فہرست
اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے.... 8
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے.... 10
قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ... 12
بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تُو بھی.... 14
اک ذرا سُن تو سہی مہکتے گیسو والی.. 16
مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے.... 18
روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں.... 19
پیشِ جاناں سخن آشفتہ سری ہے، خاموش... 21
چل نکلتی ہیں غمِ یار سے باتیں کیا کیا... 22
زباں پہ حرف سے پہلے ہی زخم آ جاتا.. 24
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا.. 26
تجھ کو بھُولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا... 28
وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گذارے ہوئے.... 30
ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے.... 32
عمر بھر کا مان ٹوٹا اور کیا... 34
میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون... 36
جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا.. 37
جس طرف جائیں زمانہ رو برو آ جائے ہے.... 39
نہ شوقِ وصل نہ رنجِ فراق رکھتے ہیں.... 41
پروانہ وار شہر میں کیا کیا پھری ہَوا 43
بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے.... 45
کون اب قصۂ چشم و لب و ابرو میں پڑے.... 46
بے رُخی تُو نے بھی، عذرِ زمانہ کر کے.... 47
یوں تو میخانے میں مے کم ہے نہ پانی کم ہے.... 48
ذکرِ جاناں سے ہی میری غزل آراستہ ہے.... 49
لب کشا ہیں لوگ، سرکار کو کیا بولنا ہے.... 51
وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے.... 53
ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی... 55
یہ تیری قلمرو ہے بتا پیرِ خرابات.... 57
اُس کے ہمراہ چلے ہم تو فضا اور لگی... 61
کون سر گرداں ہو صحراؤں کے بیچ... 63
تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو. 65
دیوانگی خرابیِ بسیار ہی سہی..... 67
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے.... 69
منزلِ دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے؟. 71
کہانیاں نہ سنو آس پاس لوگوں کی... 73
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے.... 75
آب و دانہ قفس میں رکھا ہے.... 77
نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے..... 78
یوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خود بھی.... 79
وہاں تو ہار قیامت بھی مان جاتی ہے.... 80
چھیڑ دیتا ہے دل پھر سے پرانی کوئی بات.... 82
خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں.... 84
سب قرینے اُسی دلدار کے رکھ دیتے ہیں.... 86
ایسے ویسے گمان کیسے پڑے.... 88
جورِ حبیب و پرسشِ اغیار ایک سے.... 90
جب سجے محفلِ مے شام میں آ جائے کوئی.. 92
کوئی منزل تھی کہاں ترکِ طلب سے آگے.... 94
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا... 96
یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے.... 98
کفن بدوش کہیں سر بکف لئے پھری ہے.... 100
اُس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی... 102
تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد سنبھل کے رو. 104
مہر و مہتاب بنا ہوں نہ ستارا ہُوا ہوں... 106
عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو. 107
یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشیں کوئی ہے.... 109
دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے.... 111
قیمت ہے ہر کسی کی دکاں پر لگی ہوئی.. 112
اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ.... 114
جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے.... 116
یونہی مر مر کے جئیں وقت گذارے جائیں.... 118
باغباں ڈال رہا ہے گل و گلزار پہ خاک.... 120
نامہ بروں کو کب تک ہم کوئے یار بھیجیں....... 122
ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک.... 125
نشستہ مسندِ ساقی پہ اب ہیں آب فروش... 126
مسافت دل کی تھی سو وہ جادۂ مشکل پسند آیا. 128
سنو ہَواؤں کا نوحہ زبانیِ صحرا 130
کس نے کہا تھا کہ وحشت میں چھانیے صحرا 132
میں خوش ہوں راندۂ افلاک ہو کر... 134
تجھے ہے مشقِ ستم کا ملال ویسے ہی... 136
کسی کو بھی محبت میں مِلا کیا... 137
احساں کئے تھے اُس نے جور عتاب کر کے.... 138
سبھی کہیں مرے غمخوار کے علاوہ بھی.... 140
خواب ہی خواب ہر اک شام میں لے آتی ہیں.... 141
وادیِ عشق سے کوئی نہیں آیا جا کر... 142
گماں یہی ہے کہ دل خود اُدھر کو جاتا ہے.... 144
جو بھی پیرایۂ اظہار نظر آتا ہے.... 145
ضبطِ گریہ سے تو کچھ اور بیکل ہوئے ہم... 147
کہاں سے لائیں مئے ناب بیچنے والا. 149
کوئی ہزار اکیلا ہو پر نہیں تنہا... 150
اب تو اتنا بھی ہو نہیں پائے.... 151
جو سادہ دل ہوں بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں.... 152
سامنے اُس کے کبھی اُس کی ستائش نہیں کی... 153
بھید پائیں تو رہِ یار میں گم ہو جائیں.... 155
جن کو دوست سمجھتے تھے وہ دوست نما کہلاتے تھے..... 157
چشمِ گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس.... 160
فرازؔ تم نے عبث شوق سے سجائے سخن..... 161
یہ دِل کسی بھی طرح شامِ غم گزار تو دے.... 164
جنتِ گوش بنی مجھ سے گنہگار کی بات.... 166
کسی کا در نہ کوئی آستانہ آگے تھا... 168
یہ فرمائش 1؎غزل کی ہے کہ فن کی آزمائش ہے.... 170
آخر اس عشق کا آزار کم تو ہونا تھا... 172
اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے
جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے
تم نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پہ اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے
تم محبت میں کہاں سو د و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے
اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کُن فیکوں ہے یوں ہے
٭٭٭
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے
یوں پھریں باغ میں بالا قد و قامت والے
تو کہے سر و و سمن سے چمن آراستہ ہے
خوش ہو اے دل کہ ترے ذوقِ اسیری کے لئے
کاکلِ یار شکن در شکن آراستہ ہے
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح
تختۂ دار سجا ہے رسن آراستہ ہے
شہرِ دل میں تو سدا بھیڑ لگی رہتی ہے
پر ترے واسطے اے جانِ من آ، راستہ ہے
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے
خوش لباسی ترے عشاق کی قائم ہے ہنوز
دیکھ کیا موجۂ خوں سے کفن آراستہ ہے
ایک پردہ ہے اسیروں کی زبوں حالی پر
یہ جو دیوارِ قفس ظاہراََ آراستہ ہے
حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ
اِس سمندر میں تو بس موجِ فنا راستہ ہے
٭٭
1؎ قافیہ غلط سہی پر اچھا لگا۔ ٭٭٭
قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ
میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ
ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ
بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگذار
پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم اللہ
ہم کو گُلچیں سے گِلہ ہے گُل و گُلشن سے نہیں
تجھ کو آنا ہے تو اے بادِ صبا بسم اللہ
گرتے گرتے جو سنبھالا لیا قاتل نے فرازؔ
دل سے آئی کسی بسمل کی صدا، بسم اللہ
٭٭٭
بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تُو بھی
بسانِ نقش پہ دیوار اب کہاں تُو بھی
بجا کہ چشمِ طلب بھی ہوئی تہی کیسہ
مگر ہے رونقِ بازار اب کہاں تُو بھی
ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا بہت دُور
رہا ہے در پئے آزار اب کہاں تُو بھی
ہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیں
مری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تُو بھی
اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل!
رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تُو بھی
مری غزل میں کوئی اور کیسے در آئے
ستم تو یہ ہے کہ اے یار! اب کہاں تُو بھی
جو تجھ کو پیار کرے تیری لغزشوں کے سبب
فرازؔ ایسا گنہگار اب کہاں تُو بھی
٭٭٭
اک ذرا سُن تو سہی مہکتے گیسو والی
راہ میں کون دکاں پڑتی ہے خوشبو والی
پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی
دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدوخال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی
گفتگو ایسی کہ بس دل میں اُترتی جائے
نہ تو پُر پیچ نہ تہہ دار نہ پہلو والی
ایک منظر کی طرح دل پہ منقش ہے ابھی
ایک ملاقات سرِ شام لبِ جُو والی
درد ایسا ہے کہ بجھتا ہے چمک جاتا ہے
دل میں اک آگ سی ہے آگ بھی جگنو والی
جیسے اک خواب سرائے سے گزر ہو تیرا
کوئی پازیب چھنک جاتی ہے گھنگھرو والی
زعم چاہت کا تھا دونوں کو مگر آخرِ کار
آ گئی بیچ میں دیوار من و تو والی
ایس لگتا ہے کہ اب کے جو غزل میں نے کہی
آخری چیخ ہے دل توڑتے آہو والی
اک نگاہِ غلط انداز ہی اے جانِ فرازؔ
شوق مانگے ہے خلش تِیر ترازو والی
٭٭٭
مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے
یہ دل بھی دامنِ یوسف ہے چاک چاہتا ہے
دعائیں دو مرے قاتل کو تم کہ شہر کا شہر
اُسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے
فسانہ گو بھی کرے کیا کہ ہو کوئی سرِ بزم
مآلِ قصۂ دل دردناک چاہتا ہے
اِدھر اُدھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں
اور اُس کا دھیان بہت انہماک چاہتا ہے
ذرا سی گردِ ہوس دل پہ لازمی ہے فرازؔ
وہ عشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے
٭٭٭
روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے 1؎ لگ جاتے ہیں
کترنیں غم کی جو گلیوں میں اُڑی پھرتی ہیں
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں
داغ دامن کے ہوں، دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں
1؎ ضرورتِ اظہار
٭٭٭
پیشِ جاناں سخن آشفتہ سری ہے، خاموش
تو جو گویا ہے تری بے خبری ہے خاموش
دل کو ایک فیصلہ کرنا ہے ترے بارے میں
اِس گھڑی جان ہتھیلی پہ دھری ہے، خاموش
اب کے شب گزری تو اک تیری مری بات نہیں
شہر کا شہر چراغِ سحری ہے خاموش
نالۂ نے، شررِ سنگ، سکوتِ صحرا
اپنی اپنی روشِ نوحہ گری ہے، خاموش
وہ قفس ہو کہ چمن، نالہ و نغمہ بے سود
جب تلک عالمِ بے بال و پری ہے خاموش
٭٭٭
چل نکلتی ہیں غمِ یار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی کیں در و دیوار سے باتیں کیا کیا
بات بن آئی ہے پھر سے کہ مرے بارے میں
اُس نے پوچھیں مرے غم خوار سے باتیں کیا کیا
لوگ لب بستہ اگر ہوں تو نکل آتی ہیں
چپ کے پیرایۂ اظہار سے باتیں کیا کیا
کسی سودائی کا قصہ کسی ہرجائی کی بات
لوگ لے آتے ہیں بازار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی دست شناسی کے بہانے کی ہیں
ہاتھ میں ہاتھ لئے یار سے باتیں کیا کیا
کس کو بِکنا تھا مگر خوش ہیں کہ اِس حیلے سے
ہو گئیں اپنے خریدار سے باتیں کیا کیا
ہم ہیں خاموش کہ مجبورِ محبت تھے فرازؔ
ورنہ منسوب ہیں سرکار سے باتیں کیا کیا
٭٭٭
زباں پہ حرف سے پہلے ہی زخم آ جاتا
یہ حالِ دل تھا تو کیا حالِ دل کہا جاتا
میں حیرتی ہوں کہ سارا جہاں ہے سحرِ زدہ
جو دیکھتا تھا اسے دیکھتا چلا جاتا
وفا کا نام ہے ناکامئ محبت سے
وگرنہ کوئے ہوس تک یہ سلسلہ جاتا
اگر یہ زخم نہ بھرتا تو دل نہیں دکھتا
اگر یہ درد نہ تھمتا تو چین آ جاتا
کسی کے ہجر کو جی سے لگا لیا ہے عبث
یہ چند روز کا آزار تھا چلا جاتا
کیا ہے جس سے بھی اُس کی ستمگری کا گلہ
وہ اپنی درد بھری داستاں سنا جاتا
عجب ادا سے وہ گل پیرہن ہے محوِ خرام
فرازؔ دیکھ بہاروں کا قافلہ جاتا
٭٭٭
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اُس کی ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
پر طرح کی بے سرو سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا
کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
ہم بھی قائل ہیں وفا میں اُستواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
٭٭٭
تجھ کو بھُولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا
اب کے لگتا ہے کہ یہ دکھ ہی ٹھکانے کا نہ تھا
یہ جو مقتل سے بچا لائے سروں کو اپنے
ان میں اک شخص بھی کیا میرے گھرانے کا نہ تھا
ہر برس تازہ کِیا عہدِ محبت کو عبث
اب کھُلا ہے کہ یہ تہوار منانے کا نہ تھا
اب کے بے فصل بھی صحرا گل و گلزار سا ہے
ورنہ یہ ہجر کا موسم ترے آنے کا نہ تھا
دوش پر بارِ زمانہ بھی لئے پھرتے ہیں
مسئلہ صرف ترے ناز اٹھانے کا نہ تھا
یار! کیا کیا تری باتوں نے رُلایا ہے ہمیں
یہ تماشا سرِ محفل تو دِکھانے کا نہ تھا
کوئی کس منہ سے کرے تجھ سے شکایت جاناں
جس کو تُو بھول گیا یاد ہی آنے کا نہ تھا
آئے دن اک نئی آفت چلی آتی ہے فرازؔ
اب پشیماں ہیں کہ یہ شہر بسانے کا نہ تھا
٭٭٭
وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گذارے ہوئے
ہمارے شعر بنے یا سُخن تمہارے ہوئے
قمار خانۂ شہرِ وفا میں حوصلہ رکھ
یہاں تو جشن مناتے ہیں لوگ ہارے ہوئے
حرم تو خیر مگر بتکدے ہیں کیوں ویراں
تو کیا خدا کو صنم آشنا بھی پیارے ہوئے
جو اشک جذب ہوئے میری تیری آنکھوں میں
یہاں تو زخم بنے ہیں وہاں ستارے ہوئے
جو یادِ یار سے اب منہ چھپائے پھرتے ہیں
ہمی تو ہیں وہ غمِ زندگی کے مارے ہوئے
نگاہِ یار کو اب کس لئے تقاضا ہے
کہ ایک عمر ہوئی قرضِ جاں اُتارے ہوئے
فرازؔ خلوتِ جاں میں سکوت ہے کہ جو تھا
زمانے ہو گئے جیسے اُسے پکارے ہوئے
٭٭٭
ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے
اب جو آرام بہت ہے تو سکوں کچھ کم ہے
رنگِ گریہ نے دکھائی نہیں اگلی سی بہار
اب کے لگتا ہے کہ آمیزشِ خوں کچھ کم ہے
اب ترا ہجر مسلسل ہے تو یہ بھید کھُلا
غمِ دل سے غمِ دنیا کا فسوں کچھ کم ہے
اُس نے دکھ سارے زمانے کا مجھے بخش دیا
پھر بھی لالچ کا تقاضا ہے کہوں، کچھ کم ہے
راہِ دنیا سے نہیں، دل کی گزرگاہ سے آ
فاصلہ گرچہ زیادہ ہے پہ یوں کچھ کم ہے
تُو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو بھلے وقتوں میں
یہ خرابی کہ میں جس حال میں ہوں کچھ کم ہے
آگ ہی آگ مرے قریۂ تن میں ہے فرازؔ
پھر بھی لگتا ہے ابھی سوزِ دروں کچھ کم ہے
٭٭٭
عمر بھر کا مان ٹوٹا اور کیا
موڑ آیا ساتھ چھُوٹا اور کیا
کون سچ کہتا ہے سچ سنتا ہے کون
میں بھی جھُوٹا تُو بھی جھُوٹا اور کیا
جان سے جانا ضروری تو نہیں
عاشقی میں سر تو پھُوٹا اور کیا
ہوتے ہوتے لعل پتھر ہو گئے
رفتہ رفتہ رنگ چھُوٹا اور کیا
رہ گیا تھا یاد کا رشتہ فقط
آخرش یہ پُل بھی ٹُوٹا اور کیا
اُس کی آنکھیں بھی کبھی سچ بولتیں
دل تو تھا جھوٹوں سا جھوٹا اور کیا
غیر تو تھے غیر، اپنے آپ کو
سب سے بڑھ کر ہم نے لُوٹا اور کیا
اس قدر کافی تھی یادِ کربلا
روئے دھوئے سینہ کوٹا اور کیا
آؤ دیکھو تو ذرا باغِ وفا
اب کوئی گل ہے نہ بوٹا اور کیا
فتنہ سامانی میں یکساں ہیں فرازؔ
اپنا دل ہو یا کہوٹا اور کیا
٭٭٭
میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون
تُو نہیں ہوتا تو میری جستجو کرتا ہے کون
کس کا خنجر ہے جو کر دیتا ہے سینے کو دو نیم
پھر پشیمانی میں زخمِ دل رفو کرتا ہے کون
اِس خرابے میں بگولہ سی پھر ے ہے کس کی یاد
اِس دیارِ رفتگاں میں ہاؤ ہو کرتا ہے کون
خوف کس کا ہے کہ اپنے آپ سے چھپتا پھروں
ناگہاں پھر مجھ کو میرے رو برو کرتا ہے کون
کونسا موسم چُرا لیتا ہے غنچوں کی چٹک
نغمہ پیراؤں کو سُرمہ در گُلو کرتا ہے کون
کون پی جاتا ہے آخر مرے حصے کی شراب
میں نہیں ہوتا تو پھر خالی سبو کرتا ہے کون
٭٭٭
جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا
کچھ سہل نہیں عہدِ جوانی میں بھی رہنا
یہ کیا کہ رہے تازہ رفاقت کی للک بھی
اور محو کسی یاد پرانی میں بھی رہنا
کردار ہی ایسا تھا کہ اے صاحبِ تمثیل
اچھا نہ لگا ہم کو کہانی میں بھی رہنا
اے دل تے قاتل بھی ہمی اور ہمی کو
ہر وقت تری مرثیہ خوانی میں بھی رہنا
دیکھو تو کوئی اُس کو کہ جوں موج میں دریا
ہر اک لگاوٹ بھی روانی میں بھی رہنا
کچھ مرحمتِ عشق ہے کچھ تربیتِ فن
الفاظ کی سج دھج کا معانی میں بھی رہنا
بیکار الجھتے ہو فرازؔ اہلِ جہاں سے
شکوہ بھی نہنگوں سے ہے، پانی میں بھی رہنا
٭٭٭
جس طرف جائیں زمانہ رو برو آ جائے ہے
اے خیالِ یار اگر ایسے میں تو آ جائے ہے
پھر کوئی چارہ گروں کے ناز اٹھائے کس لئے
وحشیوں کو بھی اگر کارِ رفو آ جائے ہے
پھر کہاں دنیا جہاں کے تذکرے اک بار اگر
ذکر تیرا درمیانِ گفتگو آ جائے ہے
ہم تہی دستوں کی پھر دریا دلی بھی دیکھیو
دستِ مستاں میں اگر دستِ سبو آ جائے ہے
مدتوں کی تشنگی کے بعد اک صہبا کا گھونٹ
جس طرح صحرا میں کوئی آبجو آ جائے ہے
اے مصور، حسنِ جاناں نقشِ جاناں میں کہاں
کب تری تصویر میں وہ ہو بہو آ جائے ہے
کثرتِ گریہ نے آخر رنگ دکھلانا تو تھا
اب بجائے اشک آنکھوں میں لہو آ جائے ہے
تری بیتیں، تیری باتیں، کیا کہیں کیا ہیں فرازؔ
بزم سج جاتی ہے جس محفل میں تُو آ جائے ہے
٭٭٭
نہ شوقِ وصل نہ رنجِ فراق رکھتے ہیں
مگر یہ لوگ ترا اشتیاق رکھتے ہیں
یہ ہم جو تجھ پہ ہیں نازاں تو اِس سبب سے کہ ہم
زمانے والوں سے بہتر مذاق رکھتے ہیں
ہم اہلِ دل سے کوئی کیوں ملے کہ ہم سےفقیر
نہ عطر و عود نہ ساز و یراق رکھتے ہیں
جمالِ یار فقط چشم و لب کی بات نہیں
سو ہم خیالِ سیاق و سباق رکھتے ہیں
مثالِ شیشۂ خالی کتابِ عقل کو بھی
ہم اہلِ میکدہ بالائے طاق رکھتے ہیں
شیوخِ شہر سے کیا بحث جو گِرہ میں فقط
دو حرفِ عقد و سہ حرفِ طلاق رکھتے ہیں
فرازؔ خوش ہو کہ تجھ سے خفا ہے فتوہ فروش
بھلے سے یہ بھی کہیں اتفاق رکھتے ہیں
٭٭٭
پروانہ وار شہر میں کیا کیا پھری ہَوا
آخر چراغِ کشتہ پہ میرے گِری ہَوا
اب سر بکف ہجوم جو دل دادگاں کا ہے
مقتل میں باندھ رکھی تھی ہم نے تری ہَوا
جیسے کوئی حباب رواں موجِ آب پر
پندارِ زندگی کا بھرم ہے نِری ہَوا
روشن نہیں رہی کوئی شمعِ خیال تک
پھر کس کو ڈھونڈتی ہے سر پھری ہَوا
حیران تھی کہ کتنے چراغوں کا خوں پیے
آخر کو روشنی کے بھنور میں گِھری ہَوا
صبحِ خزاں کی آخری یلغار ہے فرازؔ
اک دل گرفتہ پھول ہے اور دوسری ہَوا
٭٭٭
بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے
اک ہم تھے تیری بزم میں آنسو پیے ہوئے
دیکھا جسے بھی اُس کی محبت میں مست تھا
جیسے تمام شہر ہو دارو پیے ہوئے
تکرار بے سبب تو نہ تھی رند و شیخ میں
کرتے بھی کیا شراب تھے ہر دو پیے ہوئے
پھر کیا عجب کہ لوگ بنا لیں کہانیاں
کچھ میں نشے میں چُور تھا کچھ تُو پیے ہوئے
یوں اُن لبوں کے مَس سے معطر ہوں جس طرح
وہ نو بہارِ ناز تھا خوشبو پیے ہوئے
یوں ہو اگر فرازؔ تو تصویر کیا بنے
اک شام، اُس کے ساتھ، لب جُو پیے ہوئے ٭٭٭
کون اب قصۂ چشم و لب و ابرو میں پڑے
بارے آرام سے ہیں اپنے ہی پہلو میں پڑے
عشق نے حسن کے معیار بدل ڈالے ہیں
یار ابھی تک ہیں اُسی قامت و گیسو میں پڑے
دیکھ اے صاحبِ انصاف، عدالت اپنی
ہم بھی قاتل کے مقابل ہیں ترازو میں پڑے
خود کو لے آئے تھے ہنگامۂ دنیا سے الگ
اب پریشاں ہیں کسی گوشۂ یکسو میں پڑے
ہم بھی ایک شعلہ شمائل کو لئے ساتھ چلیں
اب کے گر برف کہستانِ سکردو میں پڑے
ہر طرف ایک صنم خانۂ حیرت ہے فراز
تم ابھی تک ہو اُسی شخص کے جادو میں پڑے ٭٭٭
بے رُخی تُو نے بھی، عذرِ زمانہ کر کے
ہم بھی محفل سے اٹھ آئے ہیں بہانہ کر کے
کتنی باتیں تھیں کہ نہ کہنا تھیں وہ کہہ بھیجی ہیں
اب پشیمان ہیں قاصد کو روانہ کر کے
جانتے ہیں وہ تنک خو ہے، سو اپنا احوال
ہم سنا دیتے ہیں اوروں کا فسانہ کر کے
کیا کہیں کیا ہے اُن کی آنکھوں میں کہ رکھ دیتی ہیں
ایک اچھے بھلے انساں کو دِوانہ کر کے
کوئی ویرانۂ ہستی کی خبر کیا لاتا
خود بھی ہم بھول گئے دفن خزانہ کر کے
آنکھ مصروفِ نظارہ تھی تو ہم خوش تھے فرازؔ
اُس نے کیا ظلم کِیا دل میں ٹھکانہ کر کے ٭٭٭
یوں تو میخانے میں مے کم ہے نہ پانی کم ہے
پھر بھی کچھ کشتیِ صہبا میں روانی کم ہے
سچ تو یہ ہے کہ زمانہ جو کہے پھرتا ہے
اس میں کچھ رنگ زیادہ ہے کہانی کم ہے
آؤ ہم خود ہی درِ یار سے ہو آتے ہیں
یہ جو پیغام ہے قاصد کی زبانی کم ہے
تم بضد ہو تو چلو ترکِ ملاقات سہی
ویسے اِس دل نے مری بات تو مانی کم ہے
یاد رکھنے کو تو اے دوست بہت حیلے تھے
اک ترا زخمِ جدائی تو نشانی کم ہے
دفترِ شوق مرتّب ہو تو کیسے ہو فرازؔ
دل نے ہر بار کہا، ایک کہانی کم ہے ٭٭٭
ذکرِ جاناں سے ہی میری غزل آراستہ ہے
ورنہ میں کون مرا شعر سے کیا واسطہ ہے
کیا بساط اپنی کہ اُس عربدہ خو کے آگے
آسماں سا بھی ستمگر سپر انداختہ ہے
اس کے ہاتھوں میں ہے میزانِ عدالت لرزاں
جیسے خود صاحبِ انصاف سزا یافتہ ہے
رہروِ دشتِ طلب کو تو ہے چلتے جانا
اس سفر میں کوئی منزل نہ کوئی راستہ ہے
ایسا نیرنگِ زمانہ بھی ہمیں دیکھنا تھا
قاتلِ خلق کے پرچم پہ بنی فاختہ ہے
کیا سکھائیں گے ہمیں جامعِ ازہر کے خطیب
اپنا دل نجدِ محبت کا سند یافتہ ہے
کون لایا ہے تجھے کوئے ملامت میں فرازؔ
تُو تو پہلے ہی تہی کیسہ و دل باختہ ہے
٭٭٭
لب کشا ہیں لوگ، سرکار کو کیا بولنا ہے
اب لہو بولے گا تلوار کو کیا بولنا ہے
بِکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو
ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے
لو چلے آئے عدالت میں گواہی دینے
مجھ کو معلوم ہے کس یار کو کیا بولنا ہے
اور کچھ دیر رہے گوش بر آواز ہَوا
پھر چراغِ سرِ دیوار کو کیا بولنا ہے
مجھ سے کیا پوچھتے ہو آخری خواہش میری
اک گنہگارِ سرِ دار کو کیا بولنا ہے
خلقتِ شہر ہے چُپ، شاہ کے فرمان کے بعد
اب کسی واقفِ اسرار کو کیا بولنا ہے
وہی جانے پسِ پردہ جو تماشا گر ہے
کب، کہاں، کون سے کردار کو کیا بولنا ہے
جہاں دربار ہوں، شاہوں کے مصاحب ہوں فرازؔ
وہاں غالبؔ کے طرفدار کو کیا بولنا ہے
٭٭٭
وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے
یوں ہو تو مزہ میل ملاقات میں آئے
مت پوچھ کہ ہم کون ہیں یہ دیکھ کہ اے دوست
آئے ہیں تو کس طرح کے حالات میں آئے
کچھ اور مِلا میرا لہو اپنی حنا میں
تا اور بھی اعجاز ترے ہاتھ میں آئے
اب ذکرِ زمانہ ہے تو ناراض نہ ہونا
گر نام تمہارا بھی کسی بات میں آئے
اچھا ہے تنّوع ترے اندازِ ستم میں
کچھ رنگِ مروّت بھی اگر ساتھ میں آئے
اک عمر سے جیسے نہ جُنوں ہے نہ سکوں ہے
یارب کوئی گردش مرے حالات میں آئے
یہ سال بھی اچھا تھا کہ یاروں کی طرف سے
کچھ اب کے نئے زخم بھی سوغات میں آئے
ہم ایسے فقیروں سے محبت سے ملا کر
تا اور بلندی ترے درجات میں آئے
ساتھ اُس کے فرازؔ ایسے بھی دن رات گزارے
اب جن کا مزہ صرف حکایات میں آئے
٭٭٭
ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی
کہ جو روشنی ترے جسم کی تھی مرے بدن میں بھری رہی
ترے شہر میں چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مرے
تو میں کس سے محوِ کلام تھا؟ تو یہ کس کی ہمسفری رہی؟
مجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک ترا دھیان تھا
تو مثال تھی مری آگہی تو کمال بے خبری رہی
مرے آشنا بھی عجیب تھے نہ رفیق تھے نہ رقیب تھے
مجھے جاں سے درد عزیز تھا انہیں فکرِ چارہ گری رہی
میں یہ جانتا تھا مرا ہنر ہے شکست و ریخت سے معتبر
جہاں لوگ سنگ بدست تھے وہیں میری شیشہ گری رہی
جہاں ناصحوں کا ہجوم تھا وہیں عاشقوں کی بھی دھوم تھی
جہاں بخیہ گر تھے گلی گلی وہیں رسمِ جامہ دری رہی
ترے پاس آ کے بھی جانے کیوں مری تشنگی میں ہراس تھا
بہ مثالِ چشمِ غزال جو لبِ آبجو بھی ڈری رہی
جو ہوس فروش تھے شہر کے سبھی مال بیچ کے جا چکے
مگر ایک جنسِ وفا مری سرِ رَہ دھری کی دھری رہی
مرے ناقدوں نے فرازؔ جب مرا حرف حرف پرکھ لیا
تو کہا کہ عہدِ ریا میں بھی جو بات کھری تھی کھری رہی
٭٭٭
یہ تیری قلمرو ہے بتا پیرِ خرابات
غالب سا بھی کوئی دیکھا ہے میرِ خرابات
وہ رندِ بلا نوش و تہی دست و سدا مست
آزاد مگر بستۂ زنجیرِ خرابات
اشعار کہ جیسے ہو صنم خانۂ آذر
الفاظ کہ جیسے ہوں تصاویرِ خرابات
وہ نغمہ سرا ہو تو کریں وجد ملائک
یہ قلقلِ مینا ہے کہ تکبیرِ خرابات
اے شیخ یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تو نہیں ہے
تعمیرِ خرابات ہے تعمیرِ خرابات
ہم رند رہے مجلسِ واعظ کی بھی رونق
جوں حجلۂ صوفی میں تصاویرِ خرابات
کس شوخ نے لکھا ہے یہ دیوارِ حرم پر
زمزم میں کہاں نشۂ تاثیرِ خرابات
میخانہ کسی شاہ کا دربار نہیں ہے
ساقی کے تصرّف میں ہے زنجیرِ خرابات
سعدیؔ ہو کہ حافظؔ ہو کہ خیامؔ کہ ہم ہوں
یہ لوگ تو ہیں جانِ اساطیرِ خرابات
ہیں ساغر و مینا کی طرح دل بھی شکستہ
ملّا ہو جہاں کاتبِ تقدیرِ خرابات
انسان کہ انساں کا لہو پینے لگا ہے
اے چارہ گرو پھر کوئی تدبیرِ خرابات
میخانہ پنہ گاہ تھی ہم دل زدگاں کی
پر اب کہاں جائے کوئی دلگیرِ خرابات
کب سے حرم و دیر ہیں بے نور، خدارا
لے آؤ کہیں سے کوئی تنویرِ خرابات
سرشار تو ہو جاتے ہیں سرکش نہیں ہوتے
ساقی کی نگاہیں ہیں عناں گیرِ خرابات
گر حور و مے و نغمہ سے جنّت ہے عبارت
دنیا میں یہی خواب ہے تعبیرِ خرابات
اے مفتیِ بد کیش نہ کر فتویٰ فروشی
کیا تُو بھی نہیں لائقِ تعزیرِ خرابات
میخوار کہ واعظ یہاں گردن زدنی ہے؟
کچھ تُو ہی بتا صاحبِ تفسیرِ خرابات
"ویراں شود آں شہر کہ میخانہ نہ دارد"
اب جائیں کہاں ڈھونڈھنے اکسیرِ خرابات
٭٭٭
اُس کے ہمراہ چلے ہم تو فضا اور لگی
راستے اور لگے لغزشِ پا اور لگی
سَرو پر پیرہنِ گُل بھی سجے خوب مگر
یار کے قامتِ زیبا پہ قبا اور لگی
کم تو پہلے بھی نہیں تھا وہ دل آزاری میں
اُس پہ ظالم کو زمانے کی ہَوا اور لگی
پوچھتے پھرتے ہیں اب ترکِ تعلق کا علاج
خوش ہو اے دل کہ تجھے ایک بلا اور لگی
مہرباں یوں تو سدا کے تھے زمانے والے
لیکن اب کے روشِ خلقِ خدا اور لگی
کوچ کر جاتا ہے اک دوست ہر آوازے پر
گوشِ شنوا ہے تو سُن ایک صدا اور لگی
ہر نیا عشق نیا ذائقہ رکھتا ہے فرازؔ
آج کل پھر تری غزلوں کی ادا اور لگی
٭٭٭
کون سر گرداں ہو صحراؤں کے بیچ
قیس خوش بیٹھا ہے لیلاؤں کے بیچ
دے رہا ہے کون تلواروں کو آب
خوں نظر آتا ہے دریاؤں کے بیچ
آ بسے ہیں شہر میں خانہ بدوش
ہے اداسی خیمہ زن گاؤں کے بیچ
دیکھ اپنے دل فگاروں کو کبھی
سر میں سودا بیڑیاں پاؤں کے بیچ
تیری قربت بھی نہیں دکھ سے تہی
دھوپ کے پیوند ہیں چھاؤں کے بیچ
حرفِ عیسیٰ بھی گیا عیسیٰ کے ساتھ
بس صلیبیں ہیں کلیساؤں کے بیچ
ایک ہیں سب قیسؔ و فرہادؔ و فرازؔ
کیا رکھا ہے عشق میں ناؤں کے بیچ
٭٭٭
نذرِ قرۃ العین طاہرہ
تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو
دل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دو بدو
ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو
قوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکن
غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بو بہ بو
دامِ خیالِ یار کے ایسے اسیر ہم ہوئے
طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہر خو بہ خو
ہم نے لباس درد کا قالبِ جاں پہ سی لیا
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو
نقش کتابِ دل پہ تھا ثبت اُسی کا طاہرہؔ
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو
شیشۂ ریختہ میں دیکھ لعبتِ فارسی فرازؔ
خال بہ خال خد بہ خد نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو
٭٭٭
دیوانگی خرابیِ بسیار ہی سہی
کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی
وہ دیکھنے تو آئے بہانہ کوئی بھی ہو
عذرِ مزاج پرسیِ بیمار ہی سہی
رشتہ کوئی تو اُس سے تعلق کا چاہئے
جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی
اہلِ وفا کے باب میں اتنی ہوس نہ رکھ
اِس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی
خوش ہوں کہ ذکرِ یار میں گزرا تمام وقت
ناصح سے بحث ہی سہی تکرار ہی سہی
شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ دار ہی سہی
ہوتی ہے اب بھی گاہے بگاہے کوئی غزل
ہم زندگی سے برسرِ پیکار ہی سہی
اک چارہ گر ہے اور ٹھکانے کا ہے فرازؔ
دنیا ہمارے در پئے آزار ہی سہی
٭٭٭
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لَو کو سنبھال رکھا ہے
محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے
ہَوا میں نشہ ہی نشہ فضا میں رنگ ہی رنگ
یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے
بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
سو میں نے رشتۂ غم کو بحال رکھا ہے
ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا
سبھی نے وعدۂ فردا پہ ٹال رکھا ہے
حسابِ لطفِ حریفاں کِیا ہے جب تو کھُلا
کہ دوستوں نے زیادہ خیال رکھا ہے
بھری بہار میں اک شاخ پر کِھلا ہے گلاب
کہ جیسے تُو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے
فرازؔ عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے
٭٭٭
منزلِ دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے؟
جس سے پوچھو وہی کہتا ہے، یہاں سے آگے
اہلِ دل کرتے رہے اہلِ ہَوس سے بحثیں
بات بڑھتی ہی نہیں سود و زیاں سے آگے
اب جو دیکھا تو کئی آبلہ پا بیٹھے ہیں
ہم کہ پیچھے تھے بہت ہم سفراں سے آگے
ہم نے اُس حد سے کِیا اپنے سفر کا آغاز
پر فرشتوں کے بھی جلتے ہیں جہاں سے آگے
کیسے بتلائیں کہ نیرنگِ زمانہ کیا ہے
کس کو دنیا نظر آتی ہے یہاں سے آگے
نہیں ایسا بھی کہ جب چاہا غزل کہہ ڈالی
شعر کی بات ہے کچھ طبعِ رواں سے آگے
اپنے حصّے کی پِلا دیتے ہیں اوروں کو فرازؔ
کب یہ دستور تھا ہم تشنہ لباں سے آگے
٭٭٭
کہانیاں نہ سنو آس پاس لوگوں کی
کہ میرا شہر ہے بستی اداس لوگوں کی
نہ کوئی سمت نہ منزل سو قافلہ کیسا
رواں ہے بِھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی
کسی سے پوچھ ہی لیتے وفا کے باب میں ہم
کمی نہیں تھی زمانہ شناس لوگوں کی
محبتوں کا سفر ختم تو نہیں ہوتا
بجا کہ دوستی آئی نہ راس لوگوں کی
ہمیں بھی اپنے کئی دوست یاد آتے ہیں
کبھی جو بات چلے نا سپاس لوگوں کی
کرو نہ اپنی بلا نوشیوں کے یوں چرچے
کہ اِس سے اور بھڑکتی ہے پیاس لوگوں کی
میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فرازؔ
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی
٭٭٭
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے
کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے
شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے
کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزمِ جاں میں
کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے
عشاق کے مانند کئی اِہلِ ہوس بھی
پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے
سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
٭٭٭
آب و دانہ قفس میں رکھا ہے
یوں مجھے پیش و پس میں رکھا ہے
اک شرارہ سا، دل کہیں جسے
جسم کے خار و خس میں رکھا ہے
عشق بھی چاہتا ہے وصلِ حبیب
کچھ نہ کچھ تو ہوس میں رکھا ہے
کون کرتا ہے کوچ بستی سے؟
دل کسی کا جرس میں رکھا ہے
صید و صیاد کب یہ جانتے ہیں
کس نے کس کو قفس میں رکھا ہے
٭٭٭
نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے
یہ قُربت عارضی ہے کم سے کم تم جانتے تھے
رہا ہے کون کس کے ساتھ انجامِ سفر تک
یہ آغازِ مسافت ہی سے ہم تم جانتے تھے
مزاجوں میں اتر جاتی ہے تبدیلی مری جاں
سو رہ سکتے تھے کیسے ہم بہم تم جانتے تھے
سو اب کیوں ہرکس و ناکس سے یہ شکوہ شکایت
یہ سب سود و زیاں یہ بیش و کم تم جانتے تھے
فرازؔ اس گمرہی پر کیا کسی کو دوش دینا
کہ راہِ عاشقی کے پیچ و خم تم جانتے تھے
٭٭٭
یوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خود بھی
وہ مسافر کہ جو منزل تھے بجائے خود بھی
کتنے غم تھے کہ زمانے سے چھپا رکھتے تھے
اس طرح سے کہ ہمیں یاد نہ آئے خود بھی
ایسا ظالم ہے کہ گر ذکر میں اُس کے کوئی ظلم
ہم سے رہ جائے تو وہ یاد دلائے خود بھی
لطف تو جب ہے تعلق کا کہ وہ سحر جمال
کبھی کھینچے کبھی کھنچتا چلا آئے خود بھی
ایسا ساقی ہو تو پھر دیکھئے رنگِ محفل
سب کو مدہوش کرے ہوش سے جائے خود بھی
یار سے ہم کو تغافل کا گلہ کیوں ہو کہ ہم
بارہا محفلِ جاناں سے اٹھ آئے خود بھی ٭٭٭
وہاں تو ہار قیامت بھی مان جاتی ہے
جہاں تلک ترے قد کی اُٹھان جاتی ہے
یہ عہدِ سنگ زنی ہے سو چپ ہیں آئنہ گر
کہ لب کشا ہوں تو سمجھو دکان جاتی ہے
یہ مہربان مشیّت بھی ایک ماں کی طرح
میں ضد کروں تو مری بات مان جاتی ہے
سو کیا کریں یہاں بسمل کہ بات قاتل کی
کوئی نہ مانے عدالت تو مان جاتی ہے
میں کس طرح سے گزاروں گا عمر بھر کا فراق
وہ دو گھڑی بھی جُدا ہو تو جان جاتی ہے
یہ نامراد محبت بھی قاتلوں کی طرح
ضرور چھوڑ کے کوئی نشان جاتی ہے
فرازؔ اجڑنے لگا ہے چمن محبت کا
جو رُت ہمیشہ رہی مہربان، جاتی ہے
٭٭٭
چھیڑ دیتا ہے دل پھر سے پرانی کوئی بات
کوئی دکھ کوئی گلہ کوئی کہانی کوئی بات
ایک چُپ تھی کہ جو خوشبو کی طرح پھیلی تھی
صبح دم کہہ نہ سکی رات کی رانی کوئی بات
اہلِ گلشن کا تو شیوہ ہے کہ بدنام کریں
گُل بھی سنتا کبھی بلبل کی زبانی کوئی بات
وہ ترا عہدِ وفا تھا کہ وفائے وعدہ
میں کہ پھر بھول گیا یاد دلانی کوئی بات
جانے کیوں اب کے پریشاں ہیں ترے خانہ بدوش
ورنہ ایسی بھی نہ تھی نقلِ مکانی کوئی بات
جس طرح ساری غزل میں کوئی عمدہ مصرع
جس طرح یاد میں رہ جائے نشانی کوئی بات
اہلِ دستار و قبا تُرش جبیں کیوں ہیں فرازؔ
کہہ گئی کیا مری آشفتہ بیانی کوئی بات؟
٭٭٭
خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں
تمام شہر لئے چھتریاں تھا رستے میں
بہار آئی تو اک شخص یاد آیا بہت
کہ جس کے ہونٹوں سے جھڑتے تھے پھول ہنستے میں
کہاں کے مکتب و ملّا کہاں کے درس و نصاب
بس اک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں
مِلا تھا ایک ہی گاہک تو ہم بھی کیا کرتے
سو خود کو بیچ دیا بے حساب سستے میں
یہ عمر بھر کی مسافت ہے، دل بڑا رکھنا
کہ لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے رستے میں
ہر ایک در خورِ رنگ و نمو نہیں ورنہ
گل و گیاہ سبھی تھے صبا کے رستے میں
ہے زہرِ عشق، خمارِ شراب ہے آگے
نشہ بڑھاتا گیا ہے یہ سانپ ڈستے میں
جو سب سے پہلے ہی رزمِ وفا میں کام آئے
فرازؔ ہم تھے انہیں عاشقوں کے دستے میں
٭٭٭
سب قرینے اُسی دلدار کے رکھ دیتے ہیں
ہم غزل میں بھی ہُنر یار کے رکھ دیتے ہیں
شاید آ جائیں کبھی چشمِ خریدار میں ہم
جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں
تاکہ طعنہ نہ ملے ہم کو تنک ظرفی کا
ہم قدح سامنے اغیار کے رکھ دیتے ہیں
اب کسے رنجِ اسیری کہ قفس میں صیاد
سارے منظر گُل و گُلزار کے رکھ دیتے ہیں
ذکرِ جاناں میں یہ دنیا کو کہاں لے آئے
لوگ کیوں مسٔلے بیکار کے رکھ دیتے ہیں
وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہلِ دل بھی
طاقِ نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں
زندگی تیری امانت ہے مگر کیا کیجئے
لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں
ہم تو چاہت میں بھی غالبؔ کے مقلّد ہیں فرازؔ
جس پہ مرتے ہیں اُسے مار کے رکھ دیتے ہیں
٭٭٭
ایسے ویسے گمان کیسے پڑے
دل میں یہ وہم آن کیسے پڑے
آدمی کی زمیں سے دوستی تھی
بیچ میں آسمان کیسے پڑے
کیا کہیں درمیان دونوں کے
کون سے مہربان کیسے پڑے
تیری ہمسائیگی کے ارماں میں
رفتہ رفتہ مکان کیسے پڑے
بلبلیں قید تھیں تو پھولوں کے
دامنوں پر نشان کیسے پڑے
حشر برپا ہے شورِ خلقت سے
تیری آواز کان کیسے پڑے
لوگ حیراں ہیں شہر کے پیچھے
شہر کے پاسبان کیسے پڑے
خونِ دل خرچ ہو گیا ہے فرازؔ
بول شعروں میں جان کیسے پڑے
٭٭٭
جورِ حبیب و پرسشِ اغیار ایک سے
گو زخم الگ الگ ہیں مگر وار ایک سے
ہر گھر میں اپنے اپنے بہار و خزاں کے رنگ
یوں دیکھنے میں ہیں در و دیوار ایک سے
بے اعتمادیوں کی فضا کارواں میں ہے
رہنا ہے دوسرے کو خبردار ایک سے
ہر بار زندگی نے نئے تجربے دیے
ہر چند اور لوگ تھے ہر بار ایک سے
ایک ربطِ خاص ہم کو رقیبوں سے ہے کہ ہیں
دلداگانِ عشق کو آزار ایک سے
اب بیش و کم کی بات نہ کر دوستوں کے بیچ
ہم کو سبھی نے زخم دیے یار ایک سے
جب دشمنی کی فصل ہو تَب دوست بھی عدو
جب دوستی کے دن ہو تو سب یار ایک سے
وہ میکشانِ شہر ہوں یا واعظانِ دیں
کردار الگ الگ ہیں اداکار ایک سے
رہیں خوش کہ روزِ حشر کچھ انصاف تو ملا
اچھا ہوا کہ سب ہیں گنہگار ایک سے
دلداریِ حبیب کہ آشوبِ دہر ہو
سب مرحلے فرازؔ ہیں دشوار ایک سے
٭٭٭
جب سجے محفلِ مے شام میں آ جائے کوئی
پینے بیٹھیں تو نظر جام میں آ جائے کوئی
یہ مقدر کے کرشمے ہیں کہ اکثر اوقات
ہو نگاہوں میں کوئی، دام میں آ جائے کوئی
مجھ سے ملنے نہیں دیتے مجھے دنیا والے
صبح رخصت ہو کوئی، شام میں آ جائے کوئی
اُس کا دھیان آئے تو گھر ایسے مہک جاتا ہے
جیسے دیوار و در و بام میں آ جائے کوئی
ہم تو اُس کو سر آنکھوں پہ بٹھا لیتے ہیں
سوئے میخانہ جو احرام میں آ جائے کوئی
گرچہ امکاں تو بہت کم ہے مگر کیا معلوم
پھر کسی روز کسی شام میں آ جائے کوئی
جانے کب سے ہوں کسی خواب جزیرے میں فرازؔ
کاش اِس قریۂ گمنام میں آ جائے کوئی
٭٭٭
کوئی منزل تھی کہاں ترکِ طلب سے آگے
پھر بھی ہم ہیں کہ چلے جاتے ہیں سب سے آگے
اب کہاں جاں کے عوض جنسِ وفا ملتی ہے
یہ مگر شہر کا دستور تھا اب سے آگے
کون کہتا ہے نہیں چارۂ بیماریِ دل
ایک میخانہ بھی پڑتا ہے مطب سے آگے
"نہ بہ زورے نہ بہ زاری نہ بہ زر می آید"
بات بڑھتی ہی نہیں ہے کسی ڈھب سے آگے
تجھ کو اب کیسے بتائیں وہ ترا ہجر نہ تھا
ہم پریشاں تھے کسی اور سبب سے آگے
جب سے یہ سلسلۂ تیغ و گلو جاری ہے
اہلِ دل اہلِ زمانہ سے ہیں تب سے آگے
ہم کہ شائستہِ تہذیبِ محبت ہیں فرازؔ
ہم نے رکھا نہ قدم حدِ ادب سے آگے
٭٭٭
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا
ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا
آشوبِ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں کہا
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی گُماں یہی ہے کہ کافی نہیں کہا
بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے شراب کو کبھی شافی نہیں کہا
پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا
اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فرازؔ
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا
٭٭٭
یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے
بات سے بات فسانے سے فسانہ نکلے
پھر چلے ذکر کسی زخم کے چِھل جانے کا
پھر کوئی درد کوئی خواب پرانا نکلے
پھر کوئی یاد کوئی ساز اُٹھا لے آئے
پھر کسی ساز کے پردے سے ترانہ نکلے
یہ بھی ممکن ہے کہ صحراؤں میں گم ہو جائیں
یہ بھی ممکن ہے خرابوں سے خزانہ نکلے
آؤ ڈھونڈیں تو سہی اہلِ وفا کی بستی
کیا خبر پھر کوئی گم گشتہ ٹھکانہ نکلے
یار ایسی بھی نہ کر بات کہ دونوں رو دیں
یہ تعلق بھی فقط رسمِ زمانہ نکلے
یہ بھی ہے اب نہ اٹھے نغمۂ زنجیر فرازؔ
یہ بھی ہے ہم سا کوئی اور دِوانہ نکلے
٭٭٭
کفن بدوش کہیں سر بکف لئے پھری ہے
یہ زندگی مجھے کس کس طرف لئے پھری ہے
مری طلب اُسے جنگاہ میں بھی لے جاتی
مری تلاش اُسے صف بہ صف لئے پھری ہے
میں رزم گاہ میں ہوتا تو پاگلوں کی طرح
وہ خیمہ گاہ میں راتوں کو دف لئے پھری ہے
یہ سر زمین مرے خوں سے سرخرو نہ ہوئی
یہ خاک مرے لہو کا شرف لئے پھری ہے
سو بے نیاز رہے دوستوں سے ہم کہ یہ جاں
خود اپنا تیر خود اپنا ہدف لئے پھری ہے
فرازؔ درخورِ قاتل نہ تھے ہمی ورنہ
ہمیں بھی جوششِ خوں سر بکف لئے پھری ہے
٭٭٭
اُس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی
یونہی بیکار میں کب تک کوئی بیٹھا رہتا
اس کو فرصت جو نہ تھی ہم نے بھی رخصت چاہی
شکوہ ناقدریِ دنیا کا کریں کیا کہ ہمیں
کچھ زیادہ ہی ملی جتنی محبت چاہی
رات جب جمع تھے دکھ دل میں زمانے بھر کے
آنکھ جھپکا کے غمِ یار نے خلوت چاہی
ہم جو پامالِ زمانہ ہیں تو حیرت کیوں ہے
ہم نے آبا کے حوالے سے فضیلت چاہی
میں تو لے آیا وہی پیرہنِ چاک اپنا
اُس نے جب خلعت و دستار کی قیمت چاہی
حُسن کا اپنا ہی شیوہ تھا تعلق میں فرازؔ
عشق نے اپنے ہی انداز کی چاہت چاہی
٭٭٭
تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد سنبھل کے رو
یہ کسی کی بزمِ نشاط ہے یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو
کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو نہ کسی سے حال بیان کر
یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے کہیں دُور پار نکل کے رو
کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں
جہاں کوئی تجھ سے بچھڑ گیا اُسی رہگزار پہ چل کے رو
یہاں اور بھی ہیں گرفتہ دل کبھی اپنے جیسوں سے جا کے مِل
ترے دکھ سے کم نہیں جن کے دکھ کبھی اُن کی آگ میں جل کے رو
ترے دوستوں کو خبر ہے سب تری بے کلی کا جو ہے سبب
تُو بھلے سے اُس کا نہ ذکر کر تُو ہزار نام بدل کے رو
غمِ ہجر لاکھ کڑا سہی پہ فرازؔ کچھ تو خیال کر
مری جاں یہ محفلِ شعر ہے تو نہ ساتھ ساتھ غزل کے رو
٭٭٭
مہر و مہتاب بنا ہوں نہ ستارا ہُوا ہوں
میں زمیں پر ہوں کہ افلاک کا مارا ہُوا ہوں
قعرِ دریا میں ہیں موجوں سے جو پسپا نہ ہوئے
میں کنارے پہ جو بیٹھا ہوں تو ہارا ہُوا ہوں
میں تو ذرّہ تھا مگر اے مرے خورشید خرام
تُو مجھے روند گیا ہے تو ستارا ہُوا ہوں
تم نے ہر وار پہ مجھ سے ہی شکایت کی ہے
میں کہ ہر زخم پہ ممنون تمہارا ہُوا ہوں
عشق میں حُسن کے انداز سما جاتے ہیں
میں بھی تیری طرح خود بین و خود آرا ہُوا ہوں
سفرِ ذات میں ایسا کبھی لگتا ہے فرازؔ
میں پیمبر کی طرح خود پہ اتارا ہُوا ہوں ٭٭٭
عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو
جستہ جستہ پڑھ لیا کرنا مضامینِ وفا
پر کتابِ عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو
اِس تماشے میں اُلٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں
ڈوبنے والوں کو زیرِ آب مت دیکھا کرو
میکدے میں کیا تکلف، میکشی میں کیا حجاب
بزمِ ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو
ہم سے درویشوں کے گھر آؤ تو یاروں کی طرح
ہر جگہ خس خانہ و برفاب مت دیکھا کرو
مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیں
یار لوگوں کے لقب القاب مت دیکھا کرو
تشنگی میں لب بھگو لینا بھی کافی ہے فرازؔ
جام میں صہبا ہے یا زہراب مت دیکھا کرو
٭٭٭
یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشیں کوئی ہے
کہ شب ڈھلے تو سَحر تک کوئی نہیں، کوئی ہے
نہ کوئی چاپ نہ سایہ کوئی نہ سرگوشی
مگر یہ دل کہ بضد ہے، نہیں نہیں کوئی ہے
ہر اک زباں پہ اپنے لہو کے ذائقے ہیں
نہ کوئی زہرِ ہلاہل نہ انگبیں کوئی ہے
بھلا لگا ہے ہمیں عاشقوں کا پہناوا
نہ کوئی جیب سلامت نہ آستیں کوئی ہے
دیارِ دل کا مسافر کہاں سے آیا ہے
خبر نہیں مگر اک شخص بہتریں کوئی ہے
یہ ہست و بود یہ بود و نبود وہم ہے سب
جہاں جہاں بھی کوئی تھا وہیں وہیں کوئی ہے
فرازؔ اتنی بھی ویراں نہیں مری دنیا
خزاں میں بھی گُلِ خنداں کہیں کہیں کوئی ہے
٭٭٭
دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے
اب کے جانے کا نہیں موسمِ گر یہ شائد
مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے
عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم
کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے
کچھ دِلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب
کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے
تم بھی پاگل ہو کہ اُس شخص پہ مرتے ہو فرازؔ
ایک دنیا کی نظر جس پہ جمی رہتی ہے
٭٭٭
قیمت ہے ہر کسی کی دکاں پر لگی ہوئی
بِکنے کو ایک بھِیڑ ہے باہر لگی ہوئی
غافل نہ جان اُسے کہ تغافل کے باوجود
اُس کی نظر ہے سب پہ برابر لگی ہوئی
خوش ہو نہ سر نوشتۂ مقتل کو دیکھ کر
فہرست ایک اور ہے اندر لگی ہوئی
ق
کس کا گماشتہ ہے امیرِ سپاہِ شہر
کن معرکوں میں ہے صفِ لشکر لگی ہوئی
برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال
اب چشمِ بد ہے جانبِ خیبر لگی ہوئی
غیروں سے کیا گِلا ہو کہ اپنوں کے ہاتھ سے
ہے دوسروں کی آگ مرے گھر لگی ہوئی
لازم ہے مرغِ باد نما بھی اذان دے
کلغی تو آپ کے بھی ہے سر پر لگی ہوئی
میرے ہی قتل نامے پہ میرے ہی دستخط
میری ہی مُہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
کس کے لبوں پہ نعرۂ منصور تھا فرازؔ
ہے چار سُو صدائے مکرّر لگی ہوئی
٭٭٭
اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
سو جی رہے ہیں مرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
یہ بے دلی کسی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو
کہ چشم بستہ ہیں زانو پہ سر دھرے ہوئے لوگ
نہ کوئی یاد نہ آنسو نہ پھول ہیں نہ چراغ
تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے ہوئے لوگ
ہوائے حرص سبھی کو اُڑائے پھرتی ہے
یہ گرد بادِ زمانہ یہ بھُس بھرے ہوئے لوگ
یہ دل سنبھلتا نہیں ہے وداعِ یار کے بعد
کہ جیسے سو نہ سکیں خواب میں ڈرے ہوئے لوگ
کچھ ایسا ظلم کا موسم ٹھہر گیا ہے فرازؔ
کسی کی آب و ہوا میں نہ پھر ہرے ہوئے لوگ
٭٭٭
جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے
کیا خبر کون کہاں کس کا نشانہ بن جائے
عشق خود اپنے رقیبوں کو بہم کرتا ہے
ہم جسے پیار کریں جانِ زمانہ بن جائے
اتنی شدت سے نہ مل تُو کہ جدائی چاہیں
اور یہ قربت تری دوری کا بہانہ بن جائے
جو غزل آج ترے ہجر میں لکھی ہے وہ کل
کیا خبر اہلِ محبت کا ترانہ بن جائے
کرتا رہتا ہوں فراہم میں زرِ زخم کہ یوں
شائد آئندہ زمانوں کا خزانہ بن جائے
اِس سے بڑھ کر کوئی انعامِ ہنر کیا ہے فرازؔ
اپنے ہی عہد میں اک شخص فسانہ بن جائے
٭٭٭
یونہی مر مر کے جئیں وقت گذارے جائیں
زندگی ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں
اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمدؐ نہ مسیح
آسمانوں سے نئے لوگ اُتارے جائیں
وہ جو موجود نہیں اُس کی مدد چاہتے ہیں
وہ جو سنتا ہی نہیں اُس کو پکارے جائیں
باپ لرزاں ہے کہ پہنچی نہیں بارات اب تک
اور ہم جولیاں دلہن کو سنوارے جائیں
ہم کہ نادان جواری ہیں سبھی جانتے ہیں
دل کی بازی ہو تو جی جان سے ہارے جائیں
تج دیا تم نے درِ یار بھی اُکتا کے فرازؔ
اب کہاں ڈھونڈھنے غمخوار تمہارے جائیں
٭٭٭
باغباں ڈال رہا ہے گل و گلزار پہ خاک
اب بھی میں چپ ہوں تو مجھ پر مرے اشعار پہ خاک
کیسے بے آبلہ پا بادیہ پیما ہیں کہ ہے
قطرۂ خوں کے بجائے سر ہر خار پہ خاک
سرِ دربار ستادہ ہیں پئے منصب و جاہ
تُف بر اہلِ سخن و خلعت و دستار پہ خاک
آ کے دیکھو تو سہی شہر مرا کیسا ہے
سبزہ و گل کی جگہ ہے در و دیوار پہ خاک
تا کسی پر نہ کھُلے اپنے جگر کا احوال
مَل کے آ جاتے ہیں ہم دیدۂ خونبار پہ خاک
بسکہ اک نانِ جویں رزقِ مشقت تھا فرازؔ
آ گیا ڈال کے میں درہم و دینار پہ خاک
٭٭٭
نامہ بروں کو کب تک ہم کوئے یار بھیجیں
وہ نامراد آئیں ہم بار بار بھیجیں
ہم کب سے منتظر ہیں اس موسمِ جنوں کے
جب زخم تہنیت کے یاروں کو یار بھیجیں
کیوں چشمِ شہر یاراں ہے سوئے جاں فگاراں
کیا جامۂ دریدہ اُن کو اُتار بھیجیں؟
آؤ اور آ کے گِن لو زخم اپنے دل زدوں کے
ہم کیا حساب رکھیں ہم کیا شمار بھیجیں
یارانِ مہرباں کو گر فکر ہے ہماری
یا پند گر نہ بھیجیں یا غمگسار بھیجیں
جب یار کا سندیسہ آئے تو بات بھی ہو
یوں تو ہزار نامے خوباں ہزار بھیجیں
سُن اے غزالِ رعنا اب دل یہ چاہتا ہے
ہر روز اک غزل ہم در مدحِ یار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ہجراں کو موسموں میں
کچھ قربتوں کی یادیں ہم دُور پار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے اُن پھول سے لبوں کو
دستِ صبا پہ رکھ کر شبنم کے ہار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے اُس جانِ شاعری کو
کچھ شعر اپنے چُن کر شاہکار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے سب بھید چاہتوں کے
ہر مصلحت بھُلا کر بے اختیار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے پردے میں ہم سُخن کے
دیوانگی کی باتیں دیوانہ وار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے جب بے اثر ہو سب کچھ
تجھ کو بنا کے قاصد اے یادِ یار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے یا چُپ کا زہر پی لیں
یا دامن و گریباں ہم تار تار بھیجیں
دل جو بھی چاہتا ہو لیکن فرازؔ سوچو
ہم طوقِ آشنائی کیسے اُتار بھیجیں
٭٭٭
ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک
دکھ تو یہ ہے کہ ہے ملاح بھی سازش میں شریک
تا ہمیں ترکِ تعلق کا بہت رنج نہ ہو
آؤ تم کو بھی کریں ہم اِسی کوشش میں شریک
اک تو وہ جسم طلسمات کا گھر لگتا ہے
اس پہ ہے نیّتِ خیاط بھی پوشش میں شریک
ساری خلقت چلی آتی ہے اُسے دیکھنے کو
کیا کرے دل بھی کہ دنیا ہے سفارش میں شریک
اتنا شرمندہ نہ کر اپنے گنہگاروں کو
اے خدا تُو بھی رہا ہے مری خواہش میں شریک
لفظ کو پھول بنانا تو کرشمہ ہے فرازؔ
ہو نہ ہو کوئی تو ہے تیری نگارش میں شریک ٭٭٭
نشستہ مسندِ ساقی پہ اب ہیں آب فروش
ہوئے ہیں شہر بدر، شہر کے شراب فروش
کوئی بھی دیکھنا چاہے نہ اپنے چہرے کو
سو جتنے آئنہ گر تھے ہوئے نقاب فروش
کسی کے پاس نہ ظرفِ خرد نہ حرفِ جنوں
ہوئے ہیں عارف و سالک سبھی نصاب فروش
یہ کہہ کے اُڑ گئے باغوں سے عندلیب تمام
جو باغباں تھے کبھی اب ہوئے گلاب فروش
نہ کشتیاں ہیں نہ ملاح ہیں نہ دریا ہے
تمام ریگِ رواں اور سبھی سراب فروش
جو حرفِ دل کبھی خونِ جگر سے لکھتے تھے
وہ اہلِ درد بھی اب ہو گئے کتاب فروش
کوئی نہیں جو خبر لائے قعرِ دریا کی
یہ تاجرِ کفِ سیلاب وہ حباب فروش
جو کور چشم، کہن سال و شعبدہ گر تھے
وہی تو لوگ ہیں اب سرمہ و خضاب فروش
نہیں فرازؔ تو لوگوں کو یاد آتا ہے
وہ نغمہ سنج وہ خوش گفتگو وہ خواب فروش
٭٭٭
مسافت دل کی تھی سو وہ جادۂ مشکل پسند آیا
ہمیں بھی مثلِ غالبؔ گفتۂ بیدلؔ پسند آیا
سمر قند و بخارا کیا ہیں خالِ یار کے آگے
سو ہم کو مصرعۂ حافظؔ بجان و دل پسند آیا
طبیعت کی کشاکش نے ہمیں آخر ڈبونا تھا
کبھی دریا لگا اچھا کبھی ساحل پسند آیا
متاعِ سوختہ دل سے لگائے پھرتا رہتا ہوں
کہ شہرِ آرزو جیسا بھی تھا حاصل پسند آیا
عجب رنگ آ گیا ہے دل کے خوں ہونے سے آنکھوں میں
ہمیں بھی اب کے گریہ میں لہو شامل پسند آیا
نہ تھا یوں بھی کہ جس کو دیکھتے ہم اُس کے ہو جاتے
کہ تُو بھی تو ہمیں جاناں بصد مشکل پسند آیا
فرازؔ اپنی ادا کا ایک دیوانہ ہے کیا کیجئے
اُسے سارے مسیحاؤں میں اک قاتل پسند آیا
٭٭٭
سنو ہَواؤں کا نوحہ زبانیِ صحرا
کہ گرگ زاد کریں اب شبانیِ صحرا
سنو کہ پیاس ہر اک کی جدا کدا ٹھہری
سو بحر خاک کرے ترجمانیِ صحرا
سنو کہ سب کا مقدر کہاں غمِ لیلیٰ
کسی کسی پہ رہی مہربانیِ صحرا
سنو کہ دل کا اثاثہ بس ایک داغ تو ہے
کہ جیسے خانۂ مجنوں نشانیِ صحرا
سنو کہ اب کوئی بانگِ جرس نہ نالۂ نے
عیاں تو سب پہ ہے سوزِ نہانیِ صحرا
سنو کہ آبلہ پا اب کہاں سے آئیں گے
ہمارے ساتھ گئی گل گشانیِ صحرا
سنو کہ جب کوئی آئینِ گلستاں ہی نہیں
تو کوئی کیسے کرے باغبانیِ صحرا
٭٭٭
کس نے کہا تھا کہ وحشت میں چھانیے صحرا
کڑی ہے دھوپ تو اب سر پہ تانیے صحرا
بس اک ذرا سے اُجڑنے پہ زعم کتنا ہے
یہ دل بضد ہے کہ اب اس کو مانیے صحرا
کسی کی آبلہ پائی عنایتِ رہِ دوست
کسی کی چاک قبائی نشانیِ صحرا
یہ زندگی کہ خیاباں بھی ہے خرابہ بھی
اب اس کو خلد سمجھیے کہ جانیے صحرا
ہوس کے واسے سو در کھُلے ہیں شہروں میں
اگر جنونِ وفا ہے تو چھانیے صحرا
ستم تو یہ ہے کہ اب خانہ زادگانِ چمن
ہمیں بتانے لگے ہیں معانیِ صحرا
ہمیں ملی نہ کہیں خیمہ زن نگارِ بہار
لئے پھری ہے عبث بیکرانیِ صحرا
فرازؔ و قیس ہیں دونوں ہی کشتگانِ وفا
یہ جانِ شہرِ ملامت وہ جانیِ صحرا
٭٭٭
میں خوش ہوں راندۂ افلاک ہو کر
مرا قد بڑھ گیا ہے خاک ہو کر
مرا دل دُکھ گیا، لیکن وہ آنکھیں
بہت اچھی لگیں نمناک ہو کر
تکلف بر طرف اے جانِ خوباں
کبھی ہم سے بھی مل بیباک ہو کر
اٹھا لے جا یہ اپنا دام و دانہ
مجھے مت صید کر چالاک ہو کر
سجی ہے کس قدر اے سرو قامت
ردائے گل تری پوشاک ہو کر
اگر اتنی پرانی دوستی تھی
تو پھر کر وار بھی سفاک ہو کر
فرازؔ احساں ہے یاروں کا کہ یہ دل
گریباں بن گیا ہے چاک ہو کر
٭٭٭
تجھے ہے مشقِ ستم کا ملال ویسے ہی
ہماری جان تھی جاں پر وبال ویسے ہی
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی
ہم آ گئے ہیں تہہِ دام تو نصیب اپنا
وگرنہ اُس نے تو پھینکا تھا جال ویسے ہی
میں روکنا ہی نہیں چاہتا تھا وار اُس کا
گری نہیں مرے ہاتھوں سے ڈھال ویسے ہی
زمانہ ہم سے بھلا دشمنی تو کیا رکھتا
سو کر گیا ہے ہمیں پائمال ویسے ہی
مجھے بھی شوق نہ تھا داستاں سنانے کا
فرازؔ اُس نے بھی پوچھا تھا حال ویسے ہی ٭٭٭
کسی کو بھی محبت میں مِلا کیا
تو پھر اُس دشمنِ جاں سے گلہ کیا
نہ عشق آساں نہ ترکِ عشق آساں
سو ہم سے بزدلوں کا حوصلہ کیا
کوئی بستی یہاں بسنے نہ پائے
یہ دل ہے خوابگاہِ زلزلہ کیا
وصال و ہجر بس کیفیتیں ہیں
وگرنہ قرب کیسا فاصلہ کیا
فرازؔ اب بھی وہی دیوانگی ہے
تو قائم ہے پرانا سلسلہ کیا
٭٭٭
احساں کئے تھے اُس نے جور عتاب کر کے
ہم کس قدر ہیں نادم اُس سے حساب کر کے
اُس سے کِیا تقاضا ہم عبث وفا کا
اچھی بھلی محبت رکھ دی عذاب کر کے
کس درجہ بد مزہ تھا واعظ کا وعظ یوں تو
کچھ چاشنی سی آئی ذکرِ شراب کر کے
رندوں نے صدقِ دل سے زاہد کو بھی پِلا دی
اب سخت ہیں پشیماں کارِ ثواب کر کے
یوں دلکش و مرصّع جیسے کوئی صحیفہ
ہم کو تو اُس کا چہرہ پڑھنا کتاب کر کے
احوال اہلِ غم کا سننا نہ تھا کہ تُو نے
ہم کو ڈبو دیا ہے آنکھیں پُر آب کر کے
غالبؔ کی پیروی میں یہ دن تو دیکھنے تھے
ہم بھی ہوئے ہیں رسوا شعر انتخاب کر کے
احمد فرازؔ ہو یا وہ میرؔ و میرزاؔ ہوں
اے عشق تو نے چھوڑا سب کو خراب کر کے
٭٭٭
سبھی کہیں مرے غمخوار کے علاوہ بھی
کوئی تو بات کروں یار کے علاوہ بھی
بہت سے ایسے ستمگر تھے جو اب یاد نہیں
کسی حبیبِ دل آزار کے علاوہ بھی
یہ کیا کہ تم بھی سرِ راہ حال پوچھتے ہو
کبھی ملو ہمیں بازار کے علاوہ بھی
سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا
کہ پھول کھلتے ہیں گلزار کے علاوہ بھی
کبھی فرازؔ سے آ کر ملو جو وقت ملے
یہ شخص خوب ہے اشعار کے علاوہ بھی
٭٭٭
خواب ہی خواب ہر اک شام میں لے آتی ہیں
اپسرائیں جو ہمیں دام میں لے آتی ہیں
پہلے پہلے تو کریں عہدِ وفا کی باتیں
پھر کسی کوچۂ بدنام میں لے آتی ہیں
یہ جو آ جاتی ہیں افسانہ سنانے والی
اور قصے بھی ترے نام میں لے آتی ہیں
تیری آنکھیں کہ بھُلا دیتی ہیں ساری دنیا
آخرش گردشِ ایّام میں لے آتی ہیں
چاہتیں کتنی بھی آغاز میں پیاری ہوں فرازؔ
پھر وہی تلخیاں انجام میں لے آتی ہیں
٭٭٭
وادیِ عشق سے کوئی نہیں آیا جا کر
آؤ آوازہ لگائیں سرِ صحرا جا کر
بزمِ جاناں میں تو سب اہلِ طلب جاتے ہیں
کبھی مقتل میں بھی دکھلائیں تماشا جا کر
کن زمینوں پہ مری خاک لہو روئے گی
کس سمندر میں گریں گے مرے دریا جا کر
ایک موہوم سی اُمید ہے تجھ سے ورنہ
آج تک آیا نہیں کوئی مسیحا جا کر
دیکھ یہ حوصلہ میرا مرے بُزدل دشمن
تجھ کو لشکر میں پکارا تنِ تنہا جا کر
اُس شہِ حُسن کے در پر ہے فقیروں کا ہجوم
یار ہم بھی نہ کریں عرضِ تمنا جا کر
ہم تجھے منع تو کرتے نہیں جانے سے فرازؔ
جا اُسی در پہ مگر ہاتھ نہ پھیلا جا کر
٭٭٭
گماں یہی ہے کہ دل خود اُدھر کو جاتا ہے
سو شک کا فائدہ اُس کی نظر کو جاتا ہے
حدیں وفا کی بھی آخر ہوس سے ملتی ہیں
یہ راستہ بھی اِدھر سے اُدھر کو جاتا ہے
یہ دل کا درد تو عمروں کا روگ ہے پیارے
سو جائے بھی تو پہر دو پہر کو جاتا ہے
یہ حال ہے کہ کئی راستے ہیں پیشِ نظر
مگر خیال تری رہگذر کو جاتا ہے
تو انوریؔ ہے نہ غالبؔ تو پھر یہ کیوں ہے فرازؔ
ہر ایک سیلِ بلا تیرے گھر کو جاتا ہے
٭٭٭
جو بھی پیرایۂ اظہار نظر آتا ہے
سامنے تُو بھی ہو تو بیکار نظر آتا ہے
کس قدر خوگرِ آزار ہیں ہم بھی کہ یہیں
جو ستمگر ہو وہ غم خوار نظر آتا ہے
دیکھ یہ بے مہریِ دنیا کا عالم ہے ہے
تُو بھی بے یار و مدد گار نظر آتا ہے
شاید آ جائے کوئی میرؔ سا آرام طلب
ابھی کچھ سایۂ دیوار نظر آتا ہے
کیا کہیں جب سے مسیحا کوئی آیا ہے ادھر
شہر کا شہر ہی بیمار نظر آتا ہے
اب بھی ناپید نہیں مسلکِ منصور فرازؔ
کوئی کوئی تو سرِ دار نظر آتا ہے
٭٭٭
ضبطِ گریہ سے تو کچھ اور بیکل ہوئے ہم
پھر جو تنہائی میں روئے ہیں تو جل تھل ہوئے ہم
یہی تہذیبِ دل و جاں ہے، محبت کیا ہے
تم نے دیوانہ کہا ہم کو تو پاگل ہوئے ہم
زندگی ترا پیمانِ محبت تو نہ تھا
پھر تو یوں ٹوٹ کے بکھرے ہیں کہ پَل پَل ہوئے ہم
یار اغیار سبھی اہلِ تماشا نکلے
کتنے تنہا تھے کہ جب داخلِ مقتل ہوئے ہم
یہ کہانی کسی اک موڑ پہ رُک جاتی تھی
تُو ہُوا شاملِ قصّہ تو مکمل ہوئے ہم
دم بھی لینے نہ دیا ضربتِ دنیا نے فرازؔ
پھر جو مسمار ہوئے ہیں تو مسلسل ہوئے ہم
٭٭٭
کہاں سے لائیں مئے ناب بیچنے والا
تمام شہر ہے زہراب بیچنے والا
یہ ہم کہ جان ہتھیلی پہ رکھ کے پھرتے ہیں
کوئی ہے بس ادب آداب بیچنے والا
عجب نہیں کہ اگر سرد مہر ہے گاہک
یہ دیکھ کر کہ ہے بیتاب بیچنے والا
سنا ہے آج وہ تیر و کماں کا تاجر ہے
جو کل تھا بربط و مضراب بیچنے والا
پھرے ہے راتوں کو سرگشتہ و چراغ بکف
وہی فرازؔ وہی خواب بیچنے والا
٭٭٭
کوئی ہزار اکیلا ہو پر نہیں تنہا
سو کیوں کہیں کہ ترے ساتھ ہمیں تنہا
یہ زندگی ہے شب و روز کٹ ہی جاتے ہیں
کبھی کبھی کوئی محفل کہیں کہیں تنہا
ہر اک نے اپنی ہی دنیا بسائی ہوتی ہے
سو خلوتوں میں بھی رہتا نہیں کوئی تنہا
دل و جگر کا بھی احوال پوچھ لینا تھا
تری نگاہ میں ہیں جیب و آستیں تنہا
کدھر گیا ترے کوچے سے پھر خدا جانے
فرازؔ گھوم رہا تھا یہیں کہیں تنہا
٭٭٭
اب تو اتنا بھی ہو نہیں پائے
رونا چاہا تو رو نہیں پائے
ہم سے تعبیرِ خواب پوچھتے ہو
زندگی بھر جو سو نہیں پائے
مدتوں غم کی پرورش کی ہے
یہ صِلے آج تو نہیں پائے
جستجو رائیگاں نہیں تھی مگر
جن کو چاہا تھا وہ نہیں پائے
کیوں گلہ ہم سے ہو کسی کو فرازؔ
ہم تو اپنے بھی ہو نہیں پائے
٭٭٭
جو سادہ دل ہوں بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں
کہ دوستوں میں کبھی دشمنوں میں ہوتے ہیں
ہَوا کے رخ پہ کبھی بادباں نہیں رکھتے
بلا کے حوصلے دریا دِلوں میں ہوتے ہیں
پلٹ کے دیکھ ذرا اپنے رہ نوردوں کو
جو منزلوں پہ نہ ہوں راستوں میں ہوتے ہیں
پیمبروں کا نسب شاعروں سے ملتا ہے
فرازؔ ہم بھی انہیں سلسلوں میں ہوتے ہیں
٭٭٭
سامنے اُس کے کبھی اُس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی
اہلِ محفل پہ کب احوال کھُلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اُس نے بھی پُرسش نہیں کی
جس قدر اُس سے تعلق تھا چلے جاتا ہے
اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اُس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی
اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی
ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی
اے مرے ابرِ کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تُو نے کبھی بارش نہیں کی
کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جُنبش نہیں کی
وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی
٭٭٭
بھید پائیں تو رہِ یار میں گم ہو جائیں
ورنہ کس واسطے بیکار میں گم ہو جائیں
کیا کریں عرضِ تمنا کہ تجھے دیکھتے ہی
لفظ پیرایۂ اظہار میں گم ہو جائیں
یہ نہ ہو تم بھی کسی بِھیڑ میں کھو جاؤ کہیں
یہ نہ ہو ہم بھی کسی بازار میں گم ہو جائیں
کس طرح تجھ سے کہیں کتنا بھلا لگتا ہے
تجھ کو دیکھیں ترے دیدار میں گم ہو جائیں
تم ترے شوق میں یوں خود کو گنوا بیٹھے ہیں
جیسے بچے کسی تہوار میں گم ہو جائیں
پیچ اتنے بھی نہ دو کرمکِ ریشم کی طرح
دیکھنا سر ہی نہ دستار میں گم ہو جائیں
ایسا آشوبِ زمانہ ہے کہ ڈر لگتا ہے
دل کے مضموں ہی نہ اشعار میں گم ہو جائیں
شہر یاروں کے بلاوے بہت آتے ہیں فرازؔ
یہ نہ ہو آپ بھی دربار میں گم ہو جائیں
٭٭٭
جن کو دوست سمجھتے تھے وہ دوست نما کہلاتے تھے
ہم میں کچھ اہلِ دل بھی اہلِ دنیا کہلاتے تھے
لوگو ایک زمانہ تھا جب ہم کیا کیا کہلاتے تھے
دردِ آشوب سے پہلے ہم تنہا تنہا کہلاتے تھے
جتنے بھی محبوب تھے ان کو عہد شکن یاروں نہ کہا
جتنے بھی عشاق تھے سارے اہلِ وفا کہلاتے تھے
ہم تو دیارِ جاناں کو کہتے ہیں دیارِ جاناں بس
پہلے دلداروں کے قریے شہرِ سبا کہلاتے تھے
تیرے لئے اب کیوں نہ کوئی تازہ تشبیہ تلاش کریں
چاند فسانہ تھا تو دلبر ماہ لقا کہلاتے تھے
تیرے خرام کو نسبت دیتے کبکِ دری کی چال سے لوگ
گل جب چاک گریباں ہوتے تیری قبا کہلاتے تھے
آؤ خاک سے رشتہ جوڑیں، وہم فلک افلاک ہوئے
ہاتھ قلم ہونے سے پہلے دستِ دعا کہلاتے تھے
اپنی ویراں آنکھوں کا اب کس سے حال احوال کہیں
اب جو صحرا دیکھتے ہو آگے دریا کہلاتے تھے
جو نا یافت تھی اُس خوشبو کی کھوج میں ہم صحرا صحرا
لہو لہان پھرا کرتے تھے آبلہ پا کہلاتے تھے
دل پاگل تھا یونہی پکارے جاتا تھا جاں جاناں
پر جو بیت بھی ہم کہتے تھے ہوشربا کہلاتے تھے
بے آواز گلی کوچوں میں عشق دہائی دیتا تھا
بستی بستی اہلِ نوا زنجیر بپا کہلاتے تھے
گلیوں گلیوں لئے پھرے نابینا شہر میں آئینہ
شاعر تھے پر شعر اپنے حرفِ عیسا کہلاتے تھے
پس انداز سبھی موسم تھے اہلِ چمن کے توشے میں
عہدِ خزاں کے جھونکے بھی جب بادِ صبا کہلاتے تھے
اب بھی خوابِ گل ہے پریشاں اب بھی اسیر عنادل ہیں
کل بھی باغ میں گلچیں اور صیاد خدا کہلاتے تھے
غزل بہانہ کرتے کرتے لفظ ہی بے توقیر ہوئے
سازِ سخن کو بھول چکے جو نغمہ سرا کہلاتے تھے
جب سے فرازؔ تخلص رکھا ملکوں ملکوں رسوا ہیں
ورنہ ہم بھی اوّل اوّل احمد شا کہلاتے تھے
٭٭٭
چشمِ گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس
گرچہ کہتے رہے مجھ سے مرے غم خوار کہ بس
زندگی تھی کہ قیامت تھی کہ فرقت تیری
ایک اک سانس نے وہ وہ دیے آزار کہ بس
اس سے پہلے بھی محبت کا قرینہ تھا یہی
ایسے بے حال ہوئے ہیں مگر اِس بار کہ بس
اب وہ پہلے سے بلا نوش و سیہ مست کہاں
اب تو ساقی سے یہ کہتے ہیں قدح خوار کہ بس
لوگ کہتے تھے فقط ایک ہی پاگل ہے فرازؔ
ایسے ایسے ہیں محبت میں گرفتار کہ بس
٭٭٭
فرازؔ تم نے عبث شوق سے سجائے سخن
کہاں وہ قامتِ جاناں کہاں قبائے سخن
بیان اُس گلِ رعنا کا بے قیاس نہ کر
کہ عندلیب کا دل چاہیے برائے سخن
کہ ذکرِ یار تو جان و جگر کا سودا ہے
کہ خونِ دل تو نہیں ہے فقط بہائے سخن
اُسی کے دھیان سے روشن ہیں دل کی قندیلیں
اُسی کی یاد سے منسوب ہر شعاعِ سخن
اُسی کے دم سے ہیں سر سبز زخم عمروں کے
اُسی کے دم سے صبا آشنا، فضائے سخن
اُسی کے ہجر میں لکھے ہیں مرثیے دل کے
اُسی کے وصل میں دیکھے ہیں عشوہ ہائے سخن
اُسی کے قرب سے گویا سکوت ِ لالہ و گل
اُسی کے لطف سے لب بستگی، بجائے سخن
تم اپنے عجز کو سمجھتے ہوئے ہو اوجِ ہنر
سو اِس تضاد پہ غالبؔ کا یاد آئے سخن
"نہ شعلے میں وہ کرشمہ نہ برق میں وہ ادا"
تو کیا بیان سراپا ہو کیا بنائے سخن
"ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم"
نظر تو چیز ہے کیا ہے نہ تاب لائے سخن
وہ یاد آئے تو الہام بن کے شعر اترے
وہ بھول جائے تو پھر کس کو یاد آئے سخن
کبھی کبھی ہی دل و جاں سے آنچ اُٹھتی ہے
فرازؔ ہم نہیں کہتے سخن برائے سخن
٭٭٭
یہ دِل کسی بھی طرح شامِ غم گزار تو دے
پھر اس کے بعد وہ عمروں کا انتظار تو دے
ہوائے موسمِ گُل جانفزا ہے اپنی جگہ
مگر کوئی خبرِ یارِ خوش دیار تو دے
ہمیں بھی ضد ہے کہاں عمر بھر نبھانے کی
مگر وہ ترکِ تعلق کا اختیار تو دے
بجا کہ درد سری ہے یہ زندگی کرنا
مگر یہ بارِ امانت کوئی اُتار تو دے
ترا ہی ذکر کریں بس تجھی کو یاد کریں
یہ فرصتیں بھی کبھی فکرِ روزگار تو دے
ترے کرم بھی مجھے یاد ہیں مگر مرا دل
جو قرض اہلِ زمانہ کے ہیں اُتار تو دے
فلک سے ہم بھی کریں ظلمِ ناروا کے گِلے
پہ سانس لینے کی مہلت ستم شعار تو دے
فرازؔ جاں سے گزرنا تو کوئی بات نہیں
مگر اب اس کی اجازت بھی چشمِ یار تو دے
٭٭٭
جنتِ گوش بنی مجھ سے گنہگار کی بات
آ گئی تھی مرے لب پر میرے دلدار کی بات
وہ نہیں ہے تو یونہی دل کو دُکھانے کے لئے
چھیڑ دی ہم نے کسی یارِ دل آزار کی بات
اُس ستمگر کو سبھی لوگ بُرا کہتے ہیں
کوئی سنتا ہی نہیں مرے غم خوار کی بات
خود کو بیچیں تو کہاں ہم کہ دل و جاں کی جگہ
ہر خریدار کرے درہم و دینار کی بات
صوفیِ شہر بھی پردے میں تصوّف کے سہی
چھیڑ دیتا ہے اُسی یارِ طرح دار کی بات
کل ہوئی حضرتِ ناصح سے ملاقات فرازؔ
پھر وہی پند و نصیحت وہی بیکار کی بات
٭٭٭
کسی کا در نہ کوئی آستانہ آگے تھا
اُس آشنا کا تو دل میں ٹھکانہ آگے تھا
میں خوش نشیں تھا کہ دو گام ہی تو جانا تھا
میں دیکھتا ہوں تو کوسوں زمانہ آگے تھا
کہانیاں بھی انہیں سانحوں سے بنتی ہیں
جو رنج جھیل رہا ہوں، فسانہ آگے تھا
سنا ہے اہلِ ہوس اب وفا کے گاہک ہیں
یہ کاروبار نہ ہم سے ہُوا نہ آگے تھا
مری غزل نے وہ شہرت ترے جمال کو دی
تری تلاش میں مجھ سے زمانہ آگے تھا
لہو کی لہر سے اب کوئی لَے نہیں اٹھتی
یہ ہجر سازِ سُخن کا بہانہ آگے تھا
زمانوں بعد اُسے دیکھا تو آج سوچتے ہیں
مزاج اپنا ہی کچھ عاشقانہ آگے تھا
بزرگ کہتے ہیں اب جس جگہ یہ مسجد ہے
اِسی نواح میں ایک بادہ خانہ آگے تھا
بھٹک گیا کہ کہیں پا شکستہ بیٹھا ہے
جو زعمِ تیز روی میں روانہ آگے تھا
فرازؔ اب کہاں ملتے ہیں ہوش والے بھی
وگرنہ شہر میں کیا کیا دِوانہ آگے تھا
٭٭٭
یہ فرمائش 1؎غزل کی ہے کہ فن کی آزمائش ہے
چلو جو بھی ہے اک جانِ سخن کی آزمائش ہے
مبارک ہو بلاوا آ گیا مستوں کو مقتل سے
چل اے دل اب ترے دیوانہ پن کی آزمائش ہے
بہت سے ہاتھ ہیں دامانِ دل کو کھینچنے والے
جمالِ یار! تیرے بانکپن کی آزمائش ہے
نہیں کچھ قصۂ یوسف زلیخا میں بجز اِس کے
کسی کے دل، کسی کے پیرہن کی آزمائش ہے
چلو دل امتحانِ عاشقی میں سرخرو ٹھہرا
مگر یہ عشق تو پورے بدن کی آزمائش ہے
جو ہیں منقار زیرِ پر کہاں محفوظ ہیں وہ بھی
ابھی تو خوشنوایانِ چمن کی آزمائش ہے
یہ سن کر میکدے میں آج سارا شہر اُمڈ آیا
کہ مے نوشی میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
نہ وہ خسرو، نہ جوئے شیر شرطِ وصل شیریں ہے
تو کیوں کوہاٹ کے ایک کوہکن کی آزمائش ہے
فرازؔ آیا نہیں لایا گیا اس کی قلمرو میں
کہاں غالبؔ کہاں اک بے وطن کی آزمائش ہے
1؎ ایک دوست کی فرمائش پر
٭٭٭
آخر اس عشق کا آزار کم تو ہونا تھا
شام تک سایۂ دیوار کم تو ہونا تھا
دوستو غم نہ کرو میرا کہ جس مقتل سے
تم گزر آئے ہو اک یار کم تو ہونا تھا
سر کشیدوں کا کوئی تذکرہ ہو گا ورنہ
ذکر اپنا سرِ دربار کم تو ہونا تھا
محفلِ غیر نہ ہوتی تو روش سے تیزی
دل بھی دُکھتا مگر آزار کم تو ہونا تھا
ہم نے کب چاہا کہ آئینۂ دل ہو صیقل
پر تری دید سے زنگار کم تو ہونا تھا
دل کی سازش تھی کہ بے دید ہوئی ہیں آنکھیں
اک نہ اک میرا طرف دار کم تو ہونا تھا
٭٭٭
ٹائپنگ: محمد بلال اعظم
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے.... 8
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے.... 10
قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ... 12
بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تُو بھی.... 14
اک ذرا سُن تو سہی مہکتے گیسو والی.. 16
مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے.... 18
روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں.... 19
پیشِ جاناں سخن آشفتہ سری ہے، خاموش... 21
چل نکلتی ہیں غمِ یار سے باتیں کیا کیا... 22
زباں پہ حرف سے پہلے ہی زخم آ جاتا.. 24
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا.. 26
تجھ کو بھُولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا... 28
وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گذارے ہوئے.... 30
ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے.... 32
عمر بھر کا مان ٹوٹا اور کیا... 34
میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون... 36
جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا.. 37
جس طرف جائیں زمانہ رو برو آ جائے ہے.... 39
نہ شوقِ وصل نہ رنجِ فراق رکھتے ہیں.... 41
پروانہ وار شہر میں کیا کیا پھری ہَوا 43
بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے.... 45
کون اب قصۂ چشم و لب و ابرو میں پڑے.... 46
بے رُخی تُو نے بھی، عذرِ زمانہ کر کے.... 47
یوں تو میخانے میں مے کم ہے نہ پانی کم ہے.... 48
ذکرِ جاناں سے ہی میری غزل آراستہ ہے.... 49
لب کشا ہیں لوگ، سرکار کو کیا بولنا ہے.... 51
وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے.... 53
ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی... 55
یہ تیری قلمرو ہے بتا پیرِ خرابات.... 57
اُس کے ہمراہ چلے ہم تو فضا اور لگی... 61
کون سر گرداں ہو صحراؤں کے بیچ... 63
تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو. 65
دیوانگی خرابیِ بسیار ہی سہی..... 67
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے.... 69
منزلِ دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے؟. 71
کہانیاں نہ سنو آس پاس لوگوں کی... 73
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے.... 75
آب و دانہ قفس میں رکھا ہے.... 77
نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے..... 78
یوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خود بھی.... 79
وہاں تو ہار قیامت بھی مان جاتی ہے.... 80
چھیڑ دیتا ہے دل پھر سے پرانی کوئی بات.... 82
خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں.... 84
سب قرینے اُسی دلدار کے رکھ دیتے ہیں.... 86
ایسے ویسے گمان کیسے پڑے.... 88
جورِ حبیب و پرسشِ اغیار ایک سے.... 90
جب سجے محفلِ مے شام میں آ جائے کوئی.. 92
کوئی منزل تھی کہاں ترکِ طلب سے آگے.... 94
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا... 96
یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے.... 98
کفن بدوش کہیں سر بکف لئے پھری ہے.... 100
اُس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی... 102
تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد سنبھل کے رو. 104
مہر و مہتاب بنا ہوں نہ ستارا ہُوا ہوں... 106
عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو. 107
یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشیں کوئی ہے.... 109
دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے.... 111
قیمت ہے ہر کسی کی دکاں پر لگی ہوئی.. 112
اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ.... 114
جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے.... 116
یونہی مر مر کے جئیں وقت گذارے جائیں.... 118
باغباں ڈال رہا ہے گل و گلزار پہ خاک.... 120
نامہ بروں کو کب تک ہم کوئے یار بھیجیں....... 122
ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک.... 125
نشستہ مسندِ ساقی پہ اب ہیں آب فروش... 126
مسافت دل کی تھی سو وہ جادۂ مشکل پسند آیا. 128
سنو ہَواؤں کا نوحہ زبانیِ صحرا 130
کس نے کہا تھا کہ وحشت میں چھانیے صحرا 132
میں خوش ہوں راندۂ افلاک ہو کر... 134
تجھے ہے مشقِ ستم کا ملال ویسے ہی... 136
کسی کو بھی محبت میں مِلا کیا... 137
احساں کئے تھے اُس نے جور عتاب کر کے.... 138
سبھی کہیں مرے غمخوار کے علاوہ بھی.... 140
خواب ہی خواب ہر اک شام میں لے آتی ہیں.... 141
وادیِ عشق سے کوئی نہیں آیا جا کر... 142
گماں یہی ہے کہ دل خود اُدھر کو جاتا ہے.... 144
جو بھی پیرایۂ اظہار نظر آتا ہے.... 145
ضبطِ گریہ سے تو کچھ اور بیکل ہوئے ہم... 147
کہاں سے لائیں مئے ناب بیچنے والا. 149
کوئی ہزار اکیلا ہو پر نہیں تنہا... 150
اب تو اتنا بھی ہو نہیں پائے.... 151
جو سادہ دل ہوں بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں.... 152
سامنے اُس کے کبھی اُس کی ستائش نہیں کی... 153
بھید پائیں تو رہِ یار میں گم ہو جائیں.... 155
جن کو دوست سمجھتے تھے وہ دوست نما کہلاتے تھے..... 157
چشمِ گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس.... 160
فرازؔ تم نے عبث شوق سے سجائے سخن..... 161
یہ دِل کسی بھی طرح شامِ غم گزار تو دے.... 164
جنتِ گوش بنی مجھ سے گنہگار کی بات.... 166
کسی کا در نہ کوئی آستانہ آگے تھا... 168
یہ فرمائش 1؎غزل کی ہے کہ فن کی آزمائش ہے.... 170
آخر اس عشق کا آزار کم تو ہونا تھا... 172
اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے
جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے
تم نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پہ اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے
تم محبت میں کہاں سو د و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے
اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کُن فیکوں ہے یوں ہے
٭٭٭
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے
یوں پھریں باغ میں بالا قد و قامت والے
تو کہے سر و و سمن سے چمن آراستہ ہے
خوش ہو اے دل کہ ترے ذوقِ اسیری کے لئے
کاکلِ یار شکن در شکن آراستہ ہے
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح
تختۂ دار سجا ہے رسن آراستہ ہے
شہرِ دل میں تو سدا بھیڑ لگی رہتی ہے
پر ترے واسطے اے جانِ من آ، راستہ ہے
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے
خوش لباسی ترے عشاق کی قائم ہے ہنوز
دیکھ کیا موجۂ خوں سے کفن آراستہ ہے
ایک پردہ ہے اسیروں کی زبوں حالی پر
یہ جو دیوارِ قفس ظاہراََ آراستہ ہے
حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ
اِس سمندر میں تو بس موجِ فنا راستہ ہے
٭٭
1؎ قافیہ غلط سہی پر اچھا لگا۔ ٭٭٭
قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ
میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ
ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ
بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگذار
پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم اللہ
ہم کو گُلچیں سے گِلہ ہے گُل و گُلشن سے نہیں
تجھ کو آنا ہے تو اے بادِ صبا بسم اللہ
گرتے گرتے جو سنبھالا لیا قاتل نے فرازؔ
دل سے آئی کسی بسمل کی صدا، بسم اللہ
٭٭٭
بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تُو بھی
بسانِ نقش پہ دیوار اب کہاں تُو بھی
بجا کہ چشمِ طلب بھی ہوئی تہی کیسہ
مگر ہے رونقِ بازار اب کہاں تُو بھی
ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا بہت دُور
رہا ہے در پئے آزار اب کہاں تُو بھی
ہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیں
مری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تُو بھی
اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل!
رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تُو بھی
مری غزل میں کوئی اور کیسے در آئے
ستم تو یہ ہے کہ اے یار! اب کہاں تُو بھی
جو تجھ کو پیار کرے تیری لغزشوں کے سبب
فرازؔ ایسا گنہگار اب کہاں تُو بھی
٭٭٭
اک ذرا سُن تو سہی مہکتے گیسو والی
راہ میں کون دکاں پڑتی ہے خوشبو والی
پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی
دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدوخال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی
گفتگو ایسی کہ بس دل میں اُترتی جائے
نہ تو پُر پیچ نہ تہہ دار نہ پہلو والی
ایک منظر کی طرح دل پہ منقش ہے ابھی
ایک ملاقات سرِ شام لبِ جُو والی
درد ایسا ہے کہ بجھتا ہے چمک جاتا ہے
دل میں اک آگ سی ہے آگ بھی جگنو والی
جیسے اک خواب سرائے سے گزر ہو تیرا
کوئی پازیب چھنک جاتی ہے گھنگھرو والی
زعم چاہت کا تھا دونوں کو مگر آخرِ کار
آ گئی بیچ میں دیوار من و تو والی
ایس لگتا ہے کہ اب کے جو غزل میں نے کہی
آخری چیخ ہے دل توڑتے آہو والی
اک نگاہِ غلط انداز ہی اے جانِ فرازؔ
شوق مانگے ہے خلش تِیر ترازو والی
٭٭٭
مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے
یہ دل بھی دامنِ یوسف ہے چاک چاہتا ہے
دعائیں دو مرے قاتل کو تم کہ شہر کا شہر
اُسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے
فسانہ گو بھی کرے کیا کہ ہو کوئی سرِ بزم
مآلِ قصۂ دل دردناک چاہتا ہے
اِدھر اُدھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں
اور اُس کا دھیان بہت انہماک چاہتا ہے
ذرا سی گردِ ہوس دل پہ لازمی ہے فرازؔ
وہ عشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے
٭٭٭
روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے 1؎ لگ جاتے ہیں
کترنیں غم کی جو گلیوں میں اُڑی پھرتی ہیں
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں
داغ دامن کے ہوں، دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں
1؎ ضرورتِ اظہار
٭٭٭
پیشِ جاناں سخن آشفتہ سری ہے، خاموش
تو جو گویا ہے تری بے خبری ہے خاموش
دل کو ایک فیصلہ کرنا ہے ترے بارے میں
اِس گھڑی جان ہتھیلی پہ دھری ہے، خاموش
اب کے شب گزری تو اک تیری مری بات نہیں
شہر کا شہر چراغِ سحری ہے خاموش
نالۂ نے، شررِ سنگ، سکوتِ صحرا
اپنی اپنی روشِ نوحہ گری ہے، خاموش
وہ قفس ہو کہ چمن، نالہ و نغمہ بے سود
جب تلک عالمِ بے بال و پری ہے خاموش
٭٭٭
چل نکلتی ہیں غمِ یار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی کیں در و دیوار سے باتیں کیا کیا
بات بن آئی ہے پھر سے کہ مرے بارے میں
اُس نے پوچھیں مرے غم خوار سے باتیں کیا کیا
لوگ لب بستہ اگر ہوں تو نکل آتی ہیں
چپ کے پیرایۂ اظہار سے باتیں کیا کیا
کسی سودائی کا قصہ کسی ہرجائی کی بات
لوگ لے آتے ہیں بازار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی دست شناسی کے بہانے کی ہیں
ہاتھ میں ہاتھ لئے یار سے باتیں کیا کیا
کس کو بِکنا تھا مگر خوش ہیں کہ اِس حیلے سے
ہو گئیں اپنے خریدار سے باتیں کیا کیا
ہم ہیں خاموش کہ مجبورِ محبت تھے فرازؔ
ورنہ منسوب ہیں سرکار سے باتیں کیا کیا
٭٭٭
زباں پہ حرف سے پہلے ہی زخم آ جاتا
یہ حالِ دل تھا تو کیا حالِ دل کہا جاتا
میں حیرتی ہوں کہ سارا جہاں ہے سحرِ زدہ
جو دیکھتا تھا اسے دیکھتا چلا جاتا
وفا کا نام ہے ناکامئ محبت سے
وگرنہ کوئے ہوس تک یہ سلسلہ جاتا
اگر یہ زخم نہ بھرتا تو دل نہیں دکھتا
اگر یہ درد نہ تھمتا تو چین آ جاتا
کسی کے ہجر کو جی سے لگا لیا ہے عبث
یہ چند روز کا آزار تھا چلا جاتا
کیا ہے جس سے بھی اُس کی ستمگری کا گلہ
وہ اپنی درد بھری داستاں سنا جاتا
عجب ادا سے وہ گل پیرہن ہے محوِ خرام
فرازؔ دیکھ بہاروں کا قافلہ جاتا
٭٭٭
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اُس کی ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
پر طرح کی بے سرو سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا
کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
ہم بھی قائل ہیں وفا میں اُستواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
٭٭٭
تجھ کو بھُولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا
اب کے لگتا ہے کہ یہ دکھ ہی ٹھکانے کا نہ تھا
یہ جو مقتل سے بچا لائے سروں کو اپنے
ان میں اک شخص بھی کیا میرے گھرانے کا نہ تھا
ہر برس تازہ کِیا عہدِ محبت کو عبث
اب کھُلا ہے کہ یہ تہوار منانے کا نہ تھا
اب کے بے فصل بھی صحرا گل و گلزار سا ہے
ورنہ یہ ہجر کا موسم ترے آنے کا نہ تھا
دوش پر بارِ زمانہ بھی لئے پھرتے ہیں
مسئلہ صرف ترے ناز اٹھانے کا نہ تھا
یار! کیا کیا تری باتوں نے رُلایا ہے ہمیں
یہ تماشا سرِ محفل تو دِکھانے کا نہ تھا
کوئی کس منہ سے کرے تجھ سے شکایت جاناں
جس کو تُو بھول گیا یاد ہی آنے کا نہ تھا
آئے دن اک نئی آفت چلی آتی ہے فرازؔ
اب پشیماں ہیں کہ یہ شہر بسانے کا نہ تھا
٭٭٭
وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گذارے ہوئے
ہمارے شعر بنے یا سُخن تمہارے ہوئے
قمار خانۂ شہرِ وفا میں حوصلہ رکھ
یہاں تو جشن مناتے ہیں لوگ ہارے ہوئے
حرم تو خیر مگر بتکدے ہیں کیوں ویراں
تو کیا خدا کو صنم آشنا بھی پیارے ہوئے
جو اشک جذب ہوئے میری تیری آنکھوں میں
یہاں تو زخم بنے ہیں وہاں ستارے ہوئے
جو یادِ یار سے اب منہ چھپائے پھرتے ہیں
ہمی تو ہیں وہ غمِ زندگی کے مارے ہوئے
نگاہِ یار کو اب کس لئے تقاضا ہے
کہ ایک عمر ہوئی قرضِ جاں اُتارے ہوئے
فرازؔ خلوتِ جاں میں سکوت ہے کہ جو تھا
زمانے ہو گئے جیسے اُسے پکارے ہوئے
٭٭٭
ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے
اب جو آرام بہت ہے تو سکوں کچھ کم ہے
رنگِ گریہ نے دکھائی نہیں اگلی سی بہار
اب کے لگتا ہے کہ آمیزشِ خوں کچھ کم ہے
اب ترا ہجر مسلسل ہے تو یہ بھید کھُلا
غمِ دل سے غمِ دنیا کا فسوں کچھ کم ہے
اُس نے دکھ سارے زمانے کا مجھے بخش دیا
پھر بھی لالچ کا تقاضا ہے کہوں، کچھ کم ہے
راہِ دنیا سے نہیں، دل کی گزرگاہ سے آ
فاصلہ گرچہ زیادہ ہے پہ یوں کچھ کم ہے
تُو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو بھلے وقتوں میں
یہ خرابی کہ میں جس حال میں ہوں کچھ کم ہے
آگ ہی آگ مرے قریۂ تن میں ہے فرازؔ
پھر بھی لگتا ہے ابھی سوزِ دروں کچھ کم ہے
٭٭٭
عمر بھر کا مان ٹوٹا اور کیا
موڑ آیا ساتھ چھُوٹا اور کیا
کون سچ کہتا ہے سچ سنتا ہے کون
میں بھی جھُوٹا تُو بھی جھُوٹا اور کیا
جان سے جانا ضروری تو نہیں
عاشقی میں سر تو پھُوٹا اور کیا
ہوتے ہوتے لعل پتھر ہو گئے
رفتہ رفتہ رنگ چھُوٹا اور کیا
رہ گیا تھا یاد کا رشتہ فقط
آخرش یہ پُل بھی ٹُوٹا اور کیا
اُس کی آنکھیں بھی کبھی سچ بولتیں
دل تو تھا جھوٹوں سا جھوٹا اور کیا
غیر تو تھے غیر، اپنے آپ کو
سب سے بڑھ کر ہم نے لُوٹا اور کیا
اس قدر کافی تھی یادِ کربلا
روئے دھوئے سینہ کوٹا اور کیا
آؤ دیکھو تو ذرا باغِ وفا
اب کوئی گل ہے نہ بوٹا اور کیا
فتنہ سامانی میں یکساں ہیں فرازؔ
اپنا دل ہو یا کہوٹا اور کیا
٭٭٭
میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون
تُو نہیں ہوتا تو میری جستجو کرتا ہے کون
کس کا خنجر ہے جو کر دیتا ہے سینے کو دو نیم
پھر پشیمانی میں زخمِ دل رفو کرتا ہے کون
اِس خرابے میں بگولہ سی پھر ے ہے کس کی یاد
اِس دیارِ رفتگاں میں ہاؤ ہو کرتا ہے کون
خوف کس کا ہے کہ اپنے آپ سے چھپتا پھروں
ناگہاں پھر مجھ کو میرے رو برو کرتا ہے کون
کونسا موسم چُرا لیتا ہے غنچوں کی چٹک
نغمہ پیراؤں کو سُرمہ در گُلو کرتا ہے کون
کون پی جاتا ہے آخر مرے حصے کی شراب
میں نہیں ہوتا تو پھر خالی سبو کرتا ہے کون
٭٭٭
جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا
کچھ سہل نہیں عہدِ جوانی میں بھی رہنا
یہ کیا کہ رہے تازہ رفاقت کی للک بھی
اور محو کسی یاد پرانی میں بھی رہنا
کردار ہی ایسا تھا کہ اے صاحبِ تمثیل
اچھا نہ لگا ہم کو کہانی میں بھی رہنا
اے دل تے قاتل بھی ہمی اور ہمی کو
ہر وقت تری مرثیہ خوانی میں بھی رہنا
دیکھو تو کوئی اُس کو کہ جوں موج میں دریا
ہر اک لگاوٹ بھی روانی میں بھی رہنا
کچھ مرحمتِ عشق ہے کچھ تربیتِ فن
الفاظ کی سج دھج کا معانی میں بھی رہنا
بیکار الجھتے ہو فرازؔ اہلِ جہاں سے
شکوہ بھی نہنگوں سے ہے، پانی میں بھی رہنا
٭٭٭
جس طرف جائیں زمانہ رو برو آ جائے ہے
اے خیالِ یار اگر ایسے میں تو آ جائے ہے
پھر کوئی چارہ گروں کے ناز اٹھائے کس لئے
وحشیوں کو بھی اگر کارِ رفو آ جائے ہے
پھر کہاں دنیا جہاں کے تذکرے اک بار اگر
ذکر تیرا درمیانِ گفتگو آ جائے ہے
ہم تہی دستوں کی پھر دریا دلی بھی دیکھیو
دستِ مستاں میں اگر دستِ سبو آ جائے ہے
مدتوں کی تشنگی کے بعد اک صہبا کا گھونٹ
جس طرح صحرا میں کوئی آبجو آ جائے ہے
اے مصور، حسنِ جاناں نقشِ جاناں میں کہاں
کب تری تصویر میں وہ ہو بہو آ جائے ہے
کثرتِ گریہ نے آخر رنگ دکھلانا تو تھا
اب بجائے اشک آنکھوں میں لہو آ جائے ہے
تری بیتیں، تیری باتیں، کیا کہیں کیا ہیں فرازؔ
بزم سج جاتی ہے جس محفل میں تُو آ جائے ہے
٭٭٭
نہ شوقِ وصل نہ رنجِ فراق رکھتے ہیں
مگر یہ لوگ ترا اشتیاق رکھتے ہیں
یہ ہم جو تجھ پہ ہیں نازاں تو اِس سبب سے کہ ہم
زمانے والوں سے بہتر مذاق رکھتے ہیں
ہم اہلِ دل سے کوئی کیوں ملے کہ ہم سےفقیر
نہ عطر و عود نہ ساز و یراق رکھتے ہیں
جمالِ یار فقط چشم و لب کی بات نہیں
سو ہم خیالِ سیاق و سباق رکھتے ہیں
مثالِ شیشۂ خالی کتابِ عقل کو بھی
ہم اہلِ میکدہ بالائے طاق رکھتے ہیں
شیوخِ شہر سے کیا بحث جو گِرہ میں فقط
دو حرفِ عقد و سہ حرفِ طلاق رکھتے ہیں
فرازؔ خوش ہو کہ تجھ سے خفا ہے فتوہ فروش
بھلے سے یہ بھی کہیں اتفاق رکھتے ہیں
٭٭٭
پروانہ وار شہر میں کیا کیا پھری ہَوا
آخر چراغِ کشتہ پہ میرے گِری ہَوا
اب سر بکف ہجوم جو دل دادگاں کا ہے
مقتل میں باندھ رکھی تھی ہم نے تری ہَوا
جیسے کوئی حباب رواں موجِ آب پر
پندارِ زندگی کا بھرم ہے نِری ہَوا
روشن نہیں رہی کوئی شمعِ خیال تک
پھر کس کو ڈھونڈتی ہے سر پھری ہَوا
حیران تھی کہ کتنے چراغوں کا خوں پیے
آخر کو روشنی کے بھنور میں گِھری ہَوا
صبحِ خزاں کی آخری یلغار ہے فرازؔ
اک دل گرفتہ پھول ہے اور دوسری ہَوا
٭٭٭
بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے
اک ہم تھے تیری بزم میں آنسو پیے ہوئے
دیکھا جسے بھی اُس کی محبت میں مست تھا
جیسے تمام شہر ہو دارو پیے ہوئے
تکرار بے سبب تو نہ تھی رند و شیخ میں
کرتے بھی کیا شراب تھے ہر دو پیے ہوئے
پھر کیا عجب کہ لوگ بنا لیں کہانیاں
کچھ میں نشے میں چُور تھا کچھ تُو پیے ہوئے
یوں اُن لبوں کے مَس سے معطر ہوں جس طرح
وہ نو بہارِ ناز تھا خوشبو پیے ہوئے
یوں ہو اگر فرازؔ تو تصویر کیا بنے
اک شام، اُس کے ساتھ، لب جُو پیے ہوئے ٭٭٭
کون اب قصۂ چشم و لب و ابرو میں پڑے
بارے آرام سے ہیں اپنے ہی پہلو میں پڑے
عشق نے حسن کے معیار بدل ڈالے ہیں
یار ابھی تک ہیں اُسی قامت و گیسو میں پڑے
دیکھ اے صاحبِ انصاف، عدالت اپنی
ہم بھی قاتل کے مقابل ہیں ترازو میں پڑے
خود کو لے آئے تھے ہنگامۂ دنیا سے الگ
اب پریشاں ہیں کسی گوشۂ یکسو میں پڑے
ہم بھی ایک شعلہ شمائل کو لئے ساتھ چلیں
اب کے گر برف کہستانِ سکردو میں پڑے
ہر طرف ایک صنم خانۂ حیرت ہے فراز
تم ابھی تک ہو اُسی شخص کے جادو میں پڑے ٭٭٭
بے رُخی تُو نے بھی، عذرِ زمانہ کر کے
ہم بھی محفل سے اٹھ آئے ہیں بہانہ کر کے
کتنی باتیں تھیں کہ نہ کہنا تھیں وہ کہہ بھیجی ہیں
اب پشیمان ہیں قاصد کو روانہ کر کے
جانتے ہیں وہ تنک خو ہے، سو اپنا احوال
ہم سنا دیتے ہیں اوروں کا فسانہ کر کے
کیا کہیں کیا ہے اُن کی آنکھوں میں کہ رکھ دیتی ہیں
ایک اچھے بھلے انساں کو دِوانہ کر کے
کوئی ویرانۂ ہستی کی خبر کیا لاتا
خود بھی ہم بھول گئے دفن خزانہ کر کے
آنکھ مصروفِ نظارہ تھی تو ہم خوش تھے فرازؔ
اُس نے کیا ظلم کِیا دل میں ٹھکانہ کر کے ٭٭٭
یوں تو میخانے میں مے کم ہے نہ پانی کم ہے
پھر بھی کچھ کشتیِ صہبا میں روانی کم ہے
سچ تو یہ ہے کہ زمانہ جو کہے پھرتا ہے
اس میں کچھ رنگ زیادہ ہے کہانی کم ہے
آؤ ہم خود ہی درِ یار سے ہو آتے ہیں
یہ جو پیغام ہے قاصد کی زبانی کم ہے
تم بضد ہو تو چلو ترکِ ملاقات سہی
ویسے اِس دل نے مری بات تو مانی کم ہے
یاد رکھنے کو تو اے دوست بہت حیلے تھے
اک ترا زخمِ جدائی تو نشانی کم ہے
دفترِ شوق مرتّب ہو تو کیسے ہو فرازؔ
دل نے ہر بار کہا، ایک کہانی کم ہے ٭٭٭
ذکرِ جاناں سے ہی میری غزل آراستہ ہے
ورنہ میں کون مرا شعر سے کیا واسطہ ہے
کیا بساط اپنی کہ اُس عربدہ خو کے آگے
آسماں سا بھی ستمگر سپر انداختہ ہے
اس کے ہاتھوں میں ہے میزانِ عدالت لرزاں
جیسے خود صاحبِ انصاف سزا یافتہ ہے
رہروِ دشتِ طلب کو تو ہے چلتے جانا
اس سفر میں کوئی منزل نہ کوئی راستہ ہے
ایسا نیرنگِ زمانہ بھی ہمیں دیکھنا تھا
قاتلِ خلق کے پرچم پہ بنی فاختہ ہے
کیا سکھائیں گے ہمیں جامعِ ازہر کے خطیب
اپنا دل نجدِ محبت کا سند یافتہ ہے
کون لایا ہے تجھے کوئے ملامت میں فرازؔ
تُو تو پہلے ہی تہی کیسہ و دل باختہ ہے
٭٭٭
لب کشا ہیں لوگ، سرکار کو کیا بولنا ہے
اب لہو بولے گا تلوار کو کیا بولنا ہے
بِکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو
ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے
لو چلے آئے عدالت میں گواہی دینے
مجھ کو معلوم ہے کس یار کو کیا بولنا ہے
اور کچھ دیر رہے گوش بر آواز ہَوا
پھر چراغِ سرِ دیوار کو کیا بولنا ہے
مجھ سے کیا پوچھتے ہو آخری خواہش میری
اک گنہگارِ سرِ دار کو کیا بولنا ہے
خلقتِ شہر ہے چُپ، شاہ کے فرمان کے بعد
اب کسی واقفِ اسرار کو کیا بولنا ہے
وہی جانے پسِ پردہ جو تماشا گر ہے
کب، کہاں، کون سے کردار کو کیا بولنا ہے
جہاں دربار ہوں، شاہوں کے مصاحب ہوں فرازؔ
وہاں غالبؔ کے طرفدار کو کیا بولنا ہے
٭٭٭
وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے
یوں ہو تو مزہ میل ملاقات میں آئے
مت پوچھ کہ ہم کون ہیں یہ دیکھ کہ اے دوست
آئے ہیں تو کس طرح کے حالات میں آئے
کچھ اور مِلا میرا لہو اپنی حنا میں
تا اور بھی اعجاز ترے ہاتھ میں آئے
اب ذکرِ زمانہ ہے تو ناراض نہ ہونا
گر نام تمہارا بھی کسی بات میں آئے
اچھا ہے تنّوع ترے اندازِ ستم میں
کچھ رنگِ مروّت بھی اگر ساتھ میں آئے
اک عمر سے جیسے نہ جُنوں ہے نہ سکوں ہے
یارب کوئی گردش مرے حالات میں آئے
یہ سال بھی اچھا تھا کہ یاروں کی طرف سے
کچھ اب کے نئے زخم بھی سوغات میں آئے
ہم ایسے فقیروں سے محبت سے ملا کر
تا اور بلندی ترے درجات میں آئے
ساتھ اُس کے فرازؔ ایسے بھی دن رات گزارے
اب جن کا مزہ صرف حکایات میں آئے
٭٭٭
ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی
کہ جو روشنی ترے جسم کی تھی مرے بدن میں بھری رہی
ترے شہر میں چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مرے
تو میں کس سے محوِ کلام تھا؟ تو یہ کس کی ہمسفری رہی؟
مجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک ترا دھیان تھا
تو مثال تھی مری آگہی تو کمال بے خبری رہی
مرے آشنا بھی عجیب تھے نہ رفیق تھے نہ رقیب تھے
مجھے جاں سے درد عزیز تھا انہیں فکرِ چارہ گری رہی
میں یہ جانتا تھا مرا ہنر ہے شکست و ریخت سے معتبر
جہاں لوگ سنگ بدست تھے وہیں میری شیشہ گری رہی
جہاں ناصحوں کا ہجوم تھا وہیں عاشقوں کی بھی دھوم تھی
جہاں بخیہ گر تھے گلی گلی وہیں رسمِ جامہ دری رہی
ترے پاس آ کے بھی جانے کیوں مری تشنگی میں ہراس تھا
بہ مثالِ چشمِ غزال جو لبِ آبجو بھی ڈری رہی
جو ہوس فروش تھے شہر کے سبھی مال بیچ کے جا چکے
مگر ایک جنسِ وفا مری سرِ رَہ دھری کی دھری رہی
مرے ناقدوں نے فرازؔ جب مرا حرف حرف پرکھ لیا
تو کہا کہ عہدِ ریا میں بھی جو بات کھری تھی کھری رہی
٭٭٭
یہ تیری قلمرو ہے بتا پیرِ خرابات
غالب سا بھی کوئی دیکھا ہے میرِ خرابات
وہ رندِ بلا نوش و تہی دست و سدا مست
آزاد مگر بستۂ زنجیرِ خرابات
اشعار کہ جیسے ہو صنم خانۂ آذر
الفاظ کہ جیسے ہوں تصاویرِ خرابات
وہ نغمہ سرا ہو تو کریں وجد ملائک
یہ قلقلِ مینا ہے کہ تکبیرِ خرابات
اے شیخ یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تو نہیں ہے
تعمیرِ خرابات ہے تعمیرِ خرابات
ہم رند رہے مجلسِ واعظ کی بھی رونق
جوں حجلۂ صوفی میں تصاویرِ خرابات
کس شوخ نے لکھا ہے یہ دیوارِ حرم پر
زمزم میں کہاں نشۂ تاثیرِ خرابات
میخانہ کسی شاہ کا دربار نہیں ہے
ساقی کے تصرّف میں ہے زنجیرِ خرابات
سعدیؔ ہو کہ حافظؔ ہو کہ خیامؔ کہ ہم ہوں
یہ لوگ تو ہیں جانِ اساطیرِ خرابات
ہیں ساغر و مینا کی طرح دل بھی شکستہ
ملّا ہو جہاں کاتبِ تقدیرِ خرابات
انسان کہ انساں کا لہو پینے لگا ہے
اے چارہ گرو پھر کوئی تدبیرِ خرابات
میخانہ پنہ گاہ تھی ہم دل زدگاں کی
پر اب کہاں جائے کوئی دلگیرِ خرابات
کب سے حرم و دیر ہیں بے نور، خدارا
لے آؤ کہیں سے کوئی تنویرِ خرابات
سرشار تو ہو جاتے ہیں سرکش نہیں ہوتے
ساقی کی نگاہیں ہیں عناں گیرِ خرابات
گر حور و مے و نغمہ سے جنّت ہے عبارت
دنیا میں یہی خواب ہے تعبیرِ خرابات
اے مفتیِ بد کیش نہ کر فتویٰ فروشی
کیا تُو بھی نہیں لائقِ تعزیرِ خرابات
میخوار کہ واعظ یہاں گردن زدنی ہے؟
کچھ تُو ہی بتا صاحبِ تفسیرِ خرابات
"ویراں شود آں شہر کہ میخانہ نہ دارد"
اب جائیں کہاں ڈھونڈھنے اکسیرِ خرابات
٭٭٭
اُس کے ہمراہ چلے ہم تو فضا اور لگی
راستے اور لگے لغزشِ پا اور لگی
سَرو پر پیرہنِ گُل بھی سجے خوب مگر
یار کے قامتِ زیبا پہ قبا اور لگی
کم تو پہلے بھی نہیں تھا وہ دل آزاری میں
اُس پہ ظالم کو زمانے کی ہَوا اور لگی
پوچھتے پھرتے ہیں اب ترکِ تعلق کا علاج
خوش ہو اے دل کہ تجھے ایک بلا اور لگی
مہرباں یوں تو سدا کے تھے زمانے والے
لیکن اب کے روشِ خلقِ خدا اور لگی
کوچ کر جاتا ہے اک دوست ہر آوازے پر
گوشِ شنوا ہے تو سُن ایک صدا اور لگی
ہر نیا عشق نیا ذائقہ رکھتا ہے فرازؔ
آج کل پھر تری غزلوں کی ادا اور لگی
٭٭٭
کون سر گرداں ہو صحراؤں کے بیچ
قیس خوش بیٹھا ہے لیلاؤں کے بیچ
دے رہا ہے کون تلواروں کو آب
خوں نظر آتا ہے دریاؤں کے بیچ
آ بسے ہیں شہر میں خانہ بدوش
ہے اداسی خیمہ زن گاؤں کے بیچ
دیکھ اپنے دل فگاروں کو کبھی
سر میں سودا بیڑیاں پاؤں کے بیچ
تیری قربت بھی نہیں دکھ سے تہی
دھوپ کے پیوند ہیں چھاؤں کے بیچ
حرفِ عیسیٰ بھی گیا عیسیٰ کے ساتھ
بس صلیبیں ہیں کلیساؤں کے بیچ
ایک ہیں سب قیسؔ و فرہادؔ و فرازؔ
کیا رکھا ہے عشق میں ناؤں کے بیچ
٭٭٭
نذرِ قرۃ العین طاہرہ
تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو
دل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دو بدو
ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو
قوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکن
غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بو بہ بو
دامِ خیالِ یار کے ایسے اسیر ہم ہوئے
طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہر خو بہ خو
ہم نے لباس درد کا قالبِ جاں پہ سی لیا
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو
نقش کتابِ دل پہ تھا ثبت اُسی کا طاہرہؔ
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو
شیشۂ ریختہ میں دیکھ لعبتِ فارسی فرازؔ
خال بہ خال خد بہ خد نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو
٭٭٭
دیوانگی خرابیِ بسیار ہی سہی
کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی
وہ دیکھنے تو آئے بہانہ کوئی بھی ہو
عذرِ مزاج پرسیِ بیمار ہی سہی
رشتہ کوئی تو اُس سے تعلق کا چاہئے
جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی
اہلِ وفا کے باب میں اتنی ہوس نہ رکھ
اِس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی
خوش ہوں کہ ذکرِ یار میں گزرا تمام وقت
ناصح سے بحث ہی سہی تکرار ہی سہی
شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ دار ہی سہی
ہوتی ہے اب بھی گاہے بگاہے کوئی غزل
ہم زندگی سے برسرِ پیکار ہی سہی
اک چارہ گر ہے اور ٹھکانے کا ہے فرازؔ
دنیا ہمارے در پئے آزار ہی سہی
٭٭٭
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لَو کو سنبھال رکھا ہے
محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے
ہَوا میں نشہ ہی نشہ فضا میں رنگ ہی رنگ
یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے
بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
سو میں نے رشتۂ غم کو بحال رکھا ہے
ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا
سبھی نے وعدۂ فردا پہ ٹال رکھا ہے
حسابِ لطفِ حریفاں کِیا ہے جب تو کھُلا
کہ دوستوں نے زیادہ خیال رکھا ہے
بھری بہار میں اک شاخ پر کِھلا ہے گلاب
کہ جیسے تُو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے
فرازؔ عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے
٭٭٭
منزلِ دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے؟
جس سے پوچھو وہی کہتا ہے، یہاں سے آگے
اہلِ دل کرتے رہے اہلِ ہَوس سے بحثیں
بات بڑھتی ہی نہیں سود و زیاں سے آگے
اب جو دیکھا تو کئی آبلہ پا بیٹھے ہیں
ہم کہ پیچھے تھے بہت ہم سفراں سے آگے
ہم نے اُس حد سے کِیا اپنے سفر کا آغاز
پر فرشتوں کے بھی جلتے ہیں جہاں سے آگے
کیسے بتلائیں کہ نیرنگِ زمانہ کیا ہے
کس کو دنیا نظر آتی ہے یہاں سے آگے
نہیں ایسا بھی کہ جب چاہا غزل کہہ ڈالی
شعر کی بات ہے کچھ طبعِ رواں سے آگے
اپنے حصّے کی پِلا دیتے ہیں اوروں کو فرازؔ
کب یہ دستور تھا ہم تشنہ لباں سے آگے
٭٭٭
کہانیاں نہ سنو آس پاس لوگوں کی
کہ میرا شہر ہے بستی اداس لوگوں کی
نہ کوئی سمت نہ منزل سو قافلہ کیسا
رواں ہے بِھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی
کسی سے پوچھ ہی لیتے وفا کے باب میں ہم
کمی نہیں تھی زمانہ شناس لوگوں کی
محبتوں کا سفر ختم تو نہیں ہوتا
بجا کہ دوستی آئی نہ راس لوگوں کی
ہمیں بھی اپنے کئی دوست یاد آتے ہیں
کبھی جو بات چلے نا سپاس لوگوں کی
کرو نہ اپنی بلا نوشیوں کے یوں چرچے
کہ اِس سے اور بھڑکتی ہے پیاس لوگوں کی
میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فرازؔ
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی
٭٭٭
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے
کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے
شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے
کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزمِ جاں میں
کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے
عشاق کے مانند کئی اِہلِ ہوس بھی
پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے
سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
٭٭٭
آب و دانہ قفس میں رکھا ہے
یوں مجھے پیش و پس میں رکھا ہے
اک شرارہ سا، دل کہیں جسے
جسم کے خار و خس میں رکھا ہے
عشق بھی چاہتا ہے وصلِ حبیب
کچھ نہ کچھ تو ہوس میں رکھا ہے
کون کرتا ہے کوچ بستی سے؟
دل کسی کا جرس میں رکھا ہے
صید و صیاد کب یہ جانتے ہیں
کس نے کس کو قفس میں رکھا ہے
٭٭٭
نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے
یہ قُربت عارضی ہے کم سے کم تم جانتے تھے
رہا ہے کون کس کے ساتھ انجامِ سفر تک
یہ آغازِ مسافت ہی سے ہم تم جانتے تھے
مزاجوں میں اتر جاتی ہے تبدیلی مری جاں
سو رہ سکتے تھے کیسے ہم بہم تم جانتے تھے
سو اب کیوں ہرکس و ناکس سے یہ شکوہ شکایت
یہ سب سود و زیاں یہ بیش و کم تم جانتے تھے
فرازؔ اس گمرہی پر کیا کسی کو دوش دینا
کہ راہِ عاشقی کے پیچ و خم تم جانتے تھے
٭٭٭
یوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خود بھی
وہ مسافر کہ جو منزل تھے بجائے خود بھی
کتنے غم تھے کہ زمانے سے چھپا رکھتے تھے
اس طرح سے کہ ہمیں یاد نہ آئے خود بھی
ایسا ظالم ہے کہ گر ذکر میں اُس کے کوئی ظلم
ہم سے رہ جائے تو وہ یاد دلائے خود بھی
لطف تو جب ہے تعلق کا کہ وہ سحر جمال
کبھی کھینچے کبھی کھنچتا چلا آئے خود بھی
ایسا ساقی ہو تو پھر دیکھئے رنگِ محفل
سب کو مدہوش کرے ہوش سے جائے خود بھی
یار سے ہم کو تغافل کا گلہ کیوں ہو کہ ہم
بارہا محفلِ جاناں سے اٹھ آئے خود بھی ٭٭٭
وہاں تو ہار قیامت بھی مان جاتی ہے
جہاں تلک ترے قد کی اُٹھان جاتی ہے
یہ عہدِ سنگ زنی ہے سو چپ ہیں آئنہ گر
کہ لب کشا ہوں تو سمجھو دکان جاتی ہے
یہ مہربان مشیّت بھی ایک ماں کی طرح
میں ضد کروں تو مری بات مان جاتی ہے
سو کیا کریں یہاں بسمل کہ بات قاتل کی
کوئی نہ مانے عدالت تو مان جاتی ہے
میں کس طرح سے گزاروں گا عمر بھر کا فراق
وہ دو گھڑی بھی جُدا ہو تو جان جاتی ہے
یہ نامراد محبت بھی قاتلوں کی طرح
ضرور چھوڑ کے کوئی نشان جاتی ہے
فرازؔ اجڑنے لگا ہے چمن محبت کا
جو رُت ہمیشہ رہی مہربان، جاتی ہے
٭٭٭
چھیڑ دیتا ہے دل پھر سے پرانی کوئی بات
کوئی دکھ کوئی گلہ کوئی کہانی کوئی بات
ایک چُپ تھی کہ جو خوشبو کی طرح پھیلی تھی
صبح دم کہہ نہ سکی رات کی رانی کوئی بات
اہلِ گلشن کا تو شیوہ ہے کہ بدنام کریں
گُل بھی سنتا کبھی بلبل کی زبانی کوئی بات
وہ ترا عہدِ وفا تھا کہ وفائے وعدہ
میں کہ پھر بھول گیا یاد دلانی کوئی بات
جانے کیوں اب کے پریشاں ہیں ترے خانہ بدوش
ورنہ ایسی بھی نہ تھی نقلِ مکانی کوئی بات
جس طرح ساری غزل میں کوئی عمدہ مصرع
جس طرح یاد میں رہ جائے نشانی کوئی بات
اہلِ دستار و قبا تُرش جبیں کیوں ہیں فرازؔ
کہہ گئی کیا مری آشفتہ بیانی کوئی بات؟
٭٭٭
خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں
تمام شہر لئے چھتریاں تھا رستے میں
بہار آئی تو اک شخص یاد آیا بہت
کہ جس کے ہونٹوں سے جھڑتے تھے پھول ہنستے میں
کہاں کے مکتب و ملّا کہاں کے درس و نصاب
بس اک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں
مِلا تھا ایک ہی گاہک تو ہم بھی کیا کرتے
سو خود کو بیچ دیا بے حساب سستے میں
یہ عمر بھر کی مسافت ہے، دل بڑا رکھنا
کہ لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے رستے میں
ہر ایک در خورِ رنگ و نمو نہیں ورنہ
گل و گیاہ سبھی تھے صبا کے رستے میں
ہے زہرِ عشق، خمارِ شراب ہے آگے
نشہ بڑھاتا گیا ہے یہ سانپ ڈستے میں
جو سب سے پہلے ہی رزمِ وفا میں کام آئے
فرازؔ ہم تھے انہیں عاشقوں کے دستے میں
٭٭٭
سب قرینے اُسی دلدار کے رکھ دیتے ہیں
ہم غزل میں بھی ہُنر یار کے رکھ دیتے ہیں
شاید آ جائیں کبھی چشمِ خریدار میں ہم
جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں
تاکہ طعنہ نہ ملے ہم کو تنک ظرفی کا
ہم قدح سامنے اغیار کے رکھ دیتے ہیں
اب کسے رنجِ اسیری کہ قفس میں صیاد
سارے منظر گُل و گُلزار کے رکھ دیتے ہیں
ذکرِ جاناں میں یہ دنیا کو کہاں لے آئے
لوگ کیوں مسٔلے بیکار کے رکھ دیتے ہیں
وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہلِ دل بھی
طاقِ نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں
زندگی تیری امانت ہے مگر کیا کیجئے
لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں
ہم تو چاہت میں بھی غالبؔ کے مقلّد ہیں فرازؔ
جس پہ مرتے ہیں اُسے مار کے رکھ دیتے ہیں
٭٭٭
ایسے ویسے گمان کیسے پڑے
دل میں یہ وہم آن کیسے پڑے
آدمی کی زمیں سے دوستی تھی
بیچ میں آسمان کیسے پڑے
کیا کہیں درمیان دونوں کے
کون سے مہربان کیسے پڑے
تیری ہمسائیگی کے ارماں میں
رفتہ رفتہ مکان کیسے پڑے
بلبلیں قید تھیں تو پھولوں کے
دامنوں پر نشان کیسے پڑے
حشر برپا ہے شورِ خلقت سے
تیری آواز کان کیسے پڑے
لوگ حیراں ہیں شہر کے پیچھے
شہر کے پاسبان کیسے پڑے
خونِ دل خرچ ہو گیا ہے فرازؔ
بول شعروں میں جان کیسے پڑے
٭٭٭
جورِ حبیب و پرسشِ اغیار ایک سے
گو زخم الگ الگ ہیں مگر وار ایک سے
ہر گھر میں اپنے اپنے بہار و خزاں کے رنگ
یوں دیکھنے میں ہیں در و دیوار ایک سے
بے اعتمادیوں کی فضا کارواں میں ہے
رہنا ہے دوسرے کو خبردار ایک سے
ہر بار زندگی نے نئے تجربے دیے
ہر چند اور لوگ تھے ہر بار ایک سے
ایک ربطِ خاص ہم کو رقیبوں سے ہے کہ ہیں
دلداگانِ عشق کو آزار ایک سے
اب بیش و کم کی بات نہ کر دوستوں کے بیچ
ہم کو سبھی نے زخم دیے یار ایک سے
جب دشمنی کی فصل ہو تَب دوست بھی عدو
جب دوستی کے دن ہو تو سب یار ایک سے
وہ میکشانِ شہر ہوں یا واعظانِ دیں
کردار الگ الگ ہیں اداکار ایک سے
رہیں خوش کہ روزِ حشر کچھ انصاف تو ملا
اچھا ہوا کہ سب ہیں گنہگار ایک سے
دلداریِ حبیب کہ آشوبِ دہر ہو
سب مرحلے فرازؔ ہیں دشوار ایک سے
٭٭٭
جب سجے محفلِ مے شام میں آ جائے کوئی
پینے بیٹھیں تو نظر جام میں آ جائے کوئی
یہ مقدر کے کرشمے ہیں کہ اکثر اوقات
ہو نگاہوں میں کوئی، دام میں آ جائے کوئی
مجھ سے ملنے نہیں دیتے مجھے دنیا والے
صبح رخصت ہو کوئی، شام میں آ جائے کوئی
اُس کا دھیان آئے تو گھر ایسے مہک جاتا ہے
جیسے دیوار و در و بام میں آ جائے کوئی
ہم تو اُس کو سر آنکھوں پہ بٹھا لیتے ہیں
سوئے میخانہ جو احرام میں آ جائے کوئی
گرچہ امکاں تو بہت کم ہے مگر کیا معلوم
پھر کسی روز کسی شام میں آ جائے کوئی
جانے کب سے ہوں کسی خواب جزیرے میں فرازؔ
کاش اِس قریۂ گمنام میں آ جائے کوئی
٭٭٭
کوئی منزل تھی کہاں ترکِ طلب سے آگے
پھر بھی ہم ہیں کہ چلے جاتے ہیں سب سے آگے
اب کہاں جاں کے عوض جنسِ وفا ملتی ہے
یہ مگر شہر کا دستور تھا اب سے آگے
کون کہتا ہے نہیں چارۂ بیماریِ دل
ایک میخانہ بھی پڑتا ہے مطب سے آگے
"نہ بہ زورے نہ بہ زاری نہ بہ زر می آید"
بات بڑھتی ہی نہیں ہے کسی ڈھب سے آگے
تجھ کو اب کیسے بتائیں وہ ترا ہجر نہ تھا
ہم پریشاں تھے کسی اور سبب سے آگے
جب سے یہ سلسلۂ تیغ و گلو جاری ہے
اہلِ دل اہلِ زمانہ سے ہیں تب سے آگے
ہم کہ شائستہِ تہذیبِ محبت ہیں فرازؔ
ہم نے رکھا نہ قدم حدِ ادب سے آگے
٭٭٭
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا
ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا
آشوبِ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں کہا
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی گُماں یہی ہے کہ کافی نہیں کہا
بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے شراب کو کبھی شافی نہیں کہا
پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا
اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فرازؔ
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا
٭٭٭
یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے
بات سے بات فسانے سے فسانہ نکلے
پھر چلے ذکر کسی زخم کے چِھل جانے کا
پھر کوئی درد کوئی خواب پرانا نکلے
پھر کوئی یاد کوئی ساز اُٹھا لے آئے
پھر کسی ساز کے پردے سے ترانہ نکلے
یہ بھی ممکن ہے کہ صحراؤں میں گم ہو جائیں
یہ بھی ممکن ہے خرابوں سے خزانہ نکلے
آؤ ڈھونڈیں تو سہی اہلِ وفا کی بستی
کیا خبر پھر کوئی گم گشتہ ٹھکانہ نکلے
یار ایسی بھی نہ کر بات کہ دونوں رو دیں
یہ تعلق بھی فقط رسمِ زمانہ نکلے
یہ بھی ہے اب نہ اٹھے نغمۂ زنجیر فرازؔ
یہ بھی ہے ہم سا کوئی اور دِوانہ نکلے
٭٭٭
کفن بدوش کہیں سر بکف لئے پھری ہے
یہ زندگی مجھے کس کس طرف لئے پھری ہے
مری طلب اُسے جنگاہ میں بھی لے جاتی
مری تلاش اُسے صف بہ صف لئے پھری ہے
میں رزم گاہ میں ہوتا تو پاگلوں کی طرح
وہ خیمہ گاہ میں راتوں کو دف لئے پھری ہے
یہ سر زمین مرے خوں سے سرخرو نہ ہوئی
یہ خاک مرے لہو کا شرف لئے پھری ہے
سو بے نیاز رہے دوستوں سے ہم کہ یہ جاں
خود اپنا تیر خود اپنا ہدف لئے پھری ہے
فرازؔ درخورِ قاتل نہ تھے ہمی ورنہ
ہمیں بھی جوششِ خوں سر بکف لئے پھری ہے
٭٭٭
اُس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی
یونہی بیکار میں کب تک کوئی بیٹھا رہتا
اس کو فرصت جو نہ تھی ہم نے بھی رخصت چاہی
شکوہ ناقدریِ دنیا کا کریں کیا کہ ہمیں
کچھ زیادہ ہی ملی جتنی محبت چاہی
رات جب جمع تھے دکھ دل میں زمانے بھر کے
آنکھ جھپکا کے غمِ یار نے خلوت چاہی
ہم جو پامالِ زمانہ ہیں تو حیرت کیوں ہے
ہم نے آبا کے حوالے سے فضیلت چاہی
میں تو لے آیا وہی پیرہنِ چاک اپنا
اُس نے جب خلعت و دستار کی قیمت چاہی
حُسن کا اپنا ہی شیوہ تھا تعلق میں فرازؔ
عشق نے اپنے ہی انداز کی چاہت چاہی
٭٭٭
تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد سنبھل کے رو
یہ کسی کی بزمِ نشاط ہے یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو
کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو نہ کسی سے حال بیان کر
یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے کہیں دُور پار نکل کے رو
کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں
جہاں کوئی تجھ سے بچھڑ گیا اُسی رہگزار پہ چل کے رو
یہاں اور بھی ہیں گرفتہ دل کبھی اپنے جیسوں سے جا کے مِل
ترے دکھ سے کم نہیں جن کے دکھ کبھی اُن کی آگ میں جل کے رو
ترے دوستوں کو خبر ہے سب تری بے کلی کا جو ہے سبب
تُو بھلے سے اُس کا نہ ذکر کر تُو ہزار نام بدل کے رو
غمِ ہجر لاکھ کڑا سہی پہ فرازؔ کچھ تو خیال کر
مری جاں یہ محفلِ شعر ہے تو نہ ساتھ ساتھ غزل کے رو
٭٭٭
مہر و مہتاب بنا ہوں نہ ستارا ہُوا ہوں
میں زمیں پر ہوں کہ افلاک کا مارا ہُوا ہوں
قعرِ دریا میں ہیں موجوں سے جو پسپا نہ ہوئے
میں کنارے پہ جو بیٹھا ہوں تو ہارا ہُوا ہوں
میں تو ذرّہ تھا مگر اے مرے خورشید خرام
تُو مجھے روند گیا ہے تو ستارا ہُوا ہوں
تم نے ہر وار پہ مجھ سے ہی شکایت کی ہے
میں کہ ہر زخم پہ ممنون تمہارا ہُوا ہوں
عشق میں حُسن کے انداز سما جاتے ہیں
میں بھی تیری طرح خود بین و خود آرا ہُوا ہوں
سفرِ ذات میں ایسا کبھی لگتا ہے فرازؔ
میں پیمبر کی طرح خود پہ اتارا ہُوا ہوں ٭٭٭
عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو
جستہ جستہ پڑھ لیا کرنا مضامینِ وفا
پر کتابِ عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو
اِس تماشے میں اُلٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں
ڈوبنے والوں کو زیرِ آب مت دیکھا کرو
میکدے میں کیا تکلف، میکشی میں کیا حجاب
بزمِ ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو
ہم سے درویشوں کے گھر آؤ تو یاروں کی طرح
ہر جگہ خس خانہ و برفاب مت دیکھا کرو
مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیں
یار لوگوں کے لقب القاب مت دیکھا کرو
تشنگی میں لب بھگو لینا بھی کافی ہے فرازؔ
جام میں صہبا ہے یا زہراب مت دیکھا کرو
٭٭٭
یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشیں کوئی ہے
کہ شب ڈھلے تو سَحر تک کوئی نہیں، کوئی ہے
نہ کوئی چاپ نہ سایہ کوئی نہ سرگوشی
مگر یہ دل کہ بضد ہے، نہیں نہیں کوئی ہے
ہر اک زباں پہ اپنے لہو کے ذائقے ہیں
نہ کوئی زہرِ ہلاہل نہ انگبیں کوئی ہے
بھلا لگا ہے ہمیں عاشقوں کا پہناوا
نہ کوئی جیب سلامت نہ آستیں کوئی ہے
دیارِ دل کا مسافر کہاں سے آیا ہے
خبر نہیں مگر اک شخص بہتریں کوئی ہے
یہ ہست و بود یہ بود و نبود وہم ہے سب
جہاں جہاں بھی کوئی تھا وہیں وہیں کوئی ہے
فرازؔ اتنی بھی ویراں نہیں مری دنیا
خزاں میں بھی گُلِ خنداں کہیں کہیں کوئی ہے
٭٭٭
دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے
اب کے جانے کا نہیں موسمِ گر یہ شائد
مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے
عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم
کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے
کچھ دِلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب
کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے
تم بھی پاگل ہو کہ اُس شخص پہ مرتے ہو فرازؔ
ایک دنیا کی نظر جس پہ جمی رہتی ہے
٭٭٭
قیمت ہے ہر کسی کی دکاں پر لگی ہوئی
بِکنے کو ایک بھِیڑ ہے باہر لگی ہوئی
غافل نہ جان اُسے کہ تغافل کے باوجود
اُس کی نظر ہے سب پہ برابر لگی ہوئی
خوش ہو نہ سر نوشتۂ مقتل کو دیکھ کر
فہرست ایک اور ہے اندر لگی ہوئی
ق
کس کا گماشتہ ہے امیرِ سپاہِ شہر
کن معرکوں میں ہے صفِ لشکر لگی ہوئی
برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال
اب چشمِ بد ہے جانبِ خیبر لگی ہوئی
غیروں سے کیا گِلا ہو کہ اپنوں کے ہاتھ سے
ہے دوسروں کی آگ مرے گھر لگی ہوئی
لازم ہے مرغِ باد نما بھی اذان دے
کلغی تو آپ کے بھی ہے سر پر لگی ہوئی
میرے ہی قتل نامے پہ میرے ہی دستخط
میری ہی مُہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
کس کے لبوں پہ نعرۂ منصور تھا فرازؔ
ہے چار سُو صدائے مکرّر لگی ہوئی
٭٭٭
اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
سو جی رہے ہیں مرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
یہ بے دلی کسی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو
کہ چشم بستہ ہیں زانو پہ سر دھرے ہوئے لوگ
نہ کوئی یاد نہ آنسو نہ پھول ہیں نہ چراغ
تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے ہوئے لوگ
ہوائے حرص سبھی کو اُڑائے پھرتی ہے
یہ گرد بادِ زمانہ یہ بھُس بھرے ہوئے لوگ
یہ دل سنبھلتا نہیں ہے وداعِ یار کے بعد
کہ جیسے سو نہ سکیں خواب میں ڈرے ہوئے لوگ
کچھ ایسا ظلم کا موسم ٹھہر گیا ہے فرازؔ
کسی کی آب و ہوا میں نہ پھر ہرے ہوئے لوگ
٭٭٭
جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے
کیا خبر کون کہاں کس کا نشانہ بن جائے
عشق خود اپنے رقیبوں کو بہم کرتا ہے
ہم جسے پیار کریں جانِ زمانہ بن جائے
اتنی شدت سے نہ مل تُو کہ جدائی چاہیں
اور یہ قربت تری دوری کا بہانہ بن جائے
جو غزل آج ترے ہجر میں لکھی ہے وہ کل
کیا خبر اہلِ محبت کا ترانہ بن جائے
کرتا رہتا ہوں فراہم میں زرِ زخم کہ یوں
شائد آئندہ زمانوں کا خزانہ بن جائے
اِس سے بڑھ کر کوئی انعامِ ہنر کیا ہے فرازؔ
اپنے ہی عہد میں اک شخص فسانہ بن جائے
٭٭٭
یونہی مر مر کے جئیں وقت گذارے جائیں
زندگی ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں
اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمدؐ نہ مسیح
آسمانوں سے نئے لوگ اُتارے جائیں
وہ جو موجود نہیں اُس کی مدد چاہتے ہیں
وہ جو سنتا ہی نہیں اُس کو پکارے جائیں
باپ لرزاں ہے کہ پہنچی نہیں بارات اب تک
اور ہم جولیاں دلہن کو سنوارے جائیں
ہم کہ نادان جواری ہیں سبھی جانتے ہیں
دل کی بازی ہو تو جی جان سے ہارے جائیں
تج دیا تم نے درِ یار بھی اُکتا کے فرازؔ
اب کہاں ڈھونڈھنے غمخوار تمہارے جائیں
٭٭٭
باغباں ڈال رہا ہے گل و گلزار پہ خاک
اب بھی میں چپ ہوں تو مجھ پر مرے اشعار پہ خاک
کیسے بے آبلہ پا بادیہ پیما ہیں کہ ہے
قطرۂ خوں کے بجائے سر ہر خار پہ خاک
سرِ دربار ستادہ ہیں پئے منصب و جاہ
تُف بر اہلِ سخن و خلعت و دستار پہ خاک
آ کے دیکھو تو سہی شہر مرا کیسا ہے
سبزہ و گل کی جگہ ہے در و دیوار پہ خاک
تا کسی پر نہ کھُلے اپنے جگر کا احوال
مَل کے آ جاتے ہیں ہم دیدۂ خونبار پہ خاک
بسکہ اک نانِ جویں رزقِ مشقت تھا فرازؔ
آ گیا ڈال کے میں درہم و دینار پہ خاک
٭٭٭
نامہ بروں کو کب تک ہم کوئے یار بھیجیں
وہ نامراد آئیں ہم بار بار بھیجیں
ہم کب سے منتظر ہیں اس موسمِ جنوں کے
جب زخم تہنیت کے یاروں کو یار بھیجیں
کیوں چشمِ شہر یاراں ہے سوئے جاں فگاراں
کیا جامۂ دریدہ اُن کو اُتار بھیجیں؟
آؤ اور آ کے گِن لو زخم اپنے دل زدوں کے
ہم کیا حساب رکھیں ہم کیا شمار بھیجیں
یارانِ مہرباں کو گر فکر ہے ہماری
یا پند گر نہ بھیجیں یا غمگسار بھیجیں
جب یار کا سندیسہ آئے تو بات بھی ہو
یوں تو ہزار نامے خوباں ہزار بھیجیں
سُن اے غزالِ رعنا اب دل یہ چاہتا ہے
ہر روز اک غزل ہم در مدحِ یار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ہجراں کو موسموں میں
کچھ قربتوں کی یادیں ہم دُور پار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے اُن پھول سے لبوں کو
دستِ صبا پہ رکھ کر شبنم کے ہار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے اُس جانِ شاعری کو
کچھ شعر اپنے چُن کر شاہکار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے سب بھید چاہتوں کے
ہر مصلحت بھُلا کر بے اختیار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے پردے میں ہم سُخن کے
دیوانگی کی باتیں دیوانہ وار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے جب بے اثر ہو سب کچھ
تجھ کو بنا کے قاصد اے یادِ یار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے یا چُپ کا زہر پی لیں
یا دامن و گریباں ہم تار تار بھیجیں
دل جو بھی چاہتا ہو لیکن فرازؔ سوچو
ہم طوقِ آشنائی کیسے اُتار بھیجیں
٭٭٭
ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک
دکھ تو یہ ہے کہ ہے ملاح بھی سازش میں شریک
تا ہمیں ترکِ تعلق کا بہت رنج نہ ہو
آؤ تم کو بھی کریں ہم اِسی کوشش میں شریک
اک تو وہ جسم طلسمات کا گھر لگتا ہے
اس پہ ہے نیّتِ خیاط بھی پوشش میں شریک
ساری خلقت چلی آتی ہے اُسے دیکھنے کو
کیا کرے دل بھی کہ دنیا ہے سفارش میں شریک
اتنا شرمندہ نہ کر اپنے گنہگاروں کو
اے خدا تُو بھی رہا ہے مری خواہش میں شریک
لفظ کو پھول بنانا تو کرشمہ ہے فرازؔ
ہو نہ ہو کوئی تو ہے تیری نگارش میں شریک ٭٭٭
نشستہ مسندِ ساقی پہ اب ہیں آب فروش
ہوئے ہیں شہر بدر، شہر کے شراب فروش
کوئی بھی دیکھنا چاہے نہ اپنے چہرے کو
سو جتنے آئنہ گر تھے ہوئے نقاب فروش
کسی کے پاس نہ ظرفِ خرد نہ حرفِ جنوں
ہوئے ہیں عارف و سالک سبھی نصاب فروش
یہ کہہ کے اُڑ گئے باغوں سے عندلیب تمام
جو باغباں تھے کبھی اب ہوئے گلاب فروش
نہ کشتیاں ہیں نہ ملاح ہیں نہ دریا ہے
تمام ریگِ رواں اور سبھی سراب فروش
جو حرفِ دل کبھی خونِ جگر سے لکھتے تھے
وہ اہلِ درد بھی اب ہو گئے کتاب فروش
کوئی نہیں جو خبر لائے قعرِ دریا کی
یہ تاجرِ کفِ سیلاب وہ حباب فروش
جو کور چشم، کہن سال و شعبدہ گر تھے
وہی تو لوگ ہیں اب سرمہ و خضاب فروش
نہیں فرازؔ تو لوگوں کو یاد آتا ہے
وہ نغمہ سنج وہ خوش گفتگو وہ خواب فروش
٭٭٭
مسافت دل کی تھی سو وہ جادۂ مشکل پسند آیا
ہمیں بھی مثلِ غالبؔ گفتۂ بیدلؔ پسند آیا
سمر قند و بخارا کیا ہیں خالِ یار کے آگے
سو ہم کو مصرعۂ حافظؔ بجان و دل پسند آیا
طبیعت کی کشاکش نے ہمیں آخر ڈبونا تھا
کبھی دریا لگا اچھا کبھی ساحل پسند آیا
متاعِ سوختہ دل سے لگائے پھرتا رہتا ہوں
کہ شہرِ آرزو جیسا بھی تھا حاصل پسند آیا
عجب رنگ آ گیا ہے دل کے خوں ہونے سے آنکھوں میں
ہمیں بھی اب کے گریہ میں لہو شامل پسند آیا
نہ تھا یوں بھی کہ جس کو دیکھتے ہم اُس کے ہو جاتے
کہ تُو بھی تو ہمیں جاناں بصد مشکل پسند آیا
فرازؔ اپنی ادا کا ایک دیوانہ ہے کیا کیجئے
اُسے سارے مسیحاؤں میں اک قاتل پسند آیا
٭٭٭
سنو ہَواؤں کا نوحہ زبانیِ صحرا
کہ گرگ زاد کریں اب شبانیِ صحرا
سنو کہ پیاس ہر اک کی جدا کدا ٹھہری
سو بحر خاک کرے ترجمانیِ صحرا
سنو کہ سب کا مقدر کہاں غمِ لیلیٰ
کسی کسی پہ رہی مہربانیِ صحرا
سنو کہ دل کا اثاثہ بس ایک داغ تو ہے
کہ جیسے خانۂ مجنوں نشانیِ صحرا
سنو کہ اب کوئی بانگِ جرس نہ نالۂ نے
عیاں تو سب پہ ہے سوزِ نہانیِ صحرا
سنو کہ آبلہ پا اب کہاں سے آئیں گے
ہمارے ساتھ گئی گل گشانیِ صحرا
سنو کہ جب کوئی آئینِ گلستاں ہی نہیں
تو کوئی کیسے کرے باغبانیِ صحرا
٭٭٭
کس نے کہا تھا کہ وحشت میں چھانیے صحرا
کڑی ہے دھوپ تو اب سر پہ تانیے صحرا
بس اک ذرا سے اُجڑنے پہ زعم کتنا ہے
یہ دل بضد ہے کہ اب اس کو مانیے صحرا
کسی کی آبلہ پائی عنایتِ رہِ دوست
کسی کی چاک قبائی نشانیِ صحرا
یہ زندگی کہ خیاباں بھی ہے خرابہ بھی
اب اس کو خلد سمجھیے کہ جانیے صحرا
ہوس کے واسے سو در کھُلے ہیں شہروں میں
اگر جنونِ وفا ہے تو چھانیے صحرا
ستم تو یہ ہے کہ اب خانہ زادگانِ چمن
ہمیں بتانے لگے ہیں معانیِ صحرا
ہمیں ملی نہ کہیں خیمہ زن نگارِ بہار
لئے پھری ہے عبث بیکرانیِ صحرا
فرازؔ و قیس ہیں دونوں ہی کشتگانِ وفا
یہ جانِ شہرِ ملامت وہ جانیِ صحرا
٭٭٭
میں خوش ہوں راندۂ افلاک ہو کر
مرا قد بڑھ گیا ہے خاک ہو کر
مرا دل دُکھ گیا، لیکن وہ آنکھیں
بہت اچھی لگیں نمناک ہو کر
تکلف بر طرف اے جانِ خوباں
کبھی ہم سے بھی مل بیباک ہو کر
اٹھا لے جا یہ اپنا دام و دانہ
مجھے مت صید کر چالاک ہو کر
سجی ہے کس قدر اے سرو قامت
ردائے گل تری پوشاک ہو کر
اگر اتنی پرانی دوستی تھی
تو پھر کر وار بھی سفاک ہو کر
فرازؔ احساں ہے یاروں کا کہ یہ دل
گریباں بن گیا ہے چاک ہو کر
٭٭٭
تجھے ہے مشقِ ستم کا ملال ویسے ہی
ہماری جان تھی جاں پر وبال ویسے ہی
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی
ہم آ گئے ہیں تہہِ دام تو نصیب اپنا
وگرنہ اُس نے تو پھینکا تھا جال ویسے ہی
میں روکنا ہی نہیں چاہتا تھا وار اُس کا
گری نہیں مرے ہاتھوں سے ڈھال ویسے ہی
زمانہ ہم سے بھلا دشمنی تو کیا رکھتا
سو کر گیا ہے ہمیں پائمال ویسے ہی
مجھے بھی شوق نہ تھا داستاں سنانے کا
فرازؔ اُس نے بھی پوچھا تھا حال ویسے ہی ٭٭٭
کسی کو بھی محبت میں مِلا کیا
تو پھر اُس دشمنِ جاں سے گلہ کیا
نہ عشق آساں نہ ترکِ عشق آساں
سو ہم سے بزدلوں کا حوصلہ کیا
کوئی بستی یہاں بسنے نہ پائے
یہ دل ہے خوابگاہِ زلزلہ کیا
وصال و ہجر بس کیفیتیں ہیں
وگرنہ قرب کیسا فاصلہ کیا
فرازؔ اب بھی وہی دیوانگی ہے
تو قائم ہے پرانا سلسلہ کیا
٭٭٭
احساں کئے تھے اُس نے جور عتاب کر کے
ہم کس قدر ہیں نادم اُس سے حساب کر کے
اُس سے کِیا تقاضا ہم عبث وفا کا
اچھی بھلی محبت رکھ دی عذاب کر کے
کس درجہ بد مزہ تھا واعظ کا وعظ یوں تو
کچھ چاشنی سی آئی ذکرِ شراب کر کے
رندوں نے صدقِ دل سے زاہد کو بھی پِلا دی
اب سخت ہیں پشیماں کارِ ثواب کر کے
یوں دلکش و مرصّع جیسے کوئی صحیفہ
ہم کو تو اُس کا چہرہ پڑھنا کتاب کر کے
احوال اہلِ غم کا سننا نہ تھا کہ تُو نے
ہم کو ڈبو دیا ہے آنکھیں پُر آب کر کے
غالبؔ کی پیروی میں یہ دن تو دیکھنے تھے
ہم بھی ہوئے ہیں رسوا شعر انتخاب کر کے
احمد فرازؔ ہو یا وہ میرؔ و میرزاؔ ہوں
اے عشق تو نے چھوڑا سب کو خراب کر کے
٭٭٭
سبھی کہیں مرے غمخوار کے علاوہ بھی
کوئی تو بات کروں یار کے علاوہ بھی
بہت سے ایسے ستمگر تھے جو اب یاد نہیں
کسی حبیبِ دل آزار کے علاوہ بھی
یہ کیا کہ تم بھی سرِ راہ حال پوچھتے ہو
کبھی ملو ہمیں بازار کے علاوہ بھی
سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا
کہ پھول کھلتے ہیں گلزار کے علاوہ بھی
کبھی فرازؔ سے آ کر ملو جو وقت ملے
یہ شخص خوب ہے اشعار کے علاوہ بھی
٭٭٭
خواب ہی خواب ہر اک شام میں لے آتی ہیں
اپسرائیں جو ہمیں دام میں لے آتی ہیں
پہلے پہلے تو کریں عہدِ وفا کی باتیں
پھر کسی کوچۂ بدنام میں لے آتی ہیں
یہ جو آ جاتی ہیں افسانہ سنانے والی
اور قصے بھی ترے نام میں لے آتی ہیں
تیری آنکھیں کہ بھُلا دیتی ہیں ساری دنیا
آخرش گردشِ ایّام میں لے آتی ہیں
چاہتیں کتنی بھی آغاز میں پیاری ہوں فرازؔ
پھر وہی تلخیاں انجام میں لے آتی ہیں
٭٭٭
وادیِ عشق سے کوئی نہیں آیا جا کر
آؤ آوازہ لگائیں سرِ صحرا جا کر
بزمِ جاناں میں تو سب اہلِ طلب جاتے ہیں
کبھی مقتل میں بھی دکھلائیں تماشا جا کر
کن زمینوں پہ مری خاک لہو روئے گی
کس سمندر میں گریں گے مرے دریا جا کر
ایک موہوم سی اُمید ہے تجھ سے ورنہ
آج تک آیا نہیں کوئی مسیحا جا کر
دیکھ یہ حوصلہ میرا مرے بُزدل دشمن
تجھ کو لشکر میں پکارا تنِ تنہا جا کر
اُس شہِ حُسن کے در پر ہے فقیروں کا ہجوم
یار ہم بھی نہ کریں عرضِ تمنا جا کر
ہم تجھے منع تو کرتے نہیں جانے سے فرازؔ
جا اُسی در پہ مگر ہاتھ نہ پھیلا جا کر
٭٭٭
گماں یہی ہے کہ دل خود اُدھر کو جاتا ہے
سو شک کا فائدہ اُس کی نظر کو جاتا ہے
حدیں وفا کی بھی آخر ہوس سے ملتی ہیں
یہ راستہ بھی اِدھر سے اُدھر کو جاتا ہے
یہ دل کا درد تو عمروں کا روگ ہے پیارے
سو جائے بھی تو پہر دو پہر کو جاتا ہے
یہ حال ہے کہ کئی راستے ہیں پیشِ نظر
مگر خیال تری رہگذر کو جاتا ہے
تو انوریؔ ہے نہ غالبؔ تو پھر یہ کیوں ہے فرازؔ
ہر ایک سیلِ بلا تیرے گھر کو جاتا ہے
٭٭٭
جو بھی پیرایۂ اظہار نظر آتا ہے
سامنے تُو بھی ہو تو بیکار نظر آتا ہے
کس قدر خوگرِ آزار ہیں ہم بھی کہ یہیں
جو ستمگر ہو وہ غم خوار نظر آتا ہے
دیکھ یہ بے مہریِ دنیا کا عالم ہے ہے
تُو بھی بے یار و مدد گار نظر آتا ہے
شاید آ جائے کوئی میرؔ سا آرام طلب
ابھی کچھ سایۂ دیوار نظر آتا ہے
کیا کہیں جب سے مسیحا کوئی آیا ہے ادھر
شہر کا شہر ہی بیمار نظر آتا ہے
اب بھی ناپید نہیں مسلکِ منصور فرازؔ
کوئی کوئی تو سرِ دار نظر آتا ہے
٭٭٭
ضبطِ گریہ سے تو کچھ اور بیکل ہوئے ہم
پھر جو تنہائی میں روئے ہیں تو جل تھل ہوئے ہم
یہی تہذیبِ دل و جاں ہے، محبت کیا ہے
تم نے دیوانہ کہا ہم کو تو پاگل ہوئے ہم
زندگی ترا پیمانِ محبت تو نہ تھا
پھر تو یوں ٹوٹ کے بکھرے ہیں کہ پَل پَل ہوئے ہم
یار اغیار سبھی اہلِ تماشا نکلے
کتنے تنہا تھے کہ جب داخلِ مقتل ہوئے ہم
یہ کہانی کسی اک موڑ پہ رُک جاتی تھی
تُو ہُوا شاملِ قصّہ تو مکمل ہوئے ہم
دم بھی لینے نہ دیا ضربتِ دنیا نے فرازؔ
پھر جو مسمار ہوئے ہیں تو مسلسل ہوئے ہم
٭٭٭
کہاں سے لائیں مئے ناب بیچنے والا
تمام شہر ہے زہراب بیچنے والا
یہ ہم کہ جان ہتھیلی پہ رکھ کے پھرتے ہیں
کوئی ہے بس ادب آداب بیچنے والا
عجب نہیں کہ اگر سرد مہر ہے گاہک
یہ دیکھ کر کہ ہے بیتاب بیچنے والا
سنا ہے آج وہ تیر و کماں کا تاجر ہے
جو کل تھا بربط و مضراب بیچنے والا
پھرے ہے راتوں کو سرگشتہ و چراغ بکف
وہی فرازؔ وہی خواب بیچنے والا
٭٭٭
کوئی ہزار اکیلا ہو پر نہیں تنہا
سو کیوں کہیں کہ ترے ساتھ ہمیں تنہا
یہ زندگی ہے شب و روز کٹ ہی جاتے ہیں
کبھی کبھی کوئی محفل کہیں کہیں تنہا
ہر اک نے اپنی ہی دنیا بسائی ہوتی ہے
سو خلوتوں میں بھی رہتا نہیں کوئی تنہا
دل و جگر کا بھی احوال پوچھ لینا تھا
تری نگاہ میں ہیں جیب و آستیں تنہا
کدھر گیا ترے کوچے سے پھر خدا جانے
فرازؔ گھوم رہا تھا یہیں کہیں تنہا
٭٭٭
اب تو اتنا بھی ہو نہیں پائے
رونا چاہا تو رو نہیں پائے
ہم سے تعبیرِ خواب پوچھتے ہو
زندگی بھر جو سو نہیں پائے
مدتوں غم کی پرورش کی ہے
یہ صِلے آج تو نہیں پائے
جستجو رائیگاں نہیں تھی مگر
جن کو چاہا تھا وہ نہیں پائے
کیوں گلہ ہم سے ہو کسی کو فرازؔ
ہم تو اپنے بھی ہو نہیں پائے
٭٭٭
جو سادہ دل ہوں بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں
کہ دوستوں میں کبھی دشمنوں میں ہوتے ہیں
ہَوا کے رخ پہ کبھی بادباں نہیں رکھتے
بلا کے حوصلے دریا دِلوں میں ہوتے ہیں
پلٹ کے دیکھ ذرا اپنے رہ نوردوں کو
جو منزلوں پہ نہ ہوں راستوں میں ہوتے ہیں
پیمبروں کا نسب شاعروں سے ملتا ہے
فرازؔ ہم بھی انہیں سلسلوں میں ہوتے ہیں
٭٭٭
سامنے اُس کے کبھی اُس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی
اہلِ محفل پہ کب احوال کھُلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اُس نے بھی پُرسش نہیں کی
جس قدر اُس سے تعلق تھا چلے جاتا ہے
اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اُس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی
اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی
ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی
اے مرے ابرِ کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تُو نے کبھی بارش نہیں کی
کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جُنبش نہیں کی
وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی
٭٭٭
بھید پائیں تو رہِ یار میں گم ہو جائیں
ورنہ کس واسطے بیکار میں گم ہو جائیں
کیا کریں عرضِ تمنا کہ تجھے دیکھتے ہی
لفظ پیرایۂ اظہار میں گم ہو جائیں
یہ نہ ہو تم بھی کسی بِھیڑ میں کھو جاؤ کہیں
یہ نہ ہو ہم بھی کسی بازار میں گم ہو جائیں
کس طرح تجھ سے کہیں کتنا بھلا لگتا ہے
تجھ کو دیکھیں ترے دیدار میں گم ہو جائیں
تم ترے شوق میں یوں خود کو گنوا بیٹھے ہیں
جیسے بچے کسی تہوار میں گم ہو جائیں
پیچ اتنے بھی نہ دو کرمکِ ریشم کی طرح
دیکھنا سر ہی نہ دستار میں گم ہو جائیں
ایسا آشوبِ زمانہ ہے کہ ڈر لگتا ہے
دل کے مضموں ہی نہ اشعار میں گم ہو جائیں
شہر یاروں کے بلاوے بہت آتے ہیں فرازؔ
یہ نہ ہو آپ بھی دربار میں گم ہو جائیں
٭٭٭
جن کو دوست سمجھتے تھے وہ دوست نما کہلاتے تھے
ہم میں کچھ اہلِ دل بھی اہلِ دنیا کہلاتے تھے
لوگو ایک زمانہ تھا جب ہم کیا کیا کہلاتے تھے
دردِ آشوب سے پہلے ہم تنہا تنہا کہلاتے تھے
جتنے بھی محبوب تھے ان کو عہد شکن یاروں نہ کہا
جتنے بھی عشاق تھے سارے اہلِ وفا کہلاتے تھے
ہم تو دیارِ جاناں کو کہتے ہیں دیارِ جاناں بس
پہلے دلداروں کے قریے شہرِ سبا کہلاتے تھے
تیرے لئے اب کیوں نہ کوئی تازہ تشبیہ تلاش کریں
چاند فسانہ تھا تو دلبر ماہ لقا کہلاتے تھے
تیرے خرام کو نسبت دیتے کبکِ دری کی چال سے لوگ
گل جب چاک گریباں ہوتے تیری قبا کہلاتے تھے
آؤ خاک سے رشتہ جوڑیں، وہم فلک افلاک ہوئے
ہاتھ قلم ہونے سے پہلے دستِ دعا کہلاتے تھے
اپنی ویراں آنکھوں کا اب کس سے حال احوال کہیں
اب جو صحرا دیکھتے ہو آگے دریا کہلاتے تھے
جو نا یافت تھی اُس خوشبو کی کھوج میں ہم صحرا صحرا
لہو لہان پھرا کرتے تھے آبلہ پا کہلاتے تھے
دل پاگل تھا یونہی پکارے جاتا تھا جاں جاناں
پر جو بیت بھی ہم کہتے تھے ہوشربا کہلاتے تھے
بے آواز گلی کوچوں میں عشق دہائی دیتا تھا
بستی بستی اہلِ نوا زنجیر بپا کہلاتے تھے
گلیوں گلیوں لئے پھرے نابینا شہر میں آئینہ
شاعر تھے پر شعر اپنے حرفِ عیسا کہلاتے تھے
پس انداز سبھی موسم تھے اہلِ چمن کے توشے میں
عہدِ خزاں کے جھونکے بھی جب بادِ صبا کہلاتے تھے
اب بھی خوابِ گل ہے پریشاں اب بھی اسیر عنادل ہیں
کل بھی باغ میں گلچیں اور صیاد خدا کہلاتے تھے
غزل بہانہ کرتے کرتے لفظ ہی بے توقیر ہوئے
سازِ سخن کو بھول چکے جو نغمہ سرا کہلاتے تھے
جب سے فرازؔ تخلص رکھا ملکوں ملکوں رسوا ہیں
ورنہ ہم بھی اوّل اوّل احمد شا کہلاتے تھے
٭٭٭
چشمِ گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس
گرچہ کہتے رہے مجھ سے مرے غم خوار کہ بس
زندگی تھی کہ قیامت تھی کہ فرقت تیری
ایک اک سانس نے وہ وہ دیے آزار کہ بس
اس سے پہلے بھی محبت کا قرینہ تھا یہی
ایسے بے حال ہوئے ہیں مگر اِس بار کہ بس
اب وہ پہلے سے بلا نوش و سیہ مست کہاں
اب تو ساقی سے یہ کہتے ہیں قدح خوار کہ بس
لوگ کہتے تھے فقط ایک ہی پاگل ہے فرازؔ
ایسے ایسے ہیں محبت میں گرفتار کہ بس
٭٭٭
فرازؔ تم نے عبث شوق سے سجائے سخن
کہاں وہ قامتِ جاناں کہاں قبائے سخن
بیان اُس گلِ رعنا کا بے قیاس نہ کر
کہ عندلیب کا دل چاہیے برائے سخن
کہ ذکرِ یار تو جان و جگر کا سودا ہے
کہ خونِ دل تو نہیں ہے فقط بہائے سخن
اُسی کے دھیان سے روشن ہیں دل کی قندیلیں
اُسی کی یاد سے منسوب ہر شعاعِ سخن
اُسی کے دم سے ہیں سر سبز زخم عمروں کے
اُسی کے دم سے صبا آشنا، فضائے سخن
اُسی کے ہجر میں لکھے ہیں مرثیے دل کے
اُسی کے وصل میں دیکھے ہیں عشوہ ہائے سخن
اُسی کے قرب سے گویا سکوت ِ لالہ و گل
اُسی کے لطف سے لب بستگی، بجائے سخن
تم اپنے عجز کو سمجھتے ہوئے ہو اوجِ ہنر
سو اِس تضاد پہ غالبؔ کا یاد آئے سخن
"نہ شعلے میں وہ کرشمہ نہ برق میں وہ ادا"
تو کیا بیان سراپا ہو کیا بنائے سخن
"ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم"
نظر تو چیز ہے کیا ہے نہ تاب لائے سخن
وہ یاد آئے تو الہام بن کے شعر اترے
وہ بھول جائے تو پھر کس کو یاد آئے سخن
کبھی کبھی ہی دل و جاں سے آنچ اُٹھتی ہے
فرازؔ ہم نہیں کہتے سخن برائے سخن
٭٭٭
یہ دِل کسی بھی طرح شامِ غم گزار تو دے
پھر اس کے بعد وہ عمروں کا انتظار تو دے
ہوائے موسمِ گُل جانفزا ہے اپنی جگہ
مگر کوئی خبرِ یارِ خوش دیار تو دے
ہمیں بھی ضد ہے کہاں عمر بھر نبھانے کی
مگر وہ ترکِ تعلق کا اختیار تو دے
بجا کہ درد سری ہے یہ زندگی کرنا
مگر یہ بارِ امانت کوئی اُتار تو دے
ترا ہی ذکر کریں بس تجھی کو یاد کریں
یہ فرصتیں بھی کبھی فکرِ روزگار تو دے
ترے کرم بھی مجھے یاد ہیں مگر مرا دل
جو قرض اہلِ زمانہ کے ہیں اُتار تو دے
فلک سے ہم بھی کریں ظلمِ ناروا کے گِلے
پہ سانس لینے کی مہلت ستم شعار تو دے
فرازؔ جاں سے گزرنا تو کوئی بات نہیں
مگر اب اس کی اجازت بھی چشمِ یار تو دے
٭٭٭
جنتِ گوش بنی مجھ سے گنہگار کی بات
آ گئی تھی مرے لب پر میرے دلدار کی بات
وہ نہیں ہے تو یونہی دل کو دُکھانے کے لئے
چھیڑ دی ہم نے کسی یارِ دل آزار کی بات
اُس ستمگر کو سبھی لوگ بُرا کہتے ہیں
کوئی سنتا ہی نہیں مرے غم خوار کی بات
خود کو بیچیں تو کہاں ہم کہ دل و جاں کی جگہ
ہر خریدار کرے درہم و دینار کی بات
صوفیِ شہر بھی پردے میں تصوّف کے سہی
چھیڑ دیتا ہے اُسی یارِ طرح دار کی بات
کل ہوئی حضرتِ ناصح سے ملاقات فرازؔ
پھر وہی پند و نصیحت وہی بیکار کی بات
٭٭٭
کسی کا در نہ کوئی آستانہ آگے تھا
اُس آشنا کا تو دل میں ٹھکانہ آگے تھا
میں خوش نشیں تھا کہ دو گام ہی تو جانا تھا
میں دیکھتا ہوں تو کوسوں زمانہ آگے تھا
کہانیاں بھی انہیں سانحوں سے بنتی ہیں
جو رنج جھیل رہا ہوں، فسانہ آگے تھا
سنا ہے اہلِ ہوس اب وفا کے گاہک ہیں
یہ کاروبار نہ ہم سے ہُوا نہ آگے تھا
مری غزل نے وہ شہرت ترے جمال کو دی
تری تلاش میں مجھ سے زمانہ آگے تھا
لہو کی لہر سے اب کوئی لَے نہیں اٹھتی
یہ ہجر سازِ سُخن کا بہانہ آگے تھا
زمانوں بعد اُسے دیکھا تو آج سوچتے ہیں
مزاج اپنا ہی کچھ عاشقانہ آگے تھا
بزرگ کہتے ہیں اب جس جگہ یہ مسجد ہے
اِسی نواح میں ایک بادہ خانہ آگے تھا
بھٹک گیا کہ کہیں پا شکستہ بیٹھا ہے
جو زعمِ تیز روی میں روانہ آگے تھا
فرازؔ اب کہاں ملتے ہیں ہوش والے بھی
وگرنہ شہر میں کیا کیا دِوانہ آگے تھا
٭٭٭
یہ فرمائش 1؎غزل کی ہے کہ فن کی آزمائش ہے
چلو جو بھی ہے اک جانِ سخن کی آزمائش ہے
مبارک ہو بلاوا آ گیا مستوں کو مقتل سے
چل اے دل اب ترے دیوانہ پن کی آزمائش ہے
بہت سے ہاتھ ہیں دامانِ دل کو کھینچنے والے
جمالِ یار! تیرے بانکپن کی آزمائش ہے
نہیں کچھ قصۂ یوسف زلیخا میں بجز اِس کے
کسی کے دل، کسی کے پیرہن کی آزمائش ہے
چلو دل امتحانِ عاشقی میں سرخرو ٹھہرا
مگر یہ عشق تو پورے بدن کی آزمائش ہے
جو ہیں منقار زیرِ پر کہاں محفوظ ہیں وہ بھی
ابھی تو خوشنوایانِ چمن کی آزمائش ہے
یہ سن کر میکدے میں آج سارا شہر اُمڈ آیا
کہ مے نوشی میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
نہ وہ خسرو، نہ جوئے شیر شرطِ وصل شیریں ہے
تو کیوں کوہاٹ کے ایک کوہکن کی آزمائش ہے
فرازؔ آیا نہیں لایا گیا اس کی قلمرو میں
کہاں غالبؔ کہاں اک بے وطن کی آزمائش ہے
1؎ ایک دوست کی فرمائش پر
٭٭٭
آخر اس عشق کا آزار کم تو ہونا تھا
شام تک سایۂ دیوار کم تو ہونا تھا
دوستو غم نہ کرو میرا کہ جس مقتل سے
تم گزر آئے ہو اک یار کم تو ہونا تھا
سر کشیدوں کا کوئی تذکرہ ہو گا ورنہ
ذکر اپنا سرِ دربار کم تو ہونا تھا
محفلِ غیر نہ ہوتی تو روش سے تیزی
دل بھی دُکھتا مگر آزار کم تو ہونا تھا
ہم نے کب چاہا کہ آئینۂ دل ہو صیقل
پر تری دید سے زنگار کم تو ہونا تھا
دل کی سازش تھی کہ بے دید ہوئی ہیں آنکھیں
اک نہ اک میرا طرف دار کم تو ہونا تھا
٭٭٭
ٹائپنگ: محمد بلال اعظم
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید