صفحات

تلاش کریں

پری زاد

قسط 1
ایک سرائیکی کہاوت ہے کہ میرے محبوب ایسے یگبارگی جدائی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے تجھے مجھ سے بچھڑنا ہی ہے تو دھیرے دھیرے قسطوں میں بچھڑ اس بار کا موسم گرما بھی کچھ اس سنگ دل محبوب جیسا روپ دھارے دھیرے دھیرے قسطوں میں بچھڑنے کے جتن کر رہا تھا تیز دھوپ میں کولتار کی لمبی سنسان سڑک کیسی سیاہ گلیشیئر سے پچھلی ہوئی جھیل جیسی چمک رہی تھی میرے پرانے فلیٹ جوتوں کا تلاش نیچے سے کئ جگہ کھل چکا تھا لہذا ابلتا ہوا کولتار میرے پیروں میں انگارے سے بھر رہا تھا اسکول کی چھٹی کے بعد گھر تک یہ راستے کا پل صراط مجھے ہر روز پار کرنا ہوتا تھا کتنی بار دبے لفظوں میں اماں کو جاتا چکا تھا کہ میرے پیروں کے چھاپے اب شمار کی حد سے نکلتے جارہے تھے مگر چار بہن بھائیوں میں میرا اور کا میرٹ نکالا جاتا تو میری عرضی کا تیسرا نمبر نکلتا تھا اور ابا کی تنخواہ بس اتنی تھی کی وہ صرف اماں کی ہی سن سکتے تھے پھر بھی پھر بھی ہر پندرہ دن کے بعد گھر کے راشن کا رونا شروع ہوجاتا تھا راستے میں گزارتے ہوے مجھے حسب معمول چند لمحوں کے لیے برٹش جوتوں کی بڑی دوکان کے چھپر تلے سستانے کا موقع ملا میں ہمیشہ کی طرح مسرت بھرے تجس کے ہاتھوں مجبور ہو کر دوکان کے شیشے کی دیوار سے پرے ہاتھوں کا کٹھورا بنا کر جھانکنا شروع کر دیا اندر دوکان کا نوکر ایک میم صاحب کو اس کی پسند کے سینڈل پہنا کر جانچ کروارہا تھا کتنی پیاری تھی وہ گوری سی میم دودھ سی دھلی ہوئی آمنہ
آبشار کی جلترنگ کی مانند بکھری نکھری سی تھی ۔۔مگر میرے خیالات کا تسلسل ہی ٹوٹ گیا شاید پہلے دوکان کا مالک اور پھر نوکر نے مجھے دیکھ لیا تھا نوکر تیزی سے دوکان باہر آیا اور مجھے ہکارت بھرے لہجے میں جھڑکنے لگا ۔۔
اوئے لڑکے کتنی بار تجھے کہا ہے یہاں شیشہ کے پاس نہ کھڑا ہوا کر سارا شیشہ گندہ کردیا چل بھاگ یہاں سے ورنہ مار کھائے گا آج مجھ سے ۔۔ میں جلدی گھبرا کر اپنا بستہ سنبھالے ہوے وہاں سے آگے بڑھ گیا یہ نفرت یہ حقارت یہ رویہ میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی بچپن سے ہی مجھے ہوش سنبھالتے ہی مجھے ہر طرف سے ایسے ہی تحقیر آمیز رویوں کا سامنا تھا اور پھر لوگوں سے کیا گلہ شکوہ کیوں کر۔۔۔؟میری صورت میرا حلیہ ایسے ہی رویے ایسی ہی حقارت اور نفرت کا منتقاضی تھا ۔۔
میں اپنے ماں باپ کا تیسرا بچہ تھا ابا ایک شربت کی پیکنگ والی پرائیویٹ فیکٹری میں کام کرتے تھے صبع سے شام تک بوتلوں کا گتے کے ڈبوں میں بند کر کے شام کو وہ جب گھر آتے تو ان کے غصہ کا جن کھل چکا ہوتا اور ہم سب کہیں دبک کر باقی کا وقت گزارا کرتے تھے قلیل تنخواہ ضروریات مہنگائی اوپر سے چار بچوں کی فوج۔۔ کھبی کھبی مجھے ایسا لگتا تھا کہ یہ جو غریب ماں باپ ہوتے ہیں یہ آپنی غربت کو بانٹنے کے لیے آپنا آنگن بچوں سے بھر لیتے ہیں ۔۔یا پھر شاید ان کا غربت سے کوئی انتقام ہوتا ہے ۔۔
وہ سردیوں کی طویل اور کھٹن رات تھی جب میرا جنم ہوا ۔دائی اماں بتاتی تھیں کہ میری پیدائش کے وقت حسب معمول خوراک کی کمی کی وجہ سے اماں کی صحت اور طبیعت کافی بگڑی ہوئی تھی نتیجہ میری صورت میں ایک کمزور لاغر اور گہرے سانولےرنگ کا بچہ اس دنیا میں ہوا میرے باقی بہن بھائی پھر بھی کافی بہتر اور کھولی ہوئی گندی رنگت لیے پیدا ہوے تھے پر نہ جانے قدرت نے یہ ساری سیاھی مقدر کی دوات میں کیوں بھر دی ۔چھوٹی خالہ کی اماں سے ہمیشہ پی کچھ نا کچھ کھٹ پٹ چلتی رہتی تھی لہذا انہیں تو جیسے موقع مل گیا پھر سے طنز تیر چلانے کا جھٹ سے بولی آئے ہائے باجی۔۔ یہ اتنا کالا کلوٹا بچہ کس پر چلا گیا ۔۔لگتا ہے جیسے اماوس کی رات آنگن میں اتر آئی ہو ۔آس پاس کھڑی سبھی عورتیں ذور سے قہقہ مار کہ ہنس پڑیں ۔۔اماں جو پہلے ہی میرے رنگ کہ وجہ سے جلی پڑی تھی ۔تلملا ہی تو گئیں اور جھٹ سے بولیں ۔۔۔
جیسا بھی ہے ہے تو میری اولاد ۔۔اور بھئی تو تمہاری اس بھینگی بیٹی سے زیادہ ہی پیارا لگتا ہے۔۔
اب جلنے کی باری خالہ کی تھی تڑپ کی بولی ہاں ہاں ۔۔بڑا کوہ قاف کا شہزادہ جنا ہے تم نے ۔۔
اماں بھلا کہاں پیچھے رہنے والی تھیں پلٹ کر ترکی بے ترکی حساب برابر کیا۔ہاں میرے لیے تو کوہ قاف کا شہزادہ ہی ہے ۔۔اور میں اس کا نام بھی شہزادوں والا ہی سوچا رکھا ہے ۔پری زاد ۔ہاں یہی نام ہوگا میرے بچے کا ۔۔،،
پری زاد سبھی عورتیں زیر لب بڑ بڑائیں اور کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو اشارہ کرتیں اور معینی خیز مسکراہٹ لیے یہ کہتے باہر نکل گئیں ۔۔
پری پیکر سنا تھا ۔۔یہ پری زاد بھلا کیا نام ہوا ؟؟
بس وہ دن تھا جب میری قسمت میں ہمیشہ کیے لیے لوگوں کی نظر میں تمسخر طنز اور حقارت لکھ دی گئی تھی ۔
کاش اس روز اماں چھوٹی خالہ کی طنز کے جواب میں خاموش رہتیں تو شاید میری زندگی اتنی تلخ نہ ہوتی میری کالی گھٹاؤں جیسی رنگت لاغر جسم اور غیر دل کش نیں نقش والی مسکین سی صورت کا تعارف جب پری زاد نام سے کراوایا جاتا تو اگلا سننے والا قہقہے مارنے پہ مجبور ہوجاتا تھا مجھے یاد ہے جب مجھے پہلی جماعت میں داخل کروایا گیا تو استاد نے بچوں کو فردا فردا کھڑےکر کے ان کا نام پوچھتے تھے ۔
میری باری آئی تو میں نے کھڑے ہوکر معصومیت سے اپنا نام بتایا ۔۔پری زاد۔۔استاد چند لمحے حیرت سے میرے پرانے لباس اور حلیہ کو دیکھتا رہا اور پھر مجھے دیکھ کر زور سے ہنس پڑا ۔۔
واہ شہزادہ ۔۔۔نام تو بڑا کمال رکھا ہے ماں باپ نے ۔۔۔؟
استاد کی بات پر باقی بچے بھی زور سے ہنس پڑے تب مجھے سمجھ نہیں آیا تھا کہ آخر میرے نام میں ایسی کیا خامی ہے جو بھی سنتا ہے مزاق اڑاتے ہے مگر پھر دھیرے دھیرے مجھے اس بات کا احساس ہوتا گیا کہ مسلہ میرے نام کا نہیں ۔۔میری صورت کا ہے دھیرے دھیرے میں میرا نام بزات خود ایک مزاق بنتا چلا گیا اور پھر سکول ہی کیا گلہ محلے بازاروں میں جہاں بھی میرے نام کی شہرت پہنچی پہلے تو لوگ اچنھبے کاشکار ہوجاتے اور پھر مجھ پر نظر پڑتے ہی ان کی یہ حیرت ایک طنز یہ مسکراہٹ میں تبدیلہوجاتی مگر اس وقت میں ایک نا سمجھ معصوم بچہ تھا میں یہ نہیں جانتا تھا کہ اس دوغلی دنیا میں انسان کا من چاہے جتنا بھی میلا ہو اس کا تن ضرور اجلا ہونا چاہئے بندے کے دل میں چاہے جتنی ہی کھوٹ ہوں اس کے چہرے اور صورت میں کوئی کھوٹ نہیں ہونی چاہیے کیوں کی یہ دنیا ظاہر پرستوں کا ڈیرہ ہے ۔۔روح کے اجھلے پن اور خوبصورتی کو پرکھنے والی آنکھیں ان بے بصیرت لوگوں کے پاس کہاں ۔۔۔؟
میری بد نصیبی کی داستاں یہی ختم نہیں ہوتی قدرت کا مذاق میرے ساتھ سنگین ترتب ہونے لگے جب شاید ڈھائی یہ تین سال کی عمر میں میرے من میں چھپی خوبصورتی کی چاہ اس پاس کے لوگوں نے محسوس کرنا شروع کردیا اماں بتاتی تھی کے بھری پڑی محفل جب کوئی مجھے پکارتا تو میرے درمیاں میں بیٹھی درجن بھر عورتوں کو چھوڑ کر صرف اس کی گود میں جا بیٹھا جو اس محفل میں سب سے اجھلے چہرے والی ہوتی تھی ۔خوبصورتی کی یہ چاہ صرف خوبصورت چہروں تک ہی محدود نہیں تھی مجھے قدرت کی بنائی ہر چیز سے پیار ہوجاتا تھا پھر وہ چاہے پھول ہوں رنگ ہوں آسمان یہ بادل کوئی دھن ہو بارش یہ برف سے سجا کوئی نظارہ مجھے یاد ہے میں سکول کے راستے میں پڑنے والی تصویروں کی دوکان کے باہر گھنٹوں کھڑا خوبصورت نطاروں والی تصاویر دور سے ہی دیکھ دیکھ خوش ہوتا رہتا تھا مگر مجھ جیسے غریب خاندان میں پیدا ہونے والے بچے کے اندر ہلتی یہ حسن پرستی میرے لیے ایک دوھرا عذاب بنتی گئی دنیا کی ہر خوبصورت چیز پر شاید ضرف حسیں لوگوں کا ہی حق ہوتا ہے بدصورت لوگوں کے لیے معاشرے کے ہر طرف بدصورتی ہی پنپتی ہے پے سو میرے آس پاس بھی ہر لمحہ وہی بدصورتی بھٹکتی رہتی تھی چھوٹا سا کچا گھر کچرے سے اٹی گلیاں ڈھول اڑاتا محلہ اور سب سے بڑھ کر میرے لیے لوگوں کی کرخت اور بد صورت سوچ اور نظر ۔۔۔
اس پر ایک ستم یہ بھی ہوا کہ پانچوں جماعت میں جس دن اسکول میں فیصل سے سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے والی سرکاری ٹیم آنی تھی اس روز نا جانے میں کس وجہ سے سکول نہ جا پایا ۔ان دنوں ملک میں چیچک بڑی طرح پھیل رہی تھی اور ٹھیک ایک ماہ بعد میرے چہرے پر عجیب سے سرخ دانے ابھرتے دیکھ کر اماں چلا کر ابا سے کہا ۔پری زاد کے بابا ۔۔یہ لڑکے کا چہرہ تو دیکھوں ۔یہ کیسے دانے ہیں ؟ابا بھاگم بھاگ مجھے لیے سرکاری ہسپتال ٹیکہ لگوانے پہنچ تو گئےمگر تب تک بیماری اپنا کام کر چکی تھی اور چند ہفتوں بعد ہی جب میرے چہرے سے زخموں کا کھرنڈا اترو تو ساری عمر کے لیے میرے چہرے پے چیچک کے بد نما داغوں کی نشانی چھوڑ چکا تھا مگر میرے دل پر ان داغوں سے کئی زیادہ گہرے داغ اور زخم ان لوگوں کی باتوں نے لگائے جو بظاہر میری تیمارداری اور اماں سے ہمدردی مٹانے کے لیے آتے تھے مگر ہنسی اور مذاق کی تہہ میں چھپے طنز کے ایسے نشتر اور تیر چلاتے تھے کہ اس چھوٹی عمر میں بھی میرا دل چھلنی ہوجاتا تھا ۔کون کہتا ہے کہ انسان نے جدید دور میں میزائیل ۔بم اور ڈاون ایجاد کر کے تباہی پھیلائی ۔ختما تیرا گھاو انسان کی زبان کیسی انسان کے دل میں کر سکتی ہے ۔اس لوٹ اور ذخم کا مقابلہ یہ نئے دور کی یتھیار کیا کر پائیں گے کھبی کھبی میں سوچتا تھا کہ ایٹم بم بنانے والے سائنس دان کو شاید زبان کا زہر کا ٹھیک طرح سے ادراک نہیں ہے ۔۔۔ورنہ اسے دنیا برباد کرنے کے لیے اتنی محنت نہ کرنی پڑتی ۔۔۔
شاید میرے ماں باپ کا اس معاملے میں اتنا قصور نہیں تھا
جب کیسی غریب گھرانے میں یکے بعد دیگرے اوپر نیچے نو بچے پیدا ہوجائے تو پھر ان بچوں میں کیسی ایک بچے کی حسایت کا بھلا کیسے خیال رہتا ہے ۔۔
یہ میرے بدقسمتی تھی کے کہ میں ایسی صورت کی باوجود بھی اندر سے بے حد حساس واقع ہوا تھا ۔
بدصورتاگر حساس بھی ہوتو اسے سونے پر سہاگہ ہی کہاں جائے گا کاش انسان اس دنیا میں غریب ہی پیدا ہوتا ۔
یا صرف نازک دل ۔مجھ جیسے لاکھوں کروڑوں بچے کے انہی گلی کوچوں کی دھول چاٹنے ہوے دل کھول کر بڑے ہو ہی جاتے ہوگئے مگر مگر میری خساسیت نے میری زندگی کا خارزاد میرے لیے طویل کر ڈالا ۔میں جتنا لوگوں کی آنکھوں سے چھپتا اتنا ہی ان کی نظر میں آتا تھا اور میرے اندر پلتا وہ ایک حسن پرستی پری زاد ہر خوبصورت چہرہ آپنی جانب لبھاتا تھا کسی مہہ جبییں کی ایک جھلک میرے دل میں اتھل پتھل مچادیتی تھی دھڑکن اتنی تیز ہوجاتی کئ لگتا ابھی دل سینے کا پینجرہ توڑ کر باہر نکل آئے گا ۔مگر اس آفت روگ سے اس وقت تک ناآشنا رہا جب تک میں نے لڑکپن میں قدم نہیں رکھا تھا ۔بچپن تو یو ہی مٹی کی سحن میں مٹی ہو کے گزرتا گیا ۔
مجھ سے بڑی ٹیں بہنیں اور سب سے بڑے دو بھائی اور مجھ سے چھوٹی ایک بہن اور دو بھائی سبھی کی زندگی میں گزر رہی تھی کیوں کے انہیں نہ تو اپنی زندگی سے کوئی توقع تھی نہ پی جیون کا برتاؤں ان سے کچھ الگ تھا
شاید زندگی میں سب سے بڑے دشمن آپنی توقع ہوتی ہے ۔کانٹوں میں الجھا دینے والی امیدیں گرم تپتی ریت پر چلنے پر مجبور کرنے والی تواقعات ۔۔۔ میں آٹھویں جماعت میں تھا جب دو بڑے بھائیوں کی اکٹھے شادی کر دی گئی ۔گھر میں دو افراد کا اضافہ ہوگیا اور ہم سب بہن بھائی آپنی اپنی مخصوص جگہوں پر سکتے ہوے باہر برامدے اور صحن میں آگئے چھوٹے سے گھر کی تقصیم کتنی مشکل ہوتی ہے جہاں باتیں رو درکنار ایک دوسرے کی سوچ بھی سنائی دی جاتی ہے لہذا دھیرے دھیرے ہم بہن بھائیوں کی سوچ بھی سرگوشیانہ ہوتی چلی گئی شاید مجبوری اور غلامی کی انتہا بھی یہی ہوتی ہو گی انسان اپنی سوچ کی بولی بھی اونچی نہ ہونے دے سوچنا بھی سرگوشیوں میں شروع کردے ۔۔۔
بھائیوں کی شادی کے بعد گھر کی آبادی بڑھی تو ہم سب کومزید سرکا دیا گیا کمرے والے برامدے میں برامدے والے صحن میں اور جو صحن میں سوچتا تھا میرے لیے فرمان صادر ہوا کی باقی بھائی بہن چونکہ چھوٹے ہیں لہذا مجھے گھر کی چھت پر بنے ایک کچھ گودام نما کمرے منتقل ہونا پڑے گا چھت پریٹن اور مٹی کا بنایہ یہ چھوٹا سا کمرہ گھر کے کاٹھ کباڑ خو جمع کرنے کے کام آتا تھا غریبوں کی زندگی میں کوئی چیز فالتوں نہیں ہوتی ایک سال پہلے جس شے کو فالتو یا کچرہ یا زائدہ سمجھ کر اس گودام میں پھینک دیا جاتا تھا اگلے سال اسی کی تلاش میں اماں اور بڑی بہنیں سارا گودام الٹ پلٹ کر رہی ہوتی تھی ۔
میری لیے بھی یہی حکم تھا گودام کی تمام قیمتی اشیاء ایک طرف سلیقہ سے لگا کر اپنی پرانی چارپائی اس گودام میں ڈال دو ۔آتے وقت میں اپنی کورس کی کتابیں وہی اٹھا لایا ۔۔
اب سکول واپسی پر کھانا کھانے کے بعد میں چپ چاپ اوپر بنے ٹین کی چھت والے کمرے میں چلا آتا شروع شروع میں تو مجھے اس تنہائی میں سکون کا احساس ہونے لگا تنہائی میرے وجود سرئیت کرنے لگی اور میری اس تنہائی سے دوستی سی ہوگئی ۔تنہائی میں ہم خود اپنے ساتھ ہوتے ہیں اور مجھ جیسا لڑکا جیسے کیسی دوست یا ساتھی کا ساتھ میسر نہ ہو اس کے لیے آپنا یہ ساتھ کتنا غنیمت تھا یہ میں ہی جانتا تھا آہستہ آہستہ میری یہ تنہائی مجھ سے باتیں کرنے لگی ۔وہ مجھے اوروں کی طرح بدصورت لاغر اور کم تر نہیں سمجھتی تھی بلکہ اس کے لیے میں حقیقیت میں پری زاد تھا وہ میرے ساتھ مختلف کھیل کھیلا کرتی میری تنہائی مجھے کھبی سکول کا سب سے لائق ہونہار طلبہ علم بنا دیتی جو سارے ضلع اول پوزیشن لینے کے بعد کھچا کھچ بھرے ہوے میں ہیڈ ماسٹر سے ٹرافی وصول کر رہا ہے
کھبی میں اسکول کا سب سے بہترین کھلاڑی بن کر سارے مقابلے بہت رہا ہوتا تو کھبی آپنی ٹیم کو آخری بال پر چھکا لگا کر بتا دیتا سارا سکول دیوانہ وار تالیاں بجاتا اور میں ضلع کے اسکولوں میں سے تقریری مقابلے میں اول آکر اپنے ہم جماعتوں کے کندھوں پر سوار واپس اپنے اسکول پہنچ جاتا غرض میری تنہائی نے میرا ہر خواب سچ کر دکھایا جس کا میں عام زندگی میں کھبی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کلاس میں میں ایک درمیانے درجے کا شرمیلا طالب علم تھا جس نے غیر نصابی سرگرمیاں تو دور کھبی نصاب میں بھی کوئی غیر معمولی کارکردگی نہیں دکھائی تھی ۔اگر غلطی سے استاد کھبی کوئی سوال پوچھ بھی لیتا تو میری ٹانگیں کانپنے لگتی ۔۔سانس پھول جاتی اور اگر خوش قسمتی سے مجھے اس سوال کا جواب آتا ہو تب بھی میرے منہ سے کچھ اور ہی نکلتا ۔اس کیے مجھ سے کیسی استاد نے توقع رکھنا ہی چھوڑ دی تھی ۔مجھ سے بڑے بھائیوں نے جیسے تیسے دسویں امتحان پاس کر کے کلرکی نوکری شروع کردی تھی اور اب وہ اپنی دنیا میں مگن تھے انہی دنوں جب میں دسویں جماعت میں تھا ۔میری بڑی بہن کی بات کہیں طے ہوگئی اور اس کے سسرال والوں کی ضد کے آگے ہار کر ابا کو رخصتی کی ہامی بھرتے بنی ہماری برسوں کی لگی بندھی زندگی کی روٹین میں ایک ذرا سی ہلچل پیدا ہوئی اور اماں اس پاس کے پڑوسیوں اور لڑکیوں بالوں کو ڈھولکی کے لیے ہفتہ بھر پہلے ہی روزانہ شام کو گھر آنے کی دعوت دے دی ۔ایسے موقعوں میں زیادہ تر چھت آپنے ڈر بے نما کمرے میں ہی قید رہتا تھا حلانکہ میرا دل بہت چاہتا کہ میں صحن جھانک کر محلے کی لڑکیوں کا شوروغل اور دھنگامہ کرے دیکھوں ان کی ہنسی اور قہقہوں کی آواز میرے کمرے تک آتی تو میں کوئی بار چھت کی منڈیر تک آہ کر واپس لوٹ جایا کرتا تھا اگر کیسی کام سے گھر سے باہر جانا ہو تو میں چپ چاپ صحن کی پچھلی جانب سے نیچے اوتر کر گھر کا کان پورا کر آتا ان دنوں سر شام ہی محلے کے نوجوان لڑکے پوری گلی ارد گرد منڈلانے لگے تھے اور اماں یہ ابا بھلاوے پر بھاگ بھاگ کر ہمارے گھر کا کام یو کرتے جیسے ان پر فرض ہو مجھ پر یہ بھید بہت دیر بعد کھلا کہ ان میں سے ہر ایک محلے کی کسی کی ایک جھلک دیکھنے کی آس میں یہ گلی یا ترس کرتا ہے کھبی کھبار ان کے قریب سے گزرتے ہوئے ان کی سرد آہیں اور عشقیہ جملے میرے کانوں میں بھی پڑ جاتے ۔۔
یار کیا ہوا۔۔وہ آئی کی نہیں ۔۔اس کا تو گھر گھر سے نکلنا ہی عذاب ہوچکا ہے ۔تو بتا تیرے والی آئی کے نہیں ۔۔۔
ہاں ۔۔آئی تو ہے ۔۔۔پر اس کی ماں کی بڑی کڑی نگرانی ہے آج کل ۔۔اس پر سوچتا ہوں کے خط پکڑا کی کوئی ترکیب کروں۔
میں حیرت سے ان کی باتیں سنتا رہتا اور رشک سے ان سب کو دیکھا کرتا تھا میری نظر سب لوفر بہت عظیم درجہ رکھتے تھے بھلا اس دینا میں کسی محبوب بننے سے بڑا کوئی درجہ ہوسکتا ہے ؟
عاشق تو لاکھ مل جائیں گے ۔۔پر محبوب کے درجے پر شاذو نازر ہی کوئی فائیز ہوتا ہے یہ خود کو کتنا مکمل کر دینے والا احساس تھا کہ کوئی اس دنیا میں ایسا بھی ہے جو آپنی تنہائی میں آپ کو سوچتا ہے آپ کی فکر کرتا ہے آپ کی یاد اس کے ہونٹوں پر ایک میٹھی سی مسکان بکھیر دیتی ہے مجھ جیسے معمولی لڑکے کے لیے تو یہ زندگی کی معراج تھی کیونکہ مجھے محلہ کی کیسی لڑکی نے آج تک دیکھنا رو دور درکنار مجھ پر ایک چھوٹی سے نگاہ بھی نہیں ڈالی تھی ۔لڑکیاں تو لڑکیاں مجھ سے محلے کے خوبرو لڑکے بھی بات کرنا پسند نہیں کرے تھے یا شاید میں ان کے لیے واقع ہی نہیں ہوا تھا وہ گھنٹوں آپس میں اپنی معاشقوں کی باتیں کرتیں رہتے اور میں ان کے قریب بیٹھے ہونے کے باوجود کھبی اتنی توجہ کا باعث بھی نہیں بن سکا تھا کہ ان میں سے کوئی مجھ سے اتنا ہی کہ دے کہ ۔۔۔
بھائی جاوں جو کر اپنا کام کرو ۔۔۔کہاں ہمارے درمیان گھسے پڑے ہو ؟۔۔۔۔
ان میں سے اگر کیسی کی کوئی اچنتی نگاہ مجھ پر پڑ بھی جاتی تو وہ بے پرواہی سے کہتا ۔۔یار پری ۔۔۔جلدی سے ایک ڈبیہ کیپٹن کی تو پکڑ لا ۔۔۔
یا دوسرا کہتا ۔۔اچھا سن ۔۔دو ماچس بھی لے آنا کم بخت لائٹر تو ہفتہ بھر بھی نہیں چلا ۔۔۔۔
ہم۔سب عمر کے اس دور میں تھے جہاں گھر والوں سے چھپ کر سگریٹ پینا ایک کارنامہ سمجھا جاتا تھا اور ان کی نظر میں میری وقعت اتنی ہی تھی کہ میں ان کی یہ ہلکی پھلکی خدمت کرتا رہوں ۔۔یا پھر ہو کہہ لے کہ میں ان کہ نظروں میں قطعی بے ضرور تھا ۔۔عاشق کو خطرہ صرف اپنے رقیب سے ہوتا ہے اور میری اتنی اوقات ہی نہیں تھی کہ میں کیسی ادنی درجے کے رقیب کی عہدے پر ہی فائیز ہو سکوں ۔ان دنوں محلے میں میں دعا کی خوبصورتی کا بڑا چرچہ تھا
محلے کے سبھی لڑکوں کی نیندے حرام کر رکھی تھی اس پری چہرہ نے ۔اور ہماری گلی میں جمع ہونے والی بھیڑ کی بنیادی وجہ دعا ہی تھی ۔۔کیونکہ وہ روزانہ آپنی ماں کے ساتھ مغرب کے بعد ہمارے گھر کی تقریب میں شامل ہونے آتی تھی ہمشیہ نظریں جکائے اور سر پر اوڑھی اوڑھے دعا کو میں نے ایک آدھی بار گلی میں آتے جاتے دیکھا تھا سفید لباس میں وہ کتنی پاکیزہ اور معصوم دکھائی دیتی تھی ۔شادی کا دن قریب تھا اور گھر میں ہنگامہ بھی اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا جب ایسے ہی ایک شام گھر کے صحن سے گزر کر میں کیسی کام سے باہر کے لیے صحن سے نکلا تو صحن میں بیٹھی کسی لڑکی کی آواز سنائی دی ۔۔
پری زاد زرا سنیے ۔۔۔میں نے پلٹ کر دیکھا تو اور میری سانس تھم گئی ۔مجھے پکارنے والی کوئی اور نہیں،
دعا ہی تھی..
قسط 2
تھوڑی دیر کے لیے مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا رہا اور میں نے گھبرا کر ادھر اودھر دیکھا جیسے میرے پیچھے یا صحن میں آس پاس کوئی اور موجود ہو جیسے دعا کے آواز دی ہوگی مگر میرے سوا وہاں کوئی دوسرا نہیں تھا دیکھ لوگ اپنے اپنے کام کی دھند میں مصروف تھے میری نظر ایک پل کے لیے دعا کی جانب اٹھی اور اس کی سیاہ گھنی پلوں اور بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے ٹکرا کر دوسرے ہی پل زمیں میں گڑھ گئی شاید دنیا کا سب سے بڑا لحاظ یا عرب۔لحاظہ حسن ۔یا عرب حسن ہی ہوتا ہے اللہ نے دعا کو اتنا حسن دیا تھا کے آگر کوئی اسے آنکھ بڑ کے دیکھ لے تو قیامت تک دعا کے حسن کے آپ کے سے باہر نا نکلے میں بچپن سے لے آج تک دعا جیسی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی ۔میرے لیے تو یہ ویسے ہی ناقابل یقین اور ان ہونی تھی ۔میں نے اس لڑکی کے لیے محلے کے کڑیل جوانوں کو تپتی دوپہر میں گھنٹوں اسکول کے راستے میں جلتے کھڑے دیکھ تھا مگر وہ اسکول سے واپسی پر یہ کھبی گلی محلے میں سے گزرتیں آنکھ اٹھا کر بھی کیسی کی طرف نہ دیکھتی تھی ۔خیال جو آج تک کیسی نے دعا کو ننگے سر دیکھا ہو آج وہی محلے کی سب سے خوبصورت لڑکی مجھ سے براہ راست مخاطب تھی مجھ سے جیسے اس کے اپنے گھر والے عموما بھول جاتے تھے اگر میں کھانے کے لیے کھبی دیر سے چھت سے نیچے آتا تو عام توڑ پر چھوٹے بہن بھائی سب ضفا چٹ کر چکے ہوتے تھے اور اماں مجھے دیکھ کر سر پیٹ لیا کرتیں ۔کہ ارے۔ یہ تو یاد ہی نہیں رہا ۔پھر میں کیوں حیران نہ ہوتا جب اس نے میرا نام لے کر دوبارہ پوچھا ۔
آپ خالہ صغرا کے بیٹے ہیں نا پری زاد ۔۔۔۔۔
میرا جی چاہا کے اسے روک کر کہوں کی دعا پری تو بس آپ ہیں میں تو صرف زاد ہی زاد ہوں۔مگر میرے حلقے سے عجیب و غریب آواز نکلی۔جی 
آپ ذرا اس شادی کے ہنگامے سے فارغ ہو لیں تو ایک بار ہمارے گھر کا چکر لگا لیجئے گا میری آمی آپ کو یاد کر رہی تھی ۔
وہ بات ختم کر کے نا جانے کب کی جا چکی تھی مگر میرے قدم تو جیسے وہیں صحن کی کچی زمین میں دھنس کر رہ گئے تھے۔جانے کتنی دیر میں وہی کھڑا ان چند گھڑیوں کے خواب یا گمان ہونے کے بارے میں سوچتا رہا کیوں کے میرا ذہن یہ تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں تھا وہ پل حقیقیت بھی ہوسکتے ہیں دعا مجھ سے ہم کلام تھی ۔پھر نا جانے کس نے مجھے آواز دی اور میرے خوابوں کا سلسلہ توڑ دیا کچھ لوگ آپ کا نام پکاریں تو نام بھی کتنا معتبر لگنے لگتا ہے جسے دعا نے میرا نام کو معتبر کیا
میں جیسے کسی طلسم کی زیر اثر باہر گلی میں نکلا تو حسن معمول لفنگوں کی ٹولی گلی کی نکر پر جمع تھی وہ سب دعا کی باتیں کر رہے تھے اس میں ہادی بھی تھا محلے کا سب سے کڑیل نوجوان ۔میرے ہم عمر سب سے زیادہ زندہ دل اور ہر محفل کی جان پڑھائی لکھائی میں بھی آگئے اور شام کو جب محلے کے باقی لڑکے بڑے میدان کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو ہادی کی تیز بولنگ اور ہوا میں اڑتے لمبے بال دیکھنے کے لیے سب تماشائی گھنٹوں کھڑے رہا کرتے تھے میں چپ چاپ نکر پر کھڑے لڑکوں کی ٹولی کے پاس آکر کھڑا ہوگیا ۔وہ سب دعا ہی کا ذکر کر رہے تھے ان سب نے خود اپنے طور پر اپنی پسند کے حساب سے محلے کی آپنے ناموں کے ساتھ منسوب کر رکھی تھی اور ہادی کے نام کا قرعہ اس کی جانب نظر شخصیت اور ہر دل عزیزی کی وجہ سے دعا کا نام نکلتا تھا ہادی خود بہت عرصہ پہلے سے دعا کے گھر کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکا تھا بقول اس کے اس کی وہاں دال گلتی نظر نہیں آتی تھی اس وقت بھی وہی ذکر جاناں جاری تھا ۔۔
اکرم نے پوچھا یار بتا تو سہی۔۔کچھ تو بات تو کی ہوگی دعا نے تجھ سے ۔۔ہادی ایک لمبی سی سرد آہ بھری ۔۔کہاں یار۔۔
ااس نے تو جیسے مجھ پر نظر نہ ڈالنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔۔جانے کب آپنے بھاگ کھیلیں گے ۔۔۔۔
پھر اچانک ہادی کی مجھ پر نظر پڑی۔۔میں منہ کھولے محویت سے ان کی باتیں سن رہا تھا ہادی نے ایک دم مجھ سے سوال کر ڈالا۔۔ابے پری زاد ۔۔تونے کھبی کیسی سے عشق کیا؟سب لڑکوں نے ہادی کی بات پر زور دار قہقہہ لگایا۔میں شرمندہ ہوکر بولا میں نے تو نہیں ۔۔۔۔
ہادی سنجیدہ سی شکل بنا کر بولا ہر کسی کو زندگی میں ایک بار عشق ضرور کرنا چاہیے۔عشق آدمی کو انسان بنا دیتا ہے ۔۔
اکرم نے شرارت سے ہادی کی طرف دیکھا معنی خیز لہجے میں بولا صرف ایک بار ذرا پھر سوچ لے ہادی ۔۔
سب لڑکے ایک بار پھر زور سے ہنس پڑے سارا محلہ جانتا تھا کہ نہ صرف ہمارے محلے بلکہ آس پاس کی جانے کتنی گلیوں میں ہادی کے چکر چلتے تھے۔ایک بار تو میرا جی چاہا کہ آج میں بھی ان سب کو بتا کر حیران کر دوں کہ جس دعا کی ایک جھلک پانے کے لیے وہ یہاں گھنٹوں سے کھڑے ہیں اس دعا نے آج خود مجھ سے نہ صرف مجھ سے بات کی ہے بلکہ اپنے گھر بھی بلایا ہے مگر پھر یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ بھلا کون میری بات پر اعتبار کرے گا۔الٹا مزید مذاق بنے گا لہذا میں چپ چاپ وہاں سے آگے گزر گیا مگر وہ میری زندگی کی پہلے رات تھی جو مجھ سے گزرارے نہیں گزری پہلے تو میں اپنے کمرے کے اندر چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا اور پھر تنگ آکر میں اپنی چھلنگا سی چارپائی کو کمرے سے باہر کھینچ کر کھلے آسمان تلے تاروں کی چھت کے نیچے ڈال دیا اور پھر ساری رات تاروں سے پوچھتا رہا آخر ایسی کیا بات ہوسکتی ہے۔ جس کے لیے اس ستارہ جبیں دعا نے مجھے گھر آنے کا کہا ہے ۔۔؟
کہتے ہیں دنیا میں جادوگر اور بازی گر ہمیں کھولا دوکھہ دیتے ہیں ۔ہماری نظر بندی کر کے جانے کیسے کیسے کھیل تماشے دیکھا جاتے ہیں آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں مگر اس رات مجھے یہ احساس ہوا کہ سب سے بڑا جادوگر اور ماہر تارین بازی گر خود ہمارے سینے کے اندر دھڑکتا یہ دل ہوتا ہے ۔جادوگر بازی گر کی نظر بندی کا علاج تو شاید پھر بھی ممکن ہے مگر اس کمبخت دل کی نظر بندی کا کوئی علاج نہیں ہوتا ۔۔
میرے دل نے بھی اس رات میری عقل پر پردے ڈال کر میری نظر بندی کردی تھی آپنے سیاہ چیچک زدہ چہرے کو بھلا کر میں کیسی شہزادے کی طرح ساری رات سپنوں میں دعا کا ہاتھ تھامے انجان وادیوں میں بھٹکتا رہا
کھبی کھبی ہمارے خواب کتنے خوبصورت ہوتے ہیں شاید اس لیے انہیں خواب کہا جاتا ہے ۔۔۔
اس رات کے بعد نیند تو جیسے مجھ سے دور روٹھ سی گئی
تھی جیسے تیسے کرکے میں نے شادی کے دن کسی طرح گزارے اور رخصتی کے ٹھیک دوسرے دن میں نے جھجکتے ہوئے دعا کے گھر کے دروازے پر دستک دی دعا کے ابا نے دروازہ کھولا جنہیں ہم سب مولوی چچا کہتے تھے ان کا غصہ سارے محلے میں مشہور تھا ۔۔۔
ہاں بھائی کیا بات ہے ۔۔؟
انہوں نے کڑک دعا لہجے میں مجھ سے پوچھا میں پل بھر کے لیے بکلاہٹ میں سب کچھ گیا وہ وہ دوبارہ گرجے اب کچھ بولوں گے یہ نہیں یا یو پی منہ میں سیپیاں ڈالے کھڑے رہوگئے ۔۔۔؟۔۔
میں گھگھیایا جی ۔۔۔۔وہ۔۔۔میں۔۔۔۔مجھے بلایا تھا خالہ نے۔۔۔۔
انہوں نے حیرت سے مجھے ایک بار پھر سے پیر تک غور سے دیکھا ۔۔اندر آجاوں ۔۔۔۔
میں اس وقت کوس رہا تھا جب میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا تھا بہت حال اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا کچھ دیر میں دعا کی امی آگئیں اور عقدہ یہ کھلا کہ دعا کی نویں جماعت کے پرچے ہونے والے تھے اور سالانہ امتحانات میں اسے اردو کے مضمون میں رہنمائی چاہیے تھی جانے اس کی امی کو کس نے یہ کہہ دیا تھا کہ میری اردو بہت اچھی ہے مجھے خود بھی یقین نہیں آہ رہا تھا کیوں کہ مجھے پوری زندگی آج تک اتنی اہمیت آج تک نہیں ملی تھی ۔طے یہ پایا کہ شام کو چار سے پانچ بجے تک ایک گھنٹہ دعا کو اردو کی تیاری کرواجایاں کرو گا ۔۔مولوی صاحب ٹیوشن کی فیس بھی مقرر کرنا چاہتے تھے مگر میں انہیں نے ٹال دیا
دعا کے گھر سے نکلنے کے بعد بہت دیر تک تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں تھا آیا کی آس خوبصورت حادثے پر میرا پر میرا رد عمل کیا ہونا چاہیے ۔۔
رات تک میں ایک صدمے کی سی کیفیت میں رہا ۔صدمے کا تعلق ہمیشہ غم سے ہی کہیں ہوتا کھبی کھبی اچانک مل جانے والی خوشی ہمارے عمومی رویے اے متصادم ہوتی ہے شاید ساری بات ظرف کی ہی خوشی ہو یا غم ہمارے ظرف کے پیمانے بڑھ جائے تو ہم آپنی ظاہری شخصیت کا رکھ رکھاو کھو بیٹھتے ہیں میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا اور اگلے ان تین چار مرتبہ اماں اور بڑے بہن بھائیوں مخلتف باتوں پر ڈانٹ پڑ گئی۔مثلا میں عام طور پر شازونادر ہی آئینہ دیکھا کرتا تھا بلکہ سچ یہ ہے کہ مجھی آئینے سے ڈر لگتا تھا مگر اس روز لگاتار تیسری مرتبہ برآمدے میں لگے آئینے کے سامنے سے گزرتے ہوے میں نے شیشہ میں جھانکا تو برآمدے میں کچھ کام کرتے مجھے بڑے بھائی نے گھورا ۔۔
خیر تو ہے۔۔۔یہ کنگھی پٹی آج کا خوشی میں کی جارہی ہے۔میں شٹ پٹا گیا۔تمہارے دسویں کے امتحانات سر پر ہیں ۔۔اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دو آئینہ دیکھنے کے لیے ساری زندگی پڑی ہے ۔۔
میں جلدی سے سربلا کر وہاں سے ٹل گیا اس روز گھڑی کے ہندسوں کہ جیسے مجھ سے جنگ جاری تھی میں گھنٹہ بعد بھی سوئی کی طرف دیکھتا تو تو سوئی صرف پانچ منٹ ہی آگے کھسکی ہوتی۔شاید گزرتے وقت کا تعلق کسی سوئی یہ گھڑی سے نہیں ہوتا۔وقت ہمیشہ ہماری لمحوں کی ضد سے ناپا جاتا ہے۔ہماری مرضی کے خلاف ہمیشہ ہماری خواہش کے برعکس گھڑیوں کے گزرنے کو وقت کا نام دے دیا گیا جب ہم تیز تر چاہتے ہیں یہ سست تو ہوجاتا ہے اور جب کھبی ہم بھلے انسان وقت کو گھڑی یا سوئی کے پیمانے پر کیوں ناپتے ہیں؟
بس اپنے دل میں جھانک کر اپنی خواہش ٹٹول لیا کریں وقت ہمیشہ اس کے مخالف سمت دوڑتا ملے گا ۔
ٹھیک چار بجے شام میں دعا کے دروازے پر دستک دے رہا تھا گلی میں اکا دکا لوگ آپ جارہے تھے شہر ہیں اس وقت لادین اور اس کے دوستوں کی ٹولی وہاں مورچہ جمائے نہیں بیٹھی تھی ورنہ مجھے ہزار سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا دروازہ دعا کے چھوٹے بھائی نے کھولا اور مجھی اندر لے جا کر صحن میں لگی انگوروں کی بیل کے نیچے بھی کرسی پر بیٹھا دیا۔سامنے ایک چھوٹی سی میز اور دوسری کرسی بھی رکھی ہوئی تھی میرا دم پھول رہا تھا۔دھڑکن بے قابو اور سانس رک رک کر آرہی تھی۔میں نے بچپن سے ہی اپنے لیے لوگوں کی نظر میں اس قدر تحقیر اور تمسخر دیکھا تھا کہ مجھے براہ راست اوپر دیکھنے یا سامنے والی آنکھوں میں براہ راست دیکھ کر بات کرنے کی عادت ہی نہیں رہی تھی۔ لہذا جب دعا اپنا سیاہ دوپٹہ سر پر جماتے ہوئے آکر بیٹھی تو تب بھی میری نظریں نیچے زمین میں ہی گھڑی ہوئی تھیں۔ حتی کہ جب اس کے گورے پاوں سیاہ سینڈلز میں جکڑے میری نظر کے دائرے میں آئے تو میں گھبرا کر کر آپنی آنکھیں مذید جھکا لیں۔اور خود اپنے جوتوں کو دیکھنے لگا ۔دعا مے کتابیں پر رکھ دیں اور شاعری کا باب نکال کر بولی۔
سب سے پہلے تو آپ مجھے یہ میرتقی میر اور درد کی شاعری کی تشریح سکھادیں۔ہمیشہ یہ سوال مجھ سے رہ جاتا ہے میں نے کھنکار کر گلہ صاف کیا جیسے کوئی غریب دماغ مقرر حاضرین سے کھچا کھچ بھرے ہال کے سامنے سٹیج پر آکر یک دم آپنے دماغ سے مٹ جانے والی تقریر کو یاد کرنے کی کوشش میں وقت ضائع کرتا ہے پتہ نہیں میں نے شعر کی تشریح کیا کی اور نثر کا باب کہاں سے شروع کر کے کہا ختم کیا دعا کے نازک ہاتھ صفے پلٹتے گے اور میں اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں اپنا ڈوبی ہوا مقدر تلاش کرتا رہا ٹھیک پانچ بجے دعا کی امی چائے کا کپ لے کر آگئیں اور میں نے حیرت سے برآمدے میں لگی بڑی گھڑی کی طرف دیکھا ایک گھنٹہ گزر بھی گیا۔۔۔؟
پھر وہی وقت کی ہماری خواہش سے جنگ۔۔۔؟امیں چائے کا کپ ختم کر کے وہاں سے نکل ایا۔میں زندگی میں کھبی نشہ نہیں کیا تھا لیکن کھبی کھبی سرور کا تعلق کیسے نشہ آور شے ختم نہیں ہوتا۔کچھ پل ایسے بھی ہوتے ہیں جب فضا میں۔ہوا میں۔آس پاس کے ماحول میں ہی نشہ گھل جاتاہے ۔کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو بن پائے بنا کیسی گناہ کے بوجھ تلے دبے اس سرور کا نشہ لیتے ہیں اس دن میں بنا کیسی نشے کے سرور میں رہا مگر کہتے ہیں کہ دنیا کا ہر نشہ عارضی ہوتا ہے عموما رات بھر کے کمار کے بعد صبع اتر ہی جاتا ہے میرا نشہ بھی صبع آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہی بھی سے اڑ گیا۔میں بے خیالی کنگھی کرنے کے لیے اپنے کمرے میں لگے ٹوٹے میلے سے آئینے کے ایک ٹکڑے میں چہرہ دیکھ بیٹھا اور میرے سارے سپنے پل بھر میں ہی کرچی لڑکی ہوگئے کاش یہ آئینہ ایجاد ہی نا ہوا ہوتا تو ہم جیسے کے لیے دنیا اتنی مشکل جگہ نا ہوتی ۔۔۔۔؟
اس پل میرا جی چاہا کے دنیا کے سارے خوبصورت اندھے ہوجائے جب بصارت صرف بد صورتوں کے پاس ہوگی تو کوئی کیسی کو بد صورت یہ بد نما نہیں کہے گا۔یا پھر کاش اوپر والے دنیا میں صورت ایک ہی سی بنائی ہوتی پھر تو شاید اس بصارت یا آئینہ کی ضرورت ہی نہ رہتی ۔۔
اگلے روز مجھے دعا کے گھر کے باہر ہی ہادی نے دھر لیا۔۔ہاں شہزادے۔۔یہ کیا چکر ہے ہمارے ساجن کے گھر ۔۔۔وہ بھی ہم سے چھپ چھپ کے ۔۔۔۔۔؟؟
میں نے ہادی کو ٹیوشن والی بات بتائی۔ہادی نے ایک لمبی سے سرد آہ بھری۔ہاں میاں یہی تو فائدہ ہوتے ہیں لکھ پڑ جانے کے ۔۔چلو عیش کرو میری قسمت میں تو شاید ویسے بھی اس ظالم کی نظر نہیں ہے کھبی پلٹ کر دیکھتی تک نہیں مجھے ۔۔۔۔۔
پھر ہادی کو جیسے کچھ یاد آگیا ۔آرے ہاں۔۔یاد آیا ۔۔۔یار ایک خط تو لکھ دے کیسی کے نام۔۔۔دراصل میری لکھائی اتنی اچھی نہیں ہے۔اور سنا ہے لڑکیوں پر اچھی لکھائی کا بڑا اثر پڑتا ہے ۔۔کوئی اور وقت ہوتا تو میں شاید ہادی کو ٹال دیتا کیونکہ ہر ہفتے کسی نہ کسی کے قدموں میں پھینکے کے لیے ہادی کے ایسے خط اور رقعوں کی ضروت پڑتی رہتی تھی مگر چونکہ اس وقت ٹیوشن کا وقت نکلتا جارہا تھا اس لیے میں نے بادل نخواستہ چند سطور ایک صفحے پر کھینچ کر ہادی کے حوالے کر دیں۔ وصول کرنے والی کا نام اس نے نہیں لکھوایا اور اپنے نام کی جگہ بھی اس نے خالی رہنے دی وہ اپنے متاثر کن دستخط کر سکے میں جیسے تیسے جان چھڑا کر دعا کے گھر کے دروازے کی طرف بڑھ گیا آج مولوی صاحب دعا کے آب بھی گھر موجود تھے اور صحن میں بیٹھے حقہ گڑ گڑا رہے تھے ہماری پڑھائی کے دوران وہ بھی وقتا فو وقتا لقمے دیتے رہتے تھے اور کچھ جگہ انہوں نے میری تصیحح بھی کی۔اب انہیں کون بتاتا کہ تصیحح ہوش مندوں کے لیے ہوتی ہے مدہوشی بھلا یہ درست اور غلط تکرار کیا جانیں؟دعا کی باتوں سے اس دن میں نے اندازہ کیا کہ اسے شعرو شاعری سے کافی لگاو ہے اور اسے بہت سارے شعر بھی زبانی یاد ہیں مگر میرے ساتھ ایک عجیب سا مسئلہ یہ تھ کہ دن بھر شام کے چار بجے کا انتظار کرتا رہتا پل پل کانٹوں ہر کاٹ کر گزارا کرتا۔مگر جیسے ہی دعا میرے سامنے آتی اس کے حسن کے نور کی پہلی کرن میری آنکھوں میں پڑتی میری نظریں خود بخود جھک جاتی تھیں مجھے دعا کے گھر ٹیوشن پڑھانے کے لیے جاتے ہوے ساتھ آٹھ روز ہوچکے تھے اور ان ساتھ آٹھ دنوں میں میں نے شاید سات پل کے لیے بھی اس کے چہرے کو براہ راست نظر بھر کے نہیں دیکھا تھا بس دعا کے ہاتھ اس کے کنگن چوڑیوں کی کھناہٹ۔۔۔۔۔اس کی اواز کا زیرو بم اس کے بالوں کی وہ ایک لمبی سی شریرلٹ جو بار بار اس کے چہرے سے نیچے ڈھلک کر اسے تنگ کرتی رہتی تھی۔دعا کی مخروطی انگلیاں اور اس کا وہ قلم پکڑنے کا ایک خاص انداز ۔۔۔
بس یہی کچھ ان پلوں کا سرمایہ تھا۔ہاں البتہ ایک فائدہ مجھے زرور ہوا تھا کہ دعا کو اردو پڑھانے کے چکر میں خود دن بھر اردو کے رٹ لگاتا رہتا تھا اور اپنے اردوں کے استادوں سے اس روز کی ٹیوشن کا باب خود آچھی طرح سمجھ کر آتا تاکہ مجھ سے کوئی غلطی نہ ہاجائے۔اس معشق سے میری اپنی دسویں کی تیاری بہت اچھی ہوتی گئی۔میرے میٹرک کا امتحانات قریب آرہے تھے سکوں کی طرف سے دسویں جماعت کو کراچی کے مشہور سینما میں اردو فلم دکھانے کے لیے لے جایا گیا۔ہیرو پیانو پر بیٹھ کر ایک محفل میں ہیروئن کو اپنے دل کا حال سنا رہا تھا۔سفید سوٹ میں ملبوث وہ ہیرو پیانو بجاتے ہوئے مجھے بہت اچھا لگا اور جانے کیوں اس لمحے سے میرے اندر پیانو سیکھنے اور بجھانے کی خواہش ایک شدید کسک کی صورت میں جاگ اٹھی۔ اس رات میں نے خود کو خواب میں وہی سفید پہنے پیانو بجاتے دیکھا اور دعا اس فلم کی ہیروئن کی طرح پیانو کے پہلو سے جڑی میرے قریب کھڑی محویت سے میری دھن سن رہی تھی۔عجیب بات یہ تھی کی خواب میں میرا چہرہ اور وجود کسے بھی قسم کے داغ دھنوں اور سیاہی سے بالکل پاک صاف اور مبر تھا۔صبع جب اچانک کسی کھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی تو بہت دیر تک میں نے صدمے کے مارے آنکھیں میچے رکھیں کچھ خواب کتنے اثرانگیز اور روح تک میں سرایت کر جانے والے ہوتے ہیں کہ بہت دن تک ہمیں اوداس اور بے چیں رکھتے ہیں تب ہمارا جی چاہتا ہے کہ کاش ہماری موجودہ زندگی ایک خواب ہوتی اور وہ خواب ہماری زندگی سے بدل جاتے ۔۔۔۔۔
قسط 3
مگر کچھ لوگوں کے خواب سدا خواب ہی رہتے ہیں۔میں بھی انہی میں سے ایک تھا دعا کو ٹیوشن پڑھاتے ہوئے مہینہ بھر ہونے کو آیا میرے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا کورس تقریبا ختم ہونے کو تھا۔بلکہ مرزا صاحب نے تو اب ہفتے میں صرف تین دن ٹیوشن اور تین دن خود دعا کی اپنی دہرائی کے لیے مقرر کر دیے تھے میری بے چینی بھڑتی جا رہی تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ چند دن بعد یہ ٹیں دن کی ملاقات بھی ہمیشہ۔کے لیے ختم ہوجائے گی اس تمام عرصے میں دعا نے کھبی مجھ سے کورس کی کتابوں اور اپنی ٹیوشن کے ہوم ورک کے علاوہ کوئی بات نہیں کی تھی مگر پھر بھی ناجانے کیوں مجھ کو ایسا لگتا تھا کہ ہم دونوں اس ایک گھنٹے میں زمانے بھر کی باتیں کرتے تھے شاید حسن کی اپنی گفتگوں کوئی بولی ہوتی جیسے عام لفظوں یا زبان کی ضروت نہیں ہوتی یا شاید خوبصورتی کا احساس ہی اپنے اندر سارے جہاں کہ گفتگوں سموئے رکھتا ہی۔وہ کہتے ہیں ناں۔۔۔ع تخلئیے کی باتوں میں گفتگوں اضافی ہے۔۔۔
میں دعا اے گھر سے نکلنے کہ بعد بھی اس تخلئیے میں مقید رہتا تھا ۔اس رٹ بھی میں اپنے کمرے میں گود میں کتاب رکھے آپنے آپ سے اسی گفتگوں میں مصروف تھا کہ اچانک باہر گلی میں ایک شور سا اٹھا جیسے بہت سے لوگ چیختے چلاتے کسی کا پیچھا کر رہے ہوں میں گھبرا کر کمرے سے باہر نکلا اور چھت سے نیچے گلی میں جھانکا تو عجیب سا شور مچا تھا۔جلدی سے نیچے اوتار کر معلوم کیا تو بھانت بھانت کی باتیں سن کر میرے تو ہوش ہی اوڑھ گئے۔گلی میں چند بزرگ سرگوشی میں باتیں کر رہے تھے۔
ناں میاں کوئی کسی کی چھت یونہی نہیں ٹاپتا۔۔۔
ضرور لڑکی کی طرف سے کوئی اشارہ ہوگا۔دوسرے بڑے میاں منہائے اس لڑکی نے تو مولوی صاحب کی عزت دو کوڑی کی کردی۔
کیسی نے فتوی صادر کیا۔ہاں بھائی ۔۔۔۔۔یہ آج کل کی نئی نسل بھلا بڑوں کی عزت اور غیرت کیا جانے ۔۔۔۔
پری چلا کہ مولوی صاحب گھر والے خاندان کی کسی تقریب میں لیٹ ہوگئے تھے گھر میں دعا اور اس کا چھوٹا بھائی تھا کسی پڑوسی نے ان کی چھت پر کسی کو کودتے دیکھا تو شور مچا دیا۔سایہ یا شناخت ہوئے بنا فرار ہونے میں کامیاب ہو چکا تھا مگر اپنے پیچھے افواہوں اور بدنامیوں کا ایک سیلاب چھوڑ گیا کیونکہ اس لمحے دعا کو بھی چھت سے صحن میں اترتی سیڑھیوں سے نیچے آتے دیکھا گیا تھا۔مجھے ان اب پر بہت غصہ آیا کہ وہ دعا جیسی شریف اور باکردار لڑکی پر ایسے الزامات لگا رہے تھے۔اگلے دن بھی محلے میں یہی چرچا رہا دن کےتقریبا دو بجے کے قریب کیسی نے ہمارے گھر کا دروازہ بے تحاشہ پیٹنا شروع کردیا
سب سے پہلے ابا جی اور پھر ان کے پیچھے دو بڑے بھائی بھی گلی سے باہر نکلے باہر اے مولوی صاحب کا شور شرابے کی آواز آرہی تھی میں بھی سن گن لینے کے لیے دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ۔باہر محلے داروں کی بھیڑ میں کھڑے مولوی صاحب غصے اور نفرت سے چلائے۔
یہ رہا۔۔۔۔یہاں گھر میں چھپا بیٹھا ہے۔جیسی اس کی شکل مکروہ ہے۔ویسے ہی گھناؤنے کرتوت ۔۔۔۔۔؟
کیا کیا ہے تم نے۔۔۔؟خوب۔۔ابھی بتاتا ہوں ۔۔۔۔
انہوں نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر سب کے سامنے لہرایا ۔
اب یہ کہنا کہ یہ خط تم نے نہیں لکھا۔۔۔
تمہاری تحریر خوب پہچانتا ہو لفنگے ۔۔۔۔
میں نے پہلی نظر میں ہی ہادی کے لیے لکھا اپنا خط پہچان لیا اور میری زبان سے حیرت میں بے ساختہ ہاں مگر یہ خط تو میں نے مگر میری بات ادھوری ہی رہ گئی اور مولوی صاحب کا ہاتھ تیزی سے گھوما اور میرے گال پہ ایک زناٹے دار چانٹا پڑگیا۔۔۔۔؟
سناٹے میں اس زور دار تھپڑ ایسے گونجی جیسے کسی نے بم کا دھماکہ ہو۔مگر آواز کے اس دھماکے سے کہیں زیادہ گونج میرے اندر بہت کچھ ٹوٹ جانے کی تھی مولوی صاحب اس طماچے کے بعد مجھے کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا اور چیخ چیخ کر کر مجمعے کو بتانے لگے کی گذشتہ رات ان کی چھت پر کوئی اور نہیں یہ پری زاد کودا تھا اور اس بات کی خبر دعا کی امی صبع سویرے اس وقت ہوئی جب وہ چھت پر گیلے ڈالنے کے لیے نے گئیں چھت پر ایک کونے میں میرا لکھا ہوا یہ خط مڑتڑا سا پڑا ہوا مل گیا۔وہ سب گھر والے میری تحریر اچھی طرح پہچانتے تھے کیونکہ میں دعا کا رجسٹر میری تحریر سے بڑا پڑا تھا سارے محلے دار لعنت ملامت کرنے لگے اس پاس گلی مکانوں کی چھتوں اور کھڑکیوں میں سے محلے کی عورتیں جھانک جھانک کر ایک دوسرے کو اشارے کر رہی تھی۔میرا بس نہیں چل رہا تھا کے کسی طرح زمین شق ہو اور میں اس کے اندر سما جاوں۔مولولی کے بھاری چانٹے کے نشان اگلے تین دم میں دھیرے دھیرے میرے گالوںسے مدغم پڑنے لگے مگر میری روح پر لگے اس تھپڑ کے داغ عمر بھر مندمل نہ ہونے پائے ۔بھیڑ کے چھٹتے ہی ابا اور بڑے بھائی مجھے گردن پکڑ کر گھسیٹتے ہوے گھر کے اندر صحن میں لے ائے اور پھر جس کے ہاتھ جو آیا اس نے اسی سے میرے جسم پر سیاہ نیل ڈال دیے 
بدن پر چوٹ کے نشان نیل گوں ہوں تو انہیں نیل کہا جاتا ہے
مگر گھائل کا پورا جسم ہی سیاہ پڑ جائے تو ایسے نیل کو کیا کہا جائے؟میں نے بہت کوشش کی کے انہیں یہ بتا سکوں کہ وہ خط میری تحریر میں ضرور تھا مگر میرا نہیں تھا مگر کسی نے میری ایک نہ سنی میں اللہ سے مخاطب ہوا اللہ سے پوچھا اے میرے رب دعا کو پسند کرنا یہ پڑھنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ سب نے میرا جسم ہی زخموں سے بڑ دیا میں اس رات بہت رویا 
صبع ہوئی ابا جی ۔۔۔اچھا یہ تھی تمہاری ٹیوشن؟
خوب عزت افزائی کاروائی ہے آج ہماری؟
ڈوب کرو شرم سے ۔۔۔؟
عشق لڑانے سے پہلے اپنی شکل تو آئینے میں دیکھ لینی تھی
جس پر ہر چوٹ کے ساتھ میری روح پر بید کی طرح پڑنے والا ایک طعنہ بھی کسی تازیانے سے کی طرح میرے کانوں پگھلے شیشے کی طرح لگاتار انڈیلا جاتا رہا ۔۔
بہت دن تک تو میں شرم کے مارے چھت والے کمرے سے ہی باہر نہ نکلا سارے گھر والوں نے تقریبا میرا بائیکاٹ کر رکھا تھا میں دن بھر بھی کمرے میں بیٹھا یہ سوچتا رہتا تھا کہ آخر ہادی کو دیا گیا ورقعہ دعا کی چھت سے کیسے برامد ہوا
ضرور اس بدمعاش نے دعا کو اکیلا جان کر اس کے گھر گودنے کا منضوبہ بنایا ہوگا۔۔اور شور سے گھبرا کر وہ خط وہی پھینک کر فرار ہوگیا ہوگا۔جانے دعا میرے بارے میں کیا سوچتی ہوگی۔۔۔۔۔؟
اسے بھی تو باقی سب لوگوںکی طرح یہی لگا ہوگا کہ میں نے اسے عشقیہ خط دینے کے لیے رات کو اس کی چھت ٹاپا تھا۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کے کس طرح دعا تک اپنے دل کی بات پہنچاؤں کہ مجھے اپنے شکل آپنی اوقات کا اچھی طرح اندازہ ہے اور میں کھبی ایسی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔میرے دل میں اس کے لیے جو بھی تھا وہ پمیشہ کے لیے میرے دل کے کیسی نازک گوشے میں پڑا رہنے کے لیے تھا۔ہماری کو پوجا کسی صلے کی تمنا کی تمنا کے لیے تو نہیں ہوتے
پروانے کو شمع سے موم دان کب چاہیے ہوتا ہے
اسے تو بس جل جانا ہوتا ہے مجھے بھی تو بس جلنے سے واسطہ تھا
روشنی کا کے حصہ میں ائے اس بھلا مجھے کیا غرض تھی ہائے لاکھوں کی بات واہ
مگر اب دعا سے ملنا تو درکنار۔ میرے گھر والوں نے اس کے گھر کے سامنے سے کے دراوزے کے سامنے سے بھی گزرنے سے منع کردیا تھا۔دسویں کئ امتحانات میں بوجھل دل اور الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ دیے اور با مشکل سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوا بڑی مشکل سے ابا سے کالج میں داخلے کی اجازت ملی وہ بھی اس شرٹ پہ کہ اپنی کالج کہ کتابوں اور فیس کا خرچہ تم خود برداشت کرو گے میں نے سوچ رکھا تھا کے کالج کے بعد شام کو چھوٹی موٹی کوئی نوکری یاں کسی دوکان پر کام پکڑ لوں گا۔اس لیے کالج میں داخلے کی کوشش کے ساتھ ساتھ میں دن بھر شہر کے چھوٹے موٹے پارسی ہوٹلوں والی سڑک پر کسی ہوٹل والے سے ڈانٹ کھا کر بلا تو ایک لمحے لے لیے مجھ یو لگا کہ میری آنکھوں کو دوکھ ہوا ہے مگر میں نے آنکھیں مل کر غور سے دیکھا تو ۔۔
ہاں وہ دعا ہی تھی خو کسی کے ساتھ اسکول کی چھوٹی کے بعد قریبی ریسٹورنٹ میں چائے پینے آئی تھیں دعا اب دسویں جماعت کی طالبہ تھی اور اس علاقے میں اسکول یا کالج کے طالبات کا گروپ کی شکل میں چائے پینے یا بریک میں گرما گرم سموسے چٹنی کی پلیٹ اڑانے کے لیے آنا معمول کی بات تھی میرا دل ذور سے دھڑکا۔شاید آج ہی وہ موقعہ تھا جب میں دعا سے مل کر اس کی غلط فہمی دور کر سکتا تھا۔مگر جانے اس کے ساتھ کون کون ہوں گی اور اگر دعا نے بورا منایا یا غصہ کیا تو۔پھر ۔۔۔؟
ایک اور تماشہ نا کھڑا ہوجائے کہیں اور اگر کہیں دعا نے گھر جاکر اپنے والد کو اس بات کی شکائیت کردی تو۔۔۔۔؟
پھر تو میرے ابا کے ہاتھوں میرا خون ہونا لازمی تھا۔
مگر میرے پاس اور چارہ بھی کیا تھا ؟جانے پھر دوبارہ دعا سے زندگی بھر آمنا سامنا بھی ہو پائے گا یا نہیں
مجھے ایک بار کوشش تو ضرور کرنی چاہیئے۔ آخر دعا نے خود بھی تو مہینہ بھر مجھ سے پڑھا ہے میرے بارے میں کچھ اندازہ تو اس نے بھی لگایا ہوگا اتنے عرصے بعد میں ؟
میں نے تو کھبی نظر بھر کے اسے نہیں دیکھا تھا ۔۔
میں آپنے سے لڑتا خود ہی فیصلے کرکے انہیں رد کرتا رہا اور پھر اپنے اندر کی جنگ سے گھبرا کر میں نے مزید کچھ سوچےبنا اس کیفے کی طرف قدم بڑھا دیے۔اندر بہت رش تھا کالج کی لڑکیاں لڑکے عام لوگ کچھ مسقبل قسم کے گاہک نما بوڑھے بھی کھڑکیوں کے پاس قبضہ جمائے بیٹھے ہوئے تھے اس حسب معمول ایسی باتیں کرکے آہیں بھر رہے تھے کہ ان کا دور کیسا سنہرا زمانہ تھا اب تو بس افرا تفری نفسی کا عالم ہے۔شاید انسان کا اصل سے ابدتک یہی ایک مجبوری اور کمزوری رہی ہے کہ وہ اپنے حال کو بھی دل سے بڑے نہیں پاتا آپنے حال سے کھبی لطف اندوز نہیں ہو پاتا اور وہی حال بیت کر جب سا کا ماضی بن جاتا ہے تو وہ اس خو یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں کہ ۔۔آہ۔۔کیا زمانہ تھا۔۔۔کاش ہم اپنے حال بھی ماضی جیسی مٹھاس بھرنے کا کوئی جادو سیکھ پاتے۔میں ماضی اور حال کی تکرار کے درمیان ہال میں کھڑا ادھر ادھر دعا خو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور پھر وہ مجھے ایک کیبن کے پردے کہ اوٹ میں بیٹھی دکھائی سے گئی مجھے کچھ اطمینان ہوا کی چلو اس کے ساتھ زیادہ بھیڑ نہیں ہے لہذا بات کرنے میں آسانی ہوگی میں دھڑکتا دل کے ساتھ چھوٹےچھوٹے قدم اٹھاتا کیبن کے پاس پہنچ گیا۔بیراکچھ دیر پہلے ہی چائے کا کپ میز پر سجا کر واپس پلٹا تھا۔دعا کسی سے بات کررہی تھی اور اس کے سر پر سیاہ چادر ہمیشہ کی طرح سلیقے سے ٹکی ہوتی تھی میں نے دل کڑا کر کے زور سے کھنکار کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور دھیرے دعا کو سلام کیا اس کی سہیلی ابھی تک پردے کی سوٹ میں بیٹھی ہوئی میری نظر سے اوجھل تھی۔دعا نے چونک کر میری طرف دیکھا اور میری طرف دیکھتے ہی اس کے چہرے کا رنگ جیسے اڑ سا گیا میں نے دلاسا دینے کے لیے قدم بڑھایا کہ میرا مقصد اس کی بدنامی نہیں ہے میں تو صرف اس کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں مگر کیبن میں بیٹھی دوسرے شخص کو دیکھتے ہی خود میرے حواس ایک پل میں ہی کسی جھماکے سے بلب کی طرح فیوز ہوگئے دعا کے سامنے کوئی اور نہیں ہادی بیٹھا تھا وہی ہادی جس نے مجھ پر سے ناہید کے لیے وہ رقعہ لکھوایا تھا اور جس کی وجہ سے سارے زمانے نے میرا نام اور وجود پر تھوتھو کی تھی ہادی بھی پل بھر کے لیے گھبرا گیا میں تیزی سے واپس پلٹا اور کیفے سے نکل گیا ہادی میرے پیچھے دوڑتا ہوا باہر تک آیا اور زبردستی میرے راستے میں حائل ہوکر معذرت کرنے لگا ۔
معاف کردے یار پری ۔۔۔۔۔میں خود تجھے بتانا چاہتا تھا مگر دعا نے منع کردیا کے فی الحال معاملہ بیت گرم ہے ذرا بات ٹھنڈی ہوجائے تو پھر تجھ سے بات کرو ویسے شہزادے ۔۔۔
تونے بھی بڑا مردوں والا کام کیا ہے تیرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا تونے آخر تک زبان نہیں کھولی احسان رہے گا یار تیرا ہم دونوں پر۔۔۔۔۔میرا سر تیزی سے چکرا رہا تھا دعا جانتی کی اس کی چھت پر اس رات ہادی کودا تھا پھر بھی اس نے اپنے گھر والوں سے بات چھپائے رکھی مجھے گھر محلے والوں کے سامنے اتنا رسوا کیا سارے زمانے میں میرا تماشہ کیوں بننے دیا۔میرا سر گھوم رہا تھا میں بمشکل ہادی سے سوال کیا ۔
تو کیا وہ خط تونے دعا کے لیے لکھوایا تھا ۔۔۔۔۔؟؟؟
ہاں یار ۔۔اسی کو دینا تھا ایک دن اس نے میرے سامنے تماری لکھائی کی تعریف کردی تھی میں نے بھی اس سے شرط
شرط لگالی تمہارے ہی ہاتھ سے اپنے لیے خط لکھوا کے دو گا
میں نے حیرت سے ہادی کو دیکھا مگر تم تو ہر وقت یہی کہتے رہتے تھے کہ وہ تمہاری طرف دیکھتی تک نہیں کھبی گاستک نہیں ڈالتی تمہیں۔۔۔۔
ہادی نے زور دار قہقہہ لگایا وہ سب دعا کے کہنے پر ہی بولتا تھا تو نہیں جانتا یار یہ لڑکیاں ہم بے وقوف لڑکوں سے کئی زیادہ تیز ہوتی ہیں بڑا دماغ چلتا ہے ان کا ان ایسے معاملے میں دراصل وہ کسی بھی طرح کی بدنامی مول لینا نہیں چاہتی تھی میری طرف سے کسی کو آپ میں مبتلا کر کے آج بھی بڑی مشکل سے اسے چائے کے کپ کئ لیے راضی کیا تھا پر تونے آکر سارا معاملہ بگاڑ دیا ۔۔۔۔
میرا ذہن سائیں سائیں کر رہا تھا ہادی آپنی دن میں نا جانے کیا کیا بولتا رہا اتنے میں کیفے کا ایک بیرا باہر آیا اور ہادی سے بولا آپ کو اندر بلا رہی ہیں کہتی ہیں مہمان کو بھی ساتھ لے ائے ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔
میں لاکھ دامن چھڑانے کی کوشش کی مگر ہادی تقریبا کھینچتا ہوا کیفے کے اندر لے گیا۔دعا سر جھکائے بیٹھی تھی مجھے اندر آتے ہی دھیرے سے بولی امید ہے آپ نے ہم دونوں کو معاف کردیا ہوگا ہم دونوں کی وجہ سے آپ کو جو تکلیف پہنچی ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں
میں خود آپ کو مل کر آپ کو ساری بات بتانا چاہتی تھی مگر حالات ایسے بگڑے کے میں کچھ نہ کرسکی ۔۔
میں چپ چاپ بیٹھا اس کی بات سن رہا ۔اس سے یہ بھی نہ کہہ سکا کے کم از کم مجھے سچ تو بتاتی دیتی دعا نے اپنی بات جاری رکھی دراصل میں نہیں چاہتی تھی کی جب تک ہادی کے گھر سے میرے لیے باقاعدہ رشتہ نہ آجائے تب تک کسی کو بھی ہمارے بارے میں ذرا بھی شک ہو آپ تو ابا جی کے غصے سے واقف ہیں ناں۔اس رات بھی ہادی کی ذرا سی غلطی سے سارا ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلا آپ کا وہ لکھا ہوا وہ رقعہ کب اور کیسے گھبراہٹ میں وہاں گرگیا۔۔دعا کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئی کچھ لوگ بولتے بولتے خاموش ہوجائیں تو ان کی خاموشی بولنے لگتی ہیں مگر مجھے آج اس کی یہ خاموشی بہت گراں گذر رہی تھی
دراصل میں بہت ڈر گئی تھی اس لیے جب ابا نے آپ کی تحریر دیکھ کر آپ پر شک کیا تو میں چپ رہی کیوں کے میں اگر ہادی یا کیسی اور کا نام لیتی تو انہیں مجھ پر شک ہوسکتا تھا میں بھی اس کے ساتھ شامل ہوں صرف ایک آپ ہی ایسے تھے جن کے نام کے ساتھ میرا نام نہیں جوڑا جاسکا تھا مطلب کیسی کو مجھ ہر شک نہیں ہوسکتا تھا کہ میں آپ کو پسند کرتی ہوں۔۔۔۔
میں نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور بولتے بولتے چپ ہوگئی میرے اندر بیک وقت کئی شیشے چکنا چور ہوگئے اور میں ننگئے پاوں ان پر چلتا ہوا وہاں سے اٹھ آیا پتہ نہیں میں نے اس روز گھر تک کا راستہ کیسے طے کیا۔میرے آس پاس تیز ٹریفک کا شور گاڑیوں کے ہارن اور لوگوں کے گئے آوازوں کی بھر مارتھی مگر میں جیسے ساری دنیا سے لا تعلق اور بیگانہ سا ان راستوں پر چلتا رہا شاید ہمارے قدم کچھ راستوں پر چل چل کر اتنے راستہ آشنا ہوچکے ہوتے ہیں کہ دل اور دماغ بند ہونے کی صورت وہ ہر موڑ پہچان لیتے ہیں ورنہ میری جو حالت اس وقت تھی مجھے ضرور کسی ویرانے میں بھٹک جانے چاہیے تھا ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ۔۔۔
کوئی انڈا ہی ہوگا جو دعا پر مجھ سے کوئی تعلق جوڑنے کا شک کرے گا کہاں وہ اور کہاں میں؟اس نے کتنی آسانی سے یہ بات کہہ دی بعض حقائق ہم پر پہلے دن سے ہی روز روشن کی طرح عیاں ہوتے ہیں مگر پھر بھی کیسی کی زبان سے ان کی تشریح ہمیں کس قدر سوگوار کردیتی ہے ہم کمزور انسان اپنے اندر خود فریبیا کیوں پالے رکھتے ہیں؟
شاید اسی لیے اپنی پیدائش سے لے کر آپنی موت تک جانے انسان کتنی بار ٹوٹتا ہے مگر دعا کی پسند ہادی کیسے ہوسکتا ہے سارا محلہ ہادی کے قرضوں سے واقف تھا مگر پھر بھی دعا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
میرا ذہن سن ہوگیا تھا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی ظاہری شخصیت ہی آخر کار فتح یاب ہوتی ہے ۔یہ اندر کی خوبصورتی دل کی سچائی وغیرہ جیسی فضول کتابی باتیں ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر یکسر غلط ثابت ہوگئی تھیں شاید یہ ساری کتابی تکرار مجھ جیسے پری زاد کی تسلی کے لیے ہی تھی ۔
میرا داخلہ گورنمنٹ کے ایک کالج میں ہوگیا تھا میرا دل کالج جانے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہورہا تھا دسویں جماعت تک ایک ہی سکول میں پڑھتے پڑھتے سارے استاد اور طالب علم میرے نام اور میری صورت کے تضاد سے آدھی ہوچکے تھےاور انہوں نے میری بدصورتی کو کسی معمولی کی طرح قبول کر لیا تھا مگر کالج جاتے یہ ساری بحث ایک بار پھر تازہ ہوگئی بہت دنوں تک کلاس میں کینٹین میں اور کالج کی راہداریوں میں مجھے پھر سے اسی تجربے سے گزرنا پڑا وہی طنز بھری مسکراہٹ جملے اور حقارت بھری مثالیں ۔۔۔
میرا خواب ہمیشہ کی طرح خاموشی ہی تھا کیونکہ میں جانتا تھا کی مجھے اس چھلنی سے بار بار چھلنا ہوگا انہی دنوں میری ملاقات فورتھ ائیر کے ناساز سے ہوئی دراصل اس سے پہلا تعارف بھی اس کے اس عجیب و غریب تخلیق کی وجہ سے ہوا تھا۔اس کا پورا نام جمیل احمد تھا وہ خود کو ناساز کہلوانا پسند کرتا تھا ایک دن میں راہداری سے گزر رہا تھا کے کسی سنئیر طالب علم زور سے اس کا نام پکارا
قسط 4
ابے اونا ساز۔۔۔تیری پھر سے تین سیپلیا آئی ہیں مطلب تو اگلے سال بھی باقی کالج کے لنگر کی توڑے گا۔ناساز کے باقی دوست بھی ہنس پڑے ناساز نے ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور ایک بھر پور کش لے کے دھواں فضاء میں اڑادیا۔۔
وہ بدل کیا گریں گئ جو گھنٹوں کے بل چلے ۔۔
پتہ چلا کے گذشتہ تین چار سال سے ناساز چوتھے سال میں ہی اٹکا ہوا ہے نا اسے پاس ہونے کی جلدی تھی نہ ہی کالج والے اسے نکالنے پر آمادہ تھے کیونکہ وہ کالج کی ادبی سوسائٹی کا صدر تھا اور اس کی صدارت میں کالج بہت سی ٹرافیاں اور کپ جیت چکا تھا وہ ایک بہترین مقرر اور افسانہ نگار تھا اگلی صبع میں کالج کئ گیٹ کے اندر داخل ہوا تو ناساز گیٹ کے قریب ہی بے چینی سے ٹہل رہا تھا مجھے دیکھتے ہی اس نے مجھے اشارہ سے مجھے قریب بلایا ۔۔
بات سنو لڑکے۔۔
میں جھجکتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔
سگریٹ پیتے ہو؟
میں نے انکار میں سر ہلایا وہ بے زاری سے بولا
پھر کیا خاک جیتے ہو۔۔۔۔
میری جیب میں اس وقت شام کی ٹیوشن سے ملنے والے چند۔ روپے پڑے تھے میں سیدھا وہاں سے کینٹین گیا اور سب سے بہتر کی ایک ڈبیا اور ماچس لے کر دوبارہ ناساز کے پاس آیا اور سگریٹ اور ماچس اس کی ہتھیلی پے رکھ دیے وہ سگریٹ دیکھ کے چونکہ سا گیا اس نے جلدی سے سگریٹ سلگا کر دوچار بھر پور کش لگائے اور میں نے پہلی نکوٹین کو اپنے سامنے بیٹھے شخص کہ رگوں میں پوری طرح سرایت ہوتے ہوئے محسوس کیا اس نے مزید چند کش لیے میں پلٹ کر جانے لگا ناساز نے مجھے جلدی سے آواز دے کر روکا اور مجھے غور سے دیکھتے ہوے بولا۔۔
پیسے تھے تمہارے پاس۔۔؟
ہاں کرائے کے پیسے تھے جو آج تمہارے کام اگئے۔۔۔
وہ زور سے ہنسا اور ہاتھ بڑھا کر بولا مجھے ناساز کہتے ہیں میں اپنا تخلص ناشادر رکھنا چاہتا تھا مگر پتا چکا کے میرے حق پر پہلے ہی کوئی موسیقار ڈاکہ ڈال گیا تمہارا نام کیا ہے
میں نے آٹکتے ہوئے اپنا نام بتایا پری زاد ۔۔
ناساز زور سے کہا واہ نام تو بڑا شاعرانہ رکھا ہے پیارے
زندگی میں مرتبہ مجھے کس کے لہجے اور نظر میں اپنا نام سن کر طنز اور تمسخر کی جھلک نہیں دکھائی دی یہ میری اور ناساز کی دوستی کی ابتدا تھی ساری زندگی کا پہلا دوست جس سے بات کرتے ہوئے میری زبان لڑکھڑاتی نہیں تھی نہ ہی مجھے ٹھنڈا پسینے آتے تھے سگریٹ اس کی زندگی کا ایک ایسا لازم جزو تھا کے کھبی کھبی مجھے یو محسوس ہونے لگتا تھا جیسے ناساز سگریٹ کو نہیں سگریٹ دھیرے دھیرے ناساز کو پی کر نگل رہا ہو وہ عمر میں مجھ سے چھ سال بڑا تھا مگر اپنی باتوں سے وہ بوڑھی روح دیکھائی دیتا تھا چند ہفتوں بعد شہر کے تمام مرادانہ زنانہ کالجوں کے درمیان تقریری مقابلے ہوئے ناساز کا نام سر چڑ کر بولنے لگا میں ایسی تقریبات میں جانے سے گریز کرتا تھا مگر وہ فائنل مقابلے کی تقریب میں میں مجھے کسی طرح زبردستی پکڑ کر لے گیا ہاں میری جانب ہمارے کالج کے لڑکوں کی نشتین لگ رہی تھیں اور دوسری جانب لڑکیوں کے کالج کی طالبات بیٹھی اپنے کالج کی مقرارات کی حوصلہ افزائی کے لیے شور مچا رہی تھیں میں ایک کونے میں سکڑ کر بیٹھا رہا ناساز نے اپنے دھواں دار تقریروں سے ماحول گرما دیا نہ جانے آخری مرحلے پر وہ پس پار کیوں ہوگیا اور لڑکی نے پہلا انعام جیت لیا میں نے باہر نکلتے ہی براہ راست اپنے دوست سے اس شے کا اظہار کر دیا کے وہ جان بوجھ کر ہارا ہے۔
ناساز دھیرے سے مسکرایا تم اگر دھیان سے دیکھتے تو تمہیں پتا چلتا کہ میں جیت گیا ہوں زندگی ہر بازی اول اور دوئم نمبر دے نہیں ناپی جاتی ۔۔
پھر اس نے مجھے غور سے دیکھا ۔
تم نے کھبی کسی سے محبت کی ہے پری زاد ۔۔۔؟
پل بھر کے لیے مجھے یو محسوس ہوا کے ناساز بھی باقی سب لوگوں کی طرح میرا مذاق اڑا رہا ہے مگر مجھے اس کی آنکھوں میں اس کی صاف سچائی دکھائی دی میں نے سر جھکا کر دھیرے سے جواب دیا مجھ سے بھلا کون محبت کرے گی۔
ناساز کیوں تم سے محبت کیوں نہیں کی جاسکتی ۔۔۔۔؟
میں چپ رہا ناساز نے نصیحت کی شعر یاد رکھا کرو
صنف نازک پر بڑا اچھا اثر ہوتا ہے اچھے شعر کا ۔۔۔
پھر کچھ سوچ کر بولا ۔منیر نیازی پڑھا کروں ۔۔
اس کی ایک نظم تو زبانی یاد کرو ۔۔۔۔۔
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں
ضروری بات کہنی ہو
کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو
اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے
کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت کچھ اور تھی
اس کو جاکر بتانا ہو
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ۔۔
میں نے جلدی جلدی اارہ نظم اپنی کاپی پر نوٹ کرلی اور اسی وقت اس کارٹا بھی لگا لیا ۔۔بس اب یاد رکھنا کہ تمہیں اپنی گفتگو کے دوران کسی نہ کسی بہانے یہ نظم دہرانی ہے میں تمہیں چند اور اثر انگیز غزلیں اور نظمیں بھی یاد کروا دوں گا کیا مجھے؟
میں جلدی سے کسی بچے کی طرح سر ہلایا مجھے یاد آیا کے دعا کو بھی شاعرو شاعری سے کافی گہرا لگاوں تھا اور شاید ہادی ہو کو بھی بہت سے شعر یاد تھے دعا کا خیال آتے ہی میرے گال میں شدید جلن کا احساس ہوااگلی چند دنوں میں ناساز نے مجھے بہت سی نظمیں یاد کروا دی اور پھر جس دن میں نے بزم ادب پر پریڈ میں کھڑے ہوکر ۔۔
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہوگی ۔۔
سنائی تو پہلی مرتبہ کلاس کے لڑکوں نے دل سے میرے لیے تالیاں بجائیں اور استاد نے بھی مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ شاباش دی ناساز کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہورہی تھی لوگ میری بات غور سے سننے لگے تھے میرے دل میں ایک عجیب سی خواہش انگڑائیاں لینے لگی کہ کھبی کالج میں پہلے کہ طرح لڑکے اور لڑکیوں کے اداروں کا مقابلہ ہو اور میں بھی اسٹیج پر میں بھی جاکر ناساز کی طرح پڑھوںمیں نے سارے بڑے شاعروں کو تقریبا حفظ کر لیا اور مجھے کالج کی بزم ادب ٹیم میں بھی شامل کر لیا گیا تھا اس کوشش میں میرے اندر بھی جھوٹا ہی سہی مگر ایک چھوٹا موٹا شاعر پلنے لگا میری باتوں میں شاعری کا رنگ جھلکنے لگا ناساز کسی منجھے ہوئے استاد کی طرح میری شاعرانہ تربیت کررہا تھا وہ کہیں سے بھی اچانک نازل ہوجاتا ۔۔
یہ کیا غالب اور میرے کے ڈٹے لگاتے رہتے ہو آج کل کی لڑکیاں اتنی مشکل شاعری بھلا کب سمجھتی ہیں احمد فراز کو پڑھا کرو اور وہاں۔۔۔کھبی کھبی ساحر لدھیانوی کو دہرانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ساغر کو تو جانتے ہو ناں
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل میری کہانی ہے ۔۔
والا۔۔۔اور ہاں ۔۔۔کل سے تمہیں یہ دہراتے رہنا ہے ۔۔
میں اور میری تنہائی اکثر یہ باتیں کرتے ہیں
تم ہوتیں تو کیسا ہوتا تم اس پر کتنا حیراں ہوتیں
میں دبے لفظوں میں ناساز کو یہ سمجھانےکی کوشش کرتا کہ جس کسی ایک کے لیے وہ مجھ سے یہ ساری مشق کرارہا ہے اس ایک تو میری زندگی میں کوئی وجود ہی نہیں ہے پھر یہ تیاری کا کام کی؟مگر ناساز بھلا میری کب سننتا تھا ایک کالج سے واپسی کے راستے پر وہ میری ایسی تربیت میں مصروف تھا کی میری نظر پرانے کباڑئیے کی دوکان کے مٹیالے شیشے سے اندر پڑی اور میرے قدم وہیں جم کر رہ گئے اندر ایک پرانا پیانو پڑا تھا کباڑئیے نے میری دلچسپی محسوس کی تو جلدی بولا
خالص شیشم کی لکڑی کا ہے انگریز کے پرانے کلب سے خریدا ہے تم خریدو گئے کیا۔۔
صرف تیرہ ہزار میں دے دوں گا ۔۔۔
میں نے اپنی جیب دیکھی دو سو اسی میں پڑھے تھے میں نے دھیرے دھیرے سے کباڑئیے سے کہا ایک دن ضرور خرید لوگا۔۔۔ہم دونوں آگئے بڑھ گئے ۔میں تھکے ہارے قدموں سے گھر واپس پہنچا تو صحن میں داخل ہوتے ہی ایک جھٹکے سے روک گیا صحن میں دعا کی امی کھڑی میری اماں سے کچھ بات کررہی تھیں ان دونوں نے قدموں کی آواز سن کر میری طرف دیکھا۔۔۔
دعا کی امی نے مجھے دیکھ کر برا سا منہ بنایا اور امی خود تاکید کرتی ہوئی گھر سے نکل گئیں اے بہن آنا ضرور ۔۔ہم لوگ زیادہ عرصے تک نارضگیاں پالنے کے شوقین نہیں ہیں ان کے جانے کے بعد بڑا منہ بنانے کی باری امی کی تھی دعا اور ہادی کی بات طے ہوگئی ہے آپنی بیٹی کی منگنی کا پیغام دینے آئی تھی یا شاید یہ جتانے کے لیے کہ تیری اس حرکت کے بعد بھی ان کی لاڈلی کے لیے محلے کے سب سے بڑے گھر سے رشتہ آیا ہے تونے تو ہمیں کہی کا نہیں چھوڑا پری زاد ۔
میں اماں کی بڑ بڑاہٹ نظر انداز کرتا ہوا اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا میں اچھی طرح جانتا تھا کہ ایک دن ہونا تھا مگر پھر بھی ناجانے کیوں دعا کے رشتےکی خبر ان کر کر میرا دل بجے سا گیا تھا اگلے روز کالج میں ناساز نے میری یہ کیفیت بھانپ لی۔۔۔
کہا بات ہے پیارے؟آج کچھ بجے سے دیکھائی دے رہے ہو؟میرا قریب پڑا کینکر اٹھا کر تلاب کی برف پھینکا ۔۔
تو اس سے پہلے تم نے مجھے کب جلتے یا جگمگاتے دیکھوں ہے وہ میرے قریب آہ کر بیٹھ گیا جل تو رہے ہو۔اور بڑی شدت سے جل رہے ہو۔مگر یہ جلن جگمگانے والی نہیں ہے۔
اندر ہی اندر رکھ کر دینے والی ہے۔بتاوں گئے نہیں کب سے سلگ رہے ہو؟میں نے اسے دعا والی ساری بات بتا دی ناساز سن کر ایک سردسی آہ بھری ۔۔
منزلیں اپنی جگہ
راستے آپنی جگہ
جب قدم ہی ساتھ نے دیں
تو مسافر کیا کرے ؟؟؟؟
پھر کسی بڑے بزرگ کی طرح بیٹھ کے مجھ سے عہد لینے لگا مجھ سے ایک وعدہ کرو۔۔۔آج کے بعد اپنے اندر اس آگ کو کھبی بجھنے نہیں دو گے۔یہ جیون بنا اس من کی نار کے صرف ایک سرد خانہ ایک بوجھ ہوتا ہے اس لیے بندے کے اندر یہ سلگن سلگتی رہنی چاہیے عام انسان سے بھی بڑے بڑے کارنامے کروا جاتی ہے۔یہ تڑپ ہے۔۔۔یہ جلن ہے۔۔عام طور پر آدمی گیلی تیلی کی طرح ساری عمر سلگین سے بھری نم زندگی گزاردیتا ہے مگر سے جلن کے لیے ماچس کی رگڑ میسر نہیں آتی۔اس لڑکی سے ناکام محبت نے تمہیں وہی رگڑ فراہم کردی ہے ب جل گئے ہو تو خود کو بجھنے مت دینا ۔س وقت مجھے ناساز کی بات ٹھیک طرح سے سمجھ میں نہیں آئی مگر آ نے ٹھیک ہی کہا تھا جب مقدر میں آخر کار فنا ہی لکھا ہوتا ہے تو پھر یہ بجھ بجھ کر سلگ الگ کر جینا کیسا؟
تیز بھڑکتے ہوئے ہوئے شعلے کی طرح الگ ہوجانے میں ہی مزہ ہے میں بھی اس روز کے بعد کچھ ایسا جلا کہ میرے اندر کچھ بھسم ہوگیا بس میں اور میری کتابیں میری چھت اور آسمان پر رات کو چمکتے میرے دوست ستارے یہی کچھ باقی رہ گیا تھا میری زندگی میں اگلے سال کالج والوں نے رحم کھا کر ناساز کو سند دے ہی دی اور وہ اپنے گاوں واپس جانے سے پہلے مجھ سے لپٹ کر رو پڑا ۔۔
اپنا خیال رکھنا اور مجھے بول مت جانا ۔
میں بھیگی پلکوں کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر اس کی گاڑی چھوٹتے ہوئے دیکھتا رہا اور بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپس آگیا کالج کے فائنل ائیر سے قبل ہی پہلے ابا پھر اماں یکے بعد دیگرے چل بسے اور مجھے پہلی بار یتیمی کا احساس اس وقت ہوا جب بھائی بھائیوں نے گھر کے خرچے میں ہاتھ بٹانے کا حکم صادر کر دیا ان سب کی خواہش یہی تھی کہ میں یونیورسٹی میں داخلے کا ارادہ ترک کرکے کہیں کلرکی یا چپڑاسی کی سرکاری نوکری پکڑوں تاکہ میرا بوجھ ان کاندھوں سے ہٹ جائے مگر میں نے کسی نہ کسی طرح انہیں قائل کر ہی لیا کہ۔۔۔۔کسی سرکاری نوکری کو ملتے ہی تعلیم کا سلسلہ ترک کر دو گا تب تک میں شام سے رات تک ٹیوشنز پڑھا کر گھر کا خرچہ بانٹ سکتا ہوں میں اب وہ پہلے اب وہ پہلے والا ناکام اور نالائق علم نہیں رہا تھا ناساز کی لگائی ہوئی آگ کئ بھٹی میں تپ کر کندن ہوچکا تھا کالج میں بھی فائنل میں میری تیسری پوزیشن آئی تھی تعلیمی ادارے فخر سے اپنے ادبی پروگراموں مشاعروں میں مدعو کرتے تھے میرا نام ایک ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر کے طور پر شہر کی گلیوں کوچوں میں پھیل رہا تھا لوگ میرئ صورت دیکھتے ہی لوگوں کا وہ بے اختیار تاثر ۔۔۔۔جسے کوئی نہیں چھپا سکتا تھا البتہ اب لوگوں کے رویے میں اتنی منافقت ضرور آگئی تھی کہ بچپن میں وہ میرے منہ پر ہنسہ دیتے تھے مگر اب بڑے ہو نے کے بعد وہ قہقہہ میرے پلٹ جانے کے بعد ان کے حلق سے برآمد ہوتے تھے یونیورسٹی کے پہلے دو ہفتوں میں بھی اردو ڈپارٹمنٹ کی راہداریوں میں یہ قہقہہ گونجتا رہا جا ک اب عادی ہو چکا تھا اپنے ڈپارٹمنٹ کی تعارفی کلاس میں جب مجھے لیکچر ہال کے ڈائس پر بلایا گیا تو آس پاس سے ہلکی ہلکی سرگوشیاں بلند ہونے لگی ۔۔
ارے۔۔۔؟ یہ تو پری زاد ۔۔۔ائے ہائے ۔۔۔سارا مزہ کر کرادیا شاعری تو غضب کی کرتا ہے مگر شخصیت ۔۔۔توبہ توبہ۔۔۔
نہیں نہیں۔۔یہ پری زاد نہیں ہوسکتا۔۔یہ تو فیکٹری کا فورمین لگتا ہے۔میں یہ ساری سرگوشیاں اور فقرے سنتے ہوئے ان کئ درمیان سے چلتا ہوا ڈائس پر اگیا کلاس پر ایک سکوت سا طاری ہوگیا۔میں نے اپنا نام بتانے کے بعد کسی لمبی چوڑی تمہید کے بجائے صرف دو مصرعوں پر اکتفا کیا۔
قصے مری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے
آ دیکھ تیرے نام سے موسوم ہیں سارے
شاید یہ ظرف ہے جو خاموش ہوں اب تک
ورنہ تو تیرے عیب بھی معلوم ہیں سارے
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں بابر
کیا میرے سوا اس شہر میں معصوم ہیں سارے۔۔؟
میں اپنی بات ختم کرکے ڈائس سے اتر آیا گزرے دنوں کے ساتھ میری کلاس نے میری بدصورتی کے ساتھ سمجھوتہ کر کیا تھا۔پر میں خود اپنے اس بے چین اور بے قرار دل کا کیا کرتا؟کھبی کھبی تو میرا من کرتا ہے کہ کوئی تیز دار خنجر لے کے اپنا سینہ چیر ڈالوں اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنا یہ روٹی دل نکال کر اس کے اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دو کہ پھر کھبی کوئی ٹکڑا سینے میں جڑانے نہ پائے مگر پھر میرا سدا کا ناداں دل مجھ سے سوال کرتا ہے کہ آخر اس کی خطا ہی کیا تھی۔صرف اتنی کہ کوئی اسے بھی کھبی پیار بھری ایک نظر سے دیکھ لے صرف ایک نظر محبت سے بھری خلوص سے پر ۔۔۔صرف ایک نظر جو صرف میرے لیے ہو۔میرے دل میں ہوس یا بازاری پن کا کوئی کھوٹ نہیں تھا
میرا اس ایک نظر کے لیے ہر احساس پاک تھا بس ایک لمحہ ہی مجھے ساری زندگی کے لیے درکار تھا بس ایک پل جب کوئی مجھے اپنا ماں لے ۔۔۔کیا یہ خواہش ہے یہ تمنا یہ اس قدر گراں مشکل یا نا ممکن یا ناجائز تھی کہ میں اس کے اپنے اندر جاگ اٹھنے پر ساری زندگی خود ہی کو ملامت کرتا رہوں ۔۔۔؟خود کو مار ڈالوں۔۔۔؟آخر یہ دنیا ایسے ہی ہر نظر
خوبصورتوں کے لیے کیوں بچا رکھتی ہے؟کیا مجھ جیسوں کے لیے قدرت کے کشکول میں ایسی ایک نظر کی بھیگ بھی نہیں تھی؟میرے بس میں ہوتا تو میں اس دنیا کے تمام خوبرو مردوں کو کسی سات سمندر پار جزیرے میں قید کر دیتا یا کاش ہمارے ہاں دیگرفیشنوں کی طرح خوبصورت ماسک چہرے پر چڑھا کر باہر نکلنے کا رواج ہوتا تو میں اپنے لیے اس دنیا سب سے پیارا اور خوبصورت ماسک بنوا لیتا اور پھر کھبی اپنے اس چہرے سے نہ اتارتا۔اس روز بھی میں یونیورسٹی کی ایک سنسان راہداری سے گزرتے ہوئے کچھ ایسا ہی بے سروپا خیالات کی یلغار کا شکار تھا کہ اچانک مجھے اپنے عقب میں کسے لڑکے کی آواز سنائی دی
مسٹر پری زاد ۔۔۔میں نے رک کر دیکھا انگریزی ڈپارٹمنٹ کا ایک ہینڈ سن لڑکا حسام آپنے دو تین کلاس فیلوز کے ساتھ میری جانب بڑھ رہا تھا اسی گروپ میں ایک شعلہ جوالہ قسم کی لڑکی جینز اور کھلی شرٹ میں ملبوس ان کے ساتھ میرے قریب آکر کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔
آپ اردو ڈیپارٹمنٹ کے پری زاد ہیں ناں؟ میرا نام حسان ہے یہ باسط اور یہ ہماری دوست آمنہ ہم۔تینوں انگلش ڈیپارٹمنٹ سے ہیں ۔۔۔۔
قسط 5
جی فرمائیے ۔۔
حسام کی جگہ آمنہ بولی۔دراصل ہمیں آپ کی مدد چاہیے ہم شیکسپیئر کا پلے سٹیج فارم کرنا چاہتے ہیں مگر ہمیں اجازت اس صورت میں ملی کہ ڈرامے کا ایک شو اردو زبان میں ترجمعے ساتھ بھی پیش کیا جائے کیا آپ ہمارے لیے ڈرامے کا ترجمہ کردیں گئ۔۔۔؟
میں ان تینوں کے متجس چہروں پر نظر ڈالی۔کوشش کرو گا کہ ترجمعے کر پاوں ویسے کس ڈرامے کا ترجمہ کرنا ہے؟
وہ تینوں خوش ہوگئے اور باسط جلدی سے بولا۔۔
او تھیلو۔Othelo ڈرامے کا ۔۔
ٹھیک ہے آپ لوگ مجھے تین چار دن کی مہلت دیں میں ترجمہ کرکے آپ لوگوں اطلاع دے دو گا ۔۔
ان تینوں نے خوش ہوکر نعرہ لگایا۔۔گریٹ
اور جاتے وقت ان تینوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا۔آمنہ سے ہاتھ ملاتے وقت بڑی مشکل سے میں نے اپنے ہاتھ کی لرزش پر قابو پایا۔تیسرے دن میں ترجمہ کا پہلا ڈرافٹلے کر انگلش ڈیپارٹمنٹ میں حسام گروپ کی تلاش میں نکلا تو پتہ چلا کہ وہ سارا گروپ یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ڈرامے کی ریہرسل کر رہے ہیں۔میں چپ چاپ ہال میں داخل ہوکر آخری نشتوں پر بیٹھ کر ان کی ریہرسل دیکھنے لگا ہال میں ملگھجی سی نا مکمل راشنی یا ادھورا سا اندھیرا اچھایا ہوا تھا صرف سامنے ہال کے اسٹیج پر تیز روشنی رکھی گئی تھی سب ہی اداکاریکے بہترین جوہر دکھا رہے تھے مگر ان سب میں آمنہ کی اداکاری کی چھاپ ہی الگ تھی وہ بہت ڈوب کر اپنے مکالمے ادا کر رہی تھی اور سارا گروپ اسے تھوڑی تھوڑی دیر بعد خوب جم کرداد دے رہے تھا خاص طور پر حسام کا بس نہیں چل رہا تھا کی وہ اپنےجوش اور خوشی کا اظہار کیسے کرے آمنہ کی منجھی ہوئی اداکارہکی طرح آخری سین میں ہیروئن کی موت کا منظر پیش کر رہی تھی میں خود اس کی اداکاری میں اس قدر کھوچکا تھا کہ اس نے جب آخری سانس لے کر سر ڈھلکایا تو میں بے اختیار آپنی جگہ پر کھڑے ہوکر تالیاں بجانے پر مجبور ہوگیا۔ان سب نے مجھے دیکھا اور سب زور سے چلائے۔۔
ارے۔۔۔۔یہ تم ہو پری زاد۔۔۔۔آو۔۔۔اسٹیج پر آجاو۔۔۔۔
حسام نے باقی انجان لوگوں سے میرا تعارف کراتے ہوئے انہیں یہ بتایا کہ میں اس ڈرامے کا اردو میں ترجمہ کرنے والا ہوں۔میں نے آمنہ خو اس کی اداکاری کی داد دی تو وہ سر جھٹک کر بولی۔
نہیں ۔۔۔ابھی میں پوری طرح خود کو کرداد میں ڈھال پارہی ہوں۔ہاں مگر جب ہیروئن کی موت ہوتو اس وقت اس کے اوپر کچھ شعر یا کوئی غمزدہ نظم اوور لیپ over.lap ہونی چاہیے۔۔۔تب ہم پورے ہال کو رونے پر ضرور مجبور کردیں گے۔۔۔
انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے باقی کچھ طلبہ ہو جو اس ڈرامے میں حصہ لے رہے تھے وہ مجھے اس طرح دیکھ رہے تھے میں دنیا کا کوئی آٹھواہ عجوبہ ہوں۔وہ اب کے سب اونچے گھرانوں کے چشم و چراغ تھے ان کے قیمتی لباس کلون اور پرفیوم کی مہک ہاتھوں میں پہنی قیمتی گھڑیوں اور بریسلٹ اور ایک جانب بے پرواہی سے پھینکے گئے مہنگے بیگز اور جین جیکٹس میری سادہ سفید شرٹ اور پانچ سال پرانی گھسی ہوئی پتلون سے بلکل بھی میل نہیں کھا رہے تھے۔دراصل امارت کی اپنی ایک خاص چکا چوند ہوتی جاے کسی تشریح کی ضرورت نہیں پڑتی۔اور غربت۔۔۔۔سات پردوںمیں بھی چھپی ہوتو اس کی شناخت چھپائے نہیں چھپتی آمنہ کی کچھ انگریزی میڈیم ٹائپ سہیلیوں نے اسے کہنی مار کر کچھ کہا اور سب زور سے ہنس پڑیں۔امنہ نے مجھ سے نظر بچا کر ان اب خو انگریزی میں ڈانٹا اور اپنے رویے پر قابو پانے کی ہدائیت کی۔میں جانتا تھا کہ ان کا الٹرا ماڈرن لڑکیوں نے میرے بارے میں آمنہ سے کیا سرگوشی کی ہوگی میں نے امبیکا بنایا کہ میں نے اوتھیلو کا ترجمہ کرلیا ہے اور اگر وہ لوگ تو کل سے ہی اردو ڈرامےکی
ریہرسل شروع کر سکتے ہیں حسام نے مجھے بھی ریہرسل دیکھنے کےلیے آنے کی درخواست کی تاکہ میں اپنے تلفظ کی جانچ بھی کر سکوں زندگی کی دوڑ میں ہم اردو میڈیم والوں کے پاس آخر میں صرف ایک یہی تلفظ ہی تو باقی رہ جاتا ہے۔ورنہ کچھ بچتا ہے تو صرف کمتری کا وہ احساس جو ہمیں ساری عمر قدم قدم پر آپنے کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہونے کا ادراک دیتا ہے رہتا ہے ۔۔۔
رات کو جب کھولی چھت پر تاروں کی اوڑھی کے نیچے لیٹا ڈرامے کے بارے سوچ رہا تھا تو مجھے آمنہ کی بات یاد ائی کہ اگر لڑکی کی موت پر کوئی نظم پس منظر میں اس آخری سین خو بھرے تو تاثر دوبالا ہوسکتا ہے۔ اوتھیلو۔ کے اختتام میں ہیرو کسی رقیب کی لگائی ہوئی شک کی آگ میں جھلس کر خود اپنے ہاتھوں سے ہیروئن کو گلا دبا کر ماردیتا ہے۔پل بھر کی نفرت کا غلبہ ساری عمر کی محبت کو نگل جاتا ہے مجھے یہ بات کھبی سمجھ نہی آئی کہ انسان کی برسوں کی محبت کا امارت گھڑی بھر میں نفرت کے کڑوے زہر میں کیسے تبدیل ہوجاتا ہے؟یا پھر شاید محبت اور نفرت دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں؟
جذبات کے بازاروں میں دونوں کا مول یکسا رہتا ہے؟مگر جب کسی انسان کو دوسرے سے نفرت ہو جاتی ہے تو وہ اس سے وابستہ چیزوں۔جگہوں۔یادوں اور دوسرے سے جڑے معمولات سے بھی کیوں نفرت کرنے لگتا ہے جس راستے پر کھبی دو پیار کرنےوالے ایک ساتھ چکے جاتے۔وہ راستہ کیوں ممنوعہ بن جاتا ہے وہ ایک بنچ جہاں کھبی وہ ساتھ بیٹھے تھے بارش میں گیلی سڑک کے کنارے کھڑا وہ گرم چائے والا جس کے ایک کپ میں ان دونوں نے ساتھ چائے پی تھی۔وہ کتابوں کی پرانی دوکان۔۔ پہلی ٹوٹی ہوئی چوڑی کا ٹکڑا۔۔ صفحوں میں رکھا وہ سوکھا گلاب۔وہ پرفیوم کی خالی شیشی۔اس کی دی ہوئی وہ آدھی بچی ہوئی لیپ اسٹک۔
ایک کھویا ہوا کف لنک۔ایک ساتھ دیکھی ہوئی فلم کا ٹکٹ
وہ فٹ ہاتھ پر بچھے ہوئے پتے جس پر پر کھبی ساتھ چرمراہٹ کی آواز سنی تھی۔وہ پرانا بس اسٹاپ۔23 نمبر کی وہ کھٹارا سے بس۔۔۔درخت کے نیچے کھڑا وہ لیموں پانی والا
بھلا ان سب چیزوں کا ان کی بدلتی محبت اور نفرت میں ڈھلتی اس کڑواہٹ سے کیا تعلق۔۔۔۔؟؟؟؟
ہم اس ایک شخص کی نفرت میں ان سب یادوں۔باتوں اور جگہوں کو کیوں شامل کر لیتے ہیں؟انسان کتنا ظالم ہے کہ معصوم یادوں سے بھی انتقام لینے سے باز نہیں رہتا ۔
ڈرامے والے دن ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور ساری یونیورسٹی اوتھیلو ڈرامے کو اردو میں جملے بولتے دیکھنے لے لیے جمع تھی۔ہیروئن کی آخری سانس نکلنے سے پہلے پس منظر میں میری نظم کے بول گونج اٹھتے ہیں ۔۔
سنو۔۔۔تمہاری وفا پر۔۔گرچہ پورا یقین ہے
مگر ۔۔۔بدلتی رتوں کے وارکا۔۔کچھ بھروسہ نہیں
سوگرکھبی ایسا ہو
تمہیں مجھ سے نفرت ہوجائے ۔۔
اور میری روح کی کومل پنکھڑیاں
تمہیں کسی ببول کے مانند چھبنے لگیں
تو بیتے دنوں کو یاد نہ کرنا
کی یادوں کا زہر۔۔۔ذخم بھرنے نہیں دیتا ۔۔
ہاں مگر دیکھوں۔۔۔
کھبی ان باتوں سے نفرت نہ کرنا
جو ہم نے گھنٹوں ایک ساتھ بیٹھ کر کی تھیں
کہ بات تو معصوم رابطہ ہوتی ہیں
اور کسی کم نصیب کی بے رطبی سے
ان باتوں کا کیا لینا دینا ۔۔۔۔۔۔؟؟
ڈرامے کے منظر میں اوتھیلو ہیروئن کے پاس پہنچا ہے رٹ ڈھل رہی ہے اور ہیروئن۔۔ڈیس ڈی مونا(DESDEMONA) سورہی ہے اوتھیلو آپنی محبوبہ کو جاتا ہے اور سرد لہجے میں ڈیس ڈی مونا سے کہتا ہے کہ وہ اپنی آخری دعا کر لے۔اوتھیلو کی محبوبہ کی آنکھ میں آنسوں بھر اتے ہیں اور وہ اپنے محبوب سے التجا کرتی ہے کہ وہ اسے آج رات جینے دے اور چاہے صبع مار ڈالے ۔۔مگر اوتھیلو کی آنکھ پر شک کے کالے ناگ کس کر پٹی باندھ چکے ہیں وہ ہیروئن سے کہتا ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی پس منظر نظم کے بول اوور لیپ ہو رہے ہیں۔۔۔۔
اور سنو میرے محبوب۔۔
کھبی ان رنگوں سے نفرت نہ کرنا
جو مجھے بہت اچھے لگتے تھے
کہ رنگ تو روح کو اجالتے ہیں
اور کسی کے مقدر کے اندھیروں سے
ان رنگوں کا کیا لینا دینا ۔۔۔؟
ڈیڈ ڈی مونا آخری مرتبہ اپنے محبوب اوتھیلو کو بھیگی پلکوں سے نظر بھر کر دیکھتی ہے۔اوتھیلو کے بھاری ہاتھوںکی انگلیاں اس کی نازک شہہ رگ کو دبانا شروع کردیتی ہے لڑکی سانس گھٹنے ہی وجہ سے تڑپتی ہےاور بستر کی چادر نیچے گرتی ہے ۔۔۔
اے میری وفا کے مالک
کھبی ان نظاروں سے نفرت نہ کرنا
جو ہم نے ایک ساتھ دیکھے تھے
کہ نظارے تو قدرت کا حسن ہوتے ہیں
اور کسی حرماں نصیب کی بدصورت یادوں سے
ان نظاروں کا کیا لینا دینا۔۔۔۔۔؟
اوتھیلو کی مضبوط گرفت میں اس کی محبوبہ کا دم تیزی سے بند ہورہا ہے اور وہ بن پانی مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کر جان دے رہی ہے۔اوتھیلو کی آنکھیں وحشت سے باہر کو بال رہی ہیں اور وہ پوری قوت سے اپنی جان سے پیاری
ڈیس ڈی مونا کا گلا گھونٹ رہا تھا تکلیف کی شدت سے اس کی محبوبہ کی انگلیوں کے ناخن اوتھیلو کے بازوں کی رگوں میں میں پیوست ہوئے جارہے ہیں لڑکی کا نازک بدن آخری مرتبہ زور سے کانپا۔۔
میرے ہم نفس۔۔۔میری جان
بس مجھ سے
اور صرف مجھ سے نفرت کرنا
کہ میری روح کی سیاہی سے ہی
یہ چار سو اندھیرا ہے
میری بدصورتی سے ہی
ہر رنگ پھیکا ہے
ہر منظر ویران ہے
ہر بات بے رابطہ اور جھوٹی ہے
ہر بے وفائی۔۔۔میرے نام ہے
سو بس مجھ ہی نفرت کرنا
کہ صرف میں ۔۔۔۔
اور فقط میں ہی ۔۔۔
تمہاری اس نفرت کے قابل ہوں ۔۔۔
اوتھیلو کی محبوبہ اپنے محبوب کی گرفت میں تڑپ کر آخری ہچکی لیتی ہے اور اس کی روح قفس عنصری اے پرواز کر جاتی ہے مگر مرتے مرتے بھی اس کی بے جان کھلی آنکھیں اپنے پیارے اوتھیلو کو ہی دیکھ رہی ہوتی ہیں لڑکی کا محبوب اس کا قاتل اوتھیلو آپنی محبوبہ کا سر گود میں لیے بیٹھا رورہا تھا اسٹیج کا پردہ گرجاتا ہے ڈرامہ ختم ہونے کہ بعد چند لمحے سارے ہال میں سناٹا سا چھایا رہا اور پھر تالیوں کی گونج سے وہ شور مچا کے تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا آمنہ راتوں رات سارے شہر کی یونیورسٹیوں میں مقبول ہو چکی تھی ڈرامے کی کامیابی کی خوشی میں اس نے اپنے گھر میں ایک پارٹی رکھی اور ہم سب خو تاکید کے ساتھ دعوت دی۔میں نہیں جانا چاہتا تھا مگر اس نے میری ایک نہیں سنی اور مجھے مجبور اس شام وہاں جانا ہی پڑا۔
گھر گیا تھا پورا محل تھا مغربی طرز کا ایک وسیع و عریض پھولوں بھرا باغیچہ خس لے درمیان ہو یوں کے گھر جیسی ایک شاندار عمارت کھڑی تھی پچھلی جانب سوئمنگ پول تھا اور پارٹی کا بندوبست وہیں کیا گیا تھا موسیقی کا اہتمام بھی تھا اور جدید اصطلاح کہے جانے والی ڈی۔جیز لڑکے لڑکیاں کی فرمائش پر دھنیں بدل بدل کر بجا رہے تھے
آمنہ کہیں سے اپنی ماں کو کھینچتی ہوئی لے آئی اور میرا تعارف کروایا قیمتی ساڑھی میں ملبوس سونے اور ہیرے سے لدی پھندی اس عورت نے مجھے غور اور ہونٹ سکیڑ کر کہا خوب۔۔۔تو یہ ہے پری زاد۔۔۔۔۔؟انٹرسٹنگ
میرا جی چاہا امنہ کے کان میں دھیرے سے کہوں کہ ایسے جانے کتنے منظر میں اردو فلموں میں دیکھ چکا ہوں جہاں امیروں کی محفل میں غریب کو اس کی حثیت یاد دلائی جاتی ہے پھر مجھے خود اپنی سوچ پر ہنسی آگئی۔اتنے میرے عقب سے ایک بہکی آواز بلند ہوئی۔۔
اخاہ۔۔۔تو یہ ہیں مسٹر پری زاد۔۔۔؟جن کی شاعری اور ڈرامے
ڈب کے گئی تھی بھئی واہ آمنہ۔۔۔۔کیا اداکاری کی تھی تم نے
میں نے پلٹ کر دیکھا۔ایک پکی عمر کا موٹا سا شخص آہستہ آہستہ ڈگمگاتے قدموں سے ہماری جانب چکا آرہا تھا آمنہ نے تعارف کروایا کی یہ سیٹھ عابد ہیں۔ان کے خاندانی دوست وہ شخص آمنہ سے کافی حد تک بے تکلف ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ پھر یہ نشے کا کمال تھا۔میں ایک جانب ہٹ کر کھڑا ہوگیا تاکہ امنہ کو فرصت ملے تو میں اس سے اجازت لے کر وہاں سے نکل جاوں سیٹھ عابد کھانا لے کر پلٹا تو اس کی نظر پھر مجھ پر پڑ گئی اور وہ میری طرف چلا آیا۔۔
اور جناب۔۔کیا مصروفیت ہے آج کل۔۔دراصل میں خود بھی چھوٹا موٹا شاعر ہوں ۔۔۔
اور چاہتا کہ جلدی میری کتاب بھی میرے مداحوں کی پیاس بجھانے کے لیے شائع ہوجائے۔۔۔مگر کیا کروں یہ کاروبار کا دھندا ہی جان نہیں چھوڑتا ۔۔
سیٹھ عابد نے وہی کھڑے کھڑے آپنی دو چار غزلیں مجھے سنائیں جنہیں سن کر میں نے شکر کیا کی اس کی کتاب ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔سیٹھ عابد اپنی دھن میں مگن بولے جارہے تھا ۔آمنہ تمہاری شاعری کی بڑی تعریف کرتی ہے میں چاہتا ہوں تم میری شاعری کی نوک پلک سنوار کر اسے بھی ایسا بنا دو کہ وہ آمنہ کے معیار پر پورا اتر جائے
میں نے حیرت سے سیٹھ عابد کی طرف دیکھا صاف ظاہر تھاکہ وہ چاہتا تھا کہ میں اپنی شاعری اس کی کتاب کے لیے اسے دے دوں۔سیٹھ عابد نے میری آنکھوں میں جھانکا
اور اس کام کے لیے میں تمہیں ایک خطیر رقم دینے کو تیار ہوں۔آمنہ بتارہی تھی کہ تم ٹیوشنز پڑھا کر اپنی کا خرچہ پورا کرتے ہو۔۔۔میں اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکا ۔
معاف کیجیئے گا عابد صاحب۔۔۔زندگی میں ہر چیز بکاو نہیں ہوتی عابد طنزیہ انداز میں مسکرایا۔ غلط ۔۔۔اج کل سب بکاوں مال ہے اور جس محل میں آج تم کھڑے ہو۔ان امراء کے لیے یہ شاعری۔یہ خوبصورت لفظ ان کی ایک شام بہلانے کے کام آسکتے ہیں مگر اس زیادہ نہ ان کے پاس وقت ہوتا ہے نہ فرصت کہ وہ روزانہ تمہیں بلا کر تمہارے فن سے محفوظ ہوسکیں۔میں پھر بھی تمہارے الفاظ تمہاری سوچ اور تمہارے خیالات کی بہت اچھی قیمت لگا رہا ہوں وقت ملے تو ٹھنڈے دل سے سوچ لینا میں نے بڑے بڑے قلم کاروں کی مسودے ردی کے بھاو بکتے دیکھا ہیں ۔۔
میں نے آمنہ سے اجازت لےکر واپس چلا آیا جب انسان کے پاس دولت کی بہتات ہوتو اس کے اندر کا کباڑیاں کیوں جاگ جاتا ہے؟کیا یہ سبھی امیر ایک جیسے ہوتے ہیں؟مگر آمنہ تو ان جیسی نہیں ہے۔میں ہمیشہ اس کی آنکھیں میں اپنے لفظوں کے لیے خاص احترام دیکھا تھا میرا بولا دل ایک بار پھر راہ بھٹکنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔اگلے دن امنہ نے مجھے یونیورسٹی میں چپ اور اداس دیکھا تو سے لگا کہ میں گزشتہ شام اس کی ماں کے سلوک سے دل برداشتہ ہوں اس نے مجھ سے معذرت کی مگر میں نے اسے تسلی دی کہ میں اس سلوک کا عادی ہوں مگر آمنہ کی سیاہ جھیل سی آنکھوں میں اداسی اتر آئی مجبورا اس کے دل بہلانے کے لیے مجھے فلموں والی مثال دھرانی پڑی کہ اس کی پارٹی میں آنے سے پہلے میں نے درجن بھر فلمیں دیکھ کر خود کو پہلے ہی ذہنی طور پر تیار کر لیا تھا۔البتہ بس ایک کمی رہ گئی کہ وہاں کوئی بڑا سا پیانو نہیں پڑا ہوا تھا۔جس پر بیٹھ کر ایسی سچویشن میں غریب لڑکا کا ہیروئن کے لیے گانا گاتا ہے میری بات سن کر آمنہ زور سے ہنس پڑی یو لگا جیسے تیر بارش میں دھوپ نکل آئی ہو مگر میں آمنہ سے چاہتے ہوے بھی یہ نہیں کہہ پایا کہ فلموں میں پیانو پر گانے والا ہیرو ہوتا ہے جو مردانہ وجاہت اور خوبصورتی سے مالا مال ہوتا ہے جبکہ میں اگر پیانو پر گانے کے لیے بیٹھ بھی جاتا تو میری وجہ سے سارا منظر دھندلا ہوجاتا جب چہرہ ہی دھول سے اٹا ہوتو آئینہ کیا کرے؟اور پھر چند دن بعد آمنہ آنے اچانک یونیورسٹی آنا بند کردیا میں نے اس کے سب دوستوں سے پوچھا مگر کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا آخر پانچویں دن دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے بنگلے کے دروازے تک پہنچ گیا چوکیدار نے آمنہ کے نام پر مجھے گھر کے لان تک پہنچا دیا لان میں لگے سنگ مرمر کے بڑے فوارے کے پاس آمنہ کی ماں کو بیٹھے دیکھ کر میرے قدم اٹکنے لگے دوسرا جھٹکا مجھے آمنہ کی ماں کی انگلیوں میں پکڑے سگریٹ کو دیکھ کر لگا اس نے غور سے میری طرف دیکھا اور سگریٹ کی راکھ جھاڑ کر بولی ۔
آمنہ سے ملنے آئے ہو۔۔۔
میں نے سر پٹا کر جواب دیا۔جی۔۔۔۔۔
آمنہ کی ماں نے میری آنکھوں میں جھانکا ۔محبت کرتے ہو میری بیٹی سے۔۔۔۔؟
مجھے لگا جیسے کسی نے میری قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو آمنہ کی ماں کی آنکھیں مجھے اپنے جسم سے پار ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں ۔
آمنہ کی ماں کی بات سن کر چند لمحے کے لیے گنگ ہی رہ گیا وہ مجھے غور سے دیکھتی ہوئی۔بولیں جواب دو۔۔۔کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟۔۔تمہارے چہرے پر صاف لکھا ہے کہ تم آمنہ سے محبت کرتے ہو۔۔۔۔اس کی شدید محبت میں مبتلا ہو۔۔میں کوئی جواب نہ دے سکا۔پھر شاید انہی کو میری حالت پر ترس آگیا۔اندر چلے جاوں۔وہ ڈائینگ روم میں آچکی ہوگی۔۔۔۔میں تیز قدم اٹھاتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گیا آمنہ ڈائینگ روم کی کھڑکی کے قریب اداس کھڑی تھی۔مجھے دیکھ کر وہ ایک پھیکی سی مسکراہٹ مسکرائی۔
آو پری زاد۔۔۔۔کیسے ہو؟
میں چھوٹتے ہی سوال پوچھا۔آپ اتنے دن سے یونیورسٹی کیوں نہیں آئیں ۔۔سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔
آمنہ نے میری طرف دیکھنے سے گریز کیا۔ہاں۔۔۔میں نے یونیورسٹی چھوڑ دی ہے ممانے شادی طے کردی ہے ۔۔۔۔۔
میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔شادی؟یو اچانک۔۔۔؟
مگر کس کے ساتھ۔۔۔؟سیٹھ عابد کےساتھ۔۔میری شادی عابد کے ساتھ ہورہی ہے یہ میرے لیے دوسرا جھٹکا تھا۔
سیٹھ عابد کے ساتھ۔۔۔مگر آپ اور وہ۔۔۔؟ میرا مطلب ہے آپ کی لیے اس شخص سے کہیں زیادہ بہتر انتخاب موجود تھے
میں نے حسام کو بھی آپ کے بہت قریب دیکھا ہے۔۔۔پھر بھی یہ سیٹھ عابد ۔۔۔۔؟؟؟؟
آمنہ کی پلکیں نم ہونے لگیں۔بات میرے انتخاب کی نہیں
پری زاد۔۔۔
اونچی بول کی ہے۔
جو میرے لیے اونچی بولی لگائے گا میرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا دیا جائے گا سیٹھ عابد کی بولی پندرہ کروڑ کی تھی میری نیلامی میں اس سے اونچی بولی کسی اور نے نہیں دی۔لہذا مجھے عابد کے نام کر دیا گیا ۔مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں بول پڑا۔بولی کسی اور نے نہیں دی
بولی طوائفوں کی لگتی ہے آمنہ جی ۔۔۔
شریف گھرانوں کی لڑکیاں رخصت ہوتی ہیں عزت کے ساتھ ۔۔۔۔




قسط 6
آمنہ کی آنکھ سے آنسوں ٹپک۔ٹھیک کہہ رہی ہو میں۔۔۔۔اب میں یونیورسٹی نہیں آو گی پری زاد۔۔پندرہ دن کے بعد میری وہ دکھانے کے لیے وہ رسم بھی ہوجائے گی جسے یہاں رخصتی کہتے ہیں۔۔آمنہ کی آنکھیں اب باقاعدہ بتانے لگی تھی تم سوچ رہے ہو گے یہ عالی شان گھر یہ رہن سہن آو میری اعلی تعلیم یہ سب کا طرف اشارہ کرتے ہیں یہ سب دکھاوا ہے پری زاد ہماری شان و شوکت انہی سیٹھ عابد جیسے لوگوں کے دم سے قائم ہے جسے کھبی لوگ بازار حسن کہا کرتے تھے اب وہ بازار کسی خاص علاقے تک محدود نہیں رہا پھیل کر شہر کی ان اونچی اور اعلی سطحوں تک پہنچ گیا ہے جیسے میں اپنی ماں کہتی ہوں پتہ نہیں وہ میری سگی ماں ہے بھی یہ نہیں یہ بھی اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے آپنی تعلیم کا شوق پورا کرنے دیا یا شاید یہ بھی بازار میں بولی بڑھانے کا ایک کار آمد نسخہ ہوگا
آخر سیٹھ عابد کا دل بھر جانے تک مجھے معاشرے میں اس کی بیوی کے طور پر ہی تو اس کے ساتھ چکنا ہوگا آمنہ بولتے بولتے چپ ہوگئی میرے پاس اب کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا میں نے واپسی کے لیے قدم اٹھائے تو عقب سے آمنہ کی آواز آئی میں نے تمہیں یہ سب کچھ اس لیے بتایا ہے کہ پری زاد کیونکہ تم ایک سچے دوست ہو۔۔
میں نے پلٹ کر سر جھکائے سیاہ لباس میں ملبوس ڈھلتی سر نئی شام جیسی آمنہ کے وجود کو آخری بار آپنی دکھتی آنکھوں کے آئینے میں سمویا۔اس کے گلابی عارض آنسووں سے ایسے ڈھل گئے تھے جیسے تیز بارش کے بعد اچانک شام کو جب بادل چھٹ جاتے ہیں تو افق پر لالی ایک آگ سی لگا دیتی ہے ۔۔۔
آمنہ کاش میرے پاس پندرہ کروڑ ہوتے تو میں آپ کو خرید کر آزاد کر دیتا مگر آپ تو جانتی ہیں کہ زندگی کی اصل فلم میں لڑکے کے پاس لڑکی کے ماں باپ کو ادا کرنے کے لیے کھبی پیسے انہیں ہوتے۔۔۔وہ تو بس کیسی اور کے خریدے گئے پیانو پر بیٹھ کر جدائی کا گانا ہی گا سکتا ہے ۔۔۔۔
آمنہ کے ہونٹوں پر میری بات سن کر ذرا دیر کے لیے ایک ہلکی سی مسکان ابھری اور میں اس کی وہی آخری مدھ مسکان بھرا چہرہ آپنی آنکھوں میں لیے ایک جھٹکے سے وہاں سے نکل گیا لان میں فوارے کے قریب کرسی ڈالے امنہ کی ماں ابھی تک بیٹھی فون پر کسی سے بات کر رہی تھی مجھے واپس جاتے دیکھ کر انہوں نے فون کاٹ دیا اور ان کی کاروباری آواز نے میرے قدم جکڑ لیے۔۔۔۔
سنو لڑکے۔۔میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔زندگی میں کچھ حاصل کرنا چاہو رو آپنی میں اس کے دام ضرور رکھا کرو ۔۔شاید اس وقت میں تمہاری نظر میں کوئی بہت بری عورت ہوں مگر تمہیں ایک پتے کی بات بتا رہی ہوں۔مرد کی شکل اور شخصیت کوئی نہیں دیکھتا سب اس کا رتبہ اور عہدہ پرکھتے ہیں دولت مرد کے عیب پر خامی پر پردہ ڈال دیتی ہے آئیندہ زندگی میں کچھ پانا چاہو تو میری ہمیشہ یاد رکھنا۔۔
پندرہ دن بعد شہر کے تمام بڑے اخباروں میں ملک معروف صنعت کار سیٹھ عابد کی دوسری شادی کی خبریں نمایا طور پر شائع ہوئیں خبر کو عنوان تھا ۔ایم اے انگلش کی آمنہ اور سیٹھ عابد کی ذہنی ہم آہنگی آخر کا خوبصورت رشتے میں تبدیل نیا شادی شدہ جوڑا ہنی مون کے لیے سوئزر لینڈ روانہ ۔۔۔
آمنہ عابد نے ایئرپورٹ پر صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں واپسی پر ایک میڈیا سٹی کے منصوبے کے آغاز کا اعلان کردیا۔
میں نے بے زاری سے اخبارات یونیورسٹی لائبریری کی میز پر پٹخ دئیے ٹھیک ہی کہا تھا آمنہ کی ماں نے۔سارا کھیل پیسے کا ہے یہ سوچ لفظ اعلی خیالات اور ادب دفن۔۔۔یہ سب کسی کام کے نہیں جب تک انسان کی جیب میں دھیلا نہ ہو اور دمڑی پاس ہو تو پھر سارا میلہ ہی اپنا ہے میں اپنے خیالات میں الجھا ہوا چھت سے نیچے اترا تو صحن میں دونوں بڑے بھائی اور بھابھیاں استقبال کے لیے تیار کھڑے تھے
ہاں میاں۔۔اور کتنی چلے گی تمہاری پڑھائی ۔۔۔؟گھر کے خرچوں کا بھی کچھ اندازہ بھی ہے تمہیں ۔۔؟
اب تمہاری ان شام کی دو ٹیوشنوں میں گزارہ نہیں ہونے کا
دوسرے بولے۔میں تو کہتا ہوں کہ پڑھ کر تم نے کون سا کہیں کلکٹر لگ جانا ہے وہی کلرکی ہوگی اور وہی مہینہ بھر کے پانچ سات ہزار ۔۔
بھابھی نے مشورہ دیا۔میرئ مانو تو کل کوئی وقتی ملازمت پکڑ لو۔۔بھئی سچ تو یہ ہے کہ اب ہمارے بچوں کے خرچے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ہمیں خود اپنے منہ سے کہتے شرم آتی ہے تمہارے عمر کے محلے کے سب لڑکے نوکریوں پر لگ کر اپنا گھر چلا رہے ہیں ۔۔
میرے لیے ان کے یہ جمعلے کچھ نئے نہیں تھے ہفتے میں ایک آدھ بار یہ قسط وار سیریل ضرور چلتا تھا مگر آج ناجانے کیوں میرا دل پہلے ہی اتنا بھرا ہوا تھا کہ میں نہ چاہتے ہوے بھی تلخ لہجے میں ان سب سے کہہ دیا کہ اگر اس گھر کا کاروبار میری کمائی کی وجہ سے روکا ہوا ہے تو میں کوشش کرو گا کہ اسی ماہ کوئی نوکری یا کوئی مزدوری پکڑ کر ان اب کے منہ بند کردوں گھر سے نکلنے کے بعد میرے قدم یونیورسٹی کی بس پکڑنے کے لیے بس اسٹاپ کی جانب بڑھنے کی بجائے کسی انجان سمت بڑھ گئے گھر والے بھی ٹھیک ہی کہتے تھے ڈگری مل جانے کے بعد مجھے جیسے ناجانے کتنے نوکری سالوں بوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور پھر انٹرویو۔۔۔جو کسی بھی نوکری کا لازمی جزو ہوتا ہے اس کے لیے اچھی شخصیت کا ہونا بھی کھبی کھبی شرط اول بن جاتا ہے اور میری شخصیت۔۔؟مجھے تو شاید کوئی بڑی فرم یا دفتر انٹرویو کے لیے طلب ہی نا کرے مگر نوکری یا کام ملنے کے لیے میرے پاس کوئی ہنر بھی تو نہیں تھا مجھے یاد آیا کہ محلہ کا ایک لڑکا شوکی بچپن ہی سے کسی ویلڈینگ گیراج پر مزدوری پر لگ گیا تھا اور اس کی ماں کے بقول ہر ماہ ایک معقول رقم گھر والوں کے ہاتھ پہ لا کے رکھتا ہے میں نے سوچ لیا تھا کے فائنل کے ہونے والے امتحانات جو اگلے ماہ شروع ہورہے تھے ان کی تیاری میں مزید وقت ضائع نہیں کرو گا اور آج گھر جانے سے پہلے کوئی نہ کوئی کام ضرور ڈھونڈ کر پلاٹوں گا شوکی کے گیراج کا پتہ مجھے معلوم تھا میں نے گیراج کے گیٹ پر پہنچ کر سامنے کام کرتے لڑکے سے شوکی کے بارے میں پوچھا لڑکا شوکی کو بلانے اندر چلا گیا میں نے اس پاس نظر دوڑائی گیراج کے گیٹ کے اوپر ایک بورڈ پر بڑا بڑا استاد مستانہ ویلڈینگ گیراج لکھا ہوا تھا۔کچھ ہی دیر میں شوکی نمودار ہوا اور مجھے گیٹ پر کھڑے دیکھ کر گرم جوشی سے آگے بڑھ کر مجھے ملا۔
ارے۔۔۔پری زاد بھائی آپ۔۔۔۔یہاں ۔۔۔سب خیر تو ہے۔۔۔۔؟
میں نے ایک لمبی سانس بھری۔ہاں۔۔۔سب خیر ہے ۔۔۔مجھے تمہارے گیراج میں کوئی کام مل سکتا ہے کیا۔۔؟مجھے کام کی تلاش ہے ۔شوکی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
آپ۔۔۔یہاں کام کریں گے مگر آپ تو پڑھے لکھے ہو پری بھائی
میں نے شوکی کو ٹوٹے پھوٹے میں سمجھانے کی کوشش کی کی نوکری اب میری ضرورت سے بڑھ کر مجبوری بن چکی ہے اتنے میں کرتے شلوار میں ملبوس اوپر سیاہ واسکٹ پہنے کانوں میں موتیے کا پھول سجائے ایک شخص باہر سے اندر داخل ہوا جس کے تیل میں چیڑے بال ایک جانب سلیقے سے کڑھے ہوئے تھے ہونٹوں پر پان کی لالی اور پتلی دار مونچھیں دونوں جانب سے اوپر اٹھی ہوئی تھیں اس نے شوکی کے سلام کے جواب میں مجھے غور سے دیکھا اور دھیرے اے گنگناتے ہوئے بولا وہ آئے ہیں ہمارے گھر میں خدا کی قدرت ہے میاں شوکی۔۔۔یہ حضرت کون ہیں ۔۔
شوکی نے جلدی سے میرا تعارف کروایا یہ پری زاد بھائی ہیں استاد جی میرے محلے رہتے ہیں اور کسی کام کی تلاش میں ہیں استاد مستانے پر بھی میرے نام کا وہی اثر ہوا جس کا ہمیشہ سے عادی تھا۔میں نے ڈر پیش آنے والی بحث کو مختصر کرنے کی غرض سے بولنے میں پہل کی
اگر میری صورت اور میری تعلیم آپ کی راہ میں حائل نہ ہو تو کیا آپ مجھے کوئی کام دے سکتے ہیں۔۔۔۔؟
میں بہت محنت کرو گا اور جلدی ہی سیکھ جاوں گا۔۔۔۔
استاد مستانہ میری سن کر ایک دم سنجیدہ ہوگیا
معاف کرنا میاں۔۔۔۔شاید تم برا مان گئے میرا مقصد تمہارا دل دکھانا ہرگز نہیں تھا۔کیا کرتے ہو۔۔۔؟
میرے بولنے سے پہلے شوکی بول اٹھا پری زاد بھائی پڑھتے ہیں استاد استاد نے میری طرف غور سے دیکھا لگتا ہے کوئی بہت بڑی مجبوری ہے ؟؟
ہاں ایساں ہی سمجھ لیجیئے ۔۔۔
مستانے استاد نے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی ٹھیک ہے میاں کب سے کام پر آنا چاہتے ہو۔۔؟فی الحال تمہیں دیہاڑی پر رکھ سکتا ہو ۔۔
میں نے آستین چڑھالیں۔آج سے ہی استاد ۔۔۔۔
دیر گئے رات میں گھر پہنچا تو تو حسب معمول میرا انتظار کئے بنا سب سو چکے تھے۔میں نے آپنی زندگی کی پہلی مزدوری کی دیہاڑی کے روپے برآمدے میں پڑی بولی پر رکھ دئیے اور صبع سویرے منہ اندھیرے پھر دے آٹھ کر گیراج چلا گیا۔استاد مستانہ اپنے مزاج کا ایک الگ بندہ تھا۔فلموں میں کام کرنے کا شوق اسے لڑکپن میں ہی اس کے گاوں سے شہر تک کھینچ لایا تھا لیکن قسمت نے اداکار کی بجائےمستری بنا ڈالا۔مگر اس کے اندر کا فنکار ابھی تک زندہ تھا اور مستانہ ابھی تک ہر نئی فلم کا پہلا شو پہلے دن دیکھنے کا قائل تھا اور پھر فلم شو سے واپسی پر گھنٹوں اس کے تبصرے جاری رہتے۔
کیا خاک ایکٹنگ کی ہیرو نے۔۔ہاں قلم نے پھر بھی کچھ رنگ جمایا ۔۔نہ میاں۔۔۔موسیقی کا تو بیڑا غرق ہی کردیا اس نئی لڑکوں نے۔۔۔اور شاعری بھی کیا بے ہودہ اور بکواس ہوگئی۔۔
تو گلا کا باپ۔۔۔میں فلا کا بیٹا ۔۔بھلا یہ بھی کوئی شاعری ہے
شاعری تو تب ہوا کرتی تھی ۔۔۔۔
جائیے آپ کہاں جائیں گے
یہ نظر کے پھر آئے گی
تیرے میرے سپنے اب تک رنگ ہیں
عجیب داستان ہے
کہاں شروع کہاں ختم واہ واہ کیا بات تھی اس شاعری کی۔
استاد نشانی گھنٹوں بولتا رہتا اور ہم سارے شاگرد چپ چاپ اس کے تبصرے سنتے رہتے مجھے استاد نے ویلڈینگ پلانٹ پر بیٹھے ایک طویل لیکچر دیا ۔۔
دیکھوں میاں۔۔یہ جو آگ کی چنگاریاں ہیں یہ آج سے تمہارے لیے پھول کلیاں اور پھل جھڑیاں ہیں یہ ایک آدھ دن میں ہی تمہارے لباس میں ہزار ننھے ننھے شگاف ڈال دیں گی تمہارے ہاتھوں اور جسم کے کھلے حصوں پر انگارکی طرح برس کر تمہارے سارے جسم کو داغ دار کر دیں کے شروع شروع میں کافی جلن بھی ہو گی مگر پھر دھیرے دھیرے یہ آگ تمہاری دوست بن جائے گی اور تمہیں ان چنگاریوں کی عادت اور طلب پڑ جائے گی۔اگ کے ان جگنووں سے جتنی جلدی آشنائی ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ان سے بچنے کی کوشش کرو گے تو کام نہیں سیکھ سکو گے۔
اب میں استاد کو کیا بتاتا کی جو پہلے ہی جل کے راکھ ہو چکے ہوں۔۔ان کو بھلا یہ بھڑکتی آگ کیا بگاڑے گی۔۔؟
اور پھر جلن کے احساس زندہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔مجھ جیسے بے حسوں کے لیے کیا چنگاری اور کیا پھل جھڑی؟یونیورسٹی کے فائنل امتحان میں بھی میں نے جیسے تیسے کر کے دے ہی ڈالا حلاناکہ اب مجھے ڈگری سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔انہیں دنوں میرے ہم جماعتوں نے مجھے بتایا کے یونیورسٹی کے سالانہ رسالے منگوالیا اور ایک دن گیراج میں بیٹھا میں اس رسالے کا ورق گردانی کر رہا تھا کہ استاد نے مجھے دیکھ لیا اور میرے ہاتھ سے رسالہ جھپٹ کر اس کرسی پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالتے ہی اس کی آنکھیں پھیل گئی۔
ارے واہ میاں۔۔تم تو شاعر بھی یو۔۔بھئی کمال ہے۔۔
بتایا کیوں نہیں پہلے ۔۔؟میں نظریں چرا گیا۔اس میں بتانےلائق کیا تھا بھلا ۔۔۔؟کیا مطلب تم شاعری کو معمولی بات سمجھتے ہو۔۔۔مجھ جیسوں سے اس کی قدر پوچھو میاں۔۔۔واہ۔۔کیا رچاو ہے تمہارے لفظوں میں ۔۔ہم وزن۔۔۔
ہر مقطع مصرعے سے بڑھ کر استاد نے وہیں باہر سردیوں کی ڈھلتی دھوپ میں کرسی ڈلوائی اور سورج ڈوبنے سے قبل وہ سب کچھ حفظ کر چکا تھا۔میں بہت دیر سے لوہے کے ایک پڑئ نما ٹکڑے کا کاٹنے کی تگ ورد میں الجھا ہوا تھا مگر اس دن ایسا لگ رہا تھا جیسے شعلے کو بھی مجھ سے کوئی بیر ہوگیا ہو۔جب انسان کا وقت بڑا ہو تو ہر چیز تاثیر کھو دیتی ہے۔شبنم آگ اگلنےلگی ہے اور شعلے سرد پڑ جاتے ہیں۔استاد مجھے بہت دیر تک اس سرد چنگاری سے فولاد کاٹنے کی لا حاصل سعی کرتے دیکھتا رہا اور پھر اٹھ کر میرے قریب گیا۔کھبی کھبی تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے
پری زاد میاں۔۔کیوں اپنی جوانی ان شعلوں میں راکھ کر رہے ہو۔آخر ایسی کیا مجبوری ہے تمہاری ۔۔۔؟؟؟؟
میں نے مستانہ استاد کی آنکھوں میں جھانکا۔پیسہ۔مجھے لگتا ہے میرئ ہر کمزوری ہر عیب اور ہر ناکامی کا علاج صرف پیسہ ہے استاد۔اور مجھے زندگی میں بہت سارا پیسہ کمانا ہے۔۔استاد نے بے چارگی سے میری طرف دیکھا پر اس روزانہ کی مزدوری سے تم کتنا کما سکو گے۔۔دن رات محنت کرو تب بھی مہینے کے آخر میں تمہارے ہاتھ میں پندرہ بیس ہزار سے زیادہ کچھ نہیں آئے گا۔البتہ چند سالوں کے اندر تمہاری جوانی ضرور گھل چکی ہوگی اور تمہاری نظر جواب دے جائے گی ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہو چکا ہو گا اور انگلیاں جل مر کوئلہ ہو چکی ہونگی ۔میں بے بس ہار کر بولا تو پھر میں کیا کروں۔۔۔مجھے پیسہ کمانا ہے استاد بہت زیادہ اتنا زیادہ کے کہ اس چمک سے میرا وجود کا ہر داغ ہر عیب چھپ جائے اگر تم پیسہ کمانے چاہتے ہو تو دبئی چلے جاو وہاں اس ہنر کی بہت مانگ ہے اگر قسمت نے ساتھ دیا تو چند سالوں میں کافی کماں لو گئے۔۔کم از کم اپنا گیراج تو کھول سکوں گئے ۔۔۔۔
میں نے استاد سے یہ نہیں کہہ پایا میں صرف ایک گیراج نہیں یہ پورا شہر خریدنا چاہتا ہوں استاد۔۔کیا تم مجھے دوبئی بھجواسکتے ہو کسی طرح۔۔۔؟؟؟
دوبئی جانا آسان نہیں ہے میاں۔ویزہ۔ٹکٹ اور قدم جمانے کے لیے تین چار ماہ کے قیام پر پانچ لاکھ روپے تو لگ ہی جائے گا اور پھر آگے تمہاری قسمت کی تمہیں لمبے عرصے کے لیے کفیل ملتا ہے کہ نہیں۔۔
اگلا پورا ہفتہ میں یہی سوچتا رہا کی ہماری زندگی کے ہر فیصلے کا مقدر کاغذ کے ان چند ٹکڑوں سے ہی کیوں جڑا ہوا رہتا ہے ۔۔؟لوہے کے پرانے صندوق سے سردیوں کے کپڑے ڈھونڈتے ہوئے میں ایسی ہی سوچ میں گم تھا کہ اچانک میری نظر کالج یونیورسٹی دور لکھی گئی شاعری کے رجسٹر پر پڑی کھبی میرا خواب تھا کہ میری شاعری کا مجموعہ بھی بازار میں ائے اور میری کتاب کی پذیرائی میں شہر کے دانش ارشاد میں منعقد کریں اور مجھے بھی لوگوں کے جھگھٹے میں سراہا جائے رجسٹر کے ورق پلٹتے ہوئے میری پلکیں بھیگنے لگی کھبی کھبی مجھے یو محسوس ہوتا تھا جیسے ہمارے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کا رشتہ باقی جسم سے کسی سوتیلے جیسا ہوتا ہے سارا جسم اور اعضاعہ جب ایک دوسرے کے ساتھ تال میل میں جڑے رہتے ہیں تب یہ سوتیلا تنہا اور اداس کسی روٹھے بچے کی طرح دور بیٹھا کسی اور ہی دنیا میں گم ہوتا ہے رجسٹر میں لکھی شاعری بھی کسی ایسے ہی سوتیلے اور روٹھے ہوئے بچے کی باتوں جیسی تھی اگلے روز میں عابد گروپ آف کمپنیز کے گیٹ پہ کھڑا تھا پہلے تو چوکیدار نے میرا حلیہ دیکھتے ہی مجھے صاف منع کردیا مگر جب میں نے اپنے نام کی پرچی انگریزی میں لکھ کر اس کے حوالے کی کہ وہ ایک بار اندر اسقبالئے پر جاکر اسے اندر بھجوادے اگر انکار ہوا تو میں گیٹ سے ہی واپس لوٹ جاوں گا تو چند لمحے سوچنے کے بعد وہ اندر چکا گیا۔مجھے اندر بھلا لیا گیا اور گھنٹہ بھر انتظار کے بعد میں سیٹھ عابد کے دفتر میں اس کے سامنے کھڑا تھا سیٹھ عبد نے سگار کا ایک لمبا سا کش لیا اور طنزیہ انداز میں بولے۔۔کیوں میں نے کہاں تھا نا۔۔۔اس دنیا میں ہر چیز بکاو ہے بس ٹھیک قیمت لگانے والا ہونا چاہیے
تو بولو۔۔۔کتنی قیمت رکھی ہے تم نے آپنی اس شاعری کی ۔۔۔
میں نے اپنا رجسٹر اس کے سامنے میز پر رکھ دیا۔مجھے دوبئی کا ٹکٹ اور ویزے ک خرچہ چاہیے گر آپ دے سکیں تو۔
سیٹھ عابد نے رجسٹر اٹھا کر کسی دوکان دار کی طرح پہلے تعلق اور پھر ورق گردانی کی۔تم ہو کہ شاعری میری کمزوری ہے مگر پھر بھی دو صفحات کی یہ قیمت بہت زیادہ ہے۔۔۔
میں نے اس کباڑئیے کو غور سے دیکھا آپ چاہیں تو بطور قرض مجھے یہ رقم دے دیں اور اسٹامپ لکھوالیں کی میں کسی خاص مدت کے بعد آپ کو یہ پیسے واپس لوٹا دو گا شاعری البتہ ہمیشہ کے لیے آپ کی ہی رہے گی۔۔
قسط 7
سیٹھ عابد کے ہونٹوں پر جمی طنزیہ یہ مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔واپس لوٹا بھی سکو گئے یا دوبئی جا کر غائب ہو جاو گے۔۔۔؟چلو ٹھیک ہے۔میرا سیکٹری تم سے شاعری کے حقوق کئ بارے میں کچھ دستاویزات پر دستخط کروالے گا تمہارا دوبئی کا ٹکٹ اور ویزہ میرے ذمے رہا۔
میں واپسی کے لیے پلٹ کر دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ اس کی آواز دوبارہ سنائی دی۔آمنہ اب کھبی کھبی تمہاری شاعری کی تعریف کرتی ہے۔مجھے امید ہے تم اس رجسٹر میں لکھی شاعری اسے نہیں سنائی ہوگی۔۔۔
میں نے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔آپ بے فکر رہیں۔یہ نظمیں اور غزلیں کسے کے کانوں تک نہیں پہنچی اور آج کے بعد میرے یہ حافظے سے بھی ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں گے میں دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔
مستانہ استاد حسن معمول آپنا چھوٹا سا ریڈیو کانوں سے لگا کر کھڑا تھا اور عالمگیر کی آواز کے ساتھ سر دھن رہا تھا۔
۔۔مجھے دل سے نہ بھلانا۔۔!!
۔۔چاہے روکے یہ زمانہ ۔۔۔!!
مجھے دیکھتے ہی وہ بولا۔آو میاں آو ۔کہیں تم بھی آپنے آستاد کو بھلا تو نہیں دو گے؟دیکھ رہا ہوں کہ آج کل تمہارا دل گیراج کے کام پہ نہیں لگتا۔ناغے بھی بلا ناغہ کرنے لگے ہو
میں نے استاد کا ہاتھ پکڑ کر اسے آپنے قریب بیٹھا لیا۔استاد میرے دوبئی جانے کے بندوبست کردو ٹکٹ اور ویزہ لگوا لیا ہے میں نے۔وہاں کوئی تمہاری جان پہچان ہے تو بتاو۔۔۔
استاد کے ہاتھ سے ریڈیو نیچے گرگیا اس نے مجھے جھپٹ کر سینے2سے لگا لیا واہ خوش کر دیا پیارے۔میں جانتا تھا تم ایک دن ضرور کچھ کر کے دیکھاوں گے۔کب جانا ہے ۔۔۔؟
میرے دور کا ایک برخوردار رہتا ہے وہاں۔میں آج ہی اسے فون کر دیتا ہوں۔تم اسی کے ساتھ رہوگے وہ بھی وہاں اکیلا ہے کئی سال سے۔رفیق نام ہے اس کا ۔۔اگلے تین چار ہفتے یوں گزرے جیسے چار پل گزریں ہوں۔بھائی بھابھیاں اور گھر والے آخری وقت تک یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں رہے اور پھر وہ دن بھی آپہنچا جس دن میں اپنا مختصر سا سامان باندھے ائیرپورٹ پے کھڑا تھا۔میں نے اس سے پہلے کھبی بھی جہاز تو کیا ٹرین سے بھی کوئی لمبا سفر نہیں کیا تھا۔اس کیے مجھ سے وہ تمام حماقتیں سرزد ہوتی رہیں جو مجھ جیسے کسی بھی فرد پہلی بار ہوائی سفر میں ہوسکتی تھیں۔
جہاز نے دوبئی ائیرپورٹ پر لینڈ کیا اور میں گھنٹہ بھر بعد باہر نکلا تو انتطار کرنے کے باوجود مجھے رفیق کہیں نظر نہیں آیا۔ائیرپورٹ سے باہر جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔میں چونک کر پلٹا آنے والا شخص مجھے کڑی نظروں سے گھوررہا تھا جعلی ویزے پر دوبئی آئے ہو۔جانتے ہو۔۔۔اس کی سزا کیا ہے۔۔۔؟؟
اس شخص کی بات سن کر چند لمحوں کے لیے تو میں گنگ ہی رہ گیا۔پل بھر میں ہی آنے والے حالات کی ایک جھلک نے میرے ہوش آڑا کر رکھ دئیے۔دیار غیر میں گرفتار ہونے والے پھر مشکل سے ہی دوبارہ سلاخوں کے پار نکل پاتے ہیں۔
سیٹھ عابد جیسے شخص سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی تھی۔ہوسکتا ہے اس نے ہمیشہ کے لیے میرا بندوبست کرنے کی غرض سے مجھے جعلی ویزہ ہی لگوا کے دیا ہو؟؟
میں نے ہمیشہ اس کی آنکھوں میں اپنے لیے ایک عجیب سی نفرت دیکھی تھی۔یہ ویسی نفرت نہیں تھی جو باقی سارے لوگ میری بدصورتی کی وجہ سے مجھ سے محسوس کرتے تھے یہ عداوت کچھ الگ ہی تھی۔مجھے یاد ہے جب میں اپنا ویزہ لگا پاسپورٹ سیٹھ عابد کے دفتر سے اٹھانے کےلیے گیا تھا اس نے مجھے عجیب نظروں سے مجھے دیکھتے ہوے کیا تھا۔آمنہ تمہاری شاعری کی بڑی عاشق ہے۔سچ پوچھوں تو اگر میں نے تمہیں دیکھ نہ رکھا ہوتا تو ضرور اپنے رقیبوں میں شمار کر لیتا ۔۔
اب میں اسے کیا بتاتا کہ رقیب ہونا میرا نصیب ہوتا تو پھر بات ہی کیا تھی؟مگر بہرحال سیٹھ عابد میرے الفاظ کار کا رقیب تو تھا اور اس کے لیے اتنی رقابت بھی کافی تھی شاید ۔۔۔؟
میں چپ چاپ کھڑا آپنی گرفتاری کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک وہ شخص زور سے ہنس پڑا۔آو یار تم تو سنجیدہ ہی ہوگئے ہو۔مجھے پہچانا نہیں ۔رفیق ہوں میں۔استاد مستانے کے دور کا بھانجا ۔۔۔
میں چونک کر دوبارہ اسے غور سے دیکھا استاد کے بتائے ہوے حلیے سے تو یکسر مختلف تھا۔وہ رفیق میری الجھن سمجھ گیا۔۔۔
ارے یار۔۔۔استاد نے مجھے پندرہ سال پہلے دیکھا تھا جب میں فیکا ہوا کرتا تھا ایک کمزور لاغر اور ناکارہ سا منہ بسورتا لڑکا۔مگر یہ دوبئی ہے پیارے۔آچھے اچھوں کی کایا پلٹ دیتا ہے اب مجھ ہی کو دیکھ لو۔۔
رفیق نے سے اپنی اور آپنے استاد کی ایک ساتھ کھینچی ہوئی پرانی بلیک اینڈوائٹ تصویر نکالی۔وہ واقعی بہت بدل گیا تھا۔عربی لباس اونچا قد بھرا ہوا جسم اور رنگت کون کہہ سکتا تھا کی وہی پرانا فیکا ہے جو چند سال پہلے پاکستان سے دوبئی اس صحرا میں قسمت آزمائی کے لیے اترا ہوگا۔میں نے شکایت کی۔بہت اچھا استقبال کیا تم نے جان ہی نکال کے رکھ دی میری۔
وہ زور سے ہنسا۔معاف کرنا یار۔۔۔مذاق آپنی پرانی عادت ہے ویسے تم ائیرپورٹ کے اس کونے میں جس طرح سہمے اور ڈرے ہوئے چھپے کھڑے تھے تمہیں دیکھ کر کوئی بھی سوچ سکتا تھا کے تم غیرقانونی طریقے سے دوبئی اے ہو ۔
ہم۔گیٹ نمبر 17 کے سامنے والے بڑے ستون کے پاس کھڑے تھے دوبئی آنے سے پہلے فون پر رفیق کے ساتھ یہی جگہ ملنے کے لیے طے ہوئی تھی۔ائیرپورٹ پر ایک نا ختم ہونے والی بھیڑ تھی بھانت بھانت کے لوگ مردوزن کا ایک سیلاب جہاں کسی کو کسی کی طرف دیکھنے یا اس پر دھیان دینے کی فرصت ہی نہیں تھی۔ہر کوئی اپنے آپ میں گم کسی انجان منزل کی طرف رواں تھا۔مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا خود کو غم کر دینے کے لیے ہمیشہ کسی جنگل یا ویرانے کی ضرورت نہیں ہوتی انسانوں کا ہجوم بھی خود کو کھودینے کے لیے بڑا کارآمد ثابت ہوتا ہے رفیق میرے منع کرنی ہے باوجود میرا سامان اٹھا کر ائیرپورٹ سے باہر نکل آیا۔وہ مجھ سے عمر میں تین چار سال ہی بڑا ہوگا مگر اس وقت وہ میرے لیے لیے ایک مکمل بزرگ کا روپ دھارے مجھے مختلف نصیحتیں کررہا تھا ۔۔
یہاں کے عربی لوگ بڑے مغرور اجڑ اور جاہل ہوتے ہیں۔انہیں خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے کا خبط ہے اس لیے ان کے منہ لگنے سے پرہیز کرنا ورنہ اپنے بندے کا قصور ہوتے ہوئے بھی تمہی کو خطاوار سمجھیں گے اور الگا جہاز میں بیٹھا کر تمہیں واپس پاکستان روانہ کردیں گے مجھے بھی ایک عمر ہوگئی ہے ان کے یہ ناذ نخرے اٹھاتے اور ان کا یہ خبط برداشت کرتے۔گالی ان کی زبان پر اتے دیر نہیں لگتی اور آپنے علاوہ دوسری سبھی اقوام کو یہ اپنا خادم تصور کرتے ہیں۔خاص طور پر ہم مزدور طبقہ لوگوں کو تو ہر پل ان کے غلام بن کر ہی یہاں گزراہ کرنا پڑتا ہے۔لہذا دماغ ہمیشہ ٹھنڈا رکھنا۔۔
رفیق نہ جانے کیا کچھ کہتا رہا اور میں حیرت سے صحرا میں سجے چند بدووں نے صحرا میں چلتے چلتے کچھ دیر کھیل تماشے کے لیے اونچی عمارتوں اور کشادہ سڑکوں کا یہ میلہ سجایا ہے۔ابھی تھوڑی دیر بعد شام ہوجائے گی تو وہ بدو آپنے خیموں سمیت یہ نقلی شہر بھی اکھاڑ کر چلتے بنیں گے جیسے ساحل پر کھیلنے والے بچے دن بھر گیلی ریت سے گھروندے بنا کر انہیں خشک کرتے ہیں اور پھر شام خو جب ان کی مائیں واپسی کے لیے آواز لگاتی ہیں تو وہ جاتے جاتے پیروں سے اپنا ہی بنایا شہر مسمار کرکے چلے جاتے ہیں مجھے دوبئی بھی ایسے چند شرارتی بچوں کا بنایا ہوا عارضی سا شہر رہا تھا۔رفیق مجھے جس عالی شان اور لمبی سی گاڑی میں لیے چوڑی سڑکوں پر تیز سے دوڑے جارہی تھا۔میں نے اس کی گاڑی کے ڈیش بورڈ ہاتھ پھیر کر رفیق سے کہا گاڑی تو بڑی کمال ہے۔۔۔اپنی ہے یا۔۔۔۔؟
رفیق نے زور دار قہقہہ لگایا۔فی الحال نہیں ایک دن اپنی بھی ہوجائے گی میرے مالک کی گاڑی ہے پیارے۔۔ہم تو صرف ڈرائیور ہیں۔مالک کی ڈرئیوری کر کے روزی کماتے ہیں
گاڑی مختلف راستوں سے ہوتی ہوتی کسی رہائشی علاقہ میں داخل ہوگئی جہاں اونچی اونچی عمارتوں میں بہت سارے چھوٹے فلیٹس بنے ہوئے تھے۔رفیق اس علاقے میں رہتا تھا ہم اس کے چھوٹے سے مگر صاف ستھرے فلیٹ میں داخل ہوے تو اس نے فورا چائے کا پانی چولہے پر چڑھا دیا فریج میں کھانے پینے کا سارا سامان پڑا ہے۔کھانا گرم کر کے کھا لینا مجھے کچھ دیر میں واپس جانا ہوگا مالک سے صرف دو گھنٹے کی چھوٹی لے کر آیا ہوں۔رات کو باقی باتیں ہوں گی۔رفیق لہک جھپک چائے کی پوری پیالہ دو گھونٹ میں حلق سےباتار کر وہاں سے چلتا بنا۔بہت کھلے دل کا لڑکا تھا رفیق بالکل استاد مستانہ کی طرح۔۔۔۔
مجھے وہ سب یاد آئے تو ایک دم اداس ہوگیا میں زندگی میں گھر سے باہر اور اتنی دور وقت نہیں گزارا تھا ہم انسان بھی کتنے زود فراموش ہوتے ہیں۔ذرا سی دوری ہمیں ماضی کا ہر عذاب بھلا کر پھر اسی ماضی کو یاد کرکے آہیں بھرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔جب میں اپنے گھر میں تھا۔تب بھی وہاں بھی میں نے وہاں کون سے اچھے دن دیکھے تھے۔مگر آج چند ہزار میل کا فاصلہ طے کرتے ہی مجھے اسی گھر اور اپنی گلیوں کی یاد ستانے لگی جہاں مجھے ہر پل کسی نئیذلت کا سامنا رہتا تھا۔جب ایک دن ہمیں یہ سب کچھ چھوڑ ہی جانا ہوتا ہے تو پھر ہم ان درو دیوار۔راستہ شجر اور آس پاس کے ماحول اور رشتوں سے اتنا جڑ کیوں جاتے ہیں کہ ذرا سی دوری خود ہمیں توڑ کر رکھ دیتی ہے۔یہ دنیا اگر عارضی پڑا ہے تو اپنے ساتھ عارضی پن کا احساس لے کر کیوں نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اگلے ایک ڈیڑھ ہفتے میں رفیق نے بھاگ دوڑ کر مجھے ایک تعمیراتی کمپنی کے ذریعے کام پر لگوادیا فی الحال میرے پاس تین ماہ کا کام کرنے کا ویزہ تھا مگر رفیق نے وعدہ کر رکھا تھا کے وہ اپنے مالک سے میری سفارش کروا کر اسے سال بھر کے ویزہ میں تبدیل کروادے گا اگر میں نے محنت اور ایمانداری سے اپنا کام جاری رکھا تو اس مدت میں سال بہ سال توسیع بھی ہوتی رہے گی مجھے ایک زیر تعمیر عمارت کی پندرھویں منزل میں ویلڈنگ پلانٹ پر کام کرنے کی مزدوری ملی تھی۔میں اور رفیق صبع سویرے اپنے کاموں پر نکل جاتے اور رات گئے ہماری واپسی ہوتی تو عام طور پر ہم۔دونوں ہی تھکن سے اس قدر چور ہوتے کہ ہمیں بات کرنا بھی کسی بھاری بوجھ اٹھانے کی مانند لگتا تھا۔مہینہ بھر بعد جب مجھے میری پہلی تنخواہ ملی تو میری آنکھوں سے آنسوں نکل ائے۔آپنے ملک کی سال بھر کی کمائی سے بھی کچھ زیادہ روپے میری مٹھی میں بند تھے۔مگر مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا ان پیسوں کا کروں گا کیا۔۔۔۔؟؟
اس روز رفیق کو بھی تنخواہ ملی تھی لہذا کو اس خوشی میں وہ مجھے دوبئی دکھانے کے لیے اپنے مالک کی گاڑی مانگ لایا دوبئی کی ڈھلتی شام میں تبدیل ہوئی رات۔
رنگ اور نور کی برسات ہر چہرہ دھلا ہوا ہر عمارت جگمگاتی سی۔چمکتے راستے اور خوشیوں سے سرشار جوڑے باہوں میں بانہیں ڈالے اس دلربا شہر کی ایک شام سے زندگی کے جام کشید کرتے ہوئے خوش نصیب لوگ۔زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں ہے اس بات کا احساس مجھے اس شام ہوا ہر سانس سے زندگی نچوڑ لینے کو جینا کہتے ہیں مگر ہم جیسے مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں۔۔۔۔۔؟؟
رفیق نے مجھے یوں گم سم بیٹھے دیکھا تو چپ نا رہ سکا ۔
کیا بات ہے شہزادے ۔۔کہاں کھوگئے ہو۔۔دوبئی دیکھوں شہر کی رونق دیکھو۔۔میں نے چڑ کر اسے جواب دیا۔ایک تو تم مجھے یہ شہزادہ نہ کیا کرو مجھے لگتا ہے باقی سب کی طرح تم بھی میرا مذاق اڑا رہے ہوں ۔۔۔
رفیق نے مجھے غور سے دیکھا۔تم تو واقع ہی برا مان گئے
اچھا چلو میں تمہارا دل بہلانے کے لیے دوبئی کے سب سے بڑے کلب میں لیے چلتا ہوں۔ویسے تو وہاں کا داخلہ ٹکٹ ہی ہم دونوں کی سال بھر کمائی سے زیادہ کا ہے مگر میرے مالک کی وجہ سے ہم اے کوئی ٹکٹ نہیں پوچھے گا میں نے حیرت سے رفیق کو دیکھا کیوں تمہارے مالک کہ جان پہچان ہے کلب والوں سے ۔۔۔؟رفیق زور سے ہنس پڑا ارے نہیں وہ کلب بھی میرئ مالک کا ہی ہے نہ صرف یہ کلب بلکہ ایسے ناجانے کتنے کلب اور ہوٹل ہیں میرے مالک کی کمپنی کے پاس کوئی حساب نہیں ہے اس دولت کا۔۔کہتے ہیں کے آج اگر وہ اپنا ہر کام اور کاروبار بند کر کے ہاتھ پے ہاتھ رکھ کے گھر بیٹھ جائے تو آئیندہ ساری زندگی روزانہ لاکھوں درہم اڑاتا رہے تب بھی اس کی نسلیں تا قیامت عیش کرتی رہیں گی ۔۔۔۔۔۔
رفیق اپنے مالک کے بارے بتاتا رہا اور گاڑی ساحل کنارے دوڑتی ہوئی ایک عظیم الشاں کلب میں داخل ہوگئی میرے لیے یہ سب کچھ طلسم جیسا تھا کئی منزلہ عمارت کے لیے ہر منزل پر کار پارکنگ بنائی گئی تھی اور ہر منزل کیسی الگ کھیل یا تفریح کے لیے مخصوص تھی عمارت کے اندر ہی ہوٹل ریستوران سوئمنگ پول گالف اور سنوکر کلبس شاپنگ پلازہ سینما تھیٹر جوئے خانے بار رقص گاہیں کیفے اور نہ جانے کیا کچھ آباد تھا کلب کیا تھا پورا ایک شہر تھا جیسے پچاس منزلہ عمارت میں سمودیا گیا تھا۔چھت پر فلکی نظام اور مختلف سیاروں اور ستاروں کو دیکھنے والا ایک پورا ہال بنایا گیا تھا جہاں بڑی بڑی دیوہیکل اور دوربینوں کے ذریعے چاند ستاروں کا معائنہ کیا جاسکتا تھا۔انسان کی ہوش لامحدود ہے... ||
قسط 8
ساری زمین تسخیر کرنے کے بعد اب اس کی نظر چاند ستاروں پہ رہتی ہے۔اچھا ہے قدرت نے ہر انسان کی طبعی زندگی اور موت کا ایک پیمانہ مقرر کر رکھا ہے ورنہ اس حضرات انسان نے سے کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ فلک اور فرش کو ملانے والی لفٹ ایجاد کرکے خود اپنا حساب کتاب کروانے عرش پر جا اترتا۔کلب میں نوجوان جوڑوں کی بہتات تھی پب اور باراتنے پر ہجوم تھے کے ٹل دھرنے کی جگہ نہ تھی جوئے خانوں اور بڑے کیسینوں کے باہر انتظار کرنے والوں کی لمبی قطاریں ہاتھ میں ٹوکن لیے کھڑی تھیں۔میں نے رفیق جب اس حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کلب تو کسی ایک اسلامی ملک کا حصہ نہیں لگ رہا۔تو رفیق نے حسب معمول ایک جاندار قہقہہ لگایا اور ڈر جھٹک کر بولا۔۔
اسلامی ملکوں میں کلب نہیں ہوا کرتے۔۔۔دوبئی ایک کاسمو پولیٹن شہر ہے یہاں تمہیں ہر مذہب کا پیرو کار ملے گا یہ اب اس پیروکار کی مرضی ہے کہ وہ اپنے مذہب کو کس حد تک برتتا ہے۔عابد اور زاہدوں کے لیے مسجدیں کھلی ہیں اور رندوں کے لیے شراب خانے۔وہ کہتے ہیں ناں۔رند کے رند رہے پر ہاتھ سے جنت نہ گئی ۔۔تو بس وہی معاملہ یہاں بھی ہے ۔۔
کلب کی ہر منزل پر حسن کا جلوہ اس کثرت سے بکھرا ہوا تھا کہ اسے اپنی محدود بصارت میں سمیٹنا کسی بھی انسان کے لیے ناممکن تھا۔رفیق مجھے کیسینو کے اندر لے گیا اور میں وہاں پیسے کی ریل پیل دیکھ کر چکرا ہی تو گیا تھا
مذہب انسان کو جس چیز سے منع کرتا ہے۔جانے اس عمل کو قدرت انسانوں کے لیے اس قدر پرکشش کیوں بنا دیتی ہے؟؟
شاید یہی گناہ اور ثواب کا بنیادی فلسفہ ہے اور اسی جبر پر سزا جزا کا سارا دارومدار ہوتا ہے۔مگر فی الحال تو اس کلب میں لوگ پانڈے پھینک رہے تھے اور شمار بازی کے نشے میں مسرور سزا اور جزا کا کا ہر فلسفہ بھلا کر بس ان لمحوں کو جی رہے تھے جو انہیں میسرتھا۔مسئلہ تو مجھ جیسوں کو تھا جو گناہ کرتے وقت ثواب کی طرح کنجوسی کر جاتے اور کار ثواب بھی ڈر ڈر کر کسی گناہ کی طرح کرتے ہیں۔ہم کیسینو سے باہر نکل رہے تھے کہ اچانک کلب میں ایک ہم چل سی مچ گئی۔سبھی علمہ ایک دم وچو بند ہوگیا اور محافظوں کی دوڑیں لگ گئی پتہ چلا کے کلب کا مالک اور رفیق کا آقا بہروز کریم وہاں آچکا ہے۔میں بھی رفیق اور باقی سارے نوکروں کی طرح ایک قطار میں کھڑا ہوگیا بہروز ہال میں داخل ہوا تو چاروں طرف سناٹا سا چھا گیا۔
وہ ڈھلتی عمر کا ایک دیدہ زیب شخص تھا۔مغربی لباس میں ملبوس ہاتھ میں ہوانا کا قیمتی سگار ہیرے سے جڑی ٹائی پن اور کفلنکس امریکی ڈیزائیز سوٹ اور میچنگ جوتے آنکھوں میں عجیب سی وحشت اور اداسی کھویا کھویا سا وہ شخص واقعی ہی وہ کسی عظیم سلطنت کا سلطان لگ رہا تھا جیسے دولت ہر کسی کو راز نہیں آتی ویسے ہی آمیری بھی پر کسی کا ساتھ نہیں دیتی میں نے بہت سے امیروں کو فقیروں سے بدتر شخصیت لیے پھرتے دیکھا تھا مگر بہروز کریم پر امارات ہر ٹوٹ کر برستی محسوس ہو رہی تھی۔اس کے اردگرد اسٹاف مینجر اور محافظوں کا ایک ہجوم تھا مگر پھر بھی وہ کلب کے نوکروں کے سلام کا جواب خندہ پیشانی سے دیتے ہوئے اگے بڑھتا رہا۔رفیق نے مجھے بتایا کہ جس رات بہروز اپنے کسی ہوٹل یا کلب کا دورہ کرتا تھا وہ رات وہاں کے عملے کے لیے شب برات بن جاتی تھی کیونکہ اس رات ان سب کو ایک ماہ کی تن خواہ کے برابر بونس ملتا تھا اس مخصوص کلب کی ہر منزل پر موجود سبھی فرد بہروز کے مہمانوں کے طور پر برتے جاتے تھے ان کا ہر بل ہر خرچہ بہروز کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔بار میں جام کے جام لنڈھائے جاتے اور کیسینو میں ہر فرد کو ہزاروں ریال مالیت کے ٹوکن مفت فراہم کیے جاتے تھے۔سبھی کے لیے دعوت عام تھی۔میں حیرت سے رفیق کی ساری رام کہانی منہ کھولے سن رہا تھا کی اچانک بہروز ہمارے قریب سے گزرا تو رفیق نے جلدی سے اسے سلام کیا۔
بہروز نے مسکرا کر جواب دیا تو رفیق نے موقع غنیمت جان کر تیزی سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچ کر قطار میں آگے کر دیا۔۔۔
یہ میرا دوست ہے پری زاد ہے مالک۔۔۔کچھ دن پہلے ہی پاکستان سے آیا ہے یہاں مزدوری کرنے کے لیے اس کا سلام بھی قبول کیجئے ۔۔۔
بہروز نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔کیا نام بتایا تم نے۔۔۔؟
میں چپ رہا رفیق نے جلدی سے میرا نام دہرایا۔پری زاد مالک
بہروز کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔خوب۔اسے کام نا ملے تو فیکٹری لے مینجر مصطفی کے پاس بھیج دینا ۔۔
بہروز مختصر سی بات کر کے آگے بڑھ گیا اور میں حیرت سے رفیق کو دیکھتا رہا۔تمہارا مالک تو اردو بول لیتا ہے ۔۔
رفیق نے ہنس کر جواب دیا دوبئی میں سبھی عربی نہیں بولتے۔میرے مالک ہندوستانی مسلمان ہیں تقسیم کے بعد ان کے ماں باپ یہاں دوبئی میں آ کے بس گئے تھے ہم پاکستانی اور ہندوستانی نوکروں سے وہ اردو میں ہی بات کرتے ہیں۔۔
کلب سے واپسی پر رفیق مجھے بہروز کریم کی کامیابی کی داستان سناتا رہا کہ کیسے کامیابی کی سیڑھیاں طے کرتے کرتے آج وہ دوبئی کے بزنس ورلڈ کے آسمان کا تارہ بن چکا تھا۔بہروز کریم کی اس افسانوی اور کامیابی سے متعلق بہت سی پراسرار کہانیاں بھی مشہور تھیں۔مثلا یہ کے وہ اپنے دشمنوں کو کھبی معاف نہیں کرتا اور اس کے اس وجیہہ چہرے کے پیچھے ایک سفاک شخص چھپا ہوا ہے جو آپنی کامیابی کی راہ میں انے والی ہر شے کو تہس نہس کردیتا ہے
رفیق بہروز کے بارے میں بولتے بولے اچانک اسٹیرنگ پر ہاتھ مار کر زور سے ہنس پڑا۔۔
دیکھ لو پری اس پیارے۔۔تمہیں جس نام سے اتنی چڑ ہے آج وہی نام میرے مالک سے تمہارے تعارف کا سبب بن گیا ورنہ بہروز صاحب نے آج تک کسی کی طرف پلٹ کر دوبارہ نہیں پوچھا۔وہ کہتے ہیں ناں۔۔خدا نے دنیا میں ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا مقصد ضرور رکھا ہے تو مجھے تو تمہارے نام کا مقصد آج صاف نظر آرہا ہے۔۔۔
گھر پہنچنے کے بعد بھی ساری رات بہروز کریم کے بارے سوچتا رہا کہ کوئی انسان آخر اتنی بے تحاشہ دولت کا کیا کرتا ہوگا۔۔؟دولت مند و کے دن بھی تو ہم غریبوں کی طرح چوبیس گھنٹے کے ہی تو ہوتے ہیں وہ بھی ہماری طرح سوتے جاگتے ہیں تو پھر باقی بچے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے کس کے پاس قارون کا خزانہ اور کے ہاتھ خالی کشکول کیوں ہوتا ہے ۔؟؟
اگلے دن رفیق مجھے فیکٹری ایریا میں لے گیا۔مینجر مصطفی ایک سخت گیر اور اکھڑا مزاج مصری تھا جو سوائے کام کی بات کے دوسری کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔اس نے رفیق کو سر سے پیر تک گھورا اور عربی میں کچھ کہا اتنے سالوں میں یہاں رہتے رہتے رفیق کی عربی کافی روا ہو چکی تھی رفیق نے عربی میں ہی میری طرف اشارہ کر کے کچھ کہا۔مصطفی نے میرے کاغذ طلب کیے اور پانچ منٹ بعد ہی ہم اس کے کمرے سے باہر کھڑے تھے رفیق نے میرے کاندھے پر ہاتھ مار کر کھا۔
چل پیارے۔۔تیرا کام تو بن گیا۔یہ مینجر تھوڑا ٹیڑھا آدمی ہے مگر ہے مالک کا خاص بندہ اب یہ تمہارے سارے انتظامات یوں چٹکی بجانے میں کردے گا۔میں نے اسے مالک کا حکم پہنچا دیا۔اس دن مجھے ایک اور بات پتا چلی کہ بہروز کریم کی سلطنت میں تو سینکڑوں ایسی گاڑیاں ہیں جن میں سے ایک رفیق چلاتا ہے۔خوش قسمتی سے رفیق کچھ عرصے تک بہروز کریم کے ذاتی دفتر کی گاڑی چلاتا رہا تھا اس لیے بہروز کو رفیق کا چہرہ مسخ یاد رہ گیا ہوگا پانچ روز بعد مجھے رفیق نے مجھے مصطفی کے دستخطوں سے فیکڑی کا حکم نامہ تھما دیا۔مجھے خاص معقول تنخواہ پر فیکٹری کی رات کی شفٹ میں کام لگادیا تھا کام کچھ مشکل نہیں تھا۔بس لوہے اور دیگر خام مال کا کمپیوٹر میں اندراج کرنا تھا اور سپلائی کے وقت چارٹ بنانا تھا۔میں رات بھر میں ڈیوٹی دے کر صبع گھر واپس پہنچا تو رفیق جانے کی تیاری میں ہوتا ہم ایک ساتھ چائے کا ایک ایک کپ حلق سے نیچے انڈیلتے اور میں سونے کے لیے کمرے کی جانب بڑھ جاتا۔میری راتیں جاگنے اور دن سونے لگے تھے۔ان دنوں مجھے عجیب سا احساس ہوا۔۔کہ رات انسان کی شخصیت یکسر بدل جاتی ہے۔دن کا اجالا ہماری بنت سی دیکھی صلاحتیوں کو خوابیدہ کردیتا ہے۔شام ڈھلنے کے بعد ہم زیادہ رومان پرور شفاف اور کسی حد تک ڈنر بھی ہوجاتے ہیں یا شاید مختلف شخصیات پر اس دن اور رات کے بھید کا مختلف اثر ہوتا ہوگا ۔۔
میں فیکڑی میں اپنا کام رات کے پہلے پہر میں ہی مکمل کر لیتا تھا۔پھر میں ہوتا اور صحرا کا تاروں سے بھرا آسمان میرے ساتھ رات بھر باتیں کرتا رہا۔میں گھر سے آئے ہوے خطوں کا جواب نہیں دیتا تھا البتہ ہر ماہ ایک معقول رقم گھر ضرور بھیج دیتا تھا۔اس رات بھی گھر سے آیا ایک خط دیکھ رہا تھا کہ فیکٹری کے پچھلے حصہ میں کچھ کھٹ پٹ کی آوازیں سنائی دی۔میں تیزی سے پیچھے کی جانب لپکا چند پرانے مزدور کچھ لوہے کی پٹیاں ایک گودام میں سنبھال کر رکھ رہے تھے میں نے ان سے تفصیل پوچھنا چاہی تو فورمین نے مجھے جھڑک دیا.. ||
گر میں خاموش بیٹھنے والا نہیں تھا۔میں نے انہیں تنبہیہ کی کہ اگر انہوں نے میری بات نا مانی تو میں صبع ہوتے ہی مینجر مصطفی کو بتا دو گا۔اتنے میں پیچھے سے مصطفی کی آواز گونجی۔میں یہیں ہوں۔تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔اور آج تو تمہارا آف تھا تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔؟
ہم یہ ساری گفتگو انگریزی میں کر رہے تھے۔سچ یہ ہے کہ مصطفی کو وہاں دیکھ کر میں پریشان ہوگیا تھا۔آج واقع ہی میری چھوٹی تھی۔مگر ایک ساتھی کے بیمار ہونے کی وجہ سے مجھے اچانک ڈیوٹی پہ آنا پڑا۔میں نے مصطفی کو بتایا کہ شفٹ انچارج کے طور پر میرے ڈیوٹی ہے۔کہ میں ہر چیز کا باقاعدہ اندراج کروں۔مصطفی نے میری بات لاپرواہی میں ڈال دی ۔۔
ٹھیک ہے۔۔
تم اپنا فرض پورا کیا۔۔اب تمہارے انچارج کی حثیت سے سے میں تمہیں یہ حکم دے رہا ہوں کہ تم واپس اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ جاوں اور خاموشی سے صبع تک اپنی شفٹ ختم کر کے چپ چاپ واپس گھر چلے جانا ۔۔
مصطفی کی آواز کھردری اور لہجہ بہت سخت تھا۔میں نے اس وقت ان سے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا۔مگر میں نے سوچ لیا تھا کہ کسی بھی طرح بہروز کریم تک یہ اطلاع ضرور پہنچاؤں گا۔چاہے اس کا انجام کچھ بھی ہو۔بہروز ہفتے میں ایک آدھ بار اس فیکٹری کا دورہ بھی کرتا تھا۔اور پھر چھٹی رات جب میں نے احاطے کے باہر بہروز کریم کے اسکواڈ کی گاڑیوں کو کرتے دیکھا تو میں تیزی سے ہال کے گیٹ پر آہ کھڑا ہوگیا۔مصطفی بھی بہروز کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا اسے کام کے بارے میں کچھ تفصیلات بتا رہا تھا۔مجھے راستے میں کھڑے دیکھ کر مصطفی کے ماتھے پر بل پڑگئ۔جب وہ لوگ راہداری میں میرے قریب سے گزرے تو میں نے اچانک آگے بڑھ کر بہروز کریم خو براہ راست مخاطب کر کے کہا۔مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے جناب۔بہروز پلٹ کر میری طرف دیکھا۔اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔۔
مصطفی نے مجھے بڑی طرح جھاڑ دیا۔تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ مالک بہروز کو آج تک کسی نے یو راستے کے بیچ نہیں ٹوکا۔میں تمہیں اس وقت نوکری سے فارغ کرتا ہوں سفر ہو جاوں یہاں سے کل آہ کر مہینے بھر کی تنخواہ لے جانا۔۔۔میں نے اطمینان سے مصطفی کی بات سنی۔ٹھیک ہے میں چلا جاوں گا۔مگر مجھے ایک بار مالک سے بات کرنی ہے۔یہ بہت ضروری ہے ۔۔۔
اس پاس کا عملہ وحشت زدہ سا مجھے یوں چھوڑ رہا تھا جیسے مجھ سے بڑا احمق انہوں نے پہلے اس روئے زمین پر کھبی نہ دیکھا ہو۔بہروز نے اطمینان سے اپنا سگار سلگایا
ہاں بولا لڑکے۔اگر تمہیں پیسے وغیرہ چاہیے ہیں تو تم واقعی میرا بہت وقت ضائع کیا ہے ۔۔اکاونٹس والوں سے لے لو ۔۔۔
میں نے جلدی سے واضع کیا کے نہیں جناب مجھے پیسے نہیں چاہئیں میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔یہاں فیکٹری میں کچھ ایسی ترسیلات بھی ہوتی ہیں۔جن کا ریکارڑ نہیں رکھا جاتا میں نے کوشش کی مجھے منع کر دیا گیا ۔۔
میری بات سن کر مصطفی مجھے ڈانٹ کر مجھے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر بہروز نے ہاتھ اٹھا کر اسے منع کردیا اور اپنے خاص محافظ فیروز سے کہا۔فیروز خان کچھ دیر بعد اس لڑکے کو میرے دفتر میں لے آو۔۔۔
بہروز حسب معمول مختصر سی بات کر کے آگے بڑھ گیا ۔۔
فیروز خان نے مجھے چھوڑ کر دیکھا اسے بہروز کے سب سے قریب سمجھا جاتا تھا۔اور وہی بہروز کا محافظہ خاص بھی تھا۔اس کےعلاوہ بہروز کسی دوسرے باڈی گارڈ پر اتنا بھروسہ نہیں کرتا تھا۔فیروز خان ہی اس کے خواب گاہ کے باہر رات کو پہرہ بھی دیتا تھا۔یہ سب کچھ مجھے رفیق پہلے ہی بتا چکا تھا۔میں نے جب بھی فیروز کو دیکھا اسے خاموش ہی پایا تھا۔شاید ایسے بھی آپنے مالک بہروز کریم کی طرح زیادہ بات کرنے کی عادت نہیں تھی۔رات کی شفٹ کے تمام ملازم فیروز کے ایک اشارے پر دوبارہ اپنے اپنے کام میں جت گئے مگر ان سب کے ۔۔
تاثرات سے صاف لگ رہا تھا کہ انہیں آج رات ہی میری نوکری کے خاتمہ کا پورا یقین تھا۔کچھ دیر بعد چپڑاسی نے آہ کر فیروز کو بتایا کہ مالک مجھے طلب کر رہے ہیں۔فیروز نے مجھے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اور ہم دونوں بہروز کریم کے جہازی سائز کے عالیشان دفتر میں داخل ہوگئے۔مصطفی بھی کمرے میں موجود تھا جانے اس نے میرے بارے مالک کو کیا بتایا ہوگا۔؟بہروز کریم کے چہرے پر حسب معمول سپاٹ سا تاثر تھا۔اس نے غور سے میری طرف دیکھا۔
تو تم کو نا جس کو رفیق نے بھرتی کروایا تھا؟ہاں کہو
کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔؟
میں نے رات کا پورا قصہ بہروز کو سنا دیا ۔۔وہ اطمینان سے بیٹھا سگار کے کش لیتا ہوا میری بات سنتا رہا۔میری بات ختم ہوئی تو اس نے گہرا کش لے کے میری طرف غور سے دیکھا۔تم جانتے ہو اگر تمہارہ لگایا ہوا یہ الزام غلط ثابت ہوا تو نہ صرف نوکری جائے گی بلکے تمہیں غلط بیانی کے الزام میں پولیس کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے۔۔۔آپ آپنے طور پر اس بات کی تصدیق بھی کروا سکتے ہیں۔۔
بہروز کریم نے پلٹ کر عقب میں مودب کھڑے مصطفی سے براہ راست پوچھا۔۔
کہو مصطفی کیا یہ لڑکا سچ کہہ رہا ہے ۔۔۔۔؟
مصطفی نے ایک توقف کرکے میری طرف دیکھا اور پھر دھیرے سے بولا۔۔جی مالک یہ سچ بول رہا ہے ۔۔
میں نے چونک کر مصطفی کی طرف دیکھا اس کا جواب میری تواقع کے بالکل برعکس تھا اور اس سے بھی زیادہ حیرت مجھے بہروز کریم کا ردہ عمل دیکھ کر ہوئی۔اس نے اطمینان سے سگار کا ایک لمبا سا کش اور مصطفی سے کہا
ٹھیک ہے مصطفی ۔۔جاتے ہوئے میرے لیے ایک کپ بلیک کافی کا بولتے جانا ۔۔
بہروز کو میرا خیال آیا لڑکے تم کافی پیو گے ۔۔
میں نے جلدی سے انکار میں سر ہلایا۔مصطفی کمرے سے جا چکا تھا میں نے بھی واپسی دروازے کی طرف رخ کیا بہروز نے مجھے آواز دے کر روکا لیا۔مصطفی میرا خاص آدمی ہے میرے وفاداروں میں سے ایک قریبی وفادار لیکن مجھے اچھا لگا کے ابھی وفاداری کی نیاب صنف دنیا سے بالکل ہی ناپید نہیں ہوئی تم نے اپنی نوکری کی پرواہ کیا بنا اپنی وفاداری نبھائی۔میرے ذہن سے تمہارا نام نکل گیا۔بڑا دلچسپ سا نام تھا ۔۔؟
بہروز نے ذہن پر ذور ڈالتے ہوے میری طرف دیکھا ۔میں نے دھیرے سے اپنا نام دہرایا۔۔پری زاد۔۔۔
بہروز مسکرایا ۔۔ہاں ۔۔پری زاد میں نے اس دن بھی محسوس کیا تھا کہ تمہیں اپنا نام کچھ خاص پسند نہیں تو پھر تم یہ نام بدل کیوں نہیں لیتے ۔۔۔؟
قسط 9
میں نے بہروز کی طرف دیکھا ں بدل لینے سے میری قسمت تو نہیں بدل جائے گی مالک۔۔۔ویسے بھی یہ نام مجھے میری اوقات یاد دلاتا رہتا ہے ۔۔بہروز نے میری آنکھوں میں جھانکا۔مرد کو اتنا حساس نہیں ہونا چاہیے دوبئی کس لیے آئے ہو۔؟
میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔بہت سارا پیسہ کمانے۔۔آپ کی طرح بہت بڑا آدمی بننے کے لیے ۔۔
بہروز ہونٹوں پر ایک تلخاے مسکراہٹ لمحے بھر کی جھلک دکھا کر غائب ہوئی بڑا آدمی۔۔؟جانتے ہو لڑکے۔۔یہ میری طرح کے جو بڑے لوگ دولت اور ترقی کے آسمان پر آج چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں ان سب کی ذندگی میں ایک نہ ایک بار تمہاری طرح ایک رات کسی غیر قانونی ترسیل کا پتہ چلا تھا فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اس کی خبر دینے کی بجاۓ اس آلودہ نظام کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا ۔۔
بہروز کریم اپنی بات ختم کر کے کھڑا ہوگیا اور باہر جاتے ہوئے لمحے بھر کے لیے میرے پاس رکا۔گھر جانے سے پہلے اکاؤنٹٹ سے ملتے جانا ۔۔
میں اپنی جگہ غم سا کھڑا رہ گیا اور بہروز کمرے سے نکل گیا۔صبع چھٹی سے پہلے فیکٹری کا خزانچی میرے پاس آیا اور ایک نوٹوں سے بھرا الفافہ میرے ہاتھ میں تھا گیا۔اس روز مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ بہروز کریم کی اس سلطنت کا اصل دارومدار کچھ غیر قانونی دھندو پر ہے جن کی خبر باہر والوں کو نہیں تھی۔رفیق کو جب اس سارے معاملے کا پتہ چلا تو وہ مجھ پر بڑی طرح برس پڑا کہ آخر مجھے ان کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت کیا تھی؟اس نے مجھے خبر دار کیا کہ ایک بار تو بہروز نے مجھے معاف کردیا مگر دوبارہ اگر کھبی ایسا کچھ ہوا تو وہ میرے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتے گا مگر نا جانے کیوں مجھے دوسرے عملے کے برعکس بہروز کریم سے بالکل بھی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا اگلے ہفتے میری ڈیوٹی رات کی بجائے دن کی شفٹ میں تبدیل کر دی گئی۔مصطفی سے اب میرا گاہے بگاہے سامنا ہوتا رہتا تھا مگر اس کے لہجے اور تیور میں بھی پہلے جیسی سختی نہیں رہی تھی ور پھر کچھ دن گزرنے کے بعد ایک شام فیکٹری سے باہر نکلنے سے پہلے اپنے برقی کارڈ کے ذریعے واپسی کا وقت نوٹ کروارہا تھا تب اچانک سے کی شفٹ والے کارکن نے مجھے مصطفی ک پیغام دیا کہ اس نے مجھے مل کر جانے کا کہا ہے میں وہی گیٹ کے قریب صحرا میں بنے ایک شیڈ کے نیچے مصطفی ک انتظار کرنے لگا مغرب کے بعد مصطفی اپنے محافظوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور گاڑی سے اترتے ہی اس نے مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا مصطفی نے کمرے میں داخل ہونے کے بعد مجھے کنڈی لگانے کا اشارہ کیا اور اپنے مخصوص کرخت مصری لہجے میں بولا جتنا کما رہے ہو اس پر اکتفا کرنا چاہتے ہو یا پھر کم وقت میں کچھ زیادہ بنانے کی ہمت رکھتے ہو؟؟
میر جواب بہت سیدھا تھا میرے پاس کھونے کے لیے کچھ خاص نہیں اور میں اپنی ہمت ازمانا چاہتا ہوں ۔۔
مصطفی نے لمبی بت نہیں کی بس اتنا کہا کہ رات کو ساحل پر کچھ لانچون پر سامان ائے گا مجھے وہ سامان وصول کر کے بہروز کی ایک دوسری فیکٹری کے گودام تک پہنچانا ہوگا
س کام میں میرے ساتھ چند دوسرے معاون بمع چار گاڑیوں اور ڈرئیور کے ہوں گے۔۔میں نے زیادہ تفصیل میں جائے بناہامی بھر لی۔مصطفی نے میرا کاندھا تھپتپھایا ۔
کم مشکل ہے مگر یاد رکھوں کامیابی ہمیشہ بہادر کا ساتھ دیتی ہے تمہیں یہ سب کچھ قانون کی نظر سے بچ کر کرنا ہوگا اور گرفتاری کی صورت میں تمہارا مالک سے سے کوئی تعلق ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔امید ہے سمجھ گئے ہوگے ۔۔
میں نے سر ہلایا آپ بے فکر رہیں۔۔میری زبان ہمیشہ بند رہے گی رات ڈھلتے ہی ہم آٹھ لوگ چار بڑی جیپوں میں سوار دور دراز کے ایک ویران ساحل پر پہنچ گئے۔سمندر خاموش اور آسمان تاریک تھا۔ہم سب اندھیرے میں ایک بڑی چٹان کی اوٹ میں گاڑیاں کھڑی کرکے لانچوں کا انتطار کرنے لگے
میرے لیے وہ سات کارندے بالکل اجنبی تھے اور ہم میں سے کوئی بھی آپس میں بات نہیں کر رہا تھا۔دور کہیں سمندر میں لنگر انداز جہاز سے موسیقی اور نوجوان جوڑوں کے گانے بجانے کی آوازیں ہوا کی دوش پر چند لمحوں کے لیے فصا میں بکھر جاتیں اور پھر وہی طویل سناٹا ہمیں گھیر لیتا تھا آج 14 فروری کا دن تھا جیسے ساری دنیا میں محبت کے دن کے طور پر منایا جاتاہے آج جب میں فلیٹ سے نکل کر ڈیوٹی کے لیے فیکٹری کی طرف آہ رہا تھا تو میں نے دوبئی کے دور دیوار بازار اور سڑکوں کو سرخ اور سفید رنگ غاروں اور پھولوں سے ٹے ہوئے دیکھا نوجوان لڑکیاں سرخ لباس میں ادھر ادھر رنگ برنگی تتلیوں کی طرح اڑتی پھر رہی تھیں اور نوجوان سیاہ لباس پہنے اور گلے میں سرخ اسکارف یا ٹائی پہنے محبت کا دن منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے شاید سمندر میں لنگر انداز جہاز میں بھی ویلنٹائن کی پارٹی جاری تھی۔کاش دنیا میں بدصورت لوگوں کا بھی کوئی ویلنٹائن ڈے منایا جاتا۔یہ ہر تقریب اور ہر تہوار جو محبت سے منسوب ہے اس پر صرف خوبصورت کا قبضہ کیوں جما رہتا ہے میرا دل چاہا اگر خوبصورت لوگ محبت کا دن مناتے ہیں تو ہم جیسوں کو بھی کوئی نفرت کا دن منانے کی اجازت ہونی چاہیے۔کچھ تو ایسا ہو ہم سے بھی منسوب ہو میں جانے کس الٹی سیدھی سوچوں کے بھنور میں گھرا ہوا تھا کہ اچانک دور سے چند لانچون کی مخصوص جلتی بجھتی روشنیاں نظر آنے لگیں شاید یہ کوئی سگنل یا کوئی خاص اشارہ تھا جو پہلے سے ساحل والوں کے لیے طے شدہ تھا۔ہم سب ہوشیار ہوگئے میری گاڑی کے ڈرائیور نے ڈیش بورڈ کھول کر اس میں سے پسٹل نکال کر میرے حوالے کر دیا ۔میں اسے یہ بھی نہ کہہ سکا کہ مجھے اس کا استعمال نہیں آتا کچھ دیر میں لانچیں ساحل کے قریب آگئیں اور ہم سب گاڑیوں سے اتر کر لانچوں کی طرف بڑھے۔لانچے ساحل سے لگ چکی تھی اور ہم ابھی چند قدم کے فاصلے پر تھے کہ اچانک ساحل کا وہ ویران حصہ بڑی بڑی دیوہیکل سرچ لائٹس کی روشنیوں میں جگمگا سا گیا اور ہم سب پل بھر میں اس تیز روشنی میں نہا گئے ۔۔
کوئی لاوڈ سپیکر پر ذور اے انگریزی میں چلایا۔کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش نہ کرے تم سب کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے ۔۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔پھر ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی چلایا۔بھاگو اور اس کے ساتھ ہی ہماری طرف تین چار فائر ہوے اور آرچ لائٹس چھناکے کے ساتھ ٹوٹ گئیں ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔۔تیز روشنی کے بعد ایک دم چھانے والا اندھیرا عام اندھیرے سے زیادہ سیاہ اور گہرا ہوتا ہے لہذا ہم سب اندھیرے میں گیرتے پڑتے اپنی گاڑیوں کی طرف بھاگے مگر مجھے راستے میں ایک ٹھوکر لگی اور اگلے ہی لمحے میں گیلی ریت پر اوندھے منہ گرا ہوا تھا لوہے کی ایک سرد نال میری کن پٹی سے ٹکرائی اور کسی نے پوری قوت سے میرے سر پر پستول کا دستہ مارا اندھیرے کا طوفان میری آنکھوں کی پتلیوں سے ہوا میرے دماغ کی رگوں میں اتر گیا اور میرے سارے وجود پر موت جیسا سکوت طاری ہو گیا بے ہوشی شاید نیند کی انتہا ہے اور نیند موت کا ایک چھوٹا وقفہ ہوتی ہے میں بھی کسی ایسے ہی وقفے کے درمیان موت کی صلیب پر لٹک رہا تھا جب شاید ٹھنڈے پانی کی ایک ایک بوچھاڑ نے مجھے کھینچ کر اس صلیب نیچے اتار پھینکا۔پانی کی دوسری ریلی کے ساتھ ہی میں ایک جھٹکے سے واپس ہوش کی دنیا میں لوٹ آیا۔میرے ہاتھ پاوں کسی کھردری رسی کے ساتھ اس قدر مضبوطی سے ایک کرسی کے ساتھ باندھے گئے تھے کی مجھے کہ مجھے وہ خار دار تار جیسی رسی اپنے ہاتھوں کی کلائیوںاوت پاوں کے نخنوں میں کھبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔مجھے کرسی پر بیٹھا کر میری گردن بھی رسی سے لپیٹ کر کرسی پشت سے اس طرح کا کر باندھی گئی تھی کی میری ذرا سی جنپش سے وہ رسی میرئ گردن کے گوشت میں پیوست ہوتی جارہی تھی۔وہ ایک اندھیرا سا کمرہ شاید تہہ خانہ تھا ۔۔۔
میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر میری آواز میرے گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔کچھ دیر میں میرے عتب میں چند لوگوں کے قدموں کی آہٹ ہوئی اور کسی نے سامنے آکر میرے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ رسید کیا اور چلا کر عربی میں کچھ پوچھا اور میرے جواب دینے سے پہلے ہی دوسرا طمانچہ میرے گال پر اپنے نشان ثابت کر گیا میں نے چلا کر انگریزی میں کہا میں عربی نہیں بول سکتا لہذا جو کوئی بھی ہے مجھ سے انگریزی میں بات کریں اس بار وہ تینوں اندھیرے سے نکل کر میرے سامنے آگئے ۔۔۔
شاید پولیس یا کوئی دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہل کار تھے۔اس بار انہوں نے رابطے کے لیے انگریزی کا سہارا لیا۔ان کے سوال انتہائی مختصر اور انداز بڑا سفاکانہ تھا وہ چیخ چیخ کر مجھ سے پوچھتے رہے کی میں کون ہوں دوبئی میں کب سے قیام پذیر ہوں اور میرا ان سمگلروں اے کیا تعلق اور رشتہ ہے اور یہ کہ میں کا کے لیے کام کرتا ہوں؟میرے پاس جواب میں سوائے خاموشی کے ساتھ کچھ نہیں تھا اور پھر کوئی چارہ نہ پا کر انہوں نے دھیرے دھیرے ستم کا دائرہ کار بڑھانا شروع کردیا میرے بدن کے ہر جوڑ کو لوہے کی ایک چھوٹیسے مخصوص ہتھوڑی اے اس طرح ٹھوکا گیا کی ہر ضرب مجھے میری روح میں چھید کرتی ہوئی محسوس ہورہی تھی میرے ہاتھ اور پیروں کی انگلیاں کو اسی ہتھوڑی کی ضرب سے ایک ایک کر کے ناکارہ کردیا گیا میرے جسم کے جلتے سگریٹوں سے وقفے وقفے سے داغا جاتا رہا اور اس تمام عرصے میںجھے پنجوں کے بل کھڑا کر کے میرے ہاتھوں سے کھردری رسی چھت پر ایک کنڈے کے ساتھ باندھے رکھے گئے۔اس طرح کے میرے بازووں پر میرے جسم کا سارا بوجھ یوں پڑتا رہے کے میرے شانوںاور میری کہنیوں کے جوڑ کھل جائیں مگر میں وہیں جھولتا رہوں۔وہ ہر بار تشدد کے وقفے میں دوبارہ اپنا سوال دہراتے کہ میں کا کے لیے کام کرتا ہوں۔۔۔۔؟اور میرے گروہ کو کون کنٹرول کرتا ہے ؟میں ہر دفعہ تکلیف اور آذیت کے سمندر سے گزرتے ہوے ڈوب کر جب ہوش کی حد پار کر کے بت سدھ ہوجاتا تو مجھے یہی لگتا تھا کہ میری روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ہے اور اب میں دوبارہ کھبی ہوش میں نہیں آوں گا۔مگر میرے ستم گر تجربہ کار اور اپنے فن میں ماہر تھے۔انہیں مجھے زندہ رکھنا آتا تھا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان میں سے ایک تھک کر دوسرے دو جلادوں سے کہا کہ اسے ڈر ہے کہیں میں مر ہی نا جاوں۔لہذا ہمیں اسے سلطانی گواہ بنا لینا چاہیے اور مجھ سے عدالتی اسٹامپ پیپر پر ایک معادہ کر لیا جائے کہ اگر انہیں اپنے گروہ کے مالک میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی اقبالی بیان دے دوں تو وہ مجھے اگلے جہاز سے میرے ملک بنا کسی الزام کے ڈی پورٹ کردیں گے مجھے وہاں قید ہونے کے بعد دو یا تین دن کا حساب تو یاد رہا تھا مگر پھر اس کے بعد اذیت کی شدت سے میری بے ہوشی کے وقفے اتنے طویل ہونے لگے کی اب مجھے دن اور رات کی ہر تمیز اور گنتی بھول چکی تھی۔۔میرے جسم کے ایک ایک ریشے سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھی اور اب یہ درد میرے بدن کی حدوں سے نکل کر میرے اردگرد موجود ہر چیز میں منتقل ہوتا محسوس ہورہا تھا مگر میں انہیں کچھ نہیں بتایا۔جانے میرے اندر اتنی برداشت کرنے کی اتنی سکت کب اور کیسے پیدا ہوگئی تھی۔شاید ساری عمر زبان کے گھاوں سہتے سہتے میرے روح کی اذیت سہنے کی اس قدر عادت ہوگئی تھی کے جسم پر ہر لمحہ یہ لگتے گھاو اور داغ ان روح کے زخموں مقابلے میں مجھے بہت کم تر محسوس ہوتے تھے۔۔۔
وہ مجھے ہر طرح سے ازما چکے تو آخری حربے کے طور پر انہوں نے میرے ہاتھ اور پاوں کے ناخن ایک ایک کر کے میری کھال سے نوچنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ اوزار منگوالیے۔ان میں سے ایک ہاتھ کھولنے کے لیے نیچے جھکا تو دوسرے نے بے زاری سے ایک لمبی انگرائی لی کہ آدھی رات تو بیت ہی چکی ہے تو کیوں نہ اس نیک کام کو اگلے روز صبع تک مقرر کر دیا جائے۔ویسے بھی میری حالت اس وقت تک اتنی ابتر ہوچکی تھی کی شاید مجھے اپنے ماس سے ناخنوں کے علیدہ ہونے کا پتہ بھی نہ چلتا کتنی عجییب بات ہے کہ درد اور اذیت محسوس کرنے لے لیے بھی انسان کا اپنے حواس میں رہنا ضروری ہے انسانی جسم کی رگیں اس درد کے پیغام کو دماغ کےایک خاص حصے تک پہنچا کر جسم کو دوبارہ پیغام دیتی ہیں کہ وہ درد میں مبتلا ہے
مجھے اس روز دنیا کے ہر دیوانے اور خرد سے بیگانےشخص کی تقدیر پر ٹوٹ کر رشک ایا۔نہ دنیا میں کسی درد کا جھمیلا اور نہ اخرت میں کسی عذاب کا ڈر۔کاش اس دیوانے پن کو اختیار کرنا بھی ہمارے بس میں ہوتا ۔۔۔
وہ لوگ جانے کس وقت تہہ خانے سے جا چکے تھے مگر میرا ذہن ابھی تک کسی آزاد جنگلی اور وحشی گھوڑے کی طرح بے لگام دوڑ رہا تھا۔دفعتا مجھے یوں محسوس ہوا کہ میری پشت پر بندے ہاتھوں کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑ گئی تھی۔میں نے کرسی کو دوچار زور دار جھٹکے دینے کی کوشش کی تو منہ سے چیخیں نکل گئی۔آذیت درد اور تکلیف کے دریاوں کے بند کھل سے گئے اور میرے جسم کے تمام مساموں سے درد یوں قطرہ قطرہ کر کے پھوٹ کر نکلا جیسے شدید گرمی کی کڑی دوپہر میں پسینہ پھوٹتا ہے ۔
کرسی ایک جانب لھڑک گئی اور میں اس کے ساتھ ہی بندھے ہاتھوں پیروں سمیت زمین پر اوندھے منہ گر گیا اور کچھ دیر کے لیے اور کچھ دیر کے لیے میرے آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔جانے کتنی دیر بعد مجھے دوبارہ ہوش آیا تجھے محسوس ہوا کہ کرسی کی ہتھی ٹوٹ چکی ہے اور میرے ہاتھ پشت سے تقریبا کھل چکے ہیں میں نے پوری قوت لگا کر ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھ آزاد کر لیے اور کانپتی زخمی خون سے سن ہوئی انگلیوں ہے ساتھ اپنے پیروں ی بندش بھی کھول ڈالیں اور خود کو کسی نہ کسی ظرح گھسیٹتے ہوئے سیڑھیوں تک پہنچا اور چاروں ہاتھوں پیروں کی مدد سے جانے کتنی صدیوں میں دیڑھیان چڑ کر اوپر تہہ خانے کے دروازے تک اپنے گھائل اور پور پور زخمی بدن کو پینچایا۔خوش قسمتی دے دروازہ ایک ہلکی دی کنڈی کی مدد سے باہر کی جانب سے بند تھا اور جب میں نے اپنے پورے جسم کے وزن کو دروازے پر دو چار مرتبہ دے مارا تو چٹخنی کھل گئی اور میں اپنے ہی زور میں باہر کھلے ہال میں جا گرا میری توقع کے برعکس وہ کوئی جیل یا دفتر کی بجائے ایک ویران دی نا مکمل عمارت تھی س کے تہہ خانے میں مجھے قید رکھا گیا تھا۔میں پوری قوت لگا کر لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوگیا اور اس کوشش میں جانے کتنی بار زمین پر گرا۔میرے قدم یوں جھولتے ہوئےزمین پر پڑ رہے تھے جیسے میری ٹانگوں میں موجود ہر ہڈی کو پیس کر چکنا چور کردیا گیا ہو۔کسی نہ کسی طرح میں زیر تعمیر ہال کے ڈھانچے سے باہر نکلا اور صحن میں نظر آنے والے لوہے کے بڑے گیٹ کی طرف بڑھا۔میں احاطے کی دیوار کا سہارا لے کر دھیرے دھیرے گیٹ کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اچانک صحن اور عمارت کا پورا احاطہ تیز روشنی سے جگمگا اٹھا صرف اندھیرا ہی انسان کی بصارت نہیں چھینتا۔کھبی کھبی روشنی کی چکا چوند بھی ہمیں اندھا کر دیتی ہے میں بھی چند لمحوں کے نابینا سا ہوگیا تھا اور پھر مجھے بہت سے سائے اپنی جانب دوڑتے نظر آئے میں نے دیوانہ وار گیٹ سے باہر نکلنے کے لیے جست لگائی مگر مجھے راستے میں ہی کسی نے دبوچ لیا اور میں اس طرح بے سدھا سا زمین پر گر گیا جیسے سینکڑوں میل صحرا اور جنگل میں لگاتار دوڑنے والا گھوڑا شدید تھکن سے چور ہوکر کانپتی ہوئے آخری بار کھبی نہ اٹھنے کے لیے زمین ہر گرجاتا ہے میرئ پلکیں بوجھل ہوکر دھیرے دھیرے بند ہوتی گئیں ۔شاید میری موت آخر کار مجھے اپنی مہربانی اغوش میں لینے کے لیے پلکوں کے در پر اپنے سفید پنکھ پھیلائے آکھڑی ہوئی تھی۔مجھے اس موت کی دیوی کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی ۔۔
پری زاد ۔۔اٹھو ۔۔۔چلو بہت دیر ہوگئے۔۔۔
میں نے غور سے آواز سننے کی کوشش کی۔ہاں۔۔۔۔کوئی میرا نام پکار تو رہا ہے مگر یہ آواز ۔۔؟
ہاں میں اس کو پہچانتا تھا کوئی کسی سے کہہ رہا تھا ۔۔
اسے ہوش میں لاو۔۔۔یہ مجھے زندہ چاہیے ۔۔۔
میرے ڈوبتے ذہن نے اواز پہچان لی ۔۔یہ بہروز کریم کی آواز تھی۔تو کیا مجھے بہروز کریم نے خود اغوا کروایا تھا؟
قسط 10
بہروز کریم کی آواز سننے ہی میرے خوابیدہ کو ایک جھٹکا سا لگا
مگر پھر میں ہوش کی سفاک سرحدوں کو پاس کر گیا۔میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ یہ سرحدیں کیوں بنائی جاتی ہیں جاوید اختر ٹھیک ہی کہا تھا۔۔
سرحدیں انسان کے لیے ہوتی ہیں۔سوچو تم نے اور میں نے کیا پایا انسان ہوکے۔؟میں بھی ایک ایسا ہی بدنصیب انسان تھا۔پنچھی ندیا یا پون کا جھونکا ہوتا تو جانے کب اس زفاخ دنیا دے پرواز کر چکا ہوتا مگر میرے پر تو باندھے تھے جتنی بار مجھے ہوش آیا میں نے خود کو سفید پٹیوں میں بندھے ہوے پایا پھر ناجانے کتنے دن بعد مجھے تھوڑی دیر کے لیے مکمل ہوش آیا تو میں ایک آرام دہ کمرے میں ایک نرم بستر پر پڑا ہوا تھا۔ایک برس میرے قریب بیٹھی مستعدی سے میری دواوون کا چوٹ بنا رہی تھی میں نے گھبرا کر اس سے پوچھا ۔
میں کہا ہوں؟؟
نرس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔تب مجھے خیال آیا کے میں بے خیالی میں اردو میں بات کر رہا ہوں۔میں نے دوبارہ انگریزی میں پوچھا تو وہ مسکرا کر بولی۔فکر مت کرو تم محفوظ ہاتھوں میں ہو تمہارے زخم دھیرے دھیرے بھر رہے ہیں۔تم بس آرام کرو ۔
نرس کمرے سے نکل گئی اور پھر مجھے جتنی دفعہ بھی ہوش آیا میں نے اسی نرس سے چند مخصوص چہروں کو اپنے ارد گرد منڈلاتے دیکھا۔خو پوری طرح میرا خیال رکھ رہے تھے یہ زخم بھی کتنے بے وفا ہوتے ہیں۔میسحائی کا مرہم ملتے ہی کیسے اپنا مسکن ہمارا یہ جسم چھوڑ جاتے ہیں وہی جسم جوان زخموں کی خاطر جانے کیسے کیسے درد عذاب جھیلتا ہے یہ اسی کو بھول جاتے ہیں۔ان سے اچھے تو ان زخموں کے دیے ہوئے داغ ہوتے ہیں۔عمر بھر ساتھ تو نبھاتے ہیں کاش رشتے بھی داغ جیسے ہوا کرتے زخم بن کر عارضی ساتھ نہ دیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔تقریبا ہفتہ بعد میں اٹھنے بیٹھنے کے قابل ہوگیا مجھے سب سے زیادہ فکر رفیق کی تھی جانے وہ میری تلاش میں کہا کہا بھٹک رہا ہوگا۔۔؟کہیں اس نے پریشان ہو کر میرے گھر والوں کو خبر نہ کردی ہو؟میری دیکھ بال پر مامور طلبی عملہ میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیتا تھا یا شاید انہیں واقعی ہی کچھ پتا نہیں تھا اور پھر اٹھویں دن پہلی مرتبہ مجھے فیروز خان کا چہرہ نظر آیا وہ میرے کمرے میں داخل ہوا تو میں اٹھ بیٹھا ۔
یہ سب کیا ہے فیروز؟اور میں کہاں ہوں؟مجھے یہاں کون لایا ہے؟ مالک کہاں ہیں ؟کوئی میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتا؟فیروز نے حسب معمول خاموشی سے سارے تابڑ توڑ سوالات سنے اور پھر اطمینان کے ساتھ بولا۔سب پتا چل جائے گا ویسے تم واقعی ہی بڑی سخت خان نکلے ورنہ میرا خیال تھا کہ جیسا کچا لڑکا ایک جھٹکے میں ہی ٹوٹ جائے گا۔لیکن زندگی میں پہلی مرتبہ میرا اندازہ غلط ثابت ہوا میں نے حیرت سے فیروز کی طرف دیکھا ۔۔۔کیا مطلب۔۔؟
تو کیا تم لوگوں کو خبر تھی کہ مجھ پر کیا گزر رہی ہے اوڑھے اغوا کر کے کہاں رکھا گیا ہے ۔۔؟
فیروز کے طیرے ہر حسب معمول کا فقدان تھا۔اس نے جیب سے اپنی مخصوص برینڈ کی بیڑی نکالی تو ہونٹوں میں لگا کر سلگائی۔ہاں۔۔ نہ صرف جگہ کا پتا تھا بلکہ تمہیں یہاں اٹھا کر لانے والے بھی ہمارے آدمی تھے ۔۔؟
میرے دماغ کا تو جیسے فیوز ہی اڑ گیا میں نے چلا کر کہا مگر کیوں ؟مگر میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کیا گیا؟؟
فیروز کا لہجہ بھی دھیما اور پرسکون تھا ۔۔تمہی نے تو مالک سے کہاں تھا کہ تمہیں بہت پیسہ کمانا ہے۔یہ پیسے کمانے کی پہلی کسوٹی تھی تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم اتنے ہی پاغل ہیں کہ ایک دن راہ چلتے تمہیں پسٹل تھما کر کروڑوں ریال کا مال لینے ساحل پر بھیج دے گے۔؟تمہیں تو شاید ابھی تک گولی چلانا بھی نہیں آتی۔پیسہ کمانے کے لیے صرف کلائی کی نہیں کلیجے کی بھی ضرورت ہوتی ہے یہ تمہاری برداشت حوصلے اور بہادری کا امتحان تھا۔ہم میں سے جو بھی مالک کے خاص کارندے ہیں انہیں اس طرح کی کئی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ہاں۔مگر تمہاری باری پر مالک نے ناجانے ہاتھ اتنا سخت کیوں رکھا ۔۔
میں منہ کھولے حیرت سے فیروز کی ساری بات سنتا رہا۔اس نے مجھے بتایا کے ساحل پر ہونے والے ڈرامے سے لے کر میرے فرار کی کوشش تک سبھی پہلے سے طے شدہ تھا مجھے فیروز کریم کے خاص گروہ میں شامل کرنے سے پہلے انہیں میری وفاداری کا ہر طرح امتحان لینا تھا ۔کیوں کے جب کھبی میں ان کے لیے باقاعدہ کام شروع کرتا تو کسی بھی وقت گرفتاری کی صورت میں مجھے انہی حالات سے گزرنا پڑتا اور وہ لوگ یہی جاننا چاہتے تھے کہ کہیں میں تشدد اور اذیت سے ٹوٹ کر کسی مرحلے پر بھی بہروز کریم یا دیگر عملے کا نام افشا تو نہیں کردوں گا۔فیروز کے مطابق اگر میں کسی بھی مرحلے پر ہار اپنی زبان کھول دیتا تو مجھے آذیت خانے سے نکال کر پہلی فلائٹ سے دوبارہ ڈیپورٹ کر دیا جاتا مجھے فرار کو موقع بھی جان بوجھ کر دیا گیا تھا۔کیونکہ بہروز کریم یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کہیں میں درد سے ٹوٹ کر اپنی پلٹ اور حوصلہ تو نہیں کھو بیٹھا۔فیروز نے مجھے یہ بھی بتایا اس ساری کاروائی کے براہ راست نگرانی خود بہروز کریم کرتا ہے کیوں کے اسے آپنے ارد صرف ایسے خاص چنے ہوئے وفاداروں کا گروہ چاہیے ہوتا ہے جو اس کے امتحان پر پورا اتر چکے ہوں میں نے فیروز سے رفیق کے بارے پوچھا تو اس نے مجھے تسلی رکھنے کو کہا رفیق کو اتنا ہی پتا ہے کہ مجھے مالک نے کسی ضروری کام سے ابوظہبی کے دفتربھیج دی ہے اور اس سارے عرصے میں وہ لوگ میری طرف سے رفیق کو میرے گھر بھیجنے کے لیے پیسے بھی دیتے رہے ہیں خود رفیق کو کسی نہ کسی کام کے بہانے اس سارے عرصے میں شہر سے دور ہی رکھا گیا تھا تاکہ وہ میری لمبی غیر حاضری محسوس نا کر سکے۔وہیں بیٹھے بیٹھے فیروز نے اپنے فون پر میری رفیق سے بات بھی کروا دی۔میری آواز دن کر رفیق کھل سا گیا ۔
اوئے کہاں ہو تم یار۔۔ایسی بھی کیا نوکری ہے۔۔یاروں کو ہی بھلا دیا ۔۔
میری اواز بھراسی گئ آستیں نے اسے بتایا کہ میں جلدی ہی واپس آکر ملوگا ۔۔بہروز کے جانے کے بعد میں تھک کر آنکھیں موندھ لیں ۔۔اس دن مجھے بھی احساس کہ دنیا میں انسان دولت اور پیسہ روپیہ سب کچھ کما لیتا ہے۔مگر سب سے مشکل کسی کی وفاداری کمانا ہوتا ہے۔کیونکہ اس تعلق کسی دوسرے کے خلوص اور ایمان سے ہوتا ہے۔بہروز کریم کی یہ احتیاط اور پریشانی اپنی جگہ بلکل بجا تھی سلطنت بنا لینے سے کہیں زیادہ مشکل سلطنت قائم رکھنا ہوتا ہے۔دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہ بہت چھوٹے اور معمولی غداروں کے ہاتھ اپنی بادشاہت گنوا چکے ہیں اور بہروز کریم مجھے تاریخ کو یاد رکھنے والا شخص معلوم ہوتا تھا۔شام کو اچانک باہر وہی ہل چل سی گئی جو بہروز کریم کی آمد کا خاصہ اور ابتدائی پیغام لے کر آتی تھی۔کچھ دیر بعد ہی فیروز میرے کمرے میں موجود تھا فیروز خان بھی اس کے ہمراہ آیا تھا۔میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو لڑکھڑا گیا بہروز نے مجھے بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور خود میرے بستر کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ کر دیر تک مجھے غور سے دیکھتا رہا ۔کچھ کہوں گئے نہیں مجھ سے ؟
میری وجہ سے تم پر یہ ظلم کے اتنے پہاڑ توڑے گئے تمہاری پور پور اور نس نس میں درد کا زہر بھر دیا گیا۔غصہ تو بہت آیا ہوگا مجھ پر میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ براہ راست بہروز کی طرف دیکھا ۔نہیں آپ نے وہی کیا جو دنیا میں کسی وفاداری جانچنے کے لیے رائج طریقہ ہے انسان کا جسم ہی بظاہر اس کی سب بڑی کمزوری اور مجبوری ہوتا ہے تو اگر آپ نے بھی اس کمزوری کو ازما کر وفاداری کی جانچ کی ہے تو آپ سے کیا گلہ شکوہ کرنا ۔۔؟
بہروز نے دلچسپی سے پوچھا۔خوب گویا وفاداری کو پرکھنے کو کوئی طریقہ بھی ہوتا ہے ؟
میں بھی جاننا چاہوں گا ۔۔۔
جس وفادار کے لیے اس کا جسم اور درد کمزوری ہو اس کے لیے برداشت کی جانچ ہی اب سے زیادہ آزمودہ طریقہ ہے۔مگر جسے درد سہنے اور اذیت برداشت کرنے کی عادت پڑ چکی ہو۔۔اس کا امتحان کیا ہوگا؟میں تو ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو لذت کے حصول کے لیے اذیت سے گزرتے ہیں ان کی وفاداری کیسے ناپیں گئے آپ؟؟
بہروز چپ رہا میں اپنی بات جاری رکھی ۔
اس دنیا میں ہر انسان کے لیے قدرت نے ایک الگ امتحان تیار رکھا ہے کہیں درد کہیں دولت کہیں حسن اور کہیں اقتدار
آپ نے تو مجھے ابھی صرف ایک آزمائش سے گزارا ہے ۔۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ میرے حصہ کا امتحان ہی نہ ہو
بہروز نے اپنے سگار کو بے خیالی میں توڑا اور اور فیروز خان نے جلدی سے لائٹر سے سگار کا شعلہ دکھایا۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو لڑکے مگر میں اپنے وفاداروں کو اتنا کچھ سے دیتا ہوں کہ انہیں دیگر کسی چیز کی ہوش باقی نہیں رہتی لیکن ایک بات تمہاری دل کو لگتی ہے وفاداروں کی وفا ناپنے کا کوئی حتمی فیصلہ پیمانہ ایجاد ہی نہیں ہوا کھبی۔انسان کے خون میں ہی وفا نہ ہو تو یہ صرف دل بہلاوے کی آزمائشیں ہیں۔مجھے تمہاری صاف گوئی پسند آئی اور مجھے تمہاری قوت برداشت کی داد بھی دینا پڑے گی حالانکہ دیکھنے میں تم اتنے سخت جان نہیں لگتے۔بہرحال۔اب تم بھی ہماری ٹیم کا حصہ بن چکے ہو۔مگر یاد رہے ۔جس دنیا میں تم قدم رکھنے جا رہے ہو۔وہاں سے واپسی کا کوئی دروازہ نہیں ہے لہذا ایک بار پھر اچھی طرح سوچ لو میں خود کھبی کسی کو پیش کش نہیں کرتا مگر تم اگر چاہو تو تمہیں آج بھی بہت کچھ دے کر تمہارے ملک واپس رخصت کر سکتا ہوں
مگر ایک بار جب تم ہمارے راز اور ٹھکانوں سے واقف ہو گئے پھر کھبی تمہاری واپسی ممکن نہیں ہوگی چاہو تو میں تمہیں سوچنے کے لیے دو دن مزید دے سکتا ہوں میں واپس جانے کئ لیے یہاں نہیں آیا تھا یہاں آنے سے پہلے ہی میں واپسی کے سارے راستے بند کر چکا ہوں اور واپسی کی فکر وہ کرتے ہیں جن کی واپسی کا کوئی منتظر ہو۔۔۔
میرا کوئی آگے ہے نہ پیچھے۔۔۔آپ حکم کرے۔۔مجھے کرنا کیا ہوگا؟؟؟؟
بہروز اطمینان سے میری ساری بات سنی اور میرا کاندھا تھپتھاتے اٹھ کھڑا ہوا۔پہلے تم مکمل صحت یاب ہوجاو
پھر بہت کام پڑے ہیں تمہارے کرنے کے ۔۔
اور ہاں کچھ دن بعد تمہارے دوست کو بہتر جگہ ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔کیونکہ یہاں سے واپسی کے بعد تم اس کے ساتھ نہیں رہو گئے ۔۔
بہروز کریم کمرے سے باہر نکل گیا۔فیروز خان کچھ حیرت زدہ سا تھا وہ ایک لمحے کے لیے میرے پاس رکا تم واقعی بہت خوش قسمت ہو لڑکے۔۔مالک کو میں نے آج تک اتنی باتیں کسی سے کرتے نہیں دیکھا ۔۔جلدی تندرست ہوکر باہر آنا تمہارے ساتھ مل کر کام کرنے کا مزہ آئے گا
فیروز چلا گیا اور اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد جب میں رفیق کے فلیٹ پر پہنچا تو وہ اپنا سامان باندھ رہا تھا مجھے دیکھ کر وہ مجھ سے لپٹ گیا۔اچھا ہوا کہ تم آگئے مجھے مالک نے انچارج بنا کر ابوظہبی والی فیکٹری میں ٹرانسفر کر دیا ہے۔پر تم فکر نہ کرنا میں نے مالک سے التجا کی ہے کہ وہ تمہیں بہت جلد ترقی دے کر میرے پاس بھجوادے۔تب تک تم یہی میرے فلیٹ میں رہو گئے
میں خاموش رہا۔اب میں اسے کیا بتاتا کہ ہمارے راستے جدا ہو چکے ہیں میں رفیق کو رخصت کرنے کے لیے ائیرپورٹ تک اس کے ساتھ آیا اور جہاز فضا میں بلند ہونے تک باہر لاونج میں کھڑا رہا۔ہماری زندگی میں کچھ ایسے لوگ بھی آتے ہیں جن کی موجودگی دے کہیں زیادہ ہمیں ان کی غیر حاضری محسوس ہوتی ہے۔رفیق لے خانے کہ بعد ہی میں نے اس زیادہ اپنے قریب پایا ہم انسان اتنے تاہ نظر کیوں ہوتے ہیں ؟
اپنے قریب کی چیزیں رشتے ناطے اور لوگ ہمیں کیوں نظر نہیں آتے جبکہ اپنے جذبوں اور اور رشتوں کی تلاش میں ہم سات سمندر پار تک ساری دنیا چھان لیتے ہیں مجھے تو ویسے بھی دور چار دن میں بہروز کریم کی طرف سے دیے گئے نئے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوجانا تھا مگر رفیق کے جانے کی بعد مجھ سے چوبیس گھنٹے اس کے فیلٹ میں نہیں رہا گیا۔میں نے فیروز کو کہلوا بھیجا کہ ہوسکے تو مجھے چند دن کیسی ہوٹل وغیرہ میں منتقل کروادے۔جواب میں فیروز نے شام تک ایک بڑے پیارے اپارٹمنٹ کی چابی میرے حوالے کر دی جہاز سائز کے اس اپارٹمنٹ میں ضرورت کی ہر شے پہلے ہی موجود تھی۔پر چیز نئی اور قیمتی چمکتی ہوئی۔قرینے سے ڈھائی گئی اتنی بڑی خواب گاہ جس کی کھڑکی سمندر کی طرف کھلتی تھی۔دبیز ایرانی قالین ریشم پردے فانوس بڑے بڑے مصوروں۔کی تصویرے سے سجی دیواریں ساتویں منزل پر بنے ہوئے اس اپارٹمنٹ کا سمندر کی طرف کھلنے والی ٹیرس اور وہاں پڑی وہ بیدکی قیمتی کرسی ۔۔۔
پل بھر کے لیے مجھے اپنے گھر کی چھت پر بنا وہ گودام نما چھوٹا سا کمرہ یاد آگیا اور میری آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں اس چھوٹے سے ڈربہ نما کمرے سے لے کر اس عالی شان اپارٹمنٹ کے سفر میں ناجانے میں نے پایا زیادہ تھا یا کھویا بہت؟۔۔۔مجھے ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا تھا مجھے کام کیا کرنا ہوگا۔مگر ایک بات تو بہت حد تک واضع ہوچکی تھی کہ بہروز کریم کے خفیہ دھندے بھی ہیں جو قانون کی نظر سے چھپ کر جاری تھے۔فیروز سے مجھے اتنا ضرور پتا چل گیا تھا کہ وہ لوگ درپردہ سونے کی اسمگلنگ کا کاروبار کرتے تھے۔یہ دولت کمانا بھی تو ایک خبط ہے۔شاید دنیا کا سب سے بڑا اخبار اور جنون۔۔ورنہ بہروز کریم کو بھلا مزید روپیہ کمانے کی کیا ضرورت تھی؟یا شاید یہ بھی ایک نشہ ہے۔کچھ لوگ کرکے اس نشے کا سرور محسوس کرتے ہیں اور کچھ جمع کرکے۔۔اس روز مجھے ایک اور ادارک بھی ہوا کہ دولت مندکی دولت جتنی بڑھتی جاتی ہے۔وہ اتنا ہی اپنے اندر سے خود غیر محفوظ تصور کرنے لگتا ہے..
اور ٹھیک اس کے برعکس فقیر کا فقر اور فاقہ جتنا زیادہ بڑھتا ہے۔وہ اتنا ہی بہادر اور لاپروہ ہوتا جاتا ہیں بھی جب تک فقیر تھا۔مجھے اپنی جھلنگار چارپائی پر جھولتے جھولتے نیند آجاتی تھی۔اور آج رات جب میرے پاس دوبئی کے سب سے پوش علاقے میں مہنگاترین اپارٹمنٹ موجود تھا تو میں اپنی خواب گاہ کی نرم مسہری پر ساری رات بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہا۔اگلی صبع سویرے ہی فیروز خان کا پیغام آگیا کہ بہروز کریم کچھ دن کے لیے شیر سے باہر جارہا ہے اور جانے سے پہلے ہم سب کو ایک خاص میٹنگ کے لیے اپنے ساحلوالے بنگلے پر بلایا ہے۔سہ پہر کو ڈرائیور گاڑی لے آیا اور مجھے اور دوچار مزید ارکان کو لیے بہروز کریم کی شاہانہ رہائش گاہ پر پہنچ گیا۔میں نے اس پہلے یہ جگہ نہیں دیکھی تھی۔میرا اندازہ درست تھا۔کہ بہروز کو صرف کمانا نہیں خرچ کرنا بھی آتا تھا اور اس نے اپنی اس رہائش گاہ پر جی بھر کر خرچ کیا تھا۔کہتے ہیں انسان کا خط اور اس کی رہائش کا سلیقہ اس کے اندر کے آدمی کی نزاکت یا کرختگی بیان کرتے ہیں۔بہروز کریم کا یہ عالی شان محل اسی مثال کی غمازی کر رہا تھا۔اندر داخل ہوتے ہی ایک جانب پورچ میں دنیا کی چند بہترین اور مہنگی گاڑیاں شیڈ کے نیچے کھڑی تھی۔شاید بہروز کو دنیا کی نایاب ترین کاریں جمع کرنے کا شوق تھا۔دائیں جانب چھوٹی سی پانی کی ایک نہر تھی جس سے پڑے سبزے پر ایک وسیع و عریض گالف کورس بنایا گیا تھا۔گھاس کے اونچے نیچے ٹیلوں کی پشت پر جہاں وہ پتھر اور درختون کے جھنڈ ختم ہوئے تھے۔وہاں ٹینس کورٹ بھی تھا مگر گاڑی ہم سب کے لیے ان سب عجوبوں کو پار کرتی ہوئی شیشے اور لکڑی کی ایک خوبصورت عمارت کی طرف بڑھتی گئی جو شاید بہروز کے بنگلے کی انیسکی تھی۔کیوں کہ اصل گھر جو کسی برطانوی دور قلعے سے متشابہ تھا اس کی سرخ اور بھوری اینٹوں سے بنی عمارت تو ان سب سے پڑے دیکھائی دے رہی تھی۔ہم سب انیسکی میں داخل ہوئے تو بہروز اور فیروز خان پہلے سے وہاں موجود تھے بہروز نے مجھ سمیت سب کا حال پوچھا اور پھر ہمیں بتایا کہ اسے اچانک ایک ضروری کام سے چند کے لیے لندن جانا پڑ رہا ہے اور اس کی واپسی ہفتہ بھر میں متوقع ہے۔پھر اس نے فیروز کو اس عرصے میں سبھی ارکان کی ڈیوٹی کے بارے میں تفصیل بتانے کی ہدایت کی فیروز نے سبھی کو مختلف ادھورے کام اور وہ سقدے بتائے جو اس عرصے میں انہیں پایہ تکمیل کو پہنچانے تھے مگر میرے لیے تفصیل میں کوئی فرض شامل نہیں تھا۔باقی رکن ایک ایک کر وہاں سے رخصت ہوتے گئے اور پھر آخر میں صرف میں ہی وہاں کھڑا رہ گیا ۔
بہروز کریم نے مسکرا کر فیروز سے پوچھا۔کیوں فیروز خان
پری زاد سے تمہاری بہت دوستی ہوگئی ہے کیا۔۔۔؟
اسے کوئی کام نہیں دیا تم نے ۔۔۔
فیروز خان نے حسب معمول سپاٹ چہرے کے ساتھ جواب دیا یہ ابھی نیا ہے مالک اور اس نے کوئی پرانا سودا بھی نہیں چکانا۔آپ خود ہی اس کے لیے کام بتا دیں ۔۔
بہروز کریم نے اپنا مخصوص سگار نکالا اور فیروز نے اسے لائٹر سے سلگایا۔ہاں اس کے لیے میرے پاس ایک خاص کام ہے تم جانتے ہو پری زاد۔تم میرے گروپ کے سب سے نئے رکن ہو۔اس لیے میرے کاروباری حریفوں اور میرے دشمنوں کی اب تک تم پر نظر نہیں پڑی ہے تمہاری اسی خصوصیت کو میں اس ایک ہفتے بروئے کارلانا چاہتا ہوں۔۔
میں نے سر جھکا کر کہا۔میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔
بہروز نے مجھے بتایا کہ اس نے یہ محل اپنی چھوتھی بیوی کے لیے تیار کروایا تھا جو اس کی سب سے زیادہ لاڈلی بھی ہے اس نے باقی دو بیگمات یہیں دوبئی میں اور ایک بیوی اور چھوٹا بیٹا لندن میں رہتے تھے۔وہ لندن اپنے اسی بیٹے کے لیے کسی نام اور تعلیمی ادارے میں داخلہ کروانے کی غرض سے جارہا تھا لیکن اسے اپنی اس نئی کم سن دلہن کی بہت زیادہ فکر لگی رہتی تھی اس لیے بہروز نے اس محل میں اس کی تفریح کا ہر سامان مہیا کر رکھا تھا۔اس کے دشمنوں کو ابھی بہروز کریم کی اس نئی شادی کا علم نہیں تھا نہ ہی وہ کریم کی نئی نویلی دلہن کی صورت سے واقف تھے۔مگر بہروز کے بقول اس کی گھر والی اب گھر میں بیٹھے بیٹھے اوب چکی تھی لہذا وہ اپنی سہیلیوں اور اپنے خاندان ملنے کے لیے باہر جانے کی ضد کرنے لگی تھی بہروز اس کی محبت کے ہاتھوں انتہائی مجبور ہونے کے باوجود اسے اپنے کسی پرانے وفادار یا محافظ کے ساتھ باہر بھیجنا چاہتا تھا۔کیونکہ بہروز کے پرانے وفاداروں کو تو پورا شہر جانتا تھا لہذا ان کے ساتھ کا مطلب ہی بہروز کے خاندان کی نشاندہی نہ تھی۔لہذا بہروز چاہتا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں اگر اس کی دلہن کو کہیں جانا ہوتو میں ڈرائیور کے ساتھ اس کے ہمراہ جاوں۔دوسری احتیاط مجھے یہ بھی کرنی تھی کہ بہروز کی دولہن کو کسی گاڑی کی موجودگی کی الجھن سے بے خبر رکھنا تھا کیونکہ اس زیر زمین دنیا کے خطرات سے آگاہ کرکے بہروز اس کی زندگی اجیرن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ہاں البتہ خس گاڑی میں میں اور ڈرائیور اور بہروز کی لاڈلی گھر سے نکلا کرے گی۔اس کا تعاقب میں بہروز کے خاص وفادار اور محافظوں کی ایک ٹیم غیر محسوس طور پر پیچھے ہی رہی گی۔اس دوسری گاڑی کا صرف مجھے پتا ہوگا اور ان کمانڈوز سے فون پر میرا رابطہ رہے گا تاکہ جب کھبی کوئی خطرہ محسوس کرو تو وہ پلک جھپکتے ہی ہماری گاڑی اپنی حفاظت کے حصار میں لے لیں۔۔
پوری بات کہنے کے بعد بہروز نے تصدیق کے لیے میری طرف دیکھا اب سمجھ گئے ناں۔۔۔کوئی بات پوچھنی ہو تو پوچھ سکتے ہو مگر یاد رکھنا لیلی صبا میری جان ہے اسے ہلکی سی کھرونچ بھی آئی تو غضب ہوجائے گا تمہارے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں پری زاد ۔۔
میں نے سر ہلایا ۔نہیں مالک ۔میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کوئی غلطی نہیں ہوگی ۔۔
بہروز مسکرایا۔۔شاباش ۔۔تم ظاہر نہیں کرتے۔۔مگر کافی ذہین ہو۔۔میں چپ رہا مگر نہ جانے مجھے یہ اس ساری کہانی میں کوئی ایک چیز بار بار الجھا رہی تھی جیسے بہروز نے سب کچھ بتاتے ہوئے کچھ خاص چھپا لیا ہو ۔۔
جیسے کوئی بڑا راز میرے آس پاس بھٹک کر میرے کان میں کوئی سرگوشی کر کے مجھے کچھ بتانا چاہیے۔مگر بڑا نہیں پارہا تھا کچھ بھی تھا مگر میں بہت دیر تک الجھن کی سولی پر لٹکا رہا۔کچھ دیر بعد میں فیروز خان نے آکر بتایا کہ لیلی صباہ جاگ چکی ہیں اور کریم کا پوچھ رہی تھیں ۔فیروز کو بہروز نے ہماری باتوں کے درمیان کچھ کام اندر کوٹھی میں بھیج دیا تھا بہروز کریم نے اٹھتے ہوئے مجھے بھی اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔
تم بھی وہیں آجاو میں تمہارا تعارف بھی لیلی سے کروادیتا ہوں ۔۔میں بہروز کریم اور فیروز کے نقش قدم پر چلتا ہوا اس محل کے ہال نما لاوئج میں داخل ہوا تو ایک جانب رکھے نفیس اور خوبصورت رنگ کے پیانو کو دیکھ کر میرے قدم ٹھٹک سے گئے مجھے یاد آیا کہ بچپن میں میں بھی تو ایک پیانسٹ بننا چاہتا تھا اور آج قدرت نے پیانو دکھایا بھی تو کہاں ۔۔؟اتنے میں اوپر منزل کی طرف سے نیچے آتی لکڑی کی سیڑھیوں پر کسی کے نازک قدموں کی آواز گونجی میری نظریں خود بخود جھک گئیں۔آنے والی نزاکت سے پاوں دھرتے نیچے اتری تو بہروز نے مجھ سے کہا ان سے ملو پری زاد۔جی نہیں میری بیگم۔اس گھر کی مالکن لیلی صباہ۔میں نے خھجکتے ہوئے نظر اٹھائی اور مجھ پر جیسے ایک پل کے لیے بجلی سی گر گئی ۔
قسط 11
لیلی صباہ خو میں نے دیکھا تو چند لمحوں کے لیے تو جیسے میں پتھر کا ہوگیا۔بہروز کریم کو خدا نے صرف روپے پیسے کی دولت ہی نہیں نوازا تھا۔قدرت نے لیلی صباہ کی صورت میں اسے حسن کی ایسی انمول نعمت کا خزانہ سونپ رکھا تھا جو دنیا میں بہت کم خوش نصیبوں کے حصہ میں آتا ہے۔لیلی حسن اور نزاکت کا ایک مکمل امتزاج تھی۔مغربی لباس میں ملبوس۔سیاہ فلیپر کے اوپر میرون شرٹ اور گلے میں سیاہ اسکارف کھلے بال اور بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں نیند کا خمار۔۔بہروز کریم کی فکر اپنی جگہ بلکل بجا تھی۔اس گل رخ کی حفاظت کے لیے سارے دوبئی کو بھی معمور کردیا جاتا تو یہ کم ہوتا ۔۔
کریم نے لیلی سے میرا تعارف کروایا۔اس سے ملو۔۔یہ ہے پری زاد میرا نیا اسسٹنٹ ۔۔
میں نے چونک کر بہروز کی طرف دیکھا وہ لیلی سے اردو میں بات کر رہا تھا لیلی نے نخوت سے میری طرف دیکھا اور انگریزی میں بہروز سے کہا ۔۔اوہ کم ان آغا۔۔آپ کی پسند کوکیا ہوتا جارہا ہے ۔۔بہروز نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور انگریزی میں ہی مجھے لاوئج کے ساتھ ملحق دوسرے کمرے میں انتظار کرنے کا کہا۔شاید وہ لیلی صباہ کو یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ میں انگریزی جانتا ہوں۔میں چپ چاپ وہاں اےنکل آیا مگر میرے جانے کے بعد بھی لیلی اور کریم کی اونچی آواز کی بحث میرے کانوں تک پہنچ رہی ۔خاص طور پر جب بہروز نے لیلی کو بتایا کی اب میں گھر سے باہر نکلتے وقت ہمیشہ لیلی کئ ساتھ رہوں گا تو لیلی کی آواز مزید اونچی ہوگئی ۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بہروز ۔۔؟اب یہ شخص میرا سایہ بنا رہے گا ۔۔؟آپ یہ تو سوچیں کہ جب میرے ساتھ چلے گا تو میرا کتنا مذاق بنے گا بازاروں میں ۔۔اس سے تو بہتر ہے کہ میں گھر باہر ہی نہ نکلوں۔۔
بہروز کریم نے مخصوص ٹھنڈے لیجے میں بیوی کو سمجھایا کی میرا اس کے ساتھ باہر جانا کیوں ناگزیر ہے اور یہ کہ وہ یہ سب لیلی کی محبت میں کررہا تھا ہے ورنہ وہ پردیس جاکر بھی لیلی کی طرف سے پریشانی میں مبتلا رہے گا۔بہر حال ایک لمبی بحث اور تکرار کے بعد آخر کار وہ لیلی کو معاملے کی نزاکت سمجھانے میں کامیاب ہوگیا ۔اس دن مجھے احساس ہوا کے محبت کا زنگ کتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ جو بہروز کریم جیسے فولاد کو کو بھی بھر بھری مٹی میں تبدیل کرسکتا ہے۔۔مجھے نیا حکم یہ ملا میں اپنا ضروری سامان لے کر انیکسی میں منتقل ہوجاوں۔تاکہ اگر کھبی لیلی کو اچانک باہر جانا ہوتو اسے میرا انتظار نی کرنا پڑے۔مگر میری الجھن بڑھتی ہی جارہی تھی۔بظاہر یہ سیدھا سادھا نظر آنے والا معاملہ مجھے بہت ٹیٹرھا دکھائی دے رہا تھا جانے کیوں مجھے ایساں لگ رہا تھا کہ بات صرف لیلی کی حفاظت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے اور پھر میرے اس خدشے کی تصدیق بھی جلدی ہوگئی جب ائیرپورٹ روانگی سے قبل بہروز مجھے بکا کر سختی سے تاکید کی کہ گھر سے باہر مجھے ہر وقت ہر لمحہ لیلی کے ساتھ رہنا ہوگا اور روزانہ کی رپورٹ دینا ہوگی۔بہروز کے لندن جانے سے پہلے میں انیکسی میں منتقل ہوچکا تھا۔فیروز نے لیلی کے اردو بولنے کا کا معاملہ بھی حل کردیا کہ دراصل لیلی ترکی سے تعلق رکھتی ہے اور بہروز نے اسے وہی استنبول کے میلے میں دیکھا اور اس پر دل ہار بیٹھا تھا لیلی نے بہروز کی محبت میں اردو سیکھی اور اب وہ ٹوٹی پھوٹی اردو بول بھی لیتی ہے۔یہ ان کی شادی کا دوسرا سال تھا مگر میں بدقسمتی سے پہلے روز لیلی صباہ کی نظروں میں ایک
نا پسندیدہ شخص قرار پا چکا تھا کیونکہ اسے بہروز کے لگائے ہوے میرے پہرے شدید چڑ ہوگئی تھی اور اس کی جھنجھناہٹ کا سارا نزلہ مجھ پر گرنا تھا۔لیکن اگر بہروز حکم نہ بھی دیتا تو تن بھی لیلی جیسی ماہ رخ کا مجھ جیسے بھدے شخص سے نفرت کرنا لازمی تھا۔خاص طور پر اس وقت جب اس شخص کی ہم سفری کی شرط بھی لازمی قرار دے دی گئی ہو۔میں انیکسی میں اپنے کمرے میں آرام کرسی پر بیٹھا بہت دیر تک سامنے دیوار میں لگے بڑے آئینے کو دیکھتا رہا۔مجھے ائینہ پسند نہیں تھا مگر ہر گھر میں ہر دیوار پر لگے یہ شیشے ہر پل میرا راستہ کاٹتے رہتے تھے اور گھر پر ہی کیا مخحصر باہر گلی میں۔سڑک پر ۔گاڑیوں میں۔عمارتوں کے اندر ہر طرف میرے یہ دشمن میری تاک میں گھات لگائے بیٹھے رہتے تھے کہاں کہاں ان سے بچ جاتا میں۔۔۔؟
سارے شہر میں جابجا یہ میرا منہ چڑانے اور میرا مذاق اڑانے کے لیے مجھے کھڑے ملتے تھے۔میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر زندگی میں مجھے اپنا گھر بنانے کا موقع ملا تو اس میں کسی آئینے کی جگہ نہیں ہوگی۔کوئی گوشہ تو اس دنیا میں ایسا ہو جہاں میں بنا کسی خوف اور جھجک کے صرف اپنے ساتھ رہ سکو۔اگلے روز سہ پہر تین بجے کے قریب مجھے گھر کے ملازم نے آکر حکم سنایا کی مالکن لیلی باہر جانا چاہتی ہیں اور ڈرائیور باہر پوچ میں میرا انتظار کر رہا ہے میں گاڑی کے قریب پہنچا تو لیلی صباہ غصے میں بھری کھڑی تھی ۔
اتنی دیر کہاں لگا دی تم نے ۔۔؟کیا اب مجھے تمہاری تیاری کا انتظار کرنا پڑے گا ۔۔؟میں نے اسے بتایا کہ مجھے ملازم نے صرف تین منٹ پہلے روانگی کا بتایا اور میں جس حالتوں بیٹھا تھا ویسے چکا آیا مگر لیلی نے میری بات پوری ہی نہیں ہونے دی اور جھڑک دیا۔
اچھا اچھا۔۔اب گاڑی میں بیٹھو ۔۔میں فضول بحث کے موڈ میں نہیں ہوں ۔۔۔۔
میں چپ چاپ ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھ گیا اور لیلی نے عربی میں میں ڈرائیور سے چلنے کا کہاں۔گاڑی دوبئی کی بارونق سڑکوں سے ہوتی ہوئی ہوئی ایک جدید طرز کی کالونی میں داخل ہوگئی جہاں اونچے اونچے پر تعیش اپارٹمنٹس کی بہت سی قطاریں ترتیب سے جڑی ہوئی تھیں ہماری گاڑی جے سیریز کے اپارٹمنٹ کی قطار کے سامنے آکر رک گئئ۔لیلی نیطئ اوتری تو میں بھی نیچے اوتار آیا اس نے غصے سے میری طرف دیکھا۔
تم کہاں اتر آئے۔۔یہی نیچے میرا انتظار کرو ۔۔میں اپنی سہیلی سے مل کر آتی ہوں۔۔میں نے سر جھکا کر جواب دیا مجھے آپ کو اکیلا نہ چھوڑنے کا حکم ہے میں آپ کی سہیلی کے اپارٹمنٹ تک آپ کے ساتھ چلوں گا لیلی میری بات سنتے ہی اپے سے باہر ہوگئی۔۔پاس ڈئیر یو ۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے پلٹ کر جواب دینے کی اپنی اوقات میں اوقات میں رہو ورنہ۔۔اس بات پر مجھے اپنا لہجہ سخت کرنا پڑا۔معافی چاہتا ہوں۔مگر یہ مالک کا حکم ہے ۔۔۔
ہمارے تعاقب میں آنے والی گارڈ کی گاڑی کچھ فاصلے پر کھڑی ہوچکی تھی اور مجھے ان کی بے چینی سے ایساں محسوس ہورہا جیسے انہیں ہمارا زیادہ دیر رکنا یہاں کچھ پریشان کر رہا تھا۔لیلی نے غصے سے دانت پیسے اور پیر پٹختی ہوئی اندر لفٹ کی جانب بڑھ گئی پندرھویں منزل پر لیلی کی دوست کا اپارٹمنٹ تھا اس نے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولا تو دونوں سہیلیوں یوں ملیں جیسے برسوں بعد ملاقات ہوئی ہو۔لیلی اندر چلی گئی اور میں باہر راہداری میں ایک جانب دیوار کے ساتھ لگے لوہے کے بینچ پر بیٹھ گیا
تقریبا دوگھنٹے بعد وہ دونوں باہر نکلیں لیلی نے قریبی سپر مارکیٹ کچھ خریداری کی اور ہم اس کی سہیلی کو اپارٹمنٹ کے باہر چھوڑ کر واپس چلے آئے۔لیلی نے گاڑی سے اترتے ہی چیخ کر فیروز خان کا حاضر ہونے کا حکم دیا اور غصے میں بھری اندر چلی گئی۔میں انیسکی میں آکر بستر پر دراز ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد فیروز خان بھی وہی نازل ہوگیا ۔
تمہاری مالکن سے کوئی بحث ہوئی تھی آج ۔۔؟؟
ہاں۔۔۔وہ اکیلے جانے کی ضد کررہی تھیں۔میں نے صرف مالک کے حکم کی تعمیل کی ۔۔۔فیروز نے ایک لمبی سانس بھری ائندہ ایسی نوبت نہ آئے تو بہتر ہے لیلی مالک کی بہت چہیتی ہیں۔۔۔وہ یہ سب برداشت نہیں کریں گئے۔۔یوں سمجھ لو کہ تم ایک دو دھاری تلوار پر چل رہے ہوں اور تمہیں دونوں طرف اپنا وزن برابر بچائے رکھنا ہے ۔۔
ورنہ کٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو کر گر پڑوگئے ۔۔فیروز جاتے جاتے مجھے ایک نئی الجھن میں مبتلا کر گیا تھا ۔اگر میں بہروز کریم کا حکم مانتا تو لیلی کی ناراضگی یقینی تھی اور اگر لیلی کی ہدائیت پر عمل کرے ہوئے اس سے دور رہتا اور مکمل نگرانی نہ کرتا تو بہروز کی حکم عدولی ہوتی تھی اور ان دونوں صورتوں میں سزا میرے ہی مقدر میں تھی۔شام ڈھلتے ہی گھر کے حال سے پیانو کی مدھر تانیں ابھرنے لگیں۔کوئی پیانو پر بہت خوبصورت دھن بجا رہا تھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی میرے قدم ہال کی جانب بڑھ گئے ایک بوڑھی انگریز استانی پیانوں بجاتے ہوئے لیلی کو پیانو کا سبق دے رہی تھی۔میں لاونچ کی کھڑکی سے ہال کے اندر کا منظر دیکھا تو الٹے قدموں واپس چلا آیا گویا لیلی صباہ کو پیانو سیکھنے کا شوق تھا۔چلو ایک بات تو ثابت ہوئی کی کم از کم خوبصورت اور بد صورت لوگوں کے اندر دل ایک سا ہی ہوتا ہے۔ورنہ میں تو آج تک یہی سمجھتا رہا کے بدصورت لوگوں کا دل شاید تھوڑا کم دھڑکتا ہوگا۔۔اگلے روز لیلی صبع سویرے ہی کہیں جانے کے لیے تیار کھڑی تھی شاید ڈرائیور تک بہروز کریم کی ہدائیت پہنچا دی گئی تھیں ورنہ لیلی کا بس چلتا تو وہ اکیلی ہی ڈرائیو کے ساتھ نکل چکی ہوتی آج لیلی مجھ سے بحث نہیں کی اور ڈرائیور سے جمیرا کی طرف سے چلنے کو کہا اور خواہ مخواہ شام تک تک مالز میں خریداری کرتی رہی۔جانے یہ امیر عورتوں کی شاپنگ کا اتنا خبط کیوں ہوتا ہے؟شاید یہ بھی ایک طرح کی بھوک ہوتی ہے اور یہ بھوک صرف بھرے پیٹ ہی لگتی ہے شام کو گھر واپسی کے بعد میرے کان نہ چاہتے ہوے بھی پیانو کی اس خوبصورت دھن کی آس کرنے لگے۔سماعت کو بھی کھبی کھبی بڑی شدید بھوک لگتی ہے۔۔خاص طور پر مجھ جیسوں کی سماعت۔۔جو ساری عمر کسی زبان سے دو میٹھے بول سننے لو ترستے رہے ۔۔
ہماری سماعت انسانون کی زبان سے مایوس ہو کر قدرت کی بکھری دیگر آوازوں میں اپنے حصے کی روشنی ڈھونڈنے لگتی ہے۔مجھ بہتے پانی کی آواز بارش کی خاموش بوندوں کی ٹپ ٹپ ضرور آتی ہوا جھرنوں اور ایسی میٹھی دھنوں کی سرگوشیاں ہمیشہ اپنی جانب کھینچتی تھیں۔سو جب پیانو کی لے چھڑی تو میں بے اختیار انیکسی سے نکل ایا اور باہر باغیچے میں لاونچ کی کھڑکیوں کے اس پاس ٹہلنے لگا جانے کتنی دیر بعد اندر سے آواز آنا بند ہوئی اور بوڑھی پیانوں ٹیچر سر پر اسکارف ٹھیک کرتے ہوئے باہر نکلی اور گیٹ کی طرف چل پڑی میں نے جلدی سے اسے آگے بڑھ کر سلام کیا اور بہروز کے خادم کی حیثیت سے اپنا تعارف کروایا وہ خوش دلی سے مسکرادی۔اس کا نام مارتھا تھا۔میں نے مارتھا سے درخواست کی کہ کیا وہ مجھے پیانو بجھانا دیکھا سکتی ہیں۔۔؟میں اسے پورا معاوضہ دینے پر بھی تیار تھا مگر مارتھا کے چہرے پر مایوسی کی لکیریں ابھر آئیں۔اس نے مجھے بتایا کہ اس نے مجھے بتایا کے اس کے پاس پیانو تو نہیں ہے۔وہ تو کرسچن کالونی میں رہتی ہے اور اسکول کے بچوں اور شام کو ایک دو بڑے گھروں میں پیانو کر اپنا گزارہ کرتی ہے اس کی بات سن کر میری امیدوں پر بھی اوس گرگئی۔پھر کسی خیال سے میری آنکھیں چمکیں اگر میں کھبی پیانو لے سکو تو کیا آپ مجھے سکھانے آئیں گی ۔۔۔؟
مارتھا میرا سوال سن کر زور سے ہنس پڑی۔۔ہاں ہاں کیوں نہیں بلکہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے بھی تمہاری فیس بھی آدھی کردو گی ۔۔۔
مارتھا ہنستے ہوئے وہاں سے چلی گئی اور میرے دل میں یہ خواب پلنے لگا کہ جانے کب میں اپنا پیانو خریدوں گا اور مارتھا سے پہلا سبق لو گا۔اب میرے پاس اچھی خاصی رقم ہر ماں جمع ہوجاتی تھی۔پیانو خریدنا میرے لیے خاص بڑا مسئلہ نہیں تھا۔مگر انیکسی میں مجھے پیانو رکھنےکی اجازت شاید مجھے نہ مل پاتی۔ساری رات میں یہی سوچ کر کروٹیں بدلتا رہا کہ ایسی کیا تدبیر کروں کی میری برسوں کی دبی خواہش پوری ہو سکے۔جب خواب روٹھ جائے تو راتیں بڑی طویل ہوجاتی ہیں۔انسان بھی عجیب ہے خواب دیکھے تو راتوں تو راتوں پر پڑ فریب اور جال بننے کا الزام لگا دیتا ہے اور خواب نہ آئیں تو اسی سے رات کی طوالت سے بے زاری ہونے لگتی ہے میں بھی اس طویل رات کے بعد صبع اٹھا تو سر درد سے پھٹ رہا تھا۔بستر چھوڑنے کو من نہیں تھا مگر دس بجتے ہی مالکن کا پیغام آگیا۔نوکری یا غلامی کی ایک تعریف شاید اپنے اندر کچلنا بھی ہے کسی طرح اٹھ کر منہ پر دو چار چھینٹے مارے اور شوخی آنکھوں کے ساتھ پورچ میں پہنچ گیا۔مگر توقع کے برعکس ابھی تک وہاں کوئی گاڑی روانگی کے لیے تیار نہیں تھی۔البتہ دوسری گاڑی میں محافظ چاکو چوبند اور تیار بیٹھے ہوئے تھے۔کچھ دیر میں اندر سے ایک خادمہ باہر آئی کہ مالکن اندر لاونج میں مجھے یاد کر رہی ہیں۔میں الجھا ہوا سا لاونج کے ہال کی طرف بڑھ گیا جانے اب کیا آفت آنے والی تھی لیلی کے مزاج کا کچھ بھروسہ نہیں تھا اور یہ بات بھی تحقیق طلب تھی کہ یہ خلل کثرت حسن کی وجہ سے تھا یا نفرت ذر کی وجہ سے ۔۔۔؟
کیونکہ یہ دونوں ہی اپنے اندر دماغی فتور پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مگر جب میں ہال میں داخل ہوا تو خلاف معمولی بڑی پرسکون پیانو کے قریب بیٹھی اس کے تاروں سے کھیل رہی تھی مجھے دیکھ کر اس نے زور سے پیانو کی کلوں پر ہاتھ پھیرا اور مجھ سے کہا تمہیں پیانو بہت پسند ہے ۔۔۔؟بجھانا سیکھانا چاہتے ہو۔۔۔؟
میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا وہ مسکرائی۔میں نے کل شام تمہاری اور مارتھا کی گفتگو سن لی تھی۔۔۔
تم چاہو تو اس پیانو پر مارتھا سے سیکھ سکتے۔۔۔تمہارے مالک سے اجازت تمہیں میں لے دو گی۔۔وہ میری کوئی بات نہیں ٹالتے ۔۔۔
میرا جی چاہا کہ اس سے پوچھوں کہ اس کرم خاص اور مہربانی کی کوئی وجہ بھی تو بتائیں۔اس نے شاید میری آنکھوں میں میرا سوال پڑھ لیا تھا۔۔
ہاں مگر بدلے میں تمہیں مجھ سے کچھ تعاون کرنا پڑے گا ؟
کیسا تعاون۔۔؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔۔۔۔
وہ جھٹک کر بولی جب سے میں اس محل میں آئی ہوں۔۔مجھے لگتا ہے جیسے کسی قید خانے میں آگئی ہوں۔بہروز مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔بہت خیال رکھتے ہیں میرا۔
مگر میرے لیے ان کا یہ خوف اور اختیار کی انتہا کھبی کھبی میرا دم گھونٹنے لگتی ہے۔جس سے سانس بند ہونے لگتا ہے میرا۔میں اپنی ہم عمر سہیلیوں سے ملنا چاہتی ہوں ان کے ساتھ شہر گھومنا چاہتی ہوں۔وہاں ترکی میں تو میں کسی تتلی کی طرح خوشی میں اڑتی پھرتی تھی مگر یہاں مجھ پر بڑی پہرے ہیں ۔۔۔
میں نے دھیرے سے سر جھکائے ہوئے جواب دیا یہ سب آپ کی حفاظت کی خاطر کیا گیا ہے۔مالک کے دشمن بہت ہیں
جو ہر پل انہیں نقصان پہنچانے کی تاک میں لگے رہتے ہیں ۔۔
لیلی نے اداسی سے ایک سرد آہ بھری۔۔جانتی ہوں میں۔۔لیکن کیا تم نہیں سمجھتے کہ اس طرح پہروں میں نکلنے سے میں بہروز کے دشمنوں کی نظر میں زیادہ نمایاں ہوجاوں گی۔۔؟اگر میں اسکارف اور نقاب کے ساتھ سارا دن بھی شہر میں گھومتی پھروں تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔۔۔
میں نے بے بسی اس ضدی لڑکی کی طرف دیکھا۔آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں۔۔؟لیلی نے غور سے میری طرف دیکھا میری نظر خود بخود جھک گئی۔میں صرف اتنا چاہتی ہو کہ تم یوں دم چھلا بن کر میرے نہ پھیرا کرو۔میری سہیلیاں کتنا مزاق اڑاتی ہیں میرا میں تمہیں بتا نہیں سکتی ۔۔
میری نظر بت اختیار اٹھ گئی لیلی نے جلدی سے بات جوڑی
میری بات کا غلط مطلب مت لینا میں تمہارا مذاق نہیں اڑا رہی۔مگر جب ہم ساتھ چلتے ہیں تو مذاق بن ہی جاتا ہے۔میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ تم دکھاوے کے لیے میرا ساتھ گھر سے نکلا ضرور کرو۔مگر کیسی مال یا شاپنگ پلازہ میں اسکارف اور نقاب پہن کر اپنا حلیہ بدل لیا کرو گی تم وہی کسی کیفے میں میں بیٹھ کر میرا انتطار کیا کرنا۔میں اپنی سہیلیوں کےساتھ گھوم پھر کر دوبارہ واپس آیا کرو گی اور ہم دونوں ایسے ہی معمول کے طور پر باہر نکل کر گھر آجایا کریں گے۔جیسے تم ہم وقت میرے ساتھ ہی تھے بہروز کو اطمینان رہے گا کہ تم میری نگرانی کے لیے تم میرے ساتھ ہی تھے۔تمہارا بھرم بھی سب قائم رہے گا اور میں بھی کچھ گھنٹوں کے لیے ان ساری زنجیروں سے آزاد ہو کر اپنی زندگی جی لیا کرو گی۔۔بولو میرا ساتھ دو گے ۔۔پری زاد۔۔۔؟
اپنا نام لیلی صباہ کی زبان سے سن کر زور سے چونکا۔اس نے آج تک کھبی مجھے ہوں براہ راست نام لے کر مخاطب نہیں کیا تھا۔کچھ لہجے کچھ بولیاں کچھ تلفظ اور کچھ لبوں کی ایک جنبش سے ہی عام سے حرف لفظ اور نام کتنے معتبر ہوجاتے ہیں۔میرا دل بھی کتنا پاغل تھا پل بھر میں ہی بول گیا کہ کل تک یہی عورت مجھے کسی نفرت اور حقارت سے پکارتی رہی تھی۔ مگر میں ابھی تک اس لہجہ بدلنے کے فن اور ہنر سے واقف نہیں تھا۔لہذا میرا جواب بھی سیدھا تھا
شاید مالک میرا لاونج میں بیٹھ کر پیانو سیکھنا پسند نہ کریں۔میری حدود اس لاونج سے باہر تک ہے۔۔
لیلی نے اس مسئلے کا حل چٹکیوں میں نکال لیا۔کوئی بات نہیں تم انیکسی میں پیانو رکھا سکتے ہو۔اس کا انتطام بھی ہوجائے گا۔میں آج ہی تمہارے لیے ایک نیا پیانو بک کروادیتی
ہوں ویسے بھی میں بہت عرصے سے انیکسی کی نئی تزائین اور رہائش کا سوچ رہی تھی۔۔۔
اس بہانے یہ کام بھی ہوجائے گا ۔۔۔
قسط 12
جواب میں کہنے کے لیے میرا پاس اب کچھ نہیں بچا تھا۔اگلے دو دن کے اندر انیکسی کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔نیا رنگ نئے پردے قالین پینٹینگز۔آرائش اور سب سے بڑھ کر سیاہ رنگ کا ایک بڑا سا خوبصورت پیانو جب کا کاریگر وہ پیانو انیکسی کے ہال میں رکھا کر اس کی فٹنگ کر رہے تھے تو میں وہیں بیٹھا اپنے ایک دیرینہ خواب کو پورا ہوتے دیکھ رہا تھا ل۔خواب حقیقت میں ڈھلنے لگیں تب بھی بہت دیر تک ہمیں خواب ہی لگتے ہیں۔شاید انسان سدا کا بے اعتبار ہے یا پھر مجھ جیسے۔جن کے خواب سدا خواب ہی رہتے ہیں۔انہیں خوابوں کی تعبیر پر ذرہ دیر سے ہی یقین آتا ہے۔اس شام مارتھا نے مجھے ایک گھنٹے کی ٹیوشن میں پیانو کی بنیادی کلوں اور سروں کے بارے میں پہلی کلاس دی اور تیسرے دن میری انگلیوں نے پہلی بار کسی دھن کو چھیڑا۔اس درمیان لیلی دو مرتبہ گھر سے باہر نکلی اور شہر کے وسط میں واقع ایک کثیر المخنز شاپنگ مال میں داخل ہو کر اس نے اپنے منصوبے کے مطابق کو اسکارف اور نقاب سے ڈھانپ لیا۔میں وہی ایک کیفے میں بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا اور وہ تقریبا تین چار گھنٹے کے درمیان میں واپس لوٹ آئی۔اس مال کے دونوں اطراف آنے اور جانے کے راستے واقع تھے اور لیلی نے باہر نکلنے کے لیے پچھلے راستے کا انتخاب کیا تھا پھر ایک دن وقفے کے بعد وہ اپنی سہیلی سے ملنے کے لیے گئی۔جہاں میں پہلے بھی ایک بار اس کے ساتھ جا چکا تھا۔مگر اس بار اس نے مجھے نچلے فلور پر ہی رکنے کا اشارہ کیا اور خود لفٹ کے ڈریعے اوپر چلی گئی۔بہروز کے واپس آنے میں ابھی دو دن باقی تھے۔میں لیلی کی بات مان تو لی تھی مگر میں اندر سے جانے کیوں ایک عجیب سی بے چینی محسوس کر رہا تھا۔میں جانتا تھا کے میں بہروز کا حکم نہ ماں کر بہت بڑا کر رہا ہوں۔مگر لیلی کی آزادی کی خواہش بھی مجھے اتنی ہی جائیں لگ رہی تھی۔عجیب کش مکش جاری تھی میرے دل اور دماغ کے درمیان۔۔۔دل کہتا تھا کے لیلی صباہ کا ساتھ دے کر میں کچھ غلط نہیں کیا مگر دماغ کچھ الگ ہی راگ الاپ رہا تھا۔جانے یہ دل اور دماغ نامی دو سوکنوں کی آپس میں بنتی کیوں نہیں تھی ؟
مگر یہ خوف مجھے بہر حال مستقبل لاحق رہتا کہ اگر لیلی کو اس مٹر گشتی کر دوران کوئی نقصان پہنچ گیا تو بہروز تو کیا۔۔۔میں خود بھی اپنے آپ کو کھبی معاف نہیں کر پاوں گا۔آخر کار اس شش و پنج نے مجھے پوری طرح نڈھال کر دیا تو تیسرے دن مال سے نکلنے سے پہلے ہی میں ایک فیصلے پر پہنچ چکا تھا۔لیلی جیسے ہی مال کے پچھلے دروازے سے باہر نکلی میں بھی کیفے دے نکل کر اس کے پیچھے چل پڑا۔لیلی نے خود کو ایک لمبی سے عبایا سے ڈھانپ رکھا تھا وہ سڑک پار کر کے دوسری جانب بنی ایک پارکنگ میں پہنچی جہاں پہلے سے ایک سیاہ لینڈ کروزر ٹائپ کی گاڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔یہ گاڑی پہلے بھی لیلی کی دوست کے اپارٹمنٹ کے نیچے کھڑی دیکھ چکا تھا۔مطلب لیلی اپنی اسی دوست سے ملنے جارہی تھی یا اس کے ساتھ مل کر کہیں اور گھومنے جارہی تھی۔میں نے فورا قریب سے گزرتی ٹیکسی کو ہاتھ دیا اور اس آگے جاتی سیاہ لینڈ کروزر کے پچھے چلنے کا کہ۔میں نے سوچا تھا کے لیلی کو بغیر بتائے اس کی نگرانی جاری رکھوں گا۔اس طرح میری الجھن کا حل بھی نکل آئے گا اور لیلی کو بھی میری وجہ سے اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا۔دوبئی کی سڑکوں کا ہجوم اور ٹیکسی کے لیے مقررہ رفتار کی حد ہماری گاڑی کی راہ میں حائل تھی مگر ہم پھر بھی کسی نہ کسی طرح اس سیاہ بڑی گاڑی کا پیچھا کرتے رہے مگر پھر ایک سگنل کے بند ہونے کی وجہ سے لیلی کی گاڑی ہماری نظروں سے ہی دور ہوتی ہوئی اوجھل ہوگئی کیونکہ وہ ہم سے پہلے ہی سگنل پار کر چکی تھی۔سگنل کھولنے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور نے پوری کوشش کی کہ ہم دوبارہ اسے پکڑ سکیں مگر ناکام رہے تھک ہار کر ہم دوبارہ اسی مال کے باہر آکر رک گئے جہاں سے میں نے ٹیکسی پکڑی تھی۔مجھے کیفے میں دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا تب کہیں جاکر لیلی کی صورت دکھائی دی۔وہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ہم واپس گھر پہنچے تو لیلی اتر کر اندر چکی گئی اور میں انیکسی کی جانب قدم بڑھائے ہی تھے کہ میرے عقب میں ایک گرج دار آواز گونجی۔اتنی دیر کہاں لگا دی تم لوگوں نے ۔۔؟میں گھبرا کر واپس پلٹا ۔کچھ فاصلے پر بہروز کریم کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔۔۔
بہروز کے آواز سن کر ایک لمحے کے لیے تو جیسے میرا خون ہی خشک ہوگیا۔انسان بظاہر تو بڑے بڑے ڈاکے مار کر صاف بچ نکلتا ہے مگر اس دل کے چور کی ایک چھوٹی سی چوری چھپائے نہیں چھپتی۔میں نے بڑ بڑا کر بہروز کو سلام کیا۔۔
مالک آپ واپس آگئے ۔۔
بہروز مسکرایا۔تو کیا کچھ غلط کیا واپس آکر
مگر تم لوگ اتنی فیر سے کہاں تھے ۔۔؟؟
میں نے نظریں جھکائے صرف اتنا بتایا کہ مالکن کو کچھ ضروری خریداری کرنی تھی۔لہذا ہم شاپنگ مال تک گئے تھی
بہروز نے بظاہر اس بات پر کوئی خاص نوٹس نہیں لیا مگر خود میرے مدت کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔انسان جسم اور اس کے دماغ کو سلانے اور سن کرنے کے لیے ہزاروں دوائیں بازار میں مل جاتی ہیں۔مگر سارے زمانے کے وید۔حکیم اور طبیب مل کر بھی ایسی دوا ایجاد نہیں کرپائے جو چند لمحوں کے لیے کسی کے جاگتے ہوئے ضمیر کو سلا دے بہروز کے گھر واپس لوٹنے کے بعد لیلی نے باہر نکلنا کم کر دیا۔اب وہ تین چار دن بعد گھنٹے دو گھنٹے کے لیے باہر گھوم آیا کرتی اور زیادہ تر گھر میں رہتی تھی ان دنوں مجھے مارتھا سے پیانو سیکھنے کا برپور وقت ملا اور مہینے بھر میں میری انگلیاں پیانو پر خوب چلنے لگیں۔خود مارتھا بھی میری اس تیز پیش رفت اور لگن سے بہت خوش تھی ایک شام میں تنہا بیٹھا پیانو پر کسی نئی دھن کی مشق کرتے ہوئے اپنے آپ میں اس قدر مگن ہوگیا کی مجھے انیکسی کے دروازے سے اندر ہال تک آتے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہ دی اس وقت چونکاجب پس منظر میں بہروز کریم کی بھاری آواز گونجی۔
اچھا بجا لیتے ہو۔میں گھبرا کر چونک سا گیا اور جلدی سے کھڑا ہوگیا معاف کیجیئے مجھے آپ کے آنے کا پتا نہیں چکا
بہروز نے غور سے میری طرف دیکھا۔انسان کو اپنے اندر اتنا مگن نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے اپنی طرف بڑھنے والے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہ دے۔آنے والا دشمن بھی ہوسکتا ہے میں نے دوبارہ بہروز سے معذرت کی اس نے آگے بڑھ کر پیانو کی بے داغ سطح پر ہاتھ پھیر کر اسے غور سے دیکھا۔۔مجھے لیلی صباہ نے بتادیا تھا کہ اس نے انیکسی میں پیانو رکھا دیا ہے۔تم نے بہت تھوڑی مدت میں اپنی مالکن کا اعتبار جیت لیا۔حالانکہ لیلی صباہ جیسی عورت کے خیالات اپنئ حق میں بدلنا بہت مشکل کام ہے ایسا کیا جادو تمہارے پاس۔۔۔پری زاد۔۔۔؟کھبی ہمیں بھی بتاو۔۔
میں نے چونک کے بہروز کی طرف دیکھا۔مگر اس کے چہرے پر حسب معمول کوئی مثبت یا منفی تاثر نہیں تھا۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایسے بے تاثر چہرے والے بہت غیر متوقع شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔میں چپ رہا بہروز چند ضروری ہدایات دے کر واپس لوٹ پلٹ گیا۔اگلے ہفتے کی ابتدا سے ہی محل کی نئی سجاوٹ اور تزئین شروع ہوگئی۔پتا چلا کے دو دم بعد لیلی صباہ کی سالگیرہ ہے اور بہروز پچھلے سال کی طرح دھوم دھام سے منانا چاہتا تھا۔لیلی بھی انتہائی خوش دیکھائی دیتی تھی مگر نا جانے کیوں مجھے لیلی کے اس کھلے چہرے کے پیچھے کھبی کھبی ایک بڑی گہری اداسی چھپی دکھائی دیتی تھی۔شاید بہت ذیادہ خوشی اور اطمینان بھی اپنے ساتھ ایک نا معلوم سی اداسی لے کر وارد ہوتے ہیں۔یا پھر ساری بات توازن کی ہے۔تھوڑی سی پریشانی
بے قراری اور بے چینی بھی ضروری ہے۔زندگی کا ترازو کو برابر رکھنے کے لیے۔اگلے روز جب بہروز سالگیرہ کی تیاریوں میں مصروف تھا اور محل کے دوکان میں بیٹھا ہم سب کو مختلف ہدایات دے رہا تھا کہ اچانک فیروز خان پریشانی میں تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے بہروز کے قریب آیا اور اس نے جھک کر بہروز کے کان میں کوئی بات کی ۔لیلی بھی اسی وقت وہاں پہنچی تھی۔اس نے بہروز کے چہرے پر پریشانی اور کش مکش کے آثار دیکھے تو فیروز خان کو جھڑک دیا ۔
تمہیں کتنی بار منع کیا ہے میں نے فیروز یوں وقت بے وقت اپنے مالک کو پریشان مت کیا کرو۔فیروز سر جھکائے کھڑا رہا
بہروز نے فیروز کی طرف دیکھ کر کہا۔ایک آدھ دن آگے نہیں ہو سکتا یہ سودا۔۔؟
نہیں مالک وہ لوگ بہت دور سے آئے ہیں اتنا لمبا انتظار نہیں کرے گے ہمارا۔۔۔ان کو زیادہ دیر جزیرے پر انتطار کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔۔بہروز نے ایک گہری سانس لی۔۔
مگر فیروز خاں۔۔۔تم جانتے ہو کل تمہاری مالکن کی سالگرہ ہے اور میں پورا سال اس دن کا انتظار کرتا رہا ہوں۔۔
لیلی نے چلا کر پوچھا۔کوئی مجھے بھی بتائے گا۔یہ سب کیا چل رہا ہے؟بہروز نے ٹھنڈے لہجے میں لیلی کو بتایا کہ ایک بہت ضروری سودے کے لیے اسے دو راتوں کے لیے ایک قریبی جزیرے پر جانا تھا۔یہ سودا پہلے طے شدہ تو تھا مگر فیروز خاں نے ابھی آخر بتایا کہ انہیں آج شام ہی نکلنا ہوگا۔لیلی یہ سنتے ہی غصے سے کھڑی ہوگئی۔
ٹھیک ہے بہروز آپ پھر جائیں آپنے ضروری سودے کے لیے۔مگر مجھ سے ابھی دوبارہ کھبی بات کرنے کی کوشش نہ کیجیئے گا۔نہیں منانی مجھے کوئی سالگرہ وغیرہ۔۔لیلی پیڑ پٹختے ہوے اندر چلی گئی اور بہروز اسے آوازیں دیتا رہ گیا لیلی کے جانے کے بعد بہروز نے غصے سے گھورا فیروز کی طرف دیکھا کر دیا نا اسے ناراض فیروز خاں۔۔تم کھبی موقع دیکھ کر بات نہیں کرتے جاو۔۔۔چلنے کی تیاری کرو میں اسے منا کر آتا ہوں۔۔
بہروز بھی اٹھ کر اندر چلا گیا۔جانے اس نے کس طرح اپنی محبوب بیوی کو رضا مند کیا ہوگا۔مگر مگر جب شام کو وہ گھر سے رخصت ہونے کے لیے نکلا تو لیلی صباہ بھی اسے پورچ تک چھوڑنے کے لیے آئی۔البتہ لیلی کے چہرے پر خفگی کے آثار ابھی تک نمایاں تھے اور وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی۔بہروز کریم جانے سے پہلے جلد واپس لوٹنے اور پھر بہت دن اس کے ساتھ رہنے کے وعدوں کے ساتھ رخصت ہوگیا لیلی بھی پلٹ کر اندر چلی گئی۔انسان ساری زندگی وعدے کرنے اور وعدہ نبھانے کی زنجیر سے بندھا رہتا ہے۔شاید ہم دوسروں سے کیے وعدے تو نبھا لیتے ہیں مگر ہمارے خود اپنے آپ سے کیے وعدے سدا وفا ہونے کا انتطار کرتے رہتے ہیں۔میں نے بھی اپنے آپ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ اب اگر لیلی نے مجھ سے کہیں جانے کی ضد کی تو میں اسے صاف بتا دوں گا کی میں بہروز کے ساتھ مزید غداری نہیں کر سکتا۔ہاں یہ غداری ہی تو تھی کہ میں بہروز کی دی ہوئی ہدایات پر پوری طرح عمل نہیں کر پا رہا تھا دوسرے روز حسب توقع لیلی نے سر شام ہی کہیں جانے کی ٹھانی لی۔اور ہم گاڑی میں انہی اپارٹمنٹس کی پارکنگ میں پہنچ گئے جہاں ساتویں منزل پر لیلی کی سہیلی رہتی تھی۔میں نے لیلی سے ڈبے لفظوں میں کہا کہ ہمیں یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھرنا چاہیے کیونکہ مالک نے مجھے جاتے ہوئے خاص طور ہدایت کی ہے کہ ان دنوں میں لیلی کے ساتھ کہیں بھی باہر نکلنے سے گریز کروں کیونکہ وہ جس بڑے کاروباری سودے کے لیے گھر سے باہر نکل رہا ہے۔وہ سودا اس حریفوں کے دلوں میں کاروباری رقابت کی آگ مزید سلگا کر انہیں بھی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتا ہے ۔۔
لیلی نے میری بات سن کر ایک گہری سانس لی۔ہاں وہ جاتے ہوئے مجھے بھی گھر سے نہ نکلنے کی تاکیدی کر کے گئے ہیں
مگر تم فخر نہ کرو۔میں جلدی مل کر واپس آجاوں گی۔میری دوست نے میری سالگرہ کا خاص اہتمام کر رکھا ہے نہ آتی تو وہ مجھ سے ناراض ہوجاتی۔۔۔
لیلی تیزی سے لفٹ کی جانب بڑھ گئی اور میں نے اپنے ساتھ لیے ہوئے وعدے کی لاش اپنے کاندھوں پر اٹھائے وہیں تہہ خانے کی پارکنگ میں کھڑا رہ گیا۔شام تیزی سے ڈھل رہی تھی اور پارکنگ لاٹ میں لگی بتیاں دھیرے دھیرے ایک ایک کر جلنا شروع ہوچکی تھی جب لیلی کو گئے تین گھنٹے سے زیادہ ہونے کو آئے تو میں خود اوپر جانے کا فیصلہ کر لیا اور میں قدم بڑھائے ہی تھے کہ لیلی تیزی سے لفٹ سے نکل کر میری جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی وہ اپنا اسکاف لپیٹ کر پڑا میں رکھ رہی تھی آپ نے بہت دیر کردی آج تو ہم نے آتے وقت آپ کی ہدایت کے مطابق محافظوں کی گاڑی کو بھی منزل سے آگاہ نہیں کیا تھا۔وہ سب وہاں گھر میں بے چین ہوں گے۔لیلی نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ہاں بس فیر ہوگئی مگر اب چلو۔ہمیں وہاں گھر میں یہی تاثر دینا ہے کہ ہم قریبی مال سے روز مرہ کی چند ضروری لینے کے لیے اچانک نکل گئے تھے لہذا انہیں بتانے کا موقع ہی نہیں ملا۔میں جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھا اور ٹھیک اسی وقت تہہ خانے کی مضوعی سر فضا میں ایک بھاری آواز گونجی ایسی بھی کیا جلدی جان لیلی۔دیکھوں ہم تو تمہاری تلاش میں خود ہی چل کر یہاں تک آپہنچے ۔۔۔
میرے قدموں تلے زمین سرک گئی۔وہ اندھیرے میں ایک ستون کی آڑ میں کھڑی گاڑی سے بہروز کریم اور فیروز خاں
ہماری جانب بڑھتے ہوئے دیکھائی دیتے۔پس منظر میں ہمارے محافظوں کی وہ جیپ بھی نظر آئی جسے میں اور لیلی اپنی دانست میں چکما دے کر گھر میں ہی چھوڑ آئے تھے لیلی کے چہرے کا رنگ پل بھر میں زردہ پڑگیا اور میں نے اس کے جسم میں باقاعدہ کانپتے جیسی لرزش دیکھی۔بہروز نے لیلی کے قرہب پہنچ کر پیار سے اس کی ٹھوڑی اٹھا کر لیلی کا جھکا ہوا چہرہ بلند کیا۔یہ کیا بات ہوئی جان لیلی میرے منع کرنے کے باوجود تم گھر سے نکل آئیں۔کیا کوئی نئی سہیلی بنا لی ہے تم نے یہاں ہمیں بھی تو اس سے ملواو جس کے پیار میں اتنی کشش ہے کہ تم اپنے محبوب بہروز کا حکم کا ماں بھی نہ رکھ پائیں ۔۔
لیلی نے جلدی سے جھک کر بہروز کے پاوں پکڑ لیے معاف کر دے مجھے بہروز بڑی بھول ہوگئی مجھ سے مجھے واقع ہی گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا۔مگر میں کسی کی باتوں میں بہکاوے میں آگئی تھی آئندہ ایسی غلطی کھبی نہیں ہوگی۔بہروز کا چہرہ اب بھی سپاٹ تھا میں تمہیں تو معاف کردوں گا لیلی جان مگر اسے کھبی معاف نہیں کرو گا جس نے تمہیں بہکا کر گھر سے نکالا اور میری حکم عدولی کی بتاوں کون ہے وہ بدنصیب ؟؟؟
لیلی نے اپنے آنسووں سے بھیگا چہرہ اٹھایا۔کہا نا بہروز بڑی غلطی ہوگئی میں گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہوگئی تھی اس لیے یہاں چلی آئی یہاں ٹاپ فلور پر ایک بہت اچھا ریسٹوران ہے سوچا کافی پی کر دل بہلا لو گی اور مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے ۔۔بہروز نے دوبارہ سختی سے پوچھا۔کون ہے وہ خس نے تمہیں یہاں آنے پر مجبور کیا ؟
لیلی دھیرے دھیرے کھڑی ہوگئی اور اس نے انگلیاں میری جانب اٹھا دی۔یہ پری زاد یہی مجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتا رہتا ہے کی یہ زندگی میری اپنی ہے۔مجھے اسے اپنی مرضی سے جینا چاہیے۔میں کوئی پنچرے میں قید قیدی تو نہیں کہ ہر لمحہ گھٹ گھٹ کر جیوں ۔۔۔۔
لیلی چیخ چیخ کر مجھ پر الزام لگا رہی اور میں تو جیسے پل بھر میں ہی اپنے حواس کھو بیٹھا تھا مجھ سے کچھ کہا ہی نہیں گیا۔ایک لمحے کو میری لیلی سے پل بھر نظر ملی اور مجھے لگا میرے سامنے لیلی نہیں دعا کھڑی ہے اور ہم دوبئی میں نہیں میرے پرانے محل میں کھڑے ہیں۔بہروز کریم نے اطمینان سے لیلی صباہ کی بات سنی اور میرئ طرف پلٹا۔
اچھا تو یہ ہے وہ نکل حرام۔اس سے مجھے ایسی امید ہرگز نہ تھی۔مگر جان بہروز آپ کو تو کچھ خیال کرنا چاہیے تھا ناں۔اگر اس کی نیت میں کوئی فتور پیدا ہوجاتا اور میرے دشمنوں کے ساتھ مل کر یہ تمہیں کوئی نقصان پہنچا دیتا تو سوچو۔پھر میرا کیا ہوتا۔تمہیں ایک غلام کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے تھا۔لیلی روتے ہوئے گڑگڑائی۔آپ بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں بہروز۔اس پری زاد نے آپنے ذرا سے فائدہ کے لیے مجھے میری راہ سے بھٹکا دیا۔میری ہمدردی حاصل کرنے کے لیے میرے دل میں بغاوت کی چنگاری کو بھڑکا دیا تھا اس نے آپ جانتے ہیں میں آپ جانتے ہیں میں آپ کے بنا کتنی تنہا پڑ جاتی ہوں۔یہ ضرور مجھے کوئی نقصان پہچانا چاہتا ہوگا۔تبی مجھے اکیلے گھر سے نکلنے پر اکساتا رہتا تھا۔اچھا ہوا آپ لوگ ٹھیک وقت پر یہاں پہنچ گئے۔۔۔
میں حیرت سے گنگ اور آپنی جگہ جما کھڑا لیلی کی یہ ساری خرافات سنتا رہا۔بہروز دھیرے دھیرے چلتے ہوئے میرے قریب آیا اور اس کی آنکھیں میری آنکھوں میں ۔۔
گڑگئیں۔تم بتاوں پری زاد کیا لیلی ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔اور کوئی بھی جواب دینے قبل اتنا ضرور سوچ لینا کہ بہروز کریم کی عدالت میں غداری کی صرف ایک سزا مقرر ہے سزائے موت۔میں نے ایک پل کے لیے نظر اٹھا کر لیلی کی طرف دیکھا۔وہ لا تعلق سی کھڑی تھی۔بہروز دوسری بار زور سے چلایا جواب دو لڑکے کیا یہ سچ ہے۔۔۔
میں نے سر جھکا لیا۔جی ہاں مالکن جو کہہ رہی ہیں سچ کہہ رہی ہیں۔میں انہیں بہانے سے سے گھر سے باہر لے کر آیا تھا۔۔۔
ایک لمحے کے لیے لیلی کی آنکھوں میں بے یقینی کی ایک چمک لہرائی مگر فورا ہی اس نے خود کو نارمل کر لیا۔بہروز کریم نے سرسراتی آوازیں مجھ سے پوچھا ۔۔
کوئی آخری خواہش ہوتو بتا دو۔تمہاری گنتی کی چند سانس باقی رہ گئی ہیں۔۔میں نے بہروز کی طرف دیکھا۔جی ہاں مالک بس ایک آخری خواہش ہے مجھے مارنے کے بعد میرا چہرہ مسخ کر دیجئے گا۔۔میں نے تو یہ زندگی جیسے تیسے
اس چہرے کے ساتھ گزار لی مگر میں قبر میں اس شناخت کے ساتھ ہرگز نہیں جانا چاہتا بہروز کچھ دیر تک میری طرف دیکھتا رہا مجھے اس کے لہجے میں پہلی بار اپنے لیے غصے سے زیادہ افسوس کا عزم محسوس ہوا۔جانتے ہو مرد کی برابری کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے ٹھیک اس لمحے جب وہ اپنے دل کے فیصلوں پر عمل کرنا شروع کردیتا ہے۔میری طرح تم نے بھی خود کو اس عورت کی خاطر برباد کر لیا پری زاد برا کیا۔۔بہت بڑا کیا تم نے۔
بہروز پلٹا اور زور سے چلایا۔اسے لے آو فیروز خاں۔۔
بہروز کی آواز اس ویران تہہ خانے کی پارکنگ میں گونج کر رہ گئی۔اس روز مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ لیلی خاص طور پر اس پارکنگ میں کیوں گاڑی لگواتی تھی۔کیونکہ یہ پارکنگ تقریبا متروک ہوچکی تھی اور اپارٹمنٹ والے اب چھت پر بنی نئی پارکنگ کا استعمال کرتے تھے لہذا یہاں کسی کا آنا جانا نہیں تھا۔اس لیے لیلی کی گاڑی گھنٹوں یہاں کھڑی رہتی تب بھی کسی کی متوجہ ہونے کا امکان ذرا کم ہی تھا۔مگر آج وہی ویرانی اور تنہائی اس پارکنگ میں ہمارے لیے وبال جان بن گئی تھی۔بہروز کے چلانے پر کچھ دیر بعد فیروز خاں دو محافظوں کی مدد سے ایک خوبصورت اور ہینڈ سم سے نوجوان کو سختی سے جکڑے اور اس کے منہ پر ٹیپ لپیٹے ایک جانب سے برآمد ہوا۔میں نے حیرت سے دیکھا کیونکہ کے آج سے پہلے اس سے کھبی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔مگر لیلی کے جسم سے تو جیسے خون کا آخری قطرہ بھی نچڑ گیا۔وہ خوف زدہ انداز میں زور سے چلائی۔
نہیں بہروز اس ولید کا کوئی قصور نہیں بخش دے اسے ۔۔
لیلی دوڑتی ہوئی بہروز لے قدموں سے لپٹ گئی۔بہروز نے کسی ان دیکھی اذیت کے احساس سے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اور دھیرے سے یوں بڑابرایا جیسے خود کلامی کر رہا ہو۔۔کیوں لیلی کیوں۔۔؟کس چیز کی کمی تھی تمہیں۔؟؟
کیا نہیں دیا میں نے تمہیں۔؟پیار محبت۔ عیش۔آرام۔دولت جائیداد رتبہ عزت آخر کس چیز کی کمی تھی میرے پاس تمہیں لیلی زارو قطار رو رہی تھی اور وہ اجنبی نوجوان بہروز کے محافظوں کے شکنجے میں تڑپ رہا تھا بہروز نے لڑکے کی طرف دیکھا یہ وہی ہے نا تمہارا گذشتہ منگیتر استنبول والا ولید؟
لیلی تڑپ کر اگئے بڑھی۔ہاں بہروز یہ وہی ہے۔اسے میری محبت یہاں کھینچ لائی یہ سچ ہے کہ آپ نے مجھے سب کچھ دیا۔پر میں اپنی محبت کھبی بھلا نہی پائی۔معاف کردیں ہم دونوں کو میں آپ کی منت کرتی ہوں کم از کم اسے جانے دیں۔بہروز نے کرب سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں ۔
رقیب کو سامنے دیکھنے سے زیادہ اذیت ناک اس کے لیے اپنے محبوب کی زبان سے تعریف سننا ہوتا ہے۔بہروز نے لیلی کی طرف دیکھا واہ اے عورت واہ ساری کائنات کے سر بستہ راز ایک جانب اور تیرے من کا گورکھ دھندا ایک طرف تجھے سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں۔۔
بہروز ایک جھٹکے سے فیروز کی طرف مڑا۔میں نے تمہیں کہا تھا ناں فیروز خان ۔۔۔ہمارے پیچھے کچھ چل رہا ہے اب دیکھ لیا اپنی آنکھوں سے۔۔۔
جاری ہے..
بہروز لیلی صبا اور اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ کیا کرے گا اپنی رائے کمنٹس بکس میں بتائیے گا..
قسط 13
فیروز خان نے سر جھکا لیا۔اب مجھے بہروز کی منصوبہ بندی نظر آرہی تھی۔اس نے جان بوجھ کر مجھے لیلی کی نگرانی پر رکھا تھا کیونکہ وہ جانتا تھاکہ لیلی صباہ میری نگرانی غیر محتاط ہوجائے گی اس کی سالگرہ والے دن جزیرے پر خانے کا پروگرام بھی ساری ڈرامے بازی تھی۔وہ کھبی شہر سے باہر گیا ہے نہیں تھا۔اسے بہت پہلے ہی لیلی کی بے وفائی کا علم تھا۔وہ تو بس لیلی کو رنگے ہاتھ پکڑنا چاہتا تھا سب مہرے بہروز نے بہت پہلے ماہ تول کر چنے تھے ساری بساط ہی بہروز کی اپنی بچھائی ہوئی تھی۔اور بازی بھی اسی کے ہاتھ تھی۔بہروز کھوئی کھوئی آنکھوں سے فیروز خان کی طرف دیکھا۔۔
مجھے لیلی صباہ بہت پیاری ہے فیروز اس سے بہت ٹوٹ کر محبت کی ہے میں نے دھیان رہے اسے مرتے وقت زیادہ تکلیف نہ ہو۔اور ولید چونکہ میری محبوب کا محبوب ہے۔لہذا اس کی موت بھی اس کے لیے اعزاز سے کم نہیں ہونی چاہیے۔آخر یہ بہروز کریم کا رقیب ہے۔یہ اگر عام چلے لفنگے عاشقوں کی طرح مارا گیا تو یہ اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی ل۔لے جاو ان دونوں کو۔۔
لیلی زور سے چلائی۔نہیں بہروز نہیں۔
فیروز نے محافظوں کو اشارہ کیا۔انہوں نے لڑکے اور لیلی کو لے جانے لیے کھینچا۔بہروز دھیرے سے بڑبڑایا۔عشق بڑا ظلم ہوتا جان کا صدقہ لیے بنا کہاں ٹلتا ہے۔اب مجھ سے صبر نہیں ہوسکا اور میں جلدی سے بہروز کی طرف بڑھا۔انہیں معاف کردیں ان کا قصور بہت بڑا ہے۔مگر آپ رحم کریں
میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی میرے سر پر کسی محافظ
کی خودکار مشین گن کا دستہ پوری قوت کے ساتھ ٹکرایا اور میرا ذہن اندھیرے میں ڈوب گیا۔گرنے سے پہلے میں نے تہہ خانے کے کسی کونے سے دو فائر کی آواز سنی اور اس سے زیادہ بلند لیلی کی کرب ناک چیخ تھی پھر دھیرے دھیرے میرا وجود گہرے تاریک اندھیرے کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔
سائنسدان موت کی ایک تشریح بھی کرتے ہیں کہ جب انسان دماغ کی نکلنے والی برقی نبض۔Electrical impulse.
تھم جائے تو اس روح نکل جانے سے تشبیہ دی جاتی ہے اور روح نکل جانے کے بعد انسانی جسم کی حالت کو ہم موت کہتے ہیں جانے میری روح کتنے عرصے بعد دوبارہ میرے جسم میں واپس آئی۔رات کا شاید آخری پہر تھا میں کسی اندھیرے کمرے میں بستر بستر پر پڑا ہوا تھا مگر یہاں اتنا
اندھیرا کیوں تھا۔ضرور بہروز نے ان دونوں کے ساتھ مجھے بھی ختم کردیا تھا۔اور اب میں کمرے میں نہیں۔کسی قبر میں دفنایا جا چکا تھا۔ٹھیک ہی کیا بہروز نے زندگی کے کسی امتحان میں بھی پورا نہیں اتر پایا تھا میں چلو۔جو ہوا اچھا ہوا قصہ تمام پوا۔۔
شجر تو تھے ہی نہیں راستے میں کیا کرتے
خود اپنے سائے میں چل کر سفر تمام کیا
مگر میرا سفر ابھی کچھ باقی تھا شاید اچانک کمرے میں تیز روشنی ہوگئی اور کسی نے دھیرے سے میرا نام پکارا۔۔
پری زاد۔ہوش میں آو۔ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
رومی کہتا کہ۔تمہارا مقصد محبت کی تلاش میں بھٹکتا نہیں۔۔تمہیں تو بس ان تمام رکاوٹوں کو کھوجنا ہے جو تم نے خود اپنے اندر کی رکاوٹیں کھوج لیتا اگر مجھے مزید کچھ دیر اس بے ہوشی کے سمندر میں غرق رہنے کا موقع مل پاتا۔مگر کوئی مجھے زور زور سے جھنجوڑ رہا تھا۔پری زاد۔۔
ہوش میں آو۔۔ہم یہاں سے کوچ کر رہے ہیں ۔۔۔
میری چندھائی ہوئی آنکھوں نے فیروز خان کا دھندلا سا چہرہ دیکھا جو مجھ پر جھکا مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کررہا تھا۔چند لمحوں کی غنودگی کے بعد میں ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔میں انیکسی میں اپنے بستر پر موجود تھا۔فیروز نے میرا چہرہ تھپتھپایا۔۔۔
جلدی سے تیار ہوجاوں ل۔ہم سب کچھ دن کے لیے کسی دوسری جگہ منتقل ہورہے ہیں تمہارے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے۔ہم لوگ باہر گاڑیوں کے قریبتمہرا انتطار کررہے ہیں
میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔دوپہر کی تیز دھوپ ڈھل رہی تھی۔مطلب میں میرا پورا دن بے سدھ پڑا رہا تھا۔میرے سر میں ابھی تک درد کی ٹیس اٹھ رہی تھیں۔ہاتھ لگا کر دیکھا تو پٹی بندھی ہوئی تھی۔کھڑے ہوتے ہی مجھے ایک زور دار چکر آیا اور میں جلدی سے پلنگ پائینی کو پکڑ لیا۔کچھ دیر تک سرخ اور سیاہ دائرے میری آنکھوں کے سامنے رقص کرتے رہے اور پھر میں اپنے ڈولتے قدم سنبھال سنبھال کر رکھتا ہوا باہر نکل ایا۔پورچ تقریبا سبھی گاڑیاں روانگی کے لیے تیار کھڑی تھیں۔سارا گھر بائیں بائیں کر رہا تھا۔یہ عمارتیں مکینوں کے بنا کتنی ویران ہوجاتی ہیں۔شاید انسان دنیا کا سب سے بڑا جادو ٹوٹنا ہے لوگوں کو تو اپنا عادی بناتا ہی ہے۔یہ گھر۔دیواریں۔اور مکان بھی اس کے سحر سے بچ نہیں پاتے۔میرے گاڑی میں بیٹھتے ہی فیروز نے گاڑی آگے بڑھا دی اور باقی ساری گاڑیاں بھی ہمارے پیچھے چل پڑیں
مالک کہاں ہیں۔۔؟فیروز میرا سوال سن کر کچھ دیر خاموش رہا۔وہ وہیں گھر پر رہیں گے تین دن۔۔۔مالکن کو سوئم کے بعد ہم بھی واپس چلے جائے گے گھر ۔۔۔
میرے اندر دل نما چیز بہت زور سے ٹوٹی۔بڑے کا جھٹکا ہوا
ایک ہلکی سی آس جو میرے سینے میں کسی پھانسی کی طرح اٹکی ہوئی تھی۔فیروز جھٹکے میں ہی اسے کھینچ کر باہر نکال دیا۔کچھ تیر جن کے دو موہے سرے آگے کی جانب سے باہر کو مڑے ہوتے ہیں۔ان کا جسم میں پیوست ہونا اتنا تکلیف دی نہیں ہوتا۔جتنی اذیت اس تیر کو جسم سے باہر کھینچ کر نکالنے میں ہوتی ہے۔خانے میں کیوں یہ امیدیں لگائے بیٹھا تھا کی بہروز کریم لیلی کو معاف کردیا ہوگا۔مگر افسوس ہماری آس اور ہماری امیدیں اکثر دغا دے جاتی ہیں فیروز نے مجھے بتایا کہ رات کو قریبی پولیس اسٹیشن میں بہروز کے ڈرائیور نے رپورٹ درج کرائی کہ جیسے اس کی مالکن لفٹ سے باہر نکلی ایک نوجوان نے اس کی مالکن پر حملہ کر دیا اور نوجوان کے پستول سے نکلی گولی لیلی کے سینے میں پیوست ہوگئی ڈرائیور کی جوابی گولی نوجوان بھی وہیں ڈھیر ہوگیا۔لیلی کے سینے میں پیوست گولی خس پستول سے نکلی تھی وہ بنا لائسنس تھا اور نوجوان کے ہاتھ میں دبا پایا گیا تھا۔ڈرائیور کا پسٹل لائسنس والا تھا جو ڈرائیور نے رپورٹ کے ساتھ ہی تھانے میں جمع کرادیا تھا اور اس وقت ڈرائیور پولیس کی حراست میں تھا۔بہروز نے ہم سب کو احتیاطا محل سے منتقل کروادیا تھا تاکہ ہم میں سے کوئی پولیس کی نظروں میں نہ آسکے۔پولیس اس بات کی تفشیش میں لگی ہوئی تھی آخر مرنے والے اس نوجوان کا مقصد کیا تھا؟بہروز نے پولیس کے سامنے شک ظاہر کیا تھا کہ مرنے والے ولید کا تعلق اس کے مخالف کاروباری طبقے سے ہوسکتا ہے۔بہرحال جو کچھ بھی تھا یہ تفشیش اب لمبی چلنے والی تھی مگر میں ان سب باتوں سے لاتعلق اپنے آپ میں غم بیٹھا صرف لیلی کے بارے سوچتا رہا لیلی صباہ نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔؟
یہ محبت انسان کو جان لیوا حد تک نڑر بنا دیتی ہے۔آخر کس چیز کی کمی تھی لیلی کو۔۔۔حسن صورت شکل دولت مرتبہ اور عزت۔۔۔کیا محبت ان سب نعمتوں سے الگ۔کچھ سوا مانگتی ہے؟شاید محبت کی ضروریات اور محبت کی دنیا ہماری ان سب عارضی خواہشات اور دکھاوے کی دنیاوں سے بہت بلند بہت جدا ہوتی ہے۔ہم ایک ہفتے تک کسی اور کوٹھی میں منتقل بلکہ مقید رہے۔پابندی اور اکتاہٹ گزرتے وقت کو بہت طویل بنا دیتی ہے مگر جیسے تیسے وہ ایک طویل ترین ہفتہ گزر ہی گیا۔آٹھویں دن ہم پھر سے بہروز کے محل میں موجود تھے۔مگر بہروز اب وہ بیروز نہیں تھا جیسے میں نے آٹھ دن پہلے دیکھا تھا۔اس کی آنکھوں میں ویرانی اور وحشت دیکھ کر میں اندر سے لرز سا گیا۔وہ چپ چاپ سا اپنی خواب گاہ کی بالکونی(ٹیرس)میں بیٹھا ہوا دور خلا میں کچھ گھور رہا تھا۔
آگئے تم لوگ۔۔؟اچھا کیا۔۔مگر کچھ دنوں تک اب ذرا محتاط رہنا معاملہ تازہ ہے۔فیروز سر بلا کر باقی ساتھیوں سمیت پلٹ گیا مگر میں اپنی جگہ کھڑا رہا اور تنہائی پاتے ہی میں نے براہ راست پوچھ لیا۔آپ نے انہیں مار کیوں دیا۔۔؟آپ تو ان سے بہت محبت کرتے تھے پھر؟
بہروز اب بھی غم سا تھا محبت کرتا تھا تبھی تو مار ڈالا ۔
میری آواز نہ چاہتے ہوے بھی بلند ہوگئی۔مگر کیوں۔۔۔؟
آپ انہیں طلاق دے کر فارغ بھی تو کر سکتے تھے۔جان بخشی بھی تو ممکن تھی ان کی۔۔آپ کے ساتھ ناں سہی مگر کم از کم وہ زندہ تو رہتیں۔۔
بہروز نے میری طرف دیکھا میری نظر جھک گئی۔اتنا ظرف نہیں مجھ میں پری زاد۔۔کھبی کھبی محبت ہمیں بہت خود غرض۔۔بہت کم ظرف بنا دیتی ہے۔۔جو لوگ میں قربان ایثار اور بانٹ دینے کے فلسفے کی بات کرتے ہیں یہ سب بکواس ہے جھوٹ بولتے ہیں وہ سارے محبت شدید نفرت سے بھی زیادہ کمینہ اور خود غرض جذبہ ہے اور جن کی محبت میں لالچ خود غرضی اور سب کچھ پالینے کی ہوس نہیں ہوتی سمجھ لو ان کی محبت میں ہی نرا کھوٹ ہے ۔۔
بہروز نے آج پہلی بار یوں مجھ دے کھل کر بات کی تھی یا پھر شاید آج اسے دل کی بات سنانے کے لیے کسی سامع کی ضرورت تھی۔ہم زندگی میں اپنے دل کی بہت سی باتیں اس لیے نہیں کر پاتے کیوں کہ ہمیں معیار کا سامع نہیں ملتا۔میری آواز ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہی تھی۔پھر مجھے کیوں بخش دیا آپ نے۔میرا جرم بھی تو کچھ کم نہیں تھا۔۔مجھے بھی وہیں مار ڈالتے۔۔بہروز اب بھی بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ہاں۔تمہیں بھی مار دیتا اسی وقت بس تمہاری آخری خواہش نے ہاتھ روک دیا میرا۔پری زاد۔کیوں خود سے اتنی نفرت کرتے ہو۔۔؟مرد کی شخصیت صرف اس کے چہرے سے مکمل نہیں ہوتی۔یہ سب لوئر مڈل کلاس طبقے کی محرومیاں ہوتی ہیں مرد دولت اختیار طاقت اور رتبے سے مکمل ہوتی ہے۔۔یہ چہرہ وجاہت وغیرہ فلمی سٹاروں کی ضرورت ہوتا ہے۔سپنوں کے شہزادے صرف ناولز میں پائے جاتے ہیں۔اصل دنیا تمہارے چہرے سے کہیں زیادہ کرخت ہے پری زاد۔۔۔۔
میں چپ چاپ کھڑا سنتا رہا۔یہ بات مجھے آمنہ کی ماں نے بھی کہی تھی۔۔اب میں بہروز کو کیا بتاتا دنیا خود چاہے کتنی بھی کرخت اور سفاک کیوں نہ ہو۔اس بدلے میں ہمیشہ سپنوں کے شہزادے ہی درکار ہوتے ہیں۔پھر اچانک بہروز کو کچھ یاد آگیا۔۔
ہاں پری زاد مگر تمہیں خود کشی کا اتنا شوق کیوں ہے۔۔؟تم جانتے تھے کی وہ عورت تمہاری جان کے درپے اور سارے الزام تمہارے سر ڈال کر اپنی آئی قضا تمہارے متنتقل کرنا چاہتی ہے پھر بھی تم نے اس کے لیے جھوٹ کیوں بوکا۔۔؟
اس لیے کہ میں آپ کے نوکروں اور دیگر عملے کے سامنے اپ کے گھر کی عزت رسوا نہیں کرنا چاہتا تھا۔مجھے لیلی مالکن نے ہمیشہ یہی بتایا کہ وہ آپنی سہیلیوں یا رشتہ داروں سے ملنے جاتی ہیں اپنی تنہائی سے گھبرا کر۔۔ورنہ میں کھبی آپ سے نہ چھپاتا ۔۔
بہروز نے ایک گہری سانس لی۔۔میں جانتا ہوں۔۔اس کے لیے تمہیں بےوقوف بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔۔تم نے آپنی زندگی کے بدلے میری عزت بچانے کا سوچا میں یہ بات ہمیشہ یاد رکھوں گا تمہاری ذمہ داریاں آج سے بدل گئی ہیں جاتے ہوے فیروز سے ملتے جانا اور ہاں اب تم انیکسی میں ہی رہوں گے ۔۔
بہروز کے کمرے سے نکل کر میں انیکسی میں واپس آگیا۔اگلے روز فیروز نے مجھے ایک آراستہ دفتر میں پہنچا دیا
یہ آج سے تمہارا دفتر ہے پری زاد مالک نے تمہیں مینجر کے عہدے پر ترقی دے دی ہے باہر بیٹھا عملہ تمہیں سارا کام سمجھا دے گا۔یہ ہماری سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی کا دفتر ہے اور یہ سارا عملہ آج سے تمہارے ماتحت ہوگا۔میں حیرت سے فیروز کو دیکھتا رہا۔فیروز نے میرے چہرے پر لکھے سوال پڑھ لیے اور مسکرا کر بولا۔تم بہت جذباتی ہو اور وفادار بھی ہو پری زاد۔اور مالک وفاداروں کی بہت قدر کرتے ہیں ۔۔تمہیں اب کچھ عرصے تک اسی کمپنی کا کام دیکھنا ہوگا کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ تمہاری جذباتیت کسی بھی موڑ پر ہمارے لیے کوئی نیا بکھیرا نہ کھڑا کردے لہذا فی الحال تمہیں کسی خطرے والے جھنجھٹ میں نہیں ڈالنا چاہیے ویسے بھی دوبئی کی پولیس اب چوبیس گھنٹے ہم سب پر نظر رکھ رہی ہے۔یہاں کا قانون سب کے لیے یکساں اور بہت سخت ہے۔تمہیں بھی بہت ہوشیار رہنا ہوگا۔
فیروز اپنی بات ختم کرکے چلا گیا۔میں بہت دیر تک وہیں کھڑا اس عالی شان دفتر اور بڑی سی میز کے پیچھے رکھی ہوئی چمکتی سیاہ کرسی کو دیکھتا رہا۔کل ایک غریب بستی کا پری زاد آج دوبئی کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی کا مینجر تھا۔میں نے کرسی کے بے داغ سطح پر ہاتھ پھیرا اور اس پر بیٹھ کر تین مرتبہ اسے گھما کر بارھویں منزل پر واقع اپنے دفتر کی بڑی بڑی شیشے کی کھڑکیوں سے دوبئی شہر گہما گہمی کا نظارہ کیا۔اس روز مجھ پر ایک اور صدیوں پرانا راز بھی منکشف ہوا کہ ان اونچی آسمانی سے باتیں کرتی عمارتوں کے کمروں میں بیٹھے لوگوں کو زمین پر چلتے عام انسان اتنے چھوٹے حقیر اور کیڑے مکوڑے جیسے کیوں دکھائی دیتے ہیں۔تیسرے دن رفیق اچانک ہی بنا بتائے کسی کام سے دوبئی آگیا اور عملے سے پوچھتے پاچھتے کے دفتر تک آہ پہنچا۔مجھے مینیجر کی کرسی پر بیٹھے دیکھ کر کچھ دیر کے لیے وہ کہنا ہی بھول گیا۔میں نے چپڑاسی سے چائے یا کافی لانے کے لیے کہا اور رفیق کو ہاتھ دے پکڑ کر سامنے صوفے پر بیٹھا دیا اب کچھ کہوں گے بھی یا یونہی گم سم بیٹھے رہو گئے۔۔؟
قسط 14
رفیق نے ایک پی سانس میں پانی کا پوالرا گلاس حلق سے نیچے انڈیل لیا۔پری زاد۔پیارے ڈچ بتاو تم نے کوئی ایسا کام تو نہیں کر رہے جو تم مجھے اور باقی دنیا کو بتا نہیں سکتے
میں نے گہری سانس بھری۔نہیں۔میں ایسا کوئی کام نہیں کر رہا ہوں جس کے بارے میں مجھے تم سے یا کسی اور سے کچھ چھپانے کی ضرورت پیش آئے۔۔
مگر میرے جواب سے رفیق کی تفشیش نہیں ہوئی۔دیکھوں پری زاد میں جانتا ہوں کہ بہروز مالک کے ہاں ایساں بہت کچھ ہوتا ہے جس کی ہمیں بھی خبر نہیں ہوتی۔اگر خود کو کسی ایسی گرہ میں الجھا بیٹھے ہو تو ابھی بھی وقت ہے میں تمہیں چپ چاپ دوبئی سے پار کروا سکتا ہوں ایک اور دوست ہے میرے لانچ والے۔۔کسی کو تمہارے فرار کی خبر نہیں ہوگی میں نے مسکرا کر اپنے اس ناداں دوست کی طرف دیکھا۔مجھے صرف خود آپنے آپ سے فرار چاہیے بولو خود مجھے آپنے آپ سے فرار کرواسکتے ہو۔۔؟ہے کوئی ایسی لانچ بحری جہاز یا اڑان کھٹولہ خو مجھے خود میری ذات کے جزیرے سے فرار کروانے میں مدد کر سکے۔۔۔؟
رفیق کی پلکیں نم ہوگئیں اور پھر وہ زیادہ دیر وہاں بیٹھ نہیں سکا۔میرے دن اور رات پھر سے اسی یکسانیت کا شکار ہونے لگے۔جس سے ہمیشہ ہی بہت بےزار رہتا تھا۔البتہ پیانو سے میری دوستی پکی ہوچکی تھی۔لیلی کی موت کے بعد مارتھا نے محل میں آنا بند کر دیا تھا مگر اب میری انگلیاں آپنی مرضی کی دھنیں بکھیرنا خوب جانتی تھی۔بہروز کریم اب زیادہ تر گھر پے ہی رہتا تھا خاموش کھویا کھویا اور گم سم سا۔۔اس شام میں ایک ضروری فائل پر اس کے دستخط لینے اس کے پاس پہنچا تو وہ کہیں تو وہ کہیں جانے کی تیاری میں دکھائی دیا۔۔
آپ کہیں جارہے ہیں مالک ۔۔۔؟؟؟
ہاں۔۔۔کچھ دن کے لیے اس کی یادوں سے فرار کی ایک کوشش کر کے دیکھتا ہوں۔حالانکہ کہیں نہ کہیں اندر سے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ سب بے کار جائے گا۔۔۔
بہروز شام کے جہاز سے لندن فلائی کر گیا اور میں رات گئے تک یہ سوچتا رہا کہ ہم انسان سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔رشتے ناطے۔دوستیاں۔دشمنیاں۔مذہب اور حتی کہ اپنے خدا کو بھی۔۔تو پھر صرف ایک محبت کی یاد کو اپنے دل سے مٹا کیوں نہیں پاتے۔۔۔کاش یہ مقدر انسان کو کوئی اور اختیار نہ دیتا۔صرف یادیں بھلانے کا مختار بنا دیتا۔میری طوقع کے مطابق بہروز زیادہ دن باہر نہیں بتا سکا اور ٹھیک دو ہفتے کے بعد واپس آگیا مگر اس کی واپسی کی وجہ کچھ اور بھی تھی یہ بعد میں پتا چلا کہ جب فیروز نے مجھے خبر دی کہ اس ترک نوجوان ولید کا باپ انتہائی اثرو سوراخ والا ہے اور بہت جلد دوبئی پہنچ کر پھر سے لیلی صباہ اور اپنے بیٹے کے قتل کے کیس کی نئے سرے سے تفشیش شروع کروانا چاہتا ہے اور پھر ٹھیک تین دن بعد پولیس کی بہت سی گاڑیاں بہروز کریم کے گھر کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئیں اور ایک بار پھر ہم سب سے بیانات لیے گئے ۔۔بہروز کے چہرے پر حسب معمول کوئی تاثر نہیں تھا مگر فیروز مجھے کافی پریشان دیکھائی دیا۔رات کو بہروز نے ہم سب کو محل کے بڑے ہال میں میٹنگ کے لیے بلایا اور پر سکون لہجے میں بتایا کہ دوبئی پولیس نے کیس پھر دے کھول لیا ہے اور ڈرائیور جس کی ضمانت ہوچکی تھی اسے بھی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے لہذا اس کے ذاتی عملے کو آج کے بعد کھلی اجازت ہے جو آپنی جان بچانے کے لیے جو جہاں نکلنا چاہتا ہے نکل جائے۔۔اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے دن بہت سخت ہوں۔
کیانکہ دوبئی پولیس بہت عرصے سے اس موقع کی تلاش میں تھی کہ انہیں بہروز کے خلاف کوئی شکایت معصول ہوتو وہ سارے گڑے مردے ایک ساتھ ہی اکھاڑنا شروع کر دیں۔کیونکہ کہ اب تک بہروز اتنا محتاط رہا تھا کہ سب جانتے ہوے بھی کوئی اس کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔میٹنگ ختم ہوئی تو صرف میں اور فیروز وہاں رکے رہے
باقی تمام ممبران نے حسب توقع جانے سے پہلے آپنا آخری فیصلہ بہروز کو سنا دیا کہ وہ ایسے مشکل وقت میں بہروز کا ساتھ چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے چاہے انجام کچھ بھی ہو۔۔واقعی بہروز نے اپنے ارد گرد بہت چن کے لوگ جمع کیے تھے۔فیروز ان کئ جاتے ہی دروازہ بند کیا اور پریشانی سے بولا۔۔۔
ہم سب یہیں رہیں گئے۔۔مگر آپ کو فورا یہاں سے کسی اور ملک نکل جانا چاہیے۔۔ان حالات میں انڈیا یا پاکستان ہی بہتر رہے گا۔میں آج رات ہی بڑی لانچ تیار کروا دیتا ہوں ابھی سمندر میں ہمارے وفاداروں کی کمی نہیں ہوئی۔۔دو راتوں کے بعد آپ کسی محفوط مقام پر ہوں گے
بہروز نے اطمینان سے فیروز کی پوری بات سنی۔۔کھبی کھبی روپوشی انسان کو مزید ظاہر کر دیتی ہے فیروز خان
تم پری زاد کو لے کر کسی طرف نکل جاو۔۔۔اس کے ہاتھ ابھی صاف ہیں میں نہیں چاہتا کہ اسے بھی دوسروں کے ساتھ شک کی بنیاد پے دھر لیا جائے۔۔بہروز کریم کا لہجہ حتمی تھا۔فیروز مایوس سا وہاں سے پلٹ گیا میں نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے تو میرے عقب میں بہروز کی آواز گونجی
جب کوچ کرنے کا وقت آئے تو ضد مت کرنا۔۔چلے جانا ۔۔
میں نے پلٹ کر جواب دیا۔آپ جانتے ہیں اپ ہمیں قانون میں مقرر سزا سے بڑی سزا دے رہے ہیں ۔۔
بہروز نے سگار کا ایک لمبا سا کش لیا اور ایک چیک میری جاانب بڑھایا اسے رکھ لو برے وقت میں کام ائے گا اور میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔آپنے آپ کو اتنا حقیر مت جانو۔۔
یہ دنیا مرے ہوئے کو مزید مارتی ہے۔مگر جو سینہ تان کر اس کے سامنے کھڑا ہوجائے اور اس دنیا کو للکارے یہ دنیا اسی کو سلام کرتی ہے۔۔دنیا کو للکارنا سیکھ لو پری زاد ۔محبت زندگی کی پہلی یا آخری ضرورت نہیں ہوتی اور تم تو بہت خوش قسمت ہوکہ تمہارے پاس دل بہلانے کو ایک عذر تو موجود ہے کہ کسی کی محبت تمہارا مقدر ہی نہیں
مسلہ تو ہم جیسوں کا ہے جو محبت پاکر اسے آپنے ہاتھوں سے کھو دیتے ہیں۔تمہیں دیکھ کر مجھے اکثر رشک آتا ہے کہ کاش تمہاری طرح میں بھی عمر بھر اس عذاب سے محروم رہتا تو کتنا اچھا تھا۔۔۔۔۔
میں حیرت سے بہروز کی طرف دیکھا۔شاید کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ کھبی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ۔۔
لیلی صباہ کت قتل کی تفشیش کا دائرہ تیزی سے ہمارے گرد تنگ ہوتا جارہا تھا۔میں نے فیروز سے بہروز کریم کو دوبئی سے نکال لے جانے کی ایک آخری کوشش کرنے کو کہا۔فیروز نے مجھے بتایا کہ اب شاید یہاں سے نکلنا اتنا آسان نہ ہو کیوں کے اس کی اطلاح کے مطابق پولیس نے محل کے اردگرد راستوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تھی۔فیروز نے ایک حتمی کوشش کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ہم سب نے مل کر کسی نہ کسی طرح بہروز کریم کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ٹھیک تین دن بعد ہم سارے کارندے بمع بہروز دو بڑی لانچوں میں بنکاک یا کسی اور جانب نکل جائیں گے۔ہمارے چہروں پر لکھا فیصلہ پڑھ کر بہرود سمجھ گیا کہ ہم سے مزید بحث بے فاعدہ رہے گی۔فیروز خان کو ایسے معاملات کی سنگینی کا اندازہ اور ان سے نمٹنے کا طریقہ خوب آتا تھا
اس نے ہمارے فرار والی بات رات ہی محل میں بہروز کی سالگیرہ کا جشن اور پارٹی منعقد کرنے کا ڈھونگ رچایا اور شہر کے تمام رئیسوں کو دعوت نامے میں بھی ارسال کر دیئے گئے۔طے یہ پایا کہ شام کا اندھیرا ڈھلتے ہی جب مہمانوں کی آمد شروع ہونے والی ہوگی۔فیروز خان بہروز اور دیگر چند کارندے کو لے کر پہلی لانچ پکڑلے گا۔تب تک میں اور دیگر عملہ مہمانوں کی آو بھگت میں مصروف رہیں گے اور موقع ملتے ہی ہم بھی یہاں سے نکل جائیں گے۔تیسرے دن شام سے ہی محل میں ہل چل سی مچ گئی۔فیروز نے مجھے بتایا کے پہرہ کافی سخت ہے۔اس لیے انہیں اندھیرا ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔میں نے فیروز کے سامنے ایک ہمیشہ کی آزمائی ہوئی ترکیب تجویز کی۔۔
فیروز نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سر ہلایا۔ٹھیک ہے۔۔یہ
جوا بھی کھیل لیتے ہیں۔۔کوئی حرج نہیں۔۔مگر پھر شاید تمہارا یہاں سے جلدی نکلنا شاید ممکن نہ ہو ۔۔
بہروز ابھی بھی اپنی خواب گاہ میں تھ۔میں نے اس کے ڈرائیور کو بہروز کی خاص گاڑی لگانے کا کہا اور گھر سے نکلتے ہوئے میں نے لاونج میں پڑے بہروز کے سگار کیس سے ایک سگار اٹھایا۔ڈھلتے اندھیرے میں جب بہروز کی کار محل سے باہر نکلی تو ایسے زاویے کے ساتھ ہاتھ میں ایک سگار لیے پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا کہ پہلی نظر میں باہر سے دیکھنے والے یہی سمجھے کے کار میں بہروز بیٹھا ہے کہیں جارہا ہے۔حتی کہ محل کے دربانوں نے بھی کھٹ سے سلام جڑ دیئے۔شاید ہم لوگوں سے کہیں زیادہ اس کے معمولات سے مانوس اور آشنا ہوجاتے ہیں
ہماری ذاتی ایشیا اوقات کار اور عادات ہماری پہچان بن جاتے ہیں اور خود ہم اس پہچان میں کہیں کھو سے جاتے ہیں۔
بہروز کی مخصوص کار کے محل سے نکلتے ہی ایک سیاہ رنگ کی بڑی چروکی جیپ ہمارے تعاقب میں چل پڑی ۔ہمارا پرانا طریقہ ابھی بھی تک کار آمد تھا۔میں نے ڈرائیور کو گاڑی کی رفتار بڑھانے کا کہا اور ہم تین چار گھنٹے تک دوبئی کی سڑکوں پر ادھر سے ادھر بے مقصد کار دوڑاتے رہے
تعاقب میں آنے والی جیپ کو ہم نے برابر یہی تاثر دیے رکھا جیسے ہم اس کے تعاقب سے جان چھڑانے کئ لیے بار بار کار کی رفتار تیز کر رہے ہیں۔پرانی انگریزی جاسوسی فلموں میں میں نے ایسے مناظر بار بار دیکھ لیے تھے مگر تب میں یہ نہیں جانتا تھا کہ خود میری زندگی میں کھبی یہ مناظر حقیقت کا روپ دھارلیں گے۔شاید قدرت انسانی ذہن کی اڑان وہاں تک رکھتی ہے۔جہاں تک اس جہاں نا تمام میں ممکنات کی حد ہو۔ورنہ یہ مصنف رائٹر اور یہ قلم کار وہ سب کچھ کیسے سوچ اور لکھ لیتے ہیں جو کھبی ان کے ساتھ پیش ہی نہ آیا ہو؟یہ تخیل کیا بھلا ہے؟جو انہونی کو بھی ہونی کر کے لکھتا ہے۔مگر میرا پیچھا کرنے والی جیپ میرا تخیل نہیں تھی۔جب مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ بہروز کریم اور دیگر ساتھی محل سے نکل کر ساحل تک پہنچ گئے ہوں گے تب میں نے ڈرائیور کو گاڑی محل کی طرف موڑنے کا کہا
میری توقع کے مطابق فیروز خان ان سب کو لے کر نکل چکا تھا۔مہمانوں کی بھیڑ نے کار اندر آتے دیکھی تو سب ہماری طرف لپکے۔میں نے بمشکل ان سے معذرت کی مالک کچھ دیر میں پہچنے والے ہیں۔وہ لوگ تب تک عشائیہ تناول فرائیں
۔مطلب رات کا کھانا۔مجھے اندازہ تھا کہ ان مہمانوں میں سے کچھ کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی ضرور ہوگا مگر مجھے بہرحال ان کا یہ بھرم آخری وقت تک سمیٹے رکھنا تھا کہ بہروز ضرور کام نپٹا کر آتا ہی ہوگا۔کہتے ہیں تنہائی آس پاس لوگوں کی غیر موجودگی کا نام ہے نہیں۔۔ہمارے آس پاس موجود انسانوں میں ہماری غیر دلچسپی ہمیں تنہا کرتی ہے۔میں بھی اس پارٹی کے ہجوم میں تنہا کھڑا محفل کو برخاست کرنے کے بہانے ڈھونڈتا رہا تھا۔پھر اچانک محل کے گیٹ پر کچھ گاڑیوں اور مخصوص جگہ پر سائرن کا ایک شور سا اٹھا۔چند لمحے بعد دوبئی پولیس کا ایک بڑا افسر میرے سامنے کھڑا تھا۔اس کا انداز اس کے عہدے سے کہیں زیادہ تحکمانہ تھا۔۔
تمہارا مالک بہروز کریم کہاں ہے۔؟؟
بس آتے ہی ہوں گے مالک ۔۔
افسر مخصوص عربی لہجے کی انگریزی میں گرجا ہمارے پاس اس کی گرفتاری کا وارنٹ ہے۔میں نے سادگی سے جواب دیا۔جب وہ آئیں تو گرفتار کر لیجئے گا۔۔۔
مہمان سارا معاملہ دیکھ کر دھیرے دھیرے چھٹنے لگے اور پھر کچھ دیر بعد اس افسر کے ماتحت باہر سے بھاگتا ہوا اندر آیا اور اس نے افسر کے کان میں کچھ کہا۔افسر بھنویں تن گئیں اور وہ غصے سے میری طرف پلٹا اور پھر اس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ابھر ائی۔۔
میرے پاس تمہارے لیے ایک خبر ہے ۔۔
میرا دل زور سے دھڑکا اس پولیس افسر نے مڑکر اپنے ماتحت سے عربی میں کچھ کہا اور پھر میری طرف پلٹا۔
میں تمہیں گرفتار کر رہا ہوں۔تمہارا مالک اور دیگر ساتھی پہلے ہی پکڑے جاچکے ہیں۔فی الحال تم پر کوئی واضع الزام نہیں ہے مگر شک کی بنیاد پر تمہیں حراست میں لیا جاتا ہے
کھبی کھبی ہمارے خدشات حقیقت کا روپ دھارنے میں زیادہ دیر نہیں کرتے شاید ہمارے اندر ابھرتے خوف اور وہم کا ابھال پیش آنے والے واقعات دے کچھ خاص اور براہ راست رشتہ ہوتا ہے اس لیے جب مجھے گرفتار کرکے لاک آپ میں پہنچایا گیا تو اپنے خدشات کے عین مطابق بہروز کریم فیروز کریم اور دیگر عملے کو مختلف چھوٹے چھوٹے حوالات نما کمروں میں بند پایا بہروز کے قانونی مشیروں اور چوٹی کے وکلاہ کی ٹیم بھی پولیس حکام کے ساتھ بحث کرتی نظر آئی۔مجھے بھی ایک لاک۔اپ میں دھکیل دیا گیا اور میں اطمینان سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا
انسانوں کی ساری بے چینی اور بے قراری اس وقت تک ہے جب تک اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہتا جب ہمارے فیصلوں کے مختار دوسرے بن جائیں تو ایک ان جانا سا سکون اور ٹھراو ہمارے وجود کی بے چینی کو گھیر لیتا ہے۔میرا فیصلہ بھی اب میرا فیصلہ بھی قانون کے ہاتھ میں تھا بھلا مجھے کاہے کی فکر ہوتی؟
قسط 15
اگلے روز ہمیں عدالت میں پیش کرنے سے پہلے ایک چھوٹے سے ہال نما کمرے میں جمع کیا گیا۔بہروز کریم کے چہرے پر حسب معمول سکون تھا۔مجھے دیکھ کر وہ دھیرے سے مسکرایا۔کہو پری زاد۔۔۔نیند کیسی رہی؟کہتے ہیں مشکلات سے ور بھاگ کر ہم صرف اس مصیبت کے حل سے اپنا فاصلہ بڑھا رہے ہوتے ہیں۔۔مشکلات ہمارے ساتھ ہی چل رہی ہوتی ہے بہروز لے وکلا نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر وہ اس کی ضمانت کروانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔رات کو جب لاک اپ میں سناٹا چھا گیا تو میں ساتھ والے لاک اپ کی دیوار پر دھیرے سے دستک دی۔۔۔
آپ اور نہیں گئے مالک ۔۔؟
کچھ دیر بعد بہروز کی آواز گونجی۔۔۔کسی سوتے ہوئے سے یہ بڑا عجیب سوال ہوتا ہے۔میں نے گہری سانس لی معذرت چاہتا ہوں۔۔مالک۔۔میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کل عدالت میں قاضی کے سامنے مالکن کے قتل کا اعتراف کرکے جرم اپنے سر لے لو گا۔۔اگر آپ میرے اعتراف کے بعد کوئی اعتراض نہ کریں تو مہربانی ہوگی۔۔۔۔
بہروز نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر اسی کی ٹھرتی ہوئی آواز بھری۔۔۔بہروز کریم اتنا بوجھ لادتا پے جتنا وہ ڈھو سکے
تمہارے اس احسان کا بوجھ بہت بھاری ہے پری زاد۔۔اور ویسے بھی ولید کا باپ اس کی لیلی سے پرانی رفاقت کے سارے ثبوت لے کر ایا ہے تم پہ قتل ڈال بھی دیے جائیں تو دوسری طرف کا کوئی بھی اچھا وکیل بہت جلد سچ کی تہہ تک پہنچ کر اسے عدالت کے سامنے پیش کردے گا۔۔میں نے زندگی میں بہت جرم کیے ہیں۔۔کسی نہ کسی مقام پر تو رسی کو تنگہونا ہی تھا تم اطمینان سے سوجاو مجھے اب بہت جاگنا ہے پھر شاید پوری رات میں اور بہروز آہنی کو ٹھڑیوں میں ساری رات جاگتے رہے۔بظاہر ہم دونوں ہی قیدی تھے۔لیکن ان دو قیدیوں میں فرق کتنا فرق تھا ہم۔میں سے ایک ساری دنیا جیت کر اور جہاں بھر کی نعمتیں سمیٹ کر اس عقوبت خانے میں پہنچا تھا اور شاید ہی اس کی کوئی حسرت باقی بچی کو جبکہ دوسرا وہ بد نصیب تھا جس کی زندگی ہی عمر بھر حسرت کا دوسرا نام رہی تھی۔کھبی کھبی میں سوچتا تھا کہ اس دنیا میں ایک ہی وقت میں کسے عرب شہنشاہ یا امریکی ارب پتی کے گھر میں پیدا ہونے والے اور میرے کچی بستی میں جنم لینے والے کسی بھی دو بچوں کی تقدیر میں توازن کیسے رکھتی ہوگی یہ قدرت۔۔۔بادشاہ اور فقیر کے گناہ و ثواب برابر کیسے تولے جاسکتے ہیں؟پھر چاہے وہ دونوں ہم مذہب ہی کیوں نہ ہوں
آخر اس فرق کی کوئی تو وجہ ہوگی۔۔کوئی تو صلہ یا انعام طے کر رکھا ہوگا اوپر والے نے۔۔۔کسی مقام پر تو اس فقیر کی محرومیاں کا حساب برابر کیا جائے گا۔یا پھر اسے بھی تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا جائے گا؟اگلے روز عدالت میں قاضی کے سامنے وکلا کی بحث شروع ہونے سے پہلے ہی بہروز کریم نے اپنا گناہ قبول کر لیا اور ساتھ ہی عدالت سے درخواست کی کہ گرفتار شدہ عملے میں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا اس مجرمانہ سرگرمیوں دے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا انہیں ضمانت پر رہا کر دیا جائے۔ہم۔سب گم سم کھڑے بہروز کریم کا بیان سنتے رہے اس نے اپنے بیان میں اپنے ہر جرم کا مرکزی کردار خود کو ہی ٹھہرایا۔فیروز اپنے مالک کی بات سن کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ہم سبھی کی پلکیں نم تھیں۔بہروز کریم کا بیان کسی زندہ انسان کا اقرار نامہ نہیں لگتا تھا۔کہتے ہیں زندگی کا المیہ یہ نہیں ہے کہ یہ بہت جلد ختم ہوجاتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ ہم بہت دیر بعد اسے جینا شروع کرتے ہیں۔لیکن بہروز کے بیان کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس نے جی بھر کے زندگی خو جی لیا ہے۔
اتنا کہ اب وہ اس تماشے سے بور پوچکا ہے۔کچھ لوگ صدیوں زندہ رہ کر بھی ایک پل زندگی جی نہیں پاتے اور کچھ پل بھر میں صدیوں کا زندہ رہ کر بھی ایک پل زندگی جی نہیں پاتے اور کچھ پل بھر میں صدیوں کا مزہ کشیدہ کر لیتے ہیں۔تو پھر ہم کسی بھی شخص کی عمر کو سال اور مہینوں میں کیوں ناپتے ہیں؟یہ کیوں کہ فلاح شخص دو پل جیا اور پھر مرگیا اور فلاح عمر بھر جیتا رہا؟
ایک ملنے کہ اندر قاضی نے بہروز کو موت کی سزا سنا دی
فیروز خان کو بھی اس کی معاونت کے جرم میں زندگی کی قضاہ کی سزا ملی۔۔۔چند کو عمر قید ہوئی اور مجھ سمیت
کچھ اور نا مکمل شہادتوں کی بنیاد پر رہا کردیے گئے۔انصاف وہی ہوتا ہے جو فوری ہو۔ہمارے ہاں تو انصاف اتنی دیر سے ملتا ہے کی خود کی خود انصاف ہی سزا بن جاتا ہے۔بہروز کریم نے اپنی ساری دولت جائیداد اور اثاثوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھا حصہ اپنی بیوی اور بچوں میں بانٹ دیا اور آدھا اپنے تمام بچ جانے والے ساتھیوں میں تقسیم کر دیا۔اس نے وہ تمام ٹرسٹ اور فلاحی ادارے بھی ہمیشہ کے لیے یکجا کر کے ایک بورڈ آف ڈائریکٹر کے زیر اہتمام کردیے جو کریم کی سر پرستی میں چلتے تھے اور جن کی کمائی سے ہزاروں ضرورت مندوں کو فائدہ ہوتا تھا۔میں نے کہیں پڑھا تھا کی ظلم بہت سخی ہوتا ہے۔بہروز کریم اگر ظالم تھا تو سخاوت کا یہ معیار اس کے شایان شان تھا۔شاید چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا گنہگار بھی کہیں نہ کہیں اپنے اعمال کا وزن برابر رکھنے کی شدید خواہش میں مبتلا رہتا ہے ہم کچھ بھی کر لے مگر سزا اور جزا کا یہ نظام خود ہماری رگوں میں سرایت کیے رہتا ہے۔میں بہروز کریم کے اثاثوں کی وصیت پڑھتے ہوئے رو پڑا اس نے اپنے محل میں پڑا ہوا بڑا پیانو میرے نام لکھ دیا تھا اور پھر ساتھ ہی ایک ضمنی نوٹ میں آگے تحریر تھا کہ چونکہ اس پیانو کا وزن بہت بھاری اور زیادہ ہے اور بہروز کا خدشہ ہے کہ اس کی محبوب بیوی کا یہ پسندیدہ پیانو محل سے کہیں منتقل کیے جانے کی صورت میں آپنی اصل شکل۔ وہیت کھو نہ دے لہذا وہ جائیداد جہاں وہ پیانو پڑا ہوا ہے۔تمام تر محل اور انیکسی سمیت پری زاد کے نام کی جاتی ہے۔بہروز جاتے جاتے ہم سب کے نام اتنا کچھ کر گیا تھا جو ہم سب کی سات نسلوں کے لیے کافی تھا۔اس نے اپنے تمام اداروں میں کام کرنے والے اعلی سے اعلی افسر سے لے کر ایک معمولی نوکر اور چپڑاسی تک کو برابر بانٹا تھا آخری ملاقات کی رات جب ہم سب کارکن اس سے آخری بار مل کر واپس لوٹ رہے تھے تو میں قطار میں دب سے آخر میں کھڑا رہا۔دب جاچکے تو بہروز نے میری طرف دیکھا۔۔
تم مجھ سے نہیں ملو گے پری زاد۔۔۔۔
مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں تمام ادب و آداب بالائے طاق رکھ کر روتے ہوئے اس کے گلے لگ گیا اور پھر مجھے سنبھالتے ہوے بہروز بھی رو پڑا۔اور آہنی اور فولادی وجود اعصاب کے آدمی کو میں نے پہلی بار نم آنکھیں لیے سر جھکائے کھڑے دیکھا۔میں نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔۔کیوں کیا آپ نے ایسا۔۔؟کیوں خود کو موت کہ منہ جھونک دیا۔۔اپ کے وکلاء اور قانونی مشیر اتنے اہل تھے کہ آپ کی سزا کو کم از کم عمر قید میں تبدیل کروادیتے۔۔میں جانتا ہوں کہ یہ سزا آپ نے اپنے لیے خود تجویز کی ہے۔۔قاضی نے تو بس اپنے دستخط ثبت کیے ہیں اپ کے فیصلے پر بہروز نے سر اٹھایا۔۔شاید لیلی کے ساتھ ہی مرگیا تھا۔۔۔۔
میں خود کو بہت مضبوط سمجھتا تھا پری زاد۔۔لیکن یہ محبت بڑے بڑے تنادر درختوں کو دیمک کی طرح کھا کر ڈھا سکتی ہے۔۔۔یہ احساس مجھے بہت دیر میں ہوا۔۔میں نے اپنے لیے سزا اس لیے تجویز نہیں کی کیونکہ میں نے اسے مات ڈالا۔میں نے خود کو یہ سزا اس لیے دی ہے کہ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی تھی جب کے میں اسی کی محبت میں سے بااثر بڑھ گیا تھا کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کی اب میری واپسی نا ممکن ہے۔یہ راز تب کھلا جب وہ دنیا سے جا چکی تھی۔تب میں نے جانا کہ میں بھی اس کے بنا جی نہیں پاوں گا۔اگر مزید زندہ رہتا تو یہ منافقت تھی اور بہروز نے آج تک ہر گناہ کیا سوائے منافقت کے۔۔۔
اس نے مجھے آخری مرتبہ بھینچ کر گلے لگایا اور اپنا خیال رکھنا ۔۔بہت قیمتی ہو تم ۔۔۔مگر نہ جانے کیوں۔۔۔خود کو اتنا ارزاں کر رکھا ہے ۔۔
میں ایک بار پھر رو پڑا۔بہروز سے رخصت ہونا دنیا کا سب سے مشکل کام تھا مگر سپاہی میرے سر پر اکھڑا تھا ہوا واپسی پر فیروز خان کی کوٹھڑی کے پاس رک گیا وہ آہٹ سن کر سلاخوں کے قریب آگیا میں نے نم پلکوں سے اس کا استقبال کیا۔۔
جارہے ہو فیروز۔۔۔؟
وہ دکھ سے مسکرایا۔۔ایک نہ ایک دن تو جانا ہی تھا۔مالک کے ساتھ ہی چلا جاوں تو بہتر ہے میں نے ان کی زندگی کی حفاظت کی قسم کھا رکھی تھی۔دعا کرو کہ کل مجھے ان سے پہلے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ورنہ میں اوپر جا کر خدا کو کیا منہ دکھاوں گا۔۔۔؟
میں نے فیروز کا کاندھا تھپتھپیا۔تم سے بڑھ کر وفاداری اس دنیا میں بھلا کسی اور نے کیا نبھائی ہوگی۔بے وفا تو ہم سب ہیں۔جنہیں تم یہاں تنہا کسی آسرے کے بغیر چھوڑے جارہے ہو۔۔کہاں ملے گا اب مجھے تم جیسا سچا اور وفادار دوست۔۔۔
فیروز خان مسکرایا۔پاکستان میں میرا ایک بھائی ہے کبیر خان بلا لینا۔۔ہم دونوں کا ایک ہی خون ہے۔۔اب تم جاو پری زاد۔مجھے اپنی آخری عبادت کرنی ہے شاید آخری سجدہ ہی وہاں کام آجائے۔۔ورنہ عمر تو بس رائیگاں گئی ۔۔۔
میں آنکھوں میں آنسوں لیے بوجھل قدموں سے وہاں سے چلا آیا بہروز اور اس کے وفادار فیروز کی آخری رسومات ایک ساتھ ادا کر کے انہیں اسی شہر میں دفنا دیا گیا جہاں انہوں نے عروج کی آخری منزل سرکی تھی اور جہاں وہ ایک ساتھ زوال پذیر ہوگئے۔بہت دنوں تک تو مجھ سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔غم کی شدت شاید ہماری قوت گویائی بھی سلب کر لیتی ہے۔میں گھنٹوں بڑے ہال میں گم سم بیٹھا اس بڑے سفید پیانو کو دیکھتا رہتا تھا جیسے لیلی صباہ بیٹھ کر کھبی بجایا کرتی تھی۔شاید اس کی نازک انگلیوں کے نشانات بھی ابھی تک اس پیانو کے سروں پر ثبت ہوں گے میرا جی ہی نہیں مانتا تھا کہ میں اپنے ہاتھ لگا کر اس کے نشان مٹا دوں۔پھر ایک شام مارتھا واپس اگئی اور مجھے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔وہ انگلینڈ اپنی سوتیلی ماں کو ملنے گئی ہوئی تھیں جب یہ ساری واردات ہوئی۔میں نے مارتھا کو پھر سے کام پہ رکھ لیا اور انیکسی میں شفٹ ہو جانے کے لیے درخواست بھی کی۔جانے کیوں وہ مجھے اس محل اور لیلی صباہ کا ایک حصہ نظر آتی تھی۔رفیق کو بھی میں نے دوبارہ دوبئی واپس بلا لیا تھا۔مگر اس نے محل میں منتقل ہونے سے معذرت کرلی۔۔
نہیں پیارے یہاں پر تو ہی سنتا ہے۔۔مالک یہ سب کچھ تیرے نام کرگئے ہیں۔مجھے اس فلیٹ میں رہنے دے۔
میں جانتا تھا کہ اس کا جواب یہی ہوگا۔ ٹھیک ہے۔۔مگر ایک شرط تمہیں بھی ماننی ہوگی۔۔۔ورنہ میں سمجھوں گا تم نے مجھے دل سے اپنا دوست نہیں مانا۔۔
کیسی شرط ۔۔؟؟
میں نے دروازے سے ایک چابی نکال کر اس کے ہاتھ میں تھمائی۔تم یہاں ہمیشہ ایک بہت اچھا پاکستانی ریسٹورنٹ کھولنا چاہتے تھے نا۔۔۔۔ یہ تمہارے ریسٹورنٹ کی چابی ہے
رفیق کچھ دیر تک ڈبڈبائی آنکھوں سے میری طرف دیکھتا رہا اور پھر اس نے مجھے آگے بڑھ کر گلے لگا لیا۔تو صرف نام کا ہی نہیں۔۔دل کا بھی پری زاد ہے۔۔۔
بہروز کے جانے کے بعد مجھے پتا چلا کہ یہ امیر کیسے امیر تر ہوتے جاتے ہیں دولت ایک ایسا مقناطیس ہےجو صرف دولت کے لوہے کو آپنی جانب کھنچتا ہے بہروز کے شروع کیے گئے درجنوں منصوبے جو میرے حصے میں آئے تھے وہ پیسہ کھینچنے کا کچھ ایسا ہی مقناطیس تھے۔میرا کام صرف اتنا رہ گیا تھا کہ میں اپنے مینجرز کی بتائی ہوئی اسکیموں میں پیسے لگاوں اور پھر ہفتوں بیٹھ کر ان سے حاصل ہونے والا منافع گنگا رہوں۔اس سے کہیں زیادہ محنت تو میں استاد مستانہ کے ورکشاپ پر دن کے چند گھنٹوں میں کر لیتا تھا۔یا پھر شاید ان ان امیروں کے بیٹھ کر یوں دولت گنتا بھی محنت ہی لگتی ہو۔۔لیکن میں اس جمع تفریح کے کھیل سے چند مہینوں میں ہی اکتانے لگا۔دولت مند کو دولت خرچ کرنے کا سلیقہ آنا بہت ضروری ہے۔ورنہ وہی دولت اس کے لیے سر درد بننے لگتی ہے۔میرے مینیجرز مجھے روزانہ پیسہ کمانے کے نت نئے گر بتاتے اور پھر جب ان کے منصوبے کامیاب ہو جاتے تو وہ پارٹی کرتے اور جشن مناتے انہیں اس بات پر بھی حیرت ہوتی تھی کہ میں اب اکتاہٹ سے ان کی دماغی عرق ریزی کے نتیجے سنتا تھا۔انہی دنوں اسپین کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی نے ہمارا ٹینڈر منظور کر لیا
میں سفرسے بہت اکتاتا تھا اور میری حتی الامکان کوشش یہی ہوتی تھی کہ مجھے خود کہیں نا جانا پڑے۔مگر کچھ ایسی صورت حال بنی کہ مجھے بار سلونا جانا ہی پڑا۔یہ پیسہ بڑے کمال کی چیز ہے۔ایک ہی جیسے خوش پوش اور معزز دکھائی دینے والے انسانوں کو پل بھر میں درجوں تقسیم کر دیتا ہے۔میرے فلائیٹ کا ٹکٹ عملے نے بزنس ایگزیکٹو کلاس میں سب سے اونچی تقسیم کا بک کروایا تھا..
قسط 16
لہذا کچھ ہی دیر میں مجھ سے کہیں زیادہ خوش لباس اور اونچے درجے کے دکھائی دینے والے مسافر جہاز کے پچھلےحصہ میں بیٹھ چکے تھے اور جہاز کا سارا عملہ میرے اگے بچھا جارہا تھا۔مجھے جانے کیوں اپنے کالج کے روٹ پر چلنے والی لوکل بس یاد آگئی۔جس کے پائیدان پر لٹکتے میں نے کالج تک انہ گنت سفر کیے تھے۔کیونکہ میرے پاس اندر بیٹھنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور کنڈکٹر ترس کھا کر چند سکوں کے عوض مجھے پائیدان پر لٹکنے کی اجازت دے دیتا تھا۔اسپین کے جس سات ستارہ ہوٹل میں میرا قیام تھا اس کے صدارتی سوئٹ سے باہر دیکھنے پر دور سفید پتھر اور لکڑی سے بنا ایک بہت بڑا گول اکھاڑہ دکھائی دیتا تھا۔میرے مہربانوں نے اگلی شام معاہدہ طے ہوجانے کی خوشی میںجھے اسی اکھاڑے میں بھینسے کی انسان سے جنگ دکھانے کا اہتمام کر ڈالا۔میں نہیں چاہتا تھا مگر میرے میزبان بہت ضدی تھے کہ کوئی اسپین آئے اور یہ تماشہ نہ دیکھے تو ان سے کفران نعمت کہا جاتا ہے۔اب میں انہیں کیا بتاتا کی مجھے تو دنیا کے سبھی بڑے شہراب ایک جیسے لگتے ہیں۔وہی بھاگ دوڑ وہی نفسا نفسی۔۔۔وہی سب کا ایک دوسرے کو اپنی سے زیادہ خوش اور مطمئن جان کر اپنے آپ کو مزید مشقت میں مبتلا کرنا۔مگر یہ شہر باقی بڑے شہروں سے کچھ جدا دکھائی دے رہا تھا۔مشرقی اور مغربی تعمیر کا سنگم مجھے بچپن میں آنہ لائبریری سے کرائے پر لی گئی الف لیلی کی کہانیاں یاد آنے لگیں۔وہی محرابین وہی ستونوں کے قوس وقزاح اندرون شہر آینٹوں کی بنی گلیاں اور راستے۔نئی تعمیر کا شاہکار الف لیلوی گھر اور عمارتیں
مسلمان کیا تھے ۔۔۔اور کیا سے کیا ہوگئے دنیا کی تاریخ میں جتنا عروج اور پھر جتنا زوال ہم مسلمانوں نے دیکھا ہے۔اتنا شاید کسی اور قوم اور مذہب نے نہ دیکھا ہو۔شام چار بجے ہم اکھاڑے اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔اکھاڑہ کھچا کھچ تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔انسان سدا لا وحشی ہے اور اسے بھر تماشے دیکھنے میں ہمیشہ ہی لطف آتا ہے۔کچھ ہی دیر میں سیاہ بل فائٹنگ کت سوٹ پر سرخ جیکٹ اور سر پر کالا ہیٹ پہنے ایک سرخ چادر لہراتا ہوا ہسپانوی بل فائٹر اکھاڑے میں داخل ہوا تو تماشائیوں نے تالیاں اور سیٹیوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔کنواری لڑکی نے اس وجیہہ لڑاکے پر پھولوں کی بارش کردی۔مگر بل فائٹر نے ایک گلاب اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے لگایا۔جو اس کی محبوبہ نے اس کی طرف پھینکا تھا۔میرا خاص میزبان مجھے ساری روائد کسی رواں تبصرے کی طرح سنا رہا تھا۔یہ لڑاکا اسپین کے بہترین فائٹرز میں سے ایک تھا جسے لوگ انتونیو کے نام سے جانتے تھے۔انتونیو آج تک اسپین کے ننانوے جنگلی بھینسوں کو ایسے اکھاڑوں میں ہرا کر موت کی گھاٹ اتار چکا تھا اور اج اس کا یہ سووا تھا اور اس نے اپنی محبوبہ ماریا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنا سینکڑہ مکمل کرکے ماریا سے شادی کر لے گا سارا شہر یہ بات جانتا تھا اور اسی لیے آج اکھاڑے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔دوسری جانب اندھیرے سے قید خانے میں کھڑا بھینسا۔بھی آج اپنی سوویں لڑائی لڑنے جارہا تھا۔لوگوں نے اس کی طاقت اور وحشیانہ طاقت کی وجہ سے اس کا نام کلر رکھ چھوڑا تھا اور کلر نے اپنے ننانوے گزشتہ مقابلوں میں کسی بھی بل فائٹر کا جسم ادھیڑے بنا اسے اکھاڑے سے واپس نہیں جانے دیا تھا مگر اپنے وقت کے یہ دو بہترین لڑاکا آج پہلی مرتبہ ایک دوسرے کے مد مقابل آرہے تھے۔انتونیو نے اپنی تلوار کی چمکتی دھار
کو چھو کر دیکھا اور کمرے میں بند کلر نے اپنے کھروں سے ریتلی زمین کو کھروچا ماریا نے انتونیو سے وعدہ لیا تھا کہ اس آخری بھینسے کو زیر کرنے کے بعد وہ اس کھیل کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دے گا۔کیونکہ اپنے محبوب کے توانا جسم پر مزید نو کیلے سینگوں کے کاٹ اور زخموں کے نشان نہیں دیکھنا چاہتئ تھی۔انتونیو نے اپنی سیاہ مخملی پوشاک کے سنہری بٹن بند کیے اور گھنٹوں تک لمبے مخصوص چمڑے کے جوتوں کت تسمے باندھ اور تلوار کی نوک زمین پر ٹیک کر ایک شان ادا سے کھڑا ہوگیا۔یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ لڑائی کے لیے تیار ہے ۔تماشائیوں کی تالیاں سیٹیوں اور شور سے کان پڑی آواز سنائی دے رہی تھی۔ماریا نے اپنے سر پہ جمے سیاہ جالی نقاب والے ہیٹ کو ذرا سا
سرکا کر انتونیو کو سلام اور اپنے ہاتھوں میں پکڑا دوسرا سرخ گلاب اپنے محبوب پر نچھاور کر دیا۔ٹھیک اسی لمحے میری نظر اکھاڑے میں دوسری جانب بیٹھے ایک شخص پر پڑی جو میری طرف ہی دیکھ رہا تھا اس نے میری طرف دیکھا اور ہاتھ ہلایا اور تعظیم سے سر جھکا کر سلام کیا۔شاید میں نے اس سے پہلے کہیں اسے دیکھا تھاگر اس وقت میری پوری توجہ انتونیو اور کلر کے مقابلے پر تھی۔کلرکی آنکھوں سے پٹی ہٹا کر اس کے قید خانے کا دروازہ کھول دیا گیا تھا اور اب وہ اکھاڑے میں داخل ہونے کے بعد اپنے سوویں شکار انتونیو کو اکھاڑے کے درمیان کھڑے سرخ کپڑا لہراتے ہوئے دیکھ رہا تھا مگر کلر اتنی جنگوں کے بعد ایک بات تو اچھی طرح جان چکا تھا کہ اس کا ہدف وہ بے جان سرخ کپڑا نہیں۔۔۔۔۔بلکہ اس کے ڈوبیں کھڑا وہ سفاک دشمن جو پہلے اسے تماشے کی غرض سے خوب تھکائے گا اور پھر اسے نڈھال کرنے کے بعد ٹھیک اس کی دو آنکھوں کے درمیان نازک جلد والےحصے میں اپنی تیز دھار تلوار پوری گھونپ کر اسے ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا۔۔۔
مگر اس لمحہ آنے سے پہلے ہی اپنے اس دشمن کو اپنے نوکیلے سینگوں میں پروکر آسمان کی جانب اچھال کر اس کے جسم کو ادھیڑ کر رکھ دینا ہوگا۔بل فائٹنگ دراصل بھینسے اور بل فائٹر کے درمیان اعصاب کی جنگ ہوتی ہے اور جو اعصاب قابو میں رکھے وہی فاتح بن کر اکھاڑے سے باہر نکلتا ہے۔انتونیو نے سرخ مخملی کپڑا لہرایا جنگ شروع ہوگئی۔کلر کا پہلا وار خالی گیا اور انتونیو نے اپنی تلوار سے اس کے جسم پر کٹ لگا کر کلر کے مضبوط جسم پر پڑے درجنوں داغوں میں ایک اور اضافہ کر دیا۔کلر غضب ناک ہوکر پلٹا اور دور سے بھاگتے ہوئے قریب آخر اچانک اس نے اپنا زاویہ بدل لیا۔اس کے تیز دھار سنگ کے نوک مے انتونیو میں چنگاریاں سے بھر دیں۔تماشائیوں کی چیخیں نکل گئیں اور ماریا گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔انتونیو اور کلر دونوں ہی جان چکے تھے کہ ان کا مقابلہ آج کسی عام حریف سے نہیں ہے۔انتونیو کے ہاتھ میں پکڑی سرخ چادر اب دھیرے دھیرے چیتھڑوں میں تبدیل ہوتی جارہی تھی اور کلر کا جسم انتونیو کی تلوار کے چرکوں سے لہو لہان تھا وہیں انتونیو کا بدن بھی بے حد مہارت اور احتیاط کے باوجود خراشوں سے بھر چکا تھا اور دونوں ہی شدید تھکن سے نڈھال ہو چکے تھے۔ماریا جب اپنے محبوب کو اس خونخوار قاتل بھینسے کے جسم سے مس ہوتے دیکھتی تو اس کے حلق سے بے اختیار چیخ بلند ہوجاتی اس نے چلا کر انتونیو سے کہا ۔۔
انتونیو۔۔بس کردو میرے فائٹر۔۔یہ دیوانگی ہے ۔۔مقابلہ ختم کردو۔۔۔
مگر انتونیو نے مسکرا کر اپنی زندگی کی طرف دیکھا اور آخری اور آخری بار چادر لہرا کر پھینک دی۔یہ اس بات کا اشارہ تھاکہ وہ بھینسے کی آنکھوں کے درمیان تلوار گھونپنے کے لیے تیار ہے گر اس نے خود کو بھی کلر کے سامنے پوری طرح عیاں کردیا تھا تاکہ بھینسا ساری احتیات بھلا کر تیزی سے اس کی جانب بڑھے اور اور انتونیو موقع ملتے ہی اسے ختم کردے۔تماشائیوں کا شور اور چیخیں آسمان تک بلند ہورہی تھیں اور وہ سب انتونیو کو اس کی دیوانگی سے روکنے کی کوشش کررہے۔مگر انتویو اپنی زندگی کا آخری مقابلہ ہار کر واپس پلٹنا نہیں چاہتا تھا۔کلر نے پلٹ کر اپنے اس بہادر دشمن کو دیکھا اور چند لمحے رک کر دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تولتے رہے اور پھر کلر غراتا اور منہ سے جھاگ بہاتا ہوا انتونیو کی طرف دوڑتے ہوئے لپکا۔انتونیو نے اپنے جسم کو ایک خاص انداز میں اکڑا کر تلوار کا دستہ مضبوطی سے سے اپنے ہوا میں اٹھے ہوئے دائیں ہاتھ میں تھام لیا۔کلر بھی سمجھ گیا کہ اس کا یہ آخری حملہ ان میں سے کسی ایک کے لیے ہار جیت ثابت ہونے والا ہے۔وہ ایک انتہائی ذہین جانور تھا اور دشمن کی چالوں کو سمجھتا تھا۔اس بھاگتے بھاگتے اپنے جسم اچانک ایک جھکائی دی تاکہ اپنے سر کی جانب لپکی تلوار کی نوک سے بچ سکے۔مگر تلوار دستے تک اس کے سر میں اتر چکی تھی۔مگر خود انتونیو بھی کلر کے ٹنوں وزنی جسم کی زوردار سے کئی فٹ ہوا میں اچھلا اور جب زمین کی طرف گر رہا تھا تو کلر کے نوکیلے سینگ اس کے گرتے جسم کا انتظار کر رہے تھا۔انتونیو کے جسم میں کلر نے اپنے سینگ پرودئیے اور ایک لمحے بعد دونوں ہی اکھاڑے کی ریتلی زمین پر گرے اپنے آخری سانس لے رہے تھے دونوں کی آنکھیں بند ہونے سے پہلے پہلے بہادر دشمن کو آخری پیغام دیا ۔۔۔۔
بہت خوب۔۔۔۔تم واقعی ہی بہترین لڑاکے تھے میرے دشمن
ماریا اپنے محبوب کی حالت دیکھ کر صدمے سے لہرائی اور وہی گر کر بے سدھد ہوگئی سارے مجمعے کو جیسے سانپ چھوگیا۔عورتیں روپڑیں اپنی اپنی زندگی کے آخری مقابلے میں کلر اور انتونیو دونوں ہی برابر رہے تھے تماشا ختم ہوچکا تھا۔ٹھیک اسی لمحے میرے گندھے پر کسی نے ہاتھ رکھیں اس سارے تماشےیں اتنا ڈوبا تھا کے اس کے ہاتھ رکھنے سے بڑی طرح چونک گیا ۔یہ وہی شخص تھا جس نے مقابلہ شروع ہونے سے پہلے مجھے سلام کیا تھا وہ پراسرار انداز مںسکرایا ۔
بہت تلاش کیا ہے میں نے تمہیں۔۔آخر آج تم پکڑے گئے۔۔۔
میں نے حیرت سے اس شخص کی طرف دیکھا وہ اردو میں بات کر رہا تھا کیا ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔۔۔
وہ مسکرایا۔ہم دونوں نہیں۔صرف میں تمہیں جانتا ہوں۔
تم پری زاد ہو نا۔بہروز کریم کے جان نشین۔نہیں میں صرف پری زاد ہوں۔بہروز کریم کا جان نشین بننے کی اہلیت نہیں ہے مجھ میں۔۔۔
اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔لوگ مجھے سیٹھ ابراہیم کے نام سے جانتے ہیں۔بھارت کی شان بمبئی میں رہتا ہوں۔۔
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔بمبئی۔۔
ہاں بھئی۔۔۔یہ نہا نام بمبئی ہمیں تو بالکل نہیں جمتا۔۔جو بات ممبئی میں تھی وہ بات اس بمبئی میں کہاں۔جانے یہ لوگ شہر کا نام کیوں بدل دیتے ہیں۔کتنی یادیں جڑی ہوئی ہیں ہماری ان ناموں کے ساتھ ۔۔۔اب تمہارے لاہور کو کوئی کل سے اچانک ٹمبکٹو کہہ کر بلانا شروع کردے تو تمہیں کیسے لگا گا؟
میں اس کی بے تکلفی سے عجیب سی بے چینی محسوس کررہا تھا۔تم نے مجھے بتایا نہیں تم مجھے کیسے جانتے ہو ۔؟
سیٹھ ابراہیم میرے ساتھ چلتے چلتے اکھاڑے سے باہر آچکا تھا۔میرے میزبان مجھے مضبوط دیکھ کر میرے لیے دوسری گاڑی منگوا چکا تھا۔میں گاڑی کا دروازہ کھولا تو سیٹھ ابراھیم کئ گاڑی بھی ہماری گاڑی کے پیچھے آہ کر رک چکی تھی۔سیٹھ ابراہیم نے جیب سے اپنا کارڈ نکالا اور مجھے دیتے ہوے بولا۔میں شام کو تم سے ملنا چاہتا ہوں۔تمہارا مالک بہروز مجھے اچھی طرح جانتا تھا۔ہم بزنس پارٹنر تھے باقی باتیں شام کو ہونگی۔۔۔
سیٹھ ابراہیم نے مجھے ایک نئی الجھن میں مبتلا کر کے چلا گیا۔شام کو سوئمنگ پول کے کنارے بچھے کرسیوں پر وہ موجود تھا۔میں نے براہ راست مدعے کی بات کی
ہاں بولو ابراہیم سیٹھ۔تمہیں مجھ سے ایسا کیا خاص کام ہے
سیٹھ دھیرے سے مسکرایا۔تم نے شاید غور سے میرا نام نہیں سنا مجھے ابراہیم کہتے ہیں بمبئی فلم انڈسٹری میرے دم سے چلتی ہے۔۔میں زیادہ تر دوبئی میں ہی رہتا ہوں یہاں اسپین میں بھی ایک فلم کی افتتاحی تقریب میں آیا ہوں
خوش قسمتی سے تم بھی یہی مل گئے شاید بہروز نے تمہیں بتایا نہیں کہ اس کا اربوں کا کالا دھن ہماری فلم انڈسٹری میں ہی سفید ہوتا تھا۔میں چاہتا ہوں کہ ہمارا وہ پرانا رشتہ برقرار رہے۔کہو کیا کہتے ہو تم۔۔۔؟؟
میں کچھ سمجھا نہیں؟؟
ابراہیم نے اپنی آنکھوں پر لگا قیمتی چشمہ اتارا۔ہم بھارتی فلموں میں اپنا روپیہ لگاتے ہیں۔۔ایک فلم ستر اسی کروڑ تک چلی جاتی ہے۔۔فلم چل جائے تو تین چار سو کروڑ لے آتی ہے پٹ بھی جائے تو ہمارا کوئی نقصان نہیں۔۔ہمارے ٹیکس کے وکیل اس نقصان کو تین گناہ بڑھا کر ٹیکس کے گوشواروں میں بھر دیتے ہیں مطلب چٹ بھی میری اور پٹ بھی ہماری منافع تو ساری دنیا کے سامنے سفید دھن آتا ہے۔نقصان ہو تو ہمارا کالا دھن نقصان کے پردے میں چھپ جاتا ہے۔بولو پیسہ لگاوں گے فلم انڈسٹری میں۔۔
تمہاری پیش کش کا بہت شکریہ۔۔مگر میرا کالا دھن کمانے یا اسے سفید کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔میرے پاس جو ہے وہ بھی میری اوقات سے کہیں زیادہ ہے۔مجھ سے تو یہ بھی نہیں سمبھلتا۔۔سیٹھ ابراہیم طنز سے مسکرایا۔جانتا ہوں
تم شاید بہروز کے خاص محافظ تھے مگر یاد رکھو۔۔اپنی سلطنت قائم رکھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے اور شاید تم یہ بات نہیں جانتے کہ بمبئی کی فلم انڈسٹری پر ہمیشہ انڈر ورلڈ کا راج رہا ہے۔۔ہم ان کٹھ پتلیوں کو اپنی انگلیوں پر بچاتے ہیں۔آدھی رات کو بھی ہمارا فون چلا جائے ان کے بڑے بڑے ستارے بھاگتے چلے آتے ہیں۔ورنہ تم نے اپنے ملک میں رہتے ہوے بھی کھبی سوچا تھا کہ شاہ رخ خان یا سلمان کرینہ یا کترینہ تمہارے بیٹے بھائی کی سالگیرہ میں کہہ کٹوانے چلے آئیں۔۔یہ سب ہماری زیر زمین دنیا کی طاقت کے کرشمے ہیں اور سچ پوچھو ان لوگوں پر حکومت کرکے بڑا مزہ آتا ہے۔۔۔اور چونکہ بہروز کریم ہماری سلطنت کا ایک اہم عہدے دار تھا۔۔لہذا میں نےباہنا فرض سمجھا کے تمہیں بھی شمولیت کی دعوت دوں۔۔۔۔آگے فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے
ویسے تم اتنا لیے دیے کیوں رہتے ہو۔۔؟-
دوبئی میں بھی میں نے تمہیں کسی تقریب میں نہی دیکھا سنا ہے پیتے پلاتے بھی نہیں ہو؟
کیوں یہ جوگ لے رکھا ہے تم نے ۔۔۔۔؟؟؟
قسط 17
میں دھیرے سے مسکرایا۔شاید یہی جوگ میرا مقدر ہے اور میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔مجھے کسی سلطنت یا رتبے کی خواہش نہیں ہے۔۔۔میں شاید ازلی غلام پیدا ہوا ہوں غلام ابن غلام اب یہ خوئے سلطنت مجھ میں پیدا ہونا بہت مشکل ہے یہ تم جیسوں پر ہی سختی ہے۔۔۔
سیٹھ ابراہیم میری بات سن کر سنجیدہ ہوگیا۔اتنے کڑے سچ اتنی آسانی سے کیسے بول لیتے ہوتم۔۔۔؟اور میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ تمہارے بہروز والے محل میں کسی عورت کا آنا جانا بھی نہیں ہے شراب عورت اور جواء۔۔۔اگر یہ تمہاری زندگی میں کوئی معئنی نہیں رکھتا تو پھر آخر اتنا پیسہ تمہارے کس کام کا۔؟آخر کوئی تو خواہش ہوگی تمہاری ۔۔
میں چل رہا۔اب میں اسے کیا بتاتا میری خواہش ساری دنیا سے جدا ہے۔۔ہر آرزو اے سوا ہے۔۔مجھے تو بس ایک نگاہ چاہیے۔۔اپنے نصیب کی ایک جھلک صرف ایک پیار بھری نظر جو صرف میرے لیے ہو۔۔بنا کسی تحقیر طنز حقارت اور ترحم کے جذبات لیے۔۔سیٹھ ابراہیم جاتے جاتے چند لمحوں کے لیے رکا۔۔
اچھے لگے ہو تم مجھے۔۔لالچ نہیں ہے تمہارے اندر
اور جو شخص اپنی خواہشوں پر قابو پالے وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتا ہے۔کھبی کسی مقام ہر میری ضروت پڑے تو یاد کر لینا اور ہاں اور تمہیں ایک ضروری اطلاع بھی دینی ہے مجھے۔۔دوبئی پولیس تم پر کڑی نظر رکھے ہے ہوئے ہے نہ صرف تم پر بلکہ کے ہر قریبی ساتھی پر ان کی خاص توجہ ہے آج کل۔۔تم اس لیے بچے ہوئے ہو کیونکہ فی الحال انہیں تمہارے خلاف کسی غیر قانونی سرگرمی کی خبر نہیں مل سکی۔مگر تمہیں بہت احتیاططدے چلنے کی ضرورت ہے۔وہ لوگ بہت عرصے تک بہروز خو بھولنے والے نہیں ہیں۔۔
سیٹھ ابراہیم واپس پلٹ گیا۔میں دوبئی واپس پہنچا تو میں نے پہلی مرتبہ اطراف غور سے ماحول کا جائزہ لیا تو مجھے سیٹھ ابراہیم کی بات ٹھیک لگی۔دوبئی ائیرپورٹ سے ہی میری نگرانی شروع ہوچکی تھی۔۔؟؟
ایک سرکاری گاڑی نے گھر تک ہمارا پیچھا کیا اور پھر صبع شام آتے جاتے میں نے کچھ مخصوص چہروں اور گاڑیوں خو ہمیشہ اپنے گھر دفتر اور ہر اس جگہ کے آس پاس پایا جہاں مجھے پہنچنا ہوتا تھا مجھے ایک عجیب گھٹن چوبیس گھنٹے ہونے لگی جیسے وہ شہر نہیں کوئی قید خانہ ہو ۔شاید سلاخوں کے پیچھے قید رہنا کسی کھلے شہر میں قید رہنے سے کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے۔ویسے بھی بھی اب میرا جی اس ریت اور سیمنٹ سے بنی عمارتوں کے صحرا سے سکھانے لگا تھا۔لہذا میں نے اب اپنے ملک واپسی کا فیصلہ کرلیا رفیق نے یہ خبر سنی تو آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا۔۔
خوش کردیا تونے یار۔۔پتہ نہیں کیوں۔مگر مجھے ہر وقت تیری طرف سے دھڑکا ہی لگا رہتا ہے۔تو چل۔میں بعد تیرے پیچھے سب سمیٹ کر واپس پلٹتا ہوں۔۔ہماری مٹی اور ہمارا خمیر یہاں کا نہیں ہے یار۔۔چاہے ساری عمر گزار لیں۔پھر بھی ایک اجنبیت اور غیریت کا احساس ہمیشہ بے چین رکھتا ہے چاہے وہاں اپنے ملک میں کچھ بھی ٹھیک نہیں۔۔پر اس انجانے پن سے رو نجات ملے گی ۔۔۔
میں نے اپنے باقی اسٹاف کو جمع کرکے اپنی واپسی کا فیصلہ سنایا تو وہ پریشان ہوگئے کہ پیچھے اتنا بڑا کاروبار کون سنبھالے گا میں انہیں تسلی دی کہ میں مہینے میں ایک دو بار چکر لگا جایا کروں گا اور پھر آج کل تو ہزار سہولتیں پیدا کردی ہیں ان نت نئی ایجادات نے۔۔انسانی جسمانی طور پر چاہے موجود نہ ہو پر ہر تصویر اور آواز کے ذریعے چوبیس گھٹنے رابطے میں رہ سکتا ہے۔محل کے معاملات میں نے مارتھا کو کیئر ٹیکر بنا کر اس کے حوالے کردئیے میں نے اس دوبئی دے صرف بہروز کا سفید پیانو پاکستان بھجوانے کی درخواست کی۔میرے عملے نے دو ہفتے کی جان فشانی کے بعد میرئ ہی شہر کے سب سے پوش علاقے میں میرئ لیے ایک بنگلہ خرید کر اسے آپنے طور پر آراستہ بھی کروادیا تھا اور پھر میری روانگی کا دن بھی آگیا میں نے رفیق کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ میری واپسی کی خبر کوحتی الامکان زیادہ پھیلنے سے روکے رکھے مگر میں اسے یہ تاکید کرنا بھول گیا کہ یہی احتیاط وہ پاکستان میں میرئ خاندان والوں کے لیے بھی روا رکھے اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا میرئ شہر کے ہوائی اڈے کے باہر انتظار گاہ میں میرا سارا خاندان پھولوں کے گلدستے اور ہار لیے میرا انتطار کررہا تھا۔میرےسبھی بہن بھائی اور ان کی اولادیں میری بھابھیاں اور میری بھابیوں کی بہنیں اور ان کے خاندان کے بزرگ پورا ایک لشکر میرے استقبال کے لیے موجود کھڑا تھا۔مجھے وہ دن یاد آگیا یہاں سے دوبئی جانےکے لیے ایک پرانے رکشے میں ائیرپورٹ پہنچا تھا اس دن میرے گھر کے صحن تک بھی کوئی مجھے رخصت کرنے نہیں آیا تھا۔۔وقت بھی کیسی کروٹیں بدل لیتا ہے۔نہ جانے کیسے۔۔پل میں بدل جاتے ہیں یہ دنیا کے بدلتے رشتے ساری عمر جنہوں نے پری زاد سنگ باری کی آج وہی لوگ مجھ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے۔سچ تو یہ ہے کہ مجھے ان کے برسائے پتھروں نے اتنی چوٹ نہیں پہنچائی تھی جتنا لہولہان مجھے ان کے پھینکے ہوئے پھولوں نے کیا۔۔۔
بھائیوں کا اصرات تھا کی میں ان کے ساتھ ان کے گھر چلوں میں تقریبا سات سال بعد واپس لوٹا تھا اور ان سات سالوں میں میں نے اپنے بہن بھائیوں کو اتنا روپیہ بھیجا تھا کہ آج وہ سب اپنے اپنے ذاتی گھروں کے مالک تھے بہنوں کی شادیاں ہوچکی تھیں اور وہ بھی اپنے اپنے گھروں میں خوش تھیں سبھی کی خواہش تھی کہ میں کم از کم پہلا دن ان کے گھر پر گزاروں۔بھابیوں کی جو بہنیں اب رشتے کے قابل تھیں وہ پوری تیاری کت ساتھ بن ٹھن کر کر آئیں تھیں اور ہر بھابھی کی تقریبا یہی خواہش محسوس ہورہی تھی کہ میں وہی ائیرپورٹ پر ہی ان سے کسی ایک کو پسند کرکے رشتے کے لیے ہاں کردوں حالانکہ ان مظلوم لڑکیوں کے چہرے پر لکھی بے چارگی کی داستان صاف نظر آرہی تھی کہ وہ خود پر کسی قدر جبر کرکے خود کو اس امتحان کے لیے تیار کر پائی ہوں گی۔۔۔۔۔
میں نے بڑی مشکل سے ان سب کو یقین دلایا کہ مجھے کسی بے حد فوری نوعیت کی کاروباری میٹنگ کے لیے جانا ہے اور میں موقع ملتے ہی ان سب کی طرف فردا فردا حاضری دینے ضرور آؤں گا۔ میرا پاکستانی عملہ، جس کی بھرتی میرے مینیجر نے چند ہفتے قبل ہی کی تھی،حیرت سے کھڑا یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا-ایئرپورٹ کی پارک لین میں سیاہ مرسیڈیز گاڑیوں کا فلیٹ میرے استقبال کے لیے موجود تھا اور میں کسی نہ کسی طرح سب کو مطمئن کر کے،یا شاید غیر مطمئن چھوڑ کر اپنے گھر کو روانہ ہوا تو شہر کے راستے گلیاں مجھے اسی طرح خود پر مسکراتے نظر آئے جیسے میں انہیں سات سال پہلے مسکراتا ہوا چھوڑ گیا تھا نہ جانے ہم پردیس جا کر کیوں یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمارے جاتے ہی دیس میں سب کچھ بدل چکا ہوگا-کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا-وہی سڑکیں،وہی راہیں جن پر میں جانے کتنے سال جوتیاں چٹخاتے رہا تھا-میں شہر کے سب سے قیمتی علاقے میں اپنے نئے گھر پہنچا تو مجھے ان اجنبی دیواروں سے شناسائی میں کافی وقت لگا-بظاہر پتھر کے بے جان نظر آنے والے یہ درودیوار بھی اپنے اندر ایک عجیب سا احساس رکھتے ہیں،ہم سے خوش یا نا خوش رہتے ہیں۔۔۔۔۔کبھی تو ہم سے باتیں بھی کرتے ہیں۔۔۔۔مگر ہم انسانوں کی محدود سماعت ان کی یہ گفتگو سن نہیں پاتی۔۔۔۔شام کو میرے بلاوے پر کبیر بھی پہنچ گیا-اسے دیکھ کر چند لمحوں کے لیے میں حیرت زدہ سا رہ گیا-وہ بہت حد تک اپنے بڑے بھائی فیروز سے مشابہت رکھتا تھا گوعمر میں اس سے چھوٹا تھا۔۔۔۔کبیر بھی فیروز کے ذکر پر افسردہ ہو گیا،میں نے اسے گھر کی تمام تر ذمہ داری سونپ دی-وہ شروع میں ہی اتنی بڑی ذمہ داری لینے سے کچھ ہچکچا رہا تھا-مگر میرے اصرار پر مان گیا-میں نے اسی کو اپنا سیکیورٹی انچارج بھی مقرر کر دیا اور شاید اپنے بڑے بھائی کی طرح وہ بھی اسی کام میں راحت محسوس کرتا گیا-اس نے بڑے فخر سے اپنے جیب سے ایک غیر ممنوعہ پستول کا لائسنس نکال کر مجھے دکھایا-
یہ دیکھو صاحب ۔۔۔۔۔ہمارے پاس اسلحے کا لائسنس بھی ہے۔۔۔ہمارے ہوتے ہوئے آپکو کسی فکر کا ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔''
میں جانتا تھا کہ کبیر خان سچ کہہ رہا ہے-ہمارے ملک میں بڑے لوگوں میں شمار کیلئے آج کل ذاتی محافظوں کی ایک فوج بھی لازمی درکار ہوتی ہے-مجھے بہروز کی ایک نصیحت ہمیشہ یاد رہتی تھی کہ جیسا دیس ہو بھیس بھی ویسا ہی ضروری ہے۔۔۔۔ورنہ یہ انسان عموما دوسرے انسانوں کو کم تر سمجھنے میں دیر نہیں کرتا-اور میں نے پردیس میں اپنی زندگی کے اتنے سال کم تر دکھائی دینے کے لیے ضائع نہیں کیے تھے-ہفتے بھر میں ہی سارے شہر کے امراء کو خبر ہو چکی تھی کہ پی- زیڈ (P.Z) نامی کوئی انتہائی بڑا صنعت کار شہر میں اپنا کاروبار پھیلانے کے لیے وارد ہو چکا ہے-ہاں پی-زیڈ (P.Z) یہی نام تجویز کیا تھا میرے مینیجرز نے میری نئی کمپنی کے لئے۔۔۔۔اور وہ مجھے میرے نام سے نہیں جانتے تھے اب میں ان کے لیے پی-زیڈ نامی ایک بڑا انڈسٹریلسٹ تھا-اس طرح مجھے اس تعارفی شرمندگی سے بھی عارضی طور پر نجات مل گئی تھی جو پورا نام بتانے میں مجھے ہمیشہ اٹھانی پڑتی تھی-یہ دولت مند لوگ اندر سے کتنے تنہا ہوتے ہیں-اس کا اندازہ مجھے چند دنوں میں ہی ہوگیا جب چاروں طرف سے مجھے تعارفی دعوتوں کے دعوت ناموں نے گھیر لیا-یہ شام کی پارٹیاں،رات کی دعوتیں،ظہرانے،عصرانے، اور عشائیے۔۔۔۔آخر ان امیروں کو اپنے ارد گرد ہر وقت اتنا ہجوم کیوں چاہئے ہوتا ہے؟ یہ سب اندر سے شدید تنہا ہونے کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟مگر میں تو ہمیشہ سے ہی ان پرہجوم محفلوں سے کتراتا تھا،لوگوں کی تیز چھٹی نظریں اور طنز اور طعنوں کا عادی ہوجانے کے باوجود میں اس تجربے کو بار بار نہیں دہرانا چاہتا تھا-ہم اپنی زندگی میں بہت سی بے چینیاں اور درد اس لیے بھی پال لیتے ہیں کیوں کہ ہمیں حقائق سے نظریں چرانے کی عادت پڑ جاتی ہے-مجھے سٹاف مینیجر کمالی بہت تیز اور چلتا پرزہ قسم کا بندہ تھا-وہ شہر میں ہونے والی کسی بھی بڑی تقریب کا دعوت نامہ مجھ تک پہنچانے میں دیر نہیں کرتا گیا-میں میں ہر بار کسی نہ کسی طور اسے ٹال دیتا تھا-اگلے ہفتے سے میں نے سمندر کنارے ایک اعلی ذاتی عمارت میں قائم اپنے دفتر جانا شروع کردیا-ہمارا زیادہ تر کام ابھی تک دوبئی آفس سے ہی ہوتا آرہا تھا مگر کمالی نے یہاں بھی خاصہ عملہ بھرتی کر رکھا تھا-
مجھے ایک بار پھر تعارفی مرحلے کی اذیت سے گزرنا پڑا،ایک بات میں کبھی بھی ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پایا تھا کہ یہ ان بڑے بڑے غیر متعلقہ دفتروں میں اتنی بہت ساری خواتین کیوں بھرتی کر لی جاتی ہیں۔۔۔۔؟
جب کہ کچھ کاموں کی نوعیت اس صنف نازک کی موجودگی سے بالکل بھی میل نہیں کھاتی ۔۔۔۔جیسا کہ ہماری تعمیراتی کمپنی۔۔۔۔۔جانے کمالی نے اتنے بہت سے اسسٹنٹ اور ڈپٹی مینیجر ٹائپ عہدوں پر ان نازک لڑکیوں کو کیوں بھرتی کر رکھا تھا؟میرے استفسار پر وہ دھیرے سے مسکرایا-
ساری بات حس کثافت کی ہے سر۔۔۔۔وہ جسے انگریزی میں Aesthetic Sence(استھیٹک سینس) کہتے ہیں۔۔۔۔ویسے بھی ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ جن دفاتر میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔۔۔۔وہاں کے مرد ورکرز زیادہ ذمہ داری کے ساتھ کام کرتے ہیں۔۔۔۔لباس اور اوقات کار کا بھی خیال رکھتے ہیں سر جی۔۔۔۔اور دفتر کا ماحول بھی خوشگوار رہتا ہے۔۔۔۔''
میرا جی چاہا کہ میں کمالی سے پوچھوں کہ اس نے دفاتر اور ان کے طریقہ کار پر ہونے والی سینکڑوں تحقیقات میں سے صرف ایک اسی ریسرچ کو ہی نافذ العمل کیوں سمجھا؟مگر میں چپ رہا،دفتر میں کام کرنے والی خواتین اور لڑکیاں بھی پہلی بار مجھے دیکھ کر اسی تذبذب کا شکار ہوئیں جو میرے لئے ہر عورت کا خاصہ رہا تھا-مگر میں اس کمپنی کا مالک تھا اور ان کی مجبوری تھی کہ وہ میرے احترام میں کھڑی ہو جائیں اور مجھ سے بات کرتے وقت انکے ہونٹوں پر ایک مصنوعی مسکراہٹ جمی رہے-کمالی نے میرے آنے سے پہلے ہی میرے لئے ایک تیز طراز سی لیڈی سیکرٹری کا بندوبست کر رکھا تھا جسے میں نے پہلے دن ہی کسی ڈپٹی مینیجر کے سیکشن میں منتقل کر دیا اور کمالی کو ہی اپنا پی-اے بھی مقرر کردیا-جانے یہ کمالی کی ترقی تھی یا تنزلی تھی۔۔۔۔
مگر وہ اس خدمت سے خوش دکھائی دیتا تھا۔کبیر خان میرے ساتھ ہی میری گاڑی میں دفتر آتا اور میری روانگی تک عمارت کے کسی گوشے میں یا باہر گاڑی میں ہی میرا انتظار کرتا رہتا تھا۔مگر نہ جانے کیوں کمالی کی اس سے جان جاتی تھی۔کمالی کئی بار مجھ سے دبے لفظوں میں گزارش کرچکا تھاکہ میں اسے آپنے دفتر کے اندر نہ لایا کروں کیونکہ بقول اس کے کبیر خان کا اندازہ ہی بڑا خوفناک تھا۔خود کبیر خان کے بھی کمالی کے بارے کچھ اچھے خیالات نہیں تھے۔۔
ہم کو یہ آدمی کچھ ٹھیک نہیں لگتا صاحب۔۔یہ بڑا چابلوس ہے۔۔۔اور خوشامدی لوگ اچھے نہیں ہوتا۔۔۔
وہ دونوں میرے لحاظ کی وجہ سے ایک دوسرے کو برداشت کرتے آرہے تھے۔میں نے کبیر خان کو سمجھایا کہ یہ دنیا چلتی ہی خوشامد پر ہے۔صدر سے لے کر کلر تک سب کسی نہ کسی خوشامد کئ وجہ سے اپنی جگہ اور عہدے پر قائم ہیں۔خوشامد شاید دنیا کا سب سے قدیم ہتھیار ہے جس کی دھار کسی بھی دور میں کند نہیں ہوتی۔کچھ دن اس ہنگامہ خیزی کی نظر ہوگئے مگر جیسے ہی کاروباری معاملات اور اپنی ڈگر پر آئے میں نے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کے لیے کہا اور اس شہر کے وسط میں واقع ایک گنجان علاقے میں چلنے کے لیے کہا۔تنگ سڑکوں اور گلیوں سے ہوتے ہوتے ہم گھنٹہ بھر بعد ایک کھولے میدان میں آنکلے سامنے ابھی تک وہی پرانا ٹین کا بڑا سا نصف گولائی میں کٹا بورڈ گیٹ پر آویزاں تھا۔مستانہ گیراج۔۔۔۔۔
میری آنکھوں کے سامنے ماضی کے کئی دن پل بھر میں لہراگئے۔ڈرائیور کو میں نے گاڑی گیراج کے احاطے میں لے جانے کا کہا۔اس نے دبے لفظوں میں مجھے بتانے کی کوشش کی کہ کمپنی کی گاڑیوں کے لیے آپنا مخصوص ڈیلر اور گیراج شہر لے پوش علاقے میں موجود ہے مگر میں نے اس کی سنی اور سنی کردی۔گیراج کے برآمدے میں لکڑی کے ستون کے ساتھ اپنی مخصوص جگہ پروہی پرانا سا ریڈیو لٹکا ہوا تھا اور فضا استاد مستانے کے من بھاتے گانوں کی آواز گونج رہی تھی۔۔
جو درد اپنوں نے دیا۔۔۔۔۔غیروں سے شکایت کون کرے ۔۔۔
گاڑی اندر داخل ہوتے ہی شاگرد بھاگتا ہوا ہماری کار کی طرف آیا۔جی صاحب حکم کریں۔سروس کرنی ہے یہ آئل بدلوانا ہے۔۔ٹیونگ بھی ہوجائے گی یہ آپ کی گاڑی کا انجن سیل بند ہے۔۔۔کچھ وقت لگے گا ہماری ورک شاپ پر۔۔۔
یہ کوئی نیا لڑکا تھا۔کچھ دور باقی لڑکے ویلڈنگ پلانٹ پر اس طرح ویلڈنگ میں جتے ہوئے تھے جیسے کھبی میں وہاں سارا دن بیٹھ کر اپنا خون ویلڈنگ کی چنگاریوں میں جلایا کرتا تھا۔میں نے لڑکے سے سختی سے کہا۔تمہارا استاد کہاں ہے؟اس نے ہماری گاڑی کا ستیاناس کر دیا ہے۔۔
ٹھیک سے اسے کام کرنا نہیں آتا۔جاو۔۔بلا کر لاو اسے۔۔
شاگرد گھبرا کر اندر کی جانب بھاگا اور چند لمحوں بعد استاد کی غصے میں بھری آواز سنائی دی۔ارے کون سا سیٹھ ہے میاں۔۔ہم بھی تو دیکھیں۔۔۔؟استاد مستانے نے آج تک اپنے کام میں ہیرا پھیری نہیں کی۔۔ہم محنت کرے ہیں چوڑی نہیں کرتے۔۔۔استاد مستانہ اپنے مخصوص حلیے میں سر پر دوپلی ٹوپی رکھے۔واسکٹ پہنے اور منہ میں پان دبائے بڑ بڑاتا ہوا برآمدے سے نکل کر گیراج کے صحن میں آیا اور ہماری گاڑی کی طرف بڑھا ۔میں نے ڈرائیور اور کبیر کا گاڑی سے نکل کر گیراج کے اندر بیٹھنے رہنے کا کہا اور خود نیچے اتر آیا۔میری آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ تھا جیسے میں نے اتار کر اپنے کوٹ کی جیب میں رکھا لیا۔مستانہ استاد بے خیالی میں غصے میں بھرا میری طرف بڑھا۔میں منہ دوسری جانب موڑ کر کھڑا ہوگیا اور غصے سے بولا۔۔۔
کیوں استاد مستانے۔۔یہ گیراج ہے یا ہیرا پھیری کا اڈا ۔۔۔۔۔؟
مستانے کے سارے شاگرد برآمدے میں دم بخود کھڑے اس بات کا انتظار کر رہے تھے کی کب ان کا بھڑکیلا استاد سب کچھ بھول کر مجھ پر برس پڑے۔۔میرے تیور دیکھ کر
کبیر خان کا ہاتھ ہولسٹر میں بندھے پسٹل کی جانب بڑھا گیا۔استاد مستانے کے شاگردوں نے بھی اپنے طور پر آس پاس پڑے اوزار بطور ہتھیار اٹھالیے کیونکہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ ان کا استاد اکیلا ہی ہم سے بھڑ جائے گا۔تبی میں نے پلٹ کر بیپھرے ہوئے استاد مستانے کی طرف دیکھا۔
کم از کم یہ سات سو سال پرانا ریڈیو تو بدل لیتے استاد۔۔اب اس کے ارد گرد گانے بھی چائینز میں سنائی دیتے ہیں۔۔
استاد منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور مجھ پر نظر پڑتے ہی جیسے وہ اپنی جگہ جام ہوگیا اور پھر اس کی آنکھوں سے جھڑی سی جاری ہوئی اور وہ دوڑ کر روتے ہوئے میرے گلے لگ گیا۔اتنے دن بعد اپنے استاد کی یاد آئی او بے وفا۔۔مجھے رفیق نے فون کر کے بتا دیا تھا کی تم واپس آچکے ہو ۔۔۔سارا گیراج ہمیں حیرت سے دیکھ رہا تھا اور چند پرانے شاگردوں نے بھی مجھے پہچان لیا اور ہمارے گرد ایک جمگھٹا سا لگ گیا۔۔۔
استاد نے بڑی مشکل انہیں ڈانٹ کر کام پر لگا دیا مگر وہ سب بہانے بہانے سے میری کار کے اردگرد چکر کاٹتے رہے۔۔وہ سب جان چکے تھے کہ کل تک میں بھی انہیں میں سے ایک تھا مگر آج میں ان کے سامنے ان کی خوابوں کی تعبیر بنا کھڑا تھا۔ہم۔کمزور اور بے بس انسان جنم سے لے کر گنا ہونے تک یہی کتے رہتے ہیں اپنے خوابوں کا پیچھا ان خوابوں کو سچ کرنے کی دھن۔۔مگر میرئ حصے کی تعبیریں بھلا کب آتی ہیں وہ کوئی اور ہوتے ہوں گے جن کے خواب تعبیر پاتے۔ہم تو ساری زندگی اپنی جھوٹے سچے خوابوں کے پیچھے بھاگتے گزار دیتے ہیں۔یا پھر کسی دوسرے کی کامیابی میں اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔مگر گیراج کے یہ معصوم لڑکے یہ بات نہیں جانتے تھے کی جو میں آج تھا۔۔وہ کھبی میرا خواب نہیں تھا۔۔میں نے تو بہت چھوٹا سا خواب دیکھا تھا۔بہت معصوم سا سپنا تھا میرا مگر اس کی تعبیر پانے کے لیے مجھے جانے کتنے طویل راستوں سے گزرنا باقی تھا۔مگر منزل ابھی تک لاپتہ تھی ۔شاید ہر انسان کا مقدر اپنے خوابوں کو کسی اور اور کے لیے تعبیر ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔اس کا اپنا خواب سدا خواب ہی رہ جاتا ہے
قسط 18
استاد مستانے نے نکڑ کے ہوٹل دے میری پسندیدہ دودھ پتی منگوائی اور خود مجھے بیٹھ کر ٹکر ٹکر دیکھنے لگا۔
تم نے واقعی ہی کر دکھایا پیارے۔۔ورنہ میرا تو معجزوں سے یقین پی اٹھ چلا تھا۔۔جو تمہیں چاہا تمہیں مل گیا اس دنیا میں کہاں ہوتا ہے میں نے مسکرا کر استاد کی طرف دیکھا۔صرف تھوڑی سی دولت آگئی ہے میرے پاس باقی کچھ نہیں بدلا استاد میں ابھی تک وہی پری زاد ہوں۔۔
استاد نے پینترا بدل کر کہا کمال کرتے ہو میاں دولت سے بڑی تبدیلی بھی کچھ اور ہوتی ہے بھلا۔لوگوں کی زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں چند دھیلے کمانے میں سب مجھے ہی دیکھ لو سدا کنگال ہی رہے۔اچھا یہ بتاو۔۔کوئی شادی وادی بھی کی پے یا نہیں یا ابھی تک وہی شرمیلے کنوارے پری زاد ہو۔۔۔؟
میں نے مزید چائے کا گھونٹ حلق سے نیچے اتارا مجھ سے بھلا کون شادی کرے گی استاد۔اور پھر شاگرد بیاہ کرلے اور استاد کنوارہ رہے یہ کہاں کا دستور ہے۔۔۔
استاد نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔کیوں اس عمر میں بھری لٹیا ڈبونے کی بات کرتے ہو پری زاد پیارے اور یہ کہا بات کردی کہ تم سے کون بیاہ کرے گی۔ذرا علان تو کرکے دیکھو نکاح کا پورے سوئمبر رچے گا تمہارا تو۔۔
میں نے استاد کی بات کسی اور جانب موڑ دی۔۔میری شادی کی بات چھوڑو تم یہ بتاؤ کے گیراج کا یہ کیا حال بنا رکھا ہے؟لگتا برسوں سے رنگ و روغن نہیں کروایا۔کام والی گاڑیاں بھی اکا دکا کھڑی نظر آرہی ہیں صحن میں۔۔یہ سب کیا ہے ؟
استاد نے میری بات ٹالنے کی کوشش کی۔کچھ نہیں دھندے میں تو بھلا مندا چلتا ہی رہتا ہے تم سناو کیسی گزر رہی ہے
اتنے میں چائے کے برتن اٹھانے والے لڑکے نے ہماری بات سن کر راز کھول ہی دیا یہ پری زاد بھائی گیراج تو گروی پڑا ہے ہمارا تین سال سے استاد غلط بتا رہا ہے کوئی دھندا نہیں صرف منڈا ہی منڈا ہے آج کل استاد نے بری طرح سے اس شاگرد کو جھاڑ پلائی۔کم بخت۔تو باز نہیں آئے گا بزرگوں کی بات میں دخل دینے سے۔چل دفع ہو۔۔جاکر اس اٹھتر بیاسی کرولا کے ڈینٹ نکال۔شام تک مجھے گاڑی تیار چاہیے ورنہ کھال ادھیڑوں گا تیری۔۔۔
لڑکا منہ بسورتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔میں نے استاد کی طرف دیکھا یہ میں کیا سن رہا ہوں استاد گیراج گروی پڑا ہے کیوں؟
استاد نے ایک لمبی سانس بھری۔اب کیا بتائیں میاں پرانے مکینک اور گیراجوں کا کام ٹھپ ہوچکا ہے۔گاڑیوں کے انجن اب سیل بند آتے ہیں ٹیوننگ اور مرمت کمپیوٹر مشینوں پر ہوتی ہے ٹائر بنا ٹیوب کے آگے ہیں اور خراد کا کام اب ماڈرن مشین کرتی ہے ہمارے پاس وہی چند پرانا کھٹارہ گاڑیاں آتی ہیں جن کا مزاج نئی مشینیں سمجھ نہیں سکتی خرچے تمہارے سامنے ہی تھے سارے ایسے میں گیراج گروی نا رکھتا تو کیا کرتا۔۔؟ مجھے اپنی فکر نہیں بس یہی سوچ کر پریشان رہتا ہوں کے گیراج کی قرقی یا نیلامی کے بعد نیا مالک کہیں ان بچوں کو یہاں دے بے دخل نہ کردے تم تو جانتے ہو۔۔ان سب کے گھر انہی کے دم سے چلتا ہے کئی دغا ان سے کہا ہے کہ کم بختو جاو جا کر کوئی نیا دھندا ڈھونڈو پر یہ ہیں کہ یہاں سے جاتے ہی نہیں۔۔
میں چپ چاپ استاد کی ساری بات سنتا رہا کس کے پاس گروی رکھا ہے یہ گیراج تم نے ۔۔۔؟؟؟
استاد نے بے چارگی سے میری طرف دیکھا اس علاقے کا ایک مارواڑی سیٹھ بھلا آدمی ہے نلامی کی تاریخ سے پہلے تنگ نہیں کرے گا۔۔
مجھے اس سیٹھ کا نام اور مکمل پتا چاہیے استاد ۔۔
استاد نے نفی میں ڈر ہلایا نہیں پیارے استاد اپنے شاگردوں کو دیتا ہے لیتا کچھ نہیں میں نے استاد سے بحث نہیں کی اور کمالی کو فون کرکے گیراج پینچنے کا کہا۔۔آدھے گھنٹے بعد ہی وہ ہڑبڑایا سا گیراج میں موجود تھا۔میں نے گیراج کے سب سے سینئر شاگرد کو کمالی اور ڈرائیور ساتھ سیٹھ کی طرف بھجوادیا جس کا پتا گیراج کے سبھی لڑکے جانتے تھے۔تین گھٹنے بعد کمالی رہہن رکھے گئے کاغذات کے ساتھ میرے سامنے کھڑا تھا۔میں نے جائیداد کی آزادی کے کاغذ استاد کی جھولی میں ڈال دئیے۔یہ گیراج جتنا تمہارا ہے اتنا ہی میرا بھی ہے استا۔اگلے ہفتے تک نئی کمپیوٹرائزڈ مشینری بھی آجائے گی اور تمہاری یہ ڈیوٹی ہے کہ اپنی نگرانی میں میرے اس گیراج کو ایک دم ٹپ ٹاپ بنا دو اگلی دفعہ جب میں اپنے گیراج کو دیکھنے آوں تو مجھے یہاں پرانا پرانا استاد مستانہ چاہیے ہاں مگر یہ ریڈیو نہ بدلنا
اس کے بنا گیراج مکمل نہیں ہوگا۔۔۔
استاد مستانہ گم سم ہاتھوں میں نلامی کھلنے کے کاغذات لیے بیٹھا مجھے دیکھ رہا تھا۔میں نے اس کے کاندھا تھپتپھایا اور اٹھ کر وہاں دے جانے کے لیے مڑا استاد نے مجھے پیچھے سے آواز دی پری زاد ۔۔۔
میں نے مڑ کر دیکھا تو استاد میرے گلے لگ گیا میرے آس پاس گیراج کے سارے لڑکے جمع ہوچکے تھے کسی نے میرے ہاتھ تھام رکھے تھے تو کوئی میرے ساتھ چپکا کھڑا تھا یہ کم بخت بے جان اور کھر درے کاغذ کے چند روپے کتنی خوشیوں پر قبضہ جما رکھتے ہیں۔۔۔
کیسے جادو ٹونےکیسے کرشمے دیکھتا ہے یہ پیسہ۔راتوں کو ہنسا دیتا ہے اور ہنستوں سے سے بچھڑ کر انہیں آٹھ آٹھ آنسوں رلاتا ہے اور یہ دولت مند کتنے انجان رہتے ہیں اس پیسے کے استعمال سے کاش ان بے جان کاغذ ان بے جان کاغذ کے ٹکڑوں کا صرف صرف ایک مصرف ہوتا۔خوشیوں کا کاروبار۔۔ان لڑکوں کے چہرے پر ایسی خوشی تھی کہ جس کے بدلے ساری دنیا کی دولت بھی لٹا دی جاتی تو کوئی گھاٹے کا سودا نہ ہوتا۔۔مگر عموما قدرت جنہیں دولت دیتی ہے بدلے میں ان کا دل نکال لے جاتی ہے ل۔شاید اس لیے یہ دنیا دل والوں سے خالی ہوتی جارہی ہے۔گیراج سے نکلتے سہ پہر کے چار بج گئے دفتر جانے کا وقت تو رہا نہیں تھا میں نے ڈرائیور کو گاڑی گھر کی طرف موڑنے کا کہہ دیا اور پھر واپسی پر میری نظر اپنی پرانی یونیورسٹی کے بورڈ پر پڑی۔میں نے گاڑی رکوادی اور کچھ دیر کے لیے نیچے اتر کر گیٹ دے اندر چلا گیا۔اس درد گاہ میں میں نے اپنی زندگی کے چند آچھے دن گزارے تھے۔اچانک ہی میرے اندر خود میرے ہی ہاتھوں دفنایا ہوا وہ ایک ناکام سا شاعر جاگ اٹھا جس کے کلام پر دادو تحسین سے کھبی وہ سامنے نظر آنے والا بڑا آڈیٹوریم گونج اٹھتا تھا۔مجھے یاد آیا کی دوبئی جاتے وقت اپنی ساری نظمیں اور کلام ٹینکے ایک بکس میں بند کرکے اپنے پرانی گھر کے چھت والے کمرے میں چھوڑ آیا تھا۔جانے اب وہ سارے رجسٹر اور کاغذوں کے دستے جانے کہاں ہوں گے۔کاش میں وہ سب ساتھ دوبئی لے جاتا۔میں انہیں خیالوں میں گم تھا کی میرے عقب میں ایک مانوس سی بھاری آواز گونجی ۔۔۔
تم پری زاد ہو ناں۔۔۔
میں چونک کر پلٹا۔میرے عقب میں کھڑی میری گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک بزرگ شیروانی اور جناح ٹوپی پہنے کھڑے اپنی نظر کے چشمے کے پیچھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
جی۔۔۔۔ میں پری زاد۔۔۔۔۔مگر آپ ۔۔۔۔
وہ میری طرف بڑھے ۔بھول گئے۔۔یاداشت کی کمزوری تو بڑھاپے سے مشروط ہوتی ہے۔۔مگر میں تمہیں پہلی نظر پہچان لیا تھا۔۔۔میری زبان سے بے اختیار نکل پڑا۔مجھے پہنچانے کے لیے شاید یادداشتشرط نہ ہو۔۔آپ شاید سر احمد ہیں۔۔؟ہمارے لائبریری انچارج؟؟؟
وہ مسکرائے ٹھیک پہچانا تمہارے جانے کے بعد اردو بزم ادب کا شعبہ بھی میرے حوالے کردیا گیا۔تمہاری کہیں ہوئی نظمیں آج تک جامعہ کے ادبی پرچے پر چھپتی رہتی ہیں اور تمہاری وہ اسٹیج ڈرامے والی نظم۔۔گر تمہیں مجھ سے نفرت ہوجائے۔۔بھئی واہ ۔۔کیا بات ہے ۔۔ہر سال جب اوتھیلو اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے پس منظر میں تمہاری وہ نظم ضرور دہرائی جاتی ہے اور سچ پوچھو تو ہر بار سارا ہال مبہوت اور ساکت بیٹھا سنتا رہتا ہے ۔۔۔میں خاموشی سے احمد صاحب کی بات سنتا رہا۔میرا دل چاہا کی میں انہیں بتادوں کہ وہ شاعری میں بھی کسی خاص مقصد سے کرتا تھا۔کالج کے چند جبینوں میں توجہ حاصل کرنا مقصد تھا میرا اور بس۔۔سچے شاعر ایسا بھلا کب کرتے ہیں۔؟انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا۔مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی تم اچانک یونیورسٹی چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟ تعلیم مکمل کی تم نے یا نہیں ۔۔۔؟؟
میں دھیرے سے جواب دیا۔کچھ گھریلو مجبوریاںتھیں
مجھے دوبئی جانا پڑا۔۔۔احمد نے سر پلٹ کر میری قیمتی گاڑی اور گارڈز کی طرف دیکھا۔لگتا ہے تم نے رو وقت ضائع نہیں کیا وہاں لیکن تم یہاں باہر لان میں کیوں کھڑے ہ۔
اندر چلو ۔۔بہتسے طالب علم تم سے ملنا چاہیں گئے اردو شعبے میں اکثر تمہاری نظموں کی بات چلتی ہے۔میں نے طریقے معذرت کی۔نہیں سر۔آج نہیں ۔یہ میرا کارڈ ہے۔کھبی فرصت ملے تو میرے دفتر چکر لگائیے گا۔آپ کی خدمت کرکے مجھے بہت خوشی ہوگی یونیورسٹی سے گھر واپس آنے کے بعد بھی میں بہت دیر تک یونیورسٹی کی یادوں کو اپنے زہن ست نکال نہیں پایا۔مجھے نٹ کھٹ آمنہ بھی یاد آئی جانے وہ کہاں ہوگی؟سیٹھ عابد سے شادی کت بعد کھبی اس کے بارے کچھ سننے میں نہیں آیا۔۔آمنہ کئ ماں کے ایک جمعلے میری زندگی کے تمام راستے بدل دئیے تھے۔مگر میں دولت کمانے کی دھن میں ایسا مگن ہوا کہ میں اپنے اندر بسنے والے اس حساس اور نازک انسان خو بھی کچل کے رکھ دیا تھا جو کھبی میرا سب سے اچھا دوست تھالیکن اس ساری زندگی میں مجھے کیا ملا؟میں آج بھی اتنا ہی تنہا اور اکیلا تھا نہ کسی حرف دعا میں تھا نہ کسی کے دست طلب میں۔۔نہ کسی کی آنکھ کا نور تھا نہ کسی کے دل کا قرار۔۔میں بھی بہادر شاہ ظفر کی غزل کے بولوں کی طرح وہی ایک غبار تھا جو کسی کے کام نہ آسکا۔مجھے ٹیرس پر بیٹھے جانے کتنی دیر ہوچکی تھی باہر اندھیرا پھیل کر شام کو رات کی سیاہ چادر میں لپیٹ چکا تھا لوگ دن اور رات کو ایک دوسرے کی ضد کہتے ہیں مگر مجھے یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی لگتے ہیں پلٹ دوست تبھی تو جب دن شدید تھکن سے چور ہو کر شام تک ہانپنے لگتا ہے تب شام اپنی مہربان سہیلی رات کو اواز دے کر بلاتی ہے اور رات اپنی کالی شال میں اس تھکے ماندے دن کو سمیٹ کر اس سلا دیتی ہے ۔یوں شاید ہر رات کی گود میں ایک بھر پور دن آنکھیں موندھے سورہا ہوتا ہے۔بس ہمیں نظر نہیں آتا کچھ دیر بعد نوکر نے آکر بتایا کے کہ کمالی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔کمالی ٹیرس پر آیا تو معمول سے کچھ زیادہ تکلف لباس میں ملبوس تھا ۔۔۔
یہ کیا سر۔۔۔؟آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔ہمیں سیٹھ رحمان کے فارم ہاوس پر جانا ہے پارٹی میں۔۔شام سے تین مرتبہ وہ خود مجھے یاد دہانی کروا چکے ہیں کہ یہ دعوت خاص طور پر آپ کے اعزاز میں منعقد کی جارہی ہے میں نے جان چھڑانے کی کوشش کی۔۔۔میرا موڈ نہیں ہے کمالی۔۔تم میری طرف سے کوئی مناسب معذرت کر دینا۔۔
الی گڑ بڑا سا گیا۔نہیں سر اچھا نہیں لگے گا۔۔سارے شہر کے امیر وہاں اکٹھے ہوں گے اور پھر ہمیں وہاں پر نئے آنے والے ٹینڈر کے امیدوار سے ملنے کا موقع بھی مل جائے گا۔نیا نیا کاروبار ہے اپنا سر۔یہ میل جول رکھنا ضروری ہے ۔۔
میں نے بادل نخواستہ خود کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا اور گھنٹے بعد پھر سیٹھ رحمان کے فارم ہاوس کی راہ پر جارہے تھے۔آج کل یہ امیروں کا نیا مشغلہ بنتا جارہا ہے۔شہر میں ٹھیک ٹھاک عالی شان گھر یا جائیداد ہونے کا باوجود کسی ویرانے میں سینکڑوں ایکڑ اراضی پر ایک فارم ہاوس تعمیر کیا جاتا ہے۔جہاں ایسی کاروباری اور غیر رسمی دعوتیں رکھی جاتی ہیں یہ فارم ہاوسز ایک طرح سے امراء کا اسٹیٹس سمبل(status symbel)بھی ہوتے ہیں اور کچھ خاص لوگوں کے لیے پردے کا کام بھی کرتے ہیں۔سیٹھ رحمان کا گا تم ہاوس میں کچھ ایسا ہی پردہ محسوس ہوتا تھا۔کئی ایکڑ گھاس کے میدان اور گالف کورس کے درمیان بنی شیشے کی عمارت جس کے آس پاس مضوعی نہر اور دوسروں کے ذریعے پانی کے بہاو کا انتظام موجود تھا انسان مادی طور پر جتنی بھی ترقی کر لے۔۔پانی اور سبزہ اس کی جبلت سے کھبی نہیں نکل سکتا۔ہمارے ذہنوں میں جنت کا تصور بھی تو بہتی نہروں ٹھنڈے چشموں اور گھنے سایوں سے مربوط ہے سارا فارم ہاوس برقی قمقہوں سے جگمگا رہا تھا۔باربی کیو کا بندوبست بھی باہر سبزے میں ہی کیا گیا تھا۔میں وہاں موجود لوگوں سے صرف نام کی حد تک ہی واقف تھا مگر لگتا تھا کہ کمالی نے میرا کافی تفصیلی تعارف کروا رکھا تھا ۔تب ہی وہ سب مجھے اچھی طرح جانتے تھے۔میری کمپنی اگلے ہفتے ایک بہت بڑا آرڈر ٹینٹدر کرنے والی تھی۔معیاری آلات کی فراہمی اور ایک نئی جدید ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے ہمیں بہت بڑی مالیت کا ٹھیکہ دینا تھا اور وہاں پارٹی میں موجود سبھی کاروباری طبقے اس ٹھیکے میں دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے۔سیٹھ رحمان پچاس پچپن سالہ ایک گھاگ اور شوقین مزاج شخص تھا جسے باتیں بنانے کے فن سے کافی اگاہی معلوم ہوتی تھی۔اس فردا فردا سبھی مہمانوں سے میرا تعارف کروایا اور وقتا فوقتا اپنی گفتگو کے درمیان مجھے جتانے میں قطعا عار محسوس نہیں کی کہ وہ ہماری کمپنی کے ٹھیکے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ہمارے ساتھ چلتے ہوئے کمالی جس طرح سیٹھ رحمان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا اس سے مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی اس نے کمالی کو بھی خوش رکھا ہے۔۔
کیا بتاوں سر جی۔۔۔یہ اپنے رحمان صاحب تو یاروں کے یار ہیں بڑا ہلہ گلہ رہتا ہے ان کے فارم ہاوس پر۔۔صوبائی اور وفاقی وزراء اور نوکر شاہی تو سمجھیں بس انہی کا دلدادہ ہے آج بھی کافی منسٹرز اور سیکرٹریز آپ کی اس دعوت میں نظر آرہے ہیں یہ انہی کا کمال ہے۔۔سبھی کو خوش رکھنے کا فن تو کوئی رحمان صاحب سے سیکھے۔۔۔۔
کمالی کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی اس محفل میں مجھے ایک اور ادارک ہوا اخلاقیات اور شرم حیا کے معیار ہر طبقے میں اپنے طور پر رائج شدہ ہوتے ہیں۔محفل میں فرق برق اور جھلمل کرتے لباسوں میں موجود خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو اس آزادانہ ماحول میں یہاں وہاں اچھلتی پھر رہی تھیں اور ان میں زیادہ طر وہ تھیں جو کسی نہ کسی بڑے آدمی نے ساتھ بطور دوست اس محفل میں شریک تھیں۔تعارف کے دوران ان میں سے اکثر نے مجھ سے بھی مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا کھبی مشرقی اقدار میں زنانے اور مردانے کا رواج ہوا کرتا تھا۔بڑے بڑے راجے مہاراجوں اور نوابوں کی محفلوں اور دعوتوں میں مرد اورعورتیں الگ الگ حصوں میں شریک ہوا کرتی تھیں۔مطلب یہ کے دولت کی فروانی کا ان بدلتی قدروں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔کیونکہ دولت اور پیسہ ان کے پاس آج کے ان نو دولتیوں سے کہیں زیادہ ہوا کرتا تھا۔پھر یہ آزاد خیالی اور بے حجابی ہمارے معاشرے میں کہاں سے ڈر آتی ہی۔۔؟؟
کہتے ہیں انسان کی ابتدا پتھر کے دور سے ہوئی تھی اور شاید اس کا اختتام بھی دوبارہ پتھر کے دور پر ہی ہوگ۔درمیانی مدت مکمل عروج اور پھر یکسر زوال کا مخص ایک دورانیہ ہی تو ہے۔کھانے سے پہلے ہر طرح کے ممنوعہ اور غیر ممنوعہ مشروبات سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔انسان خدا سے ہمیشہ عقل اور ہوش مندی کا طلب گار رہتا ہے تاکہ متوازن اور خوشگوار گزار سکے۔مگر پھر شام ہوتے ہی ہم سے اکثر اس ہوش مندی سے گھبرا کر خود کو مدہوشی کے اندھیرے کنویں میں اتار دیتے ہیں۔میرے اردگرد بھی اس مصنوعی مدہوشی کا دور دورہ تھا عارضی اور جھوٹی بے خودی وہ مدہوشی ہی کیا جو خمار میں بھی ہوش مند رہے؟
میں اکتا کر کمالی کو وہاں سے نکلنے کا اشارہ کیا۔وہ تیزی سے لپک کر میرے قریب آیا اتنی جلدی سر۔۔۔کھانا بس لگنے والا ہے۔۔۔سیٹھ رحمان کو کسی خاص مہمان کا انتطار ہے۔ان کے اتے ہی کھانا رکھ دیا جائے گا۔میں اکتاہٹ سے کمالی کی طرف دیکھا ہماری حاضری لگ گئی اب تم بھی یہاں سے نکلنے کی کرو کمالی نے سر ہلایا اور سیٹھ رحمان کو ہماری روانگی سے مطلع کرنے کے لیے چلا گیا۔میں نے بھی کار پارکنگ کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ کسی جانب سے سیٹھ رحمان کمالی کے ساتھ تیز اور لمبے قدم بھرتا ہوا نمودار ہوا۔یہ کیا پی زیڈ صاحب۔۔آپ ابھی سے چل دئیے ابھی تو شام اور محفل ٹھیک طرح سے بھیگی بھی نہیں میں دھیرے سے مسکرایا میں شام کو دیر تک باہر اوس میں بھیگتا رہوں تو مجھے زکام ہوجاتا ہے۔۔بھیگنے کے معاملے میں کم ظرف واقع ہوا ہوں۔۔۔
رحمان میری بات سن کر زور سے قہقہہ مار کر ہنس پڑا خوب بہت ہی خوب۔۔بھئی میں تو سمجھا تھا کہ پورے شہر میں صرف میں ہی ایک بذلہ سنج باقی بچا ہوں۔۔مگر آج اپنا مقابل دیکھ کر جی خوش ہوگیا۔اب تو میں ہرگز اتنی جلدی آپ کو واپس نہیں جانے دو گا محفل کے بعد بیٹھ کر آپ سے بہت دی باتیں کرنی ہیں۔برسوں بعد کسی ہم زاد سے واسطہ پڑا ہے۔۔۔
میں نے جان چھڑانے کی کوشش کی کہ مجھے اگلے دن کسی اہم پروجیکٹ کے لیے میٹنگ اور مواد کی تیاری کرنی ہے مگر سیٹھ رحمان اڑگیا۔۔نہیں بھئی ۔۔ابھی تو آپ خو اس محفل کی جان سے ملوانہ ہے ۔شہہ پارہ بیگم۔چوٹی کی ایکٹریس ہیں بڑی دھوم مچائی ہے انہوں نے فلم انڈسٹری میں۔ویسے تو وہ کھبی کسی پبلک پلیس پر یوں آتی جاتی نہیں مگر ہمارے ساتھ کچھ دیرینہ مراسم کا خیال ہے انہیں کہ آرہی ہیں۔۔۔یہ لیں۔۔شاید انہی کی گاڑی ہے۔۔وہ اگئیں۔آپ بس دو لمحے انتظار کریں میں نے آپ کی بڑی تعریف کی ہے ان سے وہ خود بہت کہتی تھیں آپ سے ملنے کا سچ پوچھیں تو وہ صرف آپ سے ملنے کے لیے آرہی ہیں ۔۔۔
سیٹھ رحمان جلدی سے آگے بڑھ گیا اور میرے سوال میرے دل میں ہی مچل کر رہ گیا کہ وہ بھلا مجھے جانتا ہی کتنا تھا کہ اسے میری تعریف کرنے کی ضرورت پڑگئی۔کچھ ہی دیر میں سیٹھ رحمان کا زوق برق اور نازو ادا پیکر کو لیے میری طرف آتا نظر آیا میری نظر اس کے چہرے ہٹ کر ساتھ چلتی عورت پر پڑی اور مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا۔میں اس عورت کو جانتا تھا مگر تب اس کا نام شہہ پارہ نہیں کچھ اور تھا۔شہہ پارہ کی نظر سے میری نظر ٹکرائی اور وہ بھی ایک جھٹکے سے ٹھٹھک کر وہیں جم کر رہ گئ...
قسط 19
سیٹھ رحمان کے ساتھ آنے والی عورت آمنہ تھی۔ہاں وہی یونیورسٹی کی سب سے خوبصورت اور طرح دار آمنہ۔جس کی شادی سیٹھ عابد نامی ایک دولت مند کباڑیے سے ہوگئی تھ۔سیٹھ رحمان ہم دونوں کی کی کیفیت سے بے خبر ہمارا تعارف کروانے میں مصروف تھا۔شہہ پارہ بیگم۔ان سے ملیں یہی ہیں پی ڈی۔زیڈ صاحب۔۔۔اور آج کل شہر میں بس انہی کے چرچے ہیں اور پری زاد۔۔یہ ہیں شہہ پارہ۔۔ہمارے ملک کی نامور آرٹسٹ۔۔پڑوسی ملک میں بھی اپنی اداکاری کی دھوم مچا چکی ہیں۔آج ہم نے خاص آپ کے ساتھ ملاقات کے لئے انہیں مدعو کیا ہے۔
آمنہ چپ چاپ کھڑی میری طرف دیکھ رہی تھی۔ہماری پہلے بھی ملاقات ہوچکی ہے رحمان صاحب۔مگر تب یہ پی زیڈ نہیں تھے اور نہ میں شہہ پارہ۔۔
سیٹھ رحمان کو شہہ پارہ کی بات سن کر حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔۔۔ارے ۔۔ واقعی۔۔بھئی۔۔۔پی زیڈ صاحب۔۔آپ تو واقعے ہی چھپے رستم نکلے۔۔جب کہ ہم یہ سمجھتے رہے اس گوہر نایاب سے دوستی کا شرف صرف ہمیں ہی حاصل ہے۔۔
آمنہ عرف شہہ پارہ نے سیٹھ رحمان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ہمیں کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دیجئیے رحمان صاحب پرانے بچھڑے ہوئے ملیں تو کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے دونوں کے درمیان۔سیٹھ رحمان آمنہ کی بات سن کر ہڑ بڑا کر بولا۔۔ہاں ہاں۔۔کیوں نہیں۔۔آپ لوگ باتیں کریں۔میں کھانا لگوانے کا انتظام کرتا ہوں۔۔
رحمان جاتے جاتے بھی ہمیں حیرت سے دیکھتا ہوا پلٹ گیا آمنہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے میرے قریب آگئی۔
پری زاد۔۔یہ تمہیں ہو ناں۔۔مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تم تو ہو شہر کے وہ نئے نے شاٹ۔۔؟بڑے صنعت کار۔۔۔۔؟
میرا تعلق اب فلم انڈسٹری سے ضرور ہے۔۔مگر ایسا میں نے صرف فلموں میں ہی ہوتے دیکھا ہے تم واقعی ہی ایک فاتح ہو پری زاد۔۔۔میں نے آمنہ کی طرف دیکھا۔وہ آج بھی اتنی ہی خوبصورت دلکش نظر آتی تھی۔بلکہ اس کا حسن میں اب اداسی کی آمیزش نے ایک عجیب سارنگ بھر دیا تھا۔حسن اداس ہوتا تو کتنا مکمل ہوجاتا ہے۔نہیں میں کھبی فاتح نہیں رہا۔۔بس ہارتا ہی آیا ہوں۔مگر تم اور یہ شہہ پارہ یہ سب کیا ہے تمہارا شوہر کہاں ہے۔۔۔وہ سیٹھ عابد؟؟
آمنہ دھیمے سے مسکرائی۔سیٹھ عابد ایک کامیاب سوداگر تھا اسے جب تک شادی کے سودے میں اپنا فائدہ نظر آیا۔اس نے مجھے اپنے ساتھ رکھا اور جب اور سمیت سارہ منافع وصول ہو چکا تو اس نے تین لفظ کہہ کر مجھے آزاد کردیا تم نہیں جانتے پری زاد۔۔اسے سودے بازی خوب آتی تھی میں نے ایک گہری سانس لی۔نہیں۔میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کیسا سودے باز تھا امنہ نے چونک کر میری طرف دیکھا
اوہ۔۔اس کا مطلب میرا شک سہی ہے تھا۔اس نے تم سے بھی تمہاری شاعری کا سودا کیا تھا۔؟مجھے ہمیشہ اس کے نام سے چھپی اس کتاب کے لفظوں میں تمہاری جھلک نظر آتی تھی۔مگر میں خود کو بھی یقین نہیں دکا پائی کہ تم اپنے فن کو سیٹھ عابد جیسے کسی دوکاندار کے ہاتھ بیچ سکتے ہو؟؟
میں نے آمنہ کی سیاہ غزالی آنکھوں میں چھپے سوال کا جواب دیا ابھی تم نے خود ہی کہا تھا سیٹھ عابد ایک بہت ہی بڑا کامیاب سوداگر تھا۔اسے ٹھیک وقت پر اپنے مطلب اور لوگوں کی قیمت لگانا خوب آتا تھا۔سچ پوچھو تو آج جو تم مجھے پری زاد سے پی زیڈ صاحب بنا دیکھ رہی ہو۔اس کے پس منظر کہیں نہ کہیں سیٹھ عابد سے کئے ہوئے سودے کا بھی ہاتھ ہے۔مگر تم یہاں اس محفل میں کیسے۔؟یہ سیٹھ رحمان تو بڑا کائیاں شخص دیکھائی دیتا ہے۔اور تم اس کی خاص مہمان ہو۔۔؟یہ سب کیا ہے ۔۔۔
آمنہ نے دور کھڑے رحمان کی طرف دیکھا جو مہمانوں کو کھانا لگنے کی اطلاع دے رہا تھا۔یہ سیٹھ بھی ایک کامیاب دوکاندار ہے۔اس نے مجھے تمہیں رجھانے کے لیے آج یہاں مدعو کیا ہے تمہاری فرم سے کوئی ٹھیکہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔اب مصرف ان بڑے صنعت کاروں کے ہاں بس اتنا ہی رہ گیا ہے۔
میں نے دکھ سے آمنہ کی طرف دیکھا اور فرض کرو تم مجھے رجھانے میں ناکام رہتیں پھر۔۔پھر کیا ہوتا۔۔؟کچھ زیادہ نہیں میری بچی کھچہی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا اور پھر کسی اور کسی اور سودے کے لیے پیش کردیا جائے گا۔۔کیونکہ میری ماں دنیا سے جاتے جاتے اتنے ادھار میری ذات کے لیے چھوڑ گئی ہے اب میں چاہوں بھی تو ان زنجیروں سے خود کو آزاد نہیں کر سکتی۔اتنے میں سیٹھ رحمان ہمارے قریب پہنچ گیا۔تنگ کرنے کی معذرت چاہتا ہوں۔مگر کھانا ٹھندا ہورہا ہے۔۔باتوں ہے لیے ساری رات پڑی ہے اور پھر مجھے تو لگتا ہے کہ شہہ پارہ بیگم ہم سے کہیں زیادہ آپ کی باتوں لی قدر دان ہیں۔ورنہ اتنی لمبی گفتگو یہ کسی سے نہیں کرتیں۔ہم تو بات کرنے کو ترس جاتے ہیں صاحب ۔۔۔
میں نے سیٹھ کی طرف دیکھا۔نہیں سیٹھ صاحب۔۔اب میں چلو گا۔آپ کا کھانا شدید مجھ سے ہضم نہ ہوسکے۔کل آپ مینیجر کو میرے دفتر بھیج دیجیئے گا یہ ٹھیکہ آپ کو ہی ملے گا اور یہ کیا۔۔اس جیسے مزید جتنے سودے آپ کرنا چاہیں میری طرف سے ہاں ہی سمجھیئے گا۔بدلے میں مجھے کسی کی آزادی درکار کے۔۔مجھے یقین ہے کہ یہ آپ کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔۔اگر منظور ہوتو اپنے مینیجر کو قیمت بتا کت بھیجیئے گا ۔۔۔
میں بات ختم کرکے وہاں سے چل پڑا سیٹھ رحمان وہیں ہلا بکا سا کھڑا رہ گیا۔مڑے وقت میں نے آمنہ کی آنکھوں کی نمی آپنی آنکھوں میں اتری محسوس کی تھی اور پھر ساری رات اس نمی نے میری پلکیں بھگوئے رکھیں۔بظاہر باہر سے اجلی اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چمک لیے یہ دنیا اندر سے کھبی کھبی کتنی تاریک اور سیاہ نکلتی ہے۔اگلے راز سیٹھ رحمان کا مینینجر اپنے وقت پر ان پہنچا۔ واقعی سیٹھ رحمان ایک کامیاب سوداگر تھا مگر ناجانے کیوں پھر بھی اس کی لگائی ہوئی قیمت بہت کم محسوس ہوئی۔لوگ عموما جسموں کے سودے کرتے وقت ان کے اندر بسی روح کی قیمت لگانا بھول جاتے ہیں کمالی پچھلے دو چار دن مجھ سے کوئی ضروری بات کرنا چاہتا تھا مگر اس روز سیٹھ رحمان کے مینیجر کے جانے کے بعد وہ اپنی چپ پر قابو نہیں رکھ پایا۔۔
اگر آپ بڑا نہ مانیں تو سر میں ایک بات کہنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں عہدے اور رتبے میں آپ مجھ دے بہت بلند ہیں مگر عمر میں میں آپ سے بڑا ہوں۔۔لہذا مجھے میرے تجربے کی رعایت دیتے ہوئے کچھ عرض کرنے دیں۔۔۔
میں نے اطمینان سے اس کی یہ لمبی تمہید سنی ۔۔جتنی دیر میں تم نے یہ تمہید باندھی ہے تم اپنی بات ختم بھی کرسکتے تھے۔۔۔کمالی میری بات سن کر شٹ پٹا سا گیا۔جی سر میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے سیٹھ رحمان کو بہت زیادہ قیمت لگادی۔۔میں جانتا ہوں یہ آپ کا ذاتی پیسہ ہے اور اسے خرچ کرنے کا حق بھی صرف آپ کو ہی ہے۔مگر آپ کو ابھی سودے بازی نہیں آتی۔میں جب آپ کو یوں بت دریغ دوسروں پر پیسہ لٹاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ناجانے کیوں مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔عمریں لگ جاتی ہیں یہ پیسہ کمانے میں اس طرح تو آپ خود خو بہت جلد برباد کردیں گے اگر جذبات میں مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہے تو معافی چاہتا ہوں۔مگر میں نے آپ خو خبر دار کرنا اپنا فرض سمجھا کمالی بات ختم کرکے چپ ہوگیا۔تم نے ٹھیک کہا کمالی مجھے سودے بازی نہیں آتی میں اچھا سوداگر نہیں ہوں۔۔انسانوں کی قیمت لگانا نہیں جانتا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ قیمت صرف چیزوں کی لگائی جاتی ہے۔۔انسان اور رشتوں کی نہیں۔۔اچھا میرے ایک سوال کا جواب دو عام طور پر انسان پیسہ کس کے لیے کماتا ہے...
کمالی نے بلاتا مل جواب دیا۔اپنے خواب پورے کرنے کے لیے س۔اپنے لیے آسائش آسانی پیدا کرنے کے لیے اور اپنے لیے خوشیاں خریدنے کے لیےعذت اور رتبے کے لیے ٹھیک کہا تم نے مگر کسی کا کوئی خواب ہی نہ بچا ہو تب۔؟آزمائشیں ایسی بوجھ لگتی ہوں اور اس کی خوشی کسی ایک لمحے میں جامد ہوکر رہ گئی ہو ۔۔تب وہ شخص کیا کرے ۔۔۔۔؟؟
کمالی کچھ دیر خاموش رہا۔پھر شاید وہ شخص اس دنیا کا ہی نہ ہو سر کیونکہ آسائش رتنے اور خوشی سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔؟
میں مسکرایا۔ہاں۔کوئی دیوانہ ہی ہوگا جسے ان چیزوں سے انکار ہو۔۔مگر ابھی کچھ باقی ہیں دنیا میں مجھے سوداگر بننے میں ابھی کچھ وقت لگے گا کمالی۔خیر چھوڑو۔تم نہیں سمجھا گئے کمالی اور تم نے بھی سیٹھ رحمان کے ساتھ ایک سودا کیا تھا۔۔تمہارا سودا کیسا رہا۔۔۔؟؟
کمالی نے گڑ بڑا کر میری طرف دیکھا۔میں سمجھا نہیں سر کیسا سودا؟-۔۔۔ہاں وہی سودا جو کنٹریکٹ سیٹھ رحمان کو دلوانے کی صورت میں تمہیں پانچ لاکھ روپے منافع ملنے کے بدلے طے ہوا تھا۔۔۔
کمالی کے چہرے پر ہوائیاں سی اڑنے لگیں۔۔وہ سر۔۔وہ۔۔۔میرا مطلب ہے ۔۔میں نے غور سے کمالی کی طرف دیکھا۔گھرانے کی ضرورت نہیں کمالی۔میں نے ویسے ہی وہ ٹھیکہ سیٹھ رحمان کو دینا تھا۔۔بس میری اتنی بات یاد رکھنا۔۔پیسہ کھبی عزت نفس کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔۔وقت ملے تو میری بات پے غور کرنا۔۔اب تم جا سکتے ہو۔۔
کمالی سر جھکائے میرے کمرے دے نکل گیا اگلے دو ہفتے بہت مصروف گزرے اس درمیان میں اپنے بھائیوں کے نئے گھر بھی ہو آیا۔بہنوں کی طرف بھی چکر لگا لیا۔خوب آو بھگت ہوئی میری۔مگر ان میں دے کوئی بات ذہنی طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ میں یوں تنہا اتنے بڑے گھر میں زندگی گزار دوں۔سبھی کو میرا گھر بسانے کی جکفی تھی۔مگر ان میں سے شاید یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا کہ جب دل ہی جی جائیں تو گھر نہیں بسا کرتے۔میرا دل بھی جی کر راکھ ہوچکا تھا۔اب کوئی امید کوئی آس باقی نہیں رہ گئی تھی کہ کھبی کوئی نظر میری طرف بھی اٹھے گی
بظاہر میرے ارد گرد ایسی بہت سی ناذ نینائیں تھیں جن میں سے میں کسی ایک طرف بھی اشارہ کردیتا تو اس کے گھر والے بہ ضد خوشی اسے میرے ساتھ رخصت کردیتے مگر یہ میرا نہیں۔میری ظاہری شان و شوکت اور اس دولت کا کمال ہوتا جسے ابھی تک خود میرے گھر والے بھی مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے اور چہ مگوئیاں ہوتی رہتی تھیں کی آخر دس سال کے اندر اندر میرے ہاتھ آلہ دیں کا ایسا کون سا چراغ لگا ہو ہوگا کہ جس نے میری کایا پلٹ دی
ہمارا معاشرہ بھی کتنا دوغلا ہے۔جس شخص کی غیر موجودگی میں اس رتنے اور دولت پر ناجائز ہونے کے شک میں ہزار باتیں بناتا ہے۔اسی شخص کے آنے پر اس کو پوری تعظیم کے ساتھ کھڑا ہوکر ملتا ہے۔اسے ہزار سفارشیں کرواتا ہے اور ساتھ کھڑے ہوکر تصویریں بنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔بہروز کریم ٹھیک ہی کہتا تھا۔دولت ہزار عیبوں کا ایک پردہ ہے ۔۔کچھ روز بعد احمد صاحب چند طالب علموں کے ہمراہ میرے دفتر آئے اور بہت دیر بیٹھے رہے وہ اپنے ساتھ اس سال کا یونیورسٹی کا سالانہ رسالہ بھی لائے تھے جس میں میری پرانی تین نظمیں چھپی ہوئی تھیں۔میں نے ان کے لاکھ انکار کے باوجود یونیورسٹی کی بزم ادب کے لے سال بھر کا چندہ ان کے حوالے کردیا۔ویسے بھی میری کمپنی سے شہر کی تقریبا ہر بڑی ادبی تحریک اور تنظیم کو عطیات جاتے رہتے تھے۔شہر میں میں کافی ادب دوست مشہور ہو چکا تھا مگر میں خود ان ادبی پروگراموں میں خانے سے گریز کرتا تھا کیونکہ اب میں شاید اپنے لفظوں اور اپنی شخصیت کے اس واضع تضاد سے اکتا چکا تھا۔
یا پھر اچھے لفظ اچھے خیالات صرف اچھی شخصیت کے ساتھ ہی ججتے ہیں۔۔مجھ جیسا کوئی کتنے ہی اونچے خیالات کا اظہار کو لفظوں کی خوبصورتی مالا میں پرو کر پیش کردیا حرف بت وقعت پے رہتے ہیں میں خود کو مزید
کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا تھا۔اگلے دن بڑے بھیا کسی سفارش کت لیے دفتر آئے تو میں ان سے پرانے رجسٹر اور مسودوں کے بارے پوچھ بیٹھا۔انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ابھی وہیں پرانے گھر کی دوچھتی والے ٹرنک میں پی پڑے ہوں شاید کیوں کہ بہت سارا سامان نئے مکان میں منتقل ہونا باقی ہے۔پرانے گھر کا سودا ہو چکا تھا اور کچھ دن میں وہاں سے سارا سامان بھی اٹھوانا تھا۔جانے میرے دل میں اچانک ہی میرے پرانے گھر اور محلے کے لیے ایک دم ہوک سی کیوں اٹھی۔میں نے کاغذات تلاش کرنے کے بہانے بھیا کے ساتھ ڈرائیور کو بھیج کر پرانے گھر کی چابی منگوائی اور اس شام عصر کے وقت میری گاڑی میرے پرانے محلے کے سال خوردہ لکڑی والے بڑے گیٹ سے اندر داخل ہو رہی تھی۔میں نے گاڑی محلے کے بڑے میدان سے پرے ہی رکوالی سامنے بچے کینچے کھیل رہے تھے میں بہت دیر وہیں کھڑا انہیں یہ کھیل کھیلتے ہوئے دیکھتا رہا۔غریب محلے کے بچوں کے کھیل بھی سدا غریبانہ ہی رہتے ہیں۔کھبی میں اپنی گلیوں اور اسی میدان میں باقی بچوں کے ساتھ سارا دن کینچے اور گلی ڈنڈے کا کھیل کھیلا کرتا تھا اور شام کو چھپن چھپائی۔۔۔۔مگر زندگی میرے ساتھ ابھی تک چھپن چھپائی کا ہی کھیل کھیلتی آرہی تھی۔محلے کے پرانے ۔مکینوں میں کوئی دکھائی نہیں دیا زیادہ تر نئے چہرے نظر آرہے تھے۔غربت البتہ وہی پرانی تھی۔میں نے کبیر خان کو اپنے گھر کا دروازہ کھولنے کا کہا اور پھر اسے گاڑی کی جانب واپس بھیج دیا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ میری آنکھوں میں اترتی نمی دیکھ سکے۔ہمارے کچھ جذبات اور محسوسات بہت ذاتی ہوتے ہیں ہم انہیں کسی کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے میں بہت دیر تک اپنے گھر کر چھوٹے سے صحن میں کھڑا ان بیتے دنوں کو یاد کرتا رہا جب میں دنیا کے ہر غم سے آزاد اپنے چھوٹے قدموں سے اس صحن میں دوڑتا پھرتا تھا۔باورچی خانے سے اماں کی باجیوں کو ڈانٹنے اور سگھڑاپے کے گر سکھانے کی آوازیں آتی رہتیں ۔۔۔
قسط 20
ابا صحن میں اپنا حقہ سنبھالتے کھانستے اور اور آخبار پڑھتے رہتے۔میں مٹی کے صحن میں اپنی پرانی ٹین کی بنی موٹر کار کے لیے راستے بناتا رہتا اور دن میں سو سو مرتبہ اس الزنگ لگی کار کو اماں کے دوپٹے دے چلاتا رہتا۔ایک لمحے میں ہی میرے آس پاس یہ سب کچھ اس شدت سے میری کار کت جھرکوں سے باہر جھکا کہ وہ سب لمحے پھر سے زندہ ہوگئے حتی کہ میں اس وقت ابا کے حقے کی کڑوا دھواں اور باورچی خانے سے آتی گرم پھلکوں کی مہک بھی محسوس کر سکتا تھا کاش میں ساری زندگی وہی پانچ چھ سال پری زاد ہی رہتا کھبی بڑا نا ہوتا۔جانے ہم اتنی جلدی بڑے کیوں ہو جاتے ہیں؟ہر بچہ اپنی ماں کے لیے پری زاد ہی ہوتا ہے۔تو اگر میری بھولی بھالی ماں نے مجھ جیسے کس نام پری زاد رکھ دیا تھا تو ایسا کیا گناہ کیا۔۔؟
میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں بہنے لگے۔۔اچانک مجھے اپنے کانوں میں ابا کی آواز بھی گونجتی محسوس ہوئی
پری زاد۔۔۔ بیٹا تم پری زاد ہو نا ۔۔۔
میں ایک جھٹکے سے اپنے خیالات کی دنیا سے واپس لوٹ آیا۔کوئی مجھے واقعی ہی پکار رہا تھا جسے میں ابا کی آواز سمجھا تھا وہ ہمارے محلے کے ایک بزرگ بشیر چچا کی آواز تھی۔میں نے جلدی سے اپنی آنکھیں پونچھ کر پلٹ کر دیکھا
گھر کا دوازہ کھلا دیکھ کر گلی سے گزرتے کچھ پرانے محلے دار گلی میں جمع ہوچکے تھے۔یہ سب وہ لوگ تھے جن کے ہاتھوں میرا بچپن کھیلا تھا۔سبھی گھل مل گئے اور پرانی یادوں کے سب دریچے وا ہوگئے۔وہ سب ابا کے دوست اور ساتھی تھے اور پرانی باتیں یاد کرکے سبھی بیک وقت خوش اور غمگین سے ہوگئے تھے گویا یاد ماضی صرف میرے لیے ہی عذاب تھی نہیں تھی۔اور بھی بہت تھے جو اس عذاب سے دوچار تھے۔وہ سب میری ترقی دیکھ کر حیران اور دل خوش نظر آرہے تھے۔یہ پرانے محلے دار بڑے دلچسپ رشتے میں بندھے ہوتے ہیں۔جب تک ساتھ رہتے ہیں زیادہ تر ایک دوسرے سے خفا اور جھگڑتے رہتے ہیں۔مگر انہی میں جب کوئی ایک بچھڑ کر کہیں اور چلا جاتا ہے اور عرصے بعد ملتا ہے تو یہ سارے خون کے رشتوں دے بھی بڑھ کر اسے یاد کرتے ہوئے یوں اسقبال کرتے ہیں جیسے وہ ہمسایہ ہی نہیں۔کوئی ماں جایا ہو۔یہ انسانی رشتے دور جاکر ہی خوبصورت کیوں بن جاتے ہیں؟فاصلے ہمارے رویوں میں اتنی بڑی تبدیلیاں کیسے لے آتا ہیں۔یہ کیا گورکھ دھندا ہے؟
نکڑ والے چچا کو اچانک کچھ یاد آگیا۔۔۔
ارے ہاں پری زاد بیٹا۔۔وہ مرزا کا پوچھنے ضرور جانا۔۔بہت بیمار رہتے ہیں آج کل۔ضعیف بھی بہت ہوگئے ہیں۔
مرزا صاحب کا نام سنتے ہی میرا گال اچانک جلنے لگا۔ان کا لگا ہوا طمانچہ آج تک میرے ذہن کے کسی نہاں خانے میں گونجھ رہا تھا۔اور تبھی اچانک ہی وہ آفت جاں دعا یاد آگئی اس کا تو ہادی سے رشتہ ہوگیا تھا۔جانے اب وہ کیسی ہوگی
محلے کے بچے گاڑی کے ارد گرد جمع تھے اور ڈرائیور انہیں بھگانے کے لیے مختلف طریقے آزما رہا تھا
میں دھڑکتے دل کے ساتھ مرزا صاحب کے دروازے کے سامنے رک گیا۔پھر مجھے خود ہی اپنی حالت پر ہنسی آگئی۔اب تو وہ کب کی اپنے گھر کی ہو چکی ہے اور میں ہوں کے آج بھی اس کے گھر کے سامنے کھڑا اپنے بے چین دل کو سنبھالنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہوں۔سب اس دشمن دل کے تماشے ہیں۔میری دوسری دستک کے جواب میں اندر سے کسی کے قدموں کی آہٹ بلند ہوئی۔میں ایک جانب ہوکر کھڑا ہوگیا۔آنے والی نے دروازہ کھولا تو اس کی نظر مجھ سے پہلے دور کھڑی میری کار پر پڑی اور پھر اس میری نظر ملی تو سانس رکنے لگی۔وہ دعا ہی تھی۔دعا بھی گڑ بڑا سی گئی میں نے اسے سلام کیا تو وہ آٹکتے ہوئے بولی۔
آپ ۔۔۔پری زاد ہیں ناں۔مجھے ہمسایوں نے بتایا تھا کہ آپ کے محلے میں آئے ہوئے ہیں۔۔۔مگر میں یہ بلکل بھی توقع نہیں کر رہی تھی آپ ہمارے گھر بھی آئیں گ۔۔
دعا کے الجھے بال کپڑے مسلے ہوئے اور پیروں میں پرانی چپل تھی۔اس کا جسم پہلے سے کافی فربہ لگ رہا تھا اور وہ طرح دار شوخ نازک اور نٹ کھٹ لڑکی مجھے اس سامنے کھڑی عورت میں بمشکل ڈھونڈنے سے حصے میں بٹی نظر آرہی تھی۔دعا نے سٹ پٹا کر مجھے اندر آنے کی دعوت دی آپ باہر کیوں کھڑے ہیں اندر آجائیں۔۔ابا گھر ہر ہی ہیں
میں جھجکتے ہوئے اندر داخل ہوگیا یہ وہی صحن تھا جہاں میں کھبی شام کو ایک گھنٹہ بھر کے لیے دعا کو ٹیوشن پڑھانے کے لیے انگور میں بیل کے سائے میں کرسی ڈالے بیٹھا رہتا تھا اور دن کے باقی (23) گھنٹے ایک گھنٹے کی یاد میں گزار دیتا تھا۔صحن میں چار پانچ چھوٹے چھوٹے بچے شور اور ادھم مچا رہے تھے ان میں سے ایک نے گھڑے پر رکھا پیتل کا گلاس زور سے پکے فرش پر گرا دیا۔شور مچ گیا دعا نے غصے اس بچے خو دو تھپڑ مارے اور غصے اور شرمندگی سے چلائی۔۔۔
چپ کر جاو کم بختو۔۔دیکھ نہیں رہے گھر مہمان آئے ہیں چلو نکلا یہاں سے باہر جا کر کھیلو۔۔۔
بچے منہ بسورتے صحن سے نکل گئے اندر سے مرزا صاحب کھانستے ہوئے باہر صحن میں نکل آئے کون آیا ہے دعا بیٹا
دعا نے جلدی سے صحن میں پڑی پرانی کرسی میرے لیے سیدھی کی۔پری زاد آئے ہیں ابا ہمارے پرانے ہمسائے ۔۔
مرزا صاحب نے چونک کر اپنا چشمہ درست کیا اور مجھے غور سے دیکھا ارے پری زاد بیٹا۔۔۔کیسے ہو تم۔۔۔تمہارے بھائیوں سے پتا چلا تھا کے تم پاکستان آچکے ہو۔۔اچھا کیا آگئے تمہیں دیکھے بہت عرصہ ہوگیا۔۔۔مرزا صاحب ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔دعا میری موجودگی کی وجہ سے بہت الجھی ہوئی بہت بے آرام سی دیکھائی دے رہی تھی۔پھر اچانک مرزا صاحب کے چہرے پر شرمندگی کے آثار پیدا ہوگئے۔ارے ہاں۔۔یاد آیا۔۔میں نے کھبی تمہارے ساتھ بڑی زیادتی کردی تھی میاں۔۔بعد میں حقیقیت کھلی تو تم یہاں سے جا چکے تھے۔۔ہوسکے تو تم مجھے معاف کردینا ۔
میں جلدی سے کہا۔۔آپ کیسی باتیں کررہے ہیں۔بزرگوں کا حق ہوتا ہے۔۔مگر یہ ہادی کہا ہے دیکھائی نہیں دے رہا۔
مرزا صاحب نے برا سا منہ بنایا۔۔ارے ہوگا کہاں۔۔کہیں نوکری کی تلاش میں ڈر بدر بھٹک رہا ہوگا۔دعا کی ماں انتقال کے بعد اسے تو موقع ہی مل گیا۔مہینوں اپنے بیوی بچوں کو یہاں میکے میں میری خدمت کے بہانے چھوڑ کر جانے کہاں غائب رہتا ہے۔بہت سے کاروبار آزمائے اس نے۔۔مگر کچھ جمع نہیں آج کل نوکری کے لیے دھکے کھاتا رہتا ہے۔۔
دعا چائے کا کپ لیے نمودار ہوئی اور اس نے باپ کو گھور کر دیکھا۔بس کریں ابا جی ۔یہ وقت بھلا ان باتوں کا ہے۔۔؟؟
میں کن اکھیوں سے دعا کو دیکھتا رہا۔یہ نازک شاخ حل جیسی لڑکی شادی کے بعد اتنی جلدی اپنا روپ کیوں بدل لیتی ہے ہیں۔۔؟یا پھر شاید ہادی جو اس کا محبوب تھا اور بطور شوہر اس کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا اس لیے دعا بھی اتنی ہی دلکش اور خوبصورت ہو۔۔؟کہتے ہیں حسن جب ہمارے روز مرہ معمول میں شامل ہوجائے تو عموما اپنا اثر کھو دیتا ہے یا پھر سدا کے لیے اپنے پہکے تاثر کے ساتھ ہماری یاداشت میں جامد ہو کر رہ جاتا ہے۔۔
میں نے پورے دس سال کے بعد دعا کو دیکھا تھا اس لیے شاید میں اس کے بڑھتے وزن سے کچھ الجھن محسوس کررہا تھا لیکن کیا محبوب کے روپ بدل لینے سے ہماری محبت کا نظریہ بھی بدل جاتا ہے؟یا پھر حسن پرستوں کا شیوہ ہی میرکی غزل اور خیام کی رباعی کو اس کے سرایے میں ڈھلتے ہوئے دیکھنا ہوتا ہے۔میں انہی خیالوں میں مگن چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے رہا تھا دعا ست جھکائے میرے قریب ہی کھڑی تھی اتنے میں اچانک صحن کا دروازہ کھلا اور گرد اور دھول میں آٹا ایک تھکا ہارا شخص اندر داخل ہوا۔ہم دونوں کی نظر ملی۔دعا کو میرے قریب کھڑے دیکھ کر اس شخص کے ماتھے پر تیوریاں سی پڑگئیں دعا بھی کچھ گھبرا سی گئی اور جلدی اس کی جانب بڑھی ارے ہادی تم آگئے دیکھو۔۔۔پری زاد ہمارے گھر آئے ہیں پہچانا نہیں تم نے۔ہادی نے کھڑی نظروں سے میری طرف دیکھا....
ہادی نے شدید غصے سے دعا کی طرف دیکھا۔دعا نے جلدی سے اسے سرگوشی میں کچھ کہا۔ہادی نے اس بار مجھے غور سے دیکھا اور پھر اس کے منہ سے بے اختیار نکلا
ارے پری زاد تم۔میرا مطلب ہے آپ پری زاد ہو ناں معاف کرنا میں تھکن کے مارے پہچان نہیں سکا شاید ہادی بھی میرے قیمتی اعلی لباس اور باہر کھڑی نئی گاڑی سے حیران ہوکر فورا تم سے آپ پر آگیا۔انسان نے مرعوبیت کے لیے کتنی نا پائیدار اشیاہ کو پیمانہ بنا رکھا ہے میں نے گہری نظروں سے ہادی کو دیکھا اس کے چہرے پر وقت کی دھول شاید کچھ زیادہ ہی تیزی سے تہہ جما رہی تھی۔بہت تھکا ماندہ سا نظر آرہا تھا۔کھبی یہی ہادی ہم سارے محلے کی سڑکوں کے لیے رشک کا باعث ہوا کرتا تھا۔اور میں خود کو اس پر رشک کرنے کے قابل بھی نہیں سمجھتا تھا وہ اس ہستی کا محبوب تھا جس کی پلک کا ایک اشارہ مجھے عمر بھر کے لیے خاکستر کر گیا۔اور آج اتنے سالوں بعد وہ شعلہ جوالہ میرے سامنے راکھ بنی کھڑی تھی اور اس کا وہ گل فام غم دوراں کے پھیرے میں سب کچھ بھولا دکھائی دیتا تھا۔کون خوش ہے بھلا اس ناشناس زمانے میں؟جنہوں نے پایا انہوں نے پاکر مٹی کردیا اور جو نہیں پاسکے وہ بھی ہمیشہ کے لیے خاک ہوئے مجھ سے زیادہ وہاں ٹھہرا نہیں گیا۔میں نے آتے وقت اپنا کارڈ ہادی کو دے دیا کہ وہ اگلے روز میری فیکٹری کے مینجر سے مل لے۔میں اپنی گاڑی میں جب گلی سے باہر نکل رہا تھا۔تب میں نے بیک ویو میرر میں دعا کو اپنے گھر کے دروازے میں کھڑا دیکھا شاید وہ مجھ سے جاتے وقت کچھ بات کرنا چاہتی تھی۔مگر کیا بات کرتا میں اس سے؟
وہی معزرتیں۔۔وہی میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔میں آپ کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی۔آپ دل کے بہت اچھے ہیں وغیرہ وغیرہ کتنا مضوعی لگتا ہے یہ سب کچھ کچھ معزرتیں اور کچھ وضاحتیں پرانے گھاو مندمل کرنے کے بجائے زخموں کا سینہ مزید کھول دیتی ہیں۔میں بھی اپنے یہ کھلے زخم لیے گھر واپس پہنچا تو رات ڈبل رہی تھی۔کمالی نے جانے کب سے سوئمنگ پول کے پاس کچھ فائلیں گود میں لیے بیٹھا میرا انتظار کررہا تھا۔میں نے کچھ ضروری کاغذات پر دستخط کر کے اسے فائل واپس کی ۔۔
صبع لے آتے کمالی زندگی کو اتنا بوجھ کیوں بنا رکھا ہے تم نے اپنے لیے ؟ جب تک میرے ساتھ کام کر رہے ہیں نفع نقصان کو ذہن سے نکال کر کام کیا کرو میں نے تمہیں اس دن بھی بتایا تھا کہ میرے نقصانات اور فوائد کا پیمانہ کچھ اور ہے
میں زندگی میں اتنی بات یاد چکا ہوں کہ اب جیت مجھے کسی بھی ہار سے کہیں زیادہ اداس اور پریشان کر دیتی ہے کہ ٹینڈز بھر دینا باقی اللہ مالک ہے جاو۔۔ جاکر آرام کرو
کمالی سو جھکائے کھڑا رہا۔میں نے آپ کر کچھ اور بھی بتانا تھا سر۔آج میں نے صبع سیٹھ رحمان کا دیا ہوا چیک واپس کر دیا۔آپ کے ایک جملے نے مجھے عزت نفس کا وہ سبق سکھایا ہے کہ اب میرے قدم کھبی نہیں ڈگمگائیں گے۔آپ بھی میری اس خطا کو آخری سمجھ کر معاف کردیں میں نئ اس کا کاندھا تھپتھپایا۔بھول جاو کمالی زندگی میں انسان اور کچھ ہو نہ ہو یہ بھول جانے کی نعمت ہونا بہت ضروری ہے۔۔
کمالی پلٹ کر جانے لگا میں اچانک اس سے پوچھ بیٹھا
کمالی تم نے کھبی کسی سے محبت کی ہے ۔۔۔
کمالی نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ہاں سر۔۔بڑا زوردار عشق چکا تھا نو جوانی میں۔مگر انجام بہت بڑا ہوا آخر کار
میں نے گھبرا کر پوچھا کیوں کیا ہوا تھا؟؟؟؟
کمالی نے لمبی سی سانس بھری ہونا کیا تھا سر جی ۔شادی ہوگئی میری اس کے ساتھ آج وہ میرے چار بچوں کی ماں ہے سارا عشق بھاپ بن کر اڑ گیا گھریلو روز مرہ خرچوں بچوں کی فرمائشیں اور فیسوں نے کمر توڑ کر رکھ دی ساری محبت ہوا ہوگئی۔۔
کمالی اپنے دکھڑے سنا کر چکا گیا اور میں بیٹھا سوچتا رہا کہ ہم ناداں انسان ابھی تک یہ بھی تہہ نہیں کر پائے کے محبت کو پالینا بڑا حادثہ ہے یا اس کو کھو جانا بڑا سانحہ؟
کیا شئے ہے یہ محبت ہم مبتلا ہوں یا غیر مبتلا۔یہ محبت ہر پل ہمارے آس پاس کن سوئیاں لیتی ہماری سرگوشیاں سنتی رہتی ہے۔تاکہ ہمارے خلاف پھر کوئی بھر پور سازش رچا سکے۔میری یہ حسن پرستی بھی تو اس ستم گر کی ایک سازش تھی۔لوگ باتیں بنانے لگے تھے کہ میرے آس پاس خوبصورت چہروں کا مجمع اکھٹا رہتا ہے۔دفتر میں باہر فیلڈ کے عملے میں دوبئی کے دفاتر اور کمپنیوں میں۔ہر جگہ انتخاب اگر میرے فیصلے سے ہوتا تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کوئی حسین چہرہ پی نکلتا۔چاہے پھر میرا زندگی بھر اس چہرے سے دوبارہ کھبی آمنا سامنا ہی نہ ہو۔مگر لوگوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ جس طرح ہم میں سے کچھ صفائی پسند ہوتے ہیں کچھ نفاست پسند کچھ کو نازک اشیاہ پسند آتی ہیں اور کچھ خوشبووں کے رسیا ہوتے ہیں اسی طرح میں حسن پسند تھا اور بس ۔۔
اگلے روزجھے سائٹ ایریا والی فیکٹری کے مینجر مے بتایا کے ہادی ہو اس کی قابلیت کے حساب سے کسی دفتر کے کام پر لگا دیا گیا ہے اور تنخواہ بھی معقول طے کر دی گئی ہے رات کو ایک میٹنگ سے واپسی پر گھر آتے آتے بہت دیر ہو گئی سڑکیں سنسان ہوچکی تھیں۔رات کو جانے پہچانے رستے بھی کسی اجنبی کی طرح ہمارا استقبال کرتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں دن پوشیدہ گوشوں کو اپنی روشنی سے اجال کر ان کی شناخت ظاہر کرتا ہے مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے جیسے لوگوں جگہوں چیزوں اور چہروں کی اصل پہچان رات کے اندھیرے میں ہی ہوتی ہے۔ڈرائیور نے میری بوریت کے خیال سے گاڑی کا ایف ایم ریڈیو چلا دیا یہ ایف ایم ریڈیو بھی ایک اچھا فرار ہے لمبے راستوں کو مختصر کرنے کا۔۔ایف ایم کا ڈی جے کمپیئر اگر پڑا لکھا اور زندگی سے شناسا ہوتو ہماری تنہائی بانٹ لیتا ہے اس روز بھی وہ میزبان میری تنہائی بانٹنے کے لیے شعرو ادب کی باتیں کر رہی تھی میں بے دھیانی میں بیٹھا اس کی میٹھی باتیں سن رہا تھا کہ اچانک اپنی نظم کے دو بول سن کر زور سے چونکہ اٹھا میزبان ہی آواز سناٹے میں گونج رہی تھی
جی ہاں یہی ہے میری پسندیدہ نظم کا عنوان۔۔۔
گر کھبی تم کو مجھ سے نفرت ہو جائے ۔۔
تو ان راستوں سے نفرت مت کرنا ۔۔
جن پر ہم کھبی ایک ساتھ چلے تھے ۔۔
رات کے اندھیرے میں میں خود اپنی نظم اس ایف ایم کی میزبان کی زبانی سن کر جانے کیوں میری اپنی پی پلکیں نم ہونے لگیں۔۔۔میزبان کہہ رہی تھی۔
جی سامعین ۔۔۔یہ تھی میری سب سے پسندیدہ شاعری کی وہ نظم جسے میں اکثر گنگناتی ہوں مگر مجھے اس شاعر سے ایک گلہ بھی ہے۔میں اس یونیورسٹی کی ایک جونیئر طالب علم ہوں جہاں میرے ایک محترم سینیئر پری زاد صاحب نے یہ ساری نظمیں لکھیں۔۔مگر پھر نا جانے انہوں نے شاعری سے سنیاس کیوں لے لیا۔۔؟اگر خوش قسمتی سے اس وقت میرا پروگرام سن رہے ہیں تو ان سے میری اس ادبی پروگرام کے ہزاروں سامعین کی بس یہی ایک چھوٹی سی خواہش ہے کہ وہ لفظوں سے اپنا ناتہ نہ توڑیں۔۔اب آپ سے آپ کی میزبان قراہ العین بخاری اجازت چاہتی ہے۔کل پھر رات گیارہ بجے آپ کے پسندیدہ پروگرام۔بزم ادب کے ساتھ عینی حاضر ہوگی تب تک کے لیے آپنا بہت سا خیال رکھیئے
شب بخیر۔۔۔۔
میں پروگرام سننے میں اس قدر مگن تھا کہ مجھے پتا پی نہیں چلا کہ ہم کب گھر پہنچے۔رات بھی بستر پر کروٹیں بدلتے ان گنت سوچوں میں گزری۔مجھے اپنے ایک اردو کے استاد کی بات ہمیشہ یاد رہتی تھی کہ لفظ آپنے خالق کا ہمیشہ پیچھا کرتے ہیں۔اس کی پہچان بن کر ہمیشہ کے لیے وقت کی کسی لہر میں امر ہو جاتے ہیں...
1قسط 21
نظریں نہیں جانتا تھا کہ میری ٹوٹی پھوٹی شاعری اور بے بسی کے عالم میں لکھی چند نظمیں میری یونیورسٹی لے سالانہ رسالے میں چھپ کر یوں امر ہوجائیں گی کہ اتنے برسوں کے بعد بھی میری شناخت بنی رہیں گی۔اگلے روز دفتر پہنچا تو یونیورسٹی سے احمد صاحب پہلے ہی آئے بیٹھے تھے اور کافی خفا بھی آ رہے تھے کیونکہ میں کسی نہ کسی بہانے ان کی تقریبات کو ٹالتا آیا تھا اسی شام یونیورسٹی کی بزم ادب کی سالانہ انعامات کی تقریب تھی اور وہ پہلے ہی زبردست کارڈ پر میرا نام بھی مہمان خصوصی کے طور پر درج کروا کر آدھی یونیورسٹی کو بانٹ بھی آئے تھے۔میں نہ نہ کرتا رہ گیا لیکن وہ دھمکی دے گئے کہ اگر آج بھی میں نے تقریب میں شرکت نہیں کی تو وہ آئندہ کھبی بھی مجھ سے بات نہیں کریں گئ۔اب میں انہیں کیسے بتاتا کہ اتنے بہت سارے لوگوں کے سامنے اسٹیج پر بیٹھنے اور ان کے سامنے کچھ بولنے کے خیال سے ہی میری پسینے چھوٹنےلگتے ہیں۔وہی چھبتی ہوئی نظریں جو مجھے اپنے چہرے کے سر پار ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔وہی دبی دبی سرگوشیاں۔طنزیہ مسکراہٹیں ۔۔۔
کاش احمد صاحب اس دل ناکارہ کی حالت سمجھ سکتے مگر یہ ہو نہ سکا اور ٹھیک شام پانچ بجے اسٹیج کے ڈائس پر میرا نام پکارا گیا تو میں نظریں جھکائے مائیک کے سامنے جا کھڑا ہوا۔اچھی بات یہ تھی کہ ہال میں تماشائیوں کی جانب روشنی ملگھجی سی تھی اس لیے مجھے طلباء کے چہرے صاف دکھائی نہیں سے رہے تھے اور ویسے بھی سٹیج کا فاصلہ پہلی روکی کرسیوں سے کافی زیادہ تھا۔اپنا سانس درست کرنے میں مجھے چند لمحے مزید لگ گئے۔میری آواز خود مجھے اجنبی سی لگی۔طلباء اور دیگر عملہ انہماک سے میری بات سن رہا تھا۔۔۔
میں کوئی شاعر مقرر لیڈر نہیں ہوں۔بس کچھ مہربانوں کی محبت یہاں تک کھینچ لائی لے اور میری اس درس گاہ کاجھ لر جو حق ہےوہ مجھے ہمیشہ اس چار دیواری سے جوڑے رکھتا ہے۔میں احمد صاحب اور ان کے تمام اساتذہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے سالانہ رسالے میں میرا تعارف چند پرانی نظمیں چھاپ کر میرے کچھ بوسیدہ اشعار کو زندہ رکھا یہ شعر دراصل شعر نہیں میرے دل کی نظر ہیں میرے اپنے آپ سے کی گئی کچھ باتیں ہیں جو کھبی صفے پر آجائیں تو آپ لوگوں سے بانٹ لیتا ہوں۔۔آپ لوگ اسے شاعری سمجھ لیتے ہیں تو یہ آپ سب کا حسن ظرف ہے ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ میں کھبی شاعرہ نہیں کی۔۔بس خود کو نمایاں رکھنے کے بہانے تھے یہ سب حرف۔۔جس میں مجھے ہمیشہ ناکامی ہوئی ۔۔۔
میں اپنی بات ختم کر کے پلٹنے لگا تو دور پہلی قطار میں بیٹھی سیاہ چشمہ لگائے ایک تتلی سی لڑکی کھڑی ہوگئی اور ناظرینکے لیے پڑا مائیک ہاتھ میں لے کر بولی۔۔
سر میرا نام قراہ العین ہے۔۔میں اس یونیورسٹی میں فائنل ایئر کی طالبہ ہوں اور رات گئے ایف ایم ریڈیو پر ڈی جے عینی کی بزم ادب کے نام سے ایک بہت مشہور پروگرام بھی کرتی ہوں۔میرے سننے والوں کی بڑی تعداد تک آپ کی شاعریمیرے پروگرام کے توسط سے پہنچی ہے اوہ وہ اور وہ سب آپ سے مزید کچھ نیا سننے کی خواہش رکھتے ہیں۔مگر آپ نے یونیورسٹی کے بعد تازہ کچھ کہا ہی نہیں کیا ہم امید رکھیں کہ آپ پھر سے اپنا ناطہ حرفوںسے جوڑنے کی کوشش کریں گئے؟میں نے مختصر جواب دیا۔۔جی ضرور اگر غم دوراں نے کچھ مہلت دی تو ۔۔۔
ابھی کل رات ہی میں نے اس لڑکی کا پروگرام سنا تھا اور آج اس سے ملاقات بھی ہوگئی۔کھبی کھبی وقت کی چالیں نپی تلی ہوتی ہیں۔تقدیر کھبی کھبیاپنے سکرپٹ بہت دھیمے انداز میں لکھنا شروع کرتی ہے۔ہم معصوم انسان کو قطعا خبر نہیں ہوتی کہ مقدر کا یہ مسودہ آگے چل کر ہم پر کیسی قیامتیں ڈھانے والا ہے۔میں بھی آنے والے محشر سے بے خبر تقریب کے خاتمے کے بعد گھر واپس روانہ ہوا تو کمالی سے رہا نہیں گیا۔۔۔
سر آپ نے کھبی بتایا نہیں۔۔آپ تو بہت مشہور شاعر ہیں۔۔ساری یونیورسٹی آپ کے لیے ہال میں جمع تھی۔۔
میں نے دھیرے سے جواب دیا۔یہ خود میرے لیے بھی ایک خبر ہے اتنے برسوں بعد میرے حرف میری شناخت۔مجھے خود بھی حیرت ہے اس میں حیرت کی کیا بات ہے سر جی۔یہ آج کل کی نوجوان نسل ان چیزوں میں بڑی دلچسپی رکھتی ہے۔ایف ایم انٹرنیٹ اور حتی کے سیل فون بھی ہر دم ان چیزوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں یہ میر ۔درد ۔غالب اور اقبال کو بھی ہم سے زیادہ جانتےاور سمجھتے ہیں سر۔۔
بظاہر بڑی لاابالی ہے یہ نئی نسل۔مگر اپنے مطلب کی چیز پڑھتی اور سنتی ہے۔چاہے کتاب کے ذریعے یا کسی اور طرح میں چپ رہا۔۔ارے ہاں سر۔۔یاد ایا۔۔وہ ایف ایم کی ڈی جے لڑکی نے آپ کا سیل نمبر مانگا تھا۔رات کو اپنے پروگرام میں براہ راست شرکت کی دعوت دینا چاہتی تھی۔میں نے آپ سے پوچھے بنا نمبر تو دے دیا مگر خاص تاکید کیہے کہ پہلے آپ خود بات کرکے اجازت ظلم کر لیں۔۔۔اور پھر رات گئے میرے موبائل فون پر ایک اجنبی نمبر جگمگانے لگا۔تیسری کال پر مجبورا مجھے فون اٹھانا پڑا۔دوسری طرف وہی تھی معاف کیجیئے گا سر۔۔شاید آپ کے مینیجر نے آپ کو میری درخواست نہیں پہنچائی۔۔میں ڈی جے عینی ہوں۔۔میں اپنے پروگرام میں آپ کو لائیو کال پر مدعو کرنا چاہتی ہوں۔۔ہم آپ کے صرف دس منٹ لیں گئے اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوتو میں نے کچھ لمحے توقف کیا۔میرے پاس کہنے کے لیے کچھ خاص نہیں ہے کیا پوچھنا چاہتی ہیں آپ ۔۔وہ ممونیت سے بولی کچھ عام سے سوال آپ کی زندگی کے بارے آپ کی کامیابیوں کے بارے آپ کی ادب دوستی کے بارے سنا ہے شہر کے سبھی بڑئ ادبی تقریبات قوت مسقبل کے منصوبوں میں آپ کا حصہ ضرور ہوتا ہے۔میں یہ سب کچھ آپنےسامعین تک پہنچانا چاہتی ہوں آپ کی ترقی کا راز جاننا چاہتی ہوں عام طور پر ادب سے جڑے لوگوں کو یہ معاشرہ مادی ترقی سے بہت دور سمجھا ہے۔۔یہ ادب شاعر عموما مفلوک الحال دکھائی دیتے ہیں مگر آپ نے صرف خیالی ہی نہیں حقیقی دنیا بھی فتح کرکے دکھایا ہے میں یہ سب باتیں جاننا چاہتی ہوں میں اس کی بات سن کر اجنبھے میں پڑ گیا مگر آپ کو میرے بارے میں اتنا کچھ کیسے پتہ ہے ۔۔وہ ہنسہ پڑی جیسے بہت دور کسی مندر میں ایک ساتھ بہت سی گھنٹیاں بج اٹھی ہوں احمد سر نے بتایا اور پھر میرے ریڈیو پروگرام کی وجہ سے شہر کی تقریبا سبھی بڑی ادبی ہستیوں کے ساتھ ملاقات ہوتی رہتی ہے۔سبھی سے آپ لے بارے کچھ نہ کچھ سننے کو ملتا رہتا ہے۔سچ کہوں تو لوگ بہت متجس رہتے ہیں آپ کے بارے وہ اپنی دھن کی پکی لگتی تھی میرے لاکھ ٹالنے کے باوجود وہ مجھ سے اپنے اگلے روز کے پروگرام کے لیے کچھ منٹ لینے میں کامیاب ہو ہی گئی اور میں اگلے دن تمام وقت اسی الجھن میں مبتلا رہا کہ اس کے ساتھ رات کو کیا بات کروں گا؟میں نے بہت زمانے پہلے خود سے بات کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔شام تک الجھن اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ میں نے اپنے پی اے کو عینی کا وہی فون نمبر ملانے کا کہا جو گذشتہ رات میرے موبائل پر جگمگایا تھا۔پی اے نے کال ملا کر میری طرف ٹرانسفر کی تو دوسری جانب سے اس کی بے یقین اور کھلکھلائی سی آواز سنائی دی۔۔ارے سر آپ کتنا حسین اتفاق ہے مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ آپ نے خود مجھے کال کی میں ابھی رات کے پروگرام کی تیاری پی کر رہی تھی۔۔
میں نے دھیرے سے کہا۔۔آپ سے ایک درخواست کرنی ہے کیا ہم گزشتہ رات کیے ہوئے معاہدے کو کچھ فن کے لیے آگے بڑھاسکتے ہیں۔۔اگر ممکن ہوتو۔۔جی سر۔۔کیوں نہیں۔مگر کوئی خاص وجہ۔۔۔؟ پتہ نہیں وجہ شاید خاص پے بھی اور نہیں بھی دراصل میں بہت الجھن سی محسوس کر رہا ہوں۔مجھے اپنے بارے میں بات کرنا کھبی پسند نہیں رہا آپ کچھ وقت دیں گی تو شاید خود کو تیار کر پاوں۔ورنہ میرے لیے بہت مشکل ہوگا۔دوسری جانب کچھ دیر کے لیے خاموشی چھائی رہی ٹھیک ہے سر جیسے آپ کو مناسب لگے...
مجھے آپ کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ آپ نے پروگرام سے کافی دیر پہلے خود فون کر کے معذرت کرلی۔ورنہ عام طور پر بڑے لوگ ہمیں اطلاع دینا بھی پسند نہیں کرتے اپنی کسی غیر حاضری کی مگر آپ کو یہ وعدہ تو بہر حال کرنا پڑے گا کہ آپ جب بھی خود کو ذہنی طور پر تیار کر پائے تو یہ معاہدہ پورا ضرور کریں ۔۔۔
میں ہنس پڑا۔ہاں۔چلیں وعدہ نبھانے کا ایک اور وعدہ سہی میری مشکل سمجھنے کا شکریہ۔۔۔
میں نے فون کاٹ دیا مگر کہیں دور کوئی دوسری لائن جڑ رہی تھی۔میرا ناداں دل سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہر نتیجے سے بے پرواہ پھر سے دھڑکا چاہتا تھا اور میں بر
ی سختی اور بے رحمی سے اسے صاف ایک ہی بات ساری رات سمجھاتا رہا کہ کچھ دلوں کے مقدر صرف بہتر کی گنتی پوری کرنا ہوتا ہے۔وہ کچھ اور قلب ہوتے ہوں گے کہ جن کی تقدیر میں دھڑکنیں ہوتی ہیں۔بڑے ناداں ہیں وہ لوگ جو اپنے دل کے ایک فرض کو دھڑکنے سے تشبیہہ دیے پھرتے ہیں۔مگر یہ دل بھلا کب کسی کی سننے ہیں منہ زور آزاد وحشی اور جنگلی گھوڑے بھلا کس لگام کے قابو آتے ہیں؟؟
میرا دل بھی بے لگام ہونے کو آیا تھا اگلے روز نہ چاہتے ہوئے بھی میں سارا دن اس کے فون کا انتظار کرتا رہا اور پھر ڈھلے جب تھک ہار کر میرے بے چین من اپنی بے وقوفی پر مسکرا کر کچھ آرام پانے کو تھا تبھی اچانک اس کا فون آگیا قسمت کی آنکھ مچولی وقت کا انتخاب خوب چن کر کرتی ہے۔اور پھر ان ٹیلی فون کالز دورانیہ اور تعداد بڑھتی گئی ہم بہت عام سی باتیں کرتے تھے دن بھر کی مصروفیت کی شام کی چائے کی رات کی چہل قدمی کی مگر یہ باتیں میرے لیے کتنی خاص تھی یہ صرف میں ہی جانتا تھا اس دن یونیورسٹی کی تقریب والی ملاقات کے بعد میری آج تک دوبارہ کھبی عینی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی نہ ہہیں نے دوبارہ کھبی اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔یہ ٹیلی فون کی آدھی ملاقات میرے لیے کسی بھی بالمشافہ ملاقات سے ک ں بڑھ کر تھی۔میں دوبارہ عینی کے سامنے نہیں جانا چاہتا تھا۔اس نے ہال میں مجھے کافی فاصلے سے اور ملگھجے اندھیرے میں دیکھا۔میں اپنے اور اس کے درمیان یہ اندھیرا ہمیشہ حائل رکھنا چاہتا تھا۔مجھے دن اور روشنی میں اس سے ملنے کی تمنا ہی بھلا کب تھی۔میرا بس چلتا میں اللہ سے دعا کرتا کہ چوبیس گھنٹوں میں سے دن کے بارہ گھنٹوں کی روشنی بھی کشیدہ کرلے۔کیونکہ مجھے آجالے کھبی روس نہیں آتے تھے۔اگلے روز میرے اسٹاف نے خوبصورت سجاوٹی کاغز میں پیک شدہ ایک پارسلیتے میز پر رکھ دیا۔بیجھنے والے پتے میں قراہ العین۔عرف عینی انصاری کا نام درج تھا میں نے سب کے جانے کے بعد احتیاط سے کاغذ کی پرتیں کھولیں۔اندر سے ایک خوبصورت سا نمائشی مجسمہ برآمد ہوا جسے کمرے میں کہیں بھی شوپیس کے طور پر رکھا جاسکتا تھا۔میں نے جلدی سے عینی کا نمبر ملایا۔دوسری جانب سے اس کی کھنکتی ہوئی آواز ابھری میں جانتی تھی سر آپ کا فون آتا ہی ہوگا کیسا لگا تحفہ؟بہت اچھا مگر موقع محل سمجھ نہیں سکا میں اس تحفے کا آپ نے تکلف کیا عینی وہ ہنسی ۔
۔ارے نہیں سر بالکل بھی تکلف نہیں ہے یہ میرا مشغلہ ہے فارغ وقت میں میں مٹی اور پلاسٹر آف پیرس کے مجسمے بناتی ہوں۔میری اپنی ایک چھوٹی سی آرٹ گیلری ہے میرے گھر کے اندر بس وہی یہ مشق جاری رہتی ہے۔کھبی آپ آئیں نہ وقت نکال کر میں آپ کو اپنا کام دکھاوں گی میں بولتے بولتے اٹک سا گیا مگر آپ اور کیا کچھ کرتی ہیں۔۔۔؟
ایک کی بار اپنے سارے ہنر بتا دیں کھبی کھبی کھبی حیرت درد حیرت بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے دوستوں کے لیے میری بات سن کر وہ شرما سی گئی نہیں نہیں مجھ میں بھلا کیا ہنر ہوگا بس وقت کاٹنے کے بہانے تلاشی ہوں بات آئی گئی ہوگئی میرا بھوکا من اس لڑکی کے ہنر کا شکار ہوتا گیا۔دل موہ لینا بھی ایک ہنر ہی ہے شاید دنیا کا سب سے بڑا ہنر اور میں اس کی اس کاریگری سے خود کو بچا نہیں پا رہا تھا مگر پھر ایک دن ہمیشہ کی طرح بنتی بگڑنے لگی۔شام سے ہی میری طبیعت عجیب سی بے چین اور اداس تھی مجھے ایک بار پھر اپنے اس پاس سب کچھ اور بے فائدہ دکھائی دے رہا تھا۔دل کو چپ سی لگ گئی ہوتی تھی کہ اچانک عینی کا فون آگیا کہاں غائب رہتے ہیں سر آپ؟؟
بہت دنوں سے آپ سے ایک بات کہنا چاہ رہی ہوں مگر آپ کی مصروفیت کا خیال آڑے آجاتا ہے میں نے گہری سانس لی میری مصروفیت بس ایک فرار ہے آپ کہیں کیا ملا چاہتی ہیں وہ کچھ دیر چپ رہی دراصل آپ کا ایک مجسمہ بنانا چاہتی ہوں پھر میں اسے ساری دنیا کو دکھاوں گی جانے کیوں پل بھر میں ہی میرے اندر بہت کچھ ٹوٹ گیا مجھے لگا کہ ساری دنیا کی طرح وہ لڑکی بھی آج میرا مذاق اڑانے کے موڈ میں ہے۔اس نے مجھے دور سے ہی سہی مگر دیکھ تو رکھا تھا ضرور اس نے درپردہ میرے چہرے کی تضحیک کا یہ طریقہ نکالا ہے میرا لہجہ نہ چاہتے بھی تلخ ہوگیا مجسمے خوبصورت چیزوں کے بنائے جاتے ہیں مس عینی انصاری اور میں؟بہر حال مجھے آپ سے اس مذاق کی امیر ہرگز نہیں تھی آپ بھی دوسروں کی طرح ہی نکلیں میں نے فون پٹخ دیا وہ ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی میں نے اگلے پورے ہفتے اس سے بات نہیں کی دفتر کے نمبر پر فون آیا تو اسٹاف سے کہہ دیا کہ مصروفیت کا بہانہ کر دے اس نے کچھ خط بھی بھیجے مگر میں نے پڑے بنا ایک طرف رکھ دیے اور پھر آٹھویں دن وہ خود میرے دفتر آگئی میں آفس میں داخل ہوا تو وہ پہلے سے میرے انتظار۔ میں بیٹھی تھی ہمیشہ
کی طرح آج بھی سیاہ چشمہ اس کے گورے رنگ پر پہرہ جمائے بیٹھا تھا وہ بولی تو اس کی آواز رندھیا سی گئی جیسے وہ بہت دیر روتی رہی ہو آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟؟
میں چلا اٹھا۔اپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟میری صورت کا مذاق ہی اڑانا تھا تو کوئی اور طریقہ اپنا لیتیں مگر یہ مجسمہ۔۔۔؟؟
وہ رو پڑی میں آپ کا مذاق بنانے کا کھبی سوچ بھی نہیں سکتی بہت عزت کرتی ہوں میں آپ کی آپ جانتے آپ میرے لیے کیا ہیں میں نے تو بنا دیکھے ہی آپ مجسمہ اپنے میں بنا رکھا ہے میں نے چونک کے اس کی طرف دیکھا آپ کیا چاہتی ہیں؟اس نے اپنی آنکھوں ہر شے چشمہ اتارا میں دیکھ نہیں سکتی۔نابینا ہوں میں ایک زور دار جھماکا سا ہوا اور میرے ارد گرد تمام کمرے میں اس کی بے نور آنکھوں کا اندھیرا پھیلتا چلا گیا۔۔۔
پیاس کہتی ہے اب ریت نچوڑی جائے
اپنے حصے میں سمندر نہیں سنے والا
میں سکتہ زدہ سا بیٹھا اسے دیکھتا رہا اور وہ روتی رہی۔قسمت کے کھیل واقعی نرالے ہوتے ہیں۔میرا بے وقوف دل مجھ سے آنکھ نہیں ملا رہا تھا۔صدیوں بعد جس کی ایک نظر پڑ اسے آپنے ہونے کا گمان ہوا تھا وہ نظر تو سدا کی بے نور تھی اور میں ناجانے کن خوش فہمیوں کا شکار ہو چلا تھا میں آپ سے معافی نہیں مانگ سکتا جانے غصے میں کیا کچھ کہہ گیا۔میرے اندر کا چور تھا جو چپ نہیں رہ سکا عینی نے سر اٹھایا۔آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟میں نے آپ کو ہمیشہ آپ کے لفظوں کے آئینے میں دیکھا ہے۔اور میں نہیں جانتی کہ اتنی خوبصورت سوچ رکھنے والا شخص بد صورت ہوسکتا ہے دوبارہ ایسی بات کھبی نہیں کہیئے میں نے دکھ سے اس کی طرف دیکھا۔۔
میرے کہنے یا نہ کہنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی سچ وہی ہے جو میں آپ کو بتا چکا ہوں۔اس داغدار چہرے کا مجسمہ بنا تو جو بات آج تک صرف میرے اردگرد والوں کے علم میں ہے۔کل سارے شہر میں پھیل جائے گی اور لوگ مذاق اڑائے گے کہ یہ پری زاد کو کہا سوجھی؟
عینی نے اپنا چشمہ دوبارہ اپنی آنکھوں پر جمایا اور کھڑی ہوگئی میں دیکھ نہیں سکتی اپنی انگلیوں کے پوروں سے چیزیں چھوکر انہیں مٹی کے مجسموں کے قالب میں ڈھالتی ہوں۔مگر آپ کو دیکھنے کے لیے مجھے اپنی دیواروں کی مدت کی ضرورت بھی نہیں ہے پری زاد۔۔آپ کے لفظ خود آپ کا تعارف ہیں میں نے ایک گہری سانس لی۔۔
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ۔۔
مگر میری تم سے اب بھی یہی درخواست ہے کہ یہ خیال دل سے نکال دو عینی انصاری۔وہ پلٹنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے رکی میں اپنی گیلری میں آپ کا انتظار کرو گی پری زاد
وہ پلٹ کر چکی گئی اور میرے کمرے میں صرف اس کی خوشبوں رہ گئی آج میں نے پہلی بار اسے آپ نہیں تم کہا اور اس نے پہلی بار مجھے سر یا صاحب نہیں صرف پری زاد کہہ کے پکارا تھا یہ طرز تخاتب اور القابات بھی تو ہمارے اندر کے بدلے رویوں اور رشتوں کا ایک اظہار ہوتے ہیں دل کی میٹھی بولیاں اپنے القاب خود طے کرتی ہیں اگلی شام میں جھجکتے قدموں کے ساتھ عینی کے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔گھر کے نچلے حصے میں عینی اور اس کی ماں رہتے تھے جبکہ اوپر والا حصہ انہوں نے کسی چھوٹے خاندان کو کرائے پر دے رکھا تھا عینی کی والد کافی عرصہ پہلے خالق حقیقی سے جا ملے تھے اور اب یہی کرایہ ان ماں بیٹی کی گزر بسر کا ذریعہ تھا۔گھر کے پچھلے حصے میں عینی نے اپنے لیے ایک چھوٹی سی آرٹ گیلری بنا رکھی تھی مجسمہ سازش شروع کرنے سے پہلے عینی نے اپنی نازک مہکتی انگلیوں سے میرے چہرے کے مختلف زاویوں سے ٹٹول کر دیکھا ٹھنڈک اور بے پناہ سکون کا ایک سمندر اس پوروں کے لمس سے میرے سارے وجود کی گہرائیوں تک سرایت کر گیا میں جھلستی ہوئی تپتی روح کے جیسے خنک برف کا پہاڑ سا مل گیا میری تمام عمر کی ریاضتوں کا حاصل وہ اس کے ہاتھوں کے مہربان لمس عینی نے کام شروع کردیا۔۔
میں چپ چاپ بیٹھا دیکھتا رہا اس نے مجھے بتایا کے اسے مجسمہ بنانے میں تین چار دن لگیں گئے میرا جی چاہا کہ میں اس سے کہوں کت تین چار صدیاں کیوں نہیں۔۔؟؟
میری زندگی میں وہ پہلی مہہ وش تھی کہ جس خوش ادا کی کی اتنی قربت اور نزدیکی مجھے شرمندہ اور پریشان۔ نہیں کر رہی تھی کیونکہ اتنے قریب موجود ہوتے ہوے بھی دوسروں کی طرح اس کی نظریں میرے چہرے کے آر پار نہیں ہورہی تھیں۔نہ ہی مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر کوئی مخصوص طنزیہ مسکراہٹ ابھری تھی عام طور پر جیسے ہی کوئی میری طرف نظر بھر کر دیکھتا میری نظریں اگلے ہی پل خود بخود جھک جایا کرتی تھی لیکن عینی کے کومل چہرے کو گھنٹوں دیکھتے ہوئے مجھے ذرا سی بھی جھجک محسوس نہیں ہوئی تھی۔کیونکہ مجھے اس سے نظر ملنے کا ڈر نہیں تھا کتنی بڑی آزادی تھی یہ میرے لیے۔یہ کوئی مجھ جیسوں سے پوچھے ۔۔
ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتے میں اگلے دن اور پھر شام ہونے کا انتظار کرتا رہا۔جب مجھے دوبارہ عینی کی گیلری پہنچنا تھا صبع سے دوپہر بھی نہیں ہوئی تھی کہ مجھے پہروں کی طوالت کا شبہ ہونے لگا یہ دن خو چار پہروں میں کیوں تقسیم کردیا گیا ہے؟پہلا پہر دوپہر سہ پہر پھر شام کہا ضرورت تھی بھلا وقت کو اتنے حصوں میں بانٹنے کی نس صبع ہوتی اور شام ہو جایا کرتی تو کتنا اچھا ہوتا۔اس جیسے نہ جانے کتنے مزید بے سرو پا خیالات میرے ذہن میں جالے بن رہے تھے جب اچانک پی اے نے انٹر کام پر مجھے بتایا کے میڈم شہہ پارہ مجھ سے ملنے کے لیے آئی ہیں۔میں شہہ پارہ عرف آمنہ کو اپنے دفتر میں دیکھ کر کچھ حیران سا تھا میرے لیے وہ آج بھی وہی پرانی آمنہ تھی۔وہ کچھ پریشان دکھائی دے رہی تھی میں تم سے ای درخواست کرنے آئی ہوں پری زاد میرا فلمی کیریئر سیٹھ رحمان کی وجہ سے برباد ہوگیا۔میں بہت پیچھے رہ گئی ہوں کیا تم میری سفارش کسی بڑے پروڈیوسر سے کرسکتے کو؟بڑی دھاک ہے تمہاری پورے شہر میں تم کیو گے تو میں پھر سے اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوجاوں گی میں نے الجھن سے اس کی طرف دیکھا لیکن میں تو کسی بڑے پروڈیوسر سے واقف بھی نہیں ہوں آمنہ۔وہ مایوس ہوگئی ہاں۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔۔جانے میں کس پریشانی میں بنا سوچے سمجھے یہاں چکی آئی تمہارا کاروبار اور فلمی دنیا بالکل جدا ہیں وہ واپس جانے کے لیے پلٹی میں نے اسے آواز دے کر روک لیا ٹھہرو آمنہ تم چاہو تو میں خود تمہاری فلم میں سرمایہ کاری کرسکتا ہوں۔کتنے میں بم جاتی ہے یہ ایک معیاری فلم؟
وہ خوشی سے بے یقین ہوگئ۔۔۔
سچ تم خود پروڈیوس کرو گے میری فلم۔۔واہ۔۔۔اس سے اچھی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے۔مگر اس کاروبار میں آج کل نقصان کا زیادہ خطرہ رہتا ہے پری زاد۔۔میں ڈرتی ہوں کہ کہیں تمہاری رقم پی نہ ڈوب جائے تمہیں کوئی تجربہ بھی نہیں ہے فلم پروڈکشن کا۔۔۔
میں نے مسکرا کر اس کی زلف پریشان کے غم کو دیکھا۔چلو اس بہانے رقم ڈبونے کا قیمتی تجربہ تو حاصل ہوجائے گا نہ۔تمہاری فلم کے بدلے یہ تجربہ بھی سہی۔ویسے۔بھی میں نے سنا ہے کہ کہ فلمیں دل سے بنائی جاتی ہیں دماغ سے نہیں تو پھر دل کے سودوں میں نفع نقصان کی فکر بھلا کیسی؟دل ملوث ہونا ہی خسارے کی نشانی ہے امنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور اس نے غرب جذبات میں میرا ہاتھ پکڑ لیا نہیں میں تمہارا نقصان نہیں ہونے دو گی پری زاد۔۔۔میں بہت محنت کروں گی بے حد زیادہ میری زندگی کئ سب سے یادگار پرفارمنس ہوگی یہ فلم کہانی میں نے لکھوالی ہے اگر تمہیں پسند ہوتو میں رائٹر سے اسی کہانی پر کام کرنے کا کہہ دیتی ہوں مگر تمہیں کچھ وقت نکالنا ہوگا اس فلم کے لیے میں تمہاری موجودگی میں بہت سہارہ محسوس کرتی ہوں امنہ چلی گئی اور میں شام کو کسی معمول کی طرح عینی کی گیلری پہنچ گیا اسے گیلی مٹی گوندھتے دیکھ کر نا جانے مجھے ہر بار ایسا کیوں لگتا تھا جیسے مٹی بھی اپنی قسمت پر رشک کرتی ہوگی کہ کس کے ہاتھوں اس کا مجسمہ بننے جارہا ہے اس شام ہم دونوں نے خوب باتیں کیں سب لڑکیاں ایک جیسی باتیں کرتی ہیں مگر اس کا انداز بیاں کا قدر جدا تھا وہ جب رنگوں۔خوشبووں ڈھلتی شاموں اور راتوں کے طلسم کا ذکر کرتی تو میں دم بخود اسے دیکھتا رہتا
قسط 22
رات کو ساڑھے آٹھ بجے میں عینی کے گھر سے نکلا تو ہوا تیز چل رہی تھی۔آسمان پر بادلوں کے جھنڈ حیرت سے نئے پری زاد کی طرف دیکھ کر کر سرگوشیاں کر رہے تھے راستے میں ہی چند بوندوں نے ٹیک کر میری گاڑی کی ونڈ سکرین سے گاڑی کے اندر جھانکا اور مجھے دیکھ کر ایک دوسرے کو اشارے کرتی ہنستی ہوئی برستی بارش میں اپنی دوسری سہیلیوں سے جا ملیں۔کبیر خان حسن معمول چوکنا سا ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا ارد گرد نظر رکھے ہوئے تھا۔اتنے میں آمنہ کا نمبر میرے سیل فون پر جگمگانے لگا۔
پری زاد۔۔۔کہاں ہو تم۔۔؟
اجنبی شہر کے اجنبی راستے۔۔اور میں۔۔۔وہ ہنس پڑی۔
اسٹوڈیو آسکتے کو ابھی۔۔مجھے تمہیں کسی دے ملانا ہے
میں نے کبیر خان کو اسٹوڈیو چلنے کا کہا۔ہم ویران سے فلم اسٹوڈیو کے گیٹ پر پہنچے تو چند عجیب سے حلیے والی عورتیں اور مرد ہمیں اندر گھومتے نظر آئے۔عجیب دی اداسی اور ویرانی چھائی ہوئی تھی سارے ماحول پر جیسے کوئی اور برپا ہو۔۔ہم ڈائریکٹر کے کمرے میں داخل ہوے تو وہاں پہلے سے کچھ لوگ موجود تھے۔کبیر کا حلیہ اور کاندھے سے لٹکا پسٹل دیکھ کر وہ سب کچھ حیران ہوگئے میں نے کبیر خان کو باہر انتظار کرنے کا کہا۔مگر میں جانتا تھا کہ وہ دروازے کے باہر ہی جما کھڑا رہے گا نئی جگہ اور نئے ماحول میں وہ سائے کی طرح میرے ساتھ رہتا تھا۔آمنہ نے ڈائریکٹر اور باقی لوگوں سے میرا تعارف کروایا۔ایک جانب کونے میں ایک بوڑھا شخص ہار مونیم سامنے راکھے بیٹھا ہوا تھا اور اس کی آڑ میں سمٹی سمٹائی ایک شرمیلی سی لڑکی چھوئی موئیسی بنی بیٹھی تھی۔جو اس دفتر کے ماحول سے بالکل میل نہیں نہیں لگا رہا تھا۔باقی لوگوں کی چھبی ہوئی نظریں لڑکی کے جسم لے آر پار ہو رہی تھیں مگر میرے آتے ہی ڈائریکٹر نے فالتو عملے کو باہر بھیج دیا تو لڑکی کے جسم کا کا تناو کچھ کم ہوگیا۔مگر ابھی تک وہ وہی دبکی ہوئی تھی۔آمنہ نے مجھے بتایا کہ وہ عمر رسیدہ شخص استاد بنے خان ہیں مشہور موسیقار اور اس کے پہلو میں سمیٹ ہوئی لڑکی سنبل ہے استاد بنے خان کی بیٹی۔اور آج وہ دونوں آمنہ کی آنے والی فلم کی دھنوں پر کام کرنے کے لیے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ڈائریکٹر ایک پکی عمر کا تیز طرار سا بندہ تھا جسے فلم ملنے کی بے حد خوشی تھی لیکن کہیں اندر سے کوئی بے یقینی بھی اسے کھائے جارہی تھی
بس پری زاد صاحب کیا بتاوں آپ کو۔۔کھبی یہی فلم اسٹوڈیو تھا کے چوبیس گھنٹے کام کی شفٹ چلتی رہتی تھی۔کہیں ندیم صاحب تو کہیں محمد علی صاحب۔کہیں شاہد تو کہیں وحید مراد کوئی نہ کوئی شوٹنگ جاری رہتی تھی۔یہ جو فوارہ آپ نے نیچےدیکھا ہے ناں۔یہاں تو ایک وقت تین تین گانے شوٹ ہوش کرتے تھے۔بس پھر ناجانے کیا ہوا سب برباد ہوتا چلا گیا اب تو سال بھر میں ایک آدھی فلم بنتی ہے اور اس کا بھی کچھ پتا نہیں چلتا۔سینکڑوں کاریگر اور سن کے خاندان بے روزگار ہوگئے۔۔
وہ مزید بنا رکے یونہی بولتا رہا رہتا اگر آمنہ اسے اشارہ کرلے روک نہ دیتی آمنہ پی کہنے پر ڈائریکٹر نے مجھے فلم کی کہانی سنائی بنیادی پلاٹ محبت کی کہانی پر مرکوز تھا۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ دنیا میں صرف تین چار کہانیاں ہی پائی جاتی ہیں۔باقی ساری کہانیاں انہی کہانیوں میں جنم لیتی ہیں اور مجھے یہ پڑ کر ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی تھی تین چار کی جگہ اگر صرف ایک محبت کی کہانی ہوتی تو وہ بھی اس کائنات کے لیے کافی تھی۔درمیان میں ڈائریکٹر ہمیں گانے کی سچویشن اور مقام بھی بتاتا رہا اور کہانی کے اختتام کے بعد استاد بنے خان اپنا ہار مونیم اٹھائے کمرے کی وسط میں بیٹھ گئے۔سنبل بھی استاد کے ساتھ سمٹ کر بیٹھ گئی اور استاد نے راگ چھیڑ دیا۔لڑکی کی آواز واقعی سریلی تھی اور گلے میں بلا کا لوچ تھا وہ گانے کے دو بول دہراتی اور پھر گھبرا کر میری طرف اپنی ہرنی جیسی آنکھیں اٹھا کر دیکھتی کہ میں دل چسپی لے رہا ہوں یا نہیں فن کو ہمیشہ ستائش کی تمنا ہوتی ہے اور شاید فن کار کو اپنے قدر دانوں کی نظریں پڑھنے کا فن آتا ہے۔
جب بارش کی پہلی بوند گرے
تم چلے آنا
میرا سندیسہ ملے نہ ملے
تم چلے آنا ۔۔
باہر برستی بارش کے جلترنگ کے ساتھ مل کر استاد بنے خان کے سر اور سنبل کی سریلی آواز ایک عجیب دا ماحول پیدا کر رہے تھے۔استاد نے مجھے بتایا کے اس کی بیٹی نے بی اے کر لیا ہے مگر اب وہ اسے آپنے آبائی فن میں متعارف کروانا چاہتا ہے۔یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ شہہ پارہ بیگم نے انہیں اپنی نئی فلم میں موقع دینے کا وعدہ کیا ہے مگر یہ سب میری منظوری پر منحصر ہے۔استاد کسر نفسی کا پیکر تھا اور اس کی اور بیٹی کی خستہ حالی ان دونوں کی حالت بھی پوری طرح بیاں کر رہی تھی۔مجھے ایک اور واضع دار شخص لگا جیسے یقینا کسی بہت بڑی مجبوری نے یوں بیٹی کو فلم انڈسٹری کے ماحول میں بطور گکوکارہ متعارف کروانے پر اکسایا تھا۔جب استاد نے لجاجت سے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے سن باپ بیٹی کا فن پسند آیا کہ نہیں تو میرے لب کپکپا سے گئے۔۔
یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں۔مجھے تو ٹھیک طرح سے سننا بھی نہیں آتا۔میں بھلا آپ کے فن لی جانچ کیسے کر سکتا ہوں۔آپ کی ریاضت اور محنت نے آپ کو اس مقام پر پینچایا ہے کوئی ہنر مند ہی آپ کو سہی داد دے سکتا ہے۔۔
استاد بنے کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔آمنہ نے موضوع بدل لیا آپ کن باتوں میں پڑ گئے ماسٹر جی۔۔پری زاد صاحب کی یہ پہلی فلم ہے استاد بنے نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگایا ہاں ۔۔پر ادب والے ہیں۔۔شاید اس لیے آج اسی مقام پر ہیں میں نے آمنہ سے ڈبے لفظوں میں دوبارہ کہا وہ ان تمام فیصلوں کی خود مختار ہے۔مجھے ان بکھیڑوں سے دور ہی رکھے مگر وہ نہیں مانی اور اگلی رات کے لیے پھر سے فلم کی دوسری میٹنگ رکھ دی گئی۔ہم لوگ چائےپی کر رخصت ہوئے تو گیٹ کے قریب میں نے استاد بنے اور سنبل کو سڑک کنارے انتظار کرتے دیکھا۔میں نے شیشہ نیچے کر کے پوچھا تو پتا چلا کہ رکشہ یا ٹیکسی کے انتظار میں کھڑے ہیں ان کے لاکھ انکار کے باوجود میں انہیں گاڑی میں بیٹھا لیا بارش تیز تر ہو چکی تھی ہماری گاڑی اندرون شہر کی چند تاریک گلیوں سے ہوتی ہوئی ایک پرانے محلے کے بوسیدہ سے لکڑی کے پھاٹک نما گیٹ پر کھڑی ہوئی۔استاد نے بہت اصرار کیا کہ میں ایک کپ چائے پی کر جاوں مگر میں نے معذرت کرلی اس کی بیٹی نے مجھے ڈبے لفظوں گھر آنے کا کہا میں نے پھر کھبی آنے کا وعدہ کر لیا وہ دونوں ہماری گاڑی نکلنے تک وہی کھڑے رہے اگلی شام میں ٹھیک چار بجے عینی کی گیلری میں اسے کے سامنے بیٹھا تھا۔جیسے ایک پڑھاکو بچہ ٹھیک وقت پر اپنی جماعت میں پہنچ کر سبق سنانے کے لیے آپنی باری کا انتظار کرتا ہے میں عینی کو فلم کے بارے بتایا تو خوشی سے چلائی فلم ۔۔۔واہ۔۔۔پری زاد میں آرٹ ڈائریکٹر بنوں گی۔ساری سجاوٹ میری طے کردہ ہوگی ہر سیٹ پر میری بنائی ہوئی مورتیاں ہوں گی ٹھیک۔
ہاں ہاں ٹھیک ہے مگر پہلے میرا مجسمہ تو مکمل کردو کہیں اس فلم کے جھمیلے میں ہمارا کام ہی نہ رہ جائے وہ میری بات سن کر زور سے ہنس پڑی سناٹے میں یک لخت بہت سے جھرنے پھوٹ پڑے۔میں سحر زدہ سا بیٹھا اسے کام کرتے دیکھتا رہا زندگی بس اسی دورانیے کا نام ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا مگر اچھے وقت کی طرح یہ پل بھی پل بھر میں کٹ گئے اور مجھے اٹھنا پڑا واپسی پر میں نے ڈرائیور کو گاڑی اسٹوڈیو کی طرف موڑنے کا کہا تو کبیر اپنے چہرے کے تاثرات چھپا نہیں پایا ۔۔
صاحب اجازت دو تو ایک بات بولے
میں چونک کر اسے دیکھا
ہاں بولو ۔۔
وہ اگلی سیٹ پر اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ذرا سا کسمسایا
صاحب فلم اسٹوڈیو کا علاقہ محفوظ نہیں ہزار دوست ہزار دشمن ہوتا ہے بندے کا میں نے چونک کر کبیر کی طرف دیکھا وہ تبھی اپنی زبان کھولتا تھا جب اسے ضرورت محسوس ہوتی تھی۔میں جانتا تھا کی میری وجہ سے شہر میں بہت سوں کی ترقی رک چکی تھی۔ہر بڑا ٹینڈر میرے نام کھل رہا تھا میری دولت کا مقناطیس اپنے جوبن پر تھا جو مایا کا کوئی بھی ذرہ اپنے سے دور جانے نہیں دیتا تھا اور یقینا یہ بات بہت سوں کو جلاتی بھی ہوگی ۔۔
گاڑی اسٹوڈیو کے احاطے میں داخل ہوئی تو حسب معمول چند آوارہ کتوں نے ہمارا استقبال کیا۔ڈائریکٹر کے کمرے میں نشت جمی ہوئی تھی۔استاد بنے اور سنبل نے تیار کردہ دھنوں پر گیت گنگنائے۔مگر شاعری کچھ عامیانہ سی لگی مجھے آمنہ نے میری بے چینی جان لی ۔۔
پری زاد۔۔تم خود کیوں گیت نہیں لکھتے اپنی فلم کے لیے سنبل نے شاعری کت ذکر پر چونک کر میری طرف دیکھا میں نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا نہیں نہیں مجھے فلمی شاعری کا بالکل بھی تجربہ نہیں بہتر ہے کہ ہم کسی اطجے شاعر سے فلمی گیٹ لکھوالیں سنبل نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور جھجک کر بولی اگر آپ لوگ اجازت دے تو ہمارے محلے میں ایک بہت اچھے شاعر رہتے ہیں دنیا داری سے ناطہ نہیں مگر ضرورت مند بھی ہیں۔۔ہوسکے تو ۔۔وہ کہتے کہتے چپ ہوگئی ڈائریکٹر نے منہ بنایا۔دیکھ لیں گے اسے بھی کون سا ساحر لدھیانوی یا مجروع سلطان پوری چھپا بیٹھا ہے اس کے اندر۔۔
آمنہ شاعری میں دیر کی وجہ سے کچھ پریشان دکھائی دے رہی تھی۔میں نے بنے خان سے کہا کہ ہم بھی چل کر ملتے میں اس شاعر سے۔۔ڈائریکٹر بوکھلا سا گیا ۔۔
ارے کیا بات کرتے ہیں سر جی۔۔آپ کیوں جائیں گئے۔وہ خود آئیں گا یہاں میں نے اس کی سنی اور دوسرے کان سے نکال دی ہم اسٹوڈیو سے باہر نکل رہے تھے کہ اچانک چند لوگ شاہ جی شاہ کہتے ہوے ایک خوش لباس شخص کی طرف لپکے استاد بنے نے بھی آگے بڑھ کر سلام کیا وہ شخص بہت گرم جوشی اور عزت سے بنے خان سے ملا گاڑی آگے بڑھی تو بنے خان نے مجھے بتایا یہ سید نور صاحب ہیں۔۔پاکستان کی فلم انڈسٹری اب بس انہی کے دم سے قائم ہے آج کل بڑی اچھی فلم بنا رہے ہیں۔۔مجاجن
گاڑی بنے خان کے اندھیرے محلے میں پہنچی تو میں بھی ب
آپ بیٹی لے ساتھ نیچے اتر آیا چند گلیاں گزرنے کے بعد وہ دونوں ایک چھوٹے سے کچے مکان کے آگے رک گئے دستک کے جواب میں اندر سے کسی نے لرزتی آوازیں کہا۔۔
اندر آجائیں صاحب۔۔مزار کے دروازے پر دستک نہیں دی جاتی میں سنبل اور بنے کے ساتھ اندر داخل ہوا تو چھوٹے سے برآمدے کے سامنے بنے واحد کمرے کے اندر لالٹین کی کم زور سی روشنی نے مٹیالہ اجالا پھیلا رکھا تھا۔بنے اور سنبل کو دیکھ کر میزبان کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی کھبی ہم خود کو کھبی گھر کو دیکھتے ہیں بان کی جھلنگاسی چارپائی پر لیٹا وہ کم زور سا نوجوان اٹھ بیٹھا معاف کیجیئے گا۔۔کمرے میں ایک ہی کرسی ہے لہذا وہ نہ جانے کیا کہہ رہا تھا مگر میری نظریں اس کے چہرے سے چپک کر رہ گئی تھیں۔وہ بھی میری چھبتی نظریں محسوس کرکے میری جانب متوجہ ہوگیا اور پھر اس کی حالت بھی مجھ جیسی ہی ہو گئی اور وہ بے تابی سے کھڑا ہوگیا اور لپک کر مجھے شانے سے پکڑ کر سرسراتی آواز میں بولا۔۔
پری زاد ۔۔۔یہ ۔۔۔تم ہو ناں ۔۔۔۔
میری آنکھیں نم ہونے لگیں۔۔۔
کیوں۔۔؟یہ چہرہ دیکھ کر بھی نہیں پہچانا کیا۔۔صرف لباس اور حلیہ بدلا پے میرا۔۔مقدر وہی لیے پھر رہا ہوں در بدر میں یونیورسٹی کا تمہارا دوست ناساز۔۔
وہ روتے ہوے مجھ سے لپٹ گیا۔۔کہاں چکا گیا تھا یار۔۔اپنے دوست کو بھی بھلا دیا بنے خان اور سنبل حیرت زدہ اور پریشان سے ہم دونوں کو گلے مل کر روتے ہوئے دیکھ رہے تھے ہاں وہ ناساز ہی میرا یونیورسٹی دور کا واحد دوست۔جس نے میرے اندر چھپی شاعری کی چنگاری کو ہوا دے کر شعلے میں تبدیل کردیا تھا۔سنبل نے جھجکتے ہوئے ناساز سے کہا آپ انہیں جانتے ہیں یہی فلم کے پروڈیوسر ہیں پری زاد اور میں انہی کی فلم کے لیے نغمہ نگاری کے لیے کہا تھا آپ کو ناساز حیرت سے ٹٹول ٹٹول کر دیکھتا رہا۔۔
یہ کیا انقلاب ہے پیارے۔۔سب فتع کر لیا میرے شہہ سوار؟
تو تو واقع ہی فاتح نکلا ۔۔
میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔۔نہیں ۔۔ابھی بھی ہار رہا ہوں بس سونا چاندی جمع ہوتا جارہا ہے زاد راہ کے طور پر۔دل اتنا ہی ویران اور ناکارہ ہے اب تک۔۔وہ زور سے ہنسا یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔کہ وصال یار ہوتا۔۔
بنے خان اور سنبل ہمیں باتوں مصروف دیکھ کر گھر سے چائے وغیرہ کا انتظام کرنے چلے گئے۔ناساز کے گھر کی حالت دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اس کے پاس شاید چائے کے پورے برتن بھی نہ ہوں۔۔وہ پہلے سے بہت زیادہ کمزور اور لاغر لگ رہا تھا۔وہ غور سے میری داستان سنتا رہا اس کے آس پاس دواوں کا ایک انبار سا لگا ہوا تھا یہ تم نے کیا حالت بنا رکھی پے ناساز۔۔کالج کا سب سے خوش پوش اور زندہ دل لڑکا یوں بستر سے لگا پڑا ہے۔۔سب جیت تو ہے نا۔۔۔۔
وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا یاد ہے۔کالج کے دور میں ہم نے چھپ کر ہاسٹل میں وہ سی آر پر فلم دیکھی تھی۔ نمک حرام۔۔۔اس میں وہ شاعر والا گیٹ ہم دونوں کتنا گنگنایا کرتے تھے۔۔میں شاعر بدنام۔۔۔میں چلا ۔۔۔محفل سے ناکام۔۔میں چلا۔۔تو بس یار۔۔۔یہ شاعر جو ہوتے ہیں ناں یہ محفل سے ناکام پی چلے جاتیں ہیں میں نے اسے غور سے دیکھا اور یہ پھولوں جیسی لڑکی۔۔سنبل ۔۔اس شاعر نا کام کی کیا لگتی ہے۔۔؟
اس نے ایک لمبی سی سرد آہ بھری۔پگلی ہے۔۔مزاروں کے سر کھٹکھٹاتی رہتی ہے ۔اب دیکھوں تمہیں پکڑ لائی ہے اور یہ ہی تھے کہ آگئے کوئی روایتی فلم پروڈیوسر ہوتا تو کھبی نہ آتا اتنے میں باہر صحن کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے ناساز کر لیٹے رہنے کا اشارہ کیا اور خود باہر نکل کر دروازہ کھولا رو سنبل چائے کے لوازمات لیے کھڑی تھی آپ نے یہ سب تکلیف کیوں کیا؟میں کوئی مہمان تو نہیں ہوں سنبل وہ رندھیائی ہوئی آواز میں بولی آپ اسے بچا لیں پری زاد صاحب۔۔آپ ہی اسے بچا سکتے ہیں ہمارا واحد سہارا اب آپ ہیں میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا کیوں۔۔ایسا کیوں کہہ رہی ہو آپ ؟؟کیا ہوا ہے ناساز کو سنبل کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
اسے کینسر ہے۔۔اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آخری اسٹیج پر ہے اس کا کینسر میرے پیروں تلے زمین یک دم سرک گئی سنبل چائے رکھ کر کمرے سے نکلی تو میں نے ناساز کا ہاتھ پکڑ لیا چلو میرے ساتھ اب میں تمہیں یہاں نہیں رہنے دو گا دینا کے کسی کونے میں بھی تمہارا علاج ممکن ہو۔تمہیں وہاں پہنچانا میری ذمے داری ہے۔۔اٹھو جلدی کرو ۔۔
ناساز نے مجھے کھینچ کر دوبارہ بیٹھا لیا بہت دیر ہو چکی ہے پری زاد سبجھے یہیں رہنے دو یہ کمرہ یہ تنہائی اب یہی میری سنگت ہے اور پھر یہاں وہ پگلی بھی رو ہے مجھے ام سب کے ساتھ رہنے دو میں مے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا سب میں تمہاری کوئی بات نہیں سنو گا سارہ زندگی دوسروں کو جینے کا درس دیتے رہے اور آج خود زندگی سے بھاگ رہے ہو؟ایسا کیوں کر رہے ہو میرئ یار ۔۔۔؟؟
ناساز نے تھک کر آنکھیں موندھ لیں زندگی خود مجھ سے دامن چھڑانے کی فکر میں ہے پیارے میں ہی ڈھیٹوں لی طرح اسی کے دامن سے لپٹا ہوا ہوں۔ہاں۔اگر اب مر بھی جاو تو کوئی غم نہیں میرے جانے کے بعد تم سنبل کا خیال رکھو گے نا پری زاد میں مے واپس پلٹنے سے پہلے لمحہ بھر کے لیے اسے دیکھا کچھ نہیں ہوگا تمہیں تمہیں کچھ نہیں ہونے دو گا میرے شاعر بدنام کل تیار رہنا تمہیں ڈاکٹر کو دکھانا ہے ناساز نے ہنس کر میری طرف دیکھا اور شرارت سے بولا ۔۔
تشخیص بجا ہے مجھے عشق ہوا ہے
نسخے میں لکھو ان سے ملاقات مسلسل
اگلے روز عینی کی گیلری میں بھی میرا دھیان ناساز کی طرف ہی لگا رہا عینی نے حتمی طور پر چند زاویے درست کیے اور مجسمے کے سامنے سے ہٹ گئی ۔۔
بس جناب ہوگیا مکمل اس کی آواز دے جوش ٹیک رہا تھا بتائیں پری زاد کیسا بنا ہے آپ کا اسکپچر میں اپنی خیالات کی دنیا سے چونک کر کر پلٹا اور پھر میری نظر عینی کے بنائے ہوئے مجسمے پر پڑی تو میری آنکھیں کھلی لی کھلی رہ گئیں بے اختیار اٹھ کر مجسمے کے قریب آگیا میری آنکھیں نم ہونے لگیں اتنا بے داغ خوبصورت مردانہ وجاہت سے بھر پور چہرہ ایسا چہرہ تو میں نے کبھی آئینے میں بھی نہیں دیکھا تھا۔عینی میری حالت سے نے خبر اپنی دھن میں بولے جارہی تھی میں اپنی پوروں کی آنکھوں سے آپ کو ایسا دیکھتی ہوں پری زاد۔۔بتائیں ناں ۔۔کتنا قریب تر ہے یہ آپ سے۔۔؟آپ چپ کیوں ہیں؟بولتے کیوں نہیں؟کیا میں نے بہت بڑا اسکپچر بنایا ہے؟کچھ تو بولیں پلیز ۔۔۔
وہ پریشان سی ہوگئی۔میری آواز لی لرزش خود میرے لیے بھی اجنبی تھی۔نہیں تم نے دنیا کا سب سے خوبصورت چہرہ تراشا ہے مگر میں ایسا نہیں ہوں پیاری لڑکی میں تو وہ ہوں جسے دیکھ کر آئینے بھی آنکھیں پھیر لیتے ہیں سرسراتی ہوائیں گھبرا کر تھم جاتی ہیں سورج مدھم پڑ جاتا اور چاندنی تپتی کرنیں برسانے لگتی ہیں وہ تڑپ کر میرے قریب آئی ایسا کیوں کہتے ہیں آپ میری انگلیوں کی پوریں کھبی جھوٹ نہیں بولتیں یہ میرے من کی تصویریں مٹی کت قالب میں ڈھالتی ہیں سچ بتائیں اس چہرے کے خدوخال آپ کے چہرے جیسے نہیں ہیں کیا میری آواز بھرا گئی ہاں خدوخال نقش آنکھیں سب میرے چہرے سے مشابہہ ہیں مگر جو نور جو وجاہت تمہاری پاکیزہ انگلیوں کی کاریگری نے اس مجسمے میں منتقل کر دیا ہے میرے پاس ایسی کوئی روشنی نہیں وہ رو پڑی کاش میں اسے یہ بات سمجھا سکتا کہ دنیا اس کے کومل من کو آنکھوں سے نہیں دیکھتی۔بڑے ظاہر پرست ہیں یہ لوگ وہ جاننا چاہتی تھی کہ آج میں اتنا اداس کیوں ہوں میں نے اسے آپنی اور ناساز کی دوستی لے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہ وہ کس خبر ناک بیماری میں مبتلا ہے عینی نے ناساز سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور شام ڈھلے اس کے گھر سے واپسی پر اسے بھی آپنے ساتھ ناساز کے پرانے محلے والے گھر لے آیا۔ناساز عینی کو میرے ساتھ دیکھا تو حسب عادت مصرعہ اس کے ہونٹوں سے پھسل گیا ۔۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں ۔
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں..
میں نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔ناساز نے شرارت سے میری طرف دیکھا میں نے اسے گھور کے دیکھا باز آجاو۔۔عینی تم ہی اسے سمجھاوں کہ اپنی ضد چھوڑ کر ہمارے ساتھ چلے دنیا کا کوئی بھی بیماری لا علاج نہیں ہوتی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے عینی اور ناساز بہت دیر تک باتیں کرتے رہے ناساز نے فلم کے لیے لکھے ہوئے نغمے بھی عینی کو سنائے کچھ دیر بعد سنبل بھی آگئی اور حسب معمول دو لڑکیوں کے اکھٹے ہوتے ہی باقی ساری باتیں پس منظر میں چلی گئیں اور وہ دونوں ایک دوسرے میں غم ہوگئیں کہتےہیں دو لڑکیاں جب آپس میں ملتی ہیں تو عموما ڈھائی تین گھنٹے کی تعارفی ملاقات کے بعد ایک دوسرے سے ان کا پہلا سوال وہدے تمہارا نام کیا ہے ؟ہوتا ہے۔وہ دونوں بھی برآمدے میں بیٹھیں شاید ایک دوسرے سے یہی سوال کر رہی تھیںناساز سرک کر میرے قریب آیا ۔۔
تم تو بڑے چھپے رستم نکلے پری زاد پیارے ایسی پری اپنے ساتھ لیے پھرتے ہو کہ جس کی پہلے جھلک ہی دھڑکنیں روک دینے کا باعث بن جائے اور پھر بھی کہتے ہو کہ دل سبھی ویران ہے میں دکھ سے بیٹھی عینی کی طرف دیکھا۔وہ دیکھ نہیں سکتی اس لیے میرے ساتھ ہے ورنہ وہ دوسروں کی طرح یہ رشتہ بھی تضحیک یا ہمدردی کے قالب میں ڈھل جاتا کھبی کھبی تو مجھے لگتا ہے کہ میں خود اسے دھوکا دے رہا ہوں اس کے ساتھ چل کر میں نے صرف خود کو بلکہ اس معصوم اور انجان لڑکی کو بھی لوگوں کے مذاق کا باعث بنا رہا ہوں ناساز میری بات سن کر خاموش سا ہوگیا۔میں باقی ساری دنیا کی طرح یہ کہہ کر تمہارے زخموں پر نمک نہیں چھڑکوں گا کہ دولت ہر مرض کا علاج ہے لیکن تمہیں ایک مشورہ ضرور دوں گا کہ اگر تم اپنے اندر کہ اس آواز کو دبا نہیں سکتے تو پھر اپنا چہرہ بدل ڈالوں آخر کب تک خود کو اس ان دیکھے عذاب کی بھٹی میں جھونکے رکھو گے ۔۔
میں نے چونک کر ناساز کی طرف دیکھا کیا مطلب ؟؟
مطلب یہ کے آج کل لیا ممکن نہیں صرف جیب میں دمڑیہونی چاہیے جو ماشااللہ اب تمہارے پاس بہت ہے کہیں بھی بیرون ملک جا کر پلاسٹک سرجری کروالو آج کل تو ساری دنیا کو چہرے بدلنے کا خبط سوار ہے اچھے خاصے لوگ علاج کے بہانے اپنے چہرے کی نوک پلک سنوارتے کے لیے پلاسٹک سرجری کروا لیتے ہیں۔ان میں سے کچھ مائیکل جیکسن جیسے جنونی بھی ہوتے ہیں جو ممنوعہ انجیکشن لے کر اپنے سارے جسم کی جلد کا رنگ بھی تبدیل لر لیتے ہیں تو پھر اگر تم اپنی جون بدل لو گے تو اس میں ایدی کون سی قیامت آجائے گی۔۔
اتنے میں وہ دونوں اندر چلی آئیں اور ناساز نے بات بدل دی رخصت ہوتے وقت ناساز نے عینی سے کہا۔۔سنو لڑکی۔۔آج میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں جو آج سے پہلے شاید تمہیں کسی نے نہیں بتائی ہو۔۔۔تمہاری آنکھیں دنیا کی سب سے خوبصورت آنکھیں ہیں اور میرا دل کہتا ہے کہ جلد ہی یہ آنکھیں اس دنیا کے سارے رنگ دیکھ سکیں گی ۔۔
عینی کی پلکیں نم ہوگئیں اور ہم وہاں سے پھر ملنے کا وعدہ کرکے چلے آئے لیکن میرا دھیان ساری رات ناساز کی پلاسٹک سرجری والی بات میں الجھا رہا کیا ایسا ہوسکتا ہے۔؟پیدائش سے لے کر آج تک مجھے جن عذابوں کا سامنا رہا ہے وہ سب الجھیں کرب اور عذاب یوں ایک ہی جھٹکے میں ختم ہوجائیں گا کیا؟
مگر عمر بھر کی شناخت بدلنا بھی تو کچھ آسان نہیں۔جو لوگ اس پری زاد کو جانتے ہیں وہ ایک نئے اور اجلے چہرے والے پری زاد کو قبول کرنے میں کتنا وقت ہیں گے ساری رات ناجانے ایسے کتنے بے سروپا خیالات میرے خالی دماغ میں کھنکھناتے رہے جانے کب صبع ہوئی اور کب سورج نے میرے کھڑکی کے شیشوں سے جھانک کر دھوپ کا سلام بھیجا۔دفتر پہنچا تو کمالی میرے پی انتظار میں بیٹھا تھا۔اس چھوٹتے ہی شکوہ کیا۔۔
یہ کیا سر جی آپ نے اتنی بڑی فلم شروع کردی اور مجھے خبر بھی نہیں ہونے دی کمالی کے ہاتھ میں صبع کا اخبار دیکھ کر میں نے ایک گہری سانس لی۔تو یہ خبر چھپ گئی یہ اخبار والے جانے اتنی جلدی کیسے اڑتی چڑیاں کے پر گن لیتے ہیں ابھی تو صرف منصوبہ پی بنایا تھا کمالی نے جوشمیں اندرونی صفحہ کھولا ۔۔
شہہ پارہ بیگم کا پورا انٹرویو چھپا ہے سر۔ساری فلم انڈسٹری ہلا کہ رکھ دی ہے آپ نے کھبی مجھے بھی بہت شوق تھا فلموں میں کام کرنے کا۔۔۔اہ۔۔۔مگر اب تو فلم دیکھنے کی مہلت بھی نہیں ملتی میں کسی اور خیال میں غم بیٹھا تھا کمالی اپنی دھن میں بولے گیا اس دن آپ نے مجھ سے پوچھا تھا سر۔۔کہ شادی کے اتنے سالوں بعد بچوں اور گھر بار کے مسائل کے ہجوم میں ہماری محبت کہاں کھو جاتی ہے؟بات صرف محبت کی نہیں ہم وقت کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی باقی حسرتیں اور خواہشیں بھی مٹی کر دیتے ہیں اس غم دوراں کی آندھی میں اب یہی فلم ایکٹر بننے والی خواہش ہی لے لیں۔کاش میں شادی کے چکر میں اس آرزو کا گلا نہ گھونٹتا ۔۔
کمالی باقاعدہ غمگین ہوگیا میں مے حد سے اس کی طرف دیکھا جانتے ہو کمالی دنیا کا سب سے ناکارہ آدمی کون ہوتا ہے۔وہ۔جو اپنے ماضی کے لیے گئےفیصلوں کو یاد کر کے حال میں خود کو کوسے تم نے اس وقت وہی فیصلہ کیا خو تمہارے دل نے بہتر جانا تب تمہاری محبت ہی تمہاری ہر خوشی کا حاصل تھی۔۔اگر اس وقت تم فلم انڈسٹری جوائن کر لیتے تو شاید ایک نامور آرٹسٹ کہلاتے مگر یقین کرو اپنی محبت کو کھو دینے کی کسک تمہیںآج زیادہ غمگین رکھتی جسے تم نے پالیا۔۔بس وہی تمہارا نصیب ہے۔۔باقی سب سراب ہے کمالی نے اثبات میں سر ہلایا ۔
شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں سر مگر پھر بھی پایا ہوا نصیب اپنی کشش کیوں کھو دیتا ہے لاحاصل ہی ہمیشہ پرکشش کیوں رہتا ہے ۔۔؟
میں نے لمبی سانس بھری شاید اس لیے کے انسان سدا کا ناشکر ہے اور رہی بات محبت کی تو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے وقت اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ خط رفتہ رفتہ ہماری محبت شفقت میں بدل جاتی ہے۔محبت محبت نہیں رہتی ایک گہری شفقت بن جاتی ہے کمالی نئ حیرت سے میری طرف دیکھا۔
شفقت؟۔۔میں سمجھا نہیں سر۔۔۔؟
ہاں کمالی ۔۔شفقت۔۔ہماری محبت کہیں کھوتی نہیں ہے۔بس کسی اور جذبے میں ڈھل جاتی ہے۔۔اور ہم باقی ساری زندگی اس شفقت کو محبت سمجھتے ہوئے گزار دیتے ہیں شاید اسی لیےہماری زندگی میں کسی نئی محبت کے لیے جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے۔اور یوںہماری زندگیوں میں نئی محبتوں کا ڈاکہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔جاو کمالی اپنے بیوی بچوں کو اپنا پورا وقت دیا کرو۔کیونکہ کھبی کھبی شفقت کا قرض محبتوں کے ادھارے سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے کمالی چپ چاپ دفتر سے نکل گیا دوپہر کو آمنہ کو فون آیا تو میں نے اسے خوشی کی خبر سنائی کہ ناساز نے فلم کے سارے گیت لکھ کر بنے خان کے حوالے کردیے ہیں میوزک بھی تقریبا مکمل پو چکا تھا لہذا اگلے ہفتے فلم کی ساری موسیقی ترتیب دے دی گئی۔سنبل نے مجھے بتایا کہ اس نے مہینوں بعد ناساز کی آنکھوں میں خوشی کی سچی لہر دیکھی ہے جب اس نے اپنی شاعری پر سنبل کی آواز کی آواز کا جادو جھگتے ہوئے سنا آمنہ کی خواہش تھی کہ فلم کے گانے کینیڈا یا یورپ کے کسی حسین مقام پر فلم بند کیے جائیں فلم کی کاسٹینگ مکمل ہوچکی تھی اور اب صرف شوٹنگ کا مرحلہ شروع ہونا باقی تھا۔میں دن بھر غیر محسوس طور پر طب کے رسالوں اور انٹرنیٹ پر دنیا کے بہترین پلاسٹک سرجنز کی تفصیلات کھوجتا رہتا تھا میرئ دفتر کی الماریوں اور میز کے خفیہ دراز اب ایسی معلومات سے بھرے رہتے تھے مگر یہ سب کچھ میں اس طرح چھپ چھپ کر رہا تھا جیسے کوئی چور چوری کرتا ہے...
قسط 23
پہلے مجھے ہمیشہ یہ خوف اور فکر دامن گیر رہتی تھی کہ لوگ میری صورت کا مذاق اڑائیں گئے اور اب ایک راستہ دکھائی دیا تھا تو یہ ڈر میرے دامن سے لپٹا رہتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔؟ہماری زندگی کے نوے فیصد معاملات کی الجھن بس اسی ایک جمعلے میں ہی تو پنہاں ہے کہ زمانہ کیا کہے گا ۔۔؟
کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہم انہی لوگوں کی باتوں کی فکر میں گھلے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری زندگی اجیرن ہوتی ہے۔اگلی شام میں عینی کے گھر پہنچا تو وہ اپنی کسی سہیلی کے ساتھ ریڈیواسٹیشن کے لیے نکل چکی تھی۔میں واپس پلٹنے لگا تو اس کی ماں نے مجھے چائے کے لیے روک لیا کمرے میں ہر جانب میڈیکل رپورٹس اور آنکھوں سے متعلق دنیا کے کچھ مشہور ہسپتالوں کے کتابچوں کا انبار سا لگا ہوا تھا عینی کی ماں نے مجھے بتایا کہ عینی سات سال کی عمر تک بالکل ٹھیک تھی۔پھر ناجانے کیا ہوا کہ دھیرے دھیرے اس کی بینائی جاتی رہی اس وقت عینی کے ابو زندہ تھے اور انہوں نے اپنی ہر ممکن کوشش کر دیکھی مگر عینی کی بینائی واپس نہ آسکی پھر کئی سال بعد بات یہاں تک پہنچی کہ اگر عینی کے گروپ سے مشابہت رکھتا ہوا لینز(قرینہ)مل جائے تو عینی کی بصارت واپس آسکتی ہے۔عینی کی ماں نے دنیا بھر کے طبی اداروں کو اپنی بیٹی کے کیس کی تفصیلات بھجوا رکھی تھیں اور اب مہینوں سے اس جوان ہمت خاتون کا کام بس یہی تھا کہ وہ عینی کی آنکھوں کے لیے قرینے کی تلاش کے لیے دنیا بھر میں خط و کتابت کرتی رہتی تھیں۔میں نے انہیں تسلی دی کہ اللہ نے چاہا تو جلد ہی ان کی تلاش رنگ لائے گی۔عینی کے گھر سے نکلتے وقت میرے دل کی حالت عجیب ہورہی تھی اگر عینی کی بینائی میری سرجری سے پہلے واپس اگئی تو وہ مجھے دیکھ کر کیا سوچے گی۔۔۔؟
اس کے من نے میری جو شبیبہ تراشی تھی مجھے دیکھتے ہی وہ ایک چھناکے سے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوجائے گی کاش اس ساری دنیا میں کسی کی آنکھیں ہی نہ ہوتیں اور ہم سب اپنی انگلیوں کی پوروں سے ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تو کتنا اچھا ہوتا مگر جہاں کاش آجائے وہاں آخر میں صرف ایک اہ۔۔رہ جاتی ہے میں نے بھی ایک لمبی آہ بھری۔کچھ بھی ہو مجھے کسی بھی صورت میں عینی کی بصارت واپس آنے سے پہلے اپنی سرجری کروانی ہوگی۔مجھے اپنے چہرے کو عینی کی بنائے ہوے مجسمے کی شیپ میں ڈھالنا ہوگا۔تاکہ جب وہ آنکھوں سے دنیا دیکھے تو میں اسے اسی طرح نظر آوں جیسا وہ مجھے محسوس کرتی ہے۔گاڑی تیزی سے سڑکوں پر دوڑ رہی تھی
اور میرے اندر میرے اپنے ہی متضاد خیالات کی ایک ایسی یلغار جاری تھی جس نے مجھے پوری طرح نڈھال کر کے رکھ دیا تھا وہ پوری رات عجیب کرب میں گزری اور تنگ آکر میں نے انٹرنیٹ سے جمع شدہ معلومات کے مطابق پلاسٹک سرجری کے تمام اداروں کو ای میلز کر دیں۔جس میں میں نے اپنی تازہ ترین تصاویر اور باقی تمام جزئیات تحریر کردی تھیں۔دوسرے دن مجھے مختلف اداروں سے جوابات موصول ہونا شروع ہوگئے تین دن بعد ان جوابات کے انبار میں سے مجھے اپنے مطلب کے ادارے کا انتخاب کرنا آسان ہوگیا ٹورنٹو کے ایک طبی ادارے نے پلاسٹک سرجری کے لیے جو لوگو ڈیزائن کیا تھا اس پر لکھی ایک سطر نے مجھے اسے چننے پر مجبور کردیا تھا جس کی تحریر کچھ یوں تھی۔۔۔
ہم چاہے تقدیریں نہ بدل پائیں۔۔پر چہرے بدل دیتے ہیں
میں نے پائن ہل(pine Hill)نامی اس پلاسٹک سرجری کے ادارے کی تمام تفصیلات اکھٹی کر لیں اور پھر اس کے سربراہ پال جونز کو ساری تفصیل لکھ کر بھیجی۔چوبیس گھنٹے کے اندر پال کا جواب آگیا کہ ان کا ادارہ بنیادی طور پر آگ میں جھلس جانے والوں یا کسی حادثے کے نتیجے میں اپنے اصلی خدوخال کھو دینے والوں کی پلاسٹک سرجری کرتا ہے اور میرا کیس ان کے ادارے کے دائرہ کار میں نہیں آتا میں نے پال کو دوسری میل بھیجی کہ کیا ان کا ادارہ محبت کرنے والوں کے خواب پورے نہیں کرسکتا؟
میں بھی تو تقدیر نہیں صرف چہرہ بدلنے کا خواہش مندوں میں شامل ہوں اور اگر وہ چاہتے ہیں تو کی میں اپنی محبت کا کوئی ثبوت پیش کروں تو میں اپنے چہرے کو جھلسا کر ان کیلے ادارے کی شرط پر پورا اترنے کو تیار ہوں۔۔
میں نے رات گئے یہ میل پال کو بھیجی اور وہیں کرسی پر بیٹھے بیٹھے تھک کر آنکھیں موندھ لیں صبع سویرے پرندوں کے شور سے میری آنکھ کھلی تو پال کی میل میرے سن باکس میں نمایاں تھی میں نے سے اسے کھولا اور تحریر ہر نظریں دوڑائیں وہ میل پال نے ادارے کے آفیشل میل اکاونٹ سے نہیں کی تھی بلکہ اپنے ذاتی پتے سے بھیجی تھی۔۔
یہ میل اپنے ذاتی پتے سے بھیج رہا ہوں تمہاری میل نے مجھے چونکا کے رکھ دیا ہے مشرق لوگوں کے جذباتی ہونے کے بارے تو بہت کچھ سنا تھا مگر تمہاری جزباتیت تو دنیا سے جدا ہے۔۔ٹھیک ہے لڑکے ۔۔اگر تمہاری یہی ضد ہے تو میں تمہارے بارے میں کچھ سوچوں گا لیکن یہ سب کچھ میری ذاتی حیثیت میں ہوگا۔کیونکہ میرا ادارہ بہر حال اپنے اصولوں کا پابند ہے میں تمہیں چند ضروری ٹیسٹ لکھ کر بھیج رہا ہوں۔پہلے تم اپنے مللک کے کسی مستند طبی ادارے سے یہ ابتدائی ٹیسٹ کروا کر مجھے بھیج دو پھر جب تمہارے آنے کی ضرورت پڑی تو تمہیں اطلاع کردوں گا تب تک خدا کے لیے کوئی الٹی سیدھی حرکت مت کرنا۔تمہارا مخلص ڈاکٹر پال جونز ۔۔
میں نے میل پڑ کر ایک لمبی اطمینان کی سانس بھری۔گویا میری سمت طے ہوچکی تھی اور سفر چاہے کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو سب سے پہلے اس کی سمت طے ہونا بے حد ضروری ہے بہت عرصے کے بعد میں نے خود خو ہلکا پھلکا محسوس کیا۔انسان زندگی میں بہت سے بوجھ ڈھوتا ہے مگر ان میں سب سے بھاری بوجھ شاید خود ہماری آپ خ سوچ کا ہماری فکر کا ہوتا ہے دفتر پہنچا تو آمنہ اور ڈاریکٹر پہلے سے ہی میرے انتظار میں بیٹھے تھے.
آمنہ نے شکوہ کیا کہ میں فلم کے مراحل میں پوری دلچسپی نہیں لے رہا ہوں۔جب کہ وہ چاہتی ہے کہ ہر شعبے پر میری ذاتی نگرانی اور گرفت رہے میں نے ان دونوں کو تسلی دی کہ ہم بہت جلدی کینیڈا میں فلم کے گانوں کی فلم بندی کے لیے روانہ ہونے والے ہیں۔
دونوں کے چہرے کھل اٹھے میں نے سوچ لیا تھا کہ میں یہاں سب کو فلم کے گانوں کی فلم بندی کا بتا کر یونٹ کے ساتھ کینیڈا چلا جاوں گا جہاں تین چار مہنے علاج کے لیے رکنے کا کوئی دوسرا بہانہ ڈھونڈنا ہوگا شاید چھ ماہ بھی لگ جائیں۔مگر مجھے کسی طور یہ معرکہ سر کرنا ہی تھا۔۔
اس وقت چاہتے ہوئے بھی میں سرجری کے بعد کے حالات پر کوئی سوچ بچار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ہم انسان بہت کو تاہ نظر اور نزدبین ہوتے ہیں جن فیصلوں میں ہمارے دل کی مرضی شامل ہوتی ہے ان کے اثرات سے نظریں چرانے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں کرتے۔میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ ایک بار آپنی مرضی کی سرجری کروا لوں۔بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔میں نے ایک دور دراز کے بڑے ہسپتال سے ڈاکٹر پال کے بتائے ہوے طبی تجزیے بھی کروالیے تھے اور اب مجھے اب کی رپورٹ آنے کی شدت سے انتظار تھا۔مجسمہ بن جانے کے بعد عینی کے گھر جانے کا کوئی خاص بہانہ نہ ہونے کے باوجود میں ہفتے میں ایک آدھ چکر اس کے گھر کا ضرور لگا لیتا تھا۔کچھ گلیاں اور کوچے اپنی سمت بلانے کے بہانے خود تراش لیتے ہیں۔جانے وہ من مونی سی لڑکی کا طرح چند دنوں میں ہی میرے دل کے ہر خانے پر اپنا قبضہ جما بیٹھی تھی۔حلاناکہ میں نے تو اس دل کے کواڑ سدا کے لیے بند کر کے چابی کسی دریا میں پھینک دی تھی یا پھر شاید مجھ جیسوں کے دل ہمیشہ کسی مخلص اور مہربان ساتھی کی دستک کا ہی انتظار کرتے رہتے ہیں؟شام کو دفتر سے اٹھتے وقت اچانک فون ہر سنبل کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی آپ جلدی سے شوکت خانم ہسپتال پہنچے۔آپ کے دوست کی طبعیت بگڑ گئی ہے میں سب چھوڑ چھاڑ کر کبیر کے ہسپتال کی طرف بھاگا۔راہداری میں کمرے کی طرف جاتے ہوئے میرے قدموں میں دے جان نکلتی جارہی تھی۔ناساز کا رنگ سرسوں کی طرح پہلا پڑ چکا تھا اس نے آہٹ پر آنکھیں کھولیں اور مجھے دیکھ کر خشک سوکھے پتے جیسے ہونٹوں سے بمشکل مسکرایا۔۔
رستہ روک رہی ہے تھوڑی جان ہے باقی
جانے ٹوٹے دل میں کیا ارمان ہے باقی
جانے بھی دے اے دل
سب کو میرا سلام ۔
میں چلا ۔۔میں شاعر بدنام
میں چلا محفل سے ناکام میں چلا ۔۔
مین نے لپک کر اس کا ہاتھ تھام لیا کہیں نہیں جارہے تم سنا تم نے میں اس شاعر کو کہیں نہیں جانے دو گا اس کے سرہانے کھڑی سنبل اور استاد بنے کی آنکھوں سے آنسوں ٹیک رہے تھے وہ بمشکل آنکھیں کھول کر بولا دیکھا پری زاد پیارے یہ تو واقعی اسی فلم کا سین بن گیا یار لگتا ہے جیسے میری کہانی ڈائریکٹر نے تیس چالیس سال فلما دی تھی مگر یار میں بہت تکلیف میں ہوں یہ جان تو نکلتے نکلتے جان نکال دیتی ہے ۔۔
میں نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا چہ ہو جاو خود کو نڈھال مت کرو۔۔نہیں پیارے بولنے دو مجھے بس آخری تھکن ہے اس کے بعد تو آرام ہی آرام ہے ناساز نے سنبل کی طرف دیکھا یہ کہانی بھی ادھوری رہ گئی پری زاد۔۔میرے جانے کے بعد اس باپ بیٹی کا پورا خیال رکھنا اور جب تمہاری فلم ریلیز ہوتو۔۔۔تو ۔۔۔اس کا ٹائٹل میں میرا نام ناساز بولتے بولتے اچانک خاموش ہوگیا میں نے گھبرا کر اس کا چہرہ تھپتھپایا ناساز۔۔۔چپ کیوں ہوگئے۔۔۔بولتے کیوں نہیں تم ہم سب کو اتنا بڑا دھوکہ دے کر نہیں جاسکتے۔۔بولو ۔۔۔دغا باز جھوٹے ۔۔۔بات کرو۔۔۔میری چیخیں سارے ہسپتال میں گونج رہی تھیں استاد بنے نے ہسپتال کے عملے کی مدد سے مجھے ناساز کے بے جان جسم سے دور کردیا۔میں چیختا چلاتا رہ گیا۔استاد بنے نے دبوچ کے مجھے گلے لگا لیا چپ کرجاو۔ناساز اب کھبی نہیں بولے گا وہ مر چکا ہے۔۔۔
ناساز کے جانے کے بعد میرا دل ہی اٹھ گیا کسی کام میں من نہیں لگ رہا تھا میں بس سارا دن اپنے کمرے میں پڑا رہتا تھا ناساز کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹتا ہی نہیں تھا کچھ لوگ اپنی تقدیر میں صرف درد ہی لکھوا کر لاتے ہیں۔سکھ کہ سیاہی ان کی باری آنے سے پہلے ہی خشک ہوجاتی ہے شاید؟ اور پھر ویسے ہی ایک اداس شام جب میں اپنے اندھیرے کمرے میں بیٹھا قسمت کے اس پیر پھیر کو سوچ رہا تھا تو عینی آگئی۔کیوں سزا دے رہے ہیں خود کو۔ہم میں سے کوئی بھی ناساز کے لیے کچھ نہیں کرسکتا تھا اس کا جانا طے تھا۔۔سو وہ چکا گیا۔۔مگر ہم سب ابھی یہیں ہیں ہماری خاطر ہی سہی مگر خود کو سنبھالیں۔۔
میں نے اپنی نم آنکھیں رگڑیں اگر سب کا جانا طے ہے تو پھر ہم سب ایک ساتھ کیوں نہیں چلے جاتے۔۔؟ یہ باریاں کیوں لگا دی گئی ہیں ۔۔
عینی میرے قریب بیٹھ گئی۔باریاں اس لیے لگائی گئی ہیں کہ ہم جانے والوں کے بعد ان کے اپنوں کا دھیان رکھیں۔آپ شاید بھول رہیں ہیں سنبل اور استاد بنے خان کی ذمہ داری آپ پر ڈال گیا ہے آپ کا دوست۔کیا انہیں یونہی تنہا چھوڑیں گے پری زاد ۔۔
کیا ستم ہے ہوا کے سب راستے سب دروازے بند کر دینے کے بعد زندگی ہمیں سانس لینے کے لیے بھی مجبور کرتی ہے کیونکہ جینا تو ہے ہی۔۔ہاں۔۔جینا تو پڑے گا مزید ستم سہنے کے لیے نئے گھاو جھیلنے کے لیے اگلے ہی ہفتے میں شہر کی ایک نئی بستی میں استاد بنے خان کے لیے ایک گھر کا انتظام کردیا گیا جہاں وہ اپنی موسیقی کی اکیڈمی اور کلاسز بھی شروع کرسکتے تھےکمالی نے اس سارے معاملے میں بہت پھرتی دکھائی اور دو ہفتوں بعد ہی میوزک اکیڈمی کا اشتہار بھی شہر کے بڑے اخباروں کے پہلے صفحے پر لگ گیا مجھے یقین تھا کہ اب ان باپ بیٹی کو اپنی گزر بسر کے لیے کسی کے آگے سوال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔میری اس عرصے میں خود سے خود کی ملاقات بہت کم ہو پاتی تھی مگر جیسے ہی زندگی میں کچھ ٹھہراو آیا میں نے جانے کتنے دن بعد آئینہ دیکھا تو مجھے ایک ہی ڈاکٹر پال کی یاد آگئی میں نے اپنی میل کھولی تو ڈاکٹر پال کی تین میلز آچکی تھیں جس میں اس نے میرے کرائے گئے طبی تجزیوں کے بارے میں پوچھا تھا۔۔...
میں نے اگلی صبح ہی رپورٹ لے کر اسے ای میل کردی۔کمالی اس عرصے میں فلم یونٹ سے مسلسل رابطے میں تھا اور وہ مجھے وقتا فوقتا پیش رفت سے آگاہ کرتا رہتا تھا۔کینیڈا میں فلم بندی کے انتظامات بھی وہ مکمل کر چکا تھا۔میں نے سوچ لیا تھا کہ کینیڈا روانگی سے قبل عینی سے آپنے دل کی بات کہہ دو گا۔۔میں اسے کہہ دو گا کہ اب اس زندگی کے تپتے صحرا میں تنہا چلتے چلتے چلتے میرے پاوں اتنے آبلہ پا ہوچکے ہیں کہ خود میرے قدموں کت چھالے مجھے دہائی دیتے ہیں کہ انہیں اب کسی ہم سفر کے ساتھ کی چھاوں درکار ہے۔میں اس سے پوچھوں گا کہ کیا وہ میری عمر بھر کی ہم سفر بننا قبول کرے گی۔۔؟کیا وہ مجھے اس اعزاز کے قابل سمجھتی ہے۔۔؟کیا وہ میری تمام زندگی کی محرومیاں ختم کر کے مجھے اپنا سکتی ہے۔۔؟
میں نے راستے میں گاڑی رکوا کر پھول والے سے عینی کے لیے گلدستہ بنوانے کا سوچا لیکن بہت دیر تک وہاں کھڑا پھولوں کا انتخاب کرتا رہا۔دنیا کے سارے پھول پنکھڑیوں سے جڑ کر بنتے ہیں گر جب خود کسی پنکھڑی جیسی کو گلاب پیش کرنا ہوتو کوئی چناو کیسے کرے؟ہر پھول اس کے سامنے چھوٹا لگتا تھا۔ہر رنگ اس کے آگے پھیکا پڑ جاتا تھا۔مجبورا مجھے کچھ پھیکےرنگوں والے کم صورت گلابوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔مڈ مدمقابل جب۔گلاب تر۔ہوتو پھولوں کو بھی ہار ماننا ہی پڑتی ہے۔میں بہت دیر اس کے گھر کے دروازے پر کھڑے رہ کر اپنی الجھی سانسیں درست کرتا رہا
ایسےلگ رہا تھا جیسے حسن عدالت میں میری پہلی پیشی ہے۔دوسری گھنٹی کے جواب میں اندر سے قدموں کی آہٹا ابھری اور میں سنبھل کر کھڑا ہوگیا۔گلدستے پر میری گرفت سخت ہوگئی اور پھر دروازہ کھلا تو میرا ہاتھ ہوا میں ہی بلند رہ گیا۔اندر سے نکلنے والا نوجوان میرے لیے قطعی اجنبی تھا۔۔۔
جی فرمائیے کس سے ملنا ہے آپ کو۔۔۔
میں اسے دیکھتا رہ گیا۔لمبا قد کھلتی رنگت بکھرے بکھرے سے بال گہرے سیاہ آنکھوں میں عجیب سی کشش آمیز چمک وہ مردانہ وجاہت کا پیکر تھا۔خوبرو۔با اعتماد اور مغرور سا وہ لڑکا مجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔میرا گلدستے والا ہاتھ میکانکی طور پر خود بخود پیچھے چھپ گیا۔میں نے گڑ بڑا کر اس سے پوچھا۔۔
تم کون ہو۔۔
وہ لڑکا ہنس پڑا ۔۔
لو وہ بھی ہم سے پوچھتے ہیں کہ میر کون ہے ۔۔؟
جناب ہم اپنے تعارف خود آپ ہیں۔۔ڈاکٹر عدنان کہتے ہیں مجھے یہ میری خالہ کا گھر ہے اور میں آج ہی یہاں نازل ہوا ہو۔آپ بتائیں کہ آپ کون ہیں؟؟
میں نے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھالا۔میں عینی کا دوست ہوں پری زاد نام ہے میرا عدنان نے غور سے مجھے دوبارہ دیکھا اور پہلے لفظ کو کافی لمبا کرتا ہوا بولا اچھا تو آپ ہیں پری زاد سر کھا کیا ہے اس پاگل لڑکی نے صبع سے میرا آپ کا ذکر کر کر کے سچ بتاو تو میں آپ سے جیلس ہورہا تھا میں نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا وہ زور سے ہنس پڑا برا مت مانیے گا مذاق کی عادت ہے میری اندر آئیں ناں۔۔باہر کیوں کھڑے ہیں خالہ اور عینی اندر ہی ہیں میں چپ چاپ اس کھلنڈرے سے لڑکے کے پیچھے اندر داخل ہوگیا۔میرے ہاتھوں میں پکڑا ہوا گلدستہ نہ جانے کب میرے ہاتھ سے کمرے کے گل دان میں منتقل ہوگیا۔کچھ دیر بعد عینی بھی آگئی وہ بہت خوش نظر آرہی تھی ارے آپ آگئے پری زاد دیکھیں کون ایا ہے میرے بچپن کا ساتھی میرا سب سے بہترین دوست میرا کزن عدنان۔۔سچ بتائیں اس نالائق کو دیکھ کر ذرہ بھر بھی نہیں لگتا ناں کہ یہ ڈاکٹر ہوگا۔۔حرکتیں تو ابھی تک وہی گلی کے آوارہ لڑکوں جیسی ہیں اس کی عدنان نے زور سے قہقہہ لگایا۔۔
تو گلی کا لڑکا ہی تو ہوں تمہاری گلی کا ایک آوارہجو گھنٹوں دوپہر میں تمہاری کالج سے واپسی کا انتظار کیا کرتا تھا۔۔یاد ہے ناں بلی ۔۔۔
وہ دونوں زور سے ہنس پڑے جانے کیوں ٹھیک اس لمحے میں نے خود کو وہاں سے بے حد اجنبی محسوس کیا۔کل تک یہی درو دیوار مجھے کتنے مانوس کتنے مہربان سے محسوس ہوتے تھے۔اور آج ایک اجنبی کے آجانے سے میں خود بیگانہ سا ہو رہا تھا۔عینی نے مجھے بتایا کہ عدنان نے طب کی تعلیم کے بعد آنکھوں کی فیلڈ میں اسپیشلائز کیا ہے اور اب اس کی پوسٹنگ اسی شہر میں ہوچکی پے عدنان کی باتوں سے میں محسوس کیا کہ وہ خود بھی پوری تندہی سے عینی کی آنکھوں کے علاج کی کوئی صورت نکالنے میں جتا ہوا ہے عدنان اور عینی ایک دوسرے سے بہت بے تکلف محسوس ہوتے تھے۔اور دونوں ایک دوسرے پر وار کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دے رہے تھے۔جب تک عینی کی ماں رات کے کھانے کے انتظام کے لیے باورچی خانے میں مصروف رہیں دونوں بچپن کی باتیں یاد کر کے ہنستےرہے عینی نے عدنان کو ٹوکا۔۔بس بس یہ رہنے دو تابعداری کی باتیں خوب جانتی ہوں میں کے جناب کڑی دوپہر میں کس کے لیے دھوپ چاٹا کرتے تھے کیا نام تھا اس عینی کا۔۔ہاں ۔۔نگہت اور دوسری پھینی۔۔۔مہوش۔۔اور وہ تیسری ۔۔
عدنان نے جلدی سے اسے روکا او ہو بس کرو وہ بچپنا تھا میرا اور ایسی دو چار معاشقہ نما دوستیاں تو سبھی کرتے ہیں لڑکپن میں کیوں پری زاد صاحب ٹھیک کہہ رہا نہ میں آپ نے بھی کی ہوں گی کچھ خواب تو پالے ہوں گے اس عمر میں آپ نے بھی میں نے غور سے عدنان کی طرف دیکھا نہیں ڈاکٹر صاحب خواب پالنے کے نیند کے کچھ خوبصورت لمحے پالنے بھی ضروری ہوتے ہیں میں تو آج تک نیند کا وہ لمحا ہی ڈھوندتا رہا ہوں نیند آجائے تو شاید کھبی خواب بھی پال سکوں۔۔
عدنان نے چونک کر میری طرف دیکھا۔۔۔واہ۔۔۔میری پیاری کزن یونہی آپ کی اتنی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی۔۔بڑی گہری بات کہہ دی آپ نے میں آٹھ کھڑا ہوا ان میں اجازت چاہوں گا انشاءاللہ پھر ملاقات ہوگی ۔
وہ دونوں بوکھکا سے گئے عینی جلدی سے بولی ارے آپ کہاں چل دیے امی نے کھانا لگا دیا ہے اور آپ نے تو آنے سے پہلے فون پر مجھے کہا تھا کہ آپ کو مجھ سے کوئی بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔بتائیں ناں۔۔۔۔؟
عدنان نے چونک کر میری طرف دیکھا میں نے جلدی سے بات بنائی ارے ہاں یاد آیا۔۔فلم کا یونٹ کینیڈا جارہا ہے۔۔شاید میں بھی جاو سوچا تم سے بھی پوچھ لو۔۔
عینی خوشی سے چلائی واہ ۔۔زبردست ۔۔کاش میں بھی ساتھ چل سکتی مگر اب یہ صاحب جو تشریف لے آئے ہیں۔۔میرے دشمن جاں۔۔یہ مجھے کہاں جانے دے گا اب۔۔
میں نے چونک کر عینی کی طرف دیکھا کیوں؟عدنان نے جلدی سے دخل دیا۔پری زاد صاحب۔۔آپ ہی سمجھائیں اس لڑکی کو۔۔میں نے امریکہ کے بہت سے طبی بڑے ادارے سے عینی کی آنکھوں کے میچنگ لینز کی بات کی ہے۔۔وہ لوگ نوے فیصد پر امید ہیں کہ وہ آپریشن کر سکتے ہیں ۔اور انہیں مشابہت اس کا قرینہ بھی مل جائے گا کیونکہ آج کا باہر کے ملکوں میں سزائے موت کت قیدی یا بستر مرگ پر پڑے ہوئے مریض عموما اپنے اعضاء مرتے وقت دان کر جاتے ہیں یا اپنی بیوی بچوں کو آئندہ کفالت کے لیے بھاری رقم کے عوض بیچ دیتے ہیں۔میں نے عینی کے میچنگ لینز کے لیے ایسے کئی اداروں میں رجسڑیشن کروا رکھی ہے اور وہ لوگ قرینہ ملتے ہی ہمیں اطلاع کر دیں گے ۔۔میں نہیں چاہتا کہ ایسے وقت میں عینی کی غیر موجودگی کی وجہ دیر ہوجائے عینی نے حتمی لہجے میں کہا۔
خواب دیکھنا چھوڑ دو مائی ڈئیر کزن ڈاکٹر عدنان ۔۔۔
قسط 24
پہلے تو یہاں سے امریکہ جانے کے لیے لاکھوں روپے چاہئیں ہوں گے اور پھر ڈونیشن اور آپریشن کا خرچ الگ کہاں سے آئیں گے اتنے پیسے۔۔؟اور تم یہ بھی اچھی طرح جانتے کو کہ کہ میں اپنی جمع کی ہوئی رقم سے ہی اپنا آپریشن کرواوں گی اور ہم دونوں یہ بات بہت پہلے طے کر چکے ہیں۔۔
سو مو مور بحث اوکے۔۔۔وہ دونوں بچوں کی طرح بحث کر رہے تھے میں نے عینی سے اجازت چاہی اور بھاری قدموں سے وہاں سے اٹھ آیا سارے راستے سن دونوں کی نوک جھونک میرے کانوں میں گھونجتی رہی۔عدنان کو عینی سے بے تکلف ہوتے دیکھ کر ایک عجیب سی بے چینی میرے رگوں میں پھیلی جارہی تھی۔مگر خود عینی بھی تو اس کے ساتھ اتنی ہی بے تکلفی سے پیش آرہی تھی۔جنہیں ہم چاہتے ہیں وہ کسی اور سے بے تکلف ہو کر بات کریں تو ہمارے خون کی گردش کیوں تھمنے لگتی ہے۔کانٹوں جیسی چھبن اور کسک ہمارے وجود کو کیوں چھلنی کرنے لگتی ہے؟کیا اس کو رقابت کہتے ہیں۔؟ساری رات میں اپنے بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔یہ رقابت تو محبت سے بھی زیادہ جان لیوہ آزار ہےا اگلے چند روز ٹیلی فون کی گھنٹی پر میں چونک چونک جاتا۔مگر عینی تو جیسے عدنان کے آنے کے بعد بہت زیادہ مصروف ہوگئی تھی۔مجھے چڑ چڑاہٹ سی ہونے لگی۔اور میرا عملہ اس کا نشانہ بننے لگا۔کمالی نے یہ بات نوٹ کر لی اور تیسرے دن ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ کیا مجھے کوئی پریشانی ہے؟۔۔میں اسے کیا بتاتا۔۔مجھے تو خود پتا نہیں تھا کہ میرے اندر کیا چل رہا ہے۔مگر چوتھے روز پی اے نے جب مجھے اطلاع دی کہ کہ مس عینی آپ سے ملنے آئی ہیں تو
ایک لمحے میں ساری بے چینیاں ساری بے تابیاں جانے کہاں ہوا ہوگئیں اور میں بے تابی سے ملاقاتی کمرے کی طرف گیا۔مگر وہ تنہا نہیں آئی تھی۔عدنان بھی اس کے ساتھ تھا۔میری آہٹ سنتے ہی وہ ناراضگی سے بولی۔۔
کہاں غائب ہیں آپ تین دن سے۔۔نہ کوئی فون نہ کوئی خیر خبر میں آپ سے سخت ناراض ہوں۔۔جان لیں اچھی طرح میں نے مصروفیت کا بہانہ کیا مگر وہ روٹھی رہی۔عدنان نے مسکرا کر میری طرف دیکھا بڑی ضدی ہے یہ بچپن سے سر مجھ سے پوچھیئے میں نے گہری نظروں سے اس حسن ناراض کو دیکھا سفید لباس اور سیاہ دوپٹے میں وہ چاند لگ رہی تھی۔۔۔۔
چلو کچھ جرمانہ طے کر دو میری غیر حاضری کا۔۔
آخر کار بات یو بنی کہ مجھے ان دونوں کو رات کے کھانے پر شہر کے ایک مشہور اوپن ایئر ریستوران میں مدعو کرنا پڑا۔عدنان نے جاتے وقت عینی کے کمرے سے نکلتے ہی جلدی سے مجھے بتایا کہ عینی کے لیے میچنگ لینز کا انتظام ہوگیا ہے مگر عینی جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔عدنان نے دبے لفظوں میں مجھ سے رات کو عینی کو منانے کی درخواست کی وہ اپنا آبائی گھر بیچ کر عینی کا علاج کروانا چاہتا تھا۔ان کے جانے کے بعد پھر سے وہی ہزار خدشے ہزار وسوسے۔۔مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میری محبت ریت کے ذروں کی طرح میری مٹھی سے نکلتی جارہی ہے رات کو ریستوران کی ٹیبل پر وہ دونوں مجھ سے پہلے موجود تھے کتنے مکمل لگتے تھے وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ۔جیسے دو ہنسوں کا جوڑا ہو۔کوئی ہم تینوں کو وہاں ایک ساتھ بیٹھے دیکھتا تو اسے میرا وجود پی اضافی لگتا۔عدنان کو کوئی فون کال آئی تو وہ اٹھ کر ذرا فاصلے پر چلا گیا۔عینی نے میری خاموشی محسوس کر لی۔۔
آپ اتنے چپ چپ کیوں ہیں پری زاد ۔۔۔آج دن کو بھی میں نے محسوس کیا تھا کہ آپ گم سم ہیں۔۔
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔تم عدنان کی بات مان کیوں نہیں لیتیں وہ تمہارے پی بھلے کی بات کر رہا ہے عینی نے لمبی اہ بھری اچھا تو ڈاکٹر صاحب کا جادو آپ پر چل گیا میں نے دھیرے سے کہا۔۔ہاں۔۔وہ ہے ہی ایسا جادوگر آج کل چاروں طرف مجھے اسی کا سحر محسوس ہوتا ہے ۔
عینی ہنس دی۔۔ہاں۔۔ٹھیک کہا آپ نے پتہ ہے پری زاد ۔۔میں نے سات سال کئ عمر کے بعد عدنان کو نہیں دیکھا۔جانے سب کیسا دکھتا ہوگا۔پہلے تو ہر وقت مٹی میں اٹا رہتا تھا بڑی مار پڑی تھی اسے خالہ سے۔۔آپ کو ایک بات بتاوں پری زاد میری زندگی کی بہت بڑی خواہش تھی کہ جب میری بینائی واپس آئے۔۔میں سب سے پہلے عدنان کوہی دیکھنا چاہتی تھی۔۔ہاں مگر اب اس فہرست میں ایک اور ہستی بھی شامل ہوچکی ہے۔۔اور وہ آپ ہیں پری زاد۔۔اب میں عدنان کے ساتھ آپ کو بھی پہلی نظر میں دیکھنا چاہتی ہوں۔میرا دل چاہا کہ اس سے کہوں کہ کہاں ہیرے اور کوئلے کو ایک پی فہرست میں درج کر رہی ہو۔دیکھے جانے کے قابل صرف عدنان ہی ہے اتنے میں عدنان بھی واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔جی پری زاد صاحب کچھ آیا اس پگلی کی عقل میں یا نہیں۔۔۔؟اسے سمجھائیں کہ اپنوں کے خلوص کو یوں ٹھکرایا نہیں کرتے۔۔۔
عینی نے احتجاج کیا ایسی بات نہیں تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے تمہارے پاس تمہارے آبائی گھر کے علاوہ اور ہے ہی کیا۔؟اور پھر ہم دونوں کے بچپن کی اور خالہ کی کتنی یادیں وابستہ ہیں اس گھر سے میری نظر میں وہ سب یادیں میری بینائی سے بہت زیادہ اہم ہیں۔۔بس ہوگیا فیصلہ تم وہ گھر کھبی نہیں بیچو گے اور اگر تم نے ایسا کیا
تو ساری زندگی مجھ سے بات مت کرنا عدنان نے بیچارگی سے میری طرف دیکھا میں نے دخل اندازی کی تم دونوں خواہ مخواہ جھگڑ رہے ہو۔عینی پر میری دوستی کے بھی کچھ قرض باقی ہیں اور اسی دوستی اور رشتے کے حق سے آج یہاں یہی کہنے آیا ہوں کہ عینی کے علاج کا تمام خرچہ میں برداشت کرو گا۔کیا میرا اتنا بھی حق نہیں ہے ۔۔
نہیں پری زاد۔۔ایسا مت کہیں۔۔میں آپ سے رقم نہیں لوں گی میں نے زندگی بھر ایک یہی خوداری کا بھرم ہی تو کمایا ہے کیا آپ دونوں مجھ سے میری عمر بھر کی یہ واحد کمائی بھی چھین لینا چاہتے ہین۔۔کہا فائدہ ایسی بینائی کا جس کے ملنے کے بعد میری نظر تمام عمر جبکہ رہے پلیز آپ ایسا نہ کریں۔۔۔
میں نے گہری سانس لی ٹھیک ہے ۔۔اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو یوں ہی سہی مگر پھر تمہیں میری ایک بات ماننا ہوگی میں عمر بھر تمہاری خودداری کا یہ بھرم قائم دیکھنا چاہتا ہوں مگر تمہارا علاج بھی اسی قدر ضروری ہے۔لہذا میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ فی الحال عدنان کا آبائی گھر میں خرید لوں گا۔مکان کی رقم سے عدنان تمہارہ علاج مکمل کروائے گا لیکن تم دونوں کے بچپن کی یادوں کی مسکن وہ گھر میرے پاس عدنان کی امانت کے طور پر رہے گا۔عدنان جب بھی رقم جمع کر لے گا مجھ سے اپنا مکان واپس لے سکتا ہے عینی نئ نے چینی سے پہلو بدلا۔۔لیکن کوئی اگر مگر نہیں سنوں گا بس طے ہوگیا تم لوگ جانے کی تیاری کرو آج کل ویسے بھی اچھے ڈاکٹروں کا کال پڑا ہے ۔مجھے یقین ہے عدنان کچھ برس میں ہی اپنا مکان واپس کر لے گا عدنان نے خوشی سے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔یہ ہوئی نہ بات۔مجھے یقین تھا اس مسلے کا آپ ہی کوئی حل نکالیں گے۔۔آپ واقعی کمال ہیں پری زاد صاحب۔۔
اس وقت تو عینی خاموش رہی لیکن رات گئے اس کا نمبر میرے موبائل پر جگمگانے لگا۔۔پری زاد۔۔میں آپ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوں۔۔۔میں جانتی ہوں آپ میری خاطر یہ دب کچھ کر رہے ہیں۔۔میں نے بات مذاق میں ٹالی۔نہیں بے وقوف لڑکی تمہیں نہیں پتہ کہ پراپرٹی کی قیمتیں آج کل آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔عدنان کا گھر لے کر میں کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کیا دیکھ لینا عدنان رقم چکا نہ سکا تو دس گنا زیادہ قیمت پر بیچ دوں گا تم نے پری زاد کو بے وقوف سمجھ رکھا ہے کیا۔۔؟
وہ ہنس پڑی پری زاد آپ ہمیشہ گھاٹے کے سودے ہی کرتے ہیں ۔۔...
اچھا ٹھیک ہے لیکن آپ کو میری شرط یاد ہے ناں۔۔جب کھبی دنیا دوبارہ دیکھوں تو میری پہلی نظر کے فریم میں آپ کو ضرور موجود رہنا ہوگا بولیں۔۔قبول ہے تو ٹھیک ورنہ ابھی منع کرتی ہوں عدنان کو کہ گھر کے کاغذات نہ بنوائے آپ کے لیے میں نے جلدی سے ہامی بھر لی۔ٹھیک ہے ضدی لڑکی۔۔مگر دیکھو۔۔اب مزید کو بہانہ مت کرنا۔۔جیسا تم چاہتی ہو ویسا ہی ہوگا میں نے عینی کو تسلی دے دی مگر خود میرا چین و سکون ہمیشہ کے لیے ہوا ہوگیا۔ساری رات میں یہی سوچ سوچ کر لان میں ٹہلتا رہا کہ آنکھیں مل جانے کے بعد عینی جب مجھے دیکھے گی تو اس کا رد عمل کیا ہوگا۔۔؟
صبع سویرے عدنان اپنے گھر کے کاغذات بنوا کر کے آیا۔میں نے رقم چیک عدنان کے حوالے کیا تو خوشی سے اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔عدنان اٹھ کر خانے لگا تو میں نے اسے آواز دے کر روک لیا ۔۔سنو عدنان۔۔وہ پلٹا تو میں نے اس کے گھر کے کاغذات اس کے ہاتھ میں تھما دیے یہ گھر تمہارہ تھا۔اور ہمیشہ تمہارہ ہی رہے گا میں نے صرف عینی کو منانے کے لیے یہ گھر خریدنے کا ڈرامہ کیا تھا۔عینی کی آنکھیں واپس آجائیں اس زیادہ مجھے کچھ اور نہیں چاہیے البتہ یہ مکان والا راز عینی کے لیے ہمیشہ راز ہی رہے گا۔۔
عدنان کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں پری زاد صاحب میں دن رات محنت کرکے آپ کی ایک ایک پائی واپس کردوں گا یقین جانیئے۔یہ رقم مجھ پے ہمیشہ قرض رہے گی میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ہمارا بھی اس لڑکی پر کچھ حق ہے ڈاکٹر صاحب کچھ قرض ہم پر بھی واجب ہیں ابھی۔عدنان جاتے جاتے ایک بار پھر پلٹا آہ کو میں ہر لمحے خبر دیتا رہوں گا ہم اگلے ہفتے ہی یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔مگر عینی کی آنکھوں کی پٹی کھلنے سے پہلے آپکو بھی امریکہ پہنچنا ہوگا ورنہ وہ ضدی لڑکی آپریشن ہی نہیں کروائے گی۔۔بہت مان دیتی ہے وہ آپ کو اس نے آپریشن کے لیے ہاں بھی صرف آپ کے کہنے پر ہی کی ہے میں نے عدنان کی آنکھوں مین تارے سے جگمگاتے دیکھے اور یہ ستارے مجھے ہر بار مجھے اس کی آنکھوں میں تب دیکھائی دیتے تھے جب وہ عینی کا ذکر کرتا تھا ۔۔
آپ جانتے ہیں پری زاد صاحب۔۔میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جس دن عینی پہلی بار یہ رنگین دنیا دیکھے گی اسی دن میں اسے شادی کے لیے پرپوز کردوں گا۔۔جانے کب سے اس دن کا انتطار کر رہا ہوں۔۔
میرے سر پر جیسے عمارت دھڑام سے گر گئی میں نے گھبرا کر اسے دیکھا۔۔۔کیا۔۔۔؟میرا مطلب ہے کیا عینی کو بھی اس بات کی خبر کے ۔عدنان نے خوابوں کی بستی سے جواب دیا ہاں۔۔وہ جانتی ہے کہ میں ہمیشہ سے اسے آپنی ہم سفر بنانا چاہتا ہوں۔۔مگر وہ نہیں جانتی کہ میں کس دن یہ پرپوزل اس کے سامنے رکھوں گا میری مرحومہ ماں اور میری خالہ کی بھی ہمیشہ سے ہی یہی خواہش تھی۔بس وہ دن بھی قریب ہے چلتا ہوں۔۔بہت سے کام ادھورے پڑے ہیں ۔۔
عدنان۔ پلٹ کر چلا گیا۔میرا سر بڑی طرح چکرا رہا تھا میں وہی کرسی پر ہی ڈھیر ہوگیا۔کچھ دیر میں کمالی کسی کام سے اندر آیا تو میری حالت دیکھ کر گھبرا گیا ۔۔
آپ ٹھیک تو ہیں سر۔۔؟
میں آٹھ کھڑا ہوا ۔
کمالی میں گھر واپس جارہا ہوں کمالی۔مجھے ڈسٹرب مت کرنا میں دروازے تک پہنچ کے رک گیا۔کمالی ابھی تک گم سم کھڑا تھا۔کمالی۔۔تم نے کہا تھا کہ کھبی تم نے بہت ٹوٹ کر کسی سے محبت کی تھی۔۔تو کیا اس محبت کا کوئی رقیب تھا۔کمالی نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔نہیں سر۔۔خوش قسمتی سے رقابت کا زہر میں نے کھبی نہیں پیا۔۔مگر سنا ہے کہ محبت کی اصل روح تبھی ظاہر ہوتی ہے جب کوئی رقیب درمیان میں پڑتا ہے ۔۔میں نے کھوئے ہوے لہجے میں کمالی سے پوچھا رقیب کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے کمالی۔؟رقیب کے پر رحم کھانے والا دراصل اپنی محبت کے ساتھ مخلص نہیں ہوتا۔۔
میں نے چونک کر اسے دیکھا لیکن محبت تو محبت ہوتی ہے نہ کے کوئی جنگ۔کمالی مسکرا دیا محبت میں رقابت سے بڑی جنگ بھلا کیا ہوگی اس دنیا میں سر اور آپ نے سنا تو ہوگا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ۔۔
میں دفتر سے باہر نکلا تو رقابت کا زہر میرے پورے وجود میں اپنے پنجے گاڑھنا شروع کرچکا تھا۔جانے کب دن ڈھلا اور کب رات ہوئی۔میرا سارا جسم جل رہا تھا۔کبیر نے رات گئے جب گھر کے دروازوں اور گیٹ کا تالا لگانے کی اجازت چاہی تو میری آنکھیں اس پر جم گئیں۔کبیر خان ۔۔تم میرے لیے کیا کرسکتے ہو۔۔؟
کبیر نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ہم جان لے سکتا ہے اور جان دے بھی سکتا ہے صاحب۔
کبیر کچھ دیر تک میرے جواب کا انتظار کرتا رہا آپ حکم کرو صاحب۔۔کبیر خان کی جان بھی حاضر ہے آپ کے لیے میں اپنے خیالات سے چونکا۔ہاں۔فی الحال کچھ نہیں بس ایسے ہی خیال آگیا تھا ۔۔تم جاو ۔۔رات بہت ہوگئی تمہاری گھر والی راہ دیکھتی ہوگی تمہاری کبیر کچھ کہتے کہتے رک گیا اور الجھن زدہ سا وہاں سے چلا گیا۔یہ مجھے کہا ہوتا جارہا ہے میرے اندر یہ کیسی عجیب سی جنگ چھڑنے لگی تھی جیسے میرا وجود دو حصوں میں تقسیم ہوتا جارہا ہو میرے اندر ایک نیا پری زاد جنم لینے لگا تھا اور مجھے رقیب سے رقابت کا سبق سکھانے لگا تھا وہ سارا دن میرے اندر بولتا رہتا تھا۔۔
یہ کیا کرنے جارہے ہو احمق انسان۔خود اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودنے کا انتظام خوب کیا ہے تم نے۔اب تمہاری رقم سے عدنان عینی کی آنکھوں کا علاج کروائے گا اور پھر جب وہ لڑکی تمہیں اس شہزادے کے پہلو میں کھڑے دیکھے گی تو فیصلہ کس کے حق میں ہوگا یہ تم بھی اچھی طرح جانتے ہو۔ٹھیک ہی کہا تھا عدنان نے وہ مجھے بہت ماں دیتی ہے مجھے ۔مگر صرف مان۔۔عزت اور تعظیم اور میں نہ جانے کیا سمجھ بیٹھا تھا جس تبسم کو میں اپنے مقدر کی پھوار سمجھا تھا وہ تو اس کی عادت سے نکلا چار دن اس نے مجھ سے ہنس کر کہا بات کر لی اور ذرا سا اپنا وقت مجھ کر صرف کیا کردیا میں تو اسے محبت کا حقدار سمجھ بیٹھا تھا خود کو ۔۔احمقوں کی جنت کا سردار تھا میں۔کتبا بڑا دھوکا کھایا تھا سدا کے غدار دل کے ہاتھوں میں نے۔۔میں وہ منافق تھا جسے سو بار ایک ہی سوراخ سے ڈسا گیا تھا۔جی چاہ رہا تھا کی خود اپنے ہاتھوں سے اپنا سینہ چیر کر اس بے وفا قلب کو باہر نکالوں اور اپنے قدموں تلے اس وقت تک روندتا رہوں جب تک کہ زندگی کی آخری رمق باقی رہے اگلے دن جب گھر سے نکلا تو جانے کہاں کہاں بھٹکتا رہا اور پھر ہوٹل کا بورڈ دیکھ میں نے ڈرائیور کو گاڑی اس طرف موڑنے کا کہہ دیا۔میں کچھ دیر تنہا بیٹھنا چاہتا تھا۔اور کھبی کھبی تنہائی ہمیں صرف لوگوں کے ہجوم میں ملتی ہے ویرانوں میں تو ہم اپنے سامنے مزید نمایا ہوجاتے ہیں۔اور مجھے ایسی تنہائی چاہیے تھی جہاں خود مجھے بھی میرا سامنا نہ کرنا پڑے۔لابی میں بیٹھے بیٹھے دو گھنٹے گزرگئے یہ پانچ اور سات ستارہ ہوٹل بھی عجیب ہوتے ہیں۔ایک دنیا کی خلقت وہاں آتی جاتی رہتی ہے مگر کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی..
قسط 25
سب کے ہونٹوں پر مسکراہت پٹی ہے مگر عموما مسکرانے کی وجہ نامعلوم رہتی ہے۔اچانک لابی میں ایک شور سا اٹھا اور کچھ لوگ ایک جانب لپکے۔میں نے پلٹ کر دیکھا تو آمنہ آپنے اسٹاف کے ساتھ لابی میں داخل ہو رہی تھی۔میڈم شہہ پارہ کے مداح سے آٹو گراف لینے میں مصروف تھے۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آمنہ کی ساکھ بطور ہیروئن پھر سے بحال ہوچکی تھی۔جانے یہ آٹو گراف لینے والے مداح بعد میں اس آٹو گراف کی سینت سنبھال کر بھی رکھتے ہوں گے یا پھر وقت گزرنے کے بعد یہ یادیں بھی ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجاتی ہوں گی۔آمنہ کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ سب سے معزرت کر کے میری طرف چلی آئی ۔۔
ارے پری زاد۔۔۔تم۔۔۔۔؟کیا کوئی میٹنگ وغیرہ ہے؟
نہیں ۔۔خود سے چھپنے کے لیے یہاں آبیٹھا ہوں۔میرا جواب سن کر وہ خاموش سی ہوگئی کیوں ملاتے رہتے ہو خود کو ہمیشہ؟۔کب تک جلتے رہو گے۔۔یہ دنیا تمہارے اندر کی دنیا سے بہت مختلف ہے۔پلیز کود کو اس دنیا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرو۔۔میں دھیرے سے مسکرایا ۔۔گویا منافقت کا درس دے رہی ہو۔۔نہیں پری زاد نہیں ۔۔مگر یہ دوغلاپن ہماری فطرت بن چکا ہے۔کمالی صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ تم ہمارے ساتھ کینیڈا نہیں چل رہے ہو۔۔کہا کوئی پریشانی ہے۔۔؟
میں نے بات ٹال دی۔۔نہیں۔ ۔تم لوگ پہنچو۔۔میں بعد میں آجاو گا اور سنو مجھے یقین ہے کہ یہ فلم تمہارے کیریئر کی بہترین فلم ہوگی۔۔لیکن وعدہ کرو۔۔سپرہٹ ہوجانے کے بعد پہلا آٹو گراف میرے لیے ہوگا۔۔
وہ ہنستے ہنستے رو پڑی۔۔مت کیا کرو ایسی باتیں۔۔یہ سب تمہاری وجہ سے ہے اور اگر میرا بس چکے تو ساری دنیا کو تم سے آٹو گراف لینے بھیج دوں۔۔میں تمہیں بتا نہیں سکتی کہ میں تمہاری کتنی احسان مند ہوں پری زاد ۔
میں نے شکوہ کیا۔پھر وہی احسان کی بات۔؟کتنی بار تمہیں سمجھاوں کے دوستی میں احسان نہیں ہوتا آمنہ کی آنکھیں ابھی تک نہ تھیں۔تم نہیں جانتے پری زاد۔مجھ جیسے لوگ جو زندگی میں ان گنت سمجھوتے کرکے یہاں تک پہنچتے ہیں۔ان کے لیے کسی کا یہ بے لوث رویہ دنیا کے کسی بھی احسان سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔کھبی کھبی ہمارے ضمیر کو عمر بھر کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ بدلے میں ہم اپنے محسن کے لیے کچھ بھی نہیں کر پائے۔یہ احسان بڑا بے سکون کر دینے والا ہوتا ہے ۔۔۔
آمنہ کے جانے کے بعد میں بہت دیر تک بے مقصد وہیں بیٹھا رہا۔میں نے اپنا موبائل خاموش کر دیا تھا۔بے خیالی میں میری نظر پڑی تو کمالی اور عینی سمیت بہت سے لوگوں کی کالز دکھائی دیں۔عجیب عذاب نماشے ہے یہ سیل فون بھی۔
ہر وقت کسی کی دسترس میں رکھتا پے کسی مضبوط شکنجے جیسا۔دفتر پہنچا تو پی اے نے بتایا کہ عینی بی بی کا درجنوں بار فون آچکا ہے۔اس نے بنا پوچھے فون ملا دیا وہ مجھ سے روٹھی ہوئی تھی۔
کہاں چلے جاتے ہو آپ یوں بنا بتائے۔۔چار پانچ دن بعد میرئ روانگی ہے اور آپ ہیں کہ مجھے وقت ہی نہیں دے رہے۔۔یاد رکھیں پری زاد۔۔اگر آپ وقت پر نیو یارک نہ پہنچے تو میں آپریشن نہیں کرواوں گی۔۔اور اسے دھمکی مت سمجھیے گا
نہ چاہتے ہوئے بھی میرا لہجہ کچھ تلخ سا ہوگیا۔نہ ہوا کرو میرے لیے اتنا پریشان مجھ جیسے بے مول انسان کی اتنی فکر مت کیا کرو۔۔اور بہت لوگ ہیں یہاں تمہاری توجہ کے قابل۔۔
عینی روہانسی ہوگئی ۔کیوں ۔ کیا مجھے آپکے لیے فکر کرنے کا اور پریشان ہونے کا بھی کوئی حق بھی نہیں ہے۔۔ٹھیک ہے میں کہیں نہیں جارہی۔۔
اس نے فون رکھ دیا اور پھر شام تک وہ بڑی مشکل سے مانی۔جب انسان خود سے ہی روٹھا ہوا ہو تو اسے کسی دوسرے کو منانا کتنا مشکل ہوجاتا ہے اس بات کا احساس مجھے اس روز ہوا۔تیسرے دن فلم یونٹ کینیڈا روانہ ہوگیا۔میری بے چینی بھی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔میرے اندر پلٹا نیا پری زاد مجھے دن بھر کچوکے لگاتا رہتا تھا
رقیب سے رقابت اور دشمن سے دشمنی کی جاتی ہے اور تمہاری محبت کو تم سے چھین کر لے جانے والا تمہارا دشمن نہیں تو اور کیا ہے۔ابھی بھی وقت ہے پری زاد۔۔عینی کا آپریشن کروانے میں اتنی جلدی نہ کرو۔۔پہلے اس عدنان نامی کانٹے کو نکل جانے دو ۔۔۔کاش عینی کو کھبی بینائی ہی نہ مل پائے پری زاد کے لیے تو اس اس کی کومل روح کی چاندنی ہی کافی ہے عمر بھر اجالا کرنے کے لیے ۔۔اس کی بینائی کی ضرورت تو اس رقیب کو ہے۔۔اور رقیب کی خواہش پوری کرنے والا احمق اس دنیا میں کون ہوگا ۔۔؟؟
میں نے اس کی تکرار کی گونج سے سے درد سر پھٹتے سر کو تھام لیا۔اسی وقت کبیر خان کسی کام سے دفتر میں داخل ہوا تو میرا زرد چہرہ اور پسینے سے شرابور وجود دیکھ کر گھبرا گیا۔۔
کیا ہوا صاحب۔۔سب خیر تو ہے۔۔۔؟
اور شاید ٹھیک وہی لمحہ تھا جب میں اپنی برداشت کی حدیں پار کر گیا۔۔کبیر خان ادھر تمہارے علاقے میں اگر کوئی تمہاری محبت چھین کر لے جائے تو تم کیا کرتے۔۔؟
ہم اس کا قتل کردے گا صاحب۔۔۔ہمارے علاقے میں محبت اور غیرت کے نام پر مار دینا عام بات ہے ۔۔۔
میں نے اپنی آنکھیں زور سے بھینچ لیں۔۔کوئی میری محبت چھین کر لے جارہا ہے خان اس کو بھی ختم کر دو ۔۔۔کبیر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک گیا۔تم صرف اس کا نام بولو صاحب چوبیس گھنٹے میں وہ اس دنیا سے چکا جائے گا میں نے ایک کاغذ کے روقعے پر عدنان کا نام اور پتہ لکھ کر کبیر کے حوالے کردیا۔
یہ لڑکا آج کل زیادہ تر عینی بی بی کے گھر پر ہی رہتا ہے۔۔دھیان رہے ۔۔یہ کام تب ہونا چاہیے جب وہ لڑکا تنہا ہو۔۔
کبیر نے سر جھکایا۔۔آپ فکر مت کرو صاحب۔۔ہم سمجھ گیا
کبیر کسی اچھے وفادار کی طرح زیادہ سوال جواب کیے بغیر ہی واپس چکا گیا۔میرے سینے پر رکھا ایک بھاری پتھر ہٹا تو ضمیر کے بوجھ کی دوسری بڑی اور اس سے بھی بھاری سل وجود کو کچلنے لگی۔یہ ہم جیسوں کا ضمیر اتنا زندہ دل کیوں رہتا ہے؟۔یہاں تو لوگ پل بھر میں سینکڑوں گھر اجاڑ دیتے ہیں اور پلٹ کر ذرا دیر کو رک کر دیکھتے بھی نہیں۔میں تو پھر بھی صرف اپنے دل کا آنگن آباد کرنا چاہتا تھا۔کب چاہا تھا میں نے کے ایسا ہو۔۔؟۔مگر ایسا کو رہا تھا تو اس میں میرا کیا قصور تھا۔؟۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ضمیر ہمیں گناہ کرنے سے روکتا نہیں۔صرف گناہ کا مزہ کرکرا کردیتا ہے۔میں تو وہ بے ہنر تھا کہ نیکی کو نیکی کی طرح ادا کرسکا اور نہ گناہ کو گناہ کی طرح نبھا پایا ۔کیونکہ گناہ ہو یا پھر ثواب دونوں کے لیے بہرحال ظرف کی ضرورت پڑتی ہے ۔۔۔
شام کو دفتر نکلنے سے پہلے مجھے عینی کا پیغام ملا کہ وہ بیرون مللک روانگی سے قبل اپنے مجسموں کی ایک نمائش رکھ چکی ہے۔جا کا آج افتتاح تھا۔لہذا میں دفتر سے سیدھا شہر کی بڑی آرٹ گیلری پہنچ جاوں۔مجھے لگا جیسے عدنان کو راستے اے ہٹانے میں قدرت خود میری مدد کرنا چاہتی ہے عینی بہت دیر تک اپنی مصروفیت میں الجھی رہے گی اور کبیر خان کو وار کرنے کا موقع بھی مل سکتا تھا ۔میرے سارے جسم میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔جرم کی اپنی ایک کشش ہوتی ہے اور جب کوئی ناداں جرم کرنے کی ٹھان لے تو پھر یہ نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔اور شاید دنیا کے ہر گناہ کے پیچھے یہی فلسفہ کار فرما رہتا ہے۔۔۔
آرٹ گیلری لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔کمالی بھی دفتر سے عینی کی دعوت پر میرے ساتھ چلا آیا تھا
وہاں پہنچ کر پتا چکا کہ تقریب کا مہمان خصوصی بھی مجھے ہی مقرر کیا گیا ہے۔میں نہ نہ کرتا رہ گیا مگر جھٹ فیتہ کاٹنے والی قینچی میرے ہاتھ میں تھما دی گئی۔فیتہ کٹا تو تالیوں کی گونج میں ہم اس حال میں داخل ہوگئے جہاں عینی کے بنائے ہوے بہت سے فن پارے رکھے گئے تھے میں نے چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا مگر عدنان کہیں نہیں دیکھائی دیا۔نہ ہی میرے دل کے چور نے مجھے اس بات کی اجازت دی کے میں عینی سے اس کے بارے پوچھ سکوں۔۔
اس لڑکی کی انگلیوں کا ہنر سارے ہال میں بکھرا ہواتھا اور اس کے فن کے جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔لوگوں نے جی بھر کر اسے داد دی۔مغرب کے بعد باقاعدہ تقریب کا آغاز ہوا تو میں نے کبیر خان کو ہال سے باہر جاتے ہوے دیکھا میں اپنے ہی خیالوں میں گم سم کھڑا تھا کہ ایک بنی ٹھنی سی لڑکی ایک پختہ عمر عورت کے ساتھ میرے قریب آکھڑی ہوئی...
کیسے ہیں پری زاد صاحب۔۔کھبی ہم غریبوں کو بھی یاد کر لیا کریں آپ نے شہہ پارہ کے بعد کسی اور فلمی ہیروئن کو دیکھا تک نہیں۔۔میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔کمالی نے جلدی سے تعارف کروایا سر یہ میڈم زارا ہیں شہہ پارہ کی ٹکر کی ہیروئن ہیں ۔۔
زارا نے انکساری سے سر جھکایا۔۔۔کہاں جی۔۔۔شہہ پارہ کی ٹکر کی ہوتی تو آج میں بھی پری زاد صاحب کی فلم میں کاسٹ ہوتی مگر انہوں نے تو پلٹ کے پوچھا تک نہیں کوئی اور موقع ہوتا تو میں شاید اس کی بات اطمینان سے سننتا مگر اس وقت میرا سارا دھیان کبیر اور عدنان کی طرف لگا ہوا تھا۔میں نے جان چھڑانے کے لیے کہاں ۔اگر میں نے دوسری فلم اناوس کی تو آپ کو ضرور موقع دوں گا۔فی الحال میں کسی اور الجھن میں ہوں۔۔معاف کیجیے گا۔
کمالی نے میرے ہٹنے کے بعد جانے بار سنبھالنے کے لیے اس حسن بے پرواہ کا کیا کہا۔میں ہٹ کر ایک جانب کھڑا ہو کر بظاہر کوئی فن پارہ دیکھنے لگا۔کچھ دیر بعد کمالی ہاتھ میں ایک تعارفی کارڈ لیے میری طرف آگیا ۔۔
سر یہ زارا نے اپنا کارڈ دیا ہے۔اور اس کے پیچھے اپنا خاص ذاتی نمبر بھی لکھ دیا ہے اس نے۔اس کی ماں نے بھی خواہش ظاہر کی ہے کہ کھبی اس کے ساتھ ڈنر وغیرہ کریں
میں نے کارڈ دیکھ کر بے پرواہی سے کمالی کے حوالے کردیا۔وہ کچھ حیران ہوا تم جانتے ہو کمالی۔مجھے ایسے لوگوں اسے ملنے کا کھبی کوئی شوق نہیں رہا۔حسن جب خود اپنی قیمت لگانے ہر تل جائے تو بیک وقت اس سے زیادہ گراں اور ارزاں جنس زمانے میں کوئی دوسری نہیں ہوتی۔۔
کمالی مسکرایا۔یہ آپ ہی ہیں جو جنس کو ارزاں سمجھ رہے ہیں سر۔ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت بھی شہر بھر کے امراء اسی زارا کے ساتھ لنچ یا ڈنر پر ذرا سا وقت گزارنے کے لیے جانے کیا کیا جتن کرتے ہوں گے۔میں تو یہ کہوں گا سر کہ جب حسن اپنی قیمت لگانے پر آجائے تو اس سے مہنگی چیز دنیا میں کوئی اور ہو نہیں ہوتی۔۔۔
میں نے سر جھٹکا۔وہ حسن ہی کیا جو بک جائے
ٹھیک کہتے ہیں آپ سر۔مگر بات اگر سودے بازی کی ہو تو حسن کے پاس دان کرنے کے لیے سب سے بڑا عطیہ حسن ہی ہوتا ہے۔شاید آپ جسے بہت مقدس جنس سمجھتے ہیں زارا جیسی ادا۔ فروش کے ہاں وہی سب سے آسان سودا ہے ۔اپنی اپنی سوچ کی بات ہے سر۔۔کسی کے لیے دولت کے انبارردی کے کاغذ کے ٹکڑوں جیسے ہیں تو کسی کے لیے حسن اور ادا اسی ردی کا نعم البدل۔۔اتنے میں دوسرے ہال سے سپیکر پر تقریب شروع ہونے کا علاج کیا گیا۔سارے مہمان اپنی نشتوں ہر بیٹھ چکے تھے۔میں پہلی رو میں اپنے نام والی نشت پر بیٹھا تو اچانک میری نظر اسٹیج کے پیچھے اپنے کاموں میں مصروف عدنان پر پڑی۔۔۔
میں نے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھا رو کبیر خان مجھے ہال کے دروازے ہر جما کھڑا نظر آیا۔میری اس سے نظر ملی تو اس نے آنکھوں آنکھوں میں مجھے مطمعین رہنے کا اشارہ کیا۔جیسے کہہ رہا ہو کہ آپ فکر نہ کریں صاحب۔آپ کا غلام موجود ہے یہیں۔میں نے عینی کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ کسی صورت بھی مجھے اسٹیج پر آکر کچھ کہنے کا نہیں کہے گی کیونکہ میری طبعیت اس وقت اجازت نہیں دے رہی۔لہذا تقریب کی اناونسر نے سب سے پہلی میری طبعیت کی خرابی کا بہانہ کر کے میری طرف سے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا پھر ایک ایک کر کے تقریب میں موجود متعلقہ فن کے ماہرین کو ڈائس پر بلایا جاتا رہا اور وہ عینی کے فن کے بارے میں اپنی رائے دے کر پلٹتے رہے۔میں اپنے خیالوں مین گم بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کب کوئی میرے قریب آکر بیٹھ گیا۔۔
کن خیالوں میں گم ہیں پری زاد صاحب۔۔
میں عدنان کی آواز سن کر اچھل ہی پڑا مجھے لگا جیسے اس نے میرے خیالات پڑھ لیے ہوں۔مگر وہ اپنی دھن میں بولے گیا۔آپ جانتے ہیں پری زاد۔عینی بہت خوش ہے جانے کیا کیا منصوبے بناتی رہتی ہے سارا دن کہ جب اس کی بینائی واپس آجائے گی تو وہ ایک بار پھر سے میرے ساتھ اپنے بچپن کے اسکول محلے گلی سڑکوں اور گھر کو دیکھنے جائے گی اور ہر وہ جگہ جہاں اس کی کوئی یاد جڑی ہے
لیکن ہر جگہ آپ ہمارے ساتھ ہوں گے۔۔اس معصوم لڑکی نے اپنی زندگی کے کتنے سال اندھیروں میں کاٹ دیے۔میں نے بھی تہہ کر لیا ہے کہ میرے رب کی مہربانی سے جب عینی کئ بصارت واپس آجائے گی تو اس کے نصیب کے اندھیرے روشنی میں بدل دوں گا۔اور یہ سب آپ کی وجہ سے ممکن ہوگا پری زاد صاحب۔اصل میں یہ آپ ہی ہیں جو ہم دونوں کی زندگی میں ضیاء بن کر آئے ہیں ۔۔
میں گم سم عدنان کی باتیں سن رہا تھا کہ اسٹیج پر سب سے آخری عینی کا نام پکارا گیا۔ہال میں تالیوں کی گونج کے دوران وہ دھیرے دھیرے چلتی اپنی کسی ساتھی کے سہارے ڈائس تک پہنچی تو سناٹا سا چھا گیا۔وہ بولی میرے آس پاس صرف اس کے لفظ اپنے سر بکھیرنے لگے۔
آج میری زندگی کا بہت بڑا دن ہے۔اس لیے نہیں کہ آج میرے فن پاروں کی نمائش ہوئی اور ملک کے نامور فن کاروں نے میرے فن کو سراہا۔یہ مداح سرائی تو مجھ جیسی ہر نئی آرٹسٹ کا جواب ہوتی ہے۔مگر ان سب باتوں سے بڑھ کر بھی ایک خوشی ہے۔ایک اعزاز میرے لیے کہ میرے محسن میرے آئیڈیل نے آج میری زندگی کے اس اس اہم یونٹ کا افتتاح اپنے ہاتھوں سے کیا۔آج میں آپ سے اپنی ایک اور اہم خوشی بھی بانٹنا چاہتی ہوں۔تین دن بعد میری ہو ایس اے کی روانگی ہے۔چند ماہ بعد جب میں واپس آوں گی تو شاید اس وقت مجھے اس سفید چھڑی کے سہارے کی ضرورت کھبی محسوس نہیں ہوگی اور یہ سب میرے اس محسن کی دوستی کا کرشمہ ہوگا۔ہماری زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی آتے ہیں جن سے قدرت ہمارے نصیب کے سارے تار جوڑ دیتی ہے۔میری زندگی میں پہلے ایسے دو لوگ تھے میری ماں اور میرے بچپن کا ساتھی عدنان۔۔۔جس نے ہر قدم پر میرا حوصلہ بڑھایا اور مجھے جینے کی راہ دیکھائی مگر اب کوئی اور بھی ہے جو میری خوشیوں کا ضامن ہے۔جس کے ہوتے ہوئے مجھے پورا یقین ہے کہ غم کھبی میرے آس پاس بھی بھٹک نہیں سکتا کیونکہ کچھ لوگوں کا وجود ہی ہمارے اندر روشنی بھر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔۔اور آج آپ لوگ جو میرے اردگرد یہ خوشیوں کا بہاو دیکھ رہے ہیں یہ سب اسی عظیم ہستی کی دیں ہے وہی جو میرے محسن میرے آئیڈیل اور دنیا سب سے زیادہ محترم ہیں میرے لیے سارا ہال عینی کی تقریر ختم ہونے پر تالیوں سے گونج اٹھا اور بہت دیر تک شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دی۔لیکن ہال کے اس شور دے کہیں زیادہ شور اور چیخ و پکار خود میرے اندر مچی ہوئی تھی مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا بہت حقیر محسوس ہورہا تھا۔میرے اندر لگے آئینے میں دوسری جانب کھڑا پری زاد مجھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ۔۔۔
تم ایک خود غرض انسان ہو پری زاد۔۔کیا یہی تمہاری نام نہاد محبت ہے کہ خود اپنے ہاتھوں اپنی چاہت کی خوشیوں کا گلہ گھونٹنے چلے ہو۔۔کتنے کم ظرف ہو تم اور کتنی اعلی ظرف ہے وہ کہ تمہیں اتنا ماں دیتی ہے۔۔۔مگر تم ۔۔۔؟؟
اس ماں کے قابل کہاں۔۔۔تم بھی وہی عام دنیا دار نکلے پری زاد خود غرض اور مطلب پرست۔۔جتنا تمہارا تن میلا ہے اتنا ہی تمہارا من۔۔۔یہی تمہاری اصلیت اور یہی تمہاری اوقات ہے پری زاد۔۔۔
میرے اندر کی آوازیں اتنی بلند ہونے لگیں کی میں گھبرا کر کانوں پر ہاتھ لکھ لیے۔اور ٹھیک اسی لمحے کی ملائم آواز سنائی دی۔۔
پری زاد کہاں چھپے بیٹھے ہیں آپ۔۔؟میں آپ کو سارے ہال میں ڈھونڈتی پھر رہی ہوں۔۔آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے ناں
میں نے گھبرا کر عینی کی طرف دیکھا۔تقریب ختم ہوچکی تھی اور لوگ ایک ایک کر کے عینی کو کامیاب نمائش پر مبارک باد دے کر واپس پلٹ رہے تھے۔۔
ہاں۔۔ہاں ٹھیک ہوں۔۔یو ہی بس ذرا بھیڑ میں جی گھبرارہا تھا۔تم بتاو ۔۔تم خوش تو ہو ناں۔۔آج تم نے یہ معرکہ بھی سر کر ہی لیا۔
عینی ہنس پڑی وہ بہت ہلکی پھلکی لگ رہی تھی۔جناب یہ سارے معرکے آپ کی وجہ سے سر ہو رہے ہیں۔پتہ ہے عدنان تو مجھے کہتا ہے کہ آپ میری زندگی میں لکی چارم بم کر آئے ہیں۔وہ کیا کہتے ہیں اسے آپ کی شاعرانہ گفتگو میں ۔۔
خوش نصیبی کا ستارہ ۔۔..
قسط 26
عدنان کے ذکر پر جیسے مجھے سب کچھ دوبارہ یاد آگیا اور میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا مگر یہ عدنان ہے کہاں۔دکھائی نہیں دے رہا۔۔
عینی مسکرائی پتہ نہیں ۔۔کہہ رہا تھا مجھے کوئی سرپرائز دینا چاہتا ہے۔شاید کسی کام سے اسی سلسلے میں باہر گیا ہے بس آتا ہوگا۔۔
میرے ہوش اڑ گئے عدنان تنہا باہر نکل چکا تھا۔میں نے جلدی سے گھڑی پر نظر ڈالی رات کے دس بج رہے تھے میں نے عینی کو وہی رکنے کا کہا اور جلدی میں باہر کی جانب لپکا۔میرے سارے خدشے شاید آج ہی سارے درست ثابت ہونا تھے۔میری گاڑی کے قریب میرا ڈرائیور اور گھر کا دوسرا گارڈ مستعد کھڑے تھے۔میں نے پڑ بڑائے ہوئے لہجے میں ان سے پوچھا۔۔کبیر خان کہاں ہے۔۔
ڈرائیور نے ادب سے جواب دیا کہ وہ کسی ضروری کام کا کہہ کر ظاہر نکلا ہے۔میرے ساتھ جانے کے لیے اس نے گھر سے دوسرا گارڈ طلب کر لیا تھا۔اس گارڈ نے مجھے بتایا کہ کبیر خان کسی پرائیوٹ گاڑی میں باہر نکلا ہے۔میرے ہاتھ پاوں پھولنے لگے۔یقینا کبیر خان عدنان کے پیچھے گیا تھا تاکہ موقع پا کر اسے ختم کردے۔میں نے کانپتے ہاتھوں سے کبیر کا نمبر ڈائل کیا۔گھنٹی بجتی رہی مگر اس نے فون نہیں اٹھایا میں نے جلدی سے دوبارہ نمبر ملایا۔میرے اندر سمندر کی تیز لہروں جیسا شور ٹھاٹھیں مار رہا تھا فون اٹھاو کبیر خان۔۔۔ورنہ آج ہم دونوں کے ہاتھوں ایک گناہ کبیر سرزد ہوجائے گا۔۔فون اٹھاو کبیر۔۔خدا کے لیے فون اٹھاو ۔۔
میں نے خود کلامی کرتے ہوے پانچویں مرتبہ کبیر کا نمبر ڈائل کیا۔تیسری گھنٹی پر اس نے فون اٹھا لیا۔۔میری آواز خانہ گئی تم کہاں ہو کبیر خان۔۔جلدی واپس لوٹ آو ۔۔
دوسری جانب ٹریفک کا بہت شور تھا ہم شکار کے پیچھے آیا ہے صاحب۔۔تم فکر مت کرو وہ اس وقت ٹھیک ہمارے نشانے پر ہے۔۔
میں نے چیخ کر کہا ۔۔نہیں کبیر خان ۔۔ایسی غلطی مت کرنا
میرا حکم ہے فورا واپس آجاو دوسری جانب کبیر خو میری آواز ٹھیک سنائی نہیں دی۔بہت شور ہے صاحب ہم کام ختم کرتے ہی واپس آتا ہے۔۔وہ لڑکا دوسرا گاڑی میں ہمارا نشانے پر ہے بس ایک منٹ اور کبیر کی آواز کت گئی میں اتنی زور سے چلایا کہ ساری پارکنگ میری آواز سے گونج اٹھی تم اس لڑکے کو نہیں مارو گے کبیر خان۔۔یہ میرا حکم ہے ۔۔میری آواز درمیان میں ہے کٹ گئی دوسری جانب کے شور میں مجھے ایک دھماکے کی آواز سنائی دی۔شاید کسی نے فائر کیا تھا میرے ہاتھ دے فون زمین پر گرگیا۔۔
میں سر پکڑ کر وہی زمین پر بیٹھ گیا۔کچھ لمحوں کے لیے ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا۔پھر اچانک مجھے یوں لگا جیسے قریب پڑے میرئ سیل فون سے ابھی تک کبیر خان کی آواز آرہی ہو۔۔میں نے جلدی سے فون اٹھایا دوسری طرف وہی تھا کیا ہوا صاحب۔۔۔اس طرف بہت شور تھا۔۔ابھی بولو
میں چلا کر کبیر سے پوچھا۔کیا تم نے اسے مار دیا کبیر
نہیں صاحب۔۔ادھر سگنل پر وہ بالکل نشانے پر تھا۔۔مگر چوک پر کوئی حادثہ ہوگیا اس لیے رش جمع ہوگیا مگر ہم اس کے پیچھے ہیں۔کسی سنسان سڑک پر میری آواز بیٹھ گئی۔۔نہیں کبیر خان۔۔تم واپس آجاو
کبیر نے احتجاج کیا مگر صاحب۔۔میں نے غصے میں چیخ کر کہا یہ میرا حکم ہے۔۔فورا واپس آو ۔۔
ٹھیک ہے صاحب۔کبیر نے فون کاٹ دیا میں اس طرح گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔جیسے میلوں دور بھاگ کر آیا ہوں۔پھر مجھ سے وہاں ٹھہرا نہیں گیا اور میں گھرچواہس لوٹ آیا اور خود خو کمرے میں بند کر کے اندھیرے کے حوالے کر دیا آج میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی اور آخری بازی ہار کر آیا تھا۔کچھ بھی نہیں بچا تھا میرے پاس۔۔میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں تجوریوں میں بھری اپنی ساری دولت کو اسی عالی شان گھر کے صحن میں جمع کر کے اپنے ہر اثاثے سمیت جلا کر راکھ کر دوں۔آگ لگا دوں اس ساری جائداد اور شان و شوکت کو۔۔۔کا کام کا تھا یہ سب کچھ میرے؟
اتنا لمبا سفر طے کرنے کے بعد بھی میرے دل کا دامن آج بھی اسی پری زاد کی طرح تہی دست اور خالی تھا جو کھبی اسی شہر کے ایک کچے مکان میں رہا کرتا تھا۔کسی نے ٹھیک ہی کہاں تھا کہ دل کی ویران خالی بستیاں مقدروں سے بسا کرتی ہیں۔اور میرے نصیب میں میرے من کی یہی سونی حویلی لکھی تھی۔لیکن اب میں اپنے اس دشمن دل کی مزید کسی چال میں آنے والا نہیں تھا۔بہت من مانیاں کر چکا تھا یہ اپنی بڑی ذلت اور خواری اٹھائی تھی آج تک میں نے اس دل کے کہنے میں اکر۔مگر اس وحشی دل کو سزا دینے کا وقت آچکا تھا اور مجھ جیسے دل جلے جب خود کو سزا دینے پر آتے ہیں تو وہ سزا بڑی سخت ہوتی ہے۔اگلے روز میں نے ایک پاور آف اٹارنی کے ذریعے کچھ ایم فیصلے کیے۔اپنے تمام پھیلے ہوے کاروبار اور عملے کو ایک ٹرسٹ کے زیر اہتمام کر کے سب کے حصے مقرر کردیے۔میری آمدنی کا ایک بیت بڑا حصہ اسی ٹرسٹ کے زیر اہتمام ڈاکٹر پال کے پلاسٹک سرجری کے ادارے کو جاتا تھا۔میں نے ڈاکٹر پال خو آخری ای میل لکھی ۔۔
محترم ڈاکٹر پال۔۔میں نے اپنی پلاسٹک سرجری کا ارادہ ملتوی کردیا ہے۔۔کیونکہ آپ ہی کے ادارے کی تعارفی اگر کے مطابق یہ بات بالکل درست نکلی کہ چہرے بدلے جا سکتے ہیں۔تقدیر نہیں۔۔اور شاید مجھے اس بات کا احساس بہت دیر میں ہوا کہ مجھے اپنی تقدیر بدلنے کی ضرورت چہرہ بدلنے سے کہیں زیادہ تھی۔۔مگر افسوس۔میں کسی ایسے ادارے کو نہیں جانتا جو اللہ سے سفارش کر کے میری تقدیر بدل ڈالتا ۔۔میرے ادارے کی آمدنی سے ایک بڑا حصہ پر ماہ آپ کے ادارے خو ملتا رہے گا میری درخواست ہے کہ آپ یہ رقم ان لوگوں کے مفت علاج پر صرف کیجیے گا جو اپنی سرجری کروانا چاہتے ہیں مگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔میری آمدنی کا دوسرا بڑا حصہ میرے اپنے مللک میں ایسے پلاسٹک سرجری کے اداروں کو جائے گا جو یہاں کے نادار مریضوں کے چہروں کا علاج کریں گے اور پوری سہولیات نہ ہونے کی صورت میں وہ ایسے لوگوں آپ کے ادارے تک پہنچائیں گے۔میرا اسٹاف آپ کے ادارے کو یہاں کے اداروں سے منسلک کروادے گا۔۔یہ میری آخری ای میل ہے کیونکہ اس کے بعد میں خود خو اس دنیا کی بھیڑ میں کہیں گم کردوں گا۔اس لیے میں نہیں چاہتا کہ جس کے لیے میں اپنے چہرے کی سرجری کروا کر اسے خوشنما بنانا چاہتا تھا وہ کھبی میرے آس چہرے کو دیکھے اور اس کی آنکھوں میں میرے لیے حقارت یا ہمدردی کی وہ لہر پیدا ہو جو ازل سے میرا مقدر ہے۔اور اگر کھبی ایسا ہوا تو وہ لمحہ میرے لیے موت کی اذیت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہوگا۔میں ساری دنیا کی نظریں جھیل لیں مگر اس ایک نظر خو کھبی برداشت نہیں کر پاوں گا۔اپنا بہت خیال رکھیئے گا۔۔دعا گو پری زاد۔۔۔شام تک سارے کاغذات تیار ہوچکے تھے کمالی سمیت چند دیگر سینئیر اور وفادار عملے کے ارکان کو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کردیا گیا۔میرے بہن بھائیوں دوستوں رشتہ داروں اور عملے سمیت سبھی کے لیے ماہانہ مشاہرے کے علاوہ حصے کے طور پر ایک معقول رقم مخصوص کردی گئی میں نے کچھ ایسا انتظام کردیا تھا کہ میرے جانے کے بعد بھی سارا سلسلہ اسی طرح چلتا رہے۔جب کمالی کو میں نے رات گئے طلب کر کے ساری تفصیلات سے آگاہ کیا تو وہ ایک دم گھبرا گیا۔۔
مگر سر آپ کہاں جارہے ہیں۔۔؟اور معاف کیجیے گا سر۔۔یہ پاور آف اٹارنی کہیں زیادہ کوئی وصیت نامہ لگتا ہے۔میں آپ خو کہیں جانے نہیں دو گا۔۔اسٹاف سے یہ سب کچھ اکیلے نہیں سنبھلے گا سر...
میں نے اسے تسلی دی فکر مت کرو۔سب یونہی چلتا رہے گا اور میں کہیں نہیں جارہا۔بس اچانک کچھ ضروری مسائل ڈر پیش آگے ہیں اس لیے شاید کچھ عرصہ غیر حاضر رہوں گا اور یاد رہے میرے کہیں جانے تک یہ کاغذ تمہارے پاس امانت کے طور پر رہے گا۔مجھے یقین ہے کہ تم میرا یہ بھرم ضرور قائم رکھو گے۔۔
کمالی کی پلکیں بھیگ گئیں۔۔آخری سانس تک آپ کا بھرم نبھاوں گا۔مگر یہ تو بتا دیں کہ آپ کہاں جارہے ہیں۔۔؟
کھبی آپ سے رابطہ کرنا ہو تو کیسے کیا جائے ۔۔۔؟
فی الحال تو میرا خود اپنے آپ سے کوئی رابطہ ممکن نہیں ہے کمالی۔۔میں کوشش کروں گا کہ تمہیں مطلع کر سکوں اب تم جاو۔۔اور ہاں۔۔کبیر خان کا خاص خیال رکھنا ایسے وفادار بہت کم نایاب ہوتے ہیں۔۔
کمالی افسردہ دل میں بہت سی باتیں لیے واپس لوٹ گیا۔کچھ دیر میں کبیر خان آگیا۔وہ کچھ چپ چپ سا تھا۔میں نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔۔مجھ سے ابھی تک ناراض ہو کبیر خان؟۔۔کبیر نے جلدی سے کانوں کو ہاتھ لگایا۔۔نہیں صاحب ہم آپ کے غکسم ہے۔۔مگر آپ نے اس ڈاکٹر کو معاف کر کے اچھا نہیں کیا دشمن پر رحم نہیں کھانا چاہیے کیونکہ جب اس کا وقت آئے گا تو وہ آپ پر رحم نہیں کرے گا۔۔
میں نے گہری سانس لی۔۔تم ٹھیک کہتے ہو کبیر خان۔۔مگر محبت شاید ہمیں بزدل بنا دیتی ہے۔کھبی کھبی محبت میں ہم ایسے لوگوں کو بھی بخش دیتے ہیں جو ہمارے قتل کا باعث بن جاتے ہیں۔۔اور اس جنگل نما دنیا کا نس یہی تو قانون ہے۔۔مار دو۔۔یا پھر خود مر جانے کے لیے تیار ہو جاو میں نے خود خو مار دیا کبیر خان ۔۔۔
کبیر سر جھکائے واپس چلا گیا۔اگلے دو دن بھی پر لگا کر اڑ گئے اور پھر عدنان اور عینی کی امریکہ روانگی کا دن بھی آگیا۔وہ دونوں بے حد خوش دیکھائی دے رہے تھے عینی کی اب بھی وہی ضد تھی۔میں تو کہتی ہوں آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔تین چار ہفتے میننسارے ٹیسٹ ہو جائیں گے اور پھر آپریشن کے بعد ہم سب اکھٹے واپس آجائیں گے۔کتنا مزہ آئے گا۔جب ہم تینوں وہاں ایک ساتھ ہوں گے۔۔ورنہ یہ عدنان تو اپنی بورنگ باتوں سے میرا سر کھا جائے گا اتنے بہت سے دن۔۔
میں نے وعدہ کیا تم لوگ پہنچو۔۔میں بھی جلد آنے کی کوشش کروں گ۔۔یہاں پیچھے بہت سے کام ادھورے پڑے ہیں عدنان نے سر ہلایا۔۔کوشش نہیں جناب۔۔آپ کو اس بکی کے آپریشن سے پہلے ہر حال پہنچنا ہوگا۔اسے اکیلے برداشت کرنا خود میرے بس کی بات نہیں ہے۔ہاں البتہ آپ کی موجودگی میں کافی سوبر برتاو کرتی ہے عینی نے اسے گھورا۔بکومت۔۔پری زاد جانتے ہیں کہ میں کتنی سوبر اور ویل مینزڈ ہوں۔۔تمہاری گواہی کی ضرورت نہیں ۔۔
اتنے میں اندر سے ایک فلائیٹ کا اعلان ہونے لگا۔میں نے ان دونوں کو رخصت کیا ٹھیک ہے بابا۔۔تم دونوں ہی بہت سچجے ہو ۔۔۔چلو اب دیر نہ کرو۔۔فلائٹ کا اعلان ہوگیا ہے عینی جاتے جاتے ایک لمحے کے لیے پلٹی۔میرا دل بے قابو ہونے لگا وہ میرا سب کچھ لوٹ کر اپنے ساتھ لے جارہی تھی اس کی آنکھیں بھی بھیگ رہی تھیں۔۔
پری زاد۔۔وقت لر پہنچنے کی کوشش کیجیے گا۔۔میں وہاں روزانہ آپ کو یاد کروں گی سپنا بہت خیال رکھیئے گا ۔۔
میری آواز کپکپا سی گئی
مجھے یوں لگا جیسے میرا دل کسی نے مٹھی میں لے کر بہت زور سے مسل ڈالا ہو۔۔تم بھی ہمیشہ میری یادوں میں رہو گی میری پیاری آرجے۔۔الوداع
وہ ایک لمحہ رکی اور پلٹ کر اندر لاونج کی جانب بڑھ گئی میں بہت دیر تک ان لوگوں کی بھیڑ میں گم ہوتا ہوا دیکھتا رہا ۔۔اپنی زندگی کو اپنے قدم بہ قدم دور جانے کا یہ نظارہ شاید دنیا میں مجھ سے پہلے کسی بد نصیب نے نہ کیا ہو۔عینی چلی گئی۔میں جہاز کی اڑان بھرنے تک والی اناونسمنٹ تک وہیں بیٹھا رہا۔لوہے اور چند دیگر دھاتوں خس بنا ہوا ایک ریوہیکل ہوائی جہاز مجھ سے میرا سب کچھ چھین کر بہت دور اڑان بھر گیا میں گھر واپس لوٹا تو آدھی رات ڈھل چکی تھی۔میں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ گاڑی نکالے مگر کبیر خان کو اطلاع نہ کرے۔مجھے شاید کچھ دیر کے لیے کسی کام سے باہر جانا پڑے۔گھنٹہ دو گھنٹہ بیٹھ کر میں روز مرہ اور ماہانہ خرچوں کے کچھ چپک دستخط کیے اور کمالی کے نام ایک خط میں سارے معاملات کی تفصیل لکھ ڈالی۔فجر سے کچھ دیر قبل میں تنہا گھر سے باہر نکلا اور ڈرائیور کو میں نے ریلوے اسٹیشن چلنے کے لیے کہا۔عینی کے جانے کے بعد میرا دل دماغ جیسے بالکل سن سے ہوگئے تھے۔میں چل پھر ریا تھا سانس لے رہا تھا مگر میں زندہ کب تھا۔صرف سانس لینا پی زندگی کی شرط کیوں ٹھہرا دی گئی ہے؟۔۔
جیون تو اس سے کہیں بڑھ کر اور سوا ہے۔ڈرائیو کو باہر انتظار کرتے چھوڑ کر میں ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم ہر پہنچا تو کوئی گاڑی روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی میں نے بنا سوچے سمجھے آخری اسٹیشن کا ٹکٹ لیا اور درجہ بندی کے اہتمام کی فکر لیے بغیر پہلی بوگی میں سوار ہوکر ایک خالی سیٹ پر بیٹھ گیا۔کچھ دیر میں ٹرین نے سٹی بجائی اور پلیٹ فارم چھوڑ دیا۔مگر یادیں دماغ کا پلیٹ فارم بھلا کب چھوڑتی ہیں ۔۔
ٹرین اسٹیشن ڈر اسٹیشن ہوتی ہوئی جانے کہاں چلی جارہی تھی۔لوگ ڈبے میں سوار ہوتے اور اپنی منزل آنے پر اترتے رہے
مگر میری منزل کہاں تھی۔یہ میں بھی نہیں جانتا تھا۔دو دن بعد ٹرین کسی بڑے جنکشن پر آکر کھڑی ہوگئی اور سبھی مسافر اتر گئے۔۔پتہ چلا کہ یہ آخری اسٹیشن ہے۔اب اگلے دن یہی ٹرین یہاں سے واپس میرے شہر تک جائے گی۔کاش یہ ٹرین تمام عمر یونہی چلتی رہتی آگے بڑھتی رہتی اور اس کا کوئی آخری اسٹیشن نہ آتا۔کتنا ناداں تھا میں۔کیا سوچ کر اس ٹرین میں آبیٹھا تھا۔کہ میری باقی تمام عمر کا سفر اسی ٹرین میں کت جائے گا۔؟۔۔جب تیسری بار ٹرین کے عملے نے مجھے آ کر بتایا کہ اب یہ گاڑی آگے کہیں نہیں جائے گی تو میں نیچے اتر آیا اور کچھ فاصلے پر بچھے لکڑی کے ایک پرانے بینچ پر جا کر بیٹھ گیا۔دنیا کے سارے ریلوے اسٹیشن شاید ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ناساز ٹھیک پی کہتا تھا منزلیں اپنی جگہ ہیں راستے آپنی جگہ۔جب قدم ہی نہ ساتھ دیں تو مسافر کیا کرے؟؟
یہاں پر موجود سبھی مسافر کوئی نہ کوئی منزل اور مقصد سفر رکھتے تھے۔ہر کسی کو کہیں جانے کی جلدی تھی بچے بوڑھے عورتیں اور مرد بھیڑ ہجوم اور بھانت بھانت کی بولیاں عجلت زادہ راہ اور راستوں کی فکر۔۔سبھی کسی نہ کسی دھن میں مگن تھے۔مگر میں بے حس بیٹھا اطمینان سے یہ سب دیکھتا رہا ۔۔شام ڈھلی اور پھر گہری رات بے ڈیرے ڈال دیے۔۔۔میرے پیچھے وہاں گھر میں ضرور طوفان آچکا ہوگا جب کئی گھنٹے انتظار کے بعد میں واپس نہیں لوٹا ہوں گا تو کبیر نے ضرور اسٹیشن کے باہر میرے انتظار میں کھڑے ڈرائیور سے رابطہ کیا ہوگا یا وہ اس سے بھی پہلے میری تلاش میں نکل چکا ہوگا۔اور پھر جب ان لوگوں نے مجھے اسٹیشن پر نہیں پایا ہوگا تو گھر میں کہرام مچ گیا ہوگا۔کمالی کو تو میرے جانے کا تھوڑا بہت علم تھا کبیر مگر ٹک کت بیٹھنے والا نہیں تھا۔وہ ضرور میری تلاش میں سب چھوڑ چھاڑ کر گھر سے نکل پڑا ہوگا۔۔کہیں وہ دوسری ٹرین پکڑ کر ہر اسٹیشن کھوجتا ہوا یہاں تک بھی نہ آپہنچے میں گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔گھر نکلتے وقت میرے کوٹ کی جیب میں پڑے بٹوے میں بہت سے بڑے نوٹ ابھی باقی تھے میں نے ٹکٹ گھر سے کسی دوسری مخالف سمت جاتی گاڑی کا ٹکٹ لیا اور صبع منہ اندھیرے اس گاڑی میں سوار ہو کر ڈبے سے باہر کی بھاگتی دنیا کا نظارہ شروع کردیا۔مجھے اپنے ماضی اپنے دل کی حماقتوں اور اپنی پرانی پہچان سے کچھ ایسی چڑ ہوگئی تھی کہ میں نے اگلے کئی دنوں تک اسی بے مقصد سفر کو اپنی ذات کھو دینے کا بہانہ بنالیا۔۔جہاں گاڑی رک جاتی میں وہاں سے کسی اور جانب کا کوئی ٹکٹ لے کر کسی اور گاڑی میں بیٹھ جاتا۔مجھے شہروں یا بستیوں کے ناموں سے کوئی غرض نہیں تھا نہ ہی میں نے اس عرصے میں کسی ریلوے پلیٹ فارم سے باہر نکل کر اس شہر بستی ہا گاوں کو نظر بھر دیکھا تھا۔۔میں تو بس چلتے رہنا چاہتا تھا میری شیو بڑھتے بڑھتے داڑھی کی صورت اختیار کرنے لگی تھی اور میرے کپڑے دھول اور ۔مٹی سے غرق ہو چکے تھے۔مگر اب مجھے کسی چیز سے کوئی غرض نہیں تھا جہاں بھوک ہا پیاس کا احساس ستاتا وہیں اتر کر کسی پلیٹ فارم پر لگے نلکے سے پیاس بجھا لیتا اور کسی ٹھیلے والے سے کچھ کے کر کھا لیتا..
قسط 27
مجھ پر ایک عجیب سی حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ اسی دو گھونٹ پانی اور چار لقموں کے لیے ہم اپنی زندگیوں کو عمر بھر نہ جانے کیسے کیسے عذاب اور جوکھم میں ڈالے رکھتے ہیں۔جب کے ان دونوں چیزوں کا حصول کھبی اتنی زندگی کا طلب گار نہیں ہوتا جتنی زندگی ہم اس بھوک اور پیاس کے لیے گنوا دیتے ہیں۔رفتہ رفتہ میری جیب میں موجود رقم ختم ہونے لگی اور پھر ایک دن جب کسی قصبے کے چھوٹے اسٹیشن پر میں نے جیب میں ٹکٹ لینے کے لیے پیسے نکالنا چاہے تو میرے ہاتھوں میں صرف چند سکے آگئے
میں نے الٹ پلٹ کر ساری جبییں دیکھ لی مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا۔میں تھکا ہارا سا اسٹیشن سے باہر آگیا۔دور ایک تانگے والا درخت کے سائے میں کھڑا اپنے گھوڑے کو چارہ ڈال رہا تھا۔مجھے دیکھ کر وہ جلدی سے میری جانب لپکا۔کہاں جاو گے بادشاہو۔۔اس علاقے کے تو نہیں لگتے۔
میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سارے سکے اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔۔جہاں تک یہ سکے لے جاسکتے ہیں۔۔لے چلو۔۔اس بستی سے پرے۔۔کسی ویرانے میں ۔۔۔
تانگے والے نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔۔بستی سے پرے تو قبرستان ہے۔۔اوہ اچھا اب سمجھا۔۔کسی بڑے بوڑھے کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آئے ہو۔۔او بیٹھ جاو۔۔میں پہنچا دیتا ہوں
میں چپ چاپ تانگے کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور تانگے والے نے قصبے کے باہر سے ہی ایک لمبا چکر کاٹ کر ایک بڑے سے قبرستان کی چار دیواری کے باہر تانگہ روک دیا۔۔
واپس جاو گے۔۔۔میں یہیں انتظار کرو گا۔۔
میں خالی ذہن لیے نیچے اتر آیا ۔۔نہیں تم جاو میں دیر تک یہاں رکوں گا۔۔
تانگے والے کے چہرے پر ایک بار پھر بہت سارے سوال ابھرے مگر میرا بے زار سا روایہ دیکھ کر اس نے مجھ سے مزید کوئی بات نہیں کی اور چابک مار کر تانگہ موڑ لیا اور کچھ دیر بعد میں ہی ویران سڑک کے اس پاس بکھرے کھیتوں میں کہیں گم ہوگیا۔میں کچھ دیر تک یونہی باہر کھڑا سوچتا رہا اور پھر قبرستان کے لکڑی والے بڑے گیٹ کو دھکیل کر اندر داخل ہوگیا۔دور دور تک نئی اور پرانی قبروں کا ایک جال سا بچھا ہوا تھا۔میں قبروں کے کتبے اور ان پر لکھے سن وفات پڑھتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔کچھ تازہ قبروں پر اگر بتیوں کے جلے ہوئے ٹوٹے اور کچھ ماش کے دانے بکھرے ہوے تھے۔مرجھائے ہوے خشک پھولوں کی پتیاں جابجا بکھری ہوئی تھیں۔جانے لوگ مٹی میں چلے جانے والوں کے لیے اتنے پھول لے کر کیوں آتے ہیں۔اس زندگی میں ہی اسے گلابوں سے کیوں نہیں نہارتے۔چلتے چلتے تھک گیا تو ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور آنکھیں موندھ لیں۔ایک عجیب سی خاموشی چار سو پھیلی ہوئی تھی۔انسان کی عمر بھر کی فریاد اور چیخ و پکار کا صلہ با یہی ایک خاموشی ہے۔اچانک میرے بہت قریب ایک کرخت سی آواز ابھری۔۔
کون ہے بھی تو۔۔اور یہاں کیا کر رہا ہے۔۔
میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔۔ایک سخت گیر سا ہڈیوں کے ڈھانچے نما بوڑھا کمر پر ہاتھ رکھے تنا ہوا کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔میں وہ دراصل۔۔۔اس نے کڑے تیوروں سے میری طرف دیکھا
کوئی قبر کھودوانی ہے کیا۔۔؟
نہیں نہیں میں تو بس اس نے مجھے دوبارہ سے پیر تک غور سے دیکھا اچھا۔۔میں سمجھا۔ ڈاکڑی کی پڑھائی والوں کے لیے قبروں سے ہڈیاں چرانے آئے ہو۔۔تو پھر کان کھول کر سن لے۔۔فقیر نام ہے میرا ۔۔میرے باپ دادا بھی اسی قبرستان کے گورکن تھے۔۔خبر دار یہاں سے ایک ہڈی بھی ادھر ادھر کی۔۔ہاں۔۔میرے ساتھ سیدھی طرح سودا کرے گا تو میں خود تیرے مطلب کی ہڈیاں تجھے بیچ دو گا۔۔
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں اس کرخت طبعیت بوڑھے کو کیسے سمجھاوں کہ وہ مجھے جو سمجھ رہا ہے۔میں وہ نہیں ہوں۔۔میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔
نہیں۔۔میں یہاں مردوں کی ہڈیوں کی تلاش میں نہیں آیا تھک گیا تھا اسی لیے کچھ دیر کمر ٹکانے کے لیے رک گیا۔۔
فقیر نے مشکوک نظروں سے میری طرف دیکھا۔
کہیں تو اس چھوٹے قبرستان کے گورکن سلامے کا ساتھی رو نہیں ہے۔۔سچ بتا۔۔کس ارادے سے یہاں آیا ہے۔۔مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے سخت لہجے میں فقیر کو جھاڑ دیا۔تمہیں ایک بار کہی بات کی سمجھ نہیں آتی کیا۔میں کسی سلامے کو نہیں جانتا اور نہ ہی میرا تمہاری اس قبروں کی جگیر پر قبضے کا کوئی ارادہ ہے۔۔میں مسافر ہوں۔۔بس راہ بھٹک کر اس طرف آگیا۔۔سوچا تو شاید یہاں کچھ سکون ملے گا مگر یہاں تم جیسے بیوپاری ٹھیکے دار ملیں گے ایسا کھبی نہیں سوچا تھا میں نے جانے کے لیے قدم بڑھائے۔پیچھے سے فقیرے کی ڈھیلی سی آواز سنائی دی ۔۔
ذرا رک تو سہی۔میں نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔معاف کردے دراصل پچھلے چند دنوں سے یہ سارے گدھ میرے قبرستان پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔۔ایک عامل کو بھی بھیجا تھا لوگوں کو ڈرا کر بھگانے کے لیے۔اس لیے میں سمجھا کہ پھر انہی کی کوئی شرارت ہے۔۔نام کیا ہے تیرا اس علاقے کا تو نہیں لگتا مجھے جلدی میں کوئی نام نہیں سوجھا تو میں نے اپنے پرانے ڈرائیور کا نام بول دیا۔اکبر نام ہے میرا۔۔میں یہاں کا نہیں ہوں۔۔بلکہ میں کہیں کا بھی نہیں ہوں۔۔نہ کوئی گھر بار ہے نہ کوئی رشتے دار۔۔۔بس یونہی بستی بستی بھٹکتا رہتا ہوں۔۔یہاں بھی بھٹکتے ہوئے ہی آگیا تھا۔۔تم ناراض ہوتے ہو تو میں یہاں سے بھی چکا جاتا ہوں
فویت بالکل ہی نرم پڑ گیا۔۔او نئیں نئیں۔۔بس ایسے ہی غصے میں کچھ زیادہ بک گیا میں۔تیرا جب تک جی چاہے یہاں رہ سکتا ہے۔آدمی رو مجھے بھلا محسوس ہوتا ہے۔۔روٹی کھائے گا؟۔۔
میں نے اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں الٹ دیا۔میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔فقیر زور سے ہنس پڑا۔۔
اوئے جھلے پیسے کا نے مانگے ہیں تجھ سے۔۔چل اجا۔۔میری کوٹھڑی یہیں اسی قبرستان میں ہے۔صبع ہی ایک مردہ دفنایا تھا۔اس کے گھر والے میٹھے چاولوں کہ دیگ بانٹ گئے تھے ابھی بیت سے چاول پڑے ہیں۔۔میں چپ چاپ فقیر کے پیچھے چل پڑا۔۔
اس کی چھوٹی سی کٹیا میں ایک جھلنگا سی چارپائی۔کونے میں پڑی پانی کی صراحی اور گلاس اور ایل جانب چھوٹی سی دیوار کے پیچھے باورچی خانہ نما کونے میں چند پرانے سلور کے برتن پڑے ہوئے تھے۔ایک جانب گینتی بیلچہ کڈال رسی اور قبر کھودنے کے دیگر سامان پڑا ہوا تھا فقیر نے ایک پلیٹ میں چاول ڈال کر میرے سامنے رکھ دیے اور مجھے اپنے بارے میں بتاتا رہا کہ وہ یہاں تنہا رہتا ہے شادی اس نے کھبی کی نہیں اور میری طرح اس کا بھی کوئی رشتے دار نہیں ہے ۔۔باتوں باتوں میں شام ڈھل گئی اور جب فقیر کی کٹیا سے باہر نکلا تو رات ڈھل چکی تھی ۔میں نے فقیر سے رخصت چاہی تو اس نے مجھ سے پوچھا اب کہا ں جائے گا۔۔پتہ نہیں جہاں یہ راستہ لے جائے گا۔۔
فقیر نے چند لمحے سوچا اور پھر مجھے آواز دے کر روک لیا تو یہیں کیوں نہیں رہ جاتا۔تیرا ٹھکانہ بھی ہوجائے گا اور میرا ہاتھ بانٹنے والا بھی مجھے مک جائے گا۔۔
میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔مگر می۔ یہاں کیا کرو گا ؟
وہ زور سے ہنسا۔۔میری طرح قبریں کھو دے گا اور کیا..
میں نے حیرت سے فقیر کی طرف دیکھا۔۔کیا۔۔؟؟مگر میں نے آج تک کوئی قبر نہیں کھودی۔
فویت زور سے ہنسا۔جھوٹ بولتا ہے تو۔۔ہم سب ہر وقت کسی نہ کسی کی قبر کھود رہے ہوتے ہیں۔۔فکر نہ کر۔۔میں تجھے سب سکھادوں گا۔۔محنت سے جی تو نہیں چرائے گا ۔۔؟
میں نے دھیرے سے جواب دیا اب میرے پاس چرانے کے لیے کچھ نہیں۔جی بھی نہیں۔فقیر نے سنی اور سنی کردی ٹھیک ہے پھر اجا۔۔اور ہاں۔۔تونے یہ کپڑے کیسے ہیں رکھے ہیں۔لگتا ہے کسی گورے انگریز کی قبر سے چرا کر لایا ہے۔۔؟یا
پھر لنڈے بازار کا مال ہے۔گورے ایسے کپڑے پہنتے ہیں۔چل کیا یاد کرے گا میں تجھے اپنا ایک جوڑا دے دو گا کپڑے بدل کر آرام کر لے۔۔صبع بڑا کام کرنا ہے ۔ہم دونوں دوبارہ فقیر کی جھونپڑی میں داخل ہوگئے۔فقیر نے کسی کونے میں پڑے ایک بڑے ٹرنک سے ایک بستر نما گدیلا اور ایک چادر نکال کر میرے حوالے کردی یہی ایک طرف اپنا بستر ڈال لے۔اور میں رات خو ذرا دیر دے سوتا ہوں۔تیری آنکھ لگے تو بھلے سوجانا۔۔
فقیر نے اپنی اپنی جیب سے ایک مخصوص برانڈ کی بیٹری ٹٹولی اور اپنی چارپائی کے تکیے کے نیچے سے ایک پڑیا نکالی اور کاغذ میں لپٹی بہت سردی بھورے رنگ کی راڈ نما تیلیوں میں سے ایک دن کر اسے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر رگڑنے لگا اور کچھ ہی دیر میں وہ پتلی کی ایک چھوٹی سی گولی بنانے میں کامیاب ہوگیا۔پھر اس نے وہ گولی بیڑی کے تمباکو میں شامل کر کے بیڑی دوبارہ جوڑ کر سلگائی۔جھونپڑی میں ایک عجیب سی ناگوار بو پھیل گئی۔فقیر نے زور دار تیسرا کش لگایا اور دھواں فضا میں پھیلا کر بولا
کھبی چرس پی ہے اکبرے۔۔میں نہیں میں سر ہلایا وہ زور سے ہنسا۔۔
اچھا ہے۔۔نہ پیا کر۔۔۔خون بھی جلا کر پی جاتی ہے یہ کم بخت پر میرا اس کے بنا گزارا نہیں۔قبرستان کی راتیں بڑی کالی اور لمبی ہوتی ہیں۔شط بتاوں تو نوجوانی میں مجھے یہاں اکیلے رہتے ہوے بڑا ڈر لگتا تھا۔نس انہی دنوں میں یہ لت لگ گئی۔۔
فقیر ساری رات نہ جانے کیا کچھ بڑ بڑاتا رہا اور میں چپ چاپ اس کی رام کہانی سنتا رہا شاید اسے بیت دنوں کے بعد کوئی سننے والا ملا تھا۔پھر نہ جانے رات کے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی جب وہ بولتا رہا میرا دھیان بٹا رہا۔مگر خاموشی ہوتے ہی میرے اندر چھپے کئی آسیب اور عفریت مجھے سالم نکلنے کے لیے اندھیرے میں میرے سامنے آکھڑے ہوئے ۔مجھے گھر چھوڑے ہوے مہینہ بھو ہونے کو آیا۔اب تک انہوں بے تھک ہار کر میری کھوج ختم کردی ہوگی۔وہاں نیو یارک میں عینی کے تمام ٹیسٹ ہو چکے ہوں گے۔ اور آج شاید آج کل میں اس کا آپریشن بھی ہونے والا ہوگا۔وہ مجھے عین وقت پر وہاں نہ پا کر کتنا مایوس ہوئی ہوگی مگر یہ مایوسی یقینا اس مایوسی سے کہیں کم ہوگی جو آنکھیں ملنے کے بعد اسے مجھے دیکھ کر ہوتی عدنان نے ضرور اسے سمجھا بجھا کر آپریشن کے لیے راضی کر لیا ہوگا۔کتنی خوشی ہوگی وہ جب پہلی بار سالوں بعد اس دنیا کے رنگوں کو اپنی خوبصورت آنکھوں سے دیکھے گی۔ساری رات باہر قبرستان کے ویرانے سے گیدڑ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آتی رہیں۔اور فقیر بے سد پڑا خراٹے لیتا رہا وہاں میرے آس پاس سب ہی سو رہے تھے کچھ اپنی اپنی قبروں میں اور فقیر اپنی چارپائی پر۔بس ایک میں ہی تھا جسے نیند نہیں آرہی تھی۔صبع ہوئی تو فقیر اپنے اوزار اٹھا کر میرے ساتھ کٹیا سے باہر نکل ایا۔اس نے اس پاس پھر کر نئی قبر کے لیے جگہ منتخب کی اور پھر کسی بوڑھے گدھ کی طرح قبرستان کے دروازے پر نظریں جما کر بیٹھ گیا۔گھنٹہ بعد ہی کچھ غم زدہ سے لوگ قبرستان میں داخل ہوئے اور اور فقیر کو نئی قبر کا پیغام پکڑا گئے۔فقیر نے ان کے جاتے ہی خوشی سے ایک نعرہ لگایا۔۔
واہ بھئی اکبرے تو تو میرے لیے بڑا خوش بخت ثابت ہوا ہے پتہ ہے۔۔دو دن فارغ بیٹھا تھا میں۔۔کوئی مر کر ہی نہیں دے رہا تھا پوری بستی میں ۔۔چل سجا شاباش ۔۔ہمیں گھنٹے بھر میں قبر تیار کرنی ہوگی۔۔وہ لوگ دوپہر کی نماز کے بعد آجائیں گے ۔۔
میں کسی معمول کی طرح کام میں جت گیا۔فقیر اپنے کام کا ماہر تھا جلد ہی جلد اس نے چھ فٹ گہری قبر کھود کر مغرب کی جانب لحد تیار کر لی۔ساتھ ساتھ وہ مجھ سے مٹی اٹھواتا جاتا اور قبر کی تیاری کے آزمودہ نسخے بھی بتاتا جارہا تھا۔میرا جسم پسینے سے شرابور ہوچکا تھا میں نے دوبئی کے ابتدائی ایام میں اس سے کہیں زیادہ سخت مزدوری کی تھی مگر درمیانی عرصے میں مشقت کی عادت مجھ سے چھوٹ گئی تھی لیکن میں فقیر کے ساتھ لگا رہا میں خود کو اس قدر تھکا دینا چاہتا تھا کہ میرے جسم کی ٹوٹتی رگوں سے میرے ماضی کی یادوں سمیت میری جان بھی قطرہ قطرہ بہہ کر نکل جائے۔ظہر کی نماز کے بعد جنازہ آگیا۔مرحوم کے ورثاء رونے دھونے افسردہ اور سوگوار ماحول میں لاش کو قبر میں اتارا اور سب نے مٹی ڈالنے کا فریضہ انجام دیا۔فقیر اسی تمام عرصے میں سی جانب لاتعلق سا بیٹھا بیڑیاں پھونکتا رہا۔مگر یہ رات والی خاص بیڑی نہیں تھی ۔۔میں بھی اس کے قریب جاکر بیٹھ گیا فقیر نے مجھے کہنی ماری ابھی دیکھنا کچھ دیر میں ان رونے دھونے والوں میں سے سگریٹ پینے والے دھیرے دھیرے ایک جانب سرکنا شروع ہو جائیں گے اور ایک دو ٹولیوں میں کھڑے ہوکر سگریٹ بیڑی پھونکیں گئے اور اپنے کاروبار کی باتیں شروع کردیں گے۔۔
اور کچھ دیر بعد واقعی ہی ایسا ہوا میں نے حیرت سے فقیر کی طرف دیکھا۔وہ مسکرایا سالوں سے دیکھ رہا ہوں یہ ڈرامہ۔سگریٹ ایسی بھلا ہے جو موت بھی بھلا دیتی ہے۔اور تجھے اب کیا بتاوں اکبرے۔۔میں نے تو یہاں جنازے پر بھی نشے میں دھت لوگوں کو آتے دیکھا ہے کم بخت کہیں بیٹھے پی رہے ہوتے ہیں کہ کسی اپنے کی موت کا پیغام آجاتا ہے۔بھاگ دوڑے قبرستان تک پہنچ جاتے ہیں۔آخری منہ دیکھائی کے لیے۔مگر قدم زمین پر نہیں پڑتے ٹھیک طرح۔۔
میں نے فقیر کے ہاتھ میں پکڑی بیڑی غور سے دیکھی ۔
تم بھی سارا دن یہ دھواں اندر انڈیلتے رہتے ہو۔۔میں نے سنا ہے اس سے کینسر ہوجاتا ہے۔۔
فقیر نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو پایا تو بھی ان جاہلوں کی باتوں پر یقین کرتا ہے اکبرے۔۔
میری عمر ساٹھ سال سے اوپر کی ہے۔۔پندرہ سال کی عمر میں میں نے پہلا کش لگایا تھا ۔۔یقین کر آج تک کھبی زکام بھی نہیں ہوا مجھے جب کے میں نے اسی قبرستان میں اپنے ہاتھوں سے ایسے تیس پینتیس سال کے جوان مردے بھی دفنائے ہیں جنہوں نے عمر بھر کھبی تمباکو کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا اور ان کے ساتھ آنے والے اسی بات ہر حیران تھے کہ نی تو سگریٹ پیتا تھا نی شراب۔۔۔پھر اچانک پی کیسے گزر گیا۔۔؟؟ اب بول کیا بولتا ہے
تیرے حساب سے تو مجھے کب کس کینسر سے مر جانا چاہیے تھا۔میں لاجواب ہوگیا۔
تو پھر ہر سگریٹ اور بیڑی کے پتے پر موت کا ڈراوہ کیوں لکھ دیتے ہیں ۔۔؟۔۔فقیر نے دبا دبا سا قہقہہ لگایا تاکہ اسکی آواز قبر میں مٹی ڈالتے ورثاء تک نہ پہنچے مجھے تو یہ بھی کچھ بڑی دوکان داری لگتی ہے اکبرے۔۔یہ کیا بات ہوئی بھلا
زہر ہے تو پھر بیچتے کیوں ہیں کھلے بازار میں؟
بند کردیں فروخت تمباکو کی مرحوم کے ورثاء دعا سے فارغ ہو کر دھیرے دھیرے پلٹ رہے تھے۔قبر پر عطر کیوڑے اور گلاب کی پتیوں کا چھڑہاو کر دیا گیا تھا۔فقیر نے جاتے ہوے لوگوں کو دیکھا اب کچھ دن تک اس قبر کے اوپر بڑی رونق رہے گی۔روزانہ کچھ لوگ آئیں گے۔۔پھر دھیرے دھیرے ویرانی چھا جائے گی سب اپنی اپنی دنیا داری میں الجھ کر یہاں سوئے شخص کو بھول جائیں گے۔ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے اکبرے ۔۔..
شام ڈھلنے سے کچھ دیر قبل فقیر بازار سے لوٹا تو اس کے ہاتھ میں کھانے پینے کا بیت سارا سامان اور تازہ بیڑی کے کچھ بنڈل تھے۔اس نے کچھ روپے میرے ہاتھ میں رکھ دیے۔یہ لے۔۔یہ تیری مزدوری کا حصہ ہے۔۔آدھے پیسوں کا میں سامان لے آیا ہوں۔۔
میں نے وہ روپے دوبارہ فقیر کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔۔یہ تم ہی رکھوں۔اب مجھے ان کی ضرورت نہیں پڑتی فقیر نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پھر زور سے ہنس پڑا۔تو بھی پورا ملنگ ہے۔۔چل ٹھیک ہے میرے پاس ہی جمع رہنے دے رات ڈھلی تو باہر قبرستان میں کچھ فاصلے پر عجیب سی جنتر منتر کی آوازیں آنے لگیں۔میں گھبرا کر اٹھ گیا فقیر جھونپڑی کے باہر بیٹھا بیڑی پھونک رہا تھا۔۔
یہ آوازیں کیسی ہیں۔۔؟
فقیر نے حسب عادت بلاوجہ قہقہہ لگایا۔کوئی عامل کسی زنانی کو بے وقوف بنانے کے لیے منتر پڑھ رہا ہے۔میں نے دور اندھیرے میں دیکھا تو واقعی کوئی جعلی پیر نما شخص چغہ پہنے دو تین عورتوں سمیت ایک قبر کے گرد بیٹھا ہوا آگ جلائے کچھ بڑ بڑا رہا تھا۔یہ سب کیا ہے فقیر۔۔؟
یہ عورت اپنے شوہر کے ظلم سے پریشان ہے اور سوکن کو اسی قبرستان میں پہنچانا چاہتی ہے۔لہذا اس نے اپنی ماں اور بہن کے ساتھ مل کر اس عامل کا کالے عمل کے لیے رقم دی ہے بیوقوف عورتیں گھر سے چھپ کر یہاں آئی ہیں اور رات بھر میں اچھی خاصی رقم اس ڈھونگی کو پکڑا کر واپس چک دیں گی۔میں نے حیرت سے فقیر کی طرف دیکھا تم اپنے قبرستان میں یہ ڈرامے بازی کیوں ہونے دے رہے ہو؟
اوئے اکبرے۔۔تو واقعی بڑا بھولا ہے۔۔جھلے۔۔یہ عامل مجھ سے پہلے ہی سودا کر چکا ہے آدھے پیسے میری جیب میں آئیں گے کھبی کھبی تو ان جھوٹے عاملوں کے کہنے پر میں خود ہی کسی قبر میں لیٹ جاتا ہوں اور ان کے عمل کے بیچ میں منہ سے ڈراونی آوازیں نکالتا ہوں تاکہ باہر بیٹھے لوگ اپنے پیر صاحب کی کرامت کا یقین کر لیں یاد رکھ اکبرے۔قبرستان میں جو بھی دھندا ہوتا ہے۔ اس کا آدھا حصہ قبرستان کے رکھوالے اور گورکن کو جاتا ہے میں حیرت سے منہ کھولے فقیر کی باتیں سن رہا تھا۔میں تو جیتے جاگتے انسانوں کو دنیا کے پھندوں اور مکرو فریب کے جال کو رو رہا تھا مجھے کہا پتہ تھا کہ یہاں مردوں کی بستی کے بکھیڑے زندوں سے بھی نرالے ہیں۔اس رات فقیر نے مجھے یہ بھی بتایا کہ پرانی اور خالی قبریں باقاعدہ نشہ باز اور جواریوں کو کرائے پر دی جاتی ہیں تاکہ وہ رات بھر اپنا شغل اطمینان سے جاری رکھ سکیں۔علاقہ حوالدار بھی حصہ ملنے کے بعد یہاں کا رخ نہیں کرتا جعلی عامل اور پیر اپنے نئے گاہکوں پر اثر اور رعب ڈالنے کے لیے پہلی ملاقات میں ہی انہیں اپنے ڈیرے سے سیدھا فقیر کے قبرستان بھیج دیتے ہیں کہ جاکر فلاں قبرستان کی فلاں قبر کے سرہانے کھدائی کرو۔تمہارے خلاف دبایا گیا تعویز یا سلفی عمل وہیں ملے گا ضرورت مند بیچارہ بھاگا بھاگا قبرستان آتا ہے جہاں فقیر پہلے سے ہی کسی کالی مرغی کا سر۔۔سڑے ہوئے انڈے یا کسی بکرے کی سری دبا چکا ہوتا ہے۔۔سائل اپنے عامل کی کرامت کا بھر پور نظارہ دیکھ کر اپنی عمر بھر کی پونجی عامل پر کٹا دیتا ہے۔اور فقیر کا حصہ اسے مل جاتا ہے میں دن بھر بیٹھا حیرت سے فقیر کی باتیں سنتا رہا۔ہر جا جہاں دیگر۔کا مطلب مجھے اب سمجھ آرہا تھا۔میرا دن تو ان سب روز مرہ کی مصروفیات میں گزر جاتا تھا۔اور میں خود کو شدید حد تک تھکانے کے لیے فقیر کے حصے کا کام بھی خود کرنے لگا تھا۔مگر رات کاٹیں نہیں کٹتی تھی۔اچانک ہی کسی پہر وہ میری آنکھوں کے دریچے کھول کر میرے دل کے آنگن میں آکر بیٹھ جاتی۔میں لالھ خود کو چھپاتا اپنی آنکھیں میچ لیتا مگر وہ مجھ سے ہم کلام رہتی۔مجھے اپنے شب و روز بتاتی میری کرخت انگلیاں اور کڈال اور بیلچہ چلانے سے کھردرے چھالوں بھرے ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتی اور مجھ سے شکوہ کرتی کہ میں اسے تنہا چھوڑ کر کہاں چکا گیا ہوں۔پھر میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور جھونپڑی سے باہر نکل کر ساری رات تارے گنتا رہتا۔ایک ایسی ہی رات فقیر بھی میری آہٹ پر باہر آگیا۔۔
کیا بات ے اکبرے تو سوتا کیوں نہیں ہے کوئی پریشان ہے تو مجھے بتا جون جہاں بندہ پے تو۔۔کہیں کوئی عشق وشق تو نہیں ہوگیا تجھے۔۔
میں مسکرا دیا۔۔
کیوں ۔۔کیا وہ سارے جو راتوں کو جاگتے ہیں۔۔ان سب کو عشق کی بیماری ہوتی ہے کیا۔۔،؟فقیر بھی ہنس پڑا۔ہاں۔ اپنا تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ جوانی کی یہ رت جگے عشق کا نتیجہ ہوتے ہیں۔۔تو شادی کیوں نہیں کر لیتا۔کب تک یوں اکیلا در بہ در خوار ہوتا رہے گا۔۔؟
اور اگر یہی سوال میں تم سے پوچھوں کی تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی فقیر تو پھر ۔۔فقیر نے ایک لمبی سرد آہ بھری آو نئیں یار۔۔یہ زنانیاں بڑی مطلبی ہوتی ہیں۔ان سے بندہ دور ہی رہے تو اچھا ہے میں نے تو دنیا میں آج تک جتنے بھی مسلے دیکھے ہیں وہ انہی کی وجہ سے ہیں۔اچھا خاصا مردان کے چکر میں نہ دین کا رہتا ہے۔نہ دنیا کا میں نے غور سے افسردہ فقیر کو دیکھا پھر تو میرا شک سولہ آنے سچ ہے کہ تم نے بھی کھبی کسی سے بھو پور عشق کیا ہے فقیر ورنہ ہوں غم زدہ نہ بیٹھے ہوتے۔
فقیر نے تازہ بیڑی سلگائی۔کیوں دل پشوری کرتا ہے اکبرے ہاں تھی جوانی میں کوئی۔یہی قبرستان میں ملاقات ہوتی تھی۔جوانی میں ہی بیوہ ہو گئی تھی۔میں نے اس پر بڑا خرچہ کیا ہر مشکل وقت میں سہارا دیا پر جیسے ہی اسے مجھ سے بہتر بندہ ملا۔دو بول نکاح پڑھوا کر جانے کہاں چلی گئی پلٹ کر پوچھا بھی نہیں مجھ سے۔ بس اسی دن میرا ان عورتوں پر سے اعتبار اٹھ گیا۔میری بات کان کھول کر سن لے اکبرے۔۔یہ زنانیاں کسی کی نہیں ہوتیں۔
کھبی ان کے چکر میں نہ پڑنا اب میں اسے کیا بتاتا کہ یہ واردات مجھ پر جانے کتنی مرتبہ بیت چکی ہے اگلی رات دور کسی قبر کے سرہانے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔اگرچہ میں ان باتوں کا بہت حد تک عادی ہوچکا تھا۔مگر آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھ سے رہا نہیں گیا میں کٹیا سے باہر نکلنے لگا تو فقیر نے مجھے آواز دے کر روک لیا۔باہر نہ جا اکبرے۔کوئی دکھیاری ہے۔۔قبر پر چلہ کاٹنے آئی ہے اولاد کے لیے میں نے حیرت سے فقیر کو دیکھا مگر قبر ہر چلہ کاٹنے سے بے اولادی کیسے دور ہوسکتی ہے۔ فقیر نے جمھجنھلا کر کہا تو سمجھتا کیوں نہیں ہے یہ سارے کم زور عقیدے کے لوگ ہیں میں نے تو یہاں عورتوں کو اولاد کی خواہش میں کسی نو مولود بچے کی قبر پر نہانے کا نسخہ لے کر آتے بھی دیکھا ہے بس جو ہورہا ہے۔۔اسے ہونے دے۔۔ہم ان کو یہاں آنے سے روکیں گے تو یہ کسی اور قبرستان چلے جائیں گے۔تو چپ کر لے سوجا۔میں نے سر زمین پر ٹکالیا مگر میرا دھیان اب بھی باہر تھا۔۔۔
فقیر کیا تم نے کھبی کوئی اچھی بات نہیں دیکھی اس قبرستان میں۔۔ہاں بالکل دیکھی ہے ۔۔ایک بار کسی اللہ والے کو دفنا گئے تھے لوگ یہاں پورے چالیس دن اس کی قبر سے تازہ گلاب کی خوشبو آتی رہی۔۔اور کھبی کھبی رات کے اندھیرے میں مجھے وہ قبر بھی نورانی محسوس ہوتی تھی جیسے روشنی نکل رہی کو اندر سے البتہ گناہ گاروں کی قبر سے عذاب کی آوازیں بھی سنائی دے جاتی ہیں کھبی کھبار
دیکھ اکبرے ۔۔قبر میں جانے کے بعد بندے کا رابطہ ڈائریکٹ اس کے رب کے ساتھ ہوجاتا ہے۔پھر میرے تیرے جیسے گناہ گار انسانوں کو ان معاملات میں داخل اندازی نہیں کرنی چاہیئے سوجا چپ کر کے کل صبع فجر کے بعد ہی ایک قبر کھودنی ہے۔۔تگڑی رقم۔ لے گی انشاءاللہ..
قسط 28
اگلے روز فقیر کہیں سے اخبار اٹھا لایا۔۔چل بھئی اکبرے۔۔منڈوا دیکھنے چلتے ہیں میں نے چونک کر اسے دیکھا منڈوا
ہاں یار۔۔وہ کیا کہتے ہیں۔۔سینما یہ دیکھ بڑی زبردست پکچر لگی ہے بازار والے سینما میں۔۔
میں نے اخبار ہر نظر دوڑائی تو میرے ہاتھ کپکپا سے گئے آمنہ کی فلم ریلیز ہوچکی تھی اور سپر ہٹ ہو کر سلور
جوبلی منانے کو آئی تھی۔میں بہت دیر تک فلم کی خبریں پڑھتا رہا۔آمنہ عرف شہہ پارہ کے کیریئر کی بہترین فلم قرار دیا جارہا تھا اسے شہہ پارہ لا انٹرویو بھی چھپا تھا جس میں اس نے مجھے کھل کر یاد کیا تھا اور کہا تھا کہ پری زاد نہ ہوتا تو یہ فلم کھبی بن ہی نہ پاتی اس نے میرے لیے پیغام بھی چھوڑا تھا کہ میں جہاں کہیں بھی ہوں۔یہ جان لو کہ شہہ پارہ کا خواب پورا ہوگیا ہے۔۔اور اس نے پری زاد کو اپنا خواب گر اپنا سب سے بڑا محسن قرار دیا تھا۔میں ایک دم بہت اداس ہوگیا۔میں نے فقیر کو اکیلے فلم دیکھنے کے لیے بھیج دیا۔فلمیں وہ لوگ دیکھتے ہیں جو خواب دیکھنا جانتے ہوں۔وہ اپنے خواب کو سینما کے پردے پر جیتا جاگتا دیکھنا چاہتے ہیں۔مگر میرا تو کوئی خواب ہی نہیں بچا تھا۔سب سپنے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوچکے تھے۔میں بھلا اس قابل ہی کہاں تھا کہ کوئی خواب دیکھ سکتا۔فقیر کے جانے کے بعد میں نے ساری اخبار خو غور سے دیکھا مجھے گھر چھوڑے ہوے چھ ماہ سے زائدہ ہوچکے تھے۔مگر اخبار خو دیکھ کر لگتا تھا جیسے کل کی بات ہو۔وہی بزنس اور کاروباری خبریں وہی جھگڑے فساد کی باتیں وہی شادی بیاہ تقریبات وہی دنیا فتح کر لینے والے دعوے۔کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا ہم انسان کتنے بھولے ہوتے ہیں۔جو یہ سوچ لیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہمارے جاتے ہی سب کچھ رک جائے گا یا بدل جائے گا مگر کچھ نہیں رکتا کچھ نہیں بدلتا۔۔سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے بس ہم نہیں ہوتے۔گویا ہمارا ہونا نہ ہونا سب برابر ہے۔تو پھر اس نہ ہونے کے برابر ہونے کا اتنا زعم کیوں۔۔؟
اتنا گھمنڈ کا لیے۔۔؟مجھے پھر اس دشمن جاں کا خیال ستانے لگا۔اب تک تو اس کی بینائی واپس آچکی ہوگی۔جانے وہ واپس آنے کے بعد مجھے یاد کرتی ہوگی کہ نہیں۔؟
میں آتے وقت دفتر اور گھر سے اپنی ہر تصویر جلا کر وہاں سے نکلا تھا تاکہ جب کھبی عینی واپس آئے تو اسے کوئی بھی میری مورت نہ دکھائی دے جائے۔ویسے بھی میں شروع سے ہی تصویرے کھچوانے سے گریز کرتا تھا۔وہ ایک بار تو ضرور میرے گھر یا دفتر آئی ہوگی۔اور اس کی آنکھوں نے مجھے وہاں کھوجا بھی ضرور ہوگا۔کیسی دیکھتی ہوگی اس کی وہ کھوجتی ہوئی آنکھیں۔اس نازنین نے میرے دفتر اور گھر کے نرم قالین پر اپنے نازک قدم رکھتے ہوئے میری زیر استعمال چیزوں کو چھوا بھی ضرور ہوگا۔پھر عدنان کے شانے پر سر رکھ کر بہت دیر روتی ہوگی۔مگر عدنان نے اسے سنبھال لیا ہوگا۔اس کی کومل جبیں کو عدنان کا شانہ ہی جچتا تھا۔میری اس بے وقعت زندگی کے لیے تو بس اتنا ہی کافی تھا کہ میں کسی طور اس کی یادوں میں زندہ رہوں ۔
میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاوں جو تم سے فرصت ہو
مگر مجھ جیسے کم نصیبوں کو مرنے کی فرصت بھی کہاں میسر تھی۔دن ہفتے اور ہفتوں مہینوں میں بدلتے گئے اور پھر ایک دن فقیر صبع سویرے کسی کام سے باہر گیا تو شام تک واپس نہ لوٹا۔۔میں جھونپڑی کے باہر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا تھا کہ اچانک پولیس کی پرانی ولیز جیپ قبرستان میں داخل ہوئی اور میرے قریب آکر رک گئی۔خاکی رنگ کی جیپ سے دو سپاہی نیچے اترے اور ان میں سے ایک نے حسب عادت کڑک کر مجھ سے پوچھا۔اکبر تیرا ہی نام ہے میں کھڑا ہوگیا۔ہاں۔۔سب خیر تو ہے۔۔خیر تو نہیں ہے تیرے ساتھی فقیرے پر ساتھ والے چھوٹے قبرستان کر گورکن سلامے اور اس کے دوستوں نے حملہ کردیا ہے۔۔اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔۔جلدی چل۔۔وہ تجھ سے ملنا چاہتا ہے میں بوکھلایا سا ان کے ساتھ جیپ میں بیٹھ گیا۔گاڑی چل پڑی پولیس والوں کی آپس میں بات چیت سے مجھے پتا چلا کہ ان دونوں کی بہت پرانی ٹسل چل رہی تھی قبرستان کی حد بندی پر۔اور آج فقیر اسلامے اور اس کے ساتھیوں کے ہتھے چڑ پی گیا۔ہم ہسپتال پہنچے تو فقیر آخری سانسیں لے رہا تھا۔اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔۔
دیکھ لے اکبرے۔۔قبرستان کے دھندے نے قبر تک پہنچا دیا پر تو ایسی غلطی نہ کریں بندہ جتنی بھی حد بندیاں کر لے اس کی آخری حد اس کی قبر ہی ہوتی ہے فقیر دھیرے دھیرے پھر سے غنودگی میں چلا گیا اور پھر دوبارہ پھر دوبارہ کھبی ہوش کی دنیا میں واپس نہیں آیا۔سلاما اور اس کے ساتھی قتل عمد کے جرم میں پکڑے گئے تھے اور سرکاری وکیل نے عدالت کے ذریعے انہیں سولی تک پہنچانے کا پورا بندوبست کر لیا۔فقیر خو اسی کی جاگیر۔قبرستان کی ایک چھوٹی سے قبر میں اتار دیا گیا میرا جی اچاٹ ہوگیا اور فقیر کے چالیسویں کے بعد میں نے اپنی پوٹلی اٹھائی اور اسٹیشن سے پہلی گاڑی پکڑ کر پھر سے وہی سفر وہی انجان راستے مگر میری حالت دن بہ دن بتر ہوتی جارہی تھی جاڑے کا اثر تھا یا پھر مسلسل برسات کا مگر میرا بدن تپتپانے لگا اور پھر شاید تیز بخار نے مجھے آگھیرا مجبورا مجھے ایک چھوٹے سے ویران اسٹیشن پو اترنا پڑا۔فقیر مجھے ملنگ کہہ کر چھیڑتا تھا مگر اب میرا حلیہ اور میری ظاہری حالت واقعی کسی ملنگ سے بھی بدتر تھی۔رات ڈھل رہی تھی اور اسٹیشن ویران پڑا ہوا تھا مجھے شدید سردی لگ رہی تھی لہذا میں نے اپنی پرانی چادر کی بکل مار کر خود کو اچھی طرح لپیٹ لیا۔اور چائے کے ٹھیلے پر گرم گرم چائے بن رہی تھی۔ٹھیلے پر بد نما سی لکھائی میں لکھا ہوا تھا۔۔خانو کی چائے۔۔۔ہر غم بھگائے ۔۔
ٹھیلے والے نے مجھے ٹھٹھرتے ہوے دیکھا تو ایک کپ چائے لے کر میرے قریب آگیا چائے پیو گئے۔۔۔؟؟
میں نے انکار کیا۔نہیں ۔مجھے طلب نہیں ہے ٹھیلے والے نے حیرت سے مجھے دیکھا۔عجیب بھکاری ہو بھئی میں خود اپنی مرضی سے دے رہا ہوں تجھ سے پیسے نہیں مانگ رہا میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔۔بھکاری۔۔؟ہاں ٹھیک کہا تم نے میں بھکاری ہی ہوں۔۔بہت بھیگ مانگی ہے میں نے ساری زندگی۔۔ہر کچھ نہیں ملا۔۔اب کچھ چاہیے بھی نہیں جاو مجھے تنگ مت کرو۔۔
خان جانے میری ڈانٹ کو کیا سمجھا کہ اس کا لہجا ایک دم عاجزانہ ہوگیا۔معاف کرنا سائیں۔۔تم تو کوئی اللہ لوک ہو۔۔مجھ سے گستاخی ہوگئی میں نے اسے جھاڑ دیا۔بے و قوفی کی باتیں مت کرو میں کوئی سائیں نہیں ہوں۔۔اکیلا چھوڑ دو مجھے۔
خان نے جاتے بار بھی تین بار مڑ کر دیکھا مجھے۔میں نے تھک کر ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگا دیا۔جس کے تنے کے ارد گرد پکی اینٹوں اور سیمنٹ کا چوبارہ اٹھا کر ایک گول پلیٹ فارم سا بنا دیا گیا تھا۔پھر مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ میں کب مکمل بے سدھ ہوکر ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا اور پھر جب میری آنکھ کھولی تو سورج کی تیز کرنوں نے میری آنکھیں چندھیا دیں میرے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ اکٹھی تھی اور سب آپس میں جانے کیا سرگوشیاں کر رہے تھے مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر خان نے سب کو ڈانٹ کر ایک طرف سمیٹا۔چلو بابا۔۔کیا بھیڑ لگا رکھی ہے۔جوگی بابا کو ہوش آگیا ہے۔شاید لمبے مراقبے میں چلے گئے تھے۔میں نے چونک کر آس پاس کھڑے لوگوں کو دیکھا تو میری آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں...
وہ سب ہاتھوں میں پھولوں کئ ہار لیے یوں سر جھکائے میرے ارد گرد دائرے میں کھڑے تھے جیسے میں کوئی پیر ولی یا کوئی بزرگ ہوں۔میں گھبرا کر کھڑا ہوا اور بقا ہے سے چکراگیا میرے ڈگمگاتے جسم کو تھامنے کے لیے کئی ہاتھ ایک وقت آگے بڑھے تو میں نے سب کو جھٹک دیا تم لوگوں کا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا۔۔جاو یہاں سے۔۔مجھے تنہا چھوڑ دو خان نے دوبارہ سب کو جھاڑا۔۔جیسے میرا نائب ہو
سنا نہیں بابا۔۔جاو یہاں سے ابھی۔۔سائیں جلال میں ہے لوگ عقیدت سے دکام کرتے ہوے وہاں سے بادل نخواستہ چھٹنے لگے خان نے ہاتھ جوڑ کر مجھ سے پوچھا ۔۔۔
کھانا کھاو گئ سائیں۔۔
میرا صبر جواب دے گیا۔
آخر تم میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔۔؟ خان منمنایا آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں سائیں۔شاید آپ کی دعا سے خان کے دن پھر جائیں پچھلے سال آڑھ میں میرا سن کچھ بہہ گیا تھا۔ادھر ٹرینوں کی بدحالی نے بھی میرا دھندا مندا کردیا ہے سائیں۔۔میں نے جھنجھلا کر اسے دھتکارا۔۔
جاہل انسان۔۔تم میری بات کیوں نہیں سمجھتے۔میں کوئی پیر فقیر نہیں ہوں اگر میری دعا میں اثر ہوتا تو آج میں خود ہوں ڈر بدر خوار نہ ہوتا۔مگر خان ٹس سے مس نہ ہوا۔آخر کب تک ہن ظاہر پرست انسان بیرونی حلیے اور لباس کی بنیاد پر لوگوں کے زہد تقوی کا فیصلہ کرتے رہیں گے؟سر اور داڑھی کے بے تحاشا بڑھے ہوئے بال چہرے اور لباس پر وقت کی دھول اور غم کی شکنیں چادر پر درد کی سلوٹیں اور جھولی میں ناکامیوں کے کیکر اور کانٹے۔کیا کسی جوگی کا یہ حلیہ کافی ہوتا ہے اسے درویش ثابت کرنے کے لیے۔۔؟
میں نے جان چھڑانے کے لیے بے زاری سے کہاں اگر تمہاری تسلی میری دعا سے ہوتی ہے تو جاو میں نے تمہیں دعا دے دی خان کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر جانے کیا کچھ منتیں مانگتا ہوا وہاں سے ٹل گیا۔میں نے تھک کر دوبارہ آنکھیں موندھ لیں۔ان چھوٹے دیہات اور قصبوں کے لوگ کتنے سادہ روح ہوتے ہیں پھر شاید آج کل انسان اپنے غم کے ہاتھوں اس قدر ٹوٹا ہوا ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے میسحا کا انتظار رہتا ہے۔کاش انہیں کوئی سمجھا سکتا کہ میں میسحا نہیں ۔ان سے زیادہ
دنیاداری کے داغوں سے آٹا برص کا مریض ہوں جو خود شفائے عشق کی تلاش میں زمانوں سے بھٹک رہا ہے بمشکل ایک ہی دن سکون سے گزر پایا اور اگلی صبع جب میں اپنے بخار سے تپتے جسم کو ایک بوسیدہ سے کمبل میں لپیٹے درخت کے نیچے لیٹا ہوا تھا تھبی اچانک وہی بے وقوف خان دور سے ہاتھ میں جانے کیا کاغذ پکڑے اور اسے لہراتے ہوئے شور مچاتا میرے قدموں سے آکر لپٹ گیا۔۔
تم واقعی پی اللہ لوک ہو سائیں کمال کر دیا ایک پی رات میں جیو سائیں۔۔جیو میں نے جلدی سے اپنے پاوں لپیٹ کر اسے دھکا دیا ہٹو پیچھے یہ کیا کررہے ہو۔۔؟۔خان خوشی سے چلایا۔سائیں یہ دیکھوں آپ کی دعا سے میرا دس ہزار کا بانڈ نکل ایا ہے۔۔سارے درد دور ہوگئے پھر بھی تم کہتے ہو کہ تم سائیں نہیں ہو۔مجھے آپنے قدموں میں پڑا رہنے دو کچھ دیر میں ہی آس پاس تمام ریلوے اسٹیشن کے عملے تک یہ خبر پہنچ چکی تھی اور اگلے چند دنوں کے اندر میری زندگی میں نت نئے عذابوں کا ایک دور شروع ہوگیا۔۔میرے ارد گرد قریب اور دور دراز کے سادہ لوگ دیہاتیوں کا ایک ہجوم جمع رہتا جو میرے قدموں میں دس بیس اور پچاس کے نوٹ نذرانے کے طور پر پھینک کر نہ جانے کون کون سی منتیں پوری کرنے کی دعائیں مانگتے رہتے۔میں جتنا ان لوگوں کو دھتکارتا اور قدموں میں پڑی اس ریز گاری کو لات مارتا وہ اتنا ہی ان کی نظروں میں معتبر ٹھرتا میرے بخار اور نقاہت نے مجھے اس قابل بھی نہیں چھوڑا تھا کہ میں کسی رات منہ اندھیرے چپ چاپ وہاں سے کسی اور منزل کی جانب نکل جاوں لیکن میں جاتا بھی تو کہاں جاتا
ہر طرف اسی انسان کا سامنا تھا مجھے اور بھلا انسان سے بڑا امتحان اور کیا ہوگا اس جہاں خراب میں۔۔؟ خان جب مجھے اس بھیڑ کر ہاتھوں بے حد اوزار دیکھتا تو ڈانٹ ڈپٹ کر لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیتا مگر دو چار گھنٹے بعد پھر وہی ہجوم۔۔پھر وہی بھانت کے انسان اور ان کی عجیب و غریب فرمائشیں کوئی عورت دھائی دیتی سائیں میری بہو بیٹا نہیں جنتی۔چار لڑکیاں اوپر تلے سینے پو مونگ دل رہی ہیں دعا کرو اس بار بیٹا ہو جائے ۔۔کوئی دوسرا کہتا بیٹے کو نوکری نہیں ملتی جوگی سائیں۔بس ایک نوکری دلادو تیسری جانب سے آواز آتی بس ایک دوکان کا سوال ہے سائیں کاروبار جما دو میں آنکھیں بند کیے منہ لپیٹے پڑا رہتا اور وہ میری خاموشی کو ہی میری دعا سمجھ کر کچھ دیر دیر رونے دھونے کے بعد آٹھ کر چلے جاتے ان میں سے کوئی نہ جانے کب لکڑی کی ایک تختی پر جلی حروف میں آستانہ جوگی سائیں لکھوا کر لے آیا اور اس تختی کو درخت کے ایک اونچے حصے پر کیل دے ٹھوک گیا وہ لوگ میری نقاہت اور بیماری کو میرا روزہ یا فاقہ سمجھتے تھے اور میری مردم بے زاری کو میری میری فقیری کی نشانی اوپر سے قدرت بھی میرے ساتھ کھل کر مذاق کرنے پر تلی ہوئی تھی میرے ارد گرد موجود لوگ کے جمگھٹے میں سے کسی نہ کسی کی مراد پوری ہوجاتی تو اسے میری کرامات کے کھاتے میں ڈال دیتے سو میں سے باقی ان ننانوے نا کام مرادوں کو کوئی نہیں گنتا تھا جو کھبی پوری نہیں ہو پاتی تھیں کالی رات کے گھپ اندھیرے میں ایک معمولی دیا سلائی بھی دور جلتی نظر آجاتی ہے اس پاس بکھری تاریکیوں پر کوئی نظر نہیں ڈالتا میں نے کئی بار کوشش کی کہ وہاں سے چپ چاپ اٹھ کر کوئی روز اسٹیشن سے گزرتی کسی گاڑی میں بیٹھ کر کہیں نکل جاوں ایک آدھ بار میں نظر بچا کر اسٹیشن سے باہر سڑک پر نکل بھی آیا مگر یہ جوگی سائیں کا لقب اور حلیہ اس پاس اور دور دراز کے علاقوں میں میری کچھ ایسی پہچان بن چکا تھا جیسی قیدی کے پیروں میں بیڑیاں یا کسی پیدائشی غلام کے ماتھے پر کھدی ہوئی کوئی سیاہ مہر میں جہاں بھی جاتا میری پیشانی پر ثبت یہ غلامی کی مہر لوگوں کو میرے ارد گرد اکھٹا کر دیتی میرا دم گھٹنے لگا میں گھبرا کر انہیں جھڑکتا دور ہٹاتا وہ میرے قریب آتے اور تھک ہار کر میں واپس اسی استانے کی راہ لیتا جہاں سے یہ مہر غلامی میری جبیں پر کندہ کی گئی تھی ایک آدھ بار کسی ویرانے کی راہ بھی اپنائی مگر مجھ جیسے سیاہ پوش کو ویرانہ بھی راس نہیں آتا تھا وہاں میری خبر زیادہ تیزی سے پھیلتی اور پھر جمع ہوتی خلقت کی وجہ سے اس ویرانے کی حرمت بھی مجروح ہوجاتی تھی میں دنیا کو دھتکارتے دھتکارتے تھک کر نڈھال ہوچکا تھا کیسی عجیب ہے یہ دنیا جب انسان اسے اپنانا چاہتا ہے یہ اسے دھکے دے کر دور بھگاتئ ہے خوار اور اوازار کرتی ہے۔ہر پل سسکا کر تڑپاتی ہے مگر جب وہی انسان دنیا سے بےزار ہوکر اسے لات مارتا ہے اور کنارہ کش ہونے کی کوشش کرتا ہے تب یہی دنیا خود اس کے قدموں سے لپٹ کر اسی انسان کی منتیں اور ترلے کرتی ہے کہ وہ اسے ٹھکرا کر نہ جائے اور پھر مجھ جیسوں کا سفر بھی بھلا کیا سفر تھا میرے لیے تو سب علاقے جگہیں لوگ موسم اور رویے سبھی ایک جیسے تھے کم از کم خان والے ریلوے اسٹیشن پر میرے پوشیدہ رہنے کے لیے ایک بھیس تو موجود تھا لہذا مختلف علاقوں کی خاک چھاننے کے بعد میں دوبارہ اسی جگہ پہنچ گیا جس کی مٹی سے میرے آس نئے بہروپ کا خمیر اٹھایا گیا تھا مجھے واپس وہاں پا کر سارے اسٹیشن پر جشن سا برپاہ ہوگیا اداس بیٹھے خان نے نعرے لگا لگا کر آسمان سر پر اٹھا لیا...
سائیں کیا بتاوں تم کو۔۔جب سے تم روٹھ کر گئے ہو میرا سارا دھندا مندا ہوگیا ہے۔۔سب پریشان ہیں کہتے ہیں سائیں کی برکت اٹھ گئی ہے یہاں سے اسی لیے کال پڑگیا ہے۔مگر اب یہ ویرانی دور ہوجائے گی۔بس سائیں ۔۔ اب ہم سب کا بیڑا پار ہے میں چپ چاپ بیٹھا اس بے وقوف کی داستان سنتا رہا اور دور سے تکتی قدرت مجھ پر قہقہے لگاتی رہی۔دوسرے روز علاقے کی ایک پرانی بند ٹرین پھر سے رواں کر دی گئی۔ہجوم بے قابو سا ہوگیا عجب مداری بنا کر رکھ ڈالا تھا اس تقدیر نے مجھے۔ٹھیک ہے۔۔یوں پے تو پھر یوں ہی سہی مقدر سب سے بڑا بازی گر ہے سو میں نے بھی قدرت کی ڈگڈی پر ناچتے رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔
میں سارا دن سر جھکائے درخت تلے بیٹھا رہتا اور لوگ آتے جاتے رہتے ایسی ہی ایک گرم دوپہر جب پرندے بھی آگ برساتے سورج سے بچنے کے لیے اپنے ٹھکانوں میں پر سمیٹے بیٹھے تھے پلیٹ فارم ہر اچانک ہلچل سی مچ گئی۔پتہ چلا کے علاقے کا سب سے بڑا زمیندار کی تیسری نئی نویلی دلہن اپنی خادماوں اور خاص کارندوں کے جھرمٹ میں تشریف لائی ہیں۔نوکرانیوں نے نذر نیاز کی پراتیں میرے قدموں میں رکھ دیں اور غلاموں نے اردگرد لگی بھیڑ کو جھڑک کر پرے بھگا دیا لڑکی نوجوان تھی اور اس کو سب چھوٹی سرکار کے نام سے پکار رہے تھے۔وہ میرے قریب آکر بیٹھ گئی میں سرجھکائے بیٹھا رہا اس کی چوڑیاں کھنکیں ۔۔
میرا نام گل ناز ہے جوگی سائیں۔۔رب کا دیا سب کچھ ہے پر گود ابھی بھی سونی ہے آپ کی ایک نظر چاہیے۔اس کی نرم اور ملائم آواز پر میں نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا واقعی وہ اسم باسمی تھی اپنے نام کی طرح جس پر پھول بھی رشک کریں۔وہ گل ناز تھی۔سنہری دمکتا رنگ آنکھوں میں کاجل اور ناک میں سونے کا لونگ سیاہ کڑھی ہوئی شال لپیٹے وہ خود گلاب کا پھول لگ رہی تھی۔پل بھر میں ہی مجھے اس کے حسین چہرے میں سب سے پہلے دعا۔پھر آمنہ پھر لیلی صباہ اور عینی کا چہرہ کا چہرہ جھلکتا ہوا نظر آیا میں نے گھبرا کر جلدی سے آنکھیں بند کر لیں۔۔
نہیں اب اور نہیں۔۔بس عورت چلی جا یہاں سے جا۔پھر کھبی اپنی صورت نہ دکھانا مجھے گل ناز ڈر کر پیچھے ہٹی تو خان دور سے بھاگتا ہوا آیا جوگی سائیں جلال میں آگیا چھوٹی سرکار بس سمجھو آپ کی مراد پوری ہوئی لڑکی ابھی تک گھبرائی ہوئی تھی۔۔اچھا میں تو سمجھی تھی کہ سائیں مجھ سے ناراض ہوگئے خان نے بڑے زعم سے جواب دیا یہی تو بات ہے ہمارے سائیں کی عورت اور پیسے کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا مگر آج تک جس کو بھی سائیں نے ڈانٹا۔۔اس کی نیا پوری ہوئی۔۔
گل ناز کچھ دیر مزید عقیدت سے ہاتھ جوڑے میری قدموں میں بیٹھی رہی اور پھر دھیرے سے اٹھ کر خراماں خراماں واپس چلی گئی۔اگلے چند دنوں میں چاروں طرف یہ خبر پھیل چکی تھی کہ جوگی سائیں کو عورت اور خصوصا خوبصورت عورت سے کے وجود سے ہی نفرت ہے سب میں انہیں کیسے سمجھاتا کہ حسن کا یہی زہر تو ہے جو ازل سے میری رگ رگ میں سرایت کر کے میری روح کو تمام عمر جھلساتا رہا ہے اور جل جل کر اتنی بار راکھ ہوچکا ہوں کہ اب چنگاری باقی نہیں رہی پھر ایک دن ایک نوجوان جوڑا جھجھکتے ہوئے میرے پاس آیا۔لڑکی اور لڑکا دونوں کافی سہمے ہوئے لگتے تھے لڑکے نے بند مٹھی کھولی اور پچاس روپے کا مڑا تڑا سا نوٹ میرے قدموں میں ڈال دیا ہمارے لیے دعا کریں سائیں جی کہ ہماری شادی ہوجائے ہم دونوں کے گھر والے ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور ہمارا رشتہ ناممکن ہے میں نے ہنسوں کے اس جوڑے کی طرف دیکھا صرف پچاس روپے میں شادی چاہتے ہو۔؟اتنا سستہ ہے تمہارا رشتہ
لڑکا کچھ شرمندہ سا ہوگیا میرے پاس تو فی الحال بس اتنے ہی ہیں میں نے نوٹ خو پرے کردیا اتنے پیسوں میں جوگی سائیں شادی نہیں کرواتا لڑکے نے پریشان ہوکر لڑکی کی طرف دیکھا لڑکی نے جلدی سے اپنے کانوں میں پہنی ہوئی سونے کی بالیاں اتار کر میرے سامنے رکھ دیں۔میں نے لڑکے کی طرف دیکھا لگتا ہے یہ تم سے زیادہ محبت کرتی ہے یہ بالیاں واپس اٹھا کو لڑکی محبت اگر سچی ہوئی تو بزات خود دنیا کی سب سے بڑی دعا بن جاتی ہے۔واپس چلے جاو تم دونوں اپنے گھر کو۔اور اس امید کے ساتھ جاو کہ تمہاری محبت ہی تمہاری دعا ہے تمہاری منت اور تمہارا تعویز ہے وہ دونوں یوں خوش باش سے اٹھے جیسے آج ہی ان کا رشتہ طے ہوگیا ہو۔اف یہ محبت کرنے والوں کی زود فہمیاں
محبت کرنے والے ہمیشہ ایک دوسرے و پانے کی دھن میں کیوں سر گرداں رہتے ہیں۔۔؟
کاش یہ ناداں جان پاتے کے دنیا میں کسی کا محبوب ہونا ہی کائنات کا سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے محبت کو تو محبوبیت سے غرض ہونی چاہیئے نہ کہ وصل یا وصال سے کسی کا محبوب ہونا کتنا بڑا عقیدہ مرتبہ ہے یہ کوئی مجھ سے پوچھے مجھ جیسے تو اپنی تمام عمر اسی مسند پر ایک لمحہ بیٹھنے کے لیے ترستے رہتے ہیں۔اپنا سارا جیون جلا دیتے ہیں مگر وہ پل بھر کے لیے بھی کسی کا محبوب نہیں بن پاتے اور پھر میری طرح یہی ایک خواہش دل میں لیے ہمیشہ کے لیے خاک میں مل کر خاک ہو جاتے ہیں میرے خاک ہونے کے دن بھی قریب آرہے تھے میری حالت اب زیادہ طر بتر رہنے لگی تھی۔مجھے دن تاریخ مہینے اس سنہ سے اب کوئی سروکار نہیں تھا مگر دور کھڑے خان کے ٹھیلے پر بدلتے ریلوے کے لائسنس سے اتنا پتہ چل جاتا تھا کہ مجھے گھر چھوڑے پانچ سال سے بھی زائد عرصہ ہوچکا تھا اور پھر موسم نے کروٹ بدلی اور جاڑے کی سردی اور کہرے نے ماحول پر اپنا سفید غلاف لپیٹ دیا۔میں رات گیلے لحاف تلے بارش میں بھیگتا رہا اور نتیجہ اگلے روز صاف ظاہر تھا۔خان کسی کام سے مجھے اٹھانے تو میرا ہاتھ چھوتے ہی اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔۔
اوہو۔۔تمہیں تو شدید تیز تپ چڑھی ہے سائیں۔میں ابھی حکیم صاحب کو لے کر آتا ہوں خان الٹے قدموں واپس بھاگ گیا میں نے آواز دے کر اسے روکنے کی کوشش کی کہ اب یہ روگ حکیم طبیب یا ویدوں کے بس سے باہر کی بات ہے ڈاکٹر اور طبیب مرض کا علاج کر سکتے ہیں مریض کا نہیں خاص طور پر جب مریض مجھ جیسا ہو کہ جیسے خود اپنے فنا ہونے کا انتظار سب سے زیادہ ہو۔میں نے کود کو تباہ اور برباد کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے تھے مگر یہ زندگی بھی اس دوغلی دنیا جیسی ہی تھی جو اس سے جان چھڑانا چاہے یہ اسی کے دامن سے لپٹی رہتی ہے خان گھنٹے بعد ہی کسی بزرگ حکیم کی جڑی بوٹیوں سے بنی دواوں کا بکسہ ہاتھ میں تھامے دوبارہ نمودار ہوگیا۔حکیم صاحب نے میری نبض دیکھ کر تشویش سے سر ہلایا۔خان غور سے ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا حکیم نے چمڑے کے بکس میں سے چند سفوف نکالے اور یکجا کر کے تین چار پڑیاں سی بنا دیں یہ لو خان میاں۔۔صبع دوپہر شام دن میں تین مرتبہ سادے پانی میں گھول کر پیلانی ہے یہ دوا۔سردی لگ گئ ہے تیرے سائیں کو۔۔بہت احتیات کی ضرورت ہے خان نے کسی تجربہ کار اور مستند تیمار دار کی طرح میرے طبیب کی ساری ہدایات ازبر کر لیں شاید غالب نے خان جیسے ہمدردوں کے لیے ہی کہا تھا کہ ۔۔
پڑیئے گئے بیمار
کوئی نہ ہو تیمار دار
مگر میری تیماردار کسی صورت میرا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔حکیم صاحب نے مجھ دے یہ نہیں پوچھا کہ یہ جو میں ساری خلقت کو دعائیں بانٹتا پھرتا ہوں خود اپنے لیے شفا یابی کی دعا کیوں نہیں کرتا حکیم نے جاتے جاتے میرا شانہ تھپتھپایا اور مسکرا کر بولے فکر نہ کریں سائیں جی جلدی ہی بھلے چنگے ہو جائیں گے ۔۔۔,
قسط 29
میری زبان بے ساختہ پھسل پڑی۔کچھ مزید بیمار کرنے کی دوا بھی کرتے ہیں آپ۔؟
حکیم صاحب نے چونک کر میری طرف دیکھا۔نہیں۔مجھے صرف شفا دینے کا حکم ہے۔۔سو اپنی کوشش جاری رکھتا ہوں۔مگر لگتا ہے یہ ہنر آپ نے خوب سیکھ رکھا ہے۔مگر تقدیر سے لڑنا کا کچھ فائدہ نہیں سائیں جی جو جتنی سانسیں لکھوا کر لایا ہے۔۔اسے اتنی جینی ہیں ۔۔خود کو سزا دینا مناسب نہیں خان حیرت سے میرے اور حکیم صاحب کے درمیان ہونے والا یہ مکالمہ سن رہا تھا حکیم صاحب جانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔۔
دنیا کی ہر طب کا تعلق کسی نہ کسی طور انسان کے اعصاب اور اس کی شفایابی کی خواہش سے ضرور ہوتا ہے۔۔جینے کی خواہش اور صحت کی آرزو بیمار عضو کت خلیوں کے دروازے دوا کو اندر کشید کرنے کے لیے کھول دیتی ہے ورنہ سب دعائیں ناکام و نامراد واپس لوٹ جاتی ہیں۔اپنے جینے کی کوئی وجہ پیدا کیجئے صاحب۔۔
حکیم صاحب پلٹ گئے۔کسی نے سچ کہاں ہے کہ حکمت کا تعلق صرف علاج اور دوا دارو کے علم سے نہیں ہوتا۔انسان کے اندر جھانک لینا ہی اصل دانش و حکمت ہے۔۔۔اس چھوٹے سے قصبے کا یہ حکیم بھی کچھ ایسا پی دانا تھا۔جو انسان کی صرف نبض ہی دیکھنا نہیں جانتا تھا اس نبض کی بولی بھی پڑھ سکتا تھا۔خان شد و مد سے حکیم صاحب کی ہدایات کے مطابق میری تیمارداری میں جٹا رہا۔۔تیسرے دن ڈھول بتاشوں کے ساتھ ایک ہجوم نذر و نیاز کی دیگیں سبز چادریں سنہری غلاف اور نہ جانے کیا کچھ اٹھائے ہوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر آ پہنچا۔عقدہ کھلا کہ زمیں دار صاحب کی خدا نے سن لی ہے اور ان کی گل ناز نے انہیں خوش خبری سنا دی ہے کہ انشاءاللہ جلد ہی ان کی آنگن میں پھول کھیلنے والا ہے۔تھوڑی دیر میں جشن منانے والے یک دم خاموش اور مودب سے کھڑے ہوگئے پتہ چلا کہ زمیں دار صاحب خود تشریف لا رہے ہیں۔زمیں دار پکی عمر کا ایک سخت گیر اور جہاں دیدہ شخص دکھائی دیتا تھا۔گل ناز بھی اس کے ساتھ میری قدم بوسی کے لیے آئی تھی۔اس نے دور سے ہی اشارہ کر کے اپنے سر کے دائیں کو میری نشان دہی کروادی زمیں دار مودب سا میرے سامنے قریب آکر بیٹھ گیا میں پہلے اس جھلی کی باتوں پے یقین نہیں کرتا تھا سائیں جی۔۔بچہ تو مرد کے نصیب سے ہوتا ہے میں اسے ہمیشہ یہی سمجھاتا رہا پر یہ چھپ چھپ کر پیروں فقیروں کے ڈر پر منتیں مانگتی رہی اور چڑھاوے چڑھاتی رہی۔مگر اس کے نصیب کا چڑھاوا تک تو یہیں اسی قصبے کے ریلوے پلیٹ فارم پر انتظار کر رہا تھا۔آپ بھی ہماری یہ نذر نیاز قبول کرو ل۔۔اور ہاں۔۔آج کے بعد آپ کا تین وقت کا کھانا میری حویلی سے آیا کرے گا خدا کے لیے انکار نہ کرنا میں نے سرجھکائے شرمائی سی بیٹھی گل ناز کی طرف دیکھا سارا اسٹیشن دور کھڑے یہ تماشا دیکھ رہا تھا میں چپ رہا۔۔مگر صاف نظر آرہا تھا کہ میرے لیے مزید مشکلات منہ کھولے میری جانب بڑھ رہی ہیں اور میرا رہا آیا چین اور سکون بھی غرک ہونے والا ہے۔میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ اب مزید اس پلیٹ فارم پر جمے رہنا ان کم زور عقیدہ لوگوں کو ذیادہ بھٹکانے کا باعث ہوگا۔میں نہیں جانتا تھا کہ تنہائی بھی کسی کے لیے اتنی بڑی نعمت ثابت ہوسکتی ہے کہ وہ کم نصیب اس کے لیے ترس ہی جائے میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا جتنا میں تنہا رہنا چاہتا تھا۔میرے گرد ہجوم اس قدر بڑھتا جارہا تھا رات گئے ایک مال گاڑی اسٹیشن پر لگی تو میں نے اپنے بکھرے وجود کو سمیٹا۔پلیٹ فارم پر لگے گھڑیال نے رات کے تین بجے کا اعلان کیا
اور میں دھیرے دھیرے رینگتی ہوئی مال گاڑی میں سوار ہوگیا خان سمیت سارا پلیٹ فارم چین کی نیند سو رہا تھا میں ایک نسبتا خالی بوگی میں فرش پر بکھرے خشک بھوسے پر نیم دراز ہوگیا اگلی دوپہر کسی نے بوگی کا اہنی دروازہ سرکایا تو میری آنکھ کھل گئی۔کوئی ریلوے اہلکار تھا مجھے دیکھ کر ان نے درشت لہجے میں پوچھا۔۔
تم کون ہو۔۔اور یہاں خالی بوگی میں کیا کر رہے کو ۔۔؟
میں نے دھیرے سے جواب دیا فقیر ہوں۔ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے اس لیے یہاں بیٹھ گیا۔تم سپنا سامان دیکھ لو میں نے کچھ بھی نہیں اٹھایا۔۔
ریلوے اہلکار کا لہجہ تبدیل ہوگیا۔۔میرا یہ مطلب نہیں تھا بادشاہو۔۔پر آپ کو کہا جانا ہے۔۔یہ مال گاڑی تو ہفتہ بھر اسی جنکشن پر لگی رہے گی۔۔کوئی خدمت ہمارے لائق تو بتاو نہیں۔۔تمہاری مہربانی۔۔میں یہیں ستر جاتا ہوں۔۔
میں چپ چاپ گاڑی ست اتر کر ایک طرف ہوگیا۔ریلوے اسٹیشن سنسان پڑا تھا شاید یہاں گاڑیوں کا گزر کم ہی ہوتا ہوگا۔سہ پہر کی دھوپ ڈھل رہی تھی۔مجھے ریلوے پلیٹ فارم کا ایک برا تجربہ پہلے ہی ہوچکا تھا لہذا اس بار میں نے پلیٹ فارم پر ڈیرہ جمانے کی بجائے قصبے سے دور جاتی ایک پکڈنڈی کی راہ لی سارا راستہ کیکر اور کانٹوں سے آٹا پڑا تھا اور دور دور تک سبزے کا نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا درخت اور جھاڑیاں خشک پڑی ہوئی تھیں اور راستے پر دھول اڑتی رہی عجیب قحط سالی کی سی کیفیت طاری تھی سارے علاقے میں۔میں نے ایک خشک ہوتے جوہڑ سے پرے ڈیرہ جمانے کا فیصلہ کیا جہاں ایک بوڑھے درخت کی بے تحاشہ پھیلی ہوئی شاخوں اور جڑوں نے ایک مسکن سا بنا رکھا تھا شام ہونے سے پہلے میں نے اس پاس کی تھوڑی سی جگہ سے کنکر اور کانٹے ہٹا کر اپنے گزارے کےلیے تھوڑی سی زمین صاف کر لی لیکن اس ذرا سی مشقت نے ہی مجھے نڈھال کر کے رکھ دیا تھا۔میں وہیں درخت سے ٹیک لگا کر سستا رہا تھا کہ دور سے ایک بوڑھا شخص سائیکل پر کسی بچے کو بٹھائے خراماں خراماں پیڈل مارتے میرے قریب ست گزرا اور پھر آگے جا کر نہ جانے اسے کہا خیال آیا کہ وہ دوبارہ میری طرف پلٹا میں نے بے زاری سے آنکھیں بند کر لیں۔پھر وہی آدم زاد۔۔؟بوڑھے نے میرے قریب آکر اچھی طرح میرا جائزہ لیا۔میں چپ رہنے میں ہی عافیت جانی۔بوڑھے نے مجھ سے پوچھا اس علاقے میں نئے آئے لگتے ہو جی۔۔میرا نام مہر دین ہے۔۔اور یہ میرا پوتا کمالا۔۔کوئی روٹی ٹکر چاہیے ہو تو بتاو جی۔۔میں اس علاقے کا ڈاکیا ہوں
میں نے دور کھڑی سرخ سائیکل کے پیے سے کھیلتے بچے پر نظر ڈالی نہیں میرے پاس جھولے میں کچھ چنے اور گڑ موجود ہے۔۔مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔تم جاو یہاں سے ۔۔بوڑھے مہر دین پر میری کرختگی کا کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا۔وہ آس پاس میلوں دور پھیلی بنجرو بے آباد زمین خو دیکھتے ہوئے حسرت سے بولا صاف پانی کا بڑا کال پے یہاں پر انسان اور جانور۔بندے اور ڈنگر سارے اسی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں۔برسوں سے بارش کا ایک چھینٹا بھی نہیں برسا یہاں پر۔۔میں کوشش کرو گا کہ کہیں سے ایک صراحی صاف پانی لادوں تمہیں۔۔
بوڑھا اٹھ کھڑا ہوا چل کمالے۔۔تیری ماہ راہ دیکھتی ہوگی مہر دین اپنی سائیکل کی طرف جاتے جاتے دو پل کے لیے روکا جوگی اور سائیں لوکوں کی دعا میں بڑا اثر ہوتا ہے۔۔ہمارے علاقے کے لیے دو بول پڑھ دینا جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاو میں خاموش رہا۔۔مہر دین نے ایک لمبی سی ٹھنڈی آہ بھری اور آگے بڑھ گیا۔۔میں نے سکون کی سانس لی اور آنکھیں موندھ لیں۔۔مگر سکون بھلا کب لکھا تھا لکھنے والے نے میرئ قسمت میں۔۔اگلی صبع جب میری آنکھ کھلی تو آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔کچھ دیر میں ہی وہ زور کا مینہ برسا کہ ہر طرف جل تھل ہوگیا۔اچانک ایک جانب شور سا اٹھا میں نے گھبرا کر دیکھا تو مہر دین ایک ہجوم کی قیادت کرتا ہوا میری جانب دوڑا چکا آرہا تھا..
خلیل خبران نے کہا تھا۔جب کھبی میں نے صبر کی زمین میں اپنے درد کا پودا سینچا بدلے میں اس نے مجھے خوشی کا پھل دیا۔۔
مگر شاید میرے نصیب میں صرف غم اور پریشانی کے تنا درخت ہی لکھے تھے۔مہردین اور اس شور مچاتے ہجوم کی صورت ایک نئی مصیبت میری جانب بڑھی چلی آرہی تھی بارش کی بوچھاڑ تیز تر اور ان سب کے نعروں کا شور ہنگامہ خیز تھا پاوں میں پرانے چپل اور سروں پر ناکافی اور چھید ڈلی برائے نام چھتریاں وہ سب میرے قریب پہنچے تو میرے بھپرے ہوئے تیور دیکھ کر خاموشی سے کھڑے ہوگئے۔کچھ لمحوں تک ہمارے درمیان صرف برستی بوندوں کی بولی مترجم کے فرائض سرانجام دیتی رہی مگر دنیا کا سب سے مشکل کام شاید خاموش رہنا ہے۔سو ان سب کو بھی یہ خاموشی کھلنے لگی۔اور پھر مہردین نے ہی سب سے پہلے ہمت کی اور ہلکے اے کھنکار کر بولا۔۔
یہ سب تمہارا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں سائیں لوکو۔۔میں تو کل ہی سمجھ گیا تھا کہ اب اپنے اس بنجر اور خشک علاقے کی قسمت بھی کھلنے والی ہے۔مگر تم نے تو ایک رات میں ہی کرشمہ کر دیکھایا۔میں نے درشت لہجے میں سب کو دھتکارا۔یہ بوڑھا مہردین دیوانہ ہوگیا ہے شاید۔۔اور تم سب بھی بڑے بدھو ہو جو اس کی باتوں میں آکر یہاں چلے آئے ؟
بارشیں اپنے وقت پر ہی برستی ہیں۔۔چاہے آسمان کے بادلوں کی ہوں یا پھر نصیب کی۔۔جاو جا کر پانی ذخیرہ کرنے کی کوئی تدبیر کرو۔ورنہ پھر سالوں تک پانی کو ترستے رہوگے
پتہ نہیں انہیں میری بات کتنی سمجھ آئی اور کتنی رائیگاں گئی مگر ان میں سے کچھ بزرگ اور پکی عمر کے چند لوگ آگے بڑھے۔کسی نے چادر کسی نے چاول گڑ اور چنوں اے بھرے جھولے میرے سامنے خالی کردیئے۔کوئی جیب میں چند سکے بھر کے لایا تھا تو کسی نے دودھ سے بڑی گڑوی میرے سامنے دھر دی۔مہردین رو پڑا ۔ہمارے پاس بس یہی کچھ ہے سائیں لوکو۔اسے قبول کر لو اور وعدہ کرو اب تم یہاں سے کہیں نہیں جاو گے ہمیشہ ہمارا سایہ بن کر یہیں ڈیرہ ڈالے رہو گے ۔۔۔
میں نے اپنا ست پکڑ لیا۔ان لوگوں کو مزید سمجھانا بے فائدہ تھا اس لمحے میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اس برستی بارش سے لڑ پڑوں۔انسان اپنی ظاہری دشمن سے جنگ لڑ سکتا ہے۔اسے ہرا کر شکست دے سکتا ہے۔اپنی فتح۔جیت سکتا ہے۔مگر قدرت ہی دشمن ہوجائے تو کوئی کیا کرے۔۔؟
تقدیر کا وار ہمیشہ سات پردوں میں چھپے اور خفیہ ہوتے ہیں۔جیسے گھات میں چھپا کوئی دشمن اچانک گائل کر جائے۔میں مقدر کے ہاتھوں زخمی ہوکر وہیں۔درخت کے نیچے بیٹھا بھیگتا رہا۔مگر کچھ بارشیں صرف بنجر دھرتی کو سیراب کرنے کے لیے برستی ہیں جو دل کے سلگتے آنگن کو بھگودے۔ایسا ساون میری قسمت میں بھلا کب تھا۔۔؟
اگلے روز مہردین میرے پاس آیا تو میں نے سختی سے اسے منع کیا کہ اگر اس بستی والوں نے مجھے زیادہ تنگ کیا یا آس پاس کے علاقوں میں اس اتفاقیہ بارش کا خوامخواہ چرچا کیا تو میں چپ چاپ یہاں سے آٹھ کر کیسی دوسری جانب نکل جاوں گا۔مہردین نے فورا اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور قسم کھائی کہ وہ ایسا۔۔گناہ ۔۔کرے گا اور نہ کسی اور کو کرنے دے گا ۔۔
میرے پاس اس کے علاوہ اور چارہ بھی کیا تھا؟ کسی نئی بستی یا کسی جنگل کی جانب نکلنے سے پہلے کچھ دن یہاں بتانا اب ناگزیر لگنے لگا تھا۔میں نے سوچ لیا تھا کہ اس بار یہ جوگی سائیں کا لقب اور ان بھولے بھولے لوگوں کی یہ ضعیف اعتقادی کا بت ہمیشہ کے لیے توڑ کر ہی آگے بڑھوں گا مہردین نے میری دھمکی شاید موثر انداز میں بستی کے لوگوں تک پہنچا دی تھی اس لیے چند دن سکون رہا البتی عصر کے بعد تک کے وقفے میں اکاد کا ضرورت مند مجھ سے کچھ فاصلے پر دور پگڈنڈی پر آبیٹھتے اور دور ہی سے دعا کی التجا کر کے واپس پلٹ جاتے۔انسان اور دعا کا بھی کتنا پرانا اور ازلی رشتہ ہے جانے کائنات کی دعا پہلے وارد ہوئی ہوگی یا انسان۔۔؟میں دن بھر خود کو یہاں وہاں الجھائے رکھنے کی کوشش میں کسی نہ کسی طور پر صبع سے شام تو کرلیتا تھا مگر شام ڈھلتے ہی اس کہ یادیں کالی رات کے سایوں کی طرح مجھے گھیر لیتی تھیں۔جانے وہ کیسی ہوگی واپس آکر اس نے دوبارہ اپنا ریڈیو پروگرام شروع کیا ہوگا کہ نہیں۔۔؟اب وہ کیسی دکھتی ہوگی۔؟کچھ چہروں کا حسن صرف ضرب کھانا جانتا ہے۔کھبی تقصیم نہیں ہوتا وہ بھی دوگنی چوگنی دل کش حسین ہوچکی ہوگی۔کاش دنیا کے کسی جراح کے پاس تو وہ نشتر ہوتا جو ایک ہی چرکے میں ہمارے سارے جسم سے ان کی یادوں کا سارا زہر نکال دیتا۔۔
اگلے روز مہردین کے ساتھ ایک دوسرا بوڑھا بھی کھنکارتے ہوئے عصر کے بعد میرے قدموں میں آکر بیٹھ گیا۔۔یہ شکور دیں ہے سائیں لوکو۔۔۔اپنا شکورا۔۔اس کی نواسی کو بڑے زور کا بخار ہوگیا ہے۔۔اگر آپ کی اجازت ہوتو دعا کے لیے یہاں لے آئیں۔۔میں نے ناگواری سے مہردین کی طرف دیکھا اس نے جکدی سے وضاحت پیش کی۔میں نے اسے بہت سمجھایا ہے سائیں پر یہ جھلا میری بات سمجھتا ہی نہیں۔۔کہتا ہے سائیں کے روبرو دعا کی درخواست کر کے دیکھو۔۔بڑا مجبور ہے یہ بیچارہ۔۔اس کی سکینہ کو جن آتے ہیں ہیں جناب دور کی دعا سے وہ شیطان بھلا کہاں جان چھوڑیں گئے ان کی
میں نے جان چھڑانے کے لیے کہہ دیا کہ میں دعا کردوں گا۔اگر تین دن تک لڑکی کی طبعیت نہ سنبھلے تو اسے لے آنا۔ان دور دراز کے علاقوں میں جو ان لڑکیوں کی مختلف گھریلو معاشرتی مسائل کی وجہ سے ہسٹیریا(Hysteriya)اور دیگر نفسیاتی دورے پڑتے رہتے ہیں جن کا دورانیہ چند گھنٹوں کا ہوتا ہے میرا خیال تھا کہ شکورے کی نواسی بھی ایک آدھ دن میں بھلی چنگی ہوجائے گی۔مگر ہمیشہ کی طرح میری یہ خوش فہمی بھی تیسرے دن ہی دور ہوگئی جب شکورا سیاہ چادر میں لپٹی ایک گم سم سی لڑکی خو لے کر میرے ٹھکانے پر آپہنچا۔۔میں خود اپنے ہی الفاظ کے جال میں پھنس چکا تھا۔بادل نخواستہ میں نے دکھاوے کے طور پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔گلابی شام کے ڈھلتے سورج کی کرن سے سکینہ کے ناک کا لونگ پل بھر کے لیے چمکا تو ایک لمحے کے لیے میری نظر اس کی نظر سے ٹکرائی۔اف۔کس قدر ویران آنکھیں تھیں۔کسی برباد شہر کی طرح۔۔جس کو سب کچھ لوٹ کر جاتے ہوئے لٹیرے اسے ریل چھڑک کر آگ لگا گئے ہوں۔کچھ ایسا ہی دھواں اٹھتا محسوس ہورہا تھا مجھے سکینہ کی ان جلتی آنکھوں سے شکورا اپنی دھن میں بولے جارہا تھا۔کچھ عرصہ پہلے تک بلکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ہنستی بولتی تھی۔ساری سکھیوں سمیت پورے گاوں میں اودھم مچاتئ پھرتی تھی۔کوئی بھی محفوظ نہیں تھا ان کی شیطانیوں سے۔۔باغوں میں جھولے جھولتی تھیں۔ایک سہیلی کی چھت سے دوسری کی چھت پر کد کڑے لگاتی پھرتی تھی۔پھر نہ جانے کیا ہوا۔رفتہ رفتہ اسے چپ لگتی گئ ساری ہنسی اور قہقہے کھوگئے اور یہ ایسی ہوگئی اس کی نانی کہتئ ہے کہ وہ اس لیے ان کڑیوں کو شام ڈھلنے کے بعد ویران جگہوں پر جانے سے منع کرتی تھی ضرور کسی ویران درخت تلے بیٹھے اسے کوئی جن چمٹ گیا ہے۔بس سائیں جی۔۔بس اب تمہاری دعا کا ہی آسرا ہے ۔کچھ ایسا پڑھ کر پھونکو کہ میری سکینہ پھر سے پہلے جیسی ہوجائے
اس تمام عرصے میں سکینہ دونوں سے لا تعلق سی بیٹھی کچی زمین پر ایک تنکے کی مدد سے لکیریں بناتی مٹاتی رہی ڈھلتی شام میں اس کے چہرے کی پیلاہٹ نے آس پاس کے ماحول میں سرسوں سی بکھیر رکھی تھی۔میں نے بنا کچھ کہے چپ چاپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔میری دیکھا دیکھی پہلے شکورے اور پھر سکینہ نے بھی اس کی تقلید میں ہاتھ دیئے۔خود اپنے لیے دعا مانگتی وہ مجھے بہت معصوم لگی۔میں نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر شکورے سے کہا۔۔
اسے کسی اچھے حکیم یا طبیب کو دکھاو ہوسکے تو شہر لے جا کر کسی بڑے ڈاکٹر سے علاج کرو او۔۔دعا کے ساتھ دوا بھی ضروری ہے ۔۔
شکورے نے اہ بھری۔۔آپ ٹھیک کہتے ہیں سائیں جی۔۔پر یہ پگلی کسی کی سنتی کب ہے میں نے شہر چلنے کا کہا تو صاف انکار کردیا اس نے۔۔کہتی ہے اس کا جو ہونا ہے ادھر ہی ہونا ہے میں نے غور سے سکینہ کی طرف دیکھا۔
کیوں لڑکی ۔۔کیوں تنگ کرتی ہو اپنے بزرگوں کو بات مان کیوں نہیں لیتی ان کی ؟؟؟؟
سکینہ میری ڈانٹ سے گھبرا سی گئی۔۔جی۔۔وہ۔۔مجھے لگا کہ وہ اپنے نانا کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کر پا رہی۔سر جھکا کے بس اتنا ہی بول پائی۔۔ٹھیک ہے جی۔۔آپ کہتے ہیں رومان لوں گی شکورا خوش ہوگیا۔۔دیکھا سائیں۔۔میں جانتا تھا اس کا علاج تمہارے پاس ہی ملے گا شکورا سکینہ کو ساتھ لیے واپس پلٹ گیا۔مگر یہ جانے کیوں ان دونوں کے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک مجھے سکینہ کی ویران کالی سیاہ سی آنکھیں اپنے آس پاس بھٹکتی ہوئی محسوس ہوتی رہیں۔سورج کی زردی شب کی سیاہی تبدیل ہوئی رات کا چاند سکینہ کے چہرے کا سورج مکھی لیے آسمان پر نمودار ہوگیا۔جانے وہ کیا کہنا چاہتی تھی۔۔؟اس کی آنکھوں میں زمانے بھر کا وہ کرب کیسا تھا۔۔؟
اگلی صبع مہردین تازہ پانی کی صراحی لایا تو اس نے خود ہی شکورے کا ذکر چھیڑ دیا۔کل دے ذرا سکون ہے بیچارے کے گھر میں۔کیسی ہنستی بولتی چڑیا تھی اس بد نصیب کے گھر کی۔اب تو جیسے منہ میں زبان ہی نہیں ہے اس کے
میں نے شکورے کی طرف دیکھا۔اچانک ایسا کیا ہوگیا اسے
اور اس کی یہ حالت کب سے ہے ۔۔؟
تین سال ہوگئے ہیں سرکار۔بہت علاج کروایا بڑے پھیرے لگائے ہیں شکورے نے آس پاس کی ساری بستیوں کے۔۔کوئی مزار کوئی درگاہ نہیں چھوڑی جہاں اس نے دعا نہ کی ہو علاقے کے سارے حکیم اور طبیب بھی تھک کر ہمت ہار چکے ہیں۔۔کسی نے شکورے کو مشورہ دیا تھا کہ کچھ عرصے کے لیے لڑکی کو لے کہ کسی دور دراز بستی میں چلا جائے شاید ماحول بدلنے سے کچھ بہتر ہو۔مگر یہ طریقہ بھی بے فائدہ رہا۔۔آخر کار شکورے کو واپس لوٹنا پی پڑا۔ابھی چند دن پہلے جس رات تمہاری دعا سے علاقے میں بارش براہ تھی۔اس سے ایک رات پہلے ہی تو شکورا واپس لوٹا تھا اپنی سکینہ کو لے کر۔۔میں نے بے خیالی سے مہردین سے پوچھا کہاں لے گیا تھا شکوردین اپنی نواسی کو ۔۔؟
شکر گڑھ۔۔وہیں ریلوے پلیٹ فارم کے قریب پی گھر ہے اس کے داماد کا میں چونک سا گیا۔۔یہ تو وہی علاقہ تھا جس کے پلیٹ فارم پر خان کا کیبن واقع تھا۔کتنا عرصہ رہی سکینہ وہاں پر۔۔؟ لگ بھگ چھ ماہ۔۔مگر وہاں بھی اس جھلی کا من نہیں لگا بس دب بھر بیٹھی آسمان کو تکتی رہتی تھی پھر کچھ سوچ کے مہردین خود پی اداس ہوگیا اور پتہ ہے سائیں جی۔۔کھبی کھبی تو بالکل جوگنوں جیسی حرکتیں کرتی ہے۔۔اپنے آپ دے باتیں کرتی رہتی ہے مہردین کی بات سن کر میرے اندر کی بے چینی مزید بڑھ گئی۔میں نے مہردین سے کہا کہ وہ شام ڈھلنے سے پہلے شکورے کو میرے پاس بھیج دے۔سر شام ہی شکورا سکینہ سمیت آگیا۔۔حکم سائیں۔سکینہ کیسی ہے اب۔۔؟
شکوردین نے گہرا سانس لیا۔پہلے سے کچھ بہتر ہے سائیں ایک آدھ دن میں شہر کی بڑی ڈاکڑانی کو بھی دکھانے کے جاوں گا۔سکینہ کے باپ کو بھیجا ہے میں نے شہر۔۔ڈاکڑانی کا پتہ لگانے اور وقت لینے کے لیے ۔۔
میں نے اپنے اندر ابھرتے ایک عجیب سے موہوم خدشے کی تصدیق چاہی۔جب تم سکینہ کو دوسری بستی لے گئے تھے ماحول بدلنے کے لیے۔۔تب وہاں اس کا میل جول کن لوگوں سے تھا۔؟۔۔شکورے نے تاسف بھرے لہجے میں سکینہ کی حالت زار بیان کی۔وہ کب کس سے ملتی ہے سائیں جی۔وہاں بھی سارا دن گم سم بیٹھی رہتی تھی۔۔سکینہ اس وقت بھی ہم دونوں کی باتوں سے لاتعلق سی بیٹھی زمین پر تنکے کی مدت سے اپنا پسندیدہ کھیل کھیل رہی تھی۔اتنے میں گاوں سے ایک پکی عمر کا جوڑا آکر ہم سے کچھ دور فاصلے پر بیٹھ گیا عورت کافی پریشان نظر آرہی تھی۔مرد نے منت کی۔سائیں جی۔ ہمارا چھوٹا بیٹا بہت بیمار ہے
چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے دعا کرو کہ وہ ٹھیک ہوجائے بڑا تیز بخار ہے اسے تین دن سے میرا جی چاہا کہ میں انہیں بڑی طرح دھتکاروں میں نے مرد کو جھاڑا کہ وہ کسی ڈاکٹر لے پاس جانے کی بجائے یہاں کیوں آگیا ہے۔؟مرد نے بتایا کہ وہ کافی علاج کروا چکا ہے مگر بچے کی حالت نہیں سدھر رہی تنکے کی مدت سے زمین پر لکیریں کھینچتی سکینہ دھیرے سے خود کلامی کی ٹھیک ہوجائے گا صبع تک رب کی مرضی سے بس آج رات کی سختی ہے شکورا گاوں سے آئے ہوئے جوڑے سے بات چیت میں مصروف تھا اس لیے میرے علاوہ کسی نے بھی سکینہ کی یہ سرگوشی نہیں سنی۔ویسے بھی اس کی آواز اتنی دھیمی تھی جیسے وہ خود اپنے آپ سے بڑبڑا رہی ہو میں جانتا تھا کہ عورت اور مرد دعا لیے بنا وہاں سے نہین ٹلیں گے لہذا حسب معمول میں نے اپنے سدا کے خالی ہاتھوں کا کشکول ہوا میں بلند کرلیا۔اس جوڑے کے جانے کہ بعد شکورا اور سکینہ بھی اٹھ کت چلے گئے شکورے نے جاتے جاتے بتایا اگر شہر میں بات بن گئی تو وہ سکینہ کو کل شہر لے جائے گا۔میرے اندر کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی جیسے کوئی بہت بڑا سر بستہ زاز آپنے قفل کھولنے کر بے تاب ہو مگر میں اپنی کم علمی اور جہالت کی وجہ سے اس کی کنجی کہیں کھو بیٹھا ہوں۔اگلی صبع سورج کچھ زیادہ ہی ناراض سا نمودار ہوا اور اپنا غصہ جھلستی کرنوں کی صورت میں بن سایہ جانداروں پر برسانے لگا۔دوپہر سے پہلے ہی گزشتہ روز والا مرد بھاگتا ہوا آیا اور میرے قدموں میں گر گیا۔میرے کاکے کا بخار اتر گیا ہے سائیں۔۔کل رات تو ہم سمجھتے تھے کہ بس جان لے کر ہی چھوڑے گا یہ بخار اس کی۔بڑا تڑپا ہے ساری رات بستر پر جیسے کوئی مچھلی بن پانی کے تڑپتی ہے۔۔
سچ بتاوں سائیں تو میں امید چھوڑ بیٹھا تھا۔۔مگر پھر تمہاری دعا نے فجر کے بعد ایسا اثر دکھایا کہ سورج نکلنے تک میرا کاکا بھلا چنگا ہو کر اٹھ کے بیٹھ گیا سب تمہاری کرامت پے سائیں۔۔ساری تمہاری دعا کے کرشمے اور برکتیں ہیں قربان جاوں میں اپنے سوہنرے رب کے اس نے تمہیں ہم غریبوں کی مدت کے لیے بھیجا ہے اس بستی میں ۔۔
شکورا نہ جانے کیا کچھ کہتا رہا مگر میرے تو سارے لفظ ہی نہ جانے کہاں کھوچکے تھے کل ہی میرے سامنے سکینہ نے یہ سرگوشی کی تھی کہ شکورے کا بچہ رات بھر کی سختی کے بعد صحیح سفایاب ہوجائے گا اور اس کی کہی ہوئی بات ہو بہو ٹھیک ثابت ہوئی تھی۔یہ سب کیا ماجرا تھا اور پھر میرے ذہن میں یکے بعد دیگرے جھماکے ہوتے گئے سکینہ بھی اسی دن واپس اپنی بستی میں پہنچی تھی جس دن میں نے یہاں ڈیرہ ڈالا تھا اور پھر اسی رات اس علاقے میں برسوں بعد بارش برسی تھی۔دوسرا جھماکا ہوا اور مجھے مہردین کی بات یاد آگئی کہ سکینہ کے نانا سکینہ کو ماحول کی تبدیلی کے لیے اسی قصبے میں لے گیا تھا جہاں ریلوے پلیٹ فارم پر میرا ٹھکانہ تھا۔میں بے چینی میں کھڑا ہوگیا اور ادھر ادھر ٹہلنے لگا جہاں جہاں قدرت نے میری دعا کی لاج رکھی تھی۔وہاں آس پاس سکینہ کی موجودگی کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔میرا جی چاہا کہ میں اسی وقت بستی میں سکینہ کے گھر چلا جاوں۔مگر لوگ میری اس حرکت کا نہ جانے کیا مطلب لیتے۔؟
میں دو چار قدم بڑھ کر واپس پلٹ آیا اتنے میں دور پگڈنڈی پر سورج کی قہر برساتی دھوپ کی گرمی سے تپتی زمین سے اٹھتی سراب کی لہروں میں مجھے شکورے کا ہیولہ دھیرے دھیرے لاٹھی ٹیکتا ہوا شہر کی جانب جاتی بڑی سڑک کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دیا اس کے پیچھے سر جھکائے گٹھڑی سی بنی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ضرور وہ سکینہ پی ہوگی۔ایسے موقعوں پر انسان کے دل اور زبان سے ہمیشہ اس قسم کی غیر تشکرانہ فقرے ادا ہوتے ہیں کہ کاش میں اس وقت کچھ اور مانگ لیتا تو وہ خدا وہ مجھے بھی ضرور دیتا مگر ہم انسان بھی کتنے بھولے ہیں۔بھلا اس لمحے کس کو کچھ اور مانگنے کا خیال ہی کب آتا ہے ہمیں ٹھیک قبولیت کے لمحے قدرت جو عطا کرتی ہے۔ہم اسی کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے۔؟مگر میں ان لوگوں میں سے نہیں تھا مجھے اس لمحے شکورا اور سکینہ ہی اپنی ہر چاہت پر دعا کا بدل نظر آرہے تھے۔شکورا میرے قریب پہنچا تو گرمی کی وجہ سے بڑی طرح ہانپ رہا تھا۔۔
شہر کی بڑی ڈاکڑانی سے بات ہو گئی ہے سائیں جی اس نیماڑیں کو وہیں لے جارہا ہوں۔اس کے باپ کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔اگر تمہارا حکم نہ ہوتا تو کھبی نہ جاتا۔دعا کرنا ہمارے لیے اگر بس وقت ہر مل گئی تو رات تک واپسی ہوگی۔ورنہ کل تیری خدمت میں حاضری دوگا۔۔
سکینہ حسب معمول سرجھکائے کھڑی تھی میں نے شکورے کو دو لمحے درخت کے نیچے سستانے کا اشارہ کیا سکینہ نے خود خو سمیٹا اور اپنے کم زور اور مضحمل سے وجود کو شکورے کے پیچھے چھپالیا شکورے نے سوالی نظروں سے میری طرف دیکھا میں نے اسے تسلی دی کچھ دیر سستالو۔شاید شہر جانے کی ضرورت نہ رہے اب۔۔تم شکر گڑھ کے اسٹیشن پر کھوکھا لگانے والے خان کو جانتے ہو۔۔؟
شکورے نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ہاں جی۔وہ میرے داماد کا ہمسایہ ہے وہیں ریلوے اسٹیشن کے باہر ہی تو کواٹر ہے میری بیاہتا بیٹی کا۔۔اور اس علاقے کا چودھری۔۔؟کھبی اس سے ملاقات ہوئی ہے ایک آدھ بار میں جب سکینہ کو لے کر ریاست پور کی بڑی درگاہ ہر دعا کے لیے گیا تھا تب وہاں چودھری صاحب بھی اپنی گھر والی کے ساتھ دعا کے لیے آئے ہوئے تھے۔وہیں دعا کرتے دیکھا تھا انہیں ۔۔
اب میرے پاس مزید شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں تھی میں نے شکورے کو ایک جانب ہٹنے کا اشارہ کیا اور براہ راست سکینہ کی طرف دیکھا۔وہ میری نظروں کی کاٹ سے گھبرا کر مزید سمٹ گئی میری آواز خود میرے لیے اجنبی تھی۔۔کون ہو تم۔۔۔؟۔۔..
قسط 30
میرا سوال سن کر سکینہ سے زیادہ شکورے کی چہرے پر حیرت اور تعجب کی ہوائیاں اڑنے لگیں سکینہ نے گھبرا کر اپنے نانا کی طرف دیکھا جیسے اس سے اپنی شناخت کی تصدیق چاہتی ہو۔شکورے نے گڑ بڑا کر کچھ کہنے کی کوشش کی۔۔سائیں یہ میری نواسی ہے ۔۔
سکینہ کو جواب دینے دو۔۔
سکینہ مزید بوکھکا گئی۔۔وہ جی۔۔میں۔۔میں تو بس سکینہ ہوں۔۔نہیں تم وہ نہیں ہو جو نظر آتی ہو ساری دنیا کو دعائیں دیتی پھرتی ہو ان کے لیے رب سے مانگتی ہو۔پھر خود خو اس جوگن کے بھیس میں کیوں ڈھال رکھا ہے؟کیوں فقیری بنی پھرتی ہو۔۔؟کیوں خود کو اور اپنے گھر والوں کو اس عذاب میں ڈال رکھا ہے۔۔؟بولو بولتی کیوں نہیں۔۔؟شکورا میرے غصے بھرے لہجے خو میرا جلال سمجھ کر ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا۔سکینہ بالکل روہانسی سی ہو گئی اور اس نے خود خو شکورے کی اوٹ میں چھپالیا پھر مجھے احساس ہوا کہ شاید غصہ میں میرا لہجہ کچھ زیادہ ہی تلخ اور بلند ہوگیا ہے۔یہ لڑکیاں جانے کس ریشم کی بنی ہوئی ہوتی ہیں لہجون کی تیز دھار سے بھی کٹ کٹ جاتی ہیں۔میں نے ایک گہری سانس لی اور شکورے کو کہا فی الحال وہ واپس اپنے گھر چکا جائے جب ضرورت ہوئی تو میں خود اسے بلاوں گا۔شکورے کا دل وہاں سے اٹھ کر جانے کو نہیں تھا مگر میرے لہجے کی سختی نے اسے بادل نخواستہ اٹھنے پر مجبور کر دیا۔سکینہ بھی چپ چاپ اس کے پیچھے چل دی۔اس کی گھبراہٹ اور آنکھوں میں اٹھتے سوالوں سے ایک بات تو مجھ پر واضع ہوگئی تھی کہ خود اسے بھی اپنی ان دعاوں کی قبولیت کے معجزے کا ابھی تک علم نہیں تھا۔ساری بات مجھ پر دھیرے دھیرے کھلنے لگی تھی جانے یہ اتفاق تھا یا میری تقدیر کا ایک اور مذاق مگر سچ یہی تھا کے خان والے پلیٹ فارم سے جہاں میرے ماتھے پر جوگی سائیں کی مہر لگی تھی۔ہر اس جگہ کے آس پاس سکینہ موجود رہی تھی جہاں لوگ میری دعا کی قبولیت کے حصول کے لیے بھٹکتے رہے تھے اور آج تک ان سب جگہوں پر خان سمیت جس ضرورت مند کی دعا قبول ہوئی۔دراصل وہ سکینہ کی دعا کی بدولت ہی ممکن ہوسکا تھا۔قدرت یہ سب میرے کھاتے میں ڈالتی رہی اور سیدھے سادھے لوگ میرے مرید بنتے چلے گے۔کسی کو بھی پتہ نہیں چلا کہ ان کی یہ دعائیں ایک نڈھال اور لاغر سی لڑکی کی سفارش کے بدلے قبولیت کا رنگ لاتی ہیں۔اگلے ایک دو روز میں میں نے باتوں میں شکورے سے ان سب باتوں کی تصدیق بھی کرلی۔خان کی بیوی اپنے ہمسایوں کے سامنے ہر لمحہ خان کی غریبی اور اپنی معاشی مشکلات کا رونا روٹی رہتی تھی۔اور خان کا بانڈ کھلنے سے پہلے بھی وہ کئی بار سکینہ کے سامنے اس خواہش کا اظہار کر چکی تھی کہ اگر خان کا بانڈ کھل جائے تو ان کے دن پھر جائیں گے۔ٹھیک اسی طرح سارے گاوں کو پتہ تھا کہ چوہدری کی خواہش ہے جیسے اس علاقے کے لوگ بارش کی تمنا میں نڈھال تھے۔مگر یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں ہوا۔کتنا پریشان کیا تھا مجھے اس جوگی سائیں کے لقب نے لوگوں کو سکینہ کی اصلیت کا پتہ کیوں نہیں چلا ؟
لوگ تو درکنار خود سکینہ بھی اپنے آپ سے با واقف نظر آتی تھی ہمارے معاشرے میں لوگ ہمیشہ سائیوں۔بابوں۔اور جوگیوں۔کو ہی آخر اپنا میسحا کیوں سمجھتے ہیں۔کوئی سائینٹ جوگن یا بی بی ان کی نظروں میں دکھوں کی میسحا کیوں ثابت نہیں ہوتی؟سچ کہتے ہیں۔یہ دنیا نے اپنی جاگیر سمجھ رکھی ہے۔کوئی رتبہ کوئی عہد کوئی نشت بھی تو خالی نہیں چھوڑی اس نے حوا کی بیٹی کے لیے مگر ایک سوال خود میرے اندر بھی کسی سنپولیے کی طرح کلبلا رہا تھا۔سکینہ کو یہ اعزاز کب اور کیسے حاصل ہو۔کون سی ریاضت اسے اس مقام پر لے آئی تھی جس کی نقلی مہر اور شناخت نے مجھے علاقے بھر میں سائیں جوگی کے لقب سے مشہور کر رکھا تھا۔اگلی شام علاقے سے خانہ بدوشی کی ایک ٹولی کا گزر ہوا انہوں نے میرے ڈیرے سے کچھ پرے اپنے خیمے گاڑ لیے اور شب بسری کے لیے آگ کا الاو روشن کر لیا۔ان کے دو بڑے میرے پاس اجازت لینے کے لیے آئے کہ اگر مجھے ناگوار خاطر نہ ہوتو ان کی معمول رات دیر گئے تک صوفیانہ کلام اور کافیاں گانے کا ہے۔میں انہیں کیا بتاتا کہ کھبی میرے گھر اور گاڑی میں ہر لمحہ یہ کلام بجا کرتا تھا۔موسیقی کا ہماری زندگی سے کچھ عجیب سا رشتہ ہے ہم کھبی اسے مذہب کی وجہ سے رد کرتے ہیں اور کھبی دل کی خاطر اپنا لیتے ہیں۔حرام اور حلال کی تقسیم میں دنیا کے بڑے بڑے گویے اس کے سے جان چھڑانے کے بعد بھی کسی نہ کسی حیثیت میں اس سے دوبارہ جڑ جاتے ہیں۔کچھ خود کو نعتیہ اور حمد یہ کلام تک محدود کر لیتے ہیں۔کچھ صرف صوفیانہ کلام کی لے پکڑ لیتے ہیں۔گویا جھگڑا سر سے نہین سنگیت سے ہے۔لے کا نہیں جھگڑا صرف تال کا ہے میں جب دوبئی میں تھا تو میں نے بہت خوبصورت اور سریلی اذان سنی تھی۔یہی حال میرا اسپین کی مسجد کے ایک موذن کی خوش الحانی سن کر بھی ہوا تھا۔ایسی آواز کی قدم جکڑ کر رکھ دے انسان خود بی خود دعوت دینے والے کی جانب بڑھ جائے۔کچھ ایسی ہی کیفیت دوبئی کے ایک رمضان کی تراویح میں سورہ رحمان کی تلاوت سن کر ہوئی تھی میری شاید کچھ الحانیوں کا تعلق ہماری روح کے کچھ دھاگوں ہمارے خمیر کے کچھ ریشوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔خانہ بدوش قبیلے کا وہ خوش الحان بھی بہت سریلا تھا۔بابا بھلے شاہ کا کلام گڑوی کی تھاپ پر رات کی خاموشی میں سر بکھیر رہا تھا۔۔
جا دس دے دلبر ماہی نوں۔۔میکوں یار بھلایا جاندانئیں
سر رکھ کے یار دے قدماں وچ۔۔سر فیر اٹھایا جاندانئیں
میرا دل اک اے میری جان اک اے میرا دین اک اے میرا ایمان اک اے جدوں رب رسول قرآن اک اے۔۔دوجا یار بنایا جاندانئیں ۔۔۔
کسی نے کہا خوب کیا ہے کہ گھائل روح ہمیشہ سے جانتی ہے کہ اس کے رستے زخموں کا مرہم کیا ہے۔۔مسلہ صرف دماغ کو منانے کا ہے دل اور دماغ کی یہ ازلی جنگ ہم مجبور کم زور اور بے بس انسانوں کو سدا دو حصوں میں تقسیم رکھتی ہے۔ہم دین کے نہ ہو پاتے ہیں نہ دنیا کے۔مجھ جیسے پری زاد بن جاتے ہیں میں ایک بنجارہ۔جس کے لیے نہ کھبی زمین مہربان رہی نہ آسمان جانے کیا سوچ کر میری آنکھ سے آنسوں ٹپک پڑے تب ہی میرے قریب سے ایک ملائم سی آواز ابھری۔۔
آپ رو رہیں ہیں سائیں جی ۔۔
میں نے گھبرا کر اپنی آنکھیں پونچھ ڈالیں۔سکینہ جانے کب سے میرے قریب کچھ قدم فاصلے پر بیٹھی تھی۔میں نے حیرت سے آس پاس نظر ڈالی۔بستی کے بہت سے گھرانے خانہ بدوشوں کے جگ راتے میں شریک ہونے کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے کچھ فاصلے پر مہردین اور شکورا بھی بیٹھے سر دھنتے نظر آئے۔ہاں۔کچھ یاد کر کے آنکھ بھر آئی۔۔تمہاری آنکھیں بھی تو ہر لمحہ چھلکنے کے لئے بے تاب رہتی ہیں۔۔کیا غم ہے تمہیں۔۔؟اگر کوئی حرج نہ سمجھو تو مجھے بتا سکتی ہو۔سکینہ سر جھکائے بیٹھی رہی شکورے نے اٹھ کر میری طرف آنے کی کوشش کی تو مہردین نے اسے ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بٹھا دیا اور جانے اس کے کان میں کیا کہا شاید مہردین بھی سمجھ گیا تھا کہ سکینہ کھبی اپنے نانا کے سامنے کھل کر زبان نہیں کھولے گی۔سکینہ مے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔کچھ نہیں ہوا مجھے سائیں جی۔میرے گھر والے تو بس ایسے ہی پریشان ہورہے ہیں۔خود ہی رل کھل کر ٹھیک ہو جاوں گی۔مجھے بھلا کیا ہونا ہے
میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔پھر ایک دم دنیا کیوں تیاگ دی تم نے۔جوگن کیوں بن گئی۔سکینہ نے پل بھر کے لیے نظریں اٹھائیں۔جوگ تو آپ نے بھی لے رکھا ہے سائیں جی آپ نے بھی کوئی روح لگا رکھا ہے کیا۔۔۔۔؟؟
میں نے چونک کر سکینہ کی طرف دیکھا اس نے ایک سوال میں ہی میرے سارے سوالوں کا جواب دے دیا تھا۔میں بھی کتبا کم فہم اور نادان تھا۔اتنے سامنے کی بات سمجھنے میں مجھے اتنی دیر لگ گئی تھی۔دنیا کے ہر جوگ کے پیچھے یہی ایک محبت کا روگ ہی تو چھپا ہوتا ہے۔یہی عشق کار فرمار رہتا ہے ہر عذاب کے در پردہ۔اسی پیار کی نشتر کی کاٹ کر داغ ملتا ہے۔ہر زخم کے پس منطر میں محبت ہمیں سائیں بنا دیتی ہے۔جوگ میں ڈھال دیتی ہے۔فقیر کے بہروپ میں لاکھڑا کرتی ہے۔سکینہ کی کہانی بھی اسی محبت کے مارے بدنصیبوں میں سے ایک کی داستان تھی...
تین سال پہلے جب وہ مکمل زندہ لڑکی تھی جس کا دل بارش کی پہلی بوندکے ساتھ ہی جھولا ڈالنے کے لیے مچلنےلگتا تھا ہوا کی سرگوشیاں جس کے دل گد گداتی تھیں لمحہ بھر کے لیے ٹھہرا بادل کا سایہ جسے دن بھر کے لیے خوشکر دیتا تھا تب ایسے ہی ایک کالی رات جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ برف بھری ٹوکریوں میں باغ سے آم چرا کر جمع کر رہی تھی تبھی اسے علاقے کے ایک گھبرو سانولنے دیکھ لیا۔سانول علاقے کے نمبر دار کا پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا بیٹا تھا۔جو شہر کی یونیورسٹی سے ایم اے۔اسلامیات کی ڈگری لے کر آیا تھا اور اس کی پہلی نظر نے ہی ان دونوں کا کام کر کے رکھ دیا تھا۔دنیا کتنی ترقی کرگئی ہے چاند ستاروں پر گھمنڈ ڈالنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ وہاں انسان کے قدم پہنچ چکے ہیں۔صدیوں کے فاصلے لمحوں میں طے ہونے لگے ہیں۔ہر کسی کو ہر لمحہ ہر رابطہ میسر ہے۔مشین ہماری زندگی پر حاوی ہوچکی ہے۔محبت کی روایتی داستانوں کو لوگ گزرے دنوں کا قصہ کہتے ہیں۔ہیر رانجھا۔۔سسی پنوں۔۔سوہنی مہیوال اور شیریں اور فرہاد الف لیلی کی کہانیاں لگتی ہیں۔۔محبت ڈیجیٹل ہونے لگی ہے انسان عروج کی کتنی منزلیں طے کر چکا ہے۔مگر یہ پہلے نظر یہ آج بھی اپنے اندر وہی زمانے بھر کے عجائبات چھپائے بیٹھی ہے۔کوئی سائنسدان آج تک اس پہلی نظر کے ڈنک کا علاج نہیں ڈھونڈ پایا۔کوئی تریاق دریافت نہیں ہوا نظر کے زہر کا آج تک ہر خرابی کی جڑ یہی ایک پہلی نظر ہی تو ہے۔۔نئے زمانے کے نئے لوگ لاکھ انکار کریں لاکھ مذاق اڑائیں مگر سچ یہی ہے کہ محبت اور نظر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔پھر چاہے یہ نظر کسی بھی اور کسی بھی طور پر ہماری زندگیوں میں وارد ہوجائے۔یہی معاملہ سکینہ اور سانول کے ساتھ بھی ہوا۔دونوں ایک بار ملے اور پھر ملتے گئے۔مگر ظالم زمانے کو بھلا یہ ملاپ کب بھاتا ہے۔سماج سدا سے محبت کرنے والوں کا دشمن رہا ہے سو یہاں بھی یہی ہوا۔۔علاقے کے کسی بندے نے سکینہ کو سانول سے ملتے دیکھ لیا تھا۔۔بات پھیل گئی۔۔سانول باقاعدہ رشتہ لے کر اپنے گھر والوں کے ساتھ سکینہ کے گھر جانا چاہتا تھا۔مگر اس کے باپ نمبردار کی آنا ایک مزراع کے گھر رشتہ لے جانے کے آڑے آگئی۔۔ویسے بھی علاقے کا پٹواری اپنی بیٹی رضیہ کا سانول کے سنگ رخصت کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا اور نمبردار بھی پٹواری کے گھر رشتہ کرنے کا سوچ رہا تھا۔ رجو شکل صورت میں بھی چندے آفتاب چندے مہتاب تھی اور اس کے خواب بھی ناجانے کب سے سانول بس رہا تھا وہ تو اس کی یونیورسٹی کی چھٹیوں کی دعائیں مانگتی پھرتی تھی تاکہ تاکہ اس کے دل نگر کا شہزادہ واپس گھر لوٹ سکے مگر جب اسے کتا چلا کہ سانول اور سکینہ کی کہانیاں ریاست پور کے گلی کوچوں میں پھیل رہی ہیں تو اس کے سینے پر ایک وقت کئی سانپ لوٹ گئے۔جانے یہ محبت کی کہانیاں اتنی جلدی سارے زمانے میں کیوں اور کیسے پھیل جاتی ہیں؟ورنہ ہر دوسری آفت اکے گزر بھی جائے ہم اس کی تباہی سے آخری وقت تک بے خبر رہتے ہیں۔رضیہ جسے لاڈ سے جسے سارے گھر والے رجو کہتے تھے اس لیے بھی بے چین تھی کہ اس یقین تھا کہ بستی بھر میں صرف وہی ایک اس کے جوڑ کی ہے اس کا حسن چاند کے سامنے بھلا کسی اور کے روپ کا چراغ کیا جلے گا۔۔مگر اس نے جو سوچا تھا سب اس کے الٹ ہو رہا تھا یہ معمولی سی کمی کمین گھرانے کی سکینہ کہاں سے اس کے سپنوں کی تجوری ہر ڈاکہ ڈالنے آگئی رجو کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ کسی طرح سکینہ کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اسے عمر بھر کے لیے داغ دار کردے جانے علاقے کا سب سے وجیہیہ نوجوان کو اس کے اندر کیا نظر آتا تھا؟؟
یہ رقیب بھی کتنے ظالم ہوتے ہیں۔جانے دنیا میں محبت بہت پہلی اتری تھی یا رقابت؟رقیب پر لمحہ حریف کی سانسیں بند کردینے کی فکر میں گھلتا رہتا ہے۔رجو کا بھی یہی حال تھا اور پھر آخر کار اس کے دل مراد بر آئی۔سانول کی ماں نے اس کے سامنے اپنا ڈوپٹہ ڈال دیا اور بہنوں نے اپنی چادریں پھیلا دیں کہ ان کی محبت اور ماں خاطر وہ رجو سے شادی کے لیے ہاں کردے۔۔دنیا میں چور اور ڈاکو دوسروں کے گھر میں بڑے بڑے ڈاکے ڈالتے ہیں مگر اس جہاں کا سب سے بڑا ڈاکہ یہ رشتوں کا ڈاکہ ہوتا ہے جو ہمارے ماں باپ بہن بھائی آپنی محبتوں اور خدمتوں کی دہائی دے کر کسی اپنے ہی چہیتے کی محبت لوٹ کر مار دیتے ہیں۔سانول بھی باپ کی ضد۔ماں کے آنسوں اور بہنوں کی آہوں کے سامنے آخر کار مجبور ہوگیا اور اس نے اپنی ہی محبت کا خرمن جلا ڈالا۔۔کہتے ہیں ریاست پور کی بڑی باراتوں میں سے ایک بارات تھی نمبردار کے بیٹے کی سانول کی جنج کیا چڑھی۔سکینہ کے دل کا دریا ہمیشہ کے لئے اتر گیا شادی سے ایک رات پہلے سانول آخری بار سکینہ سے ملنے کے لئے آیا۔۔
اس نے سکینہ کو اپنے دل کی حالت بتائی اور اپنی مجبوریوں کی ساری داستان بیان کی کہ وہ اپنی ماں بہنوں کی محبت کا اتنا مقروض ہے کہ جسے سودے کو طور پر ان دونوں کو اپنی محبت عمر بھر کے لیے گروی رکھنی پڑے گی سکینہ چپ رہی محبت میں عورت اپنی مجبوری بیان کرے تو اس پر دنیا بڑے سخت الزامات لگاتی ہے بے وفائی کے طعنے اور سنگ دلی کے طنز کئے جاتے ہیں۔تیروں عورت کا سینہ چھلنی کردیا جاتا ہے۔مگر مرد جب محبت میں اپنی مجبوری بیان کرتا ہے تو اسے آپنے رشتوں کی وفادار زمانہ شناس اور مخلص کہا جاتا ہے۔اس کی قربانیوں کے گن گائے جاتے ہیں اور زمانہ اسے آپنی پلکوں پر بٹھاتا ہے۔سانول بھی رجو کی پلکوں کی ڈولی چڑھ گیا۔۔۔
سارا گاوں ان دونوں خوبصورت اور سجیلی جوڑی دیکھنے کے لئے آگیا تھا۔۔ایسے لگتا تھا جیسے دونوں کو بس قدرت نے ایک دوسرے کے لیے ہی تراشا تھا۔دلوں کے حال تو خدا بہتر جانتا ہے مگر کہنے والے کہتے تھے کہ سانول اور رجو کی نظر ایک دوسرے سے ہٹائے نہیں ہٹ رہی تھی۔رجو نے جب شادی سانول کے گھر میں پہلا قدم رکھا تب ہی سے سانول کی ماں بہنیں رجو ہر صدقے واری جارہی تھیں۔دیر شب تک رسمیں چلتی رہیں اور ماں بہنوں نے اپنے شہزادے ویر کی بارات کا ہر آرمان جی بھر کے پورا کیا۔سارا محلہ سانول کے گھر کی طرف سے آنے والی شہنائیوں کی آواز اور ڈھول بتاشوں کی دھمک سے رات بھر گونجتا رہا۔ان کے قہقہوں کی آواز سکینہ کے گھر کے آنگن تک بھی آرہی تھی۔سکینہ کا دل کھبی نہ پھٹتا اگر ان کی ہنسی کی آوازوں میں خود اس کے اپنے محبوب کی آواز شامل نہ ہوتی۔اس درد کا احساس صرف وہ کرسکتا ہے جس نے زندگی میں کھبی خود محبت کی ہو ۔۔
جگر کیسے چھلنی ہوتا ہے اور سینے میں جلتے دل کا دھواں کیدے نکلتا ہے جب اپنا پی سانول کسی اور سانوری کے ساتھ شب عروجی منارہا ہو۔سکینہ کے اندر بھی کچھ ایسا شور مچا کے سب جل کر راکھ ہوگیا اور پھر ایسے ایسی چپ لگی کی لوگ اس کی آواز سننے کو بھی ترس گئے جسم کے اندر بہتا خون سوکھتا چلا گیا ہونٹوں سے مسکان کا رشتہ کچھ ایسے ٹوٹا کو وہ سدا کے لیے مسکرانا بھول گئی
محبت میں جب انسان کی شریانوں اور بہتی نسوں میں خون کے ساتھ دوڑتی ہو تب وہی محبت جانے پر لہو کی روانی روک بھی دیتی ہے۔خون صرف بہہ کر ہی خشک نہیں ہوتا کھبی کھبی نسوں کے اندر بھی اپنا بہاو کھو بیٹھتا ہے محبت کا مریض دن بہ دن لاغر اور کمزور ہوتا جاتا ہے دنیا بھر کے طبیب اس کے مرض کئ شناخت ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔مگر مرض کا سرا نہیں ملتا۔مریض سوکھ کر کانٹا ہوجاتا ہے اور یہ ظاہر پرست حکیم اور طبیب اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ آخر بنا کوئی چوٹ لگے بنا کسی بیماری کے اس مریض کا وزن دن بدن کم کیوں ہوتا جاتا ہے۔گالوں کی سرخی پیلاہٹ میں کیوں بدل رہی ہے جسم کی شدابی خشک ہوتے پتے کی طرح رخصت کیوں ہو رہی ہے ؟؟؟
سکینہ کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہورہا تھا اور پھر تین چار ماہ کے اندر اندر ایک چلتی پھرتی لاش بن گئی اس کا محبوب آپنی نئی دنیا میں مگن تھا ایک آدھ بار قصبے کے بازار ہا کسی درگاہ مزار پر سکینہ کا سامنا ہوا بھی تو وہ نظریں چراگیا۔یا شاید وہ سکینہ کو پہچان ہی نا پایا ہو یہ تو وہ سکینہ تھی ہی نہیں جو کھبی اس کے دل کی رانی تھی سکینہ بس سانول کو دیکھتی رہ گئی اور وہ آگے بڑھ گیا۔آج بھی کتنا بانکا اور سجیلا تھا اس کا محبوب مگر رجو کو کسی نوکرانی کی زبانی اس ٹکراو کی خبر ملی تو وہ برداشت نہ کر پائی اسے یوں محسوس ہوا جیسے سانول چھپ چھپ کر سکینہ سے ملتا ہے۔
رقیب ہمیشہ رقیب ہی ہوتا ہے۔محبوب کا درجہ پانے کے بعد اس کے اندر پلتے سدا کے شکوک و شبہات کھبی اسے اس اعزاز کا حق دار نہیں بننے دیتے۔رقیب نے چونکہ خود کسی کی محبت پے ڈاکہ مارا ہوتا ہے اس لیے وہ ساری زندگی خود ایسی چوری سے ڈرتا رہتا ہے ۔اس کی نیندیں اپنے خزانے کی حفاظت کی فکر میں اڑی رہتی ہیں جلن اور حسد کے سانپ اسے ڈستے رہتے ہیں۔رجو بھی کسی ایسی تپش کا شکار تھی وہ یہ بات نہیں بھولی تھی کہ کھبی سانول سکینہ پے مرتا تھا۔دونوں کئ محبت کے مثالیں دنیا دیا کرتی تھی۔کون جانے کب سانول کا دل پھر سے اپنی پرانی محبوبہ کی محبت میں جاگ اٹھے رجو سوچ سوچ کر ہلکان ہوگئی پھر آخر کار اسے وہ خوفناک فیصلہ کرنا ہی پڑا جو صرف ایک رقیب ہی کرسکتا ہے۔فنا کردینے والا فیصلہ جو محبت کرتے ہیں وہ خود کو ہیں وہ خود کو فنا کر لیتے ہیں اور جو رقیب ہوتے ہیں وہ دوسروں کو مار کر اپنی محبت کی بقا ڈھونڈتے ہیں۔رجو علاقے کی نیاز کی رسم کے مطابق منوں دودھ خرید کر ساری بستی میں تقسیم کروا دیا البتہ اس بانٹ میں بس ایک فرق تھا۔سکینہ کے گھر جو دودھ کی مٹکی بھیجی گئی تھی اس کے اندر علاقے کے سب سے زہریلے سانپ کا زہر حاصل کے چند بوندیں اس دودھ میں ملا دی گئیں تھی۔سکینہ کی ماں نے پیتل کی مٹکی سے دودھ نکال کر کٹوری سکینہ کے سامنے رکھ دی...
ماں چاہتی تھی اس کی مریض لاڈلی کے بے رونق چہرے پر کچھ رنگ آجائے شاید اس تازہ اور میٹھے دودھ کی تاثیر سے ہی کچھ پل کے لیے اس کی نڈھال سی دلاری توانائی محسوس کرے۔سکینہ نے دودھ کی کٹوری اٹھا کر منہ سے لگائی ہی تھی کہ باہر سے اس کے بوڑھے باپ کے کھانسنے کی آواز سنائی دی۔مگر دوسری آواز سن کر تو جیسے اس کی پوری کی پوری روح ہی جھنجھلا سی گئی یہ سانول کی آواز تھی۔ہاں اس سانول کی جس کی محبت نے اس کی روح کے ریشے ادھیڑ کر رکھ دیے تھے۔سکینہ کے ہاتھ میں کٹوری کچھ ایسے لرزی کہ سارا دودھ اس کے کپڑوں پر چھلک گیا۔سکینہ نے کٹوری نیچے رکھ دی۔اور خود پردے کی اوٹ سے باہر والی بات چیت سننے لگی۔پتہ چلا کے سانول کسی کام سے سکینہ کی گلی سے گزر رہا تھا کہ سکینہ کے باپ کی نظر اس پر پڑگئی۔پرانی باتوں اور یادوں کا سلسلہ کچھ ایسا چلا کہ گلے شکوہ زبان تک آگئے۔سانول نے سکینہ کے باپ کو یقین دلایا کہ وہ آج بھی ان کے گھرانے کا ایک فرد سمجھتا ہے خود کو۔مگر سکینہ کا باپ بضد ہوگیا کہ اب ملاقات ہوہی گئی ہے تو دو گھڑی اس کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر اب ہیں عزت بخشے۔سانول نے اسے ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر اس کی ایک نہ چلی۔سکینہ کی ماں جو دل ہی دل میں ہمیشہ ہی سانول کو اپنے داماد کے روپ میں دیکھنے کی خواہش مند تھی اسے گھر میں پاکر ایک بار پھر اپنی ناکام آرزو کا غم لیے سانول کی خدمت میں مصروف ہوگئی۔گھر میں کچھ اور تو تھا نہیں پیش کرنے کے لیے سانول کے گھر سے آئی دودھ کی مٹکی میں سے ہی ایک کٹوری نکال کر سانول کو تھمادی جو اس نے ایک سانس میں حلق سے نیچے اتارلی۔اور جانے کے لیے کھڑا ہوگیا شاید وہ سکینہ کا سامنا کرنے کے خیال سے گھبرا رہا تھا۔مگر سانول دروازے تک بھی نہ پہنچ پایا تھا کہ لڑ کھڑا کر وہیں گر گیا۔۔سارے گھر میں بھونچال سا آگیا۔سبھی سانول کی جانب لپکے۔سکینہ بھی لاج شرم بھلا کر دروازے کی جانب دوڑی۔سانول کے ہونٹوں کے کنارے سے خون کی ایک پتلی سے لکیر نے زمین پر گلال بکھیر دیا تھا سانول اور سکینہ کی نظر آخری بار ٹکرائی آف دونوں کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی تھی۔سانول خو کچھ کہنے اور سکینہ خو کچھ سننے کی مہلت ہی نہ ملی اور سانول نے وہیں سکینہ کے سامنے دم توڑ دیا۔ایک قیامت آگئی سکینہ کو سکتہ طاری ہوگیا۔سکینہ کے باپ اور باقی گھر کے مردوں کو علاقے کی پولیس نے قتل کے الزام میں دھر کر لے گئی۔۔
رجو کو جب سانول کی موت کا پتا چلا تو اس نے لمحے بھر میں ہی صحن میں بنے کنویں کی منڈیر ٹاپ کر گہرائی میں چھلانگ لگا دی۔خوش قسمتی سے گھر کی نوکرانی نے بروقت اطلاع کردی اور رجو کو زندہ کنویں سے نکال لیا گیا مگر وہ زندہ کب تھی۔چند اعضاء کے دھڑکنے اور سانس کی روانی کو زندگی کا نام کیوں دے دیتے ہیں لوگ؟؟
سات دن بعد رجو کا سکتہ ٹوٹا وہ پہلی بار ٹوٹ کر روئی اسے پتہ چلا کہ سکینہ کے گھر والوں نے جلن اور حسد کی آگ میں جلتے ہوئے سانول کو دودھ میں زہر ملا کر مار ڈالا ہے ساری بستی یہی سمجھتی تھی کہ یہ حرکت سکینہ کی ہوسکتی ہے جس ہر پردہ ڈالنے کے لیے اس کے گھر والوں نے خود خو قربانی کے بکرے کے طور پر پولیس کے حوالے کردیا رجو نے اپنی عدت کی بھی پرواہ نہیں کی اور اپنی سیاہ چادر اوڑھ کر سکینہ کے گھر پہنچ گئی۔سکینہ اور رجو کچھ دیر کے لئے ایک دوسرے کو ٹکر ٹکر دیکھتے رہے اور پھر رجو یوں لپک کر سکینہ کے سینے سے جا لگی جیسے برسوں کے بچھڑے ملتے ہیں اور پھر رجو یوں ایسا پھوٹ پھوٹ کر روئیں کہ سیلاب آگیا۔۔۔
صرف وہ دونوں ہی دنیا میں ایسی تھیں جو ایک دوسرے کے دل کا درد سمجھ سکتیں تھی۔سن دونوں کا محبوب ان سے بچھڑ گیا تھا۔وہ دونوں ایک دوسرے کی رقیب تھیں مگر رقیب سے زیادہ محبت کے بچھڑنے کا دکھ بھلا کون جانتا ہے۔یہاں محاورتہ نہیں حقیقتا دونوں کا غم ایک تھا
صرف وہ دونوں کرب کی کاٹ اور جان لیوا عذاب سے واقف تھیں۔۔رجو نے پولیس کو اپنا سچا بیان ریکارڈ کروا دیا سکینہ کے گھر والے رہا ہوگئے اور رجو سلاخوں کے پیچھے چلی گئی۔مگر اس وقت کی بھٹی نے سکینہ کو کچھ ایسے جلایا کہ وہ تپ کر کندن ہوگئی۔ایک ایسا پارس بن گئی جس سے چھو کر لوہا تو لوہا مٹی بھی سونا بنتی گئی۔سکینہ خود تو خاک ہوگئی مگر اس کی خاک سے قدرت نے دوسروں کے تخت جوڑ دئیے۔نصیب باندھ دئیے سکینہ دوسروں کی دعا کی قبولیت کا زینہ بن گئی شائد اسے یہ اعزاز اس لیے ملا کہ اس نے خود اپنے لیے دنیا ترک کر چھوڑی تھی اس کے ہاتھ جب بھی اٹھے یا اس کے لب جب بھی کھلے صرف اوروں کے لئے ہی کھلے خود اپنے لیے بچا ہی کب تھا کہ وہ مانگتی شائد ہم جب کسی دوسرے کے لئے اپنے خدا اے کچھ مانگتے ہیں تب ہم خلوص عاجزی اور بندگی کی اس معراج پر ہوتے ہیں جو دنیا کی ہر دعا کی قبولیت کا آخری پیمانہ ہے۔۔
نصف شب ڈھل چکی تھی خانہ بدوش بنجاروں کا جلایا ہوا الاو سرد پر گیا تھا بنجاروے آخری تان لگائی اور محفل برخاست کردی۔جانے اس لمحے پھر مجھے شدت سے یہ احساس کیوں ہوا کہ میں خود بھی تو ایک بنجارہ ہوں اور وہ مجسمہ ساز کسی چاند نگر کی شہزادی تھی۔بنجاروں کی پہنچ شہزادیوں تک بھلا کب ہوتی ہے مٹی کے کھلونوں کے بدلے روپ کا سونا کون بیچتا ہے ؟؟
روپ کے بدلے ہوتے ہیں اور جو مجھ جیسے بے روپ بد صورت ہوتے ہیں ان کے ہاتھ صرف خاک ہی آتی ہے خاک کے بدلے خاک شکورا اور مہردین سکینہ کو لے کر واپس جانے لگے تو میں نے شکورے سے کہا۔۔
اتنا کچھ ہوچکا تھا اور تم نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔۔؟
پھر بھی تمہاری یہ خواہش ہے کہ تمہاری نواسی ہنسے بولے اور پھر سے عام زندگی جیئے ۔۔؟؟
شکورا شرمندگی کے مارے سر جھکا کر کھڑا رہا مہردین نے اس کی مدد کی ساری بھلا بتانے کی باتیں ہیں سائیں جی۔بڑی شرمندگی ہی شرمندگی ہے اور پھر تم سے کون سی بات چھپی ہے سائیں یہ نیماڑاں تو بس یہ چاہتا ہے کہ اس کی سکینہ بھی دوسری لڑکیوں کی طرح ڈولی چڑھ کر اپنے لاڑے کے ساتھ رخصت ہوجائے۔اس کا بھی گھر بار کو بال بچے ہوں۔۔یہ باتیں سب کے سامنے کہنے والی تو نہیں ہیں نا سائیں جی۔۔بس تم دعا کرو ہماری سکینہ کے لیے۔۔
میں نے سر جھکائے کھڑی سکینہ پر ایک نظر ڈالی۔یہ مجھ جیسے برائے نام اور دکھاوے کے سائیں بابوں کی دعا سے بہت آگے جا چکی ہے مہردین۔۔اسے اس کے حال ہے چھوڑ دو اس کی خوشی اور اس کے غم کے معیار اس دنیا کی روایت سے بہت جدا ہیں۔۔اگر تم دونوں اس کی خوشی چاہتے ہو تو اس سے کہو کہ خود اپنے لئے خوشحالی اور گھر بار کی دعا کرے یہ اگر ماں گئی تو سب ٹھیک ہوجائے گا ورنہ اسے زیادہ تنگ مت کرنا۔۔یہ جس حال میں خوش رہے تم سب اس کی خوشی میں خوش رہنا مہردین اور شکورا سر جھکائے چہ چاپ سکینہ کو وہاں سے لے کر چلے گئے۔کچھ دیر میں ہی صبع کا اجالا پھیلنے لگا۔۔سویر سے انگڑائی اور انگڑائی سے زندگی جاگنے کا استعارہ جوڑ دیا گیا۔سکینہ کی بستی بھی انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔گھروں سے مرغوں کی بانگیں اور چھتوں کی چمنیوں سے زندگی کو نوید دیتا دھواں آسمان کی طرف بلند ہونے لگا اس سارے دیہات قصبوں اور بستیوں کی صبع ایک جیسی ہوتی ہے شہروں کی طرح جھٹکے سے نہیں بلکہ دھیرے دھیرے جاگنے والی سرکتی پھیلتی دھوپ کی طرح آہستہ آہستہ بستی کے دربام اور آنگنوں میں اترنے والی۔میں نے کسی گزررتے راہ گیر سے سانول کی قبر کا پتہ پوچھا اور قبرستان جاکر فاتحہ پڑھ آیا قبر کے قریب کچی زمین ہر مجھے بہت سی آڑھی ترچھی لکیریں کھچی نظر آئیں۔ویسی ہی لکیریں جیسی سکینہ نے میرے ڈیرے کی زمین پر ڈال رکھی تھیں۔میرا جی چاہا کہ میں ساری بستی کو اکھٹا کرکے انہیں یہ نوید سنا دوں کہ اب انہیں اپنی دعاوں کی قبولیت کے لئے کسی فقیر یا مجزوب کی حمایت کی ضرورت نہیں۔وہ دو ہاتھ جن کے اٹھنے کے بعد قدرت کوئی دعا رد نہیں کرتی وہ ہتھیلیوں کا چاند تو خود ان کی بستی کے ایک کچے گھر میں روشن ہے مگر یہ سدا کا ظاہر پرست لوگ بھلا میری بات پر کہاں یقین کریں گے۔ہاں البتہ سکینہ کسی چوہدری وڈیرے یا نمبردار کی بیٹی ہوتی تو یہی لوگ آنکھیں بند کر کے میرے جھوٹ پر بھی یقین کر لیتے اور اس وقت تک سکینہ کی حویلی کے باہر ضرورت مندوں کی بھیڑ لگ چکی ہوتی۔۔میں آج تک کھبی یہ بات نہیں سمجھ پایا تھا کہ ہم انسان دعا کی قبولیت کے لیے اپنے جیسے زندہ مردہ انسانوں کی سفارش یا وسیلہ کیوں ڈھونڈتے ہیں ہم اپنے رب سے براہ راست کچھ مانگتے ہوئے اتنا جھجکتے اور شرماتے کیوں ہیں؟؟
قسط 31
یہ کیسی بے یقینی ہے ہمارے اندر یا شائد یہ بھی مایوسی کی ایک قسم ہے۔مگر مایوسی کو تو کفر قرار دیا گیا ہے۔گویا یہ سارے بے یقین بھی اپنے اعتبار کے کافر ہیں؟؟
ڈیرے پر واپس پہنچنے سے پہلے میں یہ طے کر چکا تھا کہ ایک آدھ ہفتے میں یہاں سے کوچ کرجاوں گا۔کیونکہ میں جب تک سکینہ کے آس پاس ٹھکانہ بنائے رہتا اس کی برکت لوگ میری کرامت سمجھتے رہتے مگر میں اس ڈھونگ کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتا تھا۔واپس آکر میں نے دو گھڑی سستانے کے لئے کمر ٹکائی ہی تھی مہر دین کا پوتا اپنی چھوٹی سی سرخ سائیکل دوڑاتے ہانپا ہوا وہاں پہنچا میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔
سب خیر تو ہے کاکے؟
بچے نے مجھے چاروں طرف گھوم پھر کر یوں دیکھا جیسے تسلی کر رہا ہو کہ میں ٹھیک ہوں یا نہیں۔۔کچھ نہیں سائیں جی دادا ابا نے کہا تھا کہ جاکر دیکھوں سائیں جی ٹھیک ٹھاک ہیں ہے کہ نہیں بس اب میں چلا۔۔۔
وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی تیز تیز پیڈل چلاتے وہاں سے بھاگ گیا یہ بچے بھی اپنی دنیا میں رہنے والے مست ملنگ ہی ہوتے ہیں۔اپنی رمزیں خود ہی جانتے ہیں جانے مہردین نے اسے کس کام سے بھیجا تھا اور وہ کیا سمجھا تھا مگر دوپہر ڈھلتے ہی مہردین خود بھی شکورے کے ساتھ بڑبڑایا ہوا وہاں پہنچا۔ان دونوں کے چہرے پر لکھی پریشانی کی لکیریں دور سے پڑھی جاسکتی تھیں۔۔
سائیں جی۔۔سب خیری صلا ہے ناں؟؟
ہاں۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔مگر تم دونوں اتنے پریشان کیوں دکھائی دے رہے ہو ان دونوں سے کوئی بات ٹھیک سے جڑ نہیں پائی۔۔وہ جی سکینہ نے آج صبع یہاں سے واپس جاکر تمہارے لیے بہت برا سفنہ دیکھا ہے۔۔میں ہنس پڑا۔۔بس اتنی سی بات ہے تم دونوں سکینہ کے سفنے سے گھبرا کر یہاں دوڑے چلے آئے۔۔میری زندگی پہلے ہی کسی بڑے خواب دے کم نہیں جاو جا کر سکینہ سے کہہ دو کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔میرے لیے فکر مند نہ ہوا کرو تم لوگ۔۔کچھ نہیں ہوگا مجھے۔۔
لیکن میری اس بے فکری کا سن دونوں پر کوئی اثر نہیں ہوا شکورا بولا بات اتنی سادی نہیں ہے جی۔سکینہ کے خواب سچ ہوتے ہیں سارے۔۔جب سے سانول کی موت ہوئی ہے اس کا کوئی خواب جھوٹا ثابت نہیں ہوا۔میں نے ان دونوں کو تسلی دی۔مگر تم دونوں اتنے پریشان کیوں ہو آخر اس نے ایسا کیا دیکھ لیا ہے خواب میں۔۔میرے پاس کھونے کو اب کچھ بچا ہی نہیں۔۔
شکورے نے گہری سانس لی ۔۔سائیں جی اب میں کیا بتاوں تمہیں۔۔میری تو زبان جلتی ہے بولتے ہوئے سکینہ نے خدانخواستہ تمہاری موت دیکھی ہے۔اس نے خواب میں دیکھا کہ ہمارا سائیں فوت ہوگیا۔۔اور ہم سب اس کے لیے کفن دفن کا انتظام کررہے ہیں۔۔۔
مہردین نئ شکورے کو سختی سے گھورا اور شکورا گھبرا کر خاموش ہوگیا۔وہ دونوں کافی دیر میرے قریب بیٹھے رہے جیسے اب ہیں خوف ہوکہ ان کے جاتے ہی مجھے کچھ ہو جائے گا پتہ چلا کہ سکینہ کے ہر خواب کی تعبیر تب سے سچی نکلتی جب سے سکینہ خود ایک خواب رفتہ جیسی زندگی گزار رہی ہے۔جب شام گہری ہونے لگی تو میں نے انہیں زبردستی واپس بھیج دیا ورنہ سن دونوں کا ارادہ اٹھنے کا نہیں لگ ریا تھا۔اندھیرا ڈھلا تو میرے دل کے اندھیرے بھی میرے ارد گرد رقص کرنے لگے چلو اچھا ہوا سکینہ نے مجھے میرا انجام مجھے پہلے ہی بتا دیا۔ورنہ میں خود اس انجام کے لیے ہمیشہ تیار تھا۔کہانی ختم ہونے کا وقت آپہنچا تھا۔رات ڈھلی تو میں یہی سوچ کر آنکھیں موندھ لیں کہ یہ آنکھیں شائد کھبی نہ کھلیں۔۔مگر حشر تک کی نیند شائد ابھی میرا مقدر نہیں تھی۔پرندوں کہ چہچہاہٹ اک نئی صبع کی نوید لے کر آئی تھی مگر میری آنکھ کھلنے کی وجہ کچھ اور تھی۔دور سڑک کے کنارے ایک بڑی امپورٹڈ گاڑی کا بونٹ کھلا ہوا تھا اور ڈرائیور سمیت ایک دوسرا شخص بونٹ پر جھکا ہوا کچھ دیکھ رہا تھا اتنے میں ایک تیسرا محافظ نما شخص قریبی جوہڑ دے پانی کا ایک کین بھر کر لایا اور ڈرائیور نے پانی گاڑی کے ریڈی ایٹر میں ڈال دیا۔میں نے بے زاری سے چہرہ موڑ کر آنکھیں بند کرلیں مگر پھر اچانک ایک مانوس سی آواز نے میرے وجود میں بجلیاں سی بھر دیں۔وہ ڈرائیور سے کہہ رہا تھا اور کتنی دیر لگے گی کم بخت۔۔سارا دن لگائے گا کیا ۔۔؟؟
میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔بونٹ پر جھکا ہوا شخص کبیر خان تھا۔۔ہاں وہ کبیر خان ہی تھا جو کھبی میرا محافظ ہوا کرتا تھا۔جانے وہ اس ویرانے میں کیا کر رہا تھا ڈرائیور نے اسے کچھ کہا اور پھر اچانک اس کہ نظر دور بیٹھے مجھ ہر پڑی۔میری رگوں میں خون جلنے لگا۔میں کبیر دے خاصے فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا اور میرے ماضی اور حال کے حلیئے میں زمین آسمان کا فرق تھا مگر پھر بھی نہ جانے کیوں کبیر کی نظریں مجھے اپنے جسم کے آر پار ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے قریب آنے خو اشارہ کیا مگر میں نے لاتعلقی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر کبیر خان نے میری طرف بڑھنے کی کوشش کی تو میں کسی بھی بہانے وہاں سے اٹھ کر دوسری جانب چل پڑوں گا کبیر نے اپنے ساتھ کھڑے محافظ سے کچھ کہا اور محافظ سر ہلا کر میری جانب چل پڑا میں چپ سادھے بیٹھا رہا۔اچھا ہوا کہ کبیر خان خود میری طرف نہیں آیا ورنہ وہ میری آواز ضروت پہنچان لیتا محافظ نے میرے قریب آکر سلام کیا اور جیب دے میری تصویر نکال کر اس نے میرے سامنے رکھ دی ۔
باباجی۔۔ان صاحب کو یہاں آس پاس کہیں دیکھا ہے آپ نے؟
میں بظاہر لاپرواہی سے تصویر پر ایک دکھ بری نگاہ ڈالی اور پھر آنکھیں موندھ کر جواب دیا یہ تو کوئی بڑا آدمی لگتا ہے آپنے حلیئے سے۔۔اس چھوٹے سے گاوں میں بھلا اس کا کیا کام۔۔کون ہے یہ آدمی ۔۔۔؟؟
محافظ نے گہری سانس لی۔۔یہ میرے صاحب کا صاحب ہیں بہت عرصے پہلے چکے گئے تھے سب چھوڑ چھاڑ کر۔ہم تب دے انہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔۔
میں نے غور نظروں سے محافظ کی طرف دیکھا مگر مجھے یاد نہیں ایا کہ وہ کون تھا۔شائد کبیر یا کمالی کے داتی عملے کا کوئی ملازم ہوگا۔بہرحال وہ جو کوئی بھی تھا کبیر کسی بھی لمحے میری طرف آسکتا تھا یا پھر شائد اسی شخص کو میری بڑی ہوئی داڑھی اور لٹوں کے پیچھے میرے ماضی کی کوئی جھلک نظر آسکتی تھی لہذا میں نے وہاں سے اٹھ جانے میں بہتری جانی۔تم لوگ یہاں اپنا وقت ضائع کررہے ہو یہاں آس پاس کی سبھی بستیوں میں اپنی زندگی کے بہت سے سال گزار چکا ہوں سبھی جگہ آنا جانا رہتا ہے یہ شخص کھبی یہاں نہیں آیا۔۔جاو کہیں اور تلاش کرو۔۔میں ذرا ڈیرے کے لیے پانی بھر لوں۔۔
محافظ بھی میرے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا اور یم دونوں مخالف سمتوں کی جانب چک پڑے میں نے کچھ دور جاکر ایک درخت کے اوٹ سے چھپ کر دیکھا تو محافظ اور کبیر آپس میں کچھ بات کررہے تھے پھر وہ تینوں گاڑی میں سوار ہوگئے اور ریاست پور سے مخالف سمت میں آگے بڑھ گئے لیکن میں کبیر خان کو اچھی طرح جانتا تھا وہ اتنی جکدی ہار ماننے والوں میں سے نہین تھا۔آج نہیں تو کل وہ اس راستے پر ضرور پلٹتا۔۔میرے دل میں خدشہ ہمیشہ سے موجود تھا کہ میرے ہوں چلے جانے کہ بعد وہ سب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہے ہوں گے اور پھر کبیر خان جیسا وفادار تو کھبی بھی ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔۔مجھے یقین تھا کہ اس نے ہر وہ جگہ چھان ماری ہوگی جہاں میری موجودگی کا ذرا برابر بھی امکان ریا ہوگا۔میرا دل ایک بار شدت سے مچلا کہ میں ایک لمحے کے لیے کبیر خان کو روک کر عینی کے بارے میں پوچھ لوں پھر میں اسے آپنی قسم دے کر منا لیتا کہ وہ کھبی کسی کے سامنے میرا ذکر نہیں کرے گا۔۔مگر پھر میں خود ہی اپنے اندر کے اس ابال پر قابو پالیا۔کبیر مجھے اپنے ساتھ لیے بنا کھبی واپس نہیں جاتا یا پھر خود بھی عمر بھر کے لئے یہیں ڈیرے ڈال دیتا۔ان کے جانے کے بعد بیت دیر بعد تک میرے دل کی دھڑکنیں معمول پر نہیں آئیں۔سب کچھ دوبارہ تازہ ہوگیا میرے دل اور دماغ میں۔۔یادیں کھبی پرانی ہوتیں یاد ماضی کو بھلانا صرف دل بہلاوے کی باتیں ہیں۔چاہے ہم ساری عمر بھی اپنی یادوں سے فرار لے کر بھاگتے رہیں۔ہم جہاں تھک کر گرتے ہیں وہیں سے یادوں کی سرحد شروع ہوتی ہے۔کبیر خان کی آمد نے میرے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اب میرا یہاں رہنا ممکن نہیں تھا وہ کھبی بھی واپس پلٹ سکتا تھا میں نے مہردین کے ذریعے شکورے خو بلاوا بھیجا۔میری امید کے مطابق سکینہ بھی شکورے کے ساتھ چلی آئی۔شائد شکورے نے اسے بھی میری روانگی کے خدشے سے آگاہ کردیا تھا سکینہ میرے لیے کافی فکر مند دکھائی دے رہی تھی میں نے اسے تسلی دی ۔۔
میری فکر نہ کرنا۔۔میں تو بہت پہلے مرگیا تھا۔۔اب صرف تصدیق ہونا باقی ہے ہوسکے تو اپنے ماں باپ اور نانا کی خاطر کسی بہتر اور نیک بندے کو اپنا جیون ساتھی چن لینا میں جانتا ہوں تمہاری لیے وہ دوہری زندگی جینا بھی کسی عذاب دے کم نہیں ہوگا۔مگر یہ دنیا اپنے لگے بندھے اصولوں پر چلتی ہے۔۔سو جیسا دیس ہے ویسا بھیس بنا لوں۔۔
میں نے شکورے اور مہردین کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ بستی میں میری روانگی کا کسی سے ذکر نہیں کریں گئے رخصت ہوتے وقت ہم چاروں کی آنکھیں نم تھیں وہی کچھ جھوٹے وعدے ہوئے پھر سے ملنے کے۔۔جلد لوٹ آنے کے۔۔سدا ایک دوسرے کو یاد رکھنے کے جانے یہ آخری ملاقاتیں ہمیں اتنے جھوٹ بولنے پر کیوں مجبور کردیتی ہیں؟؟
جب کے روکنے والے اور جانے والے دونوں ہی جانتے ہیں کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہے۔صبع منہ اندھیرے میں وہاں سے چک پڑا سڑک پر آتے ہی مجھے مس مل گئی۔میں چپ چاپ سرجھکائے آخری سیٹ کے ایک کونے میں جا کر ٹک گیا بس دیہاتیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔گھنٹہ بھر ہچولے لے کھانے کے بعد اچانک گاڑی رک گئی میں چونک کر سر اٹھایا آگے پولیس کا ناکہ لگا ہوا تھا۔وہ پولیس والے اوپر چڑھ آئے ان کی باتوں سے لگتا تھا جیسے وہ کسی خاص شخص کی تلاش میں ہیں۔اتنے میں سن میں سے ایک کی نظر مجھ پر پڑی وہ چند لمحے مجھے دیکھتا رہا اور پھر زور سے چلایا ۔۔
یہ تو یہاں بیٹھا ہوا ہے..؟؟
پولیس والے کہ اس طرح چلانے پر بس میں بیٹھے سارے دیہاتیوں نے گھبرا کر یوں پلٹ کے میری طرف دیکھا جیسے کوئی بس میں بھینسا گھس آیا ہو۔کچھ ہی دیر میں میرے ارد گرد کئی سپاہی بندوقیں تانے کھڑے تھے۔مجھے بس سے اتار کر سڑک کنارے کھڑا کر دیا گیا مگر میں نے ایک بات محسوس کی کہ پولیس والے میرے قریب آنے سے کترا رہے تھے اور میری ہر جنبش پر ان کی مسلسل اور کڑی نظریں جمی ہوئی تھیں۔انہوں نے انتہائی سختی سے مجھے ہاتھ فضا میں بلند کر کے کھڑا رہنے کا حکم دے دیا۔کچھ دیر بعد ان کا ایک افسر سرکاری جیپ میں وہاں نمودار ہوا اور اس نے بس کے ڈرائیور اور مسافروں کے نام پتے نوٹ کرنے کے بعد بس کو جانے کی اجازت دے دی۔پھر وہ میری طرف متوجہ ہوا اس کے کاندھوں پر سجے پھول بتا رہے تھے کہ وہ انسپکٹر ہے۔اس کے ماتحتوں نے اسے زور دار سلامی دی اور کچھ کھسر پھسر کی۔انسپکٹر نے سر سے پاوں تک مجھے کئی بار غور سے دیکھا اور اپنے ماتحتوں سے پوچھا۔اس کی تلاشی لی ہے۔۔۔
نہیں صاحب جی۔ہم جانچ والے عملہ کا انتظار کر رہے تھے
انسپکٹر نے غصے سے اب ہیں جھآڑا۔اوئے۔اس ویرانے میں بارود کو جانچنے والا عملہ تمہارا ماما لے کر آئے گا ؟؟
ویسے کیا تم لوگوں کو یقین ہے کہ یہ وہی خود کش ہے جس کی مقبری ہوئی تھی۔۔؟
صاحب جی۔حلیہ تو بالکل وہی ہے۔وہی لمبے بال گھنی لٹوں جیسی بڑی داڑھی سرخ آنکھیں ملنگ کا بھیس۔یہ تصویر دیکھیں ذرا۔۔سب انسپکٹر نے جیب سے ایک سادہ کاغذ پر بنا خاکہ نکال کر انسپکٹر کو دیکھایا۔ان کی باتوں سے مجھے اتنا ہی پتہ چل چکا تھا کہ انسپکٹر علاقے کا تھانے دار ہے اور وہ کسی خود کش کی تلاش میں یہاں ناکہ لگائے بیٹھا تھے۔میرے ہاتھ ہوا میں کھڑے کھڑے اکڑنے لگے تو میں نے تھانے دار کو پہلی بار مخاطب کیا۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے ہاتھ نیچے کر لوں۔میں ایک فقیر ہوں۔رہاست پور سے آرہا ہوں۔آپ چاہیں تو تصدیق کروا لیں۔میں کوئی دہشت گرد نہیں ہوں۔میری آواز سن کر وہ سارے یوں اچھل پڑے جیسے میں نے واقعی کوئی خود کش دھماکہ کردیا ہو۔
تھانے دار میری بات سے زیادہ میرے لہجے اور سکون بھرے انداز سے پریشان ہوگیا تھا۔اس نے مجھے قمیض اتارنے کو کہا۔میں نے اپنا پھٹا پرانہ جھولا اتار کر ایک جانب پھینک دیا۔کچھ دیر تک وہ سارے دور کھڑے میرا جائزہ لیتے رہے پھر تھانے دار کے اشارے پر ایک سپاہی نے مستعدی سے آگے بڑھ کر میری مشکیں کس دیں۔اور میری پوری طرح جامع تلاشی لینے کے بعد اس نے اعلان کر دیا۔۔
نہیں صاحب جی۔یہ بندہ تو نہتا کے ۔
تھانے دار سمیت سب نے اطمینان سے سانس لیا اور میرے ہاتھ کھول دیئے گئے۔میرے تھیلے میں انہیں صرف کچھ گڑ اور چنے ملے۔تھانے دار نے جیب کے وائرلیس سیٹ پر اپنے کسی سینئیر سے بات کی اور مجھے قمیض پہننے کا حکم دیا دور ویرانے میں سامنے سڑک کے کنارے بنے ایک چھوٹے سے کیبن نما کھوکھے والے نے تھانے دار کے لیے ابلتی دودھ پتی چائے کی ایک چینک اور چند چھوٹے پرانے سے شیشے کے گلاس بھجوادیئے اور وہیں درخت تلے کرسی لگا کر تھانے دار کا دفتر بنا دیا گیا۔ان چھوٹے علاقوں میں صدر اور وزیراعظم سے زیادہ تھانے دار کو ڈر ہوتا ہے۔انسان غلام میرا ہوا ہے اور سدا غلام ہی رہے گا کھبی اپنی خواہشوں کا اور کھبی آپنے جیسے انسانوں کا۔تھانے دار نے ازراہ کرم مجھے بھی سائے میں اپنے سامنے زمین پر بیٹھنے کی اجازت دے دی۔۔
جب تک ریاست پور سے تمہاری بات کی تصدیق نہیں ہوجاتی تم زیر حراست رہوگے ویسے تمہارا یہ صاف لہجہ اور بات کرنے کے انداز مجھے شک میں ڈال رہا ہے کہ تم ہمسایہ ملک کے کوئی جاسوس ہو۔اس علاقے میں کسی کا لہجہ اتنا صاف نہیں ہے اور تمہارے حلیئے سے میل بھی نہیں کھاتا۔ٹھیک ٹھیک بتاوں تم کون ہو۔۔؟؟
میرا دل چاہا ہے کہ میں زور زور سے قہقہے لگا کر ہنسوں۔کل تک جس حلیئے اور بھیس کی وجہ سے یہ دنیا میری راہ میں پلکیں بچھاتی تھی۔میری عزت اور تکریم میں کھڑی ہوجاتی تھی میری طرف پیٹھ کر چلنے والے بے ادبی سمجھتے تھے آج وہی حلیہ اور جوگی کا بھیس مجھے ایک عادی مجرم ثابت کرنے پے تلا ہوا تھا م۔سکینہ کے حصار سے نکلتے ہی اس کی برکت اور اس کے نام کے فیض کے اثرات ختم ہونا شروع ہوگئے تھے میں نے کہیں پڑھا تھا چالیس میل کا فاصلہ خاص ہجرت کی مسافت کا مکمل کرتا ہے جیسے چالیس دن کا چلہ تبلیغ یا دوسرے روحانی عوامل کے لئے بہت اہم ہے۔شاید کچھ شخصیات کا حصار بھی کس خاص شخص کی ذات پر چالیس کے ہندسے ست مشروط ہو می۔ نے بے خیالی میں تھانے دار سے پوچھا۔۔
یہاں سے ریاست پور کتنا دور ہے ۔۔
تھانے دار نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔۔پینسٹھ میل۔۔
کیوں۔۔؟ مگر تم فکر نہ کرو۔۔ہمارا وائرلیس پر رابطہ ہے ابھی گھنٹے بھر میں تمہاری اصلیت سب کے سامنے آجائے گی تھانے دار نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ مجھے ہتھکڑی لگا کر دوسری آنے والی پڑا نی جیپ میں بیٹھا کر تھانے پہنچا دیا جائے۔ان میں کچھ تازہ بھرتی شدہ نوجوان سپاہیوں نے آج تک کوئی دہشت گرد خود کش نہیں دیکھا تھا۔اس لیے وہ مجھے کسی عجونے کی طرح دیکھ رہے تھے خود کش ۔؟؟
ہم کتنے بد قسمت معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ہماری لغت میں جانے کب سے ایسے نئے لفظ شامل ہوتے رہے ہیں۔
خود کش۔۔دہشت گرد۔۔درانداز۔۔انتہاپسند۔۔کوئی ایک اچھا لفظ بھی تو نہیں ہمارے مقدر میں ساری دنیا میں انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی راحت کے سامان کے لیے دم رات جتا رہتا پے۔مگر ہم ایک دوسرے سے محبت کرنا کب سیکھیں گئے۔۔؟
کب ہماری لغت میں دہشت کش محبت پسند سکون اندوز نامی لفظ شامل ہوں گے۔۔ہم جینا کب سیکھیں گے؟اور یہ خود کش۔۔؟۔۔ایک انسان خود خو فنا کر کے اپنی جیسی دوسری مخلوق کی جان لینے پر کیسے آمادہ ہوسکتا ہے ۔۔؟؟
کاش ہم سب جانور ہی پیدا ہوتے تو شائد حیوانیت کا یہ الزام ہم پر نہ لگتا۔۔اب رو شائد اگر جانوروں خو اگر ایک دوسرے کو الزام دینا ہوتو اسے انسان کہہ کر پکارتے ہوں گئے
مجھے تھانے پہنچا دیا گیا۔۔خلاف معمول تھانے کی عمارت باہر سے بڑی پرسکون اور خوبصورت تھی تھانے کے سامنے صاف پانی کی ایک چھوٹی سی نہر بہہ رہی تھی جو تھانے کی عمارت کے آس پاس پھیلے وسیع عریض اور سر سبز کھیتوں کو سیراب کرنے کے کام آتی ہوگی۔تھانے کے پس منظر میں دور پہاڑوں پر سورج کی دھوپ نے سونا پھیلا رکھا تھا۔نہر کے اوپر ایک چھوٹا سا اینٹوں کا پل تھا جو تھانے کے مرکزی چوبی گیٹ کو باہر کی سڑک سے ملاتا تھا جس کے عقب میں تھانے کی پرانی مگر انگریز دور کی آیک پر شکوہ عمارت موجود تھی۔اس لمحے میں نے ایک عجیب بات محسوس کی کہ پل اور دیواریں آیک جیسے اجزا اور ساخت کی بنی اینٹوں سے تعمیر ہوتے ہیں۔مگر پل۔ملاپ کا استعارہ ہوتے ہیں جب کہ دیواریں خفیہ جدائی کی علامت بن جاتی ہی۔پل لوگوں کو ملاتے ہیں اور دیواریں جدائیاں ڈال دیتی ہیں۔تھانے کی اونچی لمبی دیواروں نے بھی میرے اور باقی دنیا کے درمیان جدائی کھڑی کردی تھی اور مجھے ایک حوالاتی کمرے میں بند کردیا گیا جو تھانے کے صحن میں دھوپ کے رخ میں بنا ہوا تھا۔شائد یہ بھی قیدی کو اذیت دینے کا طریقہ ہو۔ہم انسان اپنے جیسے انسانوں کو اذیت دینے کے کتنے زیادہ طریقے ایجاد کرلیتے ہیں۔۔
راحت دینے کے لیے ہمارے پاس تھوڑا سا بھی وقت نہیں بچتا۔شام ڈھلنے تک میں وہیں حوالات میں بیٹھا آتے جاتے سپاہیوں اور دیگر سائلوں کو دیکھتا رہا۔شام کو عصر کے بعد ایک سپاہی نے کم دودھ زیادہ پانی والی پتلی سی چائے کا ایک پیالہ مجھے پکڑا دیا۔۔
جانتے ہو۔۔؟ دہشت گردی کی سزا کیا ہے۔۔؟اگر تم ہر یہ الزام ثابت ہوگیا تو سیدھے سولی چڑھ جاو گئے۔۔
کیوں خود کو ہلاکت میں ڈال دیا تم نے ؟؟
لمحے بھر میں مجھے سکینہ کی پیشن گوئی یاد آگئی۔تو میری موت اس دہشت گردی کے الزام میں سولی چڑھ جانے سے عبارت کرنے چلی تھی یہ قدرت؟؟؟
چلو یونہی موت آنی ہے تو یونہی سہی ۔۔
میں چشم تصور سے دیکھا کہ تھانے دار نے میرا ورثاء کے طور پر ریاست پور سے شکورے اور مہردین کو بلا کر میت ان کے حوالے کردی ہے۔کیونکہ تھانے دار کو میں پہلے ہی ریاست پور میں اپنی جان پہچان کا اشارہ دے چکا تھا میرے بارے میں مزید یہ کچھ جانتے نہیں تھے قدرت اپنے اپنے مسودے مکمل اور کسی بھی غلطی یا بھول سے پاک لکھتی ہے۔میں نے اطمینان سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگالی۔قضا نے میرے گرد اپنا جال بن لیا تھا۔اب تو سکون ہی سکون ہے میں نے آنکھیں موندھ لیں اور وہ ناز ادا چھم سے میری بند آنکھوں کے پردے ہر آبیٹھتی۔کاش میں ایک بار اسے دیکھ پاتا۔میرا دل کسی نادان بچے کی طرح مچل سا گیا۔۔
جیسے ننگے پاوں
پھٹے پرانے کپڑوں والے بچے
اپنی خالی جیبوں کا احساس لیے دل کو اچھی لگنے والی مہنگی چیزیں
کسی دوکان کے بندشیشوں سے
پہروں لگ کر تکتے ہیں ناں
میں بھی تم کو یوں ہی محسن
اکثر تکتا رہتا ہوں
میں بھی اسی خالی جیبوں والے بچے کی طرح اسے تکنے کی آس میں جانے کب دیوار سے ٹیک لگائے سو گیا۔مجھ جیسوں کے لیے یہ نیند اور خواب کتنی بڑی نعمت ہیں۔بیداری میں کچھ نہ پانے والے اکثر خوابوں میں مرادیں پالیتے ہیں۔میری منت بھی خواب میں پوری ہوگئی۔مین اس کی آرٹ گیلری میں اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور وہ حسب معمول اپنے کومل ہاتھوں کی جادو گری سے میرے مجسمے میں جان ڈال رہی تھی۔مجھے تو وہ خود ہمیشہ کی طرح ایک مجسمہ لگ رہی تھی۔ہم دونوں خاموش تھے۔دنیا کی کسی زبان یا ڈکشنری کا کوئی لفظ بھی تو ایسا نہیں تھا جو ہم دونوں کے دل کی باتوں کو کسی بولی میں ڈھال کر منتقل کر سکتا ہو۔ایدی صورت میں صرف نظر ہی نظر کے لیے زبان کا کام دیتی ہے۔میں نے جانے کتنی دیر اس کے ساتھ نظر کی یہ بولی بولتا رہا اور پھر کسی نے مجھے زور سے آواز دے کر اٹھایا۔۔۔چل بھئی ملنگ بادشاہ۔۔۔
تھانے دار صاحب تجھے بلا رہے ہیں۔۔
میں نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔صبع ہوچکی تھی مجھے ہتھکڑیوں سمیت تھانے دار کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔جہاں پہلے سے چند دیگر پولیس افسر کرسیاں ڈالے بیٹھے ہوے تھے تھانے دار خود ایک جانب مودب سا کھڑا تھا جس کا مطلب تھا کہ بیٹھے ہوے افسر خصوصی طور پر کہیں اور سے یہاں آئے تھے۔سب نے مجھے غور سے دیکھا میرے چند خاکے بنائے گئے اور پہلے سے لائے گئے چند خاکوں اور تصویروں سے میرا حلیہ جوڑا گیا۔پھر ایک افسر نے خو عہدے میں ایس پی تھا مجھ سے پہلی بار براہ راست بات کی ریاست پور سے صرف اتنا پتا چلا ہے کہ تم نے کچھ مہنے وہاں بستی سے باہر درخت تلے گزارے ہیں۔اس سے پہلے تم کہاں تھے۔۔۔؟؟
میں دھیرے سے مسکرایا۔فقیر کا کوئی ایک ٹھکانہ کب ہوتا ہے صاحب۔اس سے پہلے شکر گڑھ ریلوے پلیٹ فارم پر ڈیرہ تھا اور اس سے پہلے کہیں اور ویرانہ ٹھکانہ تھا میرا۔اب آپ کی یہ حوالات ہے ۔۔
ایس پی نے الجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا۔مگر تمہارا یہ کب لہجہ۔۔یہ اعتماد یہ تمہارے حلیئے کو غلط ثابت کرتا ہے ہمیں الجھا رہا ہے تمہارا یہ اعتماد۔۔میں جانتا ہوں جگہوں کا تم نے ابھی نام لیا تم نے ضرور وہاں وقت گزارا ہوگا۔مگر آخر تم ہو کون۔۔؟؟تمہارا شناختی کارڈ بھی نہیں ہے جس سے تمہاری پیدائش وغیرہ کا ریکارڈ دیکھا جا سکے ۔
میں نے کمرے میں بیٹھے باقی سب لوگوں پر ایک گہری نظر ڈالی۔۔حیرت کی بات ہے۔۔کوئی اگر آپ جیسی کوتوالی کے سامنے بات کرتے ہوئے لڑکھڑا جائے۔اس کی آواز کانپے تب بھی آپ لوگ اس پر جھوٹا ہونے کی تہمت لگا دیتے ہیں۔اور اگر بنا گھبرائے اپنا مدعا بیان کردے تب بھی آپ لوگوں کو اس کا یہ اعتماد مشکوک لگتا ہے۔آپ میری باتوں پر یقین نہ کریں۔اپنی تفشیش پوری کریں مجھے کوئی جلدی نہیں ہے میرا لیے اب سلاخوں کے پیچھے یا اس زندان سے باہر ہونا ایک جیسا ہے میں دونوں طرف ہی قید رہتا ہوں۔آپ اطمینان سے اپنی تسلی کری۔۔
میں خاموش ہوا تو ان سب کے تنے ہوئے چہروں ہر مزید کئی شکنیں پڑ چکیں تھیں۔۔
ایس پی۔نے میرے سامنے ایک تصویر رکھی جو میرے موجودہ حلیئے سے کافی حد تک مشابہہ تھی۔ہمیں اس شخص کی تلاش ہے۔یہ دشمن ملک کا جاسوس ہے ہمارے ملک میں دہشت گردی کے بہت سے منصوبوں پر عمل کر چکا ہے اور ابھی تک وہ معصوم لوگوں کے جان کے درپے ہے تمہارا حلیہ اور تمہاری ادھوری کہانی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ تم یہی دہشت گرد ہو جس کے نہ جانے کتنے نام اور بہروپ ہیں۔یہ بھی تمہاری طرح بہت سے علاقوں میں جوگی فقیر یا ملنگ کے حلیئے میں گھومتا رہتا ہے اور یہ موقع پاتے ہی اپنا کام کر جاتا ہے۔سینکڑوں معصوموں کو
دھماکوں میں موت کے گھاٹ اتار چکا ہے یہ اب لہذا تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ اپنی پوری شناخت واضع کردہ۔ورنہ ساری عمر انہی سلاخوں کئ پیچھے پڑے سڑتے رہو گے۔۔
اس کا لہجہ اور ان سب کے تیور صاف بتا رہے تھے کہ وہ کسی بھی حال میں میری شناخت جانے بنا وہاں مجھے وہاں سے جانے نہیں دیں گے۔مگر میں انہیں کیا بتاتا؟
میں جس شناخت سے ساری عمر بھاگتا رہا وہ اک بار پھر میرا مذاق اڑانے کے لیے میرئ سامنے کھڑی ہونے کو تیار تھی۔میں نے پولیس والوں کو پھر وہی جواب دیا کہ میری شناخت ایل بھکاری کے علاوہ اور کچھ نہیں مگر وہ بھلا کب ماننے والے تھے مجھے دوبارہ حوالات میں بند کردیا گیا اور اگلے روز مجھے ضلع کی بڑی جیل میں منتقل کردیا گیا میری تصویریں کھینچ کر اخبار اور اشتہارات کے ذریعے علاقے میں پہنچا دی گئی کہ علاقہ پولیس نے ایک مشکوک کو دہشت گردی کے شک کی بنیاد میں پکڑا ہے۔کسی کو اس کے بارے میں اطلاع ہوتو آکر پولیس سے ملے اگلی صبع سب سے پہلے مجھے شکورے اور مہردین کی آواز سنائی دیں۔پولیس والے انہیں دو جاہل دیہاتی بوڑھے سمجھ کر دھتکار رہے تھے جبکہ وہ دہائی دے رہے تھے کہ پکڑا جانے والا ہوئی دہشت گرد نہیں ان کا جوگی سائیں ہے۔مگر وہاں ان کی کوئی سننے والا نہیں تھا۔پولیس والوں نے صبع ہی میری انگلیوں کے نشانات لے کر جانچ کے لیے بڑے شہر بھجوا دیئے تھے۔شکورے اور مہردین کو تھوڑی دیر کے لیے مجھ سے ملاقات کی اجازت ملی تو وہ دونوں روپڑے ۔۔
میں دھیرے سے مسکرایا۔۔شائد میں وہ نہیں ہوں جو تم دونوں مجھے سمجھ رہے ہو۔اور پھر تم دونوں نے ہی تو کہا تھا کہ سکینہ کا دیکھا ہوا ہر خواب سچ تعبیر ہوتا ہے۔شائد اس کے خواب کی تعبیر کا وقت آگیا ہے ۔۔
وہ دونوں میرے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھ پکڑ کر روتے رہے اور ملاقات کا وقت ختم ہوگیا شکورے نے جاتے جاتے مجھے بتایا کہ جس دن سے سکینہ نے وہ خواب دیکھا ہے تبھی سے وہ دعا کے لیے ہاتھ جوڑے بیٹھی ہے اور اپنے رب سے ہر گھڑی رو رو کر صرف یہی دعا مانگ رہی ہے کہ سائیں کو کچھ نہ ہو۔سائیں جی کو ہم سب کی عمر لگ جائے مگر سائیں کی آنے والی فنا ٹل جائے۔اور پھر اگلی صبع چائے پہنچانے والے سنتری نے آکر زور دار انداز میں سلاخیں کھڑکائیں۔اٹھ جاو ملنگ بادشاہ۔تمہاری رہائی کا پروانہ آگیا ہے۔میں حیران حوالات سے باہر نکلا تو تھانے دار نے مجھے اپنے کمرے میں بلوا لیا اس بار اس کا لہجہ بہت نرم اور معذرت خواہانہ تھا۔معاف کرنا فقیرو۔۔ہم بھی انسان ہیں۔ڈیوٹی کرتے وقت اونچ نیچ ہوجاتی ہے۔ہمارا کام ایسا ہے۔شک کے اوپر ہمارے یقین کا قلعہ کھڑا رہتا ہے۔اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چلتا۔۔
میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا آپ اتنی وضاحت کیوں پیش کررہے ہیں۔میں نے تو ہلکی سی شکایت بھی نہیں کی تھانے دار چائے واکے لڑکے کو چائے ناشتہ میز پر سجانے کا اشارہ کیا۔۔تم نے کوئی شکایت یا گلہ نہیں کیا اسی بات نے تو مجھے مزید شرمندہ کر رکھا ہے ہم جس دہشت گرد کی تلاش میں تھے اسے کل رات سرحد کے قریب سے گرفتار کر لیا گیا ہے تمہارے فنگر پرنٹس کی رپورٹ بھی بالکل کلئیر آئی ہے اب تم آزاد ہو۔جہاں جانا چاہو جاسکتے ہو مگر پہلے ناشتہ کر لو...
قسط 32
میرا دل اس وقت کچھ بھی کھانے پینے کا نہیں تھا۔مگر تھانے دار کا دل رکھنے کے لیے میں نے چائے کے چند گھونٹ حلق سے اتارے اور جانے کے لیے کھڑا ہوگیا۔تھانے دار برآمدے تک میرے ساتھ آیا۔کہاں جاو گئے؟؟
کوئی منزل نہیں ہے میرے جہاں قدم اٹھیں گئے اسی طرف نکل جاو گا آپ کی ہمدردی کا بہت شکریہ۔۔
تھانے دار مجھ سے مزید کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش ہوگیا۔شائد تمہیں اپنے متعلق بات کرنا کچھ زیادہ پسند نہیں ہے۔چلو جیسے تمہاری مرضی۔اکرم خان نام ہے میرا۔۔کھبی کسی مدد کی ضرورت ہو تو یاد رکھنا اور ہاں۔کل جو دیہاتی تمہارے حق میں گواہی دینے کے لیے آئے تھے اگر وہ دوبارہ آئیں تو اب ہیں کیا بتاو۔۔؟
میں نے پلٹ کر تھانے دار کی طرف دیکھا ان سے کہیئے گا یہاں پر گنا ہونا میرے نصیب میں نہیں تھا۔جہاں لکھی ہوگی۔وہان خود پہنچ جاو گا۔میری تلاش میں بھٹکنے کی کوشش نہ کریں ۔۔
میں اکرم خان کو وہیں ہکا بکا چھوڑ کر تھانے دار کی چار دیواری سے باہر نکل آیا۔۔پھر وہی پل اور وہی دیوار۔
میں قصبے کی طرف جاتی پگڈنڈی کی مخالف سمت میں چل پڑا۔۔راستے میں بادلوں نے مجھے تنہا چلتے دیکھ کر آپس میں کچھ سرگوشیاں کیں اور پھر سارے بادل زور سے گڑ گڑا کر ہنس پڑے۔شریر بوندیں ایک بے گھر بیچارے کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کے لیے بادلوں کی گود سے ایک ایک کر کے زمین کی طرف لپکنے لگیں۔بادلوں نے بنجارے کو بھیگتے دیکھ کر ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اپنئ جھولی میں بند ساری شرارتی بوند مجھ بنجارے پر برسادیں۔موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ویرانے میں برستی بارش کی بوندوں کی بولی کوئی سنے تو اسے بارش کی تنہائی پر بھی پیار آجائے وہ میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔مجھ سے اٹھکیلیاں اور ضد کر رہی تھیں کہ میں دوسروں کی طرح ان کے اور سے گھبرا کر کسی درخت یا اوٹ کی پناہ تلاش کر لوں مگر میں نہیں رکا۔بھیگتا رہا میں بہت دور تک یونہی چلتا رہا بہت دیر تک مجھے یاد آتی آرہی اور اس اجنبی ویرانے کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے۔یہ شاعر بھی کیسے کیسے خیال جوڑ لیتے ہیں اپنی تخیل کی کرشماتی دنیا سے زندگی کے ہر قدم پر ہمیں ان کے بول کسی نہ کسی طور اپنے حال سے جڑے محسوس ہوتے ہیں۔گھنٹہ بھر بھیگنے کے بعد مجھے سردی لگنے لگی تھی۔مگر نہ جانے میں کہاں تھا۔یہ کون سی جگہ تھی شام ڈھلنے والی تھی۔کچھ دیر بعد کسی بیل گاڑی والے نے میرے قریب سے گزرتے ہوے مجھے آواز لگائی۔۔۔
کہاں جارہے ہو صوفیو۔میں پہنچا دوں ۔۔
میں نے اس دیاوان سے راستہ پوچھا۔۔یہ راستہ کہاں جاتا ہے وہ کوئی پرانہ لطیفہ یاد کر کے زور سے ہنسا۔راستہ رو کہیں نہیں جاتا۔یہیں پڑا رہتا ہے دن بھر فقیروں۔بس میں ہی آتا جاتا رہتا ہوں۔۔
مجھے اس کی زندہ دلی اچھی لگی ۔اس دور میں بھی اگر کوئی اپنے من کی الجھنیں بھلا کر لبوں پر ایک ایک ہلکی سی مسکان برقرار رکھ سکتا ہے تو یقینا وہ دل والا ہے بیل گاڑی بے مجھے پکی سڑک تک پہنچا دیا۔جہاں سے اکا دکا سواریاں گزر رہی تھیں مگر میری حالت سردی لگنے کی وجہ سے بگڑتی جارہی تھیں۔رات ڈھلنے سے پہلے مجھے بخار ہوچکا تھا۔کسی بس والے بے ترس کھا کر مجھے بٹھا لیا اور بنا پوچھے ہی ایک ویران سے ریلوے اسٹیشن پر اتار دیا۔شائد وہی بس کا آخری سٹاپ تھا۔ساتھ ہی اس نے اسٹیشن کے ایک چپڑاسی کو میرا خیال رکھنے کا بھی کہہ دیا۔بخار نے میرے حواس اس بڑی طرح متاثر کیے تھے کہ میں خود کوئی فیصلہ لینے کے قابل نہیں رہا تھا۔ریلوے اہل کار نے میری حالت دیکھی تو مجھے کسی بڑے شہر جاتی ریل گاڑی میں سوار کروادیا اور ٹی ٹی سے درخواست کی کہ مجھے پہنچتے ہی کسی قلی یا مزدور سی کہلوا کر شہر کے بڑے ہسپتال پہنچا دے۔دو دن کا طویل سفر میرے ہوش اور بے ہوشی کے وقفوں میں یوں گزر کہ مجھے کچھ پتا نہیں چلا۔گاڑی رکی تو میں نے ٹی ٹی کو بنا بتائے لڑکھڑاتا رحمان ہوا پلیٹ فارم پر اتر آیا۔میں مزید ان لوگوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔تھکن کے مارے میرا بڑا حال تھا اور غنودگی کے غلبے نے مجھے ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔جب انے اور جانے والے مسافروں کی بھیڑ چھٹی تو میری نظر پلیٹ فارم کے گھڑیال کے ساتھ لگے جلتے بجھتے برقی بورڈ پر پڑی جس کے اوپر شہر کا نام لکھا ہوا تھا میرے اندر ایک دم شدید اور کان پھاڑ دینے والا شور سا اٹھا۔جیسے میری روح کے سارے تار ایک ہی جھٹکے میں کسی نے خھنجھنا کر رکھ دیے ہوں۔یہ تو میرا شہر تھا ہاں وہی شہر جہاں میں پیدا ہوا تھا وہی شہر جہاں وہ کوچہ جاناں تھا جہاں وہ رہتی تھی۔میں نے گھبرا کر اٹھنے اور پلیٹ فارم سے نکلتی ایک گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کی مگر میں لڑ کھڑا کر وہیں گر گیا۔کسی قلی نے آخری وقت ہر مجھے سنبھال لیا ورنہ شاید میں ٹرین کے نیچے آکر کٹ جاتا۔میرے اردگرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہونے لگا۔تماشہ کہیں بھی ہو تماش بین مل پی جاتے ہیں۔ویسے بھی ہمیں تماشہ دیکھنا اچھا لگتا ہے۔وہ سب مجھے بڑی جھاڑ پلا رہے تھے اور حماقت پر ڈانٹ رہے تھے۔کچھ نے مجھے خود کشی کے ارادے کے جرم میں پولیس کے حوالے کر دینے کا مشورہ بھی دیا۔خود کشی بھی کتبا عجیب جرم ہے جرم کا ارادہ ہو یا اگر جرم نا مکمل رہ جائے تو اس کے لیے کڑی سزا ہے مگر یہی جرم اگر مکمل ہوجائے تو دنیا کا ہر قانون اس کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے اتنے میں کسی شناسا کی آواز ہجوم میں ابھری ۔۔
ہٹو دور یہاں سے جاو اپنا کام کرو تم سب لوگ۔۔
میں نے گھبرا کر نظر اٹھائی تو میرا دل زور سے دھڑکا۔آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔
کھبی کھبی ہمارے خدشات حقیقت کا روپ دھارنے میں کس قدر عجلت سے کام لیتے ہیں۔ہماری سوچ کی پرواز سے بھی تیز جلد باز اندیشے مجھے یہی خدشہ تھا کہ یہاں مجھے اپنا کوئی جاننے والا نہ مل جائے اور ٹھیک اسی وقت بھیڑ کو دھکیل کر اندر آنے والے نے میرا اندیشہ سچ کر دکھایا آنے والا خان تھا۔کچھ دیر کے لیے مجھے دیکھ کر گم سم ہی رہ گیا۔خود میں بھی اسے یہاں اپنے شہر کے پلیٹ فارم پر دیکھ کر حیرت زدہ تھا۔خان دوڑ کر مجھ سے لپٹ گیا اور رونے لگا۔۔
کیوں ظلم کرتے ہو ہم غریبوں پر سائیں۔۔کیوں بار بار مجھے اکیلا چھوڑ جاتے ہو۔؟؟
میں نے بڑی مشکل سے اسے خود سے علیحدہ کیا۔مگر تم یہاں کیا کررہے ہو۔؟۔۔آس پاس کھڑے لوگ حیرت سے ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے ۔خان نے حسب معمول کسی حوالدار کی طرح سب کو ڈانٹا جاو یہاں سے بابا۔۔کیا مصطفی قریشی کی کوئی فلم چل رہی ہے جو تم سارے یوں منہ کھول کر کھڑے دیکھ رہے ہو۔۔۔جاو۔۔۔اپنا کام کرو۔۔۔شکر کرو سائیں جی ادھر آگیا ہے۔۔۔اب دیکھنا کیسے سب کی قسمت بدلتی ہے۔۔۔چلو اب بھاگو سارے یہاں سے ۔۔
دھیرے دھیرے بھیڑ چھٹنے لگی۔خان مت مجھے بتایا کہ اس کہ حالات درس بہتر ہوے تو بیوی نے ضد کی کہ اب انہیں بچوں کی تعلیم کے لیے یہ چھوٹا قصبہ چھوڑ کر کسی بڑے شہر منتقل ہوجانا چاہیے۔لہذا خان نے کچھ عرصہ قبل کسی سے سفارش کروا کر یہاں ریلوے اسٹیشن پر اپنا چھوٹا سا کیبن بنا لیا اور اب وہ اپنے بیوی بچوں سمیت اسی شہر منتقل ہوچکا تھا۔جانے میری قسمت کے خالی کشکول میں مقدر بار بار وہی پرانے سکے ڈال دیتا تھا۔مجھے خان کے خلوص پر کوئی شک نہیں تھا۔وہ سیدھا سادھا سا بے لوث انسان میرے لیے اپنی جان سے بھی گزر سکتا تھا مگر میرا نادان دوست تھا۔۔اور مجھے شاید کسی دانا دشمن کی تلاش تھی۔خان کا کھوکھا یہاں بھی خوب چلتا تھا اور اس نے اپنی عادت کے مطابق یہاں بھی سب پر اپنا خاہ مخواہ کا رعب جما رکھا تھا خان نے تھوڑی دیر میں ہی پلیٹ فارم کے شیڈ سے پڑے کھلے آسمان تلے ایک بوڑھے برگد کے درخت کے نیچے میرا بسیرا بنا دیا۔فقیر کا ٹھکانہ بھی بھلا کیا ٹھکانہ ہوتا ہے۔ایک پھٹا پرانہ چھپر۔جو نہ دھوپ روک سکتا ہے نہ بارش۔۔درخت کے نیچے یہاں بھی پکی اینٹ اور سیمنٹ سے بنے ایک گول چبوترے نے برگد کی جڑوں کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔بالکل میرے غموں کی طرح جو ہر لمحہ میرے اپنا گھیرا ڈالے رہتے تھے رات کو گھر جانے سے پہلے کچھ دیر خان میرے پاس رکا اور میری خستہ حالی دیکھ کر گھبرا گیا ۔۔
تمہیں شاید بخار لگتا ہے جوگی سائیں ۔۔،؟..
نہین میں ٹھیک ہوں ۔۔بس تھکن ہے بہت لمبا سفر کی۔۔
تم جاو۔۔بیوی بچے انتظار کررہے ہوں گے۔۔مجھے ابھی بہت جاگنا ہے اس شہرکا آسمان اور ستارے میرے پرانے دوست بیت سی باتیں کرنی ہیں ان سے آج رات۔۔نہ چاہتے ہوے بھی خان مجبورا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔مگر اس کے بارے ہی جانے کیوں مجھے یہ احساس ستانے لگا کہ میں اسے کچھ دیر مزید روک لیتا تو اچھا تھا۔میرے لیے یہ احساس ہی بڑا جان لیوا تھا کہ میں اپنے پی شہرمین تنہا ہوں۔ریت اینٹ اور سیمنٹ کی بنی چند عمارتوں اور سڑکوں سے پڑے شاید وہ بھی اسی تاروں بھرے آسمان تلے جاگ رہی ہوگی؟
شاید اپنی آرٹ گیلری میں کوئی مجسمہ تراش رہی ہو۔۔یا پھر شاید اپنی چھت پر اپنی پسندیدہ زرد پھولوں والی نیوی بلیو شال پہنے ہاتھ میں کافی کا مگ تھامے میری طرح ستاروں سے باتیں کررہی ہوگی۔یہ آسمان بھی تو اس کی شال کی طرح تھا۔میری آنکھیں بھیگنے کریں تو مجھے اپنی تنہائیکا شدت سے احساس ہوا۔کھبی کھبی زندگی میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جن ہم خود اپنا سامنا کرنے سے ہی کتراتے ہیں۔میں بھی ساری رات خود سے بھاگتا رہا صبع تک مزید نڈھال ہوچکا تھا۔صبع ہوتے ہی جب دن کی روایتی بھیڑ اور چہل پہل کا دور شروع ہوا تو حسب معمول سب سے پہلے ضعیف العقیدہ لوگ میرے آس پاس جمع ہونے لگے شاید اس میں میری پرانی شہرت کا بھی ضرور کچھ حصہ رہا ہوگا۔کیونکہ ریلوے کے جن اہل کاروں کی ٹرین ڈیوٹی کا روٹ شکر گڑھ رہا تھا وہ مجھے پہلے سے جانتے تھے اور انہوں نے میرا نام نہاد۔کرامات۔کے بہت قصے سن رکھے تھے۔اسٹیشن ماسٹر آتے جاتے لوگوں کو یوں ٹھٹھک کر درخت کے قریب جمع ہوتے دیکھا تو وہ بھی اپنے دفتر سے باہر نکل آیا اور جھڑک کر پوچھنے لگا۔۔
یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے۔۔کون ہے یہ مجزوب۔؟؟
آسٹیشن ماسٹر کی آواز سن کر ریلوے کے چھوٹے موٹے اہل کار ادھر ادھر بدک گئے۔۔اسٹیشن ماسٹر نے مجھے غور سے دیکھا۔۔
کون ہو تم۔۔؟اور کیا تم جانتے نہیں ہوکہ ریلوے کی سرکاری زمین پر کوئی بھی مستقل یا عارضی بسیرا ڈالنا ممنوع ہے میں بمشکل اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔۔بسیرے بھی بھلا کھبی ممنوع اور غیر ممنوع ہوتے ہیں جناب ۔۔؟ شاید مکین ممنوعہ یا غیر ممنوعہ ہوتے ہوں۔۔
میں نے جانے کے لیے قدم بڑھائے مگر بخار کی تھکن اور نقاہت کی وجہ سے مجھے ایک زور دار چکر آیا اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔اسٹیشن ماسٹر نے جلدی سے آگے بڑھ کر مجھے تھامنے کی کوشش کی ارے ارے سنبھل کے بھائی تمہاری طبعیت تو بہت ناساز لگتی ہے اسٹیشن ماسٹر کی آواز پر دو قلی دوڑتے چکے آئے اور انہوں نے مجھے سہارا دے کر دوبارہ میرے مسکن پر بٹھا دیا۔میں نے اسٹیشن ماسٹر کو تسلی دی۔۔
نہیں میں ٹھیک ہوں۔میں خود بھی یہاں سے جانا چاہ رہا تھا۔آپ فکر نہ کریں زیادہ دیر نہیں ٹکوں گا یہاں پر اسٹیشن ماسٹر کے چہرے پر ندامت کے آثار تھے نہیں نہیں ایسی کوئی جلدی بھی نہیں ہے۔ تم تو جانتے ہو کچھ لوگ اسی طرح چھپر ڈالتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے سرکاری زمین پر پہلے پکا جھونپڑی اور پھر چار دیواری کھڑی کرکے قبضہ کر لیتے ہیں۔بطور اسٹیشن ماسٹر میرا فرض ہے کہ میں پلیٹ فارم اور اسٹیشن کی حدود میں کسی بھی ناجائز تجاوز کو روکوں۔مگر تم اس وقت اس قابل نہیں ہو کہ اپنے بل بوتے پر ایک قدم بھی چل سکو کچھ دن آرام کر لو طبعیت سنبھل جائے تو چکے جانا ۔۔
میں نے تھک کر آنکھیں موندھ لیں ۔
آپ کی مہربانی کا بہت شکریہ۔۔مگر یہ شہر مجھے کاٹنے کو دوڑتا ہے۔آپ ایک احسان اور کردیں مجھ پر۔یہاں سے کہیں بہت دور دراز جانے والی گاڑی پر سوار کروادیں مجھے اتنے میں ہی اسٹیشن ماسٹر کے دفتر کا ایک ماتحت وہاں آپہنچا سپرنٹنڈنٹ آفس سے فون ہے آپ کا صاحب اسٹیشن ماسٹر نے سر ہلایا اور جانے سے پہلے ایک لمحے کے لیے میرے پاس رکا اعجاز نام ہے میرا۔۔فی الحال تم آرام کرو۔۔میں ذرا دفتر کے معاملے نپٹا لوں تمہارے جانے کا انتظام بھی ہوجائے گا ذرا صبر سے کام لو ۔۔
آسٹیشن ماسٹر پلٹ گیا۔۔اب میں اسے کیا بتاتا کہ مجھے زندگی میں کڑواہٹ کی آس قدر عادت ہوگئی ہے کہ اب میٹھے کی عادت ہی نہیں رہی۔پھر چاہے وہ صبر کا پھل ہی کیوں نہ ہو۔کچھ دیر بعد ایک ریلوے اہل کار بخار کی شربت کی بوتل اور چند گولیاں مجھے تھما گیا۔۔یہ دوائیاں اسٹیشن ماسٹر صاحب نے بھیجی ہیں۔۔جلدی سے یہ گولیاں اور شربت غنک جاو۔۔۔
ہمارے اعجاز صاحب نے ڈسپنسر کا کورس بھی کر رکھا ہے یہاں سب کی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج وک خود کرتے ہیں۔شام کو بیٹھک میں خوب ہجوم رہتا ہے ان کی ۔۔
وہ باتونی نہ جانے کیا کچھ کہتا رہا اور تب تک وہاں سے نہین ٹلا جب تک میں نے دوا کی خوراک لے نہی لی کچھ لوگ اپنے لفظ اتنے بے دریغ کیوں لٹاتے رہتے ہیں۔جانے مجھے ہمیشہ سے ایسا کیوں لگتا تھا کہ لفظ ادا ہونے کے بعد ہمیں خالی کرجاتے ہیں۔کچھ دیر میں جان اگیا اور اپنا کیبن کھولنے کی بجھائے سیدھا میرئ طرف چکا آیا ۔۔
سائیں جی۔۔وہ کالو ٹھیلے والا بتا رہا تھا کہ اسٹیشن ماسٹر صاحب آئے تھے تمہاری طرف سب خیر تو ہے ناں ۔۔
ہاں۔۔سب خیر ہے وہ اپنا فرض پورا کرنے آئے تھے۔۔اچھے انسان ہیں خان کے چہرے پر چھائی فکر مندی کی لکیریں چھٹ گئیں اور وہ وہیں کھڑے کھڑے اعجاز صاحب کی شان میں زمین اور آسمان کے قلابے ملانے لگا کہ دیکھنے میں تو اسٹیشن ماسٹر صاحب بہت سخت نظر آتے ہیں مگر دل کے بہت اچھے ہیں۔سب ملازمین کا بہت خیال رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔جانے یہ اوپر سے سخت نظر آنے والے اکثر اندر سے نرم اور نیک دل کیوں ہوتے ہیں۔۔شاید یہ ساری دنیا ہی ایسے تضادات کا مجموعہ ہے۔میں دن بھر وہیں منہ ڈھانپے پڑا رہا۔نقاہت اور بیماری بھی کتنی بڑی معذوری ہوتی ہے یا تو ہمارے دل اور دماغ کو اتنی قوت پرواز نہ دی گئی ہوتی یا پھر ہمیں اس کم زور جسم اور قوت ارادی کا تابع نہ کیا گیا ہوتا کہ ہم اپنے ارادوں کی تکمیل کی خواہش میں بس پھڑک کر ہی رہ جائیں۔میں بھی سارا دن اسٹیشن چھوڑ کر کہیں دور نکل جانے کے اپنے کم زور ارادے سے لڑتا رہا مگر میرے لاغر جسم نے میرا ساتھ نہ دیا۔شام اعجاز صاحب نے بھی دوسرا پھیرا ڈالا اور حال چال پوچھ کر جاتے جاتے کیا سوچ کر دوبارہ میرئ طرف پلٹ آئے۔۔
بات چیت سے تم کافی پڑھے لکھے لگتے ہو۔پھر یہ جوگ کیوں لے رکھا ہے۔بھئی معاف کرنا۔میں اس پیری فقیری ہر اعتبار نہیں کرتا۔آج کل کے اس منافق دور میں اصل پیر فقیر بھلا کب پائے جاتے ہیں؟
اعجاز صاحب کے لہجے میں تلخی گھلی ہوئی تھی۔میں نے تائید کی۔ٹھیک کہتے ہیں۔کاش یہ چھوٹی سی بات اس ظاہر پرست دنیا کو بھی سمجھ آجائے کہ صرف حلیہ درویشی کی ضمانت نہیں ہوتا۔۔دیوانے اور مجذوب میں بڑا فرق ہوتا ہے اعجاز صاحب نے چونک کر میری طرف دیکھا آدمی دلچسپ لگتے ہو۔موقع ملا تو کھبی تفصیلات ہوگی۔۔تم آرام کرو اسٹیشن ماسٹر صاحب کے جاتے ہی دور اپنے ٹھیکے پر بے چین کھڑا خان لپک کر میرے قریب آگیا کہا کہہ رہے تھے آسٹیشن ماسٹر صاحب۔۔میرے متعلق تو کچھ نہیں کہا؟؟
ہاں۔۔کہ رہے تھے کہ یہ خان سارا دن ادھر کی ادھر لگاتا رہتا ہے دل لگا کہ کام نہیں کرتا وقت ضائع کرتا ہے۔۔سوچ رہیں ہیں کہ تمہارے ٹھیکہ کا لائسنس منسوخ کردیں۔
میری بات سن کر خان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا
کیا بول رہے ہو جوگی سائیں۔۔میں تو سارا دن محنت کرتا ہوں۔تم محنت کم باتیں زیادہ کرتے ہو۔۔آج سے کوشش کرو کہ انہیں دوبارہ تم سے شکایت نہ ہو۔خان نے جلدی سے سر ہلایا اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے جلدی سے اپنے ٹھیلے کی جانب بڑھ گیا اور میں نے سکون سے سر ٹکا لیا میں جانتا تھا اب رات گئے تک وہ کام میں جٹا رہے گا میرا وہ نادان دوست تھا۔۔اگلی شام آئی تو عصر کے بعد ایک قلی خوان اٹھائے میری طرف چلا آیا۔۔
آسٹیشن ماسٹر صاحب کے گھر میں نیاز ہے آج ختم قرآن کی تمہارا حصہ بھی بھیجا ہے میرا جی چاہا کہ میں کھانے کی ٹرے واپس لوٹا دوں کہ میرا کچھ بھی کھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا مگر نیاز کا سن کر میں خاموش رہا۔شام ڈھلی تو میرے دل کے اندھیرے بڑھ گئے اور اسٹیشن روشنیوں سے جگمگانے لگا۔مگر میرے تاریک دل کا اجال سکتا وہ اجالا کہاں تھا میری قسمت میں؟
خان بے چارہ دن بھر کام مین جتا رہا۔میں نے سوچ رکھا تھا کہ یہاں سے جاتے ہوئے اسے بتا کر جاوں گا کہ میں نے اس کی ناز برداری اور خدمت گزاری سے بچنے کے لیے جھوٹ بولا تھا۔میں وہ پتھر تھا جس سے سر ٹکڑانے والا پجاری بدلے میں صرف زخم ہی پاسکتا تھا۔رات ہوئی تو اسٹیشن ماسٹر صاحب حسب معمول اسٹیشن کا ایک جائزہ لینے کے لیے پلیٹ فارم پر سارے موجود اہل کاروں و ہدایات دیتے نظر آئے مگر جانے کیوں اس رات مجھے اعجاز صاحب کی چال اور آواز میں وہ بانکپن اور کڑک مفقود محسوس ہوئی جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔میرے قریب سے گزرتے ہوئے وہ رک گئے۔۔
تم سوتے نہیں ہوکیا۔۔؟طبعیت اب کیسی ہے تمہاری۔۔؟
ٹھیک ہوں۔۔بس نیند آتے آتے آتی ہے ۔۔۔
وہ تھکے ہوے انداز میں وہیں چبوترے پر میرے قریب بیٹھ گئے۔۔ہاں ٹھیک کہا تم نے۔۔کھبی کھبی تو نیند بھی نخریلی شہزادی بن جاتی ہے۔آپ آج کچھ پریشان دیکھائی دیتے ہیں سب ٹھیک تو ہے۔۔؟
انہوں نے ایک گہرے سانس لی۔۔ہاں اب تو ٹھیک ہی سمجھو۔وہ کہتے ہیں ناں۔۔درد کا حد سے گزر جانا ہی دوا ہو جاتا ہے تم یہاں نئے ہو اس لیے تمہیں نہیں پتا کہ آج کل کا دن بڑا بھاری گزرتا ہے مجھ پر۔پرانے ملازمین سارے واقف ہیں اس کہانی سے۔ میں نے غور سے اس ٹوٹے ہوئے انسان کی طرف دیکھا ہمارے آس پاس بکھرے ان ہزاروں لاکھوں انسانوں میں سے ہر ایک اپنے اندر کتنا غم چھپائے کتنا درد دبائے بیٹھا ہے مگر ہم خود غرضوں کو اپنے سوا دوسرا کوئی نظر ہی کب آتا ہے بھلا۔۔۔؟
اگر مناسب سمجھیں تو مجھے کچھ بتائیں
اعجاز صاحب نے لمبی گہری سانس لی ۔۔
بس بیوی کی بیماری نے پریشان کر رکھا ہے اس بد نصیب بے بھی کم دن ہی خوشی دیکھی۔اب تو سارا دن بستر پر ہی پڑی رہتی ہے۔ہماری ایک ہی اکلوتی بیٹی تھی ثریا۔۔بچپن سے ہی دونوں کی جان۔۔لاڈ اور نازوں سی پلی۔۔سکول کالج سے یونیورسٹی تک ہے مضمون ہر مقابلے میں اول۔۔
چندے آفتاب۔۔چندے ماہتاب۔۔سچ پوچھو تو اس کی خوب صورتی سے ہم دونوں میاں بیوی کھبی کھبی بے حد خوفزدہ ہوجاتے تھے۔اس لیے جلد ہی اس کے ہاتھ پیلے کر کے رخصت کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔بہت سے رشتے آئے مگر مجھے خاص طور ہر کسی ایسے رشتے کی تلاش تھی جہاں ساس نندوں کا جھمیلا بھی کم ہو اور لڑکا معاشی طور پر بھی کافی مضبوط ہو۔ہم نے ثریا کو بہت نازوں سے پالا تھا اور ہمیں یہ ڈر تھا کہ وہ روایتی ساس نندوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور سختی برداشت نہیں کر سکے گی۔آخر کار رشتہ لانے والی نے ایسے ایک لڑکے کے بارے میں بتایا خو ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بیرون ملک سے کافی کچھ کما کر دوبارہ اپنے ملک منتقل ہوا تھا اکیلا رہتا تھا اور یہاں رشتے کا بھی خواہش مند تھا۔مجھے یوں لگا جیسے قدرت نے یہ رشتہ میرے صبر کے بدلے ہی بھیجا ہے۔ہم نے ہر طرح سے چھان پھٹک کرلی۔لڑکا واقعی بہت شریف اور خاندانی تھا اور ثریا کی تصویر دیکھ کر تو اس رشتے والی کا ڈر ہی پکڑ لیا تھا کہ اب وہ رشتہ کرے گا تو ہماری ثریا سے۔ورنہ ساری عمر کنوارہ ہی رہے گا۔لڑکے کا نام کلیم تھا مگر میری بیوی اس رشتے خو قبول کرنے میں ذرا ہچکچا رہی تھی۔۔
میں نے حیرت سے اعجاز صاحب کی طرف دیکھا
مگر کیوں۔۔؟؟؟
اعجاز صاحب نے نظریں جھکالیں۔۔
دراصل لڑکا کچھ کم صورت تھا۔ہماری ثریا کی دودھ جیسی شفاف رنگت کے سامنے کلیم کا گہرا سانولا رنگ اور نین نقش بہت ہیچ محسوس ہوتے تھے اعجاز صاحب کی بات سن کر مجھے ایک زور دار جھٹکا لگا۔۔ثریا نے کیلم کو دیکھا تھا۔۔؟۔۔۔میرا مطلب ہے اس کا فیصلہ تھا اس بارے میں۔۔
ثریا کا فیصلہ وہی تھا جو کسی بھی شریف مشرقی گھرانے کی لڑکی کا ہوسکتا ہے۔۔اس نے یہ حق اپنے والدین کو تفویض کردیا تھا۔۔بالآخر پہلے پر غور کرنے کے بعد قرعہ کیلم کے نام ہی کھلا اور ہماری لاڈلی ہماری دعاوں اور آرزووں کے حصار میں کیلم کے ساتھ رخصت ہوگئی ۔۔
میں نے بے چینی سے پہلو بدلا۔۔
پھر اتنے اداس کیوں ہیں۔۔سنا ہے انسان کا اندر خوبصورت ہونا چاہیے۔۔بیرونی بدصورتی کی تو شاید پھر بھی عادت پڑ جاتی ہوگی ۔؟
مجھے لگا یہ سوال میں نے اعجاز صاحب سے نہیں۔۔خود آپنے آپ سے کیا ہے اعجاز صاحب نے لمبی گہری آہ بھری
ہاں۔۔میری ثریا نے پہلے دن سے ہی ہماری خوشی کے لیے کلیم کو پورے دل سے تسلیم کر لیا تھا۔کلیم تو پہلے پی ثریا کے پیار میں دیوانہ تھا مگر ۔۔میں نے بے چینی سے پہلو بدلا
مگر کیا؟؟؟؟؟
مگر یہ دنیا والے کب کسی کو پھلتا پھولتا اور خوش دیکھ سکتے ہیں کلیم اور ثریا جس محفل میں بھی جاتے اور جہاں سے بھی گزرتے ان کی جوڑی کو دیکھ کر لوگ معنی خیز آشارے کرتے طنزیہ مسکراہٹوں کے تبادلے ہوتے پہلوئے حور میں لنگور جیسے فقرے کسے جاتے۔۔تنگ آکر کلیم نے ثریا کو لے جانا پی چھوڑ دیا۔مگر لوگوں کی زبان کون روک سکتا ہے۔کلیم اپنی محرومیوں کا غصہ ثریا پر اتارنے لگا اس کے کان میں کسی نے یہ بات ڈال دی تھی کہ ضرور ثریا کے کردار میں کوئی کھوٹ یا کمی ہوگی ورنہ اس جیسی پری چہرہ لڑکی کیلم جیسے کم صورت کو قبول کیوں کرتی؟؟
کلیم کو جنوں بڑھتا ہی گیا اور ثریا کی خوبصورتی نے اسے نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا۔۔اسے گلی محلے کہ شہر کا ہر بندہ اس کا مذاق اڑانے محسوس ہونے لگا۔۔ ثریا کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔مجھ سے اور ثریا کی ماں سے ایک بڑی غلطی ہوگئی تھی رشتہ ہمیشہ جوڑ والوں میں کرنا چاہیے پھر چاہے یہ جوڑ معاشی حالت کا ہو یا پھر صورت کا۔
بے جوڑ رشتے کھبی زیادہ دیر چل نہیں پاتے۔کلیم ثریا پر شک کرنے لگا۔ذرا ذرا سی بات پر اسے دھن کر رکھ دیتا اور پھر ایک دن ثریا اس حالت میں گھر واپس آئی کہ اس کا چہرہ اور بدن نیل نیل تھا اور پھر اعجاز کی قوت گویائی جواب دینے لگی۔۔میں نے بے تابی سے پوچھا پھر کیا ہوا۔۔
پھر تیسرے راز کلیم ثریا کو طلاق بھجوادی۔۔
میری آواز حلق میں اٹک سی گئی ۔
طلاق۔۔۔؟؟؟
ہاں۔۔طلاق۔۔تین سال پہلے ہماری ثریا گھر واپس اگئی تھی۔بہت صابر شاکر تھی میری بیٹی۔۔کھبی کسی دے کوئی شکوہ نہیں کیا۔۔اس کی ماں نفسیاتی دباو اور شوگر سمیت کئی بیماریوں کا شکار ہوتی گئی۔مگر ثریا سہتی رہی اور پھر ایک دن چپ چاپ آنکھیں موندھ کر ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ گئی۔۔
ہاں۔۔آج اس کی دوسری برسی تھی۔۔یہ نیاز اسی سلسلے میں بانٹی گئی تھی مجھ سے مزید کچھ نہیں کہا گیا۔اعجاز صاحب اٹھ کر چلے گئے مجھے لگا وہ مجھے میری اپنی کہانی سنا کر پلٹ گئے میں تو سمجھا تھا کہ دنیا میں بس ایک میں ہی ان عذابوں کا شکار ہوں۔مگر یہاں تو ہر قدم پر ایک نئے روپ اور نئے نام کے ساتھ دھرنا دئیے بیٹھے ملتا ہے اعجاز صاحب نے ٹھیک ہی کہا تھا جوڑے ہمیشہ جوڑ والوں کے بھلے لگتے ہیں۔اچھا ہوا میں عینی کی زندگی سے چپ چاپ نکل ایا ہم دونوں بھی تو اسی ظالم دنیا کے باسی تھے عینی مجھے قبول کر بھی لیتی تو یہ جگ والے ہمیں جینے نہ دیتے۔یہاں روپ کے بدلے صرف روپ ہے۔ترازو کے ایک پلڑے میں حسن ہو تو دوسرا بانٹ تبھی اسے متوازن کرسکتا ہے جب وہ خود بھی حسین ہو۔ساری رات میرا دل و دماغ میں عجیب سی سنسناہٹ ہوتی رہی۔۔
جیسے قدرت نے میری کہانی کا انجام کسی دوسرے کی زبانی مجھ تک پہنچا دیا ہو۔جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور پھر خان کی ہلکی ہلکی آوازوں نے مجھے دوبارہ جگا دیا صبع ہوچکی تھی خان مجھے بتا رہا تھا کہ ۔۔
سائیں یہ بی بی کب سے آپ کے جاگنے کا انتظار کر رہی تھی کہتی ہے کہ سائیں کا بڑا نام سنا ہے۔دعا لینے آئی ہے ۔۔
میں نے چونک کر سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا اور ایک لمحے میں ہی میرے لیے آسمان زمین پر گر گیا اور زمین فلک سے جا ملی میرے سامنے عینی بیٹھی ہوئی تھی
قسط 33 ( لاسٹ )
ہاں عینی ہی تھی میری مجسمہ ساز وہی قراء العین مگر اس کی آنکھوں پر یہ سیاہ چشمہ کیوں لگا ہوا تھا ابھی تک؟میں نے خان خو اشارہ کیا کہ وہ لڑکی کو کہے چشمہ اتار دے مگر خان نے میرا اشارہ نہ دیکھا اور وہاں سے جا چکا تھا میں نے دھیرے سے بھاری آواز میں کہا بی بی اپنے چہرے سے یہ اندھیرے کا پردہ ہٹا دو تاکہ تمہاری آنکھوں میں جھانک کر تمہاری روح کے زخم دیکھ سکوں۔۔
مگر وہ روپڑی۔۔
نہیں سائیں جی۔۔میری آنکھیں بے نور ہیں۔۔آپ ان میں جھانک کر بھی صرف اندھیرا ہی دیکھیں گئے۔
میں زور سے چلا اٹھا ۔۔
کیوں۔۔ تمہاری آنکھیں اب تک بے نور کیوں ہیں۔۔؟اگر دعا پی کروانی ہے تو بینائی کی دعا کرواو عینی نظریں چرا گئی۔
نہیں سائیں جی۔۔جس کو دیکھنے کے لیے مجھے بصارت چاہیے تھے۔وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا اب میں بینائی کا کیا کرو گی۔میں اس کی بات سن کر سسک اٹھا وہ بھی روتی رہی اور پھر اچانک میرے کانوں میں خان کی آواز گونجی
سائیں جی کیا ہوا۔۔سب خیر تو ہے ناں۔۔۔
تم رو کیوں رہے ہو۔۔کیا کوئی بڑا سپنا دیکھا ہے ۔۔
میں نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں خان مجھ پر جھکا ہوا تھا میرے گالوں سے میرے آنسوں پونچھ رہا تھا گویا میں واقعی ہی خواب دیکھ رہا تھا۔بڑی مشکل سےمیں نے خان کو سمجھا بھجا کر کر کام پر بھیجا مگر خود میرا چین و سکون مزید برباد ہوگیا۔کچھ خواب ہمیں اس قدر بے سکون کر جاتے ہیں۔سپنے کے پنجرے میں بند یہ دل ایک دم ہی ہر دیوار ہر رکاوٹ توڑ کر باہر نکلنے کو بے تاب ہوگیامجھے لگا وہ خواب ادھورا رہ گیا ہو شاید عینی کی آنکھیں واپس مل چکی ہوں مگر میری اواز پہچان کر اور میرے چہرے کو دیکھ کر اس نے مجھے نہ پہچاننے کے لیے یہ ساری کہانی گھڑی ہو۔مجھے خان پر شدید غصہ آنے لگا جس نے درمیان میں میری نیند توڑ کر مجھے خواب کے آخری حصے اور انجام جاننے سے روک دیا۔سکینہ نے کہا تھا محبت میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہمارے خواب سچے ہونے لگتے ہیں قدرت نے ایک ہی رات مجھے دو اشارے دیئے تھے۔۔۔
پہلا ثریا اور کلیم کی کہانی سنا کر۔۔اور دوسرا یہ ادھورا خواب دکھا کر۔یقین قدرت مجھے یہ جتانا چاہ رہی تھی کہ عینی اگر بینائی ملنے کے بعد مجھے دیکھ لیتی تو ضرور وہ رو رو کر خدا سے یہی شکوہ کرتی کہ اس چہرے لو دیکھنے سے تو بہتر تھا کہ اسے دوبارہ بصارت ہی نہ ملتی۔میں آندھی ہی رہتی تو اچھا تھا میرے اندر چلتے جھکڑ تیز ہونے لگے۔جیسے واقعی عینی نے مجھے دیکھ لیا ہو میری حالت شام تک اتنی بگڑ گئی کہ مجھے سانس بھی اٹک اٹک کر آنے لگی خان نے مجھے یوں تڑپتے دیکھا تو بناء کچھ کہے ایک جانب بھاگ گیا اور گھنٹہ بھر بعد شہر کے کسی مستند ڈاکٹر کی دواوں کا بکسہ اٹھائے اس کے آگے آگے بھاگتا ہوا نمودار ہوا۔ڈاکٹر نے میری نبض دیکھی اور تشویش سے خانکی طرف دیکھا۔۔؟
تمہارے سائیں کی حالت تو بہت خراب ہے۔میں دوا کی تین خوراک کیں دیے تو جارہا ہوں مگر ہوسکے تو سائیں کو شہر کے بڑے ہسپتال پہنچانے کی کوشش کرو۔۔
خان نے تیزی سے سر ہلایا مگر وہ اندر سے جانتا تھا کہ میں اب یہاں سے کہیں نہیں ٹلنے والا ہوں۔اگلے روز بادل پھر ٹوٹ کر برسے میری سانس اکھڑنے لگی تھی جیسے سینے کی قید سے آزاد ہونے میں اسے بہت سی سلاخوں سے ٹکرا کر باہر نکلنا پڑ رہا ہو۔۔میری نظر دھیرے دھیرے پتھرانے لگی تو خان نے روتے ہوئے میرا ہاتھ تھام لیا۔۔
چلو سائیں۔۔۔ایک بار میری بات بھی مان لو۔۔چلو کسی بڑے ہسپتال چلتے ہیں۔۔
میں نے برستی بارش کی بوندوں میں خان کے آنسو مل کر پانی ہوتے دیکھے اور مسکرایا۔میری آواز رک رک کر نکل رہی تھی۔
کیوں ڈھونگی کہیں کے۔۔ذرا سی بیماری نے ہی تمہارے سائیں کی کرامات پر تمہارا یقین اور اعتماد چٹخا دیا۔۔؟
ابھی کل تک تو تم سارے علاقے میں سب سے کہتے پھرتے تھے کہ تمہارا جوگی سائیں اپنی دعا سے ہر بیماری اور ہر روگ کا علاج کرسکتا ہے اور آج جب خود تمہارا سائیں بیمار پڑا تم اسے شہر کے بڑے تجربہ کار ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی ضد کر رہے ہو۔اگر میری دعاوں میں باقی لوگوں لے لیے اتنا اثر ہوتا تو کیا آج اپنی بیماری ایک پھونک میں ہی ہوا نہ ہوجاتی۔۔؟خان لاجواب سا وہیں بیٹھا روتا رہا۔میری نظروں کے سامنے اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔تیز بارش میں بھیگتی ایکسپریس گاڑی پلیٹ فارم پر داخل ہوئی تو ایک ہلچل سی مچ گئی۔کچھ مسافر اترے اور کچھ ٹرین پر سوار ہوگئے۔میں نے دور اسٹیشن کے بیرونی گیٹ سے ایک نوجوان جوڑے کو اندر آتے دیکھا مرد تیز بارش سے خود کو بچاتے ہوئے کسی کہ تلاش میں برآمدے کی جانب بڑھ گیا۔میری لمبی جتا دھاری بالوںکی لٹیں بھیگ کر میرے چہرے کے گرد پھیل چکی تھیں۔میں سر جھکائے یوں مراقبے میں پڑا ہوا تھا جیسے اپنی آخری سانس نکلنے کا خود انتظار کر رہا ہوں۔اچانک میرے قریب ہی سیاہ لباس میں کسی نازک سے سراپے کا ہیوالا ابھرا اور وہ میرے قریب بیٹھ گئی۔خان نے اسے ڈبے لفظوں میں میری بیماری اور بگڑتی حالت کے بارے میں بتایا مگر وہ برستی بارش میں یونہی دھرنا دئیے بیٹھی رہی۔خان کو مجبورا وہاں سے اٹھ کر جانا پڑا تاکہ وہ تنہائی میں مجھ سے اپنی منٹ بیان کرسکے۔۔
نقاہت اور غنودگی سے میری آنکھیں بند ہوئی جاتی تھیں مگر جان ہوں اٹکی ہوئی تھی جیسے ضد پر آڑی ہو اور پھر ہلکا سا کھنکار کر بولی تو اس کی مترنم آواز نے میرے و
وجود میں چھپی سبھی خفیہ گھنٹیوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔مجھے یوں لگا جیسے میرے ارد گرد زلزلہ آگیا ہو۔میں اس کی میٹھی آواز کیسے بھول سکتا تھا۔؟
ہاں۔۔۔یہ اسی کی آواز تھی جس کی سانسوں کی آہٹ بھی میں سن سکتا تھا۔۔
میرے خواب سچ ہونے کا وقت آگیا تھا۔۔
مجھے پتہ ہے کہ آپ اپنے اردگرد خواتین کی موجودگی پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کسی عورت سے ہم کلام ہونا آپ کو اچھا لگتا ہے مگر میں آج بڑی امید لے کر آپ کے پاس آئی ہوں کئی سال بھٹک رہی ہوں دربدر۔۔میرا کوئی اپنا کھوگیا ہے آپ کی دعا کا بڑا چرچہ سنا ہے۔۔میں آپ سے التجا کرتی ہوں۔۔۔میرے لیے بھی دعا کریں۔۔
میری آنکھوں سے آنسوں ٹیک پڑے میری دعا میرے سامنے بیٹھی مجھے دعا کرنے کا کہہ رہی تھی وہ بے چین اور پریشانی میں اپنی خوبصورت انگلیوں کو حسب عادت بار بار آپس میں جوڑ کر کھول رہی تھی۔یہ وہی ہاتھ تھے جنہوں نے کھبی میرا چہرہ چھوکر ایک مجسمہ تراشا تھا میری جھکی نظر نے اس کے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی دیکھی میں خاموش رہا وہ مجھے پہچان نہیں پائی تھی۔پہچانتی بھی کیسے؟
اس نے آج تک مجھے دیکھا ہی کب تھا؟ میری سانس اکھڑنے لگی مجھ میں اس کے چہرے کو نظر بھر کر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔میری رکتی سانسوں کی آواز سن کر وہ گھبرا کر میرے اور قریب آگئ۔۔۔۔۔آپ ٹھیک تو ہیں ناں ۔۔؟؟
دفعتہ میری نظر اس کے آنکھوں ہر لگے کالے چشمے پر پڑی تو میرے اندر ایک وقت کئی جھکڑ چلنے لگے۔حسب توقع ایک چشمہ اس کی خوبصورت سرمئی آنکھوں کا پہرے دار بنا بیٹھا تھا۔کہیں خدانخواستہ عینی کی آنکھوں کا آپریشن واقعی ناکام تو نہیں ہوگیا تھا۔تیز بارش اس کا نازک وجود بھگو رہی تھی۔میرا جی چاہا کہ میں اس کے سامنے کھڑا ہو کر اس کے وجود کے لیے چھتری بن جاوں مگر میں تو خود کسی کم زور پتے کی طرح لرز رہا تھا۔وہ کچھ دیر یونہی دو زانو بیٹھی بھیگتی رہی اور پھر واپس جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی میرا دل کسی نے مٹھی میں لے کر مسل دیا ہو جیسے۔اسے آواز دے کر روک لینے کی خواہش کو میں نے نہ جانے کا طرح روکا بس زبان دانتوں تلے دان لی مڑتے ہوئے اچانک پانی میں اس کا پاوں پھسلا اور وہ ڈگمگا گئی میں تڑپ کر اسے گرنے سے روکنے کی کوشش کے طور پر آگے بڑھا تو اس کے ہاتھ کسی سہارے کی تلاش میں فضا میں لہراتے اور میرے چہرے کو چھوگئے میں گھبرا کر پیچھے ہٹا تو وہ کچھ لمحوں کے لیے حیرت اور صدمے سے ششدر رہ گئی اور پھر اس نے بے تابی سے دوبارہ میرے چہرے پر اپنی انگلیاں پھریں اور زور سے چلائی۔۔
پری زاد۔۔۔یہ آپ ہیں ناں۔۔۔اپ چپ کیوں ہیں۔۔؟بولتے کیوں نہیں؟
میں اپنا چہرہ ہاتھ میں چھپائے وہاں سے اٹھ کر چند قدم بھاگا مجھ میں بھاگنے کی ہمت اور طاقت ہوتی تو پھر رونا پی کس بات کا تھا میں لڑ کھڑا کر یوں گرا جیسے کوئی کسی کی نظر سے گرتا ہے مگر مجھے دنیا کی نظر سے گرنے کی پرواہ ہی کب تھی۔مجھے تو بس ایک نگاہ سے بچنا تھا کہ جس میں کھبی میرا ایک مقام تھا مجھے زمانے کی ہر فنا قبول تھی مگر اس کی نظر میں نفرت یا رحم اور ہمدردی کی جھلک میرے لیے دنیا کی ہر موت سے کہیں بڑھ کر قضاہ تھی میں نے خود کو پوری طرح سمیٹ کر چھپا لیا اچانک میرے کانوں میں ایک مردانہ آواز گونجی ۔
کہاں تک بھاگیں گے اور کب تک خود کو چھپائیں گے
پری زاد صاحب میں آپ کو اتنا کم زور نہیں سمجھتا تھا
ڈاکٹر عدنان میرے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔آس پاس چلتے لوگوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی۔۔عینی وہیں دور بیٹھی رو رہی تھی۔میں نے عدنان سے منٹ کی مجھے جانے دو عدنان اس کی جس ایک نظر سے بچنے کے لیے میں نے ساری دنیا چھوڑ دی وہ نظر میرا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک آپہنچی ہے۔۔میں بہت نڈھال اور بڑا گھائل ہوں عدنان مجھے اور زخمی نہ کرو۔۔میرا دم میرے آس آخری بھرم کت ساتھ نکل جانے دو۔۔عدنان کی آواز لرز رہی تھی اس ایک نظر کا اتنا ہی خوف تھا تو آپ نے عینی سے محبت کیوں کی تھی؟؟؟؟
نہیں۔۔یہ جھوٹ ہے۔۔میں نے محبت نہیں کی۔۔
عدنان نے میرے لرزتے ہاتھ تھام لیے۔محبت نہیں کی تو پھر یہ تیاگ کیسا؟اس کا سامنا کرنے کا خوف کیوں۔کمالی نے امریکہ واپسی پر ہی ہمیں سب کچھ بتا دیا تھا۔کاش آپ مجھ سے یہ بات نہ چھپاتے۔۔اور پھر ہر گرہ خود کھلتی گئی آپ نے میری محبت کی وجہ سے اپنے آپ کو اس حد تک برباد کرلیا پری زاد؟
آخر کیوں ایسا کون کرتا ہے۔۔چھین لیتے اسے مجھ سے اس پر سب سے زیادہ حق اس ساری دنیا میں صرف آپ کا تھا آپ نے وہ حق بھی مجھے سونپ دیا۔صرف اس خوف سے کہ وہ آنکھیں ملنے کے بعد آپ کو قبول نہیں کرے گی آپ نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ وہ زندگی کہ اتنے اہم موڑ پر اپنے فیصلے کیدے کرے گی اس نے آپ کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ مان دیا۔اس کے کتنے بھرم آپ سے جڑے تھے اور آپ اس کو بیچ منجدھار میں چھوڑ آئے۔۔یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ آپ کے بغیر کیسے چل پائے گی۔۔؟
میں نے اپنی سانسیں جمع کیں۔۔
میں اس کی نئی رنگوں سے بھری دنیا کو اپنے وجود کی کالک سہ سیاہ نہیں کرنا چاہتا تھا صرف تم ہی اس کے قابل تھے اور میں صرف تمہارے بھروسے اسے چھوڑا تھا میں جانتا تھا اگر میں اس کا ہاتھ مانگتا تو وہ مجھے دیکھ کر بھی شاید انکار نہ کرتی کیونکہ اس کی روح میرے ان گنت احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی لیکن مجھے کسی احسان کا بدلہ نہیں چاہیے تھا عدنان۔۔میری منزل تو بس ایک نظر تھی اس کی پیار بھری ایک نظر۔۔
عدنان نے حتمی لہجے میں کہا۔۔
ٹھیک ہے۔۔اگر آپ کی نظر کی پہچان کا اتنا ہی دعوی ہے تو آج یہ بھرم بھی آز مالیتے ہیں۔۔وہ آرہی ہے۔۔دیکھتے ہیں آپ کو دیکھ کر اس کی نظر کیا کہتی ہے۔۔آج آپ کے مقدر کی وہ نظر خود فیصلہ کرے گی۔۔جب آپ حسب وعدہ آپریشن سے پہلے نیو یارک نہیں پہنچے تو عینی نے اپنی آنکھوں کے آپریشن سے انکار کردیا تھا۔۔وہ جان گئی تھی کہ آپ کیوں نہیں آئے میں نے آپ کی قسم دی کر اس کا آپریشن تو کروادیا مگر بینائی ملنے کے بعد بھی اس نے اپنی آنکھوں پر آج تک وہ سیاہ چشمہ لگا رکھا ہے۔۔
میں چلا اٹھا ۔۔
مگر کیوں۔۔تم نے اس کا ساتھ نھبانے کا وعدہ کیا تھا مجھ سے تبھی عینی کی آواز میرے قریب سے ابھری ۔
وعدے تو آپ نے بھی بہت کیے تھے دوستی نبھانے کے
پری زاد آپ یہ کیسے بھول گئے کہ میرا آپ سے روح کا رشتہ تھا اور جب روح کے رشتے جڑ جائیں تو چہرے بے معنی ہوجاتے ہیں۔۔آپ کو مجھ لے اتنا بھی بھروسہ نہیں تھا بس۔۔اتنا ہی جانتے تھے آپ مجھے۔۔۔؟
خان نے صورت حال دیکھ کر سنگیتی کو محسوس کرتے ہوئے لوگوں کو پرے دھکیل دیا تھا۔میں وہیں زمین پر پڑا بارش میں بھیگ رہا تھا۔عینی نے وہیں زمین پر دو زانو بیٹھ کر میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔میری جلتی روح کسی ٹھنڈے پانی کی آبشار تلے آگئی۔اس نے میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھوا اور منہ پر لگی دھول اپنے ڈوپٹے سے صاف کی مجھے یوں لگا جیسے میرے غم کی ہر سیاہی دھلتی چکی گئی ہو۔میں اس کے چھوتے ہی کتنا خوبصورت ہوگیا تھا۔بالکل پری زاد بن گیا تھا۔عینی نے اپنی آنکھوں سے سیاہ چشمہ اتار لیا۔میرے نصیب کی نظر میری نظر دے ٹکرائی کسی بھی طنز۔حقارت۔تمسخر یا نفرت سے پرے۔ایک پیار بھری نظر۔۔میرے مقدر کی نظر۔۔وہ میرا سر گود میں لیے بیٹھی روتی رہی اور برستی بارش کی بوندیں اس کے پاک اور معطر آنسووں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خود ان آنسووں میں مل کر خود کو پاک کرتی رہیں۔۔
میں بھی کتنی بد نصیب ہوں۔۔آپ نے سب سے چھپا کر جس محبت کو اپنے من میں دبائے رکھا۔اس کی خبر میرے سوا باقی سب کو تھی۔۔ایک بار صرف ایک بار مجھ سے کہہ کر تو دیکھتے پری زاد۔۔تب میں آپ کو بتاتی کہ آپ میرے لیے کیا ہیں۔اتنا کمزور سمجھ رکھا تھا آپ نے مجھے۔۔
عینی کو دور کھڑے قضاء کے فرشتے نے مجھے اشارہ کیا انشاء جی اٹھو۔۔اب کوچ کرو ۔۔
میں نے چند سانسیں مزید ادھار مانگیں اور اس مہہ وش کے ہاتھوں کو تھام لیا۔۔نہیں عینی۔۔میں تم پر زندگی کے رنگوں کے دروازے بند نہیں کرنا چاہتا تھا۔میرے نہ ہونے سے تمہاری روشن دنیا میں ایسی کون سی کمی ہوجاتی۔۔۔؟
میں تو یوں بھی تمہاری زندگی میں اضافی تھا۔۔اس کے آنسوں بارش کی تیز بوندوں کے ساتھ مل کر میرے چہرے کو پاک کرتے رہے۔پہلے میں خود نہیں جانتی تھی پری زاد مگر آپ سے دور ہوکر جانا کہ میری ہر کمی آپ سے ہی ہوتی ہوتی ہے۔۔آپ نے خود کھبی کہا نہیں اور مجھے امریکہ جاکر پتا چلا کہ آپ اضافی نہیں۔۔لازمی ہیں۔۔۔
میں نے عینی کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر پہلی مرتبہ اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔ہاں کھبی نہیں کہہ پایا۔۔مگر آج کہتا ہوں۔۔مجھے تم سے محبت ہے عینی بہت محبت شدید محبت۔۔
میری نبض ڈوب رہی تھی میرے کان میں قضاء دھیرے سے گنگنائی۔۔وحشی کو سکون سے کیا مطلب۔۔جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا۔۔؟؟
آس پاس کا سارا شور مجھے دھیرے دھیرے سرگوشیوں میں ڈھلتا محسوس ہورہا تھا۔۔جانے لوگ آپس میں کیا سرگوشیاں کررہے تھے؟
بارش تیز تر ہو کر بھی مجھے بھگو نہیں پارہی تھی اتنی تیز آندھی کے باوجود حبس سے میرا دم کیوں گھٹ رہا تھا وہ میرا سر گود میں لیے زارو قطار رو رہی تھی۔اور اللہ سے کہہ رہی تھی ۔۔زندگی سمٹ کر ان چند لمحوں میں سمٹ آئی ہے جب عمر بھر کی ریاضت اور دعائیں رنگ لاتی ہیں ۔۔
آج میری عمر بھر کی امید بھی پوری ہوئی۔اب بھلا کس کو جینے یا مرنے سے غرض تھی۔کتنی صدیاں اس ایک پل میں جی لی تھیں میں نے۔۔زندگی نے ہر قرض چکا دیا تھا میری اضافی اور مانگی ہوئی سانسیں پوری ہونے کو آئیں تو آس پاس دھیرے دھیرے روشنی کم ہونے لگی۔میری آنکھیں پتھرانے لگیں۔کھبی سنا تھا کہ دھڑکن بند ہو بھی جائے تو دماغ کچھ لمحے زیادہ جیتا ہے۔چاروں طرف ایک عجیب سا شور مچ گیا جیسے بہت سے لوگ مل کر بین کر رہے ہوں جانے سب رو کیوں رہے تھے میری پتھرائی آنکھیں تو ابھی تک اسی پر جمی ہوئی تھیں۔جس نے میری تکمیل کردی تھی خان دھاڑیں مار مار کر سب سے لپٹ کر میری اشارہ کر کے جانے کیا کچھ کہہ رہا تھا۔عدنان کی آنکھیں بھی برس رہی تھیں۔اس نے عینی کو تھام رکھا تھا۔ہاں اب وہی تو اس کا سہارا تھا کسی نے آگے بڑھ کر میرے جسم پر سفید چادر ڈال دی۔میرا چہرہ واضع رہا۔مجھے اپنے قدموں کی جانب سے خون کی گردش رک کر سارے جسم میں جامد ہوتی محسوس ہوئی اور میرے ذہن کے اندھیرے بڑھنے لگے۔پھر کسی نے آگے بڑھ کر میری آنکھوں ہر ہاتھ رکھ کر زور سے کہا۔۔۔انا للہ و انا آلیھ راجعون۔۔۔۔
اور میرے پیوٹے بند کردئیے اور میرا دماغ ہمیشہ کے لیے اندھیروں میں ڈوب گیا 
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
ضروری بات کہنی ہو
کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو۔ اسے واپس بلانا ہو
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اسے جاکر بتانا ہو...
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔۔۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
(ختم شدہ)۔۔۔