صفحات

تلاش کریں

ناولٹ:شکستہ پر (بیگ احساس)

(مجموعے ’دَخمہ‘ سے ایک طویل کہانی)
دس برس بعد سمیر اور سشما کی ملاقات ہوئی تو دونوں نے شادی کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی اور ایک روز چپکے سے شادی بھی کر لی۔ ان برسوں میں دور رہ کر دونوں کافی کچھ کھو چکے تھے۔ سشما نے جب اپنی ممی کو شادی کی بات بتائی تو اُنھوں نے صرف اتنا ہی کہا کہ وہ فوراً گھر چھوڑ کر سمیر کے پاس چلی جائے۔ ساتھ ہی سمن کو بھی لے جائے۔ جس کی اولاد اسی کے ساتھ رہے تو بہتر ہے۔ سشما کے پاپا نے ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی کا رول ادا کیا۔

اور سشما سمیر کے گھر آ گئی۔ لیکن سمن نے آنے سے صاف انکار کر دیا۔

’’میں سمجھاؤں گا اسے‘‘۔ پاپا نے کہا۔

سمیر کے گھر آ کر سشما کو ایک کھلی فضاء کا احساس ہوا۔ کتنے دنوں سے وہ گھٹ رہی تھی۔ زندگی اسے اس طرح واپس ملے گی، اس نے سوچا ہی نہ تھا۔ نہ یہ کہ وہ خود اپنی زندگی جیے گی۔

خواہشوں کے پرندوں نے ایک ساتھ زور لگایا اور جال سمیت اُڑنے لگے۔ خوابوں کی گڑیاں جنھیں اس نے دل کے کسی کونے میں پھینک دیا تھا۔ ایک ایک کر کے نکالیں۔ ان کی گرد صاف کر کے بڑے چاؤ سے سجانے لگی۔

کھانے کی میز پر پہلا نوالہ اپنے ہاتھ سے سمیر کو کھلانا اور اس کے ہاتھ سے خود پہلا لقمہ لینا۔۔۔ آفس جاتے وقت گال یا ہونٹ آگے بڑھا دینا۔۔۔

آفس پر دو تین فون۔۔۔ لنچ کیا کہ نہیں؟ جلد گھر آ جایئے۔ آتے ہوئے پزا ہٹ پر آرڈر دیتے آیئے۔

خوبصورت بیڈ۔ بے داغ چادر پر گلاب کی پتیاں بکھیر دینا۔ سوتے میں کوئی پتی گال یا جسم کے کسی حصے پر چپک جائے تو اسے ہونٹوں سے نکالنا۔

دونوں کا ایک سفید چادر اوڑھے برہنہ سونا۔ رات دیر گئے تک فیشن چینل اور گندی گندی فلمیں دیکھنا۔

صبح انگریزی فلموں کی ہیروئین کی طرح چادر میں جسم لپیٹے باتھ روم کے دروازے تک جانا اور ایک دم چادر چھوڑ کر باتھ روم میں گھس جانا۔

شاور کے نیچے اکٹھے نہانا۔

گریٹنگ کارڈ پر دستخط کی جگہ لپ اسٹک سے رنگے ہونٹوں کے نشان ثبت کرنا۔ ویک اینڈ پر لمبی ڈرائیو پر جانا۔ موٹر سائیکل پر سمیر کے ساتھ اس طرح چمٹ کر بیٹھنا کہ درمیان سے ہوا بھی نہ گزر سکے۔ جسم کے سارے نشیب و فراز سمیر کی پشت میں مدغم کر دینا۔

کسی ریسورٹ میں جا کر واٹر گیمس کھیلنا، خوب بھیگنا اور ٹرانسپرنٹ ہو جانا۔

گھر میں جینز، شارٹس اور لنگریز پہن کر گھومنا، پابندی سے بیوٹی پارلر جانا، فیشل، پیڈی کیور، مینی کیور۔۔۔ اسٹیپ کٹنگ۔

ہفتہ بھر میں اس کی تازگی لوٹ آئی۔ وہ جل تھل ہو گئی۔





۲



ایک روز دروازے پر سشما کے پاپا کے ساتھ سمن کھڑی تھی۔

’’اب یہ یہیں رہے گی‘‘۔ پاپا نے کہا۔

سشما نے مارے خوشی کے اسے لپٹا لیا۔

’’پاپا سمن مان گئی؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

’’تم اپنی ممی کو جانتی ہونا۔۔۔ وہی کرتی ہیں جو چاہتی ہیں، سمن کے ماننے نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے‘‘۔

اب جو بھی ہو، سشما نے سوچا، وہ ممی سے جیت گئی۔ سمیر کمرے سے باہر آیا۔

’’اب یہ تمھارا گھر ہے‘‘۔ پاپا سمن سے کہہ رہے تھے۔ ’’یہ تمہارے ڈیڈی ہیں‘‘۔

اُنھوں نے سمیر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ سمیر حیرت زدہ رہ گیا۔ یہ وہی لڑکی ہے جو برسوں پہلے سشما کی انگلی تھامے اس سے ملی تھی۔

’’یہ میری بیٹی سمن ہے۔۔۔ بیٹے وِش کرو‘‘۔

’’یہ سمن ہے‘‘۔ پاپا کہہ رہے تھے۔

’’ہیلو بیٹا‘‘۔ سمیر نے کہا۔

’’ہیلو انک۔۔۔‘‘ سمن کی زبان لڑ کھڑا گئی۔

’’آؤ۔۔۔ ہمارے پاس بیٹھو‘‘۔ سمیر نے محبت سے کہا۰

تھوڑی دیر بعد جب پاپا لوٹ رہے تھے تو سمن انھیں چھوڑنے دروازے تک آئی۔

’’پاپا‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

’’میں آتا رہوں گا بیٹا۔ تم بھی جب جی چاہے آ سکتی ہو۔ کیوں سشما؟‘‘

’’ہاں۔ ہاں۔ کیوں نہیں‘‘۔ اس طرح سمن گھر آ گئی۔

سمن چپ چاپ سی رہتی۔ اکثر کالج کی کتابیں یا میگزین لے بیٹھتی۔ شام کے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ اکثر کالج سے لوٹتے ہوئے بڑی ممی اور پاپا سے ملنے چلی جاتی۔ رات زیادہ ہو جاتی تو پاپا چھوڑ جاتے۔ سشما کو بہت بُرا لگتا۔ جب ممی پاپا نے تعلقات ختم کر دیے تو یہ کیوں ان کے پاس جاتی ہے؟ وہ اکثر سمیر سے اس کا ذکر کرتی اور بے بسی سے رونے لگتی۔ ممی نے مجھے ماں بننے بھی نہیں دیا۔ سمیر اسے دلاسہ دیتا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

چھٹی کا دن تھا۔ سب دیر سے جاگے۔ اطمینان سے ناشتہ کرنے لگے۔ سشما سمیر کو بتانے لگی کہ اس کی ممی نے کس طرح اس کی زندگی کو عذاب بنا دیا تھا۔ کم سنی میں شادی بھی انھیں کا فیصلہ تھا۔ علیحدگی اور طلاق کا فیصلہ بھی اُنھوں نے ہی کیا تھا۔ اور جب وہ گھر آ گئی تو ملازمہ بنا کر رکھ دیا تھا۔

’’ممی پلیز‘‘۔ سمن نے ٹوکا۔

’’کیا ہے؟‘‘

’’پلیز بڑی ممی اور پاپا کے بارے میں کچھ نہ کہیے، مجھے بُرا لگتا ہے‘‘۔

’’اور اُنھوں نے جو میری زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا تھا۔ اس کا کیا ہے؟‘‘

’’پتہ نہیں ممی کس نے کس کی زندگی کو جہنم بنایا ہے‘‘۔ وہ کھانا چھوڑ کر اُٹھ گئی۔

’’سمن!‘‘ سشما نے تیز لہجے میں کہا۔

سمیر نے اسے منع کیا اور خود اس کے کمرے میں گیا۔ سمن غصے سے لیٹی ہوئی تھی۔

’’بہت چاہتی ہو بڑی ممی کو۔۔۔‘‘

’’ہاں پاپا کو بھی‘‘۔

’’اور اپنی ممی کو۔۔۔؟‘‘

وہ خاموش رہی۔

’’تم نے جواب نہیں دیا؟‘‘

’’وہ مجھے ممی جیسی لگتی ہی نہیں‘‘۔

’’اچھا میں تو ڈیڈی جیسا ہوں نا؟‘‘

’’نہیں۔ ڈیڈی جیسے تو پاپا ہیں‘‘۔

’’اور میں۔۔۔؟‘‘

’’آپ اچھے ہیں، بہت اچھے‘‘۔ وہ سمیر سے لپٹ گئی۔

دھیرے دھیرے وہ کھلنے لگی۔ وہ سمیر کو بے تکلفی سے ڈیڈی پکارنے لگی۔ سمیر اس کی پڑھائی میں مدد کرتا۔ آفس سے لوٹتے وقت بڑا سا چاکلیٹ یا برگر لے آتا۔ کبھی اس کے ساتھ بیٹھ کر سیریل دیکھتا، سمن بھی کئی باتیں سمیر سے شیئر کرنے لگی تھی۔ کبھی اس کے بازو پر، کبھی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتی اور کالج کے قصے سناتی۔ کبھی دونوں مل کر اونچی آواز میں کوئی نیا گیت گانے کی کوشش کرتے اور جب بول یاد نہ آتے تو گانا چھوڑ کر ہنسنے لگتے۔ سشما چائے اور پکوڑے تیار کرتی۔ بہت دنوں سے وہ بڑی ممی اور پاپا کے پاس بھی نہیں گئی تھی۔

اس صورت حال سے سشما بے حد خوش تھی۔ سشما کو خوف تھا کہ پتہ نہیں سمیر سمن کو قبول کرے گا بھی یا نہیں۔ لیکن اب سمن سشما سے زیادہ سمیر کی دوست تھی۔ دونوں نے ہر طرح سے اس کی دل جوئی کی۔ چند دنوں میں ہی سمن کے اندر کی ہنس مکھ، بے تکلف بے باک لڑکی باہر نکل آئی۔







۳



سمن سے مطمئن ہو کر سشما پھر سے اپنی دنیا میں لوٹ آئی۔

ناشتے کی میز پر سشما نے پہلا نوالہ سمیر کی طرف بڑھایا۔ سمن نے بھی بڑی پھرتی سے سمیر کو نوالہ پیش کیا۔

’’ڈیڈی پہلے میرا نوالہ‘‘۔

سمیر نے سمن کا نوالہ لے لیا۔ سشما نے شکایتی نظروں سے سمیر کی طرف دیکھا اور وہ نوالہ پلیٹ میں واپس رکھ دیا۔

’’ممی کو بھی کھلاؤ‘‘۔

’’نئیں۔۔۔‘‘ سمن نے ہنس کر انکار کر دیا۔

’’ممی کو ہم کھلائیں گے‘‘۔ سمیر نے سشما کے چہرے کا رنگ بدلتا دیکھ کر کہا۔

’’رہنے دیجئے‘‘۔ سشما نے کہا اور چپ چاپ سر جھکائے کھانے لگی۔

’’ارے بھئی بچی ہے‘‘۔ سمیر نے سشما کو سمجھایا۔

’’بچی ہے تو بچی کی طرح رہے‘‘۔ سشما نے کہا۔

اس دن کے بعد وہ سب اپنا اپنا کھانا کھانے لگے۔ ایک دوسرے کو کھلانے کی بات ہی ختم ہو گئی۔

’’اڑے ہوتے جال میں ایک پرندہ پھڑ پھڑا کر مر گیا۔۔۔

سمن اب ہر معاملے میں دخل دینے لگی تھی۔ انداز یہ ہوتا کہ اس کی معلومات سشما سے زیادہ ہیں۔ رات دیر گئے، سشما اور سمیر کوئی سیریل دیکھ رہے تھے۔ وہ اچانک آ گئی۔ سمیر کا بازو پکڑ کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ دوسری جانب سشما تھی۔ اچانک Bay Watch کا اشتہار آیا۔ سشما نے آنکھوں سے سمیر کو اشارہ کیا کہ ذرا نیم عریاں پامیلا اینڈرسن کو دیکھئے۔

’’وہ پامیلا اینڈرسن ہے۔ اس نے امپلانٹیشن کروایا ہے ممی۔ ہمارے ہاں سشمتا سین نے انڈین اسٹینڈرڈ کے مطابق امپلانٹیشن کروا لیا۔ لیکن دیر اِز نو یوز اِن انڈیا (There is no use in India)‘‘۔

’’سمن۔۔۔‘‘ سشما نے ڈانٹا۔ ’’جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔‘‘ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ سشما اس کے پیچھے تیز قدموں سے گئی۔

’’تمھیں شرم نہیں آتی اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے۔ ڈیڈی بیٹھے ہیں‘‘۔

’’اس میں شرم کی کیا بات ہے؟ کیا ڈیڈی نہیں جانتے۔ روز تو بڑے بڑے اشتہارات چھپتے ہیں تصویروں کے ساتھ۔ امپلانٹیشن، ریڈکشن، لفٹنگ، سلمنگ۔۔۔ ٹی وی پر کئی مستقل چیانلز ہیں ان چیزوں کے۔!‘‘ سمن نے کہا۔

’’تو کیا تم ہم سے ایسی باتیں کرو گی؟‘‘

’’پھر کس سے کروں؟ کیا ممی آپ بھی اتنی موڈ ہو کر۔۔۔‘‘

سشما خاموش ہو گئی۔ چار پانچ برس میں کتنا کچھ بدل گیا۔ میوزک چیانلس کی اینکرس، ایٹم گرلس، ری مکسنگ گرلس، جیسے ساری جوان لڑکیاں ننگی ہونے کو اتاؤلی ہو رہی ہیں۔ شہرت پانے کا یہی شارٹ کٹ ہے۔ ٹی وی اور انگریزی میگزینوں اور اخباروں نے وقت سے پہلے ہی بچوں کو ذہنی طور پر بالغ کر دیا ہے۔ سمن تو ابھی بچی ہے، جب عقل آئے گی تو خود ہی سیکھ جائے گی کہ کہاں کس موقع پر کیا بات کرنا چاہئے۔

’’بچی ہے۔۔۔!‘‘ سشما نے سوچا۔





۴



چھٹی کسی ریسورٹ پر گزارنے کا پروگرام بنا۔

سشما اور سمیر کئی بار جا چکے تھے۔ اب سمن کا اضافہ ہوا تھا۔ سمیر اور سشما کے درمیان سمن بیٹھ گئی۔ سمیر نے بھی ٹی شرٹ اور جینز پہنی تھی اور اپنی عمر سے کم لگ رہا تھا۔ ریسورٹ میں اور بھی فیملیز تھیں۔ ایک طرف سوئمنگ پول اور واٹر گیمس تھے، مصنوعی آبشار بنے تھے۔ سشما اور سمیر پانی میں اُتر گئے۔

’’ممی میں بھی آ جاؤں؟‘‘ سمن نے پوچھا۔

’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔‘‘

سمن شلوار سنبھالے پانی میں اُتر گئی۔ اچانک سشما کو شرارت سوجھی۔ اس نے سمیر پر پانی اُڑانا شروع کر دیا۔ سمیر کو سنبھلنے میں کچھ دیر لگی۔ پھر اس نے شدت سے جوابی حملہ کرنا شروع کیا تو سشما سنبھل نہ سکا۔ سشما کی تائید میں سمن نے سمیر پر پشت سے حملہ کر دیا۔ سمیر نے اب سمن کو نشانہ بنایا۔ تینوں سر سے پیر تک بھیگ گئے۔ سمیر اور سشما تو جینز پہنے ہوئے تھے۔ لیکن ٹی شرٹ اور شارٹ بھیگ کر جسم سے چمٹ گئے تھے۔ سشما کی سرخ برا اور سینے کا وہ حصہ جو برا کی قید سے آزاد تھا صاف جھل رہا تھا۔

سشما تھک گئی۔ ’’سمیر اب بس۔۔۔ بس کرو پلیز‘‘۔

سمن تازہ دم تھی اور مسلسل سمیر پر حملہ کر رہی تھی۔ سمیر نے سشما پر پانی اُڑانا بند کیا تو اس کی نظر سمن پر پڑی۔ وہ بُری طرح چونکی۔ اُف وہ بدن ایک مکمل جوان لڑکی کا تھا۔ سمن کے اندر اتنی خوب صورت لڑکی چھپی ہے، اسے پتہ ہی نہ تھا۔ سمن کے کپڑوں سے بدن کی تیز کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ سشما کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اسے صرف دو چمکتے سورج ہر طرف دکھائی دینے لگے۔ اسے شدید احساس کمتری ہونے لگا۔ اس کا بدن تو مکمل ہو گیا تھا۔ لیکن تکمیل کے مراحل طے کرنے والا بدن کتنا خطرناک ہوتا ہے، اسے پہلی بار احساس ہوا۔ اس نے سچے دل سے دعا کی کہ سمیر کی نظر سمن پر نہ پڑے۔ وہ سمیر کی نظر کو جانتی تھی۔

’’سمن۔۔۔ چلو باہر نکلو۔۔۔ اب بس بھی کرو‘‘۔

’’کیا ممی ابھی تو اُتری ہوں پانی میں۔۔۔‘‘

’’اسی لیے کہہ رہی ہوں باہر آ جاؤ۔ سردی لگ جائے گی‘‘۔

سمن کے باہر آتے ہی اس نے اس کا بدن تولیے میں لپیٹ دیا۔

’’جاؤ فوراً کپڑے تبدیل کرو‘‘۔ سمن ڈریسنگ روم گئی تو سمیر نے پوچھا ’’کیوں تمھارا موڈ ایک دم سے کیوں بدل گیا؟‘‘

’’اسے بہت جلد سردی لگ جاتی ہے۔ ہاتھ پھیر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں‘‘۔ سشما نے جھوٹ کہا۔

’’ہاتھ تو تمہارے بھی ٹھنڈے ہیں‘‘ سمیر نے سشما کا ہاتھ دبا کر کہا اور چپکے سے اسے چوم لیا۔ سشما کو اس کا یوں بوسہ چرانا اچھا لگتا تھا۔ وہ اس سے لپٹ گئی۔

’’چلو کپڑے بدل لیں‘‘۔

گیلے کپڑے دھوپ میں پھیلا دیئے گئے۔ سمن نے ریکٹ نکالے۔

’’چلو کھیلتے ہیں‘‘۔ سمیر نے کہا۔

سشما کھیل نہیں پائی۔

’’ممی میں کھیلوں؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ہاں‘‘ سشما نے ریکٹ سمن کو تھما دیا۔

دونوں بہت اچھا کھیل رہے تھے۔ سمن تو تھی ہی بچی لیکن سمیر بھی ساتھ دے رہا تھا۔ سشما نے دیکھا سمن کے بدن کے فتنے پھر جاگ رہے ہیں۔ جسم کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔ سشما کی آنکھوں میں سورج اُبھرنے لگے۔

سشما کو اب سمجھ میں آیا کہ لوگ ویمنس ٹینس اتنی دلچسپی سے کیوں دیکھتے ہیں۔

’’اب بس‘‘۔ سشما نے اعلان کیا۔

’’بس دو منٹ۔ بہت مزا آ رہا ہے‘‘۔ سمیر نے کہا۔

’’کیا ممی آپ انجوائے کرنے ہی نہیں دیتیں۔ آپ کو ہمیشہ بھوک لگی رہتی ہے۔ کتنا ویٹ گین (Weight Gain) کر رہی ہیں‘‘۔

سمیر نے کھیل روک دیا۔ ’’چلو ممی ناراض ہو جائے گی۔ پھر سارا مزا کر کرا کر دے گی‘‘۔ سمیر نے آہستہ سے کہا۔

کھانے کے بعد سشما لیٹ گئی۔ سمن سمیر کا ہاتھ تھامے بوٹنگ کرنے چلی گئی۔ دونوں بڑے مزے سے پیڈلنگ کر رہے تھے۔ سشما کے اندر کہیں سے خوف اُتر آیا کہ وہ سمیر کا ساتھ نہیں دے پا رہی ہے۔ کئی بار وہ یہاں آ چکے ہیں لیکن سمیر کو اتنا خوش اس نے نہیں دیکھا تھا۔

نہیں، وہ سمن کی دل جوئی کر رہا ہے، پہلی بار ساتھ آئی ہے! بچی ہے!۔۔۔ نہیں وہ بچی نہیں ہے، اس کی آنکھوں میں سورج چمکے۔۔۔

سشما خود کو تنہا محسوس کرنے لگی، وہ بھی سمن کی عمر کی تھی۔ اس کی شادی کر دی گئی۔ پھر سال بھر میں وہ ڈرائیوورسی کہلانے لگی۔ جوانی تو آئی ہی نہیں۔ دس برس سے وہ ماں باپ کی خدمت میں لگی ہے۔۔۔ اب شاید بھگوان کو اس پر رحم آیا ہے۔۔۔ اس کے اندر کی لڑکی جاگی ہے تو مقابل میں اس سے خوبصورت جوان لڑکی کھڑی ہے۔۔۔ کیا وہ پھر ہار جائے گی؟ نہیں!!

دونوں اسی کی طرف آ رہے تھے۔

’’چلو تم بھی چلو۔ بہت مزا آ رہا ہے۔ پیڈل میں مار لوں گا‘‘۔ سمیر نے کہا۔

’’نہیں۔ کچھ دیر آرام کر لو۔۔۔ چائے پی کر واپس چلیں گے‘‘

شام جب وہ واپس ہو رہے تھے تو سشما نے کہا کہ وہ سمیرا اور سمن کے درمیان بیٹھے گی۔۔۔ اور پھر وہ اس طرح سمیر سے چمٹ کر بیٹھ گئی جیسے گرفت ڈھیلی ہوتے ہی سمیر اُڑ جائے گا۔

لیکن جال لے کر اُڑنے والے پرندوں میں سے ایک اور نے دم توڑ دیا تھا۔





۵



ممی، میں ساری باندھ کر جاؤں گی آج۔۔۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’کالج ڈے ہے۔ ساری لڑکیاں ساری پہن کر آ رہی ہیں‘‘۔

’’ٹھیک ہے کوئی ساری سلیکیٹ کر لو۔ بلاؤز کہاں سے لاؤ گی؟‘‘

’’آپ کا ٹرائی کرتے ہیں‘‘۔

’’میں تو موٹی بھدی عورت ہوں نا؟‘‘ اس نے طنز کیا۔

’’مما پلیز۔ دیکھنے میں کیا ہرج ہے‘‘۔

’’دیکھو لو‘‘۔ سشما نے بے دلی سے کہا اور کام میں مصروف ہو گئی۔

’’دیکھو مما۔۔۔‘‘ سمن بلاؤز پہن کر آ گئی۔ تقریباً برابر تھا۔ سشما حیرت زدہ رہ گئی۔ سمن بظاہر تو ایسی نہیں لگتی۔

’’میں جہاں جہاں ضرورت ہے اندر سے اسٹچنگ کر لوں گی۔ اب لایئے تیسری چیز‘‘۔

’’کیا مطلب؟‘‘

’’یہ اندر کی بات ہے‘‘۔

’’میں سمجھی نہیں‘‘۔

’’ممی۔ تھری لیٹر ورڈ۔ ویری سمپل‘‘۔ سمن خوشگوار موڈ میں تھی۔ ’’بی۔ آر۔ اے۔ بی فار بیوٹی فل، آر فار راؤنڈ اینڈ اے فار ایپل‘‘۔ وہ کسی اسکول ٹیچر کی طرح بولنے لگی۔

’’تمہارے پاس نہیں ہے؟ اس روز بھی پکنک پر ویسے ہی آ گئیں‘‘۔

’’کہاں سے لاؤں گی مائی ڈیر ممی‘‘۔

’’اچھا اچھا چلو ٹھیک ہے‘‘۔ سشما نے کھسیا کر کہا۔ ’’تم نے کبھی کہا بھی تو نہیں اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم۔۔۔‘‘

’’تو پھر ٹرالی کر لیتے ہیں‘‘۔

’’کیا فائدہ۔ تم بچی ہو ابھی‘‘۔

سمن نے ٹرائیل کیا۔ ’’ممی دیکھیے، ایک دم فٹ، آپ ہمیشہ انڈر اسٹیمیٹ کرتی ہیں‘‘۔

سشما کے سارے حواس آنکھوں میں مجتمع ہو گئے تھے۔ وہ دیکھتی رہ گئی۔ کیا خوبصورت بدن تھا۔ وہ دونوں سورج جنھوں نے اس کی آنکھوں کو چندھیا دیا تھا، اب پوری طرح روشن تھے۔ وہ وہم یا گمان نہیں تھا۔ حقیقت سامنے کھڑی تھی۔

’’دیکھا مما‘‘ سمن نے فخر سے کہا۔

سشما سمن کے بدن کے سحر سے نکلی تو اسے ایسا لگا جیسے اسی لمحہ بوڑھی ہو گئی ہے۔ لیکن وہ اتنی حیران کیوں ہے۔ اس عمر میں تو اس کی شادی ہو گئی تھی، بلکہ وہ تو سمن کی ماں بھی بن گئی تھی۔ لیکن اس نے کبھی اپنے جسم پر غور ہی نہیں کیا تھا۔ شاید اس کا جسم ایسا تھا بھی نہیں۔ اسے ایک بھرے بھرے جسم کی عورت نے شکست دی تھی۔ اس کا شوہر اپنے بھائی کی بیوی کا دیوانہ تھا۔ اسے اسی لیے اسے اس گھر میں دلہن بنا کر لایا گیا تھا کہ اس کا شوہر اسے پا کر اپنی بھابھی میں دلچسپی لینا چھوڑ دے۔ لیکن اپنی کم سنی کی وجہ سے وہ کچھ بھی نہیں سمجھ پائی اور اس عورت سے ہار مان کر گھر آ بیٹھی۔ اب جسم کے خالی حصے بھر گئے ہیں تو ایک کمسن لڑکی مقابل کھڑی ہے۔ اس کی اپنی بیٹی۔!





۶



سمیر آفس سے لوٹا تو اس کی پسندیدہ ساڑھی باندھے سشما بالکونی میں کھڑی کچھ دیکھ رہی تھی۔ بہت ہی سلم اور خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسے دس برس پہلے کی سشما یاد آ گئی۔ وہ دبے پاؤں آگے بڑھا اور ایک دم سے اسے گود میں اُٹھا لیا، کتنی ہلکی پھلکی لگ رہی تھا سشما۔!

چیخ سن کر سشما کچن سے باہر آئی۔ سشما کو دیکھ کر سمیر کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ سمن کے پیر فرش سے لگے۔ سمن زور زور سے ہنسنے لگی۔ سمیر جھینپ کر کمرے میں چلا گیا۔ سشما اس کے پیچھے پیچھے آئی۔

تم اپنے کپڑے اسے کیوں پہننے دیتی ہو!‘‘ سمیر نے غصہ سے کہا۔

’’آج اس کا کالج ڈے تھا‘‘۔

سمیر کا موڈ خراب ہی رہا، کھانے کی میز پر بھی وہ سر جھکائے کھاتا رہا۔

’’آپ اتنا مائنڈ کیوں کر رہے ہیں؟ مجھے تو بُرا نہیں لگا‘‘۔ سمنے کہا اور سمیر کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔

’’اچھا چلو ٹھیک ہے۔ تم آؤ یہاں تمیز سے بیٹھو‘‘۔ سشما نے تلملا کر کہا۔

جب تک سمن گھر میں رہتی خود ہی بولتی رہتی۔ سمیر کے پیچھے پیچھے گھومتی رہتی۔ وہ سمیر سے باپ جیسا سلوک کیوں نہیں کرتی۔ یہ رشتہ تو احترام کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا یہ بات سمن کی سمجھ میں نہیں آتی؟

’’وہ تمہارے ساتھ باپ کی طرح Behave کیوں نہیں کرتی؟‘‘

’’شاید میں ہی رشتے کا وہ احترام باقی نہیں رکھ پایا۔ ایک دم سے اتنی بڑی پلی پلائی لڑکی کا باپ بن کر بوکھلا گیا‘‘۔

’’طنز کر رہے ہو مجھ پر‘‘۔

’’ارے نہیں۔ تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ابھی بچی ہے‘‘۔

مصیبت یہی ہے کہ وہ بچی نہیں ہے۔ سشما سمیر سے کہہ نہ سکی۔ سشما اپنی زندگی میں رنگ بھرنے کی بجائے سمن کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہو گئی تھی۔ وہ سمن کو ممی کے پاس واپس جانے کے لیے بھی نہیں کہہ سکتی۔ وقار کا مسئلہ تھا۔ پھر وہ ضدی عورت مانے گی بھی نہیں۔

اسے اپنی ماں سے سخت نفرت تھی۔ ممی نے ہی اس کی شادی کم عمری میں کر دی تھی۔ علیحدگی کا فیصلہ بھی انھیں کا تھا۔ سمن کو اس کے باپ کو نہ دینے کا فیصلہ بھی اُنھوں نے ہی کیا تھا۔ جب اس کی ملاقات سمیر سے ہوئی تھی تو شادی کی سخت مخالفت بھی ممی نے ہی کی تھی۔ پھر سمن پر اس کا کوئی اختیار بھی نہیں تھا۔ ممی نے اسے کبھی ماں بننے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔ سمن نے کبھی اسے ماں سمجھا ہی نہیں۔ اور اب اچانک ممی نے سمن کو اس کے حوالے کر دیا۔ سمن کو ممی ہی نے بگاڑا ہے۔ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے؟

ممکن ہے سمن کو اس کا اس عمر میں شادی کرنا اچھا نہ لگا ہو۔ ممکن ہے سمن سمیر کو باپ کا درجہ دینا ہی نہ چاہتی ہو۔ سمیر اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہو۔۔۔

جیسے جیسے سشما نے سمن پر نگرانی سخت کر دی، سمن نے اسے زیادہ ہی تنگ کرنا شروع کر دیا۔ جب وہ رات کوئی سیرئیل دیکھ رہے ہوتے تو سمن آ جاتی، ’’نیند نہیں آ رہی ہے‘‘

کبھی وہ انتہائی نازک مراحل طے کر رہے ہوتے تو سمن زور زور سے دروازہ پیٹنے لگتی، ’’ممی مجھے اکیلے میں ڈر لگ رہا

ہے، میں آپ لوگوں کے ساتھ سوؤں گی‘‘۔ اور وہ سشما کے برابر لیٹ جاتی۔ سشما کی پوری رات آنکھوں میں کٹ جاتی۔ کیا سمن یہ سب کچھ جان بوجھ کر کر رہی ہے؟

اس کشمکش میں پتہ چلا کہ سشما ماں بننے والی ہے۔ سشما اور سمیر بے حد خوش تھے۔ جب سمن نے سنا تو بُرا سا منہ بنا کر کہا۔

’’ممی کیا ضرورت تھا۔۔۔ سارا فیگر تباہ ہو جائے گا‘‘۔

’’مجھے سمیر کے پیار کی ایک نشانی چاہئے‘‘۔

’’کیا نشانیاں ہی جمع کرتی رہیں گی؟‘‘ سمن نے کہا۔

’’ہاں، کچھ اچھی نشانیاں بھی چاہئیں‘‘۔ سشما نے جل کر کہا۔

سشما کو ماں بننے کی خوشی تو تھی لیکن ایک خوف بھی تھا۔ اس کا جسم بے ڈول ہوتا جا رہا ہے اور سمن بے باک ہوتی جا رہی ہے۔ وہ دن بھر کام کرتے کرتے تھک جاتی لیکن سمن اس کی ذرا بھی مدد نہیں کرتی۔ سمیر اس کا ہاتھ بٹانے لگا۔ سمیر کو سمن کا اس طرح بیٹھے بیٹھے حکم چلانا سخت ناگوار گزر رہا تھا۔ اس نے دبی زبان میں سمن سے کہا بھی۔۔۔ سمن نے باتوں باتوں میں صاف سمجھا دیا کہ وہ یہ سب نہیں کر سکتی۔ اتنے وقفے کے بعد سشما نے کیری کیا تھا۔ ڈاکٹر نے احتیاط کے لیے کہا تھا لیکن سمن کا یہ انداز ناقابل فہم تھا۔ کالج سے آتے ہی ایک طرف سینڈل اچھال دیتی۔ بیگ ایک طرف پھینک دیتی۔ منہ ہاتھ دھوئے بغیر کپڑے تبدیل کئے ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتی۔ سمیر کے گھر لوٹنے کا وقت ہوتا تو فریش ہو کر کپڑے تبدیل کر کے انتظار کرنے لگتی۔ کیا ہے اس لڑکی کے دل میں۔۔۔؟



۷



اس شام سمیر جلد گھر آ گیا۔ سمن جلدی سے باتھ روم میں گھس گئی۔ منھ دھو کر سشما کا ایک شرٹ شلوار پہن لیا۔ سمیر نے سشما کی طرف گھور کے دیکھا۔

’’تم نے میرے کپڑے کیوں پہن لیے۔ میں نے منع کیا تھا نا۔۔۔‘‘ سشما نے کہا۔

اونہہ۔ اب یہ آپ کے استعمال کے قابل تو رہے نہیں۔ آپ کو استعمال کرنے میں ابھی کافی دن ہیں۔ میں نے پہن لیا تو کیا ہوا؟‘‘

سمن نے دوپٹہ بھی نہیں اوڑھا تھا۔ شرٹ کے گریبان سے موجوں کا مد و جز صاف دکھائی دے رہا تھا۔

سشما کچن میں چلی گئی۔ اس نے سمن کو پکارا۔ وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ سمیر کو یہ بالکل پسند نہیں کہ وہ سشما کے کپڑے استعمال کرے اور گریبان۔۔۔؟

سمن نہیں آئی۔

’’ممی آپ ہی لایئے نا۔۔۔ پکوڑے۔۔۔‘‘

’’تم آؤ‘‘۔ سشما نے کہا۔

’’نہیں ممی‘‘۔

’’میں آ رہا ہوں‘‘۔ سمیر نے کہا۔

’’ارے نہیں۔ آپ بیٹھئے‘‘۔ پسینے میں تر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سشما پکوڑے لے آئی۔

سمن ہنسنے لگی۔ ’’ڈیڈی ذرا دیکھیے۔۔۔‘‘ پھر زور زور سے ہنسنے لگی۔

’’شٹ اَپ۔ پاگل ہو گئی ہو؟‘‘ سمیر چلّایا، ’’اِنف!‘‘

سمن ایک دم خاموش ہو گئی۔ ایک جھٹکے سے اُٹھی۔ میز پر رکھی پلیٹ کو دھکا دیا۔ سارے پکوڑے فرش پر بکھر گئے۔ وہ پیر پٹکتے ہوئے کمرے میں چلی گئی۔

سشما نے اس کے پیچھے جانے کی کوشش کی۔

’’نہیں، اس کی ضرورت نہیں‘‘۔ سمیر نے کہا۔

سشما نے عجیب سا اطمینان محسوس کیا۔

رات میں بھی کوئی اسے منانے نہیں گیا۔ صبح سمیر کے دفتر جانے تک وہ باہر نہیں آئی۔ سشما نے جھانک کر دیکھا۔ وہ سورہی تھی۔

شام سمیر دفتر سے آیا تو سمن کہیں نظر نہیں آئی۔

’’صبح گھر سے گئی تو اب تک واپس نہیں آئی‘‘۔ سشما نے بتایا۔

’’کہاں جا سکتی ہے! کسی سہیلی کے پاس؟‘‘

’’میں نہیں سمجھتی کہ اس کی کوئی ایسی سہیلی ہے‘‘۔

’’ممی پاپا کو فون کیا؟‘‘

’’نہیں‘‘۔

’’میں کروں؟‘‘

’’نہیں‘‘ سشما نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔

’’غصے میں کوئی انتہائی اقدام نہ کر لے‘‘۔

’’وہ ایسا نہیں کر سکتی۔ میں جانتی ہوں اسے‘‘۔

’’پھر؟‘‘

’’ایک آدھ دن میں خود ہی پتہ چل جائے گا۔ ہم ڈھونڈیں گے نہیں‘‘۔ سشما نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ سشما کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے لیکن چہرے پر اطمینان تھا۔

پرندے ایک ایک کر کے پھر سے جاگ گئے اور جال سمیت اونچائی پر پرواز کرنے لگے۔

٭٭٭

’دَخمہ‘ سے ماخوذ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید