تشکر اور ماخذ: کتاب ایپ
ایسا لگتا تھا کہ پروفیسر امجد کہیں جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ انہوں نے بہت ہی نفیس اور اعلیٰ تراش خراش کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ یوں بھی امجد صاحب لباس کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ نہ صرف محتاط تھے بلکہ ان کا انتخاب اور ذوق بھی بہت عمدہ ہوتا تھا۔ لباس شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس عام مقولے پر وہ خاص طور پر عمل پیرا رہتے تھے۔ اچھے لباس سے شخصیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے اور دیکھنے والوں پر اچھا تاثر پڑتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے حلقۂ احباب میں ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ اس وقت وہ اپنے دوست ڈاکٹر جمال کے پاس جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ڈاکٹر جمال ان کا بہت پرانا اور گہرا دوست تھا۔ پہلے وہ اپنا زیادہ وقت ایک ساتھ ہی گزارتے تھے، مگر بعد کی مصروفیات نے انہیں گویا پابند سلاسل کر دیا تھا اور اب کی ملاقات مہینوں میں ہو پاتی تھی۔ درمیان میں کبھی کبھار فون پر بات چیت ہو جاتی تھی۔ اب ذرا کچھ دنوں سے پروفیسر امجد فارغ تھے، ان کے ذہن میں آیا کہ جمال سے لمبی چوڑی قسم کی ملاقات کی جائے، اتنے میں ان کا ماتحت ذاکر کمرے میں داخل ہوا۔
’’سر… ! ڈاکٹر جمال آئے ہیں۔ ‘‘ ان کا ماتحت ذاکر یہ کہہ کر خاموش ہو گیا اور ان کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
’’جمال…؟‘‘ امجد صاحب چونک گئے۔ ’’اوہ… تو وہ خود ہی آ گیا۔ ‘‘ انہوں نے خودی کلامی کرتے ہوئے زیر لب کہا، پھر جلدی سے بولے ’’ارے تو ان کو بلاؤ جلدی…‘‘
ذاکر فوراً باہر چلا گیا۔ پروفیسر امجد صوفے پر بیٹھ گئے اور آپ ہی آپ بڑبڑائے۔ ’’واہ… حیرت انگیز… یہ تو کمال ہی ہو گیا… اسے الہام تو نہیں ہو گیا کہ میں آج آ رہا ہوں … جو خود ہی چلا آیا…‘‘
اتنے میں ڈاکٹر جمال اندر داخل ہوئے۔ ڈاکٹر جمال بھی پروفیسر امجد کی طرح جوان آدمی تھے۔ دونوں دوستوں نے کم عمری میں ہی اپنے اپنے شعبے میں بہت نام و شہرت کمائی تھی۔ ڈاکٹر جمال کو دیکھتے ہی پروفیسر امجد کھڑے ہوئے اور دونوں دوست گرم جوشی سے گلے ملے۔
’’اس دفعہ تو کافی دنوں بعد ملاقات ہو رہی ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر نے شکایتاً کہا۔ ’’ تم نے تو فون کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ ‘‘
’’اگر یہی میں تم سے کہوں تو؟‘‘ پروفیسر امجد نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر جمال ان کے برابر والے صوفے پر دراز ہو گئے۔
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں کو بدبخت مصروفیات نے گھیرا ہوا تھا۔ ‘‘ ڈاکٹر نے قہقہہ لگایا، پھر پروفیسر امجد کا سوٹ دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’کہیں جانے کی تیاری کر رہے تھے شاید…؟‘‘
’’اتفاق سے تمہاری طرف آ رہا تھا… مگر تم بازی لے گئے اور مجھ سے پہلے یہاں آ گئے۔ ‘‘
یہ سن کر ڈاکٹر نے کہا۔ ’’چلو شکر ہے، میں بروقت آ گیا، ورنہ کچھ دیر لیٹ ہو جاتا تو تم میرے گھر ہوتے اور میں یہاں ہوتا… دونوں کو کوفت کا شکار ہونا پڑتا…‘‘۔
’’یہ بات تو ہے۔ ‘‘ پروفیسر ہنسا۔ پھر وہاں کھڑے اپنے ماتحت سے مخاطب ہوا۔ ’’ذاکر جو کچھ فریج میں رکھا ہے کھانے کی ٹیبل پر لگا دو… بلکہ فریج ہی ٹیبل پر رکھ دو… ہم خود ہی نکال کر کھا لیں گے۔ ‘‘
کچھ رسمی گفتگو کے بعد پروفیسر امجد نے پوچھا ’’اور سناؤ جمال آج کل کس موضوع پر لکھ رہے ہو…؟‘‘۔
’’بہت اہم موضوع ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر نے سنجیدہ لہجے میں کہا ’’سچ پوچھو تو لکھتے وقت ہتھیلیاں پسینے میں بھیگ جاتی ہیں۔ ‘‘
امجد زور سے ہنس کر بولا۔ ’’کیا گرمی کے موضوع پر لکھ رہے ہو…؟‘‘۔
’’نہیں یار… میں سیریس ہوں … یہ موضوع میرے لیے مسئلہ بن گیا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر بدستور سنجیدہ تھا۔
’’بھئی کچھ پتا تو چلے کہ کس موضوع پر سیریس ہو؟‘‘
’’ایک لافانی جذبہ جو ہر جان دار کے وجود میں طوفان کی طرح اٹھتا ہے … بھوک … یقین کرو امجد میں پھنس گیا ہوں اس موضوع کو چن کر… تم بھی جانتے ہو کہ بھوک کو موضوع بنا کر اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، لیکن میں ایک مختلف چیز تخلیق کرنا چاہتا ہوں، تاکہ بھوک کا حقیقی مفہوم ہر پیٹ بھرا اچھی طرح سمجھ لے … تم جانتے ہو بھوک کیا شے ہوتی ہے ؟‘‘ ڈاکٹر جمال نے پروفیسر سے استفسار کیا۔
پروفیسر بھی الجھن میں پڑ گیا۔ ’’سچی بات تو یہ ہے کہ بھوک کے متعلق میں کچھ بھی نہیں جانتا… تم نے ٹھیک کہا ہے کہ جو پیٹ بھرے ہوتے ہیں، وہ اس لفظ کی گہرائی سے نا آشنا ہوتے ہیں … ہمیں بھوک ستاتی ہے کہ کھا پی کر اس جذبے کو پروان چڑھنے سے قبل ہی ختم کر دیتے ہیں … پھر بھلا ہم اس کے معنی و مفہوم کیسے جان سکتے ہیں۔ ‘‘
’’بس یہی تو میرے ساتھ مسئلہ ہے امجد…‘‘ ڈاکٹر فکر مندی سے بولا۔ ’’تم جانتے ہو میں اس وقت تک کسی موضوع پر نہیں لکھتا، جب تک اس کے متعلق تحقیق نہ کر لوں۔ مصنف کو اگر خود کسی بات کا ٹھیک سے علم نہ ہو تو جو کچھ وہ لکھتا ہے، وہ بیکار اور بے معنی ہوتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ وہ کھچڑی پکائے۔ ‘‘
’’تو پھر تمہارا کیا مطلب ہے ؟‘‘ امجد نے سوال کیا۔
’’میں اس پر تحقیق کروں گا… اور اس سلسلے میں میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا ہے … بہت ہی کٹھن اور دشوار آئیڈیا ہے … ‘‘ ڈاکٹر نے پراسرار لہجے میں کہا، جس میں اس کا پختہ عزم عیاں تھا۔
’’سر کھانا لگوا دیا ہے۔ ‘‘ ذاکر نے کمرے میں داخل ہو کر مؤدبانہ انداز میں کہا اور بات درمیان میں رہ گئی۔
امجد نے کہا۔ ’’ تمہارا موضوع میرے پیٹ میں مچل رہا ہے، پہلے اسے ختم کر دیں، پھر بات آگے بڑھائیں گے … اور تم وہ آئیڈیا بھی بتانا۔ ‘‘
دونوں اٹھ گئے اور کھانے پینے سے فارغ ہو کر واپس اپنے کمرے میں آ گئے۔ ڈاکٹر نے آتے ہی پہلا سوال کیا ’’یہ بتاؤ، کہ تم کب تک فارغ ہو؟… کتنے دن تک…؟‘‘
’’تقریباً ایک ماہ کی فرصت ہے … کیوں ؟‘‘ پروفیسر اس کے سوال پر چونک اٹھا۔
’’کافی ہے … تحقیقات کے لیے صرف ایک ہفتہ درکار ہے …‘‘ڈاکٹر نے مطمئن ہو کر کہا۔ ’’سنو… میرا یہ خیال ہے کہ میں خود اس تجربے سے گزروں گا… بھوک کے تجربے سے … ظاہر ہے کوئی اور تو اس تجربے سے گزرنے پر آمادہ نہیں ہو گا… بالفرض اگر ہو بھی گیا تو میں اس جیسے احساسات اور محسوسات قلم بند نہیں کر سکا، میں تم سےا س لیے معلوم کر رہا ہوں کہ اگر تم میرا ساتھ دینا چاہو تو مجھے کتاب لکھنے میں آسانی ہو جائے گی۔ ‘‘
امجد حیران رہ گیا… وہ قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ بولا۔
’’جمال میرا خیال ہے تم حماقت کر رہے ہو… اس طرح زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ‘‘
’’لیکن میں بھوک کا چہرہ قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ مائی ڈئیر…‘‘ ڈاکٹر مسکرایا۔ ’’دیکھو امجد نہ تم آسانی سے پروفیسر بنے ہو اور نہ ہی میں جھک مار کر ڈاکٹر بن گیا ہوں … ہر کام دقت طلب ہوتا ہے، کوئی بھی مقصد دشواری کے بغیر پورا نہیں ہوتا… ہم انوکھے نہیں ہوں گے، جو کسی مقصد کے لیے جان جوکھوں میں ڈالیں گے … ایسے بہت سے دیوانے تھے، جو اپنے مقاصد کے لیے جان پر کھیل جاتے تھے۔ زہر کے ذائقے بھی یونہی معلوم نہیں پڑ گئے … اب تو خیر انسان بہت ترقی کر گیا ہے۔ شروع شروع میں با ہمت لوگوں نے زہر کا ذائقہ معلوم کرنے کے لیے کسی اور کو تختہ مشق نہیں بنایا، بلکہ خود ہی زہر چکھا اور اس کا ذائقہ لکھ کر مر گئے … کیا آج دنیا انہیں سرپھرا کہتی ہے ؟‘‘
’’ٹھیک ہے …‘‘ پروفیسر امجد نے ہتھیار ڈال دیے۔ ’’میں تمہاری مدد کرنے کے لیے تیار ہوں ‘‘۔
’’اب سنو… میں نے جو کچھ سوچا ہے، اس پر باریک بینی سے غور کیا۔ اس کی جزئیات پہ سوچا ہے … ہم جس تجربے سے گزریں گے، وہ ہم یہاں شہر میں کسی طور پر نہیں کر سکتے۔ ‘‘
پروفیسر متذبذب انداز میں اس کی بات کاٹ کر بولا ’’کیا مطلب…؟ پھر کہاں ؟‘‘
’’کسی ایسے پہاڑی مقام پر جہاں سبزہ بالکل نہ ہو… آبادیاں دور ہوں … سمجھ رہے ہو نا میری بات… بس ہم پانی لے چلیں گے … ٹھیک ہے ؟‘‘
’’چلو یار تمہاری تحقیق کی خاطر میں اس انوکھے تجربے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘ پروفیسر امجد نے ہامی بھر لی۔ ’’لیکن ایک مشکل ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس تجربے کے چکر میں واقعی بھوک سے مر نہ جائیں … اس کے لیے کیا کرنا ہو گا؟‘‘
’’فکر مت کرو… اس کے لیے بھی سوچا تھا۔ ہمیں ایک اور مددگار کی ضرورت ہو گی۔ ذاکر اس سلسلے میں ہمارے کام آئے گا۔ وہ ہم سے دور رہ کر ہماری نگرانی کرے گا۔ ہم تقریباً سات دن اس تجربے سے گزریں گے۔ سا تویں دن شام کو ذاکر ہمارے پاس خورد و نوش کا سامان لائے گا جو پہلے ہی اس کے پاس وافر مقدار میں ہو گا… اور ہاں ایک اہم بات میں تمہیں بتانا بھول گیا… ہم دونوں کے ساتھ ایک کتا بھی ہو گا۔ یہ بہت ضروری ہے۔ شدید بھوک کے عالم میں جانور کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔ ہمیں اس کے متعلق بھی معلوم پڑ جائے گا۔ ‘‘
ڈاکٹر جمال کے خاموش ہونے کے بعد پروفیسر امجد کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر سوچ کے سمندر سے ابھرا۔ ’’آخری بات تم سے معلوم کرنا ہے۔ یہ ہمیں کیسے معلوم پڑے گا کہ ہم نے شدید بھوک کی حالت میں کیا کیا حرکتیں کیں … ہمیں تو اپنے آپ کا ہوش نہیں ہو گا۔ ‘‘
’’اچھا پوائنٹ ہے … جب تک ہم ہوش میں رہیں گے، اپنی حالت اور کیفیت خود ہی نوٹ کرتے رہیں گے … اور دیگر حالات میں ذاکر ہماری کیفیات اور حرکات و سکنات نوٹ کرتا رہے گا۔ وہ ذہین آدمی ہے … اس سلسلے میں ہمیں مطمئن ہی رہنا چاہیے۔ ‘‘ ڈاکٹر جمال نے وضاحت کی۔
دونوں کافی دیر تک اس کے متعلق گفتگو کرتے رہے اور یہ طے پایا کہ کل صبح ہوتے ہی اس منصوبے پر عمل شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے رات کے کھانے پر ذاکر کو بھی اپنے منصوبے سے آگاہ کر دیا تھا اور خاص طور پر اس بات کی تاکید کی تھی کہ وہ ان کے پاس کسی صورت میں نہیں آئے گا، بلکہ ان کی حرکتیں نوٹ کرتا رہے گا۔ سا تویں دن شام کو وہ ان کے پاس آ سکتا ہے۔ پروفیسر امجد کے پاس دو کتے بھی تھے جو رکھوالی کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ پہاڑی مقام کا بھی انتخاب کر لیا گیا تھا۔
دوسرے دن صبح سویرے ہی وہ ایک پہاڑی مقام پر پہنچ گئے۔ اس جگہ سبزہ دور دور تک نہ تھا۔ ہر طرف چھوٹی بڑی پہاڑیاں تھیں۔ وہ اس پتھریلے علاقے میں آ چکے تھے۔ ڈاکٹر جمال اور پروفیسر امجد نے پانی کے بڑے بڑے فلاسک کاندھوں پر لٹکا رکھے تھے۔ ان فلاسک کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ صرف کلائیوں پر گھڑیاں بندھی ہوئی تھیں۔ امجد اور جمال کے ساتھ ایک قدر آور کتا بھی تھا، جو دونوں سے کافی مانوس تھا اور سدھایا ہوا بھی تھا۔ کتے کو بھی اس انوکھے تجربے سے گزرنا تھا۔ ذاکر منصوبے کے مطابق ان سے الگ ہو گیا۔ موسم بڑا خوش گوار تھا۔ گرمی تھی اور نہ سردی، درمیانہ موسم تھا۔ جمال نے ایک قلم اور نوٹ بک ساتھ لے لی تھی، تاکہ وہ اپنے احساسات قلم بند کر سکے۔
’’لو بھئی تمہاری تحقیق کی ابتداء تو ہو گئی ہے … جمال، ہم سات دن تک بھوکے رہیں گے کہیں مر نہ جائیں ؟‘‘ امجد نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’نہیں … سات روز میں انسان بھوک کے مارے نہیں مر سکتا۔ ‘‘ جمال نے نفی کی۔
’’ویسے مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اگر انسان جبراً خود کو بھوکا رکھے تو بھوک زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے … اگر مجبوری کے تحت بھوکا ہو تو اس میں صبر اور برداشت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے … مجبوری کے عالم میں تو انسان کئی روز تک با آسانی بھوکا رہ سکتا ہے … زبردستی کا معاملہ خطرناک ہے۔ ‘‘
’’یہ بات تم نے درست کہی ہے۔ بھوک انسان کی بنیادی ضرورت اور جسمانی تقاضہ ہے … سمجھو کہ کھانا انسان کا ایندھن ہے۔ ‘‘
’’پھر ہم تو خود کو زبردستی بھوکا رکھیں گے۔ ‘‘ امجد کے لہجے میں پریشانی ٹپک رہی تھی۔
’’وہ تو اب کرنا پڑے گا… دیکھو اگر بھوک کی حالت میں انسان کا ذہن کھانے پینے کی طرف لگا رہا تو بھوک مسلسل بڑھتی جاتی ہے … ہم دونوں نے بھوک کو بھولنا ہو گا… تم مجھے کوئی قصہ سنانا اور میں تم کو قصے سناؤں گا… ٹھیک ہے ؟‘‘ جمال نے کہا، اور پروفیسر نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔
پہلا دن تھا، اس لیے آرام سے گزر گیا۔ کتا ان کے ساتھ تھا۔ وہ بھی ابھی مطمئن تھا۔ ان کے پاس ایک پیالا تھا، جس میں وہ کتے کے لیے پانی ڈال دیتے تھے۔ رات بھی پرسکون گزر گئی۔ دوسرا دن شروع ہو گیا۔
دوسرے دن اُٹھتے ہی جمال نے مسکراتے ہوئے امجد سے پوچھا۔ ’’سناؤ بھائی امجد… ٹھیک تو ہو نا؟‘‘
امجد نے جواباً مسکرا کر جواب دیا۔ ’’اب تک تو خیر ہے … آگے اللہ مالک ہے۔ ‘‘
’’میرا خیال ہے تم اب کوئی قصہ سناؤ…‘‘ جمال نے امجد سے کہا۔
’’بھائی… ابھی کئی دن باقی ہیں … ابھی تو صرف ایک ہی دن گزرا ہے … قصے کہانیاں باقی دنوں کے لیے رکھ چھوڑو۔ ‘‘ امجد نے کہا۔
جمال اپنی جگہ کھڑا ہو گیا۔ کتا ان کے قریب ہی تھا۔ وہ دھیمی دھیمی آواز میں ’’بخ بخ‘‘ کرنے لگا تھا۔ وہاں ہر طرف ویرانی پھیلی ہوئی تھی۔ چاروں جانب پتھروں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ دھوپ آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔ وہ دونوں کتے کو لے کر ایک پہاڑی کٹاؤ میں بیٹھ گئے۔ یہاں دھوپ نہیں تھی۔ امجد کچھ سوچ رہا تھا۔ اسے یہ تجربہ سراسر حماقت اور فضول لگ رہا تھا۔ خود کو خطرناک تجربے کی چکی سے گزارنا کہاں کی دانش مندی تھی، مگر وہ اپنے دوست کو انکار بھی نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ جمال اسے بھائیوں کی طرح عزیز تھا۔
صبح سے شام ہو گئی، وہ دونوں مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے۔ مقصد صرف ذہن کو بھوک کی طرف سے ہٹانا تھا۔ وہ دونوں دوست گزرے ہوئے خوش گوار دنوں کو یاد کرنے لگے۔ اس طرح ان کے ذہنوں سے بھوک کا احساس کچھ کم ہو گیا۔ آخر یہ دوسرا دن بھی خاموشی سے گزر گیا۔ تیسرے دن صبح ہی بھوک نے دونوں کو بے چین کر دیا۔ کتا الگ پریشان ہو رہا تھا۔
امجد نے پھیکے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا ’’جمال… بھوک کے معنی و مفہوم سمجھ لو… تمہاری تحقیق شروع ہو گئی ہے۔ ‘‘
جمال نے نوٹ بک نکالی تھی، وہ کچھ لکھ رہا تھا۔ پھر نوٹ بک بند کر کے کہنے لگا۔ ’’آج بھوک کا احساس زیادہ ہو رہا ہے، اس لیے میں نے جو کچھ اپنے اندر محسوس کیا… اسے لکھ لیا ہے۔ ‘‘
’’ابھی تو آگے آگے دیکھو… ہوتا ہے کیا۔ ‘‘ امجد نے لیٹے لیٹے بے چینی سے کروٹ لی ’’ویسے … گزشتہ دنوں میں ہم نے کوئی خاص بھوک تو محسوس نہیں کی ہے … ہم جانتے ہیں کہ ہم دونوں ایک تجربے سے گزر رہے ہیں۔ اپنے اس تجربے کو کامیاب بنانے کے لیے ہم دونوں نے خود کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو تجربے کے جنون میں ہم با آسانی یہ سات دن جھیل جائیں ؟‘‘۔
’’نہیں امجد!‘‘ جمال مسکرایا۔ ’’بھوک تو آخر بھوک ہے … وہ اندھی ہوتی ہے اور بہری ہوتی ہے … وہ نہیں دیکھتی کہ اس کا شکار کون ہے … نہ وہ فریاد سنتی ہے۔ وہ کسی عفریت کی ٹوٹ پڑتی ہے۔ ‘‘
’’ڈراؤ تو مت یار…‘‘ امجد نے مصنوعی خوف زدگی کا مظاہرہ کیا۔
’’حقیقت بہرحال حقیقت ہے … اور اٹل ہے۔ ‘‘ جمال سنجیدہ ہو گیا تھا۔
’’تیسرا دن بیت گیا۔ رات کو انہیں نیند نہیں آ رہی تھی… معدے کا حال ایسے بدنصیب علاقے جیسا ہو گیا تھا، جہاں کئی سالوں سے بارش نہیں ہوئی۔ خالی پیٹ تھا، تو دماغ بھی ویرانوں، کھنڈروں میں گھوم رہا تھا۔ امجد کا دماغ سوچ رہا تھا کہ وہ کسی محفل یا دعوت میں جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس محفل میں انواع اقسام کے کھانے تھے، مگر وہ مجبور تھا انہیں کھانے سے … معاً اس کی آنکھ کھل گئی۔ چہار سو اندھیرا اور سناٹا تھا۔ جمال سو رہا تھا، مگر اس کی نیند کچی پکی سی لگ رہی تھی۔ وہ لیٹے لیٹے کسمسا رہا تھا۔ کتا ان سے کچھ فاصلے پہ اپنے اگلے پیروں پر تھوتھنی رکھے لیٹا تھا۔ امجد بھوک سے بے چین ہو کر اٹھ گیا۔ دماغ میں سناٹے سرسرا رہے تھے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی بھوک کا علاج کس طرح کرے۔ وہ اپنا دھیان بٹانے کے لیے ٹہلنے لگا۔ آہٹیں سن کر کتے نے تھوتھنی اوپر اٹھائی اور نیم باز آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ تین دن کی بھوک نے اسے بھی نڈھال کر دیا تھا۔ اس میں چابک دستی اور پھرتی مفقود نظر آتی تھی۔ کتے نے امجد کو دیکھ کر ہلکی سی ’’بخ‘‘ کی آواز نکالی۔ سویا ہوا جمال کروٹ بدل کر رہ گیا۔ اس کے انداز پر نہ جانے کیوں امجد کو غصہ آ گیا۔ اسے یوں لگا، جیسے کتے نے اسے طیش دلایا ہے یا اس کا مذاق اُڑا رہا ہے۔ امجد کو یوں محسوس ہونے لگا کہ وہ استہزائیہ انداز میں اب بھی اسے گھور رہا ہے۔ وہ اس کا پالتو کتا تھا۔ اس کی یہ مجال کہ وہ اس کا مذاق اُڑائے۔ وہ کتے کی طرف بڑھا اور پیر اٹھا کر ایک زور دار لات اس کے اندر کو دھنسے سے ہوئے پیٹ میں دے ماری۔ کتا دل دوز آواز میں چیخ کر اچھل پڑا۔ جس طرح زخموں پر نمک مرچ چھڑکنے سے تکلیف دوبالا ہو جاتی ہے، اسی طرح کتے کی کرب ناکی بھی سہ چند ہو گئی اور پھر امجد پر ایک جنون سا طاری ہو گیا تھا۔ اس نے ایک ہی لات پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ فوراً ہی دوسری لات بھی جڑ دی۔ کتا ناقابل برداشت تکلیف سے دہرا ہو گیا۔ امجد کی مزید لا تون سے بچنے کے لیے دور چلا گیا اور مسلسل بھوں بھوں کرنے لگا۔ جمال اٹھ چکا تھا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ امجد کی ذہنی رو پلٹ گئی تھی۔ اس نے ایک موٹا سا پتھر اُٹھایا اور کتے کی طرف پھینکا۔ ساتھ ساتھ میں وہ کتے کو گالیاں بکتا رہا۔ جمال نے آگے بڑھ کر اسے مشکل سے روکا۔
’’امجد… امجد… کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟ … پاگل ہو گئے ہو کیا؟ ہوش میں آؤ۔ ‘‘ جمال نے اسے جھنجوڑا۔
’’ہٹو…‘‘امجد نے اسے زور سے دھکا دیا۔ ‘‘ دور ہٹ جاؤ… میں اسے چھوڑوں گا نہیں … مذاق اڑاتا ہے میرا… مجھے کوئی کتا سمجھ رکھا ہے اس نے …‘‘
جمال نے دوبارہ بڑھ کر اسے پکڑ لیا‘‘ امجد… امجد… ادھر دیکھو مجھے … میں جمال ہوں … تمہارا دوست… خود کو تھکاؤ نہیں … تم بھوکے ہو… تمہاری بھوک بہت بڑھ جائے گی… بیٹھ جاؤ۔ ‘‘
امجد چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر شاید اسے اپنی دیوانگی کا احساس ہو گیا۔ وہ تھکے تھکے انداز میں واپس اپنی جگہ آ بیٹھا۔ جمال نے فلاسک میں سے پانی نکالا اور امجد کی طرف بڑھایا۔ ‘‘ لو… تھوڑا پانی پی لو… تمہارا حلق خشک ہو گیا ہو گا۔ ‘‘
امجد نے کچھ کہے بغیر گلاس منہ سے لگا لیا اور چند گھونٹ پی لیے۔ اگلے ہی لمحے اسے قے ہو گئی… خالی پیٹ نے پانی قبول نہیں کیا تھا۔ امجد قے کرنے کے بعد ہانپنے لگا۔ جمال نے اسے مزید کچھ نہیں کہا۔ وہ کھڑے ہو کر کتے کو دیکھنے لگا۔ پالتو کتا کچھ فاصلے پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ جمال نے اسے پچکاتا تو وہ دم ہلاتا ہوا نزدیک چلا آیا۔
’’تم نے خواہ مخواہ اس بے زبان کو مارا ہے … دیکھو کتنا وفادار جانور ہے۔ ‘‘
’’پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ ‘‘ امجد نے اپنا سر تھام لیا۔ ’’بس ایک دم ہی وحشت کا دورہ پڑ گیا تھا… اور میں اسے مار بیٹھا۔ ‘‘
’’لیٹ جاؤ… اور آرام کرو۔ ‘‘ جمال نے اسے تسلی دی۔ امجد نے لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔
اس نے لیٹتے ہی جمال نے نوٹ بک نکالی اور امجد کی کیفیت کے بارے میں تفصیلات لکھنے لگا۔ خود اس کا بھی بھوک نے برا حال کر رکھا تھا۔ لکھتے وقت نوٹ بک اسے پیزا دکھائی دے رہی تھی اور قلم اسے چوپ اسٹک کی مانند لگ رہا تھا۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ نوٹ بک کے ساتھ ساتھ قلم بھی کھا جائے۔ شاید اس طرح بھوک کا احساس کم ہو جائے۔ نوٹ بک لکھنے کے بعد وہ خود بھی لیٹ گیا۔ نہ جانے کیسے نیند سے اس کی آنکھیں جڑ گئیں۔
اگلا روز مزید وحشتیں لے آیا۔
آج تو جمال کو بھی ایسا لگ رہا تھا کہ دماغ کے ساتھ ساتھ اس کا وجود بھی گھوم رہا ہو۔ زمین کے گھومنے کی رفتار کیا ہے، آج اسے اس کا صحیح اندازہ ہو رہا تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اپنے قرب و جوار میں نظریں دوڑانے لگا۔ ڈاکٹر کے برابر میں پروفیسر امجد بھی وحشت زدہ انداز میں اسے ہی تک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ بھوک نے اسے سونے نہیں دیا تھا۔ خالی پیٹ نے اس کا دماغ بھی کھنڈر کر دیا تھا۔ ان کا پالتو کتا کچھ فاصلے پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کا پیٹ چمڑے کے کسی سوکھے تھیلے کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔
وہ نیم وا آنکھوں سے اپنے مالکوں کو دیکھ رہا تھا۔
’’کیسے حال ہیں امجد؟‘‘ ڈاکٹر جمال نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔
’’دیکھ لو تمہارے سامنے ہوں۔ ‘‘ پروفیسر امجد نے گہری سانس لے کر بولا۔ خالی پیٹ ہونے کی وجہ سے وہ گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔ ’’رات جو کچھ بھی… میں اس پر شرمندہ ہوں۔ ‘‘
’’اس میں قطعی تمہارا قصور نہیں ہے … ہم دونوں اس وقت تجرباتی دور میں ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر جمال جبراً مسکراتے ہوئے بولے، حالاں کہ اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ مسکرانے پر کتنی توانائی درکار ہوتی ہے۔
امجد کی ذہنی رو سست چل رہی تھی۔ اس کو اپنا پیٹ ایسے صحرا کی مانند محسوس ہو رہا تھا، جس میں ریت کے بگولے گھوم رہے ہوں اور ان کی سرسراتی آوازیں اسے اپنے دماغ میں محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ گہری سانس لیتا تو بگولے ختم ہو جاتے اور سانس چھوڑنے پر دوبارہ ابھر آتے۔ اسے ڈاکٹر جمال کی آواز جھینگر کے رینگنے کی آواز لگ رہی تھی، جو بلا وجہ دبیز خاموش ماحول میں خلل پیدا کر کے انسان کے اشتعال کو ابھارتا ہے، مگر اس وقت وہ ہوش مندانہ انداز میں گفتگو کر رہا تھا۔
ڈاکٹر جمال کہہ رہا تھا۔ ’’ میں نے تم سے کہا تھا کہ وقت گزرنے کے لیے میں تمہیں قصے سناؤں گا اور تم مجھے … چلو میں تمہیں قصہ سناتا ہوں … بہت دلچسپ ہے۔ ‘‘
’’اگر تم میں کچھ سکت ہو تو سنا دو… میں ہمہ تن گوش ہوں۔ ‘‘ پروفیسر آہستگی سے بولا۔
ڈاکٹر جمال کو اس کے لہجے میں طنز کا عنصر شامل محسوس ہوا۔ اس نے کہا ’’بھئی! ایک دفعہ جب میں انگلینڈ میں زیر تعلیم تھا تو ہاسٹل میں میرے ایک انگریز دوست نے مجھے رات کے کھانے پر مدعو کیا…‘‘
’’کھانے پر…؟‘‘ پروفیسر نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
’’واہ… واہ… کیا چیزیں تھیں … تلی ہوئی چھپکلیاں … حرام جانور کا گوشت… اور نہ جانے کیا الم غلم تھا، مگر میں نہیں کھا سکا تھا، ڈاکٹر جمال نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔
’’اور نہ اب کھا سکتے ہو۔ ‘‘ پروفیسر منہ بنا کر بولا۔ ’’لعنت ہو تم پر… تم بھوک سے دھیان ہٹانے کے لیے قصے سنا رہے ہو یا دھیان لگانے کے لیے ؟ اس سے بہتر ہے کہ تم خاموش ہو جاؤ۔ ‘‘
’’خاموش ہو جاؤں ؟‘‘ ڈاکٹر جمال سلگ اٹھا اور غصے میں اس نے جملہ دہرایا۔ ‘‘ میں کیوں ہو جاؤں خاموش… مجھ پر کیوں لعنت ہو… تم پر لعنت ہو… یو بلڈی فول…‘‘ ڈاکٹر جمال کے ماتھے پر تیوریاں چڑھ آئیں۔
’’جمال ہوش کرو… تمہارا ذہن بھٹک رہا ہے … اپنے غصے پہ قابو پاؤ۔ ‘‘ پروفیسر امجد نے تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، حالاں کہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بلڈی فول کہنے والے کے دو جھانپڑ رسید کر کے بلڈ نکال دے، مگر اس کے ہوش و حواس ابھی سلامت تھے۔
ڈاکٹر جمال اسے چبھتی ہوئی نظروں سے گھورنے لگا۔
پروفیسر امجد نے اپنی آنکھیں موند لیں اور اپنے دماغ کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ بیٹھے بیٹھے اس کا سارا جسم اکڑ گیا تھا، مگر کروٹ بدلنے یا کھڑے ہونے کو بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ یہ احساس مسلسل ستانے لگا کہ جانے کب اسے غذا میسر آئے۔ اس نے نیم وا آنکھوں سے ڈاکٹر جمال کو دیکھا۔ وہ نوٹ بک میں اپنی کیفیات قلم بند کر رہا تھا۔ ہر ہر لفظ پر اس کے منہ سے گہری سانس خارج ہوتی، جیسے وہ انتہائی مشقت طلب کام کر رہا ہو۔ پروفیسر امجد نے دیکھا کہ ان کا پالتو کتا اپنے پیروں کو زبان سے چاٹ رہا تھا۔ اس کے انداز میں چابک دستی نہ تھی، بلکہ واضح طور پر پژمردہ پن تھا۔ کبھی کبھی وہ دانتوں تلے اپنی ٹانگ دبا لیتا۔ اس کے منہ سے ہلکی ہلکی غراہٹیں ابھر رہی تھیں۔ اس کے انداز میں پراسرایت عود کر آئی تھی۔
بھوکا جانور اور خاص طور پر درندہ کتنا خطرناک ہو جاتا ہے، یہ سوچ کر امجد متوحش سا ہو گیا۔ امجد نے ہلکے سے ٹہوکے سے جمال کی توجہ کتے کی جانب مبذول کرائی۔ جمال گہری نظروں سے اس کا جائزہ لینے لگا۔ اس وقت اس کے چہرے پر سنجیدگی کی پرچھائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ کتا اپنے مالکوں کو اپنی جانب مبذول پا کر تھوتھنی اٹھائے ’’بخ بخ‘‘ کرنے لگا۔ رات والے واقعے کے بعد وفادار جانور نے اپنی تکلیف کو ضبط کرتے ہوئے آواز تک نہ نکالی تھی۔ وہ اشارہ سمجھتا تھا، چناں چہ جب جمال اور امجد اس کی جانب متوجہ ہوئے تو اس نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
جمال قلم اور نوٹ بک رکھ کر بمشکل چٹان کا سہارا لے کر کھڑا ہوا اور تھرماس اٹھائے جھکے جھکے انداز میں کتنے کی طرف بڑھا، جہاں اس کا پیالا بھی رکھا تھا۔ اس نے تھرماس سے پیالے میں پانی بھرا اور دوبارہ اسی طرح چلتا ہوا واپس اپنی جگہ آ بیٹھا۔ چند قدم کا فاصلہ عبور کرنے پر ہی اسے دانتوں تلے پسینہ آ گیا تھا۔ کتا پانی کے پیالے پر بے تابی سے لپکا اور جلدی جلدی اپنی زبان سے پانی پینے لگا۔ ڈاکٹر جمال اور پروفیسر امجد کو افسوس ہوا کہ اپنی تکلیف میں الجھ کر وہ دو دن تک کتے کو پانی بھی نہ پلا سکے۔
ڈاکٹر جمال نے اپنی جگہ نیم دراز ہو کر تھرماس سے منہ لگا لیا۔ پانی خالی معدے میں پہنچ کر بھوک کی آگ کو بھڑکانے لگا۔ اس وقت ڈاکٹر جمال نے محسوس کیا کہ جلتی پر تیل کس طرح اثرانداز ہوتا ہے۔ اس نے اپنے دانت سختی سے بھینچ لیے، جیسے کچھ برداشت کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
پروفیسر امجد دوسرے تھرماس سے چند گھونٹ پیتے ہوئے بولا۔ ’’کہو کیا محسوس کر رہے ہو؟‘‘۔
’’زندگی کی حقیقتوں کی طرح تلخ…‘‘ ڈاکٹر جمال ہولے سے بڑبڑایا۔
’’سچ کی طرح کڑوا… موت کی طرح بے رحم‘‘۔
’’مجھے بھی یہ ذائقے محسوس ہو رہے ہیں …‘‘ امجد زہر خند لہجے میں بولا۔
’’چھوڑا امجد… کچھ اور بات کرو… ورنہ یہ باتیں ذہن پر اثر ڈالنا شروع کر دیں گی۔ ‘‘ ڈاکٹر جمال نے کسی انجانے خوف کے تحت لرز کر کہا۔
’’ہمارے پاس باتیں کرنے کو ہے ہی کیا… جو ہمارا ذہن سوچ رہا ہے، وہ ہم بیان کر رہے ہیں ‘۔ ‘ پروفیسر امجد بولا۔
’’تو پھر ہم کیا کریں ؟‘‘ جمال پریشان ہونے لگا۔ اس کے دل کی دھڑکن کے ساتھ پیٹ میں دھچکے لگ رہے تھے اور خالی پیٹ میں پانی بہنے کی آوازیں محسوس ہو رہی تھیں۔
’’خاموشی…‘‘ پروفیسر امجد نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر سرگوشی کی۔ ’’فی الحال خاموش رہنا زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘
اس کے بعد واقعی کوئی نہ بولا۔ ان کے درمیان نہ جانے کتنی طویل خاموشی چھائی رہی۔ عجیب عجیب طرح کے خیالات ان کے دماغ میں صد پا کی طرح رینگ رہے تھے۔ چوتھے دن کا سورج آہستہ آہستہ اپنی مسافت طے کر کے شام کے اندھیروں میں ڈوبنے لگا تھا۔ پروفیسر امجد سوچ رہا تھا کہ شاید وہ لوگ سورج کے ساتھ ساتھ مسافت طے کر رہے ہیں اور دوڑتے دوڑتے ان کا برا حال ہو گیا ہے، مگر جانے کیا وجہ ہے کہ وہ رک نہیں سکتے۔
ڈاکٹر ادھر ادھر کروٹیں بدلتے ہوئے کسمسا رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ان کا ماتحت ذاکر مزے سے ان کی حرکات کا جائزہ لے رہا ہو گا اور اس کے پاس کھانے پینے کی اشیاء ہوں گی۔ ایک میں ہوں کہ بھوک کے مارے مرا جا رہا ہوں۔ لعنت ہو مجھ… وہ ہمارا اسسٹنٹ ہو کر مزے کر رہا ہے، خوب عیش سے کھا پی رہا ہو گا۔ اس گھٹیا موضوع پر عمل درآمد کرنے کی میں نے سوچا بھی کیوں … ایسی کی تیسی میری ڈاکٹری کی… خالی پیٹ میں تو انسان انسان نہیں رہتا تو پھر میں کیوں یہ فالتو کے تجربات کر رہا ہوں … آہ … ذاکر کے پاس تازہ تازہ سینڈوچ ہوں گے … گرما گرم بھنے ہوئے مرغ…
ممکن تھا کہ ڈاکٹر جمال کی کی ذہنی رو پلٹ جاتی، مگر وہ اچانک خیالوں کی دنیا سے واپس آ گیا ہو۔ ان کے پالتو کتے کو پتا نہیں کیا خبط سوار ہو گیا تھا، وہ رونے کے انداز میں منہ اوپر اٹھائے ہوکنے لگا تھا۔ پروفیسر بھی چونک کر عجیب نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ شام کے آنچل نے سورج کو ڈھانپ کر رات کے آنے کی خبر دی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دندناتے ہوئے ان کے گرد چکر لگا رہے تھے اور کتے کے ہوکنے کی دل دوز آواز شکستہ ماحول کی فصیل میں مزید دراڑ پیدا کر رہی تھی۔ ان کے پالتو کتے کا رخ ان ہی کی جانب تھا۔
اس کا انداز فریاد کناں اور ماتمی تھا۔ وہ مجسم التجا بن کر اپنے مالکوں سے پوچھ رہا تھا کہ انسان آخر اتنا مفاد پرست کیوں ہے کہ اپنے تجربات کی صلیب پہ جانور کو چڑھا دیتا ہے … اور میرا مصرف کیا اپنے مالک کی وفاداری کرنا ہے … انسانوں کے قانون میں ہے کہ جان پر بن آئے تو قتل بھی معاف ہوتا ہے … تو کیا یہ قانون جانور پر وضع نہیں کیے گئے ہیں یا جانور کے حقوق ہی نہیں بنائے گئے ہیں ؟ سائنسی لحاظ سے انسان بھی جانور ہی ہے۔ اگر میں حیوان مطلق ہوں تو انسان نے اپنے آپ کو حیوان ناطق کہلوانا شروع کر دیا۔ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے انسان اپنے اور جانور کے بیچ ایک گہری خلیج قائم کر دی، مگر پھر حاکمیت پسندی نے انسانی معاشرے کے مزید بٹوارے کر ڈالے۔ ذات پات اونچ نیچ سے لے کر جس کی لاٹھی اس کی بھینس تک… زمانے بدلنے کے حساب سے انسان معاشرے میں تجدید قانون کرتا چلا گیا اور پھر نئے وضع کردہ آئین میں ترمیم و اصلاح کے بعد پتا چلا کہ حاکم و محکوم کے درمیان کتنا فاصلہ قائم ہو چکا ہے۔ چناں چہ حیوان مطلق نے انسان کے رویوں کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتا تو پھر جانوروں کے حقوق کی حیثیت و وقعت اس کے سامنے ہیچ ہے۔
وفادار جانور نے بہ زبان سوز اپنی تکلیف کا اظہار کیا تھا، مگر ڈاکٹر جمال کو ان کے معنی و مفہوم کچھ اور ہی معلوم پڑے۔ وہ دنوں اسے یوں آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے جیسے وہ دہشت زدہ کرنے والی کوئی مخلوق ہو۔
اس نوحۂ عبرت نے فضا کو مفلوج کر دیا تھا مگر قبائے بے حسی اوڑھے پروفیسر امجد اور ڈاکٹر جمال کو اس کی یہ گستاخی ناقابل برداشت معلوم ہو رہی تھی۔ ہر گزرنے والی ساعت میں ان کے غضب میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ قبل اس کے کہ پروفیسر امجد اپنی ہمت مجتمع کر کے آگے بڑھتا، کتے نے خاموشی اختیار کر لی۔ شاید اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔ وہ گھائل ہو جانے والے جانور کی طرح چاروں ٹانگیں سیدھی کر کے زمین پر گر پڑا اور زور زور سے سانسیں لینے لگا۔ رات کے اندھیرے میں اس کا سوکھا پتلا پیٹ واضح طور پر پھولتا پچکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ تھوتھنی کے پاس سے دھول اڑاتی ہوئی زندگی کی چند بقیہ سانسیں بے ثبات وجود کے جلد ہم رنگ زمین ہو جانے کی خبر سنا رہی تھیں۔
ڈاکٹر جمال دم توڑتے ہوئے کتے کی کیفیات اپنی نوٹ بک میں تحریر کرنے لگا۔ وہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اتنی جلدی ایک طاقت ور کتے کی موت کیسے ہو سکتی ہے، مگر ہر دم پڑتے بھوک کے سوالات نے اس کی ذہنی طور پر صلاحیتیں سلب کر لی تھیں اور اتنے آسان سوال کا جواب وہ کافی سوچ و بچار کے بعد ڈھونڈ پایا کہ ان چار دنوں میں انہوں نے کتے کو ایک دو مرتبہ پانی پلایا تھا، مگر شاید وہ بھی بھوک کے مارے ٹھیک طرح سے پی نہیں پایا تھا اور وہ وفادار جانور اب صبر و ضبط کی ایک نئی مثال رقم کر کے موت سے ہم کنار ہونے جا رہا تھا۔ اس کی آخری دردیلی چیخ اس سفاک عفریت کے بے رحم پنجوں تک دب کر بلند ہوئی تھیں، جسے موت کہا جاتا ہے، ورنہ اس میں کچھ دم خم ہی نہ رہا تھا۔
’’یہ… یہ مر رہا ہے۔ ‘‘ پروفیسر امجد چلایا اور پھر قوت کے ضائع ہو جانے پر ہانپنے لگا۔
’’ہاں … ہاں۔ ‘‘ ڈاکٹر جمال بے جا غصے آ جانے پر ایک ہی الفاظ کی گردان کرنے لگا ’’ہاں …! یہ مر رہا ہے … سب مریں گے … سب ختم ہوں گے۔ ‘‘ طیش کے عالم میں وہ اول فول بکنے لگا۔
’’خبیث!… اسے تم مار رہے ہو… میرے پالتو کتے کو… اور … اور تم مجھے بھی مار دینا چاہتے ہو… اپنے آپ کو مار رہے ہو۔ ‘‘ پروفیسر امجد لرزتے ہوئے بولا۔ ’’تم نے کہا تھا کہ ہم دیوانے ہیں اور اپنے اوپر تجربہ کر سکیں گے … کیوں کہ تم بھی دور گزشتہ کے سرپھروں کی طرح مثال قائم کرنا چاہتے ہو… جو زہر کے ذائقے لکھ کر مر گئے تھے، مگر تم دنیا کے سب سے بڑے زہر کو چکھ رہے ہو۔ میرے کتے کو چکھا دیا اور مجھے بھی چکھا رہے ہو… تم جاننا چاہتے ہو کہ اس کا ذائقہ کتنا شدید تلخ ہو گیا ہے ؟ میری رگوں میں لاوا دوڑ رہا ہے۔ میرا معدہ غذا سے خالی پڑا ہے، لیکن اس میں آگ بھر گئی ہے، جس نے میرے پیٹ کو آتش فشاں بنا دیا ہے۔ میرا دماغ کھول رہا ہے … کوئی تیشۂ جلاد میرے اعصاب کو چیر رہا ہے۔ میری ہڈیاں گل رہی ہیں … لگتا ہے میں مر چکا ہوں اور میرا جسم قبر کے عذاب میں جل رہا ہے … ہاں میں جل رہا ہوں … زندہ جل رہا ہوں۔ ‘‘ پروفیسر امجد پر ہسٹریا کا دورہ پڑ گیا تھا۔
ڈاکٹر جمال بھی اپنے آپے میں نہ رہا۔ وہ پروفیسر امجد کی با توں سے بے نیاز ہذیان بک رہا تھا۔ نہ جانے کتنی دیر تک وہ عالم دیوانگی میں مبتلا چلاتے رہے۔ توانائیوں کے بھرپور استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانچویں دن کا سورج طلوع ہونے سے پہلے وہ بے ہوش ہو چکے تھے۔
سہ پہر کے وقت پروفیسر امجد کو ہوش آیا۔
اس نے دیکھا کہ وہ چٹان کے سائے میں لیٹے ہیں۔ اس نے جگہ کی تبدیلی پر غور کیا تو انداز ہوا کہ بے ہوشی کے دوران ان کا ماتحت ذاکر آیا تھا، جس نے انہیں احتیاط کے ساتھ چٹان کے سائے میں لا کر دن بھر سورج کی تپش سے محفوظ کر لیا تھا۔ اسے اپنے بازو پر چبھن کا احساس بھی ہوا تھا، جو یقیناً انجکشن کا تھا۔ ذاکر نے انہیں توانائی کا انجکشن بھی لگایا تھا کہ کہیں ان کا عالم بے ہوشی میں ہی انتقال نہ ہو جائے، لیکن پروفیسر امجد بھوک کی شدت اور شدید محسوس کر رہا تھا۔ توانائی کا انجکشن صرف اس حد تک کارآمد تھا کہ وہ ہوش میں آ سکیں۔
کچھ وقفے کے بعد ڈاکٹر جمال بھی ہوش میں آ گیا تھا۔ پانچ دن کی نقاہت نے اس کے جسم میں حیران کن حد تک تبدیلی پیدا کر دی تھی۔ پروفیسر امجد اجنبی نظروں سے اسے یوں تک رہا تھا، جیسے اس کے سامنے ڈاکٹر جمال کے بجائے کوئی سوختہ لاش پڑی ہو۔ اگر آئینہ ہوتا تو یہ خیال اپنے بارے میں بھی قائم کر لیتا۔ جو منظر اس کی نظروں نے پیش کیا، وہ اسی ڈگر پر سوچتا رہا، کیوں اور کیسے کے الفاظ اس کے دماغ سے غائب ہو چکے تھے۔
ڈاکٹر جمال نے رعشہ زدہ ہاتھوں کو بھرپور قوت کے بعد حرکت دی اور تھرماس اٹھا کر منہ سے لگا لیا۔ تھرماس دوبارہ بھر چکا تھا۔ ڈاکٹر جمال نے پانی کے چند گھونٹ کے ساتھ اپنے جسم میں موجزن ہونے والے درد کو بھی انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیا اور پروفیسر امجد سے مخاطب ہوا۔ ’’امجد۔ ‘‘
جواب میں پروفیسر امجد نے نگاہیں ادھر ادھر دوڑائیں کہ کون پکار رہا ہے۔ شاید میں نے خود نے کسی کو پکارا ہے … امجد کون ہے ؟کافی دیر سوالوں کے جواب تلاش کرتا رہا۔ پھر مزید کئی لمحات تک اپنے حواس کو قابو میں کرنے کے بعد بولا۔ ’’ہاں …‘‘
’’کتا مر گیا ہے … ہم بھی مر جائیں گے … سب فنا ہو جائیں گے۔ ‘‘ ڈاکٹر جمال کے خیالات وہاں مفقود ہو چکے تھے، جہاں وہ بے ہوش ہوا تھا۔
’’کتا مر گیا ہے ؟‘‘ پروفیسر امجد سہمے ہوئے لہجے میں بولا۔ ’’مم…مگر ہم نہیں مریں گے۔ ‘‘
’’نن… نہیں … یہ کیسے ممکن ہے … ہم لافانی نہیں ہیں۔ ‘‘ڈاکٹر جمال بڑبڑایا۔
’’ہم لافانی نہیں ہیں … مگر ایسے نہیں مریں گے … کھانا کھا کر مریں گے۔ ‘‘ پروفیسر امجد نے اپنے لہجے میں وثوق پیدا کیا۔
’’کھانا…؟‘‘ ڈاکٹر جمال کے لہجے میں سراسیمگی ختم ہو گئی۔ کوئی نیا خیال اس کے دماغ میں کوندے کی طرح لپکا تھا۔ ‘‘ہاں … اچھا اچھا کھانا… کیوں نہیں بھئی ہم کھانا کھائیں گے۔ ‘‘
’’ہم … ہم … کتے کو کھائیں گے۔ ‘‘ پروفیسر امجد سفاک انداز میں بولا۔ عام حالات میں وہ ایسا سوچ نہیں سکتے تھے، لیکن بھوک کے باعث پانچ دنوں میں پیدا ہونے والا گرداب اب طوفان کی شدت اختیار کر گیا تھا، جس نے ان کے دماغ کے ہر ستون کو شکستہ کر دیا تھا اور اب ان کی قوت ارادی متزلزل ہو کر ڈھے گئی تھی۔ غلاظت سے پر خیال اس وقت انہیں بہت خوب صورت لگ رہا تھا۔ ڈاکٹر جمال کی چمکتی ہوئی نگاہوں نے اس کے خیال کی تائید کی تھی۔ بیک وقت دونوں کے حلق سے غراہٹیں بلند ہوئی اور وہ طاقت ور درندوں کی طرح جست لگا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک شیطانی خیال نے ان کے اندر توانائی بھر دی تھی۔ سامنے کوئی امید اور منزل ملنے کی توقع ہو تو انسانی جسم کی پوشیدہ توانائیاں ابھر آتی ہیں اور کوئی خفیہ جذبہ اسے منزل تک پہنچنے تک قوت فراہم کرتا رہتا ہے۔ وہ دونوں اس کراہیت آمیز خیال کے ابھرنے والے جذبات کے تحت آدم خوروں کی طرح کتے پر ٹوٹ پڑے۔ خود بہ خود ان کے منہ سے غیر انسانی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ وہ اپنے دانتوں اور پنجوں سے کتے کے مردہ جسم کے بخیے کر رہے تھے۔
سفاکی… درندگی… آدم خوری… اور تذلیل انسانیت… سب جائز ہو گئی تھی۔ گندگی غلاظت اور کراہیت سب عنقا ہو چکی تھی اور یہ سب چیزیں تو وہ ہیں، جن کے احساس سے انسان نے خود کو پاک صاف رکھنا شروع کیا اور تہذیب و اخلاق کا علم بردار کہلانے لگا، مگر یہ وہ درندے تھے، جو مردار کتے کے گوشت کو اپنے پنجوں سے ادھیڑ کر اپنے شکم میں اتار رہے تھے۔ پیٹ کی آگ سرد کرنے کے لیے وہ غلاظت کی آگ کو بھڑکا رہے تھے، جس سے انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے اور شیطان کا نیا روپ جنم لیتا ہے۔
فضا ساکت تھی، ماحول منجمد تھا۔ انسان کی حیوانی غراہٹوں سے کرچی کرچی ہوتی خاموشی حیران تھی۔ دور کہیں موقع کی تاک میں منڈلاتے گدھ مشتعل تھے۔ گوشت پوست کے وجود کو خس و خاشاک میں تبدیل کر دینے والے حشرات الارض الجھن کا شکار تھے۔ ذرے ذرے کی دیکھنے والی نگاہیں ششدر تھیں کہ دنیا کی سب سے مہذب ترین مخلوق یا اشرف المخلوقات کیا روپ اختیار کر گئی ہے۔
ایک پتھر کے اوپر بیٹھا ہمرنگ زمین ہو جانے والا گرگٹ حسد میں مبتلا ہو گیا تھا کہ انسان نے گرگٹ کو سات رنگ بدلنے پر مشہور کر دیا تھا، مگر انسان کے خود کتنے رنگ ہیں ؟ اس سوال کا جواب کس کے پاس ہے ؟ پل پل بدلتی کیفیت کے ساتھ روپ بدلنے میں انسان کو گرگٹ سے زیادہ مہارت حاصل ہے۔ گرگٹ کو تو محض سات رنگ بدلنے پر بدنام کیا جاتا ہے، مگر انسان کے روپ تو اتنے ہیں کہ خود حیران ہے کہ اب تک جتنے رنگ دریافت ہو چکے ہیں انسان کے روپ اتنے ہی ہیں یا اس سے بھی زیادہ؟
بھوک کی شدت کے ساتھ عفریت کا روپ بدلنے والی انسانی نامی مخلوق اب آہستہ آہستہ سست پڑ رہی تھی اور پھر جب پیٹ کی آگ سرد پڑنے پر انہوں نے اپنی حالت پر نظر ڈالی تو بہت حواس باختہ ہوئے۔ وہ حیران اور متوحش تھے … پانی ان کے سر سے گزر چکا تھا اور وہ حیران تھے کہ وہ اس طوفانی درندگی کی لہروں کے زیر آب کب آ گئے۔ پشیمانی سے وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے۔ خون کے چھینٹے ان کے پورے جسم پر پھیل گئے تھے۔ ہاتھوں کی انگلیاں جو پنجے کی صورت اختیار کر گئی تھیں، جم جانے والے خون کی سیاہی اور گوشت کے پارچوں سے لبریز تھیں۔ غلاظت کی ناگوار بو ان کے وجود میں رچ بس گئی تھی اور حلق…! انسانی ڈگر پر لوٹ آنے سے جب یہ کراہیت آمیز احساس برپا ہوا تو ان کا جی متلانے لگا اور کتے کے گوشت کے چبائے ہوئے پارچے قے کی صورت میں باہر آ گئے۔ وہ نڈھال ہو کر گر پڑے۔ انہیں اپنے وجود سے گھن آنے لگی۔
بھوک کی عفریت نے انہیں انسانی جبلت کی ایک نئی جہت متعارف کرائی تھی۔ وہ آزردہ نظروں سے کتے کے کٹے پھٹے اجزاء کو دیکھ رہے تھے، جسے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے چیرا… پھاڑا… اور چبایا تھا۔ کتے کا کٹا پھٹا جسم پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ ’’دیکھو مجھے … مجھے حیوان ناطق اور درندہ کہہ کر تمسخر اڑانے والا انسان کس حد تک گر گیا ہے … میں وہ جانور ہوں، جس کی سرشت میں وفاداری ہے … آج میں نے اپنے مالک سے وفاداری کی خاطر بھوک برداشت کی اور مر گیا، مگر میرا مالک انسان بھوک پر مرا جا رہا ہے … افسوس کہ بھوک نے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا…‘‘
ایک غیر مرئی آواز کی بازگشت ان کے کانوں میں گونجنے لگی۔ وہ ایسے لرزنے لگے، جیسے ان کے کانوں میں کسی نے نقارہ بجایا ہو، ہر گزرتے پل کے ساتھ ان کی سانس رک رک جاتی تھی۔ بارِ ندامت تلے وہ دبے چلے جا رہے تھے اور بھوک کی عفریت منہ پھاڑے اپنی تباہ کاریوں کا مزید خراج وصول کرنے ان کے اذہان پر بار بار حملہ آور ہو رہی تھی۔ بڑے بڑے فلسفیوں اور دانش وروں نے کہا کہ وقت ہر زخم کا مرہم ہے، مگر ادھر تو جیسے جیسے وقت دے رہا ہے، ویسے ویسے تکلیف دے رہا تھا اور پھر وقت تو گزرنے سے ہی گزرتا ہے۔ انسان کے اختیار میں کہاں کہ وہ گزرتے وقت سے فرار ہو سکے۔
پروفیسر امجد اور ڈاکٹر جمال اپنی اپنی جگہ منہدم برجوں کی طرح پڑے محو خیال تھے۔ رنج و ملامت سے ان کی روحیں تک پشیمان تھیں اور بھوک کے الاؤ سے ان کا وجود دہک رہا تھا۔
’’پپ…پروفیسر… یہ کیا کر دیا ہم نے ؟‘‘ ڈاکٹر جمال نے اپنی حالت زار کے خیال سے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
’’کیا کر دیا ہم نے …؟‘‘ پروفیسر امجد نے کھوئے کھوئے لہجے میں پوچھا۔
’’یہ… یہ دیکھو…‘‘ ڈاکٹر جمال نے کتے کے باقیات کی جانب اشارہ کیا۔ اسے کراہیت سے ابکائی آ گئی۔
’’میرے پالتو کتے کے چیتھڑے …‘‘ پروفیسر چلایا۔ ’’کس نے کیے ؟‘‘
’’ہم دونوں نے … بھوک کی عفریت کے پنجوں تلے بے بس ہو کر۔ ’’ڈاکٹر تلخی سے بولا۔
’’ہم نے …؟ نہیں نہیں ہم نے نہیں صرف تم نے۔ ‘‘ پروفیسر نے گھبرا کر کہا۔ صدمے نے اس کی ذہنی صلاحیتیں سلب کر لیں تھیں اور وہ اس متعلق سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا ’’اسے میں نے نہیں کھایا… صرف تم نے کھایا ہے … تم وحشی درندے ہو… تم میرے پالتو کتے کو کھا گئے … اب مجھے بھی کھا جاؤ گے۔ ‘‘
پروفیسر سراسیمہ انداز میں کانپتا ہوا ڈاکٹر جمال کے پاس سرکنے لگا۔
’’امجد ہوش میں آؤ… کیا کہہ رہے ہو تم…؟‘‘ ڈاکٹر جمال بدحواسی سے بولا۔
’’ہاں میں صحیح کہہ رہا ہوں …‘‘ پروفیسر دھاڑا۔ پھر اس نے جانے اپنی حالت دیکھی تو کانپنے لگا۔ اسے اپنے حلق میں خون کی تلخی محسوس ہوئی۔
وحشی احساس حقیقت نے اس کے ذہن میں چپکے سے آ کر ڈرایا۔ ’’کتے کا خون… پروفیسر امجد … مالک… وحشی… درندگی… بربریت۔ ‘‘ بے ربط الفاظوں کے ٹکڑے اس کے ذہن میں چکرانے لگے، مگر ان کے معنوں نے اسے خوف زدہ کر ڈالا تھا۔
خیالوں کا یہ انتشار دھیرے دھیرے غیظ و غضب کا آتش فشاں بن رہا تھا، جو کسی بھی لحظہ پھٹ پڑنے کو بے چین تھا۔ جنوں کو خرد یا خرد کو جنوں کا نام دے دیا جائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پروفیسر امجد کا معدہ صدائے بھوک کی بازگشت تھا اور ذہن منتشر الخیال کی آماج گاہ، چناں چہ اس کے حواس جنوں و خرد کے زیر بار آ گئے تھے۔ وہ شروع ہی سے اس بے سروپا تجربے کا قائل تھا، اب جب کہ وہ اپنی ہی نگاہوں میں شرمسار ہو رہا تھا۔ تو اس کے دماغ میں ڈاکٹر جمال کا نام ابھرا، جو ان تمام واقعات کا ذمہ دار تھا اور جس کی وجہ سے اسے بھی اس تلخ تجربے میں ملوث ہونا پڑا۔ پروفیسر امجد اپنے ہی خیالات میں گرفتار جب کہیں بھی جائے فراریت اختیار نہ کر سکا تو وہ یکایک چلانے لگا۔
’’ ڈاکٹر!… وحشی تو نے مجھے مردار اور حرام جانور کھلا ڈالا… مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا… مجھے بھی درندہ بنا دیا… آہ … میں نام کا اشرف المخلوق رہ گیا۔ حرام خور بن گیا… مم … میں حرام خور ہوں …حرام جانور کھانے والا۔ ‘‘ پروفیسر کسی وحشی کی طرح چلانے لگا۔ ’’ جمال میں تجھے بھی نہیں چھوڑوں گا… کچا کھا جاؤں گا۔ ‘‘
پروفیسر امجد جنونی انداز میں ڈاکٹر جمال پر پل پڑا۔ جس دہشت کی بنا پر چند سیکنڈ پیش تر وہ ڈاکٹر جمال سے دور ہوا تھا، وہ اشتعال کے بڑھنے کی وجہ سے ختم ہو گئی تھی۔ اب وہ خود کوئی خوف ناک بلا کی طرح ڈاکٹر سے گتھم گتھا ہو گیا تھا۔ چھٹے دن کا سورج مزید وحشتوں کی ابتدا کے ساتھ ڈوبنے لگا تھا۔ رات کی ہول ناک تاریکیاں ہویدا ہو کر انسانیت سوزی کے مزید پہلو اجاگر کر رہی تھیں۔
ڈاکٹر جمال اس اچانک پڑ جانے والی افتاد پر بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا تھا۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ پروفیسر امجد کو دھکیل سکتا، مگر اسے اپنے جبڑے پر پڑنے والے پروفیسر امجد کے گھونسے جان دار معلوم ہو رہے تھے۔ پروفیسر امجد طیش میں آنے کی وجہ سے اپنی تمام بچی کھچی توانائیوں کا بھرپور استعمال کر رہا تھا۔ ڈاکٹر جمال کے چہرے پر جب تواتر سے مکے برسے تو اس کا پارہ بھی ایک دم چڑھ آیا اور وہ بھی جواباً پروفیسر امجد پر حملے کرنے لگا۔ ان میں طاقت تو تھی نہیں، چناں چہ ان کے ہاتھ پیر ڈھیلے ڈھالے انداز میں پڑتے، تاہم جب وہ ایک دوسرے پر پڑتے تو اس کا اثر انہیں بہت شدید محسوس ہوتا۔ دونوں کا جوش و خروش بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ زور زور سے ہانپ رہے تھے اور حملے کر رہے تھے۔ دونوں لڑتے لڑتے ڈھیلے ڈھالے انداز میں کھڑے ہو گئے۔ کمزوری کے باعث ان کے ہاتھ نیچے کی جانب جھول رہے تھے اور ان کی کمریں بھی جھکی ہوئی تھیں۔ وہ منظر بالکل کسی پتھر کے دور کا منظر پیش کر رہا تھا۔ دو وحشی درندے انسانی روپ میں کھڑے پتھروں اور چٹانوں کی پناہ میں ڈوئل لڑ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے دشمن بنے رات کی تاریکی میں ایک دوسرے پر جھپٹ رہے تھے۔ وہ کئی بار لڑھکے، اچھل اچھل کر دھپ سے گرے اور نکیلے پتھروں سے ٹکرائے۔ ان کے لباس شکستہ اور کٹے پھٹے ہو گئے تھے اور جسم لہولہان ہو گئے تھے۔ خون کی بو اور سرخی نے انہیں مزید وحشت زدہ کر دیا۔ ڈاکٹر جمال کی بانچھوں اور دانتوں کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں بھی خون اتر آیا۔ دونوں کے لڑنے کا انداز بالکل درندوں کی طرح تھا، جس میں سے کسی نے بھی دفاعی انداز اختیار نہ کیا تھا، حتی کہ تھپڑ منہ پر پڑتے تو اس سے بچاؤ کے لیے بھی نہ جھکتے۔
ایک مرتبہ ڈاکٹر جمال نے پروفیسر امجد کے منہ پر زوردار قسم کا مکا رسید کیا تو اس کا ہونٹ پھٹ گیا۔ وہ مکے کی شدت سے دھپ سے پتھروں پر جا گرا۔ درد نے اسے سر پٹخنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ڈاکٹر جمال نے پروفیسر امجد کو زیر ہوتا دیکھا تو وہ مزید حملے کی نیت سے اس کے او پر چڑھ دوڑا۔ اس نے ایک طرف پڑا موٹا سا چکنا پتھر اٹھا لیا اور پروفیسر امجد کے منہ پر دے مارا۔ درد کی شدت سے پروفیسر امجد کا جسم ایک جھٹکے کے ساتھ اچھل پڑا۔ اسی دوران ڈاکٹر جمال کا ہاتھ پروفیسر امجد کے چہرے کے نزدیک آیا۔ بھوک کے باعث جنم لینے والی پروفیسر امجد نامی مخلوق اپنی دیوانگی کی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اس نے پتھر کی ضربوں سے شکستہ ہو جانے والے لہولہان چہرے کو اپنے جبڑے میں دبا لیا اور اپنے جسم کی تمام تر قوت صرف کر دی۔ ڈاکٹر جمال نے اپنے ہاتھ کو زوردار جھٹکا مارا تو مزید درد کے ریلے اس کے وجود میں امڈ آئے۔ تکلیف کی زیادتی سے اس کی آنکھیں باہر کو ابل آئیں۔ وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر چلانے لگا۔ پروفیسر امجد اس کی کلائی کو جھنجوڑنے میں مصروف تھا۔ اس کے حلق سے غیر انسانی آوازیں نکل رہی تھیں۔ ڈاکٹر جمال نے غیر ارادی طور پر اپنے آزاد ہاتھ پیر چلائے اور اپنے دوسرے ہاتھ سے تواتر سے کئی گھونسے پروفیسر کے پیٹ میں رسید کیے۔ ایک زور دار کراہ کے ساتھ پروفیسر امجد نے اس کی کلائی چھوڑ دی اور تڑپنے کے انداز میں ہاتھ پیر زمین پر مارنے لگا۔ گھونسوں نے براہ راست اس کے معدے کو نقصان پہنچایا تھا۔ تڑپتے ہوئے کئی بار پروفیسر نے اپنے پیٹ کو بے یقینی سے دیکھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ گویا اس کا پیٹ پھٹ گیا ہو اور معدے پر کوئی بھاری بھاری خاردار گرز برسا رہا ہے، جو اس کے دماغ تک میں پیدا ہونے والی دھمک کے ساتھ برس رہا تھا۔
اس کا پیٹ سلامت تھا، مگر اندرونی طور پر درد کا طوفان اسے اٹھا پٹخ رہا تھا۔ ڈاکٹر جمال بھی کراہتا ہوا اور لرزتا ہوا پھٹی پھٹی نظروں سے اپنی کٹی پھٹی کلائی دیکھ رہا تھا۔ جس میں سے خون بھل بھل کر بہہ رہا تھا اور ایک جانب سے کلائی کی ہڈی نظر آ رہی تھی۔ بھوک کی عفریت نے تباہی کے مزید پہلو دکھا ڈالے تھے۔ اس کی پراسرار قوت نے انسان کے کردار و افعال کو مغلوب کر کے انہیں شکستہ اور ریختہ کر ڈالا تھا اور آج کے انسان کی فطرت کے کئی رخ طشت اَز بام کر ڈالے تھے۔ وہ دونوں آج کی مہذب دنیا کے تعلیم یافتہ انسان تھے اور پھر ایک دوسرے کے سچے پکے دوست تھے۔ ایسے دوست جو ایک دوسرے کی جان کو اپنی جان کی طرح عزیز سمجھتے تھے اور وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی مجبوری انہیں یوں آپس میں لڑانے پر آمادہ کرے گی۔
آخر لڑتے لڑتے وہ بے حال ہو گئے اور وحشتوں کی انتہا پر ہی ان کی لڑائی اختتام پذیر ہوئی۔ بھوک کے نام پر بچھنے والی بساط پر وہ پٹے ہوئے مہروں کی طرح ڈھے گئے اور تاریکی کی تند و تیز آندھیوں انہیں بے ہوشی کے طوفانوں میں لے گئیں۔
ہوش آنے کے بعد احساس سکون و آرام نے انہیں یہ باور کرایا کہ ان کے وجود کھردرے پتھروں پر نہیں ہیں۔ فوم کے گدوں پر تکیوں کی نرمی نے انہیں فرحت بخش احساس لوٹا دیا تھا۔ ڈاکٹر جمال کے برابر والے بیڈ پر ہی پروفیسر امجد لیٹا تھا۔ دونوں کے جسموں پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ توانائی بحال کرنے والے محلول بوند بوند ان کے جسم میں شامل ہو رہا تھا۔ احساسِ درندگی اور بربریت فنا ہو چکا تھا، کیوں کہ ان کی بھوک کا احساس بھی مر چکا تھا۔ اس وقت وہ دونوں ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں زیر علاج تھے۔ سامنے والی دیوار پر ان کا ماتحت ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ اس کا سر بار ندامت سے جھکا ہوا تھا۔ پروفیسر امجد سے باتیں کرنے والا دوست بھی ان کے طبقے کا پروفیسر تھا۔ ڈاکٹر جمال کو اٹھتا دیکھ کر وہ اس کے بیڈ کے سرہانے آ بیٹھا۔
اس کے چہرے پر تفکر اور جھنجلاہٹ کے آثار تھے۔ ’’آخر اس قسم کے جان لیوا تجربات کرنے کی کیوں کر سوجھی تمہیں ؟ پتا ہے تمہارے اس اقدام پر ہم پیشہ طبقے میں اور دوستوں، عزیزوں میں کتنی تشویش پھیل گئی تھی۔ اخبارات والوں نے تمہارے اس تجربے کو ایشو بنا لیا ہے کہ یہ سراسر حماقت اور اقدام خودکشی ہے۔ بھلا بھوک کا مفہوم جاننے کے لیے کون اپنی جان جوکھوں میں ڈالے گا؟ اور تم نے یہ تیر مار کر کون سا سبق یا مقصد حاصل کر لیا ہے … اور پھر آخر اس مفہوم سے کون سبق سیکھے گا؟ کون قدر کرے گا؟ معلوم ہے تم پورے چھتیس گھنٹوں کے بعد ہوش میں آئے ہو۔ دونوں کی حالت ایک جیسی مرنے کے قریب تھی۔ ان تمام با توں سے میں کتنا پریشان ہوا۔ تمہیں کچھ احساس ہے ؟ اپنے ساتھیوں اور اپنے دوستوں کی پریشانی کا؟‘‘
وہ محبت اور اپنائیت سے انہیں ڈانٹتا رہا اور پروفیسر امجد اور ڈاکٹر جمال احمقوں کی طرح اس کی شکل دیکھنے لگے۔ انہیں اس کی محبت دیکھ کر کچھ احساس ہوا کہ ابھی دنیا میں مروت باقی ہے۔
کافی دیر تک ان کی عیادت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ پھر جب کچھ فرصت میسر آئی تو پروفیسر امجد نے ڈاکٹر کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’تجربے کی شروعات کے حساب سے آج آٹھواں دن ہے۔ ‘‘
’’ہاں … ہمارا تجربہ ادھورا رہ گیا۔ ‘‘ ڈاکٹر جمال نے حسرت سے کہا۔
’’مگر پھر بھی ہم نے کچھ مقصد تو پا لیا۔ ‘‘ پروفیسر امجد نے کہا۔
’’کچھ مقصد…۔ ‘‘ ڈاکٹر جمال اس جملے کی جزئیات پر غور کرتا ہوا بڑبڑایا۔ ’’اس تجربے سے تم نے کیا نتیجہ اخذ کیا… یعنی انسانی فطرت کے لحاظ سے بھوک کیا معنی رکھتی ہے ؟‘‘
’’بھوک ایک بلا ہے۔ ‘‘ پروفیسر امجد نے کہنا شروع کیا۔ ’’سب سے بڑی عفریت، جس کا دوسرا نام ہوس ہے۔ بھوک تو پیسے کی بھی ہوتی ہے۔ اس کی اشتہا غذائی بھوک کے برابر ہوتی ہے۔ حرص، طمع، لالچ اور حسد یہ بھوک کے پیدا کردہ عناصر… وہ عناصر جس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔ منافقت… دروغ گوئی… دہشت گردی اور رشتوں کی پامالی سے لے کر آدمی کے اپنے آپ بکنے تک… اور جفا کاری کی لہو رنگ داستانوں تک… اور دنیا میں بربریت کا فروغ پانے تک… سب بھوک کی پیداوار ہیں، کوئی ایک روٹی کے پیچھے جان دیتا ہے … کوئی تشنہ آرزوؤں کی تکمیل کے لیے۔ روپے کی ہوس میں بھائی نے بھائی کا گلہ کاٹ دیا یا پھر زمین کے کسی ٹکڑے کے لالچ میں دو گھرانے فنا ہو گئے … پستول… بندوق… مشین گن… گرنیڈ… ایٹم بم اور دوسرے تباہ کار عناصر کا تصور کتنا دہشت ناک ہوتا ہے، مگر اسے بناتے وقت انسان دہشت زدہ کیوں نہ ہوا؟ اور دہشت کی ان علامتوں کا وجود کس طرح عمل میں آیا؟ ہم سب نے ایک عام مقولہ پڑھ رکھا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے … اس کی تشریح یہ ہے کہ انسان بھوکا ہے روٹی کے ٹکڑے کا… روپے پیسے اور جائیداد کا… اور ان کے حصول کے لیے وہ طاقت ور ہونا چاہتا ہے … ان تباہ کار عناصر کی ایجاد بھی اس لیے پیش آئی، تاکہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی خواہشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے اور اپنی بھوک مٹا سکے، چناں چہ اس حساب سے بھوک تو ان سب ہتھیاروں اور تباہ کاریوں کی ماں کہلائی… جس کی ضرورت اور اشتہا نے ان سب عناصر کو جنم دیا…‘‘۔
’’مجھے بھی ان خیالات کا احساس ہوا تھا…مگر میں نے ایک اور بھی تجزیہ کیا ہے کہ آخر بھوک سے بچاؤ کی صورت کیا ہو سکتی ہے ؟ ‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’وہ کیا صورت ہے ؟‘‘ پروفیسر نے تجسس سے کہا۔
’’ایک ہی جذبہ ہے جو بھوک نامی عفریت کے جذبے کو زیر کر دیتا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر نے چند لمحے کے توقف میں سسپنس پیدا کیا اور ایک ٹھنڈی سانس بھر کر گویا ہوا۔ ’’جذبۂ ایمان… وہ عظیم جذبہ جو بھوک کی عفریت کو مار دیتا ہے۔ خواہ بھوک کسی بھی صورت میں کیوں نہ ہو… تم نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ صاحب ایمان لوگ کس طرح بھوک کی شدت کو برداشت کرتے تھے، اس لیے ہم پر روزے فرض ہیں کہ صبر و استقامت کا امتحان بھی ہو اور بھوک میں اپنے اشتعال اور نفس پر قابو بھی ہو… مگر دیکھو کہ حضور اکرمﷺ کے تین دن کے روزے … پھر غزوہ خندق کے موقع پر آپﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کا صبر… عفو و درگزر… ایمان پر ثابت قدمی… دنیا پر نظر ڈالو کہ ایک طرف صومالیہ کا غذائی بحران اور روس میں جنگ کا وہ منظر جس میں غذائی بحران کے موقع پر فوجیوں نے روٹی کے ٹکڑوں کے بدلے اپنا اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا تھا اور دوسرا جنگ کا وہ منظر جو صاحب ایمان نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ پانی پلانے والا لب جاں زخموں سے چور اور پیاس سے بے دم ہوتے ہوئے مجاہد کی پانی کی پکار پر پانی پلانے جاتا، مگر جاں بلب مجاہد کے پانی پینے سے قبل دوسرے مجاہد کی پیاس میں تڑپتی ہوئی آواز سنائی دیتی اور وہ پانی پلانے والے کو آگے بڑھا دیتا کہ پہلے میرے بھائی کو پانی پلا دو، خود اپنے دل پر صبر کر لیتا۔ اس طرح ایک ایک کر کے مجاہدوں نے تحمل اور صبر کا وہ عظیم مظاہرہ پیش کیا کہ سپاہی پیاسے جام شہادت نوش کر گئے … اور پھر بنگال کا وہ خوف ناک قحط جہاں بھوک کی عفریت کے پنجوں تلے مجبور و بے بس ہو کر ماؤں نے چند مٹھی چاولوں کے عوض اپنی اولادوں اور اپنے پیارے بچوں کو فروخت کر ڈالا تھا اور دوسری طرف واقعۂ عظیم کربلا کے مقام پر خدا کے پیاروں نے اسلام کو پھر زندہ کیا تھا، ادھر تو ماؤں نے نہ صرف خود بڑے حوصلے سے بھوک و پیاس کو برداشت کیا بلکہ اپنے لخت جگروں کو بھوک وپیاس میں مبتلا تپتی ہوئی ریگزار میں ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے دیکھا۔ بربریت کو ڈھا دینے کی کوششوں میں مصروف دیکھا اور اسلام کے نام پر شہید ہوتے دیکھا… اور کربلا کی فضا نے شہید اعظم کا وہ سجدہ دیکھا، جو سرقلم ہوتے وقت خدا کے حضور جھکا ہوا تھا… آج تک اس کی صدا پکار پکار کر کہتی ہے کہ خدا کی راہ میں لڑتے وقت ہر قسم کے ظلم و ستم… آلام و مصائب اور عفریتوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ بھوک و پیاس کا تپتے ہوئے صحرا کا اور اسلام دشمن عناصر کا۔ ‘‘ جذبات کی شدت سے ڈاکٹر جمال پر رقت طاری ہو گئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ پروفیسر کی آنکھوں میں بھی آنسو امڈ آئے تھے۔
’’کوئی مقابلہ ہی نہیں … کہاں مٹھی بھر چاولوں کے عوض ماؤں نے بچوں کو فروخت کر دیا تو کہاں ایمان کی قوت سے لبریز ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے بھوک و پیاس اور تمام مظالم کو بڑے حوصلے سے برداشت کیا۔ ‘‘
’’اور ہم جیسے مسلمانوں سے ذرا بھی بھوک برداشت نہیں ہوتی۔ ‘‘ پروفیسر نے تاسف سے کہا۔ ’’پیسے اور روٹی کے بھوک، حرص و ہوس آج کل ہم سب میں عام برائیاں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم میں ایمان نہ رہا کہ اپنی بڑھتی ہوئی بھوک پر قابو پا سکیں … یا پھر ہمارے اندر ایمان ہے بھی تو وہ قدرے کمزور پڑ چکا ہے۔ ‘‘
’’ایک بات اور رہ گئی اس کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا۔ ’’ہم شادی بیاہ اور تقریبات میں کھانا لٹاتے ہیں … اور آج کل ایک نیا کھیل کھیلتے ہیں کہ کیک، کسٹرڈ، پیسٹریاں اور انڈے وغیرہ ایک دوسرے پر مار کے محظوظ ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ یہ کھانا اور یہ غذا ان غریبوں کے کام آ سکتی ہے، جو بھوک کی عفریت میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘
’’ہم اپنی اصلاح کر کے ایمان کو پختہ کر سکتے ہیں۔ ‘‘ پروفیسر امجد نے کہا۔
’’ اور بھوک کے تجربے سے حاصل ہونے والے مقصد کو پوری دنیا میں پھیلا سکتے ہیں ‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا۔
پروفیسر امجد کی آنکھوں میں بھی عزم کے جگنو چمکے۔ ’’بھوک کی عفریت سے نجات کی اولین شرط پختہ ایمان کا ہونا ہے۔ ‘‘
٭٭٭
ماخذ اور تشکر: کتاب ایپ
www.kitaabapp.com
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید