریز، باپ دادوں کو بدنام کرتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح بعضے شاطر بدمعاش، چور، جواری، شراب خوار ہو جاتے ہیں۔
اب اولاد بیاہنے کے قابل ہوئی۔ تمام شہر چھان مارا۔ کہیں ڈھب کی بات نہیں ملتی۔ مشاطہ پاؤں توڑ توڑ کر دھمکی، میل ملاپ والے ہار کر بیٹھ رہے۔ کنبے کے لوگ ایک ایک سے کہہ چکے۔ کوئی ہامی نہیں بھرتا۔ ایک خرابی میں جان ہے۔ ماں بے چاری کہیں منتیں مانتی پھرتی ہے، کہیں کھڑی فال گوش لے رہی ہے۔ کہیں گڑیا کا بیاہ ہو رہا ہے۔ پانچوں وقت دعا ہے۔ الٰہی غیب سے کسی کو بھیج۔ خدا خدا کر کے نسبت ناتا ٹھہرا تو ایسی جگہ کہ ماں بے چاری کے پاس چاندی کا تار تک نہیں۔ سمدھیانے والے جھپکے کے بالے مانگتے ہیں۔ کسی طرح اپنے تئیں بیچ، بیاہ کیا، چڑیا کی جان گئی، کھانے والے کو مزا نہ آیا۔ جہیز ہے کہ پھنگا پھنکا پھرتا ہے۔ سمدھن کہتی ہے "اوئی! کیا دیا۔ ایسی ہو ہوت میں بیٹی جننی کیا ضرور تھی۔" کوئی خاطر تلے نہیں آتی۔ بات بات میں طعنہ ہے۔ داماد صاحب تشریف لائے تو ان کے دماغ نہیں ملتے۔ جب تک سسرے سے جوتیاں سیدھی نہ کرا لیں، ہاتھ تک نہیں دھوتے۔ کھانے کی کون کہے، چوتھی نہیں ہوئی کہ میاں بیوی میں جوتی پیزار ہونے لگی۔ بیٹی کی بیٹھی دی، لڑائی کی لڑائی مول لی۔ پھر یہ نہیں کہ کچھ ایک دن کی ہے نہیں، بس عمر بھر کو مصیبت کا چرخہ چلا۔ بیٹی کے اولاد ہونی شروع ہوئی۔ ماں بے داموں کی لونڈی، بے تنخواہ کی دایہ، عمر بھر اپنے بچے پالنے کی مصیبت جھیلتی رہی۔ اب خدا خدا کر کے دو برس آرام نصیب ہواتھا کہ بیٹی کے چینگی پوٹے سنبھالنے پڑے۔ اور اگر بہو آئی تو فساد کی گانٹھ۔ لڑائی کی پوٹ۔ ساس کو تو جوتی کے برابر نہیں سمجھتی۔ نندوں کا دم ناک میں کر رکھا ہے۔ نہ جیٹھ کا حجاب، نہ سسرے کا ادب۔ عورت ہے کہ مردوں کی پتڑی اتارے لیتے ہے۔ خدا پناہ میں رکھے! بیٹے نالائق کو دیکھیے کہ بی بی نے تو آفت کر رکھی ہے، اور یہ مردود بی بی کی حمایت کرتا ہے اور الٹا ماں باپ سے لڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بے چارے ماں باپ گھر چھوڑ کر الگ کرائے کے مکان میں جا رہے۔ یہ نتیجہ اس وقت کی اولاد سے ماں باپ کو ملتا ہے، بہت کم ہیں وہ لوگ جو اولاد سے راحت پاتے ہیں۔ پس ہم لوگ اپنی بے وقوفی سے اولد کی تمنا کرتے ہیں۔ گویا آفت اور مصیبت کو آرزو کر کے بلاتے ہیں۔
اب رہا یہ خیال کہ مال و دولت کو کائی وارث ہو، اس وجہ سے اولاد کی تمنا کی جائے۔ یہ خیال جیسا مہمل اور پوچ اور لچر اور خرافات ہے، ظاہر ہے۔ جب آدمی خود دنیا سے اٹھ گیا تو اس کی دولت اگر اس کے بیٹے نے لی تو کیا اور اگر مال لاوارث قرار پا کر سرکار میں گیا تو کیا۔ یہ دولت عاقبت میں کچھ بکار آمد نہیں، مگر اسی قدر جو خدا تعالٰی کی راہ میں ہم خود صرف کر اجئیں یا ہمارے بعد ہمارے نام سے خدا کی راہ میں صرف ہو۔ جب ہم نے دولت کو خود صرف نہ کیا اور ایسا ضروری کام اولاد کے ذمے چھوڑے گئے تو ہم سے زیادہ کوئی احمق نہیں۔ جو اولاد ماں باپ کا اندوختہ مفت میں پا جاتی ہے، ہرگز اس کو اس کے خرچ کرنے میں دریغ نہیں ہوتا۔ آدمی اسی روپے کی قدر کرتا ہے جس کو وہ خود قوت بازو اور عرق ریزی سے پیدا کرتا ہے اور بے محنت جو روپیہ ملتا ہے، اس کا حال یہی ہوتی ہے کہ مال مفت دل بے رحم۔ البتہ اولاد ناچ رنگ، سیر تماشے میں خوب دولت کو اڑائے گی۔ لیکن چاہیے کہ باپ کے نام باجرے کے دلئے پر فاتحہ بھی دلائے کیا مذکور۔ کیا ایسی مثالیں دنیا میں سینکڑوں ہزاروں نہیں ہیں کہ لوگ بخل اور خست سے عمر بھر جمع کرتے رہے اور اولاد نے دولت پاتے ہی وہ گل چھرے اڑائے کہ چند روز میں باپ کا اندوختہ عمری فنا کر دیا؟
اس بیان سے ظاہر ہو گا جس قدر تعلق اولاد کے ساتھ ہم نے اپنے دل سے بڑھا لیا ہے وہ ہمارے حق میں نہایت ضرر کرتا ہے۔ ہم کو اولاد کے ساتھ اسی قدر تعلق رکھنے کا حکم ہے کہ جب تک وہ ہمارے مدد کے محتاج رہیں، ان کی پرورش کریں اور اس پرورش کرنے میں بھی اس امید کو دل میں جگہ نہ دیں کہ اولاد بڑی ہو کر اس پرورش کے عوض کبھی ہماری خدمت کرے گی۔ یہ امید پیدا کرنی سخت درجے کی نادانی ہے۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ خدا نے جو ہمارا مالک ہے، اس کی پرورش کی خدمت ہم سے متعلق کر دی ہے۔
ہم اولد کے پالنے میں اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ یہ باغ خدا کی ہے اور ہم اس کی طرف سے اس باغ کے مالی ہیں۔ اگر باغ کا مالک کسی درخت کو قلم کرنے یا کاٹ ڈالنے کا حکم دے تو مالی کو یہ کہنے کا کب منصب ہے کہ میں نے اس درخت کو بڑی محنت سے پالا ہے۔ یہ کیوں کاٹا اور قلم کیا جاتا ہے؟ دنیا کے تمام تعلقات صوف اس واسطے ہیں کہ آدمی ایک دوسرے کو فائدہ پہنچائے۔ ہم چند روز کے واسطے کسی مصلحت سے اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں اور یہاں ہم کو کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی بنا دیا گیا ہے، اس واسطے کہ لوگ ہماری اور ہم لوگوں کی مدد کریں اور صلح کاری اور سازگاری میں اپنی زندگی جو مقرر کر دی گئی ہے، پوری کر جائیں۔ دنیا ہمارا گھر نہیں ہے۔ ہم کو دوسری جگہ جا کر رہنا ہو گا۔ نہ کوئی ہمارا ہے نہ ہم کسی کے۔ ہم اگر کسی کے باپ ہیں تو صرف چند روز کے واسطے۔ اور اگر کسی کے بیٹے ہیں تو بھی چند روز کے واسطے۔ اگر ہم کسی کو مرتا دیکھیں تو افسوس کی کیا بات ہے؟ افسوس تو جب کریں جب ہم یہاں بیٹھے رہیں۔ ہم کو خود ہی سفر درپیش ہے۔ نہیں معلوم کس بھڑی بلاوا ہو اور چلنا ٹھہر جائے۔ پھر سب سے مشکل یہ ہے کہ مرنا صرف یہی نہیں ہے کہ بدن سے جان نکل گئی۔ گویا روح ایک مکان میں چلی گئی۔ نہیں وہاں جر کر بات بات کا حساب دینا ہو گا۔ زبان جھوٹ اور غیبت اور قسم اور فحش اور بے ہودہ بکواس کے واسے جواب دہی کرے گی۔ آنکھ نظر بد کی سزا پائے گی۔ کان کو کسی بدی اور راگ سننے کے عوض میں گوشمالی دی جائے گی۔ ہاتھ نے کسی پر زیادتی کی ہے یا پرایا مال چرایا ہے تو کاٹا جائے گا۔ پاؤں اگر بے راہ چلا ہے تو شکنجے میں کسا جائے گا۔ بڑا ٹیڑھا وقت ہو گا۔ خدا ہی اپنے فضل سے بیڑا پار کرے تو ہو سکتا ہے۔ جس کو ان باتوں سے فراغت ہو وہ کسی کے مرنے پر غم کرے یا کسی کے پیدا ہونے پر خوش ہو تو بجا ہے۔ لیکن دنیا میں کوئی ایسا ہے جو اپنے عاقبت سے بےفکر ہو چکا ہو؟ اصغری! اپنی خبر لو اور اس دن کے واسطے سامان کرو جہاں سوائے عمل کے کچھ کام نہ آئے گا اور دعا کرو کہ خداوند عالم اپنے دوست محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہم سب کا انجام بخیر کرے۔
والد
گنہگار دورانددیش خاں