صفحات

تلاش کریں

ناول-عمران سیریز-مظہر کلیم ایم ائے-سی ٹاپ

چند باتیں 
محترم قارئین۔ سلام مسنون۔ نیا اور مکمل ناول ’’سی ٹاپ‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ پاکیشیا کا ایک انتہائی اہم سائنسی فارمولا یورپ کی مجرم تنظیم کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے خریدنے کے لئے ایکریمیا اور اسرائیل سمیت تقریباً تمام سپر پاورز نے اس مجرم تنظیم سے مذاکرات شروع کر دئیے۔ گو یہ مجرم تنظیم عام بدمعاشوں اور غنڈوں پر مشتمل تھی لیکن اس کے باوجود تمام سپر پاورز اس تنظیم سے فارمولا حاصل کرنے کے لئے اسے بھاری رقم دینے پر آمادہ تھیں حتیٰ کہ عمران اور پاکیشیا سیکرٹ سروس کو بھی اس فارمولے کے حصول کے لئے اس تنظیم سے بار بار سودے بازی کرنا پڑی اور بھاری رقم دینے کے باوجود فارمولا حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے باوجود وہ اسے مزید رقومات دینے پر مجبور ہو جاتی تھی۔ ایسا کیوں ہوا۔ کیا عمران اور پاکیشیا سیکرٹ سروس ایک عام سی مجرم تنظیم کے مقابل بے بس ہو گئے تھے۔ اس بارے میں تفصیل تو آپ کو ناول پڑھنے پر معلوم ہو گی۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ یہ کہانی ہر لحاظ سے ایک منفرد کہانی ہے جس میں پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات کے ساتھ ساتھ تیز رفتار ایکشن اور بے پناہ سسپنس نے اسے مزید منفرد اور ممتاز بنا دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ منفرد انداز میں لکھی گئی کہانی آپ کے معیار پر پورا اترے گی۔ اپنی آراء سے مجھے ضرور مطلع کیجئے گا۔

والسلام                   
مظہر کلیم ایم۔اے      
٭ ٭ ٭
 ٹیلی فون کی گھنٹی بجتے ہی بڑی سی میز کے پیچھے اونچی پشت کی ریوالونگ چیئر پر بیٹھا ہوا ایک گینڈے نما شخص بے اختیار چونک پڑا۔ اس کے ہاتھ میں شراب کی ایک بڑی سی بوتل تھی جسے اس نے منہ سے لگا رکھا تھا لیکن ٹیلی فون کی گھنٹی بجتے ہی اس نے بوتل کو منہ سے علیحدہ کیا اور پھر اسے میز پر رکھ کر ہاتھ بڑھا کر میز پر موجود کئی رنگوں کے فون سیٹس میں سے نیلے رنگ کے فون کا رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ اس گینڈے نما شخص نے اس طرح حلق پھاڑ کر کہا جیسے اسے فون کرنے والے پر بے پناہ غصہ آ رہا ہو۔
’’مارٹن کی کال ہے باس۔ وہ آپ سے انتہائی ضروری بات کر نا چاہتا ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے انتہائی مؤدبانہ لہجے میں کہا گیا۔
’’کون مارٹن‘‘۔۔۔ گینڈے نما شخص نے پہلے سے بھی زیادہ گرجدار لہجے میں کہا۔
’’مین مارکیٹ کا مارٹن باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے اسی طرح مؤدبانہ لہجے میں کہا گیا۔
’’کیا ہوا ہے اسے۔ کیا کسی پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے۔ کراؤ بات‘‘۔۔۔ گینڈے نما شخص نے اسی طرح گرجدار اور انتہائی جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ہیلو باس۔ میں مین مارکیٹ سے مارٹن بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد ایک اور مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’ہاں ۔ کیا ہوا ہے تمہیں ۔ کیوں کال کیا ہے‘‘۔۔۔ گینڈے نما باس نے انتہائی غصیلے لہجے میں کہا۔
’’باس۔ ٹاسکو نے پاکیشیا کے سائنس دان کو ہلا ک کر کے اس سے جو انتہائی اہم فارمولا سی ٹاپ چرا لیا تھا وہ میں نے حاصل کر لیا ہے‘‘۔۔۔ مارٹن نے بدستور مؤدبانہ لہجے میں کہا تو گینڈے نما باس بے اختیار اچھل پڑا۔ اس کے سوجے ہوئے اور بلڈاگ جیسے بھاری اور بڑے چہرے پر جیسے زلزلے کے سے آثار نمودار ہو گئے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی لیکن سانپ کی طرح چمکتی ہوئی آنکھوں میں موجود چمک اور زیادہ تیز ہو گئی۔
’’کیا کہہ رہے ہو۔ کس فارمولے کی بات کر رہے ہو‘‘۔۔۔ باس نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا۔
’’باس آپ کو یقیناً رپورٹ مل چکی ہو گی کہ ٹاسکو نے ولنگٹن میں ہونے والی ایک بین الاقوامی سائنس کانفرنس میں ایک پاکیشیائی سائنس دان ڈاکٹر آغا کو ہلا ک کر کے اس سے انتہائی جدید ترین میزائلوں کے بارے میں ایک انتہائی اہم فارمولا جسے سی ٹاپ کہا جاتا ہے، حاصل کر لیا تھا اور سپر پاورز اس فارمولے کی خریداری کے لئے پاگل ہو رہی تھیں لیکن ٹاسکو اس کی قیمت مسلسل بڑھائے چلا جا رہا تھا‘‘۔۔۔ مارٹن نے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔ مجھے رپورٹ تو ملی تھی لیکن تم نے کیسے حاصل کر لیا یہ فارمولا۔ کیا تم ٹاسکو سے ٹکرائے تھے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ ٹاسکو اور بلیک سروس کے درمیان معاہدہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے معاملات میں کسی صورت میں مداخلت نہیں کریں گے۔‘‘ گینڈے نما باس نے حلق کے بل چیختے ہوئے کہا۔
’’باس۔ ٹاسکو سے میں کیسے ٹکرا سکتا تھا۔ٹاسکو کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کا فارمولا چرا لیا گیا ہے‘‘۔۔۔ مارٹن نے جواب دیا۔
’’کیا تم نے اسے چرایا ہے‘‘۔۔۔ گینڈے نما باس نے ایک بار پھر انتہائی غصیلے لہجے میں کہا۔
’’نو باس۔ جمی نے اسے چرایا ہے۔ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ میرے ہاتھ لگ چکا ہے‘‘۔۔۔ مارٹن نے جواب دیا۔
’’اوہ۔ اوہ۔ تم فوراً ہیڈ کوارٹر آؤ اس فارمولے سمیت اور مجھے تفصیل بتاؤ۔ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے۔ اگر ٹاسکو کو معمولی سا بھی شک پڑ گیا تو ہم دونوں کے درمیان انتہائی خوفناک جنگ شروع ہو جائے گی۔ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے۔ جلدی آؤ۔ فوراً‘‘۔۔۔ گینڈے نما شخص نے چیختے ہوئے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’جلدی پہنچو فارمولے سمیت۔ جلدی‘‘۔۔۔ گینڈے نما شخص نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور کریڈل پر پٹخا اور پھر انٹر کام کا رسیور اٹھا کر اس نے یکے بعد دیگرے تین بٹن پریس کر دئیے۔
  ’’یس باس‘‘۔۔۔ ایک مؤدبانہ نسوانی آواز سنائی دی۔
’’مین مارکیٹ کا مارٹن آ رہا ہے اسے فوراً میرے آفس پہنچاؤ‘‘۔۔۔ گینڈے نما باس نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے انٹر کام کا رسیور کریڈل پر پٹخا اور پھر میز پر پڑی ہوئی شراب کی بوتل اٹھا کر اس نے منہ سے لگا لی۔ چند لمحوں بعد جب بوتل میں موجود شراب کا آخری قطرہ بھی اس کے حلق سے نیچے اتر گیا تو اس نے بوتل میز کی سائیڈ پر پڑی ہوئی بڑی سی باسکٹ میں پھینک دی۔
’’یہ مارٹ نے کیا کر دیا۔اگر ٹاسکو کو معلوم ہو گیا تو بہت برا ہو گا۔‘‘۔۔۔ باس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور پھر میز کی دراز کھول کر اس نے شراب کی ایک اور بوتل نکالی۔ اس کا ڈھکن کھول کر اس نے اسے بھی منہ سے لگا لیا اور پھر اس وقت تک اسے مسلسل پیتا رہا جب تک وہ خالی نہیں ہو گئی۔ خالی بوتل اس نے باسکٹ میں پھینکی اور پھر میز پر پڑے ہوئے ٹشو باکس سے اس نے ایک ٹشو کھینچا اور اس سے منہ صاف کر کے اس نے ٹشو باسکٹ میں پھینک دیا۔ اس کے چہرے کی سرخی پہلے سے زیادہ تیز ہو گئی تھی۔
’’اگر ٹاسکو کو معلوم نہ ہو سکے تو پھر اس فارمولے کو خاموشی سے انتہائی گراں قیمت پر فروخت کیا جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ اس نے ایک بار پھر بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ پھر وہ اسی طرح بار بار بڑبڑاتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔
’’یس۔ کم ان‘‘۔۔۔ گینڈے نما شخص نے اونچی آواز میں کہا تو دروازہ کھلا اور ایک نوجوان جس کے جسم پر ڈارک براؤن رنگ کا سوٹ تھا اندر داخل ہوا۔ چہرے مہرے سے وہ بھی جرائم پیشہ شخص ہی دکھائی دے رہا تھا۔
’’آؤ۔ آؤ مارٹن۔ میں انتہائی بے چینی سے تمہارا انتظار کر رہا تھا‘‘۔ گینڈے نما باس نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے میز کی دوسری طرف پڑی ہوئی دو کرسیوں کی اشارہ کیا تو مارٹن نے انتہائی مؤدبانہ انداز میں سلام کیا اور پھر ایک کرسی پر بڑے مؤدبانہ انداز میں بیٹھ گیا۔
’’کہاں ہے فارمولا‘‘۔۔۔ گینڈے نما باس نے انتہائی بے چین لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی و ہ آگے کی طرف جھک آیا۔ مارٹن نے کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چھوٹا سا پیکٹ نکال کر اس نے باس کے سامنے میز پر رکھ دیا۔
’’یہ کیا ہے‘‘۔۔۔ گینڈے نما شخص نے کہا۔
’’باس۔ یہ فارمولا ہے‘‘۔۔۔ مارٹن نے کہا۔
’’کیا مطلب ‘‘۔۔۔ گینڈے نما شخص نے پیکٹ اٹھاتے ہوئے انتہائی حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے تھے۔
’’باس۔ یہ سی ٹاپ فارمولا ہے۔ یہ مائیکرو فلم کی صورت میں ہے‘‘۔۔۔ مارٹن نے کہا۔
’’لیکن یہ تو کسی کورئیر سروس کا پیکٹ ہے۔ انٹرنیشنل کورئیر سروس کا۔ کیا مطلب۔ میں یہ سارا چکر سمجھا ہی نہیں ‘‘۔۔۔ باس نے پیکٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں آپ کو تفصیل بتاتا ہوں باس۔ یہ پیکٹ انٹرنیشنل کورئیر سروس فارن مارکیٹ برانچ سے پاکیشیا کے لئے بک کرایا گیا۔ بک کروانے والے شخص کا نام علی عمران ہے اور یہ پیکٹ پاکیشیا کے دارالحکومت میں کسی جوزف کے نام بک کرایا گیا ہے۔ پتہ رانا ہاؤس رابرٹ روڈ درج ہے۔ اس حد تک تو مجھے اس کے بارے میں علم نہ ہو سکتا تھا لیکن یہ شخص علی عمران پیکٹ بک کرانے کے بعد انٹرنیشنل کال آفس پہنچا اور آپ کو معلوم ہے کہ وہاں ہمارا آدمی موجود ہوتا ہے تا کہ انٹرنیشنل کالوں میں سے اپنے مطلب کی کالوں کو چیک کیا جا سکے۔ اس شخص نے وہاں پاکیشیا کے لئے کال بک کروائی اور کسی سر سلطان نامی آدمی سے بات کی۔ گفتگو کے دوران اس نے ٹاسکو اور سی ٹاپ فارمولے کا نام لیا تو ہمارا آدمی چونک پڑا کیونکہ وہ بھی اس بارے میں جانتا تھا۔ اس نے کال چیک کرنا شروع کر دی۔ اسی علی عمران نے کال کے دوران بتایا کہ اس نے سی ٹاپ فارمولا حاصل کر لیا اور ٹاسکو کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکا اور اس نے یہ پیکٹ انٹرنیشنل کورئیر سروس سے رانا ہاؤس جوزف کے نام بک کرا دیا ہے جو کل پاکیشیا پہنچ جائے گا۔ اس نے کہا کہ وہ جوزف کو بھی کال کر کے کہہ دے گا اور وہ یہ پیکٹ سر سلطان کو پہنچا دے گا۔ اس علی عمران نے سر سلطان سے کہا کہ وہ اس پیکٹ کو فوری طور پر صدر صاحب تک پہنچا دیں ۔
  اس کے ساتھ ہی اس نے کہا کہ وہ کل پھر کال کر کے پیکٹ کے پہنچے کے بارے میں کنفرم کرے گا اور کنفرمیشن ہونے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں سمیت واپس پاکیشیا پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد اس نے جوزف کو کال کی اور پھر اسے بھی یہی بتایا کہ پیکٹ پہنچنے پر وہ اس پیکٹ کو فوراً سر سلطان کو پہنچا دے۔ اس کے بعد وہ کال آفس سے باہر چلا گیا تو ہمارے آدمی نے وہاں موجود ایک ساتھی کو اس علی عمران کی نگرانی اور اس کی رہائش گاہ معلوم کرنے کی ہدایت کی اور پھر اس نے مجھے فون کر کے یہ ساری تفصیلات بتائیں تو میں نے فوری طور پر کورئیر سروس میں اپنے آدمیوں سے رابطہ کیا۔ اس طرح خاموشی سے یہ پیکٹ وہاں سے حاصل کر لیا گیا۔ چونکہ بھیجنے والے کو یہ خیال ہی نہیں ہو سکتا کہ اسے اس طرح حاصل کر لیا جائے گا اس لئے اس کے اندر سی ٹاپ سائنسی فارمولا ہی ہے اور یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ یہ شخص علی عمران اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ ہوٹل البانہ میں رہائش پذیر ہے۔اس کے ساتھ تین پاکیشیائی مرد ہیں جبکہ ایک سوئس نژاد لڑکی ہے۔۔۔۔‘‘۔۔۔....................مارٹن نے پوری تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن تم نے کہا تھا کہ ٹاسکو کو بھی اس بارے میں علم نہیں ہے۔یہ کیسے معلوم ہوا‘‘...........گینڈے نما باس نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’ باس۔ میں نے اس آدمی کی گفتگو کی مکمل ٹیپ حاصل کی اور اس میں اس نے خود سر سلطان کو بتایا ہے کہ اسے چرانے والے جرائم پیشہ گروپ کو بھی علم نہیں ہو سکا کہ میں نے اسے حاصل کر لیا ہے۔ اس نے اشارتاً یہی کہا تھا کہ اس نے یہ فارمولا ایک خفیہ بینک لاکر سے اڑایا ہے جس کے بارے میں اسے معلومات ٹاسکو کے باس کی پرسنل سیکرٹری روگی سے حاصل ہوئی ہیں ‘‘ ...............مارٹن نے جواب دیا۔
’’ہونہہ۔لیکن اب جب یہ کال کنفرم کرے گا تو پھر ‘‘۔گینڈے نما شخص نے پہلے کی طرح ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’باس۔یہ پانچ افراد ہیں ۔ان کی رہائش گاہ کا مجھے علم ہے۔انہیں اگر ہلاک کر دیا جائے تو معاملات بالکل اوپن نہ ہوں گے‘‘۔۔۔ مارٹن نے کہا تو باس بے اختیار چونک پڑا۔
’’اوہ۔اوہ۔تم ٹھیک کہہ رے ہو۔ ویری گڈ۔پھر ہم خاموشی سے اس فارمولے کہ انتہائی گراں قیمت پر فروخت کر دیں گے اور ٹاسکو کو کانوں کان خبر نہ ہو سکے گی۔ویری گڈ مارٹن۔ تم نے واقعی کام دکھا یا ہے۔ ویری گڈ۔ تمہیں اس کا بہت بڑا انعام ملے گا۔ بہت بڑا‘‘۔۔۔ گینڈے نما باس نے انتہائی مسرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’تھینک یو باس‘‘۔۔۔ مارٹن نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’ان پانچوں افراد کے خاتمے کا کام بھی اب تم ہی کرو گے۔ انہیں اس طرح ہلاک کر دو کہ ٹاسکو کو بھی علم نہ ہو سکے کہ ان کی ہلاکت میں ہمارا ہاتھ ہے‘‘۔۔۔ گینڈے نما باس نے کہا۔
’’ٹھیک ہے باس۔ میں یہ ٹاسک پروٹو گروپ کو دے دیتا ہوں ۔ وہ ایسے معاملات میں انتہائی تیز ہیں اور پھر راز داری بھی رکھنا جانتے ہیں ‘‘۔۔۔ مارٹن نے کہا۔
’’ہاں ۔ ٹھیک ہے۔ پروٹو گروپ ٹھیک ہے۔ جاؤ اور پھر مجھے اطلاع دو کہ یہ ختم ہو گئے ہیں ۔جاؤ‘‘۔۔۔ گینڈے نما باس نے کہا تو مارٹن اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے سلام کیا اور پھر تیزی سے مڑ کر دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔
’’ویری گڈ۔ یہ بیٹھے بٹھائے بہت اچھا کام ہو گیا ہے۔ ویری گڈ‘‘۔۔۔ گینڈے نما باس نے پیکٹ کو اٹھا کر میز کی سب سے نچلی دراز میں رکھتے ہوئے کہا اور پھر دراز لاک کر کے اس نے میز پر پڑے ہوئے سرخ رنگ کے فون کا رسیور اٹھایا اور تیزی سے نمبر پریس کرنے شروع کر دیے۔
’’سٹارک ہوٹل‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک چیختی ہوئی آواز سنائی دی۔ ’’کنگ بول رہا ہوں ۔ سٹارک سے بات کراؤ‘‘۔۔۔ گینڈے نما شخص نے انتہائی گرجدار لہجے میں کہا۔
’’یس سر۔ یس سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے چیخ کر بولنے والے کا لہجہ یکلخت بھیک مانگنے والوں جیسا ہو گیا۔
’’ہیلو۔ سٹارک بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد ایک بھاری سی آواز سنائی دی۔
’’کنگ بول رہا ہوں سٹارک‘‘۔۔۔ کنگ نے اس بار قدرے نرم لہجے میں کہا۔
 ’’اوہ۔ تم۔ خیریت سے کیسے کال کیا ہے‘‘۔۔۔ سٹارک کے لہجے میں اس انداز کی حیرت تھی جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ کنگ بھی اسے کال کر سکتا ہے۔
’’میرے پاس انتہائی قیمتی سائنسی فارمولا ہے جس کی خریداری کیلئے تمام سپر پاورز زور لگا رہی ہیں ۔ تمہارے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم ایسے کاموں میں ماہر ہو اور راز داری رکھنا بھی جانتے ہو۔ بولو کیا تم یہ کام کرو گے یا کسی دوسرے سے بات کروں ‘‘۔ کنگ نے کہا۔
’’ایسا کون سا فارمولا ہے۔ اس فارمولے کی تفصیلات کیا ہیں ۔ یہ تو بتاؤ۔ پھر ہی کوئی بات ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’پہلے تم حلف دو کہ تم ہر قیمت پر راز داری قائم رکھو گے‘‘۔ کنگ نے کہا۔
’’کیا اس کی خصوصی ضرورت پڑ گئی ہے۔ تمہیں ۔ پہلے تو تم نے کبھی ایسی بات نہیں کی تھی‘‘۔۔۔ سٹارک نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’حالات ہی ایسے ہیں سٹارک‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’او کے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا اور پھر اس نے باقاعدہ راز داری کا حلف لیا۔
’’اس فارمولے کا نام سی ٹاپ ہے اور یہ جدید ترین میزائل کے بارے میں ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’سی ٹاپ۔ مگر وہ تو ٹاسکو کے پاس ہے۔ وہ اسے فروخت کر رہا ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے انتہائی حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’اسی لئے تو میں نے تم سے راز داری کا باقاعدہ حلف لیا ہے سٹارک۔ یہ فارمولا ٹاسکو سے پاکیشیا کے ایک آدمی علی عمران نے حاصل کر لیا تھا اور بقول اس علی عمران کے ٹاسکو کو بھی اس کا علم نہیں ہے۔ پھر علی عمران نے یہ فارمولا کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجوایا لیکن ہمیں علم ہو گیا اور ہم نے یہ فارمولا حاصل کر لیا اور اس علی عمران اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کرا دیا گیا۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے تمہارے ذریعے خاموشی سے فروخت کر دوں ۔ بولو۔ کیا کہتے ہو‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’حیرت انگیز۔ انتہائی حیرت انگیز۔ تم واقعی بے حد خوش قسمت واقع ہوئے ہو۔بہر حال ٹھیک ہے۔ دس پرسنٹ کمیشن لوں گا اور سودا ہو جائے گا‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’کیا قیمت دلواؤ گے‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’ساؤتھ حکومت نے اس کی قیمت ایک کروڑ ڈالر لگائی تھی لیکن ٹاسکو نے دس کروڑ ڈالر طلب کیے جس کی وجہ سے ساؤتھ حکومت پیچھے ہٹ گئی اور یہ بھی بتا دوں کہ ایک کروڑ ڈالر سے زیادہ کوئی ملک بھی نہیں دے گا‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’او کے۔ ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔ کب سودا ہو سکتا ہے۔ میں جلدی سے جلدی یہ سودا کر لینا چاہتا ہوں ‘‘۔۔۔ کنگ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ڈیل تو ہو جائے گی لیکن بہرحال اس میں وقت تو لگے گا اور اس کے علاوہ حکومت کے سائنس دان فارمولا بھی چیک کرنا چاہیں گے۔ لیکن بے فکر رہو یہ سب کچھ ایک ہفتے کے اندر کر دوں گا کیونکہ مجھے بھی تو بہرحال اپنا کمیشن جلد از جلد چاہیے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ بہرحال جس قدر جلد ممکن ہو سکے۔ یہ کام مکمل ہونا چاہیے۔‘‘ کنگ نے کہا۔
’’او کے۔ میں آج ہی حکومت کے آدمیوں سے بات چیت کا آغاز کر دیتا ہوں ۔ فارمولا تمہارے پاس ہے نا‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ہاں ۔ لیکن خیال رکھنا ٹاسکو کو اس بارے میں علم نہیں ہونا چاہیے‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس بات کو نہ سمجھوں گا تو اور کون سمجھے گا‘‘۔۔۔ سٹارک نے جواب دیا۔
’’اوکے۔ میں تمہاری کال کا منتظر رہوں گا۔ گڈ بائی‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا اور رسیور رکھ دیا۔ اس کے چہرے پر گہرے اطمینان کے تاثرات نمایاں تھے۔
ہوٹل البانو کے ایک کمرے میں عمران اپنے ساتھیوں جولیا، صفدر، کیپٹن شکیل اور تنویر کے ہمراہ موجود تھا۔ وہ سب ہاٹ کافی پینے میں مصروف تھے۔ عمران نے انہیں بتا دیا تھا کہ اس نے فارمولا کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجوا دیا ہے اور اب کل اس کے پہنچنے کی کنفرمیشن کر کے وہ واپس پاکیشیا چلے جائیں گے۔
’’اس بار تو بس آنا جانا ہی ہوا۔ کام تو کرنا ہی نہیں پڑا۔‘‘ صفدر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ابھی تو صرف آنا ہوا ہے۔ جانا تو کل ہو گا اگر قسمت میں ہوا تو‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’قسمت میں ہوا کیا مطلب۔ یہ کیا بد شگونی کی باتیں شروع کر دی ہیں تم نے ‘‘۔جولیا نے فوراً ہی غصیلے لہجے میں کہا۔
’’ارے۔ ارے۔ میں نے بزرگوں کے حکم کے مطابق کہا ہے۔بزرگ کہتے ہیں کہ جو کام قسمت میں ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اب قسمت میں اگر جانا لکھا ہو گا تو جائیں گے۔ نہیں لکھا ہو گا تو نہیں جائیں گے بلکہ مزے سے یہاں سیر و تفریح کریں گے‘‘۔۔۔ عمران نے خوفزدہ سا لہجہ بناتے ہوئے کہا تو صفدر بے اختیار ہنس پڑا۔
’’جب کام ختم ہو گیا ہے تو پھر واپس تو بہرحال جانا ہی ہو گا‘‘۔ جولیا نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اگر تم پھر بد شگونی کا رونا نہ رونا شروع کر دو تو میں تمہیں بتا دوں کہ جب کام ختم ہو گیا تو پھر پاکیشیا جانا نہیں بلکہ عالم بالا میں جانا ہو گا اور ایک بار وہاں جانا ہو گیا تو آنے والا قصہ ختم‘‘۔ عمران نے کہا تو جولیا نے ایک بار پھر غصے سے آنکھیں نکالیں ۔
’’تم باز نہیں آؤ گے ایسی باتوں سے‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’چھوڑو۔ یہ کس فضول بحث میں پڑ گئے ہو۔ تم یہ بتاؤ عمران کیا اس ٹاسکو کا بھی جرائم پیشہ گروہ ہے۔ تم پاکیشیائی سائنسدان کی ہلاکت کا بدلہ نہیں لو گے‘‘۔۔۔ تنویر نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا۔
’’انتقام کیا لینا ہے۔ وہ جرائم پیشہ لوگ ہیں اس لئے میرا خیال ہے کہ جانے سے پہلے میں یہاں پاکیشیا کے سفیر سے مل کر اسے ساری تفصیلات بتا دوں گا۔وہ پولیس کمشنر کے ذریعے خود ہی ان لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لے آئیں گے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’ایسے لوگوں کا پولیس کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ تم ایسا کرو کہ مجھے اس بارے میں تفصیلات بتا دو۔ پھر میں جانوں اور یہ لوگ۔‘‘ تنویر نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ۔ عمران ٹھیک کہہ رہا ہے۔ جب ہمارا کام ختم ہو گیا ہے تو ہمیں ایسے گھٹیا معاملات میں نہیں الجھنا چاہیے۔ سفیر صاحب خود ہی سب کچھ کر لیں گے‘‘۔۔۔ جولیا نے عمران کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’عمران صاحب اس بار آپ نے یہ سب کیسے کر لیا۔ آپ نے مکمل تفصیلات تو بتائیں نہیں ‘‘۔۔۔ کیپٹن شکیل نے تنویر کے بولنے سے پہلے بات کرتے ہوئے کہا۔
’’تفصیل بتائی تو ہے۔ یہاں آ کر مجھے معمولی سی انکوائری سے یہ معلوم ہو گیا کہ یہ کام ایک جرائم پیشہ گروپ ٹاسکو نے کیا ہے اور اب وہ فارمولا کسی سپر پاور کو فروخت کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ مجھے چونکہ فارمولے کے حصول سے دلچسپی تھی اس لئے میں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ فارمولا کہاں ہے تو ایک مقامی آدمی کے ذریعے درست معلوم مل گئیں ۔ ٹاسکو گروپ کے چیف کی پرسنل سیکرٹری کو بھاری دولت دے کر معلوم کر لیا گیا کہ فارمولا بینک لاکر میں ہے۔ پھر وہاں سے خاموشی سے فارمولا اڑا لیا گیا اور بس‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا لیکن اس سے پہلے کہ مزید کوئی بات ہوتی اچانک کمرے کا دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور دوسرے لمحے چار لمبے تڑنگے اور سخت گیر چہروں والے آدمی بجلی کی سی تیزی سے اندر داخل ہوئے۔ ان سب کے ہاتھوں میں سائیلنسر لگے ریوالور تھے۔ وہ اپنے لباس اور چہرے مہروں سے ہی جرائم پیشہ افراد لگ رہے تھے۔
گہرے نیلے رنگ کی جدید ماڈل کی کار ایکریمیا کی ریاست راگونا کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی آگے بڑھی چلی جا رہی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر عمران تھا جبکہ عقبی سیٹ پر صفدر اور تنویر موجود تھے۔ وہ تینوں مقامی میک اپ میں تھے لیکن اپنے مخصوص لباس اور میک اپ سے صاف دکھائی دیتا تھا کہ ان کا تعلق جرائم پیشہ گروہ سے ہے۔ ہوٹل البانو میں قاتلانہ حملے کے بعد انہوں نے میک اپ کرنے کا ضروری سامان اٹھا لیا اور خاموشی سے کمرے چھوڑ دئیے جبکہ حملہ آوروں کی لاشیں انہوں نے کمرے میں ہی چھوڑ دی تھیں ۔ البتہ کمرہ چھوڑنے سے پہلے عمران نے ہوٹل کے فون کو ڈائریکٹ کر کے سٹار کالونی کی ایک کوٹھی حاصل کر لی تھی جس میں یہ کار بھی پہلے سے موجود تھی اور اسلحہ بھی۔ کیپٹن شکیل اور جولیا چونکہ اس قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے تھے اس لئے عمران نے ان دونوں کو وہیں کوٹھی پر چھوڑ دیا تھا۔ گو جولیا اور کیپٹل شکیل دونوں نے ان کے ساتھ جانے پر اصرار کیا تھا لیکن عمران نے اس حالت میں انہیں اپنے ساتھ لے جانے سے صاف انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان دونوں کی وجہ سے انہیں کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ کوٹھی میں پہنچ کر صفدر کے ذریعے عمران نے خصوصی طور پر یہ لباس مارکیٹ سے منگوا لئے تھے۔ تینوں نے جینز کی چست پینٹس اور سیاہ رنگ کے چمڑے کی جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں ۔ جیکٹوں کے اندر گہرے سرخ رنگ کی شرٹیں تھیں جن پر مختلف تصویریں بنی ہوئی تھیں ۔ اس قسم کا لباس یہاں غنڈوں اور بدمعاشوں کے لئے مخصوص سمجھا جاتا تھا۔
’’عمران صاحب۔ آخر یہ پروٹو گروپ نے ہم پر حملہ کیوں کیا۔ مجھے تو اس کی کوئی وجہ ہی سمجھ نہیں آ رہی‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’یہی وجہ معلوم کرنے کے لئے تو ہم جا رہے ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’کوئی بھی وجہ ہو۔ بہرحال موت ان کا مقدر بن چکی ہے۔‘‘ تنویر نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’پہلے پوچھ گچھ کر لینے دینا۔ ایسا نہ ہو کہ تم ہوٹل میں داخل ہوتے ہی قتل عام شروع کر دو‘‘۔۔۔ صفدر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پوچھ گچھ تو فاکسن سے ہونی ہے۔ باقی افراد سے نہیں ۔‘‘ تنویر نے جواب دیا۔
’’تمہیں ابھی تک اندازہ نہیں ہوا کہ ہم اس لباس اور ان حلیوں میں وہاں کیوں جا رہے ہیں ؟‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’وہ لوگ غنڈے اور بدمعاش ہیں اس لئے اور کیا وجہ ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ تنویر نے جواب دیا۔
’’ہم ولنگٹن کے معروف سنڈیکیٹ راسٹر کے آدمی ہیں اور ہم نے فاکسن سے ملنا ہے۔ ہمارے پاس اس کے لئے راسٹر کے چیف کا ایک خصوصی پیغام ہے اس لئے اس وقت تک ایکشن میں آنے کی ضرورت نہیں جب تک فاکسن سے ملاقات نہ ہو جائے۔‘‘ عمران نے کہا۔
’’تم ان پیشہ ور قاتلوں کے گروپ اور ان کے چیف کی نفسیات نہیں جانتے۔ یہ گروہ صرف گولی کی زبان سمجھتے ہیں ‘‘۔۔۔ تنویر نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’مجھے معلوم ہے لیکن راسٹر گروپ کا نام ان کے لئے گولی سے بھی زیادہ مؤثر ثابت ہو گا‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’ہو سکتا ہے۔ بہرحال حالات دیکھ کر فیصلہ ہو جائے گا۔‘‘ تنویر نے کہا۔
’’تم نے حالات کو دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آنے دینی۔‘‘ صفدر نے مسکراتے ہوئے کہا اور عمران کے ساتھ ساتھ تنویر خود بھی صفدر کی بات سن کر بے اختیار ہنس پڑا اور پھر مختلف سڑکوں سے گزرنے کے بعد عمران نے کار دو منزلہ لیکن وسیع احاطے میں بنے ہوئے پروٹو ہوٹل کے کمپاؤنڈ میں موڑ دی۔ ایک سائیڈ پر پارکنگ بنی ہوئی تھی جس میں رنگ برنگی نئے اور پرانے ماڈلز کی کاروں کی خاصی تعداد موجود تھی۔ عمران نے کار ایک خالی جگہ پر روک دی اور پھر وہ سب کار سے نیچے اتر آئے۔ پارکنگ بوائے نے عمران کے ہاتھ میں پارکنگ کارڈ دے دیا۔ عمران نے بے اعتنائی سے کارڈ لے کر جیکٹ کی جیب میں ڈالا اور پھر وہ تینوں غنڈوں اور بدمعاشوں کے مخصوص انداز میں چلتے ہوئے ہوٹل کے مین گیٹ کی طرف بڑھتے چلے گئے۔
انہوں نے مین گیٹ تک پہنچتے پہنچتے جائزہ لے لیا تھا کہ ہوٹل میں آنے جانے والے سب افراد کا تعلق زیر زمین دنیا سے ہے۔ مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی وہ یہ دیکھ کر چونک پڑے کہ ہوٹل کے وسیع و عریض ہال میں مردوں سے زیادہ تعداد عورتوں کی تھی۔ ہر میز پر ایک سے زیادہ عورتیں موجود تھیں اور بعض میزوں پر تو ایک مرد کے ساتھ ساتھ تین تین عورتیں موجود تھیں لیکن ان عورتوں کا انداز بتا رہا تھا کہ یہ پیشہ ور عورتیں ہیں اور شاید انہیں یہاں خصوصی طور پر اس لئے بٹھایا گیا تھا کہ وہ ہوٹل میں آنے والے مردوں کی جیبیں خالی کر سکیں ۔ ہال میں مشین گنوں سے مسلح تقریباً آٹھ نو غنڈے موجود تھے جن کی تیز نظریں ہال میں موجود افراد کا اس طرح جائزہ لے رہی تھیں جیسے شکاری اپنے شکار منتخب کرنے کے لئے جانوروں کو دیکھتا ہے۔ ایک طرف وسیع و عریض کاؤنٹر تھا جس کے پیچھے تین تقریباً عریاں نوجوان لڑکیاں سروس دینے میں مصروف تھیں ۔ہال میں سروس مہیا کرنے والی بھی نوجوان لڑکیاں تھیں اور ان کے جسموں پر بھی لباس تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ البتہ کاؤنٹر کی سائیڈ پر ایک پہلوان نما آدمی دونوں بازو سینے پر باندھے اور پیر پھیلائے اس انداز میں کھڑا تھا جیسے کوئی فاتح اپنی مفتوحہ ریاست کے کنارے کھڑا ہو۔ اس کے بازو پر عورتوں کے عریاں فوٹو گودے ہوئے تھے۔ اس نے گہرے سرخ رنگ کی ہاف آستین والی شرٹ پہن رکھی تھی۔ سر پر موجود بال اس کے کاندھوں تک تھے اور چہرے مہرے سے وہ بدمعاش کم اور مار دھاڑ فلموں کا ایکشن ہیرو زیادہ نظر آ رہا تھا۔ عمران اور اس کے ساتھی ایک لمحے تک تو ہال کے گیٹ پر کھڑے ہال کا جائزہ لیتے رہے پھر وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھنے لگے۔ اس پہلوان کی نظریں ان پر جمی ہوئی تھیں لیکن وہ اسی طرح بازو سینے پر باندھے کھڑا رہا تھا۔
’’ہیلو بوائے۔ کیا نام ہے تمہارا‘‘۔۔۔ عمران نے قریب جا کر قدرے جھٹکے دار لہجے میں کہا۔
’’بوبی۔ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘۔۔۔ اس پہلوان نما نوجوان نے قدرے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہم ولنگٹن سے آئے ہیں ۔ راسٹر سنڈیکیٹ سے اور سنو اپنے باس فاکسن کو بتا دو کہ ہم اس سے ملنے آئے ہیں ۔ ہمارے پاس راسٹر چیف کا خصوصی پیغام ہے‘‘۔۔۔ عمران نے اسی طرح جھٹکے دار لہجے میں کہا۔
’’مجھے بتاؤ کیا پیغام ہے۔ میں باس کا نمبر ٹو ہوں اور باس کسی سے نہیں ملتا‘‘۔۔۔ بوبی نے اسی طرح سرد لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’کیا تم نے راسٹر سنڈیکیٹ کے الفا ظ نہیں سنے‘‘۔۔۔ عمران نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’سنے ہیں ۔ ایکریمیا میں تو ہر گلی کے کونے پر ایک سنڈیکیٹ موجود ہے اس لئے کسی سنڈیکیٹ کا نام میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘‘۔۔۔ بوبی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’اوہ۔ اس کا مطلب ہے کہ تم اس دنیا میں نووارد ہو۔ ابھی معصوم بچے ہو ورنہ راسٹر سنڈیکیٹ کے الفاظ سننے کے بعد تمہاری زبان سے سوائے یس سر کے دوسرے الفاظ نہ نکلتے۔ بہرحال اپنے باس کو بتاؤ۔ وہ یقیناً تم سے زیادہ جانتا ہو گا‘‘۔۔۔ عمران نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ صفدر اور تنویر دونوں خاموش کھڑے تھے۔ لیکن تنویر کا چہرہ لمحہ بہ لمحہ بگڑتا چلا جا رہا تھا جبکہ صفدر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ وہ یقیناً عمران اور بوبی کے درمیان ہونے والی اس گفتگو سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
’’میں نے تمہیں بتا دیا کہ باس کسی سے نہیں ملتا۔ اگر تمہیں کوئی پیغام دینا ہے تو مجھے دے دو ورنہ واپس چلے جاؤ‘‘۔۔۔ بوبی نے انتہائی تلخ لہجے میں کہا۔
’’کیا تمہارا باس اس ہوٹل میں موجود ہے‘‘۔۔۔ عمران نے پوچھا۔
’’ہاں ۔ وہ آفس میں ہے لیکن وہ کسی سے نہیں ملتا چاہے وہ ایکریمیا کا صدر ہی کیوں نہ ہو‘‘۔۔۔ بوبی نے جواب دیا لیکن اس کا لہجہ اب پہلے سے کافی زیادہ تلخ ہو گیا تھا۔
’’تم نے دونوں ہاتھ سینے پر کیوں باندھ رکھے ہیں ۔ کیا تمہاری پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں ‘‘۔۔۔ اچانک عمران نے کہا تو بوبی اس کی بات سن کر بے اختیار چونک پڑا۔ اس نے تیزی سے ہاتھ نیچے کر دئیے لیکن پھر اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا عمران کا بازو بجلی کی سی تیزی سے گھوما اور دوسرے لمحے چٹاخ کی زور دار آواز کے ساتھ ہی بوبی کے حلق سے چیخ نکلی اور وہ اچھل کر ساتھ کھڑی ہوئی لڑکی سے جا ٹکرایا۔ لڑکی کے منہ سے بھی تیز چیخ نکلی۔ ان چیخوں اور چٹاخ کی زوردار آواز کے ساتھ ہی ہال میں موجود افراد بری طرح چونک پڑے۔ ہال میں ہونے والا شور یکلخت عجیب خاموشی میں تبدیل ہو گیا۔
’’میں نے تمہارے ہاتھ اس لئے کھلوائے تھے کہ میں کسی بندھے ہوئے آدمی پر ہاتھ اٹھانا اپنی توہین سمجھتا ہوں اور اب جا کر اپنے باس سے کہو کہ راسٹر گروپ کے آدمی آئے ہیں ۔جاؤ‘‘۔ عمران نے اونچی آواز میں کہا لیکن بوبی جو اب سیدھا کھڑا ہو گیا تھا اور اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنے گال پر رکھا ہوا تھا بڑی کینہ توز نظروں سے عمران کو دیکھ رہا تھا۔ دوسرے لمحے اس نے اپنا دوسرا ہاتھ ہوا میں اٹھا دیا۔
’’رک جاؤ۔ کوئی ان پر فائر نہ کرے۔ انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ہے اس لئے ان کی ہڈیاں بھی میں ہی توڑوں گا‘‘۔۔۔ بوبی نے یکلخت غصے کی شدت سے پھٹ پڑنے والے لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے یکلخت ہائی جمپ لگایا اور کاؤنٹر پر پیر رکھتا ہوا وہ اچھل کر عمران، صفدر اور تنویر کے سامنے فرش پر آ کھڑا ہوا۔ اس کے گال پر عمران کی انگلیوں کے نشانات بڑے واضح نظر آ رہے تھے اور اسکے عضلات اس طرح پھڑک رہے تھے جیسے اس کے جسم سے لاکھوں وولٹیج کا کرنٹ گزر رہا ہو۔
’’تم ہٹ جاؤ مائیکل اور جانسن۔ میں اسے بتاتا ہوں کہ اس کی اوقات کیا ہے‘‘۔۔۔ اچانک تنویر نے عمران اور صفدر کی طرف بازو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’ارے ارے۔ رہنے دو راجر۔ یہ معصوم بچہ ہے۔ اچھل کود کر لیتا ہو گا۔ ہم نے تو صرف فاکسن سے ملنا ہے اور بس‘‘۔۔۔ عمران نے کہا لیکن اسی لمحے بوبی انتہائی خوفناک انداز میں چیختا ہوا اچھل کر ان کی طرف بڑھا لیکن تنویر اچھل کر اپنے ساتھیوں کے سامنے آگیا اور پھر اس سے پہلے کہ بوبی کا حملہ مکمل ہوتا تنویر کے دونوں بازو بجلی کی سی تیزی سے حرکت میں آئے اور اس کے ساتھ ہی وہ پیروں کے بل اکڑوں نیچے بیٹھ گیا لیکن پلک جھپکنے میں اس طرح وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا جیسے پہلوان ڈنڈ نکالتے وقت نیچے اٹھتے اور بیٹھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی بوبی کا اچھلا ہوا بھاری جسم فضا میں کسی نیزے کی طرح اڑتا ہوا اس کے سر سے اوپر سے ہو کر ہال کی عقبی دیوار کے ساتھ ایک خوفناک دھماکے سے جا ٹکرایا اور ہال بوبی کے حلق سے نکلنے والی انتہائی کربناک چیخ سے گونج اٹھا۔ بوبی کا سر پوری قوت سے دیوار سے ٹکرایا تھا اور پھر بوبی کا بھاری جسم کسی شہتیر کی طرح ایک خوفناک دھماکے سے نیچے فرش پر گرا اور چند لمحوں تک حرکت کرنے کے بعد ساکت ہو گیا۔ تنویر نے واقعی انتہائی حیرت انگیز انداز میں اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے عقب میں پوری قوت سے اچھال دیا تھا۔چونکہ بوبی کا جسم اچھلنے کی وجہ سے پہلے ہی زمین سے اوپر تھا اس لئے تنویر آسانی سے یہ خوفناک داؤ لگانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
’’ارے راجر۔ کہیں یہ معصوم بچہ مر تو نہیں گیا‘‘۔۔۔ عمران نے مڑ کر فرش پر ساکت پڑے ہوئے بوبی کے قریب جاتے ہوئے کہا۔ ہال پر جیسے موت کی سی سنجیدگی طاری ہو گئی تھی۔ ایک عجیب سا سکوت۔ ہال میں موجود مسلح افراد جن کے ہاتھوں میں مشین گنیں تھیں اس طرح ساکت کھڑے تھے کہ ان کی شاید پلکیں تک نہ جھپک رہی تھیں ۔
’’نہیں ۔ زند ہ ہے۔ چلو بچ گیا بے چارہ۔ اچھا ہوا‘‘۔۔۔ عمران نے مڑتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ اس کے انداز میں اس قدر لا ابالی پن تھا جیسے یہ سب کچھ کسی ڈرامے کی ریہرسل کے طور پر ہو رہا ہو۔
’’سنو۔ ہمارا تعلق ولنگٹن کے راسٹر سنڈیکیٹ سے ہے اور ہم نے صرف فاکسن سے ملنا ہے۔ اگر کسی نے بھی کوئی غلط حرکت کی تو ایک لمحے میں اس پورے ہوٹل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی اور یہاں موجود افراد پلک جھپکتے میں جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ اس لئے کوئی بہادری دکھانے کی کوشش نہ کرے اور صرف فاکسن تک یہ پیغام پہنچا دیا جائے کہ راسٹر سنڈیکیٹ کے آدمی اس سے ملنے آئے ہیں ‘‘۔۔۔ صفدر نے اونچی آواز میں کہا۔
’’باس فاکسن کسی سے نہیں ملتا‘‘۔۔۔ اچانک ایک نوجوان نے تیز لہجے میں کہا اور اس کے بولتے ہی ہال میں موجود افراد اس انداز  سے حرکت میں آ گئے جیسے جادو کا اثر ختم ہوتے ہی جادو کی وجہ سے بت بنے ہوئے افراد حرکت میں آ جاتے ہیں ۔ عورتیں اور مرد بے اختیار کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’شوٹی۔ میں فاکسن بول رہا ہوں ۔ ان تینوں کو میرے آفس میں پہنچا دو اور بوبی کو گولی مار کر اس کی لاش باہر سڑک پر پھینک دو‘‘۔۔۔ اچانک ہال کے ایک کونے سے بھاری سی لیکن چیختی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’بوبی کو گولی مار کر اس کی لاش باہر پھینک دو‘‘۔۔۔ اسی نوجوان نے جس نے صفدر کی بات کا جواب دیا تھا مڑ کر اپنے ساتھیوں سے کہا اور پھر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اور عمران اور اس کے ساتھیوں کی طرف بڑھ آیا۔
’’آؤ میرے ساتھ‘‘۔۔۔ اس نے عمران اور اس کے ساتھیوں سے کہا اور تیزی سے ایک کونے میں موجود لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔ عمران اور اس کے ساتھی اس کے پیچھے اس لفٹ کی طرف بڑھ گئے۔ یہ ایک چھوٹی سی لیکن تیز رفتار لفٹ تھی۔ چند لمحوں بعد ہی یہ اوپر جا کر رک گئی تو اس نوجوان جس کا نام شاید شوٹی تھی، نے دروازہ کھولا اور باہر راہداری میں آگیا۔ راہداری ایک طرف سے بند تھی جبکہ دوسری طرح اس کا اختتام ایک بھاری دروازے پر ہو رہا تھا جو اپنی مخصوص ساخت سے کسی ساؤنڈ پروف کمرے کا دروازہ دکھائی دے رہا تھا۔ دروازے پر سرخ رنگ کا بلب جل رہا تھا۔
’’آپ کے پاس ہتھیا ر ہوں گے۔ وہ مجھے دے دیں ورنہ یہ مخصوص دروازہ نہیں کھل سکے گا‘‘۔۔۔ شوٹی نے دروازے کے قریب پہنچ کر عمران اور اس کے ساتھیوں سے کہا تو عمران نے جیب میں موجود مشین پسٹل نکال کر شوٹی کی طرف بڑھا دیا۔ صفدر اور تنویر نے بھی اس کی پیروی کی۔ تینوں کے مشین پسٹل جیسے ہی شوٹی نے پکڑے دروازے پر جلتا ہوا سرخ رنگ کا بلب خود بخود بجھ گیا اور اس کے ساتھ ہی دروازہ آٹو میٹک انداز میں اندر کی طرف کھلنے لگا۔
’’جائیں ۔ باس آفس میں موجود ہے‘‘۔۔۔ شوٹی نے کہا تو عمران سر ہلاتا ہوا دروازے کی طرف مڑا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ صفدر اور تنویر اس کے پیچھے تھے۔دروازہ پورا کھل گیا تھا۔ یہ ایک خاصا بڑا کمرہ تھا جس میں موجود وسیع و عریض میز کے پیچھے ایک دیو قامت بھاری لیکن ورزشی جسم کا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر بھی زخموں کے کئی مندمل نشانات تھے۔وہ اپنے چہرے مہرے کی ساخت سے انتہائی سفاک اور بے رحم آدمی نظر آ رہا تھا۔ اس کی تیز نظریں عمران اور اس کے ساتھیوں پر جمی ہوئی تھیں ۔ اس نے دونوں ہاتھ میز پر رکھے ہوئے تھے۔ اس کے جسم پر سوٹ تھا۔ چہرہ بھاری اور آنکھیں سوجی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں ۔ بہرحال وہ آدمی اپنے قد و قامت اور انداز میں کوئی بڑا لڑاکا نظر آ رہا تھا۔ عمران اور اس کے ساتھیوں کے اندر داخل ہوتے ہی ان کے عقب میں دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔
’’بیٹھو۔ میرا نام فاکسن ہے‘‘۔۔۔ اس آدمی نے قدرے غراتے ہوئے سے لہجے میں کہا۔ اس کے بولنے کا انداز ایسا تھا جیسے چیتا آہستہ آہستہ سے غرا رہا ہو۔
’’تم اچھے خاصے سمجھ دار آدمی دکھائی دے رہے ہو۔ پھر تم نے کاؤنٹر پر بوبی جیسے بچوں کو کیوں کھڑا کیا ہوا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے بڑے لا پرواہ سے انداز میں کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’بوبی بچہ نہیں تھا۔ راگونا کا سب سے مشہور لڑاکا تھا لیکن تمہارے اس ساتھی نے جس طرح اسے اچھال کر دیوار سے ٹکرا کر بے بس کیا ہے وہ انداز مجھے پسند آیا ہے۔ اس لئے تو میں نے تمہیں ملاقات کی اجازت دی ہے ورنہ تو اب تک تمہاری لاشیں گٹر میں کیڑے کھا رہے ہوتے۔ کیوں آئے ہو تم۔ مختصر بات کرو۔ میرے پاس فضول باتوں کے لئے وقت نہیں ہوتا‘‘۔۔۔ فاکسن نے انتہائی سخت اور کھردرے سے لہجے میں اسی طرح غراتے ہوئے انداز میں کہا۔
’’راسٹر سنڈیکیٹ کے بارے میں تم بھی کچھ جانتے ہو یا نہیں ۔ ولنگٹن کا راسٹر سنڈیکیٹ‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔ صفدر اور تنویر بھی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے۔ ’’صرف نام سنا ہوا ہے بس‘‘۔۔۔ فاکسن نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’البانو ہوٹل میں چند ایشیائی رہ رہے تھے۔ وہ راسٹر سنڈیکیٹ کی پارٹی تھی۔ تم نے ان پر قاتلانہ حملہ کرا دیا۔ کیوں ؟ کس کے کہنے پر یہ کام ہوا ہے؟‘‘۔۔۔ عمران کا لہجہ یکلخت سنجیدہ ہو گیا تھا اور فاکس عمران کی بات سن کر بے اختیار اچھل پڑا۔
’’کیا۔ کیا کہہ رہے ہو تم۔ تمہیں اس بارے میں کیسے علم ہوا ہے‘‘۔۔۔ فاکسن نے انتہائی حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ اب اس کے لہجے سے غراہٹ کا عنصر غائب ہو گیا تھا۔
’’میں نے بتایا ہے کہ وہ راسٹر سنڈیکیٹ کے آدمی تھے اور راسٹر سنڈیکیٹ کے آدمیوں پر حملہ کرنا سنڈیکیٹ کی نظر میں ناقابل معافی جرم ہے لیکن چونکہ یقیناً تمہیں اس بات کا علم نہ ہو گا کہ ان کا تعلق راسٹر سنڈیکیٹ سے ہے اس لئے تمہیں اس صورت میں معاف کیا جا سکتا ہے کہ تم ہمیں یہ بتا دو کہ تمہیں یہ ٹاسک کس پارٹی نے دیا ہے ورنہ دوسری صورت میں تمہارے پورے گروپ سمیت تمہارے اس ہوٹل سب کا خاتمہ ایک جھٹکے میں ہو سکتا ہے‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’تم۔ تم مجھے میرے ہی آفس میں بیٹھ کر دھمکیاں دے رہے ہو۔ اچھا ہوا کہ تم خود یہاں آ گئے ہو۔ اب تمہیں بتانا ہو گا کہ وہ پاکیشیائی کہاں غائب ہو گئے ہیں ۔ ان کا پتہ بتانا ہو گا‘‘۔۔۔ فاکسن نے ایک بار پھر غراتے ہوئے لہجے میں کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ایک ہاتھ نے معمولی سی حرکت کی تو سائیڈ دیوار بغیر کسی آواز کے پھٹ گئی۔ اب وہاں چار لمبے تڑنگے اور ورزشی جسم کے آدمی کھڑے نظر آ رہے تھے۔ ان کا انداز بتا رہا تھا کہ لڑائی بھڑائی کے فن میں خاصے ماہر ہیں ۔
’’ان کی ہڈیاں توڑ کر ان سے معلوم کرو کہ ایشیائی کہاں ہیں ۔‘‘ فاکسن نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے۔ تم خود تو خاصے پلے ہوئے نظر آتے ہو۔ خود کوشش کیوں نہیں کرتے۔ ان بچوں کو کیوں سامنے لا رہے ہو‘‘۔۔۔ عمران نے اچھل کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ اس کے اٹھتے ہی صفدر اور تنویر بھی اچھل کر کھڑے ہو گئے تھے۔
’’ان کی ہڈیاں توڑ دو‘‘۔۔۔ فاکسن نے بھی اچھل کر کھڑے ہوتے ہوئے چیخ کر کہا تو وہ چاروں بھیانک سے انداز میں چیختے ہوئے عمران اور اس کے ساتھیوں کی طرف بڑھے۔ ان کے انداز میں تیزی کے ساتھ ساتھ مہارت تھی لیکن دوسرے لمحے عمران کا بازو بجلی کی سی تیزی سے حرکت میں آیا اور اس کے ساتھ ہی فاکسن ایک جھٹکے سے میز پر گھسٹتا ہوا عمران کے سامنے فرش پر آ گرا لیکن نیچے گرتے ہی وہ اس طرح اچھل کر کھڑا ہو گیا جیسے اس کے جسم میں ہڈیوں کی بجائے سپرنگ لگے ہوئے ہوں ۔ عمران نے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کر ایک زوردار جھٹکے سے اسے گھسیٹ لیا تھا حالانکہ وہ دیو قامت اور خاصے بھاری جسم کا آدمی تھا لیکن عمران کا جھٹکا اس قدر زور دار اور طاقتور تھا کہ وہ میز پر سے گھسٹتا ہوا اس کے سامنے فرش پر آ گرا تھا۔
’’ان کی گردنیں توڑ دو۔ ہمیں صرف اس فاکسن سے مطلب ہے‘‘۔۔۔ عمران نے بڑے مطمئن سے انداز میں صفدر اور تنویر سے کہا۔ اس کے ساتھ وہ یکلخت بجلی کی سی تیزی سے اچھل کر ایک طرف ہٹا اور فاکسن جس نے اس کے بات کرنے کے دوران اچانک اس پر حملہ کر دیا تھا کرسی سے ٹکرا کر کرسی سمیت نیچے فرش پر جا گرا جبکہ صفدر اور تنویر چاروں سے بیک وقت ٹکرا گئے تھے۔ فاکسن نے نیچے گرتے ہی الٹی قلابازی کھائی اور دوسرے ہی لمحے عمران کا جسم یکلخت ہوا میں اچھل کر سائیڈ کی دیوار سے جا ٹکرایا۔ فاکسن نے واقعی بڑے ماہرانہ انداز میں عمران پر بیک فٹ کراس مارا تھا۔ اس کے انداز میں اس قدر تیزی اور مہارت تھی کہ عمران بھی مار کھا گیا۔ عمران کا شاید خیال تھا کہ فاکسن الٹی قلابازی کھا کر سیدھا کھڑا ہو گا اور اس پر حملہ کرے گا لیکن فاکسن اس کی توقع سے زیادہ تیز ثابت ہوا۔ الٹی قلابازی کھاتے ہی وہ سیدھا کھڑا ہونے کی بجائے اس نے اپنے دونوں ہاتھ فرش پر رکھے اور اس نچلا جسم بجلی کی سی تیزی سے گھومتا ہوا عمران کی طرف آیا اور اس نے اپنے دونوں پیروں کی زوردار ضرب لگا کر عمران کو اچھال کر اس کی عقبی دیوار سے دے مارا تھا جبکہ خود وہ ایک بار پھر اچھل کر کھڑا ہو گیا لیکن دوسرے ہی لمحے وہ چیختا ہوا اچھل کر پشت کے بل نیچے فرش پر جا گرا۔ عمران دیوار سے ٹکرا کر کسی گیند کی طرح واپس آیا تھا اور عین اس لمحے جب فاکسن سیدھا کھڑا ہوا تھا عمران اس سے ٹکرایا اور فاکسن چیختا ہوا اچھل کر نیچے گرا اور عمران ضرب لگا کر بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹتا چلا گیا۔
 ’’گڈ شو فاکسن۔ اس کا مطلب ہے کہ تمہیں بھی اٹھک بیٹھک کا شوق ہے۔ گڈ شو‘‘۔۔۔ عمران نے کہا جبکہ صفدر اور تنویر دو حملہ آوروں کا خاتمہ کر کے اب باقی دو سے لڑنے میں مصروف تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کمرے میں مارشل آرٹ کی کلاس لی جا رہی ہو۔ عمران ان کی طرف سے پوری طرح مطمئن تھا۔ فاکسن نے نیچے گرتے ہی تیزی سے کروٹ بدلی اور اس کے ساتھ ہی وہ واقعی انتہائی حیرت انگیز اور ماہرانہ انداز میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا چہرہ اب غصے کی شدت سے بری طرح بگڑا ہوا تھا۔ شاید اس کے تصور میں بھی نہ تھا کہ عمران اس کا اس انداز میں بھی مقابلہ کر سکتا ہے۔
’’آخری بار کہہ رہا ہوں کہ پارٹی کا نام بتا دو‘‘۔۔۔ عمران نے بڑے اطمینان بھرے لہجے میں کہا لیکن دوسرے لمحے فاکسن کا جسم یکلخت ہوا میں ہائی جمپ کے انداز میں اچھلا اور اس کا جسم فضا میں ہی تیزی سے اڑتا ہوا عمران کی طرف بڑھا لیکن عمران اسی طرح اطمینان سے اپنی جگہ کھڑا رہا۔ گو اسے معلوم تھا کہ اس اڑتے ہوئے جسم کی ضرب اگر اس کے جسم پر پڑ گئی تو اس کی ہڈیوں کو ٹوٹنے سے کوئی نہ بچا سکے گا لیکن ظاہر ہے فاکسن کے مقابلے پر عمران تھا جس کے مقابل جوانا جیسا لڑاکا بھی شکست کھا گیا تھا اور دوسرے لمحے کمرہ فاکسن کے حلق سے نکلنے والی بھیانک چیخ سے گونج اٹھا۔اس کا رول ہوتا ہوا جسم جیسے ہی عمران کے قریب پہنچا عمران کا ایک بازو حرکت میں آیا اور دوسرے لمحے فاکسن کا رول ہوتا ہوا جسم اور زیادہ تیزی سے گھوم کر ایک دھماکے سے فرش پر جا گرا۔ عمران نے اس کے گھومتے ہوئے بازو کی کلائی پکڑ کر ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں اپنے بازو کو مخصوص انداز میں گھما دیا تھا جس کے نتیجے میں فاکسن کا جسم اور زیادہ تیزی سے رول ہوتا ہوا گھوم کر ایک دھماکے سے فرش پر جا گرا تھا۔ اس نے نیچے گر کر ایک بار پھر تیزی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ لڑکھڑا کر دوبارہ نیچے گر گیا۔ اس کا وہ بازو بے کار ہو چکا تھا جسے عمران نے پکڑ کر مخصوص انداز میں گھما دیا تھا۔ ادھر صفدر اور تنویر باقی دونوں مقابل حملہ آوروں سے بھی فارغ ہو چکے تھے۔اب وہ چاروں گردنیں تڑوائے فرش پر ساکت پڑے ہوئے تھے۔ عمران نے انہیں ایک نظر دیکھا، دوسرے لمحے وہ اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے فاکسن پر جھپٹا اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک جھٹکے سے سیدھا ہوا تو فاکسن کا آدھا اوپر والا جسم بس جھٹکا کھا کر رہ گیا کیونکہ اس کے دونوں بازو بے کار ہو چکے تھے۔ اس لئے اس کا اب اس انداز میں اٹھنا نا ممکن ہو گیا تھا لیکن دوسرے لمحے عمران بے اختیار اچھل کر پیچھے ہٹا کیونکہ فاکسن نے یکلخت اپنی دونوں ٹانگیں اکٹھی کر کے اور اپنے جسم کو زوردار جھٹکا دے کر عمران کی ناف پر ضرب لگانے کی کوشش کی تھی لیکن عمران کے اچھل کر پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے اس کا نچلا جسم ایک دھماکے سے فرش پر گرا۔
’’گڈ شو فاکسن۔ تمہاری اس کوشش نے میرے دل میں تمہاری قدر بڑھا دی ہے۔ اس لئے اب تمہارے بازوؤں کی طرح تمہاری ٹانگیں بے کار نہیں کی جائیں گی۔ ورنہ میں سوچ رہا تھا کہ تمہیں مکمل طور پر بے کار کر کے سڑک پر پھینک دیا جائے۔ بہرحال اب بھی اگر تم پارٹی کا نام بتا دو تو میں تمہارے دونوں بازو سابقہ حالت میں لے آ سکتا ہوں ورنہ دنیا کا کوئی ڈاکٹر تمہیں ٹھیک نہ کر سکے گا اور تمہاری یہ حالت ہو گی کہ تم اپنی ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی بھی نہ ہٹا سکو گے۔‘‘۔۔۔ عمران نے فاکسن سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’تم۔ تم۔ کاش میں تمہیں ہال میں گولیوں سے اڑا دیتا‘‘۔ فاکسن نے انتہائی بگڑے ہوئے لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے نیچے کی طرف گھسٹنے کی کوشش کی اور عمران اس کے اس انداز میں اپنی طرف گھسٹنے کی وجہ سمجھ گیا۔وہ نیچے کی طرف گھسٹ کر ایک بار پھر عمران پر حملہ کرنا چاہتا تھا کیونکہ عمران اب جس جگہ کھڑا تھا اس سے پیچھے دیوار تھی اور عمران کے لئے اب مزید پیچھے ہٹنے کی گنجائش ہی نہ تھی لیکن فاکسن جیسے ہی نیچے کی طرف کھسکا عمران نے اچانک اس کی پنڈلی پر مخصوص انداز میں ضرب لگا دی اور اس کے ساتھ ہی کمرہ فاکسن کے حلق سے نکلنے والی انتہائی کربناک چیخ سے گونج اٹھا۔ابھی چیخ کی بازگشت ختم نہ ہوئی تھی کہ عمران نے اچھل کر دوسری پنڈلی پر بھی ضرب لگا دی اور ایک بار پھر کمرہ فاکسن کی کربناک چیخوں سے گونجنے لگا لیکن اب وہ کسی کیچوے کی طرح بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔ صرف اس کا چہرہ تکلیف کی شدت سے مسلسل بگڑتا چلا جا رہا تھا ورنہ اس کا باقی جسم ساکت تھا۔
’’میں نے تمہیں آفر کی تھی لیکن تم نے موقع ضائع کر دیا فاکسن۔ اب تمہاری باقی عمر اسی حالت میں گزرے گی اور تمہیں خود معلوم ہے کہ جب تمہارے گروپ کے لوگ تمہیں اس حالت میں دیکھیں گے تو پھر وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ بہرحال پہلے ہی کافی وقت ضائع ہو گیا ہے۔ اس لئے اب آخری بار کہہ رہا ہوں کہ پارٹی کا نام بتا دو‘‘۔۔۔ عمران نے انتہائی سخت لہجے میں کہا۔
’’مجھے مار ڈالو۔ میں نہیں بتاؤں گا۔ مجھے مار ڈالو۔ کاش ! میں تم تینوں کا خاتمہ پہلے ہی کرا دیتا‘‘۔۔۔ فاکسن نے دائیں بائیں بری طرح سر  پٹختے ہوئے کہا۔
’’اوکے۔ اب دیکھنا کیسے تمہارے منہ سے پارٹی کا نام نکلتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور آگے بڑھ کر اس نے اس کی گردن پر پیر رکھ کر اسے مخصوص انداز میں موڑ دیا تو فاکسن کے حلق سے بے اختیار خرخراہٹ کی آوازیں نکلنے لگیں ۔ اس کی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں تھیں اور وہ چہرہ بری طرح مسخ ہو گیا تھا۔
’’بولو۔ کون ہے پارٹی۔ بولو۔ جواب دو‘‘۔۔۔ عمران نے پیر کو معمولی سا مزید جھٹکا دے کر واپس لے آتے ہوئے کہا۔
’’مم۔ مم۔ مارٹن۔ مارٹن۔ بلیک سروس کا مارٹن۔ مارٹن۔ مارٹن‘‘۔۔۔ فاکسن کے منہ سے ایسے الفاظ نکلنے لگے جیسے غبارے میں سوراخ ہو جانے سے یکلخت ہوا اس میں سے سیٹی بجاتی ہوئی نکلتی ہے۔
’’تفصیل بتاؤ۔ کون ہے یہ مارٹن۔ کہاں بیٹھتا ہے۔ پوری تفصیل بتاؤ‘‘۔۔۔ عمران نے ایک بار پھر پہلے کی طرح مخصوص انداز میں پیر کو آگے کی طرف جھٹکا دے کر واپس لے آتے ہوئے کہا۔
’’بلیک سروس کا مارٹن۔ مین مارکیٹ میں مارٹن کلب کا مالک ہے‘‘۔۔۔ فاکسن نے پہلے کے سے انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھیں بند ہو گئیں ۔ وہ بے ہو ش ہو چکا تھا۔ عمران نے پیر کو اور زیادہ آگے کی طرف موڑ دیا تو فاکسن کے جسم نے یکلخت جھٹکا کھایا۔ اس کی بند آنکھیں ایک بار پھر جھٹکے سے کھلیں اور پھر بے نور ہوتی چلی گئیں ۔ وہ ہلاک ہو چکا تھا۔ عمران نے پیر ہٹا لیا۔
’’آؤ، اب یہاں سے نکل چلیں ‘‘۔۔۔ عمران نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
’’کیا اس نے درست بتایا ہو گا‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’ہاں ۔ جو کچھ اس نے بتایا ہے لاشعوری طور پر بتایا ہے اور لاشعور جھوٹ نہیں بول سکتا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور دروازہ کھول کر وہ باہر راہداری میں آگیا۔صفدر اور تنویر بھی اس کے عقب میں تھے اور دروازہ ان کے باہر آتے ہی آٹومیٹک انداز میں بند ہو گیا۔ شاید اس کا وقت فکس تھا کہ اتنی دیر بعد وہ خود بخود بند ہو جائے گا۔ تھوڑی دیر بعد وہ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے ہال میں پہنچے تو وہاں پہلے کی طرح شور و غل اور ہا، ہو کا ماحول تھا۔ البتہ اب کاؤنٹر پر بوبی کی بجائے وہی شوٹی موجود تھا جو انہیں فاکسن کے آفس تک چھوڑ آیا تھا۔
’’ہمارا اسلحہ کہاں ہے‘‘۔۔۔ عمران نے شوٹی کے قریب جا کر کہا۔
’’یس سر‘‘۔۔۔ شوٹی نے مؤدبانہ انداز میں کہا اور کاؤنٹر کے اندر سے اس نے مشین پسٹل نکال کر کاؤنٹر پر رکھ دئیے۔ عمران اور اس کے ساتھیوں نے مشین پسٹل اٹھا کر جیبوں میں ڈالے اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
’’اب ہمیں فوری طور پر لباس بھی تبدیل کرنے ہوں گے اور میک اپ بھی‘‘۔۔۔ عمران نے ہوٹل سے باہر آتے ہی کہا۔
’’اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے۔ پہلے اس مارٹن سے تو مل لیں ‘‘۔۔۔ تنویر نے کہا۔
’’نہیں ۔ فاکسن کی موت کا فوری علم ہو جائے گا اور یہ پیشہ ور قاتلوں کا گروپ ہے۔ یہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر پورے شہر میں پھیل جائیں گے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھتا چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک بڑے سپر سٹور کے سامنے پہنچ گئے۔
’’تم یہیں رکو میں لباس اور میک اپ باکس لے آتا ہوں ‘‘۔ عمران نے کہا تو تنویر اور صفدر سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گئے جبکہ عمران سپر سٹور میں داخل ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر آیا تو اس کے پاس مطلوبہ سامان موجود تھا۔ اس نے ایک ایک ڈبہ تنویر اور صفدر کے حوالے کر دیا۔
 ’’ان کے اندر لباس اور ماسک میک اپ باکس موجود ہیں ۔ کسی بھی ہوٹل کے باتھ روم میں جا کر تبدیل کر لو اور پھر تم نے مین مارکیٹ کے سامنے مارٹن کلب پہنچنا ہے۔میں وہیں ہوں گا‘‘۔
عمران نے کہا اور ایک ڈبہ اٹھائے وہ واپس سپر سٹور کی طرف بڑھ گیا کیونکہ اس کی سائیڈ میں ایک باتھ روم موجود تھا جبکہ صفدر اور تنویر آگے بڑھ گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد عمران باتھ روم سے باہر نکلا تو اس نے نہ صرف لباس بدل لیا تھا بلکہ اس کا چہرہ اور بال بھی مکمل طور پر تبدیل ہو چکے تھے۔ بہرحال اس نے میک اپ مقامی ہی رکھا تھا۔ اترا ہوا لباس اس نے سائیڈ گلی میں موجود ڈرم میں اچھالا اور پھر سڑک پر آ کر اس نے ٹیکسی کی تلاش شروع کر دی لیکن وہاں خالی ٹیکسی نظر نہ آ رہی تھی۔
’’عمران صاحب آپ ابھی تک یہیں ہیں ‘‘۔۔۔ اچانک اسے سائیڈ سے صفدر کی آواز سنائی دی تو عمران نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ بھی مقامی میک اپ میں تھا۔
’’تم نے اتنی جلدی مجھے کیسے پہچان لیا‘‘۔۔۔ عمران نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’آپ ہزاروں میں پہچانے جا سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ صفدر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ارے کہیں تم نے جولیا کی آنکھیں تو اپنی آنکھوں میں فٹ نہیں کرا لیں ۔ یہ فقرہ تو وہ کہہ سکتی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا تو صفدر بے اختیار ہنس پڑا اور پھر اس سے پہلے کہ انہیں خالی ٹیکسی ملتی تنویر بھی ان کے پاس پہنچ گیا۔ وہ بھی بدلے ہوئے لباس اور تبدیل شدہ میک اپ میں تھا۔ چند لمحوں بعد انہیں خالی ٹیکسی مل گئی اور عمران نے ٹیکسی ڈرائیور کو مین مارکیٹ کے مارٹن کلب جانے کا کہہ دیا اور ٹیکسی ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ٹیکسی آگے بڑھا دی۔
٭٭٭٭٭



سٹارک اپنے آفس میں موجود تھا کہ اچانک سامنے پڑے ہوئے انٹر کام کی گھٹی بج اٹھی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’جیکب بول رہا ہوں باس۔ اس وقت ہوٹل میں ٹاسکو کا چیف اور اس کے ایکشن گروپ کا چیف راجر چار مسلح افراد سمیت موجود ہیں اور وہ ٹونی سے آپ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ۔ ان کا انداز بے حد جارحانہ ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے قدرے سہمے ہوئے لہجے میں کہا گیا۔
’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ ٹونی سے کہو کہ انہیں میرے سپیشل آفس پہنچا دے‘‘۔۔۔ سٹارک نے انتہائی مطمئن لہجے میں کہا اور رسیور رکھ دیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ جیرٹو، راجر اور مسلح افراد کو ساتھ لے کر کیوں آیا ہے۔ ظاہر ہے اسے بہر حال یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ فارمولا اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اب وہ یہی معلوم کرنے آیا ہو گا کہ فارمولا کس نے اس سے حاصل کیا ہے۔ اس نے فون کا رسیور اٹھایا اور تیزی سے نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’یس۔ کنگ بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے بلیک سروس کے چیف کنگ کی مخصوص بھاری آواز سنائی دی۔
’’سٹارک بول رہا ہوں کنگ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’اوہ تم۔ کیسے فون کیا ہے۔ کیا حکومت نے رقم کا بندوبست کر دیا ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے اشتیاق بھرے لہجے میں کہا۔
’’رقم کا بندوبست تو ہو جائے گا۔ وہ تو بات طے ہو چکی ہے۔ کنگ لیکن ایک مسئلہ اور آن پڑا ہے اور وہ بے حد اہم ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’کیسا مسئلہ۔ کھل کر بات کرو‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’ٹاسکو کے چیف جیرٹو نے مجھے فون کیا تھا کہ اسے اطلاع ملی ہے کہ میں سی ٹاپ کا سودا ساڈان حکومت سے کرا رہا ہوں اور انتہائی سستے داموں کرا رہا ہوں جبکہ سی ٹاپ اس کے پاس ہے۔ ظاہر ہے مجھے اس سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہ تھی البتہ میں نے اسے تمہارا نام بتانے کی بجائے پاکیشیائیوں کا نام لے دیا ہے کیونکہ ظاہر ہے پاکیشیائی تو اس دوران ہلاک ہو چکے ہوں گے۔ اس طرح معاملات ہماری مرضی کے مطابق طے ہو جاتے ہیں لیکن ابھی ابھی مجھے میرے آدمی نے بتایا ہے کہ جیرٹو اپنے ایکشن گروپ کے چیف راجر اور چار دیگر مسلح افراد کے ساتھ میرے ہوٹل میں پہنچا ہے اور وہ میرے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ میں نے انہیں سپیشل آفس میں بٹھانے کا کہا ہے اور میں ان لوگوں سے کوئی جھگڑا مول نہیں لینا چاہتا اس لئے میں نے تمہیں فون کیا ہے کہ میں انہیں بتا دوں کہ فارمولا تمہارے پاس ہے اور پاکیشیائیوں سے تم نے حاصل کیا ہے اور حکومت ساڈان سے تم سودا کر رہے ہو‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’بے شک کہہ دو۔ بلکہ ہو سکے تو میری اس سے بات کرا دینا اور سنو تم بے فکر رہو۔ بلیک سروس اب اتنی بھی کمزور نہیں کہ ٹاسکو اس کے خلاف کوئی کاروائی کر سکے۔ میں تو صرف خواہ مخواہ کی الجھنوں سے بچنا چاہتا ہوں ‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا اور رسیور رکھ کر وہ اٹھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اس آفس سے نکل کر راہداری میں چلتا ہوا اپنے سپیشل آفس کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا تو جیرٹو بڑے غصے کے عالم میں کمرے میں ٹہل رہا تھا جبکہ راجر اور چار مسلح افراد ایک طرف خاموش کھڑے تھے۔
’’تم اب آئے ہو۔ کیا ہم تمہارے ملازم ہیں کہ اتنی دیر تمہارا انتظار کرتے رہیں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے اندر داخل ہوتے ہی جیرٹو نے حلق پھاڑ کر چیختے ہوئے کہا۔
’’آہستہ بولو جیرٹو۔ یہ تمہارے کلب کا آفس نہیں ہے۔ یہ حکومت ساڈان کے ایجنٹ کا آفس ہے اور پوری حکومت ساڈان میری پشت پر ہے۔ میں ایک ضروری کام میں پھنسا ہوا تھا اس لئے مجھے دیر ہو گئی اور تم پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ یہ تم مسلح افراد لے کر میرے ہوٹل میں کیوں آئے ہو۔ کیا میں تمہارا ملازم ہوں ۔ بولو‘‘۔ سٹار ک نے انتہائی تلخ لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
 ’’دیکھو سٹارک۔ میں نہ تم سے ڈرتا ہوں اور نہ تمہاری حکومت سے۔ سمجھے اور نہ ہی حکومت ساڈان میرا کچھ بگاڑ سکتی ہے‘‘۔ جیرٹو نے غصیلے انداز میں چیخ کر جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں شاید ضرورت سے زیادہ غلط فہمی ہو گئی ہے جیرٹو۔ بہرحال تم میرے مہمان ہو اس لئے میں بات بڑھانا نہیں چاہتا۔ بیٹھو اور مجھے بتاؤ کہ کیا معاملہ ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا اور ایک طرف رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا۔ جیرٹو چند لمحے بڑی زہر بھری نظروں سے سٹارک کو دیکھتا رہا اور پھر وہ اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا جبکہ راجر اور اس کے مسلح افراد اپنی اپنی جگہ پر خاموش کھڑے رہے۔
’’ان مسلح افراد کو باہر بھیج دو۔ البتہ راجر چاہے تو یہاں رک سکتا ہے اور تم دونوں بتاؤ کہ تم کیا پینا پسند کرو گے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’یہ یہیں رہیں گے سٹارک اور پہلے تم بتاؤ کہ سی ٹاپ فارمولا کہاں ہے۔ کس کے پاس ہے اور کس نے اسے میری تحویل سے چرایا ہے اور سنو۔ پاکیشیائیوں کی بات اب نہ کرنا کیونکہ یہ فارمولا پاکیشیائی سائنس دان سے ہی حاصل کیا گیا ہے اس لئے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ پاکیشیائی سیکرٹ سروس اسے حاصل کر کے اپنے ملک واپس بھیجنے کی بجائے حکومت ساڈان سے اس کا سودا کرنا شروع کر دے اور پھر وہ بھی تمہاری معرفت اس لئے جو سچ ہے وہ بتا دو‘‘۔ جیرٹو نے کاٹ کھانے والے لہجے میں کہا تو سٹارک بے اختیار ہنس پڑا۔
’’اتنی عقل مندانہ سوچ تمہاری نہیں ہو سکتی۔ البتہ راجر یہ بات سوچ سکتا ہے۔ بہرحال میں نے پہلے بھی تم سے غلط بیانی نہیں کی تھی اور نہ اب کروں گا کیونکہ میرا اس میں براہ راست کوئی دخل نہیں ہے۔ میں تو حکومت ساڈان کی نمائندگی کر رہا ہوں اور حکومت ساڈان کے فائدے کے لئے میں نے کام کرنا ہے۔ اب غور سے سنو۔یہ فارمولا تم سے پاکیشیا سیکرٹ سروس نے حاصل کیا اور پاکیشیا سیکرٹ سروس نے اس فارمولے کو کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجوایا لیکن بلیک سروس کے ایک آدمی کو اس کا علم ہو گیا اور اس نے کورئیر سروس سے یہ فارمولا اڑا لیا اور اسے کنگ کے پاس بھجوا دیا۔ ساتھ ہی اس نے پاکیشیا سیکرٹ سروس والوں کو بھی مارک کر لیا۔ چنانچہ فارمولا کنگ کی تحویل میں آگیا۔ کنگ نے مجھ سے بات کی اور مجھے فارمولا حاصل کرنے کی پوری تفصیل بتائی اور مجھے کہا کہ میں اس کا سودا حکومت ساڈان سے کرا دوں ۔ میں نے حامی بھر لی اور حکومت ساڈان سے ایک کروڑ ڈالر میں اس کا سودا کرا دیا۔ ایک روز میں رقم کنگ کومل جائے گی اور فارمولا حکومت ساڈان تک براہ راست پہنچ جائے گا۔ بس یہ ہے ساری بات‘‘۔۔۔ سٹارک نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’ہونہہ۔ تو فارمولا کنگ کے پاس ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’اگر تمہیں شک ہو تو تم یہیں سے میرے سامنے کنگ سے بات کر کے تصدیق کر لو‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا تو جیرٹو نے ہاتھ بڑھا کر میز پر پڑے ہوئے فون کا رسیور اٹھایا اور تیزی سے نمبر ڈائل کرنے شروع کر دئیے۔ جب اس نے نمبر پریس کر لیے تو سٹارک نے ہاتھ بڑھا کر لاؤڈ سپیکر کا بٹن پریس کر دیا۔ دوسری طرف سے گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دینے گی اور پھر رسیور اٹھا لیا گیا۔
’’یس۔ کنگ بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ کنگ کی بھاری آواز سنائی دی۔
’’جیرٹو بول رہا ہوں کنگ۔ کیا سی ٹاپ فارمولا تمہارے پاس ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔ میرے آدمیوں نے اسے اس وقت حاصل کیا ہے جب پاکیشیائی ایجنٹ اسے تم سے حاصل کر کے کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجوا چکے تھے اس لئے تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے اسے تم سے یا تمہارے کسی آدمی سے حاصل کیا ہے۔ اگر میرے آدمی حاصل نہ کرتے تو فارمولا پاکیشیا پہنچ چکا ہوتا‘‘۔۔۔ کنگ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اب وہ پاکیشیائی ایجنٹ کہاں ہیں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’وہ ہوٹل البانو میں رہائش پذیر تھے۔ میں نے پروٹو گروپ کے ذریعے انہیں ہلاک کرا دیا ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے جواب دیا۔
’’دیکھو کنگ۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ فارمولا میرا ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم یہ فارمولا مجھے واپس کر دو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’سوری جیرٹو۔ اگر میں نے اسے تم سے حاصل کیا ہوتا تو پھر تم یہ بات کر سکتے تھے۔ لیکن اب تم یہ بات نہیں کر سکتے۔ اب یہ میری ملکیت ہے
کنگ نے صاف جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ تم چاہتے ہو کہ راگونا میں خون کی ندیاں بہہ جائیں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے انتہائی غصیلے لہجے میں کہا۔
’’سنو جیرٹو۔ ہوش میں رہ کر بات کیا کرو۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بلیک سروس نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں ۔ بلیک سروس تم سے زیادہ بڑی اور زیادہ طاقتور ہے۔ یہ تومیں خود نہیں چاہتا کہ ہم دونوں کی لڑائی سے کوئی تیسرا آدمی فائدہ اٹھائے ورنہ واقعی خون کی ندیاں بہہ سکتی ہیں اور اس خون میں زیادہ تعداد ٹاسکو کے آدمیوں کی ہو گی‘‘۔۔۔ کنگ نے تیز لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ تم کیسے اس فارمولے کا سودا کر کے اس سے رقم کماتے ہو۔ اب میں تمہیں بتاؤں گا کہ ٹاسکو کیا طاقت رکھتی ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے حلق پھاڑ کر چیختے ہوئے کہا۔
’’تو تم اعلان جنگ کر رہے ہو۔ سوچ لو۔ پہل تمہاری طرف سے ہو رہی ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے بھی پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا۔
’’ایک منٹ۔ ایک منٹ۔ میں سٹارک بول رہا ہوں کنگ۔ سنو تم دونوں کی آپس میں لڑائی سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا بلکہ تم دونوں گروپ ایک دوسرے سے ٹکرا کر ختم ہو جاؤ گے اس لئے بہتر ہے کہ اس معاملے میں کوئی ایسا حل نکالو جس سے دونوں فریق مطمئن ہو جائیں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے ہاتھ بڑھا کر رسیور آف کر کے ڈائریکٹ بات کرنے والا بٹن پریس کرتے ہوئے کہا۔
’’اسے اپنی طاقت آزما لینے دو سٹارک۔ اسے ضرورت سے زیادہ اپنے بارے میں خوش فہمی ہو گئی ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے جواب دیا۔
’’میں تمہیں اور تمہاری سروس کو کچل کر رکھ دوں گا۔ تم نے مجھے سمجھا کیا ہوا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے غصے کی شدت سے چیختے ہوئے کہا۔
’’اس طرح جذباتی فیصلے مت کرو جیرٹو۔ گروپ آسانی سے نہیں بنتے لیکن آسانی سے ختم ضرور ہو جایا کرتے ہیں ۔ تم دونوں کا جذباتی فیصلہ تم دونوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔ مجھے بات کرنے دو‘‘۔۔۔ سٹارک نے جیرٹو سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’مجھے میرا فارمولا چاہئے بس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے میز پر مکہ مارتے ہوئے کہا۔
سنو کنگ۔ تم بھی کوئی جذباتی فیصلہ مت کرو۔ سنو۔ تم دونوں نے بہرحال اس فارمولے کو فروخت کرنا ہے۔تمہارے اپنے تو یہ کسی کام نہیں آ سکتا اس لئے بہتر ہے کہ اسے فروخت کر کے رقم ہاف ہاف کر لو۔ اس طرح لڑائی بھی ختم ہو جائے گی اور معاملہ بھی نمٹ جائے گا‘‘۔۔۔ سٹارک نے کنگ سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’لیکن ایک کروڑ ڈالر میں سے میں کیسے آدھی رقم جیرٹو کو دے دوں ؟۔ پھر مجھے کیا ملے گا‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’میں نے اسے دس کروڑ ڈالر سے کم میں فروخت نہیں کرنا اس لئے مجھے بہرحال دس کروڑ ڈالر چاہئیں یا پھر یہ رقم تم مجھے دے دو یا کوئی اور دے۔ مجھے بہرحال دس کروڑ ڈالر کی رقم چاہئے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’پہلی بات تو یہ سن لو جیرٹو کہ دس کروڑ ڈالر کی رقم تو کوئی بھی حکومت تمہیں نہیں دے سکتی۔ زیادہ سے زیادہ اس کے ایک کروڑ ڈالر مل سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’نہیں ۔مجھے ہر صورت میں دس کروڑ ڈالر چاہئیں ۔ تم فارمولا مجھے دے دو اور دیکھو میں اسے کس طرح دس کروڑ ڈالر میں فروخت کرتا ہوں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’باس۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس فارمولے کی دوسری کاپی تیار کرا لی جائے۔ ایک کاپی حکومت ساڈان ایک کروڑ ڈالر میں حاصل کر لے اور یہ ایک کروڑ ڈالر کنگ لے لے اور دوسری کاپی ہم حکومت ساڈان کے علاوہ کسی اور ملک کو فروخت کر دیں ‘‘۔۔۔ اچانک خاموش کھڑے راجر نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’نان سنس۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں احمق ہوں ۔ میری سمجھ میں اتنی بات نہیں آ سکتی۔ میں نے پہلے چیک کرا لیا ہے۔ اس فارمولے کی کاپی نہیں ہو سکتی۔ اگر اس کی کاپی کرنے کی کوشش کی گئی تو اصل فارمولا بھی ضائع ہو جائے گا۔ اس پاکیشیائی سائنس دان نے خصوصی طور پر پہلے ہی اس بات کا خیال رکھا تھا۔
  

  اگر ایسا ہو سکتا تومیں اس کی بہت سی کاپیاں کرا کر دنیا کے تمام بڑے ممالک کو علیحدہ علیحدہ فروخت کر دیتا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے راجر کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’سوری باس‘‘۔۔۔ راجر نے فوراً ہی معذرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’سنو جیرٹو۔ ایک کام ہو سکتا ہے کہ میں اس فارمولے کی قیمت حکومت ساڈان سے ڈبل کرا دوں ۔ میرا کمیشن دس فیصد بھی بڑھ جائے گا اور کمیشن نکال کر باقی رقم آدھی تم اور آدمی رقم کنگ لے لے ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ میں ایک کروڑ سے بھی کم لوں ۔ نہیں ۔مجھے تو اسرائیلی ایجنٹ دو کروڑ ڈالر دینے کو تیار تھا۔ میں نے اسے انکار کر دیا اور تم کہہ رہے ہو کہ میں ایک کروڑ ڈالر سے بھی کم لوں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ پھر میں کیا کر سکتا ہوں ۔ پہلے تم دونوں آپس میں لڑ لو پھر جو فاتح ہو گا اس سے سودا ہو جائے گا۔ اب میں کیا کر سکتا ہوں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’چلو راجر۔ میں دیکھتا ہوں کہ کنگ یہ فارمولا کیسے واپس نہیں کرتا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے ایک جھٹکے سے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’اسے کوشش کر لینے دو سٹارک۔ اسے خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ بلیک سروس کیا حیثیت رکھتی ہے‘‘۔۔۔ کنگ کی آواز سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف سے رسیور رکھے جانے بلکہ پٹخے جانے کی آواز سنائی دی۔
’’میری بات سنو جیرٹو‘‘۔۔۔ سٹارک نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ۔ اب تمہارے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا۔ اب بلیک سروس اور ٹاسکو کا ٹکراؤ نا گزیر ہو چکا ہے ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’تم بیٹھو تو سہی۔ اطمینان سے میری بات سنو۔ اگر تمہیں میری بات پسند نہ آئے تو بے شک جا کر آپس میں لڑائی کر لینا‘‘۔ سٹارک نے کہا۔
’’باس۔ ایسا نہ ہو کہ بلیک سروس ہمارے اڈوں پر حملے شروع کر دے اور ہم یہاں بیٹھے باتیں کرتے رہ جائیں ‘‘۔۔۔ راجر نے کہا۔
’’تم چاہو تو جا کر اپنے اڈوں کو الرٹ کر دو اور مجھے جیرٹو سے چند باتیں کرنے دو۔ اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ٹھیک ہے راجر۔ تم جا کر کمان سنبھال لو۔ سٹارک بے حد اصرار کر رہا ہے۔ میں اسکی بات سن لوں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ راجر نے کہا اور اپنے مسلح افراد کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔
’’سنو۔ اس وقت تک کوئی حرکت نہ کرنا جب تک بلیک سروس کی طرف سے کوئی حرکت نہ ہو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے راجر سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ راجر نے جواب دیا اور پھر وہ اپنے مسلح افراد کو ساتھ لے کر سٹارک کے اس سپیشل آفس سے باہر نکل آیا۔ سٹارک نے ایک الماری کھولی۔ اس میں سے شراب کی ایک بڑی سی بوتل نکالی اور اسے جیرٹو کے سامنے رکھ دیا۔
’’یہ لو۔ یہ تمہارے مطلب کی شراب ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا اور اس کے ساتھ ہی مڑ کر اس نے الماری سے ایک چھوٹی بوتل نکالی اور ایک جام اٹھا لیا اور جیرٹو کے سامنے بیٹھ گیا۔ جیرٹو اس دوران بوتل کھول کر منہ سے لگا چکا تھا جبکہ سٹارک نے چھوٹی بوتل کھولی۔ اس میں سے شراب جام میں ڈالی اور پھر آہستہ آہستہ چسکیاں لے کر شراب پینے لگا۔ جیرٹو نے اس وقت بوتل منہ سے ہٹائی جب وہ مکمل طور پر خالی ہو گئی لیکن اب اس کے چہرے پر موجود تناؤ اور اعصابی دباؤ ختم ہو گیا تھا۔ اس کا چہرہ اب خاصا مطمئن اور نارمل نظر آنے لگ گیا تھا۔
’’شکریہ سٹارک۔ تم نے اس وقت میری پسندیدہ شراب دے کر مجھ پر احسان کیا ہے ورنہ غصے کی شدت سے میرے خون کا ابال بڑھتا جا رہا تھا اور ہو سکتا تھا کہ پورے راگونا میں خوفناک قتل عام شروع ہو جاتا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے خالی بوتل کو لا پرواہانہ انداز سے ایک طرف پڑی ہوئی بڑی سی باسکٹ کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ بلیک سروس اور ٹاسکو کے درمیان ہونے والا ٹکراؤ کس قدر خوفناک اور خونریز ثابت ہو تا۔ اس لئے میں نے تمہیں روکا تھا کہ میں تم سے اس فارمولے کے سلسلے میں ایک بات کرنا چاہتا تھا۔ شاید اس بات سے مسئلہ حل ہو جائے‘‘۔ سٹارک نے جام کو خالی کر کے سائیڈ تپائی پر رکھتے ہوئے کہا۔
  ’’اب کرنے کے لئے کون سی بات رہ گئی ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’تم نے ظاہر ہے اس فارمولے کو انتہائی حفاظت سے رکھا ہو گا‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا تو جیرٹو بے اختیار چونک پڑا۔
’’ہاں ۔ میں نے اسے ورلڈ بینک کے خصوصی لاکر میں رکھا تھا اور وہاں سے کسی صورت بھی اسے نہیں اڑایا جا سکتا تھا لیکن اس کے باوجود یہ اڑا لیا گیا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’اس سے تم پاکیشیا سیکرٹ سروس کی کارکردگی کو سمجھ سکتے ہو۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ پروٹو گروپ پاکیشیا سیکرٹ سروس کے خاتمے میں کامیاب نہ ہو سکا ہو گا بلکہ الٹا اس سے مارٹن کے ذریعے کنگ ان کی نظر میں آگیا ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر یقین رکھو کہ فارمولا کنگ کے پاس بھی نہیں رہے گا بلکہ پاکیشیا سیکرٹ سروس اسے دوبارہ حاصل کر لے گی۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ تم کنگ سے ٹکرانے کی بجائے اس موقع کا انتظار کر لو اور پھر جیسے ہی پاکیشیا سیکرٹ سروس اسے حاصل کرے تم اس پر ٹوٹ پڑو اس طرح تم ان سے اپنا انتقام بھی لے لو گے اور فارمولا بھی دوبارہ حاصل کر لو گے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’اگر تم وعدہ کرو کہ فارمولا تمہارے ہاتھ لگ جائے تو تم یہ سودا صرف حکومت ساڈان کے ساتھ کرو گے تومیں معاملے کو مزید لٹکا سکتا ہوں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’کیا تمہاری حکومت دس کروڑ ڈالر دے گی مجھے کیونکہ میں نے اس سے کم کسی صورت بھی اسے فروخت نہیں کرنا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’تم آخر کیوں اس رقم پر اصرار کر رہے ہو جبکہ مجھے معلوم ہے کہ کوئی بھی حکومت تمہیں ایک کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم دینے پر رضامند نہیں ہے اور ایک بات بتا دوں کہ حکومت ایکریمیا تم سے یہ فارمولا ویسے ہی حاصل کرنے کا سوچ رہی ہے اور تم بھی اچھی طرح جانتے ہو اور میں بھی کہ حکومت اگر چاہے تو ایسا کر بھی سکتی ہے‘‘۔
سٹارک نے کہا تو جیرٹو بے اختیار ہنس پڑا۔
’’تم احمق ہو سٹارک۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ میرے ہاتھ کتنے لمبے ہیں ۔ حکومت ایکریمیا کے تمام اعلیٰ ترین افسران کی شہ رگیں میرے انگوٹھے تلے رہتی ہیں ۔ میں جب چاہوں صدر ایکریمیا سے لے کر ایک سیکشن آفیسر تک اور فوج کے سربراہ سے لے کر ایک کیپٹن تک کو خود کشی پر مجبور کر دوں اس لئے یہ بات ذہن سے نکال دو کہ حکومت ایکریمیا مجھ سے زبردستی یہ فارمولا حاصل کرنے کا سوچے گی۔ البتہ تمہاری یہ بات درست ہے کہ ماسوائے اسرائیل حکومت کے باقی کوئی حکومت بھی ایک کروڑ ڈالر سے آگے نہیں بڑھی۔ جہاں تک دس کروڑ ڈالر کی رقم کا تعلق ہے تو مجھے میزائلوں کے ایک سائنسدان نے بتایا ہے کہ حکومت ایکریمیا نے کافرستان کے عام سے فارمولے کو دس کروڑ ڈالر میں خریدا ہے جبکہ یہ اس سے کئی گنا زیادہ قیمتی فارمولا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’حکومت ساڈان دس کروڑ ڈالر تو کسی صورت بھی ادا نہیں کرے گی۔ زیادہ سے زیادہ دو کروڑ ڈالر ہو سکتے ہیں اس سے ایک ڈالر سے بھی زیادہ نہیں ہو سکتا‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’تو پھر تمہاری حکومت سے میرا سودا نہیں ہو سکتا۔ اوکے۔ اب میں جا رہا ہوں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے اٹھتے ہوئے کہا تو سٹارک نے بھی ایک طویل سانس لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مایوسی کے تاثرات ابھر آئے تھے۔ جیرٹو تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر چلا گیا تو سٹارک مڑا اور ایک طرف رکھی ہوئی آفس ٹیبل کے پیچھے موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے رسیور اٹھا لیا اور تیزی سے نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔ وہ حکومت ساڈان کے ایک اعلیٰ افسر سے اس صورتحال پر تفصیل سے مشورہ کرنا چاہتا تھا۔
 مارٹن کلب کا ہال خاصا جدید انداز کا تھا اور اس میں موجود افراد کا تعلق بھی اچھے اور تعلیم یافتہ گھرانوں سے دکھائی دیتا تھا۔ ایک طرف کاؤنٹر تھا جس کے پیچھے تین خوبصورت لڑکیاں موجود تھیں ۔ عمران ہال میں داخل ہو کر سیدھا کاؤنٹر کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ صفدر اور تنویر اس کے پیچھے تھے۔
’’یس سر‘‘۔۔۔ ایک لڑکی نے عمران کے قریب پہنچتے ہی کاروباری انداز میں کہا۔
’’ہر ایک کو یس نہ کہا کرو ہنی ورنہ کسی روز کوئی تمہارا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے جائے گا‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا تو لڑکی بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’کاش ایسا ہو جائے‘‘۔۔۔ لڑکی نے بڑے بے کانہ انداز میں کہا۔
’’مارٹن سے ملاقات کر لوں پھر اس بارے میں سوچوں گا۔ میرا نام مائیکل ہے اور یہ میرے ساتھی ہیں ۔ ہمارا تعلق ولنگٹن کے لارڈز گروپ سے ہے۔ ہم نے مارٹن سے ایک بڑے بزنس کی بات کرنی ہے۔ کیا تم ولنگٹن چلنے کے لئے تیار ہو‘‘۔۔۔ عمران نے ایسے لہجے میں کہا جیسے وہ واقعی دل و جان سے اس پر فدا ہو چکا ہو۔
’’ ولنگٹن تو میرے خوابوں کی جنت ہے ڈئیر۔ کیا تم واقعی مجھے ساتھ لے جاؤگے۔ کہیں تم مذاق تو نہیں کر رہے‘‘۔۔۔ لڑکی نے انتہائی خوابناک لہجے میں کہا تو عمران بے اختیار مسکرا دیا۔
’’پہلے مارٹن سے ملاقات ہو جائے پھر اطمینان سے بیٹھ کر پروگرام بنائیں گے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو لڑکی نے اثبات میں سر ہلا دیا اور پھر کاؤنٹر پر رکھے ہوئے انٹرکام کا رسیور اٹھا کر اس نے تیزی سے نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’کاؤنٹر سے سویٹا بول رہی ہوں باس۔ ولنگٹن سے لارڈز گروپ کے صاحبان آئے ہیں ۔ ان کا لیڈر کا نام مائیکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آپ سے کسی بڑے بزنس کے بارے میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔۔۔ لڑکی نے مؤدبانہ لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا لیکن بات کرتے ہوئے بھی اس کی آنکھیں عمران پر ہی جمی ہوئی تھیں ۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے بات سن کر اس لڑکی نے جواب دیا اور پھر رسیور رکھ کر اس نے ایک سائیڈ پر موجود ایک با وردی نوجوان کو اشارے سے بلایا۔
’’انہیں باس کے آفس تک چھوڑ آؤ اور مائیکل پلیز اپنا وعدہ ضرور پورا کرنا‘‘۔۔۔ لڑکی نے اس با وردی نوجوان سے بات کر کے ایک بار پھر عمران سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’اوکے۔اوکے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس نوجوان کے پیچھے چل پڑا۔
’’یہ لڑکی پاگل تو نہیں ۔ اس طرح تو کوئی بھی گلے کا ہار نہیں بنتی‘‘۔ تنویر نے ایک راہدار ی میں مڑتے ہوئے کہا۔
’’جناب۔ سویٹا کا مسئلہ دوسرا ہے۔ سویٹا سے بے شمار لوگوں نے فراڈ کیا ہے لیکن سویٹا پھر بھی ہر ایک پر اعتماد کر لیتی ہے‘‘۔ آگے جاتے ہوئے اس نوجوان نے تنویر کی بات سن کر مڑتے ہوئے کہا۔
’’کیا تمہیں سویٹا سے ہمدردی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہمدردی سے کیا ہوتا ہے جناب۔ سویٹا کو دولت چاہئے اور دولت میرے پاس نہیں ہے حالانکہ سویٹا مجھے بھی بے حد پسند ہے لیکن‘‘۔۔۔ نوجوان نے بات کرتے کرتے ایک طویل آہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’کیا نام ہے تمہارا‘‘۔۔۔ عمران نے پوچھا۔
’’میرا نام ڈکسن ہے جناب‘‘۔۔۔ نوجوان نے کہا۔ ’’اوکے۔ تم فکر مت کرو۔ تمہیں دولت بھی ملے گی اور سویٹا بھی‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو ڈکسن نے اس انداز میں سر ہلایا جیسے کہہ رہا ہو کہ ایسی باتیں تو اس نے بہت سن رکھی ہیں ۔ پھر وہ ایک دروازے کے سامنے جا کر رک گیا۔
’’یہ باس کا آفس ہے‘‘۔۔۔ ڈکسن نے رکتے ہوئے کہا۔
’’اوکے۔ شکریہ۔ بے فکر رہو۔ میں نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو گا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور دروازہ کھول کر وہ آفس میں داخل ہو گیا۔ اس کے پیچھے صفدر اور تنویر بھی اندر داخل ہوئے۔ یہ ایک بہترین انداز میں سجا ہوا آفس تھا جس میں انتہائی قیمتی اور جدید انداز کے فرنیچر کے ساتھ ساتھ ڈیکوریشن کی چیزوں کا معیار بھی انتہائی جدید اور اعلیٰ تھا۔ ایک بڑی سی بیضوی طرز کی خوبصورت آفس ٹیبل کے پیچھے ایک نوجوان آدمی بیٹھا ہوا تھا جس کے جسم پر بہترین تراش خراش اور قیمتی کپڑے کا سوٹ تھا۔اس کی آنکھوں میں ذہانت کی تیز چمک موجود تھی۔
’’ میرا نام مارٹن ہے‘‘۔۔۔ مارٹن نے اٹھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میر ا نام مائیکل ہے اور یہ میرے ساتھی ہیں جارج اور لیونارڈ‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا تعارف کرایا تو مارٹن نے باری باری تینوں سے مصافحہ کیا۔
’’تشریف رکھیں اور یہ بتائیں کہ آپ کیا پینا پسند کریں گے‘‘۔ مارٹن نے دوبارہ میز کے پیچھے موجود ریوالونگ چیئر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’پینا پلانا بعد میں ہوتا رہے گا۔ پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ نے پرو ٹو گروپ کو البانو ہوٹل میں رہنے والے پاکیشیائیوں کے خلاف کیوں ہائر کیا تھا‘‘۔۔۔ عمران نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا تو مارٹن بے اختیار اچھل پڑا۔ اس کے چہرے پر شدید ترین حیرت کے تاثرات ابھر آئے تھے۔
’’یہ۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ کیا مطلب‘‘۔۔۔ مارٹن نے بری طرح گڑبڑاتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’بہتر ہے کہ اب کھل کر بات ہو جائے۔ آپ کا تعلق بلیک سروس سے ہے۔ آپ نے پاکیشیائیوں کو ختم کرانے کے لئے پیشہ ور قاتلوں کے گروپ پروٹو کو ہائر کیا۔ اس گروپ کے چار افراد نے البانو ہوٹل میں ان پاکیشیائیوں پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن حملہ آور خود ہلاک ہو گئے۔ ان پاکیشیائیوں کا تعلق لارڈ گروپ سے تھا اور یہاں راگونا میں لارڈز گروپ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں ۔ چنانچہ چیف باس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس بارے میں معلومات حاصل کریں ۔ ہم نے پروٹو گروپ سے براہ راست ٹکرانے کی بجائے راسٹر گروپ کو ہائر کر لیا۔ راسٹر گروپ نے پروٹو ہوٹل میں پروٹو گروپ کے چیف فاکسن سے ملاقات کی اور اس سے اس پارٹی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش جس نے اسے پاکیشیائیوں کے خلاف ہائر کیا تھا لیکن فاکسن نے بتانے سے انکار کر دیا جبکہ الٹا راسٹر گروپ پر اپنے آدمیوں سے حملہ کرا دیا لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ راسٹر گروپ اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس کے چار حملہ آور بھی مارے گئے اوروہ خود بھی راسٹر گروپ کے مخصوص حربوں کا شکار ہو گیا۔ پھر اسے مرنے سے پہلے مجبوراً بتانا پڑا کہ بلیک سروس کے مارٹن نے اسے ہائر کیا تھا۔ چنانچہ اب ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ ہمیں تفصیل بتائیں کہ آپ نے ان پاکیشیائیوں کے خلاف پروٹو گروپ کو کیوں ہائر کیا۔آپ کا یا بلیک سروس کا پاکیشیائیوں سے کیا تعلق ہے۔ آپ ہمیں تفصیل بتا دیں تا کہ ہم اپنے چیف کو تفصیلی رپورٹ دے سکیں ‘‘۔۔۔ عمران نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا۔
’’اس فاکسن نے یقیناً آپ سے غلط بیانی کی ہے مسٹر مائیکل۔ نہ میرا کسی بلیک سروس سے کوئی تعلق ہے اور نہ پاکیشیائیوں سے اور نہ ہی میں نے پروٹو گروپ کو ہائر کیا ہے نہ مجھے اس کی ضرورت تھی۔ میرا آخر پاکیشیائیوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔ مارٹن نے ہونٹ چباتے ہوئے جواب دیا لیکن اس کے چہرے پر ابھر آنے والے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھال پا رہا تھا۔
’’اوکے۔ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے لیکن آپ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ لارڈز گروپ کو اگر بعد میں یہ اطلاع مل گئی کہ آپ نے جھوٹ بولا ہے تو پھر نتائج کی تمام تر ذمہ داری آپ کی ہو گی‘‘۔عمران نے اٹھتے ہوئے کہا۔ عمران کے اٹھتے ہی صفدر اور تنویر بھی کھڑے ہوئے جبکہ مارٹن بھی کھڑا ہو گیا تھا۔
  ’’مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے مسٹر مائیکل۔ آپ بے فکر رہیں ۔ میرا اس سارے سلسلے سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ مارٹن نے اس بار قدرے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے شکریہ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور تیزی سے دروازے کی طرف مڑ گیا۔ صفدر اور تنویر بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چلتے ہوئے آفس سے باہر آ گئے۔ راہداری خالی پڑی ہوئی تھی۔ جیسے آفس کا دروازہ بند ہوا۔عمران آگے بڑھنے کی بجائے وہیں دروازے کے ساتھ ہی رک گیا۔ اس نے بند دروازے میں موجود کی ہول سے آنکھ لگا دی جبکہ صفدر اور تنویر ہال کی سائیڈ کی طرف رخ کر کے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے تا کہ اگر کوئی ادھر سے آئے تو وہ فوری طور پر عمران کو مارک نہ کر سکے۔ تھوڑی دیر بعد عمران نے کی ہول سے آنکھ ہٹائی اور پھر کان ساتھ لگا دیا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ موجو د تھی۔ کافی دیر تک وہ سنتا رہا پھر اس نے کان کی ہول سے ہٹا لیا۔
’’آؤ اب اس مارٹن سے مزید دو دو باتیں ہو جائیں ۔لیکن خیال رکھنا زیادہ ہنگامہ نہیں ہو نا چاہئے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے دروازے کو دھکیلا اور اچھل کر اندر داخل ہوا۔ صفدر اور تنویر بھی تیزی سے اس کے پیچھے اندر داخل ہو گئے۔ مارٹن جومیز کے پیچھے کرسی پر بیٹھا فون کے نمبر پریس کر رہا تھا عمران اور اس کے ساتھیوں کو اس طرح اندر آتے دیکھ کر بے اختیار اچھل پڑا۔ اس نے جلدی سے رسیور رکھ دیا۔
’’آپ پھر آ گئے۔ کیا مطلب ‘‘۔۔۔ مارٹن کے لہجے میں قدرے غصہ اور جھنجلاہٹ تھی۔ اس کا ایک ہاتھ نیچے تھا جبکہ دوسرا اس نے میز پر رکھا ہوا تھا۔
’’ایک بات کرنی یاد نہیں رہی تھی مسٹر مارٹن اس لئے ہمیں دوبارہ آنا پڑا ہے۔ امید ہے آپ ناراض نہیں ہوں گے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے انتہائی نرم لہجے میں کہا تو مارٹن نے بے اختیار ایک طویل سانس لیا۔ اس کا ستا ہوا چہرہ قدرے نارمل ہو گیا تھا۔ عمران اس دوران میز کے قریب پہنچ چکا تھا۔ مارٹن اس طرح اٹھ کر کھڑا ہوا جیسے مجبوراً ایسا کر رہا ہو لیکن دوسرے لمحے اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی اور وہ میز پر سے گھسٹتا ہوا ایک دھماکے سے میزی کی دوسری طرف عمران کے سامنے فرش پر آ گرا۔ نیچے گرتے ہی اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن عمران کی لات بجلی کی سی تیزی سے حرکت میں آئی اور نیچے گر کر اٹھتے ہوئے مارٹن کی کنپٹی پر عمران کی بھرپور لات پڑی تو مارٹن چیخ مار کر دوبارہ نیچے گرا۔ اس نے ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن عمران نے فوری طور پر دوسری ضرب لگائی تو مارٹن کا جسم ڈھیلا پڑتا چلا گیا۔
’’عقبی طرف دروازہ ہے جہاں خصوصی کمرہ ہو گا۔ میں اسے وہاں لے جا رہا ہوں ۔ تم یہاں خیال ‘‘۔۔۔ عمران نے جھک کر مارٹن کو اٹھاتے ہوئے صفدر اور تنویر سے کہا۔
’’زیادہ لمبی تحقیقات میں نہ پڑ جانا۔ یہاں کسی بھی وقت کوئی آ سکتا ہے‘‘۔۔۔ تنویر نے کہا۔
’’اگر کوئی آ جائے تو اسے کہہ دینا کہ مارٹن اندر میرے ساتھ خصوصی مذاکرات کر رہا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور بے ہوش مارٹن کو کندھے پر لاد کر وہ عقبی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ دروازے کی دوسری طرف ایک چھوٹی سی راہداری تھی جس کے اختتام پر ایک اور دروازہ تھا جس کی ساخت بتا رہی تھی کہ وہ ساؤنڈ پروف ہے۔ عمران نے اس دروازے کو کھولا تو دوسری طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا لیکن عمران کمرے کو دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ یہ ٹارچر روم کے انداز میں بنایا گیا تھا۔ یہاں ٹارچنگ کا جدید ترین سامان موجود تھا۔ کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ راڈز والی چار کرسیاں موجود تھیں ۔ عمران نے ایک کرسی پر مارٹن کو بٹھایا اور پھر کرسی کے عقب میں جا کر اس نے پائے پر موجود بٹن کو پریس کر دیا۔ دوسرے لمحے مارٹن کا بے ہوش جسم راڈز میں جکڑا گیا۔ عمران نے سامنے آ کر ایک سائیڈ پر موجود ٹرالی نما مشین پر سے کور ہٹایا اور پھر اسے گھسیٹ کر اس نے اس کرسی کی سائیڈ پر رکھ کر اس میں سے تاریں نکال کر اس کے سروں پر موجود کلپس مارٹن کے دونوں بازوؤں پر چڑھا دئیے۔ یہ الیکٹرک شاک لگانے والی جدید ترین مشین تھی۔ عمران نے اس کے مین تار کو دیوار میں موجود ساکٹ میں فٹ کیا اور بٹن آن کر دیا۔ مشین میں موجود چھوٹے چھوٹے دو بلب جل اٹھے۔ عمران نے آگے بڑھ کر مارٹن کا منہ اور ناک دونوں ہاتھوں سے بند کر دئیے۔ چند لمحوں بعد جب مارٹن کے جسم میں حرکت کے تاثرات نمودار ہونے شروع ہو گئے
 تو اس نہ ہاتھ ہٹا لئے اور دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی نظریں مارٹن پر جمی ہوئی تھیں ۔ چند لمحوں بعد مارٹن نے کراہتے ہوئے آنکھیں کھول دیں اور اس کے ساتھ ہی مارٹن نے لاشعوری طور پر اٹھنے کی کوشش کی لیکن راڈز میں جکڑے ہونے کی وجہ سے وہ صرف کسمسا کر ہی رہ گیا۔ البتہ اس کے چہرے پر حیرت اور قدرے خوف کے تاثرات ابھر آئے تھے۔ اس نے سامنے کھڑے عمران کو دیکھا اور پھر گردن گھما کر اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اس کے چہرے پر موجود حیرت اور خوف کے تاثرات مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔
’’تم نے اپنے باس کو فون کیا اور اس سے خصوصی طور پر ملاقات کے لئے کہا پھر اس نے کیا جواب دیا‘‘۔۔۔ عمران نے نرم لہجے میں اس سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’تم۔ تم کون ہو۔ یہ تم نے کیا کیا ہے۔ مجھے چھوڑ دو ورنہ‘‘۔ مارٹن نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’تم اس الیکٹرک شاک لگانے والی مشین کی کارکردگی سے اچھی طرح واقف ہو گے مارٹن۔ البتہ فرق یہ ہے کہ پہلے تم اسے استعمال کرتے ہو گے اور کرسی پر تمہاری بجائے کوئی اور ہوتا ہو گا لیکن اس بار معاملات مختلف ہیں ۔ اب یہ مشین تم پر استعمال ہو گی اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم سب کچھ سچ سچ بتا دو۔ بلیک سروس کیا ہے۔ اس کا چیف کون ہے اور تم نے پروٹو گروپ کو کیوں پاکیشیائیوں کے خلاف ہائر کیا۔ یہ ساری تفصیل بتا دو تو میں تمہیں بے ہوش کر کے اور راڈز ہٹا کر خاموشی سے چلا جاؤں گا ورنہ تم خود جانتے ہو کہ زبان تو بہرحال تمہیں کھولنی پڑے گی لیکن تمہارا حشر کیا ہو گا‘‘۔ عمران نے انتہائی سرد لہجے میں کہا۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں ۔ میرا پروٹو گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں سچ کہہ رہا ہوں ‘‘۔۔۔ مارٹن نے کہا تو عمران نے ایک ناب کو تھوڑا سا گھما دیا۔ اس کے ساتھ ہی راڈز میں جکڑے ہوئے مارٹن کا جسم بے اختیار کانپنے لگ گیا۔ اس کے حلق سے پے درپے بھیانک چیخیں نکلنے لگیں اور مسخ ہوتا ہوا چہرہ ایک لمحے میں پسینے میں شرابور ہو گیا۔ عمران نے ناب کو واپس گھمایا تو مارٹن کا بری طرح کانپتا ہوا جسم آہستہ آہستہ پرسکون ہوتا چلا گیا۔ اس کے چہرے پر موجود انتہائی تکلیف کے تاثرات غائب ہونے شروع ہو گئے۔ البتہ اس کی آنکھوں میں موجود سرخی پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی۔
’’تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا مارٹن کہ یہ ابتدا تھی۔ اس لئے اب آخری بار کہہ رہا ہوں کہ سب کچھ بتا دو ورنہ میں ناب کو مکمل طور پر گھما کر اس کمرے سے باہر چلا جاؤں گا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو مارٹن کا جسم عمران کی بات سن کر ایک بار پھر پہلے سے زیادہ زور سے کانپ سا گیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ عمران نے جو دھمکی دی ہے اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔
’’تم۔ تم وعدہ کرو کہ مجھے زندہ چھوڑ دو گے تو میں تمہیں سب کچھ بتا دیتا ہوں ‘‘۔۔۔ مارٹن نے کانپتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’میں وعدہ کرنے کا عادی نہیں ہوں لیکن تم یقین رکھو کہ میں جو کچھ کہتا ہوں اس پر پوری طرح عمل بھی کرتا ہوں ‘‘۔۔۔ عمران نے سپاٹ لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’پہلے یہ بتاؤ کہ تم درحقیقت کون ہو تا کہ مجھے پوری طرح تسلی ہو سکے کہ میں کسے سب کچھ بتا رہا ہوں ‘‘۔۔۔ مارٹن نے کہا تو عمران نے ہاتھ اٹھا کر چہرے اور سر سے ماسک اتار دیا تو مارٹن کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں ۔
’’تت۔ تم۔ تم پاکیشیائی ہو۔ اوہ۔ اوہ۔ تو یہ بات ہے۔ اوہ۔ اوہ۔ مگر‘‘۔۔۔ مارٹن اس قدر حیرت زدہ ہوا تھا کہ اس کے منہ سے بے ربط الفاظ مسلسل نکلتے چلے جا رہے تھے۔
’’وقت مت ضائع کرو مارٹن۔ جو حقیقت ہے وہ بتا دو۔‘‘ عمران نے ایک بار پھر ماسک اپنے سر اور چہرے پر چڑھاتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس کے دونوں ہاتھوں نے مخصوص انداز میں چہرے کے مختلف حصوں کو تھپکنا شروع کر دیا اور پھر اس نے ہاتھ ہٹا لئے۔
’’تم۔ تم واقعی حیرت انگیز آدمی ہو۔ بہرحال میں تمہیں بتا دیتا ہوں ۔ صرف اتنا بتا دو کہ تمہارا نام علی عمران ہے یا علی عمران تمہارا کوئی اور ساتھی ہے‘‘۔۔۔ مارٹن نے کہا تو اس بار عمران چونک پڑا اسے حیرت اس بات پر ہو رہی تھی کہ مارٹن اس کا نام کیسے جانتا ہے جبکہ وہ اسے پہچان بھی نہ پا رہا تھا۔
  ’’میرا نام علی عمران ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’تو پھر سنو۔ تم نے سی ٹاپ فارمولا کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجوانے کے لئے بک کرایا۔ اس کے بعد تم پاکیشیا کال کرنے کے لئے انٹر نیشنل فون سروس پر آئے اور تم نے وہاں سے کسی سر سلطان کو کال کیا اور کال میں تم نے اپنا نام بتایا اور سی ٹاپ فارمولے کا ذکر کیا۔اس فون آفس میں میرا یک آدمی موجود تھا۔ میرا سے مطلب ہے بلیک سروس کا آدمی جو میرا ماتحت تھا۔اس نے سی ٹاپ کا نام سن کر کال ٹیپ کر لی اور اپنے ایک آدمی کو تمہارے پیچھے بھجوا دیا تا کہ تمہارا ٹھکانہ معلوم کر سکے۔ اس نے مجھے اطلاع دی اور کال ٹیپ سنوا دی جس پر میں نے اپنے آدمیوں کے ذریعے سی ٹاپ فارمولا اس کورئیر سروس سے اس طرح اڑا لیا کہ انہیں یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ فارمولا کون لے گیا ہے‘‘۔ مارٹن نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن تم سی ٹاپ فارمولا کے بارے میں کیسے جانتے ہو یا تمہارا ماتحت کیسے جانتا تھا‘‘۔۔۔ عمران نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’یہ فارمولا پاکیشیائی سائنس دان کو ہلاک کر کے ٹاسکو نے حاصل کیا تھا اور ٹاسکو اس کا سودا مختلف ملکوں سے کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور چونکہ بلیک سروس بھی ٹاسکو کی طرح ایک جرائم پیشہ سنڈیکیٹ ہے اس لئے ٹاسکو کی کوئی کاروائی بلیک سروس کے آدمیوں سے چھپی نہیں رہ سکتی اس لئے بلیک سروس کے ہر آدمی کو سی ٹاپ فارمولے کا نام اور اس کی اہمیت کا اچھی طرح علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب تم نے فون کال میں سی ٹاپ فارمولے کا نام لیا تو میرے آدمی کے کان کھڑے ہو گئے اور پھر ہم نے وہ فارمولا اڑا لیا‘‘۔۔۔ مارٹن نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا تو عمران نے بے اختیار ہونٹ بھینچ لئے کیونکہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جو فارمولا اس نے پاکیشیا بھجوایا ہے وہ اس طرح راستے میں ہی اڑا لیا جائے گا۔ اگر پروٹو گروپ کے افراد ان پر اس انداز میں حملہ نہ کرتے کہ انہیں سنبھلنے کا موقع مل گیا تھا تو شاید وہ آسانی سے ہلاک بھی نہ ہو سکتے یا اگر سرے سے حملہ ہی نہ کیا جاتا تو وہ سر پیٹتے رہ جاتے اور انہیں شاید فارمولے کے بارے میں علم تک نہ ہو سکتا۔
’’اب یہ فارمولا کہاں ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’فارمولا تو بلیک سروس کے چیف باس کنگ کے پاس ہے لیکن تمہارے آنے سے پہلے مجھے چیف کنگ نے فون کر کے بتایا ہے کہ ٹاسکو کے چیف جیرٹو اور اس کے ایکشن گروپ کے چیف راجر کو سٹارک کے ذریعے جو حکومت ساڈان کا ایجنٹ ہے یہ علم ہو چکا ہے کہ فارمولا بلیک سروس کے پاس ہے اور اس نے چیف کنگ کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے فارمولا واپس نہ کیا تو راگونا میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی‘‘۔۔۔ مارٹن نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’بلیک سروس کے بارے میں کیا تفصیل ہے‘‘۔۔۔ عمران نے پوچھا۔
’’یہ راگونا کا انتہائی طاقتور گروپ ہے جو ہر قسم کے جرائم میں ملوث رہتا ہے۔ ٹاسکو کے مقابلے کا گروپ ہے‘‘۔۔۔ مارٹن نے جواب دیا۔
’’اس کا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے‘‘۔۔۔ عمران نے پوچھا۔
’’نہیں ۔ یہ غداری ہو گی اور میں غدار ی نہیں کر سکتا چاہے تم مجھے ہلاک ہی کیوں نہ کر دو‘‘۔۔۔ مارٹن نے انتہائی مضبوط لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو مارٹن۔ یہ فارمولا پاکیشیا کا ہے اس لئے مجھے یہ فارمولا چاہئے۔ اب تمہاری مرضی ہے کہ تم کنگ کا ہیڈ کوارٹر بتا دو یا ہمیں فارمولا وہاں سے منگوا دو‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’فارمولا چیف باس کنگ کے پاس ہے اور اب وہ کسی صورت بھی اسے نہیں دے گا اور نہ ہی میں ہیڈ کوارٹر کے بارے میں تمہیں کچھ بتا سکتا ہوں ‘‘۔۔۔ مارٹن نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’یہ سوچنا ہمارا کا م ہے۔ تم اپنی بات کرو اور سنو۔ میں صرف اس لئے تمہارے ساتھ رعایت کر رہا ہوں کہ تم نے اصول کی بات ہے ورنہ تم جانتے ہو کہ اس مشین کی مجھے صرف ناب گھمانی پڑے گی اور تمہارے منہ سے خود بخود ہیڈ  کوارٹر کے بارے میں تفصیلی گفتگو شروع ہو جائے گی‘‘۔۔۔
  عمران نے سرد لہجے میں کہا۔
’’سوری میں غداری نہیں کر سکتا۔ بے شک مجھے مار ڈالو‘‘۔ مارٹن نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’چلو اس کا فون نمبر بتا دو۔ یہ تو تم بغیر غداری کئے بتا سکتے ہو‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو مارٹن نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے فون نمبر بتا دیا۔
’’اب تم اپنے چیف کنگ سے فون پر بات کرو اور اسے کہو کہ وہ فارمولا حفاظت کی غرض سے تمہیں دے دے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو راڈز میں جکڑا ہوا مارٹن بے اختیار چونک پڑا۔ اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے۔
’’مجھے دے دے۔ اس کا کیا مطلب ہوا۔ مجھ سے زیادہ تو فارمولا چیف کنگ کے پاس محفوظ رہے گا اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ مجھے فارمولا کسی صورت بھی نہیں دے گا‘‘۔ مارٹن نے کہا۔
’’تم بات کرو۔ زیادہ سے زیادہ وہ انکار کر دے گا، کر دے۔ اس میں توکوئی حرج نہیں ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ اگر تم کہتے ہو تو میں بات کر لیتا ہوں ‘‘۔ مارٹن نے کہا اور عمران نے مڑ کر ایک طرف موجود فون پیس اٹھا لیا۔
’’نمبر بتاؤ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو مارٹن نے نمبر بتا دئیے۔ عمران نے رسیور کریڈل سے اٹھایا اور فون پیس کو میز پر واپس رکھ کر اس نے وہی نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے جو مارٹن نے بتائے تھے۔
’’یس‘‘۔۔۔ ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ عمران نے لاؤڈ ر کا بٹن پریس کیا اور رسیور جس کی تار خاصی لمبی تھی مارٹن کے کان سے لگا دیا۔
’’مارٹن بول رہا ہوں ۔ چیف سے بات کراؤ‘‘۔۔۔ مارٹن نے کہا۔
’’ہولڈ کریں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’ہیلو۔ کنگ بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد ایک بھاری سی آواز سنائی دی۔
’’مارٹن بول رہا ہوں باس‘‘۔۔۔ مارٹن نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’دوبارہ اتنی جلدی کیوں کال کی ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے تیز لہجے میں کہا گیا۔
’’باس۔ جیرٹو یقیناً فارمولا حاصل کرنے کے لئے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہیڈ کوارٹر میں اس کا کوئی آدمی موجود ہو اس لئے کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ وہ فارمولا خاموشی سے مجھے بھجوا دیں ۔ اس طرح فارمولا ہر لحاظ سے محفوظ رہے گا‘‘۔ مارٹن نے کہا۔
’’کیا تمہارا دماغ تو خراب نہ ہو گیا۔ یہ بات تمہارے دماغ میں آئی کیسے کہ جیرٹو ہیڈ کوارٹر پر حملہ کر کے فارمولا مجھ سے لے جائے گا۔ میں نے اس کا مکمل بندوبست کر لیا ہے۔ اگر اس نے ایسی حماقت کی تو پھر ٹاسکو کا پورے راگونا میں نام و نشان مٹا دیا جائے گا۔ سمجھے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے پھاڑ کھانے والے لہجے میں جواب دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی رابطہ ختم ہو گیا تو عمران نے رسیور مارٹن کے کان سے علیحدہ کیا اور اسے واپس کریڈل پر رکھ دیا لیکن مارٹن کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔
’’کیا ہوا۔ تم اس قدر خوفزدہ کیوں ہو گئے ہو‘‘۔۔۔ عمران نے اس کے زرد پڑتے ہوئے رنگ کو دیکھ کر حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ چیف نے جس انداز میں بات ختم کی ہے یہ اس کا مخصوص انداز ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میں نے اسے بزدل قرار دے دیا ہے اور اب کسی بھی لمحے مجھ پر حملہ ہو سکتا ہے۔ پلیز مجھے یہاں سے نکالو۔ میں ایکریمیا کی کسی اور ریاست میں فرار ہو جاؤں گا‘‘۔۔۔ مارٹن نے انتہائی خوفزدہ لہجے میں کہا لیکن اس سے پہلے کہ عمران کوئی جواب دیتا کمرے کا دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور تنویر اندر داخل ہوا۔
’’دو آدمیوں نے اچانک دفتر میں داخل ہو کر فائر کھول دیا ہے۔ ہم دونوں سائیڈ میں تھے اس لئے بچ گئے۔ ان دونوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے لیکن ایک ویٹر نے آ کر بتایا ہے کہ پورے کلب کو مسلح افراد نے گھیر لیا ہے‘‘۔۔۔ تنویر نے تیز لہجے میں کہا۔
’’اوہ۔ اوہ۔ مجھے چھوڑ دو۔ یہاں ایک خفیہ راستہ ہے جس کا علم میرے علاوہ اور کسی کو نہیں ہے۔ جلد کرو۔ یہ بلیک سروس کے لوگ ہیں ۔
 یہ پورے کلب کو میزائلوں سے اڑا دیں گے۔ میر ا خدشہ درست ثابت ہوا ہے۔ جلدی کرو۔ مجھے رہا کر دو‘‘۔۔۔ مارٹن نے انتہائی بے چین لہجے میں کہا۔
’’اتنا پریشان ہونے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے مارٹن‘‘۔ عمران نے انتہائی مطمئن لہجے میں کہا تو مارٹن اس طرح حیرت بھرے انداز میں عمران کو دیکھنے لگا جیسے اس کے ذہنی توازن پر اسے شک پڑ گیا ہو۔ اسی لمحے باہر سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔ چونکہ تنویر نے اس ساؤنڈ پروف کمرے کا دروازہ کھول دیا تھا اس لئے باہر سے آنے والی فائرنگ کی آوازیں اب سنائی دینے لگ گئیں تھیں ۔ تنویر تیزی سے مڑ کر واپس چلا گیا تو عمران کا بازو گھوما اور مارٹن کے حلق سے چیخ نکلی اور اس کے ساتھ ہی اس کی گردن سائیڈ پر ڈھلک گئی۔ عمران نے مڑ کر اس کے عقب میں جا کر پائے میں پیر مارا تو کھٹاک کی آواز کے ساتھ ہی راڈز غائب ہو گئے۔ عمران نے مشین کی تاریں ساکٹ سے ہٹا کر مشین کو ہاتھ کے دباؤ سے ایک طرف دھکیل دیا۔تنویر کے واپس جانے کی وجہ سے چونکہ ساؤنڈ پروف کمرے کا دروازہ اس کے عقب میں خود بخود بند ہو گیا تھا اس لئے اب باہر سے فائرنگ کی آوازیں سنائی نہ دے رہیں تھیں ۔ عمران نے مشین ہٹا کر بجلی کی سی تیزی سے کرسی پر بے ہوش پڑے ہوئے مارٹن کو اٹھا کر کاندھے پر لادا اور پھر اسے اٹھائے وہ تیزی سے اس کمرے کی عقبی دیوار میں موجود ایک چھوٹے سے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ اس نے لات مار کر دروازہ کھولا دوسری طرف ایک طویل لیکن تنگ راہداری تھی۔ عمران نے بے ہوش مارٹن کو اس راہداری میں اچھال دیا اور پھر وہ تیزی سے مڑ کر واپس کمرے کے مین دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے دروازہ کھولا تو صفدر اور تنویر دونوں بیرونی دروازے کی سائیڈوں میں موجود تھے۔ باہر راہداری میں کسی کی چیختی ہوئی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ اندر موجود افراد کو ہتھیار ڈالنے کی ہدایت کر رہا تھا۔
’’آ جاؤ‘‘۔۔۔ عمران نے آہستہ سے کہا تو وہ دونوں بجلی کی سی تیزی سے دوڑتے ہوئے اندرونی دروازے کی طرف آ گئے۔ ان کے راہداری میں داخل ہوتے ہی عمران نے بھاری دروازہ بند کر کے اسے اندر سے لاک کر دیا۔
’’آؤ‘‘۔۔۔ عمران مڑ کر کہا اور پھر تیزی سے دوڑتا ہوا اس دروازے کی طرف بڑھ گیا جس کی عقبی راہداری میں اس نے بے ہوش مارٹن کو اچھالا تھا۔ دروازہ کھول کر وہ راہداری میں داخل ہوا اور ایک سائیڈ پر ہٹ گیا۔ صفدر اور تنویر بھی اس کے پیچھے اندر داخل ہوئے تو عمران نے یہ دروازہ بھی بند کر کے اندر سے لاک کر دیا۔
’’اسے گولی ماردو تنویر‘‘۔۔۔ عمران نے فرش پر بدستور بے ہوش پڑے ہوئے مارٹن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور اسے پھلانگتا ہوا آگے بڑھ گیا۔صفدر بھی اس کے پیچھے تھا۔ دوسرے لمحے راہداری مشین پسٹل کے دھماکوں سے گونج اٹھی۔ راہداری آگے جا کر تھوڑی سی مڑ گئی تھی اور پھر آگے بند دیوار تھی لیکن سائیڈ پر موجود مخصوص انداز کے ہک کو دیکھتے ہی عمران سمجھ گیا تھا کہ اس ہک کی مدد سے یہاں دروازہ نمودار ہو تا ہے۔ اس نے ہک کو کھینچا تو سر ر کی آواز کے ساتھ ہی دیوار درمیان سے پھٹ کر دونوں سائیڈوں میں کھسک گئی۔ باہر ایک تنگ سی گلی تھی جس میں کوڑے کے بڑے بڑے ڈرم موجود تھے۔ عمران، صفدر اور تنویر تینوں دیوار میں پیدا ہونے والے خلا کو کراس کر کے باہر گلی میں پہنچ گئے۔ یہ گلی ایک سائیڈ سے بند تھی جبکہ دوسری سائیڈ پر سڑک تھی۔ جس پر ٹریفک رواں دواں تھی۔
’’ماسک اتار دو‘‘۔۔۔ عمران نے اپنے چہرے اور سر پر موجود ماسک اتار کر کوڑے کے ایک ڈرم میں پھینکتے ہوئے کہا تو صفدر اور تنویر نے ماسک اتار کر ڈرم میں پھینک دئیے۔ اسی لمحے سر ر کی آواز کے ساتھ ہی دیوار خود بخود برابر ہو گئی۔ شاید یہ آٹو میٹک نظام تھا۔ عمران نے جیب سے چپٹا سا ماسک میک اپ باکس نکال لیا۔ اس میں سے تین مختلف ماسک نکال کر اس نے باکس کو بند کر کے واپس اپنے کوٹ کی جیب میں ڈالا اور ایک ایک ماسک اس نے صفدر اور تنویر کو دے کر تیسرا اپنے چہرے پر چڑھا کر دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو تھپتھپانا شروع کر دیا۔ وہ تینوں ڈرموں کی قطار کے پیچھے کھڑے تھے۔ اس لئے وہ سڑک سے کسی کو نظر نہ آ سکتے تھے۔ صفدر اور تنویر نے بھی اس کی پیروی کی۔
’’آؤ اب نکل چلیں ‘‘۔۔۔ عمران نے مطمئن انداز میں کہا اور پھر وہ ڈرموں کی سائیڈ سے ہوتے ہوئے گلی کے آخر میں پہنچ گئے اور پھر وہاں سے سڑک پر پہنچ کر وہ بائیں ہاتھ کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ چند لمحوں بعد انہیں ایک خالی ٹیکسی مل گئی تو عمران نے اسے سٹار کالونی کی نزدیکی مارکیٹ کا پتہ بتا دیا  جہاں اس نے رہائش گاہ حاصل کی تھی اور جس میں وہ کیپٹن شکیل اور جولیا کو چھوڑ کر آئے تھے۔ٹیکسی نے انہیں تھوڑی دیر بعد اس مارکیٹ کے آغاز میں ڈراپ کر دیا اور پھر وہاں سے عمران اپنے ساتھیوں سمیت پیدل چلتا ہوا سٹار کالونی میں داخل ہو کر اس رہائش گاہ تک پہنچ گیا۔
’’ارے یہ کیا۔ جاتے ہوئے تو دوسرا میک اپ تھا آتے ہوئے بدل گیا۔ کیا کوئی خاص بات ہو گئی ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے ان تینوں کو دیکھتے ہی حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ کیپٹن شکیل کی آنکھوں میں بھی حیرت کے تاثرات موجود تھے۔
’’ہاں ۔ خاص الخاص بات ہو گئی ہے ‘‘۔۔۔ عمران نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے ایک طویل سانس لے کر کہا۔ اس کے لہجے میں تشویش کی جھلک نمایاں تھی۔
’’کیا ہوا تنویر‘‘۔۔۔ جولیا نے قدرے بے چین لہجے میں تنویر سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ اسے معلوم تھا کہ عمران آسانی سے کچھ نہ بتائے گا۔
’’مجھے تو خود معلوم نہیں ہے‘‘۔۔۔ تنویر نے منہ بناتے ہوئے کہا اور پھر مختصر الفاظ میں فاکسن اور پھرمارٹن سے ملنے تک کی تفصیل بتا دی۔
’’مارٹن سے عمران علیحدگی میں کوئی پوچھ گچھ کرتا رہا ہے۔ پھر اچانک حملہ ہو گیا‘‘۔۔۔ تنویر نے آخر میں بتایا۔
’’تم بتاؤ عمران۔ کیا ہوا ‘‘۔۔۔ جولیا نے اس بار عمران سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ سی ٹاپ فارمولا ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو نہ صرف جولیا بلکہ باقی سارے ساتھی بھی بے اختیار چونک پڑے کیونکہ اس بات کا علم تو انہیں بھی نہ تھا۔
’’کیا مطلب۔ سی ٹاپ فارمولا تو تم نے کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجوا دیا تھا۔ وہ تو وہاں پہنچنے والا ہو گا‘‘۔۔۔ جولیا نے یقین نہ آنے والے لہجے میں کہا۔
’’میرا بھی یہی خیال تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوا۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ میری انٹرنیشنل فون کل کہیں سنی جا رہی ہے اور سی ٹاپ فارمولے کے بارے میں بات مارک کر لی جائے گی‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’کیا مطلب۔ کھل کر بتاؤ‘‘۔۔۔ جولیا نے قدرے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’میں نے کورئیر سروس کے ذریعے سی ٹاپ فارمولا بھجوا دیا اور پھر انٹرنیشنل فون کال بوتھ سے میں نے سر سلطان کو کال کر کے اس بارے میں تفصیل بتائی۔ اس میں سی ٹاپ فارمولے کا نام بھی لیا گیا اور کورئیر سروس کا بھی۔ اس کال کو یہاں کے ایک گروپ بلیک سروس کا ایک آدمی سن رہا تھا۔ اس نے نہ صرف سی ٹاپ فارمولا کورئیر سروس سے حاصل کر لیا بلکہ میری نگرانی کروا کر ہمارے ہوٹل البانو تک بھی پہنچ گئے۔چونکہ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے اس لئے میں نے نگرانی بھی مارک نہ کی۔ یہ فارمولا کورئیر سروس سے بلیک سروس کے مارٹن تک پہنچا اور مارٹن نے اسے بلیک سروس کے چیف کنگ تک پہنچا دیا اور خود مارٹن نے پروٹو گروپ کو ہائر کیا تا کہ ہمارا خاتمہ کرایا جا سکے۔ ادھر ٹاسکو گروپ جس نے یہ فارمولا پاکیشیائی سائنسدان سے حاصل کیا تھا اور جس کے چیف جیرٹو کی پرسنل سیکرٹری کے ذریعے ہماری رسائی اس خصوصی لاکر تک ہوئی تھی جس میں سی ٹاپ فارمولا موجود تھا اور جہاں سے ہم نے خاموشی سے اسے حاصل کیا تھا، اسے یہ علم ہو گیا کہ فارمولا بلیک سروس کے پاس پہنچ چکا ہے۔ یہاں حکومت ساڈان کا ایک نمائندہ موجود ہے جس کا نام سٹارک ہے۔ سٹارک اس فارمولے کا سودا حکومت ساڈان سے کرا رہا تھا کہ جیرٹو کو علم ہو گیا اور وہ سٹارک کے پاس پہنچ گیا۔سٹارک نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اس فارمولے کی خاطر ٹاسکو اور بلیک سروس ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں ۔ میں نے مارٹن سے بلیک سروس کے ہیڈ کوارٹر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ہیڈ کوارٹر کے بارے میں تو کچھ نہ بتایا البتہ میں نے اس کی فون پر بات کنگ سے کرا دی۔ اس طرح مجھے کنگ کا فون نمبر معلوم ہو گیا۔ کنگ انتہائی گھٹیا ٹائپ بدمعاش ہے۔ مارٹن کی بات اسے بری لگی۔ اس لئے اس نے فوری طور پر مارٹن کی ہلاکت کا حکم دے دیا۔ جن حملہ آوروں نے مارٹن کے آفس پر حملہ کیا تھا وہ بلیک سروس کے ہی لوگ تھے۔ میں نے مارٹن کو بے ہوش کر کر کے عقبی راہداری میں لے جا کر فائرنگ کے ذریعے ہلاک کرا دیا کیونکہ اگر وہ کنگ کو کرسی پر راڈز میں جکڑا ہوا زخمی حالت میں ملتا تو وہ لازماً سمجھ جاتے کہ اس پر تشدد ہوا ہے اور اس سے سی ٹاپ فارمولا کے بارے میں معلومات حاصل کر لی گئی ہیں ۔ اب وہ ایسا نہ سمجھ سکیں گے اس لئے اب ہم فی الحال آزاد ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں پوری تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’تو اب یہ فارمولا ہمیں دوبارہ حاصل کرنے پڑے گا‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’ہاں ۔ اور اس سے پہلے کہ اس فارمولے کا سودا کسی حکومت سے ہو جائے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور اٹھایا اور تیزی سے نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’انکوائری پلیز‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
’’چیف کمشنر آفس سے ڈبرٹ بول رہا ہوں ۔ ایک نمبر نوٹ کریں اور مجھے بتائیں کہ یہ نمبر کہاں نصب ہے اور کس کے نام پر ہے۔ یہ معاملہ سرکاری اور انتہائی اہم ہے اس لئے آپ پوری توجہ اور تسلی سے معاملے کو ڈیل کریں ‘‘۔۔۔ عمران نے انتہائی خشک اور تحکمانہ لہجے میں کہا۔
’’یس سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے مؤدبانہ لہجے میں کہا گیا تو عمران نے وہ نمبر بتا دیا جس پر اس نے مارٹن کی کنگ سے بات کرائی تھی۔
’’ہولڈ کریں سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا اور فون لائن پر خاموشی چھا گئی۔
’’ہیلو سر۔ کیا آپ لائن پر ہیں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد انکوائری آپریٹر کی آواز سنائی دی۔
’’یس‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’سر یہ نمبر کنگ ایڈورڈ کے نام پر سٹابری روڈ پر واقع سٹار کلب میں نصب ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’اچھی طرح چیک کر لیا ہے تم نے ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’یس سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے جواب دیا گیا۔
’’اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ اٹ از ٹاپ سیکرٹ اور تم نے اس نمبر پر کسی اطلاع نہیں دینی کہ اس نمبر کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی ہیں ورنہ تم جانتی ہو کہ کیا ہو گا‘‘۔ عمران نے انتہائی سخت لہجے میں کہا۔
’’میں اپنی ذمہ داری سمجھتی ہو سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’اوکے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور رسیور رکھ دیا۔
’’ہم نے فوری طور پر وہاں ریڈ کرنا ہے اور فارمولا واپس حاصل کرنا ہے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور سب ساتھیوں نے اثبات میں سر ہلا دئیے۔٭

٭٭٭٭٭




 جیرٹو انتہائی بے چینی کے عالم میں اپنے آفس میں کافی دیر سے مسلسل ٹہل رہا تھا۔
’’میں اس کنگ کو پیس ڈالوں گا۔ اب یا ٹاسکو راگونا میں رہے گا یا بلیک سروس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ وہ کافی دیر سے ٹہل رہا تھا اور اسی طرح مسلسل بڑبڑا رہا تھا کہ اچانک میز پر پڑے ہوئے فون کی گھنٹی بج اٹھی تو جیرٹو فون پر اس طرح جھپٹا جیسے بھوکا عقاب اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے رسیور اٹھا کر تیز لہجے میں کہا۔
’’ہیری بول رہا ہوں باس۔ میں نے معلوم کر لیا ہے کہ جو پاکیشیائی البانو ہوٹل میں رہ رہے تھے ان پر پروٹو گروپ کے چار قاتلوں نے اچانک حملہ کیا لیکن بعد میں وہ پاکیشیائی پراسرار طور پر کمرے سے غائب ہو گئے جبکہ پروٹو گروپ کے چاروں قاتلوں کی لاشیں اس کمرے سے دستیاب ہوئیں ۔ اس کے بعد تین ایکریمی پروٹو ہوٹل میں گئے اور انہوں نے وہاں بتایا کہ ان کا تعلق ولنگٹن کے راسٹر گروپ سے ہے اور وہ پروٹو کے چیف فاکسن سے ملنا چاہتے ہیں ۔ وہاں کاؤنٹر پر موجود فاکسن کے آدمی نے ان سے بدتمیزی کی تو انہوں نے انتہائی حیرت انگیز انداز میں اسے لڑائی میں شکست دے دی جس فاکسن نے انہیں اپنے آفس میں بلا لیا اور اپنے آدمی کو گولی مار کر باہر پھینکنے کا حکم دے دیا۔ اس کے بعد اچانک معلوم ہوا کہ راسٹر گروپ کے تینوں آدمی واپس چلے گئے ہیں اور فاکسن کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ فاکسن کے نمبر ٹو سے معلوم ہوا کہ پروٹو گروپ کو ان پاکیشیائیوں کے خلاف بلیک سروس کے مین مارکیٹ کے مارٹن نے ہائر کیا تھا۔ پھر مارٹن کے پاس تین ایکریمیا پہنچے اور انہوں نے اپنے آپ کو ولنگٹن کے لارڈ گروپ کے آدمی بتایا۔ مارٹن نے انہیں اپنے آفس میں بلا لیا۔ اس دوران مارٹن نے شاید اپنے چیف کنگ سے فون پر کوئی ایسی بات کی کہ کنگ نے مارٹن کو ہلا ک کرنے کا حکم دے دیا اور بلیک سروس کا ایکشن گروپ وہاں پہنچ گیا لیکن وہاں مارٹن کے آفس کی طرف سے ان کا باقاعدہ مقابلہ کیا گیا۔ انہوں نے مارٹن کے آفس پر میزائل فائر کر دیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ لارڈ گروپ کے تینوں آدمی عقبی طرف سے غائب ہو گئے ہیں جبکہ مارٹن کی لاش عقبی راہداری سے ملی ہے۔ اسے گولیوں سے چھلنی کیا گیا تھا‘‘۔ ہیری نے مؤدبانہ لہجے میں پوری تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ بلیک سروس کے خلاف یہ ساری کاروائی پاکیشیائی ایجنٹ کرتے پھر رہے ہیں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے جواب دیا گیا۔
’’لیکن اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا۔ مجھے ہر صورت میں وہ فارمولا چاہئے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’باس۔ میرا خیال ہے کہ ان پاکیشائی ایجنٹوں کو یقیناً اس بات کا علم مارٹن سے ہو چکا ہے کہ فارمولا کنگ کے پاس ہے اس لئے اب وہ فارمولا حاصل کرنے کے لئے کنگ کے خلاف کام کریں گے اور اگر ہم ان کی نگرانی کریں تو ہم ان سے آسانی سے فارمولا حاصل کر سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ ہیری نے کہا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ ہم انتظار میں بیٹھے رہیں ۔ نہیں ۔ یہ بات غلط ہے۔ ہم نے خود اس کنگ سے فارمولا حاصل کرنا ہے۔ تم نے سٹار کلب پر حملہ کرنے کا حکم دیا ہے یا نہیں ۔ اس کے بارے میں مجھے بتاؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’باس۔ میں نے پہلے معلومات حاصل کرائی ہیں اور میری معلومات کے مطابق کنگ اس وقت سٹار کلب سے غائب ہو چکا ہے اور اسکے ساتھ ہی سٹار کلب میں بلیک سروس نے باقاعدہ سائنسی ریڈ ٹریپ نصب کر دیا ہے تا کہ ہمارے آدمی اگر سٹار کلب پر حملہ کریں تو وہ مکھیوں کیطرح ہلاک ہو جائیں اور یقیناً کنگ فارمولا اپنے ساتھ لے گیا ہو گا اس لئے ان حالات میں سٹار کلب پر حملہ کرنا سوائے حماقت کے کچھ نہیں ہے‘‘۔۔۔ ہیری نے کہا۔
’’تو پھر معلوم کرو کہ کنگ کہاں گیا ہے ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’وہ جہاں بھی گیا ہے باس۔ بہر حال وہ سٹارک سے ضرور رابطہ کرے گا اس لئے میں نے اس کی تلاش کے ساتھ ساتھ سٹارک کی نگرانی بھی شروع کرا دی ہے۔
  جیسے ہی سٹارک سے اس کا رابطہ ہوا ہمیں علم ہو جائے گا اور ہم بھوکے چیتوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑیں گے‘‘۔۔۔ ہیری نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’لیکن سٹارک انتہائی عیار آدمی ہے۔ وہ ساڈان حکومت کے لئے کم قیمت پر فارمولا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دیکھتے رہ جائیں اور فارمولا ساڈان حکومت کی تحویل میں چلا جائے۔ ایسی صورت میں پھر ہم فارمولا کبھی بھی حاصل نہ کر سکیں گے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’باس۔ ساڈان حکومت یہاں راگونا میں تو نہیں ہے۔ سٹارک اگر فارمولا حاصل کرے گا تو لامحالہ یا خود وہ ساڈان جا کر اسے حکومت کی تحویل میں دے گا یا ساڈان سے یہاں آدمی منگوائے گا اور تیسری صورت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ ولنگٹن جائے اور ساڈانی سفارت خانے کے حوالے فارمولا کرے اور چوتھی اور آخری صورت یہ ہے کہ فارمولا کورئیر سروس کے ذریعے ساڈان بھجوائے۔ یہ ساری صورتیں میرے سامنے ہیں اور میں نے اس سلسلے میں مکمل بندوبست کر رکھا ہے۔ ایک ایک لمحے کی اطلاع مجھے مل رہی ہے۔ اس لئے آپ بے فکر رہیں ۔ جیسے ہی بات آگے بڑھی ہم فارمولا حاصل کر لیں گے‘‘۔۔۔ ہیری نے کہا۔
ویری گڈ ہیری۔ تم واقعی ٹاسکو کا دماغ ہو۔ ویری گڈ۔ اب مجھے مکمل اطمینان ہو گیا ہے کہ ہم فارمولا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور تمہیں اس کا خصوصی انعام ملے گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے خوش ہو کر کہا۔
’’شکریہ باس۔ آپ کی یہ تعریف ہی میرے لئے انعام ہے۔ میرے آدمی پاکیشیائیوں کو بھی تلاش کر رہے ہیں ۔ میں انہیں بھی نظروں میں رکھنا چاہتا ہوں ‘‘۔۔۔ ہیری نے کہا۔
’’اوکے۔ ٹھیک ہے۔ مجھے ساتھ ساتھ اطلاع دینے رہنا‘‘۔ جیرٹو نے اس بار اطمینان بھرے لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور رکھ دیا۔ اب اس کے چہرے پر واقعی اطمینان کے تاثرات نمایاں تھے۔ وہ میز کی دوسری طرف موجود کرسی پر اطمینان سے بیٹھ گیا اور پھر ایک خیال کے آتے ہی اس نے چونک کر رسیور اٹھایا اور تیزی سے دو نمبر پریس کر دئیے۔
’’یس باس ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے اس کی پرسنل سیکرٹری کی آواز سنائی دی۔
’’راکسن سے میری بات کراؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا اور رسیور رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی بج اٹھی تو اس نے رسیور دوبارہ اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’راکسن لائن پر ہے باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے اس کی پرسنل سیکرٹری کی مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’ہیلو۔ جیرٹو بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’راکسن بول رہا ہوں جیرٹو۔ خیریت۔ کیسے کال کیا ہے‘‘۔دوسری طرف سے بے تکلفانہ لہجے میں کہا گیا۔
’’راکسن تم بڑے طویل عرصے تک ایکریمیا کی سیکرٹ ایجنسیوں میں شامل رہے ہو۔ کیا تم پاکیشیائی ایجنٹوں کے بارے میں کچھ جانتے ہو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’ہاں ۔ لیکن تمہارا ان سے کیا تعلق بن گیا ہے تم تو راگونا میں ہو اور راگونا تو ایکریمیا کی کافی دور دراز اور قدرے کم اہمیت کی حامل ریاست ہے‘‘۔۔۔ راکسن نے حیرت بھرے لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’میرا ان سے ابھی تک براہ راست تعلق تو نہیں بنا لیکن کسی بھی وقت بن سکتا ہے۔ تم بتاؤ تو سہی کہ یہ کون لوگ ہیں بلکہ کس قسم کے لوگ ہیں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یہ دنیا کی انتہائی خطرناک ترین سیکرٹ سروس سمجھی جاتی ہے۔ انتہائی تیز، فعال اور ذہین لوگ ہیں ۔ بڑی سے بڑی سیکرٹ ایجنسی ان کے مقابلے پر آ کر ریت کے خالی ہوتے ہوئے بوروں کی طرح ڈھیر ہو جاتی ہے لیکن تم تو بدمعاشوں کے گروپ چلاتے ہو جبکہ سیکرٹ ایجنسیاں تم جیسے لوگوں سے تعلق نہیں رکھتیں 
اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم مجھے تفصیل سے سب کچھ بتا دو۔ پھر میں تمہیں یقیناً کوئی بہتر مشورہ دے سکوں گا‘‘۔۔۔ راکسن نے کہا تو جیرٹو نے اسے سی ٹاپ فارمولا حاصل کرنے اور پھر اس کے غائب ہو جانے سے لے کر اس کا کنگ کے پاس پہنچنے اور اب ہیری کی طرف سے ملنے والی معلومات کی تفصیل بتا دی۔
’’ویری بیڈ جیرٹو۔ تم نے یہ کام کر کے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار لی ہے۔ تم نے عمران کا نام لیا ہے اور یہی پاکیشیا سیکرٹ سروس کا سب سے خطرناک ایجنٹ ہے اور بس قدرت نے تمہیں موقع فراہم کیا تھا کہ عمران اور اس کے ساتھیوں نے خاموشی سے فارمولا حاصل کر لیا اور وہ یقیناً فارمولا بھجوا کر خود بھی واپس چلے جاتے کیونکہ یہ لوگ صرف اپنے مقصد کے تحت کام کرتے ہیں اور ان کا مقصد صرف فارمولا حاصل کرنا تھا لیکن کنگ کی مداخلت کی وجہ سے معاملات خراب ہو گئے۔ اب میرا مشورہ یہی ہے کہ تم انہیں تلاش کر کے ان سے خود مل لو اور اپنے فعل کی معافی مانگ کر اس فارمولے سے لاتعلق ہو جاؤ۔ اس میں تمہاری اور تمہارے گروپ کی بہتری ہے۔ جہاں تک کنگ سے فارمولے کا حصول ہے وہ ان لوگوں کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کنگ ان کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے۔ وہ خود ہی ختم ہو جائے گا‘‘۔۔۔ راکسن نے کہا تو جیرٹو نے چہرے پر قدرے غصے اور جھنجھلاہٹ کے تاثرات نمودار ہو گئے۔
’’کیاٰ یہ لوگ مافوق الفطرت قوتوں کے حامل ہیں جو تم مجھے ان سے اس قدر ڈرا رہے ہو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے جھنجھلاتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’میرا کام تمہیں سمجھانا تھا وہ میں نے سمجھا دیا ہے۔ اب تم کیا کرتے ہو یہ تمہارا اپنا مسئلہ ہے‘‘۔۔۔ راکسن کے لہجے میں بھی ناراضگی کا عنصر ابھر آیا تھا۔
’’اوکے۔ بے حد شکریہ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا اور رسیور رکھ دیا۔
’’ہونہہ۔ نان سنس۔ چونکہ خود سیکرٹ ایجنسیوں میں رہا ہے اس لئے ان کی ہی تعریف کر رہا ہے۔ نان سنس۔ ایک بار ہیری انہیں تلاش کر لے پھر میں دیکھوں گا کہ یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے رسیور رکھ کر بڑبڑاتے ہوئے کہا اور پھر اٹھ کر وہ عقبی دروازے کی طرف بڑھ گیا جہاں اس نے انتہائی قیمتی شراب کا سٹاک رکھا ہوا تھا اور اس کی عادت تھی کہ جب وہ ذہنی طور پر الجھ جاتا تو پھر مسلسل شراب پینا شروع کر دیتا تھا اس طرح اس کا ذہن نارمل ہو جایا کرتا تھا۔
 ’’ریڈ کارڈ چاہئیں ‘‘۔۔۔ عمران نے بڑے لا پرواہ سے لہجے میں کہا تو دونوں نوجوان بے اختیار اچھل پڑے۔ان دونوں کے چہروں پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے۔
’’ریڈ کارڈ۔ کیا مطلب‘‘۔۔۔ اس نوجوان نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا لیکن اسکا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ ریڈ کارڈ کے بارے میں سب جانتا ہے
’’کس کا مطلب۔ ریڈ کا یا کارڈ کا۔ کس کا مطلب بتاؤں مسٹر‘‘۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میرا نام سکاٹ ہے۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ ریڈ کارڈ کیا ہوتا ہے۔ آپ کیوں ریڈ کارڈ کی بات کر رہے ہیں ‘‘۔۔۔ اس نوجوان نے کہا۔
’’اس لئے کہ ہم نے سٹابری والے گیٹ سے اندر جانا ہے جبکہ ہمارے پاس ریڈ کارڈ نہیں ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’اوہ۔ تو یہ بات ہے۔ پھر آپ کو کیلارڈ صاحب سے ملنا ہو گا۔ مینجر صاحب سے۔ وہی اس کا بندوبست کر سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ سکاٹ نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے سامنے رکھے ہوئے فون کا رسیور اٹھا یا اور چند نمبر یکے بعد دیگرے پریس کر دئیے۔
’’سکاٹ بول رہا ہوں جناب۔ مین ہال کاؤنٹر سے۔ یہاں ایک ایکریمی خاتون اور چار ایکریمی مرد موجود ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ریڈ کارڈ چاہئیں تا کہ وہ سٹابری گیٹ سے اندر جا سکیں ‘‘۔۔۔ سکاٹ نے کہا۔ پھر دوسری طرف سے بات سنتا رہا۔
’’یس سر‘‘۔۔۔ اس نے بات سن کر جواب دیا اور پھر رسیور رکھ کر وہ کاؤنٹر سے باہر آگیا۔
’’روجر تم خیال رکھنا۔ میں ان صاحبان کو باس کے آفس تک پہنچا کر آتا ہوں ‘‘۔۔۔ سکاٹ نے کاؤنٹر پر موجود اپنے ساتھی سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’آئیے جناب‘‘۔۔۔ سکاٹ نے ایک طرف موجود لفٹ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا جس پر سپیشل کی پلیٹ موجود تھی۔ اس نے سائیڈ پر موجود ایک بٹن دبایا تو لفٹ کا دروازہ کھل گیا اور پھر وہ اندر داخل ہو گیا۔ عمران اور اس کے ساتھی بھی اس کے پیچھے اندر داخل ہو گئے تو لفٹ کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ دوسرے لمحے لفٹ ایک جھٹکے سے اوپر کو اٹھنے لگی۔ چند لمحوں بعد لفٹ رک گئی تو سکاٹ نے دروازہ کھولا اور باہر آگیا۔ عمران اور اسکے ساتھی بھی خاموشی سے باہر آ گئے۔ یہ ایک تنگ سی راہداری تھی جس میں مشین گنوں سے مسلح چار افراد دیواروں پر پشت لگائے کھڑے تھے۔ وہ انہیں دیکھ کر چونک کر سیدھے ہوئے لیکن پھر سکاٹ کی وجہ سے شاید انہوں نے کوئی حرکت نہ کی۔ راہداری کے آخر میں ایک دروازہ تھا۔ سکاٹ نے دروازے کی سائیڈ پر دیوار پر ہک سے لٹکا ہوا فون پیس اتارا اور اس پر موجود سرخ رنگ کا بٹن پریس کر دیا۔
’’سکاٹ بول رہا ہوں باس۔ ریڈ کارڈز حاصل کرنے والے مہمان دروازے پر موجود ہیں ‘‘۔۔۔ سکاٹ نے انتہائی مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ سکاٹ نے کہا اور بٹن کو دوبارہ پریس کر کے اسنے رسیور کو ہک سے لٹکا دیا۔ چند لمحوں بعد ہی دروازہ خود بخود ہی کھلتا چلا گیا۔
’’تشریف لے جائیے ‘‘۔۔۔ سکاٹ نے ایک طرف ہٹتے ہوئے کہا تو عمران نے اثبات میں سر ہلایا اور اندر داخل ہو گیا۔ اس کے پیچھے اس کے ساتھی بھی اندر داخل ہو گئے۔ یہ ایک خاصا بڑا کمرہ تھا جس کے آخر میں ایک میز کے پیچھے ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ڈارک براؤن رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔اس کی نظریں عمران اور اس کے ساتھیوں پر جمی ہوئی تھیں ۔
’’تشریف رکھیں جناب۔ میرا نام کیلارڈ ہے‘‘۔۔۔ نوجوان نے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہمیں ریڈ کارڈز چاہئیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’تشریف رکھیں ۔ مجھے سکاٹ نے فون پر بتایا ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا اور اپنی کرسی پر دوبارہ بیٹھ گیا۔ عمران میز کی سائیڈ پر موجود کرسی پر بیٹھ گیا جبکہ اس کے بیٹھتے ہی اس کے ساتھی بھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ کمرے کا دروازہ خود بخود بند ہو گیا تھا۔
’’آپ کو ریڈ کارڈز کیوں چائیں ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے آگے کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔
’’کیونکہ ہم نے کنگ سے ملاقات کرنی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
 ’’چیف باس تو راگونا سے باہر گئے ہوئے ہیں اور انکا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کب واپس آئیں ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا تو عمران بے اختیار چونک پڑا۔
’’کب گئے وہ‘‘۔۔۔ عمران نے پوچھا۔
’’آج صبح‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے جواب دیا۔
’’چلیں ان سے فون پر بات کرا دیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’مجھے فون نمبر معلوم نہیں ہے لیکن آپ مجھے بتائیں کہ آپ کو ان سے کیا کام ہے۔ آپ کا کام ہو جائے گا‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’ہمیں سی ٹاپ فارمولا چاہئے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو کیلارڈ بے اختیار اچھل پڑا۔ اس کے چہرے پر انتہائی حیرت کے تاثرات ابھر آئے تھے۔ وہ اب اس طرح غور سے عمران اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ رہا تھا جیسے انہیں پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’آپ کون ہیں ۔ کیا آپ کا تعلق ٹاسکو سے ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ۔ ٹاسکو سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’تو آپ کون ہیں ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’آپ بلیک سروس کے نمبر ٹو ہیں یا نمبر تھری‘‘۔۔۔ عمران نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کرتے ہوئے کہا۔
’’میں تو کلب کا مینجر ہوں اور بس۔ میرا بلیک سروس سے کیا تعلق ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر آپ ان معاملات میں نہ آئیں اور سیدھی طرح بتا دیں کہ کنگ کہاں ہے۔ ہم نے اس سے فارمولا واپس حاصل کرنا ہے‘‘۔ عمران نے سرد لہجے میں کہا۔
’’اب پہلے آپ کو اپنی شناخت کرنا ہو گا‘‘۔۔۔ کیلارڈ کا لہجہ یکلخت بدل گیا۔ اسی لمحے سائیڈ دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور مشین گنوں سے مسلح دو آدمی تیزی سے اندر داخل ہوئے اور انہوں نے اپنی مشین گنوں کا رخ عمران اور اس کے ساتھیوں کی طرف کر دیا۔ ان کی انگلیاں مشین گنوں کے ٹریگروں پر اس طرح جمی ہوئی تھیں جیسے وہ کسی بھی لمحے ٹریگر دبا دیں گے۔ شاید کیلارڈ نے کوئی خفیہ بٹن پریس کیا تھا۔
’’اگر ہم اپنی شناخت کرا دیں تو کیا آپ ہمیں کنگ سے ملو ا دیں گے‘‘۔۔۔ عمران نے اسی طرح اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
’’چیف باس یہاں موجود نہیں ہیں لیکن اگر آپ اپنی شناخت کرا دیں تو میں چیف باس سے آپ کی فون پر بات کرا سکتا ہوں ‘‘۔ کیلارڈ نے جوا ب دیتے ہوئے کہا۔
’’اوکے۔ تو پھر سن لو کہ میرا نام علی عمران اور میں پاکیشائی ہوں اور میرے ساتھی بھی پاکیشیائی ہیں ۔ سی ٹاپ فارمولا پاکیشیا کی ملکیت تھا جسے ٹاسکو نے پاکیشیائی سائنس دان کو ہلا ک کر کے حاصل کیا۔ہم نے اس فارمولے کو اس سے حاصل کر لیا تھا اور پھر ہم اسے پاکیشیا بھجوا رہے تھے کہ مین مارکیٹ کے مارٹن نے میری فون کال کی بناء پر اسے حاصل کر لیا اور کنگ کو پہنچا دیا۔ ہم وہ فارمولا حاصل کرنے آئے ہیں اور فارمولا واپس پاکیشیا بھجوا کر ہم پھر ٹاسکو سے نمٹ لیں گے‘‘۔۔۔ عمران نے انتہائی سرد لہجے میں کہا تو کیلارڈ بڑے حیرت بھرے انداز میں عمران کو دیکھتا رہا۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور پیشانی پر لکیریں سی ابھر آئی تھیں ۔
’’مجھے یقین نہیں آ رہا۔ کیا کوئی شخص ایسا میک اپ بھی کر سکتا ہے کہ مجھ جیسا شخص بھی اسے نہ پہچان سکے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’بہرحال یہ حیرت بعد میں ظاہر کرتے رہنا۔ تم کنگ سے میری بات کراؤ میں نہیں چاہتا کہ بلیک سروس خواہ مخواہ درمیان میں رگڑی جائے اور سنو کنگ یہ فارمولا فروخت کرنا چاہتا ہے اور ساڈان حکومت کے نمائندے سٹارک نے اسے ایک کروڑ ڈالر کی آفر کی ہے اور کنگ مان گیا ہے۔ تم اس سے میری بات کراؤ۔ میں اسے اس فارمولے کے عوض دو کروڑ ڈالرز ادا کرنے کے لیے تیار ہوں ‘‘۔ عمران نے کہا تو کیلارڈ ایک بار پھر اچھل پڑا۔
’’تم۔ تم دو کروڑ ڈالر ز بھی ادا کرو گے۔ کیا واقعی‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’کیوں ۔ کیا پاکیشیا دو کروڑ ڈالرز ادا نہیں کر سکتا۔ پاکیشیا بہت بڑا ملک ہے۔ ساڈان تو اس کے مقابلے میں بے حد چھوٹا ملک ہے‘‘۔عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اوہ۔ میں نے تو تمہارے بارے میں کچھ اور سوچ رکھا تھا لیکن تم نے دو کروڑ کی آفر کر کے میرا فیصلہ تبدیل کر دیا ہے۔ ٹھیک ہے۔ میں چیف سے تمہاری بات کرا دیتا ہوں ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور اٹھا لیا اور پھر تیزی سے نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔ عمران کی نظریں ڈائل پر جمی ہوئی تھیں ۔
’’لاؤڈر کا بٹن بھی پریس کرو تا کہ ہمیں بھی تمہارے درمیان ہونے والی بات چیت کا علم ہو سکے ‘‘۔۔۔ عمران نے اس کے ہاتھ نمبرز سے اٹھا لینے کے بعد کہا تو اس نے ایک بار پھر ہاتھ بڑھا کر لاؤڈر کا بٹن پریس کر دیا۔ دوسری طرف سے گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دی اور پھر رسیور اٹھا لیا گیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک بھاری سی آواز سنائی دی۔ ’’کیلارڈ بول رہا ہوں چیف‘‘۔۔۔ کیلارڈ کا لہجہ انتہائی مؤدبانہ ہو گیا تھا۔
’’کیا بات ہے۔ کیوں کال کی ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے اسی طرح بھاری لہجے میں کہا گیا۔
’’چیف۔ پاکیشیائی ایجنٹ میرے آفس میں موجود ہیں ۔ وہ سی ٹاپ فارمولا دو کروڑ ڈالرز میں خریدنا چاہتے ہیں ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’کیا۔ کیا کہہ رہے ہو۔ کیا مطلب۔ پاکیشیائی ایجنٹ اور تمہارے آفس میں ۔ کیا مطلب‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ایسے لہجے میں کہا گیا جیسے بولنے والے کو یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
’’میں درست کہہ رہا ہوں چیف ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے شروع سے لے کر اب تک ہونے والی تمام بات چیت دوہرا دی۔
’’ٹھیک ہے۔ اگر وہ واقعی فارمولا خریدنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تم انہیں کلب کا اکاؤنٹ نمبر دے دو۔ وہ اس اکاؤنٹ میں دو کروڑ ڈالر جمع کروا دیں اور رسید بھی دے دیں تو تم مجھے کال کر لینا میں فارمولا تمہیں بھجوا دوں گا لیکن یہ آفر صرف چار گھنٹوں تک ہے کیونکہ چار گھنٹے بعد فارمولا دوسری جگہ فروخت ہو چکا ہو گا‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’یس چیف‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’اور سنو۔ یہ پاکیشیائی لوگ بے حد مکار اور چالاک ہوتے ہیں اس لئے خیال رکھنا کسی چکر میں نہ آ جانا اور ہر طرح سے محتاط اور ہوشیار رہنا‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا اور اس کے ساتھ ہی رابطہ ختم ہو گیا تو کیلارڈ نے رسیور رکھ دیا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی شرمندگی کے تاثرات ابھر آئے تھے۔ ظاہر ہے چیف کو تو یہ معلوم نہ تھا کہ لاؤڈ سپیکر کا بٹن پریس ہونے کی وجہ سے اس کا یہ فقرہ عمران اور اس کے ساتھی بھی ساتھ ہی سن رہے ہیں اس لئے اپنے طور پر اس نے کیلارڈ کو ہدایت کی تھی لیکن بہرحال کیلارڈ کوتو معلوم تھا کہ چیف کی بات لاؤڈر کی وجہ سے عمران اور اس کے ساتھی بھی سن رہے ہیں ۔
’’کوئی بات نہیں ۔ چیف ایسی باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ بہرحال آپ اپنا اکاؤنٹ نمبر دے دیں تا کہ میں دو کروڑ ڈالرز اس اکاؤنٹ میں جمع کرا دوں ‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا تو کیلارڈ نے میز کی دراز کھولی اور اس میں سے ایک کارڈ نکال کر عمران کی طرف بڑھا دیا۔ اس کارڈ پر بینک کا نام اور اکاؤنٹ نمبر پہلے سے چھپا ہوا تھا۔ شاید بلیک سروس کا طریقہ یہی تھا کہ رقومات براہ راست بینک اکاؤنٹ میں ہی جمع کرائی جاتی تھیں اس لئے انہوں نے ایسے کارڈ چھاپ رکھے تھے۔
’’اوکے۔ اب ہمیں اجازت دیں ۔ ہم رسید لے کر حاضر ہوں گے‘‘۔۔۔ عمران نے ایک نظر کارڈ کو دیکھا اور پھر اسے جیب میں ڈال کر اٹھتے ہوئے کہا تو کیلارڈ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ اب اس کے چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ تھی۔
’’میں منتظر رہوں گا‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا تو عمران بغیر اس سے مصافحہ کئے واپس دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
 اس کے ساتھی بھی اٹھ کر خاموشی سے اس کے پیچھے مڑ گئے۔ دروازہ خود بخود کھلا اور وہ سب باہر آ گئے۔ چند لمحوں بعد جب وہ واپس ہال میں پہنچے تو کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا ہوا سکاٹ انہیں دیکھ کر بے اختیار چونک پڑا اور اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے لیکن عمران اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر بیرونی دروازے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
’’کیا مطلب ہوا اس بات کا۔ کیا تم واقعی دو کروڑ ڈالرز دینے کے بارے میں سوچ رہے ہو‘‘۔۔۔ ہال سے باہر آتے ہی جولیا نے انتہائی حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’اگر گانٹھ ہاتھوں سے کھولی جا سکتی ہو تو کیا ضروری ہے کہ دانتوں سے ہی کھولی جائے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ وہ اب برآمدے سے نکل کر واپس پارکنگ کی طرف بڑھ رہے تھے۔
’’عمران صاحب۔ اگر ایسی بات ہے تو یہاں اس کلب کے جوئے خانے سے دو کروڑ ڈالرز جیتے جا سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’ہاں ۔ ایسا ہو سکتا ہے مگر یہ لوگ اور کلب اس کا برا منائیں گے کہ ان کی ہی جوتی ان کے منہ پر ماری جا رہی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہاں کا ماحول اتنا اچھا نہیں ہے اور لوگ گھٹیا ٹائپ کے ہیں اس لئے اتنی بڑی رقم کی جیت شاید انہیں ہضم ہی نہ ہو سکے‘‘۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ہم اپنا فارمولا ان بدمعاشوں سے کیا خود خریدیں گے‘‘۔ تنویر نے انتہائی غصیلے لہجے میں کہا۔
’’میں بھی یہی کہہ رہی تھی۔ یہ ہماری توہین ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے تنویر کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’تم نے سنا نہیں کہ ہمارے پاس صرف چار گھنٹے ہیں اور جس جگہ کنگ موجود ہے وہاں اگر ہم فوری طور پر جہاز چارٹرڈ کرا کر بھی جائیں تب بھی تین گھنٹے لگ ہی جائیں گے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’کیا مطلب۔ کہاں ہے وہ‘‘۔۔۔ جولیا نے چونک کر کہا۔ باقی ساتھیوں کے چہروں پر بھی حیرت کے تاثرات ابھر آئے تھے۔
’’کیلارڈ نے جہاں فون کیا ہے میں نے ان نمبروں کو چیک کیا ہے۔ فون نمبر سے پہلے اس نے جو کوڈ پریس کیا ہے وہ ساتھ والی ریاست کنشاکا کا ہے اور یقیناً کنگ کنشاکا کے دارالحکومت میں ہو گا اور یہاں سے کنشاکا کے دارالحکومت جہاز پر جانے میں تین گھٹنے لگ جاتے ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’اوہ۔ تو تم اس لئے یہ کام کر رہے ہو لیکن دو کروڑ کی رقم تو خاصی بڑی رقم ہے۔ اسے جیتنے میں بھی وقت لگ جائے گا اور پھر یہ ضروری نہیں کہ دو کروڑ کی رقم وصول کر کے بھی وہ فارمولا ہمیں دیں ‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔ وہ سب باتیں کرتے آہستہ آہستہ پارکنگ کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے۔
’’یہ چھوٹے درجے کے بدمعاش ہیں اور ان بدمعاشوں میں بہرحال ایک یہی خوبی ہوتی ہے کہ یہ لوگ عام حالات میں وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ جہاں تک رقم کا تعلق ہے تو راگونا میں ایک کلب ہے جس کا نام لارڈز کلب ہے۔ وہاں کروڑوں کا جوا ہوتا ہے اور وہ بھی مشینی اس لئے وہاں سے دو کروڑ کی رقم جیت لینا کوئی مشکل نہیں ہے ‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور سب نے اثبات میں سر ہلا دئیے۔


٭٭٭٭
 ٹیلی فون کی گھنٹی بجتے ہی جیرٹو نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی شراب کی بوتل میز پر رکھی اور ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز اور تحکمانہ لہجے میں کہا۔
’’ہیری بول رہا ہوں باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے آواز سنائی دی۔
’’اوہ۔ ہیری کیا ہوا۔ کیا کنگ کا پتہ چل گیا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے چونک کر پوچھا۔
’’یس باس اور انتہائی حیرت انگیز خبر ملی ہے‘‘۔۔۔ ہیری نے قدرے جوشیلے لہجے میں کہا۔
’’سسپنس مت پیدا کیا کرو۔ تفصیل سے بتاؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا۔
’’باس۔ کنگ نے سٹارک کو فون کر کے کہا ہے کہ اس نے پاکیشیائی ایجنٹوں سے سی ٹاپ فارمولے کا سودا دو کروڑ ڈالرز میں کر لیا ہے اور انہیں چار گھنٹے کا وقت دے دیا ہے۔ اگر پاکیشیائی ایجنٹوں نے چار گھنٹوں کے اندر اندر دو کروڑ ڈالرز اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دئیے تو وہ فارمولا انہیں دے دے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تب وہ فارمولا سٹارک کو فروخت کرے گا جس پر سٹارک نے اسے بہت خوفزدہ کرنے کی کوشش کی کہ پاکیشیائی ایجنٹ انتہائی خطرناک ہیں ۔ انہوں نے بلیک سروس کے بہت سے افراد کو جن میں مارٹن بھی شامل ہے ہلاک کر دیا ہے اور پھر چونکہ فارمولا بھی ان کی ہی ملکیت ہے اس لئے حکومت پاکیشیا کبھی بھی دو کروڑ ڈالرز ادا نہیں کرے گی اور یہ آفر بھی انہوں نے کسی چکر کے تحت دی ہو گی۔اس لئے وہ ان کے ٹریپ میں نہ آئے لیکن کنگ نے کہا کہ چونکہ و ہ ان سے وعدہ کر چکا ہے اس لئے اب وہ چار گھنٹوں تک بہرحال انتظار کرے گا‘‘۔۔۔ ہیری نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’کیا پاکیشیائی ایجنٹ کنگ تک پہنچ گئے ہیں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’نہیں جناب۔ سٹارک نے یہ بات کنگ سے پوچھی تھی تو اس نے بتایا کہ یہ بات چیت کیلارڈ کے ذریعے ہوئی ہے۔ وہ لوگ کیلارڈ کے پاس پہنچے تھے‘‘۔۔۔ ہیری نے جواب دیا۔
’’کنگ کا معلوم ہوا کہ وہ کہاں ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے بے چین سے لہجے میں کہا۔
’’میں نے کال ٹریس کر لی ہے چیف۔ سٹارک کو کال کنشاکا ریاست کے دارالحکومت سے کی گئی ہے اور یہ بات بھی معلوم ہو چکی ہے کہ دارالحکومت ٹسام میں بلیک سروس کا ایک بڑا کلب موجود ہے۔ اس کلب کا نام بھی سٹار کلب ہے۔ یہ کال سٹار کلب سے کی گئی ہے اس لئے کنگ بہرحال ٹسام کے سٹار کلب میں موجود ہے‘‘۔ ہیری نے کہا۔
’’اوہ۔ لیکن ٹسام تو یہاں سے کافی فاصلے پر ہے۔ وہاں تک جہاز کے ذریعے پہنچتے پہنچتے بھی کافی وقت لگ جائے گا اور وہاں ٹاسکو کا بھی کوئی سیٹ اپ نہیں ہے اور اگر ہم وہاں گئے تو ہو سکتا ہے کہ اس دوران وہ فارمولا پاکیشیائی ایجنٹوں کے حوالے کر دے اور پاکیشیائی ایجنٹ اسے لے کر راگونا سے نکل جائیں ‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’باس۔ یہی بات میرے ذہن میں بھی آئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں کیلارڈ کی نگرانی کرنی چاہیے کیونکہ فارمولے کی بات اگر اس کے ذریعے ہو رہی ہے تو لازماً فارمولا بھی اس کے ذریعے پاکیشیائی ایجنٹوں تک پہنچے گا اور ہم ان پاکیشیائی ایجنٹوں سے بھی اسے حاصل کر سکتے ہیں یا پھر اسے کیلارڈ سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے‘‘۔ ہیری نے کہا۔
’’ہم اسے پاکیشیائی ایجنٹوں تک کیوں پہنچے دیں ۔ ہم پہلے کیلارڈ کو کیوں نہ کور کر لیں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’چیف۔ اگر ہم نے سٹار کلب پر حملہ کر دیا تو لا محالہ صورت حال بگڑ جائے گی۔ پاکیشیائی ایجنٹ بھی ہوشیار ہو جائیں گے اور کنگ بھی فارمولا نہیں بھیجے گا اور ہو سکتا ہے کہ وہ فارمولا سٹارک کے ذریعے براہ راست حکومت ساڈان کو بھجوا دے اس طرح ہم فارمولا حاصل نہ کر سکیں گے‘‘۔۔۔ ہیری نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
 ’’اوہ۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو ہیری۔ لیکن یہ پاکیشیائی ایجنٹ کہاں ہیں ۔ کیا تم نے انہیں ٹریس کر لیا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’چیف۔ انہیں ٹریس کرنے کے ضرورت ہی نہیں ہے۔ چار گھنٹوں کے اندر اندر انہوں نے بہرحال کیلارڈ سے ملنا ہے اور میں نے کیلارڈ کے نمبر ٹو جانسن کو بھاری رقم دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا ہے کہ وہ مجھے ان کے بارے میں بروقت اطلاع کر دیگا۔ ہمارے آدمی سٹار کلب کے پاس موجود ہوں گے اور نشاندہی ہوتے ہی ہم ان پر ٹوٹ پڑیں گے اور فارمولا ان سے حاصل کر کے انہیں ہلاک کر دیں گے۔ اس سے دو فائدے ہوں گے چیف۔ ایک تو یہ کہ ٹاسکو کا ٹکراؤ بلیک سروس سے نہیں ہو گا کیونکہ بلیک سروس فارمولا فروخت کر کے رقم حاصل کر چکی ہو گی اس لئے اب اس فارمولے کا کیا ہوتا ہے اس سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہو گا اور دوسرا فائدہ یہ کہ پاکیشیائی ایجنٹ بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس طرح ہمارا انتقام بھی پورا ہو جائے گا‘‘۔۔۔ ہیری نے کہا تو جیرٹو کے چہرے پر بے اختیار مسرت کے تاثرات ابھر آئے۔
’’اوہ۔ ویری گڈ ہیری۔ ویری گڈ۔ یہ واقعی بے داغ پلاننگ ہے۔ تم مجھے بتاؤ کہ ایکشن گروپ کے چیف واک کو حکم دے دیتا ہوں ۔ وہ یہ ساری کاروائی مکمل کر لے گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’چیف۔ بہتر یہی ہے کہ واک کو سامنے نہ لایا جائے۔ واک اور اس کے گروپ سے بلیک سروس کا ہر آدمی اچھی طرح واقف ہے۔ اگر کنگ کو اطلاع مل گئی کہ واک اور اس کے گروپ نے سٹار کلب کو گھیر رکھا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ واک کے مقابلے پر اتر آئیں ۔ اس طرح یہ پاکیشیائی ایجنٹ ہوشیار ہو سکتے ہیں اور معاملہ بھی بگڑ سکتا ہے‘‘۔۔۔ ہیری نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اوہ۔ تمہاری بات درست ہے لیکن‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’باس۔ میرا گروپ عام طور پر سامنے نہیں آتا اس لئے میں اپنے گروپ کو وہاں بھجوا دیتا ہوں ۔ اس طرح تمام معاملات آسانی سے حل ہو جائیں گے‘‘۔۔۔ ہیری نے کہا۔
’’لیکن یہ پاکیشیائی ایجنٹ اگر تمہارے گروپ کے قابو میں نہ آئے تو پھر۔ کیونکہ تمہارا گروپ مخبری کرنے والا گروپ ہے ایکشن گروپ نہیں ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’آپ یہ سب باتیں مجھ پر چھوڑی دیں چیف۔ میں ایسے آدمیوں کا انتخاب کروں گا جو ایکشن گروپ سے بھی تیز ثابت ہوں گے۔‘‘ ہیری نے انتہائی اعتماد بھرے لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے لیکن یہ سن لو کہ میں ناکامی کا لفظ نہیں سنوں گا‘‘۔جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ایسا نہیں ہو گا چیف۔ آپ بے فکر رہیں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’اوکے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور رکھ دیا اور میز پر پڑی ہوئی شراب کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگا لی۔ ہیری کی باتوں سے اسے یقین ہو گیا تھا کہ ہیری بہرحال فارمولا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور واقعی اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ بلیک سروس سے ٹکراؤ نہیں ہو گا اور دوسرا فائدہ یہ کہ پاکیشیائی ایجنٹ بھی ختم ہو جائیں گے اور یہ اس کے نقطہ نظر سے ٹاسکو کی بہت بڑی کامیابی تھی اس لئے وہ اب خاصا مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔

٭٭٭٭






سٹارک کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات نمایاں تھے۔ کنگ نے اسے فون پر بتایا تھا کہ اس نے دو کروڑ ڈالرز میں فارمولا پاکیشیائی ایجنٹوں کو فروخت کرنے کا وعدہ کر لیا ہے۔ گو اس نے بتایا تھا کہ اس نے چار گھنٹوں کی مہلت دی ہے لیکن سٹارک کو یقین تھا کہ حکومت پاکیشیا کے لئے چار گھنٹوں کے اندر دو کروڑ ڈالرز ادا کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اس طرح فارمولا پاکیشیائی ایجنٹ واپس حاصل کر لیں گے جبکہ اس نے حکومت ساڈان کو یقین دلا رکھا تھا کہ وہ ایک کروڑ ڈالرز کی حقیر رقم میں ہر صورت میں ٹاپ فارمولا حکومت ساڈان کو ہی دلائے گا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر فارمولا وہ حکومت کو نہ دلا سکا تو اس کا اپنا مستقبل بھی تاریک ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس معاملے میں خاصا پریشان تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں برق کے کوندے کی طرح ایک خیال آیا تو وہ چونک پڑا۔ اس نے جلدی سے سامنے پڑے ہوئے فون کا رسیور اٹھایا اور نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’فریڈ بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی دوسری طرف سے ایک مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’سٹارک بول رہا ہوں فریڈ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’اوہ۔ تم۔ خیریت۔ کیسے فون کیا آج اتنے طویل عرصے بعد۔‘‘ فریڈ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’پہلے یہ بتاؤ کہ کیا کنگ کے سٹار کلب میں تمہارے گروپ کے آدمی موجود ہیں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ہاں ۔ تمہیں معلوم تو ہے کہ میرا مخبری کا سیٹ اپ کامیابی سے چل رہا ہے‘‘۔۔۔ فریڈ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’تو کیا تم میرے لئے ایک چھوٹا سا کام کر سکتے ہو۔ میں تمہیں منہ مانگا معاوضہ دوں گا۔ شرط یہی ہے کہ کام درست انداز میں ہونا چاہئے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’کام کیا ہے۔ یہ بتاؤ پہلے‘‘۔۔۔ فریڈ نے کہا تو سٹارک نے اسے فارمولے کے بارے میں ہونے والی ساری کشمکش کے بارے میں تفصیل بتا دی۔
’’پھر تم کیا چاہتے ہو‘‘۔۔۔ فریڈ نے تفصیل سننے کے بعد کہا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ یہ فارمولا حکومت ساڈان کو ہی ملے۔‘‘ سٹارک نے کہا۔
’’تو تم کنگ کو اڑھائی کروڑ ڈالرز کی آفر کر دو۔ حکومت کے لئے یہ کون سا مشکل کام ہے‘‘۔۔۔ فریڈ نے کہا۔
’’نہیں میں نے حکومت سے وعدہ کر رکھا ہے کہ میں ایک کروڑ ڈالرز میں ہی فارمولا حاصل کر دوں گا۔ اس طرح مستقبل میں مجھے بے حد آسانیاں مل جائیں گی اور پھر حکومت بھی ایک کروڑ ڈالر سے زیادہ ادا کرنے کے موڈ میں نہیں ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’تو پھر تم مجھ سے کیا چاہتے ہو۔ کھل کر بات کرو‘‘۔۔۔ فریڈ نے کہا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ مجھے بروقت معلوم ہو جائے کہ فارمولا پاکیشیائی ایجنٹوں کو دے دیا گیا ہے یا نہیں اور ان پاکیشیائی ایجنٹوں کی بھی نشاندہی ہو جائے ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’یہ کام تو ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کام میرے آدمی بخوبی کر سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ فریڈ نے کہا۔
’’اوکے۔ پھر تم یہ کام ضرور کرو۔ معاوضے کی فکر مت کرو۔ معاوضہ تمہیں مل جائے گا لیکن نشاندہی اور معلومات بروقت اور درست ملنی چاہئیں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ایسا ہی ہو گا۔ کیا اطلاع تمہارے آفس میں دی جائے‘‘۔ فریڈ نے کہا۔
’’میری خصوصی ٹرانسمیٹر فریکوئنسی نوٹ کر لو تم نے اس فریکوئنسی پر مجھے اطلاع دینی ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
 ’’اس جدید دور میں ٹرانسمیٹر کی بات کیوں کر رہے ہو۔ کیا تمہارے پاس موبائل فون نہیں ہے۔ اس پر بھی تو اطلاع دی جا سکتی ہے‘‘۔۔۔ فریڈ نے کہا۔
’’نہیں ۔ موبائل فون محفوظ نہیں ہوتا کیونکہ موبائل فون کمپنی تمام کالوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھتی ہے اور اس سے اہم معلومات خریدی جا سکتی ہیں جبکہ ٹرانسمیٹر کالوں کے سلسلے میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی اس لئے حکومت کے لئے کام کرنے والے اہم معاملات کے لئے موبائل فون استعمال نہیں کرتے‘‘۔۔۔ سٹارک نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں سمجھ گیا۔ بہرحال فریکوئنسی بتا دو تمہیں اطلاع مل جائے گی‘‘۔۔۔ فریڈ نے کہا تو سٹارک نے اسے فریکوئنسی بتا دی۔ ’’اوکے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’سنو۔ مجھے ان پاکیشیائی ایجنٹوں کے حلیے، تعداد اور لباسوں کی تفصیل چاہئے۔ یہ بات نوٹ کر لو‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’میں سمجھتا ہوں ۔ تم چاہتے ہو کہ جیسے ہی یہ پاکیشیائی ایجنٹ سٹار کلب سے باہر آئیں تم ان سے یہ فارمولا حاصل کر لو۔ تم فکر مت کرو۔ تمہیں بروقت اور پوری تفصیل مل جائے گی۔ اس کے بعد کا کام تمہارا اپنا ہو گا‘‘۔۔۔ فریڈ نے کہا۔
’’اوکے۔ میں تمہاری کال کا شدت سے منتظر رہوں گا‘‘۔ سٹارک نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر کریڈل دبایا اور پھر ٹون آنے پر اس نے ایک بار پھر نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’سمتھ کارپوریشن‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
’’ہائیڈن سے بات کراؤ۔ میں سٹارک بول رہا ہوں ‘‘۔ پارک نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
’’ہولڈ کریں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’ہیلو۔ ہائیڈن بول رہا ہوں سٹارک۔ آج کیسے فون کیا ہے۔ کیا کوئی خاص بات ہو گئی ہے‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز سنائی دی۔ لہجہ خاصا بے تکلفانہ تھا۔
’’سپیشل فون نمبر بتاؤ‘‘۔۔۔ سٹارک نے جواب دیا۔
’’اوہ۔ اچھا۔ نوٹ کرو‘‘۔۔۔ ہائیڈن نے چونک کر کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک فون نمبر بتا دیا۔ سٹارک نے کریڈل دبایا اور پھر چند لمحوں تک وہ کریڈل پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا۔ پھر اس نے ہاتھ اٹھایا اور ہائیڈن کے بتائے ہوئے نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’ہائیڈن بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی براہ راست ہائیڈن کی آواز سنائی دی۔
’’ہائیڈن تمہارا خصوصی گروپ کیا ایک اہم کام کرے گا‘‘۔
سٹارک نے کہا۔
’’کیا کسی کو ہلاک کرانا ہے‘‘۔۔۔ ہائیڈن نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
’’ہو سکتا ہے ہلاکت تک نوبت پہنچ جائے اور ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن کام انتہائی تیز رفتاری اور مہارت سے کرانا ہو گا۔ اسی بات کے پیش نظر میں نے تم سے رابطہ کیا ہے ورنہ تم جانتے ہو کہ راگونا میں ایسے گروپوں کی کوئی کمی نہیں ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’اس اعتماد کا شکریہ۔ تم کام تو بتاؤ‘‘۔۔۔ ہائیڈن نے کہا۔
’’بلیک سروس کے ہیڈ کوارٹر سٹار کلب کے انچارج کیلارڈ سے چند پاکیشیائی ایجنٹ ملیں گے۔ وہ اسے دو کروڑ ڈالرز کی بینک رسید دے کر ایک سائنسی فارمولا جو مائیکرو فلم کی شکل میں ہے وصول کریں گے۔ میں یہ فارمولا اس وقت حاصل کرنا چاہتا ہوں جب یہ پاکیشیائی ایجنٹ سٹار کلب سے باہر آ جائیں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’اوہ۔ یہ تو انتہائی آسان معاملہ ہے جبکہ تم نے تو ایسی بات کی تھی جیسے کوئی خوفناک مسئلہ ہو‘‘۔۔۔ ہائیڈن نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’بظاہر یہ آسان معاملہ نظر آ رہا ہے لیکن اسے اتنا آسان بھی نہ سمجھنا۔ یہ پاکیشیائی ایجنٹ انتہائی تربیت یافتہ لوگ ہیں ‘‘۔ سٹارک نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ ان کی تعداد، ان کے حلیے اور اس فارمولے کے بارے میں مزید تفصیل‘‘۔۔۔ ہائیڈن نے پوچھا۔
’’تم اپنے گروپ کو سٹار کلب کے باہر تعینات کرا دو اور اس گروپ کے انچارج کی خصوصی ٹرانسمیٹر فریکوئنسی مجھے بتا دو۔ مجھے اس وقت ٹرانسمیٹر پر تفصیلات ملیں گی جب یہ لین دین کلب میں ہو رہا ہو گا۔ میں ان کے بارے میں تمام تفصیلات تمہارے آدمی کو ٹرانسمیٹر پر بتا دوں گا۔ اس کے بعد مجھے بہر حاصل فارمولا چاہیے۔ چاہے تم اس سارے گروپ کو ہلاک کر کے حاصل کرو چاہے زخمی کر کے۔ البتہ اس کا خیال رکھنا کہ سٹار کلب کے احاطے میں فائرنگ نہیں ہونی چاہیے ورنہ بلیک سروس والے ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’میں سمجھتا ہوں ۔ تم بے فکر رہو۔ اس کا معاوضہ البتہ ڈبل دینا ہو گا‘‘۔۔۔ ہائیڈن نے کہا۔
’’تم تین گنا معاوضہ لے لینا لیکن کام بے داغ انداز میں ہونا چاہیے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’اوکے۔ پھر میرے خصوصی گروپ کے انچارج مائیک کی خصوصی ٹرانسمیٹر فریکوئنسی نوٹ کر لو۔ تم اسے تفصیل بتا دینا۔ باقی کام وہ خود کر لے گا۔ تمہیں بہرحال فارمولا مل جائے گا‘‘۔۔۔ ہائیڈن نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ٹرانسمیٹر فریکوئنسی بتا دی۔
’’اوکے میں ٹرانسمیٹر پر مائیک کو تفصیل بتا دوں گا‘‘۔ سٹارک نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور رکھ دیا۔ اب اس کے چہرے پر اطمینان کے تاثرات ابھر آئے تھے کیونکہ ہائیڈن کے اس خصوصی گروپ کی کارکردگی سے وہ اچھی طرح واقف تھا اس لئے اسے یقین تھا کہ وہ فارمولا بھی حاصل کر لے گا اور کسی یہ علم بھی نہ ہو سکے گا کہ فارمولا کون لے گیا ہے۔ اس طرح حکومت ساڈان کے سامنے بھی وہ سرخرو ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ صرف کمیشن ہی نہیں بلکہ پورے ایک کروڑ ڈالرز بھی اس کے ذاتی اکاؤنٹ میں پہنچ جائیں گے۔


٭٭٭٭





 ’’عمران صاحب کیا اس بار مشن مکمل کرنے کا آسان راستہ تلاش نہیں کیا‘‘۔۔۔ اچانک صفدر نے کہا تو کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا عمران بے اختیار چونک پڑا۔ عمران اپنے ساتھیوں سمیت کار میں سوار سٹار کلب کی طرف بڑھا چلا جا رہا تھا۔ اس نے ایک کلب سے دو کروڑ ڈالرز نہ صرف آسانی سے جیت لئے تھے بلکہ انہیں کیلارڈ کے بتائے ہوئے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرا کر اسنے کیلارڈ کو بینک مینجر سے فون بھی کرا دیا تھا تا کہ کیلارڈ اپنے کنگ کو اطلاع دے کر اس سے فارمولا منگوا سکے اور اب وہ کار میں سوار سٹار کلب کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے تا کہ سی ٹاپ فارمولا حاصل کر سکیں ۔ عمران ڈرائیونگ سیٹ پر تھا جبکہ سائیڈ سیٹ پر جولیا اور عقبی سیٹ پر صفدر، کیپٹن شکیل اور تنویر موجود تھے۔ وہ سب ایکریمی میک اپ میں تھے۔
’’کیا مطلب۔ میں سمجھا نہیں تمہاری بات‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’رقم دے کر فارمولا حاصل کرنے کی بات کر رہا ہوں ‘‘۔ صفدر نے کہا۔
’’ہاں ۔ میں نے کوشش تو کی ہے کہ آسان راستہ اختیار کروں لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ اتنا آسان بھی ثابت نہ ہو جتنا تم سمجھ رہے ہو‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو صفدر سمیت سب ساتھی عمران کی بات سن کر بے اختیار چونک پڑے۔
’’اب کیا الجھن رہ گئی ہے۔ رقم ہم نے ادا کر دی ہے اور فارمولا ہمیں واپس مل جائے گا اور کیا ہو گا‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’ ہو سکتا ہے کہ کنگ اتنی آسانی سے دو کروڑ ڈالرز ہاتھ آ جانے پر مزید رقم کا لالچ کرے اور دوسری بات بلیک سروس کے علاوہ ٹاسکو بھی اس فارمولے کو حاصل کر کے فروخت کرنے کی کوشش میں ہے۔ وہ مداخلت کریں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ بھی نہ ہو اور فارمولا حفاظت سے پاکیشیا پہنچ جائے۔ بہرحال ہمیں محتاط ضرور رہنا چاہئے‘‘۔۔۔ عمران نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
’’اس بار کیا تم فارمولا دوبارہ کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجواؤ گے یا ساتھ لے جاؤ گے‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’دیکھو۔ یہ بات بعد میں سوچ لیں گے۔ فی الحال فارمولا تو ملے ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’کیا بات ہے عمران صاحب۔ آپ نے جس انداز میں جواب دیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے ذہن میں کوئی خاص الجھن موجود ہے‘‘۔۔۔ خاموش بیٹھے ہوئے کیپٹن شکیل نے پہلی بار بات کرتے ہوئے کہا۔
’’الجھن مجھے نہیں ہے۔ میری چھٹی حس کو درپیش ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ کنوئیں کی مٹی کنوئیں پر لگا کر اپنا مشن مکمل کر لوں لیکن یہ چھٹی حس صاحبہ بار بار کہہ رہی ہے کہ شاید ایسا نہ ہو‘‘۔ عمران نے مسکرا کر جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اس کا تو مطلب ہے کہ ہمیں بہرحال محتاط رہنا ہو گا۔‘‘ کیپٹن شکیل نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔ اس لئے میں نے پہلے بھی محتاط رہنے کی بات کی تھی۔‘‘ عمران نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے کار کی رفتار آہستہ کر کے اس کا رخ سٹار کلب کے عقبی کمپاؤنڈ گیٹ کے اندر موڑا اور پھر وہ کار کو سائیڈ پر بنی ہوئی وسیع و عریض پارکنگ کی طرف لے گیا۔ پارکنگ میں کار روک کر وہ نیچے اترے اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتے مین گیٹ کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ اس بار کاؤنٹر پر ان کا استقبال انتہائی خوش دلی سے کیا گیا اور چند لمحوں بعد ہی انہیں کیلارڈ کے اس آفس میں پہنچا دیا گیا جہاں پہلے ان کی ملاقات کیلارڈ سے ہوئی تھی۔
’’خوش آمدید جناب‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے اٹھ کر مسکراتے ہوئے باقاعدہ ان کا استقبال کرتے ہوئے کہا۔
’’شکریہ‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور پھر وہ سب میز کی دوسری طرف کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ البتہ عمران کے ساتھیوں کے جسم تنے ہوئے تھے اور وہ اس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے جیسے کسی بھی لمحے وہ ایکشن میں آ جائیں گے۔
’’یہ رسید‘‘۔۔۔ عمران نے جیب سے بینک کی رسید نکال کر کیلارڈ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ مجھے بینک مینجر نے بتا دیا تھا اس لئے میں نے چیف کو اطلاع دے دی تھی۔ فارمولا ابھی تھوڑی دیر میں پہنچ جائے گا۔
آپ بتائیں کہ اس دوران آپ کیا پینا پسند کریں گے‘‘۔ کیلارڈ نے رسید لے کر اسے میز کی دراز میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’پینے پلانے کی بات بعد میں ہوتی رہے گی۔ کیا آپ کا چیف فارمولا خود لے آئے گا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’اوہ نہیں ۔ اس کا آدمی دے جائے گا۔ کیوں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے چونک کر پوچھا۔
’’کیا فارمولا یہاں راگونا میں موجود ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’ہاں ۔ لیکن آپ کیوں بار بار یہ بات کر رہے ہیں ۔ کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے‘‘۔ کیلارڈ نے اس بار قدرے سخت لہجے میں کہا۔
’’وجہ یہ ہے مسٹر کیلارڈ کہ ہمارے پاس حتمی اطلاع موجود ہے کہ تمہارا چیف راگونا کی بجائے کنشاکا ریاست کے دارالحکومت ٹسام میں موجود ہے اور یقیناً فارمولا اس کے پاس ہو گا اور ٹسام سے یہاں کا فضائی سفر تین گھنٹوں پر محیط ہے۔ پھر اتنی جلدی فارمولا یہاں کیسے پہنچ سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو کیلارڈ کے چہرے پر انتہائی حیرت کے تاثرات ابھر آئے۔
’’کمال ہے۔ آپ تک ایسی اطلاعات کیسے پہنچ جاتی ہیں ۔ بہر حال اب جبکہ تمام معاملات طے ہو چکے ہیں اب چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ چیف باس واقعی ٹسام میں ہے لیکن جب میں نے اسے بینک میں رقم جمع ہونے کی اطلاع دی تو اس نے بتایا کہ وہ فارمولا اپنے ساتھ نہیں لے گیا تھا۔ فارمولا یہیں چیف کے خاص آدمی کے پاس ہے اور چیف نے اس آدمی کو کہہ دیا ہے کہ وہ فارمولا مجھے پہنچا دے گا‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’اوکے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن کیا یہاں مائیکرو پروجیکٹر مل جائے گا‘‘۔۔۔ عمران نے پوچھا۔
’’مائیکرو پروجیکٹر۔ وہ کیا ہوتا ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے چونک کر پوچھا۔
’’اس فلم کو چیک بھی تو کرنا ہے کہ تمہارے چیف نے درست فلم بھجوائی ہے یا نہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو کیلارڈ کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ چیف غلط فلم کیوں بھجوائے گا جبکہ چیف کو اس کی مطلوبہ رقم مل گئی ہے۔ معاف کیجئے ہم غلط کام نہیں کیا کرتے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے قدرے غصیلے لہجے میں کہا۔
’’اوکے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر بعد فون کی گھنٹی بج اٹھی تو کیلارڈ نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’اوہ اچھا۔ اسے میرے آفس بھجوا دو‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے دوسری طرف سے بات سن کر کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور رکھ دیا۔
’’چیف باس کا خاص آدمی فارمولا لے آیا ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا تو عمران نے اثبا ت میں سر ہلا دیا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک نوجوان اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا جسے اس نے اخبار میں لپیٹ رکھا تھا۔ اس نے کیلارڈ کو سلام کیا اور پیکٹ اس کے سامنے رکھ دیا۔
’’ٹھیک ہے تم اب جا سکتے ہو‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا تو وہ آدمی خاموشی سے مڑ کر واپس چلا گیا تو کیلارڈ نے اخبار میں لپٹا ہوا پیکٹ اٹھا کر عمران کی طرف بڑھا دیا۔ عمران نے اخبار ہٹایا اور اس کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ رینگنے لگی کیونکہ یہ وہی پیکٹ تھا جو اس نے کورئیر سروس پر بک کرایا تھا۔ اس کی سیلیں بھی موجود تھیں اور اس پر پتے بھی موجود تھے۔
’’شکریہ۔ کیلارڈ۔ اب ہمیں اجازت دیں ‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور پیکٹ جیب میں ڈال کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ کیلارڈ بھی اٹھ کھڑا ہوا اورعمران کے ساتھی بھی کھڑے ہو گئے۔
’’اوکے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے مسکراتے ہوئے کہا اور عمران اس سے مصافحہ کر کے مڑا اور کمرے سے باہر آگیا۔
’’کیا آپ مطمئن ہیں عمران صاحب ‘‘۔۔۔ صفدر نے راہداری میں آتے ہی کہا۔
 ’’کس بات سے‘‘۔۔۔ عمران نے چونک کر پوچھا۔
’’فارمولے کے بارے میں کہ یہ اصل ہی ہے‘‘۔ صفدر نے کہا۔
’’ہاں ۔ اس کا پیکٹ وہی ہے جو میں نے خود تیار کیا تھا اور میری مخصوص نشانیاں اس پر موجود ہیں اور ان نشانیوں کی موجودگی سے ثابت ہوتا ہے کہ اسے کھولا ہی نہیں گیا اس لئے لا محالہ یہ اصل ہی ہو گا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور صفدر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہال سے باہر آ کر وہ پارکنگ میں پہنچے اور پھر چند لمحوں بعدان کی کار کلب کے کمپاؤنڈ گیٹ سے نکل کر دائیں طرف مڑی اور تیزی سے آگے بڑھی چلی گئی۔ ان سب کے چہروں پر اب اطمینان کے تاثرات ابھر آئے تھے کیونکہ ان کے تمام خدشات غلط نکلے تھے۔
’’اب آپ کی چھٹی حس کیا کہہ رہی ہے عمران صاحب‘‘۔ صفدر نے مسکرا تے ہوئے کہا۔
’’وہی جو اسے کہنا چاہیے کیونکہ ہمارا تعاقب ہو رہا ہے‘‘۔ عمران نے کہا تو جولیا سمیت سب بے اختیار چونک اٹھے۔
’’تعاقب ہو رہا ہے کیا مطلب‘‘۔۔۔ جولیا نے حیران ہو کر کہا۔
’’ایک نیلے رنگ کی کار کلب سے ہمارے پیچھے ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’اوہ۔ لیکن جب معاملات طے ہو گئے ہیں تو پھر۔‘‘ جولیا نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’دیکھو‘‘۔ عمران نے مختصر سا جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے چوک سے کار کا رخ دائیں طرف جانے والی سڑک پر موڑ دیا۔
’’ہوشیار رہنا میں کار جان بوجھ کر غیر آباد علاقے کی طرف لے جا رہا ہوں تا کہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’کیا وہ کار اب بھی پیچھے آ رہی ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔ ظاہر ہے عمران ڈرائیونگ سیٹ پر تھا اس لئے وہی سائیڈ مر ر سے اپنے تعاقب میں آنے والی کار کو چیک کر سکتا تھا۔
’’ہاں ‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا لیکن ابھی اسے جواب دئیے ہوئے چند سیکنڈز ہی گزرے تھے کہ اچانک سر ر کی تیز آواز سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی ایک خوفناک دھما کہ ہوا اور عمران کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ کار سمیت فضا میں کسی تیز رفتار پرندے کی طرح پرواز کر رہا ہو۔ اس کے بعد اس کے ذہن پر تاریکی کا پردہ پھیلتا چلا گیا۔

****



یرٹو اپنے آفس میں موجود تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی اور جیرٹو نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے رسیور اٹھا کر سخت لہجے میں کہا۔
’’ہیری بول رہا ہوں باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ہیری کی مسرت بھری آوازی سنائی دی اور ہیری کی آواز اور لہجے کو سن کر جیرٹو کی آنکھیں خود بخود چمک اٹھی تھیں کیونکہ اسے احساس ہو گیا تھا کہ فارمولا ہیری کو مل چکا ہے۔
’’کیا ہوا ہیری۔ کیا فارمولا مل گیا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے بے چین سے لہجے میں کہا۔
’’یس باس۔ فارمولا اس وقت میرے پاس موجود ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں خود اسے لے کر آپ کے آفس آ جاؤں ۔‘‘ ہیری نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’ہاں ۔ آ جاؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے اطمینان بھرا طویل سانس لیتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے کریڈل دبایا اور پھر پیس کے نیچے موجود بٹن پریس کر دیا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے اس کے پی اے کی مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’ہیری آ رہا ہے۔ اسے میرے آفس بھجوا دینا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا اور رسیور رکھ دیا۔ پھر تقریباً آدھے گھنٹے بعد آفس کا دروازہ کھلا اور ہیری اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر کامیابی اور مسرت کے تاثرات نمایاں تھے۔ اس نے اندر داخل ہو کر بڑے مؤدبانہ انداز میں سلام کیا۔
’’آؤ ہیری۔ بیٹھو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے نرم لہجے میں کہا اور ہیری نے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک بند پیکٹ نکالا اور اسے جیرٹو کے سامنے میز پر رکھ دیا۔
’’یہ فارمولے والی فلم ہے لیکن یہ تو باقاعدہ پیکٹ بنایا گیا ہے‘‘۔ جیرٹو نے پیکٹ اٹھا کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یس باس۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ پاکیشیائی ایجنٹوں نے اسے کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجوایا تھا جہاں سے بلیک سروس کے مارٹن نے اسے حاصل کر کے کنگ تک پہنچایا اور کنگ نے اسے ویسے ہی رہنے دیا‘‘۔۔۔ ہیری نے جواب دیا۔
’’ہونہہ۔ ٹھیک ہے۔ اب تفصیل بتاؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے فارمولا میزکی دراز کھول کر اس میں رکھتے ہوئے کہا اور پھر دراز بند کر دی۔
’’باس۔ میرا گروپ سٹار کلب کے باہر موجود تھا لیکن پھر اچانک انہیں معلوم ہوا کہ سمتھ کارپوریشن کے ہائیڈن کا خصوصی گروپ بھی وہاں پہنچ گیا اور انہوں نے جس انداز میں سٹار کلب کے باہر پوزیشنیں سنبھالی تھیں اس سے میرا گروپ سمجھ گیا کہ وہ بھی اسی چکر میں ہیں ۔ میرے گروپ کا انچارج روکسن ہائیڈن کے گروپ انچارج مائیک کو جانتا تھا جبکہ مائیک کے خیال کے مطابق میرا گروپ صرف مخبری کا کام کرتا ہے اس لئے روکسن نے جب مائیک سے یہاں اس کی موجودگی کے بارے میں پوچھا تو اس نے پھر بھی یہی سمجھا کہ روکسن کی مخبری کی وجہ سے معلومات حاصل کر رہا ہے۔اس نے اسے بتا دیا کہ وہ یہاں ایک خصوصی مشن پر آیا ہے اور اس نے پاکیشیائی ایجنٹوں سے کوئی سائنسی فارمولا حاصل کرنا ہے۔ اس پر روکسن کنفرم ہو گیا اور چونکہ مائیک اور اس کے چار ساتھی بہرحاصل روکسن اور اس کے ساتھیوں سے زیادہ تربیت یافتہ، فعال اور تیز تھے۔ اس لئے روکسن نے مجھے کال کیا اور صورت حال بتائی تو میں نے روکسن کو ہدایت دے دی کہ وہ خاموشی سے پیچھے ہٹ جائے اور جب مائیک پاکیشیائی ایجنٹوں سے فارمولا حاصل کر لے تو پھر اچانک ان پر ریڈ کر کے ان سے فارمولا حاصل کر لیاجائے۔ چنانچہ روکسن نے ایسا ہی کیا۔ مائیک کو اطلاع مل چکی تھی کہ پاکیشیائی ایجنٹوں کی تعداد پانچ ہے جن میں ایک عورت اور چار مرد شامل ہیں اور یہ پانچوں ایکریمی بنے ہوئے ہیں ۔ شاید اسے حلیئے بھی بتا دیے گئے تھے۔وہ باربار ٹرانسمیٹر کال رسیور کر رہا تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد پانچ ایکریمی کلب سے باہر آئے۔ ایک عورت اور چار مرد۔ وہ آپس میں باتیں کرتے ہوئے پارکنگ کی طرف بڑھ گئے۔ وہ کار لے کر کلب سے باہر نکلے تو مائیک نے اپنے ساتھیوں سمیت نیلے رنگ کی کار میں ان کا تعاقب شروع کر دیا۔
 روکسن نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت اس کا تعاقب کیا۔ مائیک بڑے ماہرانہ انداز میں تعاقب کر رہا تھا لیکن شاید اسے روکسن کی طرف سے تعاقب کی کوئی توقع ہی نہ تھی۔ میرا گروپ بہرحال نگرانی کرنے اور مخبری کرنے میں تو ماہر ہے اس لئے روکسن اور اس کے ساتھی انہیں چیک نہ کر سکے۔ پاکیشیائی ایجنٹوں کی کار اور مائیک کی کار ایک غیر آباد علاقے کی طرف مڑ گئیں ۔ اس سڑک پر ٹریفک خاصی کم تھی۔ پھر اچانک مائیک نے عجیب وار کیا۔ اس کی کار سے کوئی میزائل نما چیز نکلی اور ان پاکیشیائی ایجنٹوں کی کار کے نیچے جا گر ی اورخوفناک دھماکے کے ساتھ کار فضا میں اچھل کر قلابازی کھاتی ہوئی سڑک کی دوسری سائیڈ پرجا گری تو ٹریفک رک گئی اور وہ لوگ کاروں سے اتر کر اس الٹی ہوئی کار کی طرف بڑھنے لگے جبکہ مائیک اور اس کے ساتھی سب سے پہلے اس الٹی ہوئی کار تک پہنچے اور انہوں نے اندر موجود زخمیوں اور بے ہوش افراد کو باہر نکالا۔ باقی افراد بھی ان کی مدد کرنے لگے۔ اچانک مائیک اور اس کے ساتھی انہیں چھوڑ کر واپس پلٹے اور اپنی کار میں بیٹھ گئے اور روکسن سمجھ گیا کہ وہ فارمولا حاصل کر چکے ہیں ۔ مائیک نے کار آگے بڑھا دی۔ روکسن نے اس کا پیچھا کیا اور پھر ایک غیر آباد علاقے میں اس نے کار کے ٹائروں پر فائر کی اور کار رک گئی۔ مائیک اور اس کے ساتھی باہر نکلے ہی تھے کہ روکسن اور اس کے ساتھیوں نے ان پر فائر کھول دیا اور وہ سنبھلنے سے پہلے ہی ہلاک ہو گئے۔ روکسن نے مائیک کی تلاشی لی تو اس کی جیب سے یہ پیکٹ مل گیا اور وہ یہ پیکٹ لے کر فوراً وہاں سے نکل آیا اور پھر اس نے یہ پیکٹ مجھ تک پہنچا دیا اور پوری رپورٹ بھی دے دی۔ میں نے انہیں کچھ عرصے کے لئے انڈر گراؤنڈ ہونے کا کہہ دیا ہے تا کہ اگر پولیس تک ان کے بارے میں معلومات پہنچ بھی جائیں تو وہ انہیں تلاش نہ کر سکے‘‘۔۔۔ ہیری نے پوری تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’ان پاکیشیائی ایجنٹوں کا کیا ہوا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے پوچھا۔
’’روکسن نے بتایا تھا کہ وہ جس انداز میں زخمی تھے شاید ہی بچ سکیں ‘‘۔۔۔ ہیری نے جواب دیا۔
’’لیکن یہ ہائیڈن کا گروپ کیوں اس فارمولے کے پیچھے تھا۔ کیا وہ بلیک سروس کے لئے کام کر رہا تھا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’اوہ نہیں باس۔ بلیک سروس نے تو فارمولا فروخت کر دیا اور رقم وصول کر لی ہے۔ اگر ان کی نیت خراب ہوتی تو وہ فارمولا ہی واپس نہ کرتے اور ان پاکیشیائی ایجنٹوں کو وہیں کلب کے اندر آسانی سے ہلاک کیا جا سکتا تھا۔ پھر بلیک سروس کے اپنے گروپ ہیں ، انہیں ہائیڈن کو ہائر کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ ہیری نے جواب دیا۔
’’ہاں ۔ تمہاری بات درست ہے لیکن پھر اور کون سی پارٹی اس فارمولے کے پیچھے تھی اور اسے کیسے یہ سب کچھ معلوم تھا کہ فارمولا پاکیشیائی ایجنٹ کس وقت اور کہاں سے حاصل کر رہیں ‘‘۔ جیرٹو نے کہا۔
’’کیا یہ معلوم کرنا ضروری ہے باس‘‘۔۔۔ ہیری نے کہا۔
’’ہاں ۔ تا کہ مجھے معلوم ہو سکے کہ یہ کون لوگ ہیں اور ہم ان سے نمٹ سکیں ورنہ یہ لوگ لا محالہ ہمارے پیچھے بھی پڑ سکتے ہیں اور سنو ان پاکیشیائی ایجنٹوں کے بارے میں بھی معلوم کرو کہ ان کا کیا ہوا۔ اگر وہ زخمی ہیں تو انہیں بھی ہلا ک کرا دو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’باس۔ اس کے لئے ہائیڈن کو اغواء کرانا پڑے گا اور اس پر تشدد کرنا ہو گا۔ پھر ہی وہ زبان کھولے گا ورنہ ویسے تو معلوم نہیں ہو سکتا‘‘۔۔۔ ہیری نے کہا۔
’’کیا مطلب۔ کیا ہائیڈن اب اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ ٹاسکو سے معاملات چھپائے۔ اس کی یہ جرأت۔ میں اس کو اس کے پورے گروپ سمیت تباہ کر دوں گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے انتہائی غصیلے لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور اٹھایا اور پھر فون پیس کے نیچے لگا ہوا بٹن پریس کر دیا۔
’’یس باس۔ ‘‘دوسری طرف سے ایک مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’سمجھ کارپوریشن کے ہائیڈن سے میری بات کراؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی رسیور رکھ دیا۔ ہیری خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ چند لمحوں بعد فون کی گھنٹی بج اٹھی تو جیرٹو نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا یا اور پھر ساتھ ہی اس نے لاؤڈ سپیکر کا بٹن بھی پریس کر دیا۔ شاید وہ ہیری کو ہائیڈن سے ہونے وا لی بات چیت سنوانا چاہتا تھا۔
 ’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’ہائیڈن لائن پر ہے باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے پی اے کی مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’ہیلو۔ جیرٹو بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’یس۔ ہائیڈن بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز سنائی دی۔
’’ہائیڈن۔ کیا اب تمہاری یہ جرأت ہو گئی ہے کہ تم ہمارے مال پر ہاتھ صاف کر لو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ پاکیشیائی ایجنٹ جو فارمولا سٹار کلب سے حاصل کر رہے ہیں وہ ہماری ملکیت ہے۔ پھر تم نے اپنا گروپ وہاں کیوں بھیجا۔ بولو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے پھاڑ کھا نے والے لہجے میں کہا۔
’’اوہ۔ مجھے تو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ مجھے تو ٹاسک دیا گیا تھا اور معاوضہ لے کر میں نے کام کی حامی بھری۔ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اس کام میں ہاتھ ہی نہ ڈالتا۔ تو کیا میرے گروپ کو آپ کے آدمیوں نے ہلاک کیا ہے‘‘۔۔۔ ہائیڈن نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ہاں ۔ ہم نے فارمولا ان پاکیشیائی ایجنٹوں سے حاصل کرنا تھا لیکن درمیان میں تمہارے آدمی کود پڑے اس لئے مجبوراً ایسا کرنا پڑا۔ کس نے تمہیں ٹاسک دیا تھا‘‘۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ویسے تو شاید میں کبھی نہ بتاتا لیکن آپ سے نہیں چھپا سکتا۔ مجھے ٹاسک حکومت ساڈان کے ایجنٹ سٹارک نے دیا تھا‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’تم نے یہ بات کر کے اپنی زندگی اور اپنے باقی گروپ کو بچا لیا ہے۔ بہرحال تمہارے آدمیوں کی ہلاکت کا معاوضہ تمہیں پہنچ جائے گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے کریڈل دبایا اور پھر فون پیس کے نیچے موجود بٹن کو پریس کر دیا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے پی اے کی آواز سنائی دی۔
’’سٹارک سے میری بات کراؤ‘‘۔ جیرٹو نے کہا اور رسیور رکھ دیا۔
’’ہونہہ۔ تو سٹارک نے یہ چکر چلایا تھا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے رسیور رکھ کر بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’یس باس۔ اس طرح وہ شاید بالا ہی بالا فارمولا حاصل کرنا چاہتا تھا‘‘۔۔۔ ہیری نے کہا۔ اسی لمحے گھنٹی ایک بار پھر بج اٹھی تو جیرٹو نے رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے سخت لہجے میں کہا۔
’’سٹارک لائن پر ہے باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
چونکہ لاؤڈر کا بٹن پہلے ہی دبا ہوا تھا اس لئے دوسری طرف کی آواز ہیری کو بخوبی سنائی دے رہی تھی۔
’’ہیلو۔ جیرٹو بول رہا ہوں سٹارک۔ تم نے ہائیڈن کے گروپ کے ذریعے بالا ہی بالا سی ٹاپ فارمولا اڑانے کی کوشش کی تھی۔ کیوں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’کوشش کرنا تو فر ض ہوتا ہے جیرٹو۔ اب یہ اور بات کہ کوشش کامیاب ہوتی ہے یا نہیں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے سٹارک کی آواز سنائی دی۔
’’تمہارا تعلق چونکہ حکومت ساڈان سے ہے سٹارک اس لئے میں نے تمہاری یہ گستاخی معاف کر دی ہے لیکن آئندہ اگر تم نے ٹاسکو کے مقابل آنے کی کوشش کی تو کسی حقیر کیڑے کی طرح کچل دئیے جاؤ گے۔ سمجھے ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے انتہائی سخت لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور رکھ دیا۔
’’اس کے لئے یہ سزا کافی ہے کہ اب یہ فارمولا حکومت ساڈان کسی قیمت پر بھی نہ خرید سکے گی۔ او کے تم جا سکتے ہو ہیری۔ تمہیں تمہارا انعام پہنچ جائے گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا تو ہیری اٹھا اور سلام کر کے واپس بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔


٭٭٭٭







 عمران کے تاریک ذہن میں روشنی آہستہ آہستہ پھیلتی چلی گئی اور پھر جیسے ہی اس کی آنکھیں کھلیں اس کے ذہن میں بے ہوش ہونے سے پہلے کا منظر کسی فلم کی طرح گھوم گیا۔ جب سر ر کی آواز کے ساتھ ہی خوفناک دھما کہ ہوا تھا اور عمران کو ایک لمحے کے ہزارویں حصے کے لئے محسوس ہوا تھا جیسے وہ کار سمیت فضا میں کسی پرندے کی طرح اڑتا چلا جا رہا ہو۔ اس کے ساتھ ہی عمران کا شعور پوری طرح بیدار ہو گیا اور اس نے لاشعوری طور پر اٹھنے کی کوشش کی تو اس کے جسم میں درد کی تیز لہریں سی دوڑتی چلی گئیں ۔ البتہ اس کے جسم نے معمولی سی حرکت کی تھی۔ اس نے سر ادھر ادھر گھمایا تو اسے معلوم ہو گیا کہ وہ کسی ہسپتال کے بڑے سے وارڈ میں بستر پر موجود ہے۔ ساتھ والے بیڈز پر اس کے ساتھی موجود تھے۔ عمران کے اپنے جسم پر اور اس کے ساتھیوں کے جسموں پر سرخ رنگ کے کمبل موجود تھے۔ وارڈ میں کئی نرسیں موجود تھیں جو ادھر ادھر مریضوں کو چیک کر رہی تھیں ۔ عمران کے سارے ساتھیوں کی آنکھیں بند تھیں ۔
’’میں کہاں ہوں ‘‘۔۔۔ عمران نے ایک نرس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کہاتو وہاں موجود تمام نرسیں بے اختیار چونک پڑیں ۔
’’اوہ۔ اس مریض کو بھی ہو ش آگیا ہے۔ گڈ گاڈ ‘۔۔۔ ایک نرس نے کہا اور پھر وہ تیزی سے عمران کے بیڈ کی طرف آئی۔
’’میں کس ہسپتال میں ہوں سسٹر‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’سٹی ہسپتال میں ۔ تم کافی دیر سے بے ہوش تھے اور ڈاکٹروں کی کوشش کے باوجود تمہیں ہوش نہ آ رہا تھا اس لئے تمہارا کیس سیریس ہوتا جا رہا تھا لیکن اب تمہیں ہو ش آگیا ہے۔ اب تم خطرے سے باہر ہو۔ میں ڈاکٹر ریمنڈ کو رپورٹ دے دوں ‘‘۔ نرس نے ہمدردانہ لہجے میں کہا اور تیزی سے مڑ کر ایک طرف بنے ہوئے چھوٹے سے کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئی جس پر فون موجود تھا جبکہ عمران دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا تھا جس نے اسے اس قدر خوفناک حادثے کے باوجود زندگی بخش دی تھی۔
’’میرے ساتھیوں کی کیا پوزیشن ہے‘‘۔۔۔ عمران نے نرس کے واپس بیڈ کے پاس پہنچنے کے بعد کہا۔
’’تم سمیت سب شدید زخمی تھے لیکن اب یہ سب ٹھیک ہیں البتہ انہیں ریسٹ دینے کے لئے بے ہوشی کے انجکشن لگا دئیے ہیں ‘‘۔۔۔ نرس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میرا جسم حرکت نہیں کر رہا۔ کیا ہوا ہے اسے ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا لیکن اسی لمحے ہال کا دروازہ کھلا اور ایک سفید بالوں والا ڈاکٹر تیزی سے اس کی طرف بڑھنے لگا۔
’’تمہیں ہو ش آگیا۔ اچھا ہوا۔ ورنہ ہم تو اب مایوس ہوتے جا رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ تمہیں سپیشل ہسپتال منتقل کر دیا جائے‘‘۔۔۔ ڈاکٹر نے قریب آ کر مسکراتے ہوئے کہا اور پھر اس نے عمران کا معائنہ شروع کر دیا۔
’’مجھے کتنے گھنٹے بعد ہو ش آیا ہے ڈاکٹر ریمنڈ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو ڈاکٹر ریمنڈ بے اختیار چونک پڑا۔ اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے تھے۔
’’تم میرا نام کیسے جانتے ہو۔ میں تو تمہیں نہیں جانتا‘‘۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا۔
’’سسٹر نے آپ کا نام لیا تھا‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا تو ڈاکٹر نے ایک طویل سانس لیا۔
’’اوہ اچھا۔ بہرحال تمہاری اس بات سے ثابت ہو گیا ہے کہ تم ذہنی طور پر ہر لحاظ سے او کے ہو۔ البتہ تمہیں چار روز بعد ہوش آیا ہے‘‘۔۔۔ ڈاکٹر ریمنڈ نے کہا۔
’’چار روز بعد۔ خاصا وقت گزر گیا ہے۔ میرا جسم حرکت کیوں نہیں کر رہا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’تم اور تمہارے ساتھی خاصے زخمی تھے اس لئے تمہارے جسم کلپ کر دئیے گئے تھے لیکن اب تم سب ٹھیک ہو۔ میں کلپ کھلوا دیتا ہوں ‘‘۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے نرس سے کہا کہ وہ عمران کے کلپ کھول دے اور اس کے ساتھ ہی وہ واپس مڑگیا۔
  ’’ہمیں یہاں کس نے پہنچایا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے نرس سے پوچھا۔
’’وہاں سے گزرتے ہوئے شہریوں نے۔ پولیس کیس ہے۔ پولیس کے مطابق اس کار کے نیچے سولو بم فائر کیا گیا تھا جس کی وجہ سے تمہاری کار ہوا میں اچھل کر قلابازی کھاتی ہوئی سائیڈ پر جا گری لیکن چونکہ بڑی اور مضبوط باڈی کی کار تھی اس لئے تم لوگ بچ گئے ورنہ شاید تمہاری ساری ہڈیاں ٹوٹ جاتیں ‘‘۔۔۔ نرس نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’سولو تو سورج کی انرجی کو کہتے ہیں ۔ یہ سولو بم کیا ہوتا ہے‘‘۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مجھے نہیں معلوم۔ میں نے تو بس یہ نام سنا ہوا ہے‘‘۔۔۔ نرس نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’میرے ساتھی کب ہوش میں آئیں گے اور ہمیں یہاں سے کب رخصت ملے گی‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’اس کا فیصلہ تو ڈاکٹر ریمنڈ ہی کر سکتے ہیں ۔ ویسے پولیس تم سے بیان لے گی۔ تمہارے ساتھیوں نے تو صرف اتنا بیان دیا ہے کہ وہ سب سٹار کلب میں تفریح کے لئے گئے تھے۔ وہاں سے واپس جا رہے تھے کہ اچانک دھما کہ ہوا اور پھر وہ بے ہوش ہو گئے‘‘۔۔۔ نرس نے کہا اور عمران نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر کچھ دیر بعد ڈاکٹر ریمنڈ دو پولیس آفیسروں کے ساتھ واپس آیا۔ ان پولیس آفیسروں نے رسمی سا بیان لیا اور پھر واپس چلے گئے۔ عمران کے اصرار پر ڈاکٹر ریمنڈ نے انہیں ہسپتال سے رخصت ہونے کی منظور ی دے دی۔
عمران کے ساتھیوں کو انجکشن لگا کر ہوش میں لایا گیا اور تھوڑی دیر بعدوہ سب ہسپتال کا لباس اتار کر اپنا لباس پہن کر ایک ٹیکسی کے ذریعے اپنی رہائش گاہ کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے۔ چونکہ راگونا میں اسلحہ رکھنا ممنوع نہ تھا اس لئے ان کے لباسوں میں موجود اسلحے کے بارے میں نہ ان سے پولیس نے کچھ پوچھا تھا اور نہ ہی ان کا اسلحہ ضبط کیا گیا تھا اور یہ اسلحہ ان کے لباسوں اور سامان کے ساتھ انہیں واپس کر دیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت بھی اسلحہ ان کی جیبوں میں موجود تھا۔ کوٹھی پر پہنچ کر عمران نے ٹیکسی ڈرائیور کو کرایہ ادا کر کے بھیج دیا اور وہ سب کوٹھی میں داخل ہو گئے۔
’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں نئی زندگیاں دی ہیں ورنہ جس انداز میں کار پر بم مارا گیا تھا ہمارا بچ جانا محال تھا‘‘۔۔۔ صفدر نے کوٹھی میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے۔ وہ شاید ابھی ہم سے مزید کام لینا چاہتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا اور سب نے اثبات میں سر ہلا دئیے۔
’’میں کافی بنا لاتی ہوں ‘‘۔۔۔ جو لیا نے ان کے سٹنگ روم میں داخل ہوتے ہی کہا اور تیزی سے واپس مڑ گئی۔ اسے زیادہ چوٹیں نہ آئی تھیں اس لئے اس کی حالت ان سب کی نسبت زیادہ بہتر تھی۔
’’ عمران صاحب۔ یہ کاروائی کیا ٹاسکو گروپ کی تھی‘‘۔ کیپٹن شکیل نے جواب دیا۔
’’ظاہر ہے اور کون ایسا کر سکتا ہے۔ بلیک سروس نے تو فارمولا فروخت کر دیا۔ وہ ایسی حرکت کیوں کرے گی‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’لیکن عمران صاحب انہوں نے صرف فارمولا حاصل کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے حالانکہ وہ ہمیں وہاں سڑک پر نہ سہی ہسپتال میں بھی ہلاک کر سکتے تھے‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’ہاں ۔ انہیں کرنا تو ایسا ہی چاہئے تھا کیونکہ اس طرح وہ ہم سے آسانی سے پیچھا چھڑا سکتے تھے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔ اس کی پیشانی پر سوچ کی لکیریں پھیلی ہوئی تھی۔
’’عمران صاحب۔ ہمیں وہ فارمولا فوری طور پر واپس لینا ہو گا ورنہ اگر وہ کسی سپر پاور کو فروخت کر دیا گیا تو خاصی مشکل ہو گی‘‘۔۔۔ کیپٹن شکیل نے کہا۔
’’پہلے یہ تو معلوم ہو کہ فارمولا کس کے پاس ہے۔ یہی بات میں سوچ رہا ہوں کہ یہ بات کس طرح معلوم کی جائے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور پھر وہ اس طرح چونک پڑا جیسے اسے اچانک کوئی خیال آگیا ہو۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا یا اور تیزی سے نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔

  ’’انکوائری پلیز‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی دوسری طرف آواز سنائی دی۔
’’سٹار کلب کا نمبر دیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو دوسری طرف سے نمبر بتا دیا گیا۔
’’تو آپ کیلارڈ سے یہ بات معلوم کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا وہ بتا دے گا‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’اسے بتانا تو چاہئے کیونکہ اب اس کا کوئی انٹرسٹ فارمولے میں باقی نہیں رہا‘‘۔۔۔ عمران نے انکوائری آپریٹر کے بتائے ہوئے نمبر پریس کرتے ہوئے جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے لاؤڈر کا بٹن بھی پریس کر دیا۔ اسی لمحے جولیا کافی کی پیالیوں سے بھری ہوئی ٹرے اٹھائے اندر داخل ہوئی اور پھر اس نے ایک ایک پیالی سب کے سامنے رکھ دی اور ایک پیالی خود لے کر وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’سٹار کلب‘‘۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک مردانہ آواز سنائی دی۔
’’کیلارڈ سے بات کراؤ۔ میں پاکیشیائی بول رہا ہوں ‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’پاکیشیائی۔ کیا مطلب‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے حیرت بھرے لہجے میں کہا گیا۔
’’تم کیلارڈ تک یہ لفظ پہنچا دو۔ وہ خود ہی سمجھ جائے گا۔ ’’عمران نے کہا۔
’’ہولڈ کریں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’ہیلو۔ کیلارڈ بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد کیلارڈ کی آواز سنائی دی۔
’’میں پاکیشیائی علی عمران بول رہا ہوں ۔وہی پاکیشیائی جس نے آپ سے فارمولے کا سودا کیا تھا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’اوہ۔ اوہ اچھا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ بچ گئے ہیں ۔ ویر گڈ۔ ویسے مجھے جو اطلاع ملی تھی اس کے مطابق تو آپ اس قدر زخمی ہو گئے تھے کہ آپ کے بچنے کے امکانات کم تھے۔بہرحال اچھا ہوا آپ بچ گئے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بچا لیا۔ میں نے تمہیں اس لئے فون کیا ہے کہ اگر تم نے فارمولا ہم سے اس انداز میں لینا تھا تو ویسے ہی نہ دیتے۔ اس طرح ہماری جانوں سے کھیل کر فارمولا واپس لینے کا کیا مطلب ہوا‘‘۔۔۔ عمران کا لہجہ بات کے آخر میں خاصا سرد پڑ گیا تھا اور اس کے ساتھی جو لاؤڈ رپر بات چیت سن رہے تھے عمران کی بات سن کر بے اختیار چونک پڑے۔ پھر ان کے چہروں پر مسکراہٹ رینگنے لگی۔ کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ عمران اس انداز میں کیلارڈ سے اصل بات اگلوانا چاہتا ہے۔
’’اوہ۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں مسٹر عمران۔ ہمیں کیا ضرورت تھی ایساکرنے کی‘‘۔ کیلارڈ نے قدرے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’دوسری کسی پارٹی کو اس انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی‘‘۔۔۔ عمران کا لہجہ مزید سرد ہو گیا۔
’’اوہ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اصل بات بتانا پڑے گی ورنہ آپ خواہ مخواہ بلیک سروس کے پیچھے پڑے رہے ہیں گے۔ آپ سے فارمولا حاصل کرنے کے لئے سٹار کلب کے باہر دو پارٹیاں موجود تھیں ۔ ایک پارٹی ٹاسکو کے مخبری کرنے والے گروپ ہیری کے خاص آدمی تھے جبکہ دوسری پارٹی سمتھ کارپوریشن کے مینجر ہائیڈن کا گروپ تھا۔ آپ کی کار پر سولو بم ہائیڈن کی پارٹی نے فائر کیا اور آپ سے وہ فارمولا حاصل کر لیا لیکن ٹاسکو کی پارٹی ان کے پیچھے تھی۔ انہوں نے ان پر فائر کھول کر انہیں ہلاک کر دیا اور فارمولا لے اڑے اور اب میری انکوائری کے مطابق اب یہ فارمولا ٹاسکو کے چیف جیرٹو کے پاس ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’ٹاسکو کی حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن دوسری پارٹی کس کے لئے کام کر رہی تھی‘‘۔۔۔ عمران کے لہجے میں حقیقی حیرت تھی۔
’’میری انکوائری کے مطابق یہ پارٹی سٹارک نے ہائر کی تھی کیونکہ وہ یہ فارمولا بالا بالا ہی اڑانا چاہتا تھا‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اگر ایسی بات ہے تو تم مجھے ٹاسکو کے ہیڈ کوارٹر کے بارے میں بتا دو تا کہ میں وہاں جا کر ان سے فارمولا واپس حاصل کر سکوں ۔ اس طرح تم پر ہمارا شک ختم ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
 ’’سوری مسٹر علی عمران۔ یہ ہمارے معاہدے کے خلاف ہے۔ ‘‘کیلارڈ نے جواب دیا۔
’’چلو پتہ مت بتاؤ۔ جیرٹو کا فون نمبر بتا دو۔ میں اس سے فون پر بات کر لوں گا۔ تمہارا حوالہ نہیں آئے گا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’ہاں ۔ فون نمبر میں بتا دیتا ہوں ۔یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ویسے یہ بتا دوں کہ ٹاسکو خاصی بڑی اور خوفناک تنظیم ہے۔ اس لئے آپ کے لئے بہتریہی ہے کہ آپ جیرٹو کو دس کروڑ ڈالرز دے کر اس سے فارمولا حاصل کر لیں ۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس اور کوئی صورت نہیں ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
’’تم نمبر بتاؤ۔ پہلے یہ کنفرم ہو جائے کہ اس کے پاس فارمولا ہے بھی سہی یا نہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو دوسری طرف سے کیلارڈ نے نمبر بتا دیا۔
’’اوکے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور کریڈل دبا کر اس نے ہاتھ ہٹا لیا اور ایک بار پھر نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’انکوائری پلیز‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی مؤدبانہ آواز سنائی دی اور عمران کے سب ساتھی بے اختیار چونک پڑے کیونکہ نمبر تو کیلارڈ نے بتا دیا تھا پھر عمران نے انکوائری کے نمبر کیوں پریس کئے تھے۔
’’ملٹری انٹیلی جنس آفس سے کرنل مائیکل بول رہا ہوں ‘‘۔ عمران انتہائی سرد اور سخت لہجے میں کہا۔
’’یس۔ حکم سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے بولنے والی خاتون نے یکلخت بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ایک فون نمبر نوٹ کرو اور چیک کر کے بتاؤ کہ یہ نمبر کس کا ہے اور کہاں نصب ہے۔ لیکن خیال رہے کہ یہ انتہائی ٹاپ سیکرٹ حکومتی معاملہ ہے اس لئے کوئی غلطی تمہارے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے اسی طرح سرد اور سخت لہجے میں کہا۔
’’میں پوری طرح محتاط رہوں گی سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا تو عمران نے کیلاڈ کا بتایا ہوا نمبر بتا دیا۔
’’ہولڈ کریں سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’ہیلو سر۔ کیا آپ لائن پر ہیں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد انکوائری آپریٹر کی آواز سنائی دی۔
’’یس‘‘۔۔۔ عمران نے مختصر سا جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’سر۔ یہ نمبر میلکم فورڈ کے نام ہے اور ونٹر پیلس روڈ پر واقع سنو ڈاؤن کلب میں نصب ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’کیا اچھی طرح چیک کر لیا گیا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے اسی طرح سرد لہجے میں کہا۔
’’یس سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ اٹ از ٹاپ سیکرٹ‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’یس سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا تو عمران نے ایک بار کریڈل کو دبایا اور پھر ٹون آنے پر اس نے نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’سنو ڈاؤن کلب‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
’’میں پاکیشیا سے علی عمران بول رہا ہوں ۔ ٹاسکو کے چیف جیرٹو سے میری بات کراؤ۔ میں نے ان سے سودا کرنا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’پاکیشیائی کیا مطلب‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’مطلب تمہارا باس سمجھ جائے گا‘‘۔ عمران نے سرد لہجے میں کہا۔
’’ہولڈ کریں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’ہیلو۔ جیرٹو بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد ایک بھاری اور چیختی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’میں پاکیشیائی ایجنٹ علی عمران بول رہا ہوں مسٹر جیرٹو۔ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ سی ٹاپ فارمولا تمہارے پاس پہنچ چکا ہے۔ میں نے تمہیں اس لئے فون کیا ہے کہ تم نے بھی بہرحال اس فارمولے کو فروخت کرنا ہے۔ پہلے ہم نے بلیک سروس سے دو کروڑ ڈالرز میں اس کا سودا کیا تھا۔ لیکن ساڈان حکومت کے ایجنٹ نے ہم پر قاتلانہ حملہ کرا کر ہم سے فارمولا حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن پھر تمہارے آدمیوں نے انہیں ہلاک کر کے فارمولا حاصل کر لیا۔ ہم بھی خدا کے فضل و کرم سے بچ گئے ہیں لیکن ہم ٹاسکو سے ٹکرانا نہیں چاہتے ہیں اس لئے ہم تمہیں بھی دو کروڑ ڈالرز دینے کے لئے تیار ہیں ۔ تم یہ فارمولا ہمیں فروخت کر دو‘‘۔۔۔ عمران نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا۔
’’تم کہاں سے بول رہے ہو‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا تو عمران نے اس کوٹھی کا نمبر اور پتہ درست طور پر بتا دیا جہاں وہ موجود تھے۔
’’ہونہہ۔ تم نے اپنا پتہ درست بتایا ہے اس لئے مجھے یقین آگیا ہے کہ تم کوئی گیم نہیں کھیل رہے۔ لیکن میں کنگ کی طرح احمق نہیں ہوں کہ اتنا قیمتی فارمولا صرف دو کروڑ ڈالرز میں فروخت کر دوں ۔ گو تم نے پہلے یہ فارمولا میرے بینک لاکر سے چوری کیا تھا لیکن بہرحال میں اسے بھول سکتا ہوں لیکن اس فارمولے کے لئے تمہاری حکومت کو بیس کروڑ ڈالرز اور خرچ کرنا پڑیں گے‘‘۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ٹھنڈے ذہن سے میری بات پر غور کرو۔ حکومت چند افراد پر مشتمل نہیں ہوا کرتی۔ حکومت کے پاس بے شمار ایجنٹس اور ایجنسیاں ہوتی ہیں ۔ تم زیادہ سے زیادہ چند افراد کو ہلاک کر دو گے اور یہ فارمولا کسی بھی دوسری حکومت کو زیادہ سے زیادہ تین چار کروڑ ڈالرز میں فروخت کر دو گے لیکن پاکیشیا حکومت بہرحال تمہارے پیچھے پڑی رہے گی اور تم اور تمہاری تنظیم کب تک لڑے گی جبکہ تم ہمارے ساتھ سودا کر کے رقم بھی کما لو گے اور تمہارا پیچھا بھی ہمیشہ کے لئے پاکیشیائی حکومت سے چھوٹ جائے گا اس لئے میری آخری آفر سن لو۔ میں تمہیں سی ٹاپ فارمولے کے بدلے تین کروڑ ڈالرز دے سکتا ہوں ۔ ہاں یا نہ میں جواب دو تا کہ میں حکومت پاکیشیا کو فون پر رپورٹ دے دوں ۔ پھر حکومت جانے اور تم جانو‘‘۔۔۔ عمران نے سرد لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا۔
’’ہونہہ۔ بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن یہ رقم بے حد کم ہے۔ میر ی آخری آفر سن لو۔ دس کروڑ ڈالرز۔ اس سے ایک ڈالر بھی کم نہیں لوں گا۔ جہاں تک حکومت پاکیشیا کی ایجنسیوں کا تعلق ہے تو یہاں راگونا میں وہ ٹاسکو کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ‘‘ جیرٹو نے تیز لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اگر تم یہی چاہتے ہو کہ تمہارے ہاتھ رقم بھی نہ آئے اور ٹاسکو مسلسل عذاب میں مبتلا رہے تو تمہاری مرضی۔ بہرحال میں آخری آفر لگا رہا ہوں اور وہ ہے پانچ کروڑ ڈالرز۔ صرف ہاں یا نہ میں جواب دو۔ اس کے بعد معاملات کسی اور طریقے سے حل کئے جائیں گے‘‘۔۔۔ عمران کا لہجہ یکلخت سرد ہو گیا۔
’’مجھے دھمکیاں مت دو ایشیائی۔ میں اس لہجے میں بات سننے کا عا دی نہیں ہوں ۔ سمجھے اور میری بھی آخری آفر سن لو۔ دس کروڑ ڈالرز۔ اس سے ایک ڈالر بھی کم نہیں لوں گا اور یہ بھی سن لو کہ مجھے تمہارے بتانے سے پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ تم لوگ کس جگہ سے بات کر رہے ہو۔ میرے آدمیوں نے تمہاری رہائش گاہ کو گھیرے میں لے لیا ہے اور میرے ایک اشارے پر تمہاری یہ رہائش گاہ میزائلوں سے اڑائی جا سکتی ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے غصے کی شدت سے تقریباً چیختے ہوئے کہا تو ساتھ بیٹھے ہوئے تنویر کا چہرے اس کی بات سن کر غصے کی شدت سے عنابی سا پڑ گیا۔ آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔ شاید جیرٹو کا یہ انداز اور دھمکیاں اس کے لئے ناقابل برداشت ہو گئیں تھیں لیکن عمران ہاتھ اٹھا کر اس انداز سے اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔
’’مجھے منظور ہے لیکن لین دین کہاں ہو گا اور تمہیں اس کے لئے ہمیں وقت دینا ہو گا‘‘۔۔۔ عمران نے بڑے ٹھنڈے لہجے میں کہا تو تنویر نے بے اختیار ہونٹ بھینچ لئے۔
’’کتنا وقت لینا چاہتے ہو‘‘۔ جیرٹو نے بڑے فاتحانہ لہجے میں کہا۔
’’صرف آٹھ گھنٹے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’آٹھ گھنٹوں کا مطلب ہے کہ تم آج رات کو یہ ڈیل کرنا چاہتے ہو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’ہاں ۔ کیونکہ اب ہم جلد از جلد فارمولا لے کر واپس جانا چاہتے ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اوکے۔ ٹھیک ہے۔ رات کو دس بجے میرے آدمی تمہاری رہائش گاہ پر پہنچیں گے۔ تم نے انہیں رقم دینی ہے۔ رقم جب میرے پاس پہنچ جائے گی   تو تمہیں فارمولا بھجوا دیا جائے گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے جواب دیا۔
’’نہیں ۔ اتنی بڑی رقم میں کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں دے سکتا۔ اس کے لئے تمہیں خود مجھ سے ڈیل کرنا ہو گی اور فارمولا بھی ساتھ ہی دینا ہو گا۔ تم چاہو تو یہ ڈیل تمہاری مرضی کے کسی بھی مقام پر ہو سکتی ہے اور بے شک تمہارے آدمی ہماری تلاشی بھی لے سکتے ہیں ۔ ہماری نیت صاف ہے اور ہم واقعی یہ ڈیل کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ رات کو دس بجے اسی فون نمبر پر رابطہ ہو گا اور تمہیں پروگرام کی اطلاع دے دی جائیگی‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے جواب دیا گیا۔
’’اوکے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور رکھ دیا۔
’’یہ تم نے کیا بزدلانہ کام شروع کر دیئے ہیں ۔ کیا مطلب ہوا ان باتوں کا۔ کیا ہم اب ان عام گھٹیا غنڈوں سے ڈیل کریں گے‘‘۔ عمران کے رسیور رکھتے ہی تنویر بے اختیار پھٹ پڑا۔
’’زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے تنویر۔ میں پہلے ہر قیمت پر فارمولے کو محفوظ کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔۔۔ عمران نے سرد لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’عمران صاحب جو کچھ سوچ رہے ہیں درست سوچ رہے ہیں ۔ یہ بدمعاش گروپ ہیں ۔ ان کا مطمع نظر اس فارمولے سے صرف دولت حاصل کرنا ہے اور ان کے اڈے نجانے کہاں کہاں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اگر ہم نے ان سے لڑنا شروع کر دیا تو فارمولا کسی بھی لمحے غائب ہو سکتا ہے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے ان سے تو کسی بھی وقت نمٹا جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ کیپٹن شکیل نے کہا۔
’’لیکن بعد میں عمران نے کہنا ہے کہ اب بدمعاشوں سے لڑنے کا کیا فائدہ‘‘۔۔۔ تنویر نے کہا۔
’’تم فکر مت کرو۔ تمہیں لڑنے کا پورا موقع ملے گا کیونکہ یہ جیرٹو دس کروڑ ڈالر لے کر بھی فارمولا نہیں دے گا‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا تو تنویر کے ساتھ ساتھ باقی ساتھی بھی بے اختیار چونک پڑے۔
’’کیا۔ کیا مطلب ‘‘۔۔۔ جولیا نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’یہ انتہائی گھٹیا ٹائپ کے لوگ ہیں ۔ کنگ نے فارمولا اس لئے دے دیا تھا کہ اسے معلوم تھا کہ فارمولا ٹاسکو کا ہے اور ٹاسکو خاصا بڑا گروپ ہے اس لئے اگر فارمولا فوری طور پر نہ نکالا گیا تو ٹاسکو اور بلیک سروس کے درمیان مسلسل لڑائی شروع ہو جائے گی اس لئے اس نے دو کروڑ ڈالرز کے عوض فارمولا دے دیا لیکن اس جیرٹو کو ایسا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ وہ بڑی آسانی سے دس کروڑ ڈالرز بھی ہم سے وصول کر سکتا ہے اور ہمیں اپنے خیال کے مطابق ہلاک بھی کر ا سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر تم نے اسے کیوں یہ آفر دی ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔
’’اس لئے کہ اب ہم سے دس کروڑ ڈالرز وصول کرنے تک وہ کسی دوسرے سے اس فارمولے کا سودا نہیں کرے گا‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا اور سب نے بے اختیار ایک طویل سانس لیا۔
’’تم آخر اتنے ٹھنڈے دماغ سے یہ ساری باتیں کیسے سوچ لیتے ہو۔ تمہیں غصہ کیوں نہیں آتا‘‘۔۔۔ تنویر نے کہا تو سب لوگ ہنس پڑے۔
’’کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ جولیا کو غصہ دکھانے والا آدمی پسند نہیں ہے۔ کیوں جولیا‘‘۔ عمران نے بڑے معصوم سے لہجے میں کہا۔
’’مگر مجھے آئس کریم طبیعت رکھنے والا آدمی تو بالکل بھی پسند نہیں ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا تو کمرہ بے اختیار قہقہوں سے گونج اٹھا۔


٭٭٭٭





 کنگ بلیک سروس کے ہیڈ کوارٹر میں اپنے مخصوص آفس میں موجود تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ کنگ نے سرد لہجے میں کہا۔
’’کیلارڈ بول رہا ہوں باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے آواز سنائی دی۔
’’یس۔ کیابات ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے اسی طرح سرد لہجے میں کہا۔
’’ایک اہم معاملہ ڈسکس کرنا ہے باس۔ آپ اجازت دیں تو میں خود آ جاؤں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کیلارڈ نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’کس پوائنٹ پر‘‘۔۔۔ کنگ نے چونک کر پوچھا۔
’’فون پر بات کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپ اجازت دیں تو زبانی بات ہو جائے گی‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کیلارڈ نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’اوکے۔آ جاؤ‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا اور رسیور رکھ دیا۔ اس کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہو گئی تھیں کیونکہ کیلارڈ نے اس سے پہلے ایسی راز داری کم ہی برتی تھی۔ کنگ نے انٹر کام کا رسیور اٹھایا اور اپنے کسی آدمی کو کہا کہ وہ سٹار کلب اور ہیڈ کوارٹر کے درمیان راستہ کھول دے تا کہ کیلارڈ اس کے آفس پہنچ سکے اور پھر تھوڑی دیر بعد آفس کا دروازہ کھلا اور کیلارڈ اندر داخل ہوا۔ اس نے بڑے مؤدبانہ انداز میں سلام کیا۔
’’بیٹھو کیلارڈ۔ کیا بات ہے۔ تم ضرورت سے زیادہ ہی راز داری برت رہے ہو۔ کیا کوئی ایسی خاص بات ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے جواب دیا اور میز کی دوسری طرف کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’ہاں ۔ بولو کیا بات ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے آگے جھکتے ہوئے اشتیاق آمیز لہجے میں کہا۔
’’باس۔ سی ٹاپ فارمولے کے بارے میں ایک اہم اطلاع ملی ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا تو کنگ بے اختیار اچھل پڑا۔ اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے تھے۔
’’سی ٹاپ فامولا۔ لیکن وہ تو ہم پاکیشیائی ایجنٹوں کو فروخت کر چکے ہیں ۔ پھر اس بارے میں کیا اطلاع مل سکتی ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’باس۔ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ان پاکیشیائی ایجنٹوں پر کیا بیتی اور فارمولا کہاں پہنچ گیا ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا تو کنگ ایک بار پھر چونک پڑا
’’اوہ۔ تو کیا کوئی خاص بات ہو گئی ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا تو کیلارڈ نے فارمولا لے کر پاکیشیائی ایجنٹوں کے سٹار کلب سے باہر جانے سے لے کر ان پر ہونے والے حملوں کی تفصیل سمیت سب کچھ بتا دیا۔
’’ہونہہ۔ تو سٹارک نے بالا ہی بالا فارمولا اڑانے کی کوشش کی لیکن بقول تمہارے فارمولا جیرٹو کے پاس پہنچ گیا ہے تو اب کیا ہو گیا۔ ہم تو بہرحال اس کی قیمت وصول کر چکے ہیں اور اب اس فارمولے کے لئے جیرٹو سے لڑنا سوائے حماقت کے اور کیا ہے‘‘۔ کنگ نے کہا۔
’’باس۔ یہی سوچ کر میں بھی خاموش ہو گیا تھا لیکن اب ایک نئی بات سامنے آئی ہے۔ میرا خیال تھا کہ پاکیشیائی ایجنٹ زخمی ہو کر ہلاک ہو چکے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ بچ گئے ہیں ۔ ہسپتال سے فارغ ہو کر ان کے لیڈر علی عمران نے مجھے فون کیا۔ اس کا خیال تھا کہ میں نے ان کے خلاف سازش کی ہے جس کی وضاحت کے لئے میں نے اسے تمام تفصیل بتا دی جس پر اس نے مجھ سے ٹاسکو کے ہیڈ کوارٹر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد اس نے فون نمبر پوچھا تو میں نے بتا دیا کیونکہ فون نمبر سے وہ بہرحال ہیڈ کوارٹر ٹریس نہیں کر سکتا۔ لیکن میں سمجھ گیا کہ اب وہ فون نمبر پر جیرٹو سے اس بارے میں بات کرے گا چنانچہ میں نے فوری طور پر ٹاسکو کے ہیڈ کوارٹر میں اپنے خاص آدمی سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ وہ ان کے درمیان ہونے والی بات چیت سے مجھے آگاہ کرے۔ پھر اس کی کال آئی اور اس نے بتایا کہ پاکیشیائی ایجنٹ علی عمران نے جیرٹو سے دس کروڑ ڈالرز میں فارمولے کا سودا کر لیا ہے اور آج رات دس بجے رقم اور فارمولے کا لین دین ہو گا لیکن جیرٹو رقم بھی وصول کرنا چاہتا ہے اور فارمولا بھی واپس نہیں دینا چاہتا اس لئے اس نے راگونا کے شمال مشرق میں واقع اپنے ایک ویران پوائنٹ پر اس لین دین کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
  وہ خود وہاں اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ جائے گا اور رقم لے کر فارمولا ان پاکیشیائی ایجنٹوں کے حوالے کر دے گا۔ اس کے بعد اس کے آدمی ان پاکیشیائی ایجنٹوں کو راستے میں ہلاک کر کے فارمولا ان سے حاصل کر لیں گے۔ اس طرح وہ دس کروڑ ڈالرز کی خطیر رقم بھی وصول کر لے گا اور فارمولا بھی اسے واپس مل جائے گا اور پاکیشیائی ایجنٹ بھی ہلاک ہو جائیں گے اور اس پر اس سلسلے میں کوئی الزام بھی نہ آئے گا۔ و ہ اس لین دین کی باقاعدہ فلم بنا ئے گا جس کا بندوبست اس پوائنٹ پر جسے جیرٹو سپیشل ایکس پوائنٹ کہتا ہے پہلے سے ہے تا کہ بعد میں اگر پاکیشیائی حکومت احتجاج کرے یا مزید پاکیشیائی ایجنٹ آئیں تو انہیں یہ فلم دکھا کر مطمئن کیا جا سکے اور پھر وہ فارمولا سٹارک کو یا کسی بھی ملک کو فروخت کر کے مزید رقم کما لے گا‘‘۔ کیلارڈ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’اوہ۔ واقعی جیرٹو اس قسم کے دھوکے دینے کا ماہر ہے لیکن ہمارا اس سے کیا تعلق بن گیا ہے۔ یہ بتاؤ‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’باس۔ اگر آپ اجازت دیں تو یہ فارمولا ہم حاصل کر لیں ‘‘۔ کیلارڈ نے کہا تو کنگ بے اختیار اچھل پڑا۔
’’اوہ۔ وہ کیسے۔ کیا مطلب‘‘۔۔۔ کنگ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’باس۔ جیرٹو کوا س بات کا خیال تک نہ ہو گا کہ ہمیں بھی اس بارے میں کچھ علم ہو سکتا ہے۔ یہ سپیشل ایکس پوائنٹ اس کا خفیہ ترین پوائنٹ ہے لیکن جیرٹو کے ہیڈ کوارٹر میں موجود ہمارے آدمی کو اس بارے میں تفصیل کا علم تھا اس لئے اس نے مجھے اس کے محل وقوع کے بارے میں بتا دیا ہے۔ یہ پوائنٹ شہر سے دور ایک علیحدہ علاقے میں ہے اور بظاہر ایک متروک شدہ زرعی فارم ہے۔ یہ پوائنٹ مین روڈ سے ہٹ کر تقریباً چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس ساری سڑک کے گرد اور اس پوائنٹ کے گرد قدیم اور گھنے درخت ہیں ۔ جیرٹو نے ان پاکیشیائی ایجنٹوں کے خاتمے کے لئے بڑی ذہانت سے پلان بنایا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ یہ تربیت یافتہ لوگ ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ انتہائی چوکنا ہوں اس لئے اس نے اپنے آدمی اس پوائنٹ کے گرد تعینات کرنے کی بجائے مین روڈ سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تعینات کیے ہیں ۔ یہ لوگ درختوں میں چھپے ہوئے ہوں گے اور پاکیشیائی ایجنٹ ظاہر ہے اتنا طویل فاصلہ بغیر کسی رکاوٹ کے طے کر لینے کے بعد مطمئن ہو چکے ہوں گے اس لئے جب ان پر اچانک حملہ ہو گا تو وہ آسانی سے مارے جا سکیں گے۔ پھر ان کی لاشیں بھی غائب کر دی جائیں گی اور فارمولا واپس جیرٹو کے پاس پہنچ جائے گا اور میں نے جو پلان سوچا ہے اس کے مطابق اپنے آدمی ساتھ لے کر وہاں پہلے پہنچ جاؤں گا۔ جب جیرٹو رقم لے کر واپس چلا جائے گا تو اس کے آدمی وہاں پہنچیں گے تو ہم خاموشی سے انہیں ہلاک کر دیں گے۔ اس کے بعد ہم پاکیشیائی ایجنٹوں کو بھی ہلاک کر دیں گے اور فار مولا حاصل کر کے ان کی لاشیں غائب کر دیں گے۔ اس کے بعد جیر ٹو خود ہی پاگلوں کی طرح کھوج لگاتا پھرے گا کہ پاکیشیائی ایجنٹ اس کے آدمیوں کو ہلاک کر کے کہاں غائب ہو گئے اور ظاہر ہے وہ ان تک پہنچ ہی نہ سکے گا اس لئے وہ یہی سوچے گا کہ یہ لوگ پر اسرار انداز میں راگونا سے نکل جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور فارمولا بھی لے گئے ہیں جبکہ ہم فارمولا خاموشی سے سٹارک کے ہاتھ مزید رقم لے کر فروخت کر دیں گے۔ چونکہ سٹارک پہلے ہی بالا بالا فارمولا اڑانے کی کوشش کر چکا ہے اس لئے وہ لامحالہ اس سودے کو جیرٹو سے خفیہ رکھے گا اور ویسے بھی جیرٹو دس کروڑ ڈالرز کی خطیر رقم وصول کر چکا ہو گا اس لئے وہ زیادہ چھان بین میں نہیں پڑے گا اور ہم اس فارمولے سے مزید رقم آسانی سے کما لیں گے ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے اپنا پلان تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا۔
’’یہ سوچ لو کہ اگر معاملہ الٹ گیا تو ٹاسکو اور بلیک سروس کے درمیان مستقل لڑائی شروع ہو جائے گی‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا۔
’’آپ قطعاً بے فکر رہیں باس۔ میں نے سب سوچ لیا ہے۔ نتیجہ وہی نکلے گا جو میں نے آپ کو بتایا ہے۔ مجھے صرف آپ کی طرف سے اجازت کی ضرورت تھی‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے انتہائی با اعتماد لہجے میں کہا۔
’’اوکے۔ ٹھیک ہے۔ مجھے تم پر مکمل اعتماد ہے اس لئے تمہیں اس آپریشن کی پوری اجازت ہے لیکن سٹارک سے فوری طور پر رابطہ نہ کرنا۔ جب جیرٹو تھک ہار کر خاموش ہو جائے گا تو پھر سٹارک سے بات ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ کنگ نے کہا اور کیلارڈ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


٭٭٭٭
دو کاریں خاصی تیز رفتاری سے راگونا شہر سے باہر کی طرف جانے والی سڑک پر دوڑتی ہوئی آگے بڑھی چلی جا رہی تھیں ۔ آگے جانے والی کار میں دو مقامی آدمی تھے جبکہ پچھلی کار میں عمران اور اس کے ساتھی تھے۔ آگے جانے والی کار عمران اور اس کے ساتھیوں کی راہنمائی کر رہی تھی۔ جیرٹو نے رقم اور فارمولا کے لین دین کے لئے شہر سے باہر اپنا کوئی خاص پوائنٹ منتخب کیا تھا جسے وہ سپیشل ایکس پوائنٹ کہہ رہا تھا اور اس نے دو آدمی عمران کی رہائش گاہ پر بھجوائے تھے کہ وہ انہیں اس پوائنٹ پر پہنچا دیں گے۔ جیرٹو اپنے ساتھیوں سمیت خود وہاں پہنچے گا اور ان سے رقم لے کر فارمولا ان کے حوالے کر کے واپس چلا جائے گا اور عمران نے بغیر کسی حیل و حجت کے اس کی یہ بات مان لی تھی اس لئے اب وہ سب کار میں سوار اس سپیشل ایکس پوائنٹ کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے۔
’’عمران صاحب۔ مجھے جیرٹو کی نیت میں فرق محسوس ہو رہا ہے‘‘۔۔۔ اچانک عقبی سیٹ پر بیٹھے ہوئے صفدر نے کہا۔
’’تم فکر مت کرو۔ جولیا اپنی حفاظت کر سکتی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جوا ب دیا تو صفدر بے اختیار ہنس پڑا۔
’’بکواس مت کیا کرو۔ سمجھے ورنہ منہ توڑ دوں گی۔ صفدر کا یہ مطلب نہیں تھا‘‘۔۔۔ جولیا نے پھنکارتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’اچھا تو اب تمہیں صفدر کا مطلب پیشگی سمجھ میں آنے لگ گیا ہے۔ ویری بیڈ۔ پھر تو مجھے آئندہ چیف کی منت کرنا پڑے گی کہ جب بھی وہ صفدر کو بھیجا کرے ساتھ صالحہ کو بھی ضرور بھیج دیا کرے‘‘۔۔۔ عمران نے فوراً ہی جواب دیا۔
’’عمران صاحب۔ میرا مطلب تھا کہ جیرٹو ہمیں ہلا ک کرنا چاہتا ہے‘‘۔۔۔ صفدر نے فوراً ہی بات کرتے ہوئے کہا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ عمران نے مزید ایسی باتیں کرنے سے نہیں رکنا اور جولیا کا غصہ اور جھنجھلاہٹ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
’’اگر وہ ہمیں ہلاک کرنا چاہتا تو وہ اس رہائش گاہ میں بھی کر سکتا تھا۔ اس کے لئے اسے اتنی دور ہمیں لے جانے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔۔۔ عمر ان نے جواب دیا۔
’’اس کا خیال ہو گا کہ وہ اپنے پوائنٹ پر زیادہ آسانی سے یہ کاروائی کر لے گا‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’تو ٹھیک ہے۔ کر دیکھے کاروائی۔ تنویر ہمارے ساتھ ہے۔ پھر ہمیں کیا ڈر ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’میری مانو تو تم اسے ایک ڈالر بھی مت دو۔ میں خود فارمولا اس جیرٹو سے حاصل کر لوں گا‘‘۔۔۔ تنویر نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ۔ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور بحیثیت مسلمان ہمیں معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر نی چاہئے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’لیکن اگر جیرٹو نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو پھر‘‘۔ صفدر نے کہا۔
’’تو پھر وہ اس کی سزا بھی خود ہی بھگتے گا‘‘۔۔۔ عمران نے سپاٹ سے لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ ہم ہر لحاظ سے محتاط رہیں ‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’ظاہر ہے۔ ہم بد معاشوں کے ایک گروپ سے ڈیلنگ کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ کسی بھی لمحے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور ہم نے بہرحال فارمولا حاصل کرنا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا اور سب نے اثبات میں سر ہلا دئیے۔
’’عمران صاحب۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ یہ لوگ کہاں کاروائی کر سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ اچانک خاموش بیٹھے ہوئے کیپٹن شکیل نے کہا۔
’’یہ گھٹیا درجے کے بدمعاش ہیں اس لئے یہ لمبی چوڑی پلاننگ میں نہیں پڑیں گے۔ بہر حال یہ بات طے ہے کہ یہ کاروائی رقم کی وصولی کے بعد ہی ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہاں ہمارے پہنچتے ہی وہاں کسی بھی ذریعے سے بے ہوش کر دینے والی گیس فائر کر دیں اور پھر ہم سے رقم لے کر ہمیں بے ہوشی کے دوران ہی ہلاک کر دیں ‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’ہاں ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے اس لئے تنویر کے پاس جو بیگ ہے اس میں ان گولیوں کا پیکٹ موجود ہے جنہیں کھانے کے بعد دو گھنٹے تک ہم پر بے ہوشی کی کوئی گیس یا انجکشن اثر نہیں کرے گا‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’تو کیا۔ یہ گولیاں ہم وہاں جا کر کھائیں ان کے سامنے‘‘۔ جولیا نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ہاں ۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کا وقفہ زیادہ سے زیادہ ہمارے کام آئے۔ نجانے یہ پوائنٹ کتنے فاصلے پر ہوں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور سب نے اثبات میں سر ہلا دئیے۔ کاریں مسلسل ایک دوسرے کے آگے پیچھے دوڑ رہی تھیں اور اب وہ شہر سے کافی فاصلے پر آ چکے تھے کہ اچانک آگے جانے والی کار نے دائیں ہاتھ پر مڑنے کا انڈیکیٹر دینا شروع کر دیا اور اس کی رفتار بھی کم ہونے لگی تو عمران نے بھی رفتار کم کر دی اور انڈیکیٹر دینا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں کاریں دائیں طرف ایک پختہ سڑک پر مڑ گئیں جس کے دونوں طرف گھنے درخت تھے۔ اس سڑک پر بھی تقریباً چھ سات کلومیٹر سفر کے بعد وہ ایک قدیم اور بظاہر شکستہ نظر آنے والے زرعی فارم کی عمارت تک پہنچ گئے۔ یہ عمارت ایک وسیع احاطے میں بنی ہوئی تھی اور اس احاطے میں بھی قدیم دور کے گھنے اور چوڑے درخت کثرت سے موجود تھے۔ آگے والی کار عمارت کے سامنے جا کر رک گئی اور اس میں سوار دونوں افراد کار سے باہر نکل آئے۔ عمران نے بھی کار ان کے پیچھے لے جا کر روکی اور پھر وہ سب بھی کار سے نیچے اتر آئے۔ صفدر اور تنویر کے ہاتھوں میں بیگ تھے۔
’’آئیے جناب‘‘۔۔۔ ان میں سے ایک نے مؤدبانہ لہجے میں کہا اور عمارت کی اندرونی طرف بڑھ گیا۔ عمران اور اس کے ساتھی بھی چلتے ہوئے ان کے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ پھر وہ ایک خاصے بڑے ہال نما کمرے میں پہنچ گئے جہاں خاصے قدیم دور کا فرنیچر موجود تھا لیکن یہ فرنیچر صاف ستھرا تھا جیسے اس کی باقاعدہ صفائی کی گئی ہو۔
’’یہاں الماری میں شراب کی بوتلیں موجود ہیں جناب۔ آپ اپنی مرضی کی شراب پی سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ انہیں اندر لے آنے والے نے کہا۔
’’ہم شراب نہیں پیتے۔ البتہ ہمیں پانی چاہیے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پانی کی بوتلیں نچلے خانے میں پڑی ہیں ‘‘۔۔۔ اسی آدمی نے قدرے حیرت بھرے لہجے میں کہا اور پھر اس نے آگے بڑھ کر ایک سائیڈ پر موجود بڑی سی الماری کھول دی۔ اس میں واقعی تین خانوں میں ہر قسم کی شراب کی بوتلیں بھری ہوئی تھیں جبکہ نچلے خانے میں منرل واٹر کی پیکڈ بوتلیں بھی موجود تھیں ۔ شاید شراب میں ملانے کے لئے انہیں وہاں رکھا گیا تھا۔
’’تمہارا باس کب آئے گا‘‘۔۔۔ عمران نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہمیں باس کو آپ کے یہاں پہنچنے کی اطلاع دینا ہو گی۔ پھر باس یہاں کے لئے روانہ ہو گا لیکن پہلے تم ہمیں وہ رقم دکھاؤ تا کہ ہم باس کو بتا سکیں کہ رقم موجود ہے‘‘۔۔۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا۔
’’انہیں رقم دکھا دو‘‘۔۔۔ عمران نے صفدر سے کہا تو صفدر نے ہاتھ میں موجود بڑا سا بریف کیس میز پر رکھ کر اسے کھول دیا۔ بریف کیس ڈالروں کی گڈیوں سے بھرا ہوا تھا۔
’’اگر چاہو تو بیٹھ کر باقاعدہ گنتی کر لو‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’نہیں ۔ ان کی تعداد بتا رہی ہے کہ رقم پوری ہو گی‘‘۔۔۔ اس آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے میز پر پڑے ہوئے فون کا رسیور اٹھایا اور نمبرپریس کرنے شروع کر دئیے۔
عمران نے ہاتھ بڑھا کر خود ہی لاؤڈ سپیکر کا بٹن پریس کر دیا۔
’’راکی بول رہا ہوں باس۔ سپیشل ایکس پوائنٹ سے‘‘۔۔۔ اس آدمی نے دوسری طرف سے رسیور اٹھتے ہی کہا۔
’’یس۔ کیا رپورٹ ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے جیرٹو کی چیختی ہوئی مخصوص آواز سنائی دی۔
’’مہمان۔ سپیشل ایکس پوائنٹ پر پہنچ گئے ہیں ۔ ہم نے رقم بھی چیک کر لی ہے۔ رقم موجود ہے‘‘۔۔۔ راکی نے مؤدبانہ لہجے میں جواب دیا۔
’’اوکے۔ ہم پہنچ رہے ہیں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا تو راکی نے بغیر کچھ کہے رسیور رکھ دیا۔
’’آپ لوگ یہاں باس سے ملاقات کریں گے۔ ہمیں اجازت دیں ‘‘۔۔۔ راکی نے رسیور رکھ کر عمران سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’یہاں کوئی آدمی نہیں رہتا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
یہاں دو آدمی رہتے تھے لیکن آپ کی وجہ سے انہیں پہلے ہی یہاں سے بھجوا دیا گیا ہے۔ باس مکمل راز داری چاہتے ہیں ‘‘۔۔۔ راکی نے کہا اور واپس مڑ گیا۔ دوسرا آدمی خاموشی سے اس کے پیچھے مڑا اور پھر ان کی کار تیزی سے احاطے سے باہر نکل کر مین روڈ کی طرف بڑھتی چلی گئی۔
’’صفدر اور تنویر۔ تم باہر جا کر چیکنگ کرو جبکہ کیپٹن شکیل یہاں رہے گا۔ میں اور جولیا اس پوائنٹ کی تلاشی لیں گے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں پہلے بے ہوش کر دینے والی گیس سے بچنے والی گولیاں کھا لینی چاہئیں ‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’ہاں ۔ ٹھیک ہے۔ مجھے اس کا خیال ہی نہ رہا تھا۔ حالانکہ میں نے پانی کے بارے میں پوچھا بھی خاص طور پر اسی لئے تھا۔ عمران نے کہا اور پھر تنویر نے اپنے ہاتھ میں موجود بیگ کھولا اور اس میں سے گولیوں کا پیکٹ نکال کر اس نے باہر رکھ دیا جبکہ جولیا نے الماری کھول کر اس میں سے پانی کی ایک بڑی سی بوتل اٹھائی اور ساتھ پڑا ہوا گلاس اٹھا کر اس نے دونوں کو میز پر رکھ دیا۔ پھر سب نے باری باری دو دو گولیاں کھا کر پانی پی لیا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اسلحہ وغیرہ سنبھال لینا چاہیے‘‘۔ صفدر نے کہا۔
’’پہلے ہم چیک کر لیں کہ اس پوائنٹ میں آخر ایسی کیا خوبی ہے کہ جیرٹو نے رقم اور فارمولا کے لین دین کے لئے اسے منتخب کیا ہے اور پھر ہمیں خاص طور پر یہاں اکیلے کیوں چھوڑا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بارودی اسلحہ زیرو کرنے کیلئے یہاں کوئی خاص انتظامات ہوں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو سب نے اثبات میں سر ہلا دئیے اور پھر صفدر اور تنویر بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
’’اس کمرے میں فلم بنانے والا خصوصی لینز تو موجود ہے‘‘۔ عمران نے چھت کے درمیان بنے ہوئے بظاہر ایک لائٹ شیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اوہ۔ ہاں واقعی۔ لیکن فلم کیوں بنائی جائے گی‘‘۔۔۔ جولیا نے حیران ہو کر کہا۔
’’اس لئے تا کہ بعد میں آنے والے پاکیشیائی ایجنٹوں یا پاکیشیا حکومت کو بتایا جا سکے کہ لین دین فیئر ہوا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا تو جولیا بے اختیار چونک پڑی۔ کرسی پر بیٹھا کیپٹن شکیل بھی چونک پڑا تھا۔
’’اوہ۔ اوہ۔ تمہارا مطلب ہے کہ یہ لوگ بے ایمانی پر تلے ہوئے ہیں ۔ پھر تو‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال یہ صرف میرا آئیڈیا ہے‘‘۔ عمران نے کہا اور پھر وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا تا کہ اس پوری عمارت کی تلاشی لی جا سکے۔ جولیا بھی اس کے پیچھے چلی گئی۔ جبکہ کیپٹن شکیل رقم کی حفاظت کے لئے وہیں موجود رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد صفدر اور تنویر اندر داخل ہوئے۔
’’باہر کوئی نہیں ہے۔ ہم نے دور دور تک چیکنگ کر لی ہے‘‘۔ صفدر نے کہا۔
’’کتنی دور تک‘‘۔۔۔ کیپٹن شکیل نے پوچھا۔
’’کافی فاصلے تک۔ باہر واقعی کوئی نہیں ہے‘‘۔۔۔ صفدر کی بجائے تنویر نے کہا اور اسی لمحے عمران اور جولیا بھی اندر داخل ہوئے۔
’’نیچے تہہ خانوں میں اسلحہ موجود ہے لیکن یہ عام اسلحہ ہے اور یہ بھی عام سا پوائنٹ ہے جیسے اکثر مجرم گروپوں کے پوائنٹ ہوتے ہیں ۔ البتہ فلم بنانے والے کیمرہ جدید ترین ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اسے ابھی حال ہی میں یہاں نصب کیا گیا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو صفدر اور تنویر فلم اور کیمرے کے الفاظ سن کر چونک پڑے تو عمران نے انہیں چھت میں موجود لائٹ شیڈ کے بارے میں بتایا۔
’’لیکن اسکی وجہ‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال یہ ہے کیمرہ ہی۔ بہرحال تم بتاؤ باہر کی کیا پوزیشن ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’باہر دور دور تک کوئی آدمی موجود نہیں ہے‘‘۔۔۔ صفدر نے جواب دیا۔
’’میرا خیال ہے کہ اس کیمرے کو توڑ دیا جائے‘‘۔۔۔ تنویر نے کہا۔
’’ابھی نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اسے آن ہی نہ کریں اور اس کے ٹوٹنے سے وہ لوگ مشکوک ہو گئے تو فارمولا بھی رسک میں پڑ جائے گا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’فارمولا وہ ساتھ لے آئیں گے۔ اسے ویسے بھی ہم حاصل کر چکے ہوں گے‘‘۔۔۔ تنویر نے کہا۔
’’پہلے فارمولا مل جائے پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا‘‘۔۔۔ عمران نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ پھر تقریباً نصف گھنٹے بعد ایک کار کی آواز سنائی دینے لگی تو عمران اور جولیا دونوں باہر احاطے والے حصے میں آ گئے جبکہ ان کے باقی ساتھی وہیں اندر ہی رہ گئے۔ چند لمحوں بعد سیاہ رنگ کی بڑی سی کار عمارت کے سامنے آ کر رک گئی اور اس میں سے چار ۱آدمی باہر نکل آئے جن میں سے ایک اپنے انداز سے ہی جیرٹو لگ رہا تھا۔
’’میرا نا م جیرٹو ہے‘‘۔۔۔ اس آدمی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا جبکہ ایک آدمی کار کے ساتھ کھڑا رہا اور باقی دو آدمی جیرٹو کے ساتھ آگے بڑھ آئے تھے۔
’’میرا نام عمران ہے اور یہ میری ساتھی ہے مارگریٹ‘‘۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’رقم اندر ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے بے چین سے لہجے میں کہا۔
’’ہاں ۔ آؤ‘‘۔۔۔ عمران نے واپس مڑتے ہوئے کہا اور پھر وہ بڑے ہال نما کمرے میں داخل ہوئے۔جیرٹو کے ساتھ اس کے دونوں آدمی بھی تھے۔
’’کہاں ہے رقم ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے ایک بار پھر بے چین سے لہجے میں کہا۔
’’پہلے تم فارمولے کے بارے میں ہماری تسلی کراؤ۔ رقم کے بارے میں تمہارے آدمی پہلے ہی تسلی کر چکے ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے خشک لہجے میں کہا تو جیرٹو نے جیب میں ہاتھ ڈال کر وہی پیکٹ باہر نکال لیا جو اس سے پہلے کیلارڈ نے عمران کو دیا تھا۔ یہ وہی پیکٹ تھا جو عمران نے خود بنا کر کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا کے لئے بک کرایا تھا۔ جیرٹو نے بھی اسے نہ کھولا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ تم نے پیکٹ کھول لیا ہو گا اس لئے میں اپنے ساتھ پروجیکٹر لے آیا تھا کہ فلم کو چیک کر سکوں لیکن پیکٹ ویسے ہی بند ہے اس لئے اب اسے چیک کرنے کی ضرورت نہیں رہی‘‘۔ عمران نے پیکٹ کو الٹ پلٹ کر غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ ہے رقم۔ سنبھال لو‘‘۔۔۔ عمران نے پیکٹ کو اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے میز پر موجود اس بیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس میں رقم موجود تھی اور جیرٹو کسی ایسے معصوم بچے کی طرح بیگ پر جھپٹا جیسے کافی عرصے بعد بچے کو اپنا پسندیدہ کھلونا ملا ہو۔ اس نے بیگ کھولا اور گڈیاں نکال کر باہر میز پر رکھنے لگا۔ پھر اس نے باقاعدہ گڈیوں کو چیک کرنا شروع کر دیا۔ عمران اور اس کے ساتھی خاموش کھڑے ہوئے تھے۔
 ’’ٹھیک ہے‘‘۔۔۔ تھوڑی دیر بعد جیرٹو نے مطمئن لہجے میں کہا اور رقم کو واپس بیگ میں ڈال کر اس نے بیگ بند کیا اور اسے اٹھا کر اپنے ایک آدمی کی طرف بڑھا دیا۔
’’ایک منٹ جیرٹو‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو جیرٹو ایک جھٹکے سے مڑا۔
’’پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے خصوصی طور پر اس دور دراز پوائنٹ کو اس لین دین کے لئے کیوں منتخب کیا ہے جبکہ یہ لین دین تو شہر میں کسی جگہ بھی ہو سکتا تھا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے سمجھے۔ میں نے جو مناسب سمجھا ہے وہی کیا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے قدرے سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’اچھا۔ یہ بتا دو کہ یہاں خفیہ کیمرہ نصب کرانے اور لین دین کی باقاعدہ فلم بنانے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔۔۔ عمران نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’صرف اس لئے کہ کل کو حکومت پاکیشیا یہ نہ کہہ سکے کہ اسے فارمولا نہیں ملا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے جواب دیا اور واپس مڑ گیا۔ اس کے ساتھی بھی خاموشی سے واپس مڑگئے اور پھر وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے بیرونی احاطے میں آ گئے۔ عمران بھی اپنے ساتھیوں سمیت ان کے پیچھے باہر آگیا۔ چند لمحوں بعد جیرٹو کی کار سٹارٹ ہو کر مڑی اور پھر خاصی تیز رفتاری سے دوڑتی ہوئی احاطے سے باہر نکل کر مین روڈ کی طرف بڑھتی چلی گئی۔
’’عمران صاحب۔ چیک کر لیں ایسا نہ ہو کہ پیکٹ کے اندر فارمولا تبدیل کر دیا گیا‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’نہیں ۔ میں نے چیک کر لیا ہے۔پیکٹ کو کھولا ہی نہیں گیا۔ اس پر میری مخصوص نشانیاں موجود ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے مطمئن لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر اب کیا پرو گرا م ہے۔ فارمولا تو مل گیا ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’کچھ دیر ٹھہر جاؤ۔ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے جو نظر نہیں آ رہی‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’محسوس تو مجھے بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ لیکن گڑ بڑ کہاں ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ تو واقعی واپس چلے گئے ہیں ‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمارے خلاف راستے میں کہیں نہ کہیں پکٹنگ کی گئی ہو گی‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ اب یہاں سے تو چلیں ‘‘۔۔۔ تنویر نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ہاں ۔ ٹھیک ہے۔ لیکن بہرحال ہمیں محتاط رہنا ہو گا‘‘۔ عمران نے کہا اور پھر وہ سب دوسرا بیگ اٹھا کر اپنی کار میں لے آئے اور دوسرے لمحے کار تیز رفتاری سے احاطے سے نکل کر واپس مین روڈ کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ شروع شروع میں تو وہ لوگ بے حد چوکنا رہے لیکن جب زرعی فارم سے وہ کافی فاصلے پر پہنچ گئے تو ان کے اعصاب خود بخود ڈھیلے پڑ گئے۔ مین روڈ اس زرعی فارم سے سات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اس لئے انہیں مین روڈ تک پہنچتے پہنچتے تقریباً نصف گھنٹہ لگ گیا لیکن ابھی مین روڈ تھوڑے فاصلے پر ہی تھا کہ اچانک عمران نے پوری قوت سے بریک لگائے اور ٹائر ایک طویل چیخ مار کر سڑک پر جم سے گئے۔ کار ایک زور دار جھٹکے سے رک گئی تھی کیونکہ سڑک پر ایک بڑا سا درخت سڑک کی چوڑائی میں گرا ہوا تھا۔
’’خبردار۔ ہاتھ اٹھا کر باہر آ جاؤ ورنہ ایک لمحے میں ہلاک کر دئیے جاؤ گے‘‘۔۔۔ اسی لمحے ایک چیختی ہوئی آواز سنا ئی دی اور اس کے ساتھ ہی دونوں اطراف کے درختوں کی اوٹ سے چار چار مشین گنوں سے مسلح افراد سامنے آ گئے۔
’’لو بھئی جو خطرہ ہمارے اعصاب پر سوار تھا وہ سامنے آ ہی گیا‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر اسی اطمینان سے کار کا دروازہ کھول کر باہر آگیا۔باہر آتے ہی اس نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر سر پر رکھ لئے البتہ اس نے اپنی پشت کار سے لگا رکھی تھی۔
’’وہ فارمولا کہاں ہے جو تم نے جیرٹو سے حاصل کیا ہے۔‘‘ ایک آدمی نے بڑے سخت لہجے میں کہا۔ عقبی سیٹ سے صفدر بھی باہر نکل کر
 ’’میں نے کیا چیک کرنا ہے۔وہ وہی فارمولا ہے جو جیرٹو نے انہیں فروخت کیا ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے جواب دیا۔
’’تو پھر پہلے اسے چیک کر لو۔وہ فارمولا نہیں ہے بلکہ سادہ فلم کی ڈبیہ ہے۔فارمولا جیر ٹو کے پاس ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’کیا۔کیا مطلب۔میں سمجھا نہیں تمہاری بات ‘‘۔۔۔ کیلارڈ کے لہجے میں بے پناہ حیرت تھی۔
’’اس میں سمجھ میں نہ آنے والی کون سی بات ہے۔ کہہ تو رہا ہوں کہ اصل فارمولا تمہارے پاس نہیں ہے اس پیکٹ میں فارمولے کی جگہ سادہ مائیکروفلم ہے۔تم چیک کر لو‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ابھی فارمولا میرے پاس نہیں پہنچا لیکن بہرحال وہ کسی بھی لمحے پہنچ سکتا ہے لیکن تم یہ بات کس بنیاد پر کر رہے ہو‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’اس بنیاد پر کہ جیر ٹو تمہارے فون آنے سے چند لمحے قبل اس کا سودا مجھ سے کیا ہے۔اس نے مجھے خود بتایا ہے کہ اس نے پاکیشیائی ایجنٹوں سے دس کروڑڈالرز وصول کر کے انہیں سادہ فلم دے دی ہے اور اب اس نے مجھ سے اس کا سودا کیا ہے ‘‘۔ سٹارک نے کہا۔
’’اوہ۔اس نے یقیناً تم سے غلط بیانی کی ہے۔وہ اب تم سے بھی رقم وصول کرنا چاہتا ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا تو سٹارک ایک بار پھر اچھل پڑا۔
’’اوہ۔تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو اسے کیا ضرورت تھی اپنے پوائنٹ سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر اپنے آدمی تعینات کرنے کی کہ وہ ان پاکیشیائی ایجنٹوں کو ہلاک کر کے ان سے یہ فارمولا حاصل کریں ‘‘۔کیلارڈ نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب۔میں سمجھا نہیں ۔کھل کر بات کرو کیلارڈ ‘‘۔سٹارک نے کہا۔
’’ایک شرط ہے۔تم اسے کچھ نہیں بتاؤ گے ‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’وعدہ رہا۔ ویسے بھی تم میری عادت جانتے ہو‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا تو کیلارڈ نے اسے جیرٹو کی ساری منصوبہ بندی تفصیل سے بتا دی جو اس کے ہیڈ کوارٹر میں موجود اس کے خاص آدمی نے بتائی تھی۔
’’لیکن پھر تمہارے پاس یہ فارمولا کیسے پہنچ جائے گا‘‘۔سٹارک نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’میرے آدمی وہاں پہنچیں گے اور وہ ٹاسکو کے آدمیوں کو ہلاک کر کے پھر ان پاکیشیائی ایجنٹوں کو ہلاک کریں گے اور ان سے فارمولا حاصل کر کے مجھ تک پہنچا دیں گے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’اوہ۔یہ بات ہے تو پھر پہلے فارمولا چیک کر لو۔ اگر یہ اصل فارمولا ہوا تو مجھے فون کرنا۔میں تمہیں اس کی معقول قیمت دوں گا‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’اوکے۔ٹھیک ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا اور سٹارک نے رسیور رکھ دیا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ جیر ٹو اس طرح مجھ سے انتقام لینا چاہتا ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔گو کیلارڈ کے فون آنے سے پہلے وہ فوری طور پر ساڈان کے سفیر سے رابطہ کر کے اس سے رقم کی بات کرنا چاہتا تھا لیکن اب اس نے یہ فیصلہ تبدیل کر دیا تھا تا کہ پہلے یہ بات کنفرم ہو جائے کہ اصل فارمولا کس کے پاس ہے اس لئے اس نے اس سلسلے میں کوئی کار روائی نہ کی۔

٭٭٭٭





عمران نے کمرے میں پہنچ کر فارمولے والا پیکٹ جیب سے نکالا اور اسے ایک بار غور سے دیکھنے لگا۔ جولیا اس کے ساتھ خاموش کھڑی تھی جبکہ باقی ساتھی باہر نگرانی پر مامور تھے۔
’’لگتا تو یہ ٹھیک ہے لیکن‘‘۔۔۔ عمران نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’اگر ٹھیک ہے تو پھر چیک کرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ جولیا نے کہا۔
’’اب چیک کرنا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ جیرٹو کی طرف سے پہلے پرو گرام سے ہٹ جانا بتا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہوا ہے ورنہ وہ لازماً پہلے پرو گرام کے مطابق باہر اپنے آدمی تعینات کر دیتا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے کوٹ کے کالر کے اندر استر میں موجود ایک باریک پھل والا استرا سا نکالا اور اس کی مدد سے اس نے پیکٹ کی ایک سائیڈ کو کاٹ دیا۔ چند لمحوں بعد پیکٹ میں سے فارمولے کی ڈبیا باہر آ گئی۔ عمران نے میز پر موجود بیگ کھولا اور اس میں موجود مائیکرو فلم پروجیکٹر نکال کر اس نے اسے میز پر رکھا اور پھر اس کی لیڈ دیوار میں موجود بجلی کی ساکٹ میں لگا کر اس نے مائیکرو فلم کی ڈبیا کھول کر اندر سے مائیکرو فلم نکالی اور اسے پروجیکٹر کے مخصوص خانے میں ڈال کر اسے آپریٹ کرنا شروع کر دیا۔ جدید پروجیکٹر کے اندر بنی ہوئی چھوٹی سی سیکرین روشن ہو گئی اور اس پر روشنی کے جھماکے سے ہونے شروع ہو گئے۔ عمران نے ایک اور بٹن پریس کیا اور پھر ہاتھ ہٹا لئے۔ اس کی اور جولیا دونوں کی نظریں سکرین پر جمی ہوئی تھیں ۔ اب سکرین مکمل طور پر روشن ہو چکی تھی لیکن اس پر کسی قسم کے حروف نہ ابھر رہے تھے۔ عمران نے فلم چلنے کے بارے میں نمبرز ظاہر کرنے والے خانے کو دیکھا تو اس کے ہونٹ بے اختیار بھنچ گئے۔ اس خانے میں نمبر مسلسل آگے بڑھ رہے تھے لیکن سکرین خالی تھی۔
’’یہ کیا مطلب ہوا۔ فلم چل کیوں نہیں رہی‘‘۔۔۔ جولیا نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔
’’فلم تو چل رہی ہے۔ یہ نمبر بتا رہے ہیں کہ آدھی فلم چل چکی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو جولیا بے اختیار اچھل پڑی۔
’’پھر فارمولا سکرین پر کیوں نہیں آ رہا‘‘۔۔۔ جولیا نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’فلم میں فارمولا موجود ہو تو سکرین پر آئے۔ یہ فلم سادہ ہے‘‘۔ عمران نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’کیا۔ کیا مطلب۔ تم تو کہہ رہے تھے کہ پیکٹ پر موجود تمہاری لگائی ہوئی نشانیاں درست ہیں اور پیکٹ کھولا ہی نہیں گیا۔ پھر‘‘۔
جولیا نے کہا۔
’’یا تو اسے کھولے بغیر کسی اور انداز میں فلم تبدیل کر دی گئی ہے یا پھر اسے اس انداز میں کھولا اور پھر بند کیا گیا ہے کہ میری نظریں بھی دھوکہ کھا گئی ہیں ۔ تیسری کوئی صورت نہیں ہو سکتی‘‘۔ عمران نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے پروجیکٹر آف کر دیا۔
’’پھر اب کیا ہو گا‘‘۔۔۔ جولیا نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا‘‘۔۔۔ عمران نے لیڈ کو دیوار میں موجود ساکٹ سے علیحدہ کر کے واپس مڑتے ہوئے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ تم پھر دھوکہ کھا گئے۔ حیرت ہے‘‘۔ جولیا نے کہا تو عمران بے اختیار ہنس پڑا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ میں دھوکہ نہیں کھا سکتا‘‘۔۔۔ عمران نے پروجیکٹر کو لپیٹ کر واپس بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’اب تک تو میرا یہی خیال تھا کہ تم جیسے آدمی کو دھوکہ دینا نا ممکن ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ میں اس قدر چالاک اور عیار ہوں کہ مجھے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا‘‘۔۔۔ عمران نے بیگ کی زپ بند کر کے اسے اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’چالاکی اور عیاری کی بات نہیں ہے۔ عقلمندی اور ہوشیاری کی بات ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے جواب دیا۔
 ’’اگر میں عقلمند اور ہوشیار ہوتا تو کیا اس طرح اب تک کنوارہ ہی پھر رہا ہوتا کیونکہ اس دنیا میں جو اتنا عقلمند ہو جانے کے باوجود کنوارہ رہ جائے اسے سادہ لوح ہی کہا جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو جولیا بے اختیار ہنس پڑی۔
’’اور جو خود ہی کنوارہ رہنے کا فیصلہ کر لے اسے کیا کہا جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بے چارہ‘‘۔۔۔ عمران نے بڑے معصوم سے لہجے میں کہا تو جولیا بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’تم واقعی بے چارے ہو اور بے چارے ہی رہو گے‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا اور اس کے ساتھ ہی وہ دونوں کمرے سے نکل کر باہر برآمدے میں پہنچ گئے۔
’’بے چاروں کی ٹیم کا لیڈر بے چارہ ہی بن سکتا ہے۔ کیوں ‘‘۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا تو جولیا ایک بار پھر ہنس پڑی۔
’’کیا ہوا عمران صاحب۔ آپ کا موڈ بتا را ہے کہ معاملات درست ہیں ‘‘۔۔۔ ایک سائیڈ سے صفدر نے ان کی طرف بڑھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
’’ابھی تک تو درست ہیں لیکن کسی بھی وقت بگڑ سکتے ہیں ‘‘۔ عمران نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب۔ میں سمجھا نہیں ‘‘۔۔۔ صفدر نے حیران ہو کر کہا۔
’’ابھی تمہیں جولیا ہنستی اور مسکراتی ہوئی نظر آ رہی ہے اس لئے معاملات درست ہیں لیکن کسی بھی وقت اس کا ہاتھ اس کی جوتی کی طرف بڑھ سکتا ہے اور اس وقت معاملات بگڑ جائیں گے اس لئے تو میں تنویر کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ کہاں ہے تا کہ جب معاملات بگڑیں تو وہ انہیں برداشت کر سکے‘‘۔۔۔ عمران نے احاطے میں پہنچ کر کار کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
’’میرا مطلب فارمولے سے تھا۔ اس کا کیا ہوا‘‘۔۔۔ صفدر نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’عمران دھوکہ کھا گیا ہے۔ پیکٹ میں سادہ فلم ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے پہلی بار زبان کھولتے ہوئے کہا تو صفدر بے اختیار اچھل پڑا۔
’’سادہ فلم۔ اوہ۔ لیکن عمران صاحب تو کہہ رہے تھے کہ انہوں نے پیکٹ کی مخصوص نشانیاں چیک کر لی ہیں ‘‘۔۔۔ صفدر نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’جیرٹو اس سے زیادہ چالاک اور ہوشیار ثابت ہوا ہے‘‘۔ جولیا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ اسی لمحے کیپٹن شکیل اور تنویر بھی کار کے پاس پہنچ گئے اور جب انہیں معلوم ہوا کہ فلم سادہ نکلی تو تنویر کا چہرہ بے اختیار بگڑ گیا۔
’’اب تک بارہ کروڑ ڈالرز دے چکے ہو تم ان گھٹیا بدمعاشوں کو اور نتیجہ کیا نکلا ہے سادہ فلم‘‘۔۔۔ تنویر نے غصیلے لہجے میں کہا۔
’’ہاں عمران صاحب۔ تنویر کی بات درست ہے۔ اس بار آپ کی ساری منصوبہ بندی غلط ثابت ہوئی ہے‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’چلو شکر ہے اب تو کسی کو میری سادہ لوحی پر یقین آ جائے گا اور پھر خزاں بہار میں بدل جائے گی ورنہ عقلمندی تو میرے لئے واقعی بلائے جان بن گئی تھی‘‘۔۔۔ عمران نے کار کا عقبی دروازہ کھول کر بیگ عقبی سیٹ کے پیچھے رکھتے ہوئے کہا۔
’’عمران صاحب۔ ہمیں فوری طور پر اس جیرٹو پر ہاتھ ڈالنا ہو گا ورنہ اب اس کی حتی الوسع کوشش ہو گی کہ وہ فارمولا فروخت کر دے‘‘۔۔۔ کیپٹن شکیل نے کہا۔
’’ہاں ۔ ایسا ہی کرنا ہو گا۔ بہرحال یہاں سے چلو‘‘۔۔۔ عمران نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا اور اسکے ساتھ ہی وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جولیا سائیڈ سیٹ پر اور باقی ساتھی عقبی سیٹ پر بیٹھ گئے تو عمران نے کار موڑ کر احاطے کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھا دی۔
’’اب کیا ہم ٹاسکو کے ہیڈ کوارٹرز جا رہے ہیں ‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’نہیں ۔ وہ ایک تنظیم کا ہیڈ کوارٹر ہے چاہے یہ تنظیم بد معاشوں کی ہی کیوں نہ ہو۔ بہرحال تنظیم ہی ہے اور دوسری بات یہ سن لو کہ ہم نے ہر قیمت پر پہلے فارمولا حاصل کرنا ہے کیونکہ ابھی ہم زخمی ہیں اور پوری طرح فٹ نہیں ہیں اور دوسری بات یہ کہ یہ فارمولا ایک چھوٹی سی ڈبیہ میں بند ہے۔
اور اسے کسی بھی جگہ کسی بھی کلب میں کسی بھی لاکر میں کسی بھی الماری میں یا کسی بھی سیف میں رکھا جا سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ یہ فارمولا ٹاسکو کے ہیڈ کوارٹر کے سیف میں ہی رکھا گیا ہو‘‘۔۔۔ عمران نے اس بار سنجیدہ لہجے میں کہا۔
’’اوہ واقعی۔ لیکن پھر فارمولا کیسے حاصل ہو گا‘‘۔۔۔ جولیا نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’جس طرح فارمولا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ رقم دے کر‘‘۔۔۔ عمران نے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تم پھر بد معاشوں کو رقم دینے کی سوچ رہے ہو۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔ کیا تم واقعی احمق ہو گئے ہو‘‘۔۔۔ عقبی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تنویر نے کہا۔
’’میں نے کہا ہے میں پہلے فارمولا حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد دی ہوئی ساری رقم اگلوائی جا سکتی ہے ورنہ فارمولا ہمیشہ کے لئے بھی غائب ہو سکتا ہے اور ہم چاہے راگونا کے تمام بدمعاش ہلاک کر دیں ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’لیکن اس کے لئے آپ نے ظاہر ہے کہ کوئی پلاننگ تو سوچی ہو گی‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’ہاں ۔ ایک پلان میرے ذہن میں آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ساڈان حکومت کے نمائندے سٹارک پر ہاتھ رکھا جائے پھر ہی فارمولا حاصل کیا جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’عمران صاحب نے درست سوچا ہے۔ جیرٹو دس کروڑ ڈالرز کی بھاری رقم بھی حاصل کر چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہمارے ساتھ فراڈ بھی کر لیا ہے اس لئے اب وہ کوشش کرے گا کہ فارمولا کسی ایسی حکومت کے ایجنٹ کے پاس کم رقم میں فوری فروخت کر دے جس سے اسے فوری رقم بھی مل سکے‘‘۔۔۔ کیپٹن شکیل نے کہا۔
’’یہ تو ضروری نہیں کہ وہ ایجنٹ سٹارک ہی ہو۔ اسرائیل کا بھی تو کوئی ایجنٹ ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’میں نے یہ نہیں کہا کہ جیرٹو، سٹارک کو ہی فارمولا فروخت کرے گا۔ میں نے کہا ہے کہ سٹار ک کے ذریعے فارمولا حاصل کیا جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’لیکن کس طرح۔ کیا سٹارک فارمولا حاصل کر کے ہمیں دے دے گا‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’اگر سٹارک کا قد و قامت ہم میں سے کسی سے ملتا جلتا ہوا تو پھر تو سٹارک واقعی پابند ہو جائے گا ورنہ پھر اسے مجبور کیا جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور اس بار سب نے سوائے تنویر کے اس انداز میں سر ہلا دئیے جیسے وہ عمران کی پلاننگ سے متفق ہو گئے ہوں البتہ تنویر خاموش بیٹھا ہوا تھا اس کا چہرہ ویسے ہی بگڑا ہوا تھا۔
’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ سٹارک کہاں مل سکے گا‘‘۔۔۔ جولیا نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔
’’ہاں ۔ میں نے معلوم کر لیا تھا کہ وہ سٹارک ہوٹل کا مالک اور مینجر ہے اور اس کا اٹھنا بیٹھنا سٹارک ہوٹل میں ہی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا اور جولیا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


٭٭٭٭





 ٹیلی فون کی گھنٹی بجتے ہی سٹارک نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس۔ سٹارک بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔
’’کیلارڈ بول رہا ہوں سٹارک۔ میں نے اس لئے فون کیا ہے کہ تمہیں بتا سکوں کہ فارمولا ہمارے ہاتھ نہیں لگ سکا‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے بلیک سروس کے کیلارڈ کی آواز سنائی دی تو سٹارک بے اختیار چونک پڑا۔
’’کیوں ۔ کیا ہوا ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ جیرٹو نے اپنا پلان عین آخری لمحات میں بدل دیا تھا جس کا علم مجھے نہ ہو سکا۔ ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ہمارے آدمیوں کی لاشیں وہاں سے ملی ہیں اور نہ وہاں پاکیشیائیوں کی لاشیں ہیں اور نہ ہی ٹاسکو کے آدمیوں کی۔ اس سے میں نے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ جیرٹو نے غلط فارمولا پاکیشیائیوں کے حوالے کیا اور ان سے رقم لے لی۔ اس لئے اس نے اپنے آدمیوں کو وہاں تعینات کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی اور اس لئے اس نے تمہیں فارمولا خریدنے کی آفر کی ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’جیرٹو ایسا ہی آدمی ہے۔ مجھے پہلے سے یہی خیال تھا لیکن تمہاری بات سن کر میں شک میں پڑ گیا تھا۔ بہرحال تم نے اچھا کیا کہ مجھے بتا دیا۔ اب دس بجے سے پہلے مجھے کم از کم ایک کروڑ ڈالرز کا بندوبست کرنا پڑے گا تا کہ فارمولا خریدا جا سکے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ یہ تمہاری قسمت میں تھا اس لئے تم ہی اسے حاصل کرو گے۔ مجھے تو ان بے چارے پاکیشیائی ایجنٹوں کی قسمت پر افسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے پہلے مجھے دو کروڑ ڈالرز ادا کئے پھر انہوں نے جیرٹو کو دس کروڑ ڈالرز ادا کئے لیکن فارمولا پھر بھی انہیں نہ مل سکا‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔ واقعی یہ تو قسمت کی بات ہے۔ میں تو پہلے واقعی مایوس ہو گیا تھا‘‘۔۔۔ سٹارک نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔
’’اوکے۔ وش یو گڈ لک‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا اور اس کے ساتھ ہی رابطہ ختم ہو گیا تو سٹارک نے رسیور رکھ دیا۔ وہ کچھ دیر تک بیٹھا سوچتا رہا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اب اتنی جلدی سفارت خانے والے ایک کروڑ ڈالرز کا بندوبست نہ کر سکیں گے کیونکہ انہیں بہرحال حکومت ساڈان کے اعلیٰ افسران سے منظوری وغیرہ لینے کی طویل کاروائی کرنا پڑے گی اور جیرٹو کے مزاج کے بارے میں بھی وہ جانتا تھا کہ اگر دس بجے تک اس نے ایک کروڑ ڈالرز ادا نہ کئے تو پھر وہ فارمولا فروخت کرنے سے ہی انکار کر دے گا اس لئے وہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ فوری طور پر ایک کروڑ ڈالرز کہاں سے حاصل کرے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے رسیور اٹھا لیا اور نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’پیرا گون کمپنی‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
’’سٹارک ہوٹل سے سٹارک بول رہا ہوں ۔ مارٹی سے بات کراؤ۔ ‘‘سٹارک نے کہا۔
’’ہولڈ کریں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’ہیلو۔ مارٹی بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد ایک مردانہ آواز سنائی دی۔ لہجہ سپاٹ تھا۔
’’مارٹی۔ میں سٹارک بول رہا ہوں ۔ مجھے ایک کروڑ ڈالرز نقد یا اتنی رقم کا گارنٹڈ چیک چاہئے۔ دو تین روز میں رقم بھی واپس کر دی جائے گی اور منافع بھی ادا کر دیا جائے گا‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
 ٹیلی فون کی گھنٹی بجتے ہی سٹارک نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس۔ سٹارک بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔
’’کیلارڈ بول رہا ہوں سٹارک۔ میں نے اس لئے فون کیا ہے کہ تمہیں بتا سکوں کہ فارمولا ہمارے ہاتھ نہیں لگ سکا‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے بلیک سروس کے کیلارڈ کی آواز سنائی دی تو سٹارک بے اختیار چونک پڑا۔
’’کیوں ۔ کیا ہوا ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ جیرٹو نے اپنا پلان عین آخری لمحات میں بدل دیا تھا جس کا علم مجھے نہ ہو سکا۔ ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ہمارے آدمیوں کی لاشیں وہاں سے ملی ہیں اور نہ وہاں پاکیشیائیوں کی لاشیں ہیں اور نہ ہی ٹاسکو کے آدمیوں کی۔ اس سے میں نے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ جیرٹو نے غلط فارمولا پاکیشیائیوں کے حوالے کیا اور ان سے رقم لے لی۔ اس لئے اس نے اپنے آدمیوں کو وہاں تعینات کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی اور اس لئے اس نے تمہیں فارمولا خریدنے کی آفر کی ہے‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے کہا۔
’’جیرٹو ایسا ہی آدمی ہے۔ مجھے پہلے سے یہی خیال تھا لیکن تمہاری بات سن کر میں شک میں پڑ گیا تھا۔ بہرحال تم نے اچھا کیا کہ مجھے بتا دیا۔ اب دس بجے سے پہلے مجھے کم ازکم ایک کروڑ ڈالرز کا بندوبست کرنا پڑے گا تا کہ فارمولا خریدا جا سکے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ یہ تمہاری قسمت میں تھا اس لئے تم ہی اسے حاصل کرو گے۔ مجھے تو ان بے چارے پاکیشیائی ایجنٹوں کی قسمت پر افسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے پہلے مجھے دو کروڑ ڈالرز ادا کئے پھر انہوں نے جیرٹو کو دس کروڑ ڈالرز ادا کئے لیکن فارمولا پھر بھی انہیں نہ مل سکا‘‘۔۔۔ کیلارڈ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔ واقعی یہ تو قسمت کی بات ہے۔ میں تو پہلے واقعی مایوس ہو گیا تھا‘‘۔۔۔ سٹارک نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔
’’اوکے۔ وش یو گڈ لک‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا اور اس کے ساتھ ہی رابطہ ختم ہو گیا تو سٹارک نے رسیور رکھ دیا۔ وہ کچھ دیر تک بیٹھا سوچتا رہا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اب اتنی جلدی سفارت خانے والے ایک کروڑ ڈالرز کا بندوبست نہ کر سکیں گے کیونکہ انہیں بہرحال حکومت ساڈان کے اعلیٰ افسران سے منظوری وغیرہ لینے کی طویل کاروائی کرنا پڑے گی اور جیرٹو کے مزاج کے بارے میں بھی وہ جانتا تھا کہ اگر دس بجے تک اس نے ایک کروڑ ڈالرز ادا نہ کئے تو پھر وہ فارمولا فروخت کرنے سے ہی انکار کر دے گا اس لئے وہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ فوری طور پر ایک کروڑ ڈالرز کہاں سے حاصل کرے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے رسیور اٹھا لیا اور نمبر پریس کرنے شروع کر دئیے۔
’’پیرا گون کمپنی‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
’’سٹارک ہوٹل سے سٹارک بول رہا ہوں ۔ مارٹی سے بات کراؤ۔ ‘‘سٹارک نے کہا۔
’’ہولڈ کریں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’ہیلو۔ مارٹی بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد ایک مردانہ آواز سنائی دی۔ لہجہ سپاٹ تھا۔
’’مارٹی۔ میں سٹارک بول رہا ہوں ۔ مجھے ایک کروڑ ڈالرز نقد یا اتنی رقم کا گارنٹڈ چیک چاہئے۔ دو تین روز میں رقم بھی واپس کر دی جائے گی اور منافع بھی ادا کر دیا جائے گا‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
 ’’تمہیں معلوم ہے کہ ہم دس فیصد منافع پر کام کرتے ہیں ۔ اگر تمہیں منظور ہے تو بات ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے اسی طرح سپاٹ لہجے میں کہا گیا۔
’’مجھے منظور ہے لیکن رقم مجھے فوری چاہئے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’اوکے۔ چونکہ تم خود یہ رقم لے رہے ہو اس لئے کسی گارنٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ میں گارنٹڈ چیک بھیج رہا ہوں ۔ میرا آدمی آ رہا ہے اس کا نام میکملن ہے اسے رسید دے دینا اور یہ بھی بتا دوں کہ وعدے کے مطابق اگر ادائیگی نہ ہو گی تو منافع بڑھنا شروع ہو جائے گا‘‘۔۔۔ مارٹی نے اسی طرح سپاٹ اور کاروبار ی لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں سمجھتا ہوں ۔ تم میکملن کو بھیج دو‘‘۔ سٹارک نے کہا اور رسیور رکھ کر اس نے ساتھ پڑے ہوئے انٹر کام کا رسیور اٹھایا اور یکے بعد دیگرے کئی نمبر پریس کر دئیے۔
’’چیلسی بول رہی ہوں کاؤنٹر سے‘‘۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
’’سٹارک بول رہا ہوں چیلسی۔ ابھی پیرا گون کمپنی کا آدمی میکملن آئے گا۔ اسے فوراً میرے آفس بھجوا دینا میں انتظار کر رہا ہوں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے مؤدبانہ لہجے میں کہا گیا تو سٹارک نے رسیور رکھ دیا اور پھر اس نے میز کی دراز کھولی اور اس میں سے ایک لانگ رینج کا جدید ساخت کا ٹرانسمیٹر نکال کر اس نے اسے آن کیا اور اس پر جیرٹو کی بتائی ہوئی فریکوئنسی ایڈجسٹ کرنا شروع کر دی۔
’’ہیلو ہیلو۔ سٹارک کالنگ۔ اوور‘‘۔۔۔ فریکوئنسی ایڈجسٹ کر کے سٹارک نے بار بار کال دینا شروع کر دی۔
’’یس۔ جیرٹو بول رہا ہوں ۔اوور‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد دوسری طرف سے جیرٹو کی آواز سنائی دی۔
’’میں نے ایک کروڑ ڈالرز کے گارنٹڈ چیک کا بندوبست کر لیا ہے جیرٹو۔ اوور‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’کیا رقم تم تک پہنچ چکی ہے۔ اوور‘‘۔۔۔ جیرٹو نے چونک کر پوچھا۔
’’ابھی دس بارہ منٹ میں پہنچ جائے گی۔ اوور‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ پھر میں اپنا آدمی فارمولا دے کر بھیج دیتا ہوں ۔ اسے چیک دے دینا اور باقی رقم کا چیک بھی ایک ہفتے کے اندر اندر مجھے مل جانا چاہیے۔ اوور‘‘۔۔۔ جیرٹو نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔ لیکن خیال رکھنا۔ کوئی دھوکہ نہ کرنا ورنہ معاملات بے حد خراب ہو جائیں گے۔ اوور‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’تم سے دھوکہ کر کے میں نے کیا لینا ہے۔ تمہیں اصل فارمولا مل جائے گا۔ اوور‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے جیرٹو نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اوکے۔ کیا نام ہے تمہارے آدمی کا۔ اوور‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’میرا خاص آدمی ہے ایڈورڈ فشر۔ تم بھی اسے جانتے ہو۔ وہ آئے گا فارمولا لے کر۔ اوور‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں اسے ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں ۔ کب تک پہنچ جائے گا۔ اوور‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ایک گھنٹے تک پہنچ جائے گا۔ اوور‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’ایک گھنٹے تک۔ اتنی دیر۔ اوور‘‘۔۔۔ سٹارک نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’وہ میرے ساتھ ہے اور اس وقت راگونا سے کافی دور ایک خاص علاقے میں موجود ہوں ۔ اس لئے اسے یہاں سے تم تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔ اوور‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’کیا تم ان پاکیشیائی ایجنٹوں کی وجہ سے راگونا سے باہر چلے گئے تھے۔ اوور‘‘۔۔۔ سٹارک نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’آئندہ ایسی بات سوچنا بھی نہ۔ میں پاکیشیائی ایجنٹوں سے ڈروں گا۔ ویسے بھی وہ اطمینان سے پاکیشیا واپس چلے جائیں گے۔ مجھے ان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں ایک اہم کام کی وجہ سے یہاں آیا ہوں اور فارمولے کی اہمیت کے پیش نظر وہ میرے پاس ہے۔ اوور اینڈ آل‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے غصیلے لہجے میں کہا گیا اور اس کے ساتھ ہی رابطہ ختم ہو گیا تو سٹارک نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے ٹرانسمیٹر آف کیا اور اسے واپس دراز میں رکھ کر اس نے دراز بند کر دی۔ اب اس کے چہرے پر اطمینان کے تاثرات نمایاں ہو گئے تھے۔ پھر تقریباً دس منٹ بعد اسے اطلاع ملی کہ پیرا گون کمپنی کا آدمی میکملن پہنچ گیا ہے تو اس نے اسے آفس میں بلا لیا اور پھر تھوڑی دیر بعد میکملن آفس میں آیا۔ اس نے جیب سے ایک لفافہ نکال کر سٹارک کی طرف بڑھا دیا۔
’’بیٹھو میکملن‘‘۔۔۔ سٹارک نے لفافہ لیتے ہوئے کہا تو میکملن میز کی دوسری طرف موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔ سٹارک نے لفافہ کھولا اور اندر موجود چیک نکال کر اسے غور سے دیکھنے لگا۔ یہ واقعی ایک کروڑ ڈالرز کا گارنٹڈ چیک تھا۔ اس نے اطمینان بھرے انداز میں لمبا سانس لیا اور پھر چیک کو لفافے میں ڈال کر اس نے لفافہ میز کی دراز میں رکھ دیا۔
’’اس کی رسید دے دیں ‘‘۔۔۔ میکملن نے کہا تو سٹارک نے اثبات میں سر ہلا یا اور پھر میزپر پڑے ہوئے اپنے ہوٹل کے پیڈ کو اپنی طرف کھسکایا۔ اس نے قلمدان سے قلم نکالا اور پھر رسید لکھ کر اس نے نیچے نہ صرف اپنے دستخط کر دئیے بلکہ مخصوص مہر بھی لگا دی اور پھر رسید کا کاغذ پیڈ سے علیحدہ کر کے اس نے میکملن کی طرف بڑھا دیا۔ میکملن نے ایک نظر رسید کو دیکھا اور پھر اسے تہہ کر کے اپنی جیب میں ڈالا اور اٹھ کر سلام کر کے واپس مڑ گیا۔ اب سٹارک کو ایڈورڈ فشر کا انتظار تھا کہ وہ ا س سے فارمولا حاصل کر سکے۔ اس کے چہرے پر کامیابی اورفتح مندی کے آثار نمایاں تھے۔


٭٭٭٭





 عمران نے کار سٹارک ہوٹل کے کمپاؤنڈ میں موڑی اور پھر اسے ایک طرف بنی ہوئی وسیع و عریض پارکنگ کی طرف لے گیا۔ پارکنگ میں رنگ برنگی اور جدید ماڈل کی کاریں کافی تعداد میں موجود تھیں ۔ عمران اور اس کے ساتھی ایکریمین میک اپ میں تھے۔ کار ایک سائیڈ پر روک کر وہ سب نیچے اتر آئے۔
’’ہم نے کوئی ہنگامہ نہیں کرنا۔ سمجھے۔ کیونکہ ایسی اطلاعات بہت دور تک اور فوری پہنچ جاتی ہیں ۔ اگر ہنگامے کی اطلاع جیرٹو تک پہنچ گئی تو پھر ہمارا سارا پلان ختم ہو جائے گا‘‘۔۔۔ عمران نے ہوٹل کے مین گیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے آہستہ سے اپنے ساتھیوں سے کہا اور سب نے اثبات میں سر ہلا دئیے۔
’’لیکن کیا سٹارک آسانی سے کام پر تیار ہو جائے گا‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’دیکھو۔ فی الحال اس سے ملاقا ت تو ہو‘‘۔۔۔ عمران نے گول مول سے لہجے میں جواب دیا اور پھر وہ ہوٹل کے ہال میں داخل ہو گئے۔ یہاں خاصا رش تھا لیکن شورو غل نہیں تھا۔ ہال کی سجاوٹ اور وہاں موجود افراد کودیکھ کر صاف معلوم ہو جاتا تھا کہ یہ ہوٹل جرائم پیشہ افراد کا اڈا نہیں ہے بلکہ متوسط اور شریف لوگوں کا ہوٹل ہے۔ ایک طرف کاؤنٹر کے پیچھے تین نوجوان لڑکیاں موجود تھیں جن میں سے دو ویٹرز کو سروس دینے میں مصروف تھیں جبکہ ایک سامنے فون رکھے خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔ عمران اورا س کے ساتھی جیسے ہی کاؤنٹر کے قریب پہنچے اس لڑکی نے چونک کر ان کی طرف دیکھا اور اس کے ساتھ ہی وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
’’یس سر‘‘۔۔۔ لڑکی نے کاروبار انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میرا نام مائیکل ہے اور یہ میرے ساتھی ہیں ۔ ہم ناراک سے آئے ہیں اور سٹارک سے ملنا ہے ایک بزنس ٹاک کے سلسلے میں ‘‘۔ عمران نے بڑے مہذبانہ لیکن خالصتاً ایکریمی لہجے میں کہا۔
’’کیا آپ کی ملاقات باس سے طے ہے‘‘۔۔۔ لڑکی نے چونک کر پوچھا۔
’’طے تو نہیں ہے لیکن طے ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے جیب سے بڑی مالیت کا ایک نوٹ نکال کر اس لڑکی کی طرف اچھال دیا۔
’’اوہ۔ اوہ۔ اچھا ٹھیک ہے‘‘۔۔۔ لڑکی نے چونک کر کہا اور اسکے ساتھ ہی اس نے واقعی انتہائی چابکدستی سے نوٹ لے کر اسے کاؤنٹر کے نیچے غائب کر دیا۔ اس کا انداز ایسا تھا کہ کاؤنٹر کی دوسری لڑکیوں کو شاید اس کا احساس تک نہ ہو سکا تھا۔ پھر اس نے رسیور اٹھایا اور چند نمبر پریس کر دئیے۔
’’کاؤنٹر سے چیلسی بول رہی ہوں باس‘‘۔۔۔ لڑکی نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’باس۔ ناراک سے ایک خاتون اور چار مرد تشریف لائے ہیں ۔ وہ آپ سے کسی بڑے بزنس کے سلسلے میں معاملات طے کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔۔۔ چیلسی نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’یس سر۔ میں نے چیک کر لیا ہے۔ وہ خالصتاً کاروبار افراد ہیں ‘‘۔۔۔ چیلسی نے کہا۔
’’یس سر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے بات سن کر اس لڑکی نے کہا اور رسیور رکھ کراس نے ایک طرف کھڑے ایک نوجوان کو اشارے سے بلایا۔
’’انہیں باس کے آفس تک پہنچا دو اور مسٹر مائیکل آپ دس منٹ سے زیادہ وقت نہیں لیں گے‘‘۔۔۔ چیلسی نے پہلے اس نوجوان سے مخاطب ہو کر اور پھر عمران سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ شکریہ‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس نوجوان کی طرف مڑ گیا۔
’’آئیے جناب‘‘۔۔۔ اس نوجوان نے کہا اور سائیڈ پر بنی ہوئی ایک راہداری کی طرف مڑ گیا۔ راہداری کے آخر میں ایک دروازہ تھا جس کے باہر ایک با وردی آدمی سٹول پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ انہیں آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

*****




 ’’مس چیلسی نے بھیجا ہے انہیں ۔ باس سے بات کرنے کے لئے‘‘۔ اس نوجوان نے اس باوردی آدمی سے کہا۔
’’یس سر۔ تشریف لے جائیں سر‘‘۔۔۔ اس با وردی نوجوان نے مؤدبانہ انداز میں عمران اور اس کے ساتھیوں کو سلام کر کے خود ہی دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
’’شکریہ‘‘۔۔۔ عمران نے چپڑاسی اور اس نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا اور پھر دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔ یہ ایک خاصا بڑا کمر ہ تھا جسے انتہائی بہترین انداز میں سجایا گیا تھا۔ ایک طرف بڑی سی آفس ٹیبل کے پیچھے ریوالونگ چیئر پر ایک ایکریمی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ادھیڑ عمر تھا اور اس کے جسم پر شربتی رنگ کا سوٹ تھا۔ وہ عمران اور اس کے ساتھیوں کے اندر داخل ہوتے ہی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’میرا نام سٹارک ہے۔ میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں ‘‘۔ اس ادھیڑ عمر نے سب سے آگے موجود عمران کی طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا تے ہوئے کہا۔
’’میرا نام مائیکل ہے اور یہ میرے ساتھی ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی وہ میز کی دوسری طرف موجود کرسی پر بیٹھ گیا جبکہ عمران کے ساتھی سائیڈ پر پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے سٹارک سے مصافحہ نہ کیا تھا۔ سٹارک بھی واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’جی فرمائیے مسٹر مائیکل‘‘۔۔۔ سٹارک نے کاروبار ی انداز میں کہا۔
’’ٹاسکو کے چیف جیرٹو سے ایک سائنسی فارمولا خریدنا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم یہ کام کر سکتے ہو اور تمہیں تمہارا منہ مانگا کمیشن نقد دے سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے بڑے سادہ سے لہجے میں کہا تو سٹارک بے اختیار اچھل پڑا۔ اس کے چہرے پر یکلخت شدید حیرت کے تاثرات ابھر آئے تھے اور وہ اب بڑے غور سے عمران اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ رہا تھا۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ کیسا فارمولا اور کون جیرٹو‘‘۔ سٹارک نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’مسٹر سٹارک۔ ہمارا تعلق کافرستان سے ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ آپ حکومت ساڈان کے ایجنٹ ہیں اور ساڈان کے لئے آپ ٹاسکو کے چیف جیرٹو سے سی ٹاپ فارمولا خریدنا چاہتے تھے لیکن جیرٹو اس کے لئے بھاری رقم طلب کر رہا ہے۔ جو رقم حکومت ساڈان ادا نہیں کرنا چاہتی جبکہ حکومت کافرستان اس سلسلے میں بھاری رقم ادا کرنے کے لئے تیار ہے اور آپ کو اس کا معقول معاوضہ بھی دیا جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمر ان نے کہا۔
’’آپ بھی تو ایکریمی ہیں اس کے باوجود آپ ساڈان کے لئے کام کرتے ہیں ۔ اسی طرح ہم بھی کافرستان کے لئے کام کرتے ہیں ‘‘۔ عمران نے بڑے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
’’اوہ اچھا۔ لیکن آپ کو میرے بارے میں کیسے معلوم ہوا‘‘۔ سٹارک نے طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی باتیں ایجنٹوں سے چھپی نہیں رہ سکتیں ‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو پھر آپ کو یہ اطلاع بھی مل جانی چاہیے تھی کہ جیرٹو نے یہ فارمولا دس کروڑ ڈالرز میں پاکیشیائی ایجنٹوں کو فروخت کر دیا ہے‘‘۔ سٹارک نے کہا تو عمران بے اختیار اچھل پڑا۔
’’اوہ۔ کیا واقعی‘‘۔۔۔ عمران نے بڑے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ہاں میں درست کہہ رہا ہوں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے جواب دیا۔
’’ویری سیڈ۔ ورنہ ہم جیرٹو کو دس کروڑ ڈالرز اور آپ کو دو کروڑ ڈالرز کمیشن کے طور پر دینے کے لئے تیار ہو کر آئے تھے۔ ٹھیک ہے بہرحال اب کیا کیا جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے اٹھتے ہی اس کے ساتھی بھی کھڑے ہو گئے تھے۔
’’کیا آپ واقعی اتنی رقم اس فارمولے کے لئے خرچ کر سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے بھی اٹھتے ہوئے کہا۔ عمران نے جان بوجھ کر یہ سب کچھ کہا تھا اور اس نے اتنی بھاری رقم کا سن کر سٹارک کی آنکھوں میں ابھر آنے والی چمک بھی دیکھ لی تھی۔

**** 




’’ہاں ۔ حکومت کافرستان تو اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کر سکتی تھی لیکن اب تو بہرحال یہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’بیٹھیں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ۔ اب صرف وقت ضائع ہو گا اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں اجازت دیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’آپ بیٹھیں تو سہی۔ ہو سکتا ہے آپ کا کام ہو جائے‘‘۔ سٹارک نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا۔ اوہ۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر ہمیں اور کیا چاہئے‘‘۔ عمران نے مسرت بھرے لہجے میں کہا اور اسکے ساتھ ہی وہ واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ کمیشن کے طور پر مجھے پانچ کروڑ ڈالرز دے سکیں تو آپ کا کام ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’نہیں سوری۔ اتنی بڑی کمیشن کیسے دی جا سکتی ہے‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’سوچ لیں اور دوسری بات یہ کہ آپ اس ساری رقم کا گارنٹڈ چیک مجھے دکھائیں ۔ اس کے بعد بات آگے بڑھ سکے گی‘‘۔ سٹارک نے کہا۔
’’جب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ جیرٹو دس کروڑ ڈالرز کے عوض فارمولا پاکیشیائی ایجنٹوں کو فروخت کر چکا ہے تو پھر اس سلسلے میں مزید آپ کیا کر سکتے ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’آپ کو فارمولا چا ہئے۔ پاکیشیائی ایجنٹوں کو کیا فروخت ہوا ہے اور کیانہیں اس بات کو چھوڑیں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ہمیں واقعی فارمولا چاہئے لیکن اصل‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’اصل ہی ملے گا۔ اس بات کی فکر مت کریں ۔ پہلے رقم شو کریں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
جب ہم خود چل کر آپ کے پاس آئے ہیں اور ہم نے آپ کو خود ہی آفر کی ہے تو اس بارے میں آپ کو کسی الجھن میں نہیں پڑنا چاہئے۔ گارنٹڈ چیک بک ہمارے پاس موجود ہے البتہ آپ پہلے مجھے بتائیں کہ آپ یہ فارمولا کیسے حاصل کریں گے۔۔۔ ہمیں مطمئن کریں ‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’فارمولا ابھی پہنچ جائے گا۔ اس بات کی فکرنہ کریں ‘‘۔ سٹارک نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’یہاں پہنچ جائے گا ابھی۔ کیا مطلب‘‘۔۔۔ عمران نے ایسے لہجے میں کہا جیسے اسے سٹارک کی بات پر سرے سے ہی یقین ہی نہ آ رہا ہو۔
’’اصل بات یہ ہے کہ جیرٹو نے پاکیشیائی ایجنٹوں سے فراڈ کیا ہے اس نے انہیں نقلی فارمولا دے کران سے دس کروڑ ڈالرز وصول کر لئے ہیں اور خود وہ راگونا سے باہر کسی خفیہ مقام پر شفٹ ہو گیا ہے۔ اس نے مجھ سے بات کی ہے کہ میں حکومت ساڈان کے لئے یہ فارمولا خرید لوں ۔ میں نے اس سے سودا کر لیا ہے۔ کتنے میں کیا ہے اس سے آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہئے۔ جو رقم میں نے جیرٹو کو دینی ہے اس کا بندوبست فوری طور پر مجھے اپنے ذرائع سے کرنا پڑا ہے اس لئے حکومت ساڈان کو ابھی تک اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ میں جیرٹو سے فارمولے کا سودا کر چکا ہوں ۔ جیرٹو کا خاص آدمی ابھی یہاں پہنچنے والا ہے وہ اصل فارمولا مجھے دے گا اور میں رقم اسے دے دوں گا۔ اس کے بعد میں اس فارمولے کا مالک ہوں ۔ اب یہ میری مرضی ہے کہ میں اسے حکومت ساڈان کو فروخت کروں یا آپ کو۔ اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر آپ مجھے ساری رقم شو کرا دیں تو میں یہ فارمولا آپ کو دے سکتا ہوں ‘‘۔ سٹارک نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا۔
’’لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہو گی کہ جس طرح جیرٹو نے پہلے بقول آپ کے پاکیشیائی ایجنٹوں کے ساتھ فراڈ کیا ہے اسی طرح اب وہ آپ سے بھی فراڈ نہیں کرے گا اور اصل فارمولا ہی آپ کو بھجوائے گا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’اس بات کی میں آپ کو گارنٹی دوں گا ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ہمارے پاس پروجیکٹر موجود ہے۔ باہر ہماری کار میں موجود ہے۔ ہم اسی لئے اسے ساتھ لے آئے تھے کہ اگر یہ فارمولا مل جائے تو اسے چیک کیا جا سکے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میرا ساتھی پروجیکٹر لے آئے۔ ہم یہاں آپ کے آفس میں اسے چیک کریں گے۔ اگر یہ اصل ہوا تو آپ کو گارنٹڈ چیک دے کر اور فارمولا لے کر ہم چلے جائیں گے اور یہ بھی بتا دوں کہ اس سودے کا کسی کو علم نہیں ہو گا کیونکہ حکومت کافرستان بھی اسے خفیہ رکھنا چاہتی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’لیکن یہ تو سائنسی فارمولا ہے۔ اسے آپ کیسے چیک کریں گے‘‘۔ سٹارک نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’ہمیں اس بارے میں باقاعدہ بریفینگ دی گئی ہے تا کہ ہم غلط چیز نہ خرید لیں ‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’اوکے۔ ٹھیک ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔ سٹارک نے کہا۔
’’رچڑڈ تم جا کر کار سے بیگ لے آؤ‘‘۔۔۔ عمران نے صفدر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ صفدر نے اٹھتے ہوئے کہا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
’’آپ کو کس نے بتایا ہے کہ میں فارمولا خریدنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں ‘‘۔۔۔ سٹارک نے صفدر کے باہر جانے کے بعد کہا۔
’’میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ایسی خبریں ہم جیسے لوگوں تک بہرحال پہنچ جاتی ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو سٹارک نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر اس سے پہلے کہ مزید کوئی بات ہوتی انٹر کام کی گھنٹی بج اٹھی اور سٹارک نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ اسے بھجوا دو‘‘۔۔۔ سٹارک نے دوسری طرف سے بات سن کر کہا اور رسیور رکھ دیا۔ عمران خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک ورزشی جسم کا نوجوان اندر داخل ہوا لیکن جیسے ہی اس کی نظریں عمران اور اس کے ساتھیوں پر پڑیں وہ بے اختیار اچھل پڑا۔ اس کے چہرے پر شدید ترین حیرت کے تاثرات ابھر آئے تھے۔
’’یہ۔ یہ تو ‘‘۔۔۔ آنے والے نے انتہائی حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ یہ جیرٹو کا خاص آدمی ایڈورڈ فشر تھا۔
’’یہ میرے مہمان ہیں ۔ تم لے آئے ہو مال‘‘۔۔۔ سٹارک نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کہا۔
’’یہ پاکیشیائی ایجنٹ ہیں ۔ یہ‘‘۔۔۔ ایڈورڈ فشر نے حیرت بھرے لہجے میں کہا تو سٹارک بے اختیار اچھل پڑا۔
’’پاکیشیائی ایجنٹ۔ کیا مطلب ایڈورڈ‘‘۔۔۔ سٹارک کے لہجے میں شدید ترین حیرت تھی۔
’’مسٹر ایڈورڈ۔ ہمارا تعلق پاکیشیا سے نہیں ہے‘‘۔۔۔ عمران نے بڑے سادہ سے لہجے میں اس سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’تم فارمولا لے آئے ہو یا نہیں ۔ یہ بتاؤ‘‘۔۔۔ سٹارک نے کہا تو ایڈورڈ بے اختیار چونک پڑا۔
’’ہاں ۔ لیکن اب مجھے پہلے چیف سے بات کرنا ہو گی۔ یہ پاکیشیائی ایجنٹ ہیں ۔ میں چیف کے ساتھ ان کے پاس گیا تھا۔ یہ وہی ہیں ۔ میں پھر آؤں گا‘‘۔۔۔ ایڈورڈ نے کہا اور تیزی سے واپس دروازے کی طرف مڑا ہی تھا کہ یکلخت چیختا ہوا اچھل کر فرش پر گرا۔ یہ کاروائی تنویر نے کی تھی۔ نیچے گر کر ایڈورڈ بجلی کی سی تیزی سے اٹھا ہی تھا کہ تنویر کی لات گھومی اور ایڈورڈ ایک بار پھر چیختا ہوا اچھل کر سائیڈ پر جا گرا۔ اس کے ساتھ ہی عمران کی لات حرکت میں آئی اور ایڈورڈ کے پہلو میں پڑنے والی بھرپور ضرب نے اسے دوبارہ اٹھنے کے قابل نہ چھوڑا۔ یہ سب کچھ جیسے پلک جھپکنے میں ہی ہو گیا تھا۔ جولیا اٹھ کر ایک سائیڈ پر ہو گئی تھی۔
’’یہ۔ یہ تم نے کیا کیا۔ یہ جیرٹو کا خاص آدمی ہے۔ وہ تو مجھے اور میرے ہوٹل کو میزائلوں سے اڑا دے گا۔ نکل جاؤ تم۔ میں تم سے کوئی سودا نہیں کر سکتا‘‘۔۔۔ اچانک سٹارک نے چیختے ہوئے لہجے میں کہا۔ اس کے ہاتھ میں اب ایک بھاری ریوالور نظر آ رہا تھا لیکن اس سے پہلے کہ اس کا فقرہ مکمل ہوتا عمران کا جسم پارے کی طرح تڑپا اور دوسرے لمحے سٹارک کا جسم کسی گیند کی طرح ہوا میں اڑتا ہوا دروازے کی ساتھ والی دیوار سے ایک دھماکے سے جا ٹکرایا اور اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ سے کمرہ گونج اٹھا اور سٹارک دیوار سے ٹکرا کر نیچے گرا تو وہ کسی مردہ چھپکلی کی طرح بے حس و حرکت پڑا رہ گیا۔
’’کیا۔ کیا ہوا باس‘‘۔۔۔ اچانک دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور باہر موجود با وردی چپڑاسی چیختا ہوا اندر داخل ہوا لیکن دروازے کے ساتھ کھڑے کیپٹن شکیل کا بازو گھوما اور باوردی آدمی بھی سٹارک کی طرح چیختا ہوا اچھل کر نیچے گرا ہی تھا کہ تنویر کی لات گھومی اور وہ آدمی ایک بار پھر چیخ مار کر بے حس و حرکت ہو گیا۔ عمران تیزی سے ایڈورڈ کی طرف بڑھا اور اس نے اس کی تلاشی لینا شروع کر دی۔ چند لمحوں بعد عمران اس کی جیب سے ایک پیکٹ برآمد کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
’’صفدر کو دیکھو۔ وہ آ رہا ہو گا اور تم باہر کا بھی خیال رکھو۔ میرا خیال ہے کہ یہ فارمولا ہے لیکن اب ہم اسے چیک کر کے ہی جائیں گے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور کیپٹن شکیل تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
’’واقعی اب چیکنگ ضروری ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا اور عمران نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ چند لمحوں بعد صفدر بیگ اٹھائے اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر حیرت تھی البتہ کیپٹن شکیل اندر نہ آیا تھا۔ وہ شاید باہر ہی پہرہ داری کے لئے رک گیا تھا۔
’’یہ کیا ہو گیا‘‘۔۔۔ صفدر نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’جولیا۔ جلدی سے پروجیکٹر نکال اس کی لیڈ الیکٹرانک ساکٹ میں لگاؤ۔ جلدی کرو۔ کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے صفدر کی بات کا جواب دینے کی بجائے جولیا سے کہا تو جولیا بجلی کی سی تیزی سے حرکت میں آ گئی۔ اس نے بیگ میں سے پروجیکٹر نکال کر میز پر رکھا۔ اس کی تار سائیڈ دیوار میں موجود ساکٹ میں لگا دی تو عمران آگے بڑھا۔ وہ اس دوران پیکٹ کھول کر اس میں موجود مائیکرو فلم رول نکال چکا تھا۔ اس نے مائیکرو فلم پروجیکٹر میں ڈالی اور پھر خود ہی پروجیکٹر کو آپریٹ کرنا شروع کر دیا۔ چند لمحوں بعد سکرین روشن ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی سکرین پر حروف ابھرنے شروع ہو گئے اور عمران کے چہرے پر کامیابی کے تاثرات ابھر آئے جو بڑے غور سے ان الفاظ کو دیکھ رہا تھا۔
’’یہ اصل سی ٹاپ فارمولا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے پروجیکٹر سے فلم نکالی اور اسے واپس پیکٹ میں ڈال کر اس نے پیکٹ اپنی جیب میں ڈال لیا۔
’’جولیا۔ پروجیکٹر کو بیگ میں بند کر دو‘‘۔۔۔ عمران نے جولیا سے کہا اور خود وہ مڑ کر میز کی عقبی طرف موجود کرسی کی طرف بڑھ گیا۔ جس پر پہلے سٹارک بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے میز کی درازیں کھول کر انہیں چیک کرنا شروع کر دیاتو اوپر والی دراز میں اسے ایک لفافہ نظر آگیا۔ اس نے لفافہ اٹھا کر کھولا تو اس میں ایک کروڑ ڈالرز کا گارنٹڈ چیک موجود تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے چیک لفافے میں ڈال کر لفافہ جیب میں ڈال لیا۔ باقی درازوں میں ہوٹل کے سلسلے کے کاغذات بھرے ہوئے تھے۔ عمران واپس آگیا۔
’’اس ایڈورڈ کو اٹھا کر صوفے پر ڈالو اور اس کا کوٹ اس کے عقب میں کر دو‘‘۔۔۔ عمران نے صفدر سے کہا۔
’’تم اس سے اب کیا پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہو۔ ان دونوں کو ختم کرو اور نکل چلو۔ فارمولا تو مل ہی گیا ہے‘‘۔۔۔ تنویر نے کہا۔
’’میں نے بارہ کروڑ ڈالرز خرچ کئے ہیں ۔ وہ واپس نہیں لینے۔ دو کروڑ ڈالرز بلیک سروس سے اور دس کروڑ ڈالرز ٹاسکو سے‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’فی الحال یہاں سے چلیں عمران صاحب۔ رقم کے بارے میں بعد میں دیکھا جائے گا۔ ہم نے ابھی اس فارمولے کو محفوظ کرنا ہے اور یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’اچھا۔ تمہاری مرضی۔ ٹھیک ہے۔ ان دونوں کا خاتمہ کر دو اور چلو‘‘۔۔۔ عمران نے اس انداز میں کندھے اچکاتے ہوئے کہا جیسے وہ ان کی مرضی کا پابند ہو اور اس کے ساتھ ہی تنویر اور صفدر دونوں قالین پر بے ہوش پڑے ہوئے سٹارک اور ایڈورڈ پر جھک گئے۔ چند لمحوں بعد ہی وہ سیدھے ہوئے تو وہ دونوں ان کے ہاتھوں گردنیں تڑوا کر ہلاک ہو چکے تھے۔ تنویر سیدھا ہو کر اس باوردی آدمی کی طرف بڑھنے لگا۔
’’نہیں ۔ یہ بے چارہ ملازم ہے۔ اسے زندہ رہنے دو‘‘۔۔۔ عمران نے تنویر سے کہا۔
’’یہ ہمارے حلئے سب کو بتا دے گا اس لئے اس کی موت ضروری ہے‘‘۔۔۔ تنویر نے کہا۔
’’حلئے تو ہال میں موجود افراد بھی بتا د یں گے۔ اسے چھوڑ دو اور نکل چلو‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گیا اور باقی ساتھی بھی اس کے پیچھے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ کیپٹن شکیل باہر موجود تھا۔
’’آؤ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا اور پھر وہ سب تیز تیز قدم اٹھاتے ہال کی طرف بڑھتے چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد وہ سب کار میں سوار اپنی اس رہائش گاہ کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے جہاں سے وہ جیرٹو سے فارمولا لینے کی غرض سے روانہ ہوئے تھے۔


٭٭٭٭



 ٹیلی فون کی گھنٹی بجتے ہی میز کے پیچھے بیٹھے ہوئے جیرٹو نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔ وہ اس وقت ٹاسکو کے ہیڈ کوارٹر میں اپنے آفس میں موجود تھا۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ہنری کی کال ہے باس۔ سٹارک ہوٹل سے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ایک مؤدبانہ آواز سنائی دی تو جیرٹو بے اختیار چونک پڑا کیونکہ سٹارک ہوٹل میں اس نے ایڈورڈ فشر کو سی ٹاپ فارمولا دے کر بھیجا تھا تا کہ وہ سٹارک سے ایک کروڑ ڈالرز میں گارنٹڈ چیک لے آئے اور فارمولا اسے دے آئے اور اس وقت وہ ایڈورڈ کی واپسی کا ہی انتظار کر رہا تھا۔ اس لئے ہنری کی کال کا سن کر وہ اختیار چونک پڑا تھا۔
’’ہنری کیوں کال کر رہا ہے۔ وہ ایڈورڈ فشر کیوں نہیں آیا وہاں سے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے غصیلے لہجے میں کہا۔
’’میں کیا کہہ سکتی ہوں باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے اس کی پرسنل سیکرٹری نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’کراؤ بات‘‘۔۔۔ جیرٹو نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’ہیلو باس۔ میں ہنری بول رہا ہوں ۔ سٹارک ہوٹل سے ‘‘۔ چند لمحوں بعد ایک مردانہ آواز سنائی دی۔ لہجہ مؤدبانہ تھا۔
’’ہاں ۔ کیا بات ہے۔ کیوں فون کیا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے سخت لہجے میں کہا۔
’’ایڈورڈ فشر کو ہلاک کر دیا گیا ہے باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ہنری نے کہا تو جیرٹو اس طرح اچھلا جیسے اچانک کرسی کی سیٹ میں کانٹے نکل آئے ہوں ۔
’’کیا۔ کیا کہہ رہے ہو۔ کیا مطلب۔ کیا تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے حلق کے بل چیختے ہوئے کہا۔
’’میں درست کہہ رہا ہوں باس۔ اسے سٹارک کے آفس میں گردن توڑ کر ہلاک کر دیا گیا ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ہنری نے کہا۔
’’اوہ۔ اوہ۔ کیا مطلب۔ کیا سٹارک نے ایسا کیا ہے۔ کیا اس کی اتنی جرأت ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کاٹ کھانے والے لہجے میں کہا۔
’’سٹارک تو خود ہلاک ہو چکا ہے باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ہنری نے جواب دیا تو جیرٹو کے چہرے پر ایک بار پھر حیرت کے تاثرات ابھر آئے۔
’’کیا مطلب۔ کیا ہوا ہے۔ تفصیل بتاؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’باس۔ میں سٹارک کے ہوٹل کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ میں نے وہاں پولیس کی گاڑیاں دیکھیں ۔ چونکہ سٹارک ہوٹل میں پہلے کبھی اس قسم کی سرگرمی نظر نہ آئی تھی اس لئے میں حیران ہوا اور پھر کار اندر لے گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ سٹارک کے آفس سے سٹارک اور ایڈورڈ فشر کی لاشیں ملی ہیں ۔ ان دونوں کو گردنیں توڑ کر ہلاک کیا گیا ہے۔ آفس سے سٹارک کے آفس کا اٹنڈنٹ بھی بے ہوشی کے عالم میں ملا ہے۔ اسے جب ہوش میں لایا گیا تو اس نے پولیس کو بیان دیا کہ چار ایکریمی مرد اور ایک ایکریمی عورت سٹارک سے ملنے آئے تھے۔ انہیں کاؤنٹر پر موجود کاؤنٹر گرل چیلسی نے ایک سپروائزر کے ساتھ بھیجا تھا۔ یہ پانچوں آفس میں چلے گئے۔ پھر کچھ دیر بعد ان سے ایک ایکریمی مرد آفس سے نکل کر ہال کی طرف چلا گیا۔ چند لمحوں بعد ایڈورڈ فشر آگیا اور وہ بھی آفس میں چلا گیا۔ پھر اس نے اچانک اندر سے دھما کہ اور انسانی چیخ کی آواز سنی تو اسے گڑ بڑکا احساس ہوا اور وہ دروازہ کھول کر اندر گیا تو اس کو ضرب لگائی گئی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ کاؤنٹر گرل چیلسی نے بھی پولیس کو بیان دیا ہے۔ اس کے مطابق چار ایکریمی مرد اور ایک ایکریمی عورت کاؤنٹر پر آئے اور انہوں نے اسے کہا کہ وہ ناراک سے آئے ہیں اور سٹارک سے ایک بڑے سودے کی بات کرنا چاہتے ہیں جس پر اس نے سٹارک کو فون کیا تو اس نے انہیں آفس بھیجنے کا کہہ دیا۔ جس پر اس نے سپروائزر کے ذریعے انہیں آفس میں بھیج دیا اور پھر اس نے ان میں سے ایک آدمی کو ہال سے باہر جاتے دیکھا۔ چند لمحوں بعد ایڈورڈ فشر کاؤنٹر پر آیا تو اس نے سٹارک کو فون کر کے اطلاع دی۔ سٹارک نے اسے بھی آفس میں بھیجنے کا کہا تو اس نے ایڈورڈ فشر کو بھی اندر بھیج دیا۔ کچھ دیر بعد ہال سے باہر جانے والا ایکریمی مرد ایک بیگ اٹھائے واپس آیا اور آفس میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ چاروں ایکریمی مرد اور ایک ایکریمی عورت آفس سے نکل کر ہال میں پہنچے اور پھر ہوٹل سے باہر چلے گئے۔ اس کے کچھ دیر بعد جب اس نے سٹارک سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تو وہاں سے کال ہی رسیو نہ کی گئی جس پر اس نے سپروائزر کو معلوم کرنے آفس بھیجا۔ وہاں سے اطلاع ملی کہ آفس میں سٹارک اور ایڈورڈ فشر کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں جبکہ آفس اٹنڈنٹ بے ہوشی کے عالم میں اندر موجود ہے۔ اس نے پولیس کو ان پانچوں ایکریمیوں کے حلئے بھی بتا دئیے ہیں ۔ پارکنگ بوائے نے بھی پولیس کو ان ایکریمیوں کی کار کی تفصیل اور ان کے بارے میں بتایا ہے‘‘۔۔۔ ہنری نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ سٹارک اور ایڈورڈ فشر کو ان ایکریمیوں نے ہلاک کیا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس باس۔ سب کا اور پولیس کا بھی یہی خیال ہے۔ ‘‘ دوسری طرف سے جواب دیا گیا۔
’’ایڈورڈ کی لاش کہاں ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے پوچھا۔
’’ابھی وہ سٹارک کے آفس میں ہی موجود ہے۔ پولیس وہاں کام کر رہی ہے‘‘۔۔۔ ہنری نے جواب دیا۔
’’وہاں پولیس کا انچارج کون ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے پوچھا۔
’’پولیس کمشنر خود پہنچا ہوا ہے باس۔ سٹارک کے تعلقات بہت اونچی سطح پر تھے‘‘۔۔۔ ہنری نے جواب دیا۔
’’پولیس چیف سے کہو کہ وہ مجھ سے بات کرے۔ جاؤ اور مجھ سے اس کی بات کراؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا تو جیرٹو نے رسیور رکھ دیا۔
’’یہ ایکریمی کون ہو سکتے ہیں ۔ یہ سب کیا چکر ہو سکتا ہے‘‘۔ جیرٹو نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر بعد فون کی گھنٹی بج اٹھی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’پولیس کمشنر سے بات کریں باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’ہیلو۔ میں جیرٹو بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس۔ راکسن بول رہا ہوں جیرٹو۔ پولیس چیف کمشنر۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایڈورڈ فشر تمہارا خاص آدمی تھا لیکن وہ وہاں کیا کر رہا تھا‘‘۔۔۔ پولیس چیف نے کہا۔
’’یہ انکوائری تم کرتے رہنا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ کیا تمہارے آدمیوں نے ایڈورڈ فشر کے لباس کی تلاشی لی ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’نہیں ۔ ابھی تورسمی کاروائیاں ہو رہی ہیں ۔ اس کے بعد لاشوں کو یہاں سے لے جایا جائے گا۔ تلاشی کا کام تو بعد میں ہو گا۔ کیوں ‘‘۔۔۔ پولیس کمشنر نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’میرے آدمی ہنری نے ایڈورڈ فشر کی تلاشی لینی ہے۔ اسکے پاس میری ایک اہم چیز موجود ہے۔ اسے ساتھ لے جاؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’کیا چیز ہے‘‘۔۔۔ پولیس چیف نے چونک کر پوچھا۔
’’زیادہ تجسس اچھا نہیں ہوا کرتا راکسن اس لئے تجسس میں مت پڑو اور جیسا میں نے کہا ہے ویسا ہی کرو ورنہ تم جانتے ہو کہ تم چند لمحوں بعد پولیس چیف کمشنر سے عام آدمی بنائے جا سکتے ہو۔ ویسے بے فکر رہو تمہارا انعام پہنچ جائے گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’اوکے۔ ٹھیک ہے۔ جیسے تم کہو‘‘۔۔۔ پولیس چیف نے جواب دیا۔
’’ہنری سے بات کراؤ میری‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس باس۔ میں ہنری بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد ہنری کی آواز سنائی دی۔
’’ہنری۔ ایڈورڈ فشر کی تلاشی لو۔ اس کی جیب میں ایک پیکٹ ہو گا سرخ رنگ کا۔ اس کے اندر ایک مائیکرو فلم ہے۔ وہ پیکٹ تم نے احتیاط سے لے کر فوراً ہیڈ کوارٹر پہنچنا ہے۔ انتہائی احتیاط سے۔ وہ انتہائی قیمتی پیکٹ ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے جواب دیا۔
  ’’جلدی پہنچو۔ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور رکھ دیا۔
’’یہ ایکریمی کون ہو سکتے ہیں اور انہوں نے کیوں سٹارک اور ایڈورڈ فشر کو ہلاک کیا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے رسیور رکھ کر ایک بار پھر بڑبڑاتے ہوئے کہا لیکن کافی دیر تک سوچنے کے باوجود اسے اس بات کا اطمینان بخش جواب نہ مل سکا۔ وہ ابھی اس پوائنٹ پر مزید سوچ رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’ہنری کی کال ہے باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے اس کی پرسنل سیکرٹری نے کہا۔
’’کراؤ بات‘‘۔۔۔ جیرٹو نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’ہنرل بول رہا ہوں باس‘‘۔۔۔ چند لمحوں بعد ہنری کی آواز سنائی دی۔
’’کیا بات ہے۔ کیوں کال کی ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’باس۔ ایڈورڈ فشر کی جیب میں وہ پیکٹ موجود نہیں ہے۔ ویسے اس کی جیبوں میں عام سا تمام سامان موجود ہے مگر وہ پیکٹ موجود نہیں ہے اس لئے میں نے آپ کو کال کیا ہے کہ اب کیا حکم ہے‘‘۔۔۔ ہنری نے کہا۔
’’اوہ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ پیکٹ سٹارک کو دے چکا تھا جب اسے ہلاک کیا گیا۔ تم سٹارک کی تلاشی لو۔ اس کے آفس کی تلاشی لو۔ وہ پیکٹ وہاں موجود ہو گا۔ اسے لے کر جلدی سے میرے پاس پہنچو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا اور جیرٹو نے ایک بار پھر رسیور رکھ دیا۔ پھر تقریباً آدھے گھنٹے کے شدید انتظار کے بعد ایک بار پھر ہنری کی کال آ گئی۔
’’مل گیا پیکٹ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے پوچھا۔
’’نو باس۔ میں نے وہاں کی مکمل اور تفصیلی تلاشی لے لی ہے لیکن پیکٹ موجود نہیں ہے‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا تو جیرٹو کو ایسے محسوس ہوا جیسے ہنری نے اس کے سر پر ہتھوڑا مار دیا ہو۔
’’کیا کہہ رہے ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ کیا کہہ رہے ہو۔ کہاں گیا وہ پیکٹ۔ یہ کیسے ممکن ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔’’
’’باس۔ ہو سکتا ہے کہ پیکٹ وہی ایکریمی لے گئے ہوں ‘‘۔ ہنری نے جواب دیا تو جیرٹو بے اختیار اچھل پڑا۔
’’اوہ۔ اوہ۔ ایسے ہی ہوا ہو گا۔ ان کے حلئے کیا ہیں ۔ مجھے بتاؤ۔ میں انہیں پاتال سے بھی کھینچ لاؤں گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے حلق کے بل چیختے ہوئے کہا۔
’’جب پارکنگ بوائے ان کے حلئے بتا رہا تھا تو میں وہاں موجود تھا۔ وہ حلئے میں بتا دیتا ہوں ‘‘۔۔۔ ہنری نے کہا۔
’’جلدی بتاؤ اور تفصیل سے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کاٹ کھانے والے لہجے میں کہا اور دوسری طرف سے ہنری نے حلئے بتانے شروع کر دئیے۔
’’اوہ۔ اوہ۔ یہ تو پاکیشیائی ایجنٹوں کے حلئے ہیں ۔ اوہ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کاروائی پاکیشیائی ایجنٹوں نے کی ہے اور وہی اصل فارمولا لے گئے ہیں لیکن انہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ ان کے پاس نقل فارمولا ہے اور اصل فارمولا ایڈورڈ فشر سٹارک کے پاس لے جا رہا ہے۔ ہونہہ۔ تو یہ بات ہے۔ ٹھیک ہے اب ان کا خاتمہ ضروری ہو گیا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے کریڈل کو تین بار دبا کر چھوڑ دیا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے پرسنل سیکرٹری کی مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’آرنلڈ سے میری بات کراؤ۔ جلدی اور فوراً‘‘۔۔۔ جیرٹو نے چیختے ہوئے لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے رسیور کریڈل پر پٹخ دیا۔
’’اوہ۔ تو یہ پاکیشیائی ایجنٹوں کی واردات ہے۔ویری بیڈ۔ انہوں نے ایڈورڈ کو ہلاک کر کے اور فارمولا اڑا کر ٹاسکو کو چیلنج کیا ہے اور اب انہیں اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ عبرتناک سزا۔ ایسی سزا کہ ان کی روحیں بھی صدیوں تک ماتم کرتی رہیں گی‘‘۔۔۔ جیرٹو نے انتہائی غصیلے انداز میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ اسی لمحے فون کی گھنٹی بج اٹھی تو جیرٹو نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا  لیا۔
 ’’یس ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا۔
’’آرنلڈ بول رہا ہوں باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ایک مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’آرنلڈ۔ تم نے پاکیشیائی ایجنٹوں کی رہائش گاہ چیک کی تھی جہاں سے انہوں نے مجھے کال کیا تھا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’کیا تفصیل ہے اس کی جلدی بتاؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’باس۔ وہ ہاسٹن کالونی کی کوٹھی نمبر اٹھارہ میں موجود تھے۔ وہاں سے انہوں نے فون کیا تھا‘‘۔۔۔ آرنلڈ نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے کریڈل دبا کر رابطہ ختم کر دیا اور پھر چند لمحوں بعد اس نے ہاتھ اٹھایا اورتیزی سے دو تین بار کریڈل کو دبا کر چھوڑ دیا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے اس کی پرسنل سیکرٹری کی مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’راجر سے بات کراؤ۔ فوراً‘‘۔۔۔ جیرٹونے تیز لہجے میں کہا اور رسیور رکھ دیا۔ چند لمحوں بعد فون کی گھنٹی بج اٹھی تو اس نے ہاتھ بڑھاکر ایک بار پھر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’راجر بول رہا ہوں باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ایک مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’راجر اپنے گروپ کو لے کر فوراً ہاسٹن کالونی کی کوٹھی نمبر اٹھارہ پہنچو۔ وہاں پاکیشیائی ایجنٹ ایکریمی روپ میں موجود ہوں گے۔ تم نے اس کوٹھی میں بے ہوش کر دینے والی گیس فائر کرنی ہے اور پھر اندر جا کر چیک کرنا ہے کہ وہاں کتنے افراد ہیں ۔ ان سب کی تلاشی لینا۔ اگر وہاں سے سرخ رنگ کا پیکٹ تمہیں مل جائے تو پھر ان بے ہوش افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دینا اور اگر پیکٹ نہ ملے تو پھر مجھے وہیں سے فون کر کے مجھ سے مزید ہدایات لے لینا۔ جلدی جاؤ اور تیزی سے کام کرو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا اور اس کے ساتھ ہی جیرٹو نے رسیور رکھ دیا۔ پھر طویل انتظار کے بعد فون کی گھنٹی بجی تو اس نے جھپٹ کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’راجر بول رہا ہوں باس۔ ہاسٹن کالونی کی کوٹھی نمبر اٹھارہ سے۔کوٹھی میں ایک ایکریمی عورت اور چار ایکریمی مرد موجود ہیں لیکن ان کے پاس سے سرخ رنگ کا پیکٹ نہیں مل سکا۔ میں نے پوری کوٹھی اور ان کے سامان کی بھی تلاشی لی ہے لیکن ایسا پیکٹ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ اب مزید کیا حکم ہے‘‘۔۔۔ راجر نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’کیا تم نے اچھی طرح سے تلاشی لی ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔
’’یس باس۔ آپ جانتے تو ہیں کہ میں کس انداز میں کام کرتا ہوں ‘‘۔۔۔ راجر نے جواب دیا۔
’’ہونہہ۔ ان سب کو اسی بے ہوشی کے عالم میں ہیڈ کوارٹر لے آؤ اور بلیک روم میں جارج کے حوالے کر دو۔میں ان کی روحوں سے بھی اگلوا لوں گا کہ فارمولا کہاں ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس باس۔ دوسری طرف سے راجر نے کہا اور جیرٹو نے کریڈل دبا کر رابطہ ختم کر دیا اور پھر ہاتھ اٹھا کر اس نے دو تین بار کریڈل کو پریس کیا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے پرسنل سیکرٹری کی آواز سنائی دی۔
’’معلوم کرو کہ ائیر پورٹ پر چیف کسٹمز آفیسر اس وقت کون ہے اور اس سے میری بات کراؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا اور جیرٹو نے رسیور رکھ کر انٹر کام کا رسیور اٹھایا اور یکے بعد دیگرے کئی نمبر پریس کر دئیے۔
’’جارج بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ایک کرخت اور بھاری سی آواز سنائی دی۔
  ’’جیرٹو بول رہا ہوں جارج‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’یس باس۔ حکم باس‘‘۔۔۔ جارج کا لہجہ یکلخت مؤدبانہ ہو گیا۔
’’راجر چار ایکریمی مردوں اور ایک ایکریمی عورت کو لے کر ہیڈ کوارٹرآ رہا ہے۔ یہ پانچوں بے ہوش ہیں ۔ انہیں راڈز والی کرسیوں میں جکڑ دینا اور پھر مجھے اطلاع دینا۔ میں خود ان سے آ کر بات کروں گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس باس۔ دوسری طرف سے کہا گیا اور پھر جیرٹو نے انٹر کام کا رسیور رکھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی اور جیرٹو نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تیز لہجے میں کہا۔
’’باس۔ ائیر پورٹ پر چیف کسٹمز آفیسر انتھونی ہے۔ بات کریں ۔ وہ لائن پر ہے‘‘۔۔۔ پرسنل سیکرٹری کی مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’ہیلو۔ جیرٹو بول رہا ہوں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس۔ انتھونی بول رہا ہوں چیف کسٹمز آفیسر‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز سنائی دی۔
’’مسٹر انتھونی۔ میری پرسنل سیکرٹری نے تم سے میرا تفصیلی تعارف کرا دیا ہے یا نہیں ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس سر۔ میں تو ویسے بھی آپ کاخادم ہوں ۔ حکم کریں ‘‘۔دوسری طرف سے کہا گیا
’’سنو۔ اگر تم نے میرے احکامات کی تعمیل کی تو تمہیں اتنا انعام ملے گا کہ تم کیا تمہاری آئندہ آنے والی نسلیں بھی لارڈ بن کر زندگی گزاریں گی‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’میں سمجھتا ہوں جناب۔ یہ آپ کی مہربانی ہو گی‘‘۔۔۔ کسٹمز آفیسر نے کہا۔
’’پاکیشیا کے لئے کورئیر سروس کے ذریعے جو مال یہاں سے بک کرایا جاتا ہے کیا تم اسے چیک کرتے ہو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یس سر۔ پاکیشیا کے لئے کیا جہاں کے لئے بھی مال بک کرایا جائے وہ باقاعدہ چیک ہو تا ہے‘‘۔۔۔ کسٹمز آفیسر نے جواب دیا۔
’’تو سنو۔ پاکیشیا کے لئے کسی بھی کورئیر سروس کے ذریعے جو مال بھی بک ہو اسے میرا آدمی چیک کرے گا۔ میرا ایک پیکٹ چوری ہوا ہے اور مجھے اطلاع ملی ہے کہ اسے کسی کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجوایا جاتا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’یہاں سے براہ راست تو پاکیشیا کے لئے کوئی فلائٹ نہیں جاتی جناب۔ البتہ یہاں سے مال کسٹم کے بعد ولنگٹن بھجوایا جاتا ہے اور وہاں سے پاکیشیا بھجوایا جاتا ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ میں پاکیشیا کے لئے بک ہونے والی آئٹمز کو علیحدہ رکھوا دوں گا تا کہ آپ کا آدمی چیک کر سکے۔ آپ کا آدمی کب ائیر پورٹ پہنچے گا۔ کسٹمز آفیسر نے کہا۔
’’وہ جلد ہی تم تک پہنچ جائے گا۔ اس کا نام ڈیک ہے۔ وہ ائیر پورٹ پر ہی کام کرتا ہے۔ میں اسے حکم دے دیتا ہوں ‘‘۔ جیرٹو نے مطمئن لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں جانتا ہوں ڈیک کو۔ آپ بے فکر رہیں ۔ آپ کے حکم کی تعمیل ہو گی‘‘۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا تو جیرٹو نے اوکے کہہ کر کریڈل دبا دیا اور پھر ہاتھ اٹھا کر اس نے کریڈل کو دو تین بار دبا دیا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ پرسنل سیکرٹری کی مؤدبانہ آواز سنائی دی۔
’’ائیر پورٹ پر موجود ڈیک سے میری بات کراؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا اور رسیور رکھ دیا۔ اسے یقین تھا کہ پاکیشیائی ایجنٹوں نے زیادہ سے زیادہ یہی کیا ہو گا کہ فارمولا کسی کورئیر سروس کے ذریعے پاکیشیا بھجوا دیا ہو گا اور اگر نہیں بھجوایا اور کسی لاکر میں یا کسی بھی دوسری جگہ رکھا ہوا ہے تو وہ ان ایجنٹوں سے یہاں ہیڈ کوارٹر کے بلیک روم میں آسانی سے سب کچھ اگلوا لے گا اس لئے وہ پوری طرح مطمئن تھا۔


٭٭٭٭





 عمران اپنے ساتھیوں سمیت سٹارک ہوٹل سے نکل کر سیدھا اپنی رہائشی کوٹھی میں پہنچا اور پھر اس نے تنویر کو کار اس کالونی سے کچھ فاصلے پر کسی پارکنگ میں چھوڑ آنے کا کہا اور تنویر کار لے کر چلا گیا تو عمران نے اپنے علاوہ اپنے سب ساتھیوں کا دوسرا میک اپ کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سٹارک اور ایڈورڈ کی لاشیں جلد دستیاب ہو جائیں گی اور پھر پولیس نے نہ صرف ان کے حلئے معلوم کر لینے ہیں بلکہ پارکنگ سے انہیں کار کے بارے میں بھی تمام تفصیلات معلوم ہو جانی ہیں ۔
’’عمران صاحب۔ کار پولیس کے ہاتھ لگ گئی تو اس سے وہ اس ادارے تک پہنچ جائے گی جس سے آپ نے یہ کوٹھی اور کار لی ہے اس طرح انہیں آسانی سے اس کوٹھی کے بارے میں معلومات مل جائیں گی‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’مجھے معلوم ہے۔ میں صرف تنویر کی واپسی کا انتظار کر رہا ہوں تا کہ اس کا میک اپ کر کے ہم یہاں سے کسی اور جگہ شفٹ ہو جائیں ‘‘۔۔۔ عمران نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن اس فارمولے کا کیا کرنا ہے۔ ظاہر ہے ٹاسکو کا آدمی ایڈورڈ بھی وہاں مارا گیا ہے اور سٹارک بھی اور جب انہیں فارمولا نہیں ملا تو لامحالہ جیرٹو نے ہماری تلاش شروع کر دینی ہے اس لئے ہمیں بہرحال اس فارمولے کے بارے میں پہلے سوچنا چاہئے‘‘۔ صفدر نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہم یہاں سے سیدھے ائیر پورٹ پہنچیں اور وہاں سے چارٹرڈ طیارے کے ذریعے ولنگٹن نکل جائیں ۔ پھر ہمیں پرواہ نہیں ہو گی کہ یہاں کیا ہو رہا ہے اورکیا نہیں ‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’جیرٹو نے سب سے پہلے ائیر پورٹ ہی آدمی بھیجنے ہیں ‘‘۔ عمران نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو کیا ہوا۔ ہم مختلف میک اپ میں ہیں ‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’اگر وہاں تفصیلی تلاشی لی گئی اور فلم دستیاب ہو گئی تب‘‘۔ عمران نے کہا تو جولیا نے بے اختیار ہونٹ بھینچ لئے۔
’’پھر تم نے کیا سوچا ہے‘‘۔۔۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد جولیا نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اسے کورئیر سروس کے ذریعے بھجوا دینا چاہئے‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’نہیں ۔ کورئیر سروس پر اگر ٹاسکو کا نہیں تو بلیک سروس کا بہرحال ہولڈ موجود ہے اور فارمولا ایک بار پھر بلیک سروس کے ہاتھ لگ سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیتے ہوئے کہا اور پھر اس سے پہلے کہ مزید کوئی بات ہوتی کال بیل کی آواز سنائی دی۔
’’تنویر ہو گا‘‘۔۔۔ صفدر نے اٹھتے ہوئے کہا اور پھر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد صفدر اور تنویر دونوں اندر داخل ہوئے۔
’’کیپٹن شکیل تم تنویر کا میک اپ کرو ورنہ اگر میں نے اس کا میک اپ کیاتو تنویر کو شکایت ہو گی‘‘۔۔۔ عمران نے کیپٹن شکیل سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’شکایت ہو گی۔ کیوں ‘‘۔۔۔ جولیا نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’اس لئے کہ میں نے بہرحال اپنے رقیب رو سفید کو روسیاہ ہی بنانا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا تو صفدر بے اختیار ہنس پڑا۔
’’میں تو جب بنوں گا سو بنوں گا تم تو پہلے سے ہی بنے ہوئے ہو‘‘۔۔۔ تنویر نے بھی خلاف توقع مسکراتے ہوئے جواب دیا کیونکہ عمران نئے میک اپ میں قدرے سانولے رنگ کا ایکریمی تھا۔ یہ مخلوط نسل کا رنگ تھا جو اب ایکریمیا میں عام نظر آتا تھا اور تنویر نے اسی وجہ سے عمران پر چوٹ کی تھی اور شاید اسی وجہ سے عمران کی بات پر اس کا موڈ خراب نہ ہوا تھا۔
’’یہی تو اصل بات تھی جو تم نہیں سمجھ سکے اور تم نے دیکھا نہیں کہ جولیا سفید فام ایکریمین ہے اور سفید فام ایکریمی لڑکیاں اس رنگ کی دیوانی ہوتی ہیں  اس لئے میں نے کوشش کی ہے کہ شاید اس طرح بہار آ جائے اور تمہارا میک اپ بھی اس انداز میں کر کے میں اپنا بنا بنایا سکوپ تو ختم نہیں کر سکتا تھا‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا تو سب بے اختیار ہنس پڑے۔
’’مجھے تو اس میک اپ میں تم انتہائی برے لگ رہے ہو‘‘۔ جولیا نے شرارت بھرے لہجے میں کہا جبکہ کیپٹن شکیل تنویر کو اس دوران ساتھ لے کر دوسرے کمرے میں چلا گیا تا کہ اس کا میک اپ تبدیل کر سکے۔
’’ارے ارے کہیں میں نے تمہارے چہرے کے میک اپ کے ساتھ ساتھ تمہاری آنکھوں کے لینز تو نہیں بدل دئیے‘‘۔۔۔ عمران نے پریشان ہو کر کہا اور اس بار جولیا بھی صفدر کے ساتھ ہی ہنس پڑی۔
’’آپ نے بتایا نہیں عمران صاحب کہ آپ کا پرو گرام کیا ہے‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’ہاں ۔ اب بہتر ہے کہ میں اپنا پرو گرام بتا دوں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ فارمولا کورئیر سروس کے ذریعے نہیں بھیجا جا سکتا ہے ورنہ اگر ٹاسکو نہیں تو بلیک سروس کی تحویل میں پہنچ سکتا ہے اور یہاں چونکہ سفارت خانہ نہیں ہے اس لئے سفارت خانے کے ذریعے بھی فارمولا یہاں سے باہر نہیں بھجوایا جا سکتا۔ چارٹرڈ طیارے یا عام طیارے سے جانے میں بھی خدشات موجود ہیں کہ کسی بھی ذریعے سے اگر تلاشی لے لی گئی اور فارمولا ضبط کر لیا گیا تو ہم وہاں کچھ بھی نہ کر سکیں گے۔ طیارے سے ہٹ کر ٹرین یا بس کے ذریعے بھی یہاں سے نکلا جا سکتا ہے لیکن وہاں بھی ٹاسکو کے آدمیوں کے حملے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پورے شہر میں ٹاسکو کے آدمی ہماری تلاش میں ہو سکتے ہیں ۔ ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر میرے ذہن میں فارمولے کی حفاظت کا ایک ہی پلان آتا ہے کہ ہم اس فارمولے کو اس کوٹھی میں کسی جگہ چھپا کر خود طیارے کے ذریعے یہاں سے چلے جائیں ۔ ظاہر ہے کہ اگر وہاں تلاشی لی بھی گئی تب بھی ہمیں کوئی فکر نہ ہو گی اور پھر ہم میں سے کوئی بھی اکیلا کسی بھی میک اپ میں آ کر خاموشی سے یہاں سے فارمولا لے کر جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
عمران صاحب۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم علیحدہ علیحدہ فلائٹ سے یہاں سے نکل جائیں اور فارمولا کسی ایک کے پاس ہو۔ ظاہر ہے ان لوگوں کی نظروں میں تو گروپ مشکوک ہو گا۔ اکیلا آدمی تو نہیں ہو سکتا‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’یہ ٹاسکو اوربلیک سروس دونوں یہاں خاصی با اثر تنظیمیں نظر آتی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ائیر پورٹ پر ہر آدمی کی تلاشی لی جائے اور مائیکرو فلم بڑی آسانی سے چیک کی جا سکتی ہے۔ البتہ اس قسم کی تلاشی زیادہ عرصے نہیں لی جا سکتی ہے اس لئے دو تین روز بعد آسانی سے ہم فارمولا نکال کر لے جائیں گے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’پلان تو ٹھیک ہے لیکن اس طرح فارمولا بہرحال رسک میں رہے گا۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور ہمیں بہرحال یہ رسک نہیں لینا چاہئے‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’نہیں عمران صاحب درست کہہ رہے ہیں ۔ ویسے بھی مجھے یقین ہے کہ عمران صاحب اس فارمولے کو ایسی جگہ چھپائیں گے کہ وہاں کسی کا خیال تک نہ جائے گا اور میرا خیال ہے کہ ہمیں بھی معلوم نہیں ہونا چاہئے‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’اگر تم بھی عمران کی حمایت کر رہے ہو تو ٹھیک ہے‘‘۔ جولیا نے کہا۔
’’تو پھر تنویر اور کیپٹن شکیل کی واپسی تک میں یہ کام کر ڈالوں ‘‘۔۔۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی وہ اٹھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔
’’پہلی بار میں نے عمران کو اس قسم کا پلان بناتے دیکھا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ ایجنٹ بھی نہیں ہے عام سے بدمعاش ہیں ‘‘۔ جولیا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔ ہو سکتا ہے کہ عمران صاحب کے ذہن میں ایسے خدشات ہوں جن کا ذکر کرنا انہوں نے مناسب نہ سمجھا ہو‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا اور جولیا نے اثبات میں سرہلا دیا۔ اسی لمحے تنویر اور کیپٹن شکیل بھی واپس آ گئے۔ تنویر کا میک اپ تبدیل ہو چکا تھا۔  ’’عمران صاحب کہاں گئے‘‘۔۔۔ کیپٹن شکیل نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا تو صفدر نے اسے ساری بات چیت کی تفصیل بتا دی۔
’’اس کی کیا ضرورت تھی۔ ہونہہ۔ اب پاکیشیا سیکرٹ سروس عام سے بدمعاشوں سے بھی خوفزدہ ہونے لگ گئی ہے‘‘۔۔۔ تنویر نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا اور پھر اس سے پہلے کہ اس کی بات کا کوئی جواب دیتا عمران کمرے میں داخل ہوا۔
’’چھپا آئے ہو فارمولا‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’ہاں ‘‘۔۔۔ عمران نے مختصر سا جواب دیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’تنویر کہہ رہا ہے کہ اب پاکیشیا سیکرٹ سروس عام سے بد معاشوں سے بھی خوفزدہ ہونے لگ گئی ہے‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’میں درست کہہ رہا ہوں ۔ تم یہ فارمولا مجھے دو میں دیکھوں گا کہ کون اسے مجھ سے لے سکتا ہے‘‘۔۔۔ تنویر نے اسی طرح غصیلے لہجے میں کہا۔
’’اگر تم اپنی ذمہ داری پر لینا چاہتے ہو تو میں لا دیتا ہوں لیکن یہ بات سن لو کہ اگر کوئی گڑ بڑ ہو گئی تو چیف کو جواب خود ہی دینا‘‘۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں دے دوں گا جواب۔ مجھے یقین ہے کہ تمہارے تمام خدشات غلط ہیں ۔ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ بلیک سروس اور ٹاسکو دونوں بھاری رقومات وصول کر چکی ہیں ‘‘۔۔۔ تنویر نے کہا۔
’’بلیک سروس نے تو ہمارے ساتھ فراڈ نہیں کیا تھا لیکن اس جیرٹو نے تو ہمارے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہم عین اس وقت وہاں پہنچے جب ایڈورڈ فشر فارمولا سٹارک کو دینے آیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ جیرٹو انتہائی لالچی اور کمینہ فطرت آدمی ہے۔ وہ اب بھی آسانی سے باز نہیں آئے گا‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’نہ باز آئے گا تو مارا جائے گا اور کیا ہو گا‘‘۔۔۔ تنویر نے منہ بناتے ہوئے کہا لیکن اس سے پہلے کہ مزید کوئی بات ہوتی اچانک باہر تیز دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں ۔ یہ دھماکے ایسے تھے جیسے کسی نے کافی تعداد میں میزائل فائر کیے ہوں ۔
’’اوہ۔ یہ کیا ہوا‘‘۔۔۔ عمران نے ایک جھٹکے سے اٹھتے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے باقی ساتھی بھی ایک جھٹکے سے کھڑے ہو گئے تھے لیکن پھر اس سے پہلے کہ عمران قدم بڑھاتا اس کا ذہن کسی تیز رفتار لٹو کی طرح گھومنے لگ گیا۔ اس نے اپنے ذہن کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ اس کا ذہن یکلخت گہری تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔ پھر جس طرح گہری تاریکی میں جگنو چمکتا ہے اس طرح اس کے ذہن میں بھی روشنی کا نقطہ سا چمکا اور پھر یہ روشنی پھیلتی چلی گئی۔ جیسے ہی عمران کے ذہن میں روشنی پوری طرح پھیلی عمران کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں بے ہوش ہونے سے پہلے کا منظر کسی فلم کے سین کی طرح گھوم گیا۔ جب وہ اپنے ساتھیوں سمیت رہائش گاہ کے کمرے میں موجود تھا کہ باہر سے دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں اور اس کے ساتھ ہی عمران کا ذہن کسی لٹو کی طرح گھومنے لگ گیا تھا۔ اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ اس وقت ایک بڑے ہال نما کمرے میں موجود تھا۔ اس کا جسم راڈز میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کرسیوں پر اس کے ساتھی بھی راڈز میں جکڑے ہوئے موجود تھے۔ ایک آدمی عمران سے تیسرے نمبر پر موجود کیپٹن شکیل کی ناک سے ایک شیشی لگائے کھڑا تھا۔ پھر اس نے شیشی ہٹائی اور آگے تنویر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ عمران کے ساتھ والی کرسی پر صفدر موجود تھا جبکہ سب سے آخر میں جولیا تھا اور عمران نے یہ دیکھ کر بے اختیار ایک طویل سانس لیا کہ اس کے سارے ساتھی اپنی اصل شکلوں میں تھے۔
’’یہ ہم کہاں ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے اس آدمی سے مخاطب ہو کر کہا تو اس آدمی نے سر گھما کر عمران کی طرف دیکھا۔
’’تم بلیک روم میں ہو‘‘۔۔۔ اس آدمی نے کرخت لہجے میں جواب دیا۔ عمران نے دیکھا کہ اس آدمی کا جسم ورزشی سا تھا اور اس کے چہرے پر موجود زخموں کے آڑھے ترچھے نشانات تھے اور اس کا انداز بتا رہا تھا کہ اس کی ساری عمر لڑائی بھڑائی میں گزری ہے۔ ویسے اپنے چہرے کے خد و خال اور چہرے پر چھائی ہوئی سختی سے صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ شخص خاصی سفاک طبیعت کا مالک ہے۔
’’کیا تمہارا تعلق ٹاسکو سے ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔ 
 ’’ہاں ‘‘۔۔۔ اس آدمی نے اسی طرح کرخت لہجے میں جولیا کی ناک سے شیشی ہٹاتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی وہ تیزی سے مڑا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ صفدر اس دوران ہوش میں آ چکا تھا لیکن وہ خاموش تھا۔
’’ہمارے میک اپ بھی صاف کر دیے گئے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے خدشات درست تھے‘‘۔۔۔ صفدر نے اس آدمی کے باہر جاتے ہی کہا۔
’’یہ ہم کہاں ہیں ‘‘۔۔۔ اسی لمحے تنویر کی آواز سنائی دی اور صفدر نے اسے جواب دے دیا جبکہ عمران اس دوران راڈز کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔ وہ چونکہ سائیڈ پر تھا جس کے صرف ایک طرف کرسی تھی دوسری سائیڈ خالی تھی اس لئے عمران اپنی ٹانگ موڑ کر عقبی طرف لے گیا اور پھر معمولی سی کوشش کے بعد اس کا پیر کرسی کے عقبی پائے پر آسانی سے پہنچ گیا۔ اسے اس بٹن کی تلاش تھی جس کے ذریعے وہ راڈز کو ہٹا سکتا تھا لیکن باوجود پوری کوشش کے اسے بٹن نہ مل رہا تھا۔
’’ان راڈز کا سسٹم سامنے سوئچ بورڈ پر ہے عمران صاحب‘‘۔ صفدر کی آواز سنائی دی تو عمران نے چونک کر ٹانگ واپس موڑ لی اور اس کی نظریں دروازے کے ساتھ موجود سوئچ پینل پر پڑ گئیں ۔ وہاں ایسے کوئی بٹن نظر نہ آ رہے تھے جیسے کہ راڈز سسٹم کے ساتھ ہوا کرتے ہیں ۔
’’تم نے کیسے اندازہ کیا ہے۔ بٹن سوئچ پینل پر نظر نہیں آ رہے‘‘۔۔۔ عمران نے گردن موڑ کر صفدر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میرا پیر ایک تار سے ٹکرایا ہے‘‘۔۔۔ صفدر نے کہا۔
’’اوہ۔ تو پھر اس تار کو توڑ دو۔ جلدی کرو۔ ان لوگوں کے آنے سے پہلے ہمیں آزاد ہو جانا چاہئے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’میں کوشش تو کر رہا ہوں لیکن نجانے یہ تار کس میٹریل سے بنی ہوئی ہے۔ ٹوٹ ہی نہیں رہی‘‘۔۔۔ صفدر نے جواب دیا اور پھر اس سے پہلے کہ مزید کوئی بات ہوتی کمرے کا دروازہ کھلا اور جیرٹو اندر داخل ہوا۔اس کے پیچھے وہی آدمی تھا جس نے انہیں ہوش دلایا تھا۔ جیرٹو سے پہلے چونکہ وہ مل چکے تھے اس لئے وہ اسے پہچانتے تھے۔ جیرٹو کے چہرے پر انتہائی سختی طاری تھی۔ وہ کچھ فاصلے پر پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا جبکہ وہ آدمی اس کے عقب میں مؤدبانہ انداز میں کھڑا ہو گیا۔
’’تم نے دیکھ لیا پاکیشیائی ایجنٹو کہ تم مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتے۔ تم نے میرے خاص آدمی ایڈورڈ فشر کو ہلاک کر کے ناقابل معافی جرم کیا ہے لیکن میں اس صورت میں تمہیں معاف کر سکتا ہوں کہ تم وہ فارمولا میرے حوالے کر دو جو تم نے ایڈورڈ فشر سے یا سٹارک سے حاصل کیا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے انتہائی خشک لہجے میں کہا۔
’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو جیرٹو۔ تم نے خود ہی ہم سے دھوکہ کیا ہے کہ ہم سے دس کروڑ ڈالرز بھی لے لئے اور ہمیں سادہ فلم رول دے دیا اور تم کہہ رہے ہو کہ فارمولا ہمارے پاس ہے اور تم نے ہمیں یہاں کیوں جکڑ رکھا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’گو تم نے میک اپ تبدیل کر لئے تھے لیکن بہرحال تم اسی کوٹھی میں تھے جہاں سے تم نے مجھے پہلے کال کیا تھا اور تمہارے ان تبدیل شدہ میک اپ کی وجہ سے مجھے تمہارے چہرے بے ہوشی کے عالم میں میک اپ واشر کے ذریعے چیک کرانا پڑے اور یہ بھی سن لو کہ جو کار تم نے استعمال کی تھی وہ پولیس کو ایک پارکنگ سے مل گئی ہے اور اس کار کے ذریعے وہ اس کمپنی تک پہنچ گئے جس نے تمہیں کار اور کوٹھی دی تھی۔ گو پولیس کو تم کوٹھی پر نہ مل سکے کیونکہ اس دوران تمہیں بے ہوش کر کے یہاں شفٹ کیا جا چکا تھا لیکن میں بہرحال اس اطلاع کے بعد کنفرم ہو گیا تھا کہ ایڈورڈ فشر کو ہلاک تم نے ہی کیا ہے اور فارمولا تم لے گئے ہو‘‘۔۔۔ جیرٹو نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا اور عمران نے بے اختیار ایک طویل سانس لیا۔
’’ایڈورڈ فشر نے ہماری توہین کی تھی اس لئے ہمیں اسے ہلاک کرنا پڑا اور اس کی ہلاکت پر سٹارک نے مزاحمت کرنا چاہی تھی اس لئے اسے بھی ہلاک کرنا پڑا‘‘۔۔۔ عمران نے اس بار خشک لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’جو کچھ ہوا وہ علیحدہ بات ہے۔ وہ فارمولا کہاں ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’ہمیں کسی فارمولے کا علم نہیں ہے۔ ہم تو سٹارک سے اس لئے ملنے گئے تھے کہ سٹارک کے ذریعے تم سے بات کی جائے کہ تم نے ہمیں دھوکہ کیوں دیا۔
 پھر ایڈورڈ فشر وہاں آگیا اور اس نے سٹارک سے کہا کہ ہمیں باہر نکالا جائے اور پھر اس نے خود ہی ہمیں باہر جانے کا سختی سے کہا تو ہم اس سے جھگڑ پڑے اور نتیجہ یہ کہ وہ مارا گیا۔ سٹارک نے ہمیں مارنا چاہا تو ہم نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔ پھر سٹارک کا اٹنڈنٹ آ کر ہم سے الجھ پڑا۔ ہم نے اسے بے ہوش کر دیا۔ ہمیں تو فارمولے کا علم ہی نہیں ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’سنو۔ ایڈورڈ فشر سٹارک کو فارمولا دینے گیا تھا۔ فارمولا اس کی جیب میں تھا اور بقول تمہارے ایڈورڈ فشر وہاں پہنچتے ہی مارا گیا اور سٹارک بھی۔ اس کا مطلب ہے کہ فارمولا اس کی جیب میں ہونا چاہئے تھے لیکن فارمولا اس کی جیب سے نہیں ملا۔ اس کا مطلب ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ فارمولا تم نے حاصل کیا ہے اور سنو۔ اب بہت باتیں ہو گئی ہیں اب فارمولا نکالو ورنہ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے انتہائی غصیلے لہجے میں کہا۔
’’ہم شاید طویل وقت تک بے ہوش رہے ہیں ۔ اتنے وقت تک کہ تم نے ہمیں ہماری کوٹھی سے یہاں شفٹ کرایا اور پھر ہمارے میک اپ بھی صاف کرا دئیے لیکن ہمیں ہوش نہ آیا۔ اب تمہارے آدمی نے اس حالت میں ہوش دلایا ہے۔ اگر فارمولا ہمارے پاس ہوتا تو لازماً تم اسے حاصل کر چکے ہوتے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’فارمولا تمہارے پاس نہیں ہے اور میرے آدمیوں نے پوری کوٹھی بھی کھنگال ڈالی ہے۔ فارمولا وہاں بھی نہیں ہے اور یہ بھی سن لو کہ تم لوگ اس لئے زندہ بھی ہو ورنہ اگر فارمولا تم سے مل جاتا تو تمہیں اسی بے ہوشی کے عالم میں ہی ہلاک کر دیا جاتا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے جواب دیا۔
’’جب تم نے تمام چیکنگ کر لی ہے تو پھر تم اس بات پر کیوں بضد ہو کہ فارمولا ہمارے پاس ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’ہاں ۔ چیکنگ تو میں نے واقعی تفصیل سے کی ہے حتیٰ کہ ائیر پورٹ پر بھی میرا آدمی پاکیشیا کے لئے بک ہونے والے اس سامان کی چیکنگ کر رہا ہے جو کہ کورئیر سروس سے پاکیشیا بھیجا گیا ہے اور ائیر پورٹ پر تمام افراد اور ان کے سامان کی بھی خصوصی طور پر چیکنگ ہو رہی ہے لیکن وہ فارمولا ابھی تک نہیں مل سکا۔ اس کا مطلب ہے کہ فارمولا تمہارے پاس ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’کیا تم اس قدر طاقتور ہو کہ تمہاری مرضی سے ائیر پورٹ پر اس انداز میں چیکنگ ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’دولت سب کچھ کرا سکتی ہے اور دولت کی ہمارے پاس کمی نہیں ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر دولت خرچ کر کے فارمولا بھی تلاش کرالو‘‘۔۔۔ عمران نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں بتانا ہو گا کہ فارمولا کہاں ہے ورنہ جارج کو تم دیکھ رہے ہو۔ یہ پتھروں سے بھی بات اگلوا لیتا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے اپنے عقب میں موجود اس آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس نے انہیں ہوش دلایا تھا۔
’’سنو جیرٹو۔ تم نے ہم سے دھوکہ کیا ہے اس لئے تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ تم دس کروڑ ڈالرز ہمیں واپس کر دو یا پھر ہمیں اصل فارمولا دے دو۔ تم اس فراڈ کو چھپانے کے لئے سارا ڈرامہ کر رہے ہو‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’جارج‘‘۔۔۔ جیرٹو نے یکلخت چیختے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ جارج نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’الماری سے کوڑا نکالو اور ان کی ساتھی عورت پر اس وقت تک کوڑے برساتے رہو جب تک یہ فارمولے کے بارے میں نہ بتا دیں اور اگر پھر بھی نہ بتائیں تو اس عورت کی ہلاکت کے بعد ان سب پر باری باری کوڑے برساؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے چیختے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ جارج نے کہا اور تیزی سے دیوار میں موجود الماری کی طرف بڑھ گیا۔
’’سنو جیرٹو۔ اب تک تم نے بہت حماقتیں کر لی ہیں لیکن اب میری بات سن لو کہ اگر تم نے ہم میں سے کسی کو انگلی بھی لگائی تو تمہارا اور تمہاری تنظیم سب کا ایسا عبرتناک حشر ہو گا کہ جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے‘‘۔۔۔ عمران نے یکلخت غراتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ابھی تمہارے فرشتے بھی بتائیں گے کہ فارمولا کہاں ہے‘‘۔ جیرٹو نے کہا۔ اس دوران جارج الماری سے کوڑا نکال کر واپس جولیا کی طرف بڑھنے لگ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر سفاکی اور سختی کے تاثرات نمایاں تھے۔
  پھر ایڈورڈ فشر وہاں آگیا اور اس نے سٹارک سے کہا کہ ہمیں باہر نکالا جائے اور پھر اس نے خود ہی ہمیں باہر جانے کا سختی سے کہا تو ہم اس سے جھگڑ پڑے اور نتیجہ یہ کہ وہ مارا گیا۔ سٹارک نے ہمیں مارنا چاہا تو ہم نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔ پھر سٹارک کا اٹنڈنٹ آ کر ہم سے الجھ پڑا۔ ہم نے اسے بے ہوش کر دیا۔ ہمیں تو فارمولے کا علم ہی نہیں ہے‘‘۔۔۔ عمران نے جواب دیا۔
’’سنو۔ ایڈورڈ فشر سٹارک کو فارمولا دینے گیا تھا۔ فارمولا اس کی جیب میں تھا اور بقول تمہارے ایڈورڈف شر وہاں پہنچتے ہی مارا گیا اور سٹارک بھی۔ اس کا مطلب ہے کہ فارمولا اس کی جیب میں ہونا چاہئے تھے لیکن فارمولا اس کی جیب سے نہیں ملا۔ اس کا مطلب ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ فارمولا تم نے حاصل کیا ہے اور سنو۔ اب بہت باتیں ہو گئی ہیں اب فارمولا نکالو ورنہ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے انتہائی غصیلے لہجے میں کہا۔
’’ہم شاید طویل وقت تک بے ہوش رہے ہیں ۔ اتنے وقت تک کہ تم نے ہمیں ہماری کوٹھی سے یہاں شفٹ کرایا اور پھر ہمارے میک اپ بھی صاف کرا دئیے لیکن ہمیں ہوش نہ آیا۔ اب تمہارے آدمی نے اس حالت میں ہوش دلایا ہے۔ اگر فارمولا ہمارے پاس ہوتا تو لازماً تم اسے حاصل کر چکے ہوتے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’فارمولا تمہارے پاس نہیں ہے اور میرے آدمیوں نے پوری کوٹھی بھی کھنگال ڈالی ہے۔ فارمولا وہاں بھی نہیں ہے اور یہ بھی سن لو کہ تم لوگ اس لئے زندہ بھی ہو ورنہ اگر فارمولا تم سے مل جاتا تو تمہیں اسی بے ہوشی کے عالم میں ہی ہلاک کر دیا جاتا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے جواب دیا۔
’’جب تم نے تمام چیکنگ کر لی ہے تو پھر تم اس بات پر کیوں بضد ہو کہ فارمولا ہمارے پاس ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’ہاں ۔ چیکنگ تو میں نے واقعی تفصیل سے کی ہے حتیٰ کہ ائیر پورٹ پر بھی میرا آدمی پاکیشیا کے لئے بک ہونے والے اس سامان کی چیکنگ کر رہا ہے جو کہ کورئیر سروس سے پاکیشیا بھیجا گیا ہے اور ائیر پورٹ پر تمام افراد اور ان کے سامان کی بھی خصوصی طور پر چیکنگ ہو رہی ہے لیکن وہ فارمولا ابھی تک نہیں مل سکا۔ اس کا مطلب ہے کہ فارمولا تمہارے پاس ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’کیا تم اس قدر طاقتور ہو کہ تمہاری مرضی سے ائیر پورٹ پر اس انداز میں چیکنگ ہو سکتی ہے‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’دولت سب کچھ کرا سکتی ہے اور دولت کی ہمارے پاس کمی نہیں ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر دولت خرچ کر کے فارمولا بھی تلاش کرالو‘‘۔۔۔ عمران نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں بتانا ہو گا کہ فارمولا کہاں ہے ورنہ جارج کو تم دیکھ رہے ہو۔ یہ پتھروں سے بھی بات اگلوا لیتا ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے اپنے عقب میں موجود اس آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس نے انہیں ہوش دلایا تھا۔
’’سنو جیرٹو۔ تم نے ہم سے دھوکہ کیا ہے اس لئے تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ تم دس کروڑ ڈالرز ہمیں واپس کر دو یا پھر ہمیں اصل فارمولا دے دو۔ تم اس فراڈ کو چھپانے کے لئے سارا ڈرامہ کر رہے ہو‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’جارج‘‘۔۔۔ جیرٹو نے یکلخت چیختے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ جارج نے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’الماری سے کوڑا نکالو اور ان کی ساتھی عورت پر اس وقت تک کوڑے برساتے رہو جب تک یہ فارمولے کے بارے میں نہ بتا دیں اور اگر پھر بھی نہ بتائیں تو اس عورت کی ہلاکت کے بعد ان سب پر باری باری کوڑے برساؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے چیختے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’یس باس‘‘۔۔۔ جارج نے کہا اور تیزی سے دیوار میں موجود الماری کی طرف بڑھ گیا۔
’’سنو جیرٹو۔ اب تک تم نے بہت حماقتیں کر لی ہیں لیکن اب میری بات سن لو کہ اگر تم نے ہم میں سے کسی کو انگلی بھی لگائی تو تمہارا اور تمہاری تنظیم سب کا ایسا عبرتناک حشر ہو گا کہ جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے‘‘۔۔۔ عمران نے یکلخت غراتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ابھی تمہارے فرشتے بھی بتائیں گے کہ فارمولا کہاں ہے‘‘۔ جیرٹو نے کہا۔ اس دوران جارج الماری سے کوڑا نکال کر واپس جولیا کی طرف بڑھنے لگ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر سفاکی اور سختی کے تاثرات نمایاں تھے۔
  ’’ٹھہرو۔ رک جاؤ۔ مجھے مت مارو۔ میرا ان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں بتاتی ہوں کہ فارمولا کہاں ہے۔ رک جاؤ‘‘۔ جولیا نے یکلخت انتہائی خوفزدہ لہجے میں کہا تو جیرٹو نے ہاتھ اٹھا کر جارج کو روک دیا۔
’’اگر تم بتا دو لڑکی اور فارمولا ہمیں مل گیا تو میرا وعدہ کہ تمہیں زندہ چھوڑ دیا جائے گا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے کہا۔
’’مم۔ مم۔ میں ضرور بتا دوں گی۔ میں نہ ہی کوڑے کھانا چاہتی ہوں اور نہ مرنا چاہتی ہوں ۔ تم مجھے یہاں سے نکال کر کسی اور کمرے میں لے چلو۔ میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گی‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’نہیں ۔ تمہیں یہیں بتانا پڑے گا اور یہ بھی سن لو کہ مجھے ڈرامہ بازی پسند نہیں ہے۔ میں تمہیں صرف ایک منٹ دے سکتا ہوں ۔ بتاؤ‘‘۔۔۔ جیرٹو نے سرد لہجے میں کہا۔
’’اچھا تو پھر سن لو کہ فارمولا کوٹھی میں ہی ہے۔ کوٹھی کے عقبی کمرے کے نیچے تہہ خانہ ہے۔ اس تہہ خانے میں ایک خفیہ سیف میں فارمولا رکھا گیا ہے‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’تہہ خانہ اور خفیہ سیف۔ اوہ اچھا۔ تہہ خانے کا تو ہمیں خیال ہی نہ آیا تھا۔ بہرحال ٹھیک ہے اب تمہارے ساتھیوں کے زندہ رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ البتہ تم اس وقت تک زندہ رہو گی جب تک فارمولا مل نہیں جاتا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے سرد لہجے میں کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے جیب سے ریوالور نکال لیا۔
’’یہ عورت غلط کہہ رہی ہے۔ تہہ خانہ اور سیف تو البتہ وہاں موجود ہے لیکن بے شک چیک کر لو۔ وہاں فارمولا نہیں ہے‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’نہیں ۔ میں درست کہہ رہی ہوں ۔ یہ میرے سامنے فارمولا لے کر تہہ خانے میں گیا تھا‘‘۔۔۔ جولیا نے کہا۔
’’اوہ۔ اس کا مطلب ہے کہ پہلے چیکنگ کرالی جائے۔ ٹھیک ہے‘‘۔۔۔ جیرٹو نے ریوالور واپس جیب میں ڈالتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’جارج۔ تم واپسی تک یہیں رہو گے اور اگر یہ کوئی غلط حرکت کریں تو بے شک ان کی گردنیں توڑ دینا‘‘۔۔۔ جیرٹو نے جارج سے کہا ور تیزی سے مڑ کر ہال کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ جیرٹو کے کمرے سے جانے کے بعد جارج اسی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا جس پر پہلے جیرٹو بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوڑا بدستور موجود تھا۔ عمران سمجھ گیا کہ جولیا نے صرف وقت لینے کی غرض سے یہ چکر چلایا ہے اور چونکہ جیرٹو اسے اور اس کے ساتھیوں کو گولی مارنے لگا تھا اس لئے اس نے معاملے کو مشکوک کر دیا تھا اور نتیجہ اس کے حق میں نکلا تھا لیکن اصل مسئلہ یہ راڈز تھے اور اب یہ جارج بھی تھا جو سامنے بیٹھا ہوا تھا۔
’’مسٹر جارج۔ یہ راڈز ڈھیلے نہیں ہو سکتے۔ میری تو پسلیاں دب کر ٹوٹنے لگی ہیں ‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’نہیں ‘‘۔۔۔ جارج نے درشت لہجے میں کہا۔
’’اچھا۔ پھر انہیں کھول ہی دو۔ میرا وعدہ کہ میں ایسے ہی بے حس و حرکت بیٹھا رہوں گا‘‘۔۔۔ عمران نے کہا۔
’’اب یہ اس وقت تک نہیں کھل سکتے جب تک باس نہ چاہے‘‘۔ جارج نے کہا۔
’’کیوں ۔ کیا تمہارے ہاتھوں میں سکت نہیں کہ تم سامنے سوئچ پینل پر موجود بٹن دبا کر انہیں کھول دو‘‘۔۔۔ عمران نے منہ بناتے ہوئے کہا تو جارج طنزیہ انداز میں ہنس پڑا۔
’’یہاں ایسا کوئی بٹن نہیں ہے۔ ان کا آپریٹنگ سسٹم ساتھ والے کمرے میں ہے اور وہاں صرف باس ہی جا سکتا ہے۔ میں نہیں جا سکتا ہے‘‘۔۔۔ جارج نے جواب دیا تو عمران نے بے اختیار ایک طویل سانس لیا۔
’’تو کیا جیرٹو پہلے یہاں آ کر ہمیں جکڑ گیا تھا اور اب پھر دوبارہ آیا ہے‘‘۔۔۔ عمران نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’نہیں ۔ یہ جکڑے تو یہیں سے جاتے ہیں لیکن کھلتے اس کمرے سے ہیں ‘‘۔۔۔ جارج نے جواب دیا۔
***