صفحات

تلاش کریں

چنیدہ حکایات (از ایم ائے بیگ)

ناداروں کی امداد

سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ سفر حج پر روانہ ہوئے ۔ سفر کی منزلیں طے کرتے ہوئے آپ حلا کے قصبہ میں پہنچے اور وہیں شب باشی کا ارادہ ظاہر فرمایا ۔ لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ جو ق دوجوق آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی آپ ہمارے گھر میں رونق افروز ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ اس بستی میں سب سے نادار اور محتاج کون سا آدمی ہے۔ لوگوں نے ایک مفلوک الحال بوڑھے کا پتا بتایا ۔ آپ نے سیدھا اس کے گھر کا رخ کیا ۔ دیکھا تو ایک شکستہ مکان ہے جس کو مکان کے بجائے کھنڈر کہنا موزوں ہے اس کی دیواریں گرجانے کی وجہ سے مکینوں نے پردہ کے لئے چاروں طرف بوسیدہ کمبل لٹکا رکھے ہیں ۔ اس مکان کے اندر آپ نے ایک بوڑھے شخص ایک بڑھیا اور ایک لڑکی کو بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ آپ نے صاحب خانہ سے مکان میں قیام کرنے کی اجازت طلب کی ۔ بوڑھے اھلاََ وسھلاََ کہا اور آپ اس کھنڈر نمامکان میں ٹھہر گئے ۔ تھوڑی ہی دیر میں آپ کی آمد اور اس مکان میں قیام کی خبر تمام محلہ میں پھیل گئی اور لوگ تحائف وہدایالے کر انبوہ درانبوہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے ۔ کئی صاحب ثروت لوگوں نے آپ کو اپنے ہاں چلنے کی دعوت دی لیکن آپ نے ان کو نہایت احسن طریقے سے ٹال دیا البتہ سب لوگوں کے تحائف وہدایا قبول کرلئے ان میں سونا، چاند، گائیں ، بھیڑیں ، بکریاں غلہ اور بے شمار دوسری اشیاء تھیں آپ کے جانے کے بعد اس بوڑھے کا شمار محلہ کے امیرترین لوگوں میں ہونے لگا ۔ فی الحقیقت اس کے گھر میں قیام سے آپ کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس کی امداد کی جائے اور اس کو ناداری اور فلاکت کی مصیبت سے نجات دلائی جائے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

زندہ قیدی

رائے پتھورا (پرتھوی راج ) نے اجمیر کو اپنا دارلسلطنت بنایا ہوا تھا ۔ ایک وقت آیا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اجمیر شریف کو اپنا ٹھکانہ بنالیا ۔ یہ بات پرتھوی راج کو بہت ناگوار گزری ۔ اس کے درباریوں نے بھی اس بات کو بہت ناپسند کیا ۔ وہ آپ کو یہاں سے نکلالنا چاہتے تھے مگر آپ کی عظمت اور آپ کی کرامتوں کی وجہ سے ان کو اس بات کی جرات نہ ہوئی کہ وہ آپ کے خلاف کچھ کر سکیں ۔
رائے پتھورا کے ہاں ایک مسلمان ملازم تھا ۔ وہ حضرت خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے بڑی عقیدت رکھتا تھا ۔ پرتھوی راج کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ اس مسلمان کو بہت تنگ کرنے لگا ۔ بات بات پر اس کو ذلیل کرتا ۔ مسلمان کو بھی اس بات کا پتہ چل گیا کہ راجہ اس پر کیوں زیادتیاں کررہا ہے ۔ اس نے جا کر اس بات کی شکایت حضرت خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے کی ۔ آپ نے اس مسلمان کی سفارش رائے پتھورا سے کی مگر وہ بدبخت اپنی بات پر اڑا رہا اور حضرت خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی سفارش کی کوئی پرواہ نہ کی ۔ بلکہ یہاں تک بڑھ گیا کہ اپنے درباریوں سے کہنے لگا :
یہ فقیر جو اس جگہ پر آیا ہوا ہے اور غیب کی باتیں بتاتا پھرتا ہے اور ہم پر اپنا حکم چلانے کی کوشش کرتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ یہ یہاں سے چلا ہی جائے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کو بھی راجہ کی اس بات کی خبرہوگئی ۔ آپ کی زبان مبارک سے یہ بات فوراََ نکل گئی ۔
ہم نے رائے پتھورا کو زندہ ہی مسلمانوں کے حوالے کردیا ۔
تھوڑے ہی دنوں کے بعد سلطان معزالدین لشکر اسلام کے ساتھ غزنی سے اجمیر پہنچا اور رائے پتھورا نے اس مقابلے میں بری طرح شکست کھائی اور مسلمان اس کو زندہ گرفتار کرکے لے گئے ۔ اس طرح حضرت خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی پیشین گوئی پوری ہوگئی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قدرت کا ملہ کا منظر 

ایک جہاز سمندر میں اپنے سفر پر رواں دواں تھا ۔ مسافر بڑے اطمینان سے بیٹھے سفر کررہے تھے ۔ اچانک سمندر میں طوفانی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں ، یہاں تک کہ جہاز کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ۔ ہر طرف چیخ وپکار پڑگئی ۔ لوگ ادھر اُدھر اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنے لگے ۔
اس گھبراہٹ اور افراتفری سے بے نیاز ایک مسافر ایک کونے میں حالت مراقبے میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اس نے ایک کمبل اوڑھ رکھا تھا ۔ تمام مسافر اس کمبل پوش مسافر کے پاس آئے اور کہنے لگے ۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم ہلاکت کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں اور سخت طوفانی ہواؤں سے جہاز کے غرق ہونے کا خطرہ ہے اور آپ اطمینان سے سورہے ہیں ۔
اس کمبل پوش نے نظریں اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا اور پھر آسمان کی طرف چہر ہ اٹھا کر بولا :
اے اللہ ، ہم نے تیری قدرت کا ملہ کودیکھ لیا ہے اب اپنے فضل وکرم سے ہمیں معاف فرما ۔
اس مسافر کے منہ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی کہ سمندر ایک دم پرسکون ہوگیا۔ ہوائیں چلنا بند ہوگئیں ۔ لوگ حیرت سے اس مسافر کود یکھتے ہوئے واپس اپنی جگہ پر چلے گئے ۔
یہ مسافر کوئی عام شخص نہیں تھا ۔ خدا کے برگزیدہ ولی حضرت ابراہیم ادھم رحمتہ اللہ علیہ تھے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تربیت اور ماحول 

وزیر کی جان پہ بنی ہوئی تھی، فقیر بات ہی نئیں سُن رہا تھا ، آخر طویل مِنت سماجت کے بعد فقیر نے سر اٹھایا ،ہاں بول کیا کہنا ہے ؟وزیر نے ہاتھ جوڑے اور بتانا شروع کیاایک مہینہ پہلے ہمارے بادشاہ سلامت نے اچانک دربار میں ایک سوال اچھالا کہ کامیاب کردار کے لئے تربیت زیادہ کارآمد ہے یا ماحول ؟ میرے ایک ہم منصب وزیر نے جھٹ کہا کہ عالی جاہ ! تربیت جبکہ میں نے اُجلت میں کہا جناب ! ماحول ، ماحول تربیت پر فوقیت رکھتا ہےبادشاہ سلامت نے ہماری طرف رعونت سے دیکھا اور فرمایا تم دونوں کو اپنا اپنا جواب عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا جو ثابت نہ کر سکا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا اور اس کے لئے ہمیں ایک ماہ کی مہلت دے دی ،ہم دونوں اپنے جواب کی عملی تعبیر تلاشنے میں لگ گئے ، میں سوچ سوچ کے پاگل ہونے کے قریب تھا مگر کچھ سمجھ میں نئیں آرہا تھا ، کہ 24 دن بعد اچانک میرے ہم منصب وزیر نے میری موت کے پروانے پر دستخط کرتے ہوئے دربار میں اپنے جواب کو عملی طور پر ثابت کرنے کی اجازت چاہی ، اجازت ملنے پر اس نے دربار میں کھڑے ہو کر تالی بجائی تالی بجتے ہی ایک ایسا منظر سامنے آیا کہ بادشاہ سمیت تمام اہلِ دربار کی سانسیں سینہ میں اٹک گئیں، دربار کے ایک دروازے سے 10 بِلیاں منہ میں پلیٹیں لئے جن میں جلتی ہوئی موم بتیاں تھیں ایک قطار میں خراماں خراماں چلتی دربار کے دوسرے دروازے سے نکل گئیں، نہ پلیٹیں گریں اور نہ موم بتیاں بچھیں، دربار تعریف و توصیف کے نعروں سے گونج اٹھا ، میرے ہم منصب نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا ، حضور ! یہ سب تربیت ہی ہے کہ جس نے جانور تک کو اس درجہ نظم و ضبط کا عادی بنادیا ، بادشاہ نے میری جانب دیکھامجھے اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی میں دربار سے نکل آیا تبھی ایک شخص نے آپ کا نام لیا کہ میرے مسئلے کا حل آپ کے پاس ہی ہوسکتا ہے میں 2 دن کی مسافت کے بعد یہاں پہنچا ہوں، دی گئی مدت میں سے 4 دن باقی ہیں اب میرا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے،فقیر نے سر جھکایا اور آہستہ سے بولا واپس جائو اور بادشاہ سے کہو کہ 30 ویں دن تم بھرے دربار میں ماحول کی افادیت ثابت کرو گے ،مگر میں تو یہ کبھی نہ کر سکوں گا ۔ وزیر نے لا چارگی سے کہااۤخری دن مَیں خود دربار میں آئوں گا۔ فقیر نے سر جھکائے ہوئے کہاوزیر مایوسی اور پریشانی کی حالت میں واپس دربار چلا آیامقررہ مدت کا اۤخری دن تھا دربار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا وزیر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا سب کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھتی تھیں کہ اچانک ایک مفلوک الحال سا شخص اپنا مختصر سامان کا تھیلا اٹھائے دربار میں داخل ہوا ، بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا ، وقت کم ہے میں نے واپس جانا ہے اس وزیر سے کہو تربیت کی افادیت کا ثبوت دوبارہ پیش کرے، تھوڑی دیر بعد ہی دوسرے وزیر نے تالی بجائی اور دوبارہ وہی منظر پلٹا ، دربار کے دروازہ سے 10 بلیاں اسی کیفیت میں چلتی ہوئی سامنے والے دروازے کی طرف بڑھنے لگیں ، سارا مجمع سانس روکے یہ منظر دیکھ رہا تھا وزیر نے امید بھری نگاہوں سے فقیر کی طرف دیکھا ، جب بلیاں عین دربار کے درمیان پہنچیں تو فقیر آگے بڑھا اور ان کے درمیان جا کے اپنا تھیلا اُلٹ دیا ، تھیلے میں سے موٹے تازے چوہے نکلے اور دربار میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے، بلیوں کی نظر جیسے ہی چوہوں پر پڑی انہوں نے منہ کھول دیئے پلیٹیں اور موم بتیاں دربار میں بکھر گئیں، ہر طرف بھگدڑ مچ گئی بلیاں چوہوں کے پیچھے لوگوں کی جھولیوں میں گھسنے لگیں، لوگ کرسیوں پر اچھلنے لگے دربار کا سارا نظام درہم برہم ہوگیا،فقیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا بولا آپ کسی جنس کی جیسی بھی اچھی تربیت کر لیں اگر اس کے ساتھ اسے اچھا ماحول فراہم نہیں کریں گے تو تربیت کہیں نہ کہیں اپنا اثر کھو دے گی ۔ کامیاب کردار کے لئے تربیت کے ساتھ ساتھ بہتر ماحول بے حد ضروری ہے ، اس سے پہلے کہ بادشاہ اسے روکتا فقیر دربار کے دروازے سے نکل گیا تھا۔ہمارے ہاں ساری ذمے داری استاد کی تربیت پر ڈال دی جاتی ہے گھر وں کا کیا ماحول ہے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی....
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 موت کا عندیہ

ایک بھیڑ نے اپنی پڑوسن بھیڑ سے پوچھا کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ آج ہماری قربانی کی باری ہے؟
جواب ملا: دیکھو! جس دِن تمهارے مالک تمہیں بہت پیار کریں، چاره کھلائیں، پانی پلائیں تو سمجھ لو کہ اُس دِن تمهاری قربانی کا دِن ہے۔۔۔


چنانچہ یہ بات اُس بھیڑ نے اپنے پلے باندھ لی اور ایک دِن بالکل ویسا ہی ہوا۔ مالک نے پہلے تو اُسے بڑے پیار سے چاره کھلایا، پھر پانی پلایا اور پھر اگلے هی لمحے اُسے زمین پر لیٹا کر ایک تیز دھار والا آلہ پکڑ لیا۔ بھیڑ سمجھ آ گئی کہ آج اُس کی قربانی کا دِن ہے سو اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن جب کافی دیر بعد اُسے محسوس ہوا کہ مالک اُسے ذبح نہیں کر رہا بلکہ صرف اُس کی اُون اُتار رہا ہے تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
اور پھر یہ سلسلہ ہر دو، چار مہینے بعد وقفے وقفے سے چلتا رہا، اور اب تو بھیڑ کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ مالک اُسے کبھی بھی قربان نہیں کرے گا اور جب بھی وه اُسے لٹائے گا تو صرف اُس کی اُون ہی اُتارے گا۔
لیکن! ایک دِن جب مالک نے اُسے حسبِ سابق زمین پر لیٹایا تو تب بھی وه اِسی خوش فہمی میں تھی کہ وه اُسے قربان نہیں کرے گا، جس کے لیے وه تیار بھی نہیں تھی۔ اور پھر اگلے ہی لمحے مالک کی تیز دھار چھری اُس کی گردن پر چل گئی اور وه موت کی آغوش میں پہنچ گئی۔
ہم انسانوں کی زندگی بھی بالکل ایسی ہی ہے، ہم بھی جب پہلی بار کسی بیماری یا مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں تو بهی سوچتے ہیں کہ بس اب تو موت آئی کے آئی، بہت روتے اور گڑگڑاتے ہیں اور جب ہم وہاں سے الله کی رضا سے بچ نکلتے ہیں تو اگلی بار اُس بیماری یا مصیبت کو اتنا سنجیده نہیں لیتے اور بهی سوچتے ہیں کہ یہ تو محض کچھ پل کی تکلیف ہے اور ہم دوباره ویسے ہی بچ نکلیں گے۔۔۔لیکن پھر کس دِن اچانک وه بیماری یا مصیبت ہمارے لیے موت کا عندیا لے کر آتی ہے ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا، جس کے لیے نہ تو ہم نے کوئی تیاری کی ہوتی ہے اور نہ ہی جس کی ہمیں کوئی اُمید ہوتی ہے۔ ایسی ناگہانی اموات کی بہت سی مثالیں ہم روزانہ سنتے اور دیکھتے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭