صفحات

تلاش کریں

ڈرامہ-رستم و سہراب (باب اول)

مقدمہ

ڈرامے کو یونانی اور سنسکرت روایات میں قدیم زمانہ سے بڑی اہمیت حاصل رہی۔ ان روایات میں وہ مذہب کا بھی حصہ تھا اور شعری و ادبی سرمایہ کا بھی۔ لیکن دونوں ہی زبانوں میں یہ اپنے عروج تک پہنچ کر زوال کا شکار ہو گیا۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی یہ روایات آگے نہ بڑھ سکی۔ اردو شعرو ادب کا آغاز ہوا تو مختلف شعری و نثری اصناف پر توجہ دی گئی۔ لیکن ڈرامے کی طرف کوئی التفات نہ ہوا۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں. لیکن شاید ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ڈراما لکھنے پڑھنے سے زیادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’کھیلنے ‘‘کا متقاضی ہوتا تھا جس میں مختلف کرداروں کا بہروپ بھرنا ہوتا تھا اور یہ کام بھانڈوں اور نقالوں سے وابستہ قرار دیا جاتا تھا اور متانت اور سنجیدگی کے خلاف۔ شاید اسی لیے اربابِ قلم نے اس کو قابلِ اعتنا نہ خیال کیا۔ تا آنکہ علم و ادب کے رسیا، کھیل تماشوں کے شوقین، رقص و موسیقی کے دلدادہ اور جدت پسند طبع کے مالک نواب واجد علی شاہ کا اس طرف میلان ہوا۔ انھوں نے ’’رادھا کنھیا کا قصہ‘‘ کو ۱۸۴۳ء میں رہس کی شکل میں اسٹیج پر پیش کیا۔ خود اس میں کردار ادا کیا۔ اور بھی کئی رہس اس شاہی اسٹیج پر دکھائے گئے ۔ اس طرح شاہی سرپرستی میں ڈراما کھیلا گیا۔ تو لوگوں کی جھجھک دور ہوئی اور جلد ہی اہل اردو ڈراما نگاری کی طرف مائل ہو گئے ۔ دس سال کے اندر اندر ہی امانت کی ’’اندر سبھا‘‘ نے اسٹیج کی دنیا میں دھوم مچا دی۔ اسی دوران تھئیٹر کا رواج شروع ہو گیا تھا۔ مغربی اثرات کے تحت بہت سی تھئیٹریکل کمپنیاں وجود میں آ گئیں۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ابھر کر سامنے آئی۔

آغا حشرؔ (۱۸۷۹۔۱۹۳۵) اردو ڈرامے کی دنیا میں ایک بلند قامت حیثیت سے ابھرے ۔ انھوں نے ڈرامے کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انھوں نے مختلف تھئیٹریکل کمپنیوں میں کام کیا۔ اپنی کمپنی قائم کی، متواتر ڈرامے لکھے ، خود ان کی ہدایت کاری کی اور ڈرامے کھیلنے کے معیار کو بلندی بخشی۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے ماخوذ ہیں۔ انگریزی کے مقبول و معروف ڈراموں کو انھوں نے اردو جامہ پہنایا۔ انھوں نے کرداروں کے ناموں،مکالمات،گانوں اور ڈراموں کی پوری فضا کو مشرقی رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ کہیں اجنبیت اور پردیسیت کا احساس نہیں ہوتا۔ انھوں نے کرداروں کو ہندوستانی تہذیب و معاشرت میں اس طرح ڈھال دیا کہ وہ نامانوس نہیں معلوم ہوتے ۔ اپنے چست مکالموں، اعلیٰ پایہ کے گانوں،بر جستہ گوئی اور زبان کے اعلیٰ معیار سے ان ڈراموں کو ادبی وقار بخشا۔

بیسویں صدی میں سنیما کا چلن عام ہونا شروع ہوا تو تھئیٹر اور اسٹیج پر پھر زوال کے سائے منڈلانے لگے ۔ فلمیں عوامی دلچسپی اور تفریح کا ذریعہ بن گئیں۔ دھیرے دھیرے تھئیٹر کی عوامی مقبولیت ختم ہو گئی۔ ان ڈراموں کی طباعت و اشاعت بھی معدوم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ اب ان کا دستیاب ہونا مشکل ہے ۔

اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ ڈرامے (جو تقریباً ایک صدی پر محیط ہیں) ہماری ادبی روایت کا اہم حصہ ہیں۔ ان کو محفوظ رکھنا اور ان کا ادبی مطالعات میں شامل رکھنا ہمارا فرض ہے ۔تھئیٹر کا رواج ختم ہونے کے باوجود ہم ان ڈراموں سے صرف نظر نہیں کر سکتے ۔ بالکل اسی طرح جیسے قصیدے کا ماحول ختم ہونے کے باوجود ہم اس کے مطالعہ کو نظر انداز نہیں کر سکتے یا کلاسیکی غزل کو ادبی مطالعہ سے خارج نہیں کر سکتے ۔لیکن اگر متون ہی دستیاب نہ ہوں تو پھر کوئی بھی مطالعاتی کوشش نہیں کی جاسکتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دور کے اُن تمام ڈراموں کے متون مہیا کرائے جائیں جن کی اپنے زمانہ میں عام مقبولیت رہی تاکہ یہ ادبی مطالعہ کے لیے بنیا د فراہم کریں۔ اس کے بغیر ہماری ادبی تاریخ تشنہ رہ جائیگی۔



تعارف

حشرؔ کی ڈراما نگاری کے آخری دور کا یہ المیہ ڈراما ایر ان کے مشہور شاعر فردوسیؔ کے ’’شاہنامہ‘‘سے ماخوذ ہے ۔ حشرؔ نے یہ ڈراما ۱۹۳۰ میں میڈن تھئیٹر لمیٹڈ کلکتہ کی پارسی امپیریل تھیئٹریکل کمپنی کے لیے لکھا تھا۔ یہ کمپنی اس زمانے میں بمبئی میں مقیم تھی‘‘۔(۳۰) آغا جمیل صاحب کے مطابق ’’رستم وسہراب‘‘ ۱۹۲۹ میں لکھا گیا‘‘۔(۳۱)

یہ ڈراما تین ایکٹ پر مشتمل ہے ۔ پہلے ایکٹ میں چار سین، دوسرے میں آٹھ اور تیسرے میں چھ یعنی کل اٹھارہ سین ہیں۔

’’رستم وسہراب، ،کے پلاٹ کا خمیر جذبۂ وطن پرستی کی شدّت ،عشق و فرض کی نفسیاتی کشمکش ، وفا اور دغا کی آویزش ، شاہوں کی ہوسِ اقتدار کی قربان گاہ پر خون کے رشتوں کی قربانی ، باپ کی تلاش میں بیٹے کی جگر کاوی، تاج و تخت سے وفاداری نیز دنیا کی نگاہ میں بھرم رکھنے کے لیے باپ کی سخن سازی سے اٹھایا گیا ہے ۔

وطن پرستی کا جذبہ اس ڈرامے کے مختلف کرداروں بالخصوص گُرد آفرید کے سینے سے لاوے کی طرح ابلتا ہے اور ایک بحرِ نا پیدا کنار کی طوفانی موجوں کی طرح پورے ڈرامے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ ڈرامے کے الفاظ کی سطح سے نیچے اگر گہرائی میں جا کر محسوس کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ڈرامے کے فقط کردار ہی نہیں بلکہ خود ڈراما نگار اس جذبے سے سرشار ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان پر غیر ملکی تسلط کے خلاف جو جذبہ خود آغا حشرؔ کے وجود میں تلاطم برپا کیے ہوئے تھا وہ الفاظ میں ڈھل کر گُرد آفرید کی زبان سے پگھلے ہوئے لاوے کی طرح ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے رواں دواں ہے حتیٰ کہ خود محبت جیسا شدید جذبہ بھی اس کی آنچ سے پِگھل جاتا ہے ۔ اس ڈرامے کا دوسرا نام عشق و فرض بھی اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ڈراما نگار کی نظر میں حبِّ وطن ایسا جذبہ ہے جسے عشق و محبت کے جذبات پر بھی غالب رہنا چاہیے ۔

پلاٹ:۔ ایران کا مشہور زمانہ جنگ جو رستم اپنے وطن ایران واپس جاتے ہوئے سمنگان میں کچھ دیر کے لیے قیام کرتا ہے اور اپنے گھوڑے کو سر سبز میدان میں چرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے ۔ چند تورانی سردار رستم کو سوتا دیکھ کر اُس کا گھوڑا چُرا کر لے جاتے ہیں ۔ جاگنے پر رستم اپنے گھوڑے کو تلاش کرتا ہے اور اس کے نہ ملنے پر تورانی سرداروں سے اس کی سخت گفتگو ہوتی ہے ۔ رستم ، شاہ سمنگان کے دربار میں پہنچ کر اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ یا تو فوراً میرا گھوڑا واپس کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔

شاہ سمنگان ، رستم کی بے جگری ، اولوالعزمی اور با رعب شخصیت سے متاثر ہو کر اس کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے اور اپنی بیٹی تہمینہ کی شادی اُس سے کر دیتا ہے ۔ رستم تہمینہ کو وہیں چھوڑ کر ایران واپس چلا جاتا ہے ۔ تہمینہ کے بطن سے سہراب پیدا ہوتا ہے ۔ شجاعت اور فنِ سپہ گر ی کی دنیا میں وہ نو عمری ہی میں اپنا نام پیدا کر لیتا ہے ۔

توران کے شہنشاہِ افراسیاب کے لیے اپنے دشمن رستم کا اپنے ہی ما تحت شاہِ سمنگان کا داماد بن جانا ایک نا قابلِ برداشت توہین تھی ۔ وہ اپنے انتقامی جذبے کی آگ کو بجھانے کے لیے سہراب کو جس کا وطن سر زمین توران ہے ، تورانی فوج کے ساتھ ایران پر حملہ کرنے کا حکم صادر کر دیتا ہے ۔ سہراب ، ایران کے قلعۂ سفید پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ قلعہ کا سردار گستہم اور دوسرے فوجی افسر سہراب کے مقابلے کی ہمت نہیں پاتے مگر اس کے سامنے سپر بھی نہیں ڈالنا چاہتے لیکن قلعۂ سفید کا ایک سردار بہرام غدّاری کر کے شکست تسلیم کرنے اور صلح کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور حاکمِ قلعہ گستہم کو بھی اس پر تیار کر لیتا ہے ۔ مگر حاکمِ قلعہ کی شیر دل ، خوددار اور محب وطن بیٹی گرد آفرید ، غدّار بہرام کو سخت لعنت ملامت کرتی ہے اور اپنی ولولہ انگیز تقریر سے ایرانی فوج میں نئی زندگی دوڑا دیتی اور نیا جوش بھر دیتی ہے ۔

گُرد آفرید مردانہ لباس میں خود میدانِ جنگ میں آتی ہے اور عالمِ غیظ و غضب میں سہراب کو مقابلے کے لیے للکارتی ہے ۔ دورانِ جنگ گردآفرید گھوڑے سے گر جاتی ہے جس سے اس کا خود سر سے اتر جاتا ہے اور بال بکھر جاتے ہیں۔ سہراب اس کی بہادری ، جرأت اور حسن و جمال سے مسحور ہو کر اپنا دل اُسے دے بیٹھتا ہے ۔ گرد آفرید بھی اس کی مردانہ وجاہت اور شجاعت کو دیکھ کر اُس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے لیکن اس کا عشق ، وطن کی محبت اور حفاظت کے جذبے کو مغلوب نہیں کر پاتا اور وہ ایک شدید ترین نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔ ایک طرف اس کا محبوب سہراب ہے اور دوسری طرف اس کا محبوب وطن ہے ۔ گرد آفرید کا پورا وجود ان دو مخالف محبوبوں کی محبت کی کشمکش سے سلگ اٹھتا ہے ۔ چنانچہ وہ ایک طرف تو سہراب اور اس کی فوج کو قلعے میں آنے کی دعوت دیتی ہے مگر جب سہراب پہنچتا ہے تو اس سے ملنے سے انکار کر دیتی ہے ۔ سہراب اپنی اس تذلیل کو برداشت نہیں کر سکا ۔ انتہائی جوش اور غیظ و غضب میں اپنی فوج کو قلعے پر حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن ساتھ ہی تنبیہ کر دیتا ہے کہ گردآفرید کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔ غدّار بہرام موقع پاکر گرد آفرید کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیتا ہے ۔ اس واقعہ کا علم ہونے پر سہراب بپھر جاتا ہے اور بہرام کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔ محبت کے جوش اور شدید غم کے عالم میں گرد آفرید کا سر اپنے زانو پر رکھ لیتا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت کا اقرار کرتے ہیں اور گردآفرید اسی حالت میں دم توڑ دیتی ہے ۔

سہراب کی پیش قدمی سرزمین ایران میں جاری رہتی ہے ۔ اس طوفان کو روکنے کے لیے ایران کے پاس صرف ایک ہی دلاور ہے اور وہ ہے رستم جو یہ نہیں جانتا کہ جنگ آزما سہراب اس کا لختِ جگر ہے ۔ دوسری طرف سہراب یہ تو جانتا ہے کہ رستم میرا باپ ہے مگر وہ رستم کو پہچانتا نہیں۔ وہ اپنے تورانی سرداروں سے رستم کی شناخت چاہتا ہے مگر وہ رستم کو پہچانتے ہوئے بھی سہراب کو نہیں بتاتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رستم کو اگر کوئی زیر کر سکتا ہے تو صرف سہراب۔ چنانچہ باپ اور بیٹے کے ٹکراؤ سے یہ عظیم المیہ وجود میں آتا ہے ۔ غیر شعوری طور پر خون کا رشتہ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھانے سے روکتا ہے ۔ سہراب لاکھ چاہتا ہے کہ رستم یہ بتا دے کہ وہ رستم ہے مگر رستم اقرار نہیں کرتا اور جو نہ ہونا چاہیے تھا وہ ہو جاتا ہے ۔رستم سہراب کو مغلوب کر کے ہلاک کر دیتا ہے مگر جب وہ سہراب کے بازو پر تہمینہ کودی ہوئی اپنی بندھی نشانی یعنی اپنا مہرہ دیکھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ سہراب تو اسی کے جگر کا ٹکڑا ہے ۔ اپنے ہاتھوں لائی ہوئی اس بد نصیبی پر رستم کا وجود آنسوؤں میں پگھل جاتا ہے ۔

کردار نگاری:۔ ڈرامے کے سبھی کردار اپنی جگہ اہم ہیں خصوصاً رستم ، سہراب، بہرام ، ہجیر، تہمینہ اور گرد آفرید کے کردار بڑے اثر انگیز ہیں۔ رستم وسہراب ، شجاعت ، جرأت اور دلیری کے پہاڑ ، بے خوفی اور جانبازی کی علامت ، اپنے اپنے وطن سے محبت کے پیکر ، ایرانی و تورانی جاہ و جلال اور عظمت کی قابلِ رشک ہستیاں ، بہرام، غدارِ قوم و ملک ، بزدل اور کمینہ ، ہجیر ملک و قوم کا وفادار اور ان کی آزادی پر مر مٹنے والا ، تہمینہ ، رستم کی با وفا شریکِ حیات اور اپنے بیٹے سہراب سے بے پناہ محبت کرنے والی ماں ۔ سب سے زیادہ اثر انگیز اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والا کردار ہے گُردآفرید کا جو حسن و جمال اور نسائیت و پاکیزگی کا مجسمہ، عشق و محبت کا پیکر ، شرافت ، جرأت اور حوصلہ مندی کا مرقع ، وطن پرستی اور جاں نثاری کی لازوال مثال ہے جس پر ایرانی تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ اس ڈرامے کا ہر کردار مسحور کن حد تک اثر آفریں ہے ۔ حرکت و عمل سے بھر پور یہ کردار دل پر ایک پائدار نقش قائم کرنے میں کامیاب نیز حشرؔ کے فنِ کردار نگاری کے کمال کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔

عشق و فرض کی جنگ میں گردآفرید جس روحانی اذیت اور ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتی ہے اس کا اظہار حشرؔ نے اپنے جادو نگار قلم سے کتنے پُر اثر طریقے پر کیا ہے ۔

گُرد آفرید: ۔آؤ سہراب تمھیں دیکھ کر دل میں زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہو گئی، لیکن اب تمنا کا وقت نہیں رہا ۔ میرے دل کے مالک میرے فرض نے مجھے بے مرّوت بننے کے لیے مجبور کر دیا تھا ۔ حقِّ وطن کا مرتبہ عشق سے بلند تر ہے اس لیے مجھے معاف کر دو۔

پھر کہتی ہے :۔

گُر آفرید :۔ آہ تمھیں کیا معلوم عشق و فرض کی کشمکش میں میری روح نے کتنے عذاب برداشت کیے ہیں ۔ کتنے زلزلوں سے تنہا واقفِ پیکار رہی ہے ۔ صدمہ نہ کرو۔ دوست اور دشمن ہم نام ہیں اس لیے تمھیں دھوکا ہوا ۔ میں نے اپنے پیارے سہراب سے نہیں اپنے ملک کے مخالف سے جنگ کی ہے ۔

انتہائی جری ، بہادر اور اپنی طاقت پر نازاں رستم جب اپنی تلوار سے میدانِ جنگ میں اپنے بیٹے سہراب کو قتل کر دیتا ہے تو پدرانہ محبت کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں ۔ بیٹے کی موت پر رستم کا روحانی اور ذہنی کرب نا قابلِ برداشت ہے ۔ تمام دنیا سے ٹکر لینے والے رستم اور ایک باپ میں کتنا فرق ہے ۔

رستم: ۔ آسمان ماتم کر ۔ زمین چھاتی پیٹ۔ درختو! پہاڑو! ستارو ! ٹکرا کر چور چور ہو جاؤ۔ آج ہی زندگی کی قیامت ہے ۔ آج ہی دنیا کا آخری دن ہے ۔ زندگی کہاں ہے !دنیا کہاں ہے !زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب گئی ۔ سہراب ! سہراب ! سہراب!

زبان و بیان :۔ آغا حشرؔ کا یہ رزمیہ ڈراما پُر شکوہ الفاظ ، اثر آفریں فقروں ، زبان کی حلاوت ، بیان کی چاشنی ، عبارت کے دروبست، شیریں فارسی تراکیب ، چست بند شوں ، حسین اور خوبصورت تشبیہات کا ایک طلسم ہے ۔ اشعار کے بر محل اور برجستہ استعمال ، مکالموں کی روانی اور اثر انگیزی، کرداروں کی داخلی کیفیت اور نفسیاتی کشمکش، عشق اور وطن پرستی کے طاقتور جذبوں کی باہمی آویزش،کرداروں کے مرتبے اور مقام کے لحاظ سے اندازِ گفتگو کی پیشکش میں حشرؔ کے جادو نگار قلم نے ڈرامے کے فن کو اس کی معراج پر پہنچا دیا ہے ۔

حشرؔ کا یہ رزمیہ ڈراما ، پلاٹ کی تعمیر و ترتیب ، کرداروں کی تشکیل ، مکالموں کی بلند آہنگی ، خطیبانہ اندازِ بیان اور منظر نگاری کے لحاظ سے ایک ادبی شاہکار اور اردو اسٹیج کا ایک غیر فانی کارنامہ ہے ۔
ڈرامے کے کردار

مردانہ



رستم:۔ سر زمیں فارس کا مشہور و معروف پہلوان

سہراب:۔ توران کا نامور دلیر ، رستم کا فرزند

شاہِ سمنگان:۔

پیلسم:۔ شاہِ سمنگان کے فوج کا سردار

ہومان :

سہراب کی تورانی فوج کے سردار

بارمان:

شاہ افراسیاب :۔ شنہشاہِ توران

گستہم :۔ قلعۂ سفید کا مقتدر رئیس

بہرام:۔ قلعۂ سفید کا مقتدر رئیس۔غدّار

ہجیر:۔ قلعۂ سفید کا جنگ آزمودہ محافظ

شاہ کیکاؤس:۔ شنہشاہِ ایران۔

طوس ، گودرز:۔ کیکاؤس کی فوج کے سردار

(ان کے علاوہ سردارانِ لشکر، ایران و توران کے

سپاہی ، حاجب ، دربان چند دیہاتی وغیرہ)







زنانہ





تہمینہ:۔ شاہِ سمنگان کی دختر، رستم کی بیوی، سہراب کی ماں۔

گُرد آفرید:۔قلعۂ سفید کے حاکم کی شیر دل دختر، سہراب کی محبوبہ

(ان کے علاوہ کنیزیں وغیرہ)

۔مقام۔

قدیم ایران و توران
تورانی سرحد۔ ایک سرسبز و شاداب پہاڑی مقام ۔

( آسمان میں صبح کا آفتاب۔رستم گھوڑے کی پِیٹھ پر سوار دکھائی دیتا ہے )۔

رستم:۔ دنیا کے لیے روشنی، پھولوں کے لیے مسکراہٹ ، پرندوں کے لیے زمزمہ ، دریاؤں کے لیے ترنم ریز روانی ، سوئے ہوئے قوائے عمل کے لیے بیداری کا پیغام لانے والا آفتاب افقِ مشرق کی پیشانی پر تاجِ زرنگار کی طرح چمک رہا ہے ۔ کتنا پر جلال نظارہ !یوں معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب نہیں ایک نورانی کتاب ہے جس میں دنیا جاگنے کے بعد اپنے ماضی کے خواب کی تعبیر پڑھ رہی ہے ، ستاروں کے ملک سے آیا ہوا ایک نورانی فرشتہ ہے جس سے کائنات کی ہر شے زندگی کی برکتیں مانگ رہی ہے ۔ آسمان کی مانند ، اس زمیں پر بھی ، ہر روز اس طرح طلوع و غروب کے منظر دکھائی دیتے ہیں۔ انسانوں کی قسمت کا ستارہ اور قوموں کے اقبال کا آفتاب بھی یونہی گمنامی کی رات کا سیاہ پردہ ہٹا کر شہرت کی فضا میں چمکتا،کامیابی کے سنہرے دنوں پر حکومت کرتا اور آخر دنیا کی یادداشت و تواریخ کے صفحوں پر اپنے دھندلے یا روشن نشان چھوڑ کر شامِ فنا کی تاریکی میں غائب ہو جاتا ہے ؂

دنیائے بے ثبات میں ہر شے ہے تیز گام

ہر دن کے ساتھ رات ہے ہر صبح کی ہے شام

رنگِ زوال سے ہیں رنگے ، گل بھی خار بھی

دھوکا ہے اس چمن کی خزاں بھی ، بہار بھی

(گھوڑے کی پیٹھ سے اتر تا ہے )

آفتاب کی سنہری کرنوں کے ساتھ چاروں طرف خوب صورتی اور رنگینی بکھری ہوئی ہے اور پرندوں کے ترانوں پر ہوائیں رقص کر رہی ہیں ۔ زمین پر صبح کی روشنی پھولوں کی خوشبو اور بلبل کے نغموں کا سیلاب بہ رہا ہے ۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگل قدرت کا بنایا ہوا ایک شعر اور یہ سرخ و زرد پھول اس شعر کے حسین استعارے ہیں ۔

(پیار سے گھوڑے کی گردن تھپتھپا تا ہے )

میرے بچپن کے رفیق !جوانی کے دوست !میدانِ جنگ کے وفا دار ساتھی! وہ دیکھو ہر ے بھرے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں تمھارے لیے دور تک سبز مخمل کا دسترخوان بچھا ہوا ہے ۔ خوشبو میں نہائے ہوئے ہوا کے جھونکے بار بار تمھیں بلانے آ رہے ہیں۔ جاؤ ، ان کی دعوت قبول کرو۔

(گھوڑے کو چرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے )

سردی ، گرمی ، بھوک ، پیاس کی تکلیفوں سے بے پروا ہو کر آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح جو فضا میں راستہ بھول گیا ہو دو مہینے سے شکار کے پیچھے جنگلوں اور پہاڑوں میں بھٹکتا پھر رہا ہو ، بس شکار اور سفر دونوں ختم ہوئے ۔ تھکے ہوئے جسم کو تھوڑا آرام دینے کے بعد آج ہی ایران روانہ ہو جاؤنگا (ڈھال کا تکیہ بنا کر زمین پر لیٹ جاتا ہے ) نیند!پیاری نیند!تم فطرت کی لاڈلی بیٹی ہو ، برکتوں کے ملک کی ملکہ ہو ، آرام کی سلطنت کی شہزادی ہو ؂

راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو ٹھکراتی ہوئی

آؤ ، آؤ ، مسکراتی ، پھول برساتی ہوئی

روح کو تسکین دو اور جسم کو آرام دو

زندگانی کو خدا کا بہترین انعام دو

(رستم سوجاتا ہے ، چند تورانی سردار جو ایران کی سیاحت سے واپس ہو کر اپنے وطن سمنگان کی طرف جا رہے ہیں داخل ہوتے ہیں)

سردار نمبر ۱:۔ دنیا کے عجائبات میں تم بھی ایک عجیب چیز ہو ۔ بہشت کو دیکھنے کے بعد بھی کہتے ہو کہ بہشت خوب صورت نہیں ہے ؟

سردار نمبر ۲:۔ ہاں ۔

سردار نمبر۱:۔ تب یقیناً تم ایران کے سفر میں آنکھیں ساتھ لے کر نہیں گئے تھے ۔ مجھے تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ جمشید اور فریدوں کی سرزمیں میں نہیں کسی شاعر کے خیال کی رنگین دنیا میں سیر کر رہا ہوں۔

سردار نمبر ۲:۔ جس طرح موت اور زندگی ،ظلمت اور نور ،اہرمن اور یزداں میں ازل سے جنگ ہو رہی ہے اسی طرح قد یم ایران اور توران بھی ایک دوسرے کی دشمنی کو اپنی زندگی کا واجب الادا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہم تورانی ہیں ، تورانی کے گلے پر خنجر رکھ دو تب بھی ایران کی تعریف نہ کرے گا۔

سردار نمبر۱:۔ تعریف نہ کرے گا !کیوں؟

سردار نمبر۲:۔کیونکہ وہ ہمارے دشمنوں کا ملک ہے ۔

سردار نمبر ۱:۔ ایرانی قوم تورانی قوم کی دشمن ہے لیکن ایران کے پُر عظمت پہاڑ ، خوب صورت شہر، شاداب جنگل،پریوں کی زلفوں کی طرح لہراتے بل کھاتے ہوئے دریا ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ کیا اس سفر میں تورانی سمجھ کر ایران کے آسمان نے تمھیں اپنے سورج چاند کی روشنی نہیں دی؟ ایران کے چشموں نے تمھاری پیاس نہیں بجھائی؟ ایران کی زمین نے تمھیں بیٹھنے سونے کی جگہ دینے سے انکار کیا ؟ تم دشمنی سے اپنے ہونٹوں کو سچ بولنے کی اجازت نہ دو لیکن میں تو توران کے بادشاہ کے سامنے بھی بے خو ف ہو کر کہہ دوں گا کہ دنیا کا بہشت ایشیا ہے اور ایشیا کا بہشت ایران ہے ۔

سردار نمبر۲ :۔ بس بس میں ایران کی تعریف میں قصیدہ سننا نہیں چاہتا ۔ تم شاعر نہیں سپاہی ہو!

سردار نمبر۱:۔ میں تمھارے جیسا چھوٹا دل، تنگ نظر اور پست خیال لے کر اس دنیا میں نہیں آیا ہوں۔ اچھے کو اچھا کہنا شاعری نہیں انصاف ہے ، تم جتنے ایران کے دشمن ہو اس سے زیادہ انصاف اور عقل کے دشمن ہو۔

سردار نمبر ۲:۔تمھارے الفاظ زہر کی طرح کڑوے اور چھری کی نوک کی طرح تیز ہیں۔ (تلوار کھینچ کر ) واپس لو،معافی کر ان لفظوں کو واپس لو، ورنہ مجھے اس کا جواب تلوار سے دینا ہو گا۔

سردار نمبر۱ :۔ تو اس جواب کا جواب بھی تلوار ہی کی زبان سے سننا ہو گا۔

(دونوں ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں)

سردار نمبر ۳:۔ (روک کر) یہ کیا !تلوار اور طاقت کا ایسا ذلیل استعمال !کیا دنیا میں اب ہمارا کوئی دشمن نہیں رہا جو تلوار کو زنگ سے بچانے کے لیے ہم نے آپس میں جنگ شروع کر دی؟ تورانیوں کے پاس حربہ ، لشکر ، دولت طاقت ہمت سب کچھ ہے ، صرف ایک چیز اتفاق نہیں ہے اس لیے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی فتح شکست بن جاتی ہے ۔ تلواریں پھینک دو ٹوٹی ہوئی محبت کو جوڑنے کے لیے ہا تھ ملاؤ۔ جو قوم ہمدردی اور اتفاق کے ساتھ ایک دل ایک خیال ہو کر دنیا میں زندگی بسر کرنا نہیں جانتی، یاد رکھو اس کی قسمت کے نوشتے پر دائمی ذلت کی مُہر لگ چکی ہے ۔ وہ آزاد دنیا میں غلامی کے لیے پیدا ہوئی ہے اور آخری سانس تک غیر قوم کی غلام رہے گی ؂

گر دِلوں میں اتفاق اور خواہشوں میں میل ہے

زندگی کی راحتوں کو فتح کرنا کھیل ہے

کامیابی کے لیے احساسِ حالت چاہیے

ایک ہو جاؤ اگر دنیا میں عزت چاہیے

سردار نمبر۱:۔دوست!ندامت کے ساتھ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔

سردار نمبر۲:۔ یہ لڑائی نہ تھی ، ہماری دوستی نے ایک لمحے کے لیے تلواروں کی جنگ کا خواب دیکھا تھا۔

سردار نمبر۳:۔ ہمیں شام ہونے سے پہلے سمنگان پہونچ جانا چاہیے ۔تلواریں تیز کر چکے ۔ اب قدم تیز کرو۔

(آگے بڑھتے ہیں ، سوئے ہوئے رستم پر نظر پڑتی ہے )

سردار نمبر۱:۔کو ن؟ یہ انسان ہے یا قدرت کے جلال ، پہاڑ کی مضبوطی اور شیر کی ہیئت نے انسانی جسم اختیار کر لیا ہے !

سردار نمبر۳:۔یہ معلوم ہوتا ہے کہ گوشت اور ہڈی سے گھرا ہوا طاقت کا سمندر نیند میں چھاتی پھلا کر دھیرے دھیرے سانس لے رہا ہے ۔

سردار نمبر ۱:۔ اس کے چہرے کی طرف جتنا دیکھو اتنا ہی تعجب بڑھتا ہے ۔ قدرت بھی پیدا کرنے کے بعد مدتوں حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھتی رہی ہو گی۔

سردار نمبر۲:۔ (گھوڑے کو دیکھ کر) وہ دیکھو !ہرن کی آنکھیں، مور کی گردن،گینڈے کی چھاتی،چیتے کی کمر،ہنس کی چال،تمام خوبصورتیوں کو ایک آئینے میں دیکھنا ہو تو سامنے دیکھو!

سردار نمبر۱:۔ کیا شاندار گھوڑا ہے ! گو یا ہری بھری گھاس پر جنگل کا بادشاہ گھوم رہا ہے ۔

سردار نمبر۳:۔ اسے باندھ کر سمنگان لے چلو۔ بادشاہ کو نذر کریں گے ۔

سردار نمبر ۱:۔ لیکن یہ چوری ہے ۔

سردار نمبر ۳:۔ یہ چوری نہیں کیوں کہ چور کو سزا ملتی ہے اور ہمیں بادشاہ سے انعام ملے گا۔

(سب جاتے ہیں ۔ رستم آہستہ آہستہ بیدار ہوتا ہے )

رستم :۔ جس طرح گرمی کی گود میں دم توڑتے ہوئے کھیت بارش ہو جانے کے بعد زندہ ہو جاتے ہیں اسی طرح جاگنے کے بعد سونے اور محنت کے بعد آرام انسان کے جسم میں نئی زندگی اور نئی طاقت پیدا کر دیتا ہے (اُٹھ کر) آفتاب ، شہنشاہ کیکاؤس کے اقبال کی طرح ، بلند ہوتا جاتا ہے اور اس کی دھوپ سخی کی ہمت کی طرح بڑھتی جاتی ہے (گھوڑے کو پکارتا ہے ) آؤ ! آؤ! میرے دوست آؤ !ایران کا راستہ میری واپسی کا انتظار کر رہا ہے ، نہیں سنا ،کہاں ہو ؟ رخش کیا دور نکل گئے ؟ جنگ، سیر ، سفر ، ہر جگہ ساتھ دینے والے دوست آؤ!

(گھوڑے کی تلاش میں جاتا ہے ،دو دیہاتی داخل ہوتے ہیں)

دیہاتی۱:۔ گھوڑا تھا یا طوفان! اس کی نسوں میں لہو کی جگہ بجلی بھری ہوئی تھی۔

دیہاتی۲:۔ اس کے جسم کے ہر جھٹکے کے ساتھ دو چار آدمی زمین پر گیند کی طرح لڑھکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔

دیہاتی۱:۔ اور ہر لا ت پر دو چار پسلیوں کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔

دیہاتی ۲:۔ جب گھوڑا اتنا بہادر ہے تو اس کا مالک کتنا بہادر ہو گا۔

دیہاتی۱:۔ یہ کون آ رہا ہے !ماتھے پر شکن ، بھنوؤں میں کھچاؤ، آنکھوں میں سرخی، چہرے پر غصے کی تمتما ہٹ!کیا اس جنگل کو اس کے کسی جرم کی سزا دینا چاہتا ہے ؟

(رستم واپس آتا ہے )

رستم:۔ کہیں دکھائی نہیں دیا ۔ کہیں پتہ نہیں ملا ۔ کیا میں یقین کر لوں کہ جس طرح بڑھاپے میں انسان کو تندرستی چھوڑ دیتی ہے ،دوسری جگہ لیاقت سے زیادہ تنخواہ مل جانے پر آقا کو نمک حرام نوکر چھوڑ دیتا ہے ، مصیبت آنے پر خوشامدی مصاحب اور جھوٹے دوست چھوڑ دیتے ہیں ۔اسی طرح دنیا سے دغا بازی سیکھ کر آج میرے رخش نے بھی مجھے چھوڑ دیا !نہیں !نہیں! یہ ناممکن ہے ،پھرکیاں ڈھونڈوں؟کس سے پوچھوں؟ آسمان سے پوچھا، زمین سے پوچھا، چشمے کی لہروں ، ہوا کے جھونکوں ، جنگل کے درختوں سے پوچھا۔ لیکن کوئی جواب نہیں دیتا ۔ سب چپ ہیں۔ سنو سنو درختو سنو! تمھارے ہی سبز سائے کے نیچے میری زندگی کا سایہ غائب ہوا ہے ، اسے پیدا کرو ورنہ اس جنگل میں آگ لگا کر تمھیں دھوئیں اور بربادی میں دفن کر دوں گا ؂

زمیں کنیز ہے میری فلک غلام مرا

اجل کی طرح ہے بے رحم انتقام مرا

زمانہ جس سے لرزتا ہے میں وہ رستم ہوں

نہیں سنا ہے تو اب سن لو مجھ سے نام مرا

دیہاتی۱:۔ یہاں سے نکل چلو ، یہ آدمی بھوکے شیر کی طرح خوفناک ہو رہا ہے ۔

(بھاگنا چاہتے ہیں ۔ رستم انھیں روکتا ہے )

رستم:۔ ٹھہرو !

دیہاتی۲:۔ آپ آگ بگولے کی طرح گرم ہو رہے ہیں ، ذرا ٹھنڈے ہو جائیے ہم لوٹ کر ابھی آتے ہیں ۔

رستم:۔ (زمین پر لات مار کر ) میں حکم دیتا ہوں ٹھہرو ۔ تمھیں موت کا حکم تو نہیں سنایا گیا ۔ پھر کانپ کیوں رہے ہو؟

دیہاتی۱:۔ جناب کانپتا کون ہے ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اس لیے ذرا ٹانگوں کو سردی معلوم ہو رہی ہے ۔

رستم:۔ (ڈانٹ کر) تم کون ہو؟

دیہاتی۲:۔ ہم ، ہم آدمی ہیں۔

رستم:۔ میں کب کہتا ہوں تم گھاس یا پتھر ہو ۔

(دونوں دیہاتی خوف سے گر پڑتے ہیں)

دیہاتی۱:۔ گھر سے نکلتے وقت آج ضرور ہم نے کسی منحوس کا منہ دیکھا تھا۔

رستم:۔ بزدلو !اٹھ کھڑے ہو اور جو پوچھوں اس کا جواب دو... اٹھتے ہو یا... (گھونسہ تان کر)

دیہاتی ۲:۔ (اٹھتے ہوئے ) اٹھو بابا ، ہم زمین سے نہ اٹھے تو یہ ہمیں دنیا ہی سے اٹھا دے گا۔

رستم:۔ تم دونوں کہاں رہتے ہو؟

دیہاتی ۱:۔ اس جنگل سے تھوڑی دور پر ایک گاؤں میں۔

رستم:۔ تم قریب کے گاؤں میں رہتے ہو ۔

دیہاتی ۲:۔ جناب ہم دونوں غریب کسان ہیں۔ بادشاہ کے محل میں پیدا نہیں ہوئے جنت کے لائق نہیں ۔ پھر گاؤں میں نہ رہیں گے تو کہاں رہیں گے ۔

رستم:۔ تم یہیں کے رہنے والے ہو تو ضرور دیکھا ہو گا۔

دیہاتی۱:۔ کسے دیکھا ہو گا۔

رستم:۔ خبردار !میرے سامنے جھوٹ بولنے کی جرأت نہ کرنا (گلا پکڑ کر) اقرار کرو۔

دیہاتی۲:۔مگر گردن توڑنے سے پہلے یہ تو بتا دیجیے کہ کس بات کا اقرار کریں؟

رستم:۔کہ تم نے میرے وفا دار گھوڑے کو دیکھا ہے ۔

دیہاتی۱:۔ ارے !تو کیا وہ شیرنی کے دودھ سے پلا ہوا گھوڑا آپ ہی کا تھا؟

رستم:۔ ہاں!وہ کہا ں ہے ؟

دیہاتی۱:۔ تورانی سرداروں کے قبضے میں ۔

دیہاتی۲:۔ وہ اسے گرفتار کر کے اپنے بادشاہ کو نذر دینے کے لیے سمنگان لے گئے ہیں ۔

رستم:۔ تو بکتا ہے ، جھوٹا ہے ، پاگل ہے ، نا ممکن کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ طوفان زنجیروں میں نہیں جکڑا جاسکتا ۔ بجلی رسیوں میں نہیں باندھی جاسکتی ۔ اس دنیا میں کسی ماں نے ایسا جری بے خوف لڑکا نہیں پیدا کیا جو رستم کے رخش نامی گھوڑے کی پیٹھ پر اپنی سواری کی زین کس سکے ۔ تیری آنکھو ں نے تجھے دھوکا دیا اور تو مجھے دھوکا دے رہا ہے ۔

دیہاتی۱:۔ میں نہیں بلکہ سچ بات کا یقین نہ کر کے آپ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔

رستم:۔ تیری سچائی کا ثبوت۔

دیہاتی۲:۔ ثبوت اور گھوڑا ، دونوں آپ کو سمنگان میں ملیں گے ۔

(دونوں چلے جاتے ہیں)

رستم:۔ سمنگان۔کون سمنگان؟توران کی ایک چھوٹی سی ریاست !زمین کے نقشے میں ایک دھندلاسانشان!دنیا کے جغرافیہ میں ایک حقیر نقطہ ! (ڈھال اور گرز اٹھا کر) دیکھوں گا، دیکھوں گا ، سمنگان!دیکھوں گا ، کہ تیرے قلعے کی دیواریں ، تیرے بادشاہ کے تخت کے پائے ، تیرے بہادروں کے دل اور بازو کتنے مضبوط ہیں ۔ اپنے سپاہیوں سے کہ دے کہ اپنی کمانیں چڑھا لیں، اپنے ترکشوں میں تیر بھر لیں۔ اپنی تلواروں پر سان دھر لیں۔ تیرے آسمان کے لہو کے چھینٹوں سے اور تیری زمین کو لاشوں سے ڈھاک دینے کے لیے رستم آندھی اور طوفان بن کر تیری طرف آ رہا ہے ؂

پیے گا خون ، کہ غصہ ہے تشنہ لب میرا

کہیں پناہ نہ دے گا تجھے ، غضب میرا

گھِرا ہے شعلوں میں تو بھی ، ترا مقدر بھی

بجھا سکے گا نہ اس آگ کوسمندر بھی

(جوش و خروش کے ساتھ سمنگان کی طرف روانہ ہو جاتا ہے )



(سین ختم)
(دربارِ سمنگان)

(امرائے سلطنت حاضر ہیں ۔ حبشی تاتاری غلام کندھوں پر شراب کی زرنگار صراحیاں اور ہاتھوں میں طلائی جام لیے ہوئے ہیں ۔ شاہِ سمنگان تخت پر رونق افروز ہیں)

شاہِ سمنگان:۔ سمنگان کے ستارو !تاج کے وفادارو !یہ دنیا ازل سے ابد کی طرف جانے والا ایک راستہ ہے ۔ اس راستے پر خدا کے سوا خدا کی پیدا کی ہوئی ہر چیز سفر کر رہی ہے ۔ آج میری عمر کے مسافر نے بھی زندگی کے سفر میں اپنے راستے کی پچاس منزلیں طے کر لی ہیں ؂

کل بڑھاپا بھی نہ ہو گا نوجوانی کی طرح

ساتھ دنیا کے بہے جاتے ہیں پانی کی طرح

کس طرف کو جا رہے ہیں یہ پتا کوئی نہیں

اس سفر کی ابتدا ہے ، انتہا کوئی نہیں

وزیر:۔

حیاتِ جاودانی دے خدا اس دارِ فانی میں

ہماری عمر بھی مل جائے تیری زندگانی میں

پیلسم:۔

خوشی کا دن ، مسرت کا زمانہ بار بار آئے

ہزاروں بار یوں ہی اس گلستاں میں بہار آئے

(کنیزوں کا رقص، رقص کے بعدساقی امرائے دربار کے سامنے جامِ شراب پیش کرتے ہیں ۔ اس وقت رستم غصے اور جوش میں داخل ہوتا ہے )

رستم:۔(آ کر) بس بس،دنیا میں تمھاری خوشی کے دن ختم ہو چکے ۔پیالے پھینک دو۔ صراحیاں توڑ دو، اپنی ہستی کو آنسوؤں میں غرق کر دو ۔ (بادشاہ سے ) تمھیں سمنگان کے بادشاہ ہو ؟ (درباریوں سے ) ہاں تمھیں اس تخت و تاج کی حفاظت کرنے والے بہادر ہو ؟یہی آنکھیں ہیں جو اپنے سوا تمام دنیا کو حقارت سے دیکھتی ہیں ۔ یہی ہاتھ ہیں جو شیر کی کلائی موڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ ؂

کمانیں بھی ہیں، ڈھالیں بھی ہیں، کندھوں پر تبر بھی

کرو ثابت کہ ان سینوں میں ہے دل بھی جگر بھی

بڑھو ، جوہر دکھاؤ، آج اگر تلوار باندھی ہے

میں آیا ہوں کہ دیکھو ، کون بجلی کون آندھی ہے

پیلسم :۔ شاہی دربار میں آج تک کسی نے اس جوش و دلیری کے ساتھ گفتگو کی جرأت نہیں کی۔ تم مظلوم ہو ، فریادی ہو، دیوانے ہو ، آخر کون ہو؟

رستم:۔ میں کون ہوں؟ اس تخت کے لیے زلزلہ، اس سلطنت کے لیے بربادی اور تم سب کے لیے موت کی گرج ؂

عدو کو پھونک دے وہ برقِ شعلہ فام ہوں میں

خدا کے قہر کا اک نقشِ انتقام ہوں میں

فنا کے ہونٹ سے نکلا ہوا پیام ہوں میں

اجل کے ہاتھ کی شمشیرِ بے نیام ہوں میں

یہ بزمِ عیش چمکتی ہے جو ستاروں سے

جلے گی اب مری تلوار کے شراروں سے

پیلسم:۔ ادب سیکھ ادب !یہ ہمارے بادشاہ کا انتہائی رحم ہے کہ ابھی تک تجھے اس گستاخی کی سزا نہیں دی گئی۔

رستم:۔ عورتوں کی طرح تمھاری زبان میں طاقت ہے مگر مجھے سزا دینے کے لیے تمھارے بازوؤں میں طاقت نہیں ہے ؂

ہستیِ نا چیز ، ٹھہرے گی فنا کے سامنے !

شمع کی لَو ، سر اٹھائے گی ہوا کے سامنے !

گھاس کا تنکا ، سزا دے ، اور کسے ؟ طوفان کو!

تم نے دیکھا ہی نہیں اب تک دلیر انسان کو

پیلسم:۔بس !اس سے زیادہ تحمل نہیں ہو سکتا۔ تیری گستاخی برداشت کی حد سے آگے بڑھ رہی ہے ؂

زباں اور سر کٹا دیتی ہیں تلخ و تیز تقریریں

نہ لہرائیں کہیں نا گن کی صورت سر پہ شمشیریں

ہماری بھی رگوں میں زندگی کا خون بہتا ہے

سمجھ رکھا ہے کیا تو نے ہمیں بے جان تصویریں

رستم:۔ زمین پر اُگی ہوئی گھاس جیسے پیروں سے روندتا ہوا یہاں تک آیا ہوں میں اس سے بھی زیادہ تمھیں بے حقیقت سمجھتا ہوں ۔ سنو !تم سمنگان کے شاہی دربار میں نہیں بلکہ قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے مجرموں کی طرح میرے غصے کی عدالت میں کھڑے ہو ۔ اگر دنیا میں زندہ رہنے کی خواہش ابھی پوری نہیں ہوئی ہے تو میرے غضب کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ، سر جھکا کر، ہاتھ جوڑ کر ، اپنے قصور کے لیے معافی اور اپنی زندگی کے لیے رحم مانگو ۔

بادشاہ:۔ اے شخص !میں بڑی دیر سے تیری دیوانگی آمیزگستاخیوں کو حیرت سے دیکھ رہا ہوں۔کسی مقدمے میں انصاف ، کسی قصور کی معافی ، کسی خدمت کا انعام ؟ بیان کر تو کیا چاہتا ہے ؟

رستم:۔ میں اپنا رخش نامی گھوڑا چاہتا ہوں۔ تیری سلطنت میں شریفوں کا چہرہ لگا کر پھرنے والے ڈاکو اسے تورانی سرحد سے چرا لائے ہیں ۔ اگر تو نے آج ہی، اسی وقت ، اسی جگہ اسے حاضر نہ کیا تو اس دنیا میں تیری ہستی اور اس زمیں پر سمنگان دکھائی نہ دے گا ؂

قسم خورشید کی ، نوری زرہ جس کے بدن پر ہے

قسم مہتاب کی، جو لشکرِ انجم کا افسر ہے

قسم ہے کہکشاں کی ، جو کمانِ چرخِ اخضر ہے

قسم ہے آسماں کی جو شفق کے خون سے تر ہے

دکھائی دو گے یوں تم آبِ خنجر کی روانی میں

بہیں ، ٹوٹی ہوئی کشتی کے تختے ، جیسے پانی میں

بادشاہ:۔تو اس دعوے سے بات کر رہا ہے گویا تباہی تیرے اشارے اور موت تیرے غصے کا نام ہے ۔انسان اتنا خوف ناک نہیں ہوتا۔میں تیرا نام جاننا چاہتا ہوں۔

رستم:۔ میرا نام سنتے ہی اس دربار کی دیواریں کانپ اٹھیں گی ، یہ شراب اور غرور کے نشے سے سرخ چہرے زرد ہو جائیں گے اور تو آندھی کے تھپیڑے سے ہل گئے درخت کی طرح تخت سے نیچے گر پڑے گا ؂

روح یوں لرزے گی گویا دب گئی ہے برف میں

اس قدر ہیبت ہے میرے نام کے ہر حرف میں

شورسے گونجا ہوا ہر شہر ہر ویرانہ ہے

نام میرا شیر کا ایک نعرۂ مستانہ ہے

بادشاہ:۔ چاہے تیرا نام سنتے وقت ہمارے کانوں کے پاس ہزاروں بادل ایک ساتھ گرج اٹھیں ، پھر بھی ہم تیرا نام سننا چاہتے ہیں ۔

رستم:۔ بازوؤں کی طاقت نے شہرت کی سنہری روشنائی سے ایران اور توران کے ذرے ذرے پر میرا نام لکھ دیا ہے ۔ میں سام اور نریمان کا جگر بند ، زال و رودابہ کا فر زند، زابلستان کا جّرار، فارس کا مددگار ؂

شاہ کیکاؤس کے اقبال کی تنویر ہوں

فاتحِ ملکِ شجاعت ، مالکِ شمشیر ہوں

تیر و ترکش میرے خادم ، گرز ہے ہمدم مرا

کام ہے میداں نوازی ، نام ہے رستم مرا

(سب چونک پڑتے ہیں ۔ شاہ گھبرا کر تخت سے اتر آتا ہے )

بادشاہ:۔ رستم ؟ رستم ؟ کیا وہی رستم جس کی عظمت مآب ہستی پر آج ایران فخر کرتا ہے ۔

رستم:۔ ہاں میں وہی رستم ہوں ۔ گھوڑا دویا جنگ کرو۔ بولو، زندگی اور موت دونوں میں سے کسے پسند کرتے ہو!

بادشاہ:۔ نامور رستم !ایرانی اور تورانی تلواروں کے ٹکرانے کی جگہ شاہی دربار نہیں، میدانِ جنگ ہے ۔ آئیے بیٹھیے ! آپ ہمارے مہمان ہیں۔میں میزبان کی حیثیت سے آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

رستم :۔اس دنیا میں میرا سب سے بڑا دوست میرا وفادار گھوڑا ہے ، جب تک وہ نہ مل جائے میں تمھاری طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاسکتا۔

بادشاہ:۔ آپ دو روز تک ہماری مہمانی قبول کیجیے ، سمنگان سے رخصت ہونے سے پہلے آپ کا گھوڑا آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔

رستم :۔ اپنا وعدہ وفا کرو گے ؟

بادشاہ:۔اگر انسان ہونے کا دعویٰ ہے ؟

رستم :۔مہمان بنا کر دھوکا تو نہ دو گے ؟

بادشاہ:۔ اگر کمینہ کہلانے کی شرم ہے ؟

پیلسم:۔ ٹھہریے جلالت مآب ٹھہریے !اس تاج و تخت کی حفاظت کرنے والے جان نثاروں کی طرف سے سمنگان کی وفادار رعیت کی طرف سے ، تورانیوں کی حمیت و غیرت کی طرف سے ، میں یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ آپ کس کی مرضی سے توران کے سب سے بڑے دشمن کو مہمان بنا رہے ہیں؟

بادشاہ:۔ اس سوال کا مطلب؟

پیلسم:۔جس طرح رعایا اپنے بادشاہ کی اطاعت گزار ہوتی ہے اسی طرح بادشاہ بھی ملک کی آواز اور رعیت کی مرضی کا تابع ہوتا ہے ۔ جب تک بادشاہ اور رعیت کی مرضی میں اتفاق نہ ہو حکومت اور سلطنت کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔

بادشاہ:۔ میں دوبارہ پوچھتا ہوں کہ ان لفظوں کا کیا مطلب ہے ؟

پیلسم :۔ آب خود مختار اور آزاد نہیں ، شنہشاہِ افراسیاب کے ما تحت ہیں ، اس لیے توران کے دشمن کو مہمان بنا کر دنیا میں تورانیوں کو بزدل اور بے حمیت ثابت نہ کیجیے ۔اس شرمناک جرأت کو نہ سمنگان کی رعیت معاف کرے گی اور نہ توران کا شہنشاہ افراسیاب معاف کرے گا۔

رستم:۔ افراسیاب؟ کون افراسیاب؟ وہی جو صدہا مرتبہ اپنی نامردی سے میدانِ جنگ کو ذلیل کر چکا ہے ، جو کتنی ہی بار رستم کی تلوار سے زندگی کی بھیک مانگ چکا ہے ؂

سرکشی میں جو فلک ہے ، روندے جانے میں زمیں

جس میں ہمت ہے ، نہ غیرت ، جس کی دنیا ہے نہ دیں

دم بھرے اس کا جو تجھ سا بزدل و نا مرد ہے

تیرا وہ افراسیاب ان ٹھوکروں کی گرد ہے

پیلسم:۔ (درباریوں سے )جس کے پہلے ہی لفظ پر تلواروں کو میان سے تڑپ کر باہر نکل آنا چاہیے تھا اس کی بد زبانی کا جواب دینے کے لیے ابھی تک تمھاری زبانوں اور ہاتھوں کو حرکت نہیں ہوئی ؂

شرم ہے تم پر ، اگر دنیا میں یہ زندہ رہے

ہاں بڑھو توران کا اقبال تابندہ رہے

(پیلسم اور اس کے ساتھی رستم پر حملہ کرتے ہیں ، رستم حملہ آوروں کو شکست دینے کے بعد پیلسم کو زمیں پر گرا کر خنجر نکالتا ہے )

ٹیبلو

(سین ختم)
سمنگان کی شاہی محل سرا

(شہزادی تہمینہ اور کنیزیں آتی ہیں)

تہمینہ :۔ نیلا آسمان ، ہنستا ہوا چاند، جگمگاتے ہوئے ستارے ،کتنی حسین رات ہے دن کے ختم ہوتے ہی دنیا کی خوب صورتی جاگ اٹھی ہے ۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ درخشاں نظارے قدرت کی شاعری ہیں اور رات چاند کی چادر اوڑھے ہوئے اس حسین شاعری کا مطالعہ کر رہی ہے ۔

کنیز(۱):۔اور مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سمنگان کی شہزادی کے حسن کا مقابلہ کرنے کے لیے نیلم کے تخت پر بیٹھی ہوئی رات کی ملکہ چاند کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنے سیاہ بالوں میں تاروں کے موتی پرو رہی ہے ۔

تہمینہ:۔ تم نے میرے حسن کی تعریف کرناکس سے سیکھا ہے ؟

کنیز(۱):۔ آپ کا آئینہ ، وہی آئینہ جس کے اندر آپ کا چہرہ اس طرح نظر آتا ہے گویا چاندی کے چشمے میں سونے کا پھول تیر رہا ہے ۔

تہمینہ:۔ آئینہ تو خوشامدی ہوتا ہے ۔

کنیز(۱):۔ معاف کیجیے وہ بد صورت چہرے کی کبھی خوشامد نہیں کرتا ۔

تہمینہ :۔اری بیوقوف !عورت کا حسن تو وہم کا خواب ، خیال کی حماقت اور یقین کی دیوانگی ہے ۔ وہ خوبصورتی جو عمر بڑھنے کے ساتھ کم ہو جاتی ہے ، ڈوبتے ہوئے دن کی روشنی کی طرح پھیکی پڑ جاتی ہے اور بجلی کی طرح چمک کر پھول کی خوشبو کی طرح اڑ جاتی ہے ۔ میں اس آنی اور فانی خوبصورتی کو عورت کے ساتھ جوانی کا مذاق سمجھتی ہوں ؂

بہار دلربائی ایک دھوکا ایک سایا ہے

یہ کچا رنگ ، مٹی کے کھلونوں پر چڑھایا ہے

کہاں کا حسن ، پاگل ہے جو اترائے جوانی پر

ہوا سے کچھ لکیریں بن گئی ہیں بہتے پانی پر

( ایک کنیز کا داخلہ)

کنیز (۲):۔حضور،حضور !سنتے ہی چونک اٹھیے گا ۔ میں آپ کے لیے اس پرانی دنیا کی ایک نئی خبر لائی ہوں ۔

تہمینہ:۔ نئی خبر !

کنیز (۲):جی ہاں نئی ، اچھوتی ، کنواری خبر۔اس دنیا کے سارے جھگڑوں کی جڑ تین چیزیں ہیں یعنی زمین، زر اور زن ۔ سلطنت کے لیے ، دولت کے لیے ، عورت کے لیے ، تو لڑائیاں ہوا ہی کرتی ہیں لیکن ایک گھوڑے کے لیے خون خرابہ ہوتے ہوئے آج ہی دیکھا ہے ۔

تہمینہ:۔ لڑائی ہوئی ۔کہاں؟

کنیز (۲):دربار میں۔

تہمینہ:۔ کس سے ؟

کنیز (۲):۔ ہمارے وزیر جنگ پیلسم اور ایران کے سپہ سالا ر رستم سے ۔

تہمینہ:۔ ایران کے دربار کی زینت رستم، سمنگان کے دربار میں کیسے آگیا؟

کنیز(۲):۔ اپنے کھوئے ہوئے گھوڑے کی تلاش میں۔

تہمینہ:۔ تو لڑائی کی وجہ؟

کنیز (۲):۔ انسانیت و شرافت کا فرض سمجھ کر ہمارے بادشاہ نے گھر آئے ہوئے قومی دشمن کو مہمان بننے کے لیے دعوت دی ۔ اس دعوت کو پیلسم اور اس کے ہم خیال سرداروں نے توران کی بے عزتی سمجھا ۔ اس بنا پر بات بڑھ گئی اور ایک خوف ناک جنگ شروع ہو گئی۔

تہمینہ:۔کہاں رستم!کہاں سمنگان!اری پاگل تو ضرور کوئی خواب دیکھ کر آئی ہے ۔

کنیز (۲):۔ تلواروں کی گھٹا میں رستم کو بجلی کی طرح چمکتے ہوئے دیکھ کر مجھے بھی اس نظارے پر خواب ہی کا دھوکا ہوا تھا لیکن اپنے حریف کو شکست دینے کے بعد رستم کو جہاں پناہ کے ساتھ آرام کے لیے محل میں جاتے ہوئے دیکھا تب یقین ہوا کہ میں خواب نہیں دیکھ رہی ہوں، جاگ رہی ہوں۔

تہمینہ :۔وہ سمنگان میں کب تک رہے گا؟

کنیز (۲):۔ پرسوں شام تک ، کیوں کہ گھوڑے کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے جہاں پناہ نے دو دن کا وعدہ کیا ہے ۔

تہمینہ:۔ میں برسوں سے رستم کا پُر جلال نام اور اس کی جرأت اور دلیری کے عجیب و غریب کارنامے سن رہی ہوں ۔جب دشمن بھی بے اختیار ہو کر اس کی بے مثال بہادری کی تعریف کرتے ہیں تو میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ وہ کتنا اقبال مند اور کیسا شان دار آدمی ہو گا جس کی شہرت نے تمام دنیا کو فتح کر لیا ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ ایک بار اس کو چھپ کر دیکھوں اور معلوم کروں کہ دنیا اس کی اتنی تعریف اور عزت کیوں کر رہی ہے ۔

کنیز:۔ (۲):۔ آپ رستم کو دیکھنا چاہتی ہیں؟

تہمینہ:۔ اگر ممکن ہو،لیکن چھپ کر اور وہ بھی صرف ایک بار۔

کنیز(۲):۔مگر یہ خیال رہے کہ رستم نے دنیا کو فتح کرنے کی قسم کھائی ہے اور آپ بھی دنیا کی حسین ترین شے ہیں کہیں وہ محبت کی طاقت سے آپ کو بھی فتح نہ کرے ۔

تہمینہ:۔ تو مجھ سے مذاق کرتی ہے ۔

کنیز(۲):یہ مذاق نہیں پیشین گوئی ہے ۔ کیوں کہ میں حسن و عشق کی قسمت کا حال بتانے والی نجومی ہوں ۔

(کنیزیں ہنستی ہیں۔ تہمینہ شرم و حیا سے گردن جھکا لیتی ہے )



(سین ختم)
شاہی محل

( آراستہ خواب گاہ ۔ رات کا وقت ۔ خواب گاہ کی کھڑکیوں میں سے شہر سمنگان کے گھروں کی روشنی دکھائی دے رہی ہے ۔ شاہ سمنگان اور رستم بیٹھے ہوئے ہیں۔ چند غلام ہاتھ باندھے ہوئے حکم کے منتظر کھڑے ہیں)

بادشاہ:۔ پیلسم کی زندگی اسے واپس دے کر آپ نے یہ ثابت کر دیا کہ جو بہادر ہوتا ہے وہ رحم دل بھی ہوتا ہے ۔

رستم:۔ لیکن معافی ملنے کے بعد بھی پیلسم کا چہرہ حسد کی آگ کے دھوئیں سے سیاہ ہو رہا تھا ۔ مجھے یقین نہیں کہ وہ میرے رحم کی قدر کرے گا۔

بادشاہ:۔ اب رات کی آنکھوں میں بھی نیند کا خمار دکھائی دے رہا ہے ۔ اجازت دیجیے کہ میں آپ کو شب بخیر کہوں۔

رستم:۔ اس مہربانی کا شکریہ۔

شاہ سمنگان:۔ میری دعا ہے کہ آپ آرام کی نیند سوئیں اور مسرت کا خواب دیکھ کر ہنستے ہوئے بیدار ہوں۔

(غلاموں کے ساتھ جاتا ہے )

رستم:۔ موت کیا ہے ؟ ایک لمبی نیند، اور نیند کیا ہے ؟ ایک مختصر موت۔ سونا اور مرنا، دونوں موت ہی کی دو شکلیں ہیں ۔ لیکن کیسے تعجب کی بات ہے کہ انسان ایک کو آرزو اور التجاؤں سے بلاتا ہے اور دوسرے کا نام سنتے ہی خوف سے کانپ اٹھتا ہے ؂

آسماں کے ہاتھ میں ہے چاند کا زرّیں ستار

گونج اٹّھے نغمہ و راحت سے اس کا تار تار

رات تھوڑی رہ گئی ہے صبح ہے جانا مجھے

ہاں سناؤ اے ستارو ! نیند کا گانا مجھے

(رستم سو جاتا ہے ۔ پیلسم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چوروں کی طرح دبے پاؤں داخل ہوتا ہے )

پیلسم:۔ خاموش ! آہستہ !پیروں کے نیچے کی زمین بھی تمھارے پاؤں کی آواز نہ سن سکے ۔

ہمراہی(۱):۔ ہاتھ میں چمکتے ہوئے خنجروں کی طرح ہمارے پاؤں بھی ہمارے قبضے میں ہیں، بڑھو۔

پیلسم:۔ ٹھہرو ! بڑھنے سے پہلے اپنی حمیت اور ہمت کا ایک بار اور امتحان کر لو۔ رستم کے ہاتھ سے سرِ دربار ذلیل ہونے کے بعد بھی تم اپنی بے عزتی پر صبر کر چکے تھے ۔لیکن میں نے اپنی تقریر سے تمھاری مردہ ہمتوں میں جان ڈال دی۔ تمھارے خون میں جو پانی بن گیا تھا ،اس میں پھر سے سرخی اور گرمی پیدا کی ، پھر تم سب نے اپنی ذلت کا بدلہ لینے کے لیے تلواروں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی۔

ہمراہی (۱):۔ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنی ذلت بھی یاد ہے اور قسم بھی۔

ہمراہی(۲):۔ دنیا کا خیال ہے کہ سیاہ رنگ پر کوئی رنگ نہیں چڑھتا۔ آخر ہم اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لیے رستم کے خون سے رات کی سیاہ چادر کو سرخ بنانے آئے ہیں۔

پیلسم:۔ تو جاؤ ، پہلے اس کے گرز اور ترکش پر قبضہ کر لو۔

(ساتھی رستم کا گرز اور ترکش اٹھا لیتے ہیں)

دیکھتے ہو کس اطمینان اور آرام کے ساتھ سو رہا ہے ۔ دشمنوں کے ملک میں دشمنوں کی چھت کے نیچے تم نے کسی انسان کو اس طرح نڈر ہو کر سوتے ہوئے نہ دیکھا ہو گا۔ گویا یہ فیصلہ کرنے کے بعد سویا ہے کہ دنیا میں اور سب کچھ ہے لیکن فکر ، ڈر اور موت نہیں۔

(چھُری مارنے جاتا ہے )

ہمراہی(۱):۔ (تہمینہ کو سامنے سے آتے دیکھ کر) ہوشیار! کوئی آ رہا ہے ۔

پیلسم:۔ یہ کون؟ تہمینہ !رستم کی خواب گاہ میں؟ سمنگان کی شہزادی !لیکن کیوں؟ جس طرح اس کے باپ نے دشمن کو مہمان بنا کر سارے توران کو بے عزت کیا ، کیا اسی طرح یہ بھی جوانی کے نشے سے اندھی ہو کر رستم کے آغوش میں اپنے کو ذلیل کرنے آئی ہے ؟

ہمراہی(۲):۔ ہم نے تو سنا تھا کہ صورت کی طرح اس کی سیرت بھی حسین ہے ۔

ہمراہی (۳):۔چھپ جاؤ اور سنو ! اس کی باتوں سے اس کا ارادہ ظاہر ہو جائے گا۔

پیلسم:۔ اگر یہ ناپاک ارادہ اور پُر از گناہ خیال لے کر یہاں آئی ہے تو قسم ہے سمنگان کی عزت کی ؂

نہ رہنے دوں گا کوئی نقش اس شاہی نگینے میں

یہ خنجر بھونک دوں گا سب سے پہلے اس کے سینے میں

ہزاروں کھیل دیکھے ، دیکھنا تم یہ تماشا بھی

تڑپتا ہو گا رستم کی بغل میں اس کا لاشا بھی

(سب چھپ جاتے ہیں ۔ تہمینہ خوف زدہ نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی داخل ہوتی ہے )

تہمینہ:۔ شرم اور دل کی جنگ کسی طرح ختم نہیں ہوتی ۔ شرم کہتی ہے کہ لوٹ چل اور دل کہتا ہے آگے بڑھ۔

(سوچتی ہے )

اگر وہ جاگ کر پوچھ بیٹھا کہ تم کون ہو ؟ کیوں آئی ہو ؟ تو شرم سے سر جھکانے کے سوا اور کیا جواب دے سکوں گی ... ہمت مجھے سہارا دے ...

(آہستہ آہستہ قریب جا کر سوئے ہوئے رستم کو دیکھتی اور حیرت زدہ ہو جاتی ہے ) کیا دیکھا ؟ نیند کی انگوٹھی میں ایک بیش قیمت ہیرا ، بہادری، نیکی اور شرافت کی روشنی سے چمک رہا ہے ۔ ایک زمین کا چاند جس کے سامنے آسمان کا چاند بھی کرنوں کا دامن پھیلا کر مردانہ حسن کی بھیک مانگ رہا ہے ؂

تجلّی صبح کی اور دبدبہ ہے بادشاہوں کا

یہ چہرہ دیکھنے سے نور بڑھتا ہے نگاہوں کا

(دوبارہ جھک کر غور سے دیکھتی ہے ، رستم جاگ اٹھتا ہے )

رستم:۔ (پلنگ سے دھیرے دھیرے اُٹھ کر) آنکھو ! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؂

عجب چہرہ ہے جس کو حسن کی کرنوں نے گھیرا ہے

یہ جلوہ ہے کہ جادو، چاندنی ہے یا سویرا ہے

(تہمینہ جانا چاہتی ہے ،رستم روکتا ہے ) ٹھہرو !اندھیری رات میں حسن کا چراغ لے کر آنے والی حسینہ ٹھہروا!تم کون ہو؟

تہمینہ:۔ اس سے زیادہ آپ کو جاننے کی ضرورت نہیں کہ میں سمنگان کی ایک شریف لڑکی ہوں۔

رستم:۔ تمھارا نام؟

تہمینہ:۔ تہمینہ۔

رستم:۔ اور جس کی زندگی کے باغ میں یہ حسین پھول پیدا ہوا ہے اس باغبان کا نام؟

تہمینہ:۔ شاہ سمنگان (رستم چونکتا ہے ) دوست اور دشمن ہر ایک کی زبان اقرار کرتی ہے کہ آپ انسانوں میں عظیم ترین انسان اور دنیا کی پر جلال ہستیوں میں عجیب و غریب ہستی ہیں۔ آپ کے حوصلے اور جرأت کے قصے سن سن کر میرے دل میں مدّت سے خواہش تھی کہ آپ کی زیارت کروں۔ آج وہ تمنا پوری ہوئی۔ اب اجازت چاہتی ہوں۔

(دھیرے دھیرے دروازے کی طرف لوٹتی ہے )

رستم:۔ کیا میں وہی رستم ہوں !اوہ کتنا عجیب انقلاب؟ دنیا فتح کرنے والے کو آج ایک عورت کے حسن نے فتح کر لیا (بے تابانہ) ؂

یہی ہے جس سے ہر شے ہے حسین و زرنگار اتنی

کہاں سے لائی دنیا ورنہ حسن اتنا بہار اتنی

(تہمینہ جانا چاہتی ہے )

سنو!ٹھہرو !چلیں منہ پھیر کر کیوں خستہ جانوں سے

سمنگاں کا یہی دستور ہے کیا میہمانوں سے

تہمینہ :۔ سمنگان اچھی طرح اپنے مہمانوں کی عزت کرنا جانتا ہے ۔ کیا یہ مہمانی آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہوئی۔

رستم:۔

ہو گیا بیگانہ کیوں آرام و ضبط و ہوش سے

پوچھیے یہ حال میری حیرتِ خاموش سے

جب سے میں جاگا ہوں ، لب ہے اور آہِ سرد ہے

جس جگہ پہلو میں دل تھا اب وہاں پر درد ہے

تہمینہ:۔ مرض سے بے پروائی مرض کا علاج نہیں ہے ۔ اجازت دیجیے کہ میں شاہی حکیم کو طلب کروں ۔

رستم :۔ روح کی بیماری کا علاج پیغمبر کرتے ہیں ، جسم کی بیماری کا علاج حکیم کرتے ہیں اور دل کی بیماری کا علاج محبت کی نظر کرتی ہے ؂

بس اب اس زندگی میں زندگی کا مدعا تم ہو

مرے غم کی شفا تم ہو مرے دل کی دوا تم ہو

(رستم تہمینہ کا ہاتھ پکڑتا ہے ، تہمینہ غصے سے ہاتھ جھٹک کر)

تہمینہ:۔ میرا ہاتھ چھوڑ دو ، تمھاری شرافت پر بھروسا کرنا میری غلطی تھی۔ یا د رکھو اپنی عصمت و آبرو کی حفاظت کے وقت سمنگان کی ہر شریف لڑکی رستم سے زیادہ طاقتور ہے ۔

رستم:۔ (حیرت سے ) یہ کیا؟ میری محبت کے پاک جذبے کو تم شک کی نظر سے دیکھتی ہو! میں کمینہ نہیں ہوں۔ شریف اپنے ہی خون سے اپنے جسم کو رنگ دے گا لیکن ذلت کے دھبوں سے اپنے نام و عزت کو کبھی داغ دار نہ کرے گا۔

تہمینہ:۔ معاف کرنا ، میں یہ سمجھی کہ ...

رستم:۔ تم جو بھی سمجھیں غلط سمجھیں۔رواج ، مذہب اور شادی کے مقدس قانون کے مطابق جو لڑکی میری قسمت میں برابر کی شریک ہو کر زندگی سے موت تک میرے رنج و راحت کی حصہ دار ہو گی، اس کے سوا رستم ہر جوان لڑکی کو اپنی بہن اور ہر بوڑھی عورت کو اپنی ماں سمجھتا ہے ؂

کبھی ہو گا نہ داغِ جرم سے چہرہ خجل میرا

نہ گندی ہے نظر میری نہ ہے ناپاک دل میرا

تہمینہ:۔ ہر دوشیزہ لڑکی آپ جیسے شریف اور بہادر کی لونڈی بننا اپنی خوش نصیبی سمجھے گی ۔ لیکن اس بات کو نہ بھولیے کہ میں تورانی ہوں اور آپ ایرانی ہیں۔

رستم:۔ تو کیا تم محبت کو ایران اور توران کے لفظوں میں قید سمجھتی ہو۔ محبت کا کوئی مذہب ، کوئی قوم، کوئی وطن نہیں ہے ۔ محبت خدا کے رحم کی طرح ذات اور قوم کو نہیں صرف خوبیوں کو پوچھتی ہے ۔ محبت مذہبی منصب ، ملکی نفرت ، قومی دشمنی، ذاتی غرور اور ہر اندھیرے کو، سورج کی روشنی بن کر،دور کر دیتی ہے ۔ محبت پورب اور پچھم کی طرف بہتے ہوئے دو دریاؤں کو ایک بنا کر ایک راستے پر چلنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے ؂

محبت کی نگاہوں میں اندھیرا بھی سویرا ہے

نہ تورانی نہ ایرانی ، نہ تیرا ہے نہ میرا ہے

نئی تحریر لکھیں آؤ قسمت کے نوشتے میں

زباں سے ہاں کہو بندھ جائیں دو دل ایک رشتے میں

تہمینہ:۔ اس بات کا جواب دینے کا مجھے اختیار نہیں ہے ۔ ایشیا کی لڑکی شادی کے بعد شوہر کی اور شادی سے پہلے باپ کے حکم کی اطاعت کرتی ہے ۔

رستم:۔ رستم اور تہمینہ کی شادی،ممکن ہے کہ آئندہ کے لیے ایران اور توران کو دوست بنا دے ۔ اسی لیے مجھے کامل یقین ہے کہ تمھارے صلح پسند والد اس رشتے کو ضرور منظور کریں گے ؂

نا امیدوں کو نویدِ راحت و آرام دیں

ایک ہو کر آؤ دنیا کو نیا پیغام دیں

(تہمینہ شرما کر سر جھکا لیتی ہے ۔ پیلسم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ پوشیدہ مقام سے باہر نکلتا ہے )

پیلسم:۔ غافل ہے باندھ لو !

(پیلسم کے ساتھی پیچھے سے رستم کو موٹی زنجیروں سے جکڑ لیتے ہیں)

تہمینہ :۔ تم کون ہو؟

رستم :۔ یہ کیا؟

پیلسم:۔ غرور کا جواب ۔ توران کی ذلت کا بدلہ ؂

تری نخوت تری تقدیر نے دھوکا دیا تجھ کو

سمنگاں کی زمیں پر لائی تھی تیری قضا تجھ کو

نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی ہم وطن ہو گا

زمیں تیرا جنازہ آسماں تیرا کفن ہو گا

رستم:۔ احسان فراموش !دغا باز !جس طرح کتّے کے سامنے روٹی کا ٹکڑا پھینک دیتے ہیں اسی طرح میں نے دربار میں تیری چھینی ہوئی تلوار اور تیری حقیر زندگی رحم کر کے تجھے دے دی تھی۔ اگر تیری ماں کے دودھ میں غیرت کا ایک قطرہ بھی ہوتا تو ذلت کو بے حیائی کی فتح سمجھ کر دوبارہ میرے روبرو آنے کی جرأت نہ کرتا ۔ ؂

گیدڑ نے پھر سے روپ بھرا ہے دلیر کا

چہرہ لگا کے آیا ہے گردن پہ شیر کا

آنکھیں ہیں لال ، خوف سے پر رنگ زرد ہے

بے شرم تو شریف و جری ہے ، نہ مرد ہے

پیلسم :۔اب یہ بکواس اس زنجیر کے لوہے میں نرمی اور اس دل میں تیرے لیے رحم پیدا نہیں کر سکتی ؂

مری شرافت پہ کر لے حملے دہن میں جب تک تری زباں ہے

یہ لن ترانی، یہ بد زبانی ، بجھی ہوئی آگ کا دھواں ہے

رستم:۔ شرافت !ان قدموں میں بیٹھ کر جن ہونٹوں سے اپنے بزدل اور ذلیل ہونے کا اقرار کر چکا ہے ان ہونٹوں سے شرافت کے لفظ کو بے عزت نہ کر ۔ کمینے ! تو اس دنیا ہی میں پیدا نہیں ہوا جس میں شرافت اور شریف رہتے ہیں ؂

بے غیرتی کی آگ سے ، دوزخ ہے دل کا گرم

بازو میں تیرے زور، نہ آنکھوں میں تیری شرم

تو بھی کثیف ہے ترا دل بھی کثیف ہے

کتّا گلی کا تجھ سے زیادہ شریف ہے

پیلسم:۔ ہاتھی کو پکڑنے کے لیے جنگل میں گڑھا کھودنا ، سامنے سے آتے ہوئے شیر پر دور سے تیر چلانا، بھیڑیے کے پنجے میں پنجہ ڈال کر لڑنے کے بدلے دس قدم پیچھے ہٹ کر اس پر برچھا مارنا ، اگر یہ نامردی اور کمینہ پن نہیں ہے تو دشمن کو شمشیر کے بدلے تدبیر سے شکست دینا یہ بھی شرافت کے خلاف نہیں ہے ۔ ؂

فتح پانے کے لیے یہ آخری اوزار ہے

گُرز و خنجر کی طرح دھوکا بھی اک ہتھیار ہے

رستم:۔ دھوکا شیر دل شریفوں کا نہیں، لومڑی کا دل اور بچھو کی روح رکھنے والے کمینوں کا حربہ ہے ۔ ایک شریف دغا اور فریب سے دشمن پر فتح حاصل کرنے کو فتح نہیں اپنی شرافت کی شکست اور اپنی تلوار کی بے عزتی سمجھتا ہے ۔ ؂

جری کو آبرو اور جان پیاری ہے کمینے کو

بہادر مانگتا ہے موت بے شرمی کے جینے کو

پیلسم:۔ اب تیرا جینا اور مرنا دونوں ہمارے قبضے میں ہیں۔ اپنی روح سے کہہ کہ جسم سے نکل کر موت کی پیشوائی کرے ۔

(رستم کے سینے میں تلوار بھونکنے کے لیے آگے بڑھتا ہے )

تہمینہ:۔ خبر دار !(پیلسم کی کلائی پر زور سے گھونسہ مارتی ہے ) پیلسم کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ جاتی ہے ۔ (تہمینہ تلوار پر پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے ) انسانیت کی پیشانی پر شرم کے دھبے ! تو شیر کو دھوکے سے زنجیر میں جکڑ کر اس کے خون سے اپنی ذلیل تلوار کے منہ پر بہادری کا غازہ ملنا چاہتا ہے ۔حیف ہے تجھ پر۔ مجھے آج معلوم ہوا کہ سمنگان کی مائیں تیرے جیسے کمینے لڑکے بھی پیدا کرتی ہیں ؂

چاہتا ہے تو کہ سر جھک جائے سارے ملک کا

نام رسوا کر رہا ہے تو ہمارے ملک کا

یہ فریب ، اتنا حسد انسان کو انسان سے

یوں دغا کرتے نہیں حیوان بھی مہمان سے

پیلسم:۔ بدکار ، بد چلن۔ ملک کے دشمن کو اپنی عزت نذر کر دینے کے بعد ہمیں ملک کی عزت کرنا سکھا رہی ہے ۔

تہمینہ:۔ بدکار؟ بد چلن ؟ کیا کہا موذی نمک حرام؟

(جھپٹ کر پیلسم کا گلا پکڑ لیتی ہے )

یہ بل ، یہ جوش ، یہاں تک بڑھا جنون تیرا

میں پی کے چھوڑوں گی ان ناخنوں سے خون تیرا

پیلسم:۔ (گلا چھڑانے کے بعد) باندھ لو۔

(پیلسم کے سپاہی دو طرف سے تہمینہ کی کلائیاں پکڑ لیتے ہیں)

تہمینہ:۔ (ہاتھ چھڑاتے ہوئے ) چھوڑ دو،کمینو!مجھے چھوڑ دو ، اس پاجی کو اپنے گندے منہ کے ہر لفظ کا ثبوت دینا ہو گا۔ میں اس سے اپنی بے عزتی کا ثبوت مانگتی ہوں... کُتّے ! جو کچھ کہا ہے اسے ثابت کر ؂

مرد ہے تو اپنی غیرت کو ذرا للکار دے

ایک تو تلوار لے اور اک مجھے تلوار دے

رستم:۔ بدبخت ، بیوقوف، رحم و درگزر کو بھی مجبوری سمجھتے ہیں۔ پیلسم میری برداشت پر غلط بھروسا نہ کر، میں اور سب کچھ دیکھ سکتا ہوں لیکن بچے کی تکلیف ، بوڑھے پر ظلم اور عورت کی بے عزتی کبھی نہیں دیکھ سکتا ۔

پیلسم:۔

دیکھنا ہی ہو گا جو کچھ ہے تری تقدیر میں

دیکھنے ہی کے لیے باندھا ہے اس زنجیر میں

رستم:۔

باندھ رکھنے کے لیے کافی یہ تدبیریں نہیں

گھاس کے تنکے ہیں لوہے کی زنجیریں نہیں

(زنجیر کو توڑ کر گُرز اٹھانے کے لیے دوڑتا ہے )

گُرز ترکش کیا ہوئے اچھا مری ہمت تو ہے

ہاتھ میں حربہ نہیں ، پر ہاتھ میں طاقت تو ہے

(گُرز نہ پا کر چھت کا کھمبا توڑ کر اس سے پیلسم اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کرتا ہے )

لڑائی ۔ٹیبلو



(ڈراپ سین)