آغاز
انسپیکٹر جمشید محکمہ سراغرسانی کے سب سے مشہور سراغرسان تھے, انہیں جو کیس بھی دیا جاتا تھا, وہ اسے حل کر کے چھوڑتے... آج تک کوئی ایسا کیس نہیں تھا, جو انہیں ملا ہو اور ان سے حل نہ ہو سکا ہو, وہ مجرم کو عجیب و غریب طریقوں سے پکڑتے..... اس طرح کہ مجرم کو وہم و گمان بھی نہ ہوتا کہ انسپیکٹر جمشید کا جال اس کے گرد گہرا ہوتا جا رہا ہے, اسے تو عین اس وقت پتا چلتا جب وہ اس کے خلاف تمام ثبوت حاصل کرنے کے بعد اس پر ہاتھ ڈال دیتے...
محکمہ سراغرسانی کے تمام آفیسر تو ان کا لوہا مانتے ہی تھے... محکمہ پولیس کے تمام شعبوں میں بھی ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی... اپنی ذاتی زندگی کے لحاظ سے وہ حد درجے ایماندار تھے... رشوت سے کوسوں دور بھاگتے تھے... انہیں حکومت کی طرف سے جو موٹر سائیکل ملا ہوا تھا, اسے صرف ڈیوٹی کے اوقات میں استعمال کرتے تھے... غریبوں کے بہت ہمدرد تھے... قانونی معاملات میں بہت سخت تھے... جب کسی کے خلاف کوئی جرم ثابت ہو جاتا تو پھر اس کے ساتھ نرمی نہیں کرتے تھے, بڑی سے بڑی سفارش کی بھی پروا نہیں کرتے تھے... جب کسی بات پر اڑ جاتے تو پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے...
ان کے تین بچے تھے... سب سے بڑے کا نام محمود احمد تھا جو ہائی سکول میں پڑھ رہا تھا, یہ بےحد ذہین اور پھرتیلا تھا, مشکل اوقات میں بالکل نہیں گھبراتا تھا, کوئی مصیبت آ پڑتی تو ڈٹ جاتا, اکثر اوقات اپنے والد کی مدد کرتا رہتا تھا...
ان کے دوسرے بیٹے کا نام فاروق احمد تھا, فاروق بہت چلبلا اور کھلنڈرا تھا... اس پر شرارت کا بھوت ہر وقت سوار رہتا... بات بات پر لطیفے چھوڑتا... ہر وقت دوسروں کو ہنسنے اور مسکرانے پر مجبور کر دینا اس کی خاص عادت تھی خود بھی مسکراتا رہتا... طبیعت میں شوخی کوٹ کوٹ کر بھری تھی... یہ بھی مشکل اوقت میں کبھی نہیں گھبراتا تھا... درختوں پر چڑھنا اس کا محبوب مشغلہ تھا...
فرزانہ فاروق سے ایک سال چھوٹی تھی, ذہین بلا کی, ترکیبیں سوچنے میں ماہر, انسپکٹر جمشید کو مصیبت میں دیکھ کر حد درجے فکر مند ہو جاتی تھی...
باپ کی صحبت میں رہ کر انہیں بھی جاسوسی کاموں سے ایک خاص قسم کا لگاؤ پیدا ہو گیا تھا, جونہی انہیں کوئی کیس حل کرنے کے لیے ملتا, وہ بھی اس میں دلچسپی لینے لگتے اس کی ایک ایک تفصیل ذہن نشین کے لیتے اور یہ کوشش کرتے کسی طرح وہ اپنے والد کی مدد کے بغیر ہی اس معاملے کی تہہ تک پہنچ جائیں, بلکہ تینوں بھی آپس میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے... فاروق البتہ بظاہر ایسے کاموں سے جی چراتا, لیکن جب کیس میں دلچسپی لیتا تو پھر ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتا...
ان کی والدہ بیگم جمشید جاسوسی بکھیڑوں اور جھنجٹوں سے بالکل آزاد تھیں, انہیں ان کاموں سے الجھن سی ہوتی تھی, لہٰذا وہ کسی کیس کے بارے میں کوئی تفصیل جاننے کی کوشش نہ کرتیں... ہاں اتفاق سے کسی معاملے میں الجھ جاتیں تو پھر حالات کے سامنے ڈٹ جاتیں...
ان کے ساتھ کے مکان میں شیرازی صاحب اور ان کی بیوی رہتی تھیں, شیرازی صاحب کا کاروبار دو تین شہروں میں پھیلا ہوا تھا... اس لیے وہ عام طور پر گھر سے باہر رہتے... ان کے ہاں فون لگا ہوا تھا... اکثر ان لوگوں کو ان کے ہاں فون کرنے کے لیے جانا پڑتا اور فون سننے کے لیے بھی, بیگم شیرازی ایک بہت ہی نیک سیرت عورت تھیں اور خاوند کی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے تنہائی کا شکار بھی رہتی تھیں... اس لیے ان کے ساتھ بہت انس پیدا ہو گیا تھا... خود بھی ان کے ہاں آتی جاتی رہتیں...
محمود, فاروق اور فرزانہ صبح سکول چلے جاتے اور انسپکٹر جمشید دفتر, سکول سے واپس آ کر وہ کھانا کھاتے, کچھ دیر آرام کرتے اور پھر سکول کا کام کرنے بیٹھ
جاتے....... سکول کا کام کرنے کے لیے محمود اور فاروق عام طور پر نیشنل پارک چلے جاتے, کسی دن نہ بھی جاتے اور فرزانہ کے ساتھ ہی کر لیتے...
ان کی زندگی اسی طرح گزر رہی تھی اور یہ ایک بہت ہی دلچسپ زندگی تھی, لیکن چند دنوں سے محمود, فاروق اور فرزانہ اپنے والد کو بہت پریشان محسوس کر رہے تھے... انہوں نے کئی بار پوچھا بھی کہ کیا بات ہے لیکن وہ ہر بار ٹال گئے... آخر ایکشام چائے کی میز پر انہوں نے کہا...
"ملک میں ان دنوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سمگلروں کا طوفان آیا ہوا ہے, سمگلنگ بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے محکمہ نے یہ کیس میرے سپرد کر دیا ہے........ لیکن میں ابھی تک اس کیس میں کچھ بھی معلوم نہیں کر سکا, بس اس لیے پریشان رہتا ہوں....."
"کیا اس سلسلے میں ہم آپ کی کچھ مدد کر سکتے ہیں؟" محمود بولا...
"ابھی تو میں خود بھی کچھ نہیں کر سکا....... تم کیا کر سکتے ہو..."
کیا سمگلر صرف ہمارے شہر میں ہی پھیلے ہوئے ہیں؟" فرزانہ نے پوچھا...
"نہیں... ہر بڑے شہر میں.... یہی تو پریشانی ہے... میں چاہتا ہوں..... ان کے اصل مرکز کا سراغ لگاؤں اور پھر اس مرکز پر چھاپا مارا جائے...
ان کی پریشانی بدستور جاری رہی... ایک دن انہوں نے کہا...
"مجھے ایک سراغ ملا ہے, اس سلسلے میں مجھے دوسرے شہر جانا ہے..... میں آج شام کو روانہ ہو رہا ہوں.... وہاں پہنچ کر اپنی خیریت کی اطلاع دوں گا, میرا خیال ہے, مجھے کئی دن لگ جائیں گے..."
اور وہ روانہ ہو گئے, تین دن بعد ان کی طرف سے ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں اور اس شہر کے ہوٹل نیو لائٹ کے کمرہ نمبر ایک سو دو میں ٹھہرے ہوئے ہیں... انہوں نے بھی اپنی خیریت کی اطلاع انہیں ہوٹل کے پتے پر بھیج دی...
دو دن اور گزر گئے, پھر ایک پولیس انسپکٹر ان کے گھر آیا, اسی نے بتایا کہ دوسرے شہر کے ہوٹل نیو لائٹ کے کمرہ نمبر ایک سو دو میں ایک لاش ملی ہے..... اس کمرے سے ایک سوٹ کیس بھی ملا ہے... اس میں کچھ سامان موجود تھا جس میں سے اس گھر کا پتا بھی ملا ہے..... چنانچہ لاش کو یہیں بھیج دیا گیا ہے........ آپ چل کر دیکھ لیں.....
ان کے دل دھک دھک کرنے لگے... چاروں مردہ خانے میں پہنچے, لیکن لاش کو دیکھ کر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا... یہ ان کے والد کی لاش نہیں تھی, تاہم انسپکٹر جمشید ہوٹل سے غائب تھے... شہر میں بھی ان کا کہیں پتا نہ چلا, حکام نے انہیں ہر طرف تلاش کرایا, لیکن کوئی پتا نہ چلا, تاہم محمود, فاروق, فرزانہ اور بیگم جمشید پُرامید تھے کہ وہ ضرور زندہ ہیں....... ان کے دل گواہی دے رہے تھے..... وہ ان کا بیتابی سے انتظار کر رہے تھے... خدا سے ان کی واپسی کی دعائیں کر رہے تھے... ایسے میں ایک دن محمود اور فاروق نیشنل پارک سے لوٹ رہے تھے کہ...................
.............................................
کاغذ کا پرزہ
محمود اور فاروق چلتے چلتے رک گئے.... سڑک کے کنارے پبلک ٹیلیفون پر کوئی شخص ریسیور ہاتھ میں پکڑے پراسرار لہجے میں چپکے چپکے کچھ کہہ رہا تھا... لہجہ دھیما سا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی انداز میں حکم بھی
تھا... دونوں کے کان کھڑے ہو گئے... فون کرنے والا شاید بہت ہی جلدی میں تھا... اسی لیے اُس نے اس چھوٹے سے شیشے کے کمرے کا دروازہ بند نہیں کیا تھا... ورنہ محمود اور فاروق کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے... ان الفاظ نے ان کے رونگٹے کھڑے کر دیئے...
"آج رات....... ٹھیک بارہ بجے.......... پھر سُن لو... وہ اپنے گھر میں ہی ملے گا....... مکان نمبر گیارہ...... شافی روڈ......... اگر تم اسے مارنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر تمہاری اپنی خیر نہیں...."
اس کے سر پر ہیٹ تھا اور چہرہ ہیٹ اور اوور کوٹ کے کالروں میں چھپا ہوا تھا... بات کرنے کے بعد اس نے ریسیور کریڈل میں رکھ دیا اور باہر نکلنے لگا تو محمود اور فاروق انجان بنے آگے بڑھتے چلے گئے... انہوںنے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ وہ شخص ٹیلیفون بوتھ سے نکل کر کس طرف گیا ہے... چند قدم چلنے کے بعد وہ ٹہلنے کے انداز میں واپس مڑے, اب اس اجنبی کا دور دور پتا نہ تھا...
"شافی روڈ........ مکان نمبر گیارہ......." محمود بڑبڑایا...
"آ گئی بیچارے کی شامت..."
"مگر ابھی بارہ بجنے میں کئی گھنٹے ہیں..." محمود نے معنی خیز انداز میں کہا...
"پھر..... کیا کہنا چاہتے ہو تم؟"
"کیوں نہ ہم شافی روڈ پر چلیں...... کیا ہی اچھا ہو ہم اس کی جان بچا سکیں, نی جانے وہ کون ہے اور یہ لوگ اسے کیوں جان سے ما ڈالنا چاہتے ہیں..."
"میرا خیال ہے کہ ہمیں گھر چلنا چاہیے....... امی نے ہمیں صرف ایک گھنٹے کی سیر کی اجازت دی تھی, اگر دیر ہو گئی تو وہ پریشان ہوں گی اور وہ واپسی پر ہماری خبر بھی لیں گی..." فاروق بولا...
"لیکن یہاں ایک زندگی کا سوال ہے... ساری بات انہیں بتا دیں گے تو وہ کچھ نہیں کہیں گی..."
"جیسے تمہاری مرضی..."
شافی روڈ تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھا انہوں نے یہ فاصلہ تقریباً پندرہ منٹ میں طے کیا... شافی روڈ پہنچنے کے بعد انہیں گیارہ نمبر کا مکان تلاش کرنے میں کوئی دقّت نہیں ہوئی تھی...
یہ ایک اوسط درجے کا مکان تھا اندر روشنی ہو رہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اندر کوئی شخص موجود ہے... انہوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازے کی طرف قدم بڑھائے... پھر محمود نے دستک دی...
جلد ہی دروازہ کھل گیا... دروازہ کھولنے والا ایک نوجوان شخص تھا جو چہرے سے بہت شریف رکھائی دیا...
"کیا بات ہے؟" اس نے دونوں کو حیرت بھری نگاہوں سے گُھورا...
"ہم ایک ضروری کام سے آئے ہیں.... کیا آپ ہمیں اندر آنے کے لیے نہیں کہیں گے؟" محموف نے شائستہ لہجے میں کہا...
وہ مسکرایا اور پھر انہیں راستہ دیتے ہوئے بولا....
"آ جاؤ اندر..."
وہ دونوں کو ایک کمرے میں لایا... فاروق بالکل خاموش تھا... محمود کو ہی کہنا پڑا...
"آپ کی زندگی کو شدید خطرہ ہے..."
"جی..." وہ اس طرح اچھلا جیسے اُسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو...
"جی ہاں..... کیا آپ کے لیے یہ غیر متوقع بات ہے..."
"نہیں......... جی ہاں..."
"میں سمجھا نہیں.... آپ نے ہاں کہا ہے یا نہیں..." محمود نے پوچھا...
"تم صاف صاف کیوں نہیں بتاتے, کیا بات ہے.."
"کچھ لوگ آپ کو جان سے مار دینا چاہتے ہیں..."
"تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟"
"بس کہہ سکتے ہیں..."
"دیکھو بیٹے! تم مجھے پریشان کر رہے ہو..... اگر تم اس طرح بعد میں مجھ سے کسی انعام کے امیدوار ہو اور یہ سب ناٹک اسی لیے کر رہے ہو تو ابھی بتا دو, میں تمہیں مایوس نہیں لوٹاؤں گا..."
"آپ ہمیں غلط سمجھے..." فاروق کو غصہ آگیا... "ہم بھکاری نہیں ہیں..."
"ارے! میں نے کب کہا ہے کہ تم لوگ بھکاری ہو... میرا مطلب ہے شاید تم اسی طرح لوگوں کو خوفزدہ اور ہراساں کر کے پیسے بناتے ہو..."
"جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے..." اس مرتبہ بھی فاروق ہی بولا... اس کا غصہ ابھی کم نہیں ہوا تھا...
"پھر کیا بات ہے؟" اس نے پوچھا...
"آپ کا نام کیا ہے؟" محمود اچانک پوچھ بیٹھا...
"شاہد... مجھے شاہد کہتے ہیں..."
"اچھا تو جناب شاہد صاحب بات دراصل یہ ہے کہ ہم دونوں ارجن روڈ سے گزر رہے تھے کہ ہم نے ایک شخص کو ٹیلیفون پر کسی کو پیغام دیتے سنا... پیغام بڑا ڈراؤنا تھا' اس لیے ہمارے کان کھڑے ہو گئے..."
"مگر تم پیغام کیسے سن سکتے تھے... ٹیلیفون شیشے کے چھوٹے سے چوکور کمرے میں رکھا ہوتا ہے اور جب اس کا دروازہ بند کر دیا جائے تو آواز باہر نہیں آ سکتی..."
"جی ہاں.. آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں, لیکن اس وقت سڑک بالکل سنسان تھی اور فون کرنے والا شاید جلدی میں تھا اس نے دروازہ بند نہیں کیا تھا..."
"خیر..... تو وہ کیا پیغام تھا اور اس پیغام کا میری ذات سے کیا تعلق ہے؟"
"آپ کا تعلق نہ ہوتا تو ہم یہاں کیوں آتے... بہرحال پیغام یہ تھا, شافی روڈ مکان نمبر گیارہ, وہ رات کو گھر پر ہی ملے گا... آج رات ٹھیک بارہ بجے اسے ختم ہو جانا چاہیے..."
"کیا!!!" شاہد ایک بار پھر اچھل پڑا... "کیا تم لوگ سچ کہہ رہے ہو..."
"بھلا ہمیں جھوٹ بولنے سے کیا حاصل ہو گا..."
"اس شخص کا حلیہ بتا سکتے ہو..." اب شاہد کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار صاف دیکھے جا سکتے تھے' اس کا اطمینان ختم ہو گیا تھا...
"اس کے سر پر ہیٹ تھا جسم پر اوور کوٹ تھا... کوٹ بالکل سیاہ تھا اور اس سے زیادہ تو ہم بھی نہیں دیکھ سکے, کیونکہ اس وقت ہماری یہی کوشش تھی کہ اس کی توجہ ہماری طرف نہ ہو..."
"ہوں! شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو... میں تم دونوں کا شکر گزار ہوں اور اگر زندہ رہا تو ضرور تمہیں انعام دوں گا' اس وقت تو میں تمہاری کوئی بھی خدمت نہیں کر سکتا' کیونکہ مجھے اپنی زندگی کے بچاؤ کا سامان کرنا ہے..." وہ خاموش ہو کر انہیں دیکھنے لگا...
"نہیں کوئی بات نہیں, ہم یہاں تک کسی انعام کے لالچ میں نہیں آئے تھے..."
"پھر بھی میرا جی چاہتا ہے تمہیں انعام سے لاد دوں بہتر ہے تم اپنا پتا مجھے دے جاؤ... یہ لو اس کاغذ پر لکھ دو..."
"مگر اس کی ضرورت ہی کیا ہے..."
"شاید مجھے پھر تمہاری مدد کی ضرورت پڑ جائے..."
"جی بہتر..." محمود کاغذ پر اپنا پتہ لکھنے لگا... اس دوران شاہد سوچ میں کھویا رہا... پھر اچانک وہ کہنے لگا...
"نہیں! میں ان سے اپنے آپ کو کبھی نہیں بچا سکتا' وہ مجھے پہاڑ کی کھوہ سے بھی باہر نکال لیں گے اور اگر میں ان کے ہتّھے چڑھ گیا تو........... تو........." وہ چپ ہو کر کسی سوچ میں کھو گیا...
"کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟" اس نے اچانک کہا...
"جی فرمائیے..."
"میں تمہیں ایک امانت سونپتا ہوں, وہ کسی نہ کسی طرح محکمہ سراغرسانی کے دفتر تک پہنچا دینا... اگر تم یہ امانت وہاں نہ پہنچا سکے تو اس سے بہت بڑا نقصان ہو گا... یہ نقصان ملک اور قوم کا ہے... بس تم یہ سمجھ لو کہ یہ بہت ہی اہم چیز ہے... یہ کسی طرح ان لوگوں کے ہاتھ نہیں لگنی چاہیے... تم اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہو کہ میں اس کی خاطر اپنی جان دے رہا ہوں... شاید میں کل اس دنیا میں نہیں ہوں گا... کل کا سورج نہیں دیکھ سکوں گا..."
یہ کہتے کہتے شاہد اچانک مڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا...
دونوں پتھر کے بت کی مانند گُم صم بیٹھے رہ گئے...
تھوڑی دیر میں شاہد اندر داخل ہوا تو اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا...
"وہ چیز اس پیکٹ میں ہے, تم اسے کھولنا نہیں اور کل پہلی فرصت میں اسے وہاں پہنچا دینا جہاں میں چاہتا
ہوں..."
"آپ فکر نہ کریں... صبح ہوتے ہی یہ امانت وہاں پہنچ جائے گی... اس جگہ ہماری بھی جان پہچان ہے..."
"ارے.. وہ کیسے؟"
"ہم انسپکٹر جمشید کے صاحب زادے ہیں..." فاروق نے کہا...
"انسپکٹر جمشید....... اوہ!" شاہد کے منہ سے بےساختہ
نکلا...
"آپ چونکے کیوں؟" وہ بھی چونکے بغیر نہ رہ سکے...
"اب ان باتوں کا وقت نہیں, تمہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا... تم جس قدر جلد ہو سکے' یہاں سے نکل جاؤ..."
"بہت بہتر..." وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور شاہد سے رخصت ہو کر گھر سے باہر نکل آئے... اس بات سے بےخبر کے ان کے نکلتے ہی تین سیاہ پوش شاہد کے گھر میں گُھس گئے ہیں...
ان کے جانے کے بعد شاہد فوراً اٹھ کھڑا ہوا... وہ جانتا تھا کہ اب اس کے جانی دشمن آیا ہی چاہتے ہیں... اس نے اپنا ریوالور چیک کیا اور ایک سوچی سمجھی جگہ پر کھڑا ہو گیا... یہ جگہ ایسی تھی جہاں سے وہ ہر آنے والے کو دیکھ سکتا تھا... ریوالور اس کے ہاتھ میں تھا اور انگلی لبلبی پر!
یکایک دروازے پر دستک ہوئی وہ چپ چاپ کھڑا رہا... دستک ایک بار پھر ہوئی مگر وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا... پھر ایک کھڑکی کا شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی جس سے شاہد کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی... نہ جانے کیوں؟
تین آدمیوں کے باری باری کودنے کی آوازیں آئیں' وہ دم سادھے کھڑا رہا... جب وہ کچھ آگے آ گئے تو یکایک شاہد چلّا کر بولا...
"تم تینوں ہاتھ اوپر اٹھا دو' ورنہ تمہارے جسم چھلنی ہو جائیں گے..."
انہوں نے ڈر کر اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیے... شاہد اپنی جگہ سے باہر نکل آیا... اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی اس نے گرج کر کہا... "اپنے منہ دیوار کی طرف کر لو..."
وہ مڑ گئے... شاہد نے باری باری تینوں کی جیبوں سے پستول نکال لیے...
"اب بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے, تم مجھے مارنے آئے تھے... تمہیں یہی حکم دیا گیا تھا نا مگر اب تم میرے ہاتھ سے نہیں بچ سکتے... تمہارے بعد تمہارے باس کی باری ہے... وہ بھی تمہارے کارنامے کی داد دینے یہاں ضرور آئے گا اور میرے ہاتھ سے نہیں بچ سکے گا..."
اچانک ایک فائر ہوا اور شاہد کے ہاتھ سے ریوالور فضا میں اچھل کر نیچے آ رہا... شاہد ہکّا بکّا فائر کی سمت دیکھنے لگا... اچانک ان تینوں نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا...
دروازے میں ایک پُراسرار شخص کھڑا تھا جس نے اپنے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال رکھا تھا...
"کاغذات کہاں ہیں؟" وہ گرجا...
"یہاں نہیں ہیں..." شاہد نے جواب دیا...
"پھر کہاں ہیں؟"
"مجھے نہیں معلوم..."
"تمہاری یہ جراّت..."
"ہاں! تم مجھے جان سے بھی مار ڈالو میں زبان سے کچھ نہیں اُگلوں گا..."
"ابھی پتا چل جاتا ہے کہ تم کتنے بہادر ہو..." اس نے کہا...
پھر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا... "تلاشی لو سارے مکان کی..."
وہ تینوں اِدھر اُدھر پھیل گئے اور تقریباً پندرہ منٹ کی تلاش کے بعد وہ واپس لوٹے تو اُن کے چہرے پر مایوسی کی جھلک تھی...
"نہیں ملے..."
"ہوں............ تم بتاتے ہو یا نہیں..." وہ پھر شاہد سے مخاطب ہوا...
"نہیں..."
وہ غصے میں آگے بڑھا مگر اچانک ٹھٹھک کر رُک گیا... اس کی نگاہیں میذ پر پڑے کاغذ کے ایک پُرزے پر پڑیں... اس نے پرزہ اٹھا لیا... پرزہ اٹھاتے دیکھ کر شاہد کا رنگ اُڑ گیا جیسے اس کے سارے جسم کا خون نچوڑ لیا گیا ہو...
یہ کاغذ کا وہی پرزہ تھا جس پر محمود اپنے گھر کا پتا لکھ کر دے گیا تھا...
........................
پیکٹ کہاں ہے
...........................
محمود اور فاروق دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوئے...
فرزانہ آرام کرسی پر بیٹھی انہیں گھور رہی تھی...
"بہت خوب... میں پوچھ سکتی ہوں تم دونوں نے اتنی دیر کہاں لگائی... امی نے صرف ایک گھنٹے کی سیر کی اجازت دی تھی اور اب تین گھنٹے ہونے والے ہیں... وہ تم سے بہت ناراض ہیں..."
"ارے ارے ہماری پیاری بہن! ہمیں ایک بہت ضروری کام کی وجہ سے دیر ہو گئی ہے... آئندہ ہم کبھی دیر نہیں لگائیں
گے..." محمود گڑگڑایا, حالانکہ فرزانہ اس سے دو سال چھوٹی تھی...
"تم ہر روز یہی کہتے ہو مگر آج تمہیں بتانا پڑے گا کہ وہ کون سا ضروری کام تھا جس کے لیے تمہیں اتنی دیر ہو گئی..."
"یہ ہم نہیں بتا سکتے..."
"تو میں چلی امی کے پاس..." فرزانہ تیزی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی...
"ارے ارے..." محمود دوڑ کر اس کے راستے میں کھڑا ہو
گیا...
"اگر تم نہیں بتاؤ گے تو میں ضرور امی کو بتاؤں گی اور اگر تم مجھے نہیں جانے دو گے تو میں یہیں کھڑے کھڑے شور مچا دوں گی..."
"تم سے خدا سمجھے..." فاروق نے دانت پیسے...
"میرا خیال ہے کہ اس شیطان کو بتانا ہی ہو گا..." محمود نے ہتھیار ڈال دیے...
"لیکن پہلے اس سے وعدہ لے لو کہ امی سے اس بات کا تذکرہ نہیں کرے گی..." فاروق بولا...
"اچھا وعدہ رہا' بتاؤ اب..."
اور محمود اسے دھیمے لہجے میں ساری بات بتانے لگا... فرزانہ غور سے سن رہی تھی... اس پر ایک غیر معمولی جوش اور خوشی کی کیفیت طاری تھی...
"وہ پیکٹ کہاں ہے؟" بات مکمل ہونے کے بعد فرزانہ نے پوچھا...
"یہ رہا میری جیب میں..."
"ذرا دیکھوں تو..."
محمود نے جیب سے پیکٹ نکال کر اسے دے دیا...
"اس میں تو کچھ کاغذات ہیں شاید..."
"ہاں..."
"تو تم صبح انہیں محکمہ سراغرسانی پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہو..."
"ہاں بالکل' یہی ارادہ ہے..."
تم اپنے ارادے میں کامیاب تو اس وقت ہو گے نا جب یہ پیکٹ یہاں صبح تک محفوظ رہ گیا..."
"کیا مطلب؟" دونوں بری طرح چونکے...
"ہو سکتا ہے' شاہد اپنے دشمنوں کو بتانے پر مجبور ہو جائے کہ کاغذات کہاں ہیں..."
"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا, مسٹر شاہد بہت سخت جان معلوم ہوتے ہیں اور پھر انہیں اپنی جان کی اتنی پروا نہیں جتنی ان کاغذات کی ہے... اگر ایسا ہوتا تو وہ یہ کاغذات دشمنوں کے حوالے کر کے اپنی جان بچا سکتے تھے..."
"تم ٹھیک کہتے ہو مگر ہو سکتا ہے' وہ مسٹر شاہد سے اگلوانے میں کامیاب ہو جائیں اور پھر ادھر کا رخ کریں..."
فرزانہ کی بات سن کر دونوں سوچ میں ڈوب گئے... آخر فاروق نے کہا...
"میرا خیال ہے فرزانہ ٹھیک کہتی ہے..."
"تو پھر کیا کریں؟"
"اسے تصویر کے پیچھے نہ رکھ دیں..." فاروق نے تجویز پیش کی...
"وہ وہاں سب سے پہلے دیکھیں گے..." فرزانہ بول اٹھی...
"پائیں باغ میں گڑھا کھود کر کیوں نہ دبا دیں.."
"میرا خیال ہے کہ یہ بہتر رہے گا..." فاروق بولا...
تینوں پائیں باغ میں پہنچے... انہوں نے ایک چاقو کی مدد سے چھوٹا سا گڑھا کھودا... اور پیکٹ کو اس میں دفن کر دیا...
اس کام سے فارغ ہو کر وہ پھر اپنے کمرے میں آئے...
"اچھا! میں جاتی ہوں... امی سے کہہ دوں گی کہ تم دونوں سرِشام ہی واپس آ گئے تھے اور اب مزے سے سو رہے ہو..." اور فرزانہ امی کے کمرے کی طرف چل دی...
"ابھی تک نہیں لوٹے وہ دونوں, کہاں رہ گئے آج... آج میں ان کی خوب خبر لوں گی..." فرزانہ کو دیکھتے ہی امی بول اٹھیں...
"نہیں امی! وہ تو بہت دیر ہوئی گھر آ چکے ہیں... اور اپنے کمرے میں سو رہے ہیں... میں انہی کو دیکھنے گئی تھی..."
"مگر وہ اندر آئے کیسے....... مجھے تو پتا بھی نہیں چلا..."
"وہ باغ والی کھڑکی میں سے آئے ہوں گے, اس خیال سے کہ آپ سو چکی ہوں گی اور آپ کی نیند میں خلل پڑے گا..."
"اچھا تو اب تم بھی لیٹ جاؤ..."
فرزانہ لیٹ گئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی...
ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کوئی زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا... فرزانہ کا دل دھڑک اٹھا...
دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا جا رہا تھا' لیکن فرزانہ جاگنے کے باوجود بھی نہ اٹھ سکی تھی... پھر اس نے دیکھا کہ اس کی امی اٹھ کر دروازے کی طرف جا رہی ہیں...
بیگم جمشید نے دروازہ کھولا... دروازے میں چار لمبے تڑنگے نوجوان کھڑے تھے... ان کے لباس سیاہ تھے ان میں سے ایک کا چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا...
"محمود یہاں ہی رہتا ہے؟"
"کیوں کیا بات ہے؟" بیگم جمشید کا دل دھڑک اٹھا...
"جو پوچھا ہے اس کا جواب دو..."
"ہاں یہیں رہتا ہے... کیا بات ہے, تم کیوں پوچھ رہے ہو؟"
کوئی جواب دینے کی بجائے وہ اندر گھس آئے...
"یہ تم کیا کر رہے ہو... گھر کے اندر کیوں گھس آئے ہو... میں کہتی ہوں باہر نکلو..."
"خاموش رہو , ورنہ تمہارا گلا دبانا پڑے گا..." ان میں سے ایک غرایا...
"کہاں ہے محمود؟"
"اپنے کمرے میں سو رہا ہو گا..."
"تو چلو اس کے کمرے میں..."
مجبوراً بیگم جمشید محمود اور فاروق کے کمرے کی طرف چل پڑیں... ابھی وہ راستے میں ہی تھیں کہ ان کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ دونوں باہر نکل آئے...
"کیا بات ہے امی؟" ان کے منہ سے نکلا' پھر ان چاروں پر نظر پڑتے ہی ان کے کلیجے دھک سے رہ گئے...
"تم میں سے محمود کون ہے؟"
"میں ہوں........ کیا بات ہے؟" محمود نے بظاہر اکڑ کر کہا...
"وہ پیکٹ کہاں ہے؟"
"کون سا پیکٹ؟"
"اتنے انجان نہ بنو... ہمیں سب کچھ معلوم ہے..."
"کیا معلوم ہے, کیسا پیکٹ....... اور یہ کیا معاملہ ہے؟" محمود کی امی سخت حیران تھیں...
"تم خاموش رہو... ہاں محمود پیکٹ کہاں ہے؟"
"محکمہ سراغرسانی کے دفتر میں..."
"وہاں کیسے پہنچ گیا... تم جھوٹ بولتے ہو..."
"میں وہ پیکٹ چوکیدار کو دے آیا تھا..."
"بکواس کرتے ہو... وہ پیکٹ یہیں کہیں ہو گا, تلاش کرو..." نقاب پوش نے اپنے ساتھیوں سے کہا اور تینوں ادھر ادھر پھیل گئے...
"یہ تم کیا کر رہے ہو... یاد رکھو تم سے غیر قانونی حرکت سرزد ہو رہی ہے... اس کے لیے تمہیں جواب دہ ہونا پڑے
گا..."
"ہم جواب تو اس وقت دیں گے جب تم ہمیں گرفتار کرا سکو..." وہ ہنسا...
"اس گھر میں کتنے افراد رہتے ہیں؟" اس نے پوچھا...
"میں اور یہ دونوں......" وہ کچھ کہتے کہتے رک گئیں... انہیں فرزانہ اور اپنے شوہر کا خیال آ گیا تھا... فرزانہ کو وہ اپنے کمرے میں سوتا چھوڑ آئی تھیں... تلاشی لینے والے بھی وہاں پہنچیں گے... کہیں وہ فرزانہ کو نہ ڈرائیں دھمکائیں... اس خیال کے آتے ہی وہ دروازے کی طرف لپکیں...
"کہاں چلیں؟" نقاب پوش غرایا...
"تمہارے آدمی میری چیزوں کو ادھر ادھر نہ کریں..."
"نہیں, وہ صرف پیکٹ تلاش کریں گے, بےفکر رہو, ہم چور نہیں ہیں..."
"آخر اس پیکٹ میں ہے کیا اور یہاں کیسے پہنچ گیا؟"
"اس میں ایک قیمتی راز ہے وہ ہم تمہیں نہیں بتا سکتے... تمہاری خیر اسی میں ہے وہ ہمارے حوالے کر دو... تمہارا بیٹا خوب جانتا ہے..."
"کیوں محمود؟" اس کی امی نے پوچھا...
"ہاں امی, پیکٹ مجھے ملا ضرور تھا' لیکن اب یہاں نہیں ہے... میں اسے محکمہ سراغرسانی کے چوکیدار کو دے آیا ہوں..."
"تم جھوٹ بولتے ہو, اتنی جلدی تم وہاں پہنچ بھی گئے اور واپس بھی آ گئے..."
"تم آخر میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتے..." محمود نے کہا...
"مجھے یقین ہے وہ یہیں کہیں ہے... تم نے ضرور اسے کہیں چھپا دیا ہے..."
فاروق اور محمود کے دل دھڑک رہے تھے وہ سوچ رہے تھے اگر یہ لوگ تلاش کرتے کرتے پائیں باغ تک پہنچ گئے تو کیا ہو گا اور پھر نہ جانے مسٹر شاہد کا کیا بنا... انہیں ہمارا پتا کیسے معلوم ہوا...
تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد اس کے ساتھیوں کی واپسی
ہوئی... ناکامی ان کےچہروں پر جھلک رہی تھی...
"باس! ہم نے پلنگ, کرسیوں اور صوفوں تک کو پھاڑ ڈالا, لیکن پیکٹ کا سراغ نہیں ملا..."
"ارے تمہارا ستیاناس تم نے میرا سامان برباد کر دیا..." بیگم جمشید تقریباً رو پڑیں...
"ہم نے مجبوراً ایسا کیا ہے جب پیکٹ کہیں نہ ملا تو گدّے پھاڑنے پڑے..."
"گھر میں کوئی اور فرد تو نہیں ہے؟" باس نے پوچھا...
تینوں کے دل دھڑک اٹھے... یکبارگی انہیں فرزانہ کا خیال آیا... مگر دوسرے ہی لمحے وہ حیرت کا بت بن گئے... ان کا ایک ساتھی کہہ رہا تھا...
"نہیں گھر میں اور کوئی بھی نہیں..."
"کیا؟ گھر میں اور کوئی نہیں..." نقاب پوش کے لہجے میں بےیقینی تھی...
"نہیں..." اس بات پر انہیں حیرت بھی اور خوشی بھی... ساتھ ہی وہ پریشان بھی تھے کہ فرزانہ کہاں چلی گئی...
"بہت خوب, میں ابھی پوچھ لیتا ہوں..." یہ کہتے ہوئے نقاب پوش نے ریوالور جیب سے نکال لیا... دوسرے ہی لمحے ریوالور کی نال بیگم جمشید کی کنپٹی پر رکھی تھی اور وہ ان سے کہہ رہا تھا... "اگر تم نے پیکٹ کا پتا نہ بتایا تو میں گولی مار دوں گا..."
"مم.......... میں.........." محمود ہکلایا... اس وقت اس کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی... وہ بےبس ہو گیا تھا... ایک طرف ماں کی زندگی تھی تو دوسری طرف وہ پیکٹ...
"تم اب تک خاموش ہو... میں دس تک گنتا ہوں... اگر تم نے دس پر بھی نہ بتایا تو تمہاری ماں کی لاش تمہارے قدموں میں تڑپ رہی ہو گی..."
"مت بتانا بیٹے! ہو سکتا ہے' اس پیکٹ کے ان کے ہاتھوں میں چلے جانے سے کسی بکو کتنا نقصان پہنچے... اس لیے میری جان کی ہرگز پروا نہ کرنا......" ان کی والدہ چلائیں...
"ایک!" نقاب پوش غرایا...
"دو!" ان کے رنگ اڑ گئے مگر بیگم جمشید پُرسکون تھیں...
"تین!" تین پر دونوں گڑبڑا گئے...
"چار, پانچ, چھ, سات..."
"ٹھہرو..." فاروق چلا اٹھا... "میں بتاتا ہوں خدا کے لیے ٹھہرو..."
"فاروق! خبردار جو تم نے بتایا..." بیگم جمشید چلائیں...
"آٹھ..."
"ٹھہرو..." اس مرتبہ محمود برداشت نہ کر سکا...
"وہ پیکٹ پائیں باغ کے ایک درخت کے پاس زمین میں دفن ہے...
"بہت خوب..." نقاب پوش نے مسکراتے ہوئے کہا...
"یہ تم نے کیا کیا....... تم اپنے باپ سے بہت پیچھے رہ گئے... اگر اس وقت وہ گھر میں ہوتے تو کبھی نہ بتاتے, چاہے یہ لوگ میری بوٹیاں تک نوچ ڈالتے..."
"چلو چل کر وہ جگہ دکھاؤ..." نقاب پوش نے اسے کندھے سے پکڑتے ہوئے دھکیلا...
فاروق اور محمود دروازے کی طرف بڑھے...
"تم بھی ساتھ چلو..." نقاب پوش غرایا...
وہ بھی محمود کے پیچھے چل پڑیں... ان کے قدم بوجھل بوجھل تھے... جسم میں جیسے جان نہیں رہ گئی تھی...
سب پائیں باغ میں آئے... رات تاریک تھی... اگر ان کے پاس ٹارچیں نہ ہوتیں تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا... دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ وہ اس جگہ پر پہنچ گئے جہاں انہوں نے پیکٹ دفن کیا تھا...
"یہی ہے وہ جگہ..." محمود نے اشارہ کیا...
وہ تیزی سے اس جگہ جھکے مگر ٹھٹھک گئے... مٹی گڑھے کے کنارے ایک چھوٹے سے ڈھیر کی صورت میں پڑی تھی اور خالی گڑھا لمبے تڑنگے بدمعاشوں کا منہ چڑا رہا تھا...
................................................
نئی ترکیب
"تم جھوٹ بول رہے ہو... تم نے پیکٹ یہاں نہیں چھپایا
تھا..."نقاب پوش کی آواز میں شدید غصہ تھا...
"خدا کی قسم ہم نے یہاں ہی چھپایا تھا..." محمود فوراً بولا...
"تو پھر وہ کہاں چلا گیا؟"
"دیکھ نہیں رہے ہو... گڑھا کسی نے دوبارہ کھودا ہے, مٹی اس کے کنارے کے پاس پڑی ہے..."
"ہوں,معلوم تو یہی ہوتا ہے.......... تم تینوں میرے ساتھ آؤ..." اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا اور پائیں باغ سے ہوتا ہوا باہر نکل گیا...
ان کے جاتے ہی تینوں نے اطمینان کا سانس لیا... ان کی امی نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ محمود نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا...
"امی جان! یہ لوگ ابھی یہاں سے جائیں گے نہیں... چھپ کر ہماری نگرانی کریں گے... زبان پر فرزانہ کا نام نہ آنے پائے..."
"مگر وہ ہے کہاں؟" انکی امی نے دھیمے لہجے میں کہا...
"جہاں بھی ہے' خیریت سے ہے اور پیکٹ بھی ضرور اسی کے پاس ہے..."
"تم ٹھیک کہتے ہو,آؤ اب اندر چل کر بیٹھیں..."
تینوں اندر آئے مگر ان کے چہروں پر خوف تھا... تینوں یہی سوچ رہے تھے کہ فرزانہ کہاں اور کس حال میں ہے اور پیکٹ کہاں ہے؟
"خدا جانے وہ کہاں چھپی ہے؟"
"پہلے ہم تینوں کمرے دیکھتے ہیں..." فاروق نے کہا...
"تم دونوں جاؤ میں یہیں بیٹھتی ہوں, کہیں وہ لوگ پھر نہ آ جائیں..."
وہ ایک کمرے کی طرف چل پڑے... سب سے پہلے وہ اپنی امی کے کمرے میں آئے... فاروق نے دھیمے لہجے میں پکارا...
"فرزانہ تم کہاں ہو, اب خطرہ سر سے ٹل چکا ہے..."
انہیں کوئی جواب نہ ملا... وہ دوسرے کمرے میں گئے, فرزانہ وہاں بھی نہیں تھی... یہاں تک کہ انہوں نے سارا مکان دیکھ ڈالا... فرزانہ کہیں نہ ملی... اب تو ان کی پریشانی کی انتہا نہ رہی... وہ پریشان حال واپس امی کے پاس آئے...
"کہیں فزانہ باغ میں ہی نہ ہو..." فاروق نہ خیال پیش کیا...
"پائیں باغ میں؟" ان کی امی بے خیالی میں بولیں...
"ہاں کسی درخت پر... آپ کو معلوم ہے' آج اس نے سبز کپڑے پہنے ہوئے ہیں... لہٰذا اگر وہ کسی گھنے درخت پر چڑھ جائے تو کسی کے فرشتوں کو بھی نظر نہیں آ سکتی اور درختوں پر چڑھنے میں تو وہ کافی تیز ہے..."
"خدا کرے میری بچی ہر طرح محفوظ ہو..." بیگم جمشید کی آواز بھرا گئی...
"اگر وہ کسی درخت میں چھپ گئی ہے تو اس طرح وہ صبح ہونے تک تو محفوظ ہے, لیکن جونہی دن نکلا وہ دیکھ لی جائے گی..."
"پھر کیا کرنا چاہیے؟"
"میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ فرزانہ پر ہی چھوڑ دینا چاہیے... اس وقت تو وہ ہم سب سے زیادہ عقل مند ثابت ہوئی ہے..."
"ہاں, مگر وہ ساری رات درخت کی شاخوں میں رہ کر کیسے گزارے گی..." بیگم جمشید کی آواز گھبرائی ہوئی تھی...
"یہ بات بھی ہے تو کیوں نہ ہم اسے تلاش کرنے کی کوشش کریں..." محمود نے تجویز پیش کی اور پھر خود ہی کہنے لگا... "ذرا میں باہر تو جھانک کر دیکھ لوں کہ کہیں وہ لوگ تو موجود نہیں..." محمود کب نچلا بیٹھنے والا تھا...
"ضرور دیکھو مگر اس طرح کہ انہیں معلوم نہ ہو سکے کہ ہم کیا کر رہے ہیں..." فاروق نے اسے خبردار کیا...
"تم فکر نہ کرو میں بدھو نہیں ہوں..." یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا... سب سے پہلے وہ اپنے کمرے میں آیا... اور پائیں باغ والی کھڑکی سے باہر جھانکا... پھر وہ مکان کی چھت پر چڑھا, لیکن اس نے اپنا سر منڈیر سے اونچا نہیں ہونے دیا... اس نے تقریباً اسی حالت میں رہتے ہوئے چاروں طرف دیکھا اور پھر دھک سے رہ گیا اور تیزی سے نیچے اترنے لگا...
"کیوں, کیا رہا؟" فاروق نے پوچھا...
"کیا وہ لوگ چلے گئے؟" بیگم جمشید نے پوچھا...
"نہیں امی وہ مکان کے چاروں کونے پر کھڑے ہیں... ہر کونے پر ایک آدمی موجود ہے..."
"اوہ, پھر اب کیا ہو گا, میری بچی فرزانہ..." وہ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکیں...
"فرزانہ جہاں بھی ہے' خیریت سے ہے..." محمود بڑبڑایا...
"ہاں کاش..." بیگم جمشید کاش کہہ کر چپ ہو گئیں..."
"کیا کہنا چاہتی ہیں آپ,کیا یہی کہ اس وقت ابا جان یہاں ہوتے تو..."
"نہیں, میں تو یہ سوچ رہی تھی کہ کاش ہمارے گھر میں ٹیلیفون لگا ہوتا..."
"ٹیلیفون تو شیرازی صاحب کے ہاں بھی ہے..." فاروق کو اچانک خیال آیا...
"مگر ہم میں سے کوئی شیرازی صاحب کے گھر کیسے پہنچ سکتا ہے... دونوں گھروں کی دیواریں ملی ہوئی ضرور ہیں... لیکن ان کی چھت بہت اونچی ہے اور دروازے کے راستے تو ہم جا ہی نہیں سکتے..." ان کی امی نے مایوس لہجے میں کہا...
"دن نکلتے ہی فرزانہ چھپی نہیں رہ سکے گی اور پیکٹ ان کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا..."
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں دن نکلنے سے پہلے پہلے کچھ کرنا ہے..." فاروق بولا...
"دیکھو, نہ ہم چھت کے راستے شیرازی صاحب کے مکان میں جا سکتے ہیں, نہ دروازے کی طرف سے, اس صورت میں ہم صرف ایک طرح وہاں جا سکتے ہیں..." محمود نے مسرت سے کہا...
"اور وہ کیا؟" بیگم جمشید بےچینی سے بولیں...
"دیوار کے راستے..."
"تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا ہے... کیا ہم دیوار میں نقب لگائیں؟"
"یار تم سنو تو سہی... پوری بات سنتے نہیں اور درمیان میں بول پڑتے ہو..."
"اچھا کہو, کیا کہنا چاہتے ہو..."
"تمہیں معلوم ہے ہمارے باورچی خانے میں ایک روشن دان ہے... اس روش دان کے دوسری طرف کسی زمانے میں کُھلا میدان تھا شاید یہ اُسی لیے بنایا گیا تھا' لیکن بعد میں شیرازی صاحب نے وہ کھلا میدان خرید لیا اور اب ہمارے باورچی خانے کے دوسری طرف ایک کمرہ بن چکا ہے جو شیرازی صاحب سٹور کے طور پر استعمال کرتے ہیں..."
"اوہ ہاں, بالکل ٹھیک, تم ٹھیک کہہ رہے ہو..." بیگم جمشید کی آواز میں مسرت رچی ہوئی تھی...
"پھر تم کیا کہنا چاہتے ہو' یہ کہ میں یا تم اس روشن دان میں سے پھلانگ جائیں..." فاروق نے کہا...
"ہاں!" محمود نے کہا...
"اس روشن دان کے دوسری طرف چھلانگ لگانا اتنا آسان نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو... تم ضرور سر کے بل گرو گے..."
"میری تجویز یہ ہے کہ ایک رسی باورچی خانے میں کسی چیز سے باندھ کر روشن دان سے دوسری طرف یعنی شیرازی صاحب کے گھر میں لٹکا دی جائے... میں میز پر ایک چھوٹی میز اور اس پر کوئی سٹول رکھ کر روشن دان تک پہنچ کر رسی کے ذریعے دوسری طرف لٹک جاؤں اور پھر آہستہ آہستہ دوسری طرف اتر جاؤں... کیوں ہے نا شاندار تدبیر..." محمود نے فخریہ انداز میں دونوں کی طرف
دیکھا...
"بالکل ٹھیک..." فاروق نے اس کے خیال کی تائید کی...
تینوں اٹھے... سب دروازے اندر سے بند کیے اور باورچی خانے میں چلے آئے...
فاروق نے بڑی سی میز دیوار کے ساتھ لگا دی اور پھر اس پر ایک چھوٹی میز رکھ دی گئی... یہ کام وہ اتنی احتیاط سے کر رہے تھے کہ ذرا سی بھی آہٹ نہ ہو' اب محمود بڑی میز پر چڑھا, پھر چھوٹی میز پر... چھوٹی میز پر کھڑے ہو کر اس نے ہاتھ روشندان کی طرف بڑھائے... اس کی انگلیاں روشن دان سے صرف تین انچ کے فاصلے پر تھیں... اس نے ایڑیاں اوپر اٹھائیں مگر ہاتھ پھر روشن دان تک نہ پہنچ سکے... وہ آہستہ آہستہ نیچے اتر آیا...
"کوئی ایک فٹ اونچی چیز اور ہونی چاہیے تب میں روش دان تک پہنچ سکوں گا..."
فاروق گیا اور ساتھ والے کمرے سے ایک سٹول اٹھا لایا...
"بس اب ٹھیک ہے لو بھئی فاروق اب میں چلا خدا
حافظ..."
محمود پہلے بڑی میز پر چڑھا... پھر فاروق سے بولا...
"لاؤ مجھے رسی پکڑا دو..." فاروق نے رسی کا دوسرا سرا اس کے ہاتھ میں دے دیا...
وہ دوسری میز پر بھی چڑھ گیا, لیکن ابھی تیسری میز پر چڑھنے کے لیے پاؤں اٹھایا ہی تھا کہ عین اس وقت دروازہ زور زور سے دھڑ دھڑایا جانے لگا... ان کے دل دھک سے رہ گئے...
.............................................
روشندان
"محمود فوراً نیچے اتر آؤ..."
"کیوں,کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ میں جلد از جلد دوسری سمت میں پھلانگ جاؤں.."
"بےوقوف مت بنو... وہ لوگ اندر آ کر تمہارے متعلق پوچھیں گے, تو ہم کیا جواب دیں گے... تمہیں نہ پا کہ معاملہ گڑ بڑ ہو جائے گا..."
"فاروق ٹھیک کہہ رہا ہے محمود نیچے اتر آؤ..." مارے ڈر کے بیگم جمشید کے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی...
دروازہ پھر پوری قوت سے دھڑ دھڑایا جانے لگا... محمود نیچے اترنے لگا... دروازے پر بدستور دستک ہو رہی تھی... ان کے دل دھک دھک کر رہے تھے...
"اب کیا کریں؟" محمود نے ہانپتے ہوئے کہا...
"پہلے یہ میزیں اپنی جگہ پر رکھ دیں... اس کے بعد ہم اپنے کمرے میں جا کر سوتے بن جائیں گے اور امی جا کر دروازہ کھولیں گی... اس طرح جیسے بہت گہری نیند سو کر اٹھی ہوں..."
"ہاں! یہ ٹھیک رہے گا..."
انہوں نے ایسا ہی کیا اور جب محمود اور فاروق جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گئے تو ان کی امی نے دروازہ کھول دیا...
وہ چاروں بڑی تیزی سے اندر داخل ہو گئے...
"دروازہ اتنی دیر سے کیوں کھولا گیا؟" ان میں سے ایک نے پوچھا...
"میں سو رہی تھی... کیوں اب کیا بات ہے... تم لوگ پھر آ گئے..."
"ہم گئے ہی کب تھے..."
"کیا مطلب؟" وہ انجان بن گئیں...
"چھوڑو... یہ بتاؤ کہ تمہارے دونوں بچے کہاں ہیں؟"
"اپنے کمرے میں, اور کہاں ہو سکتے ہیں..."
"چلو, ہمارے ساتھ ان کے کمرے تک چلو..."
"آخر بات کیا ہے تم لوگ واپس کیوں آ گئے... چاہتے کیا ہو... کیوں ہمیں تنگ کرتے ہو... میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ وہ پیکٹ یہاں نہیں ہے..."
"تم چلو تو سہی..."
مجبوراً وہ چل پڑیں... ان کے پیچھے وہ بھی چل دیے... محمود اور فاروق گہری نیند سو رہے تھے... کمرے میں نیلا بلب جل رہا تھا...
"انہیں اٹھاؤ..." سیاہ پوش نے اپنے ایک ساتھی سے کہا...
"آخر ان بچوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے... انہیں سونے دو..."
سیاہ پوش کا ساتھی آگے بڑھ کر دونوں کو ہلانے لگا... کچھ دیر کسمسانے کے بعد انہوں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں...
"کیا بات ہے امی......... خیر تو ہے... یہ لوگ پھر کیوں آ
گئے..." محمود نے انجان بنتے ہوئے کہا...
"خدا جانے بیٹا... کیا پتا یہ لوگ پھر کیوں آ گئے..."
"ہم ایک بار پھر یہاں کی تلاشی لیں گے..."
"آخر کیوں کیا ابھی تک تمہارا اطمینان نہیں ہوا؟"
"نہیں..."
"پھر بتاؤ تمہارا اطمینان کیسے ہو سکتا ہے... جو حقیقت ہے... وہ میں نے تمہیں بتا دی... وہ پیکٹ اس گڑھے سے کس نے نکالا' ہمیں نہیں معلوم..."
"خیر ہم تلاشی لیں گے..."
"تم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہو..." بیگم جمشید نے تیز لہجے میں کہا...
"اس وقت قانون گہری نیند سو رہا ہو گا, تم فکر نہ کرو... ہم قانون شکنی میں ماہر ہیں........... ہمارا کام ہی یہی ہے..."
"بہت اچھا, تم تلاشی لے سکتے ہو..." بیگم جمشید راستےسے ہٹ گئیں..."
سیاہ پوش کے تینوں ساتھی تلاشی لینے کے لیے بڑھے...
"ٹھہرو... میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا اور یہ لوگ
بھی..." اس کے لہجے میں پراسرار مسّرت تھی...
تلاشی شروع ہوئی سیاہ پوش ان تینوں کو باری باری گھور رہا تھا... ان میں جس کی نظر بھی کسی سمت اٹھ جاتی' وہ اپنے ساتھیوں کو اس جگہ کی تلاشی لینے کا اشارہ
کرتا... اس مرتبہ وہ خود بھی چیزوں کا الٹ پلٹ کر رہا
تھا...
بیگم جمشید کے کمرے کی باری آئی... سیاہ پوش کے ایک ساتھی نے پلنگ کی چادر الٹی تو وہ چونک اٹھا... ساتھ ہی ان تینوں کے دل حلق میں آ رہے...
"باس یہ دیکھو..." سیاہ پوش ادھر متوجہ ہوا...
"ارے! یہ کیا, اس چارپائی کی پائنتی کیا ہوئی..... کیوں؟" اس نے سوالیہ نظریں ان تینوں پر گاڑ دیں...
"یہ........ یہ ٹوٹ گئی تھی......"
"رسی کہاں ہے؟"
"رسی...." اس مرتبہ ان کے دل دھک دھک کرنے لگے, کیونکہ وہ رسی باورچی خانے میں کھڑکی کی سلاخ سے بندھی چھوڑ آئے تھے, جلدی میں انہیں اس کا خیال نہیں رہا تھا...
"ہاں! کہاں ہے اس کی رسی؟" نقاب پوش نے گرجدار آواز میں پوچھا...
"وہ باورچی خانے میں ہے..." بیگم جمشید نے سچ بول دیا... ان کے اس سچ پر محمود اور فاروق دونوں کو سخت غصہ آیا...
"باورچی خانے میں اس کا کیا کام؟"
"گیلی صافیاں وغیرہ لٹکانے کے کام آتی ہے..."
"اوہ........ ٹھیک......." شاید وہ کچھ مطمئن ہو گئے تھے...
تلاشی پھر شروع ہو گئی... آخر وہ باورچی میں آئے... رسی زمین پر پڑی تھی اور اس کا ایک سرا روشن دان کی سلاخ سے بندھا تھا...
"یہ کیا...... رسی تو نیچے پڑی ہوئی ہے..." سیاہ پوش کے لہجے میں شک تھا... محمود اور فاروق اس طرح گُم صُم کھڑے تھے جیسے کسی جادوئی دیس میں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وجہ سے پتھے کے بن گئے ہوں...
"دراصل جب اس کی ضرورت ہوتی ہے, میں دوسرا سرا دوسری کھڑکی کی سلاخ سے باندھ دیتی ہوں, ورنہ آنے جانے میں دقت ہوتی ہے..."
"ہوں!" سیاہ پوش سوچ میں ڈوب گیا... غالباً وہ سوچ رہا تھا کہ ان کے بیان کو کہاں تک درست سمجھے...
"اؤ چلیں... یہاں کچھ نہیں ہے..." بلآخر اس نے کہا... اور اپنے ساتھیوں سمیت باہر نکل آیا... وہ بھی اس کے پیچھے تھے, یہاں تک کہ وہ گھر سے باہر نکل گئے... ان تینوں نے اطمینان کا سانس لیا اور دروازہ اندر سے بند کر دیا...
"اب ہمیں اپنے منصوبے پر عمل کرنا چاہیے..." محمود بول اٹھا...
"لیکن پوری احتیاط سے, کیونکہ جہاں تک میرا خیال ہے یہ لوگ ابھی نہیں ٹلیں گے... ابھی ان کا پوری طرح اطمینان نہیں ہوا..." بیگم جمشید نے کہا...
"اور میرا خیال ہے کہ اب اس طرح تکلیف اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں..." فاروق نے کہا...
"کیا مطلب؟" دونوں فاروق کی بات پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے...
"میرا خیال ہے کہ اب وہ لوگ یہاں نہیں رکیں گے... وہ ضرور اب یہاں سے کوچ کر جائیں گے بلکہ اب تک جا بھی چکے ہوں گے... پھر ایسی صورت میں ہمیں سب سے پہلے فرزانہ کو تلاش کرنا چاہیے..."
"تو ٹھیک ہے, میں پہلے انہیں دیکھ لوں..." محمود نے کہا اور سب سے پہلے اپنے کمرے میں آیا.. اس نے پائیں باغ والی کھڑکی کھولی ہی تھی کہ سُن رہ گیا... فاروق جو اس کے پیچھے چلا آیا تھا, پل بھر کے لیے ساکت کھڑا رہ گیا... چاروں بدمعاش ٹارچوں سے پائیں باغ کی تلاشی لے رہے تھے... وہ ٹارچیں درختوں کی شاخوں پر بھی مار رہے تھے...
ان دونوں کی حالت بس ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں... ان کا رنگ اڑ گیا تھا... دل دھک دھک کر رہے تھے... دونوں کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا...
"اب کیا ہو گا؟"
"اب کیا ہو گا... اگر انہیں فرزانہ نظر آ گئی تو........" ان کے ذہن اس سے آگے نہ سوچ سکے...
جب دونوں کو گئے کافی دیر ہو گئی تو بیگم جمشید بےچین ہو اٹھیں اور پھر وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئیں سب سے پہلے وہ تینوں کے کمرے میں آئیں.... محمود اور فاروق دونوں اندر موجود تھے مگر ساکت حالت میں... وہ ان کی طرف بڑھیں اور ان کے شانوں پر ہاتھ رکھ دیے... دونوں چونک کر پلٹے, انہوں نے اپنی امی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی تھوڑی سی کھلی ہوئی کھڑکی میں سے دیکھنے کے لیے کہا... بیگم جمشید نے پائیں باغ میں دیکھا اور انہیں اپنا سانس رکتا محسوس ہوا... باغ میں چاروں طرف ٹارچوں کی روشنیاں اِدھر سے اُدھر رقص کر رہی تھیں...
"اُف میرے خدا اب کیا ہو گا؟" ان کے منہ سے دبی ہوئی چیخ نکل گئی...
"خدا پر بھروسہ رکھیے امی! وہی ہماری مدد کرنے والا ہے..." فاروق بولا...
"میری فرزانہ کا کیا بنے گا؟" بیگم جمشید نے پوچھا...
"میرا خیال ہے کہ ہم دونوں باورچی خانے میں جا کر اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اور آپ یہاں کے حالات کا جائزہ لیں, ساتھ ہی دعا کرتی رہیں کہ فرزانہ انہیں نظر نہ آئے..."
ایک بار پھر انہوں نے بڑی میز دیوار کے ساتھ رکھی... اس پر چھوٹی میز اور اس کے اوپر اس سے چھوٹی میز... محمود پہلے بڑی میز پر چڑھا اور اس نے فاروق سے رسی کا دوسرا سرا پکڑانے کے لیے کہا... فاروق نے اسے رسی تھما دی... محمود دوسری میز پر بھی چڑھا مگر جب اس نے تیسری میز پر قدم رکھا تو میز ڈگمگا گئی قریب تھا کہ محمود میزوں کے ساتھ ہی نیچے آ رہے مگر فاروق کی پھرتی کام آئی... اس نے فوراً ہی ڈگمگاتی میز کے پائے پکڑ لیے...
محمود نے رسی کو دوسری طرف لٹکا دیا...
"اچھا فاروق خدا حافظ........... اور ہاں میرے دوسری طرف کودنے کے بعد رسی کھینچ لینا, میزیں یہاں سے ہٹا کر اپنی جگہ پر رکھ دینا...
"اچھا خدا حافظ...."
محمود نے ہاتھ روشن دان پر رکھے وہ ہاتھوں کے زور سے اوپر اٹھنے لگا... اس کام میں اسے اپنا پورا زور لگانا پڑ رہا تھا... بڑی مشکل سے وہ روشن دان تک پہنچا اور پھر رسی کو تھامے ہوئے دوسری طرف لٹک گیا.....
اب وہ فاروق کی نگاہوں سے اوجھل تھا مگر فاروق کی نظریں تنی ہوئی رسی پر گڑھی ہوئی تھیں... جب تک رسی ڈھیلی نہ پڑ حاتی, اس وقت تک وہ اطمینان کیسے لے سکتا تھا اور رسی کے ڈھیلا ہونے کا مطلب یہ تھا کہ محمود دوسری طرف اُتر چکا ہے...
پورے ایک منٹ کے بعد رسی ڈھیلی ہوئی... یہ ایک منٹ فاروق کو ایک سال کے برابر محسوس ہوا... اس نے رسی کھینچ لی اور میزیں اپنی جگہ رکھنے لگا ابھی وہ بڑی میز دیوار سے ہٹانے بھی نہ پایا تھا کہ باہر آہٹ ہوئی, یہ کسی کے چلنے کی آواز تھی جو باورچی خانے کی طرف آ رہا تھا...
فاروق گھبرا گیا,کیونکہ بڑی میز وہ تنہا اٹھا نہیں سکتا تھا اور گھسیٹنے کی صورت میں آواز پیدا ہونے کا خطرہ تھا... فاروق کا دل دھک دھک کرنے لگا... قدموں کی چاپ اب دروازے کے نزدیک پہنچ چکی تھی...
فاروق نے باورچی خانے کا دروازہ کھولا... باہر ان کی امی کھڑی تھیں اور ان کے چہرے سے اطمینان جھلک رہا تھا انہیں دیکھ کر فاروق کی جان میں جان آئی...
"آپ نے تو میری جان ہی نکال دی امی..."
"کیوں..... کیا بات تھی؟"
"ابھی یہ بڑی میز نہیں ہٹا سکا تھا کہ قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی میں سمجھا شاید ان میں سے کوئی آ رہا ہے..."
"نہیں وہ لوگ تو اب پائیں باغ سے بھی نکل گئے ہیں..."
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں فرزانہ نہیں ملی..."
"ہاں! خدا کا شکر ہے... اچھا تم سناؤ محمود دوسری طرف بخیریت اتر گیا ہے یا نہیں؟"
"جی ہاں اتر گیا..."
"تو ہمیں اس کمرے میں نہیں ٹھہرنا چاہیے..."
"ہاں آپ ٹھیک کہتی ہیں لیکن باورچی خانے سے چلے جانے سے پہلے یہ میز یہاں سے ہٹا دینی چاہیے..."
انہوں نے میز ہٹائی اور باہر نکل آئے...
......................................................
میں آ رہا ہوں
شیرازی صاحب دورے پر گئے ہوئے تھے اس لیے بیگم شیرازی اکیلی تھیں اور وہ اپنے کمرے میں سو رہی تھیں... اس گھر میں ان کے ساتھ ایک ملازم بھی رہتا تھا جو اس گھر کا باورچی بھی تھا اور چوکیدار بھی, لیکن آج رات چونکہ شیرازی صاحب گھر میں نہیں تھے, اس لیے وہ بھی گھوڑے بیچ کر سویا ہوا تھا... یکایک اس کی آنکھ کھل گئی... کچھ دیر تک وہ سوچتا رہا کہ اس کی آنکھ کیوں کھل گئی... اچانک اس کے کانوں میں آواز آئی...
"ٹھک ٹھک...."
"یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟" وہ سوچ میں ڈوب گیا آواز مسلسل آرہی تھی...
"یا خدا یہ کیا معاملہ ہے..." وہ بڑبڑایا... "کہیں کوئی نقب تو لگانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے... اوہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے... مجھے چل کر بیگم صاحبہ کو جگانا چاہیے... ہاں..."
وہ اٹھا اور بیگم صاحبہ کے کمرے کی طرف چل پڑا.. اس نے دروازے پر دستک دی...
"کون ہے, کیا بات ہے؟" اسے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی...
"بیگم صاحبہ! میں ہوں..."
"کون؟ غفور!"
"جی ہاں..."
"کیا بات ہے؟"
"آپ دروازہ تو کھولیے, بتاتا ہوں..." غفور کی آواز گھبرائی ہوئی تھی... اس لیے بیگم شیرازی جلدی سے اٹھیں اور دروازہ کھول دیا... غفور سہما ہوا کھڑا تھا...
"ہاں اب بتاؤ کیا بات ہے؟"
"ذرا غور سے سنیے... آپ کو کوئی آواز سنائی دے رہی ہے یا میرے کان بج رہے ہیں..." اس نے پریشان آواز میں کہا...
"کیا مطلب؟"
"کافی دیر سے میں ایک آواز سن رہا ہوں جیسے کوئی نقب لگا رہا ہے..."
"کیا بکتے ہو..." بیگم شیرازی کو یقین نہیں آ رہا تھا...
"آپ سنیے تو..."
بیگم شیرازی خوموش ہو گئیں اور دھیان سے اس آواز کو سننے لگیں جو اب بھی مسلسل آ رہی تھی...
"واقعی تم سچ کہتے ہو..." بیگم شیرازی بھی سہم گئیں...
"پھر اب کیا کیا جائے..."
"پولیس کو ٹیلیفون کرتی ہوں اور کیا کیا جا سکتا ہے..."
"پہلے دیکھ تو لیں آواز کہاں سے آ رہی ہے..."
اور وہ دونوں اس طرف بڑھنے لگے جس طرف سے آواز آ رہی تھی... کچھ دور چل کر آواز صاف ہو گئی...
"میں یقین سے کہہ سکتا ہوں' آواز سٹور سے آ رہی ہے..." غفور نے رکتے ہوئے کہا...
"مگر سٹور میں تو کوئی ایسی چیز بھی نہیں..." بیگم شیرازی بڑبڑائیں...
"خدا جانے کیا بات ہے..." غفور بڑبڑایا...
دونوں سٹور کے دروازے پر پہنچ گئے... اب تو معانلی بالکل صاف تھا' کوئی اندر سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا... ڈر کے مارے ان کی گھگھی بندھ گئی...
"آخر کوئی شخص اندر کیسے پہنچ گیا؟"
"میرا خیال ہے' کوئی جن بھوت ہو گا..." غفور کی حالت نازک تھی...
"پاگلوں والی باتیں نہ کرو..." بیگم شیرازی نے کہا... پھر دل کڑا کر کے بلند آواز میں بولیں...
"کون ہے؟"
دستک کی آواز رک گئی اور پل بھر کے لیے موت کا سناٹاچھا گیا...
"اندر کون ہے؟" بیگم شیرازی اور اونچی آواز میں بولیں...
"آنٹی! یہ میں ہوں..." کھنکارتے ہوئے کہا...
"میں کون؟" بیگم شیرازی نے پوچھا...
"میں ہوں محمود... جو آپ کے ساتھ والے مکان میں رہتا
ہے... انسپکٹر جمشید کا لڑکا..."
"مگر تم اندر کیسے پہنچ گئے اور یہ سب کیا ہے؟"
"آپ دروازہ تو کھولیے, میں ابھی سب کچھ بتاتا ہوں..."
بیگم شیرازی نے غفور کو تیار رہنے کا اشارہ کیا... اس خیال سے کہ کہیں دھوکا نہ کیا جا رہا ہو اور محمود کی بجائے اندر کوئی اور ہو... ایک بار پھر انہوں نے اپنا اطمینان کر لینے کی کوشش کی...
"تم محمود ہو نا؟"
"ہاں آنٹی..." اندر سے آواز آئی...
"تمہارے گھر میں اور کون کون رہتا ہے؟"
"میری امی' میری بہن فرزانہ اور فاروق, کیوں آپ یہ کیوں پوچھ رہی ہیں؟"
"میں اپنا اطمینان کر رہی ہوں, کہیں اندر کوئی چور نہ ہو اور وہ دروازہ کھلوانا چاہتا ہو..."
"خدا کی قسم میں محمود ہوں' آپ بےدھڑک دروازہ کھول دیں..."
بالآخر بیگم شیرازی نے دروازہ کھول دیا اندر محمود کھڑا تھا...
"کیا بات ہے... یہاں کیوں کر آئے, خیریت تو ہے؟"
"میں یہاں اس روشن دان سے پہنچا ہوں..." محمود نے روشن دان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا...
"روشن دان سے, مگر یہ تو بہت اونچائی پر ہے..."
"جی ہاں! یہ ایک لمبی داستان ہے... مگر میں سب سے پہلے ایک جگہ فون کرنا چاہتا ہوں..."
"کچھ بتاؤ بھی تو..." بیگم شیرازی حیران کھڑی تھیں..."
"ہم ایک مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں... دن نکلنے سے پہلے پہلے اگر پولیس یہاں نہ پہنچی تو ہماری خیر نہیں... اس لیے پہلے مجھے فون کر لینے دیں...... پھر میں اطمینان سے بیٹھ کر ساری باتیں بتاؤں گا..."
"اچھا! آؤ میرے ساتھ......"
"بیگم شیرازی اسے فون کے پاس لے آئیں...
محمود پولیس اسٹیشن فون کرنے لگا...
"ہیلو! کون بول رہا ہے؟" دوسری طرف سے پوچھا گیا...
"جی میں ہوں محمود, انسپکٹر جمشید کا بیٹا..."
"اچھا کیا بات ہے؟"
"چار زندگیاں خطرے میں ہیں... اس وقت ہم ایک بڑے خطرے سے دوچار ہیں... چار بدمعاش ہماری زندگیوں کے در پے ہیں' مہربانی فرما کر فوراً آئیے..."
"تم کہاں سے بول رہے ہو؟"
"میں اپنے مکان کے ساتھ والے مکان سے بول رہا ہوں... یی شیرازی صاحب کا مکان ہے اور یہ تو آہ کو معلوم ہے کہ ہم گرین روڈ پر رہتے ہیں..."
"بات کیا ہے؟"
"میں فون پر تفصیل سے نہیں بتا سکتا, کیونکہ ایک ایک پل قیمتی ہے... دن نکلنے میں صرف دو گھنٹے باقی ہیں اور اگر دن نکل آیا اور آپ لوگ اس وقت تک نہ پہنچے تو ہم میں سے کسی کو زندہ نہیں پائیں گے... اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہ ملک اور قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے...
"اچھا میں آ رہا ہوں..."
"اور ہاں,وہ لوگ ہمارے مکان کے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں... اس لیے آپ اپنی گاڑی دور ہی روکیے گا......... میں آپ کو شیرازی صاحب کے دروازے پر ملوں گا..."
"ٹھیک ہے, تم بےفکر رہو... اس قسم کے طریقے ہمیں معلوم ہیں..."
دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا... اب محمود نے سب انسپکٹر اکرام کا فون نمبر ڈائل کیا... یہ انسپکٹر جمشید کا اسسٹنٹ تھا...
دوسری طرف تھوڑی دیر تک گھنٹی بجتی رہی آخر کسی نے فون اٹھایا اور نیند میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی...
"ہیلو!" آواز سب انسپکٹر اکرام کی ہی تھی, محمود کو پہچاننے میں دقت نہ ہوئ...
"اسلام علیکم انکل..."
"کون ہیں آپ؟"
"آپ نے مجھے پہچانا نہیں, میں محمود ہوں انکل..." محمود نے تھوک نگلتے ہوئے کہا...
"محمود تم...... اور اس وقت, خیر تو ہے؟" سب انسپکٹر اکرام کے لہجے میں حیرت اور پریشانی کا اظہار ہو رہا تھا...
"انکل ہم سخت خطرے میں ہیں جلدی پہنچیں..."
"تم فون کہاں سے کر رہے ہو؟"
"شیرازی صاحب کے ہاں سے..."
"بات کیا ہے؟"
"بات بتانے کا وقت نہیں ہے, بس آپ پہنچ جائیے..."
"اچھا میں آ رہا ہوں..."
"میں نے پولیس کا بھی فون کر دیا ہے..."
"ٹھیک کیا, میں پہنچ رہا ہوں..." اس کے ساتھ ہی اس نے ریسیور رکھ دیا...
..........................................
شکنجہ
فاروق چھت پر پینچا تا کہ وہ باہر کے حالات دیکھ سکے... وہ سر اوپر اٹھا کر چاروں طرف دیکھنے لگا, اسے چاروں بدمعاش ٹہلتے ہوئے نظر آئے مگر ساتھ ہی ایک ٹارچ کی روشنی اس پر پڑی... دوسرے ہی لمحے ایک آواز فضا میں اُبھری...
"تم چھت پر کیا کر رہے ہو... فوراً نیچے اتر آؤ ورنہ ہم گولی چلا دیں گے..."
"فاروق کو اپنے جسم کا سارا خون جمتا ہوا محسوس ہوا... وہ تھر تھر کانپنے لگا اور گرتا پڑتا نیچے اترنے لگا... بیگم جمشید نیچے کھڑی پریشان نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں...
"کیا ہوا؟"
"انہوں نے مجھے چھت پر دیکھ لیا..."
"یہ تو بہت برا ہوا, اب انہیں شک ہو جائے گا... خدا جانے محمود ٹیلیفون کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے یا نہیں..."
ابھی الفاظ ان کے منہ ہی میں تھے کہ دروازہ ایک بار پھر زور زور سے کھٹکھٹایا جانے لگا...
"اب آئی مصیبت, وہ محمود کے متعلق پوچھیں گے تو ہمارا کیا جواب ہو گا؟"
"کہہ دیں گے باتھ روم میں گیا ہے..."
دروازہ بدستور کھٹکھٹایا جا رہا تھا... آخر انہوں نے دروازہ کھول دیا...
"تم چھت پر کیا کرنے گئے تھے؟"
"یونہی چڑھ گیا تھا... آپ لوگ جو ہمیں رات سے پریشان کر رہے ہیں... نیند اُڑ گئی ہے... ٹہلنے کے لیے چھت پر چڑھ گیا تھا..."
"جھوٹ بکتے ہو, اب ہمیں یقین ہے کہ پیکٹ یہیں کہیں موجود ہے... اب تم اسے نہیں چھپا سکتے..."
"پیکٹ یہاں نہیں ہے... ہمیں اس پیکٹ کا کیا کرنا ہے' اگر وہ ہمارے پاس ہوتا تو کبھی کا تمہیں دے چکے ہوتے..."
"وہ تمہارا دوسرا ساتھی کہاں ہے... کیا نام ہے اس کا...... محمود.." نقاب پوش نے غرّاتے ہوئے کہا...
"وہ باتھ روم میں ہے ابھی آ جاتا ہے..."
"تم چھت پر جا کر دیکھو' پیکٹ وہاں تو نہیں ہے..." نقاب پوش نے اپنے ایک ساتھی سے کہا...
"پیکٹ یہیں کہیں موجود ہے اور میں اسے برآمد کر لوں
گا... اس کے بعد تم تینوں کی خیر نہیں... تم نے ہمیں ساری رات پریشان کیا ہے..."
"پریشان تو تم نے ہمیں کیا ہے, ساری رات ہو گئی ہے جاگتے ہوئے..." بیگم جمشید نے گلہ کرتے ہوئے کہا...
"محمود اب تک نہیں آیا..." نقاب پوش کے لہجے میں شک تھا...
"ابھی ابھی تو گیا ہے.. آ جائے گا..."
"تو تم نہیں بتاؤ گے کہ پیکٹ کہاں ہے..."
"یہاں ہو تو بتائیں بھی... جب ہے ہی نہیں تو بتائیں کیا؟"
"تم نے مسٹر شاہد کے ساتھ کیا سلوک کیا؟" فاروق اچانک پوچھ بیٹھا... شاید اس کا ارادہ اسے باتوں میں لگانے کا تھا...
"تمہیں صبح معلوم ہو جائے گا, لیکن نہیں, صبح تک تو شاید تم میں سے بھی کوئی نہ بچے... اس لیے بتا ہی دیتا ہوں... اس نے ہم سے غداری کی تھی اور ہمارے ہاں غداری کی سزا موت ہے... سمجھے..."
"تو وہ غدار تھا؟"
"ہاں! وہ پیکٹ میرے پاس تھا, اس نے اڑا لیا جبکہ یہ......" وہ یہ کہتے کہتے رک گیا...
"تم اس گروہ کے سردار ہو؟"
"ہاں...... ہاں..." اس نے زور دے کر کہا اور سینہ تان لیا...
"تم لوگ کرتے کیا ہو؟" فاروق نے سہمی ہوئی نظروں سے نقاب پوش کی طرف دیکھا...
جواب میں نقاب پوش کا قہقہہ سنائی دیا...
"تم نے بتایا نہیں؟" فاروق نے اپنا سوال دہرایا...
"میں تمہارے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا..."
"اس پیکٹ میں کیا ہے؟"
"تمہارے پہلے سوال میں اور دوسرے سوال میں کوئی فرق نہیں..."
"یعنی تم اس کا جواب بھی نہیں دے سکتے..."
"ٹھیک سمجھے....... ارے! یہ محمود ابھی تک نہیں آیا..."
"آ جائے گا...... اسے دراصل قبض کی شکایت ہے..." فاروق نے بغیر جھجک کے کہہ دیا...
اسی وقت نقاب پوش کا ساتھی جو چھت پر گیا تھا,واپس آیا...
"کیوں......... ملا؟"
"نہیں باس.... چھت پر کچھ بھی نہیں ہے..."
"تم چھت پر کیا کرنے گئے تھے؟" نقاب پوش نے فاروق سے پوچھا...
"میں بتا چکا ہوں..."
"میں سچ سننا چاہتا ہوں..."
"جھوٹ میں نے بھی نہیں بتایا..."
"دیکھو, میں بڑی بری طرح پیش آ ؤں گا..." نقاب پوش نے اس کا شانہ جھنجھوڑتے ہوئے کہا...
"رات سے تم اچھی طرح پیش آ رہے ہو نا کہ اب بری طرح پیش آ ؤ گے..."
"ہاں! میں رات بھر تمہارے ساتھ نرمی کا سلوک کرتا رہا ہوں مگر اب نہیں کروں گا..."
بیگم جمشید خاموش کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھیں... غالباً وہ فاروق کا مقصد سمجھ گئی تھیں... نقاب پوش کے ساتھی بھی خاموش کھڑے تھے...
"محمود آیا نہیں... مجھے تو کچھ گڑبڑ معلوم ہوتی ہے, تم جا کر دیکھو..." نقاب پوش نے اپنے ایک ساتھی سے کہا...
"چلو......... چل کر دکھاؤ باتھ روم کہاں ہے؟" نقاب پوش نے فاروق کو حکم دیتے ہوئے کہا...
"چلو!" فاروق نے لاپروائی سے کہا اور اس کے ساتھ چل
پڑا...
نقاب پوش کے ساتھ نے پہلے تو محمود کو آواز دی مگر جب اندر سے کوئی آواز نہیں آئی تو جھجھکتا ہوا اندر گھس گیا...
"ارے! یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے..." اس کے منہ سے نکلا...
"کیا کہا؟ کیا محمود یہاں نہیں ہے؟"
"نہیں..."
"ذرا دھیان سے دیکھو یار..." فاروق دل میں ہنسا...
"دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا, وہ بھی کوئی سوئی ہے جو دھیان سے دیکھوں..."
"کیا لیٹرین میں کوئی مکھی موجود ہے؟" فاروق نے اچانک پوچھا... دراصل وہ وقت گزارنا چاہتا تھا...
"مکھی....... کیا مطلب؟" اس کے لہجے میں حیرت تھی...
"میرا مطلب ہے کہ کہیں وہ جادو کے زور سے مکھی تو نہیں بن گیا..."
"بکواس نہ کرو..." نقاب پوش کا ساتھی غصے میں تلملاتا ہوا باہر نکل آیا اور اسے دھکا دیتے ہوئے بولا...
"چلو......... اب دیکھیں گے تم میں کتنا دم خم ہے..." فاروق دھکے کی وجہ سے اس سے کئی قدم آگے چلا آیا... دونوں پھر وہیں پہنچے جہاں بیگم جمشید, نقاب پوش اور اس کے باقی دونوں ساتھی کھڑے تھے...
"کہاں ہے وہ؟" نقاب پوش نے دونوں کو دیکھ کر کہا...
"وہ لیٹرین میں نہیں ہے..."
"تو یہ جھوٹ بول رہے تھے......... ہوں........ تم تینوں سارے مکان میں محمود کو تلاش کرو... وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتا, کیونکہ ہم نے باہر نکلنے والے دروازے کا ایک لمحے کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا..."
چند منٹ کے اندر اندر نقاب پوش کے ساتھی منہ لٹکائے واپس آ گئے...
"کیوں.... کچھ پتا نہیں چلا؟"
"محمود کہیں نہیں ہے..."
"کہیں نہیں ہے....... یہ کیسے ہو سکتا ہے... وہ گھر سے باہر کیسے جا سکتا ہے؟" نقاب پوش کے لہجے میں بلا کی حیرت تھی...
"خدا جانے ہم کیا کہہ سکتے ہیں..."
"تم نے تلاشی تو اچھی طرح لی ہے نا؟" نقاب پوش نے اس کی بات پر دھیان دیے بغیر کہا...
"بالکل... ہم نے کوئی کونا نہیں چھوڑا..."
"تم تینوں یہیں ٹھہرو... میں اپنا اطمینان کر لوں... پھر ان دونوں کی زندگیوں کا فیصلہ کر دیں گے..." اس نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور مڑ گیا...
فاروق دل ہی دل میں ہنسا... ان کے چند منٹ اور ضائع ہو رہے تھے اور یہی فاروق اور بیگم جمشید چاہتے تھے...
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو غصے سے مٹھیاں بھینچ رہا تھا... "تم میں سے ایک بیرونی دروازے پر ٹھہرے اور ان دونوں کو کمرے میں لے چلو اور اگر محمود آئے تو اسے فوراً میرے پاس پکڑ کر لے آنا, کوئی اور اندر داخل ہونے کی کوشش کرے تو اسے بغیر کسی جھجک کے گولی مار دینا..."
نقاب پوش کا ساتھی انہیں جانوروں کی طرف ہانکتا ہوا کمرے میں لے گیا...
"شیر خان! ذرا اپنا انگلیاں کسنے کا شکنجہ تو نکالو ابھی پتا چل جاتا ہے کہ یہ لوگ کتنے سخت جان ہیں اور کتنی دیر تک نہیں بتاتے..." اس نے اپنے ایک ساتھی سے مخاطب ہو کر کہا...
شیر خان نے جیب میں سے ایک عجیب و غریب آلہ نکالا... اس میں پانچ انگلیوں کے خول سے بنے ہوایے تھے...
"مسٹر فاروق! اپنے بائیں ہاتھ کی پانچوں انگلیاں اس میں داخل کر دو..." نقاب پوش نے آلہ اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا...
"نہیں........ نہیں......" فاروق خوفزدہ لہجے میں چلّایا... بیگم جمشید تھر تھر کانپ رہی تھیں اور ان کا رنگ فق تھا...
"شیر خان! چاقو نکالو..." نقاب پوش غرّایا...
شیر خان نے جیب سے چاقو نکالا... چاقو کھلنے کی کڑکڑاہٹ سے ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے... حلق سوکھ گئے, ٹانگیں تھر تھر کانپنے لگیں...
"چاقو کی نوک فاروق کی گردن پر رکھ دو... اگر یہ انگلیاں شکنجے میں نہ ڈالے تو نوک کو تھوڑا سا دبا دینا... اور اگر پھر نھی نہ ڈالے تو تھوڑا اور دبا دینا..." نقاب پوش نے تحکمانہ انداز میں کہا...
شیر خان نے چاقو فاروق کی گردن پر رکھ دیا... فاروق کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی... بیگم جمشید سے رہا نہ گیا...
"کیوں ظلم کرتے ہو, تمہیں ترس نہیں آتا؟"
"خاموش رہو اور نظارہ دیکھو ابھی تمہاری باری بھی آنی ہے..."
شیر خان نے چاقو کی نوک گردن میں چبھو دی فاروق کی منہ سے ایک دل دوز چیخ نکلی' دوسرے ہی لمحے وہ اپنی انگلیاں شکنجے میں داخل کر رہا تھا... بیگم جمشید بےبسی سے دیکھ رہی تھیں...
"کیوں آ گئے نا راہِ راست پر..." نقاب پوش نے کہا... اور شکنجہ کسنے لگا... فاروق کے منہ سے دبی ہوئی سسکیاں نکلنے لگیں...
"بتاؤ پیکٹ کہاں ہے, محمود کدھر ہے؟"
فاروق خاموش رہا... تکلیف کو برداشت کرنے کے کیے اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے تھے... اس کی آنکھوں میں درد کی شدت سے آنسو جھلملانے لگے تھے مگر وہ خاموش تھا... بیگم جمشید نے اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے آنکھیں بند کر لی تھیں...
شکنجے پر دباؤ بڑھتا گیا... فاروق کے منہ سے چیخیں نکلتی رہیں مگر اس نے انہیں کچھ نہ بتایا... بالآخر نقاب پوش نے شکنجہ اس کی انگلیوں سے نکال لیا...
"اب تم اس میں انگلیاں ڈالو..." اس نے بیگم جمشید سے کہا...
"نہیں...... نہیں..... یہ ظلم نہ کرو... اسے میری ہی انگلیوں میں رہنے دو..." فاروق گڑگڑایا...
"خاموش رہو..... چلو تم نے سنا نہیں..."
بیگم جمشید نے خاموشی سے انگلیاں شکنجے میں ڈال
دیں...
"فاروق تم اس تکلیف سے آشنا ہو... اب یہی تکلیف تمہاری امی کو پہنچائی جائے گی... ان کی انگلیوں کو... تم یہ نہ سمجھنا کہ میں نے تمہاری انگلیوں پر پورا شکنجہ کا دیا تھا... میں نے تو تمہیں نمونہ دکھایا تھا... اصل قوت تو اب صرف ہو گی... تم اپنی تکلیف تو برداشت کر سکتے ہو لیکن کیا اپنی امی کی تکلیف بھی برداشت کر لو گے؟"
فاروق خاموش رہا نقاب پوش نے شکنجہ کسنا شروع کیا... بیگم جمشید کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں... فاروق بےچین ہو گیا... وہ اپنی امی کو ذرا بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا مگر اس وقت مسئلہ ان سب کی زندگی کا تھا... وہ خاموش رہا... شکنجے پر دباؤ بڑھتا رہا... یہاں تک کہ امی کے منہ کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں... فاروق کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا... وہ چلّا اٹھا...
"ٹھہرو, بند کرو یہ ظلم... میں تمہیں سب کچھ بتاتا ہوں..."
"فاروق!" بیگم جمشید چلّائیں... "خبردار جو تم نے منہ سے ایک لفظ بھی نکالا..."
"مگر امی میں یہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتا... آپ کی چیخیں نہیں سن سکتا..."
"تو اپنی آنکھیں بند کر لو... اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لو..." بیگم جمشید نے آنسو پیتے ہوئے کہا...
"تو یہ لو..." نقاب پوش نے شکنجے پر اور دباؤ ڈالا اور ان کے منہ سے ایک دل خراش چیخ نکلی...
"بس کرو, میں تمہیں بتاتا ہوں..." فاروق سے برداشت نہ ہو سکا...
"نہیں, تم کچھ نہیں بتاؤ گے..." بیگم جمشید چلائیں...
"میں کہتا ہوں شکنجہ کھول دو... میں تمہیں سب بتاتا ہوں..."
"نہیں اسی حالت میں بتاؤ..."
"یہ نہیں ہو سکتا, پہلے شکنجہ کھولو..."
"چلو خیر یونہی سہی..."
نقاب پوش شکنجہ کھولنے لگا...
.............................................
پیکٹ کا راز
فون کیے ہوئے تقریباً دس پندرہ منٹ گزر گئے تھے مگر ابھی تک کوئی نہ آیا تھا... محمود کا ایک ایک منٹ انتہائی بےچینی سے گزر رہا تھا... اس نے ہمت کر کے باہر کی طرف جھانک کر دیکھا تو اسے نقاب پوش اور اس کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی نظر نہ آیا... اسے بڑی حیرت ہوئی... وہ شیرازی صاحب کی کوٹھی سے باہر نکل آیا...
پھر بھی اسے کوئی نظر نہ آیا... اب تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی... وہ دیوار سے لگا لگا اپنے دروازے کی طرف بڑھنے لگا یہاں تک کہ وہ دروازے تک پہنچ گیا...
اس نے دروازے پر ہاتھ رکھا... تھوڑا سا دباؤ ڈالا اس طرح کہ کوئی آواز پیدا نہ ہو سکی, دروازہ اندر سے بند تھا...
نقاب پوش کے ساتھی باہر نہیں تھے... اس کے دو ہی مطلب نکالے جا سکتے تھے یا تو وہ لوگ چلے گئے ہیں یا پھر اندر موجود ہیں... دوسری صورت اس کے لیے حد درجہ تشویش ناک تھی مگر وہ کچھ بھی تو نہیں کر سکتا تھا...
وہ پھر دیوار کے ساتھ چلتا ہوا شیرازی صاحب کے دروازے تک پہنچ گیا... یکایک دور کسی گاڑی کی ہیڈ لائیٹس نظر آئیں اور اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا... پھر اس گاڑی کی بتیاں بجھ گئیں... چند سیکنڈ بعد ہی ایک سایہ رینگتے ہوئے اس کے پاس پہنچ گیا... یہ پولیس انسپکٹر تھا...
"کیا تم محمود ہو؟"
"جی ہاں..."
"کیا بات ہے؟" انسپکٹر نے ریوالور گھماتے ہوئے کہا...
"آپ اپنے آدمیوں سمیت میرے پیچھے آیئے..."
"کچھ بتاؤ بھی تو..."
"ابھی کچھ نہ پوچھیں, یہ تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے... میرا خیال ہے کہ وہ لوگ ہمارے گھر کے اندر ہیں اور خدا معلوم اندر کیا حال ہو... لہٰذا سب سے پہلے اندر والوں کو بچانے کی کوشش کریں... بات تو بعد میں بھی معلوم ہو جائے گی..."
"آل رائٹ..." اس نے اپنے آدمیوں کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی محمود کے پیچھے چلنے لگا...
"دروازہ اندر سے بند ہے, میں دروازے پر دستک دے کر اپنا نام بتاؤں گا تا کہ وہ لوگ اندر ہی ہوشیار نہ ہو جائیں..." محمود نے سرگوشی کی...
محمود دروازے پر پہنچ گیا اور آہستہ سے دستک دی...
"کون ہے؟" اندر سے پوچھا گیا... آواز سن کر محمود کا دل دھڑکنے لگا...
"میں ہوں محمود, دروازہ کھولو..."
"تم کہاں چلے گئے تھے, چلو ادھر..." نقاب پوش کے ساتھی نے دروازہ کھولتے ہی اسے بازو سے پکڑ لیا اور اندر گھسیٹ لے گیا... جلدی میں اس نے دروازہ بھی بند نہ کیا تھا...
کمرے کے اندر نقاب پوش فاروق سے کہہ رہا تھا...
"ہاں اب بتاؤ..."
"نہیں بتاتا..." فاروق پھر اڑ گیا...
"اچھا یہ بات ہے تو میں دوبارہ شکنجہ کسے دیتا ہوں..."
"کس دو..." فاروق نے لاپروائی سے کہا...
"شاباش!" بیگم جمشید کے منہ سے نکلا...
"ابھی تمہاری شاباش دھری رہ جائے گی..." نقاب پوش اور چڑ گیا...
وہ شکنجہ لے کر پھر بیگم جمشید کی طرف بڑھا اسی وقت دروازہ کھلا... اس کا ساتھی محمود کو لیے اندر داخل ہوا...
"بہت خوب, کہاں تھا یہ؟"
"خدا جانے باس, اس نے دروازے پر دستک دی تھی..."
"اس کے ساتھ کوئی اور تو نہیں تھا؟"
"نہیں باس یہ تنہا ہی تھا..."
"کہاں گئے تھے؟" نقاب پوش نے گرجتے ہوئے کہا...
"میں ذرا گھومنے گیا تھا..."
"بکواس نہ کرو مگر تم گھر سے نکلے کیسے؟" نقاب پوش ابھی تک حیران تھا...
"ہوا میں تحلیل ہو کر..."
"دیکھا...... میں نے کہا تھا نا کہ ہوا میں تحلیل ہو کر گیا ہو گا..." فاروق بول اٹھا...
"بڑی زبان چل رہی ہے..." اس نے غرا کر کہا...
"ابھی علاج کر لیتا ہوں..."
"میرا یا اپنا..." فاروق بولا... وہ محمود کو دیکھ کر شیر ہو گیا تھا...
"خاموش رہو... اور صرف یہ بتاؤ کہ پیکٹ کہاں ہے؟"
"یہیں ہے مگر اب تمہارے فرشتے بھی اسے نہیں پا سکتے..."
"فرشتوں کی بات چھوڑو... اسے تو ہم خود ہی پا لیں گے..."
"تو پھر پاؤ..."
"لو اس میں انگلیاں ڈالو..." اس نے شکنجہ محمود کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا...
"یہ کیا ہے؟"
"زبان کھلوانے کا آلہ..."
"اچھا...." محمود نے مضحکہ اڑانے کے انداز میں کہا...
نقاب پوش نے شکنجہ اس کی طرف بڑھانا شروع ہی کیا تھا کہ دروازہ زوردار آواز کے ساتھ کھلا... انسپکٹر پولیس کے ہاتھ میں ریوالور تھا...
"خبردار, کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلے..."
وہ چونک اٹھے... فاروق اور بیگم جمشید کے چہرے خوشی سے کِھل اٹھے...
"ہاتھ اوپر اٹھا لو..." انسپکٹر نے حکم دیتے ہوئے کہا...
"بہت اچھا جناب...." نواب پوش نے کہا اور ہاتھ اٹھانے لگا, لیکن انسپکٹر یہ نہ دیکھ سکا کہ اس کے ہاتھ میں کوئی چیز موجود ہے... اسے تو اس وقت ہوش آیا جب چاقو اس کے ہاتھ میں پیوست ہو گیا تھا اور ریوالور چھوٹ کر زمین پر گر گیا تھا...
نقاب پوش کے ایک ساتھی نے آگے بڑھ کر ریوالور پر جھپٹا مارا اور اٹھتے ہوئے بولا...
"اب تم ہاتھ اوپر اٹھاؤ..."
"انسپکٹر کے ہاتھ سے چاقو نکال کر اپنے قبضے میں کر لو..." نقاب پوش نے اپنے ایک ساتھی کو حکم دیتے ہوئے کہا...
"اب پھر حالات میرے کنٹرول میں ہیں اور میں اپنا سوال دہراتا ہوں... تم پیکٹ کا پتا فوراً بتا دو ورنہ میں سب کو گولی مار دوں گا..."
ہر کسی کو سانپ سونگھ گیا تھا... فاروق اور بیگم جمشید کے چہرے ایک بار پھر مرجھا گئے تھے...
"تم نہیں بتاؤ گے........ تو یہ لو..." نقاب پوش نے یہ کہہ کر ریوالور کی لبلبی دبانے کی کوشش کی لیکن عین اس وقت ایک فائر ہوا اور اس کے ہاتھ سے ریوالور اچھل کر زمین پر گر پڑا... انسپکٹر نے ریوالور پر چھلانگ لگائی اور اسے اٹھا لیا...
"خبردار اگر کسی نے اپنی جگہ سے حرکت کرنے کی کوشش کی, میں گولی مارنے سے دریغ نہیں کروں گا..." دروازے کے باہر سے گرجدار آواز آئی...
وہ سب ساکت کھڑے رہ گئے...
"انسپکٹر صاحب' اپنے آدمیوں کو حکم دیں کہ وہ نقاب پوش اور اس کے ساتھیوں کے ہتھیار اپنے قبضے میں کر لیں..." آواز پھر آئی اور پولیس انسپکٹر کے آدمیوں نے انسپکٹر کا حکم ملنے کا انتظار بھی نہ کیا' فوراً ہی چار کانسٹیبل آگے بڑھے اور چاروں کی جیبوں سے پستول اور چاقو نکال لیے... انسپکٹر پولیس اپنے زخمی ہاتھ پر رومال باندھنے لگا...
"بہت خوب!" آواز پھر آئی... "اب میرے اندر آنے میں کوئی مضائقہ نہیں, کیونکہ صورت حال پوری طرح ہمارے قابو میں ہے..." ان الفاظ کے خاتمے پر ایک لمبا تڑنگا نوجوان اندر داخل ہوا...
"انکل اکرام!" محمود مسرت سے لبریز لہجے میں بولا...
"ہاں بھئی! میں دراصل پولیس پارٹی سے پہلے ہی پہنچ گیا تھا مگر میں نے سوچا کہ پہلے یہ لوگ آ جائیں... پھر حالات کے مطابق دخل دوں گا... اب بتاؤ قصہ کیا ہے؟"
"قصہ بہت طویل ہے اطمینان سے سنانا پڑے گا....... کیوں نہ ہم پہلے ان چاروں کو باندھ لیں..." محمود نے تجویز پیش کی...
"یہ بھی ٹھیک ہے..."
کانسٹیبلوں نے نقاب پوش اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ پشت پر باندھنے شروع کر دیے... ہاتھوں کے بعد ان کے پاؤں کی باری آئی اور اب وہ چاروں بےبسی کی حالت میں زمین پر پڑے تھے... نقاب پوش کا چہرہ نقاب کے پیچھے تھا... پھر بھی یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہ اس وقت ضرور غصے کے مارے پاگل ہو رہا ہو گا...
"ہاں تو محمود... اب بتاؤ کیا معاملہ ہے؟ انسپکٹر صاحب آپ بھی بیٹھ جائیں اور کانسٹیبلوں سے بھی کہیں بیٹھ جائیں..."
وہ سب لوگ بیٹھ گئے اور محمود نے اپنی کہانی شام کے واقعے سے شروع کی جب انہوں نے ٹیلیفون پر قتل کا حکم دیتے ہوئے سنا تھا...
"کیا تم ٹیلیفون کرنے والے کو پہچانتے ہو؟" انسپکٹر اکرام نے پوچھا...
"جی نہیں, کیونکہ اس نے اپنا چہرہ ہیٹ کے ذریعے کافی حد تک چھپایا ہوا تھا... البتہ میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس کی وضع قطع بالکل ان صاحب کی طرح تھی..." محمود نے نقاب پوش کی طرف اشارہ کیا...
"اور میرا خیال ہے کہ وہ یہی تھا..." فاروق نے بھی اپنا شک ظاہر کر دیا...
"بہت خوب, خیر اپنی کہانی جاری رکھو..." اکرام نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا...
محمود پھر کہانی سنانے لگا... پیکٹ دفن کرنے کا ذکر آیا.. ساتھ ہی فرزانہ کا بھی...
"اب فرزانہ کہاں ہے؟" انسپکٹر اکرام نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا...
"خدا جانے کہاں ہے... جہاں وہ ہے' پیکٹ بھی وہیں ہو گا اور جہاں تک میرا خیال ہے' وہ پائیں باغ کے کسی درخت میں بیٹھی ہو گی..."
"اوہ خدا کے بندے' تم اطمینان سے بیٹھے کہانی سنا رہے
ہو... چلو پہلے چل کے اس کی خبر لینی چاہیے نہ جانے وہ کس حال میں ہو گی..."
"ہاں بہتر یہی ہے کہ پہلے فرزانہ کو ڈھونڈ لیں..." بیگم جمشید نے کہا...
"جی ہاں.. کیوں نہیں.."
"چلیں پہلے پائیں باغ میں چل کر دیکھتے ہیں..." محمود بولا...
"انسپکٹر صاحب' آپ اپنے کانسٹیبلوں سمیت یہیں رہیں... ان میں سے کوئی حرکت نہ کرنے پائے..."
"آپ مطمئن رہیں..."
محمود' فاروق' ان کی امی اور اکرام پائیں باغ میں آئے... محمود اور فاروق کے ہاتھوں میں ٹارچیں تھیں... باغ میں پہنچ کر محمود نے آواز لگائی...
"فرزانہ! تم کہاں ہو' اب کوئی خطرہ نہیں رہا..." محمود نے پکارتے ہوئے کہا...
دفعتہً ایک درخت کی شاخیں ہلیں...
"میں یہاں ہوں... کیا سب معاملہ درست ہے؟"
فرزانہ کی آواز سنتے ہی سب کے چہرے مسرت سے کھل اٹھے...
"ہاں بالکل... تم نیچے اتر آؤ..." سب انسپکٹر اکرام نے مسکراتے ہوئے کہا...
تھوڑی دیر بعد فرزانہ درخت سے اتر رہی تھی... اس طرح کہ پیکٹ اس کے منہ میں دبا ہوا تھا...
"شاباش فرزانہ! تم نے بہت عقل مندی سے کام لیا... اگر تم ایسا نہ کرتیں تو یہ پیکٹ ضرور بدمعاشوں کے ہاتھ لگ جاتا مگر تمہیں یہ خیال آیا کیسے؟" انکل اکرام نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا...
"شکریہ انکل! بات یہ ہے کہ جب محمود اور فاروق پیکٹ گڑھے میں دبا رہے تھے تو میں اسی وقت یہ سوچنے لگی تھی کہ اگر پیکٹ کہ تلاش میں کچھ لوگ ادھر آ گئے تو کیا ہو گا...کیا وہ سختی کر کے پیکٹ کا پتا لگانے میں کامیاب نہیں ہو جائیں گے... اور یہی سوچتے سوچتے وہ وقت آ
گیا... امی دروازہ کھولنے گئیں تو میں دیوار سے چپکی ہوئی تھی... چاروں بدمعاش اندر آتے ہی امی کو محمود اور فاروق کے کمرے کی طرف لے گئے اور میں دروازے سے باہر نکل گئی... بس میں نے پیکٹ گڑھے سے نکالا اور درخت پر چڑھ گئی... اس درخت پر میں پہلے بھی کئی مرتبہ چڑھ چکی ہوں... اس کی شاخوں میں چھپنے کے لیے بہت اچھی جگہ ہے اگر میرے کپڑے سبز نہ ہوتے تو بھی وہ لوگ مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے..."
"جب وہ لوگ ٹارچوں سے پائیں باغ میں تلاشی لے رہے تھے تو تم کہاں تھیں؟" فاروق نے پوچھا...
"میں اسی درخت پر تھی... کیا وہ لوگ مجھے تلاش کر رہے تھے؟"
"نہیں........ انہیں ہم نے تمہارے متعلق تو بتایا ہی نہیں
تھا... اگر بتا دیتے تو پھر شاید وہ تمہیں تلاش کر ہی لیتے... وہ تو یہاں پیکٹ تلاش کرتے رہے تھے..."
"بھئی بہت خوب تم نے یہ بھی بہت عقل مندی کا کام کیا کہ فرزانہ کا نام تک ان لوگوں کے سامنے نہیں لیا..."
"اچھا اب چلو ذرا یہ بھی تو دیکھیں کہ یہ لوگ ہیں کون اور اس پیکٹ میں کیا ہے؟"
پھر وہ اسی کمرے میں آئے... ہر کوئی اپنی جگہ پر موجود تھا... اکرام نے پیکٹ ان چاروں کے سامنے لہرایا...
"یہ ہے وہ پیکٹ جس کی تمہیں تلاش تھی... ان ننھے جاسوسوں نے تمہیں شکست فاش دی ہے... اتنی بڑی شکست شاید تم نے زندگی میں کبھی نہ کھائی ہو اور اس بچی نے تو کمال ہی کر دیا... بس یوں سمجھو اس رات میں سب سے بڑا کارنامہ اسی نے انجام دیا ہے... اب ذرا میں یہ دیکھوں کہ اس پیکٹ میں کیا ہے جس کے بغیر تمہاری جان پر بن گئی تھی..."
یہ کہہ کر انکل اکرام نے پیکٹ کھول ڈالا... اس میں کچھ کاغذات تھے... کاغذات کے سوا کچھ نہیں تھا... وہ کاغذات کو پڑھنے لگا... جوں جوں وہ پڑھتا گیا اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیلتی چلی گئیں... یہاں تک کہ اس نے تمام کاغذات پڑھ لیے.... اب اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں حالانکہ یہ گلابی جاڑے کے دن تھے...
"اف خدایا! رحم ہی ہو گیا تیرا اس ملک پر.... اس قوم پر..." وہ بڑبڑائے...
"انکل! آخر ان کاغذات پر کیا لکھا ہے؟" محمود نے بےچینی سے پوچھا...
"یہ تمہارے جاننے کی باتیں نہیں ہیں اور نہ میں تمہیں بتا ہی سکتا ہوں' کیونکہ قانوناً مجھے اس کی اجازت نہیں... صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ کاغذات ان کے ہاتھ لگ جاتے تو ملک کو بہت نقصان پہنچتا... ملک کے بعض ایسے قیمتی راز دشمن کے ہاتھ لگ جاتے کہ ہم کہیں کے نہ رہ جاتے... تم تینوں نے اتنا بڑا کارنامہ انجان دیا ہے جو میں بیان نہیں کر سکتا..." یہ کہہ کر انسپکٹر اکرام نے اپنے ایک ماتحت کر حکم دیا...
"اس کا نقاب اتار دو..." یہ سن کر ماتحت آگے بڑھا اور نواب پوش کا نقاب کھینچ لیا... دوسرے ہی لمحے محمود, فاروق, فرزانہ اور بیگم جمشید کے منہ سے چیخیں نکل گئیں... ان کے سامنے شیرازی صاحب کھڑے تھے... ان کے پڑوسی, جن کے گھر وہ اکثر فون کرنے کے لیے جاتے تھے اور جن کی بیگم ان سے بہت پیار اور محبت سے پیش آتی تھیں... وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ نقاب کے پیچھے ان کے شوہر کا چہرہ بھی ہو سکتا ہے... ابھی وہ پتھر کے بتوں کی طرح کھڑے تھے کہ دروازے کی گھنٹی بجی... وہ اُچھل پڑے...
.............................................
بیگم شیرازی
اُچھلے وہ اس لیے تھے کہ گھنٹی بجانے کا انداز انسپکٹر جمشید کا تھا... وہ دروازے کی طرف دوڑے اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا... انہوں نے دیکھا ان کے والد دروازے میں کھڑے مسکرا رہے تھے... ان کے چہرے پر ایک تھکی تھکی مسکراہٹ تھی, وہ کافی تھکے ماندے سے لگ رہے تھے... اتنے میں بیگم جمشید بھی آ گئیں...
"کہو بھئی........ تم سب ٹھیک ٹھاک تو ہو؟"
"اُف.... ابا جان... آپ کہاں تھے؟ ہم آپ کے لیے کس قدر پریشان تھے..." محمود نے کہا...
"میں سمگلروں کے پیچھے بہت دور نکل گیا تھا..." وہ
بولے...
"لیکن ابا جان! نیو لائٹ ہوٹل کے کمرے میں جو لاش پولیس کو ملی, وہ کس کی تھی؟" فاروق نے پوچھا...
"ایک سمگلر کی.... وہ مجھے قتل کرنے آیا تھا لیکن پھر خود میرے ہاتھ سے مارا گیا... اس کے قبضے سے مجھے کچھ کام کی چیزیں مل گئیں اور میں ان چیزوں کی وجہ سے سمگلروں کا کامیاب تعاقب کر سکا...... خدا کے فضل سے میں ایک بہت بڑے گروہ کو گرفتار کرانے میں کامیاب ہو گیا ہوں اور اس کے فوراً بعد گھر کے لیے روانہ ہو گیا تھا, ساری رات کے سفر کے بعد ایک دم صبح سویرے تمہارے پاس پہنچ گیا...... ارے مگر تم دروازے پر ہی کیوں کھڑے ہو
گئے......... اندر کیوں نہیں چلتے؟"
"بات دراصل یہ ہے ابا جان کہ ہم نے بھی ادھر ایک عدد کارنامہ انجام دیا ہے..."
"کیا مطلب؟" وہ چونکے...
"اندر چلیے....... ابھی بتاتے ہیں..." فرزانہ نے پرجوش لہجے میں کہا...
ابھی انہوں نے اندر جانے کے لیے قدم اٹھائے ہی تھے کہ اپنے بائیں طرف انہوں نے بیگم شیرازی کی آواز سنی...
"ارے........ یہ تو بھائی صاحب ہیں..... خدا کا شکر ہے, آپ آ گئے بھابھی اور بچے کتنے پریشان تھے اور پھر رات بھر تو یہ اور بھی مصیبت میں مبتلا رہے ہیں... کیوں محمود......... کیا مجرم گرفتار ہو چکا ہے؟"
"جی ہاں....." محمود کے منہ سے نکلا اور پھر اس کا دل بیٹھنے لگا........ اب وہ انہیں کس طرح بتا دیتا کہ مجرم خود ان کا شوہر ہے....
"چلو....... میں بھی اندر چل کر اسے دیکھوں جس نے رات بھر تم لوگوں کا ناک کی دم کیے رکھا..."
"اوہو, یہ میں کہا سن رہا ہوں..." انسپکٹر جمشید بولے....
"آنٹی آپ آرام کریں......... مجرم کو دیکھ کر کیا کریں گی..." فرزانہ نے یہ سوچ کر کہا کہ ان کے اندر جانے کی صورت میں وہ ان سے کس طرح نظریں ملائیں گے....... انہوں نے تو ان سے ان کا شوہر چھین لیا تھا اور وہ بھی ان کی مدد
سے......
"کیوں بھئی........ تم لوگ مجھے اندر کیوں نہیں لے جانا چاہتے.... میں مجرم کو دیکھ کر ڈر تو نہیں جاؤں گی..."
"یہ بات نہیں آنٹی..."
"آیئے بھابھی........ آیئے..." انسپکٹر جمشید بولے...
اب انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ کس لیے بیگم شیرازی کو اندر لے جانے سے ہچکچا رہے ہیں...
آخر وہ سب اندر داخل ہوئے... محمود, فاروق اور فرزانہ بھی اب اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تھے... اندر پہنچتے ہی بیگم شیرازی کی نظر اپنے شوہر پر پڑی... ان کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا...
"سرتاج..... آپ یہاں..... یہاں آپ کا کیا کام؟"
شیرازی کے منہ سے ایک لفظ نہ نکل سکا, اب تو بیگم شیرازی اور بھی حیران ہوئیں... ادھر انسپکٹر جمشید بھی کچھ کم حیران نہیں تھے... انہوں نے اکرام سے پوچھا...
"یہ سب کیا ہے اکرام؟"
اب اکرام کو شروع سے آخر تک ساری کہانی سنانا پڑی........ کہانی کے آخر میں جب اس نے یہ بتایا کہ نقاب الٹنے کے بعد نقاب پوش شیرازی صاحب ثابت ہوئے تو بیگم شیرازی نے ایک دلدوز چیخ ماری اور ان کے منہ سے نکلا...
"نہیں....."
پھر ان کی سسکیاں گونج اٹھیں..... سب چپ چاپ انہیں دیکھتے رہے, شیرازی بھی کچھ نہ بولے... آخر بیگم شیرازی نے کہا...
"اگر یہ سمگلر ہیں تو انہوں نے ملک اور قوم کو نقصان پہنچایا ہے........ اور ملک اور قوم کو نقصان پہنچانے والا میرا شوہر نہیں ہو سکتا..... لے جایئے انہیں اور قانون کے مطابق عمل کیجیے..." یہ کہتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے... اور ان کا گلا رندھ گیا...
شیرازی کو ہتھکڑیاں لگا دی گئیں...... اکرام اسے لے کر جانے ہی لگا تھا کہ محمود کو کچھ خیال آیا, اس نے کہا...
"ذرا ٹھہریے انکل! میں ان سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں..."
"کن سے؟" اکرام نے پوچھا...
"شیرازی صاحب سے..."
"ضرور پوچھو..." اکرام نے کہا... محمود شیرازی کی طرف مڑا...
"آپ کو معلوم تھا کہ اس گھر میں ہمارے ساتھ فرزانہ بھی رہتی ہے پھر آپ نے اس کے متعلق کیوں نہیں پوچھا؟"
"میں خود کیسے پوچھ سکتا تھا, البتہ ہم اسی کو تلاش کرتے پھر رہے تھے اور اسی لیے بار بار آ رہے تھے, پائیں باغ میں بھی ہم نے اسے تلاش کیا تھا... درختوں کی شاخوں پر بھی لائٹیں ماری تھیں, لیکن یہ ہمیں کہیں نظر نہ آئی... فرزانہ کی وجہ سے ہی تو ہم یہاں سے گئے نہیں تھے... ورنہ پہلی تلاش کے بعد ہی یہاں سے چلے جاتے..." انہوں نے
بتایا...
"ہوں....... ٹھیک ہے...... اب آپ انہیں لے جا سکتے ہیں
انکل..."
اکرام کے ماتحت جب شیرازی کو لے گئے تو وہ ان کے ساتھ شاہد کے گھر پہنچا, وہاں انہیں شاہد کی لاش ہی ملی... اکرام نے فون کے ذریعے پولیس کو اطلاع دی اور واپس چل پڑے...
دوسرے دن کے اخبارات نے محمود, فاروق,فرزانہ اور بیگم جمشید کی تصاویر شائع کیں اور ان کے رات بھر کے کارنامے کی پوری تفصیل بڑی بڑی سرخیوں سے شائع کی....
.........................................