صفحات

تلاش کریں

سفر نامہ- اٹلی ہے دیکھنے کی چیز (سلمیٰ اعوان)




فہرست


کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں.. 7

باب 1: لاہور سے میلان کے لیے... 9

باب 2: میلان.. 35

باب3:لاسکیلا، لاسٹ سپر اور وایا دانتے کی سیر... 56

باب4: میرے خوابوں کا وینس اور میری بونگیاں.. 76

باب 5: سینٹ مارک سکوائر، چرچ، ڈو گی پیلس اور Rialtoبرج.. 100

باب 6: گریمیا سکوائر، وینس کی گلیاں، اکیڈیمیہ آرٹ کا گھر، موت کا سامنا.. 128

باب7: بریرہ آرٹ گیلری، وایا دانتے کی سیر اور مرینو سے ملنا.. 152

باب۸: روم کے لئے روانگی.. 173

باب9: پانیوں پر لکھے ہوئے نام والا جان کیٹس۔۔ کیٹس شیلے میوزیم.. 191

باب10: کلو زویم۔ آرچ آف کونسٹنٹائن، پیلاٹن ہل اور مسٹر اُفیذی سے ملنا.. 221

باب 11: تریوی فاؤنٹین.... 247

باب12: ویٹی کن سٹی... 258

باب13: پنتھین Pantheon، پیازہ نیوون ٹراسٹی ویرا Trastervera اور Testaccio 275

باب 14: اٹلی کا قومی شاعر گوزیو کاردوسی.. 302

باب15: پیسا اور لوکا. 325

باب نمبر16: الوداع میلان۔ الوداع اٹلی.. 348

اجنبی ملکوں میں کسی کی راہنمائی، کسی کا حُسن، کسی کے میٹھے بول اور محبت آپ کے لئے بیش قیمت اثاثے کی مانند ہوتی ہے۔ انہی جذبات واحساسات کو لفظوں کا پیرہن پہنایا ہے۔


صد آفرین اُن پر ہے
اجنبیت کے ریلے میں
بھیڑ کے جھمیلے میں
بیگانگی کے میلے میں
اُداسیوں کے بیلے میں
وہ پیارے پیارے لوگ جو
پردیسیوں، سیاحوں کو
محبتوں کی بارش میں
پور پور بھگوتے ہیں
پیاری میٹھی دھوپ میں
دیر تک بٹھاتے ہیں
شیریں شیریں لفظوں کے
گلاب سے کھِلاتے ہیں
دھرتی کے حُسن کا
یہی روشن چہرہ ہیں
شرفِ آدمیت کا
یہی عَلم اٹھاتے ہیں
صد آفرین اُن پر ہے
صد آفرین اُن پر ہے

کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں

کچھ سفر شوق کے تھے۔ دعاؤں کے عوض ملے تھے۔ سالوں اُن کے عشق میں ڈوبی رہی۔ انہیں دیکھا بھی محبتوں سے اور اُن پر لکھا بھی چاہتوں سے۔ اُن کا خمار ایسا تھا کہ ’’میں نے دنیا بھلا دی تھی تیری چاہت میں‘‘ جیسی صورت کے حقیقی ترجمان تھے۔ کچھ دانا پانی کا طفیل تھے۔ کچھ کے معاملے میں نیت بڑی کھوٹی تھی۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا کہ ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ کی طرح ساتھ لپٹ گئے تھے۔
اٹلی کا سفر کہہ لیجیئے سوغات تھی، عنایت تھی۔ یہ بھی کہہ سکتی ہوں کہ دانا پانی نصیب کیا گیا تھا۔ قدموں نے اُس دھرتی پرپاؤں دھرنے تھے۔ گو روم اور وینس اوائل عمری کے عشق تھے۔ وہاں جانے کے لئے شوق کی بھی بے حد فراوانی تھی۔ میلان، وینس، روم، پیسا، لوکا، جھیل کومو اور پومپیئی کو کس محبت سے دیکھا بتا ہی نہیں سکتی۔ یوں جگہیں تو چھوٹی موٹی اور بھی دیکھیں اور اطمینان و سکون سے دیکھیں۔
ہاں مگر جب لکھنے کے لئے بیٹھی۔ ڈائری کھولی۔ اپنے جذبات و احساسات کا تجزیہ کیا تو محسوس ہوا کہ میرے رنڈی رونے اٹلی کی ہر جگہ جاتے ہوئے ایک سے تھے۔ سب سے بڑا میرا مسئلہ اکیلے ہونے کا تھا۔ پھر عمر بھی بڑھاپے میں داخل شدہ جہاں دل کی ذرا سی بات پر ہنگامہ کھڑا ہونے کا اندیشہ سر پر لٹکی تلوار کی طرح دِکھنے لگتا تھا۔
لکھتے ہوئے اُن کا بار بار سیاپا کرنا مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں اپنے قاری کو بور کروں۔ اُس خوف کو دہراؤں۔ پس چند شہروں تک ہی میں نے اپنے قلبی احساسات اور اپنے مشاہدات کو تفصیلاً لکھا۔ میرا ٹرینوں میں دھکے کھانا اور ہر روز نئی جگہ جانے کے تجربات کے ساتھ جو لازمے تھے وہ تھے تو اگرچہ مختلف مگر میرے احساسات ایک جیسے ہی تھے۔ اب قاری کو کسی امتحان میں ڈالنا مقصود نہ تھا۔ ہاں اگر کسی مقام پر اِن جذبات کا اعادہ محسوس ہو تو معافی کی خواستگار رہوں گی۔
دعاؤں کے ساتھ
سلمیٰ اعوان

باب 1: لاہور سے میلان کے لیے

٭ جانا تو پی آئی اے سے ہی تھا کہ عشق و عاشقی والا معاملہ ہے۔ گو باکمال لوگ لاجواب پرواز جیسے سلوگن کی مٹی پلید ہو گئی ہے۔

٭ پاکستانیوں کی ایک اکثریت نے خود کو یورو کمانے پر ضرور فوکس کیا مگر تعلیمی اور فنّی علوم سے مستفیذ ہونے کو ترجیح نہیں دی۔

٭ مسز ریٹا سمتھ سے ملنا گویا ملاقاتِ مسیحا و خضر سے کہیں بڑھ کر تھا۔
اب اگر اوپر والے نے یورپی تہذیب کے گہوارے، رومن بادشاہوں کی عظمت و شان کے مظہر اور رومن کیتھولک چرچ کی قدیم تاریخ اوفر اُس کے شاندار مذہبی ورثے کے حامل ملک اٹلی کا پانی اور اُس کے کھیتوں کھلیانوں میں اُگے دانہ دُنکا چگنے کے لئے میرا وہاں جانا لازمی ٹھہرا دیا ہے تو بھلا اکیلے جانے اور دنیا بھر کے سیاحوں کے بھرئیے میلے میں بونگوں کی طرح پھر نے میں میرے ڈر اور خوف کے جذبات کی اوقات ہی کیا تھی؟
فرح میری بیٹی کی دوست کے شوہر یاسر کے سامنے جب اِن جذبات کا اظہار ہوا تو اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’آنٹی جانا تو آپ کو ہے۔ میں نے بینک گارنٹی دی ہے آپ کی۔ اور گھبرانے وبھرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ ابھی اتنی بوڑھی بھی نہیں۔ اِس عمر میں تو اکثر عورتیں وہاں تیسری چوتھی شادی کرتی ہیں۔‘‘

میری تو پوری بتیسی نکل کر باہر آ گئی تھی۔

’’ لو میاں بولو اب بیچ اس مسئلے کے۔ یہاں تو ایک بیاہ کو ٹھکانے لگاتے لگاتے ادھ موئے ہو گئے ہیں۔ یہ تین چار کے جھولے پر چڑھنا اور جوٹھے لینا تو بھئی اُنہی کو مبارک ہو۔ جن کیلئے بیاہ تو گویا گڈے گڑیوں جیسا کھیل تماشا ہے۔ ہم تو ایسے ہی بھلے۔‘‘

اب یاسر نے مجھے مال پینساMalpensa ائیر پورٹ کی تفصیل، وہاں سے لوکل ٹرینوں کے اہم اسٹیشنوں میلانو کودورناMilano Codorna، سرونوSarono، چیزاتے Cesate، نوویتے Novate، بولیتے Bollate اور اِسی جیسے اور ثقیل سے ناموں کی ایک لسٹ گنوانی شروع کی تو مجھے کہنا پڑا۔

’’ارے بیبے سے بچے میرے پلّے کچھ نہیں پڑ رہا ہے اور نہ پڑے گا۔ چھوڑو سب کچھ۔ جب دریا میں اتروں گی تو خود ہی ہاتھ پاؤں مارتے مارتے یا ڈوبوں گی یا تیرنے لگوں گی۔‘‘

ایک لمبی یاس میں لپٹی آہ سی سینے سے نکلی جس نے میرا لہجہ جیسے افسردگی میں بھگو سا دیا تھا۔

ایسے ہی الٹے سیدھے مرحلوں کا سامنا کرتے کرتے اِک عمر گزار بیٹھی ہوں۔ بس بات اتنی سی ہے کہ اب بڑھاپا ہے جب قویٰ کمزور اور دل ذرا ذرا سی بات پر گھبرانے لگ پڑتا ہے۔ انٹر نیٹ سے بھی کچھ گہری شناسائی نہیں ہے کہ بندہ اٹھتے بیٹھتے شغل شغل میں ہی تھوڑا بہت سبق پڑھ لے۔‘‘

سفر تو ہمیں پی آئی اے سے ہی کرنا تھا۔ چاہے وہ سیدھی جاتی یا پڑاؤ کرتی کہ ہم اس کے عاشق ہیں۔ اُس وقت سے جب یہ لا جواب پرواز تھی اور اِس میں باکمال لوگ سفر کرتے تھے۔ یہ سبز اور سفید جھنڈے کے ساتھ ایک تیزی سے ترقی پذیر ملک کی نمائندگی کتنے خوبصورت انداز میں کرتی تھی۔ اب تو خیر" حال نہ پوچھو کچھ" والا معاملہ ہے۔ پر ہم بھی کیا کریں۔ سچی بات ہے "دل ہے پاکستانی تو جان ہے پاکستان والا "معاملہ ہے ہمارا تو۔

تو میلان اور پیرس جانے والی اِس پرواز میں سارے پاکستانی ہی تھے۔ عورتیں، بچے، مرد اور بوڑھے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ جو میلان اور پیرس میں تقریباً ڈیڑھ دو دہائیوں سے مقیم ہے۔ کچھ تونو جوانوں کی نئی نویلی دلہنیں تھیں جو شوہروں کے پاس پہلی بار جا رہی تھیں۔ آنکھوں میں خواب بسائے، ہاتھوں پر مہندی رچائے، تن پر جھلملاتے کپڑے سجائے، کلائیاں کہیں طلائی، کہیں کانچ کی چوڑیوں اور انگلیاں نقلی اور اصلی سونے کی انگوٹھیوں سے بھری ہوئیں۔ کچھ عید گزار کر جا رہی تھیں۔ بازو ان کے بھی کہنیوں تک حنائی رنگوں اور ڈیزائنوں میں لُتھڑے پڑے تھے۔

منظر کیا دلچسپ تھے۔ پھول پٹیوں والے ریشمی جوڑوں کے ساتھ کُٹ کُٹ کرتی مرغیوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگی پھرتی تھیں۔ کچھ اتنی پڑھی لکھی بھی نہ تھیں۔ گجرات، فیصل آباد اور خوشاب سے بیشتر کا تعلق تھا۔ کہیں سیٹوں کے تبادلے تھے۔ اور کہیں ایر ہوسٹس سے پنگے چل رہے تھے۔

یہ بھی مقام شکر تھا کہ جہاز نے دیر تک دم سادھنے کے بعد زبردست انگڑائی لے کر اڑان بھری تھی۔

ثمینہ میری ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ سمجھدار سی، ستائیس اٹھائیس سال کی لڑکی دو سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ پندرہ دن کی وصل کہانی کے ساتھ سات سو تیس دن کے ہجر کی زخم خوردہ داستان جو ساس نندوں کے ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی۔

مجھ سے بار بار تقاضا کرتی تھی کہ آپ نے میرے پاس ضرور آنا ہے۔ نیز اختر(شوہر) سے ایرپورٹ پر آپ کی ملاقات کرواؤں گی۔‘‘

اس کی باتوں نے جیسے اونگھنے جیسی کیفیت طاری کر دی تھی۔ معلوم ہی نہیں ہوا کہ آنکھیں کب بند ہوئیں۔ شور سے جب کھُلیں تو عادت اور مزاج کے خلاف کوئی گھنٹہ بھر کی نیند لی ہو گی۔ تازگی محسوس ہوئی تھی۔

رات کیا بہت دنوں سے ایک اضطراب کی سی کیفیت میں غوطے کھاتی تھی۔ اکیلے جانے کا احساس۔ کچھ گٹے گوڈوں کا حال پتلا۔ شوق کے عالم کی تو خیر بات ہی کیا کہ جی چاہے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر ساری دنیا گھوم جاؤں پر بات تو شاعر نے کر دی کہ

گو ہاتھوں میں جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے

تو بس اپنا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بلڈ پریشر کی بیماری ہر دم سولی پر ٹانگے رکھے۔ اب ایسے میں اِس نظر عنایت کا کیا کہتی کہ جو اوپر والے نے نازل کی۔

مہینہ تو شاید اپریل کا ہی تھا۔ جب آفس میں میرے کمپوزر نے ایک میل لا کر رکھی۔ میلان سے کسی یاسر کی تھی کہ جسنے اٹلی کیلئے مجھے اور بیٹی کو Sponsor کیا تھا۔ حیرت سے کاغذ پر نظریں دوڑائیں اور خود سے پوچھا۔

’’بھئی یہ کون ہے؟ میں تو شاعرہ بھی نہیں کہ سمجھوں کِسی میرے پرستار کی محبت و چاہت کا تحفہ ہے یہ۔‘‘

با ایں ہمہ خوشی و مسرت سے بھری پُری کلکاری اندر سے نکلی اور ہونٹوں پر ناچنے لگی تھی۔

تھوڑا سا غور و خوض کرنے پر معلوم ہوا کہ میری بیٹی سعدیہ کی دوست فرح کا شوہر اور ساتھ ہی اُس کا سُسرالی عزیز تھا۔ فرح کوئی چار سال قبل اپنے شوہر کے پاس اٹلی جا رہی تھی جب میں نے کہیں ہنستے ہوئے کہا تھا۔

’’ہائے فرح مجھے بھی ساتھ لے چلتیں۔ اُف اٹلی تو تاریخ و تہذیب اور آرٹ کا گڑھ ہے۔‘‘

فرح مسکرا دی تھی۔ بے چاری سیدھی سادی ایم اے پاس لڑکی جسے تاریخ و ادب سے کچھ شغف نہیں۔ جی چاہا اُسے بتاؤں کہ وہ ہنری جیمز کے ناول اور گوئٹے Goethe کا سفر نامہ اٹالیئن جرنی Italian Journey کہیں پڑھ لیتی یا پھر اوپن سٹی اور رومن ہولیڈے جیسی فلمیں دیکھ لیتی تو ممکن ہے کہ شوہر کے پاس جانے کی مسرت کے ساتھ اُسے ایک تاریخی و ثقافتی اہمیت کے حامل ملک کو دیکھنے کے شوق کا بھی احساس ہوتا۔

بیچاری کے کہیں دل میں بات رہ گئی ہو گی میں کیا جانوں؟ نہ کبھی بعد میں کوئی ذکر ہوا نہ تذکرہ۔ اب ایکا ایکی یہ نظر کرم۔ دل تو سربازار می رقصم والی کیفیت میں تھا مگر سامنے ادھورے کاموں کے پلندے تھے جن میں گوڈے گوڈے دھنسی بیٹھی تھی۔ اوپر سے بڑھتی عمر کے مسائل۔ اب خیرخواہ لاکھ کہیں۔

’’ ارے مت سمجھو خود کو بوڑھا۔ یہ سوچیں ہی ہیں جو بندے کا بیڑہ غرق کرتی ہیں۔‘‘

’’لو یہ بھی اچھی رہی۔ اب لمبی چوڑی باتوں کے چکر میں کیا پڑنا۔ ایک سے ہی اندازہ لگا لو کہ جب سارا دن کمر چارپائی پر نہ ٹکانے والی عورت تھوڑی سی دیر بعد لیٹ جانے اور آرام کی ٹیکی چاہے گی تو بڑھاپے کا رنڈی رونا نہ روئے گی۔ تو اور کیا کرے گی۔ بھئی مان لو۔ روئے گی۔

تو پھر اِس نوازش سے منہ موڑ کر اِس نئی کہانی کو جیسے دفع دور کر دیا کہ چھوڑو کیا جانا۔ میرا تو شناختی کارڈ بھی جانے کہاں گم ہو گیا ہے؟ اس کے بغیر تو بات ہی نہیں بننی۔ نیا بنوانے کی خجل خواری کیلئے ابھی وقت نہیں۔‘‘

کچھ ہی دنوں بعد ایک اور میل آ گئی تھی کہ کاغذات کی خانہ پُری کر دیں۔ وہ بھی کہیں کوڑے کی نذر ہوئی۔ یونہی ایک دن کتابوں کی پھولا پھرولی میں ایک کتاب کھولی۔ کیا دیکھتی ہوں شناختی کارڈ صفحات میں لیٹا مسکرا رہا تھا۔ حیرت سے میں نے اُسے ہاتھ میں پکڑا اور خود سے کہا۔

’’اف میرے خدایا میں نے اِسے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اور دیکھو اب یہ کیسے بیٹھے بیٹھائے ہاتھ آ گیا ہے۔‘‘

اور جیسے میرے وجدان نے کہا تھا ’’ سلمیٰ اعوان تمہیں اٹلی جانا ہے۔‘‘

یہ شاید جون کا آخری ہفتہ تھا جب یاسر میرے دفتر میں خود موجود تھا۔ وہ چھٹیاں گزارنے پاکستان آیا تھا۔ میرے ٹوٹے پھوٹے بہانے سُن کر اُسنے دو ٹوک الفاظ میں اُس بات کو دہرایا۔ جس کا ذکر آغاز میں ہوا ہے۔ بیٹی کا نام ڈراپ ہو گیا کہ اُسے حج پر جانا تھا۔

’’آپ جائیے میں سارا انتظام کر کے آیا ہوں۔‘‘

دو دنوں میں کاغذات تیار ہوئے۔ اور پورے بیس دن بعد FedEx والوں نے ویزا میرے ہاتھ میں پکڑا دیا تھا۔

اٹلی بابت اور جدید موبائل کے سبق یاسر نے پڑھانے کی بہت کوشش کی جو ایک تو میری آپ پھدری طبیعت اور دوسرے کاموں کے اژدہام نے پڑھنے ہی نہ دئیے۔

’’ٹھیک ہے بھئی۔ یہ بٹن دباؤں گی تو تمہارے اِس دوست کا نمبر آ جائے گا اور یہ دبے گا تو یہ ہو جائے گا۔ بس بس ٹھیک ہے۔ باقی اللہ مالک ہے۔‘‘

بڑا بیٹا کچھ زیادہ ہی مضطرب تھا کہ ماں اکیلی ہے۔ چاہتا تھا کہ اس کی سالی جس کے پاس امریکن ویزا ہے۔ اور وہ اٹلی گھومے ہوئے ہے میری دوسراہت کیلئے ساتھ ہولے۔ اس کے دونوں بچے وہ دونوں میاں بیوی (یعنی بیٹا اور بہو) سنبھال لیں گے۔ میں نے سُنا تو ڈپٹا۔

’’ارے باؤلے ہو گئے ہو۔ چھوٹے چھوٹے دو بچوں کی ماں جس کا دل اپنے بچوں میں ہی اٹکا رہے گا۔ گالیاں نکالے گی مجھے۔ چل ہٹ۔ بہنوئی ہونے کا اتنا رعب نہیں جماتے۔‘‘

اب میں لاکھ دعوے کروں کہ میں توہمات کی قائل نہیں۔ بالکل غلط۔ منگل کے دن کی فلائٹ مجھے تذبذب میں ڈال رہی تھی۔

’’ یہ بُدھ کو نہیں ہو سکتی۔ بدھ کم سدھ۔

’’نہیں ممکن نہیں۔ ہفتہ میں ایک دن پی آئی ائے کی میلان اور پیرس کیلئے فلائٹ۔ ا توار کو اسلام آباد سے۔‘‘

بخاری ٹریولز میں ٹکٹ ایجنٹ فرحان بتا رہا تھا۔

اب خود سے کہتی ہوں۔ عجیب عورت ہوں میں بھی۔ دن سب اللہ کے مگر وہ جو کہتے ہیں آپ کا وہم آپ کو لے ڈوبتا ہے تو وہی بات ہوئی۔ نئی نکور گاڑی اور میرا تجربہ کار ڈرائیور انور۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی پل کے نیچے گاڑی آگے جانے والی سے ٹکرائی اور میرا دل دہلا گئی۔

’’یا اللہ خیر۔‘‘

لبوں سے نکلا۔ تاہم میاں نے ضبط اور حوصلے سے کہا۔

’’گاڑی نکال لو۔‘‘

شکر ہے کِسی رپھڑ میں نہیں پڑنا پڑا۔ بد شگونی کا وہم سامنے آ گیا۔ سر جھٹکا۔ خود کو لعن طعن کیا۔ بار بار کہا۔ دن سب اللہ کے۔ ایمان کو پکّا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

چیکنگ کا عملہ بہت سُست تھا۔ کیمروں پر صورتیں چیک ہو رہی ہیں اور ساتھ ساتھ زبانیں تیز گام کی سی رفتار سے سیاست پر تبصرے کر رہی ہیں۔

’’عمران کیا بونگیاں مار رہا ہے؟ جنرل راحیل اٹلی پہنچا ہوا ہے۔ وزیر خارجہ سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ دونوں ملکوں میں دفاعی تعاون بڑھانے کی پیشکش۔ پاک فوج کیلئے اٹلی کی حکومت کی زبردست ستائش وغیرہ وغیرہ۔‘‘

تو اب دانہ پانی اجنبی سر زمینوں کی طرف اڑائے لئیے جا رہا تھا اور میں تھوڑی سی جھپکی کے بعد جہاز میں کھانے کی اڑتی خوشبوؤں کو اپنے نتھنوں میں گھسیڑتے منتظر تھی کہ کب ٹرالی میرے پاس آئے گی۔

کھانا تو بس گزارہ اور گوارہ تھا۔ ہم جیسے چاولوں کے رسیا لوگوں کو چاول مل جائیں تو گریس مارکس دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ بس تو کچھ ایسا ہی حال پی آئی اے کے اِس کھانے کے ساتھ تھا۔

’’ٹھیک ہے بھئی ٹھیک ہے۔‘‘کھاتے کھاتے نگاہ سامنے اٹھی۔ سکرین پر جہاز کا روٹ دکھایا جا رہا تھا۔ واہ کیا سین تھا۔ بلیک سی پر جیسے رسہ تنا ہوا ہو۔ آدھا پیلا اور آدھا فیروزی مائل سبز۔ درمیان میں جہاز جیسے اڑتا ہوا پرندہ۔ اب مجھے دلچسپی ہوئی۔ کھانے والا پٹارا سمیٹا اور سکرین پر نظریں جادیں۔

سپین کنارے پر نمایاں ہو رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہی منظر سکرین پر نمودار ہوتا۔ اسی تنے ہوئے رسے کے اوپر نیچے مشرقی یورپ کے شہروں کو دیکھنا بڑا دلچسپ لگا تھا۔ لاہور سے MXP تک کا راستہ جیسے ہندوستان کے نقشے جیسی صورت والا خشکی کا کوئی قطعہ ہو۔

نشست کھڑکی کے ساتھ والی تھی۔ اور سفر اپنے اختتام کی طرف گامزن تھا۔ بلندی سے اُترائی کے سفر میں بادلوں کے پُروں کا پھیلے ہوئے ہونا ایساہی تھا جیسے میں اپنے بچپن میں اپنی دادی کودیسی کپاس صحن کے کچے پکے فرش پر بکھیرے دیکھتی تھی۔ میلان اور اس کے گرد و نواح کے مناظر میں وہ حسن کہیں نہیں تھا جو آپ کو استنبول اُترتے ہوئے نظر آتا ہے۔

جہاز میں چونکہ سبھی پاکستانی تھے۔ شاید اسی لئیے ایرپورٹ انتظامیہ نے میٹرو اسٹیشن کے قریب ترین Exit والے ہال میں چیکنگ کے مراحل سے مسافروں کو گزار دیا۔ یہ اور بات ہے کہ اِس ٹرمینل تک پہنچنے کی پریڈ چلنے کی مشقت سے لبالب بھری ہوئی تھی۔

ثمینہ اور میں دونوں ساتھ ساتھ باہر نکلیں۔ وہاں بھی سارے پاکستانی ہی نظر آئے تھے۔ ثمینہ کی بے چین نظریں اپنے شوہر کی تلاش میں تھیں جو وہاں نہیں تھا۔

یاسر کا دوست اقبال ائیر پورٹ پر موجود تھا جو میری ایک زور دار آواز پر ہی بھاگ کر سامنے آ گیا تھا۔ جس نے میرا سامان پکڑا۔ ثمینہ کو دعا اور تسلی دیتے ہوئے مجھے اس کے شوہر پر شدید غصہ آیا۔ کیسا عجیب اور لا پرواہ شخص ہے اُسے اپنی نئی نویلی دلہن کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ پھر خود ہی تاویل دی کہ عین ممکن ہے لیٹ ہو گیا ہو۔

بہرحال اقبال مجھے سٹیل کلر کی ایلیویڑوں سے گزارتا ٹرین تک لے آیا۔ کیسی شاندار ٹرین تھی؟ اتنی نئی نکور جیسے ابھی ابھی افتتاح کے بعد پلیٹ فارم پر آ کر کھڑی ہوئی ہو۔ سرنگوں سے گزرتی کشادگی میں آئی تو سبزے اور خوبصورت مضافاتی بستیوں سے آنکھوں کو چمکانے اور ٹھنڈا کرنے لگی۔

یہ مضافاتی آبادیاں اپنے دامنوں میں زندگی کی سب سہولتوں سے مزین ان سب لوگوں سے آباد تھیں جو فطرت کے قریب رہنا چاہتے تھے۔ سبزے اور خاموشی سے محبت کرتے تھے۔ یہاں وہ لوگ بھی تھے یعنی جنوبی مشرقی ایشیا کے محنت کش لوگ جنہیں سستی رہائش گاہیں چاہیے تھیں۔

در اصل میلان اٹلی کا دوسرا بڑا شہر جو صنعتوں کی وجہ سے، اپنی محنت، کاروباری مراکز کے اعتبار، اپنی تاریخ و تہذیب کے حوالے سے، سیاحوں کیلئے اور اٹلی کے سب سے بڑے میٹرو پولٹین شہر کی وجہ سے خاصا گنجان اور مہنگا ہو گیا ہے۔ اب ڈھیروں ڈھیر لوگ مضافات میں آبسے ہیں۔

سرونوSaronno پر اترنا پڑا کہ یہاں سے گاڑی بدلنی تھی۔ یہ جنکشن تھا۔ پٹٹریوں کا جال بچھا ہوا نظر آیا۔ دائیں بائیں آر پار پلیٹ فارم آباد۔ پل پل کے وقفوں سے گاڑیوں کی آمدورفت۔ زندگی گویا سیکنڈوں اور منٹوں سے چلتی تھی۔

چیزاتے بھی ایسی ہی ایک بستی تھی۔ آ ہنی جنگلوں اور زیر زمین راستوں میں گھری یہ سب سلسلے تحفظ اور سلامتی کے ضامن ہیں کہ بستیاں اِن کے ذریعے ریلوے ٹرینوں سے جڑی ہوئی ہیں۔

میرے سامنے خاموش سناٹے میں ڈوبا، ہواؤں میں جھولتا اور سنہری کرنوں میں نہاتا ایک خوبصورت قصبہ تھا۔ جسے میں کئی بار شوق و محبت سے دیکھا تھا۔

اب جو چلنا شروع کیا تو راستہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ آج تو صبح سے اب تک چل چل کر ملیدہ ہونے والی بات ہو گئی تھی۔ اوپر سے ستم بالائے ستم چوتھی منزل پر گھر۔ لفٹ بھی نہیں۔

پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی میں نے شاہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک رہنے والے سے گلہ کیا۔

’’تیرا انتہائے کرم ہے۔ عنایت ہے تیری کہ اٹلی جیسے خوبصورت ملک کی سیاحت کا دودھ تو تو نے مجھے پینے کو دیا مگر پر کیسے ہائے؟ آگے میری زبان میں جو کہاوت ہے وہ تو میں دہرا نہیں سکتی خود ہی سمجھ لو نا۔ مگر نہیں دہرائے دیتی ہوں۔ کہیں تم بھی بھُولے نہ پڑے ہو۔ آخر اتنی بڑی دُنیا کے وختے تھوڑے ہیں۔

میں رُک گئی۔ رُخ پھیر کر سیڑھیوں کے شیشوں سے جھانک کر نیلے آسمان کو دیکھا اور شکستہ سے لہجے میں کہا۔

’’ہاں تو میں گینیں ڈال کر نا۔‘‘

سرگودھا شہر کے ایک گاؤں کی سادہ سی چوبیس پچیس سالہ لڑکی رضیہ جس نے اہتمام سے سر ڈھانپا ہوا تھا اپنی چار سالہ پیاری سی بیٹی مسکان کے ساتھ دروازے پر کھڑی مجھے خوش آمدید کہتی تھی۔ میں نے پیار کیا اور کمرے میں دھرے صوفے پر دھم سے ڈھے سی گئی۔

پر اندر جیسے بلبلانے لگا تھا۔

تو یہ کشٹ روز کیسے کٹے گا؟ میلان میں کوئی ہوٹل ہو جائے۔ سوچ در آئی۔ "ہائے " ایک کراہ سی نکلی۔ اکیلے رہنے کا بھوت سامنے آ کر ڈرانے لگا تھا۔ اب اقبال سے کیا" کِیا جائے " پر بات ہونے لگی۔ کسی ٹیکسی وغیرہ کا بندوبست ہو جائے۔‘‘

’’یہ تو ممکن ہی نہیں۔ اُس کا حتمی جواب تھا۔

باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اس کے پاس سکوٹر ہے۔ چلو فی الحال یہ کرو کہ اسٹیشن پر ڈراپ کر دیا کرنا۔ واپسی پر فون کر دیا کروں گی۔‘‘

’’مگر ہیلمٹ پہننا پڑے گا۔‘‘

’’تو بھئی پہن لیں گے۔ یہ کونسا مشکل کام ہے۔ بغداد میں تو ریڑھیوں پر بھی بیٹھی تھی۔ کم از کم اِس فالتو فٹیک سے تو فی الحال جان چھوٹے گی۔‘‘

’’چلئیے تھوڑا سا اطمینان ہوا۔ اب کمرے کے کھلے دروازے اور کھڑکیوں سے تاکا جھانکی کا سلسلہ شروع ہوا۔ کہیں کہیں منظروں کی دلربائی سی ضرور دیکھی مگر فوراً گرفت میں جکڑنے والی نہ تھی۔

آمنے سامنے کے گھروں میں اطالوی بوڑھے رہتے تھے کہ صوفے پر بیٹھے بیٹھے میں نے فربہی بدن کی کم و بیش میری ہی عمر کی عورت کو ٹیرس پر رکھے گملوں میں اُگے بوٹوں کو پانی دیتے دیکھا تھا اور اِن کے بارے معلوم ہوا تھا کہ خاتون اُستاد ہے۔ اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہی ہے۔ دو بیٹے ایک باہر اور ایک اس کے ساتھ رہتا ہے۔ لڑکا شراب کا انتہائی رسیا اور قدرے نکھٹو ٹائپ کا تھا۔

قوموں کے مزاج اور ان کے اطوار کا اندازہ تو چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہو جاتا ہے۔ ایک ہی سائز اورجسامت کے ٹیرس۔ ایک گل و گلزار ہوا پڑا تھا اور دوسرا جس کے سامنے میں بیٹھی تھی کے کونے کاٹھ کباڑ سے بھرے نظر پر گراں گزرتے تھے۔

اس پورے بلاک میں بمشکل کوئی دس خاندان ہوں گے۔

جانا تو اور بھی بہت کچھ تھا کہ بے روزگار میرا میزبان اِن دنوں بے روزگاری الاؤنس لے رہا تھا۔ دو مالکوں کی کیمیکل فیکٹری پولینڈ شفٹ ہو گئی تھی کہ وہاں لیبر سستی تھی۔ بے کار ہونے والے نئی ملازمتوں کی تلاش میں تھے پر فکر مند ہرگز نہ تھے کہ بے روزگاری آلاؤنس عزت سے گھر کی دال روٹی چلنے کا اہتمام کر دیتا ہے۔ ایک رفاعی ریاست کا حقیقی نفاذ۔ علاج معالجہ، سکول سب ریاست کی ذمہ داری۔

پندرہ سال قبل اٹھارہ سالہ نوجوان جب دھکے کھاتا یہاں پہنچا تھا تو زندگی بڑی کٹھن تھی مگر اس کی جد و جہد یورو کمانے پر تو رہی مگر خود کو تعلیمی اور پیشہ ورانہ اعتبار سے آگے بڑھانے کو اس نے فوکس ہی نہیں کیا۔ اس کا اندازہ مجھے اِس مختصر سے وقت میں ہی ہو گیا تھا کہ میلان میں ہوٹلوں کو دیکھنے اور ان کے بارے میں جاننے کیلئے جب میں نے بات کی اُس نے اپنا لیپ ٹاپ میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا۔

’’آپ اِس سے کھوج کر لیں۔‘‘

میں نے بے بسی سے اُسے دیکھا اور کہا۔

’’ارے میاں میں تو خود اس میں ابھی کوری ہوں۔‘‘

آنے والے دنوں میں یہ تکلیف دہ بات زیادہ کھل کر سامنے آئی تھی کہ ایسا ہی حال اس جگہ اور اِن سے ملحقہ دیگر کمیونزComunes (یعنی قصبات)میں مقیم پاکستانیوں کا تھا جنہیں یہ لوگ (یعنی پاکستانی) پنڈ (گاؤں ) کہتے ہیں۔

شام کی چائے پر اِس چھوٹے سے خاندان کا اہتمام اُن کی بساط سے کچھ زیادہ تھا۔ میں نے ممتا بھری ڈانٹ دی۔ اور جب میں رضیہ کا ہوم میڈ پیزا کھاتی اور چائے پیتی تھی مجھے پتہ چلا تھا کہ نچلے فلور پر ایک پچھتّر۷۵ سالہ خاتون رہتی ہے جو ہمہ وقت کتابیں ہی پڑھتی رہتی ہے۔ جس کے گھر میں کتابوں کے انبار ہیں۔ یوں وہ ایک مہربان اور شفیق سی عورت ہے۔ جس کی ایک بار بیماری کے دوران دونوں میاں بیوی نے اس کا بہت خیال کیا۔ شوہر بھی ایسے ہی مزاج کا تھا۔ دو سال ہوئے دنیا سے چلا گیا ہے۔

بھولی بھالی سی رضیہ ہنسی اور بولی۔

’’امّاں جی میں نے جب پہلی بار روغن زیتون سے ان کی ٹانگوں کی مالش کی تو انہیں اتنا سکون ملا کہ میں خوشی سے نہال ہو گئی۔ پھر تو ہر روز ان کی پورے بدن کی مالش معمول بنا۔ وہ غسل کر کے تازہ دم ہوتیں اور مجھے پیار کرتیں۔ وہ میری ماں جیسی ہیں۔ اُن کا ایک ہی بیٹا ہے جو بس سال چھ ماہ میں ایک بار آتا ہے۔ آپ کو بھی لے کر چلوں گی۔‘‘

اقبال کے لہجے میں خوشی و سرشاری نے اس کی باچھیں گویا آخری داڑھوں تک نمایاں کر دی تھیں۔ ’’ہم تو آپ کے منتظر تھے ہی۔ وہ بھی آپ کے بارے میں پوچھتی رہتی تھی۔‘‘

تو گویا ایک ادبی ذوق کی حامل، کتابوں کی رسیا، کیا پتہ لکھنے لکھانے سے بھی تعلق ہو۔ ایسی خاتون سے ملنا تو ملاقاتِ مسیحا و خضر سے بھی افضل ہے۔ سچی بات ہے یہ ایسا خوش آئند خیال تھا کہ یونہی محسوس ہوا کہ میلان کے کِسی قدر گرم سے موسم میں پھولوں کی خوشبو سے لدی پھندی ہواؤں نے جیسے میرے رخساروں پر بوسے دیتے ہوئے مجھے نہال کر دیا ہے۔

اقبال انہیں بتا کر آیا تھا کہ میں ان سے ملاقات کی خواہش مند ہوں۔ اذن

ملاقات کوئی گھنٹہ بھر بعد کا عطا ہوا تھا۔

رضیہ اور اس کی بیٹی ہمراہ ہوئیں۔ ایک منزل نیچے کا گھر۔ دروازہ مسز ریٹا سمتھ نے خود کھولا۔ سامنے نیلی کانچ جیسی آنکھوں اور گرے بالوں والی عورت نے مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتے ہوئے خوش آمدید کہا۔

گھر تو ایک جیسا ہی تھا۔ تین کمروں اور چھوٹی سی راہداری والا۔ مگر کیسا تھا۔ روح تک میں لطافت اُتر گئی۔ راہداری کی پوری بلائنڈ دیوار پھولوں اور بیلوں سے سجی ہوئی تھی۔ پہلا کمرہ چھوٹا تھا مگر اس درجہ با ذوق طریقے سے سجا ہوا کہ رشک آیا۔

بڑے کمرے میں الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔ باتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ لکھتی وکھتی تو نہیں تاہم کتابوں سے عشق ہے۔

نشست گاہ کی سادگی اور پُرکاری کی سجاوٹ بڑی منفرد سی تھی یا ایسا مجھے محسوس ہوا تھا۔ دیوار میں نصب چوبی ڈیزائن کاری کی حامل لمبی سی الماری کے شیلف مختلف مجسموں سے سجے تھے۔ بڑے منفرد سے۔

چند ایک کے بارے پوچھنے پر پتہ چلا کہ بالائی خانے میں داہنی طرف کا وکٹر ایمونیل دوم، اٹلی کے شہنشاہ جس نے اٹلی کو ایک کیا، کا مجسمہ ہے۔ اس کے ساتھ اُسی خانے میں تین اور تھے جو قدرے چھوٹے اور وکٹر ایمونیل کے دائیں بائیں دھرے تھے۔ تو پتہ چلا تھا کہ یہ تو بڑے تاریخی کردار ہیں۔ اطالویوں کے محسن، Risorgrimentoتنظیم کے بانی اور رکن۔

پسِ منظر نے بتایا تھا کہ اُنسیویں صدی کے ابتدائی سالوں میں جب اٹلی پر نپولین بونا پارٹ کی حکومت تھی۔ کہہ لیجیے بیج تو اس تحریک کا نپولین نے ہی بویا تھا کہ اُس نے اطالویوں کواُکسایا اور یقین دلایا تھا کہ وہ یورپ کے لوگوں کی طرح اکٹھے ہو کر اپنے ملک پر خود حکومت کرنے کے اہل ہیں۔ تو اسے Risorgrimentoیعنی دوبارہ اٹھنے سے جوڑا گیا۔ یعنی اٹلی کی عظمتوں کا احیاء تو اگلے پچاس سالوں میں یہ ایک انقلابی تحریک بن گئی۔ جس میں حصّہ لینے کی سزا موت تھی۔ بنیادی طور پر چار مرکزی کردار تھے۔ گیری بالڈیGaribaldi(جو جرنیل تھا۔ )، میزانیMazzini(بے حد دلیر اور جی دار لکھاری)، کیورCavour(سیاست دان و ڈپلومیٹ) اور وکٹر ایمونیل دوم۔

مسز ریٹا نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

یہ میرے ہی گھر میں موجود نہیں ہیں۔ جب آپ اٹلی کے شہروں کی سیر کریں گی تو اس کے کوچہ و بازاروں کی پیشانیوں پر یہ جگمگاتے نظر آئیں گے۔ تب محبت و عقیدت میں ڈوبے دو بول آپ نے ضرور اِن کے لئیے کہنے ہیں۔‘‘

’’کیوں نہیں۔‘‘محبت بھرا میرا جواب تھا۔

یہ وہ خفیہ تنظیم تھی جن کے لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئیے۔ خود ختم ہوئے مگر تحریک کو مرنے نہیں دیا۔ حتیٰ کہ وہ وقت آ گیا جب سپین، آسٹریا اور فرانس جو ملک پر قابض تھے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

تو میں اٹھی اور فوجیوں کے سے انداز میں انہیں سلوٹ مارا اور کہا۔

’’مسز ریٹا جب اٹلی کے شہروں میں انہیں دیکھوں گی تو رُک کر خاموش کھڑے ہو کر اظہار عقیدت کا گہرا اظہار کروں گی۔ آپ کا شکریہ۔ آپ نے آج ہی اِن سے میری ملاقات کروا دی۔‘‘

مسز ریٹا کی آنکھیں چمکیں۔ انہیں میری یہ ادا بہت بھائی تھی۔

پینتیس 35سال کی عمر میں ڈیوائن کومیڈی جیسا شاہکار لکھنے والا دانتے ایلیگریDante Alighieri، جس نے اطالوی ادب کیا دنیا کے ادب کو مالا مال کیا، کو پہچاننے میں ذرا دشواری نہیں ہوئی کہ ڈیوائن کومیڈی کو پڑھنے کی کوشش میں اُس کی صورت اور سٹائل کی انفرادیت نے تصویری نقش ذہن میں بیٹھا دیا تھا۔ مجسمہ ساز بھی کمال کا تھا کہ طوطے جیسی ناک اور پندرھویں صدی میں رائج سر پر پہننے والا مخصوص ہڈ اپنے رنگوں کے ساتھ نمایاں کیا ہوا تھا۔ شیکسپئر بھی نمایاں تھا۔

ریٹا خود اگر اطالوی تھی تو شوہر انگریز تھا۔ دونوں اپنی اپنی زبانوں کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ فرنچ اور جرمن میں بھی طاق تھے۔ مسٹر سمتھ کا کوئی دو سال ہوئے انتقال ہو گیا تھا۔

سچی بات ہے جب وہ کافی بنانے کے لئیے اٹھیں۔ میرا جی چاہا تھا میں کتابوں کی الماری کے پاس جا کھڑی ہوں۔ اُسے کھولوں اور اُس خزانے میں جھانکوں تو سہی کہ میرے مطلب کا بھی کوئی لال یاقوت وہاں دھرا ہے۔ مگر میں نے خود کو لگام ڈالی۔ ہوچھوں کی طرح ٹپوسیاں مارنے کو خود ہی ردّ کیا۔ اور رجّی پُجی خاندانی عورت کی طرح با وقار طریقے سے بیٹھی رہی۔ کہ رضیہ سے پتہ چلا تھا کہ وہ بڑے رکھ رکھاؤ والی ہیں۔

کافی میں پینا نہیں چاہتی تھی۔ مگر انکار کرنا بھی مناسب نہ لگا۔

کسیلا گھونٹ بھرا اور ان کی خدمت میں عرض کیا۔

’’ آپ اجازت دیں تو شام کا ایک گھنٹہ آپ کے پاس گزار لیا کروں۔ آپ سے بہت کچھ جان سکتی ہوں۔ اٹلی کا ماضی اور اُس کا حال۔‘‘

نرمی کی پھوار میں جیسے بھیگے چہرے پر بڑی شیریں سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

’’ارے ماضی کی تاریخ تو بڑی ہی دلچسپ ہے۔ شاید تاریخ ہمیشہ دلچسپ ہوتی ہے۔ اور ڈراؤنی بھی۔‘‘

اب یقین کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ بالکل ذاتی ہے کہ بھیڑ مادہ نے دوانسانی بچوں رومیولسRomulusاور ریمسRemusکو اپنا دودھ پلا کر پالا۔ جنہوں نے جوان ہو کر روم شہر کی بنیاد رکھی۔‘‘

ہم ہنس پڑے تھے۔ بہرحال شام سات بجے کا ٹائم سیٹ کر کے میں اُن سے رُخصت ہوئی۔

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے رب سے شکوے شکایتوں کے جو پٹارے میں نے تین گھنٹے قبل کھولے تھے۔ اُسے جو طعنوں کی سان پر چڑھایا تھا۔ فی الفور اُس سے معافی کی طلب گار ہوئی کہ اوپر والے نے تو میرے لئیے اس کشٹ کے عوض جو انعام مسز ریٹا سمتھ کی صورت رکھا تھا اس کا ہی شکریہ ادا کرنے کے لئیے ڈھیر سارے لفظوں کی ضرورت تھی۔ اب نفل پڑھنے کی تو ہمت نہیں تھی۔ اس لئیے ہر پوڈا چڑھتے ہوئے میں نے شکریہ اے پیار تیرا شکریہ ضرور کہا تھا۔

٭٭٭

باب 2: میلان

* شہر کا خاص الخاص تحفہ ڈومو سکوائر، اس کا کیتھڈرل اور گلیریا میلان کے لینڈ مارک ہیں۔

* چنترال ریلوے اسٹیشن پر بنگالی لڑکوں سے ملنا، ان کی ہدایات کو پلّے باندھنا اور اُن کے تجربات سُننا یقیناً دلچسپ اور حیرت انگیز تھے۔

* خاندان، مذہب اور کھانا اٹلی کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کے تین پہلو جو کبھی بہت اہم تھے۔ اب مذہب اور خاندان کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ اور کھانے باقی رہ گئے ہیں۔



میلان کی سیر کیلئے پہلے دن میں نے اقبال کو ساتھ لیا کہ ٹرینوں اور میٹرو کے پیچیدہ نظام کو سمجھنے کی ضرورت تھی۔ مختلف ممالک میں اِن تجربات سے ہر روز گزری تھی۔ مگر پتہ نہیں مجھے یہاں کچھ اُلجھن سی محسوس ہوئی تھی۔ شاید عمر کا بھی تقاضا تھا۔

’’سُنو۔ میرے بیٹوں کی عمر کا تھا وہ۔ آج مجھے اپنی شاگرد سمجھنا۔ مجھے دیکھنا اور گائیڈ کرنا۔ کل سے اکیلے سب کام ہوں گے۔‘‘

خود کار نظام کو عملی طور پر کرنے میں بونگیاں ماریں مگر کچھ سمجھی بھی۔

حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی تین سو سال قبل کا یہ شہر نام جس کا میلان ہے۔ جسے رومنوں نے مرکزی جگہ کا نام دیا۔ چوتھی صدی بعد مسیح میں یہ رومن سلطنت کا دار الخلافہ تھا۔ ابتدائی عیسائیت کو قبول کرنے اور اُسے اہم مذہبی مرکز بنا دینے والا بھی یہی شہر ہے۔

تو رومنوں کا یہ شہر لیونارڈو نچی کا ثقافتی مرکز جسے وہ اپنا گھر کہتا تھا۔ میں اسی شہر کو دیکھنے جا رہی تھی اور خاصی پر جوش تھی۔

میلانو کو دورنا اسٹیشن سے اُتر کر باہر نکلے تو میلان شہر کا انتہائی خوبصورت منظر دیکھنے کو ملا۔ بلند و بالا عمارتیں۔ سڑکوں پر چلتی گاڑیاں، بسیں، لوگوں کے ہجوم۔ اب تھوڑا سا چلنے اور شہر کی دیدہ زیب عمارتوں کا حسن دیکھتے ہوئے سفورزاقلعہ Saforza castle کی طرف بڑھے۔

اینٹوں سے بنا یہ قلعہ در اصل شہر کا ماضی ہے۔ کبھی اس کے نیچے گہری خندق تھی جو پانی سے بھری رہتی تھی۔ ہر قلعہ کی طرح یہ بھی شہر کی حفاظت کیلئے 1450 میں بنایا گیا۔ یہ زمانہ تھا کہ جب صفورزہ Sforzaڈیوک میلان شہر کا مئیر بنا تو اُسنے بہت سے آرٹسٹ اسے سجانے سنوارنے کیلئے بلائے جن میں لیونارڈوونچی بہت نمایاں تھا۔ تو یہ سجا سنورا شہر صفورزہ فیملی اور بعد ازاں لیونارڈو کیلئے تہذیب و ثقافت کا مرکز بن گیا۔

چند لمحوں کیلئے مبہوت کرنے والا منظر تھا۔ موتی اڑاتے فوارے کے سنگی بنیروں پر بیٹھے لڑکے لڑکیاں اور دور تک اینٹوں کی بلند و بالا دیواروں اور ان میں بنی برجیوں جسمیں جھانکتا سینٹ ایمبروسیس St Ambrosius کا مجسمہ۔ اب اندر سے ہوک اٹھنی تو قدرتی بات تھی کہ قلعے تو ہمارے پاس بھی ہیں اور ماشاء اللہ سے اچھے بھلے ہیں مگر ہم نے کتنے سنبھالے؟

بلند و بالا گیٹ سے داخلہ اور بلند و بالا دیواروں کے حصار میں دائیں بائیں سرسبز لان اور گول پتھروں کے راستے۔ کونوں میں بنی خوبصورت برجیاں۔ کشادہ اور بلند و بالا دیوڑھیوں جیسی راہداریاں۔

ٹکٹ لیا اور میوزیم میں داخل ہوئے۔ یہ دو منزلہ وسیع و عریض میوزیم آرٹ اور تاریخ کا گھر تھا۔ سات صدیوں کے مال و متاع جسمیں میلان شہر کی عظمتوں اور عہد کے رنگ حد درجہ مسحور کرنے والے تھے۔ اس کی پکچر گیلری میرے خدایا ایسے کمال کے شاہکار، اس کا مصری حصّہ، قبل از تاریخ، لکڑی کے مجسمے، شاہکار پینٹنگز، صفورزہ فیملی کا محل، کمروں میں دھرا فرنیچر۔

بس زیادہ توجہ تو ابتدائی Lambard آرٹ نے ہی کھینچی۔ دیر تک روکے رکھا۔ سب سے دلچسپ اور اہم مائیکل اینجلو کا نامکمل پائیٹاPietaتھا۔ اب پائیٹا کیا ہے؟ کرسٹ کا مردہ جسم اور دُکھ کی عکاس کنواری مریم کا مجسمہ جسے مختلف روپ دئیے گئے۔ آرٹ کے اس شاہکار پر کام ہو رہا تھا جب ونچی فوت ہو گیا۔ اس نامکمل کام کی نمائش بھی بڑے انوکھے انداز میں کی گئی ہے۔

میں نے چند لوگوں کو گھوم کر پیچھے سے انہیں دیکھتے ہوئے پایا تو خود کو ایسا کرنے سے نہ روک سکی۔ اس زاویے سے اِسے دیکھنا اور آرٹ کے اِس رُخ کا سامنے آنا کہ مقدس مریم کا عقبی حصّہ اپنے بیٹے کے بوجھ کو اٹھانے میں کِس اذیت سے دوچار ہے واقعی کمال کا تھا۔

قریب ہی خوبصورت پارک میں برنکا Branca Tower تھا۔ یہ بھی دیکھنے کی چیز تھی۔ 3یورو کا ٹکٹ لفٹ کے ذریعے آپ کو آسمانوں میں لے جاتا ہے۔ جہاں سے آپ میلان شہر کا نظارہ کرتے ہیں۔

میلان شہر کا خاص الخاص تحفہ ڈومو یا دومو Duomo ضرور تھا مگر یورپ کا چوتھا بڑا کیتھڈرل اور اس کا میوزیم بھی میلان کو منفرد بنانے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈومو سکوائر دیکھنے اور وہاں کچھ وقت گزارنے کا بھی اپنا مزہ تھا۔ میٹرو کی شور مچاتی، دل دہلاتی تیز اور ہنگامی زندگی کے طوفان سے نکل کر اور کوئی بیس کے قریب سیڑھیاں چڑھ کر جب کھُلے آسمان تلے آئی تو کیتھڈرل پر نظر پڑتے ہی آنکھیں چمکیں اور باچھیں کھلیں۔

مجھے اس سکوائر میں چھوڑ کر اقبال کو اس جگہ کے قریب ہی کسی سے ملنے جانا تھا۔ خوشدلی سے اُسے اجازت دیتے ہوئے میں نے نکھرے چمکتے آسمان کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر مسرت بھری کلکاری بھری۔

’’ہائے یہ خوبصورت منظر، میلان کا لینڈ مارک جسے زمانوں سے ہم اپنے ملک میں کیلنڈروں پر، اخباروں اور رسائل میں چھپا دیکھتے دیکھتے بوڑھے ہو گئے تھے۔ آج اِسے مجسم صورت میں سامنے دیکھ کر بھلا آنکھیں کیوں نہ چمکتیں اور باچھیں کیوں نہ کھلتیں۔ کتنی دیر ایک دلفریب سے سحر میں گرفتار اس کے انوکھے طرز تعمیر کو تحسین پیش کرتی رہی۔

کیتھڈرل میں داخل ہونے کے بڑے آداب تھے۔ بڑا رکھ رکھاؤ تھا۔ لباس کے معاملات میں بڑی سختی اور پابندی تھی۔ شارٹس اور بغیر آستینوں والی قمیضوں کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں۔ بڑوں کو تو چھوڑیں چھوٹے بچے بھی دروازے سے ہی دھتکار دئیے جاتے ہیں۔

سچی بات ہے ہمیں تو بڑی خوشی ہوئی تھی۔ بڑی شان سے اندر داخل ہوئے کہ پورے ڈھنپے ہوئے ہیں۔

اب اندر کے اُس نرالے طلسم، انوکھے سحر، حیران کن مجسموں، بلند و بالا ستونوں، ان کے وجود سے پھوٹتی روشنیوں، نقش و نگاری، جا بجا پینٹنگز ان کی تاریخ۔ بندہ تو آنکھیں پھاڑے کہیں فرشوں پر بکھرا ماربل اپنے خوش رنگ نمونوں کے ساتھ، کہیں کھڑکیوں کی بناوٹ، کہیں چھت کی کندہ کاری کو دیکھتے دیکھتے بے ہوش ہونے والا ہو جاتا ہے۔ قربان گاہ کے بلند و بالا حصّے، ان کی رنگا رنگی یہاں اگر نظروں کو لبھاتی تھی تو تاریخ دل کو تڑپاتی تھی۔

جب یورپ بے شمار چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بٹا ہوا تھا۔ اس وقت میلان کے ڈیوکز اپنے جرمنی اور فرانس کے ہم عصروں کو کچھ ایسا شاہکار بنا کر نہ صرف متاثر کرنا چاہتے تھے بلکہ شمالی یورپ کے بادشاہوں، شہزادوں اور ویٹی کن والوں کی نظروں میں "میلان "کو ممتاز اور منفرد بنا کر دکھانا بھی مقصود تھا۔ انسانی فطرت کی نمائش کے یہ انداز کوئی نئی بات تو تھی نہیں۔ وہ کیتھڈرل پر اپنی بھرپور توانائیاں صرف کر دینے کے متمنی تھے۔ قدامت پرست تو میلان کو گوتھک سٹائل پر ہی رکھنے کے خواہش مند تھے مگر ڈیوکز اس پر مُطمئن نہ تھے۔ اسی لئیے اس کی محرابیں کیا کلس تک کو جدّتوں کے ساتھ مزّین کر دیا۔

قربان گاہ کے اردگرد کی ساری جگہ باروق سٹائل سے بنائی گئی ہے۔ قربان گاہ پر چمکتی سرخ روشنی میں یسوع کے کراس میں سے ایک پر نیل رکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اِس مقدس نشانی کو شہنشاہ کونسٹینن کی والدہ سینٹ ہیلن کوئی چوتھی صدی میں میلان لائی تھی۔ فلسطین پر لکھتے ہوئے میں اِس پاکباز خاتون سے بہت اچھی طرح متعارف ہوئی تھی۔

تو1386سے یہ جو بننا شروع ہوا تو 1965 تک بنتا ہی چلا گیا۔ کہیں نہ کہیں کِسی نہ کِسی انوکھی چیز کا اضافہ۔ ہمہ وقت ہر قسم کی تبدیلی کیلئے سرگرم۔ اِس مسلسل تعمیراتی عمل نے اطالوی زبان کی لغت میں اُس مشہور زمانہ کہاوت کا اضافہ کیا۔

"ایک کیتھڈرل کی تعمیر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ "

ڈومو میوزیم دیکھنے کو معلوم نہیں کیوں جی نہیں چاہا۔ شاید برو شروں میں دیا گیا مختصر سا تعارف ہی کافی تھا کہ یہ کیتھڈرل کی تاریخ کی تصویری صورت ہے۔

’’چلو ہٹاؤ ایک تو رومن کیتھولک مذہب کی اتنی مشکل تاریخ سے ما تھا پھوڑو اوپر سے ٹکٹ بھی خریدو۔ ہاں البتہ ایک چیز جو مس کرنے والی نہیں تھی وہ چھت کی سیر تھی۔ 8یورو کے ٹکٹ کے ساتھ۔ جس کیلئے میں نے سوچا پندرہ دن رہنا ہے۔ کِسی بھی دن آ کر یہ مزے لوٹ لوں گی۔

ڈومہ سکوائر کلاسیکل یورپی سین ہے۔ یہاں بیٹھنا اور اِس بھریے میلے کو دلچسپی سے دیکھنا کتنا دلچسپ کام تھا؟ دو گھنٹے یہاں بیٹھنا ہے۔ شام یہاں کیسے اُترے گی؟ اس کے رنگ کِس انداز میں بکھریں گے اُسے دیکھنا ہے۔

فی الحال تو ریسٹورنٹوں کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے لوگوں کا ایک ہجوم نظر آ رہا ہے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جوڑے کہیں تصویریں اُترواتے، کہیں چہلیں کرتے بہت اچھے لگ رہے ہیں۔

وہ خاتون آئس کریم کھا رہی ہے۔ کونسی ہے؟ اور کہاں سے ملتی ہے؟ اُس سے پوچھنے جاتی ہوں کہ دل للچا رہا ہے۔ اُس نے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لمبی لائن میں لگ کر اسے خرید کر لائی ہوں۔ اب یہاں بیٹھی اُسے مزے سے کھا رہی ہوں۔ لُطف اٹھا رہی ہوں۔

ایک طرف وکٹر ایموئنیل Emmanuel دوم اٹلی کے پہلے بادشاہ کا مجسمہ ہے۔ نظریں کِس جانب دیکھ رہی ہیں۔ تعارف پر جانا کہ عظیم الشان گلیریاGalleria کو دیکھا جا رہا ہے۔

میلان کے شہریوں کی طرف سے شاہ کو تحفہ۔ تبصرہ ہو گا اور ضرور ہو گا کہ یہ محبتوں بھرا تحفہ ہے۔ نام چمکانے کی خواہشوں سے قطعی مبّرا۔

شاہ کے بارے تو آنے کے ساتھ ہی متعارف ہو گئی ہوں۔ ایک قابل قدر ہستی جسے میں نے چاہت بھری آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مسز سمتھ سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ رات سیلوٹ بھی اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہی تو مارے تھے۔

یہ گلیریا Galleria بھی میلان کا سمبل ہے کہ دو رویہ چار منزلہ خوبصورت عمارات فائبر گلاس یا اسی ٹائپ کے کسی اور شیشے سے ڈھنپی چھت کے تلے دو رویہ حسن و خوبصورتی سے سجی ہیں یوں کہ چلتے چلو۔ دائیں بائیں مڑو۔ تعمیراتی حسن اور شاندار دکانوں کے شیشوں سے چاتیاں مارو۔ یہ عمارات کا وہ سلسلہ تھا جو سب سے پہلے بجلی سے مانوس ہوا۔

یہاں دکانوں میں تاکا جھانکی ضرور کی مگر جیب ڈھیلی نہیں کی کہ چیزیں باوا کے مول لگتی تھیں۔

گلیریا کی مخالف سمت نکل جاتی ہوں۔ یہاں وہ جڑواں فاشسٹ عمارتیں دیکھتی ہوں جو بڑی نمایاں ہیں۔ مسو لینی نے ان کی بالکونیوں سے بڑی لفافٹری ٹائپ تقریریں بڑے جوش و خروش سے کی تھیں۔ یہ بینتو Benito مسولینی بھی تاریخ میں کیا شے تھا۔ مشہور اور ہر دل عزیز لکھاری، سوشلسٹ نظریات کا پرچاری پرفسطائیت کا بھی بڑا علم بردار۔

کہیں 1922میں نئی نویلی بننے والی فاشسٹ پارٹی کا سربراہ بنا تو روم پر چڑھائی کرنے پر تُل گیا۔ کالی قمیضوں والے ٹولے پورے اٹلی سے کہیں بندوقوں، کہیں چھروں اور کہیں باورچی خانے کی چاقو چھریوں سے روم کی طرف چل پڑے۔ مسولینی ان کا لیڈر تھا۔ جس نے حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔ وکٹر ایمونیل سوم نے اُسے روم بلایا اور حکومت شرافت سے اس کے حوالے کر دی۔

وزیر اعظم کا تاج سر پر سجانے کے بعد اس کا پہلا کام اپنے فاشسٹ ٹولوں کے ساتھ روم کی گلی گلی کوچے کوچے میں مارچ کرنا تھا۔ یہ موسیلینی ہی تھا جس نے پوپ کو ویٹی کن سٹی کی مسند پر بٹھایا۔ کیتھولک چرچ نے اپنی دعاؤں میں اطالویوں کو نوازا۔ ترقی کے بہت سے منصوبے پروان چڑھے مگر اس نے خود کو ہٹلر نازی سے بھی جوڑ لیا اور دوسری جنگ عظیم میں گھُس گیا۔ ذ ہنی اور جسمانی طور پر نہ ملک تیار، نہ فوج۔ نتیجتاً جب اتحادی فوجیں 1943 سسِلی کے مقام پر اُتریں تو مقامی لوگوں نے نجات دہندہ کے طور پر ساتھ دیا۔ ے

یہ اپریل 1945 تھا جب وہ اطالوی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ گرفتار ہوا۔ انہوں نے دونوں کو گولی ماری اور دنوں میلان کے پبلک سکوائر میں لاشوں کو ٹانگے رکھا۔

عمارتوں کے چہرے مہرے متوجہ کرتے ہیں۔ ان کے خوبصورت منقش نقوش کچھ سُنانے کی کوشش کرتے ہیں اطالویوں کی طرح۔ اِس ڈرامے سے جان چھڑاتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہوں۔

اقبال کا فون تھا۔ بتاتا تھا کہ اس کا کام ختم ہو گیا ہے۔ میرا پروگرام کیا ہے؟ مجھے ٹھہرنا ہے یا واپس چلنا ہے۔ لمحہ بھر کیلئے میں نے سوچا۔ اور خود سے کہا۔

’’ارے ڈومو میں تو اتنا کچھ ہے کہ پورا دن یہاں گزارا جائے وہ بھی کم ہے۔ لیکن خیر اب واپسی کرتی ہوں۔ ٹکٹوں کے مرحلوں اور میٹرو سے کچھ مزید شناسا ہوتی ہوں اور کل کا سارا دن میلان کیلئے رکھتی ہوں۔

ثنا (بھانجی) نے جو شہر کی سیر کروانے والی بس ہوپ اون اور ہوپ آف کا ذکر کیا تھا۔ اس پر چڑھوں اور مزے سے گھوموں پھروں۔ اپنے آپ سے یہ سب طے کر لینے کے بعد اُس سے پوچھنے پر پتہ چلا تھا کہ وہ چنترال ریلوے اسٹیشن پر تھا۔

’’چلو رُکو تم وہیں میں خود آتی ہوں۔‘‘ میٹرو کا سمجھا اور اُسے رابطے میں رہنے کا کہا اور خود سے کہتے ہوئے کہ اب اِس ترقی یافتہ ملک کے اِس دریا میں اُترنا ہے تو اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ بیساکھیاں کب تک پکڑوں گی۔ ان سے تو یوں بھی بڑی الرجک رہی ہوں۔

ڈوموDuomo سے تین سٹاپ میٹرو پر میلان کا مرکزی ریلوے اسٹیشن چنترال ہے۔ ٹکٹ کا مرحلہ بہت مشکل تھا۔ مشینوں کے گرد کھڑے لڑکوں سے اقبال کی بات کروائی۔ اس پل صراط کو سمجھتے ہوئے اِسے بہت دھیان سے طے کیا۔ میٹرو کی سیڑھیوں کے

منہ پر اقبال کو کھڑے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بس اب اگلے مرحلے ایسے ہی رُل کھل کر طے کرتے جانے ہیں۔

اِس وقت دوپہر ڈھل رہی تھی۔ میں بھوکی تھی۔ یقیناً اقبال بھی بھوکا ہی ہو گا۔ بیس یورو اُسے دئیے کہ وہ کھانے کیلئے کچھ لے آئے۔

اسٹیشن سے باہر سرسبز گھاس کے خوبصورت ذرا سے اُونچے نیچے قطعات ہیں۔ درختوں کی بہت گھنیری نہ سہی مگر گزارے لائق چھاؤں بھی ہے۔ بے کار اور سیاہ فام لوگوں کے ڈیرے بھی یہاں براجمان ہیں۔ تو میں یہیں بیٹھتی ہوں۔ میں نے گھاس پر ٹانگیں پسار لی ہیں۔ شکر ہے یہاں گھاس پر بیٹھنا منع نہ تھا۔ اور جب میں دائیں بائیں دیکھتی تھی تو جانی تھی کہ بہت سے بنگالی چہرے بھی ہیں یہاں۔

لمبی سانس بھری تھی۔ " کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ "

تو جو یہاں بیٹھے ہیں۔ انہیں کیا یاد ہونا ہے؟ وہ تو تب پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ ہاں البتہ جب بات چیت ہوئی تو خوش بہت ہوئے۔ کوئی ان کی زبان بولے، چاہے ٹوٹی پھوٹی ہی ہو اور ان کے شہروں کا احوال سنائے تو دل کا رانجھا راضی تو ہوتا ہی ہے۔

اُن سے بات چیت مفید رہی۔ رش والی جگہوں خاص طور پر اسٹیشن اور ڈومہ سکوائر میں میلان کے چوروں ٹھگوں سے ہوشیار رہنے کی بہت تاکید کی۔ حال حُلیے سے آگاہ کیا کہ فضول قسم کے پھٹے پرانے کپڑے پہنے، اخبار بیچتے، کہیں کارڈ بورڈ ہاتھوں میں پکڑے جہاں کہیں نظر آئیں محتاط رہیں۔ وینس میں بنگلہ دیشی بہت ہیں وہاں جائیں تو اُن سے مدد لے سکتی ہیں۔

میرے یہ پوچھنے پر کہ یہاں وہ لوگ کن سے زیادہ قربت محسوس کرتے ہیں؟ ہندوستانیوں یا پاکستانیوں سے۔ بڑا مزے کا جواب تھا۔ کِسی سے بھی نہیں۔ جس کا جس سے واسطہ پڑا یہ اس کے طرز عمل اور کردار پر منحصر ہے۔ نہ مذہب کو اہمیت ہے وطن اور زبان کو ضرور اہمیت ہے۔ لیکن اِس سے بھی کہیں زیادہ انسان دوستی اہم ہے۔

ان کی باتوں میں ان کی کم عمری کے باوجود وہ تجربہ بول رہا تھا جسمیں ان کی ان مشقتوں، ان کے دکھوں، اپنے سے پیاروں کی جدائی کا غم اور پردیس میں ملنے والی اذیتوں کا کرب تھا جنہوں نے چھوٹی سی عمر میں انہیں وہ سب سکھا دیا تھا جنہیں سیکھنے کیلئے اِک عمر چاہیے ہوتی ہے۔

اقبال نے جب گھنٹہ بھر بعد آ کر کہنی بھر لمبا برگر میرے ہاتھوں میں تھمایا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’اس سے اور بڑا نہیں تھا کیا۔‘‘بمشکل آدھا کھایا گیا۔ آدھا لپیٹ کر بیگ میں رکھا۔

اور جب اقبال مجھ سے میرے پروگرام کی بابت پوچھتا تھا کہ ابھی واپسی کرنی ہے یا کہیں اور کا پروگرام ہے؟ میں نے نقشہ بیگ سے نکال کر کھولا۔ سامنے پھیلایا۔ مرکزی میلان میرے سامنے تھا۔ اس پر نظر یں دوڑاتے ہوئے بولی۔

’’اقبال ابھی دیکھا ہی کیا ہے؟ اس کی تو ہر سٹریٹ میں کہیں میوزیم ہے، کہیں آرٹ گیلری ہے اور کہیں تاریخی چرچ ہے۔ خاص الخاص ٹاورز ہیں، کہیں ونڈو شاپنگ کیلئے بلاتی شاپنگ سڑیٹز ہیں۔ میں تو تمہارے بلانے پر یہاں آ گئی ہوں۔ وگرنہ تو میں نے شام کو ڈومہ کی صدیوں پرانی کلاسیکل عمارتوں اور گرجوں کے کلسوں سے پاؤں پاؤں اُترتے دیکھنا تھا اور آنکھوں کو انوکھی مسرتوں سے بھرنا تھا۔

میں نے باتوں کی سر پٹ بھاگتی گاڑی کو بریک لگا دئیے۔ چند لمحے دائیں بائیں دیکھتی رہی۔ پھر بولی۔

ارے ابھی سانتا ماریا گریزی St Maria D Grazie چلنا ہے۔ Last Supper The کا دیدار ہو جائے تو کیا کہنے۔ تھوڑی سی مزید تکلیف اٹھاؤ۔ یہ ٹکٹوں والا مرحلہ بڑا مشکل ہے۔‘‘

اقبال بہت سیدھا سادا نوجوان تھا۔ پندرہ سال سے یہاں رہتے ہوئے بھی اُسے Last Supper The کا نہیں پتہ تھا۔

نقشے سے ہی تیر تکے چلائے کہ پہلے میٹرو سے ڈومو چلتے ہیں وہاں سے گاڑی تبدیل کرنی ہو گی۔ اب کمر ہمت کسی۔ سچی بات ہے میٹرو کی زیر زمین چیختی چنگھاڑتی دنیا دل کو بڑا ہراساں کرتی ہے۔ شاید نہیں یقیناً بڑھاپے میں دل بھی کمزور ہو جاتا ہے۔

ٹامک ٹوئیاں مارتے بہرحال جائے مقام پر پہنچے۔ سانتا ماریا گریزی St Maria D Grazi کا یہ چرچ سادگی اور خوبصورتی کا عکاس تھا۔ لوگ باگ کہیں بینچوں پر بیٹھے، کہیں ٹہلتے پھرتے تھے۔ پتہ چلا کہ ٹکٹوں کی تو مہینوں پہلے بکنگ ہوتی ہے۔

اب درخواست کرتی ہوں۔ ترش مزاج سی خاتون تھی۔ فوراً بولی۔

’’ مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہے۔‘‘

دوبارہ درخواست کی تو بھی پذیرائی نہیں ملی۔ سوچاچلو ابھی تو کافی دن ہیں میلان میں۔ کوشش جاری رکھوں گی۔ خیر خیرات مل ہی جائے گی۔

تھوڑی دیر وہاں بیٹھی۔ پھر خود سے کہا۔ ’’چلتی ہوں۔ آج کا سبق اتنا ہی کافی ہے۔‘‘

گہری شام بہرحال لُطف دینے والی تھی کہ گھر کا سا ماحول تھا۔ ایک سادہ سی بہو خدمت کیلئے حاضر، ایک پوتی اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے بہلانے اور ٹی وی لگا کمرہ جس پر چلتے پاکستانی چینلز نے پاکستانی ماحول کی رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ اسی لئیے سیڑھیوں کی مشقت بھول گئی تھی کہ سُکھ کے اتنے پھولوں کے ساتھ اذیت کے کِسی نہ کِسی کانٹے کا ہونا تو لازم ہے۔

گو تھکاوٹ خاصی تھی۔ مگر شام کے ڈھلتے سایوں میں مسز سمتھ سے ملاقات کے لئیے جانے کی اپنی خوشی تھی کہ یقیناً فقیر کو کچھ دان پن ملنے کی آس امید ہی تھی۔

ابھی آٹھ نہیں بجے تھے۔ دھوپ کے رنگ بہت ماند پڑ گئے تھے۔ ٹیرس پر کھڑی میں سامنے والے فلیٹ کو دیکھتی تھی جہاں وہ اُستاد ٹیرس پر کھِلی اپنی چھوٹی سی پھلواڑی کو دیکھنے آئی تھی اور مجھ پر نظر پڑتے ہی مسکرائی تھی۔ رنگا رنگ پھولوں کے درمیان بیٹھی وہ خود بھی مرجھایا ہوا پھول ہی لگ رہی تھی۔ قینچی سے اُن کی کتر بیونت ہو رہی تھی۔

آٹھ بجے میں آہستہ آہستہ سیڑھیاں اُتری اور بیل پر ہاتھ رکھا۔ مسز سمتھ نے کھولا اور مسکراتے ہوئے مجھے اندر آنے کا راستہ دیا۔ نشست گاہ میں بیٹھتے ہی میں نے کہا۔

’’آپ چائے کافی کے چکر میں نہ پڑئیے۔ میں چائے پی کر آئی ہوں۔ بس باتیں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’مگر مجھے تو پینی ہے۔‘‘وہ مسکرائیں۔

خجالت سی محسوس کرتے ہوئے میں نے کہا۔

’’در اصل آپ کی تکلیف کا احساس ہے۔‘‘

مسکرائیں۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میری احمقانہ بات پر مسکرائی ہیں۔ اور کہتی ہوں۔ ’’میں تو گھر کا سارا کام خود کرتی ہوں۔‘‘

شرمندگی مٹانے کی کوشش میں کچھ تو بولنا ضروری تھا۔ پس بغیر سوچے سمجھے بولی۔

’’آپ کا گھر بہت صاف سُتھرا قرینے سلیقے سے سجا ہوا ہے۔‘‘

’’بالعموم ہم بہت صاف سُتھرے لوگ ہیں اور اپنے گھروں کو بھی ایسا ہی رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرتی رویّے بھی اتنے اُلجھے ہوئے نہیں خاصے سُلجھے سے ہیں۔

باتیں کرتے کرتے وہ رُکیں اُن کا کتا دم ہلاتے ہلاتے ان کے پاس آ گیا تھا۔ چنبیلی کے سے رنگ اور لمبے لمبے بالوں والا۔ وہ کچھ دیر اُسے محبت بھری نظروں سے دیکھتی رہیں۔ پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔

یورپ بھر میں خاندانی نظام اپنی مضبوط بنیادوں کے ساتھ صرف ہمارے ہاں ہی تھا۔ گو اب یہ بھی اپنی ان روایات سے منہ موڑ رہا ہے۔ نئی نسل کی اپنی روش ہے۔ مگر ہم جیسے بوڑھے لوگ اُن روایات اور قدروں کے ابھی بھی اسیر ہیں۔ ہمیں رشتہ داروں اور عزیزوں دوستوں کے گھروں میں جمگھٹے اچھے لگتے ہیں۔ کھانے کھانے اور گپیں لگانے میں ہم لُطف اٹھاتے ہیں۔ گو ہمارے بچے بھی اِن میں کبھی کبھار شامل ہو جاتے ہیں۔ تاہم پھر بھی اب وہ باتیں نہیں ہیں۔

مذہب کے بارے میں پوچھنے پر کہ یہ آپ لوگوں کی زندگیوں میں کتنا اہم اور دخیل ہے۔

انہوں نے کہا تھا۔ مذہب، خاندان اور کھانا پینا تین چیزیں ایک اطالوی کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی تھیں۔ مگر جیسے خاندان منتشر ہو رہے ہیں ویسے ہی مذہب بھی بس اب بوڑھے لوگوں تک محدود ہو گیا ہے۔ نئے بچوں کے پاس نہ خاندان کے لئیے وقت ہے اور نہ چرچ کے لئیے۔

اٹلی کا اہم مذہب رومن کیتھولک ہے۔ ویٹی کن بھی یہیں ہے اور پوپ بھی یہیں۔ 90%نوے فی صد لوگ اِس سے وابستہ ضرور ہیں۔ مگر یہ وابستگی محض نام کی ہی ہے۔ صرف بیس پچیس فی صد لوگ ہی مذہبی روایات کا احترام کرتے ہیں۔ دس10 فی صد پروٹسٹنٹ، یہودی اور اب مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ ہاں البتہ مذہبی جنونیت نہیں۔ رواداری اور برداشت ہے۔ لوگ دھیمے اور خوش مزاج ہیں۔ اگر کوئی زیادتی کرے تو پھر مزہ چکھاتے ہیں۔

ہم لوگ ہمیشہ یہ بات مدّ نظر رکھتے ہیں کہ پانی کا شیوہ نیچے کی طرف بہنا ہے۔

٭٭٭







باب3:لاسکیلا، لاسٹ سپر اور وایا دانتے کی سیر




* ہوپ آن ہوپ آف پر چڑھنا اُترنا اور شہر کو دیکھنا کیا مزے کا کام تھا۔

* لاسٹ سپر لیونارڈوونچی کا وہ شاہکار ہے جس پر آرٹ ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔

* میلان اور روم کے شہریوں کی نوک جھونک کے قصّے کچھ ایسے ہی تھے جیسے ہمارے ہاں کراچی اور لاہور والوں کے ہیں۔



صبح وہی کل والی روٹین دہرائی گئی تھی اس کی تفصیل بھی مزے دار ہے۔ پھر کِسی وقت سناؤں گی۔ بس آج میں پلیٹ فارم پر میلان جانے کیلئے اکیلی کھڑی تھی۔ ٹکٹ کا مرحلہ بڑا گنجل دار تھا یا پھر میری بھس بھری کھوپڑی میں نہ گھستا تھا۔ اقبال نے ہی مدد کی۔ ٹکٹ ہاتھ میں پکڑ کر میں نے اُسے گھر بھیج دیا تھا۔

آج ثنا سے پڑھے ہوئے سبق Hop on Hop off کو عملی صورت دینی تھی۔ میلانو کو دور نو کی عمارت سے باہر آ کر دو پولیس والوں کو پکڑا کہ مجھے سارے شہر کی سُرخ بس میں بیٹھ کر سیر کرنی ہے۔ گائیڈ کریں کدھر جاؤں؟ انہوں نے نیچے جانے اور ATM سے رابطہ کرنے کا کہا۔

’’ارے نیچے تو میٹرو اسٹیشن ہے۔‘‘

میں بوکھلائی۔ انگریزی ماشاء اللہ ان کی بھی ایک نمبری اور سمجھنے کی رفتار میری بھی پوری پوری۔ تو ایسی صورت میں ابہام تو رہتا ہی ہے۔

اب ان کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اور لوگوں سے پوچھنے نکل پڑی۔ دونوں نے میری اِس کوشش کو دیکھا اور منہ پھیر لیا۔ یقیناً دل میں کہا ہو گا۔

’’وہمی بڈھی جا پرے مر۔‘‘

دو لڑکیاں کھڑی پمفلٹ بانٹ رہی تھیں۔ یہی بات اُن سے جا کر کی۔ ایسی پیاری اور محبت والیاں۔ ایک نے کام چھوڑا اور میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے گئی۔ سامنے ہی ایک آفس کی پیشانی پر ATM لکھا دیکھ کر لڑکی نے بتایا یہاں آپ کو ہر طرح کی راہنمائی مل جائے گی۔ ATMدر اصل میلان پبلک ٹرانسٹ سسٹم کا مخفف ہے۔ لڑکی مجھے ان کے حوالے کر کے خود چلی گئی۔

سیاحوں سے بھرئے ہوئے آفس میں اب میری یا وہ گوئیاں شروع ہو گئیں۔ وہی ڈبل ڈیکر Hop on Hop Offکی تکرار۔ انہوں نے قریبی بک شاپ کا راستہ دکھا دیا۔ چلو شکر اُن کے پاس سے بیس20یورو کا ٹکٹ ملا۔ ساتھ ہی ہدایت نامہ کہ میٹرو سے صرف ایک اسٹیشن ہے۔

ہائے ٹکٹ لینے کا جانگسل سا مرحلہ۔ چلو باہر نکل کر دیکھوں تو سہی۔ پیدل کتنا چلنا پڑے گا؟ دو تین سے پوچھا۔ کوئی دو فرلانگ کا فاصلہ تھا۔

’’تو مولا اس مفت کی فٹیک سے تو جان جاتی ہے۔ اب تو ہی اس اللّی بلّلی کا والی وارث ہے۔‘‘

ابھی کوئی بیس قدم چلی ہوں گی۔ سامنے سڑک تھی۔ بسیں، گاڑیاں رکی کھڑی تھیں کہ پیدل چلنے والوں نے سڑک کراس کرنی تھی۔ دفعتاً جیسے مجھے احساس ہوا کہ سامنے کھڑی سرخ رنگ کی بس ہوپ آن اور ہوپ آف ہے۔

میں نے فوراً ٹکٹ نکال کر عین سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر گاڑی کے ڈرائیور کے سامنے لہرایا اور اُسے ملتجی انداز میں اشارہ کیا کہ وہ دروازہ کھول کر مجھے بٹھا لے۔

پل جھپکتے میں اشارہ ہوا۔ میں نے تیز تیز چلتے ہوئے اس کے کھلے دروازے میں انٹری دیتے ہوئے ڈرائیور اور گائیڈ لڑکی کو چار بار گراشے گراشے Graize(شکریہ)کہا۔

کنڈیکٹر لڑکی نے میرا ٹکٹ لیا۔ چیک کرنے کے بعد برو شر میرے حوالے کرتے ہوئے مجھے سمجھایا۔ اِس ہوپ آن اور ہوپ آف کے مخصوص بس سٹاپوں سے شناسائی کروائی۔ میرے اندر کی خواہش ایکا ایکی میرے لبوں پر آ گئی۔

’’میری پیاری بچی مجھے Last Supper دیکھنا ہے۔ چرچ پر اُتار دیں۔‘‘

بس اسی روٹ پر تھی۔ تھوڑی دیر بعد چرچ کے سامنے سٹاپ پر اُتری۔ میں نے چند لمحے رُک کر سٹاپ کی صورت اور ڈیزائن کو ذہن نشین کیا۔ اگلا پل صراط ٹکٹ کے حصول کا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں کل والی خاتون بیٹھی ہوئی توبس سمجھو پکا انکار۔

دن بڑا بھاگوان تھا۔ حلیم الطبع سے مرد کو جب مسئلہ بتایا۔ عاجزانہ سی درخواست کی کہ میں تو ونچی کے اِس شاہکار کو دیکھے بغیر اٹلی سے جانا نہیں چاہتی۔

اُس نے بغور مجھے دیکھا۔ چند لمحے دیکھتا رہا۔ پھر انتظار کیلئے کہا۔

یہ حیرت انگیز بات تھی مجھے نہیں معلوم یہ سب کیسے ہوا؟ بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ مہینوں پہلے اس کی بکنگ ہو جاتی ہے۔ گنجائش کیسے نکلی؟ مجھے نہیں معلوم۔ ٹکٹ ملا۔ آٹھ یورو کا جسمیں گائیڈ کے پیسے بھی شامل تھے۔ شُکر تھا کہ میں نے زبان بند رکھی کہ یہاں آڈیو گائیڈ سے مطلب آڈیو سسٹم تھا ایر فون والا۔

اگر اُن لمحوں کے اپنے جذبات کا تجزیہ کروں۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ جیسے میں اس وقت ایک عجیب سے ٹرانس میں جکڑی کھڑی تھی۔ ماحول فسوں خیزی کی سی کیفیت میں ڈوبا ہوا تھا۔ سمے کی نبضیں سیکنڈوں اور منٹوں کے حصار میں گردش کر رہی تھیں۔

بند ایر کنڈیشن کمروں میں خاموشی ہے۔ جہاں خدمت گار کی آواز آپکے گروپ کو دئیے گئے وقت کے مطابق پکارتی ہے۔ آگے کا دروازہ کھلتا ہے۔ عقبی دروازہ بند ہوتا ہے۔ دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے کے سلسلے آگاہی کے عمل سے گزارتے ہیں۔

ونچی کا یہ دیواری نقش گری کا شاہکار آرٹ اپنے چونکا دینے والے تعارف کے ساتھ اٹلی کے زرخیز اور سنہرے دور میں وجود میں آیا۔ ایک مذہبی واقعے کو جسطرح آرٹسٹ کی نظر نے دیکھا، اُسے محسوس کیا۔ یہ اس کا حقیقی ترجمان ہے۔ اسے آرٹ کی پوری دنیا میں جس طرح سراہا گیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

ایک مستطیل سفید کمرے میں داخل ہوتے ہوئے میرے دل کی دھڑکن کا حال بے حد عجیب سا تھا۔ سامنے وہ شاہکار آویزاں تھا۔ کچھ اس انداز میں کہ اگر اپنے حواسوں پر بندہ قابو نہ پائے تو لگتا ہے کہ سیدھا تصویر کے اندر جا گرے گا۔ رنگوں اور جذبات و احساسات کا نمائندہ۔

1498 میں اپنی تکمیل کے کوئی چھ سال بعد ہی اسمیں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں چرچ پر بمباری ہوئی مگر دیوار کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔

میں سنتی تھی یہ ایک معجزہ ہے۔ آواز میں گھمبیرتا اور سکون ہے۔ مجھے اپنے ہاں کے لوگ یاد آئے تھے جو مساجد اور قرآن پاک سے متعلق معجزوں کی روئیداد بڑے ہی جذباتی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ آواز اور لہجے کے جوش بیان میں علم کی دانشمندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ بات تو ساری اندر کے عقیدوں کے رولے غولے کی ہی ہے۔ بس ذرا طریقے سلیقے کا تڑکا لگنے سے کہیں زیبائی بڑھ جاتی ہے اور کہیں نہ لگنے سے جھٹکا پن نمایاں ہو جاتا ہے۔

یہ کھانے کا کمرہ تھا۔ تا حدّ نظر خود کو نمایاں کرتا۔ میز کے گرد تیرہ لوگ بیٹھے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کے حا لی موالی۔ چھ ایک طرف اور چھ دوسری طرف۔ درمیان میں وہ خود تشریف رکھتے ہیں۔ میز پر کھانے کی چیزیں، گلاس اور پلیٹیں دھری ہیں۔

پینٹنگ در اصل اُن لمحوں کی تفسیر ہے جب حضرت عیسیٰ یاس بھرے لہجے میں اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’ ہم میں سے ایک ہے جو مجھ سے غداری کرنے والا ہے۔‘‘

کہہ لیجیے یہ شاہکار اِسی کا عکاس ہے۔ ان کے چہروں پر بکھرے تاثرات، ان کے ہاتھوں سے لے کر پاؤں اور وجود کی حرکات میں حیرت، تعجب، دُکھ، بے چینی، اضطراب جیسے انسانی جذبات کے ردّ عمل کاجو اظہار ہے اس کی اس درجہ خوبصورت عکاسی ونچی کا عظیم کارنامہ ہے۔

کہا جاتا ہے جب اُس نے اسے عملی صورت دینے کا سوچا تو وہ سالوں میلان کے گلی کوچوں میں اِن بارہ حوالیوں کی شکلوں سے مشابہ چہروں کی تلاش میں خوار ہوتا رہا۔ جوڈسJudasکو ہی تلاشنے میں تین سال لگائے۔

پندرہ منٹ اِس تصویر کیلئے۔ اِسے تو گھنٹوں دیکھو تو دل نہ بھرے والی بات تھی۔ یہ انسانی نفسیات کی نمائندگی کرتا ایسا تحفہ ہے جسے نہ دیکھنا بڑی محرومی تھی۔ Judas کو جس انداز میں پوٹریٹ کیا گیا ہے وہ بھی اپنی مثال ہے۔ زندگی اور اس کے رنگوں سے بھرا ہوا شاہکار۔

بالمقابل دارکشی کی پینٹنگ بھی تھی۔ اس پر نظریں ڈالیں ضرور۔ سراہا بھی۔ مگر میری آنکھوں میں Last Supper کیلئے ابھی بھی پیاس تھی۔

اب باہر بینچ پر بیٹھی گھونٹ گھونٹ دودھ پیتے کبھی لوگوں پر نگاہیں ڈالتے اور کبھی نقشے کو دیکھتے سوچوں کی گھمن گھیریوں میں تھی کہ آگے کیا دیکھنا ہے؟

قریب بیٹھے تین کینیڈین کا ٹولہ شاید لیونارڈونچی کا میوزیم دیکھنے جا رہا تھا۔ انہیں بس سٹاپ کی طرف جاتے دیکھ کر انہی کے پیچھے ہولی۔ ایسی اوندھی اور عقل سے کوری۔ بکری کے پیچھے پیچھے چلتے اس کے لیلے کی طرح۔

سرخ بس آئی تو ان کے ساتھ چڑھ گئی۔ جہاں اُترے اُتر گئی۔ لائن میں لگ کر آٹھ یورو کا ٹکٹ بھی لے لیا۔ پر اندر جا کر تین چار ہالوں نے ہی کوفت اور بیزاری کے سے جذبات پیدا کر دئیے۔ یوں یہ سرا ہے جانے کے قابل ہے۔ یورپ کا سب سے بڑا سائنس اور ٹیکنالوجی کے ارتقاء کا نمائندہ میوزیم ہے جسے اٹلی کی حکومت نے اپنے مایہ ناز بیٹے کے نام کیا ہے۔

اِس میوزیم کا ایک حصّہ ونچی کی ایجادات کی نمائش کیلئے بھی مخصوص ہے۔ اُس کے ہال اور چیزوں کی نمائش سب کی پیش کش کا انداز خوبصورت اور منفرد سا ہے۔ مگر یہاں اس کے شاہکاروں جومیٹریMetallurgy، فزکس، navigationاور آلات موسیقی وغیرہ سے متعلق تھے۔ بھلا اِن کی مجھ جیسی کوڑھ مغز کو کیا سمجھ آنی تھی جو اس فیلڈ کا بندہ ہی نہیں تھی۔ اِس لئیے جلد ہی باہر نکل آئی تھی۔

اور اب بیٹھی سوچتی تھی کہ پندرھویں صدی کی وسطی دہائی میں پیدا ہونے والے اس فطین شخص کے بارے میں سمجھ نہیں آتی ہے کہ وہ آخر شے کیا تھا؟ فطین انسان کے کمال کی بھی چند ایک جہتیں ہوتی ہیں جن میں وہ اُن کی معراج کو پہنچتا ہے۔ یہاں تو آرٹ اور سائنس کی جس شاخ کو دیکھو وہ اس کی چوٹی پر بیٹھا ہوا تھا۔

وہیں بیٹھے بیٹھے نقشے کو کھولا ضرور۔ مگر اگلا آیٹم "لیونارڈو کا گھوڑا"دیکھنے سے انکاری ہو گئی۔

’’بس بھئی بس بہت خراج تحسین پیش کر دیا ہے میں نے۔ ونچی کے علاوہ بہت کچھ اور بھی ہے میلان میں۔‘‘

نقشہ مجھے Monumental Cemetery کا بتا رہا ہے۔ میں نے اس پر بھی خط تنسیخ پھیرتے ہوئے اپنے آپ سے کہا تھا۔

’’مجھے اس یادگاری قبرستان دیکھنے بھی ہر گز ہرگز نہیں جانا۔ میں جانتی ہوں اِن مہذب اور سلیقہ مند قوموں کے قبرستانوں کا بھی دیکھنے سے تعلق ہے۔ پھول پتوں کی رنگینیوں، حُسنِ ترتیب، ذوق جمالیات اور فنکارانہ آرٹ سے سجے یہ اپنی جگہ شاہکار نظر آتے ہیں۔ مگر مجھے پھر بھی وہاں نہیں جانا۔‘‘

’’سچی بات ہے میں تو وہموں کی پھُٹی ہوئی عورت ہوں۔ اِن دنوں تو یوں بھی اوپر والے کی جان نہیں چھوڑتی ہوں۔ وہ بھی کہتا ہو گا۔ کِس مصیبت کو اپنی زمین دیکھنے بُلا لیا۔ جٹ جپھا ڈال لیا ہے مجھے تو۔ چاہتی ہے ہمہ وقت اِسی کے ساتھ رہوں اور تو کوئی کام نہیں نا مجھے۔ اتنا ویلا سُتا (فالتو)سمجھتی ہے یہ مجھے۔‘‘

’’تو بس بھئی میلان کے ڈاؤن ٹاؤن چلتی ہوں۔ میلان کا مرکز، حد درجہ حسین، اس کی تاریخ و تہذیب سے لدا پھندا۔ اس کی گلیوں میں نکلتی ہوں اور خوب خوب سیر سپاٹا کرتی ہوں۔‘‘

تو جب بس سے اُتری تو ڈومو کا وہ بھریا میلہ اپنی رعنائیوں سے گویا جگمگاسا رہا تھا۔ گلیریاGalleria کی سہ منزلہ عمارات کے رنگ و روپ اور حسن کو دیکھتے ہوئے خود سے کہتی ہوں۔

’’اف کتنی فنکاری کا غازہ ان کے منہ ماتھوں پر تھپا ہوا ہے۔ ہائے پہلے تو نظر ہی نہیں آیا تھا مجھے۔‘‘

سیاہ آ ہنی جنگلوں میں گھری کھُلی بالکونیوں کا حُسن دیکھتی اُسے سراہتی اور یہ سوچتی اور افسوس کرتی کہ فضول لیونارڈو سائنس میوزیم پر آٹھ یورو ضائع کئیے۔ ہائے اس آٹھ یورو سے میں گلیریا کے اِن شاندار ریسٹورنٹوں میں سے کسی ایک کے اندر جا کر کچھ دیکھتی، کچھ کھاتی۔ چلو ضائع ہی کرتی پر کچھ مزہ تو لیتی۔

اب چلتے چلتے دفعتاً نگاہ نیچے فرش پر پڑتی ہے تو رُک جاتی ہوں۔ ہائے یہ فرش ہیں کہ جیسے مختلف ڈیزائنوں کے رنگوں بھرے قالین بچھے ہوں۔ محرابی دروازوں کے بالائی ستونوں کی منبت کاری کتنی حسین ہے کہ واری صدقے ہونے کو جی چاہتا ہے۔ اُف گلیریا تو تعمیراتی فن کا شاہکار ہے۔ دُکانیں ہیں کہ کروڑوں چھوڑ اربوں کی مالیت کا سامان سمیٹے ہوئے ہیں۔ ہائے مجھ جیسی کو تو اندر جاتے ہوئے بھی ڈر سا لگتا ہے۔

اب چلتی جا رہی ہوں اور آگے کھلے گلیارے سے باہر نکلتی ہوں تو سانس رک جاتی ہے۔ اُف ایسا خوبصورت منظر شاندار عمارتوں سے گھرا میدان۔ ایک جانب اونچے سے پیڈسٹل پر کھڑا یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا وہی محبوب جینئس لیونارڈوونچی اپنی لمبی داڑھی، لمبے چوغے اور اپنا ہائیڈرو انجینئیرنگ ہیٹ پہنے وجود میں اپنے علم کی بے پایاں وسعتوں کو حلم اور عاجزی سے سمیٹے آنکھیں جھکائے، ہاتھ ناف پر باندھے گویا جیسے اِس خوبصورت لا سکالا اوپیرا ہاؤس کو تعظیم دیتا ہو۔ کمال کی بات ہی تھی ناکہ اُس نے میلان کے نہری سسٹم کو لاکز Locks کے تحت کیا۔ اس سسٹم نے 1920 تک بڑی کامیابی سے کام کیا۔

نیچے اس کے چار نوجوان شاگرد مختلف سمتوں میں کھڑے ہیں۔ مشتاقانِ دید کا ایک ہجوم اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تصویر کشی اور کہیں ایک دو پوڈیم کے نیچے لکھی گئی تحریروں کو پڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

’’اللہ اِس لا سکالا La Scala میدان کی کیا بات۔ کیسے اس کی گلیاں ایک دوسرے کی بغل میں گھُسی اندر ہی اندر جاتی جا رہی ہیں۔ اِن میں ان کی خوبصورت عمارتوں کے بلند و بالا سلسلے کتنے دلفریب نظر آتے ہیں؟ یہ عمارتیں کبھی محل تھیں۔ جو اب کہیں آرٹ گیلریاں ہیں اور کہیں میوزیم ہیں۔

اب بھُوک ستا رہی تھی۔ ویجی ٹیبل پیزا لیا۔ کوک کا ٹن لیا۔ چھوٹی چھوٹی بائٹ لیتے اور گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے میں اِدھر اُدھر کے منظروں سے مسرتیں کشید کر رہی تھی۔

اور جب دھوپ زیتونی رنگی ہوتے ہوتے بلند و بالا عمارتوں کے بنریروں پر ٹکنے لگی۔ تب تک میں نے چلتے چلتے میلان کے اس ڈاؤن ٹاؤن کی دائیں بائیں مڑتی گلیوں اور ان کے دہانوں سے پھوٹتے مختلف سکوائرز دیکھ لئیے تھے۔

سمے کی اِن ساعتوں میں بھی بڑی فسوں خیزی ہوتی کہ انہیں دیکھ کر ایسا ہی لگتا تھا جیسے آپ کسی ٹہنی کے سرے پر خوش رنگ سا کھلا پھول دیکھ رہے ہوں۔ وہیں بیٹھ جاتی۔ میلان کی تاریخی کہانیاں سنتی۔ پیازہ ڈیلا سکالا Piazza Della Scala میں جا بجا صفورزہSforza خاندان کی کہانیاں بکھری ہوئی تھیں جب وہ میلان پر حکومت کرتا تھا اور ونچی ان کی خواہشوں پر شہر کو خوبصورت ترین بنانے میں اُن کا معاون تھا۔

لاسکیلاLascala کی پر وقار عمارتوں کا کوئی حُسن تھا۔ نظریں ایک پر ٹکتیں تو وہاں سے ہٹانا دوبھر ہو جاتا۔ یہیں دنیا کا وہ مشہور اوپیرا ہاؤس ہے جسے بلاشبہ میلان کا لینڈ مارک کہا جا سکتا ہے۔

La Scala Opera Houseاگست میں بند تھا۔ پیٹرز برگ رُوس میں اوپیرا دیکھا تھا۔ دوبارہ دیکھنے کی حسرت تھی۔ اب بندہ خود کو کوستا ہی ہے ناکہ جب انٹرنیٹ کے ساتھ جڑتا نہیں تو پھر یہی کچھ ہونا ہے۔ یہاں میوزیم بھی ہے۔ دیکھنے کی تحریک نہیں ہوئی کہ کچھ لوگوں کو تبصرے کرتے سُن لیا تھا کہ بس ایویں ساہی ہے۔ بعد میں کسی اور بھی سے پتہ چلا تھا کہ نامی گرامی فنکاروں کے ذاتی استعمال کی بس چیزیں ہیں۔ کسی کا ہیٹ، کسی کی عینکیں، کِسی کے آلات موسیقی۔

اور اب میں پیازہ ڈل ڈومہ کے کیتھڈرل کی سیڑھیوں پر بیٹھی ابھی ابھی میکڈونلڈ سے خریدی گئی آئس کریم چاٹتے ہوئے کتنی مسرور سی ہوں۔ بیٹی سے گھر بات ہوئی ہے۔ سب بچے بمعہ اپنے بچوں کے خیر خیریت سے ہیں۔ اندر تک اطمینان اور سرور کی لہر سی دوڑ گئی ہے۔ آنکھیں اوپر اٹھا کر نیلی چھت والے کا شکریہ بھی ادا کر دیا ہے۔ بھلا زندگی کے ایسے خوشگوار ترین لمحات اُس کی عنایت ہی ہیں نا۔ کہ جب آپ اپنی پسندیدہ جگہ پر بھی ہوں اور سکون و طمانیت کی لہریں بھی اندر موجزن ہوں۔

تو شام اب بنیروں پر بیٹھی ہے۔ سامنے فرش پر کبوتروں کی مست خرامیاں جاری ہیں۔ دلبروں کے رنگ ڈھنگ بھی شام کا حُسن بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں ایسی چاہتیں نصیب نہ ہوئیں تو بھئی دوسروں کو دیکھ کر جلیں کڑھیں کیوں؟ خوش ہو رہے ہیں۔

تبھی ایک خاندان میرے قریب آ کر بیٹھ گیا ہے۔ پاکستانی نژاد اٹلی میں عرصہ پچیس سال سے مقیم۔ بیوی، بیٹا، بیٹی، شوہر عزیز احمد بڑا گالڑی قسم کا بندہ۔ پل نہیں لگا تھا کہ یوں گھُل مل کر باتیں کرنے لگا جیسے میں تو اس کی سگی آپا، اُس کے ماں باپ کی پہلوٹھی کی اولاد ہوں۔ تاہم تھا تیز بندہ۔ گرم سرد زمانے اور حالات کا چشیدہ، نظر میں وسعت تھی اور دماغی طور پر بہت تیز۔ روم کے قریب اوسٹیاOstia میں کافی سال رہا۔ پھر میلان چلا آیا کہ یہاں کاروباری مواقع زیادہ تھے۔ کوشش اور جد و جہد کی کہانی تھا وہ۔ تعلیمی طور پر بھی آگے بڑھا اور ہنر مندی میں بھی اپنا سکہ جمایا۔ گاڑی، گھر، ذاتی کاروبار بڑے سُکھ میں تھا۔

میلان تو اس کی پوروں پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا کونسا گلی کوچہ تھا جس سے وہ ناواقف تھا۔

اُس نے فوراً پوچھا۔

’’وایا دانتے Vaya Dante سٹریٹ نہیں گئیں۔‘‘ میرے انکار پر بولا۔

’’تو یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہیں؟ وہاں جائیے۔‘‘مجھے اس کے انداز تخاطب پر تھوڑا سا غصہ آیا۔ تنک کر بولی۔

’’میں کھیر تتی تتی کھانے کی عادی نہیں۔ ٹھنڈی کر کے مزے مزے سے کھاتی ہوں۔ میلان کا مرکزی حصّہ ٹھوٹھی میں جمی کھیر جیسا ہے۔‘‘

بڑا ہنسا۔ تیز آدمی تھاسمجھ گیا تھا کہ مجھے بُرا لگا ہے۔ فوراً وضاحت کرنے لگا۔

’’ بھئی کیا بات ہے اُس کی۔ شام کے خوبصورت لمحوں میں جب وہاں اکارڈین بجتا ہے۔ بائیک کی گھوں گھوں فضاؤں میں گونجتی ہیں۔ قدیم کرداروں کے کاسٹیوم پہنے گھومتے پھرتے کردار آپ کے ساتھ تصویریں اترواتے ہیں۔ بہت مزہ آتا ہے سچی وہاں جا کر۔‘‘

’’ابھی تو میں کافی دن ہوں یہاں۔ کل روم کیلئے ٹکٹ لینا ہے تو اِسے بھی دیکھنے جاؤں گی۔‘‘

بہرحال بندہ دلچسپ تھا۔ اُس نے تو میلانیوں اور رومیوں کے وہ مزیدار قصے سُنائے۔ شمال اور جنوبی سمت کے علاقوں کے اپنے اپنے ورثے کی بڑائی اور تفاخر کی داستانیں۔ روم اور میلان کی آپس کی مقابلے بازیاں۔ بڑی ٹسل رہتی ہے میلان اور روم میں۔ ’’ارئے بھئی ویسی ہی ناجیسی ہمارے ملک میں کراچی اور لاہور والوں کی ہے۔

ساتھ ساتھ اس کی رننگ کمینٹری نے گویا سماں باندھ دیا تھا۔

’’کراچی والوں کو لاہوری پینڈو اور لاہور پنڈ لگتا ہے۔ بس یہی حال اِن میلانیوں کا ہے۔ روم والے تو انہیں نری سُستی کی پنڈیں، اور زمانے بھر کے کاہل نظر آتے ہیں۔ وہ تو منہ پھاڑ کر کہتے ہیں۔ کام کے نہ کاج کے، دشمن اناج کے۔ حکومتی نوکریاں کرتے ہیں اور مزے لوٹتے ہیں۔ ایک تو کام کیلئے مخصوص گھنٹے اسمیں بھی ان کی ڈنڈیاں۔

ابھی دفتروں میں آ کر بیٹھے ہیں کہ وقفہ آ گیا ہے۔ بندہ پوچھتا ہے۔ بھئی کا ہے کا؟ جی کافی بریک ہے۔ اب کیا ہے؟ یہ لنچ بریک ہے۔ اب ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ ہو رہی ہے۔ دوستوں، محبوباؤں، کبھی عزیزوں اور بیوی بچوں کے فون سننے بھی تو ضروری ہیں۔ ارے نرے چور اُچکّے یہ رومی۔ حکومت کے ٹیکسوں پر موجیں مارتے ہیں۔ یہ ہم میلانی ہیں جو خون پسینہ ایک کر کے حکومت کا ٹیکسوں سے گھر بھرتے ہیں۔‘‘

میرا تو ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔

اور یقیناً آپ کو نہیں پتہ ہو گا کہ یہاں بڑی زوردار قسم کی جنوبی حصوں سے علیحدگی کی تحریکیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ تو اب تصویر کا دوسرا رخ بھی سُنیے۔ روم والے بھی دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ نخوت سے نتھنے پھیلاتے اور تبصرہ کرتے ہیں۔

’’ارے ہٹاؤ اِن میلانیوں کو ہم تو ویسے ہی اِن ہندسوں میں اُلجھے، ہمہ وقت دو اور دوچار کے چکروں میں پھنسے، ایک سے گیارہ یورو بنانے والوں کو ردّ کرتے ہیں۔ زندگی کا کوئی مزہ ہی نہیں ان کے ہاں۔ کمبخت مارے خود بھی پیسہ کے دھُن چکر میں اُلجھے ہوئے اور شہر کو بھی دھُند کے غبار میں ڈبوئے رکھتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے ہمیں بھی اس کا اعتراف ہے کہ ملازمتوں کے مواقع زیادہ ہیں اِس شہر میں۔ میرٹ کا بھی یہ میلانی بہت خیال رکھتے ہیں۔ مگر بھئی کاروبار جو کرتے ہیں۔ ذاتی اور اپنے تو میرٹ کا خیال نہ رکھیں گے تو اور کیا کریں گے؟

دونوں کو ایک دوسرے سے ڈھیروں ڈھیر شکایتیں، کہیں غیر مہذب ہونے، کہیں روم کو ایک گندہ شہر سمجھنے اور کہیں میلانی خشک لوگ ہیں وغیرہ مگر اس کے باوجود ایک دوسرے کی خوبیوں کا بھی خوشدلی سے اعتراف کرتے ہیں۔

یہ سب سُننا میرے لئیے کتنی بڑی تقویت کا باعث تھا کہ میں جو ایسے ہی حالات کی زخم خوردہ تھی اور نہیں سوچتی تھی کہ ایسی صورت اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہو سکتی ہے۔

سکوائر روشنیوں سے جگمگانے لگا تھا کہ دھوپ اپنا بوریا بستر سمیٹ چکی تھی۔ فیملی نے مجھے اپنا کارڈ دیا۔ گھر آنے کی دعوت دی۔ شام بہت خوشگوار رہی کہ مجھے نہ صرف انہوں نے اپنے ساتھ رکھا بلکہ میٹرو سے مجھے اُس گاڑی میں بھی سوار کرا دیا جس نے مجھے چیزاتے پہچانا تھا۔

٭٭٭









باب4: میرے خوابوں کا وینس اور میری بونگیاں




* پانیوں میں تیرتا یہ بے حد شاندار اور خوش نما شہر جس کی شہرت دنیا بھر میں حیرت انگیز اور تاریخی ورثے کے طور پر ہے۔

* اٹلی ٹھگوں کے لئے بڑا مشہور ہے۔ بار بار یہ سبق پڑھنے کے بھی اُن کے ہتھے چڑھی۔

* ویپوریٹو پر چڑھنے کی جلدی، جانا کہاں ہے؟ کچھ پتہ نہیں۔ خوب خوب تماشے ہوئے۔





ہونٹوں پر دعائیہ جملے تو وہی روزمرہ والے تھے۔ ہاں البتہ بے حد مانوس مگر اجنبی زمین پر تنے نیلے سائبان پر جمی نگاہوں سے ٹپکتے شبنم کے قطرے دھیرے دھیرے خوبصورت چہار منزلہ گھروں میں سے ایک کے ٹیرس کے فرش پر گرے۔ ہونٹوں پر تکرار ہوئی۔

’’میرے ساتھ رہنا ہے۔ میرا ہاتھ تھامے رکھنا ہے۔ اکیلی ہوں۔ آج وہاں جا رہی ہوں جہاں جانے کے سدا خواب دیکھتی رہی ہوں۔‘‘

پانیوں میں تیرتا یہ خوبصورت، بے حد شاندار، خوش نما، ایک سو جزیروں، سینکڑوں پُلوں اور ہزاروں گلی کوچوں والا وینس ادیبوں، شاعروں اور تخیلاتی لوگوں کو ہانٹ کرنے والا۔

بچپن کی کہانیاں کہیں بغداد اور کہیں وینس کے سوداگروں کے گرد ہی تو گھومتی تھیں۔ بڑے ہو کر شیکسپئر سے شناسائی ہوئی۔ مجھے یاد ہے The Merchant of Venice اور The Two Gentlemen of Veronaہاتھوں میں آئیں تو کِس شوق و رغبت سے انہیں پڑھا تھا۔ کتنے خواب دیکھے تھے اس وینس کے۔ بڑے ہو کر The wings of the Dove، Italian hours اورThe Aspern Papers نے بے حد متاثر کیا۔ وینس اِن کہانیوں میں ایک بیک ڈراپ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

ہاں میں تھا مس مینThomas Mann کی کلاسیک کہانی تو بھول ہی گئی۔ Death in venice کیا کمال کی چیز ہے۔

کیسا شہر ہے جس کی شہرت یورپ کے ایک محفوظ کیے گئے حیرت انگیز اور بڑے تاریخی شہر کے طور پر ہے اور جو اب تنزّلی کی طرف گامزن ہے۔ جس کی گلیوں میں دوڑتے ندی نالے دیکھ کر ہمیشہ بسمل صابری کا شعر یاد آتا تھا

اشک بن کروہ میری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

ساتھ میں تھوڑی سی ترمیم بھی ہو جاتی تھی۔ عجیب شہر ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے۔

مختصر سا ناشتہ، چائے کا مگ اور جام لگاخستہ سا بند نما سموسہ۔ بیگ کی چیکنگ، ہیلمٹ پہن کر اقبال کے سکوٹر پر بیٹھنا، چیزاتے اسٹیشن پر آنا۔ مشین سے ٹکٹ نکالنے کا مشکل مرحلہ اقبال سر کرتا۔ اگلے مرحلوں میں طاق ہو گئی تھی۔

آج مجھے میلان شہر کے میٹرو اسٹیشن ریپبلکہRepublica اُتر کر نصف فرلانگ پر چنترال اسٹیشن تک جانا تھا۔ مجھے اسمیں آسانی محسوس ہوتی تھی۔ میں میٹرو کی زیر زمین بھول بھلّیوں سے قدرے خوف زدہ سی رہتی تھی۔ آسان اور سیدھے راستوں پر گو وہ چلنے کی مشقت سے زیادہ بھرے ہوئے تھے ترجیح دیتی تھی۔

دو رویہ بلند و بالا عمارات کے کشادہ برآمدے اِس صبح کے سمے خالی خالی تھے کہ ریسٹورنٹ ابھی جاگنے کی لکن میٹی کھیل رہے تھے۔

میلان کے مرکزی ریلوے اسٹیشن چنترال کا چہرہ مہرہ بڑا بے رونق سا ہے۔ اندر جدید سفری سہولتوں سے مزین چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ذرائع کے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ اور باہر بڑا اجڑا پجڑا سا ہے۔ سنا بھی اور پڑھا بھی کہ فاشسٹ مسولینی کی یاد میں یہ سوغات رکھی ہوئی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں بیچارہ پور پور زخمی ہوا تھا۔ اِس کے چہرے مہرے کی پلاسٹک سرجری قصداً نہیں کی گئی۔

وینس کیلے ٹکٹ لینے کی پوچھ گچھ کے مرحلے سے ابھی دوچار بھی نہ ہو پائی تھی کہ ٹھگ کے ہتھے چڑھ گئی۔ ایسا ہونا ضروری تھا۔ ایک تو لباس اعلان کرتا تھا دوسرے چہرے پر اُڑتی ہوائیاں راز کھولتی تھیں۔ نوجوان خوش شکل سے لڑکے نے قریب آ کر پوچھا۔

’’کہاں جانا ہے؟‘‘وینس کو اطالوی زبان میں وینیزیا کہتے ہیں۔ اسے رٹ کر چلی تھی۔ اسی لئیے بڑے اعتماد سے کہا گیا۔

مگر اٹلی ٹھگوں کیلئے بھی تو بڑا مشہور ہے۔

بہرحال مدّعا جان کر اُسنے آنکھیں اور دل میری راہوں میں بچھاتے ہوئے مجھے ٹکٹ آفس تک جانے ہی نہ دیا۔ خود کار مشینوں کے پاس لے آیا۔ فسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس سوال ہوا۔ کنجوس اور کفایت شعار عورت نے فوراً پوچھا تھا۔

’’ تھرڈ کلاس نہیں ہے کیا؟‘‘زور دار قسم کا NOتھا۔ خود کو لعن طعن کی کہ اوقات دکھانی کیا ضروری تھی؟ 37یورو دیجئیے۔ پچاس یورو کا نوٹ بیگ سے نکالا۔

لڑکے نے حکم دیا ’’مشین میں ڈالو۔‘‘

تعمیل کی۔ دوسری طرف سے دس کا نوٹ نکلا۔ دوبارہ شاہانہ انداز میں کہا گیا۔

’’ پکڑو۔‘‘

میں تو پہلے ہی جھپٹا مار کر نوٹ کو قابو کر چکی تھی اور تین سکوں کی بھی منتظر تھی۔ ٹکٹ باہر نکلا۔ لڑکے نے اُسے میرے ہاتھ میں تھمایا۔

ٹن ٹن موسیقی کی جھنکار کے ساتھ تین سکے باہر نکلے اور ساتھ ہی برقی انداز میں لڑکے کے ہاتھوں نے انہیں دبوچتے ہوئے مجھے اشارہ کیا۔

’’آئیے۔‘‘

دو تین خود کار برقی زینوں سے چڑھاتے تیز رفتاری سے تقریباً دوڑاتے مجھے ایک بڑے سے ہال کے دروازے پر دھکیلتے ہوئے بولا تھا۔

’’آگے جانے سے میرے پَر جلتے ہیں۔ گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہو گی۔ جائیے۔‘‘

میں نے ہونقوں کی مانند اُسے دیکھا تین یورو کے عوض میں نے تو سمجھا تھا کہ وہ مجھ مہارانی کو ڈبے میں بیٹھا کر آئے گا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اساطیری کہانیوں کے یاجوج ماجوج کی طرح دو سپاہی شیشے کے دونوں دروازوں پر کھڑے تھے اور مسافر کے سوا ہر ایک کا داخلہ ممنوع تھا۔

اندر قدم دھرا۔

ایک عظیم الشان عمارتی سلسلہ جس کا بیشتر حصّہ آ ہنی و فولادی راڈوں اور ستونوں پر کھڑا ایک خوبصورت لابی کی صورت لئیے جس کی قوسی سفید فائبر گلاس والی چھت نے پورے ماحول کو روشن کر رکھا تھا میری آنکھیں پھاڑ رہا تھا۔

دنیا بھر کی خوبصورتیوں، بدصورتیوں کے نمونوں اور دائیں بائیں بھاگتی ننگی حسین ٹانگوں، عریاں گداز سینوں کی بڑی بہاریں تھیں یہاں۔ عبایوں، حجابوں میں لپٹی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی نمائندگی تھی۔ ان سبھوں کے ساتھ ساتھ بے شمار کاروباری سلسلوں کو بھی عمارت اپنے پیٹ میں سمائے ہوئے تھی۔ کوئی نو کے قریب لابی سے جڑے ٹریک ہوں گے جن میں سے کچھ پر گاڑیاں کھڑی اور کچھ خالی نظر آتے تھے۔

ایک نفسانفسی اور بھاگ دوڑ کا عالم تھا۔ جس میں شامل ہونے کی میری کمی تھی سو خیر سے میری آمد کے ساتھ وہ پوری ہو گئی۔ سب سے زیادہ ڈر ہائے کہیں ٹرین چھٹ نہ جائے کا تھا۔ یہ تھوڑی کہ گاڑیاں کم تھیں۔ ہر گاڑی کے چلنے کا درمیانی وقفہ صرف گھنٹہ بھر کا تھا۔ مگر اُس کے چھٹنے کی صورت میں کٹوتی بھی ٹھیک ٹھاک ہوتی تھی۔ پیٹرز برگ روس میں ایسے ہرجانے بھر چکی تھی۔ پرانی تاریخ یہاں دہرانا نہیں چاہتی تھی کہ مہرانساء ساتھ نہیں تھی۔ ہرجانہ پورا کا پورا میرے پیٹے پڑ جانا تھا۔ اسی لئیے ٹکٹ ہاتھ میں پکڑے جانکاری کیلئے بھیک منگوں کی طرح بھاگتی پھرتی تھی۔ اِسے پکڑ، اُسے کھینچ، کوئی مونڈھے مارتا آگے بڑھ گیا۔ کسی نے بے اعتنائی سے دیکھا۔ کِسی نے توجہ تو دی مگر خاک نہ سمجھا۔ ہاں ایک سوڈانی مہربان سے بچے نے انفرمیشن بورڈ تک لے جا کر سمجھایا اور کہا۔

’’اطمینان سے بیٹھ جائیے۔ گاڑی جانے میں ابھی پورا ایک گھنٹہ باقی ہے۔‘‘

اب اردگرد نظریں دوڑائیں تو کہیں چھوٹے سے چھوٹا بینچ کا کوئی ٹوٹا تک نہ تھا۔ زمین پر ایک جگہ پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی اور قدرت کی رنگینیاں دیکھنے لگیں۔ بوڑھی عورتیں تھیں کہ مانو جیسے اسکیٹنگ کے پہیوں پر چڑھی ہوئی ہوں۔

بھاری بھر کم اٹیچی کیس ایک ہاتھ سے گھسیٹتے ایک نابینا عورت دوسرے ہاتھ سے سفید چھڑی لہراتے جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار حیرت زدہ کرتی تھی۔

خود پر لعنت بھیجی۔ ’’کمبخت دیکھ اور سبق سیکھ۔ تجھے توایسے ہی گھبراہٹ کے دورے پڑ رہے ہیں۔‘‘

پر فطرت سے مجبوری کا کیا کیا جائے۔

پھر جیسے شلوار قمیض نے کام کر دکھایا۔ اُن اجنبی فضاؤں میں اپنائیت کی خوشبو میں لپٹی ایک آواز نے متوجہ کیا۔

’’کہاں سے ہیں؟‘‘

حیرت سے پوچھنے والے کو دیکھا ایک خوش شکل پیارا سا لڑکا صفائی کرتی گاڑی میں بیٹھا دیکھتا اور پوچھتا تھا۔

اب جواب، پھر سوال اور اپنی مشکل کو بتانے کے سلسلے میں جانی کہ لڑکا جالندھر سے ہے۔ دلداری کے میٹھے بولوں سے ’’ ابھی آتا ہوں اور سمجھاتا ہوں گھبرائیں نہیں‘‘ جیسے الفاظ نے گھبراہٹ، تلخی اور پریشانی میں پھنکتی جان پر اطمینان کی بوندا باندی کی جیسے پھوار برسائی۔

چند ہی لمحوں بعد وہ مجھے لئیے انفرمیشن بورڈ کے سامنے کھڑا تھا اور میں ٹکٹ ہاتھ میں لئیے سبق پڑھتی تھی۔ گاڑی کا نمبر موجود تھا۔ وینس جانا ہے۔ لکھا ہوا تھا۔ کِس پلیٹ فارم پر اِسے آنا ہے۔ اس کا اندراج از خود ہی پندرہ منٹ پہلے ہو جانا تھا۔ آدھ گھنٹہ باقی تھا اور گاڑی بورڈ پر بہت نیچے تھی۔ گزرتے ہر لمحے میں اِسے اوپر آتے چلے جانا ہے۔

’’چلو اللہ مسب اسباب ہے۔‘‘

ابھی لفظ اندر سے نکل کر ہونٹوں پر آئے ہی تھے کہ خوبصورت نقش و نگار والی چار عربی لڑکیاں عبایوں اور حجاب میں لپٹی اپنی ماں کے ساتھ نمودار ہوئیں۔ فوراً لپک کر اھلاً و سہلاً و مرحبا کہا۔ سعودی تھیں پاکستان کا سُن کر ماں بیٹیوں نے محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ انہیں بھی وینس جانا تھا اور گاڑی بھی وہی تھی۔

اب جیسے گم گھپ اندھیرے میں ننھی منی سی قندیلیں جل اٹھیں باتیں ہونے لگیں۔ لمحوں کی لطف اندوزی مسرور کرنے لگی۔

تبھی سوڈانی لڑکے نے ہاتھ پکڑا اور گھسیٹنے لگا کہ گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہے۔ اب وسوسے بھی ساتھ ہی چلنے لگے تھے کہ سعودی لڑکیاں تو وہیں اطمینان سے کھڑی ہیں۔

اسی گاڑی میں انہیں بھی تو سوار ہونا ہے۔ شیطان کی آنت کیطرح لمبی گاڑی، جتنی لمبی اتنی ہی خوبصورت اور شاندار بھی۔ نو نمبر ڈبہ کہیں پچھواڑے میں ٹنگا ہوا تھا۔ جونہی نو کا ہندسہ نظر آیا۔ جیسے پارے کی طرح تھرکتے مچلتے دل کو قرار آ گیا۔ زینے پر قدم دھرنے سے قبل مڑی۔ سوڈانی بچے کی چھاتی پر بوسہ دیا۔ پانچ یورو اس کی مٹھی میں تھمائے۔

اب شکر کرتی اندر داخل ہوئی۔ سیٹ ڈھونڈی۔ بیٹھی اور بڑا لمبا سُکھ بھرا سانس اندر سے نکالا۔ ڈیڑھ گھنٹے کا ذہنی اضطراب اور جسمانی دوڑ دھوپ دونوں کو سکون مل گیا تھا۔ سیٹیں آمنے سامنے تھیں۔ درمیان میں کھلنے اور بند ہونے والی چھوٹی سی میزیں من چاہے کاموں کیلئے۔

ٹرین کا سفر بچپن ہی سے بڑا ہانٹ کرتا ہے۔ دادی کے پاس سمندری جاتے تو ہمیشہ ٹرین پر جانے کی ضد کرتے۔ کھانے پینے کی چیزوں کیلئے دنوں پہلے پروگرام بناتے۔ آج وہی پرانے منظر نئی جدّتوں کے ساتھ سامنے تھے۔

گاڑی نے اڑان بھرنے میں ذرا سی دیری نہ کی۔ چلی تو ساتھ ہی کھانے پینے کے موڈرن پٹارے کھل گئے تھے۔ دائیں بائیں سبھوں کی منہ ماری شروع ہو گئی تھی۔ اپنے بچپن میں ہم ایسی صورت پر ہانکیں لگاتے تھے۔ راجے راجے کھاندے، تے بلیاں بلیاں چاہتدیاں۔ تو آج برسوں بعد وہی صورت سامنے تھی کہ راجے کھا رہے تھے اور بلی حسرت سے انہیں دیکھ رہی تھی اور خود کو کوسے چلی جا رہی تھی۔

’’ کمبخت کچھ زندگی سے لطف اندوز ہونا بھی سیکھ لے۔ ہر دم لکھنے اور کہانیوں کے چکر میں ہی پڑی رہے گی۔ کیا تھا جو اپنی بدحواسیوں سے نکل کر ذرا سا اِدھر اُدھر دیکھتی۔ اتنے خوبصورت ریسٹورنٹ۔ اتنی کھانے پینے کی چیزیں۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں نا جن کے مقدر میں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ بس تم انہی لوگوں میں سے ہو۔‘‘

پانی کے گھونٹوں سے اندر سے اٹھتی اِس پھٹکار کی جلن کو کم کرنے کی کوشش کرتی اور یہ بھی عہد کرتی کہ واپسی پر ایسا نہیں ہونے دوں گی۔

ہمسایوں کا جائزہ لیا۔ سامنے درمیانی عمر کی عورت اپنے سات، آٹھ سالہ بیٹے کی بلائیں لینے اور وقفے وقفے سے اُسے کھلانے پلانے میں جتی ہوئی تھی۔ تین بچوں کی ماں پہلوٹھی کی لڑکی جو ابھی ابھی ماں کے بیگ سے اپنی پسند کی چیزیں لے کر اپنی سیٹ پر گئی۔ اس سے چھوٹا لڑکا اور تیسرا یہ پیٹ کروڑی (یعنی آخری) جس کی ماں اور ماں کی اس کے ساتھ لاڈیوں کی انتہا نہ تھی۔

خاتون میلان کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں پرسونل آفیسر تھی اور چھٹیوں میں پاڈوPaduaبہن کے پاس جا رہی تھی۔ پاڈو وینس کا نزدیکی علاقہ تھا۔

ساتھ والی نے لیپ ٹاپ میز پر رکھ لیا اور کام کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد فروٹ سلاد کا ڈبہ نکالا اور کام کے ساتھ ساتھ کھانا پینا بھی شروع ہو گیا۔

تھانہ یہ معدہ و نظر کا امتحان۔ میرا بھوکا اندر بلبلانے لگا تھا۔ منہ ماری کی عادت تڑپنے لگی تھی۔ میرے اور سیما پیروز کے بیگوں میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا۔ نٹزNuts اپنی کسی نہ کسی صورت میں۔ چھوٹی الائچی یا کوئی گولی ٹافی۔ ہمارا ٹولہ اِس منہ ماری اور تبصروں کیلئے بڑا مشہور ہے۔ مگر ستم ظریفی اب بیگ میں کچھ بھی نہ تھا۔

ماں نے بچے کا ایک بار پھر منہ چوما تھا۔ میں نے خاتون سے پوچھا۔ ( شکر ہے وہ انگریزی بولنے اور سمجھنے میں بہتر تھی )کہ اُس کے اتنے پیارے بچے جوان ہو کر جب گھر سے چلے جائیں گے وہ اُس وقت کے بارے میں کبھی کچھ سوچتی ہے؟ اس کے جواب نے میرے لئیے سوچ کے دروازے کھولے کہ وہ سادہ مگر جذباتیت سے عاری لہجے میں بولی۔

’’ایسا ہونا تو قدرتی ہے۔ بچوں نے بڑے ہو کر اڑانیں تو بھرنی ہیں۔ کوئی انہیں باندھ تھوڑی سکتا ہے۔‘‘

ہم جیسی جذباتی مشرقی ماؤں کیلئے لمحہ فکریہ ہے نا یہ بات۔

ڈھائی گھنٹے کے اِس سفر میں راستے اور آبادیوں کی خوبصورتیوں میں تقابلی جائزے لینا تو حماقت تھی کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگا تیلی۔ پر بندہ اِس ناہنجار دل کا کیا کرے جو آہیں بھرنے سے باز نہیں آتا۔ سچ تو یہ تھا کہ اس وینس اور بعد کے سفروں سے میں یہ ضرور جانی تھی کہ یہاں انسانی ہاتھوں نے اپنی محنت و لگن سے ماٹھے سے خدائی حُسن کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ مٹی تو کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ فصلوں میں زیادہ مکئی پردان تھی۔ قامت میں بھی خاصی چھوٹی تھی۔ جھیلوں اور ندی نالوں کا پانی ہرا کچور تھا۔ تو وینس پر جب ٹرین رکی میں نے فضا پر ایک محبوبانہ نظر ڈالتے ہوئے خود سے کہا۔

’’تو تو نے مجھے اپنے خوابوں کا شہر دکھانے کا انعام دے ہی دیا۔‘‘

پیٹ دہائیاں دے رہا تھا۔ وینس کے ریلوے اسٹیشن کے ٹرمینل کے ساتھ ہی شاپنگ مال تھا۔ دنیا کا سیاح ٹوٹا پڑا تھا۔ ریسٹورنٹ کے خودکار کھلتے دروازے سے اندر داخل ہو کر میں نے ویجی ٹیبل پیزا لیا۔ کیلے خریدے، دودھ کی بوتلیں لیں، پانی لیا اور باہر بچھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر کھانے میں جت گئی۔

اب باہر نکلنے اور وہ سب کچھ دیکھنے کی بے چینی تھی۔ کسی راہ چلتے سے کشتیاں اور نہر کہنے کی دیر تھی کہ لمبے سے بازو نے راستہ دکھا دیا۔ شیشے کی دیواری سائز کے دروازے سے باہر کا منظر اتنا مانوس سا کہ قدم ٹھٹھک گئے۔ آنکھیں چمک گئیں اور چہرہ کھل گیا۔ وینس کا لینڈ مارک گھاٹ ویپوریٹیWaporetti (پانی کی بسوں )چھوٹے سٹیمروں، سادہ کشتیوں، گنڈولوں اور پل سے ذرا دور کروزوں سے بھرا نظر آتا تھا۔ مختلف کمپنیوں کے بکنگ آفسز کے سامنے لوگوں کے ہجوم کھڑے تھے۔

دس بجے کی دھوپ اپنی تمام تر تیزیوں کے ساتھ پورے منظر پر پھیلی آنکھوں کو چندھیاتی تھی۔ پل بھر کیلئے میں نے سوچا کہ میں نقشے لوں اگر کوئی کتابچہ مل جائے تو اُسے خریدوں۔ اب دوبارہ سٹیشن کی عمارت میں داخل ہوئی۔ نقشے ضرور ملے مگر سب اطالوی زبان میں۔

اب جیسے کسی کشتی، کِسی ویپوریٹوvaporetto (آبی کشی )میں چڑھ جانے کی جلدی تھی۔ سو بغیر سوچے سمجھے ٹکٹ لینے والی قطار میں جا کھڑی ہوئی۔ نہ یہ معلوم کہاں جانا ہے؟ بکنگ کرتی لڑکی سوال کرتی ہے۔ جواب کیلئے آئیں بائیں شائیں ہے۔ اُس نے سوچا ہو گا۔

’’پاگل ہے مائی۔ ٹکٹ پکڑاؤ۔ مجھے کیا بھاڑ میں جائے۔‘‘

سات یورو کا ٹکٹ ہاتھ میں پکڑے آبی بس میں چڑھ گئی۔ گھبراہٹ بھی سوار ہے۔ منزل کا کوئی تعین نہیں۔ ایک نوجوان جوڑے پر گمان گزرا کہ دیسی ہے تو درخواست کی کہ کچھ گائیڈ کریں۔ جوڑا تو انڈین تھا مگر تھا امریکی۔ موج میلے کیلئے آیا تھا۔ بیچاروں کو ڈر پڑ گیا کہ بڈھی عورت کہیں کباب میں ہڈی بن کر اُن کے گلے میں نہ پھنس جائے یا کمبل بن کر چمٹ نہ جائے۔ پتہ ہی نہ چلا کب کھسک گئے۔

اب گھبراہٹ کا شکار پھر عرشے سے اندر چلی گئی کہ چلو جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ایک بے حد پیاری لڑکی نے فوراً کھڑے ہو کر اپنی سیٹ پیش کی۔ ساتھ بیٹھی اس کی معمر والدہ نے میری قمیض کے دامن اور بازوؤں کے کنارے پر لگی بیل کو پکڑ کر دیکھا اور سراہا۔ میں نے کچھ جاننا چاہا مگر معلوم ہوا کہ سوئزر لینڈ سے ہیں اور انگریزی میں کورے ہیں۔ چلو قصہ ختم۔

اب شیشوں کے باہر کے منظروں کو دیکھتی ہوں۔ کہیں نہر کا پاٹ بے حد چوڑا اور کہیں کم نظر آتا ہے۔ موہ لینے والی عمارتوں سے مزّین ایک جزیرہ سامنے آتا ہے۔ کچھ اترتے ہیں۔ کچھ چڑھتے ہیں۔ پوچھتی ہوں۔ کسی کا پتہ چلتا ہے۔ کسی کا نہیں۔ گھبراہٹ ہے کہاں جا رہی ہوں؟ دائیں بائیں کہیں رنگوں و روغن سے آراستہ پیراستہ عمارتیں کہیں گتھی ہوئی کندہ کاری سے منہ ما تھا سجائے چرچ، کہیں خستگی اور کہن سالی کے ہاتھوں گھرے تھکے اور شکستہ دم گھر۔

پھرجیسے ایک خوبصورت منظر میری آنکھوں کے سامنے آیا۔ عمارتوں کی اتنی رنگینی بالکونیوں کے ستون موہ لینے والے، اُن کے ساتھ لٹکے پھولوں کے گچھے۔ ہر عمارت اپنے جداگانہ طرز تعمیر کا نمونہ۔ اور جب لوگ اُتر رہے تھے میں نے بھی تعاقب کیا تھا۔

یہ Cadora تھا۔ تھوڑی سی تاریخ جانی کہ 1421اور 1440کے درمیان مرینو Marino Contarin تاجر نے اسے آباد کیا۔ اس کا خصوصی تاریخی محل گولڈن ہاؤس تھا۔ یہ وینس کی سب سے قدیم ترین سوغات نہر کے کنارے پر وینس کے مخصوص گوتھک طرز تعمیر کی جھلکیاں مارتی تھی۔ تین منزلہ اِس محل کی بالکونیوں کے ستون، ان پر کی گئی کندہ کاری نظروں میں کھُب کھُب جاتی تھی۔ داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہوا جو پانچ یورو کا تھا۔ کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی نے آڈیو گائیڈ کا پُوچھا۔ انکار کیا۔

کمروں اور صحن کی زیبائش میں بہت سی تہذیبوں کے رنگ گھلے ہوئے تھے۔ بازنطینی آمیزش کے ساتھ اسلامی ٹچ بھی نظر آتا تھا۔ بالکونیوں کے جھروکے، صحن، دیواری کنگرے، ستونوں پر بکھری آرائشی بیلیں سب اس کی گواہی دے رہی تھیں۔ ایسا ہونا قدرتی امر تھا کہ یہی وہ زمانہ تھا جب عثمانی سلطنت اپنے عروج کی طرف گامزن تھی۔ تاجروں اور کاروباری لوگوں کے سفر ہی تہذیبوں کے دلکش امتزاج کے مرہون منت ہوتے ہیں کہ جو چیزیں انہیں کہیں بھاتی ہیں۔ انہیں اپنے ملکوں میں رواج دیں۔ اوپر کی منزل میں آرٹ گیلری تھی جسے میں نے زیادہ نہیں دیکھا۔

سچی بات ہے بے طرح قسم کی گھبراہٹ سر پر سوار تھی کہ ابھی ٹھہرنے کا بندوبست بھی کرنا ہے۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ اس کی ملحقہ گلیوں میں گزارنے کے بعد سوچا تھا میں واپس جاؤں۔ ٹھہرنے کا بندوبست کروں۔ نقشے ڈھنڈوں دیکھوں کہ مجھے کیا کیا دیکھنا ہے؟

اب سچی بات ہے نری اُلّو کی پٹھی تھی نا کہ اتنی عقل نہیں آئی کہ یہاں جہاں پھر رہی ہوں بھی ہوٹل ہی ہوٹل ہیں۔ یہیں کہیں پتہ کر لوں۔ مگر نہیں جی۔ گھبراہٹوں نے یرغمال بنایا ہوا تھا۔

ہنری جیمز کی "Italian Hours"میں اِس مشہور زمانہ کہاوت "The Luxury of loving Italy"کا بہت بار اعادہ ہوا تھا۔ جیمز نے اِس لگژری کے ہر ہر لمحے سے لطف اٹھایا۔ میں یہاں مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔ ایسا نہیں کہ میں اپنی کوتاہیوں کو دوش نہیں دیتی ہوں۔ اب علامہ کو ہی دہراتے ہوئے کہتی ہوں کہ زمانے کے انداز بدلے گئے۔ نئے سازوں اور نئے رنگوں سے شناسائی مسئلہ بن گئی ہے۔

بیگ میں سنبھالا ہوا ٹکٹ نکالا۔ خیال تھا کہ یہی چلے گا۔ واہ گھرنوں پھولی۔ بکنگ آفس کی کھڑکی سے جھانکتی لڑکی نے پوچھا۔

’’ جانا کہاں ہے؟‘‘

بونگوں کیطرح سے جواب دیتی ہوں۔ ’’جہاں سے آئی تھی۔‘‘

لڑکی ہنس پڑی تو اپنی حماقت کا احساس ہوا۔

خجل سی مسکراہٹ چہرے پر بکھیری ’’ٹرین اسٹیشن۔‘‘

’’سات یورو۔‘‘

ایک لفظ بولے بغیر سکے تھما دئیے۔

اب تھوڑے سے سکون سے جگہوں کو پانیوں میں تیرتے دیکھتی اور ان کے ناموں کے اعلان سُنتی رہی۔ پلے ککھ نہ پڑا کہ نام ہی اتنے مشکل تھے۔ پھر الٹی پلٹی سوچیں پانیوں کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بہنے لگیں۔ ہوٹل کو کھوجنا ہے۔ ہائے کہیں اسٹیشن کے آس پاس ہو، ہائے کوئی ہاتھ نہ ہو جائے۔ خوف کی بڑی اونچی لہر اٹھی تھی۔ سرجھٹکا۔

یاد آیا تھا بنگلہ دیشی یہاں بہت ہیں اُن سے راہنمائی لوں۔ شام تک قابل ذکر جگہیں دیکھوں اور پھر گاڑی پر چڑھ جاؤں۔ دل نے تجویز کو پسند کیا۔ تو سب سے پہلے ٹکٹ لینا چاہیے۔ ارادوں کی گھمن گھیریوں سے نکل کر دیکھا تو سامنے اسٹیشن کی مخصوص عمارت نظر آئی تھی۔ اطمینان سا اندر اُترا کہ چلو ایک جھلک سے تو آشنائی ہوئی۔ بکنگ آفس کہاں ہے؟ پوچھتے کھوجتے اندر داخل ہوئی اور سیدھی دھت مارتی کاؤنٹر پر خاتون کے سر پر جاسوار ہوئی۔

’’پلیز‘‘

چہرے پر جانے بدحواسیوں کے کیسے کیسے سائے ہوں گے۔ لہجے میں گھبراہٹ کے تاثر کا چھلکاؤ ہو گا۔ خاتون نے کوفت اور بیزاری سے نگاہ پلٹا کر دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے انتظار کا کہہ کر اپنی مخاطب کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اب جو دیکھا تو چھوٹی سی لائن میں لوگ کھڑے مجھ اوندھی کو تمسخرسے دیکھتے ہیں۔

’’ہوں پوری اُلّو کی پٹھی۔‘‘

خود کو کوسا۔ ذرا فاصلے سے ایک سلونے مرد نے قریب آ کر اُردو میں کہا۔

’’ٹوکن لیجیے۔ جی چاہے تو لائن میں کھڑی ہو جائیں یا کہیں بیٹھ جائیں۔ آپ کا نمبر سامنے زیپر پر جونہی آئے گا آپ نے فوراً اُس کاؤنٹر پر چلے جانا ہے۔‘‘

شکریہ کہتے ہوئے جانا کہ بھارتی نژاد سریش امریکی ریاست ٹیکساس سے بیوی کے ساتھ سیر کیلئے آیا ہے۔ ذرا فاصلے پر کھڑی بیوی کو دیکھا۔ اُسنے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ اب اپنی گھبراہٹوں کی داستان انہیں سناتے ہوئے ثابت کرنا چاہا کہ میں پڑھی لکھی پاکستانی ہوں۔ بس ذرا گھبراہٹ میں قاعدہ کلیہ بھول گئی۔

خود کو کوستے لعن طعن کرتے ٹوکن لیا اور لائن میں لگنے کی بجائے فرش پر پھسکڑا مارے بیٹھی لڑکیوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور خود کو سُناتے ہوئے بولی۔ ’’اب بھلا لائنیں بنانے کا فائدہ۔ چار کاؤنٹر ہیں۔ اور چاروں کے چاروں مشترکہ طور پر مسافروں کو بھُگتا رہے ہیں۔ آپ کا نمبر کِسی بھی کاؤنٹر پر چلنے والی زیپر پر آ سکتا ہے۔ ’’ہوں‘‘ بڑے مہذب بنے پھرتے ہیں۔‘‘

نمبر میرا 185 تھا اور جو صورت حال مجھے نظر آئی تھی وہ ٹکٹ دینے کی ہی نہیں تھی بلکہ ایک طرح اس میں سیاحوں کے مسائل کو سُننے اور گائیڈ کرنے کے فرائض بھی شامل لگتے تھے کہ جو بندہ باری پر کھڑا ہوتا تھا وہ اپنی مصائب بھری داستان سُنانے حتمی حل کیلئے مضطرب نظر آتا تھا۔ اپنی باری پر اٹھتے ہوئے میں نے خود سے کہا تھا۔

’’میں بھی اپنی اُلجھن ساری کی ساری اُسے سناؤں گی۔‘‘

اور سچ تو یہ ہے کہ حرف بحرف اس پر عمل کیا۔ ذرا سی پکّی عمر کا لڑکا اپنی ٹھوڑی کو ہتھیلی کے پیالے میں جمائے پورے انہماک سے میری بات سُنتا تھا۔

’’ اگر سات بجے کی گاڑی پکڑتی ہوں تو میلان ساڑھے نو بجے پہنچوں گی۔ جانا بھی مضافات میں ہے۔ پہلے میٹرو پھر ٹرین میں بیٹھ کر۔ اور آپ کو بتاؤں چیزاتے جہاں اُترنا ہے وہ تو سُورج کی روشنیوں میں سناٹے اور خاموشیوں میں گم قصبہ ہے۔ رات میں تو زیر زمین اندھیری راہداریوں میں میرا ہارٹ فیل ہو جانے کا ڈر ہے۔ تو میرے مہربان آپ کا کیا خیال ہے کہ مجھے رات یہاں گزارنی چاہیے جو در اصل میری بھی عین خواہش ہے۔‘‘

قینچی کی طرح چلتی زبان اب خاموش تھی اور چہرہ منتظر نظروں سے اُسے دیکھتا اور توقع کرتا تھا کہ دیکھو تو سہی اب کہتا کیا ہے؟

اور اُس کی تجویز کے مطابق میرے لئیے ٹھہرنا زیادہ بہتر تھا۔

تو پھر طے ہے کہ جب ٹھہرنا ہے تو وینس کو جی بھر کر دیکھنا ہے۔ تو بھئی کل کیلئے ٹکٹ اُس ٹرین کا کاٹو جو مجھے لوئے لوئے چیزاتے پہنچا دے۔ ساتھ ہی فوراً اس بات کا بھی ٹکڑا لگا دیا کہ میلان سے چیزاتے تک کا فاصلہ بیس منٹ کا ہے۔

اُسنے گاڑیوں کے اوقات دیکھے اور پانچ بجے کی ٹرین کیلئے ٹکٹ کاٹ کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔

اب ہوٹل کیلئے بھی اُسی سے راہبری چاہی۔ بتایا گیا کہ ٹورزم انفرمیشن والوں کا دفتر ساتھ ہی ہے وہ بہتر رہنمائی کریں گے۔

قیاس سے کیوں کہوں یقین تھا کہ آدھ گھنٹے سے کم میں نے کیا وقت لیا ہو گا۔ فاتحانہ سی شان سے ٹکٹ بیگ میں رکھا اور مزے سے مجمع کو دیکھتی باہر نکل آئی۔

ٹورزم والوں کا دفتر جانے کِس کھڈے میں تھا۔ چار پانچ سے پوچھا۔ الٹی سیدھی پریڈ کی خجل خواری نے زچ کر دیا تھا۔

ابھی دو حرف لعنت کے زبان پر ہی تھے کہ رسالوں، اخباروں والی ایک دکان پر نظر پڑی۔ فوراً اِس میں گھُس گئی۔ نقشے پوچھے۔ کتابیں پوچھیں۔ چلو وینس پر ایک کتاب انگریزی میں ملی۔ کھولی۔ نقشے بھی جا بجا نظر آئے۔ مطمئن ہو کر پندرہ یورو دئیے اور خوش و خرم سی باہر نکلی۔

اسٹیشن کی عمارت کی بیرونی سیڑھیوں پر شیڈ کے نیچے تھوڑی سی چھاؤں میں بیٹھ گئی۔ ابھی مجھے کچھ نہیں کرنا۔ نٹز اور بسکٹ کھاتے ہوئے اپنے اردگرد دیکھنا ہے۔ جب آنکھیں سیر ہو جائیں گی پھر آگے چلنا ہے۔

٭٭٭







باب 5: سینٹ مارک سکوائر، چرچ، ڈو گی پیلس اور Rialtoبرج




* ہوٹل ملنے کی الف لیلوی کہانی۔

* وینس ایک مرتا ہوا شہر جس کے شہری اور لینڈ لارڈ گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔

* حکومت وینس جیسے تاریخی ورثے کو سنبھالنے کے خبط میں بری طرح مبتلا ہے۔

* وینس جیسے بنگلہ دیشیوں کے ہاتھوں یرغمال ہوا پڑا ہے۔





سب سے پہلے نقشے کھولے۔ اب جہاں تشریف کا ٹوکرا رکھے ہوئے ہوں وہ ٹرین اسٹیشن سانتا لیوسیاSanta Lucia ہے۔ نقشے پر اِس یافت نے مسرور کر دیا تھا۔ سرور کی لہر دوڑی۔ ٹھیک ٹھیک تولا سا سر ہلایا۔ خوشی کی کلکاری بھری۔ تو بھئی یہاں تو میں بیٹھی ہوں۔ چلو اب آگے چلتی ہوں۔ گرینڈ کینال سانپ کی طرح بل کھاتی اپنے دائیں بائیں مختلف جگہوں کو لئیے سینٹ مارک پر ختم ہوتی ہے۔ یہ بھی بڑا واضح ہے۔ اب دیکھتی ہوں کہ میں جو ابھی ابھی Ca'D'oroکی مہم جوئی کرتی آئی ہوں وہ نقشے پر کہاں ہے؟ اب سر جھکائے آنکھیں پھوڑ رہی ہوں۔ وہ تو کہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ ورقے پلٹ کر دوسرا نقشہ کھولتی ہوں۔ کوئی پندرہ بیس منٹ اُس پر سر کھپاتی ہوں۔ خاک پلے نہیں پڑا۔ تیسرا نقشہ کھولا، چوتھا، پانچواں۔ یا اللہ یہ میں کس عذاب میں پڑ گئی ہوں؟

بھئی یا تو میں بڑی نالائق ہوں یا پھر ان نقشہ بنانے والوں کو عقل نہیں۔ نام تو وہ اتنے مشکل کہ پڑھنے میں زبان لکنت کھا کھا جائے۔

زچ ہو کر میں نے کتاب بیگ میں رکھی۔ ٹافی منہ میں ڈالی اور گرد و پیش کا جائزہ لینے لگی۔

ذرا دور مجھے آ ہنی ریڑھیاں سامنے رکھے تین ایسی صورتیں نظر آئیں جن پر بنگلہ دیشی ہونے کا گمان گزرا۔ اپنا پٹارا سنبھالا اور ان کے پاس جا بیٹھی۔ قیاس ٹھیک تھا۔

’’اپنا رکُیمن اچّھن(آپ کیسے ہیں؟ )لہجے میں زمانے بھر کی شیرینی گھول لی۔ میں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے پڑھا ہے۔‘‘

بنگلہ دیش کے سب شہروں کے نام بھی فر فر دہرا دئیے کہ رعب پڑ جائے۔ محسوس ہوا تھا کہ کوشش میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے۔ دو اگر میری عمر کے نہیں تو مجھ سے تھوڑا ہی چھوٹے ہوں گے۔ اِن میں سے ایک وضع قطع اور حال حُلیے سے ذرا بہتر نظر آتا تھا۔ نام بدیع العالم۔ دوسرا ماٹھا سا دکھتا تھا۔ یہ نوراسلام تھا اور تیسرا نوجوان لڑکا جس کا نام حبیب الرحمن تھا۔ لڑکے کے انداز اور طور طریقے کاروباری اطوار کے نمائندہ تھے۔ تینوں میں بدیع العالم کچھ پڑھا لکھا بھی لگتا تھا۔ اُردو اور انگریزی اچھی بول لیتا تھا۔

اپنا مسئلہ انہیں بتایا ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ہوٹل سستا ہو اور نزدیک بھی ہو تو کیا بات۔ یعنی چوپڑیاں اور دو دو(مطلب روٹی گھی سے چپڑی ہو اور ہوں بھی دو۔ )

دونوں بوڑھوں نے نوجوان کو مشورے دینے شروع کر دئیے۔ وہاں پتہ کرو۔ اُسے پوچھو۔ بدیع العالم نے تو اپنا موبائل بھی استعمال کیا۔ لڑکے کی انگلیاں بھی موبائل پر تیزی سے متحرک ہو گئیں۔ پھر نوّے یورو پر کمرے کی دستیابی کا مژدہ سُننے میں آیا۔ ’’ہائے اندر نے جیسے تڑپ کر کہا۔ یہ تو بہت زیادہ ہے۔‘‘ اظہار بھی برملا ہو گیا۔ مگر آدھ گھنٹہ کی کاوشوں کا نتیجہ صفر ہی تھا۔

’’در اصل وینس بہت مہنگا ہے۔ خصوصاً ً اسٹیشن کے قُرب و جوار کا علاقہ۔ حبیب الرحمن بولا۔ اب مرتا کیا نہ کرتا والی بات۔ نوّے یورو پر لڑکے کی سوئی اٹک گئی تھی۔

’’چلو دفع کرو۔ ٹھیک ہے۔‘‘ لُور لُور پھرنے اور ہوٹل کھوجنے کی ہمت نہیں تھی۔

لڑکے نے ریڑھی سیدھی کی۔ یہ یقیناً سامان کیلئے تھی۔ مجھ فقیر کے پاس سامان کہاں تھا؟ ایک مُنّا سا دستی ہینڈ بیگ جسے عرف عام میں پرس کہتے ہیں۔ بس۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ دونوں بوڑھوں میں سے ایک نے کہا۔ ’’خود بیٹھ جاؤ۔‘‘ہنسی چھوٹ گئی۔ بغداد اور اس کی چوبی ریڑھیاں یاد آ گئیں۔

میرے انکار سے پہلے ہی نوجوان نے " ناہیں ناہیں " کہہ دیا۔ دفعتاً حبیب الرحمن نے مجھے پرس ریڑھی پر رکھنے کا کہا۔

’’پرس یہاں رکھوں۔‘‘

میرا دایاں ہاتھ اضطراری کیفیت میں سینے پر چلا گیا۔ وینس میں لٹیرے بھی ہیں۔ پرس کا بہت دھیان رکھنا ہے۔‘‘محسوس ہوا جیسے فضا میں اقبال کی کہی ہوئی بات کی بازگشت تیرنے لگی ہے۔

دفعتاً سانتا لیوسیاSanta Lucia کاٹرین اسٹیشن، سامنے بہتی گرینڈ کینال، اس پر بنا Scalzi برج، سینٹ میری آف نزّارتNazareth کا چرچ اور لوگوں کے پُرے سب نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔

اور "اب کیا کروں "

پورے ماحول پر سوالیہ نشان کی صورت بن کر پھیل گیا ہے۔

ہائے وے میریا ربّا کِس سیاپے میں پڑ گئی ہوں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اعتماد اور محبت کے رشتوں کا خون پہلے ہی کئیے بیٹھے ہیں۔

پھر پتہ نہیں کیا ہوا؟ بس پل بھر میں ہی اِس گومگو سے باہر تھی۔ بیگ کو ریڑھی پر آہستگی سے رکھا اور قدم اٹھائے۔ دو رویہ دکانوں سے سجے راستے پر چلتے، دھڑکتے دل کو قابو کرتے، ہر قدم پر اوپر والے کا کرم مانگتی، پرس پر نظریں جمائے، ایک کلاسیک میدان میں داخل ہوئی۔

یہاں ایک درمیانی عمر کی اونچی لمبی، خوبصورت، ماڈرن، سک سرمے سے آراستہ عورت نے کاروباری مسکراہٹ سے باچھیں پھیلاتے ہوئے کچھ کہا۔ یقیناً خوش آمدید جیسے لفظ ہی ہوں گے۔ ساتھ ہی پرس اٹھا لیا۔

’’ہائے میرے اللہ‘‘

میں نے جھپٹ کر خاتون کے ہاتھوں سے اُسے کھینچا۔

حبیب الرحمن نے کہا۔ ’’گھبرائیے نہیں۔‘‘

مگر میں اُسے کلیجے سے لگائے کھڑی اپنی دھڑکنوں کی تیزی پر خوف زدہ سی اُسے سُنتی تھی جو کہہ رہا تھا۔

’’آپ مجھ پر بھروسہ رکھئیے۔ یہاں کِسی ہیرا پھیری کا کوئی سوال ہی نہیں۔ آئیے۔‘‘

اب میں دونوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ میدان کے ساتھ ہی بے حد پر رونق گلی میں پھلوں اور جوسز کی دکان کے ساتھ ایک ڈیڑھ فٹ چوڑے زینے پر خاتون نے آگے چڑھتے ہوئے مڑ کر میری طرف دیکھا۔ پانچ چھ پوڈوں پر میں نے رُک کر خوف زدہ انداز میں اوپر بند دیوار اور دائیں ہاتھ ایک کمرے کو دیکھا۔

یہ کیسا ہوٹل ہے؟ اس کا تو ماحول ہی ہوٹلوں والا نہیں۔ کہاں ہے ریسپشن روم؟ سوال جواب کا یہ کھاتہ میرے اندر نے اپنے آپ سے کھولا۔

خاتون آخری پوڈے پر کھڑی مجھے اشارے کرتی تھی اور تعاقب سے بنگالی چھوکرہ کہتا تھا۔

’’اوپر چڑھیے نا۔‘‘

اب چار قدم اوپر چڑھنے پر دو ڈھائی فٹ مربع نما چوڑے ایک پلیٹ فارم کے ساتھ ایک کمرہ اور اس سے آگے مڑتے ہوئے چھوٹے سے آ ہنی جنگلے کے ساتھ ایک اور کمرہ۔ دفعتاً بجلی بھی چلی گئی۔ سارے میں اندھیرا پھیل گیا۔

ایک چیخ میرے حلق سے نکلی اور میں چلائی۔

’’مجھے یہاں ہرگز نہیں ٹھہرنا۔‘‘

عورت نے دیوار پر برقی انداز سے ہاتھ مارا اور ماحول روشن ہو گیا۔ میں نے ہونقوں کی طرح اپنے سے چند قدم اوپر کھڑی عورت کو دیکھا پھر دیوار کو۔ وہاں تو کِسی قسم کا کوئی سوئچ بورڈ نظر نہیں آ رہا تھا۔

’’ہائے میرے اللہ یہ میں کہاں پھنس گئی ہوں۔‘‘

اب میرا انکار اور پیچھے کی طرف اترنے کی کوشش جسے حبیب الرحمن نے تسلی بھرے الفاظ سے ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’آپ میری ماں جیسی ہیں۔ بھروسہ رکھئیے۔‘‘

عورت نے مجھے بازو سے پکڑا اور چار پوڈے چڑھا کر کمرے میں لے آئی۔ نیچی چھت والا ایک آراستہ پیراستہ کمرہ، ڈبل بیڈ اور سائیڈ پر ایک چھوٹے بیڈ کے ساتھ نظر آیا۔ میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔

’’پانی‘‘

میرے خشک ہونٹوں سے نکلا۔ خاتون نے بھاگ کر سامنے کھُلے باتھ روم کی ٹونٹی سے گلاس بھرا۔

میں نے پھر رونکّھی آواز میں چلّا کر کہا تھا۔

’’مجھے یہ نہیں پینا۔ منرل واٹر چاہیے۔‘‘

کِسی طلسماتی جن کی طرح بوتل آ گئی۔ دو گلاس پانی پینے، ذرا حواس بحال ہونے اور حبیب کے تسلی بھرے الفاظ نے مجھے پاسپورٹ اور 93 یورو اس خاتون کے حوالے کرنے کو کہا جو میرے سر پر کسی دیو کی طرح کھڑی پاسپورٹ اور رقم کا مطالبہ کرتی تھی۔

میں نے بیگ سے پچاس یورو کے دو نوٹ اور پاسپورٹ نکالا۔ اُسے دیا۔ صرف پانچ منٹ بعد ایک رسید، پاسپورٹ، سات یورو سب مجھے تھما دئیے گئے۔ یقیناً تین یورو بوتل کے کاٹے ہوں گے۔

سات یورو کے سکّے میں نے فوراً حبیب الرحمن کی ہتھیلی پر رکھ دئیے۔ چابیاں، کمرے کو بند کرنے کا طریقہاُس نے مجھے سمجھایا۔ ایک بار پھر میری تسلی کی۔

ان کے جانے کے بعد میں نے فوراً دروازے کو لاک کیا۔ دو گلاس پانی کے اور چڑھائے۔ بستر پر لیٹ کر خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔ میں اپنے بلڈ پریشر سے خوف زدہ تھی۔ پھر اٹھی۔ چھوٹی سی خوبصورت چوبی شیشوں والی کھڑکی کھولی۔ نیچے نظر ڈالی۔ لوگ جیسے پانی کے ریلے کی طرح ہجوم میں بہہ رہے تھے۔ اپنے وجود کو کھڑکی میں جھُکاتے ہوئے میں نے دائیں طرف نگاہ کی۔ دھوپ میں چمکتا پل نظر آیا۔ نہر کی جھلک دکھائی دی۔ سامنے کی بلند و بالا عمارتیں ایسی ہی بند کھڑکیوں سے سجی لشکارے مارتی تھیں۔

میں دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ حبیب الرحمن کا دیا ہوا کارڈ اٹھایا۔ انگریزی میں چھپے کارڈ سے میں سب جان گئی تھی۔ وہ پورٹر تھے۔ چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کی ایجنٹی کرتے تھے۔ یہ ڈربا نما جگہ ہر گز ہرگز نوّے یورو کی نہیں تھی مگر اُس نے مجھے پھانس لیا تھا۔

ایک گہری اطمینان سے بھری سانس میرے اندر سے نکلی۔ یہاں کوئی ڈرڈُکر نہیں۔ شہر کا مصروف ترین مرکز ہے۔

’’دفع کرو۔ اٹھو، نکلو، لوگوں سے ملو، کروز کی سیر کرو، شہر کے بارے جانو۔‘‘

میں نے دودھ کی ساری بوتل خالی کر دی۔ منہ ہاتھ دھو، بالوں میں کنگھی چلا، ہونٹوں پر لپ اسٹک سجا کر نیچے اُتر آئی تھی۔ اسٹیشن پراُسی جگہ اب صرف بدیع العالم بیٹھا ہوا تھا۔ میں سیدھی اُسی کے پاس چلی گئی تھی۔ خوش ہوا دیکھ کر۔ میں نے اپنی حماقتوں بابت کوئی بات کرنی پسند نہ کی۔

بدیع العالم عرصہ بیس سال سے یہاں تھا۔ ابتدائی دو تین سال سسِلی میں گزارے پھر وینس آ گیا۔ تو کچھ اُس کے حالات اور کام کاج کے بارے جاننے پر پتہ چلا کہ ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی کا حصّہ دار ہے جس کے گھر کا وہ ملازم ہے۔ فیملی بہت اچھی اور خیال رکھنے والی ہے۔ مورینوMuranoمیں اُن کا محل نما گھر ہے۔ خاندان آجکل جنوبی افریقہ سیر سپاٹے کیلئے گیا ہوا ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’لوگ تو ان کے گھر آتے ہیں۔ اور یہ آگے سدھارے ہوئے ہیں۔‘‘

’’ارے بھئی اپنی مرغی تو دال برابر ہوتی ہے نا۔ یوں بھی خاندان وینس سے عاجز آیا پڑا ہے۔ بچے تو سارے نیویارک میں ہیں۔ کبھی کبھار ہی آتے ہیں۔ یہاں تو میاں بیوی ہیں۔‘‘

میں نے حیرت سے دیکھا اور وجہ پُوچھی۔

یہ بات میں نہیں یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ وینس ایک مرتا ہوا شہر ہے۔ 62000آبادی والا جو تیس سال قبل تھی۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ آج بھی وہی ہے۔ لوگ اب ہر سال سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کی اکثریت یہاں رہ رہی ہے وہ کون ہیں؟ بوڑھے پچپن 55ساٹھ سال یا اس سے ذرا اوپر کے لوگ۔

میں نے حیرت، دُکھ اور تاسف سے یہ سب سنا اور سوال کیا۔

’’اللہ اتنا خوبصورت شہر تاریخ اور تہذیب سے لبالب بھرا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

بدیع العالم نارمل سے لہجے میں بولا۔

’’یہاں رہائشی گھر بہت چھوٹے ہیں اور وہ کتنے مہنگے ہیں اس چھوٹی سی مثال سے سمجھ لینا کہ ایک ہزار مربع فٹ جگہ تقریباً ایک ملین ڈالر کی بکتی ہے۔ حبس بہت ہوتا ہے۔ سیلاب تو خیر معمول کی بات ہے۔ یہ کوئی سال میں ایک آدھ بار نہیں بلکہ اکثر و بیشتر آتے رہتے ہیں۔ وجہ ان کی لہریں نہیں ہوتیں بلکہ وہ طوفانی ہوائیں ہیں جو بالعموم جنوبی علاقوں یعنی مصر وغیرہ سے اٹھتی ہیں۔ اِس سے نقصان اور املاک کی جو شکت و ریخت ہوتی ہے اس کا حال احوال بھی خاصا بُرا ہے۔ اس کا زیادہ نشانہ سینٹ مارک سکوائر اور چرچ بنتا ہے۔ مگر باقی جگہیں بھی بہت متاثر ہوتی ہیں۔ اب تو خیر سے اسے خاصا اونچا کر دیا ہے مگر پھر بھی جیت تو ہمیشہ پانی ہی کی ہوتی ہے۔

’’حکومت کا اِس ضمن میں کیا کردار ہے؟ میرے تو سُننے میں آیا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے معاملے میں بھی بڑی دلچسپی رکھتی ہے۔‘‘

گورنمنٹ کو اِس تاریخی ورثے کو سنبھالنے کا خبط پڑا ہوا ہے۔ کیونکہ وہ اِس قیمتی اثاثے کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ ہمہ وقت قانون اور اس کے ضوابط۔ مالکوں کی ملکیت ہوتے ہوئے بھی اُن کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔ کہیں عمارت میں کوئی ردّ و بدل کرنی ہو۔ درخواست حکومتی لال فیتے کی نذر ہو جاتی ہے۔ ہر چیز مہنگی ہے کیونکہ ترسیل کا ذریعہ خشکی نہیں جہاز ہیں۔ یہ نہیں کہ حکومت کچھ نہیں کرتی ہے۔ کرتی ہے مگر پھر بھی مقامی لوگوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

یہ کہنے پر کہ مجھے کیا کیا دیکھنا چاہیے؟ اور ساتھ ہی بیگ سے کتاب نکال کر نقشے کھولتے ہوئے کہا کہ راہنمائی بھی کر دیجئیے جگہوں کی۔‘‘

بدیع عالم نے نقشے اور میری کتاب کو بند کرتے ہوئے کہا۔

’’یہاں اتنی تاریخ ہے کہ اینٹ اٹھاؤ گی تو نیچے سے پوری کتاب نکلے گی۔ اتنے گرجے، اتنے محل، آرٹ سے بھرے عجائب گھر، ان کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ کے پلندے۔ ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی تو آپ کو دو دن میں کیا پتہ چلے گا؟ بس یوں کیجئیے چند موٹی اور قابل ذکر جگہیں دیکھ لیں۔ سینٹ سکوائر دیکھنا ہے۔ وہاں اتنا کچھ ہے کہ چار پانچ گھنٹے گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ویپوریٹو کا آخری سٹاپ ہے۔ ساتھ ساتھ جڑے ہوئے چرچ، محل، بیل ٹاور، میوزیم۔ برج Rialto مگر وہاں آجکل مرمت ہو رہی ہے۔ اور ہاں اکیڈیمہ Academia بھی ضرور جانا۔ یہی سب بہت کافی ہے۔ زیادہ چکروں میں پڑو گی تو اُلجھ جاؤ گی اور کسی سے لطف اندوز نہ ہو سکو گی۔‘‘

وینس مچھلی جیسی صورت لئیے ہوئے ہے۔ شہر کی ساری اہم شاہراہیں نہریں ہیں جو انسانی جسم کی رگوں کی طرح شہر کے وجود میں خون کی طرح دوڑتی پھرتی ہیں۔ گرینڈ کینال وینس کی مرکزی شاہراہ ہے۔ یہ تقریباً دو میل لمبی 150 فٹ چوڑی اور کوئی پندرہ فٹ گہری ہے۔ یہ وہ نہر ہے جس کے ساتھ وینس کے تمام مشہور آرٹ اور تعمیراتی شاہکار کے حامل محلات جڑے ہوئے ہیں۔ کہہ لیجیے کہ یہ نہر دریا کا ایک ٹکڑا ہے۔ وینس ڈیلٹاؤں کی دلدلی زمینوں پر تعمیر ہوا شہر ہے جس کے محل مینارے اُن زمانوں کی یادگاریں ہیں جب یہ دنیا کا سب سے امیر ترین شہر سمجھا جاتا تھا۔

اُف بدیع عالم کی یہ بات مجھے اٹھا کر میرے بچپن کے اُن سنہری دنوں میں لے گئی تھی۔ جب شام ڈھلتے ہی میں بازار کی طرف بھاگتی۔ دس صفحات پر مشتمل کتابی کہانیاں کرایے پر لے کر آتی جن کے امیر کبیر سوداگر اِسی پانیوں والے شہر وینس کے ہی ہوتے تھے۔

وینس کے اصلی باشندے اس کے ماہی گیر، نمک بنانے والے کارکن جو دنیا کی طاقتور ترین رومن سلطنت کے بادشاہوں سے جڑے ہوئے تھے۔ وینس تب بھی امیر لوگوں کا تفریحی مقام تھا۔ اور جب رومن سلطنت وحشی بربروں کا نشانہ بنی تو پناہ گزینوں نے اسی شہر کے دامن میں پناہ لی۔ ان سب نے اِس شہر کو ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے امیر ترین کیا۔

وینس جگمگاتے رنگوں کا شہر ہے۔ کروز میں بیٹھ کر صدیوں پہلے کے اِن عالیشان محلات کے در و دیواروں کو پانی سے اٹھکیلیاں کرتے دیکھنا کس قدر لطف بھرا کام تھا۔ سانتا لوسیا ٹرین اسٹیشن گویا ایک طرح وینس کے اندر داخلے کا گیٹ وے تھا۔ بہت خوبصورت ماڈرن عمارت جس کی سیڑھیوں پر میں جب سے آئی ہوں تین بار آ کر بیٹھ چکی ہوں۔

میں نے ٹکٹ سینٹ مارک سکوائر کا لیا۔ کروز پر بیٹھی۔ اس بار نہ گھبراہٹ تھی، نہ پریشانی۔ بہت پرسکون۔ مزے سے فضاؤں کو دیکھتی، ہواؤں میں سانس لیتی، اوپر والے کا شکر ادا کرتی۔ سٹاپ آتے۔ آبی بس کے رکنے اور لوگوں کے اُترنے چڑھنے کے سلسلے پہلے ہی طرح جاری تھے۔

اس وقت دھوپ میں تیزی تھی۔ پانیوں پر سورج کی کرنیں نقش و نگار بناتی تھیں۔ سٹاپوں کے حُسن آنکھوں میں تعجب، پسندیدگی اور حیرت کے جذبات بھرتے تھے۔ انتہائی آراستہ پیراستہ محلات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے اسی طرح ایستادہ ہیں جیسے کِسی خوبصورت گیت کے بول بہت سے گلوکاروں کے ہونٹوں سے ایک ساتھ نکل کر فضا میں بکھر کر ایک موہ لینے والا تاثر بکھیر دیں۔ عمارتوں کے وجود پر پھیلی نیلے، پیلے، سرخ، قرمزی رنگوں کی برسات پھوار کی طرح برستی آنکھوں کے راستے جذبات کو بھگوتی چلی جاتی ہے۔

اُف ناموں میں بڑی گڑ بڑ تھی۔ نقشے پر کچھ تھے جس کا اعلان ہوتا تھا اور جو لوگوں سے پوچھتی تھی۔ وہ کچھ اور ہوتے۔ میرا خیال ہے خود میں اُلجھی ہوئی تھی۔ اور یہ سب میری موٹی عقل میں نہیں آ رہے تھے۔

Rialto Bridgeنے پوری طرح اپنے حصار میں لیا۔ ایسا پر رونق، ایسا رنگیلا، ایسا حسین کہ آنکھیں چمکتی تھیں۔ بندہ کِس کِس کی تعریف کرے۔ اُس کی خوبصورت عمارتوں، اُن پر چمکتے ہلکے اور گہرے رنگوں، عمارتوں کی برجیوں، گرجا گھروں کے میناروں، کہیں ڈھلانی چھتوں، کہیں محرابی لمبوتری کھڑکیوں، پل پر سے جھانکتے لوگوں کے پُروں۔

وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے دل میں پختہ فیصلہ کیا کہ مجھے چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر یہاں آنا ہے۔ سٹاپ گزر رہے تھے۔

آبی بس دھیرے دھیرے سینٹ سکوائر کی جیٹی کی طرف بڑھتی ہے۔ ایک طرف وسیع سمندر کے پانیوں کے لشکارے ہیں۔ حُسن و رعنائیوں سے بھرے اڑتے پھرتے منظر ایک کے بعد ایک نگاہوں میں سما رہے تھے۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے نظاروں کی بہتات سراسمیہ کرنے والی ہے۔ میں انہیں گرفت میں لینے کی کوشش میں ہپوہان سی ہو رہی تھی۔ جیٹی پر اُتر کر تیزی سے سامنے شاندار سکوائر کی طرف بڑھتے ہجوم کی میں نے پرواہ نہیں کی۔ میں اپنی آنکھوں میں، اپنے کیمرے میں اپنے اردگرد پھیلے اِن منظروں کو سمونے کی خواہش مند تھی۔

میں کھڑی تھی۔ گرد و پیش کو دیکھتی تھی۔ اور مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا۔ جیسے بلند و بالا کالم پر ٹکا سینٹ تھیوڈور وینس کے پہلے سرپرست نے مجھے خوش آمدید کہا ہے۔ محبت بھرے لہجے میں شکوہ کرتے ہوئے گویا ہوا ہے۔

’’وینس تو تمہارا زمانوں سے انتظار کر رہا تھا۔ کب آئی ہو؟‘‘

اپنی جذباتیت پر آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔ کاش یہ منظر کہیں جوانی میں نصیب ہو جاتا۔

دوسرے کالم کی چوٹی پر بیٹھے شیر کو دیکھا۔ شیر ببر اپنے ملک کا شیر یاد آیا تھا۔ چودھویں صدی کے اِن مجسمہ سازوں کو سلام کیا۔ چمکتی دھوپ جس کی تیزی کو پانیوں سے آتی ہوائیں مار رہی تھیں۔

لوگوں کے پُرے جو شیڈوں کے نیچے کرسیوں پر بیٹھے گپیں لگانے اور کھانے پینے میں مصروف تھے نے توجہ کھینچی۔ وینس کے خصوصی گوتھک سٹائل کے ڈوگی Doge's پیلس اپنی انفرادیت اور تاریخ کے سارے رنگوں کے ساتھ سامنے تھا۔ جب چلنے لگی تو آگے آگے قدم بڑھانے لگا۔ حال کچھ ایلس ان ونڈر ینڈ کی طرح تھا۔ میرے اوپر بھی نئے نئے جہاں وا ہو رہے تھے۔

تو پھر وہاں پہنچی اور اُس سکوائر کو مشتاق نظروں سے دیکھا جسے دنیا کا لاؤنج کہا گیا ہے۔ ہمارے سطح مرتفع پامیر کی طرح جو دنیا کی چھت کہلاتا ہے۔ مستطیل صورت کا جو رنگا رنگ انسانوں، کبوتروں، اطراف کی شاندار عمارتوں اور سان مراکو San Marco چرچ سے بھرا پڑا تھا۔ چرچ کے سامنے بنے بڑھاوے میں سے ایک کے کشادہ پوڈے پر بیٹھ گئی اور خاموش نظروں سے ماحول کے حسن سے لطف اندوز ہونے لگی۔ چلبلے سیاح کبوتروں کے ساتھ کیا کیا کھیل تماشے کر رہے تھے؟

وینس زندگی میں ہمیشہ سے ایک خواب کی طرح رہا۔ آج اِس کی تعبیر دیکھتی تھی اور اوپر والے کی ممنون تھی۔ کتنی دیر گزر گئی۔ میں نظاروں کی، اپنے اندر کے جذبوں کی، مے پیتی رہی، خوش ہوتی رہی۔ مجھے جلدی نہیں تھی۔ دیر بعد اٹھی اور خود سے بولی۔

’’میں کیا کھاؤں؟ اتنے شاندار ریسٹورنٹ اور خوشبوئیں اڑاتے کھانے۔ چکر لگایا۔ شوکیسوں میں جھانکا۔ میزوں پر پڑے کھانوں پر نظر ڈالی۔ میں بڑی لبرل قسم کی مسلمان ہوں۔ مگر کچھ رکھ رکھاؤ اور دل کو بھاتی پابندیوں کو خود پر لاگو کرنے سے دلی تسکین محسوس کرتی ہوں۔ کاک ٹیل فروٹ سلاد لیا، دودھ لیا، پانی لیا، چکن سموسہ لیا۔ بس ایسا ہی ڈھیر سا لے کر باہر آ گئی۔

اب کیا کہوں کہ رنگا رنگ لوگوں کو اپنی ترنگ میں موج میلے کرتے دیکھنا اور ساتھ ساتھ کھانے پینے کا شغل کرنا مجھے ہی دلچسپ لگتا ہے یا لوگ بھی ایسا کرنے میں لُطف اُٹھاتے ہیں۔ گھنٹہ بھر اِس شغل سے منہ ماری کرنے کے بعد گاڈ کا گھر دیکھنے کھڑی ہوئی۔

سینٹ مارکو کے نام پر وقف کیے جانے والا یہ چرچ 828میں تعمیر ہوا۔ مجھے خوشی ہوئی تھی ایک تو یہاں ٹکٹ نہیں تھا دوسرے رومن کیتھولک چرچ کی لباس بارے جو اخلاقیات ابھی بھی قائم ہیں اُن کی یہاں بھی پابندی تھی۔ مجال نہیں کہ کوئی چھ سات سال کا بچہ یا بچی ننگے بازوؤں والی ٹی شرٹ، کسی ٹاپ یا شورٹس پہنے اندر داخل ہو۔

گرجا گھر کا موجودہ نام اس واقعے نے دیا جو تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ مگر کتنا سچا اور کتنا جھوٹا ہے اس کی وضاحت نہیں۔ وینس کے دو تاجر ٹریبیونTribune اور رسٹیکو Rustico اسکندریہ میں تھے۔ جب مصر کے حکمران خلیفہ نے اسکندریہ کے گرجا گھر کو لوٹنے کا حکم دیا۔ دونوں تاجروں نے فوراً سینٹ مارک کا جسد خاکی لکڑی کے صندوق میں ڈالا اور اُسے سور کے ٹکڑوں سے ڈھانپا اور وینس لے آئے۔ وینس والوں نے بڑی محبت اور تکریم سے اسمیں دفنایا اور اسے یہ نام دیا۔

نویں صدی میں یہ چھوٹا سا میدان تھا جسمیں چھدرے چھدرے درخت تھے۔ اس کا یہ شان و شوکت اور رعب و دب والا چرچ تب Dohzh ڈوز حکمرانوں اور محل والوں کا گرجا گھر تھا۔

یہ بازنطینی سٹائل کے ساتھ ساتھ مشرقی اور مغربی طرز تعمیر کی سب خوبصورتیوں کی آمیزش سے مزین ہے۔ اس کا ایک نام "سونے کا چرچ" بھی تھا۔

اور جب میں اس کی اندرونی حصّوں کی محراب در محراب دیواروں اور چھتوں پر گردن اٹھا اٹھا کر آرٹ کے بکھرے شاہکاروں کو دیکھتی اور گنگ سی خود کو کِسی ایسی دنیا میں محسوس کرتی تھی جس پر مجھے حقیقت کا نہیں کِسی خواب کا سا گمان گزرے۔

سچی بات ہے اپنی کم علمی کا کھلے دل سے اعتراف ہے کہ میں تو اُن ہستیوں سے بھی ناواقف تھی جن کی مذہبی حوالوں سے بے حد اہمیت تھی اور وہ یہاں جلوہ افروز تھے۔ میرے تو دامن دل کو کھینچنے والا وہ آرٹ تھا۔ جو یہاں محرابی صورت والی گزر گاہوں، دیواروں اور چھتوں پر بکھرا ہوا تھا۔ رنگوں کی خوبصورت آمیزش متاثر کن تھی۔ مجسمے قدموں کو روکتے اور کہتے تھے کہ کھڑے ہو کر اُن سنگ تراشوں کو خراج عقیدت پیش کرتی جاؤ جنہوں نے یہ بنائے ہیں۔ تفصیلات تو یقیناً تنی ثقیل اور بوجھل ہیں کہ قاری کے پلّے پڑنے والی نہیں۔

ہاں اعتراف کرنے دیں کہ جس شاہکار پینٹنگ نے میرے دل و دماغ کو قابو کیا وہ وینس کے اُن ماہی گیروں کی تھی جو وہ عجیب و غریب صندوق کھولے بیٹھے تھے۔ جسمیں سینٹ مارک کا مردہ جسم اسکندریہ سے آیا تھا۔ وینس کے لوگوں کے لباس، ان کے چہروں پر بکھرے دُکھ اور کرب کے تاثرات کی ایسی دلآویز عکاسی تھی کہ جسنے مجھے دیر تک وہاں سے ہلنے نہ دیا۔ دوسرا موہ لینے والا شاہکار میری (مریم)کا تھا جو یقیناً میری بھی ہے۔

پاس ہی ٹاور ہے۔ اس کے ساتھ پرانے دفاتر کی عمارات کا لمبا سلسلہ ہے۔

چرچ کے ایک طرف سینٹ مارکو کے بیل ٹاور کی بڑی کلاسیکل قسم کی عمارت ہے۔ نشاۃ ثانیہ دور کی عمارتوں کی ایک خصوصیت ان کے مرکزی ٹاور کا ہونا ہے۔ یہ کوئی 1496 - 99 کی یادگار ہے۔ اس کی چھت پر آ ہنی جنگلے کے اندر نصب ایک دیو ہیکل قسم کی گھنٹی کو وینس کے ابتدائی دور کے دو قوی الجثہ کانسی کے مجسمے ایک بوڑھا اور دوسرا جوان گڈریے کے لباس میں ہر گھنٹہ بعد اپنے ہاتھوں میں پکڑے آ ہنی گزر سے بجاتے اور سکوائر میں ایک فسوں خیز سی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اوپر کے طواف سے نظریں پھسلتی پھسلتی نیچے اتریں اور دوسرے شاہکار پر رُک گئیں۔

یہاں پروں والا شیر کھلی کتاب کے ساتھ نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں پہلے یہاں Dohzh خاندان کے ایک ڈیوک Agostino کا مجسمہ تھا جو شیر کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا۔ جب نپولین نے شہر پر قبضہ کیا تو آگسٹینو کا بُت تو فوراً ہٹا دیا۔

شاید نہیں یقیناً یہ فاتح لوگوں کی نفسیات ہوتی ہے کہ پرانی یادیں اور پرانے نقش مٹا دو۔ ہاں اب شیر اور کتاب موجود ہیں۔ اِن دونوں کی کیا فلاسفی ہے؟ اس کا علم نہیں ہوا۔ اس سے ذرا نیچے کنواری مریم اور بچہ ہے۔ اور پھر وہ کلاک ہے۔ دنیا کا پہلا ڈیجیٹل کلاک۔ اس کی بھی خاصی تفصیلات ہیں۔

اس کے محرابی مرکزی گلیارے نما داخلی دروازے سے میں نے اندر داخل ہو کر لوگوں کو پاگلوں کی طرح خریداری کرتے دیکھا۔ میں نے یہ مہم جوئی نہیں کی۔ جوتیوں کی خوبصورت دکانوں نے مجھے ضرور ترغیب دی اور میں ان کے اندر گئی بھی۔ مگر چار فٹ گیارہ انچ والی میری قامت کے پاؤں بونوں جیسے ہیں۔ اچھے خوبصورت ڈیزائن بڑے سائزوں میں تھے۔

در اصل میری آٹھ سالہ پوتی کی جوتی اب میرے پاؤں میں فٹ آنے لگی ہے۔ پنجابی زبان کی کہاوت کے مطابق وہ تو "دیہاڑی کا گٹھ وار"کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ اس کی ماں کی چاؤ سے خریدی اُس کی ڈھیروں ڈھیر جوتیوں کا کیا بنے گا؟

جو میرے حساب کتاب میں آئیں گی وہ میں نے ہی پہننی ہیں تو اب جوتیوں کے ہار تو نہیں بنانے نا۔ سچی بات ہے یوں دل تو میرا بڑا للچایا تھا۔ مگر مصیبت یہاں ایک اور بھی ہے کہ لنڈے سے عشق کرنے والوں کے نصیب میں اترن لکھ دی جاتی ہے۔ اب پچیس تیس یورو کی جوتی مہنگی ہی لگنی ہے جب کہ ساری دیہاڑی گل کر کے ڈیڑھ دو سو کا شاندار پیس جوتوں کے ڈھیروں میں سے ڈھونڈ نکالنا مسئلہ نہ ہو بلکہ مشغلہ ہو۔ گھر لا کر اُسے مسلمان کرنے کیلئے پاک صاف کرنا کہ آخر وہ اُترن تو موئی کافرنیوں کی ہیں۔ دو تین دن پاؤں میں پہن پہن کر اس کا تنقیدی جائزہ لینا بذات خود دلچسپ اور دل کا رانجھا راضی کرنے والا شغل ہے۔ تو بھئی اِس شغل سے محرومی تو بڑی کھِلتی ہے نا۔

یہی بازار آگے چل کر Rialto برج سے جا جڑتا ہے۔ یہ بھی کوئی 1496کے لگ بھگ اسی دور کی تعمیر ہے۔ بلند و بالا بے حد خوبصورت کلاک ٹاور سکوائر کی شان بڑھاتا ہے۔

کاش مجھے تھوڑی سی عقل ہوتی۔ میں تھوڑی سی منصوبہ بندی سے کام لیتی۔ چلنے سے قبل ینٹ پر بیٹھتی اور جانتی کہ Ca'd'ora کی گلیوں سے Rialto برج تک اور وہاں سے آگے بیچ بیچ کی گلیوں سے سینٹ مارک سکوائرتک پہنچا جا سکتا تھا۔ پیسے کا ضیاع ایک طرف اور وقت کا ضیاع دوسری طرف۔ مگر اب ہو کیا سکتا تھا۔ افسوس کف افسوس اور اپنی نالائقیوں پر لعن طعن۔ رونقوں سے لُطف اٹھاتے، نظاروں سے ملتے ملاتے۔ چلو خیر اب ایسی حماقتیں بھی تو سفر کا لازمی جز ہیں۔

مجھے واش روم کی حاجت تھی۔ شکر ہے کہ وہ وہیں سکوائر میں ہی تھا۔

dohzhپیلس کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔ وینس کا یہ مخصوص گوتھک سٹائل کا حکمران، خاندان کا رہائشی محل تھا۔ اس وقت وینس کا لینڈ مارک اور اس کے بہترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ چودھویں اور پندرھویں صدی کا شاہکار وقت کے حکمران خاندان کی بے تحاشا دولت اور شان و شوکت کا مظہر۔

سچ تو یہ ہے کہ آنکھیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں۔ صحن میں داخل ہوتے ہی عمارتی حسن اور اس کی کندہ کاریوں کے جو جلوے نظر آتے ہیں وہ آپ کو مبہوت کرتے ہیں۔ کمروں کی دیواروں اور چھتوں پر شاہکار بنائے گئے ہیں وہ ہلنے نہیں دیتے۔ فنکاروں نے رنگوں اور برش سے وہ حُسن بکھیرا ہے کہ بندہ تو گم سُم خدا کی اِس تخلیق نام جس کا انسان ہے کی مہارت پر عش عش کر اٹھتا ہے۔ ہر کمرہ منفرد، ہر دیوار، ہر چھت رنگوں اور نئے افسانوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ بس چند ہی دیکھے۔

ابھی تو شکر ہے کہ مسافروں کے آرام کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ جگہ جگہ خوبصورت بینچ دھرے ہیں۔ بیٹھو اُن پر اور سینکو اپنی آنکھیں اُن شاہکاروں سے۔ کتنے تو نام تھے۔ پنک ہاؤس، شادی کا کیک۔ یہ گوتھک سٹائل کا نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں اسلامی طرز تعمیر کی جھلکیاں بھی منعکس کرتا ہے کہ اِن ڈیوک کے تعلقات عثمانیہ حکمرانوں کے ساتھ گہرے تھے۔ عثمانی سلطنت کی بحری فوج اور طاقت بھی اپنے عروج پر تھی۔ تعلقات اور دشمنیاں دونوں چلتی تھیں۔ اِسے دیکھ کر مجھے استنبول کے محل یاد آئے تھے۔ روس کا ونٹر پیلس یاد آیا تھا۔ مگر نہیں اِس جیسے شاہکار وہ ہرگز نہ تھے۔ میرا دل نکلنے پر مائل نہ تھا مگر مجھے اپنی اور اپنی آنکھوں کی سلامتی درکار تھی۔

میں تھک کر بیٹھ گئی تھی۔ دھوپ کی شوخی اب دھیرے دھیرے ماند پڑنے لگی تھی۔ پانچ بج رہے تھے۔ بس میں نے سوچا میں یہاں بیٹھ کر سکوائر کے نظارے لوٹوں گی۔ اِن دو رویہ عظیم الشان عمارتوں کے سلسلوں کو اور لوگوں کو دیکھنا کونسا کم دلچسپ کام تھا۔

پھر یوں ہوا کہ ایک فیملی میرے قریب آ کر بیٹھ گئی۔ لباس تو پاکستانی نہ تھا مگر زبان ضرور اپنی تھی۔ جونہی معلوم ہوا جیسے سارا سکوائر اپنایت کی خوشبو سے بھر گیا۔ گھر کا سربراہ افضال احمد کوئی پچیس سال پہلے پاکستان سے آیا تھا۔ اس وقت صرف میٹرک تھا اب مکینیکل انجینئیرنگ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت شاندار پوسٹ پر بیٹھا تھا۔ وینس اس کا پسندیدہ شہر ہے۔ اگست کا مہینہ چھٹیوں کا ہوتا ہے۔ دو بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ سیر کیلئے آیا ہوا تھا۔ میں نے اُن کا نمبر اور انہوں نے میرا نمبر لیا۔ یہ لوگ یہیں سینٹ مارک سکوائر کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔

جیسے جیسے شام اپنے رنگ گہرے کر رہی تھی۔ توں توں سکوائر کی رونقوں میں تیزی آ رہی تھی۔ مختلف ریسٹورنٹوں کے سامنے خوب گہما گہمی تھی۔ میز کرسیاں سیٹ کئیے جا رہے تھے۔ آرکیسٹرا کا اہتمام ہو رہا تھا۔

یہ تو مجھے افضال احمد سے پتہ چلا تھا کہ سکوائر کا کیفے فلورئین Caffe Florian بے حد تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ لارڈ بائرن، چارلس ڈکنزDickens اور Woody Allen جیسی ہستیوں نے وہاں کافی پی تھی۔ میوزک سے لُطف اندوز ہوئے تھے۔

میرا بھی جی چاہا تھا کہ رخصت ہونے سے قبل اُس کیفے کا چکر لگاؤں گی۔ مگر سارا جوش و ولولہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا کہ جب پتہ چلا کہ باہر بیٹھ کر کافی کا کپ پینے اور میوزک سننے کا مطلب تیس یورو کی قربانی ہے۔

’’ تو بھئی یہ تو بڑا مہنگا سودا ہے۔ لعنت بھیجو۔‘‘ بس یہ بات چپکے سے اپنے دل میں کہا۔

عجیب سی بات ہے میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں اُس بھریے میلے سے نکلوں مگر واپسی بھی لَولَو میں کرنا چاہتی تھی۔ خاندان سے اجازت لی۔ واپسی کا ٹکٹ لیا۔ اب ہم اناڑیوں کو تو بہت سی باتوں کا پتہ نہیں تھا کہ پاس لیا جائے تو بہت بچت ہو جاتی ہے۔

چلو خیر۔

٭٭٭







باب 6: گریمیا سکوائر، وینس کی گلیاں، اکیڈیمیہ آرٹ کا گھر، موت کا سامنا




* چاند رات، گنڈولا، ساتھی اور وینس کا شہرہ آفاق گیت سُننے کو مل جائے تو زندگی کے وہ لمحے قابل ذکر بن جاتے ہیں۔

* بنگلہ دیشی وینس کے گلی کوچوں، چوراہوں اور راستوں پر جا بجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

* اکیڈیمیہ وینس کا وہ آرٹ گھر ہے جس پر اٹلی کیا پوری دنیا فخر کر سکتی ہے۔

* جلد بازی اور پھرتیاں موت کو کیسے سامنے لے آتی ہیں۔





اسٹیشن پر اُتری تو سورج ڈھلنے والا تھا اور چہار سو ہر منظر سونے میں نہا رہا تھا۔ چائے کی بڑی طلب تھی۔ ہوٹل بارے ذرا سی بھی پریشانی نہیں تھی کہ راستہ سیدھا اور نزدیک تھا۔ مگر کیسی عجیب بات تھی کہ جس میدان میں سے دوپہر کو میں گزری تھی۔ اب کھڑی تو یقیناً اُسی میں تھی مگر کُنگ سی۔ یہاں، وہاں، دائیں، بائیں بڑا کلاسیکل قسم کا حسن بکھرا دیکھتی تھی۔ جواس کی بلند و بالا دیواروں اور اس کے ماحول سے پھوٹ پھوٹ کر باہر آ رہا تھا۔ اس میں مخصوص مشرقیت والی مانوسیت کی گہری جھلک تھی۔

کونے میں بنگالی لڑکے چہلیں کر رہے تھے کہ ساتھ میں ان کے کوکھے تھے۔ ایک کوکھے کے پیچھے بیٹھی بیوی چھوٹے بچے کی نیپی بدل رہی تھی۔ اب میں ان کے پاس جا کر باتیں کرنے لگی۔ ایک لڑکے نے گرم گرم سموسہ مجھے پکڑاتے ہوئے کہا۔

’’سنگھاڑا(بنگالی میں سموسہ) کھائیے۔ بنگلہ دیش کو یاد کیجئیے جب آپ وہاں سنگھاڑے کھاتی تھیں۔‘‘

ہائے ظالم نے کیا کیا یاد دلا دیا۔ وہ رقیہ ہال، اس کی وہ ہال نما کنٹین، کاؤنٹر پر کھڑا وہ مہربان بوڑھا آدمی اور وہ اس کا چُلبلاسا ملازم چھوکرہ جو مجھ سے چھ اور گیارہ نکات پر زور و شور سے بحث کیا کرتا تھا۔ بنگلہ دیش کے ذکر پر ہمیشہ میری آنکھیں گیلی ہو جاتی تھیں۔

’’ارے تم لوگ کہاں کہاں سے ہو؟ اور یہ کہ کوکھے تمہارے اپنے ہیں یا تم اُن پر ملازم ہو۔‘‘

تھوڑی دیر ان کے ساتھ گپ شپ کی۔ کوئی میمن سنگھ سے تھا تو کوئی باریسال سے۔ یہ خوشی کی بات تھی کہ کوکھے چھوڑ اکثر کی تو دکانیں بھی اپنی تھیں۔

بعض بیویاں بھی ساتھ لائے ہوئے تھے۔ پڑھی لکھی انگریزی بولتیں۔ ان سبھوں میں احتشام کی بیوی بنٹی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی پوسٹ گریجوایٹ جو شاعرہ تھی، بہت اچھی گلو کارہ تھی۔ اطالوی زبان فراٹے سے بولتی تھی۔ شوہر سے زیادہ تیز اور فعال تھی۔ میرے پوچھنے پر کہ مجھے کِس چیز کو بطور خاص دیکھنا چاہیے۔ اُس نے میری عمر کا لحاظ رکھے بغیر آنکھیں نچائیں۔

گنڈولا کی رات کی سیر کہ بھلا وینس سے ملاقات مکمل کیسے ہو سکتی ہے؟ ہوہی نہیں سکتی۔ روایتی مگر رومانی خواہشوں اور خوشیوں کی عکاس۔ ہاں مگر کتنے افسوس کی بات ہے۔ کہ راتیں تو چاندنی نہیں اور آپ اکیلی ہیں۔ اب بھلا جب راتیں اندھیری ہوں اور بندہ بھی اکیلا اور ہو بھی آپ جیسا۔ تو پھر گیارہ بجے کے بعد سو جانا بہتر ہوتا ہے۔

میں ہنسی تھی۔ اس کی باتوں میں لُطف تھا۔ زندگی اور اس کا حسن تھا۔ شوخی اور چنچل پن تھا۔

’’بنٹی تصویر کھینچو میں لکھنے والی ہوں تصویروں سے لُطف اٹھانا جانتی ہوں۔‘‘

’’اب اگر چاندنی راتیں ہوں، آراستہ پیراستہ گنڈولا ہو، موسیقار بُک ہوں اور آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہوں اور وینس کے شہرہ آفاق گیت"venezia La Luna e Tu" اور "Sole Mio"فضاؤں میں بکھرے ہوئے ہوں تو ماحول کی خواب ناکیوں کا کیا کہنا؟

’’تصور کریں وہ منظر بصارتوں میں لائیں۔ پانی گنگناتے ہیں۔ پُلوں پر کھڑے جوڑے سیاہ ہیولوں کی صورت آپ کی بصارتوں کو قیاس اور واہموں کی پرکھ میں مبتلا کرتے ہیں۔ اور جب کھڑکیوں سے چھن چھن کرتی روشنیاں سیاہ پانیوں میں گرتے ہوئے اپنی صورتیں بناتی ہیں۔ اور گیت سمجھ نہ آنے کے باوجود آپ کے دل و دماغ میں ہلچل مچا دیں تو سمجھ لیں کہ وینس کی سیر مکمل ہو گئی ہے۔‘‘

میں نے بنٹی کو پیار کیا۔ اس سے رُخصت ہو کر میدان میں چلی آئی۔ یہاں پرانے قدرے سیاہی مائل بارشوں اور موسموں کے ستم خوردہ شکستہ سے چوبی بینچ پڑے تھے جن میں سے ایک پر جا کر بیٹھ گئی۔ مگر بیٹھنے سے قبل اپنے ویکیم کپ میں میدان کے ساتھ والی گلی میں کافی بار سے چائے لے آئی تھی۔ آتے آتے اپنے گھر کی تسلی کر آئی تھی۔ فروٹ والی بنگالی کی دکان کے ساتھ سیڑھیوں کو بھی چاتی(نظر) مار آئی تھی اور بے حد سکون میں تھی۔

’’اُف تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘

چائے کا چھوٹا سا گھونٹ جیسے جسم و جان کِسی انوکھی اور سرور آگیں لذت میں نہا گئے ہوں۔ گلاس کے افقی کناروں سے گریمیاGeremia سکوائر میں چوبی بینچ سامنے کوئی تین صدیاں پرانے سہ منزلہ لمبی مگر کم چوڑی کھڑکیوں اور بالکونیوں والے لیبیاLabia محل کو دیکھنا کیسا دلچسپ شغل تھا۔

ملحقہ San Geremia چرچ، اطراف میں گلیوں کے رنگ رنگیلے گھروں کے بنیروں پر آخری دھوپ کو خاموشیوں سے رخصت ہونے کا منظر بھی بڑا موہ لینے والا تھا۔ میدان میں بے نام پر مانوس سی اُداسی کے پھیلاؤ کو محسوس کرنے میں ایک انوکھے سے تجربے میں سے خود کو گزرتا محسوس کرنا بھی پر لُطف تھا۔ کبوتروں نے جانے کب اڈاریاں بھر لی تھیں معلوم ہی نہ ہوا تھا۔ کیسی مانوسیت ساتھ میں پردیسی تڑکا لگی رونق والا احساس سارے میں بکھرا ہوا تھا۔

اب نئے منظروں کی رومانیت نے ہاتھ تھام لیا تھا۔ ان سبھوں کی موجودگی میں تاریخ نے عقبی سمت گھسیٹا تھا۔ جہاں تصّور نے اِس محل کی امیر ترین اور خوبصورت شہزادیوں کو پچھلی سمت کی سیڑھیوں پر نہر کے پانیوں میں اٹھکیلیاں کرتے دیکھا تھا۔ محبتوں اور نفرتوں کی کہانیاں جو دکھوں اور خوشیوں کی رداؤں میں لپٹی ہوئی تھیں۔ محل کو دیکھنے کیلئے مخصوص دن ہیں، مخصوص اوقات ہیں۔

افسوس میں نے وینس میں نہیں ہونا اُن دنوں۔

ہوا اپنے دامنوں میں خوشبو بھرے دھیرے دھیرے میرے گالوں کو چھوتی سارے میں بکھر رہی ہے۔ ریسٹورنٹوں کے بیرونی پھیلاؤ والے سلسلوں پر تنے شیڈ اِن ہواؤں سے کھیلنے لگے ہیں۔ بڑی مدھر سی نغمگی سنائی دے رہی ہے۔ سکوائر میں چلتے پھرتے لوگ اور سرپر تنا مٹیالا رنگا آسمان سب کیسا سُرور اور کیف اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔

زندگی کتنی حسین اور ڈرامائی رنگ لئیے ہوئے ہے۔ میں اور یہ سب۔ جی چاہتا تھا نہ چائے ختم ہو، نہ اِن منظروں میں گھلا سرور۔

دیر تک، بہت دیر تک میں اِس قلعہ بند صحن میں جو اب تیز روشنیوں میں جگمگانے لگا تھا بیٹھی دیکھتی رہی، دیکھتی رہی۔ پھر میری بھوک نے کہا۔

’’کچھ خوف خدا کرو۔‘‘

اپنی رہائشی گلی میں داخل ہوئی۔ اپنے ہمسائے بنگالی کی دُکان سے تازہ مالٹوں کا جوس پیا ڈھائی یورو کا۔ ہوٹل کی سیڑھیاں نہیں چڑھی۔ سیدھی چلتی گئی۔ سامنے پل تھا۔ عین اس کے وسط میں کھڑے ہو کر میں نئے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگی۔

نہر کے کناروں پر طعام گاہیں سجی تھیں۔ شوقین گٹار بجا رہے تھے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں کہیں قدیم ڈیوک ز، کہیں رانیوں کے ملبوسات پہنے لوگوں کے ساتھ تصویریں بنواتے تھے۔ رات جوان تھی، حسین تھی اور گیت گا رہی تھی۔ کتنی دیر میں یہ گیت سُنتی رہی۔

پھر سامنے والی گلی میں اُتری۔ دو رویہ دکانوں کے ساتھ اُس کا درمیانی حصّہ بھی چھوٹے چھوٹے کھوکھوں سے سجا ایک طرح بنگالیوں کے ہاتھوں یرغمال ہوا پڑا تھا۔ ہنس مکھ لڑکے لڑکیاں کہیں موسک پہنے، کہیں تاریخ کا کوئی کردار بنے ہنستے مسکراتے سیاحوں کو لُبھا رہے تھے۔

رات تو کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ ہر شے بقعہ نور بنی نظروں میں جیسے اُجالے بھرتی تھی۔ تھوڑا سا ہی چلنے پر میرے بائیں ہاتھ ایک گلی مڑی۔ اس میں داخل ہوئی۔ دائیں بائیں رنگا قسم کے مکان جو ہوٹلوں کا روپ دھارے بیٹھے تھے۔ یہ ریسٹورنٹ اس وقت کاروباری عروج پر تھے۔ اندر اور باہر گلی کے تھوڑے سے حصّے میں بھی ہر ایک کی میزیں سجی تھیں۔ تھوڑا سا چلنے کے بعد واپس آ گئی۔ تین چار گلیوں کے سیر سپاٹے ایک میدان میں لے گئے۔ جہاں بھریے میلے کا سا سماں تھا۔ بینچ پر بیٹھتے ہوئے نظریں زمینی سطح سے اونچے پختہ ایک گول دائرے نما اوپر سے ڈھنپی چیز پر پڑیں۔

’’یہ کیا کوئی فلتھ ڈپو ہے۔‘‘خود سے سوال کیا۔

عقبی نشست پر بیٹھی دو لڑکیوں کو دیکھا جن کے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا۔ لڑکیاں استنبول سے تھیں۔ سچی بات ہے تن پر دھجیاں ہی لپیٹ رکھی تھیں۔ لڑکا اٹلی سے تھا۔ خوش طبع اور ملنسار سا۔

اسی سے میں نے جانا تھا کہ یہ فلتھ ڈپو نہیں بلکہ کبھی پانی کے کنوئیں تھے اب انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ تفصیل خاصی دلچسپ تھی کہ پانیوں میں گھرے شہر میں پینے کے پانی کا بڑا مسئلہ تھا۔ صدیوں تک تو مقامی لوگوں کو پانی کے حصول میں بہت دقّت اور پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔ کوئی نویں صدی میں انہوں نے بارشوں کا پانی شہر کے مرکزی چوکوں میں اکٹھا کرنا شروع کیا۔ اِس غرض سے چونے کے پتھر کی بڑی بڑی انگیٹھیوں میں مٹی کے بڑے بڑے ٹب رکھے گئے۔ پانی فلٹر ہو کر اُن میں جمع ہوتا اور لوگ بالٹیوں سے ضرورت کا پانی اِن کنوؤں سے نکال لیتے۔ کہیں انیسویں صدی میں جا کر پہاڑوں سے بڑے بڑے پائپوں سے پانی کا حصول ممکن بنایا گیا۔

واپسی کیلئے قدم اس وقت اٹھائے جب آنکھوں نے مزید نظارے جذب کرنے، کانوں نے مزید راگ سننے اور جسم نے مزید بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

ساری رات ہی جب جب آنکھ کھُلی۔ نیچے گلی میں لوگوں کی باتوں، قہقہوں اور گیتوں نے متوجہ کیا۔ یہ اور بات ہے کہ میں نے آنکھیں کھولنے کی بجائے انہیں بند رکھنے اور نیند میں ڈوب جانے کو ترجیح دی کہ صُبح جلدی اٹھنا تھا۔ افضال کی بات میں نے پلّے سے باندھی تھی کہ اکڈیمیہAcademia ضرور دیکھنا ہے۔ جائیے بھی جلدی۔ وہاں لوگوں کی ایک مخصوص تعداد کو ہی ایک وقت میں اندر جانے دیا جاتا ہے۔

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دن چڑھے تک سونے یا اینٹھنے کی عیاشی ہو۔ دونوں کو جیسے

مجھ عاجز مسکین سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ رات میں نے تن کی قمیض کو اُتار کر دھو ڈالا تھا۔ چلو شکر وہ سوکھی پڑی تھی۔ غسل سے فارغ ہو کر میں نے کمرے کی ہر چیز کو اُسی ترتیب اور صاف سُتھری کرنے کی کوشش کی جیسی میرے کمرے میں آنے سے قبل تھی۔ شاید میں پاکستانیت کا ایک اچھا تاثر چھوڑنے کی خواہاں تھی۔ آٹھ بجے تک سب کاموں سے نپٹ نپٹا ہو گیا تھا۔ ناشتے کی شدید طلب تھی اور جلدی بھی تھی۔ سوچا کہ میرے پاس کونسا سامان ہے جس کیلئے مجھے واپس آنے کی ضرورت ہے؟ بس چیک آؤٹ ہوتی ہوں۔

اب نیچے سیڑھیوں پر کھڑی سوچتی ہوں کہ چابی کِسے دوں۔ بندہ نہ بندے کی ذات۔ چند لمحے کھڑی سوچتی رہی۔ پھر سیڑھیوں پر ہی پیتل کی اُس بھاری بھرکم چابی رکھ کر پوڈے اُتر کر سڑک پر چلتے لوگوں میں شامل ہو گئی۔

’’میں کیا کروں؟ اُس عیار عورت کو کہاں ڈھونڈوں؟ بھاڑ میں جائے۔‘‘

قریبی کافی بار میں جا کر چائے کا پوچھا۔ کھانے کیلئے جام لگے سموسے ٹائپ بند لئیے۔ ناشتہ کیا اور پھر اکیڈیمیہ کیلئے ویپوریٹو پر چڑھ دوڑی۔

نظروں کو بھانے والی پہلی چیز خوبصورت چوبی اکیڈیمیہ برج کو دیکھنا اور اس کی سیڑھیاں اُتر کر اِس آرٹ میوزیم کے صحن میں داخل ہونا تھا۔ عمارت کا چہرہ پر وقار اور سادگی سے بھری ہوئی سفیدی لئیے نظروں کو گرفت میں لیتا تھا۔

اندر داخل ہونے پر لطیف سی خنکی نے استقبال کیا تھا۔ بھانت بھانت کے لوگ تھے۔ کچھ بینچوں پر بیٹھے، کچھ باتیں کرتے کاش میرے ساتھ بھی کوئی ہوتا۔ صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے اِدھر اُدھر چکر کاٹے تو پندرہ یورو کا ٹکٹ پتہ چلا۔ آڈیو گائیڈ کیلئے چھ یورو۔ یہ فیصلہ تو پل جھپکتے ہی میں تھا کہ اِس لینج کو تو گلے سے لگانا ہی لگانا ہے کہ راہبری کی یہ ٹیکنیک بڑی ماڈرن ہے۔ ہیڈ فون والی اور اس کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ اس عذر کی کوئی اہمیت اور جواز نہیں تھا کہ گائیڈ سے میرے تو پلّے خاک نہیں پڑنا۔ کتابیں جو ہیں راہنمائی کیلئے۔ آپ کو یہ پیسے بھرنے ہی بھرنے ہیں۔ سو بھرے۔

انگلینڈ سے آئے ایک ہنس مکھ سے جوڑے سے ہیلو ہائے ہوئی تو جانا کہ اگر میں اتوار کو آتی تو داخلہ مفت ہونا تھا۔ معلوم ہوا تھا کہ ہر مہینے کی پہلی اتوار داخلہ فری ہے۔ افسوس کا تو کچھ فائدہ ہی نہ تھا کہ میرا تو کوئی پروگرام بھی Planned نہیں تھا۔ لائن لمبی تھی۔ میں تو اپنے ملک کی طرح سینئر سیٹزن کا شور نہیں مچا سکتی تھی کہ میرے آگے پیچھے کھڑے سب سینئر سیٹزن ہی تھے۔ موٹے تازے بھی تھے اور تگڑے بھی۔ یقیناً ان کے گٹے گوڈوں میں ہماری طرح درد ورد نہیں ہو گا۔

ٹکٹ والی لڑکی سے مکالمہ دلچسپ رہا۔ ٹکٹ کا حصول والا مرحلہ اگر کچھ تھکا دینے والا تھا تو وہیں یہ ساری سرگرمی لُطف دینے والی بھی تھی۔

فسٹ فلور کی سیڑھیاں آرام دہ، چھت شاندار منفرد اور شاہکاروں سے لبالب بھری ہوئی تھی۔ چھوٹے چھوٹے آئی کونک چہرے چار سنہری پروں میں مقید تھوڑا سا روکتے تھے۔

سچ تو یہ تھا کہ یہ وینس کی نشاۃ ثانیہ کا عکاس، آرٹ کا شاہکار عجائب گھر جسمیں

وینس کے آرٹ سے محبت کرنے والے خاندانوں اور آرٹسٹوں کے شاہکار آویزاں ہیں۔

تقریباً اس کی بنیاد 1750 میں رکھی گئی۔ شروع میں تو نام وینس آرٹ اکیڈیمی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں۔ پھر اٹلی کی منسٹری آف کلچر اور ہریٹیج نے سنبھال لیا۔

کیا دنیا تھی یہاں۔ تخلیق کے چشمے دیواروں پر پھوٹ رہے تھے۔ حکومتی سطح پر ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش ہوئی کہ کمروں میں بیٹھنے اور نظارے لوٹنے کا بہت خوبصورت انتظام تھا۔ اسی نظام نے مجھے اپنی بساط سے بڑھ کر اس کی سیر کروائی۔ گو میں نے اس سمندر سے صرف پانی کے دو تین قطرے چکھے کہ میرے بس میں نہیں تھا کہ میں اسمیں نہا سکتی، تیر سکتی۔ میں آرام کرتی، اٹھتی اور پھر چل پڑتی۔ مدد بھی کافی ملی کہ اسطرف چلی جائیے۔ Titian کے شاہکار زیادہ وہاں ہوں گے۔ Giovanni Belliniکیلئے

ادھر جائیں۔

میں نے Tintorettoدیکھا۔ جینٹل بلینیGentileکو دیکھا۔ دونوں بھائیوں میں فرق کو دیکھنے کی کوشش کی۔ بلینی Gentile Belliniکی سولہویں صدی کے وینس کی ثقافتی زندگی کی جھلکیاں مارتی کینوس پر کی گئی پینٹنگ۔ کیا بات تھی۔ مکان، پل، کشتیاں لوگ ہر شے جیسے بولتی اور تاثر دیتی تھی۔ کچھ ایسی ہی عکاسی سینٹ مارک گرجا گھر کی ہے۔ 500سال قبل کا وینس کیسا تھا۔ چونکہ کل کا دن اُس آنگن میں گزار کر آئی تھی اس لئیے اُسے اُس کے قدیم رنگ میں دیکھنا مزے کا کام تھا۔

Jacopoہو یاPaolo Veronese مجھے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا تھا۔ انہوں نے مذہب اور مذہبی شخصیات کو جسطرح پوٹریٹ کیا۔ یقیناً عیسائیت

کا احیاء اِن ہی لوگوں کا مرہون منت ہے۔

تھوڑی سی مٹرگشت قریبی گلیوں کی کی۔ تیسری چوتھی منزل کے ہوٹلوں کے نیلے پیلے عنابی تولیے گلیوں کے وسط میں پانیوں کے اوپر لٹکے سوکھتے دیکھے۔

لوگوں سے باتیں کیں۔ کچھ میرے پلّے پڑا کچھ نہیں پڑا۔

تو شام کو شہرسے رخصت ہوتے ہوئے میں نے بے اختیار کہا تھا۔

’’اے میرے خوابوں کے شہر وینس میں تجھ سے رخصت ہوتی ہوں بھادوں کے مہینے میں۔ ہاں افسوس صد افسوس میں گنڈولا کی سیر نہ کر سکی۔ وینس تمہارے شہر کا یہ تفریحی موڈ اکیلے بندے کو وارا کہاں کھاتا ہے؟ لیکن تم قطعی فکر نہ کرو۔ بنٹی نے مجھے تصویر تو دکھا دی ہے۔‘‘

جب اسٹیشن پر واپسی ہوئی تین بج رہے تھے۔ آج میرے ہر کام میں اطمینان اور سکون تھا۔ میں اُسی مخصوص ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی۔ چھ یورو کے چھ کیلے، دو دودھ کی بوتلیں، پانی، ویجی ٹیبل پیزا اور Nuts لئیے۔ گذشتہ ساری محرومیوں کے ازالے کا پکّا پکّا فیصلہ تھا۔

ریسٹورنٹ کے ساتھ اگلی جگہ لوگوں کے بیٹھنے اور کھانے پینے کیلئے مخصوص ہے۔ یہیں بڑی دلچسپ ملاقات ویلز کے مسٹر میخائل سے ہوئی جس نے از خود گفتگو کا دروازہ کھولا کہ کِس ملک سے ہیں؟ پاکستان کا سُن کر اتنا خوش ہوا کہ میں حیرت سے اُسے دیکھنے لگی تھی کہ مسئلہ کیا ہے؟ بہرحال یہ تو خیر بعد میں جانی تھی کہ اُس کا ہمسایہ ڈاکٹر طارق اور اس کی بیوی ڈاکٹر ثمینہ طارق سے اُس کے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اس کی پوری فیملی دونوں میاں بیوی کی بے حد شکرگزار رہتی ہے کہ پاکستانی جوڑا ان کی چھوٹی موٹی طبّی مدد کیلئے ہمہ وقت حاضر رہتا ہے۔ کیسا علم سے لدا پھندا آدمی تھا۔ تاریخ سے گہری دلچسپی بات بات میں چھلک رہی تھی۔

یونان تہذیب و ثقافت کی ماں ہے پر لمبا چوڑا لکچر سُننے کو ملا تھا۔ پاکستان تاریخی و ثقافتی لحاظ سے بڑا امیر ملک ہے۔ شکر ہے پاکستان بارے ایسا جملہ کِسی یورپی سے سُننے کو ملا۔

دیر بعد معذرت کرتے ہوئے اٹھ کر چکر لگایا تھا۔ ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ ٹرین ٹریک کے عین سامنے میری عمر کے مردوں کا ایک ٹولہ اپنے سازو سامان کے ساتھ کھڑا انفرمیشن بورڈ پر گاہے گاہے نظریں دوڑاتا نظر آیا تھا۔ توجہ کھینچے والی دو باتیں تھیں۔ ایک ان کی غیر معمولی مستعدی اور دوسرے ان کے قہقہے۔ سب کے سب مرد تھے۔

’’چلو ذرا اِن سے تو گپ شپ کی جائے۔‘‘میں خود سے کہتی ہوئی ان کے پاس جا کھڑی ہوئی۔

باتیں کیں تو جانی کہ فرانس سے ہیں۔ سیرسپاٹے کیلئے نکلے تھے۔ میلان جانا ہے اور میرے والی ہی ٹرین میں سوار ہونا ہے۔

گلے گلے تک طمانیت سے بھر گئی۔ اُس ٹولے کے عین سامنے گرینائٹ کے چھوٹے سے چبوترے پر بیٹھ گئی۔ جونہی اُن مردوں نے سامان اٹھا کر دُڑکی لگائی۔ تعاقب میں میری بھی تیزی تھی۔ بو گی نمبر7میں سوار ہو کر تصدیق کی کہ گاڑی میلان ہی کے لئیے ہے۔ تسلّی ہو جانے پر سیٹ تلاش کی۔ اور سکون کا لمبا سانس بھرا۔

جو نصف درجن کیلے وینس سے لے کر چلی تھی۔ اُن میں سے تین تو ٹرین میں راجے راجے کھاندے کے شوق کی بھینٹ چڑھے تھے۔ جب میلان پہنچی بقیہ تین بیچارے چار گھنٹوں میں ہی پور پور زخمی ہو گئے تھے۔ پھینک دوں۔ جیسے خیال نے فوراً کلیجے کو ہاتھ ڈال دیا تھا۔

’’اف تین یورو یعنی تین سو پنتالیس روپے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دوں۔ ہائے میرا ملک بے چارہ غریبڑا سا اتنا سستا۔ چتری والے گڑ جیسے میٹھے، بے حد ذائقہ دار درجن بھر صرف پچاس روپے میں۔ ایک وقت میں بندہ رج کر کھا لے تو دوسرے وقت کا صرفہ مارسکتا ہے۔‘‘

اب جانے کہاں سے مسز ارشد یاد آئیں۔ ٹوٹکوں سے شافی علاج کرنے والی ایک دن سر راہ مل گئیں۔ دعا سلام کے بعد بولیں۔

’’گوڈوں کا سستا اور دیسی علاج چالیس دن گلے سڑے کیلے کھاؤ۔ دیکھنا ڈاک گھوڑے جیسے رواں ہو جائیں گے۔‘‘

دو تین بار اس نسخے کو آزمانا چاہا پر جسے بچے منہ نہ لگائیں اُسے کیسے گلے سے اُتارتی۔

اب سنٹرل اسٹیشن سے باہر نکل کر لانوں کے کنارے بنی پتھر کی سلیب پر بیٹھ کر پہلے تو موسم کی رنگینیوں کو جی بھر کر دیکھا۔ دلکش سماں چاروں اور بکھرا ہوا تھا۔ جھولتے جھومتے پھرتے بادلوں کو شوق سے دیکھتے ہوئے ہاتھوں سے پکڑنے کو جی چاہا تھا۔ ہواؤں کی تیزی اور لطافت کوسوں سوں کرتے اپنے اندر اُتار ا۔ جب موسم کے حُسن سے نظریں رج گئیں تب بقیہ اُن تینوں کو دوائی جان کر " اللہ شافی اللہ کافی "کہتے ہوئے ہڑپ کر گئی۔ لمحہ بھر بعد گوڈوں کو بھی پھیلا پھیلا کر دیکھنے لگی کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا میری گندی اور پرانی عادت ہے۔

میٹرو اسٹیشن Republica مرکزی ریلوے اسٹیشن سے نصف فرلانگ پر ہے۔ یہاں سے چیزاتے تک سیدھی میٹرو جاتی ہے۔ اور میں اِس تھوڑے سے چلنے کو دو دو گاڑیاں بدلنے اور ٹکٹوں کے جھمیلے میں پڑنے پر ترجیح دیتی تھی۔ یونہی اسٹیشن کے سامنے پہلے گول چکر پر پولیس کی گزرتی گاڑی والوں سے ریپبلیکا کا پوچھ بیٹھی۔ کمبخت نے الٹے ہاتھ کا اشارہ دیا۔

’’ہیں اُلّو کا پٹھا ادھر کدھر ہے؟ خود سے سوال جواب اور ساتھ ہی شکوک و شبہات کا بھی سلسلہ شروع۔ اب کھڑی نشانیوں کو دیکھتی ہوں۔

’’نہیں بھئی نہیں۔ کمبخت مارے پیئے ہوئے لگتے ہیں۔‘‘

عقل نے جدھر کی نشان دہی کی اسی پر چلی اور بالآخر بورڈ نظر بھی آ گیا۔ تہہ خانے کے منہ سے ایک بوڑھی عورت نکلی جس نے چنترال کا پوچھا تھا۔ کھڑے ہو کر اُسے تسلی سے سمجھایا اور خود کو تھپکی دی کہ

’’ واہ بھئی واہ کیا بات ہے؟ اب تو تو بھی بتانے جو گی ہو گئی۔‘‘

سیڑھیاں اُتری۔ تو ایک نئی مصیبت انتظار میں تھی کہ اگست سے سکولوں، دفتروں میں چھٹیوں کی وجہ سے گاڑیوں کی تعداد میں کمی کر دی گئی تھی۔ پتہ چلا کہ دو گاڑیاں بدلنی ہوں گی۔

’’لو بھئی موسیٰ ڈریا موت توں تے موت اگے۔ چیزاتے کیلئے سرونو جانا پڑے گا۔‘‘

جی چاہا تھا سر پیٹ لوں۔ چھٹیوں کی وجہ سے اسٹیشن پر وہ معمول کی گہما گہمی بھی مفقود تھی۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آئی بس یونیفارم پہنے مرد کا بازو پکڑا اور اُسے کہا کہ وہ میری مدد کرے۔ اُس نے غالباً ڈیوٹی پر اکیلا ہونے کی وجہ سے کچھ لیت و لعن سے کام لینے کی کوشش کی۔ پھسکڑا مار کر وہیں فرش پر بیٹھ گئی۔ پیسے پہلے ہی "ٹکٹ ٹکٹ "کا کہتے ہوئے اس کی تلی پر رکھ بیٹھی تھی۔

تھوڑی دیر بعد اُس نے ٹکٹ نکالا۔ مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہا۔ خودکار زینے سے اتر کر دوسرے پلیٹ فارم پر ابھی پاؤں دھرا ہی تھا کہ گھڑ گھڑ دھڑ دھڑ کرتی ٹرین کا اسٹیشن کی حُدود میں آمد کا غلغلہ بلند ہو گیا۔ اُس نے مجھے بھگاتے ہوئے ڈبے میں کھڑے اپنے جیسے یونیفارم پہنے نوجوان لڑکے کے حوالے کرتے ہوئے کچھ بتایا۔

میں نے ابھی اندر قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے کھڑی ایک فربہی سی لڑکی نے مجھے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔ یہ ماریہ سولی تھی۔ آسٹرین۔ جو میلان میں اپنے ملک کے قونصلیٹ میں نوکری کرتی تھی۔ اب گھر جا رہی تھی۔ گھر جو چیزاتے سے تین سٹاپ آگے تھا۔ تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں۔

سرونو اور آگے چیزاتے تک ماریہ نے اسی توجہ اور محبت سے میرا خیال اور دلداری کی جیسے ایک اچھی بیٹی اپنی ماں کی کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سیڑھیاں چڑھ چڑھ اور اُتر اُتر کر حشر ہو گیا۔ اُس کا منہ ما تھا چوم پر جب اپنے اسٹیشن پر اُتری تو بادل گہرے تھے اور بوندا باری مسلسل ہو رہی تھی۔

اقبال کو فون کرنے سے قبل میں نے سوچا کہ میں کیفے بار سے پہلے چائے پیوں گی اور پھر اُسے بلاؤں گی۔

پلیٹ فارم پر کھڑے موسم اور اُس کی رنگینیوں سے تھوڑا لطف اٹھانے کے بعد لفٹ میں داخل ہوئی۔ نیچے راہداری میں آئی اور دوسری سمت کی لفٹ میں داخل ہونے کی بجائے پہلے آنے والی میں داخل ہو گئی جس نے مجھے دوسری طرف تو پہنچا دیا مگر آ ہنی قد آور جنگلے بستی اور میرے درمیان حائل تھے۔ میں نے بارش سے بھیگتے بھاگ دوڑ کی کہ مجھے کوئی چھوٹا موٹا دروازہ نظر آ جائے جسے کھول کر میں آگے چلی جاؤں۔ دروازہ نظر ضرور آیا مگر وہ لاک تھا۔

سلاخوں کے پیچھے بار کے سامنے کھڑے چند لوگوں نے اشارہ کیا کہ مجھے واپس جا کر دوسرے راستے سے آنا چاہیے۔ اب پاکستانی ذہنیت اور شارٹ کٹ راستے کی تلاش اور جلد بازی۔ پٹڑیوں کے درمیان سے چل کر پلیٹ فارم پر پہنچنے کی پھرتی مارنے کی کوشش کی۔ ابھی ایک لائن کراس ہی کی تھی کہ پیچھے سے ہاہا کا شورسنائی دیا۔

اب جو مڑ کر بارش کے قطروں سے بھری عینک کے عقب سے دیکھتی ہوں تو وہاں کھڑے دو تین مرد داہنی سمت اشارہ کر رہے ہیں۔

اب جو نظر کو پلٹا دیتی ہوں تو خون جیسے رگوں میں جم جائے والی کیفیت کا گمان ہوا۔ خدایا کیا کوئی لمحہ ایسا خوفناک بھی ہو سکتا ہے جس کا میں نے اب تک کی زندگی میں سامنا کیا ہو۔

’’کیسے میں نے واپسی کی۔ پٹڑی پار کی کیسے پلیٹ فارم کے سیمنٹ کے بڑھاوے پر جھولنے جیسی کیفیت میں لٹکی گھڑ گھڑ دھڑ دھڑ کرتی گاڑی کو گزرتے محسوس کیا۔ درمیانی فاصلہ بس ڈیڑھ دو فٹ کا ہی ہو گا۔

میں حیران تھی میرے دل نے دھڑکنا کیسے جاری رکھا؟ میرے بچوں کی دعائیں یا پھر میری اُس اوپر والے کے حضور التجائیں۔

میں بارش میں بھیگتی رہی۔ دیر بعد سیدھی ہوئی۔ نیچے اُتری۔ دوسری لفٹ سے اوپر آئی۔ کیفے میں داخل ہوئی۔ لوگ خوش گپیوں اور پینے پلانے میں مصروف تھے۔

سوچ نے چال کے پاؤں میں ذرا سی اڑنگ ڈالی۔ یہاں بیٹھے کسی بندے کو معلوم ہے کہ اندر آنے والی یہ عورت موت کے پنجوں سے چھٹ کر آئی ہے۔

بڑا لمبا سانس سینے کے اندر سے نکالا تھا۔ بیس گز پرے اس خوبصورت عمارت کے عقب میں پٹڑیوں پر قیمہ بنی لاش نے صرف لمحہ بھر کی ہلچل مچانی تھی۔ پل بھر کی خبر اور یہاں موجود لوگوں کا لمحے بھر کا تبصرہ۔

کیسی احمق ہوں میں۔ نری کھوتے کی کھُر۔ کیسے یہ سوچا تھا کیفے بار میں داخل ہوں گی تو ہر کوئی دیکھے گا اور پوچھے گا۔ ان کے تو فرشتے کو بھی پتہ نہیں ہو گا اور اگر کسی کو ہو گا بھی تو کیا؟ اپنے ملک میں یہ سب نہیں ہوتا۔ سڑک پر لاش پڑی ہے اور گاڑیاں زن زن کرتی پاس سے گزر جاتی ہیں۔ زندگی کا بس یہی چلن ہے۔

کرسی پر بیٹھ کر ٹشو سے عینک کو صاف کیا۔ چہرے کو خشک کیا۔ بالوں میں کنگھا چلایا اور کاؤنٹر پر جا کر چائے کا آرڈر کیا۔ شوکیسوں میں پڑے بسکٹوں اور پیسٹریوں کو دیکھا اور جو نظروں کو بھائی اس کی طرف اشارہ کیا۔

واپس اپنی میز پر آتے ہوئے قیمہ بنی لاش کے منظر بڑے دہلانے والے تھے۔ "گور پیا کوئی ہور"والی بے نیازی نے آج منہ چھپا لیا تھا۔ چائے کے پہلے گھونٹ کا جیسے حلق سے نیچے اُترنا گویا شکریے اور عبودیت کے اتھاہ جذبات کا اظہار تھا۔

فون کرنے پر اقبال کِسی دوست کی گاڑی مانگ لایا تھا کہ بارش اب تیز ہو گئی تھی۔ باہر نکلنے سے قبل میں نے ماحول کو کھلکھلاتے دیکھا اور سوچا۔

دنیا کے سمندر میں گرتے ایک قطرہ کی وقعت اور اوقات کتنی؟

اقبال وینس کے بارے پوچھ رہا تھا۔

بڑا شاندار اور یادگار ٹرپ۔ میں ہنسی تھی۔

٭٭٭





باب7: بریرہ آرٹ گیلری، وایا دانتے کی سیر اور مرینو سے ملنا




* بریرہ آرٹ گیلری در اصل نشاۃ ثانیہ دور کے کاموں سے سجی ہوئی ہے۔

* پبلیشنگ ہاؤس میں کام کرتی مورینو کا کہنا تھا کہ ٹائٹل بنانے کے لئے اُسے پوری کتاب کو پڑھنا پڑھتا ہے۔ روح کو سمجھے بغیر وہ کبھی ٹائٹل نہیں بناتی۔

* نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں نے اٹلی میں جنم لیا، پورے یورپ کو متاثر کیا اور پھر اپنی ہی سر زمین پر ختم ہو گئیں۔





اب روم جانا ہے۔ بکنگ کروانی ہے۔ چلو کل یہ کام ہو گا اور وایا دانتے کا سیر سپاٹا بھی ہو جائے گا۔

یہ اللہ بھی کیسا مسبب الاسباب ہے کہ اگر کشٹ میں ڈالا تو ساتھ اقبال کو فری کر دیا۔ ناشتہ بس سادہ سا۔ ایک کپ چائے اور ساتھ میں شہد لگا بند یا پیس۔

اب دھیرے دھیرے سیڑھیاں اُترو۔ بلڈنگ کا مرکزی دروازہ اگر بند ہے تو مختلف بٹن دبا کر اُسے کھولو۔ بیرونی دروازے کو بھی اب کھولنا سیکھ گئی ہوں۔ ٹھک ٹھک بٹن دبتے ہیں۔ ایسے لمحوں میں مجھے کھل جا سم سم یاد آتا ہے۔ مزہ آتا ہے یہ سب کام کرنے میں۔ سڑک پر آ کر بس ایک آدھ منٹ میں ہی اقبال اپنے سکوٹراور میرے پرس کے ساتھ آ جاتا ہے۔ ہیلمٹ پہنتی ہوں۔ دونوں ٹانگیں کشادہ کر کے سکوٹر پر بیٹھتی ہوں۔ گھوں گھوں کرتا سکوٹر اڑنے لگتا ہے۔

"یا اللہ خیر" زیر لب پڑھتی ہوں۔ اسٹیشن کی کافی بار کی ایک سمت پارکنگ ایریا ہے۔ جب آئی تھی تب تو یہاں گاڑیوں کا ایک اژدہام ہوتا تھا۔ واپسی پر کافی با رکے سامنے بیٹھ کر منہ اُٹھائے، خاموش گھروں کو، ہوا کو درختوں سے اٹھکھیلیاں کرتے اور کہیں اکا دُکّا لوگوں کو آتے جاتے دیکھنا اور چائے کا کپ پینا بہت دلچسپ اور پر لُطف شغل لگتا ہے۔ اور میں یہ ضرور کرتی ہوں۔ جب میرے اندر کے رانجھے کی تسلی ہو جاتی ہے تب اقبال کو فون ہوتا ہے کہ وہ آ کر مجھے لے جائے۔

ٹکٹ والا مرحلہ میرے بھیجے میں نہیں گھُستا۔ باقی مرحلے اب آسان ہو گئے ہیں۔ سنٹرل اسٹیشن پر ہرگز خیریت والا معاملہ نہ تھا۔ تاہم ہر بار ہی کچھ نئے منظروں کا آنکھوں میں گھُسنا بھی ضروری ہے۔ ٹکٹ کیلئے بکنگ آفس کی کھوج تھی۔ دیکھا تو خیر سے بڑی لمبی قطاریں اور بڑا جھمیلا سا نظر آیا تھا۔

زمین پر ہی چند عورتیں اور لڑکیاں بڑے موڈ میں پھسکڑے مارے بیٹھی تھیں۔ میں بھی جا کر شامل ہو گئی کہ کیل کی طرح اکڑے کھڑے رہنے سے فائدہ۔ Rick Steves کی اٹلی پر لکھی ہوئی کتاب ابھی کھولی ہی تھی اور مزے کی بات جو صفحہ سامنے آیا تھا وہ ٹھگوں اور لٹیروں بابت ہی تھا۔ مزے کی تفصیلات تھیں۔ ابھی زیر لب مسکراتے ہوئے پڑھنے میں محو تھی کہ جب اُس نوجوان لڑکے نے میرے قریب اکڑوں بیٹھ کر پوچھا۔

’’ مجھے کیا ٹکٹ خریدنا ہے؟‘‘

میٹھے سے لہجے میں یہ فقرہ رِک کی تحریر سے بڑا لگا کھاتا تھا۔ مشتبہ نظریں تیر کی طرح اس کے اندر اُتارتے ہوئے بڑا نوکیلا سا جملہ خود بخود ہی زبان سے پھسل گیا تھا۔

’’ان دائیں بائیں بیٹھی ڈھیر ساری عورتوں کو چھوڑ کر تم نے مجھے کیوں یہ پیشکش کی؟‘‘

’’یہ تو بڑی چنڈالیں اور ہوشیار عورتیں ہیں۔ ان کو تو سارے سبق ازبر ہیں۔ جو بندہ خود کاموں کا ماہر ہو اُسے کسی کی مدد لینے اور پیسہ کمیشن میں پھینکنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

بات بڑی پتے کی تھی۔ ٹھک سے دل کو لگی۔ لڑکے کی نظر کی گہرائی بھی داد طلب تھی۔ گھاٹ گھاٹ کے چہرے دیکھنے والے کیا قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔

’’روم کا ٹکٹ لینا ہے۔ چلو بتاؤ کمیشن کتنا ہو گا؟‘‘

’’جو دیں گی لے لوں گا۔‘‘

’’نہیں بھئی طے کرو۔‘‘

تین یورو پر معاملہ نپٹ گیا اور میں اٹھ کر اس کے ساتھ ہولی۔

’’سوچا بریرہ گیلری دیکھوں گی اور شام Vaya Dante میں گزاروں گی۔‘‘

اب کیا بیٹھی بیٹھی اِن پٹٹر پٹٹر کرتی لڑکیوں کے چہروں کو ہونقوں کی طرح دیکھتی رہتی۔ کوئی کام کروں۔ کسی ہیلے لگوں۔

مشینوں کے سامنے کھڑے ہو کر میں نے خود مشین میں پچاس پچاس یورو کے دو نوٹ ڈالے۔ جونہی ٹکٹ نکلا۔ لڑکے سے لے کر اُسے قابو کیا۔ دس کا نوٹ بھی ہوشیاری سے سمیٹا اور بقیہ ریزگاری اس کے حوالے کی۔ ستاسی یورو کا ٹکٹ۔

بریرہ آرٹ گیلری نقشے پر نزدیک ضرور تھی مگر معلوم کرنے پر پتہ چلا تھا کہ اگر پیدل چلنے کی کوشش کی گئی تو بس پھر تم تو ہلنے جو گی نہیں رہو گی۔ میٹرو اسٹیشن سے جاؤ۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ چلو خیر ایک پیاری سی لڑکی کی منت کی۔ اُس نے ٹکٹ تھمایا اور ساتھ پیسے بھی لوٹا دئیے۔

’’ارے نہ نہ کرنے کے باوجود گاڑی میں چڑھانے بھی چل پڑی۔ ریڈ لائن میٹرو جسمیں سوار کرتے ہوئے اُسنے اُنگلیوں سے تین کا اشارہ کیا تھا یعنی تیسرے اسٹیشن پر اُتر جانا ہے۔

ایک خوبصورت کشادہ صحن کے گرد دو منزلہ خوبصورت محراب دار برآمدوں والی عمارت اٹلی کے ثقافتی ورثے کی امین یہ میلان کی بہترین آرٹ گیلری جسمیں تیرھویں صدی سے بیسویں صدی کا آرٹ محفوظ ہے۔ تاہم یہ فلورنس اور روم کی آرٹ گیلریوں کے پلّے کی نہیں۔ یہ پڑھا تھا رائے محفوظ رکھی ہے کہ روم کل جا رہی ہوں اور فلورنس تین دن بعد کا پروگرام ہے۔ اب مقابلہ تو تبھی ہو گا جب اُن دو شہروں کو بھی دیکھ لوں گی۔

نشاۃ ثانیہ دور کا یہ آرٹ 1809میں اکٹھا کیا گیا۔ چودھویں سے بیسویں صدی کے تقریباً 500شاہکاروں سے اِسے سجایا گیا۔ یہ عمارت پہلے مناسٹری تھی۔ اس کا عظیم الشان صحن جسمیں پیڈسٹل پر کھڑا سیاہی مائل نپولین کا ننگا مجسمہ Antonio Canova کے ہاتھوں کا شاہکار آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے۔

نپولین بونا پارٹ بھی تاریخ کا کیا کردار تھا۔ بڑی پسندیدہ شخصیت ہے وہ میری۔ آندھی اور طوفان جیسی ساری خوبیاں اس میں جمع تھیں۔ 1796 میں یہاں بھی وہ اسی کرّوفر سے آیا اور سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ سارے ہسپانوی اور آسٹرین ڈیوکز کو باہر پھینکا۔ اٹلی کی ساری ادھر ادھر بکھری ریاستوں کو اکٹھا کیا اور بادشاہت کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔ چرچ والوں کو بھی نتھ ڈال دی کہ یہ کیا ساری اچھی اور بہترین زمینوں پر قابض ہوئے بیٹھے ہو۔ سرکار کی ملکیت ہیں ساری۔

اُنیس بیس سال کی حکمرانی کے بعد جہاں گیری کے جنون نے شکست تو دلائی مگر وہ جاتے جاتے اطالویوں پر ایک احسان بھی کرتا گیا۔ ایک عظیم احسان۔

انتونیو بھی کیا لازوال فنکار تھا۔ میں بہت دیر اِسے دیکھتی رہی تھی۔ در اصل وجہ اُس قربت کی بھی ہے جو مجھے انتونیو سے تھی کہ پیٹرز برگ کی نیو ہرمیٹیج کی راہداریوں میں اِس کے بنائے ہوئے کئی مجسمے ابھی تک میری یادداشتوں میں محفوظ تھے۔ خاص طور پر یونانی دیوتا ایروز کی محبوبہ جو اپنے تتلی نما پروں کے ساتھ کیوپڈ پر جھکی ہوئی تھی۔

سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا ہے۔ ٹکٹ بھی وہیں سے ملتا ہے۔ بے حد و حساب کمرے شاہکاروں سے سجے ہیں۔ میں نے آرام کرتے چند لوگوں سے جو مجھے انگریزی سمجھنے والے محسوس ہوئے ہیں۔ پوچھا ہے کہ کیا خاص خاص چیزیں مجھے دیکھنا چاہییں؟ جواب ملتا ہے۔

’’ ایک تو Crivelliکو ضرور دیکھئیے۔ وہ گوتھک دور کی ساری تاریخ اور فلاسفی آرٹ کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ یوں بھی وہ ونچی کا ہم عصر ہے۔ تقابلی جائزہ ہو جائے گا۔

میں دل میں ہنس پڑی۔

’’لو بڑی عالم فاضل اس نے تقابلی جائزے لینے ہیں۔ آرٹ کی روح ہی سمجھ جائے تو بڑی بات۔‘‘

ایک اُدھیڑ عمر کی عورت جو مجھے دیکھ رہی تھی نے سکون سے کہا۔

’’اگر آپ دیکھ سکتی ہیں تو آرام آرام سے کمرہ نمبر اکیس، چونتیس اور پینتیس میں ضرور جائیے۔‘‘

دوسرے Raphael's کا کام دیکھیں۔ Wedding of the MadonnaاورPierodellaکے شاہکار بھی وہیں پاس ہی ہیں۔ انہوں نے چند اور نام بھی بتائے رافیل Raphael'sکا کام دیکھنے کی بھی مجھے شدید خواہش تھی کہ روس کے سینٹ پیٹرز برگ کے ونٹر پیلس میں بھی میں نے اس آرٹسٹ کے شاہکار دیکھے تھے۔ اس کا کام کئی لاجز میں جگمگاتا ابھی بھی میرے ذہن کے کسی گوشے میں ہے۔ Wedding of the Madonna کیا بات تھی۔ رافیل اپنے آرٹ کی انتہاؤں پر تھا۔ میں نے کمرہ نمبر چوبیس میں بہت وقت گزارا۔ رافیل کے ساتھ پائیروڈیلا کا کام بھی دیکھا۔

وقت کا تو پتہ ہی نہیں چلا تھا اور جب میں اس کے پر لُطف سے کافی بار میں چائے پیتی اور پیسٹری کھاتی تھی اور ساتھ ساتھ سوچے چلی جا رہی تھی کہ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ ہمیں اپنے اثاثوں کو سنبھالنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ اوّل تو اثاثے بھی اس حساب سے نہیں اور جو ہیں وہ بھی انتہا پسندی نے نشانوں پر رکھے ہوئے ہیں۔

اور جب باہر آئی تو اس وقت چار بج رہے تھے۔

’’تو میں نے یہاں چار گھنٹے گزارے اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔‘‘ خود سے کہا تھا۔

اب بیچ بیچ میں سے چھوٹے چھوٹے راستے تو کتنے تھے۔ مگر وہی بات جوانی ہو تو بندہ میلوں چل لے۔ آرٹ گیلری نے ہی تھکا دیا تھا۔ بس میں نے سوچا کہ میں Via Danteجاتی ہوں۔ وہاں جا کر بیٹھوں گی اور بس نظاروں کے مزے لُوٹ کر لوٹ آؤں گی۔

اور وہاں میری ملاقات مورینوسے ہوئی۔ وہ سکوائر میں بینچ پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ میں نے لوگوں کے ہاتھوں میں کتاب بہت کم دیکھی تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ اطالوی ہے؟ اثبات میں سر ہلا اور ساتھ ہی یہ بھی جانا کہ وہ میلان میں ایک پبلیشنگ ہاؤس میں کام کرتی ہے۔ کتابوں کے ٹائیٹل ڈیزائن کرتی ہے۔

میں خوش ہوئی۔

’’ارے واہ یہ تو بہت ہی اچھا ہوا۔ چلو کچھ اِس بارے میں پتہ چلے گا۔‘‘

’’ ٹائیٹل بناتے ہوئے اس کے مدّ نظر کیا چیزیں ہوتی ہیں؟‘‘

سوال بھی فوراً ہی کر دیا تھا۔

اس کا جواب میرے لئیے حیرت انگیز تھا کہ ایسا ممکن نہیں وہ کتاب پڑھے اور اس کی روح کو سمجھے بغیر کوئی ٹائیٹل بنا دے۔

اللہ ایک ہمارے پبلیشر ہیں کتاب چھاپ رہے ہیں اور جانتے ککھ نہیں۔ جس کتاب کو چھاپ رہے ہیں اس کے بارے میں خود نہیں جانتے۔ تو بھلا ٹائیٹل پر کیا توجہ دیں گے؟ مصنف اگر خود بڑا نکتہ چیں قسم کا ہے تو وہ ہر مرحلے پر اپنا خون جلاتا، اپنا پیسہ برباد کرتا محض اپنی تخلیق کو منظر عام آنے کی خواہش میں اس ستم کو مردانہ وار اپنے سینے پر سہتا ہے۔

کتاب جو وہ پڑھ رہی تھی۔ اس کا نام IL Plasoتھا۔ بہت سے لکھاریوں کی منتخب کہانیوں کا انتخابی مجموعہ تھا۔ اس کا مطلب "بہت بڑا گھر" سے تھا۔

’’آپ کے ہاں نیٹ اور موبائل نے کتاب کو کتنا متاثر کیا؟‘‘

’’فرق تو پڑا ہے مگر پڑھنے والوں نے کتابیں اب ڈاؤن لوڈ کر لی ہیں۔‘‘

مورینو کمر عمری کے باوجود بڑی ذہین اور انٹیلیکچوئل Intellectual قسم کی لڑکی تھی۔ اُس نے مجھ سے میرے اُن چند دنوں کے تاثرات بارے پوچھا۔

’’میں آرٹ اور فن کے بحر بیکراں میں جو غوطے کھاتی اور اپھری ہوئی پھرتی تھی۔ اُن کیفیات کو گوش گزار کر دیا۔‘‘

ہنسی اور جب بولی تو لہجے میں کہیں علم و دانش کے دریا بہتے تھے۔ اٹلی نے تعمیری سٹائل کو بہت عروج دیا۔ بلاشبہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں جو لگ بھگ 1400کے اِس جزیرہ نما اٹلی کے بطن سے اٹھیں۔ جنہوں نے اس کی عظمتوں کے سامنے یورپ کو سرنگوں کر دیا۔

کم و بیش اگلی دو صدیوں تک نہ صرف یہ ایک طرح قدیم یونانی، رومن سٹائل، علم اور انسانیت کا ایک طرح احیا کا زمانہ تھا۔ جو نہ صرف یورپ میں پھیلا بلکہ اس کے ہر شعبہ ہائے زندگی کو اس نے متاثر کیا۔ آج کے یورپ کے بے شمار پینٹرز، مجسمہ ساز اور دانش ور جیسے مائیکل اینجلو، لیونارڈو، رافیل سب اٹلی کے بیٹے تھے۔

یہ اس کے ثقافتی عروج کا زمانہ تھا۔ اس نے لوگوں کی سوچ مذہب سے لے کر زندگی کے ہر پہلو میں بدلی۔ سیاست میں یہ تبدیلی جمہوریت کی صورت آئی۔ مذہب میں چرچ کے غلبے کے خلاف۔ انسان اور انسان دوستی کے حق میں تحریکیں چلیں۔ صدیوں کی جہالت اور فرسودہ نظریات جو سائنس میں رواج پائے بیٹھے تھے وہ چیلنج ہوئے۔ کچھ ایسا ہی حال تعمیرات میں ہوا کہ کالموں اور گنبدوں کی طرف واپسی ہوئی جو رومن اور یونانی طرز تعمیر کے بنیادی ستون تھے۔ پینٹنگ میں اس کا مطلب 3-D realismسے ہے۔

اٹلی نے اپنے شہروں کو آرٹ، یونانی دیوتاؤں اور رومن سٹائل گنبدوں والی عمارتوں سے سجا دیا۔ انہوں نے یونانی طرز جمہوریت کی داغ بیل ڈالی اور قدرتی دنیا دریافت کی۔ ثقافتی یلغار کا طوفان اٹھا تھا اور یہ جزیرہ نما ایک بار پھر یورپ کے لئیے رجحان ساز ثقافتی مرکز کی سی حیثیت اختیار کر گیا۔

شاید ابھی ہمارے درمیان اور باتیں ہوتیں کہ اُس کا موبائل بجا۔ معذرت کرتے ہوئے وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ کچھ دیر باتوں میں مصروف رہی۔ پھر ہنستے ہوئے اجازت چاہی کہ وہ اپنی جس دوست کے انتظار میں یہاں بیٹھی تھی وہ اب آ گئی ہے۔ اپنا بیگ کندھے سے لٹکاتے ہوئے وہ مسکرائی اور بولی۔

’’آپ سے باتیں کر کے بہت مزہ آیا۔‘‘

’’جیتی رہو۔ مجھے بھی بہت اچھا لگا۔‘‘

جب وہ وایا دانتے کی رونقوں میں گم ہو رہی تھی، اپنے بچپن کا گانا میری یادداشتوں میں جیسے بجنے لگا تھا۔

’’جیون کے سفر میں راہی ملتے ہیں بچھڑ جانے کو۔‘‘

واقعی یہ پیارا سا چہرہ جو ابھی مجھے ملا۔ جس نے بیتے وقت کی چند ساعتیں میرے ساتھ گزاریں۔ اب کہیں دوبارہ اُسے دیکھنا ممکن ہے؟

’’ہم موجیں ساگر کی

بہہ جائیں جب

لوٹ کر نہ آئیں کبھی‘‘

تھوڑی سی افسردگی اور ملال نے مجھے گھیر لیا تھا۔ مگر یہ کیفیت بس چند لمحوں کی ہی تھی۔ میں سکوائر کی رونقوں کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔

مجھے تو یہ ارباط سٹریٹ کی طرح نظر آئی تھی۔ شام اُتر رہی تھی اور اس کی رنگینیاں عروج پر پہنچ رہی تھیں۔ گانے والوں کے ٹولے، فوٹوگرافر اور ماسک پہنے اتراتے پھرتے لوگ۔

سورونو اسٹیشن پر اسما ء کا ملنا گویا خدا کی طرف سے بھیجی جانے والی کوئی غیبی مدد جیسا تھا۔ پی آئی اے آفس میلان میں کام کرتی لڑکی از خود ہی میرے پاس آئی۔ تعارف کروایا۔ ڈیوٹی سے واپس آ رہی تھی۔ والد کوئی بیس سال سے اٹلی میں مقیم ہیں۔ وہ بہن بھائی سب یہیں بڑھے پلے۔

اس نے مجھے گھر چلنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ہر قسم کی مدد کیلئے حاضر ہے۔ میں نے روم جانے کا بتایا اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ میرے لئیے وہاں کسی ہوٹل کی بکنگ میں مدد کر دے تو میں شکرگزار رہوں گی۔

’’فکر نہ کریں۔‘‘ اُس نے نمبر لیا۔ ٹکٹ پر میرے روم پہنچنے کا وقت دیکھا اور بولی۔

’’دو گھنٹے کے بعد آپ کو اطلاع دیتی ہوں۔‘‘

نو بجے تک میری روم کے Fiamma ہوٹل کی 55 یورو پر بکنگ ہو چکی تھی۔ یہ بھی اُس نے بتایا تھا کہ ہمارے آفس کا بندہ آپ کو ریلوے اسٹیشن سے پک کر لے گا اور ہوٹل پہنچائے گا۔ ہوٹل ریلوے اسٹیشن کے بالکل قریب ہے۔

’’اسماء تم تو کوئی فرشتہ ہو جسے خدا نے میری مدد کیلئے بھیجا۔‘‘ میری آواز میں ممنونیت کا گہرا رچاؤ تھا۔

شام کو مسز سمتھ سے ملنے گئی وہ مارکیٹ جا رہی تھیں۔ دعوت دی کہ چلو گی۔

میں ہنسی۔ ’’اندھے کو کیا چاہیے؟ پوچھتی کیوں ہیں؟‘‘

گیراج سے گاڑی نکالنے گئیں تو سوچا کہ میں بھی اُن کا ہاتھ بٹاؤں۔ مرکزی دروازہ نمبروں سے کھُلتا تھا جس میں مَیں طاق ہوئی پڑی تھی۔ گاڑی سڑک پر آ گئی۔ دروازہ بند کرتے ہوئے میں ساتھ بیٹھی تو ہنسیں اور میٹھے سے لہجے میں شکریہ ادا کیا۔

اِس چھوٹے سے قصبے کا چرچ بڑا خوبصورت تھا۔ کھیل کے میدان اور پارک شاندار تھے۔ سبزے کی بہتات، خاموشی اور سکون کی فراوانی تھی۔ تیسری دنیا کے ملکوں کا تو ایک مسئلہ ان کی آبادی ہے۔ کلبل کلبل کرتی چینٹیوں کی طرح بلوں سے نکلتی اور بلوں میں گھستی۔ اوپر سے کٹا مٹی کے طوفان جو منہ ناک سے منوں کے حساب سے مرنے تک اندر جاتے ہیں۔

’’کیا کریں بھئی۔‘‘

سپر مارکیٹ میں سبزیوں کے سائز اور جسامت حیرت زدہ کرتے تھے۔ بینگن کون سی اور کِس دنیا کی مخلوق ہے؟ پہچاننے میں نہیں آ رہے تھے۔ کچھ ایسا ہی حال سیبوں کا تھا۔

بہرحال واپس آ کر انہوں نے سارا سامان قرینے سے سمیٹا۔ جب ہم کافی پیتے تھے۔ میں نے سامنے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دس بج رہے تھے۔ ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کا تو خیال ہی نہیں رہا۔ گھبراہٹ سی ہوئی کہ خاصا وقت ہو گیا ہے۔ کہیں میں مخل نہ ہو رہی ہوں۔

’’ارے نہیں تو۔‘‘ وہ خوش دلی سے بولیں۔

’’دیکھو تو کتنا اچھا لگا ہے۔ تاریخ کو دہراتے ہوئے۔ ماضی میں جاتے ہوئے۔ پرانے کرداروں پر بات کرتے ہوئے۔‘‘

میں نے مورینو سے ملاقات کا احوال سنایا۔ یہ بھی اعتراف کیا کہ نشاۃ ثانیہ (The Renaissance) کے نام سے شناسائی تو تھی۔ مگر اُس کی گہرائی سے لاعلم تھی۔ مجھ پر تو اس نشاۃ ثانیہ کی حقیقت اپنے پورے معنی سے آج کھلی ہے۔

میں خاموش ہو گئی۔ چند لمحوں بعد جیسے ملتجی سے لہجے میں بولی۔

’’اگر آج آپ کا موڈ کچھ باتیں کرنے کا ہے تو مجھے اس کے باقی ماندہ پہلوؤں یعنی اِس کے زوال سے بھی آگاہ کریں کہ عروج کیسے ہوا سُن بیٹھی ہوں۔‘‘

زیرک خاتون بولیں۔

’’ہر عروج کے نصیب میں زوال بھی لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘

کوئی صدی بھر بعد ہی زوال پذیری شروع ہو گئی۔ پہلی اینٹ پرتگال کے واسکوڈے گا ما نے ماری کی جو ہندوستان کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوا اور نیا سمندری راستہ افریقہ کے گرد دریافت کر کے اٹلی کی مشرق پر تجارتی اجارہ داری توڑنے کا باعث بنا۔

دوسرے پُرتگال، فرانس، سپین، انگلینڈ اور ہالینڈ جیسی مضبوط مرکز کے ساتھ حکومتوں نے اٹلی کو بے اثر کرنا شروع کر دیا۔ اور وہ نشاۃ ثانیہ جو اٹلی میں پیدا ہوا۔ اسے اپنی ہی جنم بھومی میں زوال آ گیا۔ اٹلی ثقافتی طور پر تو زندہ رہا مگر ابھرتی یورپی طاقتوں کے لئے ایک تر نوالہ ثابت ہوا۔

فرانس اور سپین کے اٹلی پر حملے شروع ہو گئے اور مزے کی بات کہ یہ دعوت بھی گھر کے مالکوں نے ہی دی۔ اٹلی کے مختلف لارڈز جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مرے جا رہے تھے۔ اوپر سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹوں کی مذہبی لڑائیوں کا بھی ملک گڑھ بن گیا۔

1600سے 1800تک دو صدیاں غیر ملکی لارڈز نے اِس ملک پر حکومتیں کیں کہ یہ ان کے لئیے وہ انعام تھے جو انہوں نے اٹلی کو فتح کرنے کے لئیے اپنی حکومتوں کو اپنی خدمات کی صورت دے کر حاصل کئے۔ فکرو سوچ کی دنیا تو پروٹسٹنٹ اور کیتھولک جھگڑوں میں پھنسی ہوئی تھی۔

عدالتی اور سرکاری سطح پر انسانی سوچ اور جدّت کے استحصال کی سب سے بڑی مثال گلیلیو کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

اور چھم سے جیسے مجھے بر ٹولٹ بریخت Bertolt Brecht کا ڈرامہThe life of Galileo یاد آ گیا تھا۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ بریخت کے ساتھ مجھے اپنے ملک کا وہ عظیم دانشور بابائے ٹیلی ویژن جناب اسلم اظہر اور ان کا ’’ دستک تھیٹر گروپ‘‘ یاد نہ آتے۔ آئے۔ منصور سعید بھی۔ یہ ڈرامہ میں نے اپنے بڑے بیٹے کے کہنے پر دیکھا تھا۔ کیا شاہکار چیز تھی؟ سارا ڈرامہ اس اہم مقدمے کے گرد گھومتا ہے جس کے تحت کلیسائے روم نے اُسے مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنی اِس شہرہ آفاق انقلابی سائنسی دریافت سے انحراف کر جائے۔

اسے دیکھتے ہوئے سانس کتنی بار رکی۔ بتانا مشکل ہے۔ میں نے مسز سمتھ کو یہ سب سنایا۔ وہ دکھ سے بولیں۔

’’تمہاری باتوں نے مجھے بھی کتنا کچھ یاد دلا دیا ہے۔‘‘

دل دُکھ سے بوجھل سا ہو گیا ہے۔ میں نے دیکھا تھا اُن کی آنکھیں نم سی ہو گئی تھیں۔

اِس ذکر پر مجھے جون کی وہ کسی حد تک گرم سی صبح ایک لشکارے کے ساتھ یاد آئی ہے۔ روم کے کونونٹ منروا میں کھڑا وہ خستہ حال بوڑھا جو آنے والے وقتوں میں انسانیت کے ایک عظیم سائنس دان کی صورت سامنے آنے والا تھا۔ اس وقت بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنا اُس معافی نامے پر دستخط کرتا سامنے آتا ہے جو گوتھک چرچ اور کلیسا نے اس کے خلاف بدعتی نظریے کے اظہار پر فتوی کی صورت جاری کیا تھا۔ اس نے کہا بھی کہ اس نے کب پوپ اربن ہشتم کا مذاق اڑایا ہے۔ ہاں اس کے علم اور مشاہدے نے جو اُسے بتایا اور سمجھایا ہے اُس نے تو اسی کے بارے بات کی ہے۔ زمین ساکت نہیں ہے وہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔ مشتری کے گرد گھومتے ستارے اور بے شمار ستاروں کی دریافت مقدس کتاب سے کہاں انحراف ہے؟ ایک علم ہے جس کا یہ تو اظہار ہوا ہے۔ یہ بے ادبی اور گستاخی کا ارتکاب کہاں ہے؟

کتنا بڑا انسان کیسی تنگ نظری کا شکار ہوا۔ اُس کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔ دو سوسال تک اس کی کتابوں پر پابندی لگی رہی۔ پادریوں نے اس کی کتابیں پڑھنے والوں پہ فتویٰ لگا دیا تھا کہ انہیں لافانی ارواح کی ہیبت ناک سزا ملے گی۔ گیلیلو کی کتابوں پر 1832ء میں پابندی ہٹی۔

اب اُنیسویں صدی کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ کوئی چار سال رہتے ہوں گے یہی 1796 کے لگ بھگ نپولین بونا پارٹ کرّوفر سے آیا یوں کہ اٹلی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ مار مار کر بھُرتا بنا دیا۔

تاہم یہ بھی نپولین ہی تھا کہ جس نے ایک بیج اطالویوں کے اندر بویا کہ آخر اُن میں کیا کمی ہے اگر وہ متحد ہوں تو باقی یورپ کی طرح خود حکومت کر سکتے ہیں۔

اور یہی وہ چیز تھی جو اگلے پچاس سالوں میں دھیرے دھیرے لوگوں کے دلوں دماغوں میں اترتی چلی گئی۔ اسے انہوں نے Risorgimentoکا نام دیا۔ یعنی دوبارہ اٹھنا۔ یعنی اٹلی کی عظمتوں کا احیاء۔

٭٭٭











باب 8: روم کے لئے روانگی




* لگتا تو کچھ یوں تھا جیسے خدا مجھے سیاپے اور مصیبتوں میں ڈالنے کے لئے اٹلی لایا تھا

* آصف علی زرداری سے آپ کی کیا رشتہ داری ہے؟

* سفر پر آٹھ دائرے کھینچے اور پورا روم اِن دائروں میں نمایاں ہو گیا

* سب سے پہلے کلوزیم جائیے یہی پڑھا، یہی سنا۔ مگر دل سپینش سٹیپ زکیٹس کے میوزیم جانے پر مچلا





اب ہوا کیا؟ روم جانا تھا۔ ایک تو اِس نام سے وابستہ زمانوں بھر کا رومانس اور فینٹسی، اوپر سے اپنے اکیلے ہونے کے تھوڑے بہت ڈر ڈُکر کے ساتھ اِس کے ایک بڑے شہر اور کیپٹل سٹی ہونے کا رعب و دبدبہ جان و دل کود ہلائے دے رہا تھا۔

صبح کاذب کا ڈولا ابھی ٹیرس کے سامنے والی عمارت کے بنیروں پر اُترا ہی تھا کہ آنکھیں پٹ سے کھل گئیں۔ ایک تو میں اپنی اس نور پیر کے ویلے سے جاگنے کی عادت سے ناکوں ناک آئی پڑی ہوں۔ گندی عادت۔ اور نہیں تو مقدر میں یہ ذرا دیر تک سونے کی عیاشی بھی نہیں۔

اوپر سے طرّہ اقبال فیملی بھی اسٹیشن پر مجھے چڑھانے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔ میں تو سویرے سویرے ہی نہا دھو، ایک جوڑا پرس میں گھسیڑ کر تیار شیار ہوئے بیٹھی تھی۔ چھٹیوں کی وجہ سے گاڑیاں کم ہو گئی ہیں۔ ٹرین سروس کا درمیانی وقفہ بڑھ گیا ہے۔ ان سب سے میری آگاہی تو اتنی نہ تھی۔

اقبال جب مجھے سکوٹر سے اُتار کر اسٹیشن کی پارکنگ میں اُسے لاک لگا رہا تھا۔ وہ ٹرین جو مجھے سہولت اور کوئی پندرہ منٹ کے مارجن سے گاڑی میں سوار کرا سکتی تھی ہمارے اسٹیشن چیزاتے سے رخصت ہو رہی تھی اور وہ بیوقوف مجھے بتا رہا تھا کہ ہمیں تو اِسے پکڑنا چاہیے تھا۔

’’گدھے۔ مجھے غصہ آیا۔ یہ تو تم نے بتا نا تھا۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔‘‘ حد درجہ لا پروائی کا عنصر تھا انداز میں۔

پندرہ منٹ بعد آنے والی ٹرین نے جب میلانو کو دور نو پر اُتارا۔ پونے نو بج رہے تھے اور ابھی ہمیں میٹر و پر چڑھنا تھا۔ سیڑھیاں کس تیزی سے اُتریں کہ بے اختیار ہی کہنا پڑا۔

’’یا اللہ میرے گوڈوں کی خیر۔‘‘

ٹکٹوں کو ٹرن سٹلز Turnstiles سے مس کر کے راستہ کھولنے کی بھاگ دوڑ کا منظر بھی بڑا پُر جوش سا تھا۔ ایک بار بونگے نے غلط سیڑھیاں چڑھا دیں۔ بہر حال جلد ہی احساس ہونے پر پھر دُڑکی لگائی۔ چلو یہاں Escalators نے مدد کی اور عین چنترال کے ہال میں پہنچا دیا۔ ایک دو، تین۔ اِن برقی زینوں کے بعد اقبال نے مجھے ٹرین ٹرمینل کی لابی میں دھکیل دیا یوں جیسے کہتا ہو میں تو یہاں تک لے آیا ہوں۔ گاڑی ملتی ہے یا نہیں اگے تیرے پھاگ لچھئیے۔

اُس وقت گھڑی پر نو بجنے میں ایک منٹ اور پچیس سیکنڈ تھے۔ سانسیں لوہار کی دھونکنی کی مانند پھُولتی تھیں۔ ہونٹ خشک تھے اور چہرے پر ہوائیاں اُڑتی تھیں۔

’’ یا اللہ اِن مصیبتوں کے لئے، اِن سیاپوں میں ڈالنے کے لئے تو مجھے یہاں لا یا تھا۔ ہر روز ایک نئی مصیبت۔‘‘

اب نو بجنے میں صرف ایک منٹ تھا۔ اور وہ منٹ قیامت کا تھا۔ ٹکٹ ہاتھ میں تھا اور میرے سوال کا کاسہ پھیلا ہوا تھا کہ گاڑی کونسے پلیٹ فارم پر کھڑی ہے؟ اِس نفسانفسی میں شاید اوپر والے کو ترس آ گیا تھا۔ پتہ نہیں کون تھا؟ اُس نے ایک قدم کے فاصلے پر کھڑی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔

پہلی بو گی کے پاس یونیفارم میں دو بندے کھڑے تھے۔ میں نے اُسی کے کھلے دروازے سے اوپر جانے اور اندر ہی اندر اپنے کمپارٹمنٹ میں جانے کا عندیہ دیا۔ آواز میں گھبراہٹ، لہجے میں اضطراب تھا۔ ٹکٹ ہاتھ میں تھا۔

اُس نے دسویں بو گی کی طرف اشارہ کیا۔

’’ ہائے میرے اللہ عین تیرے پچھواڑے۔‘‘

اب آؤ دیکھا نہ تاؤاُسے بازو سے پکڑا اور گھسیٹنے لگی کہ مجھے پہنچاؤ۔

بے چارہ نوجوان بے بس ہو گیا۔

’’ریلیکس ریلیکس۔‘‘ اُس نے میری حالت زار کو دیکھتے ہوئے کہا۔

مگر میں تو اڑی جا رہی تھی۔ بو گی نمبر دس کے پہلے پوڈے پر قدم رکھا ہی تھا کہ گاڑی چل پڑی۔ بیٹے کو ہوائی بوسہ دیا۔ اونچی آواز میں اُس کو دعا دی اور شکر شکر کرتی اندر آئی۔

حلق میں کانٹے چُبھ رہے تھے۔ ایک سیٹ پر ایک معمر مرد پانی کی بوتل سامنے رکھے بیٹھا تھا۔ اُس کی بوتل کو ہاتھ میں پکڑا۔ جھُک کر اُسے بتایا کہ میں بہت پیاسی ہوں۔ بُہت مشکل سے گاڑی پکڑی ہے۔ لیٹ ہو گئی تھی۔ وقت نہیں تھا کہ بوتل خریدتی۔

’’اگر یہ پانی میرے اندر نہ گیا تو یہیں پھُڑک کر مر جاؤں گی۔‘‘

در اصل تیسری دنیا سے تھی نا۔ جن کی وقت کے معاملے میں ڈنڈیاں مارنے کی عادت ہے۔

وہ ہونقوں کی طرح مجھے دیکھتا تھا اور میں زور سے ڈھکن کھول بوتل سے گھٹ گھٹ پانی پی رہی تھی۔ عجیب ڈھٹائی تھی میری۔ پر کیا کرتی۔ مرنا تو نہیں تھا مجھے۔

کمبختوں کی گاڑیاں کیسی ہیں؟ کم از کم اندر ڈائننگ کاریں ہونی چاہئیں۔ ہاکرز کے دو تین چکر لگنے چاہئیں۔ چائے کافی ملنی چاہیے۔

چلو واپس جا کر اٹلی کی وزارت سیاحت کو چِٹھی لکھوں گی کہ بس آپ کے ہاں یہ کمی نظر آئی ہے اگر آپ اس پر غور کریں تو میرے جیسی بہتوں کا بھلا ہو گا اور کوئی بے چاری پھڑک کر مرنے سے بچ جائے گی۔

لاہور ائیر پورٹ پر میلان آنے والی ایک خاتون سے جو اٹلی میں بیس سال سے رہ رہی تھی ملاقات ہوئی تھی جس نے اپنے میلان سے روم کے لئے ایک سفر کی روئیداد سُنائی تھی۔ راستے کے حُسن و خوبصورتی کے جو اُس نے گڈے باندھے تھے۔ میں نے انہیں سانس روک کر سنا تھا اور آج سفر کرتے ہوئے اُس کی باتیں میرے کانوں میں گونجتی تھیں۔ روم کے قریب پہنچنے تک مجھے تو اِس راستے میں قابل ذکر اور قابل دید بس اِس کی پستہ قامت پہاڑیوں اور ڈھلانوں کے سوا کچھ اور اگر نظر آیا تھا۔

تو وہ ہرے بھرے جنگلات کا سلسلہ تھا جو آنکھوں کو طراوت اور تازگی کے ساتھ ساتھ خوشی وسرشاری سے بھی نہال کرتا تھا۔

میں سوچنے پر مجبور تھی کہ آخراُس عورت کو اِس درجہ گڈے باندھنے کی ضرورت کیا تھی کہ میری آنکھیں کھڑکی کے شیشوں سے ہی چپکیں رہیں۔ بہت سوچنے پر مجھے تو ایک ہی وجہ سمجھ آئی کہ گجرات کی وہ عورت نو عمری میں اپنے گھر سے نکلی اور میلان آ گئی۔ اُس نے دنیا تو کیا اپنے ملک کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ اگر شمالی علاقہ جات کا حسن دیکھ لیتی تو غش کھا کر گر پڑتی۔

میرے موبائل کی بیل نے متوجہ کیا تھا۔ نثار احمد میلان پی آئی اے آفس کا کوئی کارندہ جسے اسماء نے مجھے وصول کرنے اور ہوٹل پہچانے کی تاکید کی تھی بات کرتا تھا۔ میں نے ممکنہ وقت کا بتایا۔

روم کا مضافات شروع ہو رہا تھا اور میں صرف یہی بات ایک تسلسل سے سوچے چلے جا رہی تھی کہ کتنی تمنا تھی اِس عظیم الشان، سفاک اور اندھی طاقت کے مظہر شہر کو دیکھنے کی۔ یورپین تہذیب کا ایک شوکیس جس کے قدیم ترین ورثے حیران کرنے والے ہیں اور ماڈرن سانچے اِسے توانائی سے مالا مال کرتے ہیں۔

گاڑی کی رفتار کم ہوتے ہوتے رُک گئی۔ اسٹیشن لابیاں ٹرین ٹریکوں کے لیول سے روم میں بھی جڑی ہوئی تھیں۔ مجھے یہ سسٹم بہت اچھا لگا تھا۔

میں انسانوں کے اِس روانی سے بہتے ہجوم میں نثار احمد کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ناکامی پر نمبر ملایا۔ پتہ چلا کہ وہ وہیں کہیں موجود تھا۔ چلو دو تین منٹ میں ہی اُسنے مجھے ڈھونڈ لیا۔ شلوار قمیض کے ہوتے ہوئے بھلا پہچان کی کیا دشواری تھی۔

اُس نے میرے ہاتھ میں پکڑی میری ننھی مُنی سی بقچی پکڑی اور میں اُس کے ساتھ باہر آ گئی۔ سڑک پر آنے کے ساتھ اُس کا پہلا سوال آصف علی زرداری سے میری رشتہ داری کس نوعیت کی ہے؟ کے متعلق جاننے کا تھا۔ چلتے چلتے رُک کر میں نے ہونقوں کی طرح اُسے دیکھا اور خود سے کہا۔

’’ ارے یہ اُس نے کیا پوچھا ہے؟ مجھ غریبڑی کا کیا واسطہ ناطہ اُس کھرب پتی سے۔‘‘

دفعتاً جیسے برق سی کوند جائے۔ یقیناً اسماء نے اپنے عملے کو میرے سلسلے میں مرعوب کرنے کیلئے کوئی بڑ ماری ہو گی۔ پھر ایک خیال نے بھی مجھ سے پوچھا۔ پی آئی اے میں زرداری کے شیئرز ہیں؟ یقیناً ہوں گے۔ اگر ظاہراً نہ ہوں تو اندر خانے ہوں گے۔ بڑے لوگوں کے طور طریقوں اور ہتھکنڈوں کو ہم جیسے بھلا کیا سمجھیں؟

بہرحال میں نے ہوشیاری سے کام لیا اور بات نبھا دی کہ اچھے تعلقات ہیں۔ میرا خیال ہے نثار احمد بڑا کائیاں قسم کا آدمی تھا۔ سمجھ گیا تھا۔ بولا کچھ نہیں۔ پر چہرے نے اندر کے سمجھنے کو بوتھے پر سجا لیا تھا۔

میں نے بھی ’’بھاڑ میں جائے جو مرضی سمجھے‘‘ کہتے ہوئے بڑی چاہت سے اپنے گرد و پیش کو دیکھا۔ شاندار عمارتیں، خوبصورت سڑکیں۔ ابھی پچاس قدم چلی ہوں گی کہ پہلے وہ ایک جانب مڑا۔ Fiammaہوٹل کا پوچھا اُنہوں نے دوسری جانب کا راستہ دکھایا۔

لیجیے ایک خوبصورت چار منزلہ عمارت کے سامنے کھڑی ہو کر میں نے اطمینان اور سرور سے اِسے دیکھا۔ عمارت کے خودکار دروازے کھلے اور میں نے اندر داخل ہو کر پسندیدہ نظریں اپنے گرد و پیش پر ڈالیں۔

ایک ہوٹل کوجیسا نظر آنا چاہیے تھاویسا ہی میرے سامنے تھا۔ ریسپشن پر ساری کاروائی بھگتائی۔ 55 یورو کے حساب سے سنگل بیڈ والا کمرہ تین دنوں کی بُکنگ۔

میں نے نثار احمد کو وہیں سے بصد اصرار ٹوکرے بھر شکریے کے ساتھ واپس بھجوانا چاہا۔ مگر وہ مجھے کمرے میں پہچانے پر مُصر تھا۔

’’چلو بیبا کر لو اپنا شوق پورا۔ مائی کو ایک جوڑے اور واش روم کی چپل کے بوجھ سے لدے شاپر کو اُٹھانے کی زحمت سے بچا کر ثواب کما نا ہے تو بھئی کماؤ۔‘‘

کمرہ اچھا تھا۔ نثار احمد نے واپسی ٹکٹ خریدنے کی پیشکش کی جسے میں نے شکرے کے ساتھ یہ کہتے ہوئے ردّ کر دیا کہ میرے موڈ کا کچھ پتہ نہیں۔ روم سے محبت نے زیادہ اچھل کود کی تو ایک آدھ دن مزید ٹھہر سکتی ہوں۔ مگر حقیقتاً ایسا نہ تھا۔ یونہی مجھے خیال آیا تھا۔ اسے پیسے دے کر میں کسی مصیبت میں ہی نہ پھنس جاؤں۔ کون اسماء کو چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے پریشان کرے کہ دو قدم پر تو اسٹیشن ہے۔ جب جی چاہا لے آؤں گی۔

جانے سے قبل اُس نے ایک بار پھر زرداری سے میرے تعلق کی نوعیت جاننا چاہی۔ منہ پھٹ عورت ہوں۔ زیادہ دیر ملّمع سازی نہیں کر سکتی۔ اب بھئی اسماء بُرا مانتی ہے تو مانے میں کیا کروں۔

’’ارے میرے بچے ہمارا کیا تعلق اِن اونچی جاتی کے لوگوں سے۔ ہاں مگر چھوڑو اِس بات سے کیا لینا دینا۔ تم نے جو یہ مہربانی کی اُس نے مجھے پندرہ منٹ میں یہاں پہنچا دیا۔ تمہاری عدم موجودگی میں یہی مرحلہ آدھ گھنٹے میں ذرا خجل خواری سے طے کر لیتی۔ اس لئے تمہارا بہت بہت شکریہ۔ جیتے رہو۔‘‘

مگر اُسے خدا حافظ اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے سے قبل میں نے یہ جاننا ضروری سمجھا کہ اِس وقت جب ایک بجنے والا ہے مجھے کن چیزوں کو دیکھنا چاہیے؟

میری اِس بات پر وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور اُس نے کاغذ قلم مانگا۔

پہلی بات کہ آپ روم کی سیر کے لئے رومہ پاس لیں۔ یہ آپ کو تین دنوں کے لئے ٹرانسپورٹ اور اہم جگہوں پر ٹکٹ کے لئے لائنوں میں لگنے اور ٹکٹ کے خرچ سے بچائے گا۔ بیس یورو کا یہ ٹکٹ آپ کو ٹرین اسٹیشن جہاں سے ابھی آپ آئی ہیں سے مل جائے گا۔

اسٹیشن تو اتنا بڑا ہے۔ میں نے بات کاٹی۔ ’’ارے بھئی نیوز سٹینڈوالے بیچتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی کتابوں، رسائل اور اخبارات کا اسٹال نظر آئے۔ اُن کے پاس چلی جائیے۔ برو شر اور نقشے بھی مل جائیں گے وہیں سے۔‘‘

روم ایسا شہر ہے جس کی شما ل، جنوب، مشرق، مغرب ہر سمت تاریخی اثاثوں سے بھری پڑی ہے۔ اُس نے میرے دیئے ہوئے پین سے میری کاپی جو میں نے کھول کر اُس کے سامنے رکھی تھی پر آٹھ دائرے بنائے۔

کاپی کے داہنے ہاتھ چھوٹا سا دائرہ کھینچتے ہوئے واضح کیا کہ یہ اسٹیشن ہے۔ اِس کے قریب ہی نیچرل میوزیم ہے۔ اوپر ایک بڑا سا دائرہ اور بنا۔ وہاں بورگیزBorghese Gallery اور ذرا نیچے سٹیشن اس کے بعد Spanish Steps دکھاتے ہوئے کہا کہ دونوں جگہیں خوبصورت اور تاریخی حوالوں سے اہم ہیں۔ انگریزی کا وہ شاعر جو بڑی رومانی نظمیں لکھتا تھا اور جوانی میں مر گیا تھا۔ وہ یہیں ساتھ ہی عمارت میں مرا تھا وہاں اُس کا میوزیم ہے۔

’’اوہو تم کیٹس کی بات کر رہے ہو۔‘‘

میراسارا اشتیاق میرے چہرے پر اُمنڈ آیا تھا۔ اُدھر ہی Pizza Del Popoloاور شاپنگ مارکیٹ ہے۔ آگے ویٹی کن سٹی ہے مغربی جانب۔ شمال مغربی سمت ویٹی کن کا دائرہ کھینچ گیا تھا اور ساتھ ہی تھوڑی سی وضاحت کہ میوزیم کا دیکھنے سے تعلق ہے۔ رومن کیتھولک کی ساری تاریخ مجسم ہے وہاں۔

اُسی طرف ایک لکیر دریا کی کھینچی اور بتایا کہ یہ Tiber River ہے۔ اب دریا کے اندر کی جانب ایک اور دائرہ کھینچا گیا کہ یہ Pantheom Neighbourhood ہے۔ میں تو اِسے روم کا دل کہتا ہوں۔

نثار احمد نے کاپی پر سے نگاہیں اٹھائیں۔ میری طرف دیکھا اور بولا۔

’’ بہت لوگوں کا یہی کہنا ہے ہاں البتہ جب آپ اُسے دیکھ لیں گی تو شاید آپ بھی یہی کہیں۔‘‘

اب مرکز میں ایک دائرہ کھینچا۔ یہ پرانا روم ہے۔ یہیں Colosseumہے۔ یہیں رومنوں کی تاریخ ہے۔ عین نیچے اور مغربی جانب ذرا اونچائی پر دو دائرے اور بنائے گئے۔ نیچے والے میں اُس نے Testaccio اور دریائے Tiber کے پارTastevere لکھے۔

پھر قلم مجھے تھماتے ہوئے وہ اُٹھا اور اُس نے کہا اگر آپ نے اِن سب کو دیکھ لیا تو سمجھ لیں کہ آپ نے تھوڑا بہت روم دیکھ لیا۔

میں نے کاپی پر نظریں ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ’’ تم روم میں کب سے ہو؟ بڑے ماہر لگتے ہو۔ تمہارا علم اور معلومات بہت متاثر کن ہیں۔ اِس انداز میں گائیڈ لائنیں یہ تو بڑی ٹیکنیکل اپروچ ہے۔

اُس کا لہجہ نارمل تو تھا مگر اس میں کوفت اور بیزارگی کا عنصر بھی تھا۔ دس سال سے ہوں۔ پی آئی اے کے بڑے لوگوں، اُن کے رشتہ داروں اور اُن کے واقف کاروں کا خادم اعلیٰ ہوں۔ کوئی بڑی اور با اثر شخصیت جب بھی آتی ہے تو انہیں لئے لئے پھرنا اور اُن کے لئے ہر سہولت بہم پہچانا میرا فرض منصبی ہے۔

اُسے رخصت کرنے کے بعد میں بستر پر لیٹ گئی۔ تنہائی، آرام دہ بیڈ، روم شہر میں خود کی موجودگی کا سرور، سب دل خوش کن تھے۔

پورے آدھ گھنے بعد مجھے احساس ہوا میں تو بہت بھُوکی ہوں۔ منہ ہاتھ دھویا۔ کنگھی پٹی، تھوڑی سی لبوں کی لالی سے صورت کو گوارا کرنے کی کوشش ہوئی۔ دروازہ لاک کرنے کے بعد اُن بھول بھلیوں سے احسن طریقے سے نکلنے اور لفٹ تک پہنچنے کی کامیابی نے دل شاد کیا۔ چابی کاؤنٹر پر دیتے ہوئے خود سے کہا۔

’’بات ہوئی نا۔‘‘ وینس یاد آیا تھا۔

ہوٹل سے نکلی تو ساتھ ہی جنرل سٹور نظر پڑا۔ لیجیے بنگالی لڑکوں سے متھا ٹکرایا۔ اب یہاں اپنی بنگلہ دیشی محبت کی ساری روئیداد پھر محبتوں کے شیرے میں گوندھ کر سنائی۔ لڑکوں نے محبت تو دکھائی۔ مگر کاروباری ذہنیت کا بھی اظہار ہوا۔ دودھ اور پانی کی بوتلیں بسکٹ، کیلے، آڑو اور سیب لئے۔

تو کمرے میں آ کر میں نے دودھ کی ایک بوتل اور پانی کی دو بوتلیں پئیں۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر دو کیلے کھائے۔ سیب کھایا۔ آڑو دھو کر شاپر میں لپیٹ کر دو عدد کیلوں کے ساتھ بیگ میں رکھے کہ تھکن کی صورت میں توانائی بحال رکھنے کا موثر بندوبست ہو۔

اسٹیشن پر کتابوں کی دکان کھوج کی۔ ایک ملی تو وہاں سے رومہ پاس نہیں ملا۔ میں نے لعنت بھیجی۔ سڑک پر ایک چھوٹی سی دکان سے نقشے کا پوچھا۔ نقشہ ملا۔ رومہ پاس بارے دریافت کیا۔ جواب نفی میں تھا۔ ہاں البتہ ہوپ آن اور آف کے ٹکٹ دستیاب تھے۔

اب جب آدھا دن گزر چکا تھا اس کے لینے کا فائدہ۔ اس پروگرام کو تو کل کیلئے رکھا جائے۔ نقشہ کھولا۔ لمبا چوڑا سا۔ اب جس جس موٹی سرخی پر نظر دوڑاتی ہوں وہ خیر سے مجھ سے بھی زیادہ اتنی گھمن گھیریوں میں اُلجھی ہوئی نظر آتی ہے۔ دریا بڑا کلیئر تھا۔ کولو سیئم Colosseum کا پتہ چلتا تھا۔ اب جو غور کیا تو ماتھے پر ہاتھ مارنا پڑا کہ سارے کا سارا اطالوی زبان میں تھا۔ لکھے موسیٰ تے پڑھے خدا والا معاملہ تھا۔

اور کچھ سمجھ نہ آیا تو سڑکوں پر مٹر گشت شروع کر دی۔ معلوم ہوا کہ روڈ کی ہر تیسری چوتھی دکان کسی بنگالی کی ہے یا وہ وہاں ملازم ہے یا مالک ہے۔

’’واہ بھئی واہ۔ بنگالیوں نے تو بڑے جھنڈے گاڑے ہیں۔ انہی چکر بازیوں میں ایک دکان میں بیٹھ گئی کہ مستفیض الرحمن نے بیٹھنے کو کرسی دی تھی۔ اُسے انگریزی چھوڑ اُردو بھی بہت اچھی آتی تھی۔

سعودی عرب میں پندرہ سال گزارنے والا عربی اور انگریزی بولنے پر بھی قادر تھا۔ بڑا وسیع المطالعہ شخص تھا۔ عرصہ دس سال سے اٹلی میں تھا۔ سخت محنت اور جد و جہد کرنے والا۔‘‘

روم کے بارے بات کرنے پر بولا۔

’’بھئی میرے لئیے تو روم یورپ کا اہم ترین اور بہت بڑا شہر ہے۔ لندن اور پیرس جیسا۔ صدیوں کی تاریخ کو کلیجے سے لگانے اور سنبھالنے والا۔ کوئی دو صدیاں پہلے لفظ "روم"اپنے معنی و مفہوم میں تہذیب و تمدّن کا کھلا اظہار تھا۔ اس کی ہر چیز خواہ اس کا تعلق رومن ایمپائر سے ہو یا لاطینی اور یونانی زبانوں سے یا غیر لاطینی وحشی و غیر مہذب لوگوں سے۔ مگر آج کی دنیا میں "روم"کا مفہوم قطعی طور پر نئے معنی لئیے ہوئے ہے۔ اٹلی کا سیاسی دارالخلافہ، کیتھولک مذہب کا مرکز اور قدیم دنیا کی باقیات جسے ایک طرح نظرانداز کر دیا تھا مگر یہ اپنی جدے دیت کے ساتھ ساتھ اُس عہد اور اس کی اُس خوشبو کو بھی زندہ کرتا ہے۔

تو اب گائیڈ کریں کہ ڈھائی بج رہے ہیں کِس طرف نکلوں؟

اس وقت دکان پر کوئی اکّا دکّا گاہک آتے تھے۔ یہ سونئیرز، فوٹو مشین، انٹرنیٹ کی دکان تھی۔ پرانا روم سب سے پہلے دیکھئیے۔ قدیم زمانوں میں تو یہ عالیشان اور حد درجہ خوبصورت عمارتوں کا ایسا شہر تھا جسمیں کوئی ایک ملین لوگ رہتے ہیں۔ مگر آج کے تناظر میں یہ کلاسیکل نظاروں کا شہر ہے تو پہلے کلوزیمColosseum جائیے۔

مگر اب سچی بات یہی ہے کہ طبیعت نہ تو کلوزیم جانے پر مائل ہوئی اور نہ ویٹی کن کیلئے۔ گو دونوں جگہوں کا اشتیاق کچھ کم نہ تھا۔ مگر یہاں دل کا معاملہ تھا اور دل تو Spanish Stepsجانے اور کیٹس کے اُس عارضی ٹھکانے کو دیکھنے کیلئے ہی ہُمکا اور مچلا تھا۔

٭٭٭









باب9: پانیوں پر لکھے ہوئے نام والا جان کیٹس۔۔ کیٹس شیلے میوزیم




* کیٹس، شیلے اور بائرن کو میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ پڑھا اور ان کی محبت میں گرفتار ہوئی۔

* جوزف سیورن جیساپرستار بھی کہیں مقدر والوں کو نصیب ہوتا ہے۔

* فینی براؤن سے اُسے محبت نہیں عشق تھا۔

* ستارے جیسا بننے کی تمنا اور لا فانی ہونے کی خواہش۔

ہ



یہ بتانا مشکل نہیں کہ سات سمندر پار والے اُس خوبصورت موٹی آنکھوں، کھڑی ناک اور گھنگریالے رومانوی کلاسیکل شاعر کیٹس سے میرا عشق کب شروع ہوا؟ بلکہ اس میں اگر تھوڑا سا اضافہ کروں تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اِس دوڑ میں اس کے دوست شیلے اور بائرن بھی شامل تھے۔ گوکیٹس ہمیشہ میری کمزوری رہا۔ تاہم شیلے بھی کم نہیں۔ ہاں البتہ اِس رومینٹک تکون نما مثلث کا تیسرا سرا لارڈ بائرن کہیں تھوڑا سا پیچھے ہے۔

سچی بات ہے اِس تفصیل کے ساتھ میں نے کہاں پڑھنا تھا انہیں اگر میری بیٹی انگریزی ادب میں ماسٹرز نہ کرتی اور کنیئرڈ کالج میں لٹریچر کی مس کوثر شیخ اُس کی استاد اِن شاعروں کی عاشق صادق نہ ہوتی۔ اُن کے عشق میں ڈوبے اس کے طویل لکچر اور آئے دن کی آسائنمنٹوں نے بیٹی کے ساتھ ساتھ اُس کی ماں کو بھی پڑھنے ڈال دیا تھا۔

اسلامیات اور تاریخ جیسے مضامین کے ساتھ بی اے اور ایم اے کرنے والی ماں کو احساس ہو گیا تھا کہ انگریزی ادب سے شناسائی اُردو ادب میں اپنا قد کاٹھ بڑھانے کیلئے کتنی ضروری ہے؟ اسی لئیے چور نالوں پنڈ کاہلی کے مصداق بیٹی طالب علم سے زیادہ ماں اُستاد ریفرنس بُکس کیلئے بھاگی بھاگی پھرتی تھی۔

مطالعے نے اُن کی زندگیوں کے ایک ایک گوشے سے شناسائی کروا دی تھی۔ دل کی مسند پر البتہ دو نے تو قبضہ کر لیا تھا۔ ساری ہمدردیاں اور محبتیں سمیٹ لی تھیں۔ جان کیٹس اور پرسی Percy Bysshe Shelleyدونوں جوانا مرگ۔ ایک تپ دق سے اور دوسرا ڈوب کر۔

روم اور یہیں وہ سپینش سٹیپز والا گھر جہاں کیٹس نے اپنی بیماری کے دن کاٹے اور ختم ہوا۔ شیلے بھی اٹلی میں ہی ڈوب کر مرا۔ دونوں دفن بھی روم کے پروٹسنٹ قبرستان میں ہیں۔ ایک کی ہڈیاں اور دوسرے کی راکھ۔ پر کیٹس کی محرومیوں پر دل زیادہ کڑھتا تھا کہ "حسرت اُن غنچوں پر ہے جو بن کھِلے مرجھا گئے۔ "تتّے کے نصیب میں کچھ بھی نہ تھا۔ محبوبہ کا پیار بھی نہیں کہ وہ بھی کم بخت بڑی دنیا دار اور بے وفا نکلی۔

تو روم پہنچ کر دل کا وہاں جانے کیلئے مچلنا اور ہمکنا سمجھ آتا ہے کہ عاشقوں کی زیارت گاہ ہے۔

راہنمائی کیلئے راہگیر ہی دستیاب تھے۔ تندرست و توانا سے لوگ جنہوں نے سپینش سٹپز بارے یوں ہاتھ ہلا کر گلیوں گلیوں سے جانے کا بتایا کہ جیسے یہ گلی کٹی اور اُس گلی کا موڑ مڑوں گی تو محبوب کے درآستانے کا دیدار ہو جائے گا۔ ہاں البتہ ایک معقول سے بندے نے سمجھایا کہ میٹرو سے جائیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔

’’ہائے ربّا اِس میٹرو کے سیاپے نے جان نہیں چھوڑنی۔‘‘

بہرحال نیچے اُتری۔ چیختی چنگھاڑتی دنیا میں داخل ہوئی۔ زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ بڑی مہربان سی عورت نے ہاتھ تھام لیا تھا۔ تیسرے اسٹیشن پر اترنے کی تاکید تھی۔ چلئیے یہ معرکہ سر ہوا۔

سپگناSpagnaمیٹرو اسٹیشن کے بل سے باہر نکلی تو خوشگوار مسرت بھری حیرت آنکھوں میں پھیل کر ہونٹوں پر بکھر گئی تھی۔ اتنا خوبصورت ماحول سامنے تھا کہ جی خوش ہو گیا۔

تھوڑا سا چلنے پر ہی میں spagnaپیازہ سکوائر میں کھڑی اپنے چاروں طرف پھیلی رنگ رنگیلی دنیا دیکھتی تھی۔ موتی اڑاتے Bernin's فوارے کے تعمیری حُسن نے سحر زدہ کرتے ہوئے کھڑا کر دیا تھا۔

’’بھلا اس کا نام "بدصورت کشتی والا"فوارہ کیوں رکھا گیا تھا۔ یہ تو بڑی انفرادیت والا ہے۔‘‘ سوال جواب خود سے ہوئے تھے۔ شاہوں کے مزاج اگر موڈی اور متلون ہوتے ہیں تو مذہبی راہنماؤں کا حال بھی کچھ اُن سے کم نہیں ہے۔ پوپ اربن ہشتم کی خواہش پر اس کی تعمیر ہی ایسی ہوئی تھی کہ دریائے ٹبرTiber کے ایک سیلاب میں بہتی ایک بد رنگی بے ڈھبی سی کشتی یہاں آ گئی تھی اور پوپ اس سے بہت متاثر ہوا تھا۔

ذرا سی نگاہیں اوپر اٹھیں۔ کیا نظارہ تھا۔ کشادہ سیڑھیوں کا ایک پھیلاؤ اپنے نُقطہ عروج پر خم کھاتے ہوئے ایک اور دل ربا سے منظر کا راستہ کھولتا تھا۔ ایک Obelisk ٹرینٹا مونٹی چرچ کے دو باروق سٹائل ٹاوروں کے سامنے بڑی آن بان سے کھڑی منظر کو عین درمیان سے کاٹتی تھی۔

چرچ در اصل فرانس والوں کا ہے۔ اللہ کی مخلوق اپنے من موہنے رنگوں کے ساتھ سارے میں بکھری ہوئی تھی۔ کہیں فوارے کے گرد پیلیں ڈالتی، کہیں بینچوں کی لمبی قطاروں پر بیٹھی، کہیں سیڑھیوں پر ایک دوسرے کی بغلوں میں گھُسی، کہیں سیڑھیاں چڑھتی، کہیں اوپر سے نیچے اترتی، کہیں کیمروں سے کھیلتی اور کہیں بوس و کنار کے مزے لوٹتی۔ اتنے رنگوں کی افراط تھی کہ انہیں دیکھتے رہنا بھی ایک دلچسپ شغل تھا۔

یہ علاقہ تب انگلش گیتو Ghetto کہلاتا تھا کہ آرٹ سیکھنے کیلئے برطانیہ سے بہت سے آنے والے لوگ اسی علاقے میں رہتے تھے۔ روم تو یوں بھی مذہبی، تاریخی اور آرٹ کے حوالوں سے ایک خصوصی اہمیت کا حامل شہر کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ Eternal سٹی(ابدیت ) کا نام اسی لئیے تو اِسے دیا گیا ہے۔ شیلے اور بائرن بھی یہاں بہت آتے تھے۔

بہت سی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد رُک گئی ہوں۔ سستانا ضروری تھا۔ نظروں کو نظاروں کی تپش سے سیکنا اہم تھا۔ دل کو رجھانا لُبھانا بھی تو تھا۔ اور جب یہ سارے کام کر بیٹھی تو اب خود سے پوچھتی ہوں۔ مجھے جانا کہاں ہے؟ کیٹس کے میوزیم میں یا چرچ میں۔ ایک طرف خدا اور دوسری طرف اُس کا دلبر سا بندہ۔

’’ارے بھئی Trinita Monti چرچ کو کیا دیکھنا۔ اللہ کے گھر تو کم و بیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اُس دلبر کے پاس چلتی ہوں جس کے لفظوں سے محبت کے سامنے رومن بادشاہوں کا جاہ و جلال، اُن کی تاریخ اور ان کی عظمتوں کی داستانیں سب بے معنی ہو گئی تھیں کہ بنگالی لڑکے مستفیض الرحمن نے کلوزیم Colosseumبارے پل بھر میں گڈے باندھ دئیے تھے۔ پر میرا من چلا دل مائل ہی نہیں ہوا تھا۔

تو میں چار منزلہ عمارت جو کہیں 1725 میں بنائی گئی تھی اور اس وقت کیٹس شیلے ہاؤس کے نام سے روم کی ایک اہم قابلِ دید جگہ ہے۔ اس کی دوسری منزل پر کیٹس میوزیم جانے کیلئے اٹھ جاتی ہوں۔ سیڑھیوں پر بیٹھ کر دل کا رانجھا تو راضی کر لیا تھا۔

اس کے نام کے ساتھ شیلے کے نام والا بڑا سا بورڈ عمارت کی پیشانی پر جگمگاتا ہے۔ کلاسیکل ڈیزائن کی کھڑکیاں بند ہیں۔ عمارت کے باہر سکوائر کا سارا منظر ہی بے حد خوبصورت اور موہ لینے والا ہے۔ اندر جانے کیلئے لمبی قطار ہے جسمیں شامل ہو جاتی ہوں۔ مجھ سے آگے کھڑی لڑکی نما عورت بڑی ہنس مکھ سی ہے۔ کینیڈا سے شوہر، نند اور بچوں کے ساتھ آئی ہے۔ اور میری طرح سب سے پہلے یہیں آئی ہے۔

26کا ہندسہ پلیٹ پر چمکتا دُور سے نظر آتا ہے۔ ایک چھوٹے سے دروازے کی گزرگاہ سے اندر داخلہ ہوتا ہے۔ اس کی دل کو بھگونے والی نظم قدموں کے ساتھ ساتھ چلنے لگی ہے۔ ہلکی سی نمی بھی آنکھوں میں اُتر رہی ہے۔

خوف و خدشات کے سائے جب مجھے گھیر لیں

اس سے پہلے کہ

میرا قلم میرے دماغ کی معذوری کا احاطہ کرے

اور کتابوں کے ڈھیر اور اُن کے اندر کی خوبصورتیاں

مجھے گرفت میں لے لیں

اس بھرے غلّے کی کوٹھڑی کی طرح

جو پکے اناج سے بھری ہوتی ہے

جب میں رات کے چہرے کو دیکھتا ہوں

جیسے ایک دلکش رومانس کے دبیز بادل ہوں

سوچتا ہوں کہ میں تو شاید

زندگی کے اِس رخ کو دیکھنے کے لئے زندہ ہی نہ رہوں

ان کے سائے اتفاق کے جادوئی ہاتھ کے ساتھ

جب میں محسوس کروں

صرف ایک گھنٹے کی خوبصورت تخلیق

اور میں اسے اس سے زیادہ نہ دیکھ سکوں

کبھی نہ منعکس ہونے والا پیار

تب ساحلوں پر

اس وسیع و عریض دنیا میں

میں اکیلا کھڑا ہوں اورسوچتا ہوں

محبت اور شہرت سب بیکار ہیں

پس مر جاؤ

اِدھر اُدھر جانے کی بجائے سب سے پہلے اُس کے اُس کمرے میں جانے کی خواہش مند ہوں جہاں اُسنے آخری سانسیں لیں۔ پانچ یورو کا ٹکٹ۔ Attendant لڑکیاں بڑی خوبصورت اور ہونٹوں پر شہد جیسی مسکراہٹ بکھیرے ہوئے ہیں۔

ایک قابل فہم ہیجان کی سی کیفیت طاری ہے کہ کبھی روم آنے اور اس زیارت گاہ کو دیکھنے کی خوش بختی کا تو کہیں تصور ہی نہ تھا۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے راہنمائی کر دی ہے۔ مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ میری دائیں بائیں کسی طرف کوئی توجہ نہیں۔ رک گئی ہوں۔ سانس کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ سامنے وہ کمرہ ہے۔ جس پر پیتل کی بڑی سی پلیٹ پر لکھا ہوا پڑھنے لگتی ہوں۔

In this room,

on the 23rd of February 1821

Died John Keats

آنسووں کو پلکوں سے نیچے نہ اُترنے میں تھوڑی سی نہیں بہت کوشش کرنی پڑی ہے کہ رُک کر گردن کو پیچھے لے گئی تھی۔

یہ کمرہ اس کے زمانے میں دو حصّوں میں منقسم تھا۔ ایک مالک مکان اینا Angelettiکے تصرف میں اور بقیہ حصّہ جس کا چہرہ میدان کی طرف تھا کیٹس اور جوزف سیورن کے پاس تھا۔

میں نے مارگریٹ(نگران) سے چند لمحوں کیلئے کمرے میں ٹھہرنے کی اجازت لی ہے۔ وہ کمرہ جہاں وہ چھبیس سالہ خوبصورت آنکھوں، چہرے اور خوبصورت دماغ والا شخص موت کے ہاتھوں کی ظالم گرفت میں جکڑتا چلا گیا تھا۔ شیشوں سے پار سکوائر میں زندگی کتنی خوش و خرم، ہنستے، مسکراتے، قہقہے لگاتے نظر آ رہی ہے۔

میری تیسری آنکھ کھل گئی تھی جس نے ماہ نومبر کے کِسی چمکتے خوشگوار سے دن کو سکوائر میں بھاگتی بگھیوں اور اُن میں جُتے گھوڑوں کے سموں کی ٹھپ ٹھپ اُسے سُناتے اور شیشوں میں سے زندگی کو آج ہی کی طرح رواں دواں دکھاتے ہوئے یقیناً اُسے اپنی صحت کے حوالے سے ایک نوید دی ہو گی۔ میٹھی سی اِس نوید نے پل بھر میں گنگناتے خوابوں کو اس کی آنکھوں میں بیدار کر دیا ہو گا۔ وہ خواب جنہیں وہ جوان ہونے کے بعد سے دیکھتا چلا آیا تھا۔

مارگریٹ نے مجھے بتایا ہے کہ منظروں کی یکسانیت میں تب اور آج کے حوالوں سے کچھ زیادہ فرق نہیں۔ میں نے دیکھا تھا۔ بگھیاں تو اس وقت بھی سکوائر میں بعینہٖ اُن دنوں کی طرح بھاگتی دوڑتی پھر رہی تھیں۔

اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے سمجھدار اور ذہین لوگ اپنے تاریخی ورثوں اور اُن مخصوص روایات کو اسی ماحول سے ہم آہنگ کرتے ہوئے وقت کی چال کو اسی روپ میں نہلاتے ہوئے لوگوں کو مسرت و سرشاری سے نوازتے ہیں۔ اب میں مقابلہ "من و تو"میں کہاں کہاں کھپتی اور اپنا خون جلاتی۔

کمرہ اس وقت کتنا چمکتا دمکتا ہے۔ کھڑکی کے پردے کھینچے ہوئے ہیں۔ ڈیتھ ماسک سامنے دیوار پر آویزاں ہے۔ ساتھ ہی چھوٹا سا شوکیس سجا ہے۔ ذرا فاصلے پر ایک بڑا شوکیس اور درمیان میں آتش دان ہے۔ تب یہ کمرہ یقیناً ایسا شاندار تو نہ تھا۔ عام سی دیواروں، چھت اور کھڑکی والا تھا۔

گلاب کے پھول بکتے دیکھ کروہ بہت خوش ہوتا تھا۔ پھول تو آج بھی ہیں۔ یہ ہاتھوں میں ہاتھ دئیے جوڑے اُس وقت بھی تھے جب نومبر کی سنہری اُترتی شاموں میں وہ اپنے اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اُتر کر سیر کیلئے بورگیز باغ Borghese جاتا۔ تب نیلے آسمان پر پرندوں کی اڑانیں دیکھتے ہوئے کبھی اس کا دل غم سے بھر جاتا اور کبھی امید اُسے خواب دکھانے لگتی۔

تصور کی آنکھ کھل گئی ہے اور منظر کِسی نازنین کی نشیلی آنکھ کے خمار سے بھر گیا ہے۔ میٹھی آواز کا جادو چاروں اور پھیل گیا ہے۔ ’’A thing of Beauty‘‘ میرے لبوں پر آ گئی ہے۔ دنیا بھرمیں حسن و خوبصورتی کے حوالے سے ایک مثالی محاورہ بننے والا یہ مصرع A thing of Beauty is a joy for ever اُسی شاعر کا ہی ہے۔ جو لافانی ہونے کی تمنا رکھتا تھا۔

حُسن ہمیشہ رہنے والی ایک خوشی ہے

اس کی خوبصورتی بڑھتی رہتی ہے

یہ کبھی فنا نہیں ہوتی

ہمیشہ اپنے وجود کو قائم رکھتی ہے

جیسے یہ ہمارے لئے پھولوں کا کوئی پر سکون کنج ہو

یا نیند جو میٹھے خوابوں سے بھری ہو

جس میں تندرستی یا صحت اور خوشگوار

سانسوں کی مہک ہو

ایسے شعر کہنے والا میٹھے خوابوں کا مژدہ سنانے، صحت کا پیغام دینے اور مہکتے سانسوں کی روانی رواں رکھنے والا غموں کی بھٹی میں کیوں کر گر پڑا۔

اُسے فینی یاد آتی تھی جو لندن میں تھی۔ اس کی یاد اس کی آنکھیں بھگو دیتی۔ اُس کی محبت، منگنی اور پھر اس کی بیماری کا جان کر التفات بھرے اظہار میں اس کی بے رُخی اور بے نیازی جیسے رویّے۔

مجھے بھی فینی یاد آئی تھی۔ بہت سی یادوں نے گھیراؤ کر لیا تھا۔

فینی ہمسائی تھی اس کی۔ بیوہ ماں کی پہلوٹھی کی اولاد۔ سترہ اٹھارہ سالہ مٹیار اور تیئیس 23چوبیس24سال کے جذباتی سے جوشیلے لڑکے کا پیار ہمارے وقتوں کے گلی کوچوں جیسا۔ سانجھی دیواروں سے تاکا جھانکی، چٹوں کی پھینکا پھینکائی اور چھوٹے بہن بھائیوں یا کزنوں کے ہاتھوں چوری چھپے خطوط کا تبادلہ۔ منگنی بھی کروا لی تھی۔ پر یار دوستوں کا کہنا تھا کہ یہ خوبصورت لڑکی ناقابل اعتبار ہے۔ مگر اس کا دل تھا کہ بے طرح لٹو تھا۔ ہر دوسرے دن لمبا چوڑا خط لکھنا ضروری ہوتا۔ ہر تیسرے دن محبت کی تجدید چاہتا۔

میری پیاری فینی کیا میں امید کروں تمہارا دل کبھی نہیں بدلے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے پیار کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ دیکھو مجھے کبھی مذاق میں بھی دھمکی نہ دینا۔

ایک اور خط میں لکھتا ہے میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ آدمی مذہب کیلئے مرتے ہیں تو شہید کہلاتے ہیں۔ میں تو سچی بات ہے اِس خیال اور نظرئیے پر ہی تھرّا اٹھتا ہوں۔ میرا مذہب محبت ہے۔ میں صرف اس کے لئیے مرسکتا ہوں۔ میں تمہارے لئیے جان دے سکتا ہوں۔

ایک اور خط دیکھئیے۔ محبت اور چاہت میں بھیگا ہوا۔ دنیا میں کیا کوئی چیز اتنی خوبصورت، چمک دار اور من موہنے والی ہے جتنی تم ہو۔

Bright Starیادداشتوں سے نکل کر لبوں پر آ گئی ہے۔



روشن ستارے



روشن ستارے کاش میں آرٹ کی طرح امر ہو جاتا

میں بھی فطرت کے کسی رسیا کی طرح

جاگتے رہنے والے کسی رشی منی کی طرح

رات کے خوبصورت جلووں میں کبھی اکیلا تو نہ ہوتا

اس ابدی حسن کو آنکھیں کھول کھول کر دیکھتا

دھرتی کے انسانی ساحلوں کے گرد

رواں پانیوں سے وضو تو کسی پادری کا ہی کام ہے

کیسی خوبصورت شاہکار نظم۔ ابدی چمکنے والے ستارے جیسا بننے کی تمنا۔ لافانی ہونے کی خواہش۔ اپنی محبت اور چاہت کا دل آویز اظہار۔

اس نے اپنے جنون، اپنی وارفتگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی محبوبہ کے ساتھ ابدیت کی ایسی خواہش کی جسے وقت اور حالات کبھی تبدیل نہیں کرتے۔ اُس روشن ستارے کی طرح جو اپنی جگہ پر ہمیشہ ساکت رہتا ہے۔ وہ تنہائی سے خائف اس کی محبت اور رفاقت کیلئے بے قرار اور اس کے بغیر مر جانے کا خواہش مند۔ ستارے زمین اور پانیوں کے تشبیہاتی استعاروں والی یہ نظم اعلیٰ شاعرانہ ذوق کی حامل جسے پڑھتے ہوئے ہم ماں بیٹی نے لطف اٹھایا تھا۔

موت سے ایک سال قبل مئی 1820کا خط ذرا دیکھئیے۔

تم کتنی خودغرض ہو، کتنی ظالم ہو۔ مجھے خوش رہنے نہیں دیتی ہو۔ میرے لئیے تمہاری محبت کی استقامت کے سوا کسی چیز کی اہمیت نہیں۔ تمہیں فلرٹ کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ مسٹر براؤن سے بھی یہی سلسلہ ہے۔ کیا کبھی تمہارے دل نے میرے بارے میں ذرا سا بھی سوچا ہے۔ مسٹر براؤن اچھا آدمی ہے مگر وہ مجھے انچ انچ موت کی طرف لے جا رہا ہے۔

اس کے مہکتے خواب بکھر گئے۔ دہکتا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن رہا تھا۔ اس کے سانسوں کی ڈوری کتنی جلدی ٹوٹ گئی۔

بیماری تو وراثت میں ملی تھی کہ ماں اور بھائی ٹوم دونوں اسی سے مرے تھے۔

مجھے 1816میں لکھی جانے والی اس کی پہلی First looking into Chapman's Homerاور دیگر"ode to a nightingale"اور "ode on a Grecian" دونوں یاد آئی تھیں۔

اس نے سارے سفر بڑی سرعت سے طے کئے تھے۔ صرف چھ سال کا مختصرسا وقت۔ جس میں حیران کن حد تک ہر دل عزیزی سمیٹی۔ شاعری، محبت، منگنی، بیماری اور موت۔ پہلے مجموعے Chapman's Hamer نے لوگوں کی توجہ کھینچی۔ مگر ساتھ ہی نک چڑھے نقاد اسے تباہ کرنے پر بھی تُل گئے تھے۔ 1818 میں اس کی ambitious زیادہ بہتر رہی۔ یہاں اُسے ہنٹ، ولیم اور بینجمن ہائیڈن نے بہت سراہا۔

1819اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین زمانہ تھا۔

وہ فینی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ Bright Star اور The Eve of St Angles جیسی شاہکار نظمیں تخلیق ہوئیں۔

میری نظریں بے اختیار اُس بیڈ پر جم گئی ہیں۔ نہیں جانتی ہوں کہ اس کی ترتیب اُس وقت بھی یہی تھی جو اب ہے کہ آخری دنوں میں وہ زیادہ تر اپنے بیڈ پر ہی رہنے لگا تھا۔ یہی کھڑکی جو اس وقت میرے سامنے ہے اس کی دلچسپی اور دنیا سے ربط کا واحد ذریعہ رہ گئی تھی۔ اسی سے وہ سسپنش سٹیپز اور برنینز Berninsکشتی کو دیکھتا۔ آسمان، موسم، لوگ، درخت اور زندگی کے کچھ رنگ اسی سے اُسے نظر آتے تھے۔

منظر کسی فلم کے سین کی طرح بدل گیا تھا۔ سکوائر میں فروری کے آخری دنوں کی صُبح کتنی دھُند اور سردی میں لپٹی ہوئی تھی۔ درختوں کی چوٹیوں پر دھرنا مارے بیٹھی برف دنوں پہلے ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرتی رہی تھی۔ سارے ماحول پر اُداسی اور تھکن کے سائے لرزاں تھے۔

کمرے میں کھڑے جوزف Severn نے اپنی تھکن کی لالی سے لبریز آنکھوں کو باہر سے اٹھا کر اندر پھینکا ہے۔ چار راتوں سے جاگتا اُس کا جسم اسوقت پھوڑے کی طرح درد کر رہا ہے۔ کمرے کی فضا میں کسی نحوست کے سائے سے بکھرے نظر آتے ہیں۔ دوسرے بیڈ پر گٹھڑی سی بنی ہڈیوں کی مٹھ میں سے ایک دل خراش سی آواز گندی مندی سی منحوس دیواروں سے ٹکراتی کمرے میں بکھرتی ہے۔

’’سیورن‘‘(Severn)

سیورن فوراً سے پیشتر اُس گٹھڑی کو کلاوے میں بھر لیتا ہے۔

’’سیورن میں مر رہا ہوں۔ میرا سر اوپر کر دو۔ ڈر کیوں رہے ہو؟ سیورن ذرا سا اور اوپر کرو نا۔‘‘

چھبیس سالہ جوزف سیورن Severn یادداشتوں میں ابھر آیا ہے۔ یہ سنہری گھنگھریالے بالوں، خوبصورت خد و خال والا دلکش نوجوان آرٹسٹ بہت دن گزرے شاعر کی محبت میں گرفتار ہوا تھا۔ اُن محفلوں میں اُس کا جانا اور شاعر کیلئے محبت کے جذبات رکھنے کی پذیرائی نہ شاعر کی طرف سے ہوئی اور نہ اس کے دوستوں نے اُسے قابل توجہ گردانا۔ مگر وہ اس کے ایک خاموش پرستار کی صورت اُن محفلوں میں جاتا رہا جہاں شاعر اپنا کلام سُناتا تھا۔

سیورن اپنے فن کے مزید نکھار کیلئے روم جانے اور آرٹ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بڑا خواہشمند تھا۔ موقع ملا تو اس کی تکمیل کیلئے روم چلا آیا۔ محبت اور عقیدت رکھنے والے نے تو کبھی شاعر کی نجی زندگی میں جھانکا ہی نہ تھا کہ اُسے دُکھ کون کون سے ہیں؟

وہ حیران رہ گیا تھا جب اُسے خط ملا۔ کیٹس بیمار تھا۔ اُسے تپ دق تھی۔ ڈاکٹروں نے اُسے روم جانے اور وہاں رہنے کا مشورہ دیا تھا کہ یہاں کی آب و ہوا اُس کیلئے صحت کی پیامبر بن سکتی ہے۔ وگرنہ لندن کی سردی اُسے مار دے گی۔ اُسے شاعر کیلئے روم میں گھر لینے اور اُسے ایٹینڈ کرنے کی درخواست تھی۔

اور یہ سیورن تھا اور یہی وہ گھر تھا جہاں وہ اُسے لے کر آیا اور اُس کی نرس بنا۔

اُسے لانے اور اس کی خدمت گیری کرنے میں اس کی فیملی کے بہت سے لوگوں کی مخالفت تھی۔ سب سے بڑا مخالف تو باپ تھا جسنے بھّناتے ہوئے اُسے کہا تھا۔

’’تم پیشہ ور آدمی ہو۔ سیکھنے کیلئے روم گئے ہو۔ کیسے اُسے وقت دو گے؟ اپنا نقصان کر کے اور سب سے بڑی بات وہ بیمار ہے۔ چھوت کی یہ بیماری تمہیں لگ گئی تو کیا بنے گا؟ باز آؤ اس سے۔ مگر اُسنے نہ کچھ سُنا اور نہ کچھ سوچا۔

چار ماہ کا یہ وقت اگر کیٹس کیلئے تجربات اور دوستوں رشتوں کی پہچان کا تھا کہ کون سے ایسے کڑے وقت اس کے ساتھ کھڑے تھے اور کون سے کان منہ لپیٹ کر روپوش ہو گئے تھے۔ تو یہ بھی قابل ذکر بات تھی کہ سیورن اپنی شخصیت کی بھرپور خوبیوں کے ساتھ اُبھر کر اس کے سامنے آیا تھا۔ یہی سیورن جسے کیٹس نے کبھی اہمیت ہی نہ دی تھی۔

پہلی بار وہ اُس کے قریب ہوا۔ دل کے قریب اور جانا کہ فینی براؤن Browneسے علیحدگی کے غم نے کیسے کیٹس کو غموں کے پاتال میں پھینک دیا تھا۔

وہ کبھی کبھی اُس سے کہتا تو جب میں ٹھیک تھا، تندرست تھا وہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔ اور جب میں بیمار ہوا اُس کی محبت کہاں گئی؟

کچھ باتیں پھر یادوں میں اُبھری ہیں۔ اپنے کِسی خط میں سیورنSevernجوزف نے لکھا تھا۔ ابھی ابھی وہ سویا ہے۔ میرے لئیے ہر دن اُسے نمک کی طرح گھُلتے دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہے؟ شاید اگلے ماہ بہت بُری خبر کے ساتھ طلوع ہو۔ جب میں اُسے لے کر چلا تھا تو مجھے اس کی صحت یابی کا یقین تھا۔ مگر اب؟

ہاں پیسے بھی ختم ہو گئے ہیں۔ آخری چند کراؤن ہی رہ گئے ہیں۔ بل واپس آ گیا ہے۔ بیکر نے چیزیں دینے سے انکار کر دیا ہے۔ میرے لئیے باہر نکلنا اور دو گھنٹے کیلئے پینٹنگ سے کچھ کمانا نا ممکن ہو گیا ہے کہ اُسے میری چند لمحوں کی دوری بھی برداشت نہیں۔ کِس امید کا پلّہ اُسے پکڑاؤں۔ یہ بہت اذیت میں ہے۔ اس کا خدا پر یقین اور ایمان تو پہلے ہی نہیں تھا۔ چلو عقیدے کی مضبوطی اور توانائی بھی کہیں تکلیف کی شدت میں کمی کا باعث بن جاتی ہے۔ اگر کچھ کہتا ہوں تو لعن طعن سنتا ہوں۔ اب مجھے تو سمجھ نہیں آتی ہے کہ میں کیسے اس کے زخموں پر پھاہا رکھوں۔ اور ہاں دیکھو نا زندگی کا کوئی فلسفہ، مذہب کی کوئی تھیوری کِسی نہ کِسی حوالے سے مُطمئن کرنا اور مُطمئن ہونا بھی کتنا ضروری ہے؟

آنکھیں پھر کہیں وقت کی ٹنل میں گھُس کر ایک اور منظر سامنے لے آئی ہیں۔ نڈھال سا ایک جسم۔ ایک کمزور شکستہ سی آواز کمرے کے سناٹے میں ذرا سا شور کرتی ہے۔

’’میرا دل اس وقت کیفے Greco میں کافی پینے کو چاہ رہا ہے۔ چلو وایا ڈی کون ڈوٹیVia dei condotti چلتے ہیں۔‘‘

سیورن نے جنوری کی اِس یخ بستہ شام میں اُسے دھیرے دھیرے سیڑھیاں اُترنے میں مدد دی۔ یہ بھی محسوس کیا کہ اُس کی صحت بہتر ہونے کی بجائے زیادہ خراب ہو رہی ہے۔ کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ پیتے ہوئے اُس نے کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

’’جانتے ہو شیلے اور بائرن جب بھی روم آئے اسی کیفے میں کافی پینے آتے ہیں۔ سیورن شیلے بھی کیا کمال کا شاعر ہے۔‘‘

اور جب وہ بائرن اور شیلے کے ساتھ اپنی محبتوں کا ذکر کرتا تھا۔ اُس نے بہت سے اور اپنے گہرے دوستوں کے نام لینے سے گریز کیا تھا۔ اب ہانٹ کی بیوی کو تپ دق ہے۔ اس کے ڈھیرسارے بچے ہیں اور اس پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ اُس نے اپنے خوبصورت سر کو مایوسی سے ’’ہونہہ‘‘ کے سے انداز میں ہلایا تھا۔ بچنے اور جان چھڑانے کے کتنے خوبصورت بہانے ہیں۔ لیکن یہی تو وہ کڑا مقام ہے جہاں پرکھ کی کسوٹی پر رشتے اور تعلقات پہچانے جاتے ہیں۔

اٹھنے سے قبل اسنے کہا تھا۔

’’Leigh Hunt کی یاد نے مجھے مضطرب کر دیا ہے۔ مگرسیورن تمہیں تو میں جان ہی نہ سکا کہ تم کتنے عظیم ہو۔‘‘

اس کی آنکھیں احساس جذبات نے بھگو دی تھیں۔

کیفے ہاؤس کا پرانا بوڑھا اب Saxo phone بجا رہا تھا اور وہ دھیمے دھیمے When I have fears کو گنگنانے لگا تھا۔

When I have fears that I may cease to be

Before my pen has glean'd my teeming brain

اُس کی صحت دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ کتنا بدمزاج اور چڑچڑا ہوتا جا رہا ہے۔ گالیاں نکالتا ہے۔ ہر بات کو شک و شبے کی نظرسے دیکھتا ہے۔

ابھی ایک نئے منظر نے دروازہ کھولا ہے کمرے میں شور ہے۔ کیٹس ہاتھوں میں پکڑے تکیے کو کبھی بیڈ کی پائنتی، کبھی اس کے سرہانے اور کبھی کمزور ٹانگوں پر مارتے ہوئے اپنے حلق اور پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے چلاتے ہوئے کہتا ہے۔

’’تمہیں کیا تکلیف ہے آخر۔ میرے لئے عذاب بن گئے ہو۔

مرنے دو مجھے۔ لوڈونم Laudanumکی شیشی تم نے کہاں چھُپا دی ہے؟ ذلیل انسان کیوں نہیں دیتے ہو مجھے۔ کیا کرنا ہے مجھے زندہ رہ کر۔‘‘

اُس کا سانس اکھڑنے لگا ہے۔ بلغم حلق سے جیسے اُبلنے لگی ہے۔ سیورن نے فوراً بڑھ کر اُسے کلاوے میں بھر کر اس کا سرجھکاتے ہوئے کہا ہے۔

’’پھینکو اسے، نکالو اندر سے۔‘‘

اس کے بازوؤں میں نڈھال سا وہ پھر ضدی بچے کی طرح کہتا ہے۔

’’ مرنے دو مجھے۔‘‘

اور پھر وہ کسی کٹی شاخ کی طرح اس کے بازوؤں میں جھولنے لگا ہے۔ اس نے دھیرے سے اُسے لٹا دیا ہے۔ سانس کیسے چل رہا ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ چہرہ پسینے سے تر ہے۔ سیورن اس کے بیڈ پر بیٹھا اس کے چہرے پر نگاہیں جمائے سوچے چلے جا رہا ہے۔ سوچے چلا جا رہا ہے۔

بہت سے اور دن گزر گئے ہیں۔ ہر دن اُسے موت کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایسی ہی ایک غم زدہ اور المناک صبح میں وہ سیورن کو ہیجانی انداز میں کہتا ہے۔

’’مجھے تھام لو۔ ڈرو نہیں۔ دیکھو موت مجھے لینے کے لئے آ گئی ہے۔ میرے جسم کی پور پور میں درد ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سانس جیسے میری پسلیوں میں ٹھہر گیا ہے۔ میرے اندر شاید اب کچھ نہیں۔ خون کا قطرہ بھی نہیں۔

شیشوں سے باہر کی دُنیا میں کتنی چہل پہل ہے؟ کتنے رنگ کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں اندر کتنا سناٹا اور کتنی خاموشی ہے؟

کچھ اور دن گزر گئے ہیں۔ موسم نے تھوڑی سی انگڑائی لی ہے۔ لنڈ منڈ درختوں پر سرسبز روئیدگی پھوٹ رہی ہے۔ سیورن بے چین اور مضطرب ہے۔ اُسے محسوس ہوتا ہے جیسے اُس کا سانس کہیں اٹکا ہوا ہے۔ بس کسی لمحے کا منتظر ہے۔ اور یہ لمحہ بالاخرتئیس (23) فروری کی شب کو جب سیورن نے اُسے اپنے کلاوے میں بھر کر چھاتی سے چمٹا یا تو معلوم بھی نہ ہوا کہ کب اُس کے اندر سے کوئی چیز نکلی اور پھُر سے بند کھڑکیوں کی کسی چھوٹی سی درز سے باہر نکل گئی۔

خوبصورت کمروں کے ایک پھیلے ہوئے سلسلے میں گھُستے ہوئے بے اختیار ہی میں نے سوچا تھا تھا کہ زندگی میں جن چیزوں کیلئے بندہ سِسکتا ہوا مر جاتا ہے۔ موت بعض اوقات کتنی فیاضی سے وہ سب کچھ اُسے دان کر دیتی ہے۔ یہ سب جو یہاں بکھرا ہوا ہے اس کے لافانی ہونے کی خواہش کا عکاس ہی تو ہے۔

یہ سیورن کا کمرہ ہے۔ اُن تصویروں کے پاس کھڑی ہوں جو کیٹس کے بھائیوں کے پوٹریٹ ہیں اور جنہیں سیورن نے بنائے۔ فینی براؤن کے پوٹریٹ کو بہت دیر دیکھا ہی نہیں اُس سے باتیں بھی کیں۔

’’کبھی تم نے اپنے مقدر پر رشک کیا۔ تم عام سے گھر کی عام سی لڑکی جسے شاعر کی محبت نے کتنا خاص بنا دیا کہ انجانی سرزمینوں اور دوردیسوں کی لڑکیاں اور عورتیں شاعر کو پڑھنے والے مرد اور لڑکے تم سے محبت اور نفرت کے ساتھ ساتھ تم پر رشک بھی کرتے ہیں۔

Leigh Huntاور ولیم ورڈز ورتھ کے پوٹریٹ۔ کیٹس کا لائف ماسک اور اس کی نظموں کے پہلے ایڈیشن یہاں ہیں۔

بڑے کمرے میں کرسیاں، تصویریں، خوبصورت فرش، چھت کو چھوتی الماریاں، دنیا بھر کے رومانی لٹریچر کے خزانوں سے بھری ہوئیں۔ نادر اور نایاب چیزوں سے سجی ہوئیں۔ چھوٹا سا دروازہ ساتھ کے کمرے میں کھلتا ہے۔ شوکیسوں میں اس کے سکرپٹ، فریم کئیے ہوئے خطوط، ڈرائینگز کیٹس کی مدح میں ایک سونیٹ، اس کے سنہری بال، فینی کی انگوٹھی، آ سکروائلڈ کی تحریر، والٹ وٹمین Walt Whitman کی ذاتی لکھائی میں لکھا گیا مضمون۔ ماسک جیسے بائرن نے venetian carnival پر پہنا۔ الزبتھ Barrettکا تعریفی خط اور خوبصورت سینریاں سب ماحول کو اُس مخصوص فضا میں لے جاتے ہیں۔ مجسمے اور دیدہ زیب فرنیچر شان میں مزید اضافے کا موجب ہیں۔

اِسے میوزیم بنا دینے کی داستان بھی بڑی عجیب ہے۔

وہ کمرے جن میں کیٹس اور سیورن رہے تھے اُن میں 1903میں امریکی لکھاریوں کا ایک جوڑا ماں بیٹا جمینر وال کوٹ Walcott یہاں ٹھہرے اور انہوں نے یہاں کافی وقت گزارا۔ دونوں کو بڑا تجسّس تھا۔ کمروں کی حالت ناگفتہ بہہ تھی۔ خاتون اسے خریدنا اور ایک یادگار کے طور پر محفوظ کرنے کی حد درجہ خواہش مند تھی۔ جذبے بڑے طاقتور تھے مگر پیسہ پاس نہیں تھا۔

انہی دنوں ایک امریکی شاعر رابرٹ انڈروڈ جانسن نے اسے دیکھا اس کی ابتر حالت نے اسے بہت متاثر کیا۔ روم میں رہنے والے بہت سے امریکیوں کو اس نے آواز دی۔ ان کاوشوں نے برطانوی ڈپلومیٹ رینل روڈ(Rennell Rodd) کی توجہ کھینچی۔ اُس نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ جس نے گھر خریدنے اور اس ادبی ورثے کو محفوظ کرنے کی حکومتی سطح پر کاوشیں کی تھیں۔

1906میں اسے ایڈورڈ ہفتم کی مالی اعانت سے خریدا گیا۔

دوسری جنگ عظیم میں بھی اسے نازیوں کے ہاتھوں محفوظ کرنے کی حد درجہ کوششیں ہوئیں۔

چھوٹے سے سینما گھر میں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر ڈاکومنٹری دیکھی۔ گفٹ شاپ میں کتابوں کی قیمتوں کا جائزہ لیا۔ میرے حساب سے مہنگی تھیں۔ تین دن میں نے روم میں رہنا تھا۔ کتابوں کی دکانوں پر جانا بھی ضروری تھا تو جلدی کا ہے کی ہے۔ خود سے کہا گیا۔

دونوں لڑکیوں کو رخصت ہونے سے قبل خدا حافظ کہا۔ اُن کی یہ بات کتنی اچھی لگی تھی۔

یہاں آنے والے کچھ لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ کہاں آئے ہیں۔ مگر کچھ لوگ جب یہاں سے رُخصت ہوتے ہیں۔ تب جانتے ہیں کہ وہ کہاں آئے تھے۔

اس کی قبر پر کیا عمدہ لکھا ہوا ہے۔ مارگریٹ نے ہی بتایا تھا۔

یہاں وہ شخص لیٹا ہوا ہے۔ جس کا نام پانیوں پر لکھا ہوا ہے۔

کاش وہ اپنی چھوٹی سی عمر میں جان سکتا کہ صدی کی اگلی نصف دہائیاں اُس کے لئے بے پناہ شہرت لے کر آنے والی ہیں۔

اور وہ وقت بھی آنے والا ہے جب وہ سب سے زیادہ پسندیدہ اور کوڈ کرنے والا شاعر بن جائے گا۔

٭٭٭









باب10: کلو زویم۔ آرچ آف کونسٹنٹائن، پیلاٹن ہل اور مسٹر اُفیذی سے ملنا




* روم کی بلند و بالا عمارات کی پیشانیوں پر روم کی عظمتوں کی کہانیوں کی ما تھا پٹیاں سجی ہیں۔ ایک ابدیت والا شہر۔

* مذہبی انتہا پسندی کی جنونیت اگر قبل مسیح تھیں تو بعد مسیح بھی ویسی ہی جارحانہ تھیں۔

* آج کے ماڈرن امریکہ کا تشّدد کے لئے ذوق و شوق اور محبت بھی ماضی کے رومن شاہوں جیسی ہی ہے۔

* رومی سلطنت کی عمر ایک ہزار سال۔ پانچ سو سال عروج اگلے پانچ سو سال زوال کے۔



صبح کا ناشتہ بڑا بھرپور تھا۔ دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ بڑے ہوٹلوں کے بین الاقوامی قاعدے کُلیوں سے واقف ہونے کے باوجود وینس والا تجربہ بڑا عجیب سا تھا۔ شاید اسی لئیے شہر کے مرکز اور ایک مناسب ہوٹل ہونے کے باوجود میرے اندر گومگو والی کیفیت تیار ہونے تک رہی۔

پتہ نہیں ناشتہ ملے گا کہ نہیں۔ ہوٹل تو خاصا بڑا ہے۔ سوچتے ہوئے یونہی پوچھ بیٹھی۔

’’بریک فاسٹ۔‘‘

راہداریوں میں بھاگتے دوڑتے ویٹروں میں سے ایک نے ہاتھ کے اشارے سے ایک طرف جانے کی راہنمائی کی۔

لیجیے باچھیں کھِل گئیں۔ ناشتے کا بازار سجا پڑا تھا۔ وینس والی تلخی پر بھی پھوار سی برس گئی۔ تاہم احتیاط اور باریک بینی کا عنصر میزوں پر سجی اشیاء کے جائزے میں بڑا محتاط اور چوکس سا رہا۔ ہاں البتہ دودھ، دہی اور جوس کے معاملے میں حالات معمول کے انصاف سے بھی بڑھ کر تھے۔ بسم اللہ کے ہتھیار کو نفسیاتی حربے کے طور پر ساتھ رکھا۔ چور نظروں سے سروس کرتی عورتوں پر بھی کڑی نظریں رکھیں کہ کہیں اُن کی نظروں میں نہ آؤں کہ ایک دوسرے سے کہتی پھریں۔

’’ہیں بڑی پیٹو ہے۔ چار بندوں کا دودھ دہی ڈپ گئی ہے۔ ناں بھئی ناں۔ ابھی رہنا ہے مجھے یہاں۔‘‘

زیادہ لمبے چوڑے چکروں میں نہیں پڑی۔ سڑک پر آتے ہی سیدھی اُسی دکان پر گئی جس کے بارے کل پتہ چلا تھا کہ "ہوپ آن ہوپ آف" کا ٹکٹ اِدھر سے مل جائے گا۔ بنگالی سیلز میں نے سبز رنگ کی ایک اور بس سروس کا کہا جس کا ٹکٹ اٹھارہ یورو کا تھا۔

’’ارے نہ بھائی اسی سُرخ والی کا دو مجھے۔ دو یورو کو بچا کر کیا کرنے ہیں۔ اتنی مشکل سے تواِس پبلک بس کمپنی کے بس سٹاپوں کا مخصوص ڈیزائن کھوپڑے میں آیا ہے۔ بسوں کی پہچان ہوئی ہے۔ اب نئے سیاپوں میں پڑوں دو ٹکے بچانے کیلئے۔‘‘

تو بس کہاں سے ملے گی؟ وہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔

دو قدم پر بس سٹاپ تھا۔ صبح نو بجے بس نے یہاں سے روانہ ہونا تھا اور شام چھ بجے یہیں اُتارنا تھا۔ سڑک کی ایک کراسنگ کے بعد ریلوے اسٹیشن سے ذرا ادھر جائے مطلوبہ تھی جہاں بس کے ساتھ ساتھ لوگ بھی کھڑے تھے۔ میں نے موبائل پر ٹائم چیک کیا۔ نو بجنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔

پہلے میں نے سوچا اوپر کی منزل پر جاتی ہوں۔ نظاروں کی لوٹ مار میں آسانی رہے گی اور مزہ بھی آئے گا۔ پھر دھوپ کا سوچ کر ارادہ بدل دیا۔ روم اِن دنوں بہت گرم تھا۔ یوں بھی سیڑھیاں اُترنے چڑھنے سے پرہیز ہی رہے تو اچھا ہے۔

خوبصورت سیاہی مائل سڑکوں کی سورج کی روپہلی روشنی میں چمک دمک اور کناروں پر گہرے سبز درختوں کی ہریالی۔ بھئی کیا بات تھی اِس حسین امتزاج کی۔ شاندار گاڑیوں، بسوں، سیاحوں کے پُروں کا ان شاہراہوں پر چلنے کے انداز اور اُن میں چھلکتے کہیں کہیں متانت، اتراہٹ اور کہیں چُلبلے رنگ دیکھ کر مزہ آتا تھا۔ اس پر طرّہ بلند و بالا عمارات کا وسیع و عریض پھیلاؤ جن کی پیشانیوں پر روم کی عظمتوں کی کہانیوں کے سلسلوں کی ما تھا پٹیاں سجی ہیں۔

کل شام مسز سمتھ کے پاس تھی۔ خوش تھیں کہ روم جا رہی ہوں۔ A Roman Holidayاور بن حرBen-Hur جیسی شہرہ آفاق فلمیں میں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کے دوران دیکھی تھیں۔ اُس کا تاثر ابھی تک تھا۔ مسز سمتھ نے رات لفظوں سے جو تصویریں بنائیں انہوں نے ساری رات اسی فسوں میں رکھا تھا۔

کیا بات تھی اس قوم کی جس کی سلطنت کا دائرہ سکاٹ لینڈ سے لے کر مصر شام اور میسو پو ٹیمیا (موجودہ عراق) تک پھیلا ہوا تھا۔ ہوا کے جھونکوں میں عظمت رفتہ کی خوشبو تھی جو چہرے سے ٹکراتے ہی اس کی لطافت سے آشنا کرتی تھی۔

پانچ سو قبل مسیح اور پانچ سو بعد مسیح کا یہ شہر جو جمہوریت کا علمبردار تھا تو بادشاہت کو پروان چڑھانے کا سہرا بھی اسی کے سر سجا تھا۔ بربری لوگوں کا ایک چھوٹا سا قبیلہ جو تاریخ میں امر ہو گیا۔ اسی قبیلے نے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیادیں رکھیں اور پھر کیسے آہستہ آہستہ سکڑتے ہوئے ایک شہر کے حجم میں قید بھی ہوا۔ اِس عروج و زوال کی بڑی دلچسپ داستانیں اس کی پشت پر بکھری ہوئی ہیں۔

پہلے پانچ سو سالوں میں جب روم کی فوجوں نے پورے اٹلی کے جزیرہ نما اور اس سے بھی پرے کے علاقے اپنی حکمرانی میں شامل کئیے تب روم ایک جمہوریت تھی جس کے حکمران اس کے منتخب سینیٹرز ہوتے۔

اگلا پانچ سو سال کا دور اس کے دنیا میں پھیلاؤ اور زوال کا تھا۔ روم تب ایک سلطنت اور حکمران فوجی ڈکٹیٹر تھے۔

جولیس سیزر کی یاد آئی تھی۔ اقتدار اور جاہ و حشمت کا خواہش مند حکمران جس نے جمہوریت اور بادشاہت کے درمیان ایک پل کی طرح کام کیا۔ بڑی کرشماتی شخصیت کا مالک۔ اس ایک پر کیا۔ اُس وقت کے بیش تر جرنیل ایسی ہی دیومالائی اور طلسماتی شخصیتوں کے مالک تھے۔ سُلاsulla، کریسس Crassus پومپئی pompey۔

جولیس سیزر تو خیر زمانوں اور صدیوں بعد پیدا ہونے والا دیدہ ور قسم کا انسان جس کی جُملہ خوبیوں میں ایک مصر کی ملکہ قلوپطرہ کا عاشق اور دوسرے The Gallie Wars کا مصنف ہونا بھی تھا۔ تو یہی وہ تھا جس نے رومن آئین کو معطل کر کے آمر کا تمغہ سینے پر سجا لیا تھا۔ اپنے چار سالہ دور اقتدار میں یہ آمریت اِس درجہ جارحانہ ہو گئی کہ سینیٹرز اِس فکر میں مبتلا ہو گئے کہ کوئی دن جاتا ہے جب وہ بادشاہت کا تاج سر پر رکھ لے گا۔

تو یہ مارچ ہی کے دن تھے۔ خوبصورت، چمکدار اور شگوفوں کے پھوٹنے کے۔ جب اُن سب سینٹیرز نے اُسے پار لگانے کا منصوبہ بنایا۔ حملے میں وہ بھی شامل تھا، وہ یعنی جولیس کا گہرا دوست ہی نہیں اس کا پروردہ آگسٹس۔

ارے اس بارے بھی کتنی روایتیں، حکایتیں، کتنے افسانے ہیں۔ سیزرکا ناجائز بچہ بھی انہی قیافوں کی فہرست میں شامل ہے۔

پس تو انہی سینیٹرزکی باہم سازشوں نے جلد ہی تختہ دار پر لٹکا دیا۔

اقتدار پھر اس کے متبنیٰ بیٹے آگسٹس نے سنبھالا۔ جولیس تو دنیا سے چلا گیا۔ اب اللہ بھلا کرے شیکسپیئر کا کہ اُس کے جانے کو بھی امر بنا دیا۔ وگرنہ تو تاریخ جانے والوں سے بھری پڑی ہے۔ تو جو تصویر شیکسپیئر نے کھینچی ہے اُسے بھی ایک نظر دیکھ لیں۔

تو وہ تیزی سے پلٹا۔ وہ یعنی جولیس اور اس نے دیکھا۔ اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کو، اپنے بد خواہوں پر بھی نظر ڈالی مگر وہ پتھر ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ جانے کیسے اس کی زبان سے نکلا۔

’’بروٹس تم بھی۔‘‘

اب یہ بھی اللہ جانے یا شیکسپیئر جانے کہ ایسا کچھ کہا بھی گیا تھا یا سارا شاخسانہ اس کے قلم کا ہے؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس کے نام کا دوسرا حصّہ نام نہ رہا رومن سلطنت کا ٹائیٹل بن گیا۔

یہ آگسٹس کا زمانہ تھا جب روم اپنی بلندیوں کو چھُو رہا تھا۔ سکاٹ لینڈ سے مصر اور تُرکی سے مراکش تک۔

اور کلوزویم Colosseum آ گیا تھا۔

گاڑی نے سڑک کے کنارے اُتار دیا۔ دھوپ تیز اور بے حد چمک دار تھی۔ بجری بچھے راستے پر فوراً سپرس کے درخت کے نیچے رُک کر مسرت و تشکر سے لبریز نگاہوں سے گرد و پیش کو دیکھا۔ ذرا دور اُترائی میں پُر ہیبت گول محرابی سلسلے والی 2000سالہ پرانی عمارت جو رومن انجینئیرنگ کی کلاسیکل مثال ہے وقت اور موسموں کے ہاتھوں بظاہر شکست خوردہ مگر انتہائی قابل توجہ تمکنت سے کھڑی تھی۔

تھوڑا سا آگے چلنے پر دو رویہ سپرس کے درختوں سے سجی سڑک پر آ گئی۔ دائیں بائیں لوگوں کے پُرے چلتے تھے۔ اردگرد کے بکھرے منظروں سے لُطف اٹھاتے کونسٹنٹائن محراب کے پاس رکنا پڑا۔

رنگا رنگ لوگ اور رنگا رنگ زبانیں محراب کے گردا گرد وسیع پختہ میدان میں بکھری ہوئی تھیں۔ یہ بھی کیا شاہکار چیز ہے۔ چہار جانب آرٹ کے نمونوں کی کندہ کاری سے گتھی اور ہر نمونے میں تاریخ کی یاد اپنے چہرے پر سجائے۔ سہولت کیلئے لمبے چوڑے تذکرے کی بجائے مختصراً اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اُس اہم واقعے کی نمائندہ ہے جس نے عیسائیت کی تاریخ کو نیا موڑ دیا۔

شہنشاہ کونسٹنٹنConstantineنے جب اپنے حریف میکسنٹسMaxentiusکو ملوئین برجMilvian Bridge کی لڑائی میں شکست دی۔ اُس رات اُس نے آسمان پر کراس دیکھا تھا۔ وہ تو عیسائیت کا جانی دشمن تھا۔ گو ماں اور بہن عیسائی تھیں۔ بس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ یہودیت کو کہیں دفع دور کرتے ہوئے عیسائیت کی گود میں یوں گرا کہ ساری مغربی دنیا کو اِس رنگ میں رنگ دیا۔

کیا مزے کی بات کہ 300بعد مسیح میں آپ عیسائی ہونے کے جرم میں قابل قتل تھے۔ کجا کہ آپ قتل ہو سکتے ہیں اگر آپ عیسائی نہیں۔ واہ مذہبی جنونیت کی انتہا ہیں۔

رومن آرٹ نے اپنی انتہاؤں پر پہنچ کر ماضی کے بادشاہوں کو پر شکوہ بنا دیا تھا۔ ٹاپ پر ٹراجن اور آگسٹس کے مجسمے تھے۔ ٹراجن بھی رومن تاریخ کا بڑا لائق فائق شہنشاہ تھا۔ Hadrian اور مارکس کے زمانوں تک عروج کی دیوی مہربان رہی۔ یہ سب دو صدیوں کا معاملہ تھا۔ اگلی تین صدیاں زوال کی نذر ہوئیں۔ جسامت میں سکڑا۔ سائز میں کم ہوا۔ کرپشن کی بیماری، بے حدوحساب فوج اور حکومتی شاہ خرچیاں۔

وہ شہرہ آفاق بیماریاں کل بھی تھیں، آج بھی ہیں اور آنے والے کل میں بھی رہیں گی۔ ماضی میں سلطنتوں کے ڈنڈے ڈولیاں گرانے کا باعث، عصر حاضر میں تاج شاہی گرانے کا باعث، اور آنے والے وقتوں میں بھی انھی کی پردھانی چلے گی۔

یہ شہنشاہDiocletian تھا جس نے سلطنت کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کر دیا۔ کونسٹیٹن Constantine نے اپنا پایہ تخت قسطنطنیہ کو بنایا(یعنی موجودہ استنبول)۔

تقریباً پندرہ لوگوں پر مشتمل اُدھیڑ عمر لوگوں کا ایک ٹولا گائیڈ کے ہمراہ قریب آ کر رُک گیا۔ صورتوں سے یورپی لگتے تھے۔ گائیڈ کی آواز اتنی اونچی اور انگریزی کا لب و لہجہ اتنا صاف اور واضح تھا کہ میری پوری توجہ اُس نے کھینچ لی تھی۔

یاد رکھیں رومی سلطنت ایک ہزار سال قائم رہی۔ پانچ سو سال اس کی بڑھوتری اور پھیلاؤ کے، اگلے دو سو سال اس کے انتہائے کمال پر پہنچنے کے اور آخری تین سو سال اس کے زوال کے۔

گروپ میں سے دو تین لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

’’ لیجیے دو فقروں میں عظیم سلطنت کی قصہ کہانی کنارے بھی لگ گئی۔‘‘

گائیڈ نے بھی خوش دلی سے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کی۔

یہ قصہ کہانی بھی لُطف دینے والی ہے۔ کہ ہر ایک نے الزام دوسرے پر دھرا۔ عیسائیوں کے ایک طبقے کا کہنا تھا کہ تباہ تو انہیں (یعنی باقی مذاہب کو) ہونا ہی ہونا تھا۔ کوئی اخلاقیات رہیں ان کمبختوں کے پاس۔

اب یہ بت پرست بھی ڈھاڈے نکلے۔ انہوں نے الٹا الزام عیسائیوں پر دھرا۔

ریاست کے سوشلسٹ کون سا کم تھے۔ انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ جب مار دھاڑ اور جنگ و جدل کی لتیں پڑ جائیں تو لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال کہاں رہتا ہے؟ لوگوں کے معاشی حالات خراب ہیں تو حکمرانوں کو کیا؟ بس علاقے پر علاقہ فتح کرتے جاؤ۔

رہ گئے جمہوریت پسند انہوں نے آمروں پر اور آمروں نے جمہوریت والوں کو رگیدا۔

یوں وقت کی عظیم سلطنت اپنا وجود قائم ہی نہ رکھ سکی۔ جرمنی اور ایشیا کے جنگجو لوگوں نے جزیرہ نما اٹلی کو نہ صرف تاراج کیا بلکہ اس روم کو بھی لوٹ کر لے گئے۔ کہ جب آخری شہنشاہ باہر نکلا تو بتیاں بجھ گئیں اور دھیرے دھیرے پورا یورپ جہالت اور غربت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔

گائیڈ بھی ایک نمبر ڈرامے باز دکھتا تھا۔ آواز ’’اندھیروں میں ڈوب گئی‘‘کے ساتھ پہلے مدھم سی اور پھر جوشیلے سے انداز میں اُبھری۔

پر روم زندہ رہا کیتھولک چرچ کی گود میں۔ روم کی آخری نسلوں کا ریاستی مذہب عیسائیت ہی تھا۔ اب نیا ڈرامہ شروع ہو گیا کہ پہلے تو شہنشاہوں نے پوپ کا تاج سروں پر سجالیا۔ دونوں نے خود کو پاپائے روم Pontifex اور Maximus کہلوانا شروع کر دیا۔

دوسرا نمبر سینیٹرز کا تھا خیر سے وہ بشپ زBishops کا روپ دھار بیٹھے۔ تقریروں کے ماہر اور خطیب لوگ پادری بن گئے اور Basilicas کو گرجا گھروں میں منتقل کر دیا گیا اور دیکھ لیں روم کی شاہانہ عظمتوں نے اسے ابدیت والا شہر بنا دیا۔

مجمع میں سے کِسی نے سوال کیا۔

’’یہ بتائیے کہ پوپ کیا کیتھولک تھا؟‘‘

ہنسی کا ایک ریلا سارے میں بہہ گیا۔ ایک دو اور ایسے ہی اونگے بونگے سوال ہوئے۔ معلوم ہوتا تھا جنرل نالج میں یورپی بڑے ہی غریب ہیں۔ سچ تو یہ تھا کہ گائیڈ کا کیا انداز تھا کِس دلچسپ انداز میں اُس نے عروج و زوال کے المیوں کو نئے حالات سے آہنگ کیا۔ مزہ آ گیا تھا سارے قصے کو سُن کر۔

آرچ سے کلوزویم جانے والا ایک راستہ گول پتھروں والا تھا۔ ذرا دھیان سے چلنا پڑتا تھا۔ میں کچھ دیر بعد جب میدان میں پہنچی تو وہی گائیڈ اپنے گروپ کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔

میں نے سوچا کہ بہتی گنگا میں نہانا نہیں تو منہ دھونے میں کیا حرج ہے؟ ابھی ابھی ہاتھ تو میں نے دھوئے تھے اور مزہ بڑا آیا تھا۔

وہ ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا تھا۔ میں قریب چلی گئی تھی اور دیکھتی تھی کہ اشارہ سپرس درختوں کی جانب تھا۔

تو یہاں کبھی کانسی کا سوفٹ لمبا نیرو کا مجسمہ تھا جو اب نہیں تھا۔

روم کی تاریخ کا ایک بدنما باب۔ ماں کو قتل کرنے، حاملہ بیوی کو ٹھڈے لگا کر موت کے منہ میں دھکیلنے، ہزاروں بے گناہ عیسائیوں کو قتل کرنے جن میں سینٹ پیٹر جیسی مقدس ہستی شامل تھی۔

تو خواتین و حضرات اس کی زندگی کے اُس شہرہ آفاق ایپی سوڈepisode کی بھی چند جھلکیاں دیکھ لیں۔

تو یہ نیرو کلاڈیس سیزر محل کی چھت پر بیٹھا تقریباً دو فٹ لمبی بانسری ہونٹوں سے لگائے آنکھوں سے سازندوں کو موسیقی کا کوئی سُر شروع کرنے کا حکم دیتا نیچے روم کی کچی آبادیوں کو دیکھتا تھا جہاں آگ کے شعلے لمبی لمبی زبانیں نکالے غریبوں کے گھر اور اُن کے بچے نگل رہے تھے۔ نیچے محل کے سامنے لوگوں کے ہجوم تھے۔ چیختے چلاتے لوگ۔ آگ پھیلتی جا رہی تھی۔ پورا روم لپیٹ میں آ چکا تھا۔ عورتیں، بوڑھے، بچے جل مرے تھے۔ پورا روم راکھ کا ڈھیر بنا پڑا تھا۔

پھر اِس ڈھیر پر خواہشوں کے لا متناہی سلسلوں کا پھیلاؤ ہوا۔ نیا شہر عالیشان محل۔ مگر عظیم الشان محل باڑیوں کے لئے پیسہ کم پڑ گیا۔ خزانہ خالی ہو گیا۔ ہنگامے اور احتجاج کرنے والوں نے محل کا گھیراؤ کر لیا۔ جان بچانے کے لئے بھاگا تو کہیں جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ایک غلام کے کچے گھر میں داخل ہوا۔ یہاں سلین تھی۔ بدبو تھی۔ روشنی نہیں تھی۔ کتنے ہی دن وہاں ٹھہرا۔ بپھرے ہوئے لوگوں کا تعاقب جاری تھا۔ پھر معلوم ہو گیا۔ تو خودکشی ہی زیادہ بہتر نظر آئی کہ مشتعل ہجوم نے تکّہ بوٹی کر دینی تھی۔

’’تو اے بندے تو کب جانے گا کہ ٹھکانہ تو دو گز زمین ہی ہے۔‘‘

میں خود سے کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

بڑی لمبی قطار تھی جو ٹکٹ کیلئے لگی کھڑی تھی۔ اسی میں لگنا پڑا تھا۔ مجھے دوسرے راستوں کا پتہ چل گیا تھا مگر ان کے پروگرام بڑے تیز رفتار اور بھاگ دوڑ والے تھے۔ اس میں رومن فورم اور Capital Hill اور کچھ مزید جگہیں شامل تھیں۔

کلوزویم بھی اپنے اندر ایک پورا جہاں سمیٹے ہوئے تھا۔ بہرحال ٹکٹوں کا نظام تیز تھا۔ سکیورٹی چیکنگ کے مرحلے بہت منظم تھے۔ ٹکٹ کو ٹرن سٹل سے مس کرنے اور میٹل ڈیٹکڑوں کی سارے جسم پر پھیرا پھرائی سے فراغت پاتے ہی آگے دھکیل دی گئی۔

کلوزویم میں داخل ہونا گویا صدیوں کی تاریخی کتاب کو کھولنا تھا۔ اندر داخل ہونے سے قبل ہی اِس چار منزلہ عمارت نے عجیب سا سحر پھونک دیا تھا۔

کہیں دو ہزار سال سے بھی زائد کی یہ قدیم ترین تعمیر در اصل رومن انجینئرنگ کا بھی ایک شاہکار ہے۔ یہ رومن بھی کس پایے کے لوگ تھے۔ یہی تھے کنکریٹ اور گول محرابوں کے بانی۔

’’اُف‘ ‘ یوں محسوس ہوتا تھاجیسے میں صدیوں قبل کے وقت کی کسی ٹنل میں داخل ہو ئی ہوں۔

اس کی راہداریوں میں چلنا اور اپنے اردگرد بلند و بالا دیواروں کا گھیراؤ، اس کے چھتے ہوئے طویل محرابی صورت گلیارے خنکی اور ہیبت سے لبریز ہر قدم پر روکتے اور کچھ سناتے ہیں۔

کتابوں کا ایک بک سٹور اندر کھینچ کر لے گیا تھا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھی ان کی پھولا پھرولی کی۔ ہر منزل کیلئے راستے کھلتے تھے۔ تاہم لفٹ بھی تھی اور بیٹھنے کیلئے لمبے لمبے خوبصورت سنگی بینچ بھی تھے۔ کچھ چلنے کے بعد سستاتی۔ نظارے دیکھتی۔ تاریخ میں تاکا جھانکی کرتی اور کھڑی ہو جاتی۔ تیسری منزل پر کھڑے مجھے محسوس ہوا تھا۔ جیسے میں موت کے کنوئیں میں کھڑی ہوں۔ چاروں طرف پر ہیبت عمارتوں نے گھیراؤ کر رکھا ہے۔

تو تعمیر تب ہوئی جب رومن سلطنت عین اپنے عروج پر تھی۔ یہ اُس سلطنت کے جاہ و جلال اور شکوہ کا آئینہ دار ہے۔ اس کا اصلی نام فلیویئنFlavian ایمفی تھیٹر تھا۔ اس تماشا گاہ میں گلیڈی ایٹرGladiator مقابلے کی آڑ میں ہزاروں تماشائیوں کے سامنے موت کا وہ کھیل کھیلتا تھا جو ظالمانہ حد تک بے رحم تھا۔

رومن بادشاہوں نے اپنی سفاک فطرت کی تسکین کیلئے جب موت کے اِس کھیل سے لُطف اندوز ہونا اور لوگوں کو بھی محظوظ کروانا شروع کیا تو پھر اُن کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اِسے دیکھیں اور گلیڈی ایٹروں، جنگی مجرموں اور جنگلی جانوروں کے اِس وحشیانہ کھیل کو موت تک ہر انداز اور ہر زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے خوش ہوں۔ انسان جس کے پاس طاقت اور اقتدار ہے کتنا سفاک ہے؟

صدیوں پہلے بھی ایسی ہی فطرت کا اظہار کرتا تھا اور صدیوں بعد آج بھی وہی سب کچھ ہے۔ بس ذرا انداز بدل گئے ہیں۔ بنانے والا شہنشاہ Vespasian Flavianتھا۔ فلیوئین اُن کا خاندانی نام تھا۔

سال 721 ADتھا۔

یہ کیسی مزے کی بات تھی کہ جب میں بینچ پر بیٹھی ذرا سستاتی اور گرد و پیش کو دیکھتی تھی مجھے لوگوں کے جتّھے گائیڈوں کے ہمراہ بھیڑ بکریوں کے اُن ریوڑوں کی طرح دکھتے تھے جو گلّہ بان کے اشاروں کے ساتھ ساتھ اس کی رہبری میں حرکت کرتے ہیں۔ ایک گروپ میرے بالکل پاس آ کھڑا ہوا تھا۔ گائیڈ اُس ظالمانہ کھیل کی منظر کشی کر رہا تھا۔

عین اُس وقت مجمع میں سے ایک نوجوان لڑکی کی آواز بلند ہوئی تھی۔

’’آج کے ماڈرن امریکہ کا تشّدد کیلئے ذوق و شوق اور محبت بھی ماضی کے رومن شاہوں جیسی ہی ہے۔‘‘

زور دار قہقہے بلند و بالا دیواروں کے دائروں میں گونجنے لگے۔ مزہ آیا تھا یہ بات سُن کر۔ کتنی سچی اور کھری بات۔ لڑکی جس نے ہنستے ہوئے یہ کہا تھا میرے سامنے ہی تھی۔ یہی کوئی تیس، چوبیس سال کی تھی۔ منہ چوم لینے کو جی چاہتا تھا۔

خدا کا شکر تھا کہ لفٹ کے پاس ہی باہر جانے والے راستے پر واش روم تھا۔ اچھا بڑا اور خاصا صاف ستھرا۔ اب ایک جگہ بیٹھ کر میں نے بیگ سے سیب اور کیلے نکالے۔ دودھ کی بوتل ساری خالی کی اور ڈسٹ بن میں پھینکی کہ چلو بوجھ تو کم ہو۔

دو تین ٹولوں کو اپنے سامنے کی سمت جاتے دیکھ کر کِسی سے پوچھا۔

’’اسطرف کیا ہے؟‘‘

نیرو کا گولڈن ہاؤس۔ اور میمر ٹائن بندی خانہ Mamertine Prison۔ رُک کر میں نے سوچا میں جاؤں اسطرف۔ تاریخی جگہوں کی کشش دامنِ دل کو کھینچتی تھی اور بدنی ہمت مایوس کرتی اور کہتی تھی کہ روم کی جس اینٹ کو اٹھاؤ گی نیچے سے تاریخ کا پٹارا نکلے گا۔ احتیاط پسندی کا کہنا تھا کہ سکون سے چلو۔ آرام آرام سے جو اور جتنا دیکھ سکتی ہو دیکھو۔ کھپنے والی عمر نہیں تمہاری۔

کچھ دیر بعد اُٹھی اور نیرو کے گولڈن ہاؤس کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ اب چپ چاپ چلی جا رہی ہوں۔ یہ کلوزویم کے بالمقابل ہے۔ نرے کھنڈرات تھے۔ کبھی کی شاہانہ عظمتیں خاک کا ڈھیر ہوئی پڑی تھیں۔ گو ورلڈ ہیریٹیج نے بہت بار مرمتوں سے اِس مردے کو کھڑا کرنے کی کوششیں کیں۔ مگر مردے کو مکھن کی کتنی چپڑ چپرائی ہو سکتی ہے۔ ہر پانچ دس سال بعد اِسے دوا دارو کی ضرورت پڑتی ہے۔

وسیع و عریض محلات کی یہ صورت جائے عبرت۔ ایک کمرے کے عین وسط میں کھڑا اس کا مجسمہ۔ کہیں محرابی صورت کمروں کا سیمی سرکل میں پھیلاؤ۔

یہ نیرو بھی روم کی تاریخ کا کتنا بد نما باب تھا۔ ماں کو قتل کرنے، حاملہ بیوی کو ٹھڈے مار مار کر موت کے منہ میں دھکیلنے، ہزاروں معصوم اور بے گناہ عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے جن میں سینٹ پیٹر جیسی مقدس ہستی بھی شامل تھی۔

اس کی زندگی کا وہ شہرہ آفاق ایپی سوڈ بھی کتنا زبان زد عام ہے۔ ایک جگہ بیٹھی تو جیسے فلم کی طرح منظر سامنے آتے گئے۔

تو یہ نیرو کلاڈلیس سیزر محل کی چھت پر بیٹھا تقریباً دو فٹ لمبی بانسری ہونٹوں سے لگائے آنکھوں سے سازندوں کو موسیقی کا کوئی سُرشروع کرنے کا حکم دیتا، نیچے روم کی کچی آبادیوں کو دیکھتا اور محظوظ ہوتا تھا۔ آگے کے شعلے لمبی لمبی زبانیں نکالے غریبوں کے گھروں اور اُن کے بچے نگل رہے تھے۔ نیچے محل کے سامنے لوگوں کا ہجوم تھا۔ چیختے چلّاتے لوگ۔ آگ پھیلتی جا رہی تھی۔ روم لپیٹ میں آ چکا تھا۔ عورتیں، بوڑھے، بچے جل مرے تھے اور پھر یہاں وہاں ہر جانب خوبصورت شہر راکھ کا ڈھیر بنا تھا۔

پھر اس ڈھیر پر خواہشوں کے لامتناہی سلسلوں کا پھیلا ؤ ہوا۔ نیا شہر اور عالیشان محل۔

مگر عظیم الشان محل باڑیوں کے لئے پیسہ کم پڑ گیا۔ خزانہ خالی ہو گیا۔ لوگ بھوک اور بے روزگاری کے ہاتھوں مرنے لگے۔ تب ہنگامے جاگ اٹھے اور احتجاج کرنے والوں نے محل کا گھیراؤ کر لیا۔ سینیٹرز کا بھی ضمیر جاگا۔ انہوں نے بھی دہائی دی کہ وہ عوام کا دشمن ہے۔ جان بچانے کے لئے بھاگا تو کہیں جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ایک غلام کے کچے گھر میں داخل ہوا۔ یہاں سلین تھی، بدبو تھی۔ روشنی نہیں تھی۔ کتنے ہی دن وہاں ٹھہرا۔ بپھرے ہوئے لوگوں کا تعاقب جاری تھا۔ کھوج کر لیا گیا۔ خودکشی ہی زیادہ بہتر نظر آئی کہ مشتعل ہجوم نے تکہ بوٹی کر دینی تھی۔ اُسی غلام کے چھرے سے اپنی گردن کاٹ لی۔

ہاں ایک روایت سزائے موت دئیے جانے سے بھی ہے اور یہ بھی کہ مرتے ہوئے اس نے مجمع کو دیکھتے ہوئے حسرت زدہ انداز میں کہا تھا۔

’’میں ایک انمول ہیرا۔ میں ایک عہد ساز فنکار۔ افسوس بے قدری دنیا نے میری قدر نہ کی۔‘‘

واہ رے انسان تیری خوش فہمیاں

بس حقیقت یہی ہے کہ ٹھکانہ تو بس دو گز زمین ہی ہے

میں خود سے کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔

اپنے سامنے پہاڑی پر میں مٹیالے رنگوں کے ایک طویل سلسلے کو دیکھتی تھی یہ Palatine Hillتھیں۔ جہاں بیٹھی تھی وہاں میری عمر کے تین لوگ اور بیٹھے تھے۔ دو مرد اور ایک عورت یقیناً وہ بھی سستا رہے تھے۔ لاس ویگاس سے تھے۔ گھُلنے ملنے والے، بغیر وجہ کے بھی مسکراہٹیں بکھیرنے والے۔ مسٹر اُفیذی، مسز لدرا اُفیذی اور اُن کی دوست۔

یہ لوگ ابھی رومن فورم اور پیلاٹن ہل دیکھ کر آ رہے تھے۔ مرد نے بتایا کہ دونوں جگہوں کا دیکھنے سے تعلق ہے مگر پھیلاؤ اور پستہ قامت پہاڑی سلسلے تھکانے والے ہیں۔

تھوڑی سی بات چیت سے جانی تھی کہ رومن فورم ہی وہ جگہ ہے جہاں قدیم شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہیں وہ سات پہاڑیاں ہیں جن پر آغاز میں شہر بسا۔ قدیم شہر میں ہونے والے ہر اہم اور غیر اہم واقعے کا تعلق اسی مقام سے ہے۔ مختصراً مغربی تہذیب یہیں پروان چڑھی۔

’’ہائے میں نے حسرت سے اوپر دیکھا تو مجھے کب یہاں لایا جب دانے ہی بک گئے۔‘‘

کچھ ایسا ہی تاریخی ورثہ پیلاٹن ہل پر بکھرا ہوا ہے۔ Remusاور Romulusکے گھر لیویا اور آگسٹس کا عظیم الشان محل، فلاں فلاں کے محل۔ محلات کی لام ڈوریاں اور عجائب گھر جس میں دھرے مجسمے اور چیزیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ اُن کی زندگیاں کیسی شاہانہ تھیں۔

مختصر سی تفصیل مضطرب کرنے کیلئے کافی تھی۔ جوش اضطراب میں کھڑی بھی ہو گئی کہ پیاسا کنویں کے کنارے پر پہنچا ہوا تھا۔ مگر ہمت اور طاقت کا بوکا پاس نہیں تھا۔ اب کنویں میں چھلانگ لگانے والی بات ہی تھی نا۔

بوتل منہ سے لگائی کہ اندر کی بے چینی پر چھینٹے پڑ جائیں۔ ذرا سے سکون میں آنے پر خود سے کہا۔

’’سیدھا راستہ ناپ اور منہ زور جذبوں کو نکیل ڈال۔ کوئی گٹا گوڈا اُتر گیا تو بیٹھی رہنا۔ تھوڑے سے بھی جائے گی۔‘‘

کہیں اضطراب میں یہ اظہار مسٹر اُفیذی uffizi سے بھی ہو گیا۔ اچھا ہی ہوا ہو گیا۔ چیزوں کا روشن پہلو دیکھنے والا، مسٹرچیئر فل کی طرح مسٹر اُفیذی جس نے بڑی ہی دانائی کی بات کی۔

’’آپ خدا کا شکر ادا نہیں کرتی ہیں کہ دور دیس سے تعلق کے باوجود آپ روم میں بیٹھی ہیں۔ اٹلی کے ہی کتنے لوگ ہوں گے جو کبھی روم نہیں آئے۔ اور اگر ویٹی کن کی زیارت کیلئے آئے بھی ہوں گے تو بس وہیں سے واپس ہو گئے ہوں گے۔ جو نعمت میسر آتی ہے اور جس وقت آتی ہے اُس کا شکریہ ادا کریں۔ آپ نے کلوزیم دیکھا۔ بہت اچھا۔ پیلاٹن ہل نہیں دیکھی۔ کوئی بات نہیں۔ ہم نے بھی سینٹ پیٹرز کا قید خانہ اور نیرو کا گولڈن ہاؤس نہیں دیکھے۔ انسان سب کچھ نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

میرے دل میں ٹھنڈک اُتری۔ میں نے ان کا نام، ای میل ایڈریس کا پی پر لکھا۔ وہ لوگ ویٹی کن سٹی دیکھ کر آ رہے تھے۔ لگے ہاتھوں میں نے یہ بھی پوچھ لیا کہ وہاں کیا کیا دیکھوں؟ رات کتابوں کی پھولا پھرولی نے بہت کچھ بتا دیا تھا۔ اتنا بہت کچھ تو دیکھنا ممکن ہی نہیں تھا۔

’’بس ویٹی کن میوزیم کافی ہے۔ سسِٹن Sistine Chapel کو ذرا اچھی طرح دیکھیں۔

ڈھیر سارا شکریہ ادا کیا۔ خدا حافظ کہا۔

واپسی کا راستہ دھوپ میں اٹا پڑا تھا۔ ’’ہائے اندر سے آہ نکلی تھی۔

سٹاپ پر کراچی کے ایک جوڑے سے ملاقات ہوئی۔ میں تو درخت کے نیچے بیٹھ گئی تھی۔ لڑکی پاس آ کر کھڑی ہوئی تو پاکستانیت نے فوراً توجہ کھینچ لی تھی۔ بڑی بیبی سی بچی ہنی مون کیلئے آئی ہوئی تھی۔ لڑکا بھی خوش شکل اور خوش اطوار دکھتا تھا۔ ابھی باتوں کی محفل نے رنگ نہیں پکڑا تھا کہ میری بس آ گئی۔ ’’میری بس‘‘کہتے ہوئے میں تو یوں اس کی طرف بھاگی کہ جوڑے کو خدا حافظ کہنا بھی یاد نہ رہا۔

ویٹی کن کا بھی بڑا اشتیاق تھا۔ مگر میری ایک عجیب سی عادت ہے کہ میں ہر شہر کو آخری تحفے کی صورت میں وصول کرتی ہوں۔ ویٹی کن کا انوکھا تحفہ اسے ابھی مجھے سنبھال کر رکھنا اور آخر میں مزے لے لے کر دیکھنا تھا۔

بس میں بیٹھی اور ساتھ ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ مجھے اب دو گھنٹوں کے لئے کہیں نہیں اُترنا۔ بس میں بیٹھے بیٹھے نظاروں کی رِم جھم برسات میں نہانا ہے۔ منظروں سے آنکھیں لڑاتے ہوئے انہیں اپنے قلب و نظر میں اُتارنا ہے۔

اسی طرح ایک تو ٹانگوں کو آرام مل جائے گا۔ گو اس وقت میں خود کو خاصی توانا، تازہ دم اور ہشاش بشاش محسوس کر رہی تھی۔ کھانے پینے اور تھوڑے سے آرام نے تازگی دی تھے۔ پانی کی دو اور دودھ کی ایک بوتل خرید کر بیگ میں گھسیڑی تھیں۔

٭٭٭









باب 11: تریوی فاؤنٹین




* تریوی فاؤنٹین کے پانیوں کی پھوٹنے اور گرنے کی گنگناتی آوازیں آپ کو چونکاتی اور کِسی خوبصورت منظر کا دروازہ کھولنے کا اذن دیتی ہیں۔

* دائیں ہاتھ اور بائیں کندھے سے ہوتا ہوا سکہ پانیوں میں گرا اور میرے اندر نے کہا۔ پروردگار میں روم دوبارہ آنا چاہتی ہوں۔





میرے خیال میں کسی بھی شہر سے تعارف لوکل بسوں، میٹرو یا پھر وہاں کی پبلک موڈ آف ٹرانسپورٹ میں ٹیکسی کا بھی اضافہ کر لیں، بہترین ذرائع ہیں۔ یہ بس مقامی تو تھی مگر سیاحوں کے لئے وقف تھی۔ تاہم شہر سے آشنائی کی صورت تو موجود تھی نا۔

میں نے سوچا تھا کچھ روم کا مزید دیدار ہو گا اور جب جی چاہے گا تب خیر سے تریویTrevi Fountain دیکھنے کے لئے اُتر جاؤں گی۔ اس کی بھی بڑی شہرت ہے کہ روم آ کراسے نہ دیکھنا کچھ ایسا ہی ہے جیسے پرانے لاہور کے گلی کوچوں میں اتر کرمیاں صلاح الدین کی حویلی دیکھے بغیر بندہ باہر آ جائے۔

گائیڈ لڑکی نے پوچھا تھا۔ ’’اگلا پروگرام کیا ہے؟‘‘

جو دل میں تھا اُسے بتایا۔

مجھے محسوس ہوا تھا جیسے وہ لڑکی مجھ بوڑھی عورت میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہو۔

’’وہاں تو رات کو جاؤ۔ اُسے تو برقی روشنیوں میں دیکھو گی تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔‘‘

میں نے بے بسی سے اُسے دیکھا اور کہا۔

’’در اصل میں اکیلی ہوں۔ آپ کی گاڑی نے چھ بجے اُتار کر فارغ ہو جانا ہے۔‘‘ ’’ارے تو ٹیکسی لے لینا۔ چلو بولو ٹھہری ہوئی کہاں ہو؟‘‘

میں نے بیگ سے ہوٹل کا کارڈ نکال کر اُسے دکھایا۔ اُسے دیکھتے ہوئے اُس نے اپنا تعارف کروایا۔ روم کے جنوبی شہر پوسٹینوPositano کی اُس سلونی سی نازنین ازولینو نے فوراً کہا تھا۔

’’ آپ تو مرکز میں ٹھہری ہوئی ہیں۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔‘‘

میرے ہوٹل والا کارڈ ہاتھ میں پکڑے پکڑے وہ ایک مسافر کی طرف متوجہ ہوئی جو اُس سے کچھ پُوچھ رہا تھا۔ میں نے بھی نگاہوں کا رخ باہر پھیر لیا۔

سہ پہر کی دھوپ میں دوپہر والی تیزی تھی۔ اور سیاحوں کے پُروں میں بھی کچھ ویسی ہی شدت تھی۔ ٹولیوں کی ٹولیاں یہاں وہاں گواچی گائیوں کی طرح گھومتی پھرتی تھیں۔ دریائے Tiber کے خوبصورت پُلوں پر سے گزرنا اور کناروں پر درختوں کی بہتات اور عمارتوں کے حسن سے مسرتیں کشید کرنے کا بھی ایک مزہ تھا۔ بیٹھے بیٹھے میں نے اولڈ سٹی والز کو دیکھا۔ کچھ لوگ یہاں اُترے۔ کچھ چڑھے۔ پورا دن چاہیے تھا اس کے لئے تو۔

قبل مسیح کے زمانوں کی اس یادگار کو دیکھنے کے لئے ازولینو Azzolino نے تھوڑی سی وضاحت کی تھی۔

پرانے وقتوں کی یہ حفاظتی دیواریں جب شہر اِن میں مقید ہوتے تھے۔ یہ دیوار Servian اور چھٹے رومن بادشاہ سرویٹن نے بنائی اور اسی کے نام پر ہے۔ اور یلئینAurelianوالز، اوریلیئن شہنشاہ کا کارنامہ ہے۔ تاریخ کے لیجنڈری لوگوں کا کہنا ہے کہ روم شہر کی بنیادیں رمیولسRomulus اور رعمیس Remus نے کہیں قبل مسیح رکھی تھیں۔ ہر دیوار اور دیواروں کی لمبی چوڑی تاریخ ہے۔

بس سٹاپ پر رکی ہوئی تھی۔ شاید یہاں کچھ دیر رُکنا تھا۔ ازولینو اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہو گئی تھی۔ پھر اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا۔

’’یہ بورگیز Borghese میوزیم ہے۔ آپ نے یہاں اُترنا ہے تو اُتر جائیے۔ اگلے پھیرے میں آپ کو لے لوں گی۔‘‘

میں نے اپنی ٹانگوں کو دیکھا تھا۔

’’نہیں میری بچی۔ میں ابھی روم میں مزید دو دن ہوں۔ ازولینو نے مجھے اپنا موبائل نمبر دیا۔ میری درخواست پر اُس نے خود ہی فیڈ کر دیا۔ مقصد تھا کہ کل میں اسی بس میں بیٹھوں جہاں اس کی ڈیوٹی ہے۔

تریوی فاؤنٹین کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت اس وقت ہوئی جب اُس نے کہا۔

’’ ہم تریوی ڈسٹرکٹ میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ فوارہ تین سڑکوں کے جنکشن پر ہے۔ یہ زمانہ ماضی میں روم کے شہریوں کو پانی سپلائی کرنے کا ایک بہت بڑا خود ساختہ ذریعہ تھا۔ پانی کے اِس تودے کو 1762میں نکولا سلوی جیسے ماہر تعمیرات نے باروق سٹائل دیتے ہوئے آرٹ کے رنگوں سے سجایا۔ سلوی نے اِسے پوپ سے کرایے پر حاصل کیا تھا کہ وہ آب رسانی کے قدیم ترین ذرائع کی نمائش کرنے کا خواہش مند تھا۔

بس نے جہاں اُتارا۔ ازولینو نے بتایا تھا کہ تھوڑا پیدل چلنا اور پُوچھتی جانا۔ ٹیکسی سٹینڈ کا بھی بتا دیا تھا۔

کیسی پیاری اور بیبی سی بچی ہے یہ ازولینو بھی۔ تھوڑی سی سانولی ہے پر دل کی کتنی گوری ہے۔

اب پوچھنے پُوچھانے کے کام میں جُت گئی تھی۔ تاہم زیادہ نہیں چلنا پڑا تھا کہ اس کے پانیوں کے پھوٹنے اور گرنے کی زوردار آوازیں آپ کو متوجہ کرتی، چونکاتی، ذہنی طور پر کِسی خوبصورت منظر کا دروازہ کھولنے کا اذن دیتی نظر آتی ہیں۔

سکوائر میں جونہی داخل ہوئی محسوس ہوا تھا جیسے کوئی گلوکار اونچے سروں میں گیت گاتا مجھے خوش آمدید کہہ رہا ہو۔

ٍ کیسی تھکن، کہاں کی تھکاوٹ؟ نہال ہو گئی تھی۔ موہ لینے، جذب کر لینے اور متحرک قدموں کو روک دینے والا منظر سامنے تھا۔ بس لگتا تھا جیسے طلسم ہوش ربا کی دنیا میں داخل ہو گئی ہوں۔ سہ منزلہ کہیں چہار منزلہ عمارات کا تعمیری حُسن شام کی کرنوں کے طلائی رنگوں میں چمکتا تھا۔ کہیں گاجری، کہیں چنبیلی، کہیں سرسوں، کہیں مٹیالے آسمانی رنگوں کی بہار لگی پڑی تھی۔

پس منظر میں جو محل تھا وہ بھی آن بان اور شان والا تھا۔ سلوی نے اِسے تھیٹر کی صورت دی تھی۔ اس کے منہ متّھے کو کیا کیا ماورائی روپ دئیے تھے۔ صدقے جاؤں رومن آرٹسٹوں کے۔

واہ کیا دلربا سے منظر سامنے تھے۔ ایک طرح اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے، مگر گنگ کرنے والے کہ کھڑی بٹر بٹر اِنہیں تکے چلی جا رہی تھی۔ آنکھیں جیسے مدار پر چڑھ گئی تھیں۔ گھوم رہی تھیں۔ کبھی دائیں، کبھی بائیں، کبھی سامنے۔ دائیں بائیں پھیلی عمارتوں کے رنگ و روپ تو چلئیے خوبصورت تھے ہی مگرانسانوں اور جانوروں کو آرٹ کے کن کن سانچوں میں ڈھالا گیا تھا۔ مجسموں کے انداز اور چٹانوں پر اس کی وسعتوں کو کیسے گھیرے میں لیا گیا۔ واقعی اِسے رات کو دیکھنے کا اپنا ہی ایک لُطف ہو گا۔

میں بینچ پر بیٹھ گئی تھی۔ کیا پُرفسوں دنیا تھی مگر صرف محبت کرنے والوں کی کہ ہرسو نظارے تھے۔ کہیں پانیوں میں کھڑے ننگے مجسموں کے اور کہیں زندہ رومیو جیولٹ کے۔

اگر یہ دنیا کا خوبصورت ترین باروق سٹائل کا فوارہ آرٹ کا ایک نادر شاہکار ہے تو وہیں یہ ایک خوبصورت روایت سے بھی جڑا ہوا ہے کہ اس میں اگر سکہ پھینکا جائے تو پھینکنے والا پھر روم آتا ہے۔ مزے کی یہ بات بھی کہ دو سکّے پھینکنے کا مطلب بہت جلد شادی اور تین سکے اگر پھینکے گئے تو لازمی طلاق۔ اب اس میں جدّت کچھ یوں کر لی گئی ہے کہ سکے تو تین پھینکے جائیں مگر ایک اپنے دایاں ہاتھ سے دوسرے کے بائیں کندھے سے اچھال کر۔

خلقت تھی کہ موج مستیوں میں اُلجھی ہوئی۔ بیٹھنے کے انتظامات بھی مزے کے تھے۔ جہاں جی چاہے بیٹھو۔ فوارے کے گردا گرد بنی سلیب پر بیٹھ کر سبزی مائل نیلگوں پانیوں میں ہاتھ ڈالو۔ اور اِس بات کو اپنے کریڈٹ پر ڈال لو کہ روم کے پانیوں سے ہاتھ دھوئے ہیں۔

ایک فلم میں اب نام یاد نہیں اگر رنگیلے نے اس ڈائیلاگ پر بے حد داد سمیٹی تھی کہ میں نے تین سال تک ہانگ کانگ کے نلکوں کا پانی پیا ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے تو آپ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تین دن روم کے فواروں سے ہاتھ دھوئے ہیں۔ کوئی مذاق تھوڑی ہے۔

میرے ساتھ ایک چُلبلا سا جوڑا بیٹھا ہوا تھا جن کے پاس اس کے بارے کتابچہ تھا۔ میری دیکھنے کی خواہش پر انہوں نے اِسے میرے حوالے کر دیا۔ فوارے کی تاریخ کیسی دلچسپ اور رومانوی سے تصور کی حامل تھی۔

’’تو کہتے ہیں۔ میں نے خود کو سُنایا چند لمحوں کے لئیے چلونا اُس دنیا میں جو انیس19سو سال قبل مسیح کی تھی۔

وہ وقت جب سیزر کا بیٹا آگسٹس حکمران تھا۔ رومن سپاہیوں کے ایک ٹولے کو دوران گشت پیاس لگی۔ در اصل آگسٹس کے داماد اگرپاAgrippaنے روم کے گرد و نواح میں پانی کے فوارّے ڈھونڈنے کی ڈیوٹی انہیں سونپی تھی۔ گرمی کے دن اور تپتا سورج۔ پیاس نے حلق میں کانٹے اُگا دئیے۔ پاگلوں کی طرح پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھومتے تھے کہ چاند چہرے جیسی ایک نوجوان کنواری لڑکی نظر آئی۔ لڑکی مسکرائی اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اسی چشمے پر وہ انہیں لے آئی۔ جس کے ٹھنڈے میٹھے پانیوں سے انہوں نے پیاس بجھائی۔

وہاں اور بھی بہت کچھ تھا۔ پھر کیا ہوا؟ اور پھر یہ کیسے اپنی موجودہ شکل کو پہنچا۔ اور میں نے خود سے کہا تھا۔

’’ارے بھئی میں نے کچھ اِس چکر میں نہیں پڑنا۔ لوگ تو پہلے ہی ناکوں ناک آئے پڑے ہیں میری تاریخ دانی سے۔ ہاں بس اتنا ہی کافی ہے کہ دنیا میں کوئی ملک کوئی جگہ ایسی نہیں جس نے پانیوں کی طاقت کو نئی جنیاتی تعمیرات کے ساتھ اِس درجہ اہتمام سے منانے کا اہتمام کیا ہو۔ جیسا کہ روم نے کیا ہے۔ ہاں البتہ مختصر سا تعارف اتنا سا کافی ہے کہ مجسمے بحر، صحت، کثرت Abundance وغیرہ کے نمائندے ہیں۔ بالکونیوں میں کھڑے مجسموں کی دل رباعی آنکھوں کو جگمگاتی ہے۔

میرے پاس بیٹھے جوڑے نے اپنے کندھوں کے اوپر سے سکہ اچھال کر پانیوں میں پھینکا۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ ہر روز ڈھیروں ڈھیر یہ سکے جو تقریباً 3000یورو کی مالیت کے ہوتے ہیں۔ اِسے روم کی ایک سپر مارکیٹ کو دیا جاتا ہے جہاں غریب لوگ رعایت پر کھانے پینے کی چیزیں حاصل کر لیتے ہیں۔ واہ کیا کہنے ہیں ایک رومانی اور روایتی حرکت کا تعمیری اور بہترین اخلاقی نمونہ اور کردار۔

کیسا رنگ رنگیلا سا مجمع بکھرا ہوا تھا۔ کہیں سیڑھیوں پر، کہیں سنگی بینچوں پر بیٹھا۔ شادی شدہ نئے نویلے جوڑے بھی بہتیرے تھے۔ شام بہت خوبصورت تھی۔ کرنوں کی تپش بہت کم ہو گئی تھی۔ میں نے سوچ لیا تھا میں یہاں رات کا پہلا

پہر گزاروں گی۔ ٹیکسی سے واپسی کروں گی۔ میں نے یہ منظر دیکھنے ہیں۔ مڑ کون روم آتا ہے یا قسمت یا نصیب۔

میں اپنا کافی کا مگ بھروا لائی تھی۔ فش سینڈوچز بھی ساتھ تھے۔ رات کی اپنی زُلفیں کھولنے سے قبل کے منظروں کی کوئی بوقلمونیاں تھیں۔ میں کِسی فلمی سین کی طرح آنکھیں اس سکرین پر جمائے حیرتوں میں کنگ تھی۔ ستاروں نے اپنے حُسن کی پوٹلی کھول کر یوں دھرتی پر اُچھالی تھی جیسے کوئی راجہ مہاراجہ جوش مسرت میں اپنے ہیرے جواہرات کے خزانوں سے مٹھیاں بھر بھر کر اپنی رعایا پر اُچھال دے۔ سکوائر السپراؤں سے بھرا پڑا تھا۔ دھیرے دھیرے ماحول ایک سرمدی گیت میں ڈوب رہا تھا۔ قہقہوں کی برسات برس رہی تھی۔

میرے خیال میں فش سینڈوچ کی چھوٹی سے چھوٹی بائٹ اور کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹوں سے میں بہتے وقت کے پاؤں میں کتنی دیر تک بند باندھ سکتی تھی۔ چلو جتنی دیر بندھ سکتا ہے وہ تو باندھوں۔

پھر میں نے خود سے سوال کیا تھا۔

’’میں بھی سکہ پھینکوں۔‘‘

اندر نے اذن دیا۔ تو ہرج کیا ہے۔ کیا تم اِس ماحول میں دوبارہ سانس لینا نہیں چاہو گی؟

چاہوں گی۔ ضرور چاہوں گی۔ پرس سے سکّہ نکالا۔ دائیں ہاتھ اور بائیں کندھے سے ہوتا ہوا وہ پانیوں میں گرا اور میرے اندر نے کہا تھا۔

’’پروردگار میں روم پھر آنا چاہتی ہوں۔‘‘

٭٭٭







باب12: ویٹی کن سٹی




* شاہی قلعے جیسی بلند و بالا پُر ہیبت دیوار کے سائے میں چلتی سیکورٹی کے لام ڈور والے سلسلوں سے گزرتی لائن کے سلسلے اکتاہٹ کے ساتھ ساتھ دلچسپی لئیے ہوئے بھی تھے۔

* ڈریس کوڈ کی پابندی لازمی امر ہے۔

* Sistine chapelکو بلاشبہ میوزیم کا دل کہا جا سکتا ہے۔

* مائیکل اینجلو کی خیال آفرینیوں پر ہنسی اور لطف دونوں نے مزہ دیا۔





تو آج کیتھولک عیسائیوں کے مکے مدینہ کا دیدار کرنا تھا۔ شوق کی فراوانی تھی۔ عقیدت کا رنگ تھا۔ روم میں میرا تحفہ خاص تھا جو آج میں وصولنے جا رہی ہوں۔

ایزو لینا سے بات ہو گئی تھی۔ ناشتے اور کنگھی پٹی سے فراغت کے بعد میں نے تھوڑی دیر کے لئے اٹلی پر لکھی ہوئی کتاب کھولی جسے میں نے کل وکٹر ایمونیل دوم کی یادگار سے نکل کر دوسری جانب کی سڑک کے کنارے بنی چھوٹے چھوٹے کھوکھے نما دکانوں سے ایک طرح کوڑیوں کے بھاؤ خریدی تھی۔ کتابوں کا ڈھیر دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر بکھرا ہوا تھا۔ سانولا سلونا منحنی سے جسم کا نوجوان جس سے بات کر کے جانی تھی کہ بنگلا دیشی ہے، اس سارے کھلارے کی چھانٹی کرنے اور اسے ترتیب دینے میں لگا ہوا تھا۔ میں نے خالی کرسی گھسیٹ کر خود بھی اِس ڈھیر میں سے ہیرے موتی ٹٹولنے شروع کر دیئے تھے۔

مجھے انار کلی کے فٹ پاتھ یاد آئے تھے۔ اپنا وہاں جانے اور پھولا پھرولی کا جنون یاد آیا تھا۔ بھاؤ تاؤ کرنے اور پھر شاپروں کو بھر کر لانے کے نشے کے سرور کی ہلچل یاد آئی تھی۔ اس وقت میں اُسی ناسٹلیجائی کیفیت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ مطلب کی چند کتابیں نکل آئی تھیں۔ قیمت کا تو میزان الرحمن بولا۔

’’جو مرضی دے دیں۔ بسم اللہ کرنی ہے۔ آپ جیسی خاتون کا پیسہ برکت والا ہو گا۔ آج میرا پہلا دن ہے۔ دو دن پہلے دکان لی ہے۔ آج اسے سجا رہا ہوں۔‘‘

کتابیں تو میں نے ایک یورو اور دو یورو کے حساب سے ہی خریدیں۔ تاہم بیس یورو بنگلا دیشی بیٹے کو بونی کے شگن کے طور پر دئیے۔

’’اللہ برکت ڈالے گا۔ زندگی میں رزقِ حلال کمایا اور کھایا ہے۔‘‘

کتاب کھولنے سے جو سامنے آیا ہے اسے پڑھ رہی ہوں۔

تقریباً ایک سو ایکڑ پر مشتمل آزاد خود مختار ایک بڑے ملک کے پایہ تخت روم کے اندر ہی دنیا کا سب سے چھوٹا ملک جس کے اپنے مسلح فوجی دستے، اپنا ڈاک کا نظام، ہیلی پیڈ، منی ٹرین اسٹیشن، ریڈیواسٹیشن، اپنا یورو سکہ جس پر پوپ بینڈکسٹBenedictxvi سولہواں کندہ ہے۔ سیاسی طر پر طاقتور۔ 1.1بلین رومن کیتھولک لوگوں کا روحانی مرکز۔ پوپ ویٹی کن سٹی کا بیک وقت روحانی اور سیکولر لیڈر ہے۔ صدیوں سے وہ کنگ پوپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ویٹی کن کے رہائشی تقریباً ساڑھے نو سو کے قریب ہیں اور 3000 کے قریب لوگ یہاں کام کرتے ہیں۔

ایک مضبوط چھوٹی سی ریاست۔

وقت دیکھا۔ نو بج رہے تھے۔ فوراً اٹھی۔

’’ویٹی کن سٹی دیکھنا ہے۔ کتابوں کی دکانوں پر جانا ہے۔ شام کسی خوبصورت پیازے میں گزارنی ہے اور پرسوں اس خوبصورت شہر سے رخصت ہونا ہے۔‘‘

میں سوچوں سے باتیں کرتی گویا ایک طرح اڑی جا رہی تھی۔

ایزولینا نے محبت بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کی پیشانی چومتے ہوئے اس میں آگے بڑھ کر قریبی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

اب اگر ذہن کہیں ویٹی کن کی تاریخ میں الجھا ہوا تھا تو آنکھوں نے بھی ساتھ دینا ضروری سمجھا تھا کہ بند ہو کر کامل یکسوئی سے تاریخ کی بھول بھلیوں میں الجھنے لگی تھیں۔

بس تاریخ تو ابھی اتنی ہی پڑھی گئی تھی کہ منزل آ گئی۔

بصارتوں میں جونہی وہ مانوس سی عمارت آئی۔ آنکھوں میں قندیلیں سی جل اٹھیں۔ کیتھولک عیسائیت کے اِس مرکز اور پاپائے روم کے بیانات سے اکثر و بیشتر پرنٹ و الیکڑونک میڈیا کے توسط سے خاصی مانوسیت رہی ہے۔

سچی بات ہے اب یہ تو مجھے یہاں آ کر پتہ چلا تھا کہ پوپ اتوار کو اپنا دیدار کرواتے ہیں۔ اس دن ٹکٹ ویکٹ بھی فری۔ اب عقل پر بندہ ماتم ہی کرئے گا کہ ویک اینڈ پر روم آنے سے گریز جان بوجھ کر کیا۔

بس نے عین سینٹ پیٹرز سکوائر سے جب موڑ لیا تو میں نے سوچا ’’ ہائے اللہ اسے تو یہیں اُتارنا چاہیے تھا۔‘‘

یقیناً اُسے اپنے اسٹاپ پر رُکنا تھا۔ خاصا چلنا پڑا۔ ایک دھوپ کی تیزی اوپر سے چھتری بھی وہ کہ بچے کا کھلونا جان پڑے۔ گرد و پیش کے حُسن کو دیکھتے ہوئے پھر دھوپ کی جوانی پر نظر ڈالی۔ ایسی شباب سے بھری ہوئی تھی کہ فوراً کھول کر سر پر تاننے والی چھتری تو اُس پلی ہوئی بلی کے سامنے کسی بچونگڑی کی طرح نظر آئی۔ بس سر اور چہرہ بچ گیا تھا چلو یہی غنیمت۔ چھتری کو سنبھالنا کونسا آسان۔ یہ تو بیگ میں گھسڑ جاتی ہے۔

عین سکوائر کے سامنے آ کر میں نے چھاؤں میں بیٹھ کر ڈیرے ڈال لئیے کہ پہلے تو جی بھر کر اسے دیکھنا مطلوب تھا۔ نقشے پڑھنے کی ضرورت تھی۔

میرے سامنے ایک وسیع قطعۂ زمین پر ستونوں پر کھڑی دائیں بائیں سیمی سرکل میں گھومتے برآمدوں سے سجی عمارتیں مرکزی عمارت کو گویا اپنے حصار یا دوسرے لفظوں میں اپنے تحفظ میں لینے کا تاثر دیتی تھیں۔

ٹکٹ کیلئے لمبی قطاریں تھیں۔ دھوپ کیسے سارے میں پیر پسارے بیٹھی تھی۔ یاسر پیرزادہ یاد آیا تھا۔ گذشتہ سال کا اُس کا کالم سامنے آ گیا تھا۔ یہی مہینہ جب وہ لکھتا تھا ویٹی کن میں تو لگتا ہے۔ سورج جیسے سوا نیزے پر آیا ہوا ہے۔ تو آج بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔

پانی کی ایک بوتل خالی کر کے میں اٹھی کہ اب کمر ہمت باندھوں کہ گوڈے نے ایک کڑاکا بجایا۔

’’ہائے جوانی۔ اندر سے ایک آہ سی نکلی۔ ساتھ ہی وہ سکھ بھائی یاد آ گیا۔ جسنے میری طرح ایسا ہی نعرہ بلند کیا تھا اور بعد میں رازدارانہ انداز میں خود سے کہا تھا۔ جو تیر میں نے جوانی میں مارے وہ مجھے معلوم ہی ہیں۔‘‘

پر میں نے تو کہا تھا کہ بھئی میری ٹانگوں نے تو بڑے تیر مارے۔ بیچاریوں نے میرے شوق کے بڑے ستم سہے۔ میلوں چلنا تو کوئی بات ہی نہ تھی۔ سچی بات اب مجبوری ہے۔

اب 2000کمروں پر پھیلے وہ پرسرار کہانیاں اور راز جو ویٹی کن کی دیواروں نے سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے جاننا اور ان چیزوں کو دیکھنا کیسا دلچسپ اور سنسنی خیز تجربہ ہوتا جسے اب کرنا زبانی کلامی اور لفظوں کے راستوں سے تو ممکن ہے ہاں ذرا ٹانگوں سے کچھ مشکل ہے۔ مگر جی کرتا تو ہے۔

جی چاہتا تھا کہ کِسی کی منت کروں کہ وہ یا میرا ٹکٹ لے لے۔ یا مجھے اپنی جگہ دے دے۔ جگہ دینے کی درخواست کا احمقانہ مطالبہ خود مجھے بڑا کمینہ سا لگا۔ اور ٹکٹ کیلئے دھوپ میں پینڈا مارتی لائن تک پہنچی۔ رکاوٹی جنگلے کے پار کھڑی پھینی سی ایک لڑکی سے درخواست کی۔ جس انداز میں مجھ بیچاری کی پذیرائی ہوئی اُس نے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات یاد دلا دی تھی۔ لڑکی نے بے حد عجیب سی نظروں سے مجھے یوں گھورا تھا جیسے کہتی ہو۔

’’کیوں لوں تمہارا ٹکٹ۔ تمہاری کیا ٹانگیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اتنی تو ہٹی کٹی لگ رہی ہو۔‘‘

’’چلو میاں سیدھے سبھاؤ لگو قطار میں۔‘‘

بعد میں جب اس کے مشکل مراحل سے گزری تو احساس ہوا کہ دو نمبریوں کی یہاں کہاں گنجائش ہے؟ ایسے حربے صرف ہمارے ہاں ہی چلتے ہیں۔ بہرحال کام تو وہاں مار دھاڑ کے سے انداز میں ہو رہا تھا۔

سکوائر میں رکاوٹی جنگلوں کی باڑوں میں مقید لائنیں جیسے تیز واک کے سے انداز میں چلتے ہوئے سیکورٹی کے لمبے چوڑے مرحلوں سے گزرتی جاتی تھیں۔ پر خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ ایک تو میوزیم جیسے اللہ میاں کے پچھواڑے۔ وہ لمبی لائن شاہی قلعے جیسی بلند و بالا پُر ہیبت دیوار کے سائے میں چلتی۔ کہیں ٹکٹ کا پہلا ٹریک کہیں دوسرا۔ اوپر سے سیکورٹی کی لام ڈور والے سلسلوں کے ساتھ ساتھ ڈریس کوڈ کی بھی سختی۔ کیا مجال کوئی ننگے بازوؤں والی من چلی حسینہ یا شارٹس پہنے کوئی دلبر سا ہیرو پذیرائی پا جائیں۔ یوں قطار میں سے نکال کر پھینک دیئے جاتے ہیں جیسے دودھ میں سے مکھی۔

اب اگر کہیں یہ جان جاتی کہ" سلک دی لائن "والا سلسلہ سو تکلیفوں سے نجات کا باعث ہے۔ انٹرنیٹ سے دُوری ہم بڈھوں کیلئے بڑی اذیتوں کا باعث ہے۔ دُنیا اب ہماری نہیں نوجوانوں کی ہے۔ چلو شکر اپنے جٹکے پن کے باوجود یہاں تک پہنچ ہی گئے۔ آگے بھی رب سوہنا کرم کرے گا۔ بڑے شوخ و چلبلے رنگوں کے لباس زیب تن کیے سوئس دربان سنگی مجسموں کی مانند ایستادہ تھے۔

تو صبر کا پھل بڑا رسیلا اور میٹھا تھا کہ جب کانسی کے ایک بھاری بھرکم عظیم الشان دروازے سے اندر قدم رکھا تو اوپر والے کیلئے شکر گزاری کے احساسات نے جذبات کو بڑا رقیق سا کر رکھا تھا۔

’’ارے میں اور یہ سب۔‘‘

وہیں ایک جادوئی سحر جیسی دنیا میں داخلہ ہو رہا تھا۔ دنیا کی سب سے چھوٹی خودمختار سلطنت کا عجائب گھر جو آپ پر آرٹ کی دنیا کے اسرار کھولتا ہے۔ جہاں دنیا کے عظیم مصور آپ پر ایمان اور آرٹ، عیسائیت اور کلچر، خدا اور انسان کے درمیانی سلسلوں کی گتھیاں کھولتے چلے جاتے ہیں۔

اِس میوزیم کا بننا بھی بس ایک اتفاقی واقعہ ہی تھا کہ 1506کی بات ہے ایک بہت پرانا مجسمہ Laocoonteانگوروں کے باغ کی ایک پہاڑی سے ملا تو محقق لوگوں کے ساتھ لاطینی مصنف پلینی Plinyنے بھی اس کی عظمت اور قدامت کی تصدیق کی۔

پس اِسے ویٹی کن میں سجا دیا گیا جہاں پہلے ہی پوپ جولیس دوم کے بہت سے نوادرات جمع تھے۔ کوئی اٹھارویں صدی کے وسط میں اسے دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا۔ پوپ کے محلات اور دوسرا یہ میوزیم۔

تو اب میں خود سے پوچھتی ہوں کہ مجھے داخل کس میں ہونا ہے؟ مصری حصّے میں؟ کوئی خواہش نہیں کہ مصر، عراق کی سیاحتوں سے رجی پجی اور مصری اور میسوپوٹیمیائی تہذیبوں سے خاصی شناسائی رکھتی ہوں۔ سو اِس دنیا میں تو ہرگز نہیں جانا۔ اب کھڑی ایسی سوچوں میں گھر گئی ہوں۔ کچھ لوگوں کو ایک گلیارے میں داخل ہوتے دیکھ کر ان کے پیچھے ہو لیتی ہوں۔

کیا بات تھی اُس دنیا کی جہاں داخل ہوئی تھی۔ بڑی کلاسیکل قسم کی عمارت کا آنگن ہے۔ محرابی گزر گاہوں والے برآمدوں میں ٹھنڈک، سکون اور شانتی سی جیسے اُتری ہوئی ہے۔ قدامت پور پور میں رچی بسی زمانوں کی خوشبو اپنے اندر بسائے ہوئے ہے۔

میں نے ذرا سا سستانا چاہا تھا۔ پودوں کے پاس دھرے سنگی بینچ پر بیٹھ کر سکون سے دائیں بائیں جدھر دیکھتی ہوں آرٹ کی دنیا آباد ہے۔ مجسمے ستونوں کے ساتھ ایستادہ ہیں۔ اٹھتی ہوں۔ قریب جاتی ہوں۔ کہیں نیپچونNeptune، کہیں Hellenistic، کہیں اپالو اور کہیں Laocoomگروپ نے یارڈ کو سجا رکھا ہے۔ یہ یونانی اور رومن تہذیبوں کے نمائندے ننگے دھڑنگے۔ بولوں تو کیا کہ اظہار کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ فتووں سے ڈر لگتا ہے۔

ہاں البتہ عقیل رُوبی بے طرح یاد آیا ہے۔ جس کی دُنیا یونانی کرداروں سے آباد رہتی تھی۔

اب نقشہ کھول لیا ہے۔ مصری حصّہ قریب دکھتا ہے۔ اس سے بچنے کے چکر میں ڈیلا پگما میں نکل گئی۔ کیا بات تھی؟ بے اختیار ہی ہنسی نے نہال سا کر دیا۔ سامنے سرسبزو عریض لان کلاسیکل قسم کی عمارتوں کو گھیرے میں لئیے ہوئے آنے کی دعوت دیتا تھا۔ قبل مسیح کانسی کے فرکون کو دیکھنے لگی۔ مجھے اس کی خاک سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ ہے کیا بلا؟ دفع کرو۔ سورج چمک رہا ہے۔ ہوا بہت مزے کی ہے۔ میں اب کسی سے مدد چاہوں گی کہ وہ میری راہنمائی کرے۔

چلو اللہ رازق اور مددگار ہے۔ انڈین لوگ مل گئے۔ اُدھیڑ عمر مسٹر و مسز پُونم رائے روم میں ہی رہتے ہیں۔ بریلی سے آئے ہوئے بھانجا اور اس کی بیوی کو سیر کروانے لائے تھے۔ پہلے تو خوب باتیں ہوئیں۔ نواز شریف کے بڑے دلدادہ تھے۔

میری خواہش پر کاپی پر لکیریں کھینچ کھینچ کر چیزوں کو وضاحت سے بتا دیا کہ بس دو چیزیں دیکھ لو۔ زیادہ کھپنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں تو آرٹ اور تہذیبوں کا سمندر ہے۔ بندہ باریکیوں میں پڑا تو گیا۔ مگر انہوں نے Pinacoteca دیکھنے کی سفارش کی کہ وہ قریب ہی تھا۔

تو اِن پیارے سے لوگوں سے رُخصت ہوتی ہوں۔ Pinacotecaکو جانے والے راستے پر بڑھتے ہوئے اُس عمارت کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہوں جو ایک خوبصورت اور شاندار سے پورٹیکو کے ذریعے مرکزی عمارت سے جڑا ہوا ہے۔ اک ذرا رک کر اپنے چاروں اور دیکھتی ہوں۔

یہ کچھ ویسی ہی دنیا ہے جو میں ابھی اکیڈیمیہ وینس میں دیکھتی آئی ہوں یا اُس سے بڑھ کر ہے۔ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ میں تو شارٹ کٹ چاہتی تھی مگر جانتی ہی نہ تھی کہ یہ آرٹ کا پورا جنجال پورہ ہے۔ کمروں کا پھیلاؤ اور ان کا اندر ہی اندر ایک دوسرے میں گھُسے چلے جانا۔ اب بندے کیلئے کہیں ممکن تھا کہ وہ آرٹ کے اِن خزانوں سے آنکھیں بند کر لے۔ نہیں مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا کروں اور کیسے اِس دنیا سے نکلوں جو جٹ جپھا ڈال رہی ہے۔

سچ تو یہی تھا کہ ان سے آنکھیں بچا کر نکل جانا کتنا مشکل تھا کہ کہیں بہار جیسے شوخ و شنگ رنگ، کہیں دھیمے میٹھے اور کہیں پھیکے رنگوں کی بارش بھگو بھگو کر شرابور کر رہی تھی۔ وہ برس رہی تھی۔ راستہ روک رہی تھی اور مجھے بھگوتی چلی جا رہی تھی۔ ونچی کا شاہکار سینٹ جروم جیسے کسی دشت تنہائی کا اسیر۔ Giotto اور بلینی دونوں اپنی انتہائے معراج کو پہنچے ہوئے۔ دونوں کے فن سے آنکھیں چرانا کہیں ممکن تھا۔

چہروں کا ایک ایک نقش، ایک ایک خم واضح کر رہی تھی۔ زنجیروں کی حد بندیاں تو قریب جانے میں مانع تھیں۔ ڈھیروں ڈھیر کمرے بس جو چیز باعث راحت تھی وہ کمروں میں بیٹھنے کا شاہانہ قسم کا اہتمام تھا۔

میں لطف اٹھا رہی تھی۔ مریم کی جنسی تعلق سے آزاد حاملہ ہونے کی تصوراتی صورتوں کی آگاہی سے جو بڑی ہی موہ لینے والی تھی کہ اِس تصور نے نہ صرف کام کو انفرادیت دی بلکہ اس کی وسعتوں میں بھی نئے رخ تھے۔

Raphael rooms تک پہنچنے میں تین بار رُک رُک کر تھوڑا آرام اور تھوڑی منہ ماری کی تھی۔ باداموں اور کاجو کے چھوٹے لفافوں کی سیکورٹی سپاٹ پر وضاحتیں کرنی پڑی تھیں کہ جناب انہیں لے جانے دیں وگرنہ ایسا نہ ہو آپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔

ان کمروں کا رُخ دوسری جانب جا نکلتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ رافیل اور اس کے ساتھیوں کا کام حد درجہ متاثر کن تھا۔ سولہویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کا نمائندہ یہ کام جسے رافیل اور اُس کے ساتھیوں نے فریسکوٹیکنیک استعمال کرتے ہوئے نشاۃ ثانیہ کے دور کے کام کو زندہ و جاوید کر دیا۔ چوکھٹوں کی بس چھتوں کو ہاتھ لگانے ہی کسر باقی تھی۔ کمروں کی محرابی صورت دیتی دیواروں پر آرٹ کے کیا شاہکار نمونے بکھرے ہوئے تھے کہ پلکیں جھپکنی مشکل تھیں۔

بہت سے ایسے موضوعات تھے جنہوں نے آنکھوں کو جکڑا ہوا تھا مگر ان کا تعلق کِس پس منظر سے ہے اس سے کوئی شناسائی نہیں تھی۔ لطف اندوزی رنگوں، کرداروں، ان کے رویوں اور ماحول کے ساتھ فنکارانہ چابک دستیوں کے ہاتھوں ضرور ہو رہی تھی۔

البتہ بورگو روم میں آگ لگنے کے واقعے کی عکاسی بڑی واضح تھی۔ میرے نزدیک مقدّس سیکرامنٹSacrament(جس میں شادی بیاہ کے موقع پر شراب اور روٹی پر جھگڑے کی شکل)کی کیا شاندار عکاسی تھی۔ آسمانی اور زمینی زندگی کے رنگ، تصور کی بلند پروازی۔ خدا تو کہیں دھرتی کے پادریوں جیسا ہی نظر آتا تھا۔

جی چاہتا تھا وقت کی ٹنل میں گھُس جاؤں۔ اس دور میں چلی جاؤں جہاں وہ موٹی آنکھوں والا رافیل لگتا تھاThe school of Athens پینٹ کر رہا ہے۔

سارا کمرہ گویا علم کے اعتراف میں سرنگوں تھا۔ سچائی اور دلیل کی عظمت کو سلام پیش کرتا تھا۔ کلاسیکل فلاسفی سے مذہب کی طرف کا راستہ عیسائیت سے پہلے اور بعد کا عہد زندہ و تاباں تھا۔ یہ شاہکار ایتھنز کے مکتبہ فکر کے عظیم مفکروں ارسطو، افلاطون وغیرہ کو خراج پیش کرتے تھے۔ 1520 The Transfiguration کا اس کا یہ کام ابھی تکمیل کو نہیں پہنچا تھا کہ وہ فوت ہو گیا۔ اِسے بعد میں اس کے شاگردوں نے مکمل کیا۔

رافیل بہت جلدی مرگیا صرف 37سال میں اور اس کے چاہنے والے اُس کا یہی شاہکار اٹھائے روم کی گلیوں میں ماتم کرتے پھرتے تھے۔

کتنا وقت میں نے وہاں گزارا۔ مجھے اس کا خود احساس نہیں تھا۔

Sistine chapelدر اصل اِس میوزیم کا دل ہے۔ پوپ کا ذاتی چیپل یہی وہ جگہ ہے جہاں جب وہ مرتا ہے اُسے رکھا جاتا ہے اور یہیں نیا پوپ منتخب ہوتا ہے۔ یہاں Michelangeloکا کام ہے۔ اور کیا شاہکار کام ہے۔ بائبل کی پہلی کتاب اس کے سارے سبق یہاں جس کا جی چاہے وہ پڑھ لے۔ ساری بات تو ہدایت اور روشنی کی ہے۔

خدا کو دیکھنا بڑا انوکھا تجربہ تھا۔ میرے تصوراتی خدا سے خاصا مختلف۔ بوڑھے تو دونوں تھے۔ مائیکل اینجلوMichelangelo کا خدا البتہ بہت جلال والا دکھتا تھا۔ میں نے اپنے کا سوچا۔

’’نہیں بھئی وہ تو مجھے بڑا نرم خو سا نظر آتا ہے۔ محبت سے لبالب بھرا۔ ہمدرد اور غمگسار دوست جیسا۔ گلے شکوے کر لو۔ غم و غصے کا اظہار کر لو۔ آدم اور خدا کے درمیان تعلق کی ڈور۔

کیا خیال آفرینی تھی۔ دونوں کے بڑھے ہوئے ہاتھوں کی انگشت شہادت کا ملاپ آسمان اور زمینی کرّے کا ایک دوسرے کی طرف جھُکاؤ۔ واہ کیا کھلا ڈلا معاشرہ ہے۔ خدا کو اپنے جیسا بنا کر رکھ لیا ہے۔

ممتاز مفتی کے خدائی تصور کی من وعن ایسی ہی تصویر ہے۔ چاند، ستاروں اور زمین کی پیدائش کے عمل کے ساتھ آدم اور حوا کی پیدائش جنت سے نکالے جانے کا منظر۔ نوح اور سیلاب۔

مزہ آ رہا تھا یہ سب دیکھتے ہوئے۔ آدم اور خدا کے درمیان تعلق کے مختلف انداز۔ سب کی شکلوں سے تعارف ہوا۔ حضرت علی، حضرت امام حسین اورحسن سے بغداد میں تصویری تعارف ہو گیا تھا۔ بغدادیوں کی بھی افتاد طبع کی داد دینی پڑتی ہے۔ کیا خوبصورت اور دلآویز سی صورتیں بنا کر دیواروں پر ٹانگ دی ہیں۔

The Last Judgment کی مجھے خاک سمجھ آنی تھی اگر ایک گروپ اپنی گائیڈ سے اس کا پس منظر نہ سُن رہا ہوتا۔ اور میں ان کے پاس نہ کھڑی ہوتی۔ مائیکل اینجلو کو اِسے بنانے کیلئے کہا گیا تھا۔ کہہ لیجیے یہ قیامت کا منظر ہے۔ حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد اور خد

ا کا یومِ حساب۔ روحوں کا اٹھنا اور اپنی قسمتوں کا فیصلہ سننا۔ یہی وہ دن کہ جب کوئی جنت اور کوئی دوزخ میں جائے گا۔ ایک افراتفری کا عالم۔ حضرت عیسیٰ اپنے ممتاز ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے مقدروں کے فیصلے کرتے ہیں۔

ایک سحر کی سی کیفیت سے نکلنے میں کافی دیر لگی۔ خدا کا شکر تھا یہاں سے سینٹ پیٹرز سکوائر کا جانے کا راستہ تھا۔ جس سے میں سکوائر میں آ گئی۔

٭٭٭







باب13: پنتھین Pantheon، پیازہ نیوون ٹراسٹی ویرا Trastervera اور Testaccio




* پنتھینPantheon کے گرد و نواح کو اگر روم کا دل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا

* پینتھین چرچ کی وسیع و عریض گنبد دار چھت ایک حیرت انگیز عجوبہ ہے

* نیپلز کا ایڈمنڈو Admondo تربیلا ڈیم پر کام کرنے والا انجینئر پاکستانی محبتوں کا مقروض تھا

* اٹلی کے جنوبی علاقوں کو شکایت ہے کہ اُن کا پیسہ شمالی علاقوں کی ترقی و ترویج کے لئے استعمال ہوتا ہے اور شمالی حصوں کو بھی یہی شکایت جنوب سے ہے

* Trastevere میں قدامت کے رنگ موہ لینے والے تھے



بس میں چڑھتے ہی اپنی مہار میں نے ایزولینا کے ہاتھوں میں دے دی تھی۔ صُبح ناشتے کے بعد اُسے فون کیا تھا۔ آواز سنتے ہی اس کی جانب سے وقت مقر رہ پر پہنچنے کی تاکید تھی۔ اور جب میں ٹرمینل پر کھڑی بسوں کی یکے بعد دیگرے روانگی دیکھتی تھی وہ مجھے نظر آئی تھی اور میں پُر جوش سے انداز میں اس کی طرف بڑھ گئی تھی۔

یہ کیسی پُر مسرت سی بات تھی کہ اُس نے بھی ایک خوش الحان اور خوش اطوار صحرائی ساربان کی طرح میری بڑھائی ہوئی اِس مہار کو پکڑ لیا تھا۔ بیٹھنے کو جگہ بھی قریب ترین دی تھی۔ یعنی اپنی اکلوتی نشست کے عین عقب میں۔

جب ذرا سی کاروباری سرگرمی سے فرصت پاتی یعنی مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے، انہیں بروشرز دینے اور مائیک پر اُن سے چند لفظوں میں بات چیت کے بعد وہ فوراً گردن گھما کر مجھے کچھ بتانے لگ جاتی۔ ایک پمفلٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا تھا۔

’’آپ کو پہلے Pantheonاُترنا ہے۔ اِسے روم کا دل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔‘‘

میں نے اس کی اہمیت کی نوعیت جاننا چاہی تو ازولینا نے کہا۔

’’اس کے اردگرد کی دنیا بڑی مسحور کن سی ہے۔ ایک جانب دریائے ٹبرTiberتو دوسری جانب یہ اپنے گرجا گھروں، اپنے پیازوں Piazzas، اپنی صدیوں پرانی عمارتوں، اپنے کوچہ و بازاروں کی قدامت و جدّت کے حسن سے لدی پھندی، لوگوں کے پُروں کو اپنی بانہوں میں سمیٹے اپنے اندر اور باہر کے راز اُن پر کھولتی ہے۔ بس آپ نے ذرا آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔ روم کی شہری اور دیہاتی زندگی کا دلکش امتزاج یہاں نظر آئے گا۔‘‘

اسی دوران کسی مسافر نے اس کی توجہ چاہی تھی۔ فرض شناس لڑکی کا چہرہ کیا پورا وجود جیسے مجسم ہو کر اپنے مخاطب کو سننے لگا تھا۔ مطمئن ہو کر جب وہ آگے بڑھا تب وہ میری جانب متوجہ ہوئی۔

’’ارے ہاں۔‘‘ دفعتاً اُسے کچھ مزید یاد آیا تھا۔

’’ہمارا وہ خوبصورت، انقلابی اور اٹلی کا پہلا نوبل انعام یافتہ شاعرGiosue Carducciکہ وہ پیسا Pisa کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا اور بلوگناBologna میں ملازمت کرتا تھا۔ جب پہلی مرتبہ روم کی سیاحت کے لئے آیا تو بطور خاص اِسے دیکھنا گیا تھا اور بے حد متاثر ہوا تھا اس سے۔ اس کا اظہار اُس نے اپنی ایک نظم میں بھی کیا۔‘‘

’’ روم کی بھلا کون سی ایسی چیز ہے جسے سراہانہ جائے ایزولینا۔ ہاں اگر ایک عظیم شاعر کو کوئی مقام اور جگہ بہت پسند آئی تو بھئی پھر اس کے باکمال ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔‘‘

سچی بات ہے رات اتنی تھکی ہوئی تھی۔ دیر بھی خاصی ہو گئی تھی کہ کوئی کتاب، کوئی برو شر، کوئی گائیڈ بک کھولنے کی ہمت نہیں پڑی۔ بستر پر گری اور کہیں رومن بادشاہوں کی دُنیا میں پہنچ گئی۔

صبح تو یوں بھی بھاگ دوڑ میں پھنسی ہوئی تھی۔ ناشتے کا شیڈول بھی واجبی سا نہیں بلکہ خاصا اہم اور پیٹ کی ناک تک بھرائی سے متعلق تھا۔ اب ایسے میں کتاب کا کھلنا اور کچھ دیکھنا ممکن کب تھا؟

بس نے مرکزی شاہراہ سے ذرا آگے اُتارا۔ ایزولینا نے تھوڑا گائیڈ کیا تھا۔ کچھ لوگ بھی اُترے تھے۔ انہی کی سنگت میں قدم اٹھائے چلی جاتی تھی۔ یہ اور بات تھی کہ کہ وہ رجّی پجی نظروں والے اپنے اردگرد بس ایک طائرانہ سی نگاہ پھینکتے اور آگے بڑھ جاتے۔ یہاں بے چاری فقیر فقری سی جدھر جاتیں وہیں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جاتیں۔ طرلے منتوں سے کہیں واپس بُلاتی۔

ملحقہ گلیوں میں تھوڑا چلنا پڑا۔ یہ چلنا بھی کیا چلنا تھا کہ قدم رُک رُک جاتے۔

اب جس Panthoen کو دیکھنے جا رہی تھی وہ تو اپنی عقبی سمت سے کوئی جنّاتی سی صورت کا جان پڑتا تھا۔ ایسی بلند و بالا دیواروں والا جیسے کوئی قلعہ ہو۔ ایسا پیٹ پھلائے ہوئے جیسے کوئی نو ماہ کی حاملہ ہو۔

جب پیازہ Piazzaڈیلا روٹنڈہ میں داخل ہوئی تو داہنے ہاتھ گرینایٹ کے چمکتے steps نظر آئے۔ فوراً جا کر وہاں بیٹھی۔ پہلے تھوڑا آرام کیا۔ پھر عمارت کے منہ متھے پر نظریں ڈالیں۔ ایک جانب پستہ قامت پوڈیم پر بنے فوارّے میں خوبصورت کندہ کاری کے پیڈسٹل پر کھڑی obeliskسجی سنوری اپنے چہرے مہرے سے سو فی صدی مصری دکھتی تھی۔ جو یقیناً کِسی شہنشاہ کی مار دھاڑ میں ہی یہاں لائی گئی ہو گی۔ کراس کا نشان بعد میں ٹانگ دیا گیا ہو گا۔

کتاب کھولی اور جانی کہ گرینائٹ کے ڈھیروں ڈھیر کورنتیئن Corinthianدر اصل قدیم یونانی اور رومی طرز تعمیر کے امتزاج سے بنائے گئے کالم ہیں جن پر عمارت کھڑی کی گئی ہے۔

رومن دیوتاؤں کا گھر ہے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا تھا کہ دو تین کا نہیں ماشاء اللہ ماشاء اللہ پورے تیرہ دیوتاؤں کا۔ جیوپٹر سے شروع کریں تو جینوJuno، نیپچونNeptune، Bacchus، اپالوAppollo، ڈائیناDiana، مر کری، Mars، وینس، Vulcanاور Ceres۔

مزے کی بات سب یہیں رہتے تھے اور لڑتے وڑتے بالکل نہیں تھے۔ ہے نا عجیب سی بات۔ ایک میان میں دو تلواریں نہیں مان، ایک سلطنت کو دو بادشاہ نہیں قبول۔ یہاں تو خیر سے خداؤں کی فوج پڑی تھی۔ تو بھئی اگر کوئی ایسی بات ہے تو پھر تاریخ نے روند مارا ہے۔

وقت چاہے صبح کا ہو، چاہے دوپہر کا یا شام کا۔ سیاحوں کے پُروں کا ہونا شرط ہے۔ ایسا بھریا میلہ کہ رشک آئے۔ کچھ ایسا ہی لگتا تھا جیسے دنیا نے بس اٹلی کا گھیراؤ کر لیا ہے۔

’’ہائے میرے ملک میں ایسا کب ہو گا؟ مجھے تو بس یہی ہو کے لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ کمبخت مارے لُطف اٹھانے بھی نہیں دیتے۔‘‘

دیر بعد جب اندر جانے کیلئے اٹھی تو جان کر چہرہ کھِل اٹھا کہ یہاں کوئی ٹکٹ نہیں۔ شکر میرے مولا انہوں نے بھی کوئی چیز مفت کی۔ وگرنہ تو ٹکٹوں نے ہی مت مار دی تھی۔ چلو اِن پیسوں سے کچھ کھانے پینے کی عیاشی کروں گی(جیسے تجھ غریبڑی کے پاس پیسے نہیں ہیں خوش کتنی ہو رہی ہے؟ )اندر نے طعنہ مارا تھا۔

’’دیکھو بھئی مفتہ تو پھر مفتہ ہے۔ قاضی جیسے بندے نے نہیں چھوڑا تھا تو میں بے چاری کِس کھیت کی مولی؟‘‘

چونکہ یہ ایک چرچ بن گیا ہے جو اُن شہدا کے لئیے وقف ہوا جو سقوط روم کے وقت شہید ہوئے۔

اب ایک ٹولا کوئی پندرہ لوگوں کا قریب آ کر کھڑا ہوا۔ گائیڈ بھی ساتھ تھا۔ لکچر شروع ہو گیا تھا۔ میں نے بھی کان اُن کی جانب دھکیل دئیے اور آنکھوں کو بھی وہیں گاڑ دیا۔

اس کے پورٹیکو کو روم کی چھتری کہا گیا ہے۔ جب اسے دیکھا تو لگا واقعی یہ ایسے ہی ٹائٹل کی مستحق تھی کہ طوفانی قسم کی بارشوں اور آندھیوں میں جائے پناہ تھی۔ اور جب میں اس کے کانسی کے بھاری بھرکم دروازوں سے اندر داخل ہو رہی تھی تو گویا 2000سال پرانی تاریخ میں قدم رکھ رہی تھی۔

اور سچی بات ہے کہ محسوس تو یوں ہوا تھا کہ جیسے ایلس ان ونڈرلینڈ کی طرح کِسی ایسی گل و گلزار دنیا میں آ گئی ہوں کہ جہاں آنکھیں جھپکنی مشکل ہو گئی ہیں۔ رنگ و نور کا جہان اُبلا پڑ رہ تھا۔ چھت کے گنبد کی گولائی دار غیر معمولی وسعتوں کی ہر ہر موڑ اور مقام پر رنگوں کی نقاشی اور قد آدم طاقچوں میں کھڑے مجسمے کیا دل لُبھاتے تھے۔ چھت کے گول سوراخوں سے چھن چھن کرتی دھوپ پیلیں ڈالتی پھرتی تھی۔

کیسی افسانوی دنیا تھی جس میں گھومتا پھرتا ایک چھوٹا سا انسانی جہان سانس روکنے کو کافی تھا۔ میں بھی پتھر کی طرح مبہوت بنی کھڑی تھی۔ پھر بیٹھ گئی تھی کہ مجھے محسوس ہوا تھا کہ رُعب حُسن سے غش کھا کر گر جاؤں گی۔

میرے خیال میں اس کی تعمیراتی فنی خوبیوں پر بحث فضول ہے۔ ظاہر ہے صدیوں پرانا شاہکار وقت کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ، جلنے بجھنے اور ملیا میٹ ہونے کے مرحلوں سے دسیوؤں بار تھوڑی بیسوؤں بار گزرا ہو گا۔ موجودہ رنگ تو جدتّوں کے ساتھ ہے جسے رافیل Raphaelجیسے آرٹسٹوں کے ہاتھوں نے سنوارا اور عہد جدید کے فنکاروں نے جلا دی۔

میں چھوڑتی ہوں اِس کی اندرونی ڈیزائن کاری کو کہ وہ کیسے مربعوں اور دائروں میں رقصاں ہے۔ بس اس کالم کو دیکھتی ہوں جس پر قربان گاہ اور apsesہے۔ تین اہم طاق اور تین اہم ملحقہ گرجے جن میں ایک میں بادشاہ وقت وکڑایمونیل Emmunuel IIاور ایک میں وہ لازوال مصور جس پر اٹلی کو ناز ہے رافیل

Raphealدفن ہیں۔ میں نے فاتحہ پڑھی۔ دل میں مگر ہاتھ نہیں اٹھائے۔ وکٹر ایمونیل کے لئے تو خصوصی دعا بھی کی۔

اور جب میں باہر نکلی تھی مجھے احساس ہوا تھا کہ باہر کے لیول اور عمارت کے لیول میں بہت فرق ہے۔ میں قریبی میکڈونلڈ سے فش برگر لائی۔ اُف لوگوں کو، نظاروں کو دیکھتے ہوئے کھانے کا اپنا ایک مزہ ہے اور میں یہ مزے لوٹ رہی تھی۔

جب ایک عجیب سی بات ہوئی۔ ایک اونچے لمبے کوئی ساٹھ60 باسٹھ62 کے پیٹے (میرے خیال کے مطابق) میں ایک شخص نے قریب آ کر پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں؟ پوچھنے والا یورپی لگتا تھا۔ حیرت کے چھلکاؤ سے لبریز آنکھوں سے میں نے مخاطب کو دیکھا کہ یہ سوال میرے اتنے دنوں کے قیام میں پہلی بار ہوا تھا۔

’’پاکستان‘‘۔ ہائے میرے لہجے میں پور پور شرمندگی اور خوف رچا ہوا تھا۔

’’ ارے۔‘‘

مرد کی باچھیں کھِلیں۔

’’آپ کے تربیلا ڈیم کی تعمیر میں میرے ہنرمند ہاتھوں کا بھی خاصا دخل ہے۔‘‘

اب میری باچھیں کھلنے کی باری تھی۔ یہ اور بات ہے کہ میرے اندر سے کہیں ایک ہوک بھی اٹھی تھی کہ اسی تربیلا ڈیم پر میرا جواں سال کزن خالد علوی ہزاروں فٹ اونچی کرین سے گر کر شہید ہوا تھا۔

مسٹرایڈ منڈو کوئی چار سال پاکستان میں رہا۔ چار سالہ یادوں کی لو اُس کی نیلی مائل بھوری آنکھوں میں جیسے فانوس کی طرح جگمگائی۔

’’ہم کبھی ویک اینڈ اور کبھی پندرہ دن بعد اسلام آباد جایا کرتے تھے۔‘‘

اسلام آباد کے چند ایلیٹ کلاس گھرانوں سے اُس کے مراسم تھے جن کا ذکر اس نے اِس وقت محبتوں بھرے رچاؤ سے کیا تھا۔

وہ نیپلز سے تھا۔ اپنی چھوٹی سی ایک کنسٹرکشن کمپنی کا مالک تھا۔ روم کِسی کام سے آیا تھا۔ مجھے وہ کچھ گالڑی ٹائپ لگا تھا۔

اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میرا نیپلز آنے کا کوئی پروگرام ہے۔

میں نے اپنی اکیلے ہونے کی مجبوری اُسے بتائی۔

بڑی بے ساختہ سی دعوت تھی جو اس نے فی الفور دے ڈالی۔

’’میرا گھر ہے وہاں۔ میرے پاس ٹھہرئیے۔ پاکستانیوں کی محبتوں کا میں مقروض ہوں۔‘‘

اتنی خوبصورت بات۔ میری آنکھیں پل بھر میں گیلی ہو گئیں۔

’’ارے نیپلز بہت خوبصورت جگہ ہے۔ دو باتیں تو اس کی بڑی مشہور ہیں۔ پیزا اور صوفیہ لورین۔ یقیناً دونوں کی آپ بھی مدّاح ہوں گی۔ دونوں کی جائے پیدائش نیپلز ہی تو ہے۔ اس کے رنگین پرانے شہر کا تو بس دیکھنے سے تعلق ہے۔‘‘

اُس نے اپنی بھوری مائل آنکھیں دائیں بائیں پھینکیں اور پھر میری طرف جھکتے ہوئے بولا۔

’’بھئی بڑی پرانی تاریخ ہے اس کی بھی۔ آپ لکھاری ہیں۔ اُس شہر کو تو ضرور دیکھنا چاہیے۔ نیپولین کو جب شکست ہوئی تو یہ ایک خود مختار سلطنت بن گئی تھی مگر اِن رومنوں کی اجارہ داری 1861میں کھل کر سامنے آئی۔ ’’اٹلی کو متحد کیا جائے۔‘‘ اس کے بادشاہ سے لے کر دانش وروں تک سب کی ایک ہی رَٹ تھی۔

اس اتحاد کے شور و غوغا میں کِسی نے ہمارا تو سوچا ہی نہیں کہ یہ بیچارے بھی کسی گنتی شمار میں ہیں۔ اِن سے بھی کچھ پوچھ لو کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ اِن کی بھی سن لو کہ یہ کیا کہتے اور کیا چاہتے ہیں؟ نتیجہ کیا ہوا ہماری تہذیب و ثقافت اور سیاسی لحاظ سے مضبوط آزاد و خودمختار سلطنت محض ایک صوبہ بن کر رہ گئی۔ اس کے سارے وسائل اور پیسہ کہیں شمال کی صنعتوں کے فروغ کے لئے اور کہیں مرکز کے لئے استعمال ہونے لگا۔

اور جب میں اُسے سُنتی، دل میں ہنستی اور خود سے کہتی تھی۔

یہ ساری دنیا ایسے ہی پھنبڑ پھوسوں اور کنجر کانیوں میں اُلجھی پڑی ہے۔ گھروں سے شروع ہو کر محلّوں، شہروں، صوبوں اور ملکوں تک میں یہی ہتھکنڈے اور سیاستیں کارفرما ہیں۔ اللہ نے بنی نوع انسان کی سرشت ہی کچھ ایسی بنا دی ہے۔ اب وہی حال ہے نا گجراتیوں سے بچو مکّار لوگ ہیں۔ سیالکوٹی نام نہ لو ان کا تو۔ سانپ اور سیالکوٹی میں کوئی فرق نہیں۔ بس تو ہر جگہ انسانی نفسیات ایک سی ہے۔ خدا کا بس کرم ہے کہ بیچ میں ہی کچھ لوگ ایسے پیدا ہو جاتے ہیں۔ کہہ لیجیے وہ خود پیدا کر دیتا ہے۔ جو بھرم، آبرو اور عزت و توقیر کے ضامن بن جاتے ہیں۔ خاندانوں، شہروں اور ملکوں کے لئے۔ بس یہی سرمایہ ہوتے ہیں۔

ایڈمنڈو خدا جانے کس بات پر ہنسا تھا۔ میں نے اپنی سوچوں سے نکل کر جب اُسے دیکھا۔ اُس نے کہا۔

’’ارے ہاں وہ قرون وسطیٰ کا اطالوی شاعر دانتے Dantجو اطالوی زبان کا باپ اور اطالوی قومیت کے اتحاد کا بڑا علم بردار تھا۔ تھا تو وہ فلورنس سے پر نیپلز میں ہر جگہ سجا ہوا ہے۔ یقیناً بہت سے پاکستانیوں کی طرح تم بھی اُس کی بہت بڑی مدّاح ہوں گی۔‘‘

’’کیوں نہیں۔ وہ تو میں ہوں۔ تمہارے رنڈی رونے اپنی جگہ۔ مجھے اُن سے کیا۔‘‘

کوئی گھنٹہ بھر ہم لوگوں نے باتیں کیں۔ اپنا نام پتہ موبائل نمبر سب اُس نے میری ڈائری میں لکھے اور موبائل میں بھی فیڈ کر دئیے۔

اور جب میں بس کے انتظار میں تھی۔ اگلے پچھلے سبق بھول کر ایک نئی سوچ میرے گرد رقصاں تھی تو نیپلز کا چکر کیوں نہ لگا لیا جائے۔

ہڈیوں گوڈوں میں اُتری ہوئی تھکن نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔

’’کچھ خوف خدا کرو۔ جو ماڑا موٹا دیکھنا ہے۔ دیکھ لو۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی ہوس سے باہر نکل آؤ۔‘‘

ازولینا کے مسکراتے چہرے نے اپنایت کی خوشبو میں نہال کر دیا تھا۔

اس نے پوچھا تھا۔

’’کیسا رہا۔ لُطف آیا۔‘‘

ظاہر ہے دونوں کا جواب مسکراہٹ اور اور کمال کی چیزیں ہیں کہنے میں ہی تھا۔

’’روم کے سب سے خوبصورت سکوائر پیازہ ناوہ ناNavonaدیکھنے کے لئیے تیار ہو جائیں۔‘‘

یہ تو سچی بات ہے۔ سیاحوں کی جنت محسوس ہوئی تھی۔ اس کی کشادگی، اس کا ماحول، اس کے مجسمے اور فوارے۔ عمارتوں کی قدامت کا حسن اور تاریخی اہمیت۔ بگھیوں میں

بیٹھے سیر کرتے منچلے اور جا بجا بیٹھے کھڑے، گھومتے پھرتے سیاحوں کی ٹولیاں۔

پورا ایک گھنٹہ یہاں گزار کر واپسی کی۔ بس میں بیٹھنے کے ساتھ ہی میں نے کہا۔

’’ازولینا تم بہت پیاری سی لڑکی ہو۔ مگر اب مجھے کہیں نہیں اُترنا۔ اگر تھوڑا سا زبانی کلامی تعارف کرواتی جاؤ تو تمہیں دعائیں دوں گی۔‘‘

وہ ہنسی۔ ’’تھک گئی ہیں؟‘‘

جواب میں میرے چہرے پر بکھری حسرت و یاس نے اُسے یقیناً متاثر کیا ہو گا۔ تبھی اس نے فی الفور کہا تھا۔

’’اوکے اوکے۔ گٹ ریلیکس۔‘‘

وکٹر ایمونیل Victor Emmanual Monument دوم کی یادگار پر اُس نے جیسے دخترانہ سا محبت بھرا اصرار کیا تھا۔

’’دیکھ آئیے اِسے۔ تاریخ میں بڑی اہمیت ہے اس کی۔ پورا گھنٹہ ہے آپ کے پاس۔‘‘

اُس کے ایک طرح دھکا دینے پر ہی میں اُتری تھی۔ یادگار تک چلنا بھی پڑا تھا۔ دوسرے سیڑھیاں بھی اتنی۔ بہرحال وکٹر ایمونیل دوم اٹلی کا پہلا بادشاہ جس نے 1870میں پورے اٹلی کو متحد کرتے ہوئے اُسے ایک قومی شناخت دی۔ اِس کردار سے تو میری اب خاصی شناسائی کیا ایک طرح کی دوستی ہو گئی تھی۔ اٹلی میں اپنے آنے کے پہلے دن مسز سمتھ کے ہاں جو مجسمے میں نے دیکھے تھے وہ اسی وکٹر اور اس کے تین ساتھیوں کے ہی تو تھے۔

’’تو بھئی اسے خراج پیش کرنا توازبس ضروری ہے کہ وعدہ کیا ہوا ہے۔ یوں بھی ایسی شخصیتیں چمکتے نگینے ہوتی ہیں۔ اپنی تاریخ کو تو جگمگاتی ہیں پر دوسری قوموں اور لوگوں کی بھی سانجھی بن جاتی ہیں۔

اٹلی کے اس پہلے بادشاہ گھڑ سوار کا یہ مجسمہ دنیا کا سب سے بڑا گھڑ مجسمہ ہے۔ مونچھیں دیکھ کر ہنسی چھوٹ گئی۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو کوئی ساڑھے چار پانچ فٹ سے کیا کم چوڑی ہوں گی۔ گھوڑے کے سموں کی کشادگی میں بندے بیٹھ سکتے تھے۔ سفید ماربل سے چمکتی یہ یادگار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ نامعلوم سپاہیوں کا مقبرہ اور ہمیشہ جلنے والا شعلہ دیکھا۔ اٹلی کے دربان یہاں بھی پتھر کے مجسموں کی مانند ساکت کھڑے دِکھتے تھے۔

پتہ چلا تھا کہ یہیں ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں Risorgimento تحریک اور جنگ کی پوری تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔ یقیناً دیکھنے کی چیز ہو گی مگر کیا کرتی۔ اپنی ٹانگوں کو بھی تو دیکھنا تھا۔ یوں بھی ابھی آدھا دن پڑا تھا۔

محبت و پیار کے اُن جذبات کا اظہار ممکن ہی نہیں جو میرے دل نے ازولینا کے لئیے محسوس کئیے تھے۔ اجنبی دیسوں میں ملنے والے فرشتوں میں وہ اِس صنف کا سب سے بڑا

کردار تھی کہ روم کا جنوب مغربی اور جنوبی حصّہ دکھانے کا سارا کریڈٹ اُس کے کھاتے میں جاتا ہے۔ میں نے تو کہیں نہ کہیں بیٹھ کر شام گال دینی تھی۔ مگر یہ وہ تھی کہ جس نے دو گاڑیوں کی تبدیلی کے ساتھ اپنی کولیگ سلوا کو میرے بارے بتایا اور اُسے میری مدد کے لئے کہا۔

ازولینا کی دوست سلوا نے دریائے ٹبر کے ساتھ مجھے Trastevereاور Testaccioکی ہر اہم جگہ دکھائی اور معلومات سے سرشار کیا۔ قرون وسطیٰ کے عکاس گاؤں کے طرز تعمیر کی جھلکیاں دیکھیں اور مندروں میں بجتی گھنٹیاں سُنیں۔ کیا حُسن تھا۔

کاش میں شاعرہ ہوتی تو نظمیں کہتی۔ میں مصور ہوتی تو اُن منظروں کو پینٹ کرتی۔ پیازہ سانتا ماریا اُتری۔ وہاں کچھ دیر بیٹھی۔ رب کے بندوں کی رنگا رنگی دیکھی۔ آئس کریم کھائی۔ خود کو خوش کیا۔ شکر ادا کیا کہ اس نے یہ جگہ بھی مجھے دکھائی۔

بس میں بیٹھے بیٹھے میں نے تنگ گلیوں میں چھلکتے قدامت کے جس حسن کو دیکھا۔ اُس حسن کو تفصیل سے دیکھنے کے لئیے دل کیسے مچل مچل گیا۔ اس کا احوال کیا سناؤں۔ دمشق یاد آیا تھا۔ اس کی فراخ کشادہ گلیوں میں وہ شاندار ولاز یاد آئے تھے۔ وہ گھر جن کے دروازوں پر کھڑے دربانوں نے میرا اندر دیکھنے کی خواہش پر میری پاکستانیت کو احترام دیا تھا۔ تعمیری حسن کے کیا رنگ تھے اُن گھروں میں۔ دمشق کیسا ہو گا اب۔

ہائے ان بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں۔ یہ شام قدیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ۔ سچی بات ہے لگتا تو کچھ یوں ہے جیسے طبل جنگ اب اسی سرزمین پر بجے گا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے تباہ کن نتائج اسی خطہ زمین کو بھوگنے شاید مقدر کر دئیے ہیں۔ کیا امریکہ اور برطانیہ، کیا فرانس اور کینیڈا، حتیٰ کہ ترکی بھی ہر روز یہاں میدان جنگ سجاتے ہیں۔

جنگ کے شعلے بھڑکنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ماچس کی ایک چھوٹی سی تیلی ہی نہیں مان۔ پہلی جنگ عظیم میں ہوا کیا تھا۔ سربیا کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہی قیامت بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم بھی جرمنی کی جانب سے پولینڈ پر حملے کی صورت میں پھوٹ پڑی۔ اب ترکی نے روسی طیارے کو مار گرایا ہے۔

آنکھیں تو بھیگ رہی تھیں۔ کوئی مجھے گھسنے دے گا یہاں۔ دہشت گرد کا کہہ کر حوالہ پولیس نہ ہو جاؤں گی۔ ہم مسلمان آہ راندہ درگاہ۔

پروٹسٹنٹ قبرستان کا پتہ چلا تھا۔ کچھ لوگ اُترے اور کچھ چڑھے تھے۔ جی چاہا تھا اُتر جاؤں۔ یہیں وہ کیٹس اور سیورن دفن ہیں۔ یہیں شیلے بھی ہے۔ دل بڑا مچلا تھا۔ مگر نہیں اُتری تھی کہ جانے کتنا چلنا پڑے گا۔

سلوا نے مجھ سے پوچھا تھا۔ مونٹیمرٹینیMontemartiniدیکھنے کا موڈ ہے۔ میں نے نفی میں سر ہلایا تھا۔

’’بہت خوبصورت میوزیم ہے۔ چار سو کے قریب نادر ترین مجسموں والا۔‘‘

میرے ہونٹوں پر شکستہ سی ہنسی بکھر گئی تھی۔

سلوانے مجھے تین گھنٹے کی اِس سیر کے بعد پیازہ نووینا کے پاس اُتارا جہاں سے میں ازولینا کی بس میں سوار ہو سکتی تھی۔ پیازہ اس وقت شام کے حسن میں پور پور ڈوبا ہوا تھا۔ بیٹھی انتظار کرتی رہی۔ دو تین بسوں کے بعد ازولینا کی بس میں چڑھی۔ اس کا وہی مخصوص سوال تھا۔

’’انجوائے کیا؟‘‘

’’وہ تو کیا مگر بیٹھے بیٹھے۔ ازولینا میں تو اسی میں بڑی خوش ہوں۔ میں نے اُن ہواؤں اور فضاؤں میں سانس لیا۔ اُن چیزوں کا بصری دیدار کیا جنہیں میں نے کب دیکھنا تھا؟ ازولینا تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟ لفظ بہت تھوڑے ہیں اور چھوٹے بھی ہیں۔‘‘

میری جذباتیت پر اُس نے میرا ہاتھ دبایا تھا۔ اس کا چہرہ اس کے اندر کے احساسات کی رو میں بہنے لگا تھا۔

’’میری ماں روم آنا چاہتی تھی۔ نہیں آ سکی۔ دنوں میں چٹ پٹ ہو گئی۔ آپ کی تھوڑی سی مدد کر کے میں نے اپنے اُس جذبے کی تسکین کی ہے۔‘‘

کل کے بارے میں پوچھا۔

ازولینا کل تو میرا واپسی کا ارادہ ہے۔ ایک دن آرام کے بعد پیسا اور لوکا کے لئیے نکلنا ہے۔ فلورنس بھی جانا ہے۔

پیازہ ڈل پاپلوPiazza Del Popolo پر اُترنے اور بقیہ شام وہاں گزارنے کا مشورہ مجھے ایزولینا سے ہی ملا تھا۔

’’دو گھنٹے وہاں ضرور گزارنے ہیں آپ نے۔ لُطف آئے گا۔‘‘

چھ بجے سے پہلے میں نے بس کو نہیں چھوڑا۔ جتنا مزید دیکھ سکتی تھی۔ دیکھتی رہی۔

اُترنے سے قبل میں نے اُس کا ما تھا چوما تھا۔ اُسے خوشگوار اور پرمسرت زندگی کی دعا دی تھی۔

کہہ لیں کہ تھوڑی سی عجیب یا نرالی سی بات ہوئی۔ یا انسان کے کسی انسان دوستی جذبے کا ترجمان وہ ایک خوشگوار سا لمحہ تھا کہ جب میں بس سے اُتر رہی تھی اُس نے ایک چھوٹا ساخوبصورت گفٹ پیک شاپر میرے ہاتھوں میں تھمایا۔ پٹڑی پر قدم رکھتے ہی میں نے حیرت سے اُسے دیکھا وہ اپنے مسافروں کے ساتھ مصروف تھی۔

اور جب آخری مسافر اندر داخل ہونے پر خودکار دروازے بند ہو گئے۔ اُس نے مجھے دیکھا تھا۔ میں ابھی تک ایک اجنبی زمین پر ایک اجنبی انسان سے محبتوں کی یافت پر گم سُم اور حیران سی کھڑی تھی۔ اُس کے ہاتھ ہلانے پر مسکرائی تھی اور نمی اُترتی آنکھوں سے ایک جانب بس اور دوسری جانب خود اپنے راستے پر آگے بڑھتے ہوئے صرف یہی سوچے چلی جا رہی تھی کہ دھرتی کا سارا حُسن تو بس ایسے ہی لوگوں کا مرہون منت ہے۔

میری جذباتیت اور تھوڑی سی دل گرفتگی راستے کے خوبصورت منظروں نے کم کرتے کرتے ختم کر دی تھی۔ شام ہو رہی تھی اور تا حد نظر جلوے ہی جلوے بکھرے ہوئے تھے۔ Piazza Del Popolo سکوائر زیادہ دور نہ تھا۔ یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ گلیوں گلیوں سے وہاں جا یا جا سکتا ہے۔



سچی بات ہے ساری گلیاں چُلبلے سیاحوں سے بھری پڑی، بلند و بالا عمارتوں سے سجی ہوئیں کسی بے حد پر اسرار سی فلم کی طرح جو ہر آن نئے نئے منظروں کو وا کرتی ہوں جیسی تھیں۔ یہاں بھی وہی حال تھا۔ میں جگہ جگہ بیٹھ جاتی۔ ابھی سورج تو بینروں پر بیٹھا تھا مگر روشنیوں نے گلیوں کو بقعہ نور بنا رکھا تھا۔ ہواؤں میں لطافت گھل گئی تھی۔

صدیوں پرانا یہ سکوائر روم کے روایتی حسن سے سجا سنورا اپنے اندر زمانوں کی تاریخ کا اثاثہ سنبھالے روم کے ماتھے کا جھومر بنا اُس کی شان بڑھانے کا باعث ہے۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی عجیب سی سرشاری اور لطف رگ و پے میں دوڑنے لگا تھا۔ سکوائر کی وسعت، اُس کا گرد و نواح لوگوں کی رونق سب مسرور کن تھے۔

ایک وقت تھا بہت پرانا وقت جب یہ مسافروں کے لئے مشرقی جانب سے روم کے اندر داخل ہونے کی پہلی گزرگاہ اور پہلا راستہ اور پہلا منظر نامہ ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کبھی یہoval صورت کا تھا۔ ہو گا کبھی۔ مگر اب تو اپنی وسعتوں کے ساتھ ساتھ عمارتوں کے حسن ترتیب، اپنے جڑواں چرچوں کے باروق ڈیزائن کی حسن کاریگری، اپنے فواروں میں سجے جانوروں کے مجسموں سے سجا سنورا قلب و نظر کو گرماتا ہے۔

اس کی بلند و بالا مصر یobeliskجسے دنیا کی نمبر دو کا قدیم ترین ہونے کے اعزاز کے ساتھ ساتھ روم میں سب سے اونچی اور بلند ہونے کا مرتبہ بھی حاصل ہے۔ اس کی ہر سمت کسی نہ کسی انداز میں تاریخی حسن سے سجی ایک داستان سناتی ہے۔ آگسٹس 10قبل مسیح میں اسے مصر سے لا یا تھا۔

یہ Aurelian walls میں گھِرا جس کی دیواروں کے عقبی حصے اور ستون آرٹ شاہکاروں سے سجے اس کی شان دو چند کرتے ہیں۔

Obeliskکی سیڑھیوں پر من چلوں کے نظارے بکھرے ہوئے تھے۔ ایک پر بیٹھ کر میں نے اپنی گردن کو بہت خم دے کر اس کی بلندی کو دیکھا۔ دس منزلہ جو کبھی رعمسیس دوم کے ٹمپل کی شان بڑھانے کی موجب تھی۔ جسے سیتی اول نے بنوایا تھا۔ مصر کے پہلے رسم الخط ہیرو گلیفی سے اس کی تین اطراف سجائیں اور اپنی تاریخ کو کندہ کاری سے محفوظ کیا۔ ہائے یہ تاریخ بھی کیسی ظالم ہے۔ مار دھاڑ، اُکھاڑ پچھاڑ کے بغیر اُسے کہیں چین ہے۔ نہیں ہے کبھی یہ رعمیس دوم کے محل کی شان بڑھائی تھی۔ آج کسی اور جگہ کسی اور کو نواز رہی ہے۔

لانے کے فوراً بعد اِسے سرکس میکسمس Circus Maximus میں نصب کی گئی۔ بعد میں کوئی1589 میں اس سکوائر کی شان کو دوبالا کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ تب یہاں گاڑ دیا۔

اس پیازہ کی مشرقی اور مغربی سمتوں کو حسن دینے میں اُن دو فواروں کا ذکر کتنا ضروری ہے۔ Neptune کا فوارہ اس کی مغربی سمت سے اور رومہ مشرقی جانب سے دل کو رجھانے اور آنکھوں کو لبھانے والے نظر آتے ہیں۔ پیازہ ڈل پاپلو کا مطلب لوگوں کا سکوائر سے ہے۔

میں نے شام کا حُسن یہاں بیٹھ کر دیکھا۔ دھوپ کی آخری کرنوں کو obeliskکی چوٹی پر سے غائب ہوتے دیکھ کر اپنے دل میں عجیب سے احساسات کا ہجوم یلغار کرتے محسوس کیا۔ مجھے اپنے ساتھ ساتھی نہ ہونے کا بھی قلق تھا۔ میں اپنے جذبات شیئر ہی نہیں کر سکتی تھی۔

تاہم اس شام کا حُسن ایزولینا کے محبت بھرے تحفوں نے بھی بڑھا دیا تھا کہ چاکلیٹ ایسی مزے کی تھی۔ چھوٹی سی اس کی بائٹ اور ساتھ نٹنر۔

پھر جب دن ڈوبا اور رات کی حسینہ اپنے سیاہ بالوں کے ہر ہر تار میں چمکدار موتی پروئے چھم چھم کرتی اُتری اور سارے میں اُس کا طلسم بکھر گیا۔ تو سچی بات ہے دل اُس بھر یا میلے سے اٹھنے پر مائل نہ تھاپر جسم میں اٹھتی تھکن کی لہریں لعن طعن کرتی تھیں۔

اب ٹیکسی میں اسٹیشن آ گئی سوچاکہ ٹکٹ کے ٹنٹنے سے بھی نمٹ جاؤں۔ جب بکنگ آفس کھوج کرتی تھی تو بھول گئی تھی کہ ایجنٹ تو یہاں جنگلی کھمبیوں کی طرح جا بجا اُگے ہوئے ہیں۔ ایک نے پکڑ لیا تھا۔ ساتھ لے کر مشینوں پر آ گیا۔

انگلیوں سے ٹک ٹک۔ چند لمحوں بعد بولا۔

’’ ارے بھئی بڑی خوش قسمت ہیں۔ ٹکٹ سیل پیکج پر چل رہا ہے۔ 57یورو دینے ہوں گے۔‘‘

لو بھئی خوشی سے نہال ہونے والی بات ہو گئی۔ پورے تیس یورو کی بچت۔

ابھی اس خوشی کی ساعت کو پل نہیں گزرا تھا کہ اُس نے ہانک لگائی۔

’’سوری مجھے غلطی لگی۔ یہ ستتر 77یورو کا ہے۔‘‘

ساری خوشی موت کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ میرے یکدم کھلنے اور آناً فاناً مرجھا جانے والے چہرے کے دونوں روپ اُس نے دیکھے اور عجیب بونگے سے انداز میں بولا۔

’’دس یورو کی تو ابھی بھی بچت ہو رہی ہے۔‘‘

چلو خیر اب یورو مشین میں ڈالے۔ ٹکٹ نکلا۔ بقیہ پیسے نکلے۔ میں نے تین یورو اس کی ہتھیلی پر رکھے۔

اُس کی نظروں میں جیسے مجھے کھلم کھلا اِس نفرت بھرے طعنے کا عکس نظر آیا تھا۔

’’بڑی کمینی عورت ہو۔‘‘

گھبرا کر فوراً میں نے مزید دو یورو اُس کی ہتھیلی پر رکھ دئیے۔ مگر وہاں وہی رکھائی، کمینگی اور سرد مہری سی نظر آئی تو میں بھی یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

’’الو کا پٹھا۔ ساری بچت خود ہی ہڑپ کر جانا چاہتا ہے۔ بھئی ذرا سی خوش ہونے پر تو میرا بھی حق بنتا ہے نا۔‘‘

٭٭٭







باب 14: اٹلی کا قومی شاعر گوزیو کاردوسی






* اٹلی کے پہلے نوبل ایوارڈ یافتہ قومی شاعر گوزیو کاردوسی کی سوچ بڑی انقلابی تھی۔

* اُس کا کہنا تھا کہ شاعری ہی وہ ہتھیار ہے جو کِسی بھی قوم کے شعور کی بیداری اور اُسے سیاسی بلوغت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

* شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھا استاد، بہترین نثرنگار اور تنقید نگار بھی تھا۔

* ملکی سیاست میں بھی وہ بڑا فعال تھا۔



پہلا تعارف روم میں ایزولینا کی زبانی ہوا تھا۔ اپنے قومی اور نوبل انعام یافتہ شاعر پر بات کرتے ہوئے اس کا لہجہ خاصا پر غرور سا تھا۔ تفصیلی تعارف مسز ریٹا سمتھ کی سٹڈی روم میں ہوا۔ یوں یہاں دانتے Dantaکانسی کے بڑے اور گوزیو کاردوسیGiosue Carducei ذرا چھوٹے دیدہ زیب مجسموں کی صورت موجود تھے۔ دانتے سے تعارف ڈیوائن کومیڈی کے حوالے سے پرانا تھا۔ مگر اس کی مخصوص طوطے جیسی ناک سے شناسائی یہاں اٹلی میں ہوئی۔

مگر یہ صورت۔ وجاہت برستی تھی۔ بنانے والے کی ہنر مندی کو بھی سراہنا پڑا تھا کہ دانشوری کا گھمبیر سا تاثر فنکار نے کمال فن کی صورت چہرے پر بکھیر دیا تھا۔ داڑھی اور مونچھیں بھی کمال کی تھیں۔ یہ صدی دو صدی پہلے کے بڑے بڑے لکھاری، دانشور، سائنس دان اور فنون لطیفہ کے ماہر اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوجود اتنی بڑی بڑی مونچھیں اور داڑھی رکھتے تھے۔ کیا ایسا کرنا تب معاشرے میں مردانگی کی علامت سمجھی جاتی تھی یا پھر سست الوجودی اور کاہلی کا کوئی مسئلہ ہوتا تھا؟

مسز ریٹا کے لہجے میں بھی چھلکتے فخر کا احساس اور اظہار بڑا زور دار قسم کا تھا۔

’’ہمارے ملک اٹلی کا پہلا نوبل ایوارڈ یافتہ اور ماڈرن اٹلی کا قومی شاعر۔‘‘

در اصل شدید خواہش کے باوجود مسز سمتھ کا سٹڈی روم میرے لئے ابھی تک شرلک ہومز جیسا اسرار لئے ہوا تھا۔ پہلے دن کی پہلی شام اس کے دروازے ضرور کھلے تھے مگر اندر جانے، وہاں بیٹھنے اور شیلفوں میں بند ہیروں کو دیکھنے کی حوصلہ افزائی نہ تھی۔ آج شام کو ان کے گھر جاتے ہوئے میں نے دل میں کہا تھا۔

’’اب دم واپسی ہے۔ ڈھیٹ بن کر مدّعا ضرور گوش گزار ہو گا۔‘‘

وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوئیں۔ روم کے بارے باتیں ہوئیں۔ میرے تاثرات اور تجربات بڑے ہی دل خوش کن تھے۔ پیسا کے بارے بھی بتایا کہ کل وہاں جانے کا ارادہ ہے۔ مسرور ہوئیں۔ پھر درخواست کو بھی پذیرائی ملی۔ کتابوں، مجسموں اور پھول پتوں میں گھرے کمرے میں سانس لیتے ہوئے اپنے اندر سرشاری کی سی کیفیت روح تک میں اُترتے محسوس کرتے ہوئے میں فکر و آگہی کی دنیا میں داخل ہوئی تھی۔

میں شاعر سے تفصیلی متعارف ہونا چاہتی تھی۔ مجھے محسوس ہوا تھا جیسے شناسائی کی ساری منزلیں مسز ریٹا سمتھ خود طے کروانا چاہتی تھیں کہ شاعر سے بڑا عشق تھا۔ مگر میں بھی ایک نمبر کی کائیاں۔ میرے دل نے کہا تھا۔

’’آپ کی محبت کا بہت شکریہ۔ مگر پلیز جانیے میرا تو رشتہ ہے اس سے۔ میرے قلم قبیلے کا فرد ہے۔‘‘

مسز سمتھ کی مہربانی، اُن کی نوازش کہ انہوں نے بھاپ اڑتی کافی کا مگ مجھے پکڑایا۔ بھاپ کے مرغولوں میں سے جھانکتی، شیلف پر سجی بے حد ذہین آنکھوں نے مجھے دیکھا۔ مسکراتے ہوئے میں نے کہا۔

’’گوزیو تمہاری زبان سے سننے کا تو اپنا ہی لطف ہو گا۔ اور تمہیں تو انگریزی پر بھی بہت عبور ہے۔‘‘

میں نے گھونٹ بھرا۔ ایک بھاری سی آواز گونجی تھی۔ ایک سوال ہوا۔

’’تم نے لوکا Lucca دیکھا ہے؟‘‘

’’کل پیسا کے لئے روانگی ہے۔ لوکا بھی جاؤں گی۔ فلورنس کا بھی پروگرام ہے۔

میرے لہجے میں کہیں مسرت اور کہیں شوق کا اظہار تھا۔

’’لوکا بہت خوبصورت جگہ ہے۔ تمہارے اِس شاعر نے لوکاLucca کے ایک چھوٹے سے قصبے والدی کیسٹلوValdicastello میں 1835کے سال جنم لیا تھا۔

ارے ہاں یاد آیا۔ بتاتا چلوں تمہیں کہ اِس جگہ سے قریب ہی وہ سمندر ہے جہاں انگریزی ادب کا وہ مشہور شاعر شیلے ڈوب کر مرگیا تھا۔‘‘

’’ہائے۔‘‘ میرے اندر سے ہوک اُٹھی تھی۔ کیا خوبصورت شاعر تھا؟

میرا گھرانہ قدیم فلورنٹائن روایات کا اسیر تھا۔ میرے دادا کو اپنے وقت کی انقلابی تحریکوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہاں اُسے اپنے ڈیوک سے بہت پیار تھا مگر میرے بابا میخائل کاردوسی جو ایکمائننگ کمپنی میں ڈاکٹر تھا۔ بڑا انقلابی تھا۔ اٹلی کے اتحاد کا سب سے بڑا داعی۔ کاربونیری Carbonari (اٹلی کی خفیہ تنظیم آزادی) کے ساتھ منسلک ہونے اور ملکی سیاست میں سرگرمی سے حصّہ لینے کی پاداش میں وقت کے حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتا اور نتیجتاً خاندان کو ٹک کر ایک جگہ رہنا نصیب نہ ہوتا۔ شاعر کا سارا بچپن اِدھر اُدھر گھومتے گزرا تھا۔ اسی دربدری میں کچھ سال فلورنس میں بھی گزرے۔

اگر میں اپنے بچپن کی یادوں بارے کوئی بات کروں تو کہنا پڑے گا کہ دو واقعات ایسے تھے کہ وہ ہمیشہ اپنی پوری توانائی سے میرے اندر محفوظ ہوئے اور گاہے گاہے ان کی جھلمل اپنی پوری آب و تاب سے سامنے آتی رہی۔

ابھی میں چھوٹا ہی تھا۔ ہمارے گھر کے پچھواڑے باغ تھا۔ اب جگہ کیسی تھی اس کی خوبصورتی یا بدصورتی کا کوئی واضح تصور ذہن میں نہیں۔ مجھے موسم بھی یاد نہیں۔ یہ بہار کے دن تھے۔ کیا سردیاں تھیں؟ گرمیاں یا خزاں کے دن۔ بس اتنا سا یاد پڑتا ہے کہ جیسے زمین سے آسمان تک ہر چیز گیلی گیلی اور دھواں دھواں سی تھی۔ میری ہی عمر کی ایک لڑکی میرے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اس کے رسے کا ایک کونا میں نے پکڑا ہوا تھا اور وہ ٹاپ رہی تھی۔ دفعتاً ایک بدصورت مینڈک نما چیز ہمارے پاؤں کے سامنے آ گئی۔ ایک خوفناک سی چیخ ہم دونوں کے حلق سے نکلی اور فضا میں بکھر گئی۔ دفعتاً عین سامنے والے گھر کا دروازہ کھلا۔ لمبی سیاہ داڑھی والا ایک مرد کتاب ہاتھ میں پکڑے دروازے میں نمودار ہوا۔ اس کی نگاہوں میں غصے کی تپش تھی اور اس نے مجھے ڈانٹا تھا۔ رسہ پھینک کر میں اس کی طرف بھاگا چلاتے ہوئے۔

’’دفع ہو جاؤ۔ تم بدصورت انسان۔ دفع ہو جاؤ۔‘‘

وقت کا یہ کوئی فیصلہ کن لمحہ تھا جس نے میرے اندر یہ بیج بو دیا کہ میں نے زندگی بھر ہر اُس آدمی کو جس نے مجھے اخلاقیات کے نام پر لعن طعن کرنے کی کوشش کی۔ یہی کہا۔

ہاں اب دوسرا واقعہ بھی سنائے دیتا ہوں۔

گھر کا ماحول بے حد منظم اور سخت تھا۔ مجھ سے چھوٹے دو بھائی تھے۔ بچوں کی مجال نہ تھی کہ اپنی مرضی سے کوئی کام کر لیتے۔ مجھے جانور پالنے کا بہت شوق تھا۔ مگر اجازت ہی نہ تھی۔ اب کڑھنا اور احتجاج کرنا تو ضروری تھا۔ ماں کا سوالوں سے ناک میں دم کر دیتا۔

میڈر (ماں ) آخر میں عقاب کو کیوں نہیں پال سکتا۔ مجھے اُلّو بہت پسند ہیں۔ میں اُسے گھر میں رکھنا چاہتا ہوں۔ میڈر مجھے اجازت دو کہ میں بھیڑ کا بچہ رکھوں۔

وہ کام کرتے کرتے بیٹے کی اِن معصومانہ باتوں کو سُنتی اور دھیرے سے کہتی۔

’’تمہارا باپ پسند جو نہیں کرتا۔‘‘

پھر یوں ہوا کہ میں بھائیوں سے سازباز کر کے اُلّو گھر لے آیا۔ جیب خرچ جمع کرتا رہا اور چھوٹا سا عقاب خرید لیا اور پھر بھیڑیا کا بچہ بھی پالنے لگا۔

بھانڈا ایک دن پھوٹ گیا۔ گھر کے پچھواڑے رکھے ہوئے پرندوں میں اُلّو مار دیا گیا، عقاب کو اڑا دیا گیا اور بھیڑئیے کے بچے کو بھگا دیا گیا۔

اور جب میں سکول سے گھر آیا۔ میرے پچھواڑے کا مال متاع لٹ چکا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے۔

ایسا دل شکستہ اور مایوس سا کہ گھر سے بھاگ کر جنگل میں چلا گیا۔ درختوں سے لپٹ کر روتا رہا۔ ساحل سمندر کے کنارے پر بیٹھا رہا، آنسو بہاتا اور خود سے باتیں کرتا رہا۔

بچپن کا یہ دکھ مجھے ہمیشہ یاد رہا۔ میری شاعری میں بھی اس کا اظہار ہوا۔

ادب میں ناموری مقدر کیوں نہ بنتی کہ مطالعہ کا شوق بچپن سے ہی جڑوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ یوں استاد بننا اور پڑھانا بہت پسند تھا۔ ہاں البتہ مطالعہ کرنا میرا بہترین مشغلہ تھا۔ واحد خوشی ہر موضوع پر کتاب پڑھنا اور شاعرانہ خیالات اور سوچوں میں گم رہنا ہوتا تھا۔ میرے امیر دوست میرے اِس شوق سے آگاہ تھے۔ انہیں ہمارے مالی حالات کا بھی علم تھا۔ وہ ہمیشہ کتابوں کا تحفہ دیتے۔ جنہیں میں خرید نہیں سکتا تھا۔

ایک اور خوبصورت یاد حافظے میں محفوظ ہے۔ گھر کے ماحول میں بہت سے رنگ گھُلے ہوئے تھے۔ والد کے دوست آتے تو زوردار سیاسی بحثیں ہوتیں۔ ادب پر گفتگو، تاریخ کے حوالے، طب، فلسفہ غرض کونسا موضوع تھا جس پر بات چیت نہ ہوتی۔ تو اِن سب کا اثر یہی تھا کہ میرے اندر انقلاب، جمہوریت اور تاریخ کے حوالوں سے بہت کچھ باہر نکلنے کے لئیے مضطرب رہنے لگا تھا۔

اس کا پہلا بھرپور اظہار ہماری کھیلوں میں ہوا جو میں اور میرے دوست کھیلتے تھے۔ ڈرامے شروع ہو گئے۔ سکرپٹ لکھا جاتا جو میں لکھتا۔ ملک کے موجودہ حالات کی نمائندگی طوفانی قسم کی میٹنگز سے ہوتی جن میں اختلاف رائے پر پتھر اور ڈانگ سوٹے چلتے۔ اور آخر میں ہم ایک بہترین سا لائحہ عمل روم کی حکومت کو دینے کے قابل ہو جاتے۔

تاریخی کرداروں خاص طور پر رومن سیزر اور اُن میں بھی جولیس سیزر اور وہ اس کا سگا بھتیجا نیرو۔ کبھی کبھی ہماری یہ ڈرامہ بازی اپنے کرداروں کی زبانی اتنا شور و غوغا برپا کر دیتی کہ میرے والد باہر نکلتے۔ مجھے بازو سے پکڑ کر گھیسٹتے ہوئے کمرے میں لاتے اور میز پر رکھی تین کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے۔

’’ انہیں پڑھو۔ اور اپنی رائے کا اظہار کرو۔‘‘

یہ کیتھولک اخلاقیات پر مبنی کتابیں ہوتیں۔ میں نہیں جانتا تھا میرے باپ کا انہیں پڑھانے سے مجھے کیا سبق دینا مقصود تھا۔

سچ تو یہ تھا کہ مجھے نفرت تھی ایسی سب کتابوں سے۔ میں سمجھتا تھا کہ انہوں نے انسانی آزادی کو سلب کیا۔ جنگ و جدل کے رجحانات کو ہوا دیتے ہوئے قتل و غارت اور لڑائیوں کو راستہ دکھایا۔ تازہ ہوا سے محرومی اور بھوک ننگ دیا۔

مجھے انہیں پڑھنے اور ان پر وقت ضائع کرنے کی بجائے کمرے میں کھڑے ہو کر کھلی کھڑکی سے فطرت کے نظاروں کو دیکھنا اور باپ کی طرف سے عائد کی ہوئی سب سزاؤں کو بھگتنا بہتر لگتا۔

آغاز میں ادب میں سب سے زیادہ متاثر یونانی اور رومن ادیبوں سے ہوا۔ ابھی کالج میں قدم رکھا ہی تھا کہ سنجیدہ کلاسیکل ادب کی طرف بھی رجحان ہو گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میرے سرہانے لاطینی شاعر ہورسHoraceاور ورجل Virgilرہتے تھے۔ دن رات انہیں پڑھتا اور ان کے عشق میں ڈوبا رہتا۔ یہی وہ دن تھے جب میں نے ہومر کی ایلیڈIliadکی کتاب 9کو اطالوی میں ترجمہ کیا۔

1856میں گریجوایشن سے فارغ ہونے کے ساتھ ہی میں نے درس و تدریس کا آغاز کر دیا۔ اٹلی سے بے پناہ محبت مجھے وراثت میں ملی تھی کہ میرا ڈاکٹر باپ پاگلوں کی طرح اٹلی سے پیار کرتا تھا۔ لاطینی میں نے اپنے باپ سے سیکھی تھی۔

یہی وہ سال تھا جو ہمارے چھوٹے سے خاندان پر کِسی قہر کی طرح ٹوٹا۔ میرے چھوٹے بھائی دانتے نے خودکشی کر لی تھی۔ اُس نے ایسا کیوں کیا؟ ہمیں تو معلوم ہی نہ ہوا کیسا جان لیوا صدمہ تھا؟ میں دیکھتا تھا۔ میرا باپ اس غم سے کتنا شکستہ ہو رہا تھا؟ اس کی شکستگی نے اندر ہی اندر اُسے گھول دیا۔ چند ہی ماہ گزرے تھے کہ وہ بھی ختم ہو گیا۔

میں نے اپنی ماں کو دیکھا وہ کس قدر اجڑی پجڑی نظر آئی تھی۔ میں نے اُسے بانہوں میں سمیٹا۔ اس کے بالوں کو چوما اور بڑے بیٹے کی طرح اُن ذمہ داریوں کو اٹھا لیا جو میرے اوپر عائد ہوتی تھیں۔ ہم اس وقت بہت غریب تھے۔ باپ نے جو ورثہ چھوڑا تھا وہ چند شیلنگ تھا۔

غموں کے اِس ہجوم میں میرے پہلے مجموعے Rimکی اشاعت نے مجھے ان کربناک دنوں میں اُس مسرت سے ہم کنار کیا جو کسی شاعر یا ادیب کو اپنی پہلی تخلیق سے حاصل ہوتی ہے۔ اِس مجموعے کی بہت سی نظمیں میرے ہیرو شپ جذبات، جنگ و جدل کی کہانیوں اور قدیم تاریخ کے ظالم اور مہربان کرداروں، تلخ و شیریں واقعات، کھیلوں، خاص طور پر ضلعی ٹورنامنٹوں اور کام سے بے پناہ لگن اور محبت کے حوالوں سے خاصی طویل تھیں۔

اس مجموعے کی ایک خوبصورت نظم" "Love and Death بہت اثر انگیز تھی۔ میرے لڑکپن کے کبھی کے سُنے ہوئے پسندیدہ عجیب و غریب سے واقعات، فاتح نائٹ کا کوئین آف بیوٹی کولے جانا، ہیروئن کے بھائی کا تعاقب کرنا، نائٹ کا قتل، اس کا پاگل پن اور پھر موت کے منہ میں چلے جاناجیسے تاریخی واقعہ کا بیان، حب الوطنی اور انقلابی خیالات نے بھی اِن میں اپنے ہونے کا بہت کھل کر اظہار کیا۔ یہ مجموعہ ایک ایسے معاشرے میں تہلکہ مچانے کیلئے کافی تھا جو ابھی تک پوپ اور پادری کی گرفت میں جکڑا ہوا تھا۔

میں اس کی شادی، اس کی بیوی بچوں اور ازدواجی زندگی کے بارے جاننے کی بھی بڑی خواہش مند تھی۔ مسز ریٹاسمتھ نے اپنی کافی ختم کر لی تھی۔ وہ گوزیو کو تھوڑا سا ریلیکس کرنے کے موڈ میں تھیں۔ اُن کی میٹھی مدھم اور مہربان سی آواز کمرے کی فضاؤں میں خوشبو کی طرح بکھری۔

وہ اُس کی ایک نظم گنگنا رہی تھیں۔

شمال کی کہر آلود زمینوں کی دختر



یہ چھوٹا سا اظہار تحسین اُس کے لئے ہے

جو بربط کے تاروں کو کسی

اَن دیکھے ہاتھ سے چھوتا ہے

اور کوئی قدیم سی دھن نکالتا ہے

نئی موسیقی میں سمونے کے لئے

معاف کرنا اگر کوئی تند و تیز سر نکل آئے

تمہاری سحر آگیں موسیقی کی تانیں

جنہیں تمہاری اعلیٰ روح شاید ہی سمجھ سکے

لیکن تمہارا شہد جیسا میٹھا گلا

شاید اس کا کوئی سراغ پا جائے

قدیم اٹلی کے دیوتا اور سمندری دیویاں

دیکھو پہاڑ جنگل، گھاٹیاں اور وادیاں

تمہاری کاہلی، سستی، تمہارا فخر و غرور

تمہارا جوش و اضطراب، تمہارا رشک وحسد

سب کھیل کو برابر کرتے ہیں

محبت اور پیار کو ان سب پر غالب آنے دو

کمرے میں سناٹا تھا۔ بہت دیر ہم دونوں اس کے سحر میں ڈوبی رہیں۔ پھر مسز سمتھ نے بولنا شروع کیا۔ وہ اُس کی شادی کا احوال سنا رہی تھیں۔

شادی اس نے 1859میں ایلویرا Elvira Memicucciسے کی۔ ایلویرا اس کے ایک دوست کی بیٹی تھی۔ شادی اس کی پسند اور خواہش سے ہوئی۔ اپنی ماں اور بھائی کو ایلویرا کے ساتھ ہی وہ اپنی نئی جائے ملازمت پر لے آیا تھا۔ ازدواجی زندگی خوشگوار تھی۔ کامیاب بھی رہی۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا خاندان میں شامل ہو گئے تھے۔

بلوگنا Bologna میں پروفیسر ہونا بھی کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ یونیورسٹی میں دھوم مچ گئی تھی کہ زمانوں پرانی عمارت میں خوشگوار اور معطر ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ زنگ آلود اور تھکی ہوئی روحوں کے درمیاں ایک نئے خیال اور نئے رجحان رکھنے والی شخصیت کا ورود ہوا ہے۔

دھیرے دھیرے ادب کے اونچے مقام پر فائز، شہرت کے اعتبار سے ملک میں ہی نہیں میں بیرون ملک بھی مشہور ہو چکا تھا۔ ایک اچھے استاد کے ناطے اپنے طلبہ میں ہردلعزیز اور اُن کے اندر کی پوشیدہ صلاحیتوں کو کھوج کرنے والا تھا۔ یہاں اس کے طلبہ میں سے ایک Pascoliپا سکولی بہت نمایاں ہو کرسامنے آیا اور اس نے شاعری میں بھی بڑا نام پیدا کیا۔ وہ اچھا استاد ہی نہ تھا بلکہ بہترین اور تند نقاد بھی تھا۔ ادب اور سوسائٹی دونوں کے چیتھڑے اڑاتا۔ پکا دہریہ تھا۔ اس کے سیاسی نظریات کی گولہ باری عمومی طور، پر عیسائیت اور کیتھولک چرچ کی سیکولر طاقتوں پر خصوصی طور پر مستقل رہتی۔

ایک بار اس نے کہا۔

’’میں نہ تو خدا کی سچائی کو جانتا اور مانتا ہوں اور نہ ہی پادریوں اور ویٹی کن والوں کی جانب سے امن پر میرا اعتبار ہے۔ یہی اٹلی کے حقیقی اور نہ بدلے جانے والے دشمن ہیں۔‘‘

1850سے 1860 تک کی شاعری" "Juveniliaکے ٹائیٹل کے تحت منظم ہوئی۔ تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ اِس مجموعے میں شاعر اپنی بہترین کاوشوں سے حیرت انگیز نتائج حاصل کرتا نظر آتا ہے۔ اِن میں کچھ نئی نظموں کا اضافہ تھا۔ ان میں بھی کچھ خاصی طویل نظمیں تھیں۔ وکٹر ایمونیل کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ سارڈیناsardina کا بادشاہ جو اس وقت اٹلی کی آخری امید تھی۔ اس کے جوشیلے جذبات اور خیالات نے ان نظموں میں کھل کر اپنے ہونے کا اظہار کیا تھا۔ یہ کلیات اس کے بے باکانہ شاعرانہ وجدان کا خوبصورت اظہار تھی۔

Confessions and Battles میں بھی اگرچہ یہ ذرا مشکل ہے کہ اسے ثابت کیا جائے کہ اس نے اپنے دفاع میں کیا کہا۔ تاہم بڑی بات یہ ہے کہ اس جیسے حساس شاعر کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ کیتھولک چرچ نے لوٹ مار اور لوگوں کو احمق بنانے کے جو طریقے اپنا رکھے تھے۔ ان سب کا حقیقی چہرہ لوگوں کے سامنے پیش نہ کرے اور اس مکروہ چہرے کی پوری تصویر کشی نہ ہو۔

وقت کے ساتھ ساتھ شاعرانہ صلاحیتیں نکھرتی گئیں۔ وسعت اور گہرائی میں اترتی گئیں۔ Rime nuove یعنی The new lyricsا ورBar barian odesبھی میرے خیال میں وہ بہترین مجموعے ہیں۔ جو 1877میں چھپے اور جنہوں نے بہت ہی مقبولیت حاصل کی۔ اس کا کہنا تھا کہ شاعری ہی وہ ہتھیار ہے جو کسی بھی قوم کے شعور کی بیداری اور اُسے سیاسی بلوغت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اِن مجموعوں کی کلاسیکل نظمیں، دانشورانہ آہنگ کے ساتھ ساتھ متوازن اور شاعری کے وضع کردہ پیمانوں پر پوری اترتی ہی نہ تھیں بلکہ فی الفور دل میں گھر کرتی تھیں۔

ایسے جوشیلے، ترقی پسند خیالات والا اپنی ہر دل عزیزی سے گھبراتا بھی بہت تھا۔ Cross if savoyایک ایسی خوبصورت ڈرامائی پیش کش تھی کہ اِسے جب پرگولا Pergolaتھیٹر میں پیش کیا گیا اور ناظرین نے اس کے مصنف سے ملاقات کرنی چاہی تو وہ بھاگ گیا۔ دوست تعارف کروانے کے لئے اُسے جگہ جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔

1870ء کا سال بھی بڑا دکھ بھرا تھا۔ پہلے والدہ فوت ہوئیں۔ ایک محبت کرنے والے بوڑھے وجود سے گھر خالی ہو گیا تھا۔ ابھی اِس صدمے سے باہر نہیں نکلنے پایا تھا کہ میرا اکلوتا بیٹا دانتے فوت ہو گیا۔ تین سال کا خوبصورت بیٹا جس سے وہ بہت پیار کرتا تھا۔ شاعر نے ایک جگہ لکھا۔

’’وہ میری امید تھا، میری محبت اور میرا مستقبل تھا۔ غم کی اس اندوہناک کیفیت سے نکلنے کے لئے میں نے خود کو کام میں ڈبو نا چاہا۔ مگر نہیں۔ مجھے لگتا تھا جیسے میرا اندر چھلنی ہو گیا ہے۔ مجھے خود پر حیرت ہوتی کہ میں نے اُسے قبر میں کیسے اُتارا؟ کس قدر غم انگیز نظمیں تخلیق ہوئیں جنہیں اعلیٰ معیار کے نوحے کہا جا سکتا ہے۔‘‘

حسن فطرت سے بے پناہ عشق تھا اور اس کا اظہار بھی اس کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔ ode to Queen کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔

کہہ لیجیے وہ بہرحال ایک سیاسی دانشور کے طور پر بہت نمایاں حیثیت کا حامل تھا۔ اپنے باپ کی زندگی اور اس کے بعد کچھ وقت تک جمہوریت کا زبانی کلامی یا تحریر کے حوالے سے حامی رہا۔ تقریباً1859ء سے عملی طور پر اور شاعری کے ذریعے دونوں طرح اِس کا حصہ دار بنا۔ ملک کے اتحاد اور اس کے روشن مستقبل سے وابستہ امیدوں کے خون ہوتے حالات نے اسے اپوزیشن کے کیمپ میں پھینک دیا۔

وکٹر ایمونیل کی موت نے رد عمل دکھایا۔ نوجوان بادشاہ اور ملکہ کے لئے ہمدردی کے جذبات اس کے سیاسی نظریات پر اثر انداز ہوئے۔ ایک نظم ode to Queen بھی کہی۔ جس پر یار لوگوں کی خاصی لے دے ہوئی۔ رنگا رنگ قسم کی باتیں، کہیں سیاسی اور مالی فوائد کے حصول کے لئے اور کہیں اونچا عہدہ حاصل کرنے کی خواہش جیسے تبصروں کی بازگشت خاصی واضح تھی۔

یہ سال 1878ء تھا جب نوجوان بادشاہ ایمبر ٹوUmberto اور ملکہ مار گیریٹا Margherita نے بلوگنا کے دورے کا پروگرام بنایا۔ شاہی جوڑے کے استقبالیہ کے لئے شہر کے معززین کا انتخاب کرتے ہوئے ریکٹر اور دیگر لوگوں نے اس سے درخواست کی کہ وہ استقبالیہ میں اپنی شمولیت یقینی بنائے کیونکہ ملکہ اس سے ملنے کی خواہش مند ہے۔ وہ اس کی شاعری کی مدّاح ہے۔

یہاں میں شاعر کی ہی تحریر کے کچھ ٹکڑے سناتی ہوں۔

تاہم میں سنجیدہ نہ تھا۔ میرے بچپن کی کہانیوں کی ملکہ جن کے بارے میں پڑھتا، سوچتا، بڑے ہو کر اُن کے کرداروں کو ڈرامائی تشکیل دیتا اور رزمیہ نظموں میں انہیں مجسم کرتا چلا آیا تھا۔ میں تو ملکاؤں سے بڑا مانوس تھا۔ مجھے زندہ ملکہ دیکھنے کا قطعی کوئی شوق نہ تھا۔ اس ملکہ کو بھی نہیں جسے شاعری اور آرٹ میں دلچسپی تھی۔

پھر وہ آئے۔

یہ اُن دنوں میں سے ایک ایسا دن تھا کہ جو بلوگنا میں شاید ہی کبھی آتے ہوں۔ آسمان اور زمین سب گرد آلود سے تھے۔ کچھ یوں لگتا تھا جیسے گرد کا یہ طوفان سا گھروں کی چھتوں سے بہہ رہا ہے۔ جیسے یہ دیواروں سے چمٹ رہا ہے۔ جیسے اس کا یہ پھیلاؤ ہر آن گھروں پر بڑھ رہا ہو اور ہر چیز میں سرایت کرتا جا رہا ہو۔ روح تنگ پڑتی اور طبیعت کوفت اور بیزاری میں اُلجھتی ہے۔ جب بندے کا جی خواہ مخواہ ہی کسی راہ چلتے کو ٹانگ مارنے کو چاہے۔ تو میں بھی کچھ ایسے ہی جذبات کی گھمن گھیریوں میں اُلجھا ہوا تھا۔

یہ شام تھی۔ چار نومبر کی شام۔ میں وایا گلیریاVia Galliera کے محرابی راستے کے رش میں پھنس گیا تھا۔ اسی ہنگامے میں میں نے دیکھا ملکہ میرے پاس سے گزری۔ سفید خوبصورت ایک رومانوی سا وجود جو حقیقت نگاری کے بین بین موجود ہو۔ کچھ ہی دیر بعد پیازہ سینٹ پیٹر ویناPetronio میں قدیم سرخ اینٹوں والے محل کی کھڑکی کھلی اور بادشاہ اور ملکہ بالکونی میں نمودار ہوئے۔ پس منظر میں روشنیوں کی آب و تاب کی ناقابل بیان جگمگاہٹ تھی۔ باہر کی تاریکی اور سبز سفید اور سرخ روشنیوں کے امتزاج میں ایک خوبصورت چہرے کو زیورات اور بہترین ملبوسات میں دیکھنا ایک تحیر کن تجربہ تھا۔

اور اگلی صبح جب میں اٹلی کے شاہی جوڑے سے ملنے جا رہا تھا۔ میری چھوٹی بیٹی نے کہا۔

’’ملکہ کو میرا پیار کہنا۔ اُس کا نام لیبرٹاLiberta ہے۔ جو اچھا شگون ہے۔‘‘

میں نے چیمبر میں داخل ہوتے ہوئے شاہ کو دیکھا۔ وہ لوگوں سے ہاتھ ملا رہا تھا جو دائرے میں کھڑے تھے۔ اور ملکہ اٹلی کے متوسط طبقے کے مضحکہ خیز ملبوسات پہنے لوگوں کے درمیان کھڑی اپنے پہناوے، اطوار اور رویے کی شائستگی کے ساتھ میٹھے اور مہربان لب و لہجے میں بات کرتی ایک ماورائی شے نظر آئی تھی۔ بچپن کی مہربان اور حسین پری جیسی۔

یہ ملکہ ہے۔ بس ایسے ہی میرے تاثرات تھے۔ میں نے بلوگناBologna شہر کی خواتین کی جانب سے سپاس نامہ لکھنے سے انکار کر دیا۔ وہ قصیدہ جو میں نے پہلے ہی اپنے خیالات اور پیازہ کے تاثرات سے متاثر لکھا تھا بس اسی کو مکمل کرنے کا ارادہ کیا۔ اور ایک دن جب میں اس کی آخری لائنیں لکھ کر فارغ ہوا ہی تھا میری بڑی بیٹی بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی اور اس نے خوف زدہ آواز میں کہا۔

’’شاہ کو نپلز میں گولی مار دی گئی ہے۔‘‘

پچپن برس کی عمر میں وہ اینا Anni Vivanti سے ملا جو مستقبل کی ایک خوبصورت لکھاری اور شاعرہ بنی اور جس سے اُسے محبت ہو گئی تھی۔ پاگلوں جیسی محبت۔

وہ ہمیشہ جب بھی سفر کرتا تھا اس کے پاس ایک سوٹ کیس ہوتا۔ جسمیں وہ اینا کی ایک بڑی سی پینٹ رکھتا۔ دوران سفر وہ سوٹ کیس کھولتا۔ پینٹ نکالتا، اسے سونگھتا اور مد ہوش سا ہو جاتا۔ دونوں کے درمیان جو محبت نامے لکھے گئے وہ بھی کیا شاہکار ہیں؟

اٹلی کی وہ پہلی شخصیت ہے جسے 1906میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ نوبل انعام ملنے تک وہ دنیا بھر سے شاعری کے میدان میں خود کو منو اچکا تھا۔ سینیٹر کے طور پر بھی وہ نامزد ہوا۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر شاعر ہی ہے تاہم نثر میں بھی اس کا کام اعلیٰ معیار کا ہے۔ ادبی تنقید میں اس نے نئی جہات کا تعارف کروایا۔ بائیوگرافی، تقاریر اور مضمون نویسی کا کام ہی تقریباً 20 والیوم پر مشتمل ہے۔

نو بج رہے تھے۔ جب جب بھی میں مسز ریٹا سمتھ سے ملنے آئی۔

میری اُن کے ساتھ نشست کا دورانیہ ایک گھنٹے سے زیادہ نہ ہوتا۔ آج پہلی بار دو گھنٹے ہو چکے تھے۔ وہ بھی تازہ دم تھیں اور میں بھی۔

’’ بہت شکریہ آپ کا مسز سمتھ۔ شام بہت اچھی گزری۔‘‘

’’ ہاں گوزیو آپ کی بھی ممنون ہوں۔‘‘

٭٭٭

باب15: پیسا اور لوکا

* آئرش ٹولے کی پھُرتیاں سمجھانے کے لئے کافی تھیں کہ خیر سے اُن کاساتھ میرے گٹے گوڈوں کو کسی ہو چھے کی یاری کی طرح تڑاخ سے دو ٹوٹے کرتے ہوئے وہیں کسی سڑک پر لم لیٹ کر سکتا ہے۔

* پیسا کا جھکاؤ دار ٹاور دنیا کا ساتواں عجوبہ جسے دیکھنا ایک تحیر آمیز مسرت تھی۔

* پرانے پیسا کی گلیاں اور بڑے بڑے پتھروں سے بنے گھر تعمیراتی شاہکار کے نمونے تھے۔

* لوکا کی دیوار، رومن ایمفی تھیٹر اور گونوجی ٹاور اس کے لینڈ مارک ہیں۔





روم میں تین دن کا قیام تھا۔ آخری دن نقشے نے مجھے بڑی ترغیب دی کہ پیسا جو Ligurian Sea کے دہانے اور بارہ سو بعد مسیح کا وینس کی طرح ہی ماضی میں سمندری کاروباری مرکز کا گھر رہا ہے۔ دنیا میں اپنے سا تویں عجوبے Leaning Tower اور قدیم ترین یونیورسٹی کی وجہ سے بڑی شہرت کا حامل ہے۔ تو اُسے دیکھنے کا کتنا اچھا موقع ہے؟ فائدہ اٹھا۔ اور ہاں لوکا بھی نرا دو قدم پر ہے اور مزے کی بات فلورنس دونوں کے ہمسائے میں بیٹھا ہے۔ ایک ٹکٹ میں کتنے ہی مزے لوٹے جا سکتے ہیں۔

مگر نہیں۔

صبح سے شام تک آنکھوں اور ٹانگوں کی اِس مشقت نے تھکا دیا تھا۔ میں واپس جانا چاہتی تھی۔ مگر ہوا کیا؟ صرف ایک دن کے آرام نے مجھے بے چین کر دیا۔ اندر نے جیسے بلبلا کر کہا تھا۔

’’تو کیا منجیاں توڑنے یہاں آئی ہے۔ یوں تیرے گلے شکوے دور نہیں ہوتے۔ اوپر والے نے تجھے یہ نہیں دکھایا۔ وہ نہیں دکھایا۔ اب کیا مسئلہ ہے؟ ہل جل تو تو نے ہی کرنی ہے۔ روٹیاں تو تجھے مل گئی ہیں۔ اب تو چاہتی ہے کوئی نوالے توڑ کر تیرے منہ میں بھی ڈالے۔ شرم کر کچھ۔ ایسا ہوتا ہے کبھی؟‘‘

’’ارے ہاں۔‘‘ اندر نے جیسے مسَکہ لگایا۔

’’وہ تیرے رومان بھرے خوابوں کا سوئزرلینڈ بھی تو بس ذرا پاؤں بڑھائے تو اُسے بھی چھولے جیسا معاملہ ہے۔‘‘

ویسے سچی بات ہے سوئزرلینڈ کے لئے دل مچل رہا تھا۔ پیسا اورفلورنس کے لئے بھی ’’مری جا رہی ہوں‘‘ والی بات تھی۔

سوئزرلینڈ کے لئے تو اقبال بھی کمپنی دینے کے لئے تیار تھا۔ مگر میں اپنے مزاج کی عجیب سی مردانہ بیزاری کے ہاتھوں مجبور۔ اس کے ساتھ کو قبولنے سے انکاری۔

مجھے بھی تپ چڑھی۔ خوب بک بک جھک جھک کی۔

’’لا یا ہی اب جب دانے مکنے کے قریب ہیں۔ جوانی میں لاتا نا۔ ایک ایک جگہ پر شکرانے سے بھرا ما تھا ٹیکتی اور اٹلی کے رَوم رَوم میں تیری وحدانیت کے رنگ بھرتی۔‘‘

ہائے انٹرنیٹ میں بھی نری کوری ہوں۔ ہوٹل کی بکنگ ہوتی تب بھی آسانی رہتی۔ ویسے آپس کی بات ہے۔ خود کا تجزیہ کروں تو یہ سب باتیں میری بہانے بازیوں اور دل کو بہلانے اور مطمئن کرنے کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔ کوئی پوچھے جب طبیعت ہی خود پر فراخ دلی سے خرچ کرنے اور اُسے تھوڑی سی عیاشی میں گیلا سوکھا کرنے سے گریزاں ہو گی تو یہی بہانے ہوں گے۔

روم کے ہوٹل سے سیدھی بکنگ ہوتی۔ اسٹیشن پر کارڈ اٹھائے ہوٹل والوں کا بندہ موجود اور باہر گاڑی شوفر کے ساتھ حاضر۔ مسئلہ تھا کوئی۔ مگر نہیں جی۔ دام بنائے کام والا فارمولا ہم نے نہیں اپنانا۔ موت (پیشاب) میں سے مچھیاں (مچھلیاں ) پکڑنی ہیں۔ جان بے چاری کو اذیت کی سولی پر ہی چڑھائے رکھنا ہے۔

’’چلو پیسا تو دیکھوں۔‘‘

اقبال نے دن کی طوالت کا ذکر کرتے ہوے گائیڈ کیا تھا کہ اگر سویرے نکلتی ہیں تو شام کو دونوں تینوں جگہیں دیکھ کر واپس آ سکتی ہیں۔ تو شام کو صبح سات بجے کی ٹرین سے پیسا کے لئے بکنگ کروا آئی۔

قدرت کبھی کبھی مہربان ہو جاتی ہے۔ آپ کے خیال اور توقع کے مطابق ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے جیسا محاورہ ہمیشہ نہیں تو کبھی کبھی آپ کو نہال کر دیتا ہے۔

اور وہ صبح ایسی ہی تھی اور وہ لمحے ایسے ہی تھے جب میں نے یہ سب سوچا تھا۔

گاڑی میں داخل ہوتے ہی میرا ٹکراؤ اُن آئرش لوگوں سے ہوا جو مجھے وینس کے اسٹیشن پر ملے تھے۔ آمنے سامنے کی سیٹوں پر تین تو وہی تھے۔ چوتھی میں تھی۔ باقی دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے۔ سبھوں کو میں یاد تھی اور مجھے بھی اُن کا جتھہ یاد تھا۔

میرے اندر باہر سرشاری کی لہریں رقصاں تھیں جس کا اظہار میں نے بھنے ہوئے باداموں کے پیکٹ کو پھاڑ اور اٹھ کر اُن میں سے ہر ایک کو خصوصی طور پر پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بھی میری پذیرائی کو قبولیت بخشی اور میری اس درخواست کہ پیسا کے لئے بس میں بیٹھنے کے لئے مجھ سے کرایہ لے کر ذرا ساتھ نتھی کرنا ہے۔ چیزیں میں اکیلے ہی دیکھوں گی۔

فلورنس انہوں نے نہیں جانا تھا۔ دو بجے کی روم کے لئے ٹرین پکڑنی تھی۔

ہائے اتنے قریب آ کر فلورنس نہ جاؤں۔ میں نے خود سے کہا۔

’’چلو جو دیکھنا ہے وہ تو دیکھوں۔ اندیشہ ہائے دور دراز میں گھلنے کا فائدہ۔‘‘

وہ سب کم و بیش تھے تو میری عمروں کے ہی۔ کوئی چار چھ سال چھوٹے بڑے ہو سکتے تھے۔ برمودا اور ٹی شرٹوں میں ملبوس۔ مگر کیا توانائی تھی اُن میں۔ پارے کی طرح متحرک۔ ٹرین پیسا کے اسٹیشن پر ابھی رکی تھی کہ جب برقی انداز میں انہوں نے اپنے رُک سیک اپنے کندھوں پر لادے اور باہر آئے۔

اُن میں کچھ بھاگتے ہوئے پلیٹ فارم کے آخری کونے پر گئے۔ پتہ چلا کہ سامان خانے میں سامان رکھنے گئے ہیں۔ جو دو تین میرے پاس کھڑے تھے ان میں سے ایک کو میں نے بیس(20) یورو دیتے ہوئے کہا کہ بس یا ٹیکسی کے لئے میرا ٹکٹ بھی لے لیں۔ ٹرین اسٹیشن کی بک شاپ سے انہوں نے بس کے لئے ٹکٹ خریدے اور نقشے لئے۔ مار دھاڑ کرتے ہوئے باہر نکلے۔ اسٹیشن کے قریب ہی جولی ہوٹل کے سامنے بسیں کھڑی تھیں۔

میں کسی مسکین پلے کی طرح اُن کے پیچھے پیچھے دم ہلاتی ہوئی ضرور چلی۔ تاہم بس میں بیٹھنے تک کے وقفے میں مجھے گاڑی سے اُترنے اور یہاں بس تک آنے میں اُن کی پھرتیوں اور اِدھر جانے، اُدھر جانے کی جو جو تیزیاں دیکھنے میں آئیں انہوں نے مجھے بلند آہنگ آواز میں سمجھا دیا تھا کہ خیر سے اگر تو نے ان کے ساتھ چلنے کی کوشش کی تو گٹھے گوڈے کسی ہوچھے کی یاری کی طرح تڑاخ سے ٹوٹتے ہوئے تجھے یہیں کہیں پیسا کی کسی سڑک پر لم لیٹ کر سکتے ہیں۔

میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ رُل کھُل کر مجھے خود ہی سب اپنی مرضی اور سہولت سے دیکھنا ہے۔ اُن کا ساتھ دینے کی نہ مجھ میں تاب ہے اور نہ ہی مجال۔

یوں مطمئن سی ہو کر میں نے باہر منظروں کو دیکھا۔

میرے سامنے پیسا کا خوبصورت شہر اپنے البیلے رنگوں کے ساتھ موجود تھا۔

گائیڈ کی آواز صاف اور تلفظ سمجھ آتا تھا۔

پیازہvittorio میں وکٹر ایمونیل دوم کے مجسمے پر نظر پڑتے ہی میں نے مسز سمتھ سے وعدے کے مطابق اُسے دل میں سیلوٹ مارا۔ مدھم سے لہجے میں سراہا۔ اس وقت گو ماڈرن لوگوں کے مطابق ابھی صبح ہی تھی تاہم پیازہ میں لوگوں کے پرے یہاں وہاں چہلیں کرتے اور موج مستی کی سی ترنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ خوبصورت رنگوں کی حامل بلند و بالا عمارتیں، شفاف شیشوں کے اندر سے جھلملاتے منظر اور بند شیشوں میں سے ہواؤں کی درختوں کی ٹہنیوں سے اٹھکھیلیاں کتنی خوبصورت لگی تھیں۔ ماڈرن دکانیں اور ان میں گھسے لوگوں کے انبوہ سب کچھ بہت ہی مسرور کن تھا۔

دریائے آرنوArno کے پانیوں نے مسکرا کر دیکھا۔ آگے ایک اور جگہ کے بارے تاریخی پہلوؤں سے روشنی ڈالی جا رہی تھی۔ عین دریا کے ساتھ کہ جب رومنوں نے دریا پر پل بنایا تو یہ جگہ پیسا کا مرکز اور ان کے تہواروں کو منانے کے لئے بڑی معتبر ٹھہری۔

دوسری طرف پیازہ دانتے تھا۔

بس کی رفتار جتنی مدھم تھی نظاروں کی بہتات اتنی ہی تیز تھی۔ ایک منظر نظروں کی گرفت میں آتا تو اس سے بھی خوبصورت دوسرا اُسے دھکیل کر خود آگے آ جاتا۔

تاہم پیازہ کیولری Cavalieri نے شاد کیا۔ نہال کیا۔ تھوڑی سی تاریخ جانی۔ تھوڑی سی نظر بازی کا چکر چلا۔ قدیم ترین کلاک، خوبصورت رنگوں سے سجے لشکارے مارتے محل اور کوسیمو Cosimo کے مجسمے کو دیکھتے ہوئے جانا۔ کوسیموڈی میڈیسی سولہویں صدی میں پیسا کا حکمران تھا۔ سکوائرکی یہ عمارتیں اپنے وقتوں میں فریسکو کے کام سے سجی تھیں جنہیں سمندر کی نمکین ہواؤں نے سخت نقصان پہنچایا۔

بس کہاں کہاں رخ بدل رہی تھی کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ گائیڈ کی زبان کی تیزی اپنے عروج پر تھی۔ چرچ آف سان سستو san sisto دیکھا۔ اینٹوں کی بڑی موٹی موٹی دیواروں اور مختصر کھڑکیوں والا یوں پل جھپکتے نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔

اِس سے بھی برا حال سانتا ماریا کے ساتھ ہوا۔ گائیڈ بیچارہ" دیکھیئے دیکھیئے " کرتا رہ گیا تھا۔ سانتا ماریا کی بابت گلے کی پوری توانائیاں جھونک رہا تھا۔ تاریخ کا سینہ چھلنی کر رہا تھا۔ پیسا کی مشہور یونیورسٹی کا سُنا۔ ہائے پیسا یونیورسٹی۔ میں خود سے بولی تھی۔

’’مجھے یورپ کی اس قدیم ترین یونیورسٹی کو صرف دیکھنا ہی نہیں بلکہ کچھ وقت بھی وہاں گزارنا ہے۔ جس کی فضاؤں میں سولہویں صدی کے وسط تک گرما گرم متنازعہ نظریاتی بحثوں میں اُس فطین ذہین پروفیسر گلیلیو گلیلی کا تیا پانچہ ہوا۔ سچی بات ہے اُس کے شمسی نظریات نے چرچ کے اندھے طاقتور نظریات کو چیلنج کر دیا تھا۔‘‘

میرے اندر نے تنتناتے ہوئے مجھے خبردار کیا تھا۔

’’ ضرور دیکھنا ہے۔ رات رکنا پڑے تو رکو۔ اوکھلی میں سر دیتی ہو تو موسلوں سے مت ڈرو۔ خود کو کمزور اور بوڑھا سمجھنا چھوڑو۔‘‘

گاڑی نے فراٹے بھرے۔ ابھی ڈھنگ سے کچھ دیکھ بھی نہ پائی تھی کہ ایک خوبصورت میدان پیازہ مانن Manin میں بس آ کر رک گئی تھی۔

میرے ساتھیوں کی چھلانگیں اور تیزیاں دیکھنے والی تھیں۔ میں نے انہیں جانے دیا۔ دو تین نے دوستی نبھائی۔ میں نے گوڈوں کی طرف جھکتے ہوئے اشارہ کیا کہ آرام آرام

سے چلنا ہے مجھے۔

سڑک پر چلنا شروع کیا۔ آسمان کی نیلاہٹوں پر واری صدقے ہونے کو جی چاہتا تھا۔ اتنا نیلا کچور تھا کہ زندگی میں کبھی کم ہی ایسا نظر آیا ہو گا۔ دھوپ چمکیلی مگر تیز ہواؤں کی سرمستی میں ڈوبی ہوئی جسم اور چہرے سے ٹکراتی بڑا لطیف سا تاثر پیدا کر تی تھی۔

داخلی گزرگاہ نے خوش آمدید کہا۔ جب اندر داخل ہوئی تو ہریالیوں اور سفیدیوں کا ایک جہاں مسکراتا ہوا دکھائی دیا۔ میں چلتی جا رہی تھی۔ کہیں قرون وسطیٰ کے عہد کی موٹی گنگری دار دیوار، کہیں آنکھوں کو طراوت بخشتے گھاس کے میدان، اسی دور کی عمارتیں اور دنیا کا سا تواں عجوبہ جھکا ہوا پیسا ٹاور۔

کشادہ سڑک پر دائیں بائیں نظارے بکھرے ہوئے تھے۔ نوجوان، بوڑھے، بچے، عورتیں، مرد سب ہنستے مسکراتے تصویریں بناتے کہیں گھاس کے قطعوں پر بیٹھے، کہیں لیٹے سرمستیوں میں مگن تھے۔ ایسی تھوڑی سی مستی کرنے کو میرا بھی دل چاہا۔

ٹکٹ کہاں سے لینا ہے؟ معلوم نہیں تھا۔ سوچا دفع کرو۔ وہ بھی مل جائے گا۔ پہلے دل کا رانجھا تو راضی کروں۔ دو چار لوٹنیاں لگاؤں۔ تھکاوٹ کو اُڑنچھو کروں۔

اب دیکھتی ہوں کہ تا حدّ نظر بچھے سبز قالینوں تک جانے کا راستہ یا ذرا پیچھے جا کر اِن قطعوں کو چیرتے ہوئے اسفالٹ کی سڑک پر سے ہوتے ہوئے آتا ہے۔ یا پھر اس کے گردا گرد لگی ڈھیلی سی خم کھاتی آ ہنی زنجیر کو پاٹنے سے تھا۔ بس تو پاکستانی ذہنیت کا مظاہرہ کیا۔ شارٹ کٹ ڈھونڈا۔ بیگ گھاس پر پھینکا۔ پہلے بیٹھی۔ تھوڑی دیر بعد لم لیٹ ہو گئی۔ مزے سے ٹانگیں سیدھی کیں۔ تین چار پلسٹے مارے۔

’’ ہائے کتنا مزہ آ رہا ہے۔‘‘

اُٹھ کر بیٹھی۔ بادام نکالے۔ تھوڑی منہ ماری کی۔ دیکھا تو ایک نوخیز سا جوڑا چہکتا مہکتا قریب سے گزرا۔ آواز دے کر روکا ’’اور ٹکٹ کہاں سے ملے گا؟‘‘اور کچھ بروشرز وغیرہ کا پوچھا۔ خدا کا احسان کہ انگریزی بولنے والے تھے۔

لڑکی نے میٹھے سے لہجے میں بتایا کہ ٹکٹ کے لئے یا تو آگے جائیے۔ ٹاور کے عین پیچھے بائیں طرف پیلے سے رنگ کی عمارت ہے۔ وہاں ملیں گے یا پچھلی جانب داخلی گیٹ سے آگے جہاں میوزیم افsinopiasہے وہاں ٹکٹ گھر ہے۔ یہ سووینزز کی دوکانوں کے ذرا پیچھے ہے۔

پندرہ بیس صفحات کا کتابچہ انہوں نے کمال مہربانی سے اپنا میرے حوالہ کر دیا۔

اور جب پوچھا کہ ان خوبصورت عمارتوں کا پس منظر کیا ہے؟ کچھ رہنمائی ہو سکتی ہے؟ جوڑے نے کندھے اُچکائے اور بولے۔

’’اِسے پڑھ لیں۔ کچھ زیادہ تو ہمیں بھی نہیں معلوم۔ ٹاور کے پاس ہی ایک جانب پیسا یونیورسٹی ہے۔ ڈوما کیتھڈرل بھی ساتھ ہے۔ یونیورسٹی ہم نے دیکھی ہے مگر کیتھڈرل کے اندر نہیں گئے۔‘‘

اب پیسا ٹاور پر چڑھنے کے تجربے کا پوچھ لیا۔

لڑکی جو ہیلن تھی۔ اِس تجربے سے بہت لطف اندوز ہوئی تھی۔ فوراً چہک کر بولی۔

’’اُف بڑا لطف آیا۔ ویسے سیڑھیاں جھکاؤ دار ہیں اور اوپر تک اسی انداز میں جاتی ہیں۔ انہیں چڑھنے اور ٹاپ پر جا کر نیچے دیکھنا بلا شبہ ایک حیرت انگیز تجربہ ہے۔ اترائی بھی مجھے تو بہت دلچسپ لگی۔‘‘

بائے کرتے ہوئے جوڑا تو چلا گیا۔

میں نے کتابچہ کھولا۔ پہلا صفحہ فیلڈ آف ماریکلزField of Miracles کے بارے تھا۔ ڈوموDuomo بیپٹسٹری Baptistery، کمپوسنتو قبرستان Composanto cemetery، میوزیم آف سنوپسزMueseum of the Sinopiasتو اِس منظر نامے کو جگمگانے والی یہ عمارتیں کسی طرح بھی نظر انداز کئے جانے والی نہیں۔

کتاب کی تحریر کہتی تھی کہ آپ ٹاور دیکھ کر ہی نہ کھسک جائیں۔ باقی جگہیں بھی بہت اہم ہیں۔ ٹکٹ کی بھی تفصیلات درج تھیں۔ ایک دیکھو۔ یا پھر تین چار تو ٹکٹ میں رعایت ہو گی۔

میں نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔ ’’لود یہاڑی تو انہی میں گل ہوئی۔‘‘

خاصا چلنا پڑا۔ ٹاور سے تھوڑے فاصلے پر مجسموں سے سجے کالم کے کٹاؤ دار چبوترے پر بیٹھ کر سستاتے ہوئے میں نے ٹاور کو پھر دیکھا تھا۔ اس کی آخری بالکونی کی چھت پر اٹلی کا جھنڈا تیز ہواؤں میں پھڑپھڑاتا تھا۔ تھوڑی سی اس کی تاریخ بھی جانی۔

200 فٹ لمبا۔ 55فٹ چوڑا، پانچ ڈگری زاویے پر یہ جھکاؤ دار آٹھ منزلوں والا ٹاور کوئی دو صدیاں پہلے بنایا گیا تھا۔ بنانے والا بھی کوئی ایک نہیں تین تھے۔ جھکاؤ کیوں پیدا ہوا۔ زمیں کی مضبوطی کا خیال نہیں کیا۔ دلدلی اور غیر مستحکم زمین اہم وجہ تھی۔ پہلی تعمیر بونینوBonanno کے ہاتھوں کوئی 1173ء سے 1178ء تک ہوئی۔ خرابی کا اندازہ تو تبھی ہو گیا تھا کہ بنیادیں گہری نہیں۔ 1272ء میں ممکنہ کوششیں ہوئیں۔ حتیٰ کہ 1990ء میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے اسے ادھیڑ پُدھیڑ کر اس کی تکّا بوٹی کرتے ہوئے کافی حد تک مستحکم کر دیا گیا۔ اب دیکھیں سینکڑوں ٹن سیسہ نگل جانے والا یہ کب تک زندہ رہے گا؟

ٹکٹ پندرہ یورو کا ملا۔ تیس کے ٹولے کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ ہدایات مل گئیں کہ بہت دھیان رکھنا ہے خود کا۔ چکر آ سکتے ہیں۔ ٹاپ پر جا کر صرف پندرہ منٹ ٹھہرنے کی اجازت ہے۔ ٹکٹ تو میں نے لے لیا۔ لمبی قطار میں لگ کر کھڑی بھی ہو گئی۔ دروازے سے اندر داخل ہو کر چند سیڑھیاں بھی چڑھ گئی۔ پھر ذرا کمر دیوار سے ٹکاتے ہوئے خود سے پوچھا۔

’’او بڑی ابن بطوطہ کی بھتیجی۔ یہ294سیڑھیاں چڑھنے اور اُترنے کی کشٹ کیا تو سہہ سکے گی؟ چکر آ گیا۔ بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تو بنے گا کیا تیرا؟‘‘

اسپتال کا سین بڑا خوفناک سا تھا۔ پل نہیں لگایا اور نیچے اُتر آئی۔

پندرہ یورو میری جان کا صدقہ گیا۔ واہ کیا خوبصورت تاویل۔ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔

نظریں بھر کر دائیں بائیں دیکھتی ہوں۔ یہاں و ہاں ایک اژدہام بکھرا پڑا تھا۔

پہلی بسم اللہ غلط ہوئی۔ چرخے کی پہلی پونی کاتی ہی نہیں گئی۔ قلق اور دکھ کا گہرا احساس کچوکے دے رہا تھا۔ نیچے کھڑی حسرت بھری آنکھوں سے تیسری چوتھی اور آخری منزل پر کھڑے لوگوں کو حسرت سے تکتی اُن کے شاداں ومسرور چہرے دیکھ کر رشک و حسد سے جلتی بھنتی جاتی تھی۔ پندرہ یورو تو نالی میں رُڑ گئے تھے۔

اب ڈومہ کیتھیڈرل اور یونیورسٹی کی طرف گئی۔ پیسا کے مخصوص رومن سٹائل کے اِس کتھیڈرل کے کانسی کے دروازے اور اس پر کندہ کاری کی مذہبی آئی کونک شخصیات اور کہانیوں کا اپنا حسن تھا۔ تاہم میں تو ناواقف تھی۔ بس فن کے حوالے سے میرے یہاں گہرا جذباتی اظہار ضرور تھا۔ خصوصی طور پر بازنطینی دور کی بابت۔

میری محویت پر گائیڈ کی آواز آئی تھی۔ یہ دروازے اصلی نہیں نقلی ہیں۔ اصلی تو اندر سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ تو خاص الخاص موقعوں پر نمائش کئے جاتے ہیں۔

اندر کی دنیا بھی کیا دنیا تھی؟ تعمیر کی محراب در محراب تہوں میں گھلی، دیواروں پر شاہکاروں سے سجی اور کندہ کاری میں گتھی۔ واہ مزہ آیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی کہانی شبیہوں میں بیان ہوتی ہوئی کسی دلچسپ کہانی سے کم نہ تھی۔

مذہبی لحاظ سے کہہ لیں۔ دینیاتی حوالے سے سوچ لیں کہ فیلڈ آف ماریکلزmiracles کی حیثیت پیسا کے ایک شہری کی زندگی میں چار لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ بیپسٹٹری Baptistry میں اُسے عیسائی بنایا جاتا ہے۔ ڈومہ میں اُس کی شادی ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کی تقریبات میں اُسے دنیاوی اعزازات سے نوازا جاتا ہے اور کمنپٹو قبرستان میں وہ دفن ہوتا ہے۔

لیجیئے پیسا اور اہل پیسا کی کہانی تو ہو گئی مکمل۔

اب میں اپنی کہانی کا کیا کروں؟

میں نے تو رومن شہنشاہ ہنری ہفتم کا مقبرہ دیکھا ہی نہیں تھا۔ بس تھوڑا سا کتاب میں سے پڑھا۔ جرمن بادشاہ جس نے اٹلی پر حملہ کیا۔ پیسا کے لوگوں نے تو شاہ کا بڑے کھلے دل سے استقبال کیا۔ امن اور اتحاد کے علمبردار کی حیثیت سے اُسے سراہا۔ مگر بدقسمتی یا شہر والوں کی ہو گی یا پھر شہنشاہ کی کہ بیچارہ بیمار ہوا اور مر بھی گیا۔ تو اہل پیسا نے محبت کے اظہارئیے میں مقبرہ بنا دیا۔

باقی جگہوں کو میں نے صرف باہر سے دیکھا۔ Baptisteryکے حُسن کو سراہا۔ یونیورسٹی کے سامنے کچھ وقت گزارا۔ سونیئرز کی دکانوں پر جا کر چیزیں دیکھیں۔ فروٹ اور ویجی پیزا کھایا، کافی پی اور سوچا کہ اب آگے کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

ڈومہ کیتھڈرل میں جب میں ایپسApse کو دیکھتی تھی۔ ایک سانولی سلونی رنگت والی حسینہ نے مجھے مخاطب کیا۔ کینیڈا کی سکھنی۔

’’سوہنیو تسی کھتوں او؟‘‘

ہائے پنجابی زبان کی خوشبو سارے میں پھیل گئی تھی۔ معلوم ہوا تھا کہ وہ اور اس کا شوہر یہاں سے قریب ہی ہوٹل ولاکنزقاkinzica میں ٹھہرے ہیں۔ بہت اچھا ہوٹل ہے۔ سنگل بیڈ کا کرایہ 78یورو ہے۔ لوکا اور فلورنس کا ان کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ آدھ گھنٹے کی گوڑھی بات چیت کے بعد میں نے ٹیکسی کے کرایے اور رات ٹھہرنے اور بسوں ٹرینوں سے جگہیں دیکھنے میں تقابلی اخراجات کا جائزہ لیا تو مجھے احساس ہوا کہ خجل ہونے کا شوق ضرور پورا ہو گا۔ وگرنہ سودا گھاٹے کا ہی رہے گا۔

’’ہٹاؤ یار ٹیکسی پکڑو۔ لوکا کی موٹی اور اہم چیزیں دیکھو اور گاڑی پر چڑھ جاؤ۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔‘‘

ڈومہ میوزیم کے پاس ہی ٹیکسی سٹینڈ تھا۔ اطالوی بھی ایک نمبر خرانٹ ہیں۔ خوب بھاؤ تھاؤکرتے ہیں۔ بہرحال سویورو پر مک مکا ہو گیا۔

1343ء کی پیداوار یونیورسٹی قدامت کے رنگوں سے سجی سنوری اٹلی کی دس بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اُس نے مجھے اس کے مختلف شعبے دکھائے۔ درختوں سے گھرے کشادہ راستوں سے سجے اس کا بویٹنیکل گارڈن کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔

ٹیکسی ڈرائیور کسی اچھی ماں اور باپ کا تخم تھا کہ اس نے پیسا ڈاؤن ٹاؤن کی بھی چند جھلکیاں مجھے دکھا دیں۔ شاید وجہ یہ بھی ہو کہ میں نے اُسے بتایا تھا کہ میں لکھنے والی ہوں اور اٹلی پر مجھے لکھنا ہے۔

میں تو اِن رنگوں کو دیکھ کر حیران سی حیران تھی۔ پرانے پیسا کی گلیوں میں بڑے بڑے پتھروں کے گھر تھے۔ کس خوبصورتی سے دیواروں کی چنائی تھی۔ پتھر کی گلیاں، کہیں تنگ، کہیں کشادہ، گھروں پر پینٹ کے رنگ اور لوہے کی بالونچیاں۔ کیا حسن تھا۔ میں گاڑی سے اُتر کر رکتی اور حسرت سے انہیں دیکھتے ہوئے اپنے ملک کا موازنہ کرتے ہوئے سوچتی چلی جاتی۔

اِس حصّے کے پیازے یعنی میدان یا چورا ہے بھی کیا کمال کے تھے۔ محرابی صورت والی چھتوں کے برآمدے پھیلتے چلے جاتے جن میں دکانوں کے ان گنت سلسلے پھیلے ہوئے تھے۔

مڈل برج سے اس نے گاڑی گزاری۔ یہ پرانے شہر کا پل تھا۔ واہ بھئی واہ مزہ آیا۔

لوکا کا راستہ خوبصورت تھا۔ پہلا تعارف تو اس کی اہم لینڈ مارک دیواروں سے ہوا جن کی تہوں میں تاریخ گھسی بیٹھی تھی۔ مستطیل صورت کی پہلی رومن دیوار، دوسری قرون وسطیٰ عہد کی اور تیسری سولہویں صدی کے احیائے علوم کی دیوار۔ واہ دیواروں کی بھی بڑی شان ہے۔ ان کے بھی رنگ ہیں اور تاریخ ان کے بغیر بھی نامکمل ہے۔

رومن سٹائل کے چرچوں کی بھی بڑی بہتات تھی۔ تھوک کے حساب سے پیداوار تھی۔ یہ ہر گلی کوچے میں ہماری مسجدوں کی طرح جھانکتے پھرتے تھے۔

یہاں جس مشکل اور مصیبت سے دوچار ہونا پڑا تھا وہ پارکنگ تھی۔ بیچارے کو جگہ ہی نہیں ملتی تھی۔ یوں بھی سارا جوش و جذبہ پیسا نے نگل لیا تھا۔ تھکی ہوئی تھی۔ چیزوں کو دیکھنے کی اب قطعی تمنا نہیں رہی۔

’’جو دکھانا ہے بس باہر سے ہی دکھا دو۔‘‘

چلو اس کی بھی موجیں ہو گئیں۔ ایسی ٹُٹی پجھی(خستہ حال) سواری تو کہیں مقدروں سے ملتی ہے۔ رومن ایمفی تھیٹر دیکھا۔ بس باہر باہر سے ہی۔ تعمیراتی جن تھا۔ Guinigi Tower دیکھنے کی چیز تھی۔ مزہ آیا۔ اُتری۔ کچھ کچھ بابل کے معلق باغ کا سا تاثر دیتا تھا۔ چھت گل وگلزار ہوئی پڑی تھی۔

اب ہمت تو تھی نہیں کہ دو سو سے بھی زیادہ سیڑھیاں چڑھ کر جاتی اور پھر باغ باغیچے کا نظارہ کرتی اور دیکھتی کہ درختوں سے پھوٹتی خوشبو نے ماحول کتنا معطر کر رکھا ہے اور اردگرد کے نظارے حشر سا مانیاں سی لئے ہوئے ہیں۔

میں نے ڈرائیور سے کہا۔

’’ تم نے جو کچھ کہا میں نے آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کیا۔ مگر داستان طلسم ہوش ربا کو اتنا نہ بڑھا کہ میں دامن چاک کر بیٹھوں۔ اگر میری ٹانگوں نے میرے سلوک کے خلاف احتجاجی دھرنا دے دیا تو بولو کیا کرو گے؟ دور دیسوں کی ایک بھاری گٹھری کو کہاں کہاں اٹھائے پھرو گے؟

بہرحال لوکا کی گلیوں کی خوب خوب سیر کی۔ ڈرائیور نے لوکا کا اسپیشل سنیکGarbanzo bean Crepe کھلایا۔ جس محبت سے مجھے کھلایا میں نے کھا لیا۔ غیر مشروط شرطوں کے ساتھ۔

لوکا کی تاریخ سے بھی تھوڑی سی شناسائی کروائی۔ جو بتایا اُسے توجہ اور شوق سے سنا اور جانا کہ ہر جگہ ہر شہر ہر اہم مقام کے کھُرے کہیں نہ کہیں یا بازنطینوں سے جا جڑتے ہیں یا پھر رومنوں سے۔ تو یہ شہر بھی ابتدا میں رومنوں کی نو آبادی ہی تھا۔

دائیں بائیں نکلتی اور آگے پیچھے مڑتی گلیوں کا جال اور ایمفی تھیٹر اسی دور اور ان ہی کی یادگاریں ہیں۔ یوں عیسائیت بھی اپنے آغاز سے ہی یہاں چلی آئی تھی۔ تو اب رومن سٹائل چرچوں سے شہر کو تو سجنا ہی سجنا تھا۔

لوگ ذہین، ہوشیار اور سمجھ دار تھے۔ جوڑ توڑ سے اسے ہر صورت ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے قائم رکھتے تھے۔ سِلک انڈسٹری بھی اس کی ایک پہچان رہی۔

ہاں ایک بڑی دلچسپ چیز جو سننے کو ملی کہ اپنے عروج کے زمانوں میں شہر میں ٹاوروں کی بڑی بھرمار تھی۔ ہر ٹاور ایک امیر اور صاحب ثروت آدمی کی ملکیت اور رہائش گاہ ہوتی۔ اس میں زیر زمین کمرے، گراؤنڈ فلور پر دکانیں، بالائی منزلوں پر رہائش گاہیں، چھت پر باغ باغیچہ، کچن گارڈن اور درخت سائے کے لئے لگائے جاتے۔ سبزی ترکاری کی ضرورت پڑتی۔ چوبی سیڑھیوں جن سے سارا گھر جڑا ہوتا کوئی بھی اوپر جا کر ٹوکری بھر ترکاری اور پھل لے آتا۔

واہ کیا بات تھی ایسے خوبصورت گھروں کی۔ میری دیکھنے کی خواہش پر ڈرائیور نے بتایا کہ ایسے گھر اب شہر میں نہیں۔ ایک آدھ کونونٹ کی صورت موجود ہے۔ اس کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔

تاریخی حوالے سے دلچسپ بات جو سننے کو ملی وہ1799ء میں نپولین جب طوفانی آندھی کی طرح اٹلی میں آیا اس کے لئے لوکا کی حد درجہ پسندیدگی تھی۔ یہ اتنی زیادہ تھی کہ اس نے اس پیارے سے مال غنیمت کو بہن کو تحفے کے طور پر دے دیا۔ واہ شاہوں کے تحفوں کا بھی کیا کہنا۔ بعد میں نپولین کی بیوہ کو یہ سوغات ملی۔

کوئی پانچ بجے اس نے مجھے ٹرین اسٹیشن چھوڑا۔

اور رات کے نو بجے چیزاتے پہنچ کر اس فقیر کی طرح جو بڑی اعلیٰ ظرفی کا اظہار کرتے ہوئے ہانک لگاتا ہے۔

’’جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔‘‘

میں نے بھی اوپر والے کو دیکھتے ہوئے صدا لگائی تھی۔



’’جو دکھایا اس عنایت پر شکریہ اور جو نہیں دکھایا اس پر بھی شکریہ۔‘‘

اب لاکھ زبان نہ کھولوں۔ لاکھ گلہ نہ کروں مگر کہیں میرے دل میں فلورنس نہ دیکھ سکنے کا دکھ تو تھا نا۔

٭٭٭

باب نمبر16: الوداع میلان۔ الوداع اٹلی

* جھیل کو مو ورینا کی سب سے خوبصورت اور بہترین جھیل ہے۔

* تتلی سی مُسکان میرے قیام کا خوبصورت سا تحفہ تھا۔

* مسز سمتھ میری شکر گزار اور میں اُن کی۔ جتنا کچھا سفار نے دیا اس سے زیادہ انہوں نے دیا۔

* عطاء کا لخت جگر یا سر پیرزادہ بزنس کلاس کے سڑے بُسے خراٹے مارتے لوگوں میں سوتا کسی خوبصورت شہزادے جیسا ہی نظر آیا تھا۔

تو اُس گھر کی اکلوتی منی سی بچی مسکان سب سے زیادہ پریشان تھی۔ خاموشیوں میں ڈوبے رہنے والے گھر میں بہرحال تھوڑا بہت ہنگامہ تو میرے آنے سے پیدا ہوا تھا جس نے اس ننھّی سی جان کو مسرور کئے رکھا تھا۔

ٍ صبح میرے کہیں بھی نکلنے سے پہلے وہ کِسی تتلی کی طرح میرے اردگرد منڈلاتی پھرتی۔ سوالوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا۔

’’امّاں کہاں جا رہی ہو؟ امّاں جی کب آؤ گی؟ اماں جی مجھے بھی ساتھ لے چلیں نا۔‘‘

اماں جی اس کا منہ ما تھا چُومتی اور کہتی۔

’’میری جان تو اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ۔ منتوں مرادوں کی پیداوار۔ اماں تو بھٹکتی پھرتی ہے۔ تجھے ساتھ کیسے رولے گی۔‘‘

اماں اب واپسی کی تیاریوں میں تھی اور بچی نہیں چاہتی تھی کہ میں جاؤں۔

’’اماں مت جاؤ۔ میں اُداس ہو جاؤں گی۔‘‘

وہ میرے گلے میں اپنی ککڑی جیسی لوچ دار پتلی پتلی بانہیں ڈالتی۔

اس کی اِس والہانہ محبت پر میرا دل بھیگ سا جاتا۔ جی چاہتا کاش وہ بڑی ہوتی۔ پنچھی اور پردیسی کب کِسی کے میت ہوتے ہیں جیسے مہاورے کے مفہوم سے آشنا ہوتی۔ پھر شاید اس کا لہجہ اتنا رقیق اور گداز نہ ہوتا۔

پیسا سے آنے اور ایک دن آرام کے بعد اگلے دن پوری فیملی میرے ساتھ کومو جھیل کی سیر کے لئیے گئی تھی۔ کہہ لیجیے یہ ایک طرح مسکان کے لئیے میری ٹریٹ تھی۔ اقبال کا ایک ملنے والا یوسف مالٹرسیوMoltrasioمیں عرصہ دراز سے یہاں کے ایک بڑے ہوٹل میں شیف کے طور پر کام کرتا تھا۔

ٹرین کا سفر بے حد خوشگوار اور مزے کا تھا۔ تھا بھی مختصر۔ جہاں اُترے وہ ورینا Varennaکی جھیل کومو تھی۔ Bellagioدوسری اور پرانی تہذیب و ثقافت کی نمائندہ اور تیسری Menaggio۔ چھوٹے موٹے بہتیرے سلسلے اور بھی اندر پھیلے ہوئے ہیں۔ ورینا کی جھیل کومو Comoجھیلوں کے اِس شہر کا سب سے خوبصورت اور بہترین تحفہ ہے۔ فطرت کے یہ شاہکار کوہ الپس سے جڑے ہوئے ہیں۔

سوئیزرلینڈ کی سرحدوں کے نوکیلے کٹاؤ اِن جھیلوں کے اندر تک گھُس آئے ہیں۔ دست قدرت کی خصوصی عنایت و نوازش اور اطالویوں کے ہنر مند ماہرانہ ہاتھوں نے جھیل پر دونوں جانب پاسبانوں کی طرح کھڑے پہاڑوں کے دامنوں سے لے کر چوٹیوں تک وہ رنگ بکھیرے ہوئے تھے کہ بندہ تو سانس لینا بھول جاتا ہے۔

اب میری عمر فیری میں بیٹھ کر بہت دور جہاں نیلا آکاش سبزی مائل سیاہ پانیوں سے ملتا ہے جیسے منظر کو دیکھتے ہوئے یہ تو گنگنا سکتا تھا کہ ملتا ہے جہاں پانیوں سے گگن۔ آؤ وہیں ہم جائیں۔ مگر اگلے مصرعے کے لئیے کِسے آواز دوں کہ لٹر لگنے والے نے تو کبھی پکار پر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ لے دے کے اوپر والا ہی تھا اور اُسے لے کر وہاں جانے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ وہ تو یہاں بھی میرے ساتھ تھا۔

دھوپ بہت چمکیلی تھی۔ میں اندر سے باہر عرشے پر آ گئی۔ لمبے سے ایک بینچ پر جہاں پہلے ہی ایک گورا اور تین گوریاں براجمان تھیں بیٹھنا چاہا۔

جیسے دفعتاً کسی کو بھڑ کاٹ لے۔ اچھے بھلے بیٹھے بیٹھائے کسی کو محسوس ہو کہ جیسے شلوار میں گھُسی کسی چیز نے ران پر زور دار چٹکی کاٹ لی ہو۔ اور وہ اضطراری کیفیت میں اچھل کر اپنی جگہ سے کھڑا ہو جائے۔ عین اسی سے ملتا جُلتا سین میرے سامنے آیا تھا۔

بھونچکی سی ہو کر میں نے اُس نخریلی گوری سے کہا۔

’’کیا ہوا ہے تمہیں؟ کیا میں اچھوت ہوں؟‘‘

میرے لہجے میں گھُلے غُصے، تلخی اور شدت نے لوگوں کو فوراً متوجہ کیا تھا۔

مراکش کا ایک نوعمر جوڑا جو سیلفی سے تصویریں بنانے میں مصروف تھا بھی چونک پڑا۔ لوگوں کا خاموش سا ردّ عمل سامنے آیا۔ کچھ تو سُن وٹے سے بنے بیٹھے رہے۔ تاثر کچھ ایسا تھا بھئی بھاڑ میں جاؤ تم اور چولہے میں جائے وہ۔ ہمیں کیا؟ صرف ایک دو کی آنکھوں میں خفیف سی مذمت کی لہریں تھیں۔ ہاں اُس مسلمان جوڑے نے کھل کر لعن طعن کی۔ گو یہ عربی میں تھی۔ تاہم لہجے کو اندر کے جذبات نے جو پیغام دیا تھا اس نے پوری طرح نمائندگی کر دی تھی۔

اِس فضول سی تلخی کو بھُلا کر میں نے گرد و پیش کو دیکھا۔ بخدا اتنے خوبصورت منظر تھے کہ یادوں میں استنبول کے "شہزادوں کے جزیرے "بھاگتے دوڑتے آ گئے۔ اُن کی وضع قطع بھی ایسی ہی ہے۔

مالڑوسیہ آ گیا تھا۔ فیری جیٹی سے جا لگی تھی۔ میرا جی اترنے کی بجائے آگے جانا چاہتا تھا۔ وہاں تک جہاں پانی سوئیزر لینڈ کی سرزمین میں داخل ہوتے ہیں۔ مگر وائے مجبوری میزبان کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ اکیلی ہوتی تو شاید کچھ مار دھاڑ کر ہی لیتی۔

کیا جگہ تھی؟ خوبصورتیوں میں سرتاپا ڈوبی، طلائی کرنوں میں ہنستی مسکراتی، تا حد نظر چوٹیوں پر گھروں کی صورت نظارے بکھیرتی اور انگوروں کی بیلوں سے ڈھنپے قدیم اور جدید گھروں سے سجی۔

کتنا لمبا سانس بھرا تھا میں نے؟ میری آنکھوں میں تحّیر اور مسرتوں کے کیسے کیسے رنگوں کا چھلکاؤ ہوا ہو گا؟ یہ سب میں شیشہ دیکھے بغیر ہی جانتی تھی۔

میرے سامنے زینے تھے۔ لمحہ بہ لمحہ بلندیاں چڑھتے ہوئے زیتون کے پیٹر تھے جو مجھے بتاتے تھے کہ اٹلی زیتون کے تیل کا گھر ہے۔ سیب کے درختوں پر بس بلوغت کو پہنچنے والے سیبوں کی اپنی کہانیاں تھیں۔

بہرحال تنگ تنگ راستوں سے گزرنے میں مزہ آیا۔ اونچے اونچے پوڈے بل کھاتے راستے۔ دو کمروں کا چھوٹا سا گھر۔ اٹلی کے مالکوں کی مہربانیوں کی داستان تھی جو سنی۔ ملازمتوں کے اصول و قواعد جانے، انہیں سراہا اور دعا بھی کی کہ میرے ملک میں بھی ایسا سب ہو۔

شہد جیسا تربوز کھایا۔ سیب کھائے۔ سیب ذائقہ والے نہ تھے۔ ہاں پیزا لاجواب تھا۔ میزبان نے خود بنایا تھا۔ موسم پہلے ابرآلود ہوا پھر بارش برسنے لگی۔ اسی رم جھم میں ہم نے واپسی کی۔

اگلے دو دن میں نے سوئیزلینڈ جانے اور نہ جانے کے چکر میں گزارے۔ موسم گرما ہو گیا تھا۔ پیٹ اپ سیٹ تھا۔ ذہن میں تذبذب تھا۔ جی چاہتا تھا اُڑ کر سوئیزرلینڈ اور پیرس پہنچ جاؤں۔ جرمنی میں بھی جا اُتروں، مگر بدنی نقاہت اور اکیلے ہونے کا خوف پھڈا ڈال رہے تھے۔ کشمکش بہت زیادہ تھی۔ زِچ آ کر میں نے معاملہ اللہ کے سپر کرتے ہوئے یاسر کے دوست راؤ خورشید کے ہاں گلیلیاتے Galliate-Fn جانے کا طے کر لیا کہ وہ گزشتہ کئی دنوں سے مجھے اپنے ہاں بلانے اور ارونا جھیل کی سیر کے لئے دعوت کی پیشکش کر رہا تھا۔

شام تو خوبصورت تھی دو گاڑیاں بدلنی تھیں۔ باڈی لینگوئج کے تماشوں نے ساری مشکلیں آسان کر دیں۔ گلیلیاتے آیا۔ اتری تو شکر ادا کیا کہ پار جو شہر بسا ہوا تھا اس تک جانے کا راستہ پٹڑیوں پر بچھے چھوٹے سے چوبی راستے سے تھا۔ سیڑھیاں اترنے، لفٹوں میں گھسنے اور الجھنے الجھانے والا کوئی سین منتظر نہیں تھا۔ راؤ خوشنود سامنے کھڑا اپنی سلونی سی رنگت پر مدھم سی مسکراہٹ بکھیرے ہوئے تھا کہ مصائب کی تلخیوں نے چہرے پر سختی کی تحریر رقم کر رکھی ہے۔

چھوٹی سی گاڑی اور خوبصورت سا قدیمی قصبہ جس کی بل کھاتی چھوٹی چھوٹی گلیاں بڑی تاریخی سی تھیں۔ گھر بھی ایک خوبصورت گلیارے میں تھا۔ خوبصورت بیوی حمیرا نام والی سگھڑ اور سلیقہ مند۔ گھر ٹھنڈا آرام دہ۔ سیڑھیوں کا کوئی چکر نہیں تھا۔ کھانا پر لطف۔ مزہ آیا۔ دونوں کی شادی کو پانچ سال ہوئے تھے مگر بچہ نہیں تھا۔ شاید اسی لئے حمیرا کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے وہ رنگ نہیں تھے جن کی موجودگی جوان چہروں پر ضروری ہوتی ہے۔

جھیل ارونا کی سیر نے بھی بڑا لطف دیا۔ یہاں ٹرین بھی جاتی ہے۔ ٹرین کا راستہ گھنے جنگلوں میں سے گزرتا ہے۔

’’ہائے‘‘ دل نے کہا تھا۔ کہیں جانتی یا کوئی بتا ہی دیتا تو اس سے سفر کرتی۔ کتنا مزہ آتا؟

راستے کے پہاڑوں کے مناظر دلفریب تھے۔ کتنے چھوٹے چھوٹے قصبات آئے اُن میں اولیگوoleggo نے بہت متاثر کیا۔ میں گاڑی رکوا کر نیچے اُتر آئی۔

مکئی کے پھیلے ہوئے کھیتوں پر سے آتی ہواؤں میں ایک میٹھی سی خوشبو کا رچاؤ بڑا لطیف سا احساس دے رہا تھا۔ چھلیاں پردوں میں لپٹی میرے دل میں ہلچل مچاتی تھیں۔ جی چاہتا تھا ابھی بھاگتی ہوئی جاؤں اور دو چار کی گچھیاں مروڑ کر لے آؤں۔ قصبے کا قبرستان بھی بڑا رومانوی سا تھا۔ پھولوں سے لدا پھندا۔ ہر یالیوں میں بسا ہوا۔ چرچ کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ خوشنود سے پتہ چلا تھا کہ قصبے میں کوئی مر گیا ہے۔

راستے میں پاکستانیوں بارے باتیں ہوئیں۔ چھوٹی عمروں کے لڑکے جو دھکے کھاتے یہاں آ پہنچتے ہیں۔ کیسے کیسے پاپڑ بیلتے ہیں۔ ہاں ایک بات کو سراہنا پڑے گا کہ اٹلی کی حکومت اور پولیس اِن معاملات میں بڑا ہمدردانہ رویہ رکھتی ہے۔ پاکستانیوں کے البتہ بڑے متضاد رویے سامنے آتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اچھے کارکنوں کے طور پر اچھی شہرت کے حامل ہیں۔

یہ بھی مجھے خوشنود سے ہی پتہ چلا تھا کہ پاکستانی ویلفیئر سوسائٹی بہت سی جگہوں پر بڑا فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ سوسائٹی کا ممبر بننے کے لئے 200یورو اگر فیملی ساتھ ہو تو 400 یورو۔ اگر سوسائٹی کے پاس پیسہ ہو تو پھر سالانہ فیس نہیں لی جاتی۔ آغاز میں قرض سسٹم بھی تھا مگر بعد میں اسے ترک کرنا پڑا کہ بعض پاکستانیوں کی گندی عادات کہ واپس نہیں کرنا۔ ہمارے لوگ سمجھتے نہیں کہ ناگہانی آفات کی صورت میں یہ تنظیم کتنا فعال کردار ادا کرتی تھی۔ کسی موت کی صورت میت کو پاکستان بھجوانے، متاثرہ خاندان کی مدد کرنا سوسائٹی اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔

جھیل بہت خوبصورت لمبی چوڑی تا حد نظر پھیلی ہوئی۔ انسانی ہاتھوں کی کاریگریوں نے منظروں میں وہ رنگ بھر دئیے تھے کہ دکھ کی لمبی لمبی لہریں اندر سے اٹھنے لگی تھیں۔ جھیلوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں، مگر سنوارنے والے ہاتھوں کی بجائے بگاڑنے والے ہاتھ زیادہ ہیں۔ کیا کریں افسوس، دکھ اور تاسف ہی ہے نا ہمارے پاس۔

وہ دن ان کے ہاں گزار کر واپس آ گئی۔ اب میری واپسی سر پر تھی۔

سچی بات ہے مسز سمتھ میری شکر گزار اور میں اُن کی۔ جتنا کچھ اسفار نے دیا اُس سے زیادہ مسزسمتھ نے جھولی میں ڈال دیا۔

چیزاتے کے پر سکون سے قصبے کو میں نے محبت بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ کافی بار کے سامنے پڑی ایک کرسی پر بیٹھ کر میں نے درختوں اور سہ منزلہ گھروں پر سے تیر کر آتی خوشگوار تیز ہواؤں کو اپنے بدن سے ملتے دیکھ کر تھوڑی سی افسردگی کا اظہار کیا۔

’’یہاں تمہارے ساتھ شام کے اتنے رنگ میں نے دیکھے ہیں کہ ہمیشہ میرا دل یہاں کچھ وقت گزارنے کو ضرور چاہا۔ اے ہواؤ، اے نظارو میں تمہیں دوبارہ کبھی دیکھ پاؤں گی۔ میرے اندر نے خود ہی نفی میں کہہ دیا تھا۔ کہاں؟‘‘

ائیر پورٹ کی کیفیت پنجابی کے اُس شعر کی ہی عکاس تھی۔

نی گڈئیے تو آنی تے جانی ایں

کیئاں نو ملانی تے کیئاںنوں وچھوڑنی آں

اقبال کو میں نے رخصت کرنا چاہا پر وہ مُصر تھا کہ نہیں آپ کو توسوار کر کے ہی جاؤں گا۔ بورڈنگ شروع ہونے والی تھی اور ہمارے ملک جیسی صورت ہر گز نہیں تھی۔ رخصت کرنے کے لئے آنے والے بھی وہیں مسافروں کے پاس ہی بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔

دفعتاً ایک لمبے تڑنگے مرد نے میرے پاس آ کر کہا۔

’’آپ اکیلی ہیں۔ تھوڑی سی مدد درکار ہے۔ میرا تھوڑا سا فالتو سامان اپنے ساتھ ایڈجسٹ کر لیں۔‘‘

میں تو تیار ہو گئی۔ چھوٹا سا میرا اٹیچی کیس۔ گنجائش ہی گنجائش۔

اقبال نے ایڑی نہ لگنے دی۔ آپ تو بندھ جائیں گی اس کے ساتھ۔ اس کے اتنے لمبے چوڑے پٹارے۔

’’ارے بیبا جانے دو۔ کیا ہے؟ مفت کی نیکی ہی سہی۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے پتہ نہیں کیا کیا لئے جا رہا ہے؟‘‘

چلو جی کہنے سننے پر ساتھ نتھی کر لیا۔ میں بھی خوش کہ چلو لگے گا خود ہی لائن میں۔ مزے سے ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھی رنگ رنگیلی دنیا کے مزے لوٹتی تھی۔ تبھی پکار پڑی۔ پتہ چلا کہ کاؤنٹروں پر بیٹھی اٹلی کی موٹی تازی چاق و چوبند عورتیں پاکستانیوں کی سب چوتیوں چالاکیوں کو سمجھتی ہیں۔

’’چلو ہٹاؤ ان سب پر کھنڈوں کو۔ سیدھے سیدھے سامنے آؤ۔ اپنے اپنے ٹکٹ اور پاسپورٹوں کے ساتھ۔

’’ہائے بے چارہ۔ بڑا ترس آیا۔ بھرا ہوا کُپا کہیں انڈیلنا چاہتا تھا۔ جی تو چاہا کہوں۔

’’ ارے کہاں پھینکو گے۔ اس اقبال کو دے دو۔ وطنی ہے تمہارا۔‘‘

میں نے چاہا بھی کہ اُسے یہی سب کہہ دوں جو میرے اندر سے ہونٹوں تک آیا تھا۔ مگر اقبال نے کہا۔

’’رہنے دیں اُسے بندوبست کرنا آتا ہے۔‘‘

پاکستانی ایک دوسرے کی رگوں سے تو واقف تھے۔ وہ واقعی پل جھپکتے ہی جانے کہاں غائب ہو گیا؟

مزید کچھ چھوٹے بڑے مرحلوں کے بعد اقبال کو خدا حافظ کہتے زیر زمین دنیا میں داخل ہو گئی۔ جہاز فرانس سے آ رہا تھا۔ سیٹ جو ملی وہ بوڑھے اور نوجوان بچے کے درمیان سینڈوچ جیسی صورت کی عکاس تھی۔ شکر ہے چودہ پندرہ سالہ لڑکا کھڑکی کی سمت تھا۔ اُدھیڑ عمر کا مرد تو بڑا سڑیل اور سنکی سا دکھتا تھا۔ اپنے آپ میں ہی گم تھا۔ چہرہ بھی تنا ہوا۔ بچے نے مہربانی کی۔ سیٹ کی ادلی بدّلی ہوئی۔ شیشے سے باہر جہاز کا دیو ہیکل پر سارے میں پھیلا پڑا تھا۔

میرے ساتھ عجیب تماشا ہے۔ جب بھی سفر کرتی ہوں۔ پروں کے سائے ہی ہمسائے گی کا شرف عنایت کرتے ہیں۔ منظر کھل کر سامنے آنے نہیں دیتے۔ عجیب اتفاق ہے۔ بہرحال قہر درویش برجان درویش والا معاملہ تھا۔

پندرہ سالہ طارق ایچی سن کا سنئیر کیمرج کا طالب علم تھا۔ ایچی سن کے بگڑے اور بدتمیز بچوں کی اخلاقیات کا مجھے ذاتی تجربہ تھا۔ اور یہ ہرگز ہرگز خوشگوار نہ تھا کہ بڑے بیٹے کے دونوں بیٹے اِس کے جونئیر سکول میں کلاس پنجم اور دوم میں پڑھتے ہیں۔ دس سالہ پوتے کے بارہ تیرہ دوست چائے پر آئے۔ ماں نے اٹھارہ بیس ہزار خرچ کر کے میز سجائی۔ لڑکوں نے تو بیٹھتے ہی طوفان اٹھا دیا۔

’’نفرت ہے مجھے تو نوڈلز سے۔ کولا بھی کوئی پینے کا ڈرنک ہے۔ پینا کلاڈو نہیں بنایا۔ ہاں پیزا کیوں نہیں منگایا۔ مہنگا ہے اس لئے؟‘‘

یہ دس گیارہ سال کے بچے تھے۔ فریحہ میری بہو دم بخود کھڑی انہیں دیکھتی اور گھگھیاتے ہوئے کوئی نہ کوئی ڈش انہیں پیش کرتے ہوئے کہتی۔

’’ لیجیے نا بیٹے یہ لیں۔ یہ سب ہوم میڈ ہیں۔‘‘

وہ جب اٹھے۔ ڈائننگ روم میں کھانے کی میز جس منظر کو پیش کر رہی تھی وہ لمحہ فکریہ تھا۔ سب دوستوں کو رخصت کرنے کے بعد بیٹے نے ماں سے گلہ کیا کہ اس نے کنجوسی سے کام لیا۔ اس کے دوست خوش نہیں تھے۔ جلی بھنی فریحہ نے جوتا اُتارا اور ٹھکائی کرتے ہوئے چلّائی۔

’’الو کا پٹھا۔ میرے پندرہ ہزار خرچ ہو گئے اور اس کے دوستوں کو مزہ نہیں آیا۔ مرغی جان سے گئی اور کھانے والے کو سواد نہیں آیا۔ ہم حرام نہیں کماتے ہیں۔ جاؤ اپنے یاروں کو بتاؤ کہ میری ماں تو لنڈے سے ہمارے لئے کپڑے لاتی ہے۔‘‘

اور میرے سامنے زار زار آنسو بہاتے ہوئے اُس نے کہا تھا۔

’’ آنٹی میں تو پریشان ہوں۔ مجھے انہیں اٹھا لینا چاہیے ایچی سن سے۔‘‘

میں نے دلداری کی۔

’’ اپنا ماحول ٹھیک رکھو۔ دونوں بچے غیر معمولی ذہین ہیں۔ اسکول کی ادلی بدلی ممکن ہے۔ ان کے لئیے ٹھیک نہ رہے۔‘‘

میں جانتی تھی اس نے داخل کروانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے۔ کہاں کہاں تیار کروایا اور خود کتنا کھپی تھی۔ داخلے کا لیٹر آنے تک امید و بیم کی جس کیفیت سے وہ گزری تھی۔ میرے نزدیک وہ ہرگز صحت مند رویّے کی عکاس نہ تھی۔

’’ارے چھوٹی موٹی کامیابیوں کے لئے کیا جلنا کڑھنا؟ بس خدا سے زندگی میں کامیاب ہونے کا کہو۔ سلامتی، تندرستی اور زندگی مانگو۔‘‘

اب سمجھانا ہی مقصود تھا۔ سو سمجھایا ضرور۔ باقی آج کی اولاد اپنے فیصلوں میں خود کفیل ہے۔ والدین کا تو دعا پر ہی زور تھا۔ سو وہ مانگ لی کہ اللہ کرے میرے بچے کے بچے ایسے ہی تمیز دار اور مہذب ہوں۔ جیسا یہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا بچہ۔ بیبا، مودب اور نرم گفتار سا ہے۔ سوئیزر لینڈ میں ہونے والی کسی بچوں کی کانفرنس میں شرکت سے فارغ ہو کر میلان کی سیر کے لئیے آ گیا تھا۔

کھانے کا شور شرابا زیادہ تھا۔ ذائقے اور کوالٹی کا بس گزارہ ہی تھا۔ قہوہ چائے کے بعد بتیاں بجھ گئیں اور لوگ اُونگھنے لگے۔

سیٹیں تنگ تھیں۔ تکیے غائب تھے۔ گو میری نیند ہر گز ہرگز نخریلی زنانی جیسی نہیں۔ بس رات کا ہونا لازم ہے اور تکیے ہوں۔ یہاں رات تو تھی مگر تکیے نہ تھے۔ ایک آدھ بھی نہیں۔ ائیر ہوسٹس کو بلایا۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔

’’بزنس کلاس کے مسافروں نے زیادہ مانگ لئے۔‘‘

’’ یہاں اکانومی میں تو انسان نہیں جانور ہیں شاید۔‘‘

میرا لہجہ گلے گلے تک طنزیہ تھا۔ چہرہ بھی ایسے ہی تاثرات کا عکاس ہو گا مگر بتیاں بجھی تھیں۔ لوگ سوتے تھے اور لڑکی کے پاس یقیناً ایسی باتوں کے لئے سوچ بچار کا وقت نہ ہو گا۔

کچھ دیر بعد سوچتے ہوئے اٹھی کہ دستِ خود دہان خود والد کام کروں۔ بیٹھے بیٹھائے تو کچھ ملنے سے رہا۔ شاید کسی سیٹ پر کوئی ایک آدھ پڑا مل جائے۔ بزنس کلاس کی بہت سی سیٹیں خالی تھیں۔ ہائے بڑی کھلی ڈلی آرام دہ ہیں۔ میں مڑی۔ درمیانی پیسجpassageمیں بیٹھی ایر ہوسٹس سے کہا۔

’’میں یہاں نہ تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جاؤں؟‘‘

سوچا تھا۔ ذرا پاؤں رکھنے کی اجازت تو دے۔ وجود اندر کرنا میرا کام۔

وہ بھی بڑی گھاگ تھی۔ پل نہیں لگایا کہ چہرہ "پر نہیں " بھی سجا لیا اور زبان سے بھی اقرار کیا کہ ایسا ممکن نہیں۔ میری جواب طلبی ہو جائے گی۔ میں نے خود کو کوسا۔

’’ یہ تیری منگتوں جیسی عادت نہ گئی۔ ضرورت کیا تھی بھلا؟‘‘ا ب پھر اندر داخل ہوئی کہ چلو کچھ تو ملے۔

کیسے موٹے تازے توندیں نکالے مردوں کے خراٹے گونجتے تھے۔ تین تین تکیئے قابو کئے بیٹھے تھے یوں کہ ایک بھی نکالتی تو جاگنے کا سوفی صد امکان تھا۔

چلتے چلتے میں یکدم ٹھٹک سی گئی۔ مجھے اپنی بصارت پر دھوکے کا سا گمان گزرا تھا۔

’’ہیں۔‘‘ میں نے خود سے کہا تھا۔ یہ کیا دیکھتی ہوں میں؟

ایک چاند چہرہ عین میری نظروں کے سامنے تھا۔ جوانی کی مد ہوش نیند میں ڈوبا ہوا۔ کیسا خوبصورت اور دلچسپ حسن اتفاق تھا۔ ابھی ویٹی کن سٹی میں یاد کرتی رہی تھی۔

یہ یاسر پیرزادہ تھا۔ عطا کا لخت جگر۔

ساتھ والی سیٹ پر ساٹڈ کے بل نیم دراز کوئی خاتون تھی۔ چہرہ نہیں دکھتا تھا۔ اِس دلبر سے لڑکے کی سہیلی ہے، بیوی ہے۔ دیکھنا چاہتی تھی۔

نہیں سہیلی تو نہیں ہو گی۔ جو لڑکا کوٹھے پر چڑھ کر اپنی معصوم سی نایاب (بیٹی) کا ذکر کر دیتا ہے وہ تو گویا دوستی یاریوں کے سارے راستے از خود ہی بلاک کر دیتا ہے۔ بیوی ہو گی بھئی اس کی۔ کیسی ہے؟

تجسّس ضرور انگلی دے رہا تھا کہ بڑھ کر آگے ہو۔ پنڈ کا اتا پتہ لگ ہی جائے گا مگر یہ خطرے والا کام تھا۔ آدھی سے زیادہ گزری رات کے اِس سمے جب ہر سو تنہائی اور خاموشی کا راج ہے ایسی کوئی کاوش ناپسندیدگی کے زمرے میں آ سکتی ہے۔

تکیہ نہیں ملا۔ نامراد ہی واپس آنا پڑا تھا۔

مگر جب اپنے غریبڑے سے حصے میں آئی تو ایک خالی سیٹ پر تکیہ پڑا دیکھا فوراً اٹھا کر بغل میں دبوچا اور پل بھر کے لئے اِس سوچ کو دماغ میں گھسنے نہیں دیا کہ یہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ کسی ایسے بندے کا جو بیچارہ باتھ روم کے لئے گیا ہو۔ پاکستانی ہوں نا جو صرف اپنا سوچتے ہیں اور اخلاقیات اور ایٹی کیٹس کو مونڈھے مارتے گزر جاتے ہیں۔

تکیے کا بھی بہانہ ہی ہوا۔ ذرا سکون نہ ملا۔ یونہی اس کی اٹھا پٹخی میں لگی رہی۔ کہیں تھوڑی سے آنکھ نے جھپکی لی ہو گی۔ نیند کے کسی جھونکے نے تھکن زدہ آنکھوں کو ہلکی سے تھپکی دی ہو گی کہ جیسے کسی نے جنجھوڑسا دیا۔

شیشے سے باہر دیکھا۔ میرے سامنے صبح کاذب کا سا منظر تھا۔ افق اپنے لغوی معنوں میں یہاں فلک سے فلک تک کے پس آئینہ میں ایک بے حد دلکش منظر پیش کرتا تھا۔ کہیں گہرے بسنتی رنگ، کہیں سرسوں کے پھولوں جیسے اور کہیں اس سے بھی اوپر رنگوں کی ایک ایسی برسات دیکھنے میں آر ہی تھی کہ ساکت ہونے والی بات تھی۔ میرے سیٹ کے نیچے جہاز کا پر تھا۔ اس کے کناروں پر جیسے صبح کا نور پھیلنے لگا تھا۔ پھر کہیں دور جیسے ایک پھیلے ہوئے ٹیلے کے کنارے آگ کی سی روشنی سے جھلملانے لگے تھے۔ چند ساعتیں گزر گئیں اور پھر عین میرے سا منے روشنی کا کوندا سا لپکا۔ ایک چھناکے سے آگ کا گولہ نمودار ہو گیا۔ کیا منظر تھا۔ خدائی حُسن کے اِس اظہار پر میرا سارا وجود مجسم ہو گیا تھا۔

’’پروردگار۔‘‘ میرے لبوں نے بے اختیار کہا۔

آتشیں گولا دھیرے دھیرے اوٹ سے باہر آ رہا تھا۔ سری لنکا میں سری پاڈا پر ایسے ہی لمحوں کے کھیل میں کائنات جیسے بقعہ نور بن گئی تھی۔ فطرت نے کسی دلربائی سے اپنے ہونے کا اظہار کیا تھا۔

لاہور ائیر پورٹ دھواں دھار بارش کے نرغے میں تھا۔ جہاز چکر کاٹ رہا تھا۔ بہرحال بحفاظت لینڈنگ ہو گئی اور پائلٹ کے لئے پورے جہاز نے تالیاں بجائیں۔