صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ: یہ دھواں سا (سلام بن رزاق)

فہرست





انجام کار. 5

باہم 50

بٹوارہ 78

دہشت.. 95

گیت.. 103

حلالہ 119

کام دھینو. 133

ندی. 177

نارد نے کہا 196

یہ دھواں سا 220









انجام کار



آج شام کو آفس سے گھر لوٹتے وقت تک بھی میں نہیں سوچ سکتا تھا کہ حالات مجھے اس طرح پیس کر رکھ دیں گے۔ میں چاہتا تو اس سانحے کو ٹال بھی سکتا تھا مگر آدمی کے لیے ایسا کر سکنا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ کچھ باتیں ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے کی حدود سے پرے ہوتی ہیں اور شاید ایسے غیر متوقع سانحات ہی کو دوسرے الفاظ میں 'حادثہ' کہتے ہیں۔ جو بھی ہو۔ میں حالات کے غیر مرئی شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اور اب اس سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

آج گھر لوٹنے میں مجھے دیر ہو گئی تھی اس لیے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مجھے بیوی کی پریشانی کا بھی خیال تھا۔ وہ یقیناً کھڑکی کی جھری سے آنکھ لگائے میری راہ دیکھ رہی ہو گی اور ذرا ذرا سی آہٹ پر چونک پڑتی ہو گی۔ سانجھ کی پرچھائیاں گھر آئی تھیں۔ میں جیسے ہی گلی میں داخل ہوا، اس جانے پہچانے ماحول نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ٹین کی کھولیوں کے چھجوں سے نکلتا ہوا دھواں ادھر ادھر بہتی نالیوں کی بدبو اور ادھ ننگے بھاگتے دوڑتے بچوں کا شور، کتوں کے پلے، مرغیاں اور بطخیں، دو ایک کھولیوں سے عورتوں کی گالیاں بھی سنائی دیں جو شاید اپنے بچوں یا پھر بچوں کے بہانے پڑوسیوں کو دی جا رہی تھیں۔

میں جب اپنی کھولی کے سامنے پہنچا تو دیکھا کہ میرے دروازے کے سامنے گندے پانی کی نکاسی کے لیے جو نالی بنی تھی، اس میں شامو دادا کا ایک چھوکرا دیسی شراب کی کھن بوتیںک چھپا رہا ہے۔ مجھے اپنے سر پر دیکھ کر پہلے تو وہ کچھ بوکھلایا۔ پھر سنبھل کر قدرے مسکرا دیا۔ دیسی شراب کی بو میرے نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔ میں نے ذرا تیز لہجے میں پوچھا،

’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

وہ اطمینان سے مسکراتا ہوا بولا، ’’دادا نے یہ چھے بوتلیں یہاں چھپانے کو بولا ہے۔‘‘

گلی کی گندگی جب تک گلی میں تھی تو کوئی بات نہیں تھی۔ مگر اب وہ گندگی میرے دروازے تک پھیل آئی تھی اور یہ بات کسی بھی شریف آدمی کے لیے ایک چیلنج تھی۔ لہٰذا میں چپ نہ رہ سکا۔ میں نے اسی تیز لہجے میں کہا،

’’یہ بوتلیں یہاں سے ہٹاؤ۔ یہ گٹر تمہاری بوتلیں چھپانے کے لیے نہیں بنی ہے۔‘‘

لڑکا تھوڑی دیر تک مجھے گھورتا رہا۔ پھر بولا، ’’اپن کو نہیں معلوم، دادا نے یہاں چھپانے کو بولا تھا۔‘‘

’’میں کچھ نہیں جانتا۔ چلو اٹھاؤ یہاں سے۔‘‘

لڑکے نے ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑاتے ہوے بوتلیں واپس اپنے میلے جھولے میں رکھ لیں۔ پھر جاتے جاتے مڑ کر بولا، ’’ساب!جاستی (زیادہ) ہو ساری دکھائے گا تو بھاری پڑے گا۔ یہ نہر و نگر ہے۔‘‘

میں نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اس آوارہ چھوکرے کے منہ لگنا بے کار تھا۔ وہ بوتلیں لے کر چلا گیا۔ یہی غنیمت تھا۔ میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ میں نے کنکھیوں سے دیکھا، میری اور لڑکے کی گفتگو سن کر ارد گرد کی کھولیوں کے دروازے کھلے اور کچھ عورتیں باہر جھانکتی ہوئی، دلچسپی اور تجسس سے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں نے اس طرف دھیان نہیں دیا اور اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا۔ بیوی بھی شاید میری آواز سن چکی تھی۔ وہ دروازہ کھولے کھڑی تھی۔

’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے قدرے گھبراہٹ کے ساتھ پوچھا۔ میں کمرے میں داخل ہو گیا۔ بیوی نے دروازے کے پٹ بھیڑ دیے۔

’’کم بختوں کو دوسروں کی تکلیف یا عزت کا ذرا خیال نہیں۔‘‘ میں جوتے کی لیس کھولتے ہوئے بڑبڑایا۔

’’کیا ہوا؟‘‘ بیوی کا لہجہ گھبرایا ہوا ہی تھا۔

’’ارے وہ شامو دادا کا چھوکرا اپنے گھر کے سامنے والی نالی میں شراب کی بوتلیں چھپا رہا تھا۔‘‘

بیوی تھوڑی دیر چپ رہی پھر بولی، ’’میں کہتی ہوں خدا کے لیے کوئی دوسری جگہ ڈھونڈ لیجیے۔ آج نل پر چھے نمبر والی آنٹی بھی خواہ مخواہ مجھ سے الجھ پڑی تھی۔‘‘

میں نے بش شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے پوچھا، ’’کیا ہوا تھا؟‘‘

’’ہوتا کیا، یہ لوگ تو جھگڑے کے لیے بہانہ تلاشتے رہتے ہیں۔ سب کو نمبر سے تین تین ہنڈے پانی ملتا ہے۔ میں نے صرف دو ہنڈے لیے تھے۔ وہ کہنے لگی، تمہارے گھر میں زیادہ ممبر نہیں ہیں، تم صرف دو ہنڈے لو۔ میں نے کہا سب کو تین ملتے ہیں تو میں بھی تین ہی لوں گی۔ دو کیوں لوں؟ بس اسی پر بات بڑھ گئی۔‘‘

میں کھاٹ پر لیٹ گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر کیا کیا جائے۔ ابھی تین چار ماہ تک کھولی بدلنے جیسی میری حالت نہیں تھی اور یہاں ایک ایک دن گزارنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے یہاں آئے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے۔ بیوی یہاں کے ماحول سے اس قدر پریشان ہو چکی تھی کہ روز رات کو سونے سے پہلے وہ ادھر ادھر کی باتوں کے درمیان گھر بدلنے کی بات ضرور کرتی۔ میں کبھی سمجھا کر، کبھی ڈانٹ کر اسے ٹال دیتا۔ یہ بات نہیں تھی کہ وہ میری مالی حالت سے واقف نہیں تھی۔ مگر وہ بھی ایک عام گھریلو عورت کی طرح ایک اچھے گھر کی خواہش کو اپنے دل سے کسی طرح بھی الگ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی یہ خواہش اس وقت مزید شدت اختیار کر جاتی جب گلی میں کوئی لڑائی جھگڑا یا دنگا فساد ہو جاتا۔ اس قسم کے دنگے یہاں تقریباً روز ہی ہوا کرتے تھے۔ بعض اوقات تو معمولی جھگڑے سے بھی خون خرابے تک نوبت آ جاتی۔ اتوار کے روز یہاں کے ہنگاموں میں خصوصیت سے اضافہ ہو جاتا۔ ہفتے کے چھے دن تو زیادہ تر عورتیں آپس میں لڑتی رہتیں۔ کبھی کبھی نل یا سنڈاس کی لائن میں دو چار عورتیں ایک دوسرے سے الجھ پڑتیں۔ جھونٹے پکڑ کر بھی کھنچے جاتے۔ مگر یہ جھگڑے گالی گلوج یا معمولی نوچ کھسوٹ سے آگے نہ بڑھ پاتے۔ مگر اتوار کا دن ہفتے بھر کے چھوٹے موٹے جھگڑوں کا فیصلہ کن دن ہوتا کیوں کہ اس دن ان عورتوں کے شوہروں، بیٹوں اور دوسرے عزیز رشتے داروں کی چھٹی کا دن ہوتا جو موٹر ورک شاپوں، ملوں اور دیگر چھوٹے موٹے کارخانوں میں کام کرتے تھے۔ اس دن شنکر پاٹل کا مٹکے کا کاروبار بھی کلوز رہتا۔ البتہ شامو دادا کے اڈے پر خاص رونق ہوتی صبح ہی سے پینے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ اور لوگ ’نوٹانک‘ پاوسیر، پی پی کر گلی میں اس سرے سے اس سرے تک لڑکھڑاتے گالیاں دیتے اور ہنستے قہقہے لگاتے گھومتے رہتے۔ ہفتے بھر عورتیں انھیں اپنے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی جو رپورٹیں دیتی تھیں وہ انھیں رپورٹوں کی بنیاد پر کسی نہ کسی بہانے لڑائی چھیڑ دیتے۔ ہفتے بھر کا حساب چکانے کے لیے مرد اپنے اپنے ٹین اور لکڑیوں کے ناپہتک جھونپڑوں سے نکل آتے۔ دن بھر خوب جم کر لڑائی ہوتی۔ دو چار کا سر پھٹتا اور دو چار کو پولیس پکڑ کر لے جاتی۔ یہ ہر اتوار کا معمول تھا۔

یہاں کے ماحول سے میں بھی کافی پریشان تھا۔ مگر صرف پریشانی سے کب کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے۔ شہروں میں ایک صاف ستھرے ماحول میں، مناسب مکان کا حاصل کرنا مجھ جیسے معمولی کلرک کے لیے کتنا مشکل ہے، اس کا صحیح اندازہ بیوی کو نہیں ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ وہ گاؤں سے پہلی دفعہ شہر آئی تھی۔

اتنے میں بیوی چائے کا پیالہ لے کر ساڑی کے پلو سے منہ پونچھتی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر تک خاموش نظروں سے میری طرف دیکھتی رہی۔ پھر بولی، ’’لیجیے چائے پی لیجیے۔‘‘

میں نے چائے کا پیالہ اٹھا لیا۔ وہ کہہ رہی تھی۔

’’پرسوں تین نمبر والی زلیخا آئی تھی اس نے مجھ سے ادھار آٹا مانگا۔ میں نے بہانہ کر دیا کہ گیہوں ابھی پسائے نہیں گئے ہیں۔ اس وقت وہ چپ چاپ چلی گئی۔ مگر تب سے سنڈاس کی لائن میں، نل پر مجھے دیکھتے ہی ناک چڑھا کر آنکھیں مچکاتی ہے اور میری طرف منہ کر کے تھوکتی ہے۔ کتیا کہیں کی۔‘‘

بیوی نے منہ بناتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا۔ میری نظریں بیوی کے چہرے پر گڑی ہوئی تھی۔ میں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا، ’’تھوڑا سا آٹا دے دینا تھا۔‘‘

’’کیا دے دیتی؟‘‘ اس کی آواز مزید تیکھی ہو گئی۔ ’’آپ نہیں جانتے، ان لوگوں کی نہ دوستی اچھی، نہ دشمنی۔ اسی لین دین پر تو آئے دن یہاں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ بیوی نے جیسے کسی بہت بڑے راز کا انکشاف کرنے والے انداز میں کہا۔ میں چپ تھا، وہ کہہ رہی تھی۔

’’آج آپ نے دیر کر دی۔ خدا کے لیے آپ آفس سے جلد آیا کیجیے۔ آپ کے آفس سے لوٹنے تک میری جان سوکھتی رہتی ہے۔ یہاں پل، پل ایک جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ آپ کے لوٹنے سے پہلے سامنے والی سکینہ اور رابوں میں خوب گالی گلوج ہوئی۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’کچھ نہیں، سکینہ کے بچے نے رابو کی بطخ کو کنکر مارا تھا۔ بس اسی پر دونوں میں خوب جم کر لڑائی ہوئی وہ تو سکھو تائی نے دونوں کو سمجھا بجھا کر چپ کرایا۔ ورنہ نوچ کھسوٹ تک کی نوبت آ گئی تھی۔‘‘

میں سننے کو تو بیوی کی باتیں سن رہا تھا۔ مگر میرا ذہن شامو دادا کے چھوکرے کے ساتھ ہوئی گفتگو میں الجھا ہوا تھا۔ کمبخت ایک تو غلط کام کرتے ہیں اور ٹوکو تو دھمکیاں دیتے ہیں۔ دادا گری دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اچانک بیوی بولتے بولتے چپ ہو گئی۔ وہ کچھ سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ آوازیں میرے دروازے پر آ کر رک گئیں۔ میں نے شامو دادا کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا۔

’’چل بے لالو! رکھ اس میں بوتلیں۔ دیکھتا ہوں کون سالا روکتا ہے۔‘‘

ایک لمحے کو میرا دل زور سے دھڑکا۔ آخر وہی ہوا جس سے میں اب تک بچتا آیا تھا۔ میں نے بیوی کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:

’’جانے دیجیے، رکھ لینے دیجیے۔ پنا کیا جاتا ہے۔‘‘

پیالے میں تھوڑی سی چائے بچی تھی۔ میں نے پیالہ اسی طرح فرش پر رکھ دیا۔ پھر اس سے اپنا ہاتھ دھیرے سے چھڑاتا ہوا بولا۔

’’تم چپ بیٹھی رہو۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس طرح ان کی ہر بات برداشت کر لیں گے تو یہ لوگ ہمارے سر پر سوار ہو جائیں گے۔‘‘ میں کھاٹ پر سے اٹھ گیا۔

بیوی گھگھیائی۔ ’’نہیں خدا کے لیے آپ باہر مت جائیے۔ آپ اکیلے کیا کر سکیں گے۔ وہ بدمعاش لوگ ہیں۔‘‘

میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’پاگل ہوئی ہو۔ میں کیا جھگڑا کرنے جا رہا ہوں۔ آخر بات کرنے میں کیا حرج ہے۔‘‘

میں دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ شامو دادا کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کھڑا تھا۔ اس کے پاس اور دو چھوکرے جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے۔ وہی چھوکرا جو پہلے بھی آیا تھا، جھولے سے بوتلیں نکال نکال کر گٹر میں دبا رہا تھا۔ میرے باہر نکلتے ہی وہ چاروں میری طرف دیکھنے لگے۔ شامو ایک لمحے تک مجھے گھورتا رہا۔ پھر چھوکرے سے مخاطب ہوا۔

’’اے سالے! سنبھال کر رکھ، کوئی بوتل پھوٹ ووٹ گئی تو تیری بہن کی... ایسی تیسی کر ڈالوں گا۔‘‘

میں اپنے چبوترے کے کنارے پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ لوگ میری طرف مڑے۔ ان کی آنکھوں میں غصہ، نفرت اور حقارت کے بھاؤ اتر آئے۔ میں نے قریب پہنچ کر نہایت نرم لہجے میں شامو سے کہا۔

’’آپ ہی شامو دادا ہیں؟‘‘

’’ہاں کیوں؟‘‘ شامو کسی کٹکھنے کتے کی طرح غرایا۔

’’دیکھیے یہاں ان بوتلوں کو مت رکھیے ہمیں تکلیف ہو گی۔‘‘

’’تکلیف ہو گی تو کوئی دوسری جگہ ڈھنڈو۔ اس جھونپڑ پٹی میں کیوں چلے آئے۔‘‘

’’میری بات سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ یہ چیزیں ہمیں پسند نہیں ہیں۔ کسی دوسری جگہ کیوں نہیں رکھتے انھیں۔‘‘

’’یہ بوتلیں یہیں رہیں گی، تمہیں جو کرنا ہے کر لو۔‘‘

اس کے باقی دونوں ساتھی میری طرف بڑھتے ہوئے بولے، ’’یہ تمہارے باپ کی گٹر ہے کیا؟‘‘

اس وقت اندر ہی اندر ابلتے غصے کی وجہ سے میری جو حالت ہو رہی تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ جی میں آ رہا تھا کہ ان تینوں کم بختوں کی ایک سرے سے لاشیں گرا دوں۔ مگر میں جانتا تھا کہ ایسی جگہوں پر اپنا ذہنی توازن کھونے کا مطلب سوائے پٹنے کے اور کچھ بھی نہیں۔ میں نے لہجے کو ذرا بھاری بناتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو باپ دادا کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ میں اب تک شرافت سے آپ لوگوں کو سمجھا رہا ہوں۔‘‘

’’ارے تو، تو کیا کر لے گا ہمارا۔ تیری ماں کی.... مادر... سالا.... ایک جھاپڑ میں مٹی چاٹنے لگے گا اور ہم سے ہوشیاری کرتا ہے۔‘‘ شامو نے دو قدم میری طرف بڑھا تے ہوئے کہا۔

گالی سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے انگلی اٹھا کر کہا۔ ’’دیکھو شامو! اپنی حد سے آگے مت بڑھو۔ ایک تو غیر قانونی کام کرتے ہو اور اوپر سے سینہ زوری کرتے ہو۔‘‘

’’ارے تیرے قانون کی بھی ماں کی......‘‘ شامو میری طرف لپکتا ہوا بولا۔ اس کے ایک ساتھی نے اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا، ’’ٹھہرو دادا، اس سالے کو میں ٹھیک کرتا ہوں۔‘‘

اس نے جیب سے ایک لمبا سا چاقو نکال لیا۔ کڑ، ڑ، کڑ، ڑکڑ، ڑ، چاقو کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی میرے جسم میں سر سے پیر تک چیونٹیاں رینگ گئیں۔ میری انتہائی کوشش کے باوجود حالات میرے قابو سے باہر ہو چکے تھے۔ ایک لمحے کو میں سر سے پیر تک کانپ گیا۔ ارد گرد کے جھونپڑوں سے عورتیں، مرد اور بوڑھے سب نکل آئے تھے۔ سب کے سب اس جھگڑے کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ شامو کے ساتھی کے چاقو نکالتے ہی دو تین عورتوں کے منہ سے چیخیں نکل گئیں اور ان چیخوں نے میری نس نس میں ایک کپکپاہٹ سی بھر دی۔ میں زندگی میں پہلی دفعہ اس قسم کی سچویشن سے دو چار ہوا تھا۔ میرا سارا غصہ ایک خوف زدہ بچے کی طرح سہم کر میرے اندر ہی دب گیا۔ میں اب صرف ایک گھبراہٹ بھرے پچھتاوے کے ساتھ اس غنڈے کے چمچماتے چاقو کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں اس وقت بھاگ کر اپنے کمرے میں چھپ سکتا تھا۔ مگر اب بھاگنا بھی اتنا آسان نہیں رہ گیا تھا۔ کیوں کہ بیسیوں آنکھیں مجھے اپنی نظر کے ترازو میں تول رہی تھیں۔ بھاگنے کا مطلب تھا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان نگاہوں میں مر جاتا۔

وہ غنڈا چاقو لیے میری طرف بڑھا اور میں بے حس و حرکت وہیں کھڑا رہا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس وقت میں بہت بہادری سے کھڑا تھا۔ بلکہ اس وقت اپنے پیروں کو اس جگہ جمائے رکھنے میں مجھے جس کش مکش اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ میرا ہی دل جانتا ہے۔ میں اپنے کمرے کے چبوترے پر کھڑا تھا۔ وہ غنڈا بالکل میرے قریب پہنچ چکا تھا۔ قریب پہنچ کر وہ بھی ایک لمحے کو ٹھٹکا شاید اسے بھی توقع تھی کہ میں بھاگ کر کمرے میں گھس جاؤں گا۔ مگر جب خلاف توقع اس نے مجھے اسی طرح کھڑا پایا تو بجائے مجھ پر چاقو کا وار کرنے کے میری ٹانگ پکڑ کر مجھے نیچے کھینچ لینا چاہا۔ میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میری ٹانگ اس کے ہاتھ نہ آ سکی۔ اتنے میں پیچھے سے ایک چیخ سنائی دی اور کوئی آ کر مجھ سے لپٹ گیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، میری بیوی میری کمر پکڑے مجھے اندر کھنچنے کی کوشش کرنے لگی۔ وہ بری طرح رو رہی تھی۔

’’چلیے آپ اندر چلیے۔ خدا کے لیے آپ اندر چلیے۔‘‘ اس نے مجھے کمرے کی طرف گھسیٹتے ہوئے کہا۔ بیوی میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ مجھے اندر گھسیٹ لے جاتی۔ مگر میرا شعور بھی شاید اسی میں اپنی عافیت سمجھ رہا تھا۔ بیوی نے مجھے کمرے میں دھکیل کر دروازہ اندر سے بند کر لیا اور زور زور سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ایک لمحے تک باہر سناٹا چھایا رہا۔ صرف میری بیوی کی زور زور سے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ پھر باہر سے مغلظات کا ایک طوفان امڈ پڑا۔ وہ سب مجھے بے تحاشا گالیاں دے رہے تھے۔ پھر ایسا بھی سنائی دیا جیسے کچھ لوگ انھیں سمجھا رہے ہوں۔ مگر دو تین منٹ تک گالیوں کا سلسلہ برابر چلتا رہا۔ بیوی دونوں پیر پکڑے میرے گھٹنوں پر سر ٹکائے بری طرح رو رہی تھی۔ میں کھاٹ پر کسی بت کی طرح چپ چاپ بیٹھا رہا۔ آخر مغلظات کا طوفان رکا اور پھر ایسا لگنے لگا جیسے بھیڑ چھٹ رہی ہو۔ تھوڑی دیر بعد باہر مکمل سناٹا چھا گیا۔ صرف رہ رہ کر کسی کھولی سے کسی عورت کی کوئی تیکھی گالی اڑتی ہوئی آتی اور ایک طمانچے کی طرح کان پر لگتی۔ میں پتہ نہیں کتنی دیر تک اسی طرح چپ چاپ بیٹھا رہا۔ بیوی پتہ نہیں کب تک گود میں سر ڈالے روتی رہی۔ اس وقت ندامت غصہ اور خوف سے میری عجیب کیفیت تھی۔ ذہن گویا ہوا میں اڑا جا رہا تھا اور دل تھا کہ سینے میں سنبھلتا ہی نہیں تھا۔ میری ساری کوششوں کے باوجود معاملہ کسی کانچ کے برتن کی طرح میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا اور اب اس کی کرچیں میرے جسم میں اس طرح گڑ گئی تھیں کہ میرا سارا وجود لہو لہان ہو گیا تھا۔ میری ساری تدبیریں ناکام ہو گئی تھیں اور اب میں بہت بلندی سے گرنے والے کسی بدنصیب شخص کی طرح ہوا میں معلق ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ کسی کگار کو چھو سکنے یا کسی ٹھوس جگہ پر پاؤں جمانے کی بے نتیجہ کوشش... آخر میں نے طے کر لیا کہ میں جلد ہی یہ کھولی چھوڑ دوں گا۔ مگر کھولی چھوڑنے سے پہلے اپنی توہین کا بدلا بھی لینا تھا۔ مگر میں اکیلا کیا کر سکتا تھا۔ میں بہت دیر تک اسی پیچ و تاب میں بیٹھا رہا۔ آج میں اپنی نظروں میں ذلیل ہو گیا تھا۔ رہ رہ کر غنڈوں کی گالیاں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں اور میری بے بسی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا اور اس بے بسی کے احساس کے ساتھ ہی میرا غصہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ بیوی کی سکسکیاں اب تھم چکی تھیں مگر اس کا سر میری گود میں اسی طرح رکھا تھا۔ میں نے آہستہ سے اس کا سر اٹھاتے ہوئے کہا،

’’اٹھو چار پائی پر لیٹ جاؤ۔‘‘

بیوی اسی طرح فرش پر بیٹھی ساڑی کے پلو سے اپنی ناک سڑکنے لگی۔ میں اٹھ کر بس شرٹ پہننے لگا۔ بیوی نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’تم آرام کرو۔ میں ابھی پولیس اسٹیشن سے ہو آتا ہوں۔‘‘

’’نہیں آپ کہیں نہ جائیے۔‘‘

’’گھبراؤ نہیں۔‘‘ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی دس منٹ میں آ جاؤں گا۔‘‘

’’نہیں خدا کے لیے آپ ان لوگوں سے نہ الجھیے۔ وہ لوگ بہت بدمعاش ہیں۔‘‘

’’تم خواہ مخواہ گھبرا رہی ہو۔ یہ لوگ سیدھے سادے لوگوں پر اسی طرح دھونس جماتے ہیں۔ کسی کو مارنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ تم دیکھنا دس منٹ بعد پولیس ان سب کے ہتھکڑیاں لگا کے لے جائے گی۔ کسی شریف آدمی کو اس طرح پریشان کرنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔‘‘

’’مگر آپ اکیلے ہیں اور وہ بہت سارے ہیں۔ آپ اکیلے کتنوں سے لڑیں گے۔‘‘

’’ارے میں لڑنے کہاں جا رہا ہوں۔ پولیس شکایت درج کراؤں گا۔ پولیس خود آ کر ان سے سمجھ لے گی۔ ہم اس طرح ان کی بدمعاشی کو سہتے رہیں تو جینا دو بھر ہو جائے گا۔ انھیں ان کی بدمعاشی کی آخر کچھ تو سزا ملتی چاہیے۔‘‘

بیوی کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے۔ ’’جب ہمیں یہاں رہنا ہی نہیں ہے تو پھر خواہ مخواہ ان کے منہ لگنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

میں نے ذرا کڑے لہجے میں کہا، ’’تم اندر سے کنڈی لگا لو۔ تم ان باتوں کو نہیں سمجھتیں۔ وہ لوگ ہمارے دروازے پر آ کر ہمیں یوں ذلیل کر جائیں اور ہم پولیس میں شکایت تک نہ کریں۔ اس سے بڑی بزدلی اور کیا ہو سکتی ہے۔ آج انھوں نے دروازے پر گڑبڑ کی، کل گھر میں گھس سکتے ہیں۔‘‘ پھر لہجے کو تھوڑا نرم بناتے ہوئے کہا، ’’تم سمجھ دار ہو۔ ہمت سے کام لو۔ میں ابھی لوٹ آؤں گا۔ چلو اٹھو دروازہ اندر سے بند کرو۔‘‘

یہ کہہ کر میں باہر نکل گیا۔ بیوی مرے قدموں سے چلتی میرے پیچھے آئی۔ میں نے دروازہ بند ہونے کے ساتھ ہی اس کی ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز بھی سنی۔ گلی میں کافی اندھیرا تھا۔ پاس کی کھولیوں کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ چاروں طرف ایک ناخوشگوار قسم کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ میں گلی کو پار کر کے سڑک کے کنارے آ گیا۔ یہاں لیمپ پوسٹ کی ملگجی روشنی اونگھ رہی تھی۔ میں نے مڑ کر دائیں طرف نظر دوڑائی جہاں شامو کا شراب کا اڈہ تھا۔ چاروں طرف ٹاٹ سے گھرے اس اڈے میں کافی روشنی ہو رہی تھی۔ باہر بینچوں پر کچھ لوگ بیٹھے پیتے دکھائی دیے۔ پاس ہی سیخ کباب والا اپنی انگیٹھی دہکائے بیٹھا تھا۔ اڈے سے رہ رہ کر ہلکے ہلکے قہقہوں اور گلاسوں کے کھنکنے کی ملی جلی آوازیں آ رہی تھیں۔ پولیس اسٹیشن جانے کا راستہ اسی طرف سے تھا۔ مگر میں اس طرف جانے کے بجائے دوسری طرف مڑ گیا اور ریل کی پٹری کراس کر کے بڑی سڑک پر نکل آیا۔ میں دل ہی دل میں پولیس اسٹیشن میں انسپکٹر کے سامنے کی جانے والی شکایت کا خاکہ ترتیب دینے لگا۔ میں زندگی میں پہلی دفعہ پولیس اسٹیشن جا رہا تھا۔ دل میں ایک طرح کی گھبراہٹ بھی تھی۔ مگر ان بدمعاشوں کو مزہ چکھانے کا جذبہ اس گھبراہٹ پر کچھ ایسا حاوی تھا کہ پیر پولیس اسٹیشن کی طرف بڑھتے ہی گئے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ وہاں شریف آدمیوں سے کوئی سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا۔ میں ذہن میں ایسے جملوں کو ترتیب دینے لگا جن کے ذریعے پولیس انچارج کے سامنے اپنی بے بسی اور پریشانی کا واضح نقشہ کھینچ سکوں اور وہ فوراً متاثر ہو جائے۔ پولیس اسٹیشن کی عمارت آ گئی تھی۔ گیٹ میں داخل ہوتے وقت ایک بار پھر میرا دل زور سے دھڑکا۔

میں عمارت کی سیٹرھیاں چڑھ کر ورانڈے میں پہنچا۔ پاس ہی بچھی بینچ پر ایک کانسٹیبل بیٹھا ہتھیلی پر تمباکو اور چونا مسلتا نظر آیا۔ اس نے اپنی ٹوپی اتار کر پر بینچ رکھ لی تھی اور اس کی گنجی کھوپڑی بلب کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اس نے استہاٹمیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں اس کے قریب پہنچ کر ایک وقفے کے لیے رکا۔ پھر بولا، ’’مجھے ایک کمپلین لکھوانی ہے۔‘‘

’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ اس نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔

’’نہرو نگر سے۔‘‘

’’کیا ہوا؟‘‘ اس کی نظریں سر سے پیر تک میرا جائزہ لے رہی تھیں۔

’’وہاں کچھ غنڈوں نے مجھ پر حملہ کرنا چاہا تھا۔‘‘

’’ہم۔‘‘ اس نے تمباکو کو اپنے نچلے ہونٹ کے نیچے دباتے ہوئے زور سے ہنکاری بھری۔ پھر ہاتھ جھاڑتا ہوا بولا، ’’جاؤ، ادھر جاؤ۔‘‘ اس نے سیدھے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ میں اس طرف مڑ گیا جدھر کانسٹیبل نے اشارہ کیا تھا۔ کچھ قدم چلنے کے بعد ایک کھلا دروازہ دکھائی دیا۔ میں دروازے میں ٹھٹک گیا اور سامنے کرسی پر بیٹھے ایک موٹے حوالدار کو دیکھنے لگا۔ وہ شاید ہیڈ کانسٹیبل تھا اور گردن جھکائے ہوئے کوئی فائل الٹ پلٹ رہا تھا۔ پاس ہی ایک دوسری میز پر کوئی کلرک کچھ ٹائپ کر رہا تھا اور ایک دوسرا کانسٹیبل ایک طرف کرسی پر بیٹھا جمائیاں لے رہا تھا۔ میں نے ایک لمحے توقف کے بعد کھنکار کر کہا، ’’مے آئی، کم ان؟‘‘ ہیڈ کانسٹیبل نے فائل سے گردن اٹھائی جماہی لینے والا کانسٹیبل چندھیائی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگا۔ ہیڈ کانسٹیبل نے گردن ہلا کر مجھے اندر آنے کی اجازت دی۔ میں اندر داخل ہوا اور میز کے پاس جا کر کھڑا ہوا۔

’’کیا ہے؟‘‘ ہیڈ کانسٹیبل نے فائل پر سے نظریں اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

’’جی.... جی.... مجھے ایک کمپلین لکھوانی ہے۔‘‘

’’کہاں رہتے ہو؟‘‘

’’نہرو نگر میں۔‘‘

’’کیا ہوا، جلدی بولو۔‘‘ اس کا لہجہ بڑا اہانت آمیز تھا۔

میں نے دل میں الفاظ تولتے ہوئے کہا، ’’جی بات یہ ہے کہ میں نہرو نگر میں پانچ نمبر بلاک میں رہتا ہوں۔ وہاں شامو دادا کا شراب کا اڈہ ہے۔ اس کے چھوکروں نے آج مجھ پر چاقو سے حملہ کرنا چاہا تھا۔‘‘

’’کیوں؟ تم نے اسے چھیڑا ہو گا۔‘‘ ہیڈ کانسٹیبل نے کہا۔

میں اس ریمارک پر بوکھلا گیا۔ میں سمجھ رہا تھا شراب کے اڈے کا ذکر آتے ہی یہ لوگ ان غنڈوں کی غنڈا گردی کو سمجھ جائیں گے۔ کیوں کہ شامو نا جائز شراب کا کاروبار کرتا تھا۔ مگر اب حوالدار کے تیور دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔ میں نے مسمی صورت بنا کر کہا۔ ’’جی میں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘

’’پھر کیا اس کا دماغ خراب ہو گیا تھا جو خواہ مخواہ تم سے جھگڑا کرنے آ گیا۔‘‘ اس کے درشت لہجے نے میرے رہے سہے حواس بھی غائب کر دیے تھے۔ پھر بھی میں نے سنبھلتے ہوئے کہا:

’’جی بات یہ تھی کہ وہ ہمارے گھر کے سامنے والی نالی میں شراب کی بوتلیں چھپا رہا تھا۔ میں نے منع کیا۔ بسی اسی پر بگڑ گیا۔‘‘

’’ہم، یہ بات ہے۔ یہ بتاؤ تم نے منع کیوں کیا؟‘‘

’’جی!‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’صاحب وہ میرے گھر کے سامنے شراب چھپا رہا تھا۔ میں ایک شریف آدمی ہوں۔ کیا مجھے اس پر اعتراض کرنے کا حق بھی نہیں۔‘‘

ہیڈ کانسٹیبل نے ایک بار مجھے گھور کر دیکھا اور بولا، ’’ارے شراب کی بوتلیں نالی میں چھپا رہا تھا نا، تمھارا کیا بگڑتا تھا اس سے۔‘‘

مجھے اب سچ مچ غصہ آ گیا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں اس موٹے حوالدار کو ایک موٹی سی گالی دی مگر بہ ظاہر اپنے لہجے کو حتی الامکان نرم بناتے ہوئے کہا، ’’مگر حوالدار صاحب (حرامی صاحب) وہ غنڈہ آدمی ہے۔ اگر میں اس وقت اعتراض نہ کرتا تو وہ کل میرے گھر میں گھس سکتا تھا اور پھر اس کا دھندا بھی تو قانوناً نا جائز ہے۔‘‘

’’بس بس ہم کو معلوم ہے۔ یہاں قانون مت بگھارو۔ ادھر جاؤ پہلے صاحب سے شکایت کرو۔ وہ کہے گا تو ہم کمپلین لکھ لے گا۔‘‘ اس نے بائیں طرف ایک کیبن کے بند دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پھر وہ کرسی میں پڑے جماہی لیتے سپاہی سے مخاطب ہوا، ’’بھالے راؤ اس آدمی کو صاحب کے پاس لے جاؤ۔‘‘

بھالے راؤ نے ایک بار پھر منہ پھاڑ کر جماہی لی اور کچھ بڑبڑاتا ہوا ناگواری سے بولا۔ ’’چلو۔‘‘

وہ کرسی سے اٹھا اور لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا کیبن کی چق ہٹا کر اندر چلا گیا۔ پھر چند سیکنڈ بعد ہی باہر نکلا اور میری طرف دیکھے بغیر بولا، ’’جاؤ۔‘‘ اور خود دوبارہ اسی کرسی کی طرف مڑ گیا جہاں پہلے بیٹھا جماہیاں لے رہا تھا۔ میں چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ سامنے ایک سخت چہرے اور بڑی بڑی مونچھوں والا شخص مجھے گھور رہا تھا۔ میں نے تھوک نکلتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر اسے نمسکار کیا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا (میرے دونوں ہاتھ نمسکار کی شکل میں اب بھی جڑے ہوئے تھے ) سامنے دو خالی کرسیاں پڑی تھیں۔ مگر میں اس قدر نروس ہو گیا تھا کہ کرسی پر بیٹھنے کے بجائے، میز کے کونے سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ اس سخت چہرے والے پولیس انسپکٹر نے (ہاں وہ صورت سے پولیس انسپکٹر لگتا تھا) اپنی موٹی آواز میں پوچھا۔

میں نے پھر اپنے خشک ہوتے گلے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’صاحب میں ایک کمپلین لکھوانے آیا ہوں۔‘‘

’’کہاں رہتے ہو؟‘‘ اس نے مجھے سر سے پاؤں تک گھورتے ہوئے پوچھا۔

’’نہرو نگر میں۔‘‘ میں نے انتہائی نرم اور ملتجی آواز میں جواب دیا۔

’’بیٹھو۔‘‘ اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔

میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور شام کے جھگڑے کی تفصیلات سنانے لگا۔ میری گفتگو کے دوران وہ سگریٹ سلگا کر ہلکے ہلکے کش لیتا رہا۔ وہ میری باتیں اتنی بے دلی سے سن رہا تھا جیسے کوئی گھسا پٹا ریکارڈ سن رہا ہو۔ بس وہ سننے کے لیے سن رہا تھا۔ جب میں چپ ہوا تو ایک لمحے کو اس کی تیز نگاہیں میرے چہرے پر جمی رہیں۔ پھر اس کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔

’’اچھا تو اب تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

’’جی!‘‘ میں اس کے سوال کا مطلب نہیں سمجھ سکا تھا۔ اس لیے جی کر کے رہ گیا۔ انسپکٹر نے شاید میرے لہجے میں چھپے استعجاب کو بھانپ لیا تھا۔ اس نے فوراً دوسرا سوال کیا۔

’’کیا کام کرتے ہو؟‘‘

’’جی صاحب میں ’سی‘ وارڈ میں کلرک ہوں۔‘‘

’’گھر میں کون کون ہے؟‘‘

’’جی، میں اور میری بیوی۔‘‘

’’شاید نئے آئے ہو؟‘‘

’’جی ہاں، چھے ساتھ مہینے ہوئے ہیں۔‘‘

’’اچھا دیکھو واقعی تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور مجھے اس کا بڑا افسوس ہے مگر...‘‘

انسپکٹر کے ان جملوں سے میری ڈھارس بندھی اور میرا حوصلہ بھی بڑھا۔ میں نے درمیان میں جلدی سے کہا، ’’سر! اگر آپ چاہیں تو...‘‘

انسپکٹر کو شاید میرا اس طرح درمیان میں ٹوکنا برا لگا۔ اس نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔

’’پہلے ہماری بات سنو!‘‘

’’جی سر!‘‘ میں سہم کر ایک دم سے چپ ہو گیا۔

’’دیکھو! ہم ابھی تمہارے ساتھ دو چار سپاہی روانہ کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے آدمیوں کی مشکیں کسوا کر یہاں بلا سکتے ہیں۔ مگر سوچو اس سے کیا ہو گا۔ وہ دوسرے ہی دن ضمانت پر چھوٹ جائے گا اور پھر تمہیں وہی رہنا ہے اور وہ ہے غنڈا آدمی۔ چھوٹنے کے بعد وہ انتقاماً کچھ بھی کر سکتا ہے۔ کیا تم میں اتنی طاقت ہے کہ اس سے ٹکرا سکو؟‘‘

’’مگر سر! قانون...‘‘

اس نے ہاتھ اٹھا کر مجھے چپ کرا دیا اور سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں جھاڑتا ہوا بولا۔

’’قانون کی بات مت کرو۔ قانون ہم کو بھی معلوم ہے۔ پولیس تمھاری کمپلین پر ایکشن لے سکتی ہے۔ مگر چوبیس گھنٹے تمہاری حفاظت کی گارنٹی نہیں دے سکتی۔‘‘

میں گردن جھکائے چپ چاپ بیٹھا رہا۔ انسپکٹر نے دوسری سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو! تم سیدھے سادے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ ہو سکے تو وہ جگہ چھوڑ دو، اور اگر وہیں رہنا چاہتے ہو تو پھر ان غنڈوں سے مل کر رہو۔‘‘

’’مگر سر! وہ ناجائز شراب کا دھندا کرتا ہے کیا پولیس اس کا دھندا بند نہیں کراسکتی؟‘‘ (مجھے فوراً احساس ہوا کہ مجھے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا) ایک پل کے لیے انسپکٹر کی آنکھوں میں غصہ اتر آیا۔ اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔ پھر گمبھیر آواز میں بولا، ’’پولیس خوب جانتی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ شامو کا دھندا بند ہونے سے سارے کالے دھندے بند ہو جائیں گے، ایسا نہیں ہے۔‘‘

جی میں آیا کہہ دوں۔ کالے دھندے تو بند نہیں ہوں گے۔ مگر شامو سے ملنے والا ہفتہ ضرور بند ہو جائے گا اور تم یہی نہیں چاہتے۔ مگر ایسا کچھ کہنا اپنے آپ کو اندھے کنویں میں گرانے جیسا ہی تھا۔ کیوں کہ اگر یہ سامنے بیٹھا ہوا انسپکٹر ناراض ہو جائے تو الٹا مجھے اندر کرا سکتا ہے۔ میں نے کتنی ہی دفعہ شمامو کے اڈے پر پولیس والوں کو کوکا کولا پیتے اور سیخ کباب اڑاتے دیکھا تھا۔ ایک دو دفعہ تو وہ باہر بیٹھا ہوا ہیڈ کانسٹیبل بھی دکھائی دیا تھا۔ یہ میری ہی بھول تھی کہ میں یہاں دوڑا چلا آیا تھا۔ مجھے سچ مچ یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ ان حرام خوروں سے منصفی کی توقع رکھنا، کنجوس سے سخاوت کی امید رکھنے جیسا ہی تھا۔ مجھے یوں گم سم بیٹھا دیکھ کر انسپکٹر نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں رگڑتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو! اب بھی کمپلین لکھوانا چاہتے ہو تو باہر جا کر لکھوا دینا۔ ایک کانسٹیبل تمہارے ساتھ جائے گا اور شامو کو یہاں بلا لائے گا۔ اب تم جا سکتے ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے میز پر رکھی گھنٹی بجائی۔ جھٹ ایک حوالدار اندر داخل ہوا۔ انسپکٹر نے رعب دار آواز میں کہا۔

’’دیکھو یہ کوئی کمپلین لاج کرانا چاہتے ہیں۔ پانڈے سے کہو ان کی کمپلین لکھ لے اور بھالے راؤ کو ان کے ساتھ بھیج دے۔‘‘

’’یس... سر...!‘‘ حوالدار نے سر جھکا کر کہا۔ پھر میری طرف مڑ کر بولا۔ ’’چلو۔‘‘

میں حولدار کے پیچھے باہر نکل آیا۔ حولدار نے اسی موٹے کانسٹیبل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

’’پانڈے صاحب! بڑے صاحب نے اس آدمی کی کمپلینٹ لاج کرنے کو کہا ہے۔‘‘

پانڈے نے خشونت آمیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ چڑچڑاہٹ اور بیزاری اس کے چہرے سے صاف پڑھی جا سکتی تھی۔ ایک لمحے کو اس کی اور میری نظریں ملیں۔ میں نے دھیرے سے کہا۔

’’نہیں مجھے کوئی کمپلین نہیں لکھوانی ہے۔‘‘

اتنا کہہ کر میں تیزی سے دروازے کے باہر نکل گیا۔ اپنے پیچھے میں نے پانڈے کی آواز سنی جو شاید بھالے راؤ سے کہہ رہا تھا۔

’’ذرا ان کا حلیہ تو دیکھو۔ دم تو کچھ بھی نہیں اور چلے ہیں دادا لوگوں سے ٹکر لینے۔‘‘

میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پولیس اسٹیشن کے باہر نکل آیا۔ کلائی کی گھڑی دیکھی، دس بج رہے تھے۔ دکانیں قریب قریب بند ہو چکی تھیں۔ صرف، نیو اسٹار، ہوٹل کھلا تھا اور پان والے کی دکان پر کچھ لوگ کھڑے نظر آ رہے تھے۔ میں جیب سے دس پیسے کا ایک سکہ نکالا اور پان والے سے ایک پناما سگریٹ خرید کر پاس ہی جلتے ہوئے چراغ سے اسے سلگایا۔

میرے قدم پھر اپنے محلے کی طرف اٹھ گئے۔ میں اس وقت بالکل خالی الذہن ہو گیا تھا۔ نہ مجھے شامو پر غصے آ رہا تھا نہ پانڈے حوالدار پر نہ پولیس انسپکٹر پر۔ مجھے وہ تینوں ایک جیسے ہی لگے۔ انسپکٹر کی باتوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا، سچائی، انصاف اور شرافت سب کتابی باتیں ہیں۔ حقیقی زندگی سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس دنیا میں شریف اور ایمان دار آدمی کو لوگ اسی طرح نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جس طرح کسی زمانے میں برہمن، شدر لوگوں کو دیکھتے تھے۔ میں ریلوے پٹری کراس کر کے پتلی سڑک پر آ گیا تھا۔ نالیوں سے اٹھنے والے بدبو کے بھبکوں نے میرا استقبال کیا۔ میں پھر اپنے محلے میں داخل ہو چکا تھا۔ سامنے شامو کے اڈے پر ویسی ہی چہل پہل تھی۔ سیخ کباب والے کی انگیٹھی برابر دہک رہی تھی اور گلاسوں کی کھنک اور پینے والوں کی بہکی بہکی گالیاں فضا میں تیرتی پھر رہی تھیں۔

میں ایک پل کے لیے ٹھٹکا۔ پھر اپنے گھر کی طرف مڑنے کے بجائے شامو کے اڈے کی طرف بڑھ گیا۔ قریب پہنچ کر میں نے اڈے کا جائزہ لیا۔ پانچ دس آدمی بنچوں پر بیٹھے، سیخ کباب چکھتے، شراب کے گھونٹ لے رہے تھے۔ سوڈا واٹر کی بوتلیں اور شراب کے گلاس ان کے سامنے رکھے تھے۔ دیسی شراب کی تیز بو میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔ دو چھوکرے پینے والوں کو سرو کر رہے تھے۔ ان میں ایک وہی تھا، جس نے مجھ پر چاقو اٹھایا تھا۔ میں جیسے ہی روشنی میں آیا۔ اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ ایک لمحے کے لیے وہ چونکا پھر اپنے ہاتھ میں دبی سوڈے کی بوتل دوسرے چھوکرے کے ہاتھ میں تھماتا ہوا دھیمی آواز میں کچھ بولا۔ اس چھوکرے نے بھی پلٹ کر مجھے دیکھا اور پھر لپک کر اندر کے کمرے میں چلا گیا۔ مجھ پر چاقو اٹھانے والا اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے اسی طرح کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔ میں دھیرے دھیرے چلتا ہوا قریب کی ایک بینچ پر جا کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں شامو لنگی اور بنیان پہنے باہر نکلا۔ اس کے ساتھ دو چھوکرے اور بھی تھے۔ شامو کے تیور اچھے نہیں تھے۔

’’کون ہے رے!‘‘ اس نے تیکھے لہجے میں مجھ پر چاقو اٹھانے والے چھوکرے سے پوچھا۔ پھر اس کے جواب دینے سے پہلے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور وہ بھی ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گیا۔ میری نظریں اس کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ اس نے ان چھوکروں سے کچھ کہا۔ جسے میں نہیں سن سکا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا میرے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ دوسرے چھوکرے چند قدم کے فاصلے سے مجھے نیم دائرے کی شکل میں گھیر کر کھڑے ہو گئے۔ شراب پینے والے دوسرے گاہک بھی اب بہکی بہکی باتیں کرنے کی بجائے ہماری طرف دیکھنے لگے تھے۔ شاید وہ بھی سمجھ گئے تھے کہ اب یہاں کچھ ہونے والا ہے۔ میں اسی طرح بینچ پر بیٹھا شامو کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شامو نے اپنی لنگی اوپر چڑھاتے ہوئے کڑے لہجے میں پوچھا۔

’’اب کیا ہے؟‘‘

معاً اس کی اور میری نظریں ملیں۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ میں نے نہایت پر سکون لہجے میں جواب دیا۔

’’پاؤ سیر موسمبی اور ایک سادا سوڈا۔‘‘

شامو کے ہاتھ سے لنگی کے چھور چھوٹ گئے اور وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا۔

نیم دائرے کی شکل میں کھڑے اس کے چھوکرے بھی حیران نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کے لیے میرا یہ رویہ شاید قطعی غیر متوقع تھا۔ وہ سب پتھر کی مو رتیوں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں اس وقت ایک عجیب قسم کی پریشانی جھلک رہی تھی۔ چند ثانیوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو، اس وقت وہ مجھے بہت بے بس نظر آئے اور ان کی اس بے بسی کو دیکھ کر مجھے اندر سے بڑی راحت کا احساس ہوا۔ چند سیکنڈ تک کوئی کچھ نہ بولا۔ میں نے اسی ٹھہرے ہوئے لہجے میں آگے کہا،

’’اور ایک پلیٹ بھنی ہوئی کلیجی بھی دینا۔‘‘

٭٭٭









باہم



کنیز چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی چل رہی تھی۔ دھوپ سے بچنے کے لیے اس نے پلو کو سر اور گردن کے گرد لپیٹ لیا تھا۔ اس کے باوجود گرمی سے اس کا چہر تمتما رہا تھا۔ وہ بائیں طرف ہٹ کر ایک پرانی شکستہ بلڈنگ کے سائے میں چلنے لگی۔ بلڈنگ کی دیوار پر کچھ پوسٹر چپکے ہوئے تھے۔ جو اب کہیں کہیں سے پھٹ چکے تھے۔ ان پوسٹروں کو وہ آتے جاتے پہلے بھی کئی بار دیکھ چکی تھی۔ پوسٹروں میں رام، سیتا اور لکشمن کی تصویریں بنی تھیں اور ان کی پیشانی پر ’’جے شری رام‘‘ لکھا ہوا تھا۔

اتنے میں اسے کلو کی دکان کا بورڈ نظر آ گیا۔ ’’ہندوستان مٹن شاپ۔‘‘

کنیز ایک ہاتھ سے پنا پلو سنبھالتی ہوئی دوکان میں داخل ہو گئی۔

کنیز کو دیکھتے ہی کلو قصائی نے ہانک لگائی۔

’’ارے کنیز تو؟.... آ جا.... آ جا....‘‘

پھر اس کے سینے تک ابھرے ہوئے پیٹ کی طرف دیکھ کر بولا۔

’’مگر تو اس حال میں کیوں چلی آئی.... غلام کہاں ہے؟‘‘

’’وہ کام پر گئے ہیں ...‘‘

’’ارے چالی محلے میں لڑکے بالے مر گئے ہیں کیا؟ کسی لونڈے کو بھیج دیتی...‘‘

’’کوئی دکھائی نہیں دیا...‘‘

’’مگر تجھے اس حال میں زیادہ چلنا پھرنا نہیں چاہیے ...‘‘

’’نہیں کلو بھیا! ڈاکٹر ایسے میں زیادہ چلنے پھرنے کو بولتے ہیں۔‘‘ اس نے قدرے شرماتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔

’’اچھا... اچھا.... چل بول کیا چاہیے ...‘‘

’’پاؤ کیلو قیمہ چاہیے ....‘‘

’’اچھا ادھر پھلاٹ پر بیٹھ جا۔ ابھی تول دیتا ہوں۔‘‘

’’نہیں۔ میں ٹھیک ہوں .... تم دے دو...‘‘

کلو کے سامنے کلو ڈیڑھ کلوں کوٹا ہوا قیمہ رکھا تھا۔ اس نے اسی میں سے مٹھی بھر قیمہ ترازو میں ڈال کر پاؤ کیلو قیمہ تول دیا۔ کندے پر پڑے گوشت کے لوتھڑے میں سے ایک کر کری ہڈی چھانٹی اور قیمے میں ڈال دی۔ اور قیمہ پولی تھین کی تھیلی میں ڈالتا ہوا بولا....

’’لے۔‘‘

کنیز نے ہتھیلی لے لی اور مٹھی میں دبے ہوئے پیسے کلو کی طرف بڑھا دیے۔

’’رہنے دے میں غلام سے لے لوں گا۔‘‘

’’وہی دے گئے ہیں۔‘‘

’’اچھالا۔‘‘

کلو نے پیسے لے کر گلے میں ڈال دیے .... کنیز جانے کے لیے مڑی تو بولا۔

’’رک جا... یہ لے ایک گردہ رکھا ہے ....یہ بھی لیتی جا۔‘‘

اس نے گردے کے چار ٹکڑے کر دیے۔

’’نہیں کلو بھیا.... میں اتنے پیسے نہیں لائی تھی...‘‘

’’پیسے کی بات کون کرتا ہے .... لے ہماری طرف سے کھا لے ...‘‘

’’نہیں ... نہیں چاہیے۔‘‘

’’ارے یہ گردہ ہم تجھے تھوڑی دے رہے ہیں۔ یہ تو ہمارے ہونے والے بھتیجے کے لیے ہے ... لے ... لے ...‘‘

کلو نے شرارت سے مسکراتے ہوئے اس کے ابھرے پیٹ کی طرف ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔

’’تم بہت خراب ہو... کلو بھیا۔‘‘

کنیز کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔

’’اب خراب کیا اور اچھے کیا۔ جیسے بھی ہیں تیرے جیٹھ ہیں۔‘‘

کنیز نے جھجکتے ہوئے تھیلی آگے بڑھائی اور کلو نے گردہ تھیلی میں ڈال دیا۔

’’اچھا چلتی ہوں۔‘‘ کنیز جانے کے لیے مڑی۔

دکان کے ایک کونے میں ذبح کیا ہوا بکرا ٹنگا تھا جسے ایک چھوکرا چھیل رہا تھا۔ بکرا پورا چھیلا جا چکا تھا۔ چھوکرے نے چھری سے بکرے کا پیٹ چیر دیا ’’بق‘‘ سے ایک بڑی اوجھڑی باہر نکل آئی۔ کنیز نے ایک جھرجھری سی لی اور جھٹ سے منہ پھیر لیا اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ کلو قصائی اسے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھتا رہا۔ کنیز دھیرے دھیرے گھسٹتے ہوئے قدم اٹھا رہی تھی۔ پیٹ کے ابھر جانے سے اس کی کمر پشت کی جانب دوہری ہو گئی تھی۔ اور گردن پیچھے کو تن گئی تھی۔ صاف لگتا تھا کہ اسے چلنے میں کافی دقت ہو رہی ہے۔ اس کا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر گردن میں جھول رہا تھا۔ اور چوٹی کسی مری ہوئی چھچھوندری کی طرح پشت پر لٹک رہی تھی۔ اس نے میکسی پہن رکھی تھی اس لیے اس کے ڈیل ڈول کا صحیح انداز لگانا مشکل تھا۔ لیکن میکسی کی آستینوں سے جھانکتی ہوئی بانہوں سے لگتا تھا بس اوسط درجے کی صحت ہے اس کی۔ نہ بہت اچھی نہ بہت خراب۔

کلو اسے دروازے سے نکل کر سڑک پر پہنچے تک دیکھتا رہا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس کھینچ کر بولا، ’’کیسی چھوکری تھی کیسی ہو گئی۔‘‘ اس کے لہجے میں تاسف تھا۔

’’کیا بولے استاد!‘‘

بکرا چھیلتے چھوکرے نے پلٹ کر شرارت سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’کچھ نہیں بے تو اپنا کام کر۔‘‘

’’ہم سے مت چھپاؤ استاد کسی زمانے میں تم اس کے آ سک تھے۔‘‘

’’ابے تھے .... مگر اب وہ ہمارے دوست کی گھر والی ہے۔ الٹی سیدھی بات بولا سالے تو بکرے کی طرح چھیل کر رکھ دوں گا۔‘‘

’’معاف کرنا استاد... غلطی ہو گئی۔‘‘

چھوکرے نے کلو کے تیور دیکھ کر پینترا بدلا...

کلو جیب میں بیڑی ٹٹولنے لاپ۔

کنیز بائیں ہاتھ میں پولی تھین کی تھیلی لٹکائے دھیرے دھیرے چلی جا رہی تھی۔ بارہ ساڑھے بارہ کا عمل تھا۔ وسط اپریل کا سورج ٹھیک اس کے سر پر چمک رہا تھا۔ اس نے دوپٹہ سر پر ڈال لیا اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے اپنا چہر پونچھا۔ اسے اس چلچلاتی دھوپ میں چلنا بھاری پڑ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگی۔ کیا ضرورت تھی اسے اس بھری دوپہر میں باہر نکلنے کی۔ آج اگر قیمہ نہیں کھاتی تو کونسی قیامت آ جاتی۔ مگر اسے فوراً بھیکن بوا کی یاد آ گئی۔ ’’ان دنوں اگر کوئی چیز کھانے کا جی کرے تو من کو مارنا نہیں چاہیے۔ اس سے بچے پر برا اثر پڑتا ہے۔‘‘

بس اسی خیال سے اس نے غلام سے کہا تھا کہ اس کا قیمہ کھانے کو جی کر رہا ہے۔ غلام پہلے تو لمحے بھر کے لیے سوچ میں پڑ گال۔ کیوں کہ مہینے کی ستائیس تاریخ تھی اور ابھی تنخواہ میں تین چار دن باقی تھے۔ پھر بھی اس نے اپنے بیڑی کا نڈی کے لیے رکھے ہوئے دس روپے اسے دے دیے تھے۔ کنیز کے پاس پانچ سات روپے تو تھے ہی۔ گوشت اس قدر مہنگا ہو گیا تھا کہ بکرے کا گوشت کھانا اب ان کے بس کا نہیں رہا تھا۔ بس دال روٹی اور چٹنی اچار پر گزارا ہو جاتا تھا۔ مہینے میں ایک یا دو بار ہی وہ لوگ گوشت لا پاتے تھے۔ مگر جب سے وہ حاملہ ہوئی تھی غلام ہر اتوار کو اس کے لیے آدھا کیلو گوشت لانے لگا تھا۔ یہ قیمہ کھانے کی سنک تو بیچ ہی میں جاگ اٹھی تھی۔

اس وقت اسے ایک ایک قدم من من بھر کا لگ رہا تھا۔ مگر ساتھ ہی یہ اطمینان بھی تھا کہ گھر زیادہ دور نہیں ہے۔ بس چوتھے بجلی کے کھمبے کے بعد گلی میں مڑتے ہی رام بچن کی چالی تھی۔ چالی نمبر تین اور کھولی نمبر پانچ۔ بس یہی اس کا گھر تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سب سے پہلے مٹکے سے کم سے کم دو ڈونگے پانی پئیے گی۔ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھپا کے مارے گی۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر قیمہ پکائے گی۔ آٹا گوندھا ہوا رکھا ہے۔ گرم گرم دو پراٹھے ڈالے گی اور کھڑکی کے پاس بیٹھ کر پچھواڑے میدان کا نظارہ کرتے ہوئے قیمہ اور پراٹھا کھائے گی۔ اس کے ساتھ آم کا اچار بھی تو ہو گا۔ اماں نے کل ہی تولا کر دیا تھا۔ پھر اسے خیال آیا کہ کلو نے قیمہ کے ساتھ ایک گردہ بھی تو دیا ہے۔ واہ قیمہ گردہ واقعی مزہ آ جائے گا۔ اس کے جی میں آیا کہ اڑ کر اپنی کھولی میں پہنچ جائے۔ پھر اچانک اسے لگا۔ اسے وہ مفت کا گردہ نہیں لینا چاہیے تھے۔ مگر وہ کیا کرتی کلو کا اصرار ایسا تھا کہ وہ منع نہیں کر سکتی تھی۔ وہ غلام کا دوست تھا اور شادی کے بعد کئی بار ان کے گھر بھی آ چکا تھا۔ چائے پی چکا تھا مگر اس نے کبھی ایسی ویسی بات نہیں کی تھی۔ البتہ شادی سے پہلے اس نے دو چار بار ضرور تنگ کیا تھا۔ مگر شادی سے پہلے تو اسے کئی لوگوں نے تنگ کیا تھا۔ جب وہ ہائی اسکول جانے کے لیے سبز فراک، سفید شلوار، اوڑھنی پہنے، دو چوٹیاں ڈالے سرخ اسکارف باندھے نکلتی تھی تو گھر سے لے کر اسکول تک پتہ نہیں، کتنے فقرے، کتنی سیٹیاں اس کا تعاقب کرتی تھیں۔ چال کے دو چار چھوکرے تو اس کے پیچھے پیچھے اسے اسکول تک چھوڑ کر لوٹتے تھے۔

کلو قصائی شادی شدہ تھا۔ ایک بچے کا باپ تھا۔ اس نے وہ گردہ ضرور اسے اپنا سمجھ کر دیا تھا۔ اسے خواہ مخواہ اس پر شک نہیں کرنا چاہیے۔

اب بلی کا بس ایک کھمبا رہ گیا تھا۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر ہو گیا تھا۔ اور اسے صاف لگ رہا تھا پسینے کی تلیاں میکسی کے اندر اس کی گردن سے پیٹھ کی طرف رینگ رہی ہیں۔ اس نے دوپٹے سے اپنا چہرہ پونچھا۔ اور تبھی پتا نہیں کیا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں لٹکی ہوئی قیمے کی تھیلی ایک جھٹکے کے ساتھ اس کی انگلیوں میں سے نکل گئی۔ اس نے گھبرا کر جو نظر ڈالی تو دیکھا ایک کتیا منہ میں تھیلی دبائے ایک طرف بھاگی جا رہی ہے۔ اس نے اضطراری طور پر دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر منہ سے ہش ہش کی آواز نکالی۔ مگر کتیا نے تھیلی منہ سے نہیں چھوڑی۔ اس نے پہلی نظر میں دیکھ لیا تھا کہ کتیا کا پیٹ بھی پھولا ہوا تھا۔ اور وہ بھی تیز نہیں بھاگ پا رہی تھی۔ کنیز کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے منہ کا نوالہ چھین لیا ہو۔ اسے کتیا پر بڑا غصہ آیا۔ مگر وہ کیا کر سکتی تھی۔ کتیا اب ایک طرف مڑ کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ کنیز چند لمحے اسی طرح بے بسی کے عالم میں کھڑی دوپٹے سے اپنے چہرے کا پسینہ پونچھتی رہی۔ پھر حسرت سے ایک نظر اس طرف ڈالی جدھر کتیا گئی تھی۔ اور بھاری قدموں کے ساتھ گلی میں رام بچن چالی کی طرف مڑ گئی۔ قدم تو اس کے پہلے ہی بھاری تھے مگر اب من بھی بھاری ہو گیا تھا۔ اسے ہر قدم پر لگنے لگا۔ بس وہ وہیں کہیں دھم سے ڈھیر ہو جائے گی۔

گھر پہنچ کر اس نے دروازہ بند کر لیا۔ اور چار پائی پر جا کر پسر گئی۔ وہ دھیرے دھیرے ہانپ رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر تک اسی طرح لیٹی رہی۔ پھر چہرے کا پسینہ پونچھ کر اٹھی۔ مٹکے سے ایک ڈونگا پانی نکالا اور چار پائی کی پٹی سے ٹک کر دھیرے دھیرے پانی پینے لگی۔ پانی پینے کے بعد اسے اپنے اندر پھیلی ہوئی بے چینی میں کمی کا احساس ہوا۔ جیسے اڑتی ہوئی دھول پر پانی کے چھینٹے پڑ گئے ہوں۔ اسے بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اسے یاد آیا روٹی کی ٹوکری میں دو روٹیاں پڑی ہیں۔ صبح غلام کو ٹفن بنا کر دیا تھا۔ روٹی اور آلود کی بچی ہوئی سبزی تو اس نے ناشتے میں کھا لی تھی۔ مگر دو روٹیاں بچ گئی تھیں۔ اس نے کپڑے میں لپٹی ہوئی روٹیاں نکالیں۔ ان پر تھوڑا سا اچار رکھا۔ اور گلاس میں پانی لے کر کھڑکی کے پاس آ کر بیٹھی گئی۔ روٹی کا نوالہ بنایا اور منہ میں ڈال کر دھیرے دھیرے چبانے لگی۔ کھڑکی کے باہر پچھواڑے کے کھلے میدان میں دھوپ کی چادر تنی ہوئی تھی۔

دائیں طرف املی کے پیڑ کے نیچے ایک ٹرک کھڑا تھا۔ شاید ڈرائیور کہیں روٹی کھانے گیا تھا۔ ٹرک کے پیچھے اسے ویسے ہی دو پوسٹر چپکے نظر آئے، جیسے اس نے بلڈنگ کی دیوار پر دیکھے تھے۔ ایک پوسٹر آدھا پھٹ گیا تھا اور ہوا سے فرفر لہرا رہا تھا۔ اس کی نظر ٹرک کے نیچے گئی۔ ٹرک کے سائے میں وہی کتیا جس نے اس کے قیمے کی تھیلی جھپٹی تھی۔ اطمینان سے بیٹھی ہڈی چچوڑ رہی تھی۔ شاید یہ وہی کر کری ہڈی تھی جو قیمے میں کلو نے اوپر سے ڈالی تھی۔ قیمے کا اب کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ کتیا سارا قیمہ چٹ کر چکی تھی۔ کنیز کا چلتا ہوا منہ رک گیا۔ قیمے کی یاد آتے ہی اسے اپنے منہ کا لقمہ مٹی کے ڈھیلے کی طرح بے مزہ لگنے لگا۔ وہ حسرت، غصہ اور نفرت سے کتیا کو دیکھنے لگی جو منہ ٹیڑھا کر کر کے ہڈی کو چبانے کی کوشش کر رہی تھی۔

’’حرامزادی....‘‘ کنیز کے ہونٹوں سے بے ساختہ گالی نکلی۔ اگر اس نے وہ تھیلی نہ چھینی ہوتی تو اس وقت وہ قیمہ بھون رہی ہوتی۔ اور قیمے کی خوشبو سے کھولی مہک رہی ہوتی پھر قیمے کے ساتھ گرم گرم پر اٹھوں کے تصور سے اس کے منہ میں پانی آ گیا اور اس کے نتھنے قیمے کی خوشبو کا خیال کر کے پھولنے پچکنے لگے۔

کتیا شاید اب ہڈی بھی ہڑپ کر چکی تھی۔ کیوں کہ وہ اپنی لپ لپ کرتی زبان سے اپنی بانچھیں چاٹتی ہوئی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ اگر کنیز اس کے قریب ہوتی تو کوئی پتھر اٹھا کر اس پر مار چکی ہوتی۔ مگر وہ اس کی دسترس سے باہر تھی۔ اس نے دوبارہ دھیرے دھیرے اپنا منہ چلانا شروع کیا۔ مگر اب سچ مچ روٹی کھانے میں مزہ نہیں آ رہا تھا۔ اس نے بچی ہوئی روٹی کو رو مال میں لپیٹ کر رکھ دیا۔ پانی کا گلاس اٹھایا اور گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگی۔ اس کی نظریں اب بھی کتیا پر جمی تھیں۔ کتیا اب ٹانگیں پسارے لیٹ گئی تھی۔ اس کا پھولا ہوا پیٹ اب صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ہلکے گلابی رنگ کے پیٹ پر اس کی چھاتیوں کے ابھرے بونڈے دور سے نظر آ رہے تھے۔ کتیا نے آنکھیں بند کر لی تھی۔ اس کے وجود پر چھائی ہوئی طمانیت اس کی شکم سیری کی شہادت دے رہی تھی۔

کنیز نے پانی پی کر گلاس نیچے رکھا۔ اب اس پر بھی کسلمندی طاری ہونے لگی تھی۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے سرہانے رکھے تکیے کو درست کیا اور لیٹ گئی۔ سر پر بجلی کا پنکھا گھر گھرا رہا تھا۔ اس کے باوجود اسے گرمی کا احساس ہوا۔ اس نے گلے میں پڑے دوپٹے کو ایک طرف ڈال دیا۔ میکسی کے اوپر کے دونوں بٹن کھول دیے۔ تھوڑی ہوا تو لگی مگر گرمی کا احساس کم نہیں ہوا۔ اس نے اپنی میکسی کو گھنٹوں تک چڑھا لیا۔ ننگی پنڈلیوں کو ہوا لگی تو اسے اچھا لگا۔ اس نے میکسی رانوں تک چڑھا لی اور اچھا لگا۔ اس نے بند دروازے پر ایک نگاہ ڈالی اور میکسی کو سینے تک کھینچ لیا۔ اب وہ تقریباً ننگی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اپنے پھولے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ آٹھواں مہینہ چل رہا تھا بس ایک آدھ مہینے کی بات تھی۔ اس نے اچانک کسی خیال سے ایک جھرجھری سی لی اور جھٹ سے میکسی کو نیچے کھینچ لیا۔ اب اس کی پلکیں بوجھل ہونے لگی تھیں۔ پنکھے کی گھوں گھوں کے ساتھ پتا نہیں وہ کب نیند کی وادی میں اتر گئی۔ نیند میں اسے عجیب الٹے سیدھے خواب آتے رہے۔ کلو کی دوکان میں قطار سے چھیلے ہوئے بکرے ٹنگے ہیں۔ گوشت کی سرخی جگہ جگہ سے جھلک رہی ہے۔ تبھی ایک کالا کلوٹا شخص لنگوٹی لگائے آتا ہے۔ اور چھری سے ایک بعد ایک بکروں کا پیٹ چیرتا چلا جاتا ہے۔ ہر وار کے ساتھ بکری کی اوجڑی ’بق بق‘ باہر نکلتی ہے اور لمبی لمبی آنتیں لٹکنے لگتی ہے۔ اس کی ماں آتی ہے۔

’’بیٹا کنیز! دیکھ میں تیرے لیے کیا لائی ہوں۔‘‘

وہ یہ سوچ کر کہ گرم گرم قیمہ ہو گا۔ کٹورے کا ڈھکنا ہٹاتی ہے۔ کٹورے میں کوئی پتلا شور بے دار سالن ہے۔ جس کا رنگ خون کی طرح سرخ ہے۔ ’’ماں یہ کیا؟‘‘ ماں غائب ہو جاتی ہے اور غلام کٹورا اٹھا کر سارا شور بہ پی جاتا ہے۔ وہ اسے منع کرنا چاہتی ہے۔ مگر منع نہیں کر پاتی۔ کبھی اسے لگتا ہے کہ اس کا پیٹ اس قدر پھول گیا ہے کہ اب اسے اپنے پیٹ کے ساتھ ایک قدم چلنا بھی محال ہے۔ وہ دونوں ہاتھ ٹیک کر اٹھنا چاہتی ہے مگر اس کے ہاتھ کچی زمین میں دھنس جاتے ہیں اور وہ چت لیٹی رہ جاتی ہے۔ اس کی نظر چھت پر پڑتی ہے۔ چھت میں ایک چھینکا لٹک رہا ہے جس میں ایک مٹکی ہے۔ مٹکی میں شاید دودھ یا دہی ہے۔ مٹکی رس رہی ہے اور سفید سفید دودھ قطرہ قطرہ اس کے پھولے پیٹ پر ٹپک رہا ہے۔ اسے اچانک خیال آتا ہے اگر چھینکا ٹوٹ گیا تو مٹکی سیدھے اس کے پیٹ پر آ کر گرے گی اور اچانک اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ ایک کربناک چیخ اس کے کانوں سے ٹکراتی ہے۔ جیسے کوئی مر رہا ہو۔ ساتھ ہی موٹر کی گھڑ گھڑ کی آواز۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھتی ہے۔ کھڑکی سے باہر نظر ڈالتی ہے۔ اور جو منظر اسے نظر آتا ہے۔ اسے دیکھ کر اس کی چیخ نکل جاتی ہے۔ کتیا جس ٹرک کے نیچے سوئی تھی وہ میدان سے نکل کر سڑک پر پہنچ چکا ہے۔ اور ٹرک کے نیچے سوئی ہوئی کتیا خون میں لت پت چھٹ پٹا رہی ہے۔ اس کا پیٹ پچک گیا ہے اور گوشت کے تین چار خون آلود لوتھڑے اس کی دم سے لٹک رہے ہیں کتیا کی چیخ اب ٹوٹے ہارمونیم کے سر کی طرح دھیمی پڑتی جا رہی تھی۔ یک بارگی اس نے اپنی ہی جگہ ایک گھمیرا لیا زور سے تڑپی اور ٹھنڈی ہو گئی۔ ٹرک دور جا چکا تھا۔ فضا میں اب پہلے کی طرح خاموشی تھی۔ البتہ رہ رہ کر ان خون آلود گوشت کے لوتھڑوں میں ہلکی سی جنبش ہو جاتی تھی۔ ایسی جنبش جو دیکھنے والے کے جسم میں جھر جھری پیدا کر دے۔ کنیز کی پھٹی آنکھیں اب بھی کتیا کی لاش پر جمی ہوئی تھیں اور سانس تیزی سے اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ ایسا بھیانک منظر اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے سینے میں کوئی چیز اٹکی ہوئی ہے جو اس کے پورے وجود کو بے چین کیے ہوئے ہے وہ اگر باہر نکل جائے تو اسے ذرا راحت ملے اسے کچھ دیر پہلے کتیا پر بے حد غصہ آیا تھا۔ اگر وہ اس کے ہاتھ آتی تو وہ اسے دو ایک پتھر بھی مارتی ایک آدھ ڈنڈا بھی لگاتی۔ مگر جو ہوا تھا ویسا اس نے ہر گز نہیں چاہا تھا۔ قیمے کے چھین جانے کا اسے بے حد دکھ ہوا تھا مگر جو کچھ کتیا کے ساتھ ہوا یہ اس کے لیے انتہائی اذیت ناک تھا۔ اس واقعے نے اس کے روئیں روئیں میں کپکپی بھر دی تھی۔ اس کی رگوں سے ایک سنسنی اس کے سینے کی طرف رینگ رہی تھی۔ اچانک سینے سے منہ کی جانب ایک بگولہ سا اٹھا۔ ایک ہچکی آئی اور وہ یک بیک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ آنکھوں سے جیسے آنسوؤں کا جھرنا پھوٹ پڑا۔ وہ کیوں رو رہی تھی خود اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ جانے وہ کتنی دیر تک روتی رہی۔ جب سینے کا غبار ذرا کم ہوا تو اس نے ڈرتے ڈرتے کتیا کی لاش کی طرف دیکھا۔ دو کوے ان گوشت کے لوتھڑوں پر ٹھونگیں مار رہے تھے۔ دور ایک لڑکا پاخانے کے لیے بیٹھا ان کوؤں کو گھور رہا تھا۔ پھر اس نے پاس سے ایک کنکری اٹھائی اور کوؤں کی طرف پھینکی۔ ایک کوا اڑ کر دور جا بیٹھا مگر دوسرا بس ذرا سا پھدکا۔ اس کی چونچ میں مردہ کتیا کی ایک لمبی آنت تھی۔ جسے وہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ کنیز کو متلی کا احساس ہوا۔ اسے ابکائی آئی۔ وہ اٹھ کر موری میں گئی اور قے کرنے لگی۔ قے تو نہیں ہوئی مگر منہ سے کڑوا کسیلا لعاب نکلنے لگا۔ آنکھ اور ناک سے بھی پانی بہنے لگا۔ تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ پھر جب بے چینی ذرا کم ہوئی تو اس نے کلا کیا۔ منہ پر پانی کے کچھ چھپا کے دیے اور آدھ گلاس پانی پی کر دوبارہ چار پائی پر آ بیٹھی۔ اب کھڑکی کے باہر دیکھنے کی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے کھڑکی بند کر دی اور چار پائی پر لیٹ گئی۔ دیوار گھڑی نے ٹن ٹن چار بجائے غلام کے آنے کا وقت ہو گیا تھا۔ وہ فرسٹ شفٹ میں کام کرتا تھا اور ساڑھے تین بجے کارخانے سے چھوٹ کر چار اور ساڑھے چار کے درمیان گھر آ جاتا تھا۔ اس نے سوچا وہ آج غلام کو ساری تفصیل بتا دے گی۔ اچانک اسے اپنی ناف کے نیچے ایک کسک سی محسوس ہوئی۔ وہ چت لیٹی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اپنا پیٹ سہلانے لگی۔ کسک اوپر کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ جیسے ناف کے نیچے کوئی کنکھجورا اس کے سینے کی طرف رینگ رہا ہو۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ جھک کر اپنے پیٹ کو دیکھنے لگی۔ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق تو ابھی ایک مہینہ باقی ہے۔ پھر؟ یہ ٹیس! یہ کسک! درد مسلسل اوپر کی طرف رینگ رہا تھا۔ اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا۔ اس کے پورے بدن سے دھیرے دھیرے پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ دستک یقیناً غلام کی تھی۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی اٹھی۔ پلنگ کی پٹی کا سہارا لے کر سٹکنی کھول دی۔ سامنے غلام کھڑا تھا۔ غلام نے اس کا پسینے سے تر زرد چہرہ دیکھا۔ ’’ارے کیا ہوا؟‘‘

’’درد ہو رہا ہے۔ پیٹ میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘ وہ ہونٹ بھینچ کر پلنگ پر بیٹھ گئی۔

’’مگر... اتنی جلدی...؟‘‘

’’پتا نہیں۔‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے کہا۔

تبھی، اس کی نظر کھلے دروازے کی طرف اٹھ گئی۔ وہاں ایک بد ہیئت شخص کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ اور اس کے ہاتھ میں چم چم کرتی لمبی سی، چھری تھی۔

’’وہ۔ وہ کون ہے؟‘‘

اس نے باہر کی طرف دیکھتے ہوئے خوف زدہ لہجے میں پوچھا۔

’’کہاں؟‘‘ غلام نے پلٹ کر دیکھا۔

دروازے کے باہر ایک فقیر کھڑا تھا جس کے ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے ہاتھ میں چمٹا تھا اور گھنی داڑھی میں اس کا چہرہ تقریباً چھپ گیا تھا۔ سر کی جٹائیں سانپوں کی طرح کاندھے پر پڑی جھول رہی تھیں۔ فقیر نے چمٹا بجاتے ہوئے نعرہ لگایا۔

’’الا اللہ‘‘

’’ارے وہ تو فقیر ہے۔‘‘ غلام بولا۔

’’فقیر؟‘‘ اس نے بمشکل دوہرایا۔

درد کی ایک تیز لہر بجلی کے کرنٹ کی طرح اس کے جسم میں پھیل گئی۔ اس کے منہ سے ایک کریہہ چیخ نکلی اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔

جب اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھی۔ غلام اس کے سرہانے پریشان سا بیٹھا تھا۔ اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ اس کا گلا خشک ہو رہا تھا۔ اس نے انتہائی نقاہت سے کہا۔

’’پانی!‘‘

غلام نے پاس رکھے ہوئے کٹورے سے چمچ میں پانی لے کر دو تین چمچ اس کے حلق میں ٹپکائے۔

’’اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘ غلام نے تھکے تھکے لہجے میں پوچھا۔

اس نے جواب دینے کے بجائے کمزور ہاتھ سے اپنا پیٹ ٹٹولا۔ پھر گھبرائی نظروں سے پیٹ کی طرف دیکھا۔ پیٹ پچک گیا تھا۔

’’یہ کیا ہو گیا؟‘‘ اس نے کچھ تلاش کرتے ہوئے اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔

’’گھبراؤ نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ غلام نے تسلی دی۔

کنیز کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا۔ دہی کی ہانڈی میں چھید ہو گیا تھا۔

’’دل چھوٹا نہ کرو... ڈاکٹر نے رونے دھونے سے منع کیا ہے۔ تم بچ گئیں بہت ہے۔‘‘

غلام نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے کہا۔

’’کیا تھا؟‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔

’’دو تھے۔ جڑواں۔ مگر دونوں مردہ۔‘‘

غلام کا لہجہ بھی کربناک ہو گیا۔

اتنے میں کلو قصائی کی آواز سنائی دی۔

’’غلام! چلو نیچے ٹیکسی کھڑی ہے۔‘‘

اس نے گردن کو ذرا سا خم کر کے دیکھا۔ سامنے کلو قصائی کھڑا اسے متاسفانہ انداز میں دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ پنے دن سے تر تھا۔

’’کیسی ہے کنیز تو؟‘‘

’’ٹھیک ہوں۔‘‘

اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا۔ اور اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا۔

’’چلو کنیز، ہمیں اسی وقت یہاں سے نکل جانا ہے۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’گھر۔‘‘

’’مگر کیوں؟‘‘

’’ارے ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ بابری مسجد گرا دی گئی۔ شہر میں کرفیو لگنے کا ڈر ہے۔ اس سے پہلے ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ چلو۔‘‘

غلام نے اس کی گدن کے نیچے ہاتھ دے کر اسے اٹھایا۔

کنیز اٹھ تو گئی مگر اس کی آنکھوں کے نیچے اندھیرا سا چھانے لگا۔ اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے اور آنکھیں بند کر لیں۔ ایک ٹرک گھڑ گھڑاتا ہوا اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا اور اس کے پیچھے آدھا لٹکا ہوا پوسٹر فرفر ہوا میں لہرا رہا تھا۔

٭٭٭





بٹوارہ





وہ دو بھائی تھے ایک ہی عورت کی کوکھ سے جنم لینے والے دو حقیقی بھائی۔ وہ دونوں اپنی ماں سے یکساں شدّت سے پیار کرتے تھے۔ انھیں اپنی ماں کی پاکیزگی اور وسیع المشربی پر بے حد ناز تھا۔ وہ ہمیشہ اس کی عظمت کے گیت گایا کرتے۔ وہ اپنی ماں کو دنیا کی سب سے زیادہ پاکباز اور نیک خاتون سمجھتے تھے، اس کی خدمت ہی کو اپنا دین اور ایمان جانتے۔ انھیں ہمیشہ اس بات کی فکر ستایا کرتی تھی کہ کہیں ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ وہ دنیا بھر کی ساری خوشیاں اس کے قدموں میں ڈھیر کر دینا چاہتے تھے، اور ویسا کرنے کی انھوں نے کوشش کی بھی۔ انھوں نے ماں کے رہنے کے لیے ایک عالیشان کوٹھی بنوا دی، کوٹھی کے اِرد گرد ایک طویل و عریض پائیں باغ بنوا دیا۔ باغ میں مختلف قسم کے درخت اور پھولوں کے پودے لگوادئیے۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت حوض اور رنگین پانی کے فوّارے نصب کروا دئیے۔ خدمت کے لیے ہمہ وقت نوکر اور باندیاں کمر بستہ رہتیں۔ بوڑھی ماں بھی اپنے جوان بیٹوں کی یہ خدمت گزاری اور سعادت مندی دیکھ دیکھ کر پھولی نہ سماتی۔ سچ مچ وہ اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت ترین عورت سمجھتی تھی، وہ جانتی تھی کہ اس کے ایک اشارے پراس کے بیٹے اس کے لیے آسمان کے تارے تک توڑ کر لا سکتے ہیں۔

دونوں بھائی بستی میں سب سے زیادہ خوبصورت، جوان اور طاقتور سمجھے جاتے تھے ساری بستی پر دونوں کی دھاک تھی، کسی دشمن کی مجال نہیں تھی کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ ان کی نیک نامی کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی تھی، اوردوسری بستیوں کے بڑے بڑے لوگ ان سے ملاقات کرنے کے متمنّی رہا کرتے۔ وہ اسی طرح بڑی شان و شوکت سے زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی ماں بھی بیٹوں کی اس با وقار زندگی سے بہت مطمئن تھی۔ دن بیت رہے تھے، اچانک ماں نے بیٹوں کے رویّے میں کچھ تبدیلی محسوس کی۔ اس نے اندازہ لگایا کہ اس کے بیٹے گھر میں بظاہر جتنے متین اور پُر سکون نظر آتے ہیں، اصل میں باہر وہ ویسے نہیں ہیں۔ پہلے پہل اسے صرف شبہہ تھا، مگر دھیرے دھیرے اس کا شبہ یقین میں بدلتا گیا۔ وہ چپکے چپکے ان کی باہری سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگی۔ اس کی مخصوص باندیوں اور خاص ملازموں نے بیٹوں کے بارے میں جو اطلاعات دیں، انھیں سُن کر وہ فکر مند اور اداس ہو گئی۔ اسے بے حد دُکھ ہوا کہ اس کے بیٹے اصل میں ویسے نہیں ہیں جیسے وہ نظر آتے ہیں۔

اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کے سامنے جتنے سعادت مند، رحم دل اور نرم مزاج دکھائی دیتے ہیں ،ا س کے پیچھے وہ اتنے ہی سرکش، سفّاک اور تُند خُو ہیں۔

اس نے انھیں خلوص، محبت، انسان دوستی اور ایثار و قربانی کا درس دیا تھا۔ مگر اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کی ساری ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر اپنے خود ساختہ اصولوں کے غلام بن گئے تھے۔ جب وہ اس کے سامنے ہوتے تو بظاہر ایک اور نیک نظر آتے، مگر گھر سے باہر نکلتے ہی دونوں کے راستے جدا ہو جاتے، دونوں ایک دوسرے کے کٹّر دشمن بن جاتے۔ باہر ہر ایک کے مصاحبوں اور ہمنواؤں کا الگ الگ گروہ تھا، وہ سب دن رات سر جوڑ کر اپنے اپنے حریف کو زَک پہچانے کی ترکیبیں سوچا کرتے۔ ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے والی تقریریں کرتے اور مضامین لکھتے۔ سڑکوں، گلیوں اور چوراہوں پر ایک دوسرے کے نظریات کے خلاف زہریلا پروپگنڈہ کرتے۔ سبھاؤں اور جلوسوں میں ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے، گالیاں دیتے اور جی کھول کر بُرا بھلا کہتے۔ اب وہ بوڑھی اور نیک عورت بہت زیادہ دُکھی رہنے لگی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر اس کے بیٹوں کو کیا ہو گیا ہے۔ اس سے ان کی تربیت اور پرورِش میں ایسی کون سی لغزش ہو گئی تھی کہ دہ دونوں اِس قدر گمراہ ہو گئے تھے۔ اس کے دودھ میں ایسا کون سا زہر گھُل گیا تھا کہ اب وہ دونوں زہریلے ناگوں کی طرح ایک دوسرے پر پھنکارنے لگے تھے۔ ا س نے بہت غور کیا، بہت سوچا، مگر اسے کہیں بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں کسی قسم کی غفلت دکھائی نہ دی۔ اس نے دونوں کوا چھا انسان بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اس نے سوچا، وہ اپنے بیٹوں کو سمجھائے گی۔ وہ لوگ اب بھی اس کا احترام کرتے ہیں۔ یقیناًاس کے حکم کو نہیں ٹالیں گے۔ آخر اس کی چھاتیوں کا دودھ ان کی رگوں میں خون بن کر دَوڑ رہا ہے۔ وہ اس کے حکم کے خلاف کیوں کر جا سکتے ہیں۔ یہ سوچ کراس نے ایک دن دونوں بیٹوں کو اپنے پاس بُلایا، پیار سے ان کے ماتھے چومے اور کہنے لگی ’ ’میرے لاڈلو! تم دونوں میری آنکھوں کا نور ہو، میرے دست و بازو ہو، مجھے تم دونوں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہو۔ مجھے تمہاری نیک چلنی، ذہانت، اور قوّت پر پورا پورا بھروسہ ہے۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم دونوں مجھے بے حد چاہتے ہو، میرے لیے اپنی جان تک قربان کر سکتے ہو، مگر۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ دُکھی خاتون ایک لمحے کے لیے رُک گئی،ا س نے اپنی بوڑھی پلکیں اٹھا کر دیکھا۔ ا س کے دونوں بیٹے گردن جھکائے چپ چاپ کھڑے تھے۔ پتھر کے مجسّمے کی طرح سخت اور بے حِس، ان کے چہرے اس وقت سارے احساسات سے عاری تھے۔ یہ بے حِسی دیکھ کر اس نیک عورت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس نے بھرّائے گلے سے کہا۔

’ ’میرے جگر کے ٹکڑو! آخر تمھیں کیا ہو گیا ہے، نہ تمھارے ہونٹوں پر مُسکراہٹ کے پھول کھِل رہے ہیں، نہ آنکھوں سے پیار اور محبت کا رس ٹپک رہا ہے۔ تم لوگ اچانک اتنے کٹھور کیوں ہو گئے ہو؟‘‘

دونوں بیٹوں نے دھیرے دھیرے نظریں اوپر اٹھائیں، ماں کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ایک لمحے کے لیے ان کی آنکھوں میں نرمی اور پیا رکی جھلکیاں دکھائی دیں، پھر دونوں نے گردنیں موڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اور دوسرے ہی لمحے ان کے چہروں پر چھائی ہوئی ملائمت یکلخت غائب ہو گئی اور آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔

تب پہلے نے دھیرے دھیرے کہنا شروع کیا ’ ’ماں آج بھی تم پر میری جان قربان ہے، آج بھی تمھارے چرنوں کی دھول سے میں اپنے ماتھے پر تلک لگاتا ہوں، مگر ماں۔۔۔؟‘‘

اس نے دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’ ’یہ میرا دشمن ہے، میرا جانی دشمن، میرا ا س کے ساتھ نباہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔

نیک عورت نے گھبرا کر پہلے کی طرف دیکھا، پھر اس نے دوسرے بیٹے پر نظر ڈالی، دوسرے نے پہلے کو خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے کہا ’ ’ماں تمھارے قدموں تلے میری جنّت ہے ،۔ میں تمھارے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا سکتا ہوں، مگر میں اپنے اِس دشمن کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ یہ میرے وجود کو پیس کر رکھ دینا چاہتا ہے۔ یہ میرا سب سے بڑا دشمن ہے۔‘‘

اب نیک عورت بالکل ہی سِٹپٹا گئی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دھارے بہتے رہے، وہ تھوڑی دیر تک اِسی طرح روتی رہی، پھر اپنے لہجہ کو انتہائی نرم بناتی ہوئی بولی۔

’’مگر میرے جگر پارو! آخر ایسی کون سی بات ہو گئی جس کے لیے تم دونوں ایک دوسرے سے اس قدر ناراض ہو؟‘‘

پہلے نے اسی سخت لہجے میں کہا ’’ماں اب ان سب باتوں کو دُہرانے سے کوئی فائدہ نہیں، میں اتنا جانتا ہوں کہ اس کے اور میرے راستے بالکل الگ الگ ہیں۔ اب اس گھر میں یا تو یہ رہ سکتا ہے یا میں، آج سے ہم دونوں ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘‘

دوسرے نے بھی اسی کڑے لہجے میں کہا ’ ’ہاں ماں! آج تمھیں بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ تماس کے ساتھ رہو گی یا میرے ساتھ۔ کیوں کہ یہ میرا دشمن ہے اور میں اس دشمن کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔‘‘

بے چاری نیک خاتون اِس دو طرفہ غم کی چوٹوں سے نِڈھال ہو گئی، اس نے اپنے بیٹوں کو سمجھانے کی پوری کوشش کی کہ وہ دونوں کی ماں ہے، وہ دونوں ہی اس کے بیٹے ہیں۔ انھیں اِس طرح سے ایک دوسرے کو بُرا بھلا نہیں کہنا چاہئیے۔ مگر ان پر اس نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اپنی بات پر اَڑے رہے، وہ نیک عورت انھیں سمجھاتی رہی۔ سمجھاتے سمجھاتے اس کا گلا رُندھ گیا۔ آنکھیں پتھرا گئیں اور سارا جسم ربڑ کی طرح تن گیا، وہ بے جان ہو کر فرش پر لڑھک گئی۔ دونوں بیٹے گھبرا کر اس کے پاس بیٹھ گئے۔ پہلے نے نبض دیکھی، نبض بند ہو چکی تھی۔ دوسرے نے منہ کے پاس ہتھیلی رکھی، سانس پہلے ہی رُک گئی تھی، دونوں کچھ دیر تک اسی طرح ماں کے سرہانے بیٹھے رہے۔ دونوں کے چہرے دُکھ اور غم سے پیلے پڑ گئے تھے۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر ماں کی لاش کو بھِگو رہے تھے۔ وہ لوگ بہت دیر تک اِسی طرح بیٹھے روتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد اچانک دونوں کی نظریں چار ہوئیں۔ دونوں کے بہتے آنسو ایک دم رُک گئے۔ انھوں نے دوبارہ اپنے چہروں کو سخت بنا لیا۔ آنکھوں سے چنگاریاں برسنے لگیں۔ مُٹھّیاں بھنج گئیں، منہ سے کف جاری ہو گیا۔ پہلا کسی سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا بولا۔ ’ ’غدّار، حرام خور،! نکل جا یہاں سے، نکل جا، اب اپنے ناپاک ہاتھ لگا کر ماں کی لاش کو گندہ مت کر، چلا جا، چلا جا۔‘‘

دوسرے نے بھی اسی طرح اکڑتے ہوئے جواب دیا ’ ’خود غرض کُتّے، تو خود نکل جا یہاں سے، یہ میری ماں ہے۔ اب اس پر تیرا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘

پہلا بولا ’ ’ارے جا ناپاک کتّے میں اس پوِترّ لاش پر تیرا سایہ تک پڑنے نہیں دوں گا، میں اپنی ماں کو چندن کی لکڑی میں جلاؤں گا، اوراس کی راکھ سے اپنے ماتھے پر تلک کروں گا۔‘‘

دوسرا مارے غصّے کے سُرخ ہو چکا تھا، پوری قوّت سے گرج کر بولا۔ ’ ’تو ایسا نہیں کر سکتا، میں تجھے اس لاش کی بے حرمتی کرنے نہیں دوں گا۔ میں اس مقدّس لاش کو پورے عزم و احترام کے ساتھ دفن کروں گا، میں اپنی ماں کی قبر پر ایک بہت عالیشان مقبرہ بناؤں گا اور اس پر ایک کتبہ کندہ کراؤں گا، یہ دنیا کی مقدّس ترین ہستی کی قبر ہے۔‘‘

’ ’تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘

’ ’تم بھی ویسا نہیں کر سکتے۔‘‘

’’میں اِسے جلاؤں گا۔‘‘

’ ’میں اِسے دفن کروں گا۔‘‘

پھر دونوں ایک دوسرے پر بِل پڑے، اپنی ساری قوّت صرف کر کے دونوں ایک دوسرے کو مار ڈالنا چاہتے تھے۔ لڑتے لڑتے دونوں زخموں سے چور ہو گئے، زخموں سے خون ٹپکنے لگا، آخر دونوں نِڈھال ہو کر فرش پر گر پڑے، دونوں لاش کے دائیں بائیں پڑے لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے تھوڑے وقفہ کے بعد دونوں پھر اٹھے، مگر اب ان میں لڑنے کی سکت باقی نہ تھی۔

پہلے نے کہا ’ ’چلو ہم کسی تیسرے آدمی سے اپنے مقدمے کا فیصلہ کرائیں، دوسرا بھی راضی ہو گیا۔ دونوں لڑکھڑاتے ہوئے گھر سے باہر نکلے، ان کے زخموں سے اب بھی خون رِس رہا تھا اور کپڑے چیتھڑوں کی شکل میں بدن پر جھول رہے تھے، انھوں نے باہر نکل کر دُور تک نظر دوڑائی، سڑک سنسان تھی۔ دونوں بے چینی سے کسی تیسرے آدمی کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر دور سے ایک اجنبی آتا دکھائی دیا۔ دھیرے دھیرے اجنبی قریب آتا گیا، جب وہ بالکل قریب آ گیا تو دونوں لپک کر اس کے پاس پہنچے، اجنبی دونوں کو اس بگڑے حلئے میں دیکھ کر گھبرا گیا۔ مگر دونوں نے اس کے پیر پکڑ لیے اور اس سے گڑگڑا کر کہا ’ ’ہمیں اس مشکل سے نجات دلاؤ ہم تمھیں منصف بناتے ہیں۔‘‘

دونوں گھسیٹ کر اسے اپنے گھر لے آئے پھر پہلے نے نیک عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’ ’یہ میری ماں ہے، میں اِسے اپنے اصولوں کے مطابق جلا کر اِس کی راکھ سے ماتھے پر تلک کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

دوسرے نے کہا ’ ’نہیں یہ میری ماں ہے، میں اِسے دفن کر کے اس کی قبر پر ایک عالیشان مقبرہ بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

اجنبی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، اس نے کہا ’ ’یہ تم دونوں کی ماں ہے، تم دونوں بھائی بھائی ہو پھر دونوں مل کر اس کا کِریا کرم کیوں نہیں کرتے۔‘‘

پہلے نے کہا ’ ’نہیں یہ میرا بھائی نہیں ہے، البتہ یہ میری ماں ہے۔‘‘

دوسرے نے کہا ’ ’نہیں یہ جھوٹا ہے، ، یہ میری ماں ہے اور یہ میرا دشمن ہے۔

اجنبی نے دونوں کو غور سے دیکھا، اس کی سمجھ میں سب کچھ آ گیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک چالاک مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’ ’تم دونوں بیوقوف ہو، اتنی آسان بات تمھاری سمجھ میں نہ آئی۔‘‘ دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔

اجنبی نے آگے کہا ’ ’تم لوگ اس لاش کو دو حصوں میں تقسیم کر لو، اور اپنی اپنی رسم کے مطابق اس کا کِریا کرم کر ڈالو۔‘‘

اتنا کہہ کر اجنبی گھرسے باہر نکل گیا، اور دونوں چپ چاپ کھڑے لاش کی طرف دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر تک اجنبی کے فیصلے پر غور کر تے رہے۔ پھر دونوں نے کہیں سے ایک آری لی اور لاش کو درمیان سے چیر دیا۔ دونوں نے اپنے اپنے حصّے کی لاش کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔ اب دونوں مطمئن تھے، مگر ان کا یہ اطمینان زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا، دونوں نے دیکھا کہ لاش کے کٹے ہوئے حصّوں سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ سُرخ اور گرم گرم خون کے زندہ قطرے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان قطروں نے لا تعداد انسانوں کی شکلیں اختیار کر لیں، اور وہ نوزائیدہ انسان ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ وہ سب شکل و صورت کے اعتبار سے انسان نظر آ رہے تھے، مگر بھیڑ یوں کی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ دونوں بھائی حیرت اور خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے کمرے کے ایک کونے میں دبک گئے۔ لاش سے برابر قطرے ٹپک رہے تھے۔ قطروں سے نئے نئے انسان جنم لے رہے تھے، اور پھر ایک دوسرے کو قتل کر دیتے تھے۔ صبح سے شام ہو گئی، شام سے پھر صبح ہو گئی۔ دن مہینے اور سال بیت گئے، مگر قتل و خون کا یہ بھیانک سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اب وہ دونوں بھائی بوڑھے ہو گئے ہیں۔ پچھتاوے، غم اور افسوس سے ان کی کمریں جھُک گئی ہیں۔ چہروں پر جھرّیاں پڑ گئی ہیں۔ وہ آج بھی کمرے کے کونوں میں دُبکے ہوئے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے اس انوکھی لڑائی میں مرنے والوں کی لاشیں گنتے رہتے ہیں۔ لاشوں کے اعداد و شمار جوڑنے کے سوا اب ان کے پاس کوئی کام نہیں رہ گیا ہے۔

٭٭٭









دہشت



رات اپنی پوری دہشت ناکی کے ساتھ شہر پر چھائی تھی۔ سڑکوں اور گلیوں میں اتنا اندھیرا تھا گویا سارا شہرسیاہ کمبل تانے سو رہا ہو۔ چاروں طرف ایک بھیا نک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سردی کی شدت سے جسم کا خون برف ہوا جا رہا تھا، کہیں بھی کسی قسم کی کوئی آواز نہیں تھی صرف میرے بوٹوں کی کھٹ کھٹ سے فضا میں ہلکا سا ارتعاش تھا۔ اس سناٹے میں یہ کھٹ کھٹ سماعت پر بہت گراں گزر رہی تھی۔ دور کسی کتے کے رونے کی آواز آئی اور میں نے ایک جھر جھری سی لی۔ پیروں میں ہلکی سی لرزش ہوئی مگر میرے قدم تیزی سے بڑھتے رہے میں نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈالی پونے نو بج رہے تھے۔ کرفیو لگنے میں صرف پندرہ منٹ باقی تھے اور گھر ابھی دور تھا۔ میری رفتار از خود مزید تیز ہو گئی۔

سڑک پر جگہ جگہ بسوں کی کھڑکیوں کے شیشے اور سوڈا واٹر کی بوتلوں کی کرچیں بکھری پڑی تھیں۔ رات کے اندھیرے میں یہ کانچ کے ٹکڑے زمین سے رستے آنسوؤں کی مانند چمک رہے تھے۔ بائیں طرف فٹ پاتھ سے لگ کر ایک جلی ہوئی کار کا ڈھانچہ نظر آ رہا تھا۔ اس کے انجن سے ابھی تک دھواں نکل رہا تھا۔ سڑک کے کنارے لگے لیمپ پوسٹوں کے سارے بلب یا تو پھوڑ دیے گئے تھے یا چرا لیے گئے تھے اور یہاں سے وہاں تک سڑک اس دلہن کی طرح اداس پڑی تھی، جس کا سہاگ اجڑ گیا ہو، دائیں طرف کی فٹ پاتھ پر صرف ایک مر کری بتی روشن تھی جس کا اجالا اور بھی بھیانک لگ رہا تھا۔

اچانک مجھے ٹھوکر لگی اور میں منھ کے بل گرتے گرتے بچا بیچ سڑک پر بڑے بڑے پتھر بکھرے پڑے تھے۔ جو شاید ٹریفک کو روکنے کے لیے ڈالے گئے تھے۔ میں بڑی دیر سے سگریٹ کی طلب محسوس کر رہا تھا۔ جیب میں سگریٹ کی ڈبیا اور ماچس بھی رکھی تھی، مگر ایک انجانا خوف مجھے سگریٹ سلگانے سے روک رہا تھا۔ میرے دونوں ہاتھ پتلون کی جیبوں میں ٹھنسے تھے۔ میری انگلیوں نے سگریٹ کی ڈبیا کو چھوا، مگر میں نے سگریٹ نہیں جلائی۔ اپنے خشک ہونٹوں پر صرف زبان پھیر کر رہ گیا۔ سردی میرے خوف کی طرح لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی اور میں سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔

دفعتاً میرے بائیں طرف ایک لٹی ہوئی دکان سے ایک بلی فٹ ہاتھ پر کودی۔ میں ٹھٹھک گیا۔ میرا بوٹ ایک جلتی ہوئی لکڑی سے ٹکرایا، اس میں سے کچھ چنگاریاں نکلیں۔ پاس ہی ایک جلے ہوئے باکڑے کا ڈھانچہ کھڑا تھا، اس میں اب تک انگارے دہک رہے تھے۔ میں فوراً پہچان گیا، یہ لالو لنگڑے کاپی۔ سی او تھا جس سے اکثر میں فون کیا کرتا تھا۔ میرے قدم مزید تیزی سے اٹھنے لگے۔ میں جلد از جلد اپنے گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اس وقت میری نظر میں اپنی چھوٹی سی کھولی سے بڑھ کر کوئی مقام محفوظ و مامون نہیں تھا۔

میں نے پھر گھڑی پر نظر ڈالی نو بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ دور کسی پولیس کے سپاہی نے سیٹی بجائی میرا دھڑکتا دل یکبارگی پھر زور سے دھڑکا۔ اب میں اتنی تیزی سے چل رہا تھا کہ میرے چلنے پر دوڑنے کا گمان ہو سکتا تھا۔ میں خوف زدہ نگاہوں سے دائیں بائیں بھی دیکھتا جا رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف موت کا سا سناٹا تھا کہیں بھی کسی قسم کی آہٹ تک نہیں تھی آسمان پر اکا دُکا تارے دکھائی دے رہے تھے مگر چاند کا کہیں پتا نہیں تھا۔ میں سوچنے لگا شاید فسادیوں نے پتھر مار کر چاند کا فانوس بھی نہ توڑ دیا ہو، یا کسی بہت بڑے جادو گر نے اس جیتے جاگتے شہر کی روح کھینچ لی ہو۔ پورا شہر کسی مر گھٹ کی طرح سنسان پڑا تھا۔ اب میں شیوا جی چوک ہے پر آ گیا تھا۔ اس کے دائیں طرف کی گلی میرے محلے کو جاتی تھی۔ گلی کے موڑ پر مدراسی کا وہ ہوٹل تھا جو تین روز سے بند تھا۔ یہاں کا مسالہ ڈوسا بہت مشہور تھا۔

میں گلی میں اتنی تیزی سے مڑا کہ اندھیرے میں کھڑے بجلی کے کھمبے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ ابھی میں مشکل سے دس پندرہ قدم چلا ہوں گا کہ مجھے گلی کے نکڑ پر ایک سایہ دکھائی دیا۔ میرے قدم ٹھٹھک گئے۔ میں نے تاروں کی ملگجی روشنی میں دیکھا وہ سایہ بھی جہاں تھا وہیں رک گیا ہے۔ میرے جسم میں ایک لرزش سانپ کی طرح لہرا گئی اور میں نے محسوس کیا کہ اس خون کو منجمد کر دینے والی سردی میں بھی میری پیشانی پسینے سے بھیگ گئی ہے۔ میرے ہونٹ پھڑپھڑائے۔ شاید میں پوچھنا چاہتا تھا:

’’کون ہے؟‘‘

مگر آواز کا پنچھی حلق کے اندر رہی چھٹپٹا کر رہ گیا۔ پتلون کی جیبوں میں اچانک میری انگلیاں کانپیں اور پسینے سے ہتھیلیاں بھیگ گئیں۔ میری آنکھوں میں وہ ساری خبریں بجلی کی طرح کوند گئیں جو پچھلے تین دنوں سے اخباروں میں شائع ہو رہی تھیں، یاٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہو رہی تھیں۔ لوٹ مار، آتش زنی، چھرے بازی اور قتل و غارت گری کی دل دہلا دینے والی خبریں۔ میری آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔

موت اور مجھ میں صرف چار قدموں ہی کا تو فاصلہ تھا، حلق میں میری آواز زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔ میں کہنا چاہتا تھا:

’’مجھے مت مارو خدا کے لیے مجھے مت مارو میرے بیوی بچے میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ میری بوڑھی ماں میری راہ دیکھ رہی ہو گی۔ یہ میری گھڑی، بٹوا، انگوٹھی، پین، سب لے لو۔ مجھے چھوڑ دو۔۔۔ چھوڑ دو۔‘‘

مگر ہزار کوشش کے باوجود میرے حلق سے کوئی آواز نہیں نکل سکی، بس ہونٹ پھڑپھڑاتے رہے۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا بٹوا اور گھڑی نکالی اور دو قدم آگے بڑھا۔ ایک ایک قدم پہاڑ کی طرح بھاری تھا۔ سائے میں بھی حرکت ہوئی میں سمجھ گیا کہ وہ اپنی جیب سے چھرا نکال رہا ہو گا۔ میں نے اضطراری طور پر اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ لیا۔ خوف سے پیٹ کے اندر آنتیں تک سکڑ گئی تھیں۔

سائے نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے یقیناً وہ جھپٹ پڑنے کے لیے تیار تھا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے مارے خوف کے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنی پوری طاقت سے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے۔ مگر اچانک مجھے محسوس ہوا میرے حلق میں کانٹے سے اگ آئے ہیں اور خوف و دہشت سے مجھ پر لرزہ طاری ہو گیا ہے۔ میرے قدموں کے نیچے زمین بھی میرے وجود کی طرح کانپ رہی تھی۔ میرے کانوں میں آواز آئی:

’’مجھے نہ مارو۔۔۔ بھگوان کے لیے مجھے نہ مارو یہ میرا بٹوہ گھڑی، پین سب لے لو میں تمہارے پاؤں پڑتا ہوں۔ مجھے مت مارو۔‘‘

میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں کیوں کہ وہ آواز میری تو نہیں تھی۔ میں نے دیکھا کہ میرے قدموں پر سر جھکائے کوئی شخص گڑگڑا رہا ہے اور اس کے کانپتے ہاتھ میری لرزتی ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں۔

٭٭٭





گیت





میرے بیٹے نے حسب معمول اس رات بھی کہانی کی فرمائش کی۔ میں کافی تھکا ہوا تھا، تس پر ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہوتی خبروں نے دل و دماغ کو اور بھی پژمردہ کر دیا۔ فرقہ واریت عدم رواداری، نفرت اور مذہبی جنون کے شعلوں نے جیسے پورے ملک بلکہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ میں نے بیٹے کو پچکارتے ہوئے کہا۔

’’آج نہیں بیٹا! آج پاپا تھک گئے ہیں، کل سنائیں گے ہم تمہیں ایک اچھی کہانی‘‘۔

’’بس ایک چھوٹی سی کہانی۔۔۔ ایک دم اتی سی‘‘۔ اس نے انگلی کی پور پر انگوٹھا رکھتے ہوئے، اتی سی، کی صراحت کی۔

اس کی اس معصوم ادا پر مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے تھک ہار کر کہا ’’ٹھیک ہے، ہم کہانی سنائیں گے، مگر تم بیچ میں کوئی سوال نہیں پوچھو گے؟‘‘

’’نہیں پوچھوں گا‘‘۔

کہتے ہیں کسی پہاڑی کے پیچھے ایک بستی تھی۔ بستی میں اونچے اونچے مکان تھے، مکانوں میں بڑے بڑے دروازے اور چوڑی چوڑی کھڑکیاں تھیں، روشن اور کشادہ کمرے تھے، جہاں صبح و شام ہوا اٹھکیلیاں کرتی گزرتی، مکانوں کے آنگنوں میں پھولوں کی کیاریاں لگی تھیں، جن میں رنگ برنگے پھول کھلتے تھے اور ہواؤں میں ہر دم بھینی بھینی خوشبو رچی رہتی تھی۔ بستی کے باہر باغات کا سلسلہ تھا، جن میں طرح طرح کے پھل اور پیڑ تھے، پیڑوں پر قسم قسم کے پرندوں کے گھونسلے تھے، پرندے صبح شام چہچہاتے رہتے، ان کی چہکار سے فضا میں موسیقی سی گھلتی رہتی، بستی کے پاس ایک ندی گزرتی تھی جس سے آس پاس کی زمین سیراب ہوتی رہتی، انسان تو انسان ڈھور ڈنگر تک کو دانے چارے کی کمی نہیں تھی، کوئی موسم ہو، کھیتوں میں اناج کے خوشے جھومتے رہتے اور گایوں کے تھن ہمیشہ دودھ سے بھرے رہتے۔

بستی کے لوگ بڑے خوش مزاج، ملنسار اور امن پسند تھے، مرد دن بھر کھیت، کھلیانوں اور باغوں میں کام کرتے، مویشی چراتے، دودھ دوہتے اور عورتیں چولہا چکی سنبھالتیں۔ خالی وقت میں وہ ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے، دعوتوں میں لذیذ کھانے کھاتے، عمدہ مشروب پیتے، جھومتے گاتے اور رقص کرتے، خوشیاں روز اس بستی کا طواف کرتیں اور غم بھولے سے بھی ادھر کا رخ نہ کرتے۔ کہتے ہیں بستی کے پاس ہی ایک گھنے پیڑ پر ایک پری رہتی تھی۔ ننھی منی، موہنی صورت اور معصوم سیرت والی گلابی آنکھوں اور شہابی ہونٹوں والی، سنہرے بالوں اور سرخ گالوں والی پری۔ پری گاؤں والوں پر بہت مہربان تھی۔ وہ اکثر اپنے چمکدار پروں کے ساتھ اڑتی ہوئی آتی اور ان کے روتے ہوئے بچوں کو گدگدا کر ہنسا دیتی۔ لڑکیوں کے ساتھ ساون کے جھولے جھولتی، آنکھ مچولی کھیلتی، لڑکے بالوں کے ساتھ پیڑوں پر چڑھتی، ندی میں تیرتی، کبھی کسی کے کھلیان کو اناجوں سے بھر دیتی، کبھی کسی کے آنگن میں رنگ برنگے پھول کھلا دیتی۔ شادی بیاہ، تیج تہوار، میلے ٹھیلے یہاں تک کہ موت مٹی میں وہ ہر جگہ، ہر موقع پر ان کے ساتھ رہتی۔ بستی والے بھی اس کے اتنے عادی ہو گئے تھے کہ اگر وہ ایک دن بھی انہیں دکھائی نہیں دیتی تو وہ بے چین ہو جاتے۔

دن گزرتے رہے۔ وقت کا پرندہ کالے سفید پروں کے ساتھ اڑتا رہا اور موسم کا بہروپ نت نئے روپ بدلتا رہا۔

پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ ایک دن کسی نے ان کے کھیتوں میں شرارت کا ہل چلا دیا۔ بس، اس دن سے ان کے کھیت تو پھیلتے گئے مگر دل سکڑنے لگے۔ گودام اناجوں سے بھر گئے، مگر نیتوں میں کھوٹ پیدا ہو گئی۔ اب وہ اپنی مقررہ زمینوں کے علاوہ دوسروں کی زمینوں پر بھی نظر رکھنے لگے۔ نتیجے کے طور پر ان کے کھیتوں میں بدکرداری کی فصل اگنے لگی اور درخت ریاکاری کا پھل دینے لگے۔ لالچ نے ان کے دلوں میں خود غرضی کا زہر گھول دیا تھا۔ پہلے وہ مل بانٹ کر کھاتے تھے، مل جل کر رہتے تھے، مگر رفتہ رفتہ ان کی ہرچیز تقسیم ہونے لگی۔ کھیت، کھلیان، باغ بغیچے، گھر آنگن یہاں تک کہ انہوں نے اپنی عبادت گاہیں تک آپس میں بانٹ لیں اور اپنے اپنے خداؤں کو ان میں قید کر دیا۔ ان کی آنکھوں کی مروت اور دلوں کی حمیت ہتھیلی پر جمی سرسوں کی طرح اڑ گئی، تصویروں کے رنگ اندھے اور گیتوں کے بول بہرے ہو گئے۔ اب نہ کوئی تصویر بناتا تھا نہ کوئی گیت گاتا تھا۔ ہر گھڑی ہر کوئی ایک دوسرے کو زک دینے کی فکر میں رہتا۔ آئے دن وہ ایک دوسرے کو برباد کرنے کے منصوبے بناتے رہتے۔ بستی والوں کے یہ بدلے ہوئے رنگ ڈھنگ دیکھ کروہ ننھی پری بہت دکھی ہوئی۔ وہ سوچنے لگی، آخربستی والوں کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ کیوں ایک دوسرے کے بیری ہو گئے ہیں؟ مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔

وہ اب بھی بستی میں جاتی، بچوں کو گدگداتی اور عورتوں کے ساتھ گیت گاتی، لڑکی، لڑکوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی۔ پیڑوں پر چڑھتی، ان کے کھیت، کھلیانوں کے چکر لگاتی، آنگنوں میں گھومتی پھرتی۔ مگر اب وہ سب اس کی طرف بہت کم دھیان دیتے۔

بستی والوں کی اس بے توجہی کے سبب ننھی پری اداس رہنے لگی۔ آخر اس نے بستی میں آنا جانا کم کر دیا۔ اگر کبھی جاتی بھی تو ڈری ڈری، سہمی سہمی سی رہتی اور جتنی جلد ممکن ہوتا وہاں سے لوٹ آتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس نے بستی میں آنا جانا بالکل ترک کر دیا۔

بستی والے آپس کے جھگڑے ٹنٹوں میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ شروع شروع میں انہیں اس کی غیر موجودگی کا پتا تک نہیں چلا۔ مگر جب سہاگنوں کے گیت بے سرے ہو گئے اور کنواریوں نے پیڑوں کی ٹہنیوں سے جھولے اتار لیے اور بچے کھلکھلا کر ہنسان بھول گئے تب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اپنی کوئی قیمتی شے کھودی ہے۔ بستی والے فکر مند ہو گئے۔ اسے کہاں ڈھونڈیں، کیسے تلاش کریں؟ ان کی تشویش بڑھنے لگی۔ مگر بجائے اس کے کہ وہ مل بیٹھ کر سر جوڑ کر اس کے بارے میں سوچتے، وہ ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگے کہ پری ان کی وجہ سے روٹھ گئی ہے۔ اب تو وہ ایک دوسرے سے اور بھی بدگمان ہو گئے۔ ان کے دلوں کی نفرت اور بھی گہری ہو گئی۔

اب انہوں نے ایک دوسرے کے کھیت کھلیانوں کو پامال کرنا اور مویشیوں کو چرانا شروع کر دیا۔ دھوکہ فریب، لوٹ مار، قتل و غارت گری روز کا معمول بن گیا۔ اب نہ کسی کا جان و مال محفوظ تھا، نہ کسی کی عزت و آبرو سلامت تھی۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا، بوڑھے اپنے گھر کی چہار دیواریوں میں بیٹھے گڑگڑاتے اور دعائیں مانگتے رہتے اور جوان تلواریں اور نیزے لیے ایک دوسرے کی تاک میں گھومتے رہتے۔ کوئی تلوار سے کسی کا سرقلم کر دیتا، کوئی نیزے سے کسی کا سینہ چھید دیتا۔ معصوم انسانوں کے لیے روز بروز زمین تنگ ہوتی جا رہی تھی۔

جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور بچاؤ کی کوئی صورت نہ رہی تب بستی والوں نے طے کیا کہ اس روز کے قضیے سے بہتر ہے اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ وہ جان گئے تھے کہ جب تک کسی ایک فریق کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، دوسرے کو راحت نہیں مل سکتی۔ لہذا انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے دشمن کو ختم کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

اس فیصلے کے بعد وہ دو گروہ میں بٹ گئے۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا اور سارے جوان ہاتھوں میں نیزے اور تلواریں لیے میدان میں ایک دوسرے کے مقابل آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کی آنکھوں سے غصے اور نفرت کی چنگاریاں نکل رہی تھیں اور ان کی مٹھیاں نیزوں اور تلواروں کے دستوں اور قبضوں پر مضبوطی سے کسی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے حریف کو خونخوار نظروں سے گھور رہے تھے اور ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنے کو تیار کھڑے تھے۔

تبھی ایک انہونی ہو گئی، فضا میں ایک مہین سا سر بلند ہوا۔ جیسے کسی پرندے کا ملائم پر ہوا میں لرز رہا ہو، کوئی گا رہا تھا۔

انہوں نے آواز کی سمت دیکھا۔ پہلے تو انہیں کچھ دکھائی نہیں دیا۔ مگر جب انہوں نے بہت دھیان سے دیکھا تو انہیں ننھی پری ایک پیڑ کی ڈال پر بیٹھی دکھائی دی۔ مگر آج اس کا روپ بدلا ہوا تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور گال آنسوؤں سے تر تھے، پر نچے ہوئے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جیسے وہ گھنی خاردار جھاڑیوں کے درمیان سے گزر کر آ رہی ہو، اس کے پاؤں ننگے اور تلوے زخمی تھے۔ وہ پیڑ سے اتر کر میدان کے بیچ میں آ کر کھڑی ہو گئی، اس نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر رکھے تھے جیسے انہیں ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے روکنا چاہتی ہو۔ تلواروں کے دستوں اور نیزوں پرکسی ہوئی مٹھیاں قدرے ڈھیلی ہوئیں۔

وہ گا رہی تھی، اس کی آواز میں ایسا سوز تھا کہ ان کے سینوں میں دل تڑپ اٹھے، وہ گا رہی تھی، اس کی آواز دھیرے دھیرے بلند ہوتی گئی، بلند ہوتی گئی، اتنی بلند جیسے ستاروں کو چھونے لگی ہو، اس کی آواز چاروں دشاؤں میں پھیلنے لگی۔ پھیلتی گئی، پھیلتی گئی، اتنی پھیلی کہ چاروں دشائیں اس کی آواز کی بازگشت سے گونجنے لگیں۔ لوگ حیرت سے آنکھیں پھاڑے منہ کھولے اس کا گیت سنتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں دبی تلواریں پھولوں کی چھڑیوں میں تبدیل ہو گئیں اور نیزے مورچھل بن گئے۔

انہوں نے محسوس کیا کہ پہاڑی کی چوٹیوں پر جمی برف پگھل رہی ہے اور ان کے دلوں کی کدورت آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ رہی ہے۔ پچھتاوے اور شرمندگی سے ان کی گردنیں جھک گئیں۔ گیت کے بول ان کے کانوں میں رس گھولتے رہے اور دھیرے دھیرے وہ سب ایک دوسرے سے ایک ان دیکھی، ان جان ڈور سے بندھے چلے گئے، جیسے وہ سب ایک ہی مالا کے موتی ہوں، جیسے وہ سب ایک ہی ماں کے جائے ہوں۔

ادھر گیت ختم ہوا اور وہ اپنی آستینوں سے آنسو پونچھتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ جب اشکوں کا غبار کم ہوا تو انہوں نے اپنی محسن کو تلاش کرنا چاہا مگر وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ بستی والوں نے اسے بہت ڈھونڈا، وادی وادی، جنگل جنگل آواز دی، منتیں کیں، واسطے دئیے مگر وہ دوبارہ ظاہر نہیں ہوئی۔ تب بستی والوں نے اس کی یاد میں ایک مجسمہ بنایا، اسے بستی کے بیچوں بیچ میدان میں نصب کر دیا۔

کہتے ہیں آج بھی بستی کے لوگوں میں جب کوئی تنازعہ ہوتا ہے، سب میدان میں اس مجسمے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور اس گیت کو دہرانے لگتے ہیں۔ گیت کے ختم ہوتے ہوتے ان کے دل سلوٹیں دوبارہ اجلی اور صاف ہو جاتی ہیں جیسے بارش کی پہلی پھوار سے پیڑوں سے پھول پتے دھل جاتے ہیں۔ اس طرح بستی والے آج بھی اس گیت کی بدولت بڑے امن اور چین سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جیسے ان کے دن پھرے، خدا ہم سب کے دن بھی پھیر دے۔

میں نے کہانی ختم کر کے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور جمائی لیتے ہوئے کہا، ’’چلو اب سو جاؤ، کہانی ختم ہو چکی ہے‘‘۔

اس نے کہا ’’پاپا؟ آپ نے کہا تھا، کہانی سناتے وقت بیچ میں کوئی سوال نہیں پوچھنا‘‘۔

’’ہاں، میں نے کہا تھا اور تم نے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ تم بڑے اچھے بچے ہو‘‘۔

’’مگر پاپا! کہانی تو ختم ہو گئی، میں اب تو سوال پوچھ سکتا ہوں نا؟‘‘

میں نے ایک لمحہ توقف کیا پھر بولا، ’’چلو پوچھو، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘

’’پاپا! وہ کونسا گیت تھا، جسے سن کر گاؤں والے دوبارہ گلے ملنے پر مجبور ہو گئے‘‘۔

میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، تھوڑی دیر چپ رہا، پھر بولا، ’’مجھے وہ گیت یاد نہیں ہے بیٹا!‘‘

وہ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا، اس کی آنکھوں میں بے اعتمادی کی جھلک تھی۔

میں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کا۔

’’چلو سو جاؤ، رات زیادہ ہو گئی ہے‘‘۔

’’نہیں پاپا‘‘، اس نے مچلتے ہوئے کہا۔

’’مجھے وہ گیت سنائیے ورنہ میں سمجھوں گا، آپ کی کہانی ایک دم جھوٹی تھی‘‘۔

میں سناٹے میں آ گیا۔ جیسے کسی نے چوری کرتے پکڑ لیا ہو۔

میں تھوڑی دیر خاموش رہا پھر دبے لہجے میں بولا،

’’ہاں بیٹا! یہ کہانی جھوٹی ہے، کہانیاں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں‘‘۔

وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا، میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

’’مگر تم اس کہانی کو سچی بنا سکتے ہو‘‘۔

’’وہ کیسے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

’’بڑے ہو کر تم ویسا گیت لکھ سکتے ہو، جیسا پری نے گایا تھا‘‘۔

بیٹے کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی۔

’’سچ؟‘‘

’’ایک دم سچ‘‘۔

اس نے میرے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔

’’یو آر سو سوئٹ پاپا!‘‘

’’تھینک یو‘‘ میں نے اس کی پیٹھ تھپکتے ہوئے کہا، اب سو جاؤ‘‘۔

’’گڈ نائٹ‘‘ اس نے آنکھیں بند کر لیں وہ جلد ہی سو گیا، مگر اس رات میں بہت دیر تک جاگتا رہا، بار بار میرے ذہن میں ایک ہی سوال کلبلا رہا تھا۔

’’کیا میرا بیٹا ویسا گیت لکھ سکے گا؟‘‘

٭٭٭







حلالہ



پیر خان ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر اپنا بڑا سا رو مال ہلاتا ہوا حوض کے کنارے بنے چبوترے پر آ بیٹھا۔ دینو (دین محمد) ابھی اندر ہی تھا۔ وہ شاید اپنی آخری دو رکعتیں ادا کر رہا تھا۔ پیر خان نے اپنی ٹوپی نکال کر چبوترے پر رکھ دی اور اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا پھر داڑھی میں انگلیوں سے خلال کرتا ہوا جھک کر مسجد کے اندر جھانکا۔ دینو نماز سے فارغ ہو کر اب شاید دعا مانگ رہا تھا۔

آج مسجد میں داخل ہوتے وقت ہی دینو نے اس سے کہا تھا کہ ’’نماز کے بعد ذرا رکنا تھوڑا کام ہے تم سے‘‘ اور اب پیر خان اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ دینو کو نماز شروع کیے ہوئے ابھی دو تین مہینے ہوئے تھے مگر پیر خان تین چار برس سے بڑی باقاعدگی سے نماز پڑھ رہا تھا جب سے اس کی بیوی کا انتقال ہوا تھا تبھی سے وہ پکا نمازی ہو گیا تھا۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ اس نے بڑی دور دور کا سفر کیا تھا اور دین کے راستے سے بھٹکے ہوئے ہزاروں اللہ کے بندوں کو نماز کی دعوت دی تھی۔ اب تو وہ تبلیغی جماعت کا ایک سر گرم رکن تھا اور بڑی مسجد میں ہر جمعرات کی شب کو جو اجتماعی درس ہوتا تھا اس میں بڑی باقاعدگی سے حاضر ہوتا تھا۔ وہ ایک مل مزدور تھا اور ڈیوٹی کے بعد جو وقت بچتا وہ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی میں صرف کرتا۔ وہ اپنے آپ کو اسلام کی سچی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ محلے کے لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔ دینو اس کا پرانا ساتھی تھا۔ وہ دونوں ایک ہی مل میں کام کرتے تھے۔ وہ دینو کو اکثر نماز کی تلقین کرتا رہتا تھا۔ دینو کبھی کبھی نماز کے لیے اس کے ساتھ آ جاتا تھا۔ مگر پچھلے تین چار ماہ سے اس نے بھی باقاعدہ نماز شروع کر دی تھی۔

دینو اپنی دعا ختم کر کے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرتا ہوا اٹھ گیا اور زیرِ لب کوئی وظیفہ بُدبُداتا ہوا پیر خان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

’’کیا بات ہے بھئی دینو! مجھ سے رکنے کو کہا تھا تم نے؟‘‘ پیر خان نے پوچھا۔

’’ہاں یار! ایک مسئلہ میں تم سے مشورہ کرنا تھا۔‘‘

دینو نے بھی ٹوپی اتار کر گود میں رکھ لی۔

’’بولو کیا بات ہے؟‘‘ پیر خان نے اپنی گنجی کھوپڑی سہلائی۔

دینو کچھ دیر تک چپ رہا۔ پھر گردن اٹھا کر پیر خان کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

’’یار! کل کلثوم آئی تھی میرے پاس۔‘‘ دینو اتنا کہہ کر پھر چپ ہو گیا۔

’’کلثوم؟‘‘ پیر خان ذہن پر زور دیتا ہوا استفہامیہ انداز میں دینو کی طر دیکھنے لگا۔

’’ہاں یار! کلثوم میری بیوی۔‘‘ دینو نے گردن جھکا کر جواب دیا۔

’’مگر وہ تو گورکھپور اپنے باپ کے پاس چلی گئی تھی۔‘‘ پیر خان نے قدرے حیرت سے کہا۔

’’ہاں چلی تو گئی تھی مگر پچھلے مہینے اس کا باپ گزر گیا۔ وہاں وہ اکیلی رہ گئی تھی۔ بالکل بے سہارا۔ یہاں بھیونڈی میں اس کے کوئی رشتے دار رہتے ہیں۔ اب انھیں کے پاس ہے۔ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ وہ لوگ بدلے میں دو وقت کی روٹی دے دیتے ہیں۔‘‘

’’مگر وہ تمہارے پاس کیوں آئی۔ تم نے تو طلاق دے دی تھی نا؟‘‘

’’ہاں یار، دے تو دی تھی لیکن یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ طلاق دینے کے بعد میں بھی بہت پچھتایا تھا۔ اب وہ جو کل آ کر میرے پاس گڑگڑا کر روئی ہے تو سچ کہتا ہوں، میرا کلیجہ پھٹنے لگا۔ بے اختیار اسے سینے سے لگا کر تسلی دینے کو جی چاہا مگر اب وہ میرے لیے نا محرم تھی نا۔۔۔ اس کے جسم کو ہاتھ کیسے لگاتا۔ یہی سوچ کر ضبط کر گیا۔ کل بڑا جبر کیا تھا میں نے اپنے دل پر ورنہ خدا جانے کیسا گناہ ہو جاتا کل مجھ سے۔‘‘ اتنا کہہ کر دینو کسی سوچ میں ڈوب گیا۔

’’پھر اب کیا کہتے ہو؟‘‘ دینو کو چپ دیکھ کر پیر خان نے پوچھا۔

دینو کچھ دیر تک حوض میں تیرتی ایک سرخ رنگ کی مچھلی کو گھورتا رہا۔ پھر بولا۔

’’میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ کل وہی کہہ رہی تھی مجھے دوبارہ اپنے گھر میں بسا لو۔ اب کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔ اس کی آواز میں کچھ ایسا درد تھا کہ میرا تو دل بھر آیا۔‘‘

’’پیر خان داڑھی کے پیچھے سے مسکراتا ہوا بولا۔‘‘ تو یوں کہو نا۔۔۔‘‘

پھر کچھ دیر بعد بولا۔ ’’مگر تم نے اسے طلاق دے دی تھی اب وہ دوبارہ تمہارے پاس کیسے آ سکتی ہے؟‘‘

’’یار پیر خان مجھے ان مسئلوں کے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں۔ تمہیں کوئی صورت نکالو نا۔۔۔‘‘

پیر خان اپنی داڑھی میں انگلیاں چلاتا ہوا کچھ سوچنے لگا۔ پھر بولا۔

’’اسے طلاق دیے کتنی مدّت ہوئی؟‘‘

’’یہی کوئی سات آٹھ مہینے ہوئے ہوں گے۔‘‘

’’تمہارے پاس سے جانے کے بعد اس نے کسی اور سے نکاح نہیں کیا؟‘‘

’’نہیں۔۔۔ کہہ رہی تھی اس کے باپ نے اس پر بہت زور دیا تھا کہ وہ دوسرا نکاح کر لے مگر اس نے منع کر دیا۔ کہنے لگی۔ میں جب بھی دوسرے نکاح کے بارے میں سوچتی ہوں تمہاری شکل آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔‘‘

پیر خان پھر کسی سوچ میں پڑ گیا۔ پھر کچھ دیر بعد بولا۔

’’تمہارے طلاق کے بعد عدّت کی مدّت تو ختم ہو جاتی ہے مگر شریعت کے مطابق کلثوم کو کسی دوسرے شخص سے نکاح پڑھوانا ہو گا۔ پھر وہ آدمی اسے طلاق دے دے اور اس طلاق کے بعد عدت کی مدت ختم کر کے وہ دوبارہ تمہارے نکاح میں آ سکتی ہے۔‘‘

’’یار پیر خان! اسی بارے میں تو کچھ کہنا ہے۔ میں نے یہ بات مولوی عبدالحق سے پوچھی تھی۔ انہوں نے بھی یہی کہا جو تم کہہ رہے ہو۔ مگر ایسا شخص کون ہو گا جو کلثوم سے نکاح کرنے کے بعد فوراً اسے طلاق دے دے۔‘‘

’’ہاں، ایسا شخص کون ہو گا؟‘‘ پیر خان اپنی داڑھی کھجلاتا ہوا بُدبُدایا۔ دینو سر جھکائے چپ چاپ بیٹھا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک خیال دھیرے دھیرے رینگ رہا تھا۔ اتنے میں حوض میں تیرتی ہوئی سرخ رنگ کی مچھلی بڑے زور سے تڑپی۔ دینو چونک پڑا اس نے پیر خان کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا اسی مچھلی کو گھور رہا تھا۔ اچانک دینو بولا۔

’’یار پیر خان یہ کام تو ہی کر دے نا۔۔۔‘‘

’’کون سا کام؟‘‘ پیر خان چونک کر بولا۔

’’ارے یہی نکاح اور طلاق والا جھنجھٹ۔ تو کلثوم سے نکاح کر لے اور طلاق دے دے عدت کی مدت وہ اپنے بھیونڈی والے رشتے دار کے یہاں گزار لے گی۔ اس کے بعد تو میں اس سے نکاح کر سکتا ہوں۔‘‘

پیر خان چپ رہا۔ دینو پھر بولا۔

’’دیکھ یار! یہ کام تجھے میرے لیے کرنا ہی ہو گا۔ یہی کہنے کے لیے میں نے تجھے روکا تھا۔‘‘

پیر خان پھر بھی چپ رہا۔

دینو کہہ رہا تھا، ’’تو ہاں کہہ دے تو میں آج ہی بھیونڈی جا کر کلثوم کو تیار کر لیتا ہوں اور کل عشاء بعد تیرے مکان پر مولوی صاحب کو بلوا لیں گے۔

پیر خان کچھ جھجھکتا ہوا بولا۔ ’’مگر۔۔۔‘‘

’’اگر مگر کچھ نہیں۔ بس تو ہاں کہہ دے، باقی سارا بندوبست میں کر لیتا ہوں۔‘‘

اتنے میں مسجد کے موذّن اپنا تہمد کستے ہوئے ادھر آ نکلے اور دینو چپ ہو گیا۔ حوض کی سرخ مچھلی ایک بار پھر زور سے تڑپی اور اچھل کر حوض کے باہر فرش پر آ گری۔ پیر خان نے لپک کر اسے فرش سے اٹھایا اور آہستہ سے دوبارہ حوض میں چھوڑ دیا۔

دوسرے دن عشاء بعد پیر خان کے مکان پر مولوی عبد الحق آئے۔ دینو کلثوم کو لے کر پہلے ہی پہنچ چکا تھا مولوی صاحب نے گواہ کے طور پر مسجد کے موذّن اور پیر خان کے ایک پڑوسی جلا لو کے دستخط لیے اور پیر خان سے کلثوم کا نکاح پڑھوا دیا۔ نکاح کے بعد شیرنی تقسیم کی گئی۔ دینو نے اپسرا ہوٹل سے چائے منگوا لی تھی۔ مولوی صاحب مسجد کے موذّن اور جلالو چائے پانی پی کر پان کی پیک اڑاتے ہوئے چل دیے۔ اب پیر خان اور دینو وہاں رہ گئے تھے۔ کلثوم کمرے کے اندر تھی۔ دینو پیر خان کا بہت مشکور تھا۔ اس نے اسے ایک بڑی الجھن سے بچا لیا تھا۔ دینو نے پیر خان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔

’’میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا دوست! اب مجھے اجازت دو۔ کلثوم کو اسی وقت اس کے رشتے دار کے ہاں پہچانا ہے۔ آخری بس ساڑھے گیارہ بجے جاتی ہے۔‘‘

پیر خان نے مصافحہ کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

’’پیارے دینو! تم شاید اس مسئلہ سے پوری طرح واقف نہیں ہو۔ در اصل جب طلاق والی عورت دوسرے شخص سے نکاح پڑھوا لیتی ہے تو جب تک وہ دوسرا آدمی اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہ کر لے اس سے طلاق نہیں سکتی۔ اگر دوسرا مرد اس کے جسم کو نہ چھوئے تو وہ پہلے مرد کے لیے حلالہ نہیں ہو سکتی۔‘‘ دینو نے ایک جھٹکے کے ساتھ پیر خان کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس کا لہجہ غصہ اور حیرت سے بھرا ہوا تھا۔

’’میں نہیں کہتا، شریعت کہتی ہے۔ اگر یقین نہ ہو تو کہیں سے بھی فتویٰ منگوا لو، یا مولوی عبدالحق سے جا کر پوچھ لو۔‘‘

’’مگر یہ بات تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی۔‘‘ دینو کا پارہ چڑھتا جا رہا تھا۔

’’مجھے کیا معلوم تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ مولوی صاحب نے تمہیں یہ بات بتا دی ہو گی۔‘‘

’’مولوی صاحب کی ایسی تیسی۔۔۔‘‘ دینو نے دانت پیس کر کہا۔

’’چچ۔۔۔ چ۔۔۔ چ۔۔۔ پیارے دینو! مولوی صاحب کے لیے ایسے الفاظ نہ نکالو، وہ ہمارے امام ہیں۔‘‘ پیر خان نے پر سکون لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’اور پھر ایک رات کی تو بات ہے۔ کل صبح میں کلثوم کو طلاق دے دوں گا۔ تم اسے بھیونڈی لے کر چلے جانا۔ پھر عدت کی مدت ختم ہوتے ہی وہ تمہارے لیے حلالہ ہو جائے گی۔ تم اس سے نکاح کر سکو گے۔ اب تم اپنے گھر جا کر آرام کرو۔ فجر کی نماز کے وقت مسجد میں ملاقات ہو گی۔ نماز کے بعد ہی میں کلثوم کو طلاق دے دوں گا۔ اچھا، خدا حافظ۔۔۔۔‘‘

کہتا ہوا پیر خان کمرے میں چلا گیا جاتے جاتے وہ اپنے پیچھے کمرے کا دروازہ بند کرنا نہیں بھولا تھا۔ باہر دینو کھڑا دانت پیستا رہ گیا۔ وہ اپنے شدید غصے کو دبانے کی انتہائی کوشش کر رہا تھا۔

٭٭٭







کام دھینو





وہ مارچ کی ایک صاف و شفاف صبح تھی اور سورج پہاڑی کے پیچھے سے یوں طلوع ہو رہا تھا جیسے کوئی نٹ کھٹ بالک کسی نئی شرارت کی فکر میں دیوار کی اوٹ سے جھانک رہا ہو۔ صبح کی ہوا کے لطیف اور خوش گوار جھونکے جوار کی پکی فصل کو ہولے ہولے چھیڑتے گزر رہے تھے، جیسے ماں اپنے بچے کے بالوں میں پیار سے انگلیاں پھیر رہی ہو۔ فضا میں جوار کی مہک بسی ہوئی تھی اور درختوں پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ بھرت پور کی اکلوتی بڑی سڑک اور گلیاں تقریباً سنسان تھیں۔ البتہ گھروں کے آنگنوں سے بیلوں کے ڈکرانے اور بکریوں کے ممیانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کسی گھر سے ایک آدھ بچے کی چیخ کر رونے کی آواز بھی آ جاتی۔ ایک بنیا اپنی دکان کا ایک پٹ کھولے دکان کی چوکھٹ پر بیٹھا داتون کر رہا تھا۔ دو گوالے سروں پر دودھ کی کین رکھے لپ لپ جھپ جھپ گزر رہے تھے۔ سامنے سے ایک گوالا سائیکل پر سوار چلا آ رہا تھا۔ اس کی سائیکل کے ہنڈل سے دودھ کی خالی کینیں لٹکی ہوئی تھیں۔ جو سائیکل کے مڈگاڈوں سے ٹکرا ٹکرا کر کھڑ پڑ کھڑ پڑ کر رہی تھیں۔

تبھی بھرت پور میں ایک جیپ گاڑی داخل ہوئی۔ جیپ گاڑی کی باڈی پر چاروں طرف سے بڑے بڑے بینرس لگے ہوئے تھے جن پر جلی حرفوں میں مختلف نعرے لکھے تھے اور ہر بینر پر سورج کا نشان بنا ہوا تھا۔ جیپ گاڑی کے دائیں بائیں پارٹی کے جھنڈے فر فرا رہے تھے۔ پیچھے دو بڑے سے بھونپو بھی فٹ تھے۔ جیپ گاڑی میں چار پانچ نوجوان بیٹھے تھے۔ جیپ گاڑی دھول اڑاتی سڑک پر آ گئی۔ اور اسی وقت بھونپو سے آواز آئی۔

’’بھرت پور کے باسیو! جاگو غفلت سے جاگو۔۔۔ ابھی نہیں جاگے تو کبھی نہیں جاگو گے۔ دیکھو رات بیت گئی۔ اندھیرا چھٹ گیا۔ نا انصافی نابرابری، بھوک اور بے کاری کا اندھیرا۔۔۔ نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ یاد رکھو سورج صرف اونچی عمارتوں اور محل دو محلوں کو روشن نہیں کرتا۔ وہ جھونپڑوں، جھگیوں میں بھی اپنا نور بکھیرتا ہے۔ یہ سورج تمہاری خوش حالی اور مسرتوں کا ضامن ہے۔ یاد رکھو سورج کا نشان۔۔۔ جاگ اٹھا ہندوستان۔۔۔ جاگو تم بھی جاگو اور اپنے محبوب لیڈر الحاج مرزا تراب علی کو ووٹ دو۔‘‘

’’مرزا تراب علی۔۔۔ زندہ باد۔۔۔‘‘

بھونپو کی آواز سے سب سے پہلے تو بوڑھے اپنی اپنی اونگھ سے جاگے۔ پھر جوان آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے۔ بلکہ بعض کو ان کی بیویوں، ماؤں اور بہنوں نے جھنجھوڑ کر جگایا۔ سب اپنے اپنے بستروں سے اٹھ بیٹھے۔ دروازے وا ہونے لگے۔ لوگ دروازے کھول کھول کر ور انڈوں، چبوتروں، گیلریوں اور سیڑھیوں پر آ آ کر کھڑے ہو گئے۔ کھڑکیوں کے پٹ کھلے اور عورتیں گردنیں نکال نکال کر جھانکنے لگیں۔ بچے ماؤں کے کاندھوں کے اوپر سے اور باپوں کی ٹانگوں کے بیچ میں سے نکل نکل کر اپنی کیچ بھری آنکھوں کو ملتے، بہتی ناکوں کو الٹی ہتھیلیوں سے پونچھتے کچھ تجسس، کچھ استعجاب، کچھ خوف، کچھ اضطراب کی کیفیت میں ادھر ادھر تاکنے لگے۔ بوڑھے آنکھوں پر اپنی لرزتی ہتھیلیوں کا چھجّا بنائے اور نوجوان پیشانیوں پر بل ڈالے اس طرف نہارنے لگے جدھر سے بھونپو کی آواز آ رہی تھی۔ جیپ گاڑی بھرت پور کی بڑی سڑک پر دھول اڑاتی آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ جیپ کی رفتار بہت دھیمی تھی۔ جیپ کے بھونپو سے اعلان نشر ہو رہا تھا۔

’’صاحبو! آئیے، گرام پنچایت کے میدان میں بابائے قوم الحاج مرزا تراب علی۔ بنفس بنفیس آپ سے خطاب کرنے تشریف لا رہے ہیں۔‘‘

ایک بوڑھے نے اپنی کیچ بھری آنکھیں مچمچاتے دوسرے بوڑھے سے پوچھا۔

’’یہ مرزا تراب علی کون صاحب ہیں؟‘‘

’’کوئی نیتا لگت ہیں۔‘‘ دوسرے کا جواب۔

’’نیتا، ہمارے جمانے میں تو گاندھی بپّا، جواہر لال، مولانا آجاد جیسے لوگ نیتا ہوتے تھے یہ کیسے نیتا ہیں؟‘‘

’’یہ نئے جمانے کے نیتا ہیں چاچا!‘‘ ایک نوجوان۔

’’کتاب کرنے آ رہے ہیں۔ کیا مطلب؟‘‘

’’کتاب نہیں۔ خطاب۔‘‘

بھرت پور کے اکلوتے کالج، کیرتی مہاودیالے کے لیکچرر بولے جو کالج میں اردو پڑھاتے تھے۔

’’ہاں۔ ہاں وہی کھتاب کرنے آ رہے ہیں۔ مطلب کیا کرنے آ رہے ہیں؟‘‘

’’بھاشن دینے آ رہے ہیں۔‘‘

’’آچھا۔۔۔ بھاشن دینے۔۔۔ ہم سمجھے۔۔۔ کھتاب مانے کوئی پاٹھ واٹھ کرنے آ رہے ہیں۔‘‘

’’پاٹھ پنڈت لوگ کرتے ہیں کاکا۔۔۔ نیتا لوگ بھاشن دیتے ہیں۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ ہاں مالوم ہے۔۔۔‘‘ کاکا کو نوجوان لیکچرر کی علمیت ناگوار لگی۔

گرام پنچایت کے اکلوتے میدان میں ایک بڑا سا چوکور سرکاری چبوترا بنا ہوا تھا جس پر ایک چھت بھی پڑی ہوئی تھی۔ اکثر رام لیلا کے ناٹک اور نو ٹنکیاں وغیرہ اسی چبوترے پر کھیلے جاتے۔ ہولی کے موقع پر میدان میں بڑا سا گڈھا کھود کر اس میں آگ روشن کی جاتی اور ’ہولیکا‘ کو جلایا جاتا۔ گنپتی کے موقع پر یہاں ایک بہت بڑا گنپتی بھی بٹھایا جاتا۔ محرم میں اسی چبوترے سے ’تعزیے‘ بھی اٹھتے اور انھیں یہیں لا کر ٹھنڈا کیا جاتا۔ عید میلاد کا جلوس بھی اسی میدان سے نکلتا تھا۔ اور اگر کوئی چھوٹا موٹا منتری یا نیتا اس گاؤں سے گزرتا تو اس کے اعزاز میں اسی میدان میں جلسہ منعقد ہوتا اور وہ منتری یا نیتا اسی چبوترے سے گاؤں والوں کو خطاب کرتا۔ بھرت پور ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس میں ہندو مسلم کی ملی جلی آبادی تھی۔ مگر ان میں پیشے کے اعتبار سے اکثریت گوالوں کی تھی جن میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ دس پندرہ کرسچنوں کے بھی گھر تھے اور ان کا ایک مختصر سا چرچ بھی تھا جہاں وہ اپنی اتوار کی عبادت کر لیا کرتے تھے۔

بھرت پور کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ یہاں آج تک کوئی فساد نہیں ہوا تھا۔ ملک میں آئے دن ہونے والے فسادات کی خبریں یہاں بھی پہنچتیں۔ ٹی وی اور ریڈیو سے خبریں نشر ہوتیں مگر بھرت پور کے لوگوں پر ان فسادات کی خبروں کا کوئی خاص ردِ عمل نہ ہوتا۔ بیچارے اپنے مویشیوں میں اور کھیتی باڑی میں ایسے منہمک رہتے کہ انھیں ان خرافات کی طرف دھیان دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔

ایسا نہیں تھا کہ بھرت پور میں جھگڑے فساد نہیں ہوتے تھے۔ جھگڑے زیادہ تر روز مرّہ کی معمولی باتوں پر ہوتے اور بڑے بزرگوں کے بیچ بچاؤ یا پنچوں کے کہنے پر فوراً ختم بھی ہو جاتے۔ ان میں مذہبی فسادات کی بربریت اور شدت پسندی نہ ہوتی۔ دو ایک دفعہ مذہبی معاملوں پر بھی گرما گرمی ہوئی تھی مگر گاؤں والوں نے خود ہی مل ملا کر اسے طے کر لیا تھا۔

سورج آسمان پر اب کئی گز اوپر آ چکا تھا۔ لوگ ایک ایک دو دو کر کے گرام پنچایت کے میدان میں جمع ہونے لگے۔ میدان کے چبوترے کو رنگ برنگی جھنڈوں اور پتاکوں سے سجا دیا گیا تھا۔ چبوترے پر چار پانچ کرسیاں اور ایک میز بھی رکھ دی گئی تھی میز پر غلاف بچھا تھا اور اس پر ایک گلدان رکھا تھا۔ لوگ میدان میں آ آ کر چبوترے کے سامنے بیٹھتے جا رہے تھے۔ جن میں بوڑھے اور جوان بھی شامل تھے۔ کچھ نو عمر لڑکے میدان میں ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے۔ ایک طرف بوڑھوں کے درمیان چلم بھی چل رہی تھی۔ نوجوان ایک دوسرے کو کہنیوں سے ٹھوکے دیتے کسی مذاق پر رہ رہ کر قہقہے لگا رہے تھے۔ تبھی میدان میں ایک طرف وہی صبح والی جیپ آ کر کھڑی ہو گئی جو بھونپو پر بار بار تراب علی کی آمد کا اعلان کر رہی تھی جیپ کے پیچھے تین چار کاریں بھی تھیں۔ کاروں کے دروازے کھلے اور چند کرتے پاجامے پہنے موٹے تازے لوگ باہر نکلے جو لباس کے اعتبار سے تو سفید پوش تھے مگر جانے کیوں ان کے کرخت چہرے ان کے لباس سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ سب خراماں خراماں چبوترے کی طرف بڑھے۔ سب سے آگے آگے مرزا تراب علی چل رہے تھے جو کالی شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیے ہوئے تھے اور جن کے سر پر فر کی بھوری ٹوپی تھی۔ چبوترے پر کھڑے نوجوانوں نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور انھیں چبوترے پر بچھی کرسیوں پر بٹھایا۔ تراب علی کی کرسی سب سے اونچی تھی۔ ایک نوجوان نے مختصر طور پر مہمانوں کا تعارف کرایا۔ جلسے کی غرض و غایت بتائی۔ دو ایک چھوٹی موٹی تقریریں ہوئیں پھر تراب علی کے نام کا اعلان ہوا۔

تراب علی اپنی شیروانی کا دامن سنبھالتے مائک پر آئے۔ میدان میں خاموشی چھا گئی ادھر ادھر اچھلتے کودتے بچوں کو چند لوگوں نے ڈپٹ کر چپ کرایا۔ تراب علی نے گلا صاف کر کے کہنا شروع کیا۔ ’’بھرت پور کے باسیو! ہمارا نام تراب علی ہے۔ ہم اس گاؤں کے نہیں ہیں۔ اور نہ ہی اس سے پہلے کبھی ہم اس گاؤں میں آئے۔ ممکن ہے آپ نے پہلے کبھی ہمارا نام بھی نہ سنا ہو۔ مگر یقین جانیے ہم نے خواب میں بار ہا اس گاؤں کو دیکھا ہے آپ کے چہرے دیکھتے ہوئے ہمیں محسوس ہو رہا ہے ہم ایک ایک چہرے سے آشنا ہیں۔ ہم نے جب بھرت پور آنے کا قصد کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ بھرت پور کے باسیوں نے یہ طے کیا ہے کہ وہ صرف اسی امیدوار کو ووٹ دیں گے جو گوالا برادری سے تعلق رکھتا ہو گا۔ بڑا اچھا فیصلہ ہے۔ اس معاملے میں ہم بھی آپ کے حامی ہیں۔ مگر ہم آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اس حلقے سے چودہ امیدوار کھڑے ہیں اور ان میں ایک بھی گوالا یعنی آپ کی برادری سے تعلق نہیں رکھتا۔ میں بھی گوالا نہیں ہوں مگر میں جو بات کہنے جا رہا ہوں اسے ذرا غور سے سنیے۔ میں ایک سچا ہندوستانی ہوں ساتھ ہی ایک پکا مسلمان بھی ہوں۔ ایک طرف مجھے اس بات پر ناز ہے کہ میرے اجداد نے اس سرزمین سے اتنا پیار کیا ہے کہ اسے فردوس بریں بنا دیا۔ تو دوسری طرف مجھے فخر ہے کہ میں اس رسول کا کلمہ پڑھتا ہوں جس نے دائی حلیمہ کی آغوش میں پرورش پائی تھی۔ دائی حلیمہ کون تھیں؟ ایک گوالن ہی تو تھیں۔ میرا رسولؐ۔ میرا کالی کمبلی والا گوالا نہیں تھا مگر اس نے دائی حلیمہ کی بکریاں چرائی ہیں، اپنے مقدس ہاتھوں سے بکریوں کا دودھ دوہا ہے، ان کی مینگنیاں صاف کی ہیں۔ انہیں دلارا اور ٹِٹکارا ہے۔ بے شک وہ گوالا نہیں تھا مگر اس نے گوالے کے سارے کام انجام دیے ہیں اب آپ ہی بتائیے جب میرے نبیؐ دو جہاں کے سردار نے دودھ دوہا ہے اور بکریوں کے گلے کی نگہبانی کی ہے تو پھر ان کی امت کا ایک گنہ گار خادم بھلا اس کام سے اپنے آپ کو علاحدہ کیوں کر سمجھ سکتا ہے؟‘‘

چبوترے کے آس پاس کھڑے چند نوجوانوں نے مرزا تراب علی زندہ باد کا نعرہ لگایا۔

تراب علی نے ایک لمحہ توقف کیا پھر آگے اسی جوش سے بولے۔

’’آج اس بھرت پر میں۔۔۔ گوالوں کی اس چھوٹی مگر قدیم بستی میں۔۔۔ میں اپنے آقائے نامدار سرکار دو عالم حضرت محمدؐ کی خاکِ پا کے صدقے میں اپنے آپ کو گوالا برداری میں شامل کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں، میں آپ کے سامنے اپنے ہاتھوں سے دودھ دوہ کر یہ ثابت کر دوں گا کہ میں گوالا نہیں ہوں مگر گوالوں سے الگ بھی نہیں ہوں۔‘‘

ایک بار پھر تالیوں کی کڑکڑاہٹ سے میدان گونج اٹھا۔ تراب علی کہہ رہے تھے۔

’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس مبارک کام کے لیے بیسیوں حضرات اپنی اپنی گائیں، بھینسیں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس مرحلے میں بھی میرا نبیؐ میری رہنمائی کرے گا۔ یاد کیجیے خدا کے رسولؐ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے تھے تب مدینے کا ہر شخص انہیں اپنا مہمان بنانا چاہتا تھا مگر آپ نے اعلان کیا تھا کہ۔۔۔

’ہماری اونٹنی جس مکان کے سامنے ٹھہرے گی ہم اس کے گھر مہمان ہوں گے۔‘

اور آپؐ کی اونٹنی شہر کے آخر میں ایک غریب انصاری کے گھر کے سامنے رکی تھی اور آپؐ اسی صحابی کے مہمان ہوئے تھے۔۔۔ ہم بھی حضور کے نقش قدم پر چلیں گے اور گاؤں کے آخر میں جس گوالے کا گھر پڑے گا اسی کے آنگن میں دودھ دوہ کر خود کو آپ کی برادری کا ایک رکن، بنا لیں گے۔‘‘

ایک بار پھر مرزا تراب علی زندہ باد کا نعرہ لگا۔

تراب علی کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔

جلسہ ختم ہوا۔ تراب علی چبوترے سے نیچے اترے۔ پارٹی کے رضا کاروں نے انھیں گھیر لیا۔ ان کے گلے میں ان کی ناک تک پھولوں کی مالائیں پڑی ہوئی تھیں۔ تراب علی دونوں ہاتھ جوڑ کر سب کر نمسکار کرتے اور سب کے نمسکار قبولتے ایک طرف چلنے لگے۔ لوگ باگ بھی ایک جلوس کی شکل میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ ہر دس بارہ قدم پر پارٹی کے رضا کار ’’تراب علی زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ جلوس گاؤں کی اکلوتی بڑی سڑک سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف لوگ اپنے اپنے گھروں کے سامنے کھڑے تجسس نگاہوں سے جلوس کو دیکھ رہے تھے۔ عورتیں کھڑکیوں اور نیم وا دروازوں کے پیچھے حیرت اور دلچسپی سے جلوس کا نظارہ کر رہی تھیں۔ تراب علی آگے آگے دونوں ہاتھ جوڑے سراپا، نمسکار بنے چل رہے تھے۔ سب کو یہی فکر تھی کہ دیکھیں تراب علی کس کے گھر چل کر دودھ دوہتے ہیں۔

آخر جلوس گاؤں کے باہر آ گیا۔ گاؤں کے باہر ہریجنوں کی بستی تھی۔ اب جلوس ہریجن واڑے سے گزر رہا تھا۔ تھوڑی دور چل کر ہریجن واڑہ بھی ختم ہو گیا اور تراب علی ایک بے حد شکستہ اور معمولی مکان کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے یہ مادھو گوالے کا مکان تھا جس کی دیواریں کچی مٹی کی تھیں اور جس کی چھت ناریل اور تاڑ کے پتوں سے چھائی ہوئی تھی۔ باہر اپنے مکان کے کچے چبوترے پر بیٹھا مادھو بیڑی پی رہا تھا۔ اس کی بیوی دیوار پر گوبر کے اپلے تھاپ رہی تھی۔ اور پاس ہی دروازے کے سامنے کھونٹے سے ایک چتکبری گائے بندھی ہوئی تھی۔ اس کی سیاہ پیشانی پر دوسینگوں کے بیچ میں سفید ہلال کا سا نشان بنا ہوا تھا۔ تراب علی نے مادھو کو پرنام کیا۔ مادھو بوکھلا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی بیوی نے بھی گھبرا کر اس ہجوم کو دیکھا اور اپنے گوبر سے سنے ہاتھوں ہی سے آنچل درست کرتی ہوئی گھر میں چلی گئی۔ تراب علی مادھو کے قریب آئے۔ اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور پلٹ کر گائے کو عقیدت اور پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔

’’ساتھیو! ہم اسی گیّاں کا دودھ دوہیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں یہی گاؤں کا آخری مکان ہے۔‘‘ ادھر ادھر سے آوازیں آنے لگیں۔

’’ہاں یہی ہے۔۔۔ یہی ہے۔‘‘

مادھو ان سب کو حیرت اور خوف سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اتنے میں ایک رضا کار نے آگے بڑھ کر مادھو کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اگر تراب علی نے اس کی گائے کا دودھ دوہ دیا تو اس کی یعنی مادھو کی قسمت ہی سنور جائے گی۔

مادھو مٹی کا مادھو بنا منہ کھولے آنکھیں پھاڑے ایک ایک کا منہ تک رہا تھا۔ پوری بات تو اس کی سمجھ میں نہیں آئی مگر وہ اتنا سمجھ گیا کہ اس کی گائے کا دودھ دوہنے کی بات ہو رہی ہے۔

وہ منع کرنا چاہتا تھا کیوں کہ ابھی صبح ہی اس نے گائے کا دودھ دوہا تھا۔ اس نے منع کرنے کے لیے ’نہیں‘ میں گردن ہلانی چاہی مگر اپنی عادت کے مطابق جلدی جلدی ’ہاں‘ میں گردن ہلا دی جو گردن پشتہا پشت سے ’ہاں‘ میں ہلنے کی عادی ہو وہ یکلخت ’نا‘ میں کیوں کر ہل سکتی تھی۔

رضا کاروں نے ایک دم سے ہو ہلا کیا کہیں سے چم چم کرتی پیتل کی ایک کلسی آ گئی۔ کوئی ایک بالٹی میں پانی لے آیا۔ تراب علی نے اپنی شیروانی کی دونوں آستینیں چڑھائیں اور مادھو کی گائے کے پیروں کے پاس بیٹھ گئے۔ ہجوم نے انھیں اور گائے کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ رضا کاروں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر ایک حلقہ سا بنایا اور ہجوم کو آگے بڑھنے سے روکنے لگے۔ لوگ ایک دوسرے کے کاندھوں پر سے اچھل اچھل کر تراب علی کو دودھ دوہتا دیکھ رہے تھے۔ بعض لڑکے آس پاس کے درختوں پر چڑھ کر نظارہ کرنے لگے۔ تراب علی نے لوٹے میں پانی لیا پہلے اپنے ہاتھ دھوئے پھر گائے کے تھنوں پر پانی ٹپکایا۔ گائے ذرا کسمسائی۔ مگر تراب علی نے پچکار کر اسے شانت کیا۔ پیتل کی کلسی کو اس کی ٹانگوں کے نیچے رکھا اور کسی مشاق گوالے کی طرح دونوں ہاتھوں سے اس کے تھن سہلانے لگے۔ لوگ سانسیں روکے کھڑے تھے۔ سہلاتے سہلاتے تراب علی نے دفعتاً دونوں مٹھیاں کس کر جو زور سے کھینچا تو ’چرر ر‘ کی آواز کے ساتھ سانپ کی زبان کی طرح پتلی مگر پگھلی ہوئی چاندنی جیسی سفید دودھ کی دھار پیتل کی کلسی میں گری۔ کئی لوگوں کی زبان سے بے ساختہ، واہ نکلی۔ مجمع میں جیسے حیرت اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔



تراب علی ’’چر چر۔۔۔ چرچر۔۔۔‘‘ دودھ دوہ رہے تھے اور چاروں طرف سے نعرہ ہائے تحسین کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ مادھو یہ سب دیکھ رہا تھا وہ کہنا چاہتا تھا۔ ’’بس کرو بھائی، میری گیّاں ابھی بیائی ہے بچھڑے کے لیے تو کچھ دودھ رہنے دو۔‘ مگر وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ چپ چاپ کھڑا حیران آنکھوں سے تراب علی کو دودھ دوہتا دیکھتا رہا۔ جب کلسی تقریباً ایک تہائی بھر گئی تب تراب علی اپنے ہاتھ دھوتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک رضا کار نے آگے بڑھ کر تولیہ پیش کیا۔ تراب علی تولیہ سے ہاتھ خشک کرتے مادھو کی طرف مڑے۔

’’بھائی مادھو! ہم تمہارے بہت شکر گزار ہیں کہ تم نے ہمیں اپنی گیّاں کا دودھ دوہنے کا موقع فراہم کیا۔ تمہاری اس کشادہ دلی کا ذکر ہم ودھان سبھا میں کریں گے اور تمہیں زندگی بھر یاد رکھیں گے۔‘‘

پھر وہ مجمع کی جانب مڑ کر گویا ہوئے۔

’’بھائیو! اب تو آپ لوگوں کو یقین ہو گیا نا کہ تراب علی آپ کا اپنا بندہ ہے۔‘‘

بیشتر لوگ تو چپ رہے مگر پارٹی کے رضا کار ’جی ہاں‘ ’جی ہاں‘ کہتے ہوئے گردنیں ہلانے لگے۔ رضا کاروں نے مجمع کو ہٹا کر تراب علی کے لیے راستہ بنایا۔ اور تراب علی تیز تیز چلتے ہوئے اپنی کار میں جا کر بیٹھ گئے۔ پارٹی کے دوسرے لوگ بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہو گئے۔ اور کاروں کا یہ قافلہ تراب علی زندہ باد کے نعروں کی گونج میں دھول اڑاتا ایک طرف کو روانہ ہو گیا۔ گاؤں کے بچے شور مچاتے تھوڑے دور تک کاروں کے پیچھے بھاگے مگر کاریں جلد ہی دور نکل گئیں۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ مادھو اپنی گائے کے پاس کھڑا اس غبار کی جانب دیکھ رہا تھا جس کے پیچھے تراب علی اور ان کی کاروں کا قافلہ روپوش ہو گیا تھا۔ گائے اپنی دم سے مکھیاں اڑاتی، کنوتیاں ہلاتی دھیرے دھیرے جگالی کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی لا تعلقی تھی اور اس کے پیروں کے پاس وہ پیتل کی کلسی لڑھکی پڑی تھی جس میں ابھی ابھی تراب علی نے دودھ دوہا تھا۔ کلسی کا دودھ فرش پر بہہ کر مٹی میں جذب ہو چکا تھا اور آس پاس مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ مادھو دھیرے دھیرے چلتا ہوا گائے کے پاس آیا پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔ گائے نے ایک جھرجھری سی لی۔ مادھو دوبارہ اپنے چبوترے پر آ کر بیٹھ گیا۔ مادھو کی گھر والی جو ابھی تک دروازے کی اوٹ سے سارا تماشہ دیکھ رہی تھی دروازہ کھول کر باہر آئی۔ اس کی گود میں ان کا تین سال کا کالا کلوٹا مریل سابچہ تھا۔ جس کے ہاتھ پاؤں سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے مگر پیٹ ڈھول پر مڑھے چمڑے کی ماند تنا ہوا تھا۔ بچہ متواتر ریں ریں کیے جا رہا تھا۔ بیوی نے مادھو سے پوچھا۔

’’کون تھے یہ لوگ؟‘‘

’’مالوم نئیں۔۔۔‘‘ مادھو نے جیب سے بیڑی نکالی۔

’’انہوں نے اپنی گیّاں کا دودھ کیوں دوہا۔۔۔؟‘‘

’’مالوم نئیں۔۔۔‘‘ مادھو نے بیڑی ہونٹوں میں دبا لی۔

’’تم نے پوچھا نئیں؟‘‘

’’پوچھا تھا۔۔۔ مگر انہوں نے جو کچھ بتایا میری سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔‘‘ مادھو نے بیڑی سلگا کر ایک گہرا کش لیا۔

’’ارے انہوں نے جبردستی اپنی گیّاں کا دودھ نکالا اور تم بولتے ہو میرے کو مالوم نئیں۔ اور اس پر جُلم یہ کہ بنا کھائے پئیے پورا دودھ گرا دیا اور چلے گئے۔‘‘

مادھو کچھ نہیں بولا۔ وہ خلاء میں دیکھتا بیڑی کے کش لے رہا تھا۔ اس کی بیوی تھوڑی دیر تک بک بک جھک جھک کرتی رہی جب دیکھا کہ مادھو ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے تو اپنے ریں ریں کرتے بچے کی پیٹھ پر دھپ لگائی اور پیر پٹکتی ہوئی اندر چلی گئی۔

ابھی سورج نصف النہار پر نہیں آیا تھا۔ بھرت پور کے چھوٹے سے بازار کی ساری دکانیں کھل گئی تھیں۔ جن کی کل تعداد چار چھ سے زیادہ نہیں تھی۔ روزانہ صبح سڑک کے کنارے سے سبزی بیچنے والی عورتیں اپنی ٹوکریاں تقریباً خالی کر چکی تھیں۔ بلکہ دو ایک نون تیل اور بچوں کے لیے چنا سینگ خرید کر اپنے گھروں کو سدھار بھی چکی تھیں۔ کاشی رام کے سدانند ہندو ہوٹل میں تھا مسن ایلوایڈیسن کے زمانے کا پرانا گراموفون بج رہا تھا۔ ’آہیں نہ بھری شکوے نہ کری، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا۔‘ کاشی رام کرسی پر بیٹھا کاؤنٹر ٹیبل پر اپنی انگلیوں سے بے آواز تال دے رہا تھا۔ ہوٹل میں چار پانچ میلی کچیلی میزیں لگی تھیں جن پر ڈھیر ساری مکھیاں بھن بھنا رہی تھیں۔ صرف دائیں کونے کی ایک میز پر بنڈی دھوتی پہنے دو لوگ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ہوٹل کا اکلوتا ویٹر چڈی بنیان پہنے، دائیں کاندھے پر میلا سا تولیہ ڈالے ایک کونے میں پیر پر پیر رکھے کھڑا گانے کی دھن پر اپنا گھٹنا ہلا رہا تھا۔ ہوٹل کے سامنے جمنا داس پان والے کی پان پٹّی کی دکان تھی۔ دکان میں ٹرانزسٹر پر کسی نئی فلم کا کوئی انتہائی شور انگیز گیت بج رہا تھا۔ سڑک کے کنارے املی کے درخت کے نیچے شمسو ٹانگے والا اپنے ٹانگے میں بیٹھے بیٹھے اونگھ گیا تھا۔ اور اس کے ٹانگے میں جُتی کنگال گھوڑی کنوتیاں پھٹپھٹاتی، اپنی دم سے بار بار مکھیاں اڑا رہی تھی۔ پاس ہی تین چار لونڈے ایک دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھے صبح تراب علی کے دودھ دوہنے والے واقعہ کو لے کر ہنسی ٹھٹھا کر رہے تھے۔

یکایک کہیں سے شنکھ پھونکنے کی آواز آئی۔ شنکھ کے فوراً بعد دھم دھم ڈھول بجنے لگا۔ لونڈے چونک چونک کر آواز کی سمت دیکھنے لگے۔ شمسو ہڑ بڑا کر نیند سے جاگا۔ جمنا داس نے ٹرانزسٹر کا کان اینٹھا۔ کاشی رام نے بھی گراموفون بند کر دیا۔ اتنے میں سامنے سے بیل گاڑیوں کا ایک جلوس آتا دکھائی دیا۔ سب سے آگے جو بیل گاڑی تھی اس پر ایک شخص کھڑا بھونپو منہ سے لگائے چیخ رہا تا۔

’’بھرت پوپر کے باسیو! کبھی کبھی ایک صحیح فیصلہ اتہاس کا رخ موڑ دیتا ہے۔ اور اب سمے آ گیا ہے کہ آپ پنڈت اونکار ناتھ کو ووٹ دے کر ایک نئے اتہاس کی شروعات کریں۔ پنڈت جی بھرت پور والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ پنڈت جی کے پتا شری پنڈت ہزاری پرساد کے نام سے کون واقف نہیں۔ یہ وہی ہزاری پرساد ہیں جنہوں نے آنند پور میں مہالکشمی کا بھویہ مندر بنایا ہے اور جس کی سالانہ جاترا میں آپ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں۔ پتاشری تو دھرم کی سیوا کر رہے ہیں مگر پنڈت اونکار ناتھ ’لوک سیوا‘ میں وشواس رکھتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی آواز ودھان سبھا تک پہنچے تو پنڈت اونکار ناتھ ہی کو ووٹ دیجئے کیوں کہ پنڈت اونکار ناتھ کی آواز آپ کی آواز ہے۔ پنڈت جی کا نشان ہے ’رتھ‘ رتھ جو ہمارے دھرم، ہماری سنسکرتی اور ہمارے راشٹر کا پرتیک ہے۔ ’’پنڈت اونکار ناتھ زندہ باد؟‘‘ اس بیل گاڑی کے پیچھے تقریباً بیس پچیس بیل گاڑیاں چلی آ رہی تھیں۔ ہر گاڑی میں دس دس بارہ بارہ نوجوان کھڑے چیخ چلا رہے تھے، ناچ رہے تھے، اودھم مچا رہے تھے۔ ایک بیل گاڑی پر ایک بہت بڑے رتھ کا ماڈل بنا ہوا تھا، اس رتھ میں پنڈت اونکار ناتھ سفید دھوتی کرتا پہنے، ماتھے پر تلک لگائے، گلے میں پھولوں کی مالا ڈالے، ہونٹوں پر ایک عدد دلآویز مسکان چپکائے دونوں ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ اور جھک جھک کر سڑک کے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو پر نام کر رہے تھے۔

گاؤں کے بے کار نوجوان اور آوارہ چھوکرے گاڑیوں کے آس پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ ایک بار پھر گھروں کی کھڑکیوں ورانڈوں اور مکانوں کے چھجوں کے نیچے انسانی سروں کا جنگل اگ آیا۔ ڈھم ڈھم ڈھول بج رہا تھا۔ شنکھ پھونکے جا رہے تھے اور بار بار پنڈت اونکار ناتھ کی جے جے کار ہو رہی تھی یکایک پنڈت جی نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے۔ دفعتاً ڈھول اور شنکھ خاموش ہو گئے، نعرے رک گئے۔ اور چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ ایک نوجوان نے لپک کر بھونپو پنڈت جی کے سامنے کر دیا اور پنڈت جی نے گلا صاف کر کے کہنا شروع کیا۔

’’بھرت پور کے باسیو! ہمارا آپ کا سمبندھ بہت پرانا ہے۔ میرا پریچئے تو ابھی ابھی دیا جا چکا ہے۔ میں اپنے بارے میں زیادہ باتیں کرنا یا سننا پسند نہیں کرتا۔ میں اپنا اصلی پریچئے تو آپ لوگوں کو اسی وقت دے سکوں گا جب آپ مجھے چن کر ودھان سبھا میں بھیجیں گے۔ میں جانتا ہوں بھرت پور والے بڑے کام کا جی لوگ ہیں وہ فالتو راج نیتی میں اپنا سمے نشٹ نہیں کرتے مگر یہ بھی سچ ہے کہ راج نیتی کے بنا اس دیش کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ ایک صاف ستھری حکومت بنانے کے لیے آپ جیسے بے غرض لوگوں کو آگے بڑھنا ہو گا۔ دو گھنٹے پہلے جو مہاشے یہاں بھاشن دینے آئے تھے ان کا بھرت پور سے دور دور تک کوئی سمبندھ نہیں۔ میں کہتا ہوں صرف دودھ دوہنے سے کوئی جاتی برادری والا نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے محمد پیغمبر کی مثال دی کہ وہ بکریاں چراتے تھے اور دودھ دوہتے تھے اس پر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر میں پوچھتا ہوں ان مثالوں کے لیے آخر سمندر پار جانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارے پرانوں میں سب سے بڑی مثال تو ماکھن چور نند لال ہری گوپال کی ہے۔ مجھ بتائیے شری کرشن سے بڑا گوالا اس دھرتی پر پیدا ہوا ہے؟ نہیں نا۔۔۔ تو پھر سن لیجیے ہمارا یعنی پنڈت اونکار ناتھ کا رشتہ سیدھے کرشن گوپال ہی سے جڑتا ہے۔‘‘

’پنڈت اونکار ناتھ کی جے‘ کے نعرے سے پورا میدان گونج اٹھا۔ پنڈت جی لمحہ بھر کو رکے پھر بولے۔ ’’ہم اسی وقت چل کر اپنے ہاتھوں سے آپ کو دودھ دوہ کر بتائیں گے۔ اور اسی گؤ ماتا کا دودھ دوہیں گے جس کا اس سے پہلے دوہا گیا۔ ارے پرائے آ کر ہماری ماتا کا دودھ دوہ لیں اور ہم جو اس کی سنتان ہیں اپنی ماتا کے کشیر امرت سے محروم ہو جائیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘

ایک بار پھر بیل گاڑیوں کا جلوس مادھو کے گھر کی طرف بڑھا۔ چھوکرے بالے گاڑیوں کے پیچھے ہولیے کچھ اور لوگ بھی جو مفت کی تفریح کے دلدادہ تھے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر مادھو کے گھر کی طرف چلے۔ ڈھول بجاتا، شنکھ اور نعرے لگاتا ہوا جلوس مادھو کے گھر کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ مادھو جلوس کو دیکھ کر ایک بار پھر سٹپٹا گیا۔ سٹپٹا کر کھڑا ہو گیا۔ پنڈت اونکار ناتھ دھوتی کا چھور سنبھالتے اپنی رتھ گاڑی سے اترے۔ مادھو کے پاس آئے۔ مادھو منہ کھولے آنکھیں پھاڑے انھیں دیکھ رہا تھا۔ پنڈت جی سفید براق لباس میں آکاش دوت معلوم ہو رہے تھے۔ ان کی چوڑی روشن پیشانی پر سرخ تلک ان کی شخصیت کو مزید جاذب نظر بنا رہا تھا۔ پنڈت جی مادھو کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ پھر دونوں ہاتھ جوڑ کر بولے۔

’’مادھو! ہم تم سے پرارتھنا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی گیّاں کا دودھ دوہنے کی اجازت دو۔ ہم اپنے ہاتھوں سے دودھ دوہ کر یہ ثابت کر دینا چاہتے ہیں کہ اصلی گوالے ہم ہیں۔‘‘

اوراس سے پہلے کہ مادھو ہاں یا نا کہتا پھر کوئی ایک پیتل کا بھانڈا لے آیا۔ پنڈت اونکار ناتھ نے کہا۔ ’’ہم دودھ دوہنے سے پہلے گؤ ماتا کی شدھی کریں گے۔ پرائے ہاتھوں کے لمس سے ماتا اپوتر ہو گئی ہے۔‘‘ ترنت کوئی دوڑ کر مندر کے پجاری سے پنچ پاتر میں گنگا جل لے آیا۔ پنڈت اونکار ناتھ نے اپنے گلے سے سونے کی زنجیر نکالی اور اسے گنگا جل میں ڈبویا، پھر خود زیر لب کوئی منتر پڑھتے ہوئے گائے پر گنگا جل کے چھینٹے دینے لگے۔ تھوڑا سا گلال گائے کی پونچھ پر لگایا۔ اور دودھ دوہنے بیٹھ گئے جو صبح سے دو دفعہ دوہا جا چکا تھا۔ تھنوں میں ہاتھ لگاتے ہی گائے نے پچھلا پاؤں جھٹکا اور بھانڈا لڑھک کر دور جا پڑا۔ پنڈت اونکار ناتھ منتر بُدبُداتے ہوئے اٹھے گائے کے پٹھے پر ہاتھ رکھ کر اسے چمکارا۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر گائے کو پرنام کیا۔ ایک رضا کار نے بھانڈا لا کر پھر گائے کے تھنوں کے پاس رکھ دیا اور پنڈت جی دوبارہ دودھ دوہنے بیٹھ گئے۔ گائے کو پچکارتے پچکارتے تھنوں کو تھام لیا۔ گائے نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ تھوڑی دیر تک اس کے تھنوں کو سہلا کر انھوں نے جو کھینچا تو پتلی سفید دودھ کی دھار سیدھی بھانڈے میں گری، ہر ہر مہادیو کے نعرے سے بھرت پور گونج اٹھا۔ تقریباً پاؤ بھانڈا دودھ دوہنے کے بعد پنڈت جی اٹھ کھڑے ہوئے۔ پنڈت جی نے محسوس کر لیا کہ گائے کے تھنوں میں اب دودھ کا ایک قطرہ بھی باقی نہیں ہے۔ ادھر گائے بھی دوبارہ پاؤں جھٹکنے لگی تھی۔

کچھ لوگوں نے بڑھ کر پنڈت جی کے گلے میں پھول مالائیں ڈالیں۔ پنڈت جی نے وہ ساری پھول مالائیں گائے کہ گلے میں ڈال دیں۔ ایک بار پھر پنڈت جی کی جے جے کار ہوئی۔ پنڈت جی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’مادھو کہاں ہے؟‘‘

’’وہ کھڑا ہے۔‘‘ کسی نے اشارہ کیا۔

مادھو اپنے شکستہ مکان کے دروازے میں حیران و پریشان کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہونٹ ایک دوسرے پر اس قدر سختی سے جمے ہوئے تھے کہ لگتا تھا اب وہ قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ پنڈت جی بڑی اپنائیت سے آگے بڑھے اور مادھو کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔

’’دھنیہ ہو مادھو! تم اور تمہاری گائے آج پورے راشٹر کی آتما کا پرتیک بن گئے ہیں۔‘‘

مادھو کچھ نہ بولا۔ وہ بولتا بھی کیا۔ پوری صورت حال اس کے لیے نا قابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ پنڈت اونکار ناتھ اپنی رتھ گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔ بیل گاڑیوں کا قافلہ نعروں کی گونج میں دھول اڑاتا، شنکھ بھونکتا، ڈھول بجاتا ایک طرف کو روانہ ہو گیا۔ بیل گاڑیوں کے ساتھ آئے ہوئے گاؤں والے اور چھوکرے بالے بھی واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

اب سورج مغرب کی طرف جھکنے لگا تھا اور سایے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ لوگ دوپہر کا بھوجن کر کے چارپائیوں اور انڈوں اور آنگنوں میں پیڑوں کے نیچے بیٹھے بیڑی اور چلم پیتے اور تمباکو چونا کھاتے ہوئے آج کے جلسوں اور جلوسوں اور نیتاؤں کے دودھ دوہنے کی باتوں کو لے کر اپنی اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق خیال آرائیاں کر رہے تھے۔ کچھ لوگ مرزا تراب علی کی بھلمنساہٹ اور سادگی کی تعریف کر رہے تھے اور کچھ پنڈت اونکار ناتھ کے علمی گھرانے اور ان کی قومی اسپرٹ کے گن گا رہے تھے۔ ادھر مادھو اپنے گھر کے دروازے کے سامنے فکر مند بیٹھا تھا۔ آج اس نے دوپہر کی روٹی بھی ٹھیک سے نہیں کھائی تھی۔ بیوی نے جوار کی دو موٹی روٹیوں کے ساتھ بینگن کا ساگ پروسا تھا۔ آدھی پیاز کی ڈلی بھی رکھی تھی مگر وہ بڑی مشکل سے صرف ایک روٹی اور تھوڑا سا ساگ حلق سے اتار سکا۔ پھر غٹ غٹ آدھا لوٹا پانی پی کر دھوتی سے منہ پونچھتا دہلیز میں آ کر بیٹھ گیا تھا۔ سامنے بندھی گائے کو غور سے دیکھا گائے اپنے آگے پڑی خشک گھاس کی پتیوں کو دھیرے دھیرے چبا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کوئی بھاؤ نہیں تھا۔ مادھو کی نگاہ اس کے تھنوں پر پڑی۔ اسے لگا آج اس کے تھن معمول سے زیادہ لٹکے ہوئے ہیں۔ مادھو نے اسے تشویش سے دیکھا۔ بیڑی کے دو تین کش لیے اور گھٹنوں میں سر ڈال کر بیٹھ گیا۔ بیوی نے روٹی کھائی، بچے کو روٹی کھلائی۔ برتن سمیٹ کر ایک طرف رکھے اور ایک کونے میں بوریا ڈال کر بچے کو پہلو میں لیے لیٹ گئی۔ اس نے مادھو سے اس کی چنتا کا سبب بھی نہیں پوچھا۔ پوچھنا بھی فضول تھا۔ مادھو ایک ہی جواب دیتا۔ ’’مالوم نئیں۔۔۔‘‘

مادھو دروازے میں بیٹھے بیٹھے اپنے گھٹنے پر ٹھوڑی رکھے اونگھ گیا۔

اتنے میں چاروں طرف سے تیز ہوا کے جھکّڑ چلنے لگے۔ جیسے زبردست آندھی آ رہی ہو۔ مادھو کا شکستہ مکان خشک ٹہنی کی طرح کانپنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ بے شمار مویشی جن میں گائیں، بیل، بھینسیں اور سانڈ بھی شامل تھے دندناتے چلے آ رہے ہیں۔ تب اسے پتا چلا کہ در اصل وہ آندھی نہیں تھی بلکہ ان جانوروں کے دوڑنے کی دھمک سے زمین کانپ رہی ہے۔ مگر یہ کیا؟

ان جانوروں میں سب سے آگے اس کی اپنی گائے تھی اس کی آنکھیں الٹی ہوئی تھیں، نتھنے پھڑ پھڑا رہے تھے اور منہ سے چھاگ نکل رہا تھا۔ وہ سر کو جھکائے دونوں سینگیں آگے کیے سیدھے، اسی کی طرف دوڑتی چلی آ رہی تھی۔ گویا صرف ایک ہی ٹکر میں اسے دھرتی کے دوسرے سرے پر اچھال دے گی۔ وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اسے رکنے کا اشارہ کیا مگر گائے کی رفتار میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔ گائے قریب آتی جا رہی تھی۔ قریب اور قریب مارے خوف کے اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئی۔ اچانک اسے ٹھسکا لگا اور اس نے کھانستے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔ سامنے گائے اسی طرح کھونٹی سے بندھی دم سے مکھیاں اڑاتی آہستہ آہستہ منہ چلا رہی تھیں۔ مادھو نے اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھا اور ہونٹوں پرد و انگلیاں رکھ کر انگلیوں کی جھری میں سے منہ میں بھر آئے لعاب کو ’پچ‘ سے تھوکا۔

اچانک اسے ایک بار پھر لوگوں کے نعروں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے کسی متوحش جانور کی طرح ادھر ادھر نگاہ ڈالی۔ نعروں کی آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ تبھی اس نے دیکھا کہ گاؤں کی اسی اکلوتی سڑک پر ایک اور جلوس چلا آ رہا ہے۔ آگے آگے کوئی شخص دھوتی کرتا پہنے گلے میں پھولوں کی مالائیں ڈالے چل رہا تھا اور اس کے پیچھے کچھ لوگ مٹھیاں بھینچ بھینچ کر نعرے لگا رہے تھے۔ چند لمبے بالوں اور دبلے جسموں والے نوجوان کسی چالو فلم کی دھن پر ناچ رہے تھے۔

مادھو ایک دم سے کھڑا ہو گیا۔ جلوس والے اس کے گھر کے سامنے آ کر رک گئے۔ دھوتی کرتے والے نے دونوں ہاتھ جوڑ کر مادھو کو پرنام کیا اور اپنے زردی مائل دانتوں کی نمائش کرتا خواہ مخواہ ’ہی ہی‘ کرنے لگا۔ پھر بولا۔

’’مادھو بھائے! میرا نام بابو راؤ ہے۔ گریب لوگوں کی سیوا کے واسطے الیکشن میں کھڑا ہوں۔ میں بھی پہلے تمہارے مافک گریب تھا۔ ابھی اپنے کو بھگوان نے دو پیسہ دیا ہے پن میں گریبی کو نہیں بھولا۔۔۔ گریب ہی گریب کے کام آتا ہے۔ یہ پیسے والے ایک نمبر کے حرامی ہوتے ہیں۔ گریب کا کھون چوستے ہیں۔ سالے جونک ہوتے ہیں جونک۔۔۔ میں نے سنا ہے میرے سے پہلے ادھر دو نیتا لوگ آ کر گئے۔ تمہاری گائے کا دودھ بھی نکالا۔ دونوں پاکھنڈی تھے۔ کھالی دودھ نکالنے سے کوئی گوالا نہیں ہو جاتا۔ ارے میں تو بچپن سے گؤ ماتا کی سیوا کرتا آیا ہوں، اس کا گوبر اٹھانا اسے نہلانا، اس کا دودھ نکالنا اپنی گھٹی میں پڑا ہے۔ یہی اپنا کام ہے۔ دودھ کیسے نکالا جاتا ہے میرے سے پوچھو۔۔۔ مادھو بھائے میرے کو اپنی گائے کا تھوڑا سا دودھ نکالنے دو۔۔۔‘‘

مادھو نے ترنت بات کاٹتے ہوئے کہا۔

’’نہیں، بھگوان کے لیے۔۔۔ اب اور نہیں۔۔۔ گائے کے تھن میں اب ایک بوند بھی دودھ نہیں ہے۔ میں اب اسے ہاتھ لگانے نہیں دوں گا۔‘‘

’’مادھو بھائے! بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اگر میں نے تمہاری گائے کا دودھ نہیں نکالا تو بڑی بے اجّتی ہو گی کیوں کہ وہ لوگوں نے تمہاری گائے کا دودھ نکالا ہے۔ میں تھوڑا سا نکالوں گا جادا نہیں۔۔۔ مادھو بھائے! گریب کی اجّت گریب کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔‘‘

مادھو نے بہت منع کیا مگر بابو راؤ ہاتھ جوڑ کر ایک ہی بات دوہراتا رہا۔

’’گریب کی اجّت گریب کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔‘‘ بابو راؤ کے ساتھیوں نے بھی مادھو کو سمجھایا۔ دو چار اسے گھیر کر کھڑے ہو گئے۔ ہر کوئی اسے سمجھا رہا تھا۔ وہ بار بار منع کر رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، انھیں کیسے سمجھائے کیسے منع کرے کیوں کہ وہ تو اس کی سن ہی نہیں رہے تھے صرف اپنی ہی کہے جا رہے تھے۔

پھر پتا نہیں کب اور کیسے ایک لوٹا منگوا لیا گیا۔ اور مادھو نے دیکھا کہ بابو راؤ اس کی گائے کے پیروں کے پاس بیٹھا اسے پچکار رہا ہے۔ مادھو لوگوں کے نرغے میں گھرا ایک عجیب سی بے بسی کے ساتھ یہ سب دیکھ رہا تھا۔ گائے بے چینی سے پچھلے پاؤں جھٹک رہی تھی۔ بار بار دم ہلا رہی تھی۔ دائیں بائیں سینگ چلا رہی تھی۔ مگر بابو راؤ کافی ضدی تھا۔ اس نے کسی نہ کسی طرح اس کے تھنوں سے تھوڑا سا دودھ نچوڑ ہی لیا۔ بابو راؤ کے چھوکرے ایک بڑا سا دائرہ بنا کر ’’گویندا آلا رے آلا‘‘ گانے لگے۔۔۔ مادھو آنکھیں پھاڑے یہ سب دیکھتا رہا۔ پھر جانے کب بابو راؤ نے اسے دھنیہ واد کہا۔ کب وہ لوگ وہاں سے رخصت ہوئے۔ مادھو کو کچھ بھی یاد نہیں۔ جب اس کے حواس ذرا درست ہوئے تو اس نے دیکھا کہ سب لوگ جا چکے ہیں اور پچھم کی طرف سورج چند گز اور جھک گیا ہے اور پہاڑی کے پیچھے جیسے کسی نے بہت بڑا الاؤ روشن کر دیا ہے۔ پھر اس نے اپنی گائے پر نگاہ ڈالی اور ایک دم سے چونک گیا۔ گائے اب زمین پر بیٹھ چکی تھی بلکہ لیٹ چکی تھی۔ اس کا جگالی کرتا منہ بھی بند تھا اور اس کی سفید شیشہ آنکھوں کے ڈھیلے کافی پھیل گئے تھے۔ اس نے اس کے تھنوں کی طرف دیکھا۔ تھن سوجے ہوئے لگ رہے تھے اور رنگ بھی گہرا گلابی ہو گیا تھا۔ اسے لگا اگر اب کے انھیں کسی نے ذرا سا بھی چھیڑا تو بجائے دودھ کے خون کے سرخ سرخ قطرے ٹپکنے لگیں گے۔ وہ گائے کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اس کا ماتھا سہلانے لگا۔ پھر قریب پڑی خشک گھاس کے چند تنکے اس کی طرف بڑھائے گائے گھاس کھانے کی بجائے اس کا ہاتھ چاٹنے لگی۔ مادھو کا دل بھر آیا۔ اور وہ منہ سے چ۔۔۔ چ۔۔۔ کی آواز نکالتا ہوا اسے پچکارنے لگا۔۔۔ جانے وہ کتنی دیر تک گائے کے پاس بیٹھا اسے پچکارتا رہا۔ شام کے سایے لمبے ہونے لگے تھے۔ آسمان پر بگلوں کی ایک ڈار اڑتی ہوئی کسی طرف کو جا رہی تھی۔ پہاڑ اور جنگل سے ڈھور لوٹ رہے تھے۔ گڈریے چھوکروں کی ایہہ، ایہہ، ٹر، ٹر، ٹر کی آوازیں آ رہی تھیں۔ مادھو گائے کے پاس سے اٹھ کر دوبارہ اپنی دہلیز پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس کی خوف زدہ نظریں گاؤں کی سڑک پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔ اگرچہ سڑک پر دور تک کوئی راہ گیر دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر نہ جانے کیوں اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔

٭٭٭







ندی





ندی بہت بڑی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا پاٹ کافی چوڑا رہا ہو گا۔ مگر اب تو بے چاری سوکھ ساکھ کر اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب اس کے دونوں کناروں پر تاڑ اور ناریل کے آسمان گیر درخت اگے ہوئے تھے جن کے گھنے سائے ندی کے گہرے، شانت اور شفاف پانی میں یوں ایستادہ نظر آتے جیسے کسی پر جلال بادشاہ کے دربار میں مصاحب سر نیوڑھائے کھڑے ہوں۔ مگر اب درختوں کی ساری شادابی لُٹ چکی تھی اور ان کے ٹُنڈ مُنڈ خشک صورت تنے کسی قحط زدہ علاقے کے بھوکے کنگال لوگوں کی طرح بے رونق اور نادار لگ رہے تھے۔

ندی بہت بڑی تھی اور اس کا پاٹ اب بھی گزری ہوئی عظمت اور وسعت کی غمازی کرتا نظر آتا۔ مگر اب اس طرح خشک ہو گئی تھی کہ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے بے ڈھنگے ٹاپو ابھر آئے تھے۔ حدِّ نظر تک چھوٹے بڑے بے شمار ٹاپو۔

اب ان ٹاپوؤں پر کہیں کہیں خودرو گھاس اور جنگلی جھاڑیاں بھی اگ آئی تھیں، جن میں ہزاروں لاکھوں ٹڈے اور جھینگر شب و روز پھُدکتے رہتے۔ گھاس کے نیچے کیچڑ میں لاکھوں کیڑے رینگتے کلبلاتے رہتے اور جب دوپہر کی تپا دینے والی دھوپ میں کم کم گدلا بدبو دار پانی تپنے لگتا تو ندی کی مچھلیاں اس طرح ادھر ادھر منہ چھپاتی پھرتیں جیسے کسی پردہ دار گھرانے کی بہو بیٹیاں بھرے بازار میں بے نقاب کر دی گئی ہوں۔ مچھلیوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی تھی اور ٹڈے، جھینگر، کیڑے مکوڑوں اور مینڈکوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ دوپہر ڈھلے ندی کے نیم گرم، گدلے پانی سے چھوٹے بڑے بے شمار مینڈک نکلتے اور ان ٹاپوؤں پر بیٹھ کر ٹراتے رہتے۔ ہر ٹاپو پر ایک بڑے مینڈک کا قبضہ تھا اور ہر ایک کے چھوٹے چھوٹے سیکڑوں معتقد یا حلقہ بگوش تھے۔ جو ہر دم اس کی ٹراہٹ کی تائید میں خود بھی ٹراتے رہتے۔

’’میں اس ندی کا وارث ہوں۔‘‘ بڑا مینڈک۔

’’ہاں! آپ اس ندی کے وارث ہیں۔‘‘ چھوٹے مینڈک۔

’’اس ندی کے ایک ایک ٹاپو پر میرا اختیار ہے۔‘‘

’’اس ندی کے ایک ایک ٹاپو پر آپ کا اختیار ہے۔‘‘

’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ چاہوں تو۔۔۔‘‘

بڑا مینڈک مناسب دعوے کے لیے آنکھیں مٹکا مٹکا کر ادھر ادھر دیکھتا اور ذرا سے توقف کے بعد کہتا۔

’’میں چاہوں تو ایک جست میں اس چمکتے سورج کو آسمان سے نوچ کر پاتال میں پھینک دوں۔‘‘

’’آپ چاہیں تو۔۔۔‘‘ چھوٹے مینڈک دھوپ سے اپنی آنکھوں کو مچمچاتے ہوئے حسبِ عادت بڑے مینڈک کی تائید کرتے کہ بڑے مینڈک کی خوشنودی ان کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔

پھر پاس ہی کے کسی ٹاپو سے ایک موٹے پیٹ اور پتلی ٹانگوں والا کوئی مینڈک گمبھیر آواز میں اپنے معتقد سے پوچھتا۔

’’کون ہے یہ؟ کون ہے یہ احمق؟‘‘

ایک طرار مینڈک پھُدک کر کہتا۔

’’وہی ہمارا ذلیل پڑوسی ہے۔ جس کے اجداد حضور کے کفش بردار رہ چکے ہیں۔‘‘

’’اوہو، اس نمک حرام سے کہو کہ سورج پر کمند ڈالنے سے پہلے ہمارے قدم چومے کہ خورشید ہمارے نقشِ کف پا کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

اس کی لن ترانی کے جواب میں کسی تیسرے ٹاپو سے آواز آتی۔

’’یہ کون گستاخ ہے۔ اسے آگاہ کر دو، اپنی زبان کو قابو میں رکھے کہ ہم زبان دروازوں کی زبانیں یوں کھینچ لیتے ہیں جیسے ملک الموت جسم سے روح۔‘‘

’’خاموش، خاموش، اس ندی کا ایک ایک ٹاپو ہماری زد میں ہے۔‘‘

اس کے بعد ہر ٹاپو سے ایک نئی آواز بلند ہونے لگتی۔ ہر آواز پہلی آواز سے زیادہ تیز ہر دعویٰ پہلے دعوے سے زیادہ بلند و رافع۔ ایسا شور مچتا کہ بے چاری مچھلیاں خوفزدہ ہو کر چہ بچوں کی تہوں میں جا چھپتیں۔ درختوں کی شاخوں پر بیٹھے پرند پھڑ پھڑا کر اڑتے اور جدھر جس کا سینگ سماتا چلا جاتا ٹرّا ٹرا کر مینڈکوں کے گلے رُندھ جاتے، پھول پھول کر پیٹ پھٹ جاتے اور بیسوں مینڈک اپنے ہی بلند بانگ دعووں کے وزن تلے دب دب کر کچل جاتے۔ اور پھر دھیرے دھیرے تمام ٹاپوؤں پر ایک خوفناک سکوت طاری ہو جاتا نہ کسی مینڈک کی ٹرٹر نہ کسی جھینگر کی جھائیں جھائیں۔ مگر یہ سکوت ایک مختصر سے وقفے کے لیے ہوتا۔ دوسرے دن پھر مینڈک اپنے اپنے ٹاپوؤں پر جمع ہوتے اور پھر وہی لاف گزاف۔ ایک دن اسی طرح بڑے چھوٹے مینڈک اپنے اپنے ٹاپوؤں سے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے۔ ایک دوسرے کو ذلیل کر رہے تھے، گالیاں بک رہے تھے۔ مچھلیاں چھوٹے چھوٹے چہ بچوں میں اوپری سطح پر تیرتی اس لڑائی کو خوف اور حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے گھاس اور پودوں کی جڑوں میں دبک گئے تھے۔ ندی کے کنارے پھدکتی چڑیاں دم بخود اس بحث کو سن رہی تھیں۔

تبھی ندی کے ایک گوشے میں کچھ ہلچل سی ہوئی۔ پہلے تو سطح آب پر بڑے بڑے بلبلے پیدا ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کوئی پانی کی سطح پر نمودار ہوا۔ یہ ایک بے حد بوڑھا مگر مچھ تھا۔ اتنا بوڑھا کہ اس کی کیچلیاں جھڑ چکی تھیں۔ دُم کے دانتے کندے پڑ گئے تھے اور اس کی پشت پر باریک باریک سبزہ اگ آیا تھا۔ اس نے اپنی پوری قوت سے دُم کو اس کیچڑ آلود پانی کی سطح پر دے مارا۔ ایک زور کا چھپا کا ہوا اور پانی کے چھینٹے اڑ کر دور دور تک پہنچے۔ مختلف ٹاپوؤں پر شور مچاتے مینڈک یک بیک چپ ہو گئے۔ سب اپنی پچھلی ٹانگوں پر اچک اچک کر اس آواز کی سمت دیکھنے لگے۔ آخر سبوں نے بوڑھے مگر مچھ کو دیکھ لیا۔ سبھی مینڈک بوڑھے مگرمچھ کا بے حد احترام کرتے تھے بلکہ بعض اس سے خوف زدہ بھی رہتے تھے۔ کیوں کہ ان کے آباء و اجداد کے مطابق بوڑھا مگر مچھ اس ندی کی بدلتی ہوئی تاریخ کا چشم دید گواہ تھا۔

اس کی عمر کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی ہستی صدیوں کے دوش پر قرنوں کا فاصلہ طے کر چکی تھی۔ تمام مینڈکوں نے ٹرا ٹرا کر بوڑھے مگرمچھ کی جے جے کار کی۔ بوڑھے مگرمچھ نے اپنی بھاری دُم پٹک کر اور اپنا لمبا چوڑا جبڑا کھول کر خوشی کا اظہار کیا۔ پھر رینگتا ہوا ایک اونچی چٹان پر چڑھ گیا۔ چٹان پر پہنچ کر اس نے ندی کے اطراف نگاہ ڈالی۔۔۔ اب ندی۔۔۔ ندی کہاں تھی؟ وہ تو بس چند ٹاپوؤں اور چہ بچوں کا مجموعہ ہو کر رہ گئی تھی۔ جگہ جگہ ریت کے خشک تو دے ابھر آئے تھے۔ کہیں کہیں گڈھوں میں پانی کے بجائے صرف کیچڑ تھا۔ ندی کے دونوں کناروں پر خود روگھاس ضرور اگی ہوئی تھی مگر پانی کی کمی کے کارن گھاس کا رنگ بھی زرد پڑتا جا رہا تھا۔ ناریل، سپاری اور تاڑ کے درخت بانس کے جنگل کی طرح خشک اور ویران لگ رہے تھے۔ ندی کی اس بدلی ہوئی کیفیت کو دیکھ کر مگرمچھ کا دل بھر آیا۔ قریب تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے جھرنے بہہ نکلتے۔ اس نے کمالِ ضبط سے ان آنسوؤں کو روکا۔ مبادا ندی کے یہ بے ضمیر باسی انھیں حسبِ روایت مگرمچھ کے آنسو کہہ کر ان کی تضحیک نہ کریں پھر اس نے اپنے دیدے گھما کر ادھر ادھر ٹاپوؤں پر بیٹھے مینڈکوں کو دیکھا۔ سارے مینڈک دم سادھے بیٹھے تھے۔ مگرمچھ نے پھنکار کر گلا صاف کیا، پھر بھرائی آواز میں بولا:

’’اے ندی کے باسیو! کبھی تم نے اس بلند چٹان سے ندی کو دیکھا ہے؟‘‘

تمام مینڈک ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر سبوں نے بیک زبان اعتراف کیا۔

’’نہیں۔۔۔ ہم نے اس بلند چٹان سے کبھی ندی کو نہیں دیکھا۔‘‘

’’دیکھو! یہاں سے ندی کو دیکھو تو تم پر تمہارے بے بضاعت ٹاپوؤں کی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔‘‘

’’مگر ہم وہاں سے ندی کو کیوں دیکھیں کہ ندی تو ہمارے لہو میں جاری و ساری ہے۔‘‘

’’عریاں حقیقتوں کو سیمابی لفظوں کا لباس نہ پہناؤ کہ الفاظ جذبے کے اظہار کا بہت ادنیٰ ذریعہ ہیں۔ خود تسلّی، عارضی اطمینان کی سبیل ضرور ہے مگر یہی اطمینان مکمل تباہی کا پہلا بگل بھی ہے۔‘‘

تبھی ایک کونے سے ایک پستہ قد زرد فام مینڈک نے ٹرا کر کہا:

’’میں دیکھ سکتا ہوں۔ بلندی سے میں ندی کا نظارہ کر سکتا ہوں۔‘‘

تمام مینڈک اس زرد فام مینڈک کی طرف مڑے۔ وہ پندرہ بیس مینڈکوں کے کاندھوں پر چڑھا سینہ پھلائے نہایت حقارت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے مگرمچھ سے مخاطب ہو کر کہا:

’’اے دانائے راز! کیا میں ان تمام سفالی ہستیوں سے سر بلند نہیں ہوں کہ یہ ندی کراں تا کراں میری نگاہ کی زد میں ہے۔‘‘

ابھی اس کے الفاظ فضا میں گونج ہی رہے تھے کہ مینڈکوں کا اہرام لرزا اور ایک دوسرے کے کاندھوں پر چڑھے ہوئے مینڈک دھپ دھپ نیچے لڑھک گئے۔ دو چار کمزور مینڈکوں کی تو آنتیں نکل آئیں۔ بعض وہیں ڈھیر ہو گئے۔ ارد گرد کے ٹاپوؤں کے مینڈک بے تحاشا قہقہے لگانے لگے۔ ہنسی قہقہے، فقرے بازی اور شور و غوغا سے تھوڑی دیر تک کان پڑی آواز سنائی نہیں دی۔

آخر مگرمچھ کو مداخلت کرنی پڑی۔

’’خاموش، خاموش اے ندی کے باسیو! خاموش، یہ جائے مسرت نہیں مقام عبرت ہے کہ تمہاری چھوٹی چھوٹی نفرتوں نے تمہارے قد گھٹا دیے ہیں اور تم۔۔۔ تم سب اپنی ہی لاشوں پر قہقہے لگانے کے لیے زندہ ہو۔‘‘

’’اے صاحب عقل و دانش! کیا ہمیں اپنے دشمن کی مات پر خوش ہونے کا حق نہیں۔ یہ فتنۂ حرام عرصۂ دراز سے دوسروں کے کاندھوں پر چڑھ کر ہمیں دھمکاتا رہتا تھا۔‘‘

’’دشمن!‘‘ مگرمچھ نے ایک گہری سانس کھینچی۔

’’تم نہیں جانتے کہ بعض اوقات دشمنی بھی تمہارے ظرف کا پیمانہ بن جاتی ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو مرنے والے کی صورت میں تمہیں اپنی صورت دکھائی دے گی۔ کان کھول کر سنو۔ اس کی آواز میں تمہیں اپنی آواز سنائی دے گی۔ دشمن کی شناخت مشکل ہے اس لیے کہ دوست کی شناخت مشکل ہے۔‘‘

’’اے مدّبر وقت! تو ہی ہمیں کوئی تدبیر بتا کہ ہمارے دل نفرتوں کے غبار سے دھُل جائیں اور ہمارے سینے محبتوں کے نور سے معمور ہو جائیں۔ تجھے ہم عقل و فہم کا پتلا اور تجربات کا مرقع جانتے ہیں۔‘‘

’’اگر ماحول ساز گار نہ ہو تو تدّبر تضحیک کا نشانہ اور تجربہ تہمت کا بہانہ بن جاتا ہے یاد رکھو گھورے پر کبھی گلاب نہیں کھلتے۔ تم نے نفرت بوئی تھی نفرت ہی کاٹو گے۔۔۔‘‘

’’مگر تیرے سوا کون ہماری رہنمائی کر سکتا ہے کہ ہم بالاتفاق رائے تجھے اپنا مرّبی سمجھتے ہیں۔‘‘

ایک چتکبرا مینڈک پھدک کر مگرمچھ کے قریب ہوتا ہوا مکھن چپڑے لہجے میں بولا۔ اور پھر اس انداز سے چاروں طرف دیدے گھمائے جیسے اپنے ہم جلیسوں سے کہہ رہا ہو۔ میرا کاٹا کبھی بھولے سے نہ پانی مانگے۔

بوڑھا مگرمچھ اس چالاک مینڈک کی نیت بھانپ گیا۔ ایک نگاہ غلط انداز اس پر ڈالی اور پھر دوسرے مینڈکوں سے مخاطب ہوا۔

’’مرّبی ایک ایسے بد طینت شخص کو کہتے ہیں جو زیر دستوں کی دست گیری محض اس لیے کرتا ہے کہ وہ تاحیات اس کی غلامی کا دم بھرتے رہیں۔‘‘

مگرمچھ کے اس کرارے جواب نے مختلف ٹاپوؤں میں ایک غلغلہ ڈال دیا۔ دیر تک مینڈک ٹراتے اور قہقہے لگاتے رہے اور وہ چت کبرا مینڈک غصے اور ندامت سے پیچ و تاب کھانے لگا۔ جب شور ذرا کم ہوا تو چت کبرا مینڈک ہوا میں قلابازی کھاتا ہوا چیخا۔

’’اَنا۔۔۔ اے ناصح نامہربان، تیری تلخ نوائی نے میری انا کو لہو لہان کر دیا۔ اپنی انا کی حفاظت میری زندگی کا مقصد اعلیٰ ہے۔ میں تلوار کا گھاؤسہہ سکتا ہوں۔ اپنی انا پر ضرب نہیں سہہ سکتا۔‘‘

’’اَنا‘‘۔۔۔ مگرمچھ نے اس چھوٹے سے مینڈک کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے حقارت سے کہا۔

’’چیونٹی اپنے منہ میں شکر کا دانہ لیے چلتی ہے تو اپنی دانست میں سات پہاڑوں کا بوجھ اس پر لدا ہوتا ہے۔ تم اپنی ڈیڑھ انچ کی انانیت کو آخر اس قدر اہمیت کیوں دیتے ہو جو پانی کے ایک ریلے سے بہہ جاتی ہے، ہوا کے ایک معمولی جھونکے سے اڑ جاتی ہے۔ جب تک تمہاری انانیت تمہارے وجود کا حصہ نہیں بنتی، وہ چھپکلی کی کٹی دُم کی مانند بے حقیقت اور حقیر ہے۔ تمہاری مشکل یہ ہے کہ تم سب چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بٹے ہو اور ہر کوئی اپنے جزیرے کو کرّہ ارض کے برابر سمجھتا ہے۔‘‘

مگرمچھ کا یہ وار بہت صاف اور تیکھا تھا۔ شدید تکلیف سے ان کے لہو میں گرہیں پڑ گئیں۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ غصہ ذلّت اور ندامت نے ان کی عجیب کیفیت کر دی تھی۔ انھیں لگ رہا تھا کوئی انھیں رسّی کی طرح بٹتا جا رہا ہے۔ مگر وہ کیا کر سکتے تھے کہ ان کے پاس نہ سانپ کا سا پھن تھا، نہ بچھو کا ساڈنک۔ البتہ وہ چیخ سکتے تھے کہ اب ان کی چیخ ہی ان کے وجود کی گواہی بن سکتی تھی۔ لہذا ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ بیک زبان ٹرّانے لگے۔ اپنی ہستی کی انتہائی بنیادوں سے ٹرّانے لگے۔ مگرمچھ ضبط و تحمل سے ان کی ٹراہٹ سنتا رہا۔ اور خاموشی سے ان کے گلوں کی پھولتی پچکتی جھلیوں کو دیکھتا رہا۔ جب ٹراتے ٹراتے ان کی گردنوں کی جھلیاں لٹک گئیں، پیٹ پچک گئے۔ تب مگرمچھ نے آہستہ سے گردن اٹھائی۔ یہاں سے وہاں تک بکھرے ہوئے مینڈکوں پر ایک متاسفانہ نگاہ ڈالی، چھوٹے بڑے، نیلے پیلے، کالے، سفید، دبلے پتلے، موٹے تگڑے۔ سارے کے سارے مینڈک منہ کھولے، گردنیں ڈالے گہری گہری سانسیں لے رہے تھے۔ اب ان کی آخری چیخ بھی ان کے سینے کی لحد میں سوچکی تھی۔ آخر ایک طویل وقفے کے بعد مگرمچھ گویا ہوا۔

’’اے ندی کے باسیو! تم میں سے ہر کوئی خود غرضی کے محور پر پھرکی کی طرح گھوم رہا ہے۔ تمہاری نظروں میں سارے رنگ یوں گڈ مڈ ہو گئے ہیں کہ اب رنگوں کی تمیز ممکن نہیں۔ لہذا اب میرے پاس تم سب کے لیے ایک سفّاک دعا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں دعا مانگتا ہوں۔ دعا کے اختتام پر بآوازِ بلند ’آمین‘ کہنا۔ یہی تمہاری نجات کا آخری حیلہ ہے۔‘‘

مینڈکوں نے مگرمچھ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ ٹُکر ٹُکر اسے گھورتے رہے۔ اب اجالے کے پر سمٹنے لگے تھے۔ سورج ایک کیکر کے دو شاخے میں پھنسا پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کے خون کی لالی قطرہ قطرہ ندی کے چہ بچوں میں سونا گھول رہی تھی۔ فضا میں ایک عجب سی دل کو مسوس دینے والی اداسی بس گئی تھی۔ تبھی مگرمچھ نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا۔ آنکھیں بند کر لیں اور دعا مانگنے لگا۔

’’اے بحر و بر کے مالک! اے خشکی کو تری اور تری کو خشکی میں بدلنے والے۔۔۔ زمانہ بیت گیا یہ ندی سوکھتی جا رہی ہے اور ہم کہ جنھیں ایک ہی ندی کے باسی کہلانا تھا، الگ الگ ٹاپوؤں میں بٹ گئے ہیں۔ اے قطرے سے دریا بہانے والے اور ندیوں کو سمندر سے ملانے والے ہمارے رب! ہماری اس سوکھی ندی میں کسی صورت باڑھ کا سامان پیدا کر، تاکہ ہم جوان چھوٹے چھوٹے ٹاپوؤں میں تقسیم ہو گئے ہیں پھر اسی ندی میں گھل مل جائیں۔ اور اس کے وسیع دامن میں جذب ہو کر اسی کا ایک حصہ بن جائیں!

سیلاب! صرف ایک تندو تیز سیلاب!!‘‘

مگرمچھ دعا ختم کر کے تھوڑی دیر تک آنکھیں موندے مینڈکوں کے ’آمین‘ کہنے کا منتظر رہا۔ مگر جب کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی کہیں سے ’آمین‘ کی صدا نہیں آئی تب اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ارد گرد کے ٹاپو خالی پڑے تھے۔ تمام مینڈک ندی کے کم کم، گدلے اور بدبو دار پانی میں ڈبکیاں لگا چکے تھے۔

٭٭٭









نارد نے کہا



اور پھر نارد نے والیا سے پوچھا

’’تو یہ ککرم کس کے لیے کرتا ہے؟‘‘

والیا نے نیزے کو اپنے ہاتھوں پر تولتے ہوئے جواب دیا۔

’’اپنے بیوی بچّوں کے لیے‘‘

نارد مضحکہ اڑانے والے انداز میں ہنسے، والیا انھیں سُرخ آنکھوں سے گھورتا ہوا بولا۔

کیوں؟ تو کیوں ہنستا ہے‘‘

’’تیری مورکھتا پر‘‘

والیا نے نیزہ فضا میں بلند کرتے ہوئے گرج کر کہا۔

’ ’بتا کیوں ہنسا، ورنہ بیندھ کر رکھ دوں گا۔‘‘

نارد اسی پُر سکون انداز میں بولے۔

’’سچ میں تیری مورکھتا پر ہنس رہا ہوں، کیوں کہ تیرے چاروں طرف گھور اندھکار پھیلا ہے۔ اور تو نہیں جانتا کہ تجھے کدھر جانا ہے، تو جن لوگوں کے لیے یہ ککرم کر رہا ہے۔ وہ سب اپنے اپنے سوارتھ کے لیے تجھ سے بندھے ہوئے ہیں۔ جب تجھ سے ان پاپوں کا حساب مانگا جائے گا، اس وقت نہ تیری بیوی تیرے کام آئے گی نہ تیرے بچّے۔‘‘

’’ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے۔ میں جو کچھ کر رہا ہوں، ان کے سُکھ اور آرام کے لیے کر رہا ہوں، جب اس کا بھگتان ہو گا وہ سب میرے ساتھ ہوں گے۔‘‘

’’جا!جا کر اپنی بیوی بچّوں سے پوچھ کرا کہ وہ لوگ تیرے کرموں کے ساجھی دار ہیں یا نہیں۔‘‘

والیا اپنی گپھا میں لوٹ گیا، بیوی، بچّے اور دوسرے گھر والوں سے باری باری پوچھا کہ کیا وہ لوگ اس کے کرموں کے ساجھی دار ہیں؟‘‘

جیسا کہ رامائن میں آگے لکھا ہے۔ وہ سبھی لوگ نفی میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’تیرے کرم تیرے ساتھ، ہم تو کیوَل تیرے دھن، سادھن کے بھوکتا ہیں۔‘‘

والیا یہ جواب سُن کر کانپ جاتا ہے۔ اور یہ کہانی پڑھتے پڑھتے وہ خود بھی کانپ گیا۔ اس کی پیشانی پسینے سے تر ہو گئی اور دل کی دھڑکن اچانک بڑھ گئی۔ جانے اس چھوٹی سی کتھا میں ایسا کیا تھا کہ یک بیک وہ بے حد مضطرب ہو گیا۔ اس نے گھبرا کر ایک نظر اپنے ارد گرد ڈالی۔ اسے لگا وہ اپنے فلیٹ کے ڈرائینگ روم میں نہیں ہزاروں برس سے بندھیاگری کے گھنے جنگل میں کھڑا ہے۔ اور ایک غیبی آواز اس کے چاروں طرف ہواؤں کے دوش پر سرسراتی پھر ہی ہے۔

’’کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘

’’کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘

اور پھر۔۔۔ جیسے سیکڑوں چڑیلیں ایک ساتھ چنگھاڑتی ہیں۔

’ ’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں‘‘

کمرے میں رکھے ٹی وی سیٹ سے نارد کا چہرہ جھانکتا ہے۔ گلے میں تنبورا لٹکائے منجیرا بجاتے نارد کی آواز آتی ہے۔

’’نا۔۔۔ را۔۔۔ ئن۔۔۔ نا۔۔۔ را۔۔۔ ئن، کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘

دیوار پر ٹنگی اٹالین گھڑی کا پنڈولم ہلتا ہے۔

’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘

قیمتی وارڈروب ڈائننگ ٹیبل، کرسیاں، فرج، ایکویریم، بلجمی گلاس کا شوکیس، ٹی وی سیٹ، چھت میں لٹکتا آرائش شمع دان، دیواریں، کھڑکیاں، کھڑکیوں میں لٹکتے ریشمی پردے، غرض کمرہ، کمرے کی ہر چیز اس سے بس ایک ہی سوال پوچھ رہی تھی۔

’’کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘

اور دیوار پر ٹنگی گھڑی کا پنڈولم متواتر ایک ہی لے میں ہِل رہا تھا۔

’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘

اس نے پیشانی کا پسینہ پونچھا، رامائن کو بند کر کے میز پر ایک طرف رکھ دیا۔ اچانک الماری کے قد آدم شیشے میں اسے اپنا عکس نظر آیا۔ بدن پر لنگوٹی، داڑھی اور بال بے تحاشا بڑھے ہوئے، سُرخ آنکھیں، ہاتھ میں نیزہ۔ اف۔۔۔ والیا، اس نے خوف سے آنکھیں میچ لیں۔ اتنے میں اس کی بیوی کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔

’ ’اچھا تو میں چلتی ہوں، آپ کے لیے کھچڑی بنا دی ہے۔ دہی فرج میں رکھا ہے۔‘‘

بیوی اپنی ساڑی کی چنّٹیں ٹھیک کرتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ چند لمحے ہونّقوں کی طرح بیوی کی طرف دیکھتا رہا۔ اچانک بولا ’’سُنو‘‘

بیوی جاتے جاتے رُک کر مُڑی ’ ’کیا ہے؟‘‘

اس نے دھیان سے دیکھا، بیوی نے وہی بارہ ہزار والی ساڑی پہنی تھی جو اس نے پچھلے ہفتے خریدی تھی۔ گلے میں قیمتی ہار، منگل سوتر، کانوں میں ٹاپس، کلائیوں میں سونے کی چوڑیاں، گھڑی، ناک میں کیٖل، اس کے بالوں کا جوڑا بہت پُر کشش لگ رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر تک بیوی کی طرف دیکھتا رہا۔

بیوی شرما گئی، اس نے ساڑی کا پلّو ٹھیک کرتے ہوئے مسکرا کر کہا ’ ’کیا ارادہ ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ وہ ہڑ بڑا گیا، پھر سنبھل کر پوچھا

’’کب تک لوٹو گے تم لوگ؟‘‘

’’برتھ ڈے کی تو پارٹی ہے، جلد ہی آ جائیں گے۔‘‘

اتنے میں نیچے سے پپو کی آواز آئی۔

’’ممّی!چلو نا، کیا کر رہی ہو کب سے؟‘‘

’’اچھا جاؤ۔۔۔ دیکھو بچّے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

بیوی چلی گئی، دروازہ ایک ہلکے سے کھٹکے کے ساتھ خود بخود بند ہو گیا۔ جانے وہ کتنی دیر تک یونہی چپ چاپ بیٹھا رہا۔ کمرے میں گھڑی کی ٹِک ٹِک کے سوا دوسری کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ اس خاموشی سے اسے وحشت ہونے لگی۔ وہ اٹھ کر دھیرے دھیرے چلتا ہوا پھر شیشے کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ دیر تک اپنے ہی عکس کو گھورتا رہا۔ پھولے گال، چھوٹی آنکھیں، بڑھا ہوا پیٹ، سر کے بال نصف سے زیادہ اڑ چکے تھے۔ ایک دفعہ اس نے اپنے تیزی سے اڑتے بالوں پر تشویش کا اظہار کیا تو بیوی نے کہا تھا۔

’’آپ کو معلوم ہے آدمی گنجا ہونے لگتا ہے تو اس کی ہتھیلی میں دولت کی لکیریں زیادہ گہری ہونے لگتی ہیں۔ چوڑی پیشانی دولت کی نشانی ہے۔‘‘

اس وقت وہ مسکرا کر چپ ہو گیا تھا، مگر اب وہ سوچنے لگا، بیوی کا وہ جملہ کتنا خود غرضانہ تھا، اسے اپنے بال بے حد عزیز تھے۔ وہ منٹوں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال درست کیا کرتا تھا۔ اور اس کی بیوی کے نزدیک گویا اس کے بالوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ بس ہتھیلی میں دولت کی لکیریں گہری ہوتی جائیں۔ دولت، دولت، دولت۔ کیا مِلا اسے اتنی دولت کما کر؟ یہی نا کہ اس کے بچّے کانوینٹ میں پڑھنے لگ گئے۔ فرج کا ٹھنڈا پانی پینے اور ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھانا سیکھ گئے۔ بیوی قیمتی ساڑیاں اور زیورات پہن کر اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں کو مرعوب کرنے کا ہنر جان گئی۔ ماں کاشی یاترا کے لیے روانہ ہو گئی مگر اسے کیا مِلا۔ گنجا پن، بے خوابی گھبراہٹ، ڈپریشن اور کبھی کبھی دل کو مسوس دینے والی اداسی؟ اسے پانچ سال پہلے جنتا چال کی اپنی چھوٹی سی کھولی یاد آ گئی۔ جس میں سیلن کی وجہ سے عجیب سی بدبو پھیل گئی تھی۔ دیواروں میں لونا لگا تھا اور برسات کے موسم میں چھت کثیر البول مریض کی طرح قطرہ قطرہ ٹپکتی رہتی تھی۔ راتوں میں مچھر جتھوں کی شکل میں یلغار کرتے اور بے شمار کھٹمل ان کا خون چوستے رہتے۔ اس سب کے باوجود وہاں کبھی اسے بے خوابی کی شکایت نہیں ہوئی تھی، نہ اس پر گھبراہٹ کے دورے پڑتے تھے۔ نہ اس کا بلڈ پریشر ہائی ہوا تھا۔ ٹھیک ہے وہاں اسے فِرج کا ٹھنڈا پانی نہیں ملتا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل کی بجائے چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھانا پڑتا تھا۔ ڈنلپ کے نرم گدّوں کی بجائے گٹھلی دار گدڑیوں پر سوتا تھا، مگر گہری نیند سوتا تھا، آج اس نے اپنے فلیٹ میں آرام و آسائش کی ہر چیز مہیّا کر لی تھی۔ مگر من کی شانتی گنوا بیٹھا تھا۔ اب وہ چار گھنٹوں کی نیند کے لیے بھی سلیپنگ پلس کا محتاج تھا۔ اس کے فرج میں مرغی انڈا، مٹن مکھن سب بھرا رہتا تھا۔ مگر اسے صرف دہی اور چاول ہی کھانا پڑتا۔ ڈاکٹر کی ہدایت بھی یہی تھی۔ اس نے اپنے پھولے پیٹ پر ہاتھ پھرایا۔ اس کی پتلی پتلی ٹانگوں پر اب پھولا پیٹ عجیب بد وضع لگ رہا تھا۔ اس نے دیوار پر لگی اپنی تصویر کی طرف دیکھا، آئینے میں کھڑی پرچھائیں اور اس تصویر میں کتنا فرق ہے۔ دس برس پہلے کتنا اسمارٹ تھا وہ۔

دس برس، دس صدیاں، دس ہزار صدیاں، سچ مچ اس نے دس برس میں کافی لمبی مسافت طے کر لی تھی، اتنی لمبی کہ اب پیچھے پلٹ کر دیکھنا بھی نا ممکن تھا۔

یہ آرام دہ فلیٹ، قیمتی فرنیچر، اعلیٰ قسم کی کراکری، نفیس کپڑے، زیورات دس برس پہلے اس کے پاس کچھ بھی تو نہیں تھا۔ تو کیا وہ ان ساری چیزوں کو کسی ندی میں بہا دے؟ کسی خیراتی ادارے کو خیرات کر دے پھینک دے، جلا دے کیا کرے؟ کیا کرے آخر؟ یہ ساری چیزیں جو، اب اس کی اور اس کی بیوی کی زندگی کا لازمی جز بن چکی تھیں۔ جن کے بغیر اب ان کے لیے زندگی کا کوئی تصوّر نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ ساری چیزیں یک بیک ضائع کر دینا اب ممکن ہے؟

اٹالین گھڑی کا پنڈولم ہِل رہا تھا۔

’’نہیں، نہیں۔۔۔ نہیں، نہیں‘‘

وہ خود بدل سکتا تھا۔ مگر اپنے سارے گھر والوں کو بدلنا کیونکر ممکن تھا؟

کیا اس کی بیوی اور بچّے دس سال پیچھے کی زندگی میں لوٹنے کو تیار ہو جائیں گے؟ ہر گز نہیں۔

اس کی بیوی تو اب نئے ماحول میں ایسے رچ بس گئی تھی جیسے اس نے غربت کے دن دیکھے ہی نہ تھے، وہ میک اَپ کرنا، شاپنگ پر جانا، اور پارٹیوں میں شریک ہونا ایسے سیکھ گئی تھی جیسے یہ سب اس کے خاندان میں پشتہا پشت سے چلا آ رہا ہو۔ اس کی بے شمار سہیلیاں بن گئی تھیں۔ اس نے کہیں شام کی انگلش کلاس بھی جوائن کر لی تھی۔ اور ضرورت پر ویل کم، گڈ بائی، گڈ مارننگ، ہاؤ آر یو اور فائن جیسے الفاظ روز مرّہ کی گفتگو میں کثرت سے استعمال کرنے لگی تھی۔ اب اس کے گھر کے سبھی لوگ ناشتے کو بریک فاسٹ اور دوپہر کے کھانے کو لنچ کہنے لگے تھے۔ پہلے اس کی دونوں لڑکیاں میونسپلٹی کے اسکول میں پڑھتی تھیں، مگر اب دونوں کانوینٹ میں پڑھنے لگی تھیں۔ لڑکا کا مکس پڑھتا تھا۔ ابھی اس کی ناک بہنا بند نہیں ہوئی تھی مگر بیوی نے اعلان کر دیا کہ وہ اسے پائلٹ بنائے گی۔ عرصہ ہوا اس کی بیوی نے زمین پر دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ ماں کو اس کی اندرونی اور بیرونی سرگرمیوں کا زیادہ علم نہیں تھا۔ بس وہ آئے دن بھجن، کِرتن اور پوجا پاٹھ میں اپنا وقت گزار لیتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے بہو اور پوتے پوتیوں کو پھولتا، پھلتا دیکھ کر سمجھتی تھی کہ یہ ساری خوشی اطمینان اور سکون اسی کی اپاسنا اور پرارتھنا کا نتیجہ ہے۔ اس کی اَنتم اچھا تھی کہ وہ ایک برس کاشی میں گزارے، اور اب پچھلے چار مہینے سے ماں کاشی میں تھی اور اِیشور درشن سے آتمْ شانتی لابھ کر رہی تھی۔

بظاہر اس کے ارد گرد سب کچھ بہت اطمینان بخش تھا۔ اطمینان بخش۔ پُر سکون اور مسرّتوں سے پُر۔ مگر جانے کیوں، کبھی کبھی وہ بے حد اداس ہو جاتا۔ اس وقت نہ اسے فرج کا ٹھنڈا پانی اچھا لگتا نہ پنکھے کی ہوا سُہاتی۔ اس وقت اسے بیوی کا میک اَپ زدہ چہرہ کسی بھُتنی کے چہرے سے مشابہ دکھائی دیتا اور بچّوں کی قلقاریں سانپوں کی پھپھکاریں معلوم ہوتیں۔ پانڈے سیّد اور نائر کی دوستی نے اسے اس اداسی سے چھٹکارا پانے کا گُر بتا دیا تھا، اور اب وہ کم از کم اتنی شرابوں کے نام جاننے لگا تھا جتنی اس کی ہتھیلی کی لکیریں۔

’’رَم۔۔۔ دشمنِ غم‘‘ اسے اپنے ایک شاعر دوست کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی۔

رَم۔۔۔ ہاں۔۔۔ اور اس نے جلدی سے کتابوں کی الماری کھولی اور کتابوں کے پیچھے چھپا کر رکھی ہوئی رَم کی بوتل نکالی۔ گلاس لے کر پھر کُرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ دو بڑی چُسکیوں نے ہی اس کی اداسی کو اس طرح چھانٹ دیا جیسے بارش کی پہلی پھوار تالاب پر جمی کائی کو چھانٹ دیتی ہے۔

’ ’ہُم۔۔۔ اس نے میز پر پڑی رامائن کی طرف دیکھا، مگر اب اس کے اندر کوئی ہلچل نہیں ہوئی، وہ اب نارد کے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے مستعد تھا۔

کہاں ہے وہ سوال؟ اس نے تیسری چُسکی لی اور رامائن کو الٹنے پلٹنے لگا۔ نارد نے مسکرا کر پوچھا۔

’ ’بتا تو یہ ککرم کس کے لیے کرتا ہے؟‘‘

ہش۔۔۔ ش۔۔۔ ش۔۔۔ ککرم، یہ ککرم ہے؟ جو کچھ میں کر رہا ہوں وہ ککرم ہے؟ یعنی ایک اچھے معقول مکان کی خواہش کرنا، بچّوں کو اچھی تعلیم دلانا، بیوی کو پہنانا اوڑھانا، ماں کی خواہش کا احترام کرنا یہ سب ککرم ہے؟

نارد کا دوسرا سوال سانپ کی طرح پھن اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔

’’کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘

اور یک بیک اس کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس نے گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیا اور ایک ہی سانس میں سارا گلاس خالی کر گیا۔ اس نے دوبارہ رامائن کو بند کر کے ایک طرف کو سرکادیا۔ اسے اب رامائن سے ڈر لگنے لگا۔ اس نے رامائن اس لیے پڑھنا شروع کیا تھا کہ من کو شانتی ملے۔ یہاں تو اس کا سارا سکون حرام ہو گیا تھا۔ اسے اب بیوی پر غصہ آنے لگا۔ اسی نے تو اسے مشورہ دیا تھا کہ گھر میں پڑے پڑے تمھارا من گھبراتا ہو گا۔ دھارمِک پستکیں پڑھو، من کو شانتی ملے گی۔ ڈاکٹر نے کہا تھا معمولی سا بلڈ پریشر ہے، چار چھ روز کے آرام سے نارمل ہو جائے گا۔ اس نے بھی سوچا ٹھیک ہے۔ ایک ہفتے ہی کی تو بات ہے، اس ایک ہفتے کو دھارمِک ہفتہ سمجھ کر منا لیں گے۔ دارو، سگریٹ اورماس تو خود ڈاکٹر منع کر چکا ہے۔ تھوڑا دھارمِک پستکوں کا ادّھین کر لیں گے۔ دھرم پالن ہو جائے گا، اس نے شروع کے دو تین روز گیتا کا پاٹھ کیا۔ مگر اس میں تو صرف بھگوان کرشن کے اپدیش ہی اپدیش تھے۔ اسے مزا نہیں آیا۔ پھر اس نے رامائن پڑھنا شروع کیا مگر شروع کے صفحات پر ہی والیا اور نارد کے واقعہ نے اسے لرزا کر رکھ دیا۔ رامائن کو اس نے اپنے سے دور تو سرکادیا۔ مگر جوں ہی اس پر نظر پڑتی اسے نارد کا سوال سُنائی دیتا۔ ’ ’تو یہ سب ککرم کس لیے کرتا ہے؟‘‘

اب وہ نارد کو کیسے سمجھائے کہ آج کے زمانے میں اپنی تنخواہ کے علاوہ اوپر سے پانچ دس ہزار کا کمانا کوئی ککرم نہیں ہے۔ بیوی کو چند زیورات بنا دینا بچّوں کو کانوینٹ اسکول میں پڑھانا، گھر میں ٹی وی، فرج اور ڈائننگ ٹیبل کا رکھنا، پاپ نہیں آج کی ضرورت ہے۔ ماحول کا تقاضا ہے۔

جب تک یہ چیزیں اس کے پاس نہیں تھیں، وہ لوگوں کی نظروں میں کتنا حقیر تھا۔

پانڈے اکثر اس سے کہتا ’’بیٹا! اپنی روِش نہیں بدلو گے تو ایک دن دس بائی دس کی کھولی میں خون تھوکتے مر جاؤ گے اور بیوی بچّے سڑکوں پر بھیک مانگتے پھریں گے۔‘‘

بظاہر وہ پانڈے اور دوسرے ساتھیوں کی ان چبھتی باتوں کو ہنس کر ٹال جاتا، مگر اندر جب گہرے میں سے کچھ چٹختا سا محسوس ہوتا، دل ڈوبنے لگتا اور ایک لمحے کو اس کی نظروں کے سامنے اپنی بیوی اور بچّوں کی تصویر گھوم جاتی۔

اس کی جوان اور خوبصورت بیوی کسی بنگلے میں جھوٹے برتن مانجھ رہی ہے۔ اس کا بلاؤز جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے۔ ساڑی پھٹ گئی ہے اور بنگلے کے موٹے سیٹھئے کی نظریں اس کے بدن کے عریاں حصّوں پر گڑی جا رہی ہیں۔ اس کے بچّے فٹ پاتھ پر بیٹھے۔۔۔ ر ریا۔۔۔ ریاکر راہ گیروں سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ ماں۔۔۔ ماں کی لاش کمرے کے سیلن زدہ فرش پر تختہ بنی پڑی ہے۔ اف اس کی پیشانی پر پسینہ چھلچھلاتا آتا اور اسے لگتا وہ اچانک اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ایک معمولی سی ٹھوکر پر بھی ریت کے گھروندے کی طرح بِکھر جائے گا اس وقت اس کے کانوں میں جیسے کوئی زور زور سے چیخنے لگتا۔

’’اپنی روِش بدلو، ورنہ خون تھوکتے تھوکتے مر جاؤ گے۔‘‘

ساتھیوں کے زہر میں بجھے جملے، بیوی کی حسرت بھری فرمائشیں، بچّوں کی تڑپ، ماں کی کھانسی۔ آخر ایک دن وہ اپنی روش بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ مگر یہ تبدیلی اس کے اندر دھیرے دھیرے اور غیر محسوس طریقے سے آئی تھی اور اس کے ساتھ ہی سب کچھ بہت ٹھیک ٹھاک ہوتا گیا تھا۔

گھر میں بیوی کا مرجھایا چہرہ کنول کی طرح کھلنے لگا، بچّوں کی چہکار میں اضافہ ہوتا گیا۔ ماں کی کھانسی کم ہوتے ہوتے بند ہو گئی۔ سب خوش تھے اور سب کو خوش دیکھ کر وہ بھی خوش تھا مگر آج والیا کی کتھا نے اسے بے حد مضطرب کر دیا تھا۔

اس نے رم کا تیسرا پیگ بنایا۔

سچ! وہ کیوں بیوی بچّوں کے لیے اپنے آپ کو گناہ گار کرے، انھیں پالنے کی ذمہ داری ضرور اس کی ہے۔ اور وہ انھیں اپنے ضمیر کو آلودہ کئے بغیر بھی پال سکتا ہے۔ یقیناًاس نے یہ سب ایک بہتر زندگی کے حصول کی خاطر کیا تھا مگر اس کی زندگی کا رس تواس کے بیوی بچّوں کو طراوت بخش رہا تھا۔ اس کے حصے میں تو زہر ہی زہر آیا تھا۔

وہ تیسرا پیگ بھی خالی کر گیا اور انتہائی تلخی سے منہ بنا کر خالی گلاس کو گھورنے لگا۔ تھوڑی دیر تک خالی گلاس کو گھورتا رہا۔ پھر ایک جھٹکے سے بوتل اٹھائی اور چوتھا پیگ انڈیلنے لگا۔

’’بس۔۔۔ کل وہ بیوی سے صاف صاف کہہ دے گا کہ اب وہ مزید بار اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔ ورنہ اس کے کاندھے ٹوٹ جائیں گے وہ لوٹ رہا ہے۔ وہ دس برس پیچھے لوٹ رہا ہے۔ آگے بڑھتے وقت بیوی ہمیشہ اس کی پیٹھ ٹھونکتی رہی تھی۔ اب پیچھے لوٹنے میں بھی اس کا ساتھ دے مگر کیا وہ مان جائے گی؟ ماننا ہی پڑے گا۔ بہت ہو گیا، آدمی سونے کا نوالہ کھائے، مگر من کی شانتی نہ ہو تو سب بیکار ہے۔ اب وہ صرف وہی کرے گا جو اس کا ضمیر کہتا ہے۔

چوتھا پیگ بھی ختم ہو گیا، اب وہ کرسی پر بیٹھا بیٹھا جھوم رہا تھا۔ دیواریں کھڑکیاں، کمرہ کمرے کی ہر چیز، اس کے گرد رقص کر رہی تھی، اور وہ اپنی گردن کبھی ادھر کبھی ادھر گھماتا لہک لہک کر انھیں رقص کرتا دیکھ رہا تھا۔

میز پر رکھی بوتل بھی آہستہ آہستہ تھرکنے لگی، اس نے ہاتھ بڑھا کر بوتل کی گردن دبوچ لی۔ گلاس میں شراب انڈیلی، گلاس کو آنکھوں کے برابر لا کر پیگ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ مگر اندازہ لگانا مشکل تھا، ایک پر ایک دو دو تین تین گلاس چڑھے ہوئے تھے۔ اس نے تھک ہار کر گلاس کو پھر میز پر رکھ دیا۔ اور جگ سے گلاس میں پانی انڈیلنا چاہا۔ جگ خالی تھا، اس نے جھنجھلا کر جگ دوبارہ میز پر پٹکا اور گلاس اٹھا کر منہ سے لگا لیا۔ نیٹ رم ایک جلتے تیر کی طرح حلق کو چھیلتی ہوئی معدے کے اندر اتر گئی۔ اس نے بہت بُرا سا منہ بنایا۔ گلاس کو میز پر پٹخ کر کھڑا ہو گیا۔ مگر پیر بُری طرح لڑکھڑا گئے۔ ڈگمگا کر پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب کمرہ اور کمرے کی چیزوں کا رقص بہت تیز ہو گیا تھا، اور ساری چیزیں ایک خاص لَے میں پوچھ رہی تھیں۔

’’تو یہ ککرم کس کے لیے کرتا ہے؟‘‘

’’تو یہ ککرم کس کے لیے کرتا ہے؟‘‘

اسے غصہ آ گیا، وہ پھر لڑکھڑا تا ہوا کرسی سے اٹھا۔ اس نے اس طرح دونوں ہاتھ پھیلائے جیسے گردِش کرتے کمرے اور رقص کرتی چیزوں کو تھام کر اپنی اپنی جگہ کھڑا کر دینا چاہتا ہو۔ ہر چیز اس کے پاس سے کترا کر نکل رہی تھی، وہ دونوں ہاتھ پھیلا پھیلا کر چیزوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا۔ مگر کوئی چیز اس کے ہاتھ نہیں آ رہی تھی۔ بالآخر وہ تھک گیا، تھک کر ہانپنے لگا۔ چیزوں کا رقص جاری تھا۔ اچانک کمرے کی دیواریں اپنی جگہ سے سرک سرک کر اسے دبوچ لینے کو بڑھیں۔ چھت بیٹھنے لگی، وہ لڑکھڑا کر گرا، یکے بعد دیگر کمرے کی اشیاء اس پر ڈھیر ہوتی چلی گئیں اور اس کا دم گھٹنے لگا۔ آنکھیں خود بخود بند ہو گئیں، اس کے بعد اسے کسی بات کا ہوش نہیں رہا۔

٭٭٭







یہ دھواں سا





جب اس کی آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ بغل میں بیوی بے خبر سورہی تھی بلکہ ہلکے ہلکے خراٹے بھی لے رہی تھی۔ وہ مسکرایا، بیوی اکثر اس کے خرّاٹوں کا ذکر کیا کرتی ہے مگر اب وہ خود خرّاٹے لے رہی تھی اور اپنے خرّاٹوں سے بے خبر تھی۔ یہ خرّاٹے بھی عجیب چیز ہیں۔ خرّاٹے لینے والا تو گہری نیند کے مزے لے رہا ہوتا ہے اور اسے پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ دوسروں کو کس قدر ڈسٹرب کر رہا ہے۔ وہ پلنگ سے اترا واش روم سے فارغ ہوا۔ وضو کیا اور الماری سے مصلّیٰ نکال کر فجر کی نماز ادا کی۔ مصلّیٰ لپیٹ کر دوبارہ الماری میں رکھ دیا۔ بیوی اسی طرح خرّاٹے لے رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈروم سے باہر نکلا۔ پورا گھر سنّاٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بیٹے بہو کے کمرے کی طرف دیکھا۔ دروازہ بند تھا۔ بہو عموماً اس وقت اٹھ جاتی تھی۔ شاید آج اس کی بھی آنکھ لگ گئی تھی۔ اس کے لیے سیر پر جانے سے پہلے صبح کی چائے بہو ہی بناتی تھی۔ بیوی گٹھیا کی پرانی مریضہ تھی عرصہ ہوا اس نے اسے صبح جگانا چھوڑ دیا تھا۔ اس نے سوچا خود ہی ایک کپ چائے بنا لے مگر برتنوں کی کھٹر پٹر سے خواہ مخواہ سب کے آرام میں خلل پڑنے کے خیال سے ارادہ ترک کر دیا۔ سوچا آج باہر ہی کسی ٹپری پر چائے پی لے گا۔ شال کاندھے پر ڈالی، جوتے پہنے اور آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔

سپیدۂ صبح نمودار ہو چکی تھی۔ آسمان کا رنگ ہلکا پڑ گیا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی فرحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ سڑک سنسان تھی، سڑک کے کنارے درختوں پر چڑیاں چہچہانے لگی تھیں۔ ایک طرف دو کتّے خوش فغلیوں میں مصروف تھے۔ اس کے قدم جو گرس پارک کی طرف اٹھ رہے تھے۔ وہ آج اپنے آپ کونسبتاً بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ عموماً صبح اٹھنے کے بعد تھوڑی دیر تک جو کسلمندی کا احساس ہوتا تھا وہ آج ندارد تھا، گٹھیا کی شکایت تو اسے بھی تھی مگر روزانہ صبح کی سیر سے کافی افاقہ تھا، ایک زمانے میں وہ فٹ بال کا اچھا کھلاڑی تھا۔ ریاستی سطح پر اس نے کئی میچوں میں حصہ لیا تھا اور کئی میڈل بھی جیتے تھے مگر آگے چل کر گھریلو ذمہ داریوں اور بڑھتی عمر کے ساتھ دھیرے دھیرے فٹ بال کا شوق ماند پڑتا چلا گیا۔ تِس پر گٹھیا کے مرض نے تو بالکل لاچار کر دیا۔ اب فٹ بال صرف اس کی یادوں میں زندہ تھا۔ آج بھی کہیں فٹ بال کا میچ ہو رہا ہو تو وہ بڑے شوق سے دیکھنے جاتا ہے۔ ٹی وی پر تو روزانہ وہ اسپورٹس چینل پر صرف فٹ بال کا میچ ہی دیکھتا ہے۔ فٹ بال کے خیال کے ساتھ اس کی ایک سنہری یاد بھی جڑی ہوئی تھی۔

پونے میں ریاست کا فائنل میچ تھا۔ مقابل ٹیم برابر کی ٹکّر دے رہی تھی۔ دونوں کے چار چار گول ہو چکے تھے۔ آخری پانچ منٹ باقی تھے۔ دونوں ٹیم کہ کھلاڑی جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ وہ بھی پورے فارم میں تھا۔ ٹیم کے چار گول میں سے دو گول اس نے بنائے تھے۔ گیند دھیرے دھیرے مقابل ٹیم کے گول پوسٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میدان میں تماشائیوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ٹیم کا ایک کھلاڑی ڈربلنگ Dribbling کرتا ہوا اس کی طرف آ رہا ہے۔ وہ چوکنّا ہو گیا کھلاڑی نے گیند اسے پاس کی وہ نیٹ کے قریب تھا۔ جوں ہی گیند آئی اس نے سرعت سے کک لگائی۔ گیند گول کیپر کے سر پر سے ہوتی ہوئی سیدھے گول پوسٹ کے اندر چلی گئی۔ آخری گول ہو گیا۔ ان کی ٹیم جیت گئی۔ میدان خوشی کے نعروں سے گونجنے لگا، ساتھی کھلاڑی اس پر ٹوٹ پڑے وہ ان کی گرفت سے نکل کر پویلین کی طرف دوڑنے لگا۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ تماشائیوں میں ایک سیاہ فام لڑکی بیریئر پھلانگ کر دوڑتی ہوئی اس کی طرف آ رہی ہے۔ اس نے پیلے رنگ کی شارٹ اسکرٹ پہن رکھی تھی۔ اس کی نصف سے زیادہ چمکدار رانیں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ وہ غالباً افریقہ کے کسی علاقے کی باشندہ معلوم ہوتی تھی۔ اس کے سر پر سیاہ گھنگریالے بالوں کو دیکھ کر شہد کے بڑے سے چھتّے کا گمان ہوتا تھا۔ وہ سیدھے اس کی پاس آئی اور گلے میں بانہیں ڈال کر اپنے گرم گرم گداز ہونٹ اس کے ہونٹوں پر پیوست کر دیے۔ یہ سب اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ سٹ پٹا گیا۔ لمحہ بھر کو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ البتہ اس کے دونوں ہاتھ اضطراری طور پر اس کی کمر کے گرد حمائل ہو گئے، اور اس نے بھی پوری گرم جوشی کے ساتھ اسے بھینچ لیا۔ ہنسی، قہقہوں اور نعروں سے میدان گویا ہوا میں اڑا جا رہا تھا۔ اتنے میں گراؤنڈ کے سیکوریٹی گارڈز ان کی طرف دوڑے مگر اس سے پہلے کہ وہ ان تک پہنچتے وہ اس سے چھٹک کر بجلی کی سرعت کے ساتھ ایک طرف بھاگ گئی۔ گارڈز اس کے پیچھے لپکے مگر وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی تماش بینوں کی بھیڑ میں گم ہو گئی۔ اس کے ساتھی کھلاڑی اسے کاندھے پر اٹھائے پویلین کی طرف جا رہے تھے۔ مگر وہ مڑ مڑ کر اسی طرف دیکھتا رہا جہاں لڑکی تماشائیوں کے درمیان غائب ہوئی تھی۔

یہ واقعہ اس کے ذہن پر ایسا نقش ہوا کہ اس کے بعد جب بھی وہ میدان میں اترتا اس کی متجسس نگاہیں تماشائیوں میں اسے تلاش کرنے لگتیں اور ہر سیاہ فام لڑکی پر اس کا گمان گزرتا مگر وہ لڑکی اسے پھر کبھی نظر نہیں آئی۔ البتہ اس کے بوسے کی تپش کو وہ تا عمر محسوس کرتا رہا۔ اس کی شادی ہو گئی۔ سہاگ رات پر جب اس نے بیوی کا پہلا بوسہ لیا تو ایک دم اسے اس لڑکی کے سرخ گداز اور گرم ہونٹ یاد آ گئے۔ اس کے بعد اس نے اپنی بیوی کے ہزاروں بوسے لیے ہوں گے مگر اس سیاہ فام لڑکی کے آتشیں بوسے کی حرارت کو وہ کبھی فراموش نہیں کر سکا۔

وہ سوچنے لگا بعض اوقات معمول واقعات بھی زندگی کے کینواس پر کیسا گہرا نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ اس نے ایک اچھی اور اطمینان بخش زندگی گزاری تھی۔ سلیقہ مند، خوبصورت بیوی، ہونہار بیٹا، خدمت گزار بہو، ہیرے جیسے دو پیارے پیارے پوتے، پنشن کے علاوہ کئی لاکھ کی فکس ڈپازٹ، بیٹا ایک بڑی فرم میں منیجر، موٹی تنخواہ، بہو ٹیچر، گھر میں روپیوں کی ریل پیل، کسی چیز کی کمی نہیں، کوئی حسرت نہیں، چار سال قبل میاں بیوی حج سے بھی سرفراز ہو چکے تھے۔ پچھلے سال پوری فیملی عمرہ بھی کر آئی۔ اسے مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا مگر ریٹائرمینٹ کے بعد فجر اور مغرب کی نمازیں پڑھ لیا کرتا، البتہ جمعہ کی نماز کبھی ناغہ نہ کرتا۔ رمضان میں کبھی کبھی گنڈے دار روزے بھی رکھ لیا کرتا۔

وہ ایک سیدھا سادہ عام سا شخص تھا۔ کلرک تھا تب اپنے باس کا احترام کرتا اور اس کے احکامات کی پیروی کرنا اپنا فرض سمجھتا۔ جب خود آفیسر بنا تو اپنے ماتحتین سے نرم روی اور کشادہ قلبی سے پیش آتا، وہ اپنے اسٹاف میں کافی ہر دلعزیز تھا۔ جب وہ ریٹائر ہوا تو اس کے اسٹاف نے اسے ایک شاندار سینڈ آف پارٹی دی اور بطور گفٹ قیمتی سونے کی گھڑی پیش کی۔

ریٹائرمینٹ کے بعد چند ماہ میں ہی اس کا وزن بڑھنے لگا۔ فیملی ڈاکٹر نے بتایا کہ بڑھاپے میں وزن بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھو اور روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ واک کرو۔ گھر سے ذرا فاصلے پر جوگرس پارک تھا اس نے پہلی فرصت میں جوگرس پارک کی ممبرشپ لے لی اور روزانہ صبح واک کرنا اپنا معمول بنا لیا۔

چلتے چلتے اچانک اسے ٹھوکر لگی۔ وہ گرتے گرتے بچا۔ ایک روڑا جوتے کی نیچے آ گیا تھا۔ اس نے ہلکی سی ٹھوکر کے ساتھ روڑے کو ایک طرف ہٹا دیا۔ ایک موٹر سائیکل پھٹپھٹاتی ہوئی اس کے قریب سے نکل گئی۔ اس نے ارد گرد نگاہ ڈالی۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ وہ بے خیالی میں کسی اور طرف نکل آیا ہے۔ جوگرس پارک کا راستہ تو پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ اسے کوفت بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ ایسا کیسے ہوا؟ روزانہ کا دیکھا بھالا راستہ وہ کیسے بھول گیا۔ وہ کافی دُور نکل آیا تھا مگر واپس مڑنے کی بجائے وہ آگے بڑھتا رہا۔ سوچا اگلے کسی موڑ پر جوگرس پارک کی طرف مڑ جائے گا۔ سورج نکل آیا تھا اور کنکنی دھوپ میں تمازت محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے شال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیا۔ جیب سے رو مال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھا۔ اسے تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے اِدھر ادھر دیکھا سامنے ایک بس اسٹاپ نظر آ رہا تھا مگر وہاں کوئی مسافر دکھائی نہیں دیا۔ اس نے سوچا بس اسٹاپ پر تھوڑا سُستا لینا چاہئے۔ وہ بس اسٹاپ کے قریب پہنچا۔ بس اسٹاپ کی پیشانی پر کینسل لکھا ہوا تھا اور اس کی حالت بڑی خستہ تھی۔ وہ بس اسٹاپ کی شکستہ نشست پر بیٹھ گیا۔ کافی دن نکل آیا تھا۔ اس نے سوچا اب جوگرس پارک جانا بیکار ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ تھوڑا سُستا کر وہ واپس گھر چلا جائے گا۔ سڑک پر اکّا دکّا سواری آ جا رہی تھی۔ اس نے نشست کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ اسے بڑی راحت ملی۔ اس پر ہلکی سے غنودگی طاری ہونے لگی۔ پھر اسے پتا نہیں وہ کتنی دیر تک اسی کیفیت میں بیٹھا رہا۔ جب آنکھ کھلی تو اس نے مچ مچاتی آنکھوں سے اپنے ارد گرد دیکھا۔ چاروں طرف ایک غبار آلود سنّاٹا پھیلا ہوا تھا۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ عینک اتار کر شیشے صاف کئے اور دوبارہ عینک لگا کر اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ یہ تو قبرستان ہے۔ وہ قبرستان میں بچھی ایک بینچ پر بیٹھا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا یہ تو وہی قبرستان ہے جو جوگرس پارک سے ذرا سے فاصلے پر واقع تھا اور وہ کئی بار مختلف جنازوں کے ساتھ یہاں آ چکا تھا۔ اسے یاد آیا کہ بس اسٹاپ پرسُستاتے وقت اس کی آنکھ جھپک گئی تھی۔ تو کیا وہ غنودگی کے عالم میں چلتا ہوا جوگرس پارک کی بجائے قبرستان آ گیا تھا۔ مگر اسے کبھی نیند میں چلنے کا مرض تو نہیں تھا۔ اس نے سوچا یہ تو بڑی تشویش کی بات ہے۔ ڈاکٹر سے مشورہ لینا پڑے گا۔ وہ کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھا اور قبروں کے درمیان بنی ہوئی روش پر چلتا ہوا گیٹ کی طرف بڑھا۔ چند قدم چلا تھا کہ سامنے گیٹ سے ایک جنازہ داخل ہوتا نظر آیا۔ لوگ سفید گول ٹوپیاں اوڑھے یا سروں پر رو مال باندھے جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے چلے آ رہے تھے۔ وہ چلتے چلتے رک گیا۔ جنازے کو پیٹھ دکھانا مناسب نہیں تھا، اسے جنازے میں کچھ شناسا چہرے بھی نظر آئے۔ اسے تشویش ہوئی۔ کس کا جنازہ ہے؟ لوگ جنازہ لئے ایک تازہ کھُدی ہوئی قبر کے پاس پہنچ گئے۔ جنازے کو اتار کر زمین پر رکھا۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا بھیڑ کے قریب پہنچا۔ ایک شناسا چہرے والے سے پوچھا ’’کون تھا؟‘‘ وہ کوئی جواب دئیے بغیر آگے بڑھ گیا۔ شاید اس نے اس کا سوال ہی نہیں سنا۔

جنازے میں شریک لوگ قبرستان میں اِدھر ادھر بکھر گئے تھے۔ کچھ قبرستان میں بچھی بینچوں میں بیٹھ گئے۔ بعض چار چار پانچ پانچ کی ٹکڑیوں میں بٹے دھیمے دھیمے بتیا رہے تھے۔ دن ڈھل رہا تھا۔ سایے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اسے ایک بار پھر حیرت نے آ گھیرا۔ پورا دِن گزر گیا اور اسے پتا بھی نہیں چلا۔ اتنے میں کسی نے آواز دی۔ ’’میّت کے رشتے دار آخری دیدار کر لیں‘‘ اس نے سوچا کسی سے کچھ پوچھنے کی بجائے خود چل کی دیکھ لینا چاہئے کہ میّت کس کی ہے؟

لوگ قبر کو گھیرے کھڑے تھے وہ لوگوں کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا قبر کے کنارے پہنچ گیا۔ قبر میں جھانک کر دیکھا۔ میّت کو قبر میں لٹا دیا گیا تھا۔ کوئی شخص قبر میں ہی کھڑا تھا۔ ارے یہ تو غوث محمد تھا۔ جو اکثر محلے والوں کی موت مٹّی یا شادی بیاہ میں پیش پیش رہتا تھا۔ مولوی صاحب کی آواز آئی

’’چہرہ دکھاؤ۔‘‘

غوث محمد نے جھک کر میّت کے چہرے سے کفن ہٹایا۔ اس نے میّت کو غور سے دیکھا۔ اسے جھٹکا سا لگا۔ میت کی شکل اس سے ملتی جلتی تھی۔ یہاں تک کہ اس کے سیدھے گال پر بڑا سا مسا بھی صاف نظر آ رہا تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے گال پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے گال پر بھی ویسا ہی مسّا موجود تھا۔ اس نے گھبرا کر اطراف کے لوگوں پر نگاہ ڈالی۔ بیشتر اس کے عزیز رشتے دار تھے۔ چھوٹا بھائی اختر، اس کا بیٹا اکرم، غفور چچا، اس کا دوست امین مرزا، اس نے دیکھا اکرم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ منہ پر رو مال رکھے اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا۔

چھوٹے بھائی کا بھی تقریباً وہی حال تھا۔ غوث محمد نے جھک کر میّت کا چہرہ کفن سے ڈھک دیا اور جلدی جلدی قبر میں برگے لگانے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس نے بیٹے کو آواز دی۔ ’’اکرم!‘‘ پھر چھوٹے بھائی کو پکارا۔۔۔ ’’اختر!‘‘ مگر اس کی آواز کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔ غوث محمد برگے لگانے کے بعد اچک کر قبر کے باہر آ گیا۔ مولوی صاحب نے آواز لگائی۔

’’قل کی مٹّی دیجئے۔۔۔‘‘ لوگ مٹھیاں بھر بھر کر قبر میں مٹّی ڈالنے لگے۔ غوث محمد اور گورکن پھاؤڑوں کے ذریعے تیزی سے قبر میں مٹّی سرکانے لگے۔ اس نے ایک چیخ ماری۔

’’ارے سنو! آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کسے گاڑ رہے ہیں۔ میری طرف دیکھو۔ میں زندہ ہوں۔ کیا تم سب لوگ اندھے بہرے ہو گئے ہو؟ کیا تمہیں میں دکھائی نہیں دے رہا ہوں؟ کیا تمہیں میری چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہے؟‘‘

بھر بھر۔۔۔ بھر بھر۔۔۔ قبر مٹّی سے بھرتی جا رہی تھی۔ وہ چیختا، روتا، بلبلاتا، وہیں قبر کے سرہانے اکڑوں بیٹھ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبر مٹّی سے بھر دی گئی۔ غفور چچا نے اگر بتّیوں کا بنڈل نکالا اور ایک ساتھ دس پندرہ اگر بتّیاں سُلگائیں اور انہیں قبر کی مٹّی میں کھبو دیا۔ وہ اسی طرح قبر کے سرہانے اکڑوں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اب اس میں رونے کی سکت بھی باقی نہیں تھی۔ مولوی صاحب نے فاتحہ پڑھی اور لوگوں کی بھیڑ چھٹنے لگی۔ اس کا بیٹا، بھائی چچا اور دوست رشتہ دار سب ایک ایک کر کے قبرستان سے باہر نکل گئے۔ وہ اس طرح گم سم قبر کے سرہانے بیٹھا رہا۔ اگر بتیاں سلگ رہی تھیں اور ان کا دھواں بل کھاتا ہوا، ہوا میں تحلیل ہوتا جا رہا تھا۔ اگر بتیوں کی راکھ جھڑ جھڑ کر زمین پر گر رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ اب اس کا وجود بھی اگر بتیوں کی راکھ کی طرح جھڑ جھڑ۔۔۔ جھڑ جھڑ کر زمین پر گر رہا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا پورا وجود ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مٹی ہو گیا، اور آخر میں اس کے ہونے کا احساس بھی دھوئیں کی طرح دھیرے دھیرے فضا میں تحلیل ہوتے ہوئے گم ہو گیا۔

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید