صفحات

تلاش کریں

شخصیت--سلطان ٹیپو( ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی)



بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ 

پہلی بات

اِس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ہمارے ملک ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے اور آزادی کا جھنڈا بلند رکھنے میں کشمیر سے راس کماری تک اور گجرات سے بنگال تک بہت سے حکمرانوں اور عوام و خواص نے بے انتہا کوششیں کیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ لیکن اِن میں ایک اہم کردار کے طور پر نام آتے ہیں ’’ سلطنتِ خداداد میسور‘‘ کے سلطان حیدر علی اور ان کے بہادر بیٹے شیرِ میسور سلطان فتح علی ٹیپو کے۔۔۔
سلطان ٹیپو کے والد حیدر علی نے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ اُن کے دل میں بچپن ہی سے چلتے پھرتے، بیٹھتے اُٹھتے اورسوتے جاگتے صرف آزادی کی لگن تھی۔ ان کا نعرہ تھا کہ :’’ ہندوستان ہندوستانیوں کاہے۔‘‘ وہ ہر قسم کی آزادی چاہتے تھے۔ ہندوستان میں تجارت کے نام پر آ کربسنے اور حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والے انگریزوں کو ختم کرنا اُن کی زندگی کاسب سے بڑا مشن تھا۔ 
سلطان ٹیپو ایک ایسے جواں دل اور بہادر سپہ سالار تھے کہ ان کی جواں مردی اور بہادری کو دیکھ کر بڑے بڑے انگریز سپہ سالار اور جرنیل کانپ جایا کرتے تھے۔ ٹیپو نے جنگوں میں جو ہوشیاری اور کمال دکھایا وہ تو تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے ہی لیکن انھوں نے اپنی عوام کی فلاح و بہبود اور ریاست کی خوش حالی کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ اِس جدید زمانے میں ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ 
ٹیپو نے جس دور میں آنکھ کھولی اُس وقت ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کافی ترقی کر رہی تھی۔ ہندوستان کے زیادہ تر راجا اور نواب انگریزوں کے رحم و کرم پر تھے۔ قتل و خون کا بازار گرم تھا۔ مردوں کو قتل کیا جاتا۔ عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کی جاتی۔ اس وقت ہندوستان میں دو بڑی طاقتیں مرہٹہ اور نظام حیدرآباد کی تھیں۔ اسی دور میں میسور کی ’’سلطنتِ خداداد ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ حیدر علی اور ٹیپو کے دل میں انگریزوں سے سخت نفرت تھی۔ انگریزوں نے بھی یہ بھانپ لیا تھا کہ حیدر علی اور ٹیپو کو ختم کیے بغیر ہم ہندوستان پر قبضے کا اپنا خواب مکمل نہیں کرسکتے۔ اس لیے اُن لوگوں نے اپنے ساتھ مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کو ملا کر حیدر علی اور ٹیپو کو کمزور کرنا شروع کیا۔ سلطان ٹیپو کے حالات سے پہلے یہ مختصر تمہید اِس لیے پیش کی گئی ہے کہ پڑھنے والوں کو ٹیپو کے دور کا ہلکا سا نقشہ سمجھ میں آ جائے۔





سلطان ٹیپو کے خاندانی حالات 


دوسو سال پہلے کی بات ہے۔ جب کہ ہمارے ملک ہندوستان میں مغل بادشاہوں کی حکومت دھیرے دھیرے کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے پوری زندگی کام یابی کے ساتھ حکومت کی۔ وہ رعایا پر بے حد عادل اور مہربان تھے۔ اُن کے دورِ اقتدار میں انھوں نے پورے ملک بھارت کو منظم اور متحد رکھا۔ جہاں بھی بغاوت کی خبر ملی سختی سے باغیوں کا سر کچلا۔ لیکن ان کے بعد دہلی کے تخت پر جو بادشاہ ہوئے، اُن میں اکثر نا اہل اور کم زور ثابت ہوئے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر ہندوستان کے مختلف صوبوں اور علاقوں کے راجوں، نوابوں اور صوبے داروں نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی خود مختار اور آزاد حکومتیں بنا لیں۔ ہندوستان میں جاری اس آپسی جنگوں اور دہلی کے بادشاہ کی کم زوری کی وجہ سے تجارت کے نام پر آنے والے انگریزوں نے بھی اپنے پیر مضبوطی سے جما لیے اور ان لوگوں نے یہاں کے نوابوں اور راجوں کو مزیدآپس میں لڑا کر ملک کے ایک بڑے حصے پر اپنا قبضہ جما لیا۔ اُس زمانے میں جنوبی ہندوستان کی ایک مشہور ریاست میسور تھی جو آج کل ریاست کرناٹک میں واقع ہے۔ وہاں بھی ایک راجا کی حکومت تھی، اسی راجا کی فوج میں حیدر علی ملازم تھے۔ انگریز اس ریاست پر بھی اپنا قبضہ جمانا چاہتے تھے۔ لیکن حیدر علی جیسی شخصیت نے انگریزوں کے اس ارادے کو بھانپ لیا اور اس نے اُن کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ شیرِ ہندوستان سلطان ٹیپو اسی با ہمت باپ حیدر علی کے بیٹے تھے، جنھوں نے ہندوستان میں پہلی بار انگریزوں کو للکار کر یہ کہا تھا کہ :’’ ہندوستان ہندوستانیوں کاہے۔‘‘ 
حیدر علی اور سلطان ٹیپو کے آبا و اجداد قریش نسل سے تھے۔ اُن کے بزرگ محمد بہلول مکّے سے روزگار کی تلاش کے لیے پہلے بغداد اور پھر وہاں سے ہندوستان آئے۔چند ماہ دہلی میں قیام کیا۔ یہاں انھوں نے گلبرگہ کی شہرت سُنی تو اپنے دو لڑکوں علی محمد اور ولی محمد کے ساتھ دہلی سے گلبرگہ آ کر مقیم ہو گئے۔ اُس وقت یہ شہر بیجاپور کے بادشاہوں کے قبضے میں تھا۔ یہاں پہنچ کر انھوں نے اپنے بیٹوں علی محمد اور ولی محمد کی شادیاں کیں۔علی محمد کی شادی درگاہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کے سجادہ نشین کے خاندان میں ہوئی تھی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علی محمد کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ یہی علی محمد، حیدر علی کے دادا اور سلطان ٹیپو کے پردادا تھے۔ 

حیدر علی 

سلطان ٹیپو کے پر دادا علی محمد کچھ سال گلبرگہ میں رہنے کے بعد بیجا پور چلے گئے۔ اُن کے چار بیٹے تھے۔ اُن میں فتح محمد سب سے چھوٹے تھے۔ فتح محمد کی بیوی کا نام مجیدہ بیگم تھا۔ فتح محمد کے تین بیٹے شہباز، ولی محمد اور حیدر علی تھے۔ حیدر علی کی پیدایش سے پہلے فتح محمد نے اپنی بیوی مجیدہ بیگم کو اُس زمانے کے ایک مشہور صوفی بزرگ کے پاس بھیجا کہ وہ بچّے کے لیے دعا کریں۔ بزرگ نے یہ خوش خبری دی کہ: ’’ جو بیٹا ہو گا وہ تاریخ میں بہت شہرت حاصل کرے گا، اُس کا نام حیدر علی رکھا جائے۔‘‘ جب فتح محمد کے یہاں ۱۷۲۱ء میں تیسرے بیٹے کی پیدایش ہوئی تو انھوں نے اُس کا نام حیدر علی رکھا۔ 
فتح محمد اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لیے گلبرگہ کے صوبے دار عابد خان کی فوج میں نوکری کرنے لگے۔ فوج میں انھوں نے اپنی بہادری اور جنگی مہارت کے خوب جوہر دکھائے جس کی وجہ سے صوبے دار عابد خان نے انھیں اہم منصب پر فائز کر دیا۔ ابھی حیدر علی صرف پانچ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد فتح محمد ایک جنگ کے دوران مارے گئے، حیدر علی پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ اپنے بڑے بھائی شہباز کے ساتھ میسور چلے آئے۔جہاں ان کا چچا زاد بھائی راجا کی فوج میں ملازم تھا۔اس نے دونوں بھائیوں کی دیکھ بھال کی اور انھیں فوجی تربیت دی۔ غربت اور تکلیفوں کا حیدر علی اور ان کے بھائی شہباز دونوں نے ڈٹ کا مقابلہ کیا۔ جب حیدر علی کی عمر ۱۷؍ سال ہوئی تو ان کے چچا زاد بھائی نے انھیں راجا کی فوج میں بھرتی کروا دیا۔ راجا اور اس کے وزیر اعظم نند راج نے حیدر علی کی قابلیت اور صلاحیت دیکھ کر انھیں شروع ملازمت کے دنوں میں ہی پچاس سواروں کا افسر مقر ر کر دیا۔ جب حیدر علی کی عمر ۱۹؍ سال ہوئی تو فخر النساء عرف فاطمہ بیگم سے ان کی شادی ہوئی۔

سلطان ٹیپو کی پیدایش

حیدر علی کی شادی کو کئی سال گذر جانے کے بعد بھی ان کے یہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ دونوں میاں بیوی بڑے فکر مند رہنے لگے۔ اُن دنوں دکن میں ایک بزرگ حضرت ٹیپو مستان ولی رحمۃ اللہ علیہ بہت مشہور تھے۔ لوگ دور دور سے اُن کے پاس حاضر ہوتے اور اپنے لیے دعا کراتے تھے۔ حیدر علی نے جب یہ خبر سنی تو وہ بھی ایک روز حضرت ٹیپو مستان ولی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی۔ حضرت ٹیپو مستان رحمۃ اللہ علیہ نے دعا کے ساتھ یہ خوش خبری بھی سنائی کہ: ’’ اللہ تعالیٰ جلد ہی تمہارے گھر ایک بیٹا پیدا کرے گا جس کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘
حضرت ٹیپو مستان رحمۃ اللہ علیہ کی دعا قبول ہوئی اور۲۰؍ ذی الحجہ ۱۱۶۳ھ مطابق ۲۰؍ نومبر ۱۷۵۰ء کو جمعہ کے دن حیدر علی کے گھر ایک چاند سا خوب صورت بیٹا پیدا ہوا۔ حیدر علی نے بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر ادا کیا اور خزانے کا منہ کھول دیا۔ خوب خیرات کی۔ صدقے دیے اور چالیس روز تک جشن منایا۔ چوں کہ یہ بچّہ حضرت ٹیپو مستان رحمۃ اللہ علیہ کی دعا سے پیدا ہوا تھا اس لیے حیدر علی نے عقیدت و محبت میں اپنے اس بیٹے کا نام  ’’فتح علی ٹیپو‘‘  رکھا۔ 
سلطان ٹیپو کی پیدایش حیدر علی کے لیے نیک فال ثابت ہوئی۔ اُن کے دن پھر گئے۔ ٹیپو جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے۔ حیدر علی کو ترقی ملتی گئی۔ وہ جس مہم پر بھی گئے وہاں سے فتح و کامرانی حاصل کر کے لوٹے۔ وزیر اعظم نند راج نے انھیں بغاوت کچلنے کے لیے ڈنڈیکل روانہ کیا۔ حیدر علی نے اپنی خدا داد ذہانت اور بہادری سے باغیوں کا سر کچل کر بغاوت پر قابو پا لیا۔ راجا حیدر علی کے اس کارنامے سے بے حد خوش ہوا اور حیدر علی کو ڈنڈیکل کا گورنر مقر ر کر دیا۔
فتح علی ٹیپو اپنے باپ حیدر علی کے ساتھ ڈنڈیکل میں بڑے لاڈ پیار سے پرورش پاتے رہے۔ حیدر علی نے ڈنڈیکل کا بگڑا ہوا نظم و نسق درست کیا اور بغاوت پر مکمل طور پر قابو پا لیا۔ راجا نے حیدر علی کی مزید ترقی کر دی۔ وہ میسور کی راجدھانی سری رنگا پٹّم واپس آ گئے۔۱۷۵۴ء میں مرہٹوں نے میسور پر حملہ کر دیا۔چوں کہ میسور کا راجا کمزور تھا اِس لیے اُس نے مرہٹوں کو تاوانِ جنگ دینے کا وعدہ کر کے صلح کر لی اور اپنے کچھ علاقے مرہٹوں کو سونپ دیے۔ اس طرح میسور سے ایک بڑی جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ راجا کے اِس فیصلے سے میسور کی فوج کے بہت سارے ذمہ دار ناراض ہو گئے۔ جب مرہٹہ سردار گوپال راؤ نے ۱۷۵۵ء میں دوبارہ میسور کے راجا سے ایک کروڑ روپے ہرجانے کا مطالبہ کیا تو راجا کے درباریوں نے اس پر مقابلے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ آخر کار مراٹھوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے کے لیے حیدر علی کو فوج کا سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا۔ حیدر علی نے اس جنگ میں مرہٹوں کو عبرت ناک شکست دی۔اِس فتح کی خوشی میں راجا اور وزیر اعظم نے حیدر علی کو میسور کی تمام فوج کا سپہ سالار مقر ر کر دیا۔

سلطان ٹیپو کی تعلیم و تربیت 

اب حیدر علی کا زیادہ تر وقت سری رنگا پٹّم میں گذرتا تھا۔ ٹیپو کی عمر جب پانچ سال کی ہوئی تو اس کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ٹیپو کو پڑھانے کے لیے حیدر علی نے اس وقت کے ماہر اور بہترین اساتذہ کو مقر ر کیا۔ جنھوں نے ٹیپو کی اُس خوش اسلوبی سے تربیت کی کہ وہ جلد ہی مختلف علوم و فنون کے ماہر بن گئے۔ ٹیپو کو اِن اساتذہ نے دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی زبان بھی سکھائی۔ اگرچہ حیدر علی کو انگریزی اور فرانسیسی زبانیں نہیں آتی تھیں لیکن اُس نے ٹیپو کو یہ غیر ملکی زبانیں اس لیے سکھائیں کہ وہ انگریزوں اور فرانسیسیوں سے آسانی کے ساتھ انھیں کی زبان میں بات چیت کرسکے۔ 
ٹیپو کو مطالعہ کا اتنا شوق تھا کہ دن بھر کتاب ہاتھ سے چھوٹنے نہ پاتی تھی۔ ایک روز کتاب پڑھنے میں مشغول تھے کہ وہاں حیدر علی آئے۔ سلطان ٹیپو کو ان کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی تو حیدر علی نے ٹیپو سے یوں کہا :’’ جانِ پدر! سلطنت کے لیے قلم سے زیادہ تلوار کی ضرورت ہے۔‘‘ ٹیپو پر اِس جملے کا بڑا اثر ہوا اور اُس کی زندگی کا رُخ ہی بدل گیا۔ جنگجو دادا اور بہادر باپ کے اِس شیر دل بیٹے نے فنونِ جنگ میں بڑی مہارت حاصل کر لی۔ گھوڑ سواری اور نیزہ بازی میں اس کا مقابل پورے ملک میں کوئی نہ تھا۔ تیر اندازی اور تلوار بازی میں بھی ٹیپو ماہر اور یکتا بن گیا۔ حیدر علی نے اس کی جنگی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اسے جنگ کے داؤ پیچ بڑی باریکی سے سکھائے۔ 
صرف سولہ سترہ سال کی عمر ہی سے ٹیپو کی جنگی فہم و فراست کے جوہر کھلنے لگے۔ وہ کم عمری ہی میں ایک لائق جنرل کے روپ میں سامنے آئے۔ مرہٹوں سے جنگ میں اپنے باپ حیدر علی کے ساتھ ٹیپو نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ حیدر علی نے جب ٹیپو کی بہادری اور جواں مردی دیکھی تو آزادانہ طور پر ایک مختصر فوج کی کمان سونپ دی۔ 
ٹیپو کی تربیت میں ان کے باپ حیدر علی نے ایک اور اہم بات کا خاص جو خیال رکھا وہ اپنے وطن بھارت سے سچی محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن ہی سے ٹیپو کے دل میں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے صرف آزادی کی لگن تھی۔ وہ کہتے تھے کہ :’’ ہندوستان ہندوستانیوں کاہے۔‘‘ اُن کی بہادری اور بلند ہمتی کا اندازہ ان کے ایک مشہور قول سے لگایا جاسکتا ہے جو کہ ہر آنے والی نسل کے لیے ایک سبق ہے  : ’’ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔‘‘
انگریزوں سے ان کے دل میں بچپن ہی سے نفرت کے جذبات بھرے ہوئے تھے، چناں چہ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں جب پہلی مرتبہ ان کا مقابلہ انگریزوں کی اَعلا تربیت یافتہ فوج سے ہوا تو ٹیپو نے اسے شکست دی اور کوڑیال کا قلعہ جیت لیا۔ اس جنگ میں برطانوی سپہ سالار بہ مشکل اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کام یاب ہوا۔ وہاں سے ٹیپو مدراس کی طرف مڑے اورمیسورکے دشمنوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ انگریزی فوج کے اَعلا عہدے دار اور تجربے کار فوجی افسربھی ٹیپو جیسے نوجوان فاتح کی طاقت و قوت سے کانپ اُٹھے۔ 

 میسور پر حیدر علی کا قبضہ

میسور کی فوج کے سپہ سالارِ اَعلا کی حیثیت سے حیدر علی نے میسور کے دشمنوں کو دو بار عبرت ناک شکست دے کر ان کے قبضے سے میسور کے علاقے آزاد کرا لیے تھے۔ حیدر علی کے اِن کارناموں اور اُن کی اَخلاقی بلندی کی وجہ سے وہ میسور کے راجا کی فوج میں تو  مقبول تھے ہی، عوام بھی انھیں راجا سے زیادہ پسند کرنے لگے۔ حیدر علی کی فوج اور رعایا میں یہ مقبولیت اور پسندیدگی دیکھ کر راجا کو اپنا اقتدار خطرے میں دکھائی دینے لگا۔ اُس نے سوچا کہ حیدر علی اگر فوج اور عوام میں اسی طرح ہر دل عزیز بنتا گیا تو کسی دن اُسے تخت و تاج چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ میسور کی رانی بھی حیدر علی کو پسند نہیں کرتی تھی۔ دونوں نے مل کر اپنے ایک خاص آدمی کھانڈے راؤ کو اعتماد میں لے کر اُسے وزیرِ اعظم بنانے کا لالچ دیا۔ اس طرح تینوں نے حیدر علی کے خلاف سازش رچنا شروع کی۔ اِس منصوبے کے تحت پہلے تو انھوں نے حیدر علی کو مجبور کیا کہ وہ وزیرِ اعظم نند راج کو عہدے سے ہٹا دے کیوں کہ راجا اور کھانڈے راؤ کو نند راج سے بھی خطرہ تھا۔ حیدر علی کے کہنے پر نند راج نے وزارت چھوڑ دی۔ اس کے بعد راجا اور کھانڈے راؤ نے حیدر علی کو اپنی راہ سے ہٹانے کی کوشش شروع کر دی۔ 
۱۷۵۹ء میں فرانسیسیوں نے انگریزوں کے خلاف حیدر علی سے امداد مانگی۔ حیدر علی نے ان کی مدد کے لیے اپنی فوج پانڈیچری روانہ کی۔ حیدر علی فوج بھیج کر سری رنگا پٹّم میں ہی رُکے رہے۔ سازشیوں نے جب دیکھا کہ حیدر علی کے کنٹرول والی فوج سرنگاپٹم سے دور ہے تو انھوں نے اپنے منصوبوں پر عمل کرنا شروع کیا۔ حیدر علی کو کسی طرح سے راجا اور کھانڈے راؤ کی سازشوں کا علم ہو گیا۔ انھوں نے ٹیپو سمیت اپنے گھر والوں کو اللہ کے بھروسے محل میں چھوڑ دیا اور اپنے چند جاں باز سپاہیوں کے ساتھ خفیہ راستے سے نکل کر دریائے کاویری کے کنارے سے ہوتے ہوئے بنگلور پہنچے۔ جہاں ان کی بقیہ فوج موجود تھی۔وہاں پہنچ کر حیدر علی نے پانڈیچری میں موجود فوج کو واپس بلایا اور پھر ساری فوج کے ساتھ سری رنگاپٹّم کا محاصرہ کر لیا۔ راجا اور کھانڈے راؤ نے جب یہ تیور دیکھا تو گھبرا کر صلح کی درخواست کی۔ حیدر علی نے اس شرط پر صلح کر لی کہ کھانڈے راؤ کو اُس کے حوالے کیا جائے۔ چناں چہ راجا نے کھانڈے راؤ کو حیدر علی کے حوالے کر دیا۔ حیدر علی نے اُسے لوہے کے بہت بڑے پنجرے میں قید کر دیا۔ حیدر علی نے اس معاملے میں یہی درست سمجھا کہ راجا کو معزول کر دینا ہی مستقبل کے لیے بہتر ہے۔ چناں چہ ۱۷۶۶ء میں حیدر علی نے راجا کو حکومت سے دست بردار ہونے کے لیے مجبور کیا اور تخت نشین ہو کر میسور پر اپنا مکمل قبضہ کر کے میسور کا نام’’ سلطنتِ خداداد میسور‘‘ رکھ دیا۔ حیدر علی نے رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کام کیا۔ تعلیم کو عام کیا۔ برائیوں کا خاتمہ کیا۔ فوجی نظام میں اصلاح کی اور اپنی سلطنت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوششیں کیں۔

انگریزوں کی گھبراہٹ 

جب میسور پر حیدر علی کا مکمل قبضہ ہو گیا تو انھوں نے اپنی سلطنت میں توسیع کرنا شروع کی۔ میسور کے شمال میں مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کے علاقے تھے اور جنوب میں انگریز تھے۔ جن کے قبضے میں مدراس کا علاقہ بھی تھا۔ حیدر علی کی سرگرمیوں سے انگریزوں کو گھبراہٹ محسوس ہونے لگی۔ انھوں نے سوچا کہ اگر حیدر علی کی فتوحات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ایک دن وہ مدراس پر بھی اپنا قبضہ جما لے گا۔ اور پھر وہ اپنی سلطنت کو وسیع اور مضبوط کرتے ہوئے ہمیں ہی ہندوستان سے نکال باہر نہ کر دے۔ انگریزوں نے سازشوں کا جال بُننا شروع کیا پہلے تو انھوں نے مرہٹوں اور پھر نظام حیدرآباد کو ورغلا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ 

میسور پر حملہ 

حیدر علی چاہتے تھے کہ ہندوستان کے تمام راجا، نواب اور حکمراں اپنے مشترکہ دشمن انگریزوں کے خلاف متحد ہو کر انھیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کریں۔ لیکن انگریز نہیں چاہتے تھے کہ یہاں کہ حکمرانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم ہوسکے وہ ’’ لڑاؤ اور حکومت کرو۔‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے تھے۔ انھوں نے جب دیکھا کہ حیدر علی ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہا ہے تو اُن کو راستے سے ہٹانے کے لیے انگریزوں نے مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کو حیدر علی کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا۔ پھر تینوں نے مِل کر میسور پر حملہ کر دیا۔ حیدر علی میسور کے بہادر اور جَری حکمراں اور فوج کے سپہ سالارِ اَعلا تھے۔ انھوں نے اپنی فوج کا حوصلہ بڑھایا اور دشمن کی متحدہ فوج کا ایسا ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ اُن کے چھکے چھوٹ گئے۔ 
سلطان ٹیپو کی عمر اس وقت سولہ سترہ سال تھی۔ انھوں نے بھی اپنے باپ کے قدم بہ قدم بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ دشمن سے سخت مقابلہ کیا۔ اِس جنگ میں انگریزوں، مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی مشترکہ فوج کوبڑی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اور وہ میدانِ جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔

نوجوان ٹیپو کی بہادری

انگریزوں، مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی اِس متحدہ فوج کا نوجوان ٹیپو نے بھی کڑا مقابلہ کیا۔ انھوں نے انگریزوں پر بھرپور اور کاٹ دار وار کیے۔ انگریز کراری شکست کھا کر اپنی فوجی چھاونی مدراس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ میسور کی فوج نے اُن کا پیچھا کیا۔ جنوبی ارکاٹ کے علاقے میں میسور کی فوج کا مقابلہ انگریز جنرل جوزف اسمتھ کی فوج سے ہوا۔ اس جھڑپ میں بھی حیدر علی اور ان کے نوجوان بیٹے ٹیپو نے انگریزوں کو دھول چٹا دی۔ اس طرح انگریز میسور کی فوج کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنے میں بُری طرح ناکام ہو گئے۔ 
انگریز میجر جیرالڈ اور کرنل ناڈ نے حیدر علی کی فوج کا راستہ روکنے کی انتھک کوشش کی لیکن حیدر علی نے اپنی اَعلا جنگی فہم و فراست کو کام میں لاتے ہوئے اپنی فوج کو آگے بڑھایا اور انگریزوں کو کاٹتے ہوئے ترپت پورہ کے قلعے تک پہنچ گئے۔ اِس قلعے میں انگریز فوج موجود تھی۔ اسے فتح کیے بغیر آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہ تھا کیوں کہ قلعے کی فوج پیچھے سے میسور کی فوج پر حملہ آور ہوسکتی تھی۔ حیدر علی نے یہاں جم کر لڑائی کی اور ترپت پورہ کے قلعے کو فتح کر لیا۔ 
اُسی دوران مالابار کے ساحلی علاقوں میں حیدر علی کا ایک جرنیل لطف علی بیگ انگریز فوج کا مقابلہ کر رہا تھا لیکن اُس کے پاس ہتھیاروں اور سپاہیوں کی کمی تھی۔ اُس نے حیدر علی کے پاس قاصد روانہ کر کے امداد طلب کی۔ اُس وقت ٹیپو بنگلور میں انگریزوں سے جنگ کر رہا تھا۔ 
لطف علی کا پیغام ملتے ہی حیدر علی نے فوراً نوجوان ٹیپو کو حکم دیا کہ وہ لطف علی کی مدد کے لیے جلد سے جلد مالابار پہنچے۔ اپنے باپ کا حکم ملتے ہی نوجوان ٹیپو اپنی فوج لے کر مالابار پہنچے۔ یہاں انگریزوں سے زبردست لڑائی میں ٹیپو نے بڑی بہادری دکھائی اور انگریزوں کو شکستِ فاش دی۔ بنگلور میں حیدر علی پہنچے اور  میجر گارڈن اور کیپٹن وائن کو ہرا کر وہاں سے انگریزی فوج کو نکال باہر کیا۔ پے در پے ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنے کے بعد انگریزوں کو یقین ہو گیا کہ حیدر علی اور اس کے بہادر جواں سال بیٹے ٹیپو اُن کو مدراس پہنچنے سے نہیں روک سکیں گے، اِس لیے انھوں نے حیدر علی سے صلح کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی۔ 

انگریزوں کی صلح اور بد عہدی 

ٹیپو اور حیدر علی کی مسلسل فتوحات سے گھبرا کر انگریزوں نے مجبور ہو کر حیدر علی سے صلح کر لی۔ صلح کی شرط کے مطابق انگریزوں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ حیدر علی کے علاقے پر حملہ ہونے کی صورت میں اُس کی بھرپور مدد کریں گے۔ لیکن انگریزوں کی فطرت میں سازش کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ تو ’’ لڑاؤ اور حکومت کرو۔‘‘ کی پالیسی پر عمل کر رہے تھے۔ ظاہر میں تو انھوں نے حیدر علی سے صلح کر لی لیکن درپردہ وہ سازش میں لگے رہے کہ کسی نہ کسی طرح حیدر علی کی فوجی طاقت کمزور ہو جائے۔ تاکہ وہ اپنی شرم ناک شکستوں کا حیدر علی سے بدلہ لے سکیں۔ انھوں نے حیدر علی سے جو معاہدہ کیا تھا وہ صرف اپنی فوجی چھاونی مدراس کو بچانے کے لیے کیا تھا۔ اُن کے نزدیک اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ میسور پر کوئی حملہ کرے تو وہ حیدر علی کا ساتھ دیں۔ 
چناں چہ ۱۷۶۹ء میں جب مرہٹوں نے میسور پر ہلّہ بولا تو حیدر علی نے معاہدے کی رُو سے انگریزوں سے مدد چاہی۔ مگر انھوں نے صاف انکار کر دیا۔ حیدر علی کو انگریزوں کی اِس بدعہدی پر بہت غصہ آیا۔ حیدر علی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ انگریزوں کی اِس بد عہدی کا ضرور عبرت ناک مزہ چکھائیں گے۔ 

مرہٹوں سے جنگ اور صلح 

حیدر علی نے انگریزوں سے جس شرط پر صلح کا معاہدہ کیا تھا۔ انگریزوں نے اُس کا لحاظ نہ رکھا اور مرہٹوں کے حملے کے دوران وہ حیدر علی کا ساتھ دینے سے صاف مُکر گئے۔ بہادر حیدر علی اور جواں سال ٹیپو نے ایسے وقت میں ہمت نہ ہاری اور بڑے استقلا ل سے مرہٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ فتح علی ٹیپو کو حیدر علی نے فوج دے کر محاذِ جنگ پر روانہ کیا۔ اس بات کی ہدایت بھی دی کہ وہ مرہٹوں کو میسور کی سرحدوں سے دور بھگانے کی پوری پوری کوشش کرے۔ ٹیپو تیز رفتاری سے آگے بڑھتے رہے اور سیدنور جا پہنچے۔ جب مرہٹہ فوج کا ہراول دستہ وہاں پہنچا تو میسور اور مرہٹہ فوج کے درمیان ایک بڑی لڑائی ہوئی۔ مرہٹوں کو یہ بات پہلے ہی معلوم ہو چکی تھی کہ انگریز صلح کے معاہدے کی پروا نہیں کریں گے۔ حیدر علی تنِ تنہا ہو گا۔ اس لیے انھوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ ٹیپو کی فوج مرہٹوں کو پسپا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ 
حیدر علی کو جب اِس صورتِ حال کا پتا چلا تو اُس نے ٹیپو کو پیغام بھیجا کہ مرہٹوں کی پیش قدمی کو ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کی جائے اور انھیں شکست دی جائے۔ لیکن حالات ٹیپو کے بس میں نہ تھے۔ مرہٹے آگے بڑھتے رہے۔ میسور کی فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ مرہٹوں کی فوج تیزی کے ساتھ سری رنگا پٹّم کی جانب بڑھ رہی تھی۔ وقتی طور پر میسور کی فوج واپس چلی گئی۔ اس واقعہ کو دیکھ کر مرہٹہ فوج میں خوشی کی لہر دور گئی انھوں نے میسور کی فوج کا مالِ غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا۔ حیدر علی اور ٹیپو نے کچھ وقت آرام کرنے کے بعد اپنی فوج کو دوبارہ منظم کر لیا۔ مرہٹہ فوج جب سری رنگا پٹّم کی طرف چڑھائی کرتے ہوئے بالکل شہر کے قریب پہنچی تو اچانک ہی حیدر علی نے اپنی فوج کے ساتھ قلعے سے نکل کر مرہٹہ فوج پر حملہ کر دیا۔ 
یہ حملہ اتنا اچانک اور غیر یقینی تھا کہ مرہٹہ فوج کے قدم ڈگمگانے لگے اور وہ پیچھے ہٹ گئے۔ جب وہ شکست کھا کر بھاگنے لگے تو ٹیپو نے اُن کا پیچھا کیا۔ ٹیپو کے تعاقب کی خبر سُن کر مرہٹہ فوج نے حیدر علی سے صلح کی درخواست کی۔ اس جنگ میں میسور کی فوج کا کافی جانی و مالی نقصان ہوا تھا اِس لیے انھوں نے بھی مرہٹوں سے صلح کرنے میں اپنی بھلائی سمجھی۔ 
اس جنگ میں میسور اور مرہٹہ دونوں ہی فوج کو نقصان اٹھانا پڑا۔ حیدر علی اور ٹیپو ہمیشہ سے یہی چاہتے تھے کہ مرہٹوں اور ہندوستان کے دوسرے راجاؤں اور نوابوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے رکھیں۔ اور ہندوستان کے تمام راجا اور نواب مل جل کر ملک کے بڑے اور اصلی دشمن انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کریں۔ لیکن انگریزوں کی سازشوں کی وجہ سے اُن کی یہ محنت ہر بار ناکام ہوتی گئی۔ ویسے حیدر علی اور ٹیپو جب تک اِس دنیا میں رہے انگریز اُن کے نام سے کانپتے رہے۔ حتیٰ کہ جب ٹیپو کی شہادت ہوئی تو انگریزوں نے سکون کا سانس لیا اور جنرل لارڈ ہارش نے کہا کہ :’’ اب سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘ انگریزوں کے اِس جملے سے ٹیپو کی شجاعت، بہادری، جواں مردی اور سب سے بڑے کر اپنے وطن ہندوستان سے سچی محبت ظاہر ہوتی ہے۔ 

انگریز اور میسور 

انگریزوں، مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی متحدہ فوج کو حیدر علی کی فوج نے شرم ناک شکست سے دوچار کیا تھا۔ اُس وقت انگریزوں نے صلح کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ لیکن صلح کی شرائط کی شاطر انگریزوں نے ذرّہ بھر پاس داری نہیں کی اور وقت پڑنے پر حیدر علی کا ساتھ نہ دیا۔حیدر علی اور ٹیپو انگریزوں کو اصل دشمن سمجھتے تھے۔ اُن کی کوشش تھی کہ ہندوستان کے تمام راجا اور نواب آپ میں مل جائیں اور متحدہ فوج بنا کر انگریزوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں۔ انگریز حیدر علی اور ٹیپو کے اِسی نظریے سے سخت خوف زدہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان میں اُن کی حکومت کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی دونوں یعنی ’’ سلطنتِ خدا داد میسور‘‘ کی فوج ہے۔ 
انگریز پورے ملک میں اپنی حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے۔ حیدر علی اور ٹیپو انگریزوں کے اِس ناپاک ارادے کی راہ میں ایک ناقابلِ تسخیر چٹان بن چکے تھے۔ انگریزوں کے شاطر ذِہن نے یہ سمجھ لیا کہ میسور کی فوج کو طاقت کے بل بوتے پر شکست دینا بہت مشکل کام ہے۔ اِس کے لیے انھوں نے نت نئی سازشوں کا جال بُننا شروع کیا۔ اور اِس سازش میں انھوں نے مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کو دوبارہ اپنے ساتھ ملا لیا۔ 

انگریزوں سے جنگ 

جب حیدر علی کو اِس نئی سازش کا علم ہوا تو اُس نے اپنی جنگی فہم و فراست اور تدبر کو کام میں لاتے ہوئے اپنی فوج کی خوب اچھی طرح تربیت کی۔ انھیں انگریزی فوج کے جنگی داؤ پیچ سے آگاہ کیا۔ اِسی دوران یورپ میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے بیچ جنگ چل رہی تھی۔ ہندوستان میں انگریزوں کی طرح فرانسیسیوں کی بھی تجارتی منڈیاں تھیں۔ لیکن وہ انگریزوں کی بہ نسبت کمزور تھے۔ انگریز فرانسیسیوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے۔ میسور کی سلطنت میں ایک بندرگاہ تھی۔ جس کا نام ’’ ماہی‘‘ تھا۔ فرانسیسیوں سے حیدر علی کے تعلقات بہتر تھے۔ اُس نے یہ بندرگاہ فرانسیسیوں کو دے رکھی تھی۔ انگریز فرانسیسیوں سے یہ بندرگاہ چھیننا چاہتے تھے۔ اِس کے لیے انھوں نے ۱۷۸۰ء میں حیدر علی کے علاقے سے اپنی فوج گذارنے کی کوشش کی۔ حیدر علی کو اس بات پر بڑا طیش آ گیا اور اُس نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ 
حیدر علی نے بڑی جرأت اور بہادری سے انگریزی فوج پر اِس تیزی سے یلغار کی کہ انگریز بوکھلا اُٹھے۔ انھوں نے گھبراہٹ کے عالم میں حیدر علی کے پاس اپنا قاصد روانہ کیا تاکہ صلح کے بارے میں کوئی بات چیت کی جاسکے۔ لیکن حیدر علی انگریزوں کی مکاری اور چال بازی سمجھ چکا تھا۔ اُس نے صلح کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ایک طرف بہادر ٹیپو فوج لے کر انگریزوں کی صفیں توڑتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اوردوسری طرف حیدر علی دشمن کے چھکّے چھڑا رہا تھا۔ 
انگریزی فوج کے سپہ سالار جنرل ہیکٹر نے جب اپنی فوج کی بے بسی دیکھی تو اُس نے چھاونی میں مدد کی درخواست کی۔ انگریزوں نے جنرل ہیکٹر کی مدد کے لیے کرنل بیلی کی قیادت میں ایک فوج روانہ کی۔

ٹیپو اور کرنل بیلی

ٹیپو اپنے باپ حیدر علی کے ساتھ تھے۔ جب حیدر علی کو اِس بات کی خبر ملی کہ جنرل ہیکٹر کی مدد کے لیے کرنل بیلی کو مدراس سے بھیجا جا رہا ہے تو اُنھوں نے ٹیپو کو فوج دے کر فوراً روانہ کیا کہ وہ راستے میں ہی کرنل بیلی کی پیش قدمی کو روک دے تاکہ جنرل ہیکٹر کو فوجی مدد نہ مل سکے۔ بہادر ٹیپو نے باپ کا حکم ملتے ہیں بڑی تیز رفتاری سے فوج کو آگے بڑھایا اوراُس نے درمیان ہی میں کرنل بیلی کا راستا روک لیا۔ 
کرنل بیلی کی فوج کے دو حصے ہو گئے۔ ایک تو ٹیپو کے گھیرے میں آ گیا جب کہ دوسرا اپنے دفاع کے لیے جنگ کرنے لگا۔ ٹیپو کی تربیت یافتہ منظم فوج نے انگریزوں کی اُن سے زیادہ تربیت یافتہ اور منظم فوج کو اِس مقام پر کراری شکست سے دوچار کر کے رکھ دیا۔ کرنل بیلی نے جب اِس نوجوان سپہ سالار کی مجاہدانہ قیادت کو دیکھا تو وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اِس جنگ میں ٹیپو کی فوج نے انگریزی فوج کے پچاس افسراور ڈیڑھ سو سپاہیوں کو گرفتار کر لیا۔ 
اِدھر جنرل ہیکٹر کے لیے کرنل بیلی کی امداد بہت ضروری تھی۔ لیکن ٹیپو کی بہادری اور حیدر علی کی دوراندیشی نے کرنل بیلی کو واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ جس کی وجہ سے جنرل ہیکٹر بھی حیدر علی سے مقابلے میں شکست خوردہ ہو کر ارکاٹ کی طرف نکل گیا۔ حیدر علی بھی اُس کا پیچھا کرتے ہوئے ارکاٹ پہنچ گیا۔ جہاں اُس نے ارکاٹ کا محاصرہ کر لیا۔ اور ٹیپو کو مختصر فوج دے کر بھاگنے والی انگریزی فوج پر چھاپہ مارکر مسلسل پریشان کرتے رہنے کی ہدایت دے کر روانہ کیا تاکہ مفرور انگریز فوجی مدراس نہ پہنچ سکیں۔ 
فتح علی ٹیپو اپنے باپ حیدر علی کے ا حکام پر عمل کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ ہارے ہوئے انگریز فوجی چھپ کر مدراس کی طرف جا رہے تھے۔ حیدر علی یہ چاہتے تھے کہ اُن فوجیوں کو مدراس پہنچنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے تاکہ اُن کی طاقت کمزور ہو جائے۔ ٹیپو نے انگریزی فوج کے بھاگنے والے دستوں کا پیچھا کیا اور جنگل میں اِدھر اُدھر بھاگتے ہوئے انگریزی فوجیوں کے کئی دستوں پر کام یاب چھاپے مارے۔ 

ٹیپو مالابار میں 

حیدر علی ارکاٹ کے محاذ پر مصروف تھے۔ارکاٹ انگریزوں کی بہت بڑی فوجی چھاونی تھی۔ حیدر علی کے لیے یہاں مشکلیں کھڑی ہوسکتی تھیں۔ اس لیے انھوں نے ٹیپو کو ارکاٹ بلا لیا۔ دونوں نے مل کر ارکاٹ کو فتح کر لیا۔ انگریزوں کے لیے یہ شکست بڑی ذلّت آمیز محسوس ہوئی۔ حیدر علی اور ان کا بیٹا بڑی بہادری سے اُن کے اہم شہروں اور قلعوں کو مسلسل فتح کرتے جا رہے تھے۔ انگریزوں نے اُن کی پیش قدمی روکنے کے لیے پھر سے صلح کرنے کی تدبیر سوچنے لگے۔ لیکن حیدر علی ان کی مکاریوں سے واقف تھا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر صلح سے انکار کر دیا۔ اور اُن کی ایک فوجی چھاونی کڈنور پر حملہ کر دیا۔ ایسے وقت میں انگریزوں نے منصوبہ بند طریقے سے حیدر علی کو دوسرے علاقوں میں الجھا نے کے لیے مالابار کے ساحلی علاقوں میں بدامنی پھیلانا شروع کر دی۔ 
انگریزوں نے کرنل ہیمر اسٹون کو ایک بڑ ے لشکر کے ساتھ مالابار روانہ کیا۔ جہاں اُس نے سازش کے ذریعہ گڑ بڑ پھیلا دی۔ مالابار کے لوگوں میں ’’پھوٹ ڈالو اور لڑاؤ۔‘‘ کی حکمتِ عملی کے تحت آپس میں لڑوا دیا۔ مالابار میں خانہ جنگی جیسی کیفیت پیدا کر دی۔ انگریزوں کا منصوبہ تھا کہ حیدر علی اور ٹیپو کو اس علاقے میں الجھا کر رکھ دیا جائے تاکہ وہ مدراس کی طرف رُخ نہ کرسکیں۔ 
اُن دنوں میسور کے حکمراں حیدر علی سخت بیمار تھے۔ انھیں جب اِن حالات کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنے بہادر بیٹے ٹیپو کو فوج دے کر مالابار  بھیجا تاکہ وہ بدامنی پر قابو پا کر خانہ جنگی کا خاتمہ کر دے۔ ٹیپو کے ساتھ حیدر علی نے اُس کی فوج کے ایک تجربے کار فرانسیسی جرنیل کو بھی روانہ کیا۔ ٹیپو مالابار پہنچ کر اپنی بہادری اور دوراندیشی سے جلد ہی حالات کو اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ اس طرح انگریزوں کی یہ سازش بھی ناکام ہو گئی۔ 

ٹیپو کی میسور واپسی اور حیدر علی کا انتقال

مالابار سے ہوتے ہوئے سونا پتی ندی کی طرف سے واپس بھاگتے ہوئے انگریز کرنل ہیمر اسٹون کا ٹیپو نے پیچھا کیا۔ ٹیپو کے پہنچنے سے پہلے ہی کرنل ہیمر اسٹون نے سوناپتی کے قلعے میں پناہ لے لی۔ ٹیپو نے وہاں پہنچ کر قلعے کو فتح کرنے کے لیے اُس کا محاصرہ کر لیا۔ یہ قلعہ بے حد مضبوط اور ناقابلِ تسخیر تھا۔اِس لیے اِس کو فتح کرنے میں ٹیپو کو دشواری ہوئی اور محاصرہ طویل ہوتا گیا۔ 
اِدھر میسور کی راجدھانی سری رنگا پٹّم میں سلطان حیدر علی سخت بیمار تھے اور بستر پر پڑے ہوئے تھے۔ بہت کچھ علاج و معالجہ کیا گیا۔ ماہر طبیب اور حکیم اُن کا علاج کرتے رہے لیکن بیماری مسلسل بڑھتی گئی۔ جب حکیموں اور ویدوں نے بتایا کہ اب حیدر علی کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ تو انھوں نے ٹیپو کو بلا بھیجا۔ جو میدانِ جنگ میں دشمنوں سے لڑنے میں مصروف تھے۔ قاصد بڑی تیز رفتاری سے سوناپتی کی طرف روانہ ہوا۔ لیکن ابھی وہ راستے ہی میں تھا کہ۱۷؍ دسمبر ۱۷۸۲ء کوترسنگھ نرائن پٹ جو چتور کے قریب ہے ساٹھ برس کی عمر میں حیدر علی کا انتقال ہو گیا۔ ٹیپو کو جیسے ہی اپنے باپ کی وفات کی خبر ملی انھوں نے فوراً سونا پتی کے قلعے کو فتح کیے بغیر محاصرہ اٹھا کر سری رنگا پٹّم پہنچے۔ 
ٹیپو کو اپنے باپ کے انتقال سے گہرا صدمہ پہنچا۔ میسور کی سلطنتِ خداداد چاروں طرف سے دشمنوں سے گھری ہوئی تھی۔ سازشی نت نئی چالیں چل رہے تھے۔ حیدر علی بڑے کٹھن وقت میں اُس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ لیکن بہادر ٹیپو نے ذرا بھی ہمت نہیں ہاری۔ جواں مردی سے ہر مصیبت کا سختی سے مقابلہ کیا۔ ٹیپو نے اپنے دل کو تسلی دی اور ایک نئے جوش اور اُمنگ کے ساتھ ہنستے کھیلتے مشکلوں کے مقابلے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیا۔
فتح علی ٹیپو کے دوسرے بھائی شہزادہ کریم کو کچھ دنوں کے لیے میسور کا حکمراں بنا دیا گیا۔ ٹیپو چند روز رہنے کے بعد دوبارہ محاذِ جنگ پر روانہ ہوئے۔ فتح حاصل کرنے کے بعد جب وہ واپس میسور آئے تو شہزادہ کریم ٹیپو کے حق میں تخت و تاج کو چھوڑ دیا۔

ٹیپو کی تاج پوشی 

سلطان حیدر علی کی وفات کے بعد عارضی طور پر میسور کی سلطنتِ خداداد کے چند امیروں نے چھوٹے شہزادے کریم کو میسور کا حکمراں بنایا۔ جب ٹیپو واپس آئے تو انھیں تخت نشین کیا گیا۔ ۲۶؍ دسمبر ۱۷۸۲ء کو سلطان ٹیپو کی تاج پوشی کی گئی۔ اِس موقع پر ایک شان دار جشن کا اہتمام کیا گیا۔ میسور کی پوری عوام نے جوش و خروش سے جشن منایا۔ گھر گھر چراغاں ہوا۔ ٹیپو نے تخت نشینی کے بعد میسور کے سبھی سرداروں، امیروں اور حکومت کے وفاداروں کو خوب انعام و اکرام سے نوازا۔ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کو صدقات اور خیرات تقسیم کیے۔ سلطان نے حضرت ٹیپومستان رحمۃ اللہ علیہ کے دربار میں بھی حاضری لگائی۔ میسور میں موجود تمام صوفی بزرگوں کی دعائیں بھی لیں۔ 
سلطان ٹیپو کی تاج پوشی کے موقع پر میسور کے بہت سے شاعروں نے ٹیپو کی تعریف میں شان دار قصیدے لکھے۔ سلطان نے اُن شاعروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں بھی انعامات سے نوازا۔سلطان ٹیپو سے میسور کے ہر باشندے اس کے باپ حیدر علی ہی کی طرح بہت محبت کرتے تھے۔ اور اُس سے خوش رہا کرتے تھے۔
میسور کا حکمراں بننے کے بعد سلطان ٹیپو نے پکا ارادہ کر لیا کہ وہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے جس کا م کی شروعات اُس کے بہادر باپ سلطان حیدر علی نے کی تھی وہ اس کو مکمل کر کے ہی دم لے گا۔ اُس نے انگریزوں کو للکار کر کہا کہ :’’ ہندوستان ہندوستانیوں کاہے۔ ‘‘ 
سلطان ٹیپو کی تعلیم و تربیت جس انداز سے ہوئی تھی۔ اُس کے ہوتے اُن کے اندر جنگی فہم و فراست کے ساتھ دنیاوی اُتار چڑھاؤ اور دشمنوں کی چال بازیوں سے نمٹنے کا پورا شعور آ چکا تھا۔ وہ عربی اور فارسی کے ساتھ انگریزی اور فرانسیسی بھی جانتے تھے۔ اس طرح انھوں نے انگریزوں کے خفیہ منصوبوں کا بڑی باریک بینی سے خود ہی مطالعہ کیا۔ وہ جانتے تھے کہ انگریز بڑی مکاری اور چال بازی کے ساتھ دھیرے دھیرے پورے ملک ہندوستان پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ سلطان ٹیپو نے عزم کر لیا کہ وہ اپنے والد سلطان حیدر علی کی طرح انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ 

سلطان ٹیپو کے دشمن 

جب سلطان ٹیپو میسور کے تخت پر بیٹھے تو اُس وقت پورے ملک میں ہر طرف بد امنی اور شورش پھیلی ہوئی تھی۔ شروع میں مصلحت کے تحت حیدر علی کے انتقال کی خبر کو عام نہیں کیا گیا تاکہ دشمنوں کے حوصلے بلند نہ ہوں۔ لیکن جب حیدر علی کی وفات کی خبر پھیل گئی تومیسور کے باج گزار چند علاقوں کے سرداروں نے بغاوت کر دی۔ سلطان ٹیپو کے سامنے مر ہٹوں کا خطرہ الگ تھا۔ نظام حیدرآباد کی سازش الگ تھی اور انگریز تو اُس کے خاندان ہی کے دشمن تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ میسور کی حکمرانی سلطان ٹیپو کے لیے کانٹوں بھرے راستے کے جیسی تھی۔ لیکن اِس با حوصلہ اور بہادر جرنیل نے کہیں بھی ہمت نہیں ہاری۔ اُس کے باپ کی طرح اُس کے حوصلے بھی بلند تھے اور ساتھ ہی اُس کے ساتھ صوفی بزرگوں کی دعائیں بھی شامل تھیں۔اُس نے انگریزوں کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ اور ایک ایک کر کے تمام باغیوں کا سر کچل دیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر سلطان ٹیپو نے میسور کی خوش حالی اور ترقی کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ 

سلطان ٹیپو کی شخصیت اور کردار

سلطان ٹیپو کے مزید حالاتِ زندگی، اس کی مجاہدانہ سرگرمیوں، انگریزوں اور مراٹھوں سے ہونے والی جنگوں کی تفصیلات اور سلطان ٹیپو کے دیگر کارہائے نمایاں سے پہلے اُن کی شخصیت کے بعض روشن پہلوؤں، اَخلاق و کردار اور سیرت کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ 

بے مثال جرنیل

سلطان ٹیپو ایک بے مثال اور بہادر جرنیل تھے۔ چوں کہ وہ ایک بڑے سپاہی اور سپہ سالار کے جواں دل بیٹے تھے۔ اس لیے ان کے اندر ایک اچھے سپاہی کی تمام تر خوبیاں اور صلاحیتیں موجود تھیں۔ ان کی جنگی سوجھ بوجھ اور فہم و فراست کا پورے ملک ہندوستان میں کوئی جواب نہ تھا۔ اکیلا ہونے کے باوجود تین دشمن طاقتوں انگریزوں، مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کو اُنھوں نے کئی بار کراری شکست سے دو چار کیا تھا۔ بہادری اور شجاعت میں کوئی اُن کا ثانی نہیں تھا۔ نو عمری کے زمانے میں ایک دن و ہ ایک فرانسیسی افسر کے ساتھ جنگل شکار کھیلنے گئے۔ اچانک ایک شیر سامنے آ گیا۔ فرانسیسی افسر نے فوراً بندوق سیدھی کی اور شیر کا نشانہ لینے لگا۔ لیکن اِس سے پہلے کہ و ہ فرانسیسی افسر گولی چلاتا۔ ٹیپو نے اُس کی بندوق چھین کر پھینک دی۔ اور پھر تلوار لے کر اُس شیر پر ٹوٹ پڑا اور چند لمحوں میں شیر کا خاتمہ کر ڈالا۔ اِس واقعے سے ٹیپو کی بہادری کے خوب چرچے ہوئے۔ 

شیرِ میسور

اوپر کے واقعے سے سلطان ٹیپو کی بہادری کی ایک ہلکی سی جھلک سامنے آتی ہے۔ ٹیپو کو بچپن ہی سے شیر بہت پسند تھے۔ انھوں نے خود کئی شیر پال رکھے تھے۔ شیروں سے کھیلا کرتے تھے۔ اور شیر کی جِلد کی دھاریاں اُن کو بہت پسند تھیں۔انھوں نے محل کے پردوں اور دیواروں کا رنگ بھی اسی طرح کروایا تھا۔ انھوں نے اپنا ایک کپڑا بھی شیر کے رنگ کا بنوایا تھا۔ اس کپڑے کا نام ’’ ببری کپڑا ‘‘ تھا۔ پہلے پہل یہ کپڑا صرف سلطان ٹیپو ہی پہنا کرتے تھے۔ بعد میں اِس کپڑے کی اتنی شہرت ہوئی کہ ہندوستان کے دوسرے راجا مہاراجے بھی ایسا کپڑا پہننا پسند کرنے لگے۔ 
بہادر اور شجاعت میں ٹیپو کسی شیر سے کم نہ تھے۔ انھوں نے اپنے دشمنوں سے جس بے جگری اور بہادری سے مقابلہ کیا اور بے مثال جنگیں لڑیں۔ وہ تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہیں۔ لوگ ٹیپو کی ان ہی بہادرانہ اور مجاہدانہ باتوں کو دیکھ کر اب تک انھیں ’’ شیرِ میسور‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ واقعی میں وہ شیر کی طرح جیے اور بہادری کے ساتھ اپنے دشمنوں سے لڑتے ہوئے شیر ہی کی طرح جامِ شہادت پیا۔ شیرِ میسور سلطان ٹیپو کا یہ مجاہدانہ قول ہمیشہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ رہے گا اور آنے والی نسل کو انقلاب اور ہمت کا پیغام دیتا رہے گا کہ :
’’گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ ‘‘ 

سلطان کا سراپا، لباس اور سادگی پسندی

سلطان ٹیپو بڑے رعب دار چہرے کے مالک تھے۔ جس پر بادشاہوں جیسا وقار اور جلال تھا۔ وہ بڑے خوب صورت اور حسین و جمیل تھے۔ رنگ گندمی تھا۔ وہ تیکھے خد و خال اور نازک نقوش کے حامل تھے۔آنکھیں بڑی بڑی اور روشن تھیں۔ ابرو کمان کی طرح اور ناک خم دار تھی۔ گردن چھوٹی اور موٹی تھی۔ ہاتھ پیر بڑے مضبوط اور توانا تھے۔ جسم بھاری بھرکم تھا۔ کندھے ابھرے ہوئے اور گول تھے۔ سلطان ٹیپو کا پورا سراپا دور ہی سے اِس بات کی گواہی دیتا تھا کہ یہ کوئی بہت بڑی طاقت و قوت والا شخص ہے۔ 
’’سلطنتِ خداداد میسور‘‘ کے سلطان ہونے کے باوجود بھی سلطان ٹیپو ایسی سادگی پسند طبیعت کے مالک تھے کہ اُس دور کے کسی دوسرے سلطان، راجا یا نواب میں یہ وصف نہیں پایا جاتا تھا۔سلطان کا اندازِ گفتگو بڑا شیریں اور محبت آمیز تھا۔ اُن کی باتوں سے بڑے بڑے دشمن کے دل بھی نرم ہو جایا کرتے تھے۔ گندے الفاظ کبھی منہ سے نہیں نکالتے تھے۔غذا بھی بڑی سادہ استعمال کرتے تھے۔ سلطان کی یہ سادگی ان کے چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے سے بھی ظاہر ہوتی تھی۔اُن کا لباس بھی بڑا سادہ تھا۔ صبح صبح وہ برہان پوری پگڑی سفید کرتا اور ڈھیلا ڈھالا پاجامہ پہنتے تھے۔ جس میں ایک خاص جیب ہوتی تھی۔ اِس جیب میں ایک ولایتی گھڑی ہوتی تھی۔ ناشتے کے بعد سلطان کا لباس تبدیل ہو جاتا تھا۔ پھر وہ سپاہیوں جیسا لباس زیبِ تن کرتے تھے۔ قمیص، جیکٹ، پاجامہ اور پگڑی پہنتے تھے۔کمر میں ٹپکّا باندھتے اور ایک سنہری پیٹی پہنتے تھے۔ پگڑی بھاری اور پھیلی ہوئی ہوتی تھی۔ پہلے وہ سرخ رنگ کی پگڑی استعمال کرتے تھے مگر بعد میں انھوں نے سبز رنگ کی پگڑی پہننا شروع کر دی تھی جس پر ایک سفیدرومال ہوتا تھا اور پہلو میں تلوار ہوتی تھی۔ 

زہد و تقوا

سلطان ٹیپو کی تعلیم و تربیت اِس انداز سے ہوئی تھی کہ وہ بچپن ہی سے اسلامی اصولوں پر عمل کرنے میں بہت پابندی برتتے تھے۔ اُن کے ہر کام میں اسلامی جھلکیاں صاف ظاہر ہوتی تھیں۔ غرور و تکبر اور ریاکاری جیسی برائیاں اُن کے اندر نام کو بھی نہ تھیں۔ انھیں بچپن ہی سے بڑے بڑے پارسا، متقی اور پرہیزگار بزرگوں اور اہلِ علم لوگوں کی صحبت میسر آئی تھی۔ ایسی نیک صحبت کی وجہ سے نیکی و پرہیزگاری اور تقویٰ و طہارت سلطان ٹیپو کے رگ و پَے میں سرایت کر گئی تھی۔ قرآنِ پاک کی تلاوت آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ وہ نماز روزے کے بڑے پابند تھے۔ بڑی سے بڑی مصروفیات کے باوجود انھوں نے اپنے آپ کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ رکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کو بے پناہ عقیدت اور محبت تھی۔ ہر سال میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محفلیں شوق و ذوق سے منعقد کرتے تھے۔سنہ ہجری و سنہ عیسوی کی طرح ’’مولودی سال‘‘جاری کیا جو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے شرو ع ہوتا تھا۔ نماز کے بڑے پابند تھے اس کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے :
’’سری رنگا پٹّم میں سلطان ٹیپو نے ایک عالی شان اور خوب صورت مسجد تعمیر کروائی۔ اُس کے افتتاح کے موقع پر ملک بھر سے بڑی بڑی شخصیتوں کو دعوت دے کر بلایا گیا۔ اُس وقت بڑے بڑے عالم و فاضل اور متقی و پرہیزگار افراد موجود تھے۔ وہاں مسجد میں پہلی نماز کی امامت کے لیے یہ تجویز رکھی گئی کہ پہلی نماز کی امامت وہ شخص کرے جو صاحبِ ترتیب ہو۔ ( صاحبِ ترتیب اُس شخص کو کہتے ہیں جس نے ہوش سنبھالنے سے اُس وقت تک کوئی نماز قضا نہ کی ہو) اِس تجویز کا اعلان ہونے کے بعد تمام حاضرین پر سنّاٹا طاری ہو گیا۔ کوئی بھی پہلی امامت کی شرط پر پورا نہ اترا۔ سلطان ٹیپو نے آگے بڑھ کر یہ اعلان کیا کہ: ’’ الحمد للہ ! مَیں صاحبِ ترتیب ہوں۔ ‘‘ اس طرح ٹیپو نے اس مسجد کی پہلی نماز کی امامت کی۔‘‘  مذکورہ مسجد کا نام’’  مسجدِ اَعلا  ‘‘ تھا۔ 
سلطان ایک جلیل القدر بادشاہ تھے۔ دولت و ثروت کا انبار تھا۔ ہر قسم کا دنیا وی عیش و آرام انھیں حاصل تھا۔ لیکن یہ چیزیں انھیں ذکرِ الٰہی اور نماز روزے کی پابندی سے نہ روک سکیں۔ 

شرم و حیا

تاریخ کے اوراق سلطان ٹیپو کے زہد و تقویٰ اور پرہیزگاری و طہارت کے ساتھ ساتھ اُس کی شرم و حیا کو بھی بیان کرتے ہیں۔ حیا جو کہ ایمان کا حصہ ہے۔سلطان ٹیپو میں یہ وصف بھی موجود تھا۔ سلطان ٹیپو کے اندر شرم و حیا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ’’نشانِ حیدری ‘‘ کے مصنف نے لکھا ہے کہ: ’’ سلطان ٹیپو اتنا شرمیلا اور حیا دار تھا کہ اُس نے ہوش سنبھالنے کے بعد زندگی بھرغسل خانے میں بھی برہنہ ہو کر نہیں نہایا۔ ‘‘  سلطان اپنی رعایا میں بھی شرم و حیا کی خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے۔ 
سلطان سماجی برائیوں اور غیر اسلامی رسم و رواج کے کٹر مخالف تھے۔ انھوں نے شرم و حیا کو ختم کرنے والی، تمام برائیوں کی جڑ ’’ شراب نوشی‘‘ پر اپنی ریاست میں سخت پابندی عائد کر دی تھی۔ اسی طرح جوا کھیلنے پر بھی انھوں نے کڑی سزائیں مقر ر کی تھیں۔ انھوں نے اپنی سلطنت سے ایسے تمام درختوں کو کٹوا دیا تھا جن سے شراب بنائی جاتی تھی۔ 
سلطان کے دربار میں عالموں، صوفیوں اور دانش وروں کا مجمع رہا کرتا تھا۔ اُن کی محفل میں ہمیشہ علمی، اَخلاقی، دینی، ملی، سیاسی اور جنگی موضوعات پر بات چیت ہوتی تھی۔ کسی کو گندی اور بے شرمی کی بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اُن کے دربار ی اِس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ کہیں کسی کے منہ سے کوئی فضول بات نہ نکل جائے۔ خود سلطان بھی سب سے بڑے نرم لہجے میں بات کرتے تھے۔ 

رعایا پروری 

سلطان ٹیپو کے دل میں اپنی رعایا کے لیے بہت پیار اور محبت تھی۔ رعایا کی بھلائی کے لیے انھوں نے اپنی ریاست میں صنعت و حرفت کے کارخانے قائم کیے تھے۔ تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔ انھوں نے تجارت کو خوب بڑھاوا دیا تھا۔ زمین داری کے جبری نظام کو ختم کیا۔ نشہ آور چیزوں پر پابندی عائد کر دی۔ ان کے دورِ حکومت میں رعایا بڑی خوش حال تھی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں  اتحاد و اتفاق قائم تھا۔وہ کسی بھی قسم کا بھید بھاؤ نہیں رکھتے تھے، بڑے عادل اور مہربان تھے، ہر کوئی سلطان ٹیپو پر جان قربان کرنے کو تیار تھا۔ سلطان ٹیپو نے اپنی سلطنت کو ایک ایسی ریاست بنا دی تھی کہ اُن کے دشمن بھی اُن کی تعریف کیا کرتے تھے۔ کیپٹن لٹل نے لکھا ہے کہ :
’’جب ہم ٹیپو سلطان کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہو رہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف اور منہمک ہے اور زمین کا کوئی حصہ بنجر نہیں ہے۔‘‘
سنکلیر نے ایک جگہ یوں لکھا ہے :
’’جس وقت انگریز فوجیں ٹیپو سلطان کے ملک میں داخل ہوئیں تو دیکھا کہ تمام لوگ خوش حال ہیں، تمام ملک سر سبز و شاداب ہے، زراعت اچھی ہو رہی ہے۔ اور رعایا سلطان کے نام پر فدا ہو رہی ہے۔‘‘
ڈبلیو ٹارنس نے سلطان ٹیپو کی سلطنتِ خداداد کی خوشحالی اور سلطان کی رعایا پروری کے بارے میں یوں لکھا ہے :
’’ تمام ہندوستان میں ٹیپو سلطان کی سلطنت زیادہ سر سبز تھی۔ اس کے باشندے سب سے زیادہ خوش حال تھے۔ اس کے برخلاف انگریزی مقبوضات اور ان کی باج گزار ریاستیں یعنی کرناٹک، اودھ اور بنگال ایک بدنما داغ تھیں اور وہاں کی رعایا قانونی سختیوں سے پریشان تھی۔ سلطان کی رعایا پروری کا اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ٹیپو نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ اپنے ملک کا مال باہر نہ جائے۔ تمباکو، صندل، کالی مرچ، سونا، چاندی وغیرہ چیزوں کو سلطان نے سرکاری مال قرار دیا تھا۔ انھوں نے ناپ تول کے پیمانے بھی اپنی طرف سے جاری کرائے تھے۔ ان کے دورِ حکومت میں رہِ زنوں اور دغا بازوں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ سلطان خود جواں مرد تھے اِس لیے جواں مردوں کا احترام کرتے تھے۔ ‘‘

رواداری

سلطان ٹیپو کی فطرت میں رواداری اور ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اپنی راجدھانی سری رنگاپٹّم میں ان کے محل کے گرد جو مندر ہیں وہ اُن کی رواداری کا ثبوت ہیں۔ اُن کے دورِ حکومت میں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل تھی۔ ہر کوئی اپنے عقیدے اور مذہب کے مطابق زندگی گذارسکتا تھا اور اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کرسکتا تھا۔ بعض تعصب پسند مؤرخین نے سلطان کو متعصب حکمراں کے روپ میں پیش کرنے کے کوشش کی ہے۔ مگر یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ بہت پکے مسلمان تھے لیکن اُن کے اندر روادار ی بھی ویسی ہی تھی۔ اپنے دربار کے دروازے سلطان ٹیپو نے ہر مذہب و ملّت کے لیے کھلے رکھے تھے۔ حیدر علی اور سلطان ٹیپو نے ریاست کے مندروں اور پجاریوں کو جو رعایتیں دیں اُن کی تفصیلات کرناٹک کے محکمۂ آثارِ قدیمہ کی سالانہ رپورٹ میں ملتی ہیں۔ آپ نے سری رنگ ناتھ سوامی مندر کی از سرِ نو تعمیر کروائی۔ بیلور میں جو مشہور مندر ہے اُس کا درمیانی گنبد بھی سلطان ٹیپو ہی کا تعمیر کردہ ہے۔ غرض یہ کہ سلطان کی رواداری بھی اُن کے اَعلا کردار کی ایک روشن نشانی تھی۔

ہندوؤں سے سلوک اور انصاف پسندی

سلطان ٹیپو ایک رعایا پرور، مہربان اور عادل بادشاہ تھے۔ اُن کے اندر نام کو بھی تعصب نہ تھا۔ انھوں نے اپنی سلطنت میں موجود دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کبھی بھی نا انصافی نہیں کی۔ خاص طور پر انھوں نے ہندوؤں کے ساتھ ہمیشہ بڑا اچھا سلوک کیا۔ انھوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کبھی بھی کوئی بھید بھاؤ نہ کیا۔ ہمیشہ وہ حق کا ساتھ دیتے۔ اپنی سلطنت میں جو  آزادی اور آرام و اطمینان اور سہولتیں مسلمانوں کو دیں وہی ہندوؤں کو بھی دی تھیں۔ انھیں عبادت کرنے اور مذہبی رسم و رواج ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ سلطان کے دربار میں بہت سے امیر اور وزیر ہندو تھے۔ پورنیا جس نے بعد میں سلطان سے غداری کی وہ اُن کا وزیرِ مالیات تھا۔ اِسی طرح کشن راؤ اور کھنڈے راؤ سری رنگا پٹّم اور بنگلور کے قلعہ دار تھے۔ 
عدل و انصاف کے معاملے میں بھی سلطان نے کبھی کوئی جانب داری نہیں برتی۔ جو حق ہوتا اُس کا ساتھ دیتے ناحق کو سزا دیتے۔ ایسا نہیں کہ مسلمان ہے تو وہ اُس کے حق میں نرمی کرتے ہندو کے لیے سختی، اُن کے نزدیک پوری رعایا ایک کنبے کی طرح تھی۔ اُن کے دربا ر میں ہمیشہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیا جاتا۔ درج ذیل واقعے سے سلطان کی انصاف پسندی کا اندازہ لگایا جاسکتاہیـ :
’’سری رنگا پٹّم میں ایک مسلمان بزرگ پیر لدّا نام کے رہتے تھے۔ ایک بار سلطان کے دربار میں انھوں نے شکایت کی کہ کچھ ہندوؤں نے اُن کے مریدوں کو مارا ہے۔ سلطان ٹیپو نے جب اصلیت کا پتا لگایا تو معلوم ہوا کہ پیر لدّا کے مریدوں نے پہلے زیادتی کی تھی۔ اُن مریدوں نے ہندوؤں کے ایک جلوس پر حملہ کر کے چند لوگوں کو زخمی کر دیا تھا۔سلطان نے جب پیر لدّا کے مریدوں کا جھوٹ ثابت کیا تو پیر صاحب بگڑ گئے اور کہا :’’ ہندوؤں کا مسلمانوں پر ہاتھ اٹھانا اسلام کی توہین ہے۔‘‘ 
سلطان نے پیر کی باتیں سُن کر جواب دیا کہ :’’ ہماری سلطنت میں ہندو اور مسلمان سب برابر ہیں۔ ہم انصاف کے معاملے میں کسی کی رعایت نہیں کرسکتے۔ جھوٹا، جھوٹا ہی کہلائے گا، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور سچا، سچا ہی رہے گا چاہے وہ ہندو ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ 

پیر لدّا نے سلطان کے منہ سے جب یہ سچائی سُنی تو اُنھیں بڑی کڑوی لگی، اُنھوں نے کہا :
’’ اگر یہ بات ہے تو مَیں آپ کی سلطنت سے نکل جاؤں گا۔ ‘‘ 
سلطان نے جواب دیا:’’ آپ کی جیسی مرضی۔ مَیں آپ کے لیے نا انصافی نہیں کرسکتا۔‘‘ چناں چہ پیر لدّا سلطان ٹیپو کی سلطنت سے نکل کر مدراس چلے گئے۔ ‘‘
سلطان کے بارے میں بعض تعصب پسند مؤرخین نے یہ الزام تراشی کی ہے کہ وہ ہندوؤں سے متعلق سخت متعصب تھے۔ جب کہ حقیقت اِس کے برخلاف ہے۔ سلطان ٹیپو کی بے تعصبی اور رواداری کے سلسلے میں موہن داس کرم چند گاندھی جی نے اپنے اخبار ’’ ینگ انڈیا‘‘ میں جو کچھ لکھا اُس کا ایک اقتباس روزنامہ’’ منصف‘‘ حیدرآباد ۱۷؍ جنوری ۲۰۰۴ء کے حوالے سے ذیل میں پیش ہے :
’’میسور کا بادشاہ فتح علی ٹیپو سلطان شہید جو غیر ملکی مؤرخوں کی نظر میں ایک مسلمان تھا۔ جس نے اپنی ہندو پرجا(رعایا) کو زبردستی مسلمان بنایا تھا۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوؤں سے اس کے تعلقات نہایت ہی دوستانہ تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عظیم المرتبت سلطان کا وزیرِ اعظم ہندو تھا۔ ہمیں نہایت ہی ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اِس حقیقت کو ماننا پڑتا ہے کہ اُس ہندو وزیرِ اعظم نے علم بردارِ آزادی کو دھوکا دے کر ملک کو دشمنوں کے حوالے کر دیا تھا۔‘‘(ص ۲) 

سلطان ٹیپو کے اصلاحی کارنامے

سلطان ٹیپو کی عمر کا زیادہ تر حصہ جنگ و جدل کی نذر ہو گیا لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنی ریاست ’’سلطنتِ خداداد میسور‘‘ کی خوش حالی اور ترقی کے لیے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جو آج کے اِس جدید دور میں بھی ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ سلطان ٹیپو کے جنگی کارناموں سے پہلے آپ کے اصلاحی کارناموں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ 

سلطان ٹیپو کا نظامِ حکومت

سلطان ٹیپو ایک پڑھے لکھے اور دانش ور بادشاہ تھے۔ انھوں نے اپنے نظامِ حکومت کو بہت اچھی طرح نکھارا اور سنوارا۔انھوں نے اپنی سلطنت کی جو تنظیم کی وہ آج کے دورِ جدید کی ریاستوں کی  تشکیل سے میل کھاتی ہے۔ ٹیپو نے ایک ایسے دور میں ہی اپنی سلطنت کے نظام کو مستحکم اور منصوبہ بند طریقوں سے ترتیب دیا تھا جب کہ ہندوستان میں اُس کا تصور دور دور تک نظر نہیں آتا تھا۔ اُن کے طریقۂ حکومت کے بارے میں ’’غازیِ اعظم ‘‘ کے مصنف مولانا شاہ ابوالحسین ادیبؔ نے یوں لکھا ہے :
’’حیدر علی کے بعد اُس کا شیر دل بیٹا ٹیپو سلطان اپنے باپ کی سلطنت کا حکمراں بنا۔ وراثت میں اُس نے جو سلطنت حاصل کی تھی اُس کا رقبہ تقریباً ۸۳ ہزار مربع میل تھا۔ آبادی ۷۵ لاکھ تھی۔ خزانے میں ۱۳ کروڑ روپے نقد اور ۸۰ کروڑ کا مال تھا۔ علاوہ بریں سوار اور پیادہ(پیدل) فوج ۳ لاکھ سے زیادہ تھے۔ عنانِ حکومت( حکومت کی باگ ڈور) ٹیپو سلطان کے قبضے میں آئی تو اُس نے اپنی اس عظیم الشان سلطنت کے تین صوبے کیے۔ اُس نے ہر صوبے کو کئی ضلعوں پر، ہر ضلع چند ٹکڑیوں پر( غالباً تعلقوں پر) اور ہر ٹکڑی کو چند قصبوں پر تقسیم کیا۔ ہر ٹکڑی میں اُس نے اِس قدر زمین شامل کی کہ جس سے ۵ لاکھ ہون(اُس زمانے کا سکّہ) کی مال گزاری وصول ہوتی ہو۔ اس نے ہر ٹکڑی میں ایک عامل ہر ضلع میں ایک آصف اور ہر صوبے میں ایک میر مقر ر کیا۔ ‘‘
سلطان ٹیپو کے دورِ حکومت سے پہلے زمین کی لگان مختلف طریقوں سے وصول کی جاتی تھی۔ ہر گاؤں کے لگان کی تفصیل کا دارومدار ٹھیکے پر تھا۔ٹھیکے دار کسانوں پر ظلم و جبر کر کے زیادہ لگان وصول کرتے تھے۔ سلطان ٹیپو نے اِس قانون کو توڑا اور زمین کے لگان کی وصولی گاؤں کے مکھیا اور سردار کے ہی ذمّے رکھی اور ان کی مدد کے لیے سرکاری نوکر مقر ر کیے۔ اس سے کسانوں کو بہت آرام ملا۔ غرض یہ کہ سلطان ٹیپو کے نظامِ حکومت میں ہر کوئی آرام و اطمینان سے رہتا تھا۔ 

عوام کی فلاح و بہبود

سلطان ٹیپو نے’’ سلطنتِ خداداد میسور‘‘ کا حکمراں بننے کے بعد صرف جنگوں میں اپنے وقت نہ گذارے بلکہ انھوں نے عوام کی فلاح و بہبود اور بھلائی کے ایسے کام کیے جو انھیں رعایا میں ہر دل عزیز بنانے میں معاون ثابت ہوئے۔ سلطان نے سلطنت کی ترقی اور عوامی خوش حالی پر بہت توجہ دی۔ اس دور میں غلام رکھنے کا رواج بہت عام تھا۔ سلطان نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو انھوں نے اپنے دور کی اِس بڑی برائی کا خاتمہ کیا۔ کیوں کہ غلاموں کو خرید کر مالک اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے۔ سلطان کو آزادی پسند تھی۔ انھوں نے سلطنت میں یہ دو ٹوک فرمان جاری کروا دیا کہ:
’’ اب کوئی بھی شخص میری سلطنت میں غلام نہیں رکھ سکتا۔ اِس وقت ملک میں جتنے بھی غلام ہیں سب آزاد ہیں۔ آیندہ کوئی بھی شخص بغیر تنخواہ کے کسی کو اپنے یہاں نوکر نہیں رکھ سکتا۔‘‘
سلطان کے اِس فرمان کے بعد میسور کی سلطنت میں موجود ہزاروں غلاموں کو آزادی کی سانس لینا نصیب ہوئی اور انھیں عزت و وقار سے زندگی گذارنے کا سلطان نے پورا پورا موقع عنایت کیا۔ 
سلطان نے غریب عوام کی بھلائی کے لیے اپنی سلطنت سے جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ کیا۔ انھوں نے بڑے بڑے زمین داروں کی زمینیں ضبط کر کے چھوٹے اور غریب کسانوں کو بانٹ دیں۔ کیوں کہ زمین داروں اور جاگیرداروں نے اُن غریب کسانوں سے یہ زمینیں جبراً چھین لی تھیں اور اُن پر طرح طرح سے ظلم و ستم بھی کرتے تھے۔ زمین دار اور جاگیر دار چھوٹے کسانوں کے حقوق مار لیتے تھے۔سلطان نے اپنی رعایا پروری کا ثبوت دیتے ہوئے کسانوں اور غریبوں کو زمین داروں اور جاگیر داروں کے ظلم و ستم سے نجات دلا دی۔ اسی طرح دیہاتوں میں انھوں نے پنچایت کا نظام قائم کیا۔ جس کے مطابق گاؤں میں ہونے والے جھگڑوں اور تنازعات کا فیصلہ وہیں ہو جایا کرتا تھا۔ بڑے مقدموں کے فیصلوں میں ہندوؤں کے لیے پنڈت اور مسلمانوں کے لیے قاضی کا  تقرر کیا۔ اِن مقدمات کی آخری اپیل سلطان کے دربار میں ہوتی تھی۔ سلطان کسی کی طرف داری کیے بغیر ہمیشہ حق پر فیصلہ دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی عوام میں بہت مقبول تھے۔
سلطان ٹیپو کو اپنے ملک ہندوستان سے اور یہاں کی چیزوں سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ غیر ملکی چیزوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی سلطنت کی حدود میں دوسرے ممالک کی چیزیں منگوانے پر پابندی لگا دی تھیں اور حکم دیا تھا کہ ہر چیز اپنے ملک ہی کی بنی ہوئی استعمال کی جائے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے سلطان ٹیپو نے تاجروں اور چھوٹے کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی کی۔ صنعت و حرفت کو بڑھا وا دیا۔ گھریلو صنعتوں کو جاری کرنے کے لیے سرکاری خزانے سے مدد کی۔ اور ملک کو ترقی کے راستے پر لگایا۔ 
سلطان ٹیپو نے اپنی سلطنت کے غریب کسانوں، تاجروں اور عام لوگوں کے لیے بہت سارے بینک کھولے۔ یہ تمام بینک آج کل کے کوآپریٹیو بینک کے طرز پر تھیں۔بینک میں جو روپے جمع ہوتے تھے اُن سے بینک تجارت کرتی تھی اور منافع تمام حصے داروں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ جب کسی کو ضرورت پڑتی تو ان ہی بینکوں کی طرف سے بِلا سودی قرض دیے جاتے تھے۔ 
سلطان نے انتظامی امور میں پولیس کا نظام بھی بڑا عمدہ تھا۔ عوام کی بھلائی اور اُن کی مدد کی خاطر ٹیپو نے پولیس محکمہ قائم کیا تھا۔ جرائم پر قابو پانے کی جواب داری علاقے کے پولیس افسر پر ہوتی تھی۔ اِس وجہ سے چوری، ڈکیتی اور دیگر جرائم بہت ہی کم ہوتے تھے۔ پولیس افسر بڑے چاک و چوبند رہتے ہوئے اپنے فرائض کو ادا کرتے تھے کیوں کہ اگر کسی کا کوئی نقصان ہو جاتا تھا تو وہ اُسی سے وصول کیا جاتا تھا۔ سلطان ٹیپو نے اِن پولیس افسروں کی باقاعدہ اچھی تنخواہ مقر ر کی تھی اور ہر تین سال بعد اُن کے کام کی مناسبت سے اُنھیں انعام و اکرام کے ساتھ خصوصی ترقی دی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سلطان ٹیپو کی حدودِ سلطنت کے پولیس افسروں کو رشوت لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اور جرائم کی تعداد بھی اُن کے دور میں نہیں کے برابر تھی۔ 

فوجی انتظام

سلطان ٹیپو ایک قابل اور مثالی جرنیل تھے۔ خود سپاہیانہ اور بہادرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ اس وجہ سے اُنھوں نے اپنی سلطنت کے فوجی نظام میں بہت کچھ اصلاحات کیں اور اپنی فوج کو مستحکم اور طاقت ور بنایا۔ انھوں نے اپنے باپ حیدر علی کی زندگی ہی میں انگریزوں کی مکاریاں اور چال بازیاں سمجھ چکے تھے۔ اس لیے ٹیپو جیسے سچّے محبِّ وطن نے یہ طَے کر لیا تھا کہ ہندوستان سے ان غیرملکی تجارت کے نام پر آ کر حکومت کرنے والے انگریزوں کو نکال باہر کریں گے۔ سب سے پہلے تو انھوں نے ۱۷۸۴ء میں انگریزوں کو کراری شکست دی اور اپنی سلطنت کو مضبوط کیا۔ اس کے بعد انھوں نے سلطنت کی ترقی، عوام کی فلاح و بہبود اور اپنی فوج کے استحکام کی طرف توجہ دی۔ انھوں نے خاص طور پر فوج کی تربیت میں دھیان دیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ملک کی حفاظت کے لیے فوج ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔ 
سلطنتِ خداداد میسور کی فوج کے لیے سلطان ٹیپو نے تلواریں اور بندوقیں سرکاری کارخانوں میں بنوائیں۔ سوار فوج کے لیے اچھی نسل کے گھوڑے دوسرے علاقوں سے منگوائے۔ اُن کے پاس باقاعدہ فوج، سوار اور پیدل ملا کر ایک لاکھ چوالیس ہزار تھی۔ ان کے علاوہ ایک لاکھ اسّی ہزار سپاہی سرحدی علاقوں کی حفاظت پر مامور تھے۔ سلطان ٹیپو نے فوجی دستوں کے روایتی نام رسالہ، پلٹن اور جمعیت بدل کر رکھے تھے۔ فرنچ یا انگریزی میں جو احکام سپاہیوں کو دیے جاتے تھے اُن کو بھی بدل کر فارسی زبان میں کر دیا تھا۔ تاکہ غیر فارسی داں دشمن فوج کو یہ احکام سمجھ میں نہ آسکیں۔ انھوں نے فوج کے اصول و ضوابط تیار کیے۔ عہدوں کے لحاظ سے تنخواہیں مقر ر کیں۔ حتیٰ کہ ملازمت ختم ہو جانے کے بعد سپاہیوں کے لیے پینشن اسکیم کا تعین بھی کیا۔ اس اعتبار سے سلطان کی فوج میں شامل سپاہی اُن کے ساتھ وفاداری کرتے تھے۔ 
سلطان ٹیپو نے جب انگریزوں کو مدراس اور بنگلور میں شکست دیں تو انگریزوں نے بھاگ کر سمندر میں پناہ لی۔ ٹیپو کے پاس اُس وقت تک کوئی بحری بیڑہ نہیں تھا۔ اس وجہ سے انگریز مکمل تباہی سے بچ گئے اور اپنی طاقت کو منظم کر کے نئے سِرے سے سلطان کو مقابلے کے لیے للکارا۔ سلطان ٹیپو نے ان حالات کو دیکھ کر اپنا ایک بحری بیڑہ قائم کیا اور اپنی اِس سمندری فوج کے لیے کئی افسر مقر ر کیے۔ اِس بحری بیڑے کے بڑے افسر کو ’’امیرِ یم‘‘( یم یعنی سمندر) کا نام دیا۔ اِس طرح سلطان ٹیپو نے اپنی فوج کو انگریزوں کی مہذب اور منظم فوج سے مقابلے کے قابل بنا دیا۔ 


ایجادات و اصلاحات 

سلطان ٹیپو نے جب سلطنتِ خداداد میسور کا تخت و تاج سنبھالا اُس وقت چاروں طرف سے مشکلات و مصائب کا دور دورہ تھا۔ انھیں اپنا زیادہ تر وقت جنگوں میں صرف کرنا پڑا۔ انھوں نے اصلاحات و ایجادات کی طرف کم توجہ دی۔ لیکن انھوں نے جتنا کام کیا وہ ایسا ہے کہ اُس دور کے دوسرے حکمرانوں نے نہیں کیا۔ انھوں نے تخت نشین ہونے کے ساتھ ہی جاگیردارانہ اور زمین دارانہ نظام کا خاتمہ کیا۔ لگان کی وصولی کو آسان کیا۔ اِس کام کے لیے انھوں نے ایک ’’فصلی تقویم‘‘ (کیلنڈر) تیار کروائی۔ جس میں مہینے اورموسم کے لحاظ رکھے گئے۔ 
انھوں نے تجارت کے اصول و ضوابط پر ایک ضخیم کتاب بھی لکھی۔ فنِّ خطاطی اور اور دوسرے علوم و فنون کی سرپرستی بھی کی۔ انھوں نے ایک بڑا کتب خانہ بھی قائم کیا۔ جہاں ہر موضوع پر کتابیں موجود تھیں۔ راکٹ لانچر کا استعمال بھی سب سے پہلے انھوں نے ہی استعمال کیا۔ 
سلطان ٹیپو کی ایک اہم ایجادسنہ ہجری اور سنہ عیسوی کی طرح ’’ محمدی سال‘‘ ہے۔ جو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے شروع ہوتا تھا۔انھوں نے اپنی سلطنت کے نام ’’سلطنتِ خداداد میسور‘‘ کو قائم رکھا اور سرکاری دفتروں میں یہی نام استعمال کیا جاتا تھا۔ انھوں نے نئے سکّے جاری کیے۔ اُن کے نام۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ (۱) روپیوں کا نام -امامی (۲) اشرفی کا نام - احمدی (۳) ہُن کا نام - فاروقی (۴) اٹھنی کا نام- باقری اور (۵) دونی کا نام کاظمی  رکھا۔ 
اسی طرح سلطان ٹیپو نے میسور سے شمال کی طرف ۱۲؍ میل کے فاصلے پر دریائے کاویری پر ایک بند تعمیر کروایا۔ ایک طرف ٹھہرا ہوا پانی سمندر کا نقشہ پیش کرتا ہے تو دوسری طرف ایک خوب صورت اور دل کش باغ ہے جسے دیکھنے والے ’’ زمین کی جنت‘‘ قرار دیتے تھے۔ اِس باغ میں رنگین فوّارے لگے ہوئے ہیں۔ اِس بند کی تعمیر سری کرشنا راج وڈیر کے حکم پر ہوئی تھی۔ مگر بہت کم لوگوں کو اِس بات کا علم ہے کہ اِس عظیم الشان بند کے بانی سلطنتِ خداداد کے بادشاہ سلطان فتح علی ٹیپو کی ذات ہے۔ اِس بات کا ثبوت بند کے داخلی دروازے پر لگے ہوئے ایک فارسی کتبے سے ملتا ہے جو سلطان ٹیپو کے دور کے انجینئرس کی صلاحیت کا کمال ہے۔ 

جمہوریت 

سلطان ٹیپو نے دوسرے حکمرانوں کی طرح صرف امیروں اور اَعلا ذات کے لوگوں کو ہی اپنے ساتھ حکومت کے انتظامات چلانے کے لیے نہیں رکھا بل کہ انھوں نے جدید دور کی جمہوریت کے اصول عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ انھوں نے اپنی سلطنت کی دیکھ بھال کے لیے رعایا کو اپنے ساتھ رکھا۔ پارلیمنٹ قائم کی۔ اور عوام کو حکومت کے اصولوں اور جمہوریت کے طور طریقوں سے واقف کرایا۔لیکن انھوں نے کہیں بھی اپنے مذہب اسلام کے ضابطوں سے رُوگردانی نہیں برتی۔ اس تعلق سے کرنل ولکس نے یوں لکھا ہے کہ  :
’’ سلطان ٹیپو تھا تو کٹر مسلمان۔ لیکن جمہوریت جس کی اُس وقت فرانس میں دھوم تھی، ٹیپو کے پاس کوئی نئی یا تعجب خیز بات نہ تھی۔ کیوں کہ ٹیپو کی راجدھانی میں اِس کی داغ بیل پڑ چکی تھی اور سلطنتِ خداداد ہندوستان کی بہترین اور مثالی حکومت بن چکی تھی۔ ‘‘

سلطان ٹیپو کے جنگی کارنامے 

سلطان ٹیپو بہادر باپ کے بہادر بیٹے اور غیرت مند سچے محبِّ وطن ہندوستانی تھے۔ اُن کی نس نس میں آزادی کا نشّہ سمایاہوا تھا۔ وہ ایک بے مثال جرنیل تھے۔جن کے نام سے انگریزی فوج کے بڑے بڑے افسر کانپ جایا کرتے تھے۔ بچپن ہی سے اُن کے دل میں انگریزوں سے سخت نفرت تھی۔ وہ ہر لمحہ اپنے ملک ہندوستان سے انگریزوں کو نکال باہر کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے انگریزوں سے کئی جنگیں لڑیں۔ لیکن انگریزوں نے سازشوں کا جال بچھا کر وطن کے اِس رکھوالے کو شہید کر دیا۔ ذیل میں اُن کے جنگی کارناموں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ 

انگریزوں سے صلح

حیدر علی کی وفات کے بعد جب سلطان ٹیپومیسور کے تخت پر بیٹھے تو چاروں طرف مسائل کا ایک انبار تھا۔ انگریز اُن کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ سلطان ٹیپو نے انگریزوں کو ہر محاذ پر مسلسل کراری شکست سے دوچار کیا تو انگریز یہ سمجھ گئے کہ سلطان ٹیپو اُن کے والد سلطان حیدر علی سے بھی زیادہ بہادر، تجربہ کار، جنگجو اور بے مثال جرنیل ہیں۔ اس لیے اُن کو جنگ کے میدان میں شکست دینا بڑا مشکل ہے۔ شاطر انگریزوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سلطان کو صرف اور صرف عیاری اور مکاری سے ہی ہرایا جاسکتا ہے۔ چناں چہ انھوں نے دھوکہ اور فریب سے کام لیتے ہوئے اپنے ایلچیوں کے ہاتھوں بہت سے قیمتی تحفے تحائف بھیج کر سلطان ٹیپو سے صلح کی درخواست بھیجی۔ 
کافی لمبی چوڑی بحث و مباحثے کے بعد سلطان ٹیپو نے انگریزوں سے چند شرائط پر صلح کا معاہدہ کر لیا اور انگریزوں کے وفد میں شامل ایلچیوں کو انعام و اکرام دے کر بڑی عزت سے روانہ کر دیا۔ صلح کے معاہدے کے بعد سلطان ٹیپو نے سوچا کہ اب انگریزوں کی طرف سے لمبے عرصے تک حملے وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ اِس لیے وہ اطمینان و سکون سے اپنے دوسرے دشمنوں کا صفایا کرنے میں جُٹ گئے۔ انگریزوں سے صلح کی جو شرطیں طَے ہوئی تھیں اُن میں یہ بھی تھی کہ انگریز سلطان کے قیدیوں کو رہا کر دیں گے اور سلطان کے علاقے بھی واپس کر دیں گے جب کہ سلطان ٹیپو بھی انگریزوں کے علاقے اور اُن کے قیدیوں کو واپس کر دیں گے۔ اِس طرح ان شرطوں پر دونوں طرف سے عمل بھی کیا گیا۔ 

مرہٹوں اور نظام کی سازشیں 

شاطر انگریزوں نے یہ صلح صرف دکھاوے کے لیے کی تھی مگرسچائی یہ تھی کہ وہ درپردہ سلطان ٹیپو سے دشمنی ہی رکھتے تھے۔ اُس وقت سلطان کے تین بڑے دشمن تھے۔ مرہٹے، انگریز اور حیدرآباد کا حکمراں نظام الملک- یہ تینوں سلطان ٹیپو کے باپ حیدر علی کے بھی دشمن تھے۔ لیکن بہادر ٹیپو سے مقابلہ کرنے کی اُن میں ذرا بھی ہمت نہ تھی۔ وہ سلطان ٹیپو کی بہادری اور جواں مردی سے ڈرتے تھے۔ انگریزوں کو اِس بات کا پورا علم تھا اِس لیے انھوں نے مرہٹوں اور حیدرآباد کے نظام کو اپنے ساتھ ملا کر سلطان ٹیپو کے خلاف سازشوں کا جال بچھانا شروع کر دیا۔
 مرہٹوں اور نظام کو حیدر علی نے ماضی میں کئی مرتبہ ذلت آمیز شکستیں دی تھیں۔ اُن کا بدلہ لینے کے لیے اُن کے دلوں میں انتقام کا جذبہ پنپ رہا تھا۔ چناں چہ مرہٹوں نے نظام سے ساز باز کر کے میسور پر حملہ کرنے کی پوری تیاری کر لی۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر علی کی وفات کے بعد سلطان ٹیپو کمزور پڑ گئے ہوں گے۔ اِس طرح وہ آسانی کے ساتھ نوجوان ٹیپو کو شکست دے کر میسور کی سلطنت کا خاتمہ کر دیں گے اور میسور کے علاقوں پر قبضہ جما کر آپس میں بانٹ لیں گے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ میسور کی سلطنت سلطان ٹیپو کے دور میں بہت زیادہ ترقی یافتہ اور خوش حال تھی۔ جب مرہٹوں اور نظام نے میسور کی یہ ترقیاں اور خوش حالیاں اور سلطان ٹیپو کی مقبولیت دیکھی تو وہ حسد کی آگ میں جل بھن گئے۔ اور اِس جلتی پر تیل کا کام کیا شاطر انگریزوں نے۔ اِس طرح مرہٹوں اور نظام نے مل کر میسور پر حملہ کر دیا۔ 

مرہٹوں اور نظام کامیسور پر حملہ

انگریزوں کی سازش کے نتیجے میں اور سلطان ٹیپو سے حسد اور جلن کی وجہ سے مرہٹوں اور نظام نے ہندوستان سے انگریزوں کو نکال باہر کرنے کا خواب دیکھنے والے سلطان ٹیپو کی سلطنت پر حملہ کرنے کی مکمل تیاری کر لی۔ میسور کی سلطنت میں سرحدی علاقے میں ایک قلعہ تھا جس کا نام ’’بادامی ‘‘ تھا۔ مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی فوج نے مل کر اُس قلعے پر دھاوا بول دیا۔ اور قلعے کا محاصرہ کر کے گولہ باری شروع کر دی۔ اس وقت مرہٹوں کی فوج میں اسّی ہزار سوار، چالیس ہزار پیدل، پچاس توپیں اور دوسرے جنگی سازوسان تھے۔ جب کہ حیدرآباد کی فوج میں چالیس ہزار سوار، پچاس ہزار پیدل اور بے شمار گولہ بارود تھے۔ اتنی زیادہ تعداد پر مشتمل دو حکومتوں کی فوج نے ’’بادامی ‘‘ قلعے کا بڑا کڑا محاصرہ کیا۔ تقریباً نو مہینے تک قلعے والوں نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ چوں کہ اُن کی تعداد کم تھی جب کہ دشمن فوج کی مجموعی تعداد دو لاکھ کے قریب تھی۔ قلعے کے لوگ اتنی بڑی فوج کا مقابلہ آخر کب تک کرتے؟ تھک ہار کر انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور قلعہ مرہٹوں اور نظام کے قبضے میں چلا گیا۔ اس قلعے کو اتحادی فوج نے اپنی فوجی چھاونی بنا لیا۔ 
’’ بادامی‘‘ قلعے کو اپنا مرکز بنا کر میسور کی سلطنت کے مختلف علاقوں میں حملہ کرنے کے لیے مرہٹے اور نظام اپنی فوج بھیجا کرتے تھے۔ انگریزوں کی سازش، مرہٹوں اور نظام کی چال بازیوں سے سلطان ٹیپو کے کئی قلعہ داروں نے سلطان کے ساتھ غدّاری کی اور دشمنوں سے بھاری رشوت لے کر قلعے اُن کے حوالے کر دیے۔ اِس طرح کم مدّت میں سلطان ٹیپو کے بہت سارے علاقوں پر دشمن فوج نے اپنا قبضہ جما لیا۔ سلطان ٹیپو کو جب جنگ کی صورتِ حال اور قلعہ داروں کی غدّاری کا علم ہوا تو وہ غصّے سے بپھر گئے اور اپنی فوج کو تیار کر کے مار دھاڑ کرتے ہوئے قلعۂ ادھونی کی طرف یلغار کی۔ ادھونی نظام حیدرآباد کے علاقے میں آتا تھا اور اس قلعے کا حاکم نظام کا داماد تھا۔ 
سلطان ٹیپو نے قلعے پر دھاوا بولنے سے پہلے نظام کے داماد کے پاس اپنا ایلچی روانہ کیا اور یہ پیغام بھیجا کہ :’’ میری تم سے اور نظام حیدرآباد سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ مگر نظام ہم سے خوامخواہ دشمنی رکھتے ہیں اور مرہٹوں سے مل کر ہمارے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ تم میرا ساتھ دو اور نظام کو سمجھانے کی کوشش کرو۔‘‘ لیکن سلطان ٹیپو کے اِس دوستانہ پیغام پر نظام کے داماد نے کان نہ دھرے۔ مجبوراً سلطان کو قلعۂ ادھونی پر حملہ کرنا پڑا۔ 

سلطان کا ادھونی پر قبضہ

نظام کا داماد جب سلطان ٹیپو کے اِس پیغام پر ٹس سے مس نہ ہوا تو سلطان نے ادھونی شہر پر قبضہ جما لیا۔ جب قلعہ دار نے یہ دیکھا تو اُس نے قلعے میں بھاگ کر قلعے کے دروازے بند کر لیے۔ سلطان ٹیپو نے قلعے کا محاصرہ تو کر لیا لیکن اپنے سپاہیوں کو کسی بھی قسم کی کار روائی کرنے سے روکے رکھا۔ سلطان ٹیپو بڑے نیک اور شریف انسان تھے۔ انھیں اِس بات کا علم تھا کہ قلعے میں نظام حیدرآباد کی بیٹی اور دوسری پردہ دار خواتین ہیں۔ سلطان دوسروں کی عزت کو اپنی عزت تصور کرتے تھے۔ سلطان نے اپنے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ جب تک یہ عورتیں قلعے سے نکل نہیں جاتیں کوئی بھی سپاہی قلعے میں گھسنے کی کوشش نہ کرے۔ سلطان کے بعض سردار بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ یہی مناسب موقع ہے اگر ہم قلعے پر چڑھائی کریں تو بہ آسانی قلعہ ہمارے ہاتھ آسکتا ہے لیکن یہ سلطان کے کردار کی بلندی ہے کہ انھوں نے عورتوں کی عزت و حرمت کا خیال رکھا۔ چند روز بعد جب نظام کی بیٹی اور دوسری عورتیں وہاں سے چلی گئیں تو سلطان نے قلعے پر حملے کا حکم دیا۔ اور وہ قلعہ جو منٹوں میں فتح ہوسکتا تھا اُس کو فتح کرنے میں پورے اٹھارہ دن لگ گئے۔ 

شاہ نور کی فتح

نظام حیدرآباد کے داماد کو سبق سکھانے اوراُس کے اہم قلعے ادھونی پر قبضہ کرنے کے بعد سلطان کی اپنی توجہ مرہٹوں کی طرف کر دی اور مرہٹوں کی سرکوبی کرتے ہوئے انھیں مسلسل شکستیں دیتے ہوئے پیچھے ڈھکیل دیا۔ مرہٹے پسپا ہوتے ہوئے دریائے تنگ بھدرا کے پار اُتر گئے۔ سلطان نے اُن کا پیچھا نہ چھوڑا انھوں نے اپنی فوج کو دریا میں اترنے کا حکم دیا۔ دوسرے کنارے پہنچ کر مرہٹوں کے ساتھ میسور کی فوج کا بڑا سخت مقابلہ ہوا۔ آخر کار مرہٹوں کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ 
سلطان ٹیپو نے انھیں بھاگنے نہ دیا پے در پے انھیں کھدیڑتے ہوئے شاہ نور پر حملہ کر دیا۔ یہاں بھی دشمن فوج نے مقابلہ کیا۔ لیکن میسور کی فوج کے سامنے اُن کی ایک نہ چلی اور انھیں منہ کی کھانی پڑی اس طرح شاہ نور پر بھی سلطان کا قبضہ ہو گیا۔ 

خوف ناک اور فیصلہ کن جنگ

سلطان ٹیپو یہی چاہتے تھے کہ وطنِ عزیز ہندوستان کے مشترکہ دشمن یعنی انگریزوں کے خلاف ہندوستان کے تمام حکمراں، راجا اور نواب آپس میں مل جائیں۔ لیکن اِس میں انھیں ناکامی مل رہی تھی۔ کچھ تو انگریزوں کی درپردہ سازش کام کر رہی تھی تو کچھ سلطان ٹیپو کی خوش حالی سے یہاں کے حکمرانوں کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک رہی تھی۔
انگریزوں کی سازباز سے سلطان ٹیپو اور مرہٹوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی لڑائیاں اور جھڑپیں ہوتی رہیں۔ سلطان ٹیپو نے ان چھوٹی جنگوں میں مرہٹوں کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ انھوں نے بالآخر مرہٹوں کو سبق سکھانے کے لیے ایک خوف ناک اور فیصلہ کن جنگ لڑنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اور مرہٹوں کو یہ پیغام بھیجا کہ :’’ بار بار جیت کا ایک ہی بار فیصلہ ہو جائے تو یہی بہتر ہے۔ بجائے چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے ایک جگہ کھل کر لڑائی کی جائے۔‘‘ 
مرہٹوں نے پہلے تو خوب ٹال مٹول کی۔ لیکن بعد میں انھوں نے کافی سوچ بچار کے بعد سلطان سے ایک بڑی جنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چناں چہ ایک روز میسور اور مرہٹہ فوج پوری تیاری اور جوش و خروش کے ساتھ آمنے سامنے آ گئی۔ مقابلے کے لیے یہ شرط طَے کی گئی کہ پہلے دونوں طرف سے ایک ایک دستہ میدان میں آ کر مقابلہ کرے گا، پھر دوسرا، پھر تیسرا - اِس مقابلہ آرائی میں سلطان کا پلّہ بھاری رہا اور مرہٹوں کا کافی جانی نقصان ہوا۔ 
مرہٹوں نے جب یہ حال دیکھا تو انھیں اندیشہ ہوا کہ اگر اِسی طرح لڑائی جاری رہی تو ہمارا بہت بڑا جانی نقصان ہوسکتا ہے بل کہ کہیں ہماری ساری فوج ہی نہ کٹ مرے۔ بہتر یہی ہے کہ یک بارگی زبردست حملہ کر کے سلطان کی فوج کو شکست دی جائے۔ چناں چہ مرہٹوں نے جنگ کی شرط کو بالائے طاق رکھ کر اپنے پورے لشکر کے ساتھ سلطان کی فوج پر حملہ کر دیا۔ سلطان نے جب مرہٹوں کو شرط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھا تو اُس نے اپنے لشکر کو بھرپور حملے کا حکم دے دیا۔ سلطان کی فوج نے دشمن پر گولا باری شروع کر دی اور اُن کے بہادر سپاہی تلوار بازی کے جوہر دکھانے لگے۔ سلطان کا یہ حملہ اتنا اچانک اور سخت تھا کہ مرہٹوں کے ہوش ٹھکانے لگ گئے۔ وہ بوکھلا کر میدان سے فرار ہو گئے اور اس جنگ میں آخر کار فتح سلطان ٹیپو ہی کی ہوئی۔ 
مرہٹوں نے اس شکست سے گھبرا کر سلطان سے صلح کی درخواست کی اور سلطان نے اِس شرط پر اپنے ہم وطن مرہٹوں سے صلح کر لی کہ دونوں ایک دوسرے کے قیدیوں کو آزاد کر دیں گے اور مفتوحہ علاقوں کو بھی واپس کر دیں گے۔ اس طرح مرہٹوں اور سلطان ٹیپو نے صلح کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے مستقبل کا لائحۂ عمل ترتیب کیا۔ یہ صلح بھی دراصل سلطان ٹیپو کی ایک سیاسی فتح ہی تھی۔ 

نظام سے صلح کی کوشش

سلطان اِس بات کو بہ خوبی سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے اصل دشمن انگریز ہیں اس لیے انھوں نے مرہٹوں کے بعد نظام حیدرآباد سے بھی صلح کا منصوبہ بنایا۔ جیسے ہی انھیں مرہٹوں سے کچھ آرام نصیب ہوا انھوں نے نظام کے دربار میں اپنے ایلچی کو قیمتی تحفے تحائف دے کر روانہ کیا اور نظام کے نام ایک زبانی پیغام بھی بھیجا  :
’’ جنابِ والا! ہماری آپس کی نا اتفاقی اور دشمنی سے انگریزوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ انگریز صرف ہمارے ہی نہیں بل کہ آپ کے بھی دشمن ہیں۔ اُن کا مقصد ہندوستان کو اپنا غلام بنانا ہے۔اور وہ ہم ہندوستانیوں کو آپس میں لڑوا کر دھیرے دھیرے ہمارے ملک پر قبضہ جما رہے ہیں۔ اِس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر انگریزوں کا مقابلہ کریں۔ اور عہد کریں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف کبھی ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ ‘‘
سلطان ٹیپو نے اپنے اِس پیغام پر عمل کرنے کا طریقہ بھی اس طرح سمجھایا کہ  :
’’ پیار محبت، امن و سلامتی اور صلح  و صفائی سے رہنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم آپس میں خوش گوار تعلقات اور رشتے داریاں قائم کریں۔ ہمارے خاندان کی لڑکیاں آپ کے خاندان میں بیاہی جائیں اور آپ کے خاندان کی لڑکیاں ہمارے خاندان میں۔ اِس طرح جب ہم آپس میں رشتے دار ہو جائیں گے تو لڑائی وغیرہ کا سوال ہی نہیں پیدا ہو گا۔‘‘
نظام حیدرآباد نے جب سلطان ٹیپو کا یہ دوستانہ اور مخلصانہ پیغام سُنا تو اُنھیں بے حد خوشی حاصل ہوئی۔ اُنھیں رشتے داری کی یہ تجویز بھی بہت پسند آئی۔ لیکن اُس کے ناعاقبت اندیش وزیروں اور محل کی عورتوں نے نظام کو ٹیپو کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا اور کہا کہ :’’ ٹیپو تو نیچ ذات کاہے، ہماری لڑکیاں ٹیپو کے خاندان میں بیاہی جائیں گی تو اِس سے ہمارے اَعلا خاندان کی توہین ہو گی۔ اِس لیے ٹیپو سے کسی بھی قسم کی رشتے داری قائم نہیں ہوسکتی۔‘‘ 
نظام جو پہلے تو خوش ہوا تھا وہ اِس اشتعال انگیزی پر بھڑک اٹھا اور اس طرح سلطان ٹیپو کا ایلچی ناکام و نامرادواپس ہو گیا۔بعد کے حالات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر نظام ٹیپو کی ان تجاویز کو مان لیتے تو اِن دونوں طاقتوں کے ہوتے انگریزوں کو ہندوستان میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملتا۔ 

انگریزوں کی وعدہ شکنی اور سلطان کا کوچین پر قبضہ

ٹیپو سلطان جب تخت نشین ہوئے تھے اُس کے فوراً بعد ایک جنگ میں انگریزوں نے شکست کھانے پر سلطان سے صلح کر لی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے جنگ نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ انگریزوں نے یہ صلح مجبوری کی حالت میں صرف دکھاوے کے لیے کی تھی۔ جب کہ وہ در پردہ سلطان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے بل کہ مرہٹوں اور نظام کو بھی انگریزوں نے ہی سلطان کے خلاف اُکسایا تھا۔ اِس لیے وہ کسی ایسے بہانے کی تلاش میں تھے کہ میسور پر حملہ کرسکیں۔ انگریزوں کی فطرت میں بدعہدی اور وعدہ شکنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اُسی دوران مالابار کے علاقے میں بغاوت ہو گئی۔ سلطان نے اپنے حُسنِ انتظام اور ہوشیاری سے اس بغاوت پر جلد ہی قابو پا لیا۔ بعد میں انھیں یہ علم ہوا کہ یہ بغاوت دراصل مالابار کی پڑوسی ریاست کوچین اور ٹراونکور کے راجا کی شر انگیزی کے سبب پھیلی تھی تو انھوں نے غضب ناک ہو کر کوچین پر چڑھائی کر دی۔
 کوچین پر قبضہ کر کے سلطان ٹیپو ٹراونکور کے راجا کو سبق سکھانے کے لیے آگے بڑھنے لگے۔ راجا نے انگریزوں سے مدد طلب کی۔ انگریزوں نے صلح کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلا سوچے سمجھے سلطان ٹیپو کی فوج پر ہلّہ بول دیا۔ انگریزوں اور ٹیپو کے درمیان آپس میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ سلطان نے جب انگریزوں کی یہ عہد شکنی دیکھی تو انھیں شدید رنج ہوا۔ انھوں نے بھی انگریزوں پر یلغار کر دی اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اِس جنگ میں بھی انگریزوں کو بڑی ذلّت آمیز شکست کا سامنا ہوا اور اُن کی فوج بدحواس ہو کر مدراس کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔ 

سلطان کے خلاف انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کی متحدہ سازشیں 

سلطان ٹیپو سے ہر میدان میں کراری شکست کھانے کے بعد انگریزوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ سلطان کی وجہ سے اُن کا چین و سکون برباد ہو کر رہ گیا تھا۔ انھیں اِس بات کا پختہ یقین ہو گیا تھا کہ وہ تنِ تنہا سلطان ٹیپو جیسے بہادر اور تجربہ کار جرنیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ چناں چہ انھوں نے ایک بار پھر نظام اور مرہٹوں کو اپنے ساتھ مِلانے کی سازش رچی۔ مرہٹے تو شاہ نور کی جنگ کے بعد ہوئی جنگ میں اپنی ناکامی سے اِسی موقع کی تلاش میں تھے۔ اور نظام کو تو اُس کے خوشامدی وزیروں نے اس بات کے لیے تیار کر ہی لیا۔ ان کے علاوہ انگریزوں کے ایک شاطر سپہ سالار کارنوالس نے مرہٹوں اور نظام کو یہ لالچ دی کہ وہ میسور کے علاقے بالا گھاٹ پر قبضہ کر کے آپس میں بانٹ لیں گے۔ اس بات پر نظام اور مرہٹوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا فوراً اُنھوں نے سلطان ٹیپو سے جنگ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔
انگریزوں نے اِس بات کو بھی محسوس کر لیا تھا کہ سلطان ٹیپو جیسے بہادر اور غیرت مند سپہ سالار کو طاقت کے بل بوتے پر شکست نہیں دی جاسکتی۔ اِس لیے انھوں نے میسور میں سازشوں کا جال پھیلانا شروع کر دیا۔ انھوں نے ایک طرف مرہٹوں اور نظام کو میدانِ جنگ کا ساتھی بنا لیا تو دوسری طرف سلطان ٹیپو کے بعض ضمیر فروش اور لالچی وزیروں اور سپاہیوں کو دولت کے عوض خرید لیا۔ جو کہ سلطان کے دفاعی راز انگریزوں تک پہنچانے لگے۔ ایسے غدّاروں میں سرِ فہرست کِشن راؤ، میر صادق اور پورنیا کے نام آتے ہیں۔ جن کی وجہ سے سلطان ٹیپو کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ 

انگریزوں کا بنگلور پر حملہ 

انگریز، مرہٹے اور نظام اپنی پچھلی شکستوں کا بدلہ لینے کے لیے اِس مرتبہ سلطان کو شکست دینے کے لیے زبردست تیاریاں کیں۔ تینوں دشمنوں نے مل کر میسور کی طرف چڑھائی کا آغاز کر دیا۔ جب بہادر ٹیپو کو اُن کی آمد کی خبر ملی تو اُس نے بھی اپنے لشکر کو مکمل تیاری کا حکم دے دیا۔ دشمن فوج نے سلطان کی فوج پر ایسا اچانک حملہ کر دیا کہ ابھی سلطان کی فوج میدان میں اپنے خیمے گاڑ رہی تھی اور میسور کی فوج کے دوسرے سپاہی لکڑیاں جمع کرنے میں مصروف تھے۔ یہ حملہ انتہائی اچانک اور اتنا غیر متوقع تھا کہ سلطان کی فوج کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملتا لیکن سلطان کے وفادار اور بہادر سپاہیوں نے بڑی بے باکی کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کیا کہ اُن کے چھکے چھوٹ گئے، سلطان کے ایک سپاہی نے ایک انگریز جنرل کو ایسا نشانہ سادھ کر گولی ماری کہ وہ اُس کے جبڑوں کو چیرتی ہوئی آر پار ہو گئی۔ جرنیل کے گرتے ہی دشمن فوج کے سپاہی میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ سلطان کی فوج نے دشمن کے سیکڑوں سپاہیوں کو گرفتار کر کے قیدی بنا لیا۔ 
دوسرے دن انگریزوں نے اپنے دو تجربے کار جرنیل کرنل مورس اور جنرل میڈوز کی قیادت میں میسور کے شہر بنگلور پر زبردست چڑھائی کی۔ سلطان ٹیپو کی فوج نے بہادری سے ڈٹ کر انگریزوں کا مقابلہ کیا اور بنگلور کا دفاع کرتے رہے۔ دونوں طرف کے سیکڑوں سپاہی اِس جنگ میں کام آئے۔ بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ سلطان کی تقدیر میں اس وقت ہار لکھی ہوئی تھی سو اِس جنگ میں انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی۔ انگریزی فوج نے لٹیروں کی طرح بنگلور شہر میں چاروں طرف لوٹ مار مچائی اور شہر کو تاراج کیا۔ انگریزی فوج کو اتنا مال ملا کہ ہر سپاہی دولت مند بن گیا۔ شہر تو فتح ہو گیا لیکن قلعہ فتح نہیں ہوا۔ اب انگریزوں نے قلعہ فتح کرنے کی طرف دھیان دیا اور گولا باری میں مصروف ہو گئے۔ 

کشن راؤ کی غدّاری

انگریز بنگلور کے قلعے پر گولا باری کرتے رہے۔ وہ اِس قلعے کو آسانی سے فتح نہ کرسکتے تھے۔ ہوا یوں کہ شاطر انگریزوں نے سلطان ٹیپو کے خلاف خود اُس کی فوج اور دربار کے بعض سرداروں کو دولت کے لالچ میں خرید لیا تھا۔ انھیں میں سے ایک غدّار سردار کا نام کشن راؤ تھا۔ جس کی غدّاری کی وجہ سے بنگلور کا قلعہ انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ کشن راؤ درپردہ انگریزوں سے ملا ہوا تھا اور قلعے کے اندر سے ایک ایک پل کی خبریں انگریزوں کو پہنچا رہا تھا۔انگریزوں نے شہر پر قبضہ جمانے کے بعد بنگلور میں بھی خوب لوٹ مار مچائی۔کشن راؤ کی غدّاری کا اب تک کسی کو علم نہ تھا، سلطان بھی اِس بات سے بے خبر تھے۔ جب بنگلور پر انگریزوں کا تسلط ہو گیا تو سلطان ٹیپو نے اُسے سری رنگا پٹّم بھیج دیا۔ 

کشن راؤ کا دردناک انجام

کر بُرا تو ہو بُرا - کے مصداق نمک حرام کشن راؤ کو بھی اُس کی غدّاری کی جلد ہی سزا مِل گئی۔ کشن راؤ کی غدّاری کی خبر شاید کسی کو نہ ہوتی۔ دراصل اُس کی بیوی بڑی اچھی اور وطن پرست تھی۔ وہ اپنے شوہر کی وطن دشمن حرکتوں سے بہت ناراض تھی۔ اُسے کشن راؤ کی غدّاری سے بہت دکھ پہنچ رہا تھا وہ اُس سے نفرت کرنے لگی۔ اُس نے بختاور نامی ایک دایہ کے ذریعہ کشن راؤ کی وطن دشمن حرکات و سکنات سے سلطان ٹیپو کی والدہ کو آگاہ کیا۔ سلطان کی والدہ نے یہ بات ایک جاسوس کے ذریعہ سلطان تک پہچانے کا انتظام کیا۔
ایک دن میدانِ جنگ میں سلطان ٹیپو کے پاس اُن کی والدہ کا بھیجا ہوا ایک جاسوس آیا۔ جس نے سلطان کو کشن راؤ کی غدّاری اور انگریزوں سے ساز باز کے بارے میں بتایا کہ اُس نے چند اور غدّاروں کو اپنے ساتھ ملا کر میسور کی حکومت کے خلاف سازش کی ہے۔ جس کے مطابق جلد ہی انگریزوں کا لشکر سری رنگاپٹّم پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے کشن راؤ اور دوسرے غدّاروں کو جلد سے جلد سزا دی جائے۔ 
سلطان ٹیپو کو جب اُن کی والدہ کا یہ پیغام مِلا تو وہ حیرت میں پڑ گئے۔ کشن راؤ کی اُن کے دل میں بہت عزت اور احترام تھا۔ انھیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ کشن راؤ بھی غدّاری کرسکتا ہے۔ سلطان کو بڑا غصّہ آیا۔ انھوں نے اپنے قابل اور بھروسے مند سپہ سالار سیّد صاحب کو کچھ فوج دے کر فوراً میسور روانہ کیا۔ سیّد صاحب نے سری رنگاپٹّم پہنچتے ہی سب سے پہلے کشن راؤ کی گرفتاری کا حکم دیا۔ جب کشن راؤ کو اس بات کا پتا چلا تو وہ اپنے کمرے میں گھس کر بیٹھ گیا۔مگر سلطان ٹیپو کے وفادار سپاہیوں نے اس غدّار کو دروازہ توڑ کر پکڑ لیا اور تلواروں سے اُس کا قیمہ بنا کر سلطنتِ خداداد میسور کے اس نمک حرام غدّار کا قصّہ تمام کر دیا۔ بعد میں سیّد صاحب نے حکم دیا کہ اُس کی لاش بازار میں پھینک دی جائے۔ چناں چہ کشن راؤ کی لاش کو بازار میں پھینک دیا گیا تاکہ لوگ غدّاروں کا عبرت ناک انجام دیکھ سکیں۔ تاریخ میں کشن راؤ کا یہ جملہ لکھا ہوا ملتا ہے جو اُس نے مرتے وقت کہا تھا کہ :
’’ مَیں نے جو آگ لگا دی ہے، اُسے سلطان زندگی بھر نہ بجھا سکے گا۔‘‘ 
کشن راؤ جیسے غدّار کی یہ بات صد فی صدسچ ثابت ہوئی۔ کشن راؤ اور اُس کے جیسے دوسرے نمک حرام غدّاروں اور وطن فروشوں نے میسور میں جو آگ لگائی تھی، اُسے سلطان ٹیپو مرتے دم تک نہ بجھا سکے۔ یہ آگ بجھی تو صرف سلطان جیسے بہادر اور جواں مرد شہید کے خون سے، جن کی شہادت سے ہندوستان پر انگریزوں کے اقتدار کو تقویت مل گئی۔ آج اُن غدّاروں کا کہیں کوئی نام نہیں لیکن سلطان ٹیپو کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے امَر ہو گیا۔ 

سری رنگا پٹّم پر انگریزوں کا پہلا حملہ

سلطان ٹیپو کی سلطنت اِس وقت دشمنوں سے گھری ہوئی تھی۔ میسور کے چاروں طرف سلطان کے تینوں دشمن نظام، مرہٹے اور انگریز اپنے پر پھیلا رہے تھے اور قلعے میں کشن راؤ کے پیدا کردہ غدّار اور نمک حرام اپنی سازشوں کا جال بُن رہے تھے۔ سلطان ٹیپو کے لیے حالات بڑے سخت تھے۔ 
ایک طرف مرہٹوں اور نظام کی فوج نے میسور کے علاقوں میں لوٹ مار مچا رکھی تھی اور کئی قلعوں پر اپنا قبضہ بھی جما لیا تھا تو دوسری طرف انگریزی فوج  جنرل کارنوالس کی قیادت میں پیش قدمی کرتے ہوئے سری رنگاپٹّم تک پہنچ گئی اور اُس نے میسور کی راجدھانی سری رنگاپٹّم کا محاصرہ کر لیا۔ اس وقت برسات کا موسم چل رہا تھا۔ حالات بے حد خراب تھے۔ سری رنگاپٹّم کی عوام نے اپنی فوج کے ساتھ مل کر انگریزوں سے بڑی دلیری اور بہادری سے مقابلہ کیا۔ ہر بار انگریزوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
سلطان ٹیپو کے تربیت یافتہ چھاپہ مار دستوں نے انگریزوں کی رسد کے تمام راستوں کو بند کر دیا۔ بیس روز کے محاصرے کے دوران انگریزوں نے سری رنگاپٹّم کو فتح کرنے کی جان توڑ کوشش کی، لیکن ہر مرتبہ ناکام ہوئے۔ اِس کوشش میں انگریزی فوج کے ہزاروں سپاہی مارے گئے۔ رسد اور کمک نہ ملنے کی وجہ سے انگریز سپاہی بھوکوں مرنے لگے۔حالات اتنے نازک ہو گئے تھے کہ غذا کی کمی کے سبب انگریزوں نے اپنی توپ کھینچنے والے بیلوں کو بھی کاٹ کاٹ کر بھون کر کھا لیا۔ جب کسی طرف سے رسد ملنے کی امید نہ رہی تو سپہ سالار جنرل کارنوالس کے ہوش ٹھکانے لگ گئے۔ اب محاصرہ ختم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستا نہ تھا۔ چناں چہ انگریز فوج محاصرہ اٹھا کر الور داک کے قلعے میں بڑی مشکل سے پہنچے۔ جہاں کچھ کھانے پینے کی وجہ سے اُن کو سکون مِلا۔ 
جب تھکی ہاری اور بھوک پیاس سے نڈھال انگریز فوج سری رنگاپٹّم سے ناکام و نامراد واپس ہو رہی تھی تو سلطان ٹیپو کے بعض سرداروں نے یہ رائے دی کہ واپس بھاگتی ہوئی انگریز فوج پر فیصلہ کن ضرب لگانے اور ہمیشہ کے لیے اُن کا قصہ ختم کرنے کا یہ بڑا سنہری موقع ہے۔ اگر آج اس بھوکی پیاسی فوج پر ہم ٹوٹ پڑتے ہیں تو یہ دوبارہ سری رنگاپٹّم کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کریں گے۔ سلطان نے اپنے سرداروں کی اِس تجویز سے اتفاق نہ کیا۔ لیکن بعد میں سلطان کو اس بات کا احساس ہوا کہ انگریزوں کو اِس طرح آسانی سے بچ کر نکل جانے کا موقع نہیں دینا چاہیے تھا۔

 سری رنگا پٹّم پر انگریزوں کا دوسرا حملہ

انگریزی فوج برسات کے موسم میں حالات کی خرابی اور رسد کی کمی کی وجہ سے سری رنگاپٹّم کا محاصرہ اٹھا کر چلی گئی تھی۔ لیکن جیسے ہی برسات کا موسم ختم ہوا، جنرل کارنوالس سری رنگاپٹّم پر دوسرا فیصلہ کن حملہ کرنے کی مکمل تیاریوں میں جُٹ گیا۔ اِس مرتبہ کارنوالس نے نظام حیدرآباد کی فوج کو بھی اپنے ساتھ مِلا لیا۔ اس طرح انگریزوں اور نظام دونوں کا ایک لشکرِ جرار بڑی تیزی سے سری رنگاپٹّم کی طرف اپنا قدم بڑھا رہا تھا۔ اُن کے راستے میں سلطان کے جو قلعے آئے، وہاں کے نمک حرام قلعہ داروں نے سلطان سے غدّاری کی۔ دولت کے لالچ میں انھوں نے انگریزوں کو روکنے اور اُن کا مقابلہ کرنے سے گریز کیا۔ اس طرح انگریز فوج سری رنگاپٹّم تک پہنچنے میں بہ آسانی کام یاب ہو گئی۔ انھوں نے آتے ہی سری رنگاپٹّم کا محاصرہ کر لیا۔ 
سلطان ٹیپو کے جاسوسوں نے انھیں انگریزوں کی تیاری اور سری رنگاپٹّم کی طرف پیش قدمی کی خبر دے دی تھی۔ چناں چہ انھوں نے سری رنگاپٹّم کے قلعے کا دفاع کرنے کے لیے قلعے کی برجوں پر اپنی فوج کے بہادر اور جنگجو سپاہیوں کو مقر ر کر دیا تھا۔ جو ہر قسم کے ہتھیاروں سے آراستہ تھے۔ جب کہ سلطان نے فصیل کے خاص مورچوں پر توپیں، منجنیقیں، اور دوسرے آتشیں ہتھیار بھی لگا دیے تھے۔ انگریز فوج کا سپہ سالار جنرل کارنوالس اس مرتبہ مکمل تیاریوں سے آیا ہوا تھا اور اُسے اِس بات کا پورا پورا یقین تھا کہ اِس بار وہ آسانی سے سری رنگاپٹّم کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ مگر اُس کی یہ خوش فہمی غلط ثابت ہوئی۔ سلطا ن ٹیپو کی فوج نے بڑی بہادری اور دیدہ دلیری سے انگریزی فوج کا مقابلہ کیا کہ دشمنوں کے دانت کھٹّے ہو گئے۔ محاصرے کے تیسرے دن انگریزوں کی مدد کے لیے مرہٹے بھی وہاں پہنچ گئے، لیکن تینوں فوج کے لاکھوں سپاہی مل کر بھی سری رنگاپٹّم کو فتح نہ کرسکے۔ سلطان کی بہادر فوج نے اتحادی فوج کے چھکّے چھڑا دیے جس کی وجہ سے محاصرہ طول پکڑتا گیا۔ 

سلطان کی مجبوری اور صلح کی تجویز

انگریزوں نے جب سلطان ٹیپو کے سپاہیوں کی بہادری اور جواں مردی دیکھی تو انھیں احساس ہو گیا کہ سری رنگاپٹّم کو فتح کرنا بہت مشکل ہے۔ سلطان نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ تنِ تنہا تین دشمنوں انگریز، مرہٹے اور نظام کا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں جب کہ خود اُن کی فوج میں غدّار موجود ہیں۔ نہ صرف انگریز اور سلطان بل کہ مرہٹوں کے سردار نانا فرنویس بھی یہی سوچ رہے تھے۔ اُس نے انگریزوں پر زور دیا کہ وہ سلطان ٹیپو سے صلح کر لیں۔ سلطان خود بھی صلح کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ چناں چہ ایلچیوں کے ذریعے فریقین نے صلح کی بات چیت شروع کی۔ 
شاطر انگریزوں نے صلح کی جو شرائط مقر ر کیں وہ بڑی سخت اور حقارت آمیز تھیں۔ سلطان ٹیپو جیسے غیرت مند سپہ سالار اور حکمراں کے لیے اُن شرائط کو ماننا ناممکن تھا۔ لیکن اِس وقت سلطان بڑے مجبور اور بے بس تھے۔ ایک طرف تین دشمن اور دوسری طرف غدّاروں اور وطن فروشوں کی سازشیں سلطان اِتنے لاچار تھے کہ وہ زیادہ دیر تک دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ سری رنگاپٹّم کی حفاظت کے لیے سلطان نے مجبوراً صلح کی شرائط کو قبول کر کے معاہدے پر دستخط کر دی۔ 

صلح کی شرائط 

۳؍ فروری ۱۷۹۴ء کو جن شرائط پر صلح ہوئی وہ درج ذیل ہیں :
(۱) سلطان ٹیپو اپنے وہ علاقے جن کی سالانہ آمدنی ۳؍ کروڑ روپے ہے، وہ انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کے حوالے کر دے۔ 
(۲)سلطان انگریزوں کو ۳؍ کروڑ روپے تاوانِ جنگ کے طور پر ادا کرے۔ 
(۳) جب تک یہ رقم ادا نہ ہو جائے اُس وقت تک کے لیے سلطان کے دونوں بیٹے ضمانت کے طور پر انگریزوں کے پاس یرغمال کے طور پر سپرد کر دئیے جائیں۔ 
صلح کی شرطوں کی رُو سے سلطان ٹیپو نے ۳؍ کروڑ سالانہ آمدنی والے علاقے دشمنوں کے حوالے کر دیے اور ایک کروڑ روپیہ نقد ادا کر دیا۔ بقیہ دو کروڑ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سلطان نے اپنے دونوں بیٹے وطن کی آن اور شان کے لیے انگریزوں کے حوالے کر دیے۔ اِس صلح کے بعد دشمن فوج محاصرہ اٹھا کر چلی گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ :
’’ جب برطانیہ میں اِس صلح کی خبر پہنچی تو ان شرائط کو پڑھ کر وہاں کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے چیخ کر کہا کہ :’ کارنوالس نے لٹیروں اور ڈاکوؤں کی ایک ٹولی بنا دی ہے، جو حق داروں کا حق چھینتی پھر رہی ہے۔‘‘
برطانوی پارلیمنٹ کے ایک دردمند دل رکھنے والے انگریز ممبر کے اِن جملوں سے اِس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سلطان ٹیپو کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اِس سچے محبِ وطن مجاہد پر انگریزوں، مرہٹوں اور نظام نے کیسی ظالمانہ شرائط لاگو کیں کہ اُن کو سُن کر انصاف پسند انگریز بھی بوکھلا اُٹھے۔ 

نئے اقدامات

انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کی فوج کے جانے کے بعد سلطان ٹیپو نے سلطنت کے امور اور مسائل پر توجہ مرکوز کر دی اور نظامِ سلطنت کی اصلاح اور ملک کی دفاعی اور فوجی مضبوطی کے لیے کئی نئے اقدامات کیے :
(۱) سلطان ٹیپو کو جن نمک حراموں اور غدّاروں کی وجہ سے انگریزوں کی ذلّت آمیز شرائط کو قبول کرنا پڑا، انھیں ڈھونڈ دھونڈ کر عبرت ناک سزائیں دیں۔ 
(۲)فوج میں اضافہ کیا، برّی اور بحری فوج میں نئی بھرتی کی اور سری رنگا پٹّم میں فوجی ٹریننگ کے لیے اسکول شروع کیے۔ 
(۳) جنگ میں جن قلعوں کو نقصان پہنچا اُن کی مرمت کروائی اور اُن کی مضبوطی کی طرف خاص توجہ دی۔ خصوصاً راجدھانی سری رنگاپٹّم کے قلعے کو درست کروایا اور اُسے ناقابلِ تسخیر حد تک مضبوط کیا۔ 
(۳) ہندوستان کے مختلف حکمرانوں کے پاس اپنے ایلچی بھجوا کر انھیں ہندوستان کے خلاف انگریزوں کے خوف ناک عزائم سے آگاہ کرتے ہوئے اُنھیں ملک باہر کرنے کا پیغام دیا۔ 
(۴) سلطان دوسرے ممالک کے مسلمان حکمرانوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس لے انھوں نے اپنے قاصدوں کے ذریعہ کابل اور ایران کے حکمرانوں کو بہت سے قیمتی تحفے تحائف روانہ کیے۔ ان بادشاہوں نے بھی سلطان کے نیک جذبات کا جواب محبت اور خلوص سے دیا۔ 

شہزادوں کی واپسی 

سلطان ٹیپو نے اپنی بے مثال ذہانت اور خوش انتظامی سے سلطنت کے معاملات کو نکھارا ا ور سنوارا، ملکی خزانے میں کافی روپیہ پیسہ جمع کیا۔ صلح کی شرائط کے مطابق انھیں انگریزوں کو دو کروڑ روپے تاوان ادا کر کے شہزادوں کو انگریزوں کی قید سے چھڑا نا تھا۔ سلطان نے دو کروڑ روپے جمع کروا دیے تو انگریزوں نے شہزادوں کو واپس کر دیا۔ شہزادے جب سری رنگاپٹّم واپس ہوئے تو عوام نے خوشیاں منائیں۔ شہزادوں کی غیر موجودگی سے شاہی محل میں جو اداسی چھائی ہوئی تھی اُن کی واپسی سے وہ خوشیوں میں بدل گئی۔ 

لارڈ ولزلی

انگریزوں سے صلح کے معاہدے اور شہزادوں کے واپس آ جانے سے سلطان ٹیپو بہت مطمئن تھے اور پُرسکون زندگی گذار رہے تھے۔ سلطنت کے معاملات کو درست کرنے کے لیے وہ نت نئے انتظامات کر رہے تھے۔ صلح کی وجہ سے سلطان کو مرہٹوں، نظام اور انگریزوں کی طرف سے جلدی کسی خطرے کا اندیشہ نہ تھا۔ لیکن اچانک ایک ایسی تبدیلی واقع ہوئی جس نے حالات کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ 
بات یہ تھی کہ برطانوی حکومت نے انگریز گورنر جنرل کو بدل کر لارڈ ولزلی کو نیا گورنر جنرل بنا کر بھیجا۔ ولزلی اپنے سے پہلے ہندوستان پر فائز گورنرس سے بہت زیادہ چالاک، مکار اور سازشی ذہن کا مالک تھا۔ اُس نے ہندوستان آ کر ایسے قوانین بنائے جو ظاہری طور پر یہاں کے لوگوں کے لیے مفید نظر آ رہے تھے لیکن حقیقت میں وہ ہندوستانیوں کی رہی سہی آزادی کو مکمل طور پر ختم کرنے والے تھے۔ 

نئے انگریزی قوانین ( امدادی فوجی نظام)

انگریز گورنر جنرل لارڈ ولزلی نے ہندوستان آ کر جن قوانین کا نفاذ کیا اُن میں سے ایک بے حد خطرناک اور ذلّت آمیز تھا۔ جس کا نام ’’ سب سیڈی ایری سسٹم‘‘ یا ’’ امدادی فوجی نظام‘‘ تھا۔ ولزلی نے یہ قانون دراصل ہندوستان کی تمام ریاستوں پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے بنایا تھا۔ اس قانون کی رُو سے ہندوستان کی ہر ریاست کے حکمرانوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی سلطنت کی حفاظت کے لیے انگریز فوج رکھے اور فوج کی تنخواہ اور اُس کے تمام تر اخراجات اُسی ریاست کے خزانے سے پورے کیے جائیں۔ جو غیرت مند ریاست اِس قانون کو تسلیم نہ کرتی انگریز اُس کے خلاف جنگ شروع کر دیتے۔ انگریزوں نے اِس قانون کے تحت سب سے پہلے نظام حیدرآباد کو مجبور کیا لیکن اُس نے انکار کر دیا۔ تب انگریزوں نے اچانک اپنی فوج لے کر حیدرآباد پر چڑھائی کر دی۔ حیدرآباد کے نظام کو اِس بات کا احساس ہو گیا کہ انگریز کبھی بھی کسی کے دوست نہیں ہوسکتے اور اسے ٹیپو کی دوستی کے پیغامات یاد آنے لگے۔ جب انگریز اُس کے سر پر مسلط ہونے لگے تو اُس نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے درج ذیل ذلت آمیز شرائط کو مان لیا۔
(۱)توپ خانہ سے لیس چھ ہزار انگریز فوج نظام حیدرآباد اپنی ریاست میں رکھیں گے۔ 
(۲) حیدرآباد میں جو فوج رکھی جائے گی اُس کی کمان انگریز فوجی افسر کے پاس رہے گی۔ 
(۳) انگریز ی فوج کے تمام اخراجات اور ضروریات کو نظام حیدرآباد پورا کریں گے۔ 
(۴) نظام اپنی ریاست میں انگریزوں کے علاوہ کسی بھی یورپی کو آیندہ ملازمت پر نہیں رکھیں گے۔ 
انگریزوں کے اِس ظالمانہ قانون کو ہندوستان کے چند دوسرے حکمرانوں، راجاؤں اور نوابوں نے خوشی خوشی قبول کر لیا۔ اور بعض کو انگریزوں نے طاقت کے بل بوتے پر اس قانون کو ماننے پر مجبور کیا۔ مرہٹوں کے سردار پیشوا نانا فرنویس نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس قانون کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لارڈ ولزلی نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے مرہٹوں کی بات مان لی۔ دراصل ولزلی سلطان ٹیپو کو ہی اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ اُس نے مرہٹوں کی بات مان کر یہ چال چلی کہ اب سلطان ٹیپو بالکل اکیلا پڑ جائے گا۔ اور ہوا بھی ایسا ہی سلطان جیسے سچے محبِ وطن ہندوستان کی آزادی کا خواب آنکھوں میں سجائے اپنے ہی ملک کے دوسرے راجاؤں اور نوابوں کی وجہ سے بے بس ہو گئے۔ انھیں انگریزوں کے خلاف یہاں کے کسی بھی حکمراں سے کوئی مدد نہ مل سکی۔ 

ولزلی کی جنگ کے لیے بہانہ سازی

لارڈ ولزلی ایک طرف اپنی مکاری اور عیاری سے ’’امدادی فوجی نظام‘‘ قانون کے تحت ہندوستانی حکمرانوں کو سلطان ٹیپو کے خلاف استعمال کرنے کی تیاری کر رہا تھا تو دوسری طرف سلطان ٹیپو کے وزیروں اور مشیروں کو بھاری رشوت دے کر انھیں سلطان سے غدّاری پر راضی کرنے کی کوششیں بھی تیز کر رہا تھا۔ ساتھ ہی ولزلی کسی ایسے بہانے کی تلاش میں تھا کہ سلطان ٹیپو سے جنگ کی جائے اور سری رنگاپٹّم پر برطانوی پرچم لہرا دیا جائے۔ ولزلی نے سلطان ٹیپو کے محل میں ایسے غدّاروں کی ایک پوری جماعت کھڑی کر لی جو اُسے پل پل کی خبریں پہنچانے لگے۔بے چارے سلطان ٹیپو کی یہ مجبوری تھی کہ وہ زندگی بھر غدّاروں اور نمک حراموں کی سازشوں سے بے خبر رہے۔ دراصل سلطان اپنے وزیروں اور مشیروں پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ انگریزوں نے جس کا ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ سلطان کے دربار میں ہر وقت وطن فروشوں اور سازشیوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ سلطان ٹیپو جیسے بہادر کو میدانِ جنگ میں شکست دینا ناممکن تھا انھیں اگر ناکامی ملی تو وہ انھیں غدّاروں کی وجہ سے۔ اِن غدّاروں کے سرغنہ پنڈت پورنیا، بدر الزماں نائطہ اور میر صادق تھے۔ 
سلطان ٹیپو نے اسی دوران فرانسیسی حکومت سے ایک معاہدہ کیا تھا، جس میں فرانس نے ضرورت کے وقت سلطان ٹیپو کو فوجی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ ولزلی سلطان ٹیپو سے جنگ کرنے کے لیے بہانہ سازی کر رہا تھا اُسے یہ معاہدہ ایک آنکھ نہ بھایا۔ اُس نے اسی کو بہانہ بنا کر سلطان کو پیغام بھیجا کہ : 
’’ آپ نے ہمارے دشمن فرانس سے دوستی کا معاہدہ کیا ہے۔ مجھے اس بات کا پتا چل چکا ہے۔ مَیں میجر جنرل ڈوٹن کو بھیج رہا ہوں۔ اُسے اختیار ہے کہ انگریزوں کی حفاظت کے لیے آپ کے کچھ علاقے آپ سے مانگے۔‘‘ 
میجر ڈوٹن نے سلطان ٹیپو سے جو علاقے طلب کیے وہ سلطان کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔ اِس لیے سلطان ٹیپو نے وہ علاقے انگریزوں کو دینے سے انکار کر دیا۔ سلطان ٹیپو کی یہ بات جب ولزلی کو معلوم ہوئی تو وہ غصّے سے آگ بگولہ ہو گیا۔ اور اُس نے سری رنگا پٹّم پر فیصلہ کن ضرب لگانے کے لیے ۱۴؍ فروری ۱۷۹۹ ء کو نظام حیدرآباد کی فوج کی مدد سے میسورپر ہلّہ بول دیا۔ 

ایک نمک حرام جرنیل

ولزلی اور دوسرے انگریز افسر سلطان ٹیپو کے خلاف سازشوں کا جال پہلے ہی سے بچھا سکے تھے جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ جب انگریزوں اور حیدرآباد کی اتحادی فوج نے میسور پر حملہ کیا تو سلطان کی سلطنت کی حدود میں کہیں بھی انھیں روکنے کی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ سلطان کے وطن فروش اور غدّار قلعہ داروں نے نمک حرامی کرتے ہوئے انگریزی فوج سے کوئی بھی مزاحمت نہیں کی۔ جس کی وجہ سے وہ میسور کی طرف تیزی سے بڑھتے چلے گئے۔ سلطان کو اس حملے کی خبر نہ ہوسکی۔ غدّار میر صادق اور نمک حرام پور نیا سلطان تک کوئی خبر پہنچنے ہی نہ دیتے تھے۔ لیکن جب سلطان کو اس بات کی خبر ہوئی تو انھوں نے حوصلہ مندی اور جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا لشکر لے کر انگریزوں پر دھاوا بول دیا۔ کئی مقامات پر انگریزوں سے ہلکی جھڑپ ہوئی۔ چوں کہ سلطان ٹیپو کے اکثر جرنیل انگریزوں سے ملے ہوئے تھے، اس لیے وہ انگریزوں کے ساتھ بے دلی سے لڑ رہے تھے اور دیدہ و دانستہ اپنی ہی فوج کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ گلشن آباد کے میدان میں سلطان ٹیپو کی جواں مردی اور ہمت سے انگریز شکست کھا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے لیکن ایک نمک حرام اور غدّار جرنیل قمر الدین کی غدّاری سے جیتی ہوئی جنگ ہار میں بدل گئی۔ 
جب انگریز فوج پسپا ہو کر میدان سے بھاگنے پر مجبور ہو رہی تھی۔ اُسی وقت قمر الدین نے جان بوجھ کر اپنی فوج کو انگریزوں کی توپوں کے سامنے لے آیا اور مختصر سے وقفے میں سلطان ٹیپو کے بے شمار سپاہی شہید ہو گئے۔جس کی وجہ سے فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور بقیہ فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ 

سری رنگا پٹّم پر انگریزوں کا تیسرا حملہ

سلطان ٹیپو کے وزیروں اور مشیروں کی غدّاری اور نمک حرامی کی وجہ سے اور بھی کئی مقامات پر انگریزوں سے جنگ میں سلطان کی فوج کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور انگریز فوج دن بہ دن کامیابیاں حاصل کرتی جا رہی تھی۔ آخر کار ایک روز ایسا ہوا کہ انگریز فوج کا ایک دستہ سری رنگاپٹّم پہنچ گیا۔ سلطا ن اس وقت میدان میں ڈٹے ہوئے تھے۔انھیں بھی فوراً سری رنگاپٹّم پہنچنا پڑا تاکہ وہ انگریزوں کا مقابلہ کر کے سری رنگا پٹّم کی حفاظت کرسکیں۔ 
یہاں بھی انگریزوں نے سلطان کے محل میں موجود غدّاروں اور وطن فروشوں کی معلومات سے فائدہ اٹھایا اور سری رنگاپٹّم کا محاصرہ کر لیا اور قلعے پر گولا باری شروع کر دی۔ قلعے کے سامنے بنے ہوئے مورچوں پر انگریزوں نے آسانی سے قبضہ جما لیا۔ سلطان ٹیپو کی وفادار فوج نے قلعے کی فصیل سے انگریزوں پر سخت حملے کیے اور انھیں نقصان پہنچایا۔ لیکن بعض جرنیل اور فوجی افسروں کی غدّاری کی وجہ سے سلطان کی فوج کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ انگریزوں کے خریدے ہوئے جرنیل ایسی چال چلتے کہ سلطان کی فوج کی کامیابی ناکامی میں بدل جاتی۔ انگریزوں نے جلد ہی سلطان ٹیپو کے کئی اہم مورچوں پر قبضہ کر لیا جس کی وجہ سے سلطان کی فوج کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔ سلطان بے بسی محسوس کرنے لگے۔ اب تک اُن کو اپنے سرداروں، وزیروں اور مشیروں کی غدّاری کی کوئی خبر نہیں تھی۔ 

بچاؤ کی تجویزیں 

سلطان نے جب یہ حالات دیکھے کہ قلعے کے باہر انگریزوں کا ایک بڑا لشکر جمع ہے اور وہ زیادہ دیر تک انگریز فوج کو قلعے میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتے تو انھوں نے اپنے سرداروں اور مشیروں کو طلب کیا تاکہ بچاؤ کے لیے کوئی تدبیر کی جاسکے۔سلطان نے اُن سے مشورہ طلب کرتے ہوئے کہا کہ : ’’ اس وقت جو حالات ہیں مَیں نے آپ کو مشورے کے لیے بلایا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ مجھے اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ آپ حضرات مجھے مشورہ دیں۔‘‘ 
دربار میں موجود چند فرانسیسی سرداروں نے سلطان ٹیپو کو تین تجاویز پیش کیں : 
(۱) آپ اپنے بیوی بچّوں اور مال و دولت لے کر آدھی رات کے وقت پندرہ ہزار فوج کے ساتھ چیتل درگ کے قلعے میں چلے جائیں۔  ۔۔۔۔۔۔یا  ۔۔۔
(۲) آپ کے کچھ سردار آپ کی شکست کا اصل سبب ہیں۔ چناں چہ تمام مورچوں سے اپنے سردار ہٹا کر مورچے ہمارے ذمہ کر دیں۔ ہم اُن مورچوں کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دیں گے، لیکن دشمن کے آگے سر نہیں جھکائی گے اور کسی صورت میں ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔  ۔۔۔۔۔۔یا ۔۔۔
(۳)چوں کہ انگریز ہماری وجہ سے آپ کے دشمن ہو رہے ہیں، اِس لیے آپ ہمیں گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیں اور پھر اُن سے صلح کی بات چیت کریں۔ 
فرانسیسی سرداروں کی یہ تجویزیں سُن کر سلطان ٹیپو نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ : ’’ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہوسکتاکہ ہم تمہیں گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیں جب کہ تم ہمارے دوست ہو اور اپنے ملک سے یہاں اتنی دور آ کر ہماری خدمت اور مدد کر رہے ہو، مَیں تمہیں دشمن کے حوالے کر دوں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ 
سلطان ٹیپو نے مشاورتی اجلاس میں پیش کی گئی فرانسیسی سرداروں کی دوسری تجویز پر کافی غور و خوض کے بعد عمل کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے اپنے وزیرِ اعظم میر صادق اور وزیرِ خزانہ پورنیا کو بلا کر فرانسیسی سرداروں کی تجویز بتائی اور اُن سے مشورہ طلب کیا کہ اس بارے میں تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟
پورنیا اور میر صادق تو اصل میں سلطان کے نمک حرام اور انگریزوں کے وفادار تھے۔ ان لوگوں نے جب فرانسیسی سرداروں کی تجویز سُنی تو حیرت میں پڑ گئے۔ کیوں کہ وہ بہ خوبی سمجھتے تھے کہ اگر قلعے کی حفاظت کی ذمہ داری فرانسیسیوں کو سونپ دی گئی تو اُن کی سازش کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گی۔ اس طرح انگریز شکست کھا کر بھاگ جائیں گے اور انھیں انعام کی رقم نہیں مل سکے گی۔ انھوں نے فرانسیسیوں کی تجویز کی مخالفت کی اور سلطان کو بہکاتے ہوئے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا کہ :’’ انگریز اور فرانسیسی ایک ہی مذہب اور نسل کے لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے کبھی کسی سے وفا نہیں کی ہے۔ بہت ممکن ہے وہ آپ سے غدّاری کر کے انگریزوں سے مل جائیں اور جنگ کیے بغیر ہی قلعہ انگریزوں کے حوالے کر دیں۔‘‘ 
سلطان ٹیپو نے پورنیا اور میر صادق کی باتوں میں آ کر فرانسیسی سرداروں کی پہلی تجویز پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا کہ بیوی اور بچّوں کو تھوڑا بہت روپیہ پیسہ دے کر مختصر سی فوج کے ساتھ چیتل درگ روانہ کر دیا جائے اور خود یہاں رہ کر انگریزوں کا بھرپور مقابلہ کیا جائے۔ سلطان نے اس تجویز پر عمل کرنے کے لیے تیاری کا حکم دے دیا۔ 
اسی وقت ایک سردار بدرالزماں نائطہ نے سلطان کے اس اقدام کی مخالفت کی اور کہا کہ ’’آپ کے خاندان کے چیتل درگ چلے جانے سے فوج میں بد دلی پھیل جائے گی اور وہ سوچیں گے کہ آپ صرف بیوی بچّوں کی حفاظت کے لیے فکر مند ہیں۔‘‘ سلطان نے اپنے اِس سردار کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے چیتل درگ روانگی کا ارادہ ترک کر دیا۔ 
اصل میں بات یہ تھی کہ بدرالزماں نائطہ اور دوسرے غدّاروں کو سلطان تو سلطان ان کے بیوی بچّوں کا اس طرح زندہ بچ کر نکل جانا ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا وہ چاہتے تھے کہ سلطان کا پورا خاندان موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور انگریزوں سے بدلے میں ڈھیر ساری دولت انعام میں بٹوری جائے۔ سلطان نے اپنے وزیروں کی مخالفت پر یہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا، جب کہ چیتل درگ روانگی کی مکمل تیاری ہو چکی تھی۔ ضروری مال و اسباب، ہاتھیوں، اونٹوں اور گاڑیوں پر لادے جا چکے تھے۔ 
غدّار اور نمک حرام سرداروں نے سلطان کو فرانسیسیوں کی دونوں تجویزوں پر عمل کرنے نہ دیا جب کہ تیسری تجویز پر خود سلطان کی غیرت نے عمل کرنا گوارا نہ کیا۔ غدّاروں کے ارادے ایک ایک کر کے پورے ہو رہے تھے۔ اِس وقت سلطان پر میر صادق نے اپنی چرب زبانی سے ایسا جادو کر دیا تھا کہ وہ اُس کے علاوہ کسی دوسرے کی بات نہیں سنتے تھے۔ 

غدّاروں کے لیے سزا 

سلطان ٹیپو غدّاروں، نمک حراموں اور سازشیوں میں چاروں طرف سے گھرے ہوئے تھے۔ انگریز میدانِ جنگ میں سلطان کو شکست نہ دے سکے لیکن سازش رچنے میں پورے طور پر کامیاب ہوئے۔ سلطان کی یہ مجبوری تھی کہ اُن تک کوئی بھی صحیح خبر نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ میر صادق نے کچھ ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ سلطان کے وفادار ساتھی اُن سے مہینوں مِل نہیں پاتے تھے۔ سلطان اِن غدّاروں کی سازشوں سے بے خبر تھے۔ لیکن ایک دن انھیں سب کچھ معلوم ہو گیا۔ ہوا یوں کہ انگریزوں کی گولا باری سے قلعے کی فصیل ایک جگہ سے گر گئی۔ غدّاروں اور نمک حراموں نے فصیل کی دیوار گرنے کی خبر بھی سلطان تک پہنچنے نہ دی اور انگریز وہاں سے قلعے میں داخل ہونے کے لیے پر تَولنے لگے۔
اِس سے پہلے کہ انگریز اس شگاف سے قلعے کے اندر داخل ہوتے سلطان کا ایک وفادار جیسے تیسے سلطان تک پہنچ گیا اور اس نے سلطان کو تمام غدّاروں کی تفصیل سے باخبر کیا۔ سلطان کو پہلے تو یقین نہیں آیا تب اُس وفادار نے سلطان کو قسم کھا کر بتایا کہ مَیں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ سلطان کو غدّاروں پر بہت غصہ آیا۔ انھوں نے دوسری صبح نمازِ فجر کے بعد اپنے ایک وفادار امیر معین الدین کو ایک کاغذ دیا اور کہا کہ آج کی رات اِس حکم کی تعمیل کر دی جائے۔ امیر معین الدین کو اِس بات کا پتا نہ تھا کہ اِس میں کیا لکھا ہوا ہے؟ اُس نے یہ بے وقوفی کی کہ اُس رقعہ کو وہیں کھول کر پڑھنے لگا۔ قریب ہی موجود ایک نمک حرام نے کاغذ پر لکھی ہوئی عبارت پڑھ لی۔ اُس میں سلطان کے تمام غدّاروں کے نام اور اُن کے قتل کا حکم لکھا ہوا تھا۔ اُس غدّار نے یہ خبر میر صادق تک پہنچا دی۔ اس طرح میر صادق، پورنیا، بدرالزماں نائطہ، قمرالدین اور دوسرے غدّاروں اور سازشیوں نے اپنی حفاظت اور بچاؤ کا انتظام کر لیا اور قتل ہونے سے رہ گئے۔ 

سلطان کی انگریزوں سے صلح کی کوشش

بہادر اور جواں مرد فتح علی سلطان ٹیپو نے میسور کی سلطنت اور ہندوستان سے انگریزوں کو نکال باہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن سلطنت کے غدّاروں اور وطن فروشوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے انگریزوں سے ملے ہوئے دوسرے راجاؤں اور نوابوں کی سازشوں نے اُن کی ہر کوشش کو ناکام کر دیا۔ انگریز اب سری رنگاپٹّم پر اپنا جھنڈا لہرانے کے لیے بے تاب تھے اور سلطان ٹیپو سری رنگا پٹّم کو بچانا چاہتے تھے۔ اِس لیے انھوں نے یہی مناسب سمجھا کہ انگریزوں سے عارضی طور پر صلح کر لی جائے۔ چناں چہ انھوں نے انگریزوں کے پاس صلح کا پیغام بھیجا۔ انگریزوں نے اِس پیغام کے جواب میں انتہائی شرم ناک اور سخت شرائط پیش کیں۔اِس وقت حالات ایسے تھے کہ انگریزوں کو اپنی فتح کا پورا پورا یقین تھا اس لیے انھوں نے ایسی سخت شرائط کے ساتھ سلطان ٹیپو کو یہ دھمکی بھی دی کہ ۲۴؍ گھنٹے کے اندر اندر اگر اِن شرائط پر عمل نہ کیا گیا تو سری رنگاپٹّم کو تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ چوں کہ سلطان ایک غیرت مند، بہادر اور شیر دل حکمراں تھے، وہ اپنی جان بچانے کے لیے سری رنگا پٹّم کے لوگوں کی زندگی کا سودا کرنا بزدلی اور گناہ سمجھتے تھے۔ اِس لیے انھوں نے انگریزوں کی شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جو درج ذیل تھیں :
(۱) اپنی فوج کے فرانسیسی سپاہیوں، افسروں اور جرنیل کو فوری طور پر بر طرف کر دیں۔
(۲) بیس لاکھ پاؤنڈ تاوانِ جنگ ادا کریں۔
(۳) تمام ساحلی علاقے ہمارے حوالے کر دیں۔
(۴) ہرسال خراج ادا کرنے کا وعدہ کریں۔

نجومیوں کی پیشین گوئی

شیرِ میسور سلطان ٹیپو نے ۴؍ مئی ۱۷۹۹ء کو فجر کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر قلعے کی فصیل کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں سلطان نے دیوار کے شگاف کو دیکھا اور اس کو درست کرنے کے احکام صادر کیے۔ فصیل پر بیٹھنے کے لیے ایک سائبان لگانے کا حکم دیا اور محل میں واپس آ گئے۔ تقریباً دس بجے چند نجومی حاضر ہوئے اور سلطان سے کہا کہ :’’ آج کا دن آپ کے لیے بہت منحوس ہے اور خاص طور پر دوپہر کا وقت، بہتر یہ ہے کہ آپ سارا وقت اپنے سرداروں اور وزیروں کے ساتھ بسر کریں اور نحوست کو ٹالنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات ادا کریں۔‘‘ 
نجومیوں کی یہ پیشین گوئیاں سُن کر سلطان نے صدقہ و خیرات کے سازوسامان تیار کرنے کا حکم دیا اور غسل کرنے کے بعد سونے، چاندی اور جواہرات درویشوں اور برہمنوں میں تقسیم کیے۔ جب کہ غریبوں،  محتاجوں اور مسکینوں میں روپیہ اور کپڑا بانٹا۔ اُس کے بعد سلطان دسترخوان پر کھانا کھانے کے لیے بیٹھے۔ ابھی ایک نوالہ ہی کھانا کھایا تھا کہ شہر کی طرف سے چیخ و پکار سنائی دی۔ سلطان کا یہ آخری نوالہ تھا۔ انھوں نے کھانا چھوڑ دیا اور پوچھا : ’’یہ شور کیسا ہے؟ ‘‘
چند وفاداروں نے آ کر خبر دی کہ:’’ سید غفّار توپ کا گولہ لگنے سے شہید ہو گئے ہیں۔دشمن کسی مزاحمت کے بغیر قلعے کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ ‘‘
سید غفّار سلطان ٹیپو کے بہت ہی زیادہ قریبی اور وفادار ساتھی تھے۔ سری رنگا پٹّم میں صرف یہی ایک ایسے وفادار سردار بچے تھے جو سلطان کو دل و جان سے چاہتے تھے۔ سلطان نے جیسے ہی اُن کی شہادت کی خبر سُنی۔ دسترخوان سے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور ہاتھ دھوکر کہا :’’ ہمارے وفادار ساتھی چلے گئے تو پھر ہم بھی چلیں گے۔‘‘ باہر نکل کر سلطان اپنی گھوڑی پر سوار ہوئے اور چند وفادار سپاہیوں کے ساتھ قلعے کے دریچے کی طرف بڑھے۔ وہ دریچے سے نکل کر دشمن کی طرف بے خوفی سے بڑھتے چلے گئے اور جارحانہ انداز میں حملہ کیا۔ اسی دوران میر صادق غدّارِ وطن دریچے کے قریب آیا اور اُس نے دریچہ بند کر دیا تاکہ سلطان ٹیپو دوبارہ قلعے میں داخل نہ ہوسکیں۔ 

نمک حرام میر صادق کا بھیانک انجام 

جوں ہی نمک حرام میر صادق نے دریچہ بند کیا، بالکل اُسی وقت سلطان ٹیپو کے ایک وفادار سپاہی نے اُسے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ اُس نے میر صادق کو خوب ڈانٹا پھٹکارا اور کہا کہ:’’ غدّارِ وطن ! تو سلطان کو دشمنوں کے حوالے کر کے اپنی جان بچانا چاہتا ہے ؟‘‘ اتنا کہہ کر اُس جاں نثار نے تلوار کا ایسا زوردار وار کیا کہ غدّار میر صادق بری طرح چکرا کر گھوڑے سے گر پڑا۔ پھر اُس سپاہی نے میر صادق کو تلوار سے مار مار کر قیمہ بنا دیا اور لاش کو اٹھا کر گندگی کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ اس طرح وطن فروش، نمک حرام، ننگِ دین، ننگِ وطن میر صادق کا انجام بڑا بھیانک ہوا۔ 

 پورنیا کی غدّاری 

انگریز فوج قلعے تک پہنچنے کی جان توڑ کوشش کر رہی تھی۔ لیکن مورچوں پر سلطان ٹیپو کی وفادار اور جاں نثار فوج اُن کا راستا روکے ہوئے تھی جس کی وجہ سے انگریزوں کو قلعے پر قبضہ کرنے میں دشواریاں پیش آ رہی تھیں۔ شاطر انگریزوں نے پھر سازش شروع کر دی اور محل میں موجود غدّار وزیرِ خزانہ پورنیا کی مدد حاصل کی۔ 
چناں چہ جب جنگ پورے عروج پر تھی اور سلطان ٹیپو کے وفادار سپاہی انگریزوں کو کاٹ کاٹ کر پھینک رہے تھے۔عین اُسی وقت غدّار پورنیا نے لشکر میں یہ اعلان کروا دیا کہ:’’ سپاہی آ کر اپنی اپنی تنخواہ لے جائیں۔‘‘ اصل میں پورنیا مورچوں سے فوج کوکسی طرح سے ہٹانا چاہتا تھا تاکہ قلعے پر انگریز فوج آسانی سے چڑھا ئی کر دے۔ وزیرِ خزانہ کا اعلان سُن کر سپاہی اپنی تنخواہ لینے کے لیے جیسے ہی مورچوں سے ہٹے اِن غدّاروں نے انگریزوں کو سفید رومال ہِلا ہلا کر بتا دیا کہ راستا بالکل صاف ہے۔ 

فصیل پر انگریزوں کا قبضہ 

انگریز جنرل بیئرڈ نے اشارہ پاتے ہی فوج کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا۔ایک دوسرا غدّار میر قاسم علی انگریزی فوج کی رہنمائی کر رہا تھا۔ سب سے پہلے یہی نمک حرام دشمنِ وطن میر قاسم علی فصیل پر چڑھا۔ اُس کے بعد انگریزی فوج نے اوپر چڑھ کر اپنا پرچم لہرا دیا۔ اس طرح قلعے کی فصیل پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ 
سلطان ٹیپو نے جب غدّاروں کی یہ غدّاری دیکھی تو وہ آپے سے باہر ہو گئے۔ لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ انھوں نے اپنے جاں نثاروں کے ساتھ قلعے میں واپس جا کر انگریزوں کی پیش قدمی روکنے کا ارادہ کیا۔ لیکن میر صادق نے تو دریچہ بند کر دیا تھا۔ سلطان نے دربانوں کو آواز دی کہ وہ دروازہ کھولیں۔ لیکن انھوں نے سُنی اَن سُنی کر دی۔ جب کہ دشمن فوج کا ایک دستہ فائرنگ کرتے ہوئے تیزی سے اِس عظیم مجاہدِ آزادی سلطان ٹیپو کی طرف بڑھ رہا تھا۔ 
سلطان ٹیپو بہادر باپ کے بہادر بیٹے تھے۔ خود کو موت کے منہ میں دیکھ کر بھی انھوں نے ہمّت نہ ہاری۔ وہ دنیا میں اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے۔ اسی لیے تلواروں کی چھاؤں اور گولیوں کی بوچھار میں بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ سلطان کے ایک جاں نثار خادم راجا خاں نے ایسے عالم میں کہا کہ: ’’ حضور! آپ اپنے آپ کو انگریز افسر ظاہر کر دیں، حملہ آور آپ کے مرتبے کا خیال رکھیں گے اور اس طرح آپ کی جان بچ جائے گی۔ ‘‘سلطان نے جب یہ مشورہ سنا تو اُن کی رگِ غیرت پھڑک اُٹھی اور گرج دار آواز میں کہا کہ :’’ نہیں ہرگز نہیں، مَیں دشمن سے رحم کی بھیک کبھی نہیں مانگوں گا، شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘

سلطان کی شہادت 

سلطان ٹیپو کو اِس بات کا پکّا یقین ہو چلا تھا کہ اب اُن کی زندگی کا چراغ گل ہونے والا ہے۔انھوں نے موت سے ڈرنے کی بجائے ایک بہادر کی طرح اُس کو گلے لگانے کا تہیہ کر لیا۔ انھوں نے تیزی سے دشمن کی طرف بڑھ کر حملہ بول دیا اور آن کی آن میں کئی دشمنوں کو ختم کر دیا۔ اتنے میں ایک گولی سلطان کی گھوڑی کو لگی اور وہ وہیں گر پڑی۔ سلطان کا جذبۂ جہاد اب بھی سرد نہ ہوا۔ بل کہ وہ اب پیدل ہی دشمن سے جنگ کرنے لگے۔ اُن کے وفادار اور بہادر سپاہیوں نے اُنھیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور اپنے سلطان کو بچانے کے لیے ایک ایک کر کے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ انگریز سپاہی چاروں طرف سے اکٹھے ہو کر اسی جگہ اپنی زور آزمائی کرنے لگے۔ اب دو بہ دو لڑائی ہو رہی تھی۔ دونوں طرف کے سپاہی اپنی بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے۔ چاروں طرف سے گولیوں کی آواز اور تلواروں کی جھنکار سنائی دی رہی تھی کہ اتنے میں ایک گولی سلطان ٹیپو کے سینے میں دل کے پاس لگی اور سلطان زمین پر گر پڑے۔ 
 سلطان کے جاں نثار ایک ایک کر کے شہید ہو چکے تھے۔ اب وہ بالکل تنہا رہ گئے تھے۔انھیں اِس وقت اٹھانے والا کوئی بھی نہ تھا۔ اچانک ایک انگریز سپاہی سلطان کے قریب آیا اور اُس نے سلطان کی کمر سے اُن کی خوب صورت اور قیمتی پیٹی اُتارنے کی کوشش کی مگر سلطان ابھی زندہ تھے۔ انھوں نے لیٹے لیٹے ہی تلوار کا ایک ایسا بھرپور وار کیا کہ انگریز سپاہی کا گھٹنا کٹ گیا۔ اُس سپاہی نے سلطان کر سر کا نشانہ لگا کر گولی چلائی گولی لگتے ہی فتح علی سلطان ٹیپو شہید ہو گئے۔ 
سلطان کی شہادت کے وقت ۲۹ ذوالقعدہ ۱۲۱۳ھ مطابق۴؍ مئی ۱۷۹۹ء بروز سنیچر کا سورج غروب ہو رہا تھا عین اُسی وقت سلطنتِ خد ادا دمیسورکی عزت و عظمت ہی نہیں بل کہ پوری مملکتِ ہندوستان کی عزت و عظمت کا آفتاب بھی ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ سلطان کی شہادت سے ہندوستان کی آزادی کا چراغ بھی بجھ گیا۔ ان للّٰہ و انا الیہ راجعون۔۔۔

لاش کی تلاش 

سری رنگاپٹّم کے قلعے پر انگریزوں کا تسلط ہو گیا تھا۔ قلعے کے دروازے کھول دیے گئے تھے۔ انگریز فوج اندر داخل ہو گئی۔قلعے پر قبضہ جمانے کے بعد بھی انگریزوں کو اب تک سلطان ٹیپو کی شہادت کا علم نہ تھا۔ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ سلطان اپنی جان بچانے کے لیے محل میں کہیں چھپ گئے ہیں۔ چناں چہ انگریزوں نے اپنے ایک افسر کو سفید جھنڈا دیا اور محل میں بھیجا کہ وہ سلطا ن کو حکم دے کہ: ’’ سلطان ہتھیار ڈال دیں اور اپنے آپ کو انگریز فوج کے حوالے کر دیں۔ ‘‘ لیکن جب انگریز افسر امن کا سفید جھنڈا لے کر قلعے میں پہنچا تو سلطان محل میں نہ تھے۔ خود محل والوں کو بھی سلطان کو کچھ پتا نہ تھا۔ جب سلطان محل میں نہ ملے تو پھر اُن کی تلاش شروع ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد یہ معلوم ہوا کہ سلطان تو مغرب سے کچھ دیر پہلے عام سپاہیوں کی طرح بہادری لڑتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔اندھیرا کافی پھیل چکا تھا۔ چناں چہ مشعلوں کی روشنی میں قلعے کے باہر لاشوں کے انبار میں سلطان کی لاش بڑی مشکل سے تلاش کی گئی۔ سلطان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور بدن بھی گرم تھا۔اور اُن کی تلوار اُن کے ہاتھ میں ہی تھی۔ جسم پر تین زخم اور کنپٹی پر ایک زخم تھا۔ سلطان کے جسم سے قیمتی کپڑے اور خوب صورت پیٹی غائب تھی۔ 
انگریز جنرل لارڈ ہارش سلطان سے اس قدر ڈرتا تھا کہ سلطان کی شہادت کے بعد بھی اُن کی لاش کے قریب جانے کی اُس میں ہمّت نہ ہوئی۔ جب اُس کو یقین ہو گیا کہ سلطان کی موت واقعی ہو چکی ہے تو وہ لاش کے قریب گیا اور خوشی سے پکار اٹھا:’’ آج ہندوستان ہمارا ہے!‘‘
سری رنگا پٹّم کی اس آخری لڑائی میں مرہٹے غیر جانب دار رہے جب کہ اس سے قبل کی کئی جنگوں میں انھوں نے انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ انھیں کبھی بھی یہ محسوس نہ ہوا کہ انگریز ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کرنے کا جو خواب دیکھ رہے ہیں اُن کی تعبیر میں سب سے بڑی رکاوٹ سلطان ٹیپو ہی ہیں۔ سلطان ٹیپو نے انھیں کئی مرتبہ انگریزوں کے خلاف اتحاد کی دعوت بھی دی لیکن انھوں نے ہمیشہ اُن کے پیغام کو ٹھکرایا۔ سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد انھیں صورتِ حال کی خطرناکی کا احساس ہوا لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پیشوا باجی راؤ نے سلطان ٹیپو کی شہادت کی خبر سُن کر کہا تھا کہ :’’ ٹیپو کا مارا جانا میرے سیدھے بازو کے کٹ جانے کے برابر ہے۔‘‘
نانا فرنویس پر بھی ٹیپو کی شہادت کا بہت اثر ہوا تھا۔اس خبر کو سُن کر اُس نے کہا کہ:’’ ٹیپو ختم ہو گیا۔ برطانوی طاقت میں اضافہ ہو گیا۔ اب پورا ہندوستان اُن کاہے۔ پونا اُن کا دوسرا شکار ہو گا۔ لگتا ہے کہ دن بُرے آ گئے ہیں۔ قسمت کے لکھے سے کوئی مفر(فرار) نہیں۔‘‘ 

مجاہد کا جنازہ اور آخری آرام گاہ

سلطان کی لاش پالکی میں رکھ کر محل لائی گئی۔ وہاں شہادت کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ جس کی وجہ سے پورے محل میں ایک کہرام برپا تھا۔ جیسے ہی لوگوں نے اپنے عظیم محسن اور مجاہد کی لاش دیکھی دھاڑیں مار مار کر رونے پیٹنے لگے۔ کوئی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں سے آنسو نہ جاری ہو۔ رات بھر محل ماتم کدہ بنا رہا۔دوسرے روز صبح سلطان کی لاش کو غسل دیا گیا۔ اس کے بعد تمام شہزادوں، خادموں، جاں نثاروں اور دوسرے لوگوں کو سلطان ٹیپو شہید کا آخری دیدار کرایا گیا۔ جب تجہیز و تکفین کے تمام انتظامات مکمل ہو گئے تو بھیگی پلکوں کے سایے میں اِس عظیم مجاہد کا جنازہ اٹھایا گیا۔ جنازہ لال باغ کی طرف روانہ ہوا۔ ہزاروں عورتیں، بچّے، جوان اور بوڑھے مجاہد کا جنازہ دیکھ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ مسلمان اور ہندو عورتیں اپنے سروں پر راکھ ڈالے ماتم کر رہی تھیں۔ انگریزوں کی چار کمپنیاں جنازے کے آگے ادب سے پریڈ کرتے ہوئے۔ چل رہی تھیں اور راستے کے دونوں جانب بھی انگریزی فوج صف بستہ کھڑی تھی۔انگریز فوج کا بینڈ ماتمی دھُن بجا رہا تھا اِس لیے کہ یہ کوئی عام آدمی کا جنازہ نہ تھا بل کہ یہ ایک جیالے، بہادر، جری، شیر دل اور عظیم مجاہد کا جنازہ تھا۔آسمان پر کالے اور ڈراؤنے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہوا رُکی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے ہر کوئی سلطان ٹیپو شہید کے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ 
جنازہ لال باغ پہنچا۔ سلطان ٹیپو شہید کی نمازِ جنازہ سے پہلے سلطان کو توپوں کی سلامی دی گئی۔ انگریز فوج کا بینڈ جو ماتمی دھُن بجا رہا تھا وہ رک گیا، پھر ہزاروں سوگواروں نے نمازِ جنازہ ادا کی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان کی نمازِ جنازہ کے وقت آسمان پر زور زور سے بادل گرج رہے تھے اور رہ رہ کر بجلی بھی کڑک رہی تھی۔ 
لال باغ میں سلطان حیدر علی کی قبر کے پاس ہی سلطان ٹیپو کے لیے بھی قبر تیار کی جا چکی تھی۔ نمازِ جنازہ کے بعد جب سلطان ٹیپو شہید کو قبر میں اتارا گیا تو ہزاروں لوگوں کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوچھلک پڑے اور منہ سے بے اختیار فرطِ غم سے چیخیں نکل گئیں۔ قبر میں مٹّی ڈالی جانے لگی۔ لوگ روتی آنکھوں سے اِس عظیم مجاہد کو دفن کر کے دکھی دلوں کے ساتھ اپنے اپنے گھر لوٹ گئے۔ 

انگریزوں کی لوٹ مار 

۴؍ مئی ۱۷۹۹ء کی رات جب کہ سلطان ٹیپو نے شہادت کا جام نوش کیا۔ اسی رات سری رنگا پٹّم پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا اور انھوں نے قلعے پر برطانوی پرچم لہرا کر یہ اعلان کر دیا کہ :’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے!‘‘ ۔۔۔یہ رات میسور کے لوگوں کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔ انگریزوں نے خوب جم کر لوٹ مار کی۔ سلطنتِ خداداد میسور کے غدّاروں کے گھروں کو چھوڑ کر انگریز لٹیروں نے کسی بھی گھر کو نہ چھوڑا۔ ہندوستان کی سب سے خوش حال ریاست ہونے کی وجہ سے انگریزوں کو میسور میں بے پناہ دولت و ثروت حاصل ہوئی۔ ساری رات چاروں طرف سے گولیوں کی آوازیں آتی رہیں۔ مسجد میں چار ہزار پناہ گزیں بیٹھے ہوئے تھے۔ انگریزوں نے ان کو بے دریغ قتل کر دیا۔ مسجد کا فرش شہیدوں کے خون سے لال ہو گیا۔ 
وہی انگریز سپاہی جو کبھی بھوک پیاس سے پریشان تھے وہ سری رنگاپٹّم میں لوٹ مار کر کے امیر بن گئے۔ جس سپاہی نے سلطان ٹیپو کو گولی مار کر شہید کیا تھا اُس نے سلطان کا ایک قیمتی ہار صرف پانچ سو میں بیچ دیا تھا۔ جب کہ اُس کی قیمت پندرہ ہزار روپے تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انگریزی فوج دولت کی کتنی بھوکی تھی۔ 
اسی طرح انگریزی فوج کے جنرل بیئرڈ کو ایک انگوٹھی مِلی جس میں ایک قیمتی اور نایاب ہیرا جَڑا ہوا تھا۔اُس نے ہیرے کو سادہ سا کانچ کا ٹکرا سمجھ کر پھینک دیا۔ ایک انگریز سپاہی نے اُس کو اٹھا کر پانچ ہزار روپے میں فروخت کر دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اُس کی قیمت پچاس ہزار روپے تھی۔ خالص سونے سے بنے ہوئے ایک تخت کو انگریز سپاہیوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے آپس میں بانٹ لیا۔ ایک دوسرا تخت جسے سلطان ٹیپو نے دو کروڑ روپے خرچ کر کے بنوایا تھا وہ آج بھی برطانیہ میں موجود ہے۔ سری رنگا پٹّم کے شاہی محل سے تیس لاکھ روپے کی قیمت کے ہیرے جواہرات بھی انگریزوں نے آپس میں بانٹ لیے۔ غرض یہ کہ جس انگریز سپاہی کے ہاتھ جو لگا وہ اُسے لوٹ لیتا اور اونے پونے داموں میں بیچ کر دولت اکٹھا کرتا۔انگریزی فوج کو اِس لوٹ مار میں جو دولت ہاتھ آئی اُس کا صحیح شمار نہیں کیا جاسکتا۔

شہادت کے بعد

سلطان ٹیپو شہید کی شہادت کے بعد انگریزوں نے سری رنگاپٹّم میں لوٹ مار کے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور بے پناہ دولت و ثروت حاصل کی۔ جب میسور پر اُن کا مکمل طور پر قبضہ ہو گیا تو انگریزوں، مرہٹوں، نظام کے سرداروں، سلطان ٹیپو کے نمک حرام غدّار امیروں اور وزیروں کی ایک مِلی جُلی بیٹھک ہوئی، جس میں میسور کے تخت و تاج کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ سب لوگوں نے سلطان شہید کے کسی شہزادے کو تخت پر بٹھانے کی تجویز پیش کی۔ ہوسکتا تھا کہ اس پر عمل بھی ہو جاتا لیکن ایک غدّار میر غلام علی نے کہا کہ:’’ سانپ کو مار دینا اور سانپ کے بچّے کو پالنا عقل مندوں کا کام نہیں۔ سلطان ٹیپو کے لڑکے کو تخت پر بٹھا دیا گیا تو تمھیں ایک اور ٹیپو سے مقابلے کے لیے تیار ہو جانا پڑے گا۔‘‘ 
پھر انگریزوں، مرہٹوں اور نظام نے ’’سلطنتِ خداداد میسور‘‘ کو آپس میں تقسیم کر لیا۔بقیہ مختصر سے حصے پر میسور کے پُرانے ہندو راجاؤں کے خاندان کے ایک پانچ سالہ شہزادے کو حکمراں بنا دیا جو کہ برائے نام تھا، سلطنت کا اصل انتظام انگریزوں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ تقسیم عارضی ثابت ہوئی۔ شاطر اور مکار انگریزوں نے دھیرے دھیرے پورے ہندوستان پر قبضہ جما لیا اور نظام، مرہٹوں، ہندوستان کے تمام باشندوں یہاں تک کہ آزادی کے متوالے سلطان ٹیپو کے دشمنوں یعنی اپنے وفاداروں تک کے پیروں میں غلامی کی زنجیر پہنا دی۔

آخری بات 

ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں فتح علی سلطان ٹیپو شہید کا نام ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ سلطان ٹیپو نے ساری زندگی جنگ کے میدانوں میں توپوں کی گھن گرج، تلواروں کی جھنکاروں اور گولیوں کی بارش میں مردانہ وار دشمنوں سے مقابلہ کرنے میں گذاری۔ وہ بہادر کی زندگی جیے اور بہادر کی موت مرے۔ نو عمری کے زمانے میں بھی انھوں نے اپنے والد حیدر علی کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں اور کامیاب ہوئے۔ ۱۷۸۲ء سے۷ ۱۷۹۹ء تک میسور پر حکمرانی کی۔ وہ دنیا کے ان گنے چنے حکمرانوں میں سے تھے جنھوں نے لڑتے ہوئے عام فوجی کی طرح میدانِ جنگ میں شہادت پائی۔ 
انھوں نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور تسلط کے خلاف یہاں کے تمام حکمرانوں کو متحد کرنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن انگریزوں کی سازشوں کی وجہ سے انھیں اِس میں کامیابی نہ مِل سکی۔ سلطان ٹیپو جس طرح انگریزوں کو شکست پر شکست دے رہے تھے اُن لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ میدانِ جنگ میں ٹیپو کو ہرا نا اُن کے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے ٹیپو کے خلاف خود اُن کے بعض وزیروں اور مشیروں کو خرید لیا۔ جن کی نمک حرامی اور غدّاری کی وجہ سے سری رنگا پٹّم پر انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی۔ سلطان ایک ایسے بہادر اور جواں مرد حکمراں تھے کہ جن کی شہادت کے بعد ہی سے ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ممکن ہوسکا۔ ہمارے ملک ہندوستان کی جد و جہدِ آزادی میں اس عظیم مجاہد کا نام آج بھی خوب روشن ہے جب کہ غدّاروں اور نمک حراموں کا اب کوئی نام لیوا نہیں۔ 
{ختم شد}

٭٭٭