بسم اللہ الرحمان الرحیم
کلیات اسماعیل میرٹھی
جلد اول
فہرس
مثنویات... 7
(۱) صنائع الہی.. 7
(۲) خدا کی صنعت...... 16
(۳) خطبہ.... 22
(۴) تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہو جاتا ہے... 28
(۵) ایک وقت میں ایک کام. 31
(۶) ہوا چلی... 33
(۷) پن چکی... 35
(۸) اسلم کی بلی.. 38
(۹) بچہ اور ماں.. 40
(۱۰) ماں اور بچہ.. 42
(۱۱) ایک مور اور کلنگ..... 44
(۱۲) عجیب چڑیا. 46
(۱۳) ایک لڑکا اور بیر.. 49
(۱۴) ایک پودا اور گھاس.. 51
(۱۵) ایک جگنو اور بچہ کی باتیں... 54
(۱۶)ایک گھوڑا اور اس کا سایہ. 57
(۱۷) ایک کتا اور اس کی پرچھائیں... 59
(۱۸) ریل گاڑی. 61
(۱۹) ہماری گائے... 64
(۲۰) سچ کہو.. 67
(۲۱ ) ہمارا کتا ٹیپو.. 70
(۲۲) شفق.... 72
(۲۳) رات... 74
(۲۴) گرمی کا مہینہ.... 77
(۲۵) برسات... 79
(۲۶) ملمع کی انگوٹھی... 81
(۲۷) دال کی فریاد 83
(۲۸) دال چپاتی. 88
(۲۹) دو مکھیاں.. 92
(۳۰) مثنوی آب زلال.. 94
(۳۱) موعظت...... 102
(۳۲) داناؤں کی نصیحت دل سے سنو... 104
(۳۳) چھوٹے سے کام کا بڑا نتیجہ.... 107
(۳۴ ) اونٹ... 110
(۳۵) شیر... 113
(۳۶) کیڑا 115
(۳۷) ایک قانع مفلس...... 118
(۳۸) موت کی گھڑی.. 121
(۳۹) فادر ولیم.. 124
(۴۰) حب وطن... 128
(۴۱) انسان کی خام خیالی. 131
(۴۲) کوہ ہمالہ. 134
(۴۳) بارش کا پہلا قطرہ 139
(۴۴) مثنوی باد مراد. 143
(۴۵) ایک گنوار اور قوس قزح.. 153
(۴۶) ترک تکبر.... 155
(۴۷) حیا.. 158
(۴۸) کچھوا اور خرگوش.. 161
(۴۹) مناقشہ ہوا و آفتاب... 167
(۵۰) نا قدردانی. 172
(۵۱) جنگ روم و روس.. 174
(۵۲) مکالمہ سیف و قلم... 179
(۵۳) شمع ہستی.... 194
(۵۴) مثنوی فی العقائد.. 202
(۵۴) حمد باری تعالی. 206
(۵۶) یاد حضرت شیخ.. 212
(۵۷) صفت شیخ.. 223
(۵۸) مناجات... 225
(۵۹) غصہ کا ضبط... 248
(۶۰) ادب.. 249
(۶۱) چغل خوری. 250
(۶۲) آزادی غنیمت ہے... 251
(۶۳) طلب خیر میں قناعت سے حرص بہتر ہے... 251
(۶۴) تکبر میں ذلت اور تواضع میں عزت... 252
مثلث..... 253
اب آرام کرو 253
مربع.. 256
اچھا زمانہ آنے والا ہے... 256
مخمس..... 259
(۱) اک چھوٹی چیونٹی.. 259
(۲) کوشش کئے جاؤ 261
(۳) میرا خدا میرے ساتھ ہے... 265
(۴) صبح کی آمد. 268
(۵) خدا قیصرہ الہند کو سلامت رکھے... 273
نظم بے قافیہ.. 276
(۱) چڑیا کے بچے... 276
(۲) تاروں بھری رات... 277
مسدس.. 280
(۱) ماں کی مامتا.. 280
(۲) مرثیہ سید اقبال احمد مرحوم. 286
(۳) مرثیہ پلیونا 288
(۴) متفرقات... 291
(۱) مثمن..... 292
مشعر کیفیت قلعہ اکبر آباد موسوم بہ آثار سلف.... 292
انسان.. 321
ترجیع بند.. 322
(۱) نالہ چند در فراق شیخ.. 322
(۲) ہفت درود محمود 331
قصائد.. 337
قصیدہ 337
(۲) قصیدہ نا تمام. 343
(۳) قصیدہ 345
(۴) خشک سالی. 350
(۵) عیدی شب برات... 353
(۶) عیدالفطر.... 356
(۷) نذرانہ پیر جی.. 359
(۸) نذرانہ پیر جی.. 361
(۹) جریدہ عبرت... 364
مثنویات
(۱) صنائع الہی
خدایا نہیں کوئی تیرے سوا
اگر تو نہ ہوتا تو ہوتا ہی کیا
تصور تیری ذات کا ہے محال
کسے یہ سکت اور کہاں یہ مجال
تعقل میں اتنی صفائی کہاں
تفکر کو ایسی رسائی کہاں
یہاں عقل جاتی ہے آئی ہوئی
تخیل پہ ہیبت ہے چھائی ہوئی
تفکر کے جلتے ہیں پر اس جگہ
تصور کا کٹتا ہے سر اس جگہ
کسی کی یہاں دال گلتی نہیں
کسی کی یہاں چال چلتی نہیں
نہ ٹھیری کوئی ناؤ اس موج میں
نہ پہنچا کوئی تیر اس اوج میں
جلا اس ہوا میں نہ کوئی چراغ
پریشاں ہوئے دل تھکے سب دماغ
جو ہوتی مشابہ ترے کوئی چیز
تو کچھ کام کرتی سمجھ با تمیز
ترا کوئی ہم جنس و ہمتا نہیں
گماں کا یہاں پاؤں جمتا نہیں
سمجھ کیا ہے ؟ اور سمجھ کی کیا بساط ؟
سمندر سے قطرہ کا کیا ارتباط؟
چلی بوند لینے سمندر کی تھا
یکایک لیا موج نے اس کو کھا
ہوئی آپ ہی گم تو پائے کسے؟
بتائے وہ کیا اور جتائے کسے؟
اگر تیری قدرت کی کاریگری
نہ کرتی سمجھ بوجھ کی رہبری
تو وہ سر پٹکتی ہی رہتی مدام
طلب میں بھٹکتی ہی رہتی مدام
بنائی ہے تو نے یہ کیا خوب چھت
کہ ہے سارے عالم کی جس میں کھپت
یہ سقف کہن ہے ابھی تک نئی
اسے دیکھتی یوں ہی دنیا گئی
زمین پر گئیں کتنی نسلیں گزر
رہی اس کی ہیبت پہ سب کی نظر
اسے سب نے پایا اسی ڈھنگ میں
اسے سب نے دیکھا اسی رنگ میں
عجب ہے ، یہ خیمہ رسن ہے نہ چوب
ہمیشہ مصفا ہے بے رفت و روب
نہ در ہے نہ منظر نہ کوئی شگاف
ادھر سے ادھر تک ہے میدان صاف
جھروکا نہ کھڑکی نہ در ہے نہ چھید
عجب تیری قدرت عجب تیرے بھید
کہیں جوڑ ہے اور نہ پیوند ہے
جدھر دیکھئے اس طرف بند ہے
بنایا ہے کیا دست قدرت نے گول
چرس ہے نہ جھری نہ سلوٹ نہ جھول
عجب قدرتی شامیانہ ہے یہ
نظر کی پہنچ کا ٹھکانہ ہے یہ
ہوا کو دیا تو نے کیا خوب رنگ
سراسیمہ ہے عقل اور فکر دنگ
پرے اس کی حد سے نہ جائے نظر
جہاں تک نظر جائے آئے نظر
یہ تارے جو ہیں آتے جاتے ہوئے
چمکتے ہوئے جگمگاتے ہوئے
نظر آ رہے ہیں عجب شان سے
ہیں لٹکے ہوئے سقف ایوان سے
چراغ ایسے روشن جو بن تیل ہیں
یہ تیری ہی قدرت کے سب کھیل ہیں
یہ لعل و گہر ہیں جو بکھرے پڑے
زمین سے بھی ہیں ان میں اکثر بڑے
کوئی ان میں سورج کوئی ان میں چاند
کہ ماہ خور سامنے جن کے ماند
نظر میں جو اتنے سے آتے ہیں یہ
بہت دور چکر لگاتے ہیں یہ
پڑے اپنے چکر میں ہیں گھومتے
ترے حکم کے ذوق میں جھومتے
یہ قائم ہیں تیری ہی تقدیر سے
بندھے ہیں بہم سخت زنجیر سے
گھسے جو کبھی اور نہ ٹوٹے کبھی
نہ اس بند سے کوئی چھوٹے کبھی
رسائی سے ہاتھوں کی برتر ہے وہ
نظر کے بھی قابو سے باہر ہے وہ
نہ سیمیں نہ زریں نہ وہ آہنی
مگر دست قدرت سے ہے وہ بنی
کھلے کب ، کوئی اس کو کھولے اگر
اسے عقل پائے ٹٹولے اگر
وہ زنجیر کیا ہے کشش باہمی
نہ اس میں خلل ہو نہ بیشی کمی
عجب تو نے باندھی ہے یہ باگ ڈور
تلا سب کا رہتا ہے آپس میں زور
یہ سب لگ رہے ہیں اس لاگ پر
لگاتے ہیں چکر اسی باگ پر
ہر اک کے لئے اک معین ہے دور
وہی اک وتیرہ وہی ایک طور
نشہ میں اطاعت کے سب چور ہیں
کہ قانون قدرت سے مجبور ہیں
سدا چال کا ایک انداز ہے
نہ کھٹکا نہ آہٹ نہ آواز ہے
کبھی چلتے چلتے ٹھٹکتے نہیں
طریقہ سے اپنے بھٹکتے نہیں
ہے ان سب کا آئین ایجاد ایک
ہنر ایک ہے اور استاد ایک
یہ شاخیں ہیں سب ایک ہی اصل کی
بہاریں ہیں کل ایک ہی فصل کی
ہر اک چیز ذرہ سے تا آفتاب
بلاشبہ رکھتی ہے یکساں حساب
ہیں ذروں میں خورشید کی سی صفات
ہے خورشید بھی ذرہ کائنات
حقیقت میں ہے یاں دو رنگی کہاں
جہاں ذرہ ہے اور ذرہ جہاں
نہیں تیری قدرت سے کچھ یہ بعید
کہ ہو ہر ستارہ جہان جدید
نہیں تیرے لطف و کرم سے عجب
کہ ہو اس جہاں میں بھی مخلوق سب
ہو گرمی بھی سردی بھی برسات بھی
اندھیرا اجالا بھی دن رات بھی
یہ ندی نالے یہ سمندر یہ پہاڑ
یہی بیل بوٹے درخت اور جھاڑ
ہوا بھی ہو اور لطف باراں بھی ہو
خزاں بھی ہو فصل بہاراں بھی ہو
ہو سر پر اسی طور سے آسمان
ہو پاؤں کے نیچے زمین بھی وہاں
فلک پر ستارے بھی ہوں جلوہ گر
وہاں بھی ہو دوران شمس و قمر
ہوں انسان بھی اور حیوان بھی
ہر اک جنس کا ساز و سامان بھی
٭٭٭
(۲) خدا کی صنعت
جو چیز خدا نے ہے بنائی
اس میں ظاہر ہے خوشنمائی
کیا خوب ہے رنگ ڈھنگ سب کا
چھوٹی بڑی جس قدر ہیں اشیا
روشن چیزیں بنائیں اس نے
اچھی شکلیں دکھائیں اس نے
ہر چیز کی ادا ہے نرالی
حکمت سے نہیں ہے کوئی خالی
ہر چیز ہے ٹھیک ٹھیک لاریب
ہیں اس کے تمام کام بے عیب
ننھی کلیاں چٹک رہی ہیں
چھوٹی چڑیاں پھدک رہی ہیں
اس کی قدرت سے پھول مہکے
پھولوں پہ پرند آ کے چہکے
چڑیوں کے عجیب پر لگائے
اور پھول ہیں عطر میں بسائے
چڑیوں کی ہے بھانت بھانت آواز
پھولوں کا جدا جدا ہے انداز
محلوں میں امیر ہیں بہ آرام
ہے در پہ کھڑا غریب ناکام
ہے کوئی غنی تو کوئی محتاج
بے گھر ہے کوئی کسی کے گھر راج
روزی دونوں کو دی خدا نے
معمور ہیں قدرتی خزانے
تاروں بھری رات کیا بنائی
دن کو بخشی عجب صفائی
موتی سے پڑے ہوئے ہیں لاکھوں
ہیرے سے جڑے ہوئے ہیں لاکھوں
کیا دودھ سی چاندنی ہے چھٹکی
حیران ہو کر نگاہ ٹھٹکی
تارے رہے صبح تک نہ وہ چاند
آگے سورج کے ہو گئے ماند
نیلا نیلا اب آسمان ہے
وہ رات کی انجمن کہاں ہے
شام آئی تو اس نے پردہ ڈالا
پھر صبح نے کر دیا اجالا
جاڑا ، گرمی ، بہار ، برسات
ہر رت میں نیا سماں نئی بات
جاڑے سے بدن ہے تھرتھراتا
ہر شخص ہے دن میں دھوپ کھاتا
سردی سے ہیں ہاتھ پاؤں ٹھرتے
سب لوگ الاؤ پر ہیں گرتے
سرسوں پھولی بسنت آئی
ہولی پھاگن میں رنگ لائی
پھوٹیں نئی کونپلیں شجر میں
اک جوش بھرا ہوا ہے سر میں
جاڑے کی جو رت پلٹ گئی ہے
دن بڑھ گیا رات گھٹ گئی ہے
گرمی نے زمین کو تپایا
بھانے لگا ہر کسی کو سایہ
برسات میں دل ہیں بادلوں کے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
رو آئی ہے زور شور کرتی
دامان زمین کو کترتی
کس زور سے بہہ رہا ہے نالا
اونچے ٹیلے کو کاٹ ڈالا
بل کھا کے ندی نکل گئی ہے
رخ اپنا ادھر بدل گئی ہے
دریا ہے رواں پہاڑ کے پاس
بستی ہے بسی اجاڑ کے پاس
بستی کے ادھر ادھر ہے جنگل
جنگل ہی میں ہو رہا ہے منگل
مٹی سے خدا نے باغ اگائے
باغوں میں اسی نے پھل لگائے
میوے سے لدی ہوئی ہے ڈالی
دانوں سے بھری ہوئی ہے بالی
سبزے سے ہرا بھرا ہے میدان
اونچے اونچے درخت ذی شاں
ہم کھیلتے ہیں وہاں کبڈی
مبری ہے کوئی۔۔ کوئی ہے پھسڈی
گائے بھینسیں عجب بنائیں
کیا دودھ کی ندیاں بہائیں
پیدا کیے اونٹ بیل گھوڑے
ہر شے کے بنا دیے ہیں جوڑے
روشن آنکھیں بنائیں دو دو
قدرت کی بہار دیکھنے کو
دو ہونٹ دیئے کہ منہ سے بولیں
شکر اس کا کریں زبان کھولیں
ہر شے اس نے بنائی نادر
بیشک ہے خدا قوی و قادر
٭٭٭
(۳) خطبہ
حمد و سپاس حصہ اس ذات پاک کا ہے
جو آسرا سہارا کل کائنات کا ہے
جب کچھ نہ تھا وہی تھا اس کے سوا نہ تھا کچھ
کچھ ہو نہ ہو وہ ہو گا۔ قدرت ہے اس کی کیا کچھ
کن خوبیوں سے اس نے اس بزم کو سجایا
اور خلعت شرافت انسان کو پہنایا
اللہ رے اس کی قدرت، اللہ رے بے نیازی
دی بعض کو بہ نسبت بعضوں کے سرفرازی
پھر خاص خاص بندے جو اس نے چن لیئے ہیں
کیا کیا بلند رتبے ان کو عطا کئے ہیں
یاں بندگی ہے اور واں بندہ نوازیاں ہیں
یاں سر جھکا ہوا ہے واں سرفرازیاں ہیں
انسان ہی نہ ہوتا جو بندگی نہ ہوتی
اندھیر تھا جو دل میں یہ لو لگی نہ ہوتی
طاعت کا آدمی کو فرمان کیوں ملا ہے
بے حد وہاں مہیا انعام اور صلہ ہے
ہے اذن عام لوگو، خوان کرم پہ ٹوٹو
بھر بھر کے جھولیاں لو۔ دوڑو ثواب لوٹو
تم بھی نہیں ہو محروم۔ آؤ گناہ گارو
گر صدق دل سے اپنے غفار کو پکارو
تو پاؤ گے ہمیشہ توبہ کا در کھلا تم
رحمت ہے اس کی بے حد کرتے ہو فکر کیا تم
ہر وقت باڑھ پر ہے لطف و کرم کا دریا
دو چار ہاتھ مارو۔ لگتا ہے پار کھیوا
پھر اس کی نعمتیں ہیں اور عیش ہیں جناں کے
افسوس۔ جو نہ مانیں گن ایسے مہربان کے
میں حمد اس کی ہر دم کرتا ہوں جان و دل سے
اور شکر ہے ٹپکتا اس میری آب و گل سے
میں اس کی مغفرت کا ہوں جی سے آرزومند
توبہ ہے اس کے آگے۔ توبہ کا در نہیں بند
٭٭
میں اس سے چاہتا ہوں دنیا میں تندرستی
دے اپنی راہ میں وہ میرے قدم کو چستی
بادل برس پڑے کاش اس کی عنایتوں کا
ابلے زمین دل سے چشمہ ہدایتوں کا
رہنا گواہ تم بھی دیتا ہوں میں شہادت
ہے پاک ذات اس کی بس قابل عبادت
اس کے سوا تو کوئی معبود ہی نہیں ہے
ہاں۔ اس کے ہوتے کوئی موجود ہی نہیں ہے
یکتا ہے وہ۔ کہاں ہے ؟ اس کا شریک کوئی
میرے ہر اک دکھ کی کرتا ہے چارہ جوئی
ہاں۔ یہ بھی سن رکھو تم دیتا ہوں میں گواہی
ہادی مرا محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے بندہ الہی
تاج رسالت اس کے سر پر خدا نے رکھا
اوروں سے اس کو برتر صدق و صفا نے رکھا
اس کو خدا نے اپنا پیغام بر بنایا
بے کم و کاست اس نے جو حکم تھا سنایا
وہ خاتم نبوت وہ سرور دو عالم
درگاہ ایزدی کا تھا اک سفیر اعظم
حلم و وقار و نرمی خوش خوئی مہربانی
پیغمبری کی اس میں تھی یہ کھلی نشانی
لوگو۔ سنو کہ کوچ کی ساعت قریب ہے
جو جمع کر لے توشہ وہی خوش نصیب ہے
جی بندگی حق سے چراتے ہو واہ وا
حالانکہ دوستی کا بھی کرتے ہو ادعا
دوزخ سے نفرت اور افعال زشت بھی
کوتک تو ایسے اور امید بہشت بھی
دین کا معاملہ ہو تو گویا ہیں نیم جاں
دنیا کے کاروبار میں یہ جاں فشانیاں
دار البقا کا بھول گئے اہتمام تم
دار الفنا کو سمجھے ہو اپنا مقام تم
واللہ ہو گئی ہے تمہاری سمجھ خراب
پوچھا گیا وہاں تو بھلا دو گے کیا جواب
افسوس اس سمجھ پہ عجب پر غرور ہو
موت آ رہی ہے تم ابھی غفلت میں چور ہو
سوتے ہیں زیر خاک پڑے کس قدر عزیز
تم اپنے مست عیش ہو کرتے نہیں تمیز
چھوٹے بھی اور بڑے بھی جو تم سے تھے چل بسے
کیا سمجھے ہو ؟ رہیں گے تمہارے محل بسے
ہیہات ان کے حال سے عبرت نہیں تمہیں
تحصیل جاہ و مال سے فرصت نہیں تمہیں
قراں سنو۔ تو ہو تمہیں اس بات پر عبور
اللہ کی طرف ہمیں جانا ہے بالضرور
اللہ کا کلام ہے سب سے بلیغ تر
مالک ہے سب کا۔ ہے اسے ہر بات کی خبر
قران پاک کوئی پڑھے تو سنو خموش
اللہ تم پے رحم کرے ہے وہ عیب پوش
(نوٹ) یہ دونوں خطبے خان بہادر ڈپٹی محمد صدیق صاحب رئیس میرٹھ کی فرمائش سے لکھے گئے تھے جب کہ ان کا تعلق سرکار نظام سے تھا۔(۱۲)
٭٭٭
(۴) تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہو جاتا ہے
بنایا ہے چڑیوں نے جو گھونسلہ
سو ایک ایک تنکا اکٹھا کیا
گیا ایک ہی بار سورج نہ ڈوب
مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب
قدم ہی قدم طے ہوا ہے سفر
گئیں لحظہ لحظہ میں عمریں گذر
سمندر کی لہروں کا تانتا سدا
کنارہ سے ہے آ کے ٹکرا رہا
سمندر سے دریا سے اٹھتی ہے موج
سدا کرتی رہتی ہے دھاوا یہ فوج
کراروں کو آخر گرا ہی دیا
چٹانوں کو بالکل صفا چٹ کیا
برستا جو مینہ موسلا دھار ہے
سو یہ ننھی بوندوں کی بوچھار ہے
درختوں کے جھنڈ اور جنگل گھنے
یونہی پتے پتے سے مل کر بنے
ہوئے ریشہ سے بن اور جھاڑ
بنا ذرہ ذرہ سے مل کر پہاڑ
لگا دانہ دانہ سے غلہ کا ڈھیر
پڑا لمحہ لمحہ سے برسوں کا پھیر
جو ایک ایک پل کر کے دن کٹ گیا
تو گھڑیوں ہی گھڑیوں میں برس گھٹ گیا
لکھا لکھنے والے نے ایک ایک حرف
ہوئی گڈیاں کتنی کاغذ کی صرف
ہوئی لکھتے لکھتے مرتب کتاب
اسی پر ہر اک شے کا سمجھو حساب
ہر اک علم و فن اور کرتب ہنر
نہ تھا پہلے ہی دن سے اس ڈھنگ پر
یونہی بڑھتے بڑھتے ترقی ہوئی
جو نیزہ ہے اب۔ تھا وہ پہلے سوئی
جولاہے نے جوڑا تھا ایک ایک تار
ہوئے تھان جس کے گزوں سے شمار
یونہی پھوئیوں پھوئیوں بھری جھیل تال
یونہی کوڑی کوڑی ہوا جمع مال
اگر تھوڑا تھوڑا کرو صبح و شام
بڑے سے بڑا کام بھی ہو تمام
٭٭٭
(۵) ایک وقت میں ایک کام
ہے کام کے وقت کام اچھا
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا
جب کام کا وقت ہو کرو کام
بھولے سے بھی کھیل کا نہ لو نام
ہاں کھیل کے وقت خوب کھیلو
کوندو پھاندو کہ ڈنڈ پیلو
خوش رہنے کا ہے یہی طریقہ
ہر بات کا سیکھئے سلیقہ
اپنی ہمت سے کام کرنا
مشکل ہو تو چاہیے نہ ڈرنا
جو کچھ ہو سو اپنے دم قدم سے
کیا کام ہے غیر کے کرم سے
مت چھوڑیو کام کو ادھورا
بے کار ہے جو ہوا نہ پورا
ہر وقت میں صرف ایک ہی کام
پا سکتا ہے بہتری سے انجام
جب کام میں کام اور چھیڑا
دونوں میں ہی پڑ گیا بکھیڑا
جو وقت گزر گیا اکارت
افسوس ہوا خزانہ غارت
ہے کام کے وقت کام اچھا
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا
٭٭٭
(۶) ہوا چلی
ہونے کو آئی صبح تو ٹھنڈی ہوا چلی
کیا دھیمی دھیمی چال سے یہ خوش ادا چلی
لہرا دیا ہے کھیت کو ہلتی ہیں بالیاں
پودے بھی جھومتے ہیں لچکتی ہیں ڈالیاں
پھلواریوں میں تازہ شگوفے کھلا چلی
سویا ہوا تھا سبزہ اسے تو جگا چلی
سرسبز ہوں درخت نہ باغوں میں تجھ بغیر
تیرے ہی دم قدم سے ہے بھاتی چمن کی سیر
پڑ جائے اس جہاں میں ہوا کی اگر کمی
چوپایہ کوئی زندہ بچے اور نہ آدمی
چڑیوں کو یہ اڑان کی طاقت کہاں رہے
پھر کائیں کائیں ہو نہ غٹر غوں نہ چہچہے
بندوں کو چاہیئے کہ کریں بندگی ادا
اس کی کہ جس کے حکم سے چلتی ہے یہ سدا
٭٭٭
(۷) پن چکی
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
بیٹھتی تو نہیں کبھی تھک کر
تیرے پہیہ کو ہے سدا چکر
پیسنے میں لگی نہیں کچھ دیر
تو نے جھٹ پٹ لگا دیا اک ڈھیر
لوگ لے جائیں گے سمیٹ سمیٹ
تیرا آٹا بھرے گا کتنے پیٹ
بھر کے لاتے ہیں گاڑیوں میں اناج
شہر کے شہر ہیں ترے محتاج
تو بڑے کام کی ہے اے چکی
کام کو کر رہی ہے طے چکی
ختم تیرا سفر نہیں ہوتا
نہیں ہوتا مگر نہیں ہوتا
پانی ہر وقت بہتا ہے دھل دھل
جو گھماتا ہے آ کے تیری کل
کیا تجھے چین ہی نہیں آتا
کام جب تک نبڑ نہیں جاتا
مینہ برستا ہو یا چلے آندھی
تو نے چلنے کی شرط ہے باندھی
تو بڑے کام کی ہے اے چکی
مجھ کو بھاتی ہے تیری لے چکی
علم سیکھو سبق پڑھو بچو
اور آگے چلو بڑھو بچو
کھیلنے کودنے کا مت لو نام
کام جب تک ہو نہ جائے تمام
جب نبڑ جائے کام تب ہے مزہ
کھیلنے کھانے اور سونے کا
دل سے محنت کرو خوشی کے ساتھ
نہ کہ اکتا کے خامشی کے ساتھ
دیکھ لو چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
٭٭٭
(۸) اسلم کی بلی
چھوٹی سی بلی کو میں کرتا ہوں پیار
صاف ہے ستھری ہے بڑی ہے کھلار
گود میں لیتا ہوں تو کیا گرم ہے
گالے کی مانند رواں نرم ہے
میں جو نہ چھیڑوں تو نہ جھلائے وہ
میں نہ ستاؤں تو نہ غرائے وہ
کھینچ کے دم اب نہ ستاؤں گا میں
گھر میں سے باہر نہ بھگاؤں گا میں
اب نہ ڈرے گی وہ مری مار سے
کھیلیں گے ہم دونوں بہت پیار سے
صحن میں گھر میں کبھی میدان میں
کھیلیں گے در میں کبھی دالان میں
دم کو ہلا میرے پڑے گی وہ پاؤں
بولے گی پھر پیار سے یوں ’’ میاؤں میاؤں‘‘
دوں گا اسے گیند میں جب آن کر
جھپٹے گی وہ اس پہ چوہا جان کر
تاک لگائے گی۔ دبوچے گی خوب
مار نہٹے اسے نوچے گی خوب
ہم نے بڑے پیار سے پالا اسے
کہتے ہیں سب چوہوں کی خالہ اسے
٭٭٭
(۹) بچہ اور ماں
اچھی اماں، مجھے بتا دو ابھی
کیوں ہے بچہ کی مامتا اتنی ؟
تم کو بچہ سے کیوں یہ الفت ہے ؟
کس لیئے اس قدر محبت ہے ؟
ماں نے بچہ کو یوں جواب دیا
حیف، تم جانتے نہیں بیٹا
کیسا لیٹا ہے یہ خوش و خرم
نہ کوئی فکر ہے نہ کوئی غم
نہ تو روتا نہ بلبلاتا ہے
گود میں کیا ہمک کر آتا ہے
مسکراتا ہے کیا ہی خوش ہو کر
جیسے چڑیا مگن ہو ڈالی پر
جبکہ سونے کا وقت ہے آتا
میرے سینہ سے ہے چمٹ جاتا
جب کہ آنکھوں میں نیند آتی ہے
بسترا اس کا میری چھاتی ہے
نیند لے کر ہنسی خوشی سے اٹھا
پھول گویا کھلا چنبیلی کا
لگ گئی بھوک کہہ نہیں سکتا
پیاری نظروں سے ہے مجھے تکتا
پیار کا میرے بس یہی ہے سبب
نہیں آتا بیان میں مطلب
٭٭٭
(۱۰) ماں اور بچہ
بولی بچہ سے ماں میرے پیارے
صدقے اماں، جواب دو بارے
کہ ہے بچہ کو ماں سے الفت کیوں ؟
رکھتا ہے اس قدر محبت کیوں ؟
دیا بچے نے یوں جواب سنو
اے ہے اماں خبر نہیں تم کو
مجھ کو تکلیف سے بچاتی ہو
پیار سے گود میں بٹھاتی ہو
جی مرا بدمزہ اگر ہو جائے
میرے دکھ کا تمہیں اثر ہو جائے
مجھ کو ہو درد تم کو حیرانی
چپکے چپکے کرو نگہ بانی
اچھے اچھے کھلاتی ہو کھانے
پیار کرتی ہو تم۔ خدا جانے
اور سب سے کہ آ رہے ہیں نظر
تم زیادہ ہو مہربان مجھ پر
جانتا ہوں عزیز سب سے تمہیں
چاہتا ہوں اسی سبب سے تمہیں
پیاری اماں کہا نہیں جاتا
نہیں مطلب بیان میں آتا
٭٭٭
(۱۱) ایک مور اور کلنگ
دم مور نے پھول کر دکھائی
اور بولا کلنگ سے کہ بھائی
کیا خوب ہیں نقش اور کیا رنگ
دنیا مجھے دیکھ کر ہوئی دنگ
میری سی کہاں ہے آپ کی دم
کر نہیں سکتے مقابلہ تم
بولا اس سے کلنگ ہنس کر
ہاں آپ کے لاجواب ہیں پر
لیکن نہیں کچھ بھی کام آتے
بچوں ہی کے دل کو ہیں لبھاتے
اڑنے نہیں دیتی دم تمہاری
لیتے ہیں پکڑ تمہیں شکاری
یہ کہہ کے پروں کو پھٹپھٹا کر
بولا اونچا ہوا پے جا کے
آؤ کریں آسمان کا پھیرا
کچھ دم ہے تو ساتھ دو نہ میرا
منہ اپنا سا لے کے رہ گیا مور
تھا اس میں کہاں اڑان کا زور
بھاتا ہے جنہیں نرا دکھاوا
وہ لوگ ہیں مور کے بھی باوا
بس ان کو ہے ٹیپ ٹاپ کی دھن
شیخی کے سوا نہیں کوئی گن
دیکھیں کسے یاد ہے زبانی
مور اور کلنگ کی کہانی
٭٭٭
(۱۲) عجیب چڑیا
چڑیا ہم نے عجیب پالی
زنجیر اس کے گلے میں ڈالی
دن رات ہو۔ شام یا سویرا
لیتی ہے وہ جیب میں بسیرا
چڑیا سے بھی قد ہے اس کا چھوٹا
ہے اس کا بدن تمام پوٹا
پوٹے پہ جو غور سے نظر کی
پوٹا نہیں پوٹ ہے ہنر کی
گویا ہے، اگرچہ بے زبان ہے
نادان ہے مگر حساب دان ہے
دانہ پانی نہیں وہ کھاتی
ہر دم ہے خوشی سے چہچہاتی
دن رات میں چھیڑ دو کسی آن
یہ چھیڑ ہے اس کے جسم کی جان
جب تک جیتی ہے جاگتی ہے
لو کام تو چیز کام کی ہے
کہتی ہے کہ وقت کی خبر لو
جو کچھ کرنا ہے جلد کر لو
غفلت کیجیے تو ٹوکتی ہے
عجلت کیجیے تو روکتی ہے
اس طور سے کرتی ہے گزارہ
انڈے دیتی ہے دن میں بارہ
پھر اتنے ہی رات کو ہے دیتی
دیتے ہی ہر ایک کو ہے سیتی
انڈے ہیں تمام اس کے سچے
ایک ایک سے نکلے ساٹھ بچے
ہر بچہ نے اگلے ساٹھ دانے
ہر دانے میں ہیں بھرے خزانے
جو دانہ گرا سو ہو گیا گم
ڈھونڈا کرو پھر نہ پاؤ گے تم
دانہ کی بتاؤں کیا قیمت
دانا سمجھیں اسے غنیمت
جس نے اسے پا لیا کہا واہ
کیا بات ہے تیری بارک اللہ
سچ مچ تو لعل بے بہا ہے
گویا ہر درد کی دوا ہے
القصہ ہے وہ عجب پرندہ
مردہ اسے کہہ سکیں نہ زندہ
٭٭٭
(۱۳) ایک لڑکا اور بیر
ایک لڑکا ہے بڑا ایمان دار
آزمائیش ہو چکی ہے چند بار
ایک دن وہ نیک دل اور با حیا
اپنے ہمسایہ کے گھر میں تھا گیا
آدمی بالکل نہیں واں نام کو
کیونکہ ہمسایہ گیا ہے کام کو
تازہ تازہ بیر ڈلیا میں بھرے
بے حفاظت ہیں گھر میں دھرے
لیکن اس نے بیر کو چھیڑا نہیں
ہو نہ جائے شبہ چوری کا کہیں
آ گیا اتنے میں ہمسایہ وہاں
کھیل میں مصروف ہے لڑکا جہاں
اپنے بیروں میں نہ پائی کچھ کمی
ہو کے خوش لڑکے سے بولا آدمی
بیر یہ تم نے چرائے کیوں نہیں ؟
کیوں چراتا ؟ چور تھا کیا میں کہیں ؟
چور جب بنتے کہ کوئی دیکھتا
دیکھنے کو میں ہی خود موجود تھا
کچھ برائی آپ میں گر پاؤں میں
پانی پانی شرم سے ہو جاؤں میں
واہ وا، شاباش، لڑکے واہ واہ
تو جواں مردوں سے بازی لے گیا
٭٭٭
(۱۴) ایک پودا اور گھاس
اتفاقا ایک پودا اور گھاس
باغ میں دونوں کھڑے ہیں پاس پاس
گھاس کہتی ہے کہ اے میرے رفیق
کیا انوکھا اس جہاں کا ہے طریق
ہے ہماری اور تمہاری ایک ذات
ایک قدرت سے ہے دونوں کی حیات
مٹی اور پانی ہوا اور روشنی
واسطے دونوں کے یکساں ہے بنی
تجھ پہ لیکن ہے عنایت کی نظر
پھینک دیتے ہیں مجھے جڑ کھود کر
سر اٹھانے کی مجھے فرصت نہیں
اور ہوا کھانے کی بھی رخصت نہیں
کون دیتا ہے مجھے یاں پھیلنے
کھا لیا گھوڑے گدھے یا بیل نے
تجھ پہ منہ ڈالے جو کوئی جانور
اس کی لی جاتی ہے ڈنڈے سے خبر
اولے پالے سے بچاتے ہیں تجھے
کیا ہی عزت سے بڑھاتے ہیں تجھے
چاہتے ہیں سب تجھ کو سب کرتے ہیں پیار
کچھ پتا اس کا بتا اے دوست دار
اس سے پودے نے کہا یوں سر ہلا
گھاس سب سچا ہے تیرا یہ گلا
مجھ میں اور تجھ میں نہیں کچھ بھی تمیز
صرف سایہ اور میوہ ہے عزیز
فائدہ اک روز مجھ سے پائیں گے
سایہ میں بیٹھیں گے اور پھل کھائیں گے
ہے یہاں عزت کا سہرا اس کے سر
جس سے پہونچے نفع سب کو بیشتر
٭٭٭
(۱۵) ایک جگنو اور بچہ کی باتیں
سناؤں تمہیں بات اک رات کی
کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی
چمکنے سے جگنو کے تھا اک سماں
ہوا پر اڑیں جیسے چنگاریاں
پڑی ایک بچہ کی ان کی پر نظر
پکڑ ہی لیا ایک کو دوڑ کر
چمک دار کیڑا جو بھایا اسے
تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپایا اسے
وہ جھم جھم چمکتا ادھر سے ادھر
پھرا کوئی رستہ نہ پایا مگر
تو غمگین قیدی نے کی التجا
کہ چھوٹے شکاری، مجھے کر رہا
جگنو
خدا کے لیے چھوڑ دے چھوڑ دے
مری قید کے جال کو توڑ دے
بچہ
کروں گا نہ آزاد اس وقت تک
کہ میں دیکھ لوں دن میں تیری چمک
جگنو
چمک میری دن میں نہ دیکھو گے تم
اجالے میں ہو جائے گی وہ تو گم
بچہ
ارے چھوٹے کیڑے نہ دے دم مجھے
کہ ہے واقفیت ابھی کم مجھے
اجالے میں دن کے کھلے گا یہ حال
کہ اتنے سے کیڑے میں ہے کیا کمال
دھواں ہے نہ شعلہ ہے نہ گرمی نہ آنچ
چمکنے کی تیرے کروں گا میں جانچ
جگنو
یہ قدرت کی کاریگری ہے جناب
کہ ذرہ کو چمکائے جوں آفتاب
مجھے دی ہے اس واسطے چمک
کہ تم دیکھ کر مجھ کو جاؤ ٹھٹک
نہ الہڑ پنے سے کرو پائمال
سنبھل کر چلو آدمی کی سی چال
٭٭٭
(۱۶) ایک گھوڑا اور اس کا سایہ
ایک گھوڑا تھا نہایت عیب دار
اپنے سایہ سے بدکتا بار بار
اس سے مالک نے خفا ہو کر کہا
سن تو احمق، جس سے تو ہے ڈر رہا
جسم کا تیرے ہی تو سایہ ہے وہ
کچھ درندہ ہے نہ چوپایہ ہے وہ
جسم رکھتا ہے نہ اس کی جان ہے
تو بڑا ڈرپوک او نادان ہے
یوں دیا گھوڑے نے مالک کو جواب
سچ کہا یہ آپ نے لیکن جناب
آدمی سے بڑھ کر میں وہمی نہیں
ان ہوئی باتوں کا ہے جس کو یقین
بھوت کا قصہ کہانی کے سوا
کچھ نشان گھر میں نہ جنگل میں پتا
بھوت سے ڈرنا بھی کوئی بات ہے
کیا ہی وہمی آدمی کی ذات ہے
سایہ تو آنکھوں سے آتا ہے نظر
کیا عجب ہے جو ہوا مجھ پر اثر
اپنے دکھ کا کیجیئے اول علاج
دوسروں کا پوچھیئے پیچھے مزاج
٭٭٭
(۱۷) ایک کتا اور اس کی پرچھائیں
منہ میں ٹکڑا لیئے ہوتے کتا
ایک دریا کو تیر کر اترا
پانی آئینہ سا رہا تھا چمک
نظر آتی تھی تہہ کی مٹی تک
اپنی پرچھائیں پر کیا جو غور
اس کو سمجھا کہ ہے یہ کتا اور
منہ میں ٹکڑا دبا رہا ہے یہ
گہرے پانی میں جا رہا ہے یہ
حرص نے ایسا بے قرار کیا
جھٹ سے غرا کے اس پہ وار کیا
جونہی ٹکڑے پہ اس کے منہ مارا
اپنا ٹکڑا بھی کھو دیا سارا
واں نہ ٹکڑا نہ اور کتا تھا
وہم تھا۔ وہم کے سوا کیا تھا
یونہی جتنے ہیں لالچی نادان
کر کے لالچ اٹھاتے ہیں نقصان
باندھتے ہیں کہاں کہاں کے خیال
اور کھو بیٹھتے ہیں اپنا مال
تم ہوس میں سڑی نہ بن جاؤ
جو ملے اس کو کام میں لاؤ
٭٭٭
(۱۸) ریل گاڑی
حیواں ہے نہ وہ انساں جن ہے نہ وہ پری ہے
سینہ میں اس کے ہر دم اک آگ سی بھری ہے
کھا کے آگ پانی چنگھاڑ مارتی ہے
سر سے دھوئیں اڑا کر غصہ اتارتی ہے
وہ گھورتی گرجتی بھرتی ہے اک سپاٹا
ہفتوں کی منزلوں کو گھنٹوں میں اس نے کاٹا
آتی ہے شور کرتی جاتی ہے غل مچاتی
وہ اپنے خادموں کو ہے دور سے جگاتی
بے خوف بے محابا ہر دم رواں دواں ہے
ہاتھی بھی اس کے آگے اک مور ناتواں ہے
آندھی ہو یا اندھیرا ہے اس کو سب برابر
یکساں ہے نور و ظلمت اور روز و شب برابر
اتر سے لے دکن تک پورب سے لے پچھاں تک
سب ایک کر دیا ہے پہنچی ہے وہ جہاں تک
بجلی ہے یا بگولا۔ بھونچال ہے کہ آندھی
ٹھیکہ پہ ہے پہونچتی بچنوں کی ہے وہ باندھی
ہر آن ہے سفر میں کم ہے قیام کرتی
رہتی نہیں معطل۔ پھرتی ہے کام کرتی
پردیسیوں کو جھٹ پٹ پہونچا گئی وطن میں
ڈالی ہے جان اس نے سوداگری کے تن میں
ہر چیز سے ہے نرالی چال ڈھال اس کی
پاؤ گے صنعتوں میں کمتر مثال اس کی
برکت سے اس کی بے پر پردار بن گئے ہیں
ملک اس کے دم قدم سے گلزار بن گئے ہیں
ہم کہہ چکے مفصل۔ جو کچھ ہے کام اس کا
جب جانیں تم بتا دو بن سوچے نام اس کا
جی ہاں سمجھ گیا میں۔ پہلے ہی میں نے تاڑی
وہ دیکھو آگرہ سے آتی ہے ریل گاڑی
٭٭٭
(۱۹) ہماری گائے
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں
خاک کو اس نے سبزہ بنایا
سبزہ کو پھر گائے نے کھایا
کل جو گھاس چری تھی بن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں
سبحان اللہ دودھ ہے کیساا
تازہ گرم سفید اور میٹھا
دودھ میں بھیگی روٹی میری
اس کے کرم نے بخشی سیری
دودھ دہی اور مٹھا مسکا
دے نہ خدا تو کس کے بس کا
گائے کو دی کیا اچھی صورت
خوبی کی ہے گویا مورت
دانہ دنکا بھوسی چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر
کھا کر تنکے اور ٹھٹیرے
دودھ دیتی ہے شام سویرے
کیا ہی غریب اور کیسی پیاری
صبح ہوئی جنگل کو سدھاری
سبزہ سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے
پانی موجیں مار رہا ہے
چرواہا چمکار رہا ہے
پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر
دوری میں جو دن ہے کاٹا
بچہ کو کس پیار سے چاٹا
گائے ہمارے حق میں ہے نعمت
دودھ دیتی ہے کھا کے بنسپت
بچھڑے اس کے بیل بنائے
جو کھیتی کے کام میں آئے
رب کی حمد و ثنا کر بھائی
جس نے ایسی گائے بنائی
٭٭٭
(۲۰) سچ کہو
سچ کہو سچ کہو ہمیشہ سچ
ہے بھلے مانسوں کا پیشہ سچ
سچ کہو گے تو تم رہو گے عزیز
سچ تو یہ ہے کہ سچ ہے اچھی چیز
سچ کہو گے تو تم رہو گے شاد
فکر سے پاک رنج سے آزاد
سچ کہو گے تو تم رہو گے دلیر
جیسے ڈرتا نہیں دلاور شیر
سچ سے رہتی ہے تقویت دل کو
سہل کرتا ہے سخت مشکل کو
سچ ہے ساری معاملوں کی جان
سچ سے رہتا ہے دل کو اطمینان
سچ میں راحت ہے اور آسانی
سچ سے ہوتی نہیں پشیمانی
سچ ہے دنیا میں نیکیوں کی جڑ
سچ نہ ہو تو جہان جائے اجڑ
سچ کہو گے تو دل رہے گا صاف
سچ کرا دے گا سب قصور معاف
سچ سے زنہار درگزر نہ کرو
دل میں کچھ خوف اور خطر نہ کرو
جس کو سچ بولنے کی عادت ہے
وہ بڑا نیک با سعادت ہے
وہی دانا ہے جو کہ ہے سچا
اس میں بڈھا ہو یا کوئی بچا
ہے برا جھوٹ بولنے والا
آپ کرتا ہے اپنا منہ کالا
فائدہ اس کو کچھ نہ دے گا جھوٹ
جائے گا اک روز بھانڈا پھوٹ
جھوٹ کی بھول کر نہ ڈالو خو
جھوٹ ذلت کی بات ہے اخ تھو
٭٭٭
(۲۱ ) ہمارا کتا ٹیپو
ٹیپو ہے اس کا نام یہ کتا عجیب ہے
بڈھا ہے با ادب ہے نہایت غریب ہے
ہم دونوں بہن بھائیوں سے الفت ہے اس قدر
جب دیکھتا ہے دور سے آتا ہے دوڑ کر
افسوس میرے ٹیپو، حیراں ہوں کیا کروں
کس ڈھب سے تیرے ساتھ محبت کیا کروں
آتا ہے کم جہاں میں تجھ سا رفیق ہاتھ
جاتا ہوں جب میں سیر کو رہتا ہے میرے ساتھ
میں دودھ پی رہا ہوں تو بیٹھا ہے میرے پاس
کچھ شک نہیں کہ تو ہے وفادار حق شناس
البتہ میں بھی کرتا ہوں صرف اس قدر سلوک
دیتا ہوں ایک ٹکڑا کہ دب جائے تیری بھوک
لیکن مجھے یقین ہے اگر کچھ نہ دوں تجھے
دیکھے گا پھر بھی پیار کی نظروں سے تو مجھے
اس واسطے کہ تو ہے وفادار حق شناس
مالک کا اپنے تجھ کو بہت ہے لحاظ و پاس
ٹیپو ہمارے گھر کا پرانا رفیق ہے
بڈھا ہے با وفا ہے نہایت شفیق ہے
جنگل کو جائیں ڈھور تو جاتا ہے ساتھ ساتھ
جب گھر کو واپس آئیں تو آتا ہے ساتھ ساتھ
بیچارہ گھر کی چوکسی کرتا ہے رات بھر
اور دن میں کھیلتا ہے مرے ساتھ ادھر ادھر
٭٭٭
(۲۲) شفق
شفق پھولنے کی بھی دیکھو بہار
ہوا میں کھلا ہے عجب لالہ زار
ہوئی شام بادل بدلتے ہیں رنگ
جنہیں دیکھ کر عقل ہوتی ہے دنگ
نیا رنگ ہے اور نیا روپ ہے
ہر ایک روپ میں یہ وہی دھوپ ہے
طبیعت ہے بادل کی رنگت پہ لوٹ
سنہری لگائی ہے قدرت نے گوٹ
ذرا دیر میں رنگ بدلے کئی
بنفشی و نارنجی و چنپئی
یہ کیا بھید ہے، کیا کرامات ہے
ہر اک رنگ میں اک نئی بات ہے
یہ مغرب میں جو بادلوں کی ہے باڑ
بنے سونے چاندی کے گویا پہاڑ
فلک نیلگوں اس میں سرخی کی لاگ
ہرے بن میں گویا لگا دی ہے آگ
اب آثار ظاہر ہوئے رات کے
کہ پردے چھٹے لال بانات کے
٭٭٭
(۲۳) رات
گیا دن ہوئی شام آئی ہے رات
خدا نے عجب شے بنائی ہے رات
نہ ہو رات تو دن کی پہچان کیا
اٹھائے مزہ دن کا انسان کیا
ہوئی رات خلقت چھٹی کام سے
خموشی سی چھائی سر شام سے
لگے ہونے اب ہاٹ بازار بند
زمانے کے سب کار بہوار بند
مسافر نے دن بھر کیا ہے سفر
سر شام منزل پہ کھولی کمر
درختوں کے پتے بھی چپ ہو گئے
ہوا تھم گئی پیڑ بھی سو گئے
اندھیرا اجالے پہ غالب ہوا
ہر اک شخص راحت کا طالب ہوا
ہوئے روشن آبادیوں میں چراغ
ہوا سب کو محنت سے حاصل فراغ
کسان اب چلا کھیت کو چھوڑ کر
کہ گھر میں چین سے شب بسر
تھپک کر سلایا اسے نیند نے
تردد بھلایا اسے نیند نے
غریب آدمی جو کہ مزدور ہیں
مشقت سے جن کے بدن چور ہیں
وہ دن بھر کی محنت کے مارے ہوئے
وہ ماندے تھکے اور ہارے ہوئے
نہایت خوشی سے گئے اپنے گھر
ہوئے بال بچے بھی خوش دیکھ کر
گئے بھول سب کام دھندے کا غم
سویرے کو اٹھیں گے اب تازہ دم
کہاں چین یہ بادشہ کو نصیب
کہ جس بے غمی سے ہیں سوتے غریب
٭٭٭
(۲۴) گرمی کا مہینہ
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
چلی لو اور تراقی کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ
زمین ہے یا کوئی جلتا توا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
در و دیوار ہیں گرمی سے تپتے
بنی آدم ہیں مچھلی سے تڑپتے
پرندے اڑ کے ہیں پانی پہ گرتے
چرندے بھی ہیں گھبرائے سے پھرتے
درندے چھپ گئے ہیں جھاڑیوں میں
مگر ڈوبے پڑے ہیں کھاڑیوں میں
نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی
زمین کا فرش ہے چھت آسمان کی
نہ پنکھا ہے نہ ٹٹی ہے نہ کمرہ
ذرہ سی جھونپڑی محنت کا ثمرہ
امیروں کو مبارک ہو حویلی
غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی
٭٭٭
(۲۵) برسات
وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا
گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اک سنسناہٹ ہوئی
گھٹا آن کر مینہ جو برسا گئی
تو بے جان مٹی میں جان آ گئی
زمین سبزے سے لہلہانے لگی
کسانوں کی محنت ٹھکانے لگی
جڑی بوٹیاں پیڑ آئے نکل
عجیب بیل پتے عجب پھول پھل
ہر اک پیڑ کا اک نیا ڈھنگ ہے
ہر اک پھول کا ایک نیا رنگ ہے
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
جہاں کل تھا میدان چٹیل پڑا
وہاں آج ہے گھاس کا بن کھڑا
ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نکل آئے گویا کہ مٹی کے پر
٭٭٭
(۲۶) ملمع کی انگوٹھی
چاندی کی انگوٹھی پہ جو سونے کا چڑھا جھول
اوچھی تھی لگی بولنے اترا کے بڑا بول
چاندی کی انگوٹھی کہ نہ میں ساتھ رہوں گی
وہ اور ہے میں اور یہ ذلت نہ سہوں گی
میں قوم کی اونچی ہوں بڑا میرا گھرانا
وہ ذات کی گھٹیا ہے نہیں اس کا ٹھکانا
میری سی چمک اس میں نہ میری سی دمک ہے
چاندی ہے کہ ہے رانگ مجھے اس میں بھی شک ہے
میری سی کہاں چاشنی میرا سا کہاں رنگ
وہ مول میں اور تول میں میرے نہیں پاسنگ
اے دیکھنے والو تمہیں انصاف سے کہنا
چاندی کی انگوٹھی بھی ہے کچھ گہنوں میں گہنا
یہ سنتے ہی چاندی کی انگوٹھی بھی گئی جل
اللہ رے ملمع کی انگوٹھی تیرے چھل بل
سونے کے ملمع پہ نہ اترا میری پیاری
دو دن میں بھڑک اس کی اتر جائے گی ساری
کچھ دیر حقیقت کو چھپایا بھی تو پھر کیا
جھوٹوں نے سچوں کو چڑایا بھی تو پھر کیا
مت بھول کبھی اپنی اصل کو اری احمق
جب تاؤ دیا جائے گا ہو جائے گا منہ فق
سچے کی تو عزت ہی بڑھے گی جو کریں جانچ
مشہور مثل ہے کہ نہیں سانچ کو کچھ آنچ
کھوٹے کو کھرا بن کے نکھرنا نہیں اچھا
چھوٹے کو بڑا بن کر ابھرنا نہیں اچھا
٭٭٭
(۲۷) دال کی فریاد
ایک لڑکی بگھارتی ہے دال
دال کرتی ہے عرض یوں احوال
ایک دن تھا ہری بھری تھی میں
ساری آفات سے بری تھی میں
تھا ہرا کھیت میرا گہوارہ
وہ وطن تھا مجھے بہت پیارا
پانی پی پی کے تھی میں لہراتی
دھوپ لیتی کبھی ہوا کھاتی
مینہ برستا تھا جھوکے آتے تھے
گودیوں میں مجھے کھلاتے تھے
یہی سورج زمین تھے ماں باوا
مجھ سے کرتے تھے نیک برتاوا
جب کیا مجھے کو پال پوس بڑا
آہ۔۔۔۔ ظالم کسان آن پڑا
گئی تقدیر یک بیک جو پلٹ
کھیت کا کھیت کر دیا تلپٹ
خوب لوٹا دھڑی دھڑی کر کے
مجھ کو گونوں میں لے گئے بھر کے
ہو گئی دم کی دم میں بربادی
چھن گئی ہائے میری آزادی
کیا بتاؤں کہاں کہاں کھینچا
دال منڈی میں مجھ کو جا بینچا
ایک ظالم سے واں پالا پڑا
جس نے چکی مجھ کو دل ڈالا
ہوا تقدیر کا لکھا پورا
دونوں پاٹوں نے کر دیا چورا
نہ سنی میری آہ اور زاری
خوب بنیئے نے کی خریداری
چھانا چھلنی میں چھاج میں پھٹکا
قید خانہ میرا بنا مٹکا
پھر مقدر مجھے یہاں لایا
تم نے تو اور بھی غضب ڈھایا
کھال کھینچی الگ کیئے چھلکے
زخم کیونکر ہرے نہ ہوں دل کے
ڈالیں مرچیں نمک لگایا خوب
رکھ کہ چولہے پہ جی جلایا خوب
اس پہ کفگیر کے ٹہوکے ہیں
اور ناخن کے بھی کچوکے ہیں
میرے گلنے کی لے رہی ہو خبر
دانت ہے آپ کا مرے اوپر
گرم گھی کر کے مجھ کو داغ دیا
ہائے تم نے بھی کچھ نہ رحم کیا
ہاتھ دھو کر پڑی ہو پیچھے تم
جان پر آ بنی حواس ہیں گم
اچھی بی بی تمہیں کرو انصاف
ظلم ہے یا نہیں (قصور معاف )
کہا لڑکی نے میری پیاری دال
مجھ کو معلوم ہے ترا سب حال
تو اگر کھیت سے نہیں آتی
خاک میں مل کے خاک ہو جاتی
یا کوئی گائے بھینس چر لیتی
پیٹ میں اپنے تجھ کو بھر لیتی
میں تو رتبہ ترا بڑھاتی ہوں
اب چپاتی سے تجھ کو کھاتی ہوں
نہ ستانا نہ جی جلانا تھا
یوں تجھے آدمی بنانا تھا
اگلی بیتی کا تو نہ کر کچھ غم
مہربانی تھی سب نہ تھا یہ ستم
٭٭٭
(۲۸) دال چپاتی
اور سنو ایک حکایت نئی
دال چپاتی میں جھڑپ ہو گئی
دال لگی کہنے کہ میرا مزہ
کرتا چپاتی کو بھی ہے با مزہ
میرے بدوں اس کو بھلا کھائے کون
روکھی چپاتی میں مزہ پائے کون
بلکہ نری دال اگر کھائیے
ہونٹ ہی بس چاٹتے رہ جایئے
کرتا ہے درویش جو روٹی طلب
دال چپاتی اسے دیتے ہیں سب
دیکھ لو اس وقت میری برتری
نیچے ہے وہ اور میں اوپر دھری
بیٹھتی ہوں چڑھ کے چپاتی پہ میں
مونگ دلا کرتی ہوں چھاتی پہ میں
اس کے سوا دیکھیئے میرا سنگار
پہلے مصالح ہے پھر اس سے بگھار
مجھ کو پکاتے ہیں سبھی اد بدا
کھاتے ہیں سب شاہ سے لے تا گدا
میری فضیلت میں نہیں کوئی شک
واہ رے میں اور مرا آب و نمک
ذائقہ خوشبو پے مری لوٹ ہے
دل پہ چپاتی کے یہ ہی چوٹ ہے
دال نے شیخی جو بگھاری بڑی
سن کے چپاتی بھی اچھل ہی پڑی
بے ادبی کر نہ میری شان میں
میری طفیلی ہے تو ہر خوان میں
دال ہو سالن ہو کہ چٹنی اچار
سب ہیں میرے ساتھ کے خدمت گذار
کوفتہ ہو قورمہ ہو یا کباب
تھام کے چلتے ہیں سب میری رکاب
چٹ پٹی ترکاریاں جب ہوویں ساتھ
دال کو پھر کون لگاتا ہے ہاتھ
دال کا دانہ بھی نہ چھکے کوئی
بلکہ رکابی میں نہ رکھے کوئی
دال تو اک ہارے کا ہتیار ہے
کھائے وہی اس کو جو بیمار ہے
دال میسر نہیں ہوتی جنہیں
صرف چپاتی کو غنیمت گنیں
جس کی فقط دال پہ گزران ہے
آدمی کاہے کو وہ حیوان ہے
یوں تو سبھی کھانوں میں افضل ہوں میں
دال سے سو مرتبہ اول ہوں میں
دونوں میں القصہ بہت بڑھ گئی
ایک پے ایک آن کے پھر چڑھ گئی
لقمہ بنا دونوں کو میں کھا گیا
قصہ ہوا فیصلہ جھگڑا گیا
٭٭٭
(۲۹) دو مکھیاں
ایک مکھی کہ ہے نری احمق
فکر انجام اسے نہیں مطلق
کوتہ اندیش۔ لالچی۔ ناداں
دیتی پھرتی ہے مفت اپنی جاں
گری شیرہ پے حرص کے مارے
پاؤں اور پر لتھڑ گئے سارے
آنکھ اس کی ہیئے کی پھوٹ گئی
اکھڑے بازو تو ٹانگ ٹوٹ گئی
آخرش پھنس کے رہ گئی مکھی
کیا حماقت کی چاشنی چکھی
ایک مکھی ہے سخت دور اندیش
سوچ لیتی ہے کام کا پس و پیش
اس پے غالب نہیں ہوسناکی
اڑتی پھرتی ہے وہ بہ چالاکی
کہیں مصری کی جب ڈلی پائی
تو بہ آہستگی اتر آئی
گرچہ اس کام میں لگی کچھ دیر
چاٹ کر ہو گئی مگر وہ سیر
چاٹ کے کھا کے اڑ گئی پھر پھر
دوربینی کا اس کو یاد ہے گر
کس مزہ سے گزارتی ہے دن
شکر کا گیت گاتی ہے بھن بھن
٭٭٭
(۳۰) مثنوی آب زلال
خدا نے دی ہے تم کو عقل و تمیز
ذرا دیکھو تو یہ پانی ہے کیا چیز
دکھاؤ کچھ طبیعت کی روانی
جو دانا ہو تو سمجھو کیا ہے پانی
یہ مل کر دو ہواؤں سے بنا ہے
گرہ کھل جائے تو فورا ہوا ہے
نظر ڈھونڈے مگر کچھ بھی نہ پائے
زبان چکھے مزہ ہر گز نہ آئے
ہواؤں میں لگایا خوب پھندا
انوکھا ہے تیری قدرت کا دھندا
نہیں مشکل اگر تیری رضا ہو
ہوا پانی ہو اور پانی ہوا ہو
مزاج اس کو دیا ہے نرم کیسا
جگہ جیسی ملے بن جائے ویسا
نہیں کرتا جگہ کی کچھ شکایت
طبیعت میں رسائی ہے نہایت
نہیں کرتا کسی برتن سے کھٹ پٹ
ہر اک سانچہ میں ڈھل جاتا ہے جھٹ پٹ
نہ ہو صدمہ سے ہر گز ریزہ ریزہ
نہ ہو زخمی اگر لگ جائے نیزہ
نہ اس کو تیر سے تلوار سے خوف
نہ اس کو توپ کی بھرمار سے خوف
تواضع سے سدا پستی میں بہنا
جفا سہنا مگر ہموار رہنا
نہیں ہے سرکشی سے کچھ سروکار
نہ دیکھو گے کبھی تم اس کا انبار
خزانہ گر بلندی پر نہ ہوتا
تو فوارہ سے وہ باہر نہ ہوتا
جو ہلکا ہو اسے سر پر اٹھائے
جو بھاری ہو اسے غوطا کھلائے
نہ جلتا ہے نہ گلتا ہے نہ سڑتا
نرا پانی نہیں ہر گز بگڑتا
اسے بھیچو دباؤ یا ٹٹولو
اسے چھیڑو اچھالو یا کھنگولو
اسے رگڑو گھسو پیسو بہاؤ
جھکولے دو مسل ڈالو دباؤ
کسی عنوان سے ہو گا نہ نابود
وہی پانی کا پانی دودھ کا دودھ
لگے گرمی تو اڑ جائے ہوا پر
پڑے سردی تو بن جاتا ہے پتھر
ہوا میں مل کے غائب ہو نظر سے
کبھی اوپر سے بادل بن کر برسے
ہوا پر چڑھ کے پہونچے سیکڑوں کوس
کبھی اولا کبھی پالا کبھی اوس
کہر ہے بھاپ ہے پانی ہے یا برف
کئی صیغوں میں ہے ایک اصل کی صرف
اسی کے دم سے دنیا میں تری ہے
اسی کی چاہ سے کھیتی ہری ہے
پھلوں میں پھول میں ہر پنکھڑی میں
ہر اک ٹہنی میں ہر جڑی بوٹی میں
ہر اک ریشہ میں ہے اس کی رسائی
غذا ہے جڑ سے کونپل تک چڑھائی
پھلوں کا ہے اسی سے تازہ چہرہ
اسی کے سر پے ہے پھولوں کا سہرہ
اسی کو پی کے جیتے ہیں سب انسان
اسی سے تازہ دم ہیں سارے حیوان
یہی معدہ کو پہنچاتا رسد ہے
یہی تحلیل میں کرتا مدد ہے
عمارت کا بسایا اس نے کھیڑا
تجارت کا کیا ہے پار پار بیڑا
زراعت اس کی موروثی اسامی
صناعت کے بھی اوزاروں کا حامی
کہیں ساگر کہیں کھاڑی کہیں جھیل
کہیں جمنا کہیں گنگا کہیں نیل
کہیں نالہ کہیں ندی کہیں سیل
ہے یہ دنیا کی کمسنریٹ کا جرنیل
یہی پہلے زمیں پر موجزن تھا
نہ میدان تھا نہ پربت تھا نہ بن تھا
زمین سب غرق تھی پانی کے اندر
جدھر دیکھو سمندر ہی سمندر
زمیں پوشیدہ تھی اسکی بغل میں
نہ تھا کچھ فرق جل میں اور تھل میں
نہ بستی تھی نہ ٹاپو تھا کہیں پر
اسی کا دور دورہ تھا زمیں پر
نہ افریقہ نہ امریکہ نہ یورپ
رہی تھی ایشیا او شنییا چھپ
ہمالہ نے بھی تھی ڈبکی لگائی
نہ دیتی تھی کہیں چوٹی دکھائی
نہ طارس تھا نہ بندھیاچل نہ الطین
نہ فارس تھا نہ ہندوستان نے چین
مگر دنیا میں یکسانی کہاں ہے
جو اب دیکھو تو وہ پانی کہاں ہے
یہاں ہر چیز ہے کروٹ بدلتی
ہر ایک حالت ہے چڑھتی اور ڈھلتی
کوئی شے ہو ہوا ہو یا ہو پانی
سبھی کو ہے بڑھاپا اور جوانی
رہا باقی نہ وہ پانی کا ریلا
اسے خشکی نے پستی میں دھکیلا
زمین آہستہ آہستہ گئی چوس
چھپائے مال کو جس طرح کنجوس
تری کا جب کہ دامن ہو گیا چاک
تو خشکی نے اڑائی جا بجا خاک
پہاڑ ابھرے ہوئے میدان پیدا
ہوئے میدان میں نخلستان پیدا
تری کا گو ابھی بھی ہے پلہ بھاری
لڑائی ہے مگر دونوں میں جاری
کیا کرتے ہیں دونوں کانٹ اور چھانٹ
چلی جاتی ہے باہم لاگ اور ڈانٹ
تری ہر دم چلی جاتی ہے اٹتی
کبھی خشکی بھی ہے کایا پلٹتی
تری کا تین چوتھائی میں ہے راج
تو خشکی ایک چوتھائی میں ہے آج
نہیں چلتی تری کی سینہ زوری
زمیں اک دن میں رہ جائے گی کوری
پہن رکھا تھا جب آبی لبادہ
مٹاپا بھی زمین کا تھا زیادہ
مگر اب دن بدن چڑھتی ہے خشکی
تری گھٹتی ہے اور بڑھتی ہے خشکی
کمی بیشی نہیں آتی نظر کچھ
بہت عمروں میں ہوتا ہے اثر کچھ
٭٭٭
(۳۱) موعظت
کرے دشمنی کوئی تم سے اگر
جہاں تک بنے تم کرو درگزر
کرو تم نہ حاسد کی باتوں پہ غور
جلے جو کوئی۔ اس کو جلنے دو اور
اگر تم سے ہو جائے سرزد قصور
تو اقرار و توبہ کرو بالضرور
بدی کی ہو جس نے تمہارے خلاف
جو چاہے معافی۔ تو کر دو معاف
نہیں بلکہ تم اور احساں کرو
بھلائی سے اس کو پشیماں کرو
ہے شرمندگی اس کے دل کا علاج
سزا اور ملامت کی کیا احتیاج
بھلائی کرو تو کرو بے غرض
غرض کی بھلائی تو ہے اک مرض
جو محتاج مانگے تو دو تم ادھار
رہو واپسی کے نہ امیدوار
جو تم کو خدا نے دیا ہے تو دو
نہ خست کرو اس میں جو ہو سو ہو
٭٭٭
(۳۲) داناؤں کی نصیحت دل سے سنو
راوی نے ہے اس طرح خبر دی
اک شب لگی بندروں کو سردی
سردی نے دیا جو سخت آزار
جویا ہوئے آگ کے وہ ناچار
ہر چار طرف دوا دوش کی
پائی نہ کہیں دوا خلش کی
ناگہہ چمکا جو کرم شب تاب
اخگر اسے جان کر لیا داب
ناچے کودے خوشی سے باہم
تنکے پتے کیئے فراہم
رکھ کر اسے خار و خس کے اندر
پھونکیں لگے مارنے وہ بندر
لیکن ہوا فائدہ نہ کچھ بھی
اٹھا نہ دھواں نہ آگ سلگی
کرتے رہے پھر بھی کام اپنا
چھوڑا نہ خیال خام اپنا
صحرا میں جو اور جانور تھے
وہ تجربہ کار و باخبر تھے
سمجھانے لگے ازروئے شفقت
یوں وقت کو رائیگاں کرو مت
اس کام سے کیجیئے کنارہ
جگنو کو نہ جانیئے شرارہ
سمجھانے سے وہ مگر نہ سمجھے
جب تک نہ ہوئی سحر نہ سمجھے
یاروں نے کہی تھی بات ڈھب کی
غرا کے انہیں دکھائی بھبکی
ناداں رہے رات بھر اکڑتے
سر مارتے ایڑیاں رگڑتے
جب صبح ہوئی تو شک ہوا دور
شرمندہ ہوئے بہت وہ مغرور
سن لو نہ سنے گا جو نصیحت
ہو گا وہ اسی طرح فضیحت
٭٭٭
(۳۳) چھوٹے سے کام کا بڑا نتیجہ
ایک بچہ کہ ابھی کچھ اسے تمیز نہ تھی
لہو و بازی سے پسندیدہ کوئی چیز نہ تھی
کھیلنا۔ کودنا۔ کھانا۔ یہی معمول تھا بس
انہیں طفلانہ تمناؤں میں مشغول تھا بس
ایک تالاب تھا دو چار قدم گھر سے پرے
دل میں لہر آئی لب آب ذرا سیر کرے
صاف پانی سے جو تالاب کو پایا لبریز
کھیل کا شوق طبیعت میں ہوا اور بھی تیز
آس پاس اپنے جو پایا کوئی کنکر پتھر
پھینک مارا اسے پانی میں بہت خوش ہو کر
کھیل تھا پہلے تو اب طرفہ تماشا دیکھا
دل ہی دل میں متحیر تھا کہ یہ کیا دیکھا
دائرہ ایک بنا ایسا کہ بڑھتا ہے محیط
گھیر لی جس نے کہ تالاب کی سب سطح بسیط
پھر تو کھیل اس کا اسی شغل پہ موقوف رہا
اسی نظارہ میں تا دیر وہ مصروف رہا
اسی اثنا میں ہوا بچہ کی ماں کا بھی گزر
بولا اماں مجھے آئی ہے عجب چیز نظر
جو نہ دیکھی نہ سنی تھی کبھی اب سے پہلے
شاید آئی ہے نظر مجھ کو ہی سب سے پہلے
اک ذرا سی حرکت اور یہ تاثیر عجیب
دائرہ بڑھ کے پہونچتا ہے کنارے کے قریب
بسکہ جی جان سے اس شعبدہ پر تھا شیدا
وسعت دائرہ کی اپنے عمل سے پیدا
تھی وہ ماں اہل دل اور نیک منش نیک نہاد
ہنس کہ فرمایا مری جاں یہ نصیحت رکھ یاد
یونہی ہر کام کا ہو جاتا ہے انجام بڑا
گو کہ آغاز میں ہوتا نہیں وہ کام بڑا
کبھی ادنی حرکت زلزال بن جاتی ہے
کبھی ناچیز سی اک بات غضب ڈھاتی ہے
یہ ہی انداز نکو کاری و بدکاری ہے
اولاً خاص تھی اب عام میں وہ جاری ہے
٭٭٭
(۳۴ ) اونٹ
اونٹ تو ہے بس حلیم و خوش خصال
تربیت میں چھوٹے بچوں کی مثال
تیری پیدائش رفاہ عام ہے
آدمی کے حق میں اک انعام ہے
کھانے کپڑے کا بھی تجھ پر ہے مدار
تو نے دی ہے اس کو تیزی مستعار
لق و دق صحرا میں یا میدان میں
یا عرب کے گرم ریگستان میں
سایہ افگن ہے نہ واں کوئی چٹان
سرد پانی کا نہ دریا کا نشان
چلچلاتی دھوپ ہے اور چپ ہوا
واں پرندہ بھی نہیں پر مارتا
تو وہاں کے مرحلے کرتا ہے طے
دن بدن اور ہفتہ ہفتہ پے بہی پے
قیمتی اشیا ہیں تیری پشت پر
تاجروں کا ریشم اور شاہوں کا زر
تودہ تودہ تیرے اوپر لد رہا
ہے بھرا گویا جہاز پر بہا
چند ہفتے جب کہ جاتے ہیں گزر
اور تھکا دیتا ہے راکب کو سفر
اونٹ، گھبراتا نہیں تو بار سے
دیکھتا ہے اس کی جانب پیار سے
گویا کہتا ہے کہ اے میرے سوار
ایک دن تو اور بھی ہمت نہ ہار
ہاں نہ ہو بیدل نہ رستے میں ٹھٹک
صاف سر چشمہ ہے آگے دھر لپک
مجھ کو آتی ہے ہوا سے بوئے آب
نا امیدی سے نہ کر تو اضطراب
اونٹ، تو کرتا ہے اس کی رہبری
یوں بنا دیتا ہے راکب کو جری
آخرش منزل پہ پہونچاتا ہے تو
اور سوکھے خار و خس کھاتا ہے تو
صبر سے کرتا ہے طے راہ دراز
سچ کہا ہے تو ہے خشکی کا جہاز
الغرض تو ہے حلیم و خوش خصال
تربیت میں چھوٹے بچوں کی مثال
٭٭٭
(۳۵) شیر
اے شیر تیرے تن پہ ہے طاقت کا پوستیں
شاہی کے حق میں کوئی بھی ساجھی ترا نہیں
پیدا ہے تیرے رخ سے تری شوکت اور جلال
ظاہر ہے تیری شکل سے باطن کا تیرے حال
دل تیرا بزدلی و غلامی سے ہے بری
پھٹکے نہ تیرے پاس کبھی خوف اے جری
تیرا حریف کون ہے جو تو ہٹے بچے
جھپکے نہ تیری آنکھ نہ گردن تیری لچے
حق نے عطا کیا ہے تجھے زور بے خلل
فولاد کی رگیں ہیں تو ہے دل ترا اٹل
گر سورما سجے کوئی میدان کا دھنی
جوشن کہ چار آئینہ یا خود آہنی
حملہ سے تیرے بچنے کو کافی نہ ہو مگر
اللہ رے تیرا حوصلہ بل بے ترا جگر
غرا کہ شیر کرتا ہے جب جوش و خروش
جنگل تمام ہوتا ہے سنسان اور خموش
پہچانتے ہیں جانور آواز شیر کی
وہ ہولناک ہے کہ دہلتا ہے سب کا جی
جاتی ہے ان کے پاؤں تلے کی زمین نکل
ہیں بھاگتے کہ گویا تعاقب میں ہے اجل
اے شیر گرم خطہ ہے تیرے لیئے وطن
بیہڑ ہو۔ نیستاں ہو۔ جھاڑی ہو یا ہو بن
لو ہو۔ کہ گرم دھوپ ہو یا ریگ زار ہو
تینوں غضب ہیں کیوں نہ مسافر شکار ہو
اے شیر تو ہے شاہ ترا تخت ہے کچھار
ہے کس کو تیرے ملک میں دعوی گیرودار
٭٭٭
(۳۶) کیڑا
تم اس کیڑے کو دیکھو تو لگاتار
تمہاری راہ میں ہے گرم رفتار
چلا کترا کے کیا کیا پیچ و خم سے
جھجکتا ہے یہ آواز قدم سے
کسی سوراخ میں دن کاٹتا ہے
سویرے اٹھ کے شبنم چاٹتا ہے
کرو چشم حقیقت بین سے تمیز
کہ سمجھے ہو جسے تم سخت ناچیز
اسے قدرت نے زریں پر دئے ہیں
کچھ اک سبزی و سرخی بھی لیئے ہیں
تمہیں لگتی ہے اچھی مور کی دم
کہ خوش ہوتے ہو اس کو دیکھ کر تم
جو دیکھو ناچ اس کا دور ہی سے
تو اس پر لوٹ ہو جاتے ہو جی سے
مگر کیڑے کو بھی سمجھو نہ ہیٹا
یہ مانا خاک مٹی میں ہے لیٹا
نہ بے پروائی سے چلئیے جھپٹ کر
قدم رکھئیے ذرا کیڑے سے ہٹ کر
کہ ہے دونوں سے دانا دیکھ سکتا
نمونے دو ہیں کاریگر ہے یکتا
ہے دونوں ہی میں یکساں دستکاری
کسے ہلکی کہیں اور کس کو بھاری
ہے ان دونوں کو اس کا لطف حاصل
کہ بخشا ہے برابر عیش کامل
اگر ہے خوبصورت مور پیارا
تو کیڑا بے گنہ کیوں جائے مارا
تو ہے ننھی سی جان اس کی تڑپتی
ہے تم جیسا ہی اک جاندار وہ بھی
نوٹ۔۔ یہ نظم ۱۸۶۷ میں ایک انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی۔ (۱۲)
٭٭٭
(۳۷) ایک قانع مفلس۔۔(۱)
سو ہزار ایکڑ ہے کلن کی زمیں
ملک میری ایک بھی ایکڑ نہیں
ہے محل اس کا نہایت شان دار
اور ہمارا جھونپڑا ہے تنگ و تار
ان گنت ہے اس کی نقدی و مال
ایک پائی کے لیئے میں پائمال
اس کا رتبہ ہے بڑا عزت بڑی
میرے سر پر خاک ذلت کی پڑی
ہے زمیندار آج کلن واقعی
زر سے پر ہے اس کا دامن واقعی
پر جہاں تک میری جاتی ہے نظر
ملک سب اپنی ہی نظر آتی ہے نظر
لطف جو اس حال میں ہے بالیقین
دولت دنیا میں آدھا بھی نہیں
سست ہے کلن بایں ناز و نعم
میں ہوں چاق و چست ہر دم تازہ دم
واں امیرانہ ہے مخمل کا لباس
میں ہوں مفلس میری پوشش ہے پلاس
وہ ہے قیدی۔ پائے بند ملک و مال
اور میں آزاد ہوں مثل خیال
ڈاکٹر واں بیس ہیں بہر علاج
یاں نہیں ہے ایک کی بھی احتیاج
ہے مصیبت مال و دولت میں بڑی
موت کا دھڑکا ہے اس کو ہر گھڑی
لطف قدرت کا نہیں اس کو نصیب
یہ بہار بے خزاں بھی ہے عجیب
یہ بیاباں یہ سمندر یہ ہوا
گونجتی ہے ان میں قدرت کی نوا
کان سے کلن کی لیکن دور ہے ]
وہ تو دولت کے نشہ میں چور ہے
راگنی قدرت کی ہر دم ہے چھڑی
میں تو ہوں اس لے کا دیوانہ سڑی
(۱) یہ نظم بھی ۱۸۶۷ عیسوی میں ایک انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی (۱۲)
٭٭٭
(۳۸) موت کی گھڑی۔۔ (۱)
جب کہ طوفاں ہو زندگی میں بپا
گھیر لیں ہر طرف سے موج و ہوا
جب کہ لغزش میں پانو تیرا ہو
اور آنکھوں تلے اندھیرا ہو
بلکہ ہوش و حواس بھی ہوں جدا
ڈر نہ زنہار۔ رکھ نظر بخدا
تھام دل کو نہ خوف کر نہ ہراس
کہ نگہ باں ہے تیرا تیرے پاس
تھا جو ایام عیش کا ہمدم
ہم پیالہ شریک شادی و غم
لہو و بازی میں ساتھ رہتا تھا
ہر گھڑی نرم و گرم سہتا تھا
آنکھ تجھ سے اگر چرا جائے
ابر غم جب کہ تجھ پہ چھا جائے
اس محبت کا دل میں باندھ خیال
جس کو ہر گز نہیں بیم و زوال
آرزوئیں تھیں وہ جو دل میں بھری
ٹمٹماتے چراغ تھے سحری
کر دے ان وسوسوں کو دل سے دور
اس محبت کو دیکھ جو ہے سرور
ہے شگفتہ ازل سے تا بہ ابد
نہ کبھی خاتمہ نہ اس کی حد
جب عزیز و قریب یار نہ ہوں
دوستداری میں استوار نہ ہوں
یعنی فرزند جیسا لخت جگر
اور ہم خانہ جیسے جاں پرور
گر دم واپسیں جدا ہو جائیں
وقت کے وقت سب ہوا ہو جائیں
کر توقع نہ غم گساری کی
یاد کر گور کی وہ تاریکی
اس وطن کی طرف ہو راہ سپر
کہ محبت جہاں ہے تازہ و تر
آہ جب آئے موت کی نوبت
آنے والی گھڑی ہو پر ہیبت
اور گزرے ہوئے زمانہ پر
ڈالتی آئے پردہ سر تا سر
دل کو رکھ تو امید پر شیدا
ہو نہ حسرت نگاہ سے پیدا
(۱) یہ نظم بھی ۱۸۶۷ عیسوی میں انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی
٭٭٭
(۳۹) فادر ولیم۔۔ (۱)
نوجواں آدمی نے کی تقریر
اے پدر ولیم اب تو ہو تم پیر
چند موئے سفید ہیں باقی
کہ نمایاں ہے جن میں براقی
لیک ویسے ہی تندرست ہو تم
خوب چاق و دلیر و چست ہو تم
سن کے ولیم نے یوں زبان کھولی
گرہ پرسش نہاں کھولی
تھی جوانی میں یہ نصیحت یاد
کہ ہے عہد شباب صورت باد
اس لیئے طاقت و توانائی
کی نہ ضائع بعہد برنائی
تاکہ انجام کار وقت اخیر
ہوں نہ محتاج ان کا بن کر پیر
بولا پھر وہ جوان نیک شیم
تم تو ہو پیر اے پدر ولیم
اور ناپائدار لطف شباب
ہوتے ہیں کوئی دم کے مثل حباب
مگر ان کا الم نہیں تم کو
حسرت بیش و کم نہیں تم کو
کچھ بیاں کیجیئے گا صاف اس کا
تاکہ ہو مجھ پہ انکشاف اس کا
ولیم پیر نے جواب دیا
کیا پسندیدہ با صواب دیا
میں جوانی میں کہتا تھا ہر بار
کہ یہ دن دیرپا نہیں زنہار
اس لئے تھا خیال آئندہ
سوچتا تھا مال آئندہ
تاکہ پاؤں غم و الم سے اماں
نہ رہے حسرت گزشتہ زماں
پھر بھی گویا ہوا جوان لطیف
اے پدر تم تو ہو گئے ہو ضعیف
اور گزرتی ہے زندگانی جلد
چھوڑنی ہے سرائے فانی جلد
ظاہرا کس قدر مسن ہو تم
مگر اس پر بھی مطمئن ہو تم
ہے تمہیں ذوق داستاں اجل
اور پسندیدہ ہے بیان اجل
مدعا یہ ہے کچھ بیاں ہو جائے
راز پوشیدہ تا عیاں ہو جائے
وہ مخاطب ہوا بسوئے جواں
کہ ہے البتہ مجھ کو اطمیناں
کیونکہ ایام نوجوانی میں
موسم عیش و کامرانی میں
میں نے اپنے خدا کو رکھا یاد
نہ کیا اس سے نفس کو آزاد
وہی اب میرا دستگیر ہوا
لطف یزداں عصائے پیر ہوا
نوٹ۔ یہ نظم بھی ۱۸۶۷ عیسوی میں انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی
٭٭٭
(۴۰) حب وطن
دل میں اک چاشنی محبت کی
جملہ جاندار کو خدا نے دی
قلب انسان ہی پہ کیا ہے مدار
کہ ہر اک دل میں ہے اسی کا شرار
ایک اسپین کی جواں طوطی
جو کہ بچپن سے تھی اسیر ہوئی
وہ درخشاں پر خجستہ نوا
ہوئی وارد بملک سرد ملا
اس نے وہ پر شمیم نخلستاں
کہ نکالے تھے پرو بال جہاں
اور وہ ملک و میوہ ہائے وطن
آسمان وطن ہوائے وطن
سب فراموش کر دئے ناچار
تھا یہاں اور رنگ لیل و نہار
تیرہ و تار وادی پر دود
ساحت آسمان بخار آلود
اور بسیط زمین پر از خاشاک
قلہ کوہ و موج دہشت ناک
یاں کے القصہ دیکھ کر یہ ساز
چشم زریں سے تھی نظرانداز
اس دیار غریب میں آ کر
سرد خطہ میں پرورش پا کر
رہی شکر شکن و خوش گفتار
باعث طول عمر آخر کار
اس کے زریں زمردیں پر و بال
بھورے بھورے سے ہو گئے فی الحال
عاقبت ایسی صم و بکم بنی
چہچہے وہ نہ وہ شکر شکنی
اسی اثنا میں ایک مرد غریب
آیا اسپین سے ملا کے قریب
اس نے طوطی سے جا کلام کیا
حرف اسپین میں سلام کیا
دیا اس نے اسی زباں میں جواب
اور کنج قفس میں ہو بیتاب
کیا ہی مسرور چہچہا کے ہوئی
آخر آخر پھڑک پھڑک کے موئی
نوٹ۔ یہ نظم ۱۸۶۷ عیسوی میں انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی۔
٭٭٭
(۴۱) انسان کی خام خیالی۔ (۱)
اے دیدہ وران دانش آثار
دنیا میں ہیں کیسے کیسے جاندار
ہاتھی چیونٹی عقاب مکھی
قدرت نے ہے سب میں بات رکھی
ایسا تو بتاؤ کوئی حیوان
جیسا نادان ہے یہ انساں
ہر ایک ہے اپنی راہ چلتا
جس راہ سے ہے مدعا نکلتا
آرام و خورش جو چاہتے ہیں
قدرت کی روش نباہتے ہیں
جس چیز سے ہے گزند ان کو
آتی ہی نہیں پسند ان کو
انساں ہے اگرچہ سب پہ فائق
مشہور ہے اشرف الخلائق
اڑتا ہے مگر اسی کا خاکا
پتلا ہے یہ سہو اور خطا کا
ممکن ہی نہیں خیال پرواز
کرنے لگے بیل صورت باز
یا چھوڑ کے عرصہ چراگاہ
غواص ہو مچھلیوں کے ہمراہ
انسان بخلاف حکم قدرت
کرتا ہے خیال ترک فطرت
ہو دل کو خوشی نہیں یہ ممکن
جب تک کہ نہ ہو صفائے باطن
یا نفس کہ تابع خرد ہو
حاصل تب راحت ابد ہو
یا وہ دل صاف اور فیاض
ہو خود غرضی سے جس کو اعراض
یا صبر کہ خندہ زن ہو اکثر
مجبوری بخت نا رسا پر
شاکر قسمت ہی پر رہے وہ
قدرت کو الاہنا نہ دے وہ
یا عقل کہ ہو سلیم و یک سو
اندوہ سے ہو نہ چیں بابرو
یہ رمز کہ ہو چکے ہویدا
ہے اصل خوشی انہیں میں پیدا
جو لوگ ہیں عقل سے گزرتے
بیہودہ خوشی پہ ہیں وہ مرتے
گر ہووے خلاف اس کے مضمون
باطل ہیں دلائل افلاطون
٭٭٭
(۴۲) کوہ ہمالہ
ہے ہمالہ پہاڑ سر جیون
جس کے اوپر تلے کھڑا ہے بن
بیل بوٹوں سے بن رہا ہے چمن
سبز چوٹی ہرے بھرے دامن
ہے ہر اک ڈھانگ اس کی پھلواری
سرد چشمے ادھر ادھر جاری
لالہ خودرو ہے اور اس کے پاس
لہلہاتی ہے خوبصورت گھاس
سیکڑوں قسم کے ہیں پھول کھلے
پیڑ باہم کھڑے ہوئے ہیں ملے
کہیں بن مالنا کہیں بیلا
کہیں اخروٹ اور کہیں کیلا
سال کا کیا ہی خوب جنگل ہے
سورماؤں کا بن کے دنگل ہے
سرو و شمشاد ہیں قطار قطار
ریچھ پھرتے ہیں بن کے چوکیدار
ہیں چٹانوں پہ کودتے لنگور
ایک ہی جست میں وہ پہونچے دور
ہیں ترائی میں ہاتھیوں کے غول
کوئی پائل ہے اور کوئی بخھول
شیر خونخوار شاہ ہے یاں کا
پاڑھے چیتل کو خوف ہے جاں کا
بارہ سنگے غریب پر ہے لتاڑ
سینگ ہیں اس کے جھاڑ اور جھنکاڑ
وہ جو ہے ہند کا بڑا ساگر
واں سے چلتا ہے ابر کا لشکر
کوچ در کوچ روز بڑھتا ہے
پھر ہمالہ پہ آ کے چڑھتا ہے
کبھی دیتا ہے باندھ مینہ کا تار
کبھی کرتا ہے برف کی بھر مار
جا چڑھا یوں پہاڑ پر پانی
کی ہے قدرت نے کیا ہی آسانی
واں سے چشمے بہت ابل نکلے
ندی نالے ہزار چل نکلے
سندھ و ستلج ہیں مغربی دریا
اور پورب میں میگھنا گنگا
ہیں یہ دریا بہت بڑے چاروں
جن میں بہتا ہے پانی الغاروں
پس سمندر سے جو رسد آئی
یوں ہمالہ نے بانٹ کر کھائی
ہوا سرسبز ہند کا میداں
تیری حکمت کے اے خدا قرباں
ہند کی سر زمیں ہے ان ماتا
اور ہمالہ پہاڑ جل داتا
اے ہمالہ پہاڑ، تیری شان
دنگ رہ جائے دیکھ کر انسان
ساری دنیا میں ہے تو ہی بالا
پہونچے جب پاس دیکھنے والا
سامنے اک سیاہ دل بادل
دیو کی طرح سے کھڑا ہے اٹل
گھاٹیاں جن میں گونجتی ہے صدا
آبشاروں کا شور ہے برپا
دبدبہ اپنا تو دکھاتا ہے
گویا میدان کو ڈراتا ہے
ہے میرے دل میں یہ خیال آتا
کاش چوٹی پہ تیرے چڑھ جاتا
واں سے نیچے کا دیکھتا میداں
جس میں گنگ و جمن ہیں تیز رواں
دو لکیریں سی وہ نظر آتیں
دائیں بائیں کو صاف لہراتیں
اس تماشے سے جب کہ جی بھرتا
تو شمالی طرف نظر کرتا
شام کو دیکھتا بہار بڑی
گویا سونے کی ہے فصیل کھڑی
پھر وطن میں جب آن کر رہتا
دوستوں سے یہ ماجرا کہتا
٭٭٭
(۴۳) بارش کا پہلا قطرہ
گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہو گا
میں اور کی گوں نہ آپ جوگا
کیا کھیت کی میں بجھاؤں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیا ناس
آتی ہے برسنے سے مجھے شرم
مٹی پتھر تمام ہیں گرم
خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی باتوں میں کیا حلاوت
کس برتے پہ میں کروں دلیری
میں کون ہوں کیا بساط میری
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم
سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم
کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی
اک قطرہ تھا کہ بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور
فیاض و جواد و نیک نیت
بھڑکی اس کی رگ حمیت
بولا للکار کر کہ آؤ
میرے پیچھے قدم بڑھاؤ
کر گزرو جو ہو سکے کچھ احسان
ڈالو مردہ زمین میں کچھ جان
یارو، یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک
مل کر جو کرو گے جانفشانی
میدان پہ پھیر دو گے پانی
کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں
آتے ہو تو آؤ لو چلا میں
یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ
’’ دشوار ہے جی پہ کھیل جانا ‘‘
ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اس نے مگر بڑی شجاعت
دیکھی جرات جو اس سخی کی
دوچار نے اور پیروی کی
پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمین پہ ٹپکا
آخر قطروں کا بندھ گیا تار
بارش لگی ہونے موسلا دھار
پانی پانی ہوا بیاباں
سیراب ہوئے چمن خیاباں
تھی قحط سے پائمال خلقت
اس مینہ سے ہوئی نہال خلقت
جرات قطرہ کی کر گئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام
اے صاحبو قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کر لو
قطروں ہی سے ہو گی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری
٭٭٭
(۴۴) مثنوی باد مراد
چل اے باد بہاری سمت گلزار
تمنائی ہے تیرا ہر گل و خار
نہال و نخل و سبزہ سب ہیں سنسان
گیاہ مردہ میں تو ڈال دے جان
نہیں گلشن میں پتے کا بھی کھڑکا
ذرا شاخیں ہلا۔ طائر کو بھڑکا
لہک تیزی سے اے باد بہاری
کہ ہو جائے چمن پر وجد طاری
جو تو لہکے تو سبزہ لہلہائے
چمن کا بیل بوٹا سر ہلائے
لچک جائے کمر نازک شجر کی
زمیں پہ جھک پڑے ڈالی ثمر کی
ٹپک جائے جو ہو پکا ہوا پھل
کہ شاخیں ہو رہی ہیں سخت بوجھل
سنا۔ باد صبا، کیا کیا خبر ہے
قلمرو میں تیری کل بحر و بر ہے
ذرا کر دامن صحرا میں راحت
بہت کی تو نے دریا کی سیاحت
بس اب آرام کر لوگوں کے گھر میں
رہی تا دیر تو سیر و سفر میں
تیرے ہمرہ چلے آتے ہیں پیہم
یہی ہیں کیا سفیر بحر اعظم
جلو میں ہے تیرے اک فوج جرار
تو ہی ہے ابر کے لشکر کی سردار
اٹھایا ہے سمندر تو نے سر پر
گھٹا کو لاد کر لائی کمر پر
تیری تیزی سے ہیں بادل لپکتے
تیرے جھونکوں سے ہیں قطرے ٹپکتے
٭٭
غزل
چمن ہے ابر ہے ٹھنڈی ہوا ہے
ہجوم طائران خوش نوا ہے
کبھی جھونکا نکل جاتا ہے سن سے
کبھی آہستہ رو موج صبا ہے
غبار و گرد سے جو اٹ گئی تھی
صبا نے غسل کا سامان کیا ہے
ہوا نے کیا ہوا باندھی چمن میں
کہ خوبانِ چمن کا سر ہلا ہے
چمن کا پتہ پتہ ہے نوا سنج
صبا کی آمد آمد جا بجا ہے
گلوں کی ڈالیاں جھک جھک گئی ہیں
زمین پر سبزہ کیسا لوٹتا ہے
کھلی ہر پنکھڑی گلہائے تر کی
صبا نے کان میں کیا کہہ دیا ہے
بکھیری نسترن پر زلف سنبل
صبا شوخی میں فتنہ ہے بلا ہے
گیاہ سبز کا طرہ پریشان
صبا تیرے ہی چھیڑے سے ہوا ہے
نہیں ہے مجھ کو دعوی شاعری کا
تو پھر مقطع سے بھی کیا مدعا ہے
٭٭
کر اے باد مراد آہنگ آفاق
جہاز سست رو ہے تیرا مشتاق
پھریرے کو اڑا کس بادباں کو
کہ دیکھیں ساحل ہندوستاں کو
خلیج و آبنائے و بحر و ساحل
تیرے دیکھے پڑے ہیں سب مراحل
مقام استوا سے تا بہ قطبین
تجھے جنبش نہیں دیتی کبھی چین
بہت کھوندے ہیں کوہ و دشت تو نے
کیا بحرین کا گلگشت تو نے
محیط ارض ہے تو اے سبک پا
تیری موجیں رواں ہیں مثل دریا
لطیف و نازک و بے رنگ ہے تو
اصول نغمہ و آہنگ ہے تو
رواں ہے تیری موجوں میں ہر آواز
تو ہی کانوں میں ہے ہنگامہ پرواز
جہاں میں تو رسول ہر ندا ہے
مذاق سامعہ تجھ پر فدا ہے
نہ پہونچے تو اگر تا پردہ گوش
سب آوازیں رہیں پردہ میں روپوش
وہ بہرا ہے جو تجھ سے بے اثر ہے
وہ سنتا ہے جو تجھ سے بہرہ ور ہے
زبان کو نطق کا یارا ہے تجھ سے
جہاں میں شور و شر سارا ہے تجھ سے
حجاب دیدہ بینا نہیں تو
نگہ سے گرچہ ہے پردہ نشین تو
تیرے کھانے سے دم لیتی ہے خلقت
تیرے کھانے پہ دم دیتی ہے خلقت
ہمیں تیری ضرورت ہے بہر طور
نہیں ایسی ضروری شے کوئی اور
اگر اک لمحہ گزرے ہم پہ تجھ بن
تو ہو جائے تنفس غیر ممکن
ہر تیرا شغل دائم پاس انفاس
نہیں ہے ورنہ تجھ بن زیست کی آس
تو ہی ہے اے نسیم صبح گاہی
مثال رحمت عام الہی
جہاں میں ہیں تیرے الطاف حاوی
غریبوں اور امیروں پر مساوی
کبھی بنتی ہے ایسی تند و پر شور
معاذ اللہ، معاذ اللہ، ترا زور
اگر تو خشمگیں اے تند خو ہو
تہ و بالا جہاز جنگ جو ہو
کبھی دریا میں لے جائے بہا کر
کبھی ساحل پہ دے پٹکے اٹھا کر
اڑاتی ہے اسے تو راہ بے راہ
جہاز آگے ترے مثل پر کاہ
معاذ اللہ ترا طوفان غضب ہے
تیری تیزی نشان قہر رب ہے
اجاڑا تو نے گلزار و چمن کو
ہلا ڈالا جنگل اور بن کو
یہ چھیڑا نے میں کیسا راگ تو نے
نیستاں میں لگا دی آگ تو نے
تیری رفتار ہے بے باک کیسی
اڑاتی ہے زمین کی خاک کیسی
یہ گل کترے ہیں تو نے بے تامل
کیا اک دم زدن میں شمع کو گل
کبھی گرمی سے گرما گرم ہے تو
کبھی سردی سے سرد و نرم ہے تو
چرا لیتی ہے تو پانی کو چپ چاپ
نظر آتا نہیں جب بن گیا بھاپ
برودت کی پولیس نے تجھ کو گھیرا
تو کچھ کچھ مال مسروقہ بھی پھیرا
جو بادی چور تو ایسی نہ ہوتی
نہ پاتے صبح کو شبنم کے موتی
دبائیں تو نہیں دبنے سے انکار
تیری عادت نہیں ضد و اصرار
خوشامد تیری خصلت میں نہیں ہے
تیری تیزی برابر ہر کہیں ہے
اجاڑا اگر کسی مفلس کا چھپر
اکھاڑا خیمہ و خر گاہ لشکر
نہ در گزرے غریبوں کے مکاں سے
نہ جھجکے طرہ تاج شہاں سے
نہیں کچھ تجھ کو خوف شان سلطاں
اڑایا پردہ ایوان سلطاں
کسی کا طرہ طرار چھیڑا
کسی کا برقع زر تار چھیڑا
غرض دلچسپ تیری ہر ادا ہے
تیری شوخی و چالاکی بجا ہے
٭٭٭
(۴۵) ایک گنوار اور قوس قزح
تھی شام قریب اور دہقاں
میدان میں تھا گلہ کا نگہباں
دیکھی اس نے کمان ناگاہ
جو کرتی ہے مینہ سے ہم کو آگاہ
رنگت میں اس کو عجیب پایا
ظاہر میں بہت قریب پایا
پہلے سے وہ سن چکا تھا اکثر
ہے قوس میں اک پیالہ زر
مشہور بہت ہے یہ کہانی
افسانہ تراش کی زبانی
ملتی ہے جہاں کماں زمیں سے
ملتا ہے وہ جام زر وہیں سے
سوچا لو جام اور بنو جم
چھوڑو بز و گوسفند کا غم
بیہودہ گنوار اس گماں پر
سیدھا گیا تیر سا کماں پر
دن گھٹنے لگا قدم بڑھایا
امید کہ اب خزانہ پایا
جتنی کوشش زیادہ تر کی
اتنی ہی کمان پرے کو سرکی
پنہاں ہوئی قوس آخر کار
اور ظلمت شب ہوئی نمودار
ناکام پھرا وہ سادہ دہقاں
حسرت زدہ غم زدہ پشیماں
٭٭٭
(۴۶) ترک تکبر
بلندی سے چلا سیلاب پر زور
پہاڑی گھاٹیوں میں مچ گیا شور
ہوا اس تیزی و تندی سے جاری
کہ تھی سنگ گراں پر ہول طاری
شجر تو کیا اٹھاتے اس کی ٹکر
بہم ٹکرا دیے پتھر سے پتھر
غرض ڈھایا بہایا اور توڑا
پڑا جو سامنے اس کو نہ چھوڑا
اسی زمرہ میں اک لکڑی بھی بہتی
چلی جاتی تھی اور یوں دل میں کہتی
’’ میں راہ رسم منزل سے ہوں آگاہ
یہ سارا قافلہ ہے میرے ہمراہ
اشاروں پہ میرے چلتا ہے پانی
ہے میرے بس میں دریا کی روانی
مرے دم سے رواں یہ کارواں ہے
مرا تابع ہے جو کوئی یہاں ہے ‘‘
قضا را موج نے پلٹا جو کھایا
تو اک پتھر نے لکڑی کو دبایا
کہا لکڑی نے او گستاخ مغرور
مرے دامن سے اپنا ہاتھ رکھ دور
کہ میں ہے بدرقہ ہوں رہنما ہوں
امیر بحر ہوں اور ناخدا ہوں
مجھے او بے ادب کیوں تو نے چھیڑا
جو میں ڈوبی تو بس ڈوبا یہ بیڑا
رکوں گی میں تو رک جائے گا دریا
کڑھے گا اور پچھتائے گا دریا
کہا پتھر نے ساحل سے احوال
کہ ہے ہم سب میں وہ پیر کہن سال
کہی لکڑی نے ساحل سے وہی بات
تو ساحل نے صدا یوں دی ہیہات
ہزاروں مدعی آگے بھی آئے
بہت جوش و خروش اپنے دکھائے
گیا سالم نہ کوئی اس بھنور سے
یہی دیکھا کیا عمر بھر سے
ہوئے یہاں غرق لاکھوں تجھ سے فرعون
نہ پوچھا کسی نے یہ کہ تھے کون
مگر دریا کی باقی ہے وہی آن
وہی رونق، وہی عظمت، وہی شان
نہیں دریا کی مواجی میں کچھ فرق
اسے کیا غم ترے کوئی کہ ہو غرق
٭٭٭
(۴۷) حیا
او حیا، او پاسبان آبرو
نیکیوں کی قوت بازو ہے تو
پاک دامانی پہ تجھ کو ناز ہے
کیا ہی تیرا دل پذیر انداز ہے
کھب گئی جس آنکھ میں تو مثل نور
بد نگاہی سے رہی وہ آنکھ دور
دامن عصمت کو تو رکھتی ہے پاک
ہے سدا جرم و گنہ سے تجھ کو باک
گر نہ ہوتا درمیاں تیرا حجاب
فعل بد سے کون کرتا اجتناب
خواہشوں کو جو نہ تو دیتی لگام
آدمی حیوان بن جاتے تمام
جب خطا کرتی ہے دل میں شور و شر
تو ہی بن جاتی ہے واں سینہ سپر
ذلت و خواری تجھے بھاتی نہیں
تاب رسوائی کی تو لاتی نہیں
تو مذلت کو سمجھتی زہر ہے
اور ملامت تیرے حق میں قہر ہے
مفلسوں کی ہے تو ہی پشت و پناہ
تو سجھاتی ہے عرق ریزی کی راہ
گو تہی دستی کے ہو جائیں شکار
ہے مگر تجھ کو گدائی ننگ و عار
ہے ترے نزدیک مر جانا پسند
پر نہیں ہے ہاتھ پھیلانا پسند
اس قدر تجھ کو نہیں پروائے نان
جس قدر تو آن پر دیتی ہے جان
آبرو کھوتی نہیں از بہر قوت
لب پہ بن جاتی ہے تو مہر سکوت
اغنیا کے دل کو گرماتی ہے تو
بخل و خست سے شرماتی ہے تو
تو سکھا دیتی ہے ان کو بذل مال
زخم خنجر ہے تجھے رد سوال
٭٭٭
(۴۸) کچھوا اور خرگوش
ایک کچھوے کے آ گئی جی میں
کیجیے سیر و گشت خشکی میں
جا رہا تھا چلا ہوا خاموش
اس سے ناحق الجھ پڑا خرگوش
میاں کچھوے، تمہاری چال ہے یہ
یا کوئی شامت اور وبال ہے یہ
یوں قدم پھونک پھونک دھرتے ہو
گویا اتو زمیں پہ کرتے ہو
کیوں ہوئے چل کے مفت میں بدنام
بے چلے کیا اٹک رہا تھا کام
تم کو یہ حوصلہ نہ کرنا تھا
چلو پانی میں ڈوب مرنا تھا
یہ تن و توش اور یہ رفتار
ایسی رفتار پر خدا کی مار
بولا کچھوا کہ ہوں خفا نہ حضور
میں تو ہوں آپ معترف بہ قصور
اگر آہستگی ہے جرم و گناہ
تو میں خود اپنے جرم کا ہوں گواہ
مجھ کو جو سخت سست فرمایا
آپ نے سب درست فرمایا
مجھ کو غافل مگر نہ جانئے گا
بندہ پرور برا نہ مانئے گا
یوں زبانی جواب دوں تو کیا دوں
شرط بد کر چلو تو دکھلا دوں
تم تو ہو آفتاب میں ذرہ
پر مٹا دوں گا آپ کا غرہ
سن کے خرگوش نے یہ تلخ جواب
کہا کچھوے سے یوں زروئے عتاب
تو کرے میری ہمسری کا خیال
تیری یہ تاب یہ سکت یہ مجال
چیونٹی کے جو پر نکل آئے
تو یقین ہے کہ اب اجل آئے
ارے بیباک، بد زباں منہ پھٹ
تو نے دیکھی کہاں ہے دوڑ جھپٹ
جب میں تیزی سے جست کرتا ہوں
شہسواروں کو پست کرتا ہوں
گرد کو میری باد پا نہ لگے
لاکھ دوڑے میرا پتہ نہ لگے
ریل ہوں برق ہوں چھلاوہ ہوں
میں چھلاوے کا بلکہ باوا ہوں
تیری میری نبھے گی صحبت کیا
آسمان کو زمیں سے نسبت کیا
جس نے بھگتے ہوں ترکی و تازی
ایسے مریل سے کیا بدے بازی
بات کو اب زیادہ کیا دوں طول
خیر کرتا ہوں تیری شرط قبول
ہے مناسب کہ امتحاں ہو جائے
تاکہ عیب و ہنر عیاں ہو جائے
الغرض اک مقام ٹھیرا کر
ہوئے دونوں حریف گرم سفر
بسکہ زوروں پہ تھا چڑھا خرگوش
تیزی پھرتی سے یوں بڑھا خرگوش
جس طرح جائے توپ کا گولا
یا گرے آسمان سے اولا
ایک دو کھیت چوکڑی بھر کے
اپنی چستی پہ آفریں کر کے
کسی گوشہ میں سو گیا جا کر
فکر کیا ہے چلیں گے سستا کر
اور کچھوا غریب آہستہ
چلا سینہ کو خاک پر گھستا
سوئی گھنٹے کی جیسے چلتی ہے
یا بتدریج چھاؤں ڈھلتی ہے
یوں ہی چلتا رہا بہ استقلال
نہ کیا کچھ ادھر ادھر کا خیال
کام کرتا رہا جو پے در پے
کر گیا رفتہ رفتہ منزل طے
حیف، خرگوش رہ گیا سوتا
ثمرہ غفلت کا اور کیا ہوتا
جب کھلی آنکھ تو سویرا تھا
سخت شرمندگی نے گھیرا تھا
صبر و محنت میں ہے سرافرازی
سست کچھوے نے جیت لی بازی
نہیں قصہ یہ دل لگی کے لئے
بلکہ عبرت ہے آدمی کے لئے
ہے سخن اس حجاب میں روپوش
ورنہ کچھوا کہاں کہاں خرگوش
٭٭٭
(۴۹) مناقشہ ہوا و آفتاب
باد صحرا نے کہا یوں اک روز
مہر تاباں سے کہ اے گیتی فروز
تو ہے علوی اور میں سفلی مگر
زور بازو میں ہوں میں تجھ سے زبر
نیر اعظم نے فرمایا کہ ہاں
ہو اگر ثابت زروئے امتحاں
ورنہ ہے پا در ہوا یہ قال و قیل
ہیچ ہے دعوی نہ ہو جب تک دلیل
بولی جو یوں ہے تو اچھا یوں سہی
ہاتھ کنگن کے لئے کیا آرسی
آئیے زور آزمائی کیجئے
اس بکھیڑے کی صفائی کیجئے
اک مسافر اپنی دھن میں تھا رواں
اس کو ان دونوں نے تاکا نا گہاں
ہو گئے آپس میں طے قول و قرار
جو لبادہ لے مسافر کا اتار
بس اسی کے نام کا ڈنکا بجے
سر پہ دستار فضیلت وہ سجے
پھر تو آندھی بن کر چل نکلی ہوا
ایسی بپھری کر دیا طوفان بپا
اونچے اونچے پیڑ تھرانے لگے
جھوک سے جھوکوں کی چرانے لگے
نونہالوں کی کمر بل کھا گئی
پھول پتوں پر قیامت آ گئی
کانپ اٹھے اس دشت کے کل وحش و طیر
مانگتے تھے اپنے اپنے دم کی خیر
ہو گیا دامان صحرا گرد برد
گھر گیا آفت میں وہ صحرا نورد
چاہتی تھی لوں لبادہ کو اچک
مدعی کو دوں سر میدان زک
جب ہوا لیتی تھی چکر میں لپیٹ
بیٹھ جاتا تھا وہ دامن کو سمیٹ
سینہ زوری سے نہ چوری سے ڈری
کرسکی لیکن نہ کچھ غارت گری
باندھ لی کس کر مسافر نے کمر
تا ہوا کا ہو نہ کپڑوں میں گزر
تھک گئی آخر نہ اس کا بس چلا
ٹل گئی سر سے مسافر کے بلا
اب تھما جھکڑ تو نکلا آفتاب
روئے نورانی سے سرکائی نقاب
تمکنت چہرے سے اس کے آشکار
چال میں ایک بردباری اور وقار
وہ ہوا کی سی نہ تھی دھوم دھام
کر رہا تھا چپکے چپکے اپنا کام
دھیمی دھیمی کرنیں چمکانے لگا
رفتہ رفتہ سب کو گرمانے لگا
اس مسافر کو پسینا آگیا
کھول ڈالے بند جی گھبرا گیا
اور آگے کو بڑھا تو دھوپ سے
تن بدن میں کچھ پتنگے سے لگے
اب لبادہ کو لیا کاندھے پہ ڈال
بدلی یوں نوبت بہ نوبت چال ڈھال
جب چڑھا خورشید سمت الراس پر
بیٹھ کر سایہ میں پھر تو گھاس پر
دور پھینکا اس لبادہ کو اتار
واہ رے سورج، لیا میدان مار
تیزی و تندی کے گرویدہ ہیں سب
کامیابی کا مگر ہے اور ڈھب
اس کا گر ہے نرمی و آہستگی
سرکشی کی رگ اسی سے ہے دبی
٭٭٭
(۵۰) نا قدردانی
کہیں اک لعل کیچڑ میں پڑا تھا
نہ قامت بلکہ قیمت میں بڑا تھا
کوئی دہقاں اٹھا کر لے گیا گھر
وہ کیا جانے یہ پتھر ہے کہ جوہر
نیا تحفہ جو بچے کو دکھایا
، ہا ہا ہا، کھلونا ہم نے پایا
ہوئی جب لعل کی واں یہ مدارات
تو بولا حسرتا ہیہات ہیہات
نہیں اس گھر میں میری قدر ممکن
کہ اندھوں کے لئے کیا رات کیا دن
اگر پاتا مجھے کوئی نظر باز
تو کرتا اپنی قسمت پر وہ سو ناز
جو لے جاتا مجھے تا درگہ شاہ
تو مالا مال ہوتا حسب دلخواہ
اری نا قدر دانی تجھ پے لعنت
کہ ہے تجھ کو مساوی نور و ظلمت
سمجھ لیتی ہے عیبوں کو ہنر تو
ہنر کی توڑ دیتی ہے کمر تو
خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے
خصوصاً تیری نالائق جفا سے
کہ ہے اندھے کی لاٹھی تیری بیداد
جہاں میں داد ہے جس کی نہ فریاد
٭٭٭
(۵۱) جنگ روم و روس (۱)
حالات روم سے ہمیں دن رات کام ہے
اخبار کا ورق نہیں خوان طعام ہے
کیسے خیال جنگ میں روزے گزر گئے
معلوم بھی نہیں کدھر آئے کدھر گئے
سوجھا نہ اور کچھ ہمیں اس بھوک پیاس میں
دن کاٹتے رہے انہیں خبروں کی آس میں
روزہ خبر بغیر ہمیں بار ہو گیا
آیا جو تار فتح تو افطار ہو گیا
چھٹکی ہوئی ہے چاندنی اور صاف آسماں
چپ چاپ ہے زمین تو سنسان ہے جہاں
پتا بھی دیکھئے تو کھڑکتا نہیں کوئی
طائر بھی آشیاں میں پھڑکتا نہیں کوئی
خلق خدا پڑی ہوئی سوتی ہے بے خبر
بجنے لگا ہے اتنے میں نقارہ سحر
اس وقت جاگتے ہیں تو آتا ہے یہ خیال
اے ماہ کیا ہے خطہ بلگیریا کا حال
کیا اب بھی گونجتا ہے وہ میدان توپ سے
آتش فشاں ہے لشکر عثمان توپ سے
بلقان کے دروں میں سلیمان صف شکن
کیا اب بھی ہے غنیم کے لشکر میں شعلہ زن
کیا خیمہ زن ہوئی ہے محمد علی کی فوج
یا خبترہ کی سمت رواں ہے مثال موج
بیکر کے شہسوار ہیں کس داروگیر میں
کیا غلغلہ ہے کوچ کا ترکی بیر میں
کیا اب بھی ترکتا زمین ترکی سوار ہیں
جن غازیوں کے تیغ سے روسی فگار ہیں
کیا کر رہی ہے احمد مختار کی سپاہ
فیروزمند غازی جرار کی سپاہ
اے ماہ نور بار سفر میں ہے تو مدام
حالات جنگ کے تجھے معلوم ہیں تمام
تو جا کے معرکہ میں چمکتا ہے رات بھر
اور سیر دیکھنے کو ٹھٹھکتا ہے رات بھر
کرتے تھے اس طرح سے خیالی خطاب ہم
جب دیکھتے تھے لطف شب ماہ تاب ہم
لیکن ہجوم اب تو ہے ابر بہار کا
ہے آسمان نمونہ صف کارزار کا
بجلی کے کوندنے میں ہے شمشیر کی ادا
اور بادلوں کی گھور گرج توپ کی صدا
یوں ابر جھوم جھوم کے آتا ہے بار بار
شیکا پے جیسے حملہ ترکان ذی وقار
بد دل ہے فوج روس تو ہو اور بھی خراب
عثمانیوں کے دبدبہ ہو جائے کامیاب
ہے یہ دعائے شام یہ ہی نالہ سحر
ہوں ترک فتحیاب خدا یا بکر و فر
عثمان پر جو لشکر روسی کا ہے ہجوم
ابر سیہ کی طرح سے آتا ہے جھوم جھوم
خود زار بھی گیا ہے کمال غرور سے
اور فوج جمع کی ہے بہت دور دور سے
عثمان یا خدا انہیں زیر و زبر کرے
سیلاب خون روس سے مٹی کو تر کرے
ترکوں کو ایسی شوکت و شان و جلال دے
جو زلزلہ غنیم کے لشکر میں ڈال دے
مشرق کی سمت سے ہو سلیمان گرم کار
افواج زار وچ کو دکھا وے رہ فرار
بلگیریا میں ختم ہو ہنگامہ جنگ کا
رومانیہ نشانہ ہو ترکی تفنگ کا
دم بند روسیوں کا ہو صمصام ترک سے
بھاگے سپاہ روس فقط نام ترک سے
محمود روز عید ہے دل سے دعا کرو
حامد یہ التجا بحضور خدا کرو
ترکی سپاہ میں علم فتح ہو بلند
پہونچے سپاہ زار کو آزار اور گزند
(۱) یہ مثنوی یکم شوال ۱۳۹۴ ہجری مطابق ۱۹ اکتوبر ۱۸۷۷ عیسوی میں لکھی گئی
٭٭٭
(۵۲) مکالمہ سیف و قلم
۱۔۔ سیف و قلم میں جو ہوئی دوبدو
شوق ہے تم کو تو سنو مو بمو
۲۔۔ خامہ لگا کہنے کہ او تیغ تیز
تجھ سے بھلا کس کو مجال ستیز
۳۔۔ آب وہ تیری کہ نہ ٹھیرے نگاہ
آنچ وہ تیری۔ کہ خدا کی پناہ
۴۔۔ رہزن سفاک کی یاور ہے تو
خون کے دریا کی شناور ہے تو
۵۔۔ سیکھے ستم کس ستم ایجاد سے
شور ہے برپا تری بیداد سے
۶۔۔ شوخی و بے باکی و تیزی میں برق
آگ ہے اور آب میں رہتی ہے غرق
۷۔۔ تند مزاجی میں تو شداد ہے
بیضہ فولاد کی اولاد ہے
۸۔۔ آتش سوزاں کا پیا تو نے دود
اس لئے جاں سوز ہے تیرا وجود
۸۔۔ حیف تیری سختی و آہن دلی
نوع بشر کی ہے تو دشمن دلی
۱۰۔۔ خرمن ہستی میں لگاتی ہے آگ
عافیت و امن سے رکھتی ہے لاگ
۱۱۔۔ گو کہ مجلا ہے تو آئینہ دار
تیرہ درونی ہے تیری آشکار
۱۲۔۔ تیری گھٹی میں پڑا زہر ہے
چال قیامت تو ادا قہر ہے
۱۳۔۔ فتنہ عالم ہے تیرا بانک پن
شوخی و شنگی ہے تیرا خاص فن
۱۴۔۔ شکل انوکھی تو نرالی ہے دھج
جسم بھی خمدار طبیعت بھی کج
۱۵۔۔ قحط زدوں کا سا تن و توش ہے
کھانے پہ ڈھوکے تو بلا نوش ہے
۱۶۔۔ عرصہ راحت ہے ترے دم سے تنگ
ایسی لڑاکا کہ بنی خانہ جنگ
۱۷۔۔ تیری جبلت ہے فسوق و جدال
ناحق و حق کا نہیں تجھ کو خیال
۱۸۔۔ قتل کا رکھتی ہے بہت چاؤ تو
رن میں کیا کرتی ہے ستھراؤ تو
۱۹۔۔ اف نہ کرے لاکھ گلے کاٹ کر
جی نہ بھرے تیرا لہو چاٹ کر
۲۰۔۔ خلق خدا تجھ سے ہے آزار کش
کرتی ہی رہتی ہے سدا چپقلش
۲۱۔۔ بحر فنا کہئے ترے گھاٹ کو
جس نے دئے سینکڑوں بیڑے ڈبو
۲۲۔۔ گرچہ سراپا ہے ترا آب گون
پر تری چتون سے ٹپکتا ہے خون
۲۳۔۔ تو نے اجاڑیں بہت آبادیاں
چھین لیں اقوام کی آزادیاں
۲۴۔۔ تو نے کروڑوں کئے بچے یتیم
لاکھوں ہی باپوں کے کئے دل دو نیم
۲۵۔۔ لے گئی ماؤں کی کمائی کو لوٹ
رہ گیئں بیچاریاں چھاتی کو کوٹ
۲۶۔۔ دلہنیں روتی ہیں تری جان کو
ساتھ ہی لے جائیں گی ارمان کو
۲۷۔۔ موتیوں سے مانگ تھی جن کی بھری
ان سے کراتی ہے تو گدیہ گری
۲۸۔۔ تو نے رفیقوں کو رلایا ہے خوں
غم سے عزیزوں کو ہوا ہے جنوں
۲۹۔۔ تفرقہ پرداز، یہ کیا کر دیا ؟
گوشت کو ناخن سے جدا کر دیا
۳۰۔۔ شیوا ترا شہرہ آفاق ہے
خون خرابہ میں تو مشاق ہے
۳۱۔۔ چاہتی ہے بغض و عداوت کو تو
انس و محبت کی نہیں تجھ میں بو
۳۲۔۔ تیری دغا بازی ہے ضرب المثل
غیر ہے قبضہ سے گئی جب نکل
۳۳۔۔ تو نے وفا کی نہیں پٹی پڑھی
اس کی ہوئی جس کے تو ہتے چڑھی
۳۴۔۔ کون کرے تجھ سے رفاقت کی آس
کچھ نہیں تجھ کو حق صحبت کا پاس
۳۵۔۔ رکھتی نہیں سابقہ لطف یاد
کور نمک ہے ترا کیا اعتماد
۳۶۔۔ میل حریفوں سے یگانوں سے چھوٹ
نکلے گا مالک کا نمک پھوٹ پھوٹ
۳۷۔۔ مملکتیں خاک سیہ تو نے کیں
تیری قساوت نے اجاڑی زمین
۳۸۔۔ بستیاں کرتی ہیں پڑیں بھائیں بھائیں
مقبرے آباد ہیں کچھ دائیں بائیں
۳۹۔۔ اٹھے تیری ذات سے جو جو فساد
اہل تواریخ کو کچھ کچھ ہیں یاد
۴۰۔۔ ثبت جریدہ انھیں میں نے کیا
ہے وہ خلاصہ تری روداد کا
۴۱۔۔ تو ہی بھرت کھنڈ کی بھارت میں تھی
تیری خوشی جانوں کی غارت میں تھی
۴۲۔۔ ہند کے جودھا تھے بڑے سور بیر
کھا گئی تو سب کو دم داروگیر
۴۳۔۔ تو نے نصیحت نہ کسی کی سنی
چٹ کئے اس عہد کے گیانی گنی
۴۴۔۔ وادی توران میں چمکی کبھی
دیتی تھی ایران کو دھمکی کبھی
۴۵۔۔ باڑھ پہ تیری جو چڑھا پہلواں
نام کو بھی اس کا نہ چھوڑا نشاں
۴۶۔۔ تیری جو ضحاک سے گہری چھنی
قوم کا ہر فرد بنا کشتنی
۴۷۔۔ معرکہ رستم و افراسیاب
تیری بدولت ہوا زیب کتاب
۴۸۔۔ قتل کا دھبا ترے دامن پہ ہے
خون سیاوش تری گردن پہ ہے
۴۹۔۔ خاک اڑائی یہ تری آب نے
جان دی ناشاد ہی سہراب نے
۵۰۔۔ تو جو طرفدار سکندر ہوئی
خاک میں دارا کو ملا کر ہی سوئی
۵۱۔۔ تخت کیاں کا دیا تختہ الٹ
کر دی یونان کی کایا پلٹ
۵۲۔۔ لشکر یوناں کی جلو جب پھری
باختر و بلخ پہ بجلی گری
۵۳۔۔ تو نے عرب سے جو کیا اتفاق
فارس و روما کی مٹی طمطراق
۵۴۔۔ جب ہوئی فارس پے تیری دست برد
دخمہ بنی یار گہ یزدجرد
۵۵۔۔ شوکت ساسان کے ڈیرے لدے
بجھ گئے زردشت کے آتشکدے
۵۶۔۔ غرب کی جانب کو جو تو جھک پڑی
شام پہ اک ضرب لگائی کڑی
۵۷۔۔ روم میں برپا کیا شور نشور
دولت ہرقل کا ہوا شیشہ چور
۵۸۔۔ توڑ دیا روم کا سارا طلسم
رہ گیا بے جان مردار سا جسم
۵۹۔۔ ہاشمیوں کا نہ دیا تو نے ساتھ
آل امیہ کا پڑا تجھ پہ ہاتھ
۶۰۔۔ ڈھایا کیا تو نے غضب برملا
گرم کیا معرکہ کربلا
۶۱۔۔ طرفہ ستمگار ہے عالم میں تو
عید مناتی ہے محرم میں تو
۶۲۔۔ پھٹ نہ گیا کیوں ترا ظالم جگر
ڈوب مری کیوں نہ تو اے خیرہ سر
۶۳۔۔ قہر الہی سے جو ڈرتی کبھی ]
مرتی پہ یہ کام نہ کرتی کبھی
۶۴۔۔ ہند پہ محمود کی لشکر کشی
یاد دلاتی ہے تیری سر کشی
۶۵۔۔ بدل ہوا ایک تیری چال میں
لوٹ پڑی دولت جے پال میں
۶۶۔۔ کیا ہی نظر سوز تھی تیری چمک
دھاک تھی کالنجر و قنوج تک
۶۷۔۔ یاد ہیں کچھ تجھکو عجب داؤ گھات
توڑ دیا بت کدہ سومنات
۶۸۔۔ تو نے ہڑپ کر لئے لاکھوں ہی سر
کم نہ ہوئی پر تری جوع البقر
۶۹۔۔ غور سے جس دم تری آندھی چلی
ہند کی سینا میں مچی کھلبلی
۷۰۔۔ رائے پتھورا کا وہ جاہ و جلال
ہو گیا پل مارتے خواب و خیال
۷۱۔۔ بن گئی ہر بزم طرب کدہ
دہلی و اجمیر تھے ماتم کدہ
۷۲۔۔ سوگ میں رانی نے کیا سینہ چاک
آتش سوزاں میں ہوئی جل کے خاک
۷۳۔۔ رائے رہا اور نہ رانی رہی
زیب سخن تیری کہانی رہی
۷۴۔۔ چونک پڑا فتنہ جنگ تتار
لشکر چنگیز کا اٹھا غبار
۷۵۔۔ چھا گیا اک ابر ستم چار سو
خون کے سیلاب بہے کو بکو
۷۶۔۔ کٹ گئے خوارزم و خراساں کے باغ
زمزمہ بلبل کا بنا شور زاغ
۷۷۔۔ ویلم و بغداد پہ ٹوٹا غضب
درہم برہم ہوئی بزم عرب
طرفہ ستم گار ہے عالم میں تو
عید مناتی ہے محرم میں تو
۷۸۔۔ صرصر تاراج چلی سر بسر
آگ وہ بھڑکی کہ جلے خشک و تر
۷۹۔۔ تیرے ہی کوتک تھے یہ اے نابکار
کیا کہوں بس تجھ کو خدا کی سنوار
۸۰۔۔ کشور یورپ سے اٹھا غلغلہ
وادی یردن میں پڑا زلزلہ
۸۱۔۔ حرب صلیبی تھی وہ خونخوار جنگ
ٹوٹ پڑا جس کے لئے کل فرنگ
۸۲۔۔ تو جو برہنہ ہوئی او فتنہ گر
تن سے جدا ہو گئے نو لاکھ سر
۸۳۔۔ نکلا تجھے لے کے جو تیمور لنگ
پھونک دیا چار طرف صور جنگ
۸۴۔۔ چوس لیا روس کا خون جگر
داب دئے قاف میں دیووں کے سر
۸۵ خون سے گل خاک صفاہاں ہوئی
کانپ اٹھی تختگہ ہند بھی
۸۶۔۔ ناحیہ شام سے تا حد چیں
مقتل انسان بنا دی زمیں
۸۷۔۔ تو جو بنی ہمدم نپیولین
بول دی یورپ میں صدائے بزن
۸۸۔۔ تاجور اطراف کے تھرا گئے
ناک میں ہمسایوں کے دم آ گئے
۸۹۔۔ جب ہوئی نادر کی تو زیب کمر
خلق خدا بول اٹھی الحذر
۹۰۔۔ حضرت دہلی کنف عدل و داد
جس کو کیا تھا کبھی خسرو نے یاد
۹۱۔۔ اس کی یہ حالت ہوئی زار و زبوں
کوچہ و برزن میں بہی جوئے خوں
۹۲۔۔ دینے لگے اس میں صدا خوف و بیم
زلزلہ الساعتہ شی عظیم
۹۳۔۔ کیجئے القصہ کہاں تک بیاں
فرد مظالم ہے تری داستاں
۹۴۔۔ میری غرض تیری فضیحت نہیں
بلکہ بجز پند و نصیحت نہیں
۹۵۔۔ تند تھی از بسکہ صریر قلم
سن کے ہوئی تیغ دو دم بھی علم
۹۶۔۔ آتش غیض اس کی بھڑکنے لگی
بجلی کی مانند کڑکنے لگی
۹۷۔۔ ڈانٹ کر بولی کہ خبردار ہو
اب مری باری ہے لے ہشیار ہو
۹۸۔۔ بد ہوں خدا جانے کہ ہوں نیک میں
رکھتی ہوں دل اور زباں ایک میں
۹۹۔۔ مجھ کو دو رنگی نہیں بھاتی ذرا
میل ملاتی نہیں کھوٹا کھرا
۱۰۰۔۔ مہر ہو تو مہر جو کیں ہو تو تو کیں
یک جہتی ہے مرا آئین و دیں
۱۰۱۔۔ بات کی ہر گز نہیں زنہار پچ
میرا خمیر اور مرا کس بل ہے سچ
۱۰۲۔۔ حجت قاطع ہوں میں سرتا بپا
چھوڑتی باقی نہیں تسمہ لگا
۱۰۳۔۔ جبکہ نہ ہو فصل خصومت بہم
میرے سوا کون بنے واں حکم
۱۰۴۔۔ عیب کہو میرا اسے یا ہنر
فیصلہ دو ٹوک ادھر یا ادھر
۱۰۵۔۔ تیری طرح کاہے باتیں گھڑوں
لڑنے پہ آؤں تو میں سنمکھ لڑوں
۱۰۶۔۔ خوب کیا تو نے نکالی جو چھیڑ
دونگی ابھی میں ترے بخیے ادھیڑ
۱۰۷۔۔ جنگ کا بوتی ہوں اگر بیج میں
سینچ کر پھر اس کو بتدریج میں
۱۰۸۔۔ پود بڑھاتی ہوں وہ نعم البدل
رفق و مدارا کے لگیں جس میں پھل
٭٭٭
(۵۳) شمع ہستی
اے شمع ہستی، اے زندگانی
بھاتی ہے دل کو تیری کہانی
ہے کوچ تیرا ہر لمحہ جاری
جاتی ہے بگ ٹٹ تیری سواری
بجلی سے بڑھ کر بے تاب ہے تو
یا واہمہ ہے یا خواب ہے تو
کیوں چپ چپاتی ہر دم رواں ہے ؟
آئی کہاں سے جاتی کہاں ہے ؟
ظاہر ہیں یوں تو سب پر ترے گن
لیکن نہ پایا تیرا سر و بن
گزرا نہ کوئی اس ہفت خواں سے
جاہل ہیں تیرے سر نہاں سے
فی الجملہ ہمت سب ہار بیٹھے
ہیں سر بزانو ناچار بیٹھے
اے زندگانی، اے شمع ہستی
سونی پڑی تھی تجھ بن یہ بستی
چاروں طرف تھی چھائی اندھیری
ناگاہ اٹھی اک ڈیک تیری
وہ ڈیک تھی بس نورٌ علیٰ نور
کاہے کو رہتی پردہ میں مستور
پھولوں میں جھلکی تاروں میں چمکی
بخشی جہاں کو رونق ارم کی
ہوتا نہ یاں جو تیرا ٹھکانا
چوپٹ ہی رہتا یہ کارخانہ
کیا پھونک ماری دنیا کے تن میں
گویا لگا دی دوں خشک بن میں
بزم جہاں میں رونق ہے تجھ سے
اس میکدہ میں ہو۔ حق ہے تجھ سے
ہے تیرے دم سے اے عالم آرا
بزم عروسی میں آفاق سارا
سرگرم ہے تو جادوگری میں
ہیں تیرے عشوے خشکی تری میں
مٹی کا جوبن تو نے نکھارا
دیے دے کے چھینٹے اس کو ابھارا
بے حس کو بخشا احساس تو نے
دی مشت گل کو بو باس تو نے
تھی بھولی بھالی بھونڈی بہنگم
تو نے سکھایا اس کو خم و چم
کرتب سے تیرے سانچے میں ڈھل کر
کندن سے نکلی رنگت بدل کر
ٹھکرا کے تو نے جب کہہ دیا’ قم‘
اٹھ بیٹھی فوراً کرتی تبسم
بھولی ہے اپنی اوقات پہلی
پھرتی ہے خوش خوش کیا اہلی گھلی
پاتی ہے خلقت جب تیری آہٹ
ہوتی ہے پیدا اک گدگداہٹ
مچتا ہے پھر تو اودھم غضب کا
بجتا ہے ڈنکا عیش و طرب کا
کہتی ہے دنیا ’’ تو ہے تو کیا غم
تو آئے نت نت تو آئے جم جم ‘‘
جیتے ہیں جب تک مرتے ہیں تجھ پر
سب کچھ تصدق کرتے ہیں تجھ پر
کیا مال ہے جو تیرے سوا ہے
تو ہی نہ ہو تو سب پروھتا ہے
اے سب کی پیاری سب کی چہیتی
کہہ منہ زبانی کچھ آپ بیتی
’’ قدرت کے گھر کی لاڈلی ہوں
ناز و نعم سے برسوں پلی ہوں
تقویم احسن میرا لگن تھا
فردوس اعلی میرا وطن تھا
حور و ملک کی آبادیاں تھیں
بے فکریاں تھیں آزادیاں تھیں
چلتی تھی ہر دم باد بہاری
شیر و عسل کی نہریں تھیں جاری
میری ادا پہ مرتے تھے قدسی
سجدہ پہ سجدہ کرتے تھے قدسی
تکریم میری ہوتی تھی از حد
ہیں داستانیں جس کی زباں زد
پھر دیس چھوٹا گزری سو جھیلی
پردیسیوں کا اللہ بیلی
پل مارنے کا ہے یاں بسیرا
حب وطن ہے ایمان میرا
آب و ہوا میں دشت و جبل میں
میری رسائی ہے ہر محل میں
لیکن یہاں میں خلوت نشین ہوں
ہوں اس طرح پر گویا نہیں ہوں
خواب گراں کی حالت ہے طاری
مستی میں گم ہے سب ہوشیاری
جب آتے آتے سبزہ میں آئی
کروٹ بدل کر میں لہلہائی
انگڑائیاں لیں منہ کھول ڈالا
پر آنکھ سے کچھ دیکھا نہ بھالا
داخل ہوئی جب حیواں کے تن میں
اک شور اٹھا اس انجمن میں
انساں کا جامہ جب میں نے پہنا
اللہ رے میں کیا میرا کہنا
کس کس جتن سے میں نے بنایا
رتبہ بہ رتبہ پایہ بہ پایہ
جامد کو نامی نامی کو حیواں
حیواں کو وحشی وحشی کو انساں
پھیلایا میں نے کیا کیا بکھیڑا
شادی و غم کے ارگن کو چھیڑا
نیکی بدی کے میلے جمائے
جھوٹ اور سچ کے سکے چلائے
جو ناچ میں نے جس کو نچایا
وہ ناچتے ہی اس کو بن آیا
القصہ ہوں میں وہ اسم اعظم
ہے جس کے بس میں تسخیر عالم
کچھ کچھ کھلے ہیں انداز میرے
دیکھے ہیں کس نے اعجاز میرے
مجھ کو نہ سمجھو تم آج کل کی
ہوں موج مضطر بحر ازل کی
رکھوں کی جاری یونہی سفر میں
قعر ابد کی لوں گی خبر میں
ہے میری ہستی اک طرفہ مضموں
کچھ بھی نہیں ہوں پر میں ہی میں ہوں
سنتے رہو گے میری کہانی
جب تک ہے باقی دنیائے فانی
٭٭٭
(۵۴) مثنوی فی العقائد (۱)
ذات حق اپنے آپ میں ہے موجود
کوئی اس کے سوا نہیں معبود
اس کا جوڑا نہیں مثال نہیں
اس کو گھاٹا نہیں زوال نہیں
اس کا جو وصف ہے سو کامل ہے
نہ کسی سے جدا نہ شامل ہے
اس کا ساجھی نہیں شریک نہیں
اور کو مانئے تو ٹھیک نہیں
جانتا ہے وہ ان ہوئی باتیں
دیکھتا ہے ڈھکی چھپی گھاتیں
ہے وہ بے آنکھ دیکھتا سب کو
ہے وہ بے کان سنتا مطلب کو
اپنی مرضی سے وہ کام کرتا ہے
بے زباں وہ کلام کرتا ہے
اونگھتا ہے کبھی نہ سوتا ہے
سب ارادہ سے اس کے ہوتا ہے
وہ قوی ہے کبھی نہیں تھکتا
وہ ہر اک چیز کو ہے کر سکتا
زندہ ہے زندگی کا مالک ہے
جو ہے اس کے سوا سو ہالک ہے
کہہ سکے کون اس کو کیسا ہے
آپ ہی جانتا ہے جیسا ہے
اس نے یہ آسماں بنایا آپ
اس نے فرش زمیں بچھایا آپ
کئے اونچے پہاڑ اس نے کھڑے
میخ کی طرح جو زمین میں گڑے
اس نے بادل سے بوند ٹپکائی
اس نے پانی پہ ناؤ تیرائی
مردہ مٹی میں اس نے ڈالی جان
لہلہائے ہرے بھرے میدان
ہے مسلم اسی کو سلطانی
عرش اعظم ہے تخت ربانی
ہے وہی۔ تھا وہی۔ وہی ہوگا
کون اس کی برابری جوگا
جس کو چاہے کرے ملیامیٹ
نہیں اس کو کسی سے لاگ لپیٹ
اس نے پیدا کیا ہے عالم کو
آسماں کو زمین کو ہم کو
اس کا احسان و فضل ہے دن رات
اس پہ واجب نہیں ہے کوئی بات
خاتم انبیا محمد ہے
جس کا احسا ن ہم پہ بے حد ہے
اس نے حکم خدا کیا تلقین
تھا وہ اللہ کا رسول امین
اس نے تعمیل حکم کر دی ہے
ٹھیک ہے۔ اس نے جو خبر دی ہے
دل سے مانو جو عقل بینا ہے
کہ موئے بعد پھر بھی جینا ہے
زندگی جس نے دی ہے اول بار
دوسری بار دے تو کیا دشوار
بعد مرنے کے حشر کا ہونا
ہے مثال اس کی جاگنا سونا
اس کی ہستی سے سب کی ہستی ہے
خلقت اس کی بسائی بستی ہے
(۱) مرتبہ ۱۸۷۰ عیسوی بمقام میرٹھ
٭٭٭
(۵۴) حمد باری تعالی
خدایا اول و آخر بھی تو ہے
خدایا ظاہر و باطن بھی تو ہے
وہ اول تو کہ نا محرم بدایت
وہ آخر تو کہ نا پیدا نہایت
نہیں اول کو آخر سے جدائی
ورائے عقل ہے تیری خدائی
جو آخر ہے وہی اول بھی تھا تو
وہی جو آج ہے سو کل بھی تھا تو
ہے تیرا اول و آخر مطابق
نہ تیرے ساتھ لاحق ہے نہ سابق
جو اول ہے تو پہلے اور تھا کون
جو آخر ہے تو پیچھے رہ گیا کون
جو باطن ہے تو باطن کا پتا کیا
جو ظاہر ہے تو ہے تیرے سوا کیا
ہے تو باطن میں ظاہر بلکہ اظہر
بظاہر بن گیا تو عین مظہر
ترا اخفا ہے گویا عین اظہار
ترا اظہار ہے اخفائے اسرار
کھلا جتنا ہو اتنا ہی مستور
چھپا جتنا رہا کھلتا بدستور
ازل سے تا ابد ہے ایک ہی شان
ترا طغرا ہے آلآن کما کان
مبرا قید اور اطلاق سے تو
منزہ انفس و آفاق سے تو
مگر میں ہے تو عین مطلق
نہ جامد ہے نہ مصدر ہے نہ مشتق
مقید میں مقید ہے تری ذات
نہیں ہوتا کسی خانہ میں تو مات
ہے اصل روح تو روحانیوں میں
ہے قید جسم تو جسمانیوں میں
اگر ناسوت میں ہے موج پر جوش
تو ہے لاہوت میں دریائے خاموش
اگر جبروت میں بانگ انا ہے
صف ارواح میں حمد و ثنا ہے
تو ہی ہے علم و عالم بلکہ معلوم
تو ہی ہے رحم و راحم بلکہ مرحوم
تجھے نسبت ہے لا شے سے نہ شے سے
غنی ہے تو نہیں سے اور ہے سے
تری وحدت میں کثرت ہے نمودار
کہ بے کثرت نہیں وحدت کا اظہار
نہ ہو وحدت تو کثرت بھی عدم ہے
حدوث آئنہ حسن قدم ہے
زمین و آسماں کا نور ہے تو
مگر خود ناظر و منظور ہے تو
سوا تیرے نہیں موجود کوئی
نہ عابد ہے نہ ہے معبود کوئی
ازل سے دائم المعروف ہے تو
ابد تک خود بخود موصوف ہے تو
تری رحمت ہے یہ جلسے دکھاتی
ہے قہاری تری سب کو مٹاتی
مسلم ہے تجھی کو حکم رانی
کہ تیری سلطنت ہے جاودانی
ہو الموجود ہے تجھی سے عبارت
ہو المقصود ہے تجھ سے اشارت
احد ہے تو نہیں زنہار معدود
صمد ہے تو نہ والد ہے نہ مولود
عیاں دیکھا تو پہونچا غیب ہو میں
نہاں ڈھونڈا تو آیا رنگ و بو میں
نہ پایا ہے نہ پائے گا کبھی تو
کہ ہے معروف و عارف آپ ہی تو
تصور قرب کا دوری ہے تجھ سے
خیال بعد مہجوری ہے تجھ سے
نہ دوری ہے نہ نزدیکی نہ مابین
عبارت منقطع لا غیر و لا عین
حقیقت سے نہیں ہے کوئی آگاہ
مشبہ اور موحد ہیں سب گمراہ
نہ ہو جب فرق ہی تو راہ کیوں ہو
نہ ہو کوئی تو پھر آگاہ کیوں ہو
پتا لگتا نہیں تنزیہ میں بھی
خبر ملتی نہیں تشبیہ میں بھی
یہ ہنگامہ اور اس پر بے نشانی
ہوا ہے عقل کل کا خون پانی
تمیم کر کہ خاکستر ہے دریا
لگا غوطہ کہ ہے گرداب صحرا
نہ صحرا ہے نہ دریا ہے نہ میں تو
نہ یاد و بود باقی ہے نہ ہا ہو
٭٭٭
(۵۶) یاد حضرت شیخ
لب پہ آیا نام شہ غوث علی
بے تکلف کھل گئی دل کی کلی
پھر صبا سبزہ کو لہرانے لگی
باغ معنی میں بہار آنے لگی
پھر لگا دی ابر رحمت نے جھڑی
پھر وہی باد بہاری چل پڑی
پھر وہی محمل ہے وہی ہے کارواں
ناقہ سرمست و حدی خواں سا رواں
پھر اسی منزل میں جا کھولی کمر
دشت چٹیل اور ویرانہ نگر
پھر کھلا در حجرہ انوار کا
قفل ٹوٹا قبہ اسرار کا
پھر وہی صحبت وہی لیل و نہار
پھر لگے ہونے در معنی نثار
پھر خزانہ غیب کا لٹنے لگا
رشک سے حاتم کا دم گھٹنے لگا
پھر لگی سانچہ میں ڈھلنے بات بات
عارفانہ رمز و مردانہ نکات
پھر الاپے نے نے اسرار قدم
ذرہ ذرہ بن گیا منصور دم
پھر وہی ساغر وہی بزم سرور
]پھر لگا بہنے وہی دریائے نور
پھر وہی ساقی وہی دیرینہ خم
کفر و ایماں کا ہوا سر رشتہ گم
ہو گئے مل جل کے سب پھر ایک شے
دور ساغر دست ساقی مست مے
مدح حاضر میں بھی لکھ اب چند پیت
تو ہی لکھ خود ’’ وما رمیت اذ رمیت ‘‘
اے تجلی اخیر ذوالجلال
تھا کمال بندگی تیرا کمال
ہاں محمد وار تو نام خدا
کر گیا ہے بندگی کا حق ادا
ترک دنیا ترک عقبی ترک جاں
قول و فعل و حال سے تیرے عیاں
خوب توڑا تو ہر بند کہن
تھا مگر تو حیدر خیبر شکن
ہر توسل سے تجھے اعراض تھا
شیر خوار مبدا فیاض تھا
داد حق تھی تیری قوت اور قوت
تھا خیال غیر بیت عنکبوت
فقر فخری کی صدا بھائی تجھے
حق نے بخشی ارث آبائی تجھے
مدتوں کے بعد ایک آدم بنا
ہفت خوان فقر کا رستم بنا
شاذو نادر کوئی شہ باز جلال
کھولتا ہے اس ہوا میں پر و بال
شیخ و صوفی رند و زاہد پارسا
سیکڑوں ہیں پر کہاں مرد خدا
غوث اعظم یا جنید و بایزید
یا نظام الدین یا بابا فرید
یا معین الدین و عطار و شہاب
اپنے اپنے وقت کے تھے آفتاب
مجمع البحرین تجھ سا بعد ازاں
گردش دوراں نے دیکھا تھا کہاں
اے محیط اولین و آخرین
آفریں، صد آفریں، صد آفریں
ذات کا آئینہ کامل بنا
یہ امانت تھی کہ تو حامل بنا
حامل و معمول میں یاں فرق کیا
شمس ربانی کو غرب و شرق کیا
تھا نہایت معتبر پکا امین
تیرا پیمانہ کبھی چھلکا نہیں
ظرف عالی بسکہ دریا نوش تھا
خم کدے خالی کئے پر ہوش تھا
اے تری آواز آواز خدا
اور خاموشی تری راز خدا
تھے لب شیریں لب دریائے فرات
اس لئے ہر بات تھی آب حیات
جو حکایت جو مثل جو بات تھی
عالم معنی کی اک سوغات تھی
مردہ روحوں کے لئے تھی زندگی
زندگی وہ جس کو ہو پائندگی
تیرے دم سے حشر روحانی ہوا
صاف و صیقل گوہر کانی ہوا
صور پھونکا تو نے جس کی جان میں
جو ہوا سو ہو گیا اک آن میں
جذب حق ہو سعی طالب سے غلط
چشم حق بیں کا اشارہ تھا فقط
جس کسی پر تو نے کچھ پھونکا فسوں
اک نہ اک دن اس کو ابھرے گا جنوں
رسم و عادت کا گریباں پھاڑ کر
دین تقلیدی سے دامن جھاڑ کر
کفر پر یاروں کے ایماں لائے گا
وار مردوں کا نہ خالی جائے گا
اے مقلد تجھ کو ایماں کی قسم
کافر دیر فنا کے لے قدم
جو نہ دے تجھ کو کھلا کافر بنا
تو میری تکفیر کا محضر بنا
فقر کو ہے کفر سے نسبت قوی
ہے مگر وہ کفر کفر معنوی
فقر محتاج خدا ہر گز نہیں
فقر عین ذات حق ہے بالیقین
ہے یقین بھی عین یکتائی میں عار
فقر سے بھی چاہئے پھر افتقار ؟
فقر فقر آیا تو کیا باقی رہا
بادہ کش باقی نہ خود ساقی رہا
سر گیا تو درد سر جاتا رہا
اٹھ گئی امید ڈر جاتا رہا
اے فنائے فقر تجھ کو مرحبا
عین عریانی ہے بس تیری عبا
مرحبا اے خازن اسرار غیب
کیا چھپایا ہے ہنر کو مثل عیب
ہاں خزانہ کا چھپانا فرض تھا
گرچہ بیرون سما و ارض تھا
یہ چھپانا کم نہ تھا اظہار سے
آگ بھڑکی گرمی بازار سے
وہی چھپے کیا جو کہ ہو خود پردہ در
باہمہ بے پردگی ہو مستتر
دیکھ کیا کہنا تھا کیا کہنے لگا
نالہ بل کھا کھا کے کیوں بہنے لگا
کچھ نہ تھا واں کچھ نہ ہونے کے سوا
کچھ نہ ہونا بھی وہاں باقی نہ تھا
تو نہ تھا کچھ عین عین اللہ تھا
ظاہرا بندہ نہانی شاہ تھا
بندگی کے بھیس میں اے جامہ زیب
دے گیا واللہ تو سب کو فریب
تجھ کو دیکھا پر نہ دیکھا خلق نے
لب نے چکھا پر نہ کھایا حلق نے
تو دھنتر بید تھا کھاتے اگر
سب دھنتر بید بن جاتے مگر
کس کی طاقت تھی کہ تجھ کو دیکھتا
لاکھ پردوں میں ہیں خاصان خدا
سب گنوں میں تو فرید دہر تھا
جاں فزا امرت سے تیرا زہر (توحید ،۱۲)تھا
تو قلندر رند تھا کونین سوز
سیف قاطع تھا نہ تھا بخیہ دوز
تو بھری محفل میں سب کچھ کہہ گیا
گوش جاں میں کہہ جو باقی رہ گیا
’’ من رانی‘‘ کے معنی صاف صاف
شرح فرما تو ہی اے عنقائے قاف
’’ من رانی ‘‘ منہ زبانی جس کی ہے
ہے اسی کا آئنہ ہر ایک شے
تو ہی خود کہہ یا نہ کہہ سن یا نہ سن
لوٹ ہے جب آسماں برسائے ہن
سطح پر جاری ہے ساری لہر بہر
قعر میں چپ رہ کہ ہے دریائے قہر
سطح کیسی قعر کیا ساحل کجا
بحر ہے لا ابتدا لا انتہا
تیری مجلس مجلس اللہ تھی
دونوں عالم کی جہاں گم راہ تھی
اس کے ہوتے ہستی عالم کہاں
دن نکل آیا تو پھر شبنم کہاں
آپ غالب ہے وہ اپنے امر پر
لیکن اکثر آدمی ہیں بے خبر
تا لب دریا ہیں آثار و طریق
عین دریا میں ہیں سب راہیں غریق
راہ گم ہونا ہے راہ مستقیم
حاشا للہ ثم باللہ العظیم
آپ کو گم کر کہ تو ہی راہ ہے
راہ کو طے کر حریم شاہ ہے
٭٭٭
(۵۷) صفت شیخ
شیخ کہتے ہیں اسے جو پیر ہو
بال بال ایسا کہ جوئے شیر ہو
کچھ نہ باقی ہو سیاہی کی جھلک
بن گیا ہو برف سر سے پانو تک
وہ سیاہی کیا ہے ؟ اوصاف بشر
مونچھ داڑھی کی سیاہی سے نہ ڈر
مونچھ داڑھی یا سیہ ہو یا سفید
ہو نہ ہو یاں کچھ نہیں اس کی قید
ہے سیہ بالوں سے ہستی مدعا
پیر وہ ہے جس نے دی ہستی مٹا
چھٹ گیا جو ہستی موہوم سے
مسند پیری پہ بیٹھا دھوم سے
اور اگر باقی ہے ہستی بال بھر
پیر نابالغ ہے وہ یعنی بشر
جس میں اوصاف بشر کی ہے لتھیڑ
شیخ وہ ہر گز نہیں الا ادھیڑ
کڑبڑی داڑھی نہیں مقبول حق
ہے ابھی تک اس میں ہستی کی رمق
جب نہ ہو باقی رواں کوئی سیاہ
تو سمجھئے اس کو شیخ دیں پناہ
لا کی کنگھی کڑبڑی داڑھی میں کر
تاکہ پر زاغ ہوں بگلے کے پر
٭٭٭
(۵۸) مناجات (۱)
خداوندگارا جہاز جہاں
ہے تیری مشیت کی رو میں رواں
سمندر ہے قدرت کا تیری بڑا
اور اس بحر میں یہ سفینہ پڑا
ہم اس میں سفر ختم کرتے ہوئے
مسافر ہیں چڑھتے اترتے ہوئے
تو ہی اس سفینہ کا ہے نا خدا
ہمارے تردد سے ہوتا ہے کیا
ترے حکم سے گرم رفتار ہے
مسافر کا اندیشہ بے کار ہے
جدھر تو جھکائے ادھر وہ جھکے
جہاں روک دے تو وہاں وہ رکے
جو ملاح تو ہے تو گھبرائیں کیوں ؟
نگہبان تو ہے تو چلائیں کیوں ؟
نہیں موج و طوفان کا کچھ خطر
کہ تو آپ ہے راہ رو راہ بر
ازل سے ابد تک ہے بس تو ہی تو
ترا جلوہ ہے عالم رنگ و بو
نہ ہوتا اگر تیرا لطف نہاں
تو ہم بزم ہستی میں ہوتے کہاں
ہیں تیری حمایت میں محفوظ سب
ہیں تیری عنایت سے محظوظ سب
نہ تھا عہد طفلی میں کچھ بھی وقوف
تو ہی پالتا تھا ہمیں اے رؤف
سبھی آفتوں سے بچایا ہمیں
کھلایا پلایا بڑھایا ہمیں
دئے تو نے ماں باپ کیسے شفیق
مہیا کئے تو نے کیا کیا رفیق
ہماری نہ کوشش نہ تدبیر تھی
ترا حکم تھا تیری تقدیر تھی
مگر جب سے پیدا ہوا کچھ شعور
تو جمیعت دل میں آیا فتور
غلط کار تھی یہ ہماری نظر
کہ ہم اپنی کوشش کا سمجھے اثر
ہمارے تشخص نے کھویا ہمیں
ہماری خودی نے ڈبویا ہمیں
پڑے حرص دنیا کے گرداب میں
رہے مبتلا اس شکر خواب میں
تردد میں غوطے لگایا کئے
تصور میں شکلیں بنایا کئے
ہوا ہم کو دیوانگی کا خلل
یہ تھوڑی سی فرصت یہ طول اہل
نہ سمجھا کبھی ہائے اپنا حساب
کہ ہم موج ہیں بحر ہیں یا حباب
کہاں سے ہم آئے کدھر جائیں گے
جئیں گے بھی کل تک کہ مر جائیں گے
یہ دنیا کے دھندے یہ معیشت کا غم
یہ دولت کی چسکے یہ جاہ و حشم
یہ عزت کی خواہش یہ راحت کی چاہ
ہمارے لئے بن گئیں سنگ راہ
تعلق کے پھندوں میں ہم پھنس گئے
تکلف کی دلدل میں ہم دھنس گئے
ہمیں نفس نے سخت دھوکا دیا
نہ کرنا تھا جو کام ہم نے کیا
گئی رائیگاں مفت عمر عزیز
نہ کی چیز نا چیز میں کچھ تمیز
گیا وقت اور ہاتھ آیا نہ کچھ
بہت کھو کے بھی ہم نے پایا نہ کچھ
یہ دنیا کہ دھوکے کی ٹٹی ہے سب
ہمیشہ رہی ہم کو اس کی طلب
دیا مشک خالص کو مٹی کے بھاؤ
بگڑنے کو سمجھا کئے ہم بناؤ
جسے عیش سمجھے تھے نکلا عذاب
جسے آب سمجھے تھے پایا سراب
دئے بے بہا لعل ہم نے فضول
عوض میں لیا کیا ؟ یہی خاک دھول
جواہر دئے سنگ ریزے لئے
نکمے کئے کام جتنے کئے
مگر بھیس میں گل کے آیا تھا خار
خزاں بن کے آئی تھی فصل بہار
جسے اصل سمجھے تھے بے اصل تھا
جسے وصل سمجھے تھے وہ فصل تھا
یہ تھا مرحلہ جس کو سمجھے تھے گھر
مہیا کیا کچھ نہ زاد سفر
کٹی عمر غفلت میں اپنی تمام
گیا دن گزر ہونے کو آئی ہے شام
پڑے بے خبر ہائے سوتے رہے
عبث نقد اوقات کھوتے رہے
کھلا بھید ہم نہ اس بات کا
کہ ہے یہ تماشا طلسمات کا
نہ سمجھے کہ ہے شعبدہ یہ جہاں
نیا سانگ ہوتا ہے ہر دم یہاں
توہم نے رستہ بھلایا ہمیں
کہ فانی کو باقی دکھایا ہمیں
یہ تیری ہی قدرت کا نیرنگ ہے
کہ نابود میں بود کا ڈھنگ ہے
سنے اس چمن میں عجب چہچہے
کہ چلتے مسافر کھڑے ہو رہے
ہے استاد کامل کی بازی گری (۱)
کہ خالی تھی مٹھی دکھا دی بھری
کھلایا سر راہ کیسا چمن (۲)
ہوا راہ رو کے لئے راہ زن
ہوس نے مچائی عجب دھوم دھام
سفر کو سمجھنے لگے ہم قیام
عجب نیستی نے دکھائی بہار
کہ پھولوں کے بدلے چنے ہم نے خار
گیا قافلہ دور ہم چھٹ گئے
چلے ایسے رستے کہ بس لٹ گئے
بسا اپنے کانوں میں ہے ایسا رس
سنائی نہ دی ہم کو بانگ جرس
کیا ناتوانی نے اب چور چور
ہوا وقت نا وقت منزل ہے دور
سفر کیونکہ تنہا کروں رات میں
لگے چور ہیں ہر طرف گھات میں
جو ٹھیروں تو بستی ہے بالکل اجاڑ
کھنڈر اور ویرانہ جنگل پہاڑ
نہ رہنے کا یارا نہ چلنے کی تاب
خداوندگارا، خبر لے شتاب
خدایا، کوئی یار و یاور نہیں
مگر تو کہ موجود ہے ہر کہیں
خدایا، نہیں ہے کوئی چارہ گر
مگر تو کہ ہے تجھ کو سب کی خبر
خدایا،نہیں ہے کوئی دستگیر
مگر تو کہ ہے تو سمیع و بصیر
خدایا، نہیں ہے کوئی غمگسار
مگر تو کہ ہے سب کا پروردگار
ازل میں نہ تھا میں نہ میری دعا
ترا لطف تھا اور تیری عطا
دیا جسم بھی تو نے اور جان بھی
دیا زندگانی کا سامان بھی
کیا تو نے آراستہ یہ مکاں
بلایا کرم سے ہمیں میہماں
کیا میہمانی کا سامان خوب
مرتب کیا خوان الوان خوب
ہوائے لطیف اور آب زلال
دئے اپنے مہمان کو بے سوال
دئے خاک نے کیا ذخیرے اگل
خوش آئندہ پھول اور پسندیدہ پھل
دئے جس نمونہ کے دانے بکھیر
اسی جنس کا لگ گیا ایک ڈھیر
یہ عمدہ غذا اور فاخر لباس
یہ رہنے کو ایوان محکم اساس
بتانے کو رستہ دئے راہ بر
بلایا جنھوں نے تری راہ پر
نہ کوششوں کا ہماری صلہ
عنایت سے تیری ملا جو ملا
دیا تو نے کیا کچھ بغیر التماس
غرض تیرے الطاف ہیں بے قیاس
لجاجت سے خاموش کیونکر ہوں میں
کہ تیری عنایت کا خوگر ہوں میں
بھلا اب کروں وہم و وسواس کیوں
قبول دعا کی نہ ہو آس کیوں
شہنشاہ کا جب کرم عام ہو
تو درویش کو کیوں نہ ابرام ہو
وہ غم دے کہ ہو جائیں سب غم غلط
نہ ہو اور کچھ تو ہی تو ہو فقط
نہ کچھ فکر شادی و غم کار ہے
نہ کچھ دغدغہ بیش و کم کار ہے
چلیں شادی و غم کے جھونکے ہزار
مرے دل کو جنبش نہ ہو زینہار
اگر غرق طوفاں ہو کل کائنات
نہ پھسلے کبھی میرا پائے ثبات
ترے لطف کا ہو سہارا اگر
تو غالب ہو تنکا بھی سیلاب پر
جو تیری حمایت کا فانوس ہو
تو آندھی سے کیا خوف ہے شمع کو
اگر فضل کا تیرے لنگر ملے
تلاطم سے ہر گز نہ کشتی ہلے
جو تیری مدد ناخدائی کرے
تو پھر کوئی طوفان سے کیوں ڈرے
مرے دل پہ برسا دے ایسی پھہار
کہ دب جائے غفلت کا گرد و غبار
مرے دل کو اوہام سے پاک کر
مجھے اپنے رستہ میں چالاک کر
تیقن کا یا رب نکال آفتاب
توہم کا دل سے اٹھادے حجاب
ترے عشق سے گرم سینہ رہے
نہ مرنا رہے اور نہ جینا رہے
کہوں درد دل کس سے اے بے نیاز
نہیں کوئی تیرے سوا چارہ ساز
جلا دے معاصی کے سب خار و خس
ہے نار محبت کا اک شعلہ بس
خدایا وہ کامل نظر دے مجھے
کہ میں ذرہ ذرہ میں دیکھوں تجھے
مرے سر کو تسلیم کا تاج دے
مجھے قرب کی اپنے معراج دے
ریاض رضا کی دکھا دے بہار
شکایت کا دل سے مٹا دے غبار
رہے کچھ نہ فکر کثیر و قلیل
پڑھوں حسبی اللہ نعم الوکیل
مجھے صبر دے جو کبھی کم نہ ہو
بلاؤں کے حملہ کا کچھ غم نہ ہو
خدایا عطا کردہ نیت کھری
طمع سے منزہ ریا سے بری
مجھے صدق دے حسن اخلاص دے
مجھے فضل کا خلعت خاص دے
مرے عزم کو شوق کے پر لگا
کہ دوں بازی عشق میں سر لگا
تمنا ہے جب تک رہے دم میں دم
طلب میں رہوں تیری ثابت قدم
میں سوؤں تو سوؤں تری فکر میں
میں جاگوں تو جاگوں تیرے ذکر میں
لگا دے مرے منہ سے وہ جام پاک
پڑھے ہر بن مو ترا نام پاک
رہے دھیان میں کچھ نہ دوزخ بہشت
تری دید بن جائے میری سر شت
مجھے رنگ دے پانو سے تا بفرق
خم صبغۃ اللہ میں کر کے غرق
مرے دل سے زنگ دوئی دور کر
مرے دل کو وحدت سے معمور کر
نہ لیلیٰ رہے اور نہ مجنوں رہے
فقط عشق کا ایک مضموں رہے
رہے عشق میں رات دن سوز و ساز
کروں شوق کی میں حکایت دراز
دیار محبت سے چل اے نسیم
سنگھا دے گل معرفت کی شمیم
گلستاں نہیں پنکھڑی ہی سہی
ہمیشہ نہیں دو گھڑی ہی سہی
سنا دے طیور صفا کی چہک
گل معرفت کی اڑا لا مہک
نکالوں کلیجہ سے ہجراں کا خار
ملوں منہ پہ گلگونہ وصل یار
یقین کی لپٹ سے بسا دے دماغ (۱)
طریق وطن کا لگا دے سراغ
پڑی کنج فرقت میں ہے عندلیب (۲)
نہیں سیر گلزار اس کو نصیب
قفس میں کرے تابکے اعتکاف
کرا دے حطیم چمن کا طواف
لگے روضہ انس کی جب ہوا
تو ہوں پچھلے شکوے گلے سب ہوا
ہوا و ہوس سے دل برباد ہو
ترا شغل ہو اور تری یاد ہو
نہ ساغر رہے نہ ساقی رہے
سوا تیرے کوئی نہ باقی رہے
نگاہوں میں ہو جلوہ گر تو ہی تو
ہر اک گل میں پاؤں ترا رنگ و بو
کروں فہم تجھ کو ہر اک بات سے
سنوں تیرا نغمہ جمادات سے
چڑھے جام وحدت کا ایسا خمار
کہ اغیار سمجھوں کسی کو نہ یار
کہوں اور سنوں خود بنوں چشم و گوش
مری بے خودی پہ ہوں قربان ہوش
تیرا جلوہ دیکھوں نہاں اور عیاں
نہ پائے مگر مجھ کو میرا نشاں
تیری یاد میں محو ہو جاؤں میں
کسی شے کو ڈھونڈوں تجھے پاؤں میں
ملے مجھ کو ہر گز نہ میرا پتا
نہ سمجھوں کہ میں کون تھا اور کیا
تیرے بادہ عشق سے ہو کے مست
سنوں گوش جاں سے ندائے الست
رہے ماسوا کا نہ ذرہ خیال
مجھے ایک ہو جائے ماضی و حال
خلا اور ملا میں نہ ہو وہم غیر
کروں بے خودی میں خدائی کی سیر
مرے وصف بن جائیں تیری صفات
مری زیست ہو جائے تیری حیات
یہاں تک میں یکساں اور یکسو بنوں
کہ تو میں بنے اور میں تو بنوں
بصارت ہو تیری بصارت میں غرق
سماعت ہو تیری سماعت میں غرق
مری بات بن جائے تیرا کلام
میری چال ہو جائے تیرا خرام
مٹے وہم باطل نظر آئے حق
پڑھوں پتے پتے سے تیرا سبق
چمک تیری دیکھوں ہر اک سنگ میں
سنوں راگ تیرا ہر آہنگ میں
تیری شان پاؤں ہر انداز سے
ترا لہجہ سمجھوں ہر آواز سے
لگا دل پہ درد محبت کی چوٹ
جو پتا بھی کھڑکے تو میں جاؤں لوٹ
جو بلبل کا نغمہ پڑے کان میں
تو ہو شور برپا مری جان میں
نوا سنگ ہو طوطی سبز پر
تو میں اپنی ہستی سے جاؤں گزر
جو شاخوں پہ قمری کی کوں کوں سنوں
تری یاد میں اپنے سر کو دھنوں
جو گلشن میں دیکھوں کہ ہیں گل کھلے
ترے ذوق میں میری گردن ہلے
کرے چہچہے طائروں کا ہجوم
گردن وجد میں خاک پر جھوم جھوم
جو دیکھوں کہ ہلتی ہے شاخ نہال
گزر جائے پردوں سے میرا خیال
جو دیکھوں میں تاروں بھری رات کو
کروں دل سے ساقط اضافات کو
چمکتے ہوئے دیکھ کر مہر و ماہ
کروں پیروی خلیل الہ
رہ راست کی کر ہدایت مجھے
سلامت روی کر عنایت مجھے
غضب سے ترے مانگتا ہوں پناہ
الگ ان سے رکھ جو گئے بھول راہ
اگر مغفرت سے نہ پیش آئے تو
اگر مجھ پر نہ رحم فرمائے تو
تو میرا ٹھکانہ نہیں پھر کہیں
نہ دنیا نہ عقبیٰ نہ ایمان و دیں
مجھے اپنی دانش کا ساغر پلا
رہے تشنگی کا نہ باقی گلا
نہ چھوڑوں گا دامن ترا اے کریم
ترا لطف شامل ہے رحمت عمیم
خدایا مری خواہشوں پر نہ جا
جو تیری رضا ہے وہی ہے بجا
تقاضا میرا سخت معیوب ہے
جو مرضی ہے تیری وہی خوب ہے
تری ذات دانائے اسرار ہے
سبھی نیک و بد سے خبردار ہے
کر اپنی ہی مرضی سے رد و قبول
کہ سائل ہے تیرا ظلوم و جہول
وہی خوب ہے جو ہے تجھ کو پسند
ہو آسودگی ظاہرا یا گزند
جس احوال سے تو رضامند ہے
اگر زہر بھی ہو تو گلقند ہے
بقول نظامی غفراں مآب
رکھ اپنے ہی قبضہ میں میرا حساب
سپر دم بتو مایہ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
کروں کس لئے غم رہوں کیوں اداس
کہ تو شاہ رگ سے زیادہ ہے پاس
زہے قرب تیرا زہے ہمدمی
نہ اس کو زوال اور نہ اس میں کمی
پتا اپنے ہوتے تری ذات کا
ہے سودا پکانا محالات کا
فنا سب کو دیتی ہے اس جا تھپک
کہ کان نمک میں نہیں جز نمک
مگر جو نظر میں سمایا ہے یہ
کمالات کا تیرے سایہ ہے یہ
نظر چاہئے اور صفا چاہئے
دل آئینہ ہے دیکھنا چاہئے
کروں مرکز قلب پر میں نگاہ
کہ نکلی یہاں سے دو عالم کی راہ
مگر دونوں عالم سے تو پاک ہے
نہ احساس ہے واں نہ ادراک ہے
کروں زمزمہ لے میں شیراز کی
کہ مستانہ دھن ہے اس آواز کی
رہ عقل جز پیچ بر پیچ نیست
بر عارفاں جز خدا ہیچ نیست
(۱) بفرمائش مولوی کریم بخش صاحب ڈپٹی کلکٹر مرحوم
٭٭٭
( ۵۹)غصہ کا ضبط
دل میں جب کوند جائے برق غضب
اور طبیعت ہو انتقام طلب
اس خطرناک راہ پر جو مرد
کر سکے آتش غضب کو سرد
ڈانٹ کر دیو نفس کو لے تھام
اور نہ لائے زباں پر سخت کلام
مشورت عقل کی سنے اس دم
ہے وہی اپنے وقت کا رستم
٭٭٭
(۶۰) ادب
ادب ہی سے انسان انسان ہے
نہ سیکھے ادب جو وہ حیوان ہے
جہاں میں پیارا نہ کیونکر ادب
کہ آدمیت کا زیور ادب
نہ ہو جس کو اچھے برے کی تمیز
نہ وہ گھر میں پیارا نہ باہر عزیز
بٹھاتے نہیں بے ادب کو قریب
یہ سچ بات ہے۔ بے ادب بے نصیب
٭٭٭
(۶۱) چغل خوری
چغلی ہے برا کام بچو اس سے ہمیشہ
جو لوگ ہیں بے شرم انھیں کا ہے یہ پیشہ
یہ لت ہے بری۔ اس سے نہیں ہاتھ کچھ آتا
اکثر تو چغلخور ہی ذلت ہے اٹھاتا
٭٭٭
(۶۲) آزادی غنیمت ہے
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو
بھلی اس محل سے۔ جہاں کچھ خطر ہو
٭٭٭
(۶۳) طلب خیر میں قناعت سے حرص بہتر ہے
جو طلب خیر میں قانع ہوا
اپنی ترقی کا وہ مانع ہوا
ایسی قناعت سے طمع خوب ہے
حرص ہی اس راہ میں محبوب ہے
٭٭٭
(۶۴) تکبر میں ذلت اور تواضع میں عزت
تکبر کیا ہے ؟ اک ایوان عالی
مگر ناموس اور عزت سے خالی
تواضع ایک تہ خانہ ہے جس میں
چھپی بیٹھی ہیں سب عزت کی قسمیں
٭٭٭
مثلث
اب آرام کرو
جھٹ پٹا سا ہو گیا ہے شام کا
اب کہاں باقی ہے موقع کام کا
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
قصد چڑیوں نے بسیرے کا کیا
ڈھونڈتی ہیں اپنا اپنا گھونسلہ
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
دیکھنا سورج ہے چھپنے کے قریب
تھم گئے چلتے مسافر بھی غریب
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
لو، کبوتر بھی گر پڑے پر جوڑ کر
لیں گے اپنے چھوٹے بچوں کی خبر
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
شام کو بستی سے باغوں کی طرف
اڑ چلے کوے بھی مل کر صف بہ صف
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
کھلبلی جو دن میں تھی مدھم پڑی
بھنبھناہٹ مکھیوں کی کم پڑی
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
جانور دن بھر قلانچیں بھر چکے
اپنا اپنا کام پورا کر چکے
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
یہ جو کٹ کٹ کر رہی ہیں مرغیاں
ڈھونڈتی ہیں اپنے دڑبے کا نشاں
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
بھیڑ۔ بکری۔ اونٹ۔ گھوڑا۔ گاؤ۔ خر
آن پہنچے اپنے اپنے تھان پر
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
اب ہوا کے تیز جھونکے رک گئے
سو گئے پیڑ اور پتے جھک گئے
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
لو سویرے تک ہمارا بھی سلام
وقت ہے نا وقت کیا کیجئے کلام
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
٭٭٭
مربع
اچھا زمانہ آنے والا ہے
۱
تنے گا مسرت کا اب شامیانہ
بجے گا محبت کا نقار خانہ
حمایت کا گائیں گے مل کر ترانہ
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۲
نہ ہم روشنی دن کی دیکھیں گے لیکن
چمک اپنی دکھلائیں گے اب بھلے دن
رکے گا نہ عالم ترقی کئے بن
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۳
ہر اک توپ سچ کی مددگار ہو گی
خیالات کی تیز تلوار ہو گی
اسی پر فقط جیت اور ہار ہو گی
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۴
زبان قلم سیف پر ہو گی غالب
دبیں گے نہ طاقت سے پھر حق کے طالب
کہ محکوم حق ہو گا دنیا کا قالب (۱)
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۵
زمانہ نسب کو نہ پوچھے گا ہے کیا
مگر وصف ذاتی کا ڈنکا بجے گا
اسی کو بڑا سب سے مانے گی دنیا
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۶
لڑائی کو انسان سمجھیں گے ڈائن
تفاخر پے ہو گی نہ قوموں میں ان بن
مشیخت کی خاطر اڑے گی نہ گردن
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۷
عقیدوں کی مٹ جائے گی سب رقابت
مذاہب کو ہو گی تعصب سے فرصت
مگر ان کی بڑھ جائے گی اور طاقت
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
(۱) اصل میں بالفتح ہے مگر روزمرہ اردو کا بالکسر ہے۔
۸
کریں سب مدد ایک کی ایک مل کر
یہی بات واجب ہے ہر مرد و زن پر
لگے ہاتھ سب کا تو اٹھ جائے چھپر
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ ٭٭٭
مخمس
(۱) اک چھوٹی چیونٹی
بڑی عاقلہ ہے بہت دور بیں ہے
کہ فکر اپنی روزی کا تیرے تئیں ہے
اسی دھن میں پہنچی کہیں سے کہیں ہے
کبھی اپنے دھندے سے غافل نہیں ہے
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
نہیں کام سے شام تک تجھ کو فرصت
ذرا سی تو جان اور اس پر یہ محنت
بہت جھیلتی ہے مشقت مصیبت
نہیں ہارتی پر کبھی اپنی ہمت
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
کبھی کام تو نے ادھورا نہ چھوڑا
کبھی تو نے تکلیف سے منہ نہ موڑا
بہت کام تو نے کیا تھوڑا تھوڑا
ذخیرہ یہ جاڑے کی خاطر ہے جوڑا
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
جو گرمی کی رت میں نہ کرتی کمائی
تو جاڑے کے موسم میں مرتی بن آئی
تجھے ہوشیاری یہ کس نے سکھائی
سمجھتی ہے اپنی بھلائی برائی
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
نہ کھو وقت سستی میں مہلت ہے تھوڑی
وہی کام کر جس سے مالک ہو راضی
کہ جس نے تجھے زندگانی عطا کی
یہ عمدہ سبق ہم کو دیتی ہے چیونٹی
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
٭٭٭
(۲) کوشش کئے جاؤ
دکاں بند کر کے رہا بیٹھ جو
تو دی اس نے بالکل ہی ناؤ ڈبو
نہ بھاگو کبھی چھوڑ کر کام کو
توقع تو ہے خیر جو ہو سو ہو
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
جو پتھر پے پانی پڑے متصل
تو بے شبہ گھس جائے پتھر
رہو گے اگر تم یونہی مستقل
تو اک دن نتیجہ بھی جائے گا مل
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
یہ مانا مشکل بہت ہے سبق
برا ہے مگر اضطراب اور قلق
دوبارہ پڑھو پھر پڑھو ہر ورق
پڑھے جاؤ جب تک ہے باقی رمق
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
اگر طاق میں تم نے رکھ دی کتاب
تو کیا دو گے کل امتحاں میں جواب
نہ پڑھنے سے بہتر ہے پڑھنا جناب
کہ ہو جاؤ گے ایک دن کامیاب
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
نہ تم ہچکچاؤ نہ ہر گز ڈرو
جہاں تک بنے کام پورا کرو
مشقت اٹھاؤ مصیبت بھرو
طلب میں جیو۔ جستجو میں جیو
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
جو تم شیر دل ہو تو مارو شکار
کہ خالی نہ جائے گا مردوں کا وار
مشقت میں باقی نہ رکھنا ادھار
جو ہمت کرو گے تو بیڑا ہے پار
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
نہ بھاگو اگر مشکل آ جائے پیش
خوشی سے گوارا کرو نوش و نیش
بنو کاہلی سے نہ گو بر گنیش
وہی دے گا مرہم دیا جس نے نیش
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
جو بازی میں سبقت نہ لے جاؤ تم
خبردار، ہرگز نہ گھبراؤ تم
نہ ٹھٹکو نہ جھجھکو نہ پچھتاؤ تم
ذرا صبر کو کام فرماؤ تم
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
مقابل میں خم ٹھوک کر آؤ ہاں
پچھڑنے سے ڈرتے نہیں پہلواں
کرو پاس تم صبر کا امتحاں
نہ جائے گی محنت کبھی رائیگاں
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
زباں میں بھی ہے فائدہ کچھ نہ کچھ
تمہیں مل رہے گا صلہ کچھ نہ کچھ
ہر ایک درد کی ہے دوا کچھ نہ کچھ
کبھی تو لگے گا پتا کچھ نہ کچھ
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
تردد کو آنے نہ دو اپنے پاس
ہے بیہودہ خوف اور بیجا ہراس
رکھو دل کو مضبوط قایم حواس
کبھی کامیابی کی چھوڑو نہ آس
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
کرو شوق و ہمت کا جھنڈا بلند
کداؤ اولو العزمیوں کا سمند
اگر صبر سے تم سہو گے گزند
تو کہلاؤ گے ایک دن فتح مند
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
٭٭٭
(۳) میرا خدا میرے ساتھ ہے
ہے ہمیشہ میری خدا پے نظر
رات ہو دن ہو شام ہو کہ سحر
نہ اجالے میں ہے کسی کا ڈر
نہ اندھیرے میں کوئی خوف و خطر
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
شام کا وقت ہو یا سویرا ہو
چاندنی ہو کہ گپ اندھیرا ہو
مینہ نے آندھی نے مجھ کو گھیرا ہو
لیک پر ہول دل نہ میرا ہو
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
جب کہ طوفان کو ہو سناٹا
سخت اندھیاؤ کا چلے جھونکا
جڑ سے پیڑوں کو دے اکھیڑ ہوا
میرے دل میں نہ خوف ہو اصلا
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
ٹوٹ کر آسمان سے تارے
شب کو گرتے ہیں جیسے انگارے
وہم کرتے ہیں لوگ بے چارے
میں نہ گھبراؤں خوف کے مارے
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
چاند سورج کا دیکھ کر گہنا
میرے ہمجولیوں کو ہے کھٹکا
لوگ کرتے ہیں خوف کا چرچا
پر مجھے اس کی کچھ نہیں پروا
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
جب ستارہ طلوع ہو دم دار
دم ہو ایسی کہ چھوٹتا ہے انار
سب پے طاری ہوں خوف کے آثار
میرے بھاویں مگر نہ ہو زنہار
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
میرے رستہ میں ہو اگر میدان
یا پرانا کوئی کھنڈر سنسان
کوئی مرگھٹ ہو یا ہو قبرستان
نہ خطا ہوں وہاں مرے اوسان
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
ہو بیاباں میں گزر میرا
یا سمندر پے ہو سفر میرا
دور رہ جائے مجھ سے گھر میرا
رہے پھر بھی قوی جگر میرا
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
جب کہ دریا میں آئے طغیانی
اور ہاتھی ڈباؤ ہو پانی
پار کھیوا نہ ہو بآسانی
مجھ کو اندیشہ ہو نہ حیرانی
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
لشکروں کی جہاں چڑھائی ہو
شہ سواروں نے باگ اٹھائی ہو
اور گھمسان کی لڑائی ہو
واں بھی ہیبت نہ مجھ پہ چھائی ہو
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
٭٭٭
(۴) صبح کی آمد
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں سب کار بہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار و گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
میری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
میں سو سو طرح سے دی رہی ہوں دہائی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہر ایک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے
نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے
چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے
مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو اس وقت جنگل میں بوٹی جڑی ہے
سو وہ نولکھا ہار پہنے کھڑی ہے
کہ پچھلے کی ٹھنڈک سے شبنم پڑی ہے
عجب یہ سماں ہے عجب یہ گھڑی ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہرن چونک اٹھے چوکڑی بھر رہے ہیں
کلولیں ہرے کھیت میں کر رہے ہیں
ندی کے کنارے کھڑے چر رہے ہیں
غرض میرے جلوہ پہ سب مر رہے ہیں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں تاروں کی چھاں آن پہونچی یہاں تک
زمیں سے ہے جلوہ مرا آسماں تک
مجھے پاؤ گے دیکھتے ہو جہاں تک
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
پجاری کو مندر کے میں نے جگایا
موذن کو مسجد کے میں نے اٹھایا
بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا
اندھیرا گھٹایا۔ اجالا بڑھایا
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لدے قافلوں کے بھی منزل میں ڈیرے
کسانوں کے ہل چل پڑے منہ سویرے
چلے جال کندھے پہ لے کر مچھیرے
دلدر ہوئے دور آنے سے میرے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بگل اور طنبور سنکھ اور نوبت
بجانے لگے اپنی اپنی سبھی گت
چلی توپ بھی دن سے حضرت سلامت
نہیں خوب غفلت۔ نہیں خوب غفلت
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لو ہشیار ہو جاؤ اور آنکھ کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بڑی دھوم سے آئی میری سواری
جہاں میں ہوا اب میرا حکم جاری
ستارے چھپے رات اندھیری سدھاری
دکھائی دئے باغ اور کھیت کیاری
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں پورب سے پچھم پہ کرتی ہوں دھاوا
زمیں کے کرہ پر لگاتی ہوں کاوا
میں طے کر کے آئی ہوں چین اور جاوہ
نہیں کہتی کچھ تم سے اس کے علاوہ
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭٭٭
(۵) خدا قیصرہ الہند کو سلامت رکھے
عیش و طرب کے ہیں یہاں چہچہے
کون بھلا جبر کسی کا سہے
کیوں نہ تہ دل سے رعایا کہے
جب تک اس اقلیم میں گنگا بہے
قیصرہ الہند سلامت رہے
ہند کا اس عہد میں بدلا مزاج
عدل نے اس دور میں پایا رواج
جملہ مفاسد کا ہوا ہے علاج
سب کی تمنا ہے کہ با تخت و تاج
قیصرہ الہند سلامت رہے
بس کہ رعایا پے ہے وہ مہرباں
کرتی رعایا ہے نثار اس پے جاں
شرق سے تا غرب کراں تا کراں
ملک اس آہنگ میں ہے نغمہ خواں
قیصرہ الہند سلامت رہے
فتنہ تو اس دور سے بس دور ہے
صلح سے اور امن سے معمور ہے
عافیت اس وقت کا دستور ہے
اس لئے افواہ میں مذکور ہے
قیصرہ الہند سلامت رہے
شرق میں ہے فوج مظفر پڑی
غرب میں ہے سد سکندری کھڑی
نظم و سیاست میں نہیں گلجھڑی
سلطنت ہند نہ کیوں ہو بڑی
قیصرہ الہند سلامت رہے
ہر چم اقبال ہے اس کا بلند
دولت و حشمت کا رواں ہے سمند
دھاک ہے تا چین و خطا و یار قند
ہند کو ہو کس لئے خوف گزند
قیصرہ الہند سلامت رہے
زور قلم یا دم صمصام ہے
مد نظر منفعت عام ہے
نیکیوں کا نیک سر انجام ہے
سب کی دعا صبح تا شام ہے
قیصرہ الہند سلامت رہے
٭٭٭
نظم بے قافیہ
(۱) چڑیا کے بچے
دو تین چھوٹے بچے چڑیا کے گھونسلے میں
چپ چاپ لگ رہے ہیں سینہ سے اپنی ماں کے
چڑیا نے مامتا سے پھیلا کے دونو بازو
اپنے پروں کے اندر بچوں کو ڈھک لیا ہے
اس طرح روزمرہ کرتی ہے ماں حفاظت
سردی سے اور ہوا سے رکھتی ہے گرم ان کو
لیکن چڑا گیا ہے چگا تلاش کرنے
دانی کہیں کہیں سے پوٹے میں اپنے بھر کر
جب لائے گا۔ تو بچے منہ کھول دیں گے جھٹ پٹ
ان کو بھرائے گا وہ۔ ماں اور باپ دونوں
بچوں کی پرورش میں مصروف ہیں برابر
اور چھوٹے بچے خوش ہیں تکلیف کچھ نہیں ہے
اے چھوٹے چھوٹے بچو۔ تم اونچے گھونسلے سے
ہر گز نہیں گرو گے۔ پر اور پرزے اب تک
نکلے نہیں تمھارے اس واسطے ابھی تم
اونچے نہ اڑ سکو گے۔ ہاں جب تمھارے بازو
اور پر درست ہوں گے تو دن کی روشنی میں
سیکھو گے تم بھی اڑنا۔ کرتے پھرو گے چیں چیں
اڑتے پھرو گے پھر پھر اے چھوٹے بچو لیکن
کوا بری بلا ہے اس سے خدا بچائے
٭٭٭
(۲) تاروں بھری رات
ارے چھوٹے چھوٹے تارو
کہ چمک دمک رہے ہو
تمہیں دیکھ کر نہ ہووے
مجھے کس طرح تحیر
کہ تم اونچے آسماں پر
جو ہے کل جہاں سے اعلی
ہوئے روشن اس روش سے
کہ کسی نے جڑ دئے ہیں
گہر اور لعل گویا
جو ہیں آفتاب تاباں
نے چھپایا اپنا چہرہ
وہیں جلوہ گر ہوئے تم
یہ تمھاری جگمگاہٹ
ہے مسافروں کے حق میں
بڑی نعمت اور راحت
اگر اتنی روشنی بھی
نہ میسر آتی ان کو
تو غریب جنگلوں میں
یونہی بھولتے بھٹکتے
نہ تمیز راس و چپ کی
نہ طرف کی ہوتی اٹکل
نہ نشان راہ پاتے
وہ غریب کھیت والے
وہ امیدوار دہقاں
کہ کھڑی ہے جن کی کھیتی
کہیں کھیت کٹ رہا ہے
کہیں گہہ رہا ہے خرمن
نہیں آنکھ ان کی جھپکی
یونہی شام سے سحر تک
ہیں تمام رات جاگے
نہ گھڑی ہے واں نہ گھنٹہ
نہ شمار وقت و ساعت
مگر اے چمکنے والو
ہو تمہیں انھیں سجھاتے
کہ گئی ہے رات اتنی
وہ جہاز جن کے آگے
ہے وسیع بحر اعظم
انھیں ہولناک موجوں
سے مقابلہ ہے کرنا
کوئی ہے چلا وطن
کوئی آ رہا ہے واپس
انھیں کچھ خبر نہیں ہے
کہ کدھر ہے ان کی منزل
نہ تو مرحلہ نہ چوکی
نہ سراغ راہ کا ہے
نہ کوئی دلیل رہبر
مگر اے فلک کے تارو
تمہیں ان کے رہنما ہو
٭٭٭
مسدس
(۱) ماں کی مامتا
مامتا ماں کی جانتے ہیں سب
ماں ہے بچے کی پرورش کا سبب
بھوک بچے کو ہے ستاتی جب
ماں سے کرتا ہے رو کے دودھ طلب
دودھ دیتی ہے پیار کرتی ہے
جان اس پہ نثار کرتی ہے
بچہ سینے سے جو رہا ہے چمٹ
نہیں لے سکتی بے دھڑک کروٹ
پانو کی بھی نہ ہو ذرا آہت
کبھی ننھے بچے کی نیند جائے اچٹ
اوں اوں کرتی تھپکتی جاتی ہے
ہولے ہولے سرکتی جاتی ہے
جب رہا وہ نہالچہ پر سو
چھوٹے تکیے لگا دئے دو دو
کئے سب کام تھے ضروری جو
پر نہیں بھولتی بچے کو
لیتی رہتی ہے ماں خبر ہر دم
اپنے بچے پہ ہے نظر ہر دم
ماں کو آرام کی فرصت کہاں
سوئی بے ڈھب تو آ گئی شامت
کپڑے لتوں کی ہو گئی کیا گت
ہے بچھونا بھی تر بتر لت پت
صبح اٹھ کر کھنگالتی ہے تمام
جاڑے پالے کا وقت اور یہ کام
بچہ اتنے میں چونک اٹھا سو کے
ناک میں دم کیا ہے رو رو کے
ماں نے پھر لے لیا ہے خوش ہو کے
نیا کرتہ بدل کے منہ ہاتھ دھو کے
باتیں کرتی ہے پیار سے جوں جوں
بولتا ہے جواب میں آغوں
رات کو لوریاں سناتی ہے
گود میں لے کے بیٹھ جاتی ہے
کس قدر زحمتیں اٹھاتی ہے
بچہ ہے اور ماں کی چھاتی ہے
کبھی کنڈی بجا کے بہلایا
کبھی کندھے لگا کے ٹہلایا
ماں کداتی ہے اچھالتی ہے اسے
دیکھتی اور بھالتی ہے اسے
ہر طرح پر سنبھالتی ہے اسے
اللہ آمین سے پالتی ہے اسے
دیکھ کر اس چاند سا مکھڑا
بھول جاتی ہے اپنا سب دکھڑا
جب لگایا ہے آنکھ میں کاجل
پڑا بچہ کی تیوری پر بل
دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ڈالیں مل
بچہ بے چین ہے تو ماں بے کل
چپ کیا جھنجنا بجا کے اسے
سوئی خود پیشتر سلا کے اسے
ماں پکائے تو کھانا پکتا ہے
اور بچہ ادھر بلکتا ہے
کبھی پرچھائیں ماں کی تکتا ہے
کبھی روتا کبھی ٹھٹکتا ہے
کھانا پکتا ہے نام ہی کو بس
لگے ہاتھوں لیا ہے بھون بھلس
اس کا ہپا جدا پکاتی ہے
انگلیوں سے اسے چٹاتی ہے
باتیں کرنا اسے بتاتی ہے
پانوں چلنا اسے سکھاتی ہے
ماں کو بچہ سے جو محبت ہے
درحقیقت خدا کی رحمت ہے
اتفاقا جو ہو گیا بیمار
پھوڑا پھنسی ہے یا زکام بخار
پھر تو ہر وقت ہے گلے کا ہار
ماں کو اس سے زیادہ ہے آزار
اپنے آپے کا کچھ نہیں ہے ہوش
بیٹھی ہے بت بنی ہوئی خاموش
وہم سے دل ہے کانپتا تھر تھر
اڑ رہی ہیں ہوائیاں منہ پر
ہے فقط فضل پر خدا کے نظر
مانگتی ہے دعائیں رو رو کر
پڑ گئی کان میں کچھ اور بھنک
لگی ہونے کلیجہ میں دھک دھک
دشمنوں کا نہیں ہے جی اچھا
ماں کو اک ہول ہو گئی پیدا
پھر تو دنیا جہاں کی ہے دوا
ٹوم چھلے کا منہ ذرا نہ کیا
ہوت آن ہوت کا نہیں کچھ غم
رہے بچہ کی خیریت جم جم
چاؤ اور چونچلوں سے پلتا ہے
آخرش پاؤں پاؤں چلتا ہے
گھر سے باہر بھی جا نکلتا ہے
کھیلتا کودتا۔ اچھلتا ہے
جب کہیں چوٹ پھینٹ ہے کھاتا
ماں ہی ماں کہہ کے ہے وہ چلاتا
چیخ کو سن کے دوڑی بیچاری
آنسو ٹپ ٹپ ہیں آنکھ سے جاری
ہوئی بچہ پے صدقے اور واری
کون کرتا ہے یوں خبرداری
جھٹ کلیجے سے لگا لیا ماں نے
جھاڑا۔ پونچھا اٹھا لیا ماں نے
اب تو اک اور ہو گیا کھٹکا
جا کے اونچی منڈیر پر لٹکا
ماں نے بہتیرا اپنا سر پٹکا
گر پڑا تو نہ کھائے گا پٹکا
پھر دبے پاؤں جا کے لائی اتار
دیا آہستہ ایک طمانچہ مار
خیر سے اب تو کام کرتا ہے
روز مکتب میں شام کرتا ہے
کیا ادب سے کلام کرتا ہے
سب کو جھک کر سلام کرتا ہے
ماں چٹا چٹ بلائیں لیتی ہے
پیار کرتی دعائیں دیتی ہے
٭٭٭
(۲) مرثیہ سید اقبال احمد مرحوم (۱)
شب کو تھی تپ کے سبب سے مجھے آشفتہ سری
جب سحر ہونے کو آئی تو ہوئی بے خبری
ناگہاں آئی صدا کان میں وحشت بھری
برق جاں سوز تھی وہ تار کی پیغام بری
ہائے اقبال ترے نام کے تھے ساتھ لکھے
ایسے الفاظ کہ کٹ جائے اگر ہاتھ لکھے
آنکھ اے کاش نہ آتے تجھے وہ حرف نظر
کان بہرا نہ ہوا کیوں کہ نہ سنتا یہ خبر
عقل کھوئی نہ گئی کیوں کہ نہ کرتی باور
دل ہی اے کاش نہ ہوتا تو نہ ہوتا مضطر
ہائے اقبال، سنا گو کہ ترے مرنے کو
جی نہیں چاہتا زنہار یقیں کرنے کو
تیرے بچوں کو نہیں حادثہ غم کی خبر
گو کہ سیلاب بلا سر سے گیا ان کے گزر
جب بڑے ہوں گے کڑھائے گی انھیں یاد پدر
تو ہی بتلا کہ تسلی انھیں ہو گی کیونکر
اس مصیبت کی نہیں انھیں پہچان ابھی
پوچھتا پھرتا ہے سب سے تجھے احسان ابھی
تیری کشتی میں کئی ایک مسافر تھے غریب
حیف، پہنچا نہ گیا ان کو تو ساحل کے قریب
کشتی ٹوٹی ہوئی اور جوش پہ طوفان مہیب
ڈھونڈتے ہیں تجھے گھبرا کے وہ برگشتہ نصیب
آہ منجدھار میں چھوڑا ہے سفینہ تو نے
کئی بد بختوں کا کٹوایا ہے سینہ تو نے
جو ابھی حلقہ ماتم کو سمجھتے ہیں برات
ان کہ چہرے پہ جمی گرد یتیمی ہیہات
سینہ کہتا ہے شعلے مجھے بھڑکانے دو
آہ کہتی ہے مج کو بھی نکل جانے دو
آنکھیں کہتی ہیں آنسو ہمیں برسانے دو
دل کی خواہش ہے کہ چپ چاپ ہی غم کھانے دو
صبر کہتا ہے کہ لو میں تو چلا ہاتھوں سے
منہ کو آتا ہے کلیجہ مرا ان باتوں سے
(۱) سید اقبال احمد ہمشیرہ زادہ مصنف نے یکایک بعمر ۲۲ سال ۱۹۰۳ عیسوی میں انتقال کیا۔ مصنف کو اس عزیز سے خاص الفت تھی۔ اس مرثیہ کا مسودہ بھی گم ہو گیا۔ یہ چند بیت جو یاد تھے یہاں لکھے گئے۔
٭٭٭
(۳) مرثیہ پلیونا (۱)
تھی صبح شب تار کی مانند کہر سے
آتی تھی نظر فوج ادھر سے نہ ادھر سے
جو چیز کہ تھی سامنے غائب تھی نظر سے
دشوار تھا اس وقت گزر راہ گزر سے
ناگاہ قدم روس کے لشکر نے بڑھایا
جنگاہ میں لشکر کو ہر افسر نے بڑھایا
اس معرکہ سخت میں تھا زار بھی موجود
اور لشکر روسی کا سپھدار بھی موجود
رومانیہ کا والی غدار بھی موجود
جنرل تھے بڑے نامی و جرار بھی موجود
رومانیہ اور روس کے لشکر ہوئے باہم
دو بحر تھے اک کوہ کی جنبش پہ فراہم
رشیا نے کئے جمع سوا لاکھ سپاہی
تھی شاق زبس حملہ اول کی تباہی
نقصان گزشتہ کی مکافات جو چاہی
دکھلائی بڑی دھوم سے اب شوکت شاہی
باقی نہ رہی جائے بجز خیمہ و خرگاہ
صحرائے پلونہ میں ہوئی بند گزرگاہ
میداں میں ہوئی تین طرف فوج مقرر
جنگ آور و جرار مقرر ہوئے افسر
تھا سلسلہ توپوں کا ہر اک سمت برابر
یوں وادی و کہسار میں پھیلے تھے ستمگر
پلٹن پہ تھی پلٹن تو رسالہ پہ رسالہ
روسی تھے پلونا پہ کہ مہتاب پہ ہالہ
اس وقت دیا دمدمہ ترک نے پیغام
ہے مستعد جنگ صف لشکر اسلام
او روس خبردار بس آگے نہ بڑھے گام
یہ توپ کا گولہ ہے تمھارے لئے انعام
عثمان دلاور کے وہی شیر کھڑے ہیں
پہچانتے ہو حملہ اول میں لڑے ہیں
جب زار نے عثمان پہ کی تاخت دوبارہ
جو زور تھا لشکر کا وہ ڈالا وہیں سارا
اور آن کے میداں میں ہوا خود بھی صف آرا
لیکن نہ دیا قسمت و اژگوں نے سہارا
ہر حملہ میں اوندھا ہی پڑا زار کا لشکر
قسمت نہ لڑی گرچہ لڑا زار کا لشکر
براقی سنگین سے تھی آنکھ جھپکتی
شمشیر بھی تھی صاعقہ کردار لپکتی
اور گولیہ گولی متواتر تھی ٹپکتی
میداں میں قضا پھرتی تھی کشتوں کو تھپکتی
بندوق شرربار سے جلتا تھا بیاباں
توپوں کے گرجنے سے دہلتا تھا بیاباں
لشکر کی چڑھائی تھی کہ دریا کی چڑھائی
تھی کوہ و بیاباں پہ گھٹا سی امنڈ آئی
دھوں دھاں کے سوا کچھ بھی نہ دیتا تھا سنائی
فوجوں کے سوا کچھ بھی نہ دیتا تھا دکھائی
ہتھیار ہر اک سمت چمکتے تھے جھما جھم
اور حادثہ جنگ تھا تیزی پہ دما دم
(۱) اس مرثیہ کے بہت سے بند تھے جو اتفاق سے گم ہو گئے یہ چند متفرق بند ان لوگوں سے دستیاب ہوئے جن کو یاد تھے۔۔
٭٭٭
(۴) متفرقات
ضعیفوں پے زور آزمایا تو کیا
ستائے ہوؤں کو ستایا تو کیا
کسی دل جلے کو جلایا تو کیا
فساد فتنہ اٹھایا تو کیا
نہ پکڑا کبھی دل کے اندر کا چور
نہ توڑا کبھی نفس سرکش کا زور
٭٭٭
(۱) مثمن
مشعر کیفیت قلعہ اکبر آباد موسوم بہ آثار سلف
یا رب، یہ کسی مشعل کشتہ کا دھواں ہے
یا گلشن برباد کی یہ فصل خزاں ہے
یا برہمی بزم کی فریاد و فغاں ہے
یا قافلہ رفتہ کا پس خیمہ رواں ہے
ہاں دور گزشتہ کی مہابت کا نشاں ہے
بانی عمارت کا جلال اس عیاں ہے
اڑتا تھا یہاں پرچم جم جاہی اکبر
بجتا تھا یہاں کوس شہنشاہی اکبر
باہر سے نظر ڈالئے اس قلعہ پہ یک چند
برپا ہے لب آب جمن صورت الوند
گویا کہ ہے اک سورما مضبوط تنو مند
یا ہند کا رجپوت ہے یا ترک سمرقند
کیا بارہ سنگین کا پہنا ہے قزاگند
رینی کا قزاگند پہ باندھا ہے کمر بند
مسدود ہے خندق سے رہ فتنہ و آشوب
ارباب تمرد کے لئے برج ہیں سرکوب
تعمیر در قلعہ بھی البتہ ہے موزوں
پر شوکت و ذی شان ہے اس کا رخ بیروں
کی ہے شعرا نے صفت طاق فریدوں
معلوم نہیں اس سے وہ کمتر تھا کہ افزوں
گو ہم سر کیواں ہے نہ ہم پلہ گردوں
محراب کی ہیئت سے ٹپکتا ہے یہ مضموں
پیلان گراں سلسلہ با ہودج زرین
اس در سے گزرتے تھے بصد رونق و تزئیں
اکبر سا کبھی مخزن تدبیر یہاں تھا
یا طنطنہ دور جہاں گیر یہاں تھا
یا شاہ جہاں مرجع توقیر یہاں تھا
یا مجمع ذی رتبہ مشاہیر یہاں تھا
القصہ کبھی عالم تصویر یہاں تھا
دنیا سے سوا جلوہ تقدیر یہاں تھا
بہتا تھا اسی کاخ میں دولت کا سمندر
تھے جشن ملوکانہ اسی قصر کے اندر
وہ قصر معلی کہ جہاں عام تھا دربار
آئینہ نمط صاف ہیں جس کے در و دیوار
اور سقف زر اندوز ہے مانند چمن زار
اور فرش ہے مرمر کا مگر چشمہ انوار
اب بانگ نقیب اس میں نہ چاؤش کی للکار
سرہنگ کمر بستہ نہ وہ مجمع حضار
کہتا ہے کبھی مرکز اقبال تھا میں بھی
ہاں، قبلہ گہ عظمت و اجلال تھا میں بھی
جب تک کہ مشیت کو مرا وقر تھا منظور
نافذ تھا زمانہ میں مری جاہ کا منشور
شاہان معاصار کا معین تھا یہ دستور
کرتے تھے سفیران ذوی القدر کو مامور
تا میری زیارت سے کریں چشم کو پر نور
آوازہ میری شان کا پہونچا تھا بہت دور
اکناف جہاں میں تھا مرا دبدبہ طاری
تسلیم کو جھکتے تھے یہاں ہفت ہزاری
وہ چتر وہ دیہم وہ سامان کہاں ہیں
وہ شاہ وہ نوئین۔ وہ خاقان کہاں ہیں
وہ بخشی و دستور۔ وہ دیوان کہاں ہیں
خدام و ادب اور وہ دربان کہاں ہیں
وہ دولت مغلیہ کے ارکان کہاں ہیں
فیضی و ابوالفضل سے اعیان کہاں ہیں
سنسان ہے ، وہ شاہ نشین آج صد افسوس
ہوتے تھے جہاں خان و خوانین زمیں بوس
وہ بارگہہ خاص کی پاکیزہ عمارت
تاباں تھے جہاں نیر شاہی و وزارت
بڑھتی تھی جہاں نظم و سیاست کی مہارت
آتی تھی جہاں فتح ممالک کی بشارت
جوں شحنہ معزول پڑی ہے وہ اکارت
سیاح کیا کرتے ہیں اب اس کی زیارت
کہتا ہے سخن فہم سے یوں کتبہ دروں کا
تھا مخزن اسرار یہی تاج وروں کا
اورنگ سیہ رنگ جو قائم ہے لب بام
بوسہ جسے دیتا تھا ہر اک زبدہ عظام
اشعار میں ثبت اس پہ جہاں گیر کا ہے نام
شاعر کا قلم اس کی بقا لکھتا ہے ما دام
پر صاف نظر آتا ہے کچھ اور ہی انجام
سالم نہیں چھوڑے گی اسے گردش ایام
فرسودگی دھر نے شق اب تو کیا ہے
آیندہ کی نسلوں کو سبق خوب دیا ہے
ہاں، کس لئے خاموش ہے او، تخت جگر ریش
کس غم میں سیہ پوش ہے ؟ کیا سوگ ہے درپیش
کملی ہے تیرے دوش پہ کیوں صورت درویش
جوگی ہے ترا پنتھ۔ کہ صوفی ہے ترا کیش
بولا کہ زمانہ نے دیا نوش کبھی نیش
صدیاں مجھے گزری ہیں یہاں تین کم و بیش
صدقے کبھی مجھ پر گہر و لعل ہوئے تھے
شاہان معظم کے قدم میں نے چھوئے تھے
وہ رنگ محل برج مثمن کا وہ انداز
صفت میں ہے بے مثل تو رفعت میں سرافراز
یاں مطرب خوش لہجہ کی تھی گونجتی آواز
گہہ ہند کی دھرپت تھی کبھی نغمہ شیراز
اب کون ہے بتلائے جو کیفیت آغاز
زنہار کوئی جاہ و حشم پر نہ کرے ناز
جن تاروں کے پرتو سے تھا یہ برج منور
اب ان کا مقابر میں تہ خاک ہے بستر
اس عہد کا باقی کوئی ساماں ہے نہ اسباب
فوارے شکستہ ہیں تو سب حوض ہیں بے آب
وہ جام بلوریں ہیں نہ وہ گوہر نایاب
وہ چلمن زرتار نہ وہ بستر کمخواب
ہنگامہ جو گزرا ہے سو افسانہ تھا یا خواب
یہ معرض خدام تھا وہ موقف حجاب
وہ بزم نہ وہ دور نہ وہ جام نہ ساقی
ہاں طاق و رواق۔ اور در و بام ہیں باقی
مستور سرا پردہ عصمت میں تھے جو گل
سو دودہ ترک اور مغل ہی نہ تھے کل
کچھ خیری فرغانہ تھے۔ کچھ لالہ کابل
پھر مولسری ہند کی ان میں گئی مل جل
تعمیر کے انداز کو دیکھو بہ تامل
تاتاری و ہندی ہے بہم شان و تجمل
سیاح جہاں دیدہ کے نزدیک یہ تعمیر
اکبر کے خیالات مرکب کی ہے تصویر
درشن کے جھروکے کی پڑی تھی یہیں بنیاد
ہوتی تھی تلا دان میں کیا کیا دہش و داد
وہ عدل کی زنجیر ہوئی تھی یہیں ایجاد
جو سمع شہنشاہ میں پہنچاتی تھی فریاد
وہ نورجہاں اور جہاں گیر کی افتاد
اس کاخ ہمایوں کو بہ تفصیل ہے سب یاد
ہر چند کہ بے کار یہ تعمیر پڑی ہے
قدر اس کی مورخ کی نگاہوں میں پڑی ہے
اب دیکھئے وہ مسجد و حمام زنانہ
وہ نہر۔ وہ حوض اور وہ پانی کا خزانہ
صنعت میں ہر اک چیز ہے یکتا و یگانہ
ہے طرز عمارت سے عیاں شان شہانہ
کیا ہو گئے وہ لوگ کہاں ہے وہ زمانہ؟
ہر سنگ کے لب پر ہے غم اندوز ترانہ
چغتائیہ گلزار کی یہ فصل خزاں ہے
ممتاز محل ہے نہ یہاں نورجہاں ہے
وہ قصر جہاں جودھپوری رہتی تھی بائی
تھی دولت و ثروت نے جہاں دھوم مچائی
دیکھا اسے جا کر تو بری گت نظر آئی
صحنوں میں جمی گھاس تو دیواروں پہ کائی
گویا درو دیوار پہ دیتے ہیں دہائی
ممکن نہیں طوفان حوادث سے رہائی
جس گھر میں تھے نسریں و سمن یا گل لالہ
اب نسل ابابیل میں ہے اس کا قبالہ
وہ مسجد زیبا کہ ہے اس بزم کی دلہن
خوبی میں یگانہ ہے ولے سادہ و پر فن
محراب و در و بام ہیں سب نور کا مسکن
موتی سے ہیں دالان تو ہے دود سا آنگن
کافور کا تودہ ہے کہ الماس کا معدن
یا فجر کا مطلع ہے۔ کہ خود روز ہے روشن
بلور کا ہے قاعدہ یا نور کا ہے راس
باطل سی ہوئی جاتی ہے یاں قوت احساس
ہاتھوں نے ہنرمند کے اک سحر کیا ہے
سانچہ میں عمارت کو مگر ڈھال دیا ہے
یا تار نظر سے کہیں پتھر کو سیا ہے
مرمر میں مہ و مہر کا سا نور و ضیا ہے
گو شمع نہ فانوس نہ بتی نہ دیا ہے
ہاں، چشمہ خورشید سے آب اس نے پیا ہے
چلئے جو یہاں سے تو نظر کہتی ہے فی الفور
نظارہ کی دو مجھ کو اجازت کوئی دم اور
مسجد نے اشارہ کیا پتھر کی زبانی
اس قلعہ میں ہوں شاہجہاں کی میں نشانی
کچھ شوکت ماضی کی کہی اس نے کہانی
کچھ حالت موجودہ بایں سحر بیانی
ان حجروں میں ہے شمع نہ اس حوض میں پانی
فواروں کے دل میں بھی ہے اک درد نہانی
تسبیح نہ تہلیل نہ تکبیر و اذاں ہے
بس گوشہ تنہائی ہے اور قفل گراں ہے
جمگھٹ تھا کبھی یاں وزرا و امرا کا
مجمع تھا کبھی یاں صلحا و علما کا
چرچا تھا شب و روز یہاں ذکر خدا کا
ہوتا تھا ادا خطبہ سدا حمد و ثنا کا
اک قافلہ ٹھیرا تھا یہاں عز و علا کا
جو کچھ تھا۔ گذر جانے میں جھونکا تھا ہوا کا
ہیں اب تو نمازی میرے باقی یہی دو تین
یا دھوپ ہے یا چاندنی یا سایہ مسکین
وہ دور ہے باقی نہ وہ ایام و لیالی
جو واقعہ حسی تھا سو ہے آج خیالی
ہر کوشک و ایوان ہر اک منزل عالی
عبرت سے ہے پر اور مکینوں سے ہے خالی
آقا نہ خداوند۔ اہالی نہ موالی
جز ذات خدا کوئی نہ وارث ہے نہ والی
یہ جملہ محلات جو سنسان پڑے ہیں
پتھر کا کلیجہ کئے حیران کھڑے ہیں
جب کند ہوئی دولت مغلیہ کی تلوار
اور لوٹ لیا جاٹ نے ایوان طلاکار
تب لیک جو تھا لشکر انگلش کا سپہدار
افواج مخالف سے ہوا بر سر پیکار
یہ بارہ و برج اور یہ ایوان یہ دیوار
کچھ ٹوٹ گئے ضرب سے گولوں کی بہ ناچار
ہے گردش ایام کے حملوں کی کسے تاب
پھر قلعہ اکبر ہی میں تھا کیا پر سرخاب
آخر کو لٹیروں کی شکستہ ہوئی قوت
اونچا ہوا سرکار کے اقبال کا رایت
لہرانے لگا پھر علم امن و حفاظت
آثار قدیمہ کی لگی ہونے مرمت
یہ بات نہ ہوتی تو پہونچتی وہی نوبت
دیوار گری آج۔تو کل بیٹھ گئی چھت
حکام زماں کی جو نہ ہوتی نگرانی
رہ سکتی نہ محفوظ یہ مغلیہ نشانی
ارباب خرد چشم بصیرت سے کریں غور
اکبر کی بنا اس سے بھی پائندہ ہے اک اور
سردی کی جفا جس پہ نہ گرمی کا چلے جور
ہر چند گزر جائیں بہت قرن بہت دور
برسوں یونہی پھرتے رہیں برج حمل و ثور
اس میں نہ خلل آئے کسی نوع کسی طور
انجینیروں کی بھی مرمت سے بری ہے
وہ حصن حصیں کیا ہے ؟ فقط ناموری ہے
او اکبر ذیجاہ، تیری عزت و تمکیں
محتاج مرمت ہے نہ مستلزم تزئیں
کندہ ہیں دلوں میں تری الفت کی فرامیں
ہے تیری محبت کی بنا اک دژ رو میں
پشتوں سے رعایا میں بہ آئین وراثت
قائم چلی آتی ہے تیرے نام کی عظمت
بکرم کی سبھا کو تیری صحبت نے بھلایا
اور بھوج کا دورہ تیری شہرت نے بھلایا
ارجن کو تیری جرات و ہمت نے بھلایا
کسری کا ترے دور عدالت نے بھلایا
اسکندر و جم کو تری شوکت نے بھلایا
پچھلوں کو غرض تیری عنایت نے بھلایا
آتے ہیں زیارت کو تو اب تک ہے یہ معمول
زائر تری تربت پہ چڑھا جاتے ہیں دو پھول
ہو کہنہ و فرسودہ ترا قلعہ تو کیا غم
شہرت ہے تیرے نام کی سو قلعوں سے محکم
بھرتا ہے ہر اک فرقہ محبت کا تری دم
لکھتے ہیں مورخ بھی تجھے اکبر اعظم
رتبہ ہے ترا ہند کے شاہوں میں مسلم
یہ ٍفخر ترے واسطے زنہار نہین کم
گو خاک میں مل جائے ترے عہد کی تعمیر
ہے کتبہ عزت ترا ہر سینہ میں تحریر
ہاں، قوم کے نو عمر جوانو ادھر آؤ
ہے دیدہ بینا تو اسے کام میں لاؤ
آثار صنادید کی عینک کو لگاؤ
عبرت کی نگاہوں کو پس و پیش پھراؤ
راہ طلب و شوق میں اک شمع جلاؤ
گنجینہ اعزاز کو پانا ہے تو پاؤ
یہ نقش و نگار در و دیوار شکستہ
دیکھو تمہیں دکھلاتے ہیں آیندہ کا رستہ
اسلاف نے اگر کی تھی ملکوں پہ چڑھائی
یا کاخ حکومت کی تھی بنیاد اٹھائی
یا طرح کئے کوشک سیمیں و طلائی
یا بحر میں کشتی تجارت تھی چلائی
یا کشور تہذیب میں کی قلعہ کشائی
کس برتے پہ یہ کام تھے آخر میرے بھائی
جب بحر مصائب کو شنا کر کے ہوئے پار
تب دہر مخالف بھی ہوا غاشیہ بردار
عزت کی ملی تھی انھیں جاگیر دوامی
دولت کے طرفدار تھے اور دین کے حامی
خصلت میں خوشامد تھی نہ عادت میں غلامی
رسموں میں خرابی تھی نہ اطوار میں خامی
گر فہم و فراست کی مجالس میں تھے نامی
تدبیر ممالک میں تھے وہ صدر گرامی
گر فتح و ظفر میں تھے سکندر سے بھی زیادہ
تھے دانش و حکمت میں ارسطو کے بھی دادہ
کیا کیا طلب علم میں کرتے تھے جگر خوں
لیلی تھا اگر علم تو وہ لوگ تھے مجنوں
کچھ بو علی سینا ہی نہ تھا رشک فلاطوں
بہتوں نے کدایا یونہی تحقیق کا گلگوں
مدت کی کہانی ہے اگر سیرت ماموں
تاریخ میں دیکھو سبب مرگ ہمایوں
اکبر بھی تھا آخر اسی تہ جرعہ کا مخمور
تھا فیضی علامہ اس کام پہ مامور
یہ کہنہ عمارات کہ ہیں وقف تباہی
اسلاف کے اوصاف پہ دیتی ہیں گواہی
صرف اصل و نسب ہی پہ نہ تھے اپنی مباہی
مکتب میں تھے استاد ریاضی و الٰہی
میدان مساعی میں تھے اک مرد سپاہی
زیبا تھا انھیں چتر جہاں بانی و شاہی
کنیاتے تھے محنت سے نے آلام سے تھکتے
کوشش کی گھٹا میں تھے وہ بجلی سے کڑکتے
وہ عیش کے مملوک تھے نے بندہ راحت
گلگشت چمن زار تھی گویا انھیں عزت
برداشت جفا کرتے تھے سہتے تھے صعوبت
اوروں کے بھروسے پہ نہ کرتے تھے معیشت
دنیا کے کسی کام میں ہیٹی نہ تھی ہمت
بے غیرتی زنہار نہ تھی ان کی جبلت
ہمت میں تھے شاہین تو جرات میں تھے شہباز
عزت کی بلندی پہ کیا کرتے تھے پرواز
وہ صولت و سطوت میں تھے جوں شیر نیستاں
عزت کے لئے جاں بھی کیا کرتے تھے قرباں
تھا انجمن عیش سے خوشتر انھیں میداں
محنت کے بودے تھے نہ مشقت سے گریزاں
دشوار تھی بے حرمتی اور ننگ مگر ہاں
آسان تھی نیزہ کی انی۔ تیر کا پیکاں
خیرات کے ٹکڑے پہ نہ گرتے تھے وہ حاشا
تھا نعل بہا ان کو یہ دولت کا تماشا
وہ کعبہ مقصود تھے یا قبلہ حاجات
کس منہ سے بزرگوں پہ کریں فخر و مباہات
سر اپنے گریباں میں ذرا ڈالئے ہیہات
اوصاف اضافی سے نہیں کچھ شرف ذات
تلوار میں جب کوئی اصالت کی نہ ہو بات
گاہک تو نہ پوچھے گا۔ یہ کس کان کی ہے دھات
بندوق دم صید گر اچھی نہ چلی ہو
مردود ہے گو لندن و پیرس میں ڈھلی ہو
دل اپنی ستائش سے نہ بہلائیے حضرت
اس راہ میں دھوکا نہ کہیں کھائیے حضرت
شیخی کو بہت کام نہ فرمائیے حضرت
شعلہ کو تعلی کے نہ بھڑکائیے حضرت
آبا کی بزرگی پہ نہ اترائیے حضرت
یہ گو ہے یہ میدان۔ ادھر آئیے حضرت
اب بھی تو وہی خیر سے نسل شرفا ہے
آخر سبب اس نیک سر انجام کا کیا ہے
کیوں قوم کی حالت میں تنزل کا پڑا ڈھنگ
کیوں انجمن عیش پرستی کا جما رنگ
کیوں تیغ شرافت کو دنائت کا لگا زنگ
مغلوب سفاہت ہوئے کیوں دانش و فرہنگ
روباہ بنے کس لئے شیران صف جنگ
کیوں بارگی عزم ہوا دون خر لنگ
کیوں ٹوٹ گئے باز عمل کے پر و بازو
کیوں ذروہ عزت پہ لگا بولنے الو
جڑ پہلے زمانہ میں جمی جیسے شجر کی
لذت ہمیں چکھنی ہے ضرور اس کے ثمر کی
بے شک ہے یہ پاداش اسی شور کے شر کی
ہاں مستحق اولاد ہے میراث پدر کی
تفتیش کرو دوستو۔ اخبار و سیر کی
فہرست مرتب کرو ہر عیب و ہنر کی
دو ڈیڑھ صدی پہلے سے جو اپنا ڈھچر تھا
انصاف سے دیکھو اسے کیا پوچ و پچر تھا
جو راہنمائی کو چلے آپ تھے گمراہ
حالات سے واقف نہ مقامات سے آگاہ
شیروں کی جگہ جمع ہوا گلہ روباہ
ہر کرمک شب تاب بنا مدعی ماہ
ہر شخص کو تھی خود غرضی سے طلب جاہ
ویسے ہی امیرالامرا جیسے شہنشاہ
رسم حسد و بغض و عداوت ہوئی تازہ
آخر کو اٹھا دولت و عزت کا جنازہ
وہ غور کے غزنیں کے دلیران ظفر مند
وہ شاہ سواران بخارا و سمرقند
جو ہند کے خطے میں ہوئے خاک کے پیوند
جی اٹھتے دوبارہ اگر ان میں سے تنے چند
ہاں ہلہ اول میں تو ہوتے ہی وہ خرسند
پھولے نہ سماتے کہ ہمارے ہیں یہ فرزند
پر دیکھتے جب ان کے برے فعل برے قول
جا بیٹھتے قبروں ہی میں پڑھتے ہوئے لاحول
کیا حال تھا حضرات ملوک اور امرا کا
انبوہ تھا بیہودہ مشاغل کی بلا کا
یا فوج کنیزوں کی تھی اک قہر خدا کا
یا بولتا طوطی تھا کسی خواجہ سرا کا
یا شور خوشامد کا تھا یا مدح و ثنا کا
سفلے تھے مشیر اور مصاحب تھے چھچھورے
وہ عقل کے دشمن تو حضور ان سے بھی کورے
کاسد (۱) ہوا بازار ہر اک طرز عمل کا
عالم نظر آتا ہے بتر آج سے کل کا
مفلس ہیں تو پیشہ ہے فریب و دغل کا
اندیشہ نہیں کچھ انھیں ایماں کے خلل کا
مدت سے ڈھانچ بگڑا اہل دول کا
چکھا ہے مزہ خوب ہی اسراف کے پھل کا
اب کوئی اگر دولت قومی کی کرے جانچ
ٹٹ پونجیئے البتہ نکل آئیں گے دس پانچ
اب نام کو ہم میں جو گروہ شرفا ہے
سو حالت افلاس میں جینے سے خفا ہے
یا شامت اعمال سے پامال جفا ہے
کچھ حسن معیشت نہ کہیں صدق و صفا ہے
کچھ دولت دنیا ہے تو بے مہر و وفا ہے
کچھ دین کا چرچا ہے تو وہ رو بہ قضا ہے
چھائے گی تنزل کی ابھی ہم پہ گھٹا اور
ہم اور ہوا میں ہیں۔ زمانہ کی ہوا اور
جو لوگ یہ سمجھے کہ ہیں صرف اپنے لئے ہم
اغراض و مقاصد ہیں فقط اپنے مقدم
یاروں کی انھیں فکر نہ غیروں کا انھیں غم
ہمدرد عشیرت ہیں نہ ہمسائیوں کے ہمدم
وہ فہم و فراست میں بہائم سے بھی ہیں کم
یا سنگ ہیں یا خشت ہیں جائیں بہ جہنم
ان مردہ دلوں سے تو کرو قطع نظر بس
لے ڈوبیں گے تم کو بھی چلے ان کا اگر بس
(۱) پہلے ایڈیشن میں یہ پانچ بند غلطی سے شائع نہیں ہوئے۔
جو قوم کے اوصاف تھے۔ سو ان میں سے اکثر
آپس کی کشاکش میں گلا گھٹ کے گئے مر
غمخواری و احسان و مروت کا لٹا گھر
انصاف کا اور دین دیانت کا کٹا سر
نیکوں سے ہوئے بد۔ تو بدوں سے ہوئے بدتر
کاشانہ دولت کی جگہ رہ گئے چھپر
جو کام تھے یاروں کے سو گردن زدنی تھے
خود اپنے لئے مستعد بیخ کنی تھے
جرات تھی سو آپس کی عداوت میں ہوئی صرف
قوت تھی۔ سو رشک اور رقابت میں میں ہوئی صرف
شوکت تھی۔ سو خود بینی و نخوت میں ہوئی صرف
فرصت تھی سو بیکاری و غفلت میں ہوئی صرف
عزت تھی۔ سو افلاس و فلاکت میں ہوئی صرف
دولت تھی سو عیاشی و عشرت میں ہوئی صرف
اس وقت ہمیں عاقبت الامر ہوا ہوش
جب رہ گئے ہم لوگ بیک بینی و دو گوش
مدت سے زمانہ میں ترقی کا پھنکا صور
عالم میں بجا اور ہی تحقیق کا طنبور
آفاق میں پھیلا نئی ایجاد کا منشور
خورشید برآمد ہوا بھاگی شب دیجور
ہم دے کے ڈھئی کلبہ احزاں میں بدستور
سوتے رہے غفلت میں پڑے بے خود و مخمور
نا وقت کھلی آنکھ تو حیراں ہیں اب ہم
ہم کون ہیں کیا چیز ہیں اے وائے عجب ہم
ہم چاہتے ہیں عیش بھی اور ناموری بھی
دولت بھی ہمیں چاہئے اور بے ہنری بھی
اعزاز بھی مطلوب ہے بیہودہ سری بھی
آوارگی منظور ہے اور راہبری بھی
مقصود رفو بھی ہے مگر جامہ دری بھی
گر پستی ہمت ہے تو عالی نظری بھی
یہ بات تو ہو گی نہ ہوئی ہے کبھی آگے
پھرتے ہیں محالات کے پیچھے یونہی بھاگے
خیر اب کوئی تدبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کفارہ تقصیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ چارہ تاخیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس حال کو تغئیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
فریاد مین تاثیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس خواب کی تعبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ بھی نہیں دشوار اگر ٹھان لو جی میں
گھنٹوں میں ہو وہ کام جو ہوتا ہو صدی میں
بے کوشش و بے جہد ثمر کس کو ملا ہے
بے غوطہ زنی گنج گہر کس کو ملا ہے
بے خون پئے لقمہ تر کس کو ملا ہے
بے جور کشی تاج ظفر کس کو ملا ہے
بے خاک کے چھانے ہوئے زر کس کو ملا ہے
بے کاوش جاں علم و ہنر کس کو ملا ہے
جو رتبہ والا کے سزاوار ہوئے ہیں
وہ پہلے مصیبت کے طلبگار ہوئے ہیں
کوشش ہی نے اجرام سماوی کو ہے تولا
کوشش ہی نے طبقات زمیں کو ہے ٹٹولا
کوشش ہی نے رستہ نئی دنیا کا ہے کھولا
کوشش ہی نے گوہر ہے تہہ بحر سے رولا
کوشش ہی کا طوطی ہے سدا دہر میں بولا
کوشش ہے غرض طرفہ طلسمات کا گولا
قدرت نے فتوحات کی رکھی ہے یہی راہ
سعی اپنی طرف سے ہو تو اتمام من اللہ
ہیں آج کل اسکول کے کمرے صف ہیجا
سرمایۂ عم و ہنر و فضل ہے یغما
ہر قوم کا پر مال غنیمت سے ہے کیسا
لیکن تمہیں کچھ سود و زیاں کی نہیں پروا
کیوں قوم کے اعزاز کی لٹیا کو ڈبویا
کیوں کسب کمالات میں تم ہو گئے پس پا
اوروں سے تو بودے نہ تھے مانا کہ تم ایسے
میدان سے کیوں بھاگ گئے نوک دم ایسے
ہر چند کہ دعوی تھا تمھیں سیف و قلم کا
تھا فخر تمھیں نسل عرب و عجم کا
لیکن نہ رہا طرز وہ عادات و شیم کا
سیکھا نہ وتیرہ کوئی ارباب ہمم کا
ناچار ہر اک قوم نے تم کو لیا دھمکا
بے سعی کسی کا بھی ستارہ نہیں چمکا
تم راہ طلب میں ہو اگر اب بھی شتاباں
ہو کوکب عزت افق دہر پہ تاباں
اب تک بھی سکت ہے وہی ہڈی میں تمھاری
اب تک بھی وہی خوں ہے شرائین میں جاری
افغانی و ترکی و حجازی و تتاری
ایرانی و تورانی و بلخی و بخاری
اے دوستو، ہمت ہی مگر تم نے تو ہاری
اس واسطے بس کرکری شیخی ہوئی ساری
مد علما دفتر قومی میں ہے خالی
فارابی و طوسی ہیں نہ رازی و غزالی
تلواروں کا سایہ تھا جنھیں سایہ طوبی
جولان گہہ ہمت تھی جنھیں وسعت دنیا
تھا ریگ رواں جن کے لئے بستر دیبا
اور خیمہ اطلس تھا یہی قبہ خضرا
ہے تم کو اگر ان کے خلف ہونے کا دعوے
دکھلاؤ حریفوں کے مقابل ہنر اپنا
ترتیب سے جم جاؤ قرینہ بقرینہ
میدان ترقی میں لڑو سینہ بہ سینہ
یہ جنگ نہیں توپ کی یا تیغ و تبر کی
اس جنگ میں کچھ جان کی جوکھوں ہے نہ زر کی
یہ جنگ ہے اخلاق کی اور علم و ہنر کی
یہ جنگ ہے تحصیل عمل اور نظر کی
اس جنگ میں آسودگی ہے نوع بشر کی
آزادی ہے ملکوں کی تو آبادی ہے گھر کی
یہ جنگ نہیں وضع مروت کے منافی
اس جنگ سے مافات کی ممکن ہے تلافی
ہے جنگ سے مقصود بلندی ارادہ
وہ ہم سے زیادہ ہوں تو ہم ان سے زیادہ
رستہ ہو تعصب کا نہ کینہ کا ہو جادہ
نقش حسد و بعض سے افعال ہوں سادہ
دل صاف رہے اور طبیعت بھی کشادہ
اس طور سے حاصل کرو عزت کا وسادہ
گر جوہر ہمت ہے تو سبقت میں کرو کد
نامردی و مردی قدمے فاصلہ دارد
باقی ہے اگر جوش حمیت کا حرارہ
تو معرکہ علم میں ہو جاؤ صف آرا
جاں ڈال دو ناموس کے قالب میں دوبارا
پیچھے نہ ہٹاؤ قدم عزم خدارا
ذلت نہیں ہوتی کبھی مردوں کو گوارا
چمکو فلک جاہ پہ تم بن کے ستارا
آبا نے کیا فتح جو بنگال و دکن کو
تسخیر کرو تم عمل و علم کو فن کو
ادنی سا بھی ہر کام ہے اب علم کا محکوم
بے علم ہے جو قوم سو حال اس کا ہے معلوم
دولت سے ہے بیگانہ تو عزت سے ہے محروم
اقوال کمینہ ہیں تو افعال ہیں مذموم
ارباب ہنر کی کرہ ارض پہ ہے دھوم
سب حلقہ بگوش ان کے ہیں وہ سب کے ہیں محکوم
دنیا میں اسی قوم کا گلزار ہے پھولا
جو رکھتی ہے دانش میں ہنر میں ید طولا
تم جانتے ہو خوب کہ انسان ہے فانی
فانی ہے بلا شبہ مگر اس کی نشانی
کیا اس کی نشانی ہے سنو میری زبانی
امثال میں مذکور ہے پچھلوں کی کہانی
خوش بخت تھے وہ۔ کر گئے جو فیض رسانی
بدبخت تھے مغلوب صفات حیوانی
گر تم بھی یونہی اٹھ گئے حیوان سے رہ کر
آیندہ کی نسلیں تمھیں کیا روئیں گی کہہ کر
پھل خدمت قومی ہے اگر نخل ہیں اقوال
تن خدمت قومی ہے اگر جامہ ہیں افعال
جان خدمت قومی ہے اگر جسم ہیں اعمال
ملحوظ رکھو خدمت قومی کو بہر حال
پر نفع یہ ہی شغل ہے من جملہ اشغال
جو زندہ جاوید ہیں ان کی ہے یہی چال
پر الفت قومی سے ہے جن کا رگ و ریشہ
مرنے کو تو مرتے ہیں۔ پر جیتے ہیں ہمیشہ
قوت ہے اگر دل میں دماغوں میں ہے طاقت
پہنچاؤ بہم حسن بیاں اور طلاقت
اصلاح معائب میں کرو صرف لیاقت
دکھلاؤ مریضوں کو مداوا میں حداقت
رکھو نہ غریبوں پہ روا طعن حماقت
قومی ضعفا کی نہ کرو ترک رفاقت
کیا دولت ہستی ہے پئے نفس پرستی
آباد کرو قوم کی اجڑی ہوئی بستی
ہے قوم اگر باغ تو تم اس کے شجر ہو
ہے قوم اگر نخل تو تم اس کے ثمر ہو
ہے قوم اگر آنکھ تو تم نور بصر ہو
ہے قوم اگر چرغ تو تم شمس و قمر ہو
ہے قوم اگر کاں تو تم لعل و گہر ہو
نظارگی ہے قوم۔ تو تم مد نظر ہو
موسی بنو اور قوم کو ذلت سے بچاؤ
گوسالہ غفلت کی پرستش کو چھڑاؤ
او باغ خزاں دیدہ کے نوخیز نہالو
او ساحت ہستی کے نئے دوڑنے والو
مضبوط کرو دل کو طبیعت کو سنبھالو
کچھ دور نہیں۔ منزل مقصود کو جا لو
ہاں، مد مقابل بنو ہتھیار نہ ڈالو
میداں ترقی کی زمیں سر پہ اٹھا لو
زنہار گوارا نہ کرو ننگ ہزیمت
موقع ہے ابھی گرم کرو رخش عزیمت
غیرت ہو تو گر کر بھی سنبھلنا نہیں مشکل
جرات ہو تو نرغہ سے نکلنا نہیں مشکل
ہو صبر تو آفات کا ٹلنا نہیں مشکل
ہو آنچ تو پتھر کا پگھلنا نہیں مشکل
ہمت ہو تو حالت کا بدلنا نہیں مشکل
انجن ہو تو گاڑی کا بھی چلنا نہیں مشکل
گرمی سے کرو پہلے بخارات مہیا
پیدا حرکت ہو تو لگے گھومنے پہیا
ہمت ہی حرارت ہے وہی ہے حرکت بھی
ہمت ہی سے ہر قوم نے پائی ہے ترقی
گر چیونٹی تیمور کی ہمت نہ بندھاتی
ہتھیار بھی بے کار تھے اور فوج نکمی
ہمت ہے سر انجام مہمات کی کنجی
ہمت ہی حقیقت میں ہے توفیق الٰہی
ہمت ہی بنا دیتی ہے مفلس کو تونگر
ہمت کے سفینہ کا اٹھادیجئے لنگر
ہمت ہے اگر تم میں تو میدان لیا مار
ڈٹ جاؤ کمر باندھ کے ہشیار، خبردار
اوروں ہی کے گنڈے پہ نہ رہنا کبھی زنہار
ہونے نہ دو اعزاز کے جھنڈے کو نگونسار
لو ہاتھ میں اب تم بھی کوئل پین کی تلوار
اس معرکہ سخت میں مردانہ کرو وار
ہاں قوت بازو سے بلا شرکت غیرے
آگے کو بڑھو کھول دو نصرت کے پھریرے
قسمت کی برائی ہے نہ تقدیر کا ہے پھیر
خود اپنے ہی کرتوت سے برپا ہے یہ اندھیر
تحصیل فضائل میں جوانو، نہ کرو دیر
فرصت کو اگر اور مگر میں نہ کرو تیر
بزدل نہ بنو حق نے بایا ہے تمھیں شیر
کہسار بھی ہو تو اسے کر دو زبر و زیر
یلغار کرو علم کے میداں میں عزیزو
آخر تو ہو تم قوم مسلماں میں عزیزو
جس (۱) بستی میں دیکھو نحوست ہے برستی
غالب ہے کہ ہو گی وہ اسی قوم کی بستی
گرتی چلی جاتی ہے ابھی جانب پستی
چلتی ہے فضولی کی سند، تیغ و دوستی
لے دے کے یہی جنس ہے اس دور میں سستی
فاقہ پہ ہے فاقہ مگر اب تک وہی ہستی
مل بیٹھ کے اندیشہ انجام نہ کرنا
روٹی ملے جس کام سے وہ کام نہ کرنا
خیل علما کی بھی حمیت ہوئی زائل
تبدیل رذائل سے ہوئے جملہ فضائل
مرتے ہیں مشیخت پے تفاخر پے ہیں مائل
چھپتے ہیں فریقین سے پر زہر مسائل
لاکھوں ہیں پڑے خنجر تکفیر کے گھائل
باعث ہیں جدل کے یہی فقیہہ مسائل
برپا ہے شب و روز یہاں چپقلش ایسی
عالم ہے لقب اور بہم کش مکش کیسی
(۱) یہ دو بند بھی منجملہ ان پانچ بندوں کے ہیں جو اب تک آثار سلف کے کسی اڈیشن میں شائع نہیں ہوئے تھے۔
٭٭٭
انسان (۱)
میں بھی کیا خوب ہوں مجھ پہ نہ کھلا راز اپنا
نہ تو انجام ہے معلوم نہ آغاز اپنا
شاید اس بزم میں ہے مرتبہ ممتاز اپنا
لیکن اوروں سے نرالا ہے کچھ انداز اپنا
ہوں تو بے قدر پہ مجموعہ کل عالم ہوں
میں ہی مسجود ملائک ہوں اگر آدم ہوں
ابرو باد و مہ و خورشید میرے کام میں ہیں
مرغ و ماہی و دو و دام میرے دام میں ہیں
آب و آتش میری خدمت کے سر انجام میں ہیں
کل جمادی و نباتی مرے خدام میں ہیں
مجھ میں قدرت نے عجب فضل و شرف رکھا ہے
میں نے فردوس کے میووں کا مزہ چکھا ہے
(۱) صرف دو بند ایک مسودہ میں ملے جا یہاں درج کئے گئے۔ مرتبہ ۱۸۸۰ عیسوی
٭٭٭
ترجیع بند
(۱) نالہ چند در فراق شیخ
اے، شاہ یگانہ زمانہ
اے، بحر محیط بے کرانہ
کیوں اہل نیاز کے سروں سے
خالی ہے یہ سنگ آستانہ
وہ محفل انس اب کدھر ہے
یارب ہے، کہاں وہ کارخانہ
وہ بزم نہ وہ جمال ساقی
وہ جام نہ وہ مئے خانہ
وہ طور ہے اب نہ وہ تجلی
وہ وقت ہے اب نہ وہ زمانہ
کیا ہو گیا، جلوہ سحر گاہ
کیا ہو گئی، صحبت شبانہ
ہے دل میں ابھی وہی تصور
ہے یاد ہنوز وہ فسانہ
وہ فصل نہ وہ بہار باقی
وہ گل نہ چمن نہ آشیانہ
رہتی ہے اچاٹ سی طبیعت
ملتا ہی نہیں کہیں ٹھکانہ
جان حسرت دید میں طپاں ہے
دل تیر فراق کا نشانہ
ساحل پر پڑے ہیں سب مسافر
کشتی کس طرف ہوئی روانہ
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے، کعبہ خاص و قبلہ عالم
تھی تیری گلی مقام احرام
تھا امن جاں حریم اقدس
آغاز کا غم نہ خوف انجام
سب محو تھے ظل عاطفت میں
خطرات و خیال و فکر و اوہام
اس بحر محیط میں تھے سب گم
نیکی و بدی و کفر و اسلام
پر شور تھے بے لب و دہاں ہم
سر مست بدون بادہ و جام
مشغول جمال بے سر و چشم
مصروف سفر بغیر اقدام
دریا ہوا اک عطا سے قطرہ
پختہ ہوا اک نگاہ سے خام
کیخسرو و کیقباد سے بھی
تھے بخت بلند تیرے خدام
دیکھا اب ہجر چار ناچار
دیکھی فرقت بھی کام نا کام
کہہ دیجیو اے نسیم، یہ بات
لے جائیو اے صبا، یہ پیغام
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
ہوتی ہے جہاں میں کم کوئی ذات
بے علت و نسبت و اضافات
خورشید تھا وہ وجود با جود
دریا تھی وہ ذات فیض آیات
دیرینہ نہنگ بحر توحید
مردانہ قلندر خرابات
سلطان جہاں ترک و تجرید
شہباز معارف نہایات
نے میل مراتب و مدارج
نے رغبت کشف نے کرامات
ملتی تھی مراد طالبوں کو
اس در سے بدون عرض حاجات
اس بات کی ہو گئی گرہ وا
دل میں بھی نہ تھی ہنوز جو بات
خلوت میں ترا جمال مفتاح
جلوت میں ترا کلام مشکواہ
کیا تھی ؟ وہ نظر سحاب رحمت
کیا تھا ؟ وہ زمانہ فصل برسات
وہ وقت نہ وہ زمانہ افسوس
وہ لطف نہ وہ بہار ہیہات
اک آن کی آن تھی حضوری
اک بات کی بات تھی ملاقات
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے بحر حقیقت خدائی
اے جلوہ شان کبریائی
باقی نہیں کوئی مشغلہ اب
رندی ہی رہی نہ پارسائی
شاہی کا نہیں خیال سر میں
جی میں نہیں حسرت گدائی
نے بند قفس نہ شوق پرواز
باقی ہے نہ قید نے رہائی
نے حرص و ہوا نہ کچھ توکل
نے برگ و نوا نہ بے نوائی
نے فکر قصیدہ ہائے عطار
نے ذکر حدیقہ سنائی
نے قرب نوافل و فرائض
نے تنگ دلی نہ دلکشائی
بندہ نہ خدا نہ دین و دنیا
کی آپ نے خوب ہی صفائی
لیکن نہ مٹا غبار فرقت
ہر چند کہ طاقت آزمائی
مشکل ہوا کاٹنا دنوں کا
دشوار ہوئی تری جدائی
دل سینہ میں ہے کہ برق بیتاب
اندوہ کی اک گھٹا ہے چھائی
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
ایام وصال بھی تھے کیا دن
راتیں تھیں مراد مدعا دن
محسوس نہ تھا کہاں کٹی رات
معلوم نہ تھا کدھر گیا دن
کیا جلد گزر گئے وہ دن حیف
ہوتا کوئی اور بھی سوا دن
تھی رات بہت دنوں سے اچھی
راتوں سے زیادہ خوب تھا دن
تھی بزم وصال دن ہو یا رات
تھی دید جمال۔ شب ہو یا دن
دنیا میں بزرگ تھی وہی رات
تھا عمر میں بس وہی بڑا دن
ہر صبح عجیب۔ شام نادر
ہر رعات جدید۔ اور نیا دن
تھی دن کو خوشی کہ اب ہوئی رات
تھی شب کو مسرت اب ہوا دن
عالم کو زبس کہ ہے تغیر
رہتے نہیں ایک سے سدا دن
تھا خواب و خیال وہ زمانہ
بجلی ہوئی رات اور ہوا دن
دن رات یہی فغاں ہے لب پر
وہ رات رہی نہ وہ رہا دن
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے قبلہ عالم معانی
سلطان جہان بے نشانی
اے بحر معارف و حقائق
شاہنشہ ملک جاودانی
آگاہ مقاصد برونی
دانائے خواطر نہانی
یک رنگ و یگانہ و یک آئیں
بے فرق مکانی و زمانی
خصلت میں عجیب دلنوازی
عادت میں کمال مہربانی
تھی آپ پہ ختم بذلہ سنجی
تھی آپ پہ ختم نکتہ دانی
باتوں میں طریق دلکشائی
لفظوں میں ادائے خوش بیانی
تھے گوہر قدس وہ اشارات
اور غیب سے تھی درفشانی
القصہ وہ احسن القصص تھی
جو بات سنی تری زبانی
آیا نہ پسند یاں کا رہنا
برباد ہو یہ سرائے فانی
جو کچھ گزرا سو تھا فسانہ
جو کچھ دیکھا سو تھی کہانی
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے بحر کرم کے محیط نایاب
لب تشنہ ہیں ماہیان بے آب
اے لوح سفینہ مسرت
طوفان زدہ ہیں تمام اصحاب
پانی پت تھا بقا کا چشمہ
اب کیا ہے غم و الم کا گرداب
روتے ہیں یہاں کے سب در و بام
حوض و حجرہ۔ ستون و محراب
آتے تھے مدام تیرے مہمان
بنگالہ سے لے کے تا بہ پنجاب
جلوہ تھا یہ تیرے دم قدم کا
اب کیا ہے کہ مجتمع ہوں احباب
وحشت زدہ پھرتا ہے غلامی
اور غم زدہ مضطرب ہے نو آب
ملفوظ مبارک و گرامی
ہے زندگی حسن کا اسباب
ساحل ہے کہیں نہ تھل نہ بیڑا
سب بحر فراق میں ہیں غرقاب
افسوس ہوا نظر سے پہناں
وہ شمس منور جہاں تاب
اے ملک بقا کے جانے والو
کہہ دیجیو بعد عرض آداب
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
٭٭٭
(۲) ہفت درود محمود
۱
خلیل حق کی تھی جو اشارت
اور ابن مریم کی جو بشارت
ظہور احمد سے تھی عبارت
سمجھ گئے صاحب بصارت
کہ اب گری کفر کی عمارت
گھٹے گی فارس کی اب حرارت
مٹے گی روما کی اب شرارت
لٹے گی اب مصر کی امارت
خزانہ ہرقل کا ہو گا غارت
بڑھے گا تقوی بھی اور طہارت
ہے باغ اسلام کو نضارت
نیا ہے سلطان نئی وزارت
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل باصفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
۲
وہ اوج پیغمبری کا تارا
ہوا ہے مکہ میں جلوہ آرا
کرے گا جو ماہ کو دو پارا
وہ امتوں کے لئے سہارا
وہ جس نے اخلاق کو سنوارا
کرے جو صورت کوئی نظارا
مہابت اس پر ہو آشکارا
ہے زلزلہ میں جہان سارا
محل کسرے و ملک دارا
نہیں اطاعت سے اس کی چارا
یہود ہو یا کوئی نصاریٰ
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
۳
وہ جلوہ نور کبریائی
وہ صاحب دعوت خدائی
وہ عین تقوی و پارسائی
بنا بت خانہ اس نے ڈھائی
وہ قرب حق میں جسے رسائی
بمجتبائی و مصطفائی
ہے دھوم توحید کی مچائی
کہ خود بتوں نے بھی دی دہائی
عرب کو انسانیت سکھائی
دلوں سے کینہ کی کی صفائی
ہر ایک برائی کی جڑ مٹائی
مری ہوئی قوم پھر جلائی
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
۴
وہ علم و حکمت سکھانے والا
پیام حق کا وہ لانے والا
کلام حق کا سنانے والا
عذاب حق سے ڈرانے والا
وہ رسم بد کا چھڑانے والا
وہ جھل و بدعت مٹانے والا
وہ بت پرستی اٹھانے والا
وہ سیدھا رستہ چلانے والا
خدا پرستی بتانے والا
وہ عاصیوں کا بچانے والا
مقام محمود پانے والا
وہ بیت اقصی کو جانے والا
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
وہ جلوہ ہے نور کبریا کا
وہ صدر ہے بزم اصطفا کا
امام ہے خیل انبیا کا
ہے پیشوا مسلک ہدی کا
معین انصاف او وفا کا
مٹانے والا وہ جفا کا
طبیب ہے شرک و ریا کا
کہ خاص بندہ ہے وہ خدا کا
ہے آئینہ صدق اور صفا کا
وہ شاہ تسلیم و رضا کا
وہ قبلہ ہر شاہ کا گدا کا
وہ کعبہ ابرار و اصفیا کا
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
نبی امی لقب ہے اس کا
نسب میں خورشید ہاشمی تھا
نہ کچھ کسی سے پڑھا نہ لکھا
وہ ان پڑھوں میں ہوا تھا پیدا
نہ اس کے سر پر پدر کا سایا
نہ اس کو استاد نے پڑھایا
کہ اس پے روح الامین آیا
کلام ربی اسے سکھایا
وہ بحر اعظم تھا علم حق کا
نہ تھا وہ محتاج علم اشیا
اسے تھا مکشوف رمز اولی
اسے تھا معلوم سر اخری
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
وہ فخر آدم امان عالم
امین محکم رسول اکرم
محیط اعظم زغیب ملہم
بوحی محرم شہ مسلم
عرب کے اندر وہی معظم
عجم کے اندر وہی مکرم
لگا کے آدم سے تابہ ایں دم
ظہور اس کا ہے بعد آدم
وجود اس کا مگر مقدم
وہ نور حق تھا ولے مجسم
کیا مدینہ کو سبز و خرم
درود محمود بھیج پیہم
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
٭٭٭
قصائد
قصیدہ (۱)
قید سخت اور خانہ بے در
نکلوں کیوں کر جہان سے باہر
تنگ تر ہیں حدود خطہ خاک
نہیں دنیا میں کوئی شکل گزر
سعی بے کار فکر لاحاصل
نہ دوا میں نہ کچھ دعا میں اثر
نا شکیبا دل و پریشاں دل
پاؤں کا ہوش ہے نہ سر کی خبر
ایسا حیراں کہ میں سمجھتا ہوں
آئنہ کو بھی سد اسکندر
کبھی مثل سحاب ہوں گریاں
گاہ مانند برق ہوں مضطر
کیوں نہ شکوہ کروں نصیبوں کا
کیوں نہ افسوس آئے قسمت پر
میں ہوں شمشیر لیک زنگ آلود
کوئی مل جائے قدردان اگر
اس پہ کھل جائیں کچھ مرے اوصاف
اس پہ ظاہر ہوں کچھ مرے جوہر
آرزوئے زماں ہوں سرتاپا
حسرت روزگار ہوں یکسر
اپنے جوہر دکھائے کس کو
نہ رہی آہ قدر تیغ و سپر
یہ ہی الفاظ تھے زباں پر رات
کہ کہا مجھ سے عقل نے آ کر
نہیں شایاں شکایت تقدیر
نا مناسب ہے شکوہ اختر
جتنے گزرے ہیں آگے عالی فہم
رکھتے تھے روئے خاک پر بستر
جتنے گذرے ہیں صاحب اوصاف
مورد طعن خلق تھے اکثر
وہی ہو گا جو ہو لیا پہلے
یعنی کیا چارہ قضا و قدر
جس کو چاہے بنائے وہ گم نام
جس کو چاہے کرے وہ نام آور
رنج و محنت ہے گو زمانہ میں
ہے تجھے تو مقام شکر مگر
بخت ناکام کا تجھے کیا خوف
گردش چرغ کا تجھے کیا ڈر
تو نہ دنیا کے غم میں ہو پابند
تو زمانہ کا ہو نہ دست نگر
کہ ترا دست گیر ہے موجود
اور ترا سرپرست ہے سر پر
وہ سخاوت منش سخاوت کیش
وہ کرم پیشہ وہ کرم گستر
وہ شرف دوست وہ شریف نواز
وہ ہنر دوست وہ ہنر پرور
کوہ جس پر کرے تصدق لعل
بحر جس پر کرے نثار گہر
وہ زمانہ میں صاحب شمشیر
وہ رئیسوں میں قابل افسر
جس کو دکھلائے اشرفی خورشید
جس کو مریخ دے نذر خنجر
پیش کش ہے یہ مطلع ثانی
کہ قلم ہے رواں بطرز دگر
مطلع ثانی
اے قمر چہرہ آفتاب افسر
اے فلک مرتبہ زمیں کشور
اے ترا فہم رونق تدبیر
اے تری رائے عقل کا زیور
تیرے دم سے جہاں کا باغ امید
سبز و شاداب اور تازہ و تر
تیرے فیض کرم سے ارزانی
فقرا کو بھی دولت قیصر
بانگ پر قہر سے تری پیدا
ایک سناٹا دشت کے اندر
مژدہ مہر سے ترے برپا
شہر میں غلغل طرب گھر گھر
جب کہ بجتی ہے تیری نوبت صبح
گونج اٹھتا ہے گنبد بے در
ذکر انصاف کا ترے سن سن
ظلم خود کانپتا ہے اب تھر تھر
ٹھیرے انسان ملزم دزدی
گر ترے عہد میں چرائے نظر
ہے ترے احتساب کے ڈر سے
شکل خونناب بادہ احمر
غیر واجب بیاں نہ تم کو پسند
ظاہر آرائی کا نہ میں خوگر
مدعا عرض فن شعر نہیں
شرح احوال واقعی ہے مگر
ہو گیا اتفاق سے مجبور
کیا میں نے جو اختیار سفر
ورنہ دوری کسے گوارا تھی
مجھ سے اور چھوٹ جائے تیرا در
میں نمک خوار تو ولی نعمت
میں تہی دست تو کرم گستر
ہی وہی آستاں مرا مرکز
آسماں گرچہ لاکھ دے چکر
کہ رہا بندہ وار مدت تک
الفت خاص سے ترے در پر
اب ترے التفات بے حد کی
یاد میں کر رہا ہوں عمر بسر
طوطی ہند ہے زباں میری
اور ترا ذکر خیر ہے شکر
نہ مجھے حرص درہم و دینار
نہ مجھے آرزوئے لعل و گہر
چاہتا ہوں فقط یہی کہ رہے
گوشہ چشم التفات ادھر
پھر یہی کہہ رہی ہے کثرت شوق
کہ پے ہم رہوں ثنا گستر
نہ کوئی بذل میں ترا ہمتا
نہ کوئی عدل میں ترا ہمسر
بر پیادہ ترا تہمتن تن
ہر سپاہی ترا مظفر فر
سر دشمن بنے گل نیزہ
خون اعدا ہو جوہر خنجر
رہے جب تک جہاں میں زیبائش
رہے جب تک جہاں کو زیب دگر
تو ہو فرماں روائے اہل جہاں
اور اہل جہاں ہوں فرماں بر
دوستوں کو مدام عیش و نشاط
دشمنوں کو ہمیشہ خوف و خطر
(۱) یہ قصیدہ شیخ یعقوب علی مرحوم کی فرمائش سے ۱۸۶۹ عیسوی میں لکھا گیا تھا۔
٭٭٭
(۲) قصیدہ نا تمام (۱)
دکھاؤں شاید مضموں کی چین پیشانی
کہ ہووے چشمہ آئینہ غرق حیرانی
جو دیکھے جنبش لب ہائے جاں فزا اس کی
تو فرط شرم سے آب حیات ہو پانی
چمن میں گر وہ سراپا بہار جا نکلے
تو خار خار چمن بھی کرے گلستانی
جمال حسن یہی ہے تو ایک دن میں بھی
بلا کے خلوت دل میں بہ رسم مہمانی
حضور عالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاں صاحب
کہوں کہ آج دکھا جوہر ثنا خوانی
کہ جس کی را سے بہ آئین ملکی و مالی
معین رسم جہاں داری و جہاں بانی
اب اس کے عہد عدالت میں ظلم ہی نہ رہا
غلط ہے یہ کہ نیا یدز گرگ چو پانی
سنا جو شہرہ انصاف و داد خود آئی
عدالت از پئے پابوس۔ ہو کے دیوانی
بوقت صولت و سطوت۔ نگاہ برق و ماں
دم سخا و کرم۔ ہاتھ ابر نیسانی
طریق داد میں پیدا ہے عدل فاروقی
امور دین میں ظاہر ہے حیاے عثمانی
(۱) بمقام سہارنپور ۱۸۶۹ عیسوی میں لکھا گیا تھا
٭٭٭
(۳) قصیدہ
ایک پرانے مسودے میں سے یہ چند اشعار مل گئے جو یہاں درج ہیں۔
یہ قصیدہ میرے مرحوم دوست ڈپٹی نجم الدین صاحب دہلوی کی فرمائش سے لکھا گیا تھا۔ مرتبہ ۱۸۷۰ عیسوی
رنگ فریب سادگی دل میں ہے نہاں
افزائش یقین نہیں ہے بے کا ہش گماں
دل تنگ ہے کثافت چار آخشیج سے
باطن میں گو لطائف ستہ ہوئے رواں
ہے پردہ پوش ویو بد آموز آشکار
فرخ سروش اٹھائے اگر برقع نہاں
خاطر نشاں ہے غفلت عیش معاصریں
گر دل نشین ہے عبرت حال گزشتگاں
وہاں دست برد جہل بھی وہم آفریں نہیں
جس میکدہ میں پائے خرد ہو نہ درمیاں
آسائش کدورت باطن ہے وہ بلا
سعی صفائے قلب کو سمجھے بلائے جاں
دل میں ہجوم وسوسہ پیدا کرے خطر
خاطر پر گر سرایر مکتومہ ہوں عیاں
ہو تیرگی جسم کو یہ خاک داں فضا
زنداں ہو بہر روح جو یہ تیرہ خاکداں
غفلت کو ہو بقیہ دو روزہ پر غرور
اندیشہ کو اگر ہو غم عمر رائگاں
تھا دل میں حشر و نشر تخیل یہی کہ جہل
بالیں پہ میرے بیٹھ گیا آ کے ناگہاں
کہنے لگا تجھے نہ دکھاؤں گا تا بہ حشر
علم و کمال و فضل کے ثمرہ میں عز و شاں
اے خفتہ بخت طالع بیدار کی طرح
تجھ کو ملے نہ دولت بیدار کا نشاں
سرمہ ہو یا ہو خال مگر تیرہ روزگار
تجھ سا نہ نکلے ہند سے لے تاباصفہاں
مل جائیں خاک میں ترے افکار دور بیں
ثابت بھی گرچہ کر دے تو خرق آسماں
شعلہ کی طرح تجھ کو میں بے تاب ہی رکھوں
اور آگ کی مثال تہ ظلمت و خاں
سینہ کو تیرے چاک کروں میں برنگ گل
لیکن بنا کے داغ تمنا سے گلستاں
شبنم کی طرح تجھ کو رولاؤں دم سحر
خونیں کفن بناؤں سر شام لالہ ساں
پایان کار ایسا بنے ننگ روزگار
بیٹھے جو تو کہیں تو اٹھے شور الاماں
رہ جائے ایسا بیکس و بے یارو بے دیار
ہو کوئی تیرا دوست نہ مونس نہ مہرباں
کیا تاب ہے کہ تو مرے چنگل سے چھوٹ جائے
اور چھوٹ جائے بھی تو بھلا جائیگا کہاں
امضا پریر جانب مغرب ہے میرا حکم
مشرق میں بھی ہے سکہ ترے نام کا رواں
سرحد خاک چین سے اقصائے روم تک
تیغ و نگین ہے مجھ کو مسلم بہر زماں
میں حالت سکوت میں سنتا رہا بغور
اس یاوہ گو کی ہرزہ و بے صرفہ داستاں
کافور ہو گئے وہ خیالات سابقہ
چلنے لگی زباں کہ مری طبع تھی رواں
اے جہل رو سیاہ و تبہ کار و لاف زن
گو بخت واژ گونہ و بے مہر آسماں
لیکن تجھے خبر بھی ہے یہ کس کا دور ہے
ہے آج کون داور دارائے داوراں
اے جہل اس کے ظل حمایت میں ہوں میں آج
ہے جس سے پرچم علم علم زرفشاں
آسودہ زیر سایہ فیض عمیم ہوں
وہ سایہ جس کے سامنے خورشید ہے کتاں
چمکا ہے یہ ستارہ علم ان دنوں کہ ہیں
جلباب لیل میں سبق آموز روشناں
کچھ روشنان چرخ ہی پر کیا مدار ہے
مرغان گلستاں میں بھی ہے درس بوستاں
اک درس بوستاں پہ نہیں منحصر سبق
نہر الفصاحت ان کے لئے جدول رواں
ہر جدول رواں میں ہے طغرائے دل فریب
یعنی کہ سبزہ تازگی افزائے جسم و جاں
سبزہ سے ہیں معانی بیگانہ آشکار
کیا متن گلز میں ہے پئے مرغ صبح خواں
لمعان آفتاب سے جوں رنگ شب اڑے
کھویا فروغ علم نے یوں جہل کا نشاں
پیدا ہے شوق علم کہ کرتا ہے روز و شب
خورشید بھی مساحت ساحات آسماں
شب گرچہ کم سواد ہے پر نور علم سے
اس نے بھی ہیں مسائل ہیئت کئے بیاں
بہر نبات نعش معلم ہے چرخ پیر
روشن اسی غرض سے ہے شمع ستارگاں
اب کر دیا ہے سیر کواکب نے آشکار
تھا راز علم گنبد افلاک میں نہاں
اے معدلت پناہ و پناہ جہانیاں
سرمایۂ فضلیت و علامہ زماں
خورشید مجدد شمع شبستاں مکرمت
نیسان جود و بر بہاران امتناں
عز و جلال میں بیداے بے قیاس
فضل و کمال و علم میں دریائے بے کراں
ہے تیرا دست جود کف بحر سے وسیع
پائے زعلوئے مرتبہ بالائے فرقداں
تدبیر مملکت میں تری رائے معتبر
قانون سلطنت میں ترا فہم نکتہ داں
زیبا ہے تجھ کو طبل و علم پرچم و لوا
شایاں ہے تجھ کو خیل و خدم لشکر گراں
٭٭٭
(۴) خشک سالی (۱)
نہ آئی۔ پر نہ آئی پر نہ آئی
گھٹا نے بول دی بالکل صفائی
اگر آئی تو کی لے دے ہوا نے
سواری اور جانب کو بڑھائی
گئے دریا اتر۔ تالاب سوکھے
کجائی ابر دریا دل کجائی ؟
نہ صحرا میں دل آویزی کا انداز
نہ بستاں میں ادائے دل کشائی
نہ صحن باغ میں طوطی کا نغمہ
نہ شاخ گل پہ بلبل چہچہائی
زمین چٹیل ہے کورا آسماں ہے
ہوئی اب کے برس اچھی صفائی
نہ روئے مل کے ساون اور بھادوں
ہوئی ہے ترک باہم آشنائی
نہ تانا شامیانہ ابر تو نے
نہ اب کے رعد نے نوبت بجائی
نہ وہ جگنو نہ وہ راتیں اندھیری
نہ وہ کالی گھٹا گھنگور چھائی
نہ پرنالے چلے اب کے دھڑا دھڑ
نہ گزری کی سڑک رو نے بہائی
نہ وہ سن سن نہ وہ جھونکے ہوا کے
نہ بجلی نے چمک اپنی دکھائی
نہ وہ برسات کے کیڑے پتنگے
نہ مینڈک نے زمیں سر پر اٹھائی
کہاں بادل کہاں بجلی کہاں مینہ
پریشانی سی ہے دنیا پہ چھائی
نہ اے بھادوں بھرن برسائی تو نے
نہ اے ساون جھڑی تو نے لگائی
نہ موروں نے کیا کچھ شور برپا
نہ کویل ہی نے دھوم اب کے مچائی
نہ ٹپکیں بوندیاں پتوں سے ٹپ ٹپ
نہ دل کش راگنی چڑیوں نے گائی
نہ رنگا رنگ بادل آسماں پر
نہ چھت پہ گھاس دیواروں پہ کائی
نہ کیچڑ ہے نہ پانی ہے نہ سبزہ
نہ مینہ برسا نہ کھیتی لہلہائی
ترستے ہیں برستا ہی نہیں مینہ
سسکتی ہے پڑی ساری خدائی
بہت رو کر دعائیں سب نے مانگیں
گھٹا روئی نہ بجلی مسکرائی
ہوئی برباد کھیتی تھک گئے بیل
گئی گزری کسانوں کی کمائی
نہیں بیچارے حیوانوں کو چارہ
ہے انسانوں کو فکر بینوائی
بہت مزدور بیٹھے ہیں نکمے
نہیں اب کوئی حیلہ جز گدائی
سمندر کیا ہوئے تیرے بخارات
صبا، تو کیوں اڑا کر لے نہ آئی
بلائے قحط ہے ہندوستاں میں
ہے روم و روس میں برپا لڑائی
خدایا جلد قحط اور جنگ ہوں دور
ملے سب کو مصیبت سے رہائی
خدایا رحم کر، جاں لب پہ آئی
تری مخلوق دیتی ہے دہائی
(مرتبہ ۱۸۷۰ عیسوی )
٭٭٭
(۵) عیدی شب برات (۱)
بگڑی ہے کیا انار پٹاخوں کی اب کے بات
ساون میں اتفاق سے آئی شب برات
بارود ہے خراب پٹاخے ہیں پھسپھسے
کم زور ہیں انار چھچوندر ہے واہیات
مہتاب میں مزہ ہے نہ کچھ پھلجھڑی میں لطف
پیسے ہمارے مفت گئے یونہی آٹھ سات
پیسے گئے فضول تو خیر اس کا غم نہیں
ہے سال بھر کے کھیل کی یہی زکواۃ
پاتا ہے اس جہان میں کچھ کھو کے آدمی
آئندہ ایسے کھیل پے ماریں گے ہم بھی لات
بس چھوڑو کھیل کود کہ حلوا ہے گرم گرم
شامل ہے جس میں ذائقہ قند اور نبات
شیریں ہے خوش قوام ہے چٹ کیجئے اسے
حلوہ کی چاشنی سے ہے مصری بھی آج مات
بدعت کہو گناہ کہو یا چٹور پن
اچھا نہیں سمجھتا اسے زمرہ ثقات
بچوں کے واسطے ہے خورد و نوش کھیل کود
اصحاب اتقا کے لئے صوم اور صلوات
جاگیں گے آج اہل عبادت تمام شب
درگاہ کبریا سے کریں گے طلب نجات
سرکار حق میں پیش حساب و کتاب ہے
تقسیم رزق اور رقم موت اور حیات
اس واسطے دعا و طلب میں مبالغہ
کرتے ہیں تاکہ ان پہ ہو زیادہ التفات
اہل نظر ہیں وہ کہ جنھیں یہ خیال ہے
کیا مانگئے کہ ہیچ ہے یہ جملہ کائنات
برکت ہے اپنے حال میں نے ماہ و سال میں
ہر دم عیاں ہے ذات وہی باہمہ صفات
کیا ذات کیا صفات نہیں فرق و امتیاز
ہے ایک حال ایک نظر اور ایک بات
صاحب نظر کو فرق شب و روز کچھ نہیں
ہر روز عید ہے ہر شب شب برات
جو کچھ کہ ہے خیال میں خواب و خیال ہے
لے کر ازل سے تا بہ ابد کل معاملات
سرکار کے بنائے ہوئے ہیں یہ سب عدد
اور عالم شہود ہے گویا شب برات
بارود ایک سی ہے مگر وزن ہیں جدا
ہیں مختلف ظہور میں آثار اور صفات
سہرہ ہو پھلجھڑی ہو پٹاخا ہو یا انار
سب میں بھری ہوئی ہے وہی ایک پاک ذات
ہر چیز کا ہے وزن معین جنچا تلا
اک آن کی نمود ہے بے اصل و بے ثبات
چھٹنے کے بعد پھر نہ رہا یہ نہ وہ رہا
آخر کو ڈھاک کے نظر آتے ہیں تین پات
جو زور و شور تھا سو حقیقت میں کھیل تھا
جب ہو چکا تمام یہ سرمایۂ حیات
دکھلا کے اپنا رنگ فنا ہو گئے تمام
عقل و قیاس و فکر و خیال و توہمات
ہے اصل نور و نار فقط ذات بے نشاں
دھوکا نگاہ کا ہے قیود تعینات
مستور ہے ظہور میں ظاہر بطون میں
بے رنگ و بے نشان ہے بے کیف و بے جہات
شانیں جدا جدا ہیں تجلی تو ایک ہے
کعبہ ہو ہردوار ہو یا دیر سومنات
عیدی ہو یا قصیدہ۔ رباعی ہو یا غزل
معنی میں مشترک ہیں بکثرت ہیں گو لغات
ظاہر میں شاعری کا زٹل قافیہ سہی
فہم درست کو یہ لطائف ہیں اور نکات
حامد شب برات کی عیدی ہے با مزہ
لکھوانی چاہتے ہو۔ تو لاؤ قلم دوات
(۱) ۱۲۹۷ ہجری مطابق ۲۲ جولائی ۱۸۸۰ عیسوی موافق ساون ۱۹۳۷ بکرمی
٭٭٭
(۶) عیدالفطر (۱)
اب کے رویت میں آگیا ہے خلل
رمضان ایک اور عید ڈبل
یعنی انتیس تیس اٹھائیس
کیا تواریخ میں پڑا ہے بل
آج چکھی کسی نے افطاری
کوئی روزہ ہی کو گیا ہے نگل
دی کسی نے شہادت کامل
کوئی سمجھا اسے کہ ہے یہ زٹل
نو بجے دن کے بج گیا دہونسہ
روزہ داروں میں پڑ گئی ہل چل
خشکی روزہ شدت گرمی
کر رہی ہے دماغ کو مختل
آج برپا ہے عام جوش و خروش
ہوئی آپس میں خوب رد و بدل
جا پڑا دیو بند میں پہلے
چاند کا بھی گیا تھا پانوں پھسل
ایک دن تک وہیں رہا ناچار
سب کی آنکھوں سے ہو گیا اوجھل
کہیں جھگڑا کہیں لڑائی ہے
ایک کو غصہ ایک کو جھونجھل
کوئی سمجھا رہا ہے ملا جی
کس لئے کر رہے ہو جنگ و جدل
گو اٹاوہ میں چھپ گیا فتوی
علما کا نہیں ہے اس پہ عمل
بست و ہفتم کو چاند دیکھ لیا
خود غلط تھی شہادت اول
دیکھ کر اختلاف دنیا کا
یاد آئی ہے مجھ کو ایک مثل
کون سی ہے مجھے بتا تو سہی
اونٹ رے اونٹ تیری سیدھی کل
چاند کے اختلاف نے اب کے
میری عیدی کو کر دیا مہمل
کیوں پڑے ہو تم اس بکھیڑے میں
ہوا جو کچھ یہی تھا حکم ازل
ہیں زمانے کے کام رنگا رنگ
نہ ہوا ہے نہ ہو یہ عقدہ حل
نہیں چون و چرا کی گنجایش
لنگ ہے اس جگہ پہ رخش علل
عید کے واسطے نہیں درکار
قمر و مشتری و شمس و زحل
مدت دھر آن واحد ہے
غلطی پر ہے دیدہ احول
ہے یہ نیرنگ کی نموداری
آسمان و زمین مکان و محل
ختم روزے ہوئے نماز پڑھو
بعد حمد خدائے عزوجل
عید ہی عید ہے کوئی دن ہو
ہم کو یکساں ہے پیر اور منگل
وہی ظاہر ہے اور وہی باطن
وہی آخر ہے اور وہی اول
(۱) مرتبہ ۱۸۸۰ عیسوی
٭٭٭
(۷) نذرانہ پیر جی (۱)
قعر دریا میں نہ طوفاں ہے نہ موج و گرداب
خشک ہے آب رواں بحر میں قطرہ نایاب
نہ تو حاصل میں طلب ہے نہ طلب میں حاصل
خبط ہیں جملہ سوال۔ اور ہیں بیہودہ جواب
نہ پتا ہے نہ ٹھکانا نہ کوئی راہ و مقام
یعنی الآن کما کان نہ مبدا نہ مآب
نہ ادھر کوئی مزہ ہے نہ ادھر بدمزگی
رونق صومعہ باقی نہ خرابات خراب
ہیں تو ہر قسم کے مطلب مگر اس نسخہ میں
نہ کوئی لفظ نہ جملہ۔ نہ کوئی فصل نہ باب
بھوکے مرتے ہیں شکم سیر۔ پیاسے ہیں غریق
خاک صحرا میں نہیں آب کے جویا تالاب
ایک ثمرہ ہے یہاں غفلت و آگاہی کا
خواب اعمی ہے مگر حالت بیداری و خواب
وہی ہوتا ہے جو پہلے سے ہوا رکھا ہے
نہ طریقہ ہے خطا کا نہ کہیں راہ صواب
نہ تو بے کار تسلی ہے نہ آرام بکار
نہ سفینہ ہی رواں ہو نہ یہ دریا پایاب
خواہش وصل غلط۔ سعی تقرب بے سود
نہ کوئی واسطہ حائل ہے نہ پردہ نہ حجاب
نہ مکاں ہے نہ در و بام ہے ویرانہ میں
بتکدہ ہے نہ کلیسا ہے نہ طاق و محراب
نہ کوئی دوست دشمن نہ مخالف نہ رفیق
نہ کوئی قابل رحمت۔ نہ سزاوار عتاب
یہ نہیں وہ بھی نہیں کہتے ہیں کہنے والے
اور جو پوچھو کہ وہ ہے کیا ؟ تو نہیں کچھ بھی جواب
آج نذرانہ بہ تعجیل کیا ہے تیار
منتظر ریل کے ہیں پیر معلی القاب
(۱) پیر جی غلام محمد صاحب مرحوم وکیل و رئیس لدھیانہ مصنف کے برادران طریقت میں سے تھےجن کے واسطے یہ نذرانہ ۱۸۸۱ عیسوی میں مرتب کیا گیا۔
٭٭٭
(۸) نذرانہ پیر جی (۱)
نہ جدائی ہوئی کبھی نہ وصال
ہے یہ قرب و وصال وہم و خیال
کنج وحدت ہے غیر سے خالی
کہ گمان دوئی ہے امر محال
بحر وحدت میں سب ہیں مستغرق
روح و جسم و حواس و علم و کمال
جنبش موج ہے یہ ہنگامہ
شادی و رنج و خرمی و ملال
نقش بر آب ہیں یہ سب حرکات
ذکر و فکر و وظائف و اشغال
کیا ہے اس جدوجہد سے حاصل
ثمرہ و سبزہ نہر و نخل و نہال
نہ یہاں شاہدی و مشہودی
دست بے یار و پائے بے خلخال
ہے یہاں نسبت و اضافت ہیچ
ہستی و نیستی بھی ہے پامال
نہ بدایت ہے نے نہایت ہے
نہ امید بقا۔ نہ بیم زوال
نہ تو مسلک ہے۔ نہ منزل مقصود
نہ طریق و روش نہ راہ و مجال
آن واحد ہے جو ہوا سو ہوا
وقت ماضی یہاں نہ استقبال
جنس خود مشتری و خود قیمت
مشتری خود ہے جنس کا دلال
عشق گوہر نے کر دیا مفلس
ورنہ کان گہر ہے مالا مال
طلب و جستجو ہے گمراہی
شوق پرواز نے بچھایا جال
بے تعلق نہیں تلاش و طلب
بے تخیل نہیں ہے فکر مآل
رہنمائی ہے وجہ راہزنی
ہو گئے نامہ و پیام وبال
کی جو فکر و قیاس نے حرکت
ہوئی پیدا شبیہ و شکل و مثال
خالقیت ہے باعث مخلوق
موجب نقص ہو گیا ہے کمال
بعد ہے قرب کی طلبگاری
جمع نے تفرقہ دیا ہے ڈال
کامیابی ہے وجہ ناکامی
بحر و اشتیاق آب زلال
تپش آفتاب وحدت سے
جلتے ہیں مرغ عقل کے پر و بال
دل ہے گویا زبان ہے خاموش
سطح میداں فراخ و تنگ مجال
اس خرافات کو کریں منظور
پیر لدھیانوی گرو گھنٹال
(۱) پیر جی غلام محمد صاحب مرحوم وکیل و رئیس لدھیانہ مصنف کے برادران طریقت میں سے تھے جن کے واسطے یہ نذرانہ مرتب کیا گیا۔
٭٭٭
(۹) جریدہ عبرت
عذر تقصیر۔۔۔۔۔ ابتدائی اشعار سے ظاہر ہے کہ اس ناچیز قصیدہ کے موزوں کرنے کا خیال کس طرح میرے دل میں پیدا ہوا۔ اس وقت طبیعت پر ایک ایسی کیفیت طاری تھی جس نے اس ہرزہ گوئی پر مجبور کیا ورنہ مجھکو نہ شعر و شاعری سے رغبت نہ اس فن کی مہارت نہ اتنی فرصت اور سچ یہ ہے کہ نہ اس کام کی لیاقت جو کچھ لکھا گیا صرف مقتضائے طبیعت تھا۔ اقتباس از دیباچہ طبع اول۔ یکم نومبر ۱۸۸۵ عیسوی
میں شاعرانہ روش پر نہیں قصیدہ نگار
یہ ایک سادہ سی گزارش ہے یا اولی الابصار
کہ اب کے ماہ محرم کی ساتویں تاریخ
گیا جو گھر سے قضارا، بجانب بازار
تو دیکھتا ہوں کہ گزری میں ایک اکھاڑا ہے
اور اتنی بھیڑ کہ نہیں جس کا حساب و شمار
ہیں دو حریف مقابل لئے پھری گتکا
ہر ایک فن پھلیتی میں طاق اور طرار
جو اس نے پانوں بچایا تو اس نے سر تاکا
دکھایا چہرہ تو پہلو پے جا کیا ہے وار
عجیب ٹھاٹ نئے پیترے غضب پھرتی
نرالے ڈھنگ سے کرتب کا کرتے ہیں اظہار
چلا ہے ایک بنیٹی کا باندھ کا چکر
کھڑا ہے ایک لئے سیف لڑ رہا ہے گوہار
میں اپنے دل میں لگا کہنے کیا حماقت ہے
مٹے ہوئے ہیں جو اس فن پہ یہ خدائی خوار
یہ کھیل محض نکما ہے بلکہ بیہودہ
جو دیکھتا ہے۔ سو ہنستا ہے زیر لب ناچار
سپہ گری کا یہ فن تھا کسی زمانہ میں
نہ وہ زمانہ رہا اب۔ نہ صورت پیکار
کہاں ہیں اب وہ دلیران صف شکن باقی
کہ ان فنون پے ہوتے تھے جان و دل سے نثار
ہزار سے نہ دبے لاکھ سے نہ منہ موڑا
جو ڈٹ گئے کسی میداں میں کھینچ کر تلوار
نہ اب بکیت کو پوچھے کوئی نہ رادت کو
نہ تیر ہے نہ کماں ہے نہ بانک ہے نہ کٹار
نہ اس کمال کی پرسش نہ اس ہنر کی قدر
نہ جنگ کا یہ طریقہ رہا۔ نہ یہ ہتیار
نہ جس میں دین کا ہو فائدہ نہ دنیا کا
تو پاس پھٹکے نہ اس کام کے کوئی ہشیار
جواب دل نے دیا یوں۔ کہ مت تعجب کر
میں اس سے بڑھ کر سناؤں زمانہ کے اطوار
شاعر
سخنوران زماں کی بھی ہے یہی حالت
کہ اس قدیم ڈگر کو نہ چھوڑے زنہار
سوائے عشق نہیں سوجھتا انہیں مضموں
سو وہ بھی محض خیالی گھڑت کا اک طومار
نہ لکھتے ہیں کبھی نیرنگ حکمت و قدرت
نہ واقعات کے وہ کھینچتے ہیں نقش و نگار
ہے شاعری میں یہ پہلا اصول موضوعہ
کہ جھوٹ موٹ کے بن جائیں ایک عاشق زار
تمام اگلے زمانہ کا ہے یہ پس خوردہ
کہ کر رہے ہیں جگالی وہ جس کی سو سو بار
نہ ننگ ہے نہ حیا ہے نہ شرم و غیرت و عار
جو اپنے فخر پہ آئیں۔ تو بس کریں تسخیر
حدود ہند سے لے تابفارس و تاتار
ہے ایک غار میں پانی سڑا ہوا لبریز
پڑا ہے نیم کا پتہ اور اس پہ پشہ سوار
وہ پشہ آپ کو سمجھا ہے نا خدائے جہاز
اور اس سڑے ہوئے پانی کو لجہ زخار
اسی طرح ہمارے زمانہ کے شاعر
سمجھتے اپنی خرافات کو ہیں عین وقار
مبالغہ ہے تو بیہودہ عقل سے خارج
ہے استعارہ تو بے لطف اور دور از کار
کیا ہے نام زٹل قافیہ کا اپنے سخن
وہ کنکری ہے جسے کہتے ہیں در شہ وار
جو ان کے دیکھئے دیواں تو بور کے لڈو
غلیظ و گندہ و سراسر نتیجہ افکار
وہی ہے شاعر غرا جو بے تکی ہانکے
یہی ہے شعر کا اس دور میں بڑا معیار
یہ ان کی طبع بلند اور معنی رنگین
جو طبع گد ہے تو معنی سڑا ہوا مردار
نہ جس سے طبع کو تفریح ہو نہ دل کو خوشی
غزل ہے یا کوئی ہذیان ہے بوقت بخار
نمونہ غزل
صفت ہے دوست کی جلاد و ظالم و غدار
اتم شعار۔ دل آزار بے وفا۔ مکار
ہے دلبروں کی بھی شامت نہ منہ رہا نہ کمر
بجائے زلف کے دو اژدہوں کی ہے پھنکار
یہ آپ کے گل عارض وہی ہیں باسی پھول
پڑی ہے نزع کی حالت میں نرگس بیمار
جو ٹون ہال کی محراب ہے خم ابرو
تو ہے مژہ بھی پولیس کے سپاہیوں کی قطار
زنخ کنواں ہے کہ جس میں ڈبو چکے لٹیا
بھنور ہے ناف۔ کہ جس سے نہ ہو گا بیڑا پار
شب فراق کا دکھڑا اگر کریں تحریر
تو ایشیا کو ڈبو دیوے دیدہ خوں بار
وہی لنڈوری ہے قمری۔ تو پر نوچی بلبل
وہی ہے سرو کا ٹھنٹھ اور طول قامت یار
جو ناصحوں سے ہے کھٹ پٹ تو زاہدوں سے چخٰ
جو ساقیوں سے لگاوٹ تو مغبچوں سے پیار
غریب شیخ پہ ہر دم دلتیاں جھاڑیں
کریں مساجد و کعبہ سے فرار
کہاں ہے ان کا ٹھکانا۔ کدھر ہے ان کا مقام
وہی ہے بیت صنم اور خانہ خمار
بگھارتے ہیں تصوف تو کون دے گا داد
کہاں ہیں سعدی و حافظ۔ سنائی و عطار
کریں گے اس قدر ایمان و دین کی تفضیع
کہ گویا ہیں کوئی ہفتاد پشت کے کفار
اگرچہ ہاتھ میں تسبیح ہلب پہ ہو توبہ
بنیں گے شعر میں ہاں مے پرست و بادہ گسار
ہے چرخ پیر تو مدت سے شاعروں کا پیر
پہ کوستے ہیں اسے یہ مرید ناہنجار
جمال یوسف و اعجاز عیسی و موسی
ہیں ان کی گندہ دہانی کے سامنے سب خوار
نہ کچھ خدا کا لحاظ اور نہ انبیا کا ادب
یہ ان کی نور بھری شاعری،، خدا کی مار
ہے ان کی طبع دنی عنکبوت کا جالا
اور ان کی بندش مضموں ہے مکھیوں کا شکار
کسی عمارت رسی کا گر بیان کریں
محیط کون و مکان اس پہ تنگ ہو ناچار
جو اس کی نیو ہو گاؤ زمین کے سم سے پرے
تو اس کا کنگرہ بالائے گنبد دوار
وہ توڑتے نہیں لقمہ مبالغہ کے بدوں
بغیر بہنگی کی جس طرح چل سکے نہ کہار
سدا دروغ کی کرتی ہیں مکھیاں بھن بھن
چپک رہا ہے لبوں پر جو شیرہ گفتار
لکھیں جو قصہ تو دیو و پری کا افسانہ
لگا دیں کذب کے ڈھیر اور جھوٹ کے انبار
کریں چڑیل کو حوران خلد سے نسبت
بنائیں اونٹ کٹیلی کو گلشن بیخار
جب ان پہ ہوتے ہیں مضمون مبتذل وارد
تو گویا عرش سے اتری چمار کو بیگار
کریں جو مدح کسی چر کٹے کی وہ بالفرض
تو پھر سکندر و دارا ہیں اس کے باج گزار
بنائیں اس کے تئیں بر و بحر کا سلطاں
جو فی المثل ہو کسی کوردہ کا نمبردار
لکھیں وہ دھوم کہ ہو گرد جشن جمشیدی
جو رقعہ شادی کا لکھوائے کوئی ساہوکار
بنانا پر کا کبوتر تو ہے بہت آسان
سوئی کو پھاولہ کہنا تو کچھ نہیں دشوار
ہے سچ تو یہ کہ انھیں شاعروں کے قالب میں
لیا ہے جھوٹ نے کلجگ میں آن کر اوتار
مشاعرہ ہو۔ تو لڑتے ہیں جیسے ٹینی مرغ
لہولہان ہیں پنجے شکستہ ہے منقار
وہ خود فروش بنے آج اوستاد زماں
کہ جن سے کوئی ٹکے سیکڑا نہ لے اشعار
اگر سنیں کہ ہوا ہے فلاں رئیس علیل
تو پہلے قطعہ تاریخ کر رکھیں تیار
اجڑ گئے ہیں وہ تھان اور لد گئے ڈیرے
جہاں کداتے تھے یہ بھانڈ کاغزیں رہوار
جہاں خوشامدیوں۔ شاعروں کی تھی بھرتی
اب ایسی کاٹھ کی الو نہیں کوئی سرکار
تو اب وہ پھرتے ہیں ناچار مانگتے پھرتے
بنا کے کاسہ گدائی کا پرچہ اخبار
کسی کی مدح سرائی کسی کی بد گوئی
اڈیٹری کی بھی کرنے لگے ہیں مٹی خوار
کلام دیکھو تو صورت حرام سر تا سر
سلاح بر درد کس نیست درمیان حصار
فلسفی علما
نہ شاعروں ہی پہ تنہا پڑے ہیں یہ پتھر
کہ عالموں کا بھی اس دور میں یہی ہے شعار
وہیں ہیں آج۔ جہاں تھے یہ دس صدی پہلے
گیا ہے قافلہ دور۔ اب ٹٹولتے ہیں غبار
وہی ہیں یاد پورا نے اصول یونانی
جنھیں علوم جدیدہ نے کر دیا بے کار
وہی قدیم زمانہ کا فلسفہ سڑیل
ہو جیسے کہنہ کھنڈر کی ڈھئی ہوئی دیوار
ہنوز فخر و مباہات اس پہ کرتے ہیں
وہ جن کے سر پر فضیلت کی ہے بندھی دستار
ہے درس میں وہی ترتیب مادہ اب تک
کہ پہلے خاک ہے پھر آب۔ پھر ہوا پھر نار
اگرچہ ہو گئے تحلیل خاک و باد اور آب
مگر ہیں علم میں ان کے وہی عناصر چار
ہے آسمان طواف زمین میں مصروف
ہے آفتاب ابھی چرخ چار میں پہ سوار
وہی ہے ڈھانچ پرانا نظام ہیئت کا
جڑے ہوئے ہیں فلک میں ثوابت و سیار
وہی ہے مسئلہ خرق والتیام ہنوز
کہ جس کا اب نہ کوئی مدعی نہ جانب دار
وہی حساب ہے لکھا ہے جو خلاصہ میں
گھٹے بڑھے گا نہ اک صفر تا بروز شمار
جو کہہ گئے ہیں فلاطوں اور بطلیموس
اسی کی بحث ہے اب تک اسی کی ہے تکرار
جو شرح چغمنی و میبذی میں لکھا ہے
زروئے کشف کھلے تھے وہ غیب کے اسرار
جو شمس بازغہ میں آ چکا سو ہے الہام
کہ ہے مسائل حکمیہ کا اسی پہ مدار
بھرا ہوا انھیں کج بحثیوں سے ہے منطق
کہ ایک کو جو کہیں دو تو پھر نہ ہو انکار
ہوا دلائل وہمیہ سے جو کچھ ثابت
تو پھر مشاہدہ بے سود تجربہ بے کار
نہ جن کے ہاتھ میں پیسہ نہ شکل کھانے کی
وہ کھائے بیٹھے ہیں اشکال منطقی پہ ادھار
دماغ خشک میں ان کے جو کچھ سمایا ہے
اسی کی پچ ہے وہی ڈینگ اور وہی اصرار
بسی ہوئی ہے ابھی تک وہی پرانی بو
کچھ ایسی پی ہے کہ گھٹتا نہیں ہے جس کا خمار
ہیں عاقلوں کے لئے آیت خداوندی
یہ آسمان و زمین اور نجوم پر انوار
نہیں ہے گوشہ خاطر کا اس طرف میلان
کہ غور کیجئے قدرت کے دیکھ کر آثار
ہے کس طریق پہ ارض و سما کی پیدائش
ہے کس کے قبضہ میں جمازہ جہاں کی مہار
ہے موسموں کی بھلا یہ الٹ پلٹ کیوں کر
کبھی عمل ہے خزاں کا کبھی ہے دخل بہار
کبھی کا دن ہے بڑا اور کبھی کی رات بڑی
یہ کس روش سے ہوا اختلاف لیل و نہار
یہ کس نے پھیر دیا موسمی ہوا کا رخ
یہ کیوں ہے باد تجارت کی متصل رفتار
نسیم بری و بحری میں چھیڑ چھاڑ ہے کیوں
کہ رات دن نہ اسے چین ہے نہ اس کو قرار
ہوا ہے بحر سے کیوں کر ہوا کا دامن تر
اڑائے نار شعاعی نے کس طرح یہ بخار
کیا ہے کس نے بتاؤ سحاب کو تسخیر ؟
میان ارض و سما مثل طاہر پردار
ہے کیونکہ گرم یہ ہنگامہ برف و باراں کا
سدا بروئے زمین خاص کر سر کہسار
یہ اوس کیا ہے۔ کہر کیا ہے۔ اور بادل کیا ؟
یہ بادلوں سے برستی ہے کس طرح بوچھار
دیا ہے کس نے یہ آب حیات کا چھینٹا
کہ لہلہائے زمیں پہ ہرے بھرے اشجار
ہے پہاڑ سے چشمے رواں ہوئے دریا
اگے نہال۔ کھلے پھول۔ اور لگے اثمار
رواں ہے ساحت دریا پہ کس طرح کشتی
چڑھے ہوئے ہیں مسافر۔ لدا ہوا ہے بار
کہ جس کے فیض سے دولت سمیٹتے ہیں لوگ
اسی کے نفع سے قائم ہے فرقہ تجار
ہوا ہے بحر میں کیوں کر یہ جذر و مد پیدا
یہ کیا ہیں زلزلہ الارض اور جبال النار
دبے پڑے ہیں فلزات اور جواہر کیوں ؟
ہوا زمیں سے پہاڑوں کا کس طرح پے ابھار
ہوئی ہے کب طبقات زمین کی ترتیب ؟
نئی زمین بناتا ہے کون سا معمار
غرض کہ صنعت حق کے نکات ہیں بے حد
کہ جن سے عالم کون و فساد ہے سرشار
نہ ان مظاہر قدرت پہ ڈالتے ہیں نگاہ
نہ ان رموز کی تحقیق ہے نہ استفسار
ہے جن علوم سے انساں کے حال میں برکت
ہیں جو علوم صنائع کے قبلہ و کعبہ
ہے جن فنون سے حسن معاشرت کا سنگار
ہے جن علوم سے انساں کی زندگی سر سبز
ہیں جن فنون سے اہل زمانہ بر سرکار
یہ ان کے نام پہ کہتے ہیں د۔ ف۔ اور ع
یہ ان پہ کرتے ہیں لاحول اور استغفار
یہ نعمتوں سے خدا کی ہوئے ہیں سخت نفور
یہ خوبیوں سے تمدن کی ہیں بہت بیزار
یہ ڈھونڈتے ہیں وہی لیکھ اور وہی چھکڑا
اگرچہ ریل کی سیٹی نے کر دیا بیدار
یہاں پڑا ہے ابھی مرغ نامہ بر بسمل
وہاں پیام اڑی لے کے برق کی رفتار
رفل کے سامنے کچھ کام دے سکے گی بھلا
پرانی وضع کی بندوق وہ بھی توڑے دار
ہلے گا ہاتھ وہ کیا، جس پہ گر چکا فالج
چلے گی تیغ وہ کب، جس کو کھا گیا زنگار
کیا ہے گردش گیتی نے جس کو ملیا میٹ
سمجھ رہے ہیں اسے یہ بزرگوار حصار
معلم
معلموں کو جو دیکھو تو روح دقیانوس
ہیں وہ بھی وخمہ فارس کے استخواں بردار
وہی ہے ان کا پرانا طریقہ تعلیم
کہ جس میں زندہ دلی کے نہیں رہے آثار
وہی خوشامدی القاب اور وہی آداب
کہ جن سے تازہ ہے انشائے دل کشا کی بہار
ہو ایک انچھ کا مطلب تو ہاتھ بھر کی دعا
]اور ایک گر کی تمنائے دولت دیدار
طریق ترجمہ اب تک وہی ہے اوٹ پٹانگ
پڑھیں جو لڑکے تو ہل ہل کے اور پکار پکار
نہ چلنے پھرنے کی عادت نہ خو ریاضت کی
جواں ہیں پیر سے بدتر تو پیر زار و نزار
سوائے ضعف دماغ اور بھی مرض ہیں کئی
فتور ہاضمہ۔ آشوب چشم۔ ترلہ حار
مکان وہ جس میں کھچا کھچ بھرے ہوئے لونڈے
ہے جیلخانہ کی مانند تنگ و تیرہ و تار
ہوئے جو پڑھ کے مکاتب میں فارغ التحصیل
تو نوکری کے لئے کر رہے ہیں سوچ بچار
نہ ایسے علم سے واقف کہ کچھ کما کھائیں
نہ ایسے فن کی مہارت کہ کر سکیں بیوپار
نہ ہو سکیں گے ملازم کسی کچہری میں
کہ اس کے واسطے ہے مڈل کی سند درکار
طبیب
اسی روش پہ اطبا کا ہے مرض مزمن
ہنوز نبض طبابت کی سست ہے رفتار
وہی سدیدی و قانون و تحفہ و مخزن
خدا نے ان پہ لگا دی ہے مہر استمرار
مجربات وہی اور وہی ہیں دستورات
انھیں بھی مردہ پرستی کا ہے بڑا آزار
وہی ہے فصد وہی منضج اور وہی مسہل
وہی سناؤ گل سرخ و شربت دینار
معالجہ میں ترقی نہ کچھ مداوا میں
وہی سبب وہی تشخیص اور وہی تیمار
غذا بتائیں وہی دال مونگ یا کھچڑی
بلا سے ان کی مرے یا جئے کوئی بیمار
اگر مریض کی قسمت سے ہو گیا بحران
تو راس آئی دوا۔ ورنہ اشتداد بخار
نہ کچھ دوا کی ہے تحقیق نے دوا سازی
وہی دوا ہے جو پوڑیہ میں باندھ دے عطار
نہ ٹھیک طور سے اجسام کی ہوئی تشریح
نہ تیز فن جراحت کے کر سکے اوزار
نہ کیمیا کے ہوئے حل و عقد سے آگاہ
نہ مفردات کی ترکیب کے کھلے اسرار
نہ فن قابلہ میں دست قابلیت ہے
نہ ان کو شرح نباتات پر نظر زنہار
توہمات بھی داخل ہیں یاں طبابت میں
٭٭٭
ٹائپنگ: نایاب
پروف ریڈنگ۔ سعود بن سعید، اعجاز عبید
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?19990-کلیاتِ-اسمٰعیل-میرٹھی-ص-1-تا-200
بسم اللہ الرحمان الرحیم
کلیات اسماعیل میرٹھی
حصہ دوم
فہرست
بڑا طبیب ہے گرہو منجم و جفار. 11
دنیا پرست دیندار. 11
مشائخ.. 16
عوام. 19
انگریزی فیشن والے... 20
دعا. 27
تہنیت جشن جوبلی حضور ملکہ معظمہ وکٹوریا قیصر ہند دام اقبالہا.. 28
جاڑہ اور گرمی.. 38
آدمی کو یہ شیوہ ذلیل و خوار. 45
بخیلی اور فضولی. 45
کاشتکاری. 47
کاشتکاری۔۲. 50
قرض... 51
سب سے زیادہ بدنصیب کون؟. 53
ہمّت.. 53
اپنے فعل پر پشیمانی. 54
معافی میں سرور ہے... 54
انتقامِ علاج خطا ہے... 55
خطا کو خطا نہ جاننا ہلاکت ہے... 56
ہر کام میں کمال اچھا ہے... 57
دوراندیشی... 57
بدی کے عوض میں نیکی کرنا 58
قول و فعل میں مطابقت چاہئیے 58
دل کی یک سوئی خلوت ہے... 59
غزلیات... 60
ردیف (الف). 60
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا. 60
علیک السلام اے شفیع البرایا. 63
تمھارے تیر میں انداز تھا نظر کا سا.. 66
ذرہ ذرہ حیرتی ہے مہر پر تنویر کا. 67
باغباں کی کار فرمائی سے دیتا ہے خبر.. 68
دل گیا ہاتھ سے کیا ہاتھ سے داماں نکلا.. 69
تو اور عذرِ طعنِ رقیباں غضب ہوا 71
ہے بے لب و زباں بھی غُل تیرے نام کا. 72
رسوا ہوئے بغیر نہ نازِ بتاں اُٹھا.. 75
میں در پہ ترے ناصیہ سا ہو نہیں سکتا... 76
وہیں سے جب کہ اشارہ ہو خود نمائی کا. 77
آغازِ عشق عمر کا انجام ہو گیا.. 79
نا مہربانیوں سے یوں پائمال کرنا 81
کام اگر حسب مدعا نہ ہوا 82
نتیجہ کیونکر اچّھا ہو نہ ہو جب تک عمل اچّھا.. 84
ذرا غم زدوں کے بھی غم خوار رہنا.. 85
یاد تیری یاد ہے نامِ خدا 86
نقابِ جور میں روپوش اک لطفِ نہاں نکلا.. 87
جو بھلے بُرے کی اٹکل نہ مِرا اشعار ہوتا. 88
سنو گے مُجھ سے میرا ماجرا کیا ؟. 89
سلام. 91
متفرقات... 93
ردیف (ب). 93
کیا کیا اجل نے جان چُرائی تمام شب.... 93
ردیف (ض). 94
نہیں معلوم کیا واجب ہے کیا فرض... 94
ردیف (م). 96
السلام اے شاہِ شاہاں السلام. 96
ردیفِ (ن). 99
ظاہر تو ہے، تو میں نہ نہاں ہوں.. 99
۱وہ پیرہنِ جان میں جاں حجلۂ تن میں... 101
آخر یہ حُسن چھُپ نہ سکے گا نقاب میں... 103
جہاں تیغِ ہمّت علم دیکھتے ہیں... 105
سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں... 107
اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں... 109
جو محو سرو و صنوبر تھے خانہ باغوں میں... 113
منزل داز و دار ہے اور ہم میں دم نہیں.... 114
کبھی تقصیر جس نے کی ہی نہیں.... 116
عارضِ روشن پہ جب زلفیں پریشاں ہو گئیں.... 118
خاک سے افلاک تک ہے دور تیرے نام کا. 120
حامدکہاں ! کہ دوڑ کے جاؤں خبر کو میں... 121
بزمِ ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں.... 124
متفرقات... 126
ردیف (و). 127
پائے غیر اور میرا سر دیکھو... 129
ہے جانِ حزیں ایک لبِ روح فزا دو 130
معشوقِ دل نواز اگر تند خو نہ ہو.. 132
کھونپ جب کپڑے میں آئی چارہ کیا غیر از رفو. 135
متفرّقات... 136
ردیف (ی). 137
ناصح جو ملامت میں محابا نہیں کرتے... 137
یا کوئی دنیائے فانی اور ہے... 138
دھوکے میں نہ آ جائیو افسونِ زباں کے... 139
پھر کُچھ کُچھ اُن کے وعدہ پہ اب اعتبار ہے... 140
گر نشے میں کوئی بے فکر و تامل باندھے... 141
نکہتِ طرّۂ مشکیں جو صبا لائی ہے... 143
بیخودی سی بے خودی ہے جلوۂ دیدار سے... 145
وہ حسن لازوال ہماری نظر میں ہے... 147
پُر حُسن خود نما سے زمان و زمیں ہے... 149
کجا(۱*) ہستی بتا دے تو کہاں ہے... 150
اُلٹی ہر ایک اسم جہانِ شعور ہے... 153
یاں تاب کسے شناوری کی.. 156
کُچھ ایسے دلفریب شگوفے کھِلا کئے... 158
شگفتگی نے چمن کی ہوا نہ کھانے دی. 160
کہتا تھا پھر آ جاؤں گا جب یاد کرو گے... 161
شمع کیوں اپنی جلن میں گھُل گئی.. 162
خارج ہے عہدِ طفلی و پیری حساب سے... 163
کوئی دن کا آب و دانہ اور ہے... 164
دنیا میں تہی دست کی وقعت نہیں ہوتی. 168
لو جان بیچ کے بھی جو فضل و ہنر ملے... 170
غیرِ توکّل نہیں چارا مجھے... 172
نکلے چلے آتے ہیں تہِ خاک سے کھانے... 174
ہو رائگاں جو قطرہ سے قطرہ جدا چلے... 175
تبلیغِ پیام ہو گئی ہے... 176
میں اگر وہ ہوں جو ہونا چاہیئے... 180
عیش کے جلسے ہجوم آلام کے... 182
درد سے لبریز سینہ چاہیئے... 183
مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے... 184
بنتی نہیں بات گفتگو کی.. 185
واں زیر کی پسند نہ ادراک چاہیئے... 186
متفرقات... 188
رباعیات... 189
توحید... 189
طلب..... 189
قرب... 190
بے نشانی. 190
آزادگی.. 191
یقین.... 191
عبودیت حجابِ ربوبیت.... 192
توحید... 192
اسلاف پر فخر بیجا.. 193
تقریض.... 193
تنزیہ. 194
غیر حق نہیں.... 194
لا موجود الا اللہ.. 195
مظاہر.. 195
عجز و ادراک... 196
ترک فضولی. 196
اختلاف خیالی ہے... 197
فاعلِ حقیقی حق ہے... 197
ذات کو تغّیر نہیں.... 198
تّجلیات حجاب میں... 198
مشاہدہ 199
کسی خاص کیف کی پابندی غلط ہے... 199
شہودِ حق میں غیر معدوم. 200
فُقر. 200
وحدت... 201
غفلت...... 201
راہِ خدا کی انتہا نہیں.... 202
خود شناسی.. 202
مظہر.... 203
کثرت لازمِ وحدت ہے... 203
طلب بے نشانی. 204
ہستی واحد ہے... 204
ہر شان میں حق تجلی ہے... 205
تنزبھ.. 205
توحید... 206
ترکِ ذکر و فکر.. 206
ترکِ خودی. 207
دین و دنیا. 207
وحدت... 208
استقلال.. 208
ایک واقعہ.. 209
اصلاحِ قوم دشوار ہے... 209
ہر کام کا نتیجہ اپنے لئے ہے... 210
مراسم میں فضولی. 210
نیچر انسان کی محکوم ہے... 211
وقت رائیگاں نہیں کرنا چاہیئے... 211
اتفاق میں کامیابی ہے اور نااتفاقی میں تباہی.. 212
ہمت.... 212
فنا عینِ وصال ہے... 213
دنیا پرست دین دار. 213
محبِ دنیا نشانِ خامی ہے... 214
ابیات... 215
کوّا 219
مثلث..... 222
قطعات... 225
مسلمانوں کی تعلیم.... 225
قطعہ وفات مِلک معظم ایڈورڈ ہفتم آن جہانی. 229
مسلمان اور انگریزی تعلیم.... 231
غریب اور امیر... 234
غزلیات... 235
رباعیات... 238
ہمّت.. 238
ہمت.... 238
مسلمانوں کی تعلیم.... 239
جھوٹی نفرت... 239
بڑا طبیب ہے گرہو منجم و جفار
نظر بروج و کواکب پہ کر کے دے نسخہ
کہ ہیں دوا پہ موثر نجوم کے آثار
دنیا پرست دیندار
ہر ایک علم و عمل میں پڑی ہے یہ پٹکی
ہر ایک طرز و روش پر پڑی ہے یہ پھٹکار
امام و حافظ د واعظ موذن و مفتی
نہ کوئی دین میں پورا نہ ٹھیک دنیا دار
زبس کہ دعوت نذر و نیاز پر ہے معاش
ہوئے ہیں قوم میں پیدا بہت سے پنشن خوار
جو اینڈتے ہیں پڑے کھا کے لقمۂ خیرات
گئی حمیت و غیرت دلوں سے ان کے سدھار
وہ پھولتے ہیں اپھرتے ہیں فخر کرتے ہیں
فقط اسی پہ کہ ہم ہیں بڑے نماز گزار
نہ خلق نیک۔نہ ہمت بجا۔نہ عزم درست
نہ حب قوم۔نہ حب وطن۔نہ حب تبار
لکھیں گے ٹھیک وہی ان کا دفتر اعمال
یہ دو فرشتے مقرر جو ہیں یمین و یسار
تھے پہلے صاحب تقویٰ تو خلق کی تصویر
نہ آج کل کے سے ملائے خشک دل آزار
کہاں ہیں دین و دیانت طہارت و تقویٰ
کہاں ہیں اگلے زمانہ کے با صفا ابرار
مدار دین ہے اس پر کہ جھٹ کتر ڈالیں
جو پائیں ٹخنے سے نیچی ذرا کسی کی ازار
فقط مسائل غسل و وضو و استنجا
یہی ہیں وحی الٰہی کے آج کل اسرار
کہیں تو ضاد کی قرأت پہ غل غپاڑہ ہے
کہیں ہے جہر پہ آمیں کے جوتی اور پیزار
کسی گروہ میں ہے ختم فاتحہ پر جنگ
کہیں ہے مجلس میلاد موجب تکرار
کہیں تو کفر کے فتووں کا چل رہا ہے گراپ
کہیں ہے طعن و ملامت کی ہو رہی بھرمار
یہ مولوی ہیں کہ بغض و نفاق کے جرنیل!
کہ جاہلوں کو لڑاتے ہیں یہ سپہ سالار!
بلا سے ان کی اگر مضحکہ کریں ملحد
ہلا سے ان کی اگر دین پر ہنسیں کفار
مناظرہ کی تصانیف قابل نفرت
مباحثہ کی کتابیں سزائے استحقار
جبیں پہ ان کی تو ہم کا ہے کبھی قشقہ
کمر پہ ان کی تعصب کا ہے سدھا زنار
ہیں سنتوں میں یہی سنتیں انھیں مرغوب
نکاح و دعوت و قیلولہ عجلت افطار
گھٹی جو دور میں ان کے تو راستی کی قدر
بڑھی جو عہد میں ان کے تو ریش کی مقدار
ملے ٹکا تو کریں ثبت مہر فتوے پر
غضب ہے نقد علیہ السلام کی جھنکار
بنائیں حیلہ گری سے حلال رشوت کو
یہاں تو مات ہیں ان سے وکیل اور مختار
سنائیں دوزخ و جنت کا حال۔لے کر فیس
ہے اس زمانہ میں چلتا ہوا یہی اوزار
یہی ہے وعظ و نصیحت کی علت رعنائی
کہ بعد کھانے کے مل جائیں نقد بھی دوچار
نہیں ہے جن کو میسر جو وعظ کا لاسہ
تو کرتے پھرتے ہیں وہ اور ہتھکنڈوں سے شکار
وہ دکھ کے فضل قناعت جتا کے صبر جمیل
وہ بھیک مانگتے ہیں بن کے حاجی و زوار
مصافحہ کے لئے ہے یہ پیش دستی کب؟
اسی میں حسن طلب ہے دیا جو ہاتھ پسار
مشائخ
بہت سے راہزنی کر رہے ہیں بن کر پیر
غریب قوم کو ہیں مارتے یہ شاہ مدار!
لیا ہے متعصدو کی نجات کا ٹھیکہ
کہ گویا ہیں یہی باغ جناں کے ٹھیکہ دار
ہزار دانہ کی تسبیح گیروا کپڑے
یہی ہیں ان میں علامات اولیائے کبار
کسی نے نقد۔کہیں جنس اور کہیں دعوت
جو بس چلے تو نہ چھوڑیں مرید کا گھربار
یہ مومنوں سے بھی جزیہ وصول کرتے ہیں
فتوح غیب رکھیں اس کا نام یا اورار
کریں جو ذکر تو پھر ایسی بولیاں بولیں
کہ شب کو چونک پڑیں ساکنان قرب و جوار
جو دعوت ان کی کریں معتقد تو ہے واجب
کہ ان کے کھانے کو ہوشربا بھی چھلہ دار
اگر ہیں باد تصوف کی اصطلاحیں چند
تو پہونچا عرش معلی پہ گوشۂ دستار
یہی ہیں آج ابو الوقت اور قطب زماں
یہی ہیں شیخ شیوخ اور زہدۂ احرار
ملا جو گانٹھ کا پورا کوئی ارادتمند
تو نقد وقت ہیں شغل و وظیفہ و اذکار
کبھی جو خواب پریشاں میں وہ لگے اڑنے
تو اپنے زعم میں ہیں مثل جعفر طیار
کبھی جو عالم رویا میں دیکھ لی بیری
مقام سدرہ کو طے کر چکے زہے پندار!!
بنائیں پہلے تو شیطاں کی جھونپڑی دل میں
کریں خیال کا ٹوکا لگا کے پھر فی النار
اگر ہیں شرع پہ قائم تو ہیں جنید زماں
جو بنگ نوش ہے کوئی تو ہے قلندر وار
رجوع خلق کی خاطر ہوئے ہیں گوشہ گزیں
کہ جیسے جھیل پہ بیٹھے سکڑ کے بوتیمار
بنے جو شیخ تو پھر وجد و حال بھی ہے ضرور
دکھائیں رقص جمل وہ کہ دنگ ہوں حضار
یہ ناز ہے کہ بزرگوں کے نام لیوا ہیں
اگرچہ ننگ بزرگاں ہوں آپ کے اطوار
عوام
عوام کی ہے یہ صورت کہ بس خدا کی پناہ
ہر ایک پیشۂ بے غیرتی میں کارگزار
ہر ایک لہو میں شامل ہر ایک لعب میں شریک
کہیں کا سانگ تماشا کسی کا ہو تہوار
دغا فریب ہو چوری ہو یا اچکا پن
نہیں ہے بے باک کسی کام سے انھیں زنہار
اب ان کے واسطے ہیں یہ مدارج اعلیٰ
پریس مین قلی۔کوچوان۔ خدمت گار
انگریزی فیشن والے
رہا وہ جرگہ۔جسے چرگنی ہے انگریزی
سوواں خدا کی ضرورت !نہ انبیا درکار!!
وہ آنکھ ہیچ کے بر خود غلط بنے ایسے
کہ ایشیا کی ہر اک چیز پر پڑی دھنکار
جو پوششوں میں ہے پوشش۔تو پس درپردہ کوٹ
سواریوں میں سواری تو دم کٹا رہوار
جو اردلی میں ہے کتا تو ہاتھ میں اک بید
بجاتے جاتے ہیں سیٹی لگ رہا ہے سگار
وہ اپنے آپ کو سمجھے ہوئے ہیں جنٹلمین
اور اپنی قوم کے لوگوں کو جانتے ہیں گنوار
نہ کچھ ادب ہے نہ اخلاق ۔نے خدا ترسی
گئے ہیں ان کے خیالات سب سمندر پار
وہ اپنے زعم ہیں لبرل ہیں یا رڈیکل ہیں
مگر ہیں قوم کے حق میں بصورت اغیار
نہ انڈین میں رہے وہ بنے انگلش
نہ ان کو چرچ ہیں آنر نہ سجدوں میں بار
ہے استفادہ مکالی سے جن کو انشا میں
قلم کے زور سے بنتے ہیں قوم کے غم خوار
جوہے بھی کوئی۔تو لاکھوں میں ایک آدھا بسا
کہ نبر درد ہوا ہے جگر میں جس کے دو سار
دگر نہ کس کو یہ غم ہے؟ کہ میری پیاری قوم
ہوا ہے زرد ہ کیوں تیرا چہرۂ گلنار
یہ تیرے پھول سے پنڈے پہ کیوں ہے میل کچیل؟
یہ تیرے پھول سے پنڈے پہ کیوں ہے گرد و غبار؟
کدھر ہے تیری طبیعت؟ کہاں ہے تیرا دل؟
خموش کیوں ہیں؟یہ تیرے لب شکر گفتار
اٹا ہے خاک سے کیوںَ؟ تیرا یہ دامن دولت
چھبے ہیں کیوں تیرے تلوے میں مفلسی کے خار؟
کہاں ہے وہ تیری عزت کا گوہر رخشاں؟
کہاں ہے وہ تری حشمت کا خلعت زرتار
تری معاش کی کشتی ہوئی ہے طوفانی
نہ بادباں ہے۔نہ لنگر۔نہ ڈانڈ نے پتوار
ہوا ہے یہ گلشن اخلاق جل کے خاکستر
چلی ہے کب سے یہ ایسی سموم آتشبار
بجائے سنبل و ریحاں کے اٹھ رہا ہے دھواں
بجائے پھول کے شعلۂ عوض کلی کے شرار
یہ تیرے علم کا دار الجلال کیوں ہے خراب؟
چھتوں پہ گھاس تو ٹوٹے ہوئے در و دیوار
ترے مرض کی یہاں تک پہنچ گئی نوبت
کہ تیرے حال پہ روتے ہیں بار اور اغیار
رسوم بدلے ترے ہاتھ پاؤں جکڑے ہیں
فضولیوں نے تیرا کر دیا ہے سینہ فگار
تری مڑک نے پنپنے دیا نہ تجھ کو حیف
تری اٹک سے تری ناؤ جا پڑی منجدھار
وہ اہل فضل کہ تھے افتخار ہندوستاں
اب ان کی نسل کو دیکھو تو ہے وہ ٹھیٹ گنوار
وہ جن کے نام سے نامی تھے شہر اور قصبات
گداگری میں ہے مصروف ان کا خیل تبار
وہ دودمان امارت کے تھے جو چشم و چراغ
اب ان کے ہاتھ مین ڈھولک ہے یا بغل میں س
جو منتخب تھے نجابت میں اور شرافت میں
اب ان کی آل کو دیکھو تو سخت بدکردار
یہ ہانکتے ہیں جو گاڑی کسی مہاجن کی
انھیں کے مورث اعلی تھے صوبہ دار بہار
ہے آج ٹکڑے کو محتاج ان کی ذریت
کہ جن کی دھاک تھی سلہٹ سے لے کے تا قندھار
امارت اپنی امیروں نے قرض میں کھو دی
عوض میں دس کے دئے سو، تو سو کے ایک ہزار
بہت سے بن گئے عیاش ہو گئے برباد
بہت سے بن گئے اوباش کھیلتے ہیں قمار
قمار میں بھی نہ سیدھا پڑے کبھی پانسہ
یہاں بھی خوبی قسمت سے جائیں بازی ہار
میں کیا کہوں کہ وہ بھرتے ہیں کس کی چلمیں آج
یہ کل جو پھرتے تھے چھیلا بنے سرے بازار
وہ آج کرتے ہیں فاقے جو تھے بڑے ملکی
نہ گھر میں گیہوں کے دانے نہ باجرا نہ جوار
ہے ٹھیکرا وہی روٹی کا پیر زادوں کی
جو گانوں ہے کوئی باقی بطور وقف مزار
ہوئی تمام بتدریج منتقل جاگیر
کہ جیسے روم کے قبضہ سے صوبہ بلغار
نہ کوئی علم نہ صنعت نہ کچھ ہنر نہ کمال
تمام قوم کے سر پر سوار ہے ادبار
اگرچہ نشوونما پا رہی ہے آزادی
کھلا ہے امن و حفاظت کا قیصری دربار
اگرچہ ملک میں علم و ہنر کا ہے چرچہ
حصول عزت و دولت کا گرم ہے بازار
ہر ایک قوم میں گھوڑ دوڑ ہے ترقی کی
درست ساز ویراق اور دیدباں تیار
لگا کے شوق کا ہنٹر۔امنگ کی مہمیز
سمند جہد کو سرپٹ اڑا رہے ہیں سوار
ہے ان کا رخش طلب دوڑ دھوپ میں آندھی
بہت فراخ ہے میداں زمین ہے ہموار
دوران کے ناقہ اہمیت کی ہیں ڈگیں لمبی
اب ان کو طے مراحل نہیں ہے کچھ دشوار
پلٹ گیا ہے زمانہ بدل گئی ہے رت
نمو کا وقت ہے اور ابتدائے فصل بہار
نہیں بعید کہ ہو جائیں ایک سب جل تھل
برس رہا ہے ترقی کا ابر گوہر بار
ہر ایک زاغ نے سیکھا ترانۂ بلبل
بھنیریوں نے اڑائی نوائے موسیقار
غرض کہ سب ہیں صلاح و فلاح کے جویا
دیا ہے ولولۂ شوق نے دلوں کو ابھار
زمانہ چونک پڑا ہے پر اے مسلمانو!
جھنجھوڑنے سے بھی ہوتے نہیں ہو تم بیدار
نہیں ہو فہم و درایت میں تم کسی سے کم
مگر چہ کار کند شیر شر زہ در بن غار
اور ایسا غار کہ بالکل جہاں اندھیرا گپ
پھر اس میں شیر مرے یا جئے بدون شکار
کروں گا اب میں قصیدہ کو اک دعا پر ختم
کہ جس کے طرز بیاں میں ہوں تازہ نقش و نگار
دعا
رہے زمانہ میں جب تک زمین کو گردش
جنائیں زاد یہ تا محور اور سطح مدار
زہے زمین پہ تا ایک سال کے اندر
برابری میں سدا امتداد لیل و نہار
رہے زمین میں تا فوت کشش باقی
اور اس کشش سے گریں ٹوٹ ٹوٹ کر اثمار
یہ ایک چاند ہے تا زمین کا خادم
جلو میں تا زحل و مشتری کے ہوں اقمار
رہے نجوم میں جب تک زمین سیارہ
اور آفتاب رہے مثل نقطۂ پرکار
خدا ہر ایک مسلمان کو کرے روزی
معاش نیک و دل پاک و خوبی کردار
حصول علم درہ مستقیم و فہم سلیم
جمال صورت و معنی کمال عز و وقار
تہنیت جشن جوبلی حضور ملکہ معظمہ وکٹوریا قیصر ہند دام اقبالہا
ہے خداوند کو سزاوار سپاس
جان نے تن میں کیا حکم سے جس کے اجلاس
پارلیمینٹ کھلی کشور دل کے اندر
عقل بے محنت کی اسبیچ پڑھی پیش حواس
ایسے دربار مقدس میں اسے بار ملا
جس کا دانش کی لونڈر سے معطر تھا لباس
تہنیت نامہ سنانے کو تعظیم و ادب
حاضر بزم ہوئے ذہن و ذکا فکر و قیاس
مالک الملک ہے تو اور عزیز و جبار
تو ہی خلاق ہے رزاق ہے اور رب الناس
صحن عالم میں کیا خیمۂ اطلس برپا
جس میں قدرت نے جڑے گوہر و لعل و الماس
دشت و کہسار کودی سبزۂ و گل سے زینت
سامنے جن کے لگیں لعل و زمرد بھی اداس
شاخ اشجار میں لٹکائے ثمر رنگارنگ
جس میں حکمت نے کیا جمع مٹھاس اور کٹھاس
تاکہ دامان زمیں تازہ و شاداب رہے
تو نے رکھا کمر کوہ پہ چشموں کا نکاس
تو جو مٹی سے اگاتا ہے چنے اور گیہوں
خاک سے کرتا مہیا جو نہ سن اور کپاس
کون کر سکتا یہ پر ذائقہ کھانے طیار
کون بن سکتا یہ پر زیب روا اور لباس
تیری رحمت کے طلبگار ہیں سب شاہ و گدا
تیری حکمت نے حریر اس کو دیا اس کو پلاس
تیری قدرت ہے قوی حکم ہے تیرا ناطق
ہے بھلا نقد بقا تیرے سوا کس کے پاس
آج اورنگ سلیماں ہے نہ تخت بلقیس
کشتی نوح کا تختہ نہ گلیم الیاس
ذکر خیر ان کا زبانوں پہ رہے گا جاری
ہاں مگر عزت و دولت کا یہی ہے مقیاس
بہرہ ور تاجوری سے دہی ذی ہوش ہوا
تیری خلقت کا کیا جس نے کیا دل و جان سے پاس
نیک نامی کی نہ پائی کبھی اس نے خوشبو
چڑھ گیا مغز میں جس شاہ کے غفلت کا ہلاس
سن کے اس نامۂ پر مغز کا میں نے مضمون
اور بھی اس کے تممہ میں لکھے شعر پچاس
ہند پر قیصر عادل کو تسلط بخشا
کس زباں سے ہو تری حمد و ثنا شکر و سپاس
ملک کو تو نے نئے سر سے کیا پھر سرسبز
تیری رحمت سے نہ غمزدہ کوئی بے آس
دور ازیں حال تباہی کی گھٹا چھائی تھی
سیل کی طرح سے طغیان پہ تھے خوف و ہراس
بن گیا تھا چمنستان سے چٹیل میدان
بیل بوٹے تھے نہ پھل پھول نہ ہر یال نہ گھاس
شاہ گلشن تھے مغیلاں تو ولی عہد تھے خار
لالۂ و سوسن و نسریں کو ملا تھا بن باس
باغ شاہنشی ہند میں آئی تھی خزاں
چیل کوے تھے مگن بلبل و طوطی تھے اداس
آل تیمور کے خورشید کا تھا وقت غروب
شام ادبار کی ظلمت سے دلوں میں تھی یاس
ضعف پیری سے حکومت کا لبوں پر دم تھا
نہ تو اوسان ٹھکانے تھے نہ قائم تھے حواس
تھے جدا سلطنت ہند کے ریزے ریزے
جیسے چینٹوں کی جماعت میں تقسیم مٹھاس
مرزبانوں کے سروں پر نہ تھا کوئی سرتاج
جان اور مال کا تھا حفظ نہ ناموس کا پاس
مغربی گھاٹ سے اٹھتے تھے جو موجے پیہم
دامن کوہ ہمالیہ سے وہ کرتے تھے تماس
غوری و خلجی و تغلق کے مٹے تھے دستور
شیر شاہی کی روش تھی نہ حصار رہتاس
نام تھا نظم و نسق کا نہ سیاست کا نشاں
اکبری دور کی باقی نہ رہی تھی بو باس
جاٹ گردی تھی کبھی گاہ مرہٹہ گردی
کبھی پنڈاروں کا تھا ڈر کبھی سکھوں سے ہراس
پرتگیز اور ولندیز و فرانسیس بھی تھے
ملک گیری کی جنہیں بھوک تھی اور مال کی پیاس
جب کلایو نے پڑھی سیف و قلم کی سیفی
کچھ گھٹے ہند کے دل سے خفقان و وسواس
فرش و دولت کی لگی ہونے نئی قطع و برید
پھٹ چلا جنگ پلاسی سے وہ پارینہ پلاس
ہیسٹنگز اور ولزلی نے عجیب کام کئے
نبض دولت کے یہی لوگ تھے رفتار شناس
چارہ فرما ہوئے ڈلہوزی و ولیم مینٹنگ
اکی طبع ممالک کو دوا ان کی راس
ہند میں کوکب انگلش نے کیا خوب عروج!
جس کے مشرق تھے یہ کلکتہ و بمبئی مدراس
واں پڑا سایۂ پرچم کہ جہاں بہتے تھے
سلج و راوی و چناب۔اٹک اور بیاس
اس صدی کے گئے جس وقت کہ سینتیس برس
فورتھ ولیم کی ہوئی ختم شمار انفاس
ہر مجسٹی دی کوئن وارث تاج ودیہم
تخت برٹش پہ ہوئی زیب فرائے وسواس
عذر کے بعد ہوا دورۂ شاہی آغاز
نیر دولت و اقبال چڑھا سمت الراس
پھر نئے سر سے ہوا کاخ حکومت ترمیم
قیصری قصر کی ہونے لگی مضبوط اساس
اے ترے تاج میں انصاف و عدالت گوہر
اے ترے تخت میں احسان و محبت الماس
عفو تقصیر کا جاری کیا تو نے منشور
بن گئے جان تن ہند کو تیرے انفاس
تیری دولت کے مدبر تھے فلاطون زمن
کھو دیا سب جگر ملک سے درد و آماس
کھل گیا سطح حکومت کا نشیب اور فراز
حسن تدبیر کی جس وقت لگائی کمپاس
کر دیا ہند کے اجزائے پریشان بہم
جڑ گیا ٹوٹ کے پھر نظم و سیاست کا گلاس
امن و انصاف کا پڑھنے لگے سب مل کے سبق
حاضر اسکول اطاعت میں ہوئی جملہ کلاس
سندھ ہے ایک طرف دوسری جانب برھما
قاعدہ کوہ ہمالہ تو کماری ہے راس
کس دیا ملک کو قانون کی زنجیروں میں
تا شرارت پہ ابھارے نہ کسی کو خناس
عہد دولت سے ترے پائی دلوں نے تسکین
سکہ زر کی طرح چل گیا تیرا قرطاس
میں ہنر تیرے زمانہ کے بغاوت روشن
روغن و موم کی جا جلنے لگی برق و گاس
تار کے سامنے یکساں ہے نہ کچھ دیر نہ جلدی
ریل کے آگے برابر ہے نہ کچھ دور نہ پاس
گاؤں در گاؤں ہوئیں علم کی نہریں جاری
اوکھ سے پینے لگے جن کو لگی زور کی پیاس
فیض تعلیم سے عالم ہوئے جاہل ہندی
کوئی عالم کوئی منشی تو کوئی حرف شناس
دم بدم ابر ترقی ہوا گوہر افشاں
کوئی ایف اے کوئی بی کوئی ایم اے ہی پاس
دور شاہی نے ترے ان کو بنایا انسان
ان میں کھانے کا سلیقہ تھا نہ تمئیز لباس
آدمیت کا پڑا ان کے دلوں پر سایہ
بعض قوتیں کہ جو خصلت میں تھیں مثل شناس
اکثر اضلاع میں کھلتی ہیں نمائش گاہیں
جمع ہوتی ہیں جہاں ملک کی صنعی اجناس
گائے بکری کی نہ ہوتی تھی جہاں پر بکری
اب وہاں تازی و ترکی کے ہیں لگنے نخاس
بحر و بر میں سے ترے زیر نگیں جتنا ملک
شاید اس وقت نہیں اور کسی شاہ کے پاس
بحر اعظم میں مہابت ہے ترے بیڑے کی
براعظم میں تری فوج سے دشمن کو ہراس
مملکت میں تری چھپا نہیں سورج زنہار
ہے یہ جغرافیہ کی رو سے بہت ٹھیک قیاس
جشن جوبلی کا ہوا غلغلہ برپا گھر گھر
خیر سے تخت نشینی کو ہوئے سال پچاس
تیری دولت کی دعا یوں ہے دلوں سے جاری
جیسے گنگوتری کے چشمے سے گنگا کا نکاس
فضل سے اپنے کرے تجھ کو عطا عمر دراز
جس کی قدرت کی کچہری میں مہ و خور چپراس
جاڑہ اور گرمی
ایک دن جاڑے نے گرمی سے کہا
میں بھی ہوں کیا خوب موسم واہ وا!
ہے بجا گر کیجئے میری صنعت
ہے روا اگر کیجئے میری ثنا
میں جہاں میں ہوں زبس ہر دل عزیز
مانگتے ہیں میرے آنے کی دعا
میرے آنے سے نہ کہو کیوں خررمی
کیا خنک پانی ہے! کیا ٹھنڈی ہوا
چاندنی ہے بے کدورت بے غبار
آسماں ہے صاف نیلا خوشنما
رات گرمی کی تو کچھ ہوتی نہ تھی
دن کی محنت سب کو دیتی تھی تھکا
میری آمد نے کیا شب کو دراز
میرے آنے نے دیا دن کو گھٹا
لو مسافر کا جھلس دیتی تھی منہ
اور زمیں تلووں کو دیتی تھی جلا
اب ہوا بھی اور زمیں بھی سرد ہے
کھو دیا میں نے حرارت کا پتا
مل گئی کتنے بکھیڑوں سے نجات
ٹٹیاں موقوف پنکھا چھٹ گیا
دھوپ کا ڈر ہے نہ لوکا خوف ہے
ان دنوں کی دھوپ ہے گویا غذا
سورج اب کترا کے جاتا ہے نکل
فصل تاکستاں میں تھا سرپر چڑھا
ہے خضر میں برج کل عیش و نشاط
ہے سفر بھی ان دنوں راحت فزا
میرے دم سے تندوری بڑھ گئی
پائی مدت کے مریضوں نے شفا
ڈاکٹر صاحب کو فرصت مل گئی
اب شفا خانہ میں کم جمگھٹا
ضعف معدے کی شکایت مٹ گئی
بے دوا خود بڑھ گئی ہے اشتہا
مکھیاں بھی رہ گئی ہیں خال خال
بے تکلف اب ہے کھانے کا مزہ
گرم پوشاکوں نے اب پایا رواج
میں نے بخشا آن کر خلعت نیا
سل گئے تو شک لبادے اور لحاف
درزیوں نے پایا محنت کا صلہ
میرے ہوتے کون پوچھے برف کو
باسی پانی برف کا بھی ہے چچا
ندی نالوں کا گیا پانی نتھر
جھیل اور تالاب نے پائی صفا
طالب علم اب کریں گے کوشش
کوششوں سے ہو گا پورا مدعا
ٹھیک وقت ان ورزشوں کا ہے یہی
تندرستی کا ہے جن سے فائدہ
کرکٹ اور فٹ بال اور جمناسٹک
کرتے ہیں مضبوط جسمانی قوا
حاکموں نے کر دیا دورہ شروع
تا کریں در در رعایا کی دوا
جا بجا فوجیں ہوئی ہیں مجتمع
تاکہ میداں میں کریں مشق دغا
سیب۔نارنگی۔بہی۔لیمو۔انار
ذائقہ ہے جن کی صورت پہ فدا
پستۂ و بادام انگور و مویز
میوہ ہر اک قسم کا بکنے لگا
تخم ریزی جنس اعلیٰ کی ہوئی
کھیت میں بویا گیا گیہوں چنا
عید کی سی دھوم ہے دیہات میں
پک گئی ایکھ اور کولھو چل پڑا
ہے مٹھائی کی نہایت ریل پیل
چل رہی ہے آج کل میٹھی ہوا
انس ہے محنت مشقت سے مجھے
کاہلی کو میں نہیں رکھتا روا
محنتی ہیں مجھ سے خوش میں ان سے خوش
کاہلوں کا میں نہیں ہوں آشنا
سن کے یہ باتیں ہوئی گرمی بھی تیز
اور جل کر یوں جواب اس کو دیا
آپ اپنے منہ میاں مٹھو نہ بن
خود ستائی عیب ہے او خود ستا
اس کو ہوتا ہی نہیں حاصل کمال
جو کہ اپنے آپ کو سمجھے بڑا
یا سبز تو سرکشی کرتے نہیں
بلکہ سرکو اور دیتے ہیں جھکا
تیری خود بینی ہوئی تجھ کو حجاب
خوبیوں کو میری سمجھا بدنما
تجھ سے عالم میں خزاں کا ہے ظہور
مجھ سے ہے فصل بہاری کی بنا
تو نے شاخوں کے لئے پتے کھسوٹ
تو نے پیڑوں کو برہنہ کر دیا
میرے آنے سے پھلے پھولے شجر
سبز پوشاک ان کو میں نے عطا کی
میں نے شاخوں میں لگائے برگ و بار
ورنہ تھا کیا ان میں ایندھن کے سوا؟
کھیت جاڑے بھر تو کچے ہی رہے
ہاں مگر میں نے دیا ان کو پکا
تو نے رکھے تھے بخیلوں کی طرح
برف کے تودے پہاڑوں میں چھپا
میں پگھلا کر کیا تقسیم اسے
تاکہ پہنچے سب کو فیض و فائدہ
خشک چشمے بھر گئے دریا چڑھے
دیکھ لے میرا کرم میری سخا
تجھ سے تھی مخلوق میں افسردگی
کون خوش تھا؟ جز گروہ اغنیا
میری آمد نے مساوی کر دئے
راحت و آرام میں شاہ و گدا
کر دیا میں رگوں میں خوں روا
ٹھنڈ سے شل ہو گئے تھے دست و پا
آدمی کو یہ شیوہ ذلیل و خوار
رستے کو راستی کے نہ زنہار چھوڑنا
ہوتا ہے راستی ہی سے انسان رستگار
جو بات تھی صلاح کی وہ ہم نے دی بتا
آئندہ اپنے فعل کا ہے تم کو اختیار
بخیلی اور فضولی
اری بخیلی! اور اے فضولی! تمھارا دونوں کا مُنہ ہو کالا
گناہ گاری کے تم ہو چشمے۔ تمھیں سے نکلیں خراب رسمیں
تمھیں نے دم بھر میں سب گنوایا تمھیں نے سب خاک میں ملایا
کمانے والوں نے جو کمایا بصد مشقت کئی برس میں
نہ مال و دولت کے فائدوں ہی سے کر کے محروم تم نے چھوڑا
بنایا بد عہد اور بے دیں۔ کھلائیں جھوٹی ہزار قسمیں
لگا کے حرص و طمع کا پھندا۔ سکھایا خود مطلبی کا دھندا
بنایا حق تلفیوں کا بندہ۔ پھنسا کے تم نے ہوا ہوس میں
ہوئی بخیلوں کی کیا بُری گت نہ پاِس عزت نہ کچھ حمیّت
نہ حوصلہ ہی رہا نہ ہمّت۔ نہیں ہے فرق اُن میں اور مگس میں
لُٹا کے دولت کو اپنی مُسرِف۔ ہوئے ہیں کیا کیا ذلیل احمق
کہ جیسے بے بال و پر کی چڑیا اسیر ہو گوشۂ قفس میں
کاشتکاری
گنجِ زر خاک سے اُگلوایا
کیمیا شغلِ کاشتکاری ہے
کر چُکا جب کسان اپنا کام
پھر خدا سے امیدواری ہے
آفتِ ارضی و سماوی سے
ہے نگہباں۔ تو فضلِ باری ہے
نہیں حاصل پہ دسترس نہ سہی
بیج بونا تو اختیاری ہے
وقت ضائع نہ کر۔ اگیتی بو
سینچ لے کھیت نہر جاری ہے
جوت۔ بو۔ سینچ۔ پھر توکّل کر
نہ کیا کُچھ تو شرمساری ہے
سرسری ساگ پات کو مت جان
اِس پہ تو زندگی ہماری ہے
جڑ۔ تنہ۔ ڈال۔ پات۔ پھل اور پھول
دستِ قدرت کی نقش کاری ہے
اپنی قُوت سے قُوت حاصل کر
مُفت خواری حرام خواری ہے
کاہلی سے گھٹا نہ پیداوار
یہ تو بَڑھیا گناہگاری ہے
اپنے اوپر ستم روا مت رکھ
واجب اپنی بھی حق گُزاری ہے
بیل سے پڑھ جفا کشی کا سبق
کُچھ اگر تجھ میں ہوشیاری ہے
کام میں کَھپ رہا ہے بیچارہ
ناشتا ہے نہ کچھ نہاری ہے
رات کاٹی جہاں سمائے سینگ
عیش و عشرت پہ لات ماری ہے
تھک گیا تو زمین پہ بیٹھ گیا
کس قدر مشقِ خاکساری ہے
بیل ہے پر نہیں کسی کا دبیل
کرتا اوروں کی غم گُساری ہے
صبر و محنت کی یہ کڑی منزل
اُس کو ہلکی ہے تجھ کو بھاری ہے
دیکھ چوپایہ سے نہ بازی ہار
تیری ہمت اگر کراری ہے
کُچھ نہ کُچھ کام کر۔ اگر تجھ کو
آدمیّت کی پاسداری ہے
کاشتکاری۔۲
جو تُو نے غفلت میں وقت کھویا۔ نہ کھیت جوتا۔ نہ بیج بویا
تو ایسی ڈوبی ہوئی اسامی سے کوئی حاصل بٹائے گا کیا؟
رہے گا یہ کھیت ہاتھ اُس کے۔ جو ہَل سے کُشتی لڑے گا دن بھر
جو ہار بیٹھے گا اپنی ہمت۔ تو وہ زمیں کو اُٹھائے گا کیا؟
خوراک و پوشاک کے ذخیرے دبے پڑے ہیں زمیں کے اندر
جو کر کے محنت نہ کھود لے گا۔ تو خاک پہنے گا۔ کھائے گا کیا؟
قرض
دامِ بلا ہے قرض پھنسے اور ہوئے شکار
ہے پاِس آبرو۔ تو رہو ہوشیار تم
کنیاتے ہی رہو گے سدا قرض خواہ کو
اِس ننگ و عار کو نہ کرو اِختیار تم
دیکھو! یہ قرضِ وعدہ خلافی نہ دے سکھا
ہو جاؤ گے جہان میں بے اعتبار تم
جب تک وبالِ جان نہ جانو گے قرض کو
ہر گز نہ بن سکو گے کفایت شعار تم
گر دُرِّ شاہوار ملے کوڑیوں کے مول
زنہار بھول کر بھی نہ لینا اُدھار تم
مقروض ہو گئے تو پیادہ سے ہو بتر
مانا کہ رکھتے ہو فرسِ راہوار تم
غالب کہ ریل پر بھی ہو قطع سفر محال
جو قرض کے ٹکٹ سے ہوئے ہو سوار تم
کشتیِ نوح پر بھی چڑھے گر بطورِ قرض
مُجھ کو یہ خوف ہے کہ نہ پہونچو گے پار تم
مقروض کی نہیں ہے زمانہ میں آبرو
یوں اپنے دل میں بات بناؤ ہزار تم
تم جانتے ہو گرچہ بُرا سود خوار کو
ہے اصل یہ۔ کہ بن گئے بے سود۔ خوار تم
وہ بندۂ درم سہی اُس کا غلام کون؟
اپنے ہی دل میں سوچ لو اپنا وقار تم
پھر ہو سکے گا کوئی بھی افسوں نہ کارگر
لقمہ کو قرض کے نہ کرو زہر مار تم
سب سے زیادہ بدنصیب کون؟
اُس سے دنیا میں نہیں کوئی زیادہ بدبخت
جو نہ دانا ہو۔ نہ داناؤں کا مانے کہنا
آج آفت سے بچی جان۔ تو کل خیر نہیں
ایسے نادان کا مشکل ہے سلامت رہنا
ہمّت
گھوڑ دوڑ میں کودائی کی بازی تھی ایک دن
تازی پے کوئی۔ ترکی پے اپنے سوار تھا
جو ہِچکچا کے رہ گیا۔ سو رہ گیا ادھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق پار تھا
اپنے فعل پر پشیمانی
پیش آئے جو مصیبت پڑتی ہے سو بھگتنی
رہتی ہے یوں تسلی۔ مرضی یہی تھی رب کی
پر اپنے گوتکوں سے آتی ہے جو مصیبت
ہوتی ہے ساتھ اُس کے شرمندگی غضب کی
معافی میں سرور ہے
نادموں کی خطا معاف کرو
ہے معافی میں لذّت اور سرور
اپنے دل میں ذرا کرو انصاف
کون ہے جو ہے بے خطا و قصور
انتقامِ علاج خطا ہے
جو انتقام نہ لینے سے ہو خطا افزوں
تو یہ تمہاری خطا ہے جو انتقام نہ لو
وہ کام جس سے کہ اوروں کو فائدہ پہنچے
تم اس کے کرنے سے زنہار ہاتھ تھام نہ لو
جو انتقام سے منظور ہو خوشی اپنی
تو ایسے کام کا تم بھول کے بھی نام نہ لو
خطا کو خطا نہ جاننا ہلاکت ہے
ہے بیمار تو ۔ لیک بچنے کے قابل
گر اپنی خطا کو خطا جانتا ہے
مگر ایسے نادان کا کیا ٹھکانا
جو درد ہی کو دوا جانتا ہے
برا مانتا ہے جو سمجھائے کوئی
برائی کو اپنی بھلا جانتا ہے
وہ انجام کو روئے گا سر پکڑ کر
نہیں اس میں دھوکا خدا جانتا ہے
ہر کام میں کمال اچھا ہے
کوئی پیشہ ہو زراعت یا تجارت یا کہ علم
چاہیئے انسان کو پیدا کرے اس میں کمال
کاہلوں کی عمر بڑھ جاتی ہے خود کر لو حساب
با ہنر کا ایک دن اور بے ہنر کا ایک سال
دوراندیشی
جنھیں دی ہے خدا نے عقل دانا
ہے ان کو آج ہی سے فکر کل کی
مسافر چل پڑا جو آخر شب
تو ہو جاتی ہے منزل اس کی ہلکی
بدی کے عوض میں نیکی کرنا
ہر ایک جانور کا یہی خاصہ ہے
بدی کے عوض میں بدی کی تو کیا کی
ہے البتہ وہ شخص انسان کامل
جفا کے مقابل میں جس نے وفا کی
قول و فعل میں مطابقت چاہئیے
دیرینہ رسم و راہ سے قطع نظر کرو
برتاؤ آج کل کے زمانہ کے اور ہیں
دل شرق میں پڑا ہے پہ کہتے ہیں غرب کی
کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہیں
دل کی یک سوئی خلوت ہے
اگر دل گرفتار ہے مخمصوں میں
تو خلوت بھی بازار سے کم نہیں ہے
مگر جس کے دل کو ہے یک سوئی حاصل
تو وہ انجمن میں بھی خلوت نشیں ہے
غزلیات
ردیف (الف)
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی ، کیا آسماں بنایا
پانوں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی
اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا
مٹی سے بیل بو نٹے کیا خوش نما اگائے ،
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا
خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے
اس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا
میوے لگائے کیا کیا خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہان بنایا
سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا
سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا
پیاسی زمیں کے منہ میں مینھ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تو نے مینھ کا نشاں بنایا
یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا
تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا
اونچی اڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
ان بے پروں کا ان کو روزی رساں بنایا
کیا دودھ دینے والی گائیں بنائیں تو نے
چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا
رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میسر
ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدر داں بنایا
آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا
ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائے گاں بنایا
علیک السلام اے شفیع البرایا
اولعزم تجھ سا نہ آئے نہ آیا
علیک السلام اے امیں الہی
کہا جو خدا نے وہ تو نے سنایا
علیک السلام اے رفیع المدارج
کسی نے نہیں تیرے رتبے کو پایا
علیک السلام اے ستودہ خصائل
فدا خلق پر تیرے اپنا پرایا
علیک السلام اے جمیل الشمائل
جواد و رؤف و کریم السجایا
علیک السلام اے امان دو عالم
ترا دامن لطف ہے سب پہ چھایا
علیک السلام اے جمال معنی
نہ تھا تیرے جسم مطہر کا سایا
علیک السلام اے محب غریباں
ترے حلم نے بار امت اٹھایا
علیک السلام اے ترا نور اقدس
ہے سلطان اور جملہ عالم رعایا
علیک السلام اے تجھے ذات حق نے
جو اول بنایا ۔ تو آخر دکھایا
علیک السلام اے شہنشاہ وحدت
کہ توحید کا تو نے سکہ بٹھایا
علیک السلام اے طبیب نہانی
دلوں میں جو تھے روگ سب کو مٹایا
علیک السلام اے شفائے مجسم
عجب تو نے صحت کا نسخہ پلایا
علیک السلام اے سوار سبک رو
کسی نے تری گرد رہ کو نہ پایا
علیک السلام اے رسالت پناہی
خدا کا ہمیں تو نے رستہ بتایا
علیک السلام اے ہدایت کے مرکز
تجھے حق نے انسان کامل بنایا
درود و سلام و صلوۃ و تحیت
یہ لایا ہے حامد تحف اور ہدایا
تمھارے تیر میں انداز تھا نظر کا سا
ہر ایک دل کا ہے نقشہ مرے جگر کا سا
رقیب سر بھی پٹکتے تو میں نہ ہلتا کاش
ملا نہ بخت مجھے تیرے سنگ در کا سا
فروغ رخ یہ نظر میں سما گیا یک بار
کہ شام ہی سے مرا حال ہے سحر کا سا
سر اس غبار کا دامان شہسوار پہ ہے
ملا فرشتہ کو رتبہ کہاں بشر کا سا
پیام مرگ سے لیتا ہوں میں شگون وصال
گماں ہے تیر پہ بھی مرغ نامہ بر کا سا
کسی کی برق تبسم جو دل میں کوند گئی
تو چشم تر کا ہوا حال ابر تر کا سا
ذرہ ذرہ حیرتی ہے مہر پر تنویر کا
بے خودی آئینہ ہے ہنگامہ تکبیر کا
بیٹھ ہی جاتی ہے دل میں گود مجھ میں کچھ نہ آئے
میں تو دیوانہ ہوں اس کی دل ربا تقریر کا
ہے مسلم ناز یکتائی اسے ہر رنگ میں
ضلوہ نقش آفریں خاکہ ہو جس تصویر کا
توڑ اصنام ہوا اور دل کو ویرانہ بنا
ہے یہی سنگ بنا اس کعبہ کی تعمیر کا
حیف وہ سائل کہ کچھ دے کر جسے رخصت کیا
وائے وہ نالہ صلہ جس کو ملا تاثیر کا
عیب پوشی کو ہمیشہ کام فرمایا کئے
کشتہ الطاف ہوں یاران بے تدبیر کا
(١) یہ سلام محمد حامد جوان مرگ فرزند مصنف کی فرمائش سے لکھا گیا تھا ۔
باغباں کی کار فرمائی سے دیتا ہے خبر
گلشنِ عالم میں چلنا صرصرِ تغیر کا
اُس کے آنے کی توقع کر رہی ہے نفخِ روح
صورِ اسرافیل ہے کھٹکا مجھے زنجیر کا
غایتِ ترکیبِ اعضا ہے یہی کچھ کام کر
کاہلی اے بے خبر منشا نہیں تقدیر کا
جرم بھی اور خیرگی! یہ سیرتِ ابلیس ہے
ابنِ آدم کو ہے شایاں عذر ہی تقصیر کا
ہے اشارہ پر قلم کے لشکروں کی صلح و جنگ
دو گروہ کی چوب سے دم بند ہے شمشیر کا
آہ کھانا ہی پڑا داغِ فراقِ دائمی
قہر تھا ہونا کبھی اک لمحہ کی تاخیر کا
دل گیا ہاتھ سے کیا ہاتھ سے داماں نکلا
کہ تیرے پاؤں کی مانند گریباں نکلا
مر گئے دیکھ کے آثارِ سحر شامِ وصال
دشمنِ جانِ ستم کش رُخِ جاناں نکلا
دیکھ بے ہوش مجھے اشک فشاں ہیں احباب
جذبۂ شوق تو بد خواہِ عزیزاں نکلا
چارۂ جوشِ جنوں خانہ خرابی نہ ہوئی
گھر سمجھتے تھے جسے ہم سو بیاباں نکلا
کس قدر دل میں مرے جوشِ شکستِ دل ہے
کوئی سالم نہ ترے تیر کا پیکاں نکلا
بس کہ ہے نقشِ قدم دامِ گرفتاری جاں
اُن کے ہر گام پہ اک گنجِ شہیداں نکلا
پھر گئے دل ہی بیک گردشِ چشمِ کافر
دور میں کوئی بھی تیرے نہ مسلماں نکلا
آخری وقت کے وعدہ نے کیا شادی مرگ
ہمرہِ جاں دلِ مایوس کا ارماں نکلا
نکلے تم غیر کے گھر سے کہ مری جاں نکلی
جس کو دشوار سمجھتے تھے وہ آساں نکلا
تو اور عذرِ طعنِ رقیباں غضب ہوا
دل پارہ پارہ جب نہ ہوا تھا تو اب ہوا
ڈر کر ہلاک بو الہوسِ بے ادب ہوا
اُن کو بھی میری جان شکنی سے عجب ہوا
لبریز شکوہ ہائے تغافل تھا میں ولے
لو شکر کا سبب گلۂ بے سبب ہوا
لیتے ہیں ترکِ عشق سکھانے کے واسطے
دل نذر جاں فزائی حُسنِ طلب ہوا
کیا آگے اُس کے ولولہ شوق سر اٹھائے
سجدہ کیا تو ملزمِ ترکِ ادب ہوا
میرے سوا حریف ستم کوئی بھی نہ تھا
اب مہرباں ہو گئے یہ کیا غضب ہوا
ان کا نہ آستانہ سے باہر قدم بڑھا
سو بار انتظار میں میں جاں بلب ہوا
ہے بے لب و زباں بھی غُل تیرے نام کا
محرم نہیں ہے گوش مگر اِس پیام کا
خوش ہے ملامت اہلِ خرابات کے لئے
اس سلسلہ میں نام نہیں ننگ و نام کا
نخوت ہے جس کے کاسۂ سر میں بھری ہوئی
کب مستحق ہے محفلِ رنداں میں جام کا
جاگیرِ دَرد پر ہمیں سرکارِ عشق نے
تحریر کر دیا ہے وثیقہ دوام کا
وادی عشق میں نہ ملا کوئی ہم سفر
سنتے تھے نام خضر علیہ سلام کا
آسودگی نہ ڈھونڈ کہ جاتا ہے کارواں
لے مُستعار برق سے وقفہ قیام کا
کھولا ہے مُجھ پہ سرِّ حقیقت مجاز نے
یہ پُختگی صِلہ ہے خیالاتِ خام کا
کھاتا نہیں فریب تمنّائے دو جہاں
خوگر نہیں ہے توسنِ ہمّت لگام کا
مت رکھ طمع سے چشمِ تمتّع۔ کہ ہے یہاں
دانہ ہر ایک مردمکِ دیدہ دام کا
پہونچا دیا حدودِ عالم سے بھی پرے
مُطرب نے راگ چھیڑ دیا کس مقام کا
ظلمت میں کیا تمیز سفید و سیاہ کی
فرقت میں کُچھ حساب نہیں صبح و شام کا
جس کی نظر ہے صنعتِ ابرو نگار پر
ہے وہ قتیلِ تیغ۔ نہ کشتہ نیام کا
کھانے کو اے حریص غمِ عشق کم نہیں
یہ ہو تو کچھ بھی فکر نہ کر قرض و دام کا
میں بے قرارِ منزلِ مقصود بے نشاں
رستہ کی انتہا نہ ٹھکانا مقام کا
گر دیکھئے تو خاطرِ ناشاد شاد ہے
سچ پوچھئے تو ہے دلِ ناکام کام کا
اُٹھے تِری نقاب تو اُٹھ جائے ایک بار
سب تفرقہ یہ روز و شب و صبح شام کا
رسوا ہوئے بغیر نہ نازِ بتاں اُٹھا
جب ہو گئے سبک تو یہ بارِ گراں اُٹھا
معنی میں کر تلاشِ معاشِ دماغ و دل
حیواں صفت نہ لذّتِ کام و دہاں اُٹھا
یا آنکھ اُٹھا کے چشمِ فسوں ساز کو نہ دیکھ
یا عمر بھر مصائبِ دورِ زماں اُٹھا
بے یادِ دوست عمرِ گرامی نہ صرف کر
اِس گنجِ شائگاں کو نہ یوں رائگاں اُٹھا
وصل و فراق و وہم سہی دل لگی تو ہے
پھر کہاں جو پردۂ رازِ نہاں اُٹھا
پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہہ دیا ۔ کہ شمع کے سر سے دھواں اُٹھا
میں در پہ ترے ناصیہ سا ہو نہیں سکتا
دشمن کا بھی نقشِ کفِ پا ہو نہیں سکتا
باقی نہ رہی غیر کا اب جائے شکایت
شکرِ سِتم یار ادا ہو نہیں سکتا
سب کُچھ تو کیا ہم نے پہ کُچھ بھی نہ کیا ہائے
حیراں ہے کیا جانئے کیا ہو نہیں سکتا
اُس کوچے میں کیوں شب و روز ہیں پھرتے
گر چرخ سے جز جور و جفا ہو نہیں سکتا
اعدا سے ہوئے وہ مُقرہ وعدہ خلافی
میں منکرِ تاثیرِ دعا ہو نہیں سکتا
پامال کیا بے سرو پائی نے صدا افسوس
دل ہم قدمِ رنگِ حنا ہو نہیں سکتا
جس دل سے کدورت نہ گئے خاک ہے وہ دل
کیا آئینہ جو اہل صفا ہو نہیں سکتا
وہیں سے جب کہ اشارہ ہو خود نمائی کا
عجب کہ بندہ نہ دعوے کَرے خدائی کا
ملے جو رتبہ ترے در کی جبیں سائی کا
تو ایک سلسلہ ہو شاہی و گدائی کا
نہیں ہے فیض میں خِسّت و لیک پیدا ہے
تفاوتِ آئینہ و سنگ میں صفائی کا
یہاں جو عشق ہے بے تابِ جلوۂ دیدار
وہاں بھی حُسن محرَّک ہے خود نمائی کا
بتوں کے سامنے بُت گر گھِسے جبینِ نیاز
میں شیفتہ ہوں تری شانِ کبریائی کا
نہ کر کسی کی بُرائی نہ بن بھلے سے بُرا
بھلا بھلا ہے بُرا کام ہے بُرائی کا
بنائیں بگڑی ہوئی کو تو ایک بات بھی یے
بگاڑنا نہیں مشکل بنی بنائی کا
اُٹھا حجاب تو بس دین و دل دئے ہی بنی
جناب شیخ کو دعوے تھا پارسائی کا
تمھارے دل سے کدورت مٹائے تو جانیں
کھُلا ہے شہر میں اِک محکمہ صفائی کا
ہوس ہے گر سر و ساماں کے جمع کرنے کی
تلاش کر سر و ساماں بے نوائی کا
سوائے عشق نہیں کوئی رہبرِ چالاک
خِرد کو نہیں حوصلہ رسائی کا
اُسی کا وصف ہے مقصود شعر خوانی سے
اُسی کا ذکر ہے منشا غزل سرائی کا
نہیں ہے اب کے زمانہ کی یہ روش زنہار
میں یادگار ہوں خاقانی و سنائی کا
آغازِ عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا
تم روز و شب جو دست بدستِ عدو پھرے
میں پائمالِ گردشِ ایّام ہو گیا
میرا نشاں مٹا تو مٹا پر یہ رشک ہے
وردِ زبانِ خلق ترا نام ہو گیا
دل چاک چاک نغمۂ ناقوس نے کیا
سب پارہ پارہ جامۂ احرام ہو گیا
اب اور ڈھونڈے کوئی جولاں گہِ جنوں
صحرا بقدرِ وسعتِ یک گام ہو گیا
دل پیچ سے نہ طُرّۂ پُر خم کے چھُٹ سکا
بالا روی سے مرغِ تہ دام ہو گیا
اور اپنے حق میں طعن تغافل غضب ہوا
غیروں سے ملتفت بتِ خود کام ہو گیا
تاثیرِ جذبہ کیا ہو کہ دلِ اضطراب میں
تسکیں پذیرِ بوسہ بہ پیغام ہو گیا
کیا اب بھی مُجھ پے فرض نہیں دوستیِ کفر
وہ ضد سے میری دشمنِ اسلام ہو گیا
اللہ رے بوسۂ لبِ مے گوں کی آرزو
میں خاک ہو کے دردِ تہِ جام ہو گیا
اب تک بھی ہے نظر طرفِ بامِ ماہ وش
میں گرچہ آفتابِ لبِ بام ہو گیا
اب حرفِ نا سزا میں بھی اُن کو دریغ ہے
کیوں مجھ کو ذوقِ لذّتِ دشنام ہو گیا
نا مہربانیوں سے یوں پائمال کرنا
ہیہات ! دوستوں کو دشمن خیال کرنا
روزِ جزا میں آخر ۔ پوچھا نہ جائے گا ؟
تیرا یہ چپ لگانا - میرا سوال کرنا
او شہسوار اتنی اچھی نہیں ہے عُجلت
ہیں چند پا شکستہ - اِن کا خیال کرنا
ناقص بھی کاملوں سے ۔ کُچھ کم نہیں کہ اِن سے
سیکھا ہے کاملوں نے کسبِ کمال کرنا
کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
تیرا چاہا ہوا بُرا نہ ہوا
خاک اڑتی جو ہم خدا ہوتے
بندگی کا بھی حق ادا نہ ہوا
سب جتایا کئے نیازِ قدیم
وہ کسی کا بھی آشنا نہ ہوا
رخشِ ایّام کو قرار کہاں
اِدھر آیا اُدھر روانہ ہوا
کیا کھُلے ؟ جو کبھی نہ تھا پنہاں
کیوں ملے؟ جو کبھی جدا نہ ہوا
سخت فتنہ جہاں میں اُٹھتا
کوئی تجھ سا تِرے سوا نہ ہوا
جو گدھا خوئے بد کی دلدل میں
جا پھنسا پھر کبھی رہا نہ ہوا
تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا
رہ روِ مسلکِ توکّل ہے
وہ جو محتاج غیر کا نہ ہوا
نتیجہ کیونکر اچّھا ہو نہ ہو جب تک عمل اچّھا
نہیں بویا ہے تخم اچّھا تو کب پاؤ گے پھل اچّھا
کرو مت آج کل حضرت ! بُرائی کو ابھی چھوڑو
نہیں جو کام اچّھا ۔ وہ نہ آج اچّھا نہ کل اچّھا
بُرے کو تگ بھی کرنے اور توقع نیک نامی کی
دماغ اپنا سنوارو تم ! نہیں ہے یہ خلل اچّھا
جو ہو جائے خطا کوئی ۔ کہ آخر آدمی ہو تم
تو جتنا جلد ممکن ہو کرو اُس کا بدل اچّھا
کرے جو پاؤں بد راہی تو سونا اُس کا بہتر ہے
نہ ہو جس ہاتھ سے نیکی تو ایسا ہاتھ شل اچّھا
ذرا غم زدوں کے بھی غم خوار رہنا
کریں ناز تو ناز بردار رہنا
فراخی و عُسرت میں ۔ شادی و غم میں
بہر حال یاروں کے تم یار رہنا
سمجھ نردباں اپنی ناکامیوں کو
کہ ہے شرطِ ہمّت طلب گار رہنا
کرو شکر ہے عنایت خدا کی
بلاؤں میں اکثر گرفتار رہنا
اگر آدمی کو نہ ہو مشغلہ کُچھ
بہشتِ بریں میں ہو دشوار رہنا
خبر ہے آدم سے جنّت چھُٹی کیوں
خلافِ جبلّت تھا بے کار رہنا
سمجھتے ہیں شیروں کو بھی نرم چارہ
غزالانِ شہری سے بھی ہشیار رہنا
یاد تیری یاد ہے نامِ خدا
ورنہ ہم کیا ؟ اور ہماری یاد کیا؟
صدر آرا تو جہاں ہو صدر ہے
آگرہ کیا اور الہ آباد کیا
مبداء فیّاض کے شاگرد کو
حاجتِ آموزشِ اُستاد کیا
اک کسوٹی ہے ترے کردار کی
مرتبہ کیا مال کیا اولاد کیا
نقابِ جور میں روپوش اک لطفِ نہاں نکلا
وہ میرے حال پر مُجھ سے بھی زیادہ مہرباں نکلا
نہ تھا بزمِ احبّا ہی میں تیرا ذکر دشمن بھی
بیاں کرتا سِر بازار تیری داستاں نکلا
حجابِ شاہدِ مطلق نہ اُٹّھا ہے نہ اُٹھے گا
جسے ہم لا مکاں سمجھے تھے وہ بھی اک مکاں نکلا
جو بھلے بُرے کی اٹکل نہ مِرا اشعار ہوتا
نہ جزائے خیر پاتا ۔ نہ گناہگار ہوتا
مئے بیخودی کا ساقی ! مجھے ایک جرعہ بس تھا
نہ کبھی نشہ اُترتا ۔ نہ کبھی خمار ہوتا
میں کبھی کا مر بھی رہتا - نہ غمِ فراق سہتا
اگر اپنی زندگی پر مُجھے اختیار ہوتا
یہ جو عشق جانستاں ہے ۔ یہ وہ بحرِ بیکراں ہے
نہ سُنا کوئی سفینہ کبھی اِس سے پار ہوتا
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمھیں نا گوار ہوتا
ہے اِس انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا
کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہ ہی کاروبار ہوتا
سنو گے مُجھ سے میرا ماجرا کیا ؟
کہا کرتے ہیں افسانوں میں کیا کیا؟
نہیں تشویشِ آیندہ کہ ہو کب ؟
گزشتہ کا تحیّرُ ہے کہ تھا کیا
نہ کر تفتیش ہے خلوت نشیں کون؟
تامّل کر کہ ہے یہ برملا کیا؟
ہے اِک آئینہ خانہ بزمِ کثرت
بتاؤں غیر کس کو ؟ ماسوا کیا؟
جو نکلا ہی نہ ہو قصرِ عدم سے
بگاڑے گی اُسے موجِ فنا کیا؟
فقط مذکور ہے اِک نسبتِ خاص
مقدّر ہے خبر کیا ؟ مبتدا کیا؟
جہاں نقشِ قدم ہو روحِ قدسی
وہاں پہنچے گی عقلِ نا رسا کیا؟
لگاؤں ’’شیئاللہ‘‘ کی صدا کیوں ؟
بھُلا دوں ’’ یفعل اللہ مَایشاء ‘‘ کیا؟
سلام
محرّم کا چاند آسماں پر جو چمکا
تو یاد آگیا واقعہ رنج و غم کا
مصیبت کا بیداد کا بے کسی کا
غضب کا جفا کا بلا کا ستم کا
وطن سے جدا دشتِ غربت میں جا کر
ہوا قتل کنبہ شفیع الامم کا
یہ شیرانِ حق ۔ اور وہ دنیا کے کتّے
لئیموں نے کاٹا سر اہلِ کرم کا
کیا ظلم بے وجہ سلطانِ دیں پر
یہ لالچ تھا دُنیا کے جاہ و حشم کا
شہیدوں کی ہے تشنگی یاد آتی
نہ ہو چشمہ لبریز کیوں چشمِ نم کا
رضا اور تسلیم صبر و توکّل
مصیبت میں شیوہ تھا اہلِ کرم کا
یہ وہ دن ہے جس دن میں ڈھایا گیا ہے
جو کعبہ عرب کا ۔ تو قبیلہ عجم کا
برستی ہے دیوار و در سے اُداسی
ہے چھایا ہوا ابر رنج و الم کا
تڑپتی ہے بجلی تو روتے ہیں بادل
کہ ہے آج کا دن شہیدوں کے غم کا
کرے کوئی تحریر و تقریر کیونکر
نہ جراءت زباں کی نہ یارا قلم کا
متفرقات
سب جھوٹ ہے کوئی کیا کرے گا
ہو گا وہی جو خدا کرے گا
کرنے دو بدی کرے جو کوئی
اُس کا بھی خدا بھلا کرے گا
خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو
ورنہ یہ بحرِ بیکراں ہوتا
ردیف (ب)
کیا کیا اجل نے جان چُرائی تمام شب
کوئی بھی آرزو نہ بَر آئی تمام شب
دل سوز کب ہوئے ہیں کہ جب خاک ہو گیا
تربت پہ میری شمع جلائی تمام شب
اے وائے تلخ کامیِ روز بد فراق
ناصح نے جانِ غم زدہ کھائی تمام شب
از بس یقینِ وعدۂ دیدارِ خواب تھا
کیا خوش ہوئے کہ نیند نہ آئی تمام شب
اِک آہِ دل نشیں میں وہ بُت منفعل ہوا
واللہ کیا ندامت اُٹھائی تمام شب
لگتے ہی آنکھ دیکھ لیا جلوۂ نہاں
پیشِ نظر تھی شانِ خدائی تمام شب
ردیف (ض)
نہیں معلوم کیا واجب ہے کیا فرض
مَرے مذہب میں ہے تیری رضا فرض
شعورِ ہستیِ موہوم ہے کفر
فنا بعدِ فنا بعدِ فنا فرض
نہیں آگاہ مستِ بادۂ شوق
کہاں سنّت کدھر واجب کُجا فرض
رہِ تسلیم میں از روئے فتویٰ
دعا واجب پہ ترکِ مدّعا فرض
نہ چھوٹے کفر میں بھی وضعِ ایماں
کہ ہر حالت میں ہے یادِ خدا فرض
نہیں دیکھا کسی نے حُسنِ مستور
بقدرِ فہم لیکن کر لیا فرض
نہ مانوں گا نہ مانوں گا کبھی میں
مُجھے کرتے ہیں کیوں اُس سے جدا فرض
نہ کھولوں گا نہ کھولوں گا زباں کو
کہ ہے اخفائے رازِ دلربا فرض
بلا سے کوئی مانے یا نہ مانے
چلو ہم کر چُکے اپنا ادا فرض
ردیف (م)
السلام اے شاہِ شاہاں السلام
السلام اے نورِ امکاں السلام
اے تہی دستوں کے حامی مرحبا
اے شفیعِ اہلِ عصیاں السلام
السلام اے سجدہ گاہِ قدسیاں
اے رسولِ خاصِ یزداں السلام
السلام اے رحمۃ للعالمین
رہنمائے حق پر وہاں السلام
السلام اے بادشاہِ جن و انس
وارثِ ملکِ سلیماں السلام
اے تری باتیں کلامِ کردگار
اے ترا دل عاشِ رحماں السلام
افتخارِ آدم و نوح و خلیل
اے عرب کے مہرِ تاباں السلام
بُت پرستی ترے آنے سے مٹی
قبلہ گاہِ حق پرستاں السلام
تھا جو کوہستان و ریگستاں عرب
کر دیا تو نے گلستاں السلام
فتح کر ڈالے تِرے خدّام نے
مصر و شام و یوناں السلام
ہو گئے سب تیری دعوت میں شریک
تُرک و ایران و خراساں السلام
یا نبی السیف یا نور الہدیٰ
مسلکِ حق کے نگہباں السلام
شاہدِ انجیل و توریت و زبور
موردِ آیاتِ قرآں السلام
کشتیِ دوراں کو ہے تجھ سے قیام
لنگرِ کشتیِ دوراں السلام
جان و ایماں کو ملی تجھ سے شفا
اے طبیبِ جان و ایماں السلام
عرضِ حامد*(۱) ہے یہی با صد نیاز
اے عرب کے مہرِ تاباں السلام
*(۱)۔ یہ سلام محمد حامد جوان مرگ فرزند مصنّف کی فرمائش سے لکھا گیا تھا۔
ردیفِ (ن)
ظاہر تو ہے، تو میں نہ نہاں ہوں
باطن تو ہے ، تو میں عیاں ہوں
تو ہی ظاہر ہے ۔ تو ہی باطن
تو ہی تو ہے تو میں کہاں ہوں
تیرے ہوتے کہیں نہیں میں
اوّل ۔ آخر۔ نہ درمیاں ہوں میں
تو تو میں میں نے مار ڈالا
دم بند ہے کیجئے نہ ہاں ہوں
میں ہی لیلیٰ ہوں میں ہی محمل
ناقہ بھی ہوں۔ میں ہی سارباں ہوں
ہوں کُنجِ قفس میں بند لیکن
بیرونِ زمیں و آسماں ہوں
دریا کی طرح رواں ہوں لیکن
اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں
جز نام نہیں نشاں میرا
سچ مچ میں بہرِ بیکراں ہوں
۱وہ پیرہنِ جان میں جاں حجلۂ تن میں
ہوں وہمِ جدائی سے عجب رنج و محن میں
مقصود زیارت ہے اگر کعبۂ دل کی
ہو گرم سفر ناحیۂ ملکِ وطن میں
وہ قامتِ دلکش ہے عجب فتنۂ عالم
چھُپتا ہی نہیں پیرہنِ نو و کہن میں
اے شمعٰ بہا اشک چھُپا رازِ محبّت
خاکسترِ پروانہ ہے بیتاب لگن میں
شورش مری بے جا ہے نہ فریاد نکمّی
رونق ہے ذرا نالۂ بلبل سے چمن میں
تاثیر ہو کیا خاک جو باتوں میں گھڑت ہو
کُچھ بات نکلتی ہے تو بے ساختہ پن میں
کمتر ہے ود و دام سے انساں بمراتب
ہر دم جو ترقی نہ کرے چال چلن میں
ہوں میں تو وہی معتکفِ گوشۂ عُزلت
حالانکہ مرا ریختہ پہنچا ہے دکن میں
یہ سچ ہے کہ سودا بھی تھا استادِ زمانہ
میری تو۔ مگر میر ہی تھا شعر کے فن میں
آخر یہ حُسن چھُپ نہ سکے گا نقاب میں
شرماؤ گے تمھیں نہ کرو ضد حجاب میں
پامال شوخیوں میں کرو تم زمیں کو
ڈالو فلک پے زلزلہ میں اضطراب میں
روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے
نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں
دل کی گرہ نہ وا ہوئ دردا شبِ وصال
گزری تمام بست و کشادِ نقاب میں
رنجِ عتاب زاہدِ مسکیں کو مفت ہے
یہاں اتقا میں سعی وہاں اجتناب میں
جاں میں نے نامہ بر قدم پر نثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں
ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجئے بے قرار
رو رو کے ابر کو میں ڈبوتا ہوں آب میں
واعظ سے ڈر گئے کہ نہ شامل ہوئے ہم آج
ترتیبِ محفلِ مے و چنگ و رباب میں
ساقی اِدھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست میں
کُچھ مستیِ نگہ بھی ملا دے شراب میں
داخل نہ دشمنوں میں نہ احباب میں شمار
مدّ فضول ہوں میں تمھارے حساب میں
کس کس کے جور اٹھائیں گے آگے کو دیکھئے
دشمن ہے چرخِ پیرِ زمانِ شباب میں
پیغامبر اشارۂ ابرو سے مرگیا
پھر جی اُٹھے گا لب بھی ہلا دو جواب میں
جہاں تیغِ ہمّت علم دیکھتے ہیں
محلات کا سر قلم دیکھتے ہیں
جو بیٹھے تھے یاں پا بدامانِ ہستی
اُنھیں سر بجیبِ عدم دیکھتے ہیں
کمالاتِ صانع پہ جن کی نظر ہے
وہ خوبیِ مصنوع کم دیکھتے ہیں
نہیں مبتلا جو تن آسانیوں میں
اُنھیں دم بدم تازہ دم دیکھتے ہیں
نہیں جن کو جاہ و حشم کا تکبّر
وہی لطفِ جاہ و حشم دیکھتے ہیں
شکم پروری جن کا شیوہ ہے اُن کو
اسیرِ جفائے شکم دیکھتے ہیں
بس! اے رنگ و بو تو نہ کر ناز بیجا
خدا جانے کیا بات ہم دیکھتے ہیں
اُڑے ہیں جو رخشِ ہمّت کو سرپٹ
وہ منزل کو زیرِ قدم دیکھتے ہیں
سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں
مُجھے دل لگی کے ٹھکانے بہت ہیں
جو تشریف لاؤ تو ہے کون مانع
مگر خوئے بد کو بہانے بہت ہیں
اثر کر گئی نفسِ رہزن کی دھمکی
کہ یاں مرد کم اور زنانے بہت ہیں
مُعطّل نہیں بیٹھتے شغل والے
شکار افگنوں کو نشانے بہت ہیں
کرو دل کے ویرانہ کی کنج کادی
دبے اس کھنڈر میں خزانے بہت ہیں
نہ اے شمع رو رو مر شام ہی سے
ابھی تجھ کو آنسو بہانے بہت ہیں
ہوا میری روداد پر حکمِ آخر
کہ مشہور ایسے فسانے بہت ہیں
نہیں ریل یا تار برقی پے موقوف
چھپے قدرتی کارخانے بہت ہیں
بچے کیوں بیچارہ مُرغ گرسنہ
بکثرت ہیں دام اور دانے بہت ہیں
بس ایک آستانہ ہے سجدے کے قابل
زمانہ میں گو آستانے بہت ہیں
اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں
آگے حواس گم خردِ نارسا کے ہیں
ممنون برگِ گل ہیں نہ شرمندۂ صبا
ہم بلبل اور ہی چمنِ دلکشا کے ہیں
کیا کوہ کن کی کوہ کنی کیا جنونِ قیس
وادیِ عشق میں یہ مقام ابتدا کے ہیں
بنیان عمر سست ہے اور منعمانِ دہر
مغرور اپنے شکِ عالی بنا کے ہیں
اپنے وجود کا ابھی عقدہ نہیں کھُلا
مصروف حل و عقد میں ارض و سما کے ہیں
شیخ و برہمن میں اگر لاگ ہے تو ہو
دونو شکار غمزہ اُسی دلربا کے ہیں
جن کو عنایتِ ازلی سے ہے چشم داشت
وہ معتقد دعا کے نہ قائل دوا کے ہیں
لایا نہیں ہنوز نویدِ وصالِ دوست
ہم شکوہ سنج سُستیِ پیکِ سبا کے ہیں
سمجھو اگر ۔ تو ہیں وہی سب سے حریص تر
طالب خدا سے جو دل بے مدعا کے ہیں
اِن بد دلوں نے عشق کو بدنام کر دیا
جو مرتکب شکایتِ جور و جفا کے ہیں
ہمّت ہمائے اوجِ سعادت ہے مرد کو
اُلوّ ہیں وہ جو شیفتہ ظلِّ ہما کے ہیں
ہے اشک و آہ راس ہمارے مزاج کو
یعنی پلے ہوئے اِسی آب و ہوا کے ہیں
جو باندھتے ہیں طرّہ طرّار کا خیال
نادان امّیدوار نزولِ بلا کے ہیں
کھٹکا ہوا نہیں اور دل اُڑا لیا
یہ سارے ہتکنڈے تری زلفِ دوتا کے ہیں
صید کر شمہ اِس لئے ہوتے نہیں کہ ہم
پہلے سے زخم خوردہ فریبِ وفا کے ہیں
مارا بھی اور مار کے زندہ بھی کر دیا
یہ شعبدے تو شوخی ناز و ادا کے ہیں
خلوت میں بھی روا نہیں گستاخیِ نگاہ
پردے پڑے ہوئے ابھی شرم و حیا کے ہیں
یوں کہہ رہی ہے نرگسِ بیمار کی ادا
نسخے تو مجھ کو یاد ہزاروں شفا کے ہیں
اب تک ہے سجدہ گاہ عزیزانِ رازگار
جس خاک پر نشان تری کفشِ پا کے ہیں
اندیشہ ہے کے دے نہ اِدھر کی اُدھر لگا
مجھ کو تو ناپسند وتیرے صبا کے ہیں
سیرِ ورددِ قافلۂ نو بہار دیکھ
برپا خیام اوجِ ہوا میں گھٹا کے ہیں
جاتا ہے خاک پاک دکن کو یہ ریختہ
واں قدردان اِس گُہرِ بے بہا کے ہیں
احباب کا کرم ہے اگر نکتہ چیں نہ ہو
ورنہ ہم معترف اپنی خطا کے ہیں
زمانہ اُن سے کراتا ہے آج خار کشی
جو محو سرو و صنوبر تھے خانہ باغوں میں
اُنہیں پہ گردشِ ایّام کا گرا نزلہ
سمائی ہوئی گُل و مل تھی جن دماغوں میں
وہ عطر فتنہ سے بستا تھا جن کا پیراہن
مُیسّر اب اُنہیں روغن نہیں چراغوں میں
وہ مانگ تانگ سے پیتے تھے اوک سے پانی
بری تھی جن کی کے مئے مشکبو باغوں میں
منزل داز و دار ہے اور ہم میں دم نہیں
ہوں ریل پہ سوار تو دام و درم نہیں
میدان زدگی میں کریں دوڑ دھوپ کیا
ہم ایسے ناتواں ہیں کہ اٹھتا قدم نہیں
کیا خوب ہات پاؤں خدا نے عطا کئے
چلتے رہیں تو حاجتِ خیل و خدم نہیں
اغیار کیوں دخیل ہیں بزمِ سرور میں
مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں
جب تک ہے عشق و عاشق و معشوق میں تمیز
کھُلتا کسی پہ رازِ حدوث و قدم نہیں
آدم پہ معترض ہوں تو فرشتے تو کیا عجب
چکّھی ہنوز چاشنی زہرِ غم نہیں
اظہارِ حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
تو ہی نہیں ہے رمزِ محبّت سے آشنا
ورنہ دیارِ حسن میں رسمِ ستم نہیں
ارشاد طبع کی نہ اگر پیروی کرے
نقاشی خیال مجالِ قلم نہیں
سر ہی کے بل گئے ہیں سدا رہروانِ عشق
حیرت زدہ نہ بن کہ نشانِ قدم نہیں
کیسی طلب کہاں کی طلب کس لئے طلب
ہم ہیں تو وہ نہیں ہے جو وہ ہے تو ہم نہیں
کبھی تقصیر جس نے کی ہی نہیں
ہم سے پوچھو تو آدمی ہی نہیں
مر چکے جیتے جی خوشا قسمت !
اِس سے اچھی تو زندگی ہی نہیں
دوستی اور کسی غرض کے لئے!
وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں
یا وفا ہی نہ تھی زمانے میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں
کُچھ مری بات کیمیا تو نہ تھی
ایسی بگڑی کہ پھر بنی ہی نہیں
جس خوشی کو ہو نہ قیام و دوام
غم سے بدتر ہے وہ خوشی ہی نہیں
بندگی کا شعور ہے جب تک
بندہ پرور وہ زندگی ہی نہیں
ایک دو گھونٹ جامِ وحدت کے
جو نہ پی لے وہ متّقی ہی نہیں
کی ہے زاہد نے آپ دنیا ترک
یا مقدّر میں اُس کے تھی ہی نہیں
عارضِ روشن پہ جب زلفیں پریشاں ہو گئیں
کفر کی گمراہیاں ہمرنگِ ایماں ہو گئیں
زُلف دیکھی اُس کی جن قوموں نے وہ کافر بنیں
رُخ نظر آیا جنھیں وہ سب مسلماں ہو گئیں
خود فروشی حُسن کو جب سے ہوئی مدِ نظر
نِرخ دل بھی گھٹ گیا جانیں بھی ارزاں ہو گئیں
جو بنائیں تھیں کبھی ایوانِ کسریٰ کا جواب
گردشِ افلاک سے گردِ بیاباں ہو گئیں
خوفِ ناکامی ہے جب تک کامیابی ہے محال
مُشکلیں جب بندھ گئی ہمّت سب آساں ہو گئیں
ہائے کس کو روئیے اور کس کی خاطر پیٹئے
کیسی کیسی صورتیں نظروں سے پنہاں ہو گئیں
کیا اِنھیں اندوہِ ہنگامِ سحر یاد آگیا
شام ہی سے بزم میں شمعیں جو گریاں ہو گئیں
اِک فرشتے بھی تو ہیں جن کو نہ محنت نہ رنج
خواہشیں دل کی بلائے جانِ انساں ہو گئیں
کیا ہے وہ جانِ مجسّم جس کے شوقِ دید میں
جامۂ تن پھینک کر روحیں بھی عریاں ہو گئیں
تھی تو وہ توفیق الٰہی میں نے سمجھا اپنا فعل
طاعتیں بھی میرے حق میں عصیاں ہو گئیں
خاک سے افلاک تک ہے دور تیرے نام کا
کون سی محفل ہے وہ جس میں ترا چرچا نہیں
اوّل و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو
تو ہی تو ہے پر کہیں ۔ تیرا پتا لگتا نہیں
سب سمائے تجھ میں ہیں یا تو سمایا سب میں ہے
اِس پہیلی کو کس نے آج تک بوجھا نہیں
حامد(*۱) کہاں ! کہ دوڑ کے جاؤں خبر کو میں
کس آرزو پہ قطع کروں اِس سفر کو میں
مانا بُری خبر ہے پہ تیری خبر تو ہے
صبر و قرار نذر کروں نامہ بر کو میں
یہ سنگ و خشت آہ دلاتے ہیں تیری یاد
روتا ہوں دیکھ دیکھ کے دیوار و در کو میں
ہے تیری شکل یا تیری آواز کا خیال
کرتا ہوں التفات یکایک جدھر کو میں
افسوس ! ہائے ہائے کی آتی نہیں صدا
پوچھے تو کیا بتاؤں ؟ ترے چارہ گر کو میں
کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں
جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نظر کو میں
اچھا جو تو نے گوشۂ مرقد کیا پسند
اب اپنے حق میں گور بناؤں گا گھر کو میں
تیرے سِر عزیز کی بالش ہو خاک سے
بالیِنِ غم سے اب نہ اٹھاؤں گا سر کو میں
دیکھی نہ تھی بہار تیرے شباب کی
بھولا نہ تھا ابھی تیرے عہدِ صِغر کو میں
تقدیر ہی نے ہائے ! کُچھ مساعدت
کیا روؤ اب دعا و دوا کہ اثر کو میں
حکمِ خدا یہی تھا کہ بیٹھا کیا کروں
ماتم میں تیرے اشک فشاں چشمِ تر کو میں
جز درد و داغ تو نے نہ چھوڑا نشان حیف!!
رکھوں گا میہمان انِھیں عمر بھر کو میں
کرنے دو آہ و نالہ کہ آخر رہوں گا بیٹھ
تسلیم کر کے حکمِ قضا و قدر کو میں
کیا فکر آب و نان ! کہ غم کہہ رہا ہے اب
موجود ہوں ضیافتِ دل اور جگر کو میں
تجھ کو جوارِ رحمتِ حق میں جگہ ملے
مانگا کروں گا اب یہ دعا ہر سحر کو میں
حبسِ دوام تو نہیں دنیا۔ کہ مر رہوں
کاہے کو گھر خیال کروں رہ گزر کو میں
خود ہم سے بھی زیادہ ہو جو ہم پے مہرباں
وہ جام زہر دے ۔ تو نہ چکّھوں شکر کو میں
وہ جانے اور اُس کی رضا جو پسند ہو
سب کام سونپتا ہوں اُسی داد گر کو میں
ہوتا نہ دل میں درد۔ تو کرتا نہ ہائے ہائے
دیتا نہ طول یوں سخنِ مختصر کو میں
(۱*)محمد حامد فرزند مصنّف نے ۱۲ اکتوبر سنہ۱۸۹۵ کو انتقال کیا تھا ۔ اس جوان مرگ کے ماتم میں یہ مرثیہ بمقام آگرہ لکھا گیا۔
بزمِ ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں
ہے یہ تری ہی صدا غیر کی آواز نہیں
کہہ سکے کون وہ کیا ہے ؟ مگر از روئے یقین
گُل نہیں شمع نہیں ۔ سرو سرافراز نہیں
دل ہو بے لوث تو کیا وجہ تسلّی ہو دروغ
طائرِ مُردہ مگر طُمعۂ شہباز نہیں
بُلبلوں کا تھا جہاں صحنِ چمن میں انبوہ
آج چڑیا بھی وہاں زمزمہ پرداز نہیں
بھاگ ویرانۂ دُنیا سے کہ اِس میں
نُزلِ مہمان بجُز مائدۂ آز نہیں
دلبری جذبِ مُحبّت کا کرشمہ ہے فقط
کُچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دل کی تسخیر ہے شیریں سُخنیِ پر موقوف
کُچھ کرامات نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دستِ قدرت نے مجھے آپ بنایا ہے تو پھر
کونسا کام ہے میرا کہ خدا ساز نہیں؟
متفرقات
قدسیوں کے بھی ہوش اڑتے ہیں
سُن کے مشتِ خاک کی باتیں
دل کا احوال تو خدا جانے
ظاہرا ہیں تپاک کی باتیں
جس سے نہ انتفاع ہوا بنائے جنس کو
فروردی ہے لیل و نہار میں
ردیف (و)
وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزلیں اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی شکر ہے جو سپاس ہے وہ ملول ہے جو اُداس ہے
جسے شکوہ کہتے ہو گلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی نقص ہے وہی کھوٹ ہے وہی ضرب ہے وہی چوٹ ہے
وہی سو ہے وہی فائدہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی ہے ندی وہی نہر ہے وہی موج ہے وہی لہر ہے
یہ حباب ہے وہی بُلبلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی کذب ہے وہی جھوٹ ہے وہی جرعہ ہے وہی گھونٹ ہے
وہی جوش ہے وہی ولولہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی ساتھی ہے جو رفیق ہے وہی یار ہے جو صَدِیق ہے
وہی مہر ہے وہی مامتا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے بھید کہتے ہو راز ہے جسے باجا کہتے ہو ساز ہے
جسے تان کہتے ہو ہے نوا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو مراد ہے وہی مدعا وہی متّقی وہی پارسا
جو پھنسے بلا میں وہ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو کہا ہے میں نے مقول ہے جو نمونہ ہے وہ مثال ہے
مری سرگزشت ہے ماجرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
جو چنانچہ ہے وہی جیسا ہے جو چگونہ ہے وہی کیسا ہے
جو چناں چیں ہے سو ہکذا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی خوار ہے جو ذلیل ہے وہی دوست ہے جو خلیل ہے
بدو نیک کیا ہے برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
(۱*) یہ نصابیہ غزل سنہ۱۸۸۰ میں مصنّف نے اپنے بچّوں کے لئے لکھی تھی ۔
پائے غیر اور میرا سر دیکھو
ٹوٹ جائے نہ سنگِ در دیکھو
ایک عالم پڑا ہے چکّر میں
گردشِ چشمِ فتنہ گر دیکھو
میں نظر بند غیر مدِّ نظر
اپنا دل اور مرا جگر دیکھو
چشم پُر نم ہے تن غبار آلود
آن کر سیرِ بحر و بر دیکھو
فکرِ افشائے راز کیوں نہ کروں
کیا حیا خیز ہے نظر دیکھو
ہے دگرگوں مریضِ غم کا حال
ہو سکے تو دوا ابھی کر دیکھو
کم نمائی و خویشتن بینی
کتنے بے دید ہو اِدھر دیکھو
ہے جانِ حزیں ایک لبِ روح فزا دو
اے کاش ! کہ اس ایک کی ہو جائیں دوا دو
تھا خرِ جگر ہجر میں تنہا غمِ دوری
ہیں آفتِ جاں وصل میں اب شرم و حیا دو
مستانہ روش کیوں نہ چلے وہ نگہِ ناز
آنکھیں ہیں کہ جامِ مے ہوش ربا دو
جی تنگ ہے کیا کیجئے اور جوشِ بلا یہ
دل ایک ہے کیا دیجئے اور زلفِ دوتا دو
ہے عینِ عنایت جو نشاں پوچھئے میرا
یہ بھی نہیں منظور تو اپنا ہی پتا دو
کیا دامِ فریب اُس نے بچھایا ہے دلاویز
دو آن پھنسیں اور جو ہو جائیں رہا دو
گر نازِ خود آرا کو ہے یکتائی کا دعویٰ
کیوں آئنہ دیکھا کہ ہوئے جلوہ نما دو
بے باکی و شوخی بھی ہے اور شرم و حیا بھی
دو محرمِ اسرار ہیں تو پردہ کشا دو
دو گیسو و زلف بلا خیز ہیں چاروں
ہاں کاکلِ خم دار بھی ہیں ان کے سوا دو
وہ طرز و روش ہائے ! وہ انداز و ادا حیف
کیا بچتے دل و جان ۔ کجا چار ۔ کجا دو
سیرئ نظری بھی نہ ہوئی ہائے مُیسّر
آنکھیں جو ہوئیں چار لگے تیرِ قضا دو
معشوقِ دل نواز اگر تند خو نہ ہو
ثابت خلوصِ عاشق خلافِ عدو نہ ہو
وہاں سجدۂ نیاز کی مٹی خراب ہے
جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو
وہ جنّتِ وصال جہاں تو ہو میں نہ ہوں
وہ دوزخِ فراق جہاں میں ہوں تو نہ ہو
خمخانہ ہے کرامتِ پیرِ مغاں سے پُر
زنہار منکِر می و جام و سبو نہ ہو
بلبل کے دل میں داغِ وداعِ بہار ہے
یارب! کوئی فریفتۂ رنگ و بو نہ ہو
شرم گناہ نے تو ڈبویا ہی تھا مُجھے
گر دست گیر مژدۂ لا تقنطو نہ ہو
افسانہائے شوق سناتا ہوں میں اُسے
جو عالمِ خیال میں بھی رو برو نہ ہو
حُسنِ غیور ہے شکوہِ یگانگی
ہو دید محض اور کوئی روبرو نہ ہو
دل میں کسک نہ ہو تو سمجھے اُسے مریض
زنہار درد دل کے لئے چارہ جو نہ ہو
ہے کائنات گرد رہِ کاروانِ عشق
وہ دل ہی کیا جس میں تری جستجو نہ ہو(۲*)
کیا مانگتے جس کا کبھی چسکا نہ لگا ہو
دی راہِ خدا ہم کو بھی ساقی کا بھلا ہو
کر پیرِ خرابات سے دریوزۂ ہمّت
جا خاکِ درِ میکدہ پر ناصیہ ساہو
بے حوصلگی ہے گلۂ تلخی دوراں
کو دیں اُسے پی جائے گو زہر ملا ہو
آنے کو ہے اب شاہدِ گُل پردہ سے باہر
آمادۂ مشاطگی ای بادِ صبا ہو
جب ہم سے ملے رسمِ ملاقات تو جانیں
تسلیم کیا ۔ تم ہمہ تن مہر و وفا ہو
سر رشتۂ آ مالِ دو عالم ہے ترے ہاتھ
پھر کاہے کا الجھاؤ۔ جو تُو عقد کشا ہو
تنگی سے نہ دل تنگ ہو ۔ جا شکرِ خدا کر
اے خوش دہ دلِ تنگ ۔ کہ راضی برضا ہو
گاہک ہی نہ ہو کوئی تو اے عرضِ ہنر بیچ
اس وائی گُلِ تازہ جو صحرا میں کھلا ہو
اُس غنچۂ دلگیر کی تقدیر کہ زنہار
تحریکِ نسیمِ سحری سے بھی نہ وا ہو
ہمّت کے لئے عار ہے احسان اُٹھانا
وہ درد بھی اچھا جو نہ محتاجِ دوا ہو
(۱*)مرتبہ ۸جون سنہ۱۸۷۳ ع
(۲*) مرتبہ ۱۰ نومبر سنہ۱۸۹۷ع
بچ گنہ سے ورنہ توبہ اور استغفار کر
کھونپ جب کپڑے میں آئی چارہ کیا غیر از رفو
سنگریزہ تھا فقط گر لعل میں ہوتا نہ رنگ
کوئلے سے تھا بتر گر مشک میں ہوتی نہ بو
تائب اور معصوم ہیں دونو بری پر فرق ہے
ایک مادر زاد طاہر ۔ ایک بعد از شست و شو
گر نہ ہو نیکی ، دماغی قوتیں برباد ہیں
بوستاں سرسبز ہوتا ہی نہیں بے آبِ جو
متفرّقات
میں پٹکتا ہی رہ گیا سر کو
چل دئے وہ پیادہ پا گھر کو
دو جگہ خفتگانِ خاک مُجھے
تھوڑے تھوڑے ذرا پرے سر کو
ان غفلتوں سے داغ ہوں لیکن خدا کرے
تاخیر کا سبب کوئی اس کے سوا نہ ہو
ردیف (ی)
ناصح جو ملامت میں محابا نہیں کرتے
انصاف کریں دل میں ۔ کہ وہ کیا نہیں کرتے
اظہارِ مشیخت ہے نشاں بے ہنری کا
جو اہلِ ہنر ہیں کبھی دعوےٰ نہیں کرتے
کہتے بھی ہیں پھر صاف مکر جاتے ہیں کہہ کر
کیا شخص ہیں کُچھ خوف خدا کا نہیں کرتے
دردِ دِل آزردہ سے ہے جن کو خبر کچھ
آزار کسی کا بھی گوارا نہیں کرتے
جاں کاہیوں کے بعد جنہیں ملتی ہے دولت
وہ مفت میں دولت کو لٹایا نہیں کرتے
کیا یہ ہی جس پہ ہم دیتے ہیں جاں
یا کوئی دنیائے فانی اور ہے
یوں تو ہر انسان گویا ہے مگر
شیوۂ شیوا بیانی اور ہے
چل رہی ہے جس سے جسمانی مشین
کوئی پوشیدہ کمانی اور ہے
دل نے پیدا کی کہاں سے یہ ترنگ
کوئی تحریکِ نہانی اور ہے
غیر سمجھا ہے کسے اے ہمنشیں؟
میرے دل میں بد گمانی اور ہے
تم نے کب دیکھا ہے بے رنگی کا رنگ
بے نشانی کی نشانی اور ہے
دھوکے میں نہ آ جائیو افسونِ زباں کے
ہر چند کہ بڑ اپنی فصاحت کی یہ ہانکے
کُچھ لمِ ہے جو کرتے ہیں کرم حضرتِ ناصح
تھے ورنہ مرے ایسے ہوا خواہ کہاں کے
وہ اُڑنے لگے مثل پری ۔ دوشِ ہوا پر
بیٹھے ہیں بھروسے پہ یہاں طبع رواں کے
ہے وادیِ وحدت میں اگر نیّتِ پرواز
پَر نوچ کے دے پھینک یقین اور گماں کے
پھر کُچھ کُچھ اُن کے وعدہ پہ اب اعتبار ہے
مایوس مرگ پھر دلِ امّیدوار ہے
گِن گن کے ایک ایک گھڑی کاٹنی پڑی
ہے یہ شبِ فراق کہ روزِ شمار ہے
سروِ رواں کو دیکھ کے خجلت پا بِ گُل
گویا ہر ایک سرو لبِ جوئبار ہے
چل مئے کدے کو ۔ بیٹھ نہ گوشہ میں تنگ دل
زاہد! وسیع رحمتِ پروردگار ہے
گر نشے میں کوئی بے فکر و تامل باندھے
چشمِ مے گوں کو تری جام پر ازُل باندھے
ذکرِ قامت میں اگر فکر ترقّی نہ کرے
رشکِ طوبی تو لکھے گو بہ تنزّل باندھے
طبع کی سلسلہ جنباں جو پریشانی ہو
گیسوئے غالیہ سا کو ترے سنبل باندھے
نالہ تو وہ ہے کہ گھبرا کے اُٹھا دے پردہ
لیک نظارہ کی ہمّت بھی تحمل باندھے
کُچھ نہ بن آئے گی جب لوٹ مچائے گی خزاں
غنچہ ہر چند گرہ کس کے زرِ گُل باندھے
روبرو اُس کے لب عَرضِ تمنّا نہ ہلے
زور افسونِ نظر سے گئے بالکل باندھے
ہیں ترے بندِ قبا عقدۂ دشوار مرے
کہ جو کھولے نہ کھُلے اور جو گئے کھُل باندھے
صفحہ ۔ ۲۷۹نہ بچے پر نہ بچے سیلِ فنا سے نہ بچے
گر کوئی کنگرۂ چرخ پہ بھی پُل باندھے
آنکھ کھلنے بھی نہ پائی تھی کہ اُس نے فوراً
بند برقع کے اندازِ تغافل باندھے
ہائے وہ صید کہ صیاد کے پیچھے لپکے
سر کو فتراک پہ ہر دم بہ تفاول باندھے
نکہتِ طرّۂ مشکیں جو صبا لائی ہے
کوئی آوارہ ہوا ہے کوئی سودائی ہے
بے خودی سے ہے یہاں بے خبری کا عالم
خود نمائی کو وہاں شغلِ خود آرائی ہے
اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں
غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے
ہے مجھے کشمکشِ سعی و طلب سے نفرت
دِل مرا ترکِ تمنا کا تمنّائی ہے
جز دلِ پاک نہ پایا حرمِ خاص کہیں
دیر و کعبہ میں عبث ناصیہ فرسائی ہے
ناز کی جلوہ گری کے لئے منظر ہے نیاز
ناتوانی مری ہم رنگِ توانائی ہے
جب طبیعت ہی نہ حاضر ہو تو بے سود ہے فکر
شعر گوئی تو کہاں قافیہ پیمائی ہے
مُنہ پہ لاؤں تو یہ کم ظرف بہک جائیں ابھی
بات جو پیرِ خرابات نے سمجھائی ہے
خود منادی و مُنادیٰ ہوں نہ غیبت نہ حضور
عالمِ غیب سے یوں دِل میں ندا آئی ہے
دل یہ کہتا ہے کہ حاصل ہے تحصیل عبث
نہ تمنا کوئی شے ہے نہ تمنّائی ہے
بیخودی سی بے خودی ہے جلوۂ دیدار سے
نیند آئی مجھ کو فیض دولتِ بیدار سے
ہے جو لطف آمیز اشارہ ابروئے خمدار سے
وہ فسونگر کاٹتا ہے دردِ سر تلوار سے
صفحہ ۔ ۲۸۰ہم نے اندازِ جنوں سیکھا ہے اِک ہشیار سے
دو گھڑی کا شغل ہے اطفالِ کوئی یار سے
ابتدا سے حشر کا سُنتے چلے آتے تھے نام
ہو گیا حاصل یقیں بارے تری رفتار سے
اُس کی گنجائش ہے آغوشِ تصوّر میں محال
جس کا سایہ شوخ تر ہو انجمِ سیّار سے
ہے تہی دستی جہنم اہل حرص و آز کو
رات دن جلتے ہیں داغِ درہم و دینار سے
شوخی و غمزہ کرشمہ عشوہ انداز و ادا
ہے دلِ تنہا مقابل لشکرِ جرّار سے
رہ گئی تیرے سوا شاید تمنّا اور بھی
کُچھ کھٹکتے ہیں ابھی پہلوئے دل میں خار سے
یار نازک طبع ہے اور داستانِ غم دراز
دوستو گھبرا نہ جائے وہ مرے طومار سے
عشق بےتاب و وصال اور حسن استغنا پسند
کس طرح تسکینِ دل ہو وعدۂ دیدار سے
ہیں زمیں و آسماں ہنگامۂ وحدت سے پُر
مجھ کو آتی ہے یہ میری ہی صدا کُہسار سے
وہ حسن لازوال ہماری نظر میں ہے
شانِ کمال صورتِ ہر خیر و شر میں ہے
ہے سنگ میں شرار تو برق ابر تر میں ہے
شوخی وہی ہے شان نئی بحر و بر میں ہے
بتلا دیا ہے راہ نما نے مُجھے پتا
دنیا بھی اِک مقام ترے رہگزر میں ہے
بتلا دیا ہے راہ نما نے مُجھے پتا
دنیا بھی اِک مقام ترے رہگزر میں ہے
اسرارِ عشق بھی کہیں دیکھے ہیں واعظو!
دخل آپ کو بہت کتبِ معتبر میں ہے
باطن کو بھی نہ صورتِ ظاہر پہ کر قیاس
انگور میں شراب شکر نیشکر میں ہے
البتہ اُس کے فضل پہ موقوف ہے نجات
کُچھ زہدِ خشک میں ہے نہ داماں تر میں ہے
بیرانِ عرش و فرش ہے پرواز مرغ دل
از بس ہوائے شوق بھری بال و پر میں ہے
بے رغبتی سے شب کو سحر بھی کیا تو کیا
تاثیر نالۂ شب و آہِ سحر میں ہے
چل راہ دل میں اور توسنِ طلب
وحشت کا جوش چاہے صحرا بھی گھر میں ہے
یہ وہ مرض ہے جس سے معالج نہ بچ سکے
مُجھ سے زیادہ درد دلِ چارہ گر میں ہے
پُر حُسن خود نما سے زمان و زمیں ہے
زاہد ہنوز منتظرِ حورِ عین ہے
صحرائے عشق کی بھی عجب سرزمین ہے
ہمدم نہ ہم سفر نہ کوئی ہم نشین ہے
سر گشتگانِ شوق سے راہِ وصال پوچھ
نے شرق و غرب ہے نہ یسار و یمن ہے
ہے توسنِ خیال تک و تاز و زمیں سدا
اِس رخش پر بندھا ہوا ہر وقت زین ہے
ہے قیدِ آب و خاک سے باہر مقامِ دل
مانا خمیر مایہ مرا ماؤطین ہے
تیرے سوا اُسے نظر آتا نہیں کوئی
حاصل جہاں میں جسے عین الیقین ہے
احباب پھر بھی کرتے ہیں مُجھ سے مطالبہ
ہر چند لا خراج غزل کی زمین ہے
کجا(۱*) ہستی بتا دے تو کہاں ہے
جسے کہتے ہیں بسمل نیم جاں ہے
ہمارا گھر ہے یعنی خانۂ ماست
محل ہی کاخ ہے کوشک مکاں ہے
چچا عم ہے پسر بیٹا پدر باپ
تو کنبا خاندان ودود ہاں ہے
سفینہ ناؤ کشتی بان ملاح
بہے پانی تو وہ آبِ رواں ہے
بتاؤ آگ کیا ہے نار و آتش
دھواں کیا چیز ہے دود و دخاں ہے
جسے کہتے ہو گردوں گرداں
فلک چرخ و سپہر و آسماں ہے
وہی جنت کہ جس کی آرزو ہے
نعیم و خلد و فردوس و جناں ہے
سنا کیجے حکایت ہے کہانی
کہا کیجے فسانہ داستاں ہے
مرا سر راس ہے ماتھا جبیں ہے
مرے منہ میں زباں ہے جو لساں ہے
کہو تم جو ترازو ہے سو میزاں
سنو تم آزمائش امتحاں ہے
حجر پتھر ہے اور قِرطاس کاغذ
سبک ہلکا ہے اور بھاری گراں ہے
عصا لاٹھی ۔ عَلم نیزہ۔ سناں بھال
جسے ہم قوس کہتے ہیں کماں ہے
نہاں و مستتر پوشیدہ مخفی
جو بارز ہے تو ظاہر ہے عیاں ہے
اگر جانو ہو تم ریوڑ کو گلّہ
تو چرواہا بھی راعی اور شباں ہے
کہا کرتے ہیں شاعر کو سخنداں
جو بھیدی ہے تو محرم راز داں ہے
ہمانجا آمدم جائے کہ ہستی
وہیں آیا ہوں میں بھی تو جہاں ہے
یہ ہی کون و مکاں دنیا ہے عالم
یہ ہی گیتی ہی گیہاں ہے جہاں ہے
(۱*)غزل نصابیہ
نذرانہ پیر جی غلام محمد صاحب لُدھیانوی بروز پنجشنبہ ۲۹ جولائی سنہ۱۸۸۰ ع
اُلٹی ہر ایک اسم جہانِ شعور ہے
سیدھی سی اِک غزل مجھے لکھنی ضرور ہے
وحدت میں اعتبارِ حدوث و قدم نہیں
تھا جو بطون میں یہ وہی تو ظہور ہے
تارک وہی ہے جس نے کیا کل کو اختیار
یعنی حریص تر ہے وہی جو صبور ہے
مطلق یگانگی ہے تو نزدیک و دور کیا
پہنچا ہے جو قریب وہی دور دور ہے
اصلِ حیات ہے یہی کہتے ہیں جس کو موت
جینے کی آرزو ہے تو مرنا ضرور ہے
اقرارِ بندگی ہے خدائی کا ادِّعا
عجز و نیاز کیا ہے ؟ کمالِ غرور ہے
اُمّید کیجئے اگر امّید کچھ نہیں
غم کھائیے بہت جو خیالِ سرور ہے
زلفِ سیاہ سے رُخِ تاباں کا حُسن ہے
کہتے ہو جس کو دیو حقیقت میں حور ہے
بے معصیت خزانۂ رحمت ہے رائیگاں
سچ پوچھئے تو جرم نہ کرنا قصور ہے
اظہارِ جانِ پاک ہے جسمِ کثیف سے
بے پردگی حجاب ہے ظلمت ہی نور ہے
بالاتفاق ہستیِ وہمی ہے نیستی
ہشیار ہے جو نشۂ غفلت میں چور ہے
اعلی تھا جسکا رتبہ وہ اسفل میں ہے اسیر
صفّ لغال موقفِ صدر الصدور ہے
ہے راہ کی تلاش تو گمرہی طلب
عاقل وہی ہے ۔ عقل میں جس کی فتور ہے
بیداری وجود ہے خوابِ عدم میں غرق
لب بند ہو گئے یہی شورِ نشور ہے
ہر چند شغلِ شعر نہیں آج کل مگر
نذرانہ پیر جی کے لئے کچھ ضرور ہے
ہے وصف تیرا محیطِ اعظم
یاں تاب کسے شناوری کی
دے زندگی اور اُس کا ساماں
کیا شان ہے بندہ پروری کی
شاہنشہِ وقت ہے وہ جس نے
تیرے در کی گداگری کی
بدتر ہوں ولے کرم سے تیرے
اُمید قوی ہے بہتری کی
کیا آنکھ کو تل دیا کہ جس میں
وسعت ہے چرخِ چنبری کی
دیکھا تو وہی ہے راہ و رہرو
ہم نے ہی نگاہ سرسری کی
کیا بات ہے گر کیا ترحّم
ہیہات جو تو نے داوری کی
کی بعدِ خزاں بہار پیدا
سوکھی ٹہنی ہری بھری کی
جھوٹ اور مبالغہ نے افسوس
عزّت کھودی سخنوری کی
لکھی تھی یہ غزل آگرہ میں
پہلی تاریخ جنوری کی
کُچھ ایسے دلفریب شگوفے کھِلا کئے
مشقِ خیال سے نہ بنی دل جدا کئے
دریا تو ہے وہی جو ہوا داخلِ محیط
وادی میں ورنہ سیکڑوں نالے بہا کئے
ابنائے روزگار میں ایسا بھی کوئی ہے
جس نے حقوقِ صحبتِ یاراں ادا کئے
ذاتِ بشر میں کوئی کرامت ضرور ہے
کیوں بات بات اُس کی فرشتے لکھا کئے
انسان کی زمام ہے خصلت کے ہاتھ میں
اہلِ جفا کو چین کہاں بے جفا کئے
بدقسمتی سے تو ہی نہ دوڑا وگرنہ یاں
دن رات خوانِ نعمتِ الواں لٹا کئے
زار و زبوں ہے آج زمانے کے ہاتھ سے
غافل جو بزم ناز کو بیٹھے سجا کئے
شاید کوئی لطیفۂ غیبی ہو آشکار
بیٹھے ہوئے ہیں تکیہ بفضلِ خدا کئے
شکرِ خدا کہ وجہ شکایت نہیں رہی
مدّت ہوئی ہے ترکِ امیدِ وفا کئے
بخشا ہے اہتزاز تجھے کس نے ؟ اے نسیم
بندِ قبائے غنچہ اگر تو نے وا کئے
جو دل ہو تنگ تو جا شکر کر گلوں کو دیکھ
شگفتگی نے چمن کی ہوا نہ کھانے دی
کیا جو کر تو شیطان کے ہاتھ کیا آیا
وہی عزیز ہے عزّت جسے خدا نے دی
تری عطا ہے مری احتیاج سے سابق
کبھی سوال کی نوبت نہ تو نے آنے دی
اُمید نے تو بہت دھوم دھام کی لیکن
وفورِ یاس نے قسمت نہ آزمانے دی
کشود و کار سے تسکینِ دل کبھی نہ ہوئی
عجب نشاط تھی جو ترکِ مدّعا نے دی
گدا و شاہ سے یکساں معاملہ ہے وہاں
کوئی بتائے کہ مہلت کسے قضا نے دی
غم مونسِ تنہائی تھا آتے ہی تمہارے
کہتا تھا پھر آ جاؤں گا جب یاد کرو گے
دلداریِ سرکار کے بج جائیں گے ڈنکے
دل سے رہِ ویراں کو جو یاد کرو گے
احسان کے پھندے سے چھُڑائے گا مُجھے کون
مانا کہ غلامی سے تم آزاد کرو گے
عالم کے صحیفہ میں یہ قدرت کی نگارش
دیکھو گے تو ہر نکتہ پے تم صاد کرو گے
واعظ کی بکواس سمجھ میں نہیں آتی
یا حضرتِ دل تم بھی کچھ ارشاد کرو گے
کس لئے پروانہ خاکستر ہوا
شمع کیوں اپنی جلن میں گھُل گئی
منتشر کیوں ہو گئے اوراقِ گُل
چیختی گلشن سے کیوں بلبل گئی
آبدیدہ ہو کے کیوں شبنم چلی
دم کہ دم کانٹوں میں آ کر تُل گئی
سبزۂ طرفِ خیاباں کیا ہوا
آہ کیوں شادابیِ سنبل گئی
کُچھ نہ تھا خوابِ پریشاں کے سوا
اِس تھیٹر کی حقیقت کھُل گئی
راہ کے رنج و تعب کا کیا گلہ
جب کہ دل سے گردِ کُلفت دھُل گئی
خارج ہے عہدِ طفلی و پیری حساب سے
البتہ زندگی ہے عبارت شباب سے
ہر چند گفتگو کی نہ باقی رہے مجال
لیکن زباں دراز نہ چوکے جواب سے
ہے دعویِ خلوص تو کانوں پہ ہاتھ رکھ
بیمِ عذاب اور امیدِ ثواب سے
بے نور سینہ حفظِ سفینہ سے فائدہ
معنی سے ہے کتاب نہ معنی کتاب سے
وہ اور ہی نوا ہے محرّک سرور کی
باہر گلوئے مطرب و تارِ رُباب سے
کیا کہنے آدمی کے عجب چیز ہیں جناب
برتر ملائکہ سے فروتر دواب سے
سوجھیں وہ بدعتیں کہ خدایا تری پناہ
فرصت اگر ملے بھی ہمیں خورد و خواب سے
کوئی دن کا آب و دانہ اور ہے
پھر چمن اور آشیانہ اور ہے
ہاں دلِ بے تاب ! چندے انتظار
امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے
شمع پھیکی ۔ رات کم ۔ محفل اُداس
اب مغنّی کا ترانہ اور ہے
اے جوانی تو کہانی ہو گئی
ہم نہیں وہ یا زمانہ اور ہے
جس کو جانِ زندگانی کہہ سکیں
وہ حیاتِ جاودانہ اور ہے
جس کو سن کر زہرۂ سنگ آب ہو
آہ وہ غمگیں فسانہ اور ہے
وا اگر سمعِ رضا ہو تو کہوں
ایک پندِ مشفقانہ اور ہے
اِتّفاقی ہے یہاں کا ارتباط
سب ہیں بیگانے یگانہ اور ہے
راہ و رسم خط خطابت ہی سہی
گُل نہیں تو گُل کی نکہت ہی سہی
دل لگی کو کوئی ساماں چاہئے
قحطِ معنی ہو تو صورت ہی سہی
بے دماغی بندہ پرور اِس قدر
آپ کی سب پر حکومت ہی سہی
دوستی کا میں نے کب دعویٰ کیا
دور کی صاحب سلامت ہی سہی
بسکہ ذکر العیش نصف العیش ہے
یادِ ایّامِ فراغت ہی سہی
وقت ملنے کا معیّن کیجئے
خواہ فردائے قیامت ہی سہی
حسنِ صورت کا نہ کھا اصلا فریب
کلکِ صنعت گر کی صنعت ہی سہی
کُچھ نہ کرنا بھی مگر اِک کام ہے
گر نہیں صحبت تو عزلت ہی سہی
دنیا میں تہی دست کی وقعت نہیں ہوتی
یک جا کبھی محتاجی و عزّت نہیں ہوتی
ممکن ہے کہ ٹل جائے جبل اپنے مقر سے
لیکن کبھی تبدیل جبلّت نہیں ہوتی
ہے جان کی جوکھوں بھی اگر راہِ طلب میں
پست اُس سے اولو العزم کی ہمّت نہیں ہوتی
خلوت میں بھی لاتے نہیں عاقل اُسے منہ پر
جو بات شائستہ جلوت نہیں ہوتی
ہم کرتے ہیں عادت کی غلامانہ اطاعت
اصلاح پذیر اس لئے عادت نہیں ہوتی
راحت جسے کہتے ہیں وہ محنت کا صلہ ہے
راحت طلبی موجبِ راحت نہیں ہوتی
کیا گنبدِ بے در یدِ قدرت نے بنایا
جس کی کبھی سالانہ مرمّت نہیں ہوتی
انساں کی شرافت متعلق ہے عمل سے
میراث میں تقسیم شرافت نہیں ہوتی
پتّے کی طرح جو کوئی محکوم ہوا ہو
اُس شخص کی دنیا میں کبھی پت نہیں ہوتی
جو لوگ ہیں دشمنی نفس سے آگاہ
اُن کو تو کسی سے بھی عداوت نہیں ہوتی
ڈھاتی ہے قیامت یہی خونخوار جہاں میں
کُچھ غم نہیں ہوتا جو محبّت نہیں ہوتی
رخصت ہے مری جان خدا حفظ و ناصر
ہر چند کہ سیرئِ طبیعت نہیں ہوتی
لو جان بیچ کے بھی جو فضل و ہنر ملے
جس سے ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے
ملنا بُرا نہیں ہے ولیکن یہ لت بُری
جس سے ملے بہ صورتِ شیر و شکر ملے
جب چشمِ آز پھوٹ گئی سب خلش مٹی
اب سنگریزہ ہاتھ لگے یا گہر ملے
ہے غارتِ متاع نشانِ دیارِ دوست
رہزن اگر ملے تو سمجھو خضر ملے
ممکن نہیں بغیرِ قناعت فراغِ بال
ہر چند تودہ تودہ تجھے سیم و زر ملے
یارانِ بزمِ دہر میں کیا کیا تپاک تھا
لیکن جب اُٹھ گئے تو نہ بارِ دگر ملے
مردِ نبرد نفس اگر ہے تو بھاگ مت
جب تک نہ خاک و خون میں دشمن کا سر ملے
جن کو نہیں ہے درد و دوا میں کچھ امتیاز
قسمت سے اِن گُنوں کے ہمیں چارہ گر ملے
غیرِ توکّل نہیں چارا مجھے
اپنے ہی دم کا ہے سہارا مجھے
حرص و طمع نے تو ڈبویا ہی تھا
صبر و قناعت نے ابھارا مجھے
جو وہ کہے اُس کو سزاوار ہے
چوں و چرا کا نہیں یارا مجھے
بے ادبوں کی ادب آموزیاں !
اُن کے بگڑے نے سنوارا مُجھے
کوششِ بے سودا مشوّش نہ کر
قعر نہ بن جائے کنارا مُجھے
زشتیِ پندار دلاتا ہے یاد
قصّۂ اسکندر و دارا مُجھے
ننگِ ذلّت سے چھڑا لے گیا
جاشِ حمیّت کا حرارا مُجھے
اوجِ معالی پہ اُڑا لے گیا
توسنِ ہمّت کا طرارا مُجھے
آہ ! نہیں رخصتِ افشائے راز
قصہ تو معلوم ہے سارا مُجھے
فرصتِ اوقات ہے بس مفتنم
یہ نہیں ملنے کی دوبارا مُجھے
نکلے چلے آتے ہیں تہِ خاک سے کھانے
یہ خوانِ کرم کس نے بچھایا ہے ؟ خدا نے
جو دل میں ہے مُنہ پھوڑ کے بررو نہیں کہتے
مارا مجھے یاروں کی در سنت اور نہ جانے
غفلت میں ہیں سرمست بدلتے نہیں کروٹ
گو سر پہ اُٹھا لی ہے زمیں شورِ درا نے
اِسراف نے اربابِ تموّل کو ڈبویا
عالِم کو تفاخر نے تو زاہد کو ریا نے
مرد اُس کو سمجھئے نہ کیا ہو جسے بدمست
ایّامِ جوانی کی مئے ہوش ربا نے
با ایں ہمہ درماندگی انساں کے یہ دعوے
کیا ذاتِ شریف اِن کو بنایا ہے خدا نے
جلوت کا بھروسہ ہے نہ خلوت کی توقع
سب وہم تھا یاروں نے جو تاکے تھے ٹھکانے
ہو رائگاں جو قطرہ سے قطرہ جدا چلے
مِل جُل گئے تو فیض کے دریا بہا چلے
یہ دل کا حوصلہ ہے کہ میدانِ عشق میں
تیرے سمندِ ناز کے پیچھے لگا چلے
ہے آج رُخ ہوا کا موافق تو چل نکل
کلَ کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے
کرتی ہے پست صف شکنوں کے بھی حوصلے
وہ رزم گاہ جس میں کہ تیغِ ادا چلے
قدسی بھی ہیں خموش نہیبِ جلال سے
اُس کو میں کیا مجال کہ پیکِ صبا چلے
جی ہی نہ چاہتا ہو تو ملنے سے فائدہ
آئے تو مُنہ بنائے ۔ چلے تو خفا چلے
تبلیغِ پیام ہو گئی ہے
حجّت بھی تمام ہو گئی ہے
جب موجِ صبا اُدھر سے آئی
تفریحِ مشام ہو گئی ہے
کتنی بودی ہے طبعِ انساں
عادت کی غلام ہو گئی ہے
خواہش کہ تھی آدمی کو لازم
بڑھ کر الزام ہو گئی ہے
تمہیدِ پیام ہی میں اپنی
تقریر تمام ہو گئی ہے
بچنا کہ وبائے صحبتِ بد
اس دور میں عام ہو گئی ہے
حلقہ میں قلندروں کے آ کر
تحقیق تمام ہو گئی ہے
جرگہ میں تضدروں کے جا کر
حکمت بدنام ہو گئی ہے
شیریں دہنوں کی طرزِ گفتار
مقبولِ انام ہو گئی ہے
بیجا بھی نکل گئی ہے جو بات
تحسینِ کلام ہو گئی ہے
نامرد کے ہاتھ میں پہنچ کر
شمشیر نیام ہو گئی ہے
تکفیرِ برادراںِ دیں بھی
شرطِ اسلام ہو گئی ہے
کیا شعر کہیں کہ شاعری کی
ترکی ہی تمام ہو گئی ہے
شبِ زندگانی سحر ہو گئی
بہرکیف اچھی بسر ہو گئی
نہ سمجھے کہ شب کیوں سحر ہو گئی
ادھر کی زمیں سب ادھر ہو گئی
زمانے کی بگڑی کچھ ایسی ہوا
کہ بےغیرتی بھی ہنر ہو گئی
عمائد نے کی وضع جو اختیار
وہی سب کو مدِ نظر ہو گئی
گئے جو نکل دامِ تزویر سے
ہزیمت ہی ان کی ظفر ہو گئی
زمیں منقلب آسماں چرخ زن
اقامت بھی ہم کو سفر ہو گئی
مٹا ڈالئے لوح دل سے غبار
کسی سے خطا بھی اگر ہو گئی
براہ کرم اس کو طے کیجیئے
جو اَن بَن کسی بات پر ہو گئی
نہ کرنا تھا بالضد مداوائے غم
بڑی چوک اے چارہ گر ہو گئی
یہ ہنگامہ آرا ہیں سب بے خبر
وہ چپ ہیں جنھیں کچھ خبر ہو گئی
میں اگر وہ ہوں جو ہونا چاہیئے
میں ہی میں ہوں پھر مجھے کیا چاہیئے
غرقِ خم ہونا میسر ہو تو بس
چاہیئے ساغر نہ مینا چاہیئے
منحصر مرنے پہ ہے فتح و شکست
کھیل مردانہ ہے کھیلا چاہیئے
بے تکلف پھر تو کِھیوا پار ہے
موج زن قطرہ میں دریا چاہیئے
تیز غیروں پر نہ کر تیغ و تبر
آپ اپنے سے تبرا چاہیئے
ہو دمِ عرضِ تجلی پاش پاش
سینہ مثلِ طورِ سینا چاہیئے
حسن کی کیا ابتدا کیا انتہا
شیفتہ بھی بے سر و پا چاہیئے
پارسا بن اگر نہیں رندوں میں بار
کچھ تو بےکاری میں کرنا چاہیئے
کفر ہے ساقی پہ خِسّت کا گماں
تشنہ سرگرمِ تقاضا چاہیئے
عیش کے جلسے ہجوم آلام کے
شعبدے ہیں گردش ۔ایام کے
ہمتِ مردانہ تجھ کو آفریں
کر کے چھوڑا سِر ہوئی جس کام کے
صبح کے بھولے تو آئے شام کو
دیکھیئے کب آئیں بھولے شام کے
تو ہی کر تکلیف او نپیکِ صبا
منتظِر ہیں وہ مرے پیغام کے
حاشا للہ میکدہ کے کاسہ لیس
معتقد ہوں زاہدِ علام کے
مٹ گئی ہے دل سے آزادی کی یاد
کتنے خوگر ہو گئے ہم دام کے
اب تو چرچے جا بجا ہونے لگے
واعظوں کی بانگِ بے ہنگام کے
درد سے لبریز سینہ چاہیئے
چشمِ پر خوں جائے مینا چاہیئے
ایسے بد افعال پر لاحول پڑھ
آدمی کو بغض و کینہ چاہیئے؟
گھٹ کے مر جانا بھی ہے دوں ہمتی
چار و ناچار اور جینا چاہیئے
بحر ہو تو بحرِ طوفاں خیز ہو
اور بے لنگر سفینہ چاہیئے
ہے رگِ ہر برگ میں رنگ بہار
دیکھنے کو چشمِ بینا چاہیئے
مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے
کچھ تسلی کچھ اضطراب بھی ہے
ہے تو اغیار سے خطاب مگر
میری ہر بات کا جواب بھی ہے
واں برابر ہے خلوت و جلوت
اس کی بے پردگی حجاب بھی ہے
ہو قناعت تو ہے جہاں دریا
حرص غالب ہو تو سراب بھی ہے
وہ تبختر کہاں ؟تپاک کہاں؟
گرم و روشن تو آفتاب بھی ہے
بنتی نہیں بات گفتگو کی
چلتی نہیں چال جستجو کی
تھی چھیڑ اسی طرف سے ورنہ
میں اور مجال آرزو کی
اس کی طلب اور مقام و منزل
احباب کی ہائے بدسلوکی
واں زیر کی پسند نہ ادراک چاہیئے
عجز و نیاز و دیدۂ نمناک چاہیئے
آئینہ بن کے شاہد و مشہود ایک ہے
اس روئے پاک کو نظرِ پاک چاہیئے
سیر و سلوک جاں نہیں بے جذبۂ نہاں
اس راہ میں یہ توسنِ چالاک چاہیئے
گزرے امید و بیم سے یہ حوصلہ کسے؟
رندِ خراب و عارفِ بےباک چاہیئے
ہر چشمہ آئنہ ہے رخِ آفتاب کا
ہاں سطحِ آب بے خس و خاشاک چاہیئے
نشو و نمائے سبزہ و گل میں نہیں درنگ
ابرِ کرم کو تشنگیِ خاک چاہیئے
اصلاحِ حالِ عاشق دل خستہ ہے ضرور
معشوق جور پیشہ و سفاک چاہیئے
جو عین نائے و نوش ہو اس بادہ نوش کو
جام و سبو نہ خُمکدہ و تاک چاہیئے
صیاد کے اثر پہ رواں ہو تو صید ہے
وہ صید ہی نہیں جسے فتراک چاہیئے
متفرقات
دید وادید کی رخصت ہی سہی
میرے حصّہ کی قیامت ہی سہی
مہربانی بھی تو کچھ عیب نہیں
دشمنی شرطِ محبت ہی سہی
٭
نعمتِ خلد تھی بشر کے لئے
خاک چاٹی نظر گزر کے لئے
٭
جب غنچہ کو وا شد ہوئی تحریک صبا سے
بلبل سے عجب کیا جو کرئے نغمہ سرائی
٭
عجب شورش دلِ غمناک میں ہے
مگر درپردہ وہ بھی تاک میں ہے
رباعیات
توحید
چکھی بھی ہے تو نے درود جامِ توحید
یا سُن ہی لیا ہے صرف نامِ توحید
ہے کفرِ حقیقی کا نتیجہ ایماں
ترکِ توحید ہے مقامِ توحید
طلب
گر جورو جفا کرئے تو انعام سمجھ
جس کام سے وہ خوش ہو اسے کام سمجھ
گر کفر کی راہ سے رسائی ہو وہاں
اس کفر کو تو جادۂ اسلام سمجھ
قرب
مکشوف ہوا کہ دید حیرانی ہے
معلوم ہوا کہ علم نادانی ہے
ڈالا ہے تلاشِ قرب نے دوری میں
مشکل ہے بڑی یہی کہ آسانی ہے
بے نشانی
بندہ ہوں تو اک خدا بناؤں اپنا
خالق ہوں تو اک جہاں دکھاؤں اپنا
ہے بندگی وہم اور خدائی پندار
میں وہ ہوں کہ خود پتا نہ پاؤں اپنا
آزادگی
کافر کو ہے بندگی بتوں کی غم خوار
مومن کے لئے بھی ہے خدائے غفار
سب سہل ہے یہ ولیک ہونا دشوار
آزادہ و بے نیاز و بیکس بےکار
یقین
آیا ہوں میں جانبِ عدمِ ہستی سے
پیدا ہے بلند پائگی پستی سے
عجز اپنا بزور کر رہا ہوں ثابت
مجبور ہوں میں زبردستی سے
عبودیت حجابِ ربوبیت
ڈھونڈا کرئے کوئی لاکھ کیا ملتا ہے؟
دن کا کہیں رات کو پتا ملتا ہے؟
جب تک کہ ہے بندگی خدائی کا حجاب
بندہ کو بھلا کہیں خدا ملتا ہے؟
توحید
توحید کی راہ میں ہے ویرانہ سخت
آزادی و بے تعلقی ہے یک لخت
دنیا ہے نہ دین ہے نہ دوزخ نہ بہشت
تکیہ نہ سرائے ہے نہ چشمہ نہ درخت
اسلاف پر فخر بیجا
اسلاف کا حصّہ تھا اگر نام و نمود
پڑھتے پھرو اب ان کے مزاروں پہ درود
کچھ ہات میں نقدِ رائج الوقت بھی ہے
یا اتنی ہی پونجی۔"پدرم سلطان بود"
تقریض
حقا کہ بلند ہے مقامِ اکبر
توقیع سخن ہے اب بنامِ اکبر
دیوان ہے لطائف و حکم سے معمور
اکبر کا کلام ہے کلامِ اکبر
تنزیہ
تقریر سے وہ فزوں بیان سے باہر
ادراک سے وہ بری گمان سے باہر
اندر باہر ہے وہ نہ پیدا پنہاں
سرحد ۔مکان و لامکاں سے باہر
غیر حق نہیں
حق ہے تو کہاں ہے پھر مجالِ باطل
حق ہے تو عبث ہے احتمالِ باطل
ناحق نہیں کوئی چیز راہ حق میں
باطل کا خیال ،ہے خیالِ باطل
لا موجود الا اللہ
ساقی و شراب و جام و پیمانہ کیا
شمع و گل و عندلیب و پروانہ کیا
نیک و بد و خانقاہ و مے خانہ کیا
ہے راہ یگانگی میں بیگانہ کیا
مظاہر
مجموعۂ خار و گل ہے زیبِ گلزار
نیکی و بدی ہے جلوہ گاہِ اظہار
ہے مخمصہ اختیار حق و باطل
ہے وسوسہ اعتبار یار و اغَیار
عجز و ادراک
ہر خواہش و عرض و التجا سے توبہ
ہر فکر سے ذکر سے دعا سے توبہ
از بس کہ محال ہے سمجھنا اس کا
جو آئے سمجھ میں اس خدا سے توبہ
ترک فضولی
دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہرگز
ڈھونڈا تو کہیں پتا نہ پایا ہرگز
کھونا پانا ہے سب فضولی اپنی
یہ خبط نہ ہو مجھے خدایا ہرگز
اختلاف خیالی ہے
دراصل کہاں ہے اختلافِ احوال
کچھ رنج نہ راحت نہ مسرت نہ ملال
قربت ہے نہ بُعد ہے نہ فرقت نہ وصال
یہ بھی ہے خیال اور وہ بھی ہے خیال
فاعلِ حقیقی حق ہے
شیطان کرتا ہے کب کسی گمراہ
اس راز سے ہے خدائے غالب آگاہ
ہے کام کسی کا اور کسی پر الزام
لاحول ولا قوہ الا باللہ
ذات کو تغّیر نہیں
پر شور الست کی ندا ہے اب بھی
جو تھی وہی آن اور ادا ہے اب بھی
ہوتی نہیں سنتِ الہی تبدیل
جس شان میں ہے وہی خدا ہے اب بھی
تّجلیات حجاب میں
اِخفا کے لئے ہے اس قدر جوش و خروش
یاں ہوش کا مقتضا ہے بننا مدہوش
حسنِ ازلی تو ہے ازل سے ظاہر
یعنی ہے تجّلیوں میں اپنی روپوش
مشاہدہ
اے بارِ خدا یہ شور و غوغا کیا ہے؟
کیا چیز طلب ہے اور تنہا کیا ہے؟
ہے کم نظری سے اشتیاقِ دیدار
جو کچھ ہے نظر میں یہ تماشا کیا ہے؟
کسی خاص کیف کی پابندی غلط ہے
افسردگی اور گرم جوشی بھی غلط
گم گشتگی اور خود فروشی بھی غلط
کچھ کہیئے اگر تو گفتگو ہے بےجا
چپ رہیئے اگر تو ہے خموشی بھی غلط
شہودِ حق میں غیر معدوم
الحق کی نہیں ہے غیر ہرگز موجود
جب تک کہ ہے وہم غیرِ حق ہے مفقود
حق یہ ہے کہ وہم کا بھی ہونا حق ہے
حق ہے تو ہر طرح سے حق ہے مشہود
فُقر
کیفیت و ذوق اور ذکر و اوراد
دین و اسلام اور کفرو الحاد
ہر رنگ ہے محو،ہر تعلق برباد
ہے فُقر تمام عِلتوں سے آزاد
وحدت
نقاش سے ممکن ہے کہ ہو نقش خلاف
ہیں نقش میں جلوہ گر اسی کے اوصاف
ہر شے میں عیاں ہے آفتابِ وحدت
گر وہم دوئی نہ ہو تو ہے مطلع صاف
غفلت
اک عالمِ خواب خلق پر طاری ہے
یہ خواب میں کارخانہ سب جاری ہے
یہ خواب نہیں یہی سمجھنا ہے خواب
گر خواب کا علم ہے تو بیداری ہے
راہِ خدا کی انتہا نہیں
جو تیز قدم تھے وہ گئے دور نکل
دکھے بھالے بہت مقامات و محل
اس راہ کا پر کہیں نہ پایا انجام
یعنی ہے وہی ہنوز روزِ اول
خود شناسی
اکثر نے ہے آخرت کی کھیتی بوئی
اکثر نے ہے عمر جستجو میں کھوئی
آخر کو اگر پتا ملا تو یہ ملا
ملنے کا نہیں سوائے اپنے کوئی
مظہر
بدلا نہیں کوئی بھیس ناچاری سے
ہر رنگ ہے اختیارِ سرکاری سے
بندہ شاہد ہے اور طاعت زیور
یہ سانگ بھرا گیا ہے عیاری سے
کثرت لازمِ وحدت ہے
ہے عشق سے حسن کی صفائی ظاہر
رندی سے ہوئی ہے پارسائی ظاہر
وحدت کا ثبوت ہے ظہورِ کثرت
بندہ ہی کے دم سے ہے خدائی ظاہر
طلب بے نشانی
یارب کوئی نقش مدعا بھی نہ رہے
اور دل میں خیال ماسوا بھی نہ رہے
رہ جائے تو صرف بے نشانی باقی
جو وہم میں ہے سو وہ خدا بھی نہ رہے
ہستی واحد ہے
ہم عالمِ خواب میں ہیں یا ہم میں خواب
ہم خود سائل ہیں خود سوال اور جواب
آئی نہیں کوئی شے کہیں باہر سے
ہم خود ہیں مسبّب اور خود ہیں اسباب
ہر شان میں حق تجلی ہے
ہے شکر درست اور شکایت زیبا
ہے کفر درست اور ہدایت زیبا
گیسوئے سیاہ اور جبینِ روشن
دونوں کی بہار ہے نہایت زیبا
تنزبھ
مقصود ہے قیدِ جستجو سے باہر
وہ گل ہے دلیلِ رنگ و بو سے باہر
اندر باہر کا سب تعیّن ہے غلط
مطلب ہے کلام و گفتگو سے باہر
توحید
معلوم کا نام ہے نشان ہے نہ اثر
گنجائشِ علم ہے بیان یے نہ خبر
علم اور معلوم میں دوئی کی بو ہے
اس واسطے علم ہے حجاب الاکبر
ترکِ ذکر و فکر
ہوتی نہیں فکر سے کوئی افزائش
چپکے رہنے میں ہے بڑی آسائش
کہنا سننا تو ہے نہایت آساں
کہنے سننے کی ہو اگر گنجائش
ترکِ خودی
برہان و دلیل عین گمراہی ہے
نفی و اثبات محض جاں کاہی ہے
اس رہ میں عبادت و اشارت ہے گم
یاں ترکِ خودی اصولِ آگاہی ہے
دین و دنیا
دین اور دنیا کا تفرقہ ہے مہمل
نیت ہی پہ موقوف ہے تنقیحِ عمل
دنیا داری بھی عین دیں داری ہے
مرکوز ہو گر رضائے حق عز و جل
وحدت
خاکِ نمناک اور تابندہ نجوم
ہیں ایک ہی قانون کے یکسر محکوم
یکسانیِ قانون کہے دیتی ہے
لاریب کہ ہے ایک ہی ربِ قیّوم
استقلال
تیزی نہیں منجملۂ اوصاف کمال
کچھ عیب نہیں اگر چلو دھیمی چال
خرگوش سے لے گیا ہے کچھوا بازی
ہاں راہِ طلب میں شرط ہے استقلال
ایک واقعہ
کیا کہتے ہیں اس میں مفتیانِ اسلام
جب بیعِ مساجد سے نہیں چلتا کام
تو وجہِ کفاف کے لئے مومن کو
جائز بھی ہے یا نہیں خدا کا نیلام
اصلاحِ قوم دشوار ہے
پانی میں ہے آگ کا لگانا دشوار
بہتے دریا کو بھی لانا دشوار
دشوار سہی،مگر نہ اتنا جتنا
بگڑی ہوئی قوم کو بنانا دشوار
ہر کام کا نتیجہ اپنے لئے ہے
گر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے
یا بد منشی سے کچھ برائی کی ہے
اپنے ہی لئے ہے سب نہ اوروں کے لئے
اپنے ہاتھوں نے جو کمائی کی ہے
مراسم میں فضولی
اب قوم کی جو رسم ہے سو اوُل جلُول
فاسد ہوئے قاعدے تو بگڑے معمول
ہے عید مہذب، نہ محرم معقول
ہنسنا محمود ہے نہ رونا مقبول
نیچر انسان کی محکوم ہے
فطرت کے مطابق اگر انساں لے کام
حیوان تو حیوان ،جمادات ہوں رام
مٹی، پانی،ہوا، حرارت،بجلی
دانشمندوں کے ہیں مطیع احکام
وقت رائیگاں نہیں کرنا چاہیئے
بے کار نہ وقت کو گزارو یارو
یوں سست پڑے پڑے نہ ہمت ہارو
برسات کی فصل میں ہے ورزش لازم
کچھ بھی نہ کرو تو مکھیاں ہی مارو
اتفاق میں کامیابی ہے اور نااتفاقی میں تباہی
جب تک کہ سبق ملاپ کا یاد رہا
بستی میں ہر ایک شخص دل شاد رہا
جب رشک و حسد نے پھوٹ ان میں ڈالی
دونوں میں سے ایک بھی نہ آباد رہا
ہمت
جس درجہ ہو مشکلات کی طغیانی
ہو اہل ہمم کو اور بھی آسانی
تیراک اپنا ہنر دکھاتا ہے خوب
ہوتا ہے جب اس کے سر سے اونچا پانی
فنا عینِ وصال ہے
کس طور سے کس طرح سے کیونکر پایا
دل نذر کیا سراغ دلبر پایا
باقی رہا مدعا نہ دعویٰ نہ دلیل
کھوئے گئے آپ ہی تو سب بھر پایا
دنیا پرست دین دار
دنیا کے لئے ہیں سب ہمارے دھندے
ظاہر طاہر ہیں اور باطن گندے
ہیں صرف زبان سے خدا کے قائل
دل کی پوچھو تو خواہشوں کے بندے
محبِ دنیا نشانِ خامی ہے
یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے
ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے
چھوڑی نہیں جس نے حبِ دنیا دل سے
گو ریش سفید ہو مگر بچہ ہے
ابیات
اچھی بات
جو بات کہو صاف ہو،ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو،کھٹی نہ ہو،مصری کی ڈلی نہ ہو
وقت سے کام لو
وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
کھینچنے سے بڑھتی ہے چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ
بری صحبت سے بچو
بد کی صحبت میں مت بیٹھو،اس کا ہے انجام برا
بد نہ بنے تو بد کہلائے،بد اچھا بدنام برا
خیالِ محال
کیا کیا خیال باندھے ناداں نے اپنے دل میں
پر اونٹ کی سمائی کب ہو چوہے کے بل میں
٭
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حّجت
اعتدالِ خیال
نہ حلوہ بن،کہ چٹ کر جائیں بھوکے
نہ کڑوا بن،کہ جو چکھے سو تھوکے
اعتدالِ غذا
نہ کھاؤ اتنا زیادہ کہ ڈال دے بیمار
نہ اتنا کم ہو کہ نا طاقتی ہی ڈالے مار
راستی
راستی سیدھے سڑک ہے جس میں کچھ کھٹکا نہیں
کوئی رہرو آج تک اس راہ میں بھٹکا نہیں
٭
گلستانِ جہاں میں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی
مگر جو گل کے جویا ہیں انہیں کیا خار کا کھٹکا
اپنی حفاظت
جب کہ دو موذیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ
٭
تا سحر وہ بھی نہ چھوڑی تو نے اے باد صبا
یادگارِ رونقِ محفل تھی پروانہ کی خاک
٭
تم نہ چوکو کبھی نکوئی سے
کرنے دو گر خطا کرئے کوئی
٭
ہر چند اس کے مال سے کوئی واسطی نہ ہو
پھر بھی برا ہی کہتی ہے خلقت بخیل کو
٭
ساغرِ زریں ہو یا مٹی کا ہو ایک ٹھیکرا
تو نظر کر اس پے جو کچھ اس کے اندر ہے بھرا
ضمیر اُردو
نوٹ : یہ نظمیں سوائے مثلث اور ایک غزل کے ترتیبِ کلیات کے بعد لکھی گئی ہیں احباب کی فرمائش سے بطور ضمیمہ درج کی گئیں ـ
مثنوی
کوّا
کوّے ہیں سب دیکھے بھالے
چونچ بھی کالی پر بھی کالے
کالی کالی وردی سب کی
اچھی خاصی اُن کی ڈھب کی
کالی سینا کے ہیں سپاہی
ایک سی صورت ایک سیاہی
لیکن ہے آواز بُری سی
کان میں جا لگتی ہے چھُری سی
یوں تو ہے کوّا حرص کا بندہ
کُچھ بھی نہ چھوڑے پاک نہ گندہ
اچھی ہے پر اُس کی یہ عادت
بھائیوں کی کرتا ہے دعوت
کوئی ذرا سی چیز جو پالے
کھائے نہ جب تک سب کو بُلا لے
کھانے دانے پر ہے گرتا
پیٹ کے کارن گھر گھر پھرتا
دیکھ لو ! وہ دیوار پہ بیٹھا
غُلّہ کی ہے مار پہ بیٹھا
کیوں کر باندھوں اُس پہ نشانا
بے صبرا چوکنّا ـ سیانا
کائیں کائیں پنکھ پسارے
کرتا ہے یہ بھوک کے مارے
تاک رہا ہے کونا کھُترا
کچھ دیکھا تو نیچے اُترا
اُس کو بس آتا ہے اُچھلنا
جانے کیا دو پانو سے چلنا
اُچھلا ، کودا لپکا سُکڑا
ہاتھ میں تھا بچّہ کے ٹکڑا
آنکھ بچا کے جھٹ لے بھاگا
واہ رے تیری پھرتی کاگا !
ہا ہا کرتے رہ گئے گھر کے
یہ جا وہ جا چونچ میں بھر کے
پیڑ پہ تھا چڑیا کا بسیرا
اُس کو ظالم نے جا گھیرا
ہاتھ لگا چھوٹا سا بَچّا
نوچا پھاڑا کھا گیا کچّا
چڑیا رو رو جان ہے کھوتی
ہے ظالم کی جان کو روتی
چِیں چِیں چِیں چِیں دے کے دُہائی
اپنی بِپتا سب کو سُنائی
کون ہے جو فریاد کو پہنچے
بے چاری کی داد کو پہنچے
پکنے پر جب مَکّا آئی
کوّوں نے جا لوٹ مچائی
دودھیا بھُٹّا چونچ سے چیرا
سَچ مُچ کا ہے اُٹھائی گیرا
رکھوالے نے پائی آہٹ
گوپھن لے کر اُٹھّا جھٹ پٹ
" ہریا ہریا " شور مچا کر
ڈھیلا مارا تڑ سے گھُما کر
سُن کے تڑاقا کوّا بھاگا
تھوڑی دیر میں پھر جا لاگا
لالچ خورا ڈھیٹ نڈر ہے
ڈانکو سے کچھ اِس میں کسر ہے ؟
ڈانکو ہے یا چور اُچّکا
پَر ہے اَپنی دھُن کا پکّا
مثلث
خوشی اِک مشغلہ ہو رات دن کا
شمار افزوں ہو اُس کے سال و سن کا
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہے امن اُس شہنشاہی میں ہر جا
سُکھی ہیں آج راجا اور پرجا
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
کوئن دنیا کے ہر خطّہ میں نامی
غریبوں اور مسکینوں کی حامی
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
رعایا تن کوئن اِس تن کی جاں ہے
خدا کی خلق پر وہ مہرباں ہے
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
دعاگو اُس کا پورب اور پچھاں بھی
فرنگستان بھی ہندوستاں بھی
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
رہے زندہ کوئن با دولت و بخت
رہے محفوظ اُس کا تاج اور تخت
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہیں اکثر ساکنانِ رُبِعّ سکوں
کوئن کے حکم میں مامون و مصئوں
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہے اُس کا مُلک راحت کا ٹھکانا
زمانہ اُس کا ہے طُرفہ زمانہ
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
سبھی احسان اُس کا مانتے ہیں
اُسے پیارا شہنشہ جانتے ہیں
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہیں اُس کے عہد میں انسان بڑھتے
نہالِ تازہ ہیں پروان چڑھتے
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
سمندر ـ شہر ـ جنگل اور پربت
بنے گلزار ہیں اُس کی بدولت
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
نظام الدین کی ہے التجا یہ
نکلتی ہے تہِ دل سے دعا یہ
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
قطعات
مسلمانوں کی تعلیم
اے ! خوشا وہ قوم مستقبل ہو جس کا شان دار
کَل سے بہتر آج ہو اور آج سے بہتر ہو کَل
دم بدم راہِ طلب میں کر رہی ہو دوڑ دھوپ
ایک نقطہ پر نہ ہو اُس کو توقف ایک پل
یہ نظم شیخ نظام الدین صاحب نبیرہ خان بہادر حافظ عبدالکریم مرحوم سی ـ آئی ـ ائ ریئس لال کورتی نے جلسہ سالگرہ ملکہ معظمہ کوئن وکٹوریا میں پڑھی تھی
ـ اپریل کو بمقام علی گڑھ ٹیچرز کانفرنس میں پڑہا گیا ـ
رفتہ رفتہ بن گئی ہو علم کی کشور کشا
ہوتے ہوتے ہو گئی ہو مردِ میدانِ عمل
کیوں نہ ہو اُس قوم کی دُنیا کے ہر گوشہ میں ساکھ
جس میں اخلاقی سکت ہو اور ہو حکمت کا بَل
وقت کو دولت کو طاقت کو نہ کھوئے رائگاں
کھودے احیاناً تو حاصل بھی کرے نعم البدل
ہچکچاتی ہو پہاڑوں سے نہ دریا سے رُکے
ہمّتیں ہوں اُس کی عالی عزم ہوں اُس کے اَٹل
حسرتا وہ قومِ ناقابل کہ ہو ننگِ سلف
کاہلی سے دست و بازو ہو گئے ہوں جس کے شل
اُس کی طاقت کیا ؟ کہ ہوں اوروں سے کم جس کے نفوس
اُس کی عزت کیا ؟ جو ہو پس مانده علم و عمل
اُس کی دولت کیا ؟ کہ ہوں افراد جس کے بے ہُنر
مفلسی بھی اور دماغوں میں مشیت کا خلل
کر دیا ہے خانہ برباد آج اُسے اسراف نے
جس کو قدرت نے دئے تھے سیکڑوں سنگیں محل
خیر جو گزرا سو گزرا یہ جو ہیں تازہ نہال
فکر اِن کی چاہیئے شاید یہی جائیں سنبھل
اِن کو بار آور بناؤ خواہ بے کار و فضول
آج جس سانچے میں ڈھالو گے انھیں جائیں گے ڈھل
کھیت میں پیدا ہوں پودے اور نہ سینچو وقت پر
ہے نتیجہ صاف ظاہر دھوپ سے جائیں گے جل
سوکھ کر جھڑ جائیں کلیاں اور نہ چیتے باغباں
ایسے ظالم باغباں کو کیا ملے گا خاک پھل
جی چرانا کام سے اور کامیابی کا یقیں
اے عزیزو ! ہے خلافِ حکمِ حق عزّوجل
لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّ مَا سَعیٰ پڑھتے تو ہو
لیکن اِس پڑھنے کا اے حضرات ! آخر ماحصل ؟
شہد کی مکھّی کو دیکھو کس قدر مصروف ہے
چوس کر ہر پھول سے لاتی ہے بے چاری عسل
اپنے بچّوں کے لیے کرتی ہے آذوقہ تلاش
آخرش آتے ہیں بچّوں کے بھی پَر پُرزے نکل
یہ نئی تانتی ہماری کیا کرے گی بھاگ دوڑ
تنگنائے کاہلی میں جب بڑے جائیں پھسل
بعض کہتے ہیں بڑھو آگے کہ ہے میداں وسیع
بعض کہتے ہیں کہ ہیں یہ کہنے والے مبتذل
دیکھنا ! تم ٹَس سے مَس ہرگز نہ ہونا ایک انچ
بڑھ گئے آگے تو آ جائے گا ایماں میں خلل
اُن کا کہنا مانئے یا اِن کی خاطر کیجئے
اپنا عقدہ کیجئے اب اپنے ہی ناخن سے حل
تیز کر اپنی توجّہ کی کرن اے آفتاب (۱) !
تاکہ جائے عادتوں سے برف سُستی کی پگھل
تیری گرمی سمندر سے اُٹھائے گی بخار
پھر ہوا میں جمع ہوں گے بادلوں کے دَل کے دَل
دشت اور کُہسار پر برسیں گے ایک دن جھوم جھوم
ایک ہو جائے گا آخر دیکھنا ! جل اور تھل
پھر تو ہو جائے گی یہ مردہ زمیں باغ و بہار
پھر تو کھِل جائیں گے پژمردہ دلوں کے بھی کنول
دِل نہ ہو درد آشنا تو نظم ہے اِک دردِ سر
کیا رباعی کیا قصیدہ کیا مخمّس کیا غزل
جملہ ڈیلیگٹ سے آب خیر مقدم عرض ہے
اور پریذیڈنٹ(۱) کی خدمت میں شکریہ ڈبل
۱۔ آنریبل صاحبزادہ آفتاب احمد خاں بیرسٹرایٹ لا ـ علی گڑھ
قطعہ وفات مِلک معظم ایڈورڈ ہفتم آن جہانی
رحلت ایڈورڈ ہفتم پیش آئی یک بہ یک
اِس وقوعہ کا نہ تھا ہرگز کسی کو بھی خیال
ہم نہ بھولے تھے ابھی وکٹوریہ عُظمٰے کا غم
کیوں کہ گزرے تھے ابھی اِس حادثہ پر چند سال
چند سالہ سلطنت میں شاہِ ولا جاہ نے
کر دیا سب پر عیاں اپنی لیاقت کا کمال
ملکِ افریقہ میں قومِ بور کو بخشا عروج
باوجودِ فتح مندی چھوڑ دی جنگ و جدال
کس قدر ہم عصر شاہوں سے بڑھائی آشتی
کس قدر ہمسایہ ملکوں سے بنایا اعتدال
بن گئے یارانِ مخلص پیرس و پیٹرس برگ
ڈھل گئی انگلش کی جانب سے جو تھی گردِ ملال
جرمن و اسپینسیز رومی و یونانی و ترک
صلح جو ایڈورڈ نے سب کی بدل دی چال ڈھال
پیس میکر بّرِاعظم میں ہوا اُس کا لقب
بڑھ گیا برطانیہ کا اور بھی عّز و جلال
کی تھی دورانِ ولی عہدی میں سیر اِس ملک میں
تھی عنایت کی نظر ہندوستاں کے حسبِ حال
ہفتمِ ماہِ مئی کو بج گیا کوسِ رحیل
عیسوی اُنّیس صدیاں اور یہ دسواں ہے سال
اب دعا ہے جارج پنجم جانشینِ سلطنت
مدتوں پھولے پھلے دُنیا میں یہ تازہ نہال
سب کے دل پر نقش ہیں اِس خانداں کی نیکیاں
اُن کے حق میں ہے رعایا کا دعاگو بال بال
دودمانِ شاہ کو اﷲ دے صبر و سکوں
دولت و اقبال روز افزوں رہے اور ملک و مال
شیخ عبدالقادر صاحب بیرسٹرایٹ لا
مسلمان اور انگریزی تعلیم
ایک دن تھا بحکمِ سرکاری
کئی اسکول جا بجا کھولے
نہ تو کچھ فیس تھی نہ داخلہ تھا
مفت تعلیم تھی اُسے جو لے
ہم مسلمان سب اکڑ بیٹھے
پہلے فتویٰ جواز کا ہو لے
مُنہ زبانی بھی اور لکھ کر بھی
پوچھ گچھ کی تو مولوی بولے
" ایسی تعلیم سے تو بہتر ہے
آدمی ٹوکری کہیں ڈھو لے "
اُن کو تنقیص دین کی سوجھی
تھے تعصّب کے آنکھ میں پھولے
وہم و وسواس کے رہے چلتے
سالہا سال توپ اور گولے
اِنتظامِ اُمورِ دُنیا کو
کیا سمجھتے یہ جَنّتی بھولے
جس کو ہو کچھ بھ فہم سے بہرہ
اپنے شربت میں زہر یوں گھولے
رہ نما بے خبر تو بات کو پھر
کون میزانِ عقل میں تولے
رہے علمِ معاش سے کورے
چہر قصبے محلّے اور ٹولے
ہیں ہمارے جو اور ہمسایے
گویا بیٹھے ہی تھے وہ مُنہ کھولے
خوانِ یغما پہ جا کے ٹوٹ پڑے
بھر لئے ٹھونس ٹھونس کر جھولے
لگی ہلدی نہ پھٹکری اور مفت
خوب موتی معاش کے رولے
محکموں کی پلٹ گئی کایا
آفسوں کے بدل گئے چولے
کہا سیّد نے قوم سے "ناداں!
تو بھی اُٹھ بیٹھ ہاتھ مُنہ دھو لے
پیچھے اُمیدِ جمع خرمن کر
پہلے کھیتوں میں بیج تو بولے "
تب ہوئی کچھ جِجھک ہماری دور
اور ہم نے بھی بال و پر کھولے
مگر اِس فیس کی گرانی کے
متواتر لگے وہ ہچکولے
حوصلہ کا نکل گیا بھرکُس
اور ہمّت کے ہو گئے ہولے
الغرض وہ مثل ہوئی اپنی
" سرمنڈتے ہی پڑ گئے اولے "
غریب اور امیر
خوش ہیں غریب اپنے اُن جھونپڑوں کے اندر
جو دھوپ کی تپش سے دوزخ کی بھٹّیاں ہیں
شاکی ہیں اہلِ دولت حالاں کہ اُن کے گھر میں
پنکھا بھی کھنچ رہا ہے اور خَس کی ٹٹیاں ہیں
غزلیات
سر زمینِ ہند کا میوہ ہے پھوٹ
بوالہوس گِرتے ہیں اُس پر ٹوٹ ٹوٹ
نچ کھُسٹ کے رہ گیا مفلس چمن
یہ خزاں تھی یا کہ پنڈاروں کی لوٹ
ہو چکی میعادِ ایّامِ بہار
غنچہ و گل رو رہے ہیں پھوٹ پھوٹ
جا کہیں سے مول لا عقلِ فرنگ
کیا ہوا پہنا اگر ڈاسن کا بوٹ
صانِع قدرت نے بھر دیں کس قدر
صنعتیں یورپ کے سر میں کوٹ کوٹ
زالِ دُنیا کی نمائش دیکھ کر
اچّھے اچّھوں کا وضو جاتا ہے ٹوٹ
سچ کی پاؤ گے صدا ہر دم کڑی
آخرش چِیں بول ہی جاتا ہے جھوٹ
دایۂ ابرِ بہاری واہ وا!
گل زمیں کو خوب پہنایا ہے سوٹ
چھُٹتی ہیں فقروں کی آتشبازیاں
جب کبھی آپس میں ہو جاتی ہے چھوٹ
بیٹھ کر کالج میں انگریزی علوم
رَٹ لئے لیکن نہ پایا اُن کا روٹ
بے ہنر ہاتھوں میں ہیں بےکار سے
مالوے کی روئی بنگالے کا جوٹ
کیا ہمارے شعر اور کیا شاعری
گاہے ماہے اور وہ بھی جھوٹ موٹ
مانع سرگشتگی وہ سنگِ دَر ہوتا نہیں
پھوڑنا سر کا علاجِ دردِ سر ہوتا نہیں
حیف دُنیا ! ہائے عقبےٰ ! منزلِ دلبر ہے دُور
دل جو اِس رستہ میں ٹھٹکا طے سفر ہوتا نہیں
یاد اور امید کی دولت سے کٹ جاتے ہیں دن
ورنہ غم کھانے سے دنیا میں گزر ہوتا نہیں
دعوے اُلفت ہے کچّا جو نہ ہو دل میں طپش
بے حرارت تو کبھی پُختہ ثمر ہوتا نہیں
خوفِ جاں سے نامہ بر جانے کی ہامی کیوں بھرے
رشک سے یاں اعتبارِ نامہ بر ہوتا نہیں
صدمۂ دل کوبِ فرقت امتحانِ عشق ہے
بے پِسے سرمہ بھی منظورِ نظر ہوتا نہیں
ہے شعورِ ماسوا بھی اِک حجابِ آگہی
بے خبر جب تک نہ ہولے باخبر ہوتا نہیں
رباعیات
ہمّت
تاریک ہے رات اور دریا زخّار
طوفان بپا ہے اور کشتی بےکار
گھبرائیو مت کہ ہے مددگار خدا
ہمّت ہے تو جا لگاؤ کھیوا اُس پار
ہمت
انسان کو چاہیے نہ ہمّت ہارے
میدانِ طلب میں ہاتھ بڑھ کر مارے
جو علم و ہنر میں لے گئے ہیں بازی
ہر کام میں ہیں اُنھیں کے وارے نیارے
مسلمانوں کی تعلیم
قلّاش ہے قوم تو پڑھے گی کیوں کر
پس ماندہ ہے اب ت پھر بڑھے گی کیوں کر
بچّوں کے لیے نہیں ہے اِسکول کی فیس
یہ بیل کہو منڈھے چڑھے گی کیوں کر
جھوٹی نفرت
لاکھوں چیزیں بنا کے بھیجیں انگریز
سب کرتے ہں دندانِ ہوس اُن پر تیز
چِڑتے ہیں مگر علومِ انگریزی سے
گُڑ کھاتے ہیں اور گُلگُلوں سے پرہیز
مقصودِ عالم انسان ہے
یہ مسئلہ دقیق سُنئے ہم سے
آدم ہے مراد ہستیِ عالم سے
ہم اصل ہیں اور یہ ہمارا سایہ
عالم کا وجود ہے ہمارے دم سے
٭٭٭
ٹائپنگ: اردو محفل کے ارکان فاطمہ قدوسی، خرد اعوان، نایاب
ماخذ:
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?-%DA%A%D%%DB%C%D%A%D%AA-%D%A%D%B%D%%D%B%D%B%DB%C%D%-%D%%DB%C%D%B%D%B%DA%BE%DB%C--%D%AA%D%A-&highlight=%D%%DB%C%D%B%D%B%DA%BE%DB%C
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
کلیات اسماعیل میرٹھی
جلد اول
فہرس
مثنویات... 7
(۱) صنائع الہی.. 7
(۲) خدا کی صنعت...... 16
(۳) خطبہ.... 22
(۴) تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہو جاتا ہے... 28
(۵) ایک وقت میں ایک کام. 31
(۶) ہوا چلی... 33
(۷) پن چکی... 35
(۸) اسلم کی بلی.. 38
(۹) بچہ اور ماں.. 40
(۱۰) ماں اور بچہ.. 42
(۱۱) ایک مور اور کلنگ..... 44
(۱۲) عجیب چڑیا. 46
(۱۳) ایک لڑکا اور بیر.. 49
(۱۴) ایک پودا اور گھاس.. 51
(۱۵) ایک جگنو اور بچہ کی باتیں... 54
(۱۶)ایک گھوڑا اور اس کا سایہ. 57
(۱۷) ایک کتا اور اس کی پرچھائیں... 59
(۱۸) ریل گاڑی. 61
(۱۹) ہماری گائے... 64
(۲۰) سچ کہو.. 67
(۲۱ ) ہمارا کتا ٹیپو.. 70
(۲۲) شفق.... 72
(۲۳) رات... 74
(۲۴) گرمی کا مہینہ.... 77
(۲۵) برسات... 79
(۲۶) ملمع کی انگوٹھی... 81
(۲۷) دال کی فریاد 83
(۲۸) دال چپاتی. 88
(۲۹) دو مکھیاں.. 92
(۳۰) مثنوی آب زلال.. 94
(۳۱) موعظت...... 102
(۳۲) داناؤں کی نصیحت دل سے سنو... 104
(۳۳) چھوٹے سے کام کا بڑا نتیجہ.... 107
(۳۴ ) اونٹ... 110
(۳۵) شیر... 113
(۳۶) کیڑا 115
(۳۷) ایک قانع مفلس...... 118
(۳۸) موت کی گھڑی.. 121
(۳۹) فادر ولیم.. 124
(۴۰) حب وطن... 128
(۴۱) انسان کی خام خیالی. 131
(۴۲) کوہ ہمالہ. 134
(۴۳) بارش کا پہلا قطرہ 139
(۴۴) مثنوی باد مراد. 143
(۴۵) ایک گنوار اور قوس قزح.. 153
(۴۶) ترک تکبر.... 155
(۴۷) حیا.. 158
(۴۸) کچھوا اور خرگوش.. 161
(۴۹) مناقشہ ہوا و آفتاب... 167
(۵۰) نا قدردانی. 172
(۵۱) جنگ روم و روس.. 174
(۵۲) مکالمہ سیف و قلم... 179
(۵۳) شمع ہستی.... 194
(۵۴) مثنوی فی العقائد.. 202
(۵۴) حمد باری تعالی. 206
(۵۶) یاد حضرت شیخ.. 212
(۵۷) صفت شیخ.. 223
(۵۸) مناجات... 225
(۵۹) غصہ کا ضبط... 248
(۶۰) ادب.. 249
(۶۱) چغل خوری. 250
(۶۲) آزادی غنیمت ہے... 251
(۶۳) طلب خیر میں قناعت سے حرص بہتر ہے... 251
(۶۴) تکبر میں ذلت اور تواضع میں عزت... 252
مثلث..... 253
اب آرام کرو 253
مربع.. 256
اچھا زمانہ آنے والا ہے... 256
مخمس..... 259
(۱) اک چھوٹی چیونٹی.. 259
(۲) کوشش کئے جاؤ 261
(۳) میرا خدا میرے ساتھ ہے... 265
(۴) صبح کی آمد. 268
(۵) خدا قیصرہ الہند کو سلامت رکھے... 273
نظم بے قافیہ.. 276
(۱) چڑیا کے بچے... 276
(۲) تاروں بھری رات... 277
مسدس.. 280
(۱) ماں کی مامتا.. 280
(۲) مرثیہ سید اقبال احمد مرحوم. 286
(۳) مرثیہ پلیونا 288
(۴) متفرقات... 291
(۱) مثمن..... 292
مشعر کیفیت قلعہ اکبر آباد موسوم بہ آثار سلف.... 292
انسان.. 321
ترجیع بند.. 322
(۱) نالہ چند در فراق شیخ.. 322
(۲) ہفت درود محمود 331
قصائد.. 337
قصیدہ 337
(۲) قصیدہ نا تمام. 343
(۳) قصیدہ 345
(۴) خشک سالی. 350
(۵) عیدی شب برات... 353
(۶) عیدالفطر.... 356
(۷) نذرانہ پیر جی.. 359
(۸) نذرانہ پیر جی.. 361
(۹) جریدہ عبرت... 364
مثنویات
(۱) صنائع الہی
خدایا نہیں کوئی تیرے سوا
اگر تو نہ ہوتا تو ہوتا ہی کیا
تصور تیری ذات کا ہے محال
کسے یہ سکت اور کہاں یہ مجال
تعقل میں اتنی صفائی کہاں
تفکر کو ایسی رسائی کہاں
یہاں عقل جاتی ہے آئی ہوئی
تخیل پہ ہیبت ہے چھائی ہوئی
تفکر کے جلتے ہیں پر اس جگہ
تصور کا کٹتا ہے سر اس جگہ
کسی کی یہاں دال گلتی نہیں
کسی کی یہاں چال چلتی نہیں
نہ ٹھیری کوئی ناؤ اس موج میں
نہ پہنچا کوئی تیر اس اوج میں
جلا اس ہوا میں نہ کوئی چراغ
پریشاں ہوئے دل تھکے سب دماغ
جو ہوتی مشابہ ترے کوئی چیز
تو کچھ کام کرتی سمجھ با تمیز
ترا کوئی ہم جنس و ہمتا نہیں
گماں کا یہاں پاؤں جمتا نہیں
سمجھ کیا ہے ؟ اور سمجھ کی کیا بساط ؟
سمندر سے قطرہ کا کیا ارتباط؟
چلی بوند لینے سمندر کی تھا
یکایک لیا موج نے اس کو کھا
ہوئی آپ ہی گم تو پائے کسے؟
بتائے وہ کیا اور جتائے کسے؟
اگر تیری قدرت کی کاریگری
نہ کرتی سمجھ بوجھ کی رہبری
تو وہ سر پٹکتی ہی رہتی مدام
طلب میں بھٹکتی ہی رہتی مدام
بنائی ہے تو نے یہ کیا خوب چھت
کہ ہے سارے عالم کی جس میں کھپت
یہ سقف کہن ہے ابھی تک نئی
اسے دیکھتی یوں ہی دنیا گئی
زمین پر گئیں کتنی نسلیں گزر
رہی اس کی ہیبت پہ سب کی نظر
اسے سب نے پایا اسی ڈھنگ میں
اسے سب نے دیکھا اسی رنگ میں
عجب ہے ، یہ خیمہ رسن ہے نہ چوب
ہمیشہ مصفا ہے بے رفت و روب
نہ در ہے نہ منظر نہ کوئی شگاف
ادھر سے ادھر تک ہے میدان صاف
جھروکا نہ کھڑکی نہ در ہے نہ چھید
عجب تیری قدرت عجب تیرے بھید
کہیں جوڑ ہے اور نہ پیوند ہے
جدھر دیکھئے اس طرف بند ہے
بنایا ہے کیا دست قدرت نے گول
چرس ہے نہ جھری نہ سلوٹ نہ جھول
عجب قدرتی شامیانہ ہے یہ
نظر کی پہنچ کا ٹھکانہ ہے یہ
ہوا کو دیا تو نے کیا خوب رنگ
سراسیمہ ہے عقل اور فکر دنگ
پرے اس کی حد سے نہ جائے نظر
جہاں تک نظر جائے آئے نظر
یہ تارے جو ہیں آتے جاتے ہوئے
چمکتے ہوئے جگمگاتے ہوئے
نظر آ رہے ہیں عجب شان سے
ہیں لٹکے ہوئے سقف ایوان سے
چراغ ایسے روشن جو بن تیل ہیں
یہ تیری ہی قدرت کے سب کھیل ہیں
یہ لعل و گہر ہیں جو بکھرے پڑے
زمین سے بھی ہیں ان میں اکثر بڑے
کوئی ان میں سورج کوئی ان میں چاند
کہ ماہ خور سامنے جن کے ماند
نظر میں جو اتنے سے آتے ہیں یہ
بہت دور چکر لگاتے ہیں یہ
پڑے اپنے چکر میں ہیں گھومتے
ترے حکم کے ذوق میں جھومتے
یہ قائم ہیں تیری ہی تقدیر سے
بندھے ہیں بہم سخت زنجیر سے
گھسے جو کبھی اور نہ ٹوٹے کبھی
نہ اس بند سے کوئی چھوٹے کبھی
رسائی سے ہاتھوں کی برتر ہے وہ
نظر کے بھی قابو سے باہر ہے وہ
نہ سیمیں نہ زریں نہ وہ آہنی
مگر دست قدرت سے ہے وہ بنی
کھلے کب ، کوئی اس کو کھولے اگر
اسے عقل پائے ٹٹولے اگر
وہ زنجیر کیا ہے کشش باہمی
نہ اس میں خلل ہو نہ بیشی کمی
عجب تو نے باندھی ہے یہ باگ ڈور
تلا سب کا رہتا ہے آپس میں زور
یہ سب لگ رہے ہیں اس لاگ پر
لگاتے ہیں چکر اسی باگ پر
ہر اک کے لئے اک معین ہے دور
وہی اک وتیرہ وہی ایک طور
نشہ میں اطاعت کے سب چور ہیں
کہ قانون قدرت سے مجبور ہیں
سدا چال کا ایک انداز ہے
نہ کھٹکا نہ آہٹ نہ آواز ہے
کبھی چلتے چلتے ٹھٹکتے نہیں
طریقہ سے اپنے بھٹکتے نہیں
ہے ان سب کا آئین ایجاد ایک
ہنر ایک ہے اور استاد ایک
یہ شاخیں ہیں سب ایک ہی اصل کی
بہاریں ہیں کل ایک ہی فصل کی
ہر اک چیز ذرہ سے تا آفتاب
بلاشبہ رکھتی ہے یکساں حساب
ہیں ذروں میں خورشید کی سی صفات
ہے خورشید بھی ذرہ کائنات
حقیقت میں ہے یاں دو رنگی کہاں
جہاں ذرہ ہے اور ذرہ جہاں
نہیں تیری قدرت سے کچھ یہ بعید
کہ ہو ہر ستارہ جہان جدید
نہیں تیرے لطف و کرم سے عجب
کہ ہو اس جہاں میں بھی مخلوق سب
ہو گرمی بھی سردی بھی برسات بھی
اندھیرا اجالا بھی دن رات بھی
یہ ندی نالے یہ سمندر یہ پہاڑ
یہی بیل بوٹے درخت اور جھاڑ
ہوا بھی ہو اور لطف باراں بھی ہو
خزاں بھی ہو فصل بہاراں بھی ہو
ہو سر پر اسی طور سے آسمان
ہو پاؤں کے نیچے زمین بھی وہاں
فلک پر ستارے بھی ہوں جلوہ گر
وہاں بھی ہو دوران شمس و قمر
ہوں انسان بھی اور حیوان بھی
ہر اک جنس کا ساز و سامان بھی
٭٭٭
(۲) خدا کی صنعت
جو چیز خدا نے ہے بنائی
اس میں ظاہر ہے خوشنمائی
کیا خوب ہے رنگ ڈھنگ سب کا
چھوٹی بڑی جس قدر ہیں اشیا
روشن چیزیں بنائیں اس نے
اچھی شکلیں دکھائیں اس نے
ہر چیز کی ادا ہے نرالی
حکمت سے نہیں ہے کوئی خالی
ہر چیز ہے ٹھیک ٹھیک لاریب
ہیں اس کے تمام کام بے عیب
ننھی کلیاں چٹک رہی ہیں
چھوٹی چڑیاں پھدک رہی ہیں
اس کی قدرت سے پھول مہکے
پھولوں پہ پرند آ کے چہکے
چڑیوں کے عجیب پر لگائے
اور پھول ہیں عطر میں بسائے
چڑیوں کی ہے بھانت بھانت آواز
پھولوں کا جدا جدا ہے انداز
محلوں میں امیر ہیں بہ آرام
ہے در پہ کھڑا غریب ناکام
ہے کوئی غنی تو کوئی محتاج
بے گھر ہے کوئی کسی کے گھر راج
روزی دونوں کو دی خدا نے
معمور ہیں قدرتی خزانے
تاروں بھری رات کیا بنائی
دن کو بخشی عجب صفائی
موتی سے پڑے ہوئے ہیں لاکھوں
ہیرے سے جڑے ہوئے ہیں لاکھوں
کیا دودھ سی چاندنی ہے چھٹکی
حیران ہو کر نگاہ ٹھٹکی
تارے رہے صبح تک نہ وہ چاند
آگے سورج کے ہو گئے ماند
نیلا نیلا اب آسمان ہے
وہ رات کی انجمن کہاں ہے
شام آئی تو اس نے پردہ ڈالا
پھر صبح نے کر دیا اجالا
جاڑا ، گرمی ، بہار ، برسات
ہر رت میں نیا سماں نئی بات
جاڑے سے بدن ہے تھرتھراتا
ہر شخص ہے دن میں دھوپ کھاتا
سردی سے ہیں ہاتھ پاؤں ٹھرتے
سب لوگ الاؤ پر ہیں گرتے
سرسوں پھولی بسنت آئی
ہولی پھاگن میں رنگ لائی
پھوٹیں نئی کونپلیں شجر میں
اک جوش بھرا ہوا ہے سر میں
جاڑے کی جو رت پلٹ گئی ہے
دن بڑھ گیا رات گھٹ گئی ہے
گرمی نے زمین کو تپایا
بھانے لگا ہر کسی کو سایہ
برسات میں دل ہیں بادلوں کے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
رو آئی ہے زور شور کرتی
دامان زمین کو کترتی
کس زور سے بہہ رہا ہے نالا
اونچے ٹیلے کو کاٹ ڈالا
بل کھا کے ندی نکل گئی ہے
رخ اپنا ادھر بدل گئی ہے
دریا ہے رواں پہاڑ کے پاس
بستی ہے بسی اجاڑ کے پاس
بستی کے ادھر ادھر ہے جنگل
جنگل ہی میں ہو رہا ہے منگل
مٹی سے خدا نے باغ اگائے
باغوں میں اسی نے پھل لگائے
میوے سے لدی ہوئی ہے ڈالی
دانوں سے بھری ہوئی ہے بالی
سبزے سے ہرا بھرا ہے میدان
اونچے اونچے درخت ذی شاں
ہم کھیلتے ہیں وہاں کبڈی
مبری ہے کوئی۔۔ کوئی ہے پھسڈی
گائے بھینسیں عجب بنائیں
کیا دودھ کی ندیاں بہائیں
پیدا کیے اونٹ بیل گھوڑے
ہر شے کے بنا دیے ہیں جوڑے
روشن آنکھیں بنائیں دو دو
قدرت کی بہار دیکھنے کو
دو ہونٹ دیئے کہ منہ سے بولیں
شکر اس کا کریں زبان کھولیں
ہر شے اس نے بنائی نادر
بیشک ہے خدا قوی و قادر
٭٭٭
(۳) خطبہ
حمد و سپاس حصہ اس ذات پاک کا ہے
جو آسرا سہارا کل کائنات کا ہے
جب کچھ نہ تھا وہی تھا اس کے سوا نہ تھا کچھ
کچھ ہو نہ ہو وہ ہو گا۔ قدرت ہے اس کی کیا کچھ
کن خوبیوں سے اس نے اس بزم کو سجایا
اور خلعت شرافت انسان کو پہنایا
اللہ رے اس کی قدرت، اللہ رے بے نیازی
دی بعض کو بہ نسبت بعضوں کے سرفرازی
پھر خاص خاص بندے جو اس نے چن لیئے ہیں
کیا کیا بلند رتبے ان کو عطا کئے ہیں
یاں بندگی ہے اور واں بندہ نوازیاں ہیں
یاں سر جھکا ہوا ہے واں سرفرازیاں ہیں
انسان ہی نہ ہوتا جو بندگی نہ ہوتی
اندھیر تھا جو دل میں یہ لو لگی نہ ہوتی
طاعت کا آدمی کو فرمان کیوں ملا ہے
بے حد وہاں مہیا انعام اور صلہ ہے
ہے اذن عام لوگو، خوان کرم پہ ٹوٹو
بھر بھر کے جھولیاں لو۔ دوڑو ثواب لوٹو
تم بھی نہیں ہو محروم۔ آؤ گناہ گارو
گر صدق دل سے اپنے غفار کو پکارو
تو پاؤ گے ہمیشہ توبہ کا در کھلا تم
رحمت ہے اس کی بے حد کرتے ہو فکر کیا تم
ہر وقت باڑھ پر ہے لطف و کرم کا دریا
دو چار ہاتھ مارو۔ لگتا ہے پار کھیوا
پھر اس کی نعمتیں ہیں اور عیش ہیں جناں کے
افسوس۔ جو نہ مانیں گن ایسے مہربان کے
میں حمد اس کی ہر دم کرتا ہوں جان و دل سے
اور شکر ہے ٹپکتا اس میری آب و گل سے
میں اس کی مغفرت کا ہوں جی سے آرزومند
توبہ ہے اس کے آگے۔ توبہ کا در نہیں بند
٭٭
میں اس سے چاہتا ہوں دنیا میں تندرستی
دے اپنی راہ میں وہ میرے قدم کو چستی
بادل برس پڑے کاش اس کی عنایتوں کا
ابلے زمین دل سے چشمہ ہدایتوں کا
رہنا گواہ تم بھی دیتا ہوں میں شہادت
ہے پاک ذات اس کی بس قابل عبادت
اس کے سوا تو کوئی معبود ہی نہیں ہے
ہاں۔ اس کے ہوتے کوئی موجود ہی نہیں ہے
یکتا ہے وہ۔ کہاں ہے ؟ اس کا شریک کوئی
میرے ہر اک دکھ کی کرتا ہے چارہ جوئی
ہاں۔ یہ بھی سن رکھو تم دیتا ہوں میں گواہی
ہادی مرا محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے بندہ الہی
تاج رسالت اس کے سر پر خدا نے رکھا
اوروں سے اس کو برتر صدق و صفا نے رکھا
اس کو خدا نے اپنا پیغام بر بنایا
بے کم و کاست اس نے جو حکم تھا سنایا
وہ خاتم نبوت وہ سرور دو عالم
درگاہ ایزدی کا تھا اک سفیر اعظم
حلم و وقار و نرمی خوش خوئی مہربانی
پیغمبری کی اس میں تھی یہ کھلی نشانی
لوگو۔ سنو کہ کوچ کی ساعت قریب ہے
جو جمع کر لے توشہ وہی خوش نصیب ہے
جی بندگی حق سے چراتے ہو واہ وا
حالانکہ دوستی کا بھی کرتے ہو ادعا
دوزخ سے نفرت اور افعال زشت بھی
کوتک تو ایسے اور امید بہشت بھی
دین کا معاملہ ہو تو گویا ہیں نیم جاں
دنیا کے کاروبار میں یہ جاں فشانیاں
دار البقا کا بھول گئے اہتمام تم
دار الفنا کو سمجھے ہو اپنا مقام تم
واللہ ہو گئی ہے تمہاری سمجھ خراب
پوچھا گیا وہاں تو بھلا دو گے کیا جواب
افسوس اس سمجھ پہ عجب پر غرور ہو
موت آ رہی ہے تم ابھی غفلت میں چور ہو
سوتے ہیں زیر خاک پڑے کس قدر عزیز
تم اپنے مست عیش ہو کرتے نہیں تمیز
چھوٹے بھی اور بڑے بھی جو تم سے تھے چل بسے
کیا سمجھے ہو ؟ رہیں گے تمہارے محل بسے
ہیہات ان کے حال سے عبرت نہیں تمہیں
تحصیل جاہ و مال سے فرصت نہیں تمہیں
قراں سنو۔ تو ہو تمہیں اس بات پر عبور
اللہ کی طرف ہمیں جانا ہے بالضرور
اللہ کا کلام ہے سب سے بلیغ تر
مالک ہے سب کا۔ ہے اسے ہر بات کی خبر
قران پاک کوئی پڑھے تو سنو خموش
اللہ تم پے رحم کرے ہے وہ عیب پوش
(نوٹ) یہ دونوں خطبے خان بہادر ڈپٹی محمد صدیق صاحب رئیس میرٹھ کی فرمائش سے لکھے گئے تھے جب کہ ان کا تعلق سرکار نظام سے تھا۔(۱۲)
٭٭٭
(۴) تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہو جاتا ہے
بنایا ہے چڑیوں نے جو گھونسلہ
سو ایک ایک تنکا اکٹھا کیا
گیا ایک ہی بار سورج نہ ڈوب
مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب
قدم ہی قدم طے ہوا ہے سفر
گئیں لحظہ لحظہ میں عمریں گذر
سمندر کی لہروں کا تانتا سدا
کنارہ سے ہے آ کے ٹکرا رہا
سمندر سے دریا سے اٹھتی ہے موج
سدا کرتی رہتی ہے دھاوا یہ فوج
کراروں کو آخر گرا ہی دیا
چٹانوں کو بالکل صفا چٹ کیا
برستا جو مینہ موسلا دھار ہے
سو یہ ننھی بوندوں کی بوچھار ہے
درختوں کے جھنڈ اور جنگل گھنے
یونہی پتے پتے سے مل کر بنے
ہوئے ریشہ سے بن اور جھاڑ
بنا ذرہ ذرہ سے مل کر پہاڑ
لگا دانہ دانہ سے غلہ کا ڈھیر
پڑا لمحہ لمحہ سے برسوں کا پھیر
جو ایک ایک پل کر کے دن کٹ گیا
تو گھڑیوں ہی گھڑیوں میں برس گھٹ گیا
لکھا لکھنے والے نے ایک ایک حرف
ہوئی گڈیاں کتنی کاغذ کی صرف
ہوئی لکھتے لکھتے مرتب کتاب
اسی پر ہر اک شے کا سمجھو حساب
ہر اک علم و فن اور کرتب ہنر
نہ تھا پہلے ہی دن سے اس ڈھنگ پر
یونہی بڑھتے بڑھتے ترقی ہوئی
جو نیزہ ہے اب۔ تھا وہ پہلے سوئی
جولاہے نے جوڑا تھا ایک ایک تار
ہوئے تھان جس کے گزوں سے شمار
یونہی پھوئیوں پھوئیوں بھری جھیل تال
یونہی کوڑی کوڑی ہوا جمع مال
اگر تھوڑا تھوڑا کرو صبح و شام
بڑے سے بڑا کام بھی ہو تمام
٭٭٭
(۵) ایک وقت میں ایک کام
ہے کام کے وقت کام اچھا
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا
جب کام کا وقت ہو کرو کام
بھولے سے بھی کھیل کا نہ لو نام
ہاں کھیل کے وقت خوب کھیلو
کوندو پھاندو کہ ڈنڈ پیلو
خوش رہنے کا ہے یہی طریقہ
ہر بات کا سیکھئے سلیقہ
اپنی ہمت سے کام کرنا
مشکل ہو تو چاہیے نہ ڈرنا
جو کچھ ہو سو اپنے دم قدم سے
کیا کام ہے غیر کے کرم سے
مت چھوڑیو کام کو ادھورا
بے کار ہے جو ہوا نہ پورا
ہر وقت میں صرف ایک ہی کام
پا سکتا ہے بہتری سے انجام
جب کام میں کام اور چھیڑا
دونوں میں ہی پڑ گیا بکھیڑا
جو وقت گزر گیا اکارت
افسوس ہوا خزانہ غارت
ہے کام کے وقت کام اچھا
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا
٭٭٭
(۶) ہوا چلی
ہونے کو آئی صبح تو ٹھنڈی ہوا چلی
کیا دھیمی دھیمی چال سے یہ خوش ادا چلی
لہرا دیا ہے کھیت کو ہلتی ہیں بالیاں
پودے بھی جھومتے ہیں لچکتی ہیں ڈالیاں
پھلواریوں میں تازہ شگوفے کھلا چلی
سویا ہوا تھا سبزہ اسے تو جگا چلی
سرسبز ہوں درخت نہ باغوں میں تجھ بغیر
تیرے ہی دم قدم سے ہے بھاتی چمن کی سیر
پڑ جائے اس جہاں میں ہوا کی اگر کمی
چوپایہ کوئی زندہ بچے اور نہ آدمی
چڑیوں کو یہ اڑان کی طاقت کہاں رہے
پھر کائیں کائیں ہو نہ غٹر غوں نہ چہچہے
بندوں کو چاہیئے کہ کریں بندگی ادا
اس کی کہ جس کے حکم سے چلتی ہے یہ سدا
٭٭٭
(۷) پن چکی
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
بیٹھتی تو نہیں کبھی تھک کر
تیرے پہیہ کو ہے سدا چکر
پیسنے میں لگی نہیں کچھ دیر
تو نے جھٹ پٹ لگا دیا اک ڈھیر
لوگ لے جائیں گے سمیٹ سمیٹ
تیرا آٹا بھرے گا کتنے پیٹ
بھر کے لاتے ہیں گاڑیوں میں اناج
شہر کے شہر ہیں ترے محتاج
تو بڑے کام کی ہے اے چکی
کام کو کر رہی ہے طے چکی
ختم تیرا سفر نہیں ہوتا
نہیں ہوتا مگر نہیں ہوتا
پانی ہر وقت بہتا ہے دھل دھل
جو گھماتا ہے آ کے تیری کل
کیا تجھے چین ہی نہیں آتا
کام جب تک نبڑ نہیں جاتا
مینہ برستا ہو یا چلے آندھی
تو نے چلنے کی شرط ہے باندھی
تو بڑے کام کی ہے اے چکی
مجھ کو بھاتی ہے تیری لے چکی
علم سیکھو سبق پڑھو بچو
اور آگے چلو بڑھو بچو
کھیلنے کودنے کا مت لو نام
کام جب تک ہو نہ جائے تمام
جب نبڑ جائے کام تب ہے مزہ
کھیلنے کھانے اور سونے کا
دل سے محنت کرو خوشی کے ساتھ
نہ کہ اکتا کے خامشی کے ساتھ
دیکھ لو چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
٭٭٭
(۸) اسلم کی بلی
چھوٹی سی بلی کو میں کرتا ہوں پیار
صاف ہے ستھری ہے بڑی ہے کھلار
گود میں لیتا ہوں تو کیا گرم ہے
گالے کی مانند رواں نرم ہے
میں جو نہ چھیڑوں تو نہ جھلائے وہ
میں نہ ستاؤں تو نہ غرائے وہ
کھینچ کے دم اب نہ ستاؤں گا میں
گھر میں سے باہر نہ بھگاؤں گا میں
اب نہ ڈرے گی وہ مری مار سے
کھیلیں گے ہم دونوں بہت پیار سے
صحن میں گھر میں کبھی میدان میں
کھیلیں گے در میں کبھی دالان میں
دم کو ہلا میرے پڑے گی وہ پاؤں
بولے گی پھر پیار سے یوں ’’ میاؤں میاؤں‘‘
دوں گا اسے گیند میں جب آن کر
جھپٹے گی وہ اس پہ چوہا جان کر
تاک لگائے گی۔ دبوچے گی خوب
مار نہٹے اسے نوچے گی خوب
ہم نے بڑے پیار سے پالا اسے
کہتے ہیں سب چوہوں کی خالہ اسے
٭٭٭
(۹) بچہ اور ماں
اچھی اماں، مجھے بتا دو ابھی
کیوں ہے بچہ کی مامتا اتنی ؟
تم کو بچہ سے کیوں یہ الفت ہے ؟
کس لیئے اس قدر محبت ہے ؟
ماں نے بچہ کو یوں جواب دیا
حیف، تم جانتے نہیں بیٹا
کیسا لیٹا ہے یہ خوش و خرم
نہ کوئی فکر ہے نہ کوئی غم
نہ تو روتا نہ بلبلاتا ہے
گود میں کیا ہمک کر آتا ہے
مسکراتا ہے کیا ہی خوش ہو کر
جیسے چڑیا مگن ہو ڈالی پر
جبکہ سونے کا وقت ہے آتا
میرے سینہ سے ہے چمٹ جاتا
جب کہ آنکھوں میں نیند آتی ہے
بسترا اس کا میری چھاتی ہے
نیند لے کر ہنسی خوشی سے اٹھا
پھول گویا کھلا چنبیلی کا
لگ گئی بھوک کہہ نہیں سکتا
پیاری نظروں سے ہے مجھے تکتا
پیار کا میرے بس یہی ہے سبب
نہیں آتا بیان میں مطلب
٭٭٭
(۱۰) ماں اور بچہ
بولی بچہ سے ماں میرے پیارے
صدقے اماں، جواب دو بارے
کہ ہے بچہ کو ماں سے الفت کیوں ؟
رکھتا ہے اس قدر محبت کیوں ؟
دیا بچے نے یوں جواب سنو
اے ہے اماں خبر نہیں تم کو
مجھ کو تکلیف سے بچاتی ہو
پیار سے گود میں بٹھاتی ہو
جی مرا بدمزہ اگر ہو جائے
میرے دکھ کا تمہیں اثر ہو جائے
مجھ کو ہو درد تم کو حیرانی
چپکے چپکے کرو نگہ بانی
اچھے اچھے کھلاتی ہو کھانے
پیار کرتی ہو تم۔ خدا جانے
اور سب سے کہ آ رہے ہیں نظر
تم زیادہ ہو مہربان مجھ پر
جانتا ہوں عزیز سب سے تمہیں
چاہتا ہوں اسی سبب سے تمہیں
پیاری اماں کہا نہیں جاتا
نہیں مطلب بیان میں آتا
٭٭٭
(۱۱) ایک مور اور کلنگ
دم مور نے پھول کر دکھائی
اور بولا کلنگ سے کہ بھائی
کیا خوب ہیں نقش اور کیا رنگ
دنیا مجھے دیکھ کر ہوئی دنگ
میری سی کہاں ہے آپ کی دم
کر نہیں سکتے مقابلہ تم
بولا اس سے کلنگ ہنس کر
ہاں آپ کے لاجواب ہیں پر
لیکن نہیں کچھ بھی کام آتے
بچوں ہی کے دل کو ہیں لبھاتے
اڑنے نہیں دیتی دم تمہاری
لیتے ہیں پکڑ تمہیں شکاری
یہ کہہ کے پروں کو پھٹپھٹا کر
بولا اونچا ہوا پے جا کے
آؤ کریں آسمان کا پھیرا
کچھ دم ہے تو ساتھ دو نہ میرا
منہ اپنا سا لے کے رہ گیا مور
تھا اس میں کہاں اڑان کا زور
بھاتا ہے جنہیں نرا دکھاوا
وہ لوگ ہیں مور کے بھی باوا
بس ان کو ہے ٹیپ ٹاپ کی دھن
شیخی کے سوا نہیں کوئی گن
دیکھیں کسے یاد ہے زبانی
مور اور کلنگ کی کہانی
٭٭٭
(۱۲) عجیب چڑیا
چڑیا ہم نے عجیب پالی
زنجیر اس کے گلے میں ڈالی
دن رات ہو۔ شام یا سویرا
لیتی ہے وہ جیب میں بسیرا
چڑیا سے بھی قد ہے اس کا چھوٹا
ہے اس کا بدن تمام پوٹا
پوٹے پہ جو غور سے نظر کی
پوٹا نہیں پوٹ ہے ہنر کی
گویا ہے، اگرچہ بے زبان ہے
نادان ہے مگر حساب دان ہے
دانہ پانی نہیں وہ کھاتی
ہر دم ہے خوشی سے چہچہاتی
دن رات میں چھیڑ دو کسی آن
یہ چھیڑ ہے اس کے جسم کی جان
جب تک جیتی ہے جاگتی ہے
لو کام تو چیز کام کی ہے
کہتی ہے کہ وقت کی خبر لو
جو کچھ کرنا ہے جلد کر لو
غفلت کیجیے تو ٹوکتی ہے
عجلت کیجیے تو روکتی ہے
اس طور سے کرتی ہے گزارہ
انڈے دیتی ہے دن میں بارہ
پھر اتنے ہی رات کو ہے دیتی
دیتے ہی ہر ایک کو ہے سیتی
انڈے ہیں تمام اس کے سچے
ایک ایک سے نکلے ساٹھ بچے
ہر بچہ نے اگلے ساٹھ دانے
ہر دانے میں ہیں بھرے خزانے
جو دانہ گرا سو ہو گیا گم
ڈھونڈا کرو پھر نہ پاؤ گے تم
دانہ کی بتاؤں کیا قیمت
دانا سمجھیں اسے غنیمت
جس نے اسے پا لیا کہا واہ
کیا بات ہے تیری بارک اللہ
سچ مچ تو لعل بے بہا ہے
گویا ہر درد کی دوا ہے
القصہ ہے وہ عجب پرندہ
مردہ اسے کہہ سکیں نہ زندہ
٭٭٭
(۱۳) ایک لڑکا اور بیر
ایک لڑکا ہے بڑا ایمان دار
آزمائیش ہو چکی ہے چند بار
ایک دن وہ نیک دل اور با حیا
اپنے ہمسایہ کے گھر میں تھا گیا
آدمی بالکل نہیں واں نام کو
کیونکہ ہمسایہ گیا ہے کام کو
تازہ تازہ بیر ڈلیا میں بھرے
بے حفاظت ہیں گھر میں دھرے
لیکن اس نے بیر کو چھیڑا نہیں
ہو نہ جائے شبہ چوری کا کہیں
آ گیا اتنے میں ہمسایہ وہاں
کھیل میں مصروف ہے لڑکا جہاں
اپنے بیروں میں نہ پائی کچھ کمی
ہو کے خوش لڑکے سے بولا آدمی
بیر یہ تم نے چرائے کیوں نہیں ؟
کیوں چراتا ؟ چور تھا کیا میں کہیں ؟
چور جب بنتے کہ کوئی دیکھتا
دیکھنے کو میں ہی خود موجود تھا
کچھ برائی آپ میں گر پاؤں میں
پانی پانی شرم سے ہو جاؤں میں
واہ وا، شاباش، لڑکے واہ واہ
تو جواں مردوں سے بازی لے گیا
٭٭٭
(۱۴) ایک پودا اور گھاس
اتفاقا ایک پودا اور گھاس
باغ میں دونوں کھڑے ہیں پاس پاس
گھاس کہتی ہے کہ اے میرے رفیق
کیا انوکھا اس جہاں کا ہے طریق
ہے ہماری اور تمہاری ایک ذات
ایک قدرت سے ہے دونوں کی حیات
مٹی اور پانی ہوا اور روشنی
واسطے دونوں کے یکساں ہے بنی
تجھ پہ لیکن ہے عنایت کی نظر
پھینک دیتے ہیں مجھے جڑ کھود کر
سر اٹھانے کی مجھے فرصت نہیں
اور ہوا کھانے کی بھی رخصت نہیں
کون دیتا ہے مجھے یاں پھیلنے
کھا لیا گھوڑے گدھے یا بیل نے
تجھ پہ منہ ڈالے جو کوئی جانور
اس کی لی جاتی ہے ڈنڈے سے خبر
اولے پالے سے بچاتے ہیں تجھے
کیا ہی عزت سے بڑھاتے ہیں تجھے
چاہتے ہیں سب تجھ کو سب کرتے ہیں پیار
کچھ پتا اس کا بتا اے دوست دار
اس سے پودے نے کہا یوں سر ہلا
گھاس سب سچا ہے تیرا یہ گلا
مجھ میں اور تجھ میں نہیں کچھ بھی تمیز
صرف سایہ اور میوہ ہے عزیز
فائدہ اک روز مجھ سے پائیں گے
سایہ میں بیٹھیں گے اور پھل کھائیں گے
ہے یہاں عزت کا سہرا اس کے سر
جس سے پہونچے نفع سب کو بیشتر
٭٭٭
(۱۵) ایک جگنو اور بچہ کی باتیں
سناؤں تمہیں بات اک رات کی
کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی
چمکنے سے جگنو کے تھا اک سماں
ہوا پر اڑیں جیسے چنگاریاں
پڑی ایک بچہ کی ان کی پر نظر
پکڑ ہی لیا ایک کو دوڑ کر
چمک دار کیڑا جو بھایا اسے
تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپایا اسے
وہ جھم جھم چمکتا ادھر سے ادھر
پھرا کوئی رستہ نہ پایا مگر
تو غمگین قیدی نے کی التجا
کہ چھوٹے شکاری، مجھے کر رہا
جگنو
خدا کے لیے چھوڑ دے چھوڑ دے
مری قید کے جال کو توڑ دے
بچہ
کروں گا نہ آزاد اس وقت تک
کہ میں دیکھ لوں دن میں تیری چمک
جگنو
چمک میری دن میں نہ دیکھو گے تم
اجالے میں ہو جائے گی وہ تو گم
بچہ
ارے چھوٹے کیڑے نہ دے دم مجھے
کہ ہے واقفیت ابھی کم مجھے
اجالے میں دن کے کھلے گا یہ حال
کہ اتنے سے کیڑے میں ہے کیا کمال
دھواں ہے نہ شعلہ ہے نہ گرمی نہ آنچ
چمکنے کی تیرے کروں گا میں جانچ
جگنو
یہ قدرت کی کاریگری ہے جناب
کہ ذرہ کو چمکائے جوں آفتاب
مجھے دی ہے اس واسطے چمک
کہ تم دیکھ کر مجھ کو جاؤ ٹھٹک
نہ الہڑ پنے سے کرو پائمال
سنبھل کر چلو آدمی کی سی چال
٭٭٭
(۱۶) ایک گھوڑا اور اس کا سایہ
ایک گھوڑا تھا نہایت عیب دار
اپنے سایہ سے بدکتا بار بار
اس سے مالک نے خفا ہو کر کہا
سن تو احمق، جس سے تو ہے ڈر رہا
جسم کا تیرے ہی تو سایہ ہے وہ
کچھ درندہ ہے نہ چوپایہ ہے وہ
جسم رکھتا ہے نہ اس کی جان ہے
تو بڑا ڈرپوک او نادان ہے
یوں دیا گھوڑے نے مالک کو جواب
سچ کہا یہ آپ نے لیکن جناب
آدمی سے بڑھ کر میں وہمی نہیں
ان ہوئی باتوں کا ہے جس کو یقین
بھوت کا قصہ کہانی کے سوا
کچھ نشان گھر میں نہ جنگل میں پتا
بھوت سے ڈرنا بھی کوئی بات ہے
کیا ہی وہمی آدمی کی ذات ہے
سایہ تو آنکھوں سے آتا ہے نظر
کیا عجب ہے جو ہوا مجھ پر اثر
اپنے دکھ کا کیجیئے اول علاج
دوسروں کا پوچھیئے پیچھے مزاج
٭٭٭
(۱۷) ایک کتا اور اس کی پرچھائیں
منہ میں ٹکڑا لیئے ہوتے کتا
ایک دریا کو تیر کر اترا
پانی آئینہ سا رہا تھا چمک
نظر آتی تھی تہہ کی مٹی تک
اپنی پرچھائیں پر کیا جو غور
اس کو سمجھا کہ ہے یہ کتا اور
منہ میں ٹکڑا دبا رہا ہے یہ
گہرے پانی میں جا رہا ہے یہ
حرص نے ایسا بے قرار کیا
جھٹ سے غرا کے اس پہ وار کیا
جونہی ٹکڑے پہ اس کے منہ مارا
اپنا ٹکڑا بھی کھو دیا سارا
واں نہ ٹکڑا نہ اور کتا تھا
وہم تھا۔ وہم کے سوا کیا تھا
یونہی جتنے ہیں لالچی نادان
کر کے لالچ اٹھاتے ہیں نقصان
باندھتے ہیں کہاں کہاں کے خیال
اور کھو بیٹھتے ہیں اپنا مال
تم ہوس میں سڑی نہ بن جاؤ
جو ملے اس کو کام میں لاؤ
٭٭٭
(۱۸) ریل گاڑی
حیواں ہے نہ وہ انساں جن ہے نہ وہ پری ہے
سینہ میں اس کے ہر دم اک آگ سی بھری ہے
کھا کے آگ پانی چنگھاڑ مارتی ہے
سر سے دھوئیں اڑا کر غصہ اتارتی ہے
وہ گھورتی گرجتی بھرتی ہے اک سپاٹا
ہفتوں کی منزلوں کو گھنٹوں میں اس نے کاٹا
آتی ہے شور کرتی جاتی ہے غل مچاتی
وہ اپنے خادموں کو ہے دور سے جگاتی
بے خوف بے محابا ہر دم رواں دواں ہے
ہاتھی بھی اس کے آگے اک مور ناتواں ہے
آندھی ہو یا اندھیرا ہے اس کو سب برابر
یکساں ہے نور و ظلمت اور روز و شب برابر
اتر سے لے دکن تک پورب سے لے پچھاں تک
سب ایک کر دیا ہے پہنچی ہے وہ جہاں تک
بجلی ہے یا بگولا۔ بھونچال ہے کہ آندھی
ٹھیکہ پہ ہے پہونچتی بچنوں کی ہے وہ باندھی
ہر آن ہے سفر میں کم ہے قیام کرتی
رہتی نہیں معطل۔ پھرتی ہے کام کرتی
پردیسیوں کو جھٹ پٹ پہونچا گئی وطن میں
ڈالی ہے جان اس نے سوداگری کے تن میں
ہر چیز سے ہے نرالی چال ڈھال اس کی
پاؤ گے صنعتوں میں کمتر مثال اس کی
برکت سے اس کی بے پر پردار بن گئے ہیں
ملک اس کے دم قدم سے گلزار بن گئے ہیں
ہم کہہ چکے مفصل۔ جو کچھ ہے کام اس کا
جب جانیں تم بتا دو بن سوچے نام اس کا
جی ہاں سمجھ گیا میں۔ پہلے ہی میں نے تاڑی
وہ دیکھو آگرہ سے آتی ہے ریل گاڑی
٭٭٭
(۱۹) ہماری گائے
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں
خاک کو اس نے سبزہ بنایا
سبزہ کو پھر گائے نے کھایا
کل جو گھاس چری تھی بن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں
سبحان اللہ دودھ ہے کیساا
تازہ گرم سفید اور میٹھا
دودھ میں بھیگی روٹی میری
اس کے کرم نے بخشی سیری
دودھ دہی اور مٹھا مسکا
دے نہ خدا تو کس کے بس کا
گائے کو دی کیا اچھی صورت
خوبی کی ہے گویا مورت
دانہ دنکا بھوسی چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر
کھا کر تنکے اور ٹھٹیرے
دودھ دیتی ہے شام سویرے
کیا ہی غریب اور کیسی پیاری
صبح ہوئی جنگل کو سدھاری
سبزہ سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے
پانی موجیں مار رہا ہے
چرواہا چمکار رہا ہے
پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر
دوری میں جو دن ہے کاٹا
بچہ کو کس پیار سے چاٹا
گائے ہمارے حق میں ہے نعمت
دودھ دیتی ہے کھا کے بنسپت
بچھڑے اس کے بیل بنائے
جو کھیتی کے کام میں آئے
رب کی حمد و ثنا کر بھائی
جس نے ایسی گائے بنائی
٭٭٭
(۲۰) سچ کہو
سچ کہو سچ کہو ہمیشہ سچ
ہے بھلے مانسوں کا پیشہ سچ
سچ کہو گے تو تم رہو گے عزیز
سچ تو یہ ہے کہ سچ ہے اچھی چیز
سچ کہو گے تو تم رہو گے شاد
فکر سے پاک رنج سے آزاد
سچ کہو گے تو تم رہو گے دلیر
جیسے ڈرتا نہیں دلاور شیر
سچ سے رہتی ہے تقویت دل کو
سہل کرتا ہے سخت مشکل کو
سچ ہے ساری معاملوں کی جان
سچ سے رہتا ہے دل کو اطمینان
سچ میں راحت ہے اور آسانی
سچ سے ہوتی نہیں پشیمانی
سچ ہے دنیا میں نیکیوں کی جڑ
سچ نہ ہو تو جہان جائے اجڑ
سچ کہو گے تو دل رہے گا صاف
سچ کرا دے گا سب قصور معاف
سچ سے زنہار درگزر نہ کرو
دل میں کچھ خوف اور خطر نہ کرو
جس کو سچ بولنے کی عادت ہے
وہ بڑا نیک با سعادت ہے
وہی دانا ہے جو کہ ہے سچا
اس میں بڈھا ہو یا کوئی بچا
ہے برا جھوٹ بولنے والا
آپ کرتا ہے اپنا منہ کالا
فائدہ اس کو کچھ نہ دے گا جھوٹ
جائے گا اک روز بھانڈا پھوٹ
جھوٹ کی بھول کر نہ ڈالو خو
جھوٹ ذلت کی بات ہے اخ تھو
٭٭٭
(۲۱ ) ہمارا کتا ٹیپو
ٹیپو ہے اس کا نام یہ کتا عجیب ہے
بڈھا ہے با ادب ہے نہایت غریب ہے
ہم دونوں بہن بھائیوں سے الفت ہے اس قدر
جب دیکھتا ہے دور سے آتا ہے دوڑ کر
افسوس میرے ٹیپو، حیراں ہوں کیا کروں
کس ڈھب سے تیرے ساتھ محبت کیا کروں
آتا ہے کم جہاں میں تجھ سا رفیق ہاتھ
جاتا ہوں جب میں سیر کو رہتا ہے میرے ساتھ
میں دودھ پی رہا ہوں تو بیٹھا ہے میرے پاس
کچھ شک نہیں کہ تو ہے وفادار حق شناس
البتہ میں بھی کرتا ہوں صرف اس قدر سلوک
دیتا ہوں ایک ٹکڑا کہ دب جائے تیری بھوک
لیکن مجھے یقین ہے اگر کچھ نہ دوں تجھے
دیکھے گا پھر بھی پیار کی نظروں سے تو مجھے
اس واسطے کہ تو ہے وفادار حق شناس
مالک کا اپنے تجھ کو بہت ہے لحاظ و پاس
ٹیپو ہمارے گھر کا پرانا رفیق ہے
بڈھا ہے با وفا ہے نہایت شفیق ہے
جنگل کو جائیں ڈھور تو جاتا ہے ساتھ ساتھ
جب گھر کو واپس آئیں تو آتا ہے ساتھ ساتھ
بیچارہ گھر کی چوکسی کرتا ہے رات بھر
اور دن میں کھیلتا ہے مرے ساتھ ادھر ادھر
٭٭٭
(۲۲) شفق
شفق پھولنے کی بھی دیکھو بہار
ہوا میں کھلا ہے عجب لالہ زار
ہوئی شام بادل بدلتے ہیں رنگ
جنہیں دیکھ کر عقل ہوتی ہے دنگ
نیا رنگ ہے اور نیا روپ ہے
ہر ایک روپ میں یہ وہی دھوپ ہے
طبیعت ہے بادل کی رنگت پہ لوٹ
سنہری لگائی ہے قدرت نے گوٹ
ذرا دیر میں رنگ بدلے کئی
بنفشی و نارنجی و چنپئی
یہ کیا بھید ہے، کیا کرامات ہے
ہر اک رنگ میں اک نئی بات ہے
یہ مغرب میں جو بادلوں کی ہے باڑ
بنے سونے چاندی کے گویا پہاڑ
فلک نیلگوں اس میں سرخی کی لاگ
ہرے بن میں گویا لگا دی ہے آگ
اب آثار ظاہر ہوئے رات کے
کہ پردے چھٹے لال بانات کے
٭٭٭
(۲۳) رات
گیا دن ہوئی شام آئی ہے رات
خدا نے عجب شے بنائی ہے رات
نہ ہو رات تو دن کی پہچان کیا
اٹھائے مزہ دن کا انسان کیا
ہوئی رات خلقت چھٹی کام سے
خموشی سی چھائی سر شام سے
لگے ہونے اب ہاٹ بازار بند
زمانے کے سب کار بہوار بند
مسافر نے دن بھر کیا ہے سفر
سر شام منزل پہ کھولی کمر
درختوں کے پتے بھی چپ ہو گئے
ہوا تھم گئی پیڑ بھی سو گئے
اندھیرا اجالے پہ غالب ہوا
ہر اک شخص راحت کا طالب ہوا
ہوئے روشن آبادیوں میں چراغ
ہوا سب کو محنت سے حاصل فراغ
کسان اب چلا کھیت کو چھوڑ کر
کہ گھر میں چین سے شب بسر
تھپک کر سلایا اسے نیند نے
تردد بھلایا اسے نیند نے
غریب آدمی جو کہ مزدور ہیں
مشقت سے جن کے بدن چور ہیں
وہ دن بھر کی محنت کے مارے ہوئے
وہ ماندے تھکے اور ہارے ہوئے
نہایت خوشی سے گئے اپنے گھر
ہوئے بال بچے بھی خوش دیکھ کر
گئے بھول سب کام دھندے کا غم
سویرے کو اٹھیں گے اب تازہ دم
کہاں چین یہ بادشہ کو نصیب
کہ جس بے غمی سے ہیں سوتے غریب
٭٭٭
(۲۴) گرمی کا مہینہ
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
چلی لو اور تراقی کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ
زمین ہے یا کوئی جلتا توا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
در و دیوار ہیں گرمی سے تپتے
بنی آدم ہیں مچھلی سے تڑپتے
پرندے اڑ کے ہیں پانی پہ گرتے
چرندے بھی ہیں گھبرائے سے پھرتے
درندے چھپ گئے ہیں جھاڑیوں میں
مگر ڈوبے پڑے ہیں کھاڑیوں میں
نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی
زمین کا فرش ہے چھت آسمان کی
نہ پنکھا ہے نہ ٹٹی ہے نہ کمرہ
ذرہ سی جھونپڑی محنت کا ثمرہ
امیروں کو مبارک ہو حویلی
غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی
٭٭٭
(۲۵) برسات
وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا
گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اک سنسناہٹ ہوئی
گھٹا آن کر مینہ جو برسا گئی
تو بے جان مٹی میں جان آ گئی
زمین سبزے سے لہلہانے لگی
کسانوں کی محنت ٹھکانے لگی
جڑی بوٹیاں پیڑ آئے نکل
عجیب بیل پتے عجب پھول پھل
ہر اک پیڑ کا اک نیا ڈھنگ ہے
ہر اک پھول کا ایک نیا رنگ ہے
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
جہاں کل تھا میدان چٹیل پڑا
وہاں آج ہے گھاس کا بن کھڑا
ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نکل آئے گویا کہ مٹی کے پر
٭٭٭
(۲۶) ملمع کی انگوٹھی
چاندی کی انگوٹھی پہ جو سونے کا چڑھا جھول
اوچھی تھی لگی بولنے اترا کے بڑا بول
چاندی کی انگوٹھی کہ نہ میں ساتھ رہوں گی
وہ اور ہے میں اور یہ ذلت نہ سہوں گی
میں قوم کی اونچی ہوں بڑا میرا گھرانا
وہ ذات کی گھٹیا ہے نہیں اس کا ٹھکانا
میری سی چمک اس میں نہ میری سی دمک ہے
چاندی ہے کہ ہے رانگ مجھے اس میں بھی شک ہے
میری سی کہاں چاشنی میرا سا کہاں رنگ
وہ مول میں اور تول میں میرے نہیں پاسنگ
اے دیکھنے والو تمہیں انصاف سے کہنا
چاندی کی انگوٹھی بھی ہے کچھ گہنوں میں گہنا
یہ سنتے ہی چاندی کی انگوٹھی بھی گئی جل
اللہ رے ملمع کی انگوٹھی تیرے چھل بل
سونے کے ملمع پہ نہ اترا میری پیاری
دو دن میں بھڑک اس کی اتر جائے گی ساری
کچھ دیر حقیقت کو چھپایا بھی تو پھر کیا
جھوٹوں نے سچوں کو چڑایا بھی تو پھر کیا
مت بھول کبھی اپنی اصل کو اری احمق
جب تاؤ دیا جائے گا ہو جائے گا منہ فق
سچے کی تو عزت ہی بڑھے گی جو کریں جانچ
مشہور مثل ہے کہ نہیں سانچ کو کچھ آنچ
کھوٹے کو کھرا بن کے نکھرنا نہیں اچھا
چھوٹے کو بڑا بن کر ابھرنا نہیں اچھا
٭٭٭
(۲۷) دال کی فریاد
ایک لڑکی بگھارتی ہے دال
دال کرتی ہے عرض یوں احوال
ایک دن تھا ہری بھری تھی میں
ساری آفات سے بری تھی میں
تھا ہرا کھیت میرا گہوارہ
وہ وطن تھا مجھے بہت پیارا
پانی پی پی کے تھی میں لہراتی
دھوپ لیتی کبھی ہوا کھاتی
مینہ برستا تھا جھوکے آتے تھے
گودیوں میں مجھے کھلاتے تھے
یہی سورج زمین تھے ماں باوا
مجھ سے کرتے تھے نیک برتاوا
جب کیا مجھے کو پال پوس بڑا
آہ۔۔۔۔ ظالم کسان آن پڑا
گئی تقدیر یک بیک جو پلٹ
کھیت کا کھیت کر دیا تلپٹ
خوب لوٹا دھڑی دھڑی کر کے
مجھ کو گونوں میں لے گئے بھر کے
ہو گئی دم کی دم میں بربادی
چھن گئی ہائے میری آزادی
کیا بتاؤں کہاں کہاں کھینچا
دال منڈی میں مجھ کو جا بینچا
ایک ظالم سے واں پالا پڑا
جس نے چکی مجھ کو دل ڈالا
ہوا تقدیر کا لکھا پورا
دونوں پاٹوں نے کر دیا چورا
نہ سنی میری آہ اور زاری
خوب بنیئے نے کی خریداری
چھانا چھلنی میں چھاج میں پھٹکا
قید خانہ میرا بنا مٹکا
پھر مقدر مجھے یہاں لایا
تم نے تو اور بھی غضب ڈھایا
کھال کھینچی الگ کیئے چھلکے
زخم کیونکر ہرے نہ ہوں دل کے
ڈالیں مرچیں نمک لگایا خوب
رکھ کہ چولہے پہ جی جلایا خوب
اس پہ کفگیر کے ٹہوکے ہیں
اور ناخن کے بھی کچوکے ہیں
میرے گلنے کی لے رہی ہو خبر
دانت ہے آپ کا مرے اوپر
گرم گھی کر کے مجھ کو داغ دیا
ہائے تم نے بھی کچھ نہ رحم کیا
ہاتھ دھو کر پڑی ہو پیچھے تم
جان پر آ بنی حواس ہیں گم
اچھی بی بی تمہیں کرو انصاف
ظلم ہے یا نہیں (قصور معاف )
کہا لڑکی نے میری پیاری دال
مجھ کو معلوم ہے ترا سب حال
تو اگر کھیت سے نہیں آتی
خاک میں مل کے خاک ہو جاتی
یا کوئی گائے بھینس چر لیتی
پیٹ میں اپنے تجھ کو بھر لیتی
میں تو رتبہ ترا بڑھاتی ہوں
اب چپاتی سے تجھ کو کھاتی ہوں
نہ ستانا نہ جی جلانا تھا
یوں تجھے آدمی بنانا تھا
اگلی بیتی کا تو نہ کر کچھ غم
مہربانی تھی سب نہ تھا یہ ستم
٭٭٭
(۲۸) دال چپاتی
اور سنو ایک حکایت نئی
دال چپاتی میں جھڑپ ہو گئی
دال لگی کہنے کہ میرا مزہ
کرتا چپاتی کو بھی ہے با مزہ
میرے بدوں اس کو بھلا کھائے کون
روکھی چپاتی میں مزہ پائے کون
بلکہ نری دال اگر کھائیے
ہونٹ ہی بس چاٹتے رہ جایئے
کرتا ہے درویش جو روٹی طلب
دال چپاتی اسے دیتے ہیں سب
دیکھ لو اس وقت میری برتری
نیچے ہے وہ اور میں اوپر دھری
بیٹھتی ہوں چڑھ کے چپاتی پہ میں
مونگ دلا کرتی ہوں چھاتی پہ میں
اس کے سوا دیکھیئے میرا سنگار
پہلے مصالح ہے پھر اس سے بگھار
مجھ کو پکاتے ہیں سبھی اد بدا
کھاتے ہیں سب شاہ سے لے تا گدا
میری فضیلت میں نہیں کوئی شک
واہ رے میں اور مرا آب و نمک
ذائقہ خوشبو پے مری لوٹ ہے
دل پہ چپاتی کے یہ ہی چوٹ ہے
دال نے شیخی جو بگھاری بڑی
سن کے چپاتی بھی اچھل ہی پڑی
بے ادبی کر نہ میری شان میں
میری طفیلی ہے تو ہر خوان میں
دال ہو سالن ہو کہ چٹنی اچار
سب ہیں میرے ساتھ کے خدمت گذار
کوفتہ ہو قورمہ ہو یا کباب
تھام کے چلتے ہیں سب میری رکاب
چٹ پٹی ترکاریاں جب ہوویں ساتھ
دال کو پھر کون لگاتا ہے ہاتھ
دال کا دانہ بھی نہ چھکے کوئی
بلکہ رکابی میں نہ رکھے کوئی
دال تو اک ہارے کا ہتیار ہے
کھائے وہی اس کو جو بیمار ہے
دال میسر نہیں ہوتی جنہیں
صرف چپاتی کو غنیمت گنیں
جس کی فقط دال پہ گزران ہے
آدمی کاہے کو وہ حیوان ہے
یوں تو سبھی کھانوں میں افضل ہوں میں
دال سے سو مرتبہ اول ہوں میں
دونوں میں القصہ بہت بڑھ گئی
ایک پے ایک آن کے پھر چڑھ گئی
لقمہ بنا دونوں کو میں کھا گیا
قصہ ہوا فیصلہ جھگڑا گیا
٭٭٭
(۲۹) دو مکھیاں
ایک مکھی کہ ہے نری احمق
فکر انجام اسے نہیں مطلق
کوتہ اندیش۔ لالچی۔ ناداں
دیتی پھرتی ہے مفت اپنی جاں
گری شیرہ پے حرص کے مارے
پاؤں اور پر لتھڑ گئے سارے
آنکھ اس کی ہیئے کی پھوٹ گئی
اکھڑے بازو تو ٹانگ ٹوٹ گئی
آخرش پھنس کے رہ گئی مکھی
کیا حماقت کی چاشنی چکھی
ایک مکھی ہے سخت دور اندیش
سوچ لیتی ہے کام کا پس و پیش
اس پے غالب نہیں ہوسناکی
اڑتی پھرتی ہے وہ بہ چالاکی
کہیں مصری کی جب ڈلی پائی
تو بہ آہستگی اتر آئی
گرچہ اس کام میں لگی کچھ دیر
چاٹ کر ہو گئی مگر وہ سیر
چاٹ کے کھا کے اڑ گئی پھر پھر
دوربینی کا اس کو یاد ہے گر
کس مزہ سے گزارتی ہے دن
شکر کا گیت گاتی ہے بھن بھن
٭٭٭
(۳۰) مثنوی آب زلال
خدا نے دی ہے تم کو عقل و تمیز
ذرا دیکھو تو یہ پانی ہے کیا چیز
دکھاؤ کچھ طبیعت کی روانی
جو دانا ہو تو سمجھو کیا ہے پانی
یہ مل کر دو ہواؤں سے بنا ہے
گرہ کھل جائے تو فورا ہوا ہے
نظر ڈھونڈے مگر کچھ بھی نہ پائے
زبان چکھے مزہ ہر گز نہ آئے
ہواؤں میں لگایا خوب پھندا
انوکھا ہے تیری قدرت کا دھندا
نہیں مشکل اگر تیری رضا ہو
ہوا پانی ہو اور پانی ہوا ہو
مزاج اس کو دیا ہے نرم کیسا
جگہ جیسی ملے بن جائے ویسا
نہیں کرتا جگہ کی کچھ شکایت
طبیعت میں رسائی ہے نہایت
نہیں کرتا کسی برتن سے کھٹ پٹ
ہر اک سانچہ میں ڈھل جاتا ہے جھٹ پٹ
نہ ہو صدمہ سے ہر گز ریزہ ریزہ
نہ ہو زخمی اگر لگ جائے نیزہ
نہ اس کو تیر سے تلوار سے خوف
نہ اس کو توپ کی بھرمار سے خوف
تواضع سے سدا پستی میں بہنا
جفا سہنا مگر ہموار رہنا
نہیں ہے سرکشی سے کچھ سروکار
نہ دیکھو گے کبھی تم اس کا انبار
خزانہ گر بلندی پر نہ ہوتا
تو فوارہ سے وہ باہر نہ ہوتا
جو ہلکا ہو اسے سر پر اٹھائے
جو بھاری ہو اسے غوطا کھلائے
نہ جلتا ہے نہ گلتا ہے نہ سڑتا
نرا پانی نہیں ہر گز بگڑتا
اسے بھیچو دباؤ یا ٹٹولو
اسے چھیڑو اچھالو یا کھنگولو
اسے رگڑو گھسو پیسو بہاؤ
جھکولے دو مسل ڈالو دباؤ
کسی عنوان سے ہو گا نہ نابود
وہی پانی کا پانی دودھ کا دودھ
لگے گرمی تو اڑ جائے ہوا پر
پڑے سردی تو بن جاتا ہے پتھر
ہوا میں مل کے غائب ہو نظر سے
کبھی اوپر سے بادل بن کر برسے
ہوا پر چڑھ کے پہونچے سیکڑوں کوس
کبھی اولا کبھی پالا کبھی اوس
کہر ہے بھاپ ہے پانی ہے یا برف
کئی صیغوں میں ہے ایک اصل کی صرف
اسی کے دم سے دنیا میں تری ہے
اسی کی چاہ سے کھیتی ہری ہے
پھلوں میں پھول میں ہر پنکھڑی میں
ہر اک ٹہنی میں ہر جڑی بوٹی میں
ہر اک ریشہ میں ہے اس کی رسائی
غذا ہے جڑ سے کونپل تک چڑھائی
پھلوں کا ہے اسی سے تازہ چہرہ
اسی کے سر پے ہے پھولوں کا سہرہ
اسی کو پی کے جیتے ہیں سب انسان
اسی سے تازہ دم ہیں سارے حیوان
یہی معدہ کو پہنچاتا رسد ہے
یہی تحلیل میں کرتا مدد ہے
عمارت کا بسایا اس نے کھیڑا
تجارت کا کیا ہے پار پار بیڑا
زراعت اس کی موروثی اسامی
صناعت کے بھی اوزاروں کا حامی
کہیں ساگر کہیں کھاڑی کہیں جھیل
کہیں جمنا کہیں گنگا کہیں نیل
کہیں نالہ کہیں ندی کہیں سیل
ہے یہ دنیا کی کمسنریٹ کا جرنیل
یہی پہلے زمیں پر موجزن تھا
نہ میدان تھا نہ پربت تھا نہ بن تھا
زمین سب غرق تھی پانی کے اندر
جدھر دیکھو سمندر ہی سمندر
زمیں پوشیدہ تھی اسکی بغل میں
نہ تھا کچھ فرق جل میں اور تھل میں
نہ بستی تھی نہ ٹاپو تھا کہیں پر
اسی کا دور دورہ تھا زمیں پر
نہ افریقہ نہ امریکہ نہ یورپ
رہی تھی ایشیا او شنییا چھپ
ہمالہ نے بھی تھی ڈبکی لگائی
نہ دیتی تھی کہیں چوٹی دکھائی
نہ طارس تھا نہ بندھیاچل نہ الطین
نہ فارس تھا نہ ہندوستان نے چین
مگر دنیا میں یکسانی کہاں ہے
جو اب دیکھو تو وہ پانی کہاں ہے
یہاں ہر چیز ہے کروٹ بدلتی
ہر ایک حالت ہے چڑھتی اور ڈھلتی
کوئی شے ہو ہوا ہو یا ہو پانی
سبھی کو ہے بڑھاپا اور جوانی
رہا باقی نہ وہ پانی کا ریلا
اسے خشکی نے پستی میں دھکیلا
زمین آہستہ آہستہ گئی چوس
چھپائے مال کو جس طرح کنجوس
تری کا جب کہ دامن ہو گیا چاک
تو خشکی نے اڑائی جا بجا خاک
پہاڑ ابھرے ہوئے میدان پیدا
ہوئے میدان میں نخلستان پیدا
تری کا گو ابھی بھی ہے پلہ بھاری
لڑائی ہے مگر دونوں میں جاری
کیا کرتے ہیں دونوں کانٹ اور چھانٹ
چلی جاتی ہے باہم لاگ اور ڈانٹ
تری ہر دم چلی جاتی ہے اٹتی
کبھی خشکی بھی ہے کایا پلٹتی
تری کا تین چوتھائی میں ہے راج
تو خشکی ایک چوتھائی میں ہے آج
نہیں چلتی تری کی سینہ زوری
زمیں اک دن میں رہ جائے گی کوری
پہن رکھا تھا جب آبی لبادہ
مٹاپا بھی زمین کا تھا زیادہ
مگر اب دن بدن چڑھتی ہے خشکی
تری گھٹتی ہے اور بڑھتی ہے خشکی
کمی بیشی نہیں آتی نظر کچھ
بہت عمروں میں ہوتا ہے اثر کچھ
٭٭٭
(۳۱) موعظت
کرے دشمنی کوئی تم سے اگر
جہاں تک بنے تم کرو درگزر
کرو تم نہ حاسد کی باتوں پہ غور
جلے جو کوئی۔ اس کو جلنے دو اور
اگر تم سے ہو جائے سرزد قصور
تو اقرار و توبہ کرو بالضرور
بدی کی ہو جس نے تمہارے خلاف
جو چاہے معافی۔ تو کر دو معاف
نہیں بلکہ تم اور احساں کرو
بھلائی سے اس کو پشیماں کرو
ہے شرمندگی اس کے دل کا علاج
سزا اور ملامت کی کیا احتیاج
بھلائی کرو تو کرو بے غرض
غرض کی بھلائی تو ہے اک مرض
جو محتاج مانگے تو دو تم ادھار
رہو واپسی کے نہ امیدوار
جو تم کو خدا نے دیا ہے تو دو
نہ خست کرو اس میں جو ہو سو ہو
٭٭٭
(۳۲) داناؤں کی نصیحت دل سے سنو
راوی نے ہے اس طرح خبر دی
اک شب لگی بندروں کو سردی
سردی نے دیا جو سخت آزار
جویا ہوئے آگ کے وہ ناچار
ہر چار طرف دوا دوش کی
پائی نہ کہیں دوا خلش کی
ناگہہ چمکا جو کرم شب تاب
اخگر اسے جان کر لیا داب
ناچے کودے خوشی سے باہم
تنکے پتے کیئے فراہم
رکھ کر اسے خار و خس کے اندر
پھونکیں لگے مارنے وہ بندر
لیکن ہوا فائدہ نہ کچھ بھی
اٹھا نہ دھواں نہ آگ سلگی
کرتے رہے پھر بھی کام اپنا
چھوڑا نہ خیال خام اپنا
صحرا میں جو اور جانور تھے
وہ تجربہ کار و باخبر تھے
سمجھانے لگے ازروئے شفقت
یوں وقت کو رائیگاں کرو مت
اس کام سے کیجیئے کنارہ
جگنو کو نہ جانیئے شرارہ
سمجھانے سے وہ مگر نہ سمجھے
جب تک نہ ہوئی سحر نہ سمجھے
یاروں نے کہی تھی بات ڈھب کی
غرا کے انہیں دکھائی بھبکی
ناداں رہے رات بھر اکڑتے
سر مارتے ایڑیاں رگڑتے
جب صبح ہوئی تو شک ہوا دور
شرمندہ ہوئے بہت وہ مغرور
سن لو نہ سنے گا جو نصیحت
ہو گا وہ اسی طرح فضیحت
٭٭٭
(۳۳) چھوٹے سے کام کا بڑا نتیجہ
ایک بچہ کہ ابھی کچھ اسے تمیز نہ تھی
لہو و بازی سے پسندیدہ کوئی چیز نہ تھی
کھیلنا۔ کودنا۔ کھانا۔ یہی معمول تھا بس
انہیں طفلانہ تمناؤں میں مشغول تھا بس
ایک تالاب تھا دو چار قدم گھر سے پرے
دل میں لہر آئی لب آب ذرا سیر کرے
صاف پانی سے جو تالاب کو پایا لبریز
کھیل کا شوق طبیعت میں ہوا اور بھی تیز
آس پاس اپنے جو پایا کوئی کنکر پتھر
پھینک مارا اسے پانی میں بہت خوش ہو کر
کھیل تھا پہلے تو اب طرفہ تماشا دیکھا
دل ہی دل میں متحیر تھا کہ یہ کیا دیکھا
دائرہ ایک بنا ایسا کہ بڑھتا ہے محیط
گھیر لی جس نے کہ تالاب کی سب سطح بسیط
پھر تو کھیل اس کا اسی شغل پہ موقوف رہا
اسی نظارہ میں تا دیر وہ مصروف رہا
اسی اثنا میں ہوا بچہ کی ماں کا بھی گزر
بولا اماں مجھے آئی ہے عجب چیز نظر
جو نہ دیکھی نہ سنی تھی کبھی اب سے پہلے
شاید آئی ہے نظر مجھ کو ہی سب سے پہلے
اک ذرا سی حرکت اور یہ تاثیر عجیب
دائرہ بڑھ کے پہونچتا ہے کنارے کے قریب
بسکہ جی جان سے اس شعبدہ پر تھا شیدا
وسعت دائرہ کی اپنے عمل سے پیدا
تھی وہ ماں اہل دل اور نیک منش نیک نہاد
ہنس کہ فرمایا مری جاں یہ نصیحت رکھ یاد
یونہی ہر کام کا ہو جاتا ہے انجام بڑا
گو کہ آغاز میں ہوتا نہیں وہ کام بڑا
کبھی ادنی حرکت زلزال بن جاتی ہے
کبھی ناچیز سی اک بات غضب ڈھاتی ہے
یہ ہی انداز نکو کاری و بدکاری ہے
اولاً خاص تھی اب عام میں وہ جاری ہے
٭٭٭
(۳۴ ) اونٹ
اونٹ تو ہے بس حلیم و خوش خصال
تربیت میں چھوٹے بچوں کی مثال
تیری پیدائش رفاہ عام ہے
آدمی کے حق میں اک انعام ہے
کھانے کپڑے کا بھی تجھ پر ہے مدار
تو نے دی ہے اس کو تیزی مستعار
لق و دق صحرا میں یا میدان میں
یا عرب کے گرم ریگستان میں
سایہ افگن ہے نہ واں کوئی چٹان
سرد پانی کا نہ دریا کا نشان
چلچلاتی دھوپ ہے اور چپ ہوا
واں پرندہ بھی نہیں پر مارتا
تو وہاں کے مرحلے کرتا ہے طے
دن بدن اور ہفتہ ہفتہ پے بہی پے
قیمتی اشیا ہیں تیری پشت پر
تاجروں کا ریشم اور شاہوں کا زر
تودہ تودہ تیرے اوپر لد رہا
ہے بھرا گویا جہاز پر بہا
چند ہفتے جب کہ جاتے ہیں گزر
اور تھکا دیتا ہے راکب کو سفر
اونٹ، گھبراتا نہیں تو بار سے
دیکھتا ہے اس کی جانب پیار سے
گویا کہتا ہے کہ اے میرے سوار
ایک دن تو اور بھی ہمت نہ ہار
ہاں نہ ہو بیدل نہ رستے میں ٹھٹک
صاف سر چشمہ ہے آگے دھر لپک
مجھ کو آتی ہے ہوا سے بوئے آب
نا امیدی سے نہ کر تو اضطراب
اونٹ، تو کرتا ہے اس کی رہبری
یوں بنا دیتا ہے راکب کو جری
آخرش منزل پہ پہونچاتا ہے تو
اور سوکھے خار و خس کھاتا ہے تو
صبر سے کرتا ہے طے راہ دراز
سچ کہا ہے تو ہے خشکی کا جہاز
الغرض تو ہے حلیم و خوش خصال
تربیت میں چھوٹے بچوں کی مثال
٭٭٭
(۳۵) شیر
اے شیر تیرے تن پہ ہے طاقت کا پوستیں
شاہی کے حق میں کوئی بھی ساجھی ترا نہیں
پیدا ہے تیرے رخ سے تری شوکت اور جلال
ظاہر ہے تیری شکل سے باطن کا تیرے حال
دل تیرا بزدلی و غلامی سے ہے بری
پھٹکے نہ تیرے پاس کبھی خوف اے جری
تیرا حریف کون ہے جو تو ہٹے بچے
جھپکے نہ تیری آنکھ نہ گردن تیری لچے
حق نے عطا کیا ہے تجھے زور بے خلل
فولاد کی رگیں ہیں تو ہے دل ترا اٹل
گر سورما سجے کوئی میدان کا دھنی
جوشن کہ چار آئینہ یا خود آہنی
حملہ سے تیرے بچنے کو کافی نہ ہو مگر
اللہ رے تیرا حوصلہ بل بے ترا جگر
غرا کہ شیر کرتا ہے جب جوش و خروش
جنگل تمام ہوتا ہے سنسان اور خموش
پہچانتے ہیں جانور آواز شیر کی
وہ ہولناک ہے کہ دہلتا ہے سب کا جی
جاتی ہے ان کے پاؤں تلے کی زمین نکل
ہیں بھاگتے کہ گویا تعاقب میں ہے اجل
اے شیر گرم خطہ ہے تیرے لیئے وطن
بیہڑ ہو۔ نیستاں ہو۔ جھاڑی ہو یا ہو بن
لو ہو۔ کہ گرم دھوپ ہو یا ریگ زار ہو
تینوں غضب ہیں کیوں نہ مسافر شکار ہو
اے شیر تو ہے شاہ ترا تخت ہے کچھار
ہے کس کو تیرے ملک میں دعوی گیرودار
٭٭٭
(۳۶) کیڑا
تم اس کیڑے کو دیکھو تو لگاتار
تمہاری راہ میں ہے گرم رفتار
چلا کترا کے کیا کیا پیچ و خم سے
جھجکتا ہے یہ آواز قدم سے
کسی سوراخ میں دن کاٹتا ہے
سویرے اٹھ کے شبنم چاٹتا ہے
کرو چشم حقیقت بین سے تمیز
کہ سمجھے ہو جسے تم سخت ناچیز
اسے قدرت نے زریں پر دئے ہیں
کچھ اک سبزی و سرخی بھی لیئے ہیں
تمہیں لگتی ہے اچھی مور کی دم
کہ خوش ہوتے ہو اس کو دیکھ کر تم
جو دیکھو ناچ اس کا دور ہی سے
تو اس پر لوٹ ہو جاتے ہو جی سے
مگر کیڑے کو بھی سمجھو نہ ہیٹا
یہ مانا خاک مٹی میں ہے لیٹا
نہ بے پروائی سے چلئیے جھپٹ کر
قدم رکھئیے ذرا کیڑے سے ہٹ کر
کہ ہے دونوں سے دانا دیکھ سکتا
نمونے دو ہیں کاریگر ہے یکتا
ہے دونوں ہی میں یکساں دستکاری
کسے ہلکی کہیں اور کس کو بھاری
ہے ان دونوں کو اس کا لطف حاصل
کہ بخشا ہے برابر عیش کامل
اگر ہے خوبصورت مور پیارا
تو کیڑا بے گنہ کیوں جائے مارا
تو ہے ننھی سی جان اس کی تڑپتی
ہے تم جیسا ہی اک جاندار وہ بھی
نوٹ۔۔ یہ نظم ۱۸۶۷ میں ایک انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی۔ (۱۲)
٭٭٭
(۳۷) ایک قانع مفلس۔۔(۱)
سو ہزار ایکڑ ہے کلن کی زمیں
ملک میری ایک بھی ایکڑ نہیں
ہے محل اس کا نہایت شان دار
اور ہمارا جھونپڑا ہے تنگ و تار
ان گنت ہے اس کی نقدی و مال
ایک پائی کے لیئے میں پائمال
اس کا رتبہ ہے بڑا عزت بڑی
میرے سر پر خاک ذلت کی پڑی
ہے زمیندار آج کلن واقعی
زر سے پر ہے اس کا دامن واقعی
پر جہاں تک میری جاتی ہے نظر
ملک سب اپنی ہی نظر آتی ہے نظر
لطف جو اس حال میں ہے بالیقین
دولت دنیا میں آدھا بھی نہیں
سست ہے کلن بایں ناز و نعم
میں ہوں چاق و چست ہر دم تازہ دم
واں امیرانہ ہے مخمل کا لباس
میں ہوں مفلس میری پوشش ہے پلاس
وہ ہے قیدی۔ پائے بند ملک و مال
اور میں آزاد ہوں مثل خیال
ڈاکٹر واں بیس ہیں بہر علاج
یاں نہیں ہے ایک کی بھی احتیاج
ہے مصیبت مال و دولت میں بڑی
موت کا دھڑکا ہے اس کو ہر گھڑی
لطف قدرت کا نہیں اس کو نصیب
یہ بہار بے خزاں بھی ہے عجیب
یہ بیاباں یہ سمندر یہ ہوا
گونجتی ہے ان میں قدرت کی نوا
کان سے کلن کی لیکن دور ہے ]
وہ تو دولت کے نشہ میں چور ہے
راگنی قدرت کی ہر دم ہے چھڑی
میں تو ہوں اس لے کا دیوانہ سڑی
(۱) یہ نظم بھی ۱۸۶۷ عیسوی میں ایک انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی (۱۲)
٭٭٭
(۳۸) موت کی گھڑی۔۔ (۱)
جب کہ طوفاں ہو زندگی میں بپا
گھیر لیں ہر طرف سے موج و ہوا
جب کہ لغزش میں پانو تیرا ہو
اور آنکھوں تلے اندھیرا ہو
بلکہ ہوش و حواس بھی ہوں جدا
ڈر نہ زنہار۔ رکھ نظر بخدا
تھام دل کو نہ خوف کر نہ ہراس
کہ نگہ باں ہے تیرا تیرے پاس
تھا جو ایام عیش کا ہمدم
ہم پیالہ شریک شادی و غم
لہو و بازی میں ساتھ رہتا تھا
ہر گھڑی نرم و گرم سہتا تھا
آنکھ تجھ سے اگر چرا جائے
ابر غم جب کہ تجھ پہ چھا جائے
اس محبت کا دل میں باندھ خیال
جس کو ہر گز نہیں بیم و زوال
آرزوئیں تھیں وہ جو دل میں بھری
ٹمٹماتے چراغ تھے سحری
کر دے ان وسوسوں کو دل سے دور
اس محبت کو دیکھ جو ہے سرور
ہے شگفتہ ازل سے تا بہ ابد
نہ کبھی خاتمہ نہ اس کی حد
جب عزیز و قریب یار نہ ہوں
دوستداری میں استوار نہ ہوں
یعنی فرزند جیسا لخت جگر
اور ہم خانہ جیسے جاں پرور
گر دم واپسیں جدا ہو جائیں
وقت کے وقت سب ہوا ہو جائیں
کر توقع نہ غم گساری کی
یاد کر گور کی وہ تاریکی
اس وطن کی طرف ہو راہ سپر
کہ محبت جہاں ہے تازہ و تر
آہ جب آئے موت کی نوبت
آنے والی گھڑی ہو پر ہیبت
اور گزرے ہوئے زمانہ پر
ڈالتی آئے پردہ سر تا سر
دل کو رکھ تو امید پر شیدا
ہو نہ حسرت نگاہ سے پیدا
(۱) یہ نظم بھی ۱۸۶۷ عیسوی میں انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی
٭٭٭
(۳۹) فادر ولیم۔۔ (۱)
نوجواں آدمی نے کی تقریر
اے پدر ولیم اب تو ہو تم پیر
چند موئے سفید ہیں باقی
کہ نمایاں ہے جن میں براقی
لیک ویسے ہی تندرست ہو تم
خوب چاق و دلیر و چست ہو تم
سن کے ولیم نے یوں زبان کھولی
گرہ پرسش نہاں کھولی
تھی جوانی میں یہ نصیحت یاد
کہ ہے عہد شباب صورت باد
اس لیئے طاقت و توانائی
کی نہ ضائع بعہد برنائی
تاکہ انجام کار وقت اخیر
ہوں نہ محتاج ان کا بن کر پیر
بولا پھر وہ جوان نیک شیم
تم تو ہو پیر اے پدر ولیم
اور ناپائدار لطف شباب
ہوتے ہیں کوئی دم کے مثل حباب
مگر ان کا الم نہیں تم کو
حسرت بیش و کم نہیں تم کو
کچھ بیاں کیجیئے گا صاف اس کا
تاکہ ہو مجھ پہ انکشاف اس کا
ولیم پیر نے جواب دیا
کیا پسندیدہ با صواب دیا
میں جوانی میں کہتا تھا ہر بار
کہ یہ دن دیرپا نہیں زنہار
اس لئے تھا خیال آئندہ
سوچتا تھا مال آئندہ
تاکہ پاؤں غم و الم سے اماں
نہ رہے حسرت گزشتہ زماں
پھر بھی گویا ہوا جوان لطیف
اے پدر تم تو ہو گئے ہو ضعیف
اور گزرتی ہے زندگانی جلد
چھوڑنی ہے سرائے فانی جلد
ظاہرا کس قدر مسن ہو تم
مگر اس پر بھی مطمئن ہو تم
ہے تمہیں ذوق داستاں اجل
اور پسندیدہ ہے بیان اجل
مدعا یہ ہے کچھ بیاں ہو جائے
راز پوشیدہ تا عیاں ہو جائے
وہ مخاطب ہوا بسوئے جواں
کہ ہے البتہ مجھ کو اطمیناں
کیونکہ ایام نوجوانی میں
موسم عیش و کامرانی میں
میں نے اپنے خدا کو رکھا یاد
نہ کیا اس سے نفس کو آزاد
وہی اب میرا دستگیر ہوا
لطف یزداں عصائے پیر ہوا
نوٹ۔ یہ نظم بھی ۱۸۶۷ عیسوی میں انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی
٭٭٭
(۴۰) حب وطن
دل میں اک چاشنی محبت کی
جملہ جاندار کو خدا نے دی
قلب انسان ہی پہ کیا ہے مدار
کہ ہر اک دل میں ہے اسی کا شرار
ایک اسپین کی جواں طوطی
جو کہ بچپن سے تھی اسیر ہوئی
وہ درخشاں پر خجستہ نوا
ہوئی وارد بملک سرد ملا
اس نے وہ پر شمیم نخلستاں
کہ نکالے تھے پرو بال جہاں
اور وہ ملک و میوہ ہائے وطن
آسمان وطن ہوائے وطن
سب فراموش کر دئے ناچار
تھا یہاں اور رنگ لیل و نہار
تیرہ و تار وادی پر دود
ساحت آسمان بخار آلود
اور بسیط زمین پر از خاشاک
قلہ کوہ و موج دہشت ناک
یاں کے القصہ دیکھ کر یہ ساز
چشم زریں سے تھی نظرانداز
اس دیار غریب میں آ کر
سرد خطہ میں پرورش پا کر
رہی شکر شکن و خوش گفتار
باعث طول عمر آخر کار
اس کے زریں زمردیں پر و بال
بھورے بھورے سے ہو گئے فی الحال
عاقبت ایسی صم و بکم بنی
چہچہے وہ نہ وہ شکر شکنی
اسی اثنا میں ایک مرد غریب
آیا اسپین سے ملا کے قریب
اس نے طوطی سے جا کلام کیا
حرف اسپین میں سلام کیا
دیا اس نے اسی زباں میں جواب
اور کنج قفس میں ہو بیتاب
کیا ہی مسرور چہچہا کے ہوئی
آخر آخر پھڑک پھڑک کے موئی
نوٹ۔ یہ نظم ۱۸۶۷ عیسوی میں انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی۔
٭٭٭
(۴۱) انسان کی خام خیالی۔ (۱)
اے دیدہ وران دانش آثار
دنیا میں ہیں کیسے کیسے جاندار
ہاتھی چیونٹی عقاب مکھی
قدرت نے ہے سب میں بات رکھی
ایسا تو بتاؤ کوئی حیوان
جیسا نادان ہے یہ انساں
ہر ایک ہے اپنی راہ چلتا
جس راہ سے ہے مدعا نکلتا
آرام و خورش جو چاہتے ہیں
قدرت کی روش نباہتے ہیں
جس چیز سے ہے گزند ان کو
آتی ہی نہیں پسند ان کو
انساں ہے اگرچہ سب پہ فائق
مشہور ہے اشرف الخلائق
اڑتا ہے مگر اسی کا خاکا
پتلا ہے یہ سہو اور خطا کا
ممکن ہی نہیں خیال پرواز
کرنے لگے بیل صورت باز
یا چھوڑ کے عرصہ چراگاہ
غواص ہو مچھلیوں کے ہمراہ
انسان بخلاف حکم قدرت
کرتا ہے خیال ترک فطرت
ہو دل کو خوشی نہیں یہ ممکن
جب تک کہ نہ ہو صفائے باطن
یا نفس کہ تابع خرد ہو
حاصل تب راحت ابد ہو
یا وہ دل صاف اور فیاض
ہو خود غرضی سے جس کو اعراض
یا صبر کہ خندہ زن ہو اکثر
مجبوری بخت نا رسا پر
شاکر قسمت ہی پر رہے وہ
قدرت کو الاہنا نہ دے وہ
یا عقل کہ ہو سلیم و یک سو
اندوہ سے ہو نہ چیں بابرو
یہ رمز کہ ہو چکے ہویدا
ہے اصل خوشی انہیں میں پیدا
جو لوگ ہیں عقل سے گزرتے
بیہودہ خوشی پہ ہیں وہ مرتے
گر ہووے خلاف اس کے مضمون
باطل ہیں دلائل افلاطون
٭٭٭
(۴۲) کوہ ہمالہ
ہے ہمالہ پہاڑ سر جیون
جس کے اوپر تلے کھڑا ہے بن
بیل بوٹوں سے بن رہا ہے چمن
سبز چوٹی ہرے بھرے دامن
ہے ہر اک ڈھانگ اس کی پھلواری
سرد چشمے ادھر ادھر جاری
لالہ خودرو ہے اور اس کے پاس
لہلہاتی ہے خوبصورت گھاس
سیکڑوں قسم کے ہیں پھول کھلے
پیڑ باہم کھڑے ہوئے ہیں ملے
کہیں بن مالنا کہیں بیلا
کہیں اخروٹ اور کہیں کیلا
سال کا کیا ہی خوب جنگل ہے
سورماؤں کا بن کے دنگل ہے
سرو و شمشاد ہیں قطار قطار
ریچھ پھرتے ہیں بن کے چوکیدار
ہیں چٹانوں پہ کودتے لنگور
ایک ہی جست میں وہ پہونچے دور
ہیں ترائی میں ہاتھیوں کے غول
کوئی پائل ہے اور کوئی بخھول
شیر خونخوار شاہ ہے یاں کا
پاڑھے چیتل کو خوف ہے جاں کا
بارہ سنگے غریب پر ہے لتاڑ
سینگ ہیں اس کے جھاڑ اور جھنکاڑ
وہ جو ہے ہند کا بڑا ساگر
واں سے چلتا ہے ابر کا لشکر
کوچ در کوچ روز بڑھتا ہے
پھر ہمالہ پہ آ کے چڑھتا ہے
کبھی دیتا ہے باندھ مینہ کا تار
کبھی کرتا ہے برف کی بھر مار
جا چڑھا یوں پہاڑ پر پانی
کی ہے قدرت نے کیا ہی آسانی
واں سے چشمے بہت ابل نکلے
ندی نالے ہزار چل نکلے
سندھ و ستلج ہیں مغربی دریا
اور پورب میں میگھنا گنگا
ہیں یہ دریا بہت بڑے چاروں
جن میں بہتا ہے پانی الغاروں
پس سمندر سے جو رسد آئی
یوں ہمالہ نے بانٹ کر کھائی
ہوا سرسبز ہند کا میداں
تیری حکمت کے اے خدا قرباں
ہند کی سر زمیں ہے ان ماتا
اور ہمالہ پہاڑ جل داتا
اے ہمالہ پہاڑ، تیری شان
دنگ رہ جائے دیکھ کر انسان
ساری دنیا میں ہے تو ہی بالا
پہونچے جب پاس دیکھنے والا
سامنے اک سیاہ دل بادل
دیو کی طرح سے کھڑا ہے اٹل
گھاٹیاں جن میں گونجتی ہے صدا
آبشاروں کا شور ہے برپا
دبدبہ اپنا تو دکھاتا ہے
گویا میدان کو ڈراتا ہے
ہے میرے دل میں یہ خیال آتا
کاش چوٹی پہ تیرے چڑھ جاتا
واں سے نیچے کا دیکھتا میداں
جس میں گنگ و جمن ہیں تیز رواں
دو لکیریں سی وہ نظر آتیں
دائیں بائیں کو صاف لہراتیں
اس تماشے سے جب کہ جی بھرتا
تو شمالی طرف نظر کرتا
شام کو دیکھتا بہار بڑی
گویا سونے کی ہے فصیل کھڑی
پھر وطن میں جب آن کر رہتا
دوستوں سے یہ ماجرا کہتا
٭٭٭
(۴۳) بارش کا پہلا قطرہ
گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہو گا
میں اور کی گوں نہ آپ جوگا
کیا کھیت کی میں بجھاؤں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیا ناس
آتی ہے برسنے سے مجھے شرم
مٹی پتھر تمام ہیں گرم
خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی باتوں میں کیا حلاوت
کس برتے پہ میں کروں دلیری
میں کون ہوں کیا بساط میری
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم
سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم
کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی
اک قطرہ تھا کہ بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور
فیاض و جواد و نیک نیت
بھڑکی اس کی رگ حمیت
بولا للکار کر کہ آؤ
میرے پیچھے قدم بڑھاؤ
کر گزرو جو ہو سکے کچھ احسان
ڈالو مردہ زمین میں کچھ جان
یارو، یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک
مل کر جو کرو گے جانفشانی
میدان پہ پھیر دو گے پانی
کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں
آتے ہو تو آؤ لو چلا میں
یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ
’’ دشوار ہے جی پہ کھیل جانا ‘‘
ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اس نے مگر بڑی شجاعت
دیکھی جرات جو اس سخی کی
دوچار نے اور پیروی کی
پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمین پہ ٹپکا
آخر قطروں کا بندھ گیا تار
بارش لگی ہونے موسلا دھار
پانی پانی ہوا بیاباں
سیراب ہوئے چمن خیاباں
تھی قحط سے پائمال خلقت
اس مینہ سے ہوئی نہال خلقت
جرات قطرہ کی کر گئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام
اے صاحبو قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کر لو
قطروں ہی سے ہو گی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری
٭٭٭
(۴۴) مثنوی باد مراد
چل اے باد بہاری سمت گلزار
تمنائی ہے تیرا ہر گل و خار
نہال و نخل و سبزہ سب ہیں سنسان
گیاہ مردہ میں تو ڈال دے جان
نہیں گلشن میں پتے کا بھی کھڑکا
ذرا شاخیں ہلا۔ طائر کو بھڑکا
لہک تیزی سے اے باد بہاری
کہ ہو جائے چمن پر وجد طاری
جو تو لہکے تو سبزہ لہلہائے
چمن کا بیل بوٹا سر ہلائے
لچک جائے کمر نازک شجر کی
زمیں پہ جھک پڑے ڈالی ثمر کی
ٹپک جائے جو ہو پکا ہوا پھل
کہ شاخیں ہو رہی ہیں سخت بوجھل
سنا۔ باد صبا، کیا کیا خبر ہے
قلمرو میں تیری کل بحر و بر ہے
ذرا کر دامن صحرا میں راحت
بہت کی تو نے دریا کی سیاحت
بس اب آرام کر لوگوں کے گھر میں
رہی تا دیر تو سیر و سفر میں
تیرے ہمرہ چلے آتے ہیں پیہم
یہی ہیں کیا سفیر بحر اعظم
جلو میں ہے تیرے اک فوج جرار
تو ہی ہے ابر کے لشکر کی سردار
اٹھایا ہے سمندر تو نے سر پر
گھٹا کو لاد کر لائی کمر پر
تیری تیزی سے ہیں بادل لپکتے
تیرے جھونکوں سے ہیں قطرے ٹپکتے
٭٭
غزل
چمن ہے ابر ہے ٹھنڈی ہوا ہے
ہجوم طائران خوش نوا ہے
کبھی جھونکا نکل جاتا ہے سن سے
کبھی آہستہ رو موج صبا ہے
غبار و گرد سے جو اٹ گئی تھی
صبا نے غسل کا سامان کیا ہے
ہوا نے کیا ہوا باندھی چمن میں
کہ خوبانِ چمن کا سر ہلا ہے
چمن کا پتہ پتہ ہے نوا سنج
صبا کی آمد آمد جا بجا ہے
گلوں کی ڈالیاں جھک جھک گئی ہیں
زمین پر سبزہ کیسا لوٹتا ہے
کھلی ہر پنکھڑی گلہائے تر کی
صبا نے کان میں کیا کہہ دیا ہے
بکھیری نسترن پر زلف سنبل
صبا شوخی میں فتنہ ہے بلا ہے
گیاہ سبز کا طرہ پریشان
صبا تیرے ہی چھیڑے سے ہوا ہے
نہیں ہے مجھ کو دعوی شاعری کا
تو پھر مقطع سے بھی کیا مدعا ہے
٭٭
کر اے باد مراد آہنگ آفاق
جہاز سست رو ہے تیرا مشتاق
پھریرے کو اڑا کس بادباں کو
کہ دیکھیں ساحل ہندوستاں کو
خلیج و آبنائے و بحر و ساحل
تیرے دیکھے پڑے ہیں سب مراحل
مقام استوا سے تا بہ قطبین
تجھے جنبش نہیں دیتی کبھی چین
بہت کھوندے ہیں کوہ و دشت تو نے
کیا بحرین کا گلگشت تو نے
محیط ارض ہے تو اے سبک پا
تیری موجیں رواں ہیں مثل دریا
لطیف و نازک و بے رنگ ہے تو
اصول نغمہ و آہنگ ہے تو
رواں ہے تیری موجوں میں ہر آواز
تو ہی کانوں میں ہے ہنگامہ پرواز
جہاں میں تو رسول ہر ندا ہے
مذاق سامعہ تجھ پر فدا ہے
نہ پہونچے تو اگر تا پردہ گوش
سب آوازیں رہیں پردہ میں روپوش
وہ بہرا ہے جو تجھ سے بے اثر ہے
وہ سنتا ہے جو تجھ سے بہرہ ور ہے
زبان کو نطق کا یارا ہے تجھ سے
جہاں میں شور و شر سارا ہے تجھ سے
حجاب دیدہ بینا نہیں تو
نگہ سے گرچہ ہے پردہ نشین تو
تیرے کھانے سے دم لیتی ہے خلقت
تیرے کھانے پہ دم دیتی ہے خلقت
ہمیں تیری ضرورت ہے بہر طور
نہیں ایسی ضروری شے کوئی اور
اگر اک لمحہ گزرے ہم پہ تجھ بن
تو ہو جائے تنفس غیر ممکن
ہر تیرا شغل دائم پاس انفاس
نہیں ہے ورنہ تجھ بن زیست کی آس
تو ہی ہے اے نسیم صبح گاہی
مثال رحمت عام الہی
جہاں میں ہیں تیرے الطاف حاوی
غریبوں اور امیروں پر مساوی
کبھی بنتی ہے ایسی تند و پر شور
معاذ اللہ، معاذ اللہ، ترا زور
اگر تو خشمگیں اے تند خو ہو
تہ و بالا جہاز جنگ جو ہو
کبھی دریا میں لے جائے بہا کر
کبھی ساحل پہ دے پٹکے اٹھا کر
اڑاتی ہے اسے تو راہ بے راہ
جہاز آگے ترے مثل پر کاہ
معاذ اللہ ترا طوفان غضب ہے
تیری تیزی نشان قہر رب ہے
اجاڑا تو نے گلزار و چمن کو
ہلا ڈالا جنگل اور بن کو
یہ چھیڑا نے میں کیسا راگ تو نے
نیستاں میں لگا دی آگ تو نے
تیری رفتار ہے بے باک کیسی
اڑاتی ہے زمین کی خاک کیسی
یہ گل کترے ہیں تو نے بے تامل
کیا اک دم زدن میں شمع کو گل
کبھی گرمی سے گرما گرم ہے تو
کبھی سردی سے سرد و نرم ہے تو
چرا لیتی ہے تو پانی کو چپ چاپ
نظر آتا نہیں جب بن گیا بھاپ
برودت کی پولیس نے تجھ کو گھیرا
تو کچھ کچھ مال مسروقہ بھی پھیرا
جو بادی چور تو ایسی نہ ہوتی
نہ پاتے صبح کو شبنم کے موتی
دبائیں تو نہیں دبنے سے انکار
تیری عادت نہیں ضد و اصرار
خوشامد تیری خصلت میں نہیں ہے
تیری تیزی برابر ہر کہیں ہے
اجاڑا اگر کسی مفلس کا چھپر
اکھاڑا خیمہ و خر گاہ لشکر
نہ در گزرے غریبوں کے مکاں سے
نہ جھجکے طرہ تاج شہاں سے
نہیں کچھ تجھ کو خوف شان سلطاں
اڑایا پردہ ایوان سلطاں
کسی کا طرہ طرار چھیڑا
کسی کا برقع زر تار چھیڑا
غرض دلچسپ تیری ہر ادا ہے
تیری شوخی و چالاکی بجا ہے
٭٭٭
(۴۵) ایک گنوار اور قوس قزح
تھی شام قریب اور دہقاں
میدان میں تھا گلہ کا نگہباں
دیکھی اس نے کمان ناگاہ
جو کرتی ہے مینہ سے ہم کو آگاہ
رنگت میں اس کو عجیب پایا
ظاہر میں بہت قریب پایا
پہلے سے وہ سن چکا تھا اکثر
ہے قوس میں اک پیالہ زر
مشہور بہت ہے یہ کہانی
افسانہ تراش کی زبانی
ملتی ہے جہاں کماں زمیں سے
ملتا ہے وہ جام زر وہیں سے
سوچا لو جام اور بنو جم
چھوڑو بز و گوسفند کا غم
بیہودہ گنوار اس گماں پر
سیدھا گیا تیر سا کماں پر
دن گھٹنے لگا قدم بڑھایا
امید کہ اب خزانہ پایا
جتنی کوشش زیادہ تر کی
اتنی ہی کمان پرے کو سرکی
پنہاں ہوئی قوس آخر کار
اور ظلمت شب ہوئی نمودار
ناکام پھرا وہ سادہ دہقاں
حسرت زدہ غم زدہ پشیماں
٭٭٭
(۴۶) ترک تکبر
بلندی سے چلا سیلاب پر زور
پہاڑی گھاٹیوں میں مچ گیا شور
ہوا اس تیزی و تندی سے جاری
کہ تھی سنگ گراں پر ہول طاری
شجر تو کیا اٹھاتے اس کی ٹکر
بہم ٹکرا دیے پتھر سے پتھر
غرض ڈھایا بہایا اور توڑا
پڑا جو سامنے اس کو نہ چھوڑا
اسی زمرہ میں اک لکڑی بھی بہتی
چلی جاتی تھی اور یوں دل میں کہتی
’’ میں راہ رسم منزل سے ہوں آگاہ
یہ سارا قافلہ ہے میرے ہمراہ
اشاروں پہ میرے چلتا ہے پانی
ہے میرے بس میں دریا کی روانی
مرے دم سے رواں یہ کارواں ہے
مرا تابع ہے جو کوئی یہاں ہے ‘‘
قضا را موج نے پلٹا جو کھایا
تو اک پتھر نے لکڑی کو دبایا
کہا لکڑی نے او گستاخ مغرور
مرے دامن سے اپنا ہاتھ رکھ دور
کہ میں ہے بدرقہ ہوں رہنما ہوں
امیر بحر ہوں اور ناخدا ہوں
مجھے او بے ادب کیوں تو نے چھیڑا
جو میں ڈوبی تو بس ڈوبا یہ بیڑا
رکوں گی میں تو رک جائے گا دریا
کڑھے گا اور پچھتائے گا دریا
کہا پتھر نے ساحل سے احوال
کہ ہے ہم سب میں وہ پیر کہن سال
کہی لکڑی نے ساحل سے وہی بات
تو ساحل نے صدا یوں دی ہیہات
ہزاروں مدعی آگے بھی آئے
بہت جوش و خروش اپنے دکھائے
گیا سالم نہ کوئی اس بھنور سے
یہی دیکھا کیا عمر بھر سے
ہوئے یہاں غرق لاکھوں تجھ سے فرعون
نہ پوچھا کسی نے یہ کہ تھے کون
مگر دریا کی باقی ہے وہی آن
وہی رونق، وہی عظمت، وہی شان
نہیں دریا کی مواجی میں کچھ فرق
اسے کیا غم ترے کوئی کہ ہو غرق
٭٭٭
(۴۷) حیا
او حیا، او پاسبان آبرو
نیکیوں کی قوت بازو ہے تو
پاک دامانی پہ تجھ کو ناز ہے
کیا ہی تیرا دل پذیر انداز ہے
کھب گئی جس آنکھ میں تو مثل نور
بد نگاہی سے رہی وہ آنکھ دور
دامن عصمت کو تو رکھتی ہے پاک
ہے سدا جرم و گنہ سے تجھ کو باک
گر نہ ہوتا درمیاں تیرا حجاب
فعل بد سے کون کرتا اجتناب
خواہشوں کو جو نہ تو دیتی لگام
آدمی حیوان بن جاتے تمام
جب خطا کرتی ہے دل میں شور و شر
تو ہی بن جاتی ہے واں سینہ سپر
ذلت و خواری تجھے بھاتی نہیں
تاب رسوائی کی تو لاتی نہیں
تو مذلت کو سمجھتی زہر ہے
اور ملامت تیرے حق میں قہر ہے
مفلسوں کی ہے تو ہی پشت و پناہ
تو سجھاتی ہے عرق ریزی کی راہ
گو تہی دستی کے ہو جائیں شکار
ہے مگر تجھ کو گدائی ننگ و عار
ہے ترے نزدیک مر جانا پسند
پر نہیں ہے ہاتھ پھیلانا پسند
اس قدر تجھ کو نہیں پروائے نان
جس قدر تو آن پر دیتی ہے جان
آبرو کھوتی نہیں از بہر قوت
لب پہ بن جاتی ہے تو مہر سکوت
اغنیا کے دل کو گرماتی ہے تو
بخل و خست سے شرماتی ہے تو
تو سکھا دیتی ہے ان کو بذل مال
زخم خنجر ہے تجھے رد سوال
٭٭٭
(۴۸) کچھوا اور خرگوش
ایک کچھوے کے آ گئی جی میں
کیجیے سیر و گشت خشکی میں
جا رہا تھا چلا ہوا خاموش
اس سے ناحق الجھ پڑا خرگوش
میاں کچھوے، تمہاری چال ہے یہ
یا کوئی شامت اور وبال ہے یہ
یوں قدم پھونک پھونک دھرتے ہو
گویا اتو زمیں پہ کرتے ہو
کیوں ہوئے چل کے مفت میں بدنام
بے چلے کیا اٹک رہا تھا کام
تم کو یہ حوصلہ نہ کرنا تھا
چلو پانی میں ڈوب مرنا تھا
یہ تن و توش اور یہ رفتار
ایسی رفتار پر خدا کی مار
بولا کچھوا کہ ہوں خفا نہ حضور
میں تو ہوں آپ معترف بہ قصور
اگر آہستگی ہے جرم و گناہ
تو میں خود اپنے جرم کا ہوں گواہ
مجھ کو جو سخت سست فرمایا
آپ نے سب درست فرمایا
مجھ کو غافل مگر نہ جانئے گا
بندہ پرور برا نہ مانئے گا
یوں زبانی جواب دوں تو کیا دوں
شرط بد کر چلو تو دکھلا دوں
تم تو ہو آفتاب میں ذرہ
پر مٹا دوں گا آپ کا غرہ
سن کے خرگوش نے یہ تلخ جواب
کہا کچھوے سے یوں زروئے عتاب
تو کرے میری ہمسری کا خیال
تیری یہ تاب یہ سکت یہ مجال
چیونٹی کے جو پر نکل آئے
تو یقین ہے کہ اب اجل آئے
ارے بیباک، بد زباں منہ پھٹ
تو نے دیکھی کہاں ہے دوڑ جھپٹ
جب میں تیزی سے جست کرتا ہوں
شہسواروں کو پست کرتا ہوں
گرد کو میری باد پا نہ لگے
لاکھ دوڑے میرا پتہ نہ لگے
ریل ہوں برق ہوں چھلاوہ ہوں
میں چھلاوے کا بلکہ باوا ہوں
تیری میری نبھے گی صحبت کیا
آسمان کو زمیں سے نسبت کیا
جس نے بھگتے ہوں ترکی و تازی
ایسے مریل سے کیا بدے بازی
بات کو اب زیادہ کیا دوں طول
خیر کرتا ہوں تیری شرط قبول
ہے مناسب کہ امتحاں ہو جائے
تاکہ عیب و ہنر عیاں ہو جائے
الغرض اک مقام ٹھیرا کر
ہوئے دونوں حریف گرم سفر
بسکہ زوروں پہ تھا چڑھا خرگوش
تیزی پھرتی سے یوں بڑھا خرگوش
جس طرح جائے توپ کا گولا
یا گرے آسمان سے اولا
ایک دو کھیت چوکڑی بھر کے
اپنی چستی پہ آفریں کر کے
کسی گوشہ میں سو گیا جا کر
فکر کیا ہے چلیں گے سستا کر
اور کچھوا غریب آہستہ
چلا سینہ کو خاک پر گھستا
سوئی گھنٹے کی جیسے چلتی ہے
یا بتدریج چھاؤں ڈھلتی ہے
یوں ہی چلتا رہا بہ استقلال
نہ کیا کچھ ادھر ادھر کا خیال
کام کرتا رہا جو پے در پے
کر گیا رفتہ رفتہ منزل طے
حیف، خرگوش رہ گیا سوتا
ثمرہ غفلت کا اور کیا ہوتا
جب کھلی آنکھ تو سویرا تھا
سخت شرمندگی نے گھیرا تھا
صبر و محنت میں ہے سرافرازی
سست کچھوے نے جیت لی بازی
نہیں قصہ یہ دل لگی کے لئے
بلکہ عبرت ہے آدمی کے لئے
ہے سخن اس حجاب میں روپوش
ورنہ کچھوا کہاں کہاں خرگوش
٭٭٭
(۴۹) مناقشہ ہوا و آفتاب
باد صحرا نے کہا یوں اک روز
مہر تاباں سے کہ اے گیتی فروز
تو ہے علوی اور میں سفلی مگر
زور بازو میں ہوں میں تجھ سے زبر
نیر اعظم نے فرمایا کہ ہاں
ہو اگر ثابت زروئے امتحاں
ورنہ ہے پا در ہوا یہ قال و قیل
ہیچ ہے دعوی نہ ہو جب تک دلیل
بولی جو یوں ہے تو اچھا یوں سہی
ہاتھ کنگن کے لئے کیا آرسی
آئیے زور آزمائی کیجئے
اس بکھیڑے کی صفائی کیجئے
اک مسافر اپنی دھن میں تھا رواں
اس کو ان دونوں نے تاکا نا گہاں
ہو گئے آپس میں طے قول و قرار
جو لبادہ لے مسافر کا اتار
بس اسی کے نام کا ڈنکا بجے
سر پہ دستار فضیلت وہ سجے
پھر تو آندھی بن کر چل نکلی ہوا
ایسی بپھری کر دیا طوفان بپا
اونچے اونچے پیڑ تھرانے لگے
جھوک سے جھوکوں کی چرانے لگے
نونہالوں کی کمر بل کھا گئی
پھول پتوں پر قیامت آ گئی
کانپ اٹھے اس دشت کے کل وحش و طیر
مانگتے تھے اپنے اپنے دم کی خیر
ہو گیا دامان صحرا گرد برد
گھر گیا آفت میں وہ صحرا نورد
چاہتی تھی لوں لبادہ کو اچک
مدعی کو دوں سر میدان زک
جب ہوا لیتی تھی چکر میں لپیٹ
بیٹھ جاتا تھا وہ دامن کو سمیٹ
سینہ زوری سے نہ چوری سے ڈری
کرسکی لیکن نہ کچھ غارت گری
باندھ لی کس کر مسافر نے کمر
تا ہوا کا ہو نہ کپڑوں میں گزر
تھک گئی آخر نہ اس کا بس چلا
ٹل گئی سر سے مسافر کے بلا
اب تھما جھکڑ تو نکلا آفتاب
روئے نورانی سے سرکائی نقاب
تمکنت چہرے سے اس کے آشکار
چال میں ایک بردباری اور وقار
وہ ہوا کی سی نہ تھی دھوم دھام
کر رہا تھا چپکے چپکے اپنا کام
دھیمی دھیمی کرنیں چمکانے لگا
رفتہ رفتہ سب کو گرمانے لگا
اس مسافر کو پسینا آگیا
کھول ڈالے بند جی گھبرا گیا
اور آگے کو بڑھا تو دھوپ سے
تن بدن میں کچھ پتنگے سے لگے
اب لبادہ کو لیا کاندھے پہ ڈال
بدلی یوں نوبت بہ نوبت چال ڈھال
جب چڑھا خورشید سمت الراس پر
بیٹھ کر سایہ میں پھر تو گھاس پر
دور پھینکا اس لبادہ کو اتار
واہ رے سورج، لیا میدان مار
تیزی و تندی کے گرویدہ ہیں سب
کامیابی کا مگر ہے اور ڈھب
اس کا گر ہے نرمی و آہستگی
سرکشی کی رگ اسی سے ہے دبی
٭٭٭
(۵۰) نا قدردانی
کہیں اک لعل کیچڑ میں پڑا تھا
نہ قامت بلکہ قیمت میں بڑا تھا
کوئی دہقاں اٹھا کر لے گیا گھر
وہ کیا جانے یہ پتھر ہے کہ جوہر
نیا تحفہ جو بچے کو دکھایا
، ہا ہا ہا، کھلونا ہم نے پایا
ہوئی جب لعل کی واں یہ مدارات
تو بولا حسرتا ہیہات ہیہات
نہیں اس گھر میں میری قدر ممکن
کہ اندھوں کے لئے کیا رات کیا دن
اگر پاتا مجھے کوئی نظر باز
تو کرتا اپنی قسمت پر وہ سو ناز
جو لے جاتا مجھے تا درگہ شاہ
تو مالا مال ہوتا حسب دلخواہ
اری نا قدر دانی تجھ پے لعنت
کہ ہے تجھ کو مساوی نور و ظلمت
سمجھ لیتی ہے عیبوں کو ہنر تو
ہنر کی توڑ دیتی ہے کمر تو
خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے
خصوصاً تیری نالائق جفا سے
کہ ہے اندھے کی لاٹھی تیری بیداد
جہاں میں داد ہے جس کی نہ فریاد
٭٭٭
(۵۱) جنگ روم و روس (۱)
حالات روم سے ہمیں دن رات کام ہے
اخبار کا ورق نہیں خوان طعام ہے
کیسے خیال جنگ میں روزے گزر گئے
معلوم بھی نہیں کدھر آئے کدھر گئے
سوجھا نہ اور کچھ ہمیں اس بھوک پیاس میں
دن کاٹتے رہے انہیں خبروں کی آس میں
روزہ خبر بغیر ہمیں بار ہو گیا
آیا جو تار فتح تو افطار ہو گیا
چھٹکی ہوئی ہے چاندنی اور صاف آسماں
چپ چاپ ہے زمین تو سنسان ہے جہاں
پتا بھی دیکھئے تو کھڑکتا نہیں کوئی
طائر بھی آشیاں میں پھڑکتا نہیں کوئی
خلق خدا پڑی ہوئی سوتی ہے بے خبر
بجنے لگا ہے اتنے میں نقارہ سحر
اس وقت جاگتے ہیں تو آتا ہے یہ خیال
اے ماہ کیا ہے خطہ بلگیریا کا حال
کیا اب بھی گونجتا ہے وہ میدان توپ سے
آتش فشاں ہے لشکر عثمان توپ سے
بلقان کے دروں میں سلیمان صف شکن
کیا اب بھی ہے غنیم کے لشکر میں شعلہ زن
کیا خیمہ زن ہوئی ہے محمد علی کی فوج
یا خبترہ کی سمت رواں ہے مثال موج
بیکر کے شہسوار ہیں کس داروگیر میں
کیا غلغلہ ہے کوچ کا ترکی بیر میں
کیا اب بھی ترکتا زمین ترکی سوار ہیں
جن غازیوں کے تیغ سے روسی فگار ہیں
کیا کر رہی ہے احمد مختار کی سپاہ
فیروزمند غازی جرار کی سپاہ
اے ماہ نور بار سفر میں ہے تو مدام
حالات جنگ کے تجھے معلوم ہیں تمام
تو جا کے معرکہ میں چمکتا ہے رات بھر
اور سیر دیکھنے کو ٹھٹھکتا ہے رات بھر
کرتے تھے اس طرح سے خیالی خطاب ہم
جب دیکھتے تھے لطف شب ماہ تاب ہم
لیکن ہجوم اب تو ہے ابر بہار کا
ہے آسمان نمونہ صف کارزار کا
بجلی کے کوندنے میں ہے شمشیر کی ادا
اور بادلوں کی گھور گرج توپ کی صدا
یوں ابر جھوم جھوم کے آتا ہے بار بار
شیکا پے جیسے حملہ ترکان ذی وقار
بد دل ہے فوج روس تو ہو اور بھی خراب
عثمانیوں کے دبدبہ ہو جائے کامیاب
ہے یہ دعائے شام یہ ہی نالہ سحر
ہوں ترک فتحیاب خدا یا بکر و فر
عثمان پر جو لشکر روسی کا ہے ہجوم
ابر سیہ کی طرح سے آتا ہے جھوم جھوم
خود زار بھی گیا ہے کمال غرور سے
اور فوج جمع کی ہے بہت دور دور سے
عثمان یا خدا انہیں زیر و زبر کرے
سیلاب خون روس سے مٹی کو تر کرے
ترکوں کو ایسی شوکت و شان و جلال دے
جو زلزلہ غنیم کے لشکر میں ڈال دے
مشرق کی سمت سے ہو سلیمان گرم کار
افواج زار وچ کو دکھا وے رہ فرار
بلگیریا میں ختم ہو ہنگامہ جنگ کا
رومانیہ نشانہ ہو ترکی تفنگ کا
دم بند روسیوں کا ہو صمصام ترک سے
بھاگے سپاہ روس فقط نام ترک سے
محمود روز عید ہے دل سے دعا کرو
حامد یہ التجا بحضور خدا کرو
ترکی سپاہ میں علم فتح ہو بلند
پہونچے سپاہ زار کو آزار اور گزند
(۱) یہ مثنوی یکم شوال ۱۳۹۴ ہجری مطابق ۱۹ اکتوبر ۱۸۷۷ عیسوی میں لکھی گئی
٭٭٭
(۵۲) مکالمہ سیف و قلم
۱۔۔ سیف و قلم میں جو ہوئی دوبدو
شوق ہے تم کو تو سنو مو بمو
۲۔۔ خامہ لگا کہنے کہ او تیغ تیز
تجھ سے بھلا کس کو مجال ستیز
۳۔۔ آب وہ تیری کہ نہ ٹھیرے نگاہ
آنچ وہ تیری۔ کہ خدا کی پناہ
۴۔۔ رہزن سفاک کی یاور ہے تو
خون کے دریا کی شناور ہے تو
۵۔۔ سیکھے ستم کس ستم ایجاد سے
شور ہے برپا تری بیداد سے
۶۔۔ شوخی و بے باکی و تیزی میں برق
آگ ہے اور آب میں رہتی ہے غرق
۷۔۔ تند مزاجی میں تو شداد ہے
بیضہ فولاد کی اولاد ہے
۸۔۔ آتش سوزاں کا پیا تو نے دود
اس لئے جاں سوز ہے تیرا وجود
۸۔۔ حیف تیری سختی و آہن دلی
نوع بشر کی ہے تو دشمن دلی
۱۰۔۔ خرمن ہستی میں لگاتی ہے آگ
عافیت و امن سے رکھتی ہے لاگ
۱۱۔۔ گو کہ مجلا ہے تو آئینہ دار
تیرہ درونی ہے تیری آشکار
۱۲۔۔ تیری گھٹی میں پڑا زہر ہے
چال قیامت تو ادا قہر ہے
۱۳۔۔ فتنہ عالم ہے تیرا بانک پن
شوخی و شنگی ہے تیرا خاص فن
۱۴۔۔ شکل انوکھی تو نرالی ہے دھج
جسم بھی خمدار طبیعت بھی کج
۱۵۔۔ قحط زدوں کا سا تن و توش ہے
کھانے پہ ڈھوکے تو بلا نوش ہے
۱۶۔۔ عرصہ راحت ہے ترے دم سے تنگ
ایسی لڑاکا کہ بنی خانہ جنگ
۱۷۔۔ تیری جبلت ہے فسوق و جدال
ناحق و حق کا نہیں تجھ کو خیال
۱۸۔۔ قتل کا رکھتی ہے بہت چاؤ تو
رن میں کیا کرتی ہے ستھراؤ تو
۱۹۔۔ اف نہ کرے لاکھ گلے کاٹ کر
جی نہ بھرے تیرا لہو چاٹ کر
۲۰۔۔ خلق خدا تجھ سے ہے آزار کش
کرتی ہی رہتی ہے سدا چپقلش
۲۱۔۔ بحر فنا کہئے ترے گھاٹ کو
جس نے دئے سینکڑوں بیڑے ڈبو
۲۲۔۔ گرچہ سراپا ہے ترا آب گون
پر تری چتون سے ٹپکتا ہے خون
۲۳۔۔ تو نے اجاڑیں بہت آبادیاں
چھین لیں اقوام کی آزادیاں
۲۴۔۔ تو نے کروڑوں کئے بچے یتیم
لاکھوں ہی باپوں کے کئے دل دو نیم
۲۵۔۔ لے گئی ماؤں کی کمائی کو لوٹ
رہ گیئں بیچاریاں چھاتی کو کوٹ
۲۶۔۔ دلہنیں روتی ہیں تری جان کو
ساتھ ہی لے جائیں گی ارمان کو
۲۷۔۔ موتیوں سے مانگ تھی جن کی بھری
ان سے کراتی ہے تو گدیہ گری
۲۸۔۔ تو نے رفیقوں کو رلایا ہے خوں
غم سے عزیزوں کو ہوا ہے جنوں
۲۹۔۔ تفرقہ پرداز، یہ کیا کر دیا ؟
گوشت کو ناخن سے جدا کر دیا
۳۰۔۔ شیوا ترا شہرہ آفاق ہے
خون خرابہ میں تو مشاق ہے
۳۱۔۔ چاہتی ہے بغض و عداوت کو تو
انس و محبت کی نہیں تجھ میں بو
۳۲۔۔ تیری دغا بازی ہے ضرب المثل
غیر ہے قبضہ سے گئی جب نکل
۳۳۔۔ تو نے وفا کی نہیں پٹی پڑھی
اس کی ہوئی جس کے تو ہتے چڑھی
۳۴۔۔ کون کرے تجھ سے رفاقت کی آس
کچھ نہیں تجھ کو حق صحبت کا پاس
۳۵۔۔ رکھتی نہیں سابقہ لطف یاد
کور نمک ہے ترا کیا اعتماد
۳۶۔۔ میل حریفوں سے یگانوں سے چھوٹ
نکلے گا مالک کا نمک پھوٹ پھوٹ
۳۷۔۔ مملکتیں خاک سیہ تو نے کیں
تیری قساوت نے اجاڑی زمین
۳۸۔۔ بستیاں کرتی ہیں پڑیں بھائیں بھائیں
مقبرے آباد ہیں کچھ دائیں بائیں
۳۹۔۔ اٹھے تیری ذات سے جو جو فساد
اہل تواریخ کو کچھ کچھ ہیں یاد
۴۰۔۔ ثبت جریدہ انھیں میں نے کیا
ہے وہ خلاصہ تری روداد کا
۴۱۔۔ تو ہی بھرت کھنڈ کی بھارت میں تھی
تیری خوشی جانوں کی غارت میں تھی
۴۲۔۔ ہند کے جودھا تھے بڑے سور بیر
کھا گئی تو سب کو دم داروگیر
۴۳۔۔ تو نے نصیحت نہ کسی کی سنی
چٹ کئے اس عہد کے گیانی گنی
۴۴۔۔ وادی توران میں چمکی کبھی
دیتی تھی ایران کو دھمکی کبھی
۴۵۔۔ باڑھ پہ تیری جو چڑھا پہلواں
نام کو بھی اس کا نہ چھوڑا نشاں
۴۶۔۔ تیری جو ضحاک سے گہری چھنی
قوم کا ہر فرد بنا کشتنی
۴۷۔۔ معرکہ رستم و افراسیاب
تیری بدولت ہوا زیب کتاب
۴۸۔۔ قتل کا دھبا ترے دامن پہ ہے
خون سیاوش تری گردن پہ ہے
۴۹۔۔ خاک اڑائی یہ تری آب نے
جان دی ناشاد ہی سہراب نے
۵۰۔۔ تو جو طرفدار سکندر ہوئی
خاک میں دارا کو ملا کر ہی سوئی
۵۱۔۔ تخت کیاں کا دیا تختہ الٹ
کر دی یونان کی کایا پلٹ
۵۲۔۔ لشکر یوناں کی جلو جب پھری
باختر و بلخ پہ بجلی گری
۵۳۔۔ تو نے عرب سے جو کیا اتفاق
فارس و روما کی مٹی طمطراق
۵۴۔۔ جب ہوئی فارس پے تیری دست برد
دخمہ بنی یار گہ یزدجرد
۵۵۔۔ شوکت ساسان کے ڈیرے لدے
بجھ گئے زردشت کے آتشکدے
۵۶۔۔ غرب کی جانب کو جو تو جھک پڑی
شام پہ اک ضرب لگائی کڑی
۵۷۔۔ روم میں برپا کیا شور نشور
دولت ہرقل کا ہوا شیشہ چور
۵۸۔۔ توڑ دیا روم کا سارا طلسم
رہ گیا بے جان مردار سا جسم
۵۹۔۔ ہاشمیوں کا نہ دیا تو نے ساتھ
آل امیہ کا پڑا تجھ پہ ہاتھ
۶۰۔۔ ڈھایا کیا تو نے غضب برملا
گرم کیا معرکہ کربلا
۶۱۔۔ طرفہ ستمگار ہے عالم میں تو
عید مناتی ہے محرم میں تو
۶۲۔۔ پھٹ نہ گیا کیوں ترا ظالم جگر
ڈوب مری کیوں نہ تو اے خیرہ سر
۶۳۔۔ قہر الہی سے جو ڈرتی کبھی ]
مرتی پہ یہ کام نہ کرتی کبھی
۶۴۔۔ ہند پہ محمود کی لشکر کشی
یاد دلاتی ہے تیری سر کشی
۶۵۔۔ بدل ہوا ایک تیری چال میں
لوٹ پڑی دولت جے پال میں
۶۶۔۔ کیا ہی نظر سوز تھی تیری چمک
دھاک تھی کالنجر و قنوج تک
۶۷۔۔ یاد ہیں کچھ تجھکو عجب داؤ گھات
توڑ دیا بت کدہ سومنات
۶۸۔۔ تو نے ہڑپ کر لئے لاکھوں ہی سر
کم نہ ہوئی پر تری جوع البقر
۶۹۔۔ غور سے جس دم تری آندھی چلی
ہند کی سینا میں مچی کھلبلی
۷۰۔۔ رائے پتھورا کا وہ جاہ و جلال
ہو گیا پل مارتے خواب و خیال
۷۱۔۔ بن گئی ہر بزم طرب کدہ
دہلی و اجمیر تھے ماتم کدہ
۷۲۔۔ سوگ میں رانی نے کیا سینہ چاک
آتش سوزاں میں ہوئی جل کے خاک
۷۳۔۔ رائے رہا اور نہ رانی رہی
زیب سخن تیری کہانی رہی
۷۴۔۔ چونک پڑا فتنہ جنگ تتار
لشکر چنگیز کا اٹھا غبار
۷۵۔۔ چھا گیا اک ابر ستم چار سو
خون کے سیلاب بہے کو بکو
۷۶۔۔ کٹ گئے خوارزم و خراساں کے باغ
زمزمہ بلبل کا بنا شور زاغ
۷۷۔۔ ویلم و بغداد پہ ٹوٹا غضب
درہم برہم ہوئی بزم عرب
طرفہ ستم گار ہے عالم میں تو
عید مناتی ہے محرم میں تو
۷۸۔۔ صرصر تاراج چلی سر بسر
آگ وہ بھڑکی کہ جلے خشک و تر
۷۹۔۔ تیرے ہی کوتک تھے یہ اے نابکار
کیا کہوں بس تجھ کو خدا کی سنوار
۸۰۔۔ کشور یورپ سے اٹھا غلغلہ
وادی یردن میں پڑا زلزلہ
۸۱۔۔ حرب صلیبی تھی وہ خونخوار جنگ
ٹوٹ پڑا جس کے لئے کل فرنگ
۸۲۔۔ تو جو برہنہ ہوئی او فتنہ گر
تن سے جدا ہو گئے نو لاکھ سر
۸۳۔۔ نکلا تجھے لے کے جو تیمور لنگ
پھونک دیا چار طرف صور جنگ
۸۴۔۔ چوس لیا روس کا خون جگر
داب دئے قاف میں دیووں کے سر
۸۵ خون سے گل خاک صفاہاں ہوئی
کانپ اٹھی تختگہ ہند بھی
۸۶۔۔ ناحیہ شام سے تا حد چیں
مقتل انسان بنا دی زمیں
۸۷۔۔ تو جو بنی ہمدم نپیولین
بول دی یورپ میں صدائے بزن
۸۸۔۔ تاجور اطراف کے تھرا گئے
ناک میں ہمسایوں کے دم آ گئے
۸۹۔۔ جب ہوئی نادر کی تو زیب کمر
خلق خدا بول اٹھی الحذر
۹۰۔۔ حضرت دہلی کنف عدل و داد
جس کو کیا تھا کبھی خسرو نے یاد
۹۱۔۔ اس کی یہ حالت ہوئی زار و زبوں
کوچہ و برزن میں بہی جوئے خوں
۹۲۔۔ دینے لگے اس میں صدا خوف و بیم
زلزلہ الساعتہ شی عظیم
۹۳۔۔ کیجئے القصہ کہاں تک بیاں
فرد مظالم ہے تری داستاں
۹۴۔۔ میری غرض تیری فضیحت نہیں
بلکہ بجز پند و نصیحت نہیں
۹۵۔۔ تند تھی از بسکہ صریر قلم
سن کے ہوئی تیغ دو دم بھی علم
۹۶۔۔ آتش غیض اس کی بھڑکنے لگی
بجلی کی مانند کڑکنے لگی
۹۷۔۔ ڈانٹ کر بولی کہ خبردار ہو
اب مری باری ہے لے ہشیار ہو
۹۸۔۔ بد ہوں خدا جانے کہ ہوں نیک میں
رکھتی ہوں دل اور زباں ایک میں
۹۹۔۔ مجھ کو دو رنگی نہیں بھاتی ذرا
میل ملاتی نہیں کھوٹا کھرا
۱۰۰۔۔ مہر ہو تو مہر جو کیں ہو تو تو کیں
یک جہتی ہے مرا آئین و دیں
۱۰۱۔۔ بات کی ہر گز نہیں زنہار پچ
میرا خمیر اور مرا کس بل ہے سچ
۱۰۲۔۔ حجت قاطع ہوں میں سرتا بپا
چھوڑتی باقی نہیں تسمہ لگا
۱۰۳۔۔ جبکہ نہ ہو فصل خصومت بہم
میرے سوا کون بنے واں حکم
۱۰۴۔۔ عیب کہو میرا اسے یا ہنر
فیصلہ دو ٹوک ادھر یا ادھر
۱۰۵۔۔ تیری طرح کاہے باتیں گھڑوں
لڑنے پہ آؤں تو میں سنمکھ لڑوں
۱۰۶۔۔ خوب کیا تو نے نکالی جو چھیڑ
دونگی ابھی میں ترے بخیے ادھیڑ
۱۰۷۔۔ جنگ کا بوتی ہوں اگر بیج میں
سینچ کر پھر اس کو بتدریج میں
۱۰۸۔۔ پود بڑھاتی ہوں وہ نعم البدل
رفق و مدارا کے لگیں جس میں پھل
٭٭٭
(۵۳) شمع ہستی
اے شمع ہستی، اے زندگانی
بھاتی ہے دل کو تیری کہانی
ہے کوچ تیرا ہر لمحہ جاری
جاتی ہے بگ ٹٹ تیری سواری
بجلی سے بڑھ کر بے تاب ہے تو
یا واہمہ ہے یا خواب ہے تو
کیوں چپ چپاتی ہر دم رواں ہے ؟
آئی کہاں سے جاتی کہاں ہے ؟
ظاہر ہیں یوں تو سب پر ترے گن
لیکن نہ پایا تیرا سر و بن
گزرا نہ کوئی اس ہفت خواں سے
جاہل ہیں تیرے سر نہاں سے
فی الجملہ ہمت سب ہار بیٹھے
ہیں سر بزانو ناچار بیٹھے
اے زندگانی، اے شمع ہستی
سونی پڑی تھی تجھ بن یہ بستی
چاروں طرف تھی چھائی اندھیری
ناگاہ اٹھی اک ڈیک تیری
وہ ڈیک تھی بس نورٌ علیٰ نور
کاہے کو رہتی پردہ میں مستور
پھولوں میں جھلکی تاروں میں چمکی
بخشی جہاں کو رونق ارم کی
ہوتا نہ یاں جو تیرا ٹھکانا
چوپٹ ہی رہتا یہ کارخانہ
کیا پھونک ماری دنیا کے تن میں
گویا لگا دی دوں خشک بن میں
بزم جہاں میں رونق ہے تجھ سے
اس میکدہ میں ہو۔ حق ہے تجھ سے
ہے تیرے دم سے اے عالم آرا
بزم عروسی میں آفاق سارا
سرگرم ہے تو جادوگری میں
ہیں تیرے عشوے خشکی تری میں
مٹی کا جوبن تو نے نکھارا
دیے دے کے چھینٹے اس کو ابھارا
بے حس کو بخشا احساس تو نے
دی مشت گل کو بو باس تو نے
تھی بھولی بھالی بھونڈی بہنگم
تو نے سکھایا اس کو خم و چم
کرتب سے تیرے سانچے میں ڈھل کر
کندن سے نکلی رنگت بدل کر
ٹھکرا کے تو نے جب کہہ دیا’ قم‘
اٹھ بیٹھی فوراً کرتی تبسم
بھولی ہے اپنی اوقات پہلی
پھرتی ہے خوش خوش کیا اہلی گھلی
پاتی ہے خلقت جب تیری آہٹ
ہوتی ہے پیدا اک گدگداہٹ
مچتا ہے پھر تو اودھم غضب کا
بجتا ہے ڈنکا عیش و طرب کا
کہتی ہے دنیا ’’ تو ہے تو کیا غم
تو آئے نت نت تو آئے جم جم ‘‘
جیتے ہیں جب تک مرتے ہیں تجھ پر
سب کچھ تصدق کرتے ہیں تجھ پر
کیا مال ہے جو تیرے سوا ہے
تو ہی نہ ہو تو سب پروھتا ہے
اے سب کی پیاری سب کی چہیتی
کہہ منہ زبانی کچھ آپ بیتی
’’ قدرت کے گھر کی لاڈلی ہوں
ناز و نعم سے برسوں پلی ہوں
تقویم احسن میرا لگن تھا
فردوس اعلی میرا وطن تھا
حور و ملک کی آبادیاں تھیں
بے فکریاں تھیں آزادیاں تھیں
چلتی تھی ہر دم باد بہاری
شیر و عسل کی نہریں تھیں جاری
میری ادا پہ مرتے تھے قدسی
سجدہ پہ سجدہ کرتے تھے قدسی
تکریم میری ہوتی تھی از حد
ہیں داستانیں جس کی زباں زد
پھر دیس چھوٹا گزری سو جھیلی
پردیسیوں کا اللہ بیلی
پل مارنے کا ہے یاں بسیرا
حب وطن ہے ایمان میرا
آب و ہوا میں دشت و جبل میں
میری رسائی ہے ہر محل میں
لیکن یہاں میں خلوت نشین ہوں
ہوں اس طرح پر گویا نہیں ہوں
خواب گراں کی حالت ہے طاری
مستی میں گم ہے سب ہوشیاری
جب آتے آتے سبزہ میں آئی
کروٹ بدل کر میں لہلہائی
انگڑائیاں لیں منہ کھول ڈالا
پر آنکھ سے کچھ دیکھا نہ بھالا
داخل ہوئی جب حیواں کے تن میں
اک شور اٹھا اس انجمن میں
انساں کا جامہ جب میں نے پہنا
اللہ رے میں کیا میرا کہنا
کس کس جتن سے میں نے بنایا
رتبہ بہ رتبہ پایہ بہ پایہ
جامد کو نامی نامی کو حیواں
حیواں کو وحشی وحشی کو انساں
پھیلایا میں نے کیا کیا بکھیڑا
شادی و غم کے ارگن کو چھیڑا
نیکی بدی کے میلے جمائے
جھوٹ اور سچ کے سکے چلائے
جو ناچ میں نے جس کو نچایا
وہ ناچتے ہی اس کو بن آیا
القصہ ہوں میں وہ اسم اعظم
ہے جس کے بس میں تسخیر عالم
کچھ کچھ کھلے ہیں انداز میرے
دیکھے ہیں کس نے اعجاز میرے
مجھ کو نہ سمجھو تم آج کل کی
ہوں موج مضطر بحر ازل کی
رکھوں کی جاری یونہی سفر میں
قعر ابد کی لوں گی خبر میں
ہے میری ہستی اک طرفہ مضموں
کچھ بھی نہیں ہوں پر میں ہی میں ہوں
سنتے رہو گے میری کہانی
جب تک ہے باقی دنیائے فانی
٭٭٭
(۵۴) مثنوی فی العقائد (۱)
ذات حق اپنے آپ میں ہے موجود
کوئی اس کے سوا نہیں معبود
اس کا جوڑا نہیں مثال نہیں
اس کو گھاٹا نہیں زوال نہیں
اس کا جو وصف ہے سو کامل ہے
نہ کسی سے جدا نہ شامل ہے
اس کا ساجھی نہیں شریک نہیں
اور کو مانئے تو ٹھیک نہیں
جانتا ہے وہ ان ہوئی باتیں
دیکھتا ہے ڈھکی چھپی گھاتیں
ہے وہ بے آنکھ دیکھتا سب کو
ہے وہ بے کان سنتا مطلب کو
اپنی مرضی سے وہ کام کرتا ہے
بے زباں وہ کلام کرتا ہے
اونگھتا ہے کبھی نہ سوتا ہے
سب ارادہ سے اس کے ہوتا ہے
وہ قوی ہے کبھی نہیں تھکتا
وہ ہر اک چیز کو ہے کر سکتا
زندہ ہے زندگی کا مالک ہے
جو ہے اس کے سوا سو ہالک ہے
کہہ سکے کون اس کو کیسا ہے
آپ ہی جانتا ہے جیسا ہے
اس نے یہ آسماں بنایا آپ
اس نے فرش زمیں بچھایا آپ
کئے اونچے پہاڑ اس نے کھڑے
میخ کی طرح جو زمین میں گڑے
اس نے بادل سے بوند ٹپکائی
اس نے پانی پہ ناؤ تیرائی
مردہ مٹی میں اس نے ڈالی جان
لہلہائے ہرے بھرے میدان
ہے مسلم اسی کو سلطانی
عرش اعظم ہے تخت ربانی
ہے وہی۔ تھا وہی۔ وہی ہوگا
کون اس کی برابری جوگا
جس کو چاہے کرے ملیامیٹ
نہیں اس کو کسی سے لاگ لپیٹ
اس نے پیدا کیا ہے عالم کو
آسماں کو زمین کو ہم کو
اس کا احسان و فضل ہے دن رات
اس پہ واجب نہیں ہے کوئی بات
خاتم انبیا محمد ہے
جس کا احسا ن ہم پہ بے حد ہے
اس نے حکم خدا کیا تلقین
تھا وہ اللہ کا رسول امین
اس نے تعمیل حکم کر دی ہے
ٹھیک ہے۔ اس نے جو خبر دی ہے
دل سے مانو جو عقل بینا ہے
کہ موئے بعد پھر بھی جینا ہے
زندگی جس نے دی ہے اول بار
دوسری بار دے تو کیا دشوار
بعد مرنے کے حشر کا ہونا
ہے مثال اس کی جاگنا سونا
اس کی ہستی سے سب کی ہستی ہے
خلقت اس کی بسائی بستی ہے
(۱) مرتبہ ۱۸۷۰ عیسوی بمقام میرٹھ
٭٭٭
(۵۴) حمد باری تعالی
خدایا اول و آخر بھی تو ہے
خدایا ظاہر و باطن بھی تو ہے
وہ اول تو کہ نا محرم بدایت
وہ آخر تو کہ نا پیدا نہایت
نہیں اول کو آخر سے جدائی
ورائے عقل ہے تیری خدائی
جو آخر ہے وہی اول بھی تھا تو
وہی جو آج ہے سو کل بھی تھا تو
ہے تیرا اول و آخر مطابق
نہ تیرے ساتھ لاحق ہے نہ سابق
جو اول ہے تو پہلے اور تھا کون
جو آخر ہے تو پیچھے رہ گیا کون
جو باطن ہے تو باطن کا پتا کیا
جو ظاہر ہے تو ہے تیرے سوا کیا
ہے تو باطن میں ظاہر بلکہ اظہر
بظاہر بن گیا تو عین مظہر
ترا اخفا ہے گویا عین اظہار
ترا اظہار ہے اخفائے اسرار
کھلا جتنا ہو اتنا ہی مستور
چھپا جتنا رہا کھلتا بدستور
ازل سے تا ابد ہے ایک ہی شان
ترا طغرا ہے آلآن کما کان
مبرا قید اور اطلاق سے تو
منزہ انفس و آفاق سے تو
مگر میں ہے تو عین مطلق
نہ جامد ہے نہ مصدر ہے نہ مشتق
مقید میں مقید ہے تری ذات
نہیں ہوتا کسی خانہ میں تو مات
ہے اصل روح تو روحانیوں میں
ہے قید جسم تو جسمانیوں میں
اگر ناسوت میں ہے موج پر جوش
تو ہے لاہوت میں دریائے خاموش
اگر جبروت میں بانگ انا ہے
صف ارواح میں حمد و ثنا ہے
تو ہی ہے علم و عالم بلکہ معلوم
تو ہی ہے رحم و راحم بلکہ مرحوم
تجھے نسبت ہے لا شے سے نہ شے سے
غنی ہے تو نہیں سے اور ہے سے
تری وحدت میں کثرت ہے نمودار
کہ بے کثرت نہیں وحدت کا اظہار
نہ ہو وحدت تو کثرت بھی عدم ہے
حدوث آئنہ حسن قدم ہے
زمین و آسماں کا نور ہے تو
مگر خود ناظر و منظور ہے تو
سوا تیرے نہیں موجود کوئی
نہ عابد ہے نہ ہے معبود کوئی
ازل سے دائم المعروف ہے تو
ابد تک خود بخود موصوف ہے تو
تری رحمت ہے یہ جلسے دکھاتی
ہے قہاری تری سب کو مٹاتی
مسلم ہے تجھی کو حکم رانی
کہ تیری سلطنت ہے جاودانی
ہو الموجود ہے تجھی سے عبارت
ہو المقصود ہے تجھ سے اشارت
احد ہے تو نہیں زنہار معدود
صمد ہے تو نہ والد ہے نہ مولود
عیاں دیکھا تو پہونچا غیب ہو میں
نہاں ڈھونڈا تو آیا رنگ و بو میں
نہ پایا ہے نہ پائے گا کبھی تو
کہ ہے معروف و عارف آپ ہی تو
تصور قرب کا دوری ہے تجھ سے
خیال بعد مہجوری ہے تجھ سے
نہ دوری ہے نہ نزدیکی نہ مابین
عبارت منقطع لا غیر و لا عین
حقیقت سے نہیں ہے کوئی آگاہ
مشبہ اور موحد ہیں سب گمراہ
نہ ہو جب فرق ہی تو راہ کیوں ہو
نہ ہو کوئی تو پھر آگاہ کیوں ہو
پتا لگتا نہیں تنزیہ میں بھی
خبر ملتی نہیں تشبیہ میں بھی
یہ ہنگامہ اور اس پر بے نشانی
ہوا ہے عقل کل کا خون پانی
تمیم کر کہ خاکستر ہے دریا
لگا غوطہ کہ ہے گرداب صحرا
نہ صحرا ہے نہ دریا ہے نہ میں تو
نہ یاد و بود باقی ہے نہ ہا ہو
٭٭٭
(۵۶) یاد حضرت شیخ
لب پہ آیا نام شہ غوث علی
بے تکلف کھل گئی دل کی کلی
پھر صبا سبزہ کو لہرانے لگی
باغ معنی میں بہار آنے لگی
پھر لگا دی ابر رحمت نے جھڑی
پھر وہی باد بہاری چل پڑی
پھر وہی محمل ہے وہی ہے کارواں
ناقہ سرمست و حدی خواں سا رواں
پھر اسی منزل میں جا کھولی کمر
دشت چٹیل اور ویرانہ نگر
پھر کھلا در حجرہ انوار کا
قفل ٹوٹا قبہ اسرار کا
پھر وہی صحبت وہی لیل و نہار
پھر لگے ہونے در معنی نثار
پھر خزانہ غیب کا لٹنے لگا
رشک سے حاتم کا دم گھٹنے لگا
پھر لگی سانچہ میں ڈھلنے بات بات
عارفانہ رمز و مردانہ نکات
پھر الاپے نے نے اسرار قدم
ذرہ ذرہ بن گیا منصور دم
پھر وہی ساغر وہی بزم سرور
]پھر لگا بہنے وہی دریائے نور
پھر وہی ساقی وہی دیرینہ خم
کفر و ایماں کا ہوا سر رشتہ گم
ہو گئے مل جل کے سب پھر ایک شے
دور ساغر دست ساقی مست مے
مدح حاضر میں بھی لکھ اب چند پیت
تو ہی لکھ خود ’’ وما رمیت اذ رمیت ‘‘
اے تجلی اخیر ذوالجلال
تھا کمال بندگی تیرا کمال
ہاں محمد وار تو نام خدا
کر گیا ہے بندگی کا حق ادا
ترک دنیا ترک عقبی ترک جاں
قول و فعل و حال سے تیرے عیاں
خوب توڑا تو ہر بند کہن
تھا مگر تو حیدر خیبر شکن
ہر توسل سے تجھے اعراض تھا
شیر خوار مبدا فیاض تھا
داد حق تھی تیری قوت اور قوت
تھا خیال غیر بیت عنکبوت
فقر فخری کی صدا بھائی تجھے
حق نے بخشی ارث آبائی تجھے
مدتوں کے بعد ایک آدم بنا
ہفت خوان فقر کا رستم بنا
شاذو نادر کوئی شہ باز جلال
کھولتا ہے اس ہوا میں پر و بال
شیخ و صوفی رند و زاہد پارسا
سیکڑوں ہیں پر کہاں مرد خدا
غوث اعظم یا جنید و بایزید
یا نظام الدین یا بابا فرید
یا معین الدین و عطار و شہاب
اپنے اپنے وقت کے تھے آفتاب
مجمع البحرین تجھ سا بعد ازاں
گردش دوراں نے دیکھا تھا کہاں
اے محیط اولین و آخرین
آفریں، صد آفریں، صد آفریں
ذات کا آئینہ کامل بنا
یہ امانت تھی کہ تو حامل بنا
حامل و معمول میں یاں فرق کیا
شمس ربانی کو غرب و شرق کیا
تھا نہایت معتبر پکا امین
تیرا پیمانہ کبھی چھلکا نہیں
ظرف عالی بسکہ دریا نوش تھا
خم کدے خالی کئے پر ہوش تھا
اے تری آواز آواز خدا
اور خاموشی تری راز خدا
تھے لب شیریں لب دریائے فرات
اس لئے ہر بات تھی آب حیات
جو حکایت جو مثل جو بات تھی
عالم معنی کی اک سوغات تھی
مردہ روحوں کے لئے تھی زندگی
زندگی وہ جس کو ہو پائندگی
تیرے دم سے حشر روحانی ہوا
صاف و صیقل گوہر کانی ہوا
صور پھونکا تو نے جس کی جان میں
جو ہوا سو ہو گیا اک آن میں
جذب حق ہو سعی طالب سے غلط
چشم حق بیں کا اشارہ تھا فقط
جس کسی پر تو نے کچھ پھونکا فسوں
اک نہ اک دن اس کو ابھرے گا جنوں
رسم و عادت کا گریباں پھاڑ کر
دین تقلیدی سے دامن جھاڑ کر
کفر پر یاروں کے ایماں لائے گا
وار مردوں کا نہ خالی جائے گا
اے مقلد تجھ کو ایماں کی قسم
کافر دیر فنا کے لے قدم
جو نہ دے تجھ کو کھلا کافر بنا
تو میری تکفیر کا محضر بنا
فقر کو ہے کفر سے نسبت قوی
ہے مگر وہ کفر کفر معنوی
فقر محتاج خدا ہر گز نہیں
فقر عین ذات حق ہے بالیقین
ہے یقین بھی عین یکتائی میں عار
فقر سے بھی چاہئے پھر افتقار ؟
فقر فقر آیا تو کیا باقی رہا
بادہ کش باقی نہ خود ساقی رہا
سر گیا تو درد سر جاتا رہا
اٹھ گئی امید ڈر جاتا رہا
اے فنائے فقر تجھ کو مرحبا
عین عریانی ہے بس تیری عبا
مرحبا اے خازن اسرار غیب
کیا چھپایا ہے ہنر کو مثل عیب
ہاں خزانہ کا چھپانا فرض تھا
گرچہ بیرون سما و ارض تھا
یہ چھپانا کم نہ تھا اظہار سے
آگ بھڑکی گرمی بازار سے
وہی چھپے کیا جو کہ ہو خود پردہ در
باہمہ بے پردگی ہو مستتر
دیکھ کیا کہنا تھا کیا کہنے لگا
نالہ بل کھا کھا کے کیوں بہنے لگا
کچھ نہ تھا واں کچھ نہ ہونے کے سوا
کچھ نہ ہونا بھی وہاں باقی نہ تھا
تو نہ تھا کچھ عین عین اللہ تھا
ظاہرا بندہ نہانی شاہ تھا
بندگی کے بھیس میں اے جامہ زیب
دے گیا واللہ تو سب کو فریب
تجھ کو دیکھا پر نہ دیکھا خلق نے
لب نے چکھا پر نہ کھایا حلق نے
تو دھنتر بید تھا کھاتے اگر
سب دھنتر بید بن جاتے مگر
کس کی طاقت تھی کہ تجھ کو دیکھتا
لاکھ پردوں میں ہیں خاصان خدا
سب گنوں میں تو فرید دہر تھا
جاں فزا امرت سے تیرا زہر (توحید ،۱۲)تھا
تو قلندر رند تھا کونین سوز
سیف قاطع تھا نہ تھا بخیہ دوز
تو بھری محفل میں سب کچھ کہہ گیا
گوش جاں میں کہہ جو باقی رہ گیا
’’ من رانی‘‘ کے معنی صاف صاف
شرح فرما تو ہی اے عنقائے قاف
’’ من رانی ‘‘ منہ زبانی جس کی ہے
ہے اسی کا آئنہ ہر ایک شے
تو ہی خود کہہ یا نہ کہہ سن یا نہ سن
لوٹ ہے جب آسماں برسائے ہن
سطح پر جاری ہے ساری لہر بہر
قعر میں چپ رہ کہ ہے دریائے قہر
سطح کیسی قعر کیا ساحل کجا
بحر ہے لا ابتدا لا انتہا
تیری مجلس مجلس اللہ تھی
دونوں عالم کی جہاں گم راہ تھی
اس کے ہوتے ہستی عالم کہاں
دن نکل آیا تو پھر شبنم کہاں
آپ غالب ہے وہ اپنے امر پر
لیکن اکثر آدمی ہیں بے خبر
تا لب دریا ہیں آثار و طریق
عین دریا میں ہیں سب راہیں غریق
راہ گم ہونا ہے راہ مستقیم
حاشا للہ ثم باللہ العظیم
آپ کو گم کر کہ تو ہی راہ ہے
راہ کو طے کر حریم شاہ ہے
٭٭٭
(۵۷) صفت شیخ
شیخ کہتے ہیں اسے جو پیر ہو
بال بال ایسا کہ جوئے شیر ہو
کچھ نہ باقی ہو سیاہی کی جھلک
بن گیا ہو برف سر سے پانو تک
وہ سیاہی کیا ہے ؟ اوصاف بشر
مونچھ داڑھی کی سیاہی سے نہ ڈر
مونچھ داڑھی یا سیہ ہو یا سفید
ہو نہ ہو یاں کچھ نہیں اس کی قید
ہے سیہ بالوں سے ہستی مدعا
پیر وہ ہے جس نے دی ہستی مٹا
چھٹ گیا جو ہستی موہوم سے
مسند پیری پہ بیٹھا دھوم سے
اور اگر باقی ہے ہستی بال بھر
پیر نابالغ ہے وہ یعنی بشر
جس میں اوصاف بشر کی ہے لتھیڑ
شیخ وہ ہر گز نہیں الا ادھیڑ
کڑبڑی داڑھی نہیں مقبول حق
ہے ابھی تک اس میں ہستی کی رمق
جب نہ ہو باقی رواں کوئی سیاہ
تو سمجھئے اس کو شیخ دیں پناہ
لا کی کنگھی کڑبڑی داڑھی میں کر
تاکہ پر زاغ ہوں بگلے کے پر
٭٭٭
(۵۸) مناجات (۱)
خداوندگارا جہاز جہاں
ہے تیری مشیت کی رو میں رواں
سمندر ہے قدرت کا تیری بڑا
اور اس بحر میں یہ سفینہ پڑا
ہم اس میں سفر ختم کرتے ہوئے
مسافر ہیں چڑھتے اترتے ہوئے
تو ہی اس سفینہ کا ہے نا خدا
ہمارے تردد سے ہوتا ہے کیا
ترے حکم سے گرم رفتار ہے
مسافر کا اندیشہ بے کار ہے
جدھر تو جھکائے ادھر وہ جھکے
جہاں روک دے تو وہاں وہ رکے
جو ملاح تو ہے تو گھبرائیں کیوں ؟
نگہبان تو ہے تو چلائیں کیوں ؟
نہیں موج و طوفان کا کچھ خطر
کہ تو آپ ہے راہ رو راہ بر
ازل سے ابد تک ہے بس تو ہی تو
ترا جلوہ ہے عالم رنگ و بو
نہ ہوتا اگر تیرا لطف نہاں
تو ہم بزم ہستی میں ہوتے کہاں
ہیں تیری حمایت میں محفوظ سب
ہیں تیری عنایت سے محظوظ سب
نہ تھا عہد طفلی میں کچھ بھی وقوف
تو ہی پالتا تھا ہمیں اے رؤف
سبھی آفتوں سے بچایا ہمیں
کھلایا پلایا بڑھایا ہمیں
دئے تو نے ماں باپ کیسے شفیق
مہیا کئے تو نے کیا کیا رفیق
ہماری نہ کوشش نہ تدبیر تھی
ترا حکم تھا تیری تقدیر تھی
مگر جب سے پیدا ہوا کچھ شعور
تو جمیعت دل میں آیا فتور
غلط کار تھی یہ ہماری نظر
کہ ہم اپنی کوشش کا سمجھے اثر
ہمارے تشخص نے کھویا ہمیں
ہماری خودی نے ڈبویا ہمیں
پڑے حرص دنیا کے گرداب میں
رہے مبتلا اس شکر خواب میں
تردد میں غوطے لگایا کئے
تصور میں شکلیں بنایا کئے
ہوا ہم کو دیوانگی کا خلل
یہ تھوڑی سی فرصت یہ طول اہل
نہ سمجھا کبھی ہائے اپنا حساب
کہ ہم موج ہیں بحر ہیں یا حباب
کہاں سے ہم آئے کدھر جائیں گے
جئیں گے بھی کل تک کہ مر جائیں گے
یہ دنیا کے دھندے یہ معیشت کا غم
یہ دولت کی چسکے یہ جاہ و حشم
یہ عزت کی خواہش یہ راحت کی چاہ
ہمارے لئے بن گئیں سنگ راہ
تعلق کے پھندوں میں ہم پھنس گئے
تکلف کی دلدل میں ہم دھنس گئے
ہمیں نفس نے سخت دھوکا دیا
نہ کرنا تھا جو کام ہم نے کیا
گئی رائیگاں مفت عمر عزیز
نہ کی چیز نا چیز میں کچھ تمیز
گیا وقت اور ہاتھ آیا نہ کچھ
بہت کھو کے بھی ہم نے پایا نہ کچھ
یہ دنیا کہ دھوکے کی ٹٹی ہے سب
ہمیشہ رہی ہم کو اس کی طلب
دیا مشک خالص کو مٹی کے بھاؤ
بگڑنے کو سمجھا کئے ہم بناؤ
جسے عیش سمجھے تھے نکلا عذاب
جسے آب سمجھے تھے پایا سراب
دئے بے بہا لعل ہم نے فضول
عوض میں لیا کیا ؟ یہی خاک دھول
جواہر دئے سنگ ریزے لئے
نکمے کئے کام جتنے کئے
مگر بھیس میں گل کے آیا تھا خار
خزاں بن کے آئی تھی فصل بہار
جسے اصل سمجھے تھے بے اصل تھا
جسے وصل سمجھے تھے وہ فصل تھا
یہ تھا مرحلہ جس کو سمجھے تھے گھر
مہیا کیا کچھ نہ زاد سفر
کٹی عمر غفلت میں اپنی تمام
گیا دن گزر ہونے کو آئی ہے شام
پڑے بے خبر ہائے سوتے رہے
عبث نقد اوقات کھوتے رہے
کھلا بھید ہم نہ اس بات کا
کہ ہے یہ تماشا طلسمات کا
نہ سمجھے کہ ہے شعبدہ یہ جہاں
نیا سانگ ہوتا ہے ہر دم یہاں
توہم نے رستہ بھلایا ہمیں
کہ فانی کو باقی دکھایا ہمیں
یہ تیری ہی قدرت کا نیرنگ ہے
کہ نابود میں بود کا ڈھنگ ہے
سنے اس چمن میں عجب چہچہے
کہ چلتے مسافر کھڑے ہو رہے
ہے استاد کامل کی بازی گری (۱)
کہ خالی تھی مٹھی دکھا دی بھری
کھلایا سر راہ کیسا چمن (۲)
ہوا راہ رو کے لئے راہ زن
ہوس نے مچائی عجب دھوم دھام
سفر کو سمجھنے لگے ہم قیام
عجب نیستی نے دکھائی بہار
کہ پھولوں کے بدلے چنے ہم نے خار
گیا قافلہ دور ہم چھٹ گئے
چلے ایسے رستے کہ بس لٹ گئے
بسا اپنے کانوں میں ہے ایسا رس
سنائی نہ دی ہم کو بانگ جرس
کیا ناتوانی نے اب چور چور
ہوا وقت نا وقت منزل ہے دور
سفر کیونکہ تنہا کروں رات میں
لگے چور ہیں ہر طرف گھات میں
جو ٹھیروں تو بستی ہے بالکل اجاڑ
کھنڈر اور ویرانہ جنگل پہاڑ
نہ رہنے کا یارا نہ چلنے کی تاب
خداوندگارا، خبر لے شتاب
خدایا، کوئی یار و یاور نہیں
مگر تو کہ موجود ہے ہر کہیں
خدایا، نہیں ہے کوئی چارہ گر
مگر تو کہ ہے تجھ کو سب کی خبر
خدایا،نہیں ہے کوئی دستگیر
مگر تو کہ ہے تو سمیع و بصیر
خدایا، نہیں ہے کوئی غمگسار
مگر تو کہ ہے سب کا پروردگار
ازل میں نہ تھا میں نہ میری دعا
ترا لطف تھا اور تیری عطا
دیا جسم بھی تو نے اور جان بھی
دیا زندگانی کا سامان بھی
کیا تو نے آراستہ یہ مکاں
بلایا کرم سے ہمیں میہماں
کیا میہمانی کا سامان خوب
مرتب کیا خوان الوان خوب
ہوائے لطیف اور آب زلال
دئے اپنے مہمان کو بے سوال
دئے خاک نے کیا ذخیرے اگل
خوش آئندہ پھول اور پسندیدہ پھل
دئے جس نمونہ کے دانے بکھیر
اسی جنس کا لگ گیا ایک ڈھیر
یہ عمدہ غذا اور فاخر لباس
یہ رہنے کو ایوان محکم اساس
بتانے کو رستہ دئے راہ بر
بلایا جنھوں نے تری راہ پر
نہ کوششوں کا ہماری صلہ
عنایت سے تیری ملا جو ملا
دیا تو نے کیا کچھ بغیر التماس
غرض تیرے الطاف ہیں بے قیاس
لجاجت سے خاموش کیونکر ہوں میں
کہ تیری عنایت کا خوگر ہوں میں
بھلا اب کروں وہم و وسواس کیوں
قبول دعا کی نہ ہو آس کیوں
شہنشاہ کا جب کرم عام ہو
تو درویش کو کیوں نہ ابرام ہو
وہ غم دے کہ ہو جائیں سب غم غلط
نہ ہو اور کچھ تو ہی تو ہو فقط
نہ کچھ فکر شادی و غم کار ہے
نہ کچھ دغدغہ بیش و کم کار ہے
چلیں شادی و غم کے جھونکے ہزار
مرے دل کو جنبش نہ ہو زینہار
اگر غرق طوفاں ہو کل کائنات
نہ پھسلے کبھی میرا پائے ثبات
ترے لطف کا ہو سہارا اگر
تو غالب ہو تنکا بھی سیلاب پر
جو تیری حمایت کا فانوس ہو
تو آندھی سے کیا خوف ہے شمع کو
اگر فضل کا تیرے لنگر ملے
تلاطم سے ہر گز نہ کشتی ہلے
جو تیری مدد ناخدائی کرے
تو پھر کوئی طوفان سے کیوں ڈرے
مرے دل پہ برسا دے ایسی پھہار
کہ دب جائے غفلت کا گرد و غبار
مرے دل کو اوہام سے پاک کر
مجھے اپنے رستہ میں چالاک کر
تیقن کا یا رب نکال آفتاب
توہم کا دل سے اٹھادے حجاب
ترے عشق سے گرم سینہ رہے
نہ مرنا رہے اور نہ جینا رہے
کہوں درد دل کس سے اے بے نیاز
نہیں کوئی تیرے سوا چارہ ساز
جلا دے معاصی کے سب خار و خس
ہے نار محبت کا اک شعلہ بس
خدایا وہ کامل نظر دے مجھے
کہ میں ذرہ ذرہ میں دیکھوں تجھے
مرے سر کو تسلیم کا تاج دے
مجھے قرب کی اپنے معراج دے
ریاض رضا کی دکھا دے بہار
شکایت کا دل سے مٹا دے غبار
رہے کچھ نہ فکر کثیر و قلیل
پڑھوں حسبی اللہ نعم الوکیل
مجھے صبر دے جو کبھی کم نہ ہو
بلاؤں کے حملہ کا کچھ غم نہ ہو
خدایا عطا کردہ نیت کھری
طمع سے منزہ ریا سے بری
مجھے صدق دے حسن اخلاص دے
مجھے فضل کا خلعت خاص دے
مرے عزم کو شوق کے پر لگا
کہ دوں بازی عشق میں سر لگا
تمنا ہے جب تک رہے دم میں دم
طلب میں رہوں تیری ثابت قدم
میں سوؤں تو سوؤں تری فکر میں
میں جاگوں تو جاگوں تیرے ذکر میں
لگا دے مرے منہ سے وہ جام پاک
پڑھے ہر بن مو ترا نام پاک
رہے دھیان میں کچھ نہ دوزخ بہشت
تری دید بن جائے میری سر شت
مجھے رنگ دے پانو سے تا بفرق
خم صبغۃ اللہ میں کر کے غرق
مرے دل سے زنگ دوئی دور کر
مرے دل کو وحدت سے معمور کر
نہ لیلیٰ رہے اور نہ مجنوں رہے
فقط عشق کا ایک مضموں رہے
رہے عشق میں رات دن سوز و ساز
کروں شوق کی میں حکایت دراز
دیار محبت سے چل اے نسیم
سنگھا دے گل معرفت کی شمیم
گلستاں نہیں پنکھڑی ہی سہی
ہمیشہ نہیں دو گھڑی ہی سہی
سنا دے طیور صفا کی چہک
گل معرفت کی اڑا لا مہک
نکالوں کلیجہ سے ہجراں کا خار
ملوں منہ پہ گلگونہ وصل یار
یقین کی لپٹ سے بسا دے دماغ (۱)
طریق وطن کا لگا دے سراغ
پڑی کنج فرقت میں ہے عندلیب (۲)
نہیں سیر گلزار اس کو نصیب
قفس میں کرے تابکے اعتکاف
کرا دے حطیم چمن کا طواف
لگے روضہ انس کی جب ہوا
تو ہوں پچھلے شکوے گلے سب ہوا
ہوا و ہوس سے دل برباد ہو
ترا شغل ہو اور تری یاد ہو
نہ ساغر رہے نہ ساقی رہے
سوا تیرے کوئی نہ باقی رہے
نگاہوں میں ہو جلوہ گر تو ہی تو
ہر اک گل میں پاؤں ترا رنگ و بو
کروں فہم تجھ کو ہر اک بات سے
سنوں تیرا نغمہ جمادات سے
چڑھے جام وحدت کا ایسا خمار
کہ اغیار سمجھوں کسی کو نہ یار
کہوں اور سنوں خود بنوں چشم و گوش
مری بے خودی پہ ہوں قربان ہوش
تیرا جلوہ دیکھوں نہاں اور عیاں
نہ پائے مگر مجھ کو میرا نشاں
تیری یاد میں محو ہو جاؤں میں
کسی شے کو ڈھونڈوں تجھے پاؤں میں
ملے مجھ کو ہر گز نہ میرا پتا
نہ سمجھوں کہ میں کون تھا اور کیا
تیرے بادہ عشق سے ہو کے مست
سنوں گوش جاں سے ندائے الست
رہے ماسوا کا نہ ذرہ خیال
مجھے ایک ہو جائے ماضی و حال
خلا اور ملا میں نہ ہو وہم غیر
کروں بے خودی میں خدائی کی سیر
مرے وصف بن جائیں تیری صفات
مری زیست ہو جائے تیری حیات
یہاں تک میں یکساں اور یکسو بنوں
کہ تو میں بنے اور میں تو بنوں
بصارت ہو تیری بصارت میں غرق
سماعت ہو تیری سماعت میں غرق
مری بات بن جائے تیرا کلام
میری چال ہو جائے تیرا خرام
مٹے وہم باطل نظر آئے حق
پڑھوں پتے پتے سے تیرا سبق
چمک تیری دیکھوں ہر اک سنگ میں
سنوں راگ تیرا ہر آہنگ میں
تیری شان پاؤں ہر انداز سے
ترا لہجہ سمجھوں ہر آواز سے
لگا دل پہ درد محبت کی چوٹ
جو پتا بھی کھڑکے تو میں جاؤں لوٹ
جو بلبل کا نغمہ پڑے کان میں
تو ہو شور برپا مری جان میں
نوا سنگ ہو طوطی سبز پر
تو میں اپنی ہستی سے جاؤں گزر
جو شاخوں پہ قمری کی کوں کوں سنوں
تری یاد میں اپنے سر کو دھنوں
جو گلشن میں دیکھوں کہ ہیں گل کھلے
ترے ذوق میں میری گردن ہلے
کرے چہچہے طائروں کا ہجوم
گردن وجد میں خاک پر جھوم جھوم
جو دیکھوں کہ ہلتی ہے شاخ نہال
گزر جائے پردوں سے میرا خیال
جو دیکھوں میں تاروں بھری رات کو
کروں دل سے ساقط اضافات کو
چمکتے ہوئے دیکھ کر مہر و ماہ
کروں پیروی خلیل الہ
رہ راست کی کر ہدایت مجھے
سلامت روی کر عنایت مجھے
غضب سے ترے مانگتا ہوں پناہ
الگ ان سے رکھ جو گئے بھول راہ
اگر مغفرت سے نہ پیش آئے تو
اگر مجھ پر نہ رحم فرمائے تو
تو میرا ٹھکانہ نہیں پھر کہیں
نہ دنیا نہ عقبیٰ نہ ایمان و دیں
مجھے اپنی دانش کا ساغر پلا
رہے تشنگی کا نہ باقی گلا
نہ چھوڑوں گا دامن ترا اے کریم
ترا لطف شامل ہے رحمت عمیم
خدایا مری خواہشوں پر نہ جا
جو تیری رضا ہے وہی ہے بجا
تقاضا میرا سخت معیوب ہے
جو مرضی ہے تیری وہی خوب ہے
تری ذات دانائے اسرار ہے
سبھی نیک و بد سے خبردار ہے
کر اپنی ہی مرضی سے رد و قبول
کہ سائل ہے تیرا ظلوم و جہول
وہی خوب ہے جو ہے تجھ کو پسند
ہو آسودگی ظاہرا یا گزند
جس احوال سے تو رضامند ہے
اگر زہر بھی ہو تو گلقند ہے
بقول نظامی غفراں مآب
رکھ اپنے ہی قبضہ میں میرا حساب
سپر دم بتو مایہ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
کروں کس لئے غم رہوں کیوں اداس
کہ تو شاہ رگ سے زیادہ ہے پاس
زہے قرب تیرا زہے ہمدمی
نہ اس کو زوال اور نہ اس میں کمی
پتا اپنے ہوتے تری ذات کا
ہے سودا پکانا محالات کا
فنا سب کو دیتی ہے اس جا تھپک
کہ کان نمک میں نہیں جز نمک
مگر جو نظر میں سمایا ہے یہ
کمالات کا تیرے سایہ ہے یہ
نظر چاہئے اور صفا چاہئے
دل آئینہ ہے دیکھنا چاہئے
کروں مرکز قلب پر میں نگاہ
کہ نکلی یہاں سے دو عالم کی راہ
مگر دونوں عالم سے تو پاک ہے
نہ احساس ہے واں نہ ادراک ہے
کروں زمزمہ لے میں شیراز کی
کہ مستانہ دھن ہے اس آواز کی
رہ عقل جز پیچ بر پیچ نیست
بر عارفاں جز خدا ہیچ نیست
(۱) بفرمائش مولوی کریم بخش صاحب ڈپٹی کلکٹر مرحوم
٭٭٭
( ۵۹)غصہ کا ضبط
دل میں جب کوند جائے برق غضب
اور طبیعت ہو انتقام طلب
اس خطرناک راہ پر جو مرد
کر سکے آتش غضب کو سرد
ڈانٹ کر دیو نفس کو لے تھام
اور نہ لائے زباں پر سخت کلام
مشورت عقل کی سنے اس دم
ہے وہی اپنے وقت کا رستم
٭٭٭
(۶۰) ادب
ادب ہی سے انسان انسان ہے
نہ سیکھے ادب جو وہ حیوان ہے
جہاں میں پیارا نہ کیونکر ادب
کہ آدمیت کا زیور ادب
نہ ہو جس کو اچھے برے کی تمیز
نہ وہ گھر میں پیارا نہ باہر عزیز
بٹھاتے نہیں بے ادب کو قریب
یہ سچ بات ہے۔ بے ادب بے نصیب
٭٭٭
(۶۱) چغل خوری
چغلی ہے برا کام بچو اس سے ہمیشہ
جو لوگ ہیں بے شرم انھیں کا ہے یہ پیشہ
یہ لت ہے بری۔ اس سے نہیں ہاتھ کچھ آتا
اکثر تو چغلخور ہی ذلت ہے اٹھاتا
٭٭٭
(۶۲) آزادی غنیمت ہے
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو
بھلی اس محل سے۔ جہاں کچھ خطر ہو
٭٭٭
(۶۳) طلب خیر میں قناعت سے حرص بہتر ہے
جو طلب خیر میں قانع ہوا
اپنی ترقی کا وہ مانع ہوا
ایسی قناعت سے طمع خوب ہے
حرص ہی اس راہ میں محبوب ہے
٭٭٭
(۶۴) تکبر میں ذلت اور تواضع میں عزت
تکبر کیا ہے ؟ اک ایوان عالی
مگر ناموس اور عزت سے خالی
تواضع ایک تہ خانہ ہے جس میں
چھپی بیٹھی ہیں سب عزت کی قسمیں
٭٭٭
مثلث
اب آرام کرو
جھٹ پٹا سا ہو گیا ہے شام کا
اب کہاں باقی ہے موقع کام کا
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
قصد چڑیوں نے بسیرے کا کیا
ڈھونڈتی ہیں اپنا اپنا گھونسلہ
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
دیکھنا سورج ہے چھپنے کے قریب
تھم گئے چلتے مسافر بھی غریب
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
لو، کبوتر بھی گر پڑے پر جوڑ کر
لیں گے اپنے چھوٹے بچوں کی خبر
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
شام کو بستی سے باغوں کی طرف
اڑ چلے کوے بھی مل کر صف بہ صف
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
کھلبلی جو دن میں تھی مدھم پڑی
بھنبھناہٹ مکھیوں کی کم پڑی
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
جانور دن بھر قلانچیں بھر چکے
اپنا اپنا کام پورا کر چکے
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
یہ جو کٹ کٹ کر رہی ہیں مرغیاں
ڈھونڈتی ہیں اپنے دڑبے کا نشاں
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
بھیڑ۔ بکری۔ اونٹ۔ گھوڑا۔ گاؤ۔ خر
آن پہنچے اپنے اپنے تھان پر
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
اب ہوا کے تیز جھونکے رک گئے
سو گئے پیڑ اور پتے جھک گئے
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
لو سویرے تک ہمارا بھی سلام
وقت ہے نا وقت کیا کیجئے کلام
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
٭٭٭
مربع
اچھا زمانہ آنے والا ہے
۱
تنے گا مسرت کا اب شامیانہ
بجے گا محبت کا نقار خانہ
حمایت کا گائیں گے مل کر ترانہ
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۲
نہ ہم روشنی دن کی دیکھیں گے لیکن
چمک اپنی دکھلائیں گے اب بھلے دن
رکے گا نہ عالم ترقی کئے بن
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۳
ہر اک توپ سچ کی مددگار ہو گی
خیالات کی تیز تلوار ہو گی
اسی پر فقط جیت اور ہار ہو گی
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۴
زبان قلم سیف پر ہو گی غالب
دبیں گے نہ طاقت سے پھر حق کے طالب
کہ محکوم حق ہو گا دنیا کا قالب (۱)
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۵
زمانہ نسب کو نہ پوچھے گا ہے کیا
مگر وصف ذاتی کا ڈنکا بجے گا
اسی کو بڑا سب سے مانے گی دنیا
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۶
لڑائی کو انسان سمجھیں گے ڈائن
تفاخر پے ہو گی نہ قوموں میں ان بن
مشیخت کی خاطر اڑے گی نہ گردن
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
۷
عقیدوں کی مٹ جائے گی سب رقابت
مذاہب کو ہو گی تعصب سے فرصت
مگر ان کی بڑھ جائے گی اور طاقت
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٭٭٭
(۱) اصل میں بالفتح ہے مگر روزمرہ اردو کا بالکسر ہے۔
۸
کریں سب مدد ایک کی ایک مل کر
یہی بات واجب ہے ہر مرد و زن پر
لگے ہاتھ سب کا تو اٹھ جائے چھپر
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ ٭٭٭
مخمس
(۱) اک چھوٹی چیونٹی
بڑی عاقلہ ہے بہت دور بیں ہے
کہ فکر اپنی روزی کا تیرے تئیں ہے
اسی دھن میں پہنچی کہیں سے کہیں ہے
کبھی اپنے دھندے سے غافل نہیں ہے
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
نہیں کام سے شام تک تجھ کو فرصت
ذرا سی تو جان اور اس پر یہ محنت
بہت جھیلتی ہے مشقت مصیبت
نہیں ہارتی پر کبھی اپنی ہمت
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
کبھی کام تو نے ادھورا نہ چھوڑا
کبھی تو نے تکلیف سے منہ نہ موڑا
بہت کام تو نے کیا تھوڑا تھوڑا
ذخیرہ یہ جاڑے کی خاطر ہے جوڑا
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
جو گرمی کی رت میں نہ کرتی کمائی
تو جاڑے کے موسم میں مرتی بن آئی
تجھے ہوشیاری یہ کس نے سکھائی
سمجھتی ہے اپنی بھلائی برائی
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
نہ کھو وقت سستی میں مہلت ہے تھوڑی
وہی کام کر جس سے مالک ہو راضی
کہ جس نے تجھے زندگانی عطا کی
یہ عمدہ سبق ہم کو دیتی ہے چیونٹی
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
٭٭٭
(۲) کوشش کئے جاؤ
دکاں بند کر کے رہا بیٹھ جو
تو دی اس نے بالکل ہی ناؤ ڈبو
نہ بھاگو کبھی چھوڑ کر کام کو
توقع تو ہے خیر جو ہو سو ہو
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
جو پتھر پے پانی پڑے متصل
تو بے شبہ گھس جائے پتھر
رہو گے اگر تم یونہی مستقل
تو اک دن نتیجہ بھی جائے گا مل
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
یہ مانا مشکل بہت ہے سبق
برا ہے مگر اضطراب اور قلق
دوبارہ پڑھو پھر پڑھو ہر ورق
پڑھے جاؤ جب تک ہے باقی رمق
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
اگر طاق میں تم نے رکھ دی کتاب
تو کیا دو گے کل امتحاں میں جواب
نہ پڑھنے سے بہتر ہے پڑھنا جناب
کہ ہو جاؤ گے ایک دن کامیاب
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
نہ تم ہچکچاؤ نہ ہر گز ڈرو
جہاں تک بنے کام پورا کرو
مشقت اٹھاؤ مصیبت بھرو
طلب میں جیو۔ جستجو میں جیو
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
جو تم شیر دل ہو تو مارو شکار
کہ خالی نہ جائے گا مردوں کا وار
مشقت میں باقی نہ رکھنا ادھار
جو ہمت کرو گے تو بیڑا ہے پار
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
نہ بھاگو اگر مشکل آ جائے پیش
خوشی سے گوارا کرو نوش و نیش
بنو کاہلی سے نہ گو بر گنیش
وہی دے گا مرہم دیا جس نے نیش
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
جو بازی میں سبقت نہ لے جاؤ تم
خبردار، ہرگز نہ گھبراؤ تم
نہ ٹھٹکو نہ جھجھکو نہ پچھتاؤ تم
ذرا صبر کو کام فرماؤ تم
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
مقابل میں خم ٹھوک کر آؤ ہاں
پچھڑنے سے ڈرتے نہیں پہلواں
کرو پاس تم صبر کا امتحاں
نہ جائے گی محنت کبھی رائیگاں
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
زباں میں بھی ہے فائدہ کچھ نہ کچھ
تمہیں مل رہے گا صلہ کچھ نہ کچھ
ہر ایک درد کی ہے دوا کچھ نہ کچھ
کبھی تو لگے گا پتا کچھ نہ کچھ
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
تردد کو آنے نہ دو اپنے پاس
ہے بیہودہ خوف اور بیجا ہراس
رکھو دل کو مضبوط قایم حواس
کبھی کامیابی کی چھوڑو نہ آس
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
کرو شوق و ہمت کا جھنڈا بلند
کداؤ اولو العزمیوں کا سمند
اگر صبر سے تم سہو گے گزند
تو کہلاؤ گے ایک دن فتح مند
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
٭٭٭
(۳) میرا خدا میرے ساتھ ہے
ہے ہمیشہ میری خدا پے نظر
رات ہو دن ہو شام ہو کہ سحر
نہ اجالے میں ہے کسی کا ڈر
نہ اندھیرے میں کوئی خوف و خطر
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
شام کا وقت ہو یا سویرا ہو
چاندنی ہو کہ گپ اندھیرا ہو
مینہ نے آندھی نے مجھ کو گھیرا ہو
لیک پر ہول دل نہ میرا ہو
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
جب کہ طوفان کو ہو سناٹا
سخت اندھیاؤ کا چلے جھونکا
جڑ سے پیڑوں کو دے اکھیڑ ہوا
میرے دل میں نہ خوف ہو اصلا
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
ٹوٹ کر آسمان سے تارے
شب کو گرتے ہیں جیسے انگارے
وہم کرتے ہیں لوگ بے چارے
میں نہ گھبراؤں خوف کے مارے
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
چاند سورج کا دیکھ کر گہنا
میرے ہمجولیوں کو ہے کھٹکا
لوگ کرتے ہیں خوف کا چرچا
پر مجھے اس کی کچھ نہیں پروا
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
جب ستارہ طلوع ہو دم دار
دم ہو ایسی کہ چھوٹتا ہے انار
سب پے طاری ہوں خوف کے آثار
میرے بھاویں مگر نہ ہو زنہار
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
میرے رستہ میں ہو اگر میدان
یا پرانا کوئی کھنڈر سنسان
کوئی مرگھٹ ہو یا ہو قبرستان
نہ خطا ہوں وہاں مرے اوسان
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
ہو بیاباں میں گزر میرا
یا سمندر پے ہو سفر میرا
دور رہ جائے مجھ سے گھر میرا
رہے پھر بھی قوی جگر میرا
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
جب کہ دریا میں آئے طغیانی
اور ہاتھی ڈباؤ ہو پانی
پار کھیوا نہ ہو بآسانی
مجھ کو اندیشہ ہو نہ حیرانی
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
لشکروں کی جہاں چڑھائی ہو
شہ سواروں نے باگ اٹھائی ہو
اور گھمسان کی لڑائی ہو
واں بھی ہیبت نہ مجھ پہ چھائی ہو
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
٭٭٭
(۴) صبح کی آمد
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں سب کار بہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار و گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
میری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
میں سو سو طرح سے دی رہی ہوں دہائی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہر ایک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے
نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے
چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے
مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو اس وقت جنگل میں بوٹی جڑی ہے
سو وہ نولکھا ہار پہنے کھڑی ہے
کہ پچھلے کی ٹھنڈک سے شبنم پڑی ہے
عجب یہ سماں ہے عجب یہ گھڑی ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہرن چونک اٹھے چوکڑی بھر رہے ہیں
کلولیں ہرے کھیت میں کر رہے ہیں
ندی کے کنارے کھڑے چر رہے ہیں
غرض میرے جلوہ پہ سب مر رہے ہیں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں تاروں کی چھاں آن پہونچی یہاں تک
زمیں سے ہے جلوہ مرا آسماں تک
مجھے پاؤ گے دیکھتے ہو جہاں تک
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
پجاری کو مندر کے میں نے جگایا
موذن کو مسجد کے میں نے اٹھایا
بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا
اندھیرا گھٹایا۔ اجالا بڑھایا
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لدے قافلوں کے بھی منزل میں ڈیرے
کسانوں کے ہل چل پڑے منہ سویرے
چلے جال کندھے پہ لے کر مچھیرے
دلدر ہوئے دور آنے سے میرے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بگل اور طنبور سنکھ اور نوبت
بجانے لگے اپنی اپنی سبھی گت
چلی توپ بھی دن سے حضرت سلامت
نہیں خوب غفلت۔ نہیں خوب غفلت
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لو ہشیار ہو جاؤ اور آنکھ کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بڑی دھوم سے آئی میری سواری
جہاں میں ہوا اب میرا حکم جاری
ستارے چھپے رات اندھیری سدھاری
دکھائی دئے باغ اور کھیت کیاری
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں پورب سے پچھم پہ کرتی ہوں دھاوا
زمیں کے کرہ پر لگاتی ہوں کاوا
میں طے کر کے آئی ہوں چین اور جاوہ
نہیں کہتی کچھ تم سے اس کے علاوہ
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭٭٭
(۵) خدا قیصرہ الہند کو سلامت رکھے
عیش و طرب کے ہیں یہاں چہچہے
کون بھلا جبر کسی کا سہے
کیوں نہ تہ دل سے رعایا کہے
جب تک اس اقلیم میں گنگا بہے
قیصرہ الہند سلامت رہے
ہند کا اس عہد میں بدلا مزاج
عدل نے اس دور میں پایا رواج
جملہ مفاسد کا ہوا ہے علاج
سب کی تمنا ہے کہ با تخت و تاج
قیصرہ الہند سلامت رہے
بس کہ رعایا پے ہے وہ مہرباں
کرتی رعایا ہے نثار اس پے جاں
شرق سے تا غرب کراں تا کراں
ملک اس آہنگ میں ہے نغمہ خواں
قیصرہ الہند سلامت رہے
فتنہ تو اس دور سے بس دور ہے
صلح سے اور امن سے معمور ہے
عافیت اس وقت کا دستور ہے
اس لئے افواہ میں مذکور ہے
قیصرہ الہند سلامت رہے
شرق میں ہے فوج مظفر پڑی
غرب میں ہے سد سکندری کھڑی
نظم و سیاست میں نہیں گلجھڑی
سلطنت ہند نہ کیوں ہو بڑی
قیصرہ الہند سلامت رہے
ہر چم اقبال ہے اس کا بلند
دولت و حشمت کا رواں ہے سمند
دھاک ہے تا چین و خطا و یار قند
ہند کو ہو کس لئے خوف گزند
قیصرہ الہند سلامت رہے
زور قلم یا دم صمصام ہے
مد نظر منفعت عام ہے
نیکیوں کا نیک سر انجام ہے
سب کی دعا صبح تا شام ہے
قیصرہ الہند سلامت رہے
٭٭٭
نظم بے قافیہ
(۱) چڑیا کے بچے
دو تین چھوٹے بچے چڑیا کے گھونسلے میں
چپ چاپ لگ رہے ہیں سینہ سے اپنی ماں کے
چڑیا نے مامتا سے پھیلا کے دونو بازو
اپنے پروں کے اندر بچوں کو ڈھک لیا ہے
اس طرح روزمرہ کرتی ہے ماں حفاظت
سردی سے اور ہوا سے رکھتی ہے گرم ان کو
لیکن چڑا گیا ہے چگا تلاش کرنے
دانی کہیں کہیں سے پوٹے میں اپنے بھر کر
جب لائے گا۔ تو بچے منہ کھول دیں گے جھٹ پٹ
ان کو بھرائے گا وہ۔ ماں اور باپ دونوں
بچوں کی پرورش میں مصروف ہیں برابر
اور چھوٹے بچے خوش ہیں تکلیف کچھ نہیں ہے
اے چھوٹے چھوٹے بچو۔ تم اونچے گھونسلے سے
ہر گز نہیں گرو گے۔ پر اور پرزے اب تک
نکلے نہیں تمھارے اس واسطے ابھی تم
اونچے نہ اڑ سکو گے۔ ہاں جب تمھارے بازو
اور پر درست ہوں گے تو دن کی روشنی میں
سیکھو گے تم بھی اڑنا۔ کرتے پھرو گے چیں چیں
اڑتے پھرو گے پھر پھر اے چھوٹے بچو لیکن
کوا بری بلا ہے اس سے خدا بچائے
٭٭٭
(۲) تاروں بھری رات
ارے چھوٹے چھوٹے تارو
کہ چمک دمک رہے ہو
تمہیں دیکھ کر نہ ہووے
مجھے کس طرح تحیر
کہ تم اونچے آسماں پر
جو ہے کل جہاں سے اعلی
ہوئے روشن اس روش سے
کہ کسی نے جڑ دئے ہیں
گہر اور لعل گویا
جو ہیں آفتاب تاباں
نے چھپایا اپنا چہرہ
وہیں جلوہ گر ہوئے تم
یہ تمھاری جگمگاہٹ
ہے مسافروں کے حق میں
بڑی نعمت اور راحت
اگر اتنی روشنی بھی
نہ میسر آتی ان کو
تو غریب جنگلوں میں
یونہی بھولتے بھٹکتے
نہ تمیز راس و چپ کی
نہ طرف کی ہوتی اٹکل
نہ نشان راہ پاتے
وہ غریب کھیت والے
وہ امیدوار دہقاں
کہ کھڑی ہے جن کی کھیتی
کہیں کھیت کٹ رہا ہے
کہیں گہہ رہا ہے خرمن
نہیں آنکھ ان کی جھپکی
یونہی شام سے سحر تک
ہیں تمام رات جاگے
نہ گھڑی ہے واں نہ گھنٹہ
نہ شمار وقت و ساعت
مگر اے چمکنے والو
ہو تمہیں انھیں سجھاتے
کہ گئی ہے رات اتنی
وہ جہاز جن کے آگے
ہے وسیع بحر اعظم
انھیں ہولناک موجوں
سے مقابلہ ہے کرنا
کوئی ہے چلا وطن
کوئی آ رہا ہے واپس
انھیں کچھ خبر نہیں ہے
کہ کدھر ہے ان کی منزل
نہ تو مرحلہ نہ چوکی
نہ سراغ راہ کا ہے
نہ کوئی دلیل رہبر
مگر اے فلک کے تارو
تمہیں ان کے رہنما ہو
٭٭٭
مسدس
(۱) ماں کی مامتا
مامتا ماں کی جانتے ہیں سب
ماں ہے بچے کی پرورش کا سبب
بھوک بچے کو ہے ستاتی جب
ماں سے کرتا ہے رو کے دودھ طلب
دودھ دیتی ہے پیار کرتی ہے
جان اس پہ نثار کرتی ہے
بچہ سینے سے جو رہا ہے چمٹ
نہیں لے سکتی بے دھڑک کروٹ
پانو کی بھی نہ ہو ذرا آہت
کبھی ننھے بچے کی نیند جائے اچٹ
اوں اوں کرتی تھپکتی جاتی ہے
ہولے ہولے سرکتی جاتی ہے
جب رہا وہ نہالچہ پر سو
چھوٹے تکیے لگا دئے دو دو
کئے سب کام تھے ضروری جو
پر نہیں بھولتی بچے کو
لیتی رہتی ہے ماں خبر ہر دم
اپنے بچے پہ ہے نظر ہر دم
ماں کو آرام کی فرصت کہاں
سوئی بے ڈھب تو آ گئی شامت
کپڑے لتوں کی ہو گئی کیا گت
ہے بچھونا بھی تر بتر لت پت
صبح اٹھ کر کھنگالتی ہے تمام
جاڑے پالے کا وقت اور یہ کام
بچہ اتنے میں چونک اٹھا سو کے
ناک میں دم کیا ہے رو رو کے
ماں نے پھر لے لیا ہے خوش ہو کے
نیا کرتہ بدل کے منہ ہاتھ دھو کے
باتیں کرتی ہے پیار سے جوں جوں
بولتا ہے جواب میں آغوں
رات کو لوریاں سناتی ہے
گود میں لے کے بیٹھ جاتی ہے
کس قدر زحمتیں اٹھاتی ہے
بچہ ہے اور ماں کی چھاتی ہے
کبھی کنڈی بجا کے بہلایا
کبھی کندھے لگا کے ٹہلایا
ماں کداتی ہے اچھالتی ہے اسے
دیکھتی اور بھالتی ہے اسے
ہر طرح پر سنبھالتی ہے اسے
اللہ آمین سے پالتی ہے اسے
دیکھ کر اس چاند سا مکھڑا
بھول جاتی ہے اپنا سب دکھڑا
جب لگایا ہے آنکھ میں کاجل
پڑا بچہ کی تیوری پر بل
دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ڈالیں مل
بچہ بے چین ہے تو ماں بے کل
چپ کیا جھنجنا بجا کے اسے
سوئی خود پیشتر سلا کے اسے
ماں پکائے تو کھانا پکتا ہے
اور بچہ ادھر بلکتا ہے
کبھی پرچھائیں ماں کی تکتا ہے
کبھی روتا کبھی ٹھٹکتا ہے
کھانا پکتا ہے نام ہی کو بس
لگے ہاتھوں لیا ہے بھون بھلس
اس کا ہپا جدا پکاتی ہے
انگلیوں سے اسے چٹاتی ہے
باتیں کرنا اسے بتاتی ہے
پانوں چلنا اسے سکھاتی ہے
ماں کو بچہ سے جو محبت ہے
درحقیقت خدا کی رحمت ہے
اتفاقا جو ہو گیا بیمار
پھوڑا پھنسی ہے یا زکام بخار
پھر تو ہر وقت ہے گلے کا ہار
ماں کو اس سے زیادہ ہے آزار
اپنے آپے کا کچھ نہیں ہے ہوش
بیٹھی ہے بت بنی ہوئی خاموش
وہم سے دل ہے کانپتا تھر تھر
اڑ رہی ہیں ہوائیاں منہ پر
ہے فقط فضل پر خدا کے نظر
مانگتی ہے دعائیں رو رو کر
پڑ گئی کان میں کچھ اور بھنک
لگی ہونے کلیجہ میں دھک دھک
دشمنوں کا نہیں ہے جی اچھا
ماں کو اک ہول ہو گئی پیدا
پھر تو دنیا جہاں کی ہے دوا
ٹوم چھلے کا منہ ذرا نہ کیا
ہوت آن ہوت کا نہیں کچھ غم
رہے بچہ کی خیریت جم جم
چاؤ اور چونچلوں سے پلتا ہے
آخرش پاؤں پاؤں چلتا ہے
گھر سے باہر بھی جا نکلتا ہے
کھیلتا کودتا۔ اچھلتا ہے
جب کہیں چوٹ پھینٹ ہے کھاتا
ماں ہی ماں کہہ کے ہے وہ چلاتا
چیخ کو سن کے دوڑی بیچاری
آنسو ٹپ ٹپ ہیں آنکھ سے جاری
ہوئی بچہ پے صدقے اور واری
کون کرتا ہے یوں خبرداری
جھٹ کلیجے سے لگا لیا ماں نے
جھاڑا۔ پونچھا اٹھا لیا ماں نے
اب تو اک اور ہو گیا کھٹکا
جا کے اونچی منڈیر پر لٹکا
ماں نے بہتیرا اپنا سر پٹکا
گر پڑا تو نہ کھائے گا پٹکا
پھر دبے پاؤں جا کے لائی اتار
دیا آہستہ ایک طمانچہ مار
خیر سے اب تو کام کرتا ہے
روز مکتب میں شام کرتا ہے
کیا ادب سے کلام کرتا ہے
سب کو جھک کر سلام کرتا ہے
ماں چٹا چٹ بلائیں لیتی ہے
پیار کرتی دعائیں دیتی ہے
٭٭٭
(۲) مرثیہ سید اقبال احمد مرحوم (۱)
شب کو تھی تپ کے سبب سے مجھے آشفتہ سری
جب سحر ہونے کو آئی تو ہوئی بے خبری
ناگہاں آئی صدا کان میں وحشت بھری
برق جاں سوز تھی وہ تار کی پیغام بری
ہائے اقبال ترے نام کے تھے ساتھ لکھے
ایسے الفاظ کہ کٹ جائے اگر ہاتھ لکھے
آنکھ اے کاش نہ آتے تجھے وہ حرف نظر
کان بہرا نہ ہوا کیوں کہ نہ سنتا یہ خبر
عقل کھوئی نہ گئی کیوں کہ نہ کرتی باور
دل ہی اے کاش نہ ہوتا تو نہ ہوتا مضطر
ہائے اقبال، سنا گو کہ ترے مرنے کو
جی نہیں چاہتا زنہار یقیں کرنے کو
تیرے بچوں کو نہیں حادثہ غم کی خبر
گو کہ سیلاب بلا سر سے گیا ان کے گزر
جب بڑے ہوں گے کڑھائے گی انھیں یاد پدر
تو ہی بتلا کہ تسلی انھیں ہو گی کیونکر
اس مصیبت کی نہیں انھیں پہچان ابھی
پوچھتا پھرتا ہے سب سے تجھے احسان ابھی
تیری کشتی میں کئی ایک مسافر تھے غریب
حیف، پہنچا نہ گیا ان کو تو ساحل کے قریب
کشتی ٹوٹی ہوئی اور جوش پہ طوفان مہیب
ڈھونڈتے ہیں تجھے گھبرا کے وہ برگشتہ نصیب
آہ منجدھار میں چھوڑا ہے سفینہ تو نے
کئی بد بختوں کا کٹوایا ہے سینہ تو نے
جو ابھی حلقہ ماتم کو سمجھتے ہیں برات
ان کہ چہرے پہ جمی گرد یتیمی ہیہات
سینہ کہتا ہے شعلے مجھے بھڑکانے دو
آہ کہتی ہے مج کو بھی نکل جانے دو
آنکھیں کہتی ہیں آنسو ہمیں برسانے دو
دل کی خواہش ہے کہ چپ چاپ ہی غم کھانے دو
صبر کہتا ہے کہ لو میں تو چلا ہاتھوں سے
منہ کو آتا ہے کلیجہ مرا ان باتوں سے
(۱) سید اقبال احمد ہمشیرہ زادہ مصنف نے یکایک بعمر ۲۲ سال ۱۹۰۳ عیسوی میں انتقال کیا۔ مصنف کو اس عزیز سے خاص الفت تھی۔ اس مرثیہ کا مسودہ بھی گم ہو گیا۔ یہ چند بیت جو یاد تھے یہاں لکھے گئے۔
٭٭٭
(۳) مرثیہ پلیونا (۱)
تھی صبح شب تار کی مانند کہر سے
آتی تھی نظر فوج ادھر سے نہ ادھر سے
جو چیز کہ تھی سامنے غائب تھی نظر سے
دشوار تھا اس وقت گزر راہ گزر سے
ناگاہ قدم روس کے لشکر نے بڑھایا
جنگاہ میں لشکر کو ہر افسر نے بڑھایا
اس معرکہ سخت میں تھا زار بھی موجود
اور لشکر روسی کا سپھدار بھی موجود
رومانیہ کا والی غدار بھی موجود
جنرل تھے بڑے نامی و جرار بھی موجود
رومانیہ اور روس کے لشکر ہوئے باہم
دو بحر تھے اک کوہ کی جنبش پہ فراہم
رشیا نے کئے جمع سوا لاکھ سپاہی
تھی شاق زبس حملہ اول کی تباہی
نقصان گزشتہ کی مکافات جو چاہی
دکھلائی بڑی دھوم سے اب شوکت شاہی
باقی نہ رہی جائے بجز خیمہ و خرگاہ
صحرائے پلونہ میں ہوئی بند گزرگاہ
میداں میں ہوئی تین طرف فوج مقرر
جنگ آور و جرار مقرر ہوئے افسر
تھا سلسلہ توپوں کا ہر اک سمت برابر
یوں وادی و کہسار میں پھیلے تھے ستمگر
پلٹن پہ تھی پلٹن تو رسالہ پہ رسالہ
روسی تھے پلونا پہ کہ مہتاب پہ ہالہ
اس وقت دیا دمدمہ ترک نے پیغام
ہے مستعد جنگ صف لشکر اسلام
او روس خبردار بس آگے نہ بڑھے گام
یہ توپ کا گولہ ہے تمھارے لئے انعام
عثمان دلاور کے وہی شیر کھڑے ہیں
پہچانتے ہو حملہ اول میں لڑے ہیں
جب زار نے عثمان پہ کی تاخت دوبارہ
جو زور تھا لشکر کا وہ ڈالا وہیں سارا
اور آن کے میداں میں ہوا خود بھی صف آرا
لیکن نہ دیا قسمت و اژگوں نے سہارا
ہر حملہ میں اوندھا ہی پڑا زار کا لشکر
قسمت نہ لڑی گرچہ لڑا زار کا لشکر
براقی سنگین سے تھی آنکھ جھپکتی
شمشیر بھی تھی صاعقہ کردار لپکتی
اور گولیہ گولی متواتر تھی ٹپکتی
میداں میں قضا پھرتی تھی کشتوں کو تھپکتی
بندوق شرربار سے جلتا تھا بیاباں
توپوں کے گرجنے سے دہلتا تھا بیاباں
لشکر کی چڑھائی تھی کہ دریا کی چڑھائی
تھی کوہ و بیاباں پہ گھٹا سی امنڈ آئی
دھوں دھاں کے سوا کچھ بھی نہ دیتا تھا سنائی
فوجوں کے سوا کچھ بھی نہ دیتا تھا دکھائی
ہتھیار ہر اک سمت چمکتے تھے جھما جھم
اور حادثہ جنگ تھا تیزی پہ دما دم
(۱) اس مرثیہ کے بہت سے بند تھے جو اتفاق سے گم ہو گئے یہ چند متفرق بند ان لوگوں سے دستیاب ہوئے جن کو یاد تھے۔۔
٭٭٭
(۴) متفرقات
ضعیفوں پے زور آزمایا تو کیا
ستائے ہوؤں کو ستایا تو کیا
کسی دل جلے کو جلایا تو کیا
فساد فتنہ اٹھایا تو کیا
نہ پکڑا کبھی دل کے اندر کا چور
نہ توڑا کبھی نفس سرکش کا زور
٭٭٭
(۱) مثمن
مشعر کیفیت قلعہ اکبر آباد موسوم بہ آثار سلف
یا رب، یہ کسی مشعل کشتہ کا دھواں ہے
یا گلشن برباد کی یہ فصل خزاں ہے
یا برہمی بزم کی فریاد و فغاں ہے
یا قافلہ رفتہ کا پس خیمہ رواں ہے
ہاں دور گزشتہ کی مہابت کا نشاں ہے
بانی عمارت کا جلال اس عیاں ہے
اڑتا تھا یہاں پرچم جم جاہی اکبر
بجتا تھا یہاں کوس شہنشاہی اکبر
باہر سے نظر ڈالئے اس قلعہ پہ یک چند
برپا ہے لب آب جمن صورت الوند
گویا کہ ہے اک سورما مضبوط تنو مند
یا ہند کا رجپوت ہے یا ترک سمرقند
کیا بارہ سنگین کا پہنا ہے قزاگند
رینی کا قزاگند پہ باندھا ہے کمر بند
مسدود ہے خندق سے رہ فتنہ و آشوب
ارباب تمرد کے لئے برج ہیں سرکوب
تعمیر در قلعہ بھی البتہ ہے موزوں
پر شوکت و ذی شان ہے اس کا رخ بیروں
کی ہے شعرا نے صفت طاق فریدوں
معلوم نہیں اس سے وہ کمتر تھا کہ افزوں
گو ہم سر کیواں ہے نہ ہم پلہ گردوں
محراب کی ہیئت سے ٹپکتا ہے یہ مضموں
پیلان گراں سلسلہ با ہودج زرین
اس در سے گزرتے تھے بصد رونق و تزئیں
اکبر سا کبھی مخزن تدبیر یہاں تھا
یا طنطنہ دور جہاں گیر یہاں تھا
یا شاہ جہاں مرجع توقیر یہاں تھا
یا مجمع ذی رتبہ مشاہیر یہاں تھا
القصہ کبھی عالم تصویر یہاں تھا
دنیا سے سوا جلوہ تقدیر یہاں تھا
بہتا تھا اسی کاخ میں دولت کا سمندر
تھے جشن ملوکانہ اسی قصر کے اندر
وہ قصر معلی کہ جہاں عام تھا دربار
آئینہ نمط صاف ہیں جس کے در و دیوار
اور سقف زر اندوز ہے مانند چمن زار
اور فرش ہے مرمر کا مگر چشمہ انوار
اب بانگ نقیب اس میں نہ چاؤش کی للکار
سرہنگ کمر بستہ نہ وہ مجمع حضار
کہتا ہے کبھی مرکز اقبال تھا میں بھی
ہاں، قبلہ گہ عظمت و اجلال تھا میں بھی
جب تک کہ مشیت کو مرا وقر تھا منظور
نافذ تھا زمانہ میں مری جاہ کا منشور
شاہان معاصار کا معین تھا یہ دستور
کرتے تھے سفیران ذوی القدر کو مامور
تا میری زیارت سے کریں چشم کو پر نور
آوازہ میری شان کا پہونچا تھا بہت دور
اکناف جہاں میں تھا مرا دبدبہ طاری
تسلیم کو جھکتے تھے یہاں ہفت ہزاری
وہ چتر وہ دیہم وہ سامان کہاں ہیں
وہ شاہ وہ نوئین۔ وہ خاقان کہاں ہیں
وہ بخشی و دستور۔ وہ دیوان کہاں ہیں
خدام و ادب اور وہ دربان کہاں ہیں
وہ دولت مغلیہ کے ارکان کہاں ہیں
فیضی و ابوالفضل سے اعیان کہاں ہیں
سنسان ہے ، وہ شاہ نشین آج صد افسوس
ہوتے تھے جہاں خان و خوانین زمیں بوس
وہ بارگہہ خاص کی پاکیزہ عمارت
تاباں تھے جہاں نیر شاہی و وزارت
بڑھتی تھی جہاں نظم و سیاست کی مہارت
آتی تھی جہاں فتح ممالک کی بشارت
جوں شحنہ معزول پڑی ہے وہ اکارت
سیاح کیا کرتے ہیں اب اس کی زیارت
کہتا ہے سخن فہم سے یوں کتبہ دروں کا
تھا مخزن اسرار یہی تاج وروں کا
اورنگ سیہ رنگ جو قائم ہے لب بام
بوسہ جسے دیتا تھا ہر اک زبدہ عظام
اشعار میں ثبت اس پہ جہاں گیر کا ہے نام
شاعر کا قلم اس کی بقا لکھتا ہے ما دام
پر صاف نظر آتا ہے کچھ اور ہی انجام
سالم نہیں چھوڑے گی اسے گردش ایام
فرسودگی دھر نے شق اب تو کیا ہے
آیندہ کی نسلوں کو سبق خوب دیا ہے
ہاں، کس لئے خاموش ہے او، تخت جگر ریش
کس غم میں سیہ پوش ہے ؟ کیا سوگ ہے درپیش
کملی ہے تیرے دوش پہ کیوں صورت درویش
جوگی ہے ترا پنتھ۔ کہ صوفی ہے ترا کیش
بولا کہ زمانہ نے دیا نوش کبھی نیش
صدیاں مجھے گزری ہیں یہاں تین کم و بیش
صدقے کبھی مجھ پر گہر و لعل ہوئے تھے
شاہان معظم کے قدم میں نے چھوئے تھے
وہ رنگ محل برج مثمن کا وہ انداز
صفت میں ہے بے مثل تو رفعت میں سرافراز
یاں مطرب خوش لہجہ کی تھی گونجتی آواز
گہہ ہند کی دھرپت تھی کبھی نغمہ شیراز
اب کون ہے بتلائے جو کیفیت آغاز
زنہار کوئی جاہ و حشم پر نہ کرے ناز
جن تاروں کے پرتو سے تھا یہ برج منور
اب ان کا مقابر میں تہ خاک ہے بستر
اس عہد کا باقی کوئی ساماں ہے نہ اسباب
فوارے شکستہ ہیں تو سب حوض ہیں بے آب
وہ جام بلوریں ہیں نہ وہ گوہر نایاب
وہ چلمن زرتار نہ وہ بستر کمخواب
ہنگامہ جو گزرا ہے سو افسانہ تھا یا خواب
یہ معرض خدام تھا وہ موقف حجاب
وہ بزم نہ وہ دور نہ وہ جام نہ ساقی
ہاں طاق و رواق۔ اور در و بام ہیں باقی
مستور سرا پردہ عصمت میں تھے جو گل
سو دودہ ترک اور مغل ہی نہ تھے کل
کچھ خیری فرغانہ تھے۔ کچھ لالہ کابل
پھر مولسری ہند کی ان میں گئی مل جل
تعمیر کے انداز کو دیکھو بہ تامل
تاتاری و ہندی ہے بہم شان و تجمل
سیاح جہاں دیدہ کے نزدیک یہ تعمیر
اکبر کے خیالات مرکب کی ہے تصویر
درشن کے جھروکے کی پڑی تھی یہیں بنیاد
ہوتی تھی تلا دان میں کیا کیا دہش و داد
وہ عدل کی زنجیر ہوئی تھی یہیں ایجاد
جو سمع شہنشاہ میں پہنچاتی تھی فریاد
وہ نورجہاں اور جہاں گیر کی افتاد
اس کاخ ہمایوں کو بہ تفصیل ہے سب یاد
ہر چند کہ بے کار یہ تعمیر پڑی ہے
قدر اس کی مورخ کی نگاہوں میں پڑی ہے
اب دیکھئے وہ مسجد و حمام زنانہ
وہ نہر۔ وہ حوض اور وہ پانی کا خزانہ
صنعت میں ہر اک چیز ہے یکتا و یگانہ
ہے طرز عمارت سے عیاں شان شہانہ
کیا ہو گئے وہ لوگ کہاں ہے وہ زمانہ؟
ہر سنگ کے لب پر ہے غم اندوز ترانہ
چغتائیہ گلزار کی یہ فصل خزاں ہے
ممتاز محل ہے نہ یہاں نورجہاں ہے
وہ قصر جہاں جودھپوری رہتی تھی بائی
تھی دولت و ثروت نے جہاں دھوم مچائی
دیکھا اسے جا کر تو بری گت نظر آئی
صحنوں میں جمی گھاس تو دیواروں پہ کائی
گویا درو دیوار پہ دیتے ہیں دہائی
ممکن نہیں طوفان حوادث سے رہائی
جس گھر میں تھے نسریں و سمن یا گل لالہ
اب نسل ابابیل میں ہے اس کا قبالہ
وہ مسجد زیبا کہ ہے اس بزم کی دلہن
خوبی میں یگانہ ہے ولے سادہ و پر فن
محراب و در و بام ہیں سب نور کا مسکن
موتی سے ہیں دالان تو ہے دود سا آنگن
کافور کا تودہ ہے کہ الماس کا معدن
یا فجر کا مطلع ہے۔ کہ خود روز ہے روشن
بلور کا ہے قاعدہ یا نور کا ہے راس
باطل سی ہوئی جاتی ہے یاں قوت احساس
ہاتھوں نے ہنرمند کے اک سحر کیا ہے
سانچہ میں عمارت کو مگر ڈھال دیا ہے
یا تار نظر سے کہیں پتھر کو سیا ہے
مرمر میں مہ و مہر کا سا نور و ضیا ہے
گو شمع نہ فانوس نہ بتی نہ دیا ہے
ہاں، چشمہ خورشید سے آب اس نے پیا ہے
چلئے جو یہاں سے تو نظر کہتی ہے فی الفور
نظارہ کی دو مجھ کو اجازت کوئی دم اور
مسجد نے اشارہ کیا پتھر کی زبانی
اس قلعہ میں ہوں شاہجہاں کی میں نشانی
کچھ شوکت ماضی کی کہی اس نے کہانی
کچھ حالت موجودہ بایں سحر بیانی
ان حجروں میں ہے شمع نہ اس حوض میں پانی
فواروں کے دل میں بھی ہے اک درد نہانی
تسبیح نہ تہلیل نہ تکبیر و اذاں ہے
بس گوشہ تنہائی ہے اور قفل گراں ہے
جمگھٹ تھا کبھی یاں وزرا و امرا کا
مجمع تھا کبھی یاں صلحا و علما کا
چرچا تھا شب و روز یہاں ذکر خدا کا
ہوتا تھا ادا خطبہ سدا حمد و ثنا کا
اک قافلہ ٹھیرا تھا یہاں عز و علا کا
جو کچھ تھا۔ گذر جانے میں جھونکا تھا ہوا کا
ہیں اب تو نمازی میرے باقی یہی دو تین
یا دھوپ ہے یا چاندنی یا سایہ مسکین
وہ دور ہے باقی نہ وہ ایام و لیالی
جو واقعہ حسی تھا سو ہے آج خیالی
ہر کوشک و ایوان ہر اک منزل عالی
عبرت سے ہے پر اور مکینوں سے ہے خالی
آقا نہ خداوند۔ اہالی نہ موالی
جز ذات خدا کوئی نہ وارث ہے نہ والی
یہ جملہ محلات جو سنسان پڑے ہیں
پتھر کا کلیجہ کئے حیران کھڑے ہیں
جب کند ہوئی دولت مغلیہ کی تلوار
اور لوٹ لیا جاٹ نے ایوان طلاکار
تب لیک جو تھا لشکر انگلش کا سپہدار
افواج مخالف سے ہوا بر سر پیکار
یہ بارہ و برج اور یہ ایوان یہ دیوار
کچھ ٹوٹ گئے ضرب سے گولوں کی بہ ناچار
ہے گردش ایام کے حملوں کی کسے تاب
پھر قلعہ اکبر ہی میں تھا کیا پر سرخاب
آخر کو لٹیروں کی شکستہ ہوئی قوت
اونچا ہوا سرکار کے اقبال کا رایت
لہرانے لگا پھر علم امن و حفاظت
آثار قدیمہ کی لگی ہونے مرمت
یہ بات نہ ہوتی تو پہونچتی وہی نوبت
دیوار گری آج۔تو کل بیٹھ گئی چھت
حکام زماں کی جو نہ ہوتی نگرانی
رہ سکتی نہ محفوظ یہ مغلیہ نشانی
ارباب خرد چشم بصیرت سے کریں غور
اکبر کی بنا اس سے بھی پائندہ ہے اک اور
سردی کی جفا جس پہ نہ گرمی کا چلے جور
ہر چند گزر جائیں بہت قرن بہت دور
برسوں یونہی پھرتے رہیں برج حمل و ثور
اس میں نہ خلل آئے کسی نوع کسی طور
انجینیروں کی بھی مرمت سے بری ہے
وہ حصن حصیں کیا ہے ؟ فقط ناموری ہے
او اکبر ذیجاہ، تیری عزت و تمکیں
محتاج مرمت ہے نہ مستلزم تزئیں
کندہ ہیں دلوں میں تری الفت کی فرامیں
ہے تیری محبت کی بنا اک دژ رو میں
پشتوں سے رعایا میں بہ آئین وراثت
قائم چلی آتی ہے تیرے نام کی عظمت
بکرم کی سبھا کو تیری صحبت نے بھلایا
اور بھوج کا دورہ تیری شہرت نے بھلایا
ارجن کو تیری جرات و ہمت نے بھلایا
کسری کا ترے دور عدالت نے بھلایا
اسکندر و جم کو تری شوکت نے بھلایا
پچھلوں کو غرض تیری عنایت نے بھلایا
آتے ہیں زیارت کو تو اب تک ہے یہ معمول
زائر تری تربت پہ چڑھا جاتے ہیں دو پھول
ہو کہنہ و فرسودہ ترا قلعہ تو کیا غم
شہرت ہے تیرے نام کی سو قلعوں سے محکم
بھرتا ہے ہر اک فرقہ محبت کا تری دم
لکھتے ہیں مورخ بھی تجھے اکبر اعظم
رتبہ ہے ترا ہند کے شاہوں میں مسلم
یہ ٍفخر ترے واسطے زنہار نہین کم
گو خاک میں مل جائے ترے عہد کی تعمیر
ہے کتبہ عزت ترا ہر سینہ میں تحریر
ہاں، قوم کے نو عمر جوانو ادھر آؤ
ہے دیدہ بینا تو اسے کام میں لاؤ
آثار صنادید کی عینک کو لگاؤ
عبرت کی نگاہوں کو پس و پیش پھراؤ
راہ طلب و شوق میں اک شمع جلاؤ
گنجینہ اعزاز کو پانا ہے تو پاؤ
یہ نقش و نگار در و دیوار شکستہ
دیکھو تمہیں دکھلاتے ہیں آیندہ کا رستہ
اسلاف نے اگر کی تھی ملکوں پہ چڑھائی
یا کاخ حکومت کی تھی بنیاد اٹھائی
یا طرح کئے کوشک سیمیں و طلائی
یا بحر میں کشتی تجارت تھی چلائی
یا کشور تہذیب میں کی قلعہ کشائی
کس برتے پہ یہ کام تھے آخر میرے بھائی
جب بحر مصائب کو شنا کر کے ہوئے پار
تب دہر مخالف بھی ہوا غاشیہ بردار
عزت کی ملی تھی انھیں جاگیر دوامی
دولت کے طرفدار تھے اور دین کے حامی
خصلت میں خوشامد تھی نہ عادت میں غلامی
رسموں میں خرابی تھی نہ اطوار میں خامی
گر فہم و فراست کی مجالس میں تھے نامی
تدبیر ممالک میں تھے وہ صدر گرامی
گر فتح و ظفر میں تھے سکندر سے بھی زیادہ
تھے دانش و حکمت میں ارسطو کے بھی دادہ
کیا کیا طلب علم میں کرتے تھے جگر خوں
لیلی تھا اگر علم تو وہ لوگ تھے مجنوں
کچھ بو علی سینا ہی نہ تھا رشک فلاطوں
بہتوں نے کدایا یونہی تحقیق کا گلگوں
مدت کی کہانی ہے اگر سیرت ماموں
تاریخ میں دیکھو سبب مرگ ہمایوں
اکبر بھی تھا آخر اسی تہ جرعہ کا مخمور
تھا فیضی علامہ اس کام پہ مامور
یہ کہنہ عمارات کہ ہیں وقف تباہی
اسلاف کے اوصاف پہ دیتی ہیں گواہی
صرف اصل و نسب ہی پہ نہ تھے اپنی مباہی
مکتب میں تھے استاد ریاضی و الٰہی
میدان مساعی میں تھے اک مرد سپاہی
زیبا تھا انھیں چتر جہاں بانی و شاہی
کنیاتے تھے محنت سے نے آلام سے تھکتے
کوشش کی گھٹا میں تھے وہ بجلی سے کڑکتے
وہ عیش کے مملوک تھے نے بندہ راحت
گلگشت چمن زار تھی گویا انھیں عزت
برداشت جفا کرتے تھے سہتے تھے صعوبت
اوروں کے بھروسے پہ نہ کرتے تھے معیشت
دنیا کے کسی کام میں ہیٹی نہ تھی ہمت
بے غیرتی زنہار نہ تھی ان کی جبلت
ہمت میں تھے شاہین تو جرات میں تھے شہباز
عزت کی بلندی پہ کیا کرتے تھے پرواز
وہ صولت و سطوت میں تھے جوں شیر نیستاں
عزت کے لئے جاں بھی کیا کرتے تھے قرباں
تھا انجمن عیش سے خوشتر انھیں میداں
محنت کے بودے تھے نہ مشقت سے گریزاں
دشوار تھی بے حرمتی اور ننگ مگر ہاں
آسان تھی نیزہ کی انی۔ تیر کا پیکاں
خیرات کے ٹکڑے پہ نہ گرتے تھے وہ حاشا
تھا نعل بہا ان کو یہ دولت کا تماشا
وہ کعبہ مقصود تھے یا قبلہ حاجات
کس منہ سے بزرگوں پہ کریں فخر و مباہات
سر اپنے گریباں میں ذرا ڈالئے ہیہات
اوصاف اضافی سے نہیں کچھ شرف ذات
تلوار میں جب کوئی اصالت کی نہ ہو بات
گاہک تو نہ پوچھے گا۔ یہ کس کان کی ہے دھات
بندوق دم صید گر اچھی نہ چلی ہو
مردود ہے گو لندن و پیرس میں ڈھلی ہو
دل اپنی ستائش سے نہ بہلائیے حضرت
اس راہ میں دھوکا نہ کہیں کھائیے حضرت
شیخی کو بہت کام نہ فرمائیے حضرت
شعلہ کو تعلی کے نہ بھڑکائیے حضرت
آبا کی بزرگی پہ نہ اترائیے حضرت
یہ گو ہے یہ میدان۔ ادھر آئیے حضرت
اب بھی تو وہی خیر سے نسل شرفا ہے
آخر سبب اس نیک سر انجام کا کیا ہے
کیوں قوم کی حالت میں تنزل کا پڑا ڈھنگ
کیوں انجمن عیش پرستی کا جما رنگ
کیوں تیغ شرافت کو دنائت کا لگا زنگ
مغلوب سفاہت ہوئے کیوں دانش و فرہنگ
روباہ بنے کس لئے شیران صف جنگ
کیوں بارگی عزم ہوا دون خر لنگ
کیوں ٹوٹ گئے باز عمل کے پر و بازو
کیوں ذروہ عزت پہ لگا بولنے الو
جڑ پہلے زمانہ میں جمی جیسے شجر کی
لذت ہمیں چکھنی ہے ضرور اس کے ثمر کی
بے شک ہے یہ پاداش اسی شور کے شر کی
ہاں مستحق اولاد ہے میراث پدر کی
تفتیش کرو دوستو۔ اخبار و سیر کی
فہرست مرتب کرو ہر عیب و ہنر کی
دو ڈیڑھ صدی پہلے سے جو اپنا ڈھچر تھا
انصاف سے دیکھو اسے کیا پوچ و پچر تھا
جو راہنمائی کو چلے آپ تھے گمراہ
حالات سے واقف نہ مقامات سے آگاہ
شیروں کی جگہ جمع ہوا گلہ روباہ
ہر کرمک شب تاب بنا مدعی ماہ
ہر شخص کو تھی خود غرضی سے طلب جاہ
ویسے ہی امیرالامرا جیسے شہنشاہ
رسم حسد و بغض و عداوت ہوئی تازہ
آخر کو اٹھا دولت و عزت کا جنازہ
وہ غور کے غزنیں کے دلیران ظفر مند
وہ شاہ سواران بخارا و سمرقند
جو ہند کے خطے میں ہوئے خاک کے پیوند
جی اٹھتے دوبارہ اگر ان میں سے تنے چند
ہاں ہلہ اول میں تو ہوتے ہی وہ خرسند
پھولے نہ سماتے کہ ہمارے ہیں یہ فرزند
پر دیکھتے جب ان کے برے فعل برے قول
جا بیٹھتے قبروں ہی میں پڑھتے ہوئے لاحول
کیا حال تھا حضرات ملوک اور امرا کا
انبوہ تھا بیہودہ مشاغل کی بلا کا
یا فوج کنیزوں کی تھی اک قہر خدا کا
یا بولتا طوطی تھا کسی خواجہ سرا کا
یا شور خوشامد کا تھا یا مدح و ثنا کا
سفلے تھے مشیر اور مصاحب تھے چھچھورے
وہ عقل کے دشمن تو حضور ان سے بھی کورے
کاسد (۱) ہوا بازار ہر اک طرز عمل کا
عالم نظر آتا ہے بتر آج سے کل کا
مفلس ہیں تو پیشہ ہے فریب و دغل کا
اندیشہ نہیں کچھ انھیں ایماں کے خلل کا
مدت سے ڈھانچ بگڑا اہل دول کا
چکھا ہے مزہ خوب ہی اسراف کے پھل کا
اب کوئی اگر دولت قومی کی کرے جانچ
ٹٹ پونجیئے البتہ نکل آئیں گے دس پانچ
اب نام کو ہم میں جو گروہ شرفا ہے
سو حالت افلاس میں جینے سے خفا ہے
یا شامت اعمال سے پامال جفا ہے
کچھ حسن معیشت نہ کہیں صدق و صفا ہے
کچھ دولت دنیا ہے تو بے مہر و وفا ہے
کچھ دین کا چرچا ہے تو وہ رو بہ قضا ہے
چھائے گی تنزل کی ابھی ہم پہ گھٹا اور
ہم اور ہوا میں ہیں۔ زمانہ کی ہوا اور
جو لوگ یہ سمجھے کہ ہیں صرف اپنے لئے ہم
اغراض و مقاصد ہیں فقط اپنے مقدم
یاروں کی انھیں فکر نہ غیروں کا انھیں غم
ہمدرد عشیرت ہیں نہ ہمسائیوں کے ہمدم
وہ فہم و فراست میں بہائم سے بھی ہیں کم
یا سنگ ہیں یا خشت ہیں جائیں بہ جہنم
ان مردہ دلوں سے تو کرو قطع نظر بس
لے ڈوبیں گے تم کو بھی چلے ان کا اگر بس
(۱) پہلے ایڈیشن میں یہ پانچ بند غلطی سے شائع نہیں ہوئے۔
جو قوم کے اوصاف تھے۔ سو ان میں سے اکثر
آپس کی کشاکش میں گلا گھٹ کے گئے مر
غمخواری و احسان و مروت کا لٹا گھر
انصاف کا اور دین دیانت کا کٹا سر
نیکوں سے ہوئے بد۔ تو بدوں سے ہوئے بدتر
کاشانہ دولت کی جگہ رہ گئے چھپر
جو کام تھے یاروں کے سو گردن زدنی تھے
خود اپنے لئے مستعد بیخ کنی تھے
جرات تھی سو آپس کی عداوت میں ہوئی صرف
قوت تھی۔ سو رشک اور رقابت میں میں ہوئی صرف
شوکت تھی۔ سو خود بینی و نخوت میں ہوئی صرف
فرصت تھی سو بیکاری و غفلت میں ہوئی صرف
عزت تھی۔ سو افلاس و فلاکت میں ہوئی صرف
دولت تھی سو عیاشی و عشرت میں ہوئی صرف
اس وقت ہمیں عاقبت الامر ہوا ہوش
جب رہ گئے ہم لوگ بیک بینی و دو گوش
مدت سے زمانہ میں ترقی کا پھنکا صور
عالم میں بجا اور ہی تحقیق کا طنبور
آفاق میں پھیلا نئی ایجاد کا منشور
خورشید برآمد ہوا بھاگی شب دیجور
ہم دے کے ڈھئی کلبہ احزاں میں بدستور
سوتے رہے غفلت میں پڑے بے خود و مخمور
نا وقت کھلی آنکھ تو حیراں ہیں اب ہم
ہم کون ہیں کیا چیز ہیں اے وائے عجب ہم
ہم چاہتے ہیں عیش بھی اور ناموری بھی
دولت بھی ہمیں چاہئے اور بے ہنری بھی
اعزاز بھی مطلوب ہے بیہودہ سری بھی
آوارگی منظور ہے اور راہبری بھی
مقصود رفو بھی ہے مگر جامہ دری بھی
گر پستی ہمت ہے تو عالی نظری بھی
یہ بات تو ہو گی نہ ہوئی ہے کبھی آگے
پھرتے ہیں محالات کے پیچھے یونہی بھاگے
خیر اب کوئی تدبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کفارہ تقصیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ چارہ تاخیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس حال کو تغئیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
فریاد مین تاثیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس خواب کی تعبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ بھی نہیں دشوار اگر ٹھان لو جی میں
گھنٹوں میں ہو وہ کام جو ہوتا ہو صدی میں
بے کوشش و بے جہد ثمر کس کو ملا ہے
بے غوطہ زنی گنج گہر کس کو ملا ہے
بے خون پئے لقمہ تر کس کو ملا ہے
بے جور کشی تاج ظفر کس کو ملا ہے
بے خاک کے چھانے ہوئے زر کس کو ملا ہے
بے کاوش جاں علم و ہنر کس کو ملا ہے
جو رتبہ والا کے سزاوار ہوئے ہیں
وہ پہلے مصیبت کے طلبگار ہوئے ہیں
کوشش ہی نے اجرام سماوی کو ہے تولا
کوشش ہی نے طبقات زمیں کو ہے ٹٹولا
کوشش ہی نے رستہ نئی دنیا کا ہے کھولا
کوشش ہی نے گوہر ہے تہہ بحر سے رولا
کوشش ہی کا طوطی ہے سدا دہر میں بولا
کوشش ہے غرض طرفہ طلسمات کا گولا
قدرت نے فتوحات کی رکھی ہے یہی راہ
سعی اپنی طرف سے ہو تو اتمام من اللہ
ہیں آج کل اسکول کے کمرے صف ہیجا
سرمایۂ عم و ہنر و فضل ہے یغما
ہر قوم کا پر مال غنیمت سے ہے کیسا
لیکن تمہیں کچھ سود و زیاں کی نہیں پروا
کیوں قوم کے اعزاز کی لٹیا کو ڈبویا
کیوں کسب کمالات میں تم ہو گئے پس پا
اوروں سے تو بودے نہ تھے مانا کہ تم ایسے
میدان سے کیوں بھاگ گئے نوک دم ایسے
ہر چند کہ دعوی تھا تمھیں سیف و قلم کا
تھا فخر تمھیں نسل عرب و عجم کا
لیکن نہ رہا طرز وہ عادات و شیم کا
سیکھا نہ وتیرہ کوئی ارباب ہمم کا
ناچار ہر اک قوم نے تم کو لیا دھمکا
بے سعی کسی کا بھی ستارہ نہیں چمکا
تم راہ طلب میں ہو اگر اب بھی شتاباں
ہو کوکب عزت افق دہر پہ تاباں
اب تک بھی سکت ہے وہی ہڈی میں تمھاری
اب تک بھی وہی خوں ہے شرائین میں جاری
افغانی و ترکی و حجازی و تتاری
ایرانی و تورانی و بلخی و بخاری
اے دوستو، ہمت ہی مگر تم نے تو ہاری
اس واسطے بس کرکری شیخی ہوئی ساری
مد علما دفتر قومی میں ہے خالی
فارابی و طوسی ہیں نہ رازی و غزالی
تلواروں کا سایہ تھا جنھیں سایہ طوبی
جولان گہہ ہمت تھی جنھیں وسعت دنیا
تھا ریگ رواں جن کے لئے بستر دیبا
اور خیمہ اطلس تھا یہی قبہ خضرا
ہے تم کو اگر ان کے خلف ہونے کا دعوے
دکھلاؤ حریفوں کے مقابل ہنر اپنا
ترتیب سے جم جاؤ قرینہ بقرینہ
میدان ترقی میں لڑو سینہ بہ سینہ
یہ جنگ نہیں توپ کی یا تیغ و تبر کی
اس جنگ میں کچھ جان کی جوکھوں ہے نہ زر کی
یہ جنگ ہے اخلاق کی اور علم و ہنر کی
یہ جنگ ہے تحصیل عمل اور نظر کی
اس جنگ میں آسودگی ہے نوع بشر کی
آزادی ہے ملکوں کی تو آبادی ہے گھر کی
یہ جنگ نہیں وضع مروت کے منافی
اس جنگ سے مافات کی ممکن ہے تلافی
ہے جنگ سے مقصود بلندی ارادہ
وہ ہم سے زیادہ ہوں تو ہم ان سے زیادہ
رستہ ہو تعصب کا نہ کینہ کا ہو جادہ
نقش حسد و بعض سے افعال ہوں سادہ
دل صاف رہے اور طبیعت بھی کشادہ
اس طور سے حاصل کرو عزت کا وسادہ
گر جوہر ہمت ہے تو سبقت میں کرو کد
نامردی و مردی قدمے فاصلہ دارد
باقی ہے اگر جوش حمیت کا حرارہ
تو معرکہ علم میں ہو جاؤ صف آرا
جاں ڈال دو ناموس کے قالب میں دوبارا
پیچھے نہ ہٹاؤ قدم عزم خدارا
ذلت نہیں ہوتی کبھی مردوں کو گوارا
چمکو فلک جاہ پہ تم بن کے ستارا
آبا نے کیا فتح جو بنگال و دکن کو
تسخیر کرو تم عمل و علم کو فن کو
ادنی سا بھی ہر کام ہے اب علم کا محکوم
بے علم ہے جو قوم سو حال اس کا ہے معلوم
دولت سے ہے بیگانہ تو عزت سے ہے محروم
اقوال کمینہ ہیں تو افعال ہیں مذموم
ارباب ہنر کی کرہ ارض پہ ہے دھوم
سب حلقہ بگوش ان کے ہیں وہ سب کے ہیں محکوم
دنیا میں اسی قوم کا گلزار ہے پھولا
جو رکھتی ہے دانش میں ہنر میں ید طولا
تم جانتے ہو خوب کہ انسان ہے فانی
فانی ہے بلا شبہ مگر اس کی نشانی
کیا اس کی نشانی ہے سنو میری زبانی
امثال میں مذکور ہے پچھلوں کی کہانی
خوش بخت تھے وہ۔ کر گئے جو فیض رسانی
بدبخت تھے مغلوب صفات حیوانی
گر تم بھی یونہی اٹھ گئے حیوان سے رہ کر
آیندہ کی نسلیں تمھیں کیا روئیں گی کہہ کر
پھل خدمت قومی ہے اگر نخل ہیں اقوال
تن خدمت قومی ہے اگر جامہ ہیں افعال
جان خدمت قومی ہے اگر جسم ہیں اعمال
ملحوظ رکھو خدمت قومی کو بہر حال
پر نفع یہ ہی شغل ہے من جملہ اشغال
جو زندہ جاوید ہیں ان کی ہے یہی چال
پر الفت قومی سے ہے جن کا رگ و ریشہ
مرنے کو تو مرتے ہیں۔ پر جیتے ہیں ہمیشہ
قوت ہے اگر دل میں دماغوں میں ہے طاقت
پہنچاؤ بہم حسن بیاں اور طلاقت
اصلاح معائب میں کرو صرف لیاقت
دکھلاؤ مریضوں کو مداوا میں حداقت
رکھو نہ غریبوں پہ روا طعن حماقت
قومی ضعفا کی نہ کرو ترک رفاقت
کیا دولت ہستی ہے پئے نفس پرستی
آباد کرو قوم کی اجڑی ہوئی بستی
ہے قوم اگر باغ تو تم اس کے شجر ہو
ہے قوم اگر نخل تو تم اس کے ثمر ہو
ہے قوم اگر آنکھ تو تم نور بصر ہو
ہے قوم اگر چرغ تو تم شمس و قمر ہو
ہے قوم اگر کاں تو تم لعل و گہر ہو
نظارگی ہے قوم۔ تو تم مد نظر ہو
موسی بنو اور قوم کو ذلت سے بچاؤ
گوسالہ غفلت کی پرستش کو چھڑاؤ
او باغ خزاں دیدہ کے نوخیز نہالو
او ساحت ہستی کے نئے دوڑنے والو
مضبوط کرو دل کو طبیعت کو سنبھالو
کچھ دور نہیں۔ منزل مقصود کو جا لو
ہاں، مد مقابل بنو ہتھیار نہ ڈالو
میداں ترقی کی زمیں سر پہ اٹھا لو
زنہار گوارا نہ کرو ننگ ہزیمت
موقع ہے ابھی گرم کرو رخش عزیمت
غیرت ہو تو گر کر بھی سنبھلنا نہیں مشکل
جرات ہو تو نرغہ سے نکلنا نہیں مشکل
ہو صبر تو آفات کا ٹلنا نہیں مشکل
ہو آنچ تو پتھر کا پگھلنا نہیں مشکل
ہمت ہو تو حالت کا بدلنا نہیں مشکل
انجن ہو تو گاڑی کا بھی چلنا نہیں مشکل
گرمی سے کرو پہلے بخارات مہیا
پیدا حرکت ہو تو لگے گھومنے پہیا
ہمت ہی حرارت ہے وہی ہے حرکت بھی
ہمت ہی سے ہر قوم نے پائی ہے ترقی
گر چیونٹی تیمور کی ہمت نہ بندھاتی
ہتھیار بھی بے کار تھے اور فوج نکمی
ہمت ہے سر انجام مہمات کی کنجی
ہمت ہی حقیقت میں ہے توفیق الٰہی
ہمت ہی بنا دیتی ہے مفلس کو تونگر
ہمت کے سفینہ کا اٹھادیجئے لنگر
ہمت ہے اگر تم میں تو میدان لیا مار
ڈٹ جاؤ کمر باندھ کے ہشیار، خبردار
اوروں ہی کے گنڈے پہ نہ رہنا کبھی زنہار
ہونے نہ دو اعزاز کے جھنڈے کو نگونسار
لو ہاتھ میں اب تم بھی کوئل پین کی تلوار
اس معرکہ سخت میں مردانہ کرو وار
ہاں قوت بازو سے بلا شرکت غیرے
آگے کو بڑھو کھول دو نصرت کے پھریرے
قسمت کی برائی ہے نہ تقدیر کا ہے پھیر
خود اپنے ہی کرتوت سے برپا ہے یہ اندھیر
تحصیل فضائل میں جوانو، نہ کرو دیر
فرصت کو اگر اور مگر میں نہ کرو تیر
بزدل نہ بنو حق نے بایا ہے تمھیں شیر
کہسار بھی ہو تو اسے کر دو زبر و زیر
یلغار کرو علم کے میداں میں عزیزو
آخر تو ہو تم قوم مسلماں میں عزیزو
جس (۱) بستی میں دیکھو نحوست ہے برستی
غالب ہے کہ ہو گی وہ اسی قوم کی بستی
گرتی چلی جاتی ہے ابھی جانب پستی
چلتی ہے فضولی کی سند، تیغ و دوستی
لے دے کے یہی جنس ہے اس دور میں سستی
فاقہ پہ ہے فاقہ مگر اب تک وہی ہستی
مل بیٹھ کے اندیشہ انجام نہ کرنا
روٹی ملے جس کام سے وہ کام نہ کرنا
خیل علما کی بھی حمیت ہوئی زائل
تبدیل رذائل سے ہوئے جملہ فضائل
مرتے ہیں مشیخت پے تفاخر پے ہیں مائل
چھپتے ہیں فریقین سے پر زہر مسائل
لاکھوں ہیں پڑے خنجر تکفیر کے گھائل
باعث ہیں جدل کے یہی فقیہہ مسائل
برپا ہے شب و روز یہاں چپقلش ایسی
عالم ہے لقب اور بہم کش مکش کیسی
(۱) یہ دو بند بھی منجملہ ان پانچ بندوں کے ہیں جو اب تک آثار سلف کے کسی اڈیشن میں شائع نہیں ہوئے تھے۔
٭٭٭
انسان (۱)
میں بھی کیا خوب ہوں مجھ پہ نہ کھلا راز اپنا
نہ تو انجام ہے معلوم نہ آغاز اپنا
شاید اس بزم میں ہے مرتبہ ممتاز اپنا
لیکن اوروں سے نرالا ہے کچھ انداز اپنا
ہوں تو بے قدر پہ مجموعہ کل عالم ہوں
میں ہی مسجود ملائک ہوں اگر آدم ہوں
ابرو باد و مہ و خورشید میرے کام میں ہیں
مرغ و ماہی و دو و دام میرے دام میں ہیں
آب و آتش میری خدمت کے سر انجام میں ہیں
کل جمادی و نباتی مرے خدام میں ہیں
مجھ میں قدرت نے عجب فضل و شرف رکھا ہے
میں نے فردوس کے میووں کا مزہ چکھا ہے
(۱) صرف دو بند ایک مسودہ میں ملے جا یہاں درج کئے گئے۔ مرتبہ ۱۸۸۰ عیسوی
٭٭٭
ترجیع بند
(۱) نالہ چند در فراق شیخ
اے، شاہ یگانہ زمانہ
اے، بحر محیط بے کرانہ
کیوں اہل نیاز کے سروں سے
خالی ہے یہ سنگ آستانہ
وہ محفل انس اب کدھر ہے
یارب ہے، کہاں وہ کارخانہ
وہ بزم نہ وہ جمال ساقی
وہ جام نہ وہ مئے خانہ
وہ طور ہے اب نہ وہ تجلی
وہ وقت ہے اب نہ وہ زمانہ
کیا ہو گیا، جلوہ سحر گاہ
کیا ہو گئی، صحبت شبانہ
ہے دل میں ابھی وہی تصور
ہے یاد ہنوز وہ فسانہ
وہ فصل نہ وہ بہار باقی
وہ گل نہ چمن نہ آشیانہ
رہتی ہے اچاٹ سی طبیعت
ملتا ہی نہیں کہیں ٹھکانہ
جان حسرت دید میں طپاں ہے
دل تیر فراق کا نشانہ
ساحل پر پڑے ہیں سب مسافر
کشتی کس طرف ہوئی روانہ
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے، کعبہ خاص و قبلہ عالم
تھی تیری گلی مقام احرام
تھا امن جاں حریم اقدس
آغاز کا غم نہ خوف انجام
سب محو تھے ظل عاطفت میں
خطرات و خیال و فکر و اوہام
اس بحر محیط میں تھے سب گم
نیکی و بدی و کفر و اسلام
پر شور تھے بے لب و دہاں ہم
سر مست بدون بادہ و جام
مشغول جمال بے سر و چشم
مصروف سفر بغیر اقدام
دریا ہوا اک عطا سے قطرہ
پختہ ہوا اک نگاہ سے خام
کیخسرو و کیقباد سے بھی
تھے بخت بلند تیرے خدام
دیکھا اب ہجر چار ناچار
دیکھی فرقت بھی کام نا کام
کہہ دیجیو اے نسیم، یہ بات
لے جائیو اے صبا، یہ پیغام
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
ہوتی ہے جہاں میں کم کوئی ذات
بے علت و نسبت و اضافات
خورشید تھا وہ وجود با جود
دریا تھی وہ ذات فیض آیات
دیرینہ نہنگ بحر توحید
مردانہ قلندر خرابات
سلطان جہاں ترک و تجرید
شہباز معارف نہایات
نے میل مراتب و مدارج
نے رغبت کشف نے کرامات
ملتی تھی مراد طالبوں کو
اس در سے بدون عرض حاجات
اس بات کی ہو گئی گرہ وا
دل میں بھی نہ تھی ہنوز جو بات
خلوت میں ترا جمال مفتاح
جلوت میں ترا کلام مشکواہ
کیا تھی ؟ وہ نظر سحاب رحمت
کیا تھا ؟ وہ زمانہ فصل برسات
وہ وقت نہ وہ زمانہ افسوس
وہ لطف نہ وہ بہار ہیہات
اک آن کی آن تھی حضوری
اک بات کی بات تھی ملاقات
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے بحر حقیقت خدائی
اے جلوہ شان کبریائی
باقی نہیں کوئی مشغلہ اب
رندی ہی رہی نہ پارسائی
شاہی کا نہیں خیال سر میں
جی میں نہیں حسرت گدائی
نے بند قفس نہ شوق پرواز
باقی ہے نہ قید نے رہائی
نے حرص و ہوا نہ کچھ توکل
نے برگ و نوا نہ بے نوائی
نے فکر قصیدہ ہائے عطار
نے ذکر حدیقہ سنائی
نے قرب نوافل و فرائض
نے تنگ دلی نہ دلکشائی
بندہ نہ خدا نہ دین و دنیا
کی آپ نے خوب ہی صفائی
لیکن نہ مٹا غبار فرقت
ہر چند کہ طاقت آزمائی
مشکل ہوا کاٹنا دنوں کا
دشوار ہوئی تری جدائی
دل سینہ میں ہے کہ برق بیتاب
اندوہ کی اک گھٹا ہے چھائی
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
ایام وصال بھی تھے کیا دن
راتیں تھیں مراد مدعا دن
محسوس نہ تھا کہاں کٹی رات
معلوم نہ تھا کدھر گیا دن
کیا جلد گزر گئے وہ دن حیف
ہوتا کوئی اور بھی سوا دن
تھی رات بہت دنوں سے اچھی
راتوں سے زیادہ خوب تھا دن
تھی بزم وصال دن ہو یا رات
تھی دید جمال۔ شب ہو یا دن
دنیا میں بزرگ تھی وہی رات
تھا عمر میں بس وہی بڑا دن
ہر صبح عجیب۔ شام نادر
ہر رعات جدید۔ اور نیا دن
تھی دن کو خوشی کہ اب ہوئی رات
تھی شب کو مسرت اب ہوا دن
عالم کو زبس کہ ہے تغیر
رہتے نہیں ایک سے سدا دن
تھا خواب و خیال وہ زمانہ
بجلی ہوئی رات اور ہوا دن
دن رات یہی فغاں ہے لب پر
وہ رات رہی نہ وہ رہا دن
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے قبلہ عالم معانی
سلطان جہان بے نشانی
اے بحر معارف و حقائق
شاہنشہ ملک جاودانی
آگاہ مقاصد برونی
دانائے خواطر نہانی
یک رنگ و یگانہ و یک آئیں
بے فرق مکانی و زمانی
خصلت میں عجیب دلنوازی
عادت میں کمال مہربانی
تھی آپ پہ ختم بذلہ سنجی
تھی آپ پہ ختم نکتہ دانی
باتوں میں طریق دلکشائی
لفظوں میں ادائے خوش بیانی
تھے گوہر قدس وہ اشارات
اور غیب سے تھی درفشانی
القصہ وہ احسن القصص تھی
جو بات سنی تری زبانی
آیا نہ پسند یاں کا رہنا
برباد ہو یہ سرائے فانی
جو کچھ گزرا سو تھا فسانہ
جو کچھ دیکھا سو تھی کہانی
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے بحر کرم کے محیط نایاب
لب تشنہ ہیں ماہیان بے آب
اے لوح سفینہ مسرت
طوفان زدہ ہیں تمام اصحاب
پانی پت تھا بقا کا چشمہ
اب کیا ہے غم و الم کا گرداب
روتے ہیں یہاں کے سب در و بام
حوض و حجرہ۔ ستون و محراب
آتے تھے مدام تیرے مہمان
بنگالہ سے لے کے تا بہ پنجاب
جلوہ تھا یہ تیرے دم قدم کا
اب کیا ہے کہ مجتمع ہوں احباب
وحشت زدہ پھرتا ہے غلامی
اور غم زدہ مضطرب ہے نو آب
ملفوظ مبارک و گرامی
ہے زندگی حسن کا اسباب
ساحل ہے کہیں نہ تھل نہ بیڑا
سب بحر فراق میں ہیں غرقاب
افسوس ہوا نظر سے پہناں
وہ شمس منور جہاں تاب
اے ملک بقا کے جانے والو
کہہ دیجیو بعد عرض آداب
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
٭٭٭
(۲) ہفت درود محمود
۱
خلیل حق کی تھی جو اشارت
اور ابن مریم کی جو بشارت
ظہور احمد سے تھی عبارت
سمجھ گئے صاحب بصارت
کہ اب گری کفر کی عمارت
گھٹے گی فارس کی اب حرارت
مٹے گی روما کی اب شرارت
لٹے گی اب مصر کی امارت
خزانہ ہرقل کا ہو گا غارت
بڑھے گا تقوی بھی اور طہارت
ہے باغ اسلام کو نضارت
نیا ہے سلطان نئی وزارت
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل باصفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
۲
وہ اوج پیغمبری کا تارا
ہوا ہے مکہ میں جلوہ آرا
کرے گا جو ماہ کو دو پارا
وہ امتوں کے لئے سہارا
وہ جس نے اخلاق کو سنوارا
کرے جو صورت کوئی نظارا
مہابت اس پر ہو آشکارا
ہے زلزلہ میں جہان سارا
محل کسرے و ملک دارا
نہیں اطاعت سے اس کی چارا
یہود ہو یا کوئی نصاریٰ
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
۳
وہ جلوہ نور کبریائی
وہ صاحب دعوت خدائی
وہ عین تقوی و پارسائی
بنا بت خانہ اس نے ڈھائی
وہ قرب حق میں جسے رسائی
بمجتبائی و مصطفائی
ہے دھوم توحید کی مچائی
کہ خود بتوں نے بھی دی دہائی
عرب کو انسانیت سکھائی
دلوں سے کینہ کی کی صفائی
ہر ایک برائی کی جڑ مٹائی
مری ہوئی قوم پھر جلائی
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
۴
وہ علم و حکمت سکھانے والا
پیام حق کا وہ لانے والا
کلام حق کا سنانے والا
عذاب حق سے ڈرانے والا
وہ رسم بد کا چھڑانے والا
وہ جھل و بدعت مٹانے والا
وہ بت پرستی اٹھانے والا
وہ سیدھا رستہ چلانے والا
خدا پرستی بتانے والا
وہ عاصیوں کا بچانے والا
مقام محمود پانے والا
وہ بیت اقصی کو جانے والا
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
وہ جلوہ ہے نور کبریا کا
وہ صدر ہے بزم اصطفا کا
امام ہے خیل انبیا کا
ہے پیشوا مسلک ہدی کا
معین انصاف او وفا کا
مٹانے والا وہ جفا کا
طبیب ہے شرک و ریا کا
کہ خاص بندہ ہے وہ خدا کا
ہے آئینہ صدق اور صفا کا
وہ شاہ تسلیم و رضا کا
وہ قبلہ ہر شاہ کا گدا کا
وہ کعبہ ابرار و اصفیا کا
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
نبی امی لقب ہے اس کا
نسب میں خورشید ہاشمی تھا
نہ کچھ کسی سے پڑھا نہ لکھا
وہ ان پڑھوں میں ہوا تھا پیدا
نہ اس کے سر پر پدر کا سایا
نہ اس کو استاد نے پڑھایا
کہ اس پے روح الامین آیا
کلام ربی اسے سکھایا
وہ بحر اعظم تھا علم حق کا
نہ تھا وہ محتاج علم اشیا
اسے تھا مکشوف رمز اولی
اسے تھا معلوم سر اخری
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
وہ فخر آدم امان عالم
امین محکم رسول اکرم
محیط اعظم زغیب ملہم
بوحی محرم شہ مسلم
عرب کے اندر وہی معظم
عجم کے اندر وہی مکرم
لگا کے آدم سے تابہ ایں دم
ظہور اس کا ہے بعد آدم
وجود اس کا مگر مقدم
وہ نور حق تھا ولے مجسم
کیا مدینہ کو سبز و خرم
درود محمود بھیج پیہم
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل با صفا پر
اور اس کے اصحاب با وفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
٭٭٭
قصائد
قصیدہ (۱)
قید سخت اور خانہ بے در
نکلوں کیوں کر جہان سے باہر
تنگ تر ہیں حدود خطہ خاک
نہیں دنیا میں کوئی شکل گزر
سعی بے کار فکر لاحاصل
نہ دوا میں نہ کچھ دعا میں اثر
نا شکیبا دل و پریشاں دل
پاؤں کا ہوش ہے نہ سر کی خبر
ایسا حیراں کہ میں سمجھتا ہوں
آئنہ کو بھی سد اسکندر
کبھی مثل سحاب ہوں گریاں
گاہ مانند برق ہوں مضطر
کیوں نہ شکوہ کروں نصیبوں کا
کیوں نہ افسوس آئے قسمت پر
میں ہوں شمشیر لیک زنگ آلود
کوئی مل جائے قدردان اگر
اس پہ کھل جائیں کچھ مرے اوصاف
اس پہ ظاہر ہوں کچھ مرے جوہر
آرزوئے زماں ہوں سرتاپا
حسرت روزگار ہوں یکسر
اپنے جوہر دکھائے کس کو
نہ رہی آہ قدر تیغ و سپر
یہ ہی الفاظ تھے زباں پر رات
کہ کہا مجھ سے عقل نے آ کر
نہیں شایاں شکایت تقدیر
نا مناسب ہے شکوہ اختر
جتنے گزرے ہیں آگے عالی فہم
رکھتے تھے روئے خاک پر بستر
جتنے گذرے ہیں صاحب اوصاف
مورد طعن خلق تھے اکثر
وہی ہو گا جو ہو لیا پہلے
یعنی کیا چارہ قضا و قدر
جس کو چاہے بنائے وہ گم نام
جس کو چاہے کرے وہ نام آور
رنج و محنت ہے گو زمانہ میں
ہے تجھے تو مقام شکر مگر
بخت ناکام کا تجھے کیا خوف
گردش چرغ کا تجھے کیا ڈر
تو نہ دنیا کے غم میں ہو پابند
تو زمانہ کا ہو نہ دست نگر
کہ ترا دست گیر ہے موجود
اور ترا سرپرست ہے سر پر
وہ سخاوت منش سخاوت کیش
وہ کرم پیشہ وہ کرم گستر
وہ شرف دوست وہ شریف نواز
وہ ہنر دوست وہ ہنر پرور
کوہ جس پر کرے تصدق لعل
بحر جس پر کرے نثار گہر
وہ زمانہ میں صاحب شمشیر
وہ رئیسوں میں قابل افسر
جس کو دکھلائے اشرفی خورشید
جس کو مریخ دے نذر خنجر
پیش کش ہے یہ مطلع ثانی
کہ قلم ہے رواں بطرز دگر
مطلع ثانی
اے قمر چہرہ آفتاب افسر
اے فلک مرتبہ زمیں کشور
اے ترا فہم رونق تدبیر
اے تری رائے عقل کا زیور
تیرے دم سے جہاں کا باغ امید
سبز و شاداب اور تازہ و تر
تیرے فیض کرم سے ارزانی
فقرا کو بھی دولت قیصر
بانگ پر قہر سے تری پیدا
ایک سناٹا دشت کے اندر
مژدہ مہر سے ترے برپا
شہر میں غلغل طرب گھر گھر
جب کہ بجتی ہے تیری نوبت صبح
گونج اٹھتا ہے گنبد بے در
ذکر انصاف کا ترے سن سن
ظلم خود کانپتا ہے اب تھر تھر
ٹھیرے انسان ملزم دزدی
گر ترے عہد میں چرائے نظر
ہے ترے احتساب کے ڈر سے
شکل خونناب بادہ احمر
غیر واجب بیاں نہ تم کو پسند
ظاہر آرائی کا نہ میں خوگر
مدعا عرض فن شعر نہیں
شرح احوال واقعی ہے مگر
ہو گیا اتفاق سے مجبور
کیا میں نے جو اختیار سفر
ورنہ دوری کسے گوارا تھی
مجھ سے اور چھوٹ جائے تیرا در
میں نمک خوار تو ولی نعمت
میں تہی دست تو کرم گستر
ہی وہی آستاں مرا مرکز
آسماں گرچہ لاکھ دے چکر
کہ رہا بندہ وار مدت تک
الفت خاص سے ترے در پر
اب ترے التفات بے حد کی
یاد میں کر رہا ہوں عمر بسر
طوطی ہند ہے زباں میری
اور ترا ذکر خیر ہے شکر
نہ مجھے حرص درہم و دینار
نہ مجھے آرزوئے لعل و گہر
چاہتا ہوں فقط یہی کہ رہے
گوشہ چشم التفات ادھر
پھر یہی کہہ رہی ہے کثرت شوق
کہ پے ہم رہوں ثنا گستر
نہ کوئی بذل میں ترا ہمتا
نہ کوئی عدل میں ترا ہمسر
بر پیادہ ترا تہمتن تن
ہر سپاہی ترا مظفر فر
سر دشمن بنے گل نیزہ
خون اعدا ہو جوہر خنجر
رہے جب تک جہاں میں زیبائش
رہے جب تک جہاں کو زیب دگر
تو ہو فرماں روائے اہل جہاں
اور اہل جہاں ہوں فرماں بر
دوستوں کو مدام عیش و نشاط
دشمنوں کو ہمیشہ خوف و خطر
(۱) یہ قصیدہ شیخ یعقوب علی مرحوم کی فرمائش سے ۱۸۶۹ عیسوی میں لکھا گیا تھا۔
٭٭٭
(۲) قصیدہ نا تمام (۱)
دکھاؤں شاید مضموں کی چین پیشانی
کہ ہووے چشمہ آئینہ غرق حیرانی
جو دیکھے جنبش لب ہائے جاں فزا اس کی
تو فرط شرم سے آب حیات ہو پانی
چمن میں گر وہ سراپا بہار جا نکلے
تو خار خار چمن بھی کرے گلستانی
جمال حسن یہی ہے تو ایک دن میں بھی
بلا کے خلوت دل میں بہ رسم مہمانی
حضور عالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاں صاحب
کہوں کہ آج دکھا جوہر ثنا خوانی
کہ جس کی را سے بہ آئین ملکی و مالی
معین رسم جہاں داری و جہاں بانی
اب اس کے عہد عدالت میں ظلم ہی نہ رہا
غلط ہے یہ کہ نیا یدز گرگ چو پانی
سنا جو شہرہ انصاف و داد خود آئی
عدالت از پئے پابوس۔ ہو کے دیوانی
بوقت صولت و سطوت۔ نگاہ برق و ماں
دم سخا و کرم۔ ہاتھ ابر نیسانی
طریق داد میں پیدا ہے عدل فاروقی
امور دین میں ظاہر ہے حیاے عثمانی
(۱) بمقام سہارنپور ۱۸۶۹ عیسوی میں لکھا گیا تھا
٭٭٭
(۳) قصیدہ
ایک پرانے مسودے میں سے یہ چند اشعار مل گئے جو یہاں درج ہیں۔
یہ قصیدہ میرے مرحوم دوست ڈپٹی نجم الدین صاحب دہلوی کی فرمائش سے لکھا گیا تھا۔ مرتبہ ۱۸۷۰ عیسوی
رنگ فریب سادگی دل میں ہے نہاں
افزائش یقین نہیں ہے بے کا ہش گماں
دل تنگ ہے کثافت چار آخشیج سے
باطن میں گو لطائف ستہ ہوئے رواں
ہے پردہ پوش ویو بد آموز آشکار
فرخ سروش اٹھائے اگر برقع نہاں
خاطر نشاں ہے غفلت عیش معاصریں
گر دل نشین ہے عبرت حال گزشتگاں
وہاں دست برد جہل بھی وہم آفریں نہیں
جس میکدہ میں پائے خرد ہو نہ درمیاں
آسائش کدورت باطن ہے وہ بلا
سعی صفائے قلب کو سمجھے بلائے جاں
دل میں ہجوم وسوسہ پیدا کرے خطر
خاطر پر گر سرایر مکتومہ ہوں عیاں
ہو تیرگی جسم کو یہ خاک داں فضا
زنداں ہو بہر روح جو یہ تیرہ خاکداں
غفلت کو ہو بقیہ دو روزہ پر غرور
اندیشہ کو اگر ہو غم عمر رائگاں
تھا دل میں حشر و نشر تخیل یہی کہ جہل
بالیں پہ میرے بیٹھ گیا آ کے ناگہاں
کہنے لگا تجھے نہ دکھاؤں گا تا بہ حشر
علم و کمال و فضل کے ثمرہ میں عز و شاں
اے خفتہ بخت طالع بیدار کی طرح
تجھ کو ملے نہ دولت بیدار کا نشاں
سرمہ ہو یا ہو خال مگر تیرہ روزگار
تجھ سا نہ نکلے ہند سے لے تاباصفہاں
مل جائیں خاک میں ترے افکار دور بیں
ثابت بھی گرچہ کر دے تو خرق آسماں
شعلہ کی طرح تجھ کو میں بے تاب ہی رکھوں
اور آگ کی مثال تہ ظلمت و خاں
سینہ کو تیرے چاک کروں میں برنگ گل
لیکن بنا کے داغ تمنا سے گلستاں
شبنم کی طرح تجھ کو رولاؤں دم سحر
خونیں کفن بناؤں سر شام لالہ ساں
پایان کار ایسا بنے ننگ روزگار
بیٹھے جو تو کہیں تو اٹھے شور الاماں
رہ جائے ایسا بیکس و بے یارو بے دیار
ہو کوئی تیرا دوست نہ مونس نہ مہرباں
کیا تاب ہے کہ تو مرے چنگل سے چھوٹ جائے
اور چھوٹ جائے بھی تو بھلا جائیگا کہاں
امضا پریر جانب مغرب ہے میرا حکم
مشرق میں بھی ہے سکہ ترے نام کا رواں
سرحد خاک چین سے اقصائے روم تک
تیغ و نگین ہے مجھ کو مسلم بہر زماں
میں حالت سکوت میں سنتا رہا بغور
اس یاوہ گو کی ہرزہ و بے صرفہ داستاں
کافور ہو گئے وہ خیالات سابقہ
چلنے لگی زباں کہ مری طبع تھی رواں
اے جہل رو سیاہ و تبہ کار و لاف زن
گو بخت واژ گونہ و بے مہر آسماں
لیکن تجھے خبر بھی ہے یہ کس کا دور ہے
ہے آج کون داور دارائے داوراں
اے جہل اس کے ظل حمایت میں ہوں میں آج
ہے جس سے پرچم علم علم زرفشاں
آسودہ زیر سایہ فیض عمیم ہوں
وہ سایہ جس کے سامنے خورشید ہے کتاں
چمکا ہے یہ ستارہ علم ان دنوں کہ ہیں
جلباب لیل میں سبق آموز روشناں
کچھ روشنان چرخ ہی پر کیا مدار ہے
مرغان گلستاں میں بھی ہے درس بوستاں
اک درس بوستاں پہ نہیں منحصر سبق
نہر الفصاحت ان کے لئے جدول رواں
ہر جدول رواں میں ہے طغرائے دل فریب
یعنی کہ سبزہ تازگی افزائے جسم و جاں
سبزہ سے ہیں معانی بیگانہ آشکار
کیا متن گلز میں ہے پئے مرغ صبح خواں
لمعان آفتاب سے جوں رنگ شب اڑے
کھویا فروغ علم نے یوں جہل کا نشاں
پیدا ہے شوق علم کہ کرتا ہے روز و شب
خورشید بھی مساحت ساحات آسماں
شب گرچہ کم سواد ہے پر نور علم سے
اس نے بھی ہیں مسائل ہیئت کئے بیاں
بہر نبات نعش معلم ہے چرخ پیر
روشن اسی غرض سے ہے شمع ستارگاں
اب کر دیا ہے سیر کواکب نے آشکار
تھا راز علم گنبد افلاک میں نہاں
اے معدلت پناہ و پناہ جہانیاں
سرمایۂ فضلیت و علامہ زماں
خورشید مجدد شمع شبستاں مکرمت
نیسان جود و بر بہاران امتناں
عز و جلال میں بیداے بے قیاس
فضل و کمال و علم میں دریائے بے کراں
ہے تیرا دست جود کف بحر سے وسیع
پائے زعلوئے مرتبہ بالائے فرقداں
تدبیر مملکت میں تری رائے معتبر
قانون سلطنت میں ترا فہم نکتہ داں
زیبا ہے تجھ کو طبل و علم پرچم و لوا
شایاں ہے تجھ کو خیل و خدم لشکر گراں
٭٭٭
(۴) خشک سالی (۱)
نہ آئی۔ پر نہ آئی پر نہ آئی
گھٹا نے بول دی بالکل صفائی
اگر آئی تو کی لے دے ہوا نے
سواری اور جانب کو بڑھائی
گئے دریا اتر۔ تالاب سوکھے
کجائی ابر دریا دل کجائی ؟
نہ صحرا میں دل آویزی کا انداز
نہ بستاں میں ادائے دل کشائی
نہ صحن باغ میں طوطی کا نغمہ
نہ شاخ گل پہ بلبل چہچہائی
زمین چٹیل ہے کورا آسماں ہے
ہوئی اب کے برس اچھی صفائی
نہ روئے مل کے ساون اور بھادوں
ہوئی ہے ترک باہم آشنائی
نہ تانا شامیانہ ابر تو نے
نہ اب کے رعد نے نوبت بجائی
نہ وہ جگنو نہ وہ راتیں اندھیری
نہ وہ کالی گھٹا گھنگور چھائی
نہ پرنالے چلے اب کے دھڑا دھڑ
نہ گزری کی سڑک رو نے بہائی
نہ وہ سن سن نہ وہ جھونکے ہوا کے
نہ بجلی نے چمک اپنی دکھائی
نہ وہ برسات کے کیڑے پتنگے
نہ مینڈک نے زمیں سر پر اٹھائی
کہاں بادل کہاں بجلی کہاں مینہ
پریشانی سی ہے دنیا پہ چھائی
نہ اے بھادوں بھرن برسائی تو نے
نہ اے ساون جھڑی تو نے لگائی
نہ موروں نے کیا کچھ شور برپا
نہ کویل ہی نے دھوم اب کے مچائی
نہ ٹپکیں بوندیاں پتوں سے ٹپ ٹپ
نہ دل کش راگنی چڑیوں نے گائی
نہ رنگا رنگ بادل آسماں پر
نہ چھت پہ گھاس دیواروں پہ کائی
نہ کیچڑ ہے نہ پانی ہے نہ سبزہ
نہ مینہ برسا نہ کھیتی لہلہائی
ترستے ہیں برستا ہی نہیں مینہ
سسکتی ہے پڑی ساری خدائی
بہت رو کر دعائیں سب نے مانگیں
گھٹا روئی نہ بجلی مسکرائی
ہوئی برباد کھیتی تھک گئے بیل
گئی گزری کسانوں کی کمائی
نہیں بیچارے حیوانوں کو چارہ
ہے انسانوں کو فکر بینوائی
بہت مزدور بیٹھے ہیں نکمے
نہیں اب کوئی حیلہ جز گدائی
سمندر کیا ہوئے تیرے بخارات
صبا، تو کیوں اڑا کر لے نہ آئی
بلائے قحط ہے ہندوستاں میں
ہے روم و روس میں برپا لڑائی
خدایا جلد قحط اور جنگ ہوں دور
ملے سب کو مصیبت سے رہائی
خدایا رحم کر، جاں لب پہ آئی
تری مخلوق دیتی ہے دہائی
(مرتبہ ۱۸۷۰ عیسوی )
٭٭٭
(۵) عیدی شب برات (۱)
بگڑی ہے کیا انار پٹاخوں کی اب کے بات
ساون میں اتفاق سے آئی شب برات
بارود ہے خراب پٹاخے ہیں پھسپھسے
کم زور ہیں انار چھچوندر ہے واہیات
مہتاب میں مزہ ہے نہ کچھ پھلجھڑی میں لطف
پیسے ہمارے مفت گئے یونہی آٹھ سات
پیسے گئے فضول تو خیر اس کا غم نہیں
ہے سال بھر کے کھیل کی یہی زکواۃ
پاتا ہے اس جہان میں کچھ کھو کے آدمی
آئندہ ایسے کھیل پے ماریں گے ہم بھی لات
بس چھوڑو کھیل کود کہ حلوا ہے گرم گرم
شامل ہے جس میں ذائقہ قند اور نبات
شیریں ہے خوش قوام ہے چٹ کیجئے اسے
حلوہ کی چاشنی سے ہے مصری بھی آج مات
بدعت کہو گناہ کہو یا چٹور پن
اچھا نہیں سمجھتا اسے زمرہ ثقات
بچوں کے واسطے ہے خورد و نوش کھیل کود
اصحاب اتقا کے لئے صوم اور صلوات
جاگیں گے آج اہل عبادت تمام شب
درگاہ کبریا سے کریں گے طلب نجات
سرکار حق میں پیش حساب و کتاب ہے
تقسیم رزق اور رقم موت اور حیات
اس واسطے دعا و طلب میں مبالغہ
کرتے ہیں تاکہ ان پہ ہو زیادہ التفات
اہل نظر ہیں وہ کہ جنھیں یہ خیال ہے
کیا مانگئے کہ ہیچ ہے یہ جملہ کائنات
برکت ہے اپنے حال میں نے ماہ و سال میں
ہر دم عیاں ہے ذات وہی باہمہ صفات
کیا ذات کیا صفات نہیں فرق و امتیاز
ہے ایک حال ایک نظر اور ایک بات
صاحب نظر کو فرق شب و روز کچھ نہیں
ہر روز عید ہے ہر شب شب برات
جو کچھ کہ ہے خیال میں خواب و خیال ہے
لے کر ازل سے تا بہ ابد کل معاملات
سرکار کے بنائے ہوئے ہیں یہ سب عدد
اور عالم شہود ہے گویا شب برات
بارود ایک سی ہے مگر وزن ہیں جدا
ہیں مختلف ظہور میں آثار اور صفات
سہرہ ہو پھلجھڑی ہو پٹاخا ہو یا انار
سب میں بھری ہوئی ہے وہی ایک پاک ذات
ہر چیز کا ہے وزن معین جنچا تلا
اک آن کی نمود ہے بے اصل و بے ثبات
چھٹنے کے بعد پھر نہ رہا یہ نہ وہ رہا
آخر کو ڈھاک کے نظر آتے ہیں تین پات
جو زور و شور تھا سو حقیقت میں کھیل تھا
جب ہو چکا تمام یہ سرمایۂ حیات
دکھلا کے اپنا رنگ فنا ہو گئے تمام
عقل و قیاس و فکر و خیال و توہمات
ہے اصل نور و نار فقط ذات بے نشاں
دھوکا نگاہ کا ہے قیود تعینات
مستور ہے ظہور میں ظاہر بطون میں
بے رنگ و بے نشان ہے بے کیف و بے جہات
شانیں جدا جدا ہیں تجلی تو ایک ہے
کعبہ ہو ہردوار ہو یا دیر سومنات
عیدی ہو یا قصیدہ۔ رباعی ہو یا غزل
معنی میں مشترک ہیں بکثرت ہیں گو لغات
ظاہر میں شاعری کا زٹل قافیہ سہی
فہم درست کو یہ لطائف ہیں اور نکات
حامد شب برات کی عیدی ہے با مزہ
لکھوانی چاہتے ہو۔ تو لاؤ قلم دوات
(۱) ۱۲۹۷ ہجری مطابق ۲۲ جولائی ۱۸۸۰ عیسوی موافق ساون ۱۹۳۷ بکرمی
٭٭٭
(۶) عیدالفطر (۱)
اب کے رویت میں آگیا ہے خلل
رمضان ایک اور عید ڈبل
یعنی انتیس تیس اٹھائیس
کیا تواریخ میں پڑا ہے بل
آج چکھی کسی نے افطاری
کوئی روزہ ہی کو گیا ہے نگل
دی کسی نے شہادت کامل
کوئی سمجھا اسے کہ ہے یہ زٹل
نو بجے دن کے بج گیا دہونسہ
روزہ داروں میں پڑ گئی ہل چل
خشکی روزہ شدت گرمی
کر رہی ہے دماغ کو مختل
آج برپا ہے عام جوش و خروش
ہوئی آپس میں خوب رد و بدل
جا پڑا دیو بند میں پہلے
چاند کا بھی گیا تھا پانوں پھسل
ایک دن تک وہیں رہا ناچار
سب کی آنکھوں سے ہو گیا اوجھل
کہیں جھگڑا کہیں لڑائی ہے
ایک کو غصہ ایک کو جھونجھل
کوئی سمجھا رہا ہے ملا جی
کس لئے کر رہے ہو جنگ و جدل
گو اٹاوہ میں چھپ گیا فتوی
علما کا نہیں ہے اس پہ عمل
بست و ہفتم کو چاند دیکھ لیا
خود غلط تھی شہادت اول
دیکھ کر اختلاف دنیا کا
یاد آئی ہے مجھ کو ایک مثل
کون سی ہے مجھے بتا تو سہی
اونٹ رے اونٹ تیری سیدھی کل
چاند کے اختلاف نے اب کے
میری عیدی کو کر دیا مہمل
کیوں پڑے ہو تم اس بکھیڑے میں
ہوا جو کچھ یہی تھا حکم ازل
ہیں زمانے کے کام رنگا رنگ
نہ ہوا ہے نہ ہو یہ عقدہ حل
نہیں چون و چرا کی گنجایش
لنگ ہے اس جگہ پہ رخش علل
عید کے واسطے نہیں درکار
قمر و مشتری و شمس و زحل
مدت دھر آن واحد ہے
غلطی پر ہے دیدہ احول
ہے یہ نیرنگ کی نموداری
آسمان و زمین مکان و محل
ختم روزے ہوئے نماز پڑھو
بعد حمد خدائے عزوجل
عید ہی عید ہے کوئی دن ہو
ہم کو یکساں ہے پیر اور منگل
وہی ظاہر ہے اور وہی باطن
وہی آخر ہے اور وہی اول
(۱) مرتبہ ۱۸۸۰ عیسوی
٭٭٭
(۷) نذرانہ پیر جی (۱)
قعر دریا میں نہ طوفاں ہے نہ موج و گرداب
خشک ہے آب رواں بحر میں قطرہ نایاب
نہ تو حاصل میں طلب ہے نہ طلب میں حاصل
خبط ہیں جملہ سوال۔ اور ہیں بیہودہ جواب
نہ پتا ہے نہ ٹھکانا نہ کوئی راہ و مقام
یعنی الآن کما کان نہ مبدا نہ مآب
نہ ادھر کوئی مزہ ہے نہ ادھر بدمزگی
رونق صومعہ باقی نہ خرابات خراب
ہیں تو ہر قسم کے مطلب مگر اس نسخہ میں
نہ کوئی لفظ نہ جملہ۔ نہ کوئی فصل نہ باب
بھوکے مرتے ہیں شکم سیر۔ پیاسے ہیں غریق
خاک صحرا میں نہیں آب کے جویا تالاب
ایک ثمرہ ہے یہاں غفلت و آگاہی کا
خواب اعمی ہے مگر حالت بیداری و خواب
وہی ہوتا ہے جو پہلے سے ہوا رکھا ہے
نہ طریقہ ہے خطا کا نہ کہیں راہ صواب
نہ تو بے کار تسلی ہے نہ آرام بکار
نہ سفینہ ہی رواں ہو نہ یہ دریا پایاب
خواہش وصل غلط۔ سعی تقرب بے سود
نہ کوئی واسطہ حائل ہے نہ پردہ نہ حجاب
نہ مکاں ہے نہ در و بام ہے ویرانہ میں
بتکدہ ہے نہ کلیسا ہے نہ طاق و محراب
نہ کوئی دوست دشمن نہ مخالف نہ رفیق
نہ کوئی قابل رحمت۔ نہ سزاوار عتاب
یہ نہیں وہ بھی نہیں کہتے ہیں کہنے والے
اور جو پوچھو کہ وہ ہے کیا ؟ تو نہیں کچھ بھی جواب
آج نذرانہ بہ تعجیل کیا ہے تیار
منتظر ریل کے ہیں پیر معلی القاب
(۱) پیر جی غلام محمد صاحب مرحوم وکیل و رئیس لدھیانہ مصنف کے برادران طریقت میں سے تھےجن کے واسطے یہ نذرانہ ۱۸۸۱ عیسوی میں مرتب کیا گیا۔
٭٭٭
(۸) نذرانہ پیر جی (۱)
نہ جدائی ہوئی کبھی نہ وصال
ہے یہ قرب و وصال وہم و خیال
کنج وحدت ہے غیر سے خالی
کہ گمان دوئی ہے امر محال
بحر وحدت میں سب ہیں مستغرق
روح و جسم و حواس و علم و کمال
جنبش موج ہے یہ ہنگامہ
شادی و رنج و خرمی و ملال
نقش بر آب ہیں یہ سب حرکات
ذکر و فکر و وظائف و اشغال
کیا ہے اس جدوجہد سے حاصل
ثمرہ و سبزہ نہر و نخل و نہال
نہ یہاں شاہدی و مشہودی
دست بے یار و پائے بے خلخال
ہے یہاں نسبت و اضافت ہیچ
ہستی و نیستی بھی ہے پامال
نہ بدایت ہے نے نہایت ہے
نہ امید بقا۔ نہ بیم زوال
نہ تو مسلک ہے۔ نہ منزل مقصود
نہ طریق و روش نہ راہ و مجال
آن واحد ہے جو ہوا سو ہوا
وقت ماضی یہاں نہ استقبال
جنس خود مشتری و خود قیمت
مشتری خود ہے جنس کا دلال
عشق گوہر نے کر دیا مفلس
ورنہ کان گہر ہے مالا مال
طلب و جستجو ہے گمراہی
شوق پرواز نے بچھایا جال
بے تعلق نہیں تلاش و طلب
بے تخیل نہیں ہے فکر مآل
رہنمائی ہے وجہ راہزنی
ہو گئے نامہ و پیام وبال
کی جو فکر و قیاس نے حرکت
ہوئی پیدا شبیہ و شکل و مثال
خالقیت ہے باعث مخلوق
موجب نقص ہو گیا ہے کمال
بعد ہے قرب کی طلبگاری
جمع نے تفرقہ دیا ہے ڈال
کامیابی ہے وجہ ناکامی
بحر و اشتیاق آب زلال
تپش آفتاب وحدت سے
جلتے ہیں مرغ عقل کے پر و بال
دل ہے گویا زبان ہے خاموش
سطح میداں فراخ و تنگ مجال
اس خرافات کو کریں منظور
پیر لدھیانوی گرو گھنٹال
(۱) پیر جی غلام محمد صاحب مرحوم وکیل و رئیس لدھیانہ مصنف کے برادران طریقت میں سے تھے جن کے واسطے یہ نذرانہ مرتب کیا گیا۔
٭٭٭
(۹) جریدہ عبرت
عذر تقصیر۔۔۔۔۔ ابتدائی اشعار سے ظاہر ہے کہ اس ناچیز قصیدہ کے موزوں کرنے کا خیال کس طرح میرے دل میں پیدا ہوا۔ اس وقت طبیعت پر ایک ایسی کیفیت طاری تھی جس نے اس ہرزہ گوئی پر مجبور کیا ورنہ مجھکو نہ شعر و شاعری سے رغبت نہ اس فن کی مہارت نہ اتنی فرصت اور سچ یہ ہے کہ نہ اس کام کی لیاقت جو کچھ لکھا گیا صرف مقتضائے طبیعت تھا۔ اقتباس از دیباچہ طبع اول۔ یکم نومبر ۱۸۸۵ عیسوی
میں شاعرانہ روش پر نہیں قصیدہ نگار
یہ ایک سادہ سی گزارش ہے یا اولی الابصار
کہ اب کے ماہ محرم کی ساتویں تاریخ
گیا جو گھر سے قضارا، بجانب بازار
تو دیکھتا ہوں کہ گزری میں ایک اکھاڑا ہے
اور اتنی بھیڑ کہ نہیں جس کا حساب و شمار
ہیں دو حریف مقابل لئے پھری گتکا
ہر ایک فن پھلیتی میں طاق اور طرار
جو اس نے پانوں بچایا تو اس نے سر تاکا
دکھایا چہرہ تو پہلو پے جا کیا ہے وار
عجیب ٹھاٹ نئے پیترے غضب پھرتی
نرالے ڈھنگ سے کرتب کا کرتے ہیں اظہار
چلا ہے ایک بنیٹی کا باندھ کا چکر
کھڑا ہے ایک لئے سیف لڑ رہا ہے گوہار
میں اپنے دل میں لگا کہنے کیا حماقت ہے
مٹے ہوئے ہیں جو اس فن پہ یہ خدائی خوار
یہ کھیل محض نکما ہے بلکہ بیہودہ
جو دیکھتا ہے۔ سو ہنستا ہے زیر لب ناچار
سپہ گری کا یہ فن تھا کسی زمانہ میں
نہ وہ زمانہ رہا اب۔ نہ صورت پیکار
کہاں ہیں اب وہ دلیران صف شکن باقی
کہ ان فنون پے ہوتے تھے جان و دل سے نثار
ہزار سے نہ دبے لاکھ سے نہ منہ موڑا
جو ڈٹ گئے کسی میداں میں کھینچ کر تلوار
نہ اب بکیت کو پوچھے کوئی نہ رادت کو
نہ تیر ہے نہ کماں ہے نہ بانک ہے نہ کٹار
نہ اس کمال کی پرسش نہ اس ہنر کی قدر
نہ جنگ کا یہ طریقہ رہا۔ نہ یہ ہتیار
نہ جس میں دین کا ہو فائدہ نہ دنیا کا
تو پاس پھٹکے نہ اس کام کے کوئی ہشیار
جواب دل نے دیا یوں۔ کہ مت تعجب کر
میں اس سے بڑھ کر سناؤں زمانہ کے اطوار
شاعر
سخنوران زماں کی بھی ہے یہی حالت
کہ اس قدیم ڈگر کو نہ چھوڑے زنہار
سوائے عشق نہیں سوجھتا انہیں مضموں
سو وہ بھی محض خیالی گھڑت کا اک طومار
نہ لکھتے ہیں کبھی نیرنگ حکمت و قدرت
نہ واقعات کے وہ کھینچتے ہیں نقش و نگار
ہے شاعری میں یہ پہلا اصول موضوعہ
کہ جھوٹ موٹ کے بن جائیں ایک عاشق زار
تمام اگلے زمانہ کا ہے یہ پس خوردہ
کہ کر رہے ہیں جگالی وہ جس کی سو سو بار
نہ ننگ ہے نہ حیا ہے نہ شرم و غیرت و عار
جو اپنے فخر پہ آئیں۔ تو بس کریں تسخیر
حدود ہند سے لے تابفارس و تاتار
ہے ایک غار میں پانی سڑا ہوا لبریز
پڑا ہے نیم کا پتہ اور اس پہ پشہ سوار
وہ پشہ آپ کو سمجھا ہے نا خدائے جہاز
اور اس سڑے ہوئے پانی کو لجہ زخار
اسی طرح ہمارے زمانہ کے شاعر
سمجھتے اپنی خرافات کو ہیں عین وقار
مبالغہ ہے تو بیہودہ عقل سے خارج
ہے استعارہ تو بے لطف اور دور از کار
کیا ہے نام زٹل قافیہ کا اپنے سخن
وہ کنکری ہے جسے کہتے ہیں در شہ وار
جو ان کے دیکھئے دیواں تو بور کے لڈو
غلیظ و گندہ و سراسر نتیجہ افکار
وہی ہے شاعر غرا جو بے تکی ہانکے
یہی ہے شعر کا اس دور میں بڑا معیار
یہ ان کی طبع بلند اور معنی رنگین
جو طبع گد ہے تو معنی سڑا ہوا مردار
نہ جس سے طبع کو تفریح ہو نہ دل کو خوشی
غزل ہے یا کوئی ہذیان ہے بوقت بخار
نمونہ غزل
صفت ہے دوست کی جلاد و ظالم و غدار
اتم شعار۔ دل آزار بے وفا۔ مکار
ہے دلبروں کی بھی شامت نہ منہ رہا نہ کمر
بجائے زلف کے دو اژدہوں کی ہے پھنکار
یہ آپ کے گل عارض وہی ہیں باسی پھول
پڑی ہے نزع کی حالت میں نرگس بیمار
جو ٹون ہال کی محراب ہے خم ابرو
تو ہے مژہ بھی پولیس کے سپاہیوں کی قطار
زنخ کنواں ہے کہ جس میں ڈبو چکے لٹیا
بھنور ہے ناف۔ کہ جس سے نہ ہو گا بیڑا پار
شب فراق کا دکھڑا اگر کریں تحریر
تو ایشیا کو ڈبو دیوے دیدہ خوں بار
وہی لنڈوری ہے قمری۔ تو پر نوچی بلبل
وہی ہے سرو کا ٹھنٹھ اور طول قامت یار
جو ناصحوں سے ہے کھٹ پٹ تو زاہدوں سے چخٰ
جو ساقیوں سے لگاوٹ تو مغبچوں سے پیار
غریب شیخ پہ ہر دم دلتیاں جھاڑیں
کریں مساجد و کعبہ سے فرار
کہاں ہے ان کا ٹھکانا۔ کدھر ہے ان کا مقام
وہی ہے بیت صنم اور خانہ خمار
بگھارتے ہیں تصوف تو کون دے گا داد
کہاں ہیں سعدی و حافظ۔ سنائی و عطار
کریں گے اس قدر ایمان و دین کی تفضیع
کہ گویا ہیں کوئی ہفتاد پشت کے کفار
اگرچہ ہاتھ میں تسبیح ہلب پہ ہو توبہ
بنیں گے شعر میں ہاں مے پرست و بادہ گسار
ہے چرخ پیر تو مدت سے شاعروں کا پیر
پہ کوستے ہیں اسے یہ مرید ناہنجار
جمال یوسف و اعجاز عیسی و موسی
ہیں ان کی گندہ دہانی کے سامنے سب خوار
نہ کچھ خدا کا لحاظ اور نہ انبیا کا ادب
یہ ان کی نور بھری شاعری،، خدا کی مار
ہے ان کی طبع دنی عنکبوت کا جالا
اور ان کی بندش مضموں ہے مکھیوں کا شکار
کسی عمارت رسی کا گر بیان کریں
محیط کون و مکان اس پہ تنگ ہو ناچار
جو اس کی نیو ہو گاؤ زمین کے سم سے پرے
تو اس کا کنگرہ بالائے گنبد دوار
وہ توڑتے نہیں لقمہ مبالغہ کے بدوں
بغیر بہنگی کی جس طرح چل سکے نہ کہار
سدا دروغ کی کرتی ہیں مکھیاں بھن بھن
چپک رہا ہے لبوں پر جو شیرہ گفتار
لکھیں جو قصہ تو دیو و پری کا افسانہ
لگا دیں کذب کے ڈھیر اور جھوٹ کے انبار
کریں چڑیل کو حوران خلد سے نسبت
بنائیں اونٹ کٹیلی کو گلشن بیخار
جب ان پہ ہوتے ہیں مضمون مبتذل وارد
تو گویا عرش سے اتری چمار کو بیگار
کریں جو مدح کسی چر کٹے کی وہ بالفرض
تو پھر سکندر و دارا ہیں اس کے باج گزار
بنائیں اس کے تئیں بر و بحر کا سلطاں
جو فی المثل ہو کسی کوردہ کا نمبردار
لکھیں وہ دھوم کہ ہو گرد جشن جمشیدی
جو رقعہ شادی کا لکھوائے کوئی ساہوکار
بنانا پر کا کبوتر تو ہے بہت آسان
سوئی کو پھاولہ کہنا تو کچھ نہیں دشوار
ہے سچ تو یہ کہ انھیں شاعروں کے قالب میں
لیا ہے جھوٹ نے کلجگ میں آن کر اوتار
مشاعرہ ہو۔ تو لڑتے ہیں جیسے ٹینی مرغ
لہولہان ہیں پنجے شکستہ ہے منقار
وہ خود فروش بنے آج اوستاد زماں
کہ جن سے کوئی ٹکے سیکڑا نہ لے اشعار
اگر سنیں کہ ہوا ہے فلاں رئیس علیل
تو پہلے قطعہ تاریخ کر رکھیں تیار
اجڑ گئے ہیں وہ تھان اور لد گئے ڈیرے
جہاں کداتے تھے یہ بھانڈ کاغزیں رہوار
جہاں خوشامدیوں۔ شاعروں کی تھی بھرتی
اب ایسی کاٹھ کی الو نہیں کوئی سرکار
تو اب وہ پھرتے ہیں ناچار مانگتے پھرتے
بنا کے کاسہ گدائی کا پرچہ اخبار
کسی کی مدح سرائی کسی کی بد گوئی
اڈیٹری کی بھی کرنے لگے ہیں مٹی خوار
کلام دیکھو تو صورت حرام سر تا سر
سلاح بر درد کس نیست درمیان حصار
فلسفی علما
نہ شاعروں ہی پہ تنہا پڑے ہیں یہ پتھر
کہ عالموں کا بھی اس دور میں یہی ہے شعار
وہیں ہیں آج۔ جہاں تھے یہ دس صدی پہلے
گیا ہے قافلہ دور۔ اب ٹٹولتے ہیں غبار
وہی ہیں یاد پورا نے اصول یونانی
جنھیں علوم جدیدہ نے کر دیا بے کار
وہی قدیم زمانہ کا فلسفہ سڑیل
ہو جیسے کہنہ کھنڈر کی ڈھئی ہوئی دیوار
ہنوز فخر و مباہات اس پہ کرتے ہیں
وہ جن کے سر پر فضیلت کی ہے بندھی دستار
ہے درس میں وہی ترتیب مادہ اب تک
کہ پہلے خاک ہے پھر آب۔ پھر ہوا پھر نار
اگرچہ ہو گئے تحلیل خاک و باد اور آب
مگر ہیں علم میں ان کے وہی عناصر چار
ہے آسمان طواف زمین میں مصروف
ہے آفتاب ابھی چرخ چار میں پہ سوار
وہی ہے ڈھانچ پرانا نظام ہیئت کا
جڑے ہوئے ہیں فلک میں ثوابت و سیار
وہی ہے مسئلہ خرق والتیام ہنوز
کہ جس کا اب نہ کوئی مدعی نہ جانب دار
وہی حساب ہے لکھا ہے جو خلاصہ میں
گھٹے بڑھے گا نہ اک صفر تا بروز شمار
جو کہہ گئے ہیں فلاطوں اور بطلیموس
اسی کی بحث ہے اب تک اسی کی ہے تکرار
جو شرح چغمنی و میبذی میں لکھا ہے
زروئے کشف کھلے تھے وہ غیب کے اسرار
جو شمس بازغہ میں آ چکا سو ہے الہام
کہ ہے مسائل حکمیہ کا اسی پہ مدار
بھرا ہوا انھیں کج بحثیوں سے ہے منطق
کہ ایک کو جو کہیں دو تو پھر نہ ہو انکار
ہوا دلائل وہمیہ سے جو کچھ ثابت
تو پھر مشاہدہ بے سود تجربہ بے کار
نہ جن کے ہاتھ میں پیسہ نہ شکل کھانے کی
وہ کھائے بیٹھے ہیں اشکال منطقی پہ ادھار
دماغ خشک میں ان کے جو کچھ سمایا ہے
اسی کی پچ ہے وہی ڈینگ اور وہی اصرار
بسی ہوئی ہے ابھی تک وہی پرانی بو
کچھ ایسی پی ہے کہ گھٹتا نہیں ہے جس کا خمار
ہیں عاقلوں کے لئے آیت خداوندی
یہ آسمان و زمین اور نجوم پر انوار
نہیں ہے گوشہ خاطر کا اس طرف میلان
کہ غور کیجئے قدرت کے دیکھ کر آثار
ہے کس طریق پہ ارض و سما کی پیدائش
ہے کس کے قبضہ میں جمازہ جہاں کی مہار
ہے موسموں کی بھلا یہ الٹ پلٹ کیوں کر
کبھی عمل ہے خزاں کا کبھی ہے دخل بہار
کبھی کا دن ہے بڑا اور کبھی کی رات بڑی
یہ کس روش سے ہوا اختلاف لیل و نہار
یہ کس نے پھیر دیا موسمی ہوا کا رخ
یہ کیوں ہے باد تجارت کی متصل رفتار
نسیم بری و بحری میں چھیڑ چھاڑ ہے کیوں
کہ رات دن نہ اسے چین ہے نہ اس کو قرار
ہوا ہے بحر سے کیوں کر ہوا کا دامن تر
اڑائے نار شعاعی نے کس طرح یہ بخار
کیا ہے کس نے بتاؤ سحاب کو تسخیر ؟
میان ارض و سما مثل طاہر پردار
ہے کیونکہ گرم یہ ہنگامہ برف و باراں کا
سدا بروئے زمین خاص کر سر کہسار
یہ اوس کیا ہے۔ کہر کیا ہے۔ اور بادل کیا ؟
یہ بادلوں سے برستی ہے کس طرح بوچھار
دیا ہے کس نے یہ آب حیات کا چھینٹا
کہ لہلہائے زمیں پہ ہرے بھرے اشجار
ہے پہاڑ سے چشمے رواں ہوئے دریا
اگے نہال۔ کھلے پھول۔ اور لگے اثمار
رواں ہے ساحت دریا پہ کس طرح کشتی
چڑھے ہوئے ہیں مسافر۔ لدا ہوا ہے بار
کہ جس کے فیض سے دولت سمیٹتے ہیں لوگ
اسی کے نفع سے قائم ہے فرقہ تجار
ہوا ہے بحر میں کیوں کر یہ جذر و مد پیدا
یہ کیا ہیں زلزلہ الارض اور جبال النار
دبے پڑے ہیں فلزات اور جواہر کیوں ؟
ہوا زمیں سے پہاڑوں کا کس طرح پے ابھار
ہوئی ہے کب طبقات زمین کی ترتیب ؟
نئی زمین بناتا ہے کون سا معمار
غرض کہ صنعت حق کے نکات ہیں بے حد
کہ جن سے عالم کون و فساد ہے سرشار
نہ ان مظاہر قدرت پہ ڈالتے ہیں نگاہ
نہ ان رموز کی تحقیق ہے نہ استفسار
ہے جن علوم سے انساں کے حال میں برکت
ہیں جو علوم صنائع کے قبلہ و کعبہ
ہے جن فنون سے حسن معاشرت کا سنگار
ہے جن علوم سے انساں کی زندگی سر سبز
ہیں جن فنون سے اہل زمانہ بر سرکار
یہ ان کے نام پہ کہتے ہیں د۔ ف۔ اور ع
یہ ان پہ کرتے ہیں لاحول اور استغفار
یہ نعمتوں سے خدا کی ہوئے ہیں سخت نفور
یہ خوبیوں سے تمدن کی ہیں بہت بیزار
یہ ڈھونڈتے ہیں وہی لیکھ اور وہی چھکڑا
اگرچہ ریل کی سیٹی نے کر دیا بیدار
یہاں پڑا ہے ابھی مرغ نامہ بر بسمل
وہاں پیام اڑی لے کے برق کی رفتار
رفل کے سامنے کچھ کام دے سکے گی بھلا
پرانی وضع کی بندوق وہ بھی توڑے دار
ہلے گا ہاتھ وہ کیا، جس پہ گر چکا فالج
چلے گی تیغ وہ کب، جس کو کھا گیا زنگار
کیا ہے گردش گیتی نے جس کو ملیا میٹ
سمجھ رہے ہیں اسے یہ بزرگوار حصار
معلم
معلموں کو جو دیکھو تو روح دقیانوس
ہیں وہ بھی وخمہ فارس کے استخواں بردار
وہی ہے ان کا پرانا طریقہ تعلیم
کہ جس میں زندہ دلی کے نہیں رہے آثار
وہی خوشامدی القاب اور وہی آداب
کہ جن سے تازہ ہے انشائے دل کشا کی بہار
ہو ایک انچھ کا مطلب تو ہاتھ بھر کی دعا
]اور ایک گر کی تمنائے دولت دیدار
طریق ترجمہ اب تک وہی ہے اوٹ پٹانگ
پڑھیں جو لڑکے تو ہل ہل کے اور پکار پکار
نہ چلنے پھرنے کی عادت نہ خو ریاضت کی
جواں ہیں پیر سے بدتر تو پیر زار و نزار
سوائے ضعف دماغ اور بھی مرض ہیں کئی
فتور ہاضمہ۔ آشوب چشم۔ ترلہ حار
مکان وہ جس میں کھچا کھچ بھرے ہوئے لونڈے
ہے جیلخانہ کی مانند تنگ و تیرہ و تار
ہوئے جو پڑھ کے مکاتب میں فارغ التحصیل
تو نوکری کے لئے کر رہے ہیں سوچ بچار
نہ ایسے علم سے واقف کہ کچھ کما کھائیں
نہ ایسے فن کی مہارت کہ کر سکیں بیوپار
نہ ہو سکیں گے ملازم کسی کچہری میں
کہ اس کے واسطے ہے مڈل کی سند درکار
طبیب
اسی روش پہ اطبا کا ہے مرض مزمن
ہنوز نبض طبابت کی سست ہے رفتار
وہی سدیدی و قانون و تحفہ و مخزن
خدا نے ان پہ لگا دی ہے مہر استمرار
مجربات وہی اور وہی ہیں دستورات
انھیں بھی مردہ پرستی کا ہے بڑا آزار
وہی ہے فصد وہی منضج اور وہی مسہل
وہی سناؤ گل سرخ و شربت دینار
معالجہ میں ترقی نہ کچھ مداوا میں
وہی سبب وہی تشخیص اور وہی تیمار
غذا بتائیں وہی دال مونگ یا کھچڑی
بلا سے ان کی مرے یا جئے کوئی بیمار
اگر مریض کی قسمت سے ہو گیا بحران
تو راس آئی دوا۔ ورنہ اشتداد بخار
نہ کچھ دوا کی ہے تحقیق نے دوا سازی
وہی دوا ہے جو پوڑیہ میں باندھ دے عطار
نہ ٹھیک طور سے اجسام کی ہوئی تشریح
نہ تیز فن جراحت کے کر سکے اوزار
نہ کیمیا کے ہوئے حل و عقد سے آگاہ
نہ مفردات کی ترکیب کے کھلے اسرار
نہ فن قابلہ میں دست قابلیت ہے
نہ ان کو شرح نباتات پر نظر زنہار
توہمات بھی داخل ہیں یاں طبابت میں
٭٭٭
ٹائپنگ: نایاب
پروف ریڈنگ۔ سعود بن سعید، اعجاز عبید
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?19990-کلیاتِ-اسمٰعیل-میرٹھی-ص-1-تا-200
بسم اللہ الرحمان الرحیم
کلیات اسماعیل میرٹھی
حصہ دوم
فہرست
بڑا طبیب ہے گرہو منجم و جفار. 11
دنیا پرست دیندار. 11
مشائخ.. 16
عوام. 19
انگریزی فیشن والے... 20
دعا. 27
تہنیت جشن جوبلی حضور ملکہ معظمہ وکٹوریا قیصر ہند دام اقبالہا.. 28
جاڑہ اور گرمی.. 38
آدمی کو یہ شیوہ ذلیل و خوار. 45
بخیلی اور فضولی. 45
کاشتکاری. 47
کاشتکاری۔۲. 50
قرض... 51
سب سے زیادہ بدنصیب کون؟. 53
ہمّت.. 53
اپنے فعل پر پشیمانی. 54
معافی میں سرور ہے... 54
انتقامِ علاج خطا ہے... 55
خطا کو خطا نہ جاننا ہلاکت ہے... 56
ہر کام میں کمال اچھا ہے... 57
دوراندیشی... 57
بدی کے عوض میں نیکی کرنا 58
قول و فعل میں مطابقت چاہئیے 58
دل کی یک سوئی خلوت ہے... 59
غزلیات... 60
ردیف (الف). 60
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا. 60
علیک السلام اے شفیع البرایا. 63
تمھارے تیر میں انداز تھا نظر کا سا.. 66
ذرہ ذرہ حیرتی ہے مہر پر تنویر کا. 67
باغباں کی کار فرمائی سے دیتا ہے خبر.. 68
دل گیا ہاتھ سے کیا ہاتھ سے داماں نکلا.. 69
تو اور عذرِ طعنِ رقیباں غضب ہوا 71
ہے بے لب و زباں بھی غُل تیرے نام کا. 72
رسوا ہوئے بغیر نہ نازِ بتاں اُٹھا.. 75
میں در پہ ترے ناصیہ سا ہو نہیں سکتا... 76
وہیں سے جب کہ اشارہ ہو خود نمائی کا. 77
آغازِ عشق عمر کا انجام ہو گیا.. 79
نا مہربانیوں سے یوں پائمال کرنا 81
کام اگر حسب مدعا نہ ہوا 82
نتیجہ کیونکر اچّھا ہو نہ ہو جب تک عمل اچّھا.. 84
ذرا غم زدوں کے بھی غم خوار رہنا.. 85
یاد تیری یاد ہے نامِ خدا 86
نقابِ جور میں روپوش اک لطفِ نہاں نکلا.. 87
جو بھلے بُرے کی اٹکل نہ مِرا اشعار ہوتا. 88
سنو گے مُجھ سے میرا ماجرا کیا ؟. 89
سلام. 91
متفرقات... 93
ردیف (ب). 93
کیا کیا اجل نے جان چُرائی تمام شب.... 93
ردیف (ض). 94
نہیں معلوم کیا واجب ہے کیا فرض... 94
ردیف (م). 96
السلام اے شاہِ شاہاں السلام. 96
ردیفِ (ن). 99
ظاہر تو ہے، تو میں نہ نہاں ہوں.. 99
۱وہ پیرہنِ جان میں جاں حجلۂ تن میں... 101
آخر یہ حُسن چھُپ نہ سکے گا نقاب میں... 103
جہاں تیغِ ہمّت علم دیکھتے ہیں... 105
سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں... 107
اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں... 109
جو محو سرو و صنوبر تھے خانہ باغوں میں... 113
منزل داز و دار ہے اور ہم میں دم نہیں.... 114
کبھی تقصیر جس نے کی ہی نہیں.... 116
عارضِ روشن پہ جب زلفیں پریشاں ہو گئیں.... 118
خاک سے افلاک تک ہے دور تیرے نام کا. 120
حامدکہاں ! کہ دوڑ کے جاؤں خبر کو میں... 121
بزمِ ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں.... 124
متفرقات... 126
ردیف (و). 127
پائے غیر اور میرا سر دیکھو... 129
ہے جانِ حزیں ایک لبِ روح فزا دو 130
معشوقِ دل نواز اگر تند خو نہ ہو.. 132
کھونپ جب کپڑے میں آئی چارہ کیا غیر از رفو. 135
متفرّقات... 136
ردیف (ی). 137
ناصح جو ملامت میں محابا نہیں کرتے... 137
یا کوئی دنیائے فانی اور ہے... 138
دھوکے میں نہ آ جائیو افسونِ زباں کے... 139
پھر کُچھ کُچھ اُن کے وعدہ پہ اب اعتبار ہے... 140
گر نشے میں کوئی بے فکر و تامل باندھے... 141
نکہتِ طرّۂ مشکیں جو صبا لائی ہے... 143
بیخودی سی بے خودی ہے جلوۂ دیدار سے... 145
وہ حسن لازوال ہماری نظر میں ہے... 147
پُر حُسن خود نما سے زمان و زمیں ہے... 149
کجا(۱*) ہستی بتا دے تو کہاں ہے... 150
اُلٹی ہر ایک اسم جہانِ شعور ہے... 153
یاں تاب کسے شناوری کی.. 156
کُچھ ایسے دلفریب شگوفے کھِلا کئے... 158
شگفتگی نے چمن کی ہوا نہ کھانے دی. 160
کہتا تھا پھر آ جاؤں گا جب یاد کرو گے... 161
شمع کیوں اپنی جلن میں گھُل گئی.. 162
خارج ہے عہدِ طفلی و پیری حساب سے... 163
کوئی دن کا آب و دانہ اور ہے... 164
دنیا میں تہی دست کی وقعت نہیں ہوتی. 168
لو جان بیچ کے بھی جو فضل و ہنر ملے... 170
غیرِ توکّل نہیں چارا مجھے... 172
نکلے چلے آتے ہیں تہِ خاک سے کھانے... 174
ہو رائگاں جو قطرہ سے قطرہ جدا چلے... 175
تبلیغِ پیام ہو گئی ہے... 176
میں اگر وہ ہوں جو ہونا چاہیئے... 180
عیش کے جلسے ہجوم آلام کے... 182
درد سے لبریز سینہ چاہیئے... 183
مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے... 184
بنتی نہیں بات گفتگو کی.. 185
واں زیر کی پسند نہ ادراک چاہیئے... 186
متفرقات... 188
رباعیات... 189
توحید... 189
طلب..... 189
قرب... 190
بے نشانی. 190
آزادگی.. 191
یقین.... 191
عبودیت حجابِ ربوبیت.... 192
توحید... 192
اسلاف پر فخر بیجا.. 193
تقریض.... 193
تنزیہ. 194
غیر حق نہیں.... 194
لا موجود الا اللہ.. 195
مظاہر.. 195
عجز و ادراک... 196
ترک فضولی. 196
اختلاف خیالی ہے... 197
فاعلِ حقیقی حق ہے... 197
ذات کو تغّیر نہیں.... 198
تّجلیات حجاب میں... 198
مشاہدہ 199
کسی خاص کیف کی پابندی غلط ہے... 199
شہودِ حق میں غیر معدوم. 200
فُقر. 200
وحدت... 201
غفلت...... 201
راہِ خدا کی انتہا نہیں.... 202
خود شناسی.. 202
مظہر.... 203
کثرت لازمِ وحدت ہے... 203
طلب بے نشانی. 204
ہستی واحد ہے... 204
ہر شان میں حق تجلی ہے... 205
تنزبھ.. 205
توحید... 206
ترکِ ذکر و فکر.. 206
ترکِ خودی. 207
دین و دنیا. 207
وحدت... 208
استقلال.. 208
ایک واقعہ.. 209
اصلاحِ قوم دشوار ہے... 209
ہر کام کا نتیجہ اپنے لئے ہے... 210
مراسم میں فضولی. 210
نیچر انسان کی محکوم ہے... 211
وقت رائیگاں نہیں کرنا چاہیئے... 211
اتفاق میں کامیابی ہے اور نااتفاقی میں تباہی.. 212
ہمت.... 212
فنا عینِ وصال ہے... 213
دنیا پرست دین دار. 213
محبِ دنیا نشانِ خامی ہے... 214
ابیات... 215
کوّا 219
مثلث..... 222
قطعات... 225
مسلمانوں کی تعلیم.... 225
قطعہ وفات مِلک معظم ایڈورڈ ہفتم آن جہانی. 229
مسلمان اور انگریزی تعلیم.... 231
غریب اور امیر... 234
غزلیات... 235
رباعیات... 238
ہمّت.. 238
ہمت.... 238
مسلمانوں کی تعلیم.... 239
جھوٹی نفرت... 239
بڑا طبیب ہے گرہو منجم و جفار
نظر بروج و کواکب پہ کر کے دے نسخہ
کہ ہیں دوا پہ موثر نجوم کے آثار
دنیا پرست دیندار
ہر ایک علم و عمل میں پڑی ہے یہ پٹکی
ہر ایک طرز و روش پر پڑی ہے یہ پھٹکار
امام و حافظ د واعظ موذن و مفتی
نہ کوئی دین میں پورا نہ ٹھیک دنیا دار
زبس کہ دعوت نذر و نیاز پر ہے معاش
ہوئے ہیں قوم میں پیدا بہت سے پنشن خوار
جو اینڈتے ہیں پڑے کھا کے لقمۂ خیرات
گئی حمیت و غیرت دلوں سے ان کے سدھار
وہ پھولتے ہیں اپھرتے ہیں فخر کرتے ہیں
فقط اسی پہ کہ ہم ہیں بڑے نماز گزار
نہ خلق نیک۔نہ ہمت بجا۔نہ عزم درست
نہ حب قوم۔نہ حب وطن۔نہ حب تبار
لکھیں گے ٹھیک وہی ان کا دفتر اعمال
یہ دو فرشتے مقرر جو ہیں یمین و یسار
تھے پہلے صاحب تقویٰ تو خلق کی تصویر
نہ آج کل کے سے ملائے خشک دل آزار
کہاں ہیں دین و دیانت طہارت و تقویٰ
کہاں ہیں اگلے زمانہ کے با صفا ابرار
مدار دین ہے اس پر کہ جھٹ کتر ڈالیں
جو پائیں ٹخنے سے نیچی ذرا کسی کی ازار
فقط مسائل غسل و وضو و استنجا
یہی ہیں وحی الٰہی کے آج کل اسرار
کہیں تو ضاد کی قرأت پہ غل غپاڑہ ہے
کہیں ہے جہر پہ آمیں کے جوتی اور پیزار
کسی گروہ میں ہے ختم فاتحہ پر جنگ
کہیں ہے مجلس میلاد موجب تکرار
کہیں تو کفر کے فتووں کا چل رہا ہے گراپ
کہیں ہے طعن و ملامت کی ہو رہی بھرمار
یہ مولوی ہیں کہ بغض و نفاق کے جرنیل!
کہ جاہلوں کو لڑاتے ہیں یہ سپہ سالار!
بلا سے ان کی اگر مضحکہ کریں ملحد
ہلا سے ان کی اگر دین پر ہنسیں کفار
مناظرہ کی تصانیف قابل نفرت
مباحثہ کی کتابیں سزائے استحقار
جبیں پہ ان کی تو ہم کا ہے کبھی قشقہ
کمر پہ ان کی تعصب کا ہے سدھا زنار
ہیں سنتوں میں یہی سنتیں انھیں مرغوب
نکاح و دعوت و قیلولہ عجلت افطار
گھٹی جو دور میں ان کے تو راستی کی قدر
بڑھی جو عہد میں ان کے تو ریش کی مقدار
ملے ٹکا تو کریں ثبت مہر فتوے پر
غضب ہے نقد علیہ السلام کی جھنکار
بنائیں حیلہ گری سے حلال رشوت کو
یہاں تو مات ہیں ان سے وکیل اور مختار
سنائیں دوزخ و جنت کا حال۔لے کر فیس
ہے اس زمانہ میں چلتا ہوا یہی اوزار
یہی ہے وعظ و نصیحت کی علت رعنائی
کہ بعد کھانے کے مل جائیں نقد بھی دوچار
نہیں ہے جن کو میسر جو وعظ کا لاسہ
تو کرتے پھرتے ہیں وہ اور ہتھکنڈوں سے شکار
وہ دکھ کے فضل قناعت جتا کے صبر جمیل
وہ بھیک مانگتے ہیں بن کے حاجی و زوار
مصافحہ کے لئے ہے یہ پیش دستی کب؟
اسی میں حسن طلب ہے دیا جو ہاتھ پسار
مشائخ
بہت سے راہزنی کر رہے ہیں بن کر پیر
غریب قوم کو ہیں مارتے یہ شاہ مدار!
لیا ہے متعصدو کی نجات کا ٹھیکہ
کہ گویا ہیں یہی باغ جناں کے ٹھیکہ دار
ہزار دانہ کی تسبیح گیروا کپڑے
یہی ہیں ان میں علامات اولیائے کبار
کسی نے نقد۔کہیں جنس اور کہیں دعوت
جو بس چلے تو نہ چھوڑیں مرید کا گھربار
یہ مومنوں سے بھی جزیہ وصول کرتے ہیں
فتوح غیب رکھیں اس کا نام یا اورار
کریں جو ذکر تو پھر ایسی بولیاں بولیں
کہ شب کو چونک پڑیں ساکنان قرب و جوار
جو دعوت ان کی کریں معتقد تو ہے واجب
کہ ان کے کھانے کو ہوشربا بھی چھلہ دار
اگر ہیں باد تصوف کی اصطلاحیں چند
تو پہونچا عرش معلی پہ گوشۂ دستار
یہی ہیں آج ابو الوقت اور قطب زماں
یہی ہیں شیخ شیوخ اور زہدۂ احرار
ملا جو گانٹھ کا پورا کوئی ارادتمند
تو نقد وقت ہیں شغل و وظیفہ و اذکار
کبھی جو خواب پریشاں میں وہ لگے اڑنے
تو اپنے زعم میں ہیں مثل جعفر طیار
کبھی جو عالم رویا میں دیکھ لی بیری
مقام سدرہ کو طے کر چکے زہے پندار!!
بنائیں پہلے تو شیطاں کی جھونپڑی دل میں
کریں خیال کا ٹوکا لگا کے پھر فی النار
اگر ہیں شرع پہ قائم تو ہیں جنید زماں
جو بنگ نوش ہے کوئی تو ہے قلندر وار
رجوع خلق کی خاطر ہوئے ہیں گوشہ گزیں
کہ جیسے جھیل پہ بیٹھے سکڑ کے بوتیمار
بنے جو شیخ تو پھر وجد و حال بھی ہے ضرور
دکھائیں رقص جمل وہ کہ دنگ ہوں حضار
یہ ناز ہے کہ بزرگوں کے نام لیوا ہیں
اگرچہ ننگ بزرگاں ہوں آپ کے اطوار
عوام
عوام کی ہے یہ صورت کہ بس خدا کی پناہ
ہر ایک پیشۂ بے غیرتی میں کارگزار
ہر ایک لہو میں شامل ہر ایک لعب میں شریک
کہیں کا سانگ تماشا کسی کا ہو تہوار
دغا فریب ہو چوری ہو یا اچکا پن
نہیں ہے بے باک کسی کام سے انھیں زنہار
اب ان کے واسطے ہیں یہ مدارج اعلیٰ
پریس مین قلی۔کوچوان۔ خدمت گار
انگریزی فیشن والے
رہا وہ جرگہ۔جسے چرگنی ہے انگریزی
سوواں خدا کی ضرورت !نہ انبیا درکار!!
وہ آنکھ ہیچ کے بر خود غلط بنے ایسے
کہ ایشیا کی ہر اک چیز پر پڑی دھنکار
جو پوششوں میں ہے پوشش۔تو پس درپردہ کوٹ
سواریوں میں سواری تو دم کٹا رہوار
جو اردلی میں ہے کتا تو ہاتھ میں اک بید
بجاتے جاتے ہیں سیٹی لگ رہا ہے سگار
وہ اپنے آپ کو سمجھے ہوئے ہیں جنٹلمین
اور اپنی قوم کے لوگوں کو جانتے ہیں گنوار
نہ کچھ ادب ہے نہ اخلاق ۔نے خدا ترسی
گئے ہیں ان کے خیالات سب سمندر پار
وہ اپنے زعم ہیں لبرل ہیں یا رڈیکل ہیں
مگر ہیں قوم کے حق میں بصورت اغیار
نہ انڈین میں رہے وہ بنے انگلش
نہ ان کو چرچ ہیں آنر نہ سجدوں میں بار
ہے استفادہ مکالی سے جن کو انشا میں
قلم کے زور سے بنتے ہیں قوم کے غم خوار
جوہے بھی کوئی۔تو لاکھوں میں ایک آدھا بسا
کہ نبر درد ہوا ہے جگر میں جس کے دو سار
دگر نہ کس کو یہ غم ہے؟ کہ میری پیاری قوم
ہوا ہے زرد ہ کیوں تیرا چہرۂ گلنار
یہ تیرے پھول سے پنڈے پہ کیوں ہے میل کچیل؟
یہ تیرے پھول سے پنڈے پہ کیوں ہے گرد و غبار؟
کدھر ہے تیری طبیعت؟ کہاں ہے تیرا دل؟
خموش کیوں ہیں؟یہ تیرے لب شکر گفتار
اٹا ہے خاک سے کیوںَ؟ تیرا یہ دامن دولت
چھبے ہیں کیوں تیرے تلوے میں مفلسی کے خار؟
کہاں ہے وہ تیری عزت کا گوہر رخشاں؟
کہاں ہے وہ تری حشمت کا خلعت زرتار
تری معاش کی کشتی ہوئی ہے طوفانی
نہ بادباں ہے۔نہ لنگر۔نہ ڈانڈ نے پتوار
ہوا ہے یہ گلشن اخلاق جل کے خاکستر
چلی ہے کب سے یہ ایسی سموم آتشبار
بجائے سنبل و ریحاں کے اٹھ رہا ہے دھواں
بجائے پھول کے شعلۂ عوض کلی کے شرار
یہ تیرے علم کا دار الجلال کیوں ہے خراب؟
چھتوں پہ گھاس تو ٹوٹے ہوئے در و دیوار
ترے مرض کی یہاں تک پہنچ گئی نوبت
کہ تیرے حال پہ روتے ہیں بار اور اغیار
رسوم بدلے ترے ہاتھ پاؤں جکڑے ہیں
فضولیوں نے تیرا کر دیا ہے سینہ فگار
تری مڑک نے پنپنے دیا نہ تجھ کو حیف
تری اٹک سے تری ناؤ جا پڑی منجدھار
وہ اہل فضل کہ تھے افتخار ہندوستاں
اب ان کی نسل کو دیکھو تو ہے وہ ٹھیٹ گنوار
وہ جن کے نام سے نامی تھے شہر اور قصبات
گداگری میں ہے مصروف ان کا خیل تبار
وہ دودمان امارت کے تھے جو چشم و چراغ
اب ان کے ہاتھ مین ڈھولک ہے یا بغل میں س
جو منتخب تھے نجابت میں اور شرافت میں
اب ان کی آل کو دیکھو تو سخت بدکردار
یہ ہانکتے ہیں جو گاڑی کسی مہاجن کی
انھیں کے مورث اعلی تھے صوبہ دار بہار
ہے آج ٹکڑے کو محتاج ان کی ذریت
کہ جن کی دھاک تھی سلہٹ سے لے کے تا قندھار
امارت اپنی امیروں نے قرض میں کھو دی
عوض میں دس کے دئے سو، تو سو کے ایک ہزار
بہت سے بن گئے عیاش ہو گئے برباد
بہت سے بن گئے اوباش کھیلتے ہیں قمار
قمار میں بھی نہ سیدھا پڑے کبھی پانسہ
یہاں بھی خوبی قسمت سے جائیں بازی ہار
میں کیا کہوں کہ وہ بھرتے ہیں کس کی چلمیں آج
یہ کل جو پھرتے تھے چھیلا بنے سرے بازار
وہ آج کرتے ہیں فاقے جو تھے بڑے ملکی
نہ گھر میں گیہوں کے دانے نہ باجرا نہ جوار
ہے ٹھیکرا وہی روٹی کا پیر زادوں کی
جو گانوں ہے کوئی باقی بطور وقف مزار
ہوئی تمام بتدریج منتقل جاگیر
کہ جیسے روم کے قبضہ سے صوبہ بلغار
نہ کوئی علم نہ صنعت نہ کچھ ہنر نہ کمال
تمام قوم کے سر پر سوار ہے ادبار
اگرچہ نشوونما پا رہی ہے آزادی
کھلا ہے امن و حفاظت کا قیصری دربار
اگرچہ ملک میں علم و ہنر کا ہے چرچہ
حصول عزت و دولت کا گرم ہے بازار
ہر ایک قوم میں گھوڑ دوڑ ہے ترقی کی
درست ساز ویراق اور دیدباں تیار
لگا کے شوق کا ہنٹر۔امنگ کی مہمیز
سمند جہد کو سرپٹ اڑا رہے ہیں سوار
ہے ان کا رخش طلب دوڑ دھوپ میں آندھی
بہت فراخ ہے میداں زمین ہے ہموار
دوران کے ناقہ اہمیت کی ہیں ڈگیں لمبی
اب ان کو طے مراحل نہیں ہے کچھ دشوار
پلٹ گیا ہے زمانہ بدل گئی ہے رت
نمو کا وقت ہے اور ابتدائے فصل بہار
نہیں بعید کہ ہو جائیں ایک سب جل تھل
برس رہا ہے ترقی کا ابر گوہر بار
ہر ایک زاغ نے سیکھا ترانۂ بلبل
بھنیریوں نے اڑائی نوائے موسیقار
غرض کہ سب ہیں صلاح و فلاح کے جویا
دیا ہے ولولۂ شوق نے دلوں کو ابھار
زمانہ چونک پڑا ہے پر اے مسلمانو!
جھنجھوڑنے سے بھی ہوتے نہیں ہو تم بیدار
نہیں ہو فہم و درایت میں تم کسی سے کم
مگر چہ کار کند شیر شر زہ در بن غار
اور ایسا غار کہ بالکل جہاں اندھیرا گپ
پھر اس میں شیر مرے یا جئے بدون شکار
کروں گا اب میں قصیدہ کو اک دعا پر ختم
کہ جس کے طرز بیاں میں ہوں تازہ نقش و نگار
دعا
رہے زمانہ میں جب تک زمین کو گردش
جنائیں زاد یہ تا محور اور سطح مدار
زہے زمین پہ تا ایک سال کے اندر
برابری میں سدا امتداد لیل و نہار
رہے زمین میں تا فوت کشش باقی
اور اس کشش سے گریں ٹوٹ ٹوٹ کر اثمار
یہ ایک چاند ہے تا زمین کا خادم
جلو میں تا زحل و مشتری کے ہوں اقمار
رہے نجوم میں جب تک زمین سیارہ
اور آفتاب رہے مثل نقطۂ پرکار
خدا ہر ایک مسلمان کو کرے روزی
معاش نیک و دل پاک و خوبی کردار
حصول علم درہ مستقیم و فہم سلیم
جمال صورت و معنی کمال عز و وقار
تہنیت جشن جوبلی حضور ملکہ معظمہ وکٹوریا قیصر ہند دام اقبالہا
ہے خداوند کو سزاوار سپاس
جان نے تن میں کیا حکم سے جس کے اجلاس
پارلیمینٹ کھلی کشور دل کے اندر
عقل بے محنت کی اسبیچ پڑھی پیش حواس
ایسے دربار مقدس میں اسے بار ملا
جس کا دانش کی لونڈر سے معطر تھا لباس
تہنیت نامہ سنانے کو تعظیم و ادب
حاضر بزم ہوئے ذہن و ذکا فکر و قیاس
مالک الملک ہے تو اور عزیز و جبار
تو ہی خلاق ہے رزاق ہے اور رب الناس
صحن عالم میں کیا خیمۂ اطلس برپا
جس میں قدرت نے جڑے گوہر و لعل و الماس
دشت و کہسار کودی سبزۂ و گل سے زینت
سامنے جن کے لگیں لعل و زمرد بھی اداس
شاخ اشجار میں لٹکائے ثمر رنگارنگ
جس میں حکمت نے کیا جمع مٹھاس اور کٹھاس
تاکہ دامان زمیں تازہ و شاداب رہے
تو نے رکھا کمر کوہ پہ چشموں کا نکاس
تو جو مٹی سے اگاتا ہے چنے اور گیہوں
خاک سے کرتا مہیا جو نہ سن اور کپاس
کون کر سکتا یہ پر ذائقہ کھانے طیار
کون بن سکتا یہ پر زیب روا اور لباس
تیری رحمت کے طلبگار ہیں سب شاہ و گدا
تیری حکمت نے حریر اس کو دیا اس کو پلاس
تیری قدرت ہے قوی حکم ہے تیرا ناطق
ہے بھلا نقد بقا تیرے سوا کس کے پاس
آج اورنگ سلیماں ہے نہ تخت بلقیس
کشتی نوح کا تختہ نہ گلیم الیاس
ذکر خیر ان کا زبانوں پہ رہے گا جاری
ہاں مگر عزت و دولت کا یہی ہے مقیاس
بہرہ ور تاجوری سے دہی ذی ہوش ہوا
تیری خلقت کا کیا جس نے کیا دل و جان سے پاس
نیک نامی کی نہ پائی کبھی اس نے خوشبو
چڑھ گیا مغز میں جس شاہ کے غفلت کا ہلاس
سن کے اس نامۂ پر مغز کا میں نے مضمون
اور بھی اس کے تممہ میں لکھے شعر پچاس
ہند پر قیصر عادل کو تسلط بخشا
کس زباں سے ہو تری حمد و ثنا شکر و سپاس
ملک کو تو نے نئے سر سے کیا پھر سرسبز
تیری رحمت سے نہ غمزدہ کوئی بے آس
دور ازیں حال تباہی کی گھٹا چھائی تھی
سیل کی طرح سے طغیان پہ تھے خوف و ہراس
بن گیا تھا چمنستان سے چٹیل میدان
بیل بوٹے تھے نہ پھل پھول نہ ہر یال نہ گھاس
شاہ گلشن تھے مغیلاں تو ولی عہد تھے خار
لالۂ و سوسن و نسریں کو ملا تھا بن باس
باغ شاہنشی ہند میں آئی تھی خزاں
چیل کوے تھے مگن بلبل و طوطی تھے اداس
آل تیمور کے خورشید کا تھا وقت غروب
شام ادبار کی ظلمت سے دلوں میں تھی یاس
ضعف پیری سے حکومت کا لبوں پر دم تھا
نہ تو اوسان ٹھکانے تھے نہ قائم تھے حواس
تھے جدا سلطنت ہند کے ریزے ریزے
جیسے چینٹوں کی جماعت میں تقسیم مٹھاس
مرزبانوں کے سروں پر نہ تھا کوئی سرتاج
جان اور مال کا تھا حفظ نہ ناموس کا پاس
مغربی گھاٹ سے اٹھتے تھے جو موجے پیہم
دامن کوہ ہمالیہ سے وہ کرتے تھے تماس
غوری و خلجی و تغلق کے مٹے تھے دستور
شیر شاہی کی روش تھی نہ حصار رہتاس
نام تھا نظم و نسق کا نہ سیاست کا نشاں
اکبری دور کی باقی نہ رہی تھی بو باس
جاٹ گردی تھی کبھی گاہ مرہٹہ گردی
کبھی پنڈاروں کا تھا ڈر کبھی سکھوں سے ہراس
پرتگیز اور ولندیز و فرانسیس بھی تھے
ملک گیری کی جنہیں بھوک تھی اور مال کی پیاس
جب کلایو نے پڑھی سیف و قلم کی سیفی
کچھ گھٹے ہند کے دل سے خفقان و وسواس
فرش و دولت کی لگی ہونے نئی قطع و برید
پھٹ چلا جنگ پلاسی سے وہ پارینہ پلاس
ہیسٹنگز اور ولزلی نے عجیب کام کئے
نبض دولت کے یہی لوگ تھے رفتار شناس
چارہ فرما ہوئے ڈلہوزی و ولیم مینٹنگ
اکی طبع ممالک کو دوا ان کی راس
ہند میں کوکب انگلش نے کیا خوب عروج!
جس کے مشرق تھے یہ کلکتہ و بمبئی مدراس
واں پڑا سایۂ پرچم کہ جہاں بہتے تھے
سلج و راوی و چناب۔اٹک اور بیاس
اس صدی کے گئے جس وقت کہ سینتیس برس
فورتھ ولیم کی ہوئی ختم شمار انفاس
ہر مجسٹی دی کوئن وارث تاج ودیہم
تخت برٹش پہ ہوئی زیب فرائے وسواس
عذر کے بعد ہوا دورۂ شاہی آغاز
نیر دولت و اقبال چڑھا سمت الراس
پھر نئے سر سے ہوا کاخ حکومت ترمیم
قیصری قصر کی ہونے لگی مضبوط اساس
اے ترے تاج میں انصاف و عدالت گوہر
اے ترے تخت میں احسان و محبت الماس
عفو تقصیر کا جاری کیا تو نے منشور
بن گئے جان تن ہند کو تیرے انفاس
تیری دولت کے مدبر تھے فلاطون زمن
کھو دیا سب جگر ملک سے درد و آماس
کھل گیا سطح حکومت کا نشیب اور فراز
حسن تدبیر کی جس وقت لگائی کمپاس
کر دیا ہند کے اجزائے پریشان بہم
جڑ گیا ٹوٹ کے پھر نظم و سیاست کا گلاس
امن و انصاف کا پڑھنے لگے سب مل کے سبق
حاضر اسکول اطاعت میں ہوئی جملہ کلاس
سندھ ہے ایک طرف دوسری جانب برھما
قاعدہ کوہ ہمالہ تو کماری ہے راس
کس دیا ملک کو قانون کی زنجیروں میں
تا شرارت پہ ابھارے نہ کسی کو خناس
عہد دولت سے ترے پائی دلوں نے تسکین
سکہ زر کی طرح چل گیا تیرا قرطاس
میں ہنر تیرے زمانہ کے بغاوت روشن
روغن و موم کی جا جلنے لگی برق و گاس
تار کے سامنے یکساں ہے نہ کچھ دیر نہ جلدی
ریل کے آگے برابر ہے نہ کچھ دور نہ پاس
گاؤں در گاؤں ہوئیں علم کی نہریں جاری
اوکھ سے پینے لگے جن کو لگی زور کی پیاس
فیض تعلیم سے عالم ہوئے جاہل ہندی
کوئی عالم کوئی منشی تو کوئی حرف شناس
دم بدم ابر ترقی ہوا گوہر افشاں
کوئی ایف اے کوئی بی کوئی ایم اے ہی پاس
دور شاہی نے ترے ان کو بنایا انسان
ان میں کھانے کا سلیقہ تھا نہ تمئیز لباس
آدمیت کا پڑا ان کے دلوں پر سایہ
بعض قوتیں کہ جو خصلت میں تھیں مثل شناس
اکثر اضلاع میں کھلتی ہیں نمائش گاہیں
جمع ہوتی ہیں جہاں ملک کی صنعی اجناس
گائے بکری کی نہ ہوتی تھی جہاں پر بکری
اب وہاں تازی و ترکی کے ہیں لگنے نخاس
بحر و بر میں سے ترے زیر نگیں جتنا ملک
شاید اس وقت نہیں اور کسی شاہ کے پاس
بحر اعظم میں مہابت ہے ترے بیڑے کی
براعظم میں تری فوج سے دشمن کو ہراس
مملکت میں تری چھپا نہیں سورج زنہار
ہے یہ جغرافیہ کی رو سے بہت ٹھیک قیاس
جشن جوبلی کا ہوا غلغلہ برپا گھر گھر
خیر سے تخت نشینی کو ہوئے سال پچاس
تیری دولت کی دعا یوں ہے دلوں سے جاری
جیسے گنگوتری کے چشمے سے گنگا کا نکاس
فضل سے اپنے کرے تجھ کو عطا عمر دراز
جس کی قدرت کی کچہری میں مہ و خور چپراس
جاڑہ اور گرمی
ایک دن جاڑے نے گرمی سے کہا
میں بھی ہوں کیا خوب موسم واہ وا!
ہے بجا گر کیجئے میری صنعت
ہے روا اگر کیجئے میری ثنا
میں جہاں میں ہوں زبس ہر دل عزیز
مانگتے ہیں میرے آنے کی دعا
میرے آنے سے نہ کہو کیوں خررمی
کیا خنک پانی ہے! کیا ٹھنڈی ہوا
چاندنی ہے بے کدورت بے غبار
آسماں ہے صاف نیلا خوشنما
رات گرمی کی تو کچھ ہوتی نہ تھی
دن کی محنت سب کو دیتی تھی تھکا
میری آمد نے کیا شب کو دراز
میرے آنے نے دیا دن کو گھٹا
لو مسافر کا جھلس دیتی تھی منہ
اور زمیں تلووں کو دیتی تھی جلا
اب ہوا بھی اور زمیں بھی سرد ہے
کھو دیا میں نے حرارت کا پتا
مل گئی کتنے بکھیڑوں سے نجات
ٹٹیاں موقوف پنکھا چھٹ گیا
دھوپ کا ڈر ہے نہ لوکا خوف ہے
ان دنوں کی دھوپ ہے گویا غذا
سورج اب کترا کے جاتا ہے نکل
فصل تاکستاں میں تھا سرپر چڑھا
ہے خضر میں برج کل عیش و نشاط
ہے سفر بھی ان دنوں راحت فزا
میرے دم سے تندوری بڑھ گئی
پائی مدت کے مریضوں نے شفا
ڈاکٹر صاحب کو فرصت مل گئی
اب شفا خانہ میں کم جمگھٹا
ضعف معدے کی شکایت مٹ گئی
بے دوا خود بڑھ گئی ہے اشتہا
مکھیاں بھی رہ گئی ہیں خال خال
بے تکلف اب ہے کھانے کا مزہ
گرم پوشاکوں نے اب پایا رواج
میں نے بخشا آن کر خلعت نیا
سل گئے تو شک لبادے اور لحاف
درزیوں نے پایا محنت کا صلہ
میرے ہوتے کون پوچھے برف کو
باسی پانی برف کا بھی ہے چچا
ندی نالوں کا گیا پانی نتھر
جھیل اور تالاب نے پائی صفا
طالب علم اب کریں گے کوشش
کوششوں سے ہو گا پورا مدعا
ٹھیک وقت ان ورزشوں کا ہے یہی
تندرستی کا ہے جن سے فائدہ
کرکٹ اور فٹ بال اور جمناسٹک
کرتے ہیں مضبوط جسمانی قوا
حاکموں نے کر دیا دورہ شروع
تا کریں در در رعایا کی دوا
جا بجا فوجیں ہوئی ہیں مجتمع
تاکہ میداں میں کریں مشق دغا
سیب۔نارنگی۔بہی۔لیمو۔انار
ذائقہ ہے جن کی صورت پہ فدا
پستۂ و بادام انگور و مویز
میوہ ہر اک قسم کا بکنے لگا
تخم ریزی جنس اعلیٰ کی ہوئی
کھیت میں بویا گیا گیہوں چنا
عید کی سی دھوم ہے دیہات میں
پک گئی ایکھ اور کولھو چل پڑا
ہے مٹھائی کی نہایت ریل پیل
چل رہی ہے آج کل میٹھی ہوا
انس ہے محنت مشقت سے مجھے
کاہلی کو میں نہیں رکھتا روا
محنتی ہیں مجھ سے خوش میں ان سے خوش
کاہلوں کا میں نہیں ہوں آشنا
سن کے یہ باتیں ہوئی گرمی بھی تیز
اور جل کر یوں جواب اس کو دیا
آپ اپنے منہ میاں مٹھو نہ بن
خود ستائی عیب ہے او خود ستا
اس کو ہوتا ہی نہیں حاصل کمال
جو کہ اپنے آپ کو سمجھے بڑا
یا سبز تو سرکشی کرتے نہیں
بلکہ سرکو اور دیتے ہیں جھکا
تیری خود بینی ہوئی تجھ کو حجاب
خوبیوں کو میری سمجھا بدنما
تجھ سے عالم میں خزاں کا ہے ظہور
مجھ سے ہے فصل بہاری کی بنا
تو نے شاخوں کے لئے پتے کھسوٹ
تو نے پیڑوں کو برہنہ کر دیا
میرے آنے سے پھلے پھولے شجر
سبز پوشاک ان کو میں نے عطا کی
میں نے شاخوں میں لگائے برگ و بار
ورنہ تھا کیا ان میں ایندھن کے سوا؟
کھیت جاڑے بھر تو کچے ہی رہے
ہاں مگر میں نے دیا ان کو پکا
تو نے رکھے تھے بخیلوں کی طرح
برف کے تودے پہاڑوں میں چھپا
میں پگھلا کر کیا تقسیم اسے
تاکہ پہنچے سب کو فیض و فائدہ
خشک چشمے بھر گئے دریا چڑھے
دیکھ لے میرا کرم میری سخا
تجھ سے تھی مخلوق میں افسردگی
کون خوش تھا؟ جز گروہ اغنیا
میری آمد نے مساوی کر دئے
راحت و آرام میں شاہ و گدا
کر دیا میں رگوں میں خوں روا
ٹھنڈ سے شل ہو گئے تھے دست و پا
آدمی کو یہ شیوہ ذلیل و خوار
رستے کو راستی کے نہ زنہار چھوڑنا
ہوتا ہے راستی ہی سے انسان رستگار
جو بات تھی صلاح کی وہ ہم نے دی بتا
آئندہ اپنے فعل کا ہے تم کو اختیار
بخیلی اور فضولی
اری بخیلی! اور اے فضولی! تمھارا دونوں کا مُنہ ہو کالا
گناہ گاری کے تم ہو چشمے۔ تمھیں سے نکلیں خراب رسمیں
تمھیں نے دم بھر میں سب گنوایا تمھیں نے سب خاک میں ملایا
کمانے والوں نے جو کمایا بصد مشقت کئی برس میں
نہ مال و دولت کے فائدوں ہی سے کر کے محروم تم نے چھوڑا
بنایا بد عہد اور بے دیں۔ کھلائیں جھوٹی ہزار قسمیں
لگا کے حرص و طمع کا پھندا۔ سکھایا خود مطلبی کا دھندا
بنایا حق تلفیوں کا بندہ۔ پھنسا کے تم نے ہوا ہوس میں
ہوئی بخیلوں کی کیا بُری گت نہ پاِس عزت نہ کچھ حمیّت
نہ حوصلہ ہی رہا نہ ہمّت۔ نہیں ہے فرق اُن میں اور مگس میں
لُٹا کے دولت کو اپنی مُسرِف۔ ہوئے ہیں کیا کیا ذلیل احمق
کہ جیسے بے بال و پر کی چڑیا اسیر ہو گوشۂ قفس میں
کاشتکاری
گنجِ زر خاک سے اُگلوایا
کیمیا شغلِ کاشتکاری ہے
کر چُکا جب کسان اپنا کام
پھر خدا سے امیدواری ہے
آفتِ ارضی و سماوی سے
ہے نگہباں۔ تو فضلِ باری ہے
نہیں حاصل پہ دسترس نہ سہی
بیج بونا تو اختیاری ہے
وقت ضائع نہ کر۔ اگیتی بو
سینچ لے کھیت نہر جاری ہے
جوت۔ بو۔ سینچ۔ پھر توکّل کر
نہ کیا کُچھ تو شرمساری ہے
سرسری ساگ پات کو مت جان
اِس پہ تو زندگی ہماری ہے
جڑ۔ تنہ۔ ڈال۔ پات۔ پھل اور پھول
دستِ قدرت کی نقش کاری ہے
اپنی قُوت سے قُوت حاصل کر
مُفت خواری حرام خواری ہے
کاہلی سے گھٹا نہ پیداوار
یہ تو بَڑھیا گناہگاری ہے
اپنے اوپر ستم روا مت رکھ
واجب اپنی بھی حق گُزاری ہے
بیل سے پڑھ جفا کشی کا سبق
کُچھ اگر تجھ میں ہوشیاری ہے
کام میں کَھپ رہا ہے بیچارہ
ناشتا ہے نہ کچھ نہاری ہے
رات کاٹی جہاں سمائے سینگ
عیش و عشرت پہ لات ماری ہے
تھک گیا تو زمین پہ بیٹھ گیا
کس قدر مشقِ خاکساری ہے
بیل ہے پر نہیں کسی کا دبیل
کرتا اوروں کی غم گُساری ہے
صبر و محنت کی یہ کڑی منزل
اُس کو ہلکی ہے تجھ کو بھاری ہے
دیکھ چوپایہ سے نہ بازی ہار
تیری ہمت اگر کراری ہے
کُچھ نہ کُچھ کام کر۔ اگر تجھ کو
آدمیّت کی پاسداری ہے
کاشتکاری۔۲
جو تُو نے غفلت میں وقت کھویا۔ نہ کھیت جوتا۔ نہ بیج بویا
تو ایسی ڈوبی ہوئی اسامی سے کوئی حاصل بٹائے گا کیا؟
رہے گا یہ کھیت ہاتھ اُس کے۔ جو ہَل سے کُشتی لڑے گا دن بھر
جو ہار بیٹھے گا اپنی ہمت۔ تو وہ زمیں کو اُٹھائے گا کیا؟
خوراک و پوشاک کے ذخیرے دبے پڑے ہیں زمیں کے اندر
جو کر کے محنت نہ کھود لے گا۔ تو خاک پہنے گا۔ کھائے گا کیا؟
قرض
دامِ بلا ہے قرض پھنسے اور ہوئے شکار
ہے پاِس آبرو۔ تو رہو ہوشیار تم
کنیاتے ہی رہو گے سدا قرض خواہ کو
اِس ننگ و عار کو نہ کرو اِختیار تم
دیکھو! یہ قرضِ وعدہ خلافی نہ دے سکھا
ہو جاؤ گے جہان میں بے اعتبار تم
جب تک وبالِ جان نہ جانو گے قرض کو
ہر گز نہ بن سکو گے کفایت شعار تم
گر دُرِّ شاہوار ملے کوڑیوں کے مول
زنہار بھول کر بھی نہ لینا اُدھار تم
مقروض ہو گئے تو پیادہ سے ہو بتر
مانا کہ رکھتے ہو فرسِ راہوار تم
غالب کہ ریل پر بھی ہو قطع سفر محال
جو قرض کے ٹکٹ سے ہوئے ہو سوار تم
کشتیِ نوح پر بھی چڑھے گر بطورِ قرض
مُجھ کو یہ خوف ہے کہ نہ پہونچو گے پار تم
مقروض کی نہیں ہے زمانہ میں آبرو
یوں اپنے دل میں بات بناؤ ہزار تم
تم جانتے ہو گرچہ بُرا سود خوار کو
ہے اصل یہ۔ کہ بن گئے بے سود۔ خوار تم
وہ بندۂ درم سہی اُس کا غلام کون؟
اپنے ہی دل میں سوچ لو اپنا وقار تم
پھر ہو سکے گا کوئی بھی افسوں نہ کارگر
لقمہ کو قرض کے نہ کرو زہر مار تم
سب سے زیادہ بدنصیب کون؟
اُس سے دنیا میں نہیں کوئی زیادہ بدبخت
جو نہ دانا ہو۔ نہ داناؤں کا مانے کہنا
آج آفت سے بچی جان۔ تو کل خیر نہیں
ایسے نادان کا مشکل ہے سلامت رہنا
ہمّت
گھوڑ دوڑ میں کودائی کی بازی تھی ایک دن
تازی پے کوئی۔ ترکی پے اپنے سوار تھا
جو ہِچکچا کے رہ گیا۔ سو رہ گیا ادھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق پار تھا
اپنے فعل پر پشیمانی
پیش آئے جو مصیبت پڑتی ہے سو بھگتنی
رہتی ہے یوں تسلی۔ مرضی یہی تھی رب کی
پر اپنے گوتکوں سے آتی ہے جو مصیبت
ہوتی ہے ساتھ اُس کے شرمندگی غضب کی
معافی میں سرور ہے
نادموں کی خطا معاف کرو
ہے معافی میں لذّت اور سرور
اپنے دل میں ذرا کرو انصاف
کون ہے جو ہے بے خطا و قصور
انتقامِ علاج خطا ہے
جو انتقام نہ لینے سے ہو خطا افزوں
تو یہ تمہاری خطا ہے جو انتقام نہ لو
وہ کام جس سے کہ اوروں کو فائدہ پہنچے
تم اس کے کرنے سے زنہار ہاتھ تھام نہ لو
جو انتقام سے منظور ہو خوشی اپنی
تو ایسے کام کا تم بھول کے بھی نام نہ لو
خطا کو خطا نہ جاننا ہلاکت ہے
ہے بیمار تو ۔ لیک بچنے کے قابل
گر اپنی خطا کو خطا جانتا ہے
مگر ایسے نادان کا کیا ٹھکانا
جو درد ہی کو دوا جانتا ہے
برا مانتا ہے جو سمجھائے کوئی
برائی کو اپنی بھلا جانتا ہے
وہ انجام کو روئے گا سر پکڑ کر
نہیں اس میں دھوکا خدا جانتا ہے
ہر کام میں کمال اچھا ہے
کوئی پیشہ ہو زراعت یا تجارت یا کہ علم
چاہیئے انسان کو پیدا کرے اس میں کمال
کاہلوں کی عمر بڑھ جاتی ہے خود کر لو حساب
با ہنر کا ایک دن اور بے ہنر کا ایک سال
دوراندیشی
جنھیں دی ہے خدا نے عقل دانا
ہے ان کو آج ہی سے فکر کل کی
مسافر چل پڑا جو آخر شب
تو ہو جاتی ہے منزل اس کی ہلکی
بدی کے عوض میں نیکی کرنا
ہر ایک جانور کا یہی خاصہ ہے
بدی کے عوض میں بدی کی تو کیا کی
ہے البتہ وہ شخص انسان کامل
جفا کے مقابل میں جس نے وفا کی
قول و فعل میں مطابقت چاہئیے
دیرینہ رسم و راہ سے قطع نظر کرو
برتاؤ آج کل کے زمانہ کے اور ہیں
دل شرق میں پڑا ہے پہ کہتے ہیں غرب کی
کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہیں
دل کی یک سوئی خلوت ہے
اگر دل گرفتار ہے مخمصوں میں
تو خلوت بھی بازار سے کم نہیں ہے
مگر جس کے دل کو ہے یک سوئی حاصل
تو وہ انجمن میں بھی خلوت نشیں ہے
غزلیات
ردیف (الف)
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی ، کیا آسماں بنایا
پانوں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی
اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا
مٹی سے بیل بو نٹے کیا خوش نما اگائے ،
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا
خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے
اس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا
میوے لگائے کیا کیا خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہان بنایا
سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا
سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا
پیاسی زمیں کے منہ میں مینھ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تو نے مینھ کا نشاں بنایا
یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا
تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا
اونچی اڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
ان بے پروں کا ان کو روزی رساں بنایا
کیا دودھ دینے والی گائیں بنائیں تو نے
چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا
رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میسر
ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدر داں بنایا
آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا
ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائے گاں بنایا
علیک السلام اے شفیع البرایا
اولعزم تجھ سا نہ آئے نہ آیا
علیک السلام اے امیں الہی
کہا جو خدا نے وہ تو نے سنایا
علیک السلام اے رفیع المدارج
کسی نے نہیں تیرے رتبے کو پایا
علیک السلام اے ستودہ خصائل
فدا خلق پر تیرے اپنا پرایا
علیک السلام اے جمیل الشمائل
جواد و رؤف و کریم السجایا
علیک السلام اے امان دو عالم
ترا دامن لطف ہے سب پہ چھایا
علیک السلام اے جمال معنی
نہ تھا تیرے جسم مطہر کا سایا
علیک السلام اے محب غریباں
ترے حلم نے بار امت اٹھایا
علیک السلام اے ترا نور اقدس
ہے سلطان اور جملہ عالم رعایا
علیک السلام اے تجھے ذات حق نے
جو اول بنایا ۔ تو آخر دکھایا
علیک السلام اے شہنشاہ وحدت
کہ توحید کا تو نے سکہ بٹھایا
علیک السلام اے طبیب نہانی
دلوں میں جو تھے روگ سب کو مٹایا
علیک السلام اے شفائے مجسم
عجب تو نے صحت کا نسخہ پلایا
علیک السلام اے سوار سبک رو
کسی نے تری گرد رہ کو نہ پایا
علیک السلام اے رسالت پناہی
خدا کا ہمیں تو نے رستہ بتایا
علیک السلام اے ہدایت کے مرکز
تجھے حق نے انسان کامل بنایا
درود و سلام و صلوۃ و تحیت
یہ لایا ہے حامد تحف اور ہدایا
تمھارے تیر میں انداز تھا نظر کا سا
ہر ایک دل کا ہے نقشہ مرے جگر کا سا
رقیب سر بھی پٹکتے تو میں نہ ہلتا کاش
ملا نہ بخت مجھے تیرے سنگ در کا سا
فروغ رخ یہ نظر میں سما گیا یک بار
کہ شام ہی سے مرا حال ہے سحر کا سا
سر اس غبار کا دامان شہسوار پہ ہے
ملا فرشتہ کو رتبہ کہاں بشر کا سا
پیام مرگ سے لیتا ہوں میں شگون وصال
گماں ہے تیر پہ بھی مرغ نامہ بر کا سا
کسی کی برق تبسم جو دل میں کوند گئی
تو چشم تر کا ہوا حال ابر تر کا سا
ذرہ ذرہ حیرتی ہے مہر پر تنویر کا
بے خودی آئینہ ہے ہنگامہ تکبیر کا
بیٹھ ہی جاتی ہے دل میں گود مجھ میں کچھ نہ آئے
میں تو دیوانہ ہوں اس کی دل ربا تقریر کا
ہے مسلم ناز یکتائی اسے ہر رنگ میں
ضلوہ نقش آفریں خاکہ ہو جس تصویر کا
توڑ اصنام ہوا اور دل کو ویرانہ بنا
ہے یہی سنگ بنا اس کعبہ کی تعمیر کا
حیف وہ سائل کہ کچھ دے کر جسے رخصت کیا
وائے وہ نالہ صلہ جس کو ملا تاثیر کا
عیب پوشی کو ہمیشہ کام فرمایا کئے
کشتہ الطاف ہوں یاران بے تدبیر کا
(١) یہ سلام محمد حامد جوان مرگ فرزند مصنف کی فرمائش سے لکھا گیا تھا ۔
باغباں کی کار فرمائی سے دیتا ہے خبر
گلشنِ عالم میں چلنا صرصرِ تغیر کا
اُس کے آنے کی توقع کر رہی ہے نفخِ روح
صورِ اسرافیل ہے کھٹکا مجھے زنجیر کا
غایتِ ترکیبِ اعضا ہے یہی کچھ کام کر
کاہلی اے بے خبر منشا نہیں تقدیر کا
جرم بھی اور خیرگی! یہ سیرتِ ابلیس ہے
ابنِ آدم کو ہے شایاں عذر ہی تقصیر کا
ہے اشارہ پر قلم کے لشکروں کی صلح و جنگ
دو گروہ کی چوب سے دم بند ہے شمشیر کا
آہ کھانا ہی پڑا داغِ فراقِ دائمی
قہر تھا ہونا کبھی اک لمحہ کی تاخیر کا
دل گیا ہاتھ سے کیا ہاتھ سے داماں نکلا
کہ تیرے پاؤں کی مانند گریباں نکلا
مر گئے دیکھ کے آثارِ سحر شامِ وصال
دشمنِ جانِ ستم کش رُخِ جاناں نکلا
دیکھ بے ہوش مجھے اشک فشاں ہیں احباب
جذبۂ شوق تو بد خواہِ عزیزاں نکلا
چارۂ جوشِ جنوں خانہ خرابی نہ ہوئی
گھر سمجھتے تھے جسے ہم سو بیاباں نکلا
کس قدر دل میں مرے جوشِ شکستِ دل ہے
کوئی سالم نہ ترے تیر کا پیکاں نکلا
بس کہ ہے نقشِ قدم دامِ گرفتاری جاں
اُن کے ہر گام پہ اک گنجِ شہیداں نکلا
پھر گئے دل ہی بیک گردشِ چشمِ کافر
دور میں کوئی بھی تیرے نہ مسلماں نکلا
آخری وقت کے وعدہ نے کیا شادی مرگ
ہمرہِ جاں دلِ مایوس کا ارماں نکلا
نکلے تم غیر کے گھر سے کہ مری جاں نکلی
جس کو دشوار سمجھتے تھے وہ آساں نکلا
تو اور عذرِ طعنِ رقیباں غضب ہوا
دل پارہ پارہ جب نہ ہوا تھا تو اب ہوا
ڈر کر ہلاک بو الہوسِ بے ادب ہوا
اُن کو بھی میری جان شکنی سے عجب ہوا
لبریز شکوہ ہائے تغافل تھا میں ولے
لو شکر کا سبب گلۂ بے سبب ہوا
لیتے ہیں ترکِ عشق سکھانے کے واسطے
دل نذر جاں فزائی حُسنِ طلب ہوا
کیا آگے اُس کے ولولہ شوق سر اٹھائے
سجدہ کیا تو ملزمِ ترکِ ادب ہوا
میرے سوا حریف ستم کوئی بھی نہ تھا
اب مہرباں ہو گئے یہ کیا غضب ہوا
ان کا نہ آستانہ سے باہر قدم بڑھا
سو بار انتظار میں میں جاں بلب ہوا
ہے بے لب و زباں بھی غُل تیرے نام کا
محرم نہیں ہے گوش مگر اِس پیام کا
خوش ہے ملامت اہلِ خرابات کے لئے
اس سلسلہ میں نام نہیں ننگ و نام کا
نخوت ہے جس کے کاسۂ سر میں بھری ہوئی
کب مستحق ہے محفلِ رنداں میں جام کا
جاگیرِ دَرد پر ہمیں سرکارِ عشق نے
تحریر کر دیا ہے وثیقہ دوام کا
وادی عشق میں نہ ملا کوئی ہم سفر
سنتے تھے نام خضر علیہ سلام کا
آسودگی نہ ڈھونڈ کہ جاتا ہے کارواں
لے مُستعار برق سے وقفہ قیام کا
کھولا ہے مُجھ پہ سرِّ حقیقت مجاز نے
یہ پُختگی صِلہ ہے خیالاتِ خام کا
کھاتا نہیں فریب تمنّائے دو جہاں
خوگر نہیں ہے توسنِ ہمّت لگام کا
مت رکھ طمع سے چشمِ تمتّع۔ کہ ہے یہاں
دانہ ہر ایک مردمکِ دیدہ دام کا
پہونچا دیا حدودِ عالم سے بھی پرے
مُطرب نے راگ چھیڑ دیا کس مقام کا
ظلمت میں کیا تمیز سفید و سیاہ کی
فرقت میں کُچھ حساب نہیں صبح و شام کا
جس کی نظر ہے صنعتِ ابرو نگار پر
ہے وہ قتیلِ تیغ۔ نہ کشتہ نیام کا
کھانے کو اے حریص غمِ عشق کم نہیں
یہ ہو تو کچھ بھی فکر نہ کر قرض و دام کا
میں بے قرارِ منزلِ مقصود بے نشاں
رستہ کی انتہا نہ ٹھکانا مقام کا
گر دیکھئے تو خاطرِ ناشاد شاد ہے
سچ پوچھئے تو ہے دلِ ناکام کام کا
اُٹھے تِری نقاب تو اُٹھ جائے ایک بار
سب تفرقہ یہ روز و شب و صبح شام کا
رسوا ہوئے بغیر نہ نازِ بتاں اُٹھا
جب ہو گئے سبک تو یہ بارِ گراں اُٹھا
معنی میں کر تلاشِ معاشِ دماغ و دل
حیواں صفت نہ لذّتِ کام و دہاں اُٹھا
یا آنکھ اُٹھا کے چشمِ فسوں ساز کو نہ دیکھ
یا عمر بھر مصائبِ دورِ زماں اُٹھا
بے یادِ دوست عمرِ گرامی نہ صرف کر
اِس گنجِ شائگاں کو نہ یوں رائگاں اُٹھا
وصل و فراق و وہم سہی دل لگی تو ہے
پھر کہاں جو پردۂ رازِ نہاں اُٹھا
پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہہ دیا ۔ کہ شمع کے سر سے دھواں اُٹھا
میں در پہ ترے ناصیہ سا ہو نہیں سکتا
دشمن کا بھی نقشِ کفِ پا ہو نہیں سکتا
باقی نہ رہی غیر کا اب جائے شکایت
شکرِ سِتم یار ادا ہو نہیں سکتا
سب کُچھ تو کیا ہم نے پہ کُچھ بھی نہ کیا ہائے
حیراں ہے کیا جانئے کیا ہو نہیں سکتا
اُس کوچے میں کیوں شب و روز ہیں پھرتے
گر چرخ سے جز جور و جفا ہو نہیں سکتا
اعدا سے ہوئے وہ مُقرہ وعدہ خلافی
میں منکرِ تاثیرِ دعا ہو نہیں سکتا
پامال کیا بے سرو پائی نے صدا افسوس
دل ہم قدمِ رنگِ حنا ہو نہیں سکتا
جس دل سے کدورت نہ گئے خاک ہے وہ دل
کیا آئینہ جو اہل صفا ہو نہیں سکتا
وہیں سے جب کہ اشارہ ہو خود نمائی کا
عجب کہ بندہ نہ دعوے کَرے خدائی کا
ملے جو رتبہ ترے در کی جبیں سائی کا
تو ایک سلسلہ ہو شاہی و گدائی کا
نہیں ہے فیض میں خِسّت و لیک پیدا ہے
تفاوتِ آئینہ و سنگ میں صفائی کا
یہاں جو عشق ہے بے تابِ جلوۂ دیدار
وہاں بھی حُسن محرَّک ہے خود نمائی کا
بتوں کے سامنے بُت گر گھِسے جبینِ نیاز
میں شیفتہ ہوں تری شانِ کبریائی کا
نہ کر کسی کی بُرائی نہ بن بھلے سے بُرا
بھلا بھلا ہے بُرا کام ہے بُرائی کا
بنائیں بگڑی ہوئی کو تو ایک بات بھی یے
بگاڑنا نہیں مشکل بنی بنائی کا
اُٹھا حجاب تو بس دین و دل دئے ہی بنی
جناب شیخ کو دعوے تھا پارسائی کا
تمھارے دل سے کدورت مٹائے تو جانیں
کھُلا ہے شہر میں اِک محکمہ صفائی کا
ہوس ہے گر سر و ساماں کے جمع کرنے کی
تلاش کر سر و ساماں بے نوائی کا
سوائے عشق نہیں کوئی رہبرِ چالاک
خِرد کو نہیں حوصلہ رسائی کا
اُسی کا وصف ہے مقصود شعر خوانی سے
اُسی کا ذکر ہے منشا غزل سرائی کا
نہیں ہے اب کے زمانہ کی یہ روش زنہار
میں یادگار ہوں خاقانی و سنائی کا
آغازِ عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا
تم روز و شب جو دست بدستِ عدو پھرے
میں پائمالِ گردشِ ایّام ہو گیا
میرا نشاں مٹا تو مٹا پر یہ رشک ہے
وردِ زبانِ خلق ترا نام ہو گیا
دل چاک چاک نغمۂ ناقوس نے کیا
سب پارہ پارہ جامۂ احرام ہو گیا
اب اور ڈھونڈے کوئی جولاں گہِ جنوں
صحرا بقدرِ وسعتِ یک گام ہو گیا
دل پیچ سے نہ طُرّۂ پُر خم کے چھُٹ سکا
بالا روی سے مرغِ تہ دام ہو گیا
اور اپنے حق میں طعن تغافل غضب ہوا
غیروں سے ملتفت بتِ خود کام ہو گیا
تاثیرِ جذبہ کیا ہو کہ دلِ اضطراب میں
تسکیں پذیرِ بوسہ بہ پیغام ہو گیا
کیا اب بھی مُجھ پے فرض نہیں دوستیِ کفر
وہ ضد سے میری دشمنِ اسلام ہو گیا
اللہ رے بوسۂ لبِ مے گوں کی آرزو
میں خاک ہو کے دردِ تہِ جام ہو گیا
اب تک بھی ہے نظر طرفِ بامِ ماہ وش
میں گرچہ آفتابِ لبِ بام ہو گیا
اب حرفِ نا سزا میں بھی اُن کو دریغ ہے
کیوں مجھ کو ذوقِ لذّتِ دشنام ہو گیا
نا مہربانیوں سے یوں پائمال کرنا
ہیہات ! دوستوں کو دشمن خیال کرنا
روزِ جزا میں آخر ۔ پوچھا نہ جائے گا ؟
تیرا یہ چپ لگانا - میرا سوال کرنا
او شہسوار اتنی اچھی نہیں ہے عُجلت
ہیں چند پا شکستہ - اِن کا خیال کرنا
ناقص بھی کاملوں سے ۔ کُچھ کم نہیں کہ اِن سے
سیکھا ہے کاملوں نے کسبِ کمال کرنا
کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
تیرا چاہا ہوا بُرا نہ ہوا
خاک اڑتی جو ہم خدا ہوتے
بندگی کا بھی حق ادا نہ ہوا
سب جتایا کئے نیازِ قدیم
وہ کسی کا بھی آشنا نہ ہوا
رخشِ ایّام کو قرار کہاں
اِدھر آیا اُدھر روانہ ہوا
کیا کھُلے ؟ جو کبھی نہ تھا پنہاں
کیوں ملے؟ جو کبھی جدا نہ ہوا
سخت فتنہ جہاں میں اُٹھتا
کوئی تجھ سا تِرے سوا نہ ہوا
جو گدھا خوئے بد کی دلدل میں
جا پھنسا پھر کبھی رہا نہ ہوا
تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا
رہ روِ مسلکِ توکّل ہے
وہ جو محتاج غیر کا نہ ہوا
نتیجہ کیونکر اچّھا ہو نہ ہو جب تک عمل اچّھا
نہیں بویا ہے تخم اچّھا تو کب پاؤ گے پھل اچّھا
کرو مت آج کل حضرت ! بُرائی کو ابھی چھوڑو
نہیں جو کام اچّھا ۔ وہ نہ آج اچّھا نہ کل اچّھا
بُرے کو تگ بھی کرنے اور توقع نیک نامی کی
دماغ اپنا سنوارو تم ! نہیں ہے یہ خلل اچّھا
جو ہو جائے خطا کوئی ۔ کہ آخر آدمی ہو تم
تو جتنا جلد ممکن ہو کرو اُس کا بدل اچّھا
کرے جو پاؤں بد راہی تو سونا اُس کا بہتر ہے
نہ ہو جس ہاتھ سے نیکی تو ایسا ہاتھ شل اچّھا
ذرا غم زدوں کے بھی غم خوار رہنا
کریں ناز تو ناز بردار رہنا
فراخی و عُسرت میں ۔ شادی و غم میں
بہر حال یاروں کے تم یار رہنا
سمجھ نردباں اپنی ناکامیوں کو
کہ ہے شرطِ ہمّت طلب گار رہنا
کرو شکر ہے عنایت خدا کی
بلاؤں میں اکثر گرفتار رہنا
اگر آدمی کو نہ ہو مشغلہ کُچھ
بہشتِ بریں میں ہو دشوار رہنا
خبر ہے آدم سے جنّت چھُٹی کیوں
خلافِ جبلّت تھا بے کار رہنا
سمجھتے ہیں شیروں کو بھی نرم چارہ
غزالانِ شہری سے بھی ہشیار رہنا
یاد تیری یاد ہے نامِ خدا
ورنہ ہم کیا ؟ اور ہماری یاد کیا؟
صدر آرا تو جہاں ہو صدر ہے
آگرہ کیا اور الہ آباد کیا
مبداء فیّاض کے شاگرد کو
حاجتِ آموزشِ اُستاد کیا
اک کسوٹی ہے ترے کردار کی
مرتبہ کیا مال کیا اولاد کیا
نقابِ جور میں روپوش اک لطفِ نہاں نکلا
وہ میرے حال پر مُجھ سے بھی زیادہ مہرباں نکلا
نہ تھا بزمِ احبّا ہی میں تیرا ذکر دشمن بھی
بیاں کرتا سِر بازار تیری داستاں نکلا
حجابِ شاہدِ مطلق نہ اُٹّھا ہے نہ اُٹھے گا
جسے ہم لا مکاں سمجھے تھے وہ بھی اک مکاں نکلا
جو بھلے بُرے کی اٹکل نہ مِرا اشعار ہوتا
نہ جزائے خیر پاتا ۔ نہ گناہگار ہوتا
مئے بیخودی کا ساقی ! مجھے ایک جرعہ بس تھا
نہ کبھی نشہ اُترتا ۔ نہ کبھی خمار ہوتا
میں کبھی کا مر بھی رہتا - نہ غمِ فراق سہتا
اگر اپنی زندگی پر مُجھے اختیار ہوتا
یہ جو عشق جانستاں ہے ۔ یہ وہ بحرِ بیکراں ہے
نہ سُنا کوئی سفینہ کبھی اِس سے پار ہوتا
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمھیں نا گوار ہوتا
ہے اِس انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا
کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہ ہی کاروبار ہوتا
سنو گے مُجھ سے میرا ماجرا کیا ؟
کہا کرتے ہیں افسانوں میں کیا کیا؟
نہیں تشویشِ آیندہ کہ ہو کب ؟
گزشتہ کا تحیّرُ ہے کہ تھا کیا
نہ کر تفتیش ہے خلوت نشیں کون؟
تامّل کر کہ ہے یہ برملا کیا؟
ہے اِک آئینہ خانہ بزمِ کثرت
بتاؤں غیر کس کو ؟ ماسوا کیا؟
جو نکلا ہی نہ ہو قصرِ عدم سے
بگاڑے گی اُسے موجِ فنا کیا؟
فقط مذکور ہے اِک نسبتِ خاص
مقدّر ہے خبر کیا ؟ مبتدا کیا؟
جہاں نقشِ قدم ہو روحِ قدسی
وہاں پہنچے گی عقلِ نا رسا کیا؟
لگاؤں ’’شیئاللہ‘‘ کی صدا کیوں ؟
بھُلا دوں ’’ یفعل اللہ مَایشاء ‘‘ کیا؟
سلام
محرّم کا چاند آسماں پر جو چمکا
تو یاد آگیا واقعہ رنج و غم کا
مصیبت کا بیداد کا بے کسی کا
غضب کا جفا کا بلا کا ستم کا
وطن سے جدا دشتِ غربت میں جا کر
ہوا قتل کنبہ شفیع الامم کا
یہ شیرانِ حق ۔ اور وہ دنیا کے کتّے
لئیموں نے کاٹا سر اہلِ کرم کا
کیا ظلم بے وجہ سلطانِ دیں پر
یہ لالچ تھا دُنیا کے جاہ و حشم کا
شہیدوں کی ہے تشنگی یاد آتی
نہ ہو چشمہ لبریز کیوں چشمِ نم کا
رضا اور تسلیم صبر و توکّل
مصیبت میں شیوہ تھا اہلِ کرم کا
یہ وہ دن ہے جس دن میں ڈھایا گیا ہے
جو کعبہ عرب کا ۔ تو قبیلہ عجم کا
برستی ہے دیوار و در سے اُداسی
ہے چھایا ہوا ابر رنج و الم کا
تڑپتی ہے بجلی تو روتے ہیں بادل
کہ ہے آج کا دن شہیدوں کے غم کا
کرے کوئی تحریر و تقریر کیونکر
نہ جراءت زباں کی نہ یارا قلم کا
متفرقات
سب جھوٹ ہے کوئی کیا کرے گا
ہو گا وہی جو خدا کرے گا
کرنے دو بدی کرے جو کوئی
اُس کا بھی خدا بھلا کرے گا
خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو
ورنہ یہ بحرِ بیکراں ہوتا
ردیف (ب)
کیا کیا اجل نے جان چُرائی تمام شب
کوئی بھی آرزو نہ بَر آئی تمام شب
دل سوز کب ہوئے ہیں کہ جب خاک ہو گیا
تربت پہ میری شمع جلائی تمام شب
اے وائے تلخ کامیِ روز بد فراق
ناصح نے جانِ غم زدہ کھائی تمام شب
از بس یقینِ وعدۂ دیدارِ خواب تھا
کیا خوش ہوئے کہ نیند نہ آئی تمام شب
اِک آہِ دل نشیں میں وہ بُت منفعل ہوا
واللہ کیا ندامت اُٹھائی تمام شب
لگتے ہی آنکھ دیکھ لیا جلوۂ نہاں
پیشِ نظر تھی شانِ خدائی تمام شب
ردیف (ض)
نہیں معلوم کیا واجب ہے کیا فرض
مَرے مذہب میں ہے تیری رضا فرض
شعورِ ہستیِ موہوم ہے کفر
فنا بعدِ فنا بعدِ فنا فرض
نہیں آگاہ مستِ بادۂ شوق
کہاں سنّت کدھر واجب کُجا فرض
رہِ تسلیم میں از روئے فتویٰ
دعا واجب پہ ترکِ مدّعا فرض
نہ چھوٹے کفر میں بھی وضعِ ایماں
کہ ہر حالت میں ہے یادِ خدا فرض
نہیں دیکھا کسی نے حُسنِ مستور
بقدرِ فہم لیکن کر لیا فرض
نہ مانوں گا نہ مانوں گا کبھی میں
مُجھے کرتے ہیں کیوں اُس سے جدا فرض
نہ کھولوں گا نہ کھولوں گا زباں کو
کہ ہے اخفائے رازِ دلربا فرض
بلا سے کوئی مانے یا نہ مانے
چلو ہم کر چُکے اپنا ادا فرض
ردیف (م)
السلام اے شاہِ شاہاں السلام
السلام اے نورِ امکاں السلام
اے تہی دستوں کے حامی مرحبا
اے شفیعِ اہلِ عصیاں السلام
السلام اے سجدہ گاہِ قدسیاں
اے رسولِ خاصِ یزداں السلام
السلام اے رحمۃ للعالمین
رہنمائے حق پر وہاں السلام
السلام اے بادشاہِ جن و انس
وارثِ ملکِ سلیماں السلام
اے تری باتیں کلامِ کردگار
اے ترا دل عاشِ رحماں السلام
افتخارِ آدم و نوح و خلیل
اے عرب کے مہرِ تاباں السلام
بُت پرستی ترے آنے سے مٹی
قبلہ گاہِ حق پرستاں السلام
تھا جو کوہستان و ریگستاں عرب
کر دیا تو نے گلستاں السلام
فتح کر ڈالے تِرے خدّام نے
مصر و شام و یوناں السلام
ہو گئے سب تیری دعوت میں شریک
تُرک و ایران و خراساں السلام
یا نبی السیف یا نور الہدیٰ
مسلکِ حق کے نگہباں السلام
شاہدِ انجیل و توریت و زبور
موردِ آیاتِ قرآں السلام
کشتیِ دوراں کو ہے تجھ سے قیام
لنگرِ کشتیِ دوراں السلام
جان و ایماں کو ملی تجھ سے شفا
اے طبیبِ جان و ایماں السلام
عرضِ حامد*(۱) ہے یہی با صد نیاز
اے عرب کے مہرِ تاباں السلام
*(۱)۔ یہ سلام محمد حامد جوان مرگ فرزند مصنّف کی فرمائش سے لکھا گیا تھا۔
ردیفِ (ن)
ظاہر تو ہے، تو میں نہ نہاں ہوں
باطن تو ہے ، تو میں عیاں ہوں
تو ہی ظاہر ہے ۔ تو ہی باطن
تو ہی تو ہے تو میں کہاں ہوں
تیرے ہوتے کہیں نہیں میں
اوّل ۔ آخر۔ نہ درمیاں ہوں میں
تو تو میں میں نے مار ڈالا
دم بند ہے کیجئے نہ ہاں ہوں
میں ہی لیلیٰ ہوں میں ہی محمل
ناقہ بھی ہوں۔ میں ہی سارباں ہوں
ہوں کُنجِ قفس میں بند لیکن
بیرونِ زمیں و آسماں ہوں
دریا کی طرح رواں ہوں لیکن
اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں
جز نام نہیں نشاں میرا
سچ مچ میں بہرِ بیکراں ہوں
۱وہ پیرہنِ جان میں جاں حجلۂ تن میں
ہوں وہمِ جدائی سے عجب رنج و محن میں
مقصود زیارت ہے اگر کعبۂ دل کی
ہو گرم سفر ناحیۂ ملکِ وطن میں
وہ قامتِ دلکش ہے عجب فتنۂ عالم
چھُپتا ہی نہیں پیرہنِ نو و کہن میں
اے شمعٰ بہا اشک چھُپا رازِ محبّت
خاکسترِ پروانہ ہے بیتاب لگن میں
شورش مری بے جا ہے نہ فریاد نکمّی
رونق ہے ذرا نالۂ بلبل سے چمن میں
تاثیر ہو کیا خاک جو باتوں میں گھڑت ہو
کُچھ بات نکلتی ہے تو بے ساختہ پن میں
کمتر ہے ود و دام سے انساں بمراتب
ہر دم جو ترقی نہ کرے چال چلن میں
ہوں میں تو وہی معتکفِ گوشۂ عُزلت
حالانکہ مرا ریختہ پہنچا ہے دکن میں
یہ سچ ہے کہ سودا بھی تھا استادِ زمانہ
میری تو۔ مگر میر ہی تھا شعر کے فن میں
آخر یہ حُسن چھُپ نہ سکے گا نقاب میں
شرماؤ گے تمھیں نہ کرو ضد حجاب میں
پامال شوخیوں میں کرو تم زمیں کو
ڈالو فلک پے زلزلہ میں اضطراب میں
روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے
نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں
دل کی گرہ نہ وا ہوئ دردا شبِ وصال
گزری تمام بست و کشادِ نقاب میں
رنجِ عتاب زاہدِ مسکیں کو مفت ہے
یہاں اتقا میں سعی وہاں اجتناب میں
جاں میں نے نامہ بر قدم پر نثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں
ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجئے بے قرار
رو رو کے ابر کو میں ڈبوتا ہوں آب میں
واعظ سے ڈر گئے کہ نہ شامل ہوئے ہم آج
ترتیبِ محفلِ مے و چنگ و رباب میں
ساقی اِدھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست میں
کُچھ مستیِ نگہ بھی ملا دے شراب میں
داخل نہ دشمنوں میں نہ احباب میں شمار
مدّ فضول ہوں میں تمھارے حساب میں
کس کس کے جور اٹھائیں گے آگے کو دیکھئے
دشمن ہے چرخِ پیرِ زمانِ شباب میں
پیغامبر اشارۂ ابرو سے مرگیا
پھر جی اُٹھے گا لب بھی ہلا دو جواب میں
جہاں تیغِ ہمّت علم دیکھتے ہیں
محلات کا سر قلم دیکھتے ہیں
جو بیٹھے تھے یاں پا بدامانِ ہستی
اُنھیں سر بجیبِ عدم دیکھتے ہیں
کمالاتِ صانع پہ جن کی نظر ہے
وہ خوبیِ مصنوع کم دیکھتے ہیں
نہیں مبتلا جو تن آسانیوں میں
اُنھیں دم بدم تازہ دم دیکھتے ہیں
نہیں جن کو جاہ و حشم کا تکبّر
وہی لطفِ جاہ و حشم دیکھتے ہیں
شکم پروری جن کا شیوہ ہے اُن کو
اسیرِ جفائے شکم دیکھتے ہیں
بس! اے رنگ و بو تو نہ کر ناز بیجا
خدا جانے کیا بات ہم دیکھتے ہیں
اُڑے ہیں جو رخشِ ہمّت کو سرپٹ
وہ منزل کو زیرِ قدم دیکھتے ہیں
سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں
مُجھے دل لگی کے ٹھکانے بہت ہیں
جو تشریف لاؤ تو ہے کون مانع
مگر خوئے بد کو بہانے بہت ہیں
اثر کر گئی نفسِ رہزن کی دھمکی
کہ یاں مرد کم اور زنانے بہت ہیں
مُعطّل نہیں بیٹھتے شغل والے
شکار افگنوں کو نشانے بہت ہیں
کرو دل کے ویرانہ کی کنج کادی
دبے اس کھنڈر میں خزانے بہت ہیں
نہ اے شمع رو رو مر شام ہی سے
ابھی تجھ کو آنسو بہانے بہت ہیں
ہوا میری روداد پر حکمِ آخر
کہ مشہور ایسے فسانے بہت ہیں
نہیں ریل یا تار برقی پے موقوف
چھپے قدرتی کارخانے بہت ہیں
بچے کیوں بیچارہ مُرغ گرسنہ
بکثرت ہیں دام اور دانے بہت ہیں
بس ایک آستانہ ہے سجدے کے قابل
زمانہ میں گو آستانے بہت ہیں
اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں
آگے حواس گم خردِ نارسا کے ہیں
ممنون برگِ گل ہیں نہ شرمندۂ صبا
ہم بلبل اور ہی چمنِ دلکشا کے ہیں
کیا کوہ کن کی کوہ کنی کیا جنونِ قیس
وادیِ عشق میں یہ مقام ابتدا کے ہیں
بنیان عمر سست ہے اور منعمانِ دہر
مغرور اپنے شکِ عالی بنا کے ہیں
اپنے وجود کا ابھی عقدہ نہیں کھُلا
مصروف حل و عقد میں ارض و سما کے ہیں
شیخ و برہمن میں اگر لاگ ہے تو ہو
دونو شکار غمزہ اُسی دلربا کے ہیں
جن کو عنایتِ ازلی سے ہے چشم داشت
وہ معتقد دعا کے نہ قائل دوا کے ہیں
لایا نہیں ہنوز نویدِ وصالِ دوست
ہم شکوہ سنج سُستیِ پیکِ سبا کے ہیں
سمجھو اگر ۔ تو ہیں وہی سب سے حریص تر
طالب خدا سے جو دل بے مدعا کے ہیں
اِن بد دلوں نے عشق کو بدنام کر دیا
جو مرتکب شکایتِ جور و جفا کے ہیں
ہمّت ہمائے اوجِ سعادت ہے مرد کو
اُلوّ ہیں وہ جو شیفتہ ظلِّ ہما کے ہیں
ہے اشک و آہ راس ہمارے مزاج کو
یعنی پلے ہوئے اِسی آب و ہوا کے ہیں
جو باندھتے ہیں طرّہ طرّار کا خیال
نادان امّیدوار نزولِ بلا کے ہیں
کھٹکا ہوا نہیں اور دل اُڑا لیا
یہ سارے ہتکنڈے تری زلفِ دوتا کے ہیں
صید کر شمہ اِس لئے ہوتے نہیں کہ ہم
پہلے سے زخم خوردہ فریبِ وفا کے ہیں
مارا بھی اور مار کے زندہ بھی کر دیا
یہ شعبدے تو شوخی ناز و ادا کے ہیں
خلوت میں بھی روا نہیں گستاخیِ نگاہ
پردے پڑے ہوئے ابھی شرم و حیا کے ہیں
یوں کہہ رہی ہے نرگسِ بیمار کی ادا
نسخے تو مجھ کو یاد ہزاروں شفا کے ہیں
اب تک ہے سجدہ گاہ عزیزانِ رازگار
جس خاک پر نشان تری کفشِ پا کے ہیں
اندیشہ ہے کے دے نہ اِدھر کی اُدھر لگا
مجھ کو تو ناپسند وتیرے صبا کے ہیں
سیرِ ورددِ قافلۂ نو بہار دیکھ
برپا خیام اوجِ ہوا میں گھٹا کے ہیں
جاتا ہے خاک پاک دکن کو یہ ریختہ
واں قدردان اِس گُہرِ بے بہا کے ہیں
احباب کا کرم ہے اگر نکتہ چیں نہ ہو
ورنہ ہم معترف اپنی خطا کے ہیں
زمانہ اُن سے کراتا ہے آج خار کشی
جو محو سرو و صنوبر تھے خانہ باغوں میں
اُنہیں پہ گردشِ ایّام کا گرا نزلہ
سمائی ہوئی گُل و مل تھی جن دماغوں میں
وہ عطر فتنہ سے بستا تھا جن کا پیراہن
مُیسّر اب اُنہیں روغن نہیں چراغوں میں
وہ مانگ تانگ سے پیتے تھے اوک سے پانی
بری تھی جن کی کے مئے مشکبو باغوں میں
منزل داز و دار ہے اور ہم میں دم نہیں
ہوں ریل پہ سوار تو دام و درم نہیں
میدان زدگی میں کریں دوڑ دھوپ کیا
ہم ایسے ناتواں ہیں کہ اٹھتا قدم نہیں
کیا خوب ہات پاؤں خدا نے عطا کئے
چلتے رہیں تو حاجتِ خیل و خدم نہیں
اغیار کیوں دخیل ہیں بزمِ سرور میں
مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں
جب تک ہے عشق و عاشق و معشوق میں تمیز
کھُلتا کسی پہ رازِ حدوث و قدم نہیں
آدم پہ معترض ہوں تو فرشتے تو کیا عجب
چکّھی ہنوز چاشنی زہرِ غم نہیں
اظہارِ حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
تو ہی نہیں ہے رمزِ محبّت سے آشنا
ورنہ دیارِ حسن میں رسمِ ستم نہیں
ارشاد طبع کی نہ اگر پیروی کرے
نقاشی خیال مجالِ قلم نہیں
سر ہی کے بل گئے ہیں سدا رہروانِ عشق
حیرت زدہ نہ بن کہ نشانِ قدم نہیں
کیسی طلب کہاں کی طلب کس لئے طلب
ہم ہیں تو وہ نہیں ہے جو وہ ہے تو ہم نہیں
کبھی تقصیر جس نے کی ہی نہیں
ہم سے پوچھو تو آدمی ہی نہیں
مر چکے جیتے جی خوشا قسمت !
اِس سے اچھی تو زندگی ہی نہیں
دوستی اور کسی غرض کے لئے!
وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں
یا وفا ہی نہ تھی زمانے میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں
کُچھ مری بات کیمیا تو نہ تھی
ایسی بگڑی کہ پھر بنی ہی نہیں
جس خوشی کو ہو نہ قیام و دوام
غم سے بدتر ہے وہ خوشی ہی نہیں
بندگی کا شعور ہے جب تک
بندہ پرور وہ زندگی ہی نہیں
ایک دو گھونٹ جامِ وحدت کے
جو نہ پی لے وہ متّقی ہی نہیں
کی ہے زاہد نے آپ دنیا ترک
یا مقدّر میں اُس کے تھی ہی نہیں
عارضِ روشن پہ جب زلفیں پریشاں ہو گئیں
کفر کی گمراہیاں ہمرنگِ ایماں ہو گئیں
زُلف دیکھی اُس کی جن قوموں نے وہ کافر بنیں
رُخ نظر آیا جنھیں وہ سب مسلماں ہو گئیں
خود فروشی حُسن کو جب سے ہوئی مدِ نظر
نِرخ دل بھی گھٹ گیا جانیں بھی ارزاں ہو گئیں
جو بنائیں تھیں کبھی ایوانِ کسریٰ کا جواب
گردشِ افلاک سے گردِ بیاباں ہو گئیں
خوفِ ناکامی ہے جب تک کامیابی ہے محال
مُشکلیں جب بندھ گئی ہمّت سب آساں ہو گئیں
ہائے کس کو روئیے اور کس کی خاطر پیٹئے
کیسی کیسی صورتیں نظروں سے پنہاں ہو گئیں
کیا اِنھیں اندوہِ ہنگامِ سحر یاد آگیا
شام ہی سے بزم میں شمعیں جو گریاں ہو گئیں
اِک فرشتے بھی تو ہیں جن کو نہ محنت نہ رنج
خواہشیں دل کی بلائے جانِ انساں ہو گئیں
کیا ہے وہ جانِ مجسّم جس کے شوقِ دید میں
جامۂ تن پھینک کر روحیں بھی عریاں ہو گئیں
تھی تو وہ توفیق الٰہی میں نے سمجھا اپنا فعل
طاعتیں بھی میرے حق میں عصیاں ہو گئیں
خاک سے افلاک تک ہے دور تیرے نام کا
کون سی محفل ہے وہ جس میں ترا چرچا نہیں
اوّل و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو
تو ہی تو ہے پر کہیں ۔ تیرا پتا لگتا نہیں
سب سمائے تجھ میں ہیں یا تو سمایا سب میں ہے
اِس پہیلی کو کس نے آج تک بوجھا نہیں
حامد(*۱) کہاں ! کہ دوڑ کے جاؤں خبر کو میں
کس آرزو پہ قطع کروں اِس سفر کو میں
مانا بُری خبر ہے پہ تیری خبر تو ہے
صبر و قرار نذر کروں نامہ بر کو میں
یہ سنگ و خشت آہ دلاتے ہیں تیری یاد
روتا ہوں دیکھ دیکھ کے دیوار و در کو میں
ہے تیری شکل یا تیری آواز کا خیال
کرتا ہوں التفات یکایک جدھر کو میں
افسوس ! ہائے ہائے کی آتی نہیں صدا
پوچھے تو کیا بتاؤں ؟ ترے چارہ گر کو میں
کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں
جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نظر کو میں
اچھا جو تو نے گوشۂ مرقد کیا پسند
اب اپنے حق میں گور بناؤں گا گھر کو میں
تیرے سِر عزیز کی بالش ہو خاک سے
بالیِنِ غم سے اب نہ اٹھاؤں گا سر کو میں
دیکھی نہ تھی بہار تیرے شباب کی
بھولا نہ تھا ابھی تیرے عہدِ صِغر کو میں
تقدیر ہی نے ہائے ! کُچھ مساعدت
کیا روؤ اب دعا و دوا کہ اثر کو میں
حکمِ خدا یہی تھا کہ بیٹھا کیا کروں
ماتم میں تیرے اشک فشاں چشمِ تر کو میں
جز درد و داغ تو نے نہ چھوڑا نشان حیف!!
رکھوں گا میہمان انِھیں عمر بھر کو میں
کرنے دو آہ و نالہ کہ آخر رہوں گا بیٹھ
تسلیم کر کے حکمِ قضا و قدر کو میں
کیا فکر آب و نان ! کہ غم کہہ رہا ہے اب
موجود ہوں ضیافتِ دل اور جگر کو میں
تجھ کو جوارِ رحمتِ حق میں جگہ ملے
مانگا کروں گا اب یہ دعا ہر سحر کو میں
حبسِ دوام تو نہیں دنیا۔ کہ مر رہوں
کاہے کو گھر خیال کروں رہ گزر کو میں
خود ہم سے بھی زیادہ ہو جو ہم پے مہرباں
وہ جام زہر دے ۔ تو نہ چکّھوں شکر کو میں
وہ جانے اور اُس کی رضا جو پسند ہو
سب کام سونپتا ہوں اُسی داد گر کو میں
ہوتا نہ دل میں درد۔ تو کرتا نہ ہائے ہائے
دیتا نہ طول یوں سخنِ مختصر کو میں
(۱*)محمد حامد فرزند مصنّف نے ۱۲ اکتوبر سنہ۱۸۹۵ کو انتقال کیا تھا ۔ اس جوان مرگ کے ماتم میں یہ مرثیہ بمقام آگرہ لکھا گیا۔
بزمِ ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں
ہے یہ تری ہی صدا غیر کی آواز نہیں
کہہ سکے کون وہ کیا ہے ؟ مگر از روئے یقین
گُل نہیں شمع نہیں ۔ سرو سرافراز نہیں
دل ہو بے لوث تو کیا وجہ تسلّی ہو دروغ
طائرِ مُردہ مگر طُمعۂ شہباز نہیں
بُلبلوں کا تھا جہاں صحنِ چمن میں انبوہ
آج چڑیا بھی وہاں زمزمہ پرداز نہیں
بھاگ ویرانۂ دُنیا سے کہ اِس میں
نُزلِ مہمان بجُز مائدۂ آز نہیں
دلبری جذبِ مُحبّت کا کرشمہ ہے فقط
کُچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دل کی تسخیر ہے شیریں سُخنیِ پر موقوف
کُچھ کرامات نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دستِ قدرت نے مجھے آپ بنایا ہے تو پھر
کونسا کام ہے میرا کہ خدا ساز نہیں؟
متفرقات
قدسیوں کے بھی ہوش اڑتے ہیں
سُن کے مشتِ خاک کی باتیں
دل کا احوال تو خدا جانے
ظاہرا ہیں تپاک کی باتیں
جس سے نہ انتفاع ہوا بنائے جنس کو
فروردی ہے لیل و نہار میں
ردیف (و)
وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزلیں اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی شکر ہے جو سپاس ہے وہ ملول ہے جو اُداس ہے
جسے شکوہ کہتے ہو گلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی نقص ہے وہی کھوٹ ہے وہی ضرب ہے وہی چوٹ ہے
وہی سو ہے وہی فائدہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی ہے ندی وہی نہر ہے وہی موج ہے وہی لہر ہے
یہ حباب ہے وہی بُلبلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی کذب ہے وہی جھوٹ ہے وہی جرعہ ہے وہی گھونٹ ہے
وہی جوش ہے وہی ولولہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی ساتھی ہے جو رفیق ہے وہی یار ہے جو صَدِیق ہے
وہی مہر ہے وہی مامتا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے بھید کہتے ہو راز ہے جسے باجا کہتے ہو ساز ہے
جسے تان کہتے ہو ہے نوا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو مراد ہے وہی مدعا وہی متّقی وہی پارسا
جو پھنسے بلا میں وہ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو کہا ہے میں نے مقول ہے جو نمونہ ہے وہ مثال ہے
مری سرگزشت ہے ماجرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
جو چنانچہ ہے وہی جیسا ہے جو چگونہ ہے وہی کیسا ہے
جو چناں چیں ہے سو ہکذا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی خوار ہے جو ذلیل ہے وہی دوست ہے جو خلیل ہے
بدو نیک کیا ہے برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
(۱*) یہ نصابیہ غزل سنہ۱۸۸۰ میں مصنّف نے اپنے بچّوں کے لئے لکھی تھی ۔
پائے غیر اور میرا سر دیکھو
ٹوٹ جائے نہ سنگِ در دیکھو
ایک عالم پڑا ہے چکّر میں
گردشِ چشمِ فتنہ گر دیکھو
میں نظر بند غیر مدِّ نظر
اپنا دل اور مرا جگر دیکھو
چشم پُر نم ہے تن غبار آلود
آن کر سیرِ بحر و بر دیکھو
فکرِ افشائے راز کیوں نہ کروں
کیا حیا خیز ہے نظر دیکھو
ہے دگرگوں مریضِ غم کا حال
ہو سکے تو دوا ابھی کر دیکھو
کم نمائی و خویشتن بینی
کتنے بے دید ہو اِدھر دیکھو
ہے جانِ حزیں ایک لبِ روح فزا دو
اے کاش ! کہ اس ایک کی ہو جائیں دوا دو
تھا خرِ جگر ہجر میں تنہا غمِ دوری
ہیں آفتِ جاں وصل میں اب شرم و حیا دو
مستانہ روش کیوں نہ چلے وہ نگہِ ناز
آنکھیں ہیں کہ جامِ مے ہوش ربا دو
جی تنگ ہے کیا کیجئے اور جوشِ بلا یہ
دل ایک ہے کیا دیجئے اور زلفِ دوتا دو
ہے عینِ عنایت جو نشاں پوچھئے میرا
یہ بھی نہیں منظور تو اپنا ہی پتا دو
کیا دامِ فریب اُس نے بچھایا ہے دلاویز
دو آن پھنسیں اور جو ہو جائیں رہا دو
گر نازِ خود آرا کو ہے یکتائی کا دعویٰ
کیوں آئنہ دیکھا کہ ہوئے جلوہ نما دو
بے باکی و شوخی بھی ہے اور شرم و حیا بھی
دو محرمِ اسرار ہیں تو پردہ کشا دو
دو گیسو و زلف بلا خیز ہیں چاروں
ہاں کاکلِ خم دار بھی ہیں ان کے سوا دو
وہ طرز و روش ہائے ! وہ انداز و ادا حیف
کیا بچتے دل و جان ۔ کجا چار ۔ کجا دو
سیرئ نظری بھی نہ ہوئی ہائے مُیسّر
آنکھیں جو ہوئیں چار لگے تیرِ قضا دو
معشوقِ دل نواز اگر تند خو نہ ہو
ثابت خلوصِ عاشق خلافِ عدو نہ ہو
وہاں سجدۂ نیاز کی مٹی خراب ہے
جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو
وہ جنّتِ وصال جہاں تو ہو میں نہ ہوں
وہ دوزخِ فراق جہاں میں ہوں تو نہ ہو
خمخانہ ہے کرامتِ پیرِ مغاں سے پُر
زنہار منکِر می و جام و سبو نہ ہو
بلبل کے دل میں داغِ وداعِ بہار ہے
یارب! کوئی فریفتۂ رنگ و بو نہ ہو
شرم گناہ نے تو ڈبویا ہی تھا مُجھے
گر دست گیر مژدۂ لا تقنطو نہ ہو
افسانہائے شوق سناتا ہوں میں اُسے
جو عالمِ خیال میں بھی رو برو نہ ہو
حُسنِ غیور ہے شکوہِ یگانگی
ہو دید محض اور کوئی روبرو نہ ہو
دل میں کسک نہ ہو تو سمجھے اُسے مریض
زنہار درد دل کے لئے چارہ جو نہ ہو
ہے کائنات گرد رہِ کاروانِ عشق
وہ دل ہی کیا جس میں تری جستجو نہ ہو(۲*)
کیا مانگتے جس کا کبھی چسکا نہ لگا ہو
دی راہِ خدا ہم کو بھی ساقی کا بھلا ہو
کر پیرِ خرابات سے دریوزۂ ہمّت
جا خاکِ درِ میکدہ پر ناصیہ ساہو
بے حوصلگی ہے گلۂ تلخی دوراں
کو دیں اُسے پی جائے گو زہر ملا ہو
آنے کو ہے اب شاہدِ گُل پردہ سے باہر
آمادۂ مشاطگی ای بادِ صبا ہو
جب ہم سے ملے رسمِ ملاقات تو جانیں
تسلیم کیا ۔ تم ہمہ تن مہر و وفا ہو
سر رشتۂ آ مالِ دو عالم ہے ترے ہاتھ
پھر کاہے کا الجھاؤ۔ جو تُو عقد کشا ہو
تنگی سے نہ دل تنگ ہو ۔ جا شکرِ خدا کر
اے خوش دہ دلِ تنگ ۔ کہ راضی برضا ہو
گاہک ہی نہ ہو کوئی تو اے عرضِ ہنر بیچ
اس وائی گُلِ تازہ جو صحرا میں کھلا ہو
اُس غنچۂ دلگیر کی تقدیر کہ زنہار
تحریکِ نسیمِ سحری سے بھی نہ وا ہو
ہمّت کے لئے عار ہے احسان اُٹھانا
وہ درد بھی اچھا جو نہ محتاجِ دوا ہو
(۱*)مرتبہ ۸جون سنہ۱۸۷۳ ع
(۲*) مرتبہ ۱۰ نومبر سنہ۱۸۹۷ع
بچ گنہ سے ورنہ توبہ اور استغفار کر
کھونپ جب کپڑے میں آئی چارہ کیا غیر از رفو
سنگریزہ تھا فقط گر لعل میں ہوتا نہ رنگ
کوئلے سے تھا بتر گر مشک میں ہوتی نہ بو
تائب اور معصوم ہیں دونو بری پر فرق ہے
ایک مادر زاد طاہر ۔ ایک بعد از شست و شو
گر نہ ہو نیکی ، دماغی قوتیں برباد ہیں
بوستاں سرسبز ہوتا ہی نہیں بے آبِ جو
متفرّقات
میں پٹکتا ہی رہ گیا سر کو
چل دئے وہ پیادہ پا گھر کو
دو جگہ خفتگانِ خاک مُجھے
تھوڑے تھوڑے ذرا پرے سر کو
ان غفلتوں سے داغ ہوں لیکن خدا کرے
تاخیر کا سبب کوئی اس کے سوا نہ ہو
ردیف (ی)
ناصح جو ملامت میں محابا نہیں کرتے
انصاف کریں دل میں ۔ کہ وہ کیا نہیں کرتے
اظہارِ مشیخت ہے نشاں بے ہنری کا
جو اہلِ ہنر ہیں کبھی دعوےٰ نہیں کرتے
کہتے بھی ہیں پھر صاف مکر جاتے ہیں کہہ کر
کیا شخص ہیں کُچھ خوف خدا کا نہیں کرتے
دردِ دِل آزردہ سے ہے جن کو خبر کچھ
آزار کسی کا بھی گوارا نہیں کرتے
جاں کاہیوں کے بعد جنہیں ملتی ہے دولت
وہ مفت میں دولت کو لٹایا نہیں کرتے
کیا یہ ہی جس پہ ہم دیتے ہیں جاں
یا کوئی دنیائے فانی اور ہے
یوں تو ہر انسان گویا ہے مگر
شیوۂ شیوا بیانی اور ہے
چل رہی ہے جس سے جسمانی مشین
کوئی پوشیدہ کمانی اور ہے
دل نے پیدا کی کہاں سے یہ ترنگ
کوئی تحریکِ نہانی اور ہے
غیر سمجھا ہے کسے اے ہمنشیں؟
میرے دل میں بد گمانی اور ہے
تم نے کب دیکھا ہے بے رنگی کا رنگ
بے نشانی کی نشانی اور ہے
دھوکے میں نہ آ جائیو افسونِ زباں کے
ہر چند کہ بڑ اپنی فصاحت کی یہ ہانکے
کُچھ لمِ ہے جو کرتے ہیں کرم حضرتِ ناصح
تھے ورنہ مرے ایسے ہوا خواہ کہاں کے
وہ اُڑنے لگے مثل پری ۔ دوشِ ہوا پر
بیٹھے ہیں بھروسے پہ یہاں طبع رواں کے
ہے وادیِ وحدت میں اگر نیّتِ پرواز
پَر نوچ کے دے پھینک یقین اور گماں کے
پھر کُچھ کُچھ اُن کے وعدہ پہ اب اعتبار ہے
مایوس مرگ پھر دلِ امّیدوار ہے
گِن گن کے ایک ایک گھڑی کاٹنی پڑی
ہے یہ شبِ فراق کہ روزِ شمار ہے
سروِ رواں کو دیکھ کے خجلت پا بِ گُل
گویا ہر ایک سرو لبِ جوئبار ہے
چل مئے کدے کو ۔ بیٹھ نہ گوشہ میں تنگ دل
زاہد! وسیع رحمتِ پروردگار ہے
گر نشے میں کوئی بے فکر و تامل باندھے
چشمِ مے گوں کو تری جام پر ازُل باندھے
ذکرِ قامت میں اگر فکر ترقّی نہ کرے
رشکِ طوبی تو لکھے گو بہ تنزّل باندھے
طبع کی سلسلہ جنباں جو پریشانی ہو
گیسوئے غالیہ سا کو ترے سنبل باندھے
نالہ تو وہ ہے کہ گھبرا کے اُٹھا دے پردہ
لیک نظارہ کی ہمّت بھی تحمل باندھے
کُچھ نہ بن آئے گی جب لوٹ مچائے گی خزاں
غنچہ ہر چند گرہ کس کے زرِ گُل باندھے
روبرو اُس کے لب عَرضِ تمنّا نہ ہلے
زور افسونِ نظر سے گئے بالکل باندھے
ہیں ترے بندِ قبا عقدۂ دشوار مرے
کہ جو کھولے نہ کھُلے اور جو گئے کھُل باندھے
صفحہ ۔ ۲۷۹نہ بچے پر نہ بچے سیلِ فنا سے نہ بچے
گر کوئی کنگرۂ چرخ پہ بھی پُل باندھے
آنکھ کھلنے بھی نہ پائی تھی کہ اُس نے فوراً
بند برقع کے اندازِ تغافل باندھے
ہائے وہ صید کہ صیاد کے پیچھے لپکے
سر کو فتراک پہ ہر دم بہ تفاول باندھے
نکہتِ طرّۂ مشکیں جو صبا لائی ہے
کوئی آوارہ ہوا ہے کوئی سودائی ہے
بے خودی سے ہے یہاں بے خبری کا عالم
خود نمائی کو وہاں شغلِ خود آرائی ہے
اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں
غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے
ہے مجھے کشمکشِ سعی و طلب سے نفرت
دِل مرا ترکِ تمنا کا تمنّائی ہے
جز دلِ پاک نہ پایا حرمِ خاص کہیں
دیر و کعبہ میں عبث ناصیہ فرسائی ہے
ناز کی جلوہ گری کے لئے منظر ہے نیاز
ناتوانی مری ہم رنگِ توانائی ہے
جب طبیعت ہی نہ حاضر ہو تو بے سود ہے فکر
شعر گوئی تو کہاں قافیہ پیمائی ہے
مُنہ پہ لاؤں تو یہ کم ظرف بہک جائیں ابھی
بات جو پیرِ خرابات نے سمجھائی ہے
خود منادی و مُنادیٰ ہوں نہ غیبت نہ حضور
عالمِ غیب سے یوں دِل میں ندا آئی ہے
دل یہ کہتا ہے کہ حاصل ہے تحصیل عبث
نہ تمنا کوئی شے ہے نہ تمنّائی ہے
بیخودی سی بے خودی ہے جلوۂ دیدار سے
نیند آئی مجھ کو فیض دولتِ بیدار سے
ہے جو لطف آمیز اشارہ ابروئے خمدار سے
وہ فسونگر کاٹتا ہے دردِ سر تلوار سے
صفحہ ۔ ۲۸۰ہم نے اندازِ جنوں سیکھا ہے اِک ہشیار سے
دو گھڑی کا شغل ہے اطفالِ کوئی یار سے
ابتدا سے حشر کا سُنتے چلے آتے تھے نام
ہو گیا حاصل یقیں بارے تری رفتار سے
اُس کی گنجائش ہے آغوشِ تصوّر میں محال
جس کا سایہ شوخ تر ہو انجمِ سیّار سے
ہے تہی دستی جہنم اہل حرص و آز کو
رات دن جلتے ہیں داغِ درہم و دینار سے
شوخی و غمزہ کرشمہ عشوہ انداز و ادا
ہے دلِ تنہا مقابل لشکرِ جرّار سے
رہ گئی تیرے سوا شاید تمنّا اور بھی
کُچھ کھٹکتے ہیں ابھی پہلوئے دل میں خار سے
یار نازک طبع ہے اور داستانِ غم دراز
دوستو گھبرا نہ جائے وہ مرے طومار سے
عشق بےتاب و وصال اور حسن استغنا پسند
کس طرح تسکینِ دل ہو وعدۂ دیدار سے
ہیں زمیں و آسماں ہنگامۂ وحدت سے پُر
مجھ کو آتی ہے یہ میری ہی صدا کُہسار سے
وہ حسن لازوال ہماری نظر میں ہے
شانِ کمال صورتِ ہر خیر و شر میں ہے
ہے سنگ میں شرار تو برق ابر تر میں ہے
شوخی وہی ہے شان نئی بحر و بر میں ہے
بتلا دیا ہے راہ نما نے مُجھے پتا
دنیا بھی اِک مقام ترے رہگزر میں ہے
بتلا دیا ہے راہ نما نے مُجھے پتا
دنیا بھی اِک مقام ترے رہگزر میں ہے
اسرارِ عشق بھی کہیں دیکھے ہیں واعظو!
دخل آپ کو بہت کتبِ معتبر میں ہے
باطن کو بھی نہ صورتِ ظاہر پہ کر قیاس
انگور میں شراب شکر نیشکر میں ہے
البتہ اُس کے فضل پہ موقوف ہے نجات
کُچھ زہدِ خشک میں ہے نہ داماں تر میں ہے
بیرانِ عرش و فرش ہے پرواز مرغ دل
از بس ہوائے شوق بھری بال و پر میں ہے
بے رغبتی سے شب کو سحر بھی کیا تو کیا
تاثیر نالۂ شب و آہِ سحر میں ہے
چل راہ دل میں اور توسنِ طلب
وحشت کا جوش چاہے صحرا بھی گھر میں ہے
یہ وہ مرض ہے جس سے معالج نہ بچ سکے
مُجھ سے زیادہ درد دلِ چارہ گر میں ہے
پُر حُسن خود نما سے زمان و زمیں ہے
زاہد ہنوز منتظرِ حورِ عین ہے
صحرائے عشق کی بھی عجب سرزمین ہے
ہمدم نہ ہم سفر نہ کوئی ہم نشین ہے
سر گشتگانِ شوق سے راہِ وصال پوچھ
نے شرق و غرب ہے نہ یسار و یمن ہے
ہے توسنِ خیال تک و تاز و زمیں سدا
اِس رخش پر بندھا ہوا ہر وقت زین ہے
ہے قیدِ آب و خاک سے باہر مقامِ دل
مانا خمیر مایہ مرا ماؤطین ہے
تیرے سوا اُسے نظر آتا نہیں کوئی
حاصل جہاں میں جسے عین الیقین ہے
احباب پھر بھی کرتے ہیں مُجھ سے مطالبہ
ہر چند لا خراج غزل کی زمین ہے
کجا(۱*) ہستی بتا دے تو کہاں ہے
جسے کہتے ہیں بسمل نیم جاں ہے
ہمارا گھر ہے یعنی خانۂ ماست
محل ہی کاخ ہے کوشک مکاں ہے
چچا عم ہے پسر بیٹا پدر باپ
تو کنبا خاندان ودود ہاں ہے
سفینہ ناؤ کشتی بان ملاح
بہے پانی تو وہ آبِ رواں ہے
بتاؤ آگ کیا ہے نار و آتش
دھواں کیا چیز ہے دود و دخاں ہے
جسے کہتے ہو گردوں گرداں
فلک چرخ و سپہر و آسماں ہے
وہی جنت کہ جس کی آرزو ہے
نعیم و خلد و فردوس و جناں ہے
سنا کیجے حکایت ہے کہانی
کہا کیجے فسانہ داستاں ہے
مرا سر راس ہے ماتھا جبیں ہے
مرے منہ میں زباں ہے جو لساں ہے
کہو تم جو ترازو ہے سو میزاں
سنو تم آزمائش امتحاں ہے
حجر پتھر ہے اور قِرطاس کاغذ
سبک ہلکا ہے اور بھاری گراں ہے
عصا لاٹھی ۔ عَلم نیزہ۔ سناں بھال
جسے ہم قوس کہتے ہیں کماں ہے
نہاں و مستتر پوشیدہ مخفی
جو بارز ہے تو ظاہر ہے عیاں ہے
اگر جانو ہو تم ریوڑ کو گلّہ
تو چرواہا بھی راعی اور شباں ہے
کہا کرتے ہیں شاعر کو سخنداں
جو بھیدی ہے تو محرم راز داں ہے
ہمانجا آمدم جائے کہ ہستی
وہیں آیا ہوں میں بھی تو جہاں ہے
یہ ہی کون و مکاں دنیا ہے عالم
یہ ہی گیتی ہی گیہاں ہے جہاں ہے
(۱*)غزل نصابیہ
نذرانہ پیر جی غلام محمد صاحب لُدھیانوی بروز پنجشنبہ ۲۹ جولائی سنہ۱۸۸۰ ع
اُلٹی ہر ایک اسم جہانِ شعور ہے
سیدھی سی اِک غزل مجھے لکھنی ضرور ہے
وحدت میں اعتبارِ حدوث و قدم نہیں
تھا جو بطون میں یہ وہی تو ظہور ہے
تارک وہی ہے جس نے کیا کل کو اختیار
یعنی حریص تر ہے وہی جو صبور ہے
مطلق یگانگی ہے تو نزدیک و دور کیا
پہنچا ہے جو قریب وہی دور دور ہے
اصلِ حیات ہے یہی کہتے ہیں جس کو موت
جینے کی آرزو ہے تو مرنا ضرور ہے
اقرارِ بندگی ہے خدائی کا ادِّعا
عجز و نیاز کیا ہے ؟ کمالِ غرور ہے
اُمّید کیجئے اگر امّید کچھ نہیں
غم کھائیے بہت جو خیالِ سرور ہے
زلفِ سیاہ سے رُخِ تاباں کا حُسن ہے
کہتے ہو جس کو دیو حقیقت میں حور ہے
بے معصیت خزانۂ رحمت ہے رائیگاں
سچ پوچھئے تو جرم نہ کرنا قصور ہے
اظہارِ جانِ پاک ہے جسمِ کثیف سے
بے پردگی حجاب ہے ظلمت ہی نور ہے
بالاتفاق ہستیِ وہمی ہے نیستی
ہشیار ہے جو نشۂ غفلت میں چور ہے
اعلی تھا جسکا رتبہ وہ اسفل میں ہے اسیر
صفّ لغال موقفِ صدر الصدور ہے
ہے راہ کی تلاش تو گمرہی طلب
عاقل وہی ہے ۔ عقل میں جس کی فتور ہے
بیداری وجود ہے خوابِ عدم میں غرق
لب بند ہو گئے یہی شورِ نشور ہے
ہر چند شغلِ شعر نہیں آج کل مگر
نذرانہ پیر جی کے لئے کچھ ضرور ہے
ہے وصف تیرا محیطِ اعظم
یاں تاب کسے شناوری کی
دے زندگی اور اُس کا ساماں
کیا شان ہے بندہ پروری کی
شاہنشہِ وقت ہے وہ جس نے
تیرے در کی گداگری کی
بدتر ہوں ولے کرم سے تیرے
اُمید قوی ہے بہتری کی
کیا آنکھ کو تل دیا کہ جس میں
وسعت ہے چرخِ چنبری کی
دیکھا تو وہی ہے راہ و رہرو
ہم نے ہی نگاہ سرسری کی
کیا بات ہے گر کیا ترحّم
ہیہات جو تو نے داوری کی
کی بعدِ خزاں بہار پیدا
سوکھی ٹہنی ہری بھری کی
جھوٹ اور مبالغہ نے افسوس
عزّت کھودی سخنوری کی
لکھی تھی یہ غزل آگرہ میں
پہلی تاریخ جنوری کی
کُچھ ایسے دلفریب شگوفے کھِلا کئے
مشقِ خیال سے نہ بنی دل جدا کئے
دریا تو ہے وہی جو ہوا داخلِ محیط
وادی میں ورنہ سیکڑوں نالے بہا کئے
ابنائے روزگار میں ایسا بھی کوئی ہے
جس نے حقوقِ صحبتِ یاراں ادا کئے
ذاتِ بشر میں کوئی کرامت ضرور ہے
کیوں بات بات اُس کی فرشتے لکھا کئے
انسان کی زمام ہے خصلت کے ہاتھ میں
اہلِ جفا کو چین کہاں بے جفا کئے
بدقسمتی سے تو ہی نہ دوڑا وگرنہ یاں
دن رات خوانِ نعمتِ الواں لٹا کئے
زار و زبوں ہے آج زمانے کے ہاتھ سے
غافل جو بزم ناز کو بیٹھے سجا کئے
شاید کوئی لطیفۂ غیبی ہو آشکار
بیٹھے ہوئے ہیں تکیہ بفضلِ خدا کئے
شکرِ خدا کہ وجہ شکایت نہیں رہی
مدّت ہوئی ہے ترکِ امیدِ وفا کئے
بخشا ہے اہتزاز تجھے کس نے ؟ اے نسیم
بندِ قبائے غنچہ اگر تو نے وا کئے
جو دل ہو تنگ تو جا شکر کر گلوں کو دیکھ
شگفتگی نے چمن کی ہوا نہ کھانے دی
کیا جو کر تو شیطان کے ہاتھ کیا آیا
وہی عزیز ہے عزّت جسے خدا نے دی
تری عطا ہے مری احتیاج سے سابق
کبھی سوال کی نوبت نہ تو نے آنے دی
اُمید نے تو بہت دھوم دھام کی لیکن
وفورِ یاس نے قسمت نہ آزمانے دی
کشود و کار سے تسکینِ دل کبھی نہ ہوئی
عجب نشاط تھی جو ترکِ مدّعا نے دی
گدا و شاہ سے یکساں معاملہ ہے وہاں
کوئی بتائے کہ مہلت کسے قضا نے دی
غم مونسِ تنہائی تھا آتے ہی تمہارے
کہتا تھا پھر آ جاؤں گا جب یاد کرو گے
دلداریِ سرکار کے بج جائیں گے ڈنکے
دل سے رہِ ویراں کو جو یاد کرو گے
احسان کے پھندے سے چھُڑائے گا مُجھے کون
مانا کہ غلامی سے تم آزاد کرو گے
عالم کے صحیفہ میں یہ قدرت کی نگارش
دیکھو گے تو ہر نکتہ پے تم صاد کرو گے
واعظ کی بکواس سمجھ میں نہیں آتی
یا حضرتِ دل تم بھی کچھ ارشاد کرو گے
کس لئے پروانہ خاکستر ہوا
شمع کیوں اپنی جلن میں گھُل گئی
منتشر کیوں ہو گئے اوراقِ گُل
چیختی گلشن سے کیوں بلبل گئی
آبدیدہ ہو کے کیوں شبنم چلی
دم کہ دم کانٹوں میں آ کر تُل گئی
سبزۂ طرفِ خیاباں کیا ہوا
آہ کیوں شادابیِ سنبل گئی
کُچھ نہ تھا خوابِ پریشاں کے سوا
اِس تھیٹر کی حقیقت کھُل گئی
راہ کے رنج و تعب کا کیا گلہ
جب کہ دل سے گردِ کُلفت دھُل گئی
خارج ہے عہدِ طفلی و پیری حساب سے
البتہ زندگی ہے عبارت شباب سے
ہر چند گفتگو کی نہ باقی رہے مجال
لیکن زباں دراز نہ چوکے جواب سے
ہے دعویِ خلوص تو کانوں پہ ہاتھ رکھ
بیمِ عذاب اور امیدِ ثواب سے
بے نور سینہ حفظِ سفینہ سے فائدہ
معنی سے ہے کتاب نہ معنی کتاب سے
وہ اور ہی نوا ہے محرّک سرور کی
باہر گلوئے مطرب و تارِ رُباب سے
کیا کہنے آدمی کے عجب چیز ہیں جناب
برتر ملائکہ سے فروتر دواب سے
سوجھیں وہ بدعتیں کہ خدایا تری پناہ
فرصت اگر ملے بھی ہمیں خورد و خواب سے
کوئی دن کا آب و دانہ اور ہے
پھر چمن اور آشیانہ اور ہے
ہاں دلِ بے تاب ! چندے انتظار
امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے
شمع پھیکی ۔ رات کم ۔ محفل اُداس
اب مغنّی کا ترانہ اور ہے
اے جوانی تو کہانی ہو گئی
ہم نہیں وہ یا زمانہ اور ہے
جس کو جانِ زندگانی کہہ سکیں
وہ حیاتِ جاودانہ اور ہے
جس کو سن کر زہرۂ سنگ آب ہو
آہ وہ غمگیں فسانہ اور ہے
وا اگر سمعِ رضا ہو تو کہوں
ایک پندِ مشفقانہ اور ہے
اِتّفاقی ہے یہاں کا ارتباط
سب ہیں بیگانے یگانہ اور ہے
راہ و رسم خط خطابت ہی سہی
گُل نہیں تو گُل کی نکہت ہی سہی
دل لگی کو کوئی ساماں چاہئے
قحطِ معنی ہو تو صورت ہی سہی
بے دماغی بندہ پرور اِس قدر
آپ کی سب پر حکومت ہی سہی
دوستی کا میں نے کب دعویٰ کیا
دور کی صاحب سلامت ہی سہی
بسکہ ذکر العیش نصف العیش ہے
یادِ ایّامِ فراغت ہی سہی
وقت ملنے کا معیّن کیجئے
خواہ فردائے قیامت ہی سہی
حسنِ صورت کا نہ کھا اصلا فریب
کلکِ صنعت گر کی صنعت ہی سہی
کُچھ نہ کرنا بھی مگر اِک کام ہے
گر نہیں صحبت تو عزلت ہی سہی
دنیا میں تہی دست کی وقعت نہیں ہوتی
یک جا کبھی محتاجی و عزّت نہیں ہوتی
ممکن ہے کہ ٹل جائے جبل اپنے مقر سے
لیکن کبھی تبدیل جبلّت نہیں ہوتی
ہے جان کی جوکھوں بھی اگر راہِ طلب میں
پست اُس سے اولو العزم کی ہمّت نہیں ہوتی
خلوت میں بھی لاتے نہیں عاقل اُسے منہ پر
جو بات شائستہ جلوت نہیں ہوتی
ہم کرتے ہیں عادت کی غلامانہ اطاعت
اصلاح پذیر اس لئے عادت نہیں ہوتی
راحت جسے کہتے ہیں وہ محنت کا صلہ ہے
راحت طلبی موجبِ راحت نہیں ہوتی
کیا گنبدِ بے در یدِ قدرت نے بنایا
جس کی کبھی سالانہ مرمّت نہیں ہوتی
انساں کی شرافت متعلق ہے عمل سے
میراث میں تقسیم شرافت نہیں ہوتی
پتّے کی طرح جو کوئی محکوم ہوا ہو
اُس شخص کی دنیا میں کبھی پت نہیں ہوتی
جو لوگ ہیں دشمنی نفس سے آگاہ
اُن کو تو کسی سے بھی عداوت نہیں ہوتی
ڈھاتی ہے قیامت یہی خونخوار جہاں میں
کُچھ غم نہیں ہوتا جو محبّت نہیں ہوتی
رخصت ہے مری جان خدا حفظ و ناصر
ہر چند کہ سیرئِ طبیعت نہیں ہوتی
لو جان بیچ کے بھی جو فضل و ہنر ملے
جس سے ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے
ملنا بُرا نہیں ہے ولیکن یہ لت بُری
جس سے ملے بہ صورتِ شیر و شکر ملے
جب چشمِ آز پھوٹ گئی سب خلش مٹی
اب سنگریزہ ہاتھ لگے یا گہر ملے
ہے غارتِ متاع نشانِ دیارِ دوست
رہزن اگر ملے تو سمجھو خضر ملے
ممکن نہیں بغیرِ قناعت فراغِ بال
ہر چند تودہ تودہ تجھے سیم و زر ملے
یارانِ بزمِ دہر میں کیا کیا تپاک تھا
لیکن جب اُٹھ گئے تو نہ بارِ دگر ملے
مردِ نبرد نفس اگر ہے تو بھاگ مت
جب تک نہ خاک و خون میں دشمن کا سر ملے
جن کو نہیں ہے درد و دوا میں کچھ امتیاز
قسمت سے اِن گُنوں کے ہمیں چارہ گر ملے
غیرِ توکّل نہیں چارا مجھے
اپنے ہی دم کا ہے سہارا مجھے
حرص و طمع نے تو ڈبویا ہی تھا
صبر و قناعت نے ابھارا مجھے
جو وہ کہے اُس کو سزاوار ہے
چوں و چرا کا نہیں یارا مجھے
بے ادبوں کی ادب آموزیاں !
اُن کے بگڑے نے سنوارا مُجھے
کوششِ بے سودا مشوّش نہ کر
قعر نہ بن جائے کنارا مُجھے
زشتیِ پندار دلاتا ہے یاد
قصّۂ اسکندر و دارا مُجھے
ننگِ ذلّت سے چھڑا لے گیا
جاشِ حمیّت کا حرارا مُجھے
اوجِ معالی پہ اُڑا لے گیا
توسنِ ہمّت کا طرارا مُجھے
آہ ! نہیں رخصتِ افشائے راز
قصہ تو معلوم ہے سارا مُجھے
فرصتِ اوقات ہے بس مفتنم
یہ نہیں ملنے کی دوبارا مُجھے
نکلے چلے آتے ہیں تہِ خاک سے کھانے
یہ خوانِ کرم کس نے بچھایا ہے ؟ خدا نے
جو دل میں ہے مُنہ پھوڑ کے بررو نہیں کہتے
مارا مجھے یاروں کی در سنت اور نہ جانے
غفلت میں ہیں سرمست بدلتے نہیں کروٹ
گو سر پہ اُٹھا لی ہے زمیں شورِ درا نے
اِسراف نے اربابِ تموّل کو ڈبویا
عالِم کو تفاخر نے تو زاہد کو ریا نے
مرد اُس کو سمجھئے نہ کیا ہو جسے بدمست
ایّامِ جوانی کی مئے ہوش ربا نے
با ایں ہمہ درماندگی انساں کے یہ دعوے
کیا ذاتِ شریف اِن کو بنایا ہے خدا نے
جلوت کا بھروسہ ہے نہ خلوت کی توقع
سب وہم تھا یاروں نے جو تاکے تھے ٹھکانے
ہو رائگاں جو قطرہ سے قطرہ جدا چلے
مِل جُل گئے تو فیض کے دریا بہا چلے
یہ دل کا حوصلہ ہے کہ میدانِ عشق میں
تیرے سمندِ ناز کے پیچھے لگا چلے
ہے آج رُخ ہوا کا موافق تو چل نکل
کلَ کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے
کرتی ہے پست صف شکنوں کے بھی حوصلے
وہ رزم گاہ جس میں کہ تیغِ ادا چلے
قدسی بھی ہیں خموش نہیبِ جلال سے
اُس کو میں کیا مجال کہ پیکِ صبا چلے
جی ہی نہ چاہتا ہو تو ملنے سے فائدہ
آئے تو مُنہ بنائے ۔ چلے تو خفا چلے
تبلیغِ پیام ہو گئی ہے
حجّت بھی تمام ہو گئی ہے
جب موجِ صبا اُدھر سے آئی
تفریحِ مشام ہو گئی ہے
کتنی بودی ہے طبعِ انساں
عادت کی غلام ہو گئی ہے
خواہش کہ تھی آدمی کو لازم
بڑھ کر الزام ہو گئی ہے
تمہیدِ پیام ہی میں اپنی
تقریر تمام ہو گئی ہے
بچنا کہ وبائے صحبتِ بد
اس دور میں عام ہو گئی ہے
حلقہ میں قلندروں کے آ کر
تحقیق تمام ہو گئی ہے
جرگہ میں تضدروں کے جا کر
حکمت بدنام ہو گئی ہے
شیریں دہنوں کی طرزِ گفتار
مقبولِ انام ہو گئی ہے
بیجا بھی نکل گئی ہے جو بات
تحسینِ کلام ہو گئی ہے
نامرد کے ہاتھ میں پہنچ کر
شمشیر نیام ہو گئی ہے
تکفیرِ برادراںِ دیں بھی
شرطِ اسلام ہو گئی ہے
کیا شعر کہیں کہ شاعری کی
ترکی ہی تمام ہو گئی ہے
شبِ زندگانی سحر ہو گئی
بہرکیف اچھی بسر ہو گئی
نہ سمجھے کہ شب کیوں سحر ہو گئی
ادھر کی زمیں سب ادھر ہو گئی
زمانے کی بگڑی کچھ ایسی ہوا
کہ بےغیرتی بھی ہنر ہو گئی
عمائد نے کی وضع جو اختیار
وہی سب کو مدِ نظر ہو گئی
گئے جو نکل دامِ تزویر سے
ہزیمت ہی ان کی ظفر ہو گئی
زمیں منقلب آسماں چرخ زن
اقامت بھی ہم کو سفر ہو گئی
مٹا ڈالئے لوح دل سے غبار
کسی سے خطا بھی اگر ہو گئی
براہ کرم اس کو طے کیجیئے
جو اَن بَن کسی بات پر ہو گئی
نہ کرنا تھا بالضد مداوائے غم
بڑی چوک اے چارہ گر ہو گئی
یہ ہنگامہ آرا ہیں سب بے خبر
وہ چپ ہیں جنھیں کچھ خبر ہو گئی
میں اگر وہ ہوں جو ہونا چاہیئے
میں ہی میں ہوں پھر مجھے کیا چاہیئے
غرقِ خم ہونا میسر ہو تو بس
چاہیئے ساغر نہ مینا چاہیئے
منحصر مرنے پہ ہے فتح و شکست
کھیل مردانہ ہے کھیلا چاہیئے
بے تکلف پھر تو کِھیوا پار ہے
موج زن قطرہ میں دریا چاہیئے
تیز غیروں پر نہ کر تیغ و تبر
آپ اپنے سے تبرا چاہیئے
ہو دمِ عرضِ تجلی پاش پاش
سینہ مثلِ طورِ سینا چاہیئے
حسن کی کیا ابتدا کیا انتہا
شیفتہ بھی بے سر و پا چاہیئے
پارسا بن اگر نہیں رندوں میں بار
کچھ تو بےکاری میں کرنا چاہیئے
کفر ہے ساقی پہ خِسّت کا گماں
تشنہ سرگرمِ تقاضا چاہیئے
عیش کے جلسے ہجوم آلام کے
شعبدے ہیں گردش ۔ایام کے
ہمتِ مردانہ تجھ کو آفریں
کر کے چھوڑا سِر ہوئی جس کام کے
صبح کے بھولے تو آئے شام کو
دیکھیئے کب آئیں بھولے شام کے
تو ہی کر تکلیف او نپیکِ صبا
منتظِر ہیں وہ مرے پیغام کے
حاشا للہ میکدہ کے کاسہ لیس
معتقد ہوں زاہدِ علام کے
مٹ گئی ہے دل سے آزادی کی یاد
کتنے خوگر ہو گئے ہم دام کے
اب تو چرچے جا بجا ہونے لگے
واعظوں کی بانگِ بے ہنگام کے
درد سے لبریز سینہ چاہیئے
چشمِ پر خوں جائے مینا چاہیئے
ایسے بد افعال پر لاحول پڑھ
آدمی کو بغض و کینہ چاہیئے؟
گھٹ کے مر جانا بھی ہے دوں ہمتی
چار و ناچار اور جینا چاہیئے
بحر ہو تو بحرِ طوفاں خیز ہو
اور بے لنگر سفینہ چاہیئے
ہے رگِ ہر برگ میں رنگ بہار
دیکھنے کو چشمِ بینا چاہیئے
مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے
کچھ تسلی کچھ اضطراب بھی ہے
ہے تو اغیار سے خطاب مگر
میری ہر بات کا جواب بھی ہے
واں برابر ہے خلوت و جلوت
اس کی بے پردگی حجاب بھی ہے
ہو قناعت تو ہے جہاں دریا
حرص غالب ہو تو سراب بھی ہے
وہ تبختر کہاں ؟تپاک کہاں؟
گرم و روشن تو آفتاب بھی ہے
بنتی نہیں بات گفتگو کی
چلتی نہیں چال جستجو کی
تھی چھیڑ اسی طرف سے ورنہ
میں اور مجال آرزو کی
اس کی طلب اور مقام و منزل
احباب کی ہائے بدسلوکی
واں زیر کی پسند نہ ادراک چاہیئے
عجز و نیاز و دیدۂ نمناک چاہیئے
آئینہ بن کے شاہد و مشہود ایک ہے
اس روئے پاک کو نظرِ پاک چاہیئے
سیر و سلوک جاں نہیں بے جذبۂ نہاں
اس راہ میں یہ توسنِ چالاک چاہیئے
گزرے امید و بیم سے یہ حوصلہ کسے؟
رندِ خراب و عارفِ بےباک چاہیئے
ہر چشمہ آئنہ ہے رخِ آفتاب کا
ہاں سطحِ آب بے خس و خاشاک چاہیئے
نشو و نمائے سبزہ و گل میں نہیں درنگ
ابرِ کرم کو تشنگیِ خاک چاہیئے
اصلاحِ حالِ عاشق دل خستہ ہے ضرور
معشوق جور پیشہ و سفاک چاہیئے
جو عین نائے و نوش ہو اس بادہ نوش کو
جام و سبو نہ خُمکدہ و تاک چاہیئے
صیاد کے اثر پہ رواں ہو تو صید ہے
وہ صید ہی نہیں جسے فتراک چاہیئے
متفرقات
دید وادید کی رخصت ہی سہی
میرے حصّہ کی قیامت ہی سہی
مہربانی بھی تو کچھ عیب نہیں
دشمنی شرطِ محبت ہی سہی
٭
نعمتِ خلد تھی بشر کے لئے
خاک چاٹی نظر گزر کے لئے
٭
جب غنچہ کو وا شد ہوئی تحریک صبا سے
بلبل سے عجب کیا جو کرئے نغمہ سرائی
٭
عجب شورش دلِ غمناک میں ہے
مگر درپردہ وہ بھی تاک میں ہے
رباعیات
توحید
چکھی بھی ہے تو نے درود جامِ توحید
یا سُن ہی لیا ہے صرف نامِ توحید
ہے کفرِ حقیقی کا نتیجہ ایماں
ترکِ توحید ہے مقامِ توحید
طلب
گر جورو جفا کرئے تو انعام سمجھ
جس کام سے وہ خوش ہو اسے کام سمجھ
گر کفر کی راہ سے رسائی ہو وہاں
اس کفر کو تو جادۂ اسلام سمجھ
قرب
مکشوف ہوا کہ دید حیرانی ہے
معلوم ہوا کہ علم نادانی ہے
ڈالا ہے تلاشِ قرب نے دوری میں
مشکل ہے بڑی یہی کہ آسانی ہے
بے نشانی
بندہ ہوں تو اک خدا بناؤں اپنا
خالق ہوں تو اک جہاں دکھاؤں اپنا
ہے بندگی وہم اور خدائی پندار
میں وہ ہوں کہ خود پتا نہ پاؤں اپنا
آزادگی
کافر کو ہے بندگی بتوں کی غم خوار
مومن کے لئے بھی ہے خدائے غفار
سب سہل ہے یہ ولیک ہونا دشوار
آزادہ و بے نیاز و بیکس بےکار
یقین
آیا ہوں میں جانبِ عدمِ ہستی سے
پیدا ہے بلند پائگی پستی سے
عجز اپنا بزور کر رہا ہوں ثابت
مجبور ہوں میں زبردستی سے
عبودیت حجابِ ربوبیت
ڈھونڈا کرئے کوئی لاکھ کیا ملتا ہے؟
دن کا کہیں رات کو پتا ملتا ہے؟
جب تک کہ ہے بندگی خدائی کا حجاب
بندہ کو بھلا کہیں خدا ملتا ہے؟
توحید
توحید کی راہ میں ہے ویرانہ سخت
آزادی و بے تعلقی ہے یک لخت
دنیا ہے نہ دین ہے نہ دوزخ نہ بہشت
تکیہ نہ سرائے ہے نہ چشمہ نہ درخت
اسلاف پر فخر بیجا
اسلاف کا حصّہ تھا اگر نام و نمود
پڑھتے پھرو اب ان کے مزاروں پہ درود
کچھ ہات میں نقدِ رائج الوقت بھی ہے
یا اتنی ہی پونجی۔"پدرم سلطان بود"
تقریض
حقا کہ بلند ہے مقامِ اکبر
توقیع سخن ہے اب بنامِ اکبر
دیوان ہے لطائف و حکم سے معمور
اکبر کا کلام ہے کلامِ اکبر
تنزیہ
تقریر سے وہ فزوں بیان سے باہر
ادراک سے وہ بری گمان سے باہر
اندر باہر ہے وہ نہ پیدا پنہاں
سرحد ۔مکان و لامکاں سے باہر
غیر حق نہیں
حق ہے تو کہاں ہے پھر مجالِ باطل
حق ہے تو عبث ہے احتمالِ باطل
ناحق نہیں کوئی چیز راہ حق میں
باطل کا خیال ،ہے خیالِ باطل
لا موجود الا اللہ
ساقی و شراب و جام و پیمانہ کیا
شمع و گل و عندلیب و پروانہ کیا
نیک و بد و خانقاہ و مے خانہ کیا
ہے راہ یگانگی میں بیگانہ کیا
مظاہر
مجموعۂ خار و گل ہے زیبِ گلزار
نیکی و بدی ہے جلوہ گاہِ اظہار
ہے مخمصہ اختیار حق و باطل
ہے وسوسہ اعتبار یار و اغَیار
عجز و ادراک
ہر خواہش و عرض و التجا سے توبہ
ہر فکر سے ذکر سے دعا سے توبہ
از بس کہ محال ہے سمجھنا اس کا
جو آئے سمجھ میں اس خدا سے توبہ
ترک فضولی
دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہرگز
ڈھونڈا تو کہیں پتا نہ پایا ہرگز
کھونا پانا ہے سب فضولی اپنی
یہ خبط نہ ہو مجھے خدایا ہرگز
اختلاف خیالی ہے
دراصل کہاں ہے اختلافِ احوال
کچھ رنج نہ راحت نہ مسرت نہ ملال
قربت ہے نہ بُعد ہے نہ فرقت نہ وصال
یہ بھی ہے خیال اور وہ بھی ہے خیال
فاعلِ حقیقی حق ہے
شیطان کرتا ہے کب کسی گمراہ
اس راز سے ہے خدائے غالب آگاہ
ہے کام کسی کا اور کسی پر الزام
لاحول ولا قوہ الا باللہ
ذات کو تغّیر نہیں
پر شور الست کی ندا ہے اب بھی
جو تھی وہی آن اور ادا ہے اب بھی
ہوتی نہیں سنتِ الہی تبدیل
جس شان میں ہے وہی خدا ہے اب بھی
تّجلیات حجاب میں
اِخفا کے لئے ہے اس قدر جوش و خروش
یاں ہوش کا مقتضا ہے بننا مدہوش
حسنِ ازلی تو ہے ازل سے ظاہر
یعنی ہے تجّلیوں میں اپنی روپوش
مشاہدہ
اے بارِ خدا یہ شور و غوغا کیا ہے؟
کیا چیز طلب ہے اور تنہا کیا ہے؟
ہے کم نظری سے اشتیاقِ دیدار
جو کچھ ہے نظر میں یہ تماشا کیا ہے؟
کسی خاص کیف کی پابندی غلط ہے
افسردگی اور گرم جوشی بھی غلط
گم گشتگی اور خود فروشی بھی غلط
کچھ کہیئے اگر تو گفتگو ہے بےجا
چپ رہیئے اگر تو ہے خموشی بھی غلط
شہودِ حق میں غیر معدوم
الحق کی نہیں ہے غیر ہرگز موجود
جب تک کہ ہے وہم غیرِ حق ہے مفقود
حق یہ ہے کہ وہم کا بھی ہونا حق ہے
حق ہے تو ہر طرح سے حق ہے مشہود
فُقر
کیفیت و ذوق اور ذکر و اوراد
دین و اسلام اور کفرو الحاد
ہر رنگ ہے محو،ہر تعلق برباد
ہے فُقر تمام عِلتوں سے آزاد
وحدت
نقاش سے ممکن ہے کہ ہو نقش خلاف
ہیں نقش میں جلوہ گر اسی کے اوصاف
ہر شے میں عیاں ہے آفتابِ وحدت
گر وہم دوئی نہ ہو تو ہے مطلع صاف
غفلت
اک عالمِ خواب خلق پر طاری ہے
یہ خواب میں کارخانہ سب جاری ہے
یہ خواب نہیں یہی سمجھنا ہے خواب
گر خواب کا علم ہے تو بیداری ہے
راہِ خدا کی انتہا نہیں
جو تیز قدم تھے وہ گئے دور نکل
دکھے بھالے بہت مقامات و محل
اس راہ کا پر کہیں نہ پایا انجام
یعنی ہے وہی ہنوز روزِ اول
خود شناسی
اکثر نے ہے آخرت کی کھیتی بوئی
اکثر نے ہے عمر جستجو میں کھوئی
آخر کو اگر پتا ملا تو یہ ملا
ملنے کا نہیں سوائے اپنے کوئی
مظہر
بدلا نہیں کوئی بھیس ناچاری سے
ہر رنگ ہے اختیارِ سرکاری سے
بندہ شاہد ہے اور طاعت زیور
یہ سانگ بھرا گیا ہے عیاری سے
کثرت لازمِ وحدت ہے
ہے عشق سے حسن کی صفائی ظاہر
رندی سے ہوئی ہے پارسائی ظاہر
وحدت کا ثبوت ہے ظہورِ کثرت
بندہ ہی کے دم سے ہے خدائی ظاہر
طلب بے نشانی
یارب کوئی نقش مدعا بھی نہ رہے
اور دل میں خیال ماسوا بھی نہ رہے
رہ جائے تو صرف بے نشانی باقی
جو وہم میں ہے سو وہ خدا بھی نہ رہے
ہستی واحد ہے
ہم عالمِ خواب میں ہیں یا ہم میں خواب
ہم خود سائل ہیں خود سوال اور جواب
آئی نہیں کوئی شے کہیں باہر سے
ہم خود ہیں مسبّب اور خود ہیں اسباب
ہر شان میں حق تجلی ہے
ہے شکر درست اور شکایت زیبا
ہے کفر درست اور ہدایت زیبا
گیسوئے سیاہ اور جبینِ روشن
دونوں کی بہار ہے نہایت زیبا
تنزبھ
مقصود ہے قیدِ جستجو سے باہر
وہ گل ہے دلیلِ رنگ و بو سے باہر
اندر باہر کا سب تعیّن ہے غلط
مطلب ہے کلام و گفتگو سے باہر
توحید
معلوم کا نام ہے نشان ہے نہ اثر
گنجائشِ علم ہے بیان یے نہ خبر
علم اور معلوم میں دوئی کی بو ہے
اس واسطے علم ہے حجاب الاکبر
ترکِ ذکر و فکر
ہوتی نہیں فکر سے کوئی افزائش
چپکے رہنے میں ہے بڑی آسائش
کہنا سننا تو ہے نہایت آساں
کہنے سننے کی ہو اگر گنجائش
ترکِ خودی
برہان و دلیل عین گمراہی ہے
نفی و اثبات محض جاں کاہی ہے
اس رہ میں عبادت و اشارت ہے گم
یاں ترکِ خودی اصولِ آگاہی ہے
دین و دنیا
دین اور دنیا کا تفرقہ ہے مہمل
نیت ہی پہ موقوف ہے تنقیحِ عمل
دنیا داری بھی عین دیں داری ہے
مرکوز ہو گر رضائے حق عز و جل
وحدت
خاکِ نمناک اور تابندہ نجوم
ہیں ایک ہی قانون کے یکسر محکوم
یکسانیِ قانون کہے دیتی ہے
لاریب کہ ہے ایک ہی ربِ قیّوم
استقلال
تیزی نہیں منجملۂ اوصاف کمال
کچھ عیب نہیں اگر چلو دھیمی چال
خرگوش سے لے گیا ہے کچھوا بازی
ہاں راہِ طلب میں شرط ہے استقلال
ایک واقعہ
کیا کہتے ہیں اس میں مفتیانِ اسلام
جب بیعِ مساجد سے نہیں چلتا کام
تو وجہِ کفاف کے لئے مومن کو
جائز بھی ہے یا نہیں خدا کا نیلام
اصلاحِ قوم دشوار ہے
پانی میں ہے آگ کا لگانا دشوار
بہتے دریا کو بھی لانا دشوار
دشوار سہی،مگر نہ اتنا جتنا
بگڑی ہوئی قوم کو بنانا دشوار
ہر کام کا نتیجہ اپنے لئے ہے
گر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے
یا بد منشی سے کچھ برائی کی ہے
اپنے ہی لئے ہے سب نہ اوروں کے لئے
اپنے ہاتھوں نے جو کمائی کی ہے
مراسم میں فضولی
اب قوم کی جو رسم ہے سو اوُل جلُول
فاسد ہوئے قاعدے تو بگڑے معمول
ہے عید مہذب، نہ محرم معقول
ہنسنا محمود ہے نہ رونا مقبول
نیچر انسان کی محکوم ہے
فطرت کے مطابق اگر انساں لے کام
حیوان تو حیوان ،جمادات ہوں رام
مٹی، پانی،ہوا، حرارت،بجلی
دانشمندوں کے ہیں مطیع احکام
وقت رائیگاں نہیں کرنا چاہیئے
بے کار نہ وقت کو گزارو یارو
یوں سست پڑے پڑے نہ ہمت ہارو
برسات کی فصل میں ہے ورزش لازم
کچھ بھی نہ کرو تو مکھیاں ہی مارو
اتفاق میں کامیابی ہے اور نااتفاقی میں تباہی
جب تک کہ سبق ملاپ کا یاد رہا
بستی میں ہر ایک شخص دل شاد رہا
جب رشک و حسد نے پھوٹ ان میں ڈالی
دونوں میں سے ایک بھی نہ آباد رہا
ہمت
جس درجہ ہو مشکلات کی طغیانی
ہو اہل ہمم کو اور بھی آسانی
تیراک اپنا ہنر دکھاتا ہے خوب
ہوتا ہے جب اس کے سر سے اونچا پانی
فنا عینِ وصال ہے
کس طور سے کس طرح سے کیونکر پایا
دل نذر کیا سراغ دلبر پایا
باقی رہا مدعا نہ دعویٰ نہ دلیل
کھوئے گئے آپ ہی تو سب بھر پایا
دنیا پرست دین دار
دنیا کے لئے ہیں سب ہمارے دھندے
ظاہر طاہر ہیں اور باطن گندے
ہیں صرف زبان سے خدا کے قائل
دل کی پوچھو تو خواہشوں کے بندے
محبِ دنیا نشانِ خامی ہے
یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے
ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے
چھوڑی نہیں جس نے حبِ دنیا دل سے
گو ریش سفید ہو مگر بچہ ہے
ابیات
اچھی بات
جو بات کہو صاف ہو،ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو،کھٹی نہ ہو،مصری کی ڈلی نہ ہو
وقت سے کام لو
وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
کھینچنے سے بڑھتی ہے چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ
بری صحبت سے بچو
بد کی صحبت میں مت بیٹھو،اس کا ہے انجام برا
بد نہ بنے تو بد کہلائے،بد اچھا بدنام برا
خیالِ محال
کیا کیا خیال باندھے ناداں نے اپنے دل میں
پر اونٹ کی سمائی کب ہو چوہے کے بل میں
٭
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حّجت
اعتدالِ خیال
نہ حلوہ بن،کہ چٹ کر جائیں بھوکے
نہ کڑوا بن،کہ جو چکھے سو تھوکے
اعتدالِ غذا
نہ کھاؤ اتنا زیادہ کہ ڈال دے بیمار
نہ اتنا کم ہو کہ نا طاقتی ہی ڈالے مار
راستی
راستی سیدھے سڑک ہے جس میں کچھ کھٹکا نہیں
کوئی رہرو آج تک اس راہ میں بھٹکا نہیں
٭
گلستانِ جہاں میں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی
مگر جو گل کے جویا ہیں انہیں کیا خار کا کھٹکا
اپنی حفاظت
جب کہ دو موذیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ
٭
تا سحر وہ بھی نہ چھوڑی تو نے اے باد صبا
یادگارِ رونقِ محفل تھی پروانہ کی خاک
٭
تم نہ چوکو کبھی نکوئی سے
کرنے دو گر خطا کرئے کوئی
٭
ہر چند اس کے مال سے کوئی واسطی نہ ہو
پھر بھی برا ہی کہتی ہے خلقت بخیل کو
٭
ساغرِ زریں ہو یا مٹی کا ہو ایک ٹھیکرا
تو نظر کر اس پے جو کچھ اس کے اندر ہے بھرا
ضمیر اُردو
نوٹ : یہ نظمیں سوائے مثلث اور ایک غزل کے ترتیبِ کلیات کے بعد لکھی گئی ہیں احباب کی فرمائش سے بطور ضمیمہ درج کی گئیں ـ
مثنوی
کوّا
کوّے ہیں سب دیکھے بھالے
چونچ بھی کالی پر بھی کالے
کالی کالی وردی سب کی
اچھی خاصی اُن کی ڈھب کی
کالی سینا کے ہیں سپاہی
ایک سی صورت ایک سیاہی
لیکن ہے آواز بُری سی
کان میں جا لگتی ہے چھُری سی
یوں تو ہے کوّا حرص کا بندہ
کُچھ بھی نہ چھوڑے پاک نہ گندہ
اچھی ہے پر اُس کی یہ عادت
بھائیوں کی کرتا ہے دعوت
کوئی ذرا سی چیز جو پالے
کھائے نہ جب تک سب کو بُلا لے
کھانے دانے پر ہے گرتا
پیٹ کے کارن گھر گھر پھرتا
دیکھ لو ! وہ دیوار پہ بیٹھا
غُلّہ کی ہے مار پہ بیٹھا
کیوں کر باندھوں اُس پہ نشانا
بے صبرا چوکنّا ـ سیانا
کائیں کائیں پنکھ پسارے
کرتا ہے یہ بھوک کے مارے
تاک رہا ہے کونا کھُترا
کچھ دیکھا تو نیچے اُترا
اُس کو بس آتا ہے اُچھلنا
جانے کیا دو پانو سے چلنا
اُچھلا ، کودا لپکا سُکڑا
ہاتھ میں تھا بچّہ کے ٹکڑا
آنکھ بچا کے جھٹ لے بھاگا
واہ رے تیری پھرتی کاگا !
ہا ہا کرتے رہ گئے گھر کے
یہ جا وہ جا چونچ میں بھر کے
پیڑ پہ تھا چڑیا کا بسیرا
اُس کو ظالم نے جا گھیرا
ہاتھ لگا چھوٹا سا بَچّا
نوچا پھاڑا کھا گیا کچّا
چڑیا رو رو جان ہے کھوتی
ہے ظالم کی جان کو روتی
چِیں چِیں چِیں چِیں دے کے دُہائی
اپنی بِپتا سب کو سُنائی
کون ہے جو فریاد کو پہنچے
بے چاری کی داد کو پہنچے
پکنے پر جب مَکّا آئی
کوّوں نے جا لوٹ مچائی
دودھیا بھُٹّا چونچ سے چیرا
سَچ مُچ کا ہے اُٹھائی گیرا
رکھوالے نے پائی آہٹ
گوپھن لے کر اُٹھّا جھٹ پٹ
" ہریا ہریا " شور مچا کر
ڈھیلا مارا تڑ سے گھُما کر
سُن کے تڑاقا کوّا بھاگا
تھوڑی دیر میں پھر جا لاگا
لالچ خورا ڈھیٹ نڈر ہے
ڈانکو سے کچھ اِس میں کسر ہے ؟
ڈانکو ہے یا چور اُچّکا
پَر ہے اَپنی دھُن کا پکّا
مثلث
خوشی اِک مشغلہ ہو رات دن کا
شمار افزوں ہو اُس کے سال و سن کا
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہے امن اُس شہنشاہی میں ہر جا
سُکھی ہیں آج راجا اور پرجا
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
کوئن دنیا کے ہر خطّہ میں نامی
غریبوں اور مسکینوں کی حامی
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
رعایا تن کوئن اِس تن کی جاں ہے
خدا کی خلق پر وہ مہرباں ہے
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
دعاگو اُس کا پورب اور پچھاں بھی
فرنگستان بھی ہندوستاں بھی
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
رہے زندہ کوئن با دولت و بخت
رہے محفوظ اُس کا تاج اور تخت
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہیں اکثر ساکنانِ رُبِعّ سکوں
کوئن کے حکم میں مامون و مصئوں
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہے اُس کا مُلک راحت کا ٹھکانا
زمانہ اُس کا ہے طُرفہ زمانہ
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
سبھی احسان اُس کا مانتے ہیں
اُسے پیارا شہنشہ جانتے ہیں
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہیں اُس کے عہد میں انسان بڑھتے
نہالِ تازہ ہیں پروان چڑھتے
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
سمندر ـ شہر ـ جنگل اور پربت
بنے گلزار ہیں اُس کی بدولت
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
نظام الدین کی ہے التجا یہ
نکلتی ہے تہِ دل سے دعا یہ
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
قطعات
مسلمانوں کی تعلیم
اے ! خوشا وہ قوم مستقبل ہو جس کا شان دار
کَل سے بہتر آج ہو اور آج سے بہتر ہو کَل
دم بدم راہِ طلب میں کر رہی ہو دوڑ دھوپ
ایک نقطہ پر نہ ہو اُس کو توقف ایک پل
یہ نظم شیخ نظام الدین صاحب نبیرہ خان بہادر حافظ عبدالکریم مرحوم سی ـ آئی ـ ائ ریئس لال کورتی نے جلسہ سالگرہ ملکہ معظمہ کوئن وکٹوریا میں پڑھی تھی
ـ اپریل کو بمقام علی گڑھ ٹیچرز کانفرنس میں پڑہا گیا ـ
رفتہ رفتہ بن گئی ہو علم کی کشور کشا
ہوتے ہوتے ہو گئی ہو مردِ میدانِ عمل
کیوں نہ ہو اُس قوم کی دُنیا کے ہر گوشہ میں ساکھ
جس میں اخلاقی سکت ہو اور ہو حکمت کا بَل
وقت کو دولت کو طاقت کو نہ کھوئے رائگاں
کھودے احیاناً تو حاصل بھی کرے نعم البدل
ہچکچاتی ہو پہاڑوں سے نہ دریا سے رُکے
ہمّتیں ہوں اُس کی عالی عزم ہوں اُس کے اَٹل
حسرتا وہ قومِ ناقابل کہ ہو ننگِ سلف
کاہلی سے دست و بازو ہو گئے ہوں جس کے شل
اُس کی طاقت کیا ؟ کہ ہوں اوروں سے کم جس کے نفوس
اُس کی عزت کیا ؟ جو ہو پس مانده علم و عمل
اُس کی دولت کیا ؟ کہ ہوں افراد جس کے بے ہُنر
مفلسی بھی اور دماغوں میں مشیت کا خلل
کر دیا ہے خانہ برباد آج اُسے اسراف نے
جس کو قدرت نے دئے تھے سیکڑوں سنگیں محل
خیر جو گزرا سو گزرا یہ جو ہیں تازہ نہال
فکر اِن کی چاہیئے شاید یہی جائیں سنبھل
اِن کو بار آور بناؤ خواہ بے کار و فضول
آج جس سانچے میں ڈھالو گے انھیں جائیں گے ڈھل
کھیت میں پیدا ہوں پودے اور نہ سینچو وقت پر
ہے نتیجہ صاف ظاہر دھوپ سے جائیں گے جل
سوکھ کر جھڑ جائیں کلیاں اور نہ چیتے باغباں
ایسے ظالم باغباں کو کیا ملے گا خاک پھل
جی چرانا کام سے اور کامیابی کا یقیں
اے عزیزو ! ہے خلافِ حکمِ حق عزّوجل
لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّ مَا سَعیٰ پڑھتے تو ہو
لیکن اِس پڑھنے کا اے حضرات ! آخر ماحصل ؟
شہد کی مکھّی کو دیکھو کس قدر مصروف ہے
چوس کر ہر پھول سے لاتی ہے بے چاری عسل
اپنے بچّوں کے لیے کرتی ہے آذوقہ تلاش
آخرش آتے ہیں بچّوں کے بھی پَر پُرزے نکل
یہ نئی تانتی ہماری کیا کرے گی بھاگ دوڑ
تنگنائے کاہلی میں جب بڑے جائیں پھسل
بعض کہتے ہیں بڑھو آگے کہ ہے میداں وسیع
بعض کہتے ہیں کہ ہیں یہ کہنے والے مبتذل
دیکھنا ! تم ٹَس سے مَس ہرگز نہ ہونا ایک انچ
بڑھ گئے آگے تو آ جائے گا ایماں میں خلل
اُن کا کہنا مانئے یا اِن کی خاطر کیجئے
اپنا عقدہ کیجئے اب اپنے ہی ناخن سے حل
تیز کر اپنی توجّہ کی کرن اے آفتاب (۱) !
تاکہ جائے عادتوں سے برف سُستی کی پگھل
تیری گرمی سمندر سے اُٹھائے گی بخار
پھر ہوا میں جمع ہوں گے بادلوں کے دَل کے دَل
دشت اور کُہسار پر برسیں گے ایک دن جھوم جھوم
ایک ہو جائے گا آخر دیکھنا ! جل اور تھل
پھر تو ہو جائے گی یہ مردہ زمیں باغ و بہار
پھر تو کھِل جائیں گے پژمردہ دلوں کے بھی کنول
دِل نہ ہو درد آشنا تو نظم ہے اِک دردِ سر
کیا رباعی کیا قصیدہ کیا مخمّس کیا غزل
جملہ ڈیلیگٹ سے آب خیر مقدم عرض ہے
اور پریذیڈنٹ(۱) کی خدمت میں شکریہ ڈبل
۱۔ آنریبل صاحبزادہ آفتاب احمد خاں بیرسٹرایٹ لا ـ علی گڑھ
قطعہ وفات مِلک معظم ایڈورڈ ہفتم آن جہانی
رحلت ایڈورڈ ہفتم پیش آئی یک بہ یک
اِس وقوعہ کا نہ تھا ہرگز کسی کو بھی خیال
ہم نہ بھولے تھے ابھی وکٹوریہ عُظمٰے کا غم
کیوں کہ گزرے تھے ابھی اِس حادثہ پر چند سال
چند سالہ سلطنت میں شاہِ ولا جاہ نے
کر دیا سب پر عیاں اپنی لیاقت کا کمال
ملکِ افریقہ میں قومِ بور کو بخشا عروج
باوجودِ فتح مندی چھوڑ دی جنگ و جدال
کس قدر ہم عصر شاہوں سے بڑھائی آشتی
کس قدر ہمسایہ ملکوں سے بنایا اعتدال
بن گئے یارانِ مخلص پیرس و پیٹرس برگ
ڈھل گئی انگلش کی جانب سے جو تھی گردِ ملال
جرمن و اسپینسیز رومی و یونانی و ترک
صلح جو ایڈورڈ نے سب کی بدل دی چال ڈھال
پیس میکر بّرِاعظم میں ہوا اُس کا لقب
بڑھ گیا برطانیہ کا اور بھی عّز و جلال
کی تھی دورانِ ولی عہدی میں سیر اِس ملک میں
تھی عنایت کی نظر ہندوستاں کے حسبِ حال
ہفتمِ ماہِ مئی کو بج گیا کوسِ رحیل
عیسوی اُنّیس صدیاں اور یہ دسواں ہے سال
اب دعا ہے جارج پنجم جانشینِ سلطنت
مدتوں پھولے پھلے دُنیا میں یہ تازہ نہال
سب کے دل پر نقش ہیں اِس خانداں کی نیکیاں
اُن کے حق میں ہے رعایا کا دعاگو بال بال
دودمانِ شاہ کو اﷲ دے صبر و سکوں
دولت و اقبال روز افزوں رہے اور ملک و مال
شیخ عبدالقادر صاحب بیرسٹرایٹ لا
مسلمان اور انگریزی تعلیم
ایک دن تھا بحکمِ سرکاری
کئی اسکول جا بجا کھولے
نہ تو کچھ فیس تھی نہ داخلہ تھا
مفت تعلیم تھی اُسے جو لے
ہم مسلمان سب اکڑ بیٹھے
پہلے فتویٰ جواز کا ہو لے
مُنہ زبانی بھی اور لکھ کر بھی
پوچھ گچھ کی تو مولوی بولے
" ایسی تعلیم سے تو بہتر ہے
آدمی ٹوکری کہیں ڈھو لے "
اُن کو تنقیص دین کی سوجھی
تھے تعصّب کے آنکھ میں پھولے
وہم و وسواس کے رہے چلتے
سالہا سال توپ اور گولے
اِنتظامِ اُمورِ دُنیا کو
کیا سمجھتے یہ جَنّتی بھولے
جس کو ہو کچھ بھ فہم سے بہرہ
اپنے شربت میں زہر یوں گھولے
رہ نما بے خبر تو بات کو پھر
کون میزانِ عقل میں تولے
رہے علمِ معاش سے کورے
چہر قصبے محلّے اور ٹولے
ہیں ہمارے جو اور ہمسایے
گویا بیٹھے ہی تھے وہ مُنہ کھولے
خوانِ یغما پہ جا کے ٹوٹ پڑے
بھر لئے ٹھونس ٹھونس کر جھولے
لگی ہلدی نہ پھٹکری اور مفت
خوب موتی معاش کے رولے
محکموں کی پلٹ گئی کایا
آفسوں کے بدل گئے چولے
کہا سیّد نے قوم سے "ناداں!
تو بھی اُٹھ بیٹھ ہاتھ مُنہ دھو لے
پیچھے اُمیدِ جمع خرمن کر
پہلے کھیتوں میں بیج تو بولے "
تب ہوئی کچھ جِجھک ہماری دور
اور ہم نے بھی بال و پر کھولے
مگر اِس فیس کی گرانی کے
متواتر لگے وہ ہچکولے
حوصلہ کا نکل گیا بھرکُس
اور ہمّت کے ہو گئے ہولے
الغرض وہ مثل ہوئی اپنی
" سرمنڈتے ہی پڑ گئے اولے "
غریب اور امیر
خوش ہیں غریب اپنے اُن جھونپڑوں کے اندر
جو دھوپ کی تپش سے دوزخ کی بھٹّیاں ہیں
شاکی ہیں اہلِ دولت حالاں کہ اُن کے گھر میں
پنکھا بھی کھنچ رہا ہے اور خَس کی ٹٹیاں ہیں
غزلیات
سر زمینِ ہند کا میوہ ہے پھوٹ
بوالہوس گِرتے ہیں اُس پر ٹوٹ ٹوٹ
نچ کھُسٹ کے رہ گیا مفلس چمن
یہ خزاں تھی یا کہ پنڈاروں کی لوٹ
ہو چکی میعادِ ایّامِ بہار
غنچہ و گل رو رہے ہیں پھوٹ پھوٹ
جا کہیں سے مول لا عقلِ فرنگ
کیا ہوا پہنا اگر ڈاسن کا بوٹ
صانِع قدرت نے بھر دیں کس قدر
صنعتیں یورپ کے سر میں کوٹ کوٹ
زالِ دُنیا کی نمائش دیکھ کر
اچّھے اچّھوں کا وضو جاتا ہے ٹوٹ
سچ کی پاؤ گے صدا ہر دم کڑی
آخرش چِیں بول ہی جاتا ہے جھوٹ
دایۂ ابرِ بہاری واہ وا!
گل زمیں کو خوب پہنایا ہے سوٹ
چھُٹتی ہیں فقروں کی آتشبازیاں
جب کبھی آپس میں ہو جاتی ہے چھوٹ
بیٹھ کر کالج میں انگریزی علوم
رَٹ لئے لیکن نہ پایا اُن کا روٹ
بے ہنر ہاتھوں میں ہیں بےکار سے
مالوے کی روئی بنگالے کا جوٹ
کیا ہمارے شعر اور کیا شاعری
گاہے ماہے اور وہ بھی جھوٹ موٹ
مانع سرگشتگی وہ سنگِ دَر ہوتا نہیں
پھوڑنا سر کا علاجِ دردِ سر ہوتا نہیں
حیف دُنیا ! ہائے عقبےٰ ! منزلِ دلبر ہے دُور
دل جو اِس رستہ میں ٹھٹکا طے سفر ہوتا نہیں
یاد اور امید کی دولت سے کٹ جاتے ہیں دن
ورنہ غم کھانے سے دنیا میں گزر ہوتا نہیں
دعوے اُلفت ہے کچّا جو نہ ہو دل میں طپش
بے حرارت تو کبھی پُختہ ثمر ہوتا نہیں
خوفِ جاں سے نامہ بر جانے کی ہامی کیوں بھرے
رشک سے یاں اعتبارِ نامہ بر ہوتا نہیں
صدمۂ دل کوبِ فرقت امتحانِ عشق ہے
بے پِسے سرمہ بھی منظورِ نظر ہوتا نہیں
ہے شعورِ ماسوا بھی اِک حجابِ آگہی
بے خبر جب تک نہ ہولے باخبر ہوتا نہیں
رباعیات
ہمّت
تاریک ہے رات اور دریا زخّار
طوفان بپا ہے اور کشتی بےکار
گھبرائیو مت کہ ہے مددگار خدا
ہمّت ہے تو جا لگاؤ کھیوا اُس پار
ہمت
انسان کو چاہیے نہ ہمّت ہارے
میدانِ طلب میں ہاتھ بڑھ کر مارے
جو علم و ہنر میں لے گئے ہیں بازی
ہر کام میں ہیں اُنھیں کے وارے نیارے
مسلمانوں کی تعلیم
قلّاش ہے قوم تو پڑھے گی کیوں کر
پس ماندہ ہے اب ت پھر بڑھے گی کیوں کر
بچّوں کے لیے نہیں ہے اِسکول کی فیس
یہ بیل کہو منڈھے چڑھے گی کیوں کر
جھوٹی نفرت
لاکھوں چیزیں بنا کے بھیجیں انگریز
سب کرتے ہں دندانِ ہوس اُن پر تیز
چِڑتے ہیں مگر علومِ انگریزی سے
گُڑ کھاتے ہیں اور گُلگُلوں سے پرہیز
مقصودِ عالم انسان ہے
یہ مسئلہ دقیق سُنئے ہم سے
آدم ہے مراد ہستیِ عالم سے
ہم اصل ہیں اور یہ ہمارا سایہ
عالم کا وجود ہے ہمارے دم سے
٭٭٭
ٹائپنگ: اردو محفل کے ارکان فاطمہ قدوسی، خرد اعوان، نایاب
ماخذ:
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?-%DA%A%D%%DB%C%D%A%D%AA-%D%A%D%B%D%%D%B%D%B%DB%C%D%-%D%%DB%C%D%B%D%B%DA%BE%DB%C--%D%AA%D%A-&highlight=%D%%DB%C%D%B%D%B%DA%BE%DB%C
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید