قسط نمبر 41
”آپ لوگ میری زندگی میں نہ آتے تو میں ایک بہت بُرا انسان بنتا… پاپا کی موت کے بعد میں ویسے ہی تھا جیسے سمندر میں ایک چھوٹی سی کشتی جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی… ڈوب جاتی تو ڈوب جاتی… میں اُس وقت بہت دعا کیا کرتا تھا کہ مسٹر سکندر کو کچھ نہ ہو، اُن کا ٹریٹمنٹ صحیح ہوجائے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا آپ کے گھر میں وہ تکلیف آئے جس سے میں اور میری فیملی گزررہی تھی… ” وہ چپ ہوگیا۔ امامہ بھی بول نہیں سکی… پانی دونوں کی آنکھوں میں تھا اور درد بھی… اور دونوں دونوں چیزیں چھپانے کی کوشش میں تھے۔
”میں پاکستان صرف آپ سے بات کرنے اور یہ سب بتانے کے لئے آیا ہوں… آپ نے اپنی بیٹی کی تربیت بہت اچھی کی ہے۔ وہ بہت عزت اور حیا والی ہے اور میں نے اتنے سالوں میں اُس کے لئے محبت کا جذبہ رکھنے کے باوجود اُن حدود کا احترام کیا ہے جو آپ نے اُس کے لئے طے کی ہیں اور جسے اُس نے کبھی نہیں توڑا۔ میں آپ کی بیٹی کو اتنی ہی عزت اور احترام کے ساتھ اپنی زندگی اور گھر کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔” عبداللہ نے اپنے بیگ سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکال کر اُس لفافے کے اوپر رکھ دی جو اُس نے میز پر رکھا تھا۔
اُس خوبصورت لفافے کے اوپر ایک خوبصورت سُرخ ڈبیا میں عنایہ سکندر کا نصیب تھا جو اُتنا ہی خوبصورت تھا۔ نم آنکھوں کے ساتھ امامہ اُس ڈبیا سے نظریں نہیں ہٹاسکی۔ اُس کی مرضی سے کبھی کچھ نہیں ہوتا تھا، لیکن جو بھی ہوتا تھا وہ بہترین ہوتا تھا۔
*****
”Ring خوبصورت ہے پر نقلی ہے۔” حمین نے ڈنر ٹیبل پر بیٹھے فش اور چپس کھاتے ہوئے ڈبیا کو رئیسہ کی طرف سرکایا، جو سلاد کا ایک پیالہ کھاتے ہوئے اس کی بات سُن رہی تھی۔
کُھلی ہوئی ڈبیا کو بند کرتے ہوئے اُس نے اُسی ہاتھ سے اپنے گلاسز ٹھیک کیے اور بڑے تحمل سے کہا۔
”I know”
وہ فش اور چپس تقریباً نگل رہا تھا اور ساتھ TV لاؤنج میں سکرین رگبی کا ایک میچ دیکھ رہا تھا۔
رئیسہ ویک اینڈ گزارنے وہاں آئی تھی، امریکہ واپس آنے کے بعد اور اگلے دن عنایہ بھی وہاں پہنچ رہی تھی اور اس وقت ایک فاسٹ فوڈ سے ہوم ڈیلیوری کروانے کے بعد وہ کھانا کھانے میں مصروف تھے جب رئیسہ نے وہ انگوٹھی اُسے دکھائی تھی۔
”تم نے کسی کو دینی ہے یا تمہیں کسی نے دی ہے؟” حمین نے میچ دیکھتے دیکھتے چلی ساس کی بوتل تقریباً اپنی پلیٹ میں خالی کرتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
”ہشام نے دی ہے۔” رئیسہ نے کسی تمہید کے بغیر مدہم آواز میں بے حد سنجیدگی سے کہا۔ اس بار حمین نے سکرین سے نظریں ہٹالی تھیں۔
”جب وہ واپس آئے گا تو میں اُسے واپس کردوں گی۔” اُس نے ایک لمحہ کے توقف کے بعد اُسی سانس میں کہا۔
”مطلب؟” حمین اب سنجیدہ ہوگیا تھا۔
”اُس نے مجھے پروپوز کیا ہے لیکن میں نے اُس کا پروپوزل قبول نہیں کیا۔ میں چاہتی ہوں پہلے دونوں فیملیز آپس میں بات کرلیں۔” رئیسہ نے اُسے مختصراً بتایا۔ ”لیکن ہشام تو ابھی اپنی فیملی کے ساتھ بحرین میں ہوگا۔ اُس کی فیملی کیا وہاں سے آکر بات کرے گی؟” حمین نے جواباً اُس سے پوچھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ہشام اور اُس کی فیملی کے حوالے سے بات کررہے تھے۔
تین دن پہلے بحرین میں ہونے والے رائل فیملی کے اُس پلین کریش میں وہاں کے حکمران اور اُس کی فیملی کے چھے افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔بحرین کا حکمران ہشام کا تایا تھا اور اُس حادثے کی اطلاع ملنے کے فوری بعد ہشام اپنی فیملی کے ساتھ بحرین چلا گیا تھا۔ رئیسہ بھی اُس کے ساتھ ہی امریکہ واپس آئی تھی۔
”ہشام تو آجائے گا اگلے ہفتے لیکن اُس کی فیملی ابھی رہے گی وہاں۔” رئیسہ نے اُس سے کہا۔
”تو پھر کیا ہوگا؟”حمین نے دوبارہ چپس کھانا شروع کرتے ہوئے کہا۔
”اسی لئے تو تم سے بات کررہی ہوں ، تم بتاؤ۔” رئیسہ نے اُسے جواباً کہا۔
” ممی کریں گی صاف صاف دو ٹوک انکار۔” چلی ساس میں مچھلی کا ٹکڑا ڈبوتے ہوئے حمین نے جیسے مستقبل کا نقشہ دو جملوں میں اُس کے سامنے کھینچا۔
”ہاں مجھے پتہ ہے۔” رئیسہ نے گہرا سانس لیا ” تمہیں پسند تو نہیں ہے نا؟” حمین نے اُس سے اس طرح سرسری سے انداز میں پوچھا جیسے یہ کوئی عام سی بات تھی۔
”ہے” اُس نے یک لفظی جواب دیا اور ایک پورا زیتون اُٹھا کر نگلا۔
”Too bad” حمین نے جیسے افسوس کرنے والے انداز میں کہا۔
”عنایہ اور عبداللہ کا پتہ ہے تمہیں اس کے باوجود تم نے… ” رئیسہ نے اُس کی بات کاٹی ”ہشام پیدائشی مسلمان ہے” ”لیکن بحرینی ہے بلکہ عرب ہے۔” حمین نے اُسے بات مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا تھا۔
”ویسے تو وہ امریکی ہے۔” رئیسہ نے جیسے مدافعانہ انداز میں کہا ”امریکی تو ممّی کو ویسے ہی زہر لگتے ہیں۔” حمین نے بے حد اطمینان سے تصویر کا ایک اور تاریک پہلو اُسے دکھایا۔
”اسی لئے تم سے بات کررہی ہوں۔” رئیسہ نے سلاد کھانا بند کردیا۔
” تم ایک بات بتاؤ، تمہیں صرف وہ پسند ہے یا محبت وغیرہ ہے؟” رئیسہ نے اُسے جواباً گھورا۔
”صرف جنرل نالج کے لئے پوچھ رہا ہوں۔” حمین نے مدافعانہ انداز میں بے اختیار کہا۔
” یہ جنرل نالج کا سوا ل نہیں ہے ۔” رئیسہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”کامن سینس کا ہوگا پھر… وہ تو میری ویسے ہی خراب ہے۔” پلیٹ صاف کرتے ہوئے حمین نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”تم کچھ کرسکتے ہو یا نہیں؟” رئیسہ نے اُس کو اگلا جملہ بولنے سے پہلے کہا۔
”میں صرف کوشش کرسکتا ہوں لیکن اس کا فائدہ نہیں… لیکن سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تم میری ملاقات ہشام سے کراؤ… میں دیکھنا چاہتا ہوں تمہارے حوالے سے وہ دراصل کتنا سیریس ہے۔”
” وہ میں کروادوں گی، وہ مسئلہ نہیں ہے۔” رئیسہ نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
”اور اگر ممّی یا بابا نہیں مانتے پھر…؟” حمین نے یک دم اُس سے کہا۔ وہ خاموش بیٹھی رہی، پھر اُس نے کہا۔
”مجھے وہ اچھا لگتا ہے لیکن ایسی جذباتی وابستگی نہیں ہے کہ میں اُسے چھوڑ نہ سکوں۔”
”اچھے کی امید رکھنی چاہیے لیکن بدترین کے لئے تیار رہنا چاہیے… بابا کو اعتراض نہیں ہوگا، لیکن ممّی کا میں کہہ نہیں سکتا، کوشش کروں گا… لیکن ہشام نے اپنی فیملی سے بات کی ہے تمہیں پروپوز کرنے سے پہلے؟ کیوں کہ اگر اس کی فیملی کو کوئی اعتراض ہوا تو ممی بابا میں سے کوئی بھی اس پروپوزل پر غور نہیں کرے گا۔” حمین کو بات کرتے کرتے خیال آیا تھا۔ اپنی فیملی سے بات کر کے ہی اُس نے مجھ سے بات کی ہے، اُس کی فیملی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔” رئیسہ نے اُسے جیسے یقین دہانی کروائی تھی۔
حمین اُس کی بات سنتے ہوئے اپنے میز پر دھرے فون کی سکرین پر کچھ دیکھ رہا تھااور اپنی انگلی سے سکرین کو سکرول کررہا تھا، رئیسہ کو لگا اُس نے اُس کی بات غور سے نہیں سنی تھی۔
”تم میری بات سُن رہے ہو؟” رئیسہ نے جیسے اُسے متوجہ کیا۔
”ہاں… میں ہشام کے بارے میں search کررہا ہوں۔” اُس نے جواباً کہا۔
” کیا؟” رئیسہ چونکی۔
”ہشام کو اور اُس کی فیملی کو پتہ ہے کہ تم ایڈاپٹڈ ہو؟” حمین اُسی طرح سکرین سکرول کر رہا تھا…
”ہشام کو پتہ ہے تو ظاہر ہے اُس کی فیملی کو بھی پتہ ہوگا۔” وہ ایک لمحہ کے لئے ٹھٹھکی اور پھر اُس نے کہا۔
”اوہ…” حمین اپنے فون کی سکرین پر کچھ پڑھتے پڑھتے بے اختیار چونکا تھا۔
”کیا ہوا؟” رئیسہ چونکی۔
”تمہارے لئے ایک اچھی خبر ہے اور شاید بُری بھی۔” حمین نے ایک گہرا سانس لے کر سر اُٹھایا اور اُسے دیکھا اور پھر اپنا فون اُس کے سامنے رکھ دیا۔
*****
وہ شخص دیوار پر لگی رئیسہ کی تصویر کے سامنے اب پچھلے پندرہ منٹ سے کھڑا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر، ٹکٹکی لگائے اس لڑکی کا چہرہ دیکھتے ہوئے… چہرے میں کوئی شباہت تلاش کرتے ہوئے…سالار سکندر کے شجرہ میں دبے آتش فشاں کی شروعات ڈھونڈتے ہوئے… اگر وہ اس شخص کو نشانہ بنا سکتا تھا تو اسی ایک جگہ سے بنا سکتا تھا۔ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا… خود کلامی… ایک سکینڈل کا تانا بانا تیار کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک مکر و فریب کا جال… وجوہات… حقائق کو مخفی کرنے… وہ ایک گہرا سانس لے کر اپنے عقب میں بیٹھے لوگوں کو کچھ ہدایات دینے کے لئے مڑا تھا۔
سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے اس کمرے کی دیواروں پر لگے بورڈز چھوٹے بڑے نوٹس، چارٹس، فوٹوگرافس اور ایڈریسز کی چِٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔
کمرے میں موجود چار آدمیوں میں سے تین اس وقت بھی کمپیوٹر پر مختلف ڈیٹاکھنگالنے میں مصروف تھے ، یہ کام وہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے کررہے تھے۔ اس کمرے میں جگہ جگہ بڑے بڑے ڈبّے پڑے تھے جو مختلف فائلز، ٹیپس، میگزینز اور نیوز پیپرز کے تراشوں اور دوسرے ریکارڈ سے بھرے ہوئے تھے، کمرے میں موجود ریکارڈ کیبنٹس پہلے ہی بھری ہوئی تھیں ، کمرے میں موجودتمام ڈیٹا ان کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسکس میں بھی محفوظ تھا۔
کمرے میں موجود دو آدمی پہلے ڈیڑھ ماہ سے سالار سکندر کے بارے میں آن لائن آنے والا تمام ریکارڈ اور معلومات اکٹھی کرتے رہے تھے۔ کمرے میں موجود تیسرا شخص سالار اور اس کی فیملی کے ہر فرد کے ای میلز کا ریکارڈ کھنگالتا رہا تھا۔ چوتھا شخص اس کی فیملی اور مالی معلومات کو چیک کرتا رہا تھا۔اس ساری جدوجہد کا نتیجہ ان تصویروں اور شجرہ نسب کی صورت میں ان بورڈز پر موجود تھا۔ وہ چار لوگ دعویٰ کرسکتے تھے کہ سالار اور اُس کی فیملی کی پوری زندگی کا ریکارڈ اگر خدا کے پاس موجود تھا تو اس کی ایک کاپی اس کمرے میں بھی تھی۔ سالار کی زندگی کے بارے میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اُن کے علم میں نہیں تھی یا جس کے بارے میں وہ ثبوت نہیں دے سکتے تھے۔
CIA کے Sting Operations سے لے کر اُس کی ٹین ایج کی گرل فرینڈز تک اور اُس کے مالی معاملات سے لے کر اُس کی اولاد کی پرسنل اور پرائیوٹ لائف تک اُن کے پاس ہر چیز کی تفصیلات تھیں۔
لیکن سارا مسئلہ یہ تھا کہ ڈیڑھ دو ماہ کی اس محنت اور پوری دنیا سے اکٹھے کیے ہوئے اس ڈیٹا میں سے وہ ایسی کوئی چیز نہیں نکال سکے تھے جس سے وہ اس کی کردار کشی کرسکتے۔
وہ ٹیم جو پندرہ سال سے اس طرح کے مقاصد پر کام کرتی رہی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ وہ اتنی سر توڑ محنت کے باوجود اس شخص اور اس کے گھرانے کے کسی شخص کے حوالے سے کسی قسم کا سکینڈل نکال نہیں پائی تھی۔ دو سو پوائنٹس کی جو چیک لسٹ اُنہیں دی گئی تھی، وہ دو سو کراسز سے بھری ہوئی تھی اور یہ اُن کی زندگی میں پہلی بار ہورہا تھا۔ انہوں نے ایسا صاف ریکارڈ کسی کا نہیں دیکھا تھا۔
کسی حد تک وہ ستائش کے جذبات رکھنے کے باوجود ایک آخری کوشش کررہے تھے… ایک آخری کوشش… کمرے کے ایک بورڈ سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے بورڈ تک جاتے جاتے وہ آدمی سالار کے فیملی ٹری کی اس تصویر پر رُکا تھا۔ اس تصویر کے آگے کچھ اور تصویریں تھیں اور ان کے ساتھ کچھ بلٹ پوائنٹس… ایک دم جیسے اُسے بجلی کا جھٹکا لگا تھا۔ اُس نے اس لڑکی کی تصویر کے نیچے اس کی تاریخِ پیدائش دیکھی پھر مڑ کر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کو وہ سال بتاتے ہوئے کہا۔
” دیکھو اس سال ان dates پر یہ کہاں تھا؟”
کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے آدمی نے چند منٹوں کے بعد سکرین پر نمودار ہونے والی تحریر پڑھتے ہوئے کہا۔
”پاکستان”
سوال کرنے والے آدمی کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آئی تھی۔
”کب سے کب تک؟”
اُس آدمی نے اگلا سوال کیا، کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے کی بورڈ پر انگلیوں کو حرکت دیتے ہوئے سکرین پر دیکھتے ہوئے اُسے تاریخیں بتائیں۔
”آخرکار ہمیں کچھ مل ہی گیا۔” اس آدمی نے بے اختیار ایک سیٹی بجاتے ہوئے کہا تھا۔اُنہیں جہاز ڈبونے کے لئے تارپیڈو مل گیا تھا۔
یہ پندرہ منٹ پہلے کی روداد تھی۔ پندرہ منٹ بعد وہ اب جانتا تھا کہ اُسے اس آتش فشاں کا منہ کھولنے کے لئے کیا کرنا تھا۔
*****
اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مٹھیوں کی طرح بھینچ کر کھولا، ایک بار… دو بار… تین بار… پھر اپنی آنکھوں کو انگلیوں کی پوروں سے مسلا… کُرسی کی پشت سے ٹیک لگائے، اپنی لمبی ٹانگوں کو سٹڈی ٹیبل کے نیچے رکھے foot holder پر سیدھا کرتے ہوئے وہ جیسے کام کرنے کے لئے ایک بار پھر تازہ دم ہوگیا تھا… پچھلے چار گھنٹے سے مسلسل اُس laptop پر کام کرتے رہنے کے باوجود جو اس وقت بھی اُس کے سامنے کھلا ہوا تھا اور جس پر چمکتی گھڑی اس وقت سوئٹزرلینڈ میں رات کے 2:34 ہوجانے کا اعلان کررہی تھی۔
وہ ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کا keynote سپیکر تھا جس کی تقریر کل دنیا کے ہر بڑے چینل اور اخبار کی ہیڈ لائنز بننے والی تھی3:40 پر اُس نے بالآخر اپنا کام ختم کیا laptop کو بند کر کے وہ سٹڈی ٹیبل سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا، وہ موسم سرما تھا اور ڈیوس میں سورج طلوع ہونے میں ابھی وقت تھا… اتنا وقت کہ وہ چند گھنٹے کے لئے سوجاتا… اور چند گھنٹوں کی نیند اُس کے لئے کافی تھی، نماز کے لئے دوبارہ جاگنے سے پہلے… وہ اُس کی زندگی کا معمول تھا اور اب اتنے سالوں سے تھا کہ اُسے معمول سے زیادہ عادت لگنے لگا تھا۔ صوفہ کے سامنے موجود سینٹر ٹیبل پر سوئٹزر لینڈ اور امریکہ کے کچھ بین الاقوامی جریدوں کی کاپیز پڑی تھیں اور اُن میں سے ایک کے سرورق پر حمین سکندر کی تصویر تھی۔500 Young Global Leaders کی فہرست میں پہلے نمبر پر براجمان، اپنی مخصوص شرارتی مسکراہٹ اور چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کیمرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے۔
ایک لمحہ کے لئے سالار کو یونہی لگا تھا جیسے وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا…اُسی اعتماد ، دلیری اور وقار کے ساتھ جو اس کا خاصہ تھا۔
سالار سکندر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لہرائی،اُس نے جھک کر وہ میگزین اُٹھایا تھا… وہ ورلڈاکنامک فورم میں پہلی بار آرہا تھا… اور دنیا کے اس prestigious فورم کا جیسے نیا پوسٹر بوائے تھا۔ وہاں پڑا کوئی میگزین ایسا نہیں تھا جس میں اُس نے حمین سکندر یا اُس کی کمپنی کے حوالے سے کچھ نہ پڑحا ہو۔
”Devilishly Handsome, Dangerously Meticulous” سالار سکندر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوئی… وہ ہیڈلائن حمین سکندر کے بارے میں تھی جس سے اس کی ملاقات کل اُسی فورم میں ہونے والی تھی، جہاں اُس کا بیٹا بھی خطاب کرنے والا تھا۔اُس نے اُس میگزین کو دوبارہ سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔
اُس کے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا سیل فون کھٹکا، بستر پر بیٹھتے ہوئے سالار نے اُسے اُٹھا کر دیکھا۔ وہ واقعی شیطان تھا، خیال آنے پر بھی سامنے آجاتا تھا…
”Awake?” وہ حمین سکندر کا ٹیکسٹ تھا، اُسے باپ کی روٹین کا پتہ تھا وہ خود بھی insomniac تھا۔
”Yes” سالار نے جواباً ٹیکسٹ کیا ” بڑی اچھی فلم آرہی تھی، سوچا آپ کو بتادوں۔” جواب آیا۔ سالار کو اُس سے ایسے ہی کسی جواب کی توقع تھی۔ دوسرا ٹیکسٹ آیا جس میں اُس چینل کا نمبر بھی تھا جس پر وہ مووی آرہی تھی، اُس کی کاسٹ کے ناموں کے ساتھ جس میں چارلیز تھیرن کا نام بلاک لیٹرز میں لکھا ہوا تھا ۔وہ باپ کو تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔ سالار کو اندازہ ہوگیا تھا۔
”Thank you for the recommendation” سالار نے زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ اُس کے ٹیکسٹ کا جواب دیا۔ اُ س کی بات کا جواب نہ دینا اس سے زیادہ بہتر تھا۔
”I am seriously thinking of getting married ” اگلا جملہ بے سر و پیر کے تھا۔ سالار سکندر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔ وہ ورلڈ اکنامک فورم کا ینگ سٹار سپیکر تھا جو اپنی تقریر سے ایک رات پہلے باپ سے رات کے اس وقت اس طرح کی بے تکی باتیں کررہا تھا۔
”What an idea! Tread it on TAI” اُس نے اُسے جوابی ٹیکسٹ کیا اور پھر گڈنائٹ کا میسج… کھٹاک سے ایک smiley اُس کی سکرین پر اُبھری تھی… دانت نکالتے ہوئے۔
”I am serious ” سالار فون رکھ دینا چاہتا تھا ، لیکن پھر رُک گیا۔
“Options چاہیے یا approval ؟” اُس نے اس بار بے حد سنجیدگی سے اُسے ٹیکسٹ کیا۔
”Suggestions” جواب اُسی تیز رفتاری سے آیا۔
”TVبند کر کے سوجاؤ۔” اُس نے جواباً اُسے ٹیکسٹ کیا۔
”بابا میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ رئیسہ اور عنایہ کی شادی کئے بغیر میرا شادی کرنا مناسب نہیں خاص طور پر جب جبریل کی شادی کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔” وہ اُس کے اس جملے پر اب بالآخر کھٹکا تھا… اُس کی باتیں اتنی بے سروپا نہیں تھیں جتنا وہ اُنہیں سمجھ رہا تھا۔ رات کے اس پہر وہ فلم سے اپنی شادی اور اپنی شادی سے عنایہ اور رئیسہ کی شادی کا ذکر لے کر بیٹھا تھا تو کوئی مسئلہ تھا… اور مسئلہ کہاں تھا، یہ سالار کو ڈھونڈنا تھا۔
”تو؟” اُس نے اگلے ٹیکسٹ میں جیسے کچھ اور اُگلوانے کے لئے دانہ ڈالا، جواب خاصی دیر بعد آیا… یعنی وہ اب سوچ سوچ کر ٹیکسٹ کررہا تھا۔ وہ دونوں باپ بیٹا جیسے شطرنج کی ایک بساط بچھا کر بیٹھ گئے تھے۔
”تو بس پھر ہمیں عنایہ اور رئیسہ کے حوالے سے کچھ سوچنا چاہیے۔” جواب سوچ سمجھ کر آیا تھا، لیکن مبہم تھا۔
”رئیسہ کے بارے میں یا عنایہ کے بارے میں؟” سالار نے بڑے کُھلے الفاظ میں اُس سے پوچھا۔ حمین کو شاید باپ کے اس بے دھڑک سوال کی توقع نہیں تھی، وہ امامہ نہیں تھی جس کو وہ گھما پھرا لیتا تھا، وہ سالار سکندر تھا جو اُسی کی طرح لمحوں میں بات کی جڑ تک پہنچ جاتا تھا۔
”رئیسہ کے بارے میں۔” بالآخر اُسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنا پڑا، سالار کے لئے جواب غیر متوقع نہیں تھا۔ لیکن حیران وہ اُس کی ٹائمنگ پر ہوا تھا۔
”تم خود رئیسہ کے لئے بات کررہے ہو یا رئیسہ نے تمہیں بات کرنے کے لئے کہا ہے؟” سالار کا اگلا ٹیکسٹ پہلے سے بھی direct تھا۔ حمین کا جواب اور بھی دیر سے آیا ”میں خود کررہا ہوں۔” سالار کو اُس کے جواب پر یقین نہیں آیا۔
”رئیسہ کہیں انوالوڈ ہے؟” اُس نے اگلا ٹیکسٹ کیا… جواب ایک بار پھر دیر سے آیا اور یک دم سالار کو احساس ہوا کہ یہ ٹیکسٹنگ دو لوگوں کے درمیان نہیں ہورہی تھی…تین لوگوں کے درمیان ہورہی تھی… وہ… حمین اور رئیسہ…
وہ تاخیر جو حمین کی طرف سے جواب آنے پر ہورہی تھی، وہ اس لئے ہورہی تھی کیوں کہ وہ سالار کے ساتھ ہونے والے سوال جواب رئیسہ کو بھی بھیج رہا تھا اور پھر اُس کی طرف سے آنے والے جوابات اُسے فارورڈ کررہا تھا۔ وہ اُن دونوں کی بچپن کی عادت تھی، ایک دوسرے کے لئے spokesperson کا رول ادا کرنا… اور زیادہ تر یہ رول رئیسہ ہی اُس کے لئے کیا کرتی تھی۔
”کوئی اُسے پسند کرتا ہے۔” جواب دیر سے آیا تھا لیکن اُس کے direct سوال کے بدلہ میں بے حد ڈپلومیٹک انداز میں دیا گیا تھا اور یہ حمین کا انداز نہیں تھا۔یہ رئیسہ کا انداز تھا۔
”کون پسند کرتا ہے…؟ ہشام؟” سالار نے جواباً بے حد اطمینان سے ٹیکسٹ کیا۔اُسے یقین تھا اُس کے جوابیہ سوال نے دونوں بہن بھائی کے پیر تلے سے کچھ لمحوں کے لئے زمین نکالی ہوگی۔اُن کو یہ اندازہ نہیںہوسکتا تھا کہ سالار اتنا ”باخبر” ہوسکتا تھا۔
حسبِ توقع ایک لمبے وقفے کے بعد ایک پورے منہ کھولے ہنستی ہوئی smiley آئی تھی۔
”Good Shot” یہ حمین کا جواب تھا۔
”رئیسہ سے کہو آرام سے سوجائے…ہشام کے بارے میں آمنے سامنے بیٹھ کر بات ہوگی… میں اس وقت آرام کرنا چاہتا ہوں اور تم دونوں اب مجھے مزید کوئی ٹیکسٹ نہیں کروگے۔” سالار نے ایک voice message حمین کو بھیجتے ہوئے فون رکھ دیا۔ وہ جانتا تھا اس کے بعد وہ واقعی بھوتوں کی طرح غائب ہوجائیں گے…خاص طور پر رئیسہ۔
*****
جبریل نیند میں فون کی آواز پر ہڑبڑا کر اُٹھا تھا۔ اُسے پہلا خیال ہاسپٹل کا آیا تھا لیکن اُس کے پاس آنے والی وہ کال ہاسپٹل سے نہیں آئی تھی اُس پر نسا کا نام چمک رہا تھا۔ وہ غیر متوقع تھا۔ ایک ہفتے پہلے اسفند کی تدفین کے دوران اُس کی ملاقات نسا سے ایک لمبے عرصے کے بعد ہوئی تھی اور اُس کے بعد اس طرح رات کے اس وقت آنے والی کال…
کال ریسیو کرتے ہوئے دوسری طرف سے اُس نے جبریل سے معذرت کی تھی کہ وہ رات کے اس وقت اُسے ڈسٹرب کررہی تھی اور پھر بے حد اضطراب کے عالم میں اُس نے جبریل سے کہا تھا۔
”تم عائشہ کے لئے کچھ کرسکتے ہو؟” جبریل کچھ حیران ہوا ”عائشہ کے لئے کیا؟”
”وہ پولیس کسٹڈی میں ہے”
”What?” وہ ہکا بکا رہ گیا ”کیوں؟”
”قتل کے کیس میں” وہ دوسری طرف سے کہہ رہی تھی۔ جبریل شاکڈ رہ گیا۔ ”کس کا قتل؟” وہ اب رونے لگی تھی۔
”اسفند کا” جبریل کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔
*****
وہ یخنی میں ڈوبے ہوئے روٹی کے ٹکڑے چمچے کے ساتھ اپنے باپ کو کھلا رہا تھا، اُس کا باپ لقمے کو چبانے اور نگلنے میں تقریباً دو منٹ لے رہا تھا۔ وہ ہر بار صرف اتنی ہی یخنی پیالے میں ڈالتا جس میں ایک ٹکڑا ڈوب جاتا پھر چمچہ سے اس ٹکڑے کو باپ کے منہ میں ڈالنے کے بعد وہ بے حد تحمل سے پیالے میں نیا ٹکڑاڈالتا جو گرم یخنی میںپھولنے لگتا تھا۔ وہ ایک ہی وقت میں یخنی اس پیالے میں ڈالتا تو یخنی اب تک ٹھنڈی ہوچکی ہوتی۔ یخنی کا ایک پیالہ پینے میں اس کا باپ تقریباً ایک گھنٹہ لگاتا تھا۔ ٹھنڈی یخنی میں ڈوبے ہوئے روٹی کے ٹکڑے بھی وہ اسی رغبت سے کھاتا جیسے وہ ان گرم لقموں کو کھارہا تھا۔ سکندر عثمان کے ذائقے کی حس آہستہ آہستہ ختم ہورہی تھی ، گرم اور ٹھنڈی خوراک میں تخصیص کرنا وہ کب کا چھوڑ چکے تھے۔ صرف اُن کی دیکھ بھال کرنے والے فیملی کے افراد تھے جو اس تخصیص کو اُن کے لئے اب بھی برقرار رکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ اب بھی خوراک کو اُن کے لئے ممکنہ حد تک ذائقہ دار بناکر دے رہے تھے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس ذائقے سے لطف اندوز ہوسکتے تھے نہ اس ذائقے کو یاد رکھ سکتے تھے۔ باپ کو کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ سالار اور امامہ نے بھی وہیں بیٹھے بیٹھے کھانا کھایا تھا۔ وہ جب بھی یہاں آتھا تھا، تینوں وقت کا کھانا باپ کے کمرے میں اُسے کھانا کھلاتے ہوئے یہی کھاتا تھا اور اس کی عدم موجودگی میں یہ کام امامہ اور بچے کرتے تھے۔ ان کے گھر کا ڈرائنگ روم ایک عرصہ سے نہ ہونے کے برابر استعمال ہورہا تھا۔ اس کے ماں باپ کا بیڈروم اس کی فیملی کے افراد کی بہت ساری سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہ اُس شخص کو تنہائی سے بچانے کی ایک کوشش تھی جو کئی سالوں سے اس کمرے میں بستر تک محدود تھا اور الزائمر کی آخری سٹیج میں داخل ہوچکا تھا۔
ٹرالی میں پڑا نیپکن اُٹھا کر اُس نے سکندر عثمان کے ہونٹوں کے کونے سے نکلنے والی یخنی کے وہ قطرے صاف کیے جو چند لمحے پہلے نمودار ہوئے تھے۔ انہوں نے خالی آنکھوں سے اُسے دیکھا جن سے وہ اُسے ہمیشہ دیکھتے تھے۔ وہ اُنہیں کھانا کھلاتے ہوئے جواب کی توقع کے بغیر اُن سے بات کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اس کے باپ کی خاموشی کے وقفے اب گھنٹوں پر مشتمل ہونے لگے تھے۔ گھنٹوں کے بعد کوئی لفظ یا جملہ اُن کے منہ سے نکلتا تھا جس کا تعلق اُن کی زندگی کے کسی سال کی کسی یاد سے ہوتا تھا اور وہ سب اس جملے کو سال کے ساتھ جوڑنے کی کوشش میں لگ جاتے تھے۔
سکندر عثمان کھانا کھاتے ہوئے ہمیشہ یک ٹک اُسے دیکھتے تھے۔ اب بھی دیکھ رہے تھے۔ سالار جانتا تھا اُس کا باپ جیسے ایک اجنبی کا چہرہ پہچاننے کی کوشش کررہا تھا۔ ان کو کھانا کھلانے کی کوئی احتیاط، کوئی محبت، کوئی لگن اُن کی یادداشت پر کہیں محفوظ نہیں ہورہی تھی۔وہ ایک اجنبی کے ہاتھ سے کھانا کھارہے تھے اور اُن کے ختم ہوتے ہوئے دماغی خلیے اُس اجنبی کے چہرے کو کوئی نام دینے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
سالار جانتا تھا اس کے باپ کو اُس کے ہاتھ سے کھایا ہوا وہ دوپہر کا کھانا بھی یاد نہیں ہوگا ۔ وہ جتنی بار اُس کے کمرے میں آتا ہوگا، وہ اپنے باپ کے لئے ایک نیا شخص ، ایک نیا چہرہ ہوگا اور صرف وہی نہیں، اُس کی فیملی کے باقی سب افراد بھی۔ سکندر عثمان شاید حیران ہوتے ہوں گے کہ اُن کے کمرے میں بار بار نئے لوگ کیوں آتے تھے…وہ اپنے گھر میں ”اجنبیوں” کے ساتھ رہ رہے تھے۔
اُس نے یخنی کا آخری چمچ اپنے باپ کے منہ میں ڈالا۔ پھر پیالہ ٹرالی میں رکھ دیا۔ اب وہ اپنے باپ کو چمچ کے ساتھ پانی پلا رہا تھا۔ اُس کا باپ لمبا گھونٹ نہیں لے سکتا تھا۔
امامہ کچھ دیر پہلے کمرے سے اُٹھ کر گئی تھی۔اُس کا سامان پہلے ہی ایئر پورٹ جاچکا تھا۔ اب باہر ایک گاڑی اُس کے انتظار میں کھڑی تھی جو اسے تھوڑی دیر میں ایئرپورٹ لے جاتی۔اس کا سٹاف بے صبری سے اس کمرے سے اُس کی برآمدگی کا منتظر تھا۔
سالار نے گلاس واپس رکھتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ کر اپنے باپ کی گردن کے گرد پھیلا ہوا نیپکن ہٹایا۔ پھر کچھ دیر تک سکندر عثمان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے وہ بیٹھا رہا۔آہستہ آہستہ اس نے انہیں اپنی روانگی کا بتایا تھا اور اُس تشکر و احسان مندی کا بھی جو وہ اپنے باپ کے لئے ہمیشہ محسوس کرتا تھا خاص طور پر آج… سکند ر عثمان خالی نظروں سے اُسے دیکھ اور سُن رہے تھے۔ وہ جانتا تھا وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پارہے تھے۔ لیکن یہ ایک رسم تھی جو وہ ہمیشہ ادا کرتا تھا۔ اُس نے اپنی بات ختم کرنے کے بعد باپ کے ہاتھ چومے پھر اُنہیں لٹا کر کمبل اوڑھا دیا، اور کچھ دیر بے مقصد بیڈ کے پاس کھڑا اُنہیں دیکھتا رہا تھا۔ اُس کے بعد پتہ نہیں کب وہ اپنے باپ کے پاس آنے کے قابل ہوتا۔ سالار یہ نہیں جانتا تھا وہ آخری کھانا تھا جو اُس نے اپنے باپ کے ساتھ کھایا تھا۔
تاش کا ترپ کا پتّہ پھینکا جانے والا تھا اور ”مہلت” ختم ہونے والی تھی
قسط نمبر42
لاک اپ میں بیٹھے اُس رات عائشہ عابدین نے اپنی زندگی کوrecap کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اُس کی زندگی میں اتنا بہت کچھ ہوچکا تھا کہ وہ اس کوشش میں بھی ناکام ہورہی تھی، یوں جیسے وہ 28 سال کی زندگی نہیں تھی آٹھ سو سال کی زندگی تھی… کوئی بھی واقعہ اُس ترتیب سے یاد نہیں آرہا تھا جس ترتیب سے وہ اُس کی زندگی میں ہوا تھا اور وہ یاد کرنا چاہتی تھی۔
لاک اپ کے بستر پر چت لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے اُس نے یہ سوچنے کی کوشش کی تھی کہ اُس کی زندگی کا سب سے بدترین واقعہ کیا تھا… سب سے تکلیف دہ تجربہ اور دور… باپ کے بغیر زندگی گزارنا؟
احسن سعد سے شادی؟
اُس کے ساتھ اُس کے گھر میں گزارا ہوا وقت؟
ایک معذور بیٹے کی پیدائش؟
احسن سعدسے طلاق؟
اسفند کی موت؟
یا پھر اپنے ہی بیٹے کے قتل کے الزام میں دن دہاڑے ہاسپٹل سے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونا…؟
اور ان سارے واقعات کے بیچوں بیچ کئی اور ایسے تکلیف دہ واقعات جو اُس کے ذہن کی دیوار پر اپنی جھلک دکھاتے ہوئے جیسے اُس فہرست میں شامل ہونے کے لئے بے قرار تھے…
وہ طے نہیں کرسکی… ہر تجربہ، ہر حادثہ، اپنی جگہ تکلیف دہ تھا… اپنی طرح سے ہولناک… وہ اُن کے بارے میں سوچتے ہوئے جیسے زندگی کے وہ دن جینے لگی تھی اور اگلے واقعہ کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہوئے اُسے یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا تھا کہ پچھلا واقعہ زیادہ تکلیف دہ تھا یا پھر جو اُسے اب یاد آرہا تھا۔
کبھی کبھار عائشہ عابدین کو لگتا تھا وہ ڈھیٹ تھی… تکلیف اور ذلّت سہہ سہہ کر وہ اب شرمندہ ہونا اور درد سے متاثر ہونا چھوڑ چکی تھی… زندگی میں وہ اتنی ذلّت اور تکلیف سہہ چکی تھی کہ شرم اور شرمندگی کے لفظ جیسے اُس کی زندگی سے خارج ہوگئے تھے… وہ اتنی ڈھیٹ ہوچکی تھی کہ مرنا بھی بھول گئی تھی… اُسے کسی تکلیف سے کچھ نہیں ہوتا تھا… دل تھا تو وہ اتنے ٹکڑے ہوچکا تھا کہ اب اور ٹوٹنا اُس کے بس میں نہیں رہا تھا۔ ذہن تھا تو اُس پر جالے ہی جالے تھے… عزتِ نفس، ذلّت، عزّت جیسے لفظوں کو چھپا دینے والے جالے… یہ سوچنا اُس نے کب کا چھوڑدیا تھا کہ یہ سب اُس کے ساتھ ہی کیوں ہوتا تھا، اُس نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا… اس سوال کا جواب ویسے بھی اُسے احسن سعد نے رٹوا دیا تھا۔
”لکھو اس کاغذ پر کہ تم گناہ گار ہو… اللہ سے معافی مانگو… پھر مجھ سے معافی مانگو… پھر میرے گھر والوں سے معافی مانگو… بے حیا عورت…”پتہ نہیں یہ آواز اُس کے کانوں میں گونجنا بند کیوں نہیں ہوتی تھی… دن میں… رات میں… سینکڑوں بار ان جملوں کی بازگشت اُسے اُس کے اس سوال کا جواب دیتی رہتی تھی کہ یہ سب اُس کے ساتھ ہی کیوں ہوتا تھا۔
وہ ایک گناہ گار عورت تھی… یہ جملہ اُس نے اتنی بار اپنے ہاتھ سے کاغذ پر لکھ کر احسن سعد کو دیا تھا کہ اب اُسے یقین ہوگیا تھا کہ وہ جملہ حقیقت تھا… اُس کا گناہ کیا تھا، صرف یہ اُسے یاد نہیں آتاتھا… مگر اُسے پھر بھی یقین تھا کہ جو بھی گناہ اُس نے کبھی زندگی میں کیا ہوگا… بہت بڑا ہی کیا ہوگا… اتنا بڑاکہ اللہ تعالیٰ اُسے یوں بار بار ”سزا” دے رہا تھا… سزا کا لفظ بھی اُس نے احسن سعد اور اُس کے گھر میں ہی سُنا اور سیکھا تھا… جہاں گناہ اور سزا کے لفظ کسی ورد کی طرح دہرائے جاتے تھے… ورنہ عائشہ عابدین نے تو احسن سعد کی زندگی میں شامل ہونے سے پہلے اللہ کو خود پر صرف ”مہربان” دیکھا تھا۔
”بے حیا عورت…” وہ گالی اُس کے لئے تھی۔ عائشہ عابدین کو گالی سُن کر بھی یہ یقین نہیں آیا تھا… زندگی میں پہلی بار ایک گالی اپنے لئے سُن کر وہ گنگ رہ گئی تھی… کسی مجسمے کی طرح… کھڑی کی کھڑی… یوں جیسے اُس نے کوئی سانپ یا اژدہا دیکھ لیا تھا… وہ ناز و نعم میں پلی تھی… گالی تو ایک طرف، اُس نے کبھی اپنے نانا نانی یا ماں سے اپنے لئے کوئی سخت لفظ بھی نہیں سُنا تھا… ایسا لفظ جس میں عائشہ کے لئے توہین یا تضحیک ہوتی اور اب اُس نے اپنے شوہر سے اپنے لئے جو لفظ سُنا تھا اُس میں تو الزام اور تہمت تھی… وہ ”بے حیا” تھی… عائشہ عابدین نے اپنے آپ کو بہلایا تھا، سو تاویلیں دے کر کہ یہ گالی اُس کے لئے کیسے ہوسکتی تھی… یا شاید اُس نے غلط سُنا تھا… یا پھر اُن الفاظ کا مطلب وہ نہیں تھا جو وہ سمجھ رہی تھی… وہ اُس کیفیت پر ایک کتاب لکھ سکتی تھی ۔ ان توجیہات، اُن وضاحتوں پر جو پہلے گالی سُننے کے بعد اگلے کئی دن عائشہ عابدین نے اپنے آپ کو دیں تھیں… اپنی عزّتِ نفس کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے… Antibiotics کے ایک کورس کی طرح… لیکن یہ سب صرف پہلی گالی کی دفعہ ہوا تھا، پھر آہستہ آہستہ عائشہ عابدین نے ساری توجیہات اور وضاحتوں کو دفن کردیا تھا… وہ اب گالیاں کھاتی تھی اور بے حد خاموشی سے کھاتی تھی، اور بہت بڑی بڑی… اور اُسے یقین تھا کہ وہ یہ گالیاں deserve کرتی تھی کیونکہ احسن سعد اُسے یہ کہتا تھا… پھر وہ مارا کھانا بھی اسی سہولت سے سیکھ گئی تھی… اپنی عزّتِ نفس کو ایک اور سلیپنگ ڈوز دیتے ہوئے… پانچ افراد کا وہ گھرانہ اُسے یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ اُس کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا تھا، وہ اُسے deserve کررہی تھی ۔
وہ مومنین کے ایک ایسے گروہ میں پھنس گئی تھی جو زبان کے پتھروں سے اُسے بھی مومن بنانا چاہتے تھے کیونکہ وہ ” گناہ گار ” تھی۔
احسن سعد اُس کی زندگی میں کیسے آیا تھا اور کیوں آگیا تھا… ایک وقت تھا اُسے لگتا تھا وہ اُس کی خوش قسمتی بن کر اُس کی زندگی میں آیا تھا اور پھر ایک وہ وقت تھا جب اُسے وہ ایک ڈراؤنا خواب لگنے لگا تھا، جس کے ختم ہونے کا انتظار وہ شدّ و مد سے کرتی تھی… اور اب اسے لگتا تھا وہ وہ عذاب تھا جو اللہ تعالیٰ نے اُسے اُس کے کردہ، ناکردہ گناہوں پر اس دنیا میں ہی دے دیا تھا۔
وہ ہاؤس جاب کررہی تھی جب احسن سعد کا پروپوزل اُس کے لئے آیا تھا۔ عائشہ کے لئے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ اُس کے لئے درجنوں پروپوزلزپہلے بھی آچکے تھے اور اس کے نانا نانی کے ہاتھوں رد بھی ہوچکے تھے۔ اُس کا خیال تھا کہ یہ پروپوزل بھی کسی غور کے بغیر رد کردیا جائے گا کیونکہ اُس کے نانا نانی اُس کی تعلیم مکمل ہوئے بغیر اُسے کسی قسم کے رشتے میں باندھنے پر تیار نہیں تھے۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہوا تھا… احسن سعد کے والدین کی میٹھی زبان عائشہ عابدین کی فیملی پر اثر کرگئی تھی، اور اس پر بھی۔
”ہمیں صرف ایک نیک اور اچھی بچی چاہیے اپنے بیٹے کے لئے… باقی سب کچھ ہے ہماری پاس، کسی چیز کی کمی نہیں ہے… اور آپ کی بیٹی کی اتنی تعریفیں سنی ہیں ہم لوگوں نے کہ بس ہم آپ کے ہاںجھولی پھیلا کر آئے بغیر نہیں رہ سکے” احسن کے باپ نے اُس کے نانا سے کہا تھا۔ عائشہ عابدین جو جب پتہ چلا تھا کہ اُس کی ایک نند اُس کے ساتھ میڈیکل کالج میں ہی پڑھتی تھی… اُن دونوں کا آپس میں بہت رسمی سا تعارف تھا… مگر اُسے حیرت ہوئی تھی کہ اُس رسمی تعارف پر بھی اُس کی اتنی تعریفیں وہ لڑکی اپنی فیملی میں کرسکتی تھی جو کالج میں بالکل خاموش اور لئے دیے رہتی تھی… عائشہ عابدین کے لئے کسی کی زبان سے اپنی تعریفیں سُننا کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی، وہ کالج کے سب سے نمایاں سٹوڈنٹس میں سے ایک تھی، اور وہ ہر طرح سے نمایاں تھی، academic قابلیت میں، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اور پھر اپنی personality کی وجہ سے بھی… وہ اپنے batch کی نہ صرف حسین بلکہ بے حد سٹائلش لڑکیوں میں گردانی جاتی تھی … بے حد practicing مسلمان ہوتے ہوئے بھی اور مکمل طور پر حجاب اوڑھے ہوئے بھی… حجاب عائشہ عابدین پر سجتا تھا… یہ اُس کے charisma کو بڑھانے کی چیز تھی اور یہ رائے اُس کے بارے میں لڑکے اور لڑکیوں کی متفقہ رائے تھی… اور اب اُس لڑکی کے لئے احسن سعد کا پروپوزل آیا تھا، جس کی فیملی کو اُس کے نانا نانی نے پہلی ملاقات میں ہی Ok کردیا تھا۔ پتہ نہیں کون ”سادہ” تھا… اُس کے نانا نانی جنہیں احسن کے ماں باپ بہت شریف اور سادہ لگے تھے یا پھر وہ خود کہ انہوں نے اُس خاندان کے بارے میں لمبی چوڑی تحقیق صرف اس لئے نہیں کروائی کیونکہ انہوں نے احسن سعد کے ماں باپ کی دینداری کا پاس کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے شادی سے پہلے احسن سعد اور عائشہ کی ایک ملاقات کروانا ضروری سمجھاتھا… احسن سعد اُس وقت امریکہ میں ریذیڈنسی کررہا تھا اور چھٹیوں میں پاکستان آیا ہوا تھا۔
احسن سعد سے پہلی ملاقات میں عائشہ کو ایک لمبے عرصہ کے بعد جبریل یاد آیا تھا… اُسے وہ جبریل کی طرح کیوں لگا تھا، عائشہ کو اس سوال کا جواب کبھی نہیں ملا۔ وہ شکل و صورت میں صرف مناسب تھا، تعلیمی قابلیت میں بے حد اچھا… اور بات چیت میں بے حد محتاط… اُس کا پسندیدہ موضوع صرف ایک تھا مذہب، جس پر وہ گھنٹوں بات کرسکتا تھا اور اُس کے اور عائشہ عابدین کے درمیان connecting factor یہی تھا… پہلی ہی ملاقات میں وہ دونوں مذہب کی بات کرنے لگے تھے اور عائشہ عابدین اُس کے awe میں آئی تھی۔ وہ حافظِ قرآن تھا اور وہ اُسے بتارہا تھا کہ اُس کی زندگی میں کبھی کسی لڑکی کے ساتھ دوستی نہیں رہی، وہ عام لڑکوں کی طرح کسی اُلٹی سیدھی حرکتوں میں نہیں پڑا… وہ مذہب کے بارے میں جامع معلومات رکھتا تھا… اور وہ معلومات عائشہ سے بے حد زیادہ تھیں لیکن وہ ایک سادہ زندگی گزارنا چاہتا تھا اور عائشہ بھی یہی چاہتی تھی… ایک عملی مسلمان گھرانے کے خواب دیکھتے ہوئے… وہ احسن سعد سے متاثر ہوئی تھی اور اُس کا خیا ل تھا وہ اپنی عمر کے دوسرے لڑکوں سے بے حد mature اور مختلف تھا… وہ اگر کبھی شادی کرنے کا سوچتی تھی تو ایسے ہی آدمی سے شادی کرنے کا سوچتی تھی… احسن سعد پہلی ملاقات میں اُسے متاثر کرنے میں کامیاب رہا…اُس کی فیملی اُس کے گھر والوں سے پہلے ہی متاثر تھی… یہ صرف نورین الہیٰ تھی جس نے احسن کی فیملی پر کچھ اعتراضات کئے تھے۔ اُسے وہ بے حد ”کٹّر” لگے تھے اور اُس کی اس رائے کو اُس کے اپنے ماں باپ نے یہ کہتے ہوئے رد کردیا تھا کہ وہ خود ضرورت سے زیادہ لبرل تھی اس لئے وہ اُنہیں اس نظر سے دیکھ رہی تھی۔ نورین شاید کچھ اور بحث و مباحثہ کرتی اگر اُسے یہ نہ محسوس ہوجاتا کہ عائشہ عابدین بھی وہی چاہتی تھی جو اُس کے ماں باپ چاہتے تھے۔ نورین الہیٰ نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے تمام خدشات کو یہ کہہ کر سُلا دیا تھا کہ عائشہ کو احسن کے والدین کے پاس نہیں رہنا تھا… امریکہ احسن کے ساتھ رہنا تھا اور امریکہ کا ماحول بڑے بڑوں کو moderate کردیتا تھا۔
شادی بہت جلدی ہوئی تھی اور بے حد سادگی سے… یہ احسن سعد کے والدین کا مطالبہ تھا اور عائشہ اور اُس کے نانا نانی اُس پر بے حد خوش تھے… عائشہ ایسی ہی شادی چاہتی تھی اور یہ اُسے اپنی خوش قسمتی لگی تھی کہ اُسے ایسی سوچ رکھنے والا سسرال مل گیا تھا۔ احسن سعد کی فیملی کی طرف سے جہیز کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہیں آیا تھا بلکہ انہوں نے سختی سے عائشہ کے نانا نانی کو اُن روایتی تکلفات سے منع کیا تھا۔ مگر یہ عائشہ کی فیملی کے لئے اس لئے ممکن نہیں تھا کیونکہ عائشہ کے لئے اُس کے نانا نانی بہت کچھ خریدتے رہتے تھے اور جس کلاس سے وہ تعلق رکھتی تھی ، وہاں جہیز سے زیادہ مالیت کے تحائف دلہن کے خاندان کی طرف سے موصول ہوجاتے تھے اور عائشہ کی شادی کی تقریب میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ بہت سادگی سے کی جانے والی تقریب بھی شہر کے ایک بہترین ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی، احسن سعد اور اُس کے خاندان کو عائشہ اور اُس کی فیملی کی طرف سے دیے جانے والے تحائف کی مالیت بے شک لاکھوں میں تھی مگر اس کے برعکس شادی پر دیے جانے والے عائشہ کے ملبوسات اور زیورات احسن سعد کے خاندانی رکھ رکھاؤ اور مالی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتے تھے… وہ صرف مناسب تھے… عائشہ کی فیملی کا دل برا ہوا تھا لیکن عائشہ نے اُنہیں سمجھایا تھا اُس کا خیال تھا، وہ ”سادگی” سے شادی کرنا چاہتے تھے اور اگر انہوں نے زیورات اور شادی کے ملبوسات پر بھی بہت زیادہ پیسہ خرچ نہیں کیا تو بھی یہ ناخوش ہونے والی بات نہیں تھی، کم از کم اُس کا دل صرف ان چھوٹی موٹی باتوں کی وجہ سے کھٹّا نہیں ہوا تھا۔
اُس کا دل شادی کی رات اُس وقت بھی کھٹّا نہیں ہوا تھا، جب کمرے میں آنے کے بعد اُس کے قریب بیٹھ کر پہلا جملہ احسن سعد نے اپنی نئی نویلی دلہن اور اُس کے حسن پر نہیں کہا تھا بلکہ اُس کی ماں کے حوالے سے کہا تھا۔
” تمہاری ماں کو شرم نہیں آتی… اس عمر میں فاحشاؤں کی طرح sleeveless لباس پہن کر مردوں کے ساتھ ٹھٹھے لگاتی پھررہی ہے… اور اُسی طرح تمہاری بہنیں اور تمہارے خاندان کی ساری عورتیں پتہ نہیں آج کیا پہن کر شادی میں شرکت کرنے پہنچی ہوئی تھیں۔” عائشہ کا اندر کا سانس اندر اور باہر کا باہر رہ گیا تھا، جو اُس نے اپنے کانوں سے سُنا تھا، اُسے اُس پر یقین نہیں آیا تھا ، احسن کا یہ لب ولہجہ اتنا نیا اور اجنبی تھا کہ اُسے یقین آ بھی نہیں سکتا تھا، اُن کے درمیان نسبت طے ہونے کے بعد وقتاً فوقتاً بات چیت ہوتی رہی تھی اور وہ ہمیشہ بڑے خوشگوار انداز اور دھیمے لب و لہجہ میں بڑی شائستگی اور تمیز کے ساتھ بات کرتا تھا، اتنا اکھڑ لہجہ اُس نے پہلی بار سُنا تھا اور جو لفظ وہ اُس کی ماں اور خاندان کی عورتوں کے لئے استعمال کررہا تھا، وہ عائشہ عابدین کے لئے ناقابلِ یقین تھے۔
”تمہاری ماں کو کیا آخرت کا خوف نہیں ہے؟ مسلمان گھرانے کی عورت ایسی ہوتی ہے…؟ اور پھر بیوہ ہے وہ۔” عائشہ آنکھیں پھاڑے اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی، وہ اُسے یہ سب کیوں سُنا رہا تھا…؟ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ ایک دن کی دلہن تھی اور یہ وہ لفظ نہیں تھے جو وہ سننے کے لئے اپنی زندگی کے ایک اہم دن کے انتظار میں تھی۔ وہ آدھا گھنٹہ ایسی عورتوں کے بارے میں لعنت ملامت کرتا رہا تھا اور اُسے یہ بھی بتاتا رہا تھا کہ اُس کی فیملی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اُس کی ماں اور بہنیں اتنی آزاد خیال تھیں اور امریکہ میں اُن کا یہ لائف سٹائل تھا… انہوں نے تو اُس کے نانا نانی اور خود اُسے دیکھ کر یہ رشتہ طے کیا تھا۔ وہ احسن سعد سے یہ کہنے کی جرات نہیں کرسکی کہ وہ اس رشتہ کے طے ہونے پہلے امریکہ میں دو تین بار اُس کی ماں اور بہنوں سے مل چکا تھا… اور نسبت طے ہوتے ہوئے بھی اُس کی فیملی اُس کی ماں اور بہنوں سے مل چکی تھی… وہ آزاد خیال تھے تو یہ اُن سے چھپا ہوا نہیں تھا جس کا انکشاف اُس رات ہونے پر وہ یوں صدمہ زدہ ہوگئے تھے۔ احسن سعد کے پا س مذہب کی ایسی تلوار تھی جس کے سامنے عائشہ عابدین بولنے کی ہمت نہیں کرسکتی تھی۔ اُس نے دل ہی دل میں یہ مان لیا تھا کہ غلطی اُس کی ماں اور بہنوں ہی کی تھی… وہ اسلامی لحاظ سے مناسب لباس میں نہیں تھیں اور احسن اور اُس کی فیملی اگر خفا تھی تو شاید یہ جائز ہی تھا۔
اُس رات احسن سعد نے اس ابتدائیے کے بعد ایک لمبی تقریر میں اُسے بیوی اور ایک عورت کی حیثیت سے اُس کا درجہ اور مقام سنا اور سمجھا دیا تھا… جو سیکنڈری تھا… وہ سر ہلاتی رہی تھی… وہ ساری آیات اور احادیث کے حوالے آج کی رات کے لئے ہی جیسے اکٹھا کرتا رہا تھا… وہ بے حد خاموشی سے سب کچھ سُنتی گئی تھی… وہ وقتی غصہ نہیں تھا، وہ ارادتاً تھا… وہ اُسے نفسیاتی طور پر ہلادینا چاہتا تھا اور وہ اُس میں کامیاب رہا تھا۔عائشہ جیسی پر اعتماد لڑکی کی شخصیت پر یہ پہلی ضرب تھی جو اُس نے لگائی تھی… اُس نے اُسے بتایا تھا کہ اُس گھر اور اُس کی زندگی میں وہ اُس کے ماں باپ اور بہنوں کے بعد آتی ہے… اور ہاں اس فہرست میں اُس نے اللہ کو بھی پہلے نمبر پر رکھا تھا… عائشہ عابدین کو اُس نے جیسے اُس دائرے سے باہر کھڑا کردیا تھا جس کے اندر اُس کی اپنی زندگی گھومتی تھی۔ 21 سال کی ایک نوعمر لڑکی جس طرح ہراساں ہوسکتی وہ ویسے ہی ہراساں اور حواس باختہ ہوئی تھی۔احسن سعد نے اُس سے کہا تھا اُس کے اور عائشہ کے درمیان جو بات چیت ہوگی عائشہ اُسے کسی سے share نہیں کرے گا… عائشہ نے اُس کی بھی حامی بھرلی تھی، اُس کا خیال تھا یہ ایک عام وعدہ تھا جو ہر مرد بیوی سے لیتا تھا… مگر وہ ایک عام وعدہ نہیں تھا، احسن سعد نے اُس کے بعد اُس سے قرآن پاک پر رازداری کا حلف لیا تھا یہ کہتے ہوئے کہ وہ اُس کی بیوی تھی اور شوہر کے طور پر وہ یہ استحقاق رکھتا تھا کہ وہ اُسے جو کہے وہ اُس کی اطاعت کرے… 21 سال کی عمر تک وہ عائشہ عابدین کی زندگی کی سب سے بُری رات تھی لیکن اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کے بعد بُری راتوں کی گنتی بھی بھولنے والی تھی۔
اُس رات احسن سعد کا غصّہ اور رویّہ صرف اُس کا غصّہ اور رویّہ نہیں تھا۔ اگلی صبح عائشہ عابدین کو اُس کی فیملی بھی اُسی اندازمیں ملی تھی… بے حد سرد مہری، بے حد اکھڑا ہوا لہجہ… اُس کا احساسِ جرم اور بڑھا تھا اور اُس نے دعا کی تھی کہ اُس رات ولیمہ کی تقریب میں اُس کی ماں اور بہنیں ایسے کوئی لباس نہ پہنیں جس پر اُسے ایک اور طوفان کا سامنا کرنا پڑے۔
لیکن شادی کے چند دنوں کے اندر اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اُس کی فیملی کی خفگی کی وجہ اُس کی اپنی فیملی کا آزاد خیال ہونا نہیں تھا… اُن کی خفگی کی وجہ اُن کی توقعات کا پورا نہ ہونا تھا جو وہ عائشہ کی فیملی سے لگائے بیٹھے تھے، شادی سادگی سے کرنے اور جہیز یا کچھ بھی نہ لانے کا مطلب ”کچھ بھی” نہ لانا نہیں تھا۔ اُن کو توقع تھی کہ اُن کے اکلوتے اور اتنے قابل بیٹے کو عائشہ کی فیملی کوئی بڑی گاڑی ضرور دیتی… عائشہ کے نام کوئی گھر، کوئی پلاٹ ، کوئی بینک بیلنس ضرور کیا جاتا… جیسے اُن کے خاندان کی دوسری بہوؤں کے نام ہوتا تھا… شادی سادگی سے ہونے کا مطلب اُن کے نزدیک صرف شادی کی تقریبات کا سادہ ہونا تھا۔ شادی کے تیسرے دن یہ گلے شکوے عائشہ سے کرلیے گئے تھے اور اس کوشش کے ساتھ کہ وہ انہیں اپنی فیملی تک پہنچائے جو عائشہ نے پہنچا دئیے تھے اب شاکڈ ہونے کی باری اس کی فیملی کی تھی۔ شادی کے تین دن بعد پہلی بار نورین الہیٰ نے اپنی بیٹی کو یہ آپشن دیا تھا کہ وہ ابھی اُس رشتہ کے بارے میں اچھی طرح سوچ لے… جو لوگ تیسرے دن ایسے مطالبے کرسکتے ہیں، وہ آگے چل کر اُسے اور بھی پریشان کرسکتے تھے، عائشہ ہمت نہیں کرسکی تھی… اپنی دوستوں اور کزنز کے ٹیکسٹ میسجز اور کالز اور چھیڑ چھاڑ کے دوران وہ یہ ہمّت نہیں کرسکی تھی کہ وہ ماں سے کہہ دیتی کہ اُسے طلاق چاہیے تھے۔ اُس نے وہی راستہ چُنا تھا جو اس معاشرے میں سب چنتے تھے… سمجھوتے کا اور اچھے وقت کے انتظار کا… اُس کا خیال تھا یہ سب کچھ وقتی تھا… یہ چند مطالبے پورے ہونے کے بعد سب کچھ بدل جانے والا تھا اور پھر ایک بار وہ احسن کے ساتھ امریکہ چلی جاتی تو وہ اور احسن اور طریقے سے زندگی گزارتے۔
احسن کی فیملی کی ساری شکایات ختم کردی گئی تھیں۔ اُسے شادی کے ایک ہفتہ کے بعد ایک بڑی گاڑی دی گئی تھی، عائشہ کے نام نورین نے اپنا ایک پلاٹ ٹرانسفر کردیا تھا اور عائشہ کے نانا نے اُس کو کچھ رقم تحفے میں دی تھی جو اُس نے احسن کے مطالبے پر اُس کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردی تھی۔ وہ اُس کے بعد دو ہفتوں کے لئے ہنی مون منانے بیرونِ ملک چلے گئے تھے۔
احسن سعد نے پہلی بار اُس پر ہاتھ بھی ہنی مون کے دوران کسی با ت پر برہم ہوکر اُٹھایا تھا۔ اُس سے پہلے اُس نے اُسے گالیاں دی تھیں… عائشہ عابدی سے بہت بڑی غلطی ہوگئی تھی اپنی زندگی کے بارے میں… عائشہ نے جان لیا تھا… اُس کا شوہر بہت اچھا مسلمان تھا لیکن اچھا انسان نہیں تھا اور عائشہ نے اُس کا انتخاب اُس کے اچھے مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا تھا، اس دھوکے میں جس میں وہ اُن بہت سارے اچھے مسلمانوں اور انسانوں کی وجہ سے آئی تھی جو منافق اور دو رُخے نہیں تھے۔
وہ ایک مہینہ کے بعد واپس امریکہ چلا گیا تھا لیکن ایک مہینہ میں عائشہ بدل گئی تھی۔ وہ ایک عجیب و غریب خاندان میں آگئی تھی۔ جو بظاہر تعلیم یافتہ اور روشن خیال تھا لیکن اندر سے بے حد گھٹن ذدہ تھا اور اس گھٹن اور منافقت کا منبع احسن سعد کا باپ تھا اس کا اندازہ اُسے بہت جلد ہوگیا تھا… احسن صرف اپنے باپ کی copy بن گیا تھا اور اُسے اپنی ماں کی copy بنانا چاہتا تھا جسے وہ ایک آئیڈیل مسلمان عورت سمجھتا تھا… وہ اور اُس کی بہنیں… وہ عائشہ عابدین کو اُن کے جیسا بنانا چاہتا تھا… اور عائشہ عابدین کو بہت جلد اندازہ ہوگیا تھا وہ ”آئیڈیل مسلم عورتیں” نفسیاتی مسائل کا شکار تھیں، اُس گھر کے ماحول اور سعد کے رویے اور مزاج کی وجہ سے… اُس کی نندوں کے لئے رشتوں کی تلاش جاری تھی، لیکن عائشہ کو یقین تھا جو معیار احسن اور سعد اُن دونوں کے لئے لے کر بیٹھے تھے ، ان کے لئے رشتوں کی تلاش اور بھی مشکل ہوجاتی تھی۔
عائشہ شادی کے دو مہینوں کے اندر اندر اُس ماحول سے وحشت ذدہ ہوگئی تھی۔ اور اس سے پہلے کہ وہ احسن سعد کا لیا ہوا حلف توڑ کر اپنے نانا نانی سے سب کچھ share کرتی اور انہیں کہتی کہ وہ اُسے اس جہنم سے نکال لیں… اُسے پتہ چلا تھا کہ وہ پریگننٹ تھی… وہ خبر جواُس وقت اُسے خوش قسمتی لگتی، اُسے اپنی بدقسمتی لگی تھی۔عائشہ عابدین ایک بار پھر سمجھوتہ کرنے پر تیار ہوگئی، ایک بار پھر اس اُمید کے ساتھ کہ بچہ اس گھر میں اُس کے سٹیٹس کو بدل دینے والا تھا اور کچھ نہیں تو کم از کم اُس کے اور احسن سعد کے تعلق کو تو… یہ بھی اُس کی خوش فہمی تھی، وہ پریگننسی اُس کے لئے ایک اور پھندہ ثابت ہوا تھا۔ احسن سعد اور اُس کی فیملی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ بچے کی پیدائش تک پاکستان میں ہی رہے گی۔ عائشہ نے نو مہینے جتنے صبر اور تحمل کے ساتھ گزارے تھے، صرف وہ ہی جانتی تھی۔ وہ ہاؤس جاب کے بعد جاب کرنا چاہتی تھی لیکن اُس کے سسرال والوں اور احسن کو یہ پسند نہیں تھا اس لئے عائشہ نے اُس پر اصرار نہیں کیا۔ اُس کے سسرال والوں کو عائشہ کا بار بار اپنے نانا نانی کے گھر جانا اور اُن کا اپنے گھر آنا بھی پسند نہیں تھا تو عائشہ نے یہ بات بھی بنا چوں چراں کے مان لی تھی۔ وہ اب کسی سوشل میڈیا فورم پر نہیں تھی کیوں کہ احسن کو خود ہر فورم پر ہونے کے باوجود یہ پسند نہیں تھا کہ وہ وہاں ہو اور اُس کے contacts میں کوئی مرد ہو، چاہے وہ اُس کا کوئی رشتہ دار یا کلاس فیلو ہی کیوں نہ ہو اور عائشہ نے اپنی بہنوں کے اعتراضات کے باوجود اپنی ID ختم کردی تھی، اُس کے پاس ویسے بھی کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کے اظہر کے لئے اُسے فیس بک کے کسی اکاؤنٹ کی ضرورت پڑتی۔
احسن سعد کی ماں کو یہ پسند نہیں تھا کہ وہ اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھے… صبح دیر تک سوتی رہے، عائشہ صبح سویرے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد ہر حالت میں لاؤنج میں آجاتی تھی۔ گھر میں ملازم تھے لیکن ساس سسر کی خدمات اُس کی ذمہ داری تھی اور اُسے اس پر بھی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ کھانا بنانے کی وہ ذمہ داری جو اس سے پہلے تین خواتین میں تقسیم تھی، اب عائشہ کی ذمہ داری تھی اور یہ بھی وہ چیز نہیں تھی جس سے اُسے تکلیف پہنچتی… وہ بہت تیز کام کرنے کی عادی تھی اور نانا نانی کے گھر میں بھی وہ بڑے شوق سے اُن کے لئے کبھی کبھار کھانا بنایا کرتی تھی… وہ ذمہ داریوں سے نہیں گھبراتی تھی، تذلیل سے گھبراتی تھی۔ اُس گھر کے افراد ستائش اور حوصلہ افزائی جیسے لفظوں سے نا آشنا تھے… وہ تنقید کرسکتے تھے، تعریف نہیں… یہ صرف عائشہ نہیں تھی جس کی خدمت گزاری کو وہ سراہنے سے قاصر تھے، وہاں کوئی بھی کسی کو سراہتا نہیں تھا۔
وہ اس گھر میں یہ سوال کرتی تو اپنے آپ کو ہی احمق لگتی کہ اُس نے کھانا کیسا بنایا تھا…شروع شروع میں بڑے شوق سے کیے جانے والے ان سوالات کا جواب اُسے بے حد تضحیک آمیز جملوں اور تمسخر سے ملا تھا، کبھی کبھار اُسے لگتا وہ بھی نفسیاتی ہونا شروع ہوگئی تھی۔
احسن سعد اُس کے لئے ایک ایسا ضابطہ طے کرگیا تھا، وہ غلطی کرے گی تو کاغذ پر لکھ کر اپنی غلطی کا اعتراف کرے گی… اللہ سے حکم عدولی کی معافی مانگے گی، پھر اُس شخص سے جس کی اُس نے نافرمانی کی ہو۔
ایک ہفتے میں کم از کم ایک بار عائشہ ایسا ایک معافی نامہ گھر کے کسی نہ کسی فرد کے نام لکھ رہی ہوتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ اُسے اندازہ ہوا، وہ معافی نامہ بھی سعد کی ایجاد تھی…احسن سعد اپنا سارا بچپن اپنی غلطیوں کے لئے اپنے باپ کو ایسے معافی نامے لک لکھ کر دیتا رہتا تھا اور اب اپنی بیوی کے گلے میں اُس نے وہی رسی ڈال دی تھی۔
عائشہ پہلے حجاب کرتی تھی، ا ب وہ نقاب اور دستانے پہننا بھی شروع ہوگئی تھی۔ اُس نے بال کٹوانا چھوڑدیا تھا، بھنوؤں کی تراش خراش، چہرے کے بالوں کی صفائی ، سب کچھ چھوڑ دیا تھا کیونکہ اُس گھر کی عورتیں ان میں سے کوئی کام نہیں کرتی تھیں… وہ آئیڈیل عورتیں تھیں اور عائشہ عابدین کو اپنے آپ کو اُن کے مطابق ڈھالنا تھا۔ اپنے باہر کو دوسروں کے بنائے ہوئے سانچوں میں ڈھالتے ڈھالتے عائشہ عابدین کے اندر کے سارے سانچے ٹوٹنا شروع ہوگئے تھے۔
اُس کے نانا نانی اور فیملی کو یہ پتہ تھا کہ اُس کے سسرال والے اچھے لوگ نہیں تھے ، لیکن عائشہ اُس گھر میں کیا برداشت کررہی تھی ، اُنہیں اس کا اندازہ نہیں تھا… وہ اُس حلف کو نبھار ہی تھی جو وہ شادی کی پہلی رات لے بیٹھی تھی، کوئی بھی اُس سے ملنے پر اُس سے فون پر بات کرنے پر اُسے کریدتا رہتا عائشہ کے پاس بتانے کو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا سوائے اس کے کہ وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی اور اُس کی ناخوشی دوسرے کی غلط فہمی تھی اور ان نو مہینوں کے دوران اُس کا اور احسن سعد کا تعلق نہ ہونے کے برابر تھا… وہ شادی پر واپس جانے کے بعد بچے کی پیدائش تک دوبارہ واپس نہیں آیا تھا ، ان کے درمیان فون پر اور skype پر بات بھی بہت مختصر ہوتی اور اُس میں تب وقفہ پڑجاتا جب احسن کے گھر میں کوئی اُس سے خفا ہوتا، وہ امریکہ میں ہونے کے باوجود گھر میں ہونے والے ہر معاملے سے آگاہ رکھا جارہا تھا، خاص طور پر عائشہ کے حوالے سے۔
عائشہ کو کبھی کبھار لگتا تھا وہ شوہر اور بیوی کا رشتہ نہیں تھا، ایک بادشاہ اور کنیز کا رشتہ تھا۔احسن سعد کو اُس میں ویسی ہی اطاعت چاہیے تھی اور وہ اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے وہ بیوی بننے کی کوشش کررہی تھی جو بیوی احسن سعد کو چاہیے تھی۔ اسفند کی پیدائش تک کے عرصے میں عائشہ عابدین کچھ کی کچھ ہوچکی تھی۔ جس گھٹن میں وہ جی رہی تھی، اُس گھٹن نے اس کے بچے کو بھی متاثر کیا تھا… اُس کا بیٹا اسفند نارمل نہیں تھا۔ یہ عائشہ عابدین کاایک اور بڑا گناہ تھا۔
******
اوول آفس سے ملحقہ ایک چھوٹے سے کمرے میں پروٹوکول آفیسر کی رہنمائی میں داخل ہوتے ہوئے سالار سکندر کے انداز میں اُس جگہ سے واقفیت کا عنصر بے حد نمایاں تھا۔ وہ بڑے مانوس انداز میں چلتے ہوئے وہاں آیا تھا اور اُس کے بعد ہونے والے تمام “rituals” سے بھی وہ واقف تھا۔ وہ یہاں کئی بار آچکا تھا… کئی وفود کا حصّہ بن کر… لیکن یہ پہلا موقع تھا جب وہ وہاں تنہا بُلایا گیا تھا۔
اُسے بٹھانے کے بعد وہ آفیسر اندرونی دروازے سے غائب ہوگیا تھا… وہ پندرہ منٹ کی ایک ملاقات تھی جس کے بلٹ پوائنٹس وہ اس وقت ذہن میں دہرا رہا تھا، وہ امریکہ کے بہت سارے صدور سے مل چکا ،لیکن جس صدر سے وہ اُس وقت ملنے آیا تھا… ”خاص” تھا… کئی حوالوں سے۔
وال کلاک پر ابھی 9:55 ہوئے تھے … صدر کے اندر آنے میں پانچ منٹ باقی تھے… اُس سے پہلے 9:56 پر ایک ویٹر اُس کو پانی serve کر کے گیا تھا… اُس نے گلاس اُٹھا کر رکھ دیا تھا۔ 9:57 پر ایک اور اٹینڈنٹ اُسے کافی سرو کرنے آیا تھا۔اُس نے منع کردیا۔9:59 پر اوول آفس کا دروازہ کھلا اور صدر کی آمد کا اعلان ہوا… سالار اُٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا ۔
اوول آفس کے دروازے سے اُس کمرے میں آنے والا صدر امریکہ کی تاریخ کا کمزور ترین صدر تھا…وہ 2030 کا امریکہ تھا… بے شمار اندرونی اوربیرونی مسائل سے دوچار ایک کمزور ملک… جس کی کچھ ریاستوں میں اس وقت خانہ جنگی جاری تھی… کچھ دوسری میں نسلی فسادات… اور ان سب میں وہ امریکہ کا وہ پہلا صدر تھا جس کی کیبنٹ اور تھنک ٹینکس میں مسلمانوں اور یہودیوں کی تعداد اب برابر ہوچکی تھی، اُس کی policies کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ بھی اندرونی خلفشار کا شکار تھی… لیکن یہ وہ مسائل نہیں تھے جن کی وجہ سے امریکہ کا صدر اُس سے ملاقات کررہا تھا۔
امریکہ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی اور بینکنگ بحران کے دوران اپنی بین الاقوامی پوزیشن اور ساکھ کو بچانے کے لئے سر توڑ کوشش کررہا تھا اور SIF کے سربراہ سے وہ ملاقات اُن ہی کوششوں کا ایک حصّہ تھی…اُن آئینی ترامیم کے بعد جو امریکہ کو اپنے ملک کی economy کو مکمل طور پر ڈوبنے سے بچانے کے لئے کرنی پڑی تھیں۔
اپنی تاریخ کے اس سب سے بڑے مالیاتی بحران میں جب امریکہ کی سٹاک ایکسچینج کریش کر گئی تھی… اُس کے بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ ہورہے تھے… ڈالر کی مسلسل گرتی ہوئی ویلیو کو کسی ایک جگہ روکنا مشکل ہوگیا تھا اور امریکہ کو تین مہینے کے دوران تین بار اپنی کرنسی کو استحکام دینے کے لئے اُس کی ویلیو خود کم کرنی پڑی تھی… صرف ایک ادارہ تھا جو اس مالیاتی بحران کو جھیل گیا تھا… لڑکھڑانے کے باوجود وہ امریکہ کے بڑے مالیاتی اداروں کی طرح زمین بوس نہیں ہوا تھا نہ ہی اس نے ڈاؤن سائزنگ کی تھی نہ بیل آؤٹ پیکجز مانگے تھے…اور وہ SIF تھا… پندرہ سال میں وہ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے طور پر اپنی شاندار ساکھ اورنام بناچکا تھا اور امریکہ اور بہت سے دوسرے چھوٹے ملکوں میں وہ بہت سے چھوٹے بڑے اداروں کو mergers کے ذریعے اپنی چھتری تلے لاچکا تھا اور وہ چھتری مغربی مالیاتی اداروں کی شدید مخاصمت اور مغربی حکومتوں کے سخت ترین امتیازی قوانین کے باوجود پھیلتی چلی گئی تھی… پندرہ سالوں میں SIF نے اپنی survival اور ترقی کے لئے بہت ساری جنگیں لڑی تھیں اور ان میں سے ہر جنگ چومکھی تھی لیکن SIF اور اُس سے منسلک افراد ڈٹے رہے تھے اور پندرہ سال کی اس مختصر مدت میں مالیاتی دنیا کا ایک بڑا مگرمچھ اب SIF بھی تھا جو اپنے بقا کے لئے لڑی جانے والی ان تمام جنگوں کے بعد اب بے حد مضبوط ہوچکا تھا…امریکہ، یورپ اور ایشیا اُس کی بڑی مارکیٹس تھیں لیکن یہ افریقہ تھا جس پر SIF مکمل طور پر قابض تھا… وہ افریقہ جس میں کوئی گورا 2030 میں SIF کے بغیر کوئی مالیاتی ٹرانزیکشن کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا… افریقہ SIF کے ہاتھ میں نہیں تھا، سالار سکندر کے ہاتھ میں تھا جسے افریقہ اور اُس کے leaders نام اور چہرے سے پہچانتے تھے… پچھلے پندرہ سالوں میں صرف سالار کا ادارہ وہ واحدادارہ تھا جو افریقہ کے کئی ممالک میں بدترین خانہ جنگی کے دوران بھی کام کرتا رہا تھا اور اُس سے منسلک وہاں کام کرنے والے سب افریقی تھے اور SIF کے mission statement پر یقین رکھنے والے… جو یہ جانتے تھے جو کچھ SIF ان کے لئے کررہا تھا، اور کرسکتا تھا وہاں دنیا کا کوئی اور مالیاتی ادارہ نہیں کرسکتا تھا۔ SIF افریقہ میں ابتدائی دور میں کئی بار نقصان اُٹھانے کے باوجود وہاں سے نکلا نہیں تھا، وہ وہاں جما اور ڈٹا رہا تھا اور اُس کی وہاں بقا کی بنیادی وجہ سود سے پاک وہ مالیاتی نظام تھا جو وہاں کی لوکل انڈسٹری اور انڈسٹریلسٹس کو نہ صرف سود سے پاک قرضے دے رہا تھا بلکہ اُنہیں اپنے وسائل سے اُس انڈسٹری کو کھڑا کرنے میں انسانی وسائل بھی فراہم کررہا تھا۔
پچھلے پندرہ سالوں میں SIF کی افریقہ میں ترقی کی شرح ایک سٹیج پر اتنی بڑح گئی تھی کہ بہت سے دوسرے مالیاتی اداروں کو افریقہ میں اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے SIF کا سہارا لینا پڑا تھا۔
سالار سکندر سیاہ فاموں کی دُنیا کا بے تاج بادشاہ تھا اور اُس کی یہ پہچان بین الاقوامی تھی افریقہ کے مالیاتی نظام کی کنجی SIF کے پاس تھی اور سالار سکندر کے اُس دن وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ امریکہ ورلڈ بینک کو دیے جانے والے فنڈز میں اپنا حصہ ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تھا اور ورلڈ بینک کو فنڈز کی فراہمی میں ناکام رہنے کے بعد اُس سے سرکاری طور پر علیحدگی اختیار کررہا تھا… ورلڈ بینک اُس سے پہلے ہی ایک مالیاتی ادارے کے طور پر بُری طرح لڑکھڑا رہا تھا… یہ صرف امریکہ نہیں تھا جو مالیاتی بحران کا شکار تھا، دُنیا کے بہت سے دوسرے ممالک بھی اسی کساد بازاری کا شکار تھے اور اس افراتفری میں ہر ایک کو صرف اپنے ملک کی اکانومی کی پروا تھی، اقوامِ متحدہ سے منسلک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی اقتصادیات پر قابض رہنا اب نہ صرف ناممکن ہوگیا تھا بلکہ دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آئے ہوئے مالیاتی بحران کے بعد اب یہ بے کار بھی ہوگیا تھا…
ورلڈ بینک اب وہ سفید ہاتھی تھا جس سے وہ ساری استعماری قوتیں جان چھڑانا چاہتی تھیں اور کئی جان چھڑا چکی تھیں۔ اقوامِ متحدہ کا وہ چارٹر جو اپنے ممبران کو ورلڈ بینک کے ادرے کو فنڈز فراہم کرنے کا پابند کرتا تھا ،اب ممبران کے عدم تعاون اور عدم دلچسپی کے باعث کاغذ کے ایک پرزے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اقوامِ متحدہ اب وہ ادارہ نہیں رہا تھا جو بین الاقوامی برادری کو سینکڑوں سالوں سے چلنے والے ایک ہی مالیاتی نظام میں پروئے رہنے پر مجبور کرسکتا… دُنیا بدل چکی تھی اور گھڑی کی سوئیوں کی رفتار کے ساتھ مزید بدلتی جارہی تھی اور اس رفتار کو روکنے کی ایک آخری کوشش کے لئے امریکہ کے صدر نے SIF کے سربراہ کو وہاں بلایا تھا۔
ایوان ہاکنز نے اندر داخل ہوتے ہوئے اپنے اپنے اُس پرانے حریف کو ایک خیر مقدمی مسکراہٹ دینے کی کوشش کی جو اُس کے استقبال کے لئے مودبانہ اور بے حد باوقار انداز میں کھڑا تھا… سیاست میں آنے سے پہلے ایوان ایک بڑے مالیاتی ادارے کا سربراہ رہ چکا تھا ، سالار سکندر کے ساتھ اُس کی سالوں پرانی واقفیت بھی تھی اور رقابت بھی… SIF نے امریکہ میں اپنی تاریخ کا پہلا بڑا merger اُس کے ادارے کو کھا کر کیا تھا، اور اُس merger کے بعد ایوان کو اپنے عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔ وہ آج امریکہ کا صدر تھا لیکن وہ ناکامی اور بدنامی آج بھی اُس کے portfolio میں ایک داغ کے طور پر موجود تھی۔ یہ ایوان کی بدقسمتی تھی کہ اتنے سالوں کے بعد وہ اُسی پرانے حریف کی مدد لینے پر ایک بار پھر مجبور ہوا تھا … وہ اُس کے دورِ صدارت میں اُسے دھول چٹانے آن پہنچا تھا… یہ اُس کی کیفیات تھیں… سالار کی نہیں… وہ وہاں کسی اور ایجنڈے کے ساتھ آیا تھا…اُس کا ذہن کہیں اور پھنسا ہوا تھا۔
”سالار سکندر…” چہرے پر ایک گرم جوش مسکراہٹ کا نقاب چڑھائے ایوان نے سالار کا استقبال تیز رفتاری سے اُس کی طرف بڑھتے ہوئے یوں کیا تھا جیسے وہ حریف نہیں رہے تھے… بہترین دوست تھے جو وائٹ ہاؤس میں نہیں کسی گالف کورس پر مل رہے تھے۔ سالار نے اُس کی خیر مقدمی مسکراہٹ کا جواب بھی اتنی ہی خوش دلی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے دیا تھا۔ دونوں کے درمیان رسمی کلمات کا تبادلہ ہوا… موسم کے بارے میں ایک آدھ بات ہوئی، جو اچھا تھا اور اُس کے بعد دونوں اپنی اپنی نشست سنبھال کر بیٹھ گئے تھے۔ وہ one on one ملاقات تھی، کمرے کے دروازے اب بند ہوچکے تھے اور وہاں اُن دونوں کا سٹاف نہیں تھا اور اس one on one ملاقات کے بعد اُن دونوں کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس تھی جس کے لئے اس کمرے سے کچھ فاصلے پر ایک اور کمرے میں دنیا بھر کے صحافی بے تابی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس ملاقات سے پہلے اُن دونوں کی ٹیم کے افراد کئی بار آپس میں مل چکے تھے، ایک فریم ورک وہ ڈسکس بھی کرچکے تھے اور تیار بھی… اب اس ملاقات کے بعد باضابطہ طور پر وہ دونوں وہ اعلان کررہے تھے جس کی بھنک میڈیا کو پہلے ہی مل چکی تھی۔
امریکہ اب ورلڈ بینک کے ذریعے نہیں SIF کے ذریعے دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں گھسنا چاہتا تھا، خاص طور پر افریقہ میں اور اس کے لئے وہ ورلڈ بینک سے باضابطہ علیحدگی اختیار کررہا تھا… مگر اُس کے سامنے مسئلہ صرف ایک تھا، امریکہ کا ایجنڈا SIF کے ایجنڈے سے مختلف تھا اور اس ملاقات میں سالار سکندر کو ایک بے حد informal انداز میں ایک آخری بار ان امریکی مفادات کے تحفظ کی یاد دہانی کروانی تھی… امریکہ SIF کی ٹیم کے بہت سارے مطالبات مان کر اُس فریم ورک پر تیار ہوا تھا۔ یہ وہ امریکہ نہیں رہا تھا جو بندوق کی نو پر کسی سے بھی کچھ بھی کروا سکتا تھا۔ یہ انتشار کا شکار ایک کھوکھلا ہوتا ہوا ملک تھا جو بات سُنتا تھا… مطالبات مانتا تھا اور اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹ جاتا تھا… یا پھر آخری حربے کے طور پر اپنے مفادات کی خاطر وہ کرتا تھا جو اس بار بھی اس میٹنگ کے اچھے یا بُرے نتیجے کے ساتھ پہلے سے مشروط تھا۔
قسط نمبر 43....
میٹنگ کا نتیجہ ویسا ہی نکلا تھا جیسا ایوان کو توقع تھی۔ سالار سکندر کو SIF کے ایجنڈے کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں تھا، نہ ہی امریکی حکومت کے ایجنڈے کے حوالے سے… وہ امریکی حکومت کی مدد کرنے پر تیار تھا… اُس فریم ورک کے تحت جو اُس کی ٹیم نے تیار کیا تھا لیکن SIF کو امریکہ کا ترجمان بنانے پر تیار نہیں تھا۔ اُس نے ایوان کی تجویز کو شکریہ کے ساتھ رد کردیا تھا… دو مگرمچھوں کے درمیان دشمنی ہوسکتی تھی، دوستی نہیں…مگر دشمنی کے ساتھ بھی وہ ایک ہی پانی میں رہ سکتے تھے بڑے محتاط اور پُر امن طریقے سے… اپنی اپنی حدود میں… اور اُس نے ایوان کو بھی یہی مشورہ دیا تھا جس سے ایوان نے اتفاق کیا تھا… سالار سکندر سے انہیں جیسے جواب کی توقع تھی، انہیں ویسا جواب ہی ملا تھا۔
SIF کو اب ایک نئے سربراہ کی ضرورت تھی، جو زیادہ “flexible” ہوتا… اور زیادہ سمجھدار بھی… سالار سکندر میں ان دونوں چیزوں کی اب کچھ کمی ہوگئی تھی… یہ ایوان کا اندازہ تھا۔
CIA کو SIF کے نئے سربراہ کے بارے میں تجاویز دینے سے پہلے SIF کے پرانے سربراہ کو ہٹانے کے لئے احکامات دے دیئے گئے تھے اور یہ اس میٹنگ کے بعد ہوا تھا۔
اُس سے پہلے ایوان نے سالار سکندر کے ساتھ اُس پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی جس میں امریکہ نے باقاعدہ طور پر ملک میں ہونے والے مالیاتی کرائسس سے ہٹنے کے لئے نہ صرف SIF کی مدد لینے کا اعلان کیا تھا بلکہ SIF کے ساتھ طے پانے والے اس فریم ورک کا بھی اعلان کیا تھا جس کی منظوری صدر نے بے حد دباؤ کے باوجود دے دی تھی۔
ایوان ہاکنز کو اس اعلان کے وقت ویسی ہی تضحیک محسوس ہورہی تھی جیسی اُس نے اُس وقت محسوس کی تھی جب اُس کے مالیاتی ادارے کا merger، SIF کے ساتھ ہوا تھا اور جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے فارغ ہوگیا تھا، اُسے یقین تھا تاریخ اس بار اپنے آپ کو کچھ مختلف طریقے سے دہرانے والی تھی… اس دفعہ سکرین سے غائب ہونے والا اُس کا پرانا حریف تھا، وہ نہیں۔
******
رئیسہ سالار کی زندگی پر اگر کوئی کتاب لکھنے بیٹھتا تو یہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ وہ خوش قسمت تھی، جس کی زندگی میں آتی تھی اُس کی زندگی بدلنا شروع کردیتی تھی۔ وہ جیسے پارس پتھر جیسا وجود رکھتی تھی، جو اُس سے چھوجاتا، سونا بننے لگتا۔
سالار سکندر کے خاندان کا حصّہ بننے پر بھی وہ اُن کی زندگی میں بہت ساری تبدیلیاں لے آئی تھی اور اب ہشام سے منسلک ہونے کے بعد اس کی زندگی کے اُس خوش قسمتی کے دائرے نے ہشّام کو بھی اپنے گھیراؤ میں لینا شروع کردیا تھا۔
بحرین میں ہونے والے اُس طیّارے کے حادثے میں امیر سمیت شاہی خاندان کے کچھ افراد ہلاک نہیں ہوئے تھے، وہ دراصل بحرین کی بادشاہت کے حصّہ داروں کی ہلاکت تھی۔پیچھے رہ جانے والا ولی عہد بے حد نوجوان، نا تجربہ کار اور عوام سے بہت دور تھا اور اُس حلقے میں بے حد ناپسندیدہ تھا جو امیر کا حلقہ تھا۔
ہشّام کے باپ صباح بن جرّاح کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ وہ امیر اور شاہی خاندان کے افراد کی تدفین کی تقریبات میں شرکت کے لئے جب بحرین پہنچے گا تو بادشاہت کا ہُما اُس کے سر پر آن بیٹھے گا۔ بحرین کی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں ولی عہد کو برطرف کرتے ہوئے بادشاہت کی فہرست میں بہت نیچے کے نمبر پر براجمان صباح کو اکثریتی تائید سے بحرین کا نیا امیر نامز کردیا گیا تھا… اس عہدے پر اُسے وقتی طور پر فائز کیا گیا تھا، مگر اگلے چند ہفتوں میں کونسل نے اس حوالے سے حتمی فیصلہ بھی کردیا تھا۔ ولی عہد کی نامزدگی کونسل کے اگلے اجلاس تک کے لئے ملتوی کردی گئی تھی۔
یہی وہ خبر تھی جو رئیسہ کو حمین نے سنائی تھی۔ خبر اتنی غیر متوقع اور ناقابلِ یقین تھی کہ رئیسہ کو بھی یقین نہیں آیا تھا لیکن جب اُسے یقین آیا تو وہ ایکسائٹیڈ ہوئی تھی۔
”اور اب بُری خبر کیا ہے؟ وہ بھی سنا دو۔” اُس نے حمین سے پوچھا۔ ہشّام اور تمہاری شادی میں اب بہت ساری رکاوٹیں آئیں گی… صرف اُس کے خاندان کی طرف سے نہیں، پورے شاہی خاندان کی طرف سے۔” حمین نے اُسے بنا کسی تمہید کے کہا۔ وہ فکرمند ہونے کے باوجود خاموش ہوگئی تھی۔
ہشّام سے اُس کی ملاقات امریکہ واپسی کے دوسرے دن ہی ہوگئی تھی۔ وہ ویسا ہی تھا… بے فکرا… لاپروا… اپنے باپ کے بدلے جانے والے سٹیٹس کے بارے میں زیادہ دلچسپی نہ دکھاتا ہوا۔ اُس کا خیال تھا ، اُس کے باپ کو ملنے والا وہ عہدہ وقتی تھا… چند ہفتوں کے بعد کونسل اُس کے باپ کی جگہ شاہی خاندان کے اُن افراد میں سے کسی کو اس عہدے پر فائز کرے گی جو جانشینی کی دوڑ میں اُس کے باپ سے اوپر کے نمبر پر تھے۔
”تم نے اپنی فیملی سے بات کی؟” اُس نے چھوٹتے ہی رئیسہ سے وہ سوال کیا تھا جس کے حوالے سے وہ فکرمند تھی۔
”حمین سے بات ہوئی میری اور حمین نے بابا سے بھی بات کی ہے، لیکن بابا کو ہمارے حوالے سے پہلے ہی کچھ اندازہ تھا… انہوں نے کہا ہے وہ مجھ سے اس ایشو پر آمنے سامنے بات کریں گے… لیکن حمین تم سے ملنا چاہتا ہے۔” رئیسہ نے اسے بریف کیا تھا۔ حمین ہشّام سے چند بار سرسری انداز میں پہلے بھی مل چکا تھا، لیکن یہ پہلی بار تھا کہ حمین نے خاص طور پر اُس سے ملنے کی فرمائش کی تھی۔
”مل لیتا پوں… میں تو اتنا مصروف نہیں رہتا… وہ رہتا ہے… تم اُس سے coordinate کرلو کہ کب ملنا چاہے گا؟” ہشّام نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اُس سے کہا تھا۔
”تمہاری فیملی کو میری adoption کا پتہ ہے؟” اس بار رئیسہ نے بالآخر اُس سے وہ سوال کیا تھا جو بار بار اُس کے ذہن میں آرہا تھا۔
”نہیں میری کبھی اُن سے اس حوالے سے بات نہیں ہوئی… لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟” ہشام اُس کی بات پر چونکا تھا۔
”اُنہیں اعتراض تو نہیں ہوگا کہ میں adopted ہوں؟”
”کیوں اعتراض ہوگا…؟ میرا نہیں خیال کہ میرے پیرنٹس اتنے تنگ نظر ہیں کہ اس طرح کی باتوں پر اعتراض کریں گے۔” ہشّام نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔ ” میں اپنے والدین کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔” اُس نے رئیسہ سے کہا تھا۔
حمین سے اُس کی ملاقات دو ہفتے بعد طے ہوئی تھی مگر اُس سے پہلے ہی ہشّام کو ایک بار پھر ایمرجنسی میں بحرین بلا لیا گیا تھا۔اُس کے باپ کی کونسل نے متفقہ فیصلے سے امیر کے طور پر توثیق کردی تھی اور ہشّام بن صباح کو بحرین کا نیا ولی عہد نامزد کردیا گیا تھا۔ ایک خصوصی طیّارے کے ذریعے ہشّام کو بحرین بلایا گیا تھا اور وہاں پہنچنے پر یہ خبر ملنے پر اُس نے سب سے پہلے فون پر رئیسہ کو یہ اطلاع دی تھی۔ وہ بے حد خوش تھا۔ رئیسہ چاہتے ہوئے بھی خوش نہیں ہوسکی…وہ ایک ”عام آدمی” سے یک دم ایک ”خاص آدمی” ہوگیا تھا… حمین کی باتیں اُس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ ہشّام بہت جلدی میں تھا، اُن دونوں کے درمیان صرف ایک آدھ منٹ کی گفتگو ہوسکی تھی۔ فون بند ہونے کے بعد رئیسہ کے لئے سوچ کے بہت سارے در کُھل گئے تھے، وہ fairy tales پر یقین نہیں کرتی تھی کیونکہ اُس نے جس فیملی میں پرورش پائی تھی وہاں کوئی fairy tale نہیں تھی… وہاں اتفاقات اور انقلابات نہیں تھے… کیریئر، زندگیا، نام سب محنت سے بنائی جارہی تھیں اور رئیسہ سالار کو اپنے سامنے نظر آنے والی وہ fairy tale بھی ایک سراب لگ رہی تھی۔
وہ ایک عرب امریکن سے شادی کرنا چاہتی تھی، ایک عرب بادشاہ سے نہیں… اُسے luxuries کی خواہش نہیں تھی اور اُس کی زندگی کے مقاصد اور تھے… اور چند دن پہلے تک اُس کے اور ہشّام کی زندگی کے مقاصد ایک جیسے تھے… اب وہ لمحہ بھر میں ریل کی پٹڑی پر جانے والے دو ٹریک بنے ہوئے تھے… مخالف سمت میں جانے والے ایک دوسرے ٹریک ہوگئے تھے۔
وہ بہت غیر جذباتی ہوکر اب حمین کی اُس گفتگو کو یاد کررہی تھی جو اُس نے ہشّام کے حوالے سے کی تھی اور وہ تب کی تھی جب ہشّام ولی عہد نہیں بنا تھا… اُسے اب جاننا تھا کہ حمین ہشّام کے بارے میں اب کیا سوچتا تھا۔
ہشّام کے حوالے سے یہ خبر بھی حمین نے ہی اُسے اُس رات دی تھی جب وہ سونے کی تیّاری کررہی تھی۔ وہ ایک کانفرنس اٹینڈ کرنے کے لئے Montreal میں تھا۔
”میں جانتی ہوں۔” اُس نے جواباً ٹیکسٹ کیا ” مجھے مبارک باد دینی چاہیے یا افسوس کرنا چاہیے؟” جواباً ٹیکسٹ آیا تھا۔ وہ اُس کے مزاج سے واقف تھا۔ وہ مسکرا دی ۔” تمہاری رائے کیا ہے؟” اُس نے جواباً پوچھا
”افسوسناک خبر ہے ”
” جانتی ہوں۔” اُس نے حمین کے ٹیکسٹ پر اتفاق کیا ۔
جواباً اُس کی کال آنے لگی تھی۔
”اتنا بھی اپ سیٹ ہونے والی بات نہیں ہے۔” حمین نے ہیلو سنتے ہی بڑے خوشگوار لہجہ میں اُس سے کہا تھا۔ وہ اُس کی آواز کا ہر انداز پہچانتا تھا ۔
”میں اپ سیٹ تو نہیں ہوں… بس یہ سب غیر متوقع ہے اس لئے…” رئیسہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”میرے لئے غیر متوقع نہیں ہے یہ، مجھے اندازہ تھا اس کا۔” اُس نے جواباً کہا تھا۔
”تو پھر اب…؟” رئیسہ نے ایک بار پھر ادھورے جملے میں اُس سے مسئلے کا حل پوچھا۔
” تم نے کہا تھا تم اس پروپوزل کے حوالے سے بہت زیادہ جذباتی نہیں ہو۔” حمین نے اطمینان سے لمحہ بھر میں تصویر کا سیاہ ترین پہلو اُسے دکھایا یعنی ہشّام کو بھول جانے کا مشورہ دیا۔
“?You really think so” رئیسہ کو جیسے یقین نہیں آیا ” تمہیں لگتا ہے میری اور اُس کی شادی نہیں ہوسکتی؟”
” ہوسکتی ہے لیکن اُس کی شادی صرف تمہارے ساتھ ہو اور تمہارے ساتھ ہی رہے، یہ میرے لئے زیادہ بڑا مسئلہ ہے… عرب بادشاہ ”حرم” رکھتے ہیں…” حمین نے اُسے جتایا تھا… تصویر کا ایک اور رُخ اُسے دکھایا جو اُس نے ابھی دیکھنا شروع بھی نہیں کیا تھا۔
” میں جانتی ہوں۔” اُس نے مدہم آواز میں کہا، پھر اگلے ہی جملے میں جیسے اُس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔” لیکن ہشّام کے باپ نے شاہی خاندان کا حصّہ ہوتے ہوئے بھی کبھی دوسری شادی نہیں کی۔”
”وہ امریکہ میں سفیر رہے… بادشاہ کبھی نہیں رہے۔” حمین نے ترکی بہ ترکی کہا۔ دونوں کے درمیان اب خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آگیا تھا۔
“?So it’s all over”
اُس نے بالآخر حمین سے پوچھا۔ حمین کے دل کو کچھ ہوا۔ وہ پہلی محبت تھی جو اُس نے کبھی نہیں کی تھی، مگر اُس نے پہلی محبت کا انجام بہت بار دیکھا تھا لیکن اب رئیسہ کو اُس انجام سے دو چار ہوتے دیکھ کر اُسے دلی تکلیف ہوئی تھی۔
”تمہارا دل تو نہیں ٹوٹے گا؟” وہ بے حد فکرمند انداز میں اُس سے پوچھ رہا تھا۔ رئیسہ کا دل بھر آیا۔
”ٹوٹے گا… لیکن میں برداشت کرلوں گی۔” رئیسہ نے بھرّائی ہوئی آواز میں اپنی آنکھوں میں آئی نمی پونچھتے ہوئے کہا۔
حمین کا دل اور پگھلا ” ساری دُنیا میں تمہیں یہی ملا تھا…؟ ” اُس نے دانت پیستے ہوئے رئیسہ سے کہا تھا۔
”مسئلہ شادی نہیں ہے رئیسہ، مسئلہ آئندہ کی زندگی ہے…کوئی گارنٹی نہیں ہے اس رشتے میں…” حمین نے ایک بار پھر اُس کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود جیسے اُس کا دُکھ کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ خاموش ہوگئی، کال ختم ہوگئی تھی۔ مگر ہشام نہ رئیسہ کے ذہن سے نکلا تھا نہ ہی حمین کے۔
اگلے دن کے اخبارات نہ صرف بحرین کے نئے امیر اور ولی عہد کے بارے میں تصویروں اور خبروں سے بھرے ہوئے تھے بلکہ اُن خبروں میں ایک خبار نئے علی عہد ہشّام بن صبّاح کی منگنی کی بھی تھی، جو بحرین کے ہلاک ہونے والے امیر کی نواسی سے طے پارہی تھی۔ وہ خبر حمین اور رئیسہ دونوں نے پڑھی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے سے شیئر نہیں کی تھی۔
******
” کوئی تم سے ملنا چاہتا ہے۔” وہ اگلی صبح تھی… ساری رات لاک اپ میں جاگتے رہنے کے بعد وہ ناشتہ کے بعد کافی کا ایک کپ ہاتھ میں لئے بیٹھی تھی جب ایک آفیسر نے لاک اپ کا دروازہ کھولتے ہوئے ایک کارڈ اُس کے ہاتھ میں تھمایا اور کارڈ پر لکھا ہوا نام دیکھ کر عائشہ عابدین کا دل چاہا تھا وہاں کوئی سوراخ ہوتا تووہ اُس میں گھس کر چھپ جاتی۔ پتہ نہیں اُس شخص کے سامنے اُسے اب اور کتنا ذلیل ہونا تھا… دُنیا سے غائب ہوجانے کی خواہش اُس نے زندگی میں کتنی بار کی تھی، لیکن شرم کے مارے اُس نے پہلی بار کی تھی۔
وہ پولیس آفیسر کے ساتھ وہاں آئی تھی جہاں وہ ایک اٹارنی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اُس کی رہائی کے لئے کاغذات لئے جس پر اب صرف اُس کے signatures ہونے تھے۔
جبریل اور اُس کے درمیان رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا تھا… ایک دوسرے سے نظریں ملائے بغیر… پھر اُس اٹارنی سے اُس کی بات چیت شروع ہوئی تھی… کاغذات… دستخط… اور پھر اسے رہائی کی نوید دے دی گئی تھی۔
بے حد خاموشی کے عالم میں وہ دونوں بارش کی ہلکی پھوار میں پولیس سٹیشن سے باہر پارکنگ میں گاڑی تک آئے تھے۔
”میں بہت معذرت خواہ ہوں… میری وجہ سے بار بار آپ کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، نساء کو آپ کو فون نہیں کرنا چاہیے تھا… میں کچھ نہ کچھ انتظام کرلیتی… یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔”
گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر اُس کے برابر بیٹھی عائشہ نے پہلی بار اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بے حد شائستگی سے جبریل کی طرف دیکھے بغیر اُسے مخاطب کیاتھا۔
جبریل نے گردن موڑ کر اُسے دیکھا۔ اُس کے جملے میں وہ آخری بات نہ ہوتی تو وہ نساء کی اس بات کر کبھی یقین نہیں کرتا کہ وہ mentally upset تھی… وہ اپنے خلاف parental negligence کے تحت فائل ہونے والے قتل کے ایک الزام کو معمولی بات کہہ رہی تھی۔
” آپ نے کچھ کھایا ہے؟” جبریل نے جواباً بڑی نرمی سے اُس سے پوچھا تھا۔ عائشہ نے سر ہلادیا۔ وہ اب اُسے بتانے لگی تھی کہ وہ کسی قریبی بس سٹاپ یا ٹرین سٹیشن پر اُسے ڈراپ کردے تو وہ خود گھر پہنچ سکتی تھی۔ جبریل نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اُس کی ہدایات سنیں اور ٹھیک ہے کہہ دیا… مگر وہ وہاں نہیں رُکا تھا جہاں وہ اُسے ڈراپ کرنے کے لئے کہہ رہی تھی، وہ سیدھا اُس کے گھر پہنچ گیا تھا… اُس بلڈنگ کے سامنے جہاں اس کا اپارٹمنٹ تھا، عائشہ نے اُس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ اُسے اُس کے گھر کا ایڈریس کیسے پتہ تھا۔وہ اُس کا شکریہ ادا کر کے گاڑی سے اُترنے لگی تو جبریل نے اُس سے کہا ۔
”کافی کا ایک کپ مل سکتا ہے؟” وہ ٹھٹھکی اور اُس نے پہلی بار جبریل کا چہرہ دیکھا۔
”گھر پر کافی ختم ہوچکی ہے، میں کچھ ہفتوں سے گروسری نہیں کرسکی۔” اُس نے کہتے ہوئے دوبارہ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا۔
”میں چائے بھی پی لیتا ہوں۔” جبریل نے اُسے پھر روکا۔
”میں چائے نہیں پیتی اس لئے لاتی بھی نہیں۔” عائشہ نے اس بار اُسے دیکھے بغیر گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔
”پانی تو ہوگا آپ کے گھر؟” جبریل اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا اور اُس نے گاڑی کی چھت کے اوپر سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس بار عائشہ اُسے صرف دیکھتی رہی تھی ۔
اُس کا اپارٹمنٹ اس قدر صاف ستھرا اور خوبصورتی سے سجا ہوا تھا کہ اندر داخل ہوتے ہی جبریل چند لمحوں کے لئے ٹھٹھک گیا تھا، جن حالات کا وہ شکار تھی، وہ وہاں کسی اور طرح کا منظر دیکھنے کی توقع کررہا تھا۔
” آپ کی aesthatics بہت اچھی ہے۔” وہ عائشہ سے کہے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ عائشہ نے جواباً کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ اپنا لونگ کوٹ اُتارتے اور دروازے کے پیچھے لٹکاتے ہوئے وہ لاؤنج میں سیدھا کچن ایریا کی طرف گئی ، کچھ بھی کہے بغیر اُس نے ایک کیبنٹ کھول کر کافی کا جار نکال لیا تھا اور پھر پانی گرم کرنے لگی تھی۔
جبریل لاؤنج میں کھڑا اُس جگہ کا جائزہ لے رہا تھا، جہاں آنے والا کوئی شخص بھی یہ جان جاتا کہ اُس گھر میں ایک بچہ تھا جو اُس گھر میں رہنے والوں کی زندگی کا محور تھا۔
لاؤنج میں بنے play area میں اسفند کے کھلونے پڑے ہوئے تھے۔ دیواروں پر جگہ جگہ عائشہ اور اُس کی تصویریں… جبریل نے نظریں چرا لی تھیں… پتہ نہیں اس guilt کو وہ کیا کہتا اور اس کا کیا کرتا جو بار بار عائشہ عابدین کے بچے کے حوالے سے اُسے ہوتا تھا۔ اُس نے مُڑ کر عائشہ کو دیکھا تھا، وہ بے حد میکانکی انداز میں اُس کے لئے کافی کا ایک کپ تیار کررہی تھی، یوں جیسے وہ کوئی waitress تھی… پورے انہماک سے ایک ایک چیز کو ٹرے میں سجاتے اور رکھتے ہوئے باقی ہر چیز سے بے خبر… اس چیز سے بھی کہ وہاں جبریل بھی تھا۔
وہ اب کافی کی ٹرے لے کر لاؤنج میں آگئی تھی۔ سینٹر ٹیبل پر کافی کے ایک کپ کی وہ ٹرے رکھتے ہوئے وہ کچھ کہے بغیر صوفہ پر بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگی “?Sugar”
” مجھے کافی کڑوی نہیں لگتی۔” جبریل اُس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔
“?Milk? Cream” عائشہ نے شوگر پاٹ چھوڑتے ہوئے باقی دو چیزوں کے بارے میں پوچھا جو ٹرے میں رکھی ہوئی تھیں۔
”یہ بھی نہیں… مجھے کچھ دیر میں ہاسپٹل کے لئے نکلنا ہے۔” جبریل نے اب مزید کچھ کہے بغیر وہ کپ اُٹھا لیا تھا جو عائشہ نے میز پر اُس کی طرف بڑھایا تھا۔ اُس نے بڑی خاموشی کافی پی… کپ دوبارہ میز پر رکھا اور پھر اپنی جیب سے ایک لفافہ نکال کر میز پر رکھتے ہوئے اُس سے کہا ۔
” اسے آپ میرے جاننے کے بعد کھولیں… پھر اگر کوئی سوال ہو تو میرا نمبر یہ ہے۔” اُس نے کھڑے ہوتے ہوئے جیب سے ایک وزیٹنگ کارڈ نکال کر میز پر اُسی لفافے کے پاس رکھ دیا۔
”حالانکہ میں جانتا ہوں آپ سوال نہیں کرتیں… مجھے فون بھی نہیں کریں گی… اس کے باوجود مجھے اسے پڑھنے کے بعد آپ کے کسی سوال کا انتظار رہے گا۔” عائشہ نے خاموشی سے میز پر پڑے اُس لفافے اور کارڈ کو دیکھا پھر سر اُٹھا کر کھڑے جبریل کو… دُنیا میں ایسی تمیز اور تہذیب والے مرد کہاں پائے جاتے ہیں… اُس نے سامنے کھڑے مرد کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا اور اگر پائے جاتے تھے تو اُن میں سے کوئی اُس کا نصیب کیوں نہیں بنا تھا… وہ کھڑی ہوگئی تھی۔
جبریل کو اپارٹمنٹ کے دروازے پر چھوڑ کر آنے کے بعد اُس نے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے جھانک کر پارکنگ کو دیکھا جہاں وہ ابھی کچھ دیر میں نمودار ہوتا اور پھر وہ نمودار ہوا تھا اور وہ تب تک اُسے دیکھتی رہی جب تک وہ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا نہیں گیا۔
پھر وہ میز پر پڑے اُس لفافے کی طرف آئی تھی…اُس سفید لفافے کو اُس نے اُٹھا کر دیکھا جس پر اُس کا نام جبریل کی خوبصورت ہینڈرائٹنگ میں لکھا ہوا تھا۔
Ms Aisha Abedeen
پھر اُس نے لفافے کو کھول لیا۔
******
کاغذ کی اس چٹ پر احسن سعد کا نام اور فون نمبر لکھا ہوا تھا۔ ریسپشن سے جبریل کو بتایا گیا تھا کہ وہ شخص کئی بار اُسے کال کرچکا تھا اور ایمرجنسی میں اُس سے بات کرنا یا ملنا چاہتا تھا۔ جبریل اُس وقت چھے گھنٹے آپریشن تھیٹر میں گزارنے کے بعد تھکا ہوا گھر جانے کے لئے نکل رہا تھا جب یہ چٹ اُس کے حوالے کی گئی تھی، اُس چٹ پر اُس کے لئے ایک میسج بھی تھا۔
******
ٹیلی اسکوپ سے اس نے ایک بار پھر اس بینکوئٹ ہال کی کھڑکی سے اندر نظر ڈالی۔ ہال میں سیکورٹی کے لوگ اپنی اپنی جگہ پر مستعد تھے۔ care taker staff بھی اپنی اپنی جگہ پر تھا۔ اس بینکوئٹ ہال کا داخلی دروازہ اس قد آدم کھڑکی کے بالکل سامنے تھا جس کھڑکی کے بالمقابل ساٹھ فٹ چوڑی، دو رویہ مین روڈ کے پار ایک عمارت کی تیسری منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں وہ موجود تھا۔ اس اپارٹمنٹ کے بیڈ روم کی کھڑکی کے سامنے ایک کرسی رکھے وہ ایک جدیدsniperرائفل کی ٹیلی اسکوپک سائٹ سے کھڑکی کے پردے میں موجود ایک چھوٹے سے سوراخ سے اس بینکوئٹ ہال میں جھانک رہا تھا۔ بینکوئٹ ہال کا داخلہ دروازہ کھلا ہوا تھا اور کوریڈور میں استقبالی قطار اپنی پوزیشن لے چکی تھی۔ اس کی گھڑی پر 9:02 بجے تھے۔ مہمان نو بج کر پندہ منٹ پر اس کو ریڈور میں داخل ہونے والا تھا اور تقریباً ایک گھنٹہ اور پندہ منٹ وہاں گزارنے کے بعد وہ وہاں سے جانے والا تھا۔ مہمان کے اس ہوٹل میں پہنچنے سے اس کی روانگی کے بعد تک اس علاقے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کے لیے ہر طرح کا مواصلاتی رابطہ جام ہونے والا تھا۔ یہ سیکورٹی کے ہائی الرٹ کی وجہ سے تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ کے لیے وہاں سیل فون اور متعلقہ کوئی ڈیوائسز کام نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن وہ ایک پروفیشنل ہٹ مین تھا۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کے ہائی الرٹس میں کامیابی سے کام کرتا رہا تھا۔ اس کو ہائر کرنے کی وجہ بھی اس کی کامیابی کاتناسب تھا جو تقریباً سو فی صد تھا۔ وہ صرف دو لوگوں کو مارنے میں ناکام رہا تھا اور اس کی وجہ اس کے نزدیک اس کی بری قسمت تھی۔ پہلی بار اس کی رائفل لاسٹ سیکنڈز میں اس اسٹینڈ سے ہل گئی تھی، جس پر وہ رکھی تھی اور دوسری بار… خیر دوسری بار کا قصہ طویل تھا۔
وہ پچھلے دو مہینے سے اس اپارٹمنٹ میں رہ رہا تھا۔ اس دن سے تقریباً ایک مہینہ پہلے سے جب وہ یہ ہوٹل اس بینکوئٹ کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ جنہوں نے اسے اس اہم کام پر مامور کیا تھا۔ اس تقریب کے لیے اس ہوٹل اور ہوٹل کے اس بینکوئٹ ہال کا انتخاب کرنے والے بھی وہی تھے۔
اس مہمان کو ختم کرنے کا فیصلہ چار ماہ پہلے ہوا تھا۔ وقت، جگہ اور قاتل کا انتخاب بے حد ماہرانہ طریقے سے بڑے غور و خوض کے بعد کیا گیا تھا۔ اس مہمان کے سال کی مکمل مصروفیات کے شیڈول میں سے مقام، ملک اور ممکنہ قاتلوں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے۔ پھر ہر جگہ اور تاریخ پر ہونے والے اس حادثے کے اثرات پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی۔ فوری اثرات اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر بات کی گئی تھی۔ ممکنہ ردِ عمل کے نقصانات سے بچنے کے لیے منصوبے تیار کیے گئے تھے۔ ایک قاتلانہ حملے کے ناکام ہو جانے کی صورت میں ہونے والے ممکنہ ردِ عمل اور نقصانات پر غور کیا گیا تھا اور ہر میٹنگ کے بعد ”کام” کی جگہیں اور تاریخیں بدلتی رہی تھیں، لیکن قاتل ایک ہی رہا تھا۔ کیوںکہ وہ موزوں ترین تھا۔ اس شہر میں اس تاریخ پر اس تقریب کے لیے سیکیورٹی کی وجوہات کے باعث تین مختلف ہوٹلز کا نام لسٹ میں رکھا گیا تھا، لیکن اسے ہائر کرنے والے جانتے تھے کہ تقریب کہاں ہو گی۔
اس سے دو ماہ پہلے ہی اسے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ستائس سالہ لڑکی سے دوستی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس لڑکی کے چار سالہ پرانے بوائے فرینڈ سے بریک اپ کے لیے ایک پروفیشنل کال گرل کا استعمال کیا گیا تھا جو اس کے کار ڈیلر بوائے فرینڈ سے ایک کار خریدنے کے بہانے ملی تھی اور اسے ایک ڈرنک کی آفر کر کے ایک موٹل لے گئی تھی۔
اس کال گرل کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی ریکارڈنگ دوسرے دن اس لڑکی کو میل میں موصول ہو گئی تھی۔ اس کا بوائے فرینڈ نشے میں تھا اسے پھنسایا گیا تھا اور یہ سب ایک غلطی تھی، لیکن اس کے بوائے فرینڈ کی کوئی تاویل، اس کے غصے اور رنج کو کم نہیں کر سکی تھی… اس کی گرل فرینڈ کے لئے یہ بات اس لئے بھی زیادہ تکلیف دہ تھی۔ زیادہ ناقابل برداشت تھی، کیوںکہ وہ تین ہفتے بعد شادی کرنے والے تھے۔ اس نے اپنے بوائے فرینڈ کا سامان گھر کے دروازے سے باہر نہیں پھینکا تھا۔ اسے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے باہر پھینکا تھا۔ سڑک پر بکھرے سامان کو اکٹھا کرتے ہوئے خود کو اور اس کال گرل کو کوستے ہوئے بھی اس کا بوائے فرینڈ یہ سوچ رہا تھا کہ چند ہفتوں میں اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور وہ دونوں دوبارہ اکٹھے ہو جائیں گے۔ جنہوں نے ان کا تعلق ختم کروایا تھا۔ انہیں اس بات کا اندیشہ بھی تھا۔ چنانچہ معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچانے کے لیے اس لڑکی کے کمپیوٹر کو ہیک کیا گیا تھا۔ اس کی اور اس کی گرل فرینڈ کی بے حد قابل اعتراض تصویروں کو اس کی ای میل آئی ڈی کے ساتھ بہت ساری ویب سائٹس پر اَپ لوڈ کر دیا گیا تھا۔
یہ جیسے تابوت میں آخری کیل تھی۔ اس لڑکی نے اپنے بوائے فرینڈ کی ای میل آئی ڈی سے بھیجا ہوا پیغام پڑھا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ اس نے اپنے بریک اَپ کے بعد اس کی ساری پکچرز کو قابل اعتراض ویب سائٹس سے اَپ لوڈ کر دیا ہے۔ اس کی گرل فرینڈ نے پہلے وہ لنکس وزٹ کیے تھے۔ پھر اپنے بوائے فرینڈ کی اس کال گرل کے ساتھ ویڈیو کو اَپ لوڈ کیا تھا اور اس کے بعد اپنے سابقہ بوائے فرینڈ کو اس کے شو روم میں جا کر اس کے کسٹمرز کے سامنے اس وقت سامنے اس وقت پیٹا تھا، جب وہ انہیں ایک جدید ماڈل کی گاڑی تقریباً بیچنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
”Happy families drive this car” اس نے تقریباً چھپن بار یہ جملہ اس جوڑے کے سامنے دہرایا تھا جو ٹیسٹ ڈرائیوکے لیے وہاں موجود تھے اور اس کے ساتھ اس نے ایک سو چھپن بار یہ جھوٹ بھی بولا تھا کہ کس طرح خود بھی اس کار کو ذاتی استعمال میں رکھنے کی وجہ سے اس کا اور اس کی گرل فرینڈ کا ریلیشن شپ مضبوط ہوا تھا۔ اس کے بوائے فرینڈ کو مار کھانے پر اتنا شاک نہیں لگا تھا۔ چار سالہ کورٹ شپ میں وہ اپنی گرل فرینڈ کے ہاتھوں اس شہر کی تقریباً ہر مشہو رپبلک پیلس پر پٹ چکا تھا اور یہ تو بہرحال اس کا اپنا شو روم تھا۔ جتنا اسے اپنی گرل فرینڈ کے الزام سن کر شاک لگا تھا۔
اس کے چیخنے چلانے اور صفائیاں دینے کے باوجود اس کی گرل فرینڈ کو یقین تھا کہ اس نے شراب کے نشے میں یہ حرکت کی ہوگی۔ ورنہ اس کی ذاتی لیپ ٹاپ میں موجود تصویریں اس کی ای میل ایڈریس کے ساتھ کون اَپ لوٹ کر سکتا تھا۔
اس بریک اَپ کے ایک ہفتے کے بعد وہ نائٹ کل میں اسے سے ملا تھا۔ چند دن ان کی ملاقاتیں اسی بے مقصد انداز میں ہوتی رہیں تھیں۔ وہ میڈیک ٹیکنیشن تھی اور اس نے اپنا تعارف پینٹر کے طور پر کروایا تھا۔ وہ ہر بار اس لڑکی کو ڈرنکس کی قیمت خود ادا کرتا تھا۔ چند دن کی ملاقاتوں کے بعد اس نے اسے گھر پہ مدعو کیا تھا اور اس کے بعد وہاں کا آنا جانا زیادہ ہونے لگاتھا۔ وہ اس بلڈنگ کے افراد کو ایک ریگولر وزیٹر کا تاثر دینا چاہتا تھا اور دو ماہ کے اس عرصے میں وہ اس اپارٹمنٹ کی دوسری چابی بنوا چکا تھا اور ایک ہفتہ پہلے وہ اس لڑکی کی عدم موجودگی میں اس کے اپارٹمنٹ پر وہ اسنائپر رائفل اور کچھ دوسری چیزیں بھی منتقل کر چکا تھا۔ وہ جانتا تھا اس تقریب سے ایک ہفتہ پہلے اس علاقے کی تمام عمارتوں پر سیکورٹی چیک ہو گا۔ وہ تب ایسا کوئی بیگ اسکریننگ کے بغیر عمارت میں منتقل نہیں کر سکے گا اور اس وقت بھی اس علاقے کی تمام بلڈنگز بے حد ٹائٹ سیکورٹی میں تھیں۔ وہ ایک ریگولر وزیٹر نہ ہوتا تو اس وقت اس بلڈنگ میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس بلڈنگ سے پچاس میل دور اس کی گرل فرینڈ کو اسپتال میں کسی ایمرجنسی کی وجہ سے روک لیا گیا تھا۔ ورنہ اس وقت وہ اپنے اپارٹمنٹ پر ہوتی۔ پارکنگ میں کھڑی اس کی کار کے چاروں ٹائر پنکچر تھے اور اگر وہ ان دونوں چیزوں سے کسی نہ کسی طرح بچ کر بھی گھر روانہ ہو جاتی تو راستے میں اس کو چیک کرنے کے لیے کچھ اور بھی انتظامات کیے گئے تھے۔
نو بج کر تیرہ منٹ ہو رہے تھے۔ وہ اپنی رائفل کے ساتھ مہمان کے استقبال کے لئے بالکل تیار تھا۔ جس کھڑکی کے سامنے وہ تھا، ہوٹل کے اس بینکوئٹ ہال کی وہ کھڑکی بلٹ پروف شیشے کی بنی تھی۔ ڈبل گلیزڈ بلٹ پروف شیشہ … یہی وجہ تھی کہ ان ونڈوز کے سامنے کوئی سیکورٹی اہلکار تعینات نہیں تھے۔ تعینات ہوتے تو اس نشانہ باندھنے میں یقینا دقت ہوتی، لیکن اس وقت اسے پہلی بار یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اسے اس سے پہلے کسی کو مارنے جکے لئے اتنی جامع سہولیات نہیں ملی تھیں۔ مہمان کو ریڈور میں چلتے ہوئے آنا تھا۔ ایلویٹر سے نکل کر کوریڈور میں چلتے ہوئے بینکوئٹ ہال کے داخلی دروازے تک اس مہمان کو شوٹ کرنے کے لیے اس کے پاس پورے دو منٹ کا وقت تھا۔ ایک بار وہ بینکوئٹ ہال میں اپنی ٹیبل کی طرف چلا جاتا تو اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا، لیکن دو منٹ کا وقت س جیسے پروفیشنل کے لیے دو گھنٹے کے برابر تھا۔
اس بینکوئٹ ہال کی تمام کھڑکیاں بلٹ پروف تھیں۔ صرف اس کھڑکی کے سوا جس کے سامنے ہو تھا۔ تین ہفتے پہلے بظاہر ایک اتفاقی حادثے میں اس کھڑکی کا شیشہ توڑا گیا تھا۔ اسے تبدیل کروانے میں ایک ہفتہ لگا تھا اور تبدیل کیا جانے والا شیشہ ناقص تھا۔ یہ صرف وہ لوگ جانتے تھے جنہوں نے یہ سارا منصوبہ بنایا تھا۔ اسٹیج تیار تھا اور اس پر وہ فنکار آنے والا تھا جس کے لیے یہ ڈراما کھیلا جا رہا تھا۔
قسط نمبر 44۔
جبریل نے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے شخص کو بغور دیکھا تھا۔ وہ اُس سے چند سال بڑا لگتا تھا۔ ایک بے حد مناسب شکل و صورت کا بے حد سنجیدہ نظر آنے والا مرد جو کلین شیوڈ تھا حالانکہ جبریل کے ذہن میں اُس کا جو خاکہ تھا، وہ ایک داڑھی والے مرد کا تھا۔
ویٹر اُن کے سامنے کافی رکھ کر چلا گیا تو احسن سعد نے گفتگو کا آغاز کیا۔
”میرے بارے میں آپ یقیناً بہت کچھ سُن چکے ہوں گے میری سابقہ بیوی سے۔ ” اُس کے لہجے میں ایک عجیب سی تحقیر اور یقین تھا، اور ساتھ ہونٹوں پر اُبھر آنے والی ایک طنزیہ خم بھی۔ جبریل نے کچھ ایسا ہی جملہ اُس message میں پڑھا تھا جو احسن سعد نے فون کالز پر اُس سے رابطہ کرنے پر ناکامی پر اُس کے لئے چھوڑا تھا۔
”مجھے اپنی سابقہ بیوی کے باری میں تمہیں کچھ بتانا ہے۔”
چھے گھنٹے آپریشن تھیٹر میں کھڑے رہنے کے بعد اس کاغذ پر لکھی وہ تحریر پڑھتے ہی جبریل کا دماغ پل جھپکتے میں گھوم کر رہ گیا تھا۔ جس receptionist نے ڈاکٹر احسن سعد کا وہ پیغام جبریل سکندر کے لئے نوٹ کیا تھا اُس نے وہ چٹ جبریل کو دیتے ہوئے بے حد عجیب نظروں سے اُسے دیکھا تھا، وہ ایک بے حد scandalous فقرہ تھا اوراُسے پڑھتے اور سُنتے دیکھ کر کوئی بھی جبریل سکندر کے حوالے سے عجیب سے احساسات کا شکار ہوتا، اس کے باوجود کہ اُس ہاسپٹل میں جبریل بے حد ” clean record” رکھنے والے چند نوجوان ڈاکٹرز میں سے ایک تھا۔
“?Are you sure this is for me”
جبریل ایک پاکستانی نام دیکھنے کے باوجود اس پیغام کو پڑھ کر اُس receptionistسے ہوچھے بغیر نہیں رہ سکا… نہ وہ احسن سعد کو جانتا تھا نہ کسی سابقہ بیوی کو… اور یہ شخص اس سے ایمرجنسی میں ملنا چاہتا تھا… اُسے لگا کوئی غلط فہمی بھی ہوسکتی تھی۔
“Ohhhh yeah!I am pretty sure” اُس receptionist نے جواباً کہا۔جبریل اُلجھے ذہن کے ساتھ کپڑے تبدیل کرنے کے لئے گیا تھا اور کپڑے تبدیل کرنے کے بعد اُس نے وہیں کھڑے کھڑے احسن سعد کے اُس نمبر پر کال کی جو اُس chit پر تھا۔ پہلی ہی بیل پر کال ریسیو کرلی گئی تھی۔ یوں جیسے وہ اُسی کے انتظار میں تھا اور جبریل کے کچھ کہنے سے بھی پہلے اُس نے جبریل کا نام لیا۔ ایک لمحہ کے توقف کے بعدجبریل نے yes کیا۔
” مجھے آپ سے فوری طور پر ملنا ہے، میں کچھ دن کے لئے یہاں ہوں اور پھر چلاجاؤں گا۔” احسن سعد نے فوری طور پرکہا ” مگر آپ مجھ سے کس سلسلے میں بات کرنا چاہتے ہیں؟ میں آپ کو نہیں جانتا۔” Chit کے اُس پیغام کے باوجود جبریل پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔ ” میں عائشہ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔” احسن سعد کے جملے پر جبریل کا ذہن بھک سے اُڑ گیا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عائشہ کا شوہر اس سے رابطہ کرے گا… اُس نے احسن سعد کا نام نہ نساء سے سُنا تھا نہ ہی عائشہ سے اور نہ ہی اسفند کے funeral میں کسی سے جہاں وہ دس پندرہ منٹ رُک کر نساء اور ڈاکٹر نورین سے ہی console کر کے آیا تھا۔ اگر احسن سعد وہاں کہاں تھا بھی تو اُن دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی تھی، اور اب یک دم بیٹھے بٹھائے وہ سیدھا نہ صرف اُس کو کال بھی کررہا تھا، بلکہ کال کرکے وہ بات بھی عائشہ ہی کے بارے میں کرنا چاہتا تھا لیکن کیا بات…؟
”عائشہ عابدین؟” جبریل نے بڑے محتاط لہجہ میں اُس سے پوچھا اس بار یہ یقین ہونے کے باوجود کہ وہ عائشہ عابدین ہی کا شوہر ہوسکتا تھا، اُس کو فوری طور پر کوئی اور ”عائشہ” یاد نہیں آئی تھی جس کا شوہر اُس سے رابطہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتا اور رابطہ کرنے کی ضرورت تو یقیناً اُسے عائشہ کے شوہر سے بھی متوقع نہیں تھی۔
”ہاں … ڈاکٹر عائشہ عابدین۔” دوسری طرف سے احسن سعد نے بڑے چبھتے ہوئے لہجہ میں کہا۔ ” میں یہ سمجھ نہیں پارہا کہ آپ مجھ سے ملنا کیوں چاہ رہے ہیں؟” جبریل کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ ” میں آپ کو ٹھیک سے جانتا بھی نہیں۔” ” آپ مجھے ٹھیک سے نہیں جانتے لیکن میری سابقہ بیوی کو ضرورت سے زیادہ جانتے ہیں اسی لئے اُسے وکیل فراہم کررہے ہیں… اُس کی ضمانت کروارہے ہیں۔” جبریل خاموش رہا۔ احسن سعد کے طنز میں صرف تحقیر نہیں تھی ” باخبری” بھی تھی۔ وہ مکمل معلومات رکھنے کے بعد ہی اُس سے رابطہ کررہا تھا۔
” میں آپ کے ہاسپٹل سے زیادہ دور نہیں ہوں… اور میں زیادہ وقت بھی نہیں لوں گا آپ کا کیونکہ آپ بھی مصروف ہیں اور فالتو وقت میرے پاس بھی نہیں ہے… لیکن آپ سے ملنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ ایک مسلمان کے طور پر میں آپ کو اُس خطرے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جس کا اندازہ آپ کو نہیں ہے اور چاہتا ہوں آپ وہ غلطی نہ کریں، جو میں نے کی ہے۔” احسن سعد بہت لمبی بات کرتا تھا، اُس کی بات سُنتے ہوئے جبریل نے سوچا مگر وہ اُس کی بات سننے سے بھی پہلے اُس سے ملنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ وہ احسن سعد سے مل کر اُسے کہنا چاہتا تھا کہ وہ عائشہ کے خلاف وہ کیس واپس لے لے جو اُس نے فائل کیا تھا۔ اُس وقت احسن سعد کے ساتھ ملنے کی جگہ طے کرتے ہوئے اُسے یقین تھا وہ اُس شخص کو سمجھا لے گا، اس کے باوجود کہ اُس نے نساء سے اُس کے بارے میں بے حد خوفناک باتیں سُنی تھیں۔ اس کے باوجود کہ اُس نے عائشہ عابدین کی وہ حالت دیکھی تھی مگر کہیں نہ کہیںجبریل سکندر اُسے ایک خراب شادی اور خراب سے زیادہ mismatched شادی ہی سمجھتا رہا تھا جس میں ہونے والی غلطیاں یک طرفہ نہیں ہوسکتی تھیں۔ کہیں نہ کہیں ایک مرد کے طور پر اُس کا یہ خیال تھا کہ ساری غلطیاں احسن سعد کی نہیں ہوسکتی تھیں، کچھ خامیاں عائشہ عابدین میں بھی ہوں گی… کہیں نہ کہیں جبریل سکندر یہ جاننے کے بعد کہ احسن سعد کی فیملی بے حد مذہبی تھی، اُن کے لئے biased تھا اُس کا خیال نہیں اُسے یقین تھا کہ وہ اتنے سخت نہیں ہوسکتے جتنا اُس نے اُن کے بارے میں سُنا تھا۔ کہیں نہ کہیں وہ یہ bias اُس حافظِ قرآن کے لئے بھی رکھتا تھا جو اُس کی طرح قرآن جیسی متبرک شے کو اپنے سینے اور ذہن میں رکھتا تھا۔ وہ یہ ماننے پر تیّار نہیں تھا کہ جس دل میں قرآن محفوظ کیا گیا تھا ،وہ اتنا سخت اور بے رحم ہوسکتا تھا۔ اُسے یقین تھا جو بھی کچھ تھا اُس میں غلط فہمیوں کا زیادہ قصور ہوگا بُری نیت اور اعمال کی نسبت اور وہ اسی خیال کے ساتھ احسن سعد سے ملنے آیا تھا، اس یقین کے ساتھ کہ وہ اُسے سمجھا لے گا اور اس جھگڑے کو ختم کروادے گا اور احسن سعد سے مصافحہ کرنے، کافی پینے کے لئے اُس میز پر بیٹھنے تک اُس کا یہ یقین قائم رہا تھا، جو احسن سعد کی گفتگو کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا ہونا شروع ہوگیا تھا۔
” عائشہ نے کبھی مجھ سے آپ کے حوالے سے بات نہیں کی۔” جبریل نے اُس پر نظریں جمائے نرم لہجے میں کہا۔ احسن سعد قہقہہ مار کر ہنسا، جبریل اپنی بات مکمل نہیں کرسکااُسے سمجھ نہیں آئی اُس کی گفتگو میں ہنسنے والی کیا بات تھی۔
” میں نہ تو بے وقوف ہوں ، نہ ہی بچہ ۔” اُس نے اُس قہقہے کے اختتام پر جبریل سے کہا ” مجھے یقین ہے تم نہ بے وقوف ہو اور نہ ہی بچّے اور نہ میں ایسا سمجھتا ہوں۔” جبریل نے جواباً بڑے محتاط انداز میں کہا ”Then stop treating me like one” احسن سعد نے ایک بار پھر اُس کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا تھا۔ اُس کی آواز اب بلند تھی، ماتھے پر بل اور ہونٹ بھنچے ہوئے… اُس نے کافی کے اُس کپ کو ہاتھ سے دور دھکیل دیا تھا جس سے کچھ دیر پلے اُس نے ایک سِپ لیا تھا۔ کافی چھلک کر میز پر گری تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ اب مٹھیوں کی شکل میں بھنچے ہوئے میز پر تھے، سیکنڈز کے اندر احسن سعد نے کسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلا تھا… وہ اب شدید غصّہ میں نظر آرہا تھا اور جبریل کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ اُن چند جملوں میں جن کا تبادلہ اُن کے درمیان ہوا تھا، ایسا کیا تھا جو اُسے اس طرح غضب ناک کرتا۔ ” تم اُس عورت کے guaranter بنے ہوئے ہو اور تم مجھ سے یہ کہہ رہے ہو کہ اُس نے تم سے میرے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔” اُس کی آواز اب پہلے سے بھی زیادہ بلند ہوئی تھی، آس پاس کی ٹیبلز پر بیٹھے لوگوں نے گردنیں موڑ کر اُن کو دیکھا۔ جبریل نے ایک نظر اطراف میں مڑتی گردنوں کو دیکھا پھر بے حد سرد مہری سے اُس سے کہا۔
” اگر تم اس آواز اور انداز میں مجھ سے بات کرنا چاہتے ہو تو میں یہاں ایک منٹ بھی مزید ضائع نہیں کرنا چاہوں گا…” جبریل نے کہتے ہوئے ایک ہاتھ سے اپنا والٹ جیب سے نکالا اور دوسرے ہاتھ کو فضا میں ذرا سا بلند کر کے ویٹر کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اُسے بل لانے کا اشارہ کیا۔ احسن سعد کو یک دم ہی احساس ہوا ، وہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
” میں اپنے بیٹے کے قتل کی وجہ سے اس قدر فرسٹریٹڈ ہوں کہ… I am sorry۔ ” وہ اگلے ہی لمحے گرگٹ کی طرح ایک بار پھر رنگ بدل گیا تھا۔ اب اُس کی آواز ہلکی تھی، بھنچی ہوئی مٹھیاں ڈھیلی پڑگئی تھیں اور وہ ایک ہاتھ سے اپنا ماتھا اور کنپٹیاں رگڑ رہا تھا۔ جبریل نے اُس تبدیلی کو بھی اتنی ہی باریکی سے دیکھا تھا جتنی باریکی سے اُس نے پہلی تبدیلی دیکھی تھی اور اُس نے احسن سعد کی معذرت کو قبول کیا تھا۔
” تم میرے مسلمان بھائی ہو اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اس دھوکے سے بچا لوں جو میں نے کھایا۔ ” اُس کا اگلا جملہ جبریل کے سر کے اوپر سے گزرگیا تھا۔ احسن سعد اب بے حد نرم اور دھیمے انداز میں بات کررہا تھا بے حد شائستگی کے ساتھ… جبریل نے ٹوکے بغیر اُسے بات کرنے دی۔
” میری بیوی ایک characterless عورت ہے… جس طرح اُس نے تمہیں اُلّو بنایا ہے اپنی مظلومیت استعمال کر کے… اُسی طرح تم سے پہلے درجنوں کو بناچکی ہے۔ وہ کسی بھی مرد کو منٹوں میں اپنی مٹھی میں کر کے انگلیوں پر نچاسکتی ہے۔” اُس کے لہجے میں عائشہ کے لئے اتنا زہر موجود تھا کہ جبریل دم بخود رہ گیا تھ، وہ جن لوگوں میں اُٹھتا بیٹھتا تھا وہاں طلاق بھی ہوتی تھی، بریک اپ بھی مگر کوئی اپنی بیوی کے بارے میں اس طرح کی گفتگو نہیں کرتا تھا جس طرح کی گفتگو احسن کررہا تھا۔
” میرا عائشہ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا اور میں سمجھ نہیں پارہا کہ تمہاری باتوں کو الزامات سمجھوں یا غلط فہمی؟” جبریل مداخلت کیے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
” یہ حقائق ہیں” احسن نے جواباً کہا۔
” جو بھی ہے، مجھے ان میں دلچسپی نہیں، عائشہ ایک بہت اچھی لڑکی ہے اور میں نے صرف اس لئے اُس کی مدد کی کیونکہ اُس کی بہن میری کلاس فیلو تھی۔ ” احسن نے اُس کی بات کاٹی ” تم اُس کی بہن کو جانتے ہوگے اس عورت کو نہیں… اس فاحشہ اور حرّافہ کو نہیں…”
”Language please … ” جبریل کا چہرہ اور کانوں کی لویں بیک وقت سُرخ ہوئی تھیں، وہ احسن سعد سے اس طرح کے الفاظ کی توقع کررہا تھا۔
” تم اگر اس عورت کو جانتے ہوتے تو تمہیں ان الفاظ پرکبھی اعتراض نہ ہوتا… یہ اس سے زیادہ گندے الفاظ deserve کرتی ہے۔ ” احسن کی زبان ویسے ہی چلتی رہی تھی ۔” وہ تمہاری بیوی رہ چکی ہے، تمہارے ایک بچّے کی ماں ہے… کم از کم تم سے یہ الفاظ deserve نہیں کرتی… بیوی بُری ہوسکتی ہے، ماں بھی… مگر عورت کی عزت ہوتی ہے نا… اتنی respect تو دکھاؤ اُس کے لئے۔ ” جبریل بے حد ٹھنڈے مزاج کا تھا، لیکن جو ”گفتگو” وہ سُن رہا تھا وہ اُس جیسے ٹھنڈے مزاج کے شخص کو کھولا دینے کے لئے بھی کافی تھی۔
” جو عورت بیوی رہ چکی ہو ،اُس کی کیا عزت!” احسن سعد نے جواب نہیں دیا تھا، اپنی ذہنیت کو اُس کے سامنے ننگا کرکے رکھ دیا تھاْ
”Then I pity on you… اور اُس عورت کو بھی جو تمہاری بیوی رہی۔” جبریل نے بے حد سرد لہجے میں اُس سے کہا تھا، اُسے اندازہ ہوگیا تھا وہ غلط شخص کو سمجھانے بیٹھا تھا۔
” اُس سے تمہارا کوئی رشتہ نہیں پھر تمہیں کیوں تکلیف ہورہی ہے؟” احسن سعد نے جواباً اُسے ایک جھلسانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔
” تم اُسے جانتے ہی کتنا ہو کہ ایک شوہر کی رائے کو رد کررہے ہو؟”
” میں اُسے سولہ سال کی عمر سے جانتا ہوں، اُسے بھی… اُس کی فیملی کو بھی… اور وہ ایک بہت اچھی لڑکی تھی اور ہے…”
احسن سعد کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا تھا۔
“So I was right,it was an old affair”
“Shut Up….You are sick”جبریل کو اب اپنے سر میں درد محسوس ہونے لگا تھا۔ اُسے لگ رہا تھا وہ تھوڑی ہی دیر میں احسن سعد کے ساتھ اُسی کی طرح گالم گلوچ پر اُتر آئے گا… وہ شخص کسی کو بھی infuriate کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا… وہ کسی کو بھی پاگل کرسکتا تھا۔
”تم مجھ سے کس لئے ملنے آئے ہو؟” جبریل نے اُس بل جیکٹ کے اندر بل کی رقم رکھتے ہوئے بے حد بے زاری سے کہا جو ویٹر بہت پہلے رکھ کر گیا تھا، یہ جیسے احسن سعد کے لئے اشارہ تھا کہ وہ وہاں سے جانا چاہتا تھا۔ میں تمہیں صرف اس عورت کے بارے میں بتانے آیا تھا کہ…” جبریل نے بے حد درشتی سے اُس کی بات کاٹی ” اور میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں اُس کے یا اُس کے کردار کے بارے میں کچھ بھی سُننے میں…I am just not interested… کیونکہ وہ کیا ہے، کیسی ہے یہ میرا مسئلہ نہیں ہے…Is that clear to you?”
”پھر تم اُس عورت کو سپورٹ کرنا بند کرو…” احسن سعد نے جواباً اُس سے کہا تھا ” میں اُسے اس لئے سپورٹ کررہا ہوں کیونکہ کوئی ماں اپنی اولاد کو نہیں مارسکتی…وہ negligent ہو بھی تو بھی اس negligence کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اُس اولاد کو مارنا چاہتی تھی اور اُس کے خلاف قتل کا کیس کردیا جائے۔” جبریل اب بے حد blunt ہورہا تھا۔ یہ شاید احسن کا رویہ تھا، جس نے اُس کا سارا لحاظ منٹوں میں غائب کردیا تھا۔
” تم پہلے یہ طے کرو کہ تمہیں عائشہ سے نفرت ہے کیوں… اُس کے عورت ہونے کی وجہ سے؟ بیوی ہونے کی وجہ سے؟Characterless ہونے کی وجہ سے یا اپنے بیٹے کو مارنے کے شبہ کی وجہ سے… تم بیٹھ کر یہ طے کرو کہ تمہاری اتنی گہری نفرت کی وجہ ہے کیا۔” جبریل اُس سے کہتا گیا تھا۔
“That’s none of your business” احسن سعد نے درشتی سے کہا تھا ” میں تم سے psychiatry پڑھنے نہیں آیا۔” جبریل نے سر ہلایا”Exatctly… میں بھی تم سے morality پڑھنے نہیں آیا۔ تم مسلمان ہو، بہت اچھی طرح جانتے ہو کہ جس عورت کو طلاق دے دی گئی ہو، اُس کے حوالے سے کیا ذمّہ داریاں عائد ہوتی ہیں… اور اُس میں کم از کم یہ ذمّہ داری شامل نہیں ہے کہ تم ہر مرد کے سامنے بیٹھ کر اس پر کیچڑ اُچھالو۔”
” تم مجھے میرا دین سکھانے کی کوشش مت کرو۔” احسن سعد نے اُس کی بات کاٹ کر بے حد تنّفر سے کہا تھا ”میں حافظ ِ قرآن ہوں، اور تبلیغ کرتا ہوں… درجنوں غیر مسلموں کو مسلمان کرچکا ہوں… تم مجھے یہ مت بتاؤ کہ میرا دین مجھ پر عورتوں کے حوالے سے کیا ذمہ داری عائد کرتا ہے اور کیا نہیں… تم اپنے دین کی فکر کرو کہ ایک نامحرم عورت کے ساتھ افیئر چلا رہے ہو اور مجھ سے کہہ رہے ہو کہ میں اپنی سابقہ آوارہ بیوی کی شان میں قصیدے پڑھوں” وہ بات نہیں کررہا تھا۔ زہر تھوک رہا تھا۔ وہ جبریل کی زندگی میں آنے والا پہلا تبلیغی تھا جس کی زبان میں جبریل نے مٹھاس کی جگہ کڑواہٹ دیکھی تھی۔
”تمہاری تصویریں میں نے شادی کے بعد بھی اُس کے لیپ ٹاپ میں دیکھی تھیں اور تب اُس نے کہا تھا تم اُس کی بہن کے دوست ہو ، تمہارا اور اُس کا کوئی تعلق نہیں، لیکن میں غلط نہیں تھا، میرا شک ٹھیک تھا۔ کوئی لڑکی بہن کے بوائے فرینڈ کی تصویریں اپنے laptop میں جمع کر کے نہیں رکھتی ہے…” احسن سعد کہہ رہا تھا اور جبریل دم بخود تھا ” اور آج تم نے بالآخر بتادیا کہ یہ affair کتنا پُرانا تھا…اسی لئے تو اُس عورت نے جان چھڑائی ہے میرے بیٹے کو مار کر۔” اُس کی ذہنی حالت اس وقت جبریل کو قابلِ رحم لگ رہی تھی۔اتنی قابلِ رحم کہ وہ بے اختیار کہنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
” احسن اُس نے تمہارے بیٹے کو نہیں مارا… وہ سرجری میں ہونے والی ایک غلطی سے مارا گیا۔” اُس کی زبان سے وہ نکلا تھا جو شاید اُس کے لاشعورمیں تھا اور جس سے وہ خود نظریں چُراتا پھررہا تھا۔ احسن کو اس کا جملہ سُن کر کرنٹ لگا تھا اور جبریل پچھتایا تھا… وہ ایک برا دن تھا اور اُس بُرے دن کا وہ بدترین وقت تھا۔
”تم کیسے جانتے ہو یہ؟” احسن نے سرسراتی ہوئی آواز میں اُس سے کہا تھا ۔
”کیونکہ میں اُس آپریشن ٹیم کا حصّہ تھا…” اس بار جبریل نے سوچ سمجھ کر کہا تھا… بدترین انکشاف وہ تھا جو ہوچکا تھا، اب اس کے بعد کی تفصیلات کا پتہ چل جانا یہ نہ چلنا بے معنی تھا۔ احسن دم سادھے اُس کا چہرہ دیکھ رہا تھا… ساکت ، پلکیں جھپکائے بغیر اُس کے چہرے کا رنگ سانولا تھا یا سُرخ یا زرد… چند لمحوں کے لئے جیسے جبریل کے لئے یہ طے کرنا مشکل ہوگیا تھ ” وہ سرجری میں نے نہیں کی احسن… میں assistکررہا تھاڈاکٹر ویزل کو… اور مجھے یا بھی یقین نہیں ہے کہ سرجری میں واقعی کوئی غلطی ہوئی تھی یا وہ میرا وہم تھا۔” جبریل نے اُس کے سامنے جیسے وضاحت دینے کی کوشش کی تھی… احسن سعد وہاں اُسے عائشہ عابدین سے بدگُمان کرنے آیا تھا لیکن اُسے اندازہ نہیں تھا کہ اُسے جواباً جبریل سے کیا پتہ چلنے والا تھا۔
وہ یک دم اُٹھا تھا اور پھر وہاں سے چلا گیا تھا۔ جبریل سکندر وہاں بیٹھا رہ گیا تھا۔
******
“Hello back in USA”صبح سویرے اپنے فون کی سکرین پر اُبھرنے والی اس تحریر اور بھیجنے والے کے نام نے رئیسہ کو چندلمحوں کے لئے ساکت کیا تھا۔ اس کے باوجود کہ وہ یہ توقع کررہی تھی کہ وہ واپس آنے کے بعد اُس سے رابطہ ضرور کرے گا۔ حالات جو بھی تھے، اُن دونوں کے درمیان بہرحال ایسا کچھ نہیں ہوا تھا کہ اُن دونوں کو ایک دوسرے سے چھپنا پڑتا۔ “Welcome Back” کا ٹیکسٹ اُسے بھیجتے ہوئے رئیسہ نے ایک بار پھر خود کو یاد دلایا تھا کہ زندگی میں ہونے والے اُس پہلے بریک اپ کو اُس نے دل پر نہیں لینا تھا… اور بار بار خود کو یہ یاد دہانی ضروری تھی… درد ختم نہیں ہورہا تھا، لیکن کم ضرور ہوتا تھا… کچھ دیر کے لئے تھمتا ضرور تھا۔
”یونیورسٹی جارہی ہو؟” وہ نہا کر نکلی تو اُس نے فون پر ہشام کا اگلا ٹیکسٹ دیکھا۔ اُس نے ہاں کا جوابی ٹیکسٹ کرتے ہوئے اُسے اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
”ملیں؟” اگلا ٹیکسٹ فوراً آیا تھا۔ وہ کارن فلیکس کھاتے ہوئے میز پر پڑے فون پر چمکتے اُس سوال کو دیکھتی رہی۔ کہنا چاہتی تھی… اب کیسے؟…مگر لکھا تھا…”نہیں میں مصروف ہوں”… کارن فلیکس حلق میں اٹکنے لگے تھے، وہ اب اُس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دل سنبھالنے کی ساری کوششوں کے باوجود اُس کا سامنا مشکل ترین تھا۔ وہ روایتی لڑکی نہیں بننا چاہتی تھی۔ نہ گلے شکوے کرنا چاہتی تھی، نہ طنز… نہ جھگڑا… اور نہ ہی اُس کے سامنے روپڑنا چاہتی تھی… وہ بحرین بہرحال اس لئے نہیں گیا تھا کہ بچھڑ جاتا۔
فون کی سکرین پر جواباً ایک منہ چڑاتی smiley آئی تھی، یوں جیسے اُس کے بہانے کا مذاق اُڑارہی ہو۔ رئیسہ نے اُسے اگنور کیا اور اُسے جواباً کچھ نہیں بھیجا۔
پندرہ منٹ بعد اُس نے اپنے اپارٹمنٹ کے باہر نکلنے پر گاڑی سمیت اُسے وہاں پایا تھا۔ وہ شاید وہیں بیٹھے ہوئے اُسے text بھیج رہا تھا، ورنہ اتنی جلد وہ وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا ۔اُسے سرپرائز دینا اچھا لگتا تھا اور رئیسہ کو یہ سرپرائز لینا… مگر یہ کچھ دن پہلے کی بات تھی۔
وہ اُس کے بلائے بغیر اُس کی طرف آئی تھی، دونوں کے چہروں پر ایک دوسرے کو دیکھ کر خیر مقدمی مسکراہٹ اُبھری، حال احوال کا پوچھا گیا، اُس کے بعد رئیسہ نے اُس سے کہا ،” مجھے آج یونیورسٹی ضرور پہنچنا ہے… کچھ کام ہے۔” ہشّام نے جواباً کہا ،”میں ڈراپ کردیتا ہوں اور ساتھ کچھ گپ شپ بھی لگالیں گے… بڑے دن ہوگئے ہمیں ملے اور بات کیے۔” رئیسہ نے اُس سے نظریں چُرالیں تھیں۔ مزید کچھ بھی کہے بغیر وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی تھی۔
” کیا ہوا؟” ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی ہشّام نے اُس کی طرف مڑتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا ، ”کیا؟” رئیسہ نے انجان بننے کی کوشش کی، یہ کہنا کہ میں ناخوش ہوں، دل شکستہ ہوں، کیونکہ تم مجھے اُمیدیں دلاتے دلاتے کسی اور لڑکی کو اپنی زندگی میں لے آئے ہو… یہ سب کم از کم رئیسہ کی زبان پر نہیں آسکتا تھا۔
”کیا؟”اُس نے جواباً ہشّام سے پوچھا تھا، ”تمہارا موڈ آف ہے؟” وہ اب بڑی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ ”نہیں… موڈ کیوں آف ہوگا؟” رئیسہ نے جواباً اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا ”پتہ نہیں یہی تو جاننا چاہتا ہوں۔” وہ اُلجھا ہوا تھا ،”تم کچھ دنوں سے مکمل طور پر غائب ہو میری زندگی سے… بحرین سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن تم کال ریسیو نہیں کرتی ، نہ ہی میسجز کا جواب دیتی ہو… ہوا کیا ہے؟”
”تمہیں کیا لگتا ہے کیا وجہ ہوسکتی ہے میرے اِس رویّے کی؟” رئیسہ نے جواباً اُس سے پوچھا۔
”مجھے نہیں پتہ…” ہشّام نے ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد کہا تھا۔
”میں اب یہ سب ختم کرنا چاہتی ہوں۔” رئیسہ نے بالآخر اُس سے کہا۔ وہ چونکا نہیں ، اُسے دیکھتا رہا پھر سر جھٹک کر بولا ،”یعنی میرا اندازہ ٹھیک ہے، تمہارا موڈ واقعی ہی آف ہے۔” رئیسہ نے اُس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنے بیگ سے انگوٹھی کی وہ ڈبیا نکال لی اور گاڑی کے ڈیش بوڑ پر رکھ دی، ہشّام بول نہیں سکا۔ گاڑی میں خاموشی رہی، پھر ہشّام نے کہا ۔
”تم نے engagement کی خبر پڑھ لی ہے؟”
”اُس سے بھی پہلے مجھے یہی خدشہ تھا، اس لئے اُس خبر سے میں حیران نہیں ہوئی۔” رئیسہ نے مدہم آواز میں اُس سے کہا، بڑے ٹھنڈے انداز میں جس کے لئے وہ ہمیشہ پہچانی جاتی تھی۔ ” میں نے تم سے ایک commitment کی تھی رئیسہ، اور میں اپنا وعدہ نہیں توڑوں گا۔ نیوزپیپر میں آنے والی ایک خبر ہم دونوں کے درمیان دیوار نہیں بن سکتی، اتنا کچا رشتہ نہیں ہے یہ۔”ہشّام بڑی سنجیدگی سے کہتا گیا تھا۔
”نیوزپیپر کی خبر کی بات نہیں ہے ہشّام، تمہاری فیملی کے فیصلے کی بات ہے… تم اب ولی عہد ہو… تمہاری ذمہ داریاں اور تم سے رکھی جانے والی توقعات اور ہیں…” وہ اُس کی بات پر ہنسا تھا۔
”ولی عہد…میں ابھی تک نہ اپنے اس رول کو سمجھ پایا ہوں اور نہ ہی یہ اندازہ لگا پارہا ہوں کہ میں اس منصب کے لئے اہل ہوں بھی یا نہیں…یہ power politics ہے… آج جس جگہ پر ہم ہیں… کل ہوں گے بھی یا نہیں…کوئی certainity نہیں… اگر مجھے فیصلہ کرنا ہوتا تو میں کبھی یہ عہدہ نہ لیتا مگر یہ میرے باپ کی خواہش ہے۔” وہ اب سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ رئیسہ نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا،” غلط خواہش نہیں ہے… کون ماں باپ نہیں چاہیں گے، اپنی اولاد کے لیے ایسا منصب… تم خوش قسمت ہو، تمہیں ایسا موقع ملا ہے۔” وہ مدہم آواز میں کہتی گئی۔
”پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا۔” ہشّام نے جواباً کہا،”لیکن اب ایسا نہیں ہے… ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے… کوئی بھی چیز لاٹری میں نہیں ملتی… یہ ضروری ہے ولی عہد کے لئے کہ وہ ایک شادی شاہی خاندان میں کرے… وہ بھی پہلی… میری اور تمہاری شادی ہوچکی ہوتی تو اور بات تھی، لیکن اب نہیں ہوسکتا کہ میں شاہی خاندان میں شادی سے انکار کروں۔ جنہوں نے میرے باپ کی بادشاہت کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے ہی یہ فیصلہ بھی کیا ہے۔ مجھ سے اس بارے میں رائے نہیں لی گئی، بتایا گیا تھا۔ ” وہ خاموش ہوا۔
” میں اندازہ کرسکتی ہوں اور اسی لئے تم سے کوئی شکایت نہیں کررہی… میرے اور تمہارے درمیان ویسے بھی اتنے عہد و پیمان تو ہوئے بھی نہیں تھے کہ میں تم کو کسی بات کے لئے الزام دیتی… اسی لئے ختم کرنا چاہتی ہوں خود یہ سب کچھ تاکہ تم اگر کوئیobligation محسوس کررہے ہو تو نہ کرو…… اور میں hurt نہیں ہوں۔” اُس نے بات ختم کی، توقف کیا پھر آخری جملہ بولا۔
”تم ہوئی ہو… میں جانتا ہں اور میں نادم بھی ہوں۔” ہشّام نے اُس کی بات کے اختتام پر کہا۔ ”اور میں یہ سب ختم نہیں کرنا چاہتا، نہ ہی میں تم سے اس لئے ملنے آیا ہوں… رئیسہ میں تم سے بھی شادی کروں گا اور یہ بات میں نے اپنی فیملی کو بتادی ہے اور اُنہیں اعتراض نہیں ہے۔” وہ اُس کی بات پر بے اختیار ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی اتنا کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”حمین بالکل ٹھیک کہتا تھا۔ پتہ نہیں اُس کی زبان کالی ہے یا وہ ضرورت سے زیادہ عقلمند ہے۔” وہ بالآخر اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے بولی۔ ہشّام پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
”وہ کیا کہتا ہے؟”
”یہی جو تم ابھی کہہ رہے ہو… دوسری شادی… وہ کہتا ہے… بادشاہ حرم رکھتے ہیں اور حرم کی ملکہ بھی کنیز ہی ہوتی ہے۔”
ہشّام کچھ دیر کے لئے بول نہیں سکا، یوں جیسے لفظ ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہو، پھر اُس نے جیسے مدافعانہ انداز میں کہا ”عربوں میں ایسا نہیں ہوتا، اگر بادشاہ کی چار بیویاں بھی ہوں تو بھی…” رئیسہ نے بڑی نرمی سے اُس کی بات کاٹ دی۔”مجھے کسی بادشاہ سے شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی ، میں ہشّام سے شادی کرنا چاہتی تھی…تمہاری مجبوری ہوسکتی ہے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا… میری مجبوری نہیں ہے۔ میں محبت کرتی ہوں لیکن دل کے ہاتھوں اتنی مجبور نہیں ہوں کہ تمہارے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ ہی نہ سکوں۔” اُس کے لہجے میں وہی practicality تھی جس کے لئے ہشّام اُس کو پسند کرتا تھا… مگر آج پہلی بار وہ عقل، وہ سمجھ بوجھ اُسے بُری لگی تھی۔
”اتنا کمزور رشتہ تو نہیں ہے ہمارا رئیسہ۔”اُس نے رئیسہ کی بات کے جواب میں کہا۔
”میرا بھی یہی خیال تھا کہ بہت مضبوط تھا، لیکن میرا خیال غلط تھا۔ میری ممّی کبھی بھی intercultural اور interracial شادیوں کے حق میں نہیں ، اور میں سمجھتی تھی یہ bias ہے… لیکن آج مجھے احساس ہوا ہے کہ وہ ٹھیک کہتی ہیں… تہذیب کا فرق بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔” رئیسہ کہہ رہی تھی ” کبھی بھی بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے جیسے ابھی ہوا… لیکن مجھے خوشی ہے کہ یہ سب اب ہوا ہے… بعد میں ہوتا تو…” وہ رُکی، ہشّام نے اُس کی بات پوری نہیں ہونے دی۔
”میں تمہاری ممّی سے متفق نہیں ہوں… محبت کا رشتہ ہر فرق سے بڑا اور طاقت و ر ہوتا ہے۔” رئیسہ نے کہا ” مانتی ہوں لیکن وہ تب ہوتا ہے جب مرد کی محبت میرے بابا جیسی pure ہو اور وہ میرے بابا کی طرح اپنے فیصلے پر قائم رہ سکے۔” اُس نے سالار سکندر کا حوالہ دیا تھا، اگر محبت کے بارے میں اُسے کوئی ریفرینس یاد تھا تو وہ اپنے ماں باپ کی آپس میں محبّت ہی کا تھا۔ اور وہ حوالہ ہشّام نے بہت بار سُنا تھا، لیکن آج پہلی بار اُس نے ہشّام کا موازنہ سالار سکندر سے کیا تھا، اور علی الاعلان کیا تھا۔ ”میں بھی اپنی محبت میں بہت کھرا ہوں اور تمہارے لئے لڑسکتا ہوں۔” اُس نے رئیسہ سے کہا تھا۔اُس کا وہ حوالہ اور موازنہ اُسے پہلی بار شدید بُرا لگا تھا۔ وہ پچھلے کئی ہفتوں سے بحرین میں سر اور پلکوں پر بٹھایا جارہا تھا اور یہاں وہ اُسے ایک ”عام آدمی” کے سامنے چھوٹا گردان رہی تھی۔
”ہاں تم ہو محبّت میں کھرے، لیکن تم لڑنہیں سکتے ہشّام ، نہ مجھے زندگی میں شامل کرنے کے لئے، نہ ہی مجھے اپنی زندگی میں رکھنے کے لئے۔” رئیسہ نے اب گاڑی کا دروازہ کھول لیا تھا۔
”میں پھر بھی اپنے ماں باپ کو تمہارے ماں باپ کے پاس رشتے لے لئے بھیجوں گا اور یہ وقت بتائے گا کہ میں تمہارے لئے لڑسکتاہوں یا نہیں۔” گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے رئیسہ نے اُسے کہتے سُنا تھا۔اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔پیچھے کچھ بھی نہیں تھا۔ اُس نے ہشّام کے جملے کو سُنتے ہوئے سوچا تھا۔
******
وہ ایک ہفتہ جبریل سکندر کے لئے عجیب ذہنی انتشار لایا تھا۔ احسن سعد ایک بے حد ڈسٹرب کردینے والی شخصیت رکھتا تھا اور وہ اُسے بھی ڈسٹرب ہی کر کے گیا تھا۔ اُسے اندازہ نہیں تھا کہ اُس کے اسفند کی سرجری سے متعلقہ انکشاف پر اب وہ کیسے react کرے گا۔ جس بات کا اُسے خدشہ تھا، وہ اُس کیس میں کسی بھی حوالے سے اپنی نامزدگی تھی جو وہ نہیں چاہتا تھا… ایک ڈاکٹر کے طور پر اپنے کیریئر کے اس سٹیج میں اپنے پروفیشن سے متعلقہ کسی سکینڈل یا کیس کا حصّہ بننا اپنے کیریئر کی تباہی کے مترادف تھا۔ لیکن اب اس پر پچھتانے کا فائدہ نہیں تھا، جو ہونا تھا، وہ ہوچکا تھا اور اسی ہفتے میں بے حد سوچ و بچار کے بعد اُس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ عائشہ کو بھی اس سرجری کے حوالے سے وہ سب کچھ بتادے گا، جو وہ احسن سعد کو بتاچکا تھا۔ ان حالات میں ایسا کرنا بے حد ضروری ہوگیا تھا۔
اُس نے ہفتے کی رات کو اُسے فون کیا تھا، فون بند تھا… جبریل نے اُس کے لئے پیغام چھوڑا تھا کہ وہ اُسے کال بیک کرے، آدھ گھنٹہ کے بعد اُس نے عائشہ کا نام اپنی سکرین پر چمکتا دیکھا۔
کال ریسیو کرنے کے بعد اُن کے درمیان حال احوال کے حوالے سے چند سیکنڈز کی گفتگو ہوئی، پھر جبریل نے اُس سے اگلے دن ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔
”کس لئے ملنا چاہتے ہیں آپ؟” عائشہ نے بے تاثر انداز میں اُس سے پوچھا تھا۔
” یہ بات میں آپ کو سامنے بیٹھ کر ہی بتا سکتا ہوں۔” اُس نے جواباً کہا تھا، وہ چند لمحے خاموش رہی پھر اُس نے پوچھا تھا کہ وہ کس وقت اُس سے ملنا چاہتا تھا۔
” کسی بھی وقت جب آپ کے پاس وقت ہو۔” اُس نے جواباً کہا تھا۔
”گیارہ ، بارہ بجے؟” عائشہ نے چند لمحے سوچ کر اُس سے کہا۔
”Done” اُس نے جواباً کہا اور عائشہ عابدین نے خداحافظ کہہ کر فون بند کردیا۔ جبریل فون ہاتھ میں لئے اگلا جملہ سوچتا ہی رہ گیا۔ احسن سعد نے اُس سے کہا تھا اُس نے عائشہ عابدین کے لیپ ٹاپ میں اُس کی تصویریں دیکھی تھیں، جبریل کو یاد نہیں پڑتا تھا اُس کے اور عائشہ کے درمیان کبھی تصویروں کا تبادلہ ہوا ہو اور تصویروں کا کوئی تبادلہ تو اُس کے اور نساء کے درمیان بھی نہیں ہوا تھا لیکن نساء کے پاس اُس کی گروپ فوٹوز ضرور تھیں… مگر عائشہ اُن تصویروں کو اپنے پاس اس طرح الگ کیوں رکھے ہوئے تھی… وہ گروپ فوٹوز ہوتیں تو احسن سعد اُس میں سے صرف جبریل کو پہچان کر اُس پر اعتراض نہ کرتا، یقیناً عائشہ کے پاس اُس کی کچھ الگ تصویریں بھی تھیں، اور وہ تصویریں وہ کہاں سے لے سکتی تھی…؟ یقیناً فیس بک سے جہاں وہ اُس زمانے میں اپنی تصویریں باقاعدگی سے upload کیا کرتا تھا اور اُس سے بھی بڑھ کر حمین… وہ اُس کے بارے میں بہت سوچنا نہیں چاہتا تھا، لیکن سوچتا چلا گیا تھا۔ احسن سعد سے ملاقات کے بعد عائشہ عابدین کے لئے اُس کی ہمدردی میں دس گنا اضافہ ہوگیا تھا۔
قسط نمبر 45
وہ اگلے دن ٹھیک وقت پر اُس کے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑا تھا اور پہلی بیل پر ہی عائشہ عابدین نے دروازہ کھول دیا تھا۔ وہ شاید پہلے ہی اُس کی منتظر تھی۔ سیاہ ڈھیلے پاجامے اور ایک بلو ٹی شرٹ کے ساتھ flip flops پہنے، اپنے بالوں کو ایک ڈھیلے جوڑے کی شکل میں سمیٹے وہ جبریل کو پہلے سے بہتر لگی تھی، اُس کی آنکھوں کے حلقے بھی کم تھے۔ وہ بے حد خوبصورت تھی اور سولہ سال کی عمر میں بھی اُس سے نظریں ہٹانا مشکل ہوتا تھا۔ اُس کا چہرہ اب بھی کسی کی نظروں کو روک سکتا تھا۔ جبریل کو اھساس ہوا۔
”وعلیکم اسلام۔” وہ اُس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئی۔ اُس نے جبریل کے ہاتھوں میں اُس چھوٹے سے گلدستے کو دیکھا جس میں چند سفید اور گلابی پھول تھے اور اُس کی ساتھ ایک کوکیز کا پیک… اُس کا خیال تھا وہ دونوں چیزیں اُسے تھمائے گا۔ لیکن وہ دونوں چیزیں اُٹھائے اندر چلا گیا تھا۔
کچن کاؤنٹر پر اُس نے پہلے پھول رکھے، پھر کوکیز کا وہ پیک اور پھر وہاں پڑے کافی کے اُس مگ کو دیکھا جس میں سے بھاپ اُڑ رہی تھی۔ وہ یقیناً اُس کے آنے سے پہلے وہ پی رہی تھی۔ ایک پلیٹ میں آدھا آملیٹ تھا اور چند چکن ساسیجز…وہ ناشتہ کرتے کرتے اُٹھ کر گئی تھی۔
”میں بہت جلدی آگیا ہوں شاید؟” جبریل نے پلٹ کر عائشہ کو دیکھا جو اب اندر آگئی تھی۔
” نہیں میں دیر سے جاتی ہوں… آج سنڈے تھا، اور رات کو ہاسپٹل میں ڈیوٹی تھی۔” اُس نے جواباً جبریل سے کہا۔
” آپ کا سنڈے خراب کردیا میں نے۔” جبریل نے مسکراتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ وہ اب لاؤنج میں پڑے صوفہ پر جاکر بیٹھ گیا تھا۔ عائشہ کا دل چاہا اُس سے کہے… اُس کی زندگی میں ہر دن پہلے ہی بہت خراب تھا، وہ کچھ نہیں بولی تھی اور کچن کاؤنٹر کی طرف چلی گئی۔
”یہ آپ میرے لئے لائے ہیں؟” جبریل نے اُسے پھول اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔
”جی” اُس نے جواباً کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں تھی۔” اُس نے جبریل کو دیکھا ، پھر اُنہیں ایک vase میں ڈالنے لگی۔
” یہ بھی جانتا ہوں۔” جبریل نے کہا۔اُن پھولوں کو اُس vase میں ڈالتے ہوئے عائشہ کو خیال آیا کہ وہ شاید دو، ڈھائی سال کے بعد اپنے لئے کسی کے لائے ہوئے پھولوں کو چھورہی تھی۔آخری بار اُس کے گھر آنے والے پھول اسفند کے لئے اُس کے کچھ عزیز و اقارب کے لائے ہوئے پھول تھے۔ اُس نے ان تکلیف دہ یادوں کو جیسے سر سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
”آپ بریک فاسٹ کرلیں، ہم پھر بات کرتے ہیں۔” جبریل کی آواز نے اُسے چونکایا۔ وہ سینٹر ٹیبل پر پڑی اون سلائیاں اُٹھا کر دیکھ رہا تھا…بے حد amused انداز میں…
” یہ آپ کا شوق ہے؟” اُس نے سکارف کے اُس حصّے کو چھوتے ہوئے کہا، جو ادھ بُنا تھا۔
” وقت گزارنے کی ایک کوشش ہے۔” آملیٹ کی پلیٹ سے آملیٹ کا ایک ٹکڑا کانٹے کی مدد سے اُٹھاتے ہوئے عائشہ نے جواب دیا۔
”اچھی کوشش ہے۔” جبریل نے مسکراتے ہوئے اون سلائیوں کو دوبارہ اُس باکس میں رکھا جس میں وہ پڑے تھے۔
” آپ یہ کافی لے سکتے ہیں… میں نے ابھی بنائی تھی…پی نہیں… میں اپنے لئے اور بنالیتی ہوں۔” اُس نے کافی کا مگ لاکر اُس کے سامنے ٹیبل پر پڑے ایک mat پررکھ دیا تھا، وہ خود دوبارہ ناشتہ کرنے کچن کاؤنٹر کے پاس پڑے سٹول پر جاکر بیٹھ گئی تھی۔
”میرا خیال تھا آپ مجھے ناشتے کی بھی آفر کریں گی۔” جبریل نے مسکراتے ہوئے اُس سے کہا۔
”میں نے اس لئے آفر نہیں کی کیونکہ آپ قبول نہیں کرتے۔” اُس نے ساسجز کے ٹکڑے کرتے ہوئے جواباً کہا۔
”ضروری نہیں” جبریل نے اصرار کیا۔
”آپ ناشتہ کریں گے؟” ٹھک سے اُس سے پوچھا گیا۔
” نہیں…” جبریل نے کہا اور پھر بے ساختہ ہنسا ” میں ناشتہ کر کے آیا ہوں، اگر پتہ ہوتا کہ آپ کرواسکتی ہیں تو نہ کر کے آتا۔Assumptions بڑی نقصان دہ ہوتی ہیں۔” اُس نے کہا، عائشہ خاموشی سے اُس کی بات سنتے ہوئے ناشتہ کرتی رہی۔
”میں آپ کی کال کا انتظار کرتا رہا تھا… اس توقع کے باوجود کہ آپ کال نہیں کریں گی۔” جبریل نے اُس سے کہا۔ وہ کافی کے سپ لے رہا تھا۔ عائشہ نے چکن ساسجز کا آخری ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے اُسے دیکھا۔ اُسے ایک کاغذ پر لکھا ہوا Sorry کا وہ لفظ یاد آگیا تھا جو وہ اُسے ایک لفافے میں دے کر گیا تھا اور جسے دیکھ کر وہ بے حد الجھی تھی۔ وہ اُس سے کس بات کے لئے معذرت خواہ تھی، کس چیز کے لئے شرمندگی کا اظہار کررہا تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ کوئی وضاحت ، کوئی توجیہہ ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی اور اتنا اُلجھنے کے باوجود اُس نے جبریل کو فون کر کے اُس ایک لفظ کی وضاحت نہیں مانگی تھی۔ وہ اُس شخص سے راہ و رسم بڑھانا نہیں چاہتی تھی، بار بار اُس سے بات کرنا ، اُس سے ملنا نہیں چاہتی تھی… ہر بار اُس کی آواز، اُس سے ملاقات عائشہ عابدین کو پتہ نہیں کیا کیا یاد دلانے لگتا تھا… کیا کیا پچھتاوا اوراحساسِ زیاں تھا جو اُسے ہونے لگتا تھا اور عائشہ اپنے ماضی کے اُس حصّے میں نہیں جانا چاہتی تھی جہاں جبریل سکندر کھڑا تھا…وہ closure کرچکی تھی۔
جبریل نے اُسے کچن کاؤنٹر کے پار سٹول پر بیٹھے اپنی خالی پلیٹ پر نظریں جمائے کسی گہری سوچ میں دیکھا، اُس نے جبریل کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔ یوں جیسے اُس نے کچھ سُنا ہی نہ ہو۔ جبریل کو سمجھ نہیں آیا وہ اُس سے جو کہنے آیا تھا، وہ کیسے کہے گا۔ اُس وقت اُس نے بے اختیار یہ خواہش کی تھی کہ کاش اُس نے اُس سرجری کے دوران ڈاکٹر ویزل کی وہ غلطی دیکھی ہی نہ ہوتی۔
”آپ کا وزیٹنگ کارڈ مجھ سے کھوگیا تھا… مجھے یاد نہیں وہ میں نے کہاں رکھ دیا تھا۔” وہ بالآخر بولی تھی اور اُس نے بے حد عجیب ایکسکیوز دی تھی اُسے… یعنی وہ اُسے یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ اُس نے جبریل کا نمبر save نہیں کیا ہوا تھا۔
کچھ کہنے کے بجائے جبریل نے اپنی جیب سے والٹ نکال کر ایک اور وزیٹنگ کارڈ نکالا اور اُسے اون سلائیوں کے اُس ڈبّے میں رکھتے ہوئے کہا،”یہاں سے گم نہ ہو شاید۔” عائشہ نے نظریں چرا لی تھیں۔وہ پلیٹیں اُٹھاتے ہوئے اُنہیں سِنک میں رکھ آئی۔
”آپ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہتے تھے۔” اپنے لئے کافی بناتے ہوئے اُس نے بالآخر جبریل کو وہ ایشو یاد دلایا جس کے لئے وہ یہاں آیا تھا۔
”احسن سعد مجھ سے ملنے آیا تھا۔” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد جبریل نے اُس سے کہا۔ اُس کا خیال تھا وہ بری طرح چونکے گی۔
”میں جانتی ہوں۔” وہ انتہائی غیر متوقع جواب تھا۔ جبریل چند لمحے بول نہیں سکا۔ وہ اُس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ کافی کو اس انہماک سے بنارہی تھی جیسے اُس کی زندگی کا مقصد کافی کا وہ کپ بنانا ہی تھا۔
”اُس نے مجھے کال کی تھی۔” جبریل کی خاموشی کو جیسے اُس نے decode کرتے ہوئے مزید کہا۔ جبریل کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اب کیا کہے… اگر احسن سعد نے اُسے کال کی تھی جبریل سے ملاقات کے بعد تو یہ ممکن نہیں تھا کہ اُس نے عائشہ کو اسفند کی سرجری کے حوالے سے اُس کے اعتراف کے حوالے سے کچھ نہ کہا ہو… اور اگر اُس نے عائشہ سے ذکر کیا تھا تو عائشہ اس وقت اتنے پرسکون انداز میں اُس کے سامنے کیسے بیٹھی رہ سکتی تھی۔ احسن سعد نے جبریل کے کام کو مشکل سے آسان کردیا تھا، مگر اب اس کے بعد اگلا سوال جبریل کو سوجھ نہیں رہا تھا۔
وہ اب اپنا کافی کا مگ لئے اُس کے سامنے صوفہ پر آکر بیٹھ گئی تھی۔
”اب آپ کو یہ تو پتہ چل گیا ہوگا کہ میں کتنی گناہ گار اور قابلِ نفرت ہوں۔” عائشہ عابدین کے لہجے میں عجیب اطمینان تھا یوں جیسے وہ خود پرملامت نہیں، اپنی تعریف کررہی ہو۔ جبریل اُسے دیکھتا رہا۔ عائشہ عابدین کی آنکھوں میں کچھ بھی نہیں تھا… وہ تکلیف اور درد بھی نہیں جو جبریل نے ہر بار اُس کی آنکھوں میں دیکھا تھا… وہ شرمندگی اور ندامت بھی نہیں جو ہر بار اُس کی آنکھوں میں جھلکتی تھی… اُس کی آنکھوں میں اب کچھ بھی نہیں تھا۔ اور اُس کے جملے نے جبریل کے سارے لفظوں کو گونگا کردیا تھا۔ احسن نے آپ کو یہ بتایا کہ سرجری میں…” جبریل کو پتہ نہیں کیوں شبہ ہوا کہ شاید احسن نے اُسے کچھ نہیں بتایا ورنہ عائشہ عابدین کی زبان پر کچھ اور سوال ہونا چاہیے تھا۔
”ہاں”،اُس یک لفظی جواب نے جبریل کو ایک بار پھر کچھ بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، وہ اب اُسے نہیں دیکھ رہی تھی اُس کافی کے مگ سے اُٹھتی بھاپ کو دیکھ رہی تھی جو اُس کے دونوں ہاتھوں میں تھا۔ یوں جیسے وہ ہاتھوں میں کوئی کرسٹل بال لئے بیٹھی ہو، جس میں اپنا مستقبل دیکھنے کی کوشش کررہی ہو۔ ماضی وہ تھا جسے وہ بھولنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتی تھی اور حال میں اُسے دلچسپی نہیں تھی… وہ زندگی کے اُس حصے سے بس آنکھیں بند کر کے گزرنا چاہتی تھی، احسن سعد کی چلّاتی ہوئی آواز اُس کے کانوں میں گونج رہی تھی…
”گالی… گالی… گالی… اور گالیاں…” وہ فون کان سے لگائے کسی میکانکی انداز میںوہ گالیاں سُن رہی تھی جو کئی سال اُس کی زندگی کے شب و روز کا حصّہ رہی تھیں… اور وہ اُنہیں سنتے ہوئے اب immune ہوچکی تھی، اُن برے لفظوں کا زہر اب اُس کا کچھ بھی نہیں بگاڑتا تھا، نہ اُسے شرم محسوس ہوتی تھی، نہ تذلیل، نہ ہِتک، نہ غصہ، نہ پریشانی… طلاق کا کیس چلنے کے دوران، طلاق ہونے کے بعد اور اسفند کی کسٹڈی کے کیس کے دوران بھی احسن کا جب دل چاہتا تھا، وہ اُسے اسی طرح فون کرتا تھا اور یہی سارے لفظ دہراتا تھا، جو اُس نے اب بھی دہرائے تھے۔ وہ کوشش کے باوجود اُس کی کال نہ لینے کی ہمت نہیں کرپاتی تھی… نفسیاتی طرف پر وہ اس قدر خائف تھی کہ اُسے یوں لگتا تھا وہ اُس کی کال نہیں سُنے گی تو وہ اُس کے گھر آجائے گا… وہ اُسے یہی کہتا تھا اور وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ امریکہ میں تھی… اُس کی ایک کال پر پولیس احسن سعد کو کبھی اُس کے گھر کے پاس پھٹکنے بھی نہ دیتی… لیکن عائشہ اتنی بہادر ہوتی تو اُس کی زندگی ایسی نہ ہوتی۔Abuse کی ایک قسم وہ تھی جو اُس نے اپنی شادی قائم رکھنے کے لئے، ایک اچھی بیوی اور اچھی مسلمان عورت بننے کی جد و جہد کرتے ہوئے سہی تھی۔Abuse کی دوسری قسم وہ تھی جو اُس نے اسفند کی زندگی میں باپ نام کی اُس محرومی کو نہ آنے کے لئے سہی تھی، جو خود اُس کی زندگی میں تھی۔
اسفند کے ایک کندھے میں پیدائشی نقص تھا، وہ اپنا بازو ٹھیک سے اُٹھا نہیں پاتا تھا اور وہ slow learner تھا… اور اُس کے یہ دونوں ”نقائص” احسن سعد اور اُس کی فیملی کے لئے ناقابلِ یقین اور ناقابلِ معافی تھی۔ اُن کی سات نسلوں میں کبھی کوئی بچّہ کسی ذہنی یا جسمانی نقص کا شکار کبھی نہیں ہوا تھا… تو اُن کے گھر میں اسفند کی پیدائش کیسے ہوگئی تھی… یہ بھی عائشہ کا قصور تھا…اُس کے جینز کا… اُس کے اعمال کا… وہ اُس کا عذاب اور سزا تھی…احسن سعد اور اُس کی فیملی کے لئے آزمائش کیوں بنا تھا۔اور عائشہ کے کھوکھلے لفظ اب بالکل گونگے ہوگئے تھے۔ اُسے بھی یقین تھا اُس کی اولاد کی یہ تکلیف اُس کے کسی گناہ کا نتیجہ تھی پر کیا گناہ… یہ سوال وہ تھا جس کا جواب اُسے نہیں ملتا تھا، اور اُس معذور اولاد کے ساتھ اُس نے احسن سعد کی اطاعت کی ہر حد پارکرلی تھی، صرف اس لئے کیونکہ اُسے لگتا تھا اُس کے بیٹے کو باپ کی ضرورت تھی۔ وہ اکیلی اُسے کیسے پالتی… وہ اسفند کی پیدائش کے بعد امریکہ آگئی تھی… اور یہاں احسن نے اُسے ریذیڈنسی کرنے کے لئے کہا تھا کیونکہ وہ financially اتنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکتا تھا۔ عائشہ نے سوچے سمجھے بغیر اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکی تھی کہ احسن کو یک دم ایسے کون سے finances نظر آنے لگے تھے جس کے لئے اس کا کام کرنا بھی ضروری تھا۔ اور وہاں آنے کے ایک سال بعد اُسے پتہ چلا تھا کہ اُس کے امریکہ آنے کے چند مہینے بعد ہی احسن نے پاکستان میں دوسری شادی کرلی تھی، وہ اب بہت frequently پاکستان آجارہا تھا اور عائشہ کو کبھی شک نہیں ہوا تھا کہ اُس کی زندگی میں کوئی دوسری عورت آچکی تھی۔ وہ انکشاف کسی نے اُس کی فیملی کے سامنے کیا تھا جو احسن سعد کی دوسری بیوی اور اُس کے خاندان کو جانتا تھا۔ عائشہ عابدین کو سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ وہ اس خبر پر کس ردِّ عمل کا اظہار کرتی، یہ سب فلموں اور ڈراموں میں ہوتا تھا مگر اُس کے ساتھ ہوا تھا تو اُسے فلمیں اور ڈرامے بھی ہیچ لگنے لگے تھے۔
احسن سعد نے بے حد ڈھٹائی سے دوسری شادی کا اعتراف کیا تھا اور اُسے بتایا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور چار شادیاںبھی کرسکتا تھا اور یہاں تو اُس کے پاس ایک بے حد مضبوط وجہ تھی، کہ اُس کی بیوی اُسے صحت مند اولاد نہیں دے سکتی تھی جو اُس کی دوسری بیوی اُسے دے گی۔ زندگی میں وہ پہلا لمحہ تھا جب عائشہ عابدین تھک گئی تھی اور اُس نے احسن سعد اور اُس کی فیملی کے بجائے اپنی فیملی کی بات مانتے ہوئے اُس سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا، اور اُس فیصلے نے اھسن سعد کے ہوش اُڑا دیے تھے۔ اُسے عائشہ عابدین سے ایسے ردِّ عمل کی توقع نہیں تھی۔ اسفند کے نام کچھ جائیداد تھی جو عائشہ کے نانا نے عائشہ کے نام کرنے کے بجائے جائیداد کی تقسیم کے دوران اُس کے بیٹے کے نام gift کی تھی اور عائشہ کے احسن سعد کے لئے valuable ہونے کی یہ بڑی وجہ تھی۔ اُسے عائشہ کے کردار پر شک تھا اُس کی بے عمل اور بے ہدایتی پر شکایت تھی، لیکن اس سب کے باوجود وہ عائشہ کو آزاد کرنے تیار نہیں تھا۔ مگر اُس کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہوا تھا… عائشہ کی طلاق کی proceedings کے دوران پاکستان میں احسن سعد کی دوسری بیوی نے بھی شادی کے آٹھ ماہ بعد خلع کا کیس فائل کردیا تھا۔احسن سعد اور اس کی فیملی نے اس کے بعد کچھ مشترکہ فیملی فرینڈز کے ذریعے مصالحت کی بے انتہا کوشش کی تھیں مگر… عائشہ کی فیملی نے ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا، اور عائشہ اس سارے عرصہ میں ایک کیچوے کی مانند رہی تھی، جو ہورہا تھا وہی ہونا چاہیے تھا۔ مگر جو بھی ہورہا تھا، وہ خود نہیں کرنا چاہتی تھی… وہ تب بھی یہ فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ وہ صحیح کررہی تھی یا غلط… اللہ کے نزدیک اُس کا یہ عمل گناہ تھا یا نہیں… اور اگر وہ گناہ تھا تو وہ چاہتی تھی یہ گناہ کوئی اور اپنے سر لے لے لیکن اُسے احسن سعد سے نجات دلادے۔
جس دن اُس کی طلاق فائنل ہوئی تھی، اُس دن اُس نے حجاب اُتار دیا تھا کیونکہ اُسے یقین تھا اب وہ کتنی بھی نیکیاں کرلے، وہ اللہ کی نظروں میں گناہ گار ہی تھی… احسن سعد نے ایک لڑکی کی زندگی تباہ نہیں کی تھی، اُس نے اُسے اُس دین سے بھی برگشتہ کردیا تھا جس کی پیروکار ہونے پر عائشہ عابدین کو فخر تھا۔
”تمہارے یار کو بتا آیا ہوں تمہارے سارے کرتوت۔” احسن سعد نے فون پر دھاڑتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔ ” تم کیا پلان کررہی ہو کہ میرے بیٹے کو مار کر تم اپنا گھر بساؤ گی، رنگ رلیاں مناؤگی… میں تو صرف تمہیں جیل نہیں بھیجوں گا، تمہارے اس یار کو بھی بھیجوں گا جس نے میرے بیٹے کا آپریشن کر کے جان بوجھ کر اُسے مارا اور اُس نے اپنی زبان سے مجھے بتایا ہے۔” وہ بکتا ، جھکتا بولتا ہی چلا گیا اور وہ سنتی رہی تھی۔
” عائشہ…” جبریل کی آواز نے ایک بار پھر اُسے چونکایا۔ اُس کے ہاتھوں میں موجود کافی کے مگ سے اب بھاپ اُٹھنا بند ہوچکی تھی۔ کافی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ عائشہ نے سر اُٹھا کر جبریل کو دیکھا۔ و ہ اب اُسے بتارہا تھا کہ اس آپریشن کے دوران کیا ہوا تھا… اور اُسے یقین نہیں تھا، صرف اس کا اندازہ تھا کہ ڈاکٹر ویزل سے اُس آپریشن میں کچھ غلطیاں ہوئی تھیں… اور قصوروار نہ ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو مجرم محسوس کررہا تھا۔ یہ اُس کی بے وقوفی ہی تھی کہ وہ یہ انکشاف احسن سعد کے سامنے کربیٹھا تھا۔
”آپ پریشان نہ ہوں… آپ کو کچھ نہیں ہوگا… احسن سعد آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔” اُس کی بات کے اختتام پر عائشہ کی زبان سے نکلنے والے جملے نے جبریل کو حیران کردیا تھا۔ وہ اُسی طرح پرسکون تھی، وہ اگر ایک شدید جذباتی ردِّ عمل کی توقع کررہا تھا تو ایسا نہیں ہوا تھا۔ کسی غصّے کا اظہار، کوئی ملامتی لفظ… کچھ بھی نہیں… وہ جواباً اُسے تسلّی دے رہی تھی کہ اُسے کچھ نہیں ہوگا۔
” میں نے احسن کو بتادیا ہے کہ میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مانتے ہوئے کورٹ میں اسفند کے قتل کا اعتراف کرلوں گی۔” اُس کے اگلے جملے نے جبریل کا دماغ جیسے بھک سے اُڑادیا تھا۔
******
”تم سے کوئی ملنے آیا ہے!” جیل کے ایک سنتری نے ایک راہداری جتنی لمبی بیرک کی ایک دیوار کے ساتھ چادر زمین پر ڈال کر سوئے اُس بوڑھے آدمی کو بڑی رعونت کے عالم میں اپنے جوتے کی ٹھوکر سے جگایا تھا۔ وہ ہڑبڑایا نہیں، ویسے ہی پڑا رہا اور لیٹے لیٹے اُس نے آنکھیں کھول کر سر پر کھڑے اُس سنتری کو دیکھا۔ اُسے یقین تھا اُسے کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔ اُس سے ملنے کون آسکتا تھا۔ پچھلے بارہ سالوں سے تو کوئی نہیں آیا تھا، پھر اب کون آئے گا۔
” ار ے اُٹھ… مرا پڑا ہے… سُنا نہیں ایک بار کہ کوئی ملنے آیا ہے۔” سنتری نے اس بار کچھ زیادہ طاقت سے اُسے ٹھوکر ماری تھی، وہ اُٹھ کے بیٹھ گیا،” کون آیا ہے؟” اُس نے سنتری سے پوچھا۔ ”وہی میڈیا والے کُتّے۔” سنتری نے گالی دی ، ”سزائے موت کے قیدیوں سے انٹرویو کرنا ہے اُنہیں۔” اُس نے ایک بار پھر لیٹنے کی کوشش کی لیکن سنتری کے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے کی حرکت نے اُسے مجبور کردیا کہ وہ اُس کے ساتھ چل پڑے۔ وہ ان میڈیا والوں سے بے زار تھا اور NGO والوں سے بھی جو وقتاً فوقتاً وہاں سروے کرنے آتے تھے… اُن کے حالاتِ زندگی جاننے، اُن کے جرم کی وجوہات کریدنے، جیل کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے… وہ جیسے سرکس کے جانور تھے جنہیں اُن کے سامنے پیش ہوکر بتانا پڑتا کہ انہوں نے جو کیا، کیوں کیا کیا اب اُنہیں پچھتاوا تھا اور کیا اُنہیں اپنے گھر والے یاد آتے تھے…
بے زاری کے ساتھ لڑکھڑاتے قدموں سے وہ اُس سنتری کے پیچھے چلتا گیا جو اُسے بیرک سے نکال کر ملاقاتیوں والی جگہ کے بجائے جیلر کے کمرے میں لے آیا تھا۔ اور وہاں غلام فرید نے پہلی بار اُن چار افراد کو دیکھا جن میں سے دو گورے تھے اور دو مقامی خواتین… وہ چاروں انگلش میں بات کررہے تھے اور غلام فرید کے اندر داخل ہوتے ہی اُن کے اور جیلر کے درمیان کچھ بات چیت ہوئی اور پھر جیلر اُس سنتری کے ہمراہ وہاں سے چلا گیا۔
” غلام فرید؟” ایک عورت نے جیسے تصدیقی انداز میں اُس سے پوچھا تھا۔ غلام فرید نے سر ہلایا۔ ”بیٹھو” اُسی عورت نے اشارے سے سامنے پڑی ایک کُرسی پر اُسے بیٹھنے کے لئے کہا۔ غلام فرید کچھ نروس ہوا تھا، لیکن پھر وہ جھجھکتا سکڑتا سمٹتا اُن کے سامنے پڑی کُرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ ایک گورے نے اُس کے بیٹھتے ہی ہاتھ میں پکڑے ایک فون سے اُس کی کچھ تصویریں لی تھیں… جس عورت نے اُس سے گفتگو کا آغاز کیا تھا وہ اب پنجابی میں اُس سے پوچھ رہی تھی کہ وہ کس جرم میں کب وہاں آیا تھا۔ غلام فرید نے رٹے رٹائے طوطے کی طرح اُس کے ان دس بار ہ سوالات کا جواب دیا تھا، اور پھر انتظار میں بیٹھ گیا تھا کہ وہ اب ان بنیادی سوالات کے بعد ایک بار پھر سے اُس کے مجرم کو کُریدنا شروع کریں گے پھر جیل میں اُس کی زندگی کے بارے میں پوچھیں گے اور پھر…
مگر اُس کی توقع غلط ثابت ہوئی تھی۔ انہوں نے اُس کی زبانی اُس کا نام، ولدیت ، رہائش، جرم کی نوعیت اور جیل میں آنے کے سال کے بعد اُس سے پوچھا تھا۔
” جیل سے باہر آنا چاہتے ہو غلام فرید؟” وہ گورا تھا مگر اُس سے شستہ اُردو میں بات کررہا تھا غلام فرید کو لگا اُسے سننے میں کچھ دھوکہ ہوا تھا۔
” جیل سے باہر آنا چاہتے ہو؟” اُس آدمی نے جیسے اُس کے چہرے کے تاثرات پڑھ لئے تھے۔ جیل سے باہر…؟ غلام فرید نے سوچا… ایک لمحہ کے لئے… کیا وہ جیل سے باہر آنا چاہتا تھا… پھر اُس نے نفی میں سر ہلایا۔جو اُس آدمی کے لئے جیسے غیر متوقع تھا۔
” کیوں؟” اُس نے بے ساختہ پوچھا تھا۔
” باہر آکر کیا کروں گا؟” غلام فرید نے جواباً کہا تھا۔”نہ کوئی گھرہے نہ خاندان اور اس عمر میں محنت مزدوری نہیں ہوتی… جیل ٹھیک ہے… یہاں سب ملتاہے۔” غلام فرید نے کہا تھا، اُس نے سوچا تھا اب سروے کے سوال بدل گئے تھے۔
”اگر تمہیں ڈھیر سا پیسہ، ایک شاندار سا گھر اور ایک بیوی بھی مل جائے تو بھی باہر آنا نہیں چاہتے؟ زندگی نئے سرے سے شروع کرنا نہیں چاہتے؟” اس بار دوسری عورت نے اُس سے کہا تھا۔
بہت سارا پیسہ…؟ غلام فرید نے سوچا… بہت سارے پیسے کی خواہش نے ہی تو مسئلہ پیدا کیا تھا اُس کے لئے… اُسے پتہ نہیں کیا کیا یاد آیا تھا… اتنے سال گزرجانے کے بعد بھی جب وہ سوچتا تھا تو اُسے سب یاد آجاتا تھا… اپنی کڑوی زبان والی بیوی جس کے وہ عشق میں گرفتار تھا اور جو کبھی شہد جیسی میٹھی تھی… اور وہ بچے… ایک دو سال کے وقفے سے باری باری پیدا ہونے والے نو بچّے جن میں سے چند بڑوں کے علاوہ اُسے اب کسی کا نام اور شکل یاد نہیں تھی… وہ مولوی جو اُس کا دشمن تھا… اور وہ سودجو ختم ہی نہیں ہوتا تھا، اُسے آج بھی وہ رقم یاد تھی جو اُس نے سود پر لی تھی اور وہ رقم بھی جو بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی تھی کہ ایک دن وہ اپنا ذہنی توازن ہی کھو بیٹھا تھا۔
”سالار سکندر یاد ہے تمہیں؟” اُس کو خاموش دیکھ کر اُس گورے نے غلام فرید سے پوچھا تھا۔ غلام فرید کی آنکھوں میں ایک عجیب سی وحشت آئی تھی۔ جھریوں سے بھرے چہرے، بڑھے بالوں اور بے ترتیب داڑھی کے ساتھ پھٹے پرانے ملگجے کپڑوں میں وہاں ننگے پاؤں بیٹھے بھی اُسے سالار سکندر یاد تھا… اور اُس کا باپ… اور وہ نفرت بھی جو اُس کے دل میں اُن کے لئے تھی اور بہت سے اُن دوسرے لوگوں کے لئے بھی جنہوں نے اُس کا استعمال کیا تھا۔
غلام فرید نے زمین پر تھوکا تھا۔ کمرے میں بیٹھے چاروں افراد کے چہروں پر مسکراہٹ اُبھری۔
******
”میرے بچپن میں میری زندگی میں جتنا بڑا رول آپ لوگوں کی فیملی کا تھا، پچھلے پانچ سالوں میں اتنا ہی بڑا رول اس شخص کا ہے۔” عبداللہ نے عنایہ کو بتایا تھا۔ چند ہفتوں بعد ہونے والی اپنی منگنی سے پہلے یہ اُن کی دوسری ملاقات تھی۔ عنایہ ایک سیمنار میں شرکت کے لئے کیلی فورنیا آئی تھی اور عبداللہ نے اُسے ڈنر پر بلایا تھا، وہ اُسے ڈاکٹر احسن سعد سے ملوانا چاہتا تھا جو اُسی کے ہاسپٹل میں کام کرتے تھے اور وہ ہمیشہ سے اُن سے بہت متاثر تھا۔ عنایہ نے کئی بار اُس سے پچھلے سالوں میں اس شخص کے حوالے سے سُنا تھا جس سے وہ اب تھوڑی دیر میں ملنے والی تھی۔
” مسلمان ہونا آسان تھا میرے لئے… لیکن مسلمان رہنااور بننا بڑا مشکل تھا… ڈاکٹر احسن نے یہ کام بڑا آسان کردیا میر ے لئے۔ جبریل کے بعدیہ دوسرا شخص ہے جسے میں رول ماڈل سمجھتا ہوں کہ وہ دین اور دُنیا دونوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ ” عبداللہ بڑے پرجوش انداز میں عنایہ کو بتارہا تھا اور وہ مسکراتے ہوئے سُن رہی تھی ۔ عبداللہ جذباتی نہیں تھا بے حد سوچ سمجھ کر بولنے والوں میں سے تھا اور کسی کی بے جا تعریف کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔
” کچھ زیادہ ہی متاثر ہوگئے ہو تم اُن سے۔” عنایہ کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔ وہ ہنس پڑا،” تم jealous تو نہیں ہورہی؟” اُس نے عنایہ کو tease کیا ،” ہوئی تو نہیں لیکن ہوجاؤں گی۔” اُس نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا ” مجھے یقین ہے تم اُن سے ملوگی تو تم بھی میری ہی طرح متاثر ہوجاؤگی اُن سے۔” عبداللہ نے کہا ” میں اپنے نکاح میں ایک گواہ اُنہیں بناؤں گا ” عنایہ اس بار قہقہہ مار کر ہنسی تھی۔” عبداللہ تم اس قدر inspired ہو اُن سے؟ مجھے تھوڑا بہت تو اندازہ تھا لیکن اس حد تک نہیں… مجھے اب اور اشتیاق ہورہا ہے اُن سے ملنے کا ۔” عنایہ نے اُس سے کہا ،” وہ یقیناً بڑے اچھے شوہر بھی ہوں گے اگر تم نکاح میں بھی اُنہیں گواہ بنانا چاہتے ہو تو۔” عنایہ کو مزید تجسس ہوا تھا۔
”بس اس ایک معاملے میں خوش قسمت نہیں رہے وہ۔” عبداللہ یک دم سنجیدہ ہوگیا ” اچھی بیوی ایک نعمت ہوتی ہے اور بُری ایک آزمائش… اور اُنہیں دو بار اس آزمائش سے گزرنا پڑا۔ اُن کی نرمی اور اچھائی کا ناجائز فائدہ اُٹھایا اُن کی بیویوں نے۔” عبداللہ کہہ رہا تھا”Ohhh that’s sad” عنایہ نے کریدے بغیر افسوس کا اظہار کیا۔
” تمہیں پتہ ہے تم سے شادی کے لئے بھی میں نے اُن سے بہت دُعا کروائی تھی اور دیکھ لو اُن کی دعا میں کتنا اثر ہے ورنہ تمہارے پیرنٹس آسانے سے ماننے والے تو نہیں تھے۔” عبداللہ اب بڑے فخریہ انداز میں کہہ رہا تھا ” میرے پیرنٹس کسی کی دعاؤں کے بجائے تمہارے کردار اور اخلاص سے متاثر ہوئے ہیں عبداللہ۔” عنایہ نے اُسے جتایا۔
اسے اپنی بے یقینی کا وہ عالم ابھی بھی یاد تھا جب چند مہینے پہلے عبداللہ سے پاکستان میں ملنے کے بعد امامہ نے اُسے فون کیا تھا اور اُسے بتایا تھا کہ انہوں نے اُس کا رشتہ امریکہ میں مقیم ایک ہارٹ سرجن کے ساتھ طے کردیا تھا، وہ کچھ دیر کے لئے بھونچکا رہ گئی تھی۔اس سے پہلے جو بھی پروپروزلز اُس کے لئے زیرِغورآتے تھے ، عنایہ سے مشورہ کیا جاتا تھااور پھر اُسے ملوایا جاتا تھا۔ یہ پہلا پروپوزل تھا جس کے بارے میں اُسے اُس وقت اطلاع دی جارہی تھی جب رشتہ طے کردیا گیا تھا۔ عجیب صدمے کی حالت میں اُس نے امامہ سے کہا تھا” مگر ممّی آپ کو مجھے پہلے ملوانا چاہیے تھا اُس سے… اُس کے بارے میں تو مجھ سے کچھ پوچھا تک نہیں آپ نے۔”
”تمہارے بابا نے بات طے کی ہے۔” امامہ نے جواباً کہا ۔عنایہ خاموش ہوگئی۔ عجیب دھچکا لگا تھا اُسے ” تم نہیں کرنا چاہتی؟” امامہ نے اُس سے پوچھا تھا۔” نہیں میں نے ایسا نہیں کہا ، پہلے بھی آپ لوگ ہی کو کرنا تھا تو ٹھیک ہے۔” عنایہ نے کچھ بجھے دل کے ساتھ کہا تھا۔ اُسے عبداللہ یاد آیا تھا اور بالکل اُسی لمحے امامہ نے اُس سے کہا ” عبداللہ نام ہے اُس کا۔” نام سُن کر بھی لحظہ بھر کے لئے بھی اسے یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ ایرک عبداللہ کی بات کررہی تھیں۔ امامہ اس قدر کٹر مخالف تھیں ایرک عبداللہ سے شادی کی کہ عنایہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ جس عبداللہ کا اتنے دوستانہ انداز میں ذکر کررہی تھیں، وہ وہی تھا۔
”Ok” عنایہ نے بمشکل کہا ” تم سے ملنا بھی چاہتا ہے وہ… نیویارک آیا ہوا ہے، میں نے اُسے تمہارا ایڈریس دیا تھا۔” امامہ کہہ رہی تھی، عنایہ نے بے ساختہ کہا ” ممّی پلیز اب اس طرح میرے سر پر مت تھوپیں اُسے کہ آج مجھے رشتہ طے ہونے کی خبر دے رہی ہیں اور آج ہی مجھے اُس سے ملنے کا بھی کہہ رہی ہیں۔ویسے بھی اب رشتہ طے ہوگیا ہے، ملنے نہ ملنے سے کیا فائدہ ہوگا۔” اُس نے جیسے اپنے اندر کا غصّہ نکالا تھا۔ ” اُس کی فیملی بھی شاید ساتھ ہو… اُس کی ممّی سے بات ہوئی ہے میری … اگلے ٹرپ پر میں بھی ملوں گی اُس کی فیملی سے… منگنی کا فارمل فنکشن تو چند مہینوں بعد ہوگا۔” امامہ نے اس طرح بات جاری رکھی تھی جیسے اُس نے عنایہ کی خفگی کو نوٹس ہی نہیں کیا تھا۔
عنایہ صدمہ کی حالت میں اگلے ایک گھنٹے تک وہیں بیٹھی رہی تھی اور ایک گھنٹے کے بعد اُس کے دروازے پر بیل بجنے پر اُس نے جس شخص کو دیکھا تھا، اُسے لگا تھا سردیوں کے موسم میں ہر طرف بہار آگئی تھی۔ گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول ٹہنی سمیت اُسے پکڑاتے ہوئے دروازے پر ہی اُس نے عنایہ سے پھاوڑا مانگا تھا تاکہ اُس کے دروازے کے باہر پڑی برف ہٹا سکے۔ وہ کئی سالوں بعد مل رہے تھے اور عنایہ کو وہی ایرک یاد آیا تھا جو اکثر اُن کے گھر میں لگے پھول ہی توڑ توڑ کر اُس کو اور امامہ کو لاکر دیا کرتا تھا اور جس کی favorite hobby سردیوں میں اپنے اور اُن کے گھر کے باہر سے برف ہٹانا تھی۔ ”He is here” عبداللہ کی آواز اُسے خیالوں سے باہر لے آئی تھی۔ وہ ریسٹورنٹ کے دروازے پر نمودار ہونے والے کسی شخص کو دیکھتے ہوئے کھڑا ہوا تھا۔ عنایہ نے گردن موڑ کر دیکھا۔ وہ احسن سعد سے اُس کی پہلی ملاقات تھی۔ اُسے اندازہ نہیں تھا اُس سے ہونے والا اگلا سامنا اُس کی زندگی میں کتنا بڑا بھونچال لانے والا تھا۔
******
” تمہارے لئے کوئی لڑکی دیکھیں؟”امامہ نے حمین سے اُس صبح ناشتے کی ٹیبل پر کہا تھا۔ وہ اُن کے پاس چند دنوں کے لئے پاکستان آیا ہوا تھا۔ یہ اُس کی روٹین میں شامل تھا بنا بتائے کچھ دنوں کے لئے امامہ اور سکندر عثمان سے ملنے آجانا۔ اپنی زندگی اور بزنس کی بے پناہ مصروفیات میں بھی وہ کبھی یہ نہیں بھولتا تھا۔
” صرف ایک لڑکی؟” حمین نے بڑی سنجیدگی سے امامہ سے کہا جو اُس کی پلیٹ میں کچھ اور آملیٹ ڈال رہی تھی۔ وہ پچھلے کچھ عرصہ سے ہربار اُس کے پاکستان آنے پر اسے شادی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کہتی رہتی تھی، وہ ہنس کر ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیتا تھا۔
” میں سیریس ہوں…مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔” امامہ نے اُسے گھورا تھا۔ ”باقی تینوں میں سے ہر ایک آزاد پھر رہا ہے تو میں نے کیا گناہ کیا ہے۔” حمین نے اُس سے کہا تھا۔
”جبریل کے پاس ابھی شادی کے لئے وقت نہیں… عنایہ کی تو ریذیڈنسی مکمل ہوتے ہی کردوں گی… رئیسہ اور تمہارے لئے اب تلاش شروع کرتی ہوں۔” امامہ نے اپنے لئے کپ میں چائے ڈالتے ہوئے کہا۔
”You should do something more productive” حمین نے اُسے چھیڑا ”مثلاً؟” اُس نے جواباً بڑی سنجیدگی سے اُس سے پوچھا۔”ڈھونڈتا ہوں آپ کے لئے کوئی productive کام۔” حمین نے آملیٹ کا آخری ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
” یہاں کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے… اور اس عمر میں نئے سرے سے کوئی activity ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے، اتنے سالوں سے ایک routine کی عادی ہوں اور پاپا کو اس طرح گھر چھوڑ کر میں کوئی activity ڈھونڈنا بھی نہیں چاہتی۔” امامہ نے اُس سے بڑی سنجیدگی سے کہا تھا، یوں جیسے اُسے خدشہ ہو وہ واقعی اُس کے لئے کوئی activity ڈھونڈنے نہ چل پڑے،وہ تھا بھی تو ایسا ہی۔
حمین نے امامہ کو بڑے پیار سے دیکھا۔ وہاں اسلام آباد کے ایک گھر میں اپنی منتخب کردہ گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ہوئے بھی وہ اُن سب کی زندگی کا محور تھیں۔ حمین نے جو سال بچپن میں یہاں سالار اور جبریل کی عدم موجودگی میں امامہ کے ساتھ گزارے تھے، وہ اُن دونوں کو بہت قریب لے آئے تھے۔ وہ اس سے پہلے اپنے ہر دکھ سکھ کی بات جبریل سے کرنے کی عادی تھی، اب حمین سے کرنے لگی تھی۔ اُس نے امامہ کی بات سننے اور ماننے کی عادت اُن ہی سالوں میں سیکھی تھی۔
” ممّی آپ نے فیملی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔” حمین نے یک دم پتہ نہیں کس ذہنی رومیں اُس سے کہا تھا۔ وہ اُس کی بات پر چائے کا سپ لیتے لیتے مسکرا دی تھی۔”ہمیشہ عورت ہی دیتی ہے حمین… میں نے کوئی الگ کام نہیں کیا۔” اُس نے بڑی لاپرواہی سے حمین سے کہا تھا۔
”اگر آپ کو کبھی اپنے جیسی کوئی عورت ملے تو مجھے اُس سے ضرور ملوائیں ہوسکتا ہے میں شادی کرلوں اُس سے بلکہ فوراً کرلوں گا۔” اُس نے کہا۔ امامہ بڑے پراسرار انداز میں مسکرائی ” یہ تو کام بڑا آسان کردیا ہے تم نے میرے لئے۔” وہ بھی مسکرایا۔
”تمہارے ساتھ چلنا اور زندگی گزارنی بھی بہت مشکل ہوگا حمین… تم بھی کام کے معاملے میں اپنے بابا جیسے ہو…workaholic… جو کام سامنے پر سب کچھ بھول بیٹھے۔” امامہ نے اُس سے کہا تھا۔ ”بابا سے موازنہ نہ کریں میرا… اُن کی اور میری سپیڈ میں بہت فرق ہے۔” وہ خوش دلی سے ہنسا تھا۔
”رئیسہ اچھی لڑکی ہے۔” امامہ نے یک دم کہا تھا۔ حمین کو سمجھ نہیں آئی اُنہیں بیٹھے بٹھائے رئیسہ کیوں یاد آگئی تھی۔امامہ نے بھی اُس سے آگے کچھ نہیں کہا تھا۔
”ہاں رئیسہ بہت اچھی لڑکی ہے۔” اُس نے بھی سوچے سمجھے بغیر ماں کی بات کی تائید کی تھی اور اُسے ہشّام اور رئیسہ کا مسئلہ یاد آگیا تھا جسے ڈسکس کرنے کے لئے وہ امامہ کے پاس آیا تھا۔مگر اگلے دن سکندر عثمان کی اچانک موت نے اُسے یہ کرنے نہیں دی
قسط نمبر46
اُس بینکوئیٹ ہال کے اوپر والے فلور کے ایک کمرے کی ایک کھڑکی کے شیشوں سے ایک اور ٹیلی سکوپک رائفل بالکل اُسی طرح اُس ٹارگٹ کلر کو نشانہ بنائے اُلٹی گنتی گننے میں مصروف تھی۔ وہ چوتھا فلور تھا اور وہ کمرہ اس فلور کے سٹور رومز میں سے ایک تھا جہاں پر صفائی سُتھرائی اور اسی طرح کا سامان trollies میں بھرا پڑا تھا۔ جن لوگوں نے اُس بینکوئیٹ ہال میں اُس مہمان کے لئے اُس پیشہ ورانہ قاتل کا انتخاب کیا تھا اُن ہی لوگوں نے اُس قاتل کے لئے اس شخص کا انتخاب کیا تھا اور اُس جگہ کا بھی جہاں وہ 40 سالہ شخص رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھے آنکھیں اُس ٹارگٹ کلر پر لگائے بیٹھا تھا۔ اُس نے اس کمرے کو اندر سے لاک کررکھا تھا۔ وہ ایک ٹرالی دھکیلتا ہوا اُس کمرے میں صبح کے وقت آیا تھا جب اُس floor کے کمروں کی house keeping ہورہی تھی اور پھر وہ اپنی ٹرالی کو اندر رکھ کر باہر جانے کے بجائے خود بھی اندر ہی رہ گیا تھا۔ وقتاً فوقتاً کچھ اور بھی ٹرالیاں لانے والے اندر آتے اور جاتے رہے تھے اور اُس کے ساتھ ہیلو ہائے کا تبادلہ بھی کرتے رہے تھے، مگر کسی کو اُس پر شبہ نہیں ہوا تھا۔ ایک مقررہ وقت پر اُس نے سٹورروم کو اندر سے لاک کرلیا تھا کیونکہ اُسے پتہ تھا اب اُس فلور کو بھی وقتی طور پر سیل کیا جانا تھا جب تک وہ کانفرنس وہاں جاری تھی۔
سٹور روم کی کھڑکی کے شیشے میں اُس کی ٹیلی سکوپک رائفل کے لئے سوراخ پہلے سے موجود تھا جسے tape لگا کر وقتی طور پر بند کیا گیا تھا۔ اُس نے tape ہٹانے سے پہلے ایک دوسری ٹیلی سکوپ سے سڑک کے پاس اُس عمارت کے اُس فلیٹ کی اُس کھڑکی کو دیکھا اور پھر اُس پیشہ ور قاتل کو جو گھات لگانے کی تیاری کررہا تھا ۔ پھر اُس نے اپنی گھڑی کو دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا۔ ابھی بہت وقت تھا… اور اُس کی کھڑکی سے اُس پیشہ ور قاتل کی کھڑکی کا view بے حد زبردست تھا۔ وہ پہلا فائر مس بھی کرجاتا تو بھی وہ قاتل اُس کی رینج میں رہتا… بھاگتے ہوئے بھی… کھڑکی سے ہٹنے کی کوشش کے دوران بھی… انہوں نے جیسے اُس کے لئے حلوہ بنادیا تھا۔
اُسے یقین تھا اُس کھڑکی میں گھات لگانے کے بعد اُس پیشہ ور قاتل نے اُس ہوٹل کے اوپر نیچے کے ہر فلور کی کھڑکیوں کو اپنی ٹیلی سکوپک رائفل سے ایک بار جیسے کھوجا ہوگا… کہیں کوئی غیر معمولی حرکت یا شخص کوtrace کرنے کی کوشش کی ہوگی، وہ ٹیلی سکوپک رائفل کھڑکی کے شیشے سے لگا کر بیٹھتا خود اُس کی نظر میں نہ آتا تب بھی اُس کی رائفل کی نال اُس کی نظر میں آجاتی۔ اس لئے آخری منٹوں تک وہ کھڑکی کے پاس نہیں گیا تھا۔اُسے اُس پیشہ ور قاتل پر ایک پہلا اور آخری کارگر shot فائر کرنے کے لئے گھنٹوں چاہیے بھی نہیں تھے۔ وہ بے حد close range میں تھا۔
اور اب بالکل آخری منٹوں میں اُس نے بالآخر رائفل کو اُس سوراخ میں ٹکایا تھا۔
اُسے اُس پیشہ ور قاتل کو اُس وقت مارنا تھا جب وہ فائر کرچکا ہوتا… اُس مہمان کو صرف مارنا ضروری نہیں تھابلکہ اُس سازش کے سارے ثبوت مٹائے جانے بھی ضروری تھے۔
گھڑی کی سوئیاں جیسے بھاگتی جارہی تھیں… ٹک…… ٹک…… ٹک کرتے… دو انگلیاں دو ٹریگر پر اپنا دباؤ بڑھا رہی تھیں
٭٭٭
حمین سکندر سے ہشام متاثر زیادہ تھا یا مرعوب… اُسے کبھی اندازہ نہیں ہوا تھا… مگر وہ اُس سے jealous تھا ، اس کے بارے میں اُسے شبہ نہیں تھا۔
رئیسہ سے ملنے اور اُس کی فیملی کے بارے میں جاننے سے بھی پہلے وہ حمین سکندر کے بارے میں جانتا تھا… اپنے تقریباًہم عمر اُس نوجوان کے بارے میں وہ اتنا ہی تجسس رکھتا تھا جتنا بزنس اور فائنانس کی دُنیا میں دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص۔
ہشّام کا باپ امریکہ میں سفارت کاری کے دوران بھی بہت ساری کمپنیز چلارہا تھا اور اُن کمپنیز میں سے کچھ کا واسطہ حمین سکندر کی کمپنیز سے بھی پڑتا تھا۔وہ خود حمین سے رئیسہ سے متعارف ہونے سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا لیکن اُس کا باپ مل چکا تھا اور اُس کا مداح تھا۔ اپنی زندگی کی دوسری دہائی کے اوائل میں وہ جن بزنس ٹائیکونز سے ڈیل کررہا تھا، وہ عمر میں اس سے دوگنا نہیں چار گنا بڑے تھے اس کے باوجود حمین سکندر کی بزنس اور فائنانس کی سمجھ بوجھ کو کوئی سوال نہیں کرتا تھا۔ وہ بولتا تھا تو لوگ سنتے تھے۔ بیان جاری کرتا تھا تو اُس پر تبصرے آتے تھے۔ پراڈکٹ پلان دیتا تھا تو یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مارکیٹ میں نوٹس نہ ہو… اور business ventures کرتا تھا تو یہ ممکن نہیں تھا کہ ناکامی سے دوچار ہو… اور اس حمین سکندر سے متاثر ہونے والوں میں ایک ہشّام بھی تھا… متاثر بھی، مرعوب بھی لیکن اُس سے رقابت کا جذبہ اُس نے رئیسہ کی وجہ سے رکھنا شروع کیا۔ وہ لڑکی جس پر ہشّام جان چھڑکتا تھا۔ وہ صرف ایک شخص پر اندھا اعتماد کرتی تھی صرف ایک شخص کا حوالہ بار بار دیتی تھی اور بدقسمتی سے وہ شخص وہ تھا جس سے ہشّام پہلے ہی مرعوب تھا…پھر رقابت کے علاوہ کوئی اور جذبہ ہشّام اپنے دل میں محسوس کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ رئیسہ اُسے صرف ایک دوست اور بھائی سمجھتی تھی اور یہ جاننے کے باوجود کہ حمین کے بھی رئیسہ کے لئے احساسات ایسے ہی تھے۔
وہ رئیسہ سے متعارف ہونے کے بعد حمین سے چند بار سرسری طور پر مل چکا تھا۔ مگر یہ پہلا موقع تھا جب وہ اُس سے تنہا ملنے جارہا تھا اور وہ بھی اُس کے گھر پر… وہ اب بحرین کا ولی عہد نہ ہوتا تو اُس شخص سے ملنے کے لئے جاتے ہوئے بے حد احساسِ کمتری کا شکار ہورہا ہوتا۔ حمین سکندر کی کامیابی اور ذہانت کسی کو بھی اس احساس سے دوچار کرسکتی تھی۔
نیویارک کے ایک مہنگے ترین علاقے میں ایک 57 منزلہ عمارت کی چھت پر بنے اُس pent house میں حمین سکندر نے بے حد گرم جوشی سے اُس کا استقبال کیا تھا۔اُس کے ساتھ اب سائے کی طرح رہنے والے باڈی گارڈز اُس عمارت کے اندر نہیں آسکتے تھے کیونکہ entrance پر visitors میں صرف ہشّام کا نام تھا… ولی عہد یا شاہی خاندان کے القابات کے بغیر۔
ان چند مہینوں میں پہلی بار His Royal Highness صرف ہشّام بن صباح کے طور پر پکارے گئے تھے… اُسے بُرا نہیں لگا، صرف عجیب لگا۔ وہ نام اُس کے پینٹ ہاؤس کے دروازے پر اندر داخلے کے وقت حمین نے اور بھی چھوٹا کردیا تھا
”مجھے خوشی ہے کہ تم بالکل وقت پر آئے ہو ہشّام۔” اُس سے مصافحہ کرتے ہوئے ایک سیاہ ٹراؤزر اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس حمین سکندر نے کہا تھا۔
وہ اتوار کا ایک دن تھا اور وہ لنچ کے بعد مل رہے تھے۔ وہ دُنیا کے امیر ترین نوجوانوں میں سے ایک کے گھر پر تھا اور ہشّام کا خیال تھا اُس pent house میں بھی وہی سب لوازمات ہوں گے جو وہ اپنے خاندانی محلات اور اپنے سوشل سرکل میں دیکھتا آیا تھا…پر تعیش رہائش گاہ جہاں پر دُنیا کی ہر آسائش ہوگی، ہر طرح کے لوازمات کے ساتھ۔ بہترین interior، فرنیچر، شو پیسز، bars اور دُنیا کی بہترین سے بہترین شراب… اُس کا خیال تھا نیویارک کے اُس مہنگے ترین علاقے میں اُس pent house میں حمین سکندر نے ایک دنیاوی جنّت بسا رکھی ہوگی کیونکہ ہشّام ایسی جنّتیں دیکھتا آیا تھا۔
حمین سکندر کے اُس pent house میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بہت مختصر تقریباً نہ ہونے کے برابر فرنیچر… دیواروں پر چند کیلی گرافی کے شاہکار… اور کچن کاؤنٹر پر ایک رحل میں کُھلا قرآن پاک جس کے قریب پانی کا ایک گلاس اور کافی کا ایک مگ تھا۔
ہشّام بن صباح عجیب ہیبت میں آیا تھا، اُس شخص کی جس سے وہ ”مل” رہا تھا، جسے بزنس اور فائنانس کی دنیا کا guru نہیں جن مانا جاتا تھا اور جس کے کروڑوں روپے کے اُس pent house میں دکھاوے کے لئے بھی رکھی جانے والی چیز قرآن پاک تھا… وہ سالار سکندر کا خانوادہ تھا۔
” یہ میرے دادا کا دیا ہوا قرآن پاک ہے، اِسے ہمیشہ ساتھ رکھتا ہوں میں… گھر پر تھا، فرصت بھی تو تمہارے آنے سے پہلے پڑھ رہا تھا۔” حمین نے رحل پر رکھے قرآن پاک کو بند کرتے ہوئے کہا۔
” بیٹھو” وہ اب ہشّام سے کہہ رہا تھا اُس کو اُس کاؤنٹر کے قریب پڑے کچن سٹولز کے بجائے لاؤنج میں پڑے صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے…
وہ پورا pent house اُس وقت دھوپ سے چمک رہا تھا۔ سفید انٹیریئر میں گلاس سے چھن چھن کر آتی ہوئی روشنی کی کرنیں اُن صوفوں تک بھی آرہی تھیں جن پر اب وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہشّام بن صباح شاہی محل کے تخت پر بیٹھ کر آیا تھا۔ مگر اُس کے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے شخص کے جیسا طمطراق اُس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
بات کا آغاز مشکل ترین تھا اور بات کا آغاز حمین نے کیا تھا، اُسے چائے کافی کی آفر کے ساتھ۔
”کافی” اُس نے جواباً آفر قبول کرتے ہوئے کہا۔ حمین اُٹھ کر اب سامنے کچن ایرا میں کافی میکر سے کافی بنانے لگا۔
”رئیسہ سے تمہارا بہت ذکر سُنا ہے میں نے اور ہمیشہ اچھا۔” وہ کافی بناتے ہوئے اُس سے کہہ رہا تھا۔
”میں نے بھی۔” ہشّام کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ حمین کافی انڈیلتے ہوئے مسکرایا اور اُس نے کہا ”I am not surprised”
وہ اب کافی کے دو مگ اور کوکیز کی ایک پلیٹ ایک ٹرے میں رکھے واپس آکر بیٹھ گیا تھا۔
ہشّام نے کچھ کہے بغیر کافی کا اپنا مگ اُٹھایا، حمین نے ایک کوکی…
”تم مجھ سے ملنا چاہتے تھے…” کوکی کو کھانا شروع کرنے سے پہلے اُس نے جیسے ہشّام کو ایک reminder دیا…
”ہاں…” ہشّام کو یک دم کافی پینا مشکل لگنے لگا تھا جس مسئلے کے لئے وہ وہاں آیا تھا، وہ مسئلہ پھر گلے کے پھندے کی طرح یاد آیا تھا۔
” میں رئیسہ سے بہت محبت کرتا ہوں۔” اُس نے بالآخر اُس جملے سے آغاز کیا جس جملے سے وہ آغاز کرنا نہیں چاہتا تھا۔ Good” حمین نے بے حد اطمینان سے جیسے کوکی کو نگلنے سے پہلے یوں کہا جیسے وہ اُس کا چیس کا سکور تھا۔
” میں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” ہشّام نے اگلا جملہ ادا کیا۔ اُسے اپنا آپ عجیب چغد محسوس ہورہا تھا اُس وقت۔
”میں جانتا ہوں۔” حمین نے کافی کا پہلا سپ لیتے ہوئے کہا” مگر سوال یہ ہے کہ یہ کروگے کیسے؟” اُس نے جیسے ہشّام کی مدد کرتے ہوئے کہا۔ وہ اُسے سیدھا اُس موضوع پر بات کرنے کے لئے لے آیا تھا جس پر بات کرنے کے لئے وہ آیا تھا۔ ہشّام اگلے کئی لمحے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا رہا یہاں تک کہ حمین کو اُس پر ترس آنے لگا تھا۔
”اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟” ہشّام نے یک دم اُس سے پوچھا۔ حمین کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔
” جو میں کرتا، وہ تم کرنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتے۔” حمین نے جواباً کہا۔ ہشام کو عجیب سی ہتک محسوس ہوئی… وہ اُسے چیلنج کررہا تھا۔
”تم بتائے بغیر مجھے judge نہیں کرسکتے۔” اُس نے حمین سے کہا۔ ” ٹھیک ہے بتادیتا ہوں۔” حمین نے کافی کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
” رئیسہ کو چھوڑ دینے کے علاوہ کوئی بھی حل بتادو مجھے میرے مسئلے کا۔” پتہ نہیں اُسے کیا وہم ہوا تھا کہ حمین کے بولنے سے پہلے وہ ایک بار پھر بول اُٹھا تھا۔ حمین اس بار مسکرایا نہیں،صر ف اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا۔
” میں اگر تمہاری جگہ ہوتا تو……”
٭٭٭٭
امامہ جبریل کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی ۔ اُسے کچھ دیر کے لئے جیسے اُس کی باتیں سمجھنا ہی مشکل ہوگیا تھا۔ اُس نے جو عنایہ اور عبداللہ کے حوالے سے کہا، جو احسن اور عبداللہ کے حوالے سے اور جو اپنے اور عائشہ کے حوالے سے، وہ سب کچھ عجیب انداز میں اُس کے دماغ میں گڈمڈ ہوگیا تھا۔
”مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا جبریل۔” وہ بالآخر اُس سے کہے بغیر نہیں رہ سکی۔”ممّی……I am sorry” جبریل کو بے اختیار اس کے چہرے ک تاثرات سے اندازہ ہوا کہ اُس نے ماں کو پریشان اور حواس باختہ کردیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار وہ ماں کو کسی لڑکی کے حوالے سے اپنے کسی ”افیئر” کی بات کررہا تھا وہ بھی ایک ایسا معاملہ جس میں اُس پر الزامات لگائے جارہے تھے… عائشہ عابدین کون تھی، امامہ نے زندگی میں کبھی اُس کا نام نہیں سُنا تھا اور جبریل پر کیوں اُس کے ساتھ انوالوڈ ہونے کا الزام ایک ایسا شخص لگا رہا تھا جو اُس کے ہونے والے داماد کے لئے ایک inspiration کی حیثیت رکھتا تھا… اور جبریل کیوں رعنایہ کی شادی عبداللہ کے ساتھ کرنے کے اچانک خلاف ہوگیا تھا جبکہ ماضی میں ہمیشہ وہی تھا جو امامہ کو عبداللہ کے حق میں قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
”میں یہ سب آپ سے شیئر نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن اب اس کے علاوہ اور کوئی حل سمجھ میں نہیں آرہا مجھے۔” وہ شرمندہ زیادہ تھا یا پریشان، اندازہ لگانا مشکل تھا۔”لیکن اس سب میں عنایہ اور عبداللہ کا کیا قصور ہے؟”
” ممّی اگر وہ اُس شخص کے زیرِ اثر ہے تو وہ بیوی کے ساتھ رویے کے لحاظ سے بھی ہوگا… جو کچھ میں نے احسن سعد کو عائشہ کے ساتھ کرتے دیکھا ہے، وہ میں اپنی بہن کے ساتھ ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔” جبریل نے غیر مبہم لہجے میں کہا۔
” تم نے عنایہ سے بات کی ہے؟” امامہ نے بے حد تشویش سے اُس سے پوچھا۔” ہاں میں نے کی ہے اور وہ بہت اپ سیٹ ہوئی ہے ، لیکن اُس نے کچھ بھی نہیں کہا۔ میں نہیں جانتا وہ کیا سوچ رہی ہے۔” جبریل کہہ رہا تھا ، امامہ اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی ، اُس نے جبریل کو کبھی اس طرح پریشان اور اس طرح کسی معاملے پر سٹینڈ لیتے نہیں دیکھا تھا۔
”اتنے مہینے سے عائشہ عابدین کا مسئلہ چل رہا ہے، تم نے پہلے کبھی مجھے اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟” وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ وہ بے حدسنگین الزامات تھے جو جبریل پر کسی نے لگائے تھے اور اپنی اولاد پر اندھا اعتماد ہونے کے باوجود امامہ ہل کر رہ گئی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اُسے اپنی اولاد کے حولے سے ایسی کسی بات کو سُننا پڑرہا تھا ، وہ بھی جبریل کے بارے میں… حمین کے حوالے سے کوئی بات وہ سُنتی تو شاید پھربھی اُس کے لئے غیر متوقع نہ ہوتی، وہ حمین سے کچھ بھی توقع کرسکتی تھی، لیکن جبریل…
” بتانے کے لئے کوئی بات تھی ہی نہیں ممّی…” جبریل نے جیسے صفائی دینے کی کوشش کی۔ ایک دوست کی بہن ہے وہ… دوست نے اُس کی مدد کرنے کے لئے کہا اور میں اس لئے considerate تھا کیونکہ مجھے لگا آپریشن میں کچھ غلطی ہوئی ڈاکٹر ویزل سے… اگرچہ اُس میں میرا قصور نہیں تھا پھر بھی میں اُس سے ہمدردی رکھ رہا تھا… مجھے یہ تھوڑی پتہ تھا کہ ایک psycho آکر خوامخواہ میں مجھے اپنی ex-wife کے ساتھ انوالو کرنے کی کوشش کرے گا۔” وہ کہتا جارہا تھا۔
”That man is…..” جبریل کہتے کہتے رُک گیا، یوں جیسے اُس کے پاس احسن سعد کو بیان کرنے کے لئے لفظ ہی نہ رہے ہوں۔
” تمہارے پاپا سے بات کرنی ہوگی ہمیں… اتنا بڑا فیصلہ ہم خود نہیں کرسکتے۔” امامہ نے اُس کی بات ختم ہونے کے بعد کہا۔
”فیصلہ بڑا ہوا یا چھوٹا، ممّی میں عنایہ کی عبداللہ سے شادی نہیں ہونے دوں گا۔” جبریل نے شایدزندگی میں پہلی بار امامہ سے کسی بات پر ضد کی تھی۔
”کسی دوسرے کے جرم کی سزا ہم عبداللہ کو تو نہیں دے سکتے جبریل…” امامہ نے مدہم آواز میں اُسے سمجھانے کی کوشش کی” عبداللہ میری ذمہ داری نہیں ہے، عنایہ ہے… میں رسک نہیں لے سکتا اور نہ ہی آپ کو لینا چاہیے۔” وہ ماں کو جیسے خبردار کررہا تھا اور امامہ اب واقعی پریشان ہونے لگی تھی۔
”تمہارے بابا جوبھی فیصلہ کریں گے، وہ بہتر فیصلہ ہوگا… اور تم ٹھیک کہتے ہو ہم عنایہ کے لئے کوئی رسک نہیں لے سکتے، لیکن ہم عبداللہ کی بات سُنے بغیر اس طرح اُس سے قطع تعلق بھی نہیں کرسکتے۔” امامہ نے کہا ”عبداللہ سے ایک بار بات کرنی چاہیے۔”
جبریل کچھ ناخوش ہوکر اُٹھ کر جانے کے لئے کھڑا ہوگیا تھا۔ وہ دروازے کے قریب پہنچا جب امامہ نے اُسے پکارا، وہ پلٹا۔
”ایک بات پوری ایمانداری سے بتانا مجھے۔” وہ ماں کے سوال اور انداز دونوں پر حیران ہوا۔
”جی؟”
”تم عائشہ عابدین کو پسند کرتے ہو؟” جبریل ہل نہیں سکا۔
٭٭٭٭
وہ عنایہ کے کہنے پر عائشہ عابدین سے ملنا آیا تھا، یقین اور بے یقینی کی ایک عجیب کیفیت میں جھولتے ہوئے… وہ اسلام سے ایک بچے کے طور پرمتعارف ہوا تھا، ایک بچے کے طور پر متاثر… وہ ایک ایسے خاندان کے ذریعہ اُس مذہب کے سحر میں آیا تھا جیسے لوگ اُس نے دیکھے ہی نہیں تھے… اُن کی نرمی، فیاضی اور ہمدردی نے ایرک کا وجود نہیں دل اپنی مٹّھی میں کیا تھا اور اتنے سالوں میں وہ اسلام کی اسی روشن خیالی، اسی فیاضی اور نرمی کو ہی idealize کرتا رہا تھا۔ اور اب وہ اپنے mentor کے بارے میں ایسی باتیں سُن رہا تھا جو اُس کے لئے ناقابلِ یقین تھیں، وہ اُس نے عنایہ کی زبان سے نہ سُنی ہوتیں تو وہ اُنہیں جھوٹ کے پلندے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ سمجھتا… ڈاکٹر احسن سعد وہ نہیں ہوسکتے تھے اور وہ نہیں کرسکتے تھے، جس کا الزام عنایہ اُن پر لگارہی تھی۔
عنایہ نے امریکہ پہنچنے کے فوراً بعد اُسے کال کر کے بلوایا تھا، اور پھر احسن سعد کے معاملے کو اُس سے ڈسکس کیا تھا، جبریل پر ڈاکٹر احسن کے الزامات کو بھی اور عائشہ عابدین کے ساتھ ہونے والے معاملات کو بھی… وہ یقین کرنے پر تیّار نہیں تھا کہ احسن سعد، اتنا بے حس اور جھوٹا ہوسکتا تھا مگر جس پر وہ الزامات لگ رہے تھے اُس کے بارے میں بھی عبداللہ قسم کھاسکتا تھا کہ وہ یہ نہیں کرسکتا۔
دونوں کے درمیان بحث ہوئی پھر تکرار اور پھر اُن کی زندگی کا پہلا جھگڑا… دو بے حد ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کے لوگوں میں۔
” میں یقین نہیں کرسکتا… میں یقین نہیں کرسکتا… ڈاکٹر احسن سعد عملی مسلمان ہیں… نماز کی امامت کرواتے ہیں ، وہ اپنی بیوی کے ساتھ یہ سلوک کریں گے… یہ سب…؟؟ اور بغیر وجہ کے… میں مان ہی نہیں سکتا… میں مان ہی نہیں سکتا۔” وہ اس کے علاوہ کچھ کہتابھی تو کیا کہتا۔
” تو جاؤ ، تم پھر عائشہ سے مل لو اور خود پوچھ لو کہ کیا ہوا تھا اُس کے ساتھ لیکن میرابھائی جھوٹ نہیں بول سکتا…”عنایہ نے بھی جواباً بے حد خفگی سے کہا تھا۔
ملاقات کا اختتام بے حد تلخ نوٹ پر ہوا تھا، اور اُس وقت پہلی بار عنایہ کو احساس ہوا کہ جبریل کے خدشات بے جا نہیں تھے۔ عبداللہ اگر اس حد تک احسن سعد سے متاثر تھا تو اُن دونوں کے تعلق میں یہ اثر بہت جلد رنگ دکھانے لگتا۔ وہ عبداللہ سے مل کر بہت ڈسٹربڈ ہوکر آئی تھی۔ وہ مصیبت جو کسی اور کے گھر میں تھی اُن کی زندگی میں ایسے آئی تھی کہ اُنہیں اندازہ بھی نہیں ہوا تھا۔
عبداللہ نے اُس سے ملنے کے بعد اُسے کال نہیں کی تھی، اُس نے جبریل کو کال کی تھی…ایک بے حد شکایتی کال… یہ پوچھنے کے لئے کہ وہ احسن سعد کے حوالے سے یہ سب کیوں کہہ رہاتھا، کیا وہ نہیں جانتا تھا احسن کتنا اچھا انسان اور مسلمان تھا۔ وہ بہت دیر جبریل کی بات سُنے بغیر بے حد جذباتی انداز میں بولتا ہی چلا گیا تھا۔ جبریل سُنتا رہا تھا۔ وہ اُس کی زندگی کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک تھا۔ ایک نو مسلم کو یہ بتانا کہ اُس کے سامنے جو سب سے زیادہ عملی مسلمان تھا، وہ اچھا انسان ثابت نہیں ہوا تھا… وہ عبداللہ کا دل مسلمانوں سے نہیں اُٹھانا چاہتا تھا، خاص طور پر اُن مسلمانوں سے جو تبلیغ کا کام کررہے تھے… وہ ایک حافظِ قرآن ہوکر ایک دوسرے حافظِ قرآن کے بارے میں ایک نومسلم کو یہ نہیں کہنا چاہتا تھا کہ و ہ جھوٹا تھا، ظالم تھا، بہتان لگانے والا ایک لالچی انسان تھا اس کے باوجود کہ وہ صوم و صلوة کا پابند ایک مسلمان تھا… جبریل سکندر کا مخمصہ ایک بڑا مخمصہ تھا مگر اُس کی خاموشی اُس سے زیادہ خرابی کا باعث بنتی تو وہ خاموش نہیں رہ پایا تھا۔
”احسن سعد کے بارے میں جو میں جانتا ہوں اور جو میں کہوں گا، تم پھر اُس سے hurt ہوگے اس لئے سب سے بہترین حل یہ ہے کہ تم اُس عورت سے جاکر ملو اور وہ سارے documents دیکھو جو اُس کے پاس ہیں۔” اُس نے عبداللہ کی باتوں کے جواب میں اُسے کہا تھا۔
اور اب عبداللہ یہاں تھا عائشہ عابدین کے سامنے اُس کے گھر پر… وہ جبریل کے ریفرنس سے آیا تھا۔ عائشہ عابدین اُس سے ملنے سے انکار نہیں کرسکی۔ وہ اُس رات آن کال تھی اور اب گھر سے نکلنے کی تیّاری کررہی تھی جب عبداللہ وہاں پہنچا تھا اور وہ وہاں اب اُس کے سامنے بیٹھا اُسے بتارہا تھا کہ اُس کی منگیتر نے احسن سعد کے حوالے سے کچھ شبہات کا اظہار کیا تھا خاص طور پر عائشہ عابدین کے حوالے سے اور وہ اُن الزامات کی تصدیق یا تردید کے لئے وہاں آیا تھا… لیکن یہ کہنے سے پہلے اُس نے عائشہ کو بتایا تھا کہ وہ احسن سعد کو کیا درجہ دیتا تھا اور اُس کی زندگی کے پچھلے کچھ سالوں میں وہ اُس کے لئے ایک رول ماڈل رہے تھے، وہ جیسے ایک ”بُت” لے کر عائشہ عابدین کے پاس آیا تھا جسے ٹوٹنے سے بچانے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا تھا اور گفتگو کے شروع میں ہی اتنی لمبی تمہید جیسے ایک حفاظتی دیوار تھی جو اُس نے صرف اپنے سامنے ہی نہیں، عائشہ عابدین کے سامنے بھی کھڑی کردی تھی۔ اُس نے بھی جبریل جیسی ہی خاموشی کے ساتھ اُس کی باتیں سُنی تھیں… بے حد تحمل اور سکون کے ساتھ… کسی مداخلت یا اعتراض کے بغیر… عبداللہ کو کم از کم اُس سے یہ توقع نہیں تھی… وہ یہاں آنے سے پہلے عائشہ عابدین کا ایک image ذہن میں رکھ کر آیا تھا۔ وہ پہلی نظر میں بھی اُس image پر پوری نہیں اُتری تھی۔بے حجاب ہونے کے باوجود اُس میں عبداللہ کو بے حیائی نہیں دکھی تھی۔ بے حد سادہ لباس میں میک اپ سے بے نیاز چہرے والی ایک بے حد حسین لڑکی جس کی آنکھیں اُداس تھیں اور جس کی آواز بے حد دھیمی… عبداللہ وہاں ایک تیز طرّار ، بے حد فیشن ایبل الٹرا ماڈرن عورت سے ملنے کی توقع لے کر آیا تھا جسے اُس کے اپنے خیال اور ڈاکٹر احسن سعد کے بتائے ہوئے کردار کے مطابق بے حد قابلِ اعتراض حلیے میں ہونا چاہیے تھا۔ مگر عبداللہ کی قسمت میں شاید اور حیران ہونا باقی تھا۔
عنایہ اور جبریل دونوں نے اُسے کہا تھا کہ وہ اُسے documents دکھائے گی، احسن سعد سے طلاق کے کاغذات، قانونی کارروائی کے کاغذات، کورٹ کی judgement ، کسٹڈی کی تفصیلات اور وہ حقائق جو صرف وہی بتاسکتی تھی، عائشہ عابدین نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا۔
”احسن سعد بُرا شخص نہیں ہے، صرف میں اور وہ compatible نہیں تھے اس لئے شادی نہیں چلی۔” تقریباً دس منٹ تک اُس کی بات سننے کے بعد عائشہ نے بے حد مدہم آواز میں اُسے کہا تھا۔
” وہ یقیناً اتنے ہی اچھے مسلمان ہیں ، جتنا آپ اُسے سمجھتے ہیں اور اُس میں بہت ساری خوبیاں ہیں… آپ بڑے خوش قسمت ہیں کہ آپ کا واسطہ اُن کی خوبیوں سے پڑا… میں شاید اتنی خوش قسمت نہیں تھی یا پھر مجھ سے کوتاہیاں سرزد ہوئی ہوں گی۔” وہ کہہ رہی تھی اور عبداللہ کے دل کو جیسے تسلی نہیں ہورہی تھی، یہ وہ کچھ نہیں تھا جو وہ سُننا چاہتا تھا لیکن وہ بھی نہیں تھا جس کی اُسے توقع تھی۔
”وہ آپ کے لئے ایک inspiration اور رول ماڈل ہیں… یقیناً ہوں گے…” وہ کہہ رہی تھی ”کوئی انسان perfect نہیں ہوتا… مگر چند غلطیاں کرنے پر ہم کسی کو نظرو ں سے نہیں گراسکتے… میرے اور احسن سعد کے درمیان جو بھی ہوا، اُس میں اُن سے زیادہ میری غلطی ہے… اور آپ کے سامنے میں اُن کے بارے میں کچھ بھی کہہ کر وہ غلطی پھر سے دہرانا نہیں چاہتی۔” عائشہ نے بات ختم کردی تھی۔ عبداللہ اُس کی شکل دیکھتا رہ گیا تھا۔اُسے تسلی ہونی چاہیے تھی، نہیں ہوئی… وہ وہاں احسن سعد کے بارے میں کچھ جاننے اور کھوجنے نہیں آیا تھا اُس کو defend کرنے آیا تھا، اُس عورت کے سامنے جو اُس کی تذلیل اور تضحیک اور دل شکنی کا باعث بنی تھی لیکن اُس عورت نے جیسے اُس کے سامنے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی کسی صفائی، کسی وضاحت کی۔ اُس نے ہر غلطی، ہر گناہ خاموشی سے اپنے کھاتے میں ڈال لیا تھا۔ اُس کے لاؤنج میں بیٹھے عبداللہ نے دیواروں پر لگی اُس کے بیٹے کی تصویریں دیکھی تھیں… اُس کے کھلونوں کی… ایک چھوٹا سا صاف سُتھرا گھر… ویسی جگہ نہیں جیسا وہ اُسے تصوّر کر کے آیا تھا، کیوں کہ احسن سعد نے اُسے اس عورت کے ”پھوہڑ پن” کے بھی بہت قصّے سنا رکھے تھے جو احسن سعد کے گھر کو چلانے میں ناکام تھی، جس کا واحد کام اور مصروفیت TV دیکھتے رہنا یا آوارہ پھرنا تھا اور جو گھر کا کوئی کام کرنے کے لئے کہنے پر بھی برہم ہوجاتی تھی۔ عبداللہ کے دماغ میں گرہیں بڑھتی ہی چلی جارہی تھیں۔ وہ اُس لڑکی سے نفرت نہیں کرسکا…اُسے ناپسند نہیں کرسکا۔
”جبریل سے آپ کا کیا تعلق ہے؟” وہ بالآخر ایک آخری سوال پر آگیا تھا جہاں سے یہ سارامسئلہ شروع ہوا تھا۔
”میں اُس سے پیار کرتی ہوں۔” وہ اُس کے سوال پر بہت دیر خاموش رہی پھر اُس نے عبداللہ سے کہا… سر اُٹھا کر نظریں چرائے بغیر…
٭٭٭٭
”I met your ex-wife”وہ جملہ نہیں تھا جیسے ایک بم تھا جو اُس نے احسن سعد کے سر پر پھوڑا تھا۔
عبداللہ پچھلی رات واپس پہنچا تھا اور اگلے دن ہاسپٹل میں اُس کی ملاقات احسن سے ہوئی تھی… اُسی طرح ہشاش بشّاش، بااخلاق، پرجوش… عبداللہ کے کانوں میں عنایہ اور جبریل کی آوازیں اور انکشافات گونجنے گے تھے۔اُس نے احسن سے ملاقات کا وقت مانگا تھا جو بڑی خوش دلی سے دیا گیا تھا۔ وہ دونوں ایک ہی اپارٹمنٹ کی بلڈنگ میں رہتے تھے۔ احسن کے والدین اُس کے ساتھ رہتے تھے، اس لئے وہ ملاقات اپنے گھر پر کرنا چاہتا تھا مگر احسن اُس شام کچھ مصروف تھا تو عبداللہ کو اُس ہی کے اپارٹمنٹ پر جانا پڑا،وہاں اُس کی ملاقات احسن کے والدین سے ہوئی تھی ہمیشہ کی طرح ایک رسمی ہیلو ہائے… احسن لاؤنج میں بیٹھے بٹھائے اُس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر عبداللہ نے اُس سے علیحدگی میں ملنا چاہا تھا اور تب وہ اُسے اپنے بیڈروم میں لے آیا تھا مگر وہ کچھ اُلجھا ہوا تھا۔ عبداللہ کا رویہ کچھ عجیب تھا مگر احسن سعد کی چھٹی حس اُسے اُس سے بھی بُرے سگنلز دے رہے تھے اور وہ بالکل ٹھیک تھے۔ عبداللہ نے کمرے کے اندر آتے ہی گفتگو کا آغاز اسی جملے سے کیا تھا اور احسن سعد کا لہجہ، انداز اور تاثرات پلک جھپکتے میں بدلے تھے۔ عبداللہ نے زندگی میں پہلی بار اُس کی یہ آواز سُنی تھی۔ وہ لہجہ بے حد خشک اور سرد تھا… Rude بہتر لفظ تھا اُسے بیان کرنے کے لئے… اور اُس کے ماتھے پر بل آئے تھے…آنکھوں میں کھاجانے والی نفرت… بھینچے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ اُس نے عبداللہ سے کہا۔
”کیوں؟” عبداللہ نے بے حد مختصر الفاظ میں اُسے بتایا کہ عنایہ نے اُس سے کہا تھا کہ جبریل اُس کی شادی عبداللہ سے نہیں کرنا چاہتا اوراُس کے انکار کی وجہ احسن سعد سے اُس کا قریبی تعلق تھا۔اُس نے احسن سعد کو بتایا کہ عنایہ اور جبریل دونوں نے اُس پر سنگین الزامات لگائے تھے اور اُسے عائشہ عابدین سے ملنے کے لئے کہا جو اُس کے لئے ضروری ہوگیا تھا۔
” تو تم نے اُن پر اعتبار کیا… اپنے اُستاد پر نہیں… اور تم مجھ سے بات یا مشورہ کئے بغیر اُس کُتیا سے ملنے چلے گئے… اور تم دعویٰ کرتے ہو کہ تم نے مجھ سے سب کچھ سیکھ لیا۔” احسن نے اُس کی گفتگو کے درمیان ہی اُس کی بات بے حد خشمگیں لہجے میں کاٹی تھی، عبداللہ بات ویسے بھی کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اُس نے احسن سعد کی زبان سے ابھی ابھی ایک گالی سُنی تھی عائشہ عابدین کے لئے… وہ گالی اُس کے لئے شاکنگ نہیں تھی، احسن سعد کی زبان سے اُس کا نکلنا شاکنگ تھا۔مگر وہ شام عبداللہ کے لئے وہ آخری شاک لانے والی نہیں تھی… وہ جس بُت کی پوجا کررہا تھا، وہ وہاں اُس بُت کو کو اوندھے منہ گرتے دیکھنے آیا تھا۔
”تمہیں کوئی حق نہیں تھا کہ تم میری سابقہ بیوی سے ملتے… میرے بارے میں اس طرح investigation کرتے، تم اُس ”……” ،”…”،”…” کے پاس پہنچے جس نے تمہیں میرے بارے میں جھوٹ پہ جھوٹ بولا ہوگا۔” احسن سعد کے جملوں میں اب عائشہ کے لئے گالیاں اس طرح آرہی تھیں جیسے وہ اُسے مخاطب کرنے کے لئے روز مرّہ کے القابات تھے… وہ غصّے کی شدت سے بے قابو ہورہا تھا ، عائشہ کی نفرت اُس کے لئے سنبھالنا مشکل ہورہی تھی یا اپنا سالوں کا بنایا ہوا image مسخ ہونے کی تکلیف نے اُسے اس طرح بلبلانے پر مجبور کردیا تھا، عبداللہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
” وہ دکھانے بیٹھ گئی ہوگی تمہیں کورٹ کے کاغذات کو، یہ دیکھو کورٹ میرے شوہر کو جھوٹا کہہ رہی ہے… کورٹ نے مجھ پر مار پیٹ کے الزامات کو مانا ہے، کورٹ نے احسن سعد کو دوسری شادی کرنے کے لئے اُسے دھوکہ باز کہا ہے اور اس لئے اُس …… عورت کے طلاق کے مطالبے کو جائز قرار دیتے ہوئے اُسے طلاق دلوادی اور بچے کی کسٹڈی بھی…” وہ بولتا ہی جارہا تھا اور عبداللہ ساکت صرف اُسے سُن رہا تھا۔ وہ سارے انکشافات جن کو سُننے کے لئے جبریل نے اُسے عائشہ کے پاس بھیجا تھا، وہ الزامات وہ خود احسن سعد سے سُن رہا تھا۔
” میں اس ملک کے courts کو دو ٹکے کا نہیں سمجھتا… یہ کافروں کی عدالتیں ہیں، اسلام کو کیا سمجھتی ہوں گی، وہ فیصلے دیتی ہیں جو شریعہ کے خلاف ہیں… میرا مذہب حق دیتا ہے مجھے دوسری شادی کا… کسی بھی وجہ کے بغیر تو کورٹ کون ہوتی ہے مجھے اس عمل پر دھوکہ باز کہنے والی… مجھے حق ہے کہ میں ایک نافرمان بیوی کو مار پیٹ سے راہِ راست پر لاؤں… کورٹ کس حق کے تحت مجھے اس سے روک سکتا ہے… میں مرد ہوں، مجھے میرے دین نے عورت پربرتری دی ہے… کورٹ کیسے مجھے مجبور کرسکتی ہے کہ میں اپنی بیوی کو برابری دوں… اِن ہی چیزوں کی وجہ سے تو تمہارا معاشرہ تباہ ہوگا… بے حیائی، عُریانی، منہ زوری، مرد کی نافرمانی… یہی چیزیں تو لے ڈوبی ہیں تمہاری عورتوں کو… اور تمہارے کورٹس کہتے ہیں ہم بھی بے غیرت ہوجائیں اور ان عورتوں کو بسائیں اور اُن کے پیچھے کُتے کی طرح دُم ہلاتے پھریں۔”
وہ شخص کون تھا، عبداللہ پہچان ہی ن نہیں پارہا تھا… اتنا زہر، ایسا تعصّب، ایسے الفاظ اور یہ سوچ… اُس نے ڈاکٹر احسن سعد کے اندر یہ چھپا انسان تو کبھی نہیں دیکھا تھا جو امریکہ کو ہمیشہ اپنا ملک قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو ایک proud American کہتا تھا اور آج وہ اُسے تمہارا ملک، تمہارا معاشرہ، تمہارے کورٹس کہہ کہہ کر بات کررہا تھا…اُمّت اور اخوّت کے جو دو لفظ اُس کا کلمہ تھے وہ دونوں یک دم کہیں غائب ہوگئے تھے۔
” اب طلاق منہ پر مار کر میں نے اُس حرّافہ کو چھوڑا ہوا ہے تو خوار ہوتی پھر رہی ہے… کسی کی keep اور گرل فرینڈ ہی رہے گی وہ ساری عمر، کبھی بیوی نہیں بنے گی…اُسے یہی آزادی چاہیے، تمہاری سب عورتوں کو یہی سب چاہیے… گھر، خاندان، چاردیواری کس چڑیا کے نام ہیں اُنہیں کیا پتہ… عصمت جیسا لفظ اُن کی ڈکشنری میں ہی نہیں… اور پھر الزام لگاتی ہیں شوہروں پر… تشدّد کے… گھٹیا عورتیں… ” اُس کے جملوں میں اب بے ربطگی تھی… یوں جیسے وہ خود بھی اپنی باتیں جوڑ نہ پارہا ہو،مگر وہ خاموش ہونے پر تیّار نہیں تھا… اُس کا علم بول رہا ہوتا تو اگلے کئی گھنٹے بھی عبداللہ اسی طرح اُسے سُن سکتا تھا جیسے وہ ہمیشہ سحر زدہ معمول کی طرح سُنتا رہتا تھا مگر یہ اُس کی جہالت تھی جو گفتگو کررہی تھی اور کرتے ہی رہنا چاہتی تھی۔
عبداللہ اُس کی بات کاٹ کر کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اُس سے پہلے احسن سعد کے دونوں ماں باپ اندر آگئے تھے وہ یقیناً احسن کے اس طرح بلند آواز میں باتیں سُن کر اندر آئے تھے۔
”ابّو میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ آپ کے دوست کا بیٹا میرا دشمن ہے، مجھے نقصان پہنچائے گا… اب دیکھ لیں وہی ہورہا ہے، وہ مجھے جگہ جگہ بدنام کرتا پھررہا ہے۔” احسن نے اپنے باپ کو دیکھتے ہی کہا تھا۔
” کون؟” سعد نے کچھ ہکا بکا انداز میں کہا۔
”جبریل” احسن نے جواباً کہا اور عبداللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”اسے عائشہ سے ملوایا ہے اُس نے… اور اُس عورت نے اسے میرے بارے میں جھوٹی سچی باتیں کہی ہیں، زہر اگلا ہے میرے بارے میں۔” وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح باپ سے شکایت کررہا تھا۔
” عائشہ نے مجھ سے آپ کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا… جو بھی بتایا ہے آپ نے خود بتایا ہے۔” عبداللہ نے سعد کے کچھ کہنے سے پہلے کہا تھا۔”انہوں نے مجھ سے صرف یہ کہا کہ آپ کے اور اُن کے درمیان compatibility نہیں تھی، مگر کوئی کورٹ پیپرز اور کورٹ میں آپ پر ثابت ہونے والے کسی الزام کی انہوں نے بات کی نہ ہی مجھے کوئی پیپر دکھایا… جو بھی سُن رہا ہوں، وہ میں آپ سے ہی سُن رہا ہوں۔” عبداللہ کا خیال تھا احسن سعد حیران رہ جائے گا اور پھر شرمندہ ہوگا… ایسا نہیں ہوا تھا۔
”تم مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش مت کرو۔” احسن سعد نے اُسے درمیان میں ہی ٹوک دیا تھا۔ عبداللہ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اُس گھر میں یک دم ہی اُس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ اب صرف احسن سعد نہیں بول رہا تھا، اُس کا باپ اور ماں بھی بولنے لگ گئے تھے۔ وہ تینوں بیک وقت بول رہے تھے اور عائشہ عابدین کو لعنت ملامت کررہے تھے اور جبریل کو اور سالار سکندر کو جس کے ماضی کے حوالے سے سعد کو یک دم بہت ساری باتیں یاد آنے لگی تھیں اور امامہ کے بارے میں… جس کا پہلا مذہب قادیانیت تھا… عبداللہ کو یک دم کھڑے کھڑے یہ محسوس ہونے لگا تھا جیسے وہ ایک mental asylum میں کھڑا تھا… وہ اُس کے کھڑے ہونے پر بھی اُسے جانے نہیں دے رہے تھے بلکہ چاہتے تھے وہ اُس کی ہر بات سُن کر جائے… ایک ایک بہتان، ایک ایک راز جو صرف اُن کے سینوں میں دبا ہوا تھا اور جسے وہ آج آشکار کردینا چاہتے تھے… اسلام کا وہ چہرہ عبداللہ نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی وہ دیکھنا چاہتا تھا۔وہ مذہب اُس کے لئے ہمیشہ ہدایت اور مرہم تھا، بے ہدایتی اور زخم کبھی نہیں بنا تھا۔ وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا…کانوں میں پڑنے والی آوازوں کو روک دینا چاہتا تھا… احسن سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اُس کے قرآن کا اُستاد رہا تھا… وہ بس وہی سب بتائے اُسے… یہ سب نہ سُنائے۔ برادر احسن…You disappointed me” عبداللہ نے بالآخر بہت دیر بعد آوازوں کے اُس طوفان میں اپنا پہلا جملہ کہا۔ طوفان جیسے چند لمحوں کے لئے رُکا۔
”آپ کے پاس بہت علم ہے… قرآن پاک کا بہت زیادہ علم ہے… لیکن ناقص… آپ قرآن پاک کو حفظ تو کئے ہوئے ہیں، مگر نہ اس کا مفہوم سمجھ پائے ہیں نہ اللہ اور اُس کے رسولۖ کی تعلیمات… کیونکہ آپ سمجھنا نہیں چاہتے اُس کتاب کو جو اپنے آپ کو سمجھنے اور سوچنے کے لئے بلاتی ہے…آپ سے ایک بار میں نے ایک آیت کا مطلب پوچھا تھا کہ قرآن دلوں پر مہرلگادینے کی بات کرتا ہے تو اُس کا کیا مفہوم ہے… مجھے اُس کا مفہوم اُس وقت سمجھ نہیں آیا تھا…آج آگیا… آپ میرے اُستاد رہے ہیں مگر میں دعا کرتا ہوں اللہ آپ کے دل کی مہر توڑ دے اور آپ کو ہدایت عطا فرمائے۔” وہ احسن سعد کو بیچ بازار میں جیسے ننگا کر کے چلا گیا تھا… وہاں ٹھہرا نہیں تھا۔
٭٭٭٭
وہ پھر وہیں کھڑا تھا جہاں عائشہ کو توقع تھی… اُس کے اپارٹمنٹ کے باہر کمپاؤنڈ میں… ادھر سے ادھر ٹہلتے… گہری سوچ میں… زمین پر اپنے قدموں سے فاصلہ ماپتے ہوئے… برف باری کچھ دیر پہلے ہوکر ہٹی تھی اور جو برف گری تھی… وہ بہت ہلکی سی چادر کی طرح تھی… جو دھوپ نکلنے پر پگھل جاتی، مگر آج دھوپ نہیں نکلی تھی اور اُس برف پر جبریل کے قدموں کے نشان تھے… بے حد ہموار… اور متوازن جیسے بہت سوچ سمجھ کر رکھے جارہے ہوں۔ اُس نے عائشہ کو باہر آتے نہیں دیکھا تھا مگر عائشہ نے اُسے دیکھ لیا تھا۔ لانگ کوٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اُس کی طرف بڑھنے لگی۔
جبریل نے اُسے کچھ دیر پہلے فون کیا تھا… ملنا چاہتا تھا” میں گروسری کے لئے جارہی ہوں اور پھر ہاسپٹل چلی جاؤں گی…” اُس نے جیسے بلاواسطہ انکار کیا تھا… وہ اب اُس کا سامنا کرنے سے کترانے لگی تھی… اُس کے سامنے آنا ہی نہیں چاہتی تھی اُس ایک گفتگو کے بعد۔
” تو تم کورٹ میں یہ اعتراف کرنا چاہتی ہو کہ احسن سعد ٹھیک ہے اور تم نے اپنے بیٹے کی دیکھ بھال میں لاپرواہی کا مظاہرہ کیا… تم اپنی زندگی تباہ کرنا چاہتی ہو۔” جبریل نے بے حد خفگی سے اُسے تب کہا تھا ”مجھے اپنی زندگی میں اب دلچسپی نہیں رہی اور اگر اسے قربان کرنے سے ایک زیادہ بہترین زندگی بچ سکتی ہے تو کیوں نہیں۔” اُس نے جواباًاُن سب ملاقاتوں میں پہلی بار اُس سے اس طرح بات کی تھی۔
” تم مجھے بچانا چاہتی ہو؟” جبریل نے سیدھا اُس سے پوچھا۔ اُسے اتنے direct سوال کی توقع نہیں تھی اُس سے… اور ایک ایسے سوال کی جس کا جواب وہ اُسے دینے کی جرأت ہی نہیں کرسکتی تھی… وہ اُسے یہ کیسے بتاسکتی کہ وہ احسن سعد سے اُس شخص کو بچانا چاہتی تھی جو اُسے اسفند کے بعد اب سب سے عزیز تھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ احسن سعد نے اُسے جبریل کے آپریشن میں ڈاکٹر ویزل سے ہونے والی کوتاہی کے بارے میں بتایا تھا… اُسے جبریل کے اُس معذرت والے کارڈ کی سمجھ بھی تب ہی آئی تھی… لیکن وہ پھر بھی جبریل کو معاف کرنے پر تیّار تھی، یہ ماننے پر تیّار نہیں تھی کہ اُس کے بیٹے کی جان لینے میں اُس شخص سے ہونے والی کسی دانستہ غلطی کا ہاتھ تھا۔ وہ اُسے اتنی توجہ کیوں دیتا تھا…اُس کے لئے کیوں بھاگتا پھرتا تھا… عائشہ عابدین جیسے اب ڈی کو ڈ کرپائی تھی اور وہ اُسے اُس احساسِ جرم سے آزاد کردینا چاہتی تھی، یہ بتا کر کہ اُس نے جبریل کو معاف کردیا تھا اور وہ جبریل کو بچانے کے لئے احسن سعد کے آگے دیوار کی طرح کھڑی ہوسکتی تھی… وہ ایک کام بھی جو وہ زندگی میں اپنی ذات اور اپنی اولاد کے لئے بھی نہیں کرسکی تھی۔ میں تمہیں صرف احساسِ جرم سے آزاد کردینا چاہتی ہوں جو تم اسفند کی وجہ سے رکھتے ہو۔” اُ س نے اُس کے سوال کا جواب دیا تھا۔ جبریل بول نہیں سکا تھا”میں اِس کے لئے تمہارا شکریہ ادا کرسکتا ہوں، مگر تمہیں اپنی زندگی تباہ کرنے نہیں دے سکتا…” بڑی لمبی خاموشی کے بعد جبریل نے کہا تھا۔
” تم اگر احسن کے اس الزام پر کورٹ میں یہ کہوگی تو میں اپنی غلطی کورٹ میں جاکر بتاؤں گا۔” اُس نے عائشہ سے کہا۔ ” تمہیں کوئی سمجھانے والا نہیں ہے، ہوتا تو تمہیں یہ نہ کرنے دیتا…… اور نہیں… تمہارے پاس آنے کی واحد وجہ میرا احساسِ جرم نہیں ہے… زندگی میں احساسِ جرم ہمدردی تو کرواسکتا ہے محبت نہیں۔” جبریل اُسے اُس دن جانے سے پہلے کہہ کر گیا تھا… ایسے ہی معمول کے انداز میں… یوں جیسے سردرد میں ڈسپرین recommend کررہا ہو… یا نزلہ ہوجانے پر فلو diagnose کررہا ہو… اُس کے جانے کے بعد بھی عائشہ کو لگا تھا اُس نے جبریل سکندر کی بات سُننے میں غلطی کی تھی اور اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس بات کو دوبارہ سُننے کا اصرار کرتی تاکہ اپنی تصحیح کرسکے… بعض وہم جی اُٹھنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں، بعض شائبے متاعِ حیات ہوتے ہیں، یقین میں نہ بھی بدلیں تو بھی۔
اور اب وہ ایک بار پھر سامنے کھڑا تھا… نہیں کھڑا نہیں تھا… برف پر اپنے نشان بنانے میں مصروف تھا یوں جیسے اُس کے پاس دنیا بھر کی فرصت تھی۔
اُس کی چاپ پر جبریل نے گردن موڑ کر اُسے دیکھا۔ وہ لانگ کوٹ کے اندر اپنی گردن کے مفلر کو بالکل ٹھیک ہونے کے باوجود ایک بار پھر ٹھیک کرتی اُس کی طرف آرہی تھی، اُس کی طرف متوجہ نہ ہونے کے باوجود۔
”گروسری میں بہت وقت لگے گا میرا” اُس کے قریب آتے ہوئے غیر محسوس انداز میں اُسے جتاتے ہوئے اُس نے جبریل سے کہا تھا” ہم پھر کسی دن فرصت میں مل سکتے تھے۔” جبریل کے جواب کو انتظار کئے بغیر اُس نے ایک بار پھر جبریل کو جیسے اپنے ساتھ جانے سے روکنے کے لئے کہا۔ اس کے باوجود کہ جبریل نے اُسے انتظار کرنے کا نہیں کہا تھا،وہ اُس کے ساتھ گروسری کرنے جانے کے لئے تیّار تھا۔ اُسے صرف اتنا وقت ہی چاہیے تھا جتنا وقت وہ گروسری کرتی… ساتھ چلتے پھرتے وہ بات کرسکتا تھا۔
”میں جانتا ہوں… مگر فرصت میرے پاس تو بہت ہے، تمہارے پاس بالکل نہیں۔” اُس نے جواباً اُس سے کہا ”گاڑی میں چلیں؟” جبریل نے بھی اپنے جواب پر اُس کے تبصرے کا انتظار نہیں کیا تھا” نہیں یہاں قریب ہی ہے سٹور… walking distance پر… گاڑی کی ضرورت نہیں ہے… مجھے بہت زیادہ چیزیں نہیں چاہیے۔” عائشہ نے قدم روکے بغیر بیرونی سڑک کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
” تم نے عبداللہ سے جھوٹ کیوں بولا؟” وہ چند قدم خاموشی سے چلتے رہے تھے پھر جبریل نے اُس سے پوچھنے میں دیر نہیں کی تھی۔ عائشہ نے گہرا سانس لیا۔اُسے اس سوال کی توقع تھی لیکن اتنی جلدی نہیں۔
”بزدلی اچھی چیز نہیں عائشہ…” اُس نے چند لمحے اُس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد کہا تھا۔ وہ طنز نہیں تھا مگر اس وقت عائشہ کو طنز ہی لگا تھا۔ ساتھ چلتے ہوئے وہ دونوں اب فٹ پاتھ پر آگئے تھے۔ برف کی چادر پر وہ نشان جو کچھ دیر پہلے جبریل اکیلا بنارہا تھا اب وہ دونوں ساتھ ساتھ بنارہے تھے۔
” تمہیں لگتا ہے میں بزدل ہوں اس لئے میں نے احسن سعد کے بارے میں عبداللہ کو سچ نہیں بتایا؟” اُس نے اس ملاقات کے دورانیہ میں ساتھ چلتے ہوئے پہلی بارگردن موڑ کر جبریل کو دیکھا تھا۔ ” بزدلی یا خوف… اس کے علاوہ تیسری وجہ اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ ” جبریل نے جیسے اپنی بات کی تصدیق کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا ” تمہیں ڈر تھا کہ احسن سعد تمہیں پریشان کرے گا… تمہیں فون کرے گا اور تنگ کرے گا۔” جبریل نے کہا تھا” مگر تم نے عبداللہ سے جھوٹ بول کر احسن سعد کو بچا کر بہت زیادتی کی … تم نے مجھے اور عنایہ کو جھوٹا بنادیا۔” اُس کا لہجہ اب شکایتی تھا۔
” آپ لوگوں کے جھوٹا ہونے سے اُتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا احسن سعد کے جھوٹا ہونے سے عبداللہ کو ہوتا۔” عائشہ نے جواباً کہا۔
”وہ حافظِ قرآن ہے تو میں بھی ہوں۔” جبریل نے کہا” آپ کو وہ اُس مقام پر بٹھا کر نہیں دیکھتا جس پر احسن کو دیکھتا ہے۔ ” عائشہ نے جواباً کہا” وہ نو مسلم نہ ہوتا تو میں احسن کے بارے میں اب سب کچھ بتادیتی اُسے… وہ مجھ سے ملنے کے بعد دوبارہ احسن کی شکل بھی نہ دیکھتا شاید… مگر وہ نومسلم ہے… میں اُسے کس منہ سے یہ کہتی کہ اتنے سالوں سے وہ جس شخص کو بہترین مسلمان اور انسان سمجھ رہا ہے، وہ ایسا نہیں ہے۔عبداللہ نے صرف احسن کو جھوٹا نہیں ماننا تھا میرے دین سے اُس کا دل اُچاٹ ہونا تھا۔” وہ کہہ رہی تھی اُسی مدہم آواز میں جو اُس کا خاصہ تھی۔
” میرے ساتھ ہوا تھا ایک بار ایسے… میں احسن سعد سے ملنے سے پہلے بہت اچھی مسلمان تھی،آنکھیں بند کر کے اسلام کی پیروی کرنے والی… جنون اور پاگل پن کی حد تک دین کے راستے پر چلنے والی اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولۖ سے اندھی محبت اور عقیدت رکھنے والی… لیکن پھر میری شادی احسن سعد سے ہوگئی اور میں نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا… اور میرا سب سے بڑا نقصان ایک خراب ازدواجی زندگی، طلاق یا اسفند کی موت نہیں ہے… میرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اُس نے مجھے دین سے بیزار کردیا… مجھے اب دین کی بات کرنے والا ہر شخص جھوٹا اور منافق لگتا ہے… داڑھی اور حجاب سے مجھے خوف آتا ہے، میرا دل جیسے عبادت کے لئے بند ہوگیا ہے… اتنے سال میں دن رات اتنی عبادتیں اور وظیفے کرتی رہی اپنی زندگی میں بہتری کے لئے کہ اب مجھے لگتا ہے مجھے اللہ سے کچھ مانگنا ہی نہیں چاہیے… میں مسلمان ہوں لیکن میرا دل آہستہ آہستہ کافر ہوتا جارہا ہے اور مجھے اس احساس سے خوف آتا ہے لیکن میں کچھ کر نہیں پارہی… اور یہ سب اس لئے ہوا کیوں کہ مجھے ایک اچھے عملی مسلمان سے بہت ساری توقعات اور اُمیدیں تھیں اور میں نے اُنہیں چکنا چور ہوتے دیکھا… اور میں عبداللہ کو اس تکلیف سے گزارنا نہیں چاہتی… اگر وہ احسن سعد کو اچھا انسان سمجھتے ہوئے ایک اچھا انسان بن سکتا ہے تو اُسے بننے دیں۔” وہ اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھوں اور گالوں کو رگڑنے کی کوشش کررہی تھی۔
”میں کافر ہوں لیکن میں کسی کو کافر نہیں کرسکتی، بس مجھ میں اگر ایمان ہے تو صرف اتنا” وہ اب ٹشو اپنی جیب سے نکال کر آنکھیں رگڑ رہی تھی۔
”پسند…؟؟مجھے پسند کا نہیں پتہ ممّی… مگر عائشہ عابدین میری عقل اور سمجھ سے باہر ہے… میں اُس سے شدید ہمدردی رکھتا تھا… مگر اب ہمدردی تو بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ میں اُسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پاتا… بار بار اُس سے ملنا چاہتا ہوں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُس کا اور میرا کوئی future نہیں ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ لائف پارٹنر کے طور پر مجھے جیسی لڑکی کی خواہش ہے، عائشہ اُن کی متضاد ہے… مجھے بے حد مضبوط، پر اعتماد، زندگی سے بھرپور، career oriented، ہر وقت ہنستی رہنے والی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں جو بہت اچھی values بھی رکھتی ہوں اور عائشہ میں ان سب چیزوں میں سے صرف دو ہوں گی… یا تین… لیکن اس کے باوجود میں عائشہ سے disconnect نہیں رہ سکتا۔”
قسط نمبر 47
کافی پیو گی یا اب بھی گروسری کرو گی؟” وہ اُسے اب چھیڑ رہا تھا ” گروسری زیادہ ضروری ہے۔” اُس نے اپنی ندامت چھپاتے ہوئے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے کہا”اگر اتنی ضروری ہوتی تو تم گروسری سٹور کو پیچھے نہ چھوڑ آتی۔” عائشہ نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا۔ وہ واقعی بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ بہت ساری دوسری چیزوں کی طرح…آگے بہت کچھ تھا…اُس نے جبریل کا نم چہرہ دیکھا، پھر نم آنکھوں سے مسکرائی۔
”کافی پی لیتے ہیں پھر۔”
٭٭٭٭
امامہ نے اُس سکریپ بُک کو پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا۔ وہ اُس ہی کی سکریپ بُک تھی وہ سکریپ بُک جس میں اُس نے کبھی اپنے ممکنہ گھر کے لئے ڈیزائننگ کی تھی۔ مختلف گھروں کی مختلف چیزوں کی تصویریں کھینچ کھینچ کر ایک collection بنائی تھی کہ جب وہ اپنا گھر بنائے گی تو اُس کا فلور اس گھر جیسا ہوگا، windows اس گھر جیسی، دروازے اس گھر جیسے… ہاتھ سے بنائے سکیچز کے ساتھ… اور اُس میں اُن بہت سے خوبصورت گھروں کی میگزینز سے کاٹی گئی تصویریں بھی چسپاں تھیں۔
وہ سکریپ بُک چند سال پہلے اُس نے پھینک دینے کے لئے بہت ساری ردّی کے ساتھ نکالی تھی، اور حمین نے اُسے پھینکنے نہیں دی تھی۔اُس سے وہ سکریپ بُک لے لی تھی۔ اور اب امامہ نے اُس سکریپ بُک کو یہاں دیکھا تھا۔ حمین سکندر کے اُس pent house کی ایک دراز میں… اُس کی مرمّت کی جاچکی تھی اور وہ بہت صاف ستھری اور اُس سے بہتر حالت میں نظر آرہی تھی جس میں امامہ نے اُسے آخری بار حمین کو دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ تم کیا کروگے اس کا؟” اُس نے حمین سے پوچھا تھا۔”آپ کو ایسا ایک گھر بنا کر دوں گا۔” اُسے وہی جواب ملا تھا جس کا اُسے پہلے ہی اندازہ تھا وہ حمین سکندر کے سرپرائز کو بوجھنے میں ماہر تھی۔ ”مجھے اب ایسے کسی گھر کی تمنا نہیں ہے۔” امامہ نے اُسے کہا تھا،” ایک وقت تھی پر اب نہیں، اب مجھے بس ایک چھوٹا سا ایسا گھر چاہیے جہاں پر میں تمہارے بابا کے ساتھ رہوں اور تمہارے بابا کے پاس وہ ہے۔ اس لئے تم اس گھر کو بنانے میں اپنی energy اور وقت ضائع مت کرنا۔” اُس نے حمین کو نصیحت کی ۔”میری خواہش ہے یہ ممّی” حمین نے اُسے کہا تھا ،” یہ گھر میں نے تمہارے بابا سے مانگا تھا، وہ نہیں دے سکے… اور تم سے میں لوں گی نہیں… میں کبھی سالار کو یہ احساس نہیں ہونے دوں گی کہ تم نے مجھے وہ دے دیا ہے جو وہ نہیں دے سکا۔” حمین کو اُس کی بات کی سمجھ آگئی تھی ۔”سوچ لیں” اُس نے جیسے امامہ کو چیلنج کرنے والے انداز میںکہا تھا۔”سوچ لیا۔” وہ چیلنج قبول کرتے ہوئے ہنس پڑی
” آپ کو دُنیا میں بابا کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا۔” حمین نے شکایتاًاُس سے کہا۔
” ہاں نہیں آتا ” وہ ہنسی۔
”زیادتی ہے یہ ” اُس نے جتایا۔
”اتنا تو کرسکتی ہوں۔” اُس نے جواباً چھیڑا۔
”دادا کہتے تھے آپ دونوں پتھر کے زمانے میں بھی ہوتے تو مل جاتے۔” وہ اب اُسے چھیڑ رہا تھا، وہ بے اختیار ہنسی تھی اور ہنستی چلی گئی تھی۔
اور اب وہ اُس سکریپ بُک کو کھولتے ہوئے اُسے ورق بہ ورق دیکھ رہی تھی… جیسے اپنی زندگی کی ورق گردانی کرتے ہوئے… اُس کے پاس وہ سکریپ بُک آدھی خالی تھی، اور اب وہ ساری بھر چکی تھی۔ اُس نے کچھ تجسّس کے عالم میں اُن صفحوں سے آگے دیکھنا شروع کیا جو اُس نے بھرے تھے۔وہاں بھی تصویریں تھیں… خوبصورت گھروں کی… وہ حمین سکندر کی collection تھی… اُس ہی کی طرح کاٹ کاٹ کر لگائی ہوئی تصویریں،مگر فرق صرف یہ تھا کہ وہ میگزینز سے کاٹی ہوئی تصویریں نہیں تھیں، وہ کھینچی ہوئی تصویریں تھیں حمین سکندر کے اپنے گھروں کی… وہ چہرے پر مسکراہٹ لئے بڑے اشتیاق سے اُن گھروں کی تصویروں کو دیکھتی جارہی تھی۔ وہ یقیناً خوش نصیب تھا، تیس سال کی عمر تک پہنچے بغیر درجنوں گھروں کا مالک تھا۔ اُس کی ساری اولادوں میں دولت کے معاملے میں سب سے زیادہ امیر اور خرچ کرنے میں سب سے زیادہ فیّاض… اُس نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی کمپنی امامہ سے قرض لے کر شروع کی تھی۔
”صرف اس لئے لے رہا ہوں آپ سے کہ بابا نے بھی SIF آپ کے قرض سے شروع کیا تھا۔” اُس نے امامہ کو “logic” بتائی تھی۔ اور اُس وقت پہلی بار امامہ نے سالار سے SIF میں دی جانے والی اپنی اصل رقم واپس مانگی تھی۔
”وہ ڈبودے گا… مجھے یقین ہے۔” سالار نے اُسے خبردار کیا تھا… وہ اُس وقت سولہ سال کا بھی نہیں تھا اور اگر سالار یہ تبصرہ کررہا تھا تو غلط نہیں تھا۔
”جب تمہیںSIF کے لئے یہ رقم دی تھی تو پاپا نے بھی یہی کہا تھا… تم نے ڈبودی کیا؟” اُس نے سالار کو جتایا تھا۔ ”تم مجھے حمین سے compare کررہی ہو۔” سالار ناخوش ہوا تھا ” پہلی بار نہیں کررہی ” اُس نے جواباً کہا تھا۔
کتنا وقت گزرگیا تھا… گزرگیا تھا یا شاید بہہ گیا تھا… زندگی بہت آگے چلی گئی تھی… خواہشاتِ نفس بہت پیچھے چلی گئی تھیں۔
امامہ نے ہاتھ میں پکڑی سکریپ بُک اپنے سامنے سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہاں پڑا چائے کا مگ اُٹھا لیا۔ وہ اب سر اُٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگی تھی۔ وہ چند دن پہلے پاکستان سے مستقل طور پر امریکہ شفٹ ہوئی تھی اور حمین کا گھر اُس کا پہلا پڑاؤ تھا۔ سالار بھی چند دن کے لئے وہیں تھا اور اس وقت صبح سویرے وہ اپنے لئے چائے بنا کر pent house کے اُس حصّے میں آکر بیٹھی تھی جس کی چھت بھی شیشے کی تھی، نیلے آسمان پر تیرتے ہلکے بادلوں اور اُڑتے پرندوں کو وہ اس پرسکون خاموشی میں بچوں کے سے اشتیاق سے دیکھ رہی تھی۔ تب ہی اُس نے اپنے عقب میں آہٹ سُنی، وہ سالار تھا۔ چائے کے اپنے مگ کے ساتھ۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے تھے۔ایک طویل مدّت کے بعد وہ یوں امریکہ میں اس طرح فرصت سے مل رہے تھے… سالار کی زندگی کی بھاگ دوڑ کے بغیر۔
وہ بھی اُس کے قریب کاؤچ پر بیٹھ گیا تھا، کاؤچ پر اُس کے برابر بیٹھے چائے کے دو مگز ہاتھ میں لئے وہ دونوں آج بھی ویسے ہی تھے… سالار کم گو، وہ سب کچھ کہہ دینے والی… سالار سُنتے رہنے والا وہ دُنیا جہاں کی باتیں دُہرا دینے والی… مگر اُن کے پاس فرصت صرف چائے کے مگ جتنی ہوتی تھی۔ چائے کا مگ بھرا ہوتا تو اُن کی باتیں شروع ہوتیں اور اُس کے ختم ہونے تک باتیں اور فرصت دونوں ختم ہوجاتے…چائے کا وہ مگ جیسے اُن کی قربت میں گزاری ہوئی زندگی تھی… نرم گرم، رُک رُک، ٹھہر ٹھہر کر گزرتی ہوئی… لیکن جتنی بھی تھی، تسکین بھری… سالار نے سامنے پڑی سکریپ بُک کو سرسری نظر سے دیکھا، چند لمحوں کے لئے اُٹھا کر اُلٹا پلٹا پھر واپس رکھتے ہوئے کہا۔
” تمہارے جیسے شوق ہیں تمہارے بیٹے کے۔” وہ مسکرادی۔ وہ دونوں اُس کے اس pent house میں پہلی بار آئے تھے۔
”اس سال ریٹائر ہونے کا سوچ رہا ہوں۔” چائے کا ایک سِپ لیتے ہوئے سالار نے امامہ سے کہا،”کئی سالوں سے سُن رہی ہوں۔” اُس نے جواباً کہا۔ وہ دھیرے سے ہنسا ” نہیں اب تم آگئی ہو امریکہ تو اب ریٹائر ہوسکتا ہوں… پہلے تو تنہائی کی وجہ سے کام کرنا میری مجبوری تھی۔” وہ اُسے tease کررہا تھا ”بیس سال کی ہوتی تو تمہاری اس بات پر خوش ہوتی۔” امامہ نے بے ساختہ کہا ” خیربیس سال کی عمر میں میرے اس جملے پر تو تم کبھی خوش نہیں ہوتی۔” اُس نے ترکی بہ ترکی کہا۔ دونوں بیک وقت ہنسے۔
” یہ ویسا گھر ہے جیسا ایک بار ہم نے خواب میں دیکھا تھا، اُس جھیل کے کنارے؟” سالار نے یک دم آسمان کو دیکھتے ہوئے، اُس سے پوچھا۔ وہ بھی سر اُٹھا کر شیشے سے نظر آتے آسمان کو دیکھنے لگی۔
”نہیں ویسا گھر نہیں ہے۔” امامہ نے ایک لمحے کے بعد کہا۔ سکندر عثمان کی موت کے بعد امامہ نے ایک بار پھر وہی جھیل کنارے ایک گھر دیکھا تھا۔ جو وہ اپنی زندگی کے کئی سالوں میں بار بار دیکھتی رہی تھی۔ مگر اس بار وہ خواب اُس نے بہت عرصے کے بعد دیکھا تھا۔
”وہ گھر ایسا نہیں تھا۔” وہ اُس pent house کو گردن گھما کر دیکھتے ہوئے بڑبڑارہی تھی ،”وہ آسمان ایسا نہیں تھا… نہ وہ پرندے ایسے تھے… نہ وہ شیشہ ایسا۔ وہ گھر دُنیا میں کبھی کہیں نہیں دیکھا میں نے۔” وہ کہہ رہی تھی ”اُس گھر کی کوئی چیز دنیا بھر میں پھرنے کے باوجود کہیں نظر نہیں آئی مجھے… کبھی کبھی مجھے لگتا ہے وہ گھر جنّت میں ملے گا ہمیں۔” وہ کہہ کر خاموش ہوگئی تھی۔ وہ بھی چونکے بغیر خاموش ہی رہا تھا…
” تم نے کچھ نہیں کہا” امامہ نے اُس کی خاموشی کو کُریدا۔ اُس نے گردن موڑ کر مسکراتے ہوئے امامہ کو دیکھا اور بڑبڑایا۔
”آمین” وہ چپ رہی، پھر ہنس پڑی وہ آج بھی ویسا ہی تھا… مختصر مگر اگلے کو لاجواب کردینے والی باتیں کہہ دینے والا۔
”اگر وہ جنّت ہے تو پھر میں تم سے پہلے وہاں جاؤں گا۔” وہ امامہ سے کہہ رہا تھا ”تمہیں یاد ہے نا میں وہاں تمہارا انتظار کررہا تھا۔”
”ضروری نہیں” لمحہ بھر کے لئے وہ چائے پینا بھولی ”خوابوں میں سب کچھ سچ نہیں ہوتا” اُس نے بے اختیار کہا تھا۔ آج بھی بچھڑجانے کا خیال اُسے بے کل کرگیا تھا۔
”اگر وہ واقعی جنّت ہے تو کیا تم چاہتی ہو وہ خواب جھوٹا ہو؟” وہ عجیب انداز میں مسکرایا تھا… اک بار پھر لاجواب کردینے والے جملے کے ساتھ” بس اتنا کہ تم وہاں پہلے انتظار میں مت کھڑے ہو…دونوں اکھٹے بھی تو جاسکتے ہیں۔” امامہ نے چائے کا مگ خالی کر کے سامنے پڑی میز پر رکھتے ہوئے کہا ۔اُس نے اب سالار کے بازو پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ مسکرادیا۔
”اب بھی کہو نا؟” وہ اُس سے کہہ رہی تھی۔”کیا؟” اُس نے پوچھا۔ آمین” وہ ہنس پڑا
”آمین”۔
٭٭٭٭
ٹھیک 9:15 پر لفٹ کا دروازہ کھلا تھا اور دو سیکورٹی گارڈز تیز رفتار قدموں سے باہر نکلے تھے اور اُن دونوں کے بالکل پیچھے چند قدموں کے فاصلے پر وہ نکلا تھا۔ اُس پورے کوریڈور میں یک دم ہلچل مچ گئی تھی۔ وہاں پہلے سے کھڑے security officials اور پروٹوکول کے اہلکار یک دم الرٹ ہوگئے تھے۔ ”وہ” بے حد تیز قدموں سے اُن دو سیکورٹی گارڈز کے عقب میں چل رہا تھا اور اُس کے بالکل پیچھے اُس کے اپنے عملے کے چند افراد بے حد تیز قدموں سے اُس سے قدم سے قدم ملانے کی کوشش کررہے تھے۔
5…4…3…2…1…زیرِ لب گنتی کرتے ہوئے اُس ٹارگٹ کلر نے 1 کا لفظ زبان سے ادا کرتے ہی اپنی رینج میں آنے والے اپنے ٹارگٹ پر فائر کردیا تھا… اُس نے بینکوئیٹ ہال کے شیشے کے پرخچے اُڑتے دیکھے۔
٭٭٭٭
”تم نے اُس سے کیا کہا ہے کہ اُس نے مجھ سے بات کرنا چھوڑدی؟” ہشّام سے ملاقات کے کئی دن بعد تک بھی اس ملاقات کے حوالے سے کوئی اپ ڈیٹ نہ ملنے اور ہشّام کی طرف سے ہوجانے والی پراسرار خاموشی نے رئیسہ کو فکرمند کیا اور وہ حمین سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
”اُس نے تمہارا پیچھا چھوڑ دیا… یہ تو اچھا ہے، تم یہی تو چاہتی تھی نا۔” اُس نے رئیسہ کو بے حد سنجیدگی سے کہا تھا۔ رئیسہ کو جواب نہیں سوجھا۔ وہ اُس کی یونیورسٹی آیا ہوا تھا۔”ٹھیک ہے مگر تم نے اُس سے کیا کہا؟” رئیسہ نے کچھ بُجھے ہوئے انداز میں حمین سے کہا تھا۔ وہ اُس کے لئے برگر لایا تھا اور اپنا راستے میں ہی کھاتا آیا تھا۔ اب اُس کے پاس صرف ایک ٹکڑا رہ گیا تھا جسے وہ بڑے بے ڈھنگے پن سے نگل رہا تھا۔ رئیسہ نے اپنا برگر نکال کر کھانا شروع کردیا،اُسے پتہ تھا وہ اپنا ختم کرنے کے بعد اُس کا برگر بھی کھانا شروع کردیتا۔
” میں نے اُس سے کہا اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو بادشاہت چھوڑدیتا۔”اُس نے آخری ٹکڑا نگلتے ہوئے کہا اور رئیسہ کی بھوک مرگئی تھی۔ کیا اُلٹا مشورہ تھا۔اُس نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔
” لیکن میں نے اُس سے صرف یہ نہیں کہا تھا۔” حمین اب اپنی انگلیاں چاٹ رہا تھا۔ پھر اُس نے رئیسہ سے بڑے اطمینان سے کہا…” تمہاری بھوک تو مرگئی ہوگی، میری ابھی ہے… تم نے نہیں کھانا تو میں یہ باقی کھالوں۔” رئیسہ نے خاموشی سے اُسے برگر تھما دیا۔ اُس کی بھوک واقعی مرگئی تھی۔
” میں نے اُسے یہ بھی کہا کہ وہ ولی عہد کے لئے مناسب امیدوار ہے ہی نہیں… نہ اہلیت رکھتا ہے نہ صلاحیت… اور یہ شادی ہو نہ ہو… جلد یا بدیر وہ ویسے بھی ولی عہد کے عہدے سے معزول کردیا جائے گا۔So he has two options…یا تو اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرے اور ولی عہد کا عہدہ ابھی چھوڑدے یا پھر بادشاہت کے خواب دیکھتے رہنے میں محبت بھی گنوائے اور تخت بھی۔” حمین نے بڑے اطمینان سے اُسے گفتگو کا باقی حصّہ سُنایا تھا۔
” تم نے یہ سب کہا اُس سے ، اس طرح۔” رئیسہ کو شدید صدمہ ہوا۔
” نہیں ایسے نہیں کہا تمہیں تو میں مہذّب انداز سے بتارہا ہوں اُسے تو میں نے صاف صاف کہا کہ زیادہ سے زیادہ تین مہینے ہیں اور اس کے پاس… اگر تین مہینے میں وہ معزول نہ ہوا تو پھر رئیسہ سے دوسری شادی کرلینا۔” وہ دانت پر دانت رکھے حمین سکندر کو صرف دیکھ کر ہی رہ گئی۔ اس ”گفتگو” کے بعد اگر ہشّام بن صباح نے اُسے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا تو کوئی بھی خوددار شخص یہی کرتا۔ صباح بن جرّاح کے خلاف شاہی خاندان کے اندر شدید lobbying ہورہی ہے… اور صباح بن جرّاح اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے پرانے امیر کی فیملی میں شادی کروانا چاہتا ہے ہشّام کی… اور یہ ہو بھی گئی تب بھی وہ بہت دیر تخت پر نہیں رہ سکتا، اس کے حریف بہت طاقت ور لوگ ہیں اور صباح سے زیادہ بہتر حکمران ہوسکتے ہیں… اگر صباح ہٹ جاتا ہے تو پھر ہشّام کو کون رہنے دے گا وہاں… میں نے ہشّام کو یہ سب نہیں بتایا، تمہیں بتارہا ہوں۔” اُس نے برگر ختم کرتے ہوئے ہاتھ جھاڑے اور رئیسہ سے کہا۔
” تم finance کررہے ہو اُس کے حریفوں کو؟” اُسے رئیسہ سے جس آخری سوال کی توقع تھی، وہ یہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے پھر حمین نے کہا ”میں صرف ”بزنس” کررہا ہوں… امریکہ میں صباح کے ساتھ… بحرین میں اُس کے مخالفین کے ساتھ۔” اُس نے بالآخر کہا۔ وہ گول مول اعتراف تھا ” کیوں کررہے ہو؟” رئیسہ نے جواباً اُس سے زیادہ تیکھے انداز میں اُس سے کہا۔وہ اُس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اُس نے کہا۔
”For Family……Anything for Family” رئیسہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرگئی تھیں،
”مجھے خیرات میں ملی ہوئی محبت نہیں چاہیے۔” اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
” وہ تمہارے لئے میرے اندازے سے زیادہ مخلص ہے… نہ ہوتا تو میں تمہیں بتادیا… وہ تمہارے لئے بادشاہت چھوڑ دے گا۔” حمین نے دو ٹوک انداز میں اُس سے کہا۔ وہ اُس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
٭٭٭٭
اُس نے اپنی ٹیلی سکوپک رائفل سے اُس ٹارگٹ کلر کو ٹریگر دباتے دیکھا۔ بے حد سکون اور اطمینان کے عالم میں… اُس نے اُس کی ہلکی سی مسکراہٹ بھی دیکھی تھی۔ پھر اُس نے اُس ٹارگٹ کلر کو بے حد مطمئن انداز میں سر اُٹھاتے اور ٹیلی سکوپک رائفل سے آنکھ ہٹاتے دیکھا اور اس وقت اُس نے اُسے شوٹ کیا۔ ایک مدہم ٹک کی آواز کے ساتھ اُس نے کھڑکی سے اُس کے بھیجے کو اُڑتے دیکھا اور اپنے کمرے کے باہر بھاگتے قدموں کا شور…اُس کا مشن پورا ہوچکا تھا، اب اُس کے لئے exit تیّار کرنے والے اُس کے منتظر تھے۔
٭٭٭٭
عنایہ نے اپنے ہاسپٹل کی پارکنگ میں داخل ہوتے ہوئے عبداللہ کی کال اپنے فون پر دیکھی۔ ایک لمحہ کے لئے وہ اُلجھی پھر اُس نے اُس کی کال ریسیو کی۔
”مل سکتے ہیں؟” اُس نے سلام دعا کے بعد پہلا جملہ کہا۔ وہ ایک لمحہ خاموش رہی۔
” تم یہاں ہو؟” اُس نے پوچھا۔
” تمہاری گاڑی کے پیچھے ہی ہے میری گاڑی۔”عنایہ نے بے اختیار بیک ویو مرر سے عقب میں عبداللہ کی گاڑی کو دیکھا جو اُسے dipper سے اشارہ کررہا تھا۔
دس منٹ بعد پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرتے ہوئے وہ اُس کی گاڑی میں آگیا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک پھول کے ساتھ دو شاخیں تھیں۔عنایہ نے کچھ کہے بغیر اُسے دیکھا، پھر وہ تھام لیں۔
وہ فون پر پہلے ہی احسن اور عائشہ کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں اُسے بتاچکا تھا۔ ”اُس نے کہا تھا۔
” اس کی ضرورت نہیں۔” عنایہ نے جواباً کہا۔
” میں نے ہاسپٹل میں ڈاکٹر احسن کی امامت میں نماز پڑھنا چھوڑدی۔” عنایہ نے چونک کر اُسے دیکھا۔ ” میں نے اُسے بتادیا کہ اپنی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والا شخص امامت کا اہل نہیں، اُسے عائشہ کے خلاف سارے الزامات واپس لینے ہوں گے، اگر وہ دوبارہ امامت کروانا چاہتا ہے تو۔” عبداللہ بے حد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا ” اوہ تو اس لئے اُس نے کیس واپس لیا ہے۔” عنایہ نے بے اختیار کہا ۔ عبداللہ چونکا ” اُس نے کیس واپس لے لیا؟”
” ہاں جبریل نے بتایا مجھے… اُس نے ایک معذرت کا خط بھی لکھا ہے عائشہ کے نام” عنایہ نے مزید بتایا۔” یہ سب بے کار ہے اب… وہ بہت زیادہ نقصان کرچکا ہے۔”
”عائشہ کا؟”
”نہیں اپنا۔” عبداللہ کے لہجے میں افسردگی تھی۔
” اچھے انسان recover کرجاتے ہیں ہر نقصان سے کیوں کہ اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے، بُرے نہیں کرسکتے۔” عبداللہ کہہ رہا تھا۔
”He himself is the greatest liar”
” وہ اپنے parents کے ساتھ بابا سے ملنے بھی آئے تھے، جبریل کی شکایت کرنے۔” عنایہ کہہ رہی تھی ”بابا نے اُس کے باپ سے کہا کہ وہ دیکھے اُس کی منافقت اور تنگ نظری نے اُس کے اکلوتے بیٹے کو کیا بنا دیا ہے۔”
” شرمندہ ہوئے؟” عبداللہ نے پوچھا ۔” پتہ نہیں خاموش ہوگئے تھے… احسن سعد کی ماں رونے لگی تھی پتہ نہیں کیوں، پھر وہ چلے گئے۔” عنایہ نے کہا۔
” تم نے مجھے معاف کردیا؟” عبداللہ نے یک دم پوچھا۔ وہ مسکرادی ” ہاں… ایسی کوئی بڑی غلطی تو نہیں تھی تمہاری کہ معاف ہی نہ کرتی۔” عبداللہ نے ایک کارڈ اُس کی طرف بڑھایا۔ وہ بے اختیار ہنسی ” اب سب کچھ زبان سے کہنا سیکھو… سب کچھ لکھ لکھ کے کیوں بتاتے ہو۔” وہ کارڈ کھولتے ہوئے اُس سے کہہ رہی تھی، پھر وہ بات کرتے کرتے ٹھٹھک گئی۔ ایک ہاتھ سے بنے ہوئے کارڈ پر صرف ایک جملہ لکھا ہوا تھا۔
” تم مجھ سے شادی کروگی؟” عنایہ نے اپنی شرٹ کی جیب میں اٹکے بال پوائنٹ کو نکال کر اُس تحریر کے نیچے لکھا۔
” ہاں” عبداللہ مسکرایا اور اُس نے اُس کا بال پوائنٹ لیتے ہوئے لکھا۔
” کب؟”
عنایہ نے لکھا
” پھولوں کے موسم میں۔”
عبداللہ نے لکھا۔
”بہار؟”
عنایہ نے لکھا۔
”ہاں” عبداللہ نے کارڈ پر ایک دل بنایا، عنایہ نے ایک اور… عبداللہ نے ایک smiley بنایا… عنایہ نے ایک اور…
کارڈ لکیروں، حرفوں ، ہندسوں، جذبوں سے بھرتا جارہا تھا اور ہر شے صرف محبت کی ترجمان تھی جو اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے اور جسے پانے والے خوش نصیب… وہ دونوں دو خوش نصیب تھے جو اُس کارڈ کو عہد اور تجدیدِ عہد سے بھررہے تھے۔
٭٭٭٭
لفٹ کا دروازہ کھلا۔ سالار نے اپنی گھڑی دیکھی۔ اُس کے دو سیکورٹی گارڈز اُس سے پہلے لفٹ سے نکل گئے تھے۔ اُس کا باقی کا عملہ اُس کے لفٹ سے نکلنے کے بعد پیچھے لپکا تھا۔ کوریڈور میں تیز قدموں سے چلتے وہ استقبال کرنے والے officials سے ملا تھا۔ اُس نے گھڑی ایک بار پھر دیکھی تھی۔ ہمیشہ کی طرح وہ وقت پر تھا… چند سیکنڈز کے بعد وہ بینکویٹ ہال میں داخل ہوجاتا… وہاں جو ہونے والا تھا، وہ اُس سے بے خبر تھا۔ بے خبری زندگی میں ہر بار نعمت نہیں ہوتی۔ TV پر چلتی اُس خبر کو دیکھتے ہوئے سالار گنگ تھا۔ آخری چیز جو وہ اپنی زندگی اور کیریئر کے اس سٹیج پر ہوتا توقع کرسکتا تھا، وہ یہ تھی۔رحم کھا کرگود لی گئی بچی کو اُس کے گناہ کے طور پر پوری دُنیا میں دکھایا جارہا تھا اور یہ سب کہنے والا اُس بچّی کا اپنا باپ تھا۔ جس کی بیوی کی سالار نے کبھی شکل بھی نہیں دیکھی تھی… افیئر اور ناجائز اولاد تو دور کی بات تھی۔ وہ طاقت کا کھیل تھا… جنگ تھی… اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ سازش کی جارہی تھی… نیروبی میں ہونے والے TAI اور SIF کے اُس اشتراک کو ہونے سے پہلے توڑنے کی کوشش کی جارہی تھی، بے کار تھا۔
وہ اُس وقت نیویارک ایئر پورٹ پر ایک فلائٹ لینے کے لئے موجود تھا جب پہلی بار وہ خبر بریک ہوئی تھی اور اُس نے بزنس کلاس کے departure lounge میں دیکھی تھی۔ اُس کے ساتھ موجود اُس کے سٹاف نے ایک کے بعد ایک نیوز چینلز کی update کو اُس کے ساتھ شیئر کرنا شروع کردیا تھا… سالار سکندر نے وہاں بیٹھے سب سے پہلی کال امامہ کو کی تھی۔ اور اُس نے اُس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اُس سے کہا تھا۔
” مجھے کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں، نہ مجھے نہ تمہارے بچوں کو…”
” رئیسہ سے بات کرو۔” سالار نے جواباً اُس سے کہا تھا ” مجھے اپنے سے زیادہ تکلیف اس بات کی ہے کہ وہ اُس کی تصویریں چلارہے ہیں۔” اُس نے امامہ سے کہا تھا۔ وہ اپ سیٹ تھا اس کا اندازہ امامہ کو اُس کی آواز سے بھی ہورہا تھا۔
”یہ وقت بھی گزرجائے گا سالار۔” امامہ نے اُس سے کہا تھا، تسلی دینے والے انداز میں۔
” ہم نے اس سے زیادہ برا وقت دیکھا ہے۔” سالار نے سر ہلایا تھا، ممنونیت کے عجیب سے احساس کے ساتھ۔ گھر میں بیٹھی وہ عورت اُن سب کے لئے عجیب طاقت تھی… عجیب طرح سے حوصلہ دیے رکھتی تھی اُن کو… عجیب طریقے سے ٹوٹنے سے بچاتی تھی۔
٭٭٭٭
وہ یہاں کسی جذباتی ملاقات کے لئے نہیں آتی تھی… سوال و جواب کے کسی لمبے چوڑ ے سیشن کے لئے بھی نہیں… لعنت و ملامت کے کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی نہیں… وہ یہاں کسی کا ضمیر جھنجھوڑنے آئی تھی، نہ ہی کسی سے نفرت کا اظہار کرنے کے لئے… نہ ہی وہ کسی کو یہ بتانے آئی تھی کہ وہ اذیت کے مائونٹ ایورسٹ پر کھڑی ہے۔ نہ ہی وہ اپنے باپ کو گریبان سے پکڑنا چاہتی تھی… نہ اسے یہ بتانا چاہتی تھی کہ اس نے اس کی زندگی تباہ کر دی تھی… اس کے صحت مند ذہن اور جسم کو ہمیشہ کے لئے مفلوج کر دیا تھا۔
وہ یہ سب کچھ کہتی… یہ سب کچھ کرتی، اگر اسے یقین ہوتا کہ یہ سب کرنے کے بعد اسے سکون مل جائے گا۔ اس کا باپ احساس جرم یا پچھتاوے جیسی کوئی چیز پالنے لگے گا۔
پچھلے کئی ہفتے سے وہ آبلہ پا تھی۔ وہ راتوں کو سکون آور گولیاں لیے بغیر سو نہیں پا رہی تھی اور اس سے بڑھ تکلیف دہ چیز یہ تھی کہ وہ سکون آور ادویات لینا نہیں چاہتی تھی… وہ سونا نہیں چاہتی تھی… وہ سوچنا چاہتی تھی اس بھیانک خواب کے بارے میں، جس میں وہ چند ہفتے پہلے داخل ہوئی تھی اور جس سے اب وہ ساری زندگی نہیں نکل سکتی تھی۔
وہ یہاں آنے سے پہلے پچھلی پوری رات روتی رہی تھی۔ یہ بے بسی کی وجہ سے نہیں تھا۔ یہ اذیت کی وجہ سے بھی نہیں تھا۔ یہ اس غصے کی وجہ سے تھا جو وہ اپنے باپ کے لئے اپنے دل میں اتنے دنوں سے محسوس کر رہی تھی۔ ایک آتش فشاں تھا یا جیسے کوئی الائو، جو اس کو اندر سے سلگا رہا تھا، اندر سے جلا رہا تھا۔
کسی سے پوچھے، کسی کو بتائے بغیر یوں اٹھ کر وہاں آجانے کا فیصلہ جذباتی تھا، احمقانہ تھا اور غلط تھا… اس نے زندگی میں پہلی بار ایک جذباتی، احمقانہ اور غلط فیصلہ بے حد سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ ایک اختتام چاہتی تھی وہ اپنی زندگی کے اس باب کے لئے، جس کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتی تھی اور جس کی موجودگی کا انکشاف اس کے لئے دل دہلا دینے والا تھا۔
اس کا ایک ماضی تھا۔ وہ جانتی تھی لیکن اسے کبھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ماضی کا ”ماضی” بھی ہو سکتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر تھا جب وہ ”خوش” تھی اپنی زندگی میں… جب وہ خود کو باسعادت سمجھتی تھی… اور ”مقرب” سے ”ملعون” ہونے کا فاصلہ اس نے چند سیکنڈز میں طے کیا تھا۔ چند سیکنڈز شاید زیادہ وقت تھا… شاید اس سے بھی بہت کم وقت تھا جس میں وہ احساس کمتری، احساس محرومی، احساس ندامت اور ذلت و بدنامی کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوئی تھی۔
اور یہاں وہ اس ڈھیر کو دوبارہ وہی شکل دینے آئی تھی… اس بوجھ کو اس شخص کے سامنے اتار پھینکنے آئی تھی، جس نے وہ بوجھ اس پر لادا تھا… زندگی۔
کسی کو اس وقت یہ پتا نہیں تھا کہ وہ وہاں تھی… کسی کو پتا ہوتا تو وہاں آہی نہیں سکتی تھی… اس کا سیل فون پچھلے کئی گھنٹوں سے آف تھا۔ وہ چند گھنٹوں کے لئے خود کو اس دنیا سے دور لے آئی تھی، جس کا وہ حصہ تھی۔ اس دنیا کا حصہ، یا پھر اس دنیا کا حضہ جس میں وہ اس وقت موجود تھی…؟ یا پھر اس کی کوئی بنیاد نہیں تھی…؟ وہ کہیں کی نہیں تھی… اور جہاں کی تھ جس سے تعلق رکھتی تھی، اس کو اپنا نہیں سکتی تھی۔
انتظار لمبا ہو گیا تھا… انتظامیہ ہمیشہ لمبا ہوتا ہے… کسی بھی چیز کا انتظار ہمیشہ لمبا ہوتا ہے… چاہے آنے والی شے پائوں کی زنجیر بننے والی ہو یا گلے کا ہار… سر کا تاج بن کر سجنا ہو اس نے یا پائوں کی جوتی… انتظار ہمیشہ لمبا ہی لگتا ہے۔
رئیسہ سالار صرف ایک سوال کا جواب چاہتی تھی اپنے باپ سے… صرف ایک چھوٹے سے سوال کا… اس نے اس کی فیملی کو کیوں مار ڈالاتھا؟ اور اگر اُنہیں مارڈالا تھا اور اُسے کیوں چھوڑ دیا تھا۔ یا اُس کی زندگی اُس کے باپ کی چوک کا نتیجہ تھی… سوالات کا ایک انبار تھا جو وہ اُس سے کرنا چاہتی تھی۔
اُس نے ویٹنگ ایریا میں بیٹھے اپنی سُلگتی آنکھوں کو ایک بار پھر مسلا… وہ پتہ نہیں کتنی راتوں سے سو نہیں پائی تھی… ایک بھیانک خواب تھاپچھلے دو ہفتے ، جس میں اُسے پہلی بار میڈیا سے پتہ چلا تھا کہ اُس کا باپ کون تھا… وہ کون تھی… کہاں سے تھی… وہ سالار سکندر اور امامہ ہاشم کی بیٹی نہیں تھی، وہ یہ جانتی تھی لیکن اُسے ہمیشہ یہی بتایا گیا تھا کہ وہ سالار کے ایک دوست کی بیٹی تھی جو ایک حادثے میں اپنی بیوی سمیت مارا گیا تھا اور پھر سالار نے اُسے adopt کرلیا۔ مگر اب اُس کی زندگی میں اچانک غلام فرید آگیا تھا جسے TV پر دیکھتے ہوئے بھی اُس کا ذہن اُس سے کسی بھی رشتہ سے انکاری تھا۔ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتی تھی۔
قسط نمبر 48
آخری قسط
وہ سب اُس turmoil میں اُس کے پاس آگئے تھے… حمین، جبریل، عنایہ، امامہ، سالار اور ہشّام بھی… اُسے یہ بتانے کہ اُنہیں فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون تھی، کیا تھی… وہ اُن کے لئے رئیسہ تھی… وہی پہلے والی رئیسہ… وہ اُن سب کی شکرگزار تھی، ممنون تھی، احسان مند بھی… اور اُس نے اُن سب کو یہ احساس دلایا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک تھی، مگر وہ ٹھیک نہیں تھی… اندر ہونے والی توڑ پھوڑ بے حد شدید تھی۔ اس لئے بھی کہ وہ اُس خاندان کے ذلّت اور رسوائی کا سبب بن رہی تھی جنہوں نے اُس پر رحم کھاتے ہوئے اُس کو پالا تھا۔ اُسے ایک لحظہ بھر کے لئے بھی سالار سکندر پر اپنے باپ کے لگائے ہوئے الزامات کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوا تھا اور اُس کے یہاں آنے کی وجہ بھی وہی الزامات بنے تھے۔ وہ کسی کو بتائے بغیر صرف اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے یہاں تک آنے میں کامیاب ہوئی تھی… اپنے خاندان کو بے خبر رکھتے ہوئے۔
غلام فرید جیل کے ایک اہلکار کے ساتھ بالآخر اُس کمرے میں داخل ہوا تھا، جہاں وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ دونوں اب خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر وہ جیل اہلکار وہاں سے چلا گیا۔ غلام فرید کچھ نروس انداز میں اُسے دیکھ رہا تھا، وہ کئی لمحے اُسے دیکھتی رہی پھر اُس نے مدہم آواز میں کہا۔
” آپ نے مجھے پہچانا ؟”
” نہیں” ایک لحظہ کی تاخیر کے بعد غلام فرید نے کہا۔
” میں آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہوں… جسے مارنا بھول گئے تھے آپ۔” وہ طنز نہیں تعارف تھا اور اُس کے علاوہ اپنا تعارف کسی اور طرح سے نہیں کرواسکتی تھی وہ۔
” چُنّی” بہت دیر غلام فرید اُس کا چہرہ دیکھتے رہنے کے بعد بے ساختہ بڑبڑایا تھا۔ رئیسہ نے ہونٹ بھینچ لئے، اُس کی آنکھیں پانی سے بھر گئی تھیں۔ اُس کے باپ نے بالآخر اُسے پہچان لیا تھا۔ وہ اب اُس کا وہ نام یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا جو اُس نے لکھوایا تھا پر یاد نہیں کرسکا۔ اُس نے چُنّی کو ایک بار پھر دیکھا… بغوردیکھا…وہ میم صاحب لگ رہی تھی، اپنی سانولی رنگت کے باوجود… اُس کی بیٹی تو نہیں لگ رہی تھی، وہ جانتا تھا اُس کی آخری اولاد کی پرورش سالار سکندر نے کی تھی… یہ اُسے اُن لوگوں نے بتایا تھا جو بار بار اُسے بہت کچھ یاد کروانے اور پھر دہروانے کے لئے آتے تھے۔ اُسے چُنّی کو دیکھ کر اپنی بیوی یاد آئی تھی… ایک نیلی جینز اور سفید شرٹ میں بال ایک جوڑے کی شکل میں لپیٹے گلاسز آنکھوں پر لگائے، گلے میں ایک باریک چین میں لٹکتا اللہ کے نام کا لاکٹ پہنے، کلائی میں ایک قیمتی گھڑی پہنے اُس کے سامنے ایک کُرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے چُنّی نے اُسے اپنی ماں کی یاد دلائی تھی… اُس کے نین نقش ویسے تھے… سارے حلیے میں صرف نین نقش ہی تھے جو وہ پہچان پایا تھا… ورنہ وہ بیمار رہنے والی لاغر، کمزور اور ہر وقت روتی ہوئی چُنّی ایسے کیسے بن گئی تھی کہ اُس کے سامنے بیٹھے غلام فرید کو اُس کے سامنے اپنا وجود کمتر لگنے لگا تھا… پر پتہ نہیں اپنی ایک بچ جانے والی اولاد کو ایسے اچھے حلیے میں دیکھتے ہوئے غلام فرید کو ایک عجیب سی خوشی بھی ہوئی تھی، وہ اُس لمحے بھول گیا تھا کہ وہ اپنی اس اولاد پر ناجائز اولاد کا لیبل لگارہا تھا… برسوں بعد اُس نے کوئی ” اپنا” دیکھا تھا اور اپنا دیکھ کر وہ پھر بھول گیا تھا۔
ایک لفافے میں موجود کچھ کھانے پینے کی چیزیں اُس نے باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ” یہ میں آپ کے لئے لائی تھی” غلام فرید نے عجیب حیرت سے اُس لفافے کو دیکھا اور پھر کانپتے ہاتھوں سے اُسے تھام لیا، وہ سارے سوالات جو وہ غلام فرید سے کرنا چاہتی تھی یک دم دم توڑتے چلے گئے تھے… وہ نحیف و نزار شخص جو اُس کے سامنے اپنی زندگی کی آخری سیڑھی پر کھڑا تھا، اُس سے وہ سوال اب کرنا بے کار تھا۔ اُسے اُس پر ترس آگیا تھا، وہ اُسے اب کسی کٹہرے میں کھڑا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
غلام فرید نے گلاسز اُتار کر اپنی آنکھیں صاف کرتی ہوئی اُس لڑکی کو دیکھا جس نے کچھ دیر پہلے اُس سے اپنا تعارف کروایا تھا۔
”تم پڑھتی ہو؟” اُس نے بالآخر پوچھا، عجیب سے انداز میں…رئیسہ نے سر اُٹھا کر غلام فرید کا چہرہ دیکھا، پھر سر ہلایا۔ غلام فرید کا چہرہ چمکا۔
”زیادہ پڑھنا۔”
رئیسہ کی آنکھوں میں نمی پھر اُتری۔
” میں اور تمہاری ماں سوچتے تھے کبھی پڑھائیں گے بچوں کوزیادہ… اور…” غلام فرید نے یادوں کے کسی دُھندلکے کو لفظوں میں بدلا پھر چُپ ہوگیا۔
” صاحب کو میرا شکریہ کہنا… اور دوبارہ جیل مت آنا۔” غلام فرید نے چند لمحے بعد کہا اور رئیسہ کی آنکھوں کی نمی اب اُس کے گالوں پر پھیلنے لگی تھی۔ غلام فرید کے لئے سالار سکندر ایک بار پھر ”صاحب” ہوگیا تھا۔ اپنی اولاد کو ایسی اچھی حالت میں دیکھ کر رئیسہ کو لگا تھا اُس کا باپ شرمندہ بھی تھا۔
وہ اُٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ وہ بھی کھڑا ہوگیا تھا۔ پھر وہ آگے بڑھا اور اُس نے رئیسہ کے سر پر ہاتھ پھیرا، وہ اُسے گلے لگاتے ہوئے جھجکا تھا… شاید لگانا چاہتا تھا۔اُس نے آگے بڑھ کر خود غلام فرید کو گلے لگایا تھا پھر وہ اُس سے لپٹ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا… اپنے باقی بچوں اور بیوی کے ناموں کو پکارتے ہوئے۔
٭٭٭٭
وہ بڑا ہلکا وجود لئے امریکہ واپس آئی تھی اور امریکہ پہنچ کر بالآخر اُس نے اپنا نمبر آن کیا تھا… اور اُس کا فون یک دم سارے رشتوں سے جاگنے لگا تھا… پیغامات کا انبار تھا اُس کی فیملی کی طرف سے… ایئرپورٹ سے گھر تک پہنچتے پہنچتے وہ اُن سب پیغامات کو پڑھتی گئی تھی۔ نم آنکھوں کے ساتھ… ایک کے بعد ایک پیغامات کا thread… اور پھر ایک آخری پیغام ہشّام کی طرف سے… بادشاہ نے تخت چھوڑدیا تھا… کیوں؟… اُس نے یہ نہیں لکھا تھا۔ اُسے حمین یاد آیا تھا، اُس کے لفظ۔
گھر کے باہر سالار کے ساتھ ساتھ حمین کی بھی گاڑی تھی۔ رئیسہ نے بیل بجائی… کچھ دیر بعد یہ سالار سکندر تھاجس نے دروازہ کھولا تھا۔
دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر و ہ آگے بڑھ کر سالار سے لپٹ گئی تھی… بالکل اُس ہی طرح جب وہ ڈیڑھ سال کی عمر میں اُس سے لپٹی تھی اور پھر الگ نہیں ہوئی تھی۔ سالار اُسے بچوں کی طرح تھپکتا رہا… وہ امریکہ واپس آنے سے پہلے پاکستان میں ایک پریس کانفرنس میں اپنا Paternity Test اور غلام فرید کا بیان میڈیا کے ساتھ شیئر کر کے آئی تھی اور ایک وکیل کے ذریعے اپنے خاندان کی واحد وارث ہونے کے طور پر اپنے باپ کو معاف کرنے کا حلف نامہ بھی… وہ طوفان جو سالار سکندر اور اُس کے خاندان کو ڈبونے کے لئے آیا تھا، وہ اس بار رئیسہ نے روکا تھا۔
اور وہاں اب سالار سکندر کے سینے سے لگی بچوں کی طرح روتی رئیسہ کو دیکھتے ہوئے اُسے کوئی دلیر نہیں کہہ سکتا تھا… وہ بھی سالار سکندر کا ہی خانوادہ تھی۔ خون کا رشتہ نہ ہونے کے باوجود، رحم اور مہربانی کے مضبوط ترین رشتوں سے اُن کے ساتھ جوڑی گئی۔
اپنے نام کے ساتھ سالار کا نام استعمال کرتے ہوئے بھی وہ اپنے باپ کے نام سے واقف تھی مگر وہ باپ جیل میں سزائے موت کا ایک قیدی تھا، سالار کا دوست نہیں ، وہ اس سے واقف نہیں تھی۔اور اس ”واقفیت” کے بعد اُسے اُس خاندان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگیا تھا جو اُس کا تعارف تھا۔
” میں نے تمہیں رونا تو کبھی نہیں سکھایا رئیسہ… نہ ہی رونے کے لئے تمہاری پرورش کی ہے۔” سالار نے اُسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اب اپنے آنسوؤں پر قابو پارہی تھی۔ اور اُس نے سالار کے عقب میں کُھلے دروازے سے حمین اور امامہ دونوں کو دیکھا تھا۔ ”آخری بار روئی ہوں بابا۔” اُس نے گیلی آنکھوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہنے کی کوشش کی اور اُس کی آواز پھر بُھرّا گئی۔
”You belong to us” سالار نے اُسے جتانے والے انداز میں کہا۔ ” اور تم سمجھدار اور بہت بہادر ہو… ہم نے یہی سکھایا ہے تمہیں۔” وہ جیسے اُسے یاد دہانی کروارہا تھا۔ وہ سر ہلانے لگی تھی۔ زندگی میں کبھی کوئی ایسا موقع آتا جب وہ اُنہیں اپنی احسان مندی دکھاسکتی تو اُنہیں بتاتی کہ اپنے حقیقی باپ سے ملنے کے بعد اُسے پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ وہ بے حد خوش قسمت تھی… واقعی خوش قسمت تھی کہ وہ سالار سکندر کے خاندان کا حصّہ بنی تھی، اُسے وہ own کرتے تھے۔
٭٭٭٭
9:15 منٹ پر بالآخر لفٹ کا دروازہ کھلا تھا اور حمین سکندر اپنے دو ذاتی محافظوں کے پیچھے باہر نکلا تھا، اُس کے پیچھے اُس کے عملے کے باقی افراد باقی تھے۔ کوریڈور میں پریس فوٹوگرافرز اور چینلز کے افراد بھی تھے جو ہر آنے والی اہم شخصیت کی coverage کررہے تھے، اُس سے پانچ منٹ پہلے وہاں سے سالار سکندر گزر کر گیا تھا اور اب وہ وہاں آیا تھا اُس تقریب کے دو اہم ترین لوگ…
بے حد تیز رفتاری سے قدم اُٹھاتے حمین سکندر کوریڈور میں اُس کی آمد کی کوریج کرتے پریس فوٹوگرافرز پر نظر ڈالتے اپنا استقبال کرتے ہوئے officials کے ساتھ بڑی تیزی سے بینکوئیٹ ہال کے داخلی دروازے کی طرف جارہا تھا، جب اُسے یک دم اپنے عقب میں آتے اپنی ٹیم کے ایک ممبر سے کچھ پوچھنے کا خیال تھا… اپنے Chief Finance Strategist سے… وہ لمحہ بھر کے لئے رُکا، پلٹا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتا اُس نے اپنی گردن کی پشت میں کوئی سلاخ گھستی محسوس ہوئی تھی… پھر شیشہ ٹوٹنے کی آوازیں اور پھر چیخوں کی اور پھر کوئی اُسے زمین پر گراتا ہوا اُس پر لیٹا تھا… پھر کوئی چیخا تھا ”سامنے والی بلڈنگ سے گولی چلائی گئی ہے۔” اور اُس وقت پہلی بار حمین کو احساس ہوا اُس کی گردن کی پشت پر کیا ہوا تھا… تکلیف شدید تھی، لیکن تکلیف ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ حواس میں تھا… سب کچھ سُن رہا تھا… اُسے اب زمین پہ ہی گھسیٹتے اُس کی سیکورٹی ٹیم وہاں سے لفٹ کی طرف لے جارہی تھی اور اُس وقت حمین کو پہلی بار سالار سکندر کا خیال آیا تھا اور اُس کا دل اور دماغ بیک وقت ڈوبے تھے۔
٭٭٭٭
سالار سکندر نے بینکوئیٹ ہال میں سٹیج پر رکھی اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے اپنی تقریر کے notes پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اُس بینکوئیٹ ہال کی داخلی دروازے کے بالمقابل ایک کھڑکی کے شیشے ٹوٹنے کی آواز سُنی تھی۔ اُس نے بے یقینی سے بہت دور اُس شیشے کی گرتی کرچیاں دیکھی تھیں… وہ ساؤنڈ پروف بلٹ پروف شیشے تھے… ٹوٹ کیسے رہے تھے…؟؟ ایک لمحہ کے لئے اُس نے سوچا تھا اور پھر اُس نے ہال کے عقبی حصّے اور باہر کوریڈور میں شور سُنا تھا اور اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ سکتا، اُس سمیت سٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو سیکورٹی گارڈز نے کور کرتے ہوئے سٹیج کے عقب میں کھینچتے ہوئے فرش پر لیٹنے کا کہہ رہا تھا۔ ہال میں اب شور تھا۔ گارڈز چِلّا چِلّا کرorders دے رہے تھے اور جس جس اہم شخصیت کے ساتھ وہ سیکورٹی پر مامور تھے۔ وہ اُسے cover کرنے میں مصروف تھے۔ وہاں موجود ہر شخص خاص تھا… اہم… وہ دُنیا کے بہترین اثاثوں کا مجمع تھا، جو اب زندگی بچانے کی جدوجہد میں مصروف تھے اور وہاں زمین پر اوندھے منہ لیٹے سالار کو حمین کا خیال آیا تھا اور اُس کا دل کسی نے مٹھی میں لیا تھا۔ ہال میں اُس کے بعد حمین سکندر کو داخل ہونا تھا… اور وہ نہیں آیا تھا… تو کیا یہ حملہ اُس پر… وہ سوچ نہیں سکا، وہ زمین سے اُٹھ گیا… گارڈز نے اُسے روکنے کی کوشش کی… اُس نے اُنہیں دھکا دیا اور چِلّایا”Go away…” وہ اُس کے پیچھے لپکے تھے۔ وہ زمین پر لیٹے لوگوں کو پھلانگتا، کھڑے گارڈز سے ٹکراتا داخلی دروازے تک آگیا تھا جو اس وقت سیکورٹی آفیشلز سے بھرا ہوا تھا… اور اس ہجوم میں بھی اُس نے ریسپشن رنر کے ساتھ سفید ماربل کے فرش پر خون کے دھبے دیکھے تھے جو پورے فرش پر لفٹ تک گئے تھے۔
” کس کو گولی لگی ہے؟” اُس نے اپنے سرد ہوتے وجود کے ساتھ وہاں ایک سیکورٹی آفیشل کا کندھا پکڑ کر پوچھا۔
” حمین سکندر ” سالار کے پیروں سے جان نکل گئی تھی، وہ لڑکھڑایا تھا۔ اُن دونوں سیکورٹی گارڈز نے اُسے سنبھالا۔
”?Is he alive” اُس نے اُس سیکورٹی اہلکار سے دوبارہ پوچھا۔جواب نہیں آیا۔
٭٭٭٭
امامہ اُس ہوٹل کے ساتویں فلور پر سالار سکندر کے کمرے میں تھے۔ وہ ایک suite تھا اور اُن کے برابر کے کمرے میں حمین رہ رہا تھا۔ امریکہ شفٹ ہوجانے کے بعد امامہ سالار کے ہر سفر میں اُس کے ساتھ جارہی تھی۔ اس سفر میں حمین بھی اُن کے ساتھ تھا۔ وہ اُس ہی کے ذاتی طیّارے پر آئے تھے… افریقہ وہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے کے بعد آئی تھی اور اس بار وہ Congo بھی جانا چاہتے تھے… اپنی پرانی یادیں تازہ کرنے کے لئے… اُن تینوں نے کچھ دیر پہلے اکٹھے ہی کمرے میں ناشتہ کیا تھا… اس کانفرنس کے بعد وہ سہ پہر کو کنشاسا جانے والے تھے اور امامہ اُس وقت اپنی پیکنگ میں مصروف تھی۔ وہ کچھ دیر پہلے اُس suite میں اپنے اور حمین کے بیڈرومز کا درمیانی دروازہ کھول کر اُس کاسامان بھی پیک کر آئی تھی، اپنے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے اُس نے اپنے کمرے کے دروازے پر زوردار دستک سُنی تھی۔ وہ بُری طرح ہڑبڑائی ، پھر اُس نے جاکر دروازہ کھولا… پورا کوریڈور سیکورٹی آفیشلز سے بھرا ہوا تھا اور وہ تقریباً ہر کمرے کے دروازے پر تھے۔
” آپ ٹھیک ہیں؟” اُن میں سے ایک نے پوچھا۔
”ہاں… کیوں؟” اُس نے حیرانی سے کہا۔ وہ دونوں بڑی تہذیب سے اُسے ہٹاتے ہوئے اندر چلے آئے تھے اور اُنہوں نے اندر آتے ہی کھڑکی کے کھلے ہوئے بلائنڈز بند کئے تھے۔ پھر اُن میں سے ایک حمین کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا تھا اور کچھ دیر بعد لوٹا۔
” کیا بات ہے؟” امامہ اب شدید تشویش کا شکار ہوئی تھی۔” ایک ایمرجنسی ہوگئی ہے… آپ کمرے سے باہر مت نکلیں… اگر کچھ مسئلہ ہو تو ہمیں بتادیں۔” اُن میں سے ایک اُسے کہہ رہا تھا دوسرا اُس کا باتھ روم اور وارڈروب برق رفتاری سے چیک کرآیا تھا۔ وہ جس تیز رفتاری سے آئے تھے، اُس ہی تیز رفتاری سے باہر نکل گئے تھے… امامہ کو جیسے panic attack ہوا تھا۔ وہ سالار اور حمین کو اُس وقت فون نہیںکرسکتی تھی کیوں کہ فون سروس اُس وقت کام نہیں کررہی تھی، مگر اُس نے TV آن کرلیا تھا، جہاں پر لوکل اور بین الاقوامی چینلز اس کانفرنس کی لائیو کوریج کرنے میں مصروف تھے۔ سکرین پر پہلی تصویر اُبھرتے ہی امامہ کھڑی نہیں رہ سکی، وہ صوفہ پر بیٹھ گئی…TV کی سکرین پر وہ ٹوٹی ہوئی کھڑکی تھی… اور بینکوئیٹ ہال کے باہر ہوا سے ڈرون کیمروں کے ذریعے فضائی مناظر دکھائے جارہے تھے… سکرین پر caption بار بار نمودار ہورہا تھا… جو اُس گلوبل کانفرنس پرہونے والے حملے اور فائرنگ کی خبر بریکنگ نیوز کی طرح سے چلارہے تھے… مگر یہ وہ caption نہیں تھا جس نے امامہ کو بدحواس کیا تھا… وہ دوسرا ticker تھا جو بار بار آرہا تھا۔
TAI کے سربراہ حمین سکندر اس حملے میں شدید زخمی۔ امامہ کو لگا اُسے سانس آنا بند ہوگیا تھا۔ اُس نے اُٹھنے کی کوشش کی… وہ اُٹھ نہیں سکی… اُس نے چیخنے کی کوشش کی تھی، وہ وہ بھی نہیں کرسکی… افریقہ اُس کے لئے منحوس تھا۔ اُس نے سوچا تھا اور اپنے کمرے کے دروازے پر اُس نے دھڑدھڑاہٹ سُنی اور پھر اُس نے حمین سکندر کے کمرے کا دروازہ کُھلتے دیکھا۔
٭٭٭٭
سالار سکندر کو سیکورٹی آفیشلز روک نہیں پائے تھے… پکڑنے، سمجھانے، آگے جانے سے روکنے کی کوشش کے باوجود… وہ برق رفتاری سے اُن چار lifts میں سے اُس لفٹ کی طرف گیا تھا جس طرف خون کے وہ دھبے گئے تھے۔ سیکورٹی آفیشلز اب اُسے عقب سے کور کررہے تھے۔ وہ اُسی کھڑکی کے سامنے خود کو ایک بار پھر expose کررہا تھا جہاں اب شیشہ نہیں تھا اور اُس کے سامنے کی عمارت سے فائرنگ ہوئی تھی… سامنے والی عمارت کو اب گھیرے میں لیا جارہا تھا اور جب تک وہاں security clearance نہیں ہوجاتی وہ ہال سے کسی کو ایک بار پھر اُن کھڑکیوں کے سامنے سے گزر کرlifts تک جانے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے… مگر سالار سکندر کو وہ کوشش کے باوجود نہیں روک سکے تھے۔
لفٹ کا دروازہ اب کُھل گیا تھا… اور اُس کا فرش بھی خون آلود تھا… بہت زیادہ نہیں لیکن فرش یہ بتارہا تھا کہ وہ جو بھی تھا… شدید زخمی تھا۔ لفٹ کے اندر پہنچنے کے بعد سالار کو سمجھ نہیں آئی وہ اُس کے بعد آگے کیا کرے… وہ اپنے بیٹے کے خون پر بھی قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرپارہا تھا… اُس کے اندر داخل ہوتے ہی سیکورٹی آفیشلز اُس کے پیچھے اندر گُھسے تھے اور اُنہوں نے دروازہ فوری طور پر بند کیا اور پھر جیسے سکون کا سانس لیا۔
”اُسے کہاں لے کر گئے ہیں؟” سالار نے کھوکھلی آواز کے ساتھ کہا تھا۔ ہمیں نہیں پتہ سر” اُن میں سے ایک نے جواب دیتے ہوئے 7th Floor کا بٹن پریس کردیا۔
”مجھے حمین کے پاس جانا ہے۔” وہ چِلّایا تھا۔ وہ دونوں خاموش رہے۔ لفٹ برق رفتاری سے حرکت میں تھی۔
٭٭٭٭
حمین کے کمرے کے کُھلے دروازے میں حمین کھڑا تھا۔ اُس کی سفید شرٹ خون آلود تھی اور وہ سیاہ کوٹ بھی اُس کے جسم پر نہیں تھا جو وہ پہن کر گیا تھا۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھی اُسے دیکھتی رہی۔ سکرین پر ابھی بھی اُس پر ہونے والے حملے کی تفصیلات چل رہی تھیں۔ اور وہ اپنے پیروں پر کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا۔ امامہ اُٹھی… دوبارہ بیٹھ گئی… اُس کی خون آلود شرٹ اُس کی جان نکال رہی تھی اور اُس کا اپنے پیروں پر کھڑا وجود اُسے زندگی بخش رہا تھا۔
وہ ایک بار پھر اٹھی اور بھاگتے ہوئے اُس نے جاکر حمین کو اپنے ساتھ لپٹایا تھا۔ ” میں ٹھیک ہوں ممّی… میں بالکل ٹھیک ہوں۔” وہ کہہ رہا تھا۔
” بابا کہاں ہیں؟” اُس نے امامہ سے اگلا سوال کیا تھا اور امامہ کو پہلی بار سالار کا خیال آیا ۔ تب ہی دروازہ دوبارہ دھڑدھڑایا گیا اور وہ اپنے قدموں پر چلتا دروازے تک گیا اور اُس نے دروازہ کھول دیا۔ اُس کے بالکل سامنے سالار سکندر کھڑا تھا۔ چند لمحوں کے لئے باپ بیٹا ایک دوسرے کو دیکھ کر فریز ہوئے تھے۔ پھر سالار آگے بڑھا اور شادیٔ مرگ سی کیفیت میں اُس نے حمین کو لپٹایا تھا۔ زندگی میں پہلی بار حمین سکندر نے سالار سکندر کی گرفت کو اتنا سخت پایا تھا کہ اُسے لگا اُس کا دم گُھٹ جائے گا۔ اُسے اپنی گردن کی پشت سے بہتے خون کی اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی اپنے گالوں کو نم کرتے سالار کے آنسوؤں سے…
سالار کے خاندان میں سے اُس کا جانشین کون ہوگا اُس کی پشت سے بہتا خون اُس کا اعلان کررہا تھا۔
” بابا میں ٹھیک ہوں…آئیں دوبارہ چلتے ہیں کانفرنس ہال میں۔” سالار نے اپنے کانوں میں مستحکم آواز میں کہی ہوئی ایک سرگوشی سُنی تھی۔
٭٭٭٭
وہ افریقہ کی تاریخ کا یادگار ترین دن تھا جب کئی سالوں بعد تاریخ ایک بار پھر دہرائی جارہی تھی۔
بینکوئیٹ ہال میں تمام delegates ایک بار پھر اپنی سیٹوں پر براجمان تھے۔ خوف و ہراس کی ایک عجیب سی فضا میں بے حد ناخوش مگر کانفرنس جاری تھی… کینسل نہیں ہوئی تھی۔اُس کھڑکی کا وہ شیشہ اُسی طرح ٹوٹا ہوا تھا مگر اب سامنے والی بلڈنگ سیکورٹی آفیشلز کے حصار میں تھی۔ کانفرنس ایک گھنٹہ کی تاخیر سے اب دوبارہ شروع ہونے جارہی تھی۔
سالار سکندر اور حمین دونوں امامہ کے کمرے میں تھے۔ میڈیکل ٹیم حمین کو فرسٹ ایڈ دے چکے تھے، اور فرسٹ ایڈ دینے کے دوران اُنہیں پتہ چلا تھا کہ گولی اُس کی گردن میں نہیں گئی تھی۔وہ اُس کی گردن کی پشت پر رگڑ کھاتی اور جلد اور کچھ گوشت اُڑاتے ہوئے گزر گئی تھی… اُس کی گردن پر تین انچ لمبا اور آدھ انچ گہرا ایک زخم بناتے ہوئے… میڈیکل ٹیم نے اُس کی بینڈیج کی تھی اور پین کلر لگا کر اُس کے اس زخم کو کچھ دیر کے لئے سُن کیاتھا تاکہ وہ کانفرنس اٹینڈ کرسکتا۔اُسے blood لگنا تھا لیکن وہ فوری طور پر اُس کے لئے تیّار نہیں ہوا تھا۔ اس وقت اُس کے لئے اہم ترین چیز اُس کانفرنس ہال میں دوبارہ بیٹھنا تھا… اُن لوگوں کا دکھانا تھا کہ وہ اُنہیں گرا نہیں سکے… ڈرا بھی نہیں سکے۔
سالار سکندر اُس سے پہلے کمرے سے نکلا تھا اور اب کپڑے تبدیل کرنے کے بعد حمین سکندر امامہ سے گلے مل رہا تھا۔امامہ نے اُسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی… وہ سالار سکندر کا بیٹا تھا، اُسے کون روک سکتا تھا… اُس نے صرف اُسے گلے لگایا تھا، ماتھا چوما تھا اور دروازے پر رخصت کردیا تھا۔
اُس لفٹ کا دروازہ 10:40 پر ایک بار پھر کُھلا تھا… اس بار حمین سکندر کے ساتھ سیکورٹی کا کوئی اہلکار نہیں تھا صرف اُس کے اپنے سٹاف کے لوگ تھے ۔ اُس کے لفٹ سے کوریڈور میں قدم رکھتے ہی وہاں تالیوں کا شور گونجنا شروع ہوا تھا۔وہ پریس فوٹوگرافرز اور اُس کوریڈور میں کھڑے سیکورٹی اہلکار تھے جو اُسے اُس دلیری کی داد دے رہے تھے جو وہ دکھا رہا تھا… لمبے ڈگ بھرتے اُس نے ٹوٹے شیشے والی اُس کھڑکی کو بھی دیکھا جو ہال کے داخلی دروازے کے بالکل سامنے ایک عجیب سا منظر پیش کررہی تھی، اگرچہ اُس کے سامنے اب سیکورٹی اہلکاروں کی ایک قطار رہتی تھی۔ تیز قدموں سے لمبے ڈگ بھرتا حمین سکندر جب ہال میں داخل ہوا تھا تو ہال میں تالیاں بجنی شروع ہوئی تھیں، پھر وہاں بیٹھے وفود اپنی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوگئے تھے۔
حمین سکندر مسکراتا، سر کے اشارے سے اُن تالیوںکا جواب دیتا سٹیج کی طرف بڑھ رہا تھا اور سٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگ آہستہ آہستہ کھڑا ہونے شروع ہوئے تھے اور پھر حمین نے سالار سکندر کو کھڑا ہوتے دیکھا تھا۔ حمین چلتے چلتے رُک گیا تھا… وہ اُس کے باپ کی طرف سے اُس کی تعظیم تھی جو اُسے پہلی بار دی گئی تھی۔ ایک لمحہ ٹھٹھکنے کے بعد حمین سکندرنے سٹیج کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کردیا تھا۔
دنیا بھر کے TVچینلز وہ مناظر live دکھا رہے تھے… دلیری کا ایک مظاہرہ وہ تھا جو دنیا نے کئی سال پہلے اسی افریقہ میں سالار سکندر کے ہاتھوں دیکھا تھا، جرأت کا ایک مظاہرہ وہ تھا جو آج اسی افریقہ میں وہ حمین سکندر کے ہاتھوں دیکھ رہے تھے۔
سٹیج پر اب TAI اور SIF کے دونوں سربراہان مل رہے تھے اور اُس memorandum پر دستخط کررہے تھے جس کے لئے وہ وہاں آئے تھے اور پھر اُس کے بعد حمین سکندر نے تقریر کی تھی… اُس ہی آخری خطبے سے اپنی تقریر کا آغاز کیا تھا جس کا حوالہ کئی سال پہلے اُس کے باپ نے افریقہ کے سٹیج پر دیا تھا۔
”بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔” اُس نے سورة ملک کی آیات سے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔
”وہ ذات جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو تاکہ آزمائش کرے تمہارے کہ کون تم میں سے زیادہ اچھا ہے عمل میں… اور وہ ہے زبردست، بے انتہا… معاف فرمانے والا۔”
اُس ہال میں سوئی گرنے جیسی خاموشی تھی۔بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کرنے پر قادر ہے جو کُن کہتا ہے تو چیزیں ہوجاتی ہیں، جو دشمنوں کی چالیں اُن ہی پر اُلٹا دیتا ہے۔
”کئی سال پہلے SIF نے سود کے خلاف اپنی پہلی جدوجہد افریقہ سے شروع کی تھی، یہ وہ زمین تھی جس پر میرے باپ نے ایک سودی نظام کے آلۂ کارکے طور پر کام کرتے ہوئے سود کے خلاف کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا… اُس سود کو جسے آخری خطبہ میں نبی آخرالزمانۖ نے حرام قرار دیا تھا اور اُس آخری خطبے میں یہ صرف سود نہیں تھا جس کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا تھا، یہ مساوات بھی تھی جس کا حکم دیا گیا تھا… انسانوں کو اُن کے رنگ، نسل، خاندانی نام و نسب کے بجائے صرف اُن کے تقویٰ اور پارسائی پر judge کرنے کا…SIF اور TAI آج اُس ہی مشن کو آگے بڑھانے کے لئے دنیا کے سب سے بڑے گلوبل فنڈ کا قیام عمل میں لایا ہے…” وہ بات کررہا تھا اور پوری دُنیا سُن رہی تھی… وہ آخری نبیۖ کا حوالہ دیتا ہوا بات کررہا تھا اور وہ پھر بھی سُننے پر مجبور تھے… کیونکہ وہ باعمل بہترین مسلمان تھے جن کے قول و فعل میں دُنیا کو تضاد نظر نہیں آرہا تھا۔ جو طاقت ورتھے تو دُنیا اُن کے مذہب کو بھی عزّت دے رہی تھی اور اُس مذہب کے پیغام بر کو بھی…
وہ ایک گولی جو دُنیا کی تاریخ بدلنے آئی تھی وہ کاتبِ تقدیر کے سامنے بے بس ہوگئی تھی… تاریخ ویسے ہی لکھی جارہی تھی جیسے اللہ تعالیٰ چاہتا تھا اور وہ ہی لکھ رہے تھے، جن کو اللہ نے منتخب کیا تھا۔ بے شک طاقت کا سرچشمہ اللہ ہی کی ذات ہے جس کی محبت وہ آبِ حیات ہے جو زندگی کو دوام بخشتا ہے اس دُنیا سے اگلی دُنیا تک۔
٭٭٭٭
ترپ کا پتّہ
مارچ 2040
امریکہ کے اُس اسپتال کے نیوروسرجری ڈپارٹمنٹ کے آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹر جس شخص کا دماغ کھولے بیٹھے تھے وہ آبادی کے اُس 2.5فیصد حصّہ سے تعلق رکھتا تھا جو 150 I.Q Level کے ساتھ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے۔
وہ آپریشن آٹھ گھنٹہ سے ہورہا تھا اور ابھی مزید کتنی دیر جاری رہنا تھا، یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ ڈاکٹرز کی اس ٹیم کو leadکرنے والا ڈاکٹر دُنیا کے قابل ترین سرجنز میں سے ایک مانا جاتا تھا۔ آپریشن تھیٹر سے منسلک ایک گلاس روم میں سرجری ریذیڈنٹس اس وقت جیسے سحر زدہ معمول کی طرح اس ڈاکٹر کے چلتے ہوئے ہاتھوں کو بڑی سکرین پر دیکھ رہے تھے جو اُس کھلے ہوئے دماغ پر یوں کام کررہا تھا جیسے کسی pianist کی انگلیاں ایک پیانو پر۔ وہ اپنی مہارت سے سب کو مسمرائزڈ کئے ہوئے تھا سوائے اس ایک شخص کے جس کی زندگی اور موت اس وقت اس کے ہاتھ میں تھی۔ آپریشن کے دوران وہ نیوروسرجن چند لمحوں کے لئے رُکا تھا۔ ایک نرس نے بنا کہے اُس کے ماتھے پر اُبھرنے والے قطروں کو ایک کپڑے سے خشک کیا۔ وہ شخص ایک بار پھر اپنے سامنے آپریشن تھیٹر کی ٹیبل پر پڑے ہوئے اُس دماغ پر جھکا جو دُنیا کے ذہین ترین دماغوں میں سے ایک تھا اور جو ایک گولی کا نشانہ بننے کے بعد اُس کے سامنے آیا تھا۔ دُنیا کی اہم ترین پوزیشنز پر فائز رہنے والے اس شخص کے لئے اس ایمرجینسی میں اُسے بلوایا گیا تھا۔ وہ سرجن اب تک 270 اہم اور نازک ترین کامیاب سرجریز کرنے کے بعد اس وقت امریکہ کی تاریخ کا کم عمر اور سب سے قابل سرجن تھا۔ لیکن آج پہلی بار اُسے لگ رہا تھا کہ اُس کا وہ 100 Percentکامیابی کا ریکارڈ ختم ہونے والا تھا۔ وہ ایک بار پھر گہری سانس لے کر ٹیبل سے ہٹا۔ اُسے کسی چیز کی ضرورت پڑی تھی اس آپریشن میں کامیابی کے لئے۔
ختم شُد