خالدہ توفیق درختوں کے جھرمٹ میں نمودار ہو کر سیدھی میری جانب چلی آ رہی تھی۔ اس کے بال شانوں پر بکھرے پڑے تھے۔ جن میں اس نے زرد رنگ کے دو جنگلی پھول اڑس رکھے تھے۔ دور سے وہ شانتی نکیتن کی کوئی بنگالی طالب علم معلوم ہو رہی تھی جو آمی کوشی موشی قسم کی باتیں کرتی ہو، لیکن جب وہ قریب پہنچی تو پتہ چلا کہ وہ خالدہ توفیق تھی۔ اور کوشی موشی ہولو کرنے کے بجائے بہت ہی بڑھیا قسم کی ولایتی زبان بولتی تھی اور جلدی جلدی اس طرح گویا اگلے لمحے اسے ٹرین یا ہوائی جہاز پکڑنے کے لیے بھاگنا ہے۔
مجھ سے اپنا تعارف کرا رہی تھی ’’میں خالدہ توفیق ہوں۔ میں تمہیں جانتی ہوں تمہیں بھی مجھے جاننا چاہئے۔ علاوہ اور سب باتوں کے آج کل قدیم اردو ادب پر ریسرچ کر رہی ہوں۔‘‘
’’بیٹھ جاؤ خالدہ توفیق‘‘۔ میں نے اس سے گرم جوشی کے ساتھ کہا اور مجھے اپنے قدیم اردو ادب کے متعلق بتاؤ۔ اور مجھے تمہارے بالوں کے یہ زرد خودرو پھول بے حد پسند آئے ہیں۔‘‘ وہ بالوں کو پیچھے سمیٹ کر ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ اور میں نے غوطہ لگانے کے تختے پر الٹے لیٹے لیٹے پہلی نظر میں جیسا کہ لڑکیوں کا قاعدہ ہوتا ہے اس کا مکمل اور مفصل جائزہ لے لیا کہ کس طرح کے کپڑے پہنے ہے۔ ساڑھی کیسی ہے۔ بال کس وضع کے بنائے ہیں۔ اس اثناء میں یقیناً اس نے بھی میرا جائزہ لیا ہو گا۔ لیکن اس وقت میں سوچ رہی تھی کہ کالج اگر اس قدر جلد نہ کھلتا تو کیا برائی تھی۔ اور اگر سرے سے کھلتا ہی نہیں۔ جب تو اور بھی کوئی حرج نہ تھا۔ لیکن واقعہ یہ تھا کہ نئی ٹرم شروع ہونے والی تھی۔ اور مجھے جلد ہی اپنی ہرے جنگلوں اور رو پہلی جھیلوں والی اس خوب صورت اور پر سکون وادی کو چھوڑ کر شہر واپس بھاگنے کی تیاری کرنی تھی۔
ہوا کے جھونکے سے لیچیوں اور دیوداروں کے اس جھرمٹ کے پتے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ جس کے وسط میں وہ شفاف نیلے پانی اور رنگ برنگے سنگریزوں والا تالاب تھا۔ جس کے غوطہ لگانے کے تختے پر میں الٹی لیٹی تھی اور پیر اوپر آسمان کی طرف اٹھا رکھے تھے۔ خالدہ توفیق بے حد ترکی قسم کا اور اسمارٹ سا نام تھا۔ مجھ پر تھوڑا سا رعب پڑ گیا اور میں نے تختے کے سرے پر اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا ’’میری پیاری خالدہ توفیق آؤ میرے ساتھ ایک غوطہ لگاؤ‘‘ لیکن اس نے میری بات کاٹ دی اور بالوں کی لٹیں ہٹا کر بولی ’’نہیں مجھے تمہارا یہ تالاب پسند نہیں آیا۔ میں اس میں تمہارے ساتھ غوطہ نہیں لگاؤں گی۔
یہ سن کر میرا دل ٹوٹ گیا۔ خالدہ توفیق کو یہ میرا پیارا شفاف نیلے پانی اور رنگ برنگے سنگریزوں والا تالاب پسند نہیں آیا۔ میں دل ہی دل میں ایک گہری ٹھنڈی آہ بھر کے پھر غوطہ لگانے والے تختے پر لیٹ گئی اور پیر اوپر آسمان کی طرف اٹھا دیئے۔ ’’مجھے معلوم ہے‘‘ خالدہ توفیق نے تھوڑی دیر پانی کی سطح کو غور سے دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ میں نے مری ہوئی آواز میں پوچھا ’’کیا؟‘‘
’’مجھے وادی کے اس حصے کا راستہ معلوم ہے جہاں ان نیلی پہاڑیوں کے پرے وہ بے حد خوب صورت جھیل ہے جس کے کناروں پر پوست کے سرخ پھول کھلتے ہیں اور گھاس میں ہرے رنگ کے نہایت شکیل ٹڈے کودتے رہتے ہیں۔‘‘ اس نے آہستہ آہستہ جواب دیا۔ میں نے خوش ہو کر پوچھا ’’اور اس میں کنول کے پھول ہیں؟ اور سارس اور بطخیں؟ اور کنارے پر کوئی پرانا درخت بھی کھڑا ہے۔ جس کے سائے میں ہم اپنی ناؤ باندھ سکیں؟‘‘
’’ہاں اس کے کنارے پر ایک پرانا درخت کھڑا ہے جس کے سائے میں ہم اپنی ناؤ باندھ سکیں۔ اس نے اسی انداز سے یکساں آواز میں میری بات دہرائی اور پھر گھٹنوں میں سردے کر افیمچیوں کی طرح بیٹھ گئی۔
میں خوش ہوئی اور تختے پر سے کود کے اس کے پاس آ گئی اور اس جھیل کے تصور میں مصروف ہو گئی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے میں کسی پچھلے جنم میں ایک چھوٹی سی چمکیلے رنگ کی انتہائی خوب صورت مینڈکی تھی اور اپنے گاؤں کی تلیا میں رہا کرتی تھی۔ اور برکھا کی کالی راتوں میں خوب زور زور سے گایا کرتی تھی۔ اور ہمیشہ زکام بلکہ انفلوئنزا میں مبتلا رہتی تھی۔
’’تم می می کو جانتی ہو؟‘‘ خالدہ توفیق نے دفعتاً گھٹنوں میں سے سر اٹھا کر پوستیوں کی طرح پوچھا۔ میں نے سر ہلا کر جواب دیا ’’نہیں میں می می کو نہیں جانتی‘‘
’’آؤ میں تمہیں می می سے ملواؤں۔ مجھے وہ راستہ بھی معلوم ہے جو اس کے گھر کی طرف جاتا ہے۔ علاوہ اور سب باتوں کے۔‘‘ اس نے پتھر پر سے اٹھتے ہوئے کہا۔
ہم تالاب کے کنارے پرسے چھلانگ لگا کر پگڈنڈی پر آ گئے۔ میں نے اپنے بئے کے جھونجھ ایسے بالوں کو کئی بار خوب زور زور سے جھٹک کر پانی کے چھینٹے چاروں طرف بکھیرے اور سر پر تولیے کا حیدر آبادی صافے ایسا گنبد بنا کر جنگل کے خاموش راستے پر خالدہ توفیق کے ساتھ چل دی۔
ہمارے چاروں طرف گلہریاں تھیں۔ جنگلی طوطے، خرگوش اور جھرمٹ کے سارے پرند لیچیوں کی ٹہنیوں پر اکٹھے ہو کر شور مچا رہے تھے۔ وادی کے نشیب میں گذر کر پہاڑی کے صنوبروں میں گھرے ہوئے ایک چھوٹے سے پرانے سرخ رنگ کی چھت والے گھر کے سامنے پہنچے۔ ایسا گھر جو ہمیں اکثر کرسمس کارڈوں پر سفید برف سے ڈھکا ہوا نظر آتا ہے اور ایسا ہی کوئی پرانا، سرخ چھت اور شیشے کے برآمدوں اور سبز لکڑی کی جالیوں والا درختوں کے جھنڈ میں چھپا ہوا گھر اچانک نظر آ کر جانے کیوں یک لخت بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں ساری عمر صرف اسی جگہ پہنچنے کا انتظار رہا ہے۔ اور بال آخر اب کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ بڑی اچھی اچھی باتیں ہوں گی اور عمدہ عمدہ چیزیں ملیں گی۔ چوکولیٹ کیک۔ پریاں خوب تیز گرم کشمیری چائے، اچھے دوست پرانے گیتوں کے ریکارڈ۔
ہم آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر گئے۔ وہاں پر ہر طرف نیم شکستہ جاپانی گل دانوں میں زرد پھول سو رہے تھے۔ اور پرانے چینی ریشم کے بد رنگ اور گھسے ہوئے پردے تھے۔ اور ڈھیروں قدیم و ضع کا آبنوس اور شیشم کا فرینچر۔ تاریک گیلری میں سے گذر کے خالدہ توفیق مجھے جلدی جلدی ایک چوبی فرش والے کمرے میں لے گئی۔ جو پہلی نظر میں دکھائی دیا کہ بیک وقت خواب گاہ اور سٹنگ روم اور اسٹوڈیو اور کھانے کے کمرے اور اسٹڈی کا کام دیتا ہے۔ وہاں خلیجی دریچے کے نزدیک ایک گلابی رنگ کے شکستہ صوفے پر جس میں سے نواڑ اور مونج اور اسپرنگ کے تار باہر نکل آئے تھے۔ می می ٹانگیں اوپر رکھے بیٹھی بے حد محویت سے ایک البم میں تصویریں چپکا رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر اس نے البم ایک طرف رکھ دیا۔ ’’اس سے ملو۔ اسے میں نے ابھی آدھ گھنٹہ قبل تالاب کے کنارے دوست بنایا ہے جہاں یہ خرگوش اور گلہریوں میں گھری، ایک مینڈکی کی طرح غوطہ لگانے کے تختے پر بیٹھی تھی اور فلسفہ حیات پر غور کر رہی تھی‘‘ خالدہ توفیق نے اس سے کہا۔
’’ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے بھی کاہلی سے کہا اور صوفے کے سرے پر بیٹھ گئی اور بالکل فرش سے جا لگی۔ میری ناک میں کہیں سے گرم چوکولیٹ کی خوشبو گھسی۔ اور میں نے چاروں طرف بے حد دل چسپی سے دیکھا۔ مجھے ایسا بھی یاد پڑتا ہے کہ میں اپنے کسی اور جنم میں مینڈکی کی جون سے پہلے ایک نہایت لالچی قسم کی ایرانی یا انکورہ بلی رہی ہوں گی۔ میں نے سونگھا کہ قریب ہی کہیں کسی کمرے میں چوکولیٹ تیار کی جا رہی ہے۔
’’یہ دیکھو بھئی۔۔۔۔۔۔ یہ سرور کی نئی تصویر ہے جو اس نے مجھے دی ہے جب میں پچھلی بار۔۔۔۔۔۔ تزئین کے ہاں دعوت میں گئی تھی‘‘۔ اس نے خالدہ توفیق سے کہا۔ میں نے دل چسپی کے ساتھ اپنی جگہ سے اچک کر البم کو جھانک کر دیکھا۔ ’’بھئی یہ میرا ایک کزن ہے۔ اس کی چھوٹی بہن تزئین کو شاید تم جانتی ہو۔ جس کی شادی جسٹس عرفان کے نواسے سے ہوئی ہے‘‘۔ اس نے ذرا بے تعلقی اور استغنا سے مجھے مطلع کیا میں نے مستعدی سے سر ہلایا۔ تزئین کو میں جانتی تھی۔ اس کے اس بھائی کو بھی جانتی تھی۔ اس کا نام سرور رہا ہو گا۔ لیکن ہم سب تو اسے پتنگ کہتے تھے۔ کیوں کہ وہ بہ یک وقت اتنی بہت ساری لڑکیوں کی پتنگ تھا اور مستقل سب کی ڈوریں آپس میں کٹتی رہتی تھیں۔
چناں چہ یہ می می بھی پتنگ کا ایک مانجھا اپنے پاس رکھتی تھی۔ گھر جاتے ہی میں پتنگ کو فون کر کے بتاؤں گی کہ اس کی ایک مداح کو میں نے آج دیکھا لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ وہ تو خود اس کا کزن ہے صورت حال سے یقیناً خود ہی واقف ہو گا۔ می می کے اس کرسمس کارڈ ایسے گھر میں ہم دیر تک بیٹھے پتنگ کی باتیں کرتے رہے۔ اور اس نے ہمیں گرم گرم چوکولیٹ پلائی۔ پھر میں اسے اور خالدہ توفیق کو خدا حافظ کہہ کر باہر آ گئی اور سنسان جنگل میں سے گذر کے تیزی سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی کیوں کہ دفعتاً مجھے یاد آ گیا تھا کہ میں تولیے کا سبز رنگ کا ڈریسنگ گون پہنے ہوں۔
تھوڑی دور چل کر مجھے سرور ایک پگڈنڈی پر سے آتا دکھائی دیا۔ اس نے کندھے سے کیمرے اور الم غلم بہت سی چیزوں کا بیگ لٹکا رکھا تھا اور کتھئی رنگ کے لباس میں بڑا شان دار شکاری معلوم ہو رہا تھا۔ چٹان پر سے کود کر وہ قریب آ گیا۔ اور ہم لوگ چناروں والے راستے پر خاموشی سے چلتے رہے۔ بادل گھر کے بہت نیچے جھک آئے تھے۔ اور ہوا میں جنگلی پھولوں اور سیب کے درختوں کی مہک امنڈ رہی تھی۔ میرا جی چاہا کہ خوب زور سے سیٹی بجاؤں ٹارا لارا ٹا لار،‘ لیکن دفعتاً مجھے یاد آیا کہ خواتین کا سیٹی بجانا لیڈی لائک نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن چونکہ میں پچھلے جنم میں تالابوں اور جھیلوں میں رہا کرتی تھی۔ اور برکھا رت میں بحیثیت ایک لڑکی سیٹیاں بجاتی تھی۔ اس لیے میرے منہ سے بالکل اتفاقاً زور سے ٹارا لارا نکل گیا۔
پتنگ بے حد مصروفیت سے غور و فکر میں ڈوبا لمبے لمبے قدم رکھتا آگے آگے چل رہا تھا۔ سیٹی کی آواز سن کو وہ چونکا اور اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’کیوں بجا رہی ہو سیٹی‘‘
’’اس لیے کہ میں ابھی می می سے مل کر آ رہی ہوں‘‘۔ میں نے ایک ٹانگ پر گھوم کر اس کی طرف مڑتے ہوئے بشاشت سے کہا۔
’’می می سے؟ کون می می؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔ ’’ارے بھئی می می جو تزئین کی اتنی گہری دوست ہے۔ اور تمہاری کزن ہے تمہاری چچا زادہ بہن‘‘۔ میں نے تقریباً چلا کر جواب دیا۔ اور اس وقت پتنگ نے انتہائی نا معقولیت کا جواب دیا۔ یعنی اس کے جذبہ انانیت کو اس اطلاع سے بظاہر قطعی کوئی طمانیت نہ پہنچی۔ حالاں کہ اس کی قسم کے ڈون ژواں لوگوں کے شدید جذبہ انانیت کا قاعدہ یہ ہے کہ ایسی اطلاعات سے بے حد خوش ہوتے ہیں کہ فلاں لڑکی نے تمہاری تصویر اپنے البم میں لگائی ہے یا فلاں لڑکی کل شام تمہارے متعلق بار بار پوچھتی تھی وغیرہ وغیرہ۔
لیکن سرور پتنگ نے پلکیں جھپکا کر انتہائی لا علمی کا اظہار کیا کہ جہاں تک اسے معلوم ہے کوئی می می دور دور تک اس کی کسی قسم کی کزن نہیں ہے۔ ہم لوگ پھر چپ چاپ چناروں والے راستے پر چلنے لگے۔ اس کے لمبے لمبے قدموں کی رفتار سے بالکل صاف ظاہر تھا کہ میری اس روح افزا اطلاع کا اس پر ذرا بھی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ میں نے انتہائی غصے کے عالم میں پھر سیٹی بجائی۔ لیکن اس نے ڈانٹنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی اور اسی طرح غور و فکر میں مصروف آگے آگے چلتا رہا۔ اور پھر خدا حافظ کہہ کر اپنے گھر کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر مڑ گیا۔
میں تولیے کی پگڑی میں سے بالوں کو جھٹک کر تیزی سے گھر کی سمت روانہ ہو گئی۔ وادی کی تہہ میں نیلی نیلی دھند ایسی جمع ہو رہی تھی اور نشیب میں رنگ برنگے پتھروں پر گرنے والے جھرنے گنگنا رہے تھے۔ میں نے ہاتھ پھیلا کر اپنی سمت بڑھتے ہوئے بادلوں کی خنکی اور نمی کو محسوس کیا۔ اور موسم کی دل فریبی اور کائنات کے حسن کے شدید احساس کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’تم می می کو جانتی ہو‘‘ خالدہ توفیق نے مجھ سے آہستہ سے کہا۔ ’’ہاں میں می می کو جانتی ہوں‘‘ میں نے سر ہلا کر جواب دیا۔ ہم دونوں چپ چاپ تالاب کے کنارے بیٹھے رہے۔ سہ پہر بہت سنسان تھی۔ ہوا کا کوئی بھولا بھٹکا جھونکا پاس سے گزر جاتا۔ تالاب کا پانی ٹھنڈا تھا اور چاندی کی طرح جھلملا رہا تھا۔
خالدہ توفیق مجھے وہ نیلی پہاڑیوں کے پرے والی جھیل دکھاؤ۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔ ’’نیلی پہاڑیوں کے پرے والی جھیل۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے انجان بن کر پوچھا۔ میرا دل ڈوب سا گیا۔ ’’سنو‘‘ اس نے قریب آ کر رازدارانہ طریقے سے کہا ’’ہم می می کے ہاں جا رہے ہیں۔ اس نے ہم سب کو مدعو کیا ہے‘‘
’’اسی چوکولیٹ والے گھر میں۔۔۔۔۔۔؟‘‘ میں نے خوش ہو کر پوچھا۔ ’’چوکولیٹ والے گھر میں؟‘‘ اس نے پلکیں جھپکا کر دہرایا۔ ’’ہاں۔ وہاں پریاں رہتی ہیں۔‘‘ میں نے یقینی طور پر اسے بتایا۔ ’’پریاں۔۔۔۔۔۔؟‘‘
وہ آنکھیں جھپکتی رہی میں اکتا کر چپ ہو گئی۔ اب بھلا بتائیے کہ کیا کیا جائے یہ دنیا والے در اصل اتنے چغد ہیں۔ کھلی فضاؤں میں سیٹی بجا کر دوڑ لگانا لیڈی لائک تصور نہیں کیا جاتا۔ اپنی چچا زاد بہن کو پہچاننا شان پستگی کے خلاف ہے اور پھر پریوں کے وجود کا کوئی قائل نہیں۔ حالاں کہ میں نے خود می می کے اس اندھیرے کمرے میں پروں کی سر سراہٹ سنی تھی جب میں بلی کی طرح صوفے کے کونے میں بیٹھی تھی اور می می البم میں پتنگ کی تصویریں چپکا رہی تھی جو اس کا کزن تھا۔
شام کو ہم سب اسی کرسمس کارڈ ایسے گھر کے باغیچے میں جمع ہوئے۔ ’’می می ڈیئرکل میں نے سرور کو رنگ میں دیکھا۔ وہ بھی تو رخصت لے کر گرمیاں گزارنے یہاں آیا ہوا ہے۔ رفعت نے اس سے کہا۔ ’’ہاں مجھے معلوم ہے۔ وہ میرا چچا زاد بھائی ہے اس کی چھوٹی بہن۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے بتانا شروع کیا۔ سب چائے کے لیے میزوں کے گرد آن کھڑے ہوئے۔ ہوائیں درختوں میں گاتی رہیں۔ ’’می می ڈالنگ تم نے پتنگ کو کیوں نہیں بلایا‘‘
’’وہ ہمیں انگریزی گانوں کی پیروڈی کر کے سناتا۔‘‘
’’پتنگ۔۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے پلکیں جھپکا کر پر اسرار طریقے سے مجھے دیکھا۔ ’’تم اسے جانتی ہو۔۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے فکر مندی سے پوچھا۔ ’’ہاں آں۔ وہ میرا خالہ زاد بھائی ہے۔‘‘ میں نے بڑی بے تعلقی سے جواب دیا۔ ’’تمہارا خالہ زاد۔۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے حیرت سے آہستہ آہستہ دہرایا۔ ’’اور میرا پھوپھی زاد بھائی ہے؟‘‘ رفعت نے شگفتگی سے اسے اطلاع دی۔ ’’میرا ماموں زاد بھائی ہے‘‘ ریحانہ نے چہک کر کہا۔ ’’میرا۔۔۔۔۔۔ ارے جلدی سے بتاؤ کوئی مناسب سا رشتہ‘‘۔ سلطانہ نے چپکے سے مجھ سے پوچھا۔ ’’تمہاری خالہ کی دیورانی کا بھانجا ہے‘‘ میں نے جلدی سے اس کے کان میں کہا۔ ’’میری خالہ کی دیورانی کے بھانجے کا ماموں‘‘۔ سلطانہ نے ارشاد کیا۔
پھر ایک روز می می نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ مجھ سے کہا ’’سنو تم مجھے بہت پسند ہو‘‘
’’شکریہ‘‘ میں نے انکسار سے جواب دیا۔ ’’تم میری دوست بن جاؤ‘‘
’’بن تو گئی‘‘ میں نے مستعدی سے جواب دیا۔ ’’ارے مجھے خلوص چاہئے وہ کہیں نہیں ملتا‘‘ پھر وہ چپ ہو گئی اور میرے البم کے ورق الٹتی پلٹتی رہی۔
’’تمہارا خاندان ہی سارا گڈ لکرز کا ہے۔‘‘ اس نے تھوڑی دیر بعد پھر بات شروع کی۔ ’’ہیں ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ واقعی۔۔۔۔۔۔؟‘‘ میں نے بے حدکسر نفسی سے کام لیا۔ ’’ارے سرور اور اس کے گھر والوں کی تصویریں تمہارے پاس کیسے؟‘‘
اس نے دفعتاً ایک صفحے پر نظریں ٹھہرا کر پوچھا۔ ’’میں نے تمہیں بتایا تھا نا۔۔۔۔۔۔ وہ میرا خالہ زاد بھائی ہے‘‘۔ میں نے بے تعلقی سے جواب دیا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ ’’می می‘‘ تھوڑی دیر بعد میں نے یک لخت اسے مخاطب کیا: ’’می می۔۔۔۔۔۔ تم نے پریاں دیکھی ہیں‘‘
’’پریاں۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں تم نے کبھی پھولوں، گلہریوں، خرگوشوں سے دوستی کی ہے‘‘
’’ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم نے کائنات کا حسن دیکھا ہے؟‘‘ وہ چپ رہی۔ ’’میرے ساتھ آؤ‘‘ میں نے اس سے پھر کہا۔ اور اسے باہر ہری وادی میں لے آئی، جس طرح دو بچے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ پگڈنڈیوں پر سے گزر کر ہم درختوں کے جھرمٹ میں چھپے ہوئے تالاب کے کنارے پہنچ گئے۔ وہاں پر چاروں طرف خوب صورت پھول تھے اور بادلوں میں سے چھنتی ہوئی سورج کی نرم ارغوانی کرنیں تھیں اور ہوا میں نم اور تر و تازہ گھاس کی مہک تھی۔
میں غوطہ لگانے کے تختے پر اکڑوں بیٹھ گئی۔‘‘ تم نے کبھی پانی سے محبت کی ہے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’پانی سے۔۔۔۔۔۔؟ اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے دہرایا۔ ’’ہاں آؤ میرے ساتھ غوطہ لگاؤ‘‘ میں نے اس سے کہا۔ وہ کنارے پر کھڑی رہی۔ ساکت اور پر سکون نیلگوں پانی کی سطح پراس کے چہرے کا عکس لرزتا رہا۔ ’’تم نے دیکھا‘‘۔ میں نے چاروں طرف نظر ڈال کر کہا ’’یہ سب کتنا خوب صورت ہے سرور سے زیادہ خوب صورت ہے، تمہیں ان پھولوں، ان برف پوش پہاڑوں کا حسن پسند نہیں؟‘‘ لیکن تالاب کا کنارہ سنسان پڑا تھا وہ وہاں سے جا چکی تھی۔
’’چناں چہ دیکھا تم نے کہ سرور نے اس پر سکون وادی میں داخل ہوتے ہی کتنی گڑ بڑ پھیلا دی‘‘۔ خالدہ توفیق نے درختوں سے نمودار ہو کر قریب آتے ہوئے کہا۔ ’’جبھی تو میں کہتی تھی‘‘۔۔۔۔۔۔ وہ پتھر پر بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے بولی کہ
مت جا چمن میں لالن بلبل پہ مت ستم کر!
گرمی سوں تجھ نگہ کی گل گل گلاب ہووے گا!!
میں نے کاہلی سے ایک آنکھ کھول کر اسے دیکھا۔ دفعتاً مجھے یاد آیا کہ وہ قدیم اردو ادب پر ریسرچ کر رہی ہے۔ تختے پر لیٹے لیٹے کروٹ بدل کر میں نے عرض کیا: ’’ٹھیک کہتی ہو میری پیاری خالدہ توفیق۔
مجھ کوں ہوا ہے معلوم اے مست جام خوبی
تری انکھیاں کی دیکھی عالم خراب ہووے گا!!
خالدہ توفیق جھک کر تسلیم بجا لائی۔ چنڈو خانے کے مشاعرے کا لطف آ گیا۔
ہم دونوں پھر افیمچیوں کی طرح تالاب کے کنارے گھاس پر جا بیٹھے۔ وقت گذرتا گیا۔ نقرئی ناگن کی طرف لہراتی ہوئی تیزی سے جھلملاتے پانی والی پہاڑی ندی، گھنے جنگل کے درختوں میں سے جھلکتی رہتی۔ گرمیوں کی دوپہر کا بھاری بھاری پن وادی کے جنگل میں دوگنا ہو جاتا۔ گہری سبز گھاس، سرخ لیچیاں، تیز نیلا آسمان، فضا کی غنودگی، پانی کی خاموش روانی، شہد کی مکھیاں جھاڑیوں میں گونجنا شروع کر دیتیں اور نیند آنے لگتی۔
درختوں کی پتلی پتلی شاخیں ہوا میں جھولتی رہتیں۔ کوئی اکیلی قاز چیختی ہوئی بادلوں میں سے گذر جاتی۔ سکون گہرا ہو جاتا۔ میں غوطہ لگانے کے تختے پر لیٹے لیٹے پانی کو دیکھتی رہتی اور مجھے اپنی پچھلے جنم کی مینڈکی کی جون یاد آ جاتی اور میں ہنس پڑتی۔ اور اس ہنسی کی آواز دیر تک جنگل کی فضا میں گونجتی رہتی۔ خالدہ توفیق کاہلی سے آنکھیں کھول کر افیمچیوں کی طرح پوچھتی۔
’’کیوں ہنسی تھیں؟ بالکل دیوانی ہو‘‘ چھٹیاں ختم ہوئیں۔ اور ہم سب پھر شہر واپس آ گئے۔ می می بھی اس سال وہاں آئی تھی۔
’’یہ کون لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔؟‘‘ میرے پیارے بھائی ٹوٹ نے مجھ سے چپکے سے پوچھا۔ ’’یہ۔۔۔۔۔۔؟‘‘ می می۔۔۔۔۔۔ می می۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے جلدی سے اسے بتایا۔
’’میاؤں۔۔۔۔۔۔ میاؤں۔۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے معصومیت سے آنکھیں جھپکا کر دہرایا۔
’’ارے نہیں بھئی۔۔۔۔۔۔ اتنے چغد ہو تم۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے اکتا کر کہا۔ لاؤنج میں سے نکل کر میں باہر آ گئی اور گھاس کے ایک سنسان قطعے پر خالدہ توفیق کو بیٹھا پایا۔
واقعہ یہ ہے ’’خالدہ توفیق نے گھاس کا تنکا توڑ کر گویا ہوئی: ۔۔۔۔۔۔ ’’کہ یہ سرور کچھ اس قسم کا انسان معلوم ہوتا ہے جو اپنی شادی سے پہلے شادی شدہ عورتوں سے عشق کرے گا اور شادی کے بعد غیر شادی شدہ لڑکیوں سے عشق کرے گا اور۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اور یا قطعی شادی کرے گا ہی نہیں‘‘ جمیلہ نے کہا۔ ’’یہ تو واقعی بے حد غور طلب مسئلہ ہے‘‘۔ میں نے ان دونوں کے قریب روش پر اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے بھئی، گجب ہو گیا‘‘ رفعت چنبیلی کی کیاری پھلانگ کر تیزی سے ہماری طرف آتے ہوئے چلائی۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ خالدہ توفیق نے سستی سے پوچھا۔ ’’کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟ ارے بھئی تم لوگ تو موقع کی نزاکت و اہمیت سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتیں۔ دیکھتی نہیں ہو کہ سلطانہ اس قدر صفائی سے پتنگ کاٹے لیے جا رہی ہے۔ اور ہم سب می می کی کچھ مدد نہیں کر سکتے۔ کیا غضب ہے‘‘ وہ بھی ہمارے پاس آ کر اکڑوں بیٹھ گئی۔
’’واللہ۔۔۔۔۔۔‘‘؟ سچ کہو؟ میں نے چونک کر پوچھا۔ اس دنیائے فانی میں اب بھلا آپ ہی بتائیے کہ کس کا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ ’’تو کیا بالکل ہی کٹ گئی پتنگ‘‘؟ میں نے رقت بھری آواز میں سوال کیا۔
قومی ہمدردی۔ میرا جی چاہا کہ اسی وقت سرور کو لاؤنج میں سے باہر کھینچ لاؤں اور ساری پنچایت کے آگے اس سے پوچھوں کہ کیوں تم اتنے گدھے اور الو ہو۔ نا معقول۔ می می کو کیوں اپنی تصویریں دی تھیں جو اس نے اپنے البم میں سجائی تھیں اور ہم سب کی چائے کی تھی۔ جب وہ اندر سے نکلا تو برساتی میں جا کر میں نے تقریباً چلا کر اس سے کہا ’’سرور تم نے ہماری می می کو کیوں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کون می می بھئی۔ اس نے سیڑھیوں پر سے اترتے ہوئے پلٹ کر میری بات کاٹ دی۔ پھر اسے گویا دفعتاً یاد آ گیا۔ اور اس نے ہنس کر کہا‘‘ اچھا وہ۔۔۔۔۔۔ جو میری کزن ہے؟‘‘
’’دیکھو تو سہی۔ کیوں دی تھیں اس نے می می کو تصویریں۔ ایک نہ دو پوری آٹھ۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے گھاس پر واپس آ کر غصے سے کہا۔ ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاقی نقطۂ نظر سے پتنگ کا یہ رویہ بہت ہی قابل گرفت ہے‘‘ رفعت نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔ ’’بلکہ اس کا سیاسی اور معاشی اور نفسیاتی اور عمرانی اور بین الاقوامی پہلو بھی بہت زیادہ تابناک اور امید افزا نہیں ہے‘‘ جمیلہ نے زیادہ سنجیدگی سے سر ہلا کر ارشاد کیا۔
’’لیکن واقعہ یہ ہے۔۔۔۔۔۔ خالدہ توفیق نے گھاس پر سے اٹھتے ہوئے ایک جمائی لے کر کہا ’’زیر غور تصویریں پتنگ نے قطعی کسی کو دی ہی نہیں تھیں۔ بلکہ ہماری می می ایک روز خود ہی تزئین کے البم میں سے نکال لائی تھی۔‘‘
’’نین تارا۔۔۔۔۔۔ یہ تمہاری میاؤں میاؤں جو ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ میرے پیارے بھائی ٹوٹ نے کہنا شروع کیا۔ وہ جب نیکی کی جون میں ہوتا ہے تو مجھے بڑے لاڈ سے نین تارا پکارتا تھا۔ ’’اچھا بھئی ٹوٹ چپ رہو‘‘ میں نے اکتا کر کہا۔ وہ نہایت فرماں برداری سے چپ ہو گیا۔ اور پھر آرام کرسی پر اکڑوں بیٹھ کر اپنی نئی درخواست لکھنے میں مصروف ہو گیا۔
ٹوٹ کا اصل نام رویندر موہن سکسینہ تھا۔ لیکن بچپن میں جب وہ چھوٹا سا تھا ‘ تو ہم سب اسے ٹائینی ٹوٹ کہتے تھے۔ بڑے ہو کر بھی ہم اسے اسی نام سے پکارتے رہے، لیکن ٹائینی کے لفظ پر اس نے سخت احتجاج کیا۔ کیوں کہ اس سے اس کا جذبہ انانیت شدت سے مجروح ہوتا تھا۔ لہٰذا سب اسے صرف ٹوٹ ہی کہنے لگے۔ ہالینڈ ہال میں جب وہ تھا۔ تو اس نے سرور کے ساتھ طرح طرح کے مزے دار کورس بنائے تھے۔ جو ان دنوں رنگ لیڈرز کی یاد میں آج تک وہاں کے کومن روم میں رات کے وقت گائے جاتے ہیں۔ وہاں کے انگلش ڈپارٹمنٹ میں ایک پروفیسر صاحب تھے۔ جو اردو کے شاعر تھے۔ اور اسے بہت ڈانٹا کرتے تھے۔ ان پروفیسر صاحب کے متعلق وہ اکثر سب کو بڑے دل چسپ قصے سنایا کرتے تھے۔ مثلاً یہ کہ وہ انگلش لٹریچر پر اردو میں لیکچر دیتے تھے۔ اور اس طرح دیتے تھے جیسے سچ مچ کا اردو ادب پڑھا رہے ہوں۔ کرسی پر اکڑوں بیٹھ کر وہ شروع کرتے۔۔۔۔۔۔ ’’چناں چہ شیلے کی تصوری کائنات کا ابہام استدلالی‘‘۔۔۔۔۔۔ اور لڑکے کلاس میں بیٹھے بیٹھے چپکے تصویریں بناتے یا اونگھتے۔ کلاس کی سب سے پیچھے کی کرسیوں پر بیٹھ کر لکچرز کے دوران میں کارٹون بنانے یا اونگھنے یا کاپی پر لکھ لکھ کر ایک دوسرے سے باتیں کرنے کا زمانہ زندگی کا بہترین اور سنہرا دور ہوتا ہے۔ ایسا دور جو پھر کبھی واپس نہیں آتا۔
اس سنہرے زمانے میں ٹوٹ نے بھی اپنی کاپیوں پر نظمیں لکھی تھیں۔ اور اس کا ارادہ تھا کہ تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ ان زبردست تاریخی نظموں کا انڈین پریس یا کتابستان سے شان دار مجموعہ شائع کروائے گا۔ اور اسے معنون کرے گا ان تمام بد قسمت لڑکیوں کے نام جن سے وہ اب تک عشق نہ کر سکا۔ لیکن میرے پیارے بھائی ٹوٹ کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی اور مجموعہ شائع کرانے کے بجائے اب وہ دن رات اس فکر میں رہتا تھا کہ اس مقابلے میں نکل آئے۔ اس انتخاب میں لے لیا جائے۔ اس بڑے آدمی سے تار کھنچوائے۔ ہالینڈ ہال کا قومی ترانہ بیت گئی ہے اشٹمی وہ کب کا بھول چکا تھا۔ اور ہر سمے نت نئی درخواستیں لکھا کرتا تھا۔
ایک روز اس سے کسی نے پوچھا ’’بھائی رویندر تم کیا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔؟ تو اس نے شگفتگی سے جواب دیا ’’میں۔۔۔۔۔۔؟ پدرم ڈپٹی کلکٹر در سلیکشن گریڈ بود۔ رائے بہادر برجیندر موہن سکسینہ کے نام نامی سے آپ ضرور واقف ہوں گے جو سلیکشن گریڈ میں آئے تھے اور ڈپٹی کمشنری کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ میں ان ہی کا لائق فائق فرزند ارجمند ہوں۔ قوم اور خاندان کی مجھ سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ اب تک ان گنت سندر چتر سوشل لکشمی، مورت سرسوتی سمان منوہر کنیاؤں کے لیے بات آ چکی ہے۔
کشمیری پنڈت ہوتا تو فوراً فارن سروس میں بھی لے لیا جاتا۔ فی الحقیقت ایک نہایت ہی زریں مستقبل میرا انتظار کر رہا ہے بس ذرا سی وائر پلنگ کی کسر ہے‘‘ ٹوٹ کی وائر پلنگ اب تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ اور وہ آرام کرسی پر اکڑوں بیٹھا پبلک سروس کمیشن والوں کو خط لکھ رہا تھا۔ خان بہادر ابو محمد کا انتقال ہو چکا تھا۔ جو ہمارے برجیندر چاچا کے گہرے دوست تھے۔ یہ بات میں نے اسے یاد دلائی لیکن وہ نہایت مستعدی سے بیٹھا اپنی درخواست میں اپنی ساری قابلیتوں کی تفصیل لکھنے میں مصروف تھا۔ یونی ورسٹی یونین کا وہ پریزیڈنٹ رہا۔ اس نے یہ کیا اس نے وہ کیا۔ اتنے میں سرور آن پہنچا۔ وہ وائر پلنگ اور مقابلے کے امتحانوں اور درخواستوں کے سارے مرحلے طے کر چکا تھا۔ اور اب اور آگے فارن سروس میں نکل جانے کی فکر میں تھا۔ ان دنوں فارن سروس کا تذکرہ فیشن میں داخل ہو گیا تھا۔ ہر تیسرا آدمی واشنگٹن لندن قاہرہ یا طہران جانے کے لیے تلا بیٹھا تھا۔
مجھے دیکھ کر سرور نے بے حد سنجیدگی سے ایک سلوٹ جھاڑا اور بے فکری سے سیٹی بجا کر چاروں طرف نظر ڈالتے ہوئے اس نے ٹوٹ سے پوچھا۔ ’’کیا کر رہے ہو بھائی‘‘
’’کیوں بھئی کیا حال چال ہیں تمہاری می می کے۔۔۔۔۔۔‘‘ سرور نے پلٹ کر مجھ سے پوچھا۔ ’’ڈوب جاؤ تم خدا کرے‘‘ میں نے غصے سے سرخ ہو کر کہا۔
’’نہ گومتی اتنی گہری ہے نہ تمہارا سوئمنگ پول‘‘ اس نے بے فکری سے جواب دیا۔
’’ابے یار کیا بوریت پھیلا رہے ہو۔ چلو ٹینس کھیلیں‘‘ اس نے ٹوٹ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ٹوٹ انتہائی بے نیازی سے کاغذوں پر جھکا رہا۔
’’یار کچھ مدد کر سکتا ہوں تمہاری؟۔۔۔۔۔۔‘‘ سرور نے سنجیدگی سے ٹوٹ کی آرام کرسی کے ہتھے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
’’اوہو ٹوٹ بھائی تم نے انگریزی بھی پڑھنی شروع کر دی؟‘‘ اس نے الماریوں میں رکھی ہوئی کتابوں پر نظر ڈال کر بڑی شگفتگی سے پوچھا۔ بھائی ٹوٹ کو ہنسی آ گئی۔ میں بھی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اس میں لطیفہ یہ تھا کہ ٹوٹ انگریزی کا فرسٹ کلاس فرسٹ ایم اے تھا اور ڈاکٹر دستور سے لے کر امرناتھ جھاتک کے اس کے پاس اتنے نفیس سرٹی فکیٹ موجود تھے۔
’’تم تو ٹوٹ بھائی بالکل گدھے ہو در اصل‘‘۔ سرور نے تھوڑی دیر بعد طے کیا۔ ’’تم یہ کیوں نہیں کرتے کہ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔۔؟‘‘ ٹوٹ نے قلم ایک طرف رکھ کر پوچھا۔
’’کہ بس آ جاؤ ایک دم سے مقابلے میں‘‘ سرور نے اسے اتنی آسان ترکیب بتا دی۔ ’’تم بھی بس آ گئے تھے ایک دم سے آنکھیں بند کر کے بسم اللہ پڑھ ڈالی تھی۔۔۔۔۔۔؟‘‘ ایں کیوں بے الو کے بھائی۔۔۔۔۔۔؟‘‘ ٹوٹ نے بگڑ کر پوچھا۔
’’تم۔۔۔۔۔۔‘‘ پھر سرور نے رک کر کہنا شروع کیا۔ بھائی میرے، ہمارے تو ابا میاں نے شہید ثالث اور خواجہ اجمیری کے مزاروں پر کھوئے کے پیڑوں سے بھری ہوئی چاندی کی مٹکیوں کی منت مانی تھی۔ ممی نے امام باڑوں میں نذریں دلوائی تھیں۔ جو گی پورے جا کر چاندی کے علم چڑھائے تھے۔ تم بھی ہمارے سنٹرل اور پروونشل دیوتاؤں کو جل پان سے خوش کرو، پر کمال کرتے علی گنج جاؤ تب جا کر کہیں بھگوان راضی ہوں گے کہ ایک امپریل سروس اور ایک چتر، سوشیل، بلکہ سوشلسٹ، بالکل وجے لکشمی پنڈت سمان منوہر کنیا عنایت فرما دیں۔ الٰہی غنچہ امید بکشاء ‘‘
سرور نے بات ختم کر کے تحسین طلب نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ ’’ابے چپ رہ۔ کیا بکشا دل کشا لگا رکھی ہے‘‘ ٹوٹ نے چڑ کر کہا۔ ’’یار خوب یاد دلایا۔ ابھی ابھی چھ بجے دل کشا کلب میں ایک بے حد ضروری کام ہے‘‘ سرور برآمدے میں سے نیچے گھاس پر کود گیا۔
’’وہاں میاؤں میاؤں بھی آئے گی آج۔۔۔۔۔۔‘‘ ٹوٹ نے اسے پھاٹک کی طرف جاتا دیکھ کر کہا۔ ’’ہیں۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی؟‘‘ سرور جاتے جاتے گھبرا کر ٹھٹھک گیا۔
ٹوٹ ہنس پڑا ’’وہی تو میں نین تارا سے پوچھتا تھا۔ کیا یہ افواہ صحیح ہے کہ میاؤں میاؤں غم دل میں مبتلا ہو کر تارک الدنیا ہونے والی ہے‘‘
’’ہاں ہاں۔۔۔۔۔۔ واللہ یہی میں نے بھی سنا ہے‘‘ سرور چلایا: کہ می می ساری دنیا تج کر دل کشا کلب کے ایک کونے میں بھگوان سے لو لگانے والی ہے۔ پھر وہ سیٹی بجاتا دل کشا کی طرف نکل گیا۔
’’کوا بولیاں بول گئے ہیں۔ زیر باد کہ ملک کے ہاتھیوں کے جنگل میں ایک برس یہ ہوں نین پڑیا۔ ہور بادل سوں ایک بوند نین ٹپکا۔ ایسا دکال پڑ گیا کہ ہاتیاں پیاس سوں لاچار ہو کر اپنے پادشاہ کے پاس قریب فریاد گئے۔ پادشاہ بول دیا کہ پانی کی خاطر چو طرف دوڑو ہور بہت ڈھونڈو۔ ہاتیاں اوس ملک کے اورس چورس میں ڈھور ڈھنڈول کر ایک گڑھا نکالے کہ اس کا ناؤں چندر گڑھا تھا۔ اور بہت ڈونگا اس لئی پانی تھا۔ پادشاہ اپنا لشکر لے کر اوس میں پانی پینے گیا۔ اوس کے آس پاس تھوڑے خرگوشاں بستے تھے۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔۔؟‘‘ میں نے جھنجھلا کر پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔ ہور ہاتھیاں کے کدھن سوں وہ بہت ستائے جاتے تھے‘‘۔
خالدہ توفیق نے۔۔۔۔۔۔ جو قدیم اردو ادب پر ریسرچ کر رہی تھی۔ سامنے پڑی ہوئی ایک بے حد موٹی کتاب پڑھتے پڑھتے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ ’’کیا چنڈو خانے کی اڑا رہی ہو۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے بگڑ کر کہا۔ خالدہ توفیق نے زور سے کتاب بند کر دی۔ ’’کیا تم کو نظر نہیں آ رہا ہے اتنا صاف کہ میں اس وقت صریحاً دریائے علم میں غوطہ زن ہوں۔‘‘ میں مرعوب ہو گئی اور ذرا ڈر کر اس سے کچھ دور جا بیٹھی۔
’’جس وقت اے سریجن توں۔۔۔۔۔۔‘‘ خالدہ توفیق نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ میں کچھ دیر خاموش بیٹھی سنتی رہی۔ پھر مجھے غصہ آ گیا اور میں نے چلا کر کہا۔
رکھتا ہے کیوں جفا کو مجھ پہ روا اے ظالم
محشر میں تجھ سوں میرا آخر حساب ہووے گا!
خالدہ توفیق اپنا دریائے علم کا بحر ذخار بے پایاں سب بھول گئی اور ہنستی ہوئی میرے قریب آ بیٹھی …
’’در اصل قصہ یہ ہے‘‘ اس نے کھنکار کر کہنا شروع کیا ’’کہ آج مجھے تزئین سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے سرور کو امور خارجہ یا اسی قسم کے کسی کار آمد محکمے کے ایک عدد سیکریٹری یا جوائنٹ سیکریٹری کی اشد ضرورت ہے‘‘
’’ایں۔۔۔۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’ہاں۔ یا کم از کم ڈپٹی سیکریٹری ہی ہو۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
’’انڈر سیکریٹری چلے گا؟‘‘ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس لیے پوچھ لیا کہ کہیں وہ یہ نہ خیال کرے کہ میں بالکل ہی بے وقوف ہوں۔
’’نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ایک انڈر سیکریٹری تو دستیاب ہو سکتا ہے۔ سامنے ہی رہتا ہے‘‘ میں نے پھر کہا۔
’’نہیں کم از کم ڈپٹی سکریٹری۔ اور جوائنٹ سیکریٹری ہو تو کیا ہی کہنے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’لیکن آخر ضرورت کیا ہے بھئی۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ایں۔۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا ’’تم شہر خبرو ہو ذرا ٹیلیفون کی ڈائریکٹری اٹھا کر دیکھو۔ کون دستیاب ہو سکتا ہے جلد از جلد۔‘‘
’’آخر ضرورت تو بتاؤ‘‘ میں نے جھنجھلا کر پوچھا۔
’’سنو۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے چاروں طرف بے حد پر اسرار طریقے سے دیکھ کر رازدارانہ اور سرگوشی کے لہجے میں کہا ’’در اصل پتنگ اب شادی کرنا چاہتا ہے‘‘
’’اس اب کی تعریف نہیں کی جا سکتی‘‘ میں نے داد دیتے ہوئے کہا۔
’’سنو تو سہی‘‘ اس نے بات پھر شروع کیا۔
’’لیکن می می۔۔۔۔۔۔؟‘‘ میں دفعتاً چلائی۔
’’شو شو شو۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسی پر اسرار انداز سے بولی
’’چناں چہ یہ قصہ ہے در اصل۔ اور اسے اس لیے کسی کار آمد سے محکمے کا ایک سیکریٹری درکار ہے یا کم از کم جوائنٹ سیکریٹری۔
’’لیکن اس کا کیا ہو گا؟‘‘ میں نے پھر بے وقوفوں کی طرح سوال کیا۔
’’ارے۔۔۔۔۔۔ بھئی اس کی لڑکی سے پتنگ شادی کرے گا۔۔۔۔۔۔ خالدہ توفیق نے جھنجھلا کر جواب دیا۔
’’اوہ ہو۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے اتنی دیر بعد اطمینان کا سانس لیا ’’اور می می ہماری؟‘‘ میں نے رقت بھری آواز میں پھر پوچھا۔
’’شو شو۔۔۔۔۔۔ چلو ٹیلیفون ڈائریکٹری اٹھا لاؤ۔ وزیٹرز روم سے جا کر بلکہ اس ہفتے گھر جا کر سول لسٹ بھی دیکھ لینا‘‘۔ اس نے حکم لگایا۔
’’لیکن سنو تو سہی‘‘۔ میں نے کہنا شروع کیا۔ کچھ نہیں۔ اس نے میری بات کاٹ دی۔ ’’کم از کم ایک ڈپٹی سکریٹری‘‘
’’اور اگر انڈر سکریٹری ہو’’ میں نے مظلومیت سے پوچھا۔۔۔۔۔۔
’’قطعی نہیں۔۔۔۔۔۔ انڈر سکریٹری اپنے قانونی فرزند کے لیے ناکافی ہو گا‘‘۔۔۔۔۔۔ خالدہ توفیق نے جواب دیا۔
’’اوہ ہو۔۔۔۔۔۔‘‘ اب تو سارا مسئلہ گویا چشم زدن میں صاف شفاف تھا۔ خالدہ توفیق نے جلدی جلدی اپنی کتابیں سمیٹیں اور ہم کو من روم میں سے نکل کر نیچے اتر آئے۔ ہوسٹل کے پچھلے لان پر حسب معمول ساری قوم جمع تھی۔ ریکارڈ بجائے جا رہے تھے۔ اور چنڈو خانے کی اڑ رہی تھی۔ کچھ دور پر آم کے سائے میں می می سیمنٹ کے رولر پر بیٹھی انڈین لسنر کے ورق پلٹ رہی تھی۔ ہوا میں سویٹ پی کی بھینی بھینی مہک تیر رہی تھی۔ اور آسمان پر سے بشاش مرغابیوں کی قطاریں گذر رہی تھیں۔ دنیا مجھے حسب معمول بے حد حسین اور فرحاں نظر آئی۔ میں باغ کی نالی کی سیمنٹ کی اونچی منڈیر پر اکڑوں بیٹھ کر اس غور و فکر میں غلطاں و پیچاں ہو گئی کہ اس تازہ نقطہ نظر سے پتنگ کے لیے کون سا سیکرٹری مناسب ترین رہے گا۔
’’می می ڈیر‘‘۔ رفعت جمائی لے کر گھاس پر لوٹ لگاتے ہوئے پکاری ’’بھئی تمہارا وہ تاریخی دعوت نامہ ہمیں کب ملے گا۔ ہم تو اس کے انتظار سے واللہ بور ہو گئے‘‘
’’ہاں واقعی می می ڈارلنگ‘‘ جمیلہ نے کہا۔ ’’اتنی بوریت پھیلا رکھی ہے تم نے‘‘
’’ہم لوگ بر دکھوے کے لیے چل رہے ہیں نا؟‘‘ میں نے خوش ہو کر تزئین سے پوچھا۔
’’ارے بے وقوف بردکھوا تو لڑکوں کا ہوتا ہے۔ ہم تو لڑکی دیکھنے جا رہے ہیں‘‘ تزئین نے مجھے سمجھایا۔
سکریٹریوں اور جوائنٹ سیکریٹریوں کی تلاش بڑی سرگرمی سے شروع کر دی گئی تھی اور بڑی مشکلوں سے ایک خاطر خواہ ڈپٹی سیکریٹری دستیاب ہوئے تھے۔ لیکن ان کی صاحبزادی بلند اقبال خاطر خواہ نہ تھیں۔ عینک لگاتی تھیں اور شکل سے لگتا تھا کہ اس دنیائے فانی کی ٹریجڈی پر غور فکر کرتے کرتے بس اب رو پڑیں گی۔
’’لاحول بھیجو تزئین۔ ہمارے ایسے شگفتہ، بشاش اور کھلنڈرے سرور کے لیے ایسی فلاسفر بقراط جالینوس لڑکی۔ حد کرتی ہو‘‘ میں نے کہا۔
’’مگر سنو تو سہی۔ اس کے ابا میاں خاص الخاص امور خارجہ کے محکمے میں ہیں۔ اور تم جانو۔ وہ جلد از جلد کسی سفارت خانے کا ایٹچی کیس تو بن ہی جائے گا‘‘ خالدہ توفیق نے کہا۔
چناں چہ ہم تینوں لڑکے کی بہنوں کی قابل رشک حیثیت سے خوب سنگھار پٹار کر کے ایک موٹریا میں بیٹھ کر لڑکی والوں کے گھر پہنچے۔ اور لڑکی کے ابا میاں سے ملاقات کی۔ بے حد رعب دار آدمی، باتیں کرتے تو لگتا کہ بگڑے ہوئے پیانو کے نچلے سر بج رہے ہیں۔ ہم ان کے خوش اخلاق لڑکوں اور بلیوں اور خرگوشوں سے متعارف ہوئے۔ لڑکی کے ابا میاں نے پوچھا کہ لڑکا کے بجے سو کر اٹھتا ہے۔ کلب سے کے بجے رات کے گھر لوٹتا ہے۔ دن میں کتنے سگریٹ پیتا ہے۔ اور کون سے برانڈ پیتا ہے۔ فائیو فائیو فائیو عبد اللہ۔ تھری کاسلز؟‘‘
’’در اصل وہ سگرٹوں کے معاملے میں بے حد پرولتاری واقع ہوا ہے‘‘ میں نے گلا صاف کر کے جواب دیا۔ ’’اونٹ۔ ہاتھی۔ سب پی لیتا ہے‘‘
’’تاش کھیلتا ہے؟‘‘ اندازاً کتنے سو روپئے ماہوار برج میں ہارتا ہے اور کون کون سے کھیل کھیلتا ہے۔‘‘ انہوں نے سوال کیا۔
’’سب کھیل آویں ہیں اس کو۔ ترپ چال۔ تہ پتا۔ کوٹ پیس۔۔۔‘‘ میں نے مستعدی سے بتانا شروع کیا۔ لیکن تزئین اور خالدہ توفیق نے ایسی کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھا کہ مجھے خاموش ہونا پڑا۔ ڈپٹی سیکرٹری صاحب ایک لمبی اور غیر مطمئن ہوں کے بعد دوسری طرف متوجہ ہوئے۔
لڑکا کس قسم کا سید ہے جعفری۔ زیدی۔ نقوی۔ رضوی۔ بنا ہوا سید تو نہیں ہے اور اس کے علاوہ ملت جعفریہ کے کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے شش امامی۔ اثنا عشری آغا خانی؟
میں یہ سب سن کر سٹ پٹا گئی۔ آغا خانی گھوڑے اور آغا خان ہیرے اور ہر ہائی نس دی بیگم آغا خان اور پرنس علی خان۔ سب میرے دماغ میں گڈ مڈ ہو گئے۔
اس ضروری گفتگو سے نپٹ کر ہم اندر گئے اور لڑکی کے منہ میں مصری کی ڈلی اور پان رکھا۔ امام ضامن باندھا۔ انگوٹھی پہنائی۔ اس کے بعد اس فلاسفر لڑکی کا ہم سے باضابطہ پردہ کرایا گیا۔ اور میں نے تصور پر سخت زور ڈالنے کی کوشش کی کہ یہ بقراط اور ارسطو کی نواسی اپنی سیاہ فریم کی عینک کے ساتھ جھومر ٹیکے اور فرشی پاجامے میں کیا سجے گی۔ سارے کپڑے اس پر اپنی جان کو روئیں گے۔ ممکن ہے بعد میں سرور بھی اپنی جان کو روئے۔ لیکن بہرحال اس وقت تو وہ بالکل مطمئن تھا۔ اس کے گھر والے خوش تھے۔ ہم سب خوش تھے۔ اس کا مستقبل اپنے ہونے والے قانونی ابا میاں کے دفتر کے شاہ بلوط کے میز پر بالکل محفوظ اور بے حد شان دار تھا۔
شام کو ہوسٹل کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ می می ہمارے گھر آئی۔ مارگریٹ نے اس سے کہا۔ ’’سنا تم نے می می ڈیر۔ پتنگ بھی دوسری ڈومینین کو بھاگا جا رہا ہے۔ کل نین تارا سے ملنے ہوسٹل گیا تھا۔ اس وقت تم کہیں باہر جا چکی تھیں۔ اس وقت وہ ابھی ابھی یہاں موجود تھا۔ لیکن تم غائب تھیں۔ اب تم آئیں تو وہ کھسک گیا۔‘‘
’’ہاں وہ ہمیشہ اسی طرح آنکھ مچولی کھیلتا رہتا ہے‘‘ می می نے زبردستی کی شگفتگی سے جواب دیا۔ میں مسوری میں تھی۔ وہ فرض کر کے شملے چلا گیا۔ اور جب میں مسوری… سے لوٹی تو ایسا اتفاق ہوا کہ وہ وہاں پہنچا۔‘‘
’’یہ می می جو ہے‘‘ یہ اس سال مسوری صرف ایک ہفتے کے لیے گئی تھی۔ اور پرنس ہوٹل میں ٹھہری تھی لیکن ’’سوائے‘‘ میں رہنے والی ایک دوست کے پاس جا کر اس نے ’’سوائے‘‘ کے رائٹنگ پیڈ پر ان پانچ چھ دنوں میں اپنے سب دوستوں اور جاننے والوں کو خط لکھے تھے۔ اس کا ایک خط میرے پاس بھی آیا تھا۔‘‘ جمیلہ نے چپکے سے مجھ سے کہا۔
’’ارے ہائے۔۔۔ می می۔۔۔ می می۔۔۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’میاؤں میاؤں۔۔۔؟‘‘ ٹوٹ نے کاغذوں پر سے سر اٹھا کر پوچھا۔
’’می می۔۔۔ می می۔۔۔ آہ مجھے محض ان ہی کمزوریوں اور حماقتوں کی وجہ سے انسانیت سے اتنی محبت ہے۔۔۔‘‘ میں نے آہستہ سے اپنے آپ سے کہا۔
’’کیا۔۔۔؟ یہ کس کا مقولہ ہے۔۔۔‘‘؟ ٹوٹ نے اپنے مراقبے سے چونک کر پوچھا۔
’’میرا۔۔۔!‘‘ میں نے نہایت شگفتگی سے اسے بتایا۔ وہ چپ ہو گیا۔
’’وہ وقت عنقریب آنے والا ہے۔ اے میرے پیارے بھائی ٹوٹ کہ جب میرے سارے زریں اقوال کو جمع کر کے ایک صحیفہ نادر مرتب کیا جاوے گا اور اس خاکسار کے سارے کلاسیکل کوٹیشنز کی ایک ڈکشنری تیار ہو گی۔ اور بعد میرے مرنے کے تم سب احمقوں کو میری قدر آئے گی۔ میں نے سنجیدگی سے ایک ٹھنڈی آہ بھر کے اس سے کہا۔
’’اللہ رے مغالطے۔۔۔‘‘ اس نے ترس کھا کے جواب دیا۔
’’ارے اب تو بالکل ہی گجب ہو گیا‘‘ رفعت اندر کودتے ہوئے چلا کر بولی۔
’’کیا۔۔۔؟‘‘ میں نے مری ہوئی آواز میں دریافت کیا۔
’’پہلے یہ بتاؤ کہ بقراط اور ارسطو کی نواسی کے ابا میاں کا عہدہ کیا ہے؟‘‘ اس نے جلدی سے پوچھا۔ اس کے ہاتھ میں حکومت کے غیر معمولی گزٹ کا تازہ ترین پرچہ تھا۔ جو اسی شام ریلیز ہوا تھا۔
’’کیوں؟‘‘ ہم سب نے دھڑکتے اور ڈوبتے ہوئے دلوں کے ساتھ پوچھا۔ ’’اس کے ابا میاں ڈپٹی سکریٹری ہیں نا؟ سلطانہ کے ابا میاں سکریٹری ہو گئے‘‘ رفعت نے گزٹ کا پرچہ ہمارے سامنے پھینک کر کہا۔ اور دریچے میں جا بیٹھی اور ڈھولک اٹھا کر ’’بریلی کے بجار میں‘‘ الاپنے لگی۔ سرور کی سقراط اور بقراط کی نواسی سے منگنی ٹوٹ گئی۔
اگلی صبح کے اخباروں میں بھی سلطانہ کے ابا میاں کے متعلق یہ اطلاع شائع ہو گئی۔ پھر روز بروز ان کے متعلق نئی نئی خبریں چھپنے لگیں۔ ملک کے سیاسی حالات کی تبدیلیوں اور بٹوارے کے نت نئے انتظامات کے ساتھ سلطانہ کے ابا میاں کے عہدے میں ترقی ہوتی جا رہی تھی۔ کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ صبح کے وقت ڈائننگ ہال کی سب سے آخری میز پر چائے کے بعد تازہ اخبار سامنے رکھ کر چنڈو خانے کا باقاعدہ سنڈیکیٹ بیٹھتا اور سیاسی پیشین گوئیاں کی جاتیں اور ان واقعات اور امکانات پر تبصرہ ہوتا جن کا اثر سرور کی شادی اور فارن سروس کے انتخاب کے مسئلے پر پڑ سکتا تھا۔
’’ارے ہائے‘‘ ایک روز اخبار پر نظر ڈالتے ہوئے خالدہ توفیق چلائی۔ ’’اب کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اب تو معاملہ بالکل ہاتھ سے نکلا سمجھو۔ یہ دیکھو سلطانہ کے ابا میاں کو سفارت خانے کے بے حد اہم عہدے کے لیے ٹپ کیا جا رہا ہے‘‘۔ اس نے رقت انگیز آواز میں کہا۔
’’ہائیں ہائیں۔۔۔؟ میں نے ٹوسٹ بڑی مشکل سے نگلا۔
’’لو پانی پیو۔‘‘ جمیلہ نے مایوسی اور قناعت کے عالم میں گلاس میری طرف سرکا دیا۔
’’لیکن می می ڈارلنگ‘‘ ریحانہ کی آواز اس کے حلق میں رہ گئی۔ ’’کچھ اور فکر کی جائے گی۔ اللہ بڑا کار ساز ہے‘‘ رفعت نے ارشاد کیا۔
لیکن واقعی اب کے سے ایسی زور کی آندھی آئی ہے کہ پتنگ بالکل ہی اڑ گئی‘‘ جمیلہ نے تاسف کے ساتھ کہا۔
میں ان سب کو دیکھتی رہی۔ پھر میں نے نہایت خوش الحانی اور رقت کے ساتھ عرض کی۔
ارے آندھی چلی اڑ جاویں گے رنگ
چوں چوں چوں پانی پڑا بہہ جاویں گے رنگ
چوں چوں چوں ارے آگ لگی جل جاویں گے رنگ
چوں چوں چوں
داد تحسین کے شور سے ڈائننگ ہال گونج اٹھا۔ دوسری میزوں پر بیٹھی ہوئی لڑکیاں مڑ کر ہماری طرف دیکھنے لگیں۔
’’پھر تم لوگوں نے می می کی ٹانگ کھینچنی شروع کی۔ بجائے اس کے کہ ہمدردی سے کوئی ترکیب سوچو۔ ڈوب جاؤ تم سب‘‘ مار گریٹ نے ڈانٹا۔
’’سنو بھئی‘‘ میں نے کرسی پر اکڑوں بیٹھ کر سب کو مخاطب کیا۔ ’’ہاں ہاں۔ اب اوریکل آف ڈیلفی بول رہی ہے۔ اس کی سنو پہلے۔‘‘ اس خطاب کے لیے جو انگلش کے ایم۔ اے کی لڑکیوں نے بہت پہلے سے اور مرل اور بیرون کی نئی رنگین فلم ’’جنت میں ایک رات‘‘ دیکھنے کے بعد سے دوسری لڑکیوں نے مجھے یہ خطاب دے رکھا تھا۔ میں جھک کر تسلیم بجا لائی۔ اور پھر گلا صاف کر کے شروع کیا۔
’’اے محترم و بے وقوف خواتینو اس نہایت نازک موقع پر کیا بلیک میل سے کچھ مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا یعنی شکاگو اسٹائل کا ایک رقیب رو سیاہ اگر کہیں سے نمودار ہو جائے اور سرور کے مقابلہ پر آ کر ترنت سے سلطانہ سے شادی کر لے۔‘‘
’’کیوں کر لے تمہارا کوئی اجارہ ہے؟‘‘ ظاہر تھا کہ ریحانہ کو یہ تجویز بالکل نہیں جچی۔
’’ایں۔۔۔؟ اب میں اوریکل آف ڈیلفی ہوں کہ نہیں۔۔۔‘‘ میں نے بگڑ کر دریافت کیا۔
’’بالکل ہو۔۔۔ ٹھیک تو ہے ارے ہاں اب یہی کہ سلطانہ کسی اور کے ساتھ محبت میں گر جائے۔ اور می می ہماری کے لیے مطلع صاف۔‘‘
جمیلہ نے کامل اتفاق ظاہر کیا۔ ’’مگر کس کے ساتھ بھئی۔۔۔؟‘‘ نرملا نے پوچھا۔ یہ بڑا اہم سوال تھا۔ کیوں کہ مصیبت یہ تھی کہ سرور کے مقابلے پر اور کوئی پتنگ ٹھہرتی ہی نہیں تھی۔ افق پر ہر طرف بھائی سرور ہی سرور نظر آتے تھے۔
’’تم شہر خبرو ہو۔ ڈھونڈھ کر لاؤ کہیں سے ایک رقیب روسیاہ‘‘ جمیلہ نے مجھ سے کہا۔
’’اس ہفتہ اپنے گھر جاتے ہی سول لسٹ دیکھو‘‘ خالدہ توفیق نے پھر حکم لگایا۔ خوش قسمتی سے اگلے روز ہی رفعت یہ خبر لائی کہ ایک سچ مچ کا گلفام رقیب رو سیاہ جو دھاری دار پتلون اور ٹیل کوٹ پہنتا ہے۔ اور مونوکل لگاتا ہے۔ کل شام کلب میں سیکرٹری صاحب کے ساتھ نظر آیا تھا۔ اور فارن سروس میں اس کے لیے جانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اور کوئی تعجب نہیں کہ سلطانہ کے ابا میاں کی توجہ اس کی طرف منتقل ہو جائے۔ کیوں کہ انہیں کھلاڑی اور شہسوار اور اسپورٹس مین قسم کے آدمی بہت مرغوب ہیں اور رقیب بالکل جولوئی کا بھتیجا اور ڈون بریڈ میں کا نواسا اور غوث محمد کا چھوٹا بھائی ہے اور معتبر حلقوں میں یہ افواہ گرم ہے کہ آنے والے ٹینس ٹورنامنٹ میں سردار اور رقیب میں سے جو جیتے گا وہی سکتر صاحب کا منظور نظر قرار پائے گا۔
یہ ساری تفصیلات معلوم کر کے ہم لوگوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔
اگلے ہفتہ سالانہ ٹینس ٹورنامنٹ شروع ہوئے۔ ٹوٹ میرے پاس بھاگا بھاگا آیا۔
’’سرور کی مورل سپورٹ کے لیے ہم سب کا ٹورنامنٹ میں شرکت کرنا بے حد ضروری ہے کیوں کہ سنا ہے رقیب رو سیاہ بے حد قابل کھلاڑی ہے۔‘‘
’’ٹوٹ میں شامل تو ضرور ہوتی۔ لیکن مجھے اپنی عاقبت نظر آ رہی ہے۔ اتنے بڑے مجمع میں ریکٹ اٹھاتے ہی میری روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے گی۔‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’عاقبت واقبت کچھ نہیں۔‘‘ ٹوٹ نے ڈپٹ کر کہا۔ ’’کھینچ تان کر کسی طرح سیمی فائنلز تک تو پہنچ ہی جاؤ گی۔ آگے کا خدا حافظ ہے۔ ذرا غور فرماؤ کہ اس نازک وقت میں سرور کی مورل سپورٹ۔‘‘ مجھے بھی جوش آ گیا۔ اور یہ قطعی یاد نہ رہا کہ ہماری پالیسی یہ تھی کہ سرور ہار جائے۔
’’ضرور شامل ہوں گی۔ لکھو میرا نام۔‘‘ میں نے چلا کر کہا۔ اس نے فارم نکال کر سامنے رکھا۔ ’’لکھو مخدوم زادی سیدہ آنسہ‘‘ میں نے کہنا شروع کیا۔
’’کیا خرافات ہے۔ ٹھیک سے سیدھا سادا اپنا نام لکھنے دو۔ ٹوٹ نے قلم روک کر کہا۔ مجھے جلال آ گیا۔ ’’او کافر بچے۔ او موذی۔ او دشمن ایمان و دیں۔‘‘ میں نے چلا کر کہا۔ ارے کیا تو نہیں جانتا میرے نگڑ نانا نعمت خان علی جو شہنشاہ اورنگ زیب کے وزیر اعظم تھے۔ کس قدر پہنچے بزرگ تھے۔ اور میں خود اسے ہندو بچے اب اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ میں سالک ہوں۔ بہت جلد ابدال بن جاؤں گی۔ پھر قطب۔۔۔۔۔۔ کہ ایک قطب تو میں خود بننے والی ہوں۔ باقی کے تین کا پتہ نہیں۔ اور جناتوں کو میں تابع کرتی ہوں۔ کسی کو میری روحانیت پر شبہ کرنے کی کیا گنجائش ہے۔ کیا تو نے نہیں سنا او بے وقوف کائستھ بچے کہ۔۔۔‘‘
ٹوٹ نے چپکے سے میرا نام لکھ لیا اور سرپٹ جم خانہ کی طرف واپس بھاگا۔ شام کو سنا گیا کہ وہ بے حد فکر مندی سے جمیلہ سے کہہ رہا تھا۔
’’اس خالدہ توفیق کے ساتھ رہتے رہتے ہماری بچاری نین تارا کے دماغ کی چول بھی ڈھیلی ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ فائینلز کا دن بھی آ پہنچا۔ جم خانہ میں بڑی خلقت جمع ہوئی۔ بہت سے تماشائی دور بین لے کر درختوں پر چڑھ گئے۔ ہر طرف کیمرے لڑکیاں اور پریس والے نظر آ رہے تھے۔ سنگلز شروع ہونے سے پہلے دونوں کھلاڑیوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا گلے مل کر خوب روئے اور پھر کھیل شروع ہوا۔ مجھے لائنز وومن بنایا گیا تھا۔
بے حد پیارا موسم تھا۔ فضا میں ہلکی ہلکی گاتی گنگناتی غنودگی ایسی پھیل رہی تھی۔ کھیل دیکھنے کے بجائے میں کرسی پر بیٹھے بیٹھے پورے وقت سوتی رہی۔ جم خانہ آنے سے پہلے ہوسٹل میں جو چنڈو خانہ کلب کی اہم میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میں پہلے ہی یہ طے کر لیا گیا تھا کہ اگر سرور ہار گیا تو برگد والے شہید مرد کے مزار پر پانچ پیسے کی کھٹیاں چڑھائی جائے گی اس لیے اس طرف سے اطمینان تھا۔ مجمع کی مستقل مدھم بھنبھناہٹ تالیوں کی آوازیں ہمت افزائی کے نعرے، لڑکیوں کی باریک باریک تعریف یا افسوس کا اظہار کرنے والی چیخیں چاروں طرف میرے ارد گرد تیرتی رہیں۔ پھر یکایک خواب میں کچھ ایسا نظر آیا گویا کہیں فرقہ وارانہ فساد ہو رہا ہے۔ گھبرا کر میں نے آنکھیں کھول دیں۔ اور چپکے سے جمائی لے کر چاروں طرف نظر ڈالی۔
مجمع کی ساری آوازیں ایک ساتھ مل کر زور شور سے ان آؤٹ کی تکرار کر رہی تھیں۔ پھر دفعتاً بہت سارے لوگ میری طرف دوڑے۔ میں چونک کر اٹھ بیٹھی۔ ’’آؤٹ۔۔۔ آؤٹ۔۔۔؟‘‘
’’ان۔۔۔ ان۔۔۔؟‘‘
’’ایں۔۔۔؟؟؟‘‘ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا۔ ’’رقیب لیڈ کر رہا ہے۔ صرف ایک پوائنٹ اور اسکور کرنا ہے۔ اب پتہ نہیں گیند ان تھی یا آؤٹ‘‘ خالدہ توفیق نے تیزی سے میرے قریب آ کر جلدی جلدی بتایا۔
’’ان۔۔۔ ان۔۔۔‘‘ رقیب کے طرف دار چلائے۔ رپورٹر اور تماشائی اور لڑکیاں کیمرے سنبھال کر رقیب کی طرف دوڑے۔
’’ہاؤ سوئیٹ ہاؤ ڈیشنگ۔۔۔ مہربانی سے اپنا پروفائل دیجئے گا۔ تھری کوارٹرز۔۔۔ شکریہ۔۔۔ اک ذری مسکرائیے گا۔۔۔ ہاؤ کلنگ۔۔۔‘‘ لڑکیوں نے سرگوشی کی۔ اس پر دستخط کر دیجئے میں ہمیشہ مک لین استعمال کرتا ہوں۔ اصفہانی میری پسندیدہ چائے ہے۔ رقیب کے چاروں طرف مجمع زیادہ ہوتا گیا۔
’’ہا۔۔۔ اہو۔۔۔!! جالی چھلانگ کر سرور سب کے سامنے آ گیا ’’ہو۔۔۔!!‘‘ وہ چلایا۔ ’’سرور بھائی۔۔۔ کیمرے والے منتظر کھڑے ہیں۔ وہی ٹائرن پاور والی مسکراہٹ لاؤ ہونٹوں پر۔۔۔ شابش۔۔۔‘‘
خالدہ توفیق خوشی سے بے ہوش ہوتے ہوئے اس سے بولی۔ سب لڑکیوں نے می می کو گھیر لیا۔ ’’ہوہ۔۔۔! ان اسپورٹنگ مائی فٹ۔۔۔! یہ سراسر بے ایمانی ہے۔ گیند صفا آؤٹ تھی‘‘
سرور غرا کے بولا۔ ’’آؤٹ۔۔۔ آؤٹ۔۔۔‘‘ سرور کے طرف دار چلائے۔ ’’ریفری کہاں ہے بلاؤ ریفری کو‘‘ مجمع نے ایک ساتھ آواز بلند کی۔
ٹوٹ غریب ایک اونچی سی کرسی پر ہوا میں معلق تھا۔ ’’ارے یہ تو رویندر سکسینہ ہے سرور کا دوست‘‘ ہونہہ۔۔۔ چور کے گواہ گرہ کٹ‘‘۔ مجمع میں سے آوازیں آئیں۔ وہ سب پھر میری طرف دوڑے۔ ’’میں قطعی گرہ کٹ نہیں ہوں‘‘۔ میں نے سٹ پٹا کر آنکھیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ دھوپ تیزی سے میری آنکھوں میں گھسی جا رہی تھی۔ میں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے پہلو بدلا اور ہاتھ سے آنکھوں پر سایہ کر کے سامنے کے اس دیوانے منظر کو غور سے دیکھنا چاہا۔ ایسا باؤلا چنڈو خانے کا کھیل بھلا کبھی کا ہے کو ہو گا۔ یہ سب ہماری دعاؤں کی برکت تھی۔ شور میں اضافہ ہوتا گیا۔ مجھے غصہ آ گیا۔ ایسی اچھی نیند سے کم بختوں نے جگا دیا۔ جہنم میں جائے می می اور سرور اور سب گدھے۔ میری طرف سے سرور سلطانہ سے پچاس دفعہ شادی کر لے۔ مار ایک قیامت مچا رکھی ہے۔
’’لائنز وومن کو بلاؤ لائنز وومن سے پوچھو۔ کہاں ہیں مس۔۔۔‘‘ سب کے سب میری کرسی کے گرد جمع ہو گئے ’’سنئے مس۔۔۔‘‘
’’ارے اتنا چلا کیوں رہے ہیں آپ لوگ‘‘ میں نے جھنجھلا کر کہا ’’مجھے نہیں پتہ گیند لائن سے باہر گری تھی یا جہنم میں چلی گئی تھی۔‘‘
’’آپ کو پتہ نہیں تو آپ لائنز وومن کیوں بنی تھیں۔ واہ صاحب یہ اچھی رہی‘‘ لوگوں نے ایک دوسرے سے غصے سے کہا۔ میں نے جمائی لے کر پھر اپنا خواب وہیں سے جوڑ لینا چاہا جہاں سے ان بدتمیزوں کے شور سے وہ ٹوٹ گیا تھا۔ در اصل اس وقت مجھے اپنا تالاب شدت سے یاد آ رہا تھا۔ اور میں اتنے اچھے اچھے خواب دیکھ رہی تھی کہ بہت سے اونچے اونچے قلعوں کے برابر چوکولیٹ کیک ہیں جو میں خوب کھا رہی ہوں۔ اور کو کو کا ایک پورا حوض بھرا ہوا ہے۔ اور گرم گرم سموسے اور نیلی پہاڑیوں کے پردے والی جھیل اور شیفون کی ساریاں۔ ڈھیروں شیفون کی نئی نئی ساریاں۔ میں پھر سو گئی۔ اس کے بعد ٹھیک سے پتہ نہیں کیا ہوا۔
سنا گیا کہ پریس اور مووی ٹون نیوز والوں نے سٹ ڈاؤن اسٹرائیک کر دی کہ اتنا معرکہ کا تاریخی کھیل ہو رہا تھا۔ اور یہ کیا قیامت ہے کہ یہی طے نہیں ہو پایا کہ کون جیتا۔ آخر کار جم خانہ والوں کی ایک میٹنگ ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ دوبارہ کھیلا جائے۔ دوسری بار میں سرور جیت گیا۔ ہم سب انتہائی شکستہ دلوں کے ساتھ ہوسٹل واپس: ۔
’’اب کیا کیا جائے؟‘‘ خالدہ توفیق نے ٹریجک انداز سے پوچھا۔
’’لاؤ پانچ پیسے تو نکالو۔‘‘ جمیلہ نے بہت دیر بعد سرد آہ بھر کے مجھ سے کہا۔ ’’کیوں؟‘‘ میں نے بے دلی سے پوچھا ’’سرور تو جیت گیا۔‘‘ مجھے اپنی روحانیت اور جنات پن پر سے یقین اٹھتا جا رہا تھا۔
’’ارے لاؤ پانچ پیسے کی کٹھیاں چڑھائے دیتے ہیں۔‘‘ اللہ میاں کے ہاں ریزرو رہیں تو وقت بے وقت کام آئیں گی۔ کیا پتہ اب بھی کوئی ایسی وجہ نکل آئے کہ سلطانہ کی سرور سے شادی نہ ہو سکے۔ اللہ بڑا کارساز ہے‘‘ جمیلہ نے قلندرانہ شان سے کہا۔ مجھ پر بھی رقت طاری ہو گئی ہے۔ واقعی اللہ بڑا کارساز ہے۔
اس ویک اینڈ پر جب میں گھر سے ہوسٹل واپس آ رہی تھی۔ تو میرے پیارے بھائی ٹوٹ کا فون آیا۔ ’’ارے نین تارا‘‘ وہ جلدی جلدی بول رہا تھا ’’سنا کیا قیامت گذر گئی‘‘
’’کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ رقیب رو سیاہ نے خود کشی کر لی؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’اے نہیں تمہاری سلطانہ جو ہے‘‘
’’ارے زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا۔ نین تارا مجھے واللہ اب تک معلوم ہی نہ تھا کہ یہ سلطانہ کس قدر۔ بس کیا بتاؤں۔ فتنہ ہے فتنہ قیامت ہے۔ اسے کیا کہئے‘‘
’’ایں۔۔۔؟‘‘
’’ہاں سنو تو۔ اس سے سیاسی پے چیدگیاں تو یقیناً پیدا ہوں گی۔ لیکن قسمت میں یوں ہی تھا کہ آج صبح جب کہ ہندوستان کی گھڑیوں کے مطابق نو بجے تھے۔ میں سلطانہ کے ساتھ انتہائی شدید عشق میں گر جاؤں۔ چناں چہ میں گر گیا۔ اور اب اٹھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ موت کا ایک دن معین ہے تو وہ رات کے وقت کیوں آئے گی۔ اس سے تم پیاری نین تارا یہ مطلب نہ نکالنا کہ خدا نخواستہ میرے دماغ کی بھی کوئی چول ڈھیلی ہو گئی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سلطانہ۔۔۔ زبان پہ بار خدایا‘‘ میں نے جلدی سے ریسیور رکھ دیا۔ اور فوراً خالدہ توفیق کو رنگ کیا۔ ’’سنا تم نے خالدہ توفیق۔‘‘ میں نے جلدی جلدی بات شروع کی۔
لیکن خالدہ کوئی خبر سنانے کے لیے مجھ سے زیادہ بے تاب معلوم ہوتی تھی۔
’’آج کا اخبار دیکھا تم نے؟‘‘ اس نے تیزی سے پوچھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ یقیناً واقعات نہایت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے تھے۔
’’سلطانہ کے ابا میاں ٹمبکٹو کے سفارت خانے کے شارد افیئرز ہو گئے۔‘‘ ریسیور میرے ہاتھ سے چھٹ گیا۔ اور میں بے ہوش ہو گئی۔ اتوار کے روز ہم لوگ دن بھر یہ پروگرام بناتے رہے کہ سلطانہ، سرور ویڈنگ میں کیا پہن کر جائیں گے۔ ایک روز میں اپنے ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھی آئی۔ اے رچرڈز کی نفسیاتی تنقید پر ایک ضخیم اور منحوس کتاب سے دماغ لڑانے کی کوشش میں مشغول تھی۔ کہ می می آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ’’ہلو می می ڈارلنگ۔۔۔‘‘ میں نے کتاب پر سے سر اٹھائے بغیر اس سے کہا۔ ’’ہلو۔۔۔‘‘ وہ چپ رہی۔ تھوڑی دیر تک کمرے میں خاموشی سی طاری رہی۔ پھر میں نے سوچا۔ اس سے باتیں کرنی چاہئیں۔
کتاب بند کرنے کے بعد بازو پھیلا کر ایک زور دار اور تھکی ہوئی انگڑائی لے کر، کیوں کہ پچھلے چند ہفتے اتنے ہنگامہ خیز گذرے تھے۔ میں نے گفتگو کا کوئی موضوع سوچنا چاہا۔
’’نین تارا۔۔۔‘‘ اس نے دھیرے سے کہا۔
’’فرماؤ۔۔۔‘‘ میں نے شگفتگی سے جواب دیا۔
’’اس وقت تم سوبر ہو۔۔۔؟ اس نے رک کر مجھے اپنی کاہل پر اسرار اور رنجیدہ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’سوبر۔۔۔؟‘‘ میں کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’تو کیا تمہارے نزدیک میں ہمیشہ ہی دیوان پنے کی باتیں کرتی ہوں؟ میں تو بہت سنجیدہ فلسفی بقراط جالینوس آدمی ہوں بھائی۔۔۔!!‘‘ وہ خاموش رہی۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے کہا ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں بہت دکھی ہوں۔۔۔؟ معلوم ہے تمہیں۔۔۔؟ نہیں تم یہ نہیں جان سکتیں۔ تم جوہر وقت پکچرز اور ٹینس اور سوئمنگ کی حماقت خیز اور فضول باتیں کرتی رہتی ہو۔ تم نہیں سمجھ سکتیں شاید اسی لیے تم نین تارا ہو‘‘ وہ آج پہلی بار مجھے نین تارا کہہ کر مخاطب کر رہی تھی۔
’’سنا تم نے نین تارا‘‘ وہ کہتی رہی۔
’’مجھے تمہارا نام بہت پسند ہے۔ مجھے اتنی بہت سی چیزیں پسند ہیں۔ خوب صورت نام۔ خوب صورت باتیں۔ خوب صورت کائنات۔ تم ٹھیک کہتی تھیں۔ کائنات بے حد حسین ہے۔ لیکن اس حسین کائنات میں دکھی انسانوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اس سے اس کے حسن پر حرف آتا ہے۔‘‘
’’سنو می می۔۔۔‘‘ میں نے سنبھل کر بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’کیا تم سچ مچ اپنے آپ کو اتنا دکھی سمجھتی ہو۔۔۔؟‘‘ وہ خاموش رہی اور نظریں گھما کر دریچے کے باہر دیکھنے لگی۔ جہاں درختوں کے پتے بارش کے پانی میں جھکے جا رہے تھے۔
کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر چلی گئی۔ میں نے کاہلی سے کشنوں پر بازو پھیلا دیئے۔ اور فرش پر اوندھے لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ می می۔ می می بہت دکھی تھی۔ یا اللہ۔۔۔ میں اسی طرح لیٹی رہی۔ اور سکون اور آرام کے ساتھ آنکھیں بند کیے مجھے اس وقت دفعتاً وہ لڑکی یاد آئی جو کچھ عرصہ ہوا میں نے ریڈیو اسٹیشن پر دیکھی تھی۔ اس روز جب میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا۔ وہ اسٹوڈیو میں ایک طرف کو چپ چاپ اور اکیلی بیٹھی بے دھیانی سے کچھ گنگنا رہی تھی۔ جب میں نے ہیڈ فون اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور اسے دیکھا۔ مجھے ان لوگوں سے چڑ تھی۔ اس کی آنکھیں گلابی تھیں۔۔۔ لپ اسٹک کا رنگ بے حد شوخ تھا۔ گہرے نیلے رنگ کی روپہلے ستاروں والی ساری پہن رکھی تھی۔ اور ہاتھ میں بڑا سا ریشمی رو مال تھا جس سے وہ اپنے چہرے کی نمی خشک کرتی تھی تو اس کی چوڑیاں بار بار کھنکھنا جاتی تھیں۔ مجھے اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر سخت الجھن ہوئی۔ اس وقت تک پروفیشنل گانے والیوں کو ریڈیو پر گانے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔ وہ ریڈیو اسٹیشن پر آتی تھیں۔ اور ہمارے اسٹوڈیوز سے باہر نکلنے کے بعد اندر جاتی تھیں۔ یا پہلو کے کسی برآمدے میں یا پچھلے لان کے خیمے میں تخت پر بیٹھ کر اپنے سازندوں کے ساتھ گانے کی دھیرے دھیرے مشق کرتی رہتی تھیں۔ یا اسٹوڈیوز کی اسٹینڈ بائی قسم کے لوگوں کو پان کھلاتی تھیں۔
وہ میرے پاس اسی طرح کھڑی رہی۔ پھر اس نے لڑکھڑاتی ہوئی رنجیدہ آواز میں کہا ’’آج شام کو آپ اناؤنس کیجئے گا‘‘
’’جی نہیں‘‘ میں نے بادل نخواستہ مختصر سا جواب دیا۔ اور پھر گھڑی کی طرف دیکھنے لگی۔ اور مائک پر جا کر کنٹرول والوں سے کہا ’’مجھے پانچ منٹ بعد یہ اسٹوڈیو چاہئے‘‘ وہاں سے جواب آیا ’’بہت اچھا‘‘ وہ پھر وہیں کھڑی رہی۔
میں نے دوبارہ گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر بے تعلقی سے کاغذات الٹنے پلٹنے لگی۔ تاکہ کسی طرح یہ عورت سمجھ جائے کہ اس کی موجودگی مجھے ناگوار گذر رہی ہے۔ ایک چپراسی اندر آیا۔ میں جان کر بے حد جھنجھلا کر چلائی۔ ’’شاہ صاحب کہاں ہیں؟ بھجوائیں فوراً میں زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتی۔‘‘ چپراسی باہر چلا گیا۔ میں پھر مائیک پر جا کر چلائی ’’مجھے نمبر ون ابھی چاہئے۔ یہاں کسی اور پروگرام کی ریہرسل نہیں ہو گی۔‘‘
وہ پھر بھی میز کے قریب لیمپ کے نیچے کھڑی رنجیدہ نظروں سے مجھے تکتی رہی۔ آخر تنگ آ کر میں کھڑی ہو گئی۔ ’’میں یہاں سے چلی جاؤں؟‘‘ اس نے رسان سے پوچھا۔ ’’جی نہیں۔ بیٹھی رہیے‘‘ میں نے جھنجھلا کر جواب دیا۔
’’آپ کا پروگرام کس وقت ہے۔۔۔؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں آٹھ بجے عشرت رحمانی کے سنگیت روپک میں گاؤں گی۔‘‘ اس نے گھٹنے ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’آپ یہاں کیا کرتی ہیں؟‘‘ کچھ وقفے کے بعد اس نے پوچھا۔ مجھے سخت غصہ آیا۔ اور میں خاموشی سے اسکرپٹ کے کاغذات الٹنے پلٹنے لگی۔ پھر یک لخت اس نے دھیرے دھیرے گنگنانا شروع کر دیا۔ ستم گر تیرے لیے۔۔۔ میں نے لاکھوں کے بول سہے میں نے۔۔۔ لاکھوں کے بول سہے۔۔۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ دیر تک اسی طرح گنگناتی اور اپنی بڑی بڑی گلابی آنکھیں سستی سے سے ادھر ادھر گھما کر دیکھتی رہی۔ آخر میں تنگ آ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔
چند روز بعد وہ پھر مجھے اسی اسٹوڈیوز میں نظر آئی۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر بے حد دل آویز طریقے سے مجھے سلام کیا۔ گویا میری بہت پرانی دوست ہے اور اسی پر اسرار انداز سے پھر میری میز کے قریب آ کھڑی ہوئی ’’آج آپ کون سے ریکارڈ بجا رہی ہیں؟ سہگل کا کوئی گانا لگائیے‘‘۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ ایک اسٹول پر بیٹھ گئی۔ اس روز بھی وہ یقیناً پئے ہوئے تھی اور اس کی سرخ زرتار ساری اصغر علی محمد علی کے ہاں کی کسی تیز خوشبو سے مہک رہی تھی۔
باہر آ کر میں نے ایک پی اے سے کہا۔ ’’تم ان لوگوں کو بلا ضرورت کیوں اندر آ جانے دیتے ہو‘‘۔
’’ارے وہ تو بے چاری بڑی شریف لڑکی ہے۔ بہت دکھی ہے‘‘ اس نے جواب دیا۔ اور ڈھیلے ڈھیلے قدم رکھتا آگے چلا گیا۔ میں جھنجھلا اٹھی۔ کیا مصیبت ہے۔
می می دکھی ہے۔ ٹوٹ دکھی ہے۔ یہ کم بخت دکھی ہے۔ اسے کیا دکھ ہے۔ پھر جب میں ریکارڈ لگا لگا کر ٹسٹ کر رہی تھی۔ اس نے ایک ریکارڈ کے ساتھ آہستہ آہستہ گانا شروع کر دیا۔ یہ قطعی ناقابل برداشت تھا۔ میں نے ترشی سے کہا ’’مہربانی سے کام میں مخل نہ ہوئیے‘‘
’’بہت اچھا‘‘ اس نے فرماں برداری سے جواب دیا۔ اور چپ ہو گئی۔
پھر یک لخت اس نے رونا شروع کر دیا ’’اللہ۔ کیا مصیبت ہے۔ بھئی خدا کے لیے کسی طرح اسے یہاں سے نکالو‘‘ میں نے ایک چپراسی سے کہا۔ اس کی گلابی آنکھوں میں آنسو ڈبڈباتے رہے۔
پھر دفعتاً وہ خود ہی اٹھ کر باہر چلی گئی۔ اس کے بعد میں نے اسے پھر کبھی نہ دیکھا۔ وہ مجھے کبھی یاد نہ آئی۔ ان گنت انسان روز ہماری نظروں کے سامنے سے گذرتے رہتے ہیں۔ ایسے ایسے غیر ضروری بدمعاش، شرابی لوگوں کو کون یاد رکھے گا۔
مدتیں گذر گئیں۔ ایک روز میرے پیارے بھائی ٹوٹ نے نئے لسنر کی ایک تصویر دیکھتے ہوئے تاسف کے ساتھ کہا: ’’دیکھا تم نے نین تارا۔۔۔ یہ بے چاری مکر گئی۔ اچھی شکل تھی۔ اور اچھا گاتی تھی۔ باجو بند کھل کھل جائے اور میں نے لاکھوں کے بول سہے، کس غضب کا الاپتی تھی غریب۔۔۔ مر گئی بے چاری‘‘
’’کون۔۔۔؟ کیوں مر گئی۔۔۔‘‘ میں نے بے خیالی سے پوچھا۔
’’پتہ نہیں‘‘ ٹوٹ نے جواب دیا ’’کہتے ہیں بہت دکھی تھی۔ کسی سے اسے انتہا کی محبت تھی۔ سچی محبت لیکن اس شخص نے اس کا یقین نہیں کیا۔ اور اسے چھوڑ کر کہیں چلا گیا اور وہ مر گئی‘‘۔
’’اس میں کون خاص بات ہے‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہمیشہ ایسا ہوتا ہے۔ ازل سے لے کر آج تک کی کوئی کہانی اٹھا کر دیکھ لو۔ یہی پٹی ہوئی داستان ہر جگہ موجود ہے۔ اس قدر بوریت ہے۔ اس نے کون سا بڑا اوریجنل کام کیا۔‘‘
ٹوٹ چپ ہو گیا۔ وہ مجھ سے بحث کرنے سے ہمیشہ بچتا ہے۔ پھر۔۔۔ وہیں ہوسٹل کے کمرے کے فرش پر کاہل بلی کی طرح آنکھیں بند کیے لیٹے لیٹے، جب کہ باہر بارش ہو رہی تھی۔ مجھے ان سب کا خیال آیا۔۔۔ کلب میں شراب پینے والی خواتین، ریڈیو اسٹیشن پر آنسو بہانے والی وہ مغنیہ۔۔۔ اور وہ عجیب و غریب لڑکی جو کچھ عرصے تک ہوسٹل میں سب کی سرگوشیوں کا موضوع بنی رہی تھی۔ اور جسے آخر کار ہوسٹل چھوڑ دینا پڑا۔ ایک روز اس نے مجھ سے کہا ’’مجھ سے تو تم کبھی باتیں کرتی ہی نہیں ہو‘‘۔ میں نہایت خوش خلقی کے ساتھ اس کے کمرے میں گئی۔ اور ہم دیر تک ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ اس کی میز پر بہت سا الم غلم پڑا تھا۔ خوب صورت پھول۔ امریکن اداکاروں کی رنگین تصویریں۔ چھوٹے خوشنما ٹرنکٹ اور اسی قسم کی دوسری غیر ضروری خوب صورت چیزیں جو ہر نارمل لڑکی کو بے حد عزیز ہوتی ہیں۔ اس نے دفعتاً مجھ سے کہا ’’یہ سب تم لے لو بھئی۔‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’میری میزوں اور الماریوں کی درازوں میں تو اس سے بھی زیادہ بڑا کباڑ خانہ جمع ہے۔ میں یہ لے کر کیا کروں گی؟‘‘
’’نہیں، تم یہ سب بھی لے جاؤ۔ تم بہت اچھی ہو۔ تم نین تارا ہو‘‘۔ اس نے کہا میں نے کسر نفسی سے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور اسے یقین دلایا کہ مجھے ان چیزوں کی قطعی ضرورت نہیں۔ وہ اپنی پر اسرار نگاہوں سے کھڑکی کے باہر دیکھتی رہی۔ جہاں ہوسٹل کا دھوبی گھاس کے وسیع سبز قطعے پر رنگ برنگی ساریاں پھیلا رہا تھا۔ اور ہوا میں سوئیٹ پی اور ہار سنگار کی مہک تیر رہی تھی۔
پھر کچھ دیر بعد اس نے رنجیدہ آواز میں کہا ’’تمہیں میری چیزیں پسند نہیں آئیں۔ حالاں کہ تم نین تارا ہو‘‘۔ چند روز بعد وہ ہوسٹل چھوڑ کر چلی گئی۔ اس کے کانونٹ سے اس کے متعلق ایک بہت بڑی رپورٹ آئی تھی۔ جس کی وجہ سے ہمارے کالج کے سارے ہوسٹلوں کی وارڈ کی ایک میٹنگ بھی ہوئی تھی۔ کچھ عرصے تک ڈائننگ ہال کی میزوں اور چیپل کی سیڑھیوں پر اس کا تذکرہ رہا۔ لیکن جلد ہی ہوسٹل اور کالج کی بھر پور زندگی کے دوسرے نئے نئے موضوعات نے اس کی جگہ لے لی۔ اس کی زندگی کا پس منظر کیا تھا۔ وہ اب کہاں ہو گی۔ کیا کر رہی ہو گی۔ کوئی کچھ نہیں جانتا۔ ہماری زندگی میں اس طرح بہت سے انسان داخل ہوتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے ہمارے سامنے ٹھٹھک کر آگے چلے جاتے ہیں۔ مجھے ان سب کا خیال آیا۔ طرح طرح کے انسان، موٹی عورتیں۔ دہلی عورتیں اسٹریم لائنڈ آوارگی کرنے والی سوسائٹی کی خواتین، شریف پاک باز، لاج ونتی، ستوونتی عورتیں، خفقان زدہ عورتیں، بننے والی لڑکیاں۔ کیا زندگی ہے، کیا دنیا ہے۔
’’خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔‘‘ ٹوٹ نے ایک بار آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے مظلومیت کے ساتھ کہا تھا۔‘‘
بنو مت ٹوٹ‘‘ میں نے اس سے کہا۔
’’میں واقعی بے حد سادہ دل ہوں نین تارا‘‘ وہ بولا۔
’’ہو گے۔۔۔ پھر اس کا دوسروں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ تمہاری ہی حماقت ظاہر ہوتی ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا تھا۔
باہر بارش ہوتی رہی۔ شام کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ اکتا کر میں نے لیمپ روشن کیا اور آئی۔ اے رچرڈز کی نفسیاتی تنقید اٹھا لی۔ ایک روز ویک اینڈ کے لیے گھر گئی۔ ٹوٹ اور جمیلہ مجھ سے پہلے ہی وہاں موجود تھے اور بے حد اہمیت کے ساتھ رازدارانہ لہجے میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ مجھے آتا دیکھ کر چپ ہو گئے۔
’’نین تارا کو نہیں بتائیں گے‘‘ جمیلہ نے چپکے سے ٹوٹ سے کہا۔
’’ہاں نین تارا کو نہیں بتائیں گے۔ اسے بڑی جلدی شوک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ ٹوٹ نے اسی سرگوشی کے لہجے میں اسے جواب دیا۔
’’مجھے کیا نہیں بتاؤ گے بھئی؟ کیا چوروں کی طرح کانا پھوسی لگا رکھی ہے۔‘‘ میں نے ان کے قریب پہنچ کر بے حد دل چسپی کے ساتھ کان کھڑے کرتے ہوئے کہا۔
’’کچھ نہیں‘‘۔ ٹوٹ نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔ ’’در اصل۔ می می کو ہم نے کل شام کلب میں دیکھا کہ۔۔۔‘‘
جمیلہ نے کہنا شروع کیا۔ ’’کہ قلابازیاں کھا رہی تھی؟‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’ارے نہیں بھئی۔ اس کے ہاتھ میں۔۔۔ اس کے ہاتھ میں۔۔۔‘‘ جمیلہ رک گئی۔
’’شیری کا گلاس تھا۔‘‘ ٹوٹ نے شکستہ دلی کے ساتھ بات پوری کر دی۔ ہم تینوں چپ ہو گئے۔ ’’ممکن ہے ٹماٹر کا عرق رہا ہو‘‘ کچھ دیر بعد میں نے آہستہ سے کہا۔ اسی وقت رفعت آن پہنچی۔ اس کے ہاتھ میں حکومت کے غیر معمولی گزٹ کا تازہ پرچہ تھا۔
’’یہ دیکھو‘‘ اس نے کہا۔
’’اب کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ جمیلہ نے اکتا کر پوچھا۔
’’ہوتا کیا۔ سرور کے تبادلے کا حکم آ گیا ہے۔ وہ فوراً جا رہا ہے۔ اور اس لیے سلطانہ سے اس کی شادی ملتوی ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
یہ طے شدہ بات تھی کہ رفعت چنڈو خانہ کلب کی سب سے مستعد رپورٹر تھی۔ لیکن ہم لوگ اس قصے سے اب اتنے اکتا گئے تھے کہ کسی نے بھی اس خبر پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ ہم سب افیمچیوں کی طرح گھاس پر بیٹھے رہے۔
’’ہلو۔۔۔!!‘‘ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ رفعت کے پیچھے خالدہ توفیق اپنی برق رفتاری کے ساتھ چلی آ رہی تھی۔ ’’ہلو۔ خدا حافظ‘‘ وہ ایک لحظہ کے لیے ہمارے سامنے ٹھٹھک کر چلائی۔
’’کیا قصہ ہے خالدہ توفیق۔ اب تم کہاں بھاگی جاتی ہو‘‘۔
’’میں‘‘ میں نے مری ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’فلک رقاص بازی آنچناں کرد
زہر کس از خلل نقل مکاں کرد‘‘
جلدی جلدی یہ کہہ کر وہ اپنی تیز رفتاری سے آگے بڑھ گئی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے ہم سب میر حسن کی کسی مثنوی کے کردار ہیں۔ میرا جی چاہا کہ گرج کر خالدہ توفیق ہی کی زبان میں اسے جواب دوں۔ تاکہ بالکل نوٹنکی کا مزہ آ جائے لیکن اس قسم کا کوئی شعر اس وقت میرے دماغ میں نہ آیا۔ میں پھر افیمچیوں کی طرح چپکی بیٹھ گئی۔
کالج ٹرم ختم ہونے والی تھی۔ دوسرے روز میں اپنی ہری وادی کی طرف واپس جا رہی تھی۔ شام کو میں نے می می کو کلب میں دیکھا۔
’’می می۔ می می۔ چلو میرے ساتھ۔۔۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔ ’’نہیں میں یہیں رہوں گی‘‘ اس نے بچوں کی سی ضد کے ساتھ کہا۔
’’تم یہیں رہو گی؟‘‘ میں نے اس کی بات دہرائی۔ اور اپنے چاروں طرف نظر ڈالی۔
کلب کی عمارت جگمگا رہی تھی۔ بینڈ پر کوئی افسردہ سا نغمہ بجا رہا تھا۔ پام گرد میں کوک ٹیل کے گلاس تھے۔ ’’اچھا خدا حافظ بھئی می می۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
میں وادی میں واپس آ گئی۔ وہاں پر شفاف نیلگوں پانی والا تالاب، سفید خود رو پھول۔ گلہریاں، خرگوش، صنوبروں کے جھنڈ، سب اسی طرح موجود تھے۔ پر سکون اور مطمئن۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر ان سب چیزوں کے حسن کو محسوس کیا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر میں اپنے سبز رنگ کے تولیہ کے ڈریسنگ گاؤن اور سوئمنگ کوسٹیوم کا بیگ کندھوں سے لٹکا کر ’ٹارا لارا‘ گاتی وادی کی پگڈنڈی پر آگے بڑھی اور چناروں والے راستے پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ میرے سامنے نیلی پہاڑیوں کا سلسلہ سورج کی ارغوانی کرنوں کے ساتھ ساتھ دھند میں آہستہ آہستہ نمودار ہو رہا تھا۔ میں چلتی رہی۔ پگڈنڈی پر میرے ساتھ جنگل کے سارے پرند اور گلہریاں اور خرگوش ادھر اُدھر کودتے جا رہے تھے۔ اور چلتے چلتے دفعتاً ٹھنڈے روپہلے پانی کی لہریں مارتی جھیل میری تھکی ہوئی آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ میں نیلی پہاڑیوں سے پرے نکل آئی تھی۔
میں نے تھک کر اپنا بیگ ایک پتھر پر رکھ دیا اور سستانے کے لیے جھیل کے کنارے ایک پرانے درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔ جس نے پانی کی سطح پر سایہ کر رکھا تھا۔ شاید یہی وہ جگہ ہے جہاں تک پہنچنے کا مجھے عمر بھر انتظار رہا ہے۔ میں نے چپکے سے اپنے آپ سے کہا۔ میں نے بہت سے ستارہ سحری کے پھول جمع کیے۔ اور کچی چیری اور آڑو۔ اور میں نے سوچا کیا پروا ہے۔ اگر میری کہانیاں پڑھنے والوں کو پسند نہیں آتیں۔ میری بنائی ہوئی تصویروں کو دیکھ کر رائل اکیڈمی والے ہائی برو نقاد ناک بھوں چڑھا کر ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ یہ لڑکی پکاسو کی ٹانگ جانے کاہے کو توڑتی ہے۔ سورج کی نرم کرنیں میرے چاروں اور بکھر رہی تھیں۔ اور پانی کی سطح پر سفید کنول اور روپہلے پروں والے راج ہنس تیرتے پھر رہے تھے۔ اور کنارے پر جنگلی گلہریاں اپنی پچھلی ٹانگوں پر بیٹھی ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ ہاں واقعی مجھے کیا پروا ہے۔ میں نے سوچا۔ کیوں کہ میں نے اپنا وژن دیکھ لیا تھا۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید