صفحات

تلاش کریں

آب حیات از عمیرہ احمد (قسط نمبر 1 تا 10)

قسط نمبر 1۔
اس نے دور سے سالار کو اپنی طرف آتے دیکھا ۔ اس کے ہاتھ میں سوفٹ ڈرنک کا ایک گلاس تھا ۔۔
تم یہاں کیوں آکر بیٹھ گئی ؟ امامہ کے قریب آتے ہوئے اس نے دور سے کہا ۔
ایسے ہی ۔۔۔۔ شال لینے آئی تھی ۔۔۔۔ پھر یہی بیٹھ گئی ۔۔ وہ مسکرائی ۔ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے سالار نے سوفٹ ڈرنک کا گلاس اپنی ٹانگوں کے کے درمیاں نچلی سیڑھی پر رکھ دیا ۔ امامہ لکڑی کے ستوں سے ٹیک لگائے ایک گھٹنے پر کھانے کی پلیٹ ٹکائے کھاتے ہوئے دور لان میں ایک کینوپی کے نیچے اسٹیج پر بیٹھے گلوکار کو دیکھ رہی تھی ، جو نئی غزل شروع کرنے سے پہلے سازندوں کو ہدایت دے رہا تھا ۔ سالار نے کانٹا اٹھا کر اس کی پلیٹ سے کباب کا ایک ٹکڑا اپنے منہ میں ڈالا ۔ وہ بھی اب گلوکار کی طرف متوجہ تھا جو اپنی نئی غزل شروع کر چکا تھا ۔
ہاں ۔ اس نے مسکرا کر کہا وہ غزل سن رہی تھی ۔
کسی کی آنکھ پرنم ہے ، محبت ہوگئی ہوگی
زبان پر قصۂ غم ہے ، محبت ہوگئی ہوگی
وہ بھی غزل سننے لگا تھا ۔
کبھی ہنسنا کبھی رونا، کبھی ہنس ہنس کر رودینا
عجب دل کا یہ عالم ہے ، محبت ہوگئی ہوگی
اچھا گا رہا ہے ۔۔ امامہ نے ستائشی انداز میں کہا ۔ سالار نے کچھ کہنے کی بجائے سر ہلا دیا ۔
خوشی کا حد سے بڑھ جانا بھی اب اک بے قراری ہے
نہ غم ہونا بھی اک غم ہے محبت ہوگئی ہوگی
سالار سوفٹ ڈرنک پیتے پیتے ہنس پڑا ۔ امامہ نے اس کا چہرا دیکھا ۔ وہ جیسے کہیں اور پہنچا ہوا تھا ۔
تمھیں کچھ دینا چاہ رہا تھا میں ۔۔۔۔۔ وہ جیکٹ کی جیب میں کچھ ڈھونڈکر نکالنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔
میں بہت دنوں سے تمھیں کچھ دینا چاہ رہا تھا لیکن ۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے رک گیا ۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک ڈبیا تھی ۔۔۔
امامہ کے چہرے پر بے حد مسکراہٹ آئی ۔۔۔ اچھا تو اسے خیال آگیا ۔۔۔۔۔ اس نے ڈبیا لیتے ہوئے سوچا اور اسے کھولا ۔۔ وہ ساکت رہ گئی ۔۔۔ اندر ایر رنگز تھے ۔۔۔۔۔ ان ایر رنگز سے ملتے جلتے جو وہ اکثر اپنے کانوں میں پہنے رہتی تھی اس نے نظریں اٹھا کر سالار کو دیکھا ۔۔
میں جانتا ہوں یہ اتنے ویلیو ایبل نہیں ہوں گے جتنے تمھارے ابو کے ہیں لیکن مجھے اچھا لگے گا اگر تم کبھی کبھی انہیں بھی پہنو ان ایر رنگز کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔
تم نہیں پہنا چاہتی تو بھی ٹھیک ہے میں ریپلیس کرنے کے لئے نہیں دے رہا ہوں ۔۔ سالار نے اس کی آنکھوں میں ہوتی نمی دیکھ کر بے ساختہ کہا ۔۔ وہ نہیں جانتا تھا ۔۔۔ بہت ساری چیزیں پہلے ہی اپنی جگہ بدل چکی ہیں ۔ اور وہ اپنی جگہ بنا چکی ہیں ۔۔۔ اس کی خواہش اور ارادے کے نہ ہونے کے باوجود ۔۔۔
کچھ کہنے کے بجائے امامہ نے اپنے دائیں کان میں لٹکا ہوا جھمکا اتارا ۔۔۔
میں پہنا سکتا ہوں ؟؟ سالار نے ایک ایر رنگ نکالتے ہوئے پوچھا ۔۔ امامہ نے سر ہلا دیا ۔۔ سالار نے باری باری اس کے دونوں کانوں میں وہ ایر رنگ پہنا دیئے ۔۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرائی ۔۔ وہ بہت دیر تک کچھ کہے بغیر محبت سے اسے دیکھتا رہا ۔
اچھی لگ رہی ہو ۔۔ وہ اس کے کانوں میں لٹکے ہوئے ہلکورے کھاتے موتی کو چھوتے ہوئے مدھم آواز میں بولا ۔
تمھیں کوئی مجھ سے زیادہ محبت نہیں کر سکتا ۔ مجھ سے زیادہ خیال نہیں رکھ سکتا ۔۔ میرے پاس ایک واحد قیمتی چیز تم ہو ۔۔
اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔۔ وعدہ کر رہا تھا ۔۔۔ یاد دہانی کرا رہا تھا ۔۔۔ یاں کچھ جتا رہا تھا ۔۔۔ وہ جھک کر اب اس کی گردن چوم رہا تھا ،،،
مجھے نوازا گیا ہے ۔۔۔ سیدھا ہوتے ہوئے اس سرشاری سے کہا ۔۔۔
رومانس ہورہا ہے ؟؟؟ اپنے عقب میں آنے والی کامران کی آواز پر دونوں ٹھٹکے تھے ۔۔۔ وہ شائد شارٹ کٹ کی وجہ سے برآمدے کے اس دروازے سے نکلا تھا ۔۔۔
کوشش کررہیں ہیں ۔۔ سالار نے پلٹے بغیر کہا ۔۔
گڈ لک ۔۔ وہ کہتے ہوئے ان کے پاس سیڑھیاں اترتا ہوا انہیں دیکھے بغیر چلا گیا ۔۔ امامہ کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی ،، وہ جیھنپ گئی تھی سالار اور اس کی فیملی کم از کم ان معاملات میں بے حد آزاد خیال تھے ۔۔۔
کسی کو سامنے پاکر ، کسی کے سرخ ہونٹوں پر
انوکھا سا تبسم ہے ، محبت ہو گئی ہوگی
امامہ کو لگا وہ زیر لب گلوکار کے ساتھ گا رہا ہے ۔۔۔
جہاں ویران راہیں تھیں ، جہاں حیران آنکھیں تھیں
وہاں پھولوں کا موسم ہے ، محبت ہوگئی ہوگی
لکڑی کی ان سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے قریب بیٹھے وہ خاموشی کو توڑتی آس پاس کے پہاڑوں میں گونج کی طرح پھیلتی گلوکار کی سریلی آواز سن رہے تھے ۔۔ زندگی کے وہ لمحے یادوں کا حصہ بن رہے تھے
دوبارہ نہ آنے کے لئے گزررہے تھے ان کے اپارٹمنٹ کی دیوار پر لگنے والی ان دونوں کی پہلی اکھٹی تصویر اس فارم ہاؤس کی سیڑھیوں ہی کی تھی ۔۔سرخ لباس میں گولڈن کڑھائی والی سیاہ پشمینہ شال اپنے بازوں کے گرد اوڑھے کھلے سیاہ بالوں کو کانوں کے پیچھے سمیٹے خوشی اس کی مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک نہیں بلکہ اس قرب میں
جھلک رہی تھی جو اس کے اور سالار کے درمیان نظر آرہا تھا ۔ سفید شرٹ اور سیاہ جیکٹ میں اسے اپنے ساتھ لگائے سالار کی آنکھوں کی چمک جیسے اس فوٹو گراف میں موجود دوسری ہر شے کو مات کر رہی تھی ۔۔۔ کوئی بھی کیمرے کے لئے بنائے ہوئے اس ایک پوز میں نظر آنے والے جوڑے کو دیکھ کر چند لمحوں کے لئے ضرور ٹھٹکتا ۔۔
سکندر نے اس فوٹو گراف کو فریم کروا کر انہیں ہی نہیں بھیجا تھا انہوں نے اپنے گھر کی فیملی وال فوٹوز میں بھی اس تصویر کا اضافہ کیا تھا ۔۔۔

قسط نمبر 2

وہ شخص دیوار پر لگی تصویر کے سامنے اب پیچھے پندرہ منٹ کھڑا تھا پلکیں جھپکائے بغیر ٹکٹکی لگائے اس لڑکی کا چہرہ دیکھتے ہوئے ۔۔۔ چہرے میں کوئی شباہت تلاش کرتے ہوئے ۔۔۔ اس شخص کے شجرہ میں دبے آتش فشاں کی شروعات ڈھونڈتے ہوئے ۔۔۔ اگر وہ اس شخص کو نشانہ بنا سکتا تھا تو اسی ایک جگہ سے بنا سکتا تھا ۔۔۔وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے ساتھ ساتھ کچھ بڑبڑا رہا تھا ۔۔۔ خود کلامی ۔۔۔ ایک اسکینڈل کا تانا بانا تیار کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک مکرو فریب کا جال ۔۔۔ وجوہات ۔۔۔۔ حقائق کو مخفی کرنے ۔۔۔۔ وہ ایک گہرا سانس لے کر اپنے عقب میں بیٹھے لوگوں کو کچھ ہدایت دینے کے لئے مڑا تھا ۔۔

سی آئی اے ہیڈ کواٹر کے اس کمرے کی دیواروں پر لگے بورڈ چھوٹے بڑے نوٹس چارٹس فوٹو گرافس اور ایڈریسز کی چٹیوں سے بھرے ہوئے تھے ۔۔۔

کمرے میں موجود چار آدمیوں میں سے تین اس وقت کمپیوٹر پر مختلف ڈیٹا کھنگالنے میں لگے ہوئے تھے ۔۔۔

یہ وہ کام پچھلے ڈیڑھ ماہ تک کر رہے تھے ۔ اس کمرے میں جگہ جگہ بڑے بڑے ڈبے پڑے تھے جو مختلف فائلز ٹیپس میگزینز اور نیوز پیپر کے تراشوں اور دوسرے رکارڈ سے بھرے ہوئے تھے کمرے میں موجود ریکارڈ کیبنٹس پہلے ہی بھری ہوئی تھیں،، کمرے میں موجود تمام ڈیٹا ان کمپیوٹر کی ہارڈکس میں بھی محفوظ تھا ۔۔

کمرے میں موجود آدمی پچھلے ڈیڑھ ماہ سے اس شخص کے بارے میں آن لائن آنے والے تمام ریکارڈ اور معلومات اکٹھی کر رہا تھا ۔۔ کمرے میں موجود تیسرا آدمی اس شخص اور اس کی فیملی کے ہر فرد کی ای میلز کا رکارڈ کھنگالتا رہا تھا ۔۔ چوتھا شخص اس فیملی اور مالی معلومات چیک کرتا رہا تھا ۔۔ اس ساری جدوجہد کا نتیجہ ان تصویروں اور شجرہ نسب کی صورت میں ان بورڈ پر موجود تھا ۔۔

وہ چار لوگ دعوا کر سکتے تھے کہ اس شخص اور اس کی فیملی کی پوری زندگی کا رکارڈ اگر خدا کے پاس موجود تھا تو اس کی ایک کاپی اس کمرے میں تھی ۔۔ اس شخص کی زندگی کے بارے میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں تھی جو ان کے علم میں نہیں تھی یاں جس کے بارے میں وہ ثبوت نہ دے سکتے تھے ۔۔۔

سی آئی اے کے شدید آپریشنز سے لے کر گرل فرینڈ تک اور اس کی مالی معاملات سے لے کر اسکی اولاد کی پرسنل اور پرائیوٹ لائف تک اس کے پاس ہر چیز کی تفصیلات تھیں ۔۔۔

لیکن سارا مسئلہ یہ تھا کہ ڈیڑھ ماہ کی اس محنت اور پوری دنیا سے اکھٹے کئے ہوئے اس ڈیٹا میں سے وہ ایسی کوئی چیز نہیں نکال سکے تھے جس سے اس کی کردار کشی کرسکتے ۔۔

وہ ٹیم جوپیندرہ سال سے اسی مقاصد پر کام کرتی رہی تھی یہ پہلی بار تھا کہ وہ اتنی سر جوڑ محنت کے باوجود اس شخص اور اس کے گھرانے کے کسی شخص کے حوالے سے کسی قسم کا بری حرکت عمل نشان دہی نہیں کر پائی تھی ۔۔۔ دو سو پوانٹس کی وہ لسٹ جو انہیں دی گئی تھی وہ دو سو کراسز سے بھری ہوئی تھی اور یہ ان سب کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا ۔۔ انہوں نے ایسا صاف ریکارڈکسی کا نہیں دیکھا تھا ۔۔۔

کسی حد تک ستائش کے جذبات رکھنے کے باوجود ایک آخری کوشش کررہے تھے ۔۔ ایک آخری کوشش۔۔

کمرے کے ایک بورڈ سے دوسرے بورڈ اور دوسرے بورڈ سے تیسرے بورڈ تک جاتے جاتے وہ آدمی اس کے شجرہ نسب کی اس تصویر پر رکا ہوا تھا ۔ اس تصویر کے آگے کچھ اور تصویریں تھیں اور ان کے ساتھ کچھ بلٹ پوانٹس ۔۔۔ ایک دم بجلی سا جھٹکا لگا ۔۔ اس نے اس لڑکی کی تصویر کے نیچے تاریخ پیدائش دیکھی ۔۔ پھر مڑ کر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کو وہ سال بتاتے ہوئے کہا ۔۔

دیکھو یہ سال یہ کہاں تھا ؟

کمپیوٹر پر بیٹھے آدمی نے چند منٹوں کے بعد اسکرین دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

پاکستان میں ۔۔۔ اس شخص کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آگئی تھی ۔۔۔

کب سے کب تک ؟۔۔۔ اس آدمی نے اگلا سوال کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے آدمی نے تاریخیں بتائیں ۔۔

آخر کار ہمیں کچھ مل ہی گیا ۔۔ اس آدمی نے بے اختیار ایک سیٹی بجاتے ہوتے کہا تھا ۔۔ انہیں جہاز ڈبونے کے لئے تار پیڈو مل گیا تھا ۔۔۔۔

یہ پندرہ منٹ پہلے کی روداد تھی ۔۔ پندرہ منٹ بعد اب وہ جانتا تھا کہ اسے اس آتش فشاں کا منہ کھولنے کے لئے کیا کرنا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ یہاں کسی جذباتی ملاقات کے لئے نہیں آئی تھی ۔۔ سوال و جواب کے لمبے چوڑے سیشن کے لئے بھی نہیں ۔۔۔ لعنت و ملامت کے کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی نہیں ۔۔۔ وہ یہاں کسی کا ضمیر جنجھوڑنے آئی تھی ۔۔۔ نہ ہی کسی سے نفرت کا اظہار کرنے کے لئے ۔۔۔ اور نہ ہی کسی کو بتانے آئی تھی کہ وہ اذیت کے ماؤنٹ ایورسٹ پر کھڑی تھی ۔۔۔ نہ ہی وہ اپنے باپ کو گریبان سے پکڑنا چاہتی تھی ۔۔ نہ اسے یہ بتانا چاہتی تھی کہ اس نے اس کی زندگی تباہ کر دی ہے ۔۔۔

اس کے صحت مند ذہن اور جسم کو ہمیشہ کے لئے مفلوج کر دیا تھا ۔۔

وہ یہ سب کچھ کہتی ۔۔۔ یہ سب کرتی اگر اسے یقین ہوتا کہ یہ سب کرنے کے بعد اسے سکون مل جائے گا ۔۔۔

اس کا باپ احساس جرم یا پچھتاوے جیسی چیز کو پالنے لگا تھا ،،،،

پچھلے کئی ہفتوں سے وہ آبلہ پا تھی ۔۔۔ وہ راتوں کو سکون آور گولیاں لئے بغیر سو نہیں پارہی تھی اور اس سے بڑھ کر تکلیف دہ چیز یہ تھی وہ سکون آور ادویات لینا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ وہ سونا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔ وہ سوچنا چاہتی تھی اس بھیانک خواب کے بارے میں جس میں وہ چند ہفتے پہلے داخل ہوئی تھی اور جس سے اب وہ ساری زندگی نکل نہیں سکتی تھی ۔۔

وہ یہاں آنے سے پہلے پچھلی پوری رات روتی رہی تھی ۔۔۔ یہ بے بسی کی وجہ سے نہیں تھا ۔۔ یہ اذیت کی وجہ سے بھی نہیں تھا ۔۔۔ یہ اس غصے کی وجہ سے تھا جو وہ اپنے باپ کے لئے اپنے دل میں اتنے دنوں سے محسوس کر رہی تھی ایک آتش فشاں تھا یا جیسے کوئی الاؤجو اس کو اندر سے سلگا رہا تھا اندر سے جلا رہا تھا ۔۔۔

کسی سے پوچھے ، کسی کو بتائے بغیر یوں اٹھ کر آجانے کا فیصلہ جذباتی تھا احمقانہ تھا اور غلط تھا ۔۔۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اک جذباتی احمقانہ اور غلط فیصلہ بے حد سوچ سمجھ کر کیا تھا ۔۔ ایک اختتام چاہتی تھی وہ اپنی زندگی کے اس باب کے لئے جس کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتی تھی اور جس کی موجودگی کا انکشاف اس کے لئے دل دہلادینے والا تھا ۔۔۔

اس کا ایک ماضی تھا وہ جانتی تھی لیکن اسے کبھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ماضی کا ماضی بھی ہو سکتا ہے۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر تھا جب وہ خوش تھی اپنی زندگی میں ۔۔۔۔۔ جب وہ خود کو باسعادت سمجھتی تھی ۔۔ اور مقرب سے ملعون ہونے کا فاصلہ اس نے چند سیکنڈز میں طے کر لیا تھا چند سیکنڈز شاید زیادہ وقت تھا شاید اس سے بھی کم وقت تھا جس میں وہ احساس کمتری احساس محرومی احساس ندامت اور ذلت و بدنامی کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوئی تھی ۔۔۔

اور یہاں وہ اس کو دوبارہ وہی شکل دینے آئی تھی اس بوجھ کواس شخص کے سامنے اتار پھینکنے آئی تھی جس نے وہ بوجھ اس پر لادا تھا ۔۔ زندگی کسی کو اس وقت یہ پتا نہیں تھا کہ وہ وہاں تھی ۔۔۔۔ کسی کو پتا ہوتا تو وہاں آہی نہیں سکتی تھی ۔۔۔ اس کا سیل فون پچھلے کئی گھنٹوں سے آف تھا ۔۔ وہ چند گھنٹوں کے لئے خود کو اس دنیا سے دور لے آئی تھی جس کا وہ حصہ تھی ۔۔۔ اس دنیا کا حصہ یا پھر اس دنیا کا حصہ جس میں وہ اس وقت موجود تھی ۔۔۔ یا پھر اس کی کوئی بنیاد نہیں تھی ۔۔۔

وہ کہیں کی نہیں تھی ۔۔۔ اور جہاں کی تھی ۔ جس سے تعلق رکھتی تھی اس کو اپنا نہیں سکتی تھی ۔۔

انتظار لمبا ہوگیا تھا ۔۔۔ انتظار ہمیشہ لمبا ہوتا ہے ۔۔۔ کسی بھی چیز کا انتظار ہمیشہ لمبا ہوتا ہے ۔۔ چاہے آنے والی شے پاؤں کی زنجیر بننے والی ہو یاں پھر گلے کا ہار ۔۔۔ سر کا تاج بن کر سجنا ہو اس نے پاؤں کی جوتی ۔۔۔ انتظار ہمیشہ لمبا ہی لگتا ہے ۔۔

وہ ایک سوال کا جواب چاہتی تھی اپنے باپ سے ۔۔۔ صرف ایک چھوٹے سے سوال کا ۔۔۔ اس نے اس کی فیملی کو کیوں مار ڈالا ؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گرینڈ حیات ہوٹل کا پال روم اس وقت اسکرپ نیشنل اسپیلنگ بی کے ۹۲ ویں مابلے کے فائنل میں پہنچنے والے فریقین سمیت دیگر شرکا ان کے والدین بہن بھائیوں اور اس مقابلے کو دیکھنے کے لئے موجود لوگوں سے کچھا کچھ بھرا ہونے کے باوجود ایسا خاموش تھا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنی جاسکے ۔۔

وہ دو افراد جو فائنل میں پہنچے تھے ان کے درمیان چودھواں راؤنڈ کھیلا جارہا تھا ۔۔ تیرہ سالہ نینسی اپنے لفظ کے ہجے کرنے کے لئے اپنی جگہ پر آچکی تھی ۔۔ پچھلے بیانوے سالوں سے اس ہال روم میں دنیا کے بیسٹ اسپیلر کی تاج پوشی ہو رہی تھی ۔۔ امریکا کی مختلف ریاستوں کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں اسپیلنگ بی کے مقامی مقابلے جیت کر آنے والے پندرہ سال سے کم عمر کے بچے اس آخری راؤنڈ کو جیتنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے ۔۔ا یسی ہی ایک بازی کے شرکا آج بھی اسٹیج پر موجود تھے ۔۔۔۔

سسافراس نینسی نے رکی ہوئی سانس کے ساتھ پروناؤنسر کا لفظ سنا ۔۔ اس نے پروناؤسر کو لفظ دہرانے کے لئے کہا ۔۔ پھر اسنے لفظ کو دہرایا ۔۔ وہ چیمپیئن شپ ورڈ میں سے ایک تھا لیکن فوری طور پر اسے وہ یاد نہیں آسکا ۔۔ بہر حال اس کی ساؤنڈ سے وہ اسے بہت مشکل لگا تھا اور اگر سننے میں اتنا مشکل نہیں تھا تو اس مطلب تھا وہ ترکی لفظ ہو سکتا تھا۔

نو سالہ دوسرا فائنلسٹ اپنی کرسی پر بیٹھے گلے میں لٹکے اپنے نمبر کارڈ کے پیچھے انگلی سے اس لفظ کی ہجے کرنے میں لگا ہوا تھا ۔۔ وہ اس کا لفظ نہیں تھا لیکن وہاں بیٹھا ہر بچہ ہی لاشعوری طور پر اس وقت یہی کرنے میں مصروف تھا ۔ جو مقابلے سے آؤٹ ہو چکا تھا ۔۔

نینسی کا ریگولر ٹائم ختم ہو چکا تھا ۔۔

ایس ۔ اے ۔ ایس ۔ ایس ۔۔ اس نے رک رک کر الفاظ کی ہجے کرنا شروع کی وہ پہلے چار حروف بتانے کے بعد ایک لمحہ کے لئے رکی ۔ زیر لب اس نے باقی کے پانچ حروف دہرائے پھر دوبارہ بولنا شروع کیا ۔۔

اے ۔ ایف ۔ آر ۔ وہ ایک بار پھر رکی ۔ دوسرے فائنلسٹ نے بیٹھے بیٹھے زیر لب آخری دو حروف دہرائے ۔۔

یو ۔ ایس ۔۔ مائیک کے سامنے کھڑی نینسی نے بھی بلکل اس وقت یہی دو حروف بولے اور پھر بے یقینی سے اس گھنٹی کو بجتے سنا جو اسپیلنگ کے غلط ہونے پر بجتی تھی ۔۔ شاک صرف اس کے چہرے پر نہیں تھا ۔۔۔ دوسرے فائنلسٹ کے چہرے پر بھی تھا ۔۔ پروناؤنسر اب سسافراس کے درست اسپیلنگ دہرا رہا تھا ۔۔۔ نینسی نے بے اختیار آنکھیں بند کیں ۔۔

آخری لیٹر سے پہلے اے ہونا چاہیئے تھا ۔۔۔ میں نے یو کیا سوچ کر لگا دیا ؟

اس نے خود کو کوسا ۔۔۔ تقریباَ فق رنگت کے ساتھ نینسی گراہم نے مقابلے کے شرکا کے لئے رکھی ہوئی کرسیوں کی طرف چلنا شروع کردیا ۔۔

ہال تالیوں سے گونج رہا تھا ۔۔ یہ ممکنہ رنر اپ کو کھڑے ہو کر دی جانے والی داد و تحسین تھی ۔۔۔ نو سالہ دوسرا فائنل میں پہنچنے والا بھی اس کے لئے کھڑا تالیاں بجا رہا تھا ۔۔۔ نینسی کے قریب پہنچنے پر پر اس نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا ۔۔۔

نینسی نے ایک مدہم سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے جواب دیا اور اپنی سیٹ سنبھال لی ۔۔ ہال میں موجود لوگ دوبارہ اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے اور دوسرا فائنلسٹ مائیک کے سامنے آچکا تھا ۔۔ نینسی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔

اسے ایک موہوم سی امید تھی کہ اگر وہ بھی اپنے لفظ ہجے غلط کرتا ہے تو وہ دوبارہ فائنل میں آسکتی ہے ۔۔۔

دیٹ واز آ کیچ 22 اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس نے کہا ۔۔ وہ اندارہ نہیں لگا سکی وہ اس کے لئے کیا کہہ رہا تھا یا وہ اس لفظ کو واقعی اپنے لئے کیچ 22 ہی سمجھ رہا تھا ۔۔۔ وہ چاہتی تھی ایسا ہوتا ۔۔ ہر کوئی چاہتا ۔۔۔ سینئر اسٹیج پر ان نو سالہ فائنلسٹ تھا ۔۔ اپنی اسی شرارتی مسکراہٹ اور گہری چمکتی آنکھوں کے ساتھ اس نے اسٹیج سے نیچے بیٹھے چیف پروناؤسر کو دیکھتے ہوئے سر ہلایا جو ناتھن جواباَ مسکرایا تھا اور صرف جوناتھن ہی نہیں وہاں کے سب کے لبوں پر ایسی مسکراہٹ تھی ۔ وہ نوسالہ فائنلسٹ اس چیمپئن شپ کو دیکھنے والے حاضرین کا سویٹ ہارٹ تھا ۔۔

اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ۔۔ چمکتی ہوئی تقریبا گول آنکھیں جو کسی کارٹون کریکٹر کی طرح پر جوش اور جان دار تھیں اور تقریبا گلابی ہونٹ جن پر وقتاَ فوقتاَ زبان پھیر رہا تھا اور جن پر آنے والا ذرا سا خم بہت سے لوگوں کو بلا وجہ مسکرانے پر مجبور کررہا تھا ۔۔۔ مو معصوم فتنہ تھا یہ صرف اس کے والدین جانتے تھے جو دوسرے بچوں کے والدین کے ساتھ اسٹیج پر بائیں کی جانب بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ وہاں بیٹھے دوسرے فائنلسٹس کے والدین کے برعکس وہ بے حد سکون تھے ۔۔ اس کے چہرے پر تھی تو وہ ان سات سالہ بیٹی کے چہرے پر تھی جو دو دن پر مشتمل اس پورے مقابلے کے دوران ہلکا رہی تھی اور وہ اب بھی آنکھوں پر گلاسز ٹکائے پورے انہماک کے ساتھ اپنے نو سالہ بھائی کو دیکھ رہی تھی جو پروناؤنسر کے لفظ کے لئے تیار تھا ۔۔Cappelleti

جو ناتھن لفظ ادا کیا ۔۔ اس فائنلسٹ کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آئی تھی جسے وہ بمشکل اپنی ہنسی کو کنٹرول کررہا ہو ۔۔ اس کی آنکھیں پہلے کلاک وائز اور پھر اینٹی کلاک وائز گھوم رہی تھیں ۔۔ ہال میں کچھ کھلکھلاہٹیں ابھری تھیں ۔۔ اس نے چیمپیئن شپ میں اپنا ہر لفظ سننے کے بعد ایسے ہی ریئکٹ کیا تھا کمال کی خود اعتمادی تھی اس میں کئی دیکھنے والوں نے اسے داد دی اس کے حصے میں آوالے الفاظ دوسروں کی نسبت زیادہ مشکل ہوتے تھے یہ اس کے لئے مشکل وقت ہوتا تھا لیکن بے حد روانی اور بغیر اٹکے بغیر گھبرائے اسی پر اعتماد مسکراہٹ کے ساتھ وہ ہر پہاڑ سر کرتا رہا تھا اور اب اس کی آخری چوٹی سامنے آگئی تھی ۔۔

ڈیفینیشن پلیز اس نے اپنا ریگولر ٹائم استعمال کرنا شروع کیا ۔۔۔

اس کی بہن اسے بے چینی سے دیکھ رہی تھی اس کے والدین اب بھی سکون میں تھے اس کے تاثرات بتا رہے تھے کہ یہ لفظ اس کے لئے آسان تھا وہ ایسے ہی تاثرات کے ساتھ پچھلے تمام الفاظ ہجے کرتا تھا ۔۔

پلیز اس لفظ کو کسی جملے میں استعمال کرو وہ اب پروناؤنسر سے کہہ رہا تھا پروناؤنسر کا بتایا ہوا جملہ سننے کے بعد گلے میں لٹکے ہوئے کارڈ نمبر کی پشت پر انگلی سے وہ لفظ کو لکھنے لگا ۔۔۔

اب آپ کا ٹائم ختم ہونے والا ہے اسے آخری تیس سیکنڈز کے شروع ہونے کی اطلاع دی گئی جس میں اس نے اپنے لفظ کی ہجے کرنا تھا اس کی آنکھیں گھومنا بند ہوگئی ۔۔

سی اے پی پی ای ٹی آئی وہ ہجے کرتے ہوئے ایک لخطہ کے لئے رکا پھر ایک سانس لیتے ہوئے اس نے دوبارہ ہجے کرنا شروع کیا ۔۔

ای ٹی ٹی آئی ۔۔

ہال تالیوں سے گونگ پڑا اور بہت دیر تک گونجتا رہا ۔۔

اسپیلنگ بی کا نیا چیمپئن صرف ایک لفظ کے فاصلے پر رہ گیا تھا ،،،

تالیوں کی گونج تھمنے کے بعد جوناتھن نے اسے آگاہ کیا کہ اسے اب ایک اضافی لفظ کے حروف بتانے ہیں ۔۔

اس نے سر ہلایا ۔۔۔ اس لفظ کی ہجے نہ کر سکنے کی صورت میں نینسی دوبارہ مقابلے میں آسکتی ہے ۔۔Weissnichtwo اس کے لئے لفظ پروناؤنس کیا گیا ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب تھی پھر اس کا منہ کھلا اور اس کی آنکھیں پھیل گئی اوہ مائی گاڈ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا وہ سکتہ میں تھا پوری چیمپیئن شپ میں یہ پہلی بار تھا کہ اس کی آنکھیں اور وہ خود اس طرح جامد ہوا تھا ۔۔۔

نینسی بے اختیا اپنی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی تو کوئی ایسا لفظ آگیا تھا جو اسے دوبارہ چیمپئن شپ میں لے جاسکتا تھا ۔۔

اس کے والدین کو پہلی بار اس کے تاثرات نے کچھ بے چین کیا تھا اس کا بیٹا اب اپنے نمبر کارڈ سے اپنا چہرہ حاضرین سے چھپا رہا تھا حاضرین اس کی انگلیوں اور ہاتھوں کی کپکہاہٹ بڑی آسانی سے اسکرین پر دیکھ سکتے تھے ۔۔

اور ان میں سے بہت سوں نے اس بچے کے لئے واقعی بہت ہمدردی محسوس کی وہاں بہت کم تھے جو اسے جیتتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا تھے ۔۔۔

ہال میں بیٹھا ہوا صرف ایک شخص مطمئن اور پر سکون تھا ۔۔۔ پر سکون ۔۔۔ یا پر جوش ۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔ کہنا مشکل تھا اور وہ اس بچے کی سات سالہ بہن تھی جو اپنے ماں باپ کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی اور جس نے اپنے بھائی کے تاثرات پر پہلی بار بڑے اطمینان کے ساتھ کرسی کی پشت کے ساتھ مسکراتے ہوئے ٹیک لگائی گود میں رکھے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بہت آہستہ آہستہ اس نے تالی کے انداز میں بجانا شروع کیا اس کے ماں باپ نے بیک وقت اس کے تالی بجاتے ہاتھوں اور اس کے مسکراتے چہرے کو الجھے انداز میں دیکھا پھر اسٹیج پر اپنے لرزتے کانپتے کنفیوز بیٹے کو جو نمبر کارڈ کے پیچھے اپنا چہرہ چھپائے انگلی سے کچھ لکھنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر 3۔۔۔۔

اس کے پیروں کے نیچے وہ زمین جیسے سبز مخمل کی تھی… مخمل … یا کچھ اور تھا… تاحد نظر زمین پر سبزے کی طرح پھیلا ہوا … درختوں پر اُگنے جوالی پیلی کونپلوں جیسا سبز… اور پھر ایک دم سمندر کے اندر پیدا ہونے والی کائی جیسی رنگ لیے… نمی کے ننھے ننھے قطرے اپنے وجود پر لیے سبزے کی پتیاں معطر ہوا کے جھونکوں سے ہلتی جیسے کسی رقص میں مصروف تھیں… پانی کے ننھے شفاف موتی سبز پتیوں کے وجود پر پھسل رہے تھے، سنبھل رہے تھے یوں جیسے مخمور ہو کر بہک رہے ہوں… پتیوں کے وجود سے لپٹتے، ڈگمگاتے، سنبھلتے، پھسلتے…تیز ہوا کا ایک جھونکا چلتا، سبزے میں ایک لہر اُٹھتی، سمندر میں جوار بھاٹا کی پہلی لہر کی طرح اُٹھتی، رقص کرتی، لہراتی وہ سبزے کو سہلاتی، بہلاتی ایک عجیب سی سرشاری میں مبتلا کرتی ایک طرف سے دوسری طرف گزر جاتی۔ زمین جیسے رقص کرتنے میں مصروف تھی۔

سبزے کا وجود ننھے ننھے پھولوں سے سجا ہوا تھا… ہر رنگ کے پھولوں سے… اتنے رنگ اور ایسے رنگ جو نظر کو ششدر کر دیں۔ سبزے کے وجود پر بکھرے وہ ننھے ننھے پھول یہاں سے وہاں ہر جگہ تھے۔ سبزے میں ہوا سے پیدا ہونے والی ہر لہر اور ہر موج کے ساتھ وہ بھی عجیب مستی تھا۔

سرشاری سے رقص کرنے لگتے۔

آسمان صاف تھا… آنکھوں کو سکون دینے والا ہلکا نیلا اور اب بھی کسی گنبد کی طرح پھیلا ہوا… گہرا اونچا… بہت اونچا… یہاں سے وہاں تک ہر طرف۔

ہوا معطر تھی، مخمور تھی، گنگنا رہی تھی۔ وہاں موجود ہر شے کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ ہنستی، چھیڑ کر جاتی پھر پلٹ کر آتی… کبھی تھپکتی… کبھی تھمتی… پھر چلتی… پھر گنگناتی… پھر لہراتی… وہاں تھی، نہیں تھی… کہاں تھی؟

وہ کسی راستے پر تھا… کیا راستہ تھا…! وہ کسی انتظار میںتھا۔ کیا انتظار تھا…! اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس راستے کے دونوں طرف دو رویہ درختوں کی قطار کے ایک درخت کے ساتھ وہ ٹکا کھڑا تھا۔ سہارا لیے یا سہارا دیے۔

وہ آگئی تھی… اس نے بہت دور اس راستے پر اُسے نمودار ہوتے دیکھ لیا۔

وہ سفید لباس میں ملبوس تھی۔ بہت مہین، بہت نفیس … وہ ریشم تھا…؟ اطلس تھا…؟ کم خواب یا وہ کچھ اور تھا؟ اتنا ہلکا… اتنا نازک کہ ہوا کا ہلکا سا جھونکا اس سفید گاوؑن نما لباس کو اڑانے لگا… اس کی دودھیا پنڈلیاں نظر آنے لگتیں۔ وہ ننگے پاوؑں تھی اور سبزپر دھرے اس کے خوب صورت پاوؑں جیسے سبزے کی نرمی کو برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ وہ پاوؑں رکھتی چند لمحوں کے لیے لڑکھڑاتی… جیسے مخمور ہو کر ہنستی… پھر سنبھل جاتی… پھر بڑے اشتیاق سے ایک بار پھر قدم آگے بڑھا دیتی۔

اس کے سیاہ بال ہوا کے جھونکوں سے اس کے شانوں اور اس کی کمر تک ہلکورے کھا رہے تھے۔ اس کے گالوں اور چہرے کو چومتے آگے پیچھے جا رہے تھے… اس کے چہرے پر آتے… اس کے سینے سے لپٹتے… اس کے کندھے پر، پھر ہوا میں لہرا کر ایک بار پھر نیچے چلے جاتے۔ وہ خوب صورت سیاہ چمک دار ریشمی زلفیں جیسے اس کے سفید لباس کے ساتھ مل کر اس کے وجود کے ساتھ رقص کرنے میں مصروف تھیں۔

اس کے مرمریں وجود پر وہ سفید لباس جیسے پھسل رہا تھا… سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا… ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ وہ اس کے جسم کے خدوخال کو نمایاں جکرتا، اسے پیروںسے کندھوں تک چومتا … اس کے وجود کے لمس سے مخمور ہوتا… ہوش کھوتا… دیوانہ وار اس کے وجود کے گرد گھومتا… کسی بھنور کی طرح اس کے جسم کو اپنی گرفت میں لیتا اس سے لپٹ رہا تھا۔ ہوا کا دوسرا جھونکا اس کے سیاہ ریشمی زلفوں کو بھی اس رقص میں شامل کر دیتا… وہ اس کے کندھوں اور کمر پر والہانہ انداز میں پھسلتیں… ہوا میں ہلکا سا اڑتیں پھر نرمی اور ملائمت سے اس کے چہرے اور سینے پر گرتیں… اس کے وجود سے پھوٹتی خوشبو سے یک دم سرشار ہوتیں… پھر اس کے جسم کو جیسے اپنے وجود سے چھپانے کی کوشش کرنے لگتیں۔ ہوا کا ایک اور جھونکا انہیں ہولے سے اٹھا کر پھر پیچھے پھینک دیتا۔

اس رقص میں اب پھر اس کے سفید لبا س کی باری تھی… وہ آگے بڑھ آیا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ عجیب سی حیرت میں مبتلا وہاں کی ہر شے کو سحر زدہ انداز میں دیکھ رہی تھی… بچوں جیسی حیرت اور اشتیاق کے ساتھ۔

اس راستے پر چلتے چلتے اس نے اسے دیکھ لیا… اس کے قدم تھمے، دونوں کی نظریں ملیں پھر اس کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی… پہلے مسکراہٹ پھر ہنسی… اس نے اسے پہچان لیا تھا… وہاں موجود ہ واحد وجود تھا، جسے وہ پہچانتی تھی۔

اس نے ہاتھ بڑھایا۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کے قریب آگئی۔ دونوں ایک عجیب سی سرشاری میں ایک دوسرے کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے۔

اس کی گہری سیاہ مسکراتی ہوئی آنکھیں، ہیرے کی کنپوں کی طرح چمک رہی تھیں اور یہ چمک اسے دیکھ کر بڑھ گئی تھی۔ اس کے خوب صورت گلابی ہونٹوں پر نمی کی ہلکی سی تہہ تھی، یوں جیسے وہ ابھی کچھ پی کر آئی ہو… اس کی ٹھوڑی ہمیشہ کی طرح اٹھی ہوئی تھی۔ اس کی صراحی دار گردن کو دیکھتے ہوئے اس نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لے لیا… اس کی آنکھوں کی چمک اور اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی… وہ جیسے اس لمس سے واقف تھی، پھر وہ دونوں بے اختیار ہنسے۔

”تم میرا انتظار کر رہے تھے؟”

”ہاں۔”

”بہت دیر کر دی؟”

”نہیں… بہت زیادہ نہیں۔” وہ اس کا ہاتھ تھامے اس راستے پر چلنے لگا۔

ہوا ابھی بھی ان دونوں کے وجود کے ساتھ اور وہاں موجود ہر شے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنے میں مصروف تھی۔

وہ اب بھی بچوں جیسی حیرت اور خوشی کے ساتھ وہاں موجود ہر شے کو کھوجنے میں مصروف تھی۔ اس کی کھلکھلاہٹ اور شفاف ہنسی وہاں فضا کو ایک نئے رنگ سے سجانے لگے تھے۔ فضا میں یک دم ایک عجیب دلفریب سے ساز بجنے لگا تھا… وہ ٹھٹھکی، پھر بے اختیار کھلکھلائی… اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے اس نے اس راستے پر قدم آگے بڑھائے، پھر مرد نے اسے دونوں بازو ہوا میں پھیلائے رقص کے انداز میں گھومتے دیکھا… وہ بے اختیار ہنسا۔ وہ اس راستے پر کسی ماہر بیلے رینا کی طرح رقص کرتی دور جا رہی تھی۔ اس کے جسم پر موجود سفید لباس اس کے گھومتے جسم کے گرد ہوا میں اب کسی پھول کی طرح رقصاں تھا۔ وہ اب آہستہ آہستہ ہوا میں اٹھنے لگی تھی… ہوا کے معطر جھونکے بڑی نرمی سے اسے جیسے اپنے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ وہ اب بھی اسی طرح ہنستی، رقص کے انداز میں بازو پھیلائے گھوم رہی تھی۔ وہ سحر زدہ اسے دیکھتا رہا… وہ اب کچھ گنگنا رہی تھی، فضا میں یک دم کوئی ساز بجنے لگا تھا۔ پہلے ایک … پھر دوسرا … پھر تیسرا… پھر بہت سارے… پوری کائنات یک دم جیسے کسی سمفنی میں ڈھل گئی تھی اور وہ اب بھی ہوا میں رقصاں تھی۔ کسی مخملیں پر کی طرح ہوا کے دوش پر اوپر نیچے جاتے، وہ سحر زدہ اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی ساتھی رقص کرتے ہوئے ایک بار پھر اسے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسی، پھر اس نے اپنا ایک ہاتھ بڑھایا یوں جیسے اسے اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہی ہو۔ وہ ہنس پڑا وہ ہاتھ بڑھاتی اور وہ کھنچا نہ چلا آتا۔

وہ بھی اس کا ہاتھ پکڑے اب فضا میں رقصاں تھا… زمین سے دور… اس کے قریب … اس کے ساتھ … یک دم دور کی، جیسے کائنات ٹھہر گئی ہو۔ وہ اب آسمان کو دیکھ رہی تھی پھر یک دم آسمان تاریک ہو گیا… دن رات میں بدل گیا تھا… اور رات دن سے بڑھ کر خوب صورت تھی… سیاہ آسمان خوب صورت چمکتے ہوئے ستاروں سے سجا ہوا تھا… ہر رنگ کے ستاروں سے… اور ان سب کے درمیان چاند تھا… کسی داغ کے بغیر، روشنی کا منبع۔

دن کی روشنی اجلی تھی… سکون آور تھی… مدہوش کر دینے والی تھی۔ رات کی روشنی میں بے شمار رنگ تھے، کائنات میں ایسے رنگ انہوں نے کب دیکھے تھے… کہاں دیکھے تھے۔ زمین جیسے ہر رنگ کی روشنی میں نہا رہی تھی۔ ایک ستارہ ٹمٹماتا… پھر دوسرا… پھر تیسرا… اور زمین پر کبھی ایک رنگ بڑھتا، کبھی دوسرا، کبھی تیسرا… آسمان کو جیسے کسی نے روشنیوں میں پرو دیا تھا۔

وہ اس کا ہاتھ پکڑے جیسے سرشاری کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی… اس کی حیرت، اس کی سرشاری جیسے اسے محظوظ کر رہی تھی… گدگدا رہی تھی۔

وہ اب پھر زمین پر آگئے تھے۔ رات ایک بار پھر دن میں بدل گئی تھی… سبزہ، پھول، پتے، مہکتی معطر ہوا، سب وہیں تھے۔

اس کے ساتھ چلتے چلتے اس نے اپنے پیروں کے نیچے جآتے مخملیں سبزے پر سجے پھولوں کو دیکھا پھر ہاتھ بڑھایا۔ اس کے ہاتھ میں وہ پھول آگیا، پھر دوسرا، پھر تیسرا… پھر دور دور تک پھیلے سبزے کے سارے پھول جیسے کسی مقناطیس کی طرح اس کی طرف آئے تھے۔ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں… لاتعداد، بے شمار، اتنے کہ اس کے ہاتھ سنبھال نہیں پائے تھے۔ وہ اب اس کے ہاتھوں پر… اب اس کے بالوں پر، اب اس کے لباس پر، اب اس کے جسم پر… وہ خوشی سے بے خود ہو رہی تھی، سرشار ہو رہی تھی۔ پھر اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں ہوا میں اچھالا… وہ پلک جھپکتے میں آسمان کی طرف گئے… پورا آسمان پھولوں سے بھر گیا تھا۔ چند لمحوں کے لیے پھر پھولوں کی بارش ہونے لگی تھی۔ وہ دونوں ہنس رہے تھے۔ پھولوں کو بارش کے قطروں کی طرح مٹھیوں میں بھرتے اور چھوڑتے، بھاگتے، کھلکھلاتے وہ سب پھول زمین پر گر کر ایک بار پھر سبزے میں اپنی اپنی جگہ سج گئے تھے… وہاں جہاں وہ تھے… وہیں جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔

وہ ایک بار پھر آسمان کو دیکھ رہے تھے، وہاں اب بادل نظر آرہے تھے۔ روئی کے گالوں جیسے حرکت کرتے بادل، وہ سب بادل وہاں جمع ہو رہے تھے، جہاں وہ کھڑے تھے… پھر اس نے آسمان پر بارش کا پہلا قطرہ دیکھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی ہتھیلی پر لیا۔ اس قطرے کو دیکھ کر دوبارہ ہنستے ہوئے آسمان کی طرف اچھال دیا۔ اس بار وہ قطرہ اوپر جا کر اکیلا واپس نہیں آیا تھا۔ وہ بہت سارے دوسرے قطروں کو ساتھ لے کر آیا تھا… بہت سارے نرم لمس کے گدگدانے والے قطرے… بارش برس رہی تھی اور وہ دونوں بچوں کی طرح ہنستے، کھلکھلاتے پانی کے ان قطروں کو ہاتھوں سے پکڑ کر ایک دوسرے پر اچھال رہے تھے… وہ بارش تھی۔ پانی تھا مگر وہ قطرے ان کے بالوں، ان کے جسم کو گیلا نہیں کر رہے تھے۔ وہ جیسے شفاف موتیوں کی بارش تھی، جو ان کے ہاتھ اور جسم کی ایک جنبش پر ان کے بالوں اور لباس سے الگ ہو کر دور جا گرتے… سبزرے اور پھولوں کے اوپر اب بارش کے شفاف موتی جیسے قطروں کی ایک تہہ سی آگئی تھی، یوں جیسے کسی نے زمین پر کوئی شیشہ پھیلا دیا ہو… اور وہ اس شیشے پر چل رہے تھے۔ ان کو اپنے سائے میں لیے وہ رکتے، ہاتھ ہلاتے، آسمان پر بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجتے پھر اپنی طرف بلاتے وہ آسمان پر جیسے پانی سے مصوری کر رہے تھے۔

پھر جیسے وہ اس کھیل سے تھک گئی… وہ رکی… بارش تھمی… زمین سے پانی کے قطرے غائب ہونے لگے پھر بادل… چند ساعتوں میں آسمان صاف تھا۔ یوں جیسے وہاں کبھی بادل نام کو کوئی شے آئی ہی نہ ہو۔

وہ اب اس کا ہاتھ پکڑ رہا تھا۔ اس نے چونک کر اسے دیکھا۔

”تمہیں کچھ دکھانا ہے۔” وہ مسکرایا۔

”کچھ اور بھی بھی؟” اس کی خوشی کچھ اور بڑھی۔

”ہاں، کچھ اور بھی۔” اس نے اثبات میں سرہلایا۔

”کیا؟” اس نے بے ساختہ اس سے پوچھا تھا… وہ خاموسی سے مسکرا دیا۔

”کیا…؟” اس نے بچوں کی طرح اصرار کیا۔

وہ پہلے سے زیادہ پُراسرار انداز میں مسکرایا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے اسی نئے راستے کی طرف جا رہا تھا۔ پھر ان دونوں کو دور سے کچھ نظر آنے لگا تھا۔

٭٭٭٭

سالار نے ہڑ بڑا کر آنکھ کھولی۔ کمرے میں مکمل تاریکی تھی۔ وہ فوری طور پر سمجھ نہیں سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس کی سماعتوں نے دور کہیں کسی مسجد سے سحری کے آغاز کا اعلان سنا۔ اس کمرے کے گھپ اندھیرے کو کھلی آنکھوں سے کھوجتے ہوئے اسے اگلا خیال اس خواب اور امامہ کا آیا تھا… وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا، جس سے وہ بیدار ہوا تھا۔

مگر خواب میں وہ امامہ کو کیا دکھانے والا تھا، اسے کچھ یاد نہیں آیا…”امامہ!” اس نے دل کی دھڑکن جیسے ایک لمحے کے لیے رکی… وہ کہاں تھی؟ کیا پچھلی رات ایک خواب تھی؟

وہ یک دم جیسے کرنٹ کھا کر اٹھا۔ اپنی رکی سانس کے ساتھ اس نے دیوانہ وار اپنے بائیں جانب بیڈ ٹیبل لیمپ کا سوئچ آن کیا۔ کمرے کی تاریکی جیسے یک دم چھٹ گئی۔ اس نے برق رفتاری سے پلٹ کر اپنی داہنی جانب دیکھا اور پرسکون ہو گیا۔ اس کی رکی سانس چلنے لگی۔ وہ وہیں تھی۔ وہ ”ایک خواب”سے کسی ”دوسرے خواب” میں داخل نہیں ہوا تھا۔

یک دم آن ہونے والے بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ کی تیز روشنی چہرے پر پڑنے پر امامہ نے نیند میں بے اختیار اپنے ہاتھ اور بازو کی پشت سے اپنی آنکھوں اور چہرے کو ڈھک دیا۔

سالار نے پلٹ کر لیمپ کی روشنی کو ہلکا کر دیا۔ وہ اسے جگانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس سے چند فٹ کے فاصلے پر تھی۔ گہری پر سکون نیند میں۔ اس کا ایک ہاتھ تکیے پر اس کے چہرے کے نیچے دبا ہوا تھا اور دوسرا اس وقت اس کی آنکھوں کو ڈھانے ہوئے تھا۔

اس کی ادھ کھلی ہتھیلی اور کلائی پر مہندی کے خوب صورت نقش و نگار تھے۔ مٹتے ہوئے نقش و نگار، لیکن اب بھی اس کے ہاتھوں اور کلائیوں کو خوب صورت بنائے ہوئے تھے۔

سالار کو یاد آیا، وہ مہندی کسی اور کے لیے لگائی گئی تھی… اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔ اس نے بے اختیار چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کیں۔

کسی اور کے لیے؟

پچھلی ایک شام ایک بار پھر کسی فلم کی طرح اس آنکھوں کے سامنے سیکنڈ کے ہزاروں حصے میں گزر گئی تھی۔ اس نے سعیدہ اماں کے صحن میں اُس چہرے کو نو سال کے بعد دیکھا تھا اور نو سال کہیں غائب ہو گئے تھے۔ وہ ذرا سا آگے جھکا اس نے بڑی نرمی سے اس کے ہاتھ کو اس کے چہرے سے ہٹا دیا۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ کی زرد روشنی میں اس سے چند انچ دور وہ اس پر جھکا، اسے مبہوت دیکھتا رہا۔ وہ گہرے سانس لیتی جیسے اسے زندگی دے رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ جیسے کسی طلسم میں پہنچا ہوا تھا۔ بے حد غیر محسوس انداز میں اس نے امامہ کے چہرے پر آئے کچھ بالوں کو اپنی انگلیوں سے بڑی احتیاط سے ہٹایا۔

٭٭٭٭

”میں لائٹ آف کر کے نہیں سو سکتا۔” امامہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اس نے سالار کو سونے سے پہلے لائٹ آف کرنے کے لیے کہا تھا۔

فوری طور پر امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے… اگر وہ لائٹ آف کر کے نہیں سو سکتا تھا تو وہ لائٹ آن رکھ کر نہیں سو سکتی تھی، لیکن وہ یہ بات اسے اتنی بے تکلفی سے نہیں کہہ سکتی تھی، جتنے اطمینان سے وہ اسے کہہ رہا تھا۔

”کیا ہوا؟” الارم سیٹ کر کے سیل فون کو بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسے دیکھ کر ٹھٹھکا۔ وہ کمبل لپیٹے اسی طرح بیڈ پر بیٹھی جیسے کچھ سوچ رہی تھی۔ یہ سالار کے گھر اس کی پہلی رات تھی۔

”کچھ نہیں۔” وہ اپنے بال لپیٹتے ہوئے اپنا تکیہ سیدھا کرنے لگی۔

”تم شاید لائٹ آف کر کے سوتی ہو۔” سالار کو اچانک خود ہی احساس ہو گیا تھا۔ وہ بستر پر لیٹتے لیٹتے رک گئی۔

”ہمیشہ۔” اس نے بے ساختہ کہا۔

”پھر کچھ کرتے ہیں۔” سالار نے بے ساختہ گہرا سانس لے کر سر کھجاتے ہوئے کچھ سوچنے والے انداز میں کمرے کی لائٹس کا جائزہ لیا۔

”میں دیکھتا ہوں، دوسرے بیڈ روم میں زیرو کا بلب ہے اگر وہ…” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ امامہ نے تاثرات سے اسے لگا کہ یہ حل بھی اس کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔

”زیرو کے بلب کی کتنی روشنی ہوتی!” سالار نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھ کر کہا۔

”کمرے میں تھوڑی سی بھی روشنی ہو تو میں نہیں سو سکتی۔ میں ”اندھیرے ” میں سوتی ہوں۔” اس نے پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنا مسئلہ بتایا۔

”عجیب عادت ہے۔” وہ بے ساختہ کہہ کر ہنسا۔

اس کی بات سے زیادہ اس کی ہنسی امامہ کو کھلی۔

”ٹھیک ہے لائٹ آن رہنے دو۔” اس نے آہستہ سے کہا۔

”نہیں… نو پرابلم میں اسے آف کر رہا ہوں۔”

دونوں بیک وقت اپنے اپنے موقف سے دست بردار ہوئے تھے۔

سالار نے لائٹ آف کر دی اور پھر سونے کے لیے خود بھی بستر پر لیٹ گیا لیکن وہ جانتا تھا، یہ اس کے لیے مشکل ترین کام تھا۔ مارگلہ کی پہاڑی پر آٹھ سال پہلے گزاری ہوئی اس ایک رات کے بعد وہ کبھی کمرے کی لائٹ بند کر کے نہیں سو سکا تھا، لیکن اس وقت اس نے مزید بات نہیں کی۔ چند گھنٹوں کے بعد اسے دوبارہ سحری کے لیے اٹھ جانا تھا۔ وہ یہ چند گھنٹے بستر میں چپ چاپ لیٹ کر گزار سکتا تھا۔ ویسے بھی ”اندھیرا” تھا، پر آج وہ ”اکیلا” نہیں تھا۔

کچھ دیر دونوں کے درمیان مکمل خاموشی رہی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کا آغاز کیسے کریں… سالار کے لیے خاموشی کا یہ وقفہ زیادہ تکلیف دہ تھا۔

تاریکی میں امامہ نے سالار کو گہرا سانس لے کر کہتے سنا۔

”اب اگر اتنی بڑی قربانی دے رہا ہوں میں لائٹ آف کر کے تو ”کوئی ” ہاتھ ہی پکڑ لے۔” امامہ کو بے اختیار ہنسی آئی۔ وہ اندھیرے میں اس کے کچھ قریب ہوئی اور سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

”تمہیں ڈر لگ رہا ہے کیا؟” اس کے لہجے میں نرمی اور اپنائیت تھی۔

”اگر ہاں کہوں گا تو کیا کرو گی؟” سالار نے جان بوجھ کر اسے چھیڑا۔

”تسلی دوں گی اور کیا کروں گی۔” وہ محجوب ہوئی تھی۔

”جیسے اب دے رہی ہو؟” اسے امامہ کو تنگ کرنے میں مزا آرہا تھا لیکن یہ جملہ کہنے سے پہلے اس نے اپنے سینے پر دھرے اس کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کے متوقع جوابی عمل کو سالار سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ امامہ واقعی ہاتھ ہٹانے ہی والی تھی۔

”ڈر کیوں لگتا ہے تمہیں؟” امامہ نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔

”ڈر نہیں لگتا، بس صرف سو نہیں سکتا۔”

”کیوں؟” وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔

وہ فوری جواب نہیں دے سکا۔ مارگلہ کی وہ رات سالار کی نظروں میں گھومنے لگی تھی۔ امامہ چند لمحے اس کے جواب کا انتظار کرتی رہی پھر بولی۔

”بتانا نہیں چاہتے…؟” سالار کو حیرانی ہوئی۔ وہ کیسے اس کا ذہن پڑھ رہی تھی؟

”اور ایسا کب سے ہے؟” امامہ نے اپنے سوال کو بدل دیا تھا۔

”آٹھ سال سے۔” سالار نے جواب دیا۔

وہ مزید کوئی سوال نہیں کر سکی۔ اسے بھی بہت کچھ یاد آنے لگا تھا… آٹھ سال، آٹھ سال… وہ آٹھ سال سے اندھیرے سے خوف زدہ تھا… اور وہ نو سال سے روشنی سے خوف کھاتی پھر رہی تھی… دنیا سے چھپتی پھر رہی تھی۔ اس نے سالار سے پھر کوئی سوال نہیں کیا۔ ایک دوسرے کے وجود میں پیوست کانٹوں کو نکالنے کے لیے ایک رات ناکافی تھی۔ وہ اب اس کے ہاتھ کی پشت کو چوم کر اسے اپنی بند آنکھوں پر رکھ رہا تھا۔ امامہ بے اختیار رنجیدہ ہوئی۔

”میں لائٹ ‘آن کر دیتی ہوں۔” اس نے کہا۔

”نہیں… اندھیرا اچھا لگنے لگا ہے مجھے۔” وہ اسی طرح اس کا ہاتھ آنکھوں پر رکھے بڑبڑایا تھا۔

٭٭٭٭

بہت نرمی سے جھک کر اس نے امامہ کے چہرے کو اپنے ہونٹوں سے چھوا۔ وہ اس سے باتیں کرتا کس وقت سویا تھا، اسے اندازہ نہیں ہوا اور اب وہ جاگا تو اسے حیرت ہو رہی تھی۔ اندھرے میں سونا اتنا مشکل اور اتنا ہولناک ثابت نہیں ہوا تھا، جتنا وہ سمجھتا رہا تھا۔

کمبل کو کچھ اوپر کھینچتے ہوئے اس نے اسے گردن تک ڈھانپ دیا اور پھر لیمپ آف کرتے ہوئے بڑی احتیاط سے بستر سے اٹھ گیا۔ ڈرائنگ روم کی طرف جاتے جاتے وہ اپنے سیل فون پر لگا الارم آف کر گیا۔

واش روم میں اس نے واش بیسن پر امامہ کے ہاتھ سے اتری کانچ کی کچھ چوڑیاں اور اس کے ایر رنگز دیکھے۔ اس نے ایر رنگز اٹھا لیے۔ وہ دیر تک انہیں اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھے دیکھتا رہا۔ وہ بہت خوب صورت جتھے مگر اب پرانے ہو رہے تھے۔

جس وقت وہ نہا کر باہر نکلا، وہ تب بھی گہری نیند میں تھی۔ کمرے کی لائٹ آن کیے بغیر وہ دبے پاوؑں بیڈ روم سے باہر آگیا۔ بہت دور کسی مسجد میں کوئی نعت پڑھ رہا تھا یا محمد… آواز اتنی مدھم تھی کہ سمجھنا مشکل تھا۔ اس نے سٹنگ ایریا کی لائٹ آن کر دی۔ لائٹ آن کرتے ہی اس کی نظر سینٹر ٹیبل پر پڑے کافی کے دو مگز پر پڑی۔

وہ دنوں رات کو وہیں بیٹھے کافی پیتے ہوئے باتیں کرتے رہے تھے۔ صوفے پر اس کی اونی شال پڑی تھی، جس میں وہ اپنے پاوؑں چھپائے بیٹھی رہی تھی۔ رات ایک بار پھر جیسے کسی خواب کا قصہ لگنے لگی تھی… بے یقینی تھی کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی تھی… خوش قسمتی تھی کہ اب بھی گمان بنی ہوئی تھی۔

وہ بھول گیا کہ وہ بیڈ روم سے یہاں کیا کرنے آیا تھا۔ چند لمحوں کے لیے وہ واقعی سب کچھ بھول گیا تھا۔ بس ”وہ” تھی اور ”وہ” تھی تو سب کچھ تھا۔

اس کے سیل پر آنے والی فرقان کی کال نے یک دم اسے چونکا دیا تھا۔ کال ریسیو کیے بغیر وہ بیرونی دروازے کی طرف گیا۔ وہ اسے سحری دینے آیا تھا۔

٭٭٭٭

اس کی آنکھ الارم کی آواز سے کھلی تھی۔ مندھی آنکھوں کے ساتھ اس نے لیٹے لیٹے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے اس الارم کو بند کرنے کی کوشش کی، لیکن الارم کلاک بند ہونے کے بجائے نیچے کارپٹ پر گر گیا۔ امامہ کی نیند یک دم غائب ہو گئی۔ الارم کی آواز جیسے اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھی۔ وہ کچھ جھلا کر اٹھی تھی۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کر کے وہ کمبل سے نکلی اور بے اختیار کپکپائی۔ سردی بہت تھی۔ اس نے کمبل ہٹاتے ہوئے بیڈ کی پائنتی کی طرف اپنی اونی شال ڈھونڈنے کی کوشش کی… وہ وہاں نہیں تھی۔ اس نے جھک کر کارپٹ پر دیکھا اب بھی بج رہا تھا۔ مگر نظر اب بھی نہیں آرہا تھا۔ اس کی جھنجھلاہٹ بڑھ گئی تھی۔ تب ہی اس نے اچانک کوئی خیال آنے پر سالار کے بستر کو دیکھا۔ وہ خالی تھا۔ اسے جیسے یک دم یاد آیا کہ وہ ”کہاں” تھی۔ جھنجھلاہٹ یک دم غائب ہوئی تو اور ساتھ ہی الارم کی آواز بھی… یہ سحری کا وقت تھا۔

امامہ، سالار کے گھر پر تھی ا ور یہ اس کی نئی زندگی کا پہلا دن تھا۔

وہ دوبارہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کمبل کے ایک کونے سے اس نے اپنے کندھے ڈھانپنے کی کوشش کی۔ اس کے جسم کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوئی۔ اس نے پہلی بار اپنے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی چیزوں کو غور سے دیکھا۔ وہاں رات کو سالار نے گھڑی رکھی تھی… لیکن اب وہاں نہیں تھی۔ ایک چھوٹا رائٹنگ پیڈ اور پین بھی تھا۔ پاس ہی کارڈ لیس فون تھا۔ پانی کی ایک چھوٹی بوتل بھی وہیں تھی اور اس کے پاس اس کا سیل پڑا تھا۔ اسے ایک بار پھر الرام کلاک کا خیال آیا۔ اسے یاد تھا کہ اس نے الارم نہیں لگایا تھا۔ یہ کام سالار کا تھا۔ شاید اس نے اپنے لیے الارم لگایا تھا۔

پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا۔ بیڈ کی وہ سائیڈ جو رات کو اس نے سونے کے لیے منتخب کی تھی، وہ سالار کا بستر تھا۔ وہ عادتاً دائیں طرف گئی تھی اور سالار اسے روک نہیں سکا۔ وہ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھی رہی، پھر اس نے بے حد ڈھیلے انداز میں اپنے سیل فون اٹھا کر ڑائم دیکھا اور جیسے کرنٹ کھا کر اس نے کمبل اتار پھینکا۔ سحری ختم ہونے میں صرف دس منٹ باقی تھے اور سالار وہ الارم یقینا اسے بیدار کرنے کے لیے لگا کر گیا تھا۔ اسے بے ساختہ غصہ آیا، وہ اسے خود بھی جگا سکتا تھا۔

جب تک وہ کپڑے تبدیل کر کے لاوؑنج میں گئی، اس کا غصہ غائب ہو چکا تھا۔ کم از کم آج وہ اس سے خوش گوار موڈ میں ہی سامنا چاہتی تھی۔سٹنگ ایریا کے ڈائننگ ٹیبل پر سحری کے لیے کھانا رکھا تھا۔ وہ بہت تیزی سے کچن میں کھانے کے برتن لینے کے لیے گئی تھی لیکن سنک میں دو افراد کے استعمال شدہ برتن دیکھ کر اسے جیسے دھچکا لگا تھا۔ وہ کھانا یقینا فرقان کے گھر سے آیا تھا اور وہ فرقان کے ساتھ ہی کھا چکا تھا۔ اسے خوامخواہ خوش فہمی ہوئی تھی کہ آج اس کے گھر میں پہلی سحری تو وہ ضرور اسی کے ساتھ کرے گا… بوجھل دل کے ساتھ ایک پلیٹ لے کر وہ ڈائننگ ٹیبل پر آگئی، لیکن چند لقموں سے زیادہ نہیں لے سکی۔ اسے کم از کم آج اس کا انتظار کرنا چاہیے تھا… اس کے ساتھ کھانا کھانا چاہیے تھا… امامہ کو واقعی بہت رنج ہوا تھا۔

چند لقموں کے بعد ہی وہ بڑی بے دلی سے ٹیبل سے برتن اٹھانے لگی۔

برتن دھوتے دھوتے اذان ہونے لگی تھی، جب اسے پہلے بار خیال آیا کہ سالار گھر میں نظر نہیں آرہا۔

اپنے ہاتھ میں موجود پلیٹ دھوتے دھوتے وہ اسے اسی طرح سنک میں چھوڑ کر باہر آگئی۔ اس نے سارے گھر میں دیکھا۔ وہ گھر میں نہیں تھا۔

پھر کچھ خیال آنے پر وہ بیرونی دروازے کی طرف آئی۔ دروازہ مقفل تھا لیکن ڈور چین ہٹی ہوئی تھی۔ وہ یقینا گھر پر نہیں تھا… کہاں تھا؟ اس نے نہیں سوچا تھا۔

اس کی رنجیدگی میں اضافہ ہوا۔ وہ اس کی شادی کے دوسرے دن اسے گھر پر اکیلا چھوڑ کر کتنی بے فکری سے غائب ہو گیا تھا۔ اسے پچھلی رات کی ساری باتیں جھوٹ کا پلندہ لگی تھیں۔ واپس کچن میں آکر وہ کچھ دیر بے حد دل شکستگی کی کیفیت میں سنک میں پڑے برتنوں کو دیکھتی رہی۔ وہ ”محبوبہ” سے ”بیوی” بن چکی تھی مگر اتنی جلدی تو نہیں۔ ناز برداری نہ سہی خیال تو کرنا چاہیے۔ اس کی آزردگی میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔ ”چند گھنٹوں کے اندر کوئی اتنا بدل سکتا ہے، مگر رات کو تو وہ… ” اس کی زنجیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔

”یقیناً سب کچھ جھوٹ کہہ رہا ہو گا ورنہ میرا کچھ تو خیال کرتا۔” وہ رنجیدگی اب صدمے میں بدل رہی تھی۔

وہ نماز پڑھ چکی تھی اور سالار کا ابھی بھی کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ اسے تھوڑی سی تشویش ہوئی۔ اگر وہ فجر کی نماز کے لیے بھی گیا تھا تو اب تک اسے آجانا چاہیے تھا۔ پھر اس نے اس تشویش کو سر سے جھٹک دیا۔

٭٭٭٭

سالار جس وقت دوبارہ اپارٹمنٹ میں آیا، وہ گہری نیند میں تھی۔ بیڈ روم کی لائٹ آف تھی اور ہیٹر آن تھا۔ وہ اور فرقان فجر کی نماز سے بہت دیر پہلے مسجد میں چلے جاتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد وہ دونوں وہیں سے بلڈنگ کے جم میں چلے جاتے اور تقریباً ایک گھنٹے کے ورک آوؑٹ کے بعد وہاں سے آتے اور آج یہ دورانیہ ”آمنہ” کے امامہ ہونے کی وجہ سے کچھ لمبا ہو گیا تھا۔ فرقان سحری کے وقت ان دونوں کے لیے کھانا لے کر آیا تھا اور وہ بھونچکا بیٹھا رہ گیا تھا۔ وہ رات کو سالار کے جس بیان کوصدمے کی وجہ سے ذہنی حالت میں ہونے والی کسی خراب کا نتیجہ سمجھ رہا تھا، وہ کوئی ذہنی خرابی نہیں تھی۔

وہ اطمینان سے اس کے سامنے بیٹھا سحری کر رہا تھا اور فرقان اسے رشک سے دیکھ رہا تھا۔ رشک کے علاوہ کوئی اس پر کر بھی کیا سکتا تھا۔

”کیا ہوا؟” سالار نے سحری کرتے ہوئے اس کی اتنی لمبی خاموشی پر اسے کچھ حیرانی سے دیکھا۔ فرقان اس کے سامنے بیٹھا یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔

”تم آج اپنی نظر اتروانا۔” فرقان نے بالآخر اس سے کہا۔

”اچھا…؟” وہ ہنس پڑا۔ اس سے زیادہ احمقانہ بات کم از کم اس گفتو کے بعد کوئی نہیں کر سکتا تھا۔

”میں مذاق نہیں کر رہا۔” فرقان نے اپنے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔

جوکچھ ہوا تھا، اسے سمجھنے سے زیادہ اسے ہضم کرنے میں اسے دقت ہو رہی تھی۔ کسی کو بھی ہو سکتی تھی سوائے سامنے بیٹھے ہوئے اس شخض کے، جو اس وقت کانٹے کے ساتھ آملیٹ کلا آخری ٹکڑا اپنے منہ میں رکھ رہا تھا۔

”اور اگر کوئی صدقہ جوغیرہ دے سکو تو وہ بھی بہتر ہے۔” فرقان نے اس کے ردِ عمل کو مکمل طور پر نظر انداز جکرتے ہوئے کہا۔ سالار اب بھی خاموش رہا۔

”آمنہ سحری نہیں کرے گی؟” فرقان کو یک دم خیال آیا۔

”سو رہی ہے وہ ابھی… میں الارم لگا آیا ہوں، ابھی کافی وقت ہے سحری کا ٹائم ختم ہونے میں۔” سالار نے کچھ لاپروائی سے اس سے کہا۔

”فرقان! اب بس کرو…” اس سے بات کرتے کرتے وہ ایک بار پھر فرقان کی نظروں سے جھنجھلایا۔ وہ پھر اسے ویسے ہی دیکھ رہا تھا۔
قسط نمبر 4
”مجھے اس طرح آنکھیں پھاڑ کر دیکھنا بند کرو۔” اس نے اس بار کچھ خفگی سے فرقان سے کہا۔

”تم… تم بہت نیک آدمی ہو سالار…! اللہ تم سے بہت خوش ہے…” وہ آملیٹ کا ایک اور ٹکڑا لیتے لیتے فرقان کی بات پر ٹھٹھک گیا۔
اس کی بھوک یک دم ختم ہو گئی تھی۔ مزید ایک لفظ کہے بغیر اس نے پلیٹ پیچھے ہٹا دی اور اپنے برتن اٹھا کر اندر کچن میں لے گیا۔ وہ خوشی، سرشاری، اطمینان اور سکون جو کچھ دیر پہلے جیسے اس کے پورے وجود سے چھلک رہا تھا، فرقان نے پلک جھپکتے اسے دھواں بن کر غائب ہوتے دیکھا۔
مسجد کی طرف جاتے ہوئے فرقان نے بالآخر اس سے پوچھا تھا۔
”اتنے چپ کیوں ہو گئے ہو؟” وہ اسی طرح خاموشی سے چلتا رہا۔
”میری کوئی بات بری لگی ہے؟”

وہ اب بھی خاموش رہا۔ مسجد کے دروازے پر اپنے جو گرز اتار کر اندر جانے سے پہلے اس نے فرقان سے کہا۔

”مجھے تم سب کچھ کہہ لینا فرقان! لیکن کبھی نیک آدمی مت کہنا۔”

فرقان کچھ بول نہیں سکا۔ سالار مسجد میں داخل ہو گیا تھا۔

٭٭٭٭

امامہ کی آنکھ گیارہ بجے سیل فون پر آنے والی ایک کال سے کھلی تھی، وہ ڈاکٹر سبط علی تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی اس کا دل بھر آیا تھا۔

”میں نے آپ کو نیند سے جگھورا۔

؟”

وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولے۔ انہوں نے اس کی رندھی ہوئی آواز پر غور نہیں کیا تھا۔

”نہیں، میں اٹھ گئی تھی۔” اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے جھوٹ بولا۔

وہ ا س کا حال احوال پوچھتے رہے۔ وہ بڑے بوجھل دل کے ساتھ تقریباً خالی الذہنی کے عالم میں ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔

چند منٹ اور بات کرنے کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا۔ کال ختم کرتے ہوئے اس کی نظر اپنے سیل فون میں چمکتے ہوئے نام پر پڑی تھی۔ وہ چونک اٹھی، اسے فوری طور پر یاد نہیں آیا کہ اس نے سالار کا نام اور فون نمبر کب محفوظ کیا تھا۔ یقینا یہ بھی اسی کا کارنامہ ہو گا۔ اس نے اس کا ایس ایم ایس پڑھنا شروع کیا۔

”پلیز جاگنے کے بعد مجھے میسج کرنا۔ مجھے ضروری بات کرنا ہے۔” اسے نجانے کیوں اس کا میسج پڑھ کر غصہ آیا۔

”بڑی جلدی یاد آگئی ہیں۔” وہ میسج کا ٹائم چیک کرتے ہوئے بڑبڑائی۔ وہ شاید دس، پچاس پر آیا تھا۔ ”اگر آفس جاتے ہوئے اسے میں یاد نہیں آئی تو آفس میں بیٹھ کر کیسے آسکتی ہوں۔” وہ اس وقت اس سے جی بھر کر بدگمان ہو رہی تھی اور شاید ٹھیک ہی ہو رہی تھی۔ وہ پچھلی رات کے لیے ”چیف گیسٹ” تھی اور اگلی صبح وہ اس کے ساتھ بن بلائے مہمان جیسا سلوک کر رہا تھا۔ کم از کم امامہ اس وقت یہی محسوس کر رہی تھی وہ اس وقت وہ باتیں جسوچ رہی تھی جو سالار کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں۔

وہ کچھ عجیب انداز میں خود ترسی کا شکار ہو رہی تھی۔ اس نے کمبل تہہ کرتے ہوئے بستر ٹھیک کیا اور بیڈ روم سے باہر نکل آئی۔ اپارٹمنٹ کی خاموشی نے اس کی اداسی میں اضافہ کیا تھا۔ کھڑکیوں سے سورج کی روشنی اندر آرہی تھی۔ کچن کے سنک میں وہ برتن ویسے ہی موجود تھے جس طرح وہ چھوڑ کر گئی تھی۔

”ہاں، وہ بھلا کیوں دھوتا، یہ سارے کام تو ملا زماوؑں کے ہوتے ہیں۔ لیکن میں تو نہیں دھووؑں گی، چاہے ایک ہفتہ ہی پڑے رہیں۔ میں ملازمہ نہیں ہوں۔” ان برتنوں کو دیکھ کر اس کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ اس وقت وہ ہر بات منفی انداز میں لے رہی تھی۔

وہ بیڈ روم میں آئی تو اس کا سیل فون بج رہا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے اس کو خیال آیا کہ شاید سالار کی کال ہو، لیکن وہ مریم کی کال تھی۔ امامہ کا حال احوال پوچھنے کے بعد اس نے بڑے اشتیاق کے عالم میں امامہ سے پوچھا۔

”سالار نے منہ دکھائی میں کیا دیا تمہیں؟” امامہ چند لمحے بول نہیں سکی۔ اس نے تو کوئی تحفہ نہیں دیا تھا اسے، سالار کے نامہ اعمال میں جایک اور گناہ کا اضافہ ہو گیا تھا۔

”کچھ بھی نہیں۔” امامہ نے کچھ دل شکستہ انداز میں کہا۔

”اچھا…؟ چلو کوئی بات نہیں، بعد میں دے دے گا، شاید اسے خیال نہیں آیا۔” مریم نے بات بدل دی تھی، لیکن اس کا آخری جملہ امامہ کو چبھا۔ اسے خیال نہیں آیا… ہاں واقعی اسے خیال نہیں آیا ہو گا۔ وہ بے حد خفگی کے عالم میں سوچتی رہی۔

سالار سے اس کے گلے شکوے اس گھر میں آنے کے دوسرے دن ہی شروع ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود وہ لاشعوری طور پر اس کی کال کی منتظر تھی۔ کہیں نہ کہیں اسے اب بھی امید تھی کہ جوہ کم از کم دن میں ایک بار تو اسے کالل کرے گا۔ کم از کم جایک بار… ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ اسے میسج کر کے اسے اپنے ہونے کا احساس تو دلانا چاہیے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔

وہ بے حد بے دلی سے اپنے کپڑے نکال کر نہانے کے لیے چلے گئی۔ واش روم سے باہر نکلتے ہی اس نے سب سے پہلے سیل فون چیک کیا تھا وہاں کوئی میسج تھا اور نہ کوئی مسڈ کال۔

چند لمحے وہ سیل فون پکڑے بیٹھی رہی پھر اس نے اپنی ساری انا اور سارے غصے کو بالائے طاق رکھ کر اسے مسیج کر دیا۔

اس کاخیال تھا، وہ اسے فوراً کال کرے گا لیکن اس کا یہ خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ پانچ منٹ… دس منٹ… پندرہ منٹ… اس نے اپنی انا کا کچھ اور مٹی کرتے ہوئے اسے میسج کیا۔ بعض دفعہ میسج بھی تو نہیں ہیں، اس نے اپنی عزت نفس کی ملامت سے بچنے کے لیے بے حد کمزور تاویل تلاش کی۔

”آج کل ویسے بھی نیٹ ورک اور سگنلز کا اتنا زیادہ مسئلہ ہے۔”

”عزت نفس” نے اسے جواباً ڈوب مرنے کے لیے کہا تھا۔ فون اب بھی نہیں آیا تھا، لنچ بریک کے باوجود۔ ماہ رمضان نہ ہوتا تو شاید وہ اس وقت اپنی ”عزت نفس” کو اس کے لنچ میں مصروف ہونے کا بہانہ پیش کرتی۔

اب وہ واقعی ناخوش تھی بلکہ ناخوش سے بھی زیادہ، اب اس کا دل رونے کو چاہ رہا تھا۔

کچھ دیر بعد اس نے سالار کے سیل پر کال کی۔ دو بیلز کے بعد کال کسی لڑکی نے ریسیو کی۔ ایک لمحے کے لیے امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ سالار کے بجائے کسی لڑکی کی آواز کی توقع نہیں کر رہی تھی۔

”میں آپ کی کیا ہیلپ کر سکتی ہوں میم؟” لڑکی نے بڑی شائستگی کے ساتھ اس سے پوچھا۔

”مجھے سالار سے بات کرنی ہے۔” اس نے کچھ تذبذب سے کہا۔

”سالار سکندر صاحب تو ایک میٹنگ میںہیں۔ اگر آپ کوئی کلائنٹ ہیں اور آپ کو بینک سے متعلقہ کوئی کام ہے تو میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں یا آپ میسج چھوڑ دیں ان کے لیے… میٹنگ میں بریک آئے گی تو میں انہیں انفارم کر دوں گی۔” اس لڑکی نے بے حد پروفیشنل انداز میں کہا۔ امامہ خاموش رہی۔

”ہیلو… مس امامہ!” اس لڑکی نے یقینا سالار کے سیل پر اس کی آئی ڈی پڑھ کر اس کا نام لیا تھا۔ وہ اب اسے متوجہ کر رہی تھی۔

”میں بعد میں کال کر لوں گی۔” اس نے بد دلی کے ساتھ فون بند کر دیا۔

”تو وہ میٹنگ میں ہے اور اس کس سیل تک اس کے پاس نہیں… اور مجھے کہہ رہا تھا کہ میں جاگنے کے بعد اسے انفارم کروں… کس لیے؟” وہ دل برداشتہ ہو گئی تھی۔

٭٭٭٭

“ارے بیٹا! میں تو کب سے تمہارے فون کے انتظار میں بیٹھی ہو۔ تمہیں اب یاد آئی سعیدہ اماں کی۔” سعیدہ اماں نے اس کی آواز سنتے ہی گلہ کیا۔

اس نے جواباً بے حد کمزور بہانے پیش کیے۔ سعیدہ اماں نے اس کی وضاحتوں پر غور نہیں کیا۔

”سالار ٹھیک تو ہے نا تمہارے ساتھ؟”

انہوں نے اس سوال کے مضمرات کا اس صورت حال میں سوچے بغیر پوچھا اور امامہ کے صبر کا جیسے پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ وہ یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ سعیدہ اماں بری طرح گھبرا گئی تھیں۔

”کیا ہوا بیٹا؟… ارے اس طرح کیوں رو رہی ہو…؟ میرا تو دل گھبرانے لگا ہے… کیا ہو گیا آمنہ؟” سعیدہ اماں کو جیسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔

”سالار نے کچھ کہہ دیا ہے کیا؟” سعیدہ اماں کو سب سے پہلا خیال یہی آیا تھا۔

”مجھے اس سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔” امامہ نے ان کے سوال کا جواب دیے بغیر کہا۔

سعیدہ اماں کی حواس باختگی میں اضافہ ہوا۔

”میں نے کہا بھی تھا آپ سے۔” وہ روتی جا رہی تھی۔

”کیا وہ اپنی پہلی بیوی کی باتیں کرتا رہا ہے تم سے؟”

سعیدہ اماں نے سالار کے حوالے سے واحد خدشے کے بے اختیار ذکر کیا۔

”پہلی بیوی…؟” امامہ نے روتے روتے کچھ حیرانی سے سوچا۔

لیکن سالار کے لیے اس وقت اس کے دل میں اتنا غصہ بھرا ہوا تھا کہ اس نے بلا سوچے سمجھے سعیدہ اماں کے خدشے کی تصدیق کی تھی۔

”جی…!” اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔

سعیدہ اماں کے سینے پر جیسے گھونسا لگا۔ یہ خدشہ تو نہیں تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ اپنے گھر لے جاتے ہی پہلے دن تو وہ کم از کم اپنی اس کئی سال پرانی منکوحہ کا ذکر نہیں کرے گا۔ امامہ کو سالار پر کیا غصہ آنا تھا جو سعیدہ اماں کو آیا تھا، انہیں یک دم پچھتاوا ہوا تھا۔ واقعی کیا ضرورت تھی یوں راہ چلتے کسی بھی دو ٹکے کے آدمی کو پکڑ کر یوں اس کی شادی کر دینے کی۔ انہوں نے پچھتاتے ہوئے سوچا۔

”تم فکر نہ کرو… میں خود سبط علی بھائی سے بات کروں گی۔” سعیدہ اماں بے حد غصے میں کہا۔

”کوئی فائدہ نہیں اماں! بس میری قسمت ہی خراب ہے۔”

سعیدہ اماں کے پاس آنے والی عورتوں کے منہ سے کئی بار سنا ہوا گھسا پٹا جملہ کس طرح اس کی زبان پر آگیا، اس کا اندازہ امامہ کو نہیں ہوا لیکن اس جملے نے سعیدہ اماں کے دل پر جیسے آری چلا دی۔

”ارے کیوں قسمت خراب ہے… کوئی ضرورت نہیں ہے وہاں رہنے کی… تم ابھی آجاوؑ اس کے ھر سے… ارے میری معصوم بچی پراتنا ظلم… ہم نے کوئی جہنم میں تھوڑا پھنکنا ہے تمہیں۔”

امامہ کو ان کی باتوں پر اور رونا آیا۔ خود ترسی کا اگر کوئی ماوؑنٹ ایورسٹ ہوتا تو وہ اس وقت اس کی چوٹی پر جھنڈا گاڑ کر بیٹھی ہوتی۔

”بس ! تم ابھی رکشہ لو اور میری طرف آجاوؑ۔ کوئی ضرورت نہیں ہے ادھر بیٹھے رہنے کی۔”

سعیدہ اماں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

یہ گفتگو مزید جاری رہتی تو شاید امامہ بغیر سوچے سمجھے روتے ہوئے اسی طرح وہاں سے چل بھی پڑتی۔ وہ اس وقت کچھ اتنی ہی جذباتی ہو رہی تھی لیکن سالار کے ستاروں کی گردش اس دن صرف چند لمحوں کے لیے اچھی ثابت ہوئی۔ سعیدہ اماں سے بات کرتے کرتے کال کٹ گئی تھی، اس کا کریڈٹ ختم ہو گیا تھا۔ امامہ نے لینڈ لائن سے کال کرنے کی کوشش کی لیکن کال نہیں ملی۔ شاید سعیدہ اماں نے فون کا ریسیور کریڈل پر ٹھیک سے نہیں رکھا تھا۔ وہ بری طرح جھنجھلائی۔

سعیدہ اماں سے بات کرتے ہوئے وہ اتنی دیر میں پہلی بار بہت اچھا محسوس کر رہی تھی، یوں جیسے کسی نے اس کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا ہو۔ اسے اس وقت جس ”متعصب” جانب داری کی ضرورت تھی، انہوں نے اسے وہی دی تھی۔ ان سے بات کرتے ہوئے روانی اور فراوانی سے بہنے والے آنسو اب یک دم خشک ہو گئے تھے۔

وہاں سے دس میل کے فاصلے پر اپنے بینک کے بورڈ روم میں بیٹھیevaluation team کو دی جانے والی پریزینٹیشن کے اختتامیہ سوال و جواب کے سیشن پر credibility and trust factors سے متعلقہ کسی سوال کے جواب میں بولتے ہوئے سالار کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کے گھر پر موجود اس کی ایک دن کی بیوی اور نو سالہ ”محبوبہ” گھر پر بیٹھی اس کی ”ساکھ” اور ”نام” کا تیاپانچہ کرنے میں مصروف تھی۔ جس کو اس وقت اس وضاحت کی اس ایویلیویشن ٹیم سے زیادہ ضرورت تھی۔

سونا ہو گیا… رونا بھی ہو گیا… اب اور کیا رہ گیا تھا… امامہ نے ٹشو پیپر سے آنکھیں اور ناک رگڑتے ہوئے بالآخر ریسیور رکھتے ہوئے سوچا۔ اسے کچن کے سنک میں پڑے برتنوں کا خیال آیا، بڑی نیم دلی سے وہ کچن میں گئی اور ان برتنوں کو دھونے لگی۔

وہ شام کے لیے اپنے کپڑے نکالنے کے لیے ایک بار پھر بیڈ روم میں آگئی اور تب ہی اس نے اپنا سیل فون بجھتے سنا۔ جب تک وہ فون کے پاس پہنچی، فون بند ہو چکا تھا۔ وہ سالار تھا اور اس کے سیل پر یہ اس کی چوتھی مسڈ کال تھی۔ وہ سیل ہاتھ میں لیے اس کی اگلی کال کا انتظار کرنے لگی۔ کال کے بجائے اس کا میسج آیا۔ وہ اسے اپنے پروگرام میں تبدیلی کے بارے میں بتا رہا تھا کہ ڈاکٹر سبط علی کا ڈرائیور ایک گھنٹے تک اسے وہاں سے ڈاکٹر صاحب کے گھر جائے گا اور وہ افطار کے بعد آفس سے سیدھا ڈاکٹر صاحب کے گھر آنے والا تھا۔

چند لمحوں کے لیے اس کا دل چاہا، وہ فون کو دیوار پر دے مارے لیکن وہ اس کا اپنا فون تھا۔ سالار کو کیا فرق پڑتا۔

وہ اس سے رات کو اتنا لمبا چوڑا اظہار محبت نہ کرتا تو وہ آج اس سے توقعات کا یہ انبار لگا نہ بیٹھی ہوتی لیکن سالار کے ہر جملے پر اس نے لاشعوی طور پر پچھلی رات اپنے دامن کے ساتھ ایک گرہ باندھ لی تھی اور گرہوں سے بھرا وہ دامن اب اسے بری طرح تنگ کرنے لگا تھا۔

ڈاکٹر سبط علی گھر پر نہیں تھے۔ آنٹی کلثوم نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور وہ بھی جس حد تک مضنوعی جوش و خروش اور اطمینان کا مظاہرہ کر سکتی تھی، کرتی رہی۔ آنٹی کے منع کرنے کے باوجود وہ ان کے ساتھ مل کر افطار اور ڈنر کی تیاری کرواتی رہی۔

ڈاکٹر سبط علی افتار سے کچھ دیر پہلے آئے تھے اور انہوں نے امامہ کی سنجیدگی نوٹ کی تھی۔ مگر اس کی سنجیدگی کا تعلق سالار سے نہیں جوڑا تھا۔ وہ جوڑ بھی کیسے سکتے تھے۔

سالار افطار کے تقریباً آدھ گھنٹے بعد آیا تھا۔

اور امامہ سے پہلی نظر ملتے ہی سالار کو اندازہ ہو گیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اس کی خیر مقدمی مسکراہٹ کے جواب میں مسکرائی تھی، نہ ہی اس نے ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی کی طرح گرم جوشی سے اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔ وہ بس نظریں چرا کر لاوؑنج سے اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے سالار کو لگا کہ شاید اسے غلط فہمی ہوئی ہے۔ آخر وہ اس سے کس بات پر نارض ہو سکتی ہے۔

وہ ڈاکٹر سبط علی کے پاس بیٹھا ان سے باتایں کرتا ہوا اپنے ذہن میں پچھلے چوبیس گھنٹوں کے واقعات کو دہراتا اور کوئی ایسی بات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا جو امامہ کو خفا کر سکتی تھی۔ اسے ایسی کوئی بات یاد نہیں آئی۔ ان کے درمیان آخری گفت گو رات کو ہوئی تھی۔ وہ اس کے بازو پر سر رکھے باتیں کرتی سوئی تھی۔ خفا ہوتی تو… وہ الجھ رہا تھا…

”کم از کم میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جو اسے برا لگا ہو، شاید یہاں کوئی ایسی بات ہوئی ہو۔” سالار نے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سوچا۔ ”لیکن یہاں کیا بات ہوئی ہو گی…؟… شاید میں کچھ ضرورت سے زیادہ حساس ہو کر سوچ رہا ہوں، غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے مجھے۔”

وہ اب خود کو تسلی دے رہا تھا لیکن اس کی چھٹی حس اسے اب بھی اشارہ دے رہی تھی۔ بے شک وہ اس سے نو سال بعد ملا تھا مگر نو سال پہلے دیکھے جانے والا س کا ہر موڈ اس کے ذہن پر رجسٹرڈ تھا اور وہ امامہ کے اس موڈ کو بھی جانتا تھا۔

ڈنر ٹیبل پر بھی زیادہ تر گفت گو ڈاکٹر سبط علی اور سالار کے درمیان ہی ہوئی۔ وہ آنٹی کے ساتھ وقفے وقفے سب کو ڈشز سرو کرتی رہی، خاموشی اب بھی برقرار تھی۔

وہ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ مسجد میں تراویج پڑھنے آیا اور حفظ قرآن کے بعد آج پہلی بار تروایح کے دوران اٹکا۔ ایک بات نہیں دوبار… اس نے خود کو سنبھال لیا تھا لیکن وہ بار بار ڈسٹرب ہو رہا تھا۔

وہ ساڑھے دس بجے کے قریب ڈاکٹر سبط علی کے گھر سے سعیدہ اماں کے گھر جانے کے لیے نکلے تھے اور سالار نے بالآخر اس سے پوچھ ہی لیا۔

”تم مجھ سے خفا ہو؟”

کھڑکی سے باہر دیکھتے وہ چند لمحوں کے لیے ساکت ہوئی پھر اس نے کہا۔

”میں تم سے کیوں خفا ہوں گی؟” وہ بدستور کھڑکی کی طرف گردن موڑے باہر دیکھ رہی تھی۔ سالار کچھ مطمئن ہوا۔

”ہاں، میں بھی سوچ رہا تھا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی جس پر تمہار اموڈ آف ہوتا۔” کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے امامہ نے اس کی بات سنی ور اس کی برہمی کچھ اور بڑھی۔

”یعنی میں عقل سے پیدل ہوں جو بلا وجہ اپنا موڈ آف کرتی پھر رہی ہوں… اور اس نے میرے رویے اور حرکتوں کا نوٹس ہی نہیں لیا۔”

”میں تمہیں آج فون کرتا رہا لیکن تم نے فون ہی نہیں اٹھایا۔” وہ ڈرائیو کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

امامہ کو سوچتے ہوئے عجیب سی تسلی ہوئی۔

”اچھا ہوا نہیں اٹھایا یعنی اس نے محسوس تو کیا کہ میں جان بوجھ کر اس کی کال نہیں لیتی رہی۔”

”پھر میں نے گھر کے نمبر پر فون کیا۔ وہ بھی انگیجڈ تھا، تم یقینا اس وقت مصروف تھی اس لیے کال نہیں لے سکیں۔” وہ بے حد عام سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ وہاں بے نیازی کی انتہا تھی۔

امامہ کے رنج میں اضافہ ہوا۔ پھر اسے یاد آیا کہ اس کے فون کا بیلنس ختم ہو چکا تھا۔

”مجھے اپنے فون کے لیے کارڈ خریدنا ہے۔”

سالار نے اسے ایک دم کہتے سنا، وہ اپنا ہینڈ بیگ کھولے اس میں سے کچھ نکال رہی تھی اور جو چیز اس نے نکال کر سالار کو پیش کی تھی، اس نے چند لمحوں کے لیے سالار کو ساکت کر دیا تھا۔ وہ ہزار وپے کا ایک نوٹ تھا۔ وہ اس کے تاثرات سے بے خبر اب ونڈ سکرین سے باہر کسی ایسی شاپ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں پر وہ کارڈز دستیاب ہوتے۔ سالار نے اپنی طرف بڑھے ہوئے اس کے ہاتھ کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔

”واپسی پر لیتے ہیں… اور اس کی ضرورت نہیں ہے۔”

امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔

”تمہیں آنکھیں بند کر کے اپنے سیل فون تھما دیا تھا جب تم میری کچھ نہیں تھی تو اب کیا پیسے لوں گا تم سے!”

گاڑی میں کچھ عجیب سی خاموشی در آئی تھی۔ دونوں کو بیک وقت کچھ یاد آیا تھا اور جو یاد آیا تھا اس نے یک دم وقت کو وہیں روک دیا تھا۔

بہت غیر محسوس انداز میں امامہ نے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے اس ٹکڑے کو بہت سی تہوں میں لپیٹنا شروع کر دیا۔ اس نے اس کی ساری رقم لوٹا دی تھی، بلکہ اس سے زیادہ ہی جتنی اس نے فون، فون کے بل اور اس کے لیے خرچ کی ہو گی۔ مگر احسان… یقینا اس کے احسانوں کا وزن بہت زیادہ تھا۔ اس نے کاغذ کی لپٹی تہوں کو دوبارہ بیگ میں ڈال لیا۔ صبح سے اکٹھی کی ہوئی بدگمانیوں کی دھند یکدم چھٹ گئی تھی یا کچھ دیر کے لیے امامہ کو ایسا ہی محسوس ہوا۔

باہر سڑک پر دھند تھی اور وہ بڑی احتیاط سے گاڑی چلا رہا تھا۔ امامہ کا دل چاہا، وہ اس سے کچھ بات کرے لیکن وہ خاموش تھا۔ شاید کچھ سوچ رہا تھا یا لفظ ڈھونڈ رہا تھا۔

”آج سارا دن کیا کرتی رہیں تم؟”

اس نے بالآخر گفت گو کا دوبارہ آغاز کرنے کی کوشش کی تھی۔ پورا دن فلیش کی طرح امامہ کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ امامہ کو ندامت ہوئی، وہ جو کچھ کرتی رہی تھی، اسے بتا نہیں سکتی تھی۔

”میں سوتی رہی۔” اس نے پورے دن کو تین لفظوں میں سمیٹ دیا۔

”ہاں، مجھے اندازہ تھا، جاگ رہی ہوتیں تو میری کال ضرور ریسیو کرتیں۔” ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔

”پاپا، ممی اور انتیا آرہے ہیں کل شام۔” سالار نے کچھ دیر کے بعد کہا۔

امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔

”تم سے ملنے کے لیے؟” اس نے مزید اضافہ کیا اور بالآخر سسرال کے ساتھ اس کا پہلا رابطہ ہونے والال تھا۔ امامہ کو اپنے پیٹ میں گرہیں لگتی محسوس ہوئیں۔

”تم نے انہیں میرے بارے میں بتایا ہے؟” اس نے بے حد نپے تلے الفاظ میں پوچھا۔

”نہیں، فی الحال نہیں، لیکن آج بتاوؑں گا پاپا کو فون پر۔” وہ ونڈ سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

امامہ نے اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی۔ کوئی پریشانی، تشویش، اندیشہ، خدشہ، خوف، پچھتاوا… وہ کچھ بھی پڑھنے میں ناکام رہی۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا اور اگر اس کے دل میں کچھ تھا بھی تو وہ اسے بڑی مہارت سے چھپائے ہوئے تھا۔

سالار نے اس کو کھوجتی نظروں کو اپنے چہرے پر محسوس کیا۔ اس نے امامہ کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ امامہ نے بے اختیارنظریں ہٹائیں۔

”انیتا کی فلائٹ ساڑھے پانچ بجے اور پاپا کی سات بجے ہے… میں کل بینک سے جلدی ایئرپورٹ چلا جاوؑں گا، پھر ممی اور پاپا کو لے کر میرا خیال ہے نو یا ساڑھے نو بجے تک گھر پہنچوں گا۔”

”یہ تم نے کہا پہنا ہوا ہے؟” سالار نے یک دم اس کے لباس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔

تین گھنٹے پینتالیس منٹ کے بعد بالآخر اسے یاد آگیا کہ میں نے کچھ پہنا ہوا ہے۔ یہ سوچ کر امامہ کی خفگی میں کچھ اضافہ ہوا۔

”کپڑے۔” امامہ نے جواب دیا۔

سالار اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”جانتا ہوں کپڑے پہنے ہیں، اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں۔”

امامہ گردن موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی کہ اب وہ تعریف کرے گا۔ اس نے سوچا۔ دیر سے سہی، لیکن اسے میرے کپڑے نظر تو آئے۔ اس کی خفگی میں کچھ اور کمی ہوئی۔

”کون سا کلر ہے یہ؟” سالار نے اپنے پیروں پر پہلی کلہاڑی ماری۔

کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے امامہ کا دل چاہا، وہ چلتی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر کود جائے۔ پونے چار گھنٹے میں وہ اس کے کپڑوں کا رنگ بھی نہیں پہچان سکا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ اس نے اسے غور سے دیکھا نہیں تھا۔

”پتا نہیں۔” اس نے اسی طرح کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے بے حد سرد مہری سے کہا۔

”ہاں، میں بھی اندازہ نہیں کر سکا۔ آج کل خواتین پہنتی بھی تو بڑے عجیب عجیب کلر ہیں۔” سالار نے اس کے لہجے پر غور کیے بغیر عام سے انداز میں کہا۔

وہ زنک اور کاپر کے سب سے زیادہ اِن شیڈ کو ”عجیب” کہہ رہا تھا۔ امامہ کو رنج سا رنج ہوا۔ سالار شوہروں کی تاریخی غلطیاں دہرا رہا تھا۔ اس بار امامہ کا دل تک نہیں چاہا کہ وہ اس کی بات کا جواب دے، وہ اس قابل نہیں تھا۔ اسے یاد آیا، اس نے کل بھی اس کے کپڑوں کی تعریف نہیں کی تھی۔ کپڑے…؟ اس نے تو اس کی بھی تعریف نہیں کی تھی… اظہار محبت کیا تھی اس نے … لیکن تعریف… ہاں، تعریف تو نہیں کی تھی اس نے … وہ جیسے پچھلی رات کو یاد کرتے ہوئے تصدیق کر رہی تھی، اسے دکھ ہوا۔ کیا وہ اُسے اتنی بھی خوب صورت نہیں لگی تھی کہ وہ ایک بار ہی کہہ دیتا۔ کوئی ایک جملہ، ایک لفظ، کچھ بھی نہیں، وہ ایک بار پھر خود ترسی کا شکار ہونے لگی۔ عورت اظہار محبت اور ستائش کو کبھی ”ہم معنی” نہیں سمجھتی۔ یہ کام مرد کرتا ہے اور غلط کرتا ہے۔

ڈرائیونگ کرتے ہوئے سالار کو اندازہ نہیں ہوا کہ گفت گو کے لیے موضوعات کی تلاش میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے اس نے کس قدر سنگین موضوع کو چھیڑ دیا تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے جیسے ایک بارودی سرنگ کے اوپر پاوؑں رکھ کر کھڑا ہو گیا تھا جو اس کے پاوؑں اٹھاتے ہی پھٹ جاتی۔

سعیدہ اماں کی گلی میں گاڑی پارک کرنے کے بعد سالار نے ایک بار پھر امامہ کے موڈ میں تبدیلی محسوس کی۔ اس نے ایک بار پھر اسے اپنا وہم گردانا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر سبط علی کے گھر پہ بھی غلط فہمی کا شکار رہا۔ آخر ہو کیا گیا ہے مجھے…؟ وہ بھلا کیوں صرف چوبیس گھنٹے میں مجھ سے ناراض ہوتی پھرے گی۔ اس نے اطمینان سے سوچا۔

سعیدہ اماں دراوزہ کھولتے ہی امامہ سے لپٹ گئی تھیں۔ چند لمحوں بعد وہ آنسو بہا رہی تھیں۔ سالار جزبز ہوا۔ آخر اتنے عرصے سے وہ اکٹھے رہ رہی تھیں۔ یقینا دونوں ایک دوسرے کو مس کر رہی ہوں گی۔ اس نے بالآخر خود کو سمجھا۔

سعیدہ اماں نے سالار کے سلام کا جواب دیا، نہ ہی ہمیشہ کی طرح اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ انہوں نے امامہ کو گلے لگایا، اس سے لپٹ کر آنسو بہائے اور پھر اسے لے کر اندر چلی گئیں۔ وہ ہکا بکا دروازے میں ہی کھڑا رہ گیا تھا۔ انہیں کیا ہوا؟ وہ پہلی بار بری طرح کھٹکا تھا۔ اپنے احساس کو وہم سمجھ کر جھٹکنے کی کوشش اس بار کامیاب نہیں ہوئی۔ کچھ غلط تھا مگر کیا…؟ وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر اس نے پلیٹ کر بیرونی دروازہ بند کیا اور اندر چلا آیا۔

وہ دونوں کچھ باتیں کر رہی تھیں، اسے دیکھ کر یک دم چپ ہو گئیں۔ سالار نے امامہ کو اپنے آنسو پونچھتے دیکھا۔ وہ ایک بار پھر ڈسٹرب ہوا۔

”میں چائے لے کر آتی ہوں… بادام اور گاجر کا حلوہ بنایا ہے آج میں نے۔” سعیدہ اماں یہ کہتے ہوئے کھڑی ہوئیں۔ سالار نے بے اختیار نہیں ٹوکا۔

”سعیدہ اماں! کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم لوگ کھانا کھا کر آئے ہیں اور چائے بھی پی لی ہے۔ صرف آپ سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔”

وہ کہتے کہتے رک گیا، اسے احساس ہوا کہ وہ پیش کش سرے سے اسے کی ہی نہیں گئی تھی۔ سعیدہ اماں مکمل طور پر امامہ کی طرف متوجہ تھیں اور امامہ اسے کچھ کھانے پینے میں متامل نظر نہیں آئی۔

”میں کھاوؑں گی اور میں آ پ کے ساتھ چلتی ہوں آپ کس طرح اٹھائیں گی برتن۔” امامہ نے سعیدہ اماں سے کہا اور پھر ان کے ساتھ ہی کچن میں چلی گئی۔ سالار ہونقوں کی طرح وہاں بیٹھا رہ گیا۔

اگلے پندرہ منٹ وہ اس صورت حال پر غور کرتا، وہیں بیٹھا کمرے کی چیزوں کو دیکھتا رہا۔

بالآخر پندرہ منٹ کے بعد امامہ اور سعیدہ اماں کی واپسی ہوئی۔ اسے امامہ کی آنکھیں پہلے سے کچھ زیادہ سرخ اور متورم لگیں، یہی حال کچھ اس کی ناک کا تھا۔ وہ یقینا کچن میں روتی رہی تھی مگر کس لیے؟ وہ اب الجھ رہا تھا۔ کم از کم اب وہ آنسو اسے سعیدہ اماں اور اس کی باہمی محبت و یگانگت کا نتیجہ نہیں لگ رہے تھے۔ سعیدہ اماں کے چہرے اور آنکھوں میں اسے پہلے سے بھی زیادہ سردمہری نظر آئی۔

اسے اس وقت چائے میں دلچسپی تھی نہ کسی حلوے کی طلب… کچھ بھی کھانا اس کے لیے بدہضمی کا باعث ہوتا لیکن جو ماحول یک دم وہاں بن گیا تھا، اس نے اسے ضرورت سے زیادہ محتاط کر دیا تھا۔ کسی انکار کے بغیر اس نے خاموشی سے پلیٹ میں تھوڑا سا حلوہ نکالا۔ امامہ نے ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی طرح یہاں بھی اس سے پوچھے بغیر اس کی چائے میں دو چمچ چینی ڈال کر اسے کے سامنے رکھ دی، پھر اپنی پلیٹ میں لیا حلوہ کھانے لگی۔

چند منٹوں کی خاموشی کے بعد بالآخر سعیدہ اماں کی قوت برداشت جواب دے گئی تھی۔ اپنے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ ایک طرف رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی عینک کو ناک پر ٹھیک کرتے ہوئے تیز نظروں سے سالار کو گھورا۔

قسط نمبر 5

اپنی پلیٹ میں ڈالے حلوے کو چمچ سے ہلاتے سالار ٹھٹھکا۔ اس نے پہلے سعیدہ اماں کو دیکھا، پھر امامہ کو… وہ بھی ٹھٹھکی تھی… اور کچھ گڑبڑائی بھی… سالار کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی اور اس کے گلے شکوے کرنا اور بات تھی مگر اس کے سامنے بیٹھ کر وہی کچھ دہرانا، خاص طور پر جب ان الزامات کا کچھ حصہ کسی جھوٹ پر مبنی ہو۔ وہ واقعی گھبرا گئی تھی۔

سالار کو یہ سوال نہیں، تبصرہ لگا۔

”جی۔” اس نے ان کی تائید کی۔

”وہ مرد دوزخ میں جاتے ہیں جو اپنی بیویوں کو تنگ کرتے ہیں۔” سعیدہ اماں نے اگلا جملہ بولا۔

اس بار سالار فوری طور پر تائید نہیں کر سکا۔ وہ خود مرد تھا اور شوہر بھی، لاکھ وہ امامہ پر مرتا ہو لیکن ”بیوی” کی موجودگی میں اس تبصرہ کی تائید اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مصداق تھا۔ وہ شادی کے دوسرے ہی دن اتنی فرماں برداری نہیں دکھا سکتا تھا جس پر وہ بعد میں ساری عمر پچھتاتا۔

اس بار کچھ کہنے کے بجائے اس نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔ اس کی خاموشی نے سعیدہ اماں کو کچھ اور پتا دیا۔

”دوسروں کے دل دکھانے والے کو اللہ کبھی معاف نہیں کرتا۔” سالار نے حلوہ کھاتے کھاتے اس جملے پر غور کیا، پھر تائید میں سر ہلا دیا۔

”جی بالکل۔” سعیدہ اماں کو اس کی ڈھٹائی پر غصہ آیا۔

”شریف گھرانے کے مردوں کا وتیرہ نہیں ہے کہ دوسروں کی بیٹیوں کو پہلے بیاہ کر لے جائیں اور پھر انہیں پہلی بیویوں کے قصے سنانے بیٹھ جائیں۔”

امامہ کی جیسے جان پر بن گئی۔ یہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا۔

”آپ کی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے اماں!” اس نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش کی۔

سالار نے باری باری ان دونوں کو دیکھا، اسے اس جملے کا سر پیر سمجھ میں نہیں آیا تھا اور پہلے جملوں سے ان کا کیا تعلق تھا، وہ بھی سمجھ نہیں پایا لیکن تائید کرنے میں کوئی برائی نہیں تھی کیوںکہ بات مناسب تھی۔

”ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ” اس نے بالآخر کہا۔

اس کی سعادت مندی نے سعیدہ اماں کو مزید پتا دیا۔ شکل سے کیسا شریف لگ رہا ہے۔ اسی لیے تو سبط بھائی بھی دھوکا کھا گئے۔ انہوں نے ڈاکٹر سبط علی کو غلطی کرنے پر چھوٹ دی۔

”آمنہ کے لیے بہت رشتے تھے۔” سعیدہ اماں نے سلسلہ کلام جوڑا۔

انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک غلط آدمی کو امامہ کی قدروقیمت کے بارے میں غلط لیکچر دے رہی تھیں۔ حلوے کی پلیٹ ہاتھ میں لیے سالار نے ایک نظر امامہ کو دیکھا پھر سعیدہ اماں کو، جو بے حد جوش و خروش سے کہہ رہی تھیں۔

”یہ سامنے والے ظہور صاحب کے بڑے بیٹے نے آمنہ کو کہیں دیکھ لیا تھا۔ ماں باپ کو صاف صاف کہہ دیا اس نے کہ شادی کروں گا تو اسی لڑکی سے۔ خالہ کی بیٹی کے ساتھ بچپن کی منگنی بھی توڑ دی۔”

اس بار سالار نے حلوے کی پلیٹ ٹیبل پر رکھ دی۔ وہ کم از کم امامہ کے کسی ایسے رشتے کی تفصیلات مزے سے حلوہ کھاتے ہوئے نہیں سن سکتا تھا۔ امامہ نے اس بار سعیدہ اماں کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بڑی ہی عامیانہ بات تھی لیکن وہ بھی جیسے چاہتی تھی کہ کوئی سالار کو بتائے کہ وہ ”قابل قدر” ہے، وہ اسے صرف ”بیوی” سمجھ کر برتاؤ نہیں کر سکتا۔

”جوتے گھس گئے لڑکے کی ماں کے یہاں کے چکر لگا لگا کر، محلے کے ہر معزز آدمی سے کہلوایا اس نے، میرے بیٹے تک کو انگلینڈ فون کرایا اس رشتے کے لیے۔” سعیدہ اماں بول رہی تھیں۔

سالار اب بے حد سنجیدہ تھا اور امامہ قدرے لا تعلقی کے انداز میں سر جھکائے حلوے کی پلیٹ میں چمچ بلا رہی تھی۔

”اس کے ماں باپ نے کہا کہ جو چاہیں حق مہر میں لکھوا لیں، بس اپنی بچی کو ہماری بیٹی بنا دیں۔”

سالار نے بے حد جتانے والے انداز میں اپنی رسٹ واچ یوں دیکھی جیسے اسے دیر ہو رہی تھی۔ سعیدہ اماں کو اس کی اس حرکت پر بری طرح تاؤ آیا۔ اس گفت گو کے جواب میں کم از کم وہ اس سے اس بے نیازی کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔

”ابھی آج بھی اس کی ماں آئی ہوئی تھی۔ بہت افسوس سے کہہ رہی تھی کہ بڑی زیادتی کی ان کے بیٹے کے ساتھ میں نے… ایک بار نہیں، دو بار … کہہ رہی تھی کہ ہمیں چھوڑ کر کسی ایرے غیرے کے ساتھ پکڑ کر بیاہ دیا۔ میرا بیٹا کیوں نظر نہیں آیا آپ کو… رانیوں کی طرح رکھتا آمنہ کو… دیکھ دیکھ کر جیتا اسے۔”

سعیدہ اماں اب مبالغہ آمیزی کی آخری حدود کو چھونے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھی۔ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے چہرے پر اب بھی مرعوبیت نام کی کوئی چیز نمودار نہیں ہوئی تھی۔ وہ سنجیدہ چہرے کے ساتھ انہیں یک ٹک دیکھ رہا تھا۔ سعیدہ اماں کو لگا، انہوں نے اس کے ساتھ شادی کر کے واقعی آمنہ کی قسمت پھوڑی تھی۔

بے حد خفگی کے عالم میں انہوں نے سردی کے موسم میں بھی پانی کا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ میں پیا تھا۔ اس کی یہ خاموشی امامہ کو بھی بری طرح چبھی تھی۔ وہ رات کو اس سے کیا کچھ کہہ رہا تھا اور اب یہاں سعیدہ اماں کو بتانے کے لیے اس کے پاس ایک لفظ بھی نہیں تھا کہ وہ اس کے لیے اہم ہے… یا وہ اُس کا خیال رکھے گا… یا کوئی اور وعدہ… کوئی اور تسلی… کوئی اور بات… کچھ تو کہنا چاہیے تھا اسے سعیدہ اماں کے سامنے… اسے عجیب بے قدری اور بے وقعتی کا احساس ہوا تھا… رنج کچھ اور سوا ہو… فاصلہ کچھ اور بڑھا تھا… اس نے کسی دوسرے کے سامنے بھی اسے تعریف کے دو لفظوں کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ اکیلے میں تعریف نہ کرے لیکن یہاں بھی کچھ کہہ دیتا… کچھ تو… اس کا دل ایک بار پھر بھر آیا۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ سالار اس سے روایتی شوہروں والا رویہ رکھے لیکن خود وہ اس سے روایتی بیوی والی ساری توقعات لیے بیٹھی تھی۔

”بہت دیر ہو گئی، میرا خیال ہے، ہمیں اب چلنا چاہیے۔ مجھے صبح آفس جانا ہے، آج کل کام کچھ زیادہ ہے۔” سالار کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تھا۔

اس نے بڑے تحمل کے ساتھ سعیدہ اماں سے کہا اور پھر اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اب امامہ کے کھڑے ہونے کا منتظر تھا لیکن امامہ نے ٹیبل پر رکھے برتن اٹھا کر ٹرے میں رکھتے ہوئے اسے دیکھے بغیر بڑی سرد مہری کے ساتھ کہا۔ ”میں آج یہیں رہوں گی سعیدہ اماں کے پاس…”

سالار چند لمحوں کے لیے بھونچکا رہ گیا۔ اس نے پچھلے کئی گھنٹوں میں ایک بار بھی ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ سعیدہ اماں کے پاس رات گزارنے کا اردہ رکھتی ہے اور اب یک دم بیٹھے بیٹھائے یہ فیصلہ…

”ہاں، بالکل یہیں چھوڑ جاؤ اسے۔” سعیدہ اماں نے فوری تائید کی۔ امامہ اس کے انکار کی منتظر تھی۔

”ٹھیک ہے، یہ رہنا چاہتی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔” سالار نے بڑی سہولت سے کہا۔

برتن سمیٹتی امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ا س نے ایک منٹ کے لیے بھی اسے ساتھ لے جانے پر اصرار نہیں کیا تھا، وہ اتنا تنگ آیا ہوا تھا اس سے…

اس سے پہلے کہ سالار کچھ اور کہتا ، دو ایک جھپاکے کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔ سعیدہ اماں نے بے حد قہر آلود نظروں سے اسے دیکھا، سالار نے جیسے امامہ کے ہر الزام کی تصدیق کر دی تھی۔ سالار کو امامہ کے یوں جانے کی وجہ سمجھ میں آئی، نہ سعیدہ اماں کی ان ملامتی نظروں کا مفہوم سمجھ سکا وہ۔ وہ گفت گو جتنی اپ سیٹ کرنے والی تھی اتنا ہی امامہ کا یک دم کیا جانے والا یہ اعلان تھا کہ وہ آج وہیں رہے گی۔ اسے برا لگا تھا لیکن اتنا برا نہیں لگا تھا کہ وہ اس پر اعتراض یا خفگی کا اظہار کرتا اور وہ بھی سعیدہ اماں کے سامنے۔

”اوکے… میں چلتا ہوں پھر۔” وہ سعیدہ اماں کے ساتھ باہر صحن میں نکل آیا۔

اس کا خیال تھا، امامہ کچن میں برتن رکھ کر اسے خدا حافظ کہنے تو ضرور جآئے گی لیکن وہ نہیں آئی تھی۔ وہ کچھ دیر سعیدہ اماں سے بے مقصد باتیں کرتا صحن میں کھڑا اس کا انتظار کرتا رہا۔ سعیدہ اماں کے لہجے میں اتنی سرد مہری نہ ہوتی تو ان سے امامہ کو بلوانے جکا کہتے ہوئے اسے جھجک محسوس نہ ہوتی۔

سعیدہ اماں کے گھر سے نکلتے ہوئے اس نے پہلی بار اس محلے اس کے سامنے والے گھر کو سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ وہاں سے اکیلے واپس آنا اسے کھل رہا تھا۔ وہ اتنے سال اس کے بغیر ہی رہا تھا۔ اسے کبھی تنہائی نہیں چبھی تھی۔ اس نے ایک رات اس کے ساتھ گزاری تھی اور تنہائی کا مفہوم اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ وہاں سے واپسی کی ڈرائیو کی زندگی کی سب سے طویل ڈرائیو تھی۔

٭٭٭٭

”کل بھائی صاحب کے ہاں چلیں گے۔ انہیں بتائیں گے یہ سب کچھ… وہی بات کریں گے سالار سے۔” سعیدہ اماں اس کے پاس بیٹھی کہہ رہی تھیں۔ وہ بے حد پریشان تھیں۔

امامہ نے ان کی بات کی تائید کی نہ تردید۔ اب اس کا دل کچھ بھی کہنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ بس اپنے بیڈ پر کمبل اوڑھے چپ چاپ بیٹھی سعیدہ جاماں کی باتیں سنتی رہی۔

”اچھا، چلو اب سو جاؤ بیٹا! صبح سحری کے لیے بھی اٹھنا ہو گا۔”

سعیدہ اماں کو اچانک خیال آیا۔ بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے نکلتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔

”لائٹ آف کر دوں؟”

پچھلی رات ایک جھماکے کے ساتھ اسے یاد آئی تھی۔

”نہیں… رہنے دیں۔” وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتے ہوئے لیٹ گئی۔

سعیدہ اماں دروازہ بند کر کے چلی گئیں۔ کمرے کی خاموشی نے اسے سالار کے بیڈ روم کی یاددلائی۔

”ہاں، اچھا ہے نا… میں نہیں ہوں، آرام سے لائٹ آن کر کے سو تو سکتا ہے۔ یہی تو چاہتا تھا وہ…” وہ پھر سے رنجیدہ ہونے لگی اور تب ہی اس کا سیل فون بجنے لگا۔ امامہ کے خون کی گردش پل بھر کے لیے تیز ہوئی، وہ اسے بالآخر کال کر رہا تھا۔ اس نے بے حد خفگی کے عالم میں فون بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پھینک دیا۔

وہ اسے ساتھ لے کر نہیں گیا اور اب اسے اس کی یاد آرہی تھی۔ اس کی رنجیدگی، غصے میں بدل رہی تھی۔ وہ اس طرح کیوں کرہی تھی کہ رائی کا پہاڑ بنا رہی تھی۔

اس نے جیسے اپنا تجزیہ کیا اور اس تجزیے نے بھی اسے اذیت دی۔ میں زود رنج ہو گئی ہوں یا وہ مجھے جان بوجھ کر بری طرح اگنور کر رہا ہے۔ یہ جتانا چہاتا ہے کہ میں اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کے دوست، اس کا آفس، اس کی فیملی… بس یہ اہم ہیں اس کے لیے… دوبارہ کال نہیں آئی، چند سیکنڈ کے بعد اس کا میسج آیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ یقینا اس سے کہے گا وہ اسے مس کر رہا تھا۔

ٹیکسٹ میسج میں اس کے لیے ایک ری لوڈ کارد کا نمبر تھا اور اس کے نیچے دو لفظ… ”گڈ نائٹ سوئیٹ ہارٹ!”

پہلے اسے شدید غصہ آیا پھر بری طرح رونا۔ اسے پہلے بھی زندگی میں سالار سکندر سے برا کوئی نہیں لگا تھا اور آج بھی اس سے برا کوئی نہیں لگ رہا تھا۔

٭٭٭٭

”آمنہ سے بات کروا دو… میں اور طیبہ بھی اس سے بات کر لیں… شادی کر لی… اسے گھر بھی لے آؤ… اب کسی کام میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے یا نہیں۔” سکندر نے ابتدائی سلام و دعا کے ساتھ چھوٹتے ہی اس سے کہا۔

”وہ آج اپنے میکے میں ہے۔” سالار نے کچھ سوچ کر کہا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی سعیدہ اماں کے گھر سے واپس آیا تھا۔

”تو برخوردار! تم بھی اپنے سسرال میں ہی ٹھہرتے ، تم منہ اٹھا کر اپنے اپارٹمنٹ کیوں آگئے؟” سکندر نے اسے ڈانٹا، وہ جواباً ہنسا۔

”ممی پاس ہی ہیں؟” اس نے موضوع بدلا۔

”ہاں… کیوں، بات کرنی ہے؟”

”نہیں، فی الحال تو آپ ہی سے بات کرنی ہے… بلکہ کچھ زیادہ سیریس بات کرنی ہے۔”

سکندر یک دم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ”یہ سالار سکندر ” تھا، وہ اگر سیریس کہہ رہا تھا تو بات یقینا ”بہت سیریس تھی۔”

”کیا بات ہے؟”

”مجھے… اصل میں آمنہ کے بارے میں آپ کو کچھ بتانا ہے۔”

سکندر الجھ گئے۔ وہ آمنہ کے بارے میں انہیں نکاح کے بعد بتا ہی چکا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی کی بیٹی جس کے ساتھ اس نے اپنی کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر ایمرجنسی میں نکاح کیا تھا… سکندر عثمان، ڈاکٹر سبط علی کو جانتے تھے اور سالار کے توسط سے دو تین بار ان سے مل بھی چکے تھے۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کی بیٹی کے بجائے کسی بھی لڑکی سے اس طرح اچانک ان لوگوں کو مطلع کیے بغیر نکاح کرتا، تب بھی انہیں اعتراض نہ ہوتا۔ وہ اور ان کی فیملی کچھ اتنی ہی لبرل تھی اور سالار تو بہرحال ”اسپیشل کیس” تھا… یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ شادی ”انسانوں” کی طرح کرتا۔ یہ تبصرہ طیبہ کاتھا جو انہوں نے اس کے نکاح کی خبر ملنے پر قدرے خفگی لیکن اطمینان کے ساتھ کیا تھا اور اب وہ کہہ رہا تھا کہ اسے آمنہ کے بارے میں کچھ بتانا تھا۔

”کیا بتانا ہے آمنہ کے بارے میں؟”

سالار نے گلا صاف کیا۔ بات کیسے شروع کرے، سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔

”آمنہ اصل میں امامہ ہے۔” تمہید اس نے زندگی کبھی نہیں باندھی تھی، پھر اب کیسے باندھتا۔ دوسری طرف ایک دم خاموسی چھا گئی۔ سکندر کولگا، انہیں سننے میں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔

”کیا… کیا مطلب؟” انہوں نے جیسے تصدیق چاہی۔

”امامہ کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ وہ اتنے سالوں ان ہی کے پاس تھی۔ انہوں نے اس کا نام چینج کر دیا تھا اس کے تحفظ کے لیے۔ مجھے نکاح کے وقت یہ پتا نہیں تھا کہ وہ امامہ ہے، لیکن وہ امامہ ہی ہے۔”

آخری جملے کے علاوہ اسے باقی تفصیل احمقانہ نہیں لگی۔

سکندر عثمان نے رکتی ہوئی سانس کے ساتھ برابر کے بیڈ پر بیٹھی بیوی کو دیکھا جو اسٹار پلس پر کوئی ٹاک شور دیکھنے میں مصروف تھی اور یہ اچھا ہی تھا۔

وہ اسی طرح رکتی ہوئی سانس کے ساتھ، ننگے پاؤں اپنے بستر سے اتر کر بیڈ روم کا دروازہ کھول کر، بے حد عجلت کے عالم میں باہر نکل گئے۔ طیبہ نے کچھ حیرت سے انہیں اس طرح اچانک جاتے دیکھا۔

”ایک تو ان باپ بیٹے کا رومانس ہی ختم نہیں ہوتا، اب دو گھنٹے لگا کر آئیں گے۔” طیبہ نے قدرے خفگی سے سوچا اور دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

باہر لاؤنج میں سکندر عثمان کے چودہ طبق روشن ہو رہے تھے۔ وہ ابھی چند گھنٹے پہلے ہی طیبہ کے ساتھ اپنے آخری اولاد کے ”سیٹل” ہو جانے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ولیمہ پلان کر رہے تھے اور انہیں وقتی طور پر یہ بھول گیا تھا کہ وہ آخری اولاد ”سالار سکندر” تھا۔

دو گھنٹے تک لاؤنج میں اس کے ساتھ طویل گفت و شنید کے بعد وہ جب بالآخر واپس بیڈ روم میں آئے تو طیبہ سو چکی تھی لیکن سکندر عثمان کی نیند اور اطمینان دونوں رخصت ہو چکے تھے۔

٭٭٭٭

سکندر عثمان اس سے ناراض نہیں ہوئے تھے لیکن وہ ان تمام خدشات کو سمجھ سکتا تھا جو یک دم ان کے ذہن میں جاگ اٹھے تھے۔ اتنے سال سے ہاشم مبین کی فیملی کے ساتھ ان کے تمام تعلقات مکمل طور پر منقطع تھے لیکن اس کے باوجود سب کچھ پر سکون تھا۔ امامہ کی اس فوری گمشدگی کے بعد شروع کے چند مہینے وہ انہیں تنگ کرتے رہے تھے لیکن جوں جوں انہیں یقین ہوتا گیا کہ سکندر عثمان اور سالار کا واقعی امامہ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے تو ساری گرد جیسے آہستہ آہستہ بیٹھتی گئی۔ اس کے باوجود ہاشم مبین کو اب بھی یقین تھا کہ رابطہ نہ ہونے کے باوجود امامہ کو بھاگنے میں سالار کا کسی نہ کسی طرح ہاتھ ضرور تھا، مگر یہ بات ثابت کرنا مشکل تھا اور اب نو سال بعد یک دم جیسے ”ثبوت” سامنے آگیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ہاشم مبین اور اس کی فیملی کیا طوفان اٹھاتی، اس کے بارے میں سکندر کو کوئی خوش فہمی نہیں تھی۔ وہ اگر پریشان تھے تو سالار ان کی پریشانی سمجھ سکتا تھا۔

ان سے بات کرنے کے بعد وہ سونے کے لیے بیڈ پر آکر لیٹ گیا اور اس وقت اسے ایک بار پھر امامہ یاد آئی۔ اس نے گردن موڑ کر اس خالی بستر اور تکیے کو دیکھا۔ اسے پچھلی رات اس تکیے پر بکھری زلفیں یاد آئیں۔ چند لمحوں کے لیے اسے یوں لگا جیسے وہ وہیں تھی۔ اس تکیے سے اس کے کندھے اور اس کے کندھے سے اس کے سینے تک آتی ہوئی وہ سیاہ ریشمی زلفیں ایک بار پھر اس سے لپٹنے لگی تھیں۔

اس نے لائٹ آف کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ پچھلی رات نہیں تھی کہ اسے تاریکی میں بھی نیند آجاتی۔

٭٭٭٭

وہ ساری رات نہیں سوئی۔ غصہ، رنج ، افسوس اور آنسو… وہ ایک کیفیت سے نکلتی، دوسری میں داخل ہوتی رہی۔

سحری کے وقت بھی اس کا دل بستر سے نکل کر سعیدہ اماں کا سامنا کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ انہیں اپنی اتری ہوئی شکل دکھانا نہیں چاہتی تھی لیکن مجبوری تھی۔ سعیدہ اماں اسے مجبور نہ کرتیں تو وہ سحری کھائے بغیر روزہ رکھتی۔ واپس کمرے میں آنے پر اس نے ایک بار پھر اپنے سیل پر سالار کی مسڈ کال دیکھی۔ اس نے سیل آف کیا اور کمبل لپیٹ کر سو گئی۔

سالار نے دس بجے کے قریب آفس سے اسے کال کی، سیل آف تھا۔ گیارہ بجے کال کرنے پر ایک بار پھر سیل آف ملا۔ اس بار اس نے سعیدہ اماں کی لینڈ لائن پر کال کی۔

”امامہ سو رہی ہے۔” انہوں نے چھوٹتے ہی سرد مہری سے اسے اطلاع دی۔

”اچھا، جب وہ اٹھے تو آپ اس سے کہیں کہ مجھے کال کر لے۔” اس نے پیغام دیا۔

”دیکھوں گی، اگر اس کے پاس فرصت ہوئی تو کر لے گی۔” سعیدہ اماں نے یہ کہہ کر کھٹاک سے فون بند کر دیا۔ وہ سیل ہاتھ میں پکڑے رہ گیا۔ اگلے پانچ منٹ وہ اسی پوزیشن میں بیٹھا سعیدہ اماں کے جواب پر غور کرتا رہا۔

امامہ کو اس کا پیغام مل گیا تھا اور سعیدہ اماں نے سالار کو دیا جانے والا جواب اسے سنا دیا۔ وہ خاموش رہی۔

”آج بھائی صاحب کی طرف چلیں گے۔” سعیدہ اماں نے اسے چپ دیکھ کر کہا۔

”آج رہنے دیں، سالار کے گھر والے آرہے ہیں ، بعد میں بات کر لیں گے۔”امامہ نے سعیدہ اماں سے کہا۔ سالار نے ڈیڑھ بجے کے قریب فون کیا اور اس کی آواز سنتے ہی کہا۔

”تھینگ گاڈ! تمہاری آواز تو سننا نصیب ہوا مجھے…” وہ جواباً خاموش رہی۔

”ڈاکٹر صاحب کا ڈرائیور پہنچنے ہی والا ہو گا، تم تیار ہو جاؤ۔” سالار نے اس کی خاموشی نوٹس کیے بغیر اسے اطلاع دی۔

”ڈنر کے لیے کیا بنانا ہے؟”امامہ نے جواباً کہا۔

”کون سا ڈنر؟”

”تمہارے پیرنٹس کھانا نہیں کھائیں گے کیا؟”

”نہیں، ڈنر فرقان کے گھر پر ہے۔”

”میں ڈنر خود تیار کر لوں گی۔” اس نے اس اطلاع پر دو ٹوک انداز میں کہا۔

”یہ ڈنر وہ ہم دونوں کے لیے نہیں بلکہ ممی، ماما اور انیتا کے لیے کر رہا ہے۔” وہ کچھ خفیف سی ہو گئی۔

”لیکن سحری کے لیے تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہو گا۔”

”میری فیملی میں روزے وغیرہ کوئی نہیں رکھتا، لیکن پوچھ لوں گا اور کر لیںگے کچھ نہ کچھ … فریج میں بہت کچھ ہے۔ تم اس جھنجھٹ میں نہ پڑو۔”

”ہیلو!” سالار نے جیسے لائن پر اس کی موجودگی کو چیک کیا۔

”میں سن رہی ہوں۔” اس نے جواباً کہا۔

”امامہ! تم اور سعیدہ اماں کل رات کو روکیوں رہی تھیں…؟”

سالار نے بالآخر وہ سوال کیا جو پچھلی رات سے اسے تنگ کر رہا تھا۔

”ایسے ہی۔” وہ کچھ دیر کے لیے جواب نہ دے سکی۔

”اور سعیدہ اماں کا موڈ بھی کچھ آف تھا؟”

”پتا نہیں… تم پوچھ لیتے۔” ” اس نے اب بھی اسی انداز سے کہا۔

”چلو تم اب تیار ہو جاؤ، گھر پہنچ جاؤ تو مجھے ٹیکسٹ میسج کرنا۔ اگر میں فری ہوا تو تمہیں کال کر لوں گا۔” امامہ نے جواباً خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ اس کا دل چاہا تھا، اس سے کہے۔ ”ضرورت نہیں۔”

٭٭٭٭

وہ تقریباً اڑھائی بجے ڈاکٹر صاحب کے ڈرائیور کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ پر پہنچی تھی اور اس نے آتے ہی سب سے پہلے دونوں بیڈ رومز چیک کیے تھے۔ بیڈ رومز یا باتھ رومز میں کچھ رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

سالار آفس جانے سے پہلے یقینا ہر کام خود ہی کر کے گیا تھا۔ا س نے ایک بار پھر اپنے وجود کو ”بے مصرف” محسوس کیا۔

ایک بیڈ روم شاید پہلے ہی گیسٹ روم کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، جب کہ دوسرا بیڈ روم وہ اسٹڈی کے طور پر بھی استعمال کر رہا تھا۔ وہاں ایک ریک پر کتابوں کے ڈھیر کے علاوہ اسی طرح کے ریکس پر سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کے انبار بھی نظر آئے سٹنگ روم میں موجود جریکس پر بھی ڈی وی ڈیز اور سی ڈیز تھیں لیکن ان کی تعداد اس کمرے کی نسبت بہت کم تھی۔ کمرے میں کچھmusical instruments بھی پڑے ہوئے تھے اور ایک اسٹڈی ٹیبل پر جس ایک ڈیسک ٹاپ تھا۔ وہ اسٹڈی ٹیبل اس کمرے کی وہ واحد چیز تھی جس پر پڑے کاغذ، فائلز اور desk organiser اسے بے ترتیب نظر آئے۔ وہ اٹھنے سے پہلے اسے ٹھیک کرنا بھول گیا تھا یا شاید اس کے پاس وقت نہیں تھا۔

ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ وہ ان پیپرز کو ٹھیک کر دے، اگلے ہی لمحے اس نے اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ اسے خدشہ تھا وہ یہ کام سالار جیسی پرفیکشن جکے ساتھ نہیں کر سکتی تھی اور اگر کوئی پیپر اِدھر اُدھر ہو گیا تو…؟

وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل آئی۔ فریج اور فریزر میں واقعی جکھانے کا بہت سا سامان تھا اور اس کو یقین تھا کہ ان میں سے نوے پرسنٹ اشیاء فرقان ور نوشین کی مرہون منت تھی۔ جو چیزیں سالار کی اپنی خریداری کا نتیجہ تھیں ان میں پھلوں کے علاوہ ڈرنکس اور ٹن پیکڈ فوڈ آئٹمز کی ایک محدود تعداد تھی۔ اس نے چند ٹن نکال کر دیکھے، وہ تقریباً سب کے سب سی فوڈ تھے۔

امامہ کو کھانے میں صرف ایک چیز ناپسند تھی۔ سی فوڈ… روزے کی وجہ سے اس کا معدہ خالی نہ ہوتا تو وہ ان ڈبوں پر بنے ہوئے کریبز اور پرانز دیکھ کر اسے وومٹنگ شروع ہو جاتی۔ اس نے بڑی مایوسی کے عالم میں ان ٹنز کو واپس فریج میں رکھ دیا۔ یقینا وہ ڈیکوریشن کے مقصد سے خرید کر نہیں رکھے گئے تھے۔ وہ خرید کر لاتا تھا تو یقینا کھاتا بھی ہو گا۔ اس کا خراب موڈ کچھ اور ابتر ہو ا۔ ابھی اور کیا کیا پتا چلنا تھا اس کے بارے میں…

اس نے کچن کے کیبنٹس کھول کر دیکھے اور بند کر دیے۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کچن میں فریج کے علاوہ صرف کافی کیبنٹس اور برتنوں کے ریکس کے علاوہ کہیں کچھ نہیں۔ وہ کچن صرف ناشتے اور سینڈوچ والے میلز کے علاوہ صرف چائے یا کافی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ وہاں اسے چند فرائنگ پینز کے علاوہ کسی قسم کے پکانے کے برتن نظر نہیں آئے۔ کچن میںموجود کراکری بھی، ایک ڈنر سیٹ اور چند واٹر اور ٹی سیٹس پر مشتمل تھی یا اس کے علاوہ کچھ مگز جتھے یا پھر بریک فاسٹ سیٹ۔ یقینا اس کے گھر آنے والے افراد کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی۔ وہ کچن سے نکل آئی۔

اپارٹمنٹ کا واحد غیر دریافت شدہ حصہ بالکونی تھا۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آئی اور وہ پہلی جگہ تھی جہاں آتے ہی اس کا دل خوش ہوا تھا۔ چھ فٹ چوڑی اور بارہ فٹ لمبی وہ ٹیرس نما بالکونی کو ٹیرس گارڈن کہنا زیادہ مناسب تھا۔ مختلف شکلوں اور سائزز کے گملوں میں مختلف قسم کے پودے اور بیلیں لگی ہوئی تھیں اور شدید سرد موسم میں بھی ان کی حالت بتا رہی تھی کہ ان پر خاصی محنت اور وقت لگایا گیا تھا۔ وہاں آس پاس کی بالکونیوں سے بھی اسے سبز رنگ کے پودے اور بیلیں جھانکتی نظر آرہی تھیں لیکن یقینا سالار کی بالکونی کی حالت سب سے بہتر تھی۔

لاؤنج کی قد آدم کھڑکیاں بھی اسی بالکونی میں تھیں اور بالکونی میں ان کھڑکیوں کے پاس دیوار کے ساتھ زمین پر ایک میٹ موجود تھا۔ وہ شاید یہاں آکر بیٹھتا ہو گا یا دھوپ میں لیٹتا ہو گا۔ شاید ویک اینڈ پر… ورنہ سردی کے موسم میں اس میٹ کی وہاں موجودگی کا مقصد اسے سمجھ میں نہیں آیا۔ بالکونی کی منڈیر کے قریب ایک اسٹول پڑا ہوا تھا۔ وہ یقینا وہاں آکر بیٹھتا تھا۔ نیچے دیکھنے کے لیے … منڈیر پر مگ کے چند نشان تھے۔ چائے یا کافی پیتا ہے یہاں بیٹھ کر … مگر کس وقت… یقینا رات جکو… اس نے سوچا اورآگے بڑھ کر نیچے جھانکا۔ وہ تیسری منزل تھی اور نیچے بلڈنگ کا لان اور پارکنگ تھے۔ کچھ فاصلے پر کمپاؤنڈ سے باہر سڑک بھی نظر آرہی تھی۔ وہ ایک پورش ایریا تھا اور سڑک پر ٹریفک زیادہ نہیں تھی۔ وہ واپس اندر آگئی۔

وہ کپڑے تبدیل کر کے ابھی اپنے بال بنا رہی تھی کہ جب اسے ڈور بیل کی آواز سنائی دی۔ فوری طور پر اسے نوشین ہی کا خیال آیا تھا۔

لیکن دروازے پر ایک ریسٹورنٹ کا ڈیلیوری بوائے چند پیکٹس لیے کھڑا تھا۔

”میں نے آرڈر نہیں کیا۔” اسے لگا شاید وہ کسی غلط اپارٹمنٹ میں آگیا ہے۔

اس نے جواباً سالار سکندر کا نام ایڈریس کے ساتھ دہرایا۔ چند لمحوں کے لیے وہ چپ سی ہو گئی۔ وہ کم از کم اتنا لاپروا نہیں تھا اس کے بارے میں کہ اس کے افطار کے لیے کچھ انتظام کرنا بھول جاتا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ وہ اپنے پیرنٹس کو لینے کے لیے آفس سے نکل چکا ہو گا اور ایئر پورٹ پہنچنے کی بھاگ دوڑ میں اسے شاید وہ یاد بھی نہیں ہو گی۔

کچن میں ان پیکٹس کو رکھتے ہوئے اس کا غصہ اور رنجیدگی کچھ کم ہوئی اور یہ شاید اس کا ہی اثر تھا کہ اس نے کال کر کے سالار کو مطلع کرنا اور اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھا۔ وہ اس وقت ایئر پورٹ کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے فوراً کال ریسیو کی تھی۔

امامہ نے اسے کھانے کے بارے میں بتایا۔

”میں رات کا کھانا اکثر اس ریسٹورنٹ سے منگواتا ہوں۔ کھانا اچھا ہوتا ہے ان کا…” اس نے جواباً بڑے معمول کے انداز میں کہا۔میں نے سوچا” میں جب تک ان لوگوں کو لے کر گھر آؤں گا تب تک بھوکی بیٹھی رہو گی۔”

وہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی مگر یک دم اسے احساس ہوا کہ یہ بہت مشکل کام ہے سالار سے یہ دو لفظ کہنا، ایک عجیب سی جھجک جو اسے محسوس ہو رہی تھی۔

٭٭٭٭

وہ تقریباً سوا نو بجے کے قریب ایا اور ڈور بیل کی آواز پر وہ بے اختیار نروس ہو گئی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سالار کی فیملی کے رد عمل سے خائف تھی۔ ایک ہمسائے کے طور پر بھی دونوں فیملیز کے درمیان بے حد رسمی تعلقات تھے اور بعد میں ہونے والے واقعات نے تو یہ فارمیلٹی بھی ختم کر دی تھی۔ اسے کئی سال پہلے سکندر عثمان سے فون پر ہونے والی گفت گو یاد تھی اور شاید اس کے خدشات کی وجہ سے بھی وہی کال تھی۔

بیرونی دروازہ کھولتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے۔

سکندر عثمان سمیت تینوں افراد اس سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملے تھے۔ وہ ان کے رویوں میں جس روکھے پن اور خفگی کو ڈھونڈ رہی تھی، وہ فوری طور پر اسے نظر نہیں آئی۔ امامہ کی نروس نیس میں کچھ کمی آئی۔

فرقان کے گھر ڈنر کے دوران اس کی یہ نروس نیس اور بھی کم ہوئی۔

انیتا اور طیبہ دونوں بڑے دوستانہ انداز میں نوشین اور اس سے باتیں کرتی رہیں۔ نوشین اور فرقان سالار کے والدین سے پہلے بھی مل چکے تھے لیکن نوشین، انیتا سے پہلی بار مل رہی تھی اور دونوں کا موضوع گفت گو ان کے بچے تھے۔ وہ بے حد پرسکون انداز میں ایک خاموش سامع کی طرح ان لوگوں کی باتیں سنتی رہی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ فرقان کے گھر میں اس کی شادی یا اس کی ذات موضوع گفتگو بنے۔

اپنے اپارٹمنٹ میں واپسی کے بعد پہلی بار سکندر اور طیبہ نے سٹنگ روم میں بیٹھے، اس سے بات کی اور تب امامہ نے ان کے لہجے میں چھپی اس تشویش کو محسوس کیا جو امامہ کی فیملی کے متوقع جرد عمل سے انہیں تھی۔ اس کا اعتماد ایک بار پھر غائب ہو گیا۔ اگرچہ انہوں نے کھلے عام امامہ کے سامنے ہاشم مبین یا ان کے خاندان کے حولے سے کوئی بات نہیں کی لیکن وہ لوگ اب ولیمہ کا فنکشن اسلام آباد کے بجائے لاہور میں منعقد کرنا چاہتے تھے۔ وہ سالار کی رائے سننا چاہتی تھی لیکن وہ گفت گو کے دوران خاموش رہا۔ جب گفت گو کے دوران خاموشی کے وقفوں کی تعداد بڑھنے لگی تو یک دم امامہ کو احساس ہوا کہ گفت گو جمیں آنے والی اس بے ربطی کی وجہ وہ تھی۔ وہ چاروں اس کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کر پا رہے تھے۔

”بالکل ،بیٹا! تم سو جاؤ تمہیں سحری کے لیے اٹھنا ہو گا۔ ہم لوگ تو ابھی کچھ دیر بیٹھیں گے۔”

اس کے نیند انے کے بہانے پر سکندر عثمان نے فوراً کہا تھا۔

وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔ نیند آنا بہت مشکل تھی۔ دو دن پہلے جن خدشات کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا، اب وہ ان کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔

اسے اندازہ تھا کہ سکندر عثمان ان دونوں کی شادی کو خفیہ ہی رکھنا چاہتا ہیں تاکہ اس کی فیملی کو اس کے بارے میں پتا نہ چلے۔

وہ بہت دیر تک اپنے بیڈ پر بیٹھے ان خدشات اور خطرات کے بارے میں سوچتی رہی جو انہیں محسوس ہو رہے تھے۔ اس وقت وہاں اکیلے بیٹھی پہلی بار اس نے سوچا کہ اس سے شادی کر کے سالار نے کتنا بڑا خطرہ مول لیا تھا۔ جو بھی اس سے شادید کرتا، وہ کسی نہ کسی حد تک خود کو غیر محفوظ ضرور کر لیتا لیکن سالار سکندر کی صورت میں صورتِ حال اس لیے زیادہ خراب ہوتی کیوںکہ اس کے ساتھ اس کے اس رشتے کا انکشاف ہونے کے چانسز زیادہ تھے۔

وہ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے تھے… اس نے سوچا… مجھے یا سالار کو جان سے تو کبھی نہیں ماریں گے… اسے اب بھی اندھااعتماد تھا کہ کہیں نہ کہیں اس کی فیملی اتنا لحاظ ضرور کرے گی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کریں گے اور پھر سالار سے طلاق دلوا کر کہیں اور شادی کرنا چاہیں گے۔

اس اضطراب میں یک دم مزید اضافہ ہوا۔ سب کچھ شاید اتنا سیدھا نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہی تھی یا سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ اپنی مرضی سے کہیں شادی کرنے کا مسئلہ نہیں تھا، یہ مذہب میں تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اسے اپنے پیٹ میں گرہیں پڑتی محسوس ہوئیں، وہ واپس بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ اس وقت پہلی بار سالار سے شادی کرنا اسے ایک غلطی لگی۔ وہ ایک بار پھر اسی کھائی کے کنارے آکر کھڑی ہو گئی تھی جس سے وہ اتنے سالوں سے بچتی پھر رہی تھی۔

٭٭٭٭

“اب کیا ہو گا؟” طیبہ نے بستر پر لیٹے ہوئے کہا۔

”اب ہونے کو رہ کیا گیا ہے؟” سکندر عثمان نے جواباً کہا۔ وہ جانتے تھے، طیبہ کا اشارہ کس طرف تھا۔

”ہاشم مبین کو پتا چل گیا تو…؟”

جاری



قسط نمبر 6۔۔۔۔۔۔

اسی لیے تو اس سے کہا ہے کہ امامہ کو وہیں رکھے لاہور میں۔ اسلام آباد نہیں لائے۔ ویسے بھی پی ایچ ڈی کے لیے تو اسے اگلے سال چلے ہی جانا ہے۔ تب تک تو cover ہو سکتا ہے یہ سب کچھ…” سکندر عثمان نے اپنے گلاسز اتارتے ہوئے کہا۔ وہ بھی سونے کے لیے لیٹنے والے تھے۔

طیبہ کچھ دیر خاموش رہیں پھر انہوں نے کہا ”مجھے تو بڑی عام سی لگی ہے امامہ۔”

”تمہارے بیٹے سے بہتر ہے۔” سکندر عثمان نے ترکی بہ ترکی کہا۔ طیبہ کچھ ناراض ہوئیں۔

”کیوں… سالار سے کس طرح بہتر ہے، وہ اس کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ آپ خود ایمان داری سے بتائیں، ایسی کوئی بات ہے اس میں کہ نو سال بیٹھا رہا وہ اس کے لیے۔”

سکندر ہنس پڑے۔

”اتنی ہنسی کس بات پر آرہی ہے آپ کو؟” وہ چڑیں۔

سکندر واقعی بہت خوش گوار موڈ میں تھے۔

”میں واقعی بہت خوش ہوں کیوںکہ میرا بیٹا بڑا خوش ہے۔ اتنے سالوں بعد اس طرح باتیں کرتے دیکھا ہے اسے۔ میں نے زندگی میں کبھی اس کے چہرے پر ایسی رونق نہیں دیکھی۔ امامہ کے ساتھ اس کی شادی ہو گئی ہے، میرے تو کندھوں سے بوجھ اتر گیا ہے۔ اس کے سامنے کتنا شرمندہ رہتا تھا میں، تمہیں اندازہ بھی ہے۔”

طدیے۔

خاموشی سے ان کی بات سن رہی تھیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ غلط نہیں کہہ رہے ہیں۔

٭٭٭٭

نیند میں وہ اس کے ہاتھوں میں رسیاں باندھ کر اسے کھینچ رہے تھے۔ رسیاں اتنی سختی سے باندھی ہوئی تھیں کہ اس کی کلائیوں سے خون رسنے لگا تھا اور اس کے ہر جھٹکے کے ساتھ وہ درد کی شدت سے بے اختیار چلاتی۔ وہ کسی بازار میں لوگوں کی بھیڑ کے درمیان کسی قیدی کی طرح لے جائی جا رہی تھی۔ دونوں اطراف میں کھڑے ہوئے لوگ بلند آواز میں قہقہے لگاتے ہوئے اس پر آوازے کس رہے تھے۔ پھر ان لوگوں میں سے ایک مرد نے جو اس کی کلائیوں میں بندھی رسیوں کو کھینچ رہا تھا… پوری قوت سے رسی کو جھٹکا دیا۔ وہ گھٹنوں کے بل اس پتھریلے راستے پر گری۔

”امامہ… امامہ… Its me… اٹھ جاؤ… سحری ختم ہونے میں تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے۔”

وہ ہڑ بڑا کر اٹھی، بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کیا۔ سالار اس کے پاس کھڑا نرمی سے اس کا کندھا ہلاتے ہوئے اسے جگا رہا تھا۔

”سوری… میں نے شاید تمہیں ڈرا دیا۔” سالار نے معذرت کی۔

وہ کچھ دیر تک خالی ذہن کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ گزرے ہوئے سالوں میں ایسے خواب دیکھنے کی عادی ہو گئی تھی اور خوابوں کا یہ سلسلہ اب بھی نہیں ٹوٹا تھا۔

”کوئی خواب دیکھ رہی تھیں؟”

سالار نے جھک کر گود میں رکھے اس کے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے پوچھا۔ اسے یوں لگا تھا، وہ ابھی بھی نیند میں تھی۔ امامہ نے سرہلا دیا۔ وہ اب نیند میں نہیں تھی۔

”تم کمبل لیے بغیر سو گئیں؟” سالار نے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔ امامہ نے چونک کر بیڈ پر پڑے کمبل کو دیکھا۔ وہ واقعی اسی طرح پڑا تھا۔ یقینا وہ بھی رات کو کمرے میں سونے کے لیے نہیں آیا تھا۔ کمرے کا ہیٹر آن رہا تھا، ونہ وہ سردی لگنے کی وجہ سے ضرور اٹھ جاتی۔

”جلدی آجاؤ، بس دس منٹ رہ گئے ہیں۔”

وہ اسے پانی کا گلاس تھماتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔

منہ ہاتھ دھونے کے بعد جب وہ سٹنگ ایریا میں آئی تو وہ سحری کر چکا تھا اور چائے بنانے میں مصروف تھا۔ لاؤنج یا کچن میں اور کوئی نہیں تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر اس کے لیے پہلے ہی سے برتن لگے ہوئے تھے۔

”میں چائے بناتی ہوں۔” وہ سحری کرنے کے بجائے مگ نکالنے لگی۔

”تم آرام سے سحری کرو، ابھی اذان ہو جائے گی۔ میں اپنے لیے چائے خود بنا سکتا ہوں، بلکہ تمہارے لئے بھی بنا سکتا ہوں۔” سالار نے مگ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے اسے واپس بھیجا۔

وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔

”یہ سب لوگ سو رہے ہیں؟”

”ہاں… ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سوئے ہیں۔ ساری رات تو باتیں کرتے رہے ہم لوگ اور شاید ہماری آوازوں جکی وجہ سے تم ڈسٹرب ہوتی رہیں۔”

”نہیں، میں سو گئی تھی۔” اس کا لہجہ بہت بجھا ہوا تھا۔ سالار نے محسوس کیا، وہ اسے بہت اپ سیٹ لگی۔

”کیا کوئی زیادہ برا خواب دیکھا ہے؟”

وہ چائے کے مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

”خواب…” وہ چونکی۔ ”نہیں… ایسے ہی …” وہ کھانا کھانے لگی۔

”صبح ناشتا کتنے بجے کریں گے یہ لوگ۔” اس نے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔

وہ بے اختیار ہنسا۔

”یہ لوگ… کون سے لوگ… یہ تمہاری دوسری فیملی ہے اب … ممی، پاپا کہو انہیں اور انیتا کو انیتا…” وہ اس کی بات پر بے اختیار شرمندہ ہوئی۔ وہ واقعی کل رات سے ان کے لیے وہی دو لفظ استعمال کر رہی تھی۔

”ناشتا تو نہیں کریں گے۔ ابھی گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ تک اٹھ جائیں گے۔ دس بجے کی فلائٹ ہے۔” سالار نے اس کی شرمندگی کو بھانپتے ہوئے بات بدل دی۔

”صبح نو بجے کی… اتنی جلدی کیوں جا رہے ہیں؟” وہ حیران ہوئی۔

”صرف تم سے ملنے کے لیے آئے تھے یہ لوگ، پاپا کی کوئی میٹنگ ہے آج دو بجے اور انیتا تو اپنے بچوں کو ملازمہ کے پاس چھوڑ کر آئی ہے۔ چھوٹی بیٹی تو صرف چھ ماہ کی ہے اس کی۔” وہ بتا رہا تھا۔ ”چائے پئیں گے ناشتے کے بجائے، وہ تم بنا دینا۔ میں ابھی نماز پڑھ کر آجاؤں، پھرا ن کے ساتھ ہی آفس کے لیے تیار ہوں گا اور انہیں ایئرپورٹ چھوڑ کر پھر آفس چلا جاؤں گا۔” سالار نے جمائی روکتے ہوئے چائے کا خالی مگ اٹھایا اور کھڑا ہو گیا۔ امامہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔

”تم سوؤ گے نہیں؟”

”نہیں، شام کو آفس سے آنے کے بعد سوؤں گا۔”

”تم چھٹی لے لیتے۔” امامہ نے روانی سے کہا۔

سنک کی طرف جاتے ہوئے سالار نے پلٹ کر امامہ کو دیکھا اور پھر بے اختیار ہنسا۔ ”سونے کے لیے آفس سے چھٹی لے لیتا؟ میرے پروفیشن میں ایسا نہیں ہوتا۔”

”تم سوئے نہیں رات کو، اس لیے کہہ رہی ہوں۔” وہ اس کی بات پر جھینپی جتھی۔

”میں اڑتالیس، اڑتالیس گھنٹے بغیر سوئے یو این کے لیے کام کرتا رہا ہوں۔ وہ بھی شدید گرمی اور سردی میں۔Disaster striken areas میں اور رات کو تو ماں، باپ کے پاس بیٹھا پرفیکٹ کنڈیشنز میں باتیں کرتا رہا ہوں، تھکتا کیوں؟”

اذان ہو رہی تھی۔

”اب پلیز مگ مت دھونا، مجھے اپنے برتن دھونے ہیں۔” امامہ نے چائے کا مگ خالی کرتے ہوئے اسے روکا۔ وہ ٹی بیگ نکال کر ویسٹ باسکٹ میں پھینکنے لگی تھی۔

”ٹھیک ہے… دھویئے…”

سالار نے بڑی خوش دلی کے ساتھ مگ سنک میں رکھا اور پلٹا۔ وہ کوڑے دان کا ڈھکن ہٹائے ہوئے فق ہوتی رنگت کے ساتھ، ٹی بیگ ہاتھ میں پکڑَ کسی بت کی طرح کھڑی تھی۔ سالار نے ایک نظر اسے دیکھا، پھر کوڑے دان کے اندر پڑ اس چیز کو جس نے اسے یوں شاکڈ کر دیا تھا۔

نان الکحولک ڈرنک۔” وہ مدھم آواز میں کہتے ہوئے کچن سے باہر نکل گیا تھا۔

وہ بے اختیار شرمندہ ہوئی۔ اسے یقین تھا۔ وہ اس کوڑے دان کے اندر بڑے جنجر بیئر کے اس خالی کین کو وہاں سے نہیں دیکھ سکتا تھا، جہاں وہ کھڑا تھا، اس کے باوجود اس کو پتا تھا کہ وہ کیا چیز دیکھ کر سکتہ میں آئی تھی۔

اس نے جنجر بعد میں پڑھا تھا، بیئر پہلے… اور یہ سالار سکندر کا گھر نہ ہوتا تو اس کا ذہن پہلے نان الکحولک ڈرنکس کی طرف جاتا، مگر یہاں اس کا ذہن بے اختیار دوسری طرف گیا تھا۔ جھک کر ٹی بیگ پھینکتے ہوئے اس نے non alcoholicکے لفظ بھی کین پر دیکھ لیے تھے۔ کچھ دیر وہیں کھڑی وہ اپنی ندامت ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ پتا نہیں وہ کیا سوچ رہا ہو تا میرے بارے میں اور سالار کو بھی واقعی کرنٹ لگا تھا۔ وہ دونوں اپنے درمیان اعتماد کا جو پل بنانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ کبھی ایک طرف سے ٹوٹ رہا تھا، کبھی دوسری طرف سے۔

اس نے آخری بار شراب آٹھ سال پہلے پی تھی، لیکن وہ انرجی اورnon alcoholic drinks تقریباً ہر رات کام کے دوران پیتا تھا۔ امامہ کو ویسٹ باسکٹ کے پاس شاکڈ دیکھ کر اسے یہ جاننے میں سیکنڈز بھی نہیں لگے تھے کہ ویسٹ باسکٹ میں پڑی کون سی چیز اس کے لیے شاکنگ ہو سکتی ہے۔

وہ کارپوریٹ سکیٹر سے تعلق رکھتا تھا اور جن پارٹیز میں جاتا تھا وہاں ڈرنکس ٹیبل پر شراب بھی موجود ہوتی تھی اور ہر بار اس ”مشروب” سیا نکار پر کسی کے پچھلے آٹھ سال کے دوران شاید ایک بار بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، کیوںکہ ان میں سے کوئی بھی نو سال پہلے والے سالار سکندر سے واقف نہیں تھا۔ لیکن وہ ایک فرد جو دو دن پہلے اس کے گھر میں آیا تھا، اس کے پاس سالار کی کسی بھی بات اور عمل پر شبہ کرنے کے لیے بڑی ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔

”یہ سب تو ہو گا ہی… ایسی حرکتیں نہ کرتا تب قابل اعتبار ہوتا۔ اب جب کہ ماضی کچھ اتنا صاف نہیں ہے تو اس پر اپنا اعتبار قائم کرنے میں کچھ وقت تو لگے گا ہی۔” بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے اس نے بڑی آسانی کے ساتھ سارا الزام اپنے سر لے کر امامہ کو بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔

”تمہارے کپڑے پریس کردوں؟” اس نے بیڈ روم میں آکر پوچھا۔ وہ ڈریسنگ روم میں وارڈ روب کھولے اپنے کپڑے نکال رہا تھا۔

”نہیں، میرے کپڑے تو پریس ہو کر آتے ہیں۔” ایک ہینگر نکالتے ہوئے وہ پلٹ کر مسکرایا تھا۔

امامہ کو یک دم اپنے کانوں کے بندے یاد آئے۔

”تم نے میرے ایر رنگز کہیں دیکھے ہیں میں نے واش روم میں رکھے تھے، وہاں نہیں ملے مجھے۔”

”ہاں میں نے اٹھائے تھے وہاں سے۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل پر ہیں۔” سالار دو قدم آگے بڑھا اور ایر رنگز اٹھا کر امامہ کی طرف بڑھا دیے۔

”یہ پرانے ہو گئے ہیں۔ تم آج میرے ساتھ چلنا، میںتمہیں نئے لے دوں گا۔”

وہ ایر رنگز کانوں میں پہنتے ہوئے ٹھنگی۔

”یہ میرے ابو نے دیے ہیں جب مجھے میڈیکل میں ایڈمیشن ملا تھا۔ میرے لیے پرانے نہیں ہیں۔ تمہیں ضرورت نہیں ہے اپنے پیسے ضائع کرنے کی۔”

اس کا ردِ عمل دیکھنے کے لیے امامہ نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت تک نہیں کی۔ وہ بیڈ روم کا دروازہ کھول کر باہر چلی گئی تھی۔ وہ اگلے کچھ سیکنڈز وہیں کھڑا رہا۔ وہ محبت سے کی ہوئی آفر تھی، جسے وہ اس کے منہ پر مار کر گئی تھی۔ کم از کم سالار نے یہی محسوس کیا تھا۔ اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ محبت سے کی جانے والی اس آفر کو اس نے ضرورت پوری کرنے والی چیز بنا دیا تھا۔ وہ مرد تھا، ضرورت اور محبت میں فرق نہیں کر پاتا تھا۔ وہ عورت تھی ضرورت اور محبت میں فرق رکھتے رکھتے مر جاتی۔

٭٭٭٭

ڈاکٹر سبط علی کو اس دن صبح ہی سعیدہ اماں سے طویل گفت گو کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ وہ دود یا تین دن بعد ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا کرتے تھے اور آج بھی انہوں نے سعیدہ اماں کی طبیعت پوچھنے کے لیے ہی فون کیا تھا۔ وہ ان کی آواز سنتے ہی پھٹ پڑی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی بے یقینی سے ان کی باتیں سنتے رہے۔ انہیں سعیدہ اماں کی کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔

”آمنہ نے آپ سے یہ کہا کہ سالار اپنی پہلی بیوی کی باتیں کرتا رہا ہے؟” انہیں لگا کہ انہیں سعیدہ اماں کی بات سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔

”وہ بے چاری تو روتی رہی ہے… فون پر بھی… اور میرے پاس بیٹھ کر بھی… سالار نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ اس سے ٹھیک طرح سے بات تک نہیں کرتا وہ۔ بھائی صاحب! آپ نے بڑا ظلم کیا ہے بچھی پر۔” سعیدہ اماں ہمیشہ کی طرح جذباتی ہو رہی تھیں۔

”مجھے لگتا ہے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے، وہ دونوں تو پرسوں میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ بالکل ٹھیک ٹھاک اور خوش تھے۔” ڈاکٹر سبط علی پریشان کم اور حیران زیادہ ہو رہے تھے۔

”اور آپ کے گھر سے واپسی پر وہ اسے یہاں چھوڑ گیا تھا۔ وہ بے چاری ساری رات روتی رہی۔”

”آمنہ آپ کے ہاں رہی پرسوں؟” وہ پہلی بار چونکے تھے۔

”تو اور کیا…؟ سالار تو اس کو لے جانا ہی نہیں چاہتا تھا۔ وہ تو اس کے ماں باپ آرہے تھے کل… تو اس لیے مجبوراً لے گیا اسے… اور آمنہ بھی بڑی پریشان ہے سارا دن چپ بیٹھی رہی۔ آپ تو بھائی صاحب بڑی تعریفیں کیا کرتے تھے، بڑا نیک ، صالح بچہ ہے لیکن یہ تو بڑا خراب نکلا۔ ابھی سے تنگ کرنا شروع کر دیا ہے اس نے۔”

اس وقت ڈاکٹر سبط علی کے چودہ طبق روشن ہو رہے تھے۔ امامہ اس رات ان کے گھر پر بھی خاموش بیٹھی رہی تھی، لیکن انہیں یہ شائبہ تک نہیں ہوا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف ہوا ہے۔

”خیر، میںڈرائیور کو بھیجتا ہوں، آپ میری طرف آجائیں۔ سالار کو بھی افطار پر بلوا لیتے ہیں، پھر میں اس سے بات کر لوں گا۔”

امامہ نے بے اختیار آنکھیں بند کیں۔ اس وقت یہی ایک چیز تھی جو وہ نہیں چاہتی تھی۔

”وہ آج کل بہت دیر سے آفس سے آرہا ہے۔ کل رات بھی نو بجے آیا، شاید آج نہ آسکے۔” اس نے کمزور سی آواز میں کہا۔

”میں فون کر کے پوچھ لیتا ہوں اس سے۔” ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔

”جی۔” اس نے بہ مشکل کہا۔ وہ ان کے کہنے پر آنکھیں بند کر کے کسی سے بھی شادی کرنے پر تیار ہو گیا تھا، وہ افطار کی دعوت پر نہ آنے کے لیے کسی مصروفیت کو جواز بناتا؟

وہ جانتی تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو کیا جواب ملنے والا ہے۔ فون بند کر کے وہ بے اختیار اپنے ناخن کاٹنے لگی… یہ درست تھا کہ اسے سالار سے شکایتیں تھیں، لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ شادی کے چوتھے ہی دن اس طرح کی کوئی بات ہوتی۔

”ہیلو! سویٹ ہارٹ۔” پانچ منٹ بعد اس نے اپنے سیل پر سالار کی چہکتی ہوئی آواز سنی اور اس کے ضمیر نے اسے بری طرح ملامت کیا۔

”بندہ اٹھتا ہے تو کوئی میسج ہی کر دیتا ہے… فون کر لیتا ہے… یہ تو نہیں کہ اٹھتے ہی میکے جانے کی تیاری شروع کر دے۔” وہ بے تکلفی سے حالات کی نوعیت کا اندازہ لگائے بغیر اسے چھیڑ رہا تھا۔

امامہ کے احساس جرم میں مزید اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر سبط علی نے یقینا اس سے فی الحال کوئی بات کیے بغیر اسے افطار پر بلایا تھا۔

”ڈاکٹر صاحب ابھی افطار کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ میں نے انہیں کہ کہ میں آج آفس سے جلدی آجاؤں گا اور تمہیں اپنے ساتھ لے آؤں گا۔” وہ اسے بتا رہا تھا۔

امامہ کو یک دم کچھ امید بندھی۔ وہ اگر پہلے گھر آجاتا ہے تو وہ اس سے کچھ بات کر لیتی، کچھ معذرت کر کے اسے ڈاکٹر صاحب کے گھر متوقع صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کر سکتی تھی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہاں، یہ ہو سکتاتھا۔

”لیکن اگر تم جانا چاہو تو میں تمہیں بھجوا دیتا ہوں۔” سالار نے اگلے ہی جملے میں اسے آفر کی۔

”نہیں… نہیں، میں تمہارے ساتھ چلی جاؤں گی۔” امامہ نے بے اختیار کہا۔

”اوکے… میں پھر انہیں بتا دیتا ہوں… اور تم کیا کر رہی ہو؟”

اس کا دل چاہا، وہ اس سے کہے کہ وہ اس گڑھے سے نکلنے کی کوشش کی رہی ہے جو اس نے سالار کے لیے کھودا تھا۔

”فرقان کی ملازمہ آئے گی آج صفائی کرنے کے لیے، عام طور پر تو وہ صبح میرے جانے کے بعد آکر صفائی کرتی ہے لیکن تم اس وقت سو رہی ہوتی ہو، تو میں نے اسے فی الحال اس وقت آنے سے منع کیا ہے۔ تم بھابھی کو کال کر کے بتا دینا کہ وہ اسے کب بھیجیں۔”

وہ شاید اس وقت آفس میں فارغ تھا اس لیے لمبی بات کر رہا تھا۔

”کچھ تو بولو یار… اتنی چپ کیوں ہو؟”

”نہیں… وہ… میں… ایسے ہی۔” وہ اس کے سوال پر بے اختیار گڑبڑائی۔” تم فری ہو اس وقت؟” اس نے بے حد محتاط لہجے میں پوچھا۔

اگر وہ فارغ تھا تو وہ ابھی اس سے بات کر سکتی تھی۔

”ہاں، ایویلیوایشن ٹیم چلی گئی ہے… کم از کم جآج کا دن تو ہم سب بہت ریلیکسڈ ہیں۔ اچھے کمنٹس دے کر گئے ہیں وہ لوگ۔” وہ بڑے مطمئن انداز میں اسے بتا رہا تھا۔

وہ اس کی باتوں پر غور کیے بغیر اس ادھیڑ بن میں لگی ہوئی تھی کہ بات کیسے شروع کرے۔

”آج اگر ڈاکٹر صاحب انوائیٹ نہ کرتے تو میں سوچ رہا تھا رات کو کہیں باہر کھانا کھاتے… فورٹریس میں انڈسٹریل ایگزی بیشن لگی ہوئی ہے… وہاں چلتے… بلکہ یہ کریں گے کہ ان کے گھر سے ڈنر کے بعد فورٹریس چلے جائیں گے۔”

چلو بھرپانی میں ڈوب مرنے کا محاورہ آج پہلی بار امامہ کی سمجھ میں آیا تھا۔ یہ محاورتاً نہیں کہا گیا تھا۔ جواقعی بعض سچویشنز جمیں چلو بھر پانی بھی ڈبونے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ وہ بات شروع کرنے کے جتن کر رہی تھی اور یہ کیسے کرے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔

”ٹھیک ہے! پھر میں ذرا ڈاکٹر صاحب کو بتا دوں۔ وہ انتظار کر رہے ہوں گے۔” اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتی، سالار نے بات ختم کرتے ہوئے کال بند کر دی۔ وہ فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھی رہ گئی۔

٭٭٭٭

وہ تقریباً چار بجے گھر آیا تھا اور وہ اس وقت تک یہ طے کر چکی تھی کہ اسے اس سے کس طرح بات کرنی ہے۔ سالار اوپر نہیں آیا تھا۔ اس نے فون پر اسے نیچے آنے کے لیے کہا۔ وہ جب گاڑی کے کھلے دروازے سے اندر بیٹھی تو اس نے مسکرا کر سر کے اشارے سے اس کا استقبال کیا۔ وہ فون پر اپنے آفس کے کسی آدمی سے بات کر رہا تھا۔

ہینڈز فری کان سے لگائے ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی طرف ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ مسلسل اسی کال میں مصروف رہا۔ امامہ کی جیسے جان پر بن آئی تھی۔ اگر وہ سارے راستے بات کرتا رہا تو… ایک سگنل پر رکنے پر اس نے سالار کا کندھا تھپتھپایا اور بے حد خفگی کے عالم میں اسے کال ختم کرنے کا اشارہ کیا۔ نتیجہ فوری طور پر آیا۔ چند منٹ مزید بات کرنے کے بعد سالار نے کال ختم کر دی۔

”سوری… ایک کلائنٹ کو کوئی پرابلم ہو رہا تھا۔” اس نے کال ختم کرنے کے بعد کہا۔

”اسلام آباد چلو گی؟” اس کے اگلے جملے نے امامہ کے ہوش اُڑا دیے۔

قسط نمبر 7۔۔۔۔۔

وہ سب کچھ جو وہ سوچ کر آئی تھی، اس کے ذہن سے غائب ہو گیا۔

”اسلام آباد؟” اس نے بے حد بے یقینی سے سالار کو دیکھا۔

”ہاں میں اس ویک اینڈ پر جا رہا ہوں۔” سالار نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔

”لیکن میں… میں کیسے جا سکتی ہوں؟” وہ بے اختیار اٹکی۔ ”تمہارے پاپا تو تمہیں منع کر کے گئے ہیں کہ مجھے اپنے ساتھ اسلام آباد نہ لے کر آنا۔ پھر؟” سالار نے اس کی بات کاٹی۔

”ہاں… اور اب وہی کہہ رہے ہیں کہ اگر میں تمہیں ساتھ لانا چاہوں تو لے آؤں۔” اس بڑی روانی سے کہا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔

”میری فیملی کو پتا لگ سکتا ہے۔” اس نے لمبی خاموشی کے بعد بالآخر کہا۔

”آج یا کل تو پتا لگنا ہے۔” سالار نے اسی انداز میں کہا۔ ”یہ تو ممکن نہیں ہے کہ میں ساری عمر تمہیں چھپا کر رکھو۔” وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ ”تمہاری فیملی نے تمہارے بارے میں لوگوں سے کہا ہے کہ تم شادی کے بعد بیرون ملک سیٹل ہو گئی ہو۔ اب اتنے سالوں کے بعد تمہارے حوالے سے کچھ کریں گے تو خود انہیں بھیembarrassment ہو گی۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ وہ کچھ کریں گے۔” وہ مطمئن تھا۔

”تم انہیں نہیں جانتے، انہیں پتا چل گیا تو وہ چپ نہیں بیٹھیں گے۔” وہ پریشان ہونے لگی تھی۔

”وہاں کبھی کبھار جایا کریں گے، خاموشی سے جائیں گے اور آجایا کریں گے۔ یار! اتنا socialize نہیں کریں گے وہاں۔” وہ اس کی بے فکری سے چڑی۔

”انہیں پتا چلا تو وہ مجھے لے جائیں گے… وہ مجھے مار ڈالیں گے۔” وہ روہانسی ہو رہی تھی۔

”فرض کرو امامہ! اگر انہیں اتفاقاً تمہارے بارے میں پتا چلتا ہے یا یہاں لاہور میں تمہیں کوئی دیکھ لیتا ہے، تمہیں کوئی نقصان پہنچاتے ہیں تو…؟”

”نہیں پتا چلے گا میں کبھی باہر جاؤں گی ہی نہیں۔” اس نے بے ساختہ کہا۔

”تمہارا دم نہیں گھٹے گا اس طرح…؟” اس نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا۔

اس کی آنکھوں میں مسیحا جیسی ہمدردی تھی۔

”مجھے عادت ہو گئی ہے سالار… اتنا ہی سانس لینے کی… مجھے فرق نہیں پڑتا۔ جب میں جاب نہیں کرتی تھی تو مہینوں گھر سے نہیں نکلتی تھی۔ میں اتنے سالوں سے لاہور میں ہوں لیکن میں نے یہاں بازاروں، پارکس اور ریسٹورنٹس کو صرف سڑک پر سفر کرتے ہوئے باہر سے دیکھا ہے یا ٹی وی اور نیوز پیپرز میں۔ میں اگر اب ان جگہوں پر جاؤں تو میری سمجھ میں ہی نہیں آئے گا کہ مجھے وہاں کرنا کیا ہے۔ جب ملتان میں تھی ہاسٹل اور کالج کے علاوہ دوسری کوئی جگہ نہیں تھی میری زندگی میں۔ اب لاہور آگئی تو یہاں بھی پہلے یونیورسٹی اور گھر… اور اب گھر… مجھے ان کے علاوہ دوسری ساری جگہیں عجیب سی لگتی ہیں۔ مہینے میں ایک بار میں سعیدہ اماں کے گھر کے پاس ایک چھوٹی سی مارکیٹ میں ان کے ساتھ جاتی تھی، وہ میری واحد آؤٹنگ ہوتی تھی۔ وہاں ایک بک شاپ تھی۔ میں پورے مہینے کے لیے بکس لے لیتی تھی وہاں سے۔ کتاب کے ساتھ وقت گزارنا آسان ہوتا ہے۔”

وہ پتا نہیں اسے کیوں بتاتی گئی۔

”ہاں، وقت گزارنا آسان ہوتا ہے، زندگی گزارنا نہیں۔”

اس نے ایک بار پھر گردن موڑ کر اُسے دیکھا، وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔

”مجھے فرق نہیں پڑتا سالار۔”

”مجھے فرق پڑتا ہے… اور بہت فرق پڑتا ہے۔” سالار نے بے اختیار اس کی بات کاٹی۔ ”میں ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتا ہوں… جیسی کبھی تمہاری زندگی تھی۔ تم نہیں چاہتیں یہ سب کچھ ختم ہو جائے…؟” وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔

”ابنارمل لائف ہی سہی لیکن میں سیف ہوں۔”

سالار نے بے اختیار اس کے کندھوں پر اپنا بازو پھیلایا۔

”تم اب بھی سیف رہو گی…trust me… کچھ نہیں ہو گا… میری فیملی تمہیں protect کر سکتی ہے اور اگر تمہاری فیملی کو اب یہ پتا چلتا ہے کہ تم میری بیوی ہو تو اتنا آسان نہیں ہو گا اُن کے لیے تمہیں نقصان پہنچانا۔ ججو بھی ہونا ہے ، ایک بار گھل کر ہو جائے۔ تمہیں اس طرح چھپا کر رکھوں اور انہیں کسی طرح علم ہو جائے تو وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں ایسی صورت میں، میں پولیس کے پاس جا کر بھی کچھ نہیں کر سکوں گا۔ وہ صاف انکار کر دیں گے کہ تم نو سال سے غائب ہو اور وہ تمہارے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔” وہ خاموش رہی تھی۔

”کیا سوچ رہی ہو؟” سالار نے بولتے بولتے اس کی خاموشی نوٹس کی۔

”مجھے تمہارے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہیے تھی… کسی کے ساتھ بھی نہیں کرنا چاہیے تھی… میں نے اپنے ساتھ تمہیں بھی مصیبت میں ڈال دیا۔ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔” وہ بے حد اپ سیٹ ہو گئی۔

”ہاں، اگر تم کسی اور کے ساتھ شادی کرتیں تو یہ واقعی unfairہوتا لیکن میری کوئی بات نہیں۔ میں نے تو خیر پہلے بھی تمہاری فیملی کی بہت گالیاں اور بددعائیں لی ہیں، اب بھی سہی۔” وہ بڑی لاپروائی سے کہہ رہا تھا۔

”تو پھر سیٹ بک کروا دوں تمہاری؟” وہ واقعی ڈھیٹ تھا۔ وہ چپ بیٹھی رہی۔

”کچھ نہیں ہو اگا امامہ …Mark my word۔” سالار نے اسٹیرنگ سے ایک ہاتھ اٹھا کر اس کے کندھوں پر پھیلاتے ہوئے اسے تسلی دی۔

”تم کوئی ولی نہیں ہو۔” اس نے خفگی سے کہا۔

اس کے کندھوں سے بازو ہٹاتے ہوئے وہ بے اختیار ہنسا۔

”اچھا میں نے کب کہا کہ میں ولی ہوں۔ میں تو شاید انسان بھی نہیں ہوں۔”

اس کے اس جملے پر اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ اب ونڈ سکرین کے پار دیکھ رہی تھا۔

”کچھ نہیں ہوگا۔” اس نے اپنے چہرے پر امامہ کی نظریں محسوس کیں۔”ویسے ہی پاپا چاہتے ہیں ، ہم وہاں آئیں۔”

امامہ نے اس بار جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔

٭٭٭٭

اس شام سالار کو ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی کچھ سنجیدہ لگے تھے اور اس سنجیدگی کی کوئی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ امامہ بھی کھانے کے دوران بالکل خاموش رہی تھی، لیکن اس نے اس کی خاموشی کو گاڑی میں ہونے والی گفت گو کا نتیجہ سمجھا۔

وہ لاؤنج میں بیٹھے چائے پر رہی تھے۔ جب ڈاکٹر سبط علی نے اس موضوع کو چھیڑا۔

”سالار ! امامہ کو کچھ شکایتیں ہیں آپ سے۔” وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے ٹھٹکا۔ یہ بات اگر ڈاکٹر سبط علی نے نہ کہی ہوتی تو وہ اسے مذاق سمجھا۔ اس نے کچھ حیرانی کے عالم میں ڈاکٹر سبط علی کو دیکھا، پھر اپنے برابر میں بیٹھے امامہ کو۔ وہ چائئے کا کپ اپنے گھٹنے پر رکھے چائے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال گاڑی میں ہونے والی گفت گو کا آیا لیکن امامہ نے کس وقت ڈاکٹر صاحب کو گاڑی میں ہونے والی گفت گو کے بارے میں بتایا تھا…؟ … وہ بے حد حیران ہوا۔

”جی…!” اس نے کپ واپس پرچ میں رکھ دیا۔

”امامہ آپ کے رویے سے ناخوش ہیں۔” ڈاکٹر سبط علی نے اگلا جملہ بولا۔

سالار کو لگا، اسے سننے میں کوئی غلی ہوئی ہے۔

”جی…” اس نے بے اختیار کہا۔” میں سمجھا نہیں۔”

”آپ امامہ پر طنز کرتے ہیں…؟” وہ پلکیں جھپکے بغیر ڈاکٹر سبط علی کو دیکھتا رہا۔ بہ مشکل سانس لے کر چند لمحوں بعد اس نے امامہ کو دیکھا۔

”یہ آپ سے امامہ نے کہ؟” اس نے اسے بے یقینی سے دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سبطِ علی کہا۔

”ہاں، آپ اس سے ٹھیک بات نہیں کرتے۔”

سالار نے گردن موڑ کر ایک بار پھر امامہ کو دیکھا۔ وہ اب بھی نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔

”یہ بھی آپ سے امامہ نے کہا؟” اس کے تو جیسے چودہ طبق روشن ہو رہے تھے۔

ڈاکٹر سبط علی نے سر ہلایا۔ سالار نے بے اختیار اپنے ہونٹ کا ایک کونا کاٹتے ہوئے چائے کا کپ سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس کا زاہن بری طرح چکرا گیا تھا۔ یہ اس کی زندگی کی سب سے پریشان کن صورت حال میں سے ایک تھی۔

امامہ نے چائے کے کپ سے اٹھتی بھاپ پر نظریں جمائے بے حد شرمندگی اور پچھتاوے کے عالم میں اس کو گلا صاف کرتے ہوئے، کہتے سنا۔ ”اور…؟”

جو کچھ ہو رہا تھا، یہ امامہ کی خواہش نہیں تھی، حماقت تھی، لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

”اور یہ کہ آپ کہیں جاتے ہوئے اسے انفارم نہیں کرتے۔ پرسوں آپ جھگڑا کرنے کے بعد اسے سعیدہ بہن کی طرف چھوڑ گئے تھے۔” اس بار سالار نے پہلے کلثوم آنٹی کو دیکھا پھر ڈاکٹر سبط علی کو… پھر امامہ کو… اگر آسمان اس کے سپر گرتا تب اس کی یہ حالت نہ ہوتی جو اس وقت ہوئی تھی۔

”جھگڑا…؟ میرا تو کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔” اس نے بہ مشکل اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہنا شروع کیا تھا۔ ”اور امامہ نے خود مجھ سے کہا تھا کہ وہ سعیدہ اماں کے گھر رہنا چاہتی ہے اور میں تو پچھلے چار دنوں سے کہیں۔” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔

اس نے امامہ کی سسکی سنی تھی۔ اس نے بے اختیار گردن موڑ کر امامہ کو دیکھا، وہ اپنی ناک رگڑ رہی تھی۔ کلثوم آنٹی اور ڈاکٹر صاحب بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ سالار بات جاری نہیں رکھ سکا۔ کلثوم آنٹی اٹھ کر اس کے پاس آکر اسے دلاسا دینے لگیں۔ وہ ہکا بکا بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر سبط علی نے ملازم کو پانی لانے کے لیے کہا۔

سالار کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا لیکن اس وقت وہاں اپنی صفائیاں دینے اور وضاحت کرنے کا موقع نہیں تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھا اسے دیکھتا رہااور سوچتا رہا، وہ الو کا پٹھا ہے کیوںکہ پچھلے چار دن سے اس کی چھٹی حس جو سگنلز بار بار دے رہی تھی، وہ بالکل ٹھیک تھے۔ صرف اس نے خوش فہمی اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔

پانچ دس منٹ کے بعد سب کچھ نارمل ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب تقریباً آدھے گھنٹے تک سالار کو سمجھاتے رہے۔ وہ خاموشی سے سر ہلاتے ہوئے ان کی باتیں سنتا رہا۔ اس کے برابربیٹھی امامہ کو بے حد ندامت ہو رہی تھی۔ ا کے بعدسالار کا اکیلے میں سامنا کرنا کتنا مشکل تھا۔ یہ اس سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔

آدھے گھنٹے کے بعد وہ دونوں وہاں سے رخصت ہو کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی ڈاکٹر سبط علی کے گھر کے گیٹ سے باہر نکلتے ہی امامہ نے اسے کہتے سنا۔

”مجھے یقین نہیں آرہا۔ میں یقین نہیں کر سکتا۔”

اسے اس سے اسی رد عمل کی توقع تھی۔ وہ ونڈ اسکرین سے نظر آتی ہوئی سڑک پر نظریں جمائے بیٹھی اس وقت بے حد نروس ہو رہی تھی۔

”میں تم پر طنز کرتا ہوں… تم سے ٹھیک سے بات نہیں کرتا… تمہیں بتائے بغیر جاتا ہوں… تمہیں سعیدہ اماں کے گھر چھوڑ گیا تھا… جھگڑا کیا۔ تم نے ان لوگوں سے جھوٹ بولا؟”

امامہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ وہ جھوٹ کا لفظ استعمال نہ کرتا تو اسے اتنا برا نہ لگتا۔

”میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔” اس نے بے حد خفگی سے کہا۔

”میں تم پر طنز کرتا ہوں؟” سالار کی آواز میں تیزی آگئی۔

”تم نے اس رات میری اندھیرے میں سونے کی عادت کو ”عجیب” کہا۔” وہ بے یقینی سے اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔

”وہ طنز تھا؟ وہ تو بس ایسے ہی ایک بات تھی۔”

”مگر مجھے اچھی نہیں لگی۔” اس نے بے ساختہ کہا۔

”تم نے بھی تو جواباً میری روشنی میں سونے کی عادت کو عجوبہ کہا تھا۔” وہ اس بار چپ رہی۔ سالار واقعی بہت زیادہ ناراض ہو رہا تھا۔

”اور میں تم سے ٹھیک سے بات نہیں کرتا…؟” وہ اگلے الزام پر آیا۔

”مجھے لگا تھا۔” اس نے اس بار افعانہ انداز میں کہا۔

”لگا تھا…؟” وہ مزید خفا ہوا۔ ”تمہیں صرف ”لگا” اور تم نے سیدھا ڈاکٹر صاحب سے جا کر کہہ دیا۔”

”میں نے ان سے کچھ نہیں کہا، سعیدہ اماں نے سب کچھ کہا تھا۔” اس نے وضاحت کی۔

وہ چند لمحے صدمے کے مارے کچھ بول ہی نہیں سکا۔

”یعنی تم ان سے بھی یہ سب کچھ کہا ہے؟” وہ چپ رہی۔

وہ ہونٹ کانٹے لگا۔ اسے اب سعیدہ اماں کی اس رات کی بے رخی کی وجہ سمجھ میں آرہی تھی۔

”اور میں کہاں جاتا ہوں جس کے بارے میں نے تمہیں نہیں بتایا…؟” سالار کو یاد آیا۔

”تم سحری کے وقت مجھے بتا کر گئے؟” سالار اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔

”امامہ! میں مسجد جاتا ہوں اس وقت فرقان کے ساتھ۔ اس کے بعد جم اور پھر واپس گھر آجاتا ہوں۔ اب میں مسجد بھی تمہیں بتا کر جایا کروں؟” وہ جھنجھلایا تھا۔

”مجھے کیا پتا تم اتنی صبح کہاں جاتے ہو…؟ مجھے تو اپ سیٹ ہونا ہی تھا۔” امامہ نے کہا۔

اس کی وضاحت پر وہ مزید تپ گیا۔

”تمہارا کیا خیال ہے کہ میں رمضان میں سحری کے وقت کہاں جا سکتا ہوں۔؟ کسی نائٹ کلب…؟ یا کسی گرل فرینڈ سے ملنے…؟ کوئی احمق بھی جان سکتا ہے کہ میں کہاں جا سکتا ہوں۔” وہ احمق کے لفظ پر بری طرح تلملائی۔

”ٹھیک ہے، میں واقعی احمق ہوں… بس۔”

اور سعیدہ اماں کے گھر میں رہنے کا تم نے کہا تھا… کہا تھانا… اور کون سا جھگڑا ہوا تھا تمہارا؟”

وہ خاموش رہی۔

”اتنے زیادہ جھولٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی تمہیں؟” وہ اس بار اس کی بات پر روہانسی ہو گئی۔

”بار بار مجھے جھوٹا مت کہو۔”

”امامہ! جو جھوٹ ہے، میں اسے جھوٹ ہی کہوں گا۔ تم نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے مجھے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ کیا سوچ رہے ہوں گا وہ میرے بارے میں…؟” وہ واقعی بری طرح اپ سیٹ تھا۔

”اچھا اب یہ سب ختم کرو۔” اس نے امامہ کے گالوں پر یک دم بہنے والے آنسو دیکھ لیے تھے اور وہ بری طرح جھنجلایا تھا۔ ”ہم جس ایشو پر ”بات ” کر رہے ہیں امامہ! اس میں رونے دھونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” وہ روتی رہی۔

”یہ ٹھیک نہیں ہے امامہ!… تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر بھی یہی کیا تھا میرے ساتھ۔”

اس کا غصہ ٹھنڈا پڑنے لگا تھا لیکن جھنجھلاہٹ بڑھ گئی تھی۔ جو کچھ بھی تھا، وہ اس کی شادی کا چوتھا دن تھا اور وہ ایک گھنٹے میں دوسری بار یوں زارو قطار رو رہی تھی۔ اس کی جگہ کوئی بھی لڑکی یوں رو رہی ہوتی تو وہ پریشان ہوتا، یہ تو خیر امامہ تھی۔ وہ بے اختیار نرم پڑا۔ اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلا کر اس نے جیسے اسے چپ کر کروانے کی کوشش کی۔ امامہ نے ڈیش بورڈ پر پڑے ٹشو باکس سے ایک ٹشو پیپر نکال کر اپنی سرخ ہوتی ہوئی ناک کو رگڑا اور سالار کی صلح کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے کہا۔

”میں اس لیے تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے پتا تھا، تم میرے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرو گے۔” وہ اس کے جملے پر ایک لمحے کے لیے ساکت رہ گیا پھر اس نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔

”کیسا سلوک… تم وضاحت کرو گی؟” اس کے لہجے میں پھر خفگی اُتر آئی ”میںنے آخر کیا کیا ہے تمہارے ساتھ۔”

وہ ایک بار پھر ہچکیوں سے رونے لگی۔ سالار نے بے بسی سے اپنی آنکھیں بند کیں۔ وہ ڈرائیونگ نہ کر رہا ہوتا تو یقینا سر بھی پکڑ لیتا۔ باقی رستے دونوں میں کئی بھی بات نہیں ہوئی۔ کچھ دیر بعد وہ بالآخر چپ ہو گئی۔ سالار نے سکون کا سانس لیا۔

اپارٹمنٹ میں آکر بھی دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ بیڈ روم میں جانے کے بجائے الاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ سالار بیڈ روم میں چلا گیا۔ وہ کپڑے بدل کر بیڈ روم میں آیا، وہ تب بھی اندر نہیں آئی تھی۔ ”اچھا ہے، اسے بیٹھ کر اپنے رویے کے بارے میں کچھ دیر سونا چاہیے…” اس نے اپنے بیڈ پر لیٹتے ہوئے سوچا۔ وہ سونا چاہتا تھا اور اس نے بیڈ روم کی لائٹس آف نہیں کی تھیں لیکن نیند یک دم اس کی آنکھوں سے غائب ہو گئی تھی۔ اب ٹھیک ہے بندہ سوچے لیکن اتنا بھی کیا سوچنا۔ مزید پانچ منٹ گزرنے کے باوجود اس کے نمودار نہ ہونے پر وہ بے اختیار جھنجھلایا۔ دو منٹ مزید گزرنے کے بعد وہ بیڈ روم سے نکل آیا۔

وہ لاؤنج کے صوفے کے ایک کونے میں، دونوں پاؤں اوپر رکھ، کشن گود میں لیے بیٹھی تھی۔ سالار نے سکون کا سانس لیا۔ کم از کم وہ اس وقت رو نہیں رہی تھی۔ سالار کے لاؤنج میں آنے پر اس نے سر اٹھا کر بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ بس اسی طرح کشن کو گود میں لیے اس کے دھاگے کھینچتی رہی۔ وہ اس کے پاس صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔

کشن کو ایک طرف رکھتے ہوئے امامہ نے بے اختیار صوفے سے اٹھنے کی کوشش کی۔ سالار نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روکا۔

”یہی بیٹھو۔” اس نے تحکمانہ انداز میں اس سے کہا۔

اس نے ایک لمحے کے لیے بازو چھڑانے کا سوچا، پھر ارادہ بدل دیا۔ وہ دوبارہ بیٹھ گئی لیکن اس نے اپنے بازو سے سالار کا بازو ہٹا دیا۔

”میر اکوئی قصور نہیں ہے… لیکن آئی ایم سوری۔” اس نے مصالحت کی پہلی کوشش کا آغاز کیا۔

امامہ نے خفگی سے اسے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ وہ کچھ دیر اس کے بولنے کامنتظر رہا لیکن پھر اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ فی الحال اس کی معذرت قبول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

”تمہیں یہ کیوںلگا کہ تم سے ٹھیک بات نہیں کر رہا…؟ امامہ! میں تم سے بار کر رہا ہوں۔” اس نے اس کے خاموش رہنے پر کہا۔

”تم مجھے اگنور کرتے رہے۔” ایک لمحے توقف کے بعد اس بالآخر کہا۔

”اگنور؟” وہ بھونچکا رہ گیا۔ ”میں تمہیں… ” ”تمہیں” اگنور کرتا رہا… میں کر ”سکتا ” ہوں؟ ” اس نے بے یقینی سے کہا۔ امامہ نے اس سے نظریں نہیں ملائیں۔

”تم سوچ بھی کیسے سکتی ہو یہ…؟ تمہیں ”اگنور” کرنے کے لیے شادی کی تھی میں نے تم سے؟ تمہیں اگنور کرنے کے لیے اتنے سالوں سے خوار ہوتا پر رہا ہوں میں۔”

”لیکن تم کرتے رہے…” وہ اپنی بات پر مضر تھی۔ ”تم زبان سے ایک بات کہتے ہو لیکن تم…” وہ بات کرتے کرتے رکی۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ ”تمہاری زندگی میں میری کوئی… کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔”

”رکو مت ، کہتی رہو… میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں ایسا کیا کر رہا ہوں جس سے تمہیں میرے بارے میں اتنی غلط فہمیاں ہو رہی ہیں۔” اس نے اس کی آنکھوں کی نمی کو نظر انداز کرتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔

”میں نے تمہیں صبح مسجد جاتے ہوئے نہیں بتایا… آفس جاتے ہوئے بھی نہیں بتایا… اور؟” اس نے گفت گو شروع کرنے کے لیے اسے کیو دی۔

”تم نے مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ تم افطار پر دیر سے آؤ گے۔ تم چاہتے تو جلدی بھی آسکتے تھے۔” وہ رکی۔

”اور…؟” سالار نے کوئی وضاحت کیے بغیر کہا۔

”میں نے تمہارے کہنے کے مطابق تمہیں میسج کیا لیکن تم نے مجھے کال نہیں کی۔ اپنے پیرنٹس کو ریسیو کرنے یا چھوڑنے کے لیے تم مجھے بھی ایئر پورٹ لے جا سکتے تھے لیکن تم نے مجھ سے نہیں کہا۔ ٹھیک ہے، میں نے کہا تھا کہ مجھے سعیدہ اماں کے گھر چھوڑ دو لیکن تم نے ایک بار بھی مجھے ساتھ چلنے کے لیے نہیں کہا۔ میری کتنی بے عزتی ہوئی ان کے سامنے۔”

وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ کہہ رہی تھی۔

وہ پلک جھپکے بغیر یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ پانی اب اس کی آنکھوں سے ہی نہیں، ناک سے بھی بہنے لگا تھا۔ وہ پوری دل جمعی سے رو رہی تھی۔ سالار نے سینٹر ٹیبل کے ٹشو باکس سے ایک ٹشو پیپر نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے اس کا ہاتھ جھٹک کر خود ایک ٹشو پیپر نکال لیا۔ اس نے ناک رگڑی تھی، آنکھیں نہیں۔

”اور…؟” سالار نے بڑے تحمل کے ساتھ ایک بار پھر کہا۔

وہ کہنا چاہتی تھی کہ اس نے اسے شادی کا کوئی گفٹ تک نہیں دیا۔ اس کی ایک دکھتی رگ یہ بھی تھی، لیکن اس سے تحفے کا ذکر کرنا اسے اپنی توہین لگی۔ اس نے تحفے کا ذکر نہیں کیا۔ کچھ دیر وہ اپنی ناک رگڑتی، سسکیوں کے ساتھ روتی رہی۔ سالار نے بالآخر اس سے پوچھا۔

”بس یا ابھی کچھ اور بھی جرم ہیں میرے؟”

”مجھے پتا تھا کہ تم شادی کے بعد میرے…”

سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔

”ساتھ یہی کرو گے… مجھے پتا ہے، تمہیں میرے بارے میں سب کچھ پہلے سے ہی پتا چل جاتا ہے۔” وہ اس کے جملے پر بری طرح چڑا تھا۔ ”اس کے باوجود اب تم مجھے کچھ کہنے کا موقع دو گی…؟” وہ چپ بیٹھی اپنی ناک رگڑتی رہی۔

”اگر میں شادی کے اگلے دن آفس سے جلدی آسکتا تو آجاتا، آج آیا ہوں نا جلدی۔”

”تم اپنے پیرنٹس کے لیے تو آگئے تھے۔” امامہ نے مداخلت کی۔

”اس دن میری پرزینٹیشن نہیں تھی اور میں نے تمہیں کال کی تھی۔ ایک بار نہیں، کئی بار… تم اپنا سیل فون دیکھو یا میں دکھاؤں۔” سالار نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔

”میرے میسج کرنے پر تو نہیں کی تھی نا؟”

”اس وقت میں میٹنگ میں تھا، میرا سیل میرے پاس نہیں تھا۔ بورڈ روم سے نکل کر پہلی کال میں نے تمہیں ہی کی تھی، ریسیو کرنا تو ایک طرف تم نے توجہ تک نہیں دی۔ میں نے سعیدہ اماں کے گھر بھی تمہیں کالز کیں، تم نے وہاں بھی یہی کیا، بلکہ سیل ہی آف کر دیا۔ تو مجھے بھی ناراض ہونا چاہیے تھا، مجھے کہنا چاہیے تھا کہ تم مجھے اگنور کر رہی ہو، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے سوچا تک نہیں اس چیز کے بارے میں۔” وہ اب اسے سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا۔

”تمہیں اپنے ساتھ ایرپورٹ لے کر جانا تو ممکن ہی نہیں تھا۔ ایر پورٹ ایک طرف ہے… بیچ میں میرا آفس ہے… اور دوسری طرف گھر… میں پہلے یہاں آتا… تمہیں لے کر پھر ایر پورٹ جاتا… دگنا ٹائم لگتا … اور تمہارے لیے انہیں ایر پورٹ جا کر ریسیو کرنا ضروری بھی نہیں تھا۔” وہ ایک لمحہ کے لیے رکا پھر بولا۔

”اب میں شکایت کروں تم سے؟”

امامہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

”تم نے سعیدہ اماں کے گھر پر ٹھہرنے کا فیصلہ کیا، مجھ سے پوچھنے کی زحمت تک نہیں کی۔” اس کی آنکھوں میں سیلاب کا ایک نیا ریلا آیا۔

”میرا خیال تھا، تم مجھے وہاں رہنے ہی نہیں دو گے، لیکن تم تو تنگ آئے ہوئے تھے مجھ سے۔ تم نے مجھے ایک بار بھی ساتھ چلنے کو نہیں کہا۔”

سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔

”مجھے کیا پتا تھا۔ میں نے سوچا کہ تمہاری خواہش ہے، مجھے پوری کرنی چاہیے۔ چلو ٹھیک ہے، میری غلطی تھی۔ مجھے کہنا چاہیے تھا تمہیں چلنے کے لیے، لیکن کم از کم تمہیں مجھے خدا حافظ کہنے کے لیے باہر تک تو آتا چاہیے تھا۔ میں پندرہ منٹ صحن میں کھڑا انتظار کرتا رہا لیکن تم نے ایک لمحہ کے لیے بھی باہر آنے کی زحمت نہیں کی۔”

”میں ناراض تھی، اس لیے نہیں آئی۔”

”ناراضی میں بھی کوئی فارمیلٹی تو ہوتی ہے نا…؟” وہ خاموشی رہی۔

”تم نے فرقان کے حوالے سے ضد کی کہ مجھے وہاں نہیں جانا۔ خواہ مخواہ کی ضد تھی۔ مجھے برا لگا تھا لیکن میں نے تمہیں اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کیا۔” وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔ ”فرقان میرا سب سے زیادہ کلوز فرینڈ ہے۔ فرقان اور بھابھی نے ہمیشہ میرا بہت خیال رکھا ہے اور یہ میرے لیے قابل قبول نہیں ہے کہ میری وائف اس فیملی کی عزت نہ کرے۔”

اس کی آنکھوں میں امڈتے سیلاب کے ایک اور ریلے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے کہا۔ امامہ نے اس بار کوئی وضاحت نہیں دی تھی۔

”میں نے تم سے یہ گلہ بھی نہیں کیا کہ تم نے میری پیرنٹس کو ایک دفعہ بھی کال کر کے یہ نہیں پوچھا کہ وہ ٹھیک سے پہنچ گئے یا ان کی فلائٹ ٹھیک رہی۔” وہ بڑے تحمل سے کہہ رہا تھا۔ وہ جزبز ہوئی۔

”میرے پاس ان کا نمبر نہیں ہے۔”

”تم مجھ سے لے لیتیں اگر تم واقعی ان سے بات کرنے میں انٹرسٹڈ ہوتیں۔ وہ تمہارے لیے یہاں آئے تھے تو تمہاری اتنی ذمہ داری تو بنتی تھی نا کہ تم ان کی فلائٹ کے بارے میں ان سے پوچھتیں یا ان کے جانے کے بعد ان سے بات کرتیں۔”

”تو تم مجھ سے کہہ دیتے۔ کیوں نہیں کہا…؟”

”میں نے اس لیے نہیں کہا کیوںکہ یہ میرے نزدیک کوئی ایشوز نہیں ہیں، یہ معمولی باتیں ہیں۔ یہ ایسے ایشوز نہیں ہیں کہ جن پر میں تم سے ناراض ہوتا پھروں یا جھگڑا کروں۔” وہ بول نہیں سکی۔

”لیکن تم نے یہ کیا کہ میرے خلاف کیس تیار کرتی رہیں… ہر چھوٹی بڑی بات دل میں رکھتی رہیں، مجھ سے کوئی شکایت نہیں کی… لیکن سعیدہ اماں کو سب کچھ بتایا… اور ڈاکٹر صاحب کو بھی… کسی دوسرے سے بات کرنے سے پہلے تمہیں مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی… کرنی چاہیے تھی نا…؟”

اس کے آنسو تھمنے لگے۔ وہ اسے بڑے تحمل سے سمجھا رہا تھا۔

”اگر میں تمہاری بات نہ سنتا تو اور بات تھی۔ پھر تم کہتیں کسی سے بھی، مجھے اعتراض نہ ہوتا۔” وہ خاموش رہی۔ اس کی بات کچھ غلط بھی نہیں تھی۔

”تم سو نہ رہی ہوتیں تو میں یقینا تمہیں بتا کر ہی گھر نکلتا میں کہاں جا رہا ہوں لیکن ایک سوئے ہوئے بندے کو صرف یہ بتانے کے لیے اٹھاؤں کہ میں جا رہوں، یہ تو میں کبھی نہیں کر سکتا۔”

وہ کچھ بول نہ سکی۔

”اگنور…؟ میں حیران ہوں امامہ! کہ یہ خیال تمہارے دماغ میں کیسے آگیا۔ میں چار دن سے ساتویں آسمان پر ہوں اور تم کہہ رہی ہو، میں تمہیں اگنور کر رہا ہوں۔”

”لیکن تم نے ایک بھی میری تعریف نہیں کی۔” امامہ کو ایک اور ”خطا” یاد آئی۔

سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔

”کس چیز کی تعریف؟” اس نے حیران ہو کر پوچھا۔ ”یہ ایک بے احمقانہ سوال تھا لیکن اس سوال نے امامہ کو شرمندہ کیا تھا۔

”اب یہ بھی میں بتاؤں؟” وہ بری طرح بگڑی تھی۔

”تمہاری خوب صورتی کی؟” سالار نے کچھ اُلجھ کر اندازہ لگایا۔ وہ مزید خفا ہوئی۔

”میں کب کہہ رہی ہوںخوب صورتی کی کرو۔ کسی بھی چیز کی تعریف کر دیتے، میرے کپڑوں کی کر دیتے۔”

اس نے کہہ تو دیا لیکن وہ یہ شکایت کرنے پر پچھتائی۔ سالار کے جوابی سوالوں نے اسے بری طرح شرمندہ کیا تھا۔ سالار نے ایک نظر اسے، پھر اس کے کپڑوں کو دیکھ کر ایک گہرا سانس لیا اور بے اختیار ہنسا۔

”امامہ! تم مجھے اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنے کے لیے کہہ رہی ہو۔” اس نے ہنسے ہوئے کہا۔ یہ جیسے اس کے لیے مذاق تھا۔ وہ بری طرح جھنپ گئی۔

”مت کرو، میں کب کہا ہے۔”

”نہیں، یو آر رائٹ۔ میں نے واقعی ابھی تک تمہیں کسی بھی چیز کے لیے نہیں سراہا۔ مجھے کرنا چاہیے تھا۔” وہ یک دم سنجیدہ ہو گیا۔ اس نے امامہ کی شرمندگی محسوس کر لی تھی۔

اس کے کندھے پر بازو پھیلاتے ہوئے اس نے امامہ کو اپنے قریب کیا۔ا س بار امامہ نے اس کا ہاتھ نہیں جھٹکا تھا۔ اس کے آنسو اب تھم چکے تھے۔ سالار نے دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ اس کے ہاتھ کو بڑی نرمی کے ساتھ سہلاتے ہوئے بولا۔

”ایسی شکایتیں وہاں ہوتی ہیں جہاں صرف چند دن کے ساتھ ہو لیکن جہاں زندگی بھر کی بات ہو، وہاں یہ سب کچھ بہت سیکنڈری ہو جاتا ہے۔” اسے اپنے ساتھ لگائے وہ بہت نرمی سے سمجھا رہا تھا۔

”تم سے شادی میرے لیے بہت معنی رکھتی ”تھی” اور معنی رکھتی ”ہے”… لیکن آئندہ بھی کچھ معنی رکھے ”گی” اس کا انحصار تم پر ہے۔ مجھ سے جو گلہ ہے اسے مجھ سے کرو، دوسروں سے نہیں۔ میں صرف تم کو جواب دہ ہوں امامہ! کسی اور کے سامنے نہیں۔” اس نے بے نپے تلے لفظوں میں اسے بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

”ہم کبھی دوست نہیں تھے لیکن دوستوں سے زیادہ بے تکلفی اور صاف گوئی رہی ہے ہمارے تعلق میں۔ شادی کا رشتہ اسے کمزور کیوں کر رہا ہے؟”

امامہ نے نظر اٹھا کر اس کے چہرے کودیکھا۔ اسے اس کی آنکھوں میں بھی وہی سنجیدگی جنظر آئی جو اس کے لفظوں میں تھی۔ اس نے ایک بار پھر سر جھکا لیا۔ ”وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا” اس کے دل نے اعتراف کیا۔

”تم میری زندگی میں ہر شخص اور ہر چیز سے بہت زیادہ امپورٹینس رکھتی ہو۔” سالار نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”لیکن یہ ایک جملہ میں تمہیں ہر روز نہیں کہہ پاؤں گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے لئے تمہاری امپورٹنس کم ہو گئی ہے۔ میری زندگی میں تمہاری امپورٹنس اب میرے ہاتھ میں نہیں، تمہارے ہاتھ میں ہے۔ یہ تمہیں طے کرنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ تم اس امپورٹنس کو بڑھاؤ گی یا کم کر دو گی۔” اس کی بات سنتے ہوئے امامہ کی نظر اس کے اس ہاتھ کی پشت پر پڑی جس سے وہ اُس کا ہاتھ سہلا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کی پشت بے حد صاف ستھری تھی۔ ہاتھ کی پشت اور کلائی پر بال نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہاتھ کی انگلیاں کسی مصور کی انگلیوں کی طرح لمبی اور عام مردوں کے ہاتھوں کی نسبت پتلی تھیں۔ اس کے ہاتھوں کی پشت پر سبز اور نیلی رگیں بہت نمایاں طور پر نظر آرہی تھیں۔ اس کی کلائی پر ریسٹ واچ کا ہلکا سا نشان تھا۔ وہ یقینا بہت باقاعدگی سے رسٹ واچ پہنا تھا۔ وہ آج پہلی بار اس کے ہاتھ کو اتنے غور سے دیکھ رہی تھی۔ اسے اس کے ہاتھ بہت اچھے لگے۔ اس کا دل کچھ اور موم ہوا۔

اس کی توجہ کہاں تھی، سالار کو اندازہ نہیں ہو سکا۔ وہ اسے اسی طرح سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا۔

”محبت یا شادی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دونوں پارٹنرز ایک دوسرے کو اپنے اپنے ہاتھ کی مٹھی میں بند کر کے رکھنا شروع کردیں۔ اس سے رشتے مضبوط نہیں ہوتے، دم گھٹنے لگتا ہے۔ ایک دوسرے کو اسپیس دینا، ایک دوسرے کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرنا، ایک دوسرے کی آواز کے حق کا احترام کرنا بہت ضروری ہے۔ ”امامہ نے گردن موڑ کر اس کا چہرہ دیکھا، وہ اب بے حد سنجیدہ تھا۔

”ہم دونوں اگر صرف ایک دوسرے کے عیب اور کوتاہیاں ڈھونڈتے رہیں گے تو بہت جلد ہمارے دل سے ایک دوسرے کے لیے عزت اور لحاظت ختم ہو جائے گا۔ کسی رشتے کو کتنی بھی محبت سے باندھا گیا ہو، اگر عزت اور لحاظ چلا جائے تو محبت بھی چلی جائے… یہ دونوں چیزیں محبت کے گر کی چار دیواری ختم ہو جائے تو گھر کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔”

امامہ نے بڑی حیرانی سے اسے دیکھا۔ وہ اس کی آنکھوں میں حیرانی دیکھ کر مسکرایا۔

”اچھی فلاسفی ہے نا؟”

امامہ کی آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بیک وقت آئی تھی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

سالار نے اسے اپنے کچھ اور قریب کرتے ہوئے کہا۔

”میں اللہ کا پرفیکٹ بندہ نہیں ہوں تو تمہارا پرفیکٹ شوہر کیسے بن سکتا ہوں امامہ! شاید اللہ میری کوتاہیاں نظر انداز کردے، تو تم بھی معاف کر دیا کرو۔”

وہ حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی، وہ واقعی اس سالار سکندر سے ناواقف تھی۔ سالار نے بڑی نرمی کے ساتھ اس کی آنکھوں کے سوجے ہوئے پپوٹوں کو اپنی پوروں سے چھوا۔

”کیا حال کر لیا ہے تم نے اپنی آنکھوں کا…؟تمہیں مجھ پر ترس نہیں آتا؟”

وہ بڑی ملائمت سے کہہ رہا تھا۔

امامہ نے جواب دینے کے بجائے اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔ وہ اب بے پُرسکون تھی۔ اس کے گرد اپنا ایک بازو حمائل کرتے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے اس کے چہرے اور گردن پر آئے ہوئے بالوں کو ہٹاتے ہوئے اس نے پہلی بار نوٹس کیا کہ وہ رونے کے بعد زیادہ اچھی لگتی ہے لیکن اس سے یہ بات کہنا، اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والی بات تھی۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ اس کے نائٹ ڈریس کی شرٹ پر بنے پیٹرن پر غیر محسوس انداز میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔

”موو کلر اچھا لگتا ہے تم پر۔” اس نے بے حد رومانٹک انداز میں اس کے کپڑوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔

اس کے سینے پر حرکت کرتا اس کا ہاتھ ایک دم رکا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ سالارنے اس کی آنکھوں خفگی دیکھی، وہ مسکرایا۔

”تعریف کر رہا ہوں تمہاری۔”

”یہ ٹی پنک ہے۔”

”اوہ! اچھا۔” سالار نے گڑ بڑا کر اس کے کپڑوں کو دوبارہ دیکھا۔

”یہ ٹی پنک ہے؟ میں نے اصل میں موو کلر بہت عرصے سے کسی کو پہنے نہیں دیکھا۔” سالار نے وضاحت کی۔

”کل موو پہنا ہوا تھا میں نے۔” امامہ کی آنکھوں کی خفگی بڑھی۔

”لیکن میں تو اسے پرپل سمجھا تھا۔” سالار مزید گڑبڑایا۔

”وہ جو سامنے دیوار پر پینٹنگ ہے نا، اس میں ہیں پرپل فلاورز۔” امامہ کچھ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔

سالار اس پینٹنگ کو گھورتے ہوئے اسے یہ نہیں بتا سکا کہ وہ ان فلاورز کو بلیو کلر کا کوئی شیڈ سمجھ کر لایا تھا۔ امامہ اب اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ سالار نے کچھ بے چارگی کے انداز میں گہرا سانس لیا۔

”میرا خیال ہے، اس شادی کو کامیابی کرنے کے لیے مجھے اپنی جیب میں ایک شیڈ کارڈز رکھنا پڑے گا۔” وہ پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا تھا۔

٭٭٭٭

وہ پہلی صبح تھی جب اس کی آنکھ سالار سے پہلے کھلی تھی، الارم سیٹ ٹائم سے بھی دس منٹ پہلے۔ چند منٹ وہ اسی طرح بستر میں پڑی رہی۔ اسے اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ رات کا کون سا پہر ہے۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا الارم کلاک اٹھا کر اس نے ٹائم دیکھا پھر ساتھ ہی الارم آف کر دیا۔ بڑی احتیاط سے وہ اٹھ کر بستر میں بیٹھی۔ سائیڈ تیبل کا لیمپ بڑی احتیاط سے آن کرتے ہوئے اس نے سلیپرز ڈھونڈے، پھر اس نے کھڑے ہوتے ہوئے سائیڈ ٹیبل کا لیمپ آف کیا۔ تب اس نے سالار کی سائیڈ کے لیمپ کو آن ہوتے دیکھا۔ وہ کس وقت بیدار ہوا تھا، امامہ کو اندازہ نہیں ہوا تھا۔

”میں سمجھی تم سو رہے ہو۔” اس نے سالار کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔

”میں ابھی اٹھا ہوں، کمرے میں آہٹ کی وجہ سے۔”

وہ اسی طرح لیٹے لیٹے اب اپنا سیل فون دیکھ رہا تھا۔

”لیکن میں نے تو کوئی آواز نہیں کی۔ میں تو کوشش کر رہی تھی کہ تم ڈسٹرب نہ ہو۔” امامہ کچھ حیران ہوئی تھی۔

”میری نیند زیادہ گہری نہیں ہے امامہ! کمرے میں ہلکی سے ہلکی آہٹ بھی ہو تو میں جاگ جاتا ہوں۔” اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے سیل سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔

”میں آئندہ احتیاط کروں گی۔” اس نے کچھ معذرت خوانہ انداز میں کہا۔

”ضرورت نہیں، مجھے عادت ہے اسی طرح کی نیند کی۔ مجھے اب فرق نہیں پڑتا۔” اس نے بیڈ پر پڑا ایک اور تکیہ اٹھا کر اپنے سر کے نیچے رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ وہ واش روم میں جانے سے پہلے چند لمحے اسے دکھتی رہی۔ ہر انسان ایک کتاب کی طرح ہوتا ہے۔ کھلی کلتاب جسے کوئی بھی پڑھ سکت اہے۔ سالار بھی اس کے لیے ایک کھلی کتاب تھا لیکن چائنیز زبان میں لکھی ہوئی کتاب۔

اس دن اس نے اور سالار نے سحری اکٹھے کی اور ہر روز کی طرح سالار، فرقان کے ساتھ نہیں گیا۔ وہ شاید پچھلے کچھ دنوں کی شکایتوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ امامہ کا موڈ رات کو ہی بہت اچھا ہو گیا تھا اور اس میں مزید بہتری اس کی اس ”توجہ” نے کی۔

مسجد میں جانے سے پہلے آج پہلی بار اس نے اسے مطلع کیا۔

”امامہ! تم میرا انتظار مت کرنا۔ نماز پڑھ کر سو جانا، میں کافی لیٹ آؤں گا۔”

اس نے جاتے ہوئے اسے تاکید کی لیکن وہ اس کی تاکید کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے انتظار میں بیٹھی رہی۔

وہ ساڑھے آٹھ بجے اس کے آفس جانے کے بعد سوئی تھی۔ دوبارہ اس کی آنکھ گیارہ بجے ڈور بیل کی آواز پر کھلی۔ نیند میں اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے، اس نے بیڈ روم سے باہر نکل کر اپارٹمنٹ کا داخلی دروازہ کھولا۔ چالیس، پینتالیس سالہ ایک عورت نے اسے بے حد پُرتجسس نظروں سے دیکھتے ہوئے سلام کیا۔

”مجھے نوشین باجی نے بھیجا ہے۔” اس نے اپنا تعارف کروایا۔

امامہ کو ایک دم یاد آیا کہ اس نے نوشین کو صفائی کے لیے ملازمہ کو کل کے بجائے اگلے دن بھیجنے کے لیے کہا تھا۔ وہ اسے راستہ دیتی ہوئی دروازے سے ہٹ گئی۔

”اتنی خوشی ہوئی جب نوشین باجی نے مجھے بتایا کہ سالار صاحب کی بیوی آگئی ہے۔ مجھے تو پتا ہی نہیں چلا کہ کب شادی کر لی سالار صاحب نے۔ ” امامہ کے پیچھے اندر آتے ہوئے ملازمہ کی باتوں کا آغاز ہو گیا تھا۔

”کہاں سے صفائی شروع کرنی ہے تم نے؟”

”امامہ کی فوری طور پر سممجھ میں نہیں آیا کہ اسے صفائی کے بارے میں کیا ہدایات دے۔

”باجی! آپ فکر نہ کریں۔ میں کر لوں گی، آپ چاہے آرام سے سو جاؤ۔”ملازمہ نے اپنے فوری آفر کی۔ یہ شاید اس نے اس کی نیند سے بھری ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر کہا تھا۔

”نہیں، تم لاؤنج سے صفائی شروع کرو، میں ابھی آتی ہوں۔”

آفر بری نہیں تھی، اسے واقعی نیند آرہی تھی لیکن وہ … اس طرح اسے گھر میں کام کرتا چھوڑ کر سو نہیں سکتی تھی۔

واش روم میں آخر اس نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، کپڑے تبدیل کر کے بال سمیٹے اور لاؤنج میں نکل آئی۔ ملازمہ ڈسٹنگ میں مصروف تھی۔ لاؤنج کی کھرکیوں کے بلائنڈز اب ہٹے ہوئے تھے٠ سورج ابھی پوری طرح نہیں نکلا تھا لیکن اب ھند نہ ہونے کے برابر تھی۔ لاؤنج کی کھڑکیوں سے باہر پودے دیکھ کر اسے انہیں پانی دینے کا خیال آیا۔

ملازمہ ایک بار پھر گفتگو کا آغاز کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اسے بالکونی کی طرف جاتے دیکھ کر چپ ہو گئی۔

جب وہ پودوں کو پانی دے کر فارغ ہوئی تو ملازمی لاؤنج صاف کرنے کے بعد اب سالار کے اس کمرے میں جا چکی تھی جسے وہ اسٹڈی روم کی طرح استعمال کرتا تھا۔

”’سالار صاحب بڑے اچھے آدمی انسان ہیں۔”

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں اپارٹمنٹ کی صفائی کرنے کے بعد امامہ نے اس سے چائے کا پوچھا تھا۔ چائے پیتے ہوئے ملازمہ نے ایک بار پھر اس سے باتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ امامہ اس کے تبصرے پر صرف مسکرا کر خاموش ہو گئی۔

”آپ بھی ان کی طرح بولتی نہیں ہیں؟” ملازمہ نے اس کے بارے میں اپنا پہلا اندازہ لگایا۔

”اچھا، سالار بھی نہیں بولتا۔” امامہ نے جان بوجھ کر اسے موضوع گفت گوبنایا۔

”کہاں جی۔ حمید بھی یہی کہتا ہے صاحب کے بارے میں۔”

ملازمہ نے شاید سالار کے ملازم کا نام لیا تھا۔

”لیکن باجی! بڑی حیا ہے آپ کے آدمی کی آنکھ میں۔”

اس نے ملازمہ کے جملے پر جیسے بے حد حیرنا ہو کر اس کا چہرہ دیکھا تھا۔ ملازمہ بڑی سنجیدگی سے بات کر رہی تھی۔

”جیسے فرقان صاحب ہیں ویسی ہی عادت سالار صاحب کی ہے۔ فرقان صاحب تو خیر سے بال بچوں والے ہیں لیکن سالار صاحب تو اکیلے رہتے تھے ادھر۔ میں تو کبھی بھی اس طرح اکیلے مردوں والے گھروں میں صفائی نہ کروں۔ بڑی دنیا دیکھی ہے جی میں نے، لیکن یہاں کام کرتے ہوئے کبھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا صاحب نے مجھے۔ میں کئی بار سوچتی تھی کہ بڑے ہی نصیب والی عورت ہو گی، جو اس گھر میں آئے گی۔”

ملازمہ فراٹے سے بول رہی تھی۔

ہیٹر کے سامنے صوفے پر نیم دراز زمامہ اس کی باتیں سنتی کسی سوچ میں گم رہی۔ ملازمہ کو حیرت ہوئی تھی کہ باجی اپنے شوہر کی تعریف پر خوش کیوں نہیں ہوئی۔ ”باجی” کیا خوش ہوتی، کم از کم اسے اتنی توقع تو تھی اس سے کہ وہ گھر میں کام کرنے والی کسی عورت کے ساتھ بھی انوالو نہیں ہو سکتا۔ وہ مردوں کی کوئی بری ہی بد ترین قسم ہوتی ہو گی، جو گھر میں کام کرنے والی م لازمہ پر بھی نظر رکھتے ہوں گے اور سالار کم از کم اس قسم کے مردوں میں شمار نہیں ہو سکتا تھا۔

ملازمہ اس کی مسلسل خاموشی سے کچھ بے زار ہو کر جلدی چائے پی کر فارغ ہو گئی۔ امامہ اس کے پیچھے دروازہ بند کرنے گئی تو ملازمہ نے باہر نکلنے سے پہلے مڑ کر اس سے کہا۔

”باجی! کل ذرا جلدی آجاؤں آپ کے گھر؟”

امامہ ٹھٹک کر رک گئی۔ اس کے چہرے پر یقینا کوئی ایسا تاثر تھا جس نے ملازمہ کو کچھ بوکھلا دیا تھا۔

”باجی! مجھے چھوٹے بچے کو ہسپتال لے کر جانا ہے، اس لیے کہہ رہی تھی۔” اس نے جلدی سے کہا۔

”ہاں، ٹھیک ہے۔” امامہ نے بہ مشکل جیسے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا اور دروازہ بند کر دیا۔ کل جلدی آنے کے مطالبے نے اسے ساکت نہیں کیا تھا بلکہ اسے ساکت کیا تھا اس کے تین لفظوں نے… ”آپ کے گھر” یہ ”اس کا گھر ” تھا جس کے لیے وہ اتنی سالوں سے خوار ہوتی پھر رہی تھی۔ جس کی آس میں وہ کتنی بار جلال انصر کے پیچھے گڑ گڑانے گئی تھی۔ وہ بے یقینی سے لاؤنج میں آکر ان دیواروں کو دیکھ رہی تھی جنہیں دنیا ”اس کے گھر” کے نام سے شناخت کر رہی تھی، وہ واقعی اس کا گھر تھا۔ وہ پناہ گاہیں نہیں تھیں جہاں وہ اتنے سال سرجھکا کر ممنون و احسان مند بن کر رہی تھی۔ آنسوؤں کا ایک ریلا آیا تھا اس کی آنکھون میں… بعض اوقات انسان سمجھ نہیں پاتا کہ وہ روئے یا ہنسے… روئے ، تو کتنا روئے… ہنسے، تو کتنا ہنسے… وہ بھی کچھ ایسی ہی کسی کیفیت سے گزر رہی تھی۔ وہ بچوں کی طرح ہر کمرے کا دروازہ کھول کھول کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہی تھی۔ وہ جا سکتی تھی وہاں… جو چاہے کر سکتی تھی… یہ اس کا گھر تھا۔ یہاں کوئی جگہ اس کے لیے ”علاقہ غیر” نہیں جتھی۔ اسے بس اتنی سی دنیا ہی چاہیے تھی اپنے لیے… کوئی ایسی جگہ جہاں وہ استحقاق کے ساتھ رہ سکتی ہو… سالار یک دم جیسے کہیں پیچھے چلا گیا تھا۔ گھر کے معاملے میں عورت کے لیے ہر مرد پیچھے رہ جاتا ہے۔

سالار نے اسے دوبار وقفے وقفے سے سیل پر کال کی لیکن امامہ نے ریسیو نہیں کی… سالار نے تیسری بار پھر پی ٹی سی ایل پر کال کی، اس بار امامہ نے ریسیو کی لیکن اس کی آواز سنتے ہی سالار کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ رو رہی تھی۔ اسے اس کی آواز بھر آئی ہوئی لگی۔ وہ بہت پریشان ہوا۔

”کیا ہوا؟”

”کچھ نہیں۔”

وہ دوسری طرف جیسے اپنے آنسوؤں اور آواز پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔

”کیوں رو رہی ہو؟”

سالار کی واقعی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔ رات ہر جھگڑے کا اختتام بے حد خوشگوار انداز میں ہوا تھا۔ وہ صبح دروازے تک مسکرا کر اسے رخصت کرنے آئی تھی۔ پھر اب… ؟ وہ اُلجھ رہا تھا۔

دوسری طرف امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے اپنے رونے کا کیا جواز پیش کرے۔ اس سے یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ اس لیے رو رہی ہے کہ کسی نے اسے ”گھر والی” کہا ہے۔ سالار یہ بات نہیں سمجھ سکتا تھا… کوئی بھی مرد نہیں سمجھ سکتا۔

”مجھے امی اور ابو یاد آرہے رہیں۔” سالار نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔

یہ وجہ سمجھ میں آتی تھی… وہ یک دم پر سکون ہوا۔ ادھر وہ بالکل خاموش تھی۔ ماں باپ کا ذکر کیا تھا، جھوٹ بولا تھا لیکن اب رونے کی جیسے ایک اور وجہ مل گئی تھی۔ جو آنسو پہلے تھم رہے تھے، وہ ایک بار پھر سے برسنے لگے تھے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ فون پر اس کی سسکیاں اور ہچکیاںسنتا رہا۔

وہ اس غیر ملکی بینک میں انویسٹمنٹ بینکنگ کو ہیڈ کرتا تھا۔ چھوٹے سے چھوٹا انویسٹمنٹ scam پکڑ سکتا تھا، خسارے میں جاتی بڑی سے بڑی کمپنی کے لیے بیل آؤٹ پلان تیار کر سکتا تھا۔ کمپنیز کے مرجر پیکجز تیار کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ وہ پوائنٹ دن پر سنٹ کر پریسیشن کے ساتھ ورلڈ اسٹاک مارکیٹیں کے ٹرینڈز کی پیش بینی کر سکتاتھا۔ مشکل سے مشکل سرمایہ کار کے ساتھ سودا طے کرنے میں اسے ملکہ حاصل تھا لیکن شادی کے اس ایک ہفتے کے دوران ہی اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ امامہ کو روتے ہوئے چپ نہیں کرا سکتا، نہ وہ ان آنسوؤں کی وجہ ڈھونڈ سکتا تھا، نہ انہیں روکنے کے طریقے اسے آتے تھے۔ وہ کم از کم اس میدان میں بالکل اناڑی تھا۔

”ملازمہ نے گھر صاف کیا تھا آج؟” ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے امامہ کی توجہ رونے سے ہٹانے جکے لیے جس موضوع اور جملے کا انتخاب کیا وہ احمقانہ تھا۔ امامہ کو جیسے یقین نہیں آیا کلہ یہ باتنے پر کہ اسے اپنے ماں باپ یاد آرہے ہیں، سالار نے اس سے یہ پوچھا ہے۔ پچھلی رات کے سالار کے سارے لیکچرز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نے ریسیور کریڈل پر پٹک دیا اور فون منقطع ہوتے ہی سالار کو اپنے الفاظ کے غلط انتخاب کا احساس ہو گیا تھا۔ اپنے سیل کی تاریک اسکرین کو دیکھتے ہوئے اس نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔

اگلے پانچ منٹ وہ سیل ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا۔ اسے پتا تھا اس نے اب کال کی تو وہ ریسیو نہیں کرے گی۔ پانچ منٹ کے بعد اس نے دوبارہ کال کی۔ خلاف توقع امامہ نے کال ریسیو کی۔ اس بار اس کی آواز میں خفگی تھی لیکن وہ بھرائی ہوئی نہیں تھی۔ وہ یقینا رونا بند کر چکی تھی۔

”آئی ایم سوری!؟” سالار نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔

امامہ نے جواب نہیں دیا۔ وہ اُس وقت اس کی معذرت نہیں سن رہی تھی۔ وہ صرف ایک ہی بات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تگھی، اسے سالار پر غصہ کیوں آجاتا تھا…؟ یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر… اتنے سالوں میں جس ایک احساس کو وہ مکمل طور پر بھول گئی تھی، وہ غصے کا احساس ہی تھا۔ یہ احساس اس کے لیے اجنبی ہو چکا تھا۔ اتنے سالوں سے اس نے اللہ کے علاوہ کسی سے بھی کوئی گلہ، کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ کسی سے ناراض ہونا یا کسی کو خفگی دکھانا تو بہت دور کی بات ہے، پھر اب یہ احساس اس کے اندر کیوں جاگ اٹھا تھا۔ سعیدہ اماں، ڈاکٹر سبط علی اور ان کی فیملی… اس کے کلاس فیلوز… کولیگز… ان میں سے کبھی کسی پر اسے غصہ نہیں آیا تھا۔ ہاں، کبھی کبھار شکایت ہوتی تھی لیکن وہ شکایت کبھی لفظوں کی شکل اختیار نہیں کر سکی، پھر اب کیا ہو رہا تھا اسے؟

”امامہ پلیز بولو… کچھ کہو۔” وہ چونکی۔

”نماز کا وقت نکل رہا ہے، مجھے نماز پڑھنی ہے۔” اس نے اسی الجھے ہوئے انداز میں اس سے کہا۔

”تم خفا نہیں ہو؟” سالار نے اس سے پوچھا۔

”نہیں۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔

وہ نماز کے بعد دیر تک اسی ایک سوال کا جواب ڈھونڈتی رہی اور اسے جواب مل گیا… نو سال میں اس نے پہلی بار اپنے لیے کسی کی زبان سے محبت کا اظہار سنا تھا۔ وہ احسان کرنے والوں کے ہجوم میں تھی، پہلی بار کسی محبت کرنے والے کے حصار میں آئی تھی۔ گلہ، شکوہ، ناز، نخرا، غصہ، خفگی یہ سب کیسے نہ ہوتا، اسے ”پتا” تھا کہ جب وہ روٹھے گی تو وہ اسے منا لے گا، خفا ہو گی تو وہ اسے وضاحتیں دے گا، مان تھا یا گمان… لیکن جو کچھ بھی تھا، غلط نہیں تھا۔ اتنے سالوں میں جو کچھ اس کے اندر جمع ہو گیا تھا، وہ کسی لاوے کی طرح نکل رہا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ نارمل ہو رہی تھی۔

قسط نمبر 8۔۔۔۔۔

شام کو سالار اسے خوش گوار موڈ میں دیکھ کر حیران ہو ا تھا۔ یہ خلاف توقع تھا، خاص طور پر دوپہر والے واقعہ کے بعد… لیکن… اس رات وہ اسے ڈنر کے لیے باہر لے گیا۔ وہ بے حد نروس تھی لیکن بے حد ایکسائیٹڈ بھی… وہ کتنے سالوں کے بعد یوں کسی ریسٹورنٹ کے اوپن ایئر حصہ میںبیٹھی باربی کیو کھا رہی تھی۔

کھانے کے بعد وہ دونوں ونڈو شاپنگ کی نیت سے مارکیٹ چلے آئے… سالار نے بڑی نرمی اور توجہ سے اسے خود کو سنبھلانے کا موقع دیا تھا۔ وہ اس سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا رہا کھانا ختم کرنے تک وہ نارمل ہو چکی تھی۔

عید کی خریداری کی وجہ سے مارکیٹ میں اس وقت بھی بڑی گہما گہمی تھی۔ وہ بہت عرصہ کے بعد وہاں آئی تھی، مارکیٹ کی شکل ہی بدل چکی تھی۔ وہ بے حد حیرت سے ان نیو برائڈز اور دوکانوں کو دیکھتے ہوئے گزر رہی تھی جو آٹھ نو سال پہلے وہاں نہیں تھیں۔ ڈاکٹر سبط علی کی بیٹیاں یا سعیدہ اماں کے بیٹے اپنی فیملیز کے ساتھ جب بھی آؤٹنگ کے لیے باہر نکلتے، وہ اسے بھی ساتھ لے جانے کی کوشش کرتے، لیکن ان کے ساتھ باہر نہ جانے کا فیصلہ اس کا اپنا ہوتا تھا۔ وہ ان میں سے کسی کے لیے مزید کسی مصیبت کا باعتھا۔

یں بننا چاہتی تھی۔ شادی کو وہ صرف رہنے کی جگہ کی تبدیلی سمجھ رہی تھی، حالات کی تبدیلی کے بارے میں اس نے کبھی نہیں سوچا تھا… لیکن معجزات ہوتے ہیں… شازو نادر سہی لیکن ہوتے ضرور ہیں۔

”کچھ لو گی؟” سالار کی آواز پر وہ بے اختیار چونکی۔

”ہاں… کافی۔” اس نے جھجک کر کہا۔

”میں شاپنگ کی بات کر رہاتھا۔” اس نے کہا۔

”نہیں، میرے پاس سب کچھ ہے۔” امامہ نے مسکرا کر کہا۔

”وہ تو اب میرے پاس بھی ہے۔” اس کے چہرے پر بے اختیار سرخی دوڑی تھی۔

”تمہیں میری تعریف اچھی لگی…؟”

”سالار! بازآؤ، میں نے تمہیں یہاں تعریف کرنے کو کہا تھا؟” وہ بے ساختہ جھینپی۔

”تم نے جگہ نہیں بتائی تھی، صرف یہ کہا تھا کہ مجھے تمہاری تعریف کرنی چاہیے۔” وہ اسے چھیڑتے ہوئے محظوظ ہو رہا تھا۔

امامہ نے اس بار گردن موڑ کر اسے نظر انداز کیا۔ اس کے ساتھ چلتے چلتے ایک شو کیس میں ڈسپلے پر لگی ایک ساڑھی دیکھ کر وہ بے ساختہ رکی۔ کچھ دیر ستائشی نظروں سے اسے کا ہی رنگ کی ساڑھی کو دیکھتی رہی۔ـ وہاں شوکیس میں لگی یہی وہ شے تھی، جس کے سامنے وہ یوں ٹھٹک کر رک گئی تھی۔ سالار نے ایک نظر اس ساڑھی کو دیکھا پھر اس کے چہرے کو اور بڑی سہولت کے ساتھ کہا۔

مجھے لگتا ہے، یہ ساڑھی تم پر بہت اچھی لگے گی، آؤ لیتے ہیں۔” وہ گلاس ڈور کھولتے ہوئے بولا۔

”نہیں، میرے پاس بہت سے فینسی کپڑے ہیں۔” امامہ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے کر اسے روکا۔

”لیکن میں نے تو کچھ نہیں دیا تمہیں شادی پر، اس لیے کچھ دینا چاہتا ہوں۔”

وہ اس بار بول نہیں سکی۔ وہ ساڑھی اسے واقعی بہت اچھی لگی تھی۔

اس بوتیک سے انہوں نے صرف وہ ساڑھی ہی نہیں خریدی بلکہ چند اور سوٹ بھی لیے تھے۔ دوسری بوتیک سے گھر میں پہننے کے لیے کچھ ریڈی میڈ ملبوسات، کچھ سویٹر زاور جوتے۔

”مجھے پتا ہے، تمہارے پاس کپڑے ہیں لیکن تم میرے خریدے ہوئے پہنو گی تو مجھے زیادہ اچھا لے گا۔ یہ سب میں اپنی خوشی کے لیے کر رہا ہوں، تمہیں خوش کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔”

اس کے پہلے اعتراض پر سالار نے بے حد رسانیت سے کہا تھا۔

امامہ نے اس کے بعد اعتراض نہیں کیا۔ اسے کچھ جھجک تھی لیکن تھوڑی دیر میں یہ جھجک بھی ختم ہو گئی۔ پھر اس نے ساری چیزیں اپنی پسند سے لی تھیں۔

”مجھے تم پر ہر چیز اچھی لگتی ہے۔ سو تم مجھ سے مت پوچھو۔” اس نے سالار کی پسند پوچھی تو وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

”لاؤنج کی کھڑکیوں پر curtainsلگا لیں۔” امامہ کو یاد آیا۔

”بلائنڈ سے کیا ایشوہے تمہیں؟” وہ چونکا۔

”کوئی نہیں لیکن مجھے curtains اچھے لگتے ہیں۔ خوب صورت ہے۔”

”کیوں نہیں… ” سالار نے اپنی دلی تاثر چھپاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ وہ اس سے کہہ نہیں سکا کہ اسے پردوں سے چڑ تھی۔

رات پونے بارہ بجے ایک کیفے میں کافی اور tiramisu کھانے کے بعد وہ تقریباً ساڑھے بارہ بجے گھر واپس آئے۔ لاہور تب تک ایک بار پھر دھند میں ڈوب چکا تھا لیکن زندگی کے راستے سے دھند چھٹنے لگی تھی۔

گھر آنے کے بعد بھی وہ بے مقصد ان چیزوں کو کھول کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ کتنے سالوں بعد وہ ملنے والی کسی چیز کو تشکر اور احسان مندی کے بوجھ کے ساتھ نہیں بلکہ استحقاق کے احساس کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔

عورت کے لیے بہت ساری نعمتوں میں سے ایک نعمت اس کے شوہر کا اس کی ذات پر پیسہ خرچ کرنا بھی ہے اور یہ نعمت کیوں تھا، وہ اسے آج سمجھ پائی تھی۔

ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی ہر سیزن کے آغاز میں اسے کپڑے اور دوسری چیزیں خرید کر دیتے تھے۔ سعیدہ اماں بھی اس کے لیے کچھ نہ کچھ لاتی رہتی تھیں۔ ان کے بیٹے اور ڈاکٹر سبط علی کی بیٹیاں بھی اسے کچھ نہ کچھ بھیجتی رہتی تھیں لیکن ان میں سے کسی چیز کو ہاتھ میں لیتے ہوئے اس نے ایسی خوشی یا سکون محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ خیرات نہیں تھی لیکن وہ حق بھی نہیں تھا، وہ احسان تھا اور وہ اتنے سالوں میں بھی اپنے وجود کو احسانوں کا عادی نہیں بنا سکی تھی۔ بے شک وہ اس کی زندگی کا حصہ ضرور بن گئے تھے۔

یہ کیسا احساس تھا جو ان چیزوں کو گود میں لیے اسے ہو رہا تھا۔ خوشی؟ آزادی؟ اطمینان؟ سکون…؟ یا کوئی ایسی شے تھی جس کے لیے اس کے پاس لفظ نہیں تھے۔

”کیا دیکھ رہی ہو تم؟”

سالار کپڑے تبدیل کر واش روم سے نکال تھا اور ڈریسنگ روم کی لائٹ آف کر کے کمرے میں آٹے ہوئے اس نے امامہ کو اسی طرح صوفے پر وہ ساری چیزیں پھیلائے بیٹھے دیکھا۔ وہ حیران سا ہوا۔ وہ جب سے آئی تھی، اس وقت سے ان چیزوں کو لے کر بیٹھی ہوئی تھی۔

”کچھ بھی نہیں میں بس رکھنے ہی لگی تھی۔” امامہ نے ان چیزوں کو سمیٹنا شروع کر دیا۔

”ایک وارڈ روب میں نے خالی کر دی ہے، تم اپنے کپڑے اس میں رکھ لو۔ اگر کچھ اور جگہ کی ضرورت ہو تو گیسٹ روم کی ایک وارڈ روب بھی خالی ہے… تم اسے استعمال کر سکتی ہو۔”

وہ اپنے کمرے سے کچھ ڈھونڈتا ہوا اس سے کہہ رہا تھا۔

”مجھے سعیدہ اماں کے گھر سے اپنا سامان لانا ہے۔” امامہ نے ساری چیزوں کو دوبارہ ڈبوں اور بیگز میں ڈالتے ہوئے کہا۔

”کیسا سامان؟” وہ ابھی تک دراز میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔

”میرے جہیز کا سامان۔ ” امامہ نے بڑی رسانیت سے کہا۔

”مثلاً؟” وہ دراز سے نکالے گئے کچھ پیپرز دیکھتے ہوئے چونکا۔

”برتن ہیں، الیکٹرونکس کی چیزیں ہیں۔ فرنیچر بھی ہے لیکن وہ شو روم پر ہے اور بھی کچھ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔”

وہ ان پیپرز کو دراز میں رکھ کر اس کی بات سنتا رہا۔

”تمہارے ذاتی استعمال کی کوئی چیز ہے وہاں…؟” اس نے پوچھا۔

”وہ سب میری ذاتی چیزیں ہیں۔” اس نے بے ساختہ کہا۔

”وہ جہیز کا سامان ہے۔” سالار نے اسے جتانے والے انداز میں کہا۔

”اب تم کہو گے، تمہیں جہیز نہیں چاہیے۔” وہ کچھ جزبز ہو کر بولی۔

”مجھے کسی بھی قسم کا سامان نہیں چاہیے۔” سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ”تمہیں لگتا ہے اس اپارٹمنٹ میں پہلے ہی کسی چیز کی کمی ہے… ؟ … تم چاہتی ہو، یہاں ہر چیز دو، دو کی تعداد میں ہو۔ رکھیں گے کہاں؟” وہ پوچھ رہا تھا۔ امامہ سوچ میں پڑ گئی۔

”اتنے سالوں سے چیزیں میں خریدتی رہی ہوں اپنے لیے، لیکن زیادہ سامان ابو کے پیسوں سے آیا ہے۔ وہ ناراض ہوں گے۔” وہ اب بھی تیار نہیں تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی تینوں بیٹیوں کو جہیز دیا؟”وہ اب پوچھ رہا تھا۔ ”نہیں دیا نا؟”

”تمہیں کیسے پتا؟” وہ چند لمحے بول نہیں سکی۔

”انہوں نے ہمیں خود بتایا تھا۔” اس نے کہا۔

”ان کی تینوں بیٹیوں کی شادیاں فیملی میں ہوئی ہیں اس لیے۔” امامہ نے کہا۔

”ٹرسٹ می… میں بھی جہیز لے کر نہ آنے پر تم سے برا سلوک نہیں کروں گا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا تحفہ ہوتا تو میں ضرور رکھتا لیکن یہ انہوںنے تمہاری سیکیورٹی کے لیے دیا تھا، کیوںکہ تمہاری شادی کسی ایسی فیملی میں ہو رہی تھی جن کے بارے میں وہ مکمل طور پر نہیں جانتے تھے لیکن میرے بارے میں تو وہ بھی جانتے ہیں اور تم بھی۔” سالار نے اس سے کہا۔

”میرے برتن، بیڈ شیٹس اور کپڑے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کتنی چیزیں ہیں جو میں اتن سالوں سے جمع کر رہی ہوں۔ اب کیسے دے دوں یہ سب کچھ؟” وہ ناخوش تھی۔

”اوکے، جو چیز تم نے اپنی پے سے لی ہے، وہ لے آؤ، باقی چھوڑ دو سب کچھ۔ وہ کسی خیراتی ادارے کو دے دیں گے۔” سالار نے ایک اور حل نکالا۔وہ اس بار کچھ سوچنے لگی۔

”میں صبح آفس جاتے ہوئے تمہیں سعیدہ اماں کی طرف چھوڑ دوں گا اور آفس سے آج ذرا جلدی آجاؤں گا۔ تمہاری پیکنگ بھی کروا دوں گا۔”

وہ ہاتھ میں کچھ پیپرز لیے ہوئے اس کی طرف آیا۔ صوفے پر اس کے پاس پڑی چیزوں کو ایک طرف کرتے ہوئے وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔

”یہ جس جگہ پر کراس کا نشان ہے، اس پر اپنے سائن کر دو۔”

اس نے کچھ پیپرز اس کی طرف بڑھاتے ہوئے ایک پین اسے تھمایا۔

”یہ کیا ہے؟” اس نے کچھ حیران ہو کر ان پیپرز کو دیکھا۔

”میں اپنے بینک میں تمہارا اکاؤنٹ کھلوا رہا ہوں۔”

”لیکن میرا اکاؤنٹ تو پہلے ہے کھلا ہوا ہے۔”

”چلو، ایک اکاؤنٹ میرے بینک میں بھی سہی۔ برے نہیں ہیں ہم، اچھی سروس دیتے ہیں۔” اس نے مذاق کیا۔ امامہ نے پیپرز پر سائن کرنا شروع کر دیا۔

”پھر وہ اکاؤنٹ بند کر دوں؟” امامہ نے سائن کرنے کے بعد کہا۔

”نہیں، اسے رہنے دو۔” سالار نے پیپرز اس سے لیتے ہوئے کہا۔

”تمہیں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے کتنی رقم کا چیک دوں؟”

امامہ کا خیال تھا کہ وہ غیر ملکی بینک ہے۔ یقینا اکاؤنٹ کھولنے کے لیے ملکی بینک کی نسبت کچھ زیادہ رقم کی ضرورت ہو گی۔

”تمہارا حق مہر پے کرنا ہے مجھے، اسی رقم سے کھول دوں گا۔”

سالار نے پیپرز ایک لفافے میں رکھتے ہوئے اس سے کہا۔

”اس پر ایک فکر لکھو۔”

امامہ نے حیرانی سے اس پر رائٹنگ پیڈ کو دیکھا جو اس نے اس کی طرف بڑھایا تھا۔ ”کیسی فگر؟” وہ الجھی۔

”کوئی بھی فگر، اپنی مرضی کے کچھ digits…” سالار نے کہا۔

”کیوں؟” وہ مزید الجھی۔

سالار نے اس کے ہاتھ میں پین تھمایا۔ اس نے دوبارہ پین پکڑ تو لیا لیکن ذہن مکمل طو رپر خالی تھا۔

”کتنے digits کا فگر۔” امامہ نے چند لمحے بعد اس کی مدد چاہی۔

”وہ یک دم سوچ میں پڑ گیا” پھر اس نے کہا۔

”اگر تم اپنی مرضی سے کوئی فگر لکھو گی تو کتنےdigits لکھو گی…؟”

”Seven digits…” امامہ سوچ میں پڑ گئی۔

”Alright… لکھو پھر۔” سالار کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آئی۔

امامہ چند لمحے اس صاف کاغذ کو دیکھتی رہی پھر اس نے لکھنا شروع کیا۔ 3752960۔ اس نے رائٹنگ پیڈ سالار کی طرف بڑھا دیا۔ کاغذ پر نظر ڈالتے ہی وہ چند لمحوں کے لیے جیسے سکتہ میں آیا پھر کاغذ کو پیڈ سے الگ کرتے ہوئے بے اختیار ہنسا۔

”کیا ہوا؟”وہ اس کے رد عمل سے کچھ اور الجھی۔

”کچھ نہیں… کیا ہونا تھا؟” کاغذ کو تہہ کرتے ہوئے اس نے امامہ کے چہرے کو مسکراتے ہوئے بے حد گہری لیکن عجیب نظروں سے دیکھا۔

”اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو مجھے؟” وہ اس کی نظروں سے الجھی۔

”تمہارا شوہر ہوں، دیکھ سکتا ہوں تمہیں۔”

امامہ کو احساس نہیں ہوا، وہ بڑی صفائی سے بات بدل رہا تھا۔ اس سے بات کرتے ہوئے وہ غیر محسوس انداز میں کاغذ پر اس لفافے میں ڈال چکا تھا۔

”تم نے مجھے ساڑھی پہن کر نہیں دکھائی؟”

”رات کے اس وقت میں تمہیں ساڑھی پہن کر دکھاؤں؟” وہ بے اختیار ہنسی۔

وہ اس کے پاس سے اٹھتے اٹھتے رک گیا۔ وہ پہلی بار اس طرح کھلکھلا کر ہنسی تھی یا پھر شاید وہ اتنے قریب سے پہلی بار اسے ہنستے دیکھ رہا تھا۔ ایک بیگ کے اندر ڈبے رکھتے ہوئے امامہ نے اپنے چہرے پر اس کی نظریں محسوس کیں۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا، وہ واقعی اسے دیکھ رہا تھا۔

”اب کیا ہے؟”

”میں ایک بات سوچ رہا تھا۔” وہ سنجیدہ تھا۔

”کیا؟”

”کہ تم صرف روتے ہوئے ہی نہیں ہنستے ہوئے بھی اچھی لگتی ہو۔”

اس کی آنکھوں میں پہلے حیرت آئی، پھر چمک اور پھر خوشی۔ سالار نے ہر تاثر کو پہچانا تھا یوں جیسے کسی نے اسے فلیش کارڈز کھائے ہوں… پھر اس نے اسے نظریں چراتے ہوئے دیکھا… پھر اس کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھا… پہلے اس کا کان کی لوئیں سرخ ہوئیں پھر اس کے گال، ناک… اور شاید اس کی گردن بھی… اس نے زندگی میں کبھی کسی عورت یا مرد کو اتنے واضح طور پر رنگ بدلتے نہیں دیکھا تھا جس طرح اسے… نو سال پہلے بھی دو تین بار اس نے اسے غصے میں اسی طرح سرخ ہوتے دیکھا تھا۔ اس کے لیے عجیب سہی لیکن یہ منظر دل چسپ تھا… اور اب وہ اسے محضوض ہوتے ہوئے بھی اسی انداز میں سرخ ہوتے دیکھ رہا تھا، یہ منظر اس سے زیادہ دل چسپ تھا۔ ”یہ کسی بھی مرد کو پاگل کر سکتی ہے۔” اس کے چہرے پر نظریں جمائے اس نے اعتراف کیا، اس نے اپنی زندگی میں آنے والی کسی عورت کو اتنے ”بے ضرر” جملے پر اتنا شرماتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور اس کو شکایت تھی کہ وہ اس کی تعریف نہیں کرتا۔ سالار کا دل چاہا، وہ اسے کچھ اور چھیڑے۔ وہ بہ ظاہر بے حد سنجیدگی سے اسے نظر انداز کیے ہوئے چیزیں بیگ میں ڈال رہی تھی لیکن اس کے ہاتھوں میں ہلکی سی لرزش تھی۔ وہ اس کی نظروں سے یقینا کنفیوز ہو رہی تھی۔

کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں گھر میں لانے کے بعد آپ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ انہیں کہاں رکھیں، کیوںکہ آپ انہیں جہاں بھی رکھتے ہیں، اس چیز کے سامنے وہ جگہ بے حد بے مایہ سی لگتی ہے۔ کچھ چیزیں جیسی ہوتی ہیں، جنہیں گھر میں لانے کے بعد انہیں جہاں بھی رکھیں، وہی جگہ سب سے انمول اور قیمتی ہو جاتی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، امامہ اس کے لیے ان چیزوں میں سے کون سی چیز تھی۔ اس کے چہرے کو دیکھتا وہ کچھ بے اختیار ہو کر اس کی طرف جھکا اور اس نے بڑی نرمی کے ساتھ اس کے دائیں گال کو چھوا، وہ کچھ حیا سے سمٹی۔ اس نے اسی نرمی کے ساتھ اس کا دایاں کندھا چوما اور پھر امامہ نے اسے ایک گہرا سانس لے کر اٹھتے ہوئے دیکھا۔ وہ وہیں بیٹھی رہی، سالار نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ ان پیپرز کو اب اپنی بیڈ سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھ رہا تھا۔ پلٹ کر دیکھتا تو شاید امامہ کی نظریں اسے حیران کر دیتیں۔ اس نے پہلی بار اس کے کندھے کو چوما تھا اور اس لمس میں محبت نہیں تھی… ”احترام” تھا… اور کیوں تھا، یہ وہ سمجھ نہیں سکی۔

٭٭٭٭

وہ اگلے دن تقریباً دس بجے سعیدہ اماں کے گھر آئے۔ امامہ کا مسکراتا، مطمئن چہرہ دیکھ کر فوری ردعمل یہ ہوا کہ انہوں نے نہ صرف سالار کے سلام کا جواب دیا بلکہ اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے اس کا ماتھا بھی چوما۔

”یہ سب لے کر جانا ہے۔” وہ اسے اپنے کمرے میں لائی تھی وہاں کتابوں کی دو الماریاں تھیں اور ان میں تقریباً تین چار سو کتابیں تھیں۔

”یہ بکس؟” سالار نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا۔

”نہیں، یہ ایزل، کینوس اور پیٹنگ کا سامان بھی۔” امامہ نے کمرے میں ایک دیوار کے ساتھ پڑے پینٹنگ کے سامان اور کچھ ادھوری پینٹنگز کی طرف اشارہ کیا۔

”یہ سب کچھ زیادہ نہیں ہے، بکس ہی تقریباً دو کارٹن میں آئیں گی۔”

سالار نے ان کتابوں کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا۔

”نہیں، یہ اتنی ہی بکس نہیں ہیں اور بھی ہیں۔” امامہ نے کہا۔

اس نے اپنا دوپٹا اتار کر بیڈ پر رکھ دیا اور پھر گھٹنوں کے بل کارپٹ پر بیٹھتے ہوئے بیڈ کے نیچے سے ایک کلر ٹن کھینچنا شروع کیا۔

”ٹھہرو! میں نکالتا ہوں۔ ”سالار نے اسے روکا اور خود جھک کر اس کارٹن کو کھینچنے لگا۔

”بیڈ کے نیچے جتنے بھی ڈبے ہیں، وہ سارے نکال لو۔ ان سب میں بکس ہیں۔” امامہ نے اسے ہدایت دی۔

سالار نے جھک کر بیڈ کے نیچے دیکھا۔ وہاں مختلف سائز کے کم از کم سات آٹھ ڈبے موجود تھے۔ وہ ایک کے بعد ایک ڈبا نکالتا گیا۔

”بس…؟” اس نے کھڑے ہوتے ہوئے اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔

وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ کمرے میں موجود کپڑوں کی الماری کے اوپر ایک اسٹول پر چڑھی کچھ ڈبے اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سالار نے ایک بار پھر اسے ہٹا کر خود وہ ڈبے نیچے اتارے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ کتابوں کی آخری کھیپ ہے کیوںکہ کمرے میں اسے ڈبا رکھنے کی کوئی اور جگہ نظر نہیں آئی، یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ وہ اب الماری کو کھولے اس کے اندر موجود جایک خانے سے کتابیں نکال کر بیڈ پر رکھ رہی تھی۔ وہ کم از کم سو کتابیں تھیں جو اس نے الماری سے نکالی تھی، وہ کھڑا دیکھتا رہا۔ الماری کے بعد بیڈ سائیڈ ٹیبلز کی درازوں کی باری تھی، ان میں بھی کتابیں تھیں۔ بیڈ سائیڈ ٹیبلز کے بعد ڈریسنگ ٹیبل کی درازوں اور خانوں کی باری تھی۔ کمرے میں موجود کپڑے کی جس باسکٹ کو وہ لانڈری باسکٹ سمجھا تھا، وہ بھی کتابیں اسٹور کرنے کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔

وہ کمرے کے وسط میں کھڑا، اسے کمرے کی مختلف جگہوں سے کتابیں برآمد کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ بیڈ پر موجود کتابوں کا ڈھیر اب شیلف پر لگی کتابوں سے بھی زیادہ ہو چکا تھا لیکن وہ اب بھی بڑی شدومد کے ساتھ کمرے کی مختلف جگہوں پر رکھی ہوئی کتابیں نکال رہی تھی۔ اس نے ان کھڑکیوں کے پردے ہٹائے جو صحن میں کھلتی تھیں۔ اس کے بعد سالار نے اسے باری باری ساری کھڑکیاں کھول کر ان میں سے بھی کتابیں نکالتے ہوئے دیکھا۔ جو پلاسٹک کے شاپر ز مین بند تھیں۔ شاید یہ احتیاط کتابوں کو مٹی اور نمی سے بچانے کے لیے کی گئی تھی۔

”بس اتنی ہی کتابیں ہیں۔” اس نے بالآخر سالار کو مطلع کیا۔

سالار نے کمرے میں چاروں طرف بکھرے ڈبوں اور ڈبل بیڈ پر پڑی کتابوں کے ڈھیر پر ایک نظر ڈالتے ہوئے بڑے تحمل سے پوچھا۔

”کوئی اور سامان بھی ہے…؟”

”ہاں! میرے کچھ کینوس اور پینٹنگز بھی ہیں، میں لے کرآتی ہوں۔”

وہ اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر کمرے سے نکل گئی۔

سالار نے ڈبل بیڈ پر پڑی کتابوں کے ڈھیر سے ایک کتاب اٹھائی١ وہ ایک ناول تھا۔ گھٹیا رومانس لکھنے والے ایک بہت ہی مشہور امریکن رائٹر کا ناول… اس نے ٹائٹل پر نظر ڈالی اور بے اختیار اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی۔ اگر وہ ناول کا نام امامہ کے سامنے لیتا تو وہ سرخ ہو جاتی۔ اس نے ناول کھولا۔ کتاب کے اندر پہلے ہی خالی صفحے پر امامہ نے اپنا نام لکھا تھا۔ جس تاریخ کو وہ کتاب خریدی گئی، وہ تاریخ… جس جگہ سے خریدی گئی وہ جگہ… جس تاریخ کو کتاب پڑھنا شروع کیا اور جس تاریخ کو کتاب ختم کی۔ وہ حیران ہوا، اس طرح کے ناول کو وہ فضول سمجھتا تھا۔ وہ شاید یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس رائٹر کے کسی ناول کو کوئی اس کے ہاتھ میں د یکھا مگر اس نے اس ناول پر اتنی سنجیدگی سے اپنا نام اور ڈیٹس لکھی ہوئی تھیں جیسے وہ بے حد اہم کتاب ہو۔ اس نے ناول کے چنداور صفحے پلٹے اور پھر کچھ بے یقینی کے عالم میں پلٹتا ہی چلا گیا۔ ناول کے اندر جگہ جگہ رنگین مارکرز کے ساتھ مختلف لائنز ہائی لائٹ کی گئی تھیں۔ بعض لائنز کے سامنے اسٹار اور بعض کے سامنے ڈبل اسٹار بنائے گئے تھے۔

وہ بے اختیار ایک گہرا سا سانس لے کر رہ گیا۔

ان لائنز میں بے ہودہ رومانس، بے حد platonic،سوپی باتیں، ذو معنی ڈائیلاگز تھے۔ ان پر اسٹار بنے ہوئے تھے اور وہ نشان زدہ تھے۔

سالار نے وہ ناول رکھتے ہوئے دوسرا ناول اٹھایا… پھر تیسرا… پھر چوتھا… پانچواں… چھٹا… ساتواں… وہ سب کے سب رومانٹک تھے۔ ایک ہی طرح کے رومانٹک ناولز اور وہ سب بھی اسی طرح ہائی لائیٹڈ تھے۔ وہ زندگی میں پہلی بار رومانٹک اور وہ بھی ملز اینڈ بونز اور باربرا کارٹ لینڈ کی ٹائپ کے رومانس کے اتنے ”سنجیدہ قاری” سے مل رہا تھا اور کتابوں کے اس ڈھیر کو دیکھتے ہوئے اس پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ وہ ”کتابیں” نہیں پڑھتی تھی بلکہ صرف یہی ناولز پڑھتی تھی۔ کمرے میں موجود ان ڈیڑھ دو ہزار کتابوں میں اسے صرف چند پینٹنگز ، ککری اور شاعری کی کتابیں نظر آئی تھیں، باقی سب انگلش ناولز تھے۔

”اور یہ لے کر جانی ہیں۔” ایک ناول دیکھتے ہوئے وہ امامہ کی آواز پر بے اختیار چونکا۔

وہ کمرے میں دو تین چکروں کے دوران کچھ مکمل اور کچھ ادھوری پینٹنگز کا ایک چھوٹا سا ڈھیر بھی بناچکتی تھی۔ سالار اس دوران ان کتابوں کے جائزے میں مصروف رہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ناول واپس کتابوں کے اس ڈھیر پر رکھ دیا جو بیڈ پر پڑا تھا۔ کارپٹ پر پڑی ان پینٹنگز پر نظر ڈالتے ہوئے سالار کو احساس ہوا کہ سعیدہ اماں کے گھر میں جا بجا لگی ہوئی پینٹنگز بھی اس کے ہاتھ کی بنی ہوئی ہیں اور یقینا ان پینٹنگز کے کسی دیوار پر لٹکانہ ہونے کا سبب مزید خالی جگہ کا دستیاب نہ ہونا تھا۔

”بیٹا! یہ سارا کاٹھ کباڑ کیوں اکٹھا کر لیا، یہ لے کر جاؤ گی ساتھ؟”

سعیدہ اماں کمرے میں آتے ہی کمرے کی حالت دیکھ کر چونکیں۔

”اماں! یہ ضروری چیزیں ہیں میری۔”

امامہ، سالار کے سامنے اس سامان کو کاٹھ کباڑ قرار دیے جانے پر کچھ جزبز ہوئی۔

”کیا ضروری ہے ان میں، یہ کتابیں تو ردی میں دے دیتیں۔ اتنا ڈھیر لگا لیا ہے اور تصویریں وہیں رہنے دیں، جہاں پڑی تھیں۔ چھوٹا سا گھر ہے تم لوگوں کا، وہاں کہاں پور ا آئے گا یہ سب کچھ۔” سعیدہ اماں کتابوں کے اس ڈھیر کو دیکھ کر متوحش ہو رہی تھیں۔ یقینا انہوں نے بھی امامہ کی ساری کتابوں کو پہلی بار اکٹھا دیکھا تھا اور یہ ان کے لئے کوئی خوش گوار نظارہ نہیں تھا۔

”نہیں، آجائے گا پورا، یہ سب کچھ۔ تین بیڈ رومز ہیں، ان میں سے ایک کو استعمال کریں گے۔ یہ سامان رکھنے کے لیے، لیکن دوسری چیزوں کو یہیں رکھنا پڑے گا۔ کمبل، کوئلٹس، رگز اور کشنز وغیرہ کو۔” وہ ایک سیکنڈ میں تیار ہو گئی تھی۔

”لیکن بیٹا! یہ سارا سامان تو کام کا ہے۔ گھر سجانا اس سے… یہ کتابوں کے ڈھیر اور تصویروں کا کیا کرو گی تم؟ ” سعیدہ اماں اب بھی معترض تھیں۔

”کوئی بات نہیں، ان کی کتابیں ضروری ہیں۔ ابھی کچھ اور کارٹن یا شاپرز ہیں جنہیں پیک کرنا ہے۔” سالار نے اپنے سوئیٹر کی آستینوںکو موڑتے ہوئے آخری جملہ امامہ سے کہا۔

تین بجے کے قریب وہ سارا سامان کے گھر پر گیسٹ روم میں بکھرا ہوا تھا۔ فرقان نے اس دن بھی انہیں افطاری کے لیے اپنی طرف مدعو کیا ہوا تھا لیکن سالار نے معذرت کر لی۔ فی الحال اس سامان کو ٹھکانے لگانا زیادہ اہم تھا۔

ایک اسٹور میں سالار نے کچھ عرصے پہلے ایلومینیم اور شیشے کے ریکس والی کچھ الماریاں دیکھی تھیں۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ وہاں لگایا ہوا چکر بے کار نہیں گیا۔ چھ فٹ اونچی اور تین فٹ چوڑی ایک ہی طرح کی تین الماریوں نے گیسٹ روم کی ایک پوری دیوار کو کور کر کے یک دم اسے اسٹڈی روم کی شکل دے دی تھی لیکن امامہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ ان تین الماریوں میں اس کی تقریباً ساری کتابیں سما گئی تھیں۔ ان کتابوں کو اتنے سالوں میں پہلی بار کوئی ڈھنگ کی جگہ نصیب ہوئی تھی۔ اس کے ایزیل اور ریکس، لانڈری کی دیوار پر بنی ریکس پر سمیٹے گئے تھے۔

وہ جہیز کے سامان میں برتنوں اور بیڈ شیٹس کے علاوہ اور کچھ نہیں لائی تھی، تب اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کی قسمت میں اس سامان میں سے صرف ان ہی دو چیزوں کا استعمال لکھا تھا۔

سالار کا کچن ایریا اب پہلی بار ایک آباد جگہ کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔ برتنوں کے لیے بنے ریکس کے شیشوں سے نظر آتی نئی کراکری اور کاؤنٹر کی سلیب پر کچن کے استعمال کی چھوٹی موٹی نئی چیزوں نے کچن کی شکل کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا۔

وہ لوگ رات کے دس بجے جب فارغ ہوئے تو اپارٹمنٹ میں آنے والا نیا سامان سمیٹا جا چکا تھا۔ اس کے لیے فرقان کے گھر سے کھانا آیا تھا لیکن اس رات امامہ نے اسے بڑے اہتمام کے ساتھ نئی کراکری سرو کیا تھا۔

”اچھا لگ رہا ہے نا ایسے؟” امامہ نے چمکتی آنکھوں کے ساھ اس سے پوچھا۔ سالار نے اپنے سامنے موجود نئی برانڈ ڈنر پلیٹ اور اس کے اطراف میں لگی چمکتی ہوئی کٹلری کو دیکھا اور پھر کانٹا اٹھا کر اسے بغور دیکھتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔

”ہاں، ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم کسی ریسٹورنٹ کی اوپننگ والے دن سب سے پہلے اور اکلوتے کسٹمر ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے امامہ! کہ یہ کراکری اور کٹلری اتنی نئی ہے کہ اس میں کھانا کھانے کو دل نہیں چاہ رہا … میں پرانے برتنوں میں نہیں کھا سکتا …؟”

امامہ کا موڈ بری طرح آف ہوا۔ کم از کم یہ وہ جملہ نہیں تھا جو وہ اس موقع پر اس سے سننا چاہتی تھی۔

”لیکن یہ بہت خوب صورت ہیں۔” سالار نے فوراً اپنی غلطی کی تصحیح کی تھی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ فی الحال وہ مذاق کو سراہنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ امامہ کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

اپنی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے سالار نے کہا۔ ”کھانے کے بعد کہیں کافی پینے چلیں گے۔” اس بار اس کے چہرے پر کچھ نرمی آئی۔

”کچن کا سامان لینا ہے۔” اس نے فوراً کہا۔

وہ چاول کا چمچ منہ میں ڈالتے رک گیا۔ ”ابھی بھی کوئی سامان لینا باقی ہے؟” وہ حیران ہوا۔

”گرو سری چاہیے۔”

”کیسی گرو سری…؟ کچن میں سب کچھ تو ہے۔”

”آٹا، چاول، دالیں، مسالے کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔” امامہ نے جواباً پوچھا۔

”ان کو میں نے کیا کرنا ہے؟ میں نے کبھی کھانا نہیں پکایا۔” سالار نے کندھے اچکا کر لاپروائی سے کہا۔

”لیکن میں تو پکاؤں گی نا… ہمیشہ تو دوسروں کے گھر سے نہیں کھا سکتے ہم۔” امامہ نے سنجیددگی سے کہا۔

”جارز اور کنٹینرز بھی چاہیں۔” امامہ کو یاد آیا۔

”فی الحال آج میرا اس طرح کی خریداری کرنے کا موڈ نہیں ہے… مجھے تھکن محسوس ہو رہی ہے۔” سالار کراہا۔

”اچھا، ٹھیک ہے، کل خرید لیں گے۔” امامہ نے کہا۔

اس رات وہ کافی کے لیے قریبی مارکیٹ تک ہی گئے تھے۔ گاڑی فورٹریس کے گرد گھماتے ہوئے انہوں نے وہی گاڑی میں بیٹھے ہوئے کافی پی۔

”شکر ہے، کتابوں کو تو جگہ مل گئی۔”

سالار کافی پیتے ہو ئے چونکا۔ وہ کھڑکی سے باہر دور شاپس کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی تھی۔ اس کے لاشعور میں اب بھی کہیں وہ کتابیں ہی اٹکی ہوئی تھیں۔

”وہ کتابیں نہیں ہے۔” سالار نے سنجیدگی سے کہا۔

کافی کا گھونٹ بھرتے اس نے چونک کر سالار کو دیکھا۔

”پچانوے فیصد ناولز ہیں… وہ بھی چیپ رومانس… پانچ دس میں سمجھ سکتا ہوں… چلو اتنے سالوں میں سو دو سو بھی ہو سکتے ہیں… لیکن ڈیڑھ دو ہزار اس طرح کے ناولز…؟ تمہارا کتناstamina ہے اس طرح کی ربش پڑھنے کے لیے اور تم نے باقاعدہ مارک کر کے پڑھا ہے ان ناولز کو۔ میرا خیال ہے، پاکستان میں چیپ رومانس کی سب سے بڑی کلیکشن اس وقت میرے گھر میں ہے۔”

وہ کاموش رہی۔ کافی پیتے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔

سالار کچھ دیر اس کی طرف سے کسی ردِ عمل کا انتظار کرتا رہا، پھر اس کی لمبی خاموشی پر اسے خدشہ ہوا کہ کہیں وہ بر انہ مان گئی ہو۔ اپان بایاں بازو اس کے کندھوں پر پھیلاتے ہوئے اس نے جیسے خاموش معذرت پیش کی۔

”ٹھیک ہے، چیپ رومانس ہے، لیکن اچھا لگتا ہے مجھے یہ سب کچھ۔” وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کچھ دیر بولی۔

”وہاں لوگ ہمیشہ مل جاتے ہیں… کوئی کسی سے بچھڑتا نہیں ہے… میرے لیے ونڈر لینڈ ہے یہ۔” وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے جیسے کہیں اور پہنچی ہوئی تھی۔

وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا اور اسے سنتا رہا۔

”جب اپنی زندگی میں کچھ بھی اچھا نہ ہو رہا ہو تو کسی ایسی دنیا میں جانا اچھا لگتا ہے، جہاں سب کچھ پرفیکٹ ہو۔ وہاں وہ کچھ ہو رہا ہو، جو آپ چاہتے ہیں… وہ مل رہا ہو، جو آپ سوچتے ہیں… جھوٹ ہے یہ سب کچھ لیکن کوئی بات نہیں، اس سے میری زندگی کی کڑواہٹ تھوری کم ہوتی تھی… جب میں جاب نہیں کرتی تھی تب زیادہ پڑھتی تھی ناولز۔ کبھی کبھار، سارا دن اور ساری رات… جب میں یہ ناولز پڑھتی تھی تو مجھے کوئی بھی یاد نہیں آتا تھا۔ امی ابو، بہن بھائی، بھتیجے، بھتیجیاں، بھانجے بھانجیاں… کوئی نہیں… ورنہ بہت مشکل تھا سارا دن یا رات کو سونے سے پہلے اپنی فیملی کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچنا، اپنی زندگی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں پریشان ہونا، میں خوف ناک خواب دیکھتی تھی اور پھر میں نے ان ناولز کے ذریعے خوابوں کی ایک دنیا بسا لی۔ میں ناول کھولتی تھی اور یک دم زندگی بدل جاتی تھی۔ میری فیملی ہوتی تھی اس میں… میں ہوتی تھی… جلال ہوتا تھا۔”

سالار کافی کا گھونٹ نہیں لے سکا۔ اس کے لبوں پر اس وقت اس ”شخص” کا نام سن کر کتنی اذیت ہوئی تھی اسے… نہیں، اذیت بہت ہی چھوٹا سا لفظ ہے۔ ایسی تکلیف انسان کو شاید مرتے وقت ہوتی ہو گی۔ ہاں، اگر یہ ناولز اس کی ”کامل دنیا” اور اس کا ونڈرلینڈ تھے تو اس میں جلال انصر ہی ہوتا ہو گا، سالار سکندر نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ اس کے ساتھ مذہباً اور قانوناً ایک رشتے میں بندھی تھی، دل کے رشتے میں کہاں بندھی تھی۔ دل کے رشتے میں تو شاید ابھی تک… اور وہ تو ماضی تھا جہاں جلال انصر کے سوا کوئی دوسرا نہیں تھا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے وہ رنجیدگی سے سوچ رہا تھا اور امامہ کو بولتے ہوئے شاید احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ اس نے جلال کا نام لیا اور کسی پیرائے میں لیا تھا، احساس ہوتا تو وہ ضرور اٹکتی یا کم از کم ایک بار سالار کے چہرہ ضرور دیکھ لیتی۔ وہ ابھی بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ ابھی بھی کہیں ”اور” تھی۔ ابھی بھی ”کسی” کا صبر آزما رہی تھی۔

”اچھا لگتا تھا مجھے اس دنیا میں رہنا۔ وہاں اُمید تھی… روشنی تھی… انتظار تھا لیکن لاحاصل نہیں، تکلفی تھی مگر ابدی نہیں، آنسو تھے مگر کوئی پونچھ دیتا تھا اور واہد کتابیں تھیں جن میں امامہ ہاشم ہوتی تھی، آمنہ نہیں۔ ہر بار ان کتابوں پر اپنا نام لکھتے ہوئے میں جیسے خود کو یاد دلاتی تھی کہ میں کون ہوں۔ دوبارہ کتاب کھلونے پر جیسے کتاب مجھے بتاتی تھی کہ میں کون ہوں۔ وہ مجھے میرے پرانے نام سے بلاتی تھی۔ اس نام سے، جس سے اتنے سالوں میں مجھے کوئی اور نہیں بلاتا تھا۔ تاریکی میں بعض دفعہ اتنی روشنی بھی بہت ہوتی ہے جس سے انسان بے شک اپنے آپ کو نہ دیکھ پائے لیکن اپنا وجود محسوس کرنے کے تو قابل ہو جائے ۔”

اس کی آواز اب بھیگنے لگی تھی۔ وہ خاموش ہو گئی۔ دونوں کے ہاتھ میں پکڑے کپوں میں کافی ٹھنڈی ہو گئی تھی اور وہ اسے اب پینا بھی نہیں چاہتے تھے۔ وہ اب ڈیش بورڈ پر پڑے ٹشو باکس سے ٹشو پیپر نکال کر اپنی آنکھیں خشک کر رہی تھی۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اس کے ہاتھ سے کافی کا کپ لے لیا۔ ایک ڈمپسٹر میں دونوں کپ پھینکنے کے بعد وہ دوبارہ گاڑی میں آکر بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اس نے امامہ سے پوچھا۔

”اور کافی چاہیے تمہیں؟”

”نہیں۔” واپسی کا راستہ غیر معمولی خاموشی میں طے ہوا تھا۔

٭٭٭٭

”مجھے آفس کا کچھ کام ہے تم سو جاؤ۔” وہ کپڑے تبدیل کر کے سونے کے بجائے کمرے سے نکل گیا۔

”میں انتظار کروں گی۔” امامہ نے اس سے کہا۔

”نہیں، مجھے ذرا دیر ہو جائے گی۔” اس نے امامہ کے ہاتھ میں پکڑے ناول کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا جو وہ رات کو پڑھنے کے لیے لے کر آئی تھی۔

اسے واقعی آفس کے کچھ کام نمٹانے تھے، مگر اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ آخری کام جو وہ آج کرنا چاہتا تھا، وہ یہ تھا۔ کچھ دیر وہ لیپ ٹاپ آن کیے اپنی ٹیبل پر بیٹھا رہا، پھر یک دم اٹھ کر گیسٹ روم میں آگیا۔ لائٹ آن کرتے ہی کتابوں سے بھری ہوئی سامنے دیوار کے ساتھ لگی الماریاں اس کی نظروں کے سامنے آگئیں۔ اس نے کتابوں کو وہاں کچھ گھنٹے پہلے ہی رکھا تھا، بڑی احتیاط اور نفاست کے ساتھ۔ مصنف کے نام کے اعتبار سے ان کی مختلف ریکس پر گروپنگ کی تھی… تب تک وہ اس کے لیے صرف ”امامہ کی کتابیں” تھیں لیکن اب وہ ان تمام کتابوں کو اٹھا کر بحیرہ عرب میں ڈبو دینا چاہتا تھا یا کم از کم راوی میں تو پھینک ہی سکتا تھا۔ وہ اب کتابیں نہیں ردّی تھی۔

امامہ کی وہ تصوراتی پرفیکٹ زندگی جو وہ جلال انصر کے ساتھ گزارتی رہی تھی۔ وہ ڈیڑھ دو ہزار رومانس ان کرداروں کے رومناس نہیں تھے جو ان ناولز میں تھے۔ وہ صرف دو کرداروں کا رومانس تھا۔ امامہ اور جلال کا… اعلیٰ ظرف بننے کے لیے کھلے دل یا برداشت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دماغ کا کام نہ کرنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ وہ بھی اس کا شوہر تھا۔ وہ ان کتابوں کو گھر میں نہیں رکھنا چاہتا تھا اور وہ ایسا کر سکتا تھا۔ وہ اس کی بیوی تھی… روتی دھوتی، ناراض ہوتی لیکن اتنی بااختیار نہیں تھی کہ اس کی مرضی کے بغیر ان کتابوں کو وہاں رکھ سکتی۔ وہ عورت تھی۔ ضد کر سکتی تھی، منوا نہیں سکتی تھی۔ وہ مرد تھا اسے اپنی مرضی کے لیے ضد جیسے کسی حربے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ اس کا گھر تھا، یہ اس کی دنیا تھی۔ وہ شرائط کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا نہ ہی ایسے جی سکتا ہے۔ وہ مراعات کے ساتھ دنیا میں آتا ہے اور اسی کے ساتھ دنیا میں رہتا ہے۔

تو آسان حل یہ تھا جو اسے معاشرہ اور اس کا ذہن بتا رہا تھا۔ مشکل حل وہ تھا جو اس کا دل اس سے کہہ رہا تھا اور دل کہہ رہا تھا۔ ”چھوڑو، جانے دو یار! یہ زہر کا گھونٹ ہے لیکن پی جاؤ۔” اور دل نہ بھی کہتا تب بھی وہ اس چیز کو اپنے گھر سے نکال کر نہیں پھینک سکتا تھا، جو امامہ کی ملکیت تھی۔ جو کبھی اس کے دکھوں کے لیے مرہم بنی تھی۔ ان کتابوں کے کرداروں میں وہ جس کسی کو بھی سوچتی رہی تھی لیکن ان کتابوں پر لکھا ہوا نام اس کا اپنا تھا اور یہ وہ نام تھا جو اس کی روح کا حصہ تھا۔ صبر کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور کوئی بھی قسم آسان نہیں ہوتی، وہاں کھڑے اس نے سوچا اور لائٹ آف کر کے کمرے سے باہر نکل آیا۔

وہ رمضان میں کبھی سگریٹ نہیں پیتا تھا لیکن اسٹڈی روم میں واپس آکر اس نے سگریٹ سلگایا تھا۔ اس وقت خود کو نارمل کرنے کے لیے یہی واحد حل اس کی سمجھ میں آیا ۔ ایک سگریٹ پینے کی نیت سے بیٹھے ہوئے اسے اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کتنے سگریٹ پی چکا ہے۔

”سالار…!” امامہ کی آواز پر وہ راکنگ چیئر پر بیٹھے بیٹھے چونکا۔ غیر محسوس انداز میں بائیں ہاتھ میں پکڑا سگریٹ اس نے ایش ٹرے میںمسلا۔ وہ دروازے میں ہی کھڑکی تھی اور یقینا اس کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھ چکی تھی۔ نہ بھی دیکھتی تب بھی کمرے میں پھیلی سگریٹ کی بو اسے بتا دیتی۔

”تم اسموکنگ کرتے ہو؟” وہ جیسے کچھ پریشان اور شاکڈ انداز میں آگے بڑھی۔

”نہیں” بس کبھی کبھار۔ جب اپ سیٹ ہوتا ہوں تو ایک آدھ سگریٹ پی لیتا ہوں۔”

کہتے ہوئے سالار کی نظر ایش ٹرے پر پڑی۔ وہ سگریٹ سے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی۔ ”آج کچھ زیادہ ہی پی گیا۔”

وہ بڑبڑایا پھر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اپنا لہجہ ہموار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

”تم سوئیں نہیں ابھی تک ؟”

”تم میری وجہ سے اپ سیٹ ہو؟” اس نے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔

تو اس نے محسوس کر لیا؟ سالار کا اس کا چہرہ دیکھا اور سوچا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خوف اور اضطراب تھا۔ وہ نائٹی میں ملبوس اونی شال اپنے گرد لپیٹے ہوئے تھی۔ سالار جواب دینے کے بجائے راکنگ چیئر کی پشت سے ٹیک لگائے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے کرسی کو ہلانا بند کر دیا تھا۔ اس کی خاموشی نے جیسے اس کے اضطراب میں اور اضافہ کیا۔

”تمہاری فیملی نے کچھ کہا ہے… ؟… یا میری فیملی نے کچھ کیا ہے؟”

وہ کیا سوچ رہی تھی؟ سالار نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا… کاش ”یہ” وجہ ہوتی ”وہ” نہ ہوتی، جو تھی۔

”کیا کہے گی میری فیملی…؟ یا کیا کرے گی تمہاری فیملی…؟” اس نے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔ وہ اسی طرح الجھی ہوئی یوں چپ کھڑی رہی جیسے اسے خود بھی اس سوال کا جواب معلوم نہیں تھا لیکن وہ خاموش اسے دیکھتی رہی، یوں جیسے اسے یقین ہو کہ وہ سچ نہیں بول رہا۔ وہ حیران تھا کہ وہ کیسے کیسے خدشات ذہن میں لیے بیٹھی ہے۔

وہ راکنگ چیئر پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اسے اس وقت امامہ پر جیسے ترس آیا تھا۔

”یہاں آؤ!” اس نے سیدھے ہوئے ہوئے اس کا بایاں ہاتھ پکڑا۔ وہ جھجکی، ٹھٹکی پھر اس کی آغوش میں آگئی۔ سالار نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اس کی شال کے اندر کرتے ہوئے، اس کی شال کو اس کے گرد اور اچھی طرح سے لپیٹتے ہوئے، کسی ننھے بچے کی طرح اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے تھپکا اور اس کا سر چوما۔

”کوئی کچھ نہیں کہہ رہا… اور کوئی کچھ نہیں کر رہا… ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہے اور اگر کچھ ہو گا تو میں دیکھ لوں گا سب کچھ۔ تم اب ان چیزوں کے بارے میں پریشان ہوتا چھوڑ دو۔”

وہ اسے گود میں لیے، اب دوبارہ راکنگ چیئر پر جھول رہا تھا۔

پھر تم اپ سیٹ کیوں ہو؟”

”میں…؟… میرے اپنے بہت سے مسئلے ہیں۔” وہ بڑبڑایا۔

امامہ نے گردن اوپر کرتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔ اتنے دنوں میں وہ پہلی بار اسے اتنا سنجیدہ لگا تھا۔

”سالار! تم…”

”میں پریشان نہیں ہوں اور اگر ہوں بھی تو تم اس کی وجہ نہیں ہو۔ اب دوبارہ مجھ سے یہ سوال مت کرنا۔”

اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے اس نے کچھ سخت لہجے میں جھڑکنے والے انداز میں اس کی بات کاٹ کر سوال سے پہلے جواب دیا۔ وہ جیسے اس کا ذہن پڑھ رہا تھا۔ وہ چند لمحے کچھ بول نہیں سکی۔ اس کا لہجہ بہت سخت تھا اور سالار کو بھی اس کا احساس ہو گیا تھا۔

”تم کیا کہہ رہی تھیں مجھ سے کہ کچن کے لیے کچھ چیزوں کی ضرورت ہے…؟” اس نے اس بار بے حد نرمی کے ساتھ موضوع بدلا۔

امامہ نے ایک بار پھر اسے ان چیزوں کے نام بتائے۔

”کل چلیں گے رات کو گرو سری کے لیے۔”

امامہ نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ اس کے سینے پر سر رکھے، وہ دیوار پر اس سوفٹ بورڈ پر لکھے بہت سے نوٹس، ڈیڈ لائنز اور کچھ عجیب سے انڈیکسز والے چارٹس دیکھتی رہی،پھر اس نے سالار سے پوچھا۔

”تم بینک میں کیا کرتے ہو؟”

وہ ایک لمحہ کے لیے چونکا، پھر اس نے اس کی نظرون کا تعاقب کرتے ہوئے بورڈ پر نظر ڈالی۔

”میں بے کار کام کرتا ہوں۔” وہ بڑبڑایا۔

”مجھے بینکرز بھی اچھے نہیں لگے۔” امامہ کو اندازہ نہیں ہوا کہ اس نے کتنے غلط وقت پر یہ تبصرہ کیا ہے۔

”جانتا ہوں، تمہیں ڈاکٹرز اچھے لگتے ہیں۔” سالار کے لہجے میں خنکی آئی تھی۔

”ہاں، مجھے ڈاکٹرز اچھے لگتے ہیں۔” امامہ نے سادہ لہجے میں بورڈ کو دیکھے ہوئے کچھ بھی محسوس کیے بغیر ، اس کے سینے پر سر رکھے اس کی تائید کی۔ یہ کہتے ہوئے اسے جلال کا خیال نہیں آیا تھا لیکن سالار کو آیا تھا۔

”تم نے مجھے بتایا نہیں کہ تم بینک میں کیا کرتے ہو؟” امامہ نے دوبارہ پوچھا۔

”میں public relationing میں ہوں۔” اس نے یہ جھوٹ کیوں بولا، وہ خود بھی سمجھ نہیں پایا تھا۔ امامہ نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔

”یہ بھر بھی بہتر ہے۔ اچھا ہے تم ڈائریکٹ بینکنگ میں نہیں ہو۔ تم نے کیا پڑھا تھا سالار؟”

”ماس کمیونیکیشنز۔” وہ ایک کے بعد ایک جھوٹ بول رہا تھا۔

”مجھے یہ سجیکٹ بہت پسند ہے۔ تمہیں کچھ اور بننا چاہیے تھا۔”

”یعنی ڈاکٹر؟” سالار سلگا لیکن امامہ کھلکھلا کر ہنسی۔

”ماس کمیونیکیشنز پڑھ کر تو ڈاکٹر نہیں بن سکتے۔” سالار نے جواب نہیں دیا۔ اگر وہ اس کا چہرہ دیکھ لیتی تو اتنی بے تکلفی کے ساتھ یہ سارے تبصرے نہ کر رہی ہوتی۔

”میں ڈاکٹروں سے نفرت کرتا ہوں۔” سالار نے سرد لہجے میںکہا وہ بے اختیار سالار سے لگ ہوئی۔

”کیوں؟” اس نے حیرت سے سالار کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔

اس کا چہرہ بے تاثر تھا، کم از کم امامہ اسے پڑھ نہیں سکی۔

”ایسے ہی۔” سالار نے کندھے اچکاتے ہوئے بڑی سرد مہری سے کہا۔

”ایسے ہی کیسے…؟ کوئی وجہ تو ضرور ہو گی۔” وہ جز بز ہوئی۔

”تمہیں کیوں ناپسند ہیں بینکرز؟” سالار نے ترکی بہ ترکی جواب کہا

”بددیانت ہوتے ہیں ۔” امامہ نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔

”بینکرز؟” سالار نے بے یقینی سے کہا۔

”ہاں۔” اس بار وہ سنجیدہ تھی۔

وہ سالار کا بازو اپنے گرد سے ہٹاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سالار نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اب قریب جا کر بورڈ کو دیکھ رہی تھی۔ اس پر لگائے ہوئے نوٹس اور ڈیڈ لائنز پڑھ رہی تھی۔

”بینکرز لوگوں کا پیسہ، اثاثہ محفوظ رکھتے ہیں۔”

اس نے اپنے عقب میں سالار کو بڑے جتانے والے انداز میں کہتے سنا۔

”اور پیسہ لوگوں کا ایمان خراب کر دیتا ہے۔” اس نے مڑے بغیر جواب دیا۔

”اس کے باوجود لوگ ہمارے پاس آتے ہیں۔” سالار نے اسی انداز میں کہا۔ا س بار امامہ پلٹی۔

”لیکن وہ آپ پر بھروسا نہیں کرتے۔”

وہ مسکرا رہی تھی مگر سالار نہیں۔ اس نے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھا، پھر اثبات میں سرہلایا۔

”ایک بددیانت بینکر صرف آپ کا پیسہ لے سکتا ہے لیکن ایک بددیانت ڈاکٹر آپ کی جان لے سکلتا ہے تو پھر زیادہ خطرناک کون ہوا؟”

اس بار امامہ بول نہیں سکی۔ اس نے چند منٹ تک جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اسے جواب نہیں ملا، پھر اس نے یک دم سالار سے کہا۔

”اگر میں ڈاکٹر ہوتی تو پھربھی تمہیں ڈاکٹرز سے نفرت ہوتی…؟”

وہ اب اسے جذباتی دباؤ میں لے رہی تھی۔ یہ غلط تھا لیکن اب وہ اور کیا کرتی؟

”میں ممکنات پر کوئی نتیجہ نہیں نکالتا، زمینی حقائق پر نکالتا ہوں۔ جب ”اگر”exist نہیں کرتا تو میں اس پر رائے بھی نہیں دے سکتا۔” اس نے کندھے اچکا کر صاف جواب دیا۔

امامہ کا رنگ کچھ پھیکا پڑ گیا۔ جواب غیر متوقع تھا، کم از کم سالار کی زبان سے۔

”زمینی حقائق یہ ہیں کہ تم میری بیوی ہو اور تم ڈاکٹر نہیں ہو۔ میں بینکر ہوں اور میں ڈاکٹرز سے نفرت کرتا ہوں۔”

اس کے لہجے کی ٹھنڈک پہلی بار امامہ تک پہنچی تھی، لہجے کی ٹھنڈک یا پھر آنکھوں کی سرد مہری۔ وہ بول نہیں سکی اور نہ ہی ہل

ہل سکی۔ ایک ہفتے میں اس نے اس طرح تو کبھی اس سے بات نہیں کی تھی۔

”رات بہ ہو گئی ہے، سونا چاہیے ہمیں۔”

وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے وہ اسے دیکھے بغیر کرسی سے اٹھ کر چلا گیا۔

وہ دیوار کے ساتھ لگی جھولتی ہوئی کرسی کو دیکھتی رہی، وہ اس کے بدلتے موڈکی وجہ سے سمجھ نہیں سکی تھی۔ وہ کوئی ایسی بات تو نہیں کر رہے جس پر وہ اس طرح کے الفاظ کا استعمال کرتا۔ وہ وہاں کھڑی اپنی اور اس کے درمیان ہونے والی گفت گو کو شروع سے یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ شاید اسے بینکرز کے بارے میں میرے کمنٹس اچھے نہیں لگے۔ وہ جیسے تجزیہ کر رہی تھی۔

جب وہ دو بارہ کمرے میں آئی تو کمرے کی لائٹ آن تھی لیکن وہ سو چکا تھا۔ وہ اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ سارا دن کام کرتی رہی تھی لیکن بری طرح تھک جانے کے باوجود اس وقت اس کی نیند یک دم غائب ہو گئی تھی۔ سالار کے بارے میں سارے اندیشے، جو اس کے ساتھ گزارے ہوئے ایک ہفتے نے سلا دیے تھے، یک دم پھر سے جاگ اٹھے تھے۔ وہ اس کی طرف کروٹ لیے ہوئے سو رہا تھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اس سے چند فٹ کے فاصلے پر تھا، کم از نیند کی حالت میں پر سکون لگ رہا تھا۔

”آخر مرد اتنی جلدی کیوں بدل جاتے ہیں؟ اور اتنے ناقابل اعتبار کیوں ہوتے ہیں؟” اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس نے سوچا اس کی رنجیدگی میں اضافہ ضرور ہوا تھا۔ زندگی اتنی محفوظ نہیں ہوئی تھی جتنی وہ کچھ گھنٹے پہلے تک سمجھ رہی تھی۔

”آج لائٹ آن کر کے سوؤ گی کیا؟” سالار کروٹ لیتے ہوئے بڑبڑایا۔

وہ یقینا گہری نیند میں نہیں تھا۔ امامہ نے ہاتھ بڑھا کر لائٹس آف کر دیں لیکن وہ سونے کے لیے نہیں لیٹی تھی۔ اندھیرے میں سالار نے دوبارہ اس کی طرف کروٹ لی۔

”تم سو کیوں نہیں رہیں؟”

”ابھی سو جاؤں گی۔”

سالار نے ہاتھ بڑھا کر اپنا بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کر دیا۔ امامہ نے کچھ کہے بغیر کمبل خود کھینچا اور سیدھے لیٹتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ سالار چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر اس نے لیمپ دوبارہ آف کر دیا۔ امامہ نے دوبارہ انکھیں کھول لیں۔

”تمہیں سحری کے وقت بھی اٹھنا ہے امامہ!”

اسے حیرت ہوئی، اس نے اندھیرے میں اسے آنکھیں کھولتے ہوئے کیسے دیکھ لیا تھا۔

گردن موڑ کر اس نے سالار کی طرف دیکھنے کی کوشش کی، اسے کچھ نظر نہ آیا۔

”تمہیں پتا ہے سالار، دنیا کا سب سے بے ہودہ کام کون سا ہے؟” اسنے سالار کی طرف کروٹ لے کر کہا۔

”کیا…؟”

”شادی۔” اس نے بے ساختہ کہا۔

چند لمحے خاموشی کے بعد اس نے سالار کو کہتے سنا۔

“I agree”

امامہ کو بے اختیار دکھ ہوا۔ کم از کم سالار کو اس بات سے اترنا چاہیے تھا۔

جاری

قسط نمبر 9۔۔۔

اس نے سالار کا بازو اپنے گرد حمائل ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ اب اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

”گڈ نائٹ۔” یہ اسے سلانے کی ایک اور کوشش تھی۔

وہ چند لمحے خاموش رہی پھر اس نے کچھ بے چین ہو کر کہا۔

”سالار!”

سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا اور آنکھیں کھول دیں۔

”تمہیں کیا ہوا ہے…؟”

”کچھ نہیں۔” جھوٹ ”ضروری” تھا، لیکن سچ بے حد ”مضر” تھا۔

”تم میرے ساتھ اتنے روڈ ہوئے۔” اس نے بالآخر شکایت کی۔

”آفس کے کسی پرابلم کی وجہ سے میں کچھ اپ سیٹ تھا شاید اس لیے روڈ ہو گیا۔” اس نے معذرت جی، وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔

”کیسا پرابلم؟”

”ہوتے رہتے ہیں امامہ… you just don’t worry اگر آئندہ کبھی بھی میرا ایسا موڈ ہو تو تم پریشان مت ہونا، نہ ہی مجھ سے زیادہ سوال کرنا۔ میں خود ہی ٹھیک ہو جاؤں گا۔”

امامہ کی سمجھ میں اس کی توجیہہ نہیں آئی تھی لیکن وہ پرسکون ہو گئی تھی۔

”میں اس لیے پریشان ہو رہی تھی، کیوںکہ مجھے لگا کہ شاید تمہیں میری کوئی بات بری لگی ہے۔ میں نے بینکرز کو برا کہا تھا نا اس لیے۔”

”تمہیں تو سات خون معاف کر سکتا ہوں میں، یہ تو کوئی بات ہی ندی۔۔”

اس نے ایک بار پھر گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔

”تم ٹھیک کہتے ہو، ڈاکٹرز میں بھی بہت سی برائیاں ہوتی ہیں لیکن مجھے بس اچھے لگتے ہیں وہ… بس محبت ہے مجھے ڈاکٹرز سے… میں بھی ان کی ساری خامیاں اگنور کر سکتی ہوں۔” سالار کی آنکھوں میں نیند یک دم غائب ہو گئی۔ وہ کسی اور حوالے سے وضاحت دے رہی تھی، اس نے اسے کسی اور پیرائے میں لیا۔

”تمہیں واقعی ڈاکٹرز سے نفرت ہے؟” وہ اب یقینی کے ساتھ پوچھ رہی تھی۔

”جو چیز تمہیں پسند ہو، میں اس سے نفرت کر سکتا ہوں…؟ مذاق کر رہا تھا میں۔” امامہ کے ہونٹوں پر مطمئن مسکراہٹ آئی۔

اس نے بھی سالار کے گرد اپنا بازو حمائل کرتے ہوئے کہا۔

”اب مجھے نیند آرہی ہے، تم بھی سو جاؤ۔”

اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ اس کے بالوں انگلیاںپھیرتا رہا۔ محبوب کی دو خصوصیات یونیورسل ہوتی ہیں۔ وہ بے نیاز ہوتا ہے… اور … اور اپنی بے نیازی سے بے خبر بھی… اور یہ دونوں خصوصیات اس کے محبوب میں بھی تھیں۔ جلال النصر سے اسے ایک بار پھر شدید قسم کا حسد محسوس ہوا… لیکن رشک اسے اپنے آپ پر آیا کہ وہ اس کے ”پاس” تھی۔ اور اس کی تھی۔

٭٭٭٭

”صاحب نے نیوز پیپرز کا کہا تھا کہ آپ سے پوچھ لوں اور یہ میگزین ہیں، ان میں سے جو پسند ہیں، بتا دیں، میں لے آیا کروں گا۔”

نیوز ہاکر نے اسے ایک کاغذ تھماتے ہوئے کہا۔ جس پر اخبارات اور میگزینز کی ایک لسٹ تھی۔ وہ نیند میں بیل بجنے کی آواز پر اٹھ آئی تھی۔ کچھ دیر تک تو سمجھ ہی نہیں پائی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ سالار کے گھر اس نے صرف اتوار کو اخبار دیکھا تھا، وہ بھی سالار نے ہاکر سے خود لیا تھا۔ وہ خود آفس میں ہی اخبار دیکھتا تھا۔ اب وہ یقینا اس کی وجہ سے خبار لگوا رہا تھا ۔ ایک نظر اس لسٹ پر ڈال کر اس نے ہاکر کو ایک اخبار اور ایک میگزین کا بتایا۔ وہ اخبار اسے تھما کر چلا گیا۔ وہ جمائیاں لیتے ہوئے اخبار اندر لائی اور رکھ دیا۔ دس بجنے والے تھے، کھڑکی سے باہر دھند چھٹ رہی تھی لیکن ابھی بھی کچھ تھی۔

جتنی دیر میں ملازمہ آئی، وہ اخبار دیکھ چکی تھی۔ ملازمہ آج اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ مالی بھی تھا۔ وہ فرقان جکے پودے دیکھنے آیا تھا۔ وہ سالار کے پودے اتوار کے دن دیکھنے آتا تھا یا پھر نوشین خود اس کے ساتھ وہاں آتی تھی۔ سالار کے اپارٹمنٹ کی ایک چابی ان کے پاس بھی تھی۔ آج نوشین نے یہاں امامہ کی موجودگی کی وجہ سے اسے بھیج دیا تھا۔

وہ اس کے ٹیرس پر جانے کے کچھ دیر کے بعد خود ہی باہر نکل آئی۔ مالی کے پاس کھڑے خاموشی سے اسے دیکھے رہنے کے دوران اسے احساس ہوا کہ اسے کسی قسم کی ہدایات کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ماہرانہ انداز میں اپنا کام کر رہا تھا، وہ واپس اندر آگئی۔ ملامہ نے بڑے پر جوش انداز میں کچن میں رکھے ہوئے برتنوں کو نوٹس کرنے کے بعد تعریف کی۔ امامہ بے اختیار خوش ہوئی۔

”باجی! اب یہ گھر، گھر لگ رہا ہے۔” اس نے امامہ سے کہا۔ وہ سالار کی اسٹڈی کو ویکیوم کر رہی تھی۔ امامہ مسکراتی ہوئی سالار کی اسٹڈی ٹیبل پر پڑی ڈسٹ صاف کرنے لگی۔

باجی! میں کرتی ہوں، آپ رہنے دو۔” ملازمہ نے اسے روکا۔

”نہیں، تم باقی سب کر لینا میں ابھی فارغ ہوں، اس لیے کر رہی ہوں۔” وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکی کہ وہ نہیں چہاتی کہ سالار کا کوئی کاغذاِدھر اُدھر ہو جائے لیکن یہ سوچتے ہوئے وہ یہ بھول گئی تھی کہ اس گھر میں اس اسٹڈی ٹیبل کو اتنے عرصے سے وہ ملازمہ ہی صاف کر رہی ہے۔

میل ٹرے دعوتی کارڈز کے بند اور کھلے لفافوں سے تقریباً بھری ہوئی تھی۔ امامہ نے ایک لفافہ کھول کر دیکھا۔ وہ کسی افطار پارٹی کا انویٹیشن تھا۔ ایک کے بعد ایک، وہ سارے لفافے کھول کر دیکھتی گئی۔ سب کارڈ کسی نہ کسی افطار پارٹی یا تقریب سے متعلق تھے اور بعض کارڈز میں تو وہ دو یا تین جگہوں پر بھی انوائٹڈ تھا۔ وہ یقینا بے حد سوشل زندگی گزار رہا تھا۔ یہ اس کا اندازہ تھا، یقینا وہ اس کے گھر آجانے کی وجہ سے پچھلے ایک ہفتے سے ان پارٹیز میںنہیں جا رہا تھا۔ یہ اس کا ایک اور تجزیہ تھا۔ پندرہ بیس کارڈز دیکھنے کے بعد اس کا دل اچاٹ ہو گیا۔ اس نے کارڈز اٹھا کر واپس رکھ دیے۔ کچھ اور کارڈز دیکھتی یا نیچے میل کے کسی لفافے کے ایڈرس پر نظر ڈال لیتی تو شاید اسے سالار کا شعبہ نظر آجاتا کہ وہ انویسٹمنٹ میں تھا، پی آری میں نہیں۔ کم از کم وہ یہ جھوٹ تو ضرور پکڑ سکتی تھی۔

”باجی! رات کو کوئی مہمان آئے تھے؟” وہ ملازمہ کی آواز پر چونکی۔وہ ایش ٹرے ہاتھ میں لیے کچھ حیرانی سے پوچھ رہی تھی۔

”نہیں۔” امامہ نے سوال سمجھ بغیر کہا۔

”تو یہ سگریٹ کس نے پیے ہیں؟ سالار صاحب تو سگریٹ نہیں پیتے۔” ملازمہ بے حد حیران تھی۔

امامہ کچھ دیر بول نہیں سکی۔ ملازمہ جیسے سالار کے بیان کی تصدیق کر رہی تھی۔ یعنی وہ واقعی عادی نہیں تھا جو ایک آدھ سگریٹ وہ بھی کبھی کبھار پیتا ہو گا، اسے ملازمہ کسی مہمان کاپیا ہوا سگریٹ سمجھ لیتی ہو گی۔

”اوہ! ہاں… اس کے کچھ دوست آئے تھے، مجھے یاد ہی نہیں تھا۔” امامہ نے چند لمحوں کے بعد کہا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی، ڈور بیل بجی۔

”میں دیکھتی ہوں۔” امامہ اس سے کہہ کر باہر نکل آئی۔

”لانڈری collectکرنے آئے ہیں۔”

دروازے پر ایک لڑکا سالار کے کچھ ڈرائی کلینڈ اور دھلے ہوئے کپڑے کے ہینگز لیے ہوا کھڑا تھا۔ اس کی طرف ایک بل کے ساتھ بڑھاتے ہوئے اس نے کہا۔

”کپڑے چیک کر لیں۔”

بل کے ساتھ لانڈری کے لیے بھیجے گئے کپڑوں کی لسٹ بھی تھی۔ امامہ نے ہینگرز لاؤنج میں لانے کے بعد باری باری لسٹ اور کپڑوں کو ملانا شروع کیا، کپڑے پورے تھے۔

ملازمہ تب تک باہر نکل آئی تھی۔ امامہ بل کے پیسے لینے اندر چلی گئی۔ جب وہ واپس آئی تو اس نے ملازمہ کو دروازے پر لانڈری بوائے کو ایک لانڈری بیگ تھماتے ہوئے دیکھا۔ جس کے اوپر ایک لسٹ چسپاں تھی۔ یقینا وہ ان کپڑوں کی لسٹ تھی جو لانڈری کے لیے دیے جا رہے تھے۔ لانڈری بوائے ایک رائٹنگ پیڈ پر کچھ اندارج کر رہا تھا۔

”باجی! آپ نے بھی دینے ہیں کپڑے؟” ملازمہ نے اسے آتے دیکھ کر کہا۔

”نہیں، میں یہ بل دینے آئی ہوں۔” امامہ نے بل کی رقم اس لڑکے کی طرف بڑھائی۔ اس نے جواباً ایک رسید اس کی طرف بڑھا دی۔

”بل تو مہینے کے شروع میں اکٹھا ہی جاتا ہے۔” ملازمہ نے اسے روکا۔

وہ دروازہ بند کرتے ہوئے اندر آگئی۔ امامہ نے رسید پر نظر ڈالی۔ وہ سالار کے کپڑوں کی لسٹ تھی جو وہ لے کر گیا تھا۔

”تم نے لانڈری کے کپڑے کہاں سے لیے ہیں؟” امامہ نے اس لسٹ کو پڑھتے ہوئے ملازمہ کو روکا۔

”سالارصاحب کپڑے بیگ میں ڈال کر اوپر لسٹ رکھ جاتے ہیں۔ لانڈری میں ہی رکھتے ہیں بیگ…” ملازمہ یہ کہہ کر دوبارہ اندر چلی گئی۔

امامہ نے بل پر نظر ڈالی۔ لانڈری تو وہ خود بھی کر سکتی تھی۔ ہر ہفتے اتنے پیسے اس پر خرچ کرنا فضول خرچی تھی، اس نے سوچا۔

ملازمہ ابھی وہیں تھی جب ایک آدمی وہ پردے لے کر آیا تھا جو اس نے بننے کے لیے دیے تھے۔

”باجی! آپ نے کوئی پردے بننے کے لیے دیے ہیں؟”

ملازمہ نے انٹر کام کی بیل بجنے پر ریسیور اٹھا کر ان سے پوچھا۔

امامہ کچھ حیران ہوئی۔ ”ہاں…کیوں؟”

”وہ نیچے گیٹ پر ایک آدمی لے کر آیا ہے، گارڈ انٹر کام پر پوچھ رہا ہے۔ ہاں! بھیج دو، باجی نے پردے بنوائے ہیں۔” ملازمہ نے اس کو بتا کر ریسیور سے کہا۔ ریسیور رکھ کر وہ دوبارہ لاؤنج صاف کرنے میںلگ گئی تھی۔ کچن کاؤنٹر پر گلاس سیٹ کو کپڑے سے صاف کرتے ہوئے، امامہ کو عجیب طرح کا احساس کمتری ہوا۔ اس نے اتنے دنوں وہاں چلتے پھرتے کئی بار انٹر کام کو دیکھا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس انٹر کام کی وہاں کیا افادیت ہے، جب کہ دروازہ اتنا قریب تھا۔ ملازمہ اس گھر کی ہر چیز کو اس سے زیادہ ذہانت ، پھرت اور سہولت کے ساتھ استعمال کر رہی تھی۔

٭٭٭٭

”سالار! لاؤنج اب اچھا لگ رہا ہے نا؟”

سالار نے لاؤنج کی کھرکیوں پر لگے نیء پردوں پر ایک نظر ڈالی۔ وہ ابھی چند لمحے پہلے گھر آیا تھا۔ امامہ نے بے حد خوشی کے عالم میں آتے ہی اسے اطلا ع دی۔ وہ نہ بھی دیتی تب بھی لاؤنج میںپہلا قدم رکھتے ہی وہ اس ”واضح” تبدیلی کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔

”بہت۔” اس نے اپنی مایوسی کو چھپاتے ہوئے کہا۔ امامہ نے فخریہ انداز میں پردوں کو دیکھا۔

وہ آج بھی افطاری راستے میں ہی کر آیا تھا۔ امامہ نے افطاری فرقان کے گھر پر کی تھی اور اب وہ دونوں ایک ساتھ ڈنر کر رہے تھے۔

”تو جناب کا آج کا دن کیسا گزرا؟”

کھانا شروع کرتے ہوئے سالار نے اس سے پوچھا۔ وہ اسے پورے دن کی ایکٹیویٹیز بتانے لگی۔ آج ان دونوں کے درمیان ہونے والی یہ پہلی تفصیلی گفت گو تھی۔ سالار نے اسے دن میں دو بار، ایک یا ڈیڑھ منٹ کے لیے کال کی تھی مگر بات صرف حال احوال تک ہی رہی تھی۔

”یعنی آج بہت کام کرنا پڑا۔” سالار نے اس کے دن کی تفصیل سن کر کہا۔

”کیا کام…؟ میں نے کیا کیا…؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔” امامہ نے اس کی بات پر کچھ حیران ہو کر اسے دیکھا۔

”جتنا بھی کیا ہے، بہت ہے۔”

”میں تمہاری لانڈری خود کردیا کروں گی اگلے ہفتے سے۔ ” امامہ نے سالار کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ”اور پریس بھی کر دیا کروں گی۔”

”میں تمہیں کپڑے دھونے کے لیے نہیں لے کر آیا۔” سالار نے اس کی بات کاٹی۔

”مجھے پتا ہے لیکن میں فارغ ہوتی ہوں سارا دن اور پھر مجھے اپنے کپڑے بھی تو دھونے ہوتے ہیں، تو تمہارے بھی دھو سکتی ہوں۔”

”تم اپنے کپڑے بھی کیوں دھوؤ گی۔ لانڈری وین ہر ہفتے آتی ہے۔ تم اپنے بھی دے دیا کرو۔” سالار نے کھانا کھاتے کھاتے رک کر کہا۔

”پیسے ضائع ہوں گے۔” اس نے بے اختیار کہا۔

”کوئی بات نہیں۔” سالار نے اسی انداز میں کندھے اچکا کر کہا۔

امامہ نے اس کا چہر دیکھا۔

”اور میں سارا دن کیا کروں؟”

”وہی جو دوسری عورتیں کرتی ہیں۔ سویا کرو، ٹی وی دیکھو، فون پر دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگاؤ۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”میرے کوئی دوست نہیں ہیں۔” وہ یک دم سنجیدہ ہو گی۔

سالار نے کچھ حیران ہو کر اس کا چہرہ دیکھا۔ ”کوئی تو ہو تا…؟”

”نہیں، کوئی بھی نہیں ہے۔”

”کیوں؟”

وہ کھانا کھاتے کھاتے کچھ سوچنے لگی تھی، پھر اس نے کہا۔

”کالج اور یونی ورسٹی میں تو میں اتنی خوف زدہ رہتی تھی کہ کسی کو دوست بنانے کا خیال ہی نہیں آیا۔ دوستی ہوتی تو پھر سوال ہوتے… میرے بارے میں… فیملی کے بارے میں… پھر اگر کوئی گھر آتا اور ابو کی فیملی کو کوئی پہلے ہی سے جانتا ہوتا تو… یا سعیدہ اماں کو ہی … دوستی اس وقت بڑی مہنگی چیز تھی میرے لیے… میں افورڈ نہیں کر سکتی تھی… پھر آفس جاب میں کولیگز کے ساتھ تھوڑی بہت گپ شپ ہوتی تھی لیکن مجھے اکیلے رہنے کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ میں لوگوں کے ساتھ کبھی بھی comfortable نہیں رہتی تھی۔ میں ان کے ساتھ گھوم پھر نہیں سکتی تھی… ان کے گھر نہیں جا سکتی تھی… اپنے گھر نہیں بلا سکتی تھی… کیسے دوستی ہوتی پھر… اسی لیے مجھے کتابیں پڑھنا اچھا لگتا تھا… پینٹ کرنا اچھا لگتا تھا۔”

”لوگوں سے میل جول ہونا چاہیے، دوست ہونی چاہیں۔ پہلے کی بات اور تھی لیکن اب تمہیں تھوڑا سوشلائز کرنا چاہیے۔ اب تمہارا گھر ہے، تم کولیگز کو انوائٹ کر دیا کم از کم جان سے فون پر ہی بات کر لیا کرو۔” وہ اسے بڑی سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا۔

”تم خود سوشل ہو، اس لیے کہہ رہے ہو۔” امامہ نے جواباً جکہا۔

”ہاں، میری جاب کی ضرورت ہے سوشل ہونا۔ ماہ رمضان کیبعد کو فنکشنز ہیں… ڈنر بھی ہیں کچھ … تمہیں ملواؤں گا کچھ دوستوں سے بھی… اچھا لگے گا تمہیں۔” وہ اس سے کہہ رہا تھا۔

”میں نے تمہارے ڈیسک پر دیکھے ہیں، افطار، ڈنرز کے کارڈز۔ تم میری وجہ سے نہیں جا رہے؟” امامہ نے کہا۔

”نہیں، میں افطار پارٹیز یا ڈنرز میں نہیں جاتا۔” سالار نے سرسری انداز میں کہا۔

”کیوں؟” وہ حیران ہوئی۔

”کیوںکہ میں سمجھتا ہوں یہ پارٹیز ماہ رمضان کی اسپرٹ کا مذاق اڑاتی ہیں۔ میں ماہ رمضان میں کسی کے گھر افطار پر نہیں جاتا۔”

”لیکن فرقان کے گھر تو جاتے ہو۔” امامہ نے بے ساختہ کہا، وہ مسکرا دیا۔

وہ اس وقت بھی فرقان کے گھر سے آیا ہوا کھانا کھا رہے تھے۔

”میں فرقان کے گھر ماہ رمضان سے پہلے بھی کھانا کھاتا رہا ہوں اور اگر وہ مجھے افطار یا ڈنر کے لیے بلاتا ہے تو کھانے میں کوئی اہتمام نہیں کرتا۔ ہم وہی کھاتے ہیں جو اس کے گھر میں عام دنوں میں پکتا ہے لیکن عام دنوں میں اس کے گھر میں نیں پکتا۔” سالار نے ٹیبل پر پڑی تین چار چیزوں کی طرف اشارہ کیا۔

”پھر…؟” وہ مزید حیران ہوئی۔

”یہ سارا اہتمام فرقان اور بھابھی تمہارے لیے کر رہے ہیں کیوںکہ ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہے تو تمہارے لیے سحری اور افطاری میں بھی اہتمام ہو رہا ہے، ورنہ تو ہم سادہ کھانا کھاتے ہیں۔ ماہ رمضان میں ہم لوگ اپنے کچن کے لیے گرو سری عام مہینوں کی نسبت آدھا خرچ کرتے ہیں اور آدھے پیسوں سے ہم کسی اور فیملی کو پورے مہینے کا راشن منگوا دیتے ہیں۔ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے تمہارا۔” سالار نے سے متوجہ کیا، وہ خود کھانا ختم کر کے اب میٹھا کھا رہا تھا۔

یہ ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی روایت تھی۔ ماہ رمضان میں ان کے گھر آنے والا راشن آدھا ہو جاتا تھا۔ گھر کے دو ملازموں کے ماہ رمضان کا راشن اس باقی راشن کی قیمت سے آتا تھا۔

امامہ!” سالار نے پھر اسے کھانے کی طرف متوجہ کیا۔

وہ کھانا کھانے لگی۔ سالار میٹھا بھی ختم کر چکا تھا اور اب منتظر تھا کہ وہ کھانا ختم کر لے۔ وہ خود ساتھ ساتھ سیل پر مسلسل میسجز کرنے میں مصروف تھا۔ وہ کسی حد تک بدل گیا تھا اور اس کے اندر آنے والی تبدیلی کس حد تک ڈاکٹر صاحب کی مرہون منت تھی اور کس حد تک اس کی اپنی سوچ کی، اندازہ لگانا مشکل تھا… وہ کھانا کھاتے ہوئے ہمیشہ اس کے کھانا شروع کرنے کا انتظار کرتا تھا۔ کھانا کھاتے ہوئے کچھ نہ کچھ اس کی پلیٹ میں ضرور رکھتا تھا اور اس کے کھانا ختم کرنے کے بعد ہی کھانے کی ٹیبل سے اٹھتا۔ وہ یہ باتیں نوٹس نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ یہ نوٹس کیے بغیر بھی رہ نہیں سکتی تھی۔ وہ عجیب تھا۔ ”عجیب؟” اس کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ امامہ کے ذہن میں نہیں آیا۔

ڈنر کے بعد وہ رات کو کچن کا سودا سلف خریدنے کے لیے گئے تھے۔ امامہ نے اگر سالار کی یہ گفت گو نہ سنی ہوتی تو یقینا وہ کچن کے لیے ایک لمبی چھوڑی لسٹ بنائے بیٹھی تھی، لیکن س نے خریداری کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیا۔ خریدی جانے والی زیادہ تر اشیاء کنٹینرز اور جارز ہی تھے۔ کھانے پکانے کا سامان اس نے بہت کم خریدا تھا۔

آج انہوںنے ایک اور جگہ سے کافی پی تھی۔

”تمہارا وہ پرابلم حل ہو گیا؟” امامہ کو گاڑی میں اچانک یاد آیا۔

”کون سا پرابلم؟” سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔

”وہ جس کی وجہ سے تم کل رات پریشان تھے۔” امامہ نے اسے یاد دلایا۔

وہ بے اختیار بڑبڑایا۔ ”کاش ہو جاتا۔”

”یعنی نہیں ہوا۔” امامہ متفکر ہوئی۔

”ہو جائے گا۔” سالار نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھا۔

”پرسوں میں کراچی جا رہا ہوں۔” سالار نے بات بدلی۔

”کتنے دن کے لیے؟” وہ چونکی۔

”صبح جاؤں گا اور رات کو آجاؤں گا۔ میں مہینے میں دو تین بار جاتا ہوں کراچی… تم چلو گی ساتھ…؟” وہ ہنسا۔ امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔

”ایک دن کے لیے؟”

”ہاں…”

”تم آفس کے کام سے جا رہے ہو، میں کیا کروں گی وہاں؟”

”تم انتیا کے ساتھ شاپنگ کے لیے چلی جانا، وہ تمہیں گھما پھرائے گی کراچی۔ کبھی گئی ہو پہلے وہاں؟” سالار پوچھ رہا تھا۔

”نہیں۔” وہ کچھ ایکسائیٹڈ ہونے لگی تھی۔ سمندر اسے پسند تھا اور زندگی میں پہلی بار اسے سمندر دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔

”انیتا سے ٹائی اپ کرتا ہوں پروگرام… میں آفس میں تم میری بہن کے ساتھ بازاروں میں… ہم تو اسی طرح کا ہنی من منا سکتے ہیں فی الحال۔” وہ اسے پھر چھیڑ رہا تھا۔

وہ ہنس پری… وہ اس سے کہہ نہیں سکی کہ جس زندہ کو وہ گزار کر آئی تھی، اس کے مقابلے میں یہ آزادی اسے جنت جیسی محسوس ہو رہی ہے۔

٭٭٭٭

”یہ کیا ہے؟”

وہ خریدا ہوا سودا سلف، جارز اور کنٹینرز میں ڈالنے میں مصروف تھی جب سالار اپنے اسٹڈی روم سے ایک لفافہ لے کر کچن ایریا میں آیا۔

”اس میں تمہاری چیک بک ہے۔” سالار نے اسے بتایا اور اور لفافہ کاؤنٹر پر رکھ کر چلا گیا۔

امامہ نے لفافہ کھول کر اندر موجود چیک بک نکالی۔ اس کے ساتھ ایک پے سلپ بھی نکل آئی۔ وہ تیس لاکھ کی تھی۔ امامہ کو لگا کہ اسے کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس نے سلپ کو دوبارہ دیکھا۔ وہ واقعی تیس لاکھ ہی کی تھی۔ اس نے اس کے اکاؤنٹ میں تیس لاکھ کیوں جمع کروائے؟ یقینا اس سے کوئی غلطی ہو گئی تھی۔

وہ لفافہ پکڑے اسٹڈی روم میں آگئی۔ سالار اپنے کمپیوٹر پر کوئی کام کر رہا تھا۔

”سالار! تمہیں پتا ہے، تم نے کتنا بڑا blunderکیا ہے؟” امامہ نے اندر آتے ہوئے کہا۔

”کیسا blunder؟” وہ چونکا۔

امامہ نے اس کے قریب آکر پے سلپ اس کے سامنے کی۔

”اسے دیکھو ذرا… یہ کیا ہے؟”

”پے سلپ ہے۔” سالار نے ایک نطر اس پر ڈالتے ہوئے دوبارہ ڈیسک ٹاپ پر نظر دوڑانا شروع کر دی۔

”کتنی رقم جمع کروائی ہے تم نے میرے اکاؤنٹ میں؟”

”تیس لاکھ۔” وہ حیران ہوئی۔

”ابھی کچھ رہتی ہے، سات لاکھ اور کچھ… چند ماہ میں وہ بھی دے دوں گا۔”

وہ کچھ ٹائپ کرتے ہوئے سرسری انداز میں کہہ رہا تھا۔

”لیکن کیوں دو گے مجھے…؟کس لیے؟” وہ حیران تھی۔

”تمہارا حق مہر ہے۔” سالار نے اسی انداز میں کہا۔

”میرا حق مہر دو لاکھ روپے ہے۔” امامہ کو لگا کہ شاید وہ بھول گیا ہے۔

”وہ آمنہ کا تھا، میں تمہیں زیادہ حق مہر دینا چاہتا ہوں۔” سالار نے کندھے اچکا کر کہا۔

”لیکن یہ تو بہت ہی زیادہ ہے سالار۔” وہ یک دم سنجیدہ ہوئی۔” تم سے کس نے کہا، مجھے اتنی رقم دو…؟”

”تم نے خود مجھے لکھ کر دی تھی یہ رقم۔”

سالار نے اس بار مسکراتے ہوئے مانیٹر سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔

”میں نے کب…” وہ کہتے کہتے رک گئی۔ ”وہ فگر تم اس لیے لکھوا رہے تھے…؟” اسے یاد آگیا۔

”ہاں۔” اس کی لاپروائی اب بھی برقرار تھی۔

”تم پاگل ہو۔” امامہ کو بے اختیار ہنسی آئی۔

”شاید۔” سالار نے بے ساختہ کہا۔

”اچھا، میں ایک ارب لکھ دیتی تو کیا کرتے؟” وہ اب طنز کر رہی تھی۔

”تو ایک ارب بھی دے دیتا۔” ” کیا فیاضی تھی۔

”کہاں سے دیتے…؟ فراڈ کرتے؟” وہ بے ساختہ ناراض ہوئی۔

”کیوں کرتا…؟…کما کر دیتا۔” سالار نے اس کی بات کا برا مانا۔

”ساری عمر کماتے ہی رہتے پھر؟”

”اچھا ہوتا، ساری عمر تمہارا قرض دار رہتا۔ واقعی اچھا ہوتا، تو ایک ارب چاہیے کیا…؟”

وہ تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا۔ امامہ کو کئی سال پہلے والے سالار کی جھلک نظر آئی۔

”کیوں دے رہے ہو؟” اس نے سنجیدگی سے کچھ دیر اسے دیکھ کر کہا۔

”بیوی ہو تم، اس لیے۔”

”اتنے پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس؟”

”امامہ! میری سیونگز ہیں یہ۔” سالار نے بے حد تحمل سے کہا۔

”سیونگز ہیں تو مجھے کیوں دے رہے ہو؟” وہ کچھ خفا ہوئی۔

”میرا دل چاہتا ہے، میں تمہیں دوں۔ اگر یہ پوری دنیا میری ہوتی تو میں یہ ساری دنیا تمہیں دے دیتا۔ میں کما رہا ہوں اور روپیہ آجائے گا میرے پاس۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا…” کیا شاہانہ انداز تھا۔

”لیکن اتنی زیادہ رقم۔” سالار نے اس کی بات کاٹی۔

”میں اتنی زیادہ رقم نہیں دینا چاہتا تھا لیکن تمہاری مرضی کا حق مہر دینا چاہتا تھا، اس لیے تم سے ایک فگر لکھنے کو کہا۔ تمہیں پتا ہے جو فگر تم نے لکھی تھی، اس دن میرے اکاؤنٹ میں ایگزیکٹ اتنی ہی اماؤنٹ تھی۔” وہ اب رقم دہراتے ہوء ہنس رہا تھا۔

”اب اس کو تم کیا کہو گی اتفاق…؟ مجھے اتفاق نہیں لگا، مجھے لگا وہ رقم میرے پاس تمہاری امانت تھی… یا حق تھا… اس لیے تمہیں دے رہا ہوں۔ تیس لاکھ دیا ہے کچھ رقم کا ادھار کر لیا ہے تم سے… ورنہ اگلے دو تین ماہ اِدھر اُدھر سے مان رہا ہوتا۔ اس لیے تم آرام سے رکھو یہ پیسے، مجھے اگر کبھی ضرورت ہوئی تو تم سے مانگ لوں گا۔ اب میں تھوڑا سا کام کر لوں؟”

امامہ نے کچھ نہیں کہا تھا، وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل آئی۔ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھ کر وہ ایک بار پھر اس پے سلپ کو دیکھنے لگی۔ وہ اس شخض کو کبھی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ کبھی نہیں… وہ لا ابالی نہیں تھا… کم از کم اتنے دن میں اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا… لیکن وہ سمجھ دار بھی نہیں تھا… کم از کم وہ پے سلپ اسے یہی بتا رہی تھی… وہ اگر اسے خوش کرنا چاہتا تھا… تو وہ نہیں ہوئی تھی… احسان مند دیکھنا چاہتا تھا توہاں، اس کے کندھے جھکنے لگے تھے… ایسی چاہ اس نے زندگی میں کسی اور شخص سے چاہی تھی… ایسی نوازشات کی طلب اسے کہیں اور سے تھی … اس کے وجود کو گیلی لکڑی وہ پیسہ نہیں بنا رہا تھا، بلکہ وہ فیاضی بنا رہی تھی جو وہ دکھا رہا تھا۔ وہ اس سے برابری چاہ رہی تھی… برابر نہیں ہو پا رہی تھی… اس شخص کا قد لمبا نہیں ہو رہا تھا، بلکہ اس کا اپنا ہی وجود سکڑنے لگا تھا۔

٭٭٭٭

”امامہ! ہم کل صبح کے بجائے، آج شام کو جا رہے ہیں۔ رات کراچی میں رکیں گے اور پھر کل رات کو ہی واپس آجائیں گے۔ سات بجے کی فلائٹ ہے۔ میں شام ساڑھے پانچ بجے تمہیں پک کروں گا، تم پیکنگ کر لو۔”

اس نے بارہ بجے کے قریب فون کر کے آفس سے کراچی کا نیا پروگرام بتایا تھا۔ وہ یک دم نروس ہونے لی۔ اتنی جلدی پیکنگ، ٹھیک ہے وہ ایک رات کے لیے جا رہے تھے۔ پھر بھی… وہ اب اسے اپنے ان کپڑوں کے بارے میں بتا رہا تھا جو وہ ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا۔ وہ پیکنگ کرتے ہوئے بے حد بولائی ہوئی تھی۔

وہ ساڑھے پانچ بجے وہاں موجود تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے گاڑی میں روزہ افطار کر لیا ہو گا، لیکن پھر بھی وہ ایک باکس میں اس کے لیے کھانے کی چیزیں اور جوس لے کر آئی تھی۔ ایئرپورٹ تک کی ڈرائیو میں دونوں باتیں کرتے ہوئے ساتھ وہ چیزیں بھی کھاتے رہے۔

وہ ساڑھے چھے بجے ایئر پورٹ پر پہنچے، بورڈنگ شروع ہو چکی تھی۔ وہ فرسٹ کلاس سے سفر کر رہے تھے۔ اسی لیے ٹریفک کی وجہ سے کچھ لیٹ ہونے کے باوجود سالار مطمئن تھا۔

ایگزیکٹو لاؤنج سے جہاز میں سوار ہوتے ہوئے سالار کی فرسٹ کلاس کے کچھ اور پسنجرز سے سلام دعا ہوئی۔ چند ایک سے اس نے امامہ کا بھی تعارف کروایا۔ وہ سب کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھتے تھے یا پھر سالار کے کسٹمرز تھے۔

جہاز کے ٹیک آف کے چند منٹوں کے بعد کسی دوسری کمپنی کا کوئی ایگزیکٹو، سالار سے کوئی معاملہ ڈسکس کرنے کے لیے اس کے پاس آیا۔ چندلمحے اس سے باتیں کرنے کے بعد سالار اس سے معذرت کر کے اس ایگزیکٹو کے ساتھ اس کی سیٹ پر چلا گیا۔ وہ کچھ دیر اس کے انتظار میں بیٹھی رہی، پھر کچھ بور ہو کر اس نے ایک میگزین اٹھا لیا۔

سالار کی واپسی، لیڈنگ کے اعلان کے پانچ منٹ بعد ہوئی۔ وہ ”سوری” کہتا ہوا اس کے پاس بیٹھ کر سیٹ بیلٹ باندھنے لگا۔

”تم بور تو نہیں ہوئیں؟”

نہیں… مجھے تو بہت مزہ آرہا تھا۔” اس نے بے حد خفگی سے جواب دیا۔

اس نے میگزین سے نظریں نہیں ہٹائیں۔ سالار نے بڑے آرام سے اس کے ہاتھ سے میگزین لے کر پاس سے گزرتی ایئر ہوسٹس کو تھما دیا۔ وہ شکریہ اد کرتی ہوئی چلی گئی۔

”یہ بدتمیزی ہے۔” امامہ نے اس کے جانے کے بعد کچھ دبی ہوئی آواز میں احتجاج کیا۔

”ہاں… ہے تو سہی لیکن تم مجھے دیکھ نہیں رہی تھیں۔” اس نے اطمینان اور ڈھٹائی کے ساتھ کہا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے خفا ہو یا ہنسے۔

”جتنی باتیں تم ان لوگوں سے کر رہے تھے، تم نے مجھ سے کبھی نہیں کیں۔”

وہ اس کے شکوے پر ہنسا۔” بینک کے کسٹمرز ہیں۔ یہ ان باتوں کے پیسے دیتے ہیں۔”

اس نے کچھ ملامت بھری نظروں سے سالار کو دیکھا۔ ”تم کتنے materialistic ہو۔”

”ہاں ، وہ تو ہوں۔” اس نے آرام سے جواب دیا۔

”میں بھی دے سکتی ہوں تمہیں پیسے۔” وہ اس کے جملے پر چونکا۔

”ارے، میں تو بھول ہی گیا تھا، فی الحال تو تم مجھ سے زیادہ امیر ہو۔ میرے بینک کی کسٹمر بھی ہو اور میں تمہارا قرض دار بھی ہوں، تو تم سے باتیں کرنا تو فرض ہے میرا۔” وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

”بینکرز… ” وہ کچھ کہنے لگی تھی۔ سالار نے بے اختیار اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے اسے روکا اور کہا۔

”میں اپنا ٹرپ خراب نہیں کرنا چاہتا امامہ…! تم سے واپسی پر سنوں گا کہ بینکرز کیسے ہوتے ہیں۔” اس نے یک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔

امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ اس میں سنجیدہ ہونے والی کیا بات تھی، اس نے سوچا۔ ایئر پورٹ پر ہوٹل کی گاڑی نے انہیں پک کیا تھا۔

”میں نے سوچا تھا کہ ہم انتیا کے گھر پر ٹھہریں گے۔” امامہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

”میں کبھی انتیا کے گھر نہیں ٹھہرا، میں ہوٹل میںرہتا ہوں۔” سالار نے اسے بتایا۔ ”کراچی اکثر آتا جاتا ہوں میں۔” وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔ ”بعض دفعہ تو یہاں آکر انتیا سے بات تک نہیں ہو پاتی۔”

امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ وہ مسلسل سیل پر کچھ میسجز کرنے میں مصروف تھا۔ وہ ساتھ ساتھ اسے سڑک کے دونوں اطراف آنے والے علاقوں کے بارے میں بھی بتا رہا تھا۔

”پھر مجھے تمہارے ساتھ نہیں آنا چاہیے تھا۔ میری وجہ سے…”

سالار نے نے اس کے اچانک اس طرح کہنے پر اسے ٹوکا۔

”تمہیں ساتھ لے کر آنا مجھے اچھا لگ رہا ہے اور تمہیں انیتا کی فیملی سے ملوانے کے لیے یہاں لے کر تو آنا ہی تھا مجھے۔” امامہ نے اس کا چہرہ غور سے پڑھنے کی کوشش کی۔

”سچ کہہ رہا ہوں۔” اس نے امامہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں میرے ساتھ آنا اچھا نہیں لگا؟” سالار نے یک دم اس سے پوچھا، وہ مسکرا دی۔

”آپ اپنی وائف کے ساتھ پہلی بار یہاں ٹھہر رہے ہیں۔”

ہوٹل میں چیک ان کرتے ہوئے ریسپشن پر موجود لڑکے نے مسکراتے ہوئے سالار سے کہا۔

اس فائیو اسٹار ہوٹل کے چند کمرے مستقل طور پر سالار کے بینک نے بک کیے ہوئے تھے اور ان کمروں میں باقاعدگی سے ٹھہرنے والوں میں سے ایک وہ بھی تھا، لیکن آج وہ پہلی بار اس کی بیوی کو دیکھ رہے تھے۔

سالار نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور سائن کرنے لگا۔ وہ لڑکا اب امامہ سے کچھ خوش گوار جملوں کا تبادلہ کر رہا تھا۔ جیسے کوئی آہستہ آہستہ اس کے گرد موجود ساری سلاخیں گرا رہا ہو۔ وہ باہر کی اس دنیا سے مسحور ہو رہی تھی، جس سے وہ سالار کی وجہ سے متعارف ہوئی تھی۔

بیچ لگژری پر انیتا اور اس کی فیملی نے اس کے لیے ڈنر ارینج کر رکھا تھا۔ وہ لوگ آدھے گھنٹے میں تیار ہونے کے بعد تقریباً ساڑھے گیارہ بجے وہاں پہنچے۔ انیتا اور اس کے شوہر کے علاوہ اس کے سسرال کے بھی کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ یہ سالار اور اس کے بیوی کے لیے ایک فیملی ڈنر تھا۔ اس کا استقبال بڑی گرم جوشی سے کیا گیا۔ اس کی گھبراہٹ ابتدائی چند منٹوں کے بعد ختم ہونا شروع ہو گئی۔ وہ کافی لبرل فیملی تھی اور ان دونوںکی شادی کے حوالے سے ہونے والی رسمی گفت گو کے بعد، گفت گو کے موضوعات بدل گئے تھے۔ امامہ چیف گیسٹ تھی لیکن وہاں کسی نے اسے ٹیلی سکوپ کے نیچے نہیں رکھا تھا اور اس چیز نا امامہ کے اعتماد میں اضافہ کیا۔ کھانا ابھی رو نہیں ہوا تھا۔ وہ ڈرنکس لیتے ہوئے گپ شپ کر رہے تھے۔ امامہ گفت گو میں ایک مسکراتے ہوئے خاموش سامع کا رول ادا کر رہی تھی۔ اس کی زیادہ توجہ پیچ لگژری ویو کے گرد نظر آنے والے سمندر اور شہر کی روشنیوں پر تھی۔ وہ لوگ اوپن ایر میں تھے۔ کراچی میں لاہور جیسی سردی نہیں تھی لیکن یہاں اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ سالار نے آنے سے پہلے اسے گرم شال لینے کا نہ کہا ہوتا تو یقینا اس وقت اس کے دانت بج رہے ہوتے۔ وہاں موجود تمام خواتین سویٹرز کے بجائے، اسی طرح کی شالیں اپنے کندھوں پر ڈالے ہوئے تھیں۔

”سالار! میں وہاں آگے جا کر نیچے سمندر دیکھنا چاہتی ہوں۔” اس نے ساتھ بیٹھے ہوئے سالار کی طرف جھکتے ہوئے مدھم آواز میں سرگوشی کی۔

”تو جاؤ۔” سالار نے اطمینان سے کہا۔

”میں کیسے جاؤن…؟ اس طرح اکیلے… تم ساتھ آؤ میرے۔” اس نے اس کے مشورے پر جزبز ہوتے ہوئے کہا۔

”نہیں، تم خود جاؤ… دیکھو… اور بھی لوگ کھڑے ہیں، تم بھی جا کر دیکھ آؤ۔” سالار نے اس سے کہا۔ وہ اب اس کی گود میں پڑا بیگ اٹھا کر نیچے زمین پر رکھتے ہوئے بلند آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔

امامہ نے کچھ جھجکتے ہوئے اس لمبی ٹیبل کے گرد موجود افراد پر نظر ڈالی، وہ سب گفت گو میں مصروف تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ کچھ ہمت پاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے بائیں طرف بیٹھی انیتا اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

”وہاں سے جا کر دیکھو، وہاں سے زیادہ اچھا ویو ہے۔” انیتا نے اشارے سے اسے گائیڈ کیا۔ امامہ نے سر ہلایا۔

وہاں اس وقت اس کے علاوہ اور بھی کچھ فیملیز موجود تھیں اور سالار ٹھیک کہہ رہا تھا۔ کوئی نہ کوئی وقتاً فوقتاً اٹھ کر اسی طرح اس عرشہ نما جگہ کے کنارے کھڑے ہو کر سمندر کو دیکھنے لگتا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے نروس تھی لیکن پھر وہ نارمل ہونا شروع ہو گئی۔

سالار وہیں بیٹھا کولڈ ڈرنک پیتے اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ امامہ نے دوبارہ پلٹ کر کچھ نروس ہو کر اسے دیکھا تھا۔ وہ دونوں بار مسکرا دیا۔ یہ نو سال پہلے کی وہ پر اعتماد لڑکی نہیں تھی جو آدھی رات کو اپنے گھر کی دیوار کود کر اس کے کمرے میں آگئی تھی۔ اس سے شادی کی تھی، پھر گھر سے چلی گئی تھی۔

وہ وسیم کی اس بہن کے بارے میں وسیم سے بہت کچھ سن چکا تھا لیکن پچھلے دس دنوں سے وہ جس لڑکی کو دیکھ رہا تھا، یہ وہ لڑکی نہیں تھی۔ وقت نے جتنی توڑ پھوڑ اس کی زندگی میں پیدا کی تھی اس سے زیادہ توڑ پھوڑ اس نے عرشے کی طرف جاتی ہوئی اس لڑکی کی زندگی میں پیدا کی تھی۔ اس کی انداز اطوار ہی تبدیل ہو گئے تھے۔ نو سال اگر کسی شخص کو اس کے گھر والوں سے الگ کر دیا جائے خوف اور دباؤ کے ساتھ چند جگہوں تک محدود کر کے پانی دنیا سے کاٹ دیا جائے تو وہ کس حد تک کنفیوز ڈ، ڈبل مائنڈ ، غیر محفوظ اور ڈیپنڈنٹ ہو سکتا ہے۔ وہ اس کا عملی مظاہرہ امامہ کی اس حالت میں دیکھ رہا تھا اور یہ چیز اسے تکلیف پہنچا رہی تھی۔ وہ کم از کم اسے اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

”سالار… سالار…” وہ انیتا کی آواز پر بے اختیار چونکا۔

اس نے پوری قوت سے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا تھا۔

”یا تو اسے وہاں بھیجتے نہ، اب بھیج ہی دیا ہے تو دو چار منٹوں کے لیے کسی اور چیز کو بھی دیکھ لو۔” وہ اب اسے ڈانٹ رہی تھی۔ وہ مسکرا کر سیدھا ہو گیا۔ اس کا بہنوئی غفران اس سے کچھ پوچھ رہا تھا۔

ہوا امامہ کے بالوں کو بکھیر رہی تھی۔ وہ انہیں بار بار کانون کے پیچھے کر کے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن انہیں کھلا چھوڑ کر آنے پر پچھتا بھی رہی تھی۔ اس تیز ہوا میں وہ شیفون کے دوپٹے کو سر پر ٹکانے کی کوشش چھوڑ چکی تھی، ہاں وہ پشمینہ شآل اس کی مہین شیفون کی قمیص کو اڑنے سے تو روک نہیں پا رہی تھی لیکن اس کے جسم کو اچھی طرح ڈھانپے رکھنے میں مؤثر تھی۔ وہ کئی سالوں میں آج پہلی بار کسی پبلک پلیس پر سر ڈھانپے بغیر کھڑی تھی۔ اسے بے حد عجیب لگ رہا تھا۔اگر وہ سالار کے ساتھ نہ ہوتی تو کبھی بھی ایسی حالت میں کسی کھلی جگہ پر کھڑے ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ دس دن پہلے تک تو وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے اپنا چہرہ بھی چھپاتی تھی۔ وہ واحد گیٹ اپ تھا جس میں وہ خود کو بے حد محفوظ سمجھتی تھی۔ سالار سے شادی کے بعد اس نے چہرہ چھپانا چھوڑ دیا تھااور اب اس کے ساتھ خود کو محفوظ سمجھتی تھی۔

تاریک سمندر میں نظر آتی روشنیوں کے عکس کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک بار پھر گردن کے گرد لپٹے دوپٹے کو سر پر لینے کی کوشش کی۔ یہاں اس کی کوشش کو نوٹس کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ کام اس ہوا میں شال، دوپٹے اور کھلے بالوں کے ساتھ آسان نہیں تھا۔

”میں بال سمیٹ دوں تمہارے؟” وہ جیسے کرنٹ کھا کر پلٹی پھر جیسے اطمینان کا سانس لیا۔

”تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔” اس نے سالار کو اپنے عقب میں دیکھ کر بے اختیار کہا۔ وہ کس وقت آتا تھا، اسے پتا ہی نہیں چلا تھا۔

”تم میرا دوپٹا پکڑو گے؟” اس نے سالار کی اونٹ میں آتے ہوئے اپنا دوپٹا اسے پکڑا دیا۔ وہ اب وہاں کھڑی دوسروں کو نظر نہیں آرہی تھی۔

”تمہیں مجھ کو بتانا چاہیے تھا کہ یہاں اتنی تیز ہوا ہو گی، میں بال تو کھلے چھوڑ کر نہ آتی۔” وہ اپنے بالوں کو ڈھیلے جوڑے کی شکل میں لپیٹتے ہوئے اس سے شکایتی انداز میں کہہ رہی تھی۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ بہ اب اپنی شال اتار کر اسے دیتے ہوئے، دوپٹا اس سے لے رہی تھی۔

”یہ کون سا کلر ہے؟” دو دوپٹے کو اپنے سر اور گردن کے گرد کپٹے ہوئے اس کے سوال پر ٹھٹکی۔

”کرمزن…کیوں؟”

سالار نے شال اس کے کندھوں کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔ ”میں تمہیں بتانا چاہتا تھا، تم اس کلر میں بہت اچھی لگتی ہو۔” اس نے اس کے بائیں گال کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے بہت آہستہ سے چھوا تھا۔

امامہ کی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی۔ اگلے لمحے سالار کو یہ طے کرنا مشکل ہو گیا کہ اس کا لباس زیادہ قرمزی تھا یا اس کا چہرہ، وہ بے اختیار گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

”اب تم اتنی سی بات پر بھی یوں بلش ہوا کرو گی تو معاملہ جان لیوا ہو جائے گا۔ مار دو گی تم بڑی جلدی مجھے۔” وہ کھلکھلا کر ہنسی۔

وہ تقریباً اڑھائی بجے واپس اپنے ہوٹل میں آئے تھے۔ امامہ کو اتنی نیند آرہی تھی کہ اس نے جیولری اتاری دی چہرہ بھی دھو لیا لیکن کپڑے تبدیل کیے بغیر سو گئی تھی۔

٭٭٭٭

سالار صبح کب آفس کے لیے نکلا، امامہ کو پتا ہی نہیں چلا۔ وہ تقریباً دس بجے اٹھی۔ جب تک وہ اپنا سامان پیک کر کے تیار ہوئی، تب تک انیتا اسے لینے کے لیے آ چکی تھی۔

وہ لوگ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ہوٹل سے چیک آؤٹ کر کے نکلے اس کے بعد وہ انیتا کے ساتھ کراچی کے مختلف مالز میں گھومتی پھرتی رہی۔ انتیا نے اسے سالار کے دیے ہوئے کریڈٹ کارڈ کو استعمال کرنے ہی نہیں دیا۔ اس دن وہی اس کو شاپنگ کرواتی رہی۔

شاپنگ کے بعد انیتا اسے اپنے گر لے گئی، اس نے وہاں افطار کیا۔ ساڑھے سات بجے وہ گھر سے ایر پورٹ کے لیے نکلی اور اسی وقت سالار سے اس کی فون پر بات ہوئی۔ وہ بھی ایر پورٹ کی طرف جا رہا تھا۔

وہ سالار کی نسبت جلدی ایر پورٹ پہنچی۔ بورڈنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایگزیکٹو لاؤنج میں پہنچتے ہی ایک بار پھر وہ کسی نہ کسی سے ہیلو ہائے کرنے لگا۔ یہ وہ فلائٹ تھی جس سے وہ عام طور پر کراچی سے واپس آیا کرتا تھا اور اس کی طرح باقی لوگ بھی ریگولر ٹریولر تھے لیکن وہ اس وقت اتنی خوش تھی کہ اس نے سالار کی توجہ کسی اور طرف ہونے پر بھی اعتراض نہیں کیا۔

وہ خوش تھی، یہ اس کے چہرے پر لکھا تھا اور سالار کو اس کی یہ خوشی حیران کر رہی تھی۔

”یہ تمہارا کریڈٹ کار ڈ اور پیسے۔”

اس نے لاؤنج میں بیٹھنے کے کچھ دیر بعد ہی اپنے بیگ سے دونوں چیزیں نکال کر سالار کو تھما دیں۔

”انیتا نے مجھے بل پے کرنے نہیں دیے۔ اسی نے سارے بلز دیے ہیں۔ تم اسے پے کر دینا۔” امامہ نے اسے بتایا۔

”کیوں…؟ کوئی بات نہیں اگر اس نے پے کیے ہیں… اسے ہی کرنے چاہیے تھے۔”

سالار نے کریڈٹ کارڈ اپنے والٹ میں رکھتے ہوئے کہا۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے پیسے اس نے واپس امامہ کے بیگ میں ڈال دیے تھے۔

”لیکن ہم نے تو اسے یا اس کی فیملی کو کچھ بھی…”

سالار نے اس کی بات کاٹی۔ ”تم نیکسٹ ٹائم آؤ گی تو لے آنا کچھ اس کے لیے۔ دو چار ہفتے تک وہ ویسے بھی اپنے نئے گھر میں شفٹ ہو رہی ہے۔ تو تمہیں اچھا لگا کراچی آکر…؟” سالار نے موضوع بدلا۔

امامہ کا چہرہ ایک بار پھر چمکنے لگا… وہ اسے ان جگہوں کے بارے میں بتا رہی تھی جہاں وہ انیتا کے ساتھ گئی تھی۔ سالار مسکراتے ہوئے اسے سنتا رہا۔ وہ بچوں جیسے جوش و خروش کے ساتھ اپنی شاپنگ کی تفصیل بتا رہی تھی۔

”میں نے ابو، آنٹی اور سعیدہ اماں کے لیے بھی کچھ گفٹس لیے ہیں۔” وہ بتا رہی تھی۔

”اچھا!” سالار نے دل چسپی لی لیکن گفٹس کی نوعیت نہیں پوچھی۔

”فرقان بھائی کی فیملی اور تمہارے پیرنٹس کے لیے بھی۔”

”امامہ! صرف میرے پیرنٹس نہیں ہیں وہ، تمہارا بھی کوئی رشتہ ہے ان سے۔” سالار نے اعتراض کیا۔

وہ اب بھی اس کے ماں باپ کا ذکر اسی طرح کرتی تھی۔ اس وقت یک دم امامہ کو احساس ہوا کہ اس نے سالار کے لیی کچھ بھی نہیں خریدا۔ یہ بھول تھی یا لاپروائی، لیکن اسے شاپنگ کے دوران سالار کا خیال تک نہیں آیا۔ اسے بے حد ندامت ہوئی۔

”کیا ہوا؟” سالار نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا۔

وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کچھ شرمندگی سے کہا۔

”سالار! مجھے تمہارے لیے کچھ خریدنا یاد نہیں رہا۔”

”کوئی بات نہیں، تم نے اپنے لیے شاپنگ کی ہے تو سمجھو، تم نے میرے لیے ہی خریدا ہے۔” سالار نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا کندھا تھپک کر جیسے تسلی دی۔

جاری







قسط نمبر 10

پھر بھی مجھے تمہارے لیے کچھ لینا چاہیے تھا۔” امامہ مطمئن نہیں ہوئی۔ ”لیکن مجھے تمہارا خیال ہی نہیں آیا۔”

اس کا محبوب ظالم تھا، وہ جانتا تھا۔ ”کوئی بات نہیں، جب خیال نہیں آیا تو کیسا تحفہ…؟ تحفہ تو ان کو دیا جاتا ہے جن کا خیال آتا ہو۔” سالار کے لہجے میں گلہ نہیں تھا لیکن امامہ کو گلہ لگا۔ وہ نادم سی ہو کر خاموش بیٹھ گئی۔

”اور کیا کیا لیا؟” اس کی ندامت محسو س کرتے ہوئے سالار نے دوبارہ اس سے بات شروع کی۔

”مجھے انتیا اچھا لگی ہے۔” امامہ نے اس کا سوال نظر انداز کیا۔

”چلو اچھا ہے، کوئی تو اچھا لگا تمہیں۔ میں نہ سہی، میری بہن ہی سہی۔”

امامہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا سالار کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی، وہ سنجیدہ نہیں تھا۔ وہ مطمئن ہو گئی۔

”اور پتا ہے میں نے کیا کیا لیا ہے؟” وہ پھر بولنے لگی۔

سالار بے اختیار مسکرایا۔ اگر اسے، اس سے اپنے لیے کسی اظہار کی توقع تھی، تو غلط تھی۔

٭٭٭٭

اگلے دو دن امامہ بہت اچھے موڈ میں رہی، اسے ہر بات پر کراچی یاد آجاتا۔ اس کی یہ خوشی سالار کو حیران کرتی رہی۔ اس کا خیال تھا اسے وہ شہر پسند آیا ہے لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ بات شہر کی نہیں تھی، وہ اگر امامہ کو نواب شاہ بھی لے جاتا تو بھی وہ اسی ٹرانس میں واپس آتی۔ وہ کھلی فضا میں سانس لینے کے قابل ہو رہی تھی اور ایک لمبے عرصے کے بعد گھٹی ہوئی سانسوں کے ساتھ جینے کے بعد کچھ دیر تک تو انسان ایسے ہی گہرے سانس لیتا ہے، جیسے وہ لے رہی تھی۔

اگلے دن وہ لوگ ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے۔ وہ سالار کے ساتھ خوش تھی، یہ بات اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی البتہ سعیدہ اماں نے پھر بھی کچھ احتیاطی تدابیر کے تحت سالار کو سامنے والوں کے لڑکے کی آمنہ کے لیے دیوانہ وار محبت کا ایک اور قصہ سنانا ضروری سمجھا، جسے سالار نے بے حد تحمل سے سنا۔ اس بار امامہ نے دوران گفت گو سعیدہ کو ٹوکنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہی، سعیدہ اماں کا خیال تھا، سالار کو ایک اچھا، تابع دار شوہر بنانے کے لیے اس طرح کے لیکچرز ضروری ہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں جب وہ ماضی میں کسی عورت کے ساتھ وابستہ رہ چکا ہو، امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ سعیدہ اماں کو اپنے اور سالار کے تعلق کے بزارے میں کیسے بتائے، اسے خدشہ تھا کہ اس انکشاف کے بعد سعیدہ اماں خود اسی سے ہی ناراض نہ ہو جائیں۔ اسے فی الحال اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔

٭٭٭٭

اسلام آباد جانا ضروری ہے؟”

وہ جمعہ کی رات ایک بار پھر سوچ میں پڑ گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ وہاں جانا نہیں چاہتی تھی، وہ جانا چاہتی تھی لیکن ساتھ ہی وہ ایک عجیب سے خوف کا شکاربھی تھی۔

”بہت زیادہ ضروری ہے۔” سالار بیڈ رپر بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر ای میل چیک کرنے میں مصروف تھا۔

”تمہیں کیا کام ہے وہاں…؟” امامہ نے ہاتھ میں پکڑا ناول بند کرتے ہوئے کہا۔ وہ کہنی کے بل ٹیک لگائے اس کی طرف کروٹ لیتے ہوئے، اسے دیکھنے لگی۔

”مجھے گاؤں جانا ہے۔” وہ اسکرین پر نظریںجمائے اپنا کام کرتے ہوئے بولا۔

”کون سے گاؤں…؟” وہ چونکی۔

”اسلام آباد سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر ہے۔” اس نے نام بتاتے ہوئے کہا۔ ”میں وہاں ایک اسکول اور چند دوسرے پروجیکٹس چلا رہا ہوں۔ اسکول کی بلڈنگ میں کچھ ایکس ٹینشن ہو رہی ہے، اسی کو دیکھنے جانا ہے مجھے۔ جانا تو لاسٹ ویک تھا لیکن جا نہیں سکا۔”

وہ الجھی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ اس کی طویل خاموشی اور خود پر جمی نظروں کو محسوس کرتے ہوئے سالار نے اسے دیکھا۔ امامہ سے نظریں ملنے پر اس نے کہا۔

”تم ساتھ چلنا اور دیکھ لینا۔” وہ دوبارہ اسکرین پر دیکھنے لگا۔

”تم اکیلے چلے جاؤ۔” امامہ نے کہا۔

”میں تو تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا۔” اس نے اصرار کیا۔

”ویسے بھی پاپا نے کہا ہے آنے کے لیے… ہاں، اگر تم گاؤں نہیں جانا چاہتیں تو مت جاؤ لیکن اسلام آباد تو چلنا ہے تمہیں۔” سالار نے جیسے قطعی انداز میں کہا۔

امامہ نے دوبارہ تکیے پر سر رکھتے ہوئے کچھ خفگی کے عالم میں ناول کھول دیا۔

”کیا اسٹوری ہے اس ناول کی؟”

سالار کو اس کے بگڑتے ہوئے موڈکا اندازہ ہو رہا تھا۔ امامہ نے جواب نہیں دیا۔

”ہیرو، ہیروئن کے کپڑوں کی زیادہ تعریف کرتا ہے اس میں یا خوب صورتی کی؟” وہ اب اسے چھیڑ رہا تھا۔

امامہ نے اسے نظر انداز کیا۔ یہ اتفاق تھا کہ جو صفحہ وہ پڑھ رہی تھی اس میں ہیرو، ہیروئن کی خوب صورتی ہی کی تعریف کر رہا تھا۔ امامہ کو ہنسی آگئی تھی۔ ناول سے اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے اس نے دوسری طرف کروٹ لے لی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس کے تاثرات دیکھے۔ سالار نے اسے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔

٭٭٭٭

”خواتین و حضرات توجہ فرمایئے، ہم اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لینڈ کر چکے ہیں۔ اس وقت یہاں شام کے سات بج رہے ہیں اور یہاں کا درجہ حرارت…”

جہاز کے کیبن عملہ میں سے کوئی انگلش کے بعد اب اردو میں رسمی الوداعی کلمات دہرا رہا تھا۔ جہاز ٹیکسی کرتے ہوئے ٹرمینل کے سامنے جا رہا تھا۔ بزنس کلاس کی ایک سیٹ پر بیٹھے سالار نے اپنا سیل فون آن کرتے ہوئے اپنی سیفٹی بیلٹ کھولی۔ امامہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے گم صم تھی۔

”کہاں گم ہو؟” اس نے امامہ کا کندھا تھپکا۔

اس نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر اپنی سیفٹی بیلٹ کھولنے لگی۔ سالار اب لیگج کمپارٹمنٹ سے اپنے بیگز نکال رہا تھا۔ ایک فلائٹ اسٹیورڈ نے اس کی مدد کی۔ دونوں کے درمیان چند خوش گوار جملوں کا تبادلہ ہوا۔

وہ اس فلائٹ پر آنے والے ریگولر پیسنجرز میں سے ایک تھا اور فلائٹ کا عملہ اسے پہچانتا تھا۔

جہاز کی سیڑھیوں کی طرف جانے سے پہلے سالار نے مڑ کر اس سے کہا۔

”تمہیں کوئی کوٹ وغیرہ لے کر آنا چاہیے تھا، سویٹر میں سردی لگے گی تمہیں۔”

”یہ تمہارا ہی نہیں، میرا بھی شہر ہے۔ میں پیدا ہوئی ہوں یہاں، بیس سال گزارے ہیں میں نے یہاں۔ مجھے پتا ہے، کتنی سردی ہوتی ہے، یہ سویٹر کافی ہے۔ ” امامہ نے بڑے جتانے والے انداز میں اس سے کہا۔ وہ استہزائیہ انداز میںمسکرایا۔

جہاز کی سیڑھیوں سے باہر آتے ہی سرد ہوا کے پہلے جھونکے نے ہی اسے احساس دلا دیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اسے اپنے دانت بجتے ہوئے محسو ہوئے۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اپنے بازو پر پڑی جیکٹ اس کی طرف بڑھائی۔ اس نے بری فرماں برداری سے کچھ نادم ہو کر جیک پہن لی۔ اسلام آباد بدل گیا تھا۔ اس نے خجل ہو کر سوچا۔ ارائیول لاؤنج کی ایگزٹ کی طرف بڑھتے ہوئے سالار چند لمحوں کے لیے ٹھٹکا۔

”ایک بات میں تمہیں بتانا بھول گیا امامہ…” اس نے بڑی معصومیت سے کہا۔

”کیا بات ہے؟” وہ مسکرائی۔

”پاپا کو یہ پتا نہیں ہے کہ ہم آج اسلام آباد آرہے ہیں۔” امامہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔

سالار نے اسے رکتے دیکھا تو وہ بھی رک گیا۔ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ سالار نے اپنے جکندھے پر اس کے بیگ کی بیلٹ ٹھیک کی۔ شاید ٹائمنگ غلط ہو گئی، ٹیکسی میں بتانا زیادہ بہتر تھا اور اب اگر اس نے یہاں سے جانے سے انکار کر دیا تو… وہ دل ہی دل میں فکر مند ہوا۔

وہ پلکیں جھپکے بغیر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی تھی۔ وہ بھی اسی طرح دیکھتا رہا۔ یہ ڈھٹائی تھی لیکن اب وہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس نے بالآخر امامہ کی آنکھوں کی بے یقینی کو غصے میں بدلتے دیکھا، پھر اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔ وہ مسلسل دو ہفتوں سے اسے سکن ندر عثمان کے اسلام آباد بلانے کا کہہ رہا تھا۔ یہ سکندر عثمان کا بلاوا نہ ہوتا تو وہ صرف سالار کے کہنے پر تو کبھی وہاں نہ جاتی اور اب وہ کہہ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ سکندر عثمان کے نہ بلانے کے باوجود وہاں جانے کا کیا مطلب تھا، اس کا اندازہ وہ کر سکتی تھی اور اس وقت وہ بری طرح پریشان ہوئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے تو اس کا دل چاہا تھا کہ وہ لاؤنج سے باہر نکلنے سے ہی انکار کر دے۔ اسے سالار پر شدید غصہ آرہا تھا۔

”سوری!” سالار نے اطمینان سے کہا۔

وہ چند لمحے مزید اسے دیکھتی رہی پھر اس نے ارد گرد یکھا، پھر سالارنے اسے جیک اتارتے ہوئے دیکھا۔ وہ وہاں کھڑی بے بسی کے عالم میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ سالار کو اندازہ تھا کہ وہ یہی کر سکتی ہے۔ اس نے جیکٹ اتار کر تقریباً پھینکنے والے انداز میں سالار کو دی۔

”تھینک یو۔” سالار نے جیکٹ سنبھالتے ہوئے کہا۔

اس نے شکر ادا کیا کہ جیکٹ اس نے اس کے منہ پر نہیں دے ماری۔ وہ اب بے حد غصے میں ایگزٹ ڈور کی طرف جا رہی تھی۔ سالار کو حیرت ہوئی اس نے اس سے اپنا بیگ کیوں نہیں لیا تھا۔ اصولی طور پر یہ اس کا دوسرا ردعمل ہونا چاہیے تھا۔

”میرا بیگ دو۔” ایگزٹ ڈور سے نکلنے سے پہلے ہی امامہ نے پلٹ کر تقریباً غراتے ہوئے، اس سے کہا تھا۔ سالار نے آرام سے بیگ اسے پکڑا دیا۔

ٹیکسی میں بیٹھنے تک دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ پورا راستہ کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی، سالار نے بھی اسے مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس وقت غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے مخاطب نہ کرنا مناسب تھا۔ وہ اب گھر پر سکندر عثمان اور طیبہ کے ردعمل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اگلی بجلی ان پر گرنے والی تھی۔

٭٭٭٭

گاڑی ان کے گھر کی بائی روڈ کا موڑ مڑ رہی تھی۔ امامہ کو اپنا پور اجسم سرد ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ سردی نہیں تھی، یہ خوف بھی نہیں تھا، یہ کچھ اور تھا۔ وہ نو سال کے بعد اپنے گھر کو، اس سڑک کو اور اس موڑ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ کپکپانے لگے تھے، آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ سالار سے ساری ناراضی، سارا غصہ جیسے دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا۔ خوشی تھی، کیا تھا جو وہ گاڑی کو اپنے گھر کی طرف بڑھتے دیکھ کر محسوس کر رہی تھی۔ اس کے گھر کا گیٹ سالار کے گھر کے گیٹ سے کچھ فاصلے پر تھا اور وہ صرف یہ اندازہ کر پائی تھی کہ گیٹ بند تھا، گھر کی بیرونی لائٹس آن تھیں۔

گاڑی کے ہارن پر گارڈ نے باہر دیکھا پھر اس نے گارڈ روم سے باہر نکل کر گیٹ کھول دیا۔ سالار تب تک اس کے ساتھ گاڑی سے نکل کر ڈگی سے بیگز نکال رہا تھا۔ امامہ نے اس بار اپنا بیگ خود تھامنے پر اصرار نہیں کیا تھا۔

گارڈ نے سامان لینے کی کوشش نہیں کی۔ سالار اپنے سامان خود اٹھانے کا عادی تھا لیکن اس نے سالار کے ساتھ آنے والی اس لڑکی کو بڑی حیرت اور دل چسپی سے دیکھا تھا، جو گیٹ سے گھر کے اندر آنے تک ان ہمسایوں کے گھر کو دیوانہ وار دیکھتی آرہی تھی جن کے ساتھ سکندر عثمان کا میل ملاپ بند تھا۔

دھند کے باوجود امامہ نے گھر کی بالائی منزل کے کچھ بیڈ رومز کی کھڑکیوں سے آتی روشنی کو دیکھ لیا تھا۔ اس کے اپنے بیڈ روم میں بھی روشنی تھی۔ اب وہاں کوئی اور رہتا ہو گا… وسیم… یا سعد… یا اس کا کوئی بھتیجا یا بھتیجی… اس نے آنکھوں میں امڈتے سیلاب کو صاف کرتے ہوئے ان کھڑکیوں میں جیسے کسی سائے، کسی ہیولے کو ڈھونڈنے کی سعی کی۔

”اندر چلیں…؟” اس نے اپنے بازو پر اس کے ہاتھ کی نرم گرفت محسوس کی۔ امامہ نے آنکھیں رگڑتے ہوئے سر ہلایا اور قدم آگے بڑھا دیے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ وہ رو رہی ہے لیکن اس نے اسے رونے سے روکا نہیں تھا١، اس نے بس اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںلے لیا تھا۔

سکندر عثمان اس وقت لاؤنج میں فون پر کسی دوست کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے طیبہ کا انتظار کر رہے تھے جو اپنے بیڈروم میں کوئی چیز لینے کے لیے گئی تھیں۔ اگر سکندر کو آفس سے آنے میں دیر نہ ہو گئی ہوتی تو، وہ دونوں اس وقت کسی افطار ڈنر میںجا چکے ہوتے۔

لاؤنج میں سالار اور امامہ کا سامنا سب سے پہلے انہیں سے ہوا تھا۔ کسی بھوت کو دیکھ کر سکندر عثمان کا وہ حال نہ ہوتا، جو اس وقت ان دونوں کو دیکھ کر ان کا ہوا تھا۔ وہ فون پر بات کرنا بھول گئے تھے۔

”جبار! میں بعد میں فون کرتا ہوں تمہیں۔” انہوں نے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے دوست سے کہا اور سیل بند کر دیا۔ غصہ بے حد معمولی لفظ تھا جو انہوں نے اس وقت سالار کے لیے محسوس کیا۔ وہ لاہور میں اس الو کے پٹھے کو نہ صرف اسلام آباد امامہ کے ساتھ نہ آنے کی تاکید کر کے آئے تھے، بلکہ پچھلے کئی دن سے مسلسل فون پر ہر بار بات کرنے کے دوران یہ بات دہرانا نہیں بھولے اور وہ ہر بار فرماں برداری سے ”اوکے” کہتا رہا۔ نہ یہ فرماں برداری ان سے ہضم ہوئی تھی، نہ اتنا سیدھا اوکے۔ ان کی چھٹی حس اس کے بارے میں سگنل دے رہی تھی۔ وہ پچھلے کئی سالوں میںبہت بدل گیا تھا، بے حد فرماں بردار ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے سر جھکائے بیٹھا رہتا تھا، بہت کم ان کی کسی بات سے اختلاف کرتا یا اعتراض کرتا لیکن وہ ”سالار سکندر” تھا ان کی وہ ”چوتھی اولاد” جس کے بارے میں وہ سوتے میں بھی محتاط رہتے تھے۔

صرف سالار ہی نہیں، بلکہ امامہ نے بھی سکندر عثمان کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات کو دور ہی سے بھانپ لیا تھا۔

”ڈونٹ وری… پاپا مجھے کچھ ذلیل کریں گے لیکن تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔” دور سے اپنی طرف آتے، سکندر کی طرف جاتے ہوئے، و ہ خود سے چند قدم پیچھے چلتی امامہ کی طرف دیکھے بغیر بے حد مدھم آواز میں بڑبڑایا تھا۔

امامہ نے سر اٹھا کر اپنے ”شوہر” کا ”اطمینان” دیکھا، پھر تقریباً دس میٹر کے فاصلے پر آتے اپنے ”سسر” کا ”انداز۔” فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے اس وقت کیا کرنا چاہیے۔ وہ یہ سوچ کر زیادہ خوف زیادہ ہوئی تھی کہ سکندر عثمان، سالار کی انسلٹ کرنے والے تھے۔

”السلام علیکم پاپا!” اپنے ہاتھ میں پکڑے بیگز رکھتے ہوئے اس نے پاس آتے ہوئے سکندر عثمان سے ہمیشہ کی طرح یوں گلے ملنے کی کوشش کی تھی جیسے وہ ان کی دعوت اور ہدایت پر وہاں آیا ہے۔

سکندر عثمان نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔

”تمہیں منع کیا تھا نا؟”

”جی۔” سالار نے بے حد تابع داری سے اس سوال کا جواب دیا۔

سکندر عثمان کا دل چاہا کہ وہ اس کا گلا دبا دیں۔

”کیسے آئے ہو؟” چند لمحوں کے بعد انہوں نے اس سے اگلا سوال کیا۔

”ٹیکسی پر۔” جواب کھٹاک سے آیا تھا۔

”ٹیکسی اندر لائے تھے؟”

”نہیں گیٹ پر ہی اترے ہیں۔” وہ نظریں جھکائے بے حد سعادت مندی سے کہہ رہا تھا۔

”تو سسرال والوں کو بھی سلام کر آتے۔” وہ اس بار چپ رہا۔ جانتا تھا، نہ یہ سوال ہے نہ مشورہ۔

”بیٹا! آپ کیسی ہیں؟” اسے قہر آلود نظروں سے گھورتے ہوئے وہ اب امامہ کی طرف بڑھ آئے تھے۔ ان کا لہجہ اب بدل گیا تھا۔ وہ بری طرح گھبرائی ہوئی باپ بیٹے کے درمیان ہونے والی گفت گو سن رہی تھی اور سکندر کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا تھا۔ وہ سکندر کے سوال کا فوری طور پر جواب نہیں دے سکی۔

”سفر ٹھیک رہا؟” انہوں نے اسے اپنے ساتھے لگاتے ہوئے بے حد شفقت سے پوچھا تھا۔ ”اور طبیعت ٹھیک ہے، چہرہ کیوں اتنا سرخ ہو رہا ہے؟”

سکندر نے بھی اس کی آنکھوں کی نمی اور پریشانی کو محسوس کیا تھا۔

”جی… وہ جی… ” وہ اٹکی۔

”سردی کی وجہ سے… السلام علیکم! ممی… کیسی ہیں آپ؟” سالار نے بیگ دوبارہ کھینچتے ہوئے پہلا جملہ سکندر سے کہا اور دوسرا دور سے آتی ہوئی طیبہ کو دیکھ کر جو اسے دیکھ کر جیسے کراہی تھیں۔

”سالار! کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی، کچھ تو احساس کیا کرو۔” وہ اب ان سے گلے مل رہا تھا۔

طیبہ! امامہ کو چائے کے ساتھ کوئی میڈیسن دیں اور اب اس ڈنر کو رہنے ہی دیں۔” سکندر اسے ساتھ لاتے ہوئے اب طیبہ سے کہہ رہے تھے۔ طیبہ اب سالار کو ایک طرف کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھ آئیں۔

”کیا ہوا امامہ کو؟”

”کچھ نہیں … میں… ٹھیک ہوں” اس نے مدافعانہ انداز میں طیبہ سے ملتے ہوئے کہا۔

”آپ لوگ ڈنر پر جائیں،ہماری پروانہ کریں۔ ہم لوگ کھا لیں گے جو بھی گھر میں ہے۔” سالار نے سکندر سے کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ اس وقت کہیں انوائٹڈ ہیں، یقینا گھر میں اس وقت ڈنر کی کوئی تیاری نہیں کی گئی ہو گی۔

سکندر نے اس کی بات سننے کی زحمت نہیں کی۔ انہوں نے پہلے انٹرکام پر گارڈز کو سیکیورٹی کے حوالے سے کچھ ہدایات کیں، اس کے بعد ڈرائیور کو کسی قریبی ریسٹورنٹ سے کھانے کی کچھ ڈشز لکھوائیں اور خانساماں کو چائے کے لیے بلوایا۔

”پلیز پاپا! آپ ہماری وجہ اپنا پروگرام کینسل نہ کریں، آپ جائیں۔” سالار نے سکندر عثمان سے کہا۔

”تاکہ تم پیچھے سے ہمارے لیے کوئی اور مصیبت کھڑی کر دو۔”

وہ سکندر کے جملے پر ہنس پڑا۔ اس کی ہنسی نے سکندر کو کچھ اور برہم کیا۔ امامہ اگر اس کے پاس نہ بیٹھی ہوتی تو سکندر عثمان اس وقت اس کی طبیعت اچھی طرح صاف کر دیتے۔

”جب میں نے تم دونوں سے کہا تھا کہ فی الحال یہاں مت آنا تو پھر… امامہ! کم از کم تمہیں اسے سمجھنا چاہیے تھا۔”

سکندر نے اس بار امامہ سے کہا تھا جو پہلے ہی بے حد شرمندگی اور حواس باختگی کا شکار ہو رہی تھی۔

”پاپا! امامہ تو مجھے منع کر رہی تھی، میں زبردستی لایا ہوں اسے۔” امامہ کی کسی وضاحت سے پہلے ہی سالار نے کہا۔

سکندر نے بے حد خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔ ان کی اولاد میں سے کسی نے آج ان کے منہ پر بیٹھ کر اتنے فخریہ انداز میں ان کی بات نہ ماننے کا اعلان نہیں کیا تھا۔

سالار نے مزید کچھ کہنے کے بہ جائے انہوں نے ملازم سے سامان ان کے کمرے میں رکھنے کے لیا کہا۔ اس سارے معاملے پر سالار سے سنجیدگی سے بات کرنا ضروری تھا، لیکن اکیلے میں۔

سالار کے کمرے میں آتے ہی امامہ مقناطیس کی طرح کھڑکی کی طرف گئی تھی اور پھر جیسے سحر زدہ سی کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہاں سے اس کا گھر کا بایاں حصہ نظر آرہا تھا۔ اس کے گھر کا اوپر والا حصہ… اس کے کمرے کی کھڑکیاں… وسیم کے کمرے کی کھڑکیاں… دونوں کمروں میں روشنی تھی لیکن دونوں کھڑکیوں کے پردے گرے ہوئے تھے۔ کوئی ان پردوں کو ہٹا کر اس وقت اس کی طرح آکر کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو جاتا تو اسے آرام سے دیکھ لیتا۔ پتا نہیں پہچانتا بھی یا نہیں… وہ اتنی تو نہیں بدلی تھی کہ کوئی اسے پہچان ہی نہ پاتا… اس کے اپنے خونی رشتے تو …پانی سیلاب کے ریلے کی طرح سب بند توڑ کر اس کے آنکھوں سے بہنے لگا تھا۔ یہ کب سوچا تھا اس نے کہ کبھی اپنی زندگی میں وہ دوبارہ اس گھر کو دیکھ سکے گی۔ کیا ضروری تھا کہ یہ سب کچھ اس کی زندگی میں، اس کے ساتھ ہوتا۔

وہ بے حد خاموشی کے ساتھ اس کے برابر میں آکر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس نے کھڑکی آنے والے اس گھر کو دیکھا اور پھر امامہ کی آنکھوں سے بہنے والے پانی کو۔ اسی خاموشی کے ساتھ اس نے امامہ کے کندھے پر اپنا بازو پھیلاتے ہوئے جیسے اسے دلاسا دینے کے لیے اس کے سر کو چوما۔

”وہ میرا کمرا ہے۔” بہتے آنسوؤں کے ساتھ امامہ نے اسے بتایا۔

”جہاں سے تم مجھے دیکھا کرتی تھیں؟” وہ بہتر آنسوؤں کے بیچ ہنس پڑی۔

”میں تمہیں نہیں دیکھتی تھی سالار!” اس نے احتجاج کیا تھا۔

سالار نے اس کے کمرے کی کھڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

”اور مجھے پتا تک نہیں تھا کہ یہ تمہارا کمرا ہے۔ میں سمجھتا تھا، یہ وسیم کا کمرا ہے۔ میں تو کپڑے بھی یہیں بدلا کرتا تھا۔” سالار کو کچھ تشویش ہوئی۔

”مجھے کیا پتا ، تم کیا کرتے تھے… میرے کمرے کی کھڑکیاں تو بند ہوتی تھیں۔”

کیوں؟” سالار نے کچھ حیرانی سے پوچھا۔

”تم شارٹس میں پھرتے تھے بیڈ روم میں اس لیے… اور تمہارے خیال میں کھڑکیاں کھلی رکھ سکتی تھی… تمہیں کوئی شرم ہی نہیں تھی… تم کیسے اس طرح اپنے بیڈ روم میں پھر لیتے تھے…”

وہ اب آنکھیں صاف کرتے ہوئے اس پر خفا ہو رہی تھی۔ اسے اندازہ نہیں ہوا کہ اس نے کتنے آرام سے اس کی توجہ اس طرف سے ہٹائی تھی۔

”تم کس طرح کے انسان تھے؟”

سالار نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔

”تمہیں کھانے کا کہنے آیا تھا۔ تم چینج کر لو تو چلتے ہیں۔” اس نے یک دم بات بدلتے ہوئے امامہ سے کہا۔ اس نے سالار کے تاثرات نہیں دیکھے۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی سے نظر آنے والا گھر دیکھ رہی تھی۔

٭٭٭٭

وہ تقریباً دو بجے کمرے میں آیا اور اس کا خیال تھا کہ امامہ سو چکی ہو گی، مگر وہ ابھی بھی کھڑکی کے سامنے بیٹھی ہوئی باہر دیکھ رہی تھی۔ اس کے گھر کی لائٹس اب آف تھیں۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے گردن موڑ کر سالار کو دیکھا تھا۔

”سو جانا چاہیے تھا تمہیں امامہ!” اس سے نظریں ملنے پر سالار نے کہا۔

وہ کھڑکیوں کے آگے کرسی رکھے دونوں پاؤں اوپر کیے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی تھی۔

”سو جاؤں گی۔”

”وہاں سب سو چکے ہیں، دیکھو لائٹس آف ہیں سب بیڈ رومز کی۔”

وہ دوبارہ گردن موڑ کر باہر دیکھنے لگی۔

سالار چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر واش روم میں چلا گیا۔ دس منٹ بعد کپڑے تبدیل کر کے وہ سونے کے لیے بیڈ پر لیٹ گیا۔

”امامہ! اب بس کرو، اس طرح دیکھنے سے کیا ہو گا؟” بیڈ پر لیٹے لیٹے اس نے امامہ سے کہا۔

”میں نے کب کہا کہ کچھ ہو گا، تم سو جاؤ۔”

”تم وہاں بیٹھی رہو گی تو مجھے بھی نیند نہیں آئے گی۔”

”لیکن میں یہیں بیٹھوں گی۔” اس نے ضدی انداز میں کہا۔

سالار کو اس کی ضد نے کچھ حیران کیا۔ چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد اس نے پھر کہا۔

”امامہ! تم اگر بیڈ پر آکر لیٹو گی تو یہاں سے بھی تمہارا گھر نظر آتا ہے۔” سالار نے ایک بار پھر کوشش کی تھی۔

”یہاں سے زیادہ قریب ہے۔”

وہ اس بار بول نہیں سکا۔ اس کے لہجے میں موجود کسی چیز نے اس کے دل پر اثر کیا تھا۔ چند گز کا فاصلہ اس کے لیے بے معنی تھا۔ وہ اس کا گھر نہیں تھا۔ چند گز کی نزدیکی اس کے لیے بہت تھی۔ وہ نو سال بعد اس گھر کو دیکھ رہی تھی۔

ہمارے گھر کے اوپر والے فلور میں ایک کمرا ہے، اس کمرے کی کھڑکیوں سے تمہارے گھر کا لان اور پورچ تک نظر آتا ہے۔” وہ لیٹے لیٹے چھت کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔

امامہ یک دم کسی سے اٹھ کر اس کے پاس آگئی۔

”کون سا کمرا…؟” مجھے دکھاؤ۔” اس کے بیڈ کے قریب کھڑے ہو کر اس نے بے چینی سے پوچھا۔

”دکھا سکتا ہوں اگر تم سو جاؤ، پھر صبح میں تمہیں وہاں لے جاؤں گا۔” سالار نے آنکھیں کھول کر کہا۔

”میں خود بھی جا سکتی ہوں۔” وہ بے حد خفگی سے سیدھی ہو گئی۔

”اوپر والا فلور لاکڈ ہے۔” امامہ جاتے جاتے رک گئی۔ وہ یک دم مایوس ہوئی تھی۔

”سالار! مجھے لے کا جاؤ اوپر…” وہ پھر اس کا کندھا ہلانے لگی۔

”اس وقت تو نہیں لے کا جاؤں گا۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

”تمہیں ذرا سی بھی محبت نہیں ہے مجھ سے؟” وہ اسے جذباتی دباؤ میں لے رہی تھی۔

”ہے، اس لیے تو نہیں لے کر جا رہا، صبح وہاں جانا۔ تمہاری فیملی کے لوگ گھر سے نکلیں گے۔ تم انہیں دیکھ سکتی ہو۔ اس وقت کیا نظر آئے گا تمہیں؟” سالار نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔

”ویسے بھی مجھے تمہیں پتا ہے کہ کمرے کی چابیاں کس کے پاس ہیں، صبح ملازم سے پوچھ لوں گا۔” سالار نے جھوٹ بولا۔

اوپر کا فلور مقفل نہیں تھا لیکن امامہ کو روکنے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ کچھ مایوس ہو کر دوبارہ کھڑکی کی طرف جانے لگی۔ سالار نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

”اور فلور میں تب ان لاک کرواؤں گا، اگر تم ابھی سو جاؤ۔”

وہ چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔

”میں بیڈ کی اس طرف سوؤں گی۔”

سالار نے ایک لفظ کہے بغیر اپنی جگہ چدھوڑ دی۔ اس نے کمبل ہٹا کر اس کے لیے جگہ بنا دی تھی۔

”اور میں لائٹس بھی آن رکھوں گی۔” وہ اس کی خالی کی ہوئی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

وہ اب کراؤن سے ٹیک لگائے دونوں گھٹنے سکیڑے بیڈ پر بیٹھی کھڑکی کو دیکھنے لگی تھی۔

”مجھے روشنی میں نیند نہیں آئے گی۔” سالار نے کمبل سے اس کے پاؤں اور ٹانگیں ڈھانپتے ہوئے کہا۔

”تمہیں تو روشنی میں ہی نیند آتی تھی۔” وہ کچھ جزبز ہو کر بولی۔

”اب اندھیرے میں آتی ہے۔” اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

”تو پھر مجھے روشنی میں ہی نیند آتی ہے۔” سالار نے اپنی مسکراہٹ روکی۔

”تمہیں ایک اچھی بیوی کی طرح اپنے شوہر کی نیند کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔” مصنوعی غصے کے ساتھ سالار نے کچھ آگے جھکتے ہوئے سائیڈ ٹیبلل لیمپ اور دوسری لائٹس آف کرنی شروع کر دیں۔

امامہ خفگی سے بیٹھی رہی، لیکن اس نے سالار کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ کمرا اب نیم تاریک تھا لیکن بیرونی روشنیوں کی وجہ سے امامہ کا گھر زیادہ نمایاں ہو گیا تھا۔

”اس طرح دیکھنے سے کیا ہو گا؟” سالار اب کچھ جھلا گیا تھا۔

”ہو سکتا ہے کوئی پردے ہٹا کر کھڑکی میں کھڑا ہو۔”

وہ خواہش نہیں تھی، آس تھی اور وہ اس آس کو توڑ نہیں سکتا تھا۔

”صبح گاؤں جانا ہے ہمیں…” وہ اب اس کی توجہ اس کھڑکی سے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔

”مجھے نہیں جانا، مجھے یہیں رہنا ہے۔”امامہ نے دو ٹوک انکار کیا۔ سالار کو اس کی توقع تھی۔

”تمہیں گاؤں لے جانے کے لیے لے کر آیا تھا۔” سالار نے کچھ خفگی سے کہا۔

”تم جاؤ مجھے کسی گاؤں میں دل چسپی نہیں ہے۔” اس نے صاف گوئی سے کہا۔

سالار یک دم کمبل ہٹاتے ہوئے بیڈ سے اٹھا اور اس نے پردے برابر کر دیے۔ باہر آنے والی روشنی بند ہوتے ہی کمرا یک دم تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔ امامہ نے بے حد خفگی کے عالم میں لیٹتے ہوئے کمبل اپنے اوپر کھینچ لیا۔

دوبارہ اس کی آنکھ سالار کے جاگنے سے کھلی۔ سحری ختم ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ اس نے اٹھ کر سب سے پہلے کھڑکی کر پردے ہٹائے تھے۔ سالار نے اسے کچھ ہمدردی سے دیکھا۔وہ انٹر کام اٹھا کر خانساماں کو کھانا کمرے میں لانے کا کہہ رہا تھا۔ امامہ کے کمرے میں لائٹ آن تھی لیکن کھڑکیوں کے آگے اب بھی پردے گرے ہوئے تھے۔

اسے جیسے کچھ مایوسی ہوئی۔ جب تک وہ کپڑے تبدیل کر کے اور منہ ہاتھ دھو کر آئی، تب تک خانساماں کھانے کی ٹرالی کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔ انہوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ کھانا کھایا اور کھانا ختم کرتے ہی امامہ نے کہا۔ ”اب چابیاں لے لو، اوپر چلیں۔”

”مجھے نماز پڑھ کر آنے دو۔”

”نہیں، مجھے اپنا گھر دیکھنا ہے۔”

اس بار سالارنے جیسے امامہ کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ اسے لے کر وہ اوپر کے فلور آگیا۔ کمرا کھلا دیکھ کر امامہ نے اسے بے خفگی سے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ وہ اس وقت اتنی خوش تھی کہ سالار کی کسی بات پر ناراض نہیں ہو رہی تھی۔

اس کمرے کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوتے ہی وہ جیسے سانس لینا بھول گئی تھی۔ وہاں سے اس کے گھر کا پورا لان اور پورچ نظر آرہا تھا۔ لان بالکل بدل گیا تھا۔ وہ ویسا نہیں رہا تھا جیسا کبھی ہوتا تھا، جب وہ وہاں تھی۔ تب وہاں دو کرسیاں بھی نہیں تھیں، جو پہلے ہوتی تھیں۔ لان میں لگی بیلیں اب پہلے سے بھی زیادہ بڑی اور پھیل چکی تھیں۔ آنسوؤں کا ایک نیا ریلا اس کی آنکھوں میں آیا تھا۔ سالار نے اس دفعہ اسے کچھ نہیں کہا۔ کہنا بے کار تھا۔ اسے فی الحال رونا تھا، وہ جانتا تھا۔

وہ مسجد میں نماز اور کچھ دیر قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آیا تھا اور حسب توقع تب بھی امامہ کمرے میں نہیں آئی تھی۔

وہ گاؤں جانے کے لیے تیار ہونے کے بعد اسے خدا حافظ کہنے اوپر ایا تھا۔ اسے ساتھ لے جانے کا ارادہ وہ پہلے ہی ترک کر چکا تھا۔

اڑھائی گھنٹے کے بعد بھی وہ کھڑکی کے سامنے اسی طرح کھڑی تھی۔ سالار کے اندر آنے پر بھی اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ سالار نے اسے مخاطب کرنے کے بجائے کمرے میں دور پڑے صوفے کو کچھ جدوجہد کے ساتھ کھڑکی کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا تھا۔

”یہاں بیٹھ جاؤ تم، کب تک اس طرح کھڑی رہو گی۔”

صوفہ دھکیل کر اس کے قریب لانے کے بعد سالار نے اس کو مخاطب کیا اور تب ہی اس نے امامہ کا چہرہ دیکھا۔اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں اور ناک سرخ تھی۔ سالار نے گردن موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ وہاں ایک گاڑی میں کچھ بچے سوار ہو رہے تھے اور ایک عورت کو خداحافظ کہہ رہی تھی۔

”رضوان کے بچے ہیں؟” سالار نے گاڑی کو اسٹارٹ ہوتے دیکھ کر امامہ سے کہا۔

امامہ نے کچھ نہیں کہا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر کانپتے ہونٹوں کے ساتھ بس انہیں دیکھ رہی تھی ۔ سالار نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ نو سال لمبا عرصہ تھا۔ پتا نہیں مزید ان میں سے کس کو وہ پہچان سکی تھی اور کس کو نہیں اور ان میں سے کس کو وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ وہ عورت اب اندر چلی گئی تھی۔

اس کے کندھوں پر ہلکا دباؤ ڈالتے ہوئے سالار نے اس سے کہا” بیٹھ جاؤ!”

امامہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں اور ناک رگڑنے کی کوشش کی۔ صرف چند لمحوں کے لیے اس کا چہرہ خشک ہوا تھا، برسات پھر ہونے لگی تھی۔ سار پنجوں کے بل اس کے سامنے چند لمحوں کے لیے بیٹھا۔ اس نے امامہ کے دونوں ہاتھ تسلی دینے والے انداز میں اپنے ہاتھوں میں لیے۔ اس کے دونوں ہاتھ بے حد سرد تھے۔ وہ اس کے ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ کمرے کی سردی کو اس نے پہلی بار محسوس کیا تھا۔ ہیٹر آن کرنے کے بعد اس نے کمرے کی الماری میں کوئی کمبل ڈھونڈنے کی کوشش کی اور ایک کمبل اسے نظر آہی گیا تھا۔

”میں گاؤں کے لیے نکل رہا ہوں، شام تک واپس آؤں گا۔ دس گیارہ بجے کے قریب پاپا ور ممی اٹھ جائیں گے، تب تم نیچے آجانا۔” اس کی ٹانگوں پر کمبل ڈالتے ہوئے۔ اس نے امامہ سے کہا۔

وہ اب بھی اسی طرح دوپٹے سے آنکھیں اور ناک رگڑ رہی تھی لیکن اس کی نظریں اب بھی کھڑکی سے باہر تھیں۔ سالار اور یہ کمرا جیسے اس کے لیے اہم نہیں رہا تھا۔ وہ اس سے کیا کہہ رہا تھا،اس نے نہیں سنا تھا اور سالار یہ جانتا تھا۔ وہ اسے خدا حافظ کہتے ہوئے چلا گیا۔

وہ اگلے چار گھنٹے اس طرح صوفے پر جمی بیٹھی رہی۔ اس دن اس نے نو سال کے بعد باری باری اپنے تینوں بھائیوں کو بھی گھر سے جاتے دیکھا تھا۔ وہ وہاں بیٹھی انہیں دیکھتی ہچکیوں سے روتی رہی تھی۔ وہان بیٹھے ہوئے اسے لگ رہا تھا کہ اس نے یہاں آکر غلطی کی ہے۔ اسے نہیں آنا چاہیے تھا۔ اتنے سال سے صبر کے جو بند وہ باندھتی چلی آرہی تھی، اب وہ بند باندھنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ پہلے اسلام آباد آنا نہیں چاہتی تھی اور اب یہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی۔ ایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ اسی طرح چوری چھپے اس گھر میں رہتی، اس طرح روز اپنے گھر والوں کو دیکھتی رہتی۔ اس کے لیے تو یہ بھی بہت تھا، وہ احمقانہ سوچ تھی، لیکن وہ سوچ رہی تھی۔ وہ ہر بات سوچ رہی تھی جس سے وہ یہاں اپنے ماں باپ کے گھر کے پاس رہ سکتی ہو۔

سالار نے گاؤں پہنچنے کے چند گھنٹے کے بعد سکندر کو فون کیا۔

”میں بھی حیران تھا جب ملازم نے مجھے بتایا کہ وہ اوپر گیسٹ روم میں ہے۔ میں سوچ رہا تھا پتا نہیں وہ وہاں کیا کر رہی ہے۔”

سالار نے انہیں امامہ کو وہاں سے بلوانے کے لیے کہا تھا اور سکندر نے اسے جواباً کہا۔

”کیا ضرورت تھی اسے خوامخواہ وہاں لے جانے کی، گھر تو اس کا تمہارے کمرے سے بھی نظر آتا ہے۔”

”لیکن گھر والے اسے گیسٹ روم سے ہی نظر آسکتے تھے۔” سالار نے دوم