صفحات

تلاش کریں

قلم سرخرو ہے (احمد فراز کے مجموعہ "جاناں جاناں" سے نظموں کا انتخاب)












محفل میں کل فرازؔ ہی شاید تھا لب کُشا

مقتل میں آج کاسۂ سر بھی اسی کا تھا






یہ میری غزلیں، یہ میری نظمیں




یہ میری غزلیں، یہ میری نظمیں

تمام تیری حکایتیں ہیں

یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں

یہ شعر تیری شکایتیں ہیں

میں سب تری نذر کر رہا ہوں

یہ اُن زمانوں کی ساعتیں ہیں


جو زندگی کے نئے سفر میں

تجھے کسی وقت یاد آئیں

تو ایک اک حرف جی اُٹھے گا

پہن کے انفاس کی قبائیں

اداس تنہائیوں کے لمحوں

میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں


مجھے ترے درد کے علاوہ بھی

اور دکھ تھے، یہ مانتا ہوں

ہزار غم تھے جو زندگی کی

تلاش میں تھے، یہ جانتا ہوں

مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں

درد کی ریت چھانتا ہوں


مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر

یہ ریت رنگِ حنا بنی ہے

یہ زخم گلزار بن گئے ہیں

یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے

یہ درد موجِ صبا ہوا ہے

یہ آگ دل کی صدا بنی ہے


اور اب یہ ساری متاعِ ہستی

یہ پھول، یہ زخم سب ترے ہیں

یہ دکھ کے نوحے، یہ سکھ کے نغمے

جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں

جو تیری قربت، تری جدائی

میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں


وہ تیرا شاعر، تیرا مغنی

وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں

وہ جس کے انداز خسروانہ تھے

اور ادائیں غریب سی تھیں

وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی

خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں


نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ

بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے

وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن

کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے

وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ

اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے

٭٭٭



خواب مرتے نہیں


خواب مرتے نہیں

خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو

ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے

جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے

خواب مرتے نہیں

خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں، ہَوا ہیں

جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں

ظلم کے دوزخوں سے بھی پھُکتے نہیں

روشنی اور نوا اور ہَوا کے عَلم

مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں

خواب تو حرف ہیں

خواب تو نُور ہیں

خواب سقراط ہیں

خواب منصور ہیں

٭٭٭





مت سوچو!


اور اس نے

مرے ساغر میں

مئے سرخ انڈیلی۔۔۔ تو کہا

مت سوچو!


تم یہاں آئے ہو

اس ملک کے

اس شہر کے

اس حجلۂ تسکیں میں جہاں

سب کے سب رقص کناں

نغمہ بلب

مست ادا مت سوچو

جاگتی رات

کے چہرے پہ ہے خوشبو کی ردا

مت سوچو


تم بھی کیا لوگ ہو

پردیس بھی آتے ہو

تو لے آتے ہو

بیمار شب و روز و دل افگار

عزیزانِ وطن کی یادیں

اپنی ژولیدہ و بوسیدہ قمیصوں کی طرح

جن کے دھبّوں کو تو خود کار مشینیں بھی نہیں دھو سکتیں

یہ جو زنگار ہیں غربت کے

خود آزار جو تاریکیاں ذہنوں کی ہیں

آلائشیں جسموں کی ہیں

اس طرح سنبھالے ہوئے پھرتے ہو

کہ جیسے یہ تمہارے دل و جاں ہوں

اس گھڑی تم ہو جہاں

مملکت خواب نہیں

یاں کسی سوچ کا گرداب نہیں

زندگی مے کی طرح

شوخ ہے، طرّار نہیں

زہراب نہیں

اپنے کشکول کو دہلیز پہ رکھ آؤ

کہ دریوزہ گری

اس جگہ شاملِ آداب نہیں

مت سوچو!


پیرس 1974ء

٭٭٭




اب کس کا جشن مناتے ہو!



اب کس کا جشن مناتے ہو

 اُس دیس کا جو تقسیم ہوا

اب کس کا گیت سناتے ہو

اُس تن من کا جو دو نیم ہوا


اُس خواب کا جو ریزہ ریزہ

اِن آنکھوں کی تقدیر ہوا

اُس نام کا جو ٹکڑے ٹکڑے

گلیوں میں بے توقیر ہوا


اُس پرچم کا جس کی حرمت

بازاروں میں نیلام ہوئی

اُس مٹی کا جس کی حرمت

منسوب عدو کے نام ہوئی


اُس جنگ کا جو تم ہار چکے

اُس رسم کا جو جاری بھی نہیں

اُس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا

اُس جان کا جو واری بھی نہیں


اُس خون کا جو بد قسمت تھا

راہوں میں بہایا، تن میں رہا

اُس پھول کا جو بے قیمت تھا

آنگن میں کھِلا یا بن میں رہا


اُس مشرق کا جس کا تم نے

نیزے کی اَنی مرہم سمجھا

اُس مغرب کا جس کو تم نے

جتنا بھی لُوٹا کم سمجھا


اُن معصوموں کا جن کے لہو

سے تم نے فروزاں راتیں کیں

یا اُن مظلوموں کا جن سے

خنجر کی زباں میں باتیں کیں


اُس مریم کا جس کی عفّت

لُٹتی ہے بھرے بازاروں میں

اُس عیسےٰ کا جو قاتل ہے

اور شامل ہے غم خواروں میں


اُن نوحہ گروں کا جن نے ہمیں

خود قتل کیا خود روتے ہیں

ایسے بھی کہیں دمساز ہوئے

ایسے جلّاد بھی ہوتے ہیں


اُن بھوکے ننگے ڈھانچوں کا

جو رقص سرِ بازار کریں

یا اُن ظالم قزاقوں کا

جو بھیس بدل کر وار کریں


یا اُن جھوٹے اقراروں کا

جو آج تلک ایفا نہ ہوئے

یا اُن بے بس لا چاروں کا

جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے


اُس شاہی کا جو دست بدست

آئی ہے تمہارے حصّے میں

کیوں ننگِ وطن کی بات کرو

کیا رکھا ہے اِس قصّے میں


آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو

ہونٹوں پہ وفا کے بول لئے

اُس جشن میں شامل ہوں میں بھی

نوحوں سے بھرا کشکول لئے

٭٭٭





اے مرے یارِ قدح ریز!


چاند نکلا ہے مری آنکھ

مرے دل میں اُتارے ہے تجھے

آ مری یارِ قدح ریز

مرا جام پکارے ہے تجھے


یونہی تنہائی میں بیٹھا تھا

سرِ شام بھلائے ہوئے ساری دنیا

یونہی اک یاد سی جاگ اٹھی

تو لگنے لگی پیاری دنیا

میں تو جیسا بھی ہوں، خوش وقت ہوں

کیسی ہے تمہاری دنیا

تم نے جس داؤں کو جیتا ہے

اسی بازی میں ہاری دنیا


آ مرے یارِ قدح ریز!

مرا جام ہے خالی کب سے

مرا دل چُور ہے زخموں سے

مری آنکھ سوالی کب سے

پیشِ منظر میں اب آ جاؤ

کہ ہیں اصنام خیالی کب سے

منتظر ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرح

یوں بجاتے رہیں تالی کب سے

آ مرے یارِ قدح ریز!

مرا نام ہے گالی کب سے

٭٭٭




سحر کے سورج


سحر کے سورج

میں رو رہا ہو

کہ میرا مشرق لہو لہو ہے

وہ میرا شوق

جو میرا بازو ہے، میرا دل ہے، مری نمو ہے

جو میرے اطراف کا نشاں

میری آبرو ہے

لہو لہو ہے

سحر کے سورج

میں نصف تاریک

نصف روشن ہوں

کیا ہُوا ہے

تجھے گہن لگ گیا ہے

کہ میرا وجود ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے

تری شعاعوں کا نور اندھیروں میں گھٹ گیا ہے

کہ آج ہر رشتۂ رفاقت ہی کٹ گیا ہے


سحر کے سورج

میں اپنے پیکر کی نصف تصویر ہو گیا ہوں

میں آپ ہی آج اپنی تحقیر ہو گیا ہوں

میں اسمِ تصغیر ہو گیا ہوں

میں اپنا آدھا بدن لئے کس طرف کو جاؤں

کسے دکھاؤں

یہ شیشۂ جاں کی کرچیاں

اپنے خواب ریزے کہاں چھپاؤں

میں اپنی وحدت کہاں سے لاؤں


سحر کے سورج

ستم کی آندھی رُکے

تو میں یہ اجاڑ آنکھیں جھپک سکوں گا

سسک سکوں گا

لہو کی بارش تھمے

تو میں اس دکھی بدن کو تھپک سکوں گا

ابھی تو میں جانکنی کے دُہرے عذاب میں ہوں

جو بجھ چکے وہ چراغ دیکھوں

کہ اپنے ماتھے کا داغ دیکھوں


سحر کے سورج

مری نظر میں تو ان رفیقوں کے قافلے ہیں

جو گھر سے نکلے تھے سر اٹھائے قدم جمائے

جو منتظر تھے

کہ رزمِ گاہِ طلب بلائے

جو آزمائش کی ہر گھڑی میں

یقین کی مشعلیں جلائے

وطن کی ناموس کے لئے

بے شمار بازو عَلم اٹھائے

رواں ہوئے تھے یہ عہد کر کے

کہ ان کی جانیں رہیں کہ جائیں

مگر وفا پر نہ حرف آئے


سحر کے سورج

مری نظر میں انہی رفیقوں کے قافلے ہیں

کہ جن کا پندار ریزہ ریزہ

کہ جن کے ماتھے عرق عرق ہیں

جو پا بہ زنجیر

منفعل گردنیں جھکائے

عدع کے نرغے میں

ان اندھیروں کی سر زمیں کی طرف رواں ہیں

جہاں حقارت کے طعن

نفرت کے سنگ

رسوائیوں کے بازار

منتظر ہیں

سحر کے سورج

یہ میں نہ دیکھوں

یہ تُو نہ دیکھے

یہ جاں نثاروں شہید یاروں کا چمچاتا لہو نہ دیکھے

یہ میں نہ دیکھوں

یہ تُو نہ دیکھے

٭٭٭





وہ تو سب درد کے لمحے تھے



وہ تو اک خواب پریشاں تھا جو میں نے دیکھا

وہ تو سب درد کے لمحے تھے

جو مجھ پر گزرے

میرے ویران مہ و سال

مرے شام و سحر

میری مجروح محبت۔ مری درماں طلبی

سرِ دہلیزِ رقیباں

مری دریوزہ گری

آنکھ میں اشک ندامت کے

تو چہرے پہ فشارِ دل و جاں

میرا ماضی بھی اندھیرا

مرا فردا بھی دھواں

میں کہاں ڈھونڈتا

کھوئی ہوئی ہستی کے نشاں

تُو یہاں تھا نہ وہاں

میں یہاں تھا نہ وہاں

وہ تو سب درد کے لمحے تھے

جو مجھ پر گزرے

پھر یہ کیوں ہے

کہ مرا جسم مرا خوں

نہ ہُوا خاکستر

کون اس درد کے دوزخ میں

مہ و سال تلک جل کے بھی

استادہ رہا

زندہ رہنے پہ مصر

اور نئی زیست کا دلدادہ رہا

نئی سج دَھج سے بسر کرنے پہ آمادہ رہا

بس اسی درد کے دوزخ کا رہا ہوں ایندھن

اب جو ابھرا ہوں تو اس آگ سے کندن ہو کر

میں نے اس حسن کو پایا ہے بہت کچھ کھو کر

اپنے بکھرے ہوئے پندار

کا ریزہ ریزہ

چُن رہا ہوں شبِ صحرا سے ستاروں کی طرح

اپنے ملبوسِ دریدہ کے پریشاں ٹکڑے

جنبشِ سوزنِ امید کی خیاطی سے

سی رہا ہوں کہ مرا جسم برہنہ نہ رہے

میرے دیرینہ حریفوں کے لبوں پر کوئی طعنہ نہ رہے

مجھ پہ قرضِ غمِ جان و غمِ دنیا نہ رہے

وہ تو سب درد کے لمحے تھے

جو مجھ پر گزرے

اور اب میں نئے موسم میں

کسی شعلۂ بے باک، کسی پرچمِ پرّاں کی طرح

کرۂ خاک میں لہرانے لگا ہوں پھر سے

اے مرے لمحۂ آئندہ، مرے شوق کے فردا

تری منزل کی طرف آنے لگا ہوں پھر سے

اپنے خاشاک کو

انگار سے چمکانے لگا ہوں پھر سے

٭٭٭




جو سزا ہم کو ملے۔۔۔



اور ہمیں درد کی منزل پہ پہنچنے والے

کہہ رہے ہیں کہ اسے اور بھی آسان کرو

تاکہ ہم اپنے پرائے کو بھی پہچان سکیں

اور کچھ دوست اسی راہ میں قربان کرو


شام آئی ہے ہمیشہ یہی لالی لے کر

جو کبھی خونِ تمنا کبھی گلزار لگے

اتنی آشفتہ نہ تھی خواہشِ یاراں پہلے

اب تو ہر جذبۂ آسودہ بھی تلوار لگے


تُو کہ تنہا ہے مری طرح تو مجبور نہ بن

کارواں اتریں گے اس کوہِ ندا سے کتنے

شمعیں بجھ جائیں گی، خورشید ابھر آئیں گے

اور اسی ساحلِ اُمّید سے پیاسے کتنے


یوں پکاریں گے کہ یہ بوند سمندر کر دے

آج مصلوب جو ہو، اس کو پیمبر کر دے

یہ جو ہونا ہے تو ہم یونہی گنہگار رہیں

جو سزا ہم کو ملے، اس کے سزاوار رہیں

٭٭٭



سچ بھی جھوٹا ہے


سچ بھی جھوٹا ہے

کہ اِس کے بھی کئی چہرے ہیں

ایک چہرہ کہ ترے قرب کی ساعت میں مجھے

نہ کوئی خواہشِ آغوش رسی

اور نہ تمنائے وصال


ایک چہرہ کہ

ترے جسم کی حرمت کی قسم کھا کے

ہر اک دیدۂ مشکوک کو سمجھاتا رہا

آسمانوں کے صحیفوں سے اتارے ہوئے

الفاظ کو دہراتا رہا

ایک چہرہ

کہ ترے پاس سے اٹھا ہوں

تو خود سوچتا ہوں

کہ مرا سرد لہو

گرمئ شوق سے اور آتشِ محرومی سے

کیوں پھکتا ہے

اور بدن

نشّے کے عالم میں بھی کیوں دُکھتا ہے

٭٭٭



تو بہتر ہے یہی



یہ تری آنکھوں کی بیزاری، یہ لہجے کی تھکن

کتنے اندیشوں کی حامل ہیں یہ دل کی دھڑکنیں

پیشتر اس کے کہ ہم پھر سے مخالف سمت کو

بے خدا حافظ کہے چل دیں جھکا کر گردنیں


آؤ اس دکھ کو پکاریں جس کی شدت نے ہمیں

اس قدر اک دوسرے کے غم سے وابستہ کیا

وہ جو تنہائی کا دکھ تھا تلخ محرومی کا دکھ

جس نے ہم کو درد کے رشتے میں پیوستہ کیا


وہ جو اس غم سے زیادہ جاں گسل قاتل رہا

وہ جو اک سیلِ بلا انگیز تھا اپنے لئے

جس کے پَل پَل میں تھے صدیوں کے سمندر موجزن

چیختی یادیں لئے، اجڑے ہوئے سپنے لئے


میں بھی ناکامِ وفا تھا، تو بھی محرومِ مراد

ہم یہ سمجھے تھے کہ دردِ مشترک راس آ گیا

تیری کھوئی مسکراہٹ قہقہوں میں ڈھل گئی

میرا گم گشتہ سکوں پھر سے مرے پاس آ گیا


تپتی دوپہروں میں آسودہ ہوئے بازو مرے

تیری زلفیں اس طرح بکھریں، گھٹائیں ہو گئیں

تیرا برفیلا بدن بے ساختہ لَو دے اٹھا

میری سانسیں شام کی بھیگی ہوائیں ہو گئیں


زندگی کی ساعتیں روشن تھیں شمعوں کی طرح

جس طرح سے شام گزرے جگنوؤں کے شہر میں

جس طرح مہتاب کی وادی میں دو سائے رواں

جس طرح گھنگھرو چھنک اٹھیں نشے کی لہر میں


آؤ یہ سوچیں بھی قاتل ہیں تو بہتر ہے یہی

پھر سے ہم اپنے پرانے زہر کو امرت کہیں

تو اگر چاہے تو ہم اک دوسرے کو چھوڑ کر

اپنے اپنے بے وفاؤں کے لئے روتے رہیں

٭٭٭



ترچ میر


ترچ میر!

میں تیرے قدموں میں

اک بے وقر سنگ ریزے کی صورت

تری جاں رُبا رفعتوں کی طرف دیکھتا ہوں

تری چوٹیاں

برف کے تاج پہنے

ازل سے اسی تمکنت سے ستادہ ہیں

سورج کی لالی میں ڈوبے ہوئے ابر

ان کا لبادہ ہیں

اور آسمانی ہواؤں کی مانند

مشرق سے مغرب تلک

ان کے دامن کشادہ ہیں

اے آسمانی ہواؤں کے مسکن

تری آنکھ نے

روز و شب کے سپید و سیہ

اَن گنت قافلوں کا تماشا کیا ہے

تری بے صدا گھاٹیوں سے

کئی فاتحوں کے جری لشکروں نے گزرتے ہوئے

صاف و شفّاف چشموں کا پانی پیا ہے

کنر

وقت کی آبجو کی طرح

تیرے پہلو میں بہتا ہے

اور ان کی تاریخ کہتا ہے

جو اب عدم کا سفر کر چکے ہیں

جو تیرے مکینوں کی مانند

زندہ ہیں

پر مر چکے ہیں

میں اُن کی صدا سن رہا ہوں

تو کیا

اپنے مردوں کی پرچھائیاں

صرف غیض و غضب جانتی ہیں

تو کیا قہر ہی

ان کی برحق عدالت کا دستور ہے

صرف ادبار کی بجلیاں

ان کا سارا اثاثہ ہیں

اور اپنی درگاہ کے سائلوں میں

ہمیشہ عذابوں کی خیرات ہی بانٹتے ہیں

قیامت ہے

اے اپنے آبا کی روحوں کے مسکن

کہ وادی کے ہر کھیت پر بانجھ پن کی نحوست ہے

اور مرد و زن، ڈھور ڈنگر

سبھی بھوک سے ادھ موئے ہو رہے ہیں

ہمارے سیہ بخت بچے فلاکت کے غاروں میں دبکے ہوئے

تیرے سورج کی ضو کو ترستے ہیں

پالے کی شدت سے ہر اک چراگاہ

صحرا کی مانند سوکھی پڑی ہے

اندھیرے گھنے جنگلوں کے درندوں

کی خونخوار آنکھیں ہمیں حرص سے

دیکھتی ہیں

ترے موسموں اور گھٹاؤں کی بخشش

فقط قحط ہے

قہر ہے

غیض ہے

اے ترچ میر

تو کتنا بے فیض ہے!

٭٭٭



قلم سرخرو ہے



قلم سرخرو ہے

کہ جو اس نے لکھا

وہی آج میں ہوں

وہی آج تُو ہے

قلم نے لکھا تھا

کہ جب بھی زبانوں پہ پہرے لگے ہیں

تو بازو سناں تولتے ہیں

کہ جب بھی لبوں پر خموشی کے تالے پڑے ہوں

تو زنداں کے دیوار و در بولتے ہیں

کہ جب حرف زنجیر ہوتا ہے

شمشیر ہوتا ہے آخر

تو آمر کی تقدیر ہوتا ہے آخر

کہ جو حرف ہے، زیست کی آبرو ہے

قلم سرخرو ہے


قلم نے لکھا تھا

یہ دھرتی اسی کی ہے جو

ظلم کے موسموں میں

کھُلے آسمانوں تلے

اس کی مٹی میں اپنا لہو گھولتا ہے

جو اپنے لہو کی تمازت سے

زلفِ نمو کی گرہ کھولتا ہے

وہی جس کی پوروں کے مَس سے

سکوتِ زمیں بولتا ہے

مگر جس نے بویا تھا، کاٹا تھا

اس کے مقدر میں نانِ جویں تک نہ تھی

جس کا پیکر مشقت سے پتھرا گیا

اور جس کے لبوں پر نہیں تک نہ تھی

اسی سے عبارت یہ سب رنگ و بُو ہے

قلم سرخرو ہے


قلم سرخرو ہے

کہ اس نے لکھا تھا

وہ بازو

جو پتھر سے ہیرے تراشیں

مگر بے نشاں اُن کے گھر

بے کفن اُن کی لاشیں

وہی کوہکن

جن کے تیشے پہاڑوں کے دل چیر ڈالیں

مگر خسروانِ جہاں ان کی شیریں چُرا لیں

وہی جن کے جسموں کے پیوند

اہلِ ہوس کی قبا میں لگے تھے

وہی سادہ دل

جن کی نظریں فلک پر جمی تھی

تو لب منعموں کی ثنا میں لگے تھے

اب اُن کی ثنا چار سُو ہے

قلم سرخرو ہے

٭٭٭



خٹک ناچ



اک ہاتھ میں رومال ہے، اک ہاتھ میں تلوار

پشتون کا کردار

جو پیار کرے پیار ملے، وار کرے وار

ہر بات پہ تیّار


کہسار کے سورج کی طرح گرم و شفق رو

خیبر کی ہواؤں کی طرح تُند و تنک خُو

یہ نغمۂ دلدار کبھی۔۔۔ شعلۂ بیدار

پشتون کا کردار


یہ مردِ کہستاں جو چٹانوں میں ڈھلا ہے

شاہیں صفت آزاد فضاؤں میں پلا ہے

رقصندہ و رخشندہ و تابندہ و طرّار

پشتون کا کردار


یہ رقصِ وفا کا بھی جنوں کا بھی یہی رقص

جینے کی ادا گردشِ خوں کا بھی یہی رقص

وہ جنگ کا میدان ہو یا امن کا دربار

پشتون کا کردار


جو پیار کرے پیار ملے، وار کرے وار

ہر بات پہ تیّار

پشتون کا کردار

٭٭٭


عید کارڈ


تجھ سے بچھڑ کر بھی زندہ تھا

مر مر کر یہ زہر پیا ہے

چپ رہنا آسان نہیں تھا

برسوں دل کا خون کیا ہے

جو کچھ گزری، جیسی گزری

تجھ کو کب الزام دیا ہے


اپنے حال پہ خود رویا ہوں

خود ہی اپنا چاک سِیا ہے

کتنی جانکاہی سے میں نے

تجھ کو دل سے محو کیا ہے

سنّاٹے کی جھیل میں تُو نے

پھر کیوں پتھر پھینک دیا ہے ٭٭٭



میورکا

(سپین کا ایک خوبصورت جزیرہ)



میورکاؔ کے ساحلوں پہ کس قدر گلاب تھے

کہ خوشبوئیں تھیں بے طرح کہ رنگ بے حساب تھے

تنک لباسیاں شناوروں کی تھیں قیامتیں

تمام سیم تن شریکِ جشنِ شہرِ آب تھے

شعاعِ مہر کی ضیا سے تھے جگَر جگَر بدن

قمر جمال جن کے عکس روشنی کے باب تھے

کھلی فضا کی دھوپ وہ کہ جسم سانولے کرے

بُتانِ آذری کہ مستِ غسلِ آفتاب تھے

یہیں پتہ چلا کہ زیست حسن ہے بہار ہے

یہی خبر ہوئی کہ زندگی کے دکھ سراب تھے

یہیں لگا کہ گردشوں کے زاویے بدل گئے

نہ روز و شب کی تلخیاں نہ وقت کے عذاب تھے

مرے تمام دوست اجنبی رفاقتوں میں گم

مری نظر میں تیرے خدّ و خال تیرے خواب تھے

میں دُوریوں کے با وجود تیرے آس پاس تھا

میورکاؔ کے ساحلوں پہ میں بہت اداس تھا


سپین

1976ء

٭٭٭



اہلِ تاشقند کے نام

(ایک مجسمہ دیکھ کر)


کانسی کے مجسّمے میں کیا کیا

اظہار ہے، کرب ہے، نمو ہے


انسان کے عزم کی علامت

فطرت کے ستم کے روبرو ہے


ہاتھوں میں غضب کا حوصلہ ہے

ماتھوں پہ جلالِ آبرو ہے


آنکھوں میں وقار فاتحانہ

چہروں پہ گلاب سا لہو ہے


ہر بار بلا کا رَن پڑا تھا

ہر بار حیات سرخرو ہے


جیسے کہ مجسّمے میں مَیں ہُوں

جیسے کہ مجسّمے میں تُو ہے

تاشقند۔ 1976ء

٭٭٭



کہا نہیں تھا



کہا تھا

اُس شہر کو نہ جاؤ

اب اپنی آنکھوں سے دیکھ آئے

تو رو رہے ہو

کہ اب وہاں تم نہیں

نئے لوگ بس گئے ہیں

کہا تھا

اب شہرِ آرزو

دشتِ جاں رُبا ہے

گئے زمانوں کی خوشبوئیں کب سے مر چکی ہیں

جدائیاں کام کر چکی ہیں

تمہارے نغموں کے نرم پودے

نئی رتوں کی شدید لُو سے جھلس گئے ہیں

گلاب کے سرخ سرخ پھولوں کو

کاسنی سانپ ڈس گئے ہیں

وہ گفتگوؤں کی آبجوئیں

سکوت کے ریگزار میں دفن ہو گئی ہیں

وہ عہد و پیماں کی فاختائیں

افق کے اُس پار کھو گئی ہیں

کہا تھا۔۔۔ وہ ساعتیں نہ لَوٹیں گی

جو گئی ہیں

کہا تھا

تم قرب کے نشے میں

اَنا کے مینار چُن رہے ہو

کہا تھا

تم اس وفا کے صحرا میں

اپنی آواز سن رہے ہو

ڈراؤنے خواب بُن رہے ہو

تمہیں بڑا زعم تھا

کہ آنکھوں کے آئنوں سے

ہر انجمن کو سجا رہے تھے

تمہیں غرور اپنی ذات پر تھا

کہ اپنا سب کچھ لُٹا رہے تھے

کہا تھا

ان آئنوں کو اب دیکھنے نہ جاؤ

کہ ان میں اوروں کے عکس ہوں گے

کہا تھا

ان راستوں پر اب تم نہ گنگناؤ

کہ دوسرے محوِ رقص ہوں گے

یہ آئنے

جو ہر ایک دیوار پر سجے ہیں

تمہارے اشکوں کی کانچ ہے بس

یہ برف کے پیکروں کے شعلے

تمہارے سانسوں کی آنچ ہے بس

فراق کی بات ہی جدا ہے

یہاں تو آنکھوں سے آئنوں سے

جو عکس اوجھل ہوا

تو پھر وہ کہیں نہیں تھا

پلٹ کے آئے تو کیا

نہ آئے تو کیا

کہ آنکھیں تو آئنے ہیں

اور آئنوں کو غرض نہیں ہے

کہ کون چہرہ نظر نشیں تھا

وہ کوئی پتھر تھا یا نگیں تھا

کہا نہیں تھا

٭٭٭


میں ترا قاتل ہوں


میں ترا قاتل ہوں

اے مشرق مجھے مصلوب کر

میں جو عیسا کے لبادے

میں ترے بیمار فرزندوں کے گھر

آیا تھا

کل چارہ گری کے واسطے

میں نے ان سے کیا کِیا

میں کہ درماں بن کے آیا تھا

ترے ناسور زخموں کے لئے

بارود کا مرہم لئے

بندوق کا پرچم لئے

میرے بوجھل بوٹ

جن کی چاپ

تیرے چوبداروں سی تھی

اب کی بار ایسے زلزلے لائے

کہ تیرے ہنستے بستے شہر ملبے بن گئے

(اور در و دیوار کے ڈھیروں میں کرلاتا ہوا

گونگے مکینوں کا لہو)

خاک و خوں کے اس گلابے سے

میں اپنے بھاری بوٹوں کو نکالوں کس طرح

یہ مری بندوق میرے دوش پر بارِ گراں ہے

اور زمیں مجھ کو نگلتی جا رہی ہے دم بدم

میرے مشرق

جانکنی کے اس مسلسل کرب سے

مجھ کو بچا میرے لہو میں ڈوب کر

میں ترا قاتل

ترا عیسا

مجھے مصلوب کر

٭٭٭




میں اکیلا کھڑا ہوں


پیمبر!

تری بارگاہِ  معلّیٰ میں

عصیاں کے انبار سے سر نگوں

اک گنہگار انساں کھڑا ہے

نہ اس کے بدن پر عبا و قبا ہے

نہ ہاتھوں میں تسبیح کا سلسلہ ہے

نہ ماتھے پہ محرابِ داغِ ریا ہے

یہ وہ بد مقدّر ہے

جس کا بدن بارشِ سنگِ خلقت سے

غربال ہے

جس کی گردن میں طوقِ ملامت پڑا ہے

یہ زندہ گڑا ہے


یہ مجرم ہے

ان دائمی اور سفّاک سچائیوں کا

کہ جو تُو نے کاذب جہاں کو عطا کیں

یہ محرم ہے

ان بے غرض جراتوں کا

جو تُو نے ہر اک ناتواں کو عطا کیں

یہ کہتا ہے

اے دائمی حکمتوں کے پیمبر

کہ انسان سارے برابر ہیں

ان میں کوئی کم نسب کوئی برتر نہیں ہے

یہ کہتا ہے

الفاظ سب سے مقدس ہیں

اور حرف

 کی روشنی سے

کوئی نور بڑھ کر نہیں ہے

یہ سرکش

مقدر کو انساں کا رہوار کہتا ہے

آدم کو نقّاشِ ہستی کا شہکار کہتا ہے

کیا کچھ یہ ظالم گنہگار کہتا ہے

اے روشنی کے پیمبر

یہ شوریدہ سر

حرف زن ہے

کہ محراب و منبر سے

فتویٰ گر و فتنہ پردازِ دیں

حرفِ حق بیچتے ہیں

فقیہانِ مسند نشیں

حرصِ دینار و درہم میں

تیرے صحیفے کا اک اک ورق بیچتے ہیں

یہ خلقت کا خوں

اور اپنی جبیں کا عرق بیچتے ہیں


پیمبر!

مجھے حوصلہ دے

کہ میں ظلم کی قوّتوں سے

اکیلا لڑا ہوں

کہ میں اس جہاں کے جہنّم کدے میں

اکیلا کھڑا ہوں

٭٭٭



سلام اُس پر!


حسین!

اے میرے سر بریدہ

بدن دریدہ

سدا ترا نام بر گزیدہ

میں کربلا کے لہو لہو دشت میں تجھے

دشمنوں کے نرغے میں

تیغِ در دست دیکھتا ہوں

میں دیکھتا ہوں

کہ تیرے سارے رفیق

سب ہمنوا

سبھی جانفروش

اپنے سروں کی فصلیں کٹا چکے ہیں

گلاب سے جسم اپنے خوں میں نہا چکے ہیں

ہوائے جانکاہ کے بگولے

چراغ سے تابناک چہرے بجھا چکے ہیں

مسافرانِ رہِ وفا لُٹ چکے ہیں

اور اب فقط تُو

زمین کے اس شفق کدے میں

ستارۂ صبح کی طرح

روشنی کا پرچم لئے کھڑا ہے


یہ ایک منظر نہیں ہے

اک داستاں کا حصہ نہیں ہے

اک واقعہ نہیں ہے

یہیں سے تاریخ

اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے

یہیں سے انسانیت

نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے


میں آج اسی کربلا میں

بے آبرو سر نگوں سر

شکست خوردہ خجل کھڑا ہوں

جہاں سے میرا عظیم ہادی

حسین کل سرخرو گیا ہے


میں جاں بچا کر

فنا کے دلدل میں جاں بلب ہوں

زمین اور آسمان کے عزّ و فخر

سارے حرام مجھ پر

وہ جاں لُٹا کر

منارۂ عرش چھُو گیا ہے

سلام اُس پر

سلام اُس پر

٭٭٭

٭٭٭

ٹائپنگ: محمد بلال اعظم

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عید