صفحات

تلاش کریں

ناولٹ: جونک اور تتلیاں از سید اسد علی

(Throw (the child)

Into the chest, and throw

(The chest) into the river:


The river will cast him

Up on the bank, and he

Will be taken up by one

Who is an enemy to Me

And an enemy to him':


But I cast (the garment

of) love over thee from Me:

And (this) in order that

Thou mayest be reared

Under Mine eye."


Ta-Ha - 39 (Al-Quran)

کیا آپ یقین کرو گے کہ ایک بالشت بھر کی مچھلی پانچ کلو کی مچھلی کو کھا جائے اور اس طرح کہ اس کی ہڈیوں کی بھی خبر نہ رہے ۔ اور آخری چیز جو کوئی دیکھ سکے وہ بڑی مچھلی کی دم ہو جو بالشتیا کے منہ میں گم ہوتی نظر آتی ہو۔ میں بھی یقین نہیں کرتا تھا۔ اس وقت بھی نہیں جب وہ چھوٹی مچھلی میرے قریب آئی۔ تب تو خیر میں نے اسے اتنی اہمیت بھی نہ دی تھی کہ اسے غور سے دیکھ ہی لیتا کہ وہ میرے لئے ایسی ہی بے حقیقت شئے تھی مگر جب اس نے اپنے دانتوں کو میرے جسم میں پیوست کر دیا اور درد کے پیام بر بڑی بڑی مشعلیں لئے میرے جسم میں دوڑنے لگے تو میں نے پہلی بار اسے غور سے دیکھا۔ وہ تب بھی اتنی ہی بے حقیقت تھی کہ اسے خود سے علیحدہ کرنا بھی ایک کارِ بے کار لگتا تھا۔ آخر وہ کیا کر لے گی؟یہ تھا وہ سوال جس نے مجھے چند لمحے اور غفلت کی گود دے دی۔ اور یہ تو ہونا ہی تھا۔ وقت نے مجھے کبھی ایسے مقابلے کے لئے تو تیار کیا ہی نہ تھا۔ میں تو مچھلیوں کے جھنڈ میں تیرتا تھا اور زندگی نے مجھے سکھایا تھا تو صرف اتنا کہ مجھے اس سفر میں محتاط رہنا ہو گا ان بڑی مچھلیوں سے جو کبھی کبھار کسی انجانی سمت سے ہم پر آ لپکتی ہیں ۔ اور میں بہت محتاط تھا۔ مچھلیوں کے غول کے بیچ ایسی محفوظ جگہ تیرتا تھا جہاں کسی بھی حملے کی صورت میں بچ کر نکل سکوں ۔ مگر محفوظ جگہ کوئی نہیں ہوتی اور یہی میری عجیب کہانی کا واحد نکتہ ہے جو منطقی نتیجے کے طور پر ہم آگے لے کر چل سکتے ہیں ۔ وگرنہ باقی سب تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باقی سب تو بس اتنا نہ سمجھ میں آنے والا ہے کہ ایسی کہانی کو بھول جانا ہی بہتر ہے ۔ 

میں جیسے رنگین تتلیوں میں گھرا ایک ننھا خرگوش تھا جو گیت گاتے پرندوں اور نرم گھاس کی کونپلوں کے بیچ بھاگا پھرتا تھا۔ میرے پاس سب کچھ تھا سوائے ایک مقصد کے اور پھر ایک دن کچھ ہوا۔ ایک زوردار دھماکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید کوئی گولی چلی اور سب کچھ بدل سا گیا۔ وہ ساری تتلیاں ، وہ سارے پرندے کسی خاموش،پرسکون دیس کی کھوج میں پر پھڑپھڑاتے اڑ گئے اور میں ایک کاٹ دینے والی تنہائی سے لڑنے کو اکیلا رہ گیا۔ 

اور اس دن میں پہلی بار اسے محسوس کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جونک جو نجانے کب سے میری پشت پر اپنے پنجے گاڑے بیٹھی تھی۔ پہلی مرتبہ میں نے ایک جونک کے وجود میں چھپی نعمت کو محسوس کیا۔ 

میں اکیلا نہیں تھا۔ کوئی تھا جو انتہائے خوف کی ان گھڑیوں میں بھی میرے ساتھ تھا۔ گویا وہ میرے بدن کا حصہ ہو۔ میری آنکھیں تشکر سے بھیگ گئیں ۔ مجھے لگا کہ خوف کی چادر پھینک کر مجھے پھر سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونا ہے ۔ اس لئے نہیں کہ مجھے یکایک زندگی سے کوئی لگاؤ ہونے لگا تھا۔ نہیں مجھے تو شاید اس جونک کے وجود سے محبت ہو گئی تھی۔ مجھے پہلی بار لگا کہ کسی کو کتنی شدت سے میری ضرورت ہے ۔ تو میں اب سالوں زندہ رہنا چاہتا تھا صرف اس لئے کہ جونک کو تازہ خون ملتا رہے ۔ 

میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اس کا آغاز تو میری پیدائش سے بھی بہت پہلے ہو گیا تھا۔ مگر وہ سب واقعات ہیں ، اعداد و شمار ہیں جن میں کوئی ربط نہیں ہے ۔ مگر پھر ایک واقعہ ہوا جس نے میری پوری زندگی کے بکھرے موتیوں کو گویا ایک لڑی میں پرو دیا۔ تو میں اسی واقعہ سے آغاز کرتا ہوں ۔ 

 یہ کہانی ایک گھر سے شروع ہوتی ہے ۔ ایک گھر جو بہت خوبصورت، نہائیت شاندار تھا مگر نہ تو اسے بیچا جا سکتا تھا اور نہ کرائے پر دیا جا سکتا تھا۔ اور یہ سب اس لئے کہ آپ انسانیت پر ایک ٹکے کا بھی اعتبار نہیں کر سکتے ۔ یقین کیجئے کہ میں نے بہت کوشش کی مگر کیا کروں کہ ایک پورا شہر مل کر بھی مجھے ایک چھوٹی سی بات کا یقین نہیں دلا سکا کہ اس گھر کی ایک کھڑکی کو کھولا نہیں جائے گا۔ اس گھر میں درجنوں کھڑکیاں تھیں اور صرف ایک کھڑکی تھی جسے نہیں کھولا جانا تھا مگر کیا کریں کہ انسان چیزوں کو عجیب ہی نظر سے دیکھتا ہے ۔ پوری جنت ایک طرف اور شجرِ ممنوعہ کا پھل ایک طرف ہو جاتا ہے ۔ اگر میں انسانیت کو صحیح سمجھا ہوں تو وہ چیزوں کو دو رنگوں میں دیکھتا ہے ۔ وہ جو اسے میسر ہیں اور وہ جو ابھی اس کی دسترس سے باہر ہیں ۔ جب تک ایک بھی شئے اس کی دسترس سے باہر ہے تو وہ میسر چیزوں سے بھی لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ 

آخری چارے کے طور پر میں نے خود اس میں رہنا شروع کر دیا۔ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ مجھے خود پر بھی یقین نہیں تھا کہ میرے ہاتھ کسی کمزور لمحے میں اس کھڑکی کو کھولنے سے رکے رہیں گے ۔ میں تقریباً دو سال وہاں رہا لیکن اس دوران میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب میں مکمل اعتماد سے خود کو کہ پاتا کہ کم از کم آج کے دن میں یہ کھڑکی نہیں کھولوں گا۔ میں نے آخر میں وہ کھڑکی کھولی یا نہیں ؟یہ ایک آسان سوال ہے اور اس کا جواب بڑی آسانی سے ایک واقعہ بتاتے ہوئے دیا جا سکتا ہے ۔ اور میں آپ کو یہ بات بتاؤں گا بھی لیکن مجھے کہنے دیں کہ میں نے وہ کھڑکی کھولی یا نہیں یہ بالکل randomسا عمل تھا۔ یہ حقیقت آپ کو اس اسرار کے بارے میں کوئی بھی مفید چیز نہیں بتا پائے گی۔ اگر مجھے زندگی میں دوبارہ انہی حالات میں لا پھینکا جائے تو شاید میں اس کے بالکل مختلف،بالکل الٹا عمل کر گذرتا۔ لیکن اگر ہم زندگی کی سطحیت سے ذرا بلند ہو کر اس سب کو دیکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں سے اس کھیل کے بڑے کھلاڑی خدا اور شیطان وغیرہ دیکھتے ہیں تو آپ کو سمجھ آئی گی کہ وہاں randomnessکی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ وہاں ہر چیز کی ایک نہ جھٹلائی جانے والی وجہ ہوتی ہے ۔ تو میں اس کہانی میں اسی چھپی ہوئی وجہ کو کھوجنے کی کوشش کروں گا۔ 

میں جانتا ہوں کہ میں خود ہی اپنی چیزوں کو مشکل بنا رہا ہوں لیکن میری کتنی بیوقوفی ہو گی کہ اگر میں اس چیز کو آسان و سادہ بنانے کی کوشش کروں جسے فطرت نے پیچیدگی کے لئے تخلیق کیا ہے ۔ اسی طرح اس چیز کو ایک اور levelپر سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اس کہانی میں کچھ بڑے کھلاڑی بھی ایک مقام پر شامل ہو جاتے ہیں (اور لامحالہ ان کے ساتھ وہ پوری higher dimensionبھی چلی آتی ہے )۔ میں خدا کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہ پاؤں گا(خدا کے بارے میں کب کوئی حتمی بات کہ پایا ہے ؟)ہاں مگر شیطان شاید ایک موقع پر اس کہانی میں آ وارد ہوتا ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کہانی ’’کہانی کار‘‘ کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے ۔ یہاں روشنی ملگجے اندھیروں میں ڈھلنے لگتی ہے ۔ اس لئے میں کوئی وعدہ نہیں کر پاؤں گا کہ میں آپ کو ہر چیز اس کے صحیح رنگ میں دکھا پاؤں گا۔ ہاں مگر میں کوشش کروں گا کہ میں سب واقعات کو بڑے سیدھے اور آسان طریقے سے بیان کر دوں (شاید صرف حقائق ہی بیان کر دوں ) پر اصل کہانی ان سطروں کے کہیں بیچ میں چھپی ہو گی۔ میری واحد استدعا یہی ہو گی کہ ان سطروں سے گذرتے ہوئے اگر کسی کہانی کو پگڈنڈی پر بیٹھے دیکھیں تو اسے نظرانداز کرنے کی بجائے اپنی چھوٹی سی گاڑی میں بٹھا کر ساتھ لے چلیں ۔ 

مجھے شہر کے outskirtsمیں ایک گھر وراثت میں ملا اور اس نے گویا ہر شئے میرے لئے بدل کے رکھ دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اتنی ہی بڑی تبدیلی جیسے آپ کی شادی ہو جائے یا پھر آپ کو کسی جرم میں جیل میں پھینک دیا جائے ۔ گھر میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخر کوئی اعتراض کر بھی کیسے سکتا ہے اگر آج کے دور میں اسے ایک گھر دے دیا جائے اور وہ بھی اتنا بڑا اور خوبصورت۔ مگر اس گھر میں ایک کھڑکی تھی جسے کسی بھی صورت میں کھولا نہیں جانا تھا۔ یہ سب اتنا ہی آسان تھا کہ گھر کی درجنوں کھڑکیوں میں سے صرف ایک تھی جسے کھولا نہیں جانا تھا لیکن یہ مجھے ناممکن حد تک مشکل لگا اور میری پوری زندگی اس کھڑکی کی حفاظت میں گویا ایک جال میں پھنستی چلی گئی۔ 

اور حفاظت میں ہم انسان کبھی اچھے نہیں رہے ۔ آخر ہم انسانوں نے چیزوں کی حفاظت کو کیا کیا کچھ نہیں کیا؟ یہ خواہش درحقیقت دنیا کی ساری جنگوں ،اخلاقیات اور قوانین کی ماں ہے لیکن اگر ہم نے اپنی تاریخ کو ذرا بھی سمجھا ہے تو شاید ہم اس کے سوا کسی اور نتیجے پر پہنچ ہی نہیں سکتے کہ ’’ہم کسی بھی شئے کی حفاظت نہیں کر سکتے ۔ ‘‘فطرت گویا ایک منچلا بچہ ہے جس کے ہاتھوں ہر کھلونے کو بالآخر ٹوٹنا ہی ہے ۔ حتیٰ کہ خدا بھی اپنے شجرِ ممنوعہ کی حفاظت نہیں کر پایا اور وہ بھی آدم جیسے شرمیلے اور ڈرے ہوئے بندے سے ۔ لیکن یہی انسانوں کی سب سے عجیب بات ہے ۔ وہ جب کسی ناممکن شئے کو دیکھتا ہے تو اسے محض اس لئے چھوڑ نہیں دیتا کہ وہ منطقی طور پر ناممکن ہے ۔ نہیں جناب! ہم انسانوں کو منطقی مشینوں کے طور پر بنایا ہی نہیں گیا۔ آپ لاکھوں کی فوج سے چند سو لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہو اور وہ پھر بھی اتنی واضح rationality کے سامنے جھکنے سے ان کار کر دیتے ہیں ۔ وہ اس وقت تک لڑتے ہیں جب تک آخری بندے کی گردن تن سے جدا نہیں کر دی جاتی۔ تو میرے دل میں اس بات کو شائبہ بھی نہیں تھا کہ مجھے اس کھڑکی کی حفاظت سے ہاتھ اٹھا لینا چاہیے ۔ ہاں مگر میں نے بھرپور کوشش ضرور کی کہ میں اسے اپنے لئے آسان بنا سکوں ۔ 

تو میں نے کیا کچھ نہیں کیا کہ میری زندگی اس حفاظت سے متاثر نہ ہو۔ میں نے اسے بیچنے کی کوشش کی۔ میں نے اسے دیوار میں چھپانے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوہ میں نے کیا کچھ نہیں کیا کہ یہ کھڑکی میری زندگی کو متاثر نہ کرے ۔ لیکن نتیجہ کیا ہوا ؟میں اپنے خاندان، نوکری، زندگی کو تقریباً کھو ہی بیٹھا۔ میں نے تقریباً کہا ہے کیونکہ کسی کی چھوٹی سی نیکی نے مجھے بچا لیا۔ اب اس نے وہ نیکی کیوں کی یہ اس کہانی کا موضوع نہیں ہے ۔ یہ میری کہانی ہے اس کی نہیں ۔ اگر اسے کبھی اپنی کہانی لکھنے کا موقع ملا تو شاید آپ یہ راز بھی جان لو مگر اس راز کے علاوہ میں سب کچھ آپ کو بتائے دیتا ہوں ۔ 

اس قصے کے واقعات کوئی دو سال تک چلے اور کیا اہمیت ہوتی ہے بھلا اتنی بڑی زندگی میں محض دو سال کی۔ لیکن اس دوران مجھ پر اتنا کچھ گذرا کہ میرا یقین زندگی کی برتر مقصدیت اور انسانیت کی اچھائی تک سے اٹھ گیا۔ یہ تو بہت بعد میں ہوا جب مجھے اس ساری شئے کا اصل مقصد سمجھ آیا اور میں نے کسی قدر متانت سے حالات کو سلجھانے کی کوشش کی مگر اس وقت سے پہلے تو میں گویا سب کچھ کھو چکا تھا۔ 

میں اس گھر میں مہینوں اکیلا رہا جس میں کوئی دوسرا شخص قدم رکھتے ہوئے بھی گھبراتا تھا۔ میں نے ان حالات میں بھی ہر ممکن کوشش کی کہ زندگی کو اسی عام نہج پر گذار سکوں جس کا میں عادی تھا لیکن وہ کوئی عام گھر نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب میں سونے کی کوشش کر رہا تھا اور بہت سے بھوت چھلانگیں لگا رہے تھے ۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں چھلانگیں لگا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید کسی اکتائے ہوئے بھوت کے ذہن میں خیال آیا ہو گا 

’’کیوں نہ ہم ساری رات چھلانگیں لگائیں ؟‘‘

اور ہر ایک نے سوچا ہو گا کہ کتنا زبردست خیال ہے ۔ وہ لوگ پورے انہماک اور جذبے سے چھلانگیں لگاتے رہے یہاں تک کہ میں انہیں صرف دیکھ دیکھ کر ہی اتنا اکتا گیا کہ میرے ذہن میں جاگنے والے خیالات بھی مجھے چھلانگیں لگاتے ہوئے محسوس ہوتے تھے ۔ 

وہ ایسا کیوں کر رہے تھے ؟یہاں مت بھولئے کہ ان بھوتو ں میں بھی بیوقوف ہوتے ہیں جیسے ہمیں عام انسانوں کے بیچ میں ملتے ہیں ۔ یہ بھی جذباتی ہوتے ہیں ، کوتاہ نظر ہوتے ہیں ،بہت عام سے ہوتے ہیں ۔ ان میں یقیناً کچھ ذہین بھوت بھی ہوتے ہوں گے مگر آپ عام زندگی میں کتنی بار ذہین لوگوں سے مل پاتے ہو؟شاید کچھ ایسا ہی حساب یہاں بھی ہوتا ہو گا۔ 

تو جب آپ رات بھر سو نہیں پاؤ گے تو پھر بھلا کیسے اگلے دن دفتر جا کر روزمرہ کے کام سرانجام دے سکو گے ؟اور یہاں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا کام کرتے ہو۔ ان چیزوں سے متاثر ہونے کے لئے کوئی Rocket scientist  ہونا ضروری نہیں بالکل مجھ جیسے اسسٹنٹ مارکیٹنگ مینیجر کے لئے بھی کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ اور پھر یہ بھلا ایک رات کی بات تھوڑے ہی تھی ہر رات ایک نیا فسانہ ہوتا تھا۔ 

ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت تھی جو مجھے اپنی دکھ بھری بپتا سنا رہی تھی کہ کیسے اس کا شوہر اس وقت ایک حادثے میں مارا گیا جب وہ بالکل جوان تھی۔ اسے اس بات پر گہرا یقین تھا کہ اس نے اپنے شوہر کے احترام میں ایک پاکیزہ زندگی گذاری تھی۔ اس کا یہ یقین بہت گہرا تھا۔ گرچہ اس دوران میں اس نے نہ صرف چند ایک معاشقے بھی چلائے بلکہ چند لوگوں کے ساتھ تو وہ سوئی بھی

’’میں نے اپنی جوانی کی دس ہزار راتیں اپنے شوہر کی یاد میں پاکیزگی سے گذار دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم مجھے ان بیس کے لئے قصوروار ٹھہراؤ گے جہاں میں ذرا سا لڑکھڑا گئی؟‘‘اس نے معصومیت سے کہا اور میں واقعی سوچ میں پڑ گیا۔ وہ اتنا غلط تو نہیں کہہ رہی تھی۔ اس نے بہرحال ایک بڑی قربانی تو دی تھی۔ وہ ان بزرگوں کی طرح پاکیزہ تو بہرحال نہیں تھی جنہیں کبھی شر اور برائی کے خیال نے بھی چھوا نہ ہو(کیا ایسے بزرگ ممکن بھی ہیں ؟) لیکن اگر عام دنیاکے معیار سے دیکھیں تو وہ خاصی معقول حد تک معصوم ہی تھی۔ شاید ہم انسانوں کے لئے یہ ضروری ہے بھی نہیں کہ ہم کہانیوں والے بزرگوں کی طرح ہو جائیں (ان بزرگوں کی زندگیوں میں بھی کئی تاریک پہلو pre-sainthood periodمیں ہوں گے پر ہم یہاں اس پر بات نہیں کرتے )۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شر کا ہمارے دلوں میں کوئی legitimateحصہ رکھ دیا گیا ہے ۔ نیکی یہ نہیں ہے کہ ہم شیطان کو اس کے اس جائز حق سے محروم کر دیں بلکہ نیکی تو اس یقین کا نام ہے کہ روح شر سے کبھی corrupt ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ انسانی روح ایک چلتی ندی کی طرح ہو جو اپنے اندر آلائشوں کو چھپاتی چلی جائے اور پھر بھی انسانوں کو استعمال کے واسطے پاکیزہ پانی مہیا کرنے پر قادر ہو۔ 

ٍشاید اصل مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم خدا بن جائیں (اگر ہم یہ کوشش کریں گے تو بری طرح ناکام ہو جائیں گے )جیسے کہ ہمارے مذہبی رہنما ہمیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ان حالات میں بھی انسان رہ سکیں جب شیطان اس پوری دنیا کے بوجھ سے ہمیں تاریکیوں میں دھکیلنے کی سعی میں لگا ہو۔ وہ واحد چیز جو روح کو آلودہ کر سکتی ہے وہ ناامیدی کا احساس ہے ۔ امید ہی وہ ڈھلان ہے جس سے یہ ندی چلتی ہے اور اگر امید ختم ہوئی تو یہ پانی رک جائے گا اور رک جانے پر تو شفاف سے شفاف پانی بھی پینے کے قابل نہیں رہتا۔ 

ہاں البتہ جب وہ پینتالیس برس کی ہو گئی تو اس نے اپنے آپ کو اس کھیل سے مکمل طور پر علیحدہ کر لیا۔ اس کے بعد آنے والی راتوں کو نہ تو اس نے اپنی قربانی کی دس ہزار راتوں میں گنا اور نہ ہی کسی غلط خیال نے تصور میں بھی اسے ستایا۔ وہ باقی کی زندگی مکمل طور پر عبادات، دعاؤں اور دوسروں کے ساتھ چھوٹی موٹی بھلائیاں کرنے میں گذار رہی تھی اور امید کرتی تھی کہ یقیناً ایک اچھی موت اس کی منتظر ہو گی۔ 

وہ ابھی مری نہیں تھی۔ وہ یقیناً کہیں بڑی مطمئن اور پرسکون زندگی گذار رہی تھی۔ میں نے البتہ اس سے نہیں پوچھا کہ وہ کہاں رہتی تھی۔ میں ’’اُن‘‘ کی زندگیوں میں اس سے زیادہinvolveنہیں ہونا چاہتا تھا جتنا کہ بہت ضروری تھا۔ مجھے یہ بھی پتا تھا کہ اسے شاید خبر بھی نہ ہو کہ وہ مجھے یہ سب بتا رہی ہے ۔ وہ تو شاید کہیں سو رہی ہو گی جب یہاں اس کی Astral bodyاس حیرت کدے میں میر ے ساتھ بیٹھی تھی۔ تو اس کے لئے وہ ایک عام رات ہو گی۔ بس شاید صبح کو اٹھتے ہوئے وہ سوچے 

’’کیا زبردستFeelingہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں خود کو کتنا ہلکا اور پرسکون محسوس کر رہی ہوں ۔ ‘‘

پر وہ بوجھ جو میری روح پر بڑھتا جاتا تھا۔ 

ایسا صرف ایک بار ہوا جب میں اس گھر میں ملنے والے کسی شخص سے اصل زندگی میں بھی ملا۔ وہ ایک خود پسند اور گھٹیا شخص تھا جو کسی چائینیز ہوٹل میں کُک تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہیں میں نے کئی مرتبہ اس گھر میں دیکھا۔ ایک دن سیڑھیوں میں بیٹھے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ اکثر گاہکوں کے کھانے میں تھوک دیتا ہے ۔ خاص طور پر جہاں اسے ذرا بھی شبہ ہو کہ کوئی اس کے کھانے پکانے کی صلاحیت پر شک کر رہا ہے ۔ اس کے نزدیک ایسا کرنے میں کوئی غلط بات نہیں تھی۔ مجھے اعتراف کرنے دیں کہ نہ صرف وہاں میں نے اس سے اتفاق کیا بلکہ بعض اوقات تو اس کے بتائے گئے واقعات کو قدرے دلچسپی سے بھی سنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کتنے سکون سے اچھی خاصی کریہہ اور بھیانک چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں جب وہ ہم سے متعلق نہ ہوں ۔ جیسے دور دراز پہاڑوں سے نکلتا لاوا کتنا بھی گرم ہو ہمارے جسم میں کسی کافی کے کپ جتنی گرمی بھی پیدا نہیں کر سکتا۔ ہاں مگر جب ہم اس تصویر میں آتے ہیں تو گویا سب کچھ بدل جاتا ہے ۔ 

میں ہوٹل میں اپنے دفتر کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جہاں ہم اپنے نئے مارکیٹنگ ڈائرکٹر کر خوش آمدید کہنے کے لئے آئے تھے ۔ ہم تیس چالیس لوگ اپنا آڈر لکھوا رہے تھے کہ ایسے میں مارکیٹنگ ڈائرکٹر نے فرمائش کی کہ کُک کو بلوایا جائے کیونکہ وہ اسے کچھ خاص ہدایات دینا چاہتا ہے ۔ یہ کوئی بہت اہم بات نہیں تھی پر میری پریشانی انتہا کو پہنچ گئی جب میں نے دیکھا کہ وہی آدمی ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کے چہرے پر اس وقت اور ہی تاثرات تھے جیسے دنیا میں ہمارے مارکیٹنگ ڈائیرکٹر سے اہم اس کے لئے کوئی ہو ہی نہ۔ اور وہ ایسی توجہ سے اس کی ہدایات کو سن رہا تھا جیسے لوگ مذہبی sermonsکو سنتے ہیں ۔ اور مجھے کہنے دیں کہ وہ ساری ہدایات انتہائی فضول اور واہیات تھیں اور وہ جتنی محبت و توجہ سے اسے سن رہا تھا وہی اس کو مستحق بناتی تھی کہ وہ بغیر کسی Guiltکے اس کے کھانے میں تھوک سکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو میں یہاں تک تو اس کے استحقاق کا قائل تھا لیکن کیا وہ صرف اسی کی ڈش میں تھوکے گا؟ اوہ خدایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں بھی کبھی اس صورتحال کا شکار ہو جاؤں گا۔ آخر ہم اس شخص کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے اور اس کی ہر بات پر یوں سر دھن رہے تھے جیسے وہ کوئی اشلوک پڑھتا ہو۔ ایسے میں کک جیسی ذہنی استعداد کا شخص کیسے سمجھتا کہ ہم اس کے ساتھ نہیں ہیں ۔ بہت ممکن تھا کہ وہ کسی مہربان لمحے میں مارکیٹنگ ڈائرکٹر کو تو معاف کر بھی دیتا کہ شاید خدا نے اسے بنایا ہی ایسا annoyingہو مگر ہمارے کھانے میں وہ ہر حال میں دو مرتبہ تھوکتا کہ ہم اپنی مرضی اور خوشی سے اس جیسے شخص کے ساتھ کیوں ہیں ۔ 

میں نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟مجھے کھانا تو کھانا ہی تھا وگرنہ بگ باس اسے کبھی معاف نہیں کرے گا لیکن کوئی آنکھوں دیکھا تھوک بھلا کیسے نگلے ؟پھر کون جانے کہ بھائی صاحب نے تھوک کہاں پھینکا ہو گا؟یہ چائینیز کھانے تو ہوتے بھی ایسے ہی ہیں کہ آپ جان نہیں سکتے ۔ بعد میں میں نے صرف چند گلاس پانی پینے اور کچھ کھیرے کھانے پر اکتفا کیا(یہ علیٰحدہ بات ہے کہ اس دن مجھے کھیرے بھی کچھ زیادہ نرم اور slivyسے محسوس ہوا)۔ ہر ایک مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں کچھ کھا کیوں نہیں رہا ہوں بلکہ مجھے لگا کہ مارکیٹنگ ڈائرکٹر نے بھی اس کا نوٹس لیا تھا۔ 

میں نے کچھ ہفتوں کے بعد اس کُک کو اپنے گھر میں پایا اور میں نے کوشش کی کہ اس سے پوچھوں کہ اس دن اس نے ہمارے کھانے میں تھوکا تھا یا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یہ بہرحال ایک ناممکن کام ثابت ہوا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے آپ کسی کتے سے پوچھو کہ تمہیں وہ کار یاد ہے جس کے پیچھے تم دو ہفتے پہلے بھاگے تھے ۔ اس معاملے میں اس کی یادداشت سے کچھ نکلوانا ایسا ہی کراہت انگیز اور غلیظ تھا جیسے گلتے سڑتے ہوئے تعفن زدہ کوڑے کے ڈھیر سے کسی کو کوئی انگوٹھی ڈھونڈنے کو کہا جائے ۔ میں نے تنگ آ کر موضوع ہی بدل دیا۔ 

اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کیسے یہ چیز میری زندگی پر اثر انداز ہوئے چلی جا رہی تھی۔ ہر لمحہ جو میں اس گھر میں گذارتا تھا مجھے باقی ساری دنیا سے دور لئے جا رہا تھا۔ مجھے یہ سب پسند نہیں تھا مگر کیا کرتا کہ اب یہی میری زندگی تھی۔ میری حالت اس کتے کی سی تھی جو اب سڑک کنارے ٹانگ اٹھا کر پیشاب بھی نہیں کر سکتا تھا۔ آپ نے یقیناً کتوں کو بڑی بے نیازی سے اس عمل میں مشغول دیکھا ہو گا اور اگر آپ تھوڑے سے نازک طبع واقع ہوئے ہیں تو یہ عمل آپ کو الجھن میں بھی ڈال دے گا لیکن یہ عمل ہے تو وہی جو ہم سب کرتے ہیں ۔ مانا کہ تب کوئی ہمیں دیکھ نہیں رہا ہوتا مگر بات تو وہی ہے نہ۔ تو اب میری زندگی بھی جیسے اپنا تقدس کھو بیٹھی تھی۔ میری گرد اٹھائی گئی جھوٹی دیواروں کو گرا دیا گیا تھا اور میں اب ہزاروں لوگوں کے شہر میں بے پردہ کھڑا سوچتا تھا کہ کیا کروں ؟

میں نے شروع میں فیصلہ کیا کہ میں اسے کرائے پر دے دیتا ہوں ۔ گو مجھے کھڑکی والی شق کا ادراک تو تھا لیکن میں سوچتا تھا کہ بھلا کتنا مشکل ہو گا کرائے داروں کو سمجھانا کہ وہ پورا گھر استعمال کر سکتے ہیں بس ایک کھڑکی ہے جو انہیں نہیں کھولنا ہے ۔ لیکن یہ ناممکن ثابت ہوا۔ اور یقین کیجئے کہ میں ایک ہی کوشش میں دل چھوڑنے والا نہیں تھا لیکن جب اس گھر میں ایک کرائے دار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا۔ پراپرٹی ڈیلرز نے بھی مجھے صاف کہ دیا کہ 

’’آپ کے پاس ایک آسیب زدہ گھر ہے ۔ بہتر ہے کہ آپ اسے اپنے ہی پاس رکھیں ۔ ہم بہرحال کسی ناحق قتل میں ہر گز شریک نہ ہوں گے ۔ ‘‘

’’میں اس آسیب زدہ گھر کے ساتھ کیا کروں ؟یہ ایک ایسا سوال تھا جس کے جواب میں مجھے کوئی بھی interestedنہیں نظر آتا تھا۔ شاید دنیا ایسی ہی ہے ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جہاں لوگ اپنی ذہنی صلاحیتوں کو ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ یہ ان کے لئے جیسے کسی بند گلی کی طرح ہوتی ہیں ۔ تو اگر آپ کے پاس ایک آسیب زدہ گھر ہے تو اسے تالا لگائیے اور انتظار کیجئے کہ آپ کی زندگی اس سے باہر گذرتی رہے ۔ ‘‘

مجھے لگتا ہے کہ سب لوگ آغاز میں ایسا نہیں سوچتے ہوں گے ۔ یہ تو شاید وہ انجام ہے جس پر وہ بالآخر settleہوتے ہوں گے ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ میں ایک بڑی نارمل سی زندگی گذار رہا تھا۔ میری بیوی تھی، دو بچے تھے ایک کمپنی میں اچھی خاصی نوکری تھی۔ ہم کبھی کبھار جھگڑتے تھے ۔ سال میں ایک بار سیر کے لئے پہاڑوں پر بھی جاتے تھے ۔ غرض میری زندگی میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو مجھے کسی بھی طرح سے ممتاز بناتی۔ ایسے میں جب ایک دن دروازے کی گھنٹی بجی اور نوکرانی نے کہا کہ کوئی وکیل صاحب آپ سے ملنا چاہ رہیں ہیں تو مجھے بے حد حیرت ہوئی۔ مجھے لگنے لگا تھا کہ میری زندگی اتنی عام اور بے رنگ تھی کہ اس میں اتفاق سے بھی کوئی مختلف واقعہ نہیں ہو سکتا ہے ۔ ایسے میں مجھے جب بتایا گیا کہ میرے ماموں کرنل شیر دل کا انتقال ہو گیا ہے اور وہ میرے لئے ایک گھر چھوڑ گئے ہیں تو میری بیوی کا چہرہ جیسے کھِل سا گیا۔ جیسے اسے لگا ہو کہ زندگی میں ہم جس تبدیلی یا بہتری کا خواب دیکھ رہے تھے وہ شاید اب حقیقت بن سکے ۔ میں البتہ تھوڑا پریشان تھا۔ چاہتا تو یہی تھا کہ فوراً ہی ’’شکریہ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ گھر واپس کر دیتا مگر ’’کسے ‘‘؟ یہ سوال اہم تھا۔ کرنل شیر دل نے کبھی شادی نہیں کی تھی اور ان کا میرے علاوہ کوئی رشتہ دار بھی نہیں تھا۔ ان کا پورا خاندان تقسیم کے ہنگام میں مار ڈالا گیا۔ صرف میرے نانا ہی اپنے خاندان کے ساتھ بڑی مشکل سے جان بچا کر آ پائے تھے ۔ میری ماں کی شادی تو نانا کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی۔ لیکن پھر جلد ہی نانا نانی ایک ٹریفک کے حادثے میں مارے گئے تو دنیا میں شیر دل ماموں کا میری ماں کے سوا کوئی بھی نہ رہا۔ 

وہ اس وقت آرمی میں تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ ہمارے نانا نانی کی وفات پر آئے تو بالکل بھی اداس نہیں لگ رہے تھے ۔ وہ بس خاموشی سے گھر کے ایک کونے میں آ کر بیٹھ گئے اور ایک چھپکلی کو دیکھے جا رہے تھے ۔ وہاں موجود لوگوں کو لگا کہ وہ شاید بہت دلبرداشتہ ہیں اور ہوش کھو بیٹھے ہیں مگر میں جانتا تھا کہ وہ ضرور اس چھپکلی سے staring contestکر رہے تھے ۔ میں شاید انہیں کچھ زیادہ ہی اچھی طرح جانتا تھا۔ آپ ان کے چہرے پر مت جاؤ۔ یہ مت سوچو کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ حقیقت یہی تھی کہ وہ بہت عجیب انسان تھے ۔ وہ پوری زندگی ہی عجیب سے انداز میں زندہ رہے اور شاید انہیں کوئی بھی اس طرح نہیں جانتا ہو گا جس طرح میں جانتا تھا۔ حتیٰ کہ شاید اس چھپکلی کو بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس کے مقابل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ evolutionنے اس چھپکلی کو ایسے کسی مقابلے کے لئے لاکھوں سالوں میں تیار کیا تھا لیکن وہ پھر بھی ہارنے والی تھی۔ آخری ہنسی ہمیشہ کرنل شیر دل کی ہی ہوتی تھی۔ 

انکے بارے میں میرا پہلا impressionبڑا مختلف تھا۔ وہ ایک کسرتی جسم کے مالک تھے (بالکل میرے بابا سے الٹ جو کہ میری طرح نرم تھے ) اور اوپر سے وہ آرمی میں بھی تھے تو میں بچپن سے ہی انہیں آئیڈیلاز کرتا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ انہیں اپنے خوابوں میں بھی دیکھا جہاں وہ جھٹ سے کئی وحشی عفریتوں کو ٹھکانے لگا دیتے ۔ وہ اپنی چھٹیوں کے دوران ہمارے گھر آ یٰنتا تھا۔حتٰ، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید                                                                             جاتے تھے ۔ میری امی ہمیشہ انہیں میرے سامنے والا کمرہ دیتی تھیں ۔ میں اس عمر میں بڑا مختلف تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہو گے کہ ایسی عمروں کے بچے کیسے ہوتے ہیں ۔ وہ بڑی جلدی لوگوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور پھر                                                                                                                                ایسی عمر میں بھلا کون ایک وجیہہ آرمی آفیسر سے متاثر ہوئے بنا رہ سکتا ہے ؟وہ ہمیشہ ایک پستول اپنی کمر میں لگائے رکھتے اور میں تو جیسے ان کی پرستش سی کرتا تھا۔ سکول سے آنے کے بعد میں سارا دن ان کے پیچھے ہی گھومتا رہتا۔ وہ جیسے کوئی سورج تھے اور میں سورج مکھی۔ 

ایک دن ان کے کمرے کا دروازہ بند تھا اور میں نے تالے کے سوراخ سے اندر دیکھا(میں نہیں جانتا کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید میرے پاس اس وقت کرنے کو کوئی بہتر چیز تھی ہی نہیں )لیکن میں نے جو دیکھا اس نے میری ان کے بارے میں رائے ہمیشہ کے لئے بدل دی۔ وہ فرش پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھ میں ایک معصوم کالے رنگ کا پرندہ پھڑپھڑا رہا تھا۔ ان کی آنکھیں بند تھیں اور ان کے ہونٹ ہل رہے تھے جیسے وہ کچھ پڑھ رہے تھے ۔ اور پھر انہوں نے اپنے خالی ہاتھوں سے پرندے کی گردن کو اس کے جسم سے علیٰحدہ کر دیا۔ پرندے کے جسم سے خون کی پچکاریاں سی نکلیں اور ایسی میں انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں جو خود بھی سرخ ہو رہی تھیں ۔ وہ عجیب آنکھیں تھیں ایسا لگتا تھا جیسے وہ تالے کے سوراخ سے بھی مجھے دیکھ رہی تھیں ۔ میں گھبرا گیا اور بڑی مشکل سے خود کو گرنے سے روک پایا۔ میں بھاگتا ہوا اپنے کمرے کو گیا اور دروازہ لاک کر کر بستر میں گھس گیا۔ لیکن وہ منظر گھنٹوں تک میری آنکھوں کے سامنے رہا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرم، افسوس یا پھر خوف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن میری امی کو گھسیٹ کر مجھے کھانے کی میز تک لے جانا پڑا۔ وہاں وہ بڑے مزے سے چکن کھا رہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہاں البتہ جب سب لوگ کھانے وغیرہ میں مصروف ہو گئے تو انہوں نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’’بچو میں سب جانتا ہوں ‘‘

وہ واقعہ ہمارے تعلق کا turning pointتھا۔ اس کے بعد میں ہمیشہ ان سے خوفزدہ ہی رہا۔ اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے بھی کبھی اس فاصلے کو کم کرنے کی کوشش کی ہو۔ ان کے لئے تو میں جیسے ایک بیکار ، gigantic looserتھا جس پر وہ اپنا وقت بھلا کیوں برباد کرتے ؟

میری ماں نے بڑی کوشش کی کہ ان کی کہیں شادی طے کر پائیں مگر وہ اس کے لئے تیا ر ہی نہ تھے اور انہیں جو بھی لڑکی دکھائی جاتی وہ اس کا مذاق اڑاتے ۔ ان کی شادی تو نہ ہو سکی مگر میری ماں نے رشتے ڈھونڈنے کی کوشش کبھی ترک نہ کی۔ ان کے لئے یہی ایک طریقہ تھا کہ انہیں زندگی میں واپس لے کر آیا جا سکتا۔ پھر ایک بیماری نے امی کی جان لے لی تو جیسے ہمارے بیچ کچھ مشترک رہا ہی نہیں ۔ میرے بابا کو بھی ان کی پروا نہیں تھی اور وہ تو تھے ہی ایسے ہی لا ابالی۔ اس کے بعد تو جیسے میں بھول ہی گیا کہ میرے ایک ماموں بھی ہیں یہاں تک کہ وکیل صاحب نے بتایا کہ وہ میرے لئے ایک گھر چھوڑ گئے ہیں ۔ 

جب وکیل صاحب نے مجھے بتایا تو شروع شروع میں مجھے لگا کہ وہ مذاق کر رہے ہیں ۔ میں نے اپنے ماموں کے بارے میں بیس سال سے کچھ نہیں سنا تھا۔ وہ بھلا میرے لئے کچھ کیوں چھوڑ کر جانے لگے ؟سچ بتاؤں تو میں بالکل بھی interestedنہیں تھا مگر میری بیوی خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی تھی۔ گو میں اس وقت ایک مناسب نوکری کر رہا تھا مگر ہمارے لائف سٹائل میں پیسہ ہمیشہ کم ہی نظر آتا تھا اور ایسے میں یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے ہم یونہی جانے دیتے ۔ 

ہماری شادی کے بعد وہ پہلی رات تھی جس میں میری بیوی نے صحیح معنوں میں مجھے پیار کیا۔ اس سے پہلے تو وہ جیسے مجھ پر کوئی احسان اتار رہی ہوتی تھی مگر اس رات جیسے میں کوئی شہنشاہ تھی اور وہ کوئی کنیز۔ اگلے دن ہم اکٹھے گھر دیکھنے کے لئے گئے ۔ شہر سے باہر بہت سے امیر لوگوں نے بڑے بڑے فارم ہاوسز نما گھر بنا رکھے تھے اور یہ بھی انہی میں سے ایک تھا۔ زمین خاصی قیمتی تھی اور گھر بھی خاصا بڑا دکھائی دیتا تھا اور سب کچھ تھا بھی بالکل نیا۔ مجھے بتایا گیا کہ گھر بالکل نیا تھا اور میرے ان کل کو ابھی اس میں رہنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔ وکیل نے مجھے سارے کاغذات دکھائے اور سب کچھ سچ بتاؤں تو بہت ہی excitingلگ رہا تھا سوائے ایک چھوٹی سی شق کے جو کچھ عجیب نظر آ رہی تھی۔ وہ شق کچھ یوں تھی کہ فرسٹ فلور پر موجود بیڈ روم کی کھڑکی کو ہر حال میں بند رکھنا ہو گا۔ اسے کسی بھی صورت میں نہیں کھولا جائے گا۔ وکیل نے اس شق کو تین مرتبہ ٹھہر ٹھہر کا پڑھا(شاید اسے لکھا ہی اس طرح گیا تھا) لیکن سچ بتاؤں تو اس وقت میں نے اسے ایک مرتبہ بھی نہیں سنا۔ میں نے کاغذات پر دستخط کئے اور وہ گھر میرا ہو گیا۔ 

تو خوش قسمتی کے ایک داؤ سے ہم اس خوبصورت گھر کے مالک بن گئے ۔ ہم اس کے خالی کمروں میں بڑی دیر تک گھومتے رہے ۔ ہم نے اس کھڑکی کو بھی بڑی توجہ سے دیکھا جس کے بارے میں وہ شق لکھی گئی تھی اور ہمیں تو اس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔ سب کچھ بہت ٹھیک لگ رہا تھا لیکن مجھے معلوم تھا کہ سب ٹھیک نہیں ہے ۔ میں اپنے ان کل کو بہت اچھی طرح سے جانتا تھا۔ وہ گھر میرے لئے بالکل بھی کوئی تحفہ نہیں تھا بلکہ ایک امتحان تھا اور اس سارے راز کی کنجی اس کھڑکی میں تھی۔ لیکن میں یہ سب اپنی بیوی کو بتا کر اس کی خوشی خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ 

’’لیکن میں یہ بلی چوہے کا کھیل کھیلوں گا نہیں ۔ میں جلدی سے اسے بیچ ڈالوں گا اور اس امتحان سے نکل آؤں گا۔ ‘‘اگرچہ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ میں کتنا غلط سوچ رہا تھا مگر کم از کم اس وقت تو مجھے ایسے ہی لگتا تھا۔ میں نے کچھ رئیل اسٹیٹ کے لوگوں سے بات کی اور ان سب نے مانا کہ یہ یقیناً بہت قیمتی پراپرٹی تھی لیکن ہر ایک نے مجھے یہی مشورہ دیا کہ میں اسے ابھی نہیں بیچوں ۔ ایک تو وہ علاقہ ابھی شہر سے باہر تھا اور ڈیولپ ہو رہا تھا اس لئے کچھ ہی سالوں کا انتظار مجھے خاصی بہتر قیمت دلوا سکتا تھا اور پھر پراپرٹی کی مارکیٹ ویسے بھی خاصی ڈاؤن تھی۔ شاید سب سے بہترین آپشن یہی تھی کہ اسے کرایہ پر چڑھا دیا جائے ۔ اس طرح نہ صرف ایک لگی بندھی آمدنی آتی رہے گی بلکہ گھر بھی میرا ہی رہے گا اور میں اسے جب چاہوں بیچ سکتا تھا۔ 

’’ایسی خوبصورت جگہ کے لئے آپ کو کرایہ دار ڈھونڈنے میں بالکل بھی مشکل نہیں ہو گی‘‘ ایک پراپرٹی ڈیلر نے کہا اور میں نے سوچا کہ ’’کیوں نہیں ؟‘‘۔ میرے پاس میری جاب تھی اور یہ کرایہ میرے اوپر کے خرچوں کے لئے کافی ہو گا۔ پراپرٹی والا اگلے ہی دن ایک نوجوان جوڑے کو لے کر آ گیا جو ایسی خوابناک جگہ میں رہنے کے تصور سے خاصے excitedلگ رہے تھے ۔ سب کچھ طے ہو گیا اور میں نے انہیں خاص طور پر بتا بھی دیا کہ اس کھڑکی کو کسی صورت میں کھولا نہیں جائے گا۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا لیکن مجھے لگا جیسے وہ اس بات کو بہت سنجیدگی سے نہیں لے رہے ۔ پہلے مجھے لگا کہ سنجیدگی سے نہیں لیتے تو میں کیا کروں میرا کام تھا انہیں بتا دینا۔ لیکن بات اتنی سادہ تھی نہیں ۔ 

میں اسے ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ آپ کسی آرمی کی بیرک میں جانے کی کوشش کرو جہاں عام لوگوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے ۔ آپ گیٹ پر جاؤ گے تو آپ کو بڑے واضح انداز میں بتا دیا جائے گا کہ آپ یہاں نہیں جا سکتے ۔ لیکن اگر آپ اپنے قدم روکو گے نہیں تو وہ آپ کو کالر سے پکڑے گا اور گھسیٹتا ہوا دور سڑک پر لے جا پھینکے گا۔ وہ ایسا ہی کرے گا کیونکہ وہ اسی لئے تو یہاں ہے ۔ اسے یہاں اس لئے کھڑا نہیں کیا گیا کہ وہ دوستانہ انداز میں لوگوں کو کہتا پھرے کہ وہ یہاں جائیں یا نہیں ۔ اس کا کام تو یہ ہے کہ کوئی بھی یہاں سے بلا اجازت اندر نہیں جانے پائے ۔ تو وقت نے مجھے بھی ایسے ہی ایک گیٹ پر لا کھڑا کیا تھا۔ اور یہ وہ نوکری تھی جسے میرے سر پر لاد دیا گیا تھا۔ 

میں نہیں جانتا کہ اس کھڑکی کے کھولنے سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑنی تھی؟کون جانے کے کیا ہوتا؟۔ جیسے کوئی پنڈورا باکس ہے جس کے کھلنے سے ہزاروں برس سے چھپے عفریت دنیا پر جھپٹ پڑتے ہیں یا پھر ایک ایٹم کو پھاڑنے سے کتنا بڑا دھماکہ کیا جا سکتا ہے ۔ میں نہیں جانتا تھا اور اسی لئے میں انہیں اس کھڑکی کے کھولنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ 

میں نے انہیں واپس بلایا اور دوبارہ کہا ’’یہ ایسے نہیں چلے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ تم لوگ وہ کھڑکی ضرور ہی کھولو گے ۔ ‘‘

’’آخر تم ایک کھڑکی کے پیچھے ہی کیوں پڑ گئے ہو۔ ایک Goddamnکھڑکی کھولنے سے بھلا کیا ہو جائے گا‘‘ اس نے کہا۔ 

’’تمہیں کوئی اندازہ نہیں ہے ۔ ‘‘میں نے سرد لہجے میں کہا۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مجھے بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا تھا۔ 

’’اگر ایسا ہے تو آپ رکھو اپنا گھر۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں نہیں رہنا یہاں ۔ میرے خاندان کی حفاظت میرے لئے سب سے اہم ہے ۔ ‘‘اس نے جواب دیا اور بیوی کو لے کر چلا گیا۔ 

اور وہ صحیح تھا۔ کوئی بھی اپنے ہوش و حواس میں ایسے چیز پر بھلا کیوں رضامند ہونے لگا۔ مجھے جلد از جلد اس مسئلے کا کوئی حل سوچنا تھا کیونکہ اگر میرے گھر کی کوئی عجیب و غریب شہرت پھیل جاتی تو نہ صرف اسے کرائے پر دینا مشکل ہو جاتا بلکہ بعد میں میں اسے بیچ بھی نہیں پاتا۔ تو پھر کیا کیا جائے ؟ایک حل تو یہ تھا کہ تھوڑی محنت سے اس کھڑکی کو مستقل طور پر بند ہی کر دیا جائے ۔ یہ بیڈ روم میں تھی اور اگر میں اس کے آگے ایک خوبصورت سا آتشدان بنا دیتا تو کمرہ خوبصورت بھی نظر آتا اور میرا مسئلہ بھی ہمیشہ کے لئے حل ہو جاتا۔ میں نے اس کے لئے ایک interior designerکو بلوایا تاکہ وہ نہ صرف کوئی خوبصورت سا آتشدان مجھے تجویز کر دے ۔ وہ ایک ناراض سی خاتون تھی اور میری بات سن کراس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں کوئی بیوقوف ہوں ۔ ’’Who made fire places in this part of the world ‘‘۔ میرے اصرار پر اس نے ایک نظر کمرے پر ڈالی مگر جب کھڑکی کو دیکھا تو اس نے گویا صاف ہی ان کار کر دیا۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ یہ کھڑکی ہوا اور روشنی کے لئے کتنی ضروری ہے ۔ اور یہ دیکھیں کہ باہر کا کتنا خوبصورت نظارہ یہاں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ وہ آگے بڑھی تاکہ کھڑکی کھول کر مجھے دکھا دے مگر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور ذرا سختی سے کہا۔ مجھے اس کھڑکی کے سامنے ایک آتشدان چاہیے اور بس۔ 

اس نے میری طرف بے یقینی سے دیکھا اور میرا ہاتھ جھٹک کر باہر کی طرف چل دی۔ 

’’کیا؟ آپ کہاں جا رہی ہو؟‘‘

’’میں ایک آرٹسٹ ہوں اور میں اس کمرے کی integrityپر سمجھوتہ نہیں کر سکتی‘‘

میرے دل سے پوچھیں تو میں اس وقت اسے ہزار صلواتیں سنا رہا تھا لیکن مجھے اس کی ضرورت تھی اس لئے میں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے اسے بڑے سکون سے ساری کہانی سنا دی۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگا کہ اگر اسے ساری سچوئیشن سمجھا دی جائے تو وہ شاید کام پر رضامند ہو جائے ۔ 

’’یہ تو زیادہ بڑی وجہ ہو گئی کھڑکی کو نہ بند کرنے کی۔ آپ کو اندازہ ہے کہ ایسی کھڑکی کو بند کرنے کا مطلب کیا ہے ؟اگر ہم انسانوں کے پاس اس قسم کی کھڑکیاں نہ ہوتیں تو ہم ابھی تک غاروں میں رہ رہے ہوتے ۔ میرے نزدیک ایسے خوبصورت راز کو چھپانا جرم ہے اور میں ایسے جرم میں شریک نہیں ہو سکتی۔ وہ پھر باہر جانے کو نکلی اور اب کی بار میں نے اسے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ 

ایک تو یہ ہو سکتا تھا کہ میں اس کمرے میں کچھ سامان رکھ کر اسے لاک کر دیتا اور ہر کرایہ دار کو بتا دیتا کہ اس کمرے کو کھولنا نہیں مگر مجھے اس طرح سے تسلی نہیں ہونے والی تھی۔ ایک چیز یہ ہو سکتی تھی کہ اس کھڑکی کے سامنے لکڑی کی بڑی سی بک شیلف بنوا دی جائے ۔ اس کے لئے تو کسی آرکیٹکٹ کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ میں اگلے ہی دن ایک کارپینٹر کو پکڑ لایا اور اور کچھ ہی دنوں میں اس نے ایک مضبوط لکڑی کی الماری بنا دی جس کے پیچھے وہ ساری کھڑکی ایسے چھپی کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں ۔ 

اب کی بار جو کرایہ دار ملا وہ چھوٹے قد کا funnyسا شخص تھا۔ پر بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کی شکل ایسی ہوتی ہے ۔ اب گھر دیتے ہوئے مجھے یہ تو نہیں کہا گیا تھا کہ میں اسے کسی مزاحیہ شکل کے شخص کو کرایے پر نہیں دوں گا۔ وہ لوگ اگلے ہی دن اپنا سامان لے کر آ گئے ۔ اس کے دو تین بیوقوف سے بچے تھے اور ایک بہت سادہ سی موٹی بیوی تھی۔ میں کچھ کاغذات سائین کروانے کے لئے گھر میں گیا اور مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا جیسے وہ بہت پر                                                                                                                                 جوش ہو۔ 

’’نئے گھر میں جاتے ہوئے لوگ تھوڑے excitedتو ہوتے ہی ہیں ۔ یہ تو فطری سی بات ہے ۔ ‘‘میں نے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ 

لیکن وہاں کچھ نہ کچھ عجیب بات تھی ضرور۔ اس خاندان کے ہر فرد کی آنکھیں تھوڑی دیر میں اس کمرے کی طرف اٹھ جاتی تھیں جہاں و ہ کھڑکی تھی۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا تھا جیسے وہ اس کھڑکی کا راز جانتے ہوں ۔ 

خیر میں وہاں سے آ گیا۔ میں نے کوشش کی کہ ایک اچھی فلم دیکھ لوں ، پیپسی کے دو کین پئے ، شاور لیا لیکن کچھ تھا جو مجھے تنگ کر رہا تھا۔ کوئی تھا جو میرے اندر چیخ رہا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے ۔ ایک گھنٹے میں میں نے تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ جا کر مجھے اس گھر کو دیکھ لینا چاہیے ۔ وہاں دروازہ بند تھا۔ گھنٹی بجائی تو کافی دیر تک کوئی نہ نکلا اور پھر نکلا تو وہ بیوقوف سا لڑکا اور اس کی نظر جب مجھ پر پڑی تو اس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ وہ بھاگتا ہوا اندر گیا اور باپ کو بلا لایا۔ باپ اپنی طرف سے سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میں صاف دیکھ سکتا تھا کہ سب ٹھیک نہیں ہے ۔ اس کے بالوں میں لکڑی کا برادہ گھسا ہوا تھا۔ وہ یقیناً کچھ کر رہا تھا

’’کیا ہو رہا تھا؟‘‘ میں نے ڈھٹائی سے پوچھا

’’کیا مطلب؟‘‘وہ خوفزدہ ہو گیا۔ 

’’میں بتاتا ہوں کہ کیا مطلب‘‘ میں اسے دھکا دے کر گھر میں داخل ہو گیا۔ اس کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ میں نے انہیں موقع ہی نہ دیا کہ وہ مجھے روکتے ۔ میں سیدھا اس کمرے میں گیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ میں کتنے صحیح وقت پر آیا تھا۔ وہ لوگ ایک کلہاڑی سے بک شیلف کو توڑنے میں لگے ہوئے تھے ۔ 

’’یہاں کیا ہو رہا تھا؟‘‘

وہ کچھ دیر تو خاموش کھڑا رہا ’’مجھے لگا کہ تم نے اس کھڑکی میں کچھ خزانہ چھپا رکھا ہے ‘‘ اس کے ہونٹ کپکپائے 

’’تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ۔ یہ ایک کھڑکی ہے کوئی الماری نہیں کہ میں اس میں کچھ چھپا سکوں ۔ یہ صرف ایک کھڑکی ہے ۔ ‘‘

’’تو پھر تم نے اس کے سامنے یہ بک شیلف کیوں بنوا دی تھی؟‘‘اس نے پوچھا

’’وہ تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں پہلے تو کچھ کہنے لگا مگر پھر رک گیا۔ ’’کمینے انسان۔ میں تمہیں کیوں اس کے لئے جواب دیتا پھروں ۔ اب دفع ہو جاؤ میرے گھر سے اور اپنا سارا سامان بھی لے جاؤ وگرنہ میں اس سارے کاٹھ کباڑ کو آ گ لگا دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھے ؟‘‘

اس نے کوشش کی کہ میں اسے تھوڑا اور وقت دے دوں تاکہ وہ کوئی گھر ڈھونڈ سکے لیکن میں نے دوسری بات ہی نہیں کی۔ میں نے لکڑی کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور اسے شیشے کی ٹرالی پر دے مارا۔ ٹرالی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ 

’’تمہارے پاس صرف چند گھنٹے ہیں وگرنہ میں پورے سامان کا یہی حشر کروں گا۔ ‘‘

اب اسے سمجھ آ گئی اور وہ جلدی سے ٹرک لینے کو بھاگا۔ اگلے چند گھنٹوں کے بیچ جب مزدور لوگ اس کا سارا سامان ٹرک میں ڈال رہے تھے تو اس کے بیوقوف بچے اور موٹی بیوی کمرے کے کونے میں بیٹھے تھرتھراتے رہے ۔ 

جب وہ چلے گئے تو میں نے گھر کو اچھی طرح سے لاک کیا اور واپس آ گیا۔ رات کے کسی پہر میری آنکھ کھلی تو مجھے پھر وہی بے چینی سی محسوس ہو رہی تھی

’’اب یہ تو فضول بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اس وقت تو اس گھر میں نہیں جا رہا۔ ‘‘میں نے سر جھٹک کر سونے کی کوشش کی مگر وہ بے چینی اتنی بڑی تھی کہ میں لیٹا نہیں رہ سکا اور اگلے ہی لمحے میں گاڑی میں اس گھر کی طرف جا رہا تھا۔ رات کے وقت وہاں بے انتہا سناٹا تھا اور سچ پوچھیں تو میں اندر سے گھبرا ہی رہا تھا لیکن وہ احساس کہ کوئی گڑبڑ ہے مجھے رکنے نہیں دے رہا تھا۔ میں نے خاموشی سے دروازہ کھولا اور میری بے چینی بے وجہ نہیں تھی۔ اس کمرے کی روشنی جل رہی تھی۔ میں بھاگتا ہوا اس کمرے تک گیا اور وہی کرایہ دار تقریباً پوری الماری کو اکھاڑ چکا تھا اور اب وہ کھڑکی کھولا ہی چاہتا تھا۔ میرے کمرے میں داخل ہونے کی آواز سن کر وہ ایک لمحے کو تو ٹھٹھک گیا مگر جب اس کی نظر میرے پر پڑی تو ایک سکون کی لہر اس کے چہر پر ابھر آئی ’’یہ تو وہی بے حقیقت سا شخص ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا کر لے گا اس سے زیادہ کہ یہ کچھ دیر مجھ پر جھلائے گا اور دھکے مار کر مجھے گھر سے باہر نکال دے گا۔ ‘‘

اگرچہ مجھے اس پر بہت غصہ آ رہا تھا لیکن میرے ذہن میں دور دور تک بھی یہ خیال نہیں تھا کہ میں اسے نقصان پہنچاؤں لیکن اس نے مجھے بہت آسان لے لیا تھا۔ آپ کبھی اُس شخص کو یہ احساس نہیں دلا سکتے کہ وہ بے حقیقت ہے جس کے گھر آپ چوری کو داخل ہوتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا اگر وہ واقعی ایک بے ضرر چوہا ہو مگر آپ کو کبھی یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو چوری کا پہلا اصول ہے ۔ آپ attitudeدکھا سکتے ہو جب آپ ڈاکہ ڈالنے کے لئے آؤ مگر چوری کرتے ہوئے بس دو ہی optionsممکن ہیں ۔ یا تو بھاگ جاؤ یا پھر بے چارے بن جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن وہ تو بڑا مطمئن تھا اور اس نے میرے سامنے کوئی چوائیس ہی نہیں چھوڑی اور میں نے بک شیلف سے توڑا گیا لکڑی کا ایک بڑا ٹکڑا اٹھا لیا۔ میں شروع میں صرف اسے ڈرانا چاہتا تھا۔ ہاں میں بس اسے ڈرانا ہی چاہتا تھا لیکن وہ مسکرا دیا۔ پولیس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نے اس کی موت کی وجہ لکڑی کا حادثاتی طور پر اس کی گردن میں پیوست ہو جانا لکھا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس کی موت کی وجہ اس کی مسکراہٹ تھی۔ 

میں دروازہ بند کر کر واپس آ گیا اور ایک پرسکون نیند سویا۔ اگلی صبح میں اس گھر میں گیا۔ اور پولیس کو بلوا لیا۔ پولیس نے اس سب معاملے کی کچھ دیر تک تحقیقات کیں اور پھر خود ہی کیس کو داخلِ دفتر کر دیا۔ عام طور پر پولیس کے لوگ ایسے معاملا ت کو بالکل بھی حادثہ نہیں سمجھتے مگر اس گھر کی reputationان تک بھی پہنچ چکی تھی اور وہ ایسے مافوق الفطرت معاملات میں زیادہ الجھنا نہیں چاہتے تھے ۔ میرے لئے تو یہ بہت ہی اچھا ثابت ہوا کیونکہ ذرا سی تفتیش بھی مجھے مجرم ثابت کرنے کو کافی تھی۔ 

کیس تو بند ہو گیا مگر اب میرے گھر کا ذکر ہر کسی کے لبوں پر تھا۔ یہ تو اب ناممکن تھا کہ اس گھر کو بیچا یا کرائے پر دے دیا جائے اور یقین کریں تو میں اب اس میں بہت زیادہ دلچسپی بھی نہیں رکھتا تھا۔ میں خوفزدہ تھا تو اس کھڑکی سے ۔ وہ کھڑکی اب اس شہر کے سامنے ایک چیلنج کی طرح تھی اور پتہ نہیں مجھے کیوں لگنے لگا تھا کہ ہر رات کوئی نہ کوئی اس گھر میں آ دھمکے گا اور اس کھڑکی کو کھولنے کی کوشش کرتا پھرے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھڑکی جسے کھولا جاتا تو نجانے کیا ہو جاتا۔ مجھے یقین تو نہیں تھا کہ اس کھڑکی کو کھولنے سے کیا ہو گا مگر سچ پوچھیں تو میں اندر سے اس سچ کا سامنا کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا تھا۔ تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود ہی اس گھر میں رہنے لگوں گا۔ اس طرح میں کم از کم اس خوف سے تو نجات پا ہی لیتا کہ نجانے اب اس گھر میں کون گھس رہا ہو گا۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی نجانے کیوں اس گھر کے چوکیدار کی نوکری اپنے لئے چن لی۔ 

اگر بظاہر دیکھا جاتا تو یہ کوئی بہت برا خیال بھی نہیں تھا۔ ہم نہ صرف اپنے گھر کے کرائے کو بچا لیتے بلکہ اتنے بڑے گھر میں رہنے سے بھی لطف اندوز ہو سکتے تھے ۔ لیکن یہاں میری بیوی نے میرا نکتہ نظر سمجھنے سے ان کار کر دیا۔ وہ بہت غلط نہیں تھی۔ ایک بھوتوں بھرے گھر میں رہنے کا حوصلہ ہر کسی میں تو ہو نہیں سکتا۔ میں اس سے بہت گلہ نہیں کرتا مگر اس مجھے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے تھی۔ اسے سمجھنا چاہیے تھا کہ یہ فیصلہ کرنے میں بہت آزاد نہیں تھا۔ اسے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے تھی کہ مجھے مدد کی ضرورت تھی اور اسے مجھے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا ہوتا ہے ۔ لوگ زندگی کو صرف اپنی جگہ سے دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔ کاش کہ وہ جان سکتے کہ زندگی کسی دوسرے کی جگہ سے دیکھنے پر کتنی حسین، کتنی خوبصورت، کتنی بڑی ہو سکتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے بہت بڑی جتنی ہم دوسری صورت میں گذار کر جا سکتے ہیں ۔ لیکن بہرحال وہ ان خوش نصیبوں میں سے نہیں تھی اور ہماری بحث بڑھتے بڑھتے اس نکتہ تک پہنچ گئی کہ اسے کہنا پڑا

’’یا تو تمہیں میرا انتخاب کرنا پڑے گا اور یا اس گھر کا؟‘‘

جیسے کہ یہ انتخاب میرا تھا۔ انتخاب تو ہو چکا تھا جیسے عیسیٰ نے چلتے چلتے اپنے حواریوں کو چن لیا تھا۔ مجھے بھی اس گھر کے چوکیدار کے طور پر چن لیا گیا تھا۔ میں نے کچھ کہا نہیں مگر ایک آخری نظر اس پر ڈالی کبھی جس نے میرے ساتھ ساری زندگی ساتھ نبھانے کے وعدے کئے تھے اور میں گھر سے اور اپنی اس زندگی سے باہر نکل آیا جسے میں اتنے سالوں سے گذارتا چلا آ رہا تھا۔ میں بہت دیر تک خالی سڑکوں پر گھومتا رہا اور جب رات دیر سے اپنے گھر پہنچا تو وہ جا چکی تھی۔ میں بالکل بھی حیران نہیں ہوا اور اگلی ہی صبح میں اپنا سامان اٹھا کر اس گھر میں پہنچ گیا۔ سارا دن سامان کو رکھواتے اور پیکنگ کھولتے ہوئے گذر گیا اور جب رات آئی تو میرے دل میں ہلکا سا خوف محسوس ہوا مگر پھر ایک خیال نے مجھے تقویت پہنچائی

اگر واقعی اس گھر میں بھوتوں کا بسیرا ہے تو پھر میرے پاس بھلا کیا موقع ہے کہ میں ان سے بچ سکوں ؟اگر وہ مجھے کوئی نقصان ہی پہنچانا چاہتے ہیں تو بھلا کیا فرق پڑتا ہے کہ میں اس گھر میں رہ بھی رہا ہوں یا نہیں ۔ اگر بھوتوں کے بارے میں کہی سنی قصہ کہانیاں تھوڑی بہت بھی صحیح ہیں تو ان سے بچنے کا خیال ہی مضحکہ خیز ہے ۔ مجھے اس کے بعد کبھی اس گھر میں خوف محسوس نہیں ہوا۔ گرچہ میں نے اس گھر میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھیں جن کا خیال ہی ایک عام آدمی پر کپکپی طاری کر سکتا ہے لیکن میں ہمیشہ مطمئن رہا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ بھوت اس لئے نہیں ہوتے کہ ہمیں وقتا فوقتا ڈرا سکیں ۔ اگر ہم انہیں دیکھ سکتے تو جان جاتے کہ وہ تو خود بڑی مجبور مخلوق ہیں ۔ ہم اگر انہیں سمجھ سکیں یا دیکھ پائیں تو یقین کریں ہمارے لئے ان سے اچھا دوست کوئی نہیں ہو سکتا۔ 

میں نے اس گھر میں ہر قسم کے بھوت، پریاں اور روحیں دیکھیں ۔ وہ گھر ان چیزوں سے جیسا بھرا ہوا تھا۔ ایسے ہی تھا جیسے ہم کبھی کسی سفر کے شوقین بوڑھے بڑھیا کے گھر جائیں تو ہم دیکھیں گے کہ گھر سوئینیرز اور ڈیکوریشن پیسز سے بھرا پڑا ہے ۔ کچن کے دراز میں بھی کسی دور دراز جزیرے کے ہوٹل سے لائی گئی ماچس مل جائے گی۔ تو یہ گھر بھی ایسا ہی تھا۔ ہاں البتہ وہ مجھے بہت کم ڈسٹرب کرتے تھے ۔ عام طور پر تو وہ اپنی دنیا میں ہی مست رہتے تھے ۔ کبھی کبھار ان میں سے کوئی میری طرف بھی متوجہ ہو جاتا اور ہم چند لمحوں کو باتیں کر لیتے ۔ اب دیکھیں نہ یہ بھوت وغیرہ بھی تو اکیلے ہو ہی سکتے ہیں نہ۔ وہ بس میرے سے اتنا ہی چاہتے تھے ۔ کبھی کبھار کچن سے کوئی چیز غائب ہو جاتی لیکن اب آپ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے تو انہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے ۔ 

آہستہ آہستہ میں ان کی کہانیوں میں زیادہ کھوتا چلا گیا۔ اب ٹی وی دیکھنے میں بھی میرا دل نہیں لگتا تھا اور نہ ہی کسی دوست کو فون کرنے کو جی چاہتا تھا۔ اس کی بجائے میں کافی کا ایک کپ پکڑتا اور سیڑھیوں پر بیٹھ کر ان میں سے کسی ایک سے باتوں میں لگ جاتا۔ پھر راہداری میں چلتے ہوئے کبھی ہوا میں جیلی فش قسم کی چیزوں کو تھوڑی دیر تیرتے دیکھتا اور ان کے رنگوں میں اس وقت تک کھویا رہتا جب تک نیند مجھے بستر پر نہ گرا دیتی۔ 

میرا کمرہ بہرحال وہ جگہ تھی جہاں یہ چیزیں آنے سے ڈرتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر میں صحیح سمجھا تھا تو اس کھڑکی میں کچھ ایسا تھا جو انہیں دہلائے دیتا تھا۔ اگر یہ سب بھوت بلائیں اس کھڑکی سے اتنے خوفزدہ تھے تو پھر میرے جیسے شخص کی بساط ہی کیا تھی؟لیکن وہ کیوں خوفزدہ تھے ؟اس کھڑکی کے پیچھے کیا چھپا تھا؟وہ جو کچھ بھی تھا اتنا خوفناک تو ضرور تھا کہ میں ایک زندگی اس کھڑکی کی حفاظت میں صرف کر سکتا۔ 

ہاں البتہ میں اس حفاظت کی بہت بڑی قیمت ادا کر رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنے خاندان کو کھو چکا تھا، نوکری بھی اب جیسے کوئی دن کی بات رہ گئی تھی اور پھر میری صحت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ اور یہ کوئی بہت انہونی بات نہیں تھی۔ میں ایک بڑی آرگنائز اور آرام دہ زندگی گذارنے کا عادی ہو چکا تھا اور یہاں تو جیسے سب کچھ ہی بگڑ گیا تھا۔ میں کھانا پکانے سے ناواقف تھا اور جب کبھی باہر جاتا تو کچھ کھا لیتا مگر اب میں اس طرزِ زندگی کا عادی ہو چکا تھا کہ میں زیادہ وقت گھر میں گذارتا تھا۔ 

ایک دو مہینوں میں میرے ڈائرکٹر سے مجھے بلوایا۔ وہ مجھ سے میرے مسئلے کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ میں نہ تو اس سے معذرت کرنا چاہتا تھا اور نہ ہی اس سے کوئی ایسا وعدہ کرنا چاہتا تھا جسے پورا نہ کر سکوں ۔ اس لئے میں نے انہیں کہا کہ میں نوکری چھوڑنا چاہتا ہوں ۔ 

’’یقین کرو میرے لئے اس سے آسان کوئی بات نہیں ہو گی۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ میں تمہارے لئے کتنا pressureبرداشت کر رہا ہوں ۔ لیکن مجھے تمہارا خیال آتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا کیا بنے گا۔ اس لئے میں نے تمہیں ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ‘‘

’’آپ میری فکر نہ کریں ۔ میری پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے ۔ مجھے کام کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ۔ ‘‘پتہ نہیں میں نے یہ کیوں کہا۔ میرے پاس تو دو مہینے گذارنے کو بھی پیسے نہیں تھے لیکن سچ پوچھیں تو اب میرے سے نہیں ہو پا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نوکری میرے لئے بہت بڑی realityتھی۔ مجھے اپنے آپ میں کوئی سوئچ نظر نہیں آتا تھا جسے دبا کر میں آفس میں جا کر میں بڑے جذبے سے بدبو دار کیمیکل بیچ سکوں جبکہ میں نے صبح ناشتہ خود راسپوٹین کی روح کے ساتھ کیا ہو۔ آپ بس ایسا نہیں کر سکتے ۔ میرا ڈائرکٹر ایک اچھے دل کا آدمی تھا۔ اس نے میری درخواست مان لی اور مجھے چند مہینوں کی تنخواہ بھی دلوا دی۔ 

’’اب کیا ہو گا؟‘‘ یہ وہ پہلا سوال تھا جو میرے ذہن میں اترا جب میں اس کمرے سے باہر نکلا۔ میں نے تھوڑا سوچا پر جب کچھ سمجھ نہ آیا تو یہ کہ کر خود کو تسلی دے لی کہ کم از کم ابھی تو میرے پاس چند مہینوں کے لئے کافی روپے ہیں ۔ بعد میں سوچوں گا۔ اور پھر میں نے بالکل وہی کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے سارا وقت اس گھر میں گزارا اور اس کا ایک ایک لمحہ میں نے کوشش کی کہ اس جادوئی دنیا کے ساتھ گذار سکوں ۔ اس دنیا میں سب کچھ تھا سوائے پیسے اور کھانے کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کہنے کو تو چھوٹی چیزیں ہیں مگر درحقیقت یہ بہت بڑی بڑی چیزوں سے کم اہم نہیں ہیں ۔ 

اس گھر میں آنے والے مہمانوں میں کچھ تو بے حد امیر کبیر بھی تھے مگر ان میں سے کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان کا میزبان آہستہ آہستہ قلاش ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ آتے اور فریج سے چیزیں اٹھا کر کھا جاتے جیسے کہ ان کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی مگر ان کی یہ لاپرواہی مجھے آہستہ آہستہ اس کونے میں دھکیل رہی تھی جہاں بھوک کی صورت میں موت مجھے گھورنے لگی تھی۔ 

رات کے پھیلنے کے ساتھ ہی شہر میں ایک خاص طرح کی سستی اتر آتی۔ وہی لوگ جو صبح کے وقت بڑے متحرک اور پر جوش نظر آتے تھے ا ب کونے میں سمٹنے کے لئے دوڑے چلے جاتے تھے ۔ اگر کسی کو کوئی کام کرنا بھی ہوتا تو بھی وہ ایک معذرت کے سے انداز سے اسے کرتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے کہ انہیں یہ کام کرنا نہیں تھا بس ہو گیا۔ اور دوسری طرف شہر سے کچھ باہر ایک گھر تھا جہاں رات ڈھلنے پر زندگی کا سفر شروع ہوتا تھا۔ میں ایک سال کے دوران اس گھر میں ہزاروں عجیب مخلوقات سے ملا۔ اگر میں آپ کو ان میں سے ہر ایک کے بارے میں بتانے بیٹھ جاؤں تو ہمیں ایک ضخیم کتاب کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن یہ میری کہانی ہے ان کی نہیں ۔ میں ان کے بارے میں تبھی بات کروں گا جب وہ بہت ضروری ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صرف تبھی جب ان کے بارے میں بات کئے بغیر مدعا بیان ہی نہ کیا جا سکے ۔ 

تو مخلوقات آتی جاتی رہتی تھیں مگر ان میں سے کچھ ایسی بھی تھیں جو وہاں اکثر آتیں اور ان میں سے ایک تھی جسے میں ہر روز دیکھتا تھا اور وہ واحد روح تھی جو بہت حاکمیت بھی جتاتی تھی وگرنہ باقی سب تو میرے سامنے بھیگی بلی ہی بنے رہتے کہ جیسے میں ان پر کوئی بہت بڑا احسان کر رہا تھا کہ انہیں وہاں تھوڑا وقت گذارنے دے رہا تھا۔ اور وہ روح تھی کرنل شیر دل کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے ان کل کی۔ 

ایک رات مجھے پہلی منزل سے بلند آوازیں سنائی دیں ۔ میں تجسس سے مجبور ہو کر وہاں گیا۔ اور وہ وہاں تھے ۔ وہاں اپنا پورا ceremonial dressپہنے کھڑے تھے ۔ ان کے ہاتھ میں سگار اور سکاچ کا گلاس تھا اور وہ چند دوستوں کے ساتھ برج کھیل رہے تھے ۔ وہ سات لوگ تھے جن میں دو خواتین بھی تھیں جو بڑی دلچسپی سے ان کے ساتھ کھیل رہی تھیں ۔ ہر ایک نے مجھے بری طرح نظر ا نداز کیا۔ اتنا کہ مجھے دروازے میں کھڑے ہو کر انہیں دیکھنا عجیب ہی لگ رہا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں ان سے کیا کہوں ۔ میں تھوڑی دیر تو خاموشی سے کھڑا رہا اور پھر میں نے بولنے کی کوشش کی۔ 

’’انکل‘‘ میں نے کوشش کی کہ اونچی آواز میں بول سکوں لیکن کچھ ایسے تھا جیسے کسی نے میری آواز ہی نہ سنی ہو۔ پتہ نہیں کیوں مجھے بری طرح احساس ہو رہا تھا کہ انہوں نے میری آواز سنی ہے مگر میں ان کے لئے شرمناک حد تک بے حقیقت ہوں اس لئے وہ مجھ پر توجہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھ رہے تھے ۔ شرمندگی کے مارے میرا پسینہ پھوٹ پڑا اور میں دروازہ بند کر کر لوٹ آیا۔ مجھے یقین ہے کہ دروازہ بند کرتے ہی اس کمرے میں زوردار قہقہے گونجے تھے ۔ وہ مجھ پر ہنس رہے تھے یا نہیں میں نہیں جانتا مگر میں اس کے بعد خود کو کبھی اس قابل نہ کر سکا کہ کبھی دوبارہ اس کمرے کا دروازہ کھول سکتا۔ میں اکثر اس کمرے سے آدمی عورتوں کے ہنسنے کی آوازیں سنتا مگر وہ کمرہ جیسے اب میرے لئے اس گھر کا حصہ ہی نہیں رہا تھا۔ 

ہر روز مجھے لگتا جیسے ان کل نے مجھے استعمال کیا ہے لیکن میں فیصلہ نہیں کر پاتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟میں نے اس مسئلے سے نپٹنے کے لئے ہر ممکن اقدام کے بارے میں سوچا سوائے اس سب سے آسان حل کے کہ میں گھر چھوڑ کر بھاگ جاؤں اور کبھی پلٹ کر بھی نہ دیکھوں ۔ آپ میں سے کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید میں پاگل ہو گیا تھا وگرنہ آخر اس میں حرج ہی کیا تھا؟سچ بتاؤں تو اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے ۔ پھر بھی میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ کو سمجھا سکوں ۔ میرے لئے وہ سب کچھ ایسا ہی تھا جیسے خود زندگی ہے ۔ ہم جب ایک بہت مشکل زندگی گذار رہے ہوتے ہیں تو ہمیشہ ہمارے پاس یہ راستہ کھلا ہوتا ہے کہ ہم جینے سے ان کار کر دیں لیکن ہم میں سے کتنے ایسا کر پاتے ہیں (اور جو کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا سوچا جا تا ہے آپ جانتے ہی ہیں )۔ ہم دن رات سوچتے ہیں کہ آخر کیسے زندگی کے دیے گئے اس مشکل سوال کو حل کریں مگر کبھی یہ بنیا دی سوال تو ہم خود سے پوچھتے ہی نہیں 

’’آخر کیوں میں زندگی کا یہ بوجھ اٹھائے پھروں ؟میں بھاگ کیوں نہ جاؤں ؟‘‘

تو وقت گذرتا گیا او ر اب مجھے زندہ رہنے کیلے آہستہ آہستہ اپنے گھر کی چیزیں بیچنا پڑ رہی تھیں ۔ میں نے اپنی کتابوں کی الماری سے شروع کیا اور پھر تو ایک لمبی لسٹ تھی۔ میں ان چیزوں کو بہت ہی معمولی دام پر بیچ رہا تھا۔ سیکنڈ ہینڈ چیزوں کی مارکیٹ تو ویسے ہی بہت دھوکے باز تھی اور کچھ میں بھی بہت سادہ ہو گیا تھا۔ آپ ان کے پاس ہزاروں کی چیز لے جاؤ تو وہ پچاس روپے سے بولی شروع کرتے تھے ۔ یا تو وہ سب آپس میں ملے ہوئے تھے اور یا پھر انہوں نے اس بات کا عہد لیا تھا کہ کسی کو چیز کی صحیح قیمت کا دس فیصد بھی نہیں دینا ہے ۔ 

شروع میں ہونے والی چند مایوسیوں کے بعد میں نے ایک قابلِ ترس نظر آنے والے جونک نما شخص کو چن لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں وہ آدمی نہیں ایک جونک ہی تھا جو آہستہ آہستہ میرا خون پئے جا رہا تھا۔ مجھے اس کا نام بھی یاد نہیں رہا۔ شاید ہم کبھی انسانوں کے levelپر تو ملے ہی نہیں ۔ ہمارا رشتہ تو بس جانور اور اس کی پشت پر پنجے گاڑے جونک کا تھا۔ 

واحد وجہ جو میں اسے دوسروں پر ترجیح دے رہا تھا وہ یہی تھی کہ وہ ہفتے میں ایک بار خود میرے پاس چلا آتا یہ دیکھنے کے لئے کہ مجھے کچھ بیچنا تو نہیں ہے ۔ اور ساتھ ہی میں اس نے میرے لئے کھانے پینے کی چیزیں لانے کی ذمہ داری بھی لے لی تھی۔ بعد میں تو ایسے ہو گیا کہ وہ میرے گھر میں کھانے پینے کی چیزوں سے بھرے تھیلے کے ساتھ آتا اور کوئی چیز اٹھا لے جاتا جو اسے پسند آتی۔ قطع نظر اس نقصان کے جو وہ مجھے پہنچائے چلا جا رہا تھا مگر اس کا یہ فائدہ تو تھا ہی کہ اس نے مجھے پوری دنیا سے بے نیاز کر دیا تھا۔ اب مجھے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں رہی تھی خواہ وہ ایک لمحے کو ہی کیوں نہ ہو۔ 

کھانے پینے کی چیزیں جو وہ لے کر آتا وہ عام طور پر گھٹیا قسم کی ہوتیں لیکن یہاں ماننا پڑے گا کہ یہ کھانا ہی تھا جو ابھی تک مجھے زندہ رکھے ہوئے تھا۔ کبھی کبھی ہم negotiateبھی کرتے مگر یہ بحث کم اور احتجاج زیادہ لگتا۔ خیر میں کچھ کہتا یا نہیں مگر وہ کبھی بھی مجھے صحیح قیمت تو دینے والا تھا نہیں ۔ 

پھر ایک دن وہ جونک میرے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی گردن کو اکڑا رکھا تھا۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی میں نے شاید پہلے کبھی اسے غور سے دیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی پھرتا تھا۔ اور مجھے کہنے دیں کہ تنی ہوئی گردنیں بڑے بڑے سورماؤں یا سیاستدانوں کے سروں پر نہیں ہوتیں بلکہ حیرت انگیز طور پر بونوں کے کندھوں پر ہوتی ہیں ۔ کیونکہ دوسروں کے لئے یہ بس ایک اچھا نظر آنے کی مبہم سی خواہش ہے مگر بونوں کے لئے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے ۔ وہ خالی ہاتھوں سے شیر کی گردن توڑنے پر تیار ہو جائیں گے اگر انہیں یقین ہو جائے کہ ان کا یہ عمل ان کے قد میں ایک انچ کا بھی اضافہ کر دے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ایک انچ کے لئے وہ دور دراز کے جزیروں پر جا کر عفریتوں سے لڑائی کر سکتے ہیں ۔ اس ایک انچ کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن وہ اپنے کاندھوں پر بہادری اور شجاعت کے جتنے چاہے اعزازات سجا لیں پر گھر کی دہلیز پار کرتے ہی ایک تین سال کا بچہ بھی کہے بغیر نہیں رہ پائے گا کہ وہ بونے ہیں ۔ کتنی قابلِ رحم بات ہے ۔ وہ جو چاہے کر گذریں ، جیسے مرضی شاہانہ لباس میں ملبوس ہو جائیں پر رہیں گے تو وہ وہی بے حقیقت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت کے اس بے رحم دوستانے کے ساتھ ایک احساس جنم لیتا ہے ۔ اگر تم اس سے بھاگ نہیں سکتے تو پھر یہ بیگانگی کیسی ؟ اگر ہم جونک ہیں تو کیوں نہ ایک جونک کی طرح عمل بھی کریں ؟تو وہ اس وقت یہی کر رہا تھا۔ 

ایک طرح سے دیکھیں تو وہ مجھ سے بالکل بھی مختلف نہیں تھا۔ ہم دونوں کو ہی ایک سچوئیشن میں پھینک دیا گیا اور ہم دونوں نے ہی کبھی کوئی سوال نہیں اٹھایا؟سوال جو بہت بنیادی نوعیت کا تھا کہ ہم یہاں کیوں ہیں ؟ہم نے تو بس ایک دم سے اپنے رول کو نبھانا شروع کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رول جو ہمیں ہمارے صیاد نے دیا تھا۔ مجھے ہمیشہ سے یقین رہا تھا کہ انسانوں میں ایک بہت بڑی طاقت چھپی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ طاقت جس سے وہ جب چاہیں خود کو تبدیل کر سکتے ہیں لیکن تجربے نے مجھے بتایا کہ ایسا نہیں ہے ۔ میں غلط تھا۔ میں اس سے زیادہ غلط تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ہم خود کو نہیں بدل سکتے ۔ ہم اپنی پوری زندگی ضائع کر سکتے ہیں مگر کھڑکی کھولنے جیسا ایک چھوٹا سا کام بھی نہیں کر پاتے ۔ 

ہو سکتا تھا کہ وہ بس ایک دن میرے سے مہربانی کا برتاؤ کرتا۔ وہ بس اتنا ہی کرتا کہ ایک دن مجھے میری چیزوں کے صحیح دام ہی دے دیتا مگر میں جانتا ہوں کہ وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں وہ کھڑکی کبھی نہیں کھول پاؤں گا۔ یہ انتہائی شرمناک بات ہے ۔ 

     میں اپنی فیملی کے ساتھ ایک پرسکون اور خوش زندگی گذار سکتا تھا۔ میں اس گھر کو دولت حاصل کرنے کے لئے استعمال کر سکتا تھا اگر میں بس وہ کھڑکی کھولنے کی ہمت کر سکتا لیکن میں ایسا نہیں کر پاؤں گا اور یہی حقیقت تھی جو میرے ان کل بہت اچھی طرح جانتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ میں ایسا کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہوں اور اسی لئے انہوں نے میرے لئے یہ جال بچھایا تھا۔ اور اب میں تھا اور یہ قابلِ رحم زندگی۔ 

مجھے کہنے دیں کہ میں بہت خوش نہیں تھا اس زندگی میں ۔ مجھے کبھی کبھی ان بھوتوں سے وحشت ہونے لگتی۔ کبھی وہ اتنا شور کرتے کہ میں رات بھر سونے کو ترستا رہتا۔ لیکن میں پھر بھی کچھ نہ کر پایا اور زندگی کو گھسیٹتا رہا یہاں تک کہ میرے گھر میں بیچنے کو بھی کچھ نہ رہ گیا۔ وہ جونک میرے گھر میں آیا اور مختلف کمروں میں گھومتا رہا مگر وہ کچھ بھی نہ پا کر مایوس ہو گیا۔ گھر میں فرنیچر تو کیا کٹلری بھی نہیں بچی تھی۔ میں خود سیڑھیوں سے پشت ملائے بیٹھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بھوتوں بھرا گھر تھا جو بک نہیں سکتا تھا اور ایک میں تھا اور وہ مایوس ہو کر واپس جانے کومڑا۔ میں نے اس کے ہاتھ میں کھانے کی چیزوں کا تھیلا دیکھا مگر اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ اس سے درخواست ہی کر لیتا کہ وہ میرے کھانے کو کچھ چھوڑہی جائے ۔ گو وہ مجھے لاکھوں کا نقصان پہنچا چکا تھا اور اس تھیلے کی چیزوں کی قیمت چند سو سے زیادہ کیا ہو گی مگر وہ ایسے نقصان کے سودے کے لئے بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے اصولوں کے قیدی تھے ۔ اس کے جانے کے بعد میں سر زمین پر رکھ کر لیٹ گیا۔ بھوک کے مارے بیٹھنا ویسے بھی دشوار ہو رہا تھا۔ 

اور پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بات اس گھر میں ہونے والی باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی عجیب تھی۔ آج میں نے بہت سالوں کے بعد اس کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی ہاں میں نے خود شیطان کو دیکھا۔ اس کے کسی چھوٹے موٹے چیلے کو نہیں خود شیطان کو دیکھا۔ وہ جسے جنت سے دھتکار کر نکال دیا گیا تھا۔ آپ حیران ہو گے کہ میں نے کیسے اسے جانا لیکن میں بتاتا چلوں کہ یہ پہلی بار نہیں تھی کہ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ مجھے آ پ سے ایک راز شئیر کرنے دیں یہ وہ راز ہے جو میں نے آج تک کسی سے نہیں کہا۔ میں نے اسے اپنی ماں باپ، اپنی بیوی سے بھی نہیں کہا۔ 


سچ تو یہ ہے کہ میں شیطان کو اپنی پیدائش کے دن سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں ۔ اور مجھے کہنے دیں کہ وہ ایک اچھا ساتھی ہے ۔ وہ اکثر میرے جھولنے کے قریب کھڑا ہو جاتا اور بڑی محبت سے مجھے دیکھا کرتا۔ اس کی سفید داڑھی اتنی لمبی تھی کہ اس نے اسے اپنے پورے جسم پر لپیٹا ہوتا تھا اور اگر کبھی ہوا کے جھونکے سے وہ بکھر جاتی تو میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی۔ میں نے سنا تھا لوگوں کو کہتے ہوئے کہ 

’’بچے فرشتوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں ۔ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے وہ بنیادی طور پر اتنے غلط بھی نہیں تھے ۔ شیطان ایک فرشتہ ہی تو تھا۔ گو واں نہیں تو واں سے نکالا ہوا تو تھا۔ 

ہمارا رشتہ بڑا عجیب تھا۔ وہ اکثر میرے پاس آتا۔ وہ مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا تھا اور بہت دیر تک نہیں رکتا تھا۔ وہ ایسے ہی تھا جیسے وہ بس مجھے کوئی موقع دینا چاہتا تھا لیکن اگر مجھے وہ موقع نہیں چاہیے تھا تو اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ بہت بار میں نے اسے مصروف بھی دیکھا تھا۔ وہ ہوا میں دھرے میز پر جھکا کاغذوں پر کچھ لکھ رہا ہوتا اور کبھی کبھار چھوٹے شیطانوں کو کوئی ہدایات دے رہا ہوتا۔ سچ بتاؤں تو میں کبھی بھی شیطان سے نفرت نہیں کر پایا تھا۔ میرے لئے وہ ایک واجبی سی عقل رکھنے والا مگر محنتی سپاہی تھا جو بڑی جانفشانی سے اپنا کام کئے جا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں اس کے اس جذبے کی قدر کرتا تھا لیکن وہ میرے لئے نہیں تھا۔ پھر آہستہ آہستہ جیسے اسے بھی احساس ہو گیا اور وہ میرے پاس کم سے کم آنے لگا اور مجھے بھی اسے دیکھنے کی کوئی بیتابی نہ رہی۔ ایک محنتی بوڑھا جسے اس دنیا کی بادشاہت اللہ کی طرف سے دی گئی تھی اور جو میری ہر خواہش کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا تھا درحقیقت میرے لئے کوئی بڑی چیز نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے نہیں کہ مجھے اس کی طاقت پر شک تھا۔ نہیں جناب میں اس سے بھاگتا تھا تو صرف اس لئے کہ وہ کہیں مجھ سے میری خواہش ہی نہ پوچھ لے ۔ خواہش تو تھی ہی نہیں کوئی میرے پاس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو بس بہنا چاہتا تھا تاکہ کل کو سار ا الزام اپنے تختے کو دے سکوں ۔ مجھے جس نے جو بتایا میں کرتا چلا گیا اور زندگی نے آہستہ آہستہ میرے گرد مکڑی کا ایک ایسا جالہ بن لیا میں اب جس میں گھبراتا تو بہت تھا مگر نکلنے کی ہمت نہیں پاتا تھا۔ اور پھر آخری دس سالوں میں تو وہ کبھی نہیں آیا۔ ۔ ۔ ۔ شاید وہ مجھ سے ناامید ہو گیا تھا۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا ہو کہ میں اسے اپنی نوجوانی کے امید بھرے دنوں میں ٹھکرا دوں ۔ اگر وہ مجھے بچپن میں نہیں پکڑ پایا تھا تو بہت کم چانس تھا کہ وہ مجھے اب گھیر پاتا۔ شاید اس نے سوچا ہو کہ سڑنے دو اسے زندگی کے اس بھٹیار خانے میں چند سال اور شادی اور نوکری جیسی مایوسیوں کے بعد شاید یہ میرے کسی کام آ سکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید میں کبھی سچ کا سامنا کر سکوں ۔ 

اور اب شاید اس گھر اور میری حالت نے اسے ایک اور موقع فراہم کر دیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک آخری موقع جسے اس نے بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے مجھے سے بات کی۔ اس کی آواز محبت سے بھری تھی

’’دیکھو تم نے اپنے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ۔ مجھے تم سے بہت پہلے بات کر لینی چاہیے تھی۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’میں تمہیں ہمیشہ سے بہت پسند کرتا ہوں ۔ اور ایک محبت کرنے والے باپ کی طر ح میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس دنیا میں کیسے surviveکیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن تم جیسے کبھی بھی اس گفتگو کے لئے تیا ر ہی نہ تھے ۔ میں چاہتا تو تمہیں مجبور کر سکتا تھا پر تم جانتے ہو کہ میں ایسا نہیں ہوں ۔ انسانی آزادی کا مجھ سے بڑا حمایت کرنے والا اور کون ہو گا۔ تو میں بڑی خاموشی سے منتظر رہا کہ کب تم اتنے بہادر ہوتے ہو کہ مجھ سے مدد مانگ سکو‘‘

’’میں نہیں سمجھا کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا

’’اپنے آپ کو دیکھو۔ مجھے نہیں لگتا کہ تمہارے پاس کوئی بہت زیادہ وقت رہ گیا ہے ۔ تو اس لئے میں تمہیں صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ تم میرے پاس آ جاؤ وگرنہ تم ایسے ختم ہو جاؤ گے جیسے کبھی تھے ہی نہیں ۔ ‘‘

’’لیکن میرے پاس اب تمہیں دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ ایک گھر ہے مگر جس کی کوئی قیمت نہیں ہے یہ تو بس ایک ذمہ داری ہے ۔ ‘‘

’’میں تمہاری بات پر یقین نہیں کرتا۔ میرے خیال میں تو تم سب سے اہم چیز کو بھو ل رہے ہو۔ ‘‘

’’وہ کیا ہے ؟‘‘

’’تم خود‘‘

’’تم کیا کہنا چاہتے ہو؟میں کیا کر سکتا ہوں ۔ میں تو بالکل ہی بے حقیقت شخص ہوں ‘‘

’’یہ تمہاری سوچ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ سچ کہوں تو یہ تمہاری سوچ نہیں ہے ۔ اوپر سے تم جتنے مرضیhumbleبننے کی کوشش کرو مگر اندر سے تم خود کو بہت قیمتی سمجھتے ہو۔ اتنا قیمتی کہ جسے مارکیٹ میں لایا ہی نہ جا سکے ۔ تم نے اپنی arroganceکو کسرِ نفسی میں چھپا رکھا رکھا ہے مگر دل میں کہیں اپنی اصل قیمت سے پوری طرح آگا ہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں جانتا ہوں کہ اس وقت تمہارے اندر بہت سے سر نفی میں ہل رہے ہیں مگر مجھے بتاؤ کہ اگر میں غلط ہوں تو کیا تم اپنیsoulکے بدلے میں دس لاکھ روپے لینا قبول کرو گے ؟‘‘

’’تم مذاق کر رہے ہو۔ یہ سب تو قصہ کہانیوں میں ہوتا ہے اصل میں یہ سودا اتنا سیدھا تھوڑا ہی ہوتا ہے ؟‘‘

’’تم اس کی فکر نہ کرو۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے پاس اب کھیل تماشے کا وقت نہیں رہا۔ میں تمہاری soulکو اچھی قیمت پر خریدنے کے لئے تیار ہوں اگر تم بیچنا چاہتے ہو تو؟‘‘

’’مجھے کرنا کیا ہو گا؟‘‘

’’جب ایک دفعہ تم اپنی soulہمیں بیچ دو گے تو پھر تو تم وہ سب کچھ کرو گے جو میں تمہیں کہوں گا۔ پر ابھی تو تم نے کہا کہ تمہاری زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے تو پھر یہ سب کتنا برا ہو سکتا ہے ؟‘‘

’’میں نہیں جانتا۔ ۔ ۔ ۔ پر میں کسی ایسی چیز کے لئے کبھی ہاں نہیں کر پاؤں گا۔ ‘‘

’’تو میں صحیح تھا نہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سمجھتے ہو کہ تم اتنے بلند ہو کہ تمہیں مارکیٹ میں لایا ہی نہیں جا سکتا۔ لیکن میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ تم غلط ہو۔ تم دنیا کی سب سے خوبصورت چیز کو بھی وقت کی الماری میں بند پڑے رہنے دو تو اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی نہ دنیا کی آنکھوں میں ، نہ شیطان کی آنکھوں میں اور نہ ہی خدا کی آنکھوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مارکیٹ ہی ہے جہاں یہ سب بڑے لوگ خریداری کرتے ہیں ۔ اور اس مارکیٹ کی کرنسی خواہش ہے ۔ میں ان لوگوں کے خلاف نہیں ہوں جو اپنی روحوں کو صرف اس لئے مارکیٹ میں نہیں لاتے کیونکہ وہ انہیں استعمال کر رہے ہوتے ہیں ۔ میں ان کی عزت کرتا ہوں اور سب عزت کرنے والے ان کی عزت کرتے ہیں لیکن تم کیا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی طرف دیکھو تو سہی۔ آخری مرتبہ کب تم نے اپنے بارے میں کوئی فیصلہ کیا تھا؟تم تو بس وقت کے بہتے تختوں پر سفر کر رہے ہو۔ تمہیں اپنی free willکی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں روح کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ مارکیٹ تمہارے ہی جیسے لوگوں کے لئے سجائی گئی ہے اور ہم بہت اچھی قیمت بھی دیتے ہیں ۔ ‘‘

’’نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنی روح شیطان کو نہیں بیچوں گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے ۔ میں تمہارے فیصلے کی عزت کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں پتہ ہے کہ شیطان کی سب سے اچھی بات ہی یہی ہے کہ وہ انسانوں اور انہیں ودیعت کردہ free willکی عزت کرنا جانتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں خدا کو لے لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تمہاری کوئی پروا نہیں کرتا۔ اس نے تمہیں بنایا بھی اس لئے کہ تمہیں پھر سے توڑ سکے ۔ اس نے تمہیں self respectدی تو صرف اس لئے کہ تم اس ذلت کی شدت کو محسوس کر سکو جو وہ اس کے بعد تم پر اتارے گا۔ اس نے تمہیں خاندان کی محبت دی تاکہ جب وہ ان لوگوں کو تم سے چھینے تو درد کے نشتر تمہارا کلیجہ پھاڑ کر رکھ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بہت ظالم ہے اور ایک شیطان ہے جس کے رواں رواں سے رحم پھوٹتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگ ہیں کہ مجھ پر اعتبار نہیں کرتے ۔ صرف اس لئے کہ تمہارے مصوروں نے میری تصویروں میں بیکار سے سینگ بنا رکھے ہیں اور ایک نارنجی سی دم بھی لگا دی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اب کوئی ایسی دم والے وجود پر کیسے اعتبار کر پائے گا؟

تو میں نہیں کہتا کہ مجھ پر بھروسہ کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ اپنے دل کی سنو اور اپنے اندر کی منطق کو سنو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس اور کچھ نہیں ۔ اپنے آپ پر بھروسہ کرو۔ مجھے کوئی گلہ نہیں تم میرے پاس نہ آؤ۔ اگر تمہیں خدا سے اتنی ہی محبت ہے تو اس کے پاس چلے جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس اپنی زندگی کو ضائع نہ کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ایک مہربان دل رکھتا ہوں اور نہیں دیکھ سکتا کہ کس طرح تم لوگ ایک کے بعد ایک اپنی زندگیاں ضایع کئے جاتے ہو۔ میں تمہاری قیمت جانتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم اپنا بہترین استعمال کر سکو۔ میں کہانی کی اس دوسری عورت کی طرح ہوں جو بادشاہ سے یہ کہتی ہے کہ بچے کے دو ٹکڑے نہ کرو اسے اس کی اصل ماں کو دے دو اور میں خوش ہو جاؤں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس ایک وعدہ کرو کہ تم خدا کے پاس ضرور جاؤ گے ۔ ‘‘

’’میں نہیں جانتا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’تم نہیں جانتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اپنے دل میں سب جانتے ہو۔ پر سچ بتاؤں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اپنے دل میں سوچتے ہو کہ تم اتنے قیمتی ہو کہ تمہیں خدا کو بھی کیوں دیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اس پاکباز عورت کی طرح ہو جو اپنی پاکبازی کی ساری زندگی بڑے التزام سے حفاظت کرتی ہے اور آخر میں اسے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکبازی تو کوئی ایسی چیز تھی ہی نہیں جس کی حفاظت کی جاتی۔ خدا نے عورتوں کو یہ بھرپور جسم اس لئے تو نہیں دیے کہ وہ انہیں سات پردوں میں چھپا کر رکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکبازی تو ایک relativeچیز تھی اور اسے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے تھا۔ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہے ۔ اس نے تمہیں free willاس لئے نہیں دی کہ تم اسے خدا کے سامنے سرنڈر کر دو اور کوئی فیصلہ نہ کر کر اسے گلنے سڑنے دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جناب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں پتہ ہے کہ اس نے یہ free willپہاڑوں کو دی تھی اور وہ یہ کہتے ہوئے سجدے میں گر پڑے کہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور ایک تم بیوقوف تھے جو اس بوجھ کو اٹھانے پر رضامند ہو گئے ۔ اب کچھ کرو اس کے ساتھ۔ اور اگر تم نہیں جانتے کہ تم کیا کر سکتے ہو تو مجھے دے دو اور میں تمہیں دکھا تا ہوں کہ کیا کیا جا سکتا ہے ۔ 

’’میں نہیں کر سکتا‘‘

’’اوہ میرے خدا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان واقعی خسارے میں ہے ۔ جو عقل کی بات نہیں سمجھتا بھلا اس سے زیادہ خسارے میں کون ہو گا؟‘‘

’’تم میری روح کے ساتھ کیا کرو گے ؟‘‘

’’تمہیں کیا فائدہ ہو گا میرے بتا نے کا؟یہ جاننا تمہارے لئے اہم نہیں ہے ۔ پھر ہم شیطان سے ہی کیوں اس سوال کا جواب چاہ رہے ہوتے ہیں ۔ تم نے کسی اور سے تو ایسے سوالات کبھی نہیں پوچھے ۔ کوئی تمہارے پاس آتا ہے اور تمہیں پورے زندگی گذارنے کا فارمولہ دے دیتا ہے اور تم اس سے دلیل پوچھنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صرف اس لئے کہ وہ مقدس چادر اوڑھے ہوئے آتا ہے اور میں تمہارے سامنے جیسا ہوں ویسا ہی کھڑا ہوں ۔ کوئی تمہارے پاس آتا ہے اور تمہارے اوپر ایک بیکار سے گھر کی چوکیداری ڈال دیتا ہے اور پتہ ہے تم کیا کر رہے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم واقعی میں خود کو یہاں کا چوکیدار سمجھ بیٹھے ہو۔ تمہیں اس سب کا مقصد نہیں پتہ۔ تم اس حفاظت کے چکر میں اپنا سب کچھ کھو چکے ہو۔ تو پھر میری آفر پر ڈرتے کیوں ہو؟ مجھ میں اور دوسری سب چیزوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ میں تمہار ے سر پر کوئی چیز تھوپ نہیں رہا بلکہ تمہاری مرضی چاہ رہا ہوں ۔ ‘‘

’’میں کیا کروں ؟ کیا میں بھاگ جاؤں ؟کیا میں بس سیدھا سادھا ان کار کر دوں ؟‘‘

’’نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اپنے اصول خود بناؤ۔ تم کیوں دوسروں کے اصولوں پر چلتے ہو۔ بس یہی ایک مشورہ میں تمہیں دے سکتا ہوں ۔ اور سچ کہوں تو میں تمہارے سوال سے بچنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں مگر درحقیقت تمہارے سوال کا کوئی سیدھا جواب ہے بھی نہیں ۔ زندگی کو بہت پیچیدہ بنایا گیا ہے اور جو کوئی بھی تمہیں کوئی سادہ جواب بیچنے کی کوشش کرے اس سے بچ کر رہنا چاہے وہ کوئی مصلح ہو، کوئی سیاستدان یا کوئی پیغمبر۔ زندگی اتنی پیچیدہ ہے کہ تمہارے اٹھائے ہر قدم کے ساتھ تمہارا راستہ بدل جاتا ہے ۔ میں تمہیں کہہ سکتا ہوں کہ جاؤ اور ایک بوڑھے انسان کی مدد کرو جو بھوک سے مر رہا ہے ‘‘

’’تم ایسا کیوں کہنے لگے ۔ اس طرح کے کام تو خدا کرتا ہے ۔ ‘‘

’’تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہیں لاس ویگاس میں جوا کھیلنے کا کام سونپوں گا؟ تم پاگل ہو۔ تم ابھی کیوں نہیں دیکھتے ۔ کیا میں بھوک سے مرتے ایک شخص کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہا؟

’’یہ مختلف ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ تم مجھے بچانا چاہتے ہو تاکہ میں کوئی قابلِ نفرت کام کر سکوں جیسے کسی معصوم کا قتل وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سچ سچ بتاؤ تمہیں میری روح کی ضرورت ایسے ہی کسی کام کے لئے نہیں ہے ؟اگر شیطان کو مجھ سے نیک کام ہی کروانے ہیں تو پھر میری روح کو خریدنے کا مقصد؟‘‘

’’تم بہت نادان ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ زندگی ہے کیا۔ میں اچھائی اور نیکی کے بارے میں تمہارے دل میں رکھے سارے بت توڑنا نہیں چاہتا لیکن مجھے ایک بات تو بتاؤ کہ تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ خون کس کے نام پر بہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کے یا شیطان کے ۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ شیطان کے نام لیواؤں نے کبھی کوئی جنگ کی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو مجھے یہ مڈل سکول کے اخلاقیات کے لیکچر نہ دو اور چیزوں کے پیچھے چھپی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرو۔ ۔ ۔ زندگی تو پیچیدہ ہی ہو گی چاہے تم میرے ساتھ کھڑے ہو یا اس کے ۔ تمہیں قتل کرنا پڑے گا، تمہیں معاف کرنا پڑے گا۔ تمہیں چھیننا پڑے گا، تمہیں دینا پڑے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں حظ اٹھاؤ گے اور تم تکلیف سے کراہو گے ۔ زندگی کو تو ایسے ہی چلنا ہے ۔ میں تمہیں صرف یہ کہتا ہوں کہ اس سب کو کوئی directionدے دو مگر تم کوئی فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے ۔ ایسے ہی ہے تو سڑو اس گھر کے اندر۔ ‘‘

     وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا اور ترحم انگیز نگاہوں سے مجھے دیکھتا رہا اور پھر کہنے لگا

’’میں تمہاری گردن پر ایک کانٹا دیکھتا ہوں جو تمہیں مارے دے رہا ہے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ اسے نکال پھینکوں مگر اے ننھے کچھوے تم نے اپنی گردن کو اپنی willکی موٹے خول میں چھپا رکھا ہے ۔ میں اس خول کو توڑ سکتا ہوں مگر پھر تم ایک سبزی سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاؤ گے ۔ تو میں تمہارا مرنا تو برداشت کر سکتا ہوں مگر تمہاری willکے ہاتھ بازو نہیں کاٹ سکتا کہ یہی تو وہ شئے ہے جس نے تمہیں اتنا اہم بنایا ہے ۔ تو میں چلتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ تم کس طرح خود کو بچا پاؤ گے ۔ ‘‘

وہ چلا گیا اور مجھے لگا جیسے میں اس بھری دنیا میں ایکدم سے بہت اکیلا ہو گیا ہوں ۔ میں فرش پر اسی طرح کچھ گھنٹے پڑا رہا۔ میں نے ان چند گھنٹوں میں بہت کچھ دیکھا۔ ایک گدھ جو گوشت کے ٹکڑوں کے لئے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ پر گھر کے سارے دروازے تو بند تھے تو پھر گدھ کہاں سے آ گیا۔ کون جانے کہ موت کا فرشتہ جاتے ہوئے اس کے کانوں میں کچھ کہ گیا ہو۔ ایک سرگوشی جس کے بعد اس گدھ کے لئے گھر کا دروازہ توڑ کر اندر گھسنا بھی ممکن ہو جاتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر شاید یہ میرا دھوکہ تھا لیکن سوچنے کی بات یہ تھی کہ کون آئے گا مجھے لینے کے لئے ؟ شاید سب سے پہلے چیونٹیاں اور مکھیاں اور کاکروچ جمع ہوں گے ۔ تو ایسے جاؤں گا میں اس دنیا سے ۔ میرے ذہن میں یہ بھی آیا کہ کسی طرح گھسٹتے ہوئے اگر میں باہر صحن میں پہنچ جاؤں تو شاید میں واقعی میں کسی گدھ، کسی کتے یا پھر رات گئے کسی آوارہ گیدڑ کو اپنی طرف متوجہ کر سکوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کچھ نہیں تو میں اس تیزی سی ختم ہوتی ہوئی جنگلی دنیا کو ایک ’’بڑا کھانا‘‘ تو دے کر جاؤں گا۔ 

زندگی اور موت کی اس سرحد پہ میں نے قدموں کی آواز سنی۔ میں نے سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا۔ پھر سے وہی جونک تھا۔ اس مرتبہ اس میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اندر داخل ہوتا۔ اس نے بس اپنے ہاتھ میں پکڑا تھیلا اندر دھکیل دیا اور واپس بھاگ گیا۔ وہ چیزیں میرے ایک اور ہفتے تک جینے کا سامان تھیں اور اس نے یہ سب پتہ نہیں کیوں کیا تھا۔ میں اسے جانتا ہوئے سوچ سکتا تھا کہ یہ اس کے لئے آسان نہیں تھا۔ وہ یہ کام کرتے ہوئے اتنا شرمندہ تھا کہ مجھ سے نظریں بھی نہیں ملا سکا تھا۔ اور میں نے اپنے اندر ایک عجیب سی طاقت محسوس کی۔ اگر اس جیسا قابلِ رحم شخص مہربانی کے ایسے جذبے پر قادر تھا تو شاید میں اتنا بھی بے بس نہیں تھا جتنا میں خود کو سمجھ رہا تھا۔ شاید اس راکھ کے اندر کہیں کوئی چنگاری تھی۔ اور اس چنگاری کو ڈھونڈنے کے لئے میرے پاس ابھی ایک اور ہفتہ تھا۔ 

میں سوچتا رہا اور سوچتا رہا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا۔ اگلے ہفتے ایک مرتبہ پھر وہی بھوک تھی اور میری آنکھیں ایک مرتبہ پھر دروازے کو لگی تھیں ۔ پتہ نہیں میں کیا ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ پہلے ہی خود پر جبر کر کر مجھے ایک ہفتے کی خوراک دے چکا تھا۔ اگر میرے اندر جینے کی ذرا بھی خواہش ہوتی تو میں یہاں سے جا چکا ہوتا۔ اب اس نے ٹھیکا تو نہیں لے رکھا تھا کہ وہ ساری زندگی مجھے پالتا رہے ۔ لیکن میں پھر بھی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اور وہ ٹھیک اس وقت آیا جیسے کہ وہ پہلے آیا کرتا تھا۔ اس مرتبہ وہ کمرے کے اندر آ گیا۔ اس نے چیزوں کا تھیلا دیوار کے ساتھ ٹکایا اور باہر نکلنے کو ہی تھا کہ میں نے پوچھا

’’ایسا کب تک چلے گا؟‘‘

’’جب تک چلے گا‘‘

’’میں کیوں تم سے یہ سب قبول کر لوں ؟‘‘

’’پتہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوال تو تمہیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے ۔ ‘‘

’’میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم سمجھ نہیں رہے ہو؟‘‘

’’میں تمہیں سن رہا ہوں پر میرے پاس سمجھو کوئی جواب نہیں ہے ۔ ‘‘اس نے سادہ لہجے میں کہا۔ 

’’تم کون ہو؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم کوئی Saintنہیں ہو۔ تم تو وہ وجہ ہو میں جس کی بدولت آج اس حالت کو پہنچا ہوں ۔ اگر تم مجھے میری چیزوں کی صحیح قیمت ہی دے دیتے تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اب تم خوراک کے چند تھیلے دے کر اپنی روح کو عذاب سے بچا نہیں پاؤ گے ۔ Salvationاتنی سستی نہیں خریدی جا سکتی میرے دوست۔ ‘‘ میں نے بے رحم لہجے میں کہا۔ 

’’یہ سنہری موقع ہے کہ میں بھاڑ میں جاؤ کہوں اور ہمیشہ کے لئے چلا جاؤں ۔ تم صحیح کہتے ہو کہ یہ میری ذمہ داری بہرحال نہیں ہے ۔ لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں تمہیں بس ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں کوئی بھی اپنی Salvationکی کوشش نہیں کر رہا ہے ۔ نہیں جناب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں شاید پوری زندگی ایک جونک رہا ہوں مگر میں گدھ نہیں ہوں ۔ میں یہاں کھڑا ہو کر تمہاری موت کا انتظار نہیں کر سکتا۔ یہ میرا قصور نہیں ہے ۔ میں شاید بنایا ہی ایسا گیا ہوں ۔ تم سکون کرو اور اسے میری طرف سے کوئی احسان مت سمجھنا۔ اگر تمہیں تسلی ملتی ہے تو یہی سمجھ لو کہ میں پچھلے سودے میں کمائے گئے منافع میں سے تمہیں تمہارا حصہ دے رہا ہوں ۔ ‘‘

وہ چلا گیا مگر ساتھ میں ایک عجیب سی روشنی چھوڑ گیا۔ اگر اس جیسا گھٹیا انسان ایسا Heroicکام کر سکتا تھا تو میں کیوں نہیں اس کیفیت سے نکل سکتا تھا؟میں فوراً کھڑا ہو گیا۔ اس وقت میں اپنے اندر اتنی طاقت محسوس کر رہا تھا کہ میں وہ کھڑکی بھی کھول سکتا تھا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے سب کچھ صحیح کرنا ہے ۔ میں سوچ رہا تھا اور مجھے اندازہ ہوا کہ ساری زندگی میں زندگی کے دریا میں بہتے تختوں کے ساتھ بہتا رہا ہوں مگر اب اسے ختم ہونا ہو گا  اگر مجھے واپس آنا ہے ۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے میں جس سے بھاگ سکوں ۔ خدا اچھی چیزوں کو بری چیزوں سے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ہی مثال سے وہ کتنوں کو بھٹکا دیتا ہے اور کتنوں کو ہدایت دیتا ہے ۔ یہ کوئی سزا نہیں تھی یہ تو میرا امتحان تھا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے یہ امتحان میرے ان کل کی طرف سے دیا گیا تھا پر یہ اہم نہیں تھا کہ اس نے مجھے یہ امتحان کیوں دیا تھا؟ان کے لئے تو جیسے میں کوئی کیڑا تھا جو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا اور اس لئے وہ مجھے استعمال کر سکتے تھے ۔ انہوں نے تو جیسے مجھے شبنم کے ایک قطرے میں قید کر دیا تھا اور اب مجھے ہاتھ پاؤں مارتے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے ۔ پر وہ بھول گئے تھے کہ جب روشنی زمین پر پڑتی ہے تو شبنم کے قطرے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے اور مجھ جیسے کیڑے بھی آزاد ہو جایا کرتے ہیں ۔ مجھ تک بھی میرے خدا کی روشنی پہنچ چکی تھی اور مجھے لگا کہ جیسے مجھے اس مہربان ہستی نے ایک اور موقع دیا تھا۔ میں نے شیو کی، شاور لیا اور مناسب سے کپڑے پہن کر باہر نکل گیا۔ میں سب سے پہلے اپنے ایک پرانے کلائینٹ کے پاس گیا جو ہوٹلنگ کے بزنس میں تھا۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتا تھا اور میرے گھر کے بارے میں بھی انجان نہیں تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا اور اس کی حیرت اور بڑھ گئی جب میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے پاس بزنس کے سلسلے میں آیا ہوں 

’’میں سن رہا ہوں ۔ ‘‘ اس نے مجھے کہا مگر اس کی آنکھوں میں ایک بہت بڑی بے یقینی تھی جیسے کہ اسے مجھ سے کسی بزنس کی کوئی توقع نہ تھی مگر پھر بھی وہ میری تسلی کے لئے میری بات سننے کو تیا ر تھا۔ 

’’تم میرے گھر کے بارے میں تو جانتے ہی ہو؟‘‘

’’تمہارے گھر کے بارے میں کون نہیں جانتا؟‘‘ وہ مسکرایا

’’ہاں بالکل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں زیادہ لگی لپٹی رکھے بغیر سیدھی بات کروں گا۔ میں اس گھر کو ایک ریستوران میں بدلنا چاہتا ہوں ۔ ‘‘ میں نے کہا۔ 

’’کیا؟ کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟کون آئے گا ایسی جگہ پر ؟‘‘اب تو وہ واقعی حیران تھا۔ 

میں وہاں ایک سال سے رہ رہا ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس گھر میں آنے والی وہ ساری مخلوقات بے ضرر ہیں ۔ خاص طور پر اگر ہم ضروری اقدامات کر لیں ۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’دیکھو تم تو خود اس بزنس میں ہو اور اچھی طرح جانتے ہو کہ نیا ریستوران کھولتے ہوئے سب سے مشکل چیز ہوتی ہے اس کی تھیم۔ تھیم میرے دوست۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے اہم چیز نہ تو سرمایہ ہوتا ہے اور نہ جائیداد بلکہ ریستوران کی تھیم۔ اور میرے پاس نہ صرف جگہ ہے بلکہ تھیم بھی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بھوتوں والے گھر کی تھیم۔ ہمیں بس تھوڑا سا investکرنا پڑے گا۔ کچھ گہرے رنگوں کا پینٹ ہو گا۔ کم روشنی کے بلب لگائیں گے اور دیکھنا لوگ یہاں بھاگے چلے آئیں گے ۔ 

’’تم پاگل ہو گئے ہو۔ وہاں کون آئے گا؟‘‘

’’تمہیں کو کوئی اندازہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ اس قسم کی تفریح کے لئے مرے جا رہے ہیں اور پھر میں  بتا رہا ہوں نہ کہ یہ بہت ہی safeہے خاص طور پر آدھی رات سے پہلے ۔ شام سے پہلے وہاں کوئی زیادہ بھوت نہیں آتے ۔ 

’’پر ہوٹل کا بزنس تو شروع ہی شام کے بعد ہوتا ہے ؟‘‘

’’اب آیا نہ مزا۔ اب تم نے اسے ایک بزنس پروجیکٹ کے طور پر پرکھنا شروع کیا۔ لیکن اس کی فکر نہ کرو۔ میں اس کے بارے میں سب کچھ سوچ کر آیا ہوں ۔ میرے پاس اس کا حل ہے ۔ 

میں تمہیں کو بتاتا ہوں ۔ ہم تھوڑی سی کنسٹرکشن کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھر کے گرد شیشے کی بڑی بڑی دیواریں بنائیں گے اور دن میں تو ہم گھر کے اندر انتظام کریں گے اور رات کو سب لوگ شیشے کے ادھر صحن میں ہوں گے ۔ ان بڑے بڑے شیشوں سے وہ گھر میں گھومتے ہوئے بھوت دیکھیں اور مزے مزے کے کھانے کھائیں گے ۔ اس سے انہیں ہمیشہ ایک شک بھی رہے گا کہ ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی کھیل کھیل رہے ہوں اور ایک یقین بھی کہ شاید سب سچ ہی نہ ہو۔ ہم کبھی کھبار کوئی کچھ غیر معمولی چیزیں جان بوجھ کر بھی کر دیا کریں گے اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ گھر کے اندر میرے علاوہ رات کو اور کوئی نہیں جایا کرے گا اور پھر ہمارا سب سے بڑا شو تب ہو گا جب ہر رات میں بارہ بجے کے قریب مہمانوں کے سوالات لے کر روحوں سے ان کے جوابات لایا کروں گا۔ روحوں کے لئے تو یہ معمولی سی بات ہے مگر ہمارے مہمانوں کے لئے یہ life time experienceہو گا۔ یقین کرو کہ اگر ایسا ہو گیا تو سال سال کی بکنگ رہے گی اور ہمارے پاس لوگ مختلف ملکوں سے آئیں گے یہاں ‘‘۔ 

’’This might work‘‘

’’یہ ضرور کام کرے گا۔ مجھے کچھ لوگوں سے ملنے دو اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہمیں کتنی investmentکی ضرورت پڑے گی۔ بہت کام کرنا ہے مگر I am smelling money here‘‘

میں اس کے دفتر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ زندگی مجھے ایک موقع اور دے رہی ہے ۔ اس رات میں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ میرے کمرے کے بند دروازے میں سے میرے ان کل کمرے میں داخل ہوئے ۔ یہ تو خیر روحوں کا معمول ہی تھا کہ وہ جہاں چاہتیں آ جا سکتی تھیں مگر اس کمرے میں آتے ہوئے جیسے ان سب کا جی گھبراتا تھا۔ تو یہاں آنے سے وہ اپنی مرضی ہی سے ذرا گریز کرتیں وگرنہ میرے میں یا ان دروازوں میں انہیں روکنے کی طاقت کہاں تھی؟ لیکن ان کل کو دیکھ کر تو میں حیران ہی ہوا۔ وہ تو کبھی بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلے تھے ۔ وہ اس وقت بہت غصے میں لگ رہے تھے ۔ وہ مجھے ویسے ہی گھور رہے تھے جیسے میں نے کبھی انہیں اس چھپکلی کو گھورتے دیکھا تھا۔ گھورنے میں ان کا مقابلہ مشکل تھا اس لئے میں نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا

’’کیا حال ہے ان کل؟‘‘

’’تم کیا ہو؟ ایک کیڑے ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو تم اور اب تم چلے ہو اس جگہ کو ایک تماشہ بنانے ۔ میں نے زندگی میں اس سے زیادہ فضول آئیڈیا نہیں سنا کہ ایک hauntedگھر کو ہوٹل بنا دیا جائے ۔ کون بھلا ایسی جگہ کھانے پر آئے گا؟‘‘

’’ارے آپ تو ویسے ہی پریشان ہو رہے ہو۔ ابھی کچھ بھی فائنل نہیں ہے ۔ ہم اسے ایک تھیٹر بھی بنا سکتے ہیں ‘‘

’’تم میرے ساتھ مذاق کرنے کی کوشش کر رہے ہو؟تم جانتے ہو میں نے زندگی بتائی ہے اس گھر کو خاص بنانے میں ۔ میں نے اس گھر کو تین دنیاؤں کے اسراروں سے بھرا ہے اور تم یہاں سستے پیزا اور Spaghettiبیچنا چاہتے ہو؟‘‘

’’ہم ذرا دیسی انداز کی چیزیں سوچ رہے تھے جیسے BBQوغیرہ۔ لیکن ہم ایک بات کو خیال رکھیں گے کہ کوئی بھی چیز یہاں سستی نہ ہو‘‘ میں نے پرسکون انداز میں کہا۔ 

انہوں نے غصے سے میری طرف دیکھا ’’تمہیں اندازہ نہیں کہ میں تمہارے ساتھ کیا کچھ کر سکتا ہوں ؟‘‘

’’آپ جو بھی کرو گے اس سے اس گھر کی قیمت میں اضافہ ہی ہو گا۔ بلکہ میں تو چاہوں گا کہ آپ کبھی کبھار خود بھی لوگوں کے سامنے آنا اور انہیں بتانا کہ کیسے آپ نے تین دنیاؤں کے اسرار یہاں اکھٹے کئے ۔ بلکہ ہم آپ کا چہرہ اس ہوٹل کے Logoمیں بھی استعمال کر سکتے ہیں جیسے وہ کرنل کی تصویر کو KFCوالے کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ کرو جو کچھ کرنا چاہتے ہو۔ میں اس دفعہ آپ سے رکنے کو نہیں کہوں گا۔ چڑیا گھر کا اصل مزا اسی میں ہے کہ اس میں شیر دھاڑتے چنگھاڑتے رہیں ورنہ کیا فائدہ۔ تو اس گھر کی شیشے کی دیواروں کے اندر آپ جو بھی کرو گے میرا ہی فائید ہ ہے اور یہ بات میں جانتا ہوں کے ان دیواروں کے دوسری طرف تم کچھ بھی نہیں ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ بھی نہیں ۔ ‘‘

وہ کھڑکی کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور تقریباً منت کرنے کے انداز میں کہنے لگا کہ ’’Pleaseکھڑکی کھول دو اور مجھے آزاد کر دو۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے اس طرح دیکھیں جیسے کہ میں کوئی تماشا ہوں ۔ ‘‘

’’نہیں یہ اب نہیں ہو سکتا۔ تم نے مجھے اس کھڑکی کا محافظ بنایا تھا اور میں اپنی fateسے بھلا کیسے بھاگ سکتا ہوں ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہاں کوشش کرنا کہ شام کو تم اچھے لباس میں رہو آخر اتنے لوگ تمہیں دیکھا کریں گے ۔ ‘‘

تو کچھ ہی مہینوں میں ہم واقعی اس جگہ کو ایک خوبصورت ریستوران میں بدلنے میں کامیاب ہو گئے ۔ وہ شروع سے ہی ایک کامیاب تجربہ تھا۔ لوگ دور دور سے آ رہے تھے اور ہم اسے کھولنے سے پہلے ہی ہفتوں کے لئے بک ہو گئے تھے ۔ میری بیگم بھی واپس آ گئی اور ہم نے یہاں سے قریب ہی ایک گھر لے لیا ا ور زندگی اتنی خوبصورتی سے بہنی لگی کہ کچھ مہینے پہلے میں جس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ 

بہت ممکن تھا کہ میں اس گھر میں مارا جاتا۔ بہت ممکن تھا کہ میرے ان کل نے جو کھیل شروع کیا تھا وہ میری پوری زندگی کو کھا جاتا۔ اور میں تباہی کے بہت قریب تھا لیکن وہ ایک لمحہ جب ایک جونک نے جونک بننے سے ان کار کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے ساتھ ہی سب کچھ بدل گیا۔ تقدیر کے بڑے طوفان کا رخ مڑ گیا۔ میں اس جونک سے دوبارہ کبھی نہیں ملا سوائے ایک بار کے جب میں اسے سڑک پر ملا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ہم چند لمحے کھڑے رہے مگر ایسے تھا جیسے ہمارے بیچ کہنے کو کوئی بات تھی ہی نہیں ۔ ایسے میں میں نے اسے کہا کہ میں اپنی گھڑی بیچنا چاہتا ہوں ۔ پتہ نہیں میں نے ایسا کیوں کیا۔ شاید میں اس سے صرف بات کرنا چاہتا تھا یا پھر دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کچھ تبدیل ہوا ہے یا نہیں ۔ وہ گھڑی میں نے ابھی چند ہفتے پہلے دو لاکھ کی لی تھی۔ اس نے گھڑی پکڑی اور بہت دیر تک اسے ٹٹولتا رہا اور پھر جب وہ قیمت دینے کو آیا تو نہ صرف اس نے چند ہزار سے اوپر قیمت نہ لگائی بلکہ اس گھڑکی کی برائیاں ایسی کیں کہ مجھے لگا جیسے میں نے اسے کچھ دیر اور پہنا تو میری سانس چلنا ہی بند نہ ہو جائے ۔ وہ بہرحال ایک جونک ہی تھا۔ وہ گھڑی خرید کر شاداں سڑک کے ہجوم میں غائب ہو گیا اور میں اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ اس دن میں واقعی میں دل سے خدا کا شکر گذار تھا کہ اس نے مجھے اپنے آپ کو بدلنے کا موقع دیا ہے ایک چیز جو عام لوگوں کے نصیب میں بہت کم ہوتی ہے ۔ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدلنے والے بھی کئی مرتبہ اپنے آپ کو اس طرح بدل نہیں پاتے کہ خود کو بدلنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے ۔ 

ایک سوال البتہ ہمیشہ رہے گا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟وہ مہربان عمل اس جونک ایسے شخص کے دل میں اترا تو اترا کیسے ؟ ہاں مگر یہ میری کہانی نہیں اس کی کہانی ہے اور اگر وہ کبھی لکھنے بیٹھا تو آپ کو سنائے گا۔ 

٭٭٭


مجموعے ‘جونک اور تتلیاں‘ سے ماخوذ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید