1
انسپکٹر جمشید، محمود، فاروق اور فرزانہ ایوان صدر پہنچے تو وہاں موت کا سناٹا طاری تھا۔ بڑے بڑے افسر جمع تھے:
''آؤ جمشید! ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔ ''صدر صاحب مسکرائے
''لیکن سر! میں تو بالکل وقت پر پہنچا ہوں۔'' انسپکٹر جمشید نے فورًا اپنی گھڑی کی طرف دیکھا۔
''ہاں! تم بالکل درست وقت پر پہنچے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ تمہیں یہی وقت دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔تم بالکل درست وقت پر پہنچنے کے عادی ہو نا۔۔۔۔۔ایک سیکنڈ بھی فرق نہیں رکھتے، جب کہ دوسرے حضرات عام طور پر لیٹ آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔لہذا دوسروں کو آنے کا وقت آدھ گھنٹا پہلے کا دیا تھا اور تمہیں بعد کا۔۔۔۔۔۔۔لیکن اتفاق دیکھو کہ آج یہ سب حضرات بالکل درست وقت پر آگئے اور اس طرح ہمیں تمہارا آدھ گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔''
''اوہ! تب تو آپ مجھے فون کر دیتے۔ ''
'' فون کیا تھا جمشید۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تم گھر سے تو اس سے بھی پہلے کے نکلے ہوئے تھے اور تمہیں درمیان میں بھی کوئی کام تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات بھابھی صاحبہ نے بتائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا ہم نے تمہیں فون کرنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔۔۔۔ ورنہ فون تو تمہیں تم جہاں بھی ہوتے کیا جا سکتا تھا۔''
'خیر، اب تو یہ ہو گیا، یہ بتائیں آپ سب خاموش کیوں ہیں؟''
'' اکتیس مارچ کو ہمارے ملک میں بین الاقوامی پھولوں کی نمائش ہو رہی ہے۔ ان گنت ملک اپنے اپنے بہترین پودے اس نمائش میں لا رہے ہیں۔ اس نمائش کا افتتاح مجھے کرنا ہے جمشید۔'' صدر صاحب نے بتایا۔
'' تو کیا اس میں کوئی الجھن ہے؟''
''ایک دشمن ملک سے ہمارے ایجنٹوں نے خفیہ رپورٹ ارسال کی ہے۔ اس میں درخواست کی گئی ہے کہ میں یہ افتتاح ہرگز نہ کروں اس لیے کہ اس نمائش میں میری موت کا سامان بالکل تیار ہے۔۔ موت کا کیا سامان کیا گیا ہے یہ وہ معلوم نہیں کر سکے لیکن یہ بات طے ہے کہ ہو گا یہ کام افتتاح کے دوران۔''
''تو آپ افتتاح نہ کریں۔''
''پھر میری جگہ جو بھی افتتاح کرے گا، وہ مارا جائے گا۔'' صدر صاحب بولے۔
'' ٹھیک ہے۔ ''انسپکٹر جمشید مسکرائے
'' کیا ٹھیک ہے؟''
'' آپ کے میک اب میں یہ افتتاح میں کروں گا اگر آپ اس کی اجازت دیتے ہیں۔''
'' بھلا میں تمہیں موت کے منہ میں جانے کی اجازت کس طرح دے سکتا ہوں؟ ''صدر صاحب نے انکار میں سر ہلا دیا۔
'' اگر میرا وقت آ گیا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں۔ ''
''نہیں بھئی، میں یہ اجازت نہیں دے سکتا۔ کچھ اور سوچو۔ افتتاح بہر حال کیا جائے گا کیونکہ اس کے اعلانات ساری دنیا میں ہو چکے ہیں۔ بلکہ ایک ملک نے تو اس خطرے کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے کہ شاید اس افتتاح کے دوران اس ملک کے صدر کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ ان حالات میں مَیں نہیں رک سکتا ورنہ دنیا کیا کہے گی میں نے موت کے ڈر سے افتتاح نہیں کیا اور اپنی جگہ مرنے کے لیے کسی دوسرے کو بھیج دیا۔''
'' تو میں کہہ تو رہا ہوں سر، آپ اپنی جگہ مجھے جانے دیں۔''
'' نہیں جمشید، میں نے، بلکہ ہم سب نے کچھ اور سوچا ہے۔''
'' چلیے وہ بتا دیں جو آپ نے سوچا ہے۔'' انسپکٹر جمشید مسکرا دیے۔
''سوچا یہ ہے کہ تم وہاں قدم قدم پر میرے ساتھ رہو۔ دراصل وہاں صرف مجھے ہلاک کیا جائے گا، میرے ساتھ اور لوگوں کو نہیں ہلاک کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کسی رخ سے وار صرف مجھ پر کیا جائے گا اور تم اس وار کو روک سکتے ہو۔ یہ تمہارے لیے کچھ مشکل نہیں۔''
'' بشرطیکہ وار کیا جائے۔ اور اگر انہوں نے کوئی اور ترکیب سوچی ہوئی ہو گی تو پھر؟''
'' اس صورت میں بھی تم میرے ساتھ ساتھ رہو گے نا۔'' صدر صاحب بولے
'' جیسے آپ کی مرضی، ویسے محفوظ ترین طریقہ یہ تھا کہ آپ اپنے میک اپ میں مجھے جانے دیں۔ ''
'' ہوں، خیر۔۔۔ باقی لوگوں سے مشورہ لے لیتے ہیں۔ کیوں بھئی آپ کوئی مشورہ دیتے ہیں؟''
'' یس سر، کیوں نہیں۔ اس ترکیب سے کم از کم دشمن بالکل ناکام ہو جائے گا۔''
'' لیکن اگر انسپکٹر جمشید مارے گئے تو میرے نزدیک یہ بھی دشمن کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اس ملک کے لیے میری نسبت انسپکٹر جمشید زیادہ اہم ہیں۔''
'' یہ ۔۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سر، میں بھلا کس قابل ہوں۔''
'' یہ بات ہم جانتے ہیں جمشید، پورا ملک جانتا ہے۔'' صدر صاحب جذباتی انداز میں بولے۔
''ہوں خیر، آپ فیصلہ کریں۔ ''
وہ آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ آخر صدر صاحب نے سر اٹھایا اور بولے:
'' نہیں جمشید، طے یہی ہوا ہے کہ تم میرے ساتھ ساتھ رہو گے اور دشمن کے وار کو ناکام بناؤ گے۔''
'' تب پھر افتتاح سے پہلے بھی ہمیں وہاں کا معائنہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ ''
'' تمہیں ہر طرح اجازت ہے۔ خوب اچھی طرح چیک کرو۔ ویسے ایک بات یقینی ہے۔ نمائش گاہ میں بم کا دھماکہ نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ میرے ساتھ ہر اس ملک کا نمائندہ ہو گا جس ملک کے پھول وہاں رکھے ہوں گے۔ لہٰذا بم دھماکے کی صورت میں تو اس ملک کا نمائندہ بھی اڑ سکتا ہے۔''
'' چلیے میں مان لیتا ہوں وہ بم دھماکہ نہیں کریں گے، لیکن سیدھا آپ پر فائر تو ہو سکتا ہے۔''
'' فائر تو مجھ پر کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے پھولوں کی نمائش کیوں؟'' صدر صاحب بولے۔
'' یہ سوال بہت اہم ہے اور غور طلب ہے۔ آخر پھولوں کی نمائش ہی کیوں منتخب کی گئی؟''
'' تو پھر تم اس پر غور کر لو۔ غور کے لیے تمہارے پاس وقت ہے اور نمائش گاہ کی چیکنگ کے لیے بھی بہت وقت ہے۔
ٹھیک ہے آپ فکر نہ کریں، میں دیکھ لوں گا۔''
اسی شام انہوں نے نمائش گاہ کا معائنہ کیا۔ بہت غور سے ایک ایک چیز کو دیکھا۔ وہاں قریبًا ایک سو ملکوں سے پھولوں کے پودے لائے گئے تھے۔ اور پھول ہی پھول ہر طرف نظر آ رہے تھے۔ پھولوں کے تختے عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ اس کام میں انہیں کئی گھنٹے لگ گئے، لیکن کہیں کسی گڑ بڑ کے آثار نظر نہ آئے۔
'' ہو سکتا ہے وہ رپورٹ ہی غلط ہو، یہاں کوئی خطرہ سرے سے ہو ہی نہ۔'' محمود بڑبڑایا۔
''ہمارے ایجنٹ غلط رپورٹ نہیں بھیج سکتے۔'' فاروق نے منہ بنایا۔
''لیکن ان سے غلطی تو ہو سکتی ہے۔'' فرزانہ بولی
'' ختم کرو بھئی۔ اب اصل بات نمائش والے دن ہی معلوم ہو گی۔''
اور وہ وہاں سے چلے آئے۔ یوں وہاں حفاظتی انتظامات بے تحاشہ کیے گئے تھے۔ نمائش گاہ کے چاروں طرف فوج کا زبردست پہرہ تھا اور کوئی غیر متعلقہ آدمی اندر نہیں داخل ہو سکتا تھا۔ انہیں بھی اپنا تعارف کرانا پڑا تھا، کارڈ دکھانے پڑے تھے، تب کہیں جا کر انہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
اور پھر نمائش کا دن آ پہنچا۔ چاروں وقت سے پہلے ہی صدر صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔
'' ہائیں! تم تو میرے گھر ہی آ گئے۔''
'' ہم یہیں سے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیں گے اور آپ کے ساتھ رہیں گے۔''
'' تم نے نمائش گاہ کا معائنہ کیا تھا جمشید؟ ''
'' یس سر، وہاں قطعًا کوئی گڑبڑ نہیں ہے سر۔''
'' بہت خوب! اس کا مطلب ہے خبر غلط تھی۔''
'' یہ نہیں کہا جا سکتا سر۔ کیونکہ ابھی تک آپ نے افتتاح نہیں کیا۔''
'' اوہ ہاں! یہ بھی ہے۔'' وہ بولے
پھر صدر صاحب اور دوسرے آفیسر آگے پیچھے وہاں سے نکلے اور اپنی اپنی کاروں میں بیٹھ گئے۔ انسپکٹر جمشید، محمود، فاروق اور فرزانہ کو صدر صاحب کی کار میں بٹھایا گیا۔ صدر صاحب پچھلی سیٹ پر تھے۔ محمود، فاروق اور فرزانہ ان کے ساتھ تھے اور انسپکٹر جمشید اگلی سیٹ پر تھے۔ ان کی نظریں بجلی کی طرح حرکت کر رہی تھیں۔اسی حالت میں وہ نمائش گاہ کے دروازے تک پہنچ گئے۔ یہاں فوجی بینڈ سے ان کا استقبال کیا گیا۔ انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بنایا۔ یہ طریقہ اسلامی نہیں تھا، انگریزوں کا تھا۔
'' سر، نمائش کا افتتاح کرنے کے بعد آپ اندر جائیں گے، تمام پودوں کو غور سے دیکھتے ہوئے گزریں گے۔ ٹھیک ہے نا؟ ''
'' ہاں! ٹھیک ہے۔ تو پھر تم کیا کہنا چاہتے ہو؟''
'' یہ کہ آپ کسی پودے کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔''
'' کیوں بھئی، اس میں کیا حرج ہے، بعض پھول اس قسم کے ہوتے ہیں کہ انہیں فورًا چھونے کو دل کرتا ہے۔''
'' اگر ہمیں خفیہ رپورٹ نہ ملی ہوتی تو میں آپ کو چھونے سے ہر گز نہ روکتا۔''
'' اچھی بات ہے۔ اگر تم کہتے ہو تو نہیں چھوؤں گا۔''
'' بہت بہت شکریہ سر۔''
وہ نمائش گاہ کے دروازے پر پہنچ کر رک گئے۔ ایک ملٹری آفیسر نے ان کی کار کے دروازے کھولے اور ساتھ میں سلوٹ بھی کیا۔ دروازے کے بالکل اندر ہی فیتہ لگایا گیا تھا۔ صدر صاحب کو قینچی پیش کی گئی، انہوں نے فیتہ کاٹ دیا اور سب لوگ تالیاں بجانے لگے۔ لیکن انسپکٹر جمشید، محمود، فاروق اور فرزانہ تالیاں نہیں بجا رہے تھے۔ انہیں یہ غیر اسلامی طریقہ پسند نہیں تھا۔ آخر تالیوں کی گونج میں صدر صاحب آگے بڑھے۔ ان کے دائیں طرف انسپکٹر جمشید تھے، بائیں طرف محمود تھا، فاروق اور فرزانہ پیچھے تھے۔ پھر دوسرے آفیسیر تھے۔ ہر ملک کے پھول الگ سجائے گئے تھے۔ گویا صدر صاحب کو ایک ایک ملک کے پھولوں کے پاس سے گزرنا تھا۔ انہیں اچھی طرح دیکھنا تھا۔
وہ گزرتے رہے۔ حیرت زدہ انداز میں پھولوں کو دیکھتے رہے۔ اس قدر عجیب و غریب قسم کے پھول شاید انہوں نے اپنی زندگی میں پہلے نہیں دیکھے تھے۔ سب لوگوں کا مارے حیرت کے برا حال تھا۔ وہ ریکھتے رہے، گزرتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک جگہ جم کر رہ گئے۔
''اف مالک، اس قدر خوبصورت اور اتنا پیارا پھول اور بالکل سیاہ رنگ کا، میں نے زندگی میں پہلے نہیں دیکھا۔'' صدر صاحب نے کہا۔
'' سر یہ دلیریانہ کا ہے۔ وہاں کا مشہور ترین اور سب سے خوبصورت پھول۔ یہ ہے بھی سدا بہار۔ لیکن ایک پودے پر صرف ایک پھول لگتا ہے، جب وہ مرجھا جاتا ہے تو اس کے بعد دوسرا پھول نکلتا ہے۔ اور سر! کہتے ہیں اگر اس پھول کو چھو لیا جائے تو نظر زندگی بھر کمزور نہیں ہوتی، اگر کسی کی نظر کمزور ہو تو کمزوری دور ہو جاتی ہے۔''
'' بہت خوب، تب تو اسے میں بھی چھوؤں گا۔'' صدر صاحب بے اختیارانہ انداز میں آگے بڑھے۔
'' یہ آپ کیا کر رہے ہیں سر؟'' انسپکٹر جمشید نے دبی آواز میں گویا انہیں یاد دلایا۔
'' مجھے یاد ہے بھئی۔ لیکن میں اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتا۔ '' یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے۔
'' اگر آپ اس کو چھونا ہی چاہتے ہیں سر، تو پھر پہلے مجھے اپنا کام کر لینے دیں۔'' انسپکٹر جمشید ان کے راستے میں آ گئے۔
صدر صاحب کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نظر آئے، لیکن پھر فورًا ہی وہ مسکرا دیے۔
'' اچھی بات ہے۔ کرو، کیا کرنا چاہتے ہو۔ ''
وہ اس شخص کی طرف بڑھے جس نے پھول کا تعارف کرایا تھا۔
'' کیا آپ دلیریانہ سے اس پھول کے ساتھ ہی آئے ہیں؟''
'' ہاں! اس کی حفاظت کے لیے مجھے ساتھ بھیجا گیا ہے۔''
'' بہت خوب! آپ کی آنکھوں پر عینک کیوں ہے؟'' انسپکٹر جمشید بولے۔
'' جی، کیا مطلب؟''
'' ابھی آپ نے بتایا ہے کہ اس پھول کو چھونے سے نظر کی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔ نظر کی کمزوری دور کرنے کا یہ تو بہت آسان ترین نسخہ ہو گیا۔ پھر آپ نے اپنی نظر کی کمزوری کیوں دور نہیں کی؟''
'' میری نظر کمزور نہیں ہے۔ یہ دھوپ کا چشمہ ہے۔''
'' اچھا، کمال ہے۔ خیر، ہو گا۔ ذرا آپ اس پھول کو چھو کر دکھائیں۔''
'' میں چھو کر دکھاؤں، کیا مطلب؟''
'' میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جو سمجھ میں نہ آ سکے۔ آپ نے اس پھول کو چھونے کے فائدے گنوائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں صدر صاحب کے چھونے سے پہلے آپ اسے چھو دیں۔ ''
'' یہ آپ عجیب بات کر رہے ہیں۔ '' اس نے جھلّا کر کہا
'' اس میں عجیب بات کوئی نہیں۔ ہم احتیاطًا ایسا کر رہے ہیں، اس لیے کہ ہمیں اطلاعات ملی ہیں پھولوں کی اس نمائش میں ہمارے ملک کے صدر کو ہلاک کرنے کی کوشش کی جائے گی اور میں یہ بات جانتا ہوں دنیا میں کچھ پودے انتہائی زہریلے ملتے ہیں۔ اس حد تک زہریلے کہ اگر ان کو صرف چھوا جائے تو آدمی مر جاتاہے۔''
'' نن۔۔۔ نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں جناب۔''
تو پھر مہربانی فرما کر پھول کو چھو لیں۔
'' نن ۔۔۔۔ نہیں۔''
اس نے خوف زدہ انداز میں کہا اور وہ سب حیرت زدہ رہ گئے۔
ٹام رُوڈ
''یہ کیا بات ہوئی۔ آپ اس پھول کو چھونے سے انکار کر رہے ہیں جب کہ ابھی مجھے چھونے کی دعوت دے رہے تھے۔ '' صدر صاحب نے مارے حیرت کے کہا۔
''مم ۔۔ میں ۔میں۔ ''وہ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکا۔
'' پھول تو آپ کو اب چھونا ہی پڑے گا۔'' انسپکٹر جمشید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
'' نن۔۔ نہیں ۔۔نہیں۔'' اس نے چیخ کر کہا اور اپنا ہاتھ چھڑانے کے لیے زور لگانے لگا۔
'' ارے بھئی! اس میں ایسی بھی کیا بری بات ہے، ساری زندگی آپ کی نظر کمزور نہیں ہو گی۔''
'' میری نظر پہلے ہی بالکل ٹھیک ہے۔''
'' اچھا، یہ بات ہے۔'' انسپکٹر جمشید نے کہا اور پھر انہوں نے اس کی عینک اتار لی۔
'' یہ کیا کِیا۔ ایک مہمان ملک کے نمائندے سے آپ یہ سلوک کر رہے ہیں۔''
'' لیکن مہمان ملک کے نمائندے کو بھی تو ہمارے ملک کے صدر کو موت کے گھاٹ اتارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔''
'' کیا کہا آپ نے؟'' بہت سی آوازیں ابھریں۔
'' ہاں، میں غلط نہیں کہہ رہا۔ اس پودے میں صدر صاحب کی موت کا سامان تیار ہے۔''
'' کیا!!!'' وہ چلائے۔
'' اگر یقین نہیں تو اس کے چہرے کی طرف دیکھ لیں۔ اے مسٹر! بتاؤ وہ سامنے کس رنگ کے پھول کھلے ہیں۔''
'' کک ۔۔ کس طرف؟''
'' اس طرف، سامنے، تمہاری آنکھوں کی سیدھ میں۔ ''
'' اس طرف۔یہ زرد رنگ کے۔''
''اور وہ سب لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ اس لیے کہ وہاں بالکل سفید پھول تھے۔
'' یہ اس کی نظر کی ہی عینک ہے۔ محمود ذرا فاصلے پر جا کر اس سے انگلیاں پوچھنا۔''
'' جی بہتر۔'' محمود نے کہا اور سفید پھولوں کے پاس پہنچ گیا۔ اور پانچ انگلیاں اٹھا دیں۔
'' بتاؤ، کتنی انگلیاں نظر آ رہی ہیں تمہیں؟''
'' تین۔'' اس نے فورًا کہا
'' ثابت ہو گیا، اس کی نظر بہت کمزور ہے۔ پانچ انگلیوں کو تین انگلیاں بتا رہا ہے۔ اور اگر اس سیاہ پھول سے نظر کی خرابی دور ہوتی تو یہ ضرور کب کا اسے چھو چکا ہوتا، کیونکہ یہ تو اس کے ملک کا پھول ہے۔ اب میں اس کا ہاتھ پھول سے مس کرنے چلا ہوں۔ ''یہ کہہ کر وہ پھول کی طرف بڑھے۔
'' نن۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ نہیں۔ ''وہ پوری قوت سے چلایا۔ اور خود کو ان کی گرفت سے چھڑانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا، لیکن وہ بھلا خود کو کہاں چھڑا سکتا تھا۔ اور پھر انسپکٹر جمشید اسے پھول کے نزدیک لے گئے۔ اس کا ہاتھ پھول کی طرف بڑھانے لگے۔ وہ پیچھے کی طرف زور لگا رہا تھا۔ اب اس کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا۔
'' مجھ پر رحم کریں۔ میں مر جاؤں گا۔''
''تو اس پھول کو چھونے والا مر جاتا ہے؟ ''
'' نن۔۔۔۔ نہیں۔''
'' اگر نہیں مرتا تو تم چھونے سے کیوں ڈر رہے ہو؟''
اور پھر انہوں نے اس کا ہاتھ پھول سے چھو دیا۔ اس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکل گئی۔ دوسروں کی نظریں اس پر جم گئیں۔ انسپکٹر جمشید اسے پھول سے دور باقی لوگوں کے پاس لے آئے اور چھوڑ دیا۔ وہ کھڑا پلکیں جھپکاتا رہا۔ اسے کچھ بھی نہ ہوا۔
'' بس! آپ ایسے ہی تیس مار خان بن رہے تھے۔ کیا ہو گیا ہے مجھے اس پھول کو چھو کر؟''
اب سب کی نظریں انسپکٹر جمشید پر جم گئیں۔
'' تمہارا خیال غلط نکلا جمشید۔ اس پھول میں خطرناک بات کوئی بھی نہیں ہے۔ ''صدر صاحب مسکرائے۔
'' ہو سکتا ہے سر میرا خیال غلط ہو۔ لیکن آپ خود سوچیں اگر اس پھول میں یا اس ہودے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی تو پھر یہ اس قدر خوف زدہ کیوں تھا؟''
'' میں ایکٹنگ کر رہا تھا۔''
'' ہوں، آئیے، آگے چلیں۔''
2
ساتھ ہی انہوں نے دور کھڑے ایک سادہ لباس والے کو اشارہ کیا۔ انہوں نے اندر جگہ جگہ سادہ لباس والوں کی ڈیوٹیاں لگا رکھی تھیں۔ وہ تیر کی طرح ان کی طرف آیا۔
'' اس شخص پر نظر رکھو، اب یہ کیا کرتا ہے، کہاں جاتا ہے، اس کا نام کیا ہے، دلیریانہ میں اس کا پتہ کیاہے، یہ وہاں نباتات کے محکمے میں ملازم ہے یا نہیں؟ اور تمام معلومات مجھے جلد از جلد چاہیئیں۔''
''اوکے سر، میں ابھی کام شروع کرتا ہوں۔'' اس نے کہا اور وہ آگے بڑھ گیا۔
'' لیکن اب اس کی نگرانی کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ ''صدر صاحب بولے۔
''میرے خیال میں ضرورت ہے سر، آپ چلیے۔''
'' اس پھول کو چھونے کی حسرت ہی رہ گئی۔ میرے خیال میں اب تو میں اسے چھو سکتا ہوں۔''
'' جی نہیں، آپ اب بھی اس پودے کو نہیں چھو سکتے۔ کیونکہ کچھ زہر فورًا اپنا اثر نہیں دکھاتے، کچھ دیر بعد بھی اثر دکھا سکتے ہیں۔''
'' لیکن میرا خیال ہے یہ سب تمہارا وہم ہے۔''
'' تب پھر وہ خوفزدہ کیوں تھا؟''
'' اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ ''
وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ کسی اور مہمان نے صدر صاحب کو کسی پھول یا پودے کو چھونے کے لیے نہیں کہا اور ان کا راؤنڈ مکمل ہو گیا۔ اس کے بعد وہ وہاں سے باہر نکل کر ایوانِ صدر کی طرف روانہ ہونے لگے۔ ایسے میں انسپکٹر جمشید بولے:
'' اب میرا کام ختم ہو گیا ہے سر، میں یہیں سے اجازت چاہوں گا۔''
'' گویا تم میرے ساتھ ایوانِ صدر نہیں جاؤ گے؟''
'' نہیں سر، مجھے کچھ اور کام ہیں۔''
'' اچھی بات ہے۔ ''وہ بولے۔
ان کے جانے کے بعدانسپکٹر جمشید پھر نمائش گاہ میں داخل ہو گئے اور سیدھے اس سیاہ پھول والے مہمان کے پاس جا پہنچے۔ وہ گم سم سا کھڑا تھا۔ انہیں دیکھ کر چونکا اور پھر سیدھا ہو گیا:
'' آپ؟ اب کیا ہے؟ اس کا لہجہ بہت ناخوشگوار تھا۔''
'' میں آپ سے معافی چاہتا ہوں مسٹر۔ ۔ ۔ اوہ، آپ کا نام تو میں جانتا ہی نہیں۔''
'' میں ٹام رُوڈ ہوں۔''
''شکریہ مسٹر ٹام رُوڈ۔ آپ یہاں کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ ''انسپکٹر جمشید بولے۔
'' ہوٹل انٹرنیشنل میں۔ تمام مہمانوں کو وہیں ٹھہرایا گیا ہے۔''
'' آپ کے کمرے کا نمبر؟''
'' میں 314 نمبر میں ٹھہرا ہوا ہوں۔ کیوں، کیا اب آپ وہاں بھی آئیں گے؟''
'' ہاں، آپ سے معافی مانگنے کے لیے آئیں گے۔''
'' اس کی ضرورت نہیں۔ ''اس نے برا سا منہ بنایا۔
''لیکن ہم اس کی ضرورت سمجھتے ہیں۔''
'' تو یہیں مانگ لیں۔ وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے؟''
'' نہیں!ہم وہیں آئیں گے۔ آپ یہاں سے کب فارغ ہوں گے؟''
''رات نو بجے۔''
''تو ہم آپ سے رات سوا نو بجے وہیں ملاقات کریں گے۔''
'' جیسے آپ کی مرضی۔ لیکن میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس نے کہا۔''
'' ہم ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ ''انسپکٹر جمشید سرد آواز میں بولے۔
اور پھر وہ وہاں سے نکل آئے۔ فون کر کے ایک ما تحت کے ذریعے اپنی کار وہاں منگوائی اور اس میں بیٹھ کر ایک سمت میں روانہ ہوئے۔
'' آج کی شکست ہمیں یاد رہے گی۔ ''فاروق بڑبڑایا۔
'' کوئی بات نہیں، صدر صاحب تو محفوظ رہے نا۔''
'' ان کے لیے تو خیر نمائش گاہ میں کوئی خطرہ تھا ہی نہیں، ہمارے ایجنٹوں کی اطلاع غلط تھی۔''
''نو بجے کے بعد ہم ایک بار پھر نمائش گاہ میں جائیں گے لیکن اس سے پہلے ہم ذرا ہوٹل انٹرنیشنل کے کمرہ نمبر 314 کی تلاشی لے آئیں۔''
'' اوہ، تو ابھی تک آپ کا شک رفع نہیں ہوا؟''
'' نہیں، بالکل نہیں۔ اس سیاہ پھول میں ضرور کوئی خطرناک بات ہے۔''
'' تب پھر ٹام رُوڈ کو کیوں کچھ نہیں ہوا؟''
'' اس کا جواب میں بعد میں دوں گا، پہلے تلاشی۔''
اور پھر وہ ہوٹل انٹرنیشنل پہنچ گئے۔ کسی سے کوئی بات کیے بغیر وہ کمرہ نمبر314 کے سامنے پہنچ گئے۔ محمود نے ماسٹر کی سے تالا کھول دیا اور وہ اندر داخل ہو گئے۔ اندر سے دروازہ انہوں نے بند کر لیا۔اب انہوں نے تلاشی شروع کی۔ اس کی ایک ایک چیز دیکھ ڈالی۔ لیکن کوئی ایسی چیز نہ ملی جس سے ان کا شک پختہ ہو سکتا۔ آخر وہ وہاں سے نکل آئے۔
نو بجے وہ نمائش گاہ پہنچے۔ اس وقت اندر داخلہ بند ہو چکا تھا اور لوگوں کو باہر نکل آنے کی ہدایات دی جا رہی تھیں۔ انسپکٹر جمشید نے اپنا کارڈ دکھایا اور اندر داخل ہو گئے۔ وہ سیدھے اس سیاہ پھول والے پودے کے پاس پہنچے۔ ٹام رُوڈ اب وہاں نہیں تھا۔ غالبًا وہ اپنے ہوٹل جانے کے لیے وہاں سے روانہ ہو چکا تھا۔ انسپکٹر جمشید نے ایک چمٹی کی مدد سے سیاہ پھول کو توڑ لیا اور پلاسٹک بیگ میں رکھ لیا۔ بیگ جیب میں رکھ کر وہ باہر نکل آئے۔
اب وہ گھر پہنچے۔ گوشت کا ایک ٹکڑا لیا۔ اسے درمیان سے چیرا، اس میں پھول کی ایک پنکھڑی رکھ دی، لیکن ہاتھ لگائے بغیر۔ اب انہوں نے گوشت کا وہ ٹکڑا اپنے کتے کو کھلا دیا۔ پانچ منٹ بعد کتا زور سے تڑپا اور مر گیا۔
'' ارے باپ رے۔'' محمود، فاروق اور فرزانہ کی آنکھیں مارے خوف کے پھیل گئیں۔
'' اب کیا کہتے ہو؟''
'' لیکن پھر ٹام رُوڈ کیوں نہیں مرا؟''
'' اس لیے کہ ابھی اس نے پھول کو صرف چھوا ہے۔''
'' اگر چھو جانا خطرناک نہیں تو پھر وہ خوفزدہ کیوں تھا؟''
'' اس کا جواب میں ابھی دوں گا۔''
انہوں نے ایک کتے کو پکڑا۔ پھول کی ایک اور پنکھڑی کو چمٹی سے پکڑا اور اس پنکھڑی کو کتے کے پنجے سے بار بار چھونے لگے۔ ساتھ میں وہ گن بھی رہے تھے۔ ایک، دو، تین۔ ۔ ۔
وہ گنتے چلے گئے۔ پھول کو مس کرتے چلے گئے۔ آخر جب انہوں نے تیس مرتبہ چھو دیا، تو کتا بالکل اسی طرح زور سے تڑپا جس طرح پہلا کتا تڑپا تھا اور ساکت ہو گیا۔
'' ارے باپ رے۔ ''محمود، فاروق اور فرزانہ کے منہ سے نکلا۔
'' اب معلوم ہوا ٹام رُوڈ کو کیوں کچھ نہیں ہوا۔'''
'' لیکن وہ خوفزدہ کیوں تھا؟''
'' اس لیے کہ اس کی موت اب تیس دن بعد ہو گی۔'' انہوں نے کہا۔
'' تیس دن بعد۔ کیا مطلب؟''
'' مطلب یہ کہ میں نے تیس مرتبہ پھول کو چھوا تو یہ کتا بھی مر گیا۔ ایک بار کے چھونے سے کچھ نہیں بنا تھا، لیکن پنکھڑی کھلانے سے فورًا مر گیا۔ اب ٹام رُوڈ تیس دن بعد مرے گا۔''
'' یہ بات آپ اتنے یقین سے کس طرح کہہ سکتے ہیں؟''
''آؤ چلیں۔''
انہوں نے پر اسرار انداز میں کہا۔ محمود، فاروق اور فرزانہ کا مارے حیرت کے برا حال تھا۔
پھول کی موت
وہ ایک بار پھر ہوٹل انٹرنیشنل پہنچے۔ محمود نے کمرہ نمبر314 کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا اور ٹام روڈ انہیں دیکھ کر چونکا:
''اوہ، تو آپ آ گئے۔''
'' ہم نے کہا تو تھا کہ آئیں گے۔''
'' ہاں، آپ لوگوں نے کہا تھا۔ خیر آئیے، اب کیا رہ گیا ہے؟''
'' ہمیں صرف اتنا بتا دیں آپ اس قدر خوفزدہ کیوں تھے؟''
'' میں آپ کو چڑا رہا تھا۔''
'' کیوں! مجھے چڑانے کی آپ کو کیا ضرورت پیش آ گئی؟'' وہ بولے۔
'' میں نے آپ کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، میں نے سوچا ذرا آپ کا ریکارڈ لگاؤں۔''
'' اوہ، تو آپ اس لیے اس قدر خوفزدہ نظر آ رہے تھے؟''
'' ہاں! یہی بات ہے۔''
'' خیر، اب ذرا میری بھی بات سن لیں۔''
'' فرمائیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟''
'' نو بجے کے قریب ہم نمائش گاہ پھر گئے تھے۔ اس وقت آپ وہاں سے رخصت ہو چکے تھے۔''
'' او ہو اچھا، تو پھر؟'' اس کے منہ سے نکلا۔
'' میں وہاں سے ایک سیاہ پھول توڑ لایا۔''
'' کیا مطلب، آپ نے پھول کو ہاتھ سے توڑا؟'' اس نے حیرت زدہ انداز میں کہا۔
'' نہیں، چمٹی کے ذریعے۔ ''وہ مسکرائے۔
'' اوہ! '' اس کے منہ سے نکلا
''گھر لے جا کر میں نے گوشت کے ایک ٹکڑے میں ایک پنکھڑی رکھی اور اپنے ایک کتے کو کھلا دی۔''
'' کیا !!!'' اس نے خوف زدہ انداز میں کہا۔
'' ہاں، کتا فورًا مر گیا۔''
'' اف، یہ میں کیا سن رہا ہوں۔''
'' اس کے بعد میں نے ایک اور تجربہ کیا۔ ایک پنکھڑی کو چمٹی سے پکڑا اور اس کو کتے کے پنجے سے مسلسل چھوتا چلا گیا۔ تیس مرتبہ چھونے کے بعد وہ کتا بھی مر گیا۔''
'' اف ۔۔۔۔۔۔''وہ کانپ گیا۔
''اب آپ کیا کہتے ہیں؟ انسپکٹر جمشید بولے''
'' میں۔ ۔ میں کیا کہوں۔'' اس نے بے چارگی کے عالم میں کہا۔
'' آپ یہاں سے اپنے ملک کب جا رہے ہیں؟''
'' کل۔'' اس نے بتایا۔
''اس کا مطلب ہے آپ وہاں جا کر اپنا علاج کرائیں گے۔ آپ کو یہ اطمینان ہے کہ آپ کے پاس کافی وقت ہے۔ آپ ابھی انتیس دن اور زندہ رہیں گے۔''
'' یہ ۔ ۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟''
'' اگر یقین نہیں تو میں پھول کی پتی آپ کے جسم سے انتیس مرتبہ مس کر دیتا ہوں۔''
'' نن ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ نہیں۔'' وہ پورے زور سے چلایا۔
'' تب پھر تم یہ بات مان لو۔ تم لوگوں کا پروگرام ہمارے ملک کے صدر کو ہلاک کرنے کا تھا۔ تمہارے کہنے پر وہ پھول کو چھو لیتے اور تیس دن بعد مر جاتے۔''
'' ہاں! یہی بات ہے۔'' اس نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔
''شکریہ، آخر تم نے یہ بات مان لی۔ اب یہ بھی بتا دو تمہارا ملک کیوں یہ چاہتا تھا، یعنی ہمارے ملک کے صدر کو ہلاک کرنا۔ وہ ہمارا دشمن ملک ضرور ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے صدر کی موت سے اس کے صدر کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ یہ بات تم مجھے بتاؤ گے۔ اگر نہیں بتاؤ گے تو جانتے ہو ہم کیا کریں گے؟''
'' کک ۔ ۔ کیا کریں گے؟
'' تمہیں تمہارے ملک نہیں جانے دیں گے۔ اس پھول کے زہر کے خلاف کوئی دوا تم نہیں کھا سکو گے۔ اس طرح تیس دن بعد تم مر جاؤ گے۔''
'' نن ۔ ۔ نہیں۔'' وہ چلایا
'' تب پھر ساری بات بتاؤ۔''
'' سچ یہ ہے کہ ساری بات مجھے ہرگز معلوم نہیں۔ مجھے تو بس اتنی ہدایات تھیں کہ پھول کسی طرح صدر کے ہاتھ سے مس کر دینا ہے اور بس۔ اس پھول کی خاصیت کے بارے میں مجھے معلوم ہے۔ میں اس میدان کا کھلاڑی ہوں۔ یعنی زہریلے پودوں کا۔''
'' شکریہ، اب مشکل یہ ہے کہ تم ہمارے ملک کے صدر کو قتل کرنے آئے تھے۔ لہٰذا ہمارے قانون کے مطابق تم مجرم ہو۔ لہٰذا ہم تمہیں جیل بھیج رہے ہیں۔''
'' آپ مجھے اپنے ملک جانے دیں۔''
''افسوس! ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ ہاں، اگر تم ساری سازش کی تفصیلات بتا سکو تو شاید ہم نرمی کر سکیں۔''
'' اگر مجھے معلوم ہوتا تو ضرور بتا دیتا۔''
'' تب پھر جان سے جانا منظور کر لو۔ ''انہوں نے کہا۔
''اس کا رنگ سفید پڑ گیا۔ وہ سمجھ گئے اسے واقعی کچھ معلوم نہیں ہے۔ آخر چند لمحے تک سوچنے کے بعد انہوں نے اکرام کو فون کیا۔ اکرام وہاں جلد ہی پہنچ گیا۔
'' اوہو! آپ نے ابھی تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔'' وہ چونکا۔
'' تمہیں کس طرح معلوم ہو گیا؟'' انہوں نے اسے گھورا۔
'' اُس سادہ لباس والے سے۔ آپ نے اِس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی ہدایات دی ہیں۔''
'' اوہ، اچھا خیر۔ اب اسے جیل بھجوانا ہے۔ جہاں یہ انتیس دن بعد مر جائے گا۔''
'' جی، کیا مطلب؟''
انہوں نے اپنے تجربے سے لے کر یہاں ہونے والی باتوں تک سب اسے تفصیل سے سنا دیا۔
'' میں سمجھ گیا۔ چلو بھئی چلیں۔''
'' آپ میرے بارے میں ہمدردانہ غور کریں۔ اگر آپ مجھے دلیریانہ بھیج دیں گے تو میری جان بچ سکتی ہے۔ ''
'' فکر نہ کرو۔ ہم یہ کوشش بھی ضرور کریں گے۔ لیکن ان سے یہ پوچھیں گے انہوں نے ہمارے صدر کے خلاف یہ سازش کیوں کی ہے، انہیں ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر وہ کوئی معقول بات بتا سکے تو اس صورت میں ہم تمہیں چھوڑ دیں گے۔ یا پھر ایک اور صورت ہے۔ '' انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
'' اور وہ کیا؟''
'' تمہارے ملک والے اس پھول کے زہر کا علاج بتا دیں۔ اوہو۔ ۔ ارے ۔ ۔ '' انسپکٹر جمشید زور سے اچھلے۔ ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔
'' کیا بات ہے ابا جان! خیر تو ہے؟''
'' اس زہر کا علاج تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔''
'' وہ کیسے؟ ''وہ ایک ساتھ بولے
'' اس پھول کی ہومیو پیتھک پوٹینسی بنا کر۔''
'' اوہ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ان سب کے منہ سے نکلا۔''
'' بہرحال ہم یہ تجربہ ضرور کریں گے۔ اگر اس کے ملک سے کوئی خاص دوا اس زہر کی آ گئی تو وہ اسے استعمال کرا دیں گے۔'' انہوں نے کہا۔
'' بہت بہت شکریہ۔ وہ دوا ضرور بھیجیں گے۔ ''
'' ہم ابھی ان سے بات کرتے ہیں۔ ''
اکرام اسے لے کر چلا گیا۔ انسپکٹر جمشید نے ایوانِ صدر کا رخ کیا۔ صدر صاحب نے چونک کر انہیں دیکھا:
'' کیا رہا جمشید؟''
'' میرا خیال سو فی صد درست نکلا۔ اگر آپ پھول کو چھو لیتے تو زندہ نہ بچتے۔''
'' لیکن کیسے، دلیریانہ کا وہ شخص پھر کیوں نہ مرا؟''
'' وہ انتیس دن بعد مرے گا۔ اس پھول کو اگر کوئی صرف چھو لے تو تیس دن بعد مر جاتا ہے۔ میں نے اپنے دو کتے ضائع کیے ہیں یہ بات جاننے کے لیے۔ ''
'' کیا مطلب؟ ''صدر صاحب حیران رہ گئے۔
''انہوں نے انہیں بھی تفصیل سنا دی۔'' صدر صاحب سکتے میں آ گئے۔ رنگ سفید پڑ گیا۔
'' اس کا مطلب ہے جمشید۔ اگر تم مجھے نہ روکتے تو اس وقت تو کچھ نہ ہوتا اور تیس دن گزرتے ہی میں پٹ سے مر جاتا۔''
'' ہاں! سر، یہی بات ہے۔''
'' اف جمشید، اگر تم ساتھ نہ ہوتے تو کیا ہوتا۔''
'' پھر بھی آپ بچ جاتے سر، اس لیے کہ آپ کی موت اس پھول کے ذریعے لکھی ہی نہیں تھی۔''
''پھر اب کیا پروگرام ہے؟''
'' ہم دلیریانہ جا رہے ہیں۔ اس سازش کا پتہ چلانے کے لیے وہاں جانا ضروری ہے۔''
'' بھئی دیکھ لو، کہیں تم اپنی جان خطرے میں نہ ڈال لو۔ وہ دشمن ملک ہے۔''
'' ان کا ایک آدمی ہمارے قبضے میں بھی تو ہے نا سر۔''
'' تو پھر اس سے کیا ہوتا ہے؟''
'' بس آپ دیکھتے جائیں۔ ابھی اس خبر کو دبائے رکھنا ہے۔ اخبارات میں بھی کوئی بات نہیں آئے گی۔ ٹام روڈ کی گرفتاری کے بارے میں فی الحال انہیں نہیں بتایا جائے گا۔''
'' اچھی بات ہے۔ جو جی میں آئے کرو۔ '' انہوں نے اجازت دی۔
انہوں نے فور ی طور پر دلیریانہ جانے کے لیے کاغذات تیار کروائے۔ ایسے میں انہیں خان رحمان کا خیال آ گیا:
" میرا خیال ہے انکل خان رحمان بھی ہمارے ساتھ چل سکتے ہیں۔ "
" چلنے کو تو پروفیسر داؤد بھی چل سکتے ہیں، لیکن ہم انہیں کیوں پریشان کریں۔یہ ہمارا کام ہے اور ہم کر لیں گے۔"
" اگر وہ پریشانی محسوس کریں تب۔ لیکن اگر خوشی سے جانا چاہیں تو؟"
" اچھی بات ہے۔ پھر تم لوگ ہی پوچھ لو۔"
دوسرے دن وہ پروفیسر داؤد اور خان رحمان سمیت جہاز میں بیٹھے دلیریانہ کی طرف جا رہے تھے۔ ان کے پاس بالکل درست اور مکمل کاغذات تھے۔ ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی انہیں گھیر لیا گیا۔ اگر چہ وہ ایئر پورٹ کے اندر ملٹری پولیس کو اپنے تمام کاغذات دکھا چکے تھے اور انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
" یہ کیا ہے جناب؟" انسپکٹر جمشید بولے۔
" آپ کو ہمارے ساتھ پہلے پولیس ہیڈکوارٹر چلنا ہوگا۔ اس کے بعد آپ ہمارے ملک میں گھوم پھر سکیں گے۔ سیاحت کرنے کے لیے آئے ہیں آپ لوگ یہاں کی؟"
" ہاں، یہی بات ہے۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
" شکریہ، چونکہ آپ لوگوں کا تعلق ہمارے دشمن ملک سے ہے، اس لیے چیکنگ ضروری ہے۔"
" ضرور چیکنگ کر لیں۔"
" چیکنگ صرف اور صرف ہیڈ کوارٹر میں ہو سکے گی۔"
" اچھی بات ہے، تو وہیں لے چلیں۔ اب آپ کے ہتھے جو چڑھ گئے ہیں۔ " انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
انہیں پولیس ہیڈ کوارٹر لایا گیا۔ انہیں مختلف آلات سے چیک کیا گیا، تلاشی بھی لی گء لیکن ان کے پاس سے کوئی قابل اعتراض چیز نہ مل سکی۔ "
" آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ آپ یہاں تین دن کے لیے آئے ہیں۔ ٹھیک تین دن پورے ہونے پر اپنی مقررہ پرواز پر آپ واپس چلیں جائیں گے۔ اگر آپ اس جہاز سے واپس نہ گئے تو آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ پھر نہ کہیے گا ہم نے آپ کو خبردار نہیں کیا۔"
" اس بات کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں خبردار کر دیا۔" فاروق نے منہ بنایا۔
" ہمیں ایک کرائے کی کار چاہئیے۔ آپ ایسی کسی ایجنسی کا نام پتا فون نمبر دے سکتے ہیں۔"
" ضرور، کیوں نہیں۔" اس نے جیب میں سے ایک کارڈ نکال کر انہیں دے دیا۔
باہر نکل کر انہوں نے اس کارڈ کے نمبروں پر فون کیا۔ جلد ہی ایک کار وہاں پہنچ گئ۔ کار لانے والے نے ان سے تین دن کا ایڈوانس کرایہ وصول کیا اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔ انہوں نے اس کے جانے کے بعد کار کر اچھی طرح چیک کیا۔"
" مجھے اس کار سے خطرے کی بو آ رہی ہے۔"
" ہاں، آؤ چلیں۔ اس کا بھی کچھ کرتے ہیں۔"
3
وہ وہاں سے سیدھے ساحلِ سمندر پہنچے۔ یہاں سیر کے لیے آنے والوں کا اژدھام تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے سارا شہر ہی سیر کرنے کے لیے آ گیا ہے۔
" تھوڑے فاصلے پر ایک سیاہ رنگ کی کار موجود ہے، اس نے ہمارا یہاں تک تعاقب کیا ہے۔" فرزانہ بڑبڑائی
" بس تو پھر یہ لوگ ہماری نگرانی کر رہے ہیں اور آسانی سے ہماری دال نہیں گلنے دیں گے۔"
" کوئی بات نہیں، ہم گوشت گلا لیں گے۔" فاروق نے منہ بنایا۔
" آؤ، ان سیر کرنے والوں میں گھل مل جائیں۔"
وہ اس کار سے دور ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اچانک ایک ٹیکسی میں بیٹھ گئے:
" ہمیں شہر جانا ہے۔"
" ضرور لے چلوں گا۔" اس نے کہا اور ٹیکسی آگے بڑھا لے گیا۔
" کیا آپ ہمیں کاریں کرائے پر دینے والی کسی ایجنسی کا پتہ بتا سکتے ہیں؟"
" پتہ بتانا کیا ہوا، آپ کو وہاں تک لے جاتا ہوں۔"
" یہ اور اچھا رہے گا۔"
ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں کاروں کی ایک ایجنسی کے سامنے اتار دیا۔ وہاں سے انہوں نے ایک اور کار کرائے پر لی۔ کرایہ ادا کیا اور پھر وہاں سے آگے بڑھے۔ ایک سادہ سےہوٹل میں انہوں نے دو کمرے کرائے پر لیے۔ یہاں بھی تین دن کا ایڈوانس کرایہ دینا پڑا۔ ابھی وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ فون کی گھنٹی بجی اور ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی۔
" جس ایجینسی کا پتہ میں نے آپ لوگوں کو دیا تھا، اس کی کار آپ نے لے کر ساحل پر چھوڑ دی۔ وہاں سے ایک ٹیکسی لی اور ایک اور ایجنسی کی کار کرائے پر لی۔ اب آپ نے ہوٹل رینا میں دو کمرے کرائے پر لیے ہیں۔ ان کے نمبر اور ٠ ہیں۔"
" یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ اس قدر چاک و چوبند ہیں۔" انہوں نے کہا۔
" ابھی آپ لوگوں نے دیکھا ہی کیا ہے۔ تین دن تک آپ صرف حیران ہی ہوتے رہیں گے اور کچھ نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا آپ کے لیے بہتر یہ رہے گا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " وہ کہتے کہتے رک گیا۔
" کیا بہتر رہے گا، آپ رک کیوں گئے؟"
" کہ مجھے ساری بات سچ سچ بتا دیں۔ پھر میں دیکھوں گا کہ آپ لوگوں کے لیے کچھ کر سکتا ہوں یا نہیں۔" وہ بولا۔
" اچھی بات ہے، آپ تشریف لے آئیں۔" انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا۔
"ضرور، کیوں نہیں۔ میں صرف ساڑھے تین منٹ بعد آپ کے کمرے کے دروازے پر دستک دوں گا۔" ان الفاظ کے ساتھ ہی ریسیور رکھ دیا گیا۔
" اب کیا کریں۔ یہ حضرت تو ہماری ہر حرکت سے واقف ہوتے چلے جا رہے ہیں۔" محمود نے گھبرا کر کہا۔
" پریشان ہونے اور گھبرانے سے کچھ نہیں بنے گا۔ ہم ان کے ملک میں ہیں۔ ان کے پاس ہر قسم کے وسائل ہیں۔ جب کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اپنی کار تک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کاریں کرائے پر دینے والی ہر ایجنسی کو پہلے ہی یہ ہدایات ہوں کہ اگر کوئی غیر ملکی پارٹی کار کرائے پر لے تو فوری طور پر اس پولیس آفیسر کو اطلاع دی جائے۔ اور ساتھ میں ان کا تعاقب بھی کی جائے۔ "
" ہمارے پاس اب دو منٹ ہیں۔ کیا ہم ان دو منٹوں میں یہاں سے نکل نہیں سکتے؟"
" اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہماری نگرانی تو بدستور ہو رہی ہے۔"
" ہوں، خیر دیکھا جائے گا۔" خان رحمان نے کندھے اچکائے۔
"ٹھیک ساڑھے تین منٹ بعد دروازے پر دستک ہوئی اور دروازہ کھولنے پر وہی پولیس آفیسر نظر آیا۔
" آئیے جناب، مان گئے ہم تو آپ کی قابلیت کو۔"
" ابھی اور مانیں گے۔" وہ مسکرایا۔
" اگر ماننے والی اور باتیں سامنے آئیں تو ہم ضرور آپ کو اور بھی مانیں گے۔ ہم ماننےکے سلسلے میں ذرا بھی کنجوس واقع نہیں ہوئے۔" فاروق نے شوخ آواز میں کہا۔
پولیس آفیسر اسے گھور کر رہ گیا پھر بولا۔
" اس کا مطلب ہے آپ لوگ میرا مذاق اڑانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔"
" ایسی کوئی بات نہیں۔ میرا یہ بیٹا ذرا شوخ واقع ہوا ہے۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
" اچھا خیر، اب ذرا تعارف ہو جائے۔ میں انسپکٹر جم ہوں۔"
" میں جمشید احمد ہوں۔ یہ پروفیسر داؤد احمد، خان رحمان، محمود، فاروق اور فرزانہ ہیں۔" انسپکٹر جمشید نے بھی تعارف کرایا۔
" آپ نے تعارف ذرا نامکمل کرایا ہے۔ اپنے نام کے ساتھ انسپکٹر بھی لگائیے نا۔ "
" اوہو اچھا، تو آپ کو یہ بھی معلوم ہے۔" ان کے لہجے میں حیرت تھی۔
" آپ یہ پوچھیے مجھے کیا معلوم نہیں ہے۔"
" چلیے پھر یہی بتا دیں۔ " فاروق رہ نہ سکا۔
" کیا بتا دوں ؟" وہ جلدی سے بولا۔
" یہ کہ آپ کو کیا معلوم نہیں ہے۔" فاروق نے کہا۔
" آپ نے اپنے بیٹے کی تعریف درست ہی کی تھی، یہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی شوخ ہیں۔ خیر، میں کہہ رہا تھا میں ابھی آپ کو اور حیران کر دوں گا۔ آپ ذرا سچ سچ بتا دیں آپ یہاں کس لیے آئے ہیں۔"
" اگر آپ کے خیال میں ہم سیاحت کے لیے نہیں آئے تو آپ بتا دیں ہم یہاں کس لیے آئے ہیں؟"
" میں تو خیر بتا ہی دوں گا، لیکن پہلے میں آپ لوگوں کے منہ سے سننا چاہتا ہوں۔"
" سوری، آپ کو چاہیے خود بتائیں۔" انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
" اگر میں چاہوں تو آپ لوگوں کو اسی وقت گرفتار کر سکتا ہوں۔"
" لیکن کس جرم میں؟"
" جرم میں یہاں نہیں، عدالت میں بتاؤں گا۔"
" تو کیا اس ملک میں جرم بتائے بغیر لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے؟"
" ہاں بالکل کیا جاتا ہے۔ جرم بعد میں بتاتے رہتے ہیں۔" وہ ہنسا
" تو پھر آپ ہمیں بھی گرفتار کر لیں تا کہ ہمیں اپنے جرم کا پتہ تو چل جائے۔"
" وہ میں آپ لوگوں کو گرفتار کیے بغیر ہی بتا دوں گا۔ میں تو یہ بتا رہا تھا کہ آپ لوگ اس خوش فہمی میں نہ رہیے گا کہ آپ کے پاس پورے کاغذات ہیں اور آپ کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں صرف اور صرف ہمارا قانون چلتا ہے۔ کیا سمجھے؟"
" سمجھ گیا یہاں صرف اور صرف آپ کا قانون چلتا ہے۔ مطلب یہ کہ آپ کو بین الاقوامی قوانین کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ "
" ہاں، نہیں ہے۔ اب سنیں آپ نے کیا کیا ہے۔ آپ کے ملک میں پھولوں کی نمائش تھی۔ آپ کے ملک کے صدر کو اس نمائش کا افتتاح کرنا تھا۔ صدر صاحب نے آپ لوگوں کو ساتھ لیا کیونکہ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ انہیں اس نمائش کے دوران ہلاک کر دیا جائے گا، لہٰذا آپ کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے اپنے ملک کے صدر کو پھول کی موت سے بچا لیا لیکن ہم بھی ناکام نہیں رہے۔"
" کیا مطلب؟" انسپکٹر جمشید زور سے چونکے۔
" یہ بات آپ کو میں بتاؤں گا انسپکٹر جمشید۔" اسی وقت ایک آواز ابھری، بغلی دروازہ کھلا اور اندر سے ایک لمبے قد کا آدمی کمرے میں آ گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
4
انہوں نے دیکھا وہ رابل ہی تھا۔ حالانکہ دلدل والی مہم کے بعد وہ اسے اور اس کے دونوں ساتھیوں کو اپنے ملک لے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور وہاں انہیں پہلے شکنجوں میں کسا گیا تھا تا کہ اخلاق اور دوسرے لوگوں کا انتقام لیا جائے۔ پھر انہیں ایک سپیشل جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں یہ اطلاع نہیں ملی تھی کہ وہ جیل سے فرار ہو گئے ہیں۔ لیکن اب رابل کو اپنے سامنے دیکھ کر ان کی جو حالت ہوئی وہ ہونی ہی تھی۔
" مجھے یہاں دیکھ کر حیرت ہو رہی ہے نا؟"
" اب حیرت بے چاری بھی کیا کرے۔ " فاروق نے برا سا منہ بنایا۔
" خوب جی بھر کر حیران ہو لو، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔" رابل ہنسا۔
" آپ ہماری جیل سے کب فرار ہوئے تھے؟"
" ہم تو وہاں زیادہ سے زیادہ ایک دن رہے ہوں گے۔"
" یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہمیں آج تک اس بات کی اطلاع کیوں نہیں ملی؟"
" اس لیے کہ آپ کے ملک کے لوگ بہت آسانی سے خریدے جا سکتے ہیں۔"
" لیکن کوئی جیلر بھی اتنا بڑا جرم نہیں کر سکتا۔ آخر طلب کرنے پر وہ یہ تین قیدی کہاں سے پیش کرے گا؟"
" وہیں سے، جیل میں ہمارے تین ہم شکل اسے بدلے میں دیے گئے تھے، تبھی تو وہ یہ سودا کرنے پر تیار ہوا تھا۔"
" اوہ، اور تین ہم شکل کہاں سے لیے گئے؟"
" ہمارے ملک میں اس قسم کے لوگ بہت مل جاتے ہیں۔ پھانسی کی سزا کے تین مجرموں کو میک اپ میں آپ کے ملک کی اس جیل تک پہنچا دیا گیا اور انہیں ساری بات بتا دی گئ۔ وہ پھانسی سے بچ رہے تھے انہیں اور کیا چاہیے تھا۔"
" یہ بات سن کر حیرت ہوئی۔ خیر آگے چلیے۔ یہ تو معلوم ہو گیاکہ اب آپ تینوں ہمارے ملک کی جیل میں نہیں ہیں۔ اس جیلر سے تو ہم نبٹ ہی لیں گے۔ "
" اگر اس بات کا کوئی امکان ہوتا تو میں یہ بات آپ لوگوں کو ہرگز نہ بتاتا۔"
" کیا مطلب؟"
" میں نے ایک منصوبہ بنایا تھا یہ کہ سیاہ پھول کے ذریعے تمہارے ملک کے صدر کو ہلاک کر دیا جائے۔ ساتھ ہی میں نے یہ طے کر لیا تھا کہ ہو سکتا ہے انسپکٹر جمشید یا انسپکٹر کامران مرزا سیاہ پھول سے اپنے صدر کو بچا لیں۔ اس صورت میں وہ اس ملک ضرور آئیں گے تا کہ یہ جان سکیں کہ ان کے خلاف یہ سازش کس نے کی تھی۔ لہٰذا میں آپ لوگوں کے سامنے ہوں۔ یہ سازش میں نے تیار کی تھی۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ آپ لوگ ہماری نظروں سے بچ کر یہاں آ جائیں۔ اگرچہ آپ لوگوں نے چھپ کر آنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اگر کرتے بھی تو کامیاب نہ ہو پاتے۔ اس لیے کہ سازش کے پیچھے میرا ہاتھ تھا۔ اور یہ بات آپ لوگ مانتے ہیں میں منصوبہ ساز کہلاتا ہوں۔"
" یہ بات تو خیر ہے۔" خان رحمان نے کہا۔
" لہٰذا اس شہر میں آپ ہماری نظروں سے بچ کر کہیں بھی نہیں جا سکتے تھے۔"
" چلیے مان لیا۔ آگے کیا منصوبہ تھا۔ یہ کہ اگر صدر صاحب بچا لیے گئے تو ہم یہاں آئیں گے۔ اس کے بعد؟"
" اس کے بعد ہم اپنے منصوبے کو آخری شکل دیں گے۔ میں آپ کے میک اپ میں آپ کے ملک جاؤں گا، میرے ساتھ پروفیسر داؤد، خان رحمان، محمود، فاروق اور فرزانہ بھی ہوں گے۔
" کیا مطلب؟" وہ ایک ساتھ بولے۔
" آپ لوگ تو ابھی سے اچھل پڑے۔ ابھی تو اچھلنے کی مقامات اور بہت آئیں گے۔ ذرا یہ اچھل کود بچا کر رکھیں۔" اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
ان کے دماغ سائیں سائیں کر رہے تھے۔ وہ رابل کو اس طرح گھور رہے تھے جیسے وہ اس دنیا کی نہیں کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہو۔ آخر رابل کے ہونٹ ہلے:
" اور پھر میں تمہارے ملک کے صدر کو نہایت آسانی سے اس پھول کی موت مار کر آؤں گا۔ اپنے دستانوں والے ہاتھ میں پھول کی ایک پنکھڑی پکڑے جب میں صدر سے ہاتھ ملاؤں گا تو اس کے تیس دن بعد صدر صاحب خاموشی سے موت کی نیند سو جائیں گے اور کسی کو کانوں کان پتا نہیں چلے گا کہ کیا ہوا ہے۔ سب اس کو قدرتی موت خیال کریں گے۔"
" اور ہم ۔ ۔ ہم کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔" خان رحمان نے جھلا کر کہا۔
" آپ یہاں مہمان رہیں گے۔ جب میں اپنا کام کر لوں گا۔ تو انشارجہ اپنی پسند کا صدر آپ کے ملک میں لے آئے گا اور اس وقت ہم ٹام رُوڈ کو آپ لوگوں کے بدلے میں وصول کر لیں گے۔ لہٰذا منصوبہ اس طرح بھی مکمل ہو جائے گا، اگر صدر صاحب ٹام روڈ کے ذریعے پھول کی موت نہیں مر سکے تو کیا ہوا۔"
" اوہ ۔ ۔ تو یہ سب انشارجہ کے اشارے پر ہو رہا ہے۔"
" ہاں، آپ کے ملک کا موجودہ صدر اسلام کا کچھ زیادہ ہی شیدائی ہے۔ وہ ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ انشارجہ بھلا یہ بات کس طرح برداشت کر سکتا ہے۔ وہ تو اسلام دشمن وزیر اعظم یا صدر پسند کرتا ہے۔ لہٰذا آئندہ الیکشن میں اسلام دشمن آدمی آپ کے ملک کا سربراہ بن جائے گا اور میرا منصوبہ کامیاب۔ " اس نے جلدی جلدی کہا۔
ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ پھر وہ تیزی سے اپنے ذہن دوڑانے لگے۔
" اب آپ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہاں سے کس طرح نکل بھاگیں اور اپنے ملک پہنچ جائیں تا کہ ہم اس منصوبے پر عمل نہ کر سکیں۔ لیکن آپ کو معلوم نہیں، یہ ہوٹل اس وقت پوری طرح ملٹری کے گھیرے میں ہے اور آپ کسی صورت بھی فرار نہیں ہو سکتے۔ پھر یہ کہ اگر کسی طرح یہاں سے آپ نکل بھی بھاگیں تو آپ کو ہر قدم پر رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ پہلے ہی ہر امکان پر غور کر لیا گیا۔ ملک سے باہر جانے والا ہر راستہ بند ملے گا۔ اور آپ پرندوں کی طرح پھڑپھڑا کر رہ جائیں گے۔" ان الفاظ کے ساتھ ہی اس نے بلند آواز میں کہا " کمرے میں آ جائیں۔"
دروازہ کھلا اور ملٹری کے کچھ آفیسر اندر آ گئے۔ ان کے ہاتھوں میں جدید طرز کے پستول تھے۔ انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔
" انہیں سپیشل رسی سے باندھ دیا جائے۔ اس لڑکے کے جوتے کی ایڑی میں سے ایک چاقو نکال لیا جائے۔ باقی سامان بھی ان کی جیبوں سے نکال لیا جائے۔ حوالات میں ان کے پاس کوئی چیز بھی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بےکار سے بےکار چیز سے کام چلا لیتے ہیں۔ " اس
نے جلدی جلدی ہدایات دیں اور وہ مسکرا کر رہ گئے۔ گویا رابل کو ان کے بارے میں ہر بات معلوم تھی۔ انہیں رسی سے باندھا جانے لگا۔ اس رسی کو آپ لوگ توڑ نہیں سکیں گے۔ کاٹنے کی کوئی چیز آپ کے پاس آنے نہیںدی جائے گی۔ جب تک میں خود پاس نہیں ہوں گا، کسی ضرورت کے لیے آپ کو نہیں کھولا جائے گا۔"
" کچھ بھی کر لیں مسٹر رابل۔ آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔"
" بہت جلد آپ لوگ دیکھیں گے کہ ہم کس طرح کامیاب ہوتے ہیں۔"
" اچھی بات ہے۔"
ان سب کو اچھی طرح جکڑ دیا گیا۔ اور پھر وہاں سے ایک عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ جلد ہی وہاں رابل اور اس کے ساتھ کچھ اور لوگ پہنچ گئے۔ ان میں دو لڑکے اور ایک لڑکی بھی تھی۔ وہ سمجھ گئے ان پر ان کے میک اپ کیے جانے تھے۔ خان رحمان کی جسامت کا ایک آدمی بھی ان میں تھا اور پروفیسر داؤد کے قدوقامت کا بھی۔ خود رابل تو پہلے ہی انسپکٹر جمشید کے قدوقامت کا تھا۔
" آپ دیکھ رہے ہیں انسپکٹر جمشید ہم نے کتنے مناسب ساتھی تلاش کر لیے ہیں۔"
" لیکن مسٹر رابل! یہ میرے بچوں کی طرح چہکیں گے کس طرح؟"
"پہلے ذرا میک اپ ہو جائے اس کے بعد آپ ان کا چہکنا بھی دیکھیں گے۔" رابل پراسرار انداز میں مسکرایا
" خیر یونہی سہی۔" انسپکٹر جمشید نے کندھے اچکائے۔
اور پھر میک اپ کے چار ماہرین ان لوگوں کے چہروں پر کام کرنے لگے جنہیں وہاں لایا گیا تھا۔ رابل کے چہرے پر انسپکٹر جمشید کا میک اپ کیا گیا۔ اس کام میں کء گھنٹے لگ گئے۔ اور جب کام مکمل ہوا تو وہاں دو انسپکٹر اور پھر میک اپ کے چار ماہرین ان لوگوں کے چہروں پر کام کرنے لگے جنہیں وہاں لایا گیا تھا۔ رابل کے چہرے پر انسپکٹر جمشید کا میک اپ کیا گیا۔ اس کام میں کء گھنٹے لگ گئے۔ اور جب کام مکمل ہوا تو وہاں دو انسپکٹر جمشید، دو خان رحمان، دو پروفیسر داؤد اور تینوں بچے بھی دو دو نظر آ رہے تھے۔ اور ایسے میں اگر کوئی اندر آ جاتا تو حیرت زدہ رہ جاتا اور یہ فیصلہ ہرگز نہ کر پاتا کہ ان میں اصلی کون ہیں اور نقلی کون۔
اور اب ذرا ہم ان لوگوں کو بات چیت کر کے دکھائیں۔" رابل نے انسپکٹر جمشید کی آواز میں کہا۔
" ضرور، کیوں نہیں ابا جان۔" محمود کے میک اپ والا لڑکا بالکل اس کی آواز میں بولا۔ اور وہ دھک سے رہ گئے۔ ان کی آواز میں اور ان کی آواز میں کوئی فرق نہیں تھا۔ پھر انہوں نے آہس میں بات چیت شروع کی تو ان کی حیرت اور بڑھ گئ۔ اس لیے کہ وہ بالکل ان کے انداز میں چہک رہے تھے۔
"مان گئے بھء ۔ ۔ تم لوگوں کو مان گئے۔" انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا۔
" اب کیا خیال ہے ہم کامیاب ہوں گے یا نہیں؟" رابل نےہنس کر کہا۔
" یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے، لیکن آپ لوگون کی کامیابی کے زبردست امکانات ہیں۔ مہربانی فرما کر اپنے پروگرام کو یہیں ختم کر دیں۔ ہمیں ابھی اپنے ملک کے صدر کی بہت ضرورت ہے۔ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔"
" یہی تو رونا ہے۔ اگر وہ اسلام کی جڑیں کاٹنے والا ہوتا تو ہم اس کی طرف دیکھتے تک نہ ۔ بلکہ الٹا اس کی کمر پر تھپکی دیتے، شاباش دیتے۔ لیکن یہ موجودہ صدر ہماری مرضی کے بالکل خلاف ہے لہٰذا اس کا کانٹا تو نکالنا ہی پڑے گا۔"
" اللہ اہنا رحم فرمائے۔"
" اب آپ لوگ اس عمارت میں آرام کریں۔ ہم نے آپ کو عام حوالات میں رکھنے کی بجائے یہاں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے یہ قید خانہ آپ کو زیادہ ناگوار نہیں گزرے گا۔ انہیں اب رسیوں سے آزاد کر دو۔"
رابل اور اس کے ساتھی عمارت سے نکل گئے۔ عمارت کے دروازے بند کر دیے گئے اور اب صرف وہ عمارت می رہ گئے۔ اب وہ رسیوں سے آزاد تھے۔
" یہ تو برا ہوا خان رحمان۔"
" ہم نے سوچا تھا کیا اور ہو گیا کیا۔"
" یہ رابل کا جو ذہن ہے، شیطانی ذہن ہے۔ عجیب و غریب منصوبے اس کے دماغ میں سے نکلتے ہیں۔ ہاتھ پیر کی بجائے یہ عقل سے زیادہ لڑتا ہے۔"
" سوال یہ ہے کہ اب ہم کیا کریں۔ ہمارے پاس تو اب محمود کا چاقو بھی نہیں رہا۔ آخر ہم اس عمارت سے کس طرح نکلیں گے۔ ادھر وہ پہلی فرصت میں ہمارے ملک کی طرف روانہ ہو جائیں گے اور صدر صاحب کے جسم سے سیاہ پھول مس کر دیں گے۔ اس کے تیس دن بعد تک وہ بالکل درست حالت میں زندہ رہیں گے، اس کے بعد اچانک مر جائیں گے اور کوئی ان کی موت کا سبب تک نہیں جان سکے گا۔ لیکن ہمیں اس سے پہلے پہلے کچھ کرنا ہو گا۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ "
" جب تک ہم اس عمارت سے نکل نہیں جاتے اس وقت تک بھلا کیا کر سکتے ہیں۔"
" پہلے اس عمارت کا جائزہ لے لینا چاہیے۔ اسی صورت میں ہم کچھ کر سکتے ہیں۔"
انہوں نے پوری عمارت کا جائزہ لیا۔ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ زینے کا دروازہ بھی چھت کی طرف سے بند تھا۔ محمود کا چاقو اگر ان کے پاس ہوتا تو وہ ضرور کچھ کر گزرتے لیکن اب موت اور زندگی کا سوال پیدا ہو گیا تھا۔
انہوں نے باربار مکان کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ لیکن باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا۔
" اب تو رات کا کھانا لانے والوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔ شاید اس وقت ہمیں کوئی موقع مل سکے۔" انسپکٹر جمشید نے کہا
اور پھر رات ہو گئی اور وہ کھانا لانے والوں کا انتظار کرنے لگے۔
5
پھر دروازے پر آہٹ ہوئی اور کسی نے بلند آواز میں کہا:
" دروازے کے نیچے سے کھانا سرکایا جا رہا ہے اٹھا کر کھا لو۔"
" ان الفاظ کے ساتھ ہی دروازے کے نیچے سے کھانے کی ٹرے اندر آنے لگی۔ انہوں نے ٹرے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اگرچہ انہیں بھوک لگ رہی تھی لیکن وہ ٹرے میں سے کچھ بھی نہیں کھا سکتے تھے۔ ایک گھنٹے بعد پھر دروازے پر آہٹ ہوئی اور اسی شخص نے کہا:
" کھانے کی ٹرے باہر سرکا ۔ ۔ ۔ ارے یہ ٹرے تو بالکل وہیں موجود ہے جہاں تک ہم نے اندر سرکا دی تھی۔" اور پھر ٹرے باہر سرکا لی گئی۔
" کمال ہے اس میں تو کھانا جوں کا توں موجود ہے، کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔"
" حیرت ہے، ان لوگوں نے کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا جب کہ ہمارے خیال میں یہ بہت بھوکے ہیں۔ "
" میں دیکھتا ہوں۔"
اور پھر دروازے پر زور زور سے دستک دی جانے لگی۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔
" کیا ان لوگوں نے خودکشی کر لی؟"
" کیسی باتیں کرتے ہو، بھلا انہیں خودکشی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟"
" اس عمارت میں تو بڑے بڑوں کا دم گھٹنے لگتا ہے۔"
" لیکن ہمیں عمارت کھولنے کا حکم نہیں ہے۔"
" خیر، کل صبح ہم پھر ٹرے اندر سرکائیں گے اور دیکھیں گے وہ ٹرے اندر کھینچتے ہیں یا نہیں۔"
" ہاں، یہ ٹھیک رہے گا۔"
دوسری صبح تک انہوں نے عمارت میں کوئی آواز نہ سنی تاہم انہوں نے ناشتے کی ٹرے اندر سرکا دی اور دروازہ بھی زور زور سے دھڑ دھڑا دیا۔ آواز بھی لگا دی کہ ناشتا کر لیں۔ لیکن اندر کوئی آہٹ سنائی نہ دی۔ نہ ٹرے کھینچی گئ۔ اس بار وہ ٹرے کے پاس سے ہٹ بھی نہ سکے۔
" نہیں بھئ، وہ زندہ نہیں ہیں۔ آخر وہ کیوں اتنی دیر تک بھوکے رہیں گے۔ "
" تاکہ ہم یہ سوچ کر دروازہ کھول دیں کہ یہ لوگ مر چکے ہیں اور اس وقت وہ ہم پر ٹوٹ پڑیں گے۔"
" دماغ تو نہیں چل گیا۔ پورے ایک دن کے بھوکے اور پیاسے بھلا کسی پر کیا ٹوٹ سکیں گے۔"
" بہر حال ہم دروازہ نہیں کھولیں گے۔"
" لیکن ہم سے یہ کب کہا گیا تھا کہ اگر ایسی ویسی کوئی صورتحال پیش آ جائے تو تب بھی دروازہ نہ کھولنا۔" دوسرا بولا۔
" ٹھیک ہے ہم پھر بھی دروازہ نہیں کھولیں گے۔ ہمارا کیا جاتا ہے۔"
" لیکن ان کی تو اندر سڑ جائیں گی لاشیں۔"
" تو سڑ جائیں۔ ہمیں ان کی لاشوں کا اچار تو نہیں ڈالنا۔"
" ہمارے پاس ہتھیار ہیں۔ ان کی موجودگی میں اگر ہم کھول کر دیکھ لیتے تو کیا حرج تھا۔ یہ بھوکے پیاسے لوگ بھلا کیا کر لیں گے۔"
" یہ بھی تو سوچو، اس عمارت میں بہت اہم لوگ رکھے جاتے ہیں۔ جو کسی طرح بھی فرار نہ ہو سکیں۔ ان کے فرار ہو جانے کا خطرہ تھا۔ تبھی مسٹر رابل نے ہمیں اس قدر سخت ہدایات دی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا چاہے کچھ ہو جائے، ہم دروازہ نہ کھولیں۔"
" اچھی بات ہے، نہیں کھولتے دروازہ ۔ ۔ ۔ لیکن ہم کھانے کی ٹرے ضرور رکھتے رہیں گے۔ "
" ہاں! وہ تو ہے۔"
دوپہر کو انہوں نے پھر کھانے کی ٹرے اندر سرکا دی۔ ناشتے کی ٹرے جوں کی توں رکھی ہوئی تھی۔ دوپہر کے کھانے کی ٹرے کو بھی نہ چھوا گیا۔ اب تو نگرانوں کے چہروں پر حیرت اور خوف دوڑ گئے۔
" نہیں بھئی! اب وہ زندہ نہیں ہیں۔"
" ہاں! میرا دل بھی یہی کہنے لگا ہے۔ " اب تک جو دروازہ کھولنے کی مخالفت کرتا رہا تھا، اس نے کہا
" لیکن اندر سے بو نہیں آئی۔" ایک اور بولا۔
" سردی کا موسم ہے، لاشیں دیر سے سڑتی ہیں۔"
"میرا خیال ہے کھول کر دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارے پاس کلاشنکوفیں موجود ہیں۔"
" میں کہتا ہوں ابھی ایک وقت اور دیکھ لیں۔ اگر انہوں نے شام کے کھانے کی ٹرے بھی اندر نہ سرکائی تو پھر کھول لیں گے۔"
" چلو، یونہی سہی۔ اگرچہ یہ وقت گزارنا کافی مشکل کام ہو گا۔"
" اب یہ اتنا زیادہ وقت بھی نہیں ہے۔ تاش کھیل کر گزار دیں گے۔"
جیسے تیسے کر کے انہوں نے شام کا وقت گزارا اور پھر ٹرے اندر سرکا دی، لیکن ٹرے میں حرکت نہ ہوئی۔
" پورے دو دن ہو گئے۔ دو دن تک کوئی کھائے پیے بغیر زندہ رہ سکتا ہے جبکہ کھانا پاس موجود ہو؟ نہیں۔ اور پھر ان میں ایک بوڑھا آدمی اور تین بچے بھی ہیں ۔ بوڑھے اور بچے تو بھوک برداشت نہیں کر سکتے ۔ نوجوان تو چلو پھر برداشت کر لیتے ہیں۔"
" اچھی بات ہے، میں دروازہ کھول رہا ہوں۔ کلاشنکوفیں تیار رکھو۔"
" فکر نہ کرو، اگر انہوں نے ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو ہم فائر کھول دیں گے۔"
" اور مسٹر رابل کو کیا جواب دیں گے۔"
" ان کی موت کا مسٹر رابل کو کوئی افسوس نہیں ہو گا۔ ہاں اگر وہ یہاں سے فرار ہو گئے تو اس صورت میں ان کا غصہ آسمان سے باتیں کرے گا۔ "
" اور یہ فرار کیسے ہو سکیں گے۔ دو دن کے بھوکے اور پیاسے لوگ نہ تو بھاگنے کے قابل ہوتے ہیں نہ لڑنے کے۔"
" اچھا کھولو، باتیں ختم۔"
دروازے کا تالا کھول کر وہ اندر داخل ہوئے۔ وہ کل پانچ تھے۔ ان کے ہاتھ میں کلاشنکوفیں تھیں۔ باقی پہرے دار عمارت کے چاروں طرف تھے۔ انہیں ان باتوں کی کوئی خبر نہ تھی۔ نہ ان لوگوں نے انہیں بتایا تھا کہ وہ دروازہ کھول رہے ہیں باقی لوگ ذرا ہوشیار رہیں۔
"انہیں اندر وہ نظر نہ آئے۔ شاید یہ لوگ کمروں کے اندر ہی پڑے رہ گئے۔ باہر بھی نہیں نکل سکے۔" ایک نے افسوس زدہ انداز میں کہا۔
وہ اور آگے بڑھے اور ایک کمرے میں داخل ہو گئے۔ لیکن یہ بھی خالی تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور کمرہ تھا۔ وہ اس میں داخل ہوئے۔ یہ کمرہ بھی خالی تھا۔
"ہائیں، آخر یہ لوگ کہاں ہیں۔"
" آؤ، باقی جگہیں بھی دیکھ لیں، کہیں وہ کسی راستے سے فرار نہ ہو گئے ہوں۔ اس صورت میں مسٹر رابل ہمارے لیے ایک مصیبت ثابت ہوں گے۔"
" لیکن وہ فرار کس طرف سے ہو سکتے ہیں۔ اس عمارت میں ایسا کوئی خفیہ راستہ ہی نہیں ہے۔"
انہوں نے پوری عمارت کو اچھی طرح دیکھ ڈالا۔ ان کا کہیں پتا نہ چلا۔ اب تو ان کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ وہ باہر کی طرف دوڑے اور چیختے چلاتے باہر نکل آئے۔ ملٹری مین ان کی طرف دوڑے:
" کیا ہوا، کیا بات ہے؟"
" وہ ۔ ۔ وہ عمارت میں نہیں ہیں۔ فرار ہو گئے۔"
"کیا کہا فرار ہو گئے، لیکن نہیں، ہم نے کسی کو جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔" ایک ملٹری آفیسر نے کہا۔
"آپ ان لوگوں کو نہیں جانتے۔ وہ کسی نہ کسی طرح نکل جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اندر وہ نہیں ہیں۔"
" یقین نہیں آ رہا۔"
یہ کہہ کر ملٹری مین بھی اندر گھس گئے۔ انہوں نے بھی چپہ چپہ چھان مارا۔ اور پھر سب نے ادھر ادھر دوڑ لگا دی۔ ملٹری کی جیپیں بے تحاشہ حرکت میں آ گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے میدان صاف ہو گیا۔ وہاں نہ تو وہ پانچ نگران ٹھہرے نہ باہر والے ملٹری مین۔ ایسے میں عمارت میں ایک آواز ابھری:
" میدان صاف ہو گیا۔ اب ہم باہر نکل سکتے ہیں۔"
" لیکن میں کچھ کھاؤں گا۔ اف مالک! اس قدر خوفناک مصیبت میں نے زندگی میں پہلی بار جھیلی ہے۔ کھانے کی ٹرے سامنے رہی اور میں اس میں سے ایک لقمہ نہ لے سکا۔" پروفیسر داؤد نے گھبرا کر کہا۔
" بالکل ٹھیک، پہلے ہم کچھ کھائیں گے۔ ان لوگوں کے اس طرف جلد واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
وہ باورچی خانے میں گھس گئے اور جو ہاتھ لگا کھاتے چلے گئے۔ خوب اچھی طرح پیٹ بھرنے کے بعد انہوں نے باہر کا رخ کیا۔
" یہ لوگ بھی کیا یاد کریں گے۔ چھپنے کی جگہ ہم نے کیا تلاش کی، جہاں ان کا خیال تک نہ جا سکے۔" محمود نے مسکراتے ہوئے کہا۔
" لیکن آتش دان کی چمنی میں ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہونا بھی آسان کام نہیں تھا۔ ہم تو پھر اوپر تھے۔ لیکن ابا جان اور انکل خان رحمان نیچے تھے۔ ذرا سوچو، ان پر کیا بیتی ہو گی۔"
"ہماری فکر نہ کرو، اور پھر ایسا ہمیں صرف پندرہ منٹ کے لیے کرنا پڑا۔ پندرہ منٹ بعد ملٹری مین بھی عمارت کی تلاشی لے کر باہر جا چکے تھے۔"
" خیر، سوال یہ ہے کہ اب ہم کس طرف کا رخ کریں۔ اس وقت تک ہر طرف ہماری تلاش شروع ہو چکی ہو گی۔"
"ہماری فکر نہ کرو، اور پھر ایسا ہمیں صرف پندرہ منٹ کے لیے کرنا پڑا۔ پندرہ منٹ بعد ملٹری مین بھی عمارت کی تلاشی لے کر باہر جا چکے تھے۔"
" خیر، سوال یہ ہے کہ اب ہم کس طرف کا رخ کریں۔ اس وقت تک ہر طرف ہماری تلاش شروع ہو چکی ہو گی۔"
" ہمیں کسی گھر میں پناہ لینا ہو گی۔ کیونکہ اپنے ملک کا رخ کرنے سے ہمارے لیے یہ کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم صدر مملکت کو فون کریں۔ کیا خیال ہے ابھی تک صدر صاحب سے ان لوگوں کی ملاقات تو نہیں ہوئی ہو گی۔"
" اللہ نہ کرے۔" انہوں نے ایک ساتھ کہا۔
رات کا وقت تھا۔ سڑکیں سنسان تھیں۔ کسی وقت کوئی گاڑی سڑک سے گزر جاتی تھی۔ آخر انہوں نے سڑک چھوڑ دی اور ایک گلی میں داخل ہو گئے۔ پھر ایک گھر کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ فورًا ہی کھلا اور ایک نوجوان آدمی نظر آیا۔ اس کی آنکھوں میں سوال لہرائے:
" فرمائیے، آپ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟"
" آپ کے گھر سے ایک فون۔ ۔ ۔ "
" اوہ، کہیں آپ وہ قیدی تو نہیں ہیں جو سپیشل جیل سے بھاگ نکلے ہیں۔"
ان الفاظ کے ساتھ ہی اس نے دروازہ بند کر دینا چاہا لیکن اس سے بھی پہلے انسپکٹر جمشید اپنا جوتا دروازے میں اڑا چکے تھے۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے اسے ایک دھکا دیا اور اندر داخل ہو گئے۔ وہ اندر کی طرف دوڑ پڑا۔
" کیا ہوا رومیو!" اندر سے کسی عورت نے چلا کر کہا۔
لیکن رومیو پر تو انسپکٹر جمشید چھلانگ لگا چکے تھے اور اس کا منہ دبوچ چکے تھے۔
" مسٹر رومیو! اب منہ سے آواز نہ نکالنا ورنہ گلا دبا دوں گا۔"
عین اس وقت ایک کمرے کا دروازہ کھلا اور پھر ایک عورت کی چیخ لہرائی۔ وہ جھوم کر گرنے لگی۔لیکن خان رحمان نے آگے بڑھ کر اسے گرنے سے بچا لیا۔
"آپ لوگوں کو گھبرانے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں، ہم یہاں سے صرف ایک فون کریں گے، آپ لوگوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگ بھی کوئی غلط حرکت نہیں کریں گے۔"
" تو آپ وہی ہیں جو سپیشل جیل سے بھاگے ہیں۔"
" ہاں! ہم وہی ہیں۔"
" تب تو آپ بہت خطرناک لوگ ہیں، اس جیل سے نکل آنا عام مجرموں کا کام نہیں ہے۔"
" ہم مجرم نہیں ہیں، ہمیں مجرم بنا دیا گیا ہے۔ان بچوں کی چہروں کی طرف دیکھیں، کیا یہ آپ کو مجرم نظر آتے ہیں؟" انہوں نے محمود، فاروق اور فرزانہ کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے فورًا ان کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیئے۔
" اور ہم لوگ، ذرا اِن کی طرف دیکھیے، ان کی عمر دیکھیے، ان کا چہرا دیکھیئے، کیا یہ آپ کو مجرم نظر آتے ہیں۔" انہوں نے پروفیسر داؤد کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلایا۔
" یار جمشید، تم نے میری طرف اشارہ نہیں کیا۔ کیا میں تمہیں مجرم نظر آتا ہوں؟۔ خان رحمان نے شکایت بھرے انداز میں کہا۔
" نن ۔ ۔ ۔ نہیں تو ۔ ۔ ۔ بالکل نہیں۔ تم تو ہم سے بھی زیادہ شریف نظر آتے ہو۔" وہ مسکرائے۔
" خیر، آپ لوگ فون کر لیں۔ ہم کوئی غلط حرکت نہیں کریں گے۔ لیکن یہاں کی حکومت کو یہ پتا نہیں چلنا چاہیئے کہ آپ لوگوں نے ہمارے ہاں سے فون کیا تھا۔"
" کم از کم ہمارے ذریعے سے انہیں یہ بات ہر گز معلوم نہیں ہو گی۔"
" کیا مطلب، کیا آپ کے خیال میں ہمارے ذریعے سے معلوم ہو جائے گی انہیں یہ بات۔"
" نہیں، ہو سکتا ہے وہ اپنے ذرائع سے معلوم کر لیں۔ لیکن آپ لوگ فکر نہ کریں۔ ہم ایسا انتظام کر کے جائیں گے کہ آپ پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔"
" وہ کیسے؟"
" پہلے ہم فون کر لیں کیونکہ سب سے زیادہ ضروری کام یہ ہے۔"
" اچھی بات ہے۔"
اور انسپکٹر جمشید فون پر جم گئے۔ پندرہ منٹ کی مسلسل کوشش کے بعد کہیں جا کر صدر صاحب کی آواز سنائی دی:
"جمشید! یہ تم ہو؟" ان کے لہجے میں زمانے بھر کی حیرت تھی۔
" یس سر!" انہوں نے فورًا کہا۔
" تب پھر وہ کون لوگ ہیں جو آج مجھ سے ملنےکے لیے آئے تھے۔"
" کیا ۔۔۔ کیا وہ لوگ آپ سے ملاقات کر چکے ہیں سر؟" انسپکٹر جمشید نے کانپ کر کہا۔
" ہاں کر چکے ہیں۔"
" نن ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔"
" کیا نہیں ہو سکتا؟"
" یہ کہ انہوں نے آپ سے ملاقات کر لی ہو۔ کیا آپ جان نہیں سکے کہ وہ نقلی ہیں۔"
" مجھے شبہ ہو گیا تھا جمشید۔ لیکن میں نے ان پر ظاہر نہیں کیا۔"
" اس بات کو چھوڑیں۔ انہیں آپ کو شبہ ہو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسٹر رابل کو تو بس آپ سے ہاتھ ملانا تھا۔"
" اور کیا تمہارے خیال میں میں نے اس سے ہاتھ ملا لیا ہو گا۔" صدر صاحب ہنسے۔
" ہائیں! تو کیا آپ نے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔" انسپکٹر جمشید چہکے۔
" نہیں۔"
" تو پھر؟" وہ جلدی سے بولے۔
" پھر یہ کہ پہلے اس نے فون پر بات کی تھی۔ لیکن تم مجھ سے خاص انداز میں بات کرتے ہو، اس لیے میں فورًا سمجھ گیا کہ کوئی شخص تمہاری آواز میں بات کر رہا ہے۔ لہٰذا میں چوکس ہو گیا۔ وہ فورًا ملاقات کے لیے بےچین تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ دلیریانہ سے لوٹ آئے ہیں اور اس سازش کا سراغ لگا لائے ہیں جو میرے خلاف کی گئی تھی۔ خیر میں نے انہیں ملاقات کی اجازت دے دی۔ ایسے میں مجھے سیاہ پھول کا خیال آیا۔ میں نے فورًا دستانے منگوا کر پہن لیے۔"
" بہت خوب، آپ تو پورے جاسوس ہوتے جا رہے ہیں سر۔"
" پورا نہیں، آدھا۔ پورے تو تم ہو۔ یہ باتیں میں نے تمہی سے سیکھی ہیں۔"
" خیر، پھر کیا ہوا؟"
" ہونا کیا تھا۔ انہوں نے ملاقات کی۔ وہ سب تم سب کے انداز میں بات کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ان کا پول تو پہلے فون پر ہی کھل گیا تھا۔ لہٰذا میں ان کے چکر میں آنے والا کہاں تھا۔ بس ان کی باتیں سن کر ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں رخصت کر دیا۔ لیکن میں نے رابل کے چہرے پر مایوسی صاف دیکھ لی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔"
" تو آپ نے یہ بات جان لی تھی کہ وہ رابل ہے۔" انسپکٹر جمشید نے کہا۔
" نہیں بھئی، یہ تو تم نے اب بتایا ہے۔" وہ بولے۔
" اس وقت وہ کہاں ہیں؟"
" تمہارے گھر۔"
" اوہ! تب تو بیگم ان کی اچھی خاصی خاطر تواضع کر رہی ہوں گی۔"
" ہاں وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے وہاں گئے ہیں۔ اور تمہارا گھر اس وقت ملٹری کے پہرے میں ہے۔"
" بہت خوب، جو ہم چاہتے تھے وہ ہو گیا۔ آپ بال بال بچ گئے۔ اچھا ہی ہوا میں نے آپ کو سیاہ پھول کی کہانی سنا دی تھی۔ اب آپ انہیں فورًا گرفتار کرا لیں اور ان کی جگہ ہماری واپسی کا مطالبہ دلیریانہ سے کریں۔ ادھر میں یہاں کی حکومت سے رابطہ کرتا ہوں۔ لیکن نہیں، کچا کام نہیں کرنا چاہیئے۔ پہلے آپ انہیں گرفتار کرکے مجھے ان نمبروں پر فون کریں۔" یہ کہہ کر انہوں نے اس فون کے نمبر صدر کو نوٹ کرا دیئے۔
" میں ابھی چند منٹ بعد فون کرتا ہوں۔"
وہ انتظار کرتے رہے، آخر فون کی گھنٹی بجی، صدر صاحب کی آواز سنائی دی:
ہاں جمشید! ان لوگوں کو پوری طرح قابو میں کر لیا گیا ہے اور یہ کام ہم سے پہلے بھابھی صاحبہ کر چکی تھیں۔" یہ کہنے کے ساتھ وہ ہنسے بھی۔
" کیا مطلب، انہوں نے کیا کیا سر؟"
یہ کہ پہلے تو ان کی آمد پر بے پناہ خوشی کا اظہار کیا پھر ان کے لیے کھانا تیار کرنے چلی گئیں۔ صرف چند منٹ بعد مزےدار ترین کھانے ان کے سامنے لا رکھے۔ ان کھانوں کو کھا کر وہ مکمل بے ہوش ہو گئے۔ ابھی وہ ہمیں فون کرنے ہی جا رہی تھیں کہ ملٹری مینوں نے دروازے کی گھنٹی بجا دی اور انہوں نے انہیں ان کے حوالے کر دیا۔"
" بہت خوب! مزا آ گیا۔ بیگم ہو تو ایسی۔ میرا خیال ہے آئندہ زندگی میں رابل ایسا منصوبہ نہیں بنائے گا۔"
" ہاں! بالکل۔" صدر صاحب ہنسے۔
" اب میں یہاں کی حکومت سے بات کرتا ہوں۔ آپ بھی ان سے بات کریں۔ یہ فورًا تبادلے پر تیار ہو جائیں گے۔"
" ان شاء اللہ۔"
اب انسپکٹر جمشید گھر کے افراد کی طرف متوجہ ہوئے:
" اب یہاں پولیس آئے گی۔ ہم خود کو پولیس کے حوالے کر رہے ہیں۔ لہٰذا آپ خود کو بندھوا لیں۔ اس طرح آپ پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔"
" یہ ۔۔۔۔ یہ ٹھیک رہے گا۔"
" اور اس سے پہلے کہ ہم آپ کو باندھیں، یہ رقم وصول کر لیں۔" انسپکٹر جمشید نے جیب سے چند کرنسی نوٹ نکال کر ان کی طرف بڑھا دیئے۔ کرنسی نوٹ ان کی خفیہ جیب میں موجود تھے۔
" یہ ۔۔۔۔ یہ کیا ہے؟"
" یہ ۔۔۔۔ ہم نے جو یہاں سے فون کیا ہے اس کا خرچ۔" وہ بولے
" نہیں، نہیں اس کی ضرورت نہیں۔" نوجوان نے کہا۔
ویسے وہ حد درجے حیران نظر آ رہے تھے۔ شاید ایسے لوگ انہوں نے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔
" یہ تو آپ کو لینے پڑیں گے۔ ہماری وجہ سے آپ پر بوجھ کیوں پڑے۔"
اور اسے نوٹ لینا پڑے۔ پھر انہوں نے ان لوگوں کو نرمی سے باندھ دیا۔ اور اس کے بعد نزدیکی پولیس سٹیشن کو فون کیا۔ پولیس فورًا وہاں پہنچ گئی۔ دستک دی گئی تو انسپکٹر جمشید نے دروازہ کھول دیا۔
''آپ۔۔۔۔۔۔ آپ لوگ وہ ہیں جو سپیشل جیل سے بھاگے ہیں۔؟'' پولیس آفیسر نے کانپ کر کہا
''ہاں! ہم وہی ہیں اور اب خود کو پولیس کے حوالے کر رہے ہیں۔''
''آخر کیوں، اگر خود کو پولیس کے حوالے کرنا تھا توفرار ہونے کی کیا ضرورت تھی؟''
''وہاں سے نکلے صرف اس لیے تھے کہ اپنے ملک کے صدر کو فون کرنا تھا۔جو ہم نے یہاں سے کر لیا ہے۔لہٰذا اب بھاگنے دوڑنے کی کیا ضرورت؟ اب تو آپ لوگ ہمیں خود حفاظت سے ہمارے ملک پہنچائیں گے۔''
'' کیا مطلب، وہ کیسے؟ '' پولیس آفیسرنے چونک کر کہا۔
''وہ ایسے کہ مسٹر رابل اور ان کے ساتھی اب ہمارے ملک کی قید میں ہیں۔''
''پتا نہیں، آپ کیا کہہ رہے ہیں۔''
''شاید آپ کو ان تمام معاملات کے بارے میں کچھ پتا نہیں، خیر ہماری گرفتاری کی صورت میں آپ کو کیا کرنے کی ہدایات ہیں؟''
'' آپ لوگوں کو فورًا ہیڈکوارٹر پہنچانے کا حکم ہے۔''
''بس تو پھر آپ ہمیں وہیں پہنچا دیں۔ اور ہاں، ان لوگوں کو کھول دیں۔ ہم نے ان بےچاروں کو بلاوجہ پریشان کیا۔'' انہوں نے گھر کے افراد کی طرف اشارہ کیا۔پولیس نے انہیںکھول دیا اور ان لوگوں کو لے کر وہاں سے نکلی۔ اس وقت انہوں نے گھر کے افراد پر ایک نظر ڈالی۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ وہ بھی دبے انداز میں مسکرا دیے۔یہ گویا ان کے شکریے کا جواب تھا۔انہیں ہیڈکوارٹر پہنچا دیا گیا۔ بڑے بڑے افسر ان کے گرد جمع ہو گئے اور سوالات کی بھرمار کر دی۔ تنگ آ کر انسپکٹر جمشید ہاتھ اٹھا کر بولے:
''میری بات سن لیں، بات صاف ہو جائے گی۔ آپ کو کوئی الجھن نہیں رہے گی۔''
''اچھا بتائیں۔''
انہوں نے تفصیل سنا دی اور آخر میں بولے:
''ہم جتنے ہی آدمی قریبًاآپ کے ہمارے ملک کی قید میں ہیں۔ لہٰذا ہمارا آپس میں تبادلہ کرا لیں۔ یہی آپ لوگوں کے حق میں بہتر رہے گا۔اور اگر آپ یہ منظور نہیں کریں گے تو فرار ہم یہاں سے پھر بھی ہو جائیں گے۔ اس صورت میں رابل اور اس کے ساتھی ہمیں مفت میں بچیں گے۔ کیا سمجھے؟''
'' ہم اوپر والے حکام سے بات کرتے ہیں۔یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیںہے ۔'' ایک آفیسر نے کہا۔
''ضرور، کیوں نہیں۔'' انہوں نے کہا۔
اورپھرکچھ دیر بعد انہیں اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کیا گیا۔ ایک آفیسر نے ان سے کہا:
''ہمارے خیال کے مطابق یہ اطلاع غلط ہے کہ رابل اور اس کے ساتھی تمہارے ملک میں پکڑے جا چکے ہیں۔وہ بہت جلد یہاں آنے والے ہیں۔''
'' بہت جلد میری بات کی تصدیق ہونے والی ہے۔'' انہوں نے کہا۔
''اگر ایسا ہے تو ہم پہلے رابل سے بات کریں گے۔جب وہ تمہاری بات کی تصدیق کر دیں گے اس وقت ہم تمہاری حکومت سے بات کر سکیں گے۔''
''ہماری حکومت کا بہت جلد فون آنے والا ہے۔''
'' ہم انتظار کر رہے ہیں۔''
آخر فون کی گھنٹی بجی۔ آفیسر فون پر بات کرنے لگا پھر اس نے کہا:
'' ٹھیک ہے اگرایسا ہے تو یہ لوگ پہلے ہمارا اطمینان کرائیں گے اور اس کی صورت صرف یہ ہے کہ رابل ہم سے فون پر بات کرے۔''
کچھ دیر تک فون پر بات چیت ہوتی رہی۔ پھر انہیں ایک جہاز پر سوار کرا لیاگیا۔جہاز ان کے ملک کے ایئر پورٹ پر اترا اور صدرِ مملکت نے ان کا استقبال کیا:
''کیا آپ رابل اور اس کے ساتھیوں کو بھیج چکے ہیں؟'' انسپکٹر جمشید نے پوچھا۔
''ہاں! معاہدہ یہی طے ہوا تھا ۔ اِدھر سے ہم بھیجیں، اُدھر سے وہ۔''
'' او ر اس بات کی کیا ضمانت لی گئی کہ وہ دھوکا نہیں کریں گے۔''
''درمیان میں ایک بڑے ملک کو جو دونوں کا دوست ہے ضامن بنایا گیا۔''
'' بہت خوب۔ تب تو ٹھیک ہے۔''
''اس کا مطلب ہے سیاہ پھول والا کیس یہاں ختم ہو گیا۔'' خان رحمان بولے
''نہیں، ابھی کیس باقی ہے۔''
'' اب اس میں باقی رہنے والی کیا بات ہے؟'' خان رحمان نے پوچھا۔
''اصل مجرم۔''انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
'' اصل مجرم، کیا مطلب؟''
'' ہاں! اس کیس کا اصل مجرم ابھی آزاد ہے۔ ہمیں اسے گرفتار کرنا ہے۔'' وہ بولے۔
'' لیکن جمشید، اس کیس کا اصل مجرم تو انشارجہ ہے۔ اور تم اتنے بڑے ملک کو گرفتار کرنے سے تو رہے۔''صدر صاحب نے حیران لو کر کہا۔
''آپ سمجھے نہیں۔''
'' تو سمجھا دیں نا۔''صدر صاحب مسکرائے۔
'' بات دراصل یہ ہے کہ انشارجہ نے یہ کام کسی مقامی آدمی کے اشارے پر کیا ہے۔ جب تک یہ لوگ کسی مقامی آدمی کو ساتھ نہیں ملاتے اس قسم کے بڑے منصوبوں پر ہرگز عمل نہیں کرتے۔'' انسپکٹر جمشید نے جلدی جلدی کہا۔
''اوہ! ُ'' ان کے منہ سے نکلا۔
''آپ نے رابل کے ساتھ ٹام رُوڈ کو تو نہیں اُدھر بھیج دیا؟''
''ٹام رُوڈ کا نام تو انہوں نے پہلے رکھا تھا۔ اس کے بغیر تو وہ معاہدہ کرنے کے لیے تیارتیار ہی نہیں تھے۔'' صدر صاحب بولے۔
'' مطلب یہ کہ انہوں نے کہا تھا کہ باقی لوگوں کے ساتھ ٹام رُوڈ کو بھی ادھر بھیجنا پڑے گا۔''
'' ہاں! یہی بات ہے۔''
'' ٹھیک ہے ۔ میں دیکھ لوں گا۔''
'' لیکن تم کیا دیکھ لو گے جمشید،معلوم تو ہو؟''
'' یہی کہ اس سازش کے پیچھے کس مقامی آدمی کاہاتھ ہے۔'' انہوں نے پراسرار انداز میں کہا۔
6
انسپکٹر جمشید کی کار ایک بڑی کوٹھی کے سامنے رکی۔محمود نے نیچے اتر کر دستک دی۔ایک ادھیڑعمر آدمی نے دروازہ کھولا:
'' جی فرمائیے۔''
''ہمیں خان آفریدی صاحب سے ملنا ہے۔''
''آپ اپنا نام بتائیں گے یا کارڈ ہے آپ کے پاس؟''
''کارڈ لے جائیں۔'' انہوں نے اپنا کارڈ نکال کر دے دیا۔ملازم اندر چلا گیا۔ لیکن پہلے اس نے انہیں ایک چھوٹے سے کمر ے میں بٹھایا تھا۔ اس کمرے کے دروازے پر انتظار گاہ لکھا تھا۔آخر ملازم واپس آیا اور بولا:
''چلیے صاحب۔''
اب وہ انہیں ڈرائنگ روم میںبٹھا کر چلا گیا۔جلد ہی قدموں کی آہٹ ابھری اور ایک لمبے قد کا آدمی اندر داخل ہوا:
''انسپکٹر جمشیدصاحب، آپ کو مجھ سے کیا کام آ پڑا؟'' ان کے لہجے میں حیرت تھی۔
''تشریف رکھیے خان صاحب۔ پھولوں کی نمائش کے سلسلے میں کچھ باتیں کرنا چاہتاہوں۔''
'' اس سلسلے میں کیا کوئی گڑ بڑہے؟''
'' گڑبڑ کے بارے میں تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔''
''آپ کا اشارہ سیاہ پھول کی طرف ہے؟''
''ہاں جناب!''
''لیکن اس معاملے سے میرا کوئی تعلق نہیں۔'' وہ فورًا بولے۔
'' دیکھیے جناب۔ میں نے آپ پر یہ الزام نہیں لگایا۔ آپ اس نمائش کے انچارج تو ہیں نا؟''
'' ہاں، بالکل ہوں۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں۔''
'' میں جانتا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں۔ میں تو آپ سے چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ ان کے جوابات دے دیں تو شکرگزار ہوں گا۔''
''اچھا، پوچھیے۔''
'' پہلی بات۔ہمارے ملک میں بین الاقوامی سطح پر پھولوں کی نمائش کایہ پہلا موقع تھا۔ اس سے پہلے کبھی ایسی نمائش نہیں ہوئی۔ ملکی سطح پر ضرورہر سال پھولوں کی نمائش ہوتی ہے لیکن پوری دنیا کے ملکوں کے پھولوںکی نمائش کا یہ پہلا موقع تھا۔ یہ تجویز کس کی تھی؟ بس مجھے تو آپ اتنا بتا دیں۔''
''انشارجہ کی۔'' انہوں نے فورًا کہا۔
''میں ملکی سطح پر پوچھ رہا ہوں۔ہمارے ملک میںیہ تجویز کس کی تھی۔انشارجہ کو یہ حق نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں بین الاقوامی کوئی نمائش طے کرے۔''
''یہ تجویز میری تھی۔'' آخرکار انہوں نے کہا۔
''اوہ۔'' ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
'' دیکھیے جناب، آپ غلط مطلب نہ لیں۔ سیاہ پھول والے معاملے سے میرا ہرگز کوئی تعلق نہیں ہے۔''
'' میں یہ کہہ ہی نہیں رہا۔ آپ خود باربار یہ بات کہہ رہے ہیں۔''
'' اس لیے کہ میں یہ بات جانتا ہوں آپ کی تفتیش اسی سمت میں جار ہی ہے۔''
''آپ کو کیا معلوم کہ میری تفتیش کس سمت میںجارہی ہے۔یہ کام میرا ہے آپ کا نہیں۔ چلیے ہمیں یہ کام کی بات آپ نے بتا دی کہ یہ تجویز آپ کی تھی۔آپ نے سب سے پہلے کس کے سامنے یہ تجویز رکھی؟''
'' ظاہر ہے وزیرِ خارجہ صاحب کے سامنے ہی رکھ سکتا تھا۔باقی ملکوں سے تو وہی بات کر سکتے تھے نا۔''
'' شکریہ ، اب ہم اجازت چاہیں گے۔''
''اچھی بات ہے۔'' انہوں نے فکر مندانہ انداز میںکہا۔
اور پھر وہ باہرنکل آئے۔
''ابا جان! کیا آپ کے خیال میں ہمارے ملک کا کوئی آدمی صدر صاحب کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا؟'' محمود نے بے چین ہو کر کہا۔
''ہاں!'' انہوں نے مختصر جواب دیا۔
''اور وہ آدمی خان آفریدی ہیں؟''
''ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔''
'' اب ان کی کاروزیرِ خارجہ کے دفتر کے سامنے رکی۔جلد ہی وہ ان کے سامنے بیٹھے تھے۔وزیرِ خارجہ کے چہرے پر ناگواری صاف نظر آرہی تھی۔ گویا ان کی آمد انہیں اچھی نہیں لگی تھی۔ آخر انہوں نے منہ بنا کر کہا:
'' مسٹر انسپکٹر! آپ صدر صاحب کے منہ چڑھے ہوئے ہوں گے۔ میں آپ کے دباؤ میں آنے والا نہیں۔ آئندہ آپ پہلے سے وقت لے کر ملاقات کیجیے گا۔میں اس طرح ملاقات کرنے کا عادی نہیں ہوں جس طرح آپ لوگ صدر صاحب سے ملاقات کر لیتے ہیں۔انہوں نے تو اپنے آپ کو آپ کے ہاتھ میں کھلونا بنا رکھا ہے۔''
''شکریہ! میں آئندہ اس بات کا خاص خیال رکھوں گا اور اگر کوئی فوری ضرورت پیش نہ آ گئی تو پہلے سے وقت لے کر ہی ملاقات کروں گا۔'' انہوں نے پرسکون آواز میں کہا۔
'' کیا مطلب؟ اگر آپ کو کوئی فوری ضرورت پیش آ گئی توگویا آپ پھر وقت لیے بغیر ملاقات کے لیے آ جائیں گے۔''
'' جی ہاں! وہ تو مجبوری ہو گی۔''
'' لیکن میں ملاقات سے انکار کر دوں گا۔''
'''یہ اُس وقت دیکھا جائے گا۔ اِس وقت تو آپ ہمیں ملاقات کا وقت دے چکے ہیں۔''
''اچھی بات ہے ۔۔۔۔۔۔ کہیے ۔۔۔۔۔۔کیا بات ہے؟''
''پھولوں کی نمائش کے سلسلے میں چند باتیں۔ یہ تجویز خان آفریدی کی تھی۔ ا ن کی تجویز پر آپ نے دوسرے ملکوں سے بات طے کی؟''
'' ہاں! ٹھیک ہے۔''
'' کیا آپ نے صدر صاحب سے مشور ہ کیا تھا؟''
'' نہیں ، میں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔''
'' اور جب افتتاح کا پروگرام ترتیب دیا گیا تو کیا اس وقت صدر صاحب سے بات کی گئی ؟''
'' نہیں، سارا پروگرام طے کرنے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ انہیں پھولوں کی نمائش کا افتتاح کرنا ہے۔''
'' اور انہوں نے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ ان سے پوچھے بغیرایک پروگرام کس طرح ترتیب دے دیا گیا؟''
'' ہاں! انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔''
'' بہت خوب! سیاہ پھول والی سازش انشارجہ کی ہے لیکن ہمارے خیال میں اس سلسلے میں کوئی مقامی آدمی بھی شامل ہے۔ آپ کے خیال میں وہ کون ہو سکتا ہے؟''
'' کوئی بھی نہیں۔ میرے خیال میں تو اس سازش میں ملکی آدمی کا ہاتھ ہے ہی نہیں۔''
''اگر نہیں ہے تو پھر اس بات کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا کہ کوئی زہریلا پودا اس نمائش میں نہ آنے پائے؟'' انسپکٹر جمشید نے ڈرامائی انداز میںکہا۔
'' کیا مطلب؟'' وزیرِ خارجہ زور سے چونکے۔
' ' یہ بات پوری دنیا کے نباتات کے ماہر جانتے ہیں کہ بعض ملکوں میں اس قدر زہریلے پودے اور پھول پائے جاتے ہیں کہ ان سے جسم مس کر جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے اور بعض کے نزدیک جانے سے ان کی بُو سے ہی آدمی بے ہوش ہو جاتا ہے یا مر جاتا ہے۔ لہٰذا اس قدر بڑی نمائش میں آنے والے پودوں کو اس لحاظ سے چیک کرنا یا کم از کم معلومات لیناکیوں ضروری خیال نہ کیا گیا؟''
''شاید اس لیے کہ یہ ہمارے لیے پہلا موقع تھا اور ہمیں اس بات کا خیال نہیں آیا ۔''
''لیکن نباتات کے ماہرین نے تو اس طرف ضرور توجہ دلائی ہو گی۔''
''نہیں ، ایسا نہیں ہوا تھا۔''
''شکریہ، آؤ بھئی چلیں۔ '' انہوں نے خشک لہجے میں کہا۔
وزیرِ خارجہ انہیں گھور کر رہ گئے۔اب ان کی کار ملک کے سب سے بڑے ماہرِ نباتات کی کوٹھی کے سامنے رکی۔ ان کا نام پروفیسر اربان تھا۔ انہوں نے گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔
''پھولوں کی نمائش کے بارے میں آپ کو پہلے سے پتا چل گیا تھا۔ یہ بات ٹھیک ہے نا؟''
''ہاں ! بالکل۔''
''پھر آپ نے حکومت کی توجہ اس طرف کیوں نہ دلائی کہ کچھ پودے انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔لہٰذا اس سلسلے میں پہلے چیکنگ کی جائے یا کم از کم دوسرے ملکوں سے آنے والے نمائندوں سے اس بات کی گارنٹی لی جائے کہ ان کے ملک کا کوئی پودا خطرناک تو نہیں ہے۔''
'' میں نے اپنا یہ فرض پورا کیا تھا۔'' پروفیسر اربان بولے۔
''کیا مطلب؟''
'' میں نے وزیرِ خارجہ صاحب کی توجہ اس طرف دلائی تھی۔'' پروفیسر اربان نے کہا۔
''لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی توجہ اس طرف نہیں دلائی گئی۔''
''کیا وہ یہ بات کہتے ہیں؟'' پروفیسر اربان دھک سے رہ گئے۔
'' ہاں جناب! آپ نے انہیں یہ بات کس طرح بتائی تھی؟''
''فون پر۔''
''یہ آپ کی غلطی تھی۔'' انہوں نے برا سا منہ بنایا۔
''کیا مطلب؟'' وہ چونکے۔
''مطلب یہ کہ آپ کو انہیں تحریری طور پر اطلاع دینا چاہیے تھی۔''
''اب مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ اس بات سے انکار کر دیں گے۔''
''تب تو معاملہ صاف ہو گیا۔''
''کیا مطلب؟'' وہ چونکے۔
''اس معاملے میں وزیرِخارجہ کا ہاتھ ہے۔''
''یہ۔۔۔۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟'' وہ گھبرا گئے۔
''کیوں، ہو کیوں نہیں سکتا۔ اس دنیا میں کیا نہیں ہو سکتا۔یہ تو وزیرِ خارجہ ہیں۔ بعض ملکوں کے تو صدراور وزیرِ اعظم تک اپنے ملک سے غداری کر بیٹھتے ہیں۔''
''نن۔۔۔۔۔۔نہیں ۔ یہ بات میرے حلق سے نہیں اتر رہی۔''
'' اس لیے کہ یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ اچھا شکریہ''
وہ ایک بار پھر وزیرِ خارجہ کے پاس پہنچے۔ انہوں نے انہیں الجھن کے عالم میں دیکھا۔
''اب کیا ہے انسپکٹر جمشید۔ میرے خیال میں تو یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ اب اس کیس کے اصل مجرم رابل وغیرہ تھے۔وہ تو آپ لوگوں کی وجہ سے قید میںنہیں رکھے جا سکے۔ اب آپ اپنے ملک میں مجرم تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔''
''ہم نے ضرورت محسوس کی تو رابل وغیرہ کو بھی پکڑ لائیں گے۔آپ فکر نہ کریں۔''
''خیر ، اب مجھ سے کیا کام ہے؟''
''آپ کو فون پر پروفیسر اربان نے یہ کہا تھا کہ پودوں کی چیکنگ کرا لی جائے۔''
''نہیں تو۔ انہوں نے تو مجھے یہ بات ہرگز نہیں بتائی تھی۔'' وہ فورًا بولے۔
اور وہ دھک سے رہ گئے
7
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب۔پروفیسر اربان کا کہنا ہے کہ آپ کی توجہ انہوں نے بعض پودوں کے انتہائی زہریلے ہونے کی طرف دلائی تھی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کی کوئی بات انہوں نے نہیں کہی۔''
''ہاں! یہی بات ہے۔ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہوتی تو میں ضرور پودے انہی سے چیک کراتا۔''
''اچھا جناب! شکریہ۔'' انسپکٹر جمشید اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ باقی لوگوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
''آپ کے لیے میرا ایک مشورہ ہے انسپکٹر جمشید۔''
''جی فرمائیے۔''
''آپ اس معاملے کو یہیں ختم کر دیں ۔ ہمارے ملک کے صدر اس پھول کے زہر سے بال بال بچ گئے ۔ کیا یہ ہمارے لیے یہی کافی نہیں؟''
''لیکن دشمن پھر کوشش کرے گا۔میں تو اس کی آئندہ کوشش کے خاتمے کے لیے کام کر رہا ہوں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ خود جیل میں ہو۔باہر رہ کر تو طاقتور ہوگا اور کسی وقت بھی کوئی اور سازش کر سکتا ہے۔''
''اچھی بات ہے۔جیسے آپ کی مرضی۔میں نے آپ کو خبردار کر دیا ہے۔''
''خبردار کر دیا ہے ،کیا مطلب؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر میں نے اس معاملے کو ختم نہ کیا تو میں نقصان اٹھاؤں گا۔''
''نقصان تو چھوٹی سی چیز کو کہتے ہیں۔آپ لوگ تو اپنی جانوں سے جا سکتے ہیں۔''
'' اوہ۔۔۔۔۔۔اچھا۔ آپ نے اچھا کیا کہ ہمیں بتا دیا۔آخر کو جانیں تو سب کو پیاری ہیں۔''
''ہاں! بالکل ۔ اور خاموشی اختیار کرکے آپ مجھ سے بے تحاشہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔کئی بڑے پلاٹ میں آپ کو دے سکتا ہوں۔اس قسم کے اور بے تحاشہ فائدے میں آپ کو پہنچا سکتا ہوں۔''
''بہت بہت شکریہ۔ میں اس خوبصورت پیشکش پر خوب غور کروں گا۔ویسے آپ نے یہ کب سے جان لیا کہ ہم لوگ بھی اس قسم کے کام کر سکتے ہیں۔'' وہ مسکرا کر بولے۔
''اس دنیا میں ہر آدمی کی ایک قیمت ہے۔ جب اس کی وہ قیمت لگتی ہے تو وہ خود کو بیچ دیتا ہے۔''
''بہت خوب سر! کیا اس تعریف میں آپ بھی شامل ہیں؟'' انسپکٹر جمشید نے سرد آواز میں پوچھا۔
''انسپکٹر جمشید ! میں بد تمیزی برداشت نہیں کرتا۔''
''آپ نے خود یہ الفاظ بیان فرمائے ہیں کہ اس دنیا کے ہر آدمی کی ایک قیمت ہے۔ ہر آدمی میں تو آخر آپ بھی آ جاتے ہیں۔''
''ہاں! بالکل آ جاتا ہوں۔ تم سے جو ہو سکتا ہے کر گزرو۔اور دیکھو ، میں نے دوسری بار تمہیں وقت لیے بغیر ملاقات کاموقع دے دیا۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔''
''وقت لے کرملاقات کرنے کاعادی توخیر میں بھی نہیں ہوں۔ اگر تیسری ملاقات کی ضرورت پیش آئی تو بھی ہم اسی طرح آئیں گے اور ملاقات کر لیںگے۔''
''ناممکن۔'' وہ بولے۔
''اب ہم چلتے ہیں۔''
وہ وہاں سے نکل کر سیدھے صدر صاحب کے پاس پہنچے اور یہ سنسنی خیز خبر انہیںسنائی۔صدر صاحب سکتے میں آ گئے۔ پھر بولے:
''اس کا مطلب ہے اس سازش میں وزیرِ خارجہ کا ہاتھ ہے۔''
''ہاں جناب!''
''دل نہیں مان رہا۔''
''تب پھر پروفیسر اربان جھوٹ بول رہے ہوں گے۔''
''انہیں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔''صدر صاحب الجھن کے عالم میں بولے۔
''اگر وہ سچ بول رہے ہیں تو پھر وزیرِخارجہ سازش میں شریک ہیں۔''
''ایک منٹ۔'' یہ کہہ کر انہوں نے ٹیلی فون آپریٹر کوپروفیسر اربان کے نمبر ملانے کی ہدایت کی۔ جلد ہی ان کی آواز سنائی دی تو وہ بولے:
''پروفیسر صاحب! یہ میں ہوں، ارسلان خان۔''
''اوہ! سر آپ، فرمائیے۔''
''آپ کا کہنا ہے کہ آپ نے وزیرِ خارجہ کو یہ بات بتا دی تھی کہ بعض پودے حد درجے زہریلے ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کو صرف چھو دینے سے موت واقع ہو سکتی ہے۔اور بعض کی صرف خوشبو سے آدمی بے ہوش ہو جاتاہے یا مر سکتا ہے۔لہٰذا آپ کو ماہرین کے ذریعے دوسرے ملکوں سے لائے جانے والے پودوں کو چیک کرا لینا چاہیے۔''
''سر ! یہی بات ہے۔میں نے ان سے یہ بات کہی تھی۔''
''آپ ذرا میرے پاس آ جائیں۔''
''جی بہتر۔'' انہوں نے کہا اور صدر صاحب نے ریسیور رکھ دیا۔
''یہاں بلا کر آپ کیا کریں گے؟''
''ان کا تحریری بیان لےں گے۔ اس بیان کی بنیا د پر وزیرِ خارجہ سے جواب طلبی کی جائے گی اور اگر وہ قابل اطمینان جواب نہ دے سکے توان پر کیس چلے گا۔''
''شکریہ سر! ہم یہی چاہتے ہیں۔''
انہیں انتظار کرتے کافی دیر گزر گئی لیکن پروفیسر اربان وہاںنہ پہنچ سکے۔ صدر صاحب نے پھران کے گھر فون کیا لیکن وہاں سے بتایا گیا کہ وہ تو کب کے ان کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ اب تو وہ پریشان ہو گئے۔
''اب کیا کریں جمشید!''
''میں دیکھتا ہوں سر۔آپ فکر نہ کریں۔''
وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر وہاں سے نکلے اور پروفیسر اربان کے گھر کے راستے پر چل پڑے۔ ان کے ساتھی دونوں طرف دیکھتے جا رہے تھے۔ایک جگہ سڑک کے کنارے ایک کار کھڑی نظر آئی۔ انسپکٹر جمشید نے کار روک کر کہا:
''ہو نہ ہو یہ پروفیسر صاحب کی کار ہے۔''
وہ جلدی سے کار تک پہنچے۔ اورپھر بری طرح اچھلے۔ کار کے اندر پروفیسر اربان کی لاش ان کا منہ چڑا رہی تھی۔
''اف مالک! مجرم نے انہیں ہلاک کر دیا۔'' انسپکٹر جمشید کانپ گئے۔ اور پھر انہوں نے اکرام وغیرہ کو فون کیے۔پھر صدر صاحب کو فون کیا:
''ایک بری خبر ہے سر۔''
''میں پہلے ہی اندازہ لگا چکا ہوں۔پروفیسر اربان کو قتل کر دیا گیا ہے نا جمشید۔''
''یس سر۔ یہ حادثہ ہو چکا ہے۔'' انہوں نے غمگین انداز میں کہا۔
''فورًا یہاں چلے آؤ۔''
''اکرام جونہی یہاں آتا ہے میں روانہ ہو جاؤں گا سر۔''
''ہاں! ٹھیک ہے۔''
''اب انہوں نے جلدی جلدی لاش کا معائنہ کیا۔ رات کے دس بج رہے تھے۔سردیوں کی رات تھی۔ ہُو کا عالم طاری تھا۔دُور دُور تک کسی آنے جانے والی گاڑی کی روشنیاں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ لاش کے گلے میں ریشم کی ڈوری کا پھندا موجود تھا۔ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔بے چارے پروفیسر اربان، جو اپنے ملک سے محبت کرتے تھے۔جنہیں صدر کی زندگی عزیز تھی اور اسی لیے انہوں نے وزیرِ خارجہ کو خبردار کر دیا تھا۔لیکن وہ شخص کس طرح خبردار ہو سکتا ہے جو خود سازش میں شریک ہو۔انہوں نے ریشم کی ڈوری کو غور سے دیکھا وہ نیلے اور سرخ رنگ کی تھی۔یعنی دوہرے رنگ کی۔ اچانک فرزانہ چونکی:
''کیا ہوا، خیر تو ہے؟''
''رسی کا نیلا اور سرخ رنگ دیکھ کر مجھے ایک بات یاد آئی ہے۔''
''اوہ اوہ ، وہ کیا؟'' محمود نے بے تابانہ انداز میں کہا۔
''ٹام رُوڈ کا لباس بھی سرخ اور نیلے رنگ کا تھا، وزیرِخارجہ بھی ہمیں سرخ اور نیلے لباس میں نظر آئے تھے۔ اور۔۔۔۔۔۔''
''اور کیا؟'' انسپکٹر جمشید نے پرجوش انداز میں کہا۔
''اور وزیرِخارجہ کا ملازم جس نے دروازہ کھولا، اس کے لباس کا رنگ بھی سرخ اور نیلا ہے۔''
'' یا اﷲ رحم! آخر یہ سب کیا ہے۔''
اسی وقت پولیس کی گاڑیاں پہنچ گئیں۔ اکرام تیر کی طرح ان کے پاس آیا۔
''وقت بہت کم ہے اکرام۔ یہاں ایک دو آدمی چھوڑ کر فورًا میرے پیچھے آؤ۔اور وائرلیس کر کے مزید آدمی فورًا وزیرِخارجہ کی کوٹھی کی طرف بلا لو۔''
''اس کا مطلب ہے خیریت نہیں ہے۔''
''نہیں! جلدی کرو۔''
وہ اپنی گاڑی میں روانہ ہوئے۔ راستے میں انہوں نے صدر صاحب کو فون کیا:
''مجھے افسوس ہے سر۔ میں فوری طور پر آپ کی طرف روانہ نہیں ہو سکا۔ایک بہت اہم بات سامنے آئی ہے۔لہٰذا پہلے مجرم کو گرفتار کرنا ضروری ہے۔''
''مجرم، کیا مطلب؟''
''وزیرِ خارجہ سر۔'' وہ بولے۔
''اوہ ، تو کیا ان کا جرم ثابت ہو گیاہے؟''
''ہاں سر، ہمارے ملک میں باقاعدہ ایک گروہ کام کر رہا ہے۔ وہ سرخ اور نیلا رنگ استعمال کرتا ہے۔ مثلًا لباس اگرپہنیں گے تو سرخ اور نیلا ۔یہاں تک کہ جو رسی انہوں نے پروفیسر اربان کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کی ہے نا وہ بھی سرخ اور نیلے رنگ کی ہے۔''
''اوہ! '' ان کے منہ سے نکلا۔
''لہٰذا اب میں اس طرف جا رہا ہوں۔''
''اگر تمہارے پاس مکمل ثبوت ہے تو ضرور انہیںگرفتار کر لو لیکن اگر ثبوت مکمل نہیں تو ہاتھ نہ ڈالنا جمشید۔ کام خراب ہو جائے گا۔''
''لیکن سر! اگر ہم انہیںگرفتار نہیں کریں گے تو کام زیادہ خراب ہو سکتا ہے۔''
''اچھی بات ہے۔ جو تم مناسب سمجھو، کرو۔''
''شکریہ سر۔''
وہ وزیرِ خارجہ کی کوٹھی پر پہنچے تو بے شمار سادہ لباس والے وہاں ان سے پہلے پہنچ چکے تھے۔کوٹھی کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔انہوں نے اکرام کو ہدایات دیںاور اس نے جلدی جلدی ان کی ہدایات اپنے ماتحتوں کو دیں۔پھر دستک دی گئی۔جلد ہی ایک ملازم باہر نکلا۔انہوں نے دیکھا اس کا لباس سرخ اور نیلا تھا۔ انہوں نے فورًا اسے قابو کر لیا۔ وہ ہکا بکا رہ گیا:
''یہ۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہے؟''
''من مانی۔''انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
''جانتے بھی ہیں؟ یہ وزیرِ خارجہ کا گھر ہے۔''
''اسی لیے تو من مانی کر رہے ہیں۔''
''تب تم لوگوں کا انجام بہت بھیانک ہو گا۔''
''انجام کی ہم لوگ پرواہ نہیں کرتے۔اکرام اسے جیپ میں بٹھاؤ۔''
''آپ کے خیال میں وزیرِ خارجہ مجرم ہے۔ لیکن آپ کے ملک کے صدر انہیں ہرگز مجرم تسلیم نہیں کریں گے۔'' اس نے ایک اور بات کہی۔
''سوال یہ ہے کہ کیوں؟''
'' اس لیے کہ وہ خود بھی مجبور ہیں۔طاقت ان کے ہاتھ میں بھی نہیں ہے۔''
وہ حیران رہ گئے۔ وزیرِخارجہ کا ملازم کس قسم کی باتیں کر رہا تھا۔ حیرت نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔اب وہ اندر داخل ہوئے۔گھر کے سب افراد سوئے پڑے تھے۔ انسپکٹر جمشید وزیرِخارجہ کے کمرے کے دروازے تک پہنچ گئے۔ اب انہوں نے دستک دی توان کی نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی:
''کون رامیل؟ کیا بات ہے ، اس وقت کیوں پریشان کر رہے ہو؟''
''باہر خطرہ ہے سر۔'' انہوں نے رامیل کی آواز میں کہا۔
'خطرہ ، کیا مطلب؟''
''جلدی دروازہ کھولیے ۔ بتاتا ہوں۔''
اندر قدموں کی آہٹ سنائی دی اور پھر دروازہ کھلا۔ وزیرِخارجہ کا منہ مارے حیرت کے کھلا کا کھلا رہ گیا:
''یہ کیا، انسپکٹر جمشید! یہ آپ ہیں۔ آپ کی یہ جرأت کہ میرے گھر میں بغیر اجازت آ گھسے اور وہ بھی رات کے وقت۔''
''سرخ اور نیلے رنگ نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔رہ نہ سکا۔''
''کیا کہا سرخ اور نیلا رنگ؟'' وہ زور سے اچھلے۔
''صدر صاحب آپ کو یاد فرما رہے ہیں۔ باقی باتیں وہیں ہوں گی۔''
''اچھی بات ہے ۔ میں کپڑے تبدیل کر لوں۔''
'' نہیں سر۔کپڑے آپ وہیں چل کر تبدیل کیجیے گا۔''
''کیا مطلب، آپ کا دماغ تو نہیں چل گیا۔''
''پروفیسر اربان کے گلے میں جو رسی پائی گئی ، وہ بھی سرخ اور نیلے رنگ کی ہے۔''
''گویا اب آپ مجھ پر پروفیسر اربان کے قتل کا الزام بھی لگائیں گے۔''
''مجبوری ہے۔'' انسپکٹر جمشید بولے۔
''آپ جاتے ہیںیا میں کروں پولیس کو فون۔''
''پولیس کو تو ہم خود ساتھ لائے ہیں۔''
''کیا مطلب؟''
''اس وقت آپ کی کوٹھی خفیہ پولیس کے گھیرے میں ہے۔''
''نن نہیں ۔ گرفتاری کے وارنٹ دکھائیں۔''
''اب آپ نے وارنٹ کی بات چھیڑ دی۔یہ رہے وارنٹ۔'' انہوں نے جیب سے خصوصی اجازت نامہ نکال کر سامنے کر دیا۔
''یہ کیسے وارنٹ ہیں؟''
''پڑھ کر دیکھیں معلوم ہو جائے گا۔''
انہوں نے جلدی جلدی اجازت نامہ پڑھا اور ان کے چہرے پر موت کی زردی پھیل گئی۔ اچانک وہ تڑ سے گرے
8
ان کے گرتے ہی انسپکٹر جمشید اچھل کر پیچھے ہٹ گئے اور یہی چیز انہیں بچا گئی۔انہوں نے گرتے ہی جیب سے پستول نکال لیا تھا اور اندھا دھند تین چار فائر کر ڈالے تھے۔ ان کے باقی ساتھی بھی پہلے ہی ادھر ادھر لڑھک گئے تھے۔ پھر انسپکٹر جمشید کے پستول سے ایک گولی نکلی اور وزیرِ خارجہ کے ہاتھ سے پستول نکل گیا جسے فرزانہ نے کیچ کر لیا:
''ثبوت مکمل ہو گیا۔ اب ہمیں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہی۔''
''لاکھ ثبوت پیش کرو۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے۔میں وزیرِخارجہ کا وزیرِخارجہ ہی رہوں گا۔ ہا ں ! تم اب انسپکٹر نہیں رہو گے۔''
''مجھے انسپکٹر رہنے کی کوئی ایسی ضرورت نہیں۔ اپنے دین، قوم اور ملک کی خدمت کرنا اصل مقصد ہے ۔ وہ میںانسپکٹر نہ رہتے ہوئے بھی کر سکتا ہوں۔''
'' اب یہی ہو گا۔ تم اس عہدے پر رہے بغیر یہ سب کام کرتے پھرنا۔'' انہوں نے جل کر کہا۔
''اکرام! انہیں ہتھکڑیاں لگا دو۔''
''کیا ،اب تم مجھے ہتھکڑیاں بھی لگاؤ گے؟''
''ہاں! کیوں نہیں۔ ہر مجرم کو ہتھکڑیاں لگتی ہیں۔ آپ کو لگ گئیں تو کوئی انوکھی بات تو نہیں ہو جائے گی۔''
اور پھر اکرام نے آگے بڑھ کر انہیں ہتھکڑیاں پہنا دیں۔ اس وقت تک ان کے گھر کے سب لوگ بھی آس پاس جمع ہو چکے تھے:
''آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔'' بیگم وزیرِخارجہ بولیں۔
'' یہ اس کھیل کا انجام ہوا ہے جو یہ کھیلتے رہے ہیں۔''
'' کیا مطلب؟''
''یہ ملک کی جڑیں کاٹتے رہے ہیں۔انشارجہ کے اشاروں پر ناچتے رہے ہیں۔اس کے اشارے پر انہوں نے صدرصاحب کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی لیکن اللہ کو ابھی ان کی موت منظور نہیں تھی ورنہ اِنہوں نے تو کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔''
''نن نہیں۔ یہ غلط ہے۔یہ ایسے نہیں ہیں۔یہ جھوٹ ہے۔ الزام ہے۔''
''ابھی ہم یہاں کی تلاشی لیں گے۔اور آپ کی خدمت میں ثبوت بھی پیش کر یںگے۔''
''اوہ!'' ان کے منہ سے نکلا
''انسپکٹر جمشید! تم کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکو گے۔''
''بس دیکھتے جائیں۔چلو بھئی ! محمود، فاروق اور فرزانہ حرکت میں آ جاؤ۔ ان کا دعوٰی ہے ہم ثبوت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ہمیں ان کا دعوٰی غلط ثابت کرنا ہے۔''
''فکر نہ کریں ابا جان!'' محمود نے پرجوش انداز میں کہا۔
انہوں نے کوٹھی کی تلاشی شروع کر دی۔تمام الماریاں اور سیف وغیرہ دیکھ ڈالے۔ان میں اگر کچھ خفیہ خانے تھے تو ان کو بھی دیکھ ڈالا گیا۔لیکن کوئی ایسی چیز نہ ملی:
''کیوں ، ہو گئے نا ناکام؟''وزیرِخارجہ ہنسے۔
''نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں۔ابھی ہم نے اپنا کام ختم نہیںکیا۔''
''اچھا، جب کام ختم کر لو، بتا دینا۔''وہ ہنسے۔
''ضرور جناب! کیوں نہیں۔''
''لیکن ایک بات لکھ لو۔ آج کا د ن تم لوگوں کی ناکامیوں کا دن ہے۔''
''اب لکھنے کے لیے وقت کہاں سے لائیں۔ ہمیں اور بھی تو کام ہیں۔''
''ہنہ!'' انہوں نے ناخوشگوارانداز میںکہا۔
اور پھرانہوں نے اپنا کام نئے سرے سے شروع کیا۔ اس بار وہ تہہ خانہ تلاش کر رہے تھے۔ ابھی تک انہوں نے تہہ خانے کے امکانات پر توجہ نہیں دی تھی۔تہہ خانے کی تلاش میں وہ دور نکل گئے۔ انسپکٹر جمشیدا ور باقی لوگ وزیرِخارجہ کے پاس ہی رہ گئے۔آخر آدھ گھنٹے بعد تینوں کی واپسی ہوئی:
''کیوں، نہیں ملا نہ کچھ۔ٹائیں ٹائیں فش۔'' وزیرِخارجہ نے ہنس کر کہا۔
''جی ہاں! یہی کہہ سکتے ہیں کہ ٹائیں ٹائیں فش لیکن۔۔۔۔۔۔'' محمود کہتے کہتے رک گیا۔
''لیکن کیا؟''
''ٹائیں ٹائیں فش ہماری نہیں، آپ کی۔''فاروق مسکرایا۔
''کیا مطلب؟''
'' مطلب یہ ہم نے آپ کی کوٹھی کے نیچے ایک عدد تہہ خانہ تلاش کر لیا ہے۔اس تہہ خانے میں بہت کچھ موجود ہے۔'' فرزانہ بولی۔
''کیا۔۔۔۔۔۔نہیں!!!'' اس کی چیخ بہت بلند تھی۔
''اب چیخنے سے کیا ہوتا ہے۔ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔'' فاروق گنگنایا۔
''یہ بھی خوب رہی۔ تم آج شاعری تو نہیں کر رہے۔'' فرزانہ نے حیران ہو کر کہا۔
'' میں کہاں، شاعری کہاں۔ بس یہ کہہ لو میں کس کھیت کی مولی ہوں۔''
''دھت تیرے کی۔شاعری سے مولی تک جا پہنچے۔''محمود نے جھلا کر کہا۔
'' یہ تو کچھ بھی نہیں ۔ میں تو مولی سے شاعری تک پہنچ جاتا ہوں۔''
''تہہ خانے میں اترنے سے پہلے ہمیں کچھ بہت ذمے دارقسم کے لوگوں کو بلا لینا چاہیے۔''انسپکٹر جمشیدبولے۔
''ہاں ہاں! بلا لو۔'' اس نے بے فکری کے عالم میںکہا۔
انسپکٹر جمشید نے سپریم کورٹ کے چند ججوں کو فون کیا۔ اور بھی کئی بڑے بڑے آفیسرز کو فون کیے اور جب یہ سب لوگ آ گئے توانہیں پوری صورتحال بتائی گئی۔یہ سن کر وہ سکتے میں آ گئے۔شاید انہیںیقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ملک کا وزیرِخارجہ غدار بھی ہو سکتا ہے۔اس کے بعد انہیں تہہ خانے کی دریافت کے بارے میں بتایا گیا اور آخر میں انسپکٹر جمشید بولے:
''ہم نے آپ لوگوں کے انتظار میںتہہ خانے میں اتر کر نہیں دیکھا۔ اب آپ سب کی موجودگی میں ہی دیکھیں گے۔''
''یہ تو آپ نے بہت اچھا کیا۔'' سپریم کورٹ کے ایک جج بولے۔
''شکریہ سر!''
پھر سب لوگ ایک ایک کر کے تہہ خانے میں اترنے لگے۔وزیرِ خارجہ کو تمام لوگوں کے درمیان میں رکھا گیا تاکہ وہ فرار ہونے کی کوشش نہ کر سکیں۔ تہہ خانہ زیادہ بڑا نہیں تھا۔بس ایک کمرے جتنا تھا۔لیکن اس میں الماریاں موجود تھیں۔ ان الماریوں میںکاغذات موجود تھے فائلوں کی صورت میں۔ ان فائلوں کو کھولا گیااور پھر ان کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔وزیرِخارجہ ان کاغذات کی رو سے باقاعدہ انشارجہ کے آدمی تھے۔ اور وزیرِخارجہ بننے سے بہت پہلے ان کے ایجنٹ چلے آ رہے تھے۔اور شاید انشارجہ کی مہربانی سے ہی وہ اس عہدے تک پہنچے تھے۔وہاں ایک الماری میں ایک بہت طاقتور ٹرانسمیٹر بھی تھا۔ گویا اس پر وہ انشارجہ سے بات کرتے تھے۔ان سب چیزوں کا سب نے معائنہ کر لیا تو انسپکٹر جمشید بولے:
''کیا آپ کو ابھی اور ثبوت کی ضرورت ہے؟''
'' تم لوگ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔''
''خیر، دیکھیں گے بھئی۔''
اب وہ انہیںصدر صاحب کے پاس لے گئے۔تمام ثبوت ان کے سامنے رکھ دیے گئے۔تمام تفصیلات سنائی گئیں۔
'' اب آپ کیا کہتے ہیں؟''
'' یہ کہ اس سارے معاملے کو گول کر دیں۔ پی جائیں ۔ اور مجھے میرے عہدے پر کام کرنے دیں۔ اسی میں آپ کے ملک کی بھلائی ہے۔ورنہ انشارجہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔''
''ایک بات آپ بھی سن لیں۔میں مجرموں کو چھوڑنے کا عادی نہیں ہوں۔خاص طور پر ان لوگوں کو جو ملک سے غداری کریں۔ اور آپ بھی اس گروپ میں شامل ہیں۔ لہٰذا آپ بھی نہیںبچ سکیں گے۔''
''بھئی دیکھ لو، نرمی کرو گے فائدے میں رہو گے۔'' وزیرِخارجہ نے کہا۔
'' ملک دشمنوں سے نرمی، کیا بات کرتے ہو؟''
اور پھر تھوڑی دیر بعدصدر صاحب کے نام انشارجہ کا فون موصول ہوا:
''ہم نے سنا ہے آپ نے اپنے ملک کے وزیرِخارجہ کو گرفتار کرا دیا ہے۔''
''ہاں! اس لیے کہ وہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔''
'' کچھ بھی ہو۔ آپ کو انہیں رہا کرنا ہو گا۔'' دوسری طرف سے کہا گیا۔
'' یہ نہیں ہو سکتا۔''
'' اس صورت میں ہمارے آپ کے تعلقات خوشگوار نہیں رہ جائیں گے۔''
'' تو وہ پہلے ہی کب خوشگوار رہے ہیں۔ آپ میری موت کی سازش کریں اور میں آپ سے خوشگوار تعلقات بحال رکھوں۔'' صدر صاحب بولے۔
''اوہ! تو یہ بات ہے۔''
'' ہاں! یہی بات ہے۔اس کا جرم ناقابل معافی ہے۔اسے جیل جانا ہوگا۔اور عدالت بھی اسے پھانسی سے کم سزا نہیںدے سکتی۔''
'' اگر ایسا ہوا تو اس کا انجام بہت بھیانک ہو گا۔'' دوسری طرف سے کہا گیا۔
'' دیکھا جائے گا۔'' صدر صاحب بولے۔
'' تو یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے۔''
'' ہاں ! بالکل۔''
'' آپ اپنے اس آخری فیصلے پر پچھتائیں گے۔''
'' چلیے کوئی بات نہیں۔ ہم پچھتا لیں گے لیکن اسے نہیں چھوڑیں گے۔''
اور دوسری طرف سے جھلا کر ریسیور رکھ دیا گیا۔مجرم کو اسی روز فوری سماعت کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ساری صورتحال عدالت کو بتائی گئی۔ عدالت نے فورًا پھانسی کا حکم دے دیا تا کہ انشارجہ کوئی چکر نہ چلا سکے۔ اس پھانسی کا الٹا اثر ہوا۔ انشارجہ کو سانپ سونگھ گیا۔ ملک میں اس کے ایجنٹوں کے رنگ اڑ گئے۔انہیں اپنا انجام قریب نظر آنے لگا۔ سچ ہے جو صرف اور صرف اﷲ سے ڈرتا ہے اس سسب ڈرتے ہیں۔ اور جو اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتا ہے اسے سب ڈراتے ہیں اور وہ سب سے ڈرتا ہے۔ے