لوگ بابا مراد کو اٹھا کر ادھر لے گئے جدھر بھیڑ کم تھی۔ منہ میں پانی ٹپکایا تو آنکھیں کھل گئیں۔ وہ پھول بیچنے والوں کی دکانوں کے قریب سڑک پر چت پڑا تھا۔
ایک پھول فروش نے کہا ’’پانی کا گلاس پی لے۔ لو لگ گئی ہے‘‘۔
مراد پانی کے چند گھونٹ حلق میں اتار کر کمر پر ہاتھ رکھ کر ہمدردی جتانے والے سے بولا ’’میں ہسپتال میں اپنا خون دے کر آ رہا تھا کہ چکر آیا۔۔۔۔‘‘
’’کوئی بات نہیں اٹھ بیٹھ‘‘۔
لوگوں نے اسے سہارا دے کر فیروز دین پھول فروش کے کھوکھے پر بٹھا دیا۔ فیروز دین کی ڈاڑھی اور چہرے کا رنگ بالکل موتیے کے ان پھولوں کا سا تھا، جن کی ڈھیریاں اس کے سامنے کیلے کے سبز پتوں پر دھری تھیں۔ فیروز دین کی آنکھوں میں ایک ایسی گھلاوٹ فہم اور دلداری تھی جو زندگی کا لیل و نہار دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے سے میسر آتی ہے۔
کلیاں اور پھول رات بھر ستاروں کے گیت سنتے ہیں۔ ظلمت اور اجالے کی آنکھ مچولی دیکھتے ہیں اور خاموش فطرت کے بھیدوں کی کنوئیاں لے لے کر کھلنے لگتے ہیں تو کھلتے ہی چلے جاتے ہیں، جیسے پھول کا فرض منصبی یہی ہے۔ ابھی کوئی فیروز دین سے شادی کے ہار اور ابھی کوئی جنازے کے ہار لے جاتا ہے مگر پھول اپنی چشم حیران کو متکلم نہیں ہونے دیتا۔ فیروز دین جس کی آنکھوں میں زندگی کی دھوپ چھاؤں دیکھ دیکھ کر فہم اور پھولوں کی معصوم صحبت سے چہرے پر تقدس کا ایک نورانی پرتو جھلک رہا تھا، ہار گوندتے ہوئے بولا ددتو ہسپتال میں خون کسے دے کر آیا ہے؟ کوئی بیمار ہے؟‘‘
مراد بولا ’’میں بیروزگار ہوں۔ گھر میں فاقہ آ رہا تھا۔ خون کا ٹھیکیدار مجھے ہسپتال لے گیا۔ ہسپتال والوں نے میرا خون لیا جس کے بدلے میں ٹھیکیدار نے مجھے یہ دس روپے دئیے‘‘۔
اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس روپے کا نوٹ نہ پا کر اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ خدا تجھے کہیں کا نہ رکھے۔ نوٹ کوئی نکال کر لے گیا۔
اس کا چہرہ پتھر کی طرح جامد ہو گیا۔ اس کی ساری اداسی پتلیوں کے نقطوں میں سمٹ آئی۔ ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
فیروز دین نے اسے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسا دیا۔ ’’بابا جی کوئی بات نہیں۔ حوصلہ کرو۔ لو یہ پھول سونگھو۔ پھول فروش نے گلاب کی ڈھیری میں سے ایک سرخ پھول اٹھا کر مراد بابا کے ہاتھ میں دے دیا جو اس نے بنا سونگھے فیروز دین کے آگے پھینک دیا اور خلا میں ٹکر ٹکر دیکھنے لگا۔
لوگ باگ اپنے اپنے کاموں سے چلے جا رہے تھے۔ خوانچہ فروش اپنی اپنی صدا لگا رہے تھے۔ تانگے اور موٹر کاروں کے شور سے بازار کی فضا بھری ہوئی تھی۔ فیروز دین کے ہاتھ ایک ساختہ پرداختہ طریقے سے موتیے کی کلیوں میں گلاب کا ایک ایک پھول مقررہ فاصلوں پر گوند رہے تھے پھر اس نے ہار کو گرہ لگائی اور مراد کے پیلے چہرے کی طرف دیکھا۔ دھاگہ توڑ کر بولا:
’’اوگام سوے۔ پوا گرم دودھ کا لا ملائی ڈلوا کر‘‘۔
اسی کھوکھے سے گام سولا اٹھا اور پاؤ بھر دودھ پیالے میں ڈلوا کر لے آیا۔ فیروزدین پھول فروش نے اپنی واسکٹ کی جیب سے پیسے نکال کر گام سولے کو دئیے، پھر ایک گاہک کو پھولوں کے ہار دینے لگا۔
مراد نے گرم گرم دودھ ایک ایک گھونٹ کر کے پیا اور اس دوران دیکھتا رہا کوئی گاہک ایک پھل فروش سے ہار کے دام پوچھتا تو دوسرا پھول فروش بالکل چپ رہتا۔ دخل نہ دیتا۔ نہ سستے دام بنا کر اسے اپنی طرف متوجہ کرتا۔ پھول فروش فقط اسی گاہک سے براہ راست بات کرتا جو اس کی دکان پر آ کر سودا لیتا۔ یہ دیکھ کر اسے سری اوجھری والا بازار یاد آ گیا۔ جہاں ایک ایک دکان دار گاہک کو آوازیں دے دے کر اس کا برا حال کر دیتا تھا۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ہسپتال تو ادھر ہے مگر تم ادھر سے آ رہے تھے؟‘‘
مراد نے کہا ’’میں سری اوجھری والے بازار سے آیا تھا‘‘۔
’’سودا لینے گئے تھے؟‘‘ فیروز دین نے پوچھا۔
’’نہیں اپنی بپتا پوری کرنے۔ میرا ایک جوان لڑکا ہے۔ پہلوانی کرتا تھا، اس نے ایک دن اکھاڑے سے نکل کر ٹھنڈے پانی سے نہا لیا، ٹانگیں جڑ گئیں۔ لاکھ علاج کیے کچھ نہیں ہوا، گھر میں بیکار بیٹھا رہتا تھا۔ کسی مہربان نے سری اوجھری والے بازار میں اوجھریاں دھونے پر نوکر رکھوا دیا۔ میرا دوسرا بیٹا جو سبزی کی ریڑی لگاتا ہے بائسیکل پر اسے دکان پر چھوڑ آتا، جہاں وہ بیٹھا اوجھریاں دھوتا رہتا۔ بیس روپے مہینہ ملتا۔ دو مہینے نوکری کی پھر اسے ابکائیاں آنے لگیں۔ اب پھر گھر میں بیکار بیٹھا ہے۔ ایک مہینے کی تنخواہ ابھی تک دکان دار کے ذمہ رہتی ہے، وہ لینے گیا تھا، اس نے پھر ٹال دیا۔ سوچتا ہوں اگر وہ بیس روپے بھی جیب میں ہوتے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی چلے جاتے‘‘۔
’’چلو سر صدقہ سمجھو‘‘۔
مراد ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔ سر صدقہ کس کا میاں جی! ہم تو لوگوں کی زکوٰۃ پر پلتے ہیں۔ میری بیوی روز تغارہ اٹھا کر گوبر چگنے چلی جاتی ہے۔ ادھر ادھر سے گوبر اٹھا کر لاتی ہے۔ اوپلے تھاپ کر بیچتی ہے۔ کیا کیا مصیبتیں بتاؤں۔ بیٹی کا میاں الگ ناراض ہو کر اسے چھوڑ گیا ہے، کس کس کا رونا روؤں۔ زندگی مصیبتوں کی پوٹ ہے میاں جی‘‘۔
فیروز دین نے ٹین کی چھوٹی بالٹی میں ایک ہاتھ ڈبو کر چلو میں پانی نکالا اور بڑے ہی نفیس طریقے سے ہاروں گجروں اور پھولوں کی ڈھیری پر پچکارا دے ڈالا۔ پھر اسی گیلے ہاتھ کو اپنے نورانی چہرے پر پھیرا اور دلداری کے لہجے میں بولا:
’’میں ایک مشورہ دوں۔ تمہارا نام کیا ہے بابا جی؟‘‘
’’بابا مراد‘‘۔
’’شام کو مجھ سے دوچار درجن ہار اور گجرے لے جایا کرو۔ مال روڈ پر کوئی ٹھکانہ بنا لو، جہاں تمہاری بکری ہو جائے۔ درجن ہار بیچو، چونی لے لو۔ درجن گجرے بکیں تو اٹھنی دوں گا۔ تم دن بھر جو بھی کام کرو اپنا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ جی بسے سے کہہ کر تمہارے بیس روپے بھی قصائی سے دلوا دوں گا‘‘۔
’’جی بسا کون؟‘‘
’’اوجھری بالے بازار کا کمیٹی ممبر ہے۔ اگر منظور ہے تو کل دس روپے ضمانت لے کر آ جانا‘‘۔
پھول فروش نے جی بسے سے کہلوا کر بیس روپے قصائی سے دلوا دئیے۔ مراد نے دس روپے ضمانت کے پھول فروش کی ہتھیلی پر رکھے اور تین درجن موتئے کی کلیوں کے ہار لے کر مال روڈ پر آ کر گھومنے لگا۔ بڑی مشکل سے ڈیڑھ درجن ہار بکے۔
اگلے روز فیروز دین پھول فروش نے مراد کا حوصلہ بڑھایا اور کہا پہلے روز ڈیڑھ درجن ہار بیچ لینا گھاٹے کا سودا نہیں۔ تم کوئی ہوٹل ڈھونڈ لو۔ وہیں جمے رہو۔ عورتیں آئیں تو سامنے جا کر ڈٹ جاؤ۔ ہار نہ لیں تو گجرے دو۔ گجرے نہ لیں تو ہار دو۔ نیا کام ہے پر شرماؤ نہیں‘‘۔
بابا مراد نے دیکھا کہ چوک کے ساتھ مال روڈ پر جو کیفے ہے، وہاں بہت لوگ آتے ہیں۔ ابھی دھوپ ہی تھی کہ وہ ہار اور گجرے لیے جا کھڑا ہوا۔ ایک موٹر کار آ کر رکی وہ آگے بڑھ کر بولا:
’’موتیے کے ہار جی۔ گجرے بیگم ساب‘‘۔
لڑکی صرف دو ہار اور دو گجرے لے کر بولی۔ واپسی پر اور لیں گے۔ کہیں جاؤ گے تو نہیں‘‘۔
یہ کہہ کر لڑکی فرش پر ٹپ ٹپ چلتی اپنے خاوند کے ساتھ کیفے میں داخل ہو گئی۔ اس کی تاکید کی اثر انگیزی نے مراد بابا کو ادھر ادھر نہ ہلنے دیا۔ بوہنی اچھی ہوئی کہ اس کے اور ہار بھی بکنے لگے۔ اب صرف چار ہار تیلی پر لٹک رہے تھے کہ وہ لڑکی اور اس کا میاں باہر نکلے۔ لڑکی نے وہ دونوں ہار جو لیے تھے، اپنے جوڑے پر لپیٹ رکھے تھے۔ مراد ہار لے کر آگے بڑھا۔
لڑکی بولی ’’صرف چار رہ گئے۔ گجرے سب کے سب بک گئے‘‘۔
مراد چاروں ہار اس لڑکی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولا ’’آپ بھاگوان کی بوہنی ہوئی تھی کیسے نہ بکتے جی‘‘۔
جب اس کے ہاتھ میں ہاروں کی خالی تیلی رہ گئی تو اس کے کندھے کا بوجھ اتر گیا۔ جیسے پھولوں کا بھی کوئی بوجھ ہو۔ لڑکی ٹپ ٹپ کرتی اپنے میاں کے ساتھ موٹر کار میں جا بیٹھی اور پھر موٹر کار نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
شام ڈھلے مراد نے تین روپے اپنی بیوی کے ہاتھ پر جا دھرے تو اس کے مردنی چہرے پر خوشی کی ایک کرن پھوٹ آئی۔ اور وہ فیروز دین پھول فروش کو دعائیں دینے لگی۔ معذور تاجا پیڑی پر جکڑا بیٹھا تھا۔ اس کا بھائی بالا سبزی فروش بھی آ گیا۔ مراد کی بیٹی کھٹولی پر اپنے دو بچوں کو جو سو رہے تھے پنکھیا ہلا رہی تھی۔ سب کے چہروں پر خوشی کے پھول کھل رہے تھے کہ بابا کا اچھا روز گار لگ گیا۔ معذور تاجا جو گھر پر بوجھ بنا ہوا تھا اپنی جگہ خوش۔ بالا یوں خوش کہ سبزی کی ساری آمدن اونٹ کے منہ میں زیرہ بنی جا رہی تھی۔ شاید اب اسے کچھ بچت ہونے لگے۔ دو بچوں والی بیٹی یوں خوش ہو رہی تھی کہ وہ خواہ مخواہ کا بوجھ بن کر گھر آ بیٹھی تھی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے سبب محلے میں کسی کا بھانڈا برتن بھی نہ مانجھ سکتی تھی۔
ایک دم گھٹا امڈ کر آئی اور بادل گرجنے لگا۔ بدرو سے سخت سڑاند اٹھی۔ مراد نے انگنائی کے سامنے پڑا ہوا گندا ٹاٹ اٹھا دیا۔ باہر سے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا کھٹ سے اندر چلا آیا۔ اسے فوراً بیوی کے اپلوں کا خیال آیا ’’تاجے کی ماں بارش آ رہی ہے تمہارے اپلے۔۔۔‘‘
’’میں نے شام کو سنبھال لیے تھے۔ دو سینکڑے تو بیچ بھی دئیے‘‘۔
در اصل مراد بابا باہر پھر کے مال روڈ پر ہار بیچنے کے واقعہ کو بار بار سنانا چاہتا تھا اور گھر کا ہر فرد بار بار سننا چاہتا تھا۔
سوائے بالے کے جو اپنی چارپائی ہر روز بدرو کے پار اپنے دوستوں کے پاس جا بچھاتا تھا۔ سب اپنی اپنی کھاٹ پر لیٹے پڑے تھے، نیند کسی کو نہ آئی تھی۔ بادل کی وجہ سے سڑک پر کھنبے کی روشنی کا دائرہ تنگ ہو گیا تھا۔ مراد کی بیوی نے لیٹے لیٹے کہا ’’تم نے جس بیگم صاب کی آج بوہنی کی کل بھی اس کے پاس ہار بیچنا‘‘۔
مراد لیٹے لیٹے کہنے لگا ’’میں بھی یہی سوچ رہا تھا‘‘۔
مراد کی بیٹی جو دو بچوں کو کھاٹ کے درمیان لٹائے خود پٹی پر لیٹ رہی تھی۔ کہنے لگی:
’’ابا بے غم دیکھنے میں کیسی ہو گی؟‘‘ مراد بولا
’’لمبے قد کی جوان لڑکی۔ کیا بتاؤں جیسی آپ ویسا میاں۔۔۔‘‘
’’سورج چاند کی جوڑی ہوئی نا‘‘۔ اندھیرے میں مراد کی بیوی کی آواز آئی۔
’’میں نے غور سے دیکھا کب۔ سب بیگمیں ایک جیسی تو ہوتی ہیں‘‘۔ مراد بے چارہ بیگم کا سراپا بیان نہ کر سکا اور اس کی بیٹی اپنے تصور میں کوئی حلیہ مرتب نہ کر سکی۔
اگلی شام یہ جوڑا دیر سے آیا۔ مراد پھرتی سے آگے بڑھا اور بولا ’’ہار موتیے کے‘‘۔
لڑکی نے چھ ہار اور بارہ گجرے خرید کر موٹر کار میں رکھ لیے۔ اس کے میاں نے کار کو بند کیا اور وہ ہوٹل میں جانے کے لیے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ مراد نے دیکھا مناسب نقوش اور عمدہ لباس نے ایک ایسی شخصیت کو جنم دیا تھا جو بیک وقت پرکشش اور پر تمکنت تھی۔ چال میں ایک سبک رفتاری اور دھیما پن جیسے آہستہ آہستہ پھول کھلتا ہے، ہونٹ ایسے جیسے پھول برسانے والے مگر بند بستہ۔ کونوں میں مسکراہٹیں جیسے بچپن شوخی شرارتوں میں گزرا ہو۔ بابا مراد اس لڑکی کی طرف دیکھتا ہی رہا۔ اس نے غور کیا۔ ایک بچے نے اس کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔ کتنی پراسراریت تھی اس لڑکی میں۔ اس نے سوچا آج وہ گھر جا کر پورا ناک نقشہ بیان کر سکے گا۔ ’’ہار موتیے کے‘‘۔ وہ صدا لگاتا دوسری موٹر گاڑیوں کی طرف چل دیا۔
رفتہ رفتہ ہوٹل میں آنے والے اس صدا سے مانوس ہو گئے اور اب بابا مراد بھی سب کو پہچاننے لگا۔ کون کون پھولوں کا شوقین ہے۔ کون بیگم کتنے پھول خریدتی ہے۔ گجرے ساتھ لے جائے گی یا پہنے گی۔ ہار جوڑے پر سجائے گی یا کلائی پر لپیٹے گی، اسے اپنے گاہکوں سے آگاہی ہوتی چلی گئی۔
شہر بھر کی غلاظت بہا لے جانے والی سڑاند سے بھری بدرو پر بسنے والا یہ کنبہ ابھی کنجڑے بساطی اور آٹے دال والے کا پورا قرض چکا پایا تھا کہ مراد کی بیٹی کے بچے کو سوکھے کی بیماری لگ گئی۔ اس کی ٹانگیں سوکھنے لگیں اور بچے کے چہرے پر مردنی سی چھانے لگی۔ تاجا جو خود اپاہج اور معذور تھا، بہن کی بیٹی کی طرف دیکھتا تو اس کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ مراد کی روزانہ بہت آمدن ہوتی تو ڈھائی تین روپے ہوتی۔ اس سے مہنگی دوا خریدنا محال تھی۔ قرض لینا یوں محال تھا کہ جن سے قرض لیا جا سکتا تھا۔ وہ پہلے والے قرض کی ادائیگی کا تقاضا کر رہے تھے۔ جمعہ کے جمعہ اس کی بیٹی بچے کو دم کرانے لے جاتی اور پیر صاحب کو پانچ روپے نذرانہ دینا پڑتا۔ رات کو سارا کنبہ چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کھا کر پڑ رہتا۔ بازار میں ڈیوٹی پر لگا ہوا نیا سپاہی بالے کو الگ پریشان کر رہا تھا۔ بلا اجازت ریڑھی لگانے پر روز جرمانے کراتا۔ گھر کا ہر فرد ایک نہ ایک پریشانی میں مبتلا ہو گیا تھا۔
ایک جمعہ کو سویرے سویرے بابا مراد اپنی بیٹی اور نواسے کو دم کرانے کے لیے اٹھا تو اس کا سینہ جل رہا تھا۔ پانی پیٹے کے لیے گھڑے کی طرف بڑھا تو دیکھا جو تین ہار رات کو بچ رہے تھے وہ گھڑے کی گردن میں لپٹے پڑے تھے۔ اس نے وہ تین ہار اٹھا لیے اور بیمار نواسے کو لے کر چل دیا۔
راستے میں اس نے بیٹی سے کہا آج اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ بیٹی بولی۔ بابا آپ کو تو کچھ نہ ہو۔ سارا گھر تو آپ کے دم سے چل رہا ہے۔
نذرانہ کے ساتھ بابا مراد نے تین ہار بھی پیر صاحب کے سامنے رکھ دیئے۔ پیر صاحب نے دو ہار اپنے سامنے پڑے رہنے دئیے۔ ایک اٹھا کر اس عورت کے گلے میں ڈال دیا جس کو آسیب کا سایہ بیان کیا جاتا تھا۔ اس کے گلے میں ہار ڈال چکنے کے بعد پیر صاحب نے عورت کا ماتھا دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کچھ پڑھا، پھر ان کے دونوں ہاتھ عورت کے رخساروں پر خاصی دیر رکے رہے جیسے وہ گالوں کی گرمی محسوس کر رہے ہوں، پھر سینے پر سے ہوتے ہوئے ناف تک اور پھر گھٹنوں تک پہنچ کر ہوا میں اٹھ گئے اور انہوں نے منہ سے چھو کی آواز نکالی۔
بابا مراد نے عورت کی طرف دیکھا۔ اس کی مستانی آنکھوں میں ایک کرن سی پھوٹی اور منہ سے ٹھنڈی سی آہ نکلی۔ بابا مراد نے محسوس کیا اس عورت کے گلے میں پڑتے ہی اس کا ہار کس طرح اپنی شخصیت بدل گیا۔ کیا پھول کوئی پر اسرار شے ہے۔ کیا پھولوں میں کوئی بھید ہوتے ہیں، وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ پیر صاحب نے اپنے سامنے سے ایک ہار اٹھا کر اسے دیتے ہوئے کہا:
’’کتاب اللہ پر چھوڑنا‘‘۔
یہ ہار بھی ایک دم اپنی شخصیت بدل گیا۔ جو ہار پیر صاحب کے سامنے پڑا تھا، اس کی تیسری شخصیت تھی جو دونوں سے الگ تھی۔ کیا پھول کوئی حروف ہیں جن سے کوئی ایسی زبان بنتی ہے جس کی بلاغت صرف نگہت گل کی وساطت سے سمجھ میں آتی ہے۔ کیا پھول کے پردے میں کوئی بھید چھپے ہوتے ہیں۔ کھوکھوں پر بیٹھنے والے تمام گل فروش اس کی نگاہوں کے سامنے پھر گئے اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ پھولوں کے ہار نہیں گوند رہے بلکہ ایک ایک راز اور ایک ایک بھید کو چھید چھید کر دھاگوں میں پروئے جا رہے ہیں۔ یہ ہار ایسی عبارتیں ہیں جو پردہ گل سے بنتی ہیں، جسے صرف پڑھنے والے پڑھ سکتے ہیں۔ ایسے معنی ہیں جو سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں۔ ہر پھول کی ایک شخصیت ہے جو قائم بھی ہے، نہیں بھی۔
اگلی سہ پہر کو جب وہ سرکنڈے پر ہار اور گجرے لٹکائے ہوٹل کے سامنے پہنچا تو اس نے جھجکتے جھجکتے ایک بیگم سے کچھ روپے قرض مانگنے چاہے مگر زبان گنگ ہو گئی۔ اتنے میں اس خاص بیگم کی کار آ کر رکی۔ خاوند بیوی اترنے ہی والے تھے کہ بابا مراد ہار لے کر آگے بڑھا۔ بیگم بولی:
’’بابا کیا حال ہے؟ آج تمہارا چہرہ اترا ہوا کیوں ہے؟‘‘
مراد ہاروں والا سرکنڈا آگے کرتے ہوئے بولا:
’’بیگم ساب میرا نواسہ سخت بیمار ہے۔ میری لڑکی بے آباد بیٹھی ہے۔ داماد بساتا نہیں۔ آپ آج سارے ہار لے لیں۔ مجھے کچھ پیسے کی ضرورت ہے۔ بیگم نے بابا کر طرف ہمدردی سے دیکھا اور بولی ’’کتنے پیسوں کی ضرورت ہے؟‘‘
اس نے سرکنڈے سے دو ہار اور گجرے اتار لیے۔ پرس میں سے دو دس دس روپے کے نوٹ نکال کر بولی:
’’بیس روپوں سے کام ہو جائے گا‘‘۔
’’خدا زیادہ دے۔ خدا خوش رکھے۔ خدا آپ کے بیٹے کو سلامت رکھے‘‘۔
بابا مراد کو اعتبار نہیں آ رہا تھا کہ کوئی اسے یوں جانے بوجھے بغیر بیس روپے کی رقم دے سکتا ہے۔ وہ باقی ہار بیچنے بھول گیا۔ چند منٹ منڈیر پر بیٹھ کر اٹھ بیٹھا اور موٹر گاڑی والے ڈرائیوروں سے اس بیگم کا پتہ پوچھنے لگا جو چند روپوں سے اس کے شعور میں دھیرے دھیرے داخل ہوتی چلی جا رہی تھی۔
آج رات پھر گندی بدرو پر واقع گنجان گلی کے تنگ مکان میں گھر کے تمام افراد بابا مراد کے حالیہ واقعہ کو بار بار سننا چاہتے تھے اور وہ بار بار سنانا چاہتا تھا کہ بیگم کی آنکھوں میں کس طرح ہمدردی تھی کہ اس نے پوچھے بنا بیس روپے نکال کر اس طرح دے دئیے جیسے وہ اسے عرصہ سے جانتی ہو۔ مراد کی بیوی بولی:
’’دنیا میں خدا ترس لوگ ابھی موجود ہیں‘‘۔
بے آباد بیٹی فرشتہ سیرت بیگم کے لیے جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں مانگنے لگی اور معذور تاجے کے چہرے پر شکرانے کے جذبات اس طرح آشکارا ہونے لگے جیسے وہ بیگم کی ذات کی اہمیت اور اثر انگیزی کے حلقہ میں اپنے آپ کو مبتلا کر دینے میں خوشی اور آسائش محسوس کر رہے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ان بیس روپوں سے بچے کے لیے ٹیکے خرید لیے جائیں۔ پھر چند دنوں میں بیگم کی کوٹھی پر جا کر مراد بابا کو بیس روپے واپس کر دینے چاہییں۔
بالے نے بارہ روپے پچاس پیسے جمع کر کے باپ کو دے دئیے۔ مراد نے ساڑھے سات روپے اپنی پونجی اس میں ڈالی
اور پتہ پوچھتا پاچھتا سلطان حبیب کی کوٹھی پر جا پہنچا جو بیگم کے میاں کا نام تھا جو ہوٹل کے ڈرائیوروں سے اسے معلوم ہوا تھا۔ ملازم کے ذریعہ اندر اطلاع کرائی کہ پھول بیچنے والا آیا ہے۔
بیگم مسکراتی ہوئی برآمدے میں آئی اور بولی ’’بابا جی آپ کس طرح آن پہنچے‘‘۔
مراد مٹھی میں پکڑی ہوئی رقم مودبانہ انداز میں بڑھاتے ہوئے بولا ’’بیگم صاحب اس روز پھولوں کی قیمت آپ نے بہت زیادہ دی تھی۔ واپس کرنے آیا ہوں‘‘۔
وہ بولی ’’پھول کی کوئی قیمت نہیں ہوتی بابا جی۔ واپس لے جاؤ‘‘۔
گندے نالے پر پھٹے حالوں رہنے والے افراد آج پھر اس واقعہ پر حیران، خوش اور مسرور تھے کہ دنیا میں کیسے ہمدرد، خدا ترس، اور غم کو بانٹ لینے والے لوگ موجود ہیں۔ بیگم برآمدے میں آئی تو کیا بولی، بابا مراد کی بیوی پوچھتی اور پھر مراد بار بار دہراتا۔ ہر بار مراد کی بیٹی بڑے دھیان سے سنتی۔ بابا مراد کہتا ’’ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بیگم جب چلتی ہے تو زندگی کی خوشیاں اس کے ساتھ چلتی ہیں، جب بولتی ہے تو پھول جھڑتے ہیں۔ وہ آپ ایک شگفتہ اور تر و تازہ پھول ہے۔ اس کا چہرہ ہر وقت مسکراتا رہتا ہے‘‘۔
بابا مراد کی غمزدہ بیٹی کی آواز پھڑپھڑائی ’’ہائے میں کس طرح بے غم کو دیکھوں۔ میرا بڑا جی چاہتا ہے اسے دیکھنے کو‘‘۔ اس کے خیال میں بیگم دکھ اور سکھ، درد اور راحت کا ایک ایسا رشتہ تھا جو پوری کائنات ہے اور وہ اس کائنات کو لمحہ بھر کے لیے دیکھنا چاہتی تھی بلکہ خود اس میں سما کر منہا ہو جانا چاہتی تھی۔
فیصلہ یہ ہوا کہ اگلے اتوار بابا مراد فیروز دین گل فروش سے موتیے کی کلیاں لے کر آئے گا اور اس کی بیوی اور بیٹی ہار گوند کی گیلی ململ میں لپیٹ کر بابا مراد کے ہاتھ بیگم کو تحفہ بھیجیں اور پھر کسی روز اسے سلام کرنے جائیں۔
اتوار سے دو روز پہلے جب بابا مراد جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تو بیوی نے اسے فیروز دین کو پھولوں کی یاد دہائی کرانے کو کہا۔ بازار سے دھاگے کی نئی گولی منگائی۔ ہار گوندنے کے لیے بالا باریک سوئیاں خرید لایا۔ مراد نے بیوی کو بتایا کہ کس طرح ہر روز تڑکے تڑکے کیاریوں سے پھول توڑے جاتے ہیں اور گل فروشوں کے گھر چھوٹی چھوٹی ٹوکریاں پھولوں سے بھر جاتی ہیں، اور فیروز دین نے اتوار کو صبح صبح اپنے گھر آ کر اسے پھول لے جانے کو کہا ہے۔
ہفتہ کی شام کو جب بیگم سلطان حبیب نے بابا مراد سے چار گجرے اور دس ہار خریدے تو وہ گھر جا کر بولا ’’مجھے آج معلوم ہوا کہ بیگم جو اتنے گجرے اور ہار خریدتی ہے وہ جا کر اپنی ملنے والیوں کو تحفہ دیتی ہے۔ کتنا اچھا طریقہ ہے۔ آج بیگم کے میاں نے جو کہا کہ فلاں فلاں کے لیے بھی لے لو، تو جب مجھے معلوم ہوا‘‘۔
مراد کی بیوی بولی ’’اچھی بات ہے۔ بیگم کے طفیل ہمارے ہار کہاں کہاں پہنچ جاتے ہیں، کس وقت پھول لینے جاؤ گے؟‘‘
بابا مراد نے جواب دیا ’’نماز پڑھ کر نکل جاؤں گا۔ صبح کے وقت ریڑھے بہت ہوتے ہیں کسی پر بیٹھ جاؤں گا‘‘۔
بابا مراد اگلے روز اذان ملتے ہی نماز کے لیے مسجد کی طرف چل دیا اور اس کی بیوی تغارہ اٹھا کر گوبر ڈھونڈنے اور اکٹھا کرنے چل دی۔ بابا کی بیٹی نے چولہا جلا کر روٹیاں پکائیں۔ پچوے پر سے چائے کی پتیلی اتاری، اپنے بچوں کو پلائی۔ معذور تاجے کے آگے جو مونجھ کی پیڑی پر جڑا بیٹھا تھا روٹی اور چائے کا پیالہ رکھا۔ بالا صبح صبح سبزی منڈی جا چکا تھا۔ جہاں وہ کچھ اپنے معمول کے مطابق کھا پی لیتا تھا۔ وہ ابھی فارغ ہوئی تھی کہ اس کی ماں آن پہنچی۔ تغارہ رکھ کر بولی ’’بیٹی میں آج زیادہ دور نہیں گئی۔ مجھے بھی چائے دے دو، پھر ہم دونوں کو ہار گوندنے ہیں۔ تیرا ابا آتا ہی ہو گا‘‘۔
دیکھتے دیکھتے جب کافی دن نکل آیا تو مراد دروازے کا ٹاٹ اٹھا کر اندر داخل ہوا اور بولا ’’فیروز دین نے مجھ سے پھولوں کا روپیہ تو لے لیا مگر کلیاں بھی وہ دیں کہ دیکھا کرو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے کلیوں کا لفافہ چنگیر میں الٹ دیا۔ اس کی بیوی کلیوں کا جائزہ لیتے ہوئے بولی ’’میں بازاری ہاروں کی طرح چھوٹے چھوٹے نہیں، ان کے تو لمبے لمبے ہار پروؤں گی‘‘۔
جون کا مہینہ، بیٹی نے ململ کی گیلی صافی میں ہار لپیٹ کر دئیے، بیگم کی کوٹھی تک پہنچتے پہنچتے دس بج گئے۔ صافی کا کپڑا سوکھ گیا۔ وہ سوچنے لگا، ہار دیتے ہوئے یہی کہوں گا کہ یہ ہار بازاری نہیں ہیں آپ کے لیے خاص طور پر بنا کر لایا ہوں، کتنے لمبے ہیں۔ بازاری ہار کی طرح چھوٹے چھوٹے نہیں۔ پھر وہ سوچتا بیگم خود بخود دیکھ کر پہچان لے گی کہ یہ ہار گل فروشوں کے ہاتھوں کے نہیں۔ گھرہستنوں کے بنے ہوئے ہیں۔ گھر سے باہر جو موٹر گاڑیاں کھڑی تھیں ان کو دیکھ کر وہ کپڑے کی صافی کو خواہ مخواہ چھپانے لگا اور گاڑیوں کی اوٹ میں سے ہوتا ہوا صدر دروازے میں سے داخل ہو گیا۔ اندر خاموشی کا عالم تھا۔ لوگ باگ ادھر ادھر چپ چاپ کھڑے تھے۔ نوکر پیشہ دیوار کے ساتھ لگے سہمے کھڑے تھے ایک سے پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘
بولا ’’بیگم فوت ہو گئیں‘‘۔
کب؟
’’رات، دماغ کی رگ پھٹ گئی‘‘۔
اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا۔ وہ وہیں کا وہیں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ کوئی کہہ رہا تھا۔ ماں باپ پہنچ گئے ہیں۔ خسر اور ساس کا انتظار ہے۔ اس نے دیکھا برآمدے کے ایک کونے میں بیگم کا میاں اپنے سر کو ہاتھوں میں پکڑے گم صم بیٹھا ہے۔ نعش کو برف کی سلوں کے درمیان رکھا ہوا ہے۔ باغیچہ میں دھوپ آ گئی ہے۔ وہاں بیٹھی ہوئی عورتیں پیڑوں کے سائے میں کھسک گئی ہیں۔ گھر کا کوئی پرانا نوکر مرنے والی کے بیٹے کو کندھے سے لگائے کوٹھی سے باہر لے گیا۔ دو سال کے بیٹے کے چہرے پر عجب طرح کا خوف ڈر دکھائی دے رہا ہے۔ یہ اس کا بیٹا ہے جس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹوں کی کھلاوٹ رہتی تھی۔ وہ ذرا اور آگے کو کھسک گیا۔ اس کی بیگم برف کی بلوریں سلوں میں ساکت لیٹی پڑی تھی۔ رنگ دار دوپٹہ اور پھول دار قمیص پہنے ہوئے ایک بے جان اور بے حس جسم تھا، جس کے سر کے باریک بالوں کی لٹوں کو اس کی ماں ہاتھوں میں لے لے کر اس کا لمس محسوس کر رہی تھی اور چپ چاپ زار زار رو رہی تھی۔ نعش کے پاس سٹول پر بجلی کا پنکھا تیز تیز چل رہا تھا۔ ساتھ والی کوٹھیوں کی بیگمیں برآمدے کے پاس پہنچتیں تو ان کے منہ سے نکلتا ’’اللہ اتنی جوان موت کسی کو نہ آئے‘‘۔ یہ کہنے کے ساتھ ہی ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتیں جنہیں وہ دوپٹے کے پلو سے پوچھنے لگتیں۔ نعش کی طرف دیکھتیں اور بے ساختہ ان کے منہ سے ہائے ہائے نکلتا۔ اتنے میں کوٹھی میں کہرام مچ گیا۔ سلطان حبیب کا باپ اور ماں صدر دروازے سے داخل ہوئے۔ مرنے والی کے باپ کے منہ سے ایک کربناک فریاد نکلی ’’میری بیٹی کو تو نے امانت کہا تھا۔ کہاں ہے میری امانت، میری امانت مجھے واپس دے دو‘‘۔ پھر لڑکی اور لڑکے کا باپ بغل گیر ہو کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ سلطان حبیب اپنی ماں کے گلے لگ کر زار زار رونے لگا۔ پھر وہ بہو کے سرہانے کھڑی ہو کر بین کرنے لگی اور اپنے بال نوچنے لگی۔ بابا مراد کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ وہی پر شباب لڑکی بے جان و بے حس مردہ پڑی تھی جس کے انتظار میں وہ بے چین اور مضطرب رہتا تھا۔ جو اس کے شعور میں دھیمے دھیمے جذب ہوتی چلی گئی تھی۔ جس کے ہاتھوں گجرے بیچ کر اسے اصلی خوشی حاصل ہوتی تھی۔ جس کا ذکر وہ گھر جا کر گھنٹوں کیا کرتا تھا۔ جس کے لیے آج وہ ہار لے کر آیا تھا۔
وہ دور کونے میں جا کر تنہا بیٹھ گیا اور چاروں طرف بتر بتر دیکھنے لگا۔ اتنے میں مردہ نہلانے والی آن پہنچی۔ کفن دفن کا انتظام ہونے لگا۔ مراد اور زیادہ اداس ہو گیا۔ وہ وہاں سے اٹھ کر صدر دروازے کے قریب باہر آن بیٹھا اور سوچنے لگا بیٹھوں کہ چلا جاؤں۔ میرا اس گھر میں کوئی واقف نہیں۔ شوق سے پھول خریدنے والی آج خود مرجھا چکی۔ اس کا میاں مجھے نہیں پہچان سکتا۔ مجھے کوئی نہیں جانتا۔ جو جانتی تھی اگلے دیس سدھاری، میں کس کے لیے رکوں۔ مگر وہ بیٹھا رہا جیسے کسی انجانی طاقت نے اسے جکڑے رکھا۔
اندر سے ایک دم چیخ پکار اٹھی۔ عورتوں کی آہ و بکا سنائی دی۔ کسی نے کہا کلمہ شہادت۔ اس نے دیکھا عزیز و اقارب کندھوں پر جنازہ اٹھائے کوٹھی سے باہر نکل رہے ہیں۔ وہ بھی کندھا دینے کو اٹھا اور پھر ہجوم کے ساتھ ساتھ ایک اجنبی بنا قبرستان کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں وہ صرف قبر کو مٹی دینے کے لیے اٹھا اور پھر آ کر وہیں ایک ٹوٹی ہوئی قبر کے پاس بیری کے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔
جب سب جا چکے اور چھڑکاؤ کی ہوئی تازہ قبر کے پاس دو حافظوں نے قرآن خوانی شروع کر دی تو بابا مراد اٹھا۔ قبر کے قریب آیا قبر پر پھولوں کی چادر پڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ اس نے اپنی ململ کی صافی کھولی۔ پھولوں کے ہار نکالے۔ منہ سے اللہ اکبر نکلا اور اس نے وہ تمام ہار قبر پر ڈال دئیے۔ یہ دیکھ کر اس کا دل لرز گیا کہ یہ ہار اتنے ہی لمبے تھے جتنی قبر۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر مغفرت کے لیے دعا مانگی اور جتنی آیتیں اسے یاد تھیں، پڑھ ڈالیں۔
تھکا ہارا بھوکا پیاسا ٹاٹ اٹھا کر اندر داخل ہوا تو دوپہر ڈھل چکی تھی۔ کوٹھڑی کی دہلیز پر اپاہج تاجا بیٹھا تھا۔ ’’بڑی دیر کر دی بابا جی‘‘۔
تاجے کی آواز سن کر گھر کے باقی افراد بھی آ گئے۔ مراد نے کوٹھی پر پہنچنے سے لے کر قبرستان اور قبرستان سے گھر تک سب کچھ کہہ سنایا۔ کبھی اس کی آنکھیں ڈبڈبا آتیں کبھی آواز رندھ جاتی۔ سب افراد غمگین اور اداس ہو کر خاموش بیٹھ گئے۔ جس کا چہرہ دیوار کی طرف تھا، وہ خالی خالی نظروں سے دیوار کی طرف ہی دیکھتا چلا گیا، جو زمین کی طرف دیکھ رہا تھا، وہ زمین کی طرف ہی دیکھنے لگا۔
ان کے جذبات حزیں ایسے تھے جیسے کوئی گھر کا فرد مرگیا ہو۔ اسے پھٹے پرانے مفلس گھر میں بیگم کا ذکر بیگم کی بات ہوتی تو ہر فرد بار بار پوچھتا اور بابا مراد خوشی سے بار بار دہراتا۔ آج کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔ جیسے سب باتیں ختم ہو گئیں۔ سب ذکر جاتے رہے، سب کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔
مرنے والی کے میکے یا سسرال کے رشتے دار جب بھی قبرستان کی اس سڑک پر سے گزرتے رک جاتے اور قبر پر جا کر فاتحہ ضرور پڑھتے۔ یہ دیکھ کر ان کو ہمیشہ حیرت ہوتی کہ پختہ قبر کے اردگرد ہمیشہ کسی نے جھاڑو دیا ہوتا۔ طاقچہ میں بھجی ہوئی موم بتی پڑی ہوتی۔ کبھی تازہ کبھی مرجھایا ہوا ہار پڑا ہوتا۔ پھول قبروں پر ہوتے ہیں ہیں مگر پھولوں کے گجرے کون ڈال جاتا۔
بابا مراد نے اپنا معمول بنا لیا کہ ہفتے میں کم از کم دو بار تو ضرور قبر پر ہار اور گجرے چڑھا آتا۔ فاتحہ پڑھتا۔ جھاڑو دیتا۔
وہ ایک دن اپنی بیوی بیٹی اور معذور تاجے کو قبرستان لے گیا۔ اس کی بیوی اور بیٹی جب تک تسبیح پڑھتی رہیں وہ اور معذور تاجے تکیے میں گورکنوں سے قبروں اور قبروں میں مدفون افراد کی باتیں سنتے رہے۔ اس کے بعد قبرستان والوں سے مراد کی واقفیت روز بروز بڑھتی گئی۔
بڑی سڑک کے ناکے پر جہاں سے قبرستان کے تین راستے تین سمتوں میں نکلتے تھے۔ ایک چھوٹی سی کوٹھری اور رنگنائی تھی جس میں ایک ریڑھے والا اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ بیوی کا اپنا جدی مکان تھا۔ ایک دن وہ ریڑھے والے کے گھر جا نکلا۔ اپنے متعلق تعارف کرایا کہ پھول بیچتا ہوں۔ میری ایک درخواست ہے میں چاہتا ہوں تمہاری انگنائی میں باہر جو درخت ہے اس کے نیچے پھولوں کی ایک ٹوکری رکھ لیا کروں۔ ناکے سے قبرستان کی تین پگڈنڈیاں نکلتی ہیں۔ قبروں پر آنے والوں کو پھولوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ میرا ایک معذور بیٹا ہے جس کی ٹانگیں جڑ گئی ہیں۔ اس کو صبح یہاں لا کر بٹھا دیا کروں گا شام کو لے جایا کروں گا۔ درخت کے نیچے سایہ ہے بیٹھا رہا کرے گا۔ پھولوں کی جو بکری ہو گی، آدھی تمہاری آدھی اس کی۔
وہ بولا ’’بابا جی پھولوں سے کیا بکری ہو گی۔ تم چھابا لگانا چاہتے ہو لگا لو‘‘۔
اگلے روز مراد نے ایک روپیہ کی گلاب کی پتیاں چھابے میں ڈال کر تاجے کو وہاں بٹھا دیا۔ جس نے شام کو دو روپے بنا لیے۔ بابا مراد اگلے روز پھول اور پتیاں زیادہ لے آیا۔ سب بک گئیں۔ جمعرات کو اور بھی زیادہ بکری ہوئی۔
اب کسی ہفتے بکری کم ہوتی کسی ہفتے زیادہ۔ جو پتیاں بچ جاتیں۔ بابا مراد بیگم کی قبر پر رکھ آتا۔ اس دوران ریڑھے والے نور نے محسوس کیا کہ تاجا معذور ہوتے ہوئے بھی کام چور نہ تھا۔ کسی نہ کسی کام میں ہاتھ بٹا دیتا تھا۔ چھوٹی بچی کو پلنگڑی پر بٹھا دیا جاتا تو تاجا پنکھی ہلاتا رہتا۔ سلا دیا جاتا وہ مکھیاں اڑاتا رہتا۔ حقہ ہر وقت تیار۔ آیا گیا رک جاتا۔ نور بھی شام کو آتا تو بیری کے درخت کے نیچے تاجے کے پاس بیٹھ کر حقہ پیتا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتا۔ صبح آنے لگتا تو گھوڑے کا مصالحہ بنانے کو دے جاتا۔ گھسیارا گزرتا تو تاجا اس سے بھاؤ کر کے نور کے گھوڑے کے لیے عام نرخ سے سستا گھاس خرید رکھتا۔ ایکا ایکی چھوٹی بچی تاجے سے مانوس ہو گئی۔ اس کی گود میں پڑی رہتی اور تاجا بان کی پیڑی پر بندھا جکڑا بیٹھا رہتا۔ تاجا رو مال میں لپٹی ہوئی اپنی روٹی صبح صبح اپنے ساتھ لے آتا۔ شام کو اس کا بھائی بالا بائسیکل کے ڈنڈے پر بٹھا کر لے جاتا۔ مگر اب تو کبھی نور اسے روٹی کا بھی پوچھ لیتا اور بیوی اسے چائے کا گلاس بھی دے دیتی۔
ایک دن گاؤں سے نور کی ساس کی بیماری کی اطلاع آئی۔ اس کی بیوی بچوں کو لے کر گاؤں جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ نور نے کہا وہ اتنے دن روٹی بازار سے کھا لے گا۔ تاجا بولا ’’بھائی نور تم کو پہلے ہی بہت کھانسی آتی ہے۔ تم بازار سے کیوں کھانے کو کہہ رہے ہو۔ میں روٹی پکا لیا کروں گا سارا دن بیکار ہی تو بیٹھا رہتا ہوں۔ گھر نہیں جاؤں گا، یہیں پڑا رہوں گا۔
بالا لینے آیا تو تاجے نے بتا دیا کہ وہ یہیں رہے گا جب تک نور کی بیوی گاؤں سے نہیں آ جاتی۔ یہ سن کر اگلے روز بابا مراد آ گیا، بیری کے نیچے پھولوں کا چھابا کھوکھے پر رکھا تھا۔ تاجا چولہے کے سامنے بیٹھا دیگچی مانجھ رہا تھا۔ مراد نے دیکھا قبروں کے لیے کوئی پھول لینے آتا تو تاجا چولہے کے پاس سے ہی بیٹھا بولتا ’’کتنے کے چاہییں۔ چار آنے کے آٹھ آنے کے؟ جی آپ ہی لے لیں، پیسے وہیں رکھ دیں بوری کے نیچے۔ میں کیا بتاؤں جتنے ہونے چاہییں مناسب۔ چار آنے کے لے لیں، پھول کی کوئی قیمت
نہیں ہوتی جی‘‘۔
یہ جملہ سن کر بابا مراد کے سینے میں تیر لگا۔ یہ جملہ کس نے کہا تھا۔ جس نے کہا تھا وہ منوں مٹی کے نیچے پڑی تھی۔ مرنے والی کی بے بسی کے ساتھ ہی اسے اپنے بیٹے کی بے بسی اور معذوری کا خیال آیا جس کی صورت اچھی تھی جس کا پہلوانی بدن تھا، مگر ٹانگیں ماری گئی تھیں۔ اب معذور اور ناکارہ ہو کر مٹی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔ وہ سوچنے لگا یہ جملہ تاجے کے دماغ میں کس طرح محفوظ رہ گیا، کس کونے میں چھپا ہوا تھا کہ آج آپ ہی آپ زبان سے ادا ہو گیا۔ جب تک تاجا بیٹھا سبزی بناتا رہا۔ ہنڈیا پکاتا رہا۔ آٹا گوندھتا رہا۔ مراد کھوکھے کے پاس بیٹھا سوچتا رہا، حقہ گڑگڑاتا رہا اور قبروں پر جانے والی بیبیوں کے پاس پھول بیچ کر پیسے بوری کے نیچے رکھتا رہا۔
جب اس کا اپنا وقت ہار بیچنے کا قریب آنے لگا تو وہ گلہ تاجے کے سپرد کر کے رخصت ہوا۔ اگلے روز آیا تو تاجا پھر اسی طرح چولہے کے سامنے بیٹھا وہیں سے ہدایات دے دے کر پھول بیچ رہا تھا۔ بابا مراد نے رو مال کھول کر لپٹی ہوئی ایک تختی نکالی اور اسے چھابے میں رکھ دیا۔ لکڑی کی تختی پر لکھا ہوا تھا۔ پھول کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
’’لے بولتا جا اب بیشک وہیں سے۔ کوئی پڑھا ہوا بابو آ گیا تو آپ ہی پڑھ لے گا‘‘۔
’’کل کی آمدن بھی اتنی رہی جتنی میرے وہاں گلے پر بیٹھنے سے تھی۔ آمدن میں کوئی فرق نہیں پڑا بابا‘‘۔
’’میرا خیال تھا کہ کم پڑ جائے گی۔ جبھی میں یہ لکھوا لایا۔ تمہاری ماں پوچھتی تھی تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں؟‘‘
تاجا بولا ’’کونسی تکلیف۔ نور نے تو کھلا گھر مجھ پر چھوڑ رکھا ہے۔ میں معذور اپاہج کہاں بھاگ سکتا ہوں‘‘۔
مراد نے کہا ’’ایسا نہ کہہ بیٹا۔ تو تو کئیوں سے اچھا ہے۔ دو ڈھائی کی کار کر لیتا ہے‘‘۔
بابا مراد اور تاجا بیٹھے یہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک ریڑھے والے نے سڑک پر ریڑھا کھڑا کیا اور انگنائی سے سیدھا چولہے کی طرف آ کر بولا ’’نور کی بیوی فیروزاں کہاں ہے؟‘‘
’’گاؤں گئی ہوئی ہے۔ اس کی ماں بیمار تھی‘‘۔
’’اسے اطلاع کر دو کہ نور کی ٹرک سے ٹکر ہو گئی ہے، گھوڑا مر گیا ہے۔ وہ ہسپتال میں بے ہوش پڑا ہے‘‘۔
ہمیں ہسپتال لے چلو‘‘۔
وہ بابا مراد اور تاجے کو اپنے ریڑھے پر بیٹھا کر ہسپتال پہنچا۔ نور کے سر پر پٹیاں بندھی تھیں، وہ بالکل بے ہوش پڑا تھا۔ بابا مراد نے اس کے کسی ملنے والے کا پتہ کر کے نور کی بیوی کو حادثہ کی اطلاع پہنچائی۔ جب وہ واپس آئے تو ٹوکری کے پھول آدھے ختم ہو چکے تھے۔ تختی کے نیچے ملے جلے بارہ آنے پڑے تھے۔ بور اٹھائی تو اس کے نیچے سے ایک روپیہ ستر پیسے ملے۔
یہ دو روپے چھ آنے کے پھول ان کی غیر حاضری میں بکے تھے۔
بابا مراد نے رات ہسپتال میں نور کے سرہانے گزاری جو بالکل بے ہوش پڑا رہا۔ صبح روتی چلاتی اس کی بیوی ہسپتال پہنچی
اور شام کو نور نے دم دے دیا۔ وہ بھی اسی قبرستان میں دفن ہوا۔
جب نور کی بیوی کو اس کی ماسی چند روز کے لیے اپنے ساتھ لے گئی تو تاجا گھر کی نگہداشت کرتا رہا۔ دن کے وقت بابا مراد اس کے پاس آ بیٹھتا، سہ پہر کو چلا جاتا۔ نور کی بیوی آئی تو تاجا دھاڑیں مار مار کر رو دیا۔ بولا ’’نور بنا میں سخت اداس ہو گیا ہوں‘‘۔
فیروزاں زار زار رونے لگی اور بولی ’’کیا مجھ سے زیادہ اداس ہو گئے ہو۔ ان بچوں سے بھی زیادہ اداس ہو گئے ہو‘‘۔ تاجے نے چھوٹی کو اپنی گود میں بٹھا کر پیار کیا اور اپنی صدری سے بیس روپے نکال کر فیروزاں کو دیتے بولا ’’یہ اپنے پاس رکھو‘‘۔ پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور بولا:
’’مرنے والا میرا دوست تھا۔ میں معذور ہوں مگر پھول بیچ کر ان بچوں کا گزارہ چلاؤں گا‘‘۔
چند روز گزرے تھے کہ بابا مراد کو باری کا بخار آنے لگا۔
ایک روز پھولوں کی کچھ مرجھائی پتیاں چھابے میں بچی پڑی تھیں۔ تاجے نے فیروزاں سے کہا ’’یہ لے جا کچھ نور کی قبر پر ڈال آ کچھ اس بی بی کی قبر پر، جہاں بابا جایا کرتا ہے۔ اتنے دنوں سے وہاں جھاڑو بھی نہیں دیا ہو گا۔ وہ بھی دے آنا‘‘۔
فیروزاں واپس آئی تو تھر تھر کانپ رہی تھی، جیسے بخار چڑھ رہا ہو، بولی ’’میرے اوپر کوئی موٹا کپڑا ڈال دو‘‘۔
’’کیوں‘‘
’’میں نور کی قبر پر پھول ڈال کر بی بی کی قبر پر پہنچی۔ ایک بابا قبر پر فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ سبز چغہ ہاتھ میں تسبیح۔ میں نے اسے دیکھا اس نے مجھے، پھر وہ میرے قریب سے گزرتا ہوا چلا گیا۔ میں نے پھول قبر پر رکھے۔ پھر جھاڑو دیا۔ جب جھاڑو کونے میں رکھنے لگی تو دیکھتی ہوں وہی بزرگ ایک سرکنڈے کے پیچھے کھڑا مجھے دیکھ رہا ہے، پھر وہیں غائب ہو گیا۔ میں خوف سے تھر تھر کانپنے لگی‘‘۔
تاجا خبر گیری بھی کرتا رہا۔ بچوں کو بھی سنبھالتا رہا۔ روٹی ہانڈی بھی کرتا رہا۔ پھول بھی بیچتا رہا۔ رات پڑتی تو چھابے کو پیڑی کے نیچے رکھ دیتا۔ صبح ہوتی تو چھابا گلاب کی پتیوں سے بھرا ہوتا پہلے دن اس نے سوچا بابا بیمار ہے، اس کو خیال آیا ہو گا۔ اس نے پھول صبح صبح بالے کے ہاتھ بھجوا دئیے ہوں گے۔ اگلے روز پھر ایسے ہی تیسرے روز پھر یہی۔ چوتھے روز فیروزاں کا بخار اتر گیا۔ بولی ’’تمہارا بابا بیمار تھا، پھول کون لاتا رہا‘‘۔
تاجے نے جواب دیا ’’صبح صبح بالا دے جاتا تھا‘‘۔
بڑے دنوں بعد بیماری سے اٹھ کر جب بابا مراد آیا تو بہت کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ فیروزاں نے لا کر اس کے آگے گرم گرم چائے رکھی۔ مراد نے اسے دعائیں دیں اور تاجے سے کہنے لگا ’’میں تمہیں اچھی خبر سناؤں۔ تمہاری بہن کی اپنے خاوند سے صلح ہو گئی ہے۔ اور وہ اپنے گھر چلی گئی۔ تمہاری ماں نے خوشی میں تمہارے لیے پنجیری بھیجی ہے‘‘۔
اس نے پنجیری کی پوٹلی کو ہاتھ میں پکڑ کر آہستہ سے کہا ’’بابا اتنے دن تم نے تو مجھے پھول نہیں بھیجے؟‘‘
’’نہیں تو‘‘۔
’’فیروزاں پوچھے تو بس یہی کہنا، بالا دے جاتا تھا‘‘۔
’’پر اتنی راز داری کیوں؟‘‘
’’میں رات کو خالی چھابا پیڑھی کے نیچے رکھ دیتا تھا۔ صبح گلاب کی پتیوں سے بھرا ہوتا تھا۔ فیروزاں نے ایک دن پوچھا تو میں نے کہا صبح صبح بالا آ کر دے جاتا تھا‘‘۔
بابا مراد آہستہ سے بولا۔ ’’بس یہ بات ہم دونوں میں رہے۔ تیسرے تک نہ پہنچے‘‘۔
تاجے نے مزید راز داری سے کہا ’’اب تو اس ناکہ پر ُپر اسرار بیری کے درخت کے نیچے جہاں گلاب کی پتیوں کا چھابا پڑا ہے اور پھول کسی نادرہ کاری کے زور پر آپ ہی آپ بکتے ہیں، ایک اکھاڑہ کھد چکا ہے، جہاں لڑکے کسرت کرتے ہیں، اور ٹانگوں سے ایک معذور شخص انہیں بڑی توجہ سے کسرت کے گر بتاتا دکھائی دیتا ہے۔
کوٹھڑی کے آگے بندھی بھینس کا دودھ دوہتی ایک عورت نظر آتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ ان دونوں کا رشتہ کس طاقت نے چکایا تھا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://urdukahani.org/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید