صفحات

تلاش کریں

ناولٹ: ٹھگوں کی کٹنی(ڈاکٹر غلام شبیر رانا)

یہ آفت نا گہانی ٹھگوں کی کٹنی تفوسی اور اس کے بھڑوے خصم تفوسا کی کہانی ہے۔ داستان گو کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اشہب قلم کی جولانیوں سے معاشرتی زندگی سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے اور بے ہنگم تضادات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے زخم رفو کرنے کی سعی کرتا ہے۔ جب کہ پیمان شکن، دروغ گو، حرص و ہوس کے اسیر موقع پرست اور گرگ آشتی کو وتیرہ بنانے والے خود غرض درندے سدا اپنے منھ میاں مٹھو بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ قحبہ خانے کی رسوائے زمانہ نائکہ تفوسی کے خاندان کے مورث نے برطانیہ کے ایک دُور افتادہ قصبے کوپ لینڈ کمبریا (Copeland Cumbria) میں دریائے ارٹ (River Irt) پر تعمیر کیے گئے سینٹون پُل (Santon Bridge) کے مقام پر ہونے والے عالمی مقابلۂ کذب و افترا میں دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے کا مقابلہ کئی بار جیتا۔ نائکہ تفوسی اور بھڑوا تفوسا ہرسال نومبر میں اس جشن میں شرکت کرتے رہے جو کوپ لینڈ میں سینٹون پُل پر نہایت تزک و احتشام سے ہر سال منعقد ہوتا ہے۔ تفوسی بے پر کی اُڑاتی، سفید جھوٹ بولتی، ملمع سازی سے لوہے کو سیم و زر بتاتی اور رنگوں کی بصارت سے محروم افراد کو رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کا استعارہ قرار دیتی تھی۔ برطانیہ میں رسوائے زمانہ کذاب وِل رِسٹن (Will Riston: 1808-1890) کی دروغ گوئی کی منحوس یاد تازہ رکھنے کے لیے اس جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ نائکہ تفوسی اور بھڑوے مسخرے تفوسا نے زندگی بھر اپنے سفلی پیشوا وِل رِسٹن کی کورانہ تقلید کو وتیرہ بنائے رکھا۔ تفوسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ممتاز مورخ ضیا الدین برنی(1285-1357) نے اپنی مشہور تصنیف تاریخ فیروز شاہی(1356) میں نائکہ تفوسی کے ٹھگ خاندان کا ذکر کیا ہے۔ قدرت کاملہ نے بر صغیر میں ہر عہد کے سلاطین کو ٹھگوں کے اس طوفان سے آشنا رکھا۔ بر صغیر میں خلجی سلطنت کے بانی جلال الدین خلجی (1220-1296) نے اپنے عہدِ حکومت میں نائکہ تفوسی کے خاندان کے ایک ہزار ٹھگوں کو پابند سلاسل کر دیا۔ نائکہ تفوسی کے خاندان کے طالع آزما اور مہم جُو تیر اندازوں، نیزہ بازوں اور شمشیر زنوں نے نادر شاہ درانی (1688-1747) کے مسلح دستوں میں شامل ہو کر 1739 میں دہلی شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور تیس ہزار بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ نائکہ تفوسی کے خاندان کا قبیح کردار، قتل و غارت کی مہلک غلطیاں، دروغ گوئی اور بے لگام جنسی جنون اس کے مالی استحکام کا سب سے بڑا حربہ تھا۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں آگہی رکھنے والے بزرگوں سے سنا ہے کہ نائکہ تفوسی کے خاندان کے مورث ادنیٰ ابلیس نژاد گرگ جمعداربہرام ٹھگ (1765-1840) نے اپنے عہد میں شمالی ہند کی ریاست اودھ کے باشندوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ اپنے آبائی شجرہ نسب کے حوالے سے تفوسی اس بات پر سدا فخر کرتی کہ اس کے خاندان کے سرغنہ بہرام ٹھگ نے پچیس سال کی عمر میں ٹھگی کی وارداتوں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اس سفاک ٹھگ نے پچاس سال (1790-1840) کے عرصے میں نو سو اکتیس (931) بے بس و لا چار اور مظلوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر خوف اور دہشت کی ایسی فضا قائم کی کہ پورے بر صغیر پر اس خطرناک ٹھگ کی ہیبت طاری ہو گئی۔ ایک راجبوت سورما یوگیش سنگھ رانا کے ساتھ تصادم میں بہرام ٹھگ شدید زخمی ہوا۔ سال 1840 میں بہرام ٹھگ کو برطانوی پولیس نے گرفتار کر لیا۔ ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر جبل پور میں انگریز مجسٹریٹ کرنل ہینری سلیمان (Col. Henry Sleeman) کی عدالت میں اس خون آشام درندے اور عیار ٹھگ پر مقدمہ چلایا گیا اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اسے دار پر کھنچوا دیا گیا۔ تفوسی کے خاندانی ذرائع سے معلوم ہوا کہ بہرام کی پھانسی کے بعد اس کے کالی زبان والے اور سبز قدم آباء و اجداد جنوبی ہندوستان کی ریاست نظام آباد (آندھرا پردیش) میں منتقل ہو گئے۔ یہ سب کالی دیوی کے پرستار تھے اور صحنِ چمن میں جس طرف بھی جاتے ہر شاخ پر زاغ و زغن، بُوم و شپر اور اُلّو کا بسیرا رہتا۔ اس کے خاندان کے سفہا اور اجلاف و ارذال ٹھگوں کا ذکر جن قدیم مورخین نے کیا ہے ان میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم کپتان جیمزپیٹن (Captain James Paton) بھی شامل ہے۔

قحط الر جال کے موجودہ دور میں عادی دروغ گو کی تلاش میں کسی کو طویل مسافت طے کرنے کی ضرورت نہیں۔ مسلسل شکستِ دِل کے باعث وہ بے حسی ہے کہ ایک جھوٹے کو ڈھونڈنے نکلو تو راہ میں ایک ہزار عادی دروغ ہنہناتے اور دُم ہلا کر غراتے دکھائی دیں گے۔ خانے وال میں اپنے آبائی قحبہ خانے اور چنڈو خانے کو شادی مرکز میں بدلنے کے بعد تفوسا اور تفوسی کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ شہر کے ایک با رونق بازار میں ’’جھٹ پٹ مرکز بیاہ‘‘ کی صورت میں ان ٹھگوں نے لُوٹ مار کا ایک اڈہ بنا لیا تھا۔ جھُٹ پُٹے کے وقت یہاں شادی کے خواہش مند عیاش، اوباش اور دولت مند نوجوان جوق در جوق پہنچتے۔ یہاں سب مست بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر رقص کرتے اور شرم و حیا کو دریا بُرد کر کے رات گئے تک جنس و جنوں کی محفل سجائی جاتی۔ طوائف صبوحی اور نائکہ تفوسی رقص و سرود اور جنس و جنوں کی ان محفلوں کی روح رواں تھیں۔ جب رقصِ مے تیز ہوتا اور ساز کی لے بلند ہوتی تو رذیل جسم فروش طوائف صبوحی کی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز طوائفیں برملا کہتیں:

’’تخریب کچھ تو بہرِ خرافات چاہیے۔‘‘

شہر میں ’’جھٹ پٹ مرکز بیاہ‘‘ نے عیاشی، بد معاشی اور لُوٹ مار کے ایک خطر ناک اڈے کی صورت اختیار کر لی۔ صبوحی کی صورت میں تفوسی کو ایک ایسی ماڈل میسر تھی جسے دکھا کر وہ پتھر کو بھی جو نک لگا لیتی تھی۔ بے غیرتی، بے ضمیری اور بے ایمانی کو وتیرہ بنانے والی ان طوائفوں نے جن لوگوں کو اپنی لُوٹ مار کا نشانہ بنایا ان میں زیادہ تر بوڑھے ریٹائرڈ ملازم شامل تھے۔ یہ ضعیف چراغ سحری تھے اور چاہتے تھے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کے سر پر سہرے باندھ کر ایک خوشی دیکھ سکیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ یہ رذیل جسم فروش طوائفیں ضعیف ریٹائرڈ ملازمین کی آنکھوں میں دھُول جھونک کر نہایت راز داری اور عیاری سے اُن کی زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیا لیتیں۔ ان جلاد منش طوائفوں کی ٹھگی، درندگی اور لُوٹ مار کا نتیجہ یہ نکلتا کہ آلام روزگار کے پاٹوں میں پِس کر بوڑھے تو عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیتے مگر ان الم نصیب جگر فگار ضعیفوں کے پس ماندگان کے گھر کے اُداس بام، کھلے در اور دیواروں پر حسرت و یاس بال کھول کر آہ و فغاں میں مصروف رہتی۔ قحبہ خانے میں اپنا شباب گزارنے کے بعد تفوسا کے ساتھ شادی کا بندھن تفوسی کے لیے انوکھا تجربہ ثابت ہوا۔ وہ اپنے قحبہ خانے کی طوائفوں کو یہ بات سمجھاتی رہتی:

’’مری تربیت سے نوجوان طوائف صبوحی اپنے پیشے میں اتنی ماہر ہو گئی ہے کہ یہ لال کنور سے بھی بازی لے گئی ہے۔ روزانہ بیسیوں لُچے، تلنگے، مسخرے اور بھڑوے کالا دھن لیے اس نوجوان جسم فروش طوائف کو نوچنے اور اپنا منھ کالا کرنے کے لیے قحبہ خانے میں پہنچ جاتے ہیں۔ صبوحی کی الھڑ جوانی اور چاندی کی گردن میں سونے کی گانی دیکھ کر جنسی جنونی مرد اس طوائف پر مر مٹتے ہیں۔ شادی کے بعد طوائف کو بے شمار پرستاروں کی ہوس سے نجات مِل جاتی ہے اور اُسے شوہر کی صورت میں صرف ایک بھڑوے پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ شادی کے بندھن کے بعد طوائف کو آرام کے لیے کچھ وقت مِل جاتا ہے۔ میں نے خرچی کی کمائی سے اس قدر جائیداد بنا لی ہے کہ اب ہمارا شمار کھرب پتی رؤسا میں ہوتا ہے۔ ہمارے قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں آنے والے جنسی جنونیوں کو جب میری لے پالک بیٹی صبوحی مے گل فام سے سیراب کرتی ہے تو وہ سب چلّو میں اُلّو بن جاتے ہیں۔ وہ اپنا زر و مال میرے قحبہ خانوں کی نیم عریاں حسیناؤں، لے پالک بیٹیوں اور رقص و سرود کی ماہر طوائفوں پر نچھاور کرنے کے بعد جہاں دار شاہ کی طرح ان کے قدموں میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔‘‘

بھڑوا تفوسا بھی اپنی اہلیہ کے خیالات سے متفق تھا۔ تفوسی اور صبوحی نے اس نکھٹو کے لیے آرام و آسائش کے فراواں مواقع پیدا کر دئیے تھے۔ اس کی تن آسانی اور عیاشی دیکھ کر سب لوگ لاحول پڑھتے تھے۔ ہوش و خرد سے عاری یہ خضاب آلود بڈھا کھوسٹ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا اور حسین دوشیزاؤں کے جھرمٹ میں راجا اِندر بن کر خوب ہنہناتا تھا۔ زمین کا بوجھ تفوسا جب زمین کو ٹھوکر مار کر اکڑتا ہوا چلتا تو دو طرفہ خست و خجالت، ذلت و تخریب اور ندامت اس کے ساتھ ساتھ چلتی جب یہ نشے میں ٹُن ہوتا تو اکثر یہ بات دہراتا:

’’ہمارے قحبہ خانے کی مکین مست طوائفیں بندِ قبا کھول کر عیاش دولت مندوں کی جیب خالی کرنے کا فن خوب جانتی ہیں۔ ہماری عیاشی کی راہ میں جو دیوار بنے گا وہ باقی نہیں رہے گا۔ سماجی زندگی میں ایک عام آدمی جب اپنے ابنائے جنس سے تصادم کے نتیجے میں کسی شخص کی زندگی کی شمع بجھا دیتا ہے تو اسے قاتل کہا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس جب ایک خونخوار جنگلی جانور کسی نہتے آدمی کو اپنا لقمۂ تر بناتا ہے تو اسے جانور کی سر کشی، درندگی اور سفاکی پر محمول کیا جاتا ہے۔ ہم نے مے خانے، قحبہ خانے اور چنڈو خانے بنا کر زوال پذیر معاشرے کی ایک ضرورت پوری کی ہے۔ جس طرح ہر گھر میں ایک بیت الخلا کی اشد ضرورت ہے اسی طرح ہر معاشرے کو ایک قحبہ خانے کی احتیاج ہے۔ ہمارا قحبہ خانہ دورِ انحطاط میں اخلاق باختہ معاشرے کی تمام عفونت اور سڑاند کو چُوس لیتا ہے۔‘‘

نائکہ تفوسی ایسی سنگ دِل کٹنی تھی جس کی لُوٹ مار سے کئی امیر خاندان کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ اپنے مکروہ عزائم کے بارے میں وہ مگرمچھ کے آ نسو بہاتے ہوئے نہایت ڈھٹائی سے کہتی:

’’اہلِ ثروت کے گھروں میں زیورات اور مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر میرے دل میں لُوٹ مارکی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ ٹھگی کی وارداتوں میں ہماری توجہ صرف لُوٹ مار پر ہوتی ہے مگر لُوٹ مار کے دوران میں جب ہمیں للکارا جاتا ہے تو ہمارا صبر و ضبط جواب دے جاتا ہے۔ ایسے حالات میں قتل و غارت کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہتا۔ میرے قحبہ خانے کی حسین و جمیل نوجوان لڑکیاں بگڑے ہوئے رؤسا اور گھٹیا عیاشوں پر اپنا جسم و جاں نذر کرتی ہیں، اپنا کردار، وقار اور اعتبار چند ٹکوں کے عوض بیچنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے مگر ہم ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘

تفوسی اپنی لے پالک نوجوان بیٹیوں کو کچھ عرصہ تو قحبہ خانے کی زینت بناتی مگر جب ان طوائفوں کا شباب ڈھلنے لگتا تو کسی عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے عیاش نوجوان سے ان کی شادی کر دیتی۔ ان خون آشام ٹھگوں کے بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔ نسل در نسل لوگوں کے دلوں میں ان ٹھگوں کے خلاف نفرت کے جذبات پروان چڑھتے رہے۔ تفوسی کے قحبہ خانے کی رقاصہ، مغنیہ اور رذیل جسم فروش طوائف صبوحی کے خط و خال تو واجبی سے تھے مگر ماہر مشاطہ محنت سے اس انداز میں اس کی لیپا پوتی کرتی کہ دیکھنے والے دھوکا کھا جاتے۔

راوی نے بتایا کہ سال 2014 میں کمال نامی ایک ضعیف طبیب ٹھگوں کے اس گروہ کے چنگل میں پھنس گیا۔ اسی سال کا بوڑھا طبیب کمال جلد از جلد اپنے نوجوان بیٹے رافع کی شادی کی خوشی دیکھنے کا آرزو مند تھا۔ اس نے اپنے معمتد ساتھیوں سے اس سلسلے میں مشورے کیے۔ طبیب کمال کی خواہش کے بارے میں جب ٹھگوں کے اس ٹولے کو معلوم ہوا تو نائکہ تفوسی اپنی بیٹی صبوحی کلموہی کو لے کر وہاں جا پہنچی اور اپنے مکر و فریب کا جال بچھا کر کہنے لگی:

’’میری چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹی صبوحی حاضر ہے۔ اگر تم اسے اپنی بہو بیٹی بنا لو تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا۔‘‘

تفوسا کو بھی شکار پھانسنے کا ہنر خوب آتا تھا۔ اس نے اپنی اہلیہ کی تائید کرتے ہوئے کہا:

’’صبوحی کے لیے بہت رشتے آ رہے ہیں۔ رافع ہمیں بہت عزیز ہے اس لیے ہم اپنی بیٹی صبوحی کا رشتہ اسے دے رہے ہیں۔‘‘

طبیب کمال نے تفوسا اور اس کی اہلیہ تفوسی کی باتیں سن کر کہا:

’’میں اس کے بارے میں پہلے اپنے اہلِ خانہ سے مشورہ کروں گا۔‘‘

’’تم بڑے شوق سے مشورہ کر لو۔‘‘

نائکہ تفوسی کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے بولی ’’ہمارے گھر میں صبوحی کے رشتے کے لیے نوجوان لڑکوں کا تانتا بندھا ہے۔ تم ایک ہفتے کے اندر ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دینا۔‘‘

طبیب کمال نے یہ ساری باتیں تفوسا کے ضعیف پڑوسی کرم داد کو بتائیں تو کرم داد تڑپ اُٹھا اور بولا:

’’میرے بھائی! حیف صد حیف نائکہ تفوسی نے شرم و حیا کو بارہ پتھر کر دیا ہے۔ شہر کا شہر صبوحی کے حربوں سے آگاہ ہے۔ ہر روز یہ حرافہ اس طرح بن ٹھن کر اپنے قحبہ خانے سے باہر نکلتی ہے جس طرح پیشہ ور شکاری بندوق تھام کر شکار کے لیے نکلتا ہے۔ متلون مزاجی سے اعتماد مجروح ہوتا ہے مگر جو شخص خلوص، مروّت اور شفقت سے محروم ہو وہ کردار اور وقار سے عاری ہو جاتا ہے۔ کاروبار میں ہونے والے نقصان کی تلافی تو ممکن ہے مگر دھوکا دہی اور فریب کاری سے انسان جن صدمات سے دو چار ہوتا ہے وہ ناقابلِ اندمال ثابت ہوتے ہیں۔ ہر ماہ تفوسی کے قحبہ خانے میں اس کی رذیل طوائف بیٹی صبوحی کی منگنی کی تقریب ہوتی ہے۔ اب تک یہ ٹھگ اپنی تیس سالہ بیٹی صبوحی کی منگنی تین سو مرتبہ کر چکے ہیں۔ اس سے پہلے ان عادی دروغ گو ٹھگوں کی یہ بیٹی اپنی منگنی کی تین سنچریاں پوری کر چکی ہے۔ ان کی چال دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ ان کی یہ بیٹی اپنی منگنی کی چار سنچریاں پوری کرے گی۔ اونہہ! صبوحی کی منگنی کوئی نئی بات نہیں۔ میں تو اس عیار لڑکی کی منگنی کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں:

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

اس کی منگنی مدام ہوتی ہے‘‘

نوجوان سارق جو صبوحی کا زخم خوردہ تھا وہ یہ باتیں بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔ اس نے اپنے تلخ تجربات کے حوالے سے بتایا:

’’صبوحی کے کوٹھے پر جو امیر نوجوان وارد ہوتا ہے صبوحی کو اس کی منگیتر بنا دیا جاتا ہے۔ جو لوگ صبوحی کو محض طوائف سمجھتے ہیں وہ سخت نادانی کرتے ہیں۔ صبوحی جہاں ایک رذیل جسم فروش طوائف ہے وہاں یہ کلموہی ایک پیشہ ور ٹھگ بھی ہے۔ اپنی ماں تفوسی کے ساتھ صبوحی نے کچھ عرصہ حافظ آباد میں میرے گھر گزار آئی۔ وہاں اس چڑیل نے جو گل کھلائے اور چاند چڑھائے وہ آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ اپنا سب اثاثہ لٹوانے کے بعد میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ ہی اس کا حافظ ہے۔ ڈائن صبوحی نے میرے گھر کا سکھ اور چین غارت کر دیا۔ اب میں اپنے گھر کی شکستہ دیواروں کی مرمت کر رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس ہوائے بے اماں میں اپنی اس پناہ گاہ کو بچا لوں۔‘‘

صبوحی کا ایک عاشق جس کا نام رافع ہے اس کے سامنے جب کوئی اس کٹنی کا نام لیتا ہے تو وہ دِل کو تھام تھام لیتا ہے۔ صبوحی نے رافع کے ساتھ جو جعلی پیمان وفا باندھا وہ اس کٹنی کی ہوس مال و زر کی آنچ میں جل کر راکھ ہو گیا۔ جب شام ڈھلتی ہے تو یہ جگر فگار نوجوان درد کی مسموم ہوا کے بگولوں کی زد میں ہوتا ہے۔ یہ تارے گن گن کر رات گزارتا ہے مگر ترک تعلق پر اسے کوئی پچھتاوا نہیں۔ ناکام منگنی کے ٹوٹے ہوئے رشتے کے اداس کرنے والے تجربے کے بعد وہ اپنی رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں سے دل برداشتہ ہو کر گوشہ نشین ہو گیا ہے۔ صبوحی کے ننھیالی قصبے کانڈیوال سے اسے اتنی نفرت ہو گئی ہے کہ وہ بھُول کر بھی اس قصبے کا رُخ نہیں کرتا۔ ایام گزشتہ کی باتیں سن کر اس کا دل بھر آتا ہے اور آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں۔ اس نے آہ بھر کر کہا:

’’مجھے اپنا مال و اسباب لُٹنے کی پروا نہیں۔ جب میرا دِل ہی میرے پہلو میں موجود نہیں تو میں کس طرح اپنے غم کا بھید کھولوں۔ میرے ساتھ ان ٹھگوں نے جو کھیل کھیلا ہے اس میں سب کچھ ہارنے کے بعد میں آنسوؤں کے بغیر روتا پھرتا ہوں۔ ہوس پرستوں اور پیشہ ور ٹھگوں کے ہاتھوں جب سے رشتۂ جاں ٹوٹا ہے میری روح زخم زخم اور دِل کرچی کرچی ہو گیا ہے۔ میں نے اُس موذی و مکار اور سفاک جفا کار سے وفا کی توقع وابستہ کر لی جسے وفا کا مفہوم بھی معلوم نہ تھا۔ راتوں کے پچھلے پہر میں جب ساری کائنات محو استراحت ہوتی ہے میں ٹمٹماتے تاروں سے محو تکلم ہوتا ہوں۔‘‘

تفوسا اور تفوسی کے گھر کے پچھواڑے میں رہنے والے شاعر منشی چھان پھٹک نے اس خاندان کے افراد کے قبیح کردار کے باعث اِنھیں بھڑوے، مسخرے، لُچے، شہدے اور تلنگے قرار دیا۔ منشی چھان پھٹک نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بناپر تفوسا اور تفوسی کے بارے میں کہاکہ ان کی بد اعمالیاں ہی ان کی پہچان بن گئی ہیں۔ منشی چھان پھٹک نے آہ بھر کر کہا:

’’یہ سب تو جو فروش گندم نما ٹھگ ہیں۔ اپنی دروغ گوئی اور دھوکا دہی کی وجہ سے یہ معاشرے میں اتنے رسوا ہیں کہ اگر کبھی یہ سچ بھی بولیں تو کوئی ان کی بات کا یقین کرنے کو تیار نہیں۔ یاد رکھو گھنے جنگلوں میں بھیڑیوں کے نرغے میں پھنس جانے والے آدمی کے بچ نکلنے کے امکانات موجود ہیں مگر بھیڑ کا لبادہ اوڑھ کر آبادیوں میں پھرنے والا اکیلا بھیڑیا بھی اپنے شکار کو زندہ نہیں چھوڑتا۔ منشی چھان پھٹک نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنا پر تفوسا اور تفوسی کے بارے میں کہا کہ ان کی بد اعمالیاں ہی ان کی پہچان بن گئی ہیں۔

یہ بات ہماری ڈینگ نہیں ہے

کام شناخت بنیں بھڑووں کی

اِن کے سر پر سینگ نہیں ہے‘‘

طبیب کمال کی بیوی غفوراں نے تفوسی کی پڑوسن دائی نوراں سے مشورہ کیا تو اس نے تفوسی کو ننگ انسانیت قرار دیتے ہوئے کہا:

’’پورے علاقے میں نائکہ تفوسی اور اس کی لے پالک بیٹی رذیل جسم فروش طوائف صبوحی کلموہی کی ذلت اور تخریب کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دسمبر 2019 میں اس کی عمر تیس سال ہو جائے گی۔ بیس سال سے یہ ٹھگ اپنی اس منھ بولی بیٹی کی منگنی کا ڈھونگ رچا کر سادہ لوح لوگوں کو لُوٹ رہے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگا لو ہر ماہ اس کی منگنی کی تقریب ہوتی ہے۔ اری بہن! خدا جھوٹ نہ بلوائے اب تک اس کی چار سو منگنیاں ہو چکی ہیں اور لڑکوں کے والدین سے لُوٹ مار کرنے کے بعد ان سب منگنیوں کو ان طوائفوں نے توڑ ڈالا۔ جعلی نوعیت کی یہ منگنیاں صرف دھوکا دہی کی واردات نہیں بل کہ بہت بڑا فراڈ ہے۔‘‘

تفوسی نے اپنے ترکش کا ایک اور تیر چلایا اور صبوحی کو طبیب کمال کے بیٹے رافع کے پاس بھیجا۔ صبوحی اپنی چکنی چپڑی باتوں سے رافع کو رام کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ تفوسی کی لُوٹ مار کا سلسلہ تین برس تک جاری رہا۔ جب رافع کے پاس کچھ نہ بچا تو تفوسی اور صبوحی نے رافع سے ہر قسم کے رابطے توڑ لیے اور کسی نئے شکار کی تلاش شروع کر دی۔

طبیب کمال ہر وقت اپنی حسرتوں پہ آنسو بہاتا رہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ان ٹھگوں کی رعونت کا انحصار ان کی فریب کاری پر ہے اور ان کی ٹھگی نے ان سے رابطہ رکھنے والے متعدد راست باز لوگوں کے وقار کو داغ دار کر دیا ہے۔ طبیب کمال کے نوجوان بیٹے رافع کو بھی تفوسی اور صبوحی نے بڑی بے دردی سے لوٹا۔ رافع اپنے ملنے والوں کو اپنی داستانِ غم اس طرح سناتا:

’’مجھ پر جو صدمے گزرے ہیں ان کا حال جس تس نے بھی سناوہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ صبوحی ایک ایسی زہریلی ناگن ہے جو اپنے عشاق کی زندگی میں زہر گھول دیتی ہے۔ صبوحی اور تفوسی کے کوچے میں نسیم اور صبا کے جھونکے آتے ہیں مگر سمے کے سم کے ثمر نے ہمیں راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا ہے۔ ہمارے بوڑھے والدین کے دِل میں نوجوان بیٹے کی شادی کی پلنے والی اُمنگوں کو صبوحی کی عیارانہ ترنگوں اور حرص کے شعلوں نے جلا کر خاکستر کر دیا۔ ان سفلہ ٹھگوں کی عیاری کے بعد ایسی موجِ حوادث چلی جس کے گرداب میں ہماری راحت و مسرت کا سفینہ غرقاب ہو گیا۔‘‘

طبیب کمال کے دیرینہ رفیق اور معتمد ساتھی شیخ چلی نے اسے کہا:

’’تفوسا کی ہلاکت کے بعد ہر وقت اس کا ذکر مناسب نہیں۔ یہ صیاد اپنے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس گئے ہیں۔ اپنے ساتھ ہونے والے فریب کو تقدیر کا لکھا سمجھو اور مشکوک نسب کے ٹھگوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور لُوٹ مار کو اب بھول جاؤ۔‘‘

طبیب کمال نے کہا: ’’شیخ چلی تم بہت سادہ ہو۔ لوگ کیا سے کیا ہو گئے مگر تم وہی کے وہی بدھو ہی رہے۔ دشمنی کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جنھیں ادا کرنا لازم ہے۔ محسن کش درندوں، کینہ پرور حاسدوں، عیار دغا بازوں اور مکار پیمان شکنوں کی عداوت کا حق ادا کرنے کے لیے ہر وقت میں گردشِ ایام کی صلیب پر لٹکا ہوں۔ تم نے وہ کہانی تو سنی ہو گی جس میں دشمنی کا حق ادا کرنے کا سبق دیا گیا ہے۔‘‘

شیخ چلی نے کہا: ’’میں نے دشمنی کا حق ادا کرنے والی کہانی نہیں سنی۔ مجھے وہ کہانی ضرور سناؤ۔‘‘

طبیب کمال نے کہا؛ ’’اب دشمنی کا حق ادا کرنے کے بارے میں سبق آموز کہانی سنو اور سر دھُنو:

کسی ویرانے میں ایک دریا بہتا تھا جس کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ سے آبی مخلوق پر عرصۂ حیات تنگ ہو جاتا تھا۔ اس دریا کے کنارے ایک جنگل تھا جس میں ظاہر ہے جنگل ہی کا قانون پوری شدت سے نافذ تھا۔ دریا کے ایک کنارے پر خار دار جھاڑیوں میں گھرا برگد کا ایک قدیم درخت کھڑا تھا۔ لوگ اس خمیدہ درخت کو گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ورق اور عبرت کا ایک سبق قرار دیتے تھے۔ بر گد کے اس درخت کی کھوہ میں کئی اُلّو اور اُلّو کے پٹھے منقار زیرِ پر تھے۔ اس کی جڑوں کے ساتھ ایک گہری کھائی میں ایک خرگوش کا بسیرا تھا جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ برگد کے اس درخت کی شاخوں میں راجہ گدھ نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ کئی چمگادڑ بھی بر گد کے اس درخت کی شاخوں سے اُلٹے لٹکے تپسیا میں مصروف رہتے تھے۔ بہت سی چھپکلیاں بھی اس بلند درخت کی چوٹی پر چڑھنے کے لیے ہر وقت بے تاب دکھائی دیتی تھیں۔ دریا کے گہرے پانی میں ایک بوڑھے نہنگ کا نشیمن تھا۔ ضعف پیری کے باعث اس نہنگ کے اعضا مضمحل ہو گئے اور عناصر کا اعتدال بھی عنقا ہو گیا۔ وہ بہتے ہوئے پانی میں آبی مخلوق کا شکار کرنے کے قابل نہ رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فاقوں کے باعث کم زور ہونے لگا۔ لگاتار کئی دن تک فاقہ کشی سے پریشان ہو کر وہ ضعیف نہنگ ایک دن گہرے پانی سے باہر نکلا اور خرگوش سے کہنے لگا:

’’فاقہ کشی سے تنگ آ کر میں نے چلّہ کشی اور تپسیا کا فیصلہ کیا ہے۔ میں تو تمھاری طرف دوستی کا پنجہ بڑھاتا ہوں لیکن مہاراجہ گدھ ہمارے درمیان سد سکندری بن کر حائل ہو جاتا ہے۔‘‘

’’اتنی طولانی تمہید کے بعد کہانی کب شروع ہو گی؟‘‘ شیخ چلّی نے بیزاری سے کہا ’’یہ کہانی تو شیطان کی آنت بنتی چلی جا رہی ہے۔ تم مجھ سے کس دشمنی کا بدلہ لے رہے ہو۔ میں یہ بے سر و پا کہانی کہاں تک سن سکتا ہوں۔ میرے صبر کا امتحان نہ لو مجھے جلد از جلداس کا نتیجہ بتا دو۔‘‘

طبیب کمال نے اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا:

’’سنگ دِل نہنگ نے اپنے مکر کی چالوں سے خرگوش کو رام کر لیا اور دونوں میں گہری دوستی کا آغاز ہو گیا۔ راجہ گدھ کو نہنگ اور خرگوش کا سنگ سنگ چلنا پسند نہ تھا۔ راجہ گدھ نے خرگوش کو بتایا کہ نہنگ بہت ہی خطر ناک آبی جانور ہے۔ نہنگ روزانہ خرگوش کے بچوں کا ناشتہ کرتا ہے مگر خرگوش نے راجہ گدھ کی بات سنی ان سنی کر دی۔ جوں ہی نہنگ گہرے پانی سے باہر نکلتا راجہ گدھ اس پر جھپٹتا۔ ناچار نہنگ واپس گہرے پانی میں کود پڑتا۔ باہم مشاورت سے خرگوش اور نہنگ نے ایک رسی اپنے پیٹ سے باندھ لی۔ یہ بات طے پا گئی کہ جب راجا گدھ قسمت سے محروم اپنی رعایا کی فریاد کی بے داد کرنے کے لیے کہیں دُور جائے تو خرگوش رسی کو کھینچ کر اپنے دوست نہنگ کو طلب کر لے گا۔ کچھ دن یہ سلسلہ چلتا رہا مگر جلد ہی چمگادڑوں کی مخبری سے راجہ گدھ کو نہنگ اور خرگوش کے خفیہ رابطوں کا علم ہو گیا۔ ادھر خرگوش اس بات پر فکر مند تھا کہ اس کے بچے پر اسرار طور پر گم ہونے لگے ہیں۔ نہنگ کے عذر لنگ کو سمجھتے ہوئے راجہ گدھ ایک جھاڑی میں پر سمیٹ کر دبک کر بیٹھ گیا۔ خرگوش اپنے بچوں کی گم شدگی کے معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا اور اسے اپنے دشمن کی پہچان ہو گئی۔ خرگوش نے رسی کھینچی تو نہنگ فوراً پانی سے باہر نکلا۔ راجہ گدھ جھپٹا اور اس نے نہنگ کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا اور ہوا میں لمبی اُڑان بھری۔ عین اس وقت خرگوش کے پیٹ سے بندھی رسی کی گانٹھ پکی ہو گئی اور خرگوش کے منصوبے کے بر عکس وہ گانٹھ نہ کھُل سکی۔ کئی چمگاڈر یہ دیکھ کر حیرت زدہ تھے کہ خرگوش فضا میں رسی کے ساتھ لٹک رہا ہے۔ ایک فاختہ نے خرگوش سے پوچھا:

’’نہنگ کو تو راجا گدھ نے اُچک لیا ہے۔ اب راجہ گدھ نے نہنگ کو نوچنا، ادھیڑنا اور کھدیڑنا شروع کر دیا ہے۔ تم رسی سے بندھے ہوا میں لٹکے کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’میں نے اپنے بچوں کے قاتل نہنگ کی خوب خبر لی ہے اب میں یہاں دشمنی کا حق ادا کر رہا ہوں۔‘‘ خرگوش نے اپنے گم شدہ بچوں کی یاد میں آ نسو بہاتے ہوئے کہا

فیض رساں معمر معلم ضیغم سے مِل کر زندگی سے پیار ہو جاتا تھا۔ اخلاق، اخلاص، ایثار، بے لوث محبت اور بے باک صداقت اس معمر معلم کی شخصیت کے امتیازی اوصاف تھے۔ اپنے احباب کا کسی قسم کا احسان اپنے سر لینے کے بجائے وہ اپنے حسنِ سلوک سے اُنھیں احسان مند کر دیتا تھا۔ ان ٹھگوں نے ضعیف معلم ضیغم کو اس وقت اپنے چنگل میں پھنسا لیا جب چھے جولائی 2017 کو نوجوان بیٹے ساجد کی الم ناک موت نے ضیغم کو زندہ در گور کر دیا۔ ضیغم اکثر کہتا تھا کہ جب تک ساجد زندہ تھا اس نے صرف اپنی زندگی کی تاب و تواں ہی نہیں بل کہ اپنا دِل بھی اپنے ضعیف باپ کے سپرد کر دیا تھا۔ یہ اس جوان رعنا کی محبت، ایثار اور وفا کا ثمر تھا ضیغم کے دل میں رنج و ملال کا کہیں گزر نہ تھا۔ ستر برس کی عمر میں بھی ضیغم سر اُٹھا کر چلتا تھا اور اُس نے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے سدا انکار کیا۔ ساجد نے اپنے لیے ایک نیا خوب صورت گھر تعمیر کرایا۔ اپنے ضعیف والدین اور بہن کے لے کر وہ اس گھر میں منتقل ہو گیا۔ جب تک ساجد اپنے گھر میں رہا ضیغم کو یوں محسوس ہوتاکہ وہ نئے گھر کے در و بام کے مضافات میں نہیں بل کہ اپنے لختِ جگر کے دِل میں بستا ہے۔ ساجد نے جب عدم کے کوُچ کے لیے رختِ سفر باندھا تو گھر کی خوشیاں، راحتیں اور سکون بھی ساتھ چلا گیا۔ رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو اور سانسوں کی آ مد و رفت ایک تانا بانا بن گئی۔ ضیغم اپنے احباب کو بتاتا کہ گردشِ ایام کے تکلوں پر چڑھی اُس کی حسرت ناک زندگی لمحہ بہ لمحہ اس کا کفن بُن رہی ہے۔ ساجد کی دائمی مفارقت کے بعد ضیغم کے دِلِ حزیں کی دھڑکن نے آوازِ جرس کی صورت اختیار کر لی تھی۔ شہرِ خموشاں کربلا حیدری کے ایک گوشے میں ساجد ردائے خاک اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا۔ اس کے گھر میں جس سمت نظر اُٹھتی ہے اُس کی آواز کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ساجد اپنے ضعیف باپ کو دلاسا دیتا، صبر و رضا کی تلقین کرتا اور مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا مشورہ دیتا تھا۔ ضیغم اپنے بیٹے ساجد کی آواز سن کر دِل تھام لیتا اور گلو گیر لہجے میں جواب دیتا:

تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دِن اور

ناگن تفوسی نے تقدیر کے ستم سہنے والے ہر مظلوم کو ڈسا۔ اس عیار نائکہ نے اپنی بیٹی صبوحی کی منگنی ضیغم کے نو جوان بیٹے سے کر دی۔ ضعیف ضیغم کو اپنے جال میں پھنسا کر تفوسی نے اس سے تمام زر و مال بٹور لیا۔ ساجد کی پہلی برسی پر تفوسی اپنی بیٹی صبوحی کو ساتھ لے کر ضیغم کے گھر پہنچی۔ ضیغم نے اپنے نوجوان بیٹے کی آخری آرام گاہ پر نصب کرنے کے لیے مقامی سنگ تراش سے سنگ مر مر کی لوح مزار تیار کرائی۔ اس موقع پر ضیغم نے روتے ہوئے کہا:

’’جوانی میں ہم مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہیں مگر ضعیفی میں جب ہم مصائب و آلام اور ابتلا و آزمائش سے دو چار ہتے ہیں تو اس کٹھن راہ میں ہماری سانس اُکھڑ جاتی ہے۔ ساجد کے گھر سے اُس کے پس ماندگان کی طرف سے بھیجا جانے والا سنگ مرمر کا یہ کتبہ اس کی آخری آرام گاہ پر نصب کیا جائے گا۔ دائمی مفارقت دینے والے اپنے نوجوان بیٹے ساجد کی آخری آرام گاہ پر لوح مزار نصب ہوا تو ضیغم یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس جوان رعنا کے سر کے ساتھ اب فقط سنگ رہ گیا ہے۔ سنگ مر مر کے کتبے کو اپنے آنسوؤں سے دھوتے ہوئے اس نے عابد رضا شکیب کا یہ شعر پڑھا تو وہاں موجود سب احباب کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں:

کہیں کتبہ، کہیں مسجود، کہیں تاج محل

یہ جو پتھر ہے یہ انسان کا کیا لگتا ہے

رات کے سائے بڑھ رہے تھے جب تفوسا دن بھر کی ٹھگی کے بعد اپنی نائکہ بیوی کے قحبہ خانے میں پہنچا تو دونوں جھوٹے مل بیٹھے اور دن بھر کی ٹھگی اور دروغ گوئی کے واقعات ایک دوسرے کو بتانے لگے۔ اس اثنا میں تفوسا نے اپنی بیوی تفوسی سے کہا:

’’دن بھر کی دروغ گوئی اور ٹھگی کے بعد میرا جسم ٹُوٹ رہا ہے۔ ایسی زندگی سے تو بہتر ہے زہر کھا لیا جائے۔ ہمارے مکر و فریب نے کئی گھر بے چراغ کر دئیے اور بے شمار لوگوں کی اُمیدوں کا گلشن ویران ہو گیا۔ جرائم اور انسان دشمنی سے لبریز ایسی زندگی سے تو موت بہترہے۔ ہمارے دِل میں ہوسِ خواری کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے۔ اسی حرص و ہوس نے ہمیں سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا کر دیا ہے۔‘‘

’’یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ سچ کہہ رہے ہو یا جھوٹ بول رہے ہو؟‘‘ تفوسی کی جبلت میں جسم فروشی شامل تھی اس نے حیرت سے کہا ’’نو سو فربہ چوہے نگل کر تھکا ہارا کھوسٹ باگڑ بلا اب مندر کو سُدھارا۔ میرے سامنے اپنے بارے میں کچھ نہ کہو۔ میں تمھاری سب باتیں جانتی ہوں اور تمھیں خوب پہچانتی ہوں۔ صحراؤں کے بے شمار جن، بھوت، آسیب اور آدم خور میرے باج گزار ہیں۔ بد روحیں، چڑیلیں اور ڈائنیں خون آشامی کے طریقے مجھ سے سیکھتی ہیں۔ لُوٹ مار اور ٹھگی میں مجھے کبھی ناکامی کا منھ نہیں دیکھنا پڑا۔ ہند اور سندھ کے سب ٹھگ میرے حضور کورنش بجا لاتے ہیں۔ تفوسا میرے لیے تُو محض ایک دھموسا ہے۔ کان کھول کر سُن لو جو بھی شخص میری راہ میں دیوار بنے گا وہ اس دنیا میں نہیں رہے گا۔‘‘

’’میں آج کڑوا سچ بول رہا ہوں۔ بے بس و لاچار انسانوں پر ڈھائے جانے والے اپنے مظالم پر ندامت کے احساس نے مجھے بہت کچوکے لگائے ہیں۔‘‘ تفوسا ہنہناتے ہوئے بولا ’’میرے جسم کا انگ انگ دُکھنے لگا ہے۔ تم جیسی فریبی، عیار اور رذیل طوائف کے ساتھ گزرنے والی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ بوڑھے کمال کے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی صبوحی کی منگنی کا جھانسہ دے کر ہم پیہم تین سال تک اُسے لُوٹتے رہے۔ نوجوان رافع نے جب صبوحی کو پہلی بار دیکھا تو وہ نہ صرف صبوحی کو دِل دے بیٹھا بل کہ اس کے حسن و جمال کے جلوے اور وصل کے کیف و مستی کے لمحات کا بھاری بل ادا کرتے کرتے وہ در بہ در اور خاک بہ سر ہو گیا۔ تم نے صبوحی کا جال لگا کر خارق کو ٹھگ لیا اور اب اسی جال میں میرا دیرینہ رفیق ضعیف معلم ضیغم پھنس چکا ہے۔ ہم نے اپنی زندگی کا آغاز مفت خور، لیموں نچوڑ، بے سر و ساماں کرایہ دار، اُدھار خور، قلاش قرض دار اور سفلہ ٹھگ کی حیثیت سے کیا۔ تمھارے قحبہ خانے کی رونقوں سے ہمیں بے تحاشا دولت تو مل گئی مگر سکون قلب ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ اس وقت میری زندگی کی مشعل ٹمٹما رہی ہے اور میں کوئی دم کا مہمان ہوں۔ اس وقت تم نے ڈکیتی، ٹھگی اور قتل و غارت کا جو قبیح سلسلہ شروع کر رکھا ہے اسے دیکھ کر میں اپنے آپ سے شرمندہ ہوں۔ اندوہ ناک ذلت، افسوس ناک ندامت، خوف ناک اخلاقی پستی، شرم ناک بے ضمیری اور عبرت ناک دہشت گردی نے مجھے معاشرتی زندگی میں تماشا بنا دیا ہے۔‘‘

تفوسی نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور غراتے ہوئے کہا ’’یہ انہونی کیسے سامنے آ گئی؟ تم جیسا خون آشام درندہ جس نے سیکڑوں غزال، بکریاں اور بھیڑیں ڈکار لی ہوں وہ اپنی خُوکیسے بدل سکتا ہے۔ تم ایسے بھنورے ہو جس نے بزمِ گلشن کی ہر کلی کی عطر بیزی سے حظ اُٹھایا اور ہر تتلی کو ڈسا۔ تمھارے جیسے درندوں کی جبلت میں یہ شامل ہے کہ وہ تنہا اپنے شکار کی شہ رگ کا خون پیتے ہیں۔ جوانی میں تم یہی کہتے تھے کہ جو درندہ اپنے بچے ہوئے شکار کو کم زور درندوں میں بانٹنے کے بارے میں سوچے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایسا فریب خوردہ درندہ رہ و رسم درندگی سے نا بلد ہے۔ میری بیٹی صبوحی کو بہو بنانے والے عقل کے اندھے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ قحبہ خانے کی میرے جیسی نائکہ کبھی کچی گولیاں نہیں کھیلتی۔ ہم نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور سینٹون پُل کے دغا، دُزدی، جھوٹ اور ٹھگی کے مقابلے میں دنیا بھر کے پیشہ ور ٹھگوں کو مات دی ہے۔ میری بیٹی صبوحی اب مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی ہے۔ حسن مہ اگرچہ بہ ہنگامِ کمال بہت دل کش ہوتا ہے مگر خورشید جمال صبوحی نے اس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ صبوحی ہمارے قحبہ خانے کے ترکش کا ایسا تیر نیم کش ہے جو ہمیشہ ٹھیک نشانے پر لگتا ہے۔ کیا مرنے کی تمنا والی بات سب سچ ہے یا ایک عادی دروغ کی حیثیت سے ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی جھوٹ بول رہے ہو؟‘‘

’’آج میں زندگی میں پہلی مرتبہ سچ بول رہا ہوں‘‘ تفوسا بولا ’’صبوحی کی جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ کی آڑ میں ہم مظلوم انسانوں کی روح اور قلب کی تخریب کا جو خطرناک کھیل کھیل رہے وہ ہمارے لیے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ صبوحی نہایت سفاکی سے اپنے حسن و جمال کا خنجر اپنے پر ستاروں کے سینے میں گھونپ کر انھیں ادھ موا کر دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ نہایت عیاری سے انھیں اپنی زندگی بھر کی جمع پُونجی سے محروم کر دیتی ہے۔ اس وقت میرا جسم بُری طرح ٹُوٹ پھُوٹ کی زد میں ہے۔ میرے ذہن میں ایک الاؤ بھڑک رہا ہے۔ میں اس گورکھ دھندے سے سخت ناخوش و بیزار ہو گیا ہوں میں تم سے اور صبوحی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ کل صبح میں ٹھگی کی ان وارداتوں کے بارے میں سب لوگوں کو بتا دوں گا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ تم جیسے عیار، مکار اور دھوکے باز درندے اس کائنات کی سب سے قابل نفرت مخلوق ہیں۔ ہم نے سادہ لوح لوگوں کو صبوحی کی منگنی اور شادی کا جھانسہ دے کر جو زیورات، ملبوسات اور دولت لُوٹی ہے میں وہ سب کچھ اس کے مالکوں کو واپس کر دوں گا۔ اس کے بعد میں زہر پی لوں گا اور سب دکھوں سے جان چھڑا لوں گا۔‘‘

صبوحی کی بڑھتی ہوئی آوارگی اور بد چلنی نے اُس کی شخصیت کو ایسی بد وضع چھلنی میں بدل دیا تھا جس میں ہزاروں چھید تھے۔ تکلف کی رواداری کی عادی صبوحی یہ باتیں سن رہی تھی اس نے اپنے باپ کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا:

’’اس ضعیفی کے عالم میں تم اپنے آپ کو قابلِ رحم کیوں ظاہر کرتے ہو؟ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو کچھ تم نے بویا اس کا پھل اب تمھارے سامنے ہے۔ تمھیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمھاری کور مغزی، بے بصری اور انسان شناسی سے تہی دامنی نے تمھیں تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ قحبہ خانے میں ہمیں عریانی و فحاشی اور نازو انداز کے شیطانی حربے استعمال کر کے سادہ لوح لوگوں کو دھوکا دے کر زر و مال بٹورنے کی تربیت دی گئی۔ ہماری دل کش اداؤں، نیم عریاں رقص، سوز بھری آواز اور مے نوشی کا ایک عالم گرویدہ ہے۔ منگنی کی بات ایک فریب نظر اور سراب ہے مگر لوگ دھوکا کھانے کے لیے ہمارے قحبہ خانے میں کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے ہیں۔‘‘

’’گستاخ، احسان فراموش اور بے حیا لڑکی! اپنی اوقات میں رہو۔‘‘ تفوسا نے غیظ و غضب کے عالم میں صبوحی کو ڈانٹتے ہوئے کہا ’’اگر تم بزرگوں کا احترام نہیں کرو گی تو خد اہی تمھارا حافظ ہے۔ کل سے تم اپنے گھر میں رہو گی اور تمھیں ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے ملنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ میں اب گناہ کی زندگی سے عاجز آ چکا ہوں۔ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اب اپنے خاندان کے گناہوں اور گھناونے جرائم سے خود پردہ اُٹھاؤں گا۔ تم سب لوگ گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہو۔ اب میرے گھر میں انبوہ عاشقاں اور مجمع ٔ بے ضمیر نہیں ہو سکتا۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر تمھیں ضیغم کی بہو بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تم شمع محفل کے بجائے چراغ خانہ بن کر رہو گی۔‘‘

صبوحی نے جب اپنے باپ کو طیش میں آتے دیکھا تو اُس نے بھی اسے کھری کھری سنانے کا فیصلہ کر لیا۔ صبوحی نے اپنے ضعیف باپ کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ یہ کتیا اپنے بوڑھے باپ سے غراتی ہوئی مخاطب ہوئی:

’’اس ضعیفی میں تم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہو۔ لوگ اپنے گناہ چھپاتے ہیں اور تم اپنے گناہوں کی تشہیر کرنے پر تُل گئے ہو۔ تم نے جو باتیں کی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ تم ذہنی مریض بن چکے ہو۔ ہم تمھارا ایسا علاج کرائیں گے کہ تمھاری عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ تم اپنے آپ کو اورنگ زیب سمجھنے لگے ہو اور مجھے زیب النسا مخفی بنا کر میرے لیے اذیتوں اور عقوبتوں کا نصاب مرتب کرر ہے ہو۔ تمھارے سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ضیغم کو اس دشتِ خار میں قدم رکھنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ میں کالی دیوی کی پجارن ہوں اور میری زبان بھی کالی ہے۔ میں ضیغم کے ساتھ وہ سلوک کروں گی کہ وہ اپنے دل سے سہہ غم اور ہائے غم کہتا پھرے گا۔‘‘

تفوسی نے باؤلی کتیا کی طرح غراتے ہوئے کہا ’’یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ تم کس طرح یہ سب کام کر تے ہو؟ تفوسا! مجبوریِ حالات کے تحت میں نے تمھیں شوہر بنایا اور وقت کا جبر سہتی رہی۔ وقت کا یہ کس قدر لرزہ خیز ستم ہے کہ تم جیسا پھوہڑ اور تھوہر اب اپنے تئیں گوہر سمجھنے لگا ہے۔ یہ سب کچھ جو تم نے کہا ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر کان کھول کر سن لو ابھی تو تمھارا صرف جسم ٹُوٹ رہا ہے جلد ہی تمھاری گردن بھی ٹُوٹ جائے گی۔ تم نے درد مندوں اور ضعیفوں کے لیے جو گڑھا کھودا ہے اُس گڑھے میں اب تم خود گرنے والے ہو۔‘‘

تفوسا کے سامنے کافی کا پیالہ رکھ کر تفوسی دبے پاؤں باہر نکل گئی۔ تفوسا نے کافی کا پیالہ اُٹھایا اور تیزی سے ڈکوسنے لگا۔ کافی کا پیالہ پیتے ہی تفوسا کی حالت بگڑنے لگی اس نے اپنا حلق پکڑ لیا اور زور سے تفوسی کو آواز دی۔ تفوسی دوڑتی ہوئی اپنے شوہر کے کمرے میں پہنچی اس کے چہرے پر تشویش، اضطراب یا پریشانی کے کوئی آثار نہ تھے۔ تفوسی نے اپنے شوہر کی آواز سنی تو غراتی ہوئی تفوسا کے کمرے میں داخل ہوئی آئی اور چیخنے لگی:

’’میں نے اور صبوحی نے باہم مشورے سے اپنی زندگی میں پہلی بار تمھارے حکم کی تعمیل کی ہے۔ کیا بات ہے آج تم نے شور و غوغا اور یہ چیخ پکار کیوں شروع کر دی ہے؟ میں تو اپنے لیے اور صبوحی کے لیے کھانا پکانے میں مصروف تھی۔ تم نے یہاں مجھے کس لیے بلایا ہے؟ ہم نے تمھاری خواہش کا احترام کرتے ہوئے کافی کے پیالے میں زہر ملا دیا تا کہ تمھاری اُمید بر آئے اور اپنی دلی تمنا کے مطابق تم زندگی کے تمام دکھوں سے نجات حاصل کر سکو۔ رہ گیا ضیغم تو اسے بھی میں سیکڑوں لوگوں کی طرح عبرت کی مثال بنا دوں گی۔‘‘

’’اچھا! میرے سب اندیشے درست نکلے۔ حیف صد حیف! آستین کی ناگنوں نے مجھے ڈس ہی لیا۔ لوگ میری لُوٹ مار کی کہانیاں سناتے رہیں گے۔ میرا مکر و فریب اور دغا و دُزدی لوک گیتوں کا موضوع بن جائے گا۔ میری انسان دشمنی، محسن کشی اور پیمان شکنی کو لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ بے رحمانہ ٹھگی کے لیے پچاس سال پر محیط میری مہم جوئی پر ادیب افسانے لکھیں گے۔ انتہائی محتاط انسان جو سدا پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے میں نے انھیں شیشے میں اُتارا۔ ایسے بے شمار لوگوں سے میرا واسطہ پڑا جو اپنے آپ کو بہت ثابت قدم اور معاملہ فہم سمجھتے تھے جب ہمارے کوٹھے کی سیڑھی پر چڑھے تو پھر اُتر نہ سکے۔ خرد کی گتھیاں سلجھانے والے ہمارے قحبہ خانے میں پریوں کا اکھاڑا دیکھ کر پھسل گئے ‘ اور منھ کے بل اس طرح گرے کہ ان کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی۔ آہ! شامت اعمال نے مجھے یہ دِن دکھایا کہ میں بے بسی کے عالم میں خالی ہاتھ اس دنیا سے جا رہا ہوں۔ بے وفائی تیر انام تفوسی نائکہ اور صبوحی طوائف ہے۔ یہ کہہ کر تفوسا کی آنکھیں مند گئیں اور وہ منھ کے بل زمیں پر جا گرا۔‘‘

جب زمین کا بوجھ زیرِ زمین چلا گیا تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ شہر کے اکثر لوگ یہ کہتے تھے کہ ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی کی خفت و خجالت سے نجات حاصل کرنے کے لیے تفوسا نقابِ خاک میں جا چھُپا۔ تفوسا اور تفوسی کا قحبہ خانہ منشیات فروشوں، قاتلوں، جسم فروش طوائفوں، چوروں، ٹھگوں، زہریلے ناگوں اور بچھوؤں کی پناہ گاہ تھی۔ اجل کے ہاتھوں تفوسا کی ہلاکت کے بعد سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ ایک خمیدہ جھاڑی کے نیچے دو چور اور ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ تفوسی کے ساتھ شادی سے پہلے تفوسا محض ایک بونگا بخیل اور چور تھا۔ تفوسی کے ساتھ شادی کے بعد یہ بھڑوا قاتل اور ڈاکو بن گیا۔ اس ٹھگ کے جہاں سے اُٹھنے کی خبر سُن کر اس کے ہاتھوں لُٹنے والے مظلوموں کے دِل کی کلی کھِل اُٹھی۔

ٹونے ٹوٹکے اور جنتر منتر میں تفوسی کو مہارت حاصل تھی۔ تفوسی کے تھیلے میں جو خاص قسم کے کشتے بھرے رہتے تھے ان میں کشتہ مکر و فریب، کشتہ دغا و دُزدی، کشتہ عیاری و مکاری، کشتہ پیمان شکنی و محسن کشی، کشتہ حسن و جمال، کشتہ عریانی و فحاشی اور کشتۂ جنسی جنون شامل تھے۔ محسن کشی کی اپنی خاندانی روایات پر عمل کرتے ہوئے سال 2018 میں اپنے بھڑوے خصم تفوسا کے سامنے جھوٹ بول کر تفوسی نے اسے ٹھکانے لگا دیا۔ تفوسی اور اس کی لے پالک بیٹی صبوحی احسان فراموشی اور محسن کشی میں اتنی تاک تھیں کہ انھوں نے اپنے بزرگوں اور ضعیف اساتذہ کی خدمات کو طاقِ نسیاں کی زینت بنا دیا۔

تفوسی نے اپنے سر پر بیوگی کی ایسی چادر اوڑھ لی جس نے شرم و حیا اور ہوش و خرد کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ تفوسی نے اُلّو کی آنکھ کا ایسا سرمہ تیار کیا تھا جسے لگاتے ہی ہر نوجوان پلک جھپکتے میں چُلّو میں اُلّو بن جاتا۔ تفسوسی کی لے پالک بیٹیاں خفت، خجالت، کراہت، خست، نقاہت، شباہت اور صبوحی اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چلتی تھیں۔ ان میں سے ہر مشاطہ، گلو کارہ اور رقاصہ نے اپنی نائکہ ماں کے قحبہ خانے سے محسن کشی، احسان فراموشی، جسم فروشی اور ضمیر فروشی کے سب ڈھنگ سیکھ لیے تھے۔ تفوسی کے دو بیٹے تھے ایک کا نام کن کھجورا اور دوسرے کا نام دھتورا تھا۔ یہ دونوں بھڑوے اپنی بیویوں، ماں اور بہنوں کی خرچی کی کمائی پر گل چھرے اڑاتے تھے۔ تفوسی اپنی لے پالک بیٹیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی کہ ان کے ساتھ جس طرح فریب ہوتا رہا ہے وہ ظالم سماج سے اس کا بدلہ ضرور لیں۔ تفوسی نے اپنے قحبہ خانے میں داد عیش دینے والی طوائفوں کی خرچی کیا ٓ مدنی سے بہت دولت اکٹھی کر لی۔ چور محل میں جنم لینے والے اس کے بیٹوں نے بھی چور دروازے سے اس قدر زر و مال سمیٹ لیا کہ ملک کے بڑے شہروں میں ان کی قیمتی املاک موجود تھیں۔ ان کے جرائم کے سوتے ان کے مکر و فریب اور جھُوٹ سے پھُوٹتے تھے۔ بات بات پر قسم اُٹھا کر اپنی صداقت کا یقین دلانے کی کوشش کرنے والی اس مکار نائکہ نے اپنے قحبہ خانے کی ادھیڑ عمر کی طوائفوں کے بھی منھ مانگے دام وصول کیے اور عیاش امرا کے ساتھ ان کی شادی کر کے بہت مال کمایا۔ تفوسی نے اپنے دھندے کے بارے میں کہا:

’’لوگ ہمیں عادی دروغ گو کہتے ہیں لیکن وہ اپنے مکر و فریب کو یاد نہیں رکھتے۔ ہمیں سبز باغ دکھا کر عیاش امرا نے ہمارے جسم کی رعنائی لوٹ لی۔ وہ ہمیں نوچتے اور بھنبھوڑتے رہے اور ہم وفا کر کے بھی یاس و ہراس کا شکار رہے۔ لڑکیو! تمھارے ترکش میں عریانی اور فحاشی کے تیر موجود ہیں۔ یہ تیر چلا کر جنس و جنون کی لت میں مبتلا عقل کے اندھے جوانوں کو گھائل کرو۔ اس کے بعد انھیں اپنی جعلی وفا کا قائل کرو انھیں اپنے ساتھ شادی پر مائل کرو۔ یہی وہ جال ہے جس میں بڑے بڑے سیانے بھی پھنس جاتے ہیں۔‘‘

تفوسی کے قحبہ خانے کی طوائفیں اپنی نائکہ کی باتوں پر عمل کرتیں اور عشوہ، غمزہ، ادا، عریانی و فحاشی کے ذریعے عیاش نوجوانوں کو اپنی زلفِ گرہ گیر کا اسیر بنا لیتیں۔ جس معاشرے سے وفا اُٹھ جائے، عہد و پیماں کی پامالی روز مرہ کا معمول بن جائے، خلوص و دردمندی کو حرفِ غلط بنا دیا جائے اور حرص و ہوس کو سکۂ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہو وہاں تہذیب کردار اور وقار کی اقدار سے محروم ہو جاتی ہے۔ صبوحی کلموہی کو جلی کٹی سنانے کی عادت تھی۔ قحبہ خانے کی مالکن اور نائکہ تفوسی کی بات سن کر صبوحی اپنے دِل کی طرح میلے دانت پیستے ہوئے بولی:

’’معاشرے میں کوئی شخص بھی طوائف کی بات کا اعتبار نہیں کرتا۔ اس قدر ستم سہنے کے بعد ہم بھی اپنے دروغ گو پرستاروں کے قول و فعل کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں اپنے دام میں پھنسانے والے جب اپنے پھیلائے ہوئے جال میں خود پھنس جاتے ہیں توان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ قحبہ خانے میں گناہ کے ماحول میں پروان چڑھنے والی طوائف زادی کسی شریف کے دِل میں جگہ کیسے حاصل کر سکتی ہے۔ مردوں کے ہاتھوں عورتوں پر جو کوہِ ستم ٹوٹے میں نے دیو داسی بن کر عیاش ظالم مردوں سے بدلہ لینے کی ٹھان لی ہے۔ میں منگنی کی آڑ میں امرا کے لاڈلے بیٹوں کو ان کی دولت سے محروم کرتی رہوں گی۔‘‘

ضیغم کی زندگی بھر کی کمائی تفوسی اور صبوحی نے لُوٹ لی۔ اپنی سب جمع پُونجی لٹوا کر ضیغم صبر و تحمل کا پیکر بن گیا۔ اس نے سادیت پسند ٹھگوں کے وار سہہ کر کبھی دِل بُرانہ کیا اور نہ ہی قنوطیت کا شکار ہوا۔ خندہ پیشانی سے تقدیر کے ستم سہہ کر مسکرانے والے اس قناعت پسند فقیر کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ اس کے صبر و استقامت کے بگولے ٹھگوں کے استحصالی حربوں اور لُوٹ مار کے اثاثوں کوخس و خاشاک کے مانند اُڑا لے جائیں گے۔ الم نصیبوں کے سیل گریہ میں رذیل جسم فروش طوائف صبوحی، نائکہ تفوسی، بھڑواتفوسا اور ان کے قحبہ خانے کی سب رذیل طوائفیں غرق ہو جائیں گی۔ ضیغم کی معمر اہلیہ نے تقدیر کے لگائے ہوئے اس گہرے زخم کو بھی برداشت کر لیا۔ ضیغم نے اپنے ساتھ بولے جانے والے صریح جھوٹ اور فکر و خیال کی لُوٹ کے بارے میں کہا:

’’چکنی چپڑی باتوں اور الفاظ کے اُلٹ پھیر سے انسان شناسی ممکن ہی نہیں۔ یہ کسی شخص کے افعال اور طرزِ عمل ہے جس سے اس کے کردار کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ جب مکر و فریب اور دھوکہ دہی رسمِ جہاں بن جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ قحط الرجال کے باعث زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو چکی ہیں۔ جھوٹے کے ساتھ بحث کرنا در اصل اندھے کے آگے گریہ و زاری کر کے اپنے جی کا زیاں کرنے کے مترادف ہے۔‘‘

تفوسی کے ایک پرستار ایاز نے خلوص و مروّت کی اداکاری کرتے ہوئے ضیغم کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے کہا:

’’سب کچھ لٹوا کے اب تو تم ہوش میں آ گئے ہو گے۔ میری مجبوری ہے کہ میں تفوسی کو چھوڑ کر تمھارا ساتھ نہیں دے سکتا۔ تفوسی اس شہر کی سب سے مال دار عورت ہے۔ اس کے ساتھ ٹکرانے والے پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ جو طوائف اپنے شوہر، بھتیجے، بیٹے اور بھائی کو معاف نہیں کر سکتی اس کے سامنے تم کس شمار میں ہو؟ میں ہر حال میں تفوسی کا ساتھ دوں گا۔ تفوسی مافیا کے خلاف کبھی بھول کر بھی ایک لفظ نہ کہنا ورنہ تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی۔ تفوسی اور صبوحی کا تعلق سسلین مافیا سے ہے۔ اس مافیا سے تصادم کی صورت میں تمھاری اور تمھارے بچوں کی جان کو خطرہ ہے۔ رہ گئی صبوحی تو اس کے شیدائی اسے لومڑی سے تشبیہہ دیتے ہیں اسی لیے منشی علمو اسے مشبہ کہتا ہے۔‘‘

ضیغم نے جب تفوسی کے دیرینہ آشنا ایاز کی دھمکی آمیز باتیں سنیں تو اس نے گلو گیر لہجے میں کہا:

’’اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ تم نے تو اپنی شاطرانہ لُوٹ مار سے مجھے مال و دولت اور زیورات سے محروم کیا ہے۔ میں دیانت داری سے یہ بات واضح کرتا ہوں کہ اس مالی نقصان کا غم اس لیے بے سُود ہے کہ میں نے تمھاری ترغیب و تحریص سے فریب کھا کر صبوحی کو اپنی بہو سمجھ کر اپنی مرضی سے اپنی زندگی بھر کی کمائی اُس پر نچھاور کر دی۔ تمھیں کیا معلوم کہ تم نے جو کچھ پایا ہے وہ اس سے بہت کم ہے جو تم کھو چکے ہو۔ تمھارے اندھیر کے نتیجے میں تمھارا حقیقی چہرہ اب لوگوں کے سامنے آ گیا ہے۔ تمھاری عزت، ناموس، اعتبار، وقار، تعلیم، تربیت، تہذیب اور شائستگی سب کچھ راکھ کے ڈھیر میں بدل چکا ہے۔ یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کی تلافی بعید ازقیاس ہے۔ ضمیر کی عدالت میں تمھارے ان جرائم کی جو کڑی سزا ملنے والی ہے وہ قبر تک تمھارا تعاقب کرے گی۔ ہم اپنا معاملہ قادر مطلق کی عدالت میں بھیج چکے ہیں۔ خدا کی بے آواز لاٹھی سے ڈرو جو تمھارے سر پر کسی وقت بھی کاری ضرب لگا سکتی ہے۔ ہمیں اس کائنات کی سب سے بڑی عدالت سے انصاف ملنے کا یقین ہے۔‘‘

خانے وال میں تفوسا کی پہلی برسی کے موقع پر صبوحی اور تفوسی نے ایک تعزیتی نشست کا انتظام کیا۔ مہمانوں کے لیے پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے مہمانوں کی خدمت میں موسم کے پھل، مشروبات اور خشک میوے پیش کیے گئے۔ برسی پر ہونے والے سب اخراجات صبوحی کے عشاق نے برداشت کیے۔

تریموں ہیڈ ورکس کے شمال میں دریائے جہلم پیر پنجال کے سلسلۂ کوہ سے بہتا ہوا طویل مسافت طے کر کے ہمالہ سے آ نے والے اور گجرات کے مقام پر سوہنی اور مہینوال کو ڈبونے والے دریائے چناب میں مِل جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دریائے جہلم اپنے وجود کی نفی کر کے خود کو دریائے چناب میں شامل کر دیتا ہے۔ تریموں سے باہر جو دریا ملتان کی جانب جاتا ہے اس کا نام دریائے چناب ہے۔ ان دو دریاؤں کے سنگم کے نظارے دیکھنے کے لیے نوجوان کھنچے چلے آتے ہیں۔ دو دریاؤں کے سنگم کے مقام پر بے شمار نہنگوں کے نشیمن بھی ہیں۔ ماہی گیر، موہانے اور غوطہ خور اس جگہ کا رخ نہیں کرتے۔ روایت ہے کہ وہ لوگ جن کی زندگی گناہ سے آلودہ ہوتی ہے اگر بھول کر بھی اس پانی میں پاؤں رکھیں تو وہ نہنگوں کا لقمہ بن جاتے ہیں۔ پیمان وفا باندھنے والے جوڑے اس مقام پر اپنی ٹانگیں دریا کے پانی میں ڈالتے ہیں اور معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔

تفوسا کی پہلی برسی کی تقریب کے اختتام پر صبوحی اور تفوسی نے سیر کے لیے تریموں ہیڈ ورکس جانے کا فیصلہ کیا۔ تفوسی نے دو دریاؤں کے سنگم کو دیکھ کر آہ بھر کر کہا:

’’جس طرح بہتے دریا کا پانی کبھی پلٹ کر نہیں آتا اسی طرح حسن و شباب بھی جب ڈھل جاتا ہے تو اس کی واپسی ممکن ہی نہیں۔‘‘

پاس کھڑے ایک خستہ حال فقیر اور پیرِ مغاں نے یہ بات سنی تو بولا:

’’زنانے کی پھٹکار، جہاں بھر کی دھتکار ہی تمھاری گردشِ لیل ونہار ہے۔ تمھیں احساس ذلت دِلانے کے لیے تمھاری دُم پر پیر رکھنا ضروری ہے۔ وقت، دولت، زندگی اور جوانی کی کہانی عجیب ہے۔ ان پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ میں تو یہی کہوں گا کہ تمھاری بیٹی مشبہ تفوسی عبرت ناک انجام کو پہنچے گی:

موسم آیا تو نخلِ دار پہ پیرؔ

سر مشبہ ہی کا بار آیا

اور لوگوں کی دیکھا دیکھی صبوحی اور تفوسی نے بھی دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم پر پانی میں اپنی ٹانگیں ڈال کر بہتے دریا کی روانی سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا۔ جوں ہی انھوں نے اپنے سبز قدم دریا کے نیلگوں شفاف پانی میں ڈالے دریا کی طوفانی لہروں میں اچانک ایک گرداب پیدا ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دریا کی متلاطم موجوں میں سے بیسیوں نہنگوں نے سر اُٹھایا، پانی میں بلبلے پیدا ہوئے اور جھاگ بڑھنے لگا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دریا کے پانی سے پیدا ہونے والا جھاگ زبان حال سے انھیں بھاگ جانے کا حکم دے رہا ہے۔ دونوں طوائفوں نے پاؤں باہر نکالنے کی کوشش کی مگر کوئی نادیدہ مخلوق انھیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اسی کش مکش میں وہ دونوں منھ کے بل دریا کے بھنور میں جا گریں اور گہرے پانی کی تہہ میں اُترتی چلی گئیں۔ دنیا بے بسی کے عالم میں عبرت سرائے دہرکا یہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن منظر دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ صبوحی اور تفوسی کو غرقِ دریا ہوتے دیکھ کر سب لوگ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ نکلے۔ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ سب کچھ ان طوائفوں کی شامت اعمال تھی۔ بعض لوگوں نے اسے فطرت کی تعزیروں سے تعبیر کیا۔ سدا اپنی دنیا میں مگن رہنے والے سیلانی ملنگ یارا سازندہ نے روتے ہوئے پنجابی گیت کی یہ دھُن الاپی:

وگدی ندی داپانی

اِنج جا کے مُڑنہیں آندا جاکے جویں جوانی

پردیسیا وے توں وی لگ جائیں گا کنارے

چیتے کریں گا جا کے اس راہ دے نظارے

جے سانوں یاد رکھ لے ایہہ تیری مہربانی

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید