صفحات

تلاش کریں

کلیاتِ غالبؔ




مرتبہ:

جویریہ مسعود

(پیشکش: اردو محفل)
www.urduweb.org/mehfil


تصحیح کردہ ۵ جولائی ۲۰۲۰ء



فہرستِ عنوانات


  • سخن ہائے گفتنی.
  • دیوانِ غالب سے کلیاتِ غالب تک
  • دیباچہ
  • اتحادِ عمل.
  • حصۂ غزلیات
  • ردیف الف
  • نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
  • جنوں گرم انتظار و نالہ بے تابی کمند آیا
  • عالم جہاں بہ عرضِ بساطِ وجود تھا

  • کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا 40

  • عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا 41

  • دل میرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا 43

  • شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا.. 45

  • دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا 47

  • شمار سبحہ،‘‘ مرغوبِ بتِ مشکل‘‘ پسند آیا 48

  • دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا 49

  • ستایش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا 51

  • نہ ہو گا‘‘یک بیاباں ماندگی‘‘ سے ذوق کم میرا 53

  • ز بس خوں گشتۂ رشکِ وفا تھا وہم بسمل کا 54

  • محرم نہیں ہے تو ہی، نوا ہائے راز کا 55

  • بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا.. 56

  • شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا 58

  • نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا 60

  • کس کا جنونِ دید تمنّا شکار تھا؟. 62

  • بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا 64

  • شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا 66

  • دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا 67

  • یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا 68

  • ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا 70

  • درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا 72

  • نہ بھولا اضطرابِ دم شماری، انتظار اپنا 74

  • پئے نذرِ کرم تحفہ ہے 'شرمِ نا رسائی' کا 75

  • گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا 77

  • درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا 79

  • گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا 81

  • قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا 83

  • جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا 85

  • گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟. 86

  • گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا 86

  • نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا 87

  • یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا 88

  • وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا 89

  • پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا 90

  • ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا 92

  • لبِ خشک در تشنگی، مردگاں کا 94

  • تو دوست کسی کا بھی، ستم گر! نہ ہوا تھا 95

  • شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا 96

  • ضعفِ جنوں کو، وقتِ تپش، در بھی دور تھا 97

  • بہ شغلِ انتظارِ مہ وشاں در خلوتِ شب ہا 98

  • عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا 99

  • خود پرستی سے رہے باہم دِگر نا آشنا 101

  • ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا 103

  • طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا 104

  • خلوتِ آبلۂ پا میں ہے، جولاں میرا 106

  • جور سے باز آئے پر، باز آئیں کیا 108

  • بہارِ رنگِ خونِ دل ہے ساماں اشک باری کا 109

  • عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا 110

  • رات، دل گرمِ خیالِ جلوۂ جانانہ تھا 112

  • سیر آں سوئے تماشا ہے طلب گاروں کا 113

  • نہ ہو حسنِ تماشا دوست، رسوا بے وفائی کا 114

  • ہر سلحشور انگلستاں کا 115

  • بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا 116

  • وردِ اسمِ حق سے، دیدارِ صنم حاصل ہوا 117

  • ردیف ب.. 118

  • پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب... 118

  • ردیف ت.. 120

  • جاتا ہوں جدھر سب کی اُٹھے ہے اُدھر انگشت... 120

  • رہا گر کوئی تا قیامت سلامت... 122

  • آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست... 124

  • یار لائے مری بالیں پہ اسے، پر کس وقت... 126

  • ردیف ج.. 127

  • گلشن میں بند و بست، بہ رنگِ دگر ہے، آج.. 127

  • اچھاّ اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج!! 129

  • ردیف چ.. 130

  • نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ.. 130

  • ردیف د. 132

  • حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد. 132

  • ردیف ر. 134

  • بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر، در و دیوار

  • گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر

  • کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر

  • لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر

  • ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

  • صفائے حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر

  • فسونِ یک دلی ہے لذّتِ بیداد دشمن پر

  • لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور

  • ردیف ز

  • حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز

  • بے گانۂ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز

  • کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز!

  • داغِ اطفال ہے دیوانہ بہ کہسار ہنوز

  • نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز

  • ردیف س

  • کب فقیروں کو رسائی بُتِ مے خوار کے پاس

  • ردیف ش

  • ہوئی ہے بس کہ صرفِ مشقِ تمکینِ بہار آتش

  • ردیف ع

  • جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع

  • رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع

  • ردیف ف

  • نامہ بھی لکھتے ہو، تو بہ خطِ غبار، حیف!

  • ردیف ک

  • زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک

  • آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک.

  • دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک.

  • ردیف گ

  • گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت، دُعا نہ مانگ

  • ردیف ل

  • ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل

  • ردیف م

  • بس کہ ہیں بد مستِ بشکن بشکنِ مے خانہ ہم

  • اثر کمندیِ فریادِ نارسا معلوم

  • رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم

  • ردیف ن

  • خوش وحشتے کہ عرضِ جنونِ فنا کروں

  • وہ فراق اور وہ وصال کہاں

  • کی وفا ہم سے، تو غیر اِس کو جفا کہتے ہیں
  • آبرو کیا خاک اُس گُل کی، کہ گلشن میں نہیں
  • آنسو کہوں کہ، آہ، سوارِ ہوا کہوں
  • میں گیا وقت نہیں ہوں ‌کہ پھر آ بھی نہ سکوں
  • ہم سے کھل جاؤ بہ وقتِ مے پرستی ایک دن
  • ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
  • مانعِ دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
  • مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں

  • صاف ہے از بس کہ عکسِ گل سے، گل زار چمن

  • عشق تاثیر سے نومید نہیں

  • جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں



مسندِ عیش پر جگہ پائی.. 743

فرازِ مسندِ عیش و طرب جگہ پائی.. 743

حکیم حاذق و دانا ہے، وہ لطیف کلام. 744

رہا ہے زور سے، ابر ستارہ بار، برس... 745

شائستہ گدائی ہر در نہیں ہوں میں.. 746

جس میں وفا و مہر و محبت کا ہے وفور.. 746

حیدرآباد دکن، رشکِ گلستانِ ارم. 747

رباعیات.. 749

ہر چند کہ دوستی میں کامل ہونا 749

سامانِ ہزار جستجو، یعنی، دل! 749

اے کاش بتاں کا خنجرِ سینہ شگاف... 749

اے کثرتِ فہمِ بے شمار اندیشہ. 750

بے گریہ کمالِ تر جبینی ہے مجھے... 750

گر جوہرِ امتیاز ہوتا ہم میں.. 750

گلخن، شرر اہتمام بستر ہے آج.. 751

دل، سوزِ جنوں سے جلوہ منظر ہے آج.. 751

اصحاب کو جو نا سزا کہتے ہیں.. 751

یارانِ رسول، یعنی اصحابِ کبار.. 752

یارانِ نبی میں تھی لڑائی کس میں؟. 752

متفرقات.. 753

غالبؔ کے کچھ ہنگامی مصرعے اور شعر. 756

ضمیمۂ چہارم 767

قادر نامہ. 767

کتابیات.. 782









سخن ہائے گفتنی

اپریل ۲۰۰۶ء میں دیوان غالب پر جو کام اردو محفل پر شروع ہوا تھا،آج اکتوبر ۲۰۱۹ میں کلیاتِ غالب کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔

ان ۱۳ سالوں میں دیوانِ غالب پر جو کام ہوا، اس کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ یکم اپریل ۲۰۰۶ کو اس کی ٹائپنگ اور محفل پر پوسٹنگ مکمل ہو گئی۔

۲۔ اپریل ۲۰۰۶ میں ہی اعجاز عبید صاحب نے سارے کام کو ایک فائل میں مرتب کیا۔ اس کی ابتدائی پروف ریڈنگ کی اور اس کا دیباچہ لکھا۔ نیز مندرجہ ذیل نسخوں کے ساتھ موازنہ کیا اور ان نسخوں کے اختلاف پر فٹ نوٹس لکھے۔



الف۔ دیوانِ غالب۔ مکتبہ الفاظ علی گڑھ

ب۔ دیوان غالب۔ تاج کمپنی لاہور

ج۔ دیوانِ غالب۔ نول کشور پریس لکھنؤ

۳۔ مئی ۲۰۰۶ نے اردو محفل کے ارکان کے اصرار پر میں نے دیوان پر کام شروع کیا اور ۲۰ جون کو میں نے اس کی پروف ریڈنگ مکمل کی اور مندرجہ ذیل نسخوں کے ساتھ موازنہ کیا اور ان نسخوں کے اختلاف پر فٹ نوٹس لکھے۔



الف۔ نوائے سروش از مولانا غلام رسول مہر (نسخۂ مہر)

ب۔ شرحِ دیوانِ غالبؔ از علامہ عبد الباری آسی ( نسخۂ آسی)

ج۔ دیوانِ غالب (فرہنگ کے ساتھ)

د۔ دیوانِ غالبؔ نسخۂ طاہر

ہ۔ دیوان غالب نسخۂ حمیدیہ



اس کے علاوہ ایک ضمیمہ کا اضافہ کیا جس میں نسخۂ مہر سے اس کلام کو ٹائپ کر کے شامل کیا جو غلام رسول مہر صاحب نے مولانا عبد الباری کے نسخے سے نقل کیا تھا۔

۴۔ ۱۲ مارچ ۲۰۰۷ کو میں نے ضمیمۂ دوم کا اضافہ کیا۔ ضمیمۂ دوم در اصل نسخۂ حمیدیہ سے ۷ غزلوں[1] کا انتخاب تھا۔

۵۔ اسی دوران مجھے دیوان غالب کا ایک اور اہم نسخہ ملا۔ یہ نسخہ حامد علی خان نے مرتب کیا تھا۔ اس نسخے کو مرتب کرتے وقت ان کے پیش نظر بے شمار نسخے تھے۔ ان سارے نسخوں میں جو اختلاف تھے، وہ حامد علی خان نے حواشی میں ذکر کیے۔ میں نے وہ حواشی اور فٹ نوٹس ٹائپ کر کے، ۷ اکتوبر ۲۰۰۷ کو نسخۂ اردو ویب میں شامل کیا۔

۶۔ اسی دوران جناب اعجاز عبید صاحب نے بھی دیوان پر کام جاری رکھا اور مندرجہ ذیل نسخوں سے وہ اشعار جو ہمارے نسخہ میں درج نہیں تھے، ان کو ٹائپ کر کے مجھے بھیج دیے:



الف۔ گلِ رعنا، نسخۂ شیرانی، نسخۂ بھوپال بہ خطِ غالب، نسخۂ رضا سے

ب۔ انتخابِ نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، فروری ۲۰۰۷ء (نسخۂ مبارک علی کے حوالے اسی سے ماخوذ ہیں)

ج۔ دیوانِ غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضاؔ



میں نے ان اشعار کی پروف ریڈنگ کی، ان کو اس نسخے میں (نسخہ حمیدیہ کے ترتیب پر) مناسب جگہوں پر رکھا۔ میرے پاس موجود دوسرے نسخوں کے ساتھ موازنہ کیا اور اختلاف پر بھی فٹ نوٹس لکھے۔ مزید کام یہ کیا کہ وہ اشعار جو متداول و مشہور دیوان کا حصہ نہیں تھے، ان اشعار کو اس نسخے میں سرخ رنگ سے نمایاں کیا۔

مزید براں ایک رکنِ محفل نے چند اشعار اور حواشی میں پروف کی غلطیوں کی نشاندہی کی تھی، ان کی تصحیح کی۔ ایک مشہور شعر چھوٹ گیا تھا اس کو شامل کر دیا۔

۷۔ اسی دوران مولانا امتیاز عرشی کا ایک مضمون نظر سے گزرا جو کہ ماہنامہ ’ماہ نو‘ کے فروری ۱۹۹۸ کے غالب نمبر میں شامل تھا۔ یہ مضمون دیوان غالب کے ایک نسخہ جو کہ نسخۂ بدایوں کے نام سے مشہور ہے، پر تھا۔ معلوم ہوا کہ نسخۂ بدایوں میں دو اشعار ایسے شامل ہیں جو کہ کسی اور نسخے میں شامل نہیں ان دو کو فوراً شامل کر دیا۔

علاوہ از یں وقتاً فوقتاً متعدد تبدیلیاں کی جاتی رہیں ہیں تاکہ نسخے کو بہتر سے بہتر کیا جا سکے۔ آخری تبدیلی جنوری ۲۰۱۸ میں کی گئی جو حاشیہ نمبر ۷۱ کا اضافہ ہے۔







دیوانِ غالب سے کلیاتِ غالب تک



پتہ نہیں یہ نسخہ کلیات کہلانے کے قابل بھی ہے کہ نہیں؟ البتہ کوشش یہ گئی ہے کہ جو بھی کلام مستند حوالوں سے غالب کے ساتھ منسوب ہے، اس کو اس نسخے میں جمع کیا جائے۔ ہماری یہ کوشش کتنی قابلِ اعتنا ہے، یہ قتیلانِ غالب بہتر جانتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ اپنی قیمتی رائے سے نوازیں گے۔

دیوان سے کلیات کا سفر تقریباً بارہ سالوں پر محیط ہے اور دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب کے بارے میں تفصیل سے آپ واقف ہیں۔ مجھے اجازت دیں کہ ذیل کے سطور میں کلیات کے بارے کچھ بتاؤں۔

آگست ۲۰۱۹ کے اواخر میں اردو محفل پر غالبیات کے زمرے میں یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ اردو محفل پر میری غیر حاضری کے دوران دیوانِ غالبؔ کامل (نسخۂ رضاؔ) از کالی داس گپتا رضا کا مکمل نسخہ ٹائپ کر کے پوسٹ کیا گیا ہے۔ میں نے مکمل فائل ڈاؤن لوڈ کی تاکہ اس کا مطالعہ کر سکوں۔ دوران مطالعہ معلوم ہوا کہ نسخۂ رضا کی ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ بڑی محنت سے کی گئی ہے مگر اس میں چند اغلاط موجود ہیں۔ تصدیق کے لئے نسخۂ اردو ویب (اردو محفل) سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں نسخوں میں کافی اختلافات موجود ہیں۔ تب خیال آیا کہ کیوں نہ اس نسخے کا اردو ویب ڈاٹ آرگ کے نسخے سے موازنہ کروں۔ یہی خیال کلیاتِ غالب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ۲۹ اگست ۲۰۱۹ کو اس پر کام شروع کیا اور آج ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۹ کو میں یہ اختتامی سطور لکھ رہی ہوں۔

سب سے پہلے میں نے نسخۂ رضا سے ایک ایک غزل کاپی کر کے نسخۂ اردو ویب کے متعلقہ غزل کے نیچے پیسٹ کی، تاکہ موازنے میں آسانی ہو۔ یہ کام مشکل اور تھکا دینے والا تھا اور تقریباً ۱۵ دن اس کام میں لگے۔ یاد رہے کہ اس کام کے لئے cut/ paste کا طریقہ استعمال کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جو کلام نسخہ اردو ویب میں موجود نہیں تھا۔ اس کی ایک الگ فائل بن گئی جو بعد میں کلیات کے ضمیمۂ سوم کا حصہ بنی۔

اس کے بعد ایک ایک غزل کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ اور اختلاف پر فٹ نوٹ لکھے۔ ساتھ میں پروف ریڈنگ بھی جاری رہی۔ ضرورت پڑنے پر مختلف طبع شدہ دواوین غالب سے بھی رجوع کیا۔ عروض ڈاٹ کام سے بھی کافی مدد ملی۔ اور یوں یہ سارا کام دو مہینوں میں پورا ہو گیا۔

کلیاتِ غالب دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ در حقیقت متداول دیوان ہے مگر نسخۂ رضا اور نسخۂ حمیدیہ سے اضافوں کے ساتھ۔ فٹ نوٹس میں اضافوں کی وضاحت کی گئی ہے۔

دوسرا حصہ چار ضمیموں پر مشتمل ہے۔ دو ضمیمے تو نسخۂ اردو ویب میں پہلے ہی سے موجود تھے۔ تیسرا ضمیمہ نسخۂ رضا سے ان غزلوں اور نظموں کا انتخاب ہے جس کا ایک شعر بھی متداول دیوان کا حصہ نہیں تھا۔ چوتھا ضمیمہ قادر نامہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔

ضمیمۂ سوم ۱۷۱ غزلیات، ایک قصیدے، ۱۰ قطعات۔ ۱۲ رباعیات، ۱۳ مفردات اور ۲۳ ہنگامی اشعار و مصرعوں پر مشتمل ہے۔

اب ذرا اس نسخے (کلیاتِ غالب) کی چند نمایاں خصوصیات کا ذکر ہو جائے:



۱۔ نسخے کی پروف ریڈنگ دوبارہ کی گئی ہے اور مقدور بھر کوشش کی گئی ہے کہ کوئی غلطی رہ نہ جائے۔

۲۔ ان اشعار کو کلیات سے یکسر خارج کیا گیا ہے، جن کی غالب سے نسبت مشکوک تھی۔

۳۔ نسخے کی فہرست دوبارہ مرتب کی گئی ہے جو ۱۰ سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔

۴۔ جدید املا پر کافی توجہ دی گئی ہے۔

۵۔ اوقاف کا نسخۂ رضا کی مدد سے اہتمام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شعر سمجھنے میں آسانی ہو گئی ہے۔

۶۔ حوالہ جات اور حواشی کا اضافہ کیا گیا ہے۔ حواشی کی تعداد ۲۸۲ سے بڑھ کر اب ۴۶۴ سے زیادہ ہو گئی ہے۔

۷۔ ایک نئی اختراع یہ کی گئی ہے کہ ’’ردیف ی‘‘ اور ’’ردیف ے‘‘ کو الگ کیا گیا ہے۔



امید ہے کہ یہ کاوش آپ کو پسند آئے گی۔



دعاؤں کی طالب۔

جویریہ مسعود

سوات، پاکستان





دیباچہ[2]



ہم ماہرینِ غالبیات ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے اور نہ ہمارا یہ خیال ہے کہ ہمیں محقّقین میں شمار کیا جائے۔ اردو ویب ڈاٹ آرگ کے کچھ سر پھرے رضاکاروں نے بس یہ بیڑا اٹھایا کہ دیوانِ غالبؔ کو اردو تحریر کی شکل میں مہیا کیا جائے۔

اس کی بنیاد نسخۂ نظامی ہے جو نظامی پریس کانپور سے ۱۸۶۲ء میں چھپا تھا اور جس کی تصحیح خود غالبؔ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ کچھ اشعار جو دوسرے مروجہ دیوانوں میں مختلف پائے جاتے ہیں، اس کی صحت اس نسخے کی مدد سے ٹھیک کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے نسخوں (حمیدیہ، غلام رسول مہرؔ، عرشیؔ) سے وہاں مدد لی گئی ہے جو اشعار نظامی میں نہیں تھے۔

نسخۂ بھوپال/حمیدیہ/ شیرانی/ گلِ رعنا سے وہاں بھی مدد لی گئی ہے جہاں غزل کے کچھ ہی اشعار مزید مل سکے تھے، جیسے کسی غزل میں متداول دیوان میں پانچ سات اشعار ہیں اور نسخۂ بھوپال میں مزید دو تین اشعار مل گئے تو شامل کر دئے گئے ہیں لیکن اگر مروجہ دواوین میں محض دو تین اشعار ہیں اور بھوپال کے نسخوں میں سات آٹھ مزید اشعار تو ان کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

غرض کوشش یہ نہیں کی گئی ہے کہ تمام اشعار شامل کر دئے جائیں۔ یہ کام تو مشہور ماہرِ اقبالیات محترمی کالی داس گُپتا رضا اپنی ’دیوانِ غالب کامل۔ تاریخی ترتیب سے‘ میں انجام دے چکے ہیں۔ اس نسخے میں انھوں نے ۴۲۰۹ اشعار شامل کیے ہیں جب کہ متداول دیوان میں کل ۱۸۰۲ اشعار تھے۔ نسخۂ حمیدیہ سے کچھ مکمل غزلیں بطور ضمیمہ دوم شامل کر دی گئی ہیں۔



اس نسخے کی ایک مزید خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جدید املا کا خیال رکھا گیا ہے۔ چناں چہ کچھ الفاظ کی املا جو یہاں ہے، ان کی فہرست ذیل میں ہے:

کیونکر۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کر

ہاے۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ ہائے

سخت جانیہاے۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ سخت جانی ہائے

صحراے کی جگہ صحرائے

پانو۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ پاؤں

بے کسئی یا بے کسیٔ ۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ بے کسیِ

بیکسی کی جگہ بے کسی

جہاں بحر میں ’آئنہ‘ درست آتا ہے، وہاں بھی آئینہ (حوالہ شمس الرحمٰن فاروقی، ’اچھی اردو، روز مرّہ، محاورہ، صرف‘، کالم ’اردو دنیا‘ جنوری ۲۰۰۷ء)۔ اگر پھر بھی کسی قاری کو کوئی غلطی نظر آئے تو ہمیں اطلاع دیں، اگر قابلِ قبول ہوئی تو ہم بسر و چشم اسے قبول کریں گے اور تصحیح کے بعد یہ ای بک دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کی جا سکے گی۔



اعجاز عبید

اتحادِ عمل



کلیاتِ غالب کی پیشکش ایک فردِ واحد کی کاوش نہیں تھی بلکہ یہ ایک ٹیم ورک کی ان تھک محنت تھی۔ تفصیل اس اتحادِ عمل کی یہ ہے:



ٹائپنگ: اردو ویب ڈاٹ آرگ ٹیم۔۔۔ اعجاز اختر (اعجاز عبید)، سیدہ شگفتہ، نبیل نقوی، شعیب افتخار، محب علوی، رضوان، شمشاد احمد خان

نسخۂ رضا کی ٹائپنگ: اویس قرنی۔

ترتیب و تحقیق: اعجاز عبید، جویریہ ریاض مسعود

تصحیح و اضافہ: جویریہ ریاض مسعود، اعجاز عبید

نظر اول : ۲۰ جون ۲۰۰۶ (جویریہ مسعود)

اضافۂ ضمیمۂ دوم: ۱۲ مارچ ۲۰۰۷ (جویریہ مسعود)

اضافۂ حواشیِ حامد علی خان: ۰۵ اکتوبر ۲۰۰۷ (جویریہ مسعود)

اضافہ و مزید تحقیق از اعجاز عبید: ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۷۔ (انتخاب از نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، فروری ۲۰۰۷ء دیوانِ غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضاؔ)

نظر ثانی: ۲۳ مئی ۲۰۰۸ (جویریہ مسعود)

نظرِ ثالث: جنوری ۲۰۱۸

نظرِ چہارم: اگست ۲۰۱۹

شکل آخر: جولائی ۲۰۲۰ (آخری ترمیم ’دیوان غالب سے کلیاتِ غالب‘ کی تحریر کے بعد)






حصۂ غزلیات


ردیف الف


۱



نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

شوخیِ نیرنگ، صیدِ وحشتِ طاؤس ہے

دام، سبزے میں ہے پروازِ چمن تسخیر کا

لذّتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل

نعل آتش میں ہے، تیغِ یار سے نخچیر کا

کاؤ کاوِ[3] سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے

سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

خشت پشتِ دستِ عجز و قالب آغوشِ وداع

پُر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا

وحشتِ خوابِ عدم شورِ تماشا ہے اسدؔ

جو مزہ[4] جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا

بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیِر پا

موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا



۲



جنوں گرم انتظار و نالہ بے تابی کمند آیا

سویدا تا بہ لب زنجیر سے[5] دودِ سپند آیا

مہِ اختر فشاں کی بہرِ استقبال آنکھوں سے

تماشا، کشورِ آئینہ میں آئینہ بند آیا

تغافل، بد گمانی، بلکہ میری سخت جانی ہے

نگاہِ بے حجابِ ناز کو بیمِ گزند آیا

فضائے خندۂ گُل تنگ و ذوقِ عیش بے پروا

فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل پسند آیا

عدم ہے خیر خواہِ جلوہ کو زندانِ بے تابی

خرامِ ناز برقِ خرمنِ سعیِ [6]سپند آیا

جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ

مبارک باد اسدؔ، غم خوارِ جانِ دردمند آیا





۳



عالم جہاں بہ عرضِ بساطِ وجود تھا

جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود[7] تھا

بازی خورِ فریب ہے اہلِ نظر کا ذوق

ہنگامہ گرم حیرتِ بود و نمود تھا

[8]عالم طلسمِ شہرِ خموشاں ہے سر بہ سر

یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا

آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست

ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

[9]لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز

لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی

میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کُن اسدؔ

سر گشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا





۴



[10]کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا

دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

بے دماغِ خجلت ہوں رشکِ امتحاں تا کے

ایک بے کسی تجھ کو عالم آشنا پایا

سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری

حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

خاک بازیِ امید، کارخانۂ طفلی

یاس کو دو عالم سے لب بہ خندہ وا پایا

کیوں نہ وحشتِ غالبؔ باج خواہِ تسکیں ہو

کشتۂ تغافل کو خصمِ خوں بہا پایا





۵



[11]عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں زِ سر تا پا

عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا

حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی

ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا

شب نظارہ پرور تھا خواب میں خرام[12] اس کا

صبح موجۂ گل کو نقشِ [13] بوریا پایا

جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ گل[14] ہے

زخمِ تیغِ قاتل کو طُرفہ دل کشا پایا

ہے نگیں کی پا داری نامِ صاحبِ خانہ

ہم سے تیرے کوچے نے نقشِ مدّعا پایا

دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم

آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

نَے اسدؔ جفا سائل، نَے ستم[15] جنوں مائل

تجھ کو جس قدر ڈھونڈھا الفت آزما پایا





۶



دل میرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا

آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا

دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں

آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بار ہا

میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

عرض کیجئے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا

دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار

اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا

دود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہمسری

بس کہ ذوقِ آتشِ گل سے سراپا جل گیا

شمع رویوں کی سر انگشتِ حنائی دیکھ کر

غنچۂ گل پر فشاں، پروانہ آسا، جل گیا

خانمانِ عاشقاں دکانِ آتش باز ہے

شعلہ رو جب ہو گئے گرمِ تماشا، جل گیا[16]

تا کجا افسوسِ گرمی ہائے صحبت، اے خیال

دل بہ سوزِ آتشِ داغِ تمنّا جل گیا[17]

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، غالبؔ! کہ دل

دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا



۷



شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

کارخانے سے جنوں کے بھی، میں عریاں نکلا

میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا

ساغرِ جلوۂ سرشار ہے، ہر ذرۂ خاک

شوقِ دیدار بلا آئینہ ساماں نکلا

زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یا رب

تیر بھی سینۂ بسمل سے پَر افشاں نکلا

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل

جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد

کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا

[18]اے نو آموزِ فنا، ہمتِ دشوار پسند!

سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

[19]شورِ رسوائیِ دل دیکھ کہ یک نالہ شوق

لاکھ پردے میں چھپا، پر وہی عریاں نکلا

کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں، لیکن آخر

جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکلا

کس قدر خاک ہوا ہے دلِ مجنوں، یا رب

نقشِ ہر ذرہ، سویدائے بیاباں نکلا

شوخیِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک

آخر اے عہد شکن! تو بھی پشیماں نکلا[20]

[21]میں بھی معذورِ جنوں ہوں، اسدؔ، اے خانہ خراب

پیشوا لینے مجھے گھر سے بیاباں نکلا

دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ

آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا





۸



[22]دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا

‘‘عشقِ نبرد پیشہ‘‘ طلب گارِ مرد تھا

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا

اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں

مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

دل تا جگر، کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب

اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا

جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی!

دل بھی اگر گیا، تو وُہی دل کا درد تھا

احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے

زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا

یہ لاشِ بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا




۹



شمار سبحہ،‘‘ مرغوبِ بتِ مشکل‘‘ پسند آیا

تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا

بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے

کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا

ہوائے[23] سیرِ گل، آئینۂ بے مہریِ قاتل

کہ اندازِ بہ خوں غلطیدنِ [24] بسمل پسند آیا

ہوئی جس کو بہارِ فرصتِ ہستی سے آگاہی

بہ رنگِ لالہ، جامِ بادہ بر محمل پسند آیا

سوادِ چشمِ بسمل انتخابِ نقطہ آرائی

خرامِ نازِ بے پروائیِ قاتل پسند آیا

[25]روانی ہائے موجِ خونِ بسمل سے ٹپکتا ہے

کہ لطفِ بے تحاشا رفتنِ قاتل پسند آیا

اسدؔ ہر جا سخن نے طرحِ باغِ تازہ ڈالی ہے

مجھے رنگِ بہار ایجادیِ بیدلؔ پسند آیا


۱۰



دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا

ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

نہ ہوئی ہم سے رقم حیرتِ خطِّ رخِ یار

صفحۂ آئینہ جولاں گہِ طوطی نہ ہوا[26]

سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا

یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں

وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی

گر نفَس جادۂ سر منزلِ تقوی نہ ہوا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی

گوش منت کشِ گل بانگِ تسلّی نہ ہوا

کس سے محرومیِ قسمت کی شکایت کیجیے

ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

وسعتِ رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جائے[27]

مجھ سا کافر کہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا

[28]مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ

ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا





۱۱



ستایش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا

وہ اک گل دستہ ہے ہم بے خودوں کے طاقِ نسیاں کا

بیاں کیا کیجئے بیدادِ کاوش ہائے مژگاں کا

کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع، میرے نالوں کو

لیا دانتوں میں جو تنکا، ہوا ریشہ نَیَستاں کا

دکھاؤں گا تماشہ، دی اگر فرصت زمانے نے

مِرا ہر داغِ دل، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے

کرے جو پرتوِ خُورشید عالم شبنمستاں کا

مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولٰی برقِ خرمن کا، ہے خونِ گرم دہقاں کا

اُگا ہے گھر میں ہر سُو سبزہ، ویرانی تماشہ کر

مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے، میرے درباں کا

خموشی میں نہاں، خوں گشتہ[29] لاکھوں آرزوئیں ہیں

چراغِ مُردہ ہوں، میں بے زباں، گورِ غریباں کا

ہنوز اک‘‘پرتوِ نقشِ خیالِ یار‘‘ باقی ہے

دلِ افسردہ، گویا، حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

بغل میں غیر کی، آج آپ سوتے ہیں کہیں، ورنہ

سبب کیا خواب میں آ کر تبسّم ہائے پنہاں کا

نہیں معلوم، کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا

قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

نظر میں ہے ہماری جادۂ راہِ فنا غالبؔ

کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا





۱۲



نہ ہو گا ‘‘یک بیاباں ماندگی‘‘ سے ذوق کم میرا

حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

[30]رہِ خوابیدہ، تھی گردن کشِ یک درس آگاہی

زمیں کو سیلیِ استاد ہے، نقشِ قدم میرا

سراغ آوارہ عرضِ دو عالم شورِ محشر ہوں

پر اَفشاں ہے غبار، آں سوئے صحرائے عدم، میرا

نہ ہو وحشتِ کشِ درسِ سرابِ سطرِ آگاہی

غبارِ رہ ہوں، بے مدعا ہے پیچ و خم میرا

ہوائے صبح، یک عالم گریباں چاکیِ گل ہے

دہانِ زخم پیدا کر، اگر کھاتا ہے غم میرا

اسدؔ، وحشت پرستِ گوشہ تنہائیِ دل ہوں

بہ رنگِ موجِ مے، خمیازہ ساغر ہے، رم میرا





۱۳



ز بس خوں گشتۂ رشکِ وفا تھا وہم بسمل کا

چرایا زخم ہائے دل نے پانی تیغِ قاتل کا

نگاہِ چشمِ حاسد وام لے، اے ذوقِ خود بینی

تماشائی ہوں، وحدت خانۂ آئینۂ دل کا

شرر فرصت نگہ، سامانِ یک عالم چراغاں ہے

بہ قدرِ رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا

سراسر تاختن کو، شش جہت یک عرصہ جولاں تھا

ہوا واماندگی سے رہرواں کی، فرق منزل کا

[31]سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی

عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

بہ قدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی

جو تو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

مجھے راہِ سخن میں خوفِ گمراہی نہیں غالبؔ

عصائے خضرِ صحرائے سخن ہے، خامہ بیدلؔ کا



۱۴



محرم نہیں ہے تو ہی، نوا ہائے راز کا

یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا

رنگِ شکستہ، صبحِ بہارِ نظارہ ہے

یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا

تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز

میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا

صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں

طُعمہ[32] ہوں ایک ہی نفَسِ جاں گداز کا

ہیں بس کہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے

ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا

کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز

ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا

تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ!

سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا





۱۵



بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا

رکھیو یا رب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا

شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا

اِس تکلّف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا

گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب

آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گو نہ پاؤں اس کا بھید

پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال

خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں

زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا

کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول

آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا

کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال

نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

اس کی امّت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالبؔ! گنبدِ بے در کھلا



۱۶



شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا

شعلۂ جوّالہ ہر اِک[33] حلقۂ گرداب تھا

شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیری، دل بے تاب تھا

شوخیِ وحشت سے افسانہ فسونِ خواب تھا

واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام

گریے سے یاں، پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا

لے زمیں سے آسماں تک فرش تھیں بے تابیاں

شوخیِ بارش سے مہ فوّارۂ سیماب تھا

[34]واں ہجومِ نغمہ ہائے سازِ عشرت تھا اسدؔ

ناخنِ غم، یاں سرِ تارِ نفس مضراب تھا

واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال

یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو

یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

یاں سرِ پر شور بے خوابی سے تھا دیوار جو

واں وہ فرقِ ناز، محوِ بالشِ کمخواب[35] تھا

یاں نفَس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بے خودی

جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا

فرش سے تا عرش، واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا

یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا

دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا





۱۷



نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا

تھا سپندِ بزمِ وصلِ غیر، گو بے تاب تھا

دیکھتے تھے ہم بہ چشمِ خود وہ طوفانِ بلا

آسمانِ سفلہ، جس میں یک کفِ سیلاب تھا

موج سے پیدا ہوئے پیراہنِ دریا میں خار

گریہ وحشت بے قرارِ جلوۂ مہتاب تھا

جوشِ تکلیفِ تماشا محشرستانِ نگاہ[36]

فتنۂ خوابیدہ کو آئینہ مشتِ آب تھا

[37]بے خبر مت کہہ ہمیں بے درد، خود بینی سے پوچھ

قلزمِ ذوقِ نظر میں آئینہ پایاب تھا

بے دلی ہائے اسدؔ افسردگی آہنگ تر

یادِ ایّامے کہ ذوقِ صحبتِ احباب تھا

مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے!

خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا

نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی، کیا کہوں

پہلوئے اندیشہ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا

کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے، ورنہ یاں

ذرہ ذرہ رو کشِ خورشیدِ عالم تاب تھا

ق

آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے؟

کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا

یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا

انتظارِ صید میں اِک دیدۂ بے خواب تھا

میں نے روکا رات غالبؔ کو، وگرنہ دیکھتے

اُس کے[38] سیلِ گریہ میں، گردُوں کفِ سیلاب تھا



۱۸



کس کا جنونِ دید تمنّا شکار تھا؟

آئینہ خانہ وادیِ جوہر غبار تھا

کس کا خیال آئینۂ انتظار تھا

ہر برگِ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا

[39]جوں غنچہ و گل، آفتِ فالِ نظر نہ پوچھ

پیکاں سے تیرے، جلوۂ زخم، آشکار تھا

ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب

خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا

اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو

توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا

[40]دیکھی وفائے فرصتِ رنج و نشاطِ دہر

خمیازہ، یک درازیِ عمرِ خمار تھا

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں

جاں دادۂ ہوائے سرِ رہ گزار تھا

موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال

ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا

کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب

دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا

[41]صبحِ قیامت ایک دُمِ گرگ تھی، اسدؔ

جس دشت میں وہ شوخِ دو عالم شکار تھا



۱۹



بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی

در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

وائے دیوانگیِ شوق کہ ہر دم مجھ کو

آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں[42] ہونا

جلوہ از بس کہ تقاضائے نگہ کرتا ہے

جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ

عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط

تو ہو اور آپ بہ صد رنگِ گلستاں ہونا

عشرتِ پارۂ دل، زخمِ تمنا کھانا

لذت ریشِ جگر، غرقِ نمک داں ہونا

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت[43] غالبؔ!

جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا





۲۰



شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا

تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا

یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا

جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا

مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلےٰ کون ہے؟

خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن

دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا

نالۂ دل نے دیئے اوراقِ لختِ دل بہ باد

یادگارِ نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا

ہوں چراغانِ ہوس، جوں کاغذِ آتش زدہ

داغ گرمِ کوششِ ایجادِ داغِ تازہ تھا

بے نوائی تر صدائے نغمۂ شہرت اسدؔ

بوریا یک نیستاں عالم بلند دروازہ[44] تھا





۲۱



دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں [45] گے کیا

زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک

ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے 'کیا'؟

حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ

کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں

عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی

یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا

خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں

ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا

ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسدؔ

ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں[46]، کھائیں گے کیا؟



۲۲



یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا

غم اگر چہ جاں گسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟ شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا





۲۳



ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

تجاہل پیشگی سے مدعا کیا

کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟

نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں

شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں

تغافل ہائے تمکیں آزما کیا

فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے

ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

نفس موجِ محیطِ بے خودی ہے

تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا

دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے

غمِ آوارگی ہائے صبا کیا

دلِ ہر قطرہ ہے سازِ ’انا البحر‘

ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ

شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا

سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن

شکستِ قیمتِ دل[47] کی صدا کیا

کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟

شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا

یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟

یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟

بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات

عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!







۲۴



درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا

پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم

الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا

روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا

کم نہیں نازشِ ہمنامیِ چشمِ خوباں

تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا

سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا

خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا

کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا[48]

ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب

حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل

کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے

دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا[49]



۲۵



[50]نہ بھولا اضطرابِ دم شماری، انتظار اپنا

کہ آخر شیشۂ ساعت کے کام آیا غبار اپنا

ز بس آتش نے فصلِ رنگ میں رنگِ دگر پایا

چراغِ گل سے ڈھونڈے ہے چمن میں شمع خار اپنا

اسیرِ بے زباں ہوں، کاشکہ! صیادِ بے پروا

بہ دامِ جوہرِ آئینہ، ہو جاوے شکار اپنا

مگر ہو مانعِ دامن کشی، ذوقِ خود آرائی

ہوا ہے نقش بندِ آئینہ، سنگِ مزار اپنا

دریغ! اے ناتوانی، ورنہ ہم ضبط آشنایاں نے

طلسمِ رنگ میں باندھا تھا عہدِ استوار اپنا

اگر آسودگی ہے مدعائے رنجِ بے تابی

نیازِ گردشِ پیمانۂ مے روزگار اپنا

اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں

کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا







۲۶



پئے نذرِ کرم تحفہ ہے 'شرمِ نا رسائی' کا

بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا

[51]نہ ہو' حسنِ تماشا دوست' رسوا بے وفائی کا

بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا

جہاں مٹ جائے سعیِ دید خضر آبادِ آسایش

بہ جیبِ ہر نگہ پنہاں ہے حاصل رہنمائی کا

بہ عجز آبادِ وہمِ مدّعا تسلیمِ شوخی ہے

تغافل یوں[52] نہ کر مغرور تمکیں آزمائی کا

زکاتِ حسن دے، اے جلوۂ بینش، کہ مہر آسا

چراغِ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا

نہ مارا جان کر بے جرم، غافل![53] تیری گردن پر

رہا مانند خونِ بے گنہ، حق آشنائی کا

تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے

مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا

وہی اک بات، ہے جو یاں نفَس، واں نکہتِ گل ہے

چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا

دہانِ ہر‘‘بتِ پیغارہ جُو‘‘، زنجیرِ رسوائی

عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا

نہ دے نامے کو اتنا طول غالبؔ، مختصر لکھ دے

کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا







۲۷



گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا

بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہو جائے گا

زہرہ، گر ایسا ہی شامِ ہجر میں، ہوتا ہے آب

پرتوِ مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا

لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر

ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا

دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا

یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا

سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا

مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا

گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط

شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہو جائے گا

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک‘‘چشمِ خوں فشاں‘‘ ہو جائے گا

وائے گر میرا، ترا انصاف محشر میں نہ ہو

اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا

[54]گر وہ مستِ ناز دیوے گا صلائے عرضِ حال

خارِ گُل، بہرِ دہانِ گُل زباں ہو جائے گا

گر شہادت آرزو ہے، نشے میں گستاخ ہو[55]

بال شیشے کا، رگِ سنگِ فساں ہو جائے گا

فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ

دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا





۲۸



درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا

میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو

اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں

تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب،‘‘کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا‘‘

ہے خبر گرم ان کے آنے کی

آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یوں[56] ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما

کام گر رک گیا، روا نہ ہوا

رہ زنی ہے کہ دل ستانی ہے؟

لے کے دل،‘‘دلستاں‘‘ روانہ ہوا

کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں

آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا!







۲۹



گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا

گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!

مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

حنائے پائے خزاں ہے بہار، اگر ہے یہی

دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

ملی نہ وسعتِ جولانِ یک جنوں ہم کو[57]

عدم کو لے گئے دل میں غبارِ صحرا کا

مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے

میں مدّعا ہوں تپش نامۂ تمنّا کا

غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو

مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے[58] بے جا کا

ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں

کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے

ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے

مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا

فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ

جفا میں اُس[59] کی ہے انداز کارفرما کا



۳۰

قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا

خطِّ جامِ مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا

اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا

غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا

گرمیِ دولت ہوئی آتش زنِ نامِ نکو

خانۂ ماتم میں یاقوتِ نگیں اخگر[60] ہوا

نشّے میں گُم کردہ رہ آیا وہ مستِ فتنہ خو

آج رنگِ رفتہ دورِ گردشِ ساغر ہوا

درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست

ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا

اے بہ ضبطِ حال خو نا کردگاں[61] جوشِ جنوں

نشٓۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا

زُہد گر دیدن ہے گِردِ خانہ ہائے منعماں

دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا

اس چمن میں ریشہ داری جس نے سر کھینچا اسدؔ

تر زبانِ شکرِ لطفِ ساقیِ کوثر ہوا



۳۱

جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا

تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا

[62]ناتوانی ہے تماشائی عمرِ رفتہ

رنگ نے آئینہ آنکھوں کے مقابل باندھا

اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیِ ناز

جوہرِ آئینہ کو طوطیِ بسمل باندھا

[63]اصطلاحاتِ اسیرانِ تغافل مت پوچھ

جو گرہ آپ نہ کھولی، اسے مشکل باندھا

یاس و امید نے اک عرَبدہ میداں مانگا

عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا

[64]نوکِ ہر خار سے تھا بس کہ سر دزدیِ زخم

جوں نمد، ہم نے کفِ پا پہ، اسدؔ، دل باندھا

نہ بندھے تِشنگیِ ذوق[65] کے مضموں، غالبؔ

گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا


۳۲



میں اور بزمِ مے سے یوں، تشنہ کام آؤں

گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟

ہے ایک تیر، جس میں دونوں چھِدے پڑے ہیں

وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا

درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں

جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا




۳۳



گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا

بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

تنگیِ دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے

کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا

بعد یک عمرِ وَرع، بار تو دیتا بارے

کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا


۳۴



نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہُوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا

نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا، پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا





۳۵



یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا

یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا

بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی

کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا

بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا

تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے

تِریاکیِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا

سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے

پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا

بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار

یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا

باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل

ابرِ بہار خم کدہ کِس کے دماغ کا!

جوشِ بہار کلفتِ نظّارہ ہے اسدؔ

ہے ابر پنبہ روزنِ دیوارِ باغ کا


۳۶

وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا

رازِ مکتوب بہ بے ربطیِ عنواں سمجھا

یک الِف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز

چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

ہم نے وحشت کدۂ بزمِ جہاں میں جوں شمع

شعلۂ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا

شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ

اس قدر تنگ ہوا دل، کہ میں زنداں سمجھا

بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام

رخ پہ ہر قطرۂ عرق دیدۂ حیراں سمجھا

عجزسے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہو گا

نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا

سفرِ عشق میں، کی ضعف نے راحت طلبی

ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا

تھا گریزاں مژہِ یار سے دل تا دمِ مرگ

دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا

دل دیا، جان کے کیوں اس کو وفا دار، اسدؔ

غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا


۳۷



پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

دل، جگر تشنۂ فریاد آیا

دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا

سادگی ہائے تمنا، یعنی

پھر وہ نیرنگِ نظر[66] یاد آیا

عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!

نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی

گھر ترا خلد میں گر یاد آیا

آہ! وہ جرأتِ فریاد کہاں

دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا

پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال

دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ

سنگ اٹھایا تھا، کہ سر یاد آیا





۳۸



ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ

اس میں کچھ شائبۂ خوبیِ تقدیر بھی تھا

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟

کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد

ہاں! کچھ اک رنجِ گران باریِ زنجیر بھی تھا

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا!

بات کرتے، کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا

یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئی

گر بگڑ بیٹھے، تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا

دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا

نالہ کرتا تھا، ولے طالبِ تاثیر بھی تھا

پیشے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو نام

ہم ہی آشفتہ سروں میں، وہ جواں میر بھی تھا

ہم تھے مرنے کو کھڑے، پاس نہ آیا، نہ سہی

آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا، دمِ تحریر بھی تھا؟

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا





۳۹



لبِ خشک در تشنگی، مردگاں کا

زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا

شگفتن کمیں گاہِ [67] تقریب جوئی

تصوّر ہوں بے موجب آزردگاں کا

غریبِ ستم دیدۂ [68] باز کشتن

سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا

سراپا یک آئینہ دارِ شکستن

ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا

ہمہ نا امیدی، ہمہ بد گمانی

میں دل ہوں فریبِ وفا خوردگاں کا

بہ صورت تکلّف، بہ معنی تاسّف

اسدؔ میں تبسّم ہوں پژمردگاں کا



۴۰

تو دوست کسی کا بھی، ستم گر! نہ ہوا تھا

اوروں پہ ہے وہ ظلم، کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے

خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا

توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے

آنکھوں میں ہے وہ قطرہ، کہ گوہر نہ ہوا تھا

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم

میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں

یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک

میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مِری[69] تحصیل

آتش کدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا
۴۱



شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا

رشتۂ ہر شمع، خارِ کِسوتِ فانوس تھا

بت پرستی ہے بہارِ نقش بندی ہائے دہر

ہر صریرِ خامہ میں اک[70] نالۂ ناقوس تھا

مشہدِ عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا

کس قدر یا رب! ہلاکِ حسرتِ پا بوس تھا

حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو

دل بہ دل پیوستہ، گویا، یک لبِ افسوس تھا

کیا کروں[71] بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں

جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا

طبع کی وا شد نے رنگِ گلستاں یک گل کیا[72]

یہ دل وابستہ، گویا، بیضۂ طاؤس تھا

کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشۂ[73] غم خانہ میں

دست بر سر، سر بہ زانوئے دلِ مایوس تھا

۴۲

ضعفِ جنوں کو، وقتِ تپش، در بھی دور تھا

اک، گھر میں، مختصر سا بیاباں ضرور تھا

اے وائے غفلتِ نگہِ شوق! ورنہ یاں

ہر پارۂ سنگ لختِ دلِ کوہِ طور تھا

درسِ تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے

وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا

شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر

پیمانہ رات، ماہ کا لب ریزِ نور تھا

[74]آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے

اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا

جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر

جوہرِ سواد، جلوۂ مژگانِ حور تھا

ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار

پروانہ تجلی شمعِ ظہور تھا





۴۳



بہ شغلِ انتظارِ مہ وشاں در خلوتِ شب ہا

سرِ تارِ نظر ہے رشتۂ تسبیحِ کوکب ہا

کرے گر فکر تعمیرِ خرابی ہائے دل گردوں

نہ نکلے خشت مثلِ استخواں بیرونِ قالب ہا

عیادت ہائے طعن آلودِ یاراں زہرِ قاتل ہے

رفوئے زخم کرتی ہے بہ نوکِ نیشِ عقرب ہا

کرے ہے حسنِ خوباں پردے میں مشاطگی اپنی

کہ ہے تہ بندۂ خط سبزۂ خط در تہِ لب ہا

[75]فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں

نہیں رفتارِ عمرِ تیز رو پابندِ مطلب ہا

اسد کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے

نہاں ہیں نالۂ ناقوس میں در پردہ‘‘یا رب‘‘ ہا





۴۴



عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا

جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے

ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا

مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر، کہ میں

شایانِ دست و [76]خنجرِ قاتل نہیں رہا

بر روئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے

یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا

وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن

غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں

حاصل سواے حسرتِ حاصل نہیں رہا

[77]جاں دادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے

یاں عرصۂ تپیدنِ بِسمل نہیں رہا

ہوں قطرہ زن بہ مرحلۂ یاس روز و شب[78]

جُز تارِ اشک جادۂ منزل نہیں رہا

اے آہ! میری خاطرِ وابستہ کے سوا

دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا

[79]ہر چند ہوں میں طوطیِ شیریں سخن، ولے

آئینہ، آہ،! میرے مقابل نہیں رہا

بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ[80]

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا





۴۵



خود پرستی سے رہے باہم دِگر نا آشنا

بے کسی میری شریک، آئینہ تیرا آشنا

آتشِ موئے دماغِ شوق ہے تیرا تپاک

ورنہ ہم کس کے ہیں اے داغِ تمنّا، آشنا

جوہرِ آئینہ جز رمزِ سرِ مژگاں نہیں

آشنائی[81] ہم دِگر سمجھے ہے ایما آشنا

ربطِ یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار

سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا

رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!

عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا

[82]بے دماغی شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہیں

یار تیرا جامِ مے، خمیازہ میرا آشنا

ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے

گردشِ مجنوں بہ چشمک ‌ہاے لیلیٰ آشنا

شوق ہے‘‘ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز‘‘

ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا

میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی،‘‘کہ ہے

عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا‘‘

شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہ رہنا چاہیے

میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا

کوہ کن‘‘نقّاشِ یک تمثالِ شیریں‘‘ تھا اسدؔ

سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا



۴۶

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا

بن گیا رقیب آخر۔ تھا جو راز داں اپنا

مے وہ کیوں بہت پیتے بزمِ غیر میں یا رب

آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

عرش سے اُدھر[83] ہوتا، کاشکے مکاں اپنا

دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے

بارے آشنا نکلا، ان کا پاسباں، اپنا

دردِ دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلا دوں

انگلیاں فگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا

گھستے گھستے مٹ جاتا، آپ نے عبث بدلا

ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا

تا کرے نہ غمازی، کر لیا ہے دشمن کو

دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا

ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے

بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا


۴۷



طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا

یا رب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا؟

عزّت گزینِ [84] بزم ہیں واماندگانِ دید

مینائے مے ہے آبلہ پائے نگاہ کا

ہر گام آبلے سے ہے دل در تہِ قدم

کیا بیم اہلِ درد کو سختیِ راہ کا

جَیبِ نیازِ عشق نشاں دارِ ناز ہے

آئینہ ہوں شکستنِ طرفٕ کلاہ کا

[85]غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں

بے شانۂ صبا نہیں، طرہ گیاہ کا

بزمِ قدح سے عیشِ تمنا نہ رکھ، کہ رنگ

صیدِ ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا

رحمت اگر قبول کرے، کیا بعید ہے

شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا

[86]مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں، کہ ہے

پُر گل خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا

جاں در‘‘ہوائے یک نگہِ گرم‘‘ ہے اسدؔ

پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا





۴۸



خلوتِ آبلۂ پا میں ہے، جولاں میرا

خوں ہے دل تنگیِ وحشت سے بیاباں میرا

ذوقِ سرشار سے بے پردہ ہے طوفاں میرا

موجِ خمیازہ ہے ہر زخمِ نمایاں میرا

عیشِ بازی کدۂ حسرتِ جاوید رسا

خونِ آدینہ سے رنگیں ہے دبستاں میرا

حسرتِ نشۂ وحشت نہ بہ سعیِ دل ہے

عرضِ خمیازۂ مجنوں ہے گریباں میرا

عالمِ بے سر و سامانیِ فرصت مت پوچھ

لنگرِ وحشتِ مجنوں ہے بیاباں میرا

بے دماغِ تپشِ رشک ہوں اے جلوۂ حسن

تشنۂ خونِ دل و دیدہ ہے پیماں میرا

فہم زنجیریِ بے ربطیِ دل ہے یا رب

کس زباں میں ہے لقب خوابِ پریشاں میرا

بہ ہوس دردِ سرِ اہلِ سلامت تا چند؟

مشکلِ عشق ہوں، مطلب نہیں آساں میرا

[87]سرمۂ مفتِ نظر ہوں مری قیمت[88] یہ ہے

کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا

رخصتِ نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم

تیرے چہرے سے ہو ظاہر[89] غمِ پنہاں میرا

بوئے یوسف مجھے گل زار سے آتی تھی اسدؔ

دَے نے برباد کیا پیر ہنستاں میرا





۴۹



جور سے باز آئے پر، باز آئیں کیا

کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ

جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ

یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ

مر گیے پر دیکھیے دکھلائیں کیا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا





۵۰



بہارِ رنگِ خونِ دل[90] ہے ساماں اشک باری کا

جنونِ برق، نشتر ہے رگِ ابرِ بہاری کا

برائے حلِّ مشکل ہوں ز پا افتادۂ حسرت

بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا

بوقتِ سرنگونی ہے تصوّر انتظارستاں کا

نگہ کو سالوں[91] سے شغل ہے اختر شماری کا

[92]لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا

حریفِ جوششِ دریا نہیں خود داریِ ساحل

جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا

اسدؔ ساغر کشِ تسلیم ہو گردش سے گردوں کی

کہ ننگِ فہمِ مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا





۵۱



عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد

تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام

مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا

اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ

اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا

ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا

باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال

ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا

ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھُلنا

روتے روتے غمِ فُرقت میں فنا ہو جانا

گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہوس

کیوں ہے گردِ رہِ جَولانِ صبا ہو جانا

تاکہ تجھ پر کھُلے اعجازِ ہوائے صَیقل

دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا

بخشے ہے جلوۂ گُل، ذوقِ تماشا غالبؔ

چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا



۵۲

رات، دل گرمِ خیالِ جلوۂ جانانہ تھا

رنگِ روئے شمع، برقِ خرمنِ پروانہ تھا

شب کہ تھی کیفیتِ محفل بہ یادِ روئے یار

ہر نظر میں، داغِ مئے خالِ لبِ پیمانہ تھا

شب کہ باندھا خواب میں آنے کا قاتل نے، جناح

وہ فسونِ وعدہ میرے واسطے افسانہ تھا

[93]دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی

وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمعِ ماتم خانہ تھا

ساتھ جنبش کے بہ یک برخاستن طے ہو گیا

تو کہے، صحرا غبارِ دامنِ دیوانہ تھا

دیکھ اُس کے ساعدِ سیمین و دستِ پر نگار

شاخِ گل جلتی تھی مثلِ شمع، گل پروانہ تھا

شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا

غالبؔ ایسے گنج کو عیاں یہی ویرانہ تھا[94]

اے اسدؔ! رویا جو دشتِ غم میں میں حیرت زدہ

آئینہ خانہ ز سیلِ اشک، ہر ویرانہ تھا


۵۳



سیر آں سوئے تماشا ہے طلب گاروں کا

خضر مشتاق ہے اس دشت کے آواروں کا

سر خطِ بند ہوا، نامہ گنہ گاروں کا

خونِ ہدہد سے لکھا نقش گرفتاروں کا

فردِ آئینہ میں بخشیں شکنِ خندۂ گل

دلِ آزردہ پسند، آئینہ رخساروں کا

داد خواہِ تپش و مہرِ خموشی بر لب

کاغذِ سرمہ ہے، جامہ ترے بیماروں کا

وحشتِ نالہ بہ واماندگیِ وحشت ہے

جرسِ قافلہ، یاں دل ہے گراں باروں کا

پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے

رنگ اڑتا ہے گُلِ ستاں کے ہوا داروں کا

جلوہ مایوس نہیں دل، نگرانی غافل

چشمِ امید ہے، روزن تری دیواروں کا

اسدؔ، اے ہرزہ درا! نالہ بہ غوغا تا چند

حوصلہ تنگ نہ کر، بے سبب آزاروں کا


۵۴



نہ ہو حسنِ تماشا دوست، رسوا بے وفائی کا

بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا

ہوس گستاخیِ آئینہ، تکلیفِ نظر بازی

بہ جیبِ آرزو پنہاں ہے، حاصل دل ربائی کا

نظر بازی طلسمِ وحشت آبادِ پرستاں ہے

رہا بیگانۂ تاثیر افسوں آشنائی کا

نہ پایا درد مندِ دوریِ یارانِ یک دل نے

سوادِ خطِ پیشانی سے نسخہ مومیائی کا

تمنائے زباں، محوِ سپاسِ بے زبانی ہے

مٹا، جس سے، تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا

اسدؔ! یہ عجز و بے سامانیِ فرعون توَام ہے

جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا



۵۵



بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج

ہر سلحشور انگلستاں کا

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں، وہ مقتل ہے

گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا

شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک

تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک

آدمی واں نہ جا سکے یاں کا

میں نے مانا کہ مل گئے، پھر کیا

وہی رونا تن و دل و جاں کا

گاہ جل کر کیا کیئے شکوہ

سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا

گاہ رو کر کہا کیئے باہم

ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا

اس طرح کے وصال سے یا رب

کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا
۵۶



بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا

نگیں میں جوں شرارِ سنگ نا پیدا ہے نام اس کا

[95]سرو کارِ تواضع تا خمِ گیسو رسانیدن

بسانِ شانہ زینت ریز ہے دستِ سلام اُس کا

مِسی آلودہ ہے مُہر نوازش نامہ ظاہر ہے

کہ داغِ آرزوئے بوسہ دیتا[96] ہے پیام اس کا

بہ امیّدِ نگاہِ خاص ہوں محمل کشِ حسرت

مبادا ہو عناں گیرِ تغافل لطفِ عام اس کا

[97]لڑاوے گر وہ بزمِ مے کشی میں قہر و شفقت کو

بھرے پیمانۂ صد زندگانی ایک جام اُس کا

[98]اسد سودائے سر سبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر

کہ کشتِ خشک اُس کا ابرِ بے پروا خرام اُس کا


۵۷



وردِ اسمِ حق سے، دیدارِ صنم حاصل ہوا

رشتۂ تسبیح، تارِ جادۂ منزل ہوا

محتسب سے تنگ ہے، از بس کہ کارِ مے کشاں

رز میں جو انگور نکلا، عقدۂ مشکل ہوا

قیس نے از بس کہ کی سیرِ گریبانِ نفس

یک دو چیں دامانِ صحرا، پردۂ محمل ہوا

وقتِ شب اُس شمع رو کے شعلۂ آواز پر

گوشِ نسریں عارضاں، پروانۂ محفل ہوا

خاکِ عاشق بس کہ ہے، فرسودہ پروازِ شوق

جادہ ہر دشت، تارِ دامنِ قاتل ہوا

عیب کا دریافت کرنا، ہے ہنر مندی اسدؔ

نقص پر اپنے ہوا جو مطلعِ ، کامل ہوا







ردیف ب


۵۸



پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب

دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب

پوچھ مت وجہ سیہ مستیِ اربابِ چمن

سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب

جو ہوا غرقۂ مے، بختِ رسا رکھتا ہے

سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما موجِ شراب

ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے، اگر

موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب

چار موج[99] اٹھتی ہے طوفانِ طرب سے ہر سو

موجِ گل، موجِ شفق، موجِ صبا، موجِ شراب

جس قدر روح نباتی ہے جگر تشنۂ ناز

دے ہے تسکیں بَدَمِ آبِ بقا موجِ شراب

بس کہ دوڑے ہے رگِ تاک میں خوں ہو ہو کر

شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب

موجۂ گل سے چراغاں ہے گزر گاہِ خیال

ہے تصوّر میں ز بس جلوہ نما موجِ شراب

نشّے کے پردے میں ہے محوِ تماشائے دماغ

بس کہ رکھتی ہے سرِ نشو و نما موجِ شراب

ایک عالم پہ ہیں طوفانیِ کیفیّتِ فصل

موجۂ سبزۂ نوخیز سے تا موجِ شراب

شرحِ ہنگامۂ مستی ہے، زہے! موسمِ گل

رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے، خوشا موجِ شراب

ہوش اڑتے ہیں مرے، جلوۂ گل دیکھ، اسدؔ

پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کُشا موجِ شراب







ردیف ت




۵۹



جاتا ہوں جدھر سب کی اُٹھے ہے اُدھر انگشت

یک دست جہاں مجھ سے پھرا ہے، مگر انگشت

الفتِ مژگاں میں جو انگشت نما ہوں

لگتی ہے مجھے تیر کے مانند، ہر انگشت

ہر غنچۂ گل صورتِ یک قطرۂ خوں ہے

دیکھا ہے کسو کا جو حنا بستہ، سر انگشت

گرمی ہے زباں کی سببِ سوختنِ جاں

ہر شمع شہادت کو ہے یاں سر بسر انگشت

خوں دل میں جو میر ے نہیں باقی تو پھر اس کی

جوں ماہی بے آب تڑپتی ہے ہر انگشت

شوخی تری کہہ دیتی ہے احوال ہمارا

رازِ دلِ صد پارہ کی ہے پردہ در انگشت

بس رتبے میں باریکی و نرمی ہے کہ جوں گل

آتی نہیں پنجے میں بس اس کے نظر انگشت

[100]افسوس کہ دنداں[101] کا کیا رزق فلک نے

جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت

کافی ہے نشانی تِری،[102] چھلّے کا نہ دینا

خالی مجھے دکھلا کے بہ وقتِ سفر انگشت

لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخنِ گرم

تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت



۶۰



رہا گر کوئی تا قیامت سلامت

پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت

جگر کو مرے عشقِ خوں نابہ مشرب

لکھے ہے ’خداوندِ نعمت سلامت‘

[103]دو عالم کی ہستی پہ خطِ وفا کھینچ

دل و دستِ اربابِ ہمت سلامت!

علی اللّرغمِ دشمن، شہیدِ وفا ہوں

مبارک مبارک سلامت سلامت

نہیں گر سر و برگِ ادراک معنی

تماشائے نیرنگ صورت سلامت

[104]نہیں گر بہ کامِ دلِ خستہ، گردوں

جگر خائیِ جوشِ حسرت سلامت!

نہ اوروں کی سنتا، نہ کہتا ہوں اپنی

سرِ خستہ و شورِ وحشت سلامت!

وفورِ بلا ہے، ہجومِ وفا ہے

سلامت ملامت، ملامت سلامت!

نہ فکر سلامت، نہ بیم ملامت

ز خود رفتگی ہائے حیرت سلامت!

رہے غالبِ خستہ، مغلوبِ گردوں

یہ کیا بے نیازی ہے، حضرت سلامت؟



۶۱



آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست

دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

اے دلِ نا عاقبت اندیش! ضبطِ شوق کر

کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست

خانہ ویراں سازیِ حیرت! تماشا کیجیئے

صورتِ نقشِ قدم ہوں رَفتۂ[105] رفتارِ دوست

عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے

کُشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمارِ دوست

چشمِ ما روشن، کہ اس بے درد کا دل شاد ہے

دیدۂ پر خوں ہمارا ساغرِ سرشارِ دوست

ق

غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں

بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست

تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک

مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست

جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ

سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست

چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر

ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخیِ گفتارِ دوست

مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیئے

یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست

[106]چشم بندِ خلق غیر از نقشِ خود بینی نہیں

آئینہ ہے قالبِ خشتِ در و دیوارِ دوست

برقِ خرمن زارِ گوہر ہے نگاہِ تیزیاں

اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیِ رفتارِ دوست

ہے سوا نیزے پہ اس کے قامتِ نوخیز سے

آفتابِ روزِ محشر ہے گلِ دستارِ دوست

لغزشِ مستانہ و جوش تماشا ہے اسد

آتشِ مے سے بہارِ گرمیِ بازار دوست

یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ

ہے ردیفِ شعر میں غالبؔ! ز بس تکرارِ دوست





۶۲



مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ

یار لائے مری بالیں پہ اسے، پر کس وقت





ردیف ج


۶۳



گلشن میں بند و بست، بہ رنگِ دگر ہے، آج

قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج

معزولیِ تپش ہوئی افراطِ انتظار

چشمِ کشادہ[107] حلقۂ بیرونِ در ہے آج

حیرت فروشِ صد نگَرانی ہے اضطرار

ہر رشتہ تارِ جَیب کا تارِ نظر ہے آج[108]

اے عافیت! کنارہ کر، اے انتظام! چل

[109]سیلابِ گریہ درپےِ دیوار و در ہے آج

آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ

تارِ نفس کمندِ شکارِ اثر ہے آج

ہوں داغِ نیم رنگیِ شامِ وصالِ یار

نورِ چراغِ بزم سے جوشِ سحر ہے آج

کرتی ہے عاجزی سفرِ سوختن تمام

پیراہنِ خَسَک میں غبارِ شرر ہے آج

تا صبح ہے بہ منزلِ مقصد رسیدنی

دودِ چراغِ خانہ غبارِ سفر ہے آج

دور اوفتادۂ چمنِ فکر ہے اسدؔ

مرغِ خیالِ بلبلِ بے بال و پر ہے آج





۶۴

لو ہم مریضِ عشق کے بیمار دار ہیں[110]

اچھاّ اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج!!







ردیف چ


۶۵



نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ

اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ

‘‘کمالِ گرمیِ سعیِ [111] تلاشِ دید‘‘ نہ پوچھ

بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ

تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل!

کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بستر کھینچ

تری طرف ہے بہ حسرت نظارۂ نرگس

بہ کوریِ دل و چشمِ رقیب ساغر کھینچ

بہ نیم غمزہ ادا کر حقِ ودیعتِ ناز

نیامِ پردۂ زخمِ جگر سے خنجر کھینچ

مرے قدح میں ہے صہبائے آتشِ پنہاں

بروئے سُفرہ[112] کبابِ دلِ سمندر کھینچ

نہ کہہ کہ طاقتِ رسوائیِ وصال نہیں

اگر یہی عَرَقِ فتنہ ہے، مکرّر کھینچ

جنونِ آئینہ مشتاقِ یک تماشا ہے

ہمارے صفحے پہ بالِ پری سے مسطر کھینچ

خمارِ مِنّتِ ساقی اگر یہی ہے اسدؔ

دل گداختہ کے مے کدے میں ساغر کھینچ







ردیف د


۶۶



حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد

بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد

منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا

ہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے

شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

خوں ہے دل خاک میں احوالِ بتاں پر، یعنی

ان کے ناخن ہوئے محتاجِ حنا میرے بعد

درخورِ عرض نہیں جوہرِ بیداد کو جا

نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد

ہے جنوں اہلِ جنوں کے لئے آغوشِ وداع

چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد

کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق

ہے مکّرر لبِ ساقی میں[113] صلا میرے بعد

غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی

کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد

[114]تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب

بے خطر جیتے ہیں اربابِ ریا میرے بعد

تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ

متفرّق ہوئے میرے رفَقا میرے بعد

آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالبؔ

کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد





ردیف ر


۶۷



بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر، در و دیوار

نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار

وفورِ اشک نے کاشانے[115] کا کیا یہ رنگ

کہ ہو گئے مرے دیوار و در، در و دیوار

نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مَقدمِ یار

گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

ہوئی ہے کس قدر ارزانیِ مئے جلوہ

کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار

جو ہے تجھے سرِ سودائے انتظار، تو آ

کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار

ہجومِ گریہ کا سامان کب کیا میں نے

کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار

وہ آ رہا مرے ہم سایہ میں، تو سائے سے

ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار

نظر میں کھٹکے ہے بِ ن تیرے گھر کی آبادی

ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار

نہ پوچھ بے خودیِ عیشِ مَقدمِ سیلاب

کہ ناچتے ہیں پڑے سر بہ سر در و دیوار

نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ، نہیں زمانے میں

حریف رازِ محبت مگر در و دیوار





۶۸



گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر

جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟

کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن

’جانوں کسی کے دل کی میں کیوں کر کہے بغیر‘

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

[116]جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم

سر جائے یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر

چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا[117] پوجنا

چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافَر کہے بغیر

مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام

چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

بہرا ہوں میں۔ تو چاہیئے، دونا ہوں التفات

سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر

غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض

ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر





۶۹



کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر

جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

آتش پرست کہتے ہیں اہلَ جہاں مجھے

سر گرمِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر

کیا آبروئے عشق، جہاں عام ہو جفا

رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر

آتا ہے میرے قتل کو پَر جوشِ رشک سے

مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق

لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر

وا حسرتا! کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریصِ لذّتِ آزار دیکھ کر

بِ ک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ

لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر

زُنّار باندھ، سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال

رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر

ان آبلوں سے پاؤں کے، گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر

کیا بد گماں ہے مجھ سے، کہ آئینے میں مرے

طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی، نہ طور پر

دیتے ہیں بادہ 'ظرفِ قدح خوار' دیکھ کر

سر پھوڑنا وہ! 'غالبؔ شوریدہ حال' کا

یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر





۷۰



لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر

میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر

نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی

سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر

[118]دل خونیں، جگر بے صبر و فیضِ عشق مستغنی!

الٰہی یک قیامتِ خاور آ ٹوٹے بدخشاں پر

فنا‘‘تعلیمِ درسِ بے خودی‘‘ ہوں اُس زمانے سے

کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر

فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویشِ مرہم سے

بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر

نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا

کہ پشتِ چشم سے جس کی نہ ہووے مُہر عنواں پر

مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ، یاد آیا

کہ فرقت میں تری، آتش برستی تھی گلِ ستاں پر

دلِ خونیں جگر بے صبر و فیضِ عشق مستغنی

الٰہی! یک قیامتِ خاور آ ٹوٹے بدخشاں ہر

بہ جُز پروازِ شوقِ ناز کیا باقی رہا ہو گا

قیامت اِک ہوائے تند ہے خاکِ شہیداں پر

نہ لڑ ناصح سے، غالبؔ، کیا ہوا گر اس نے شدّت کی

ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر







۷۱



ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور

یا رب! وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند

ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

ہر چند سُبُک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

ہے خونِ جگر جوش میں، دل کھول کے روتا

ہوتے جو کئی دیدۂ خونبانہ فشاں اور

مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے

جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ’ہاں اور‘

لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا

ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور

لیتا۔ نہ اگر دل تمھیں دیتا، کوئی دم چین

کرتا۔ جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھّے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور





۷۲



صفائے حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر[119]

تغیر‘‘آبِ برجا ماندہ‘‘ کا پاتا ہے رنگ آخر

نہ کی سامانِ عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی

ہوا جامِ زمرّد بھی مجھے داغ پِلنگ آخر

خطِ نوخیز نیلِ چشم زخمِ صافیِ عارض

لیا آئینے نے حرزِ پرِ طوطی بچنگ آخر

ہلال آسا تہی رہ، گر کشادن ہائے دل چاہے

ہوا مہ کثرتِ سرمایہ اندوزی سے تنگ آخر

تڑپ کر مرگیا وہ صیدِ بال افشاں کہ مضطر تھا

ہوا ناسورِ چشمِ تعزیت، چشمِ خدنگ، آخر

لکھی یاروں کی بدمستی نے مے خانے کی پامالی

ہوئی قطرہ فشانی ہائے مے بارانِ سنگ آخر

اسدؔ پیری میں بھی آہنگِ شوقِ یار قائم ہے

نہیں ہے نغمے سے خالی، خمیدن ہائے چنگ آخر






۷۳



فسونِ یک دلی ہے لذّتِ بیداد دشمن پر[120]

کہ وجدِ برق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر

تکلّف خار خارِ التماسِ بے قراری ہے

کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگشتِ سوزن پر

یہ کیا وحشت ہے! اے دیوانے، پس از مرگ واویلا

رکھی بے جا بنائے خانۂ زنجیر شیون پر

جنوں کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی

گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

بہ رنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بے تابی

ہزار آئینہ دل باندھے ہے بالِ یک تپیدن پر

فلک سے ہم کو عیشِ رَفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے

متاعِ بُردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر

ہم اور وہ بے سبب‘‘رنج آشنا دشمن‘‘ کہ رکھتا ہے

شعاعِ مہر سے تُہمت نگہ کی چشمِ روزن پر

فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا

فروغِ طالعِ خاشاک ہے موقوف گلخن پر

اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا، قاتل سے کہتا ہے

’تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر‘





۷۴



لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور

تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائے گا سَر، گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا

ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘

مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘

کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے

پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے

کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور

مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی

بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و نا خوش

کرنا تھا جواں مرگ، گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالبؔ‘

قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور[121]





ردیف ز




۷۵



حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز

دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز

نہ ہو بہ ہرزہ، بیاباں نوردِ وہمِ وجود

ہنوز تیرے تصوّر میں ہے نشیب و فراز

وصالِ جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں!

کہ دیجئے آئینۂ انتظار کو پرواز

ہر ایک[122] ذرّۂ عاشق ہے آفتاب پرست

گئی نہ خاک ہوئے پر ہوائے جلوۂ ناز

فریبِ صنعتِ ایجاد کا تماشا دیکھ

نگاہ عکس فروش و خیال آئینہ ساز

ہنوز اے اثرِ دید،[123]ننگِ رسوائی

نگاہ فتنہ خرام و درِ دو عالم باز

[124]زِ بس کہ جلوۂ صیاد حیرت آرا ہے

اُڑی ہے صفحۂ خاطر سے صورتِ پرواز

[125]ہجومِ فکر سے دل مثلِ موج لرزاں ہے

کہ شیشہ نازک و صہبا ہے آبگینہ گداز

[126]اسدؔ سے ترکِ وفا کا گماں وہ معنی ہے

کہ کھینچیے پرِ طائر سے صورتِ پرواز

نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں غالبؔ

جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز



۷۶



بے گانۂ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز

وہ سبزہ سنگ پر نہ اُگا، کوہ کُن ہنوز

[127]فارغ مجھے نہ جان کہ مانندِ صبح و مہر

ہے داغِ عشق، زینتِ جیبِ کفن ہنوز

ہے نازِ مفلساں‘‘زرِ از دست رفتہ‘‘ پر

ہوں‘‘گل فروشِ شوخیِ داغِ کہن‘‘ ہنوز

مے خانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں

خمیازہ کھینچے ہے بتِ بیدادِ فن ہنوز

یا رب! یہ درد مند ہے کس کی نگاہ کا!

ہے ربطِ مشک و داغِ سوادِ ختن ہنوز

جوں جادہ، سر بہ کوئے تمنّائے بے دلی

زنجیرِ پا ہے رشتۂ حب الوطن ہنوز

میں دور گردِ قربِ بساطِ نگاہ تھا

بیرونِ دل نہ تھی تپشِ انجمن ہنوز

تھا مجھ کو خار خار جنونِ وفا اسدؔ

سوزن میں تھا نہفتہ گلِ پیرہن ہنوز


۷۷



کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز!

کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز!

دل سے نکلا۔ پہ نہ نکلا دل سے

ہے ترے تیر کا پیکان عزیز

تاب لاتے ہی بنے گی غالبؔ

واقعہ سخت ہے اور جان عزیز







۷۸



داغِ اطفال ہے دیوانہ بہ کہسار ہنوز

خلوتِ سنگ میں ہے نالہ طلب گار ہنوز

خانہ ہے سیل سے خُو کردۂ دیدار ہنوز

دور بیں درزدہ ہے رخنۂ دیوار ہنوز

آئی یک عمر سے معذورِ تماشا نرگس

چشمِ شبنم میں نہ ٹوٹا مژہِ خار ہنوز

کیوں ہوا تھا طرفِ آبلۂ پا، یا رب؟

جادہ ہے واشدنِ پیچشِ طومار ہنوز

[128]وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک

گزرے ہے آبلہ پا ابرِ گہر بار ہنوز

یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت

نقشِ پا میں ہے تپِ [129] گرمیِ رفتار ہنوز

ہوں خموشی چمنِ حسرتِ دیدار، اسدؔ

مژہ ہے شانہ کشِ طرۂ گفتار ہنوز





۷۹



[130]نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز

میں ہوں اپنی شکست کی آواز

تو اور آرائشِ خمِ کاکل

میں اور اندیشہ ہائے دور دراز[131]

لافِ تمکیں، فریبِ سادہ دلی

ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز

ہوں گرفتارِ الفتِ صیّاد

ورنہ باقی ہے طاقتِ پرواز

وہ بھی دن ہو، کہ اس ستم گر سے

ناز کھینچوں، بہ جائے حسرتِ ناز

نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خون

جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز

اے ترا غمزہ یک قلم انگیز

اے ترا ظلم سر بہ سر انداز

تو ہوا جلوہ گر، مبارک ہو!

ریزشِ سجدۂ جبینِ نیاز

مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا

میں غریب اور تو غریب نواز

اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا

اے دریغا! وہ رندِ شاہد باز







ردیف س


۸۰



کب فقیروں کو رسائی بُتِ مے خوار کے پاس[132]

تونبے بو دیجیے مے خانے کی دیوار کے پاس

مُژدہ، اے ذَوقِ اسیری! کہ نظر آتا ہے

دامِ خالی، قفَسِ مُرغِ گِرفتار کے پاس

جگرِ تشنۂ آزار، تسلی نہ ہوا

جُوئے خُوں ہم نے بہائی بُنِ ہر خار کے پاس

مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہَے ہَے!

خُوب وقت آئے تم اِس عاشقِ بیمار کے پاس

مَیں بھی رُک رُک کے نہ مرتا، جو زباں کے بدلے

دشنہ اِک تیز سا ہوتا مِرے غم خوار کے پاس

دَہَنِ شیر میں جا بیٹھیے، لیکن اے دل

نہ کھڑے ہو جیے خُوبانِ دل آزار کے پاس

دیکھ کر تجھ کو، چمن بس کہ نُمو کرتا ہے

خُود بخود پہنچے ہے گُل گوشۂ دستار کے پاس

مر گیا پھوڑ کے سر غالبؔ وحشی، ہَے ہَے!

بیٹھنا اُس کا وہ، آ کر، تری دِیوار کے پاس







ردیف ش


۸۱



ہوئی ہے بس کہ صرفِ مشقِ تمکینِ بہار آتش

بہ اندازِ حنا ہے رونقِ دستِ چنار آتش

شرر ہے رنگ بعد اظہارِ تابِ جلوہ تمکیں

کرے ہے سنگ پر، خرشید، آبِ روئے کار آتش

گدازِ موم ہے افسونِ ربط پیکر آرائی

نکالے کب، نہالِ شمع، بے تخم شرار آتش

[133]نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے

لگا دے[134] خانۂ آئینہ میں رُوئے نگار آتِش

فروغِ حُسن سے ہوتی[135] ہے حلِّ مُشکلِ عاشق

نہ نکلے شمع کے پاسے، نکالے گر نہ خار آتش

خیالِ دود تھا، سر جوشِ سودائے غلط فہمی

اگر رکھتی نہ خاکستر نشینی کا غبار، آتش

ہوائے پر فشانی، برقِ خرمن ہائے خاطر ہے

بہ بالِ شعلۂ بے تاب ہے، پروانہ زار، آتش

نہیں برق و شرر، جز وحشت و ضبطِ تپیدن ہا

بلا گردانِ بے پروا، خرامی ہائے یار آتش

دھوئیں سے آگ کے، اک ابرِ دریا بار ہو پیدا

اسدؔ، حیدر پرستوں سے اگر ہووے دو چار آتش





ردیف ع


۸۲



جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع[136]

چرخ وا کرتا ہے ماہِ نو سے آغوشِ وداع

شمع سے ہے، بزم انگشتِ تحیر در دہن

شعلۂ آوازِ خوباں پر بہ ہنگامِ سماع

جوں پرِ طاؤس، جوہر، تختہ مشقِ رنگ ہے

بس کہ ہے وہ قبلۂ آئینہ محوِ اختراع

رنجشِ حیرت سرشتاں، سینہ صافی پیشکش

جوہرِ آئینہ ہے یاں، گردِ میدانِ نزاع

چار سوئے دہر میں بازارِ غفلت گرم ہے

عقل کے نقصان سے اُٹھتا ہے خیال انتفاع

آشنا، غالبؔ، نہیں ہیں دردِ دل کے آشنا

ورنہ کس کو میرے افسانے کی تابِ استماع؟


۸۳



رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع

ہوئی ہے آتشِ گُل آبِ زندگانیِ شمع

زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگِ خاموشی

یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانیِ شمع

کرے ہے صِرف بہ ایمائے شعلہ قصہ تمام

بہ طرزِ اہلِ فنا ہے فسانہ خوانیِ شمع

غم اُس کو حسرتِ پروانہ کا ہے اے شعلہ[137]

ترے لرزنے سے ظاہر ہے ناتوانیِ شمع

ترے خیال سے رُوح اہتزاز کرتی ہے

بہ جلوہ ریزیِ باد و بہ پر فشانیِ شمع

نشاطِ داغِ غمِ عشق کی بہار نہ پُوچھ

شگفتگی ہے شہیدِ گُلِ خزانیِ شمع

جلے ہے، دیکھ کے بالینِ یار پر مجھ کو

نہ کیوں ہو دل پہ مرے داغِ بد گمانیِ شمع







ردیف ف


۸۴



نامہ بھی لکھتے ہو، تو بہ خطِ غبار، حیف!

رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت، ہزار حیف!

بیش از نفس، بتاں کے کرم نے وفا نہ کی

تھا محملِ نگاہ بہ دوشِ شرار، حیف!

تھی میرے ہی جلانے کو، اے آہ شعلہ ریز

گھر پر پڑا نہ غیر کے کوئی شرار، حیف!

گل چہرہ ہے کسو خفقانی مزاج کا

گھبرا رہی ہے بیمِ خزاں سے بہار، حیف!

[138]بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش

مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار، حیف!

جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اِک بار جل گئے

اے ناتمامیِ نَفَسِ شعلہ بار حیف!

ہیں میری مشتِ خاک سے اُس کو کدورتیں

پائی جگہ بھی دل میں تو ہو کر غبار، حیف!

بنتا، اسد ؔ، میں سرمۂ چشمِ رکابِ یار

آیا نہ میری خاک پہ وہ شہ سوار، حیف!





ردیف ک


۸۵



زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک[139]

کیا مزا ہوتا، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

گردِ راہِ یار ہے سامانِ نازِ زخمِ دل

ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک

مجھ کو ارزانی رہے، تجھ کو مبارک ہو جیو

نالۂ بُلبُل کا درد اور خندۂ گُل کا نمک

شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج

گِردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک

داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی، واہ واہ![140]

یاد کرتا ہے مجھے، دیکھے ہے وہ جس جا نمک

چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے

دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک

غیر کی منت نہ کھینچوں گا پَے توفیرِ [141] درد

زخم، مثلِ خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک

اس عمل میں عیش کی لذّت نہیں ملتی اسدؔ

زورِ نسبت مَے سے رکھتا ہے نصارا کا نمک

یاد ہیں غالبؔ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں

زخم سے گرتا، تو میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک





۸۶



آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک[142]

کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ

دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک

عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے، لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

پرتوِ خُور سے، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں، ایک عنایت کی نظر ہونے تک

یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل!

گرمیِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک

تا قیامت شبِ فرقت میں گزر جائے گی عمر

سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہونے تک[143]

غمِ ہستی کا، اسدؔ! کس سے ہو جُز مرگ، علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک





۸۷




دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک

وضع میں گو ہوئی دو سر، تیغ ہے ذوالفقار ایک

ہم سخن اور ہم زباں، حضرتِ قاسم و طپاں

ایک تپش[144] کا جانشین، درد کی یادگار ایک

نقدِ سخن کے واسطے ایک عیارِ آگہی

شعر کے فن کے واسطے، مایۂ اعتبار ایک

ایک وفا و مہر میں تازگیِ بساطِ دہر

لطف و کرم کے باب میں زینتِ روزگار ایک

گُل کدۂ تلاش کو، ایک ہے رنگ، اک ہے بو

ریختہ کے قماش کو، پود ہے ایک، تار ایک

مملکتِ کمال میں ایک امیرِ نامور

عرصۂ قیل و قال میں، خسروِ نام دار ایک

گلشنِ اتّفاق میں ایک بہارِ بے خزاں

مے کدۂ وفاق میں بادۂ بے خمار ایک

زندۂ شوقِ شعر کو ایک چراغِ انجمن

کُشتۂ ذوقِ شعر کو شمعِ سرِ مزار ایک

دونوں کے دل حق آشنا، دونوں رسول پر فِدا

ایک مُحبِّ چار یار، عاشقِ ہشت و چار ایک

جانِ وفا پرست کو ایک شمیمِ نو بہار

فرقِ ستیزہ مست کو، ابرِ تگرگِ بار ایک

لایا ہے کہہ کے یہ غزل، شائبۂ رِیا سے دور

کر کے دل و زبان کو غالبؔ خاک سار ایک





ردیف گ


۸۸



[145]گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت، دُعا نہ مانگ

یعنی، بغیر یک دلِ بے مُدعا نہ مانگ

آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد

مُجھ سے مرے گُنہ کا حساب، اے خدا! نہ مانگ

اے آرزو! شہیدِ وفا! خوں بہا نہ مانگ

جز بہرِ دست و بازوئے قاتل، دعا نہ مانگ

گستاخیِ وصال، ہے مشاطۂ نیاز

یعنی دعا بہ جز خمِ زلفِ دوتا نہ مانگ

برہم ہے، بزمِ غنچہ، بیک جنبشِ نشاط

کاشانہ بس کہ تنگ ہے، غافل ہوا نہ مانگ

عیسیٰ! طلسمِ حسن تغافل ہے، زینہار

جز پشتِ چشم، نسخۂ عرضِ دوا نہ مانگ

میں دور گردِ عرضِ رسومِ نیاز ہوں

دشمن سمجھ، ولے نگہِ آشنا نہ مانگ

نظارہ دیگر و دلِ خونیں نفس دگر

آئینہ دیکھ، جوہرِ برگ حنا نہ مانگ

یک بختِ اوج، نذرِ سبک باری، اسدؔ

سر پر، وبالِ سایۂ بالِ ہما نہ مانگ





ردیف ل


۸۹



ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل

بُلبُل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گُل

آزادیِ نسیم مبارک کہ ہر طرف

ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دامِ ہوائے گُل

جو تھا، سو موجِ رنگ کے دھوکے میں مر گیا

اے وائے، نالۂ لبِ خونیں نوائے گُل!

[146]دیوانگاں کا چارہ فروغِ بہار ہے

ہے شاخِ گل میں، پنجۂ خوباں، بجائے گل

خوش حال اُس حریفِ سیہ مست کا، کہ جو

رکھتا ہو مثلِ سایۂ گُل، سر بہ پائے گُل

ایجاد کرتی ہے اُسے تیرے لیے بہار

میرا رقیب ہے نَفَسِ عطرسائے گُل

[147]مژگاں تلک رسائیِ لختِ جگر کہاں؟

اے وائے! گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل

شرمندہ رکھتے ہیں مجھے بادِ بہار سے

مینائے بے شراب و دلِ بے ہوائے گُل

سطوت سے تیرے جلوۂ حُسنِ غیور کی

خوں ہے مری نگاہ میں رنگِ ادائے گُل

تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک

بے اختیار دوڑے ہے گُل در قفائے گُل

غالبؔ! مجھے ہے اُس سے ہم آغوشی آرزو

جس کا خیال ہے گُلِ جیبِ قبائے گُل





ردیف م
۹۰



بس کہ ہیں بد مستِ بشکن بشکنِ مے خانہ ہم

موئے شیشہ کو سمجھتے ہیں خطِ پیمانہ ہم

نقش بندِ خاک ہے موج از فروغِ ماہتاب[148]

سیل سے فرشِ کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم

بس کہ ہر یک موئے زلف افشاں سے ہے تارِ شعاع

پنجۂ خُرشید کو سمجھے ہیں دستِ شانہ ہم

ہے فروغِ ماہ سے ہر موج، اک تصویرِ خاک

سیل سے، فرشِ کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم

مشقِ از خود رفتگی سے ہیں بہ گل زارِ خیال

آشنا تعبیر خوابِ سبزۂ بیگانہ ہم

فرطِ بے خوابی سے ہیں شب ہائے ہجرِ یار میں

جوں زبانِ شمع، داغِ گرمیِ افسانہ ہم

جانتے ہیں، جوششِ سودائے زلفِ یار میں

سنبلِ بالیدہ کو موئے سرِ دیوانہ ہم

بس کہ وہ چشم و چراغِ محفلِ اغیار ہے

چپکے چپکے جلتے ہیں، جوں شمعِ ماتم خانہ ہم

شامِ غم میں سوزِ عشقِ آتشِ رخسار سے

پر فشانِ سوختن ہیں، صورتِ پروانہ ہم

[149]غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن، شمعِ ماتم خانہ ہم

محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال

ہیں ورق گردانیِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم

با وجودِ یک جہاں ہنگامہ پیرا ہی نہیں

ہیں‘‘چراغانِ شبستانِ دلِ پروانہ‘‘ ہم

ضعف سے ہے، نے قناعت سے یہ ترکِ جستجو

ہیں‘‘وبالِ تکیہ گاہِ ہِمّتِ مردانہ‘‘ ہم

دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنّائیں اسدؔ[150]

جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم


۹۱



اثر کمندیِ فریادِ نارسا معلوم

غبارِ نالہ کمیں گاہِ مدعا معلوم

بہ قدرِ حوصلۂ عشق جلوہ ریزی ہے

وگرنہ خانۂ آئینہ کی فضا معلوم

بہار در گروِ غنچہ، شہر جولاں ہے

طلسمِ ناز بہ جز، تنگیِ قبا معلوم

[151]بہ نالہ حاصلِ دل بستگی فراہم کر

متاعِ خانۂ زنجیر جز صدا، معلوم

طلسمِ خاک، کمیں گاہِ یک جہاں سودا

بہ مرگ، تکیۂ آسائشِ فنا معلوم

تکلف، آئینۂ دوجہاں مدارا ہے

سُراغِ یک نگہِ قہر آشنا معلوم

اسد فریفتۂ انتخابِ طرزِ جفا

وگرنہ دلبریِ وعدۂ وفا معلوم







۹۲



مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور

رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم

وہ حلقۂ ہائے زلف، کمیں میں ہیں اے خدا

رکھ لیجو میرے دعویِ وارستگی کی شرم





ردیف ن


۹۳



خوش وحشتے کہ عرضِ جنونِ فنا کروں

جوں گردِ راہ، جامۂ ہستی قبا کروں

گر بعدِ مرگ وحشتِ دل کا گلہ کروں

موجِ غبار سے پرِ یک دشت وا کروں

آ، اے بہارِ ناز! کہ تیرے خرام سے

دستار گردِ شاخِ گلِ نقشِ پا کروں

خوش اوفتادگی! کہ بہ صحرائے انتظار

جوں جادہ، گردِ رہ سے نگہ سرمہ سا کروں

صبر اور یہ ادا کہ دل آوے اسیرِ چاک

درد اور یہ کمیں کہ رہِ نالہ وا کروں

وہ بے دماغِ منتِ اقبال ہوں کہ میں

وحشت بہ داغِ سایۂ بالِ ہما کروں

وہ التماسِ لذتِ بیداد ہوں کہ میں

تیغِ ستم کو پشتِ خمِ التجا کروں

وہ رازِ نالہ ہوں کہ بہ شرحِ نگاہِ عجز

افشاں غبارِ سرمہ سے فردِ صدا کروں

[152]لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے

غالبؔ یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں





۹۴



وہ فراق اور وہ وصال کہاں

وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے

ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا

شورِ سودائے خطّ و خال[153] کہاں

تھی وہ اک شخص کے تصّور سے

اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا

دل میں‌ طاقت، جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا‘‘قمار خانۂ عشق‘‘

واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں

میں کہاں اور یہ وبال کہاں

[154]فلکِ سفلہ بے محابا ہے

اس ستم گر کو انفعال کہاں؟

بوسے میں وہ مضائقہ نہ کرے

پر مجھے طاقتِ سوال کہاں؟

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ

وہ عناصر میں اعتدال کہاں





۹۵



کی وفا ہم سے، تو غیر اِس کو جفا کہتے ہیں[155]

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر، ان سے

کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو

جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے

اُور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں

ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود

قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے

خارِ رہ کو ترے ہم مہر گیا[156] کہتے ہیں

اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا

آگ مطلوب ہے ہم کو، جو ہَوا کہتے ہیں

دیکھیے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ

اُس کی ہر بات پہ ہم ’نامِ خدا‘ کہتے ہیں

وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید

مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا، کہتے ہیں





۹۶



آبرو کیا خاک اُس گُل کی، کہ گلشن میں نہیں

ہے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں

ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں

رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں

ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب

ذرّے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں

کیا کہوں تاریکیِ زندانِ غم، اندھیر ہے

پنبہ، نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں‌ نہیں

رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے

انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں

زخم سِلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن

غیر سمجھا ہے کہ لذّت زخمِ سوزن میں نہیں

بس کہ ہیں ہم [157] اک بہارِ ناز کے مارے ہوئے

جلوۂ گُل کے سِوا گرد اپنے مدفن میں نہیں

قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا

خُوں بھی ذوقِ درد سے، فارغ مرے تن میں نہیں

لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری

موجِ مے کی آج رگ، مینا کی گردن میں نہیں

ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟

قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں

تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر

بے تکلّف، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں







۹۷



[158]آنسو کہوں کہ، آہ، سوارِ ہوا کہوں

ایسا عناں گسیختہ آیا کہ کیا کہوں

اقبالِ کلفتِ دلِ بے مدعا رسا

اختر کو داغِ سایہِ بال ہما کہوں

مضمون وصل ہاتھ نہ آیا مگر اسے

اب طائر پریدہ رنگ حنا کہوں

عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آ سکا

گر اک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں

حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بہ سوئے دل

ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں

میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش

تو اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں

ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ

ہَے ہَے خُدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں

ز دیدنِ دلِ ستم آمادہ ہے محال

مژگاں کہوں کہ جوہر تیغِ قضا کہوں

طرز آفرینِ نکتہ سرائی طبع ہے

آئینہ خیال کو طوطی نما کہوں



۹۸



مہرباں ہو کے بلا لو مجھے، چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں ‌کہ پھر آ بھی نہ سکوں

ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے

بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں

زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر، ورنہ

کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں




۹۹



ہم سے کھل جاؤ بہ وقتِ مے پرستی ایک دن

ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن

غرّۂ اوجِ بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو

اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے[159] گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے

بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ زندگی ایک دن

دَھول دَھپّا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں

ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن





۱۰۰



ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں

اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا

پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں

ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز

نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں

بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی

آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں

ہر چند جاں گدازیِ قہر و عتاب ہے

ہر چند پشت گرمیِ تاب و تواں نہیں

جاں مطربِ ترانہ ہَل مِن مَزِید ہے

لب پردہ سنجِ زمزمۂ الاَماں نہیں

خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم

دل میں چھُری چبھو مژہ گر خون چکاں نہیں

ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو

ہے عارِ دل نفس اگر آذر فشاں نہیں

نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب

سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں

کہتے ہو ’’کیا لکھا ہے تری سر نوشت میں‘‘

گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں

پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی

رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں

جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی

غالبؔ کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں‌ نہیں





۱۰۱



مانعِ دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں

ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں

شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو، کہ جہاں

جادہ غیر از نگہِ دیدۂ تصویر نہیں

حسرتِ لذّتِ آزار رہی جاتی ہے

جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں

رنجِ نومیدیِ جاوید گوارا رہیو

خوش ہوں گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں

سر کھجاتا ہے جہاں زخمِ سر اچھا ہو جائے

لذّتِ سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں

جب کرم رخصتِ بے باکی و گستاخی دے

کوئی تقصیر بہ جُز خجلتِ تقصیر نہیں

[160]آئینہ دام کو سبزے[161] میں چھپاتا ہے عبث

کہ پری زادِ نظر قابلِ تسخیر نہیں

مثلِ گُل زخم ہے میرا بھی سناں سے توام

تیرا ترکش ہی کچھ آبِ ستنِ تیر نہیں

میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ

جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں

غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ[162]

’آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں‘



۱۰۲



[163]مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں

ہیں جمع سُویدائے دلِ چشم میں آہیں

جوں مردمکِ چشم میں ہوں جمع نگاہیں

خوابیدہ بہ حیرت کدۂ داغ ہیں آہیں

پھر حلقۂ کاکل میں پڑیں دید کی راہیں

جوں دود، فراہم ہوئیں روزن میں نگاہیں

پایا سرِ ہر ذرّہ جگر گوشۂ وحشت

ہیں داغ سے معمور شقایق کی کلاہیں

کس دل پہ ہے عزمِ صفِ مژگانِ خود آرا؟

آئینے کی پایاب سے اتری ہیں سپاہیں

دیر و حرم، آئینۂ تکرارِ تمنا

واماندگیِ شوق تراشے ہے پناہیں

یہ مطلع، اسدؔ، جوہرِ افسونِ سخن ہو

گر عرضِ تپاکِ نفسِ سوختہ چاہیں

حسرت کشِ یک جلوۂ معنی ہیں نگاہیں

کھینچوں ہوں سویدائے دلِ چشم سے آہیں




۱۰۳





صاف ہے از بس کہ عکسِ گل سے، گل زار چمن

جانشینِ جوہرِ آئینہ ہے، خارِ چمن

[164]برشکالِ گریۂ عاشق ہے[165] دیکھا چاہئے

کھِل گئی مانندِ گُل سَو جا سے دیوارِ چمن

اُلفتِ گل سے غلط ہے دعویِ وارستگی

سرو ہے با وصفِ آزادی گرفتارِ چمن

ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن

قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن

تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار

جوہرِ آئینہ، ہے یاں نقشِ احضارِ چمن

بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست

ہے کلاہِ نازِ گل، بر طاقِ دیوارِ چمن

وقت ہے، گر بلبلِ مسکیں زلیخائی کرے

یوسفِ گل جلوہ فرما ہے بہ بازارِ چمن

وحشت افزا گریہ ہا موقوفِ فصلِ گل، اسدؔ

چشمِ دریا بار ہے میزابِ سرکارِ چمن





۱۰۴



عشق تاثیر سے نومید نہیں

جاں سپاری شجرِ بید نہیں

سلطنت دست بہ دَست آئی ہے

جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں

ہے تجلی تری سامانِ وجود

ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں

رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے

ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں

گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے

غمِ محرومیِ جاوید نہیں

کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ

ہم کو جینے کی بھی امّید نہیں

[166]مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل

بادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں





۱۰۵



جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں

دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے

سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں

ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم

قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

تماشا! کہ[167] اے محوِ آئینہ داری

تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں

سراغِ تُفِ نالہ لے داغِ دل سے

کہ شب رَو کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

[168]کسو کو ز خود رستہ کم دیکھتے ہیں

کہ آہو کو پابندِ رم دیکھتے ہیں

خطِ لختِ دل یک قلم دیکھتے ہیں

مژہ کو جواہر رقم دیکھتے ہیں

سرابِ یقین ہیں پریشان نگاہاں

اسدؔ کو گر از چشمِ کم دیکھتے ہیں

کہ ہم بیضۂ طوطیِ ہند، غافل

تہِ بالِ شمعِ حرم دیکھتے ہیں

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں







۱۰۶



ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں

کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں

کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں، جہانِ خراب میں

شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر

آنے کا عہد کر گئے، آئے جو خواب میں

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو، وہ لکھیں گے جواب میں

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام

ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

جو منکرِ وفا ہو، فریب اس پہ کیا چلے

کیوں بد گماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں

میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے

ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں

میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے

جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں

ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے

ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں

لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا

لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں

وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے

جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں

وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے

جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں

غالبؔ چھُٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی

پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں





۱۰۷



کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں

یہ سُوء ظن ہے ساقیِ کوثر کے باب میں

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع

گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں

رَو میں‌ ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے[169]

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے

جتنا کہ وہمِ غیر سے ہُوں پیچ و تاب میں

اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

ہے مشتمل نمُودِ صُوَر پر وجودِ بحر

یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں

شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی

ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یُوں حجاب میں

آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

ہیں‌ خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں

غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست

مشغولِ حق ہوں، بندگیِ بُو تراب میں





۱۰۸



حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں

چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں

ہر اک سے پُوچھتا ہوں کہ ’’جاؤں کدھر کو مَیں‘‘

جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار

اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں

ہے کیا، جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے

کیا جانتا نہیں ہُوں تمھاری کمر کو مَیں

لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ بے ننگ و نام ہے‘

یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں

چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں

خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار

کیا پُوجتا ہوں اس بُتِ بیداد گر کو مَیں

پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار

جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں

اپنے پہ کر رہا ہُوں قیاس اہلِ دہر کا

سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہُنر کو میں

غالبؔ خدا کرے کہ سوارِ سمندِ ناز

دیکھوں علی بہادرِ عالی گُہر کو میں





۱۰۹



ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں

غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دُور نہیں

وعدۂ سیرِ گلستاں ہے، خوشا طالعِ شوق

مژدۂ قتل مقدّر ہے جو مذکور نہیں

شاہدِ ہستیِ مطلق کی کمر ہے عالَم

لوگ کہتے ہیں کہ ’ہے‘، پر ہمیں‌ منظور نہیں

قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن

ہم کو تقلیدِ تُنک ظرفیِ منصور نہیں

حسرت! اے ذوقِ خرابی، کہ وہ طاقت نہ رہی

عشقِ پُر عربَدہ کی گوں تنِ رنجور نہیں

[170]ظلم کر ظلم! اگر لطف دریغ آتا ہو

تُو تغافل میں ‌کسی رنگ سے معذور نہیں

میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمھیں

کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم حور نہیں‘‘

[171]پیٹھ محراب کی قبلے کی طرف رہتی ہے

محوِ نسبت ہیں، تکلّف ہمیں منظور نہیں

صاف دُردی کشِ پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ

وائے! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں

ہُوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ

میرے دعوے پہ یہ حجّت ہے کہ مشہور نہیں







۱۱۰



نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں

ہے تقاضائے جفا، شکوۂ بیداد نہیں

عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خُوب!

ہم کو تسلیم، نکو نامیِ فرہاد نہیں

کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم

دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں

اہلِ بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب

لطمۂ موج کم از سیلیِ استاد نہیں

وائے مظلومیِ تسلیم![172] و بدا! حالِ وفا!

جانتا ہے کہ ہمیں طاقتِ فریاد نہیں

رنگِ تمکینِ گُل و لالہ پریشاں کیوں ہے؟

گر چراغانِ سرِ راہ گُزرِ باد نہیں

سَبَدِ گُل کے تلے بند کرے ہے گل چیں!

مژدہ اے مرغ! کہ گل زار میں صیّاد نہیں

نفی سے کرتی ہے اثبات[173] طراوش[174] گویا

دی ہی جائے دہن اس کو دمِ ایجاد ’’نہیں‘‘

کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت

یہی نقشہ ہے ولے، اس قدر آباد نہیں

کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ

تم کو بے مہریِ یارانِ وطن یاد نہیں؟





۱۱۱



دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے

تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں؟

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم؟

ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں؟







۱۱۲



ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں

دامنِ تمثال آبِ آئینہ سے تر نہیں

ہے وطن سے باہر اہلِ دل کی قدر و منزلت

عزلت آبادِ صدف میں قیمتِ گوہر نہیں

ہوتے ہیں بے قدر در کنجِ وطن صاحب دلاں[175]

عزلت آبادِ صدف میں قیمتِ گوہر نہیں

باعثِ ایذا ہے برہم خوردنِ بزمِ سرور

لخت لختِ شیشۂ بشکستہ جز نشتر نہیں

واں سیاہی مردمک ہے اور یاں داغِ شراب

مہ حریفِ نازشِ ہم چشمیِ ساغر نہیں

ہے فلک بالا نشینِ فیضِ خم گر دیدنی

عاجزی سے ظاہرا رتبہ کوئی برتر نہیں

دل کو اظہارِ سخن اندازِ فتح الباب ہے

یاں صریرِ خامہ غیر از اصطکاکِ در نہیں

[176]ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر

عشق کا اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیں

کب تلک پھیرے اسدؔ لب ہائے تفتہ پر زباں

طاقتِ لب تشنگی اے ساقیِ کوثر نہیں



۱۱۳



سرشک آشفتہ سر تھا قطرہ زن مژگاں سے جانے میں

رہے یاں، شوخیِ رفتار سے، پا آستانے میں

ہجومِ مژدۂ دیدار، و پردازِ تماشا ہا

گلِ اقبالِ خس ہے چشمِ بلبل، آشیانے میں

ہوئی یہ بے خودی چشم و زباں کو تیرے جلوے سے

کہ طوطی قفلِ زنگ آلودہ ہے آئینہ خانے میں

ترے کوچے میں ہے، مشاطۂ واماندگی، قاصد

پرِ پرواز، زلفِ باز ہے ہدہد کے شانے میں

کجا معزولیِ آئینہ؟ کُو ترکِ خود آرائی؟

نمد در آب ہے، اے سادہ پُرکار، اس بہانے میں

بہ حکمِ عجز، ابروئے مہِ نو حیرت ایما ہے

کہ یاں گم کر جبینِ سجدہ فرسا آستانے میں

[177]قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا

تعجّب سے وہ بولا ’یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟‘

دلِ نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالبؔ

نہ کر سرگرم اس کافر کو اُلفت آزمانے میں


۱۱۴



ہے ترحم آفریں، آرائشِ بیداد، یاں

اشکِ چشمِ دام ہے، ہر دانۂ صیاد، یاں

ہے، گدازِ موم، اندازِ چکیدن ہائے خوں

نیشِ زنبورِ عسل، ہے نشترِ فصاد، یاں

ناگوارا ہے ہمیں، احسانِ صاحبِ دولتاں

ہے، زرِ گل بھی، نظر میں جوہرِ فولاد، یاں

جنبشِ دل سے ہوئے ہیں، عقدہ ہائے کار، وا

کم تریں مزدورِ سنگیں دست ہے، فرہاد، یاں

[178]دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا

بارے اپنی بے کسی کی ہم نے پائی داد، یاں

ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام

مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگزارِ باد، یاں

قطرہ ہائے خونِ بسمل زیبِ داماں ہیں، اسدؔ

ہے تماشا کردنی گل چینیِ جلاد، یاں





۱۱۵



یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں

کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

وہ آئیں[179] گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو

یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

ترے جواہرِ طرفِ کُلہ کو کیا دیکھیں

ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں





۱۱۶



نہیں، کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں

شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں

کوئی کہے کہ ’شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے‘

بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں

جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں

جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں، تو کہتے ہیں

کہ ’آج بزم میں کچھ فتنۂ و فساد نہیں‘

علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب

گدائے کُوچۂ مے خانہ نا مراد نہیں

جہاں میں ہو غم و شادی بہم، ہمیں کیا کام؟

دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں

تم اُن کے وعدے کا ذکر اُن سے کیوں کرو غالبؔ

یہ کیا؟ کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ ’’یاد نہیں‘‘







۱۱۷



تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں

ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں

[180]آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے

ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں

تیری فرصت کے مقابل اے عُمر!

برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں

قیدِ ہستی سے رہائی معلوم!

اشک کو بے سر و پا باندھتے ہیں

نشۂ رنگ سے ہے واشُدِ گل

مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں

غلطی ہائے مضامیں مت پُوچھ

لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

اہلِ تدبیر کی واماندگیاں

آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں

سادہ پُرکار ہیں خوباں غالبؔ

ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں



۱۱۸



تنِ بہ بندِ ہوس در نہ دادہ رکھتے ہیں

دلِ زکارِ جہاں اوفتادہ رکھتے ہیں

تمیزِ زشتی و نیکی میں لاکھ باتیں ہیں

بہ عکسِ آئینہ یک فردِ سادہ رکھتے ہیں

بہ رنگِ سایہ ہمیں بندگی میں ہے تسلیم

کہ داغِ دل بہ جبینِ کشادہ رکھتے ہیں

بہ زاہداں، رگِ گردن، ہے رشتۂ زنار

سرِ بپائے بتے نا نہادہ رکھتے ہیں

معافِ بیہُدہ گوئی ہیں ناصحانِ عزیز

دلے بہ دستِ نگارے نہ دادہ رکھتے ہیں

بہ رنگِ سبزہ، عزیزانِ بد زباں یک دست

ہزار تیغ بہ زہراب دادہ رکھتے ہیں

ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائیِ حیرت

زبانِ بستہ و چشمِ کشادہ رکھتے ہیں

[181]زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ

وگرنہ ہم تو توقعّ زیادہ رکھتے ہیں








۱۱۹







دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں

خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں

کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں

یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟

لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے

آخر گناہ گار ہُوں کافَر نہیں ہُوں میں

کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟

لعل و زمرّد و زر و گوہر نہیں ہُوں میں

رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟

رتبے میں مہر و ماہ سے کم تر نہیں ہُوں میں؟

کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟

کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟[182]

[183]غالبؔ وظیفہ خوار ہو، دو شاہ کو دعا

وہ دن گئے کہ[184] کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں





۱۲۰



سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!

یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں

لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں

تھیں بنات النعشِ [185] گردوں دن کو پردے میں نہاں

شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر

لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں

سب رقیبوں سے ہوں نا خوش، پر زنانِ مصر سے

ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں

جُوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق

میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام

قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں

نیند اُس کی ہے، دماغ اُس کا ہے، راتیں اُس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں[186]

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھُل گیا

بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

وہ نگاہیں کیوں ہُوئی جاتی ہیں یا رب دل کے پار؟

جو مری کوتاہیِ قسمت سے مژگاں ہو گئیں

بس کہ روکا میں نے اور سینے میں اُبھریں پَے بہ پَے

میری آہیں بخیۂ چاکِ گریباں ہو گئیں

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب؟

یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا

سب لکیریں ہاتھ کی گویا، رگِ جاں ہو گئیں

ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسُوم

ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

رنج سے خُوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں[187]


۱۲۱



دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں

یعنی ہمارے جَیب [188]میں اک تار بھی نہیں

دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے

دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں[189]

طاقت بہ قدرِ لذّتِ آزار بھی نہیں

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش

صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

گنجائشِ عداوتِ اغیار اک طرف

یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں

ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خُدا کو مان

آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں

دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے رو کشی

حالاں کہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا!

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بار ہا

دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں





۱۲۲



فزوں کی دوستوں نے حرصِ قاتل ذوقِ کشتن میں[190]

ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم، جوہر تیغِ دشمن میں

تماشا کردنی ہے لطفِ زخمِ انتظار اے دل

سوادِ زخمِ مرہم[191] مردمک ہے چشمِ سوزن میں

دل و دین و خرد، تاراجِ نازِ جلوہ پیرائی

ہوا ہے جوہرِ آئینہ خَیلِ مور خرمن میں

نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں

ہُوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ چشمِ سوزن میں

ہُوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا، خانہ ویرانی

کفِ سیلاب باقی ہے بہ رنگِ پنبہ روزن میں

ودیعت خانۂ بے دادِ کاوش ہائے مژگاں ہوں

نگینِ نامِ شاہد ہے مِرا[192] ہر قطرہ خوں تن میں

[193]بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی

شبِ مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں

نکوہش مانعِ بے ربطیِ شورِ جنوں آئی

ہُوا ہے خندہ احباب بخیہ جَیب و دامن میں

ہوئے اُس مِہر وَش کے جلوۂ تمثال کے آگے

پَر افشاں جوہر آئینے میں مثلِ ذرّہ روزن میں

نہ جانوں نیک ہُوں یا بد ہُوں، پر صحبت مخالف ہے

جو گُل ہُوں تو ہُوں گلخن میں جو خس ہُوں تو ہُوں گلشن میں

ہزاروں دل دیئے جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو

سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرۂ خوں تن میں

اسدؔ زندانیِ تاثیرِ الفت ہائے خوباں ہُوں

خمِ دستِ نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں





۱۲۳



مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں

سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں

مگر غبار ہُوئے پر، ہَوا اُڑا لے جائے

وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟

کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

بھلا اُسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا

اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں

خیالِ جلوۂ گُل سے خراب ہیں مے کش

شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں

ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ

سوائے حسرتِ تعمیر، گھر میں خاک نہیں

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ

کھُلا، کہ فائدہ عرضِ ہُنر میں خاک نہیں





۱۲۴



دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟

روئیں گے ہم ہزار بار۔ کوئی ہمیں ستائے کیوں؟

دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں

بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر[194] ہمیں اُٹھائے کیوں؟

جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز

آپ ہی ہو نظارہ سوز۔ پردے میں منہ چھپائے کیوں؟

دشنۂ غمزہ جاں ستاں، ناوکِ ناز بے پناہ

تیرا ہی عکس رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں؟

قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

حسن اور اس پہ حسنِ ظن، رہ گئی بو الہوس کی شرم

اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں؟

واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع

راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں؟

ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی

جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟

غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟[195]





۱۲۵



غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں

بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں

پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا؟ کہ بن کہے

اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں

رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے

آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں

’غیر سے رات کیا بنی‘ یہ جو کہا تو دیکھیے

سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یُوں

بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے

اُس کی تو خامُشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں

میں نے کہا کہ ’’بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی‘‘

سُن کر ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں؟

مجھ سے کہا جو یار نے ’جاتے ہیں ہوش کس طرح‘

دیکھ کے میری بے خودی، چلنے لگی ہوا کہ یُوں

کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی

آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں

گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال

موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں

جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر[196] ہو رشکِ فارسی

گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں





۱۲۶



ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں[197]

میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں

ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو

گہ نالۂ کشیدہ، گہ اشکِ چکیدہ ہوں

نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ[198]

میں معرضِ مثال میں دستِ بریدہ ہوں

ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہے مجھ کو لاگ

نے دانۂ فتادہ ہوں، نے دامِ چیدہ ہوں

جو چاہئے، نہیں وہ مری قدر و منزلت

میں یوسفِ بہ قیمتِ اوّل خریدہ ہوں

ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ

ہوں میں کلامِ نُغز، ولے نا شنیدہ ہوں

اہلِ وَرَع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل

پر عاصیوں کے زمرے[199] میں مَیں برگزیدہ ہوں

ہوں گرمیِ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج

میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں[200]

جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن

از بس کہ تلخیِ غمِ ہجراں چشیدہ ہوں[201]

ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں

خارِ الم سے پشت بہ دنداں گزیدہ ہوں[202]

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں







۱۲۷



دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں

رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں

دی سادگی سے جان پڑوں کوہ کُن کے پاؤں

ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پاؤں

بھاگے تھے ہم بہت، سو، اسی کی سزا ہے یہ

ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پاؤں

مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور

تن سے سوا فِگار ہیں اس خستہ تن کے پاؤں

اللہ رے ذوقِ دشت نوردی کہ بعدِ مرگ

ہلتے ہیں خود بہ خود مرے، اندر کفن کے، پاؤں

ہے جوشِ گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف

اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغِ چمن کے پاؤں

[203]بے چارہ کتنی دور سے آیا ہے، شیخ جی

کعبے میں، کیوں دبائیں نہ ہم برہمن کے پاؤں

شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں

دکھتے ہیں آج اس بتِ نازک بدن کے پاؤں

غالبؔ مرے کلام میں کیوں کر مزہ نہ ہو

پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پاؤں





ردیف و


۱۲۸



حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو[204]

کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو

بہ قدرِ حسرتِ دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی

بھروں یک گوشۂ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو

اگر وہ سرو قد گرمِ خرامِ ناز آ جاوے

کفِ ہر خاکِ گلشن، شکلِ قمری، نالہ فرسا ہو

بہم بالیدنِ سنگ و گلِ صحرا یہ چاہے ہے

کہ تارِ جادہ بھی کہسار کو زنارِ مینا ہو

حریفِ وحشتِ نازِ نسیمِ عشق جب آؤں

کہ مثلِ غنچہ، سازِ یک گلستاں دل مہیا ہو

بجائے دانہ خرمن یک بیابان بیضۂ قمری

مرا حاصل وہ نسخہ ہے کہ جس سے خاک پیدا ہو

کرے کیا سازِ بینش وہ شہیدِ دردِ آگاہی

جسے موئے دماغِ بے خودی، خوابِ زلیخا ہو

دلِ چوں شمع، بہرِ دعوتِ نظارہ لا، جس سے

نگہ لب ریزِ اشک و سینہ معمورِ تمنا ہو

نہ دیکھیں روئے یک دل سر د، غیر از شمعِ کافوری

خدایا، اس قدر بزمِ اسدؔ گرمِ تماشا ہو





۱۲۹



آئی اگر بلا، تو جگہ سے ٹلے نہیں

ایراہی دے کے ہم نے بچایا ہے کشت کو[205]

کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں

بھولا ہوں حقِّ صحبتِ اہلِ کُنِشت کو

طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسمِ ثواب سے

ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سر نوشت کو

غالبؔ کچھ اپنی سعی سے لینا نہیں مجھے

خرمن جلے اگر نہ مَلخ کھائے کشت کو





۱۳۰



وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو

کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو

چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا

ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو

ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ

ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو

پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا

یوں ہو تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو

ڈالا نہ بےکسی نے کسی سے معاملہ

اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو

ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال

ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

ہنگامۂ زبونیِ ہمّت ہے، انفعال

حاصل نہ کیجے دہر سے، عبرت ہی کیوں نہ ہو

وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں

اپنے سے کر، نہ غیر سے، وحشت ہی کیوں نہ ہو

مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی؟

عمرِ عزیز صَرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو

اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ

اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو





۱۳۱



قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو

مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجانِ گلشن کو

نہیں گر ہمدمی آساں، نہ ہو، یہ رشک کیا کم ہے

نہ دی ہوتی خدا یا آرزوئے دوست، دشمن کو

نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر

کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگانِ سوزن کو

خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں

کبھی میرے گریباں کو، کبھی جاناں کے دامن کو

ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں

نہیں دیکھا شناور جوئے خوں میں تیرے توسن کو

ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا

کیا بے تاب کاں میں، جنبشِ جوہر نے آہن کو

خوشی کیا، کھیت پر میرے، اگر سو بار ابر آوے

سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو

وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے

مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کو

جہاں تلوار کو دیکھا، جھکا دیتا تھا گردن کو

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کے

جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو

مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالبؔ

فریدون و جم و کیخسرو و داراب و بہمن کو







۱۳۲



واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار

یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو

اپنے کو دیکھتا نہیں ذوقِ ستم کو دیکھ

آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو





۱۳۳



واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو

صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو

دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے

کس قدر ذوقِ گرفتاریِ ہم ہے ہم کو

ضعف سے نقشِ پئے مور، ہے طوقِ گردن

ترے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو

جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امّید بھی ہو

یہ نگاہِ غلط انداز تو سَم ہے ہم کو

رشکِ ہم طرحی و دردِ اثرِ بانگِ حزیں

نالۂ مرغِ سحر تیغِ دو دم ہے ہم کو

سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرّر چاہا

ہنس کے بولے کہ ’ترے سر کی قسم ہے ہم کو!‘

دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ؟ و لیکن ناچار

پاسِ بے رونقیِ دیدہ اہم ہے ہم کو

تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو

ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو



ق

لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی

ہوسِ سیر و تماشا، سو وہ کم ہے ہم کو

مقطعِ سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر

عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو

لیے جاتی ہے کہیں ایک توقّع غالبؔ

جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو

ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادی کرو

برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو

طاقتِ رنجِ سفر بھی نہیں پاتے اتنی

ہجرِ یارانِ وطن کا بھی الم ہے ہم کو

لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید

جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو[206]









۱۳۴





تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے

قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو

کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس[207] ہیں

مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو

ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے، ایک تار

مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو

جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید

مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو

سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف، سب درست

لیکن خدا کرے وہ تِرا[208] جلوہ گاہ ہو

غالبؔ بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں

دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو





۱۳۵



گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو

کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو

ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال

کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو

ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے

حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو

تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا

بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو

الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ

جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو

جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا

وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو

ہمیں پھر ان سے امید اور انہیں ہماری قدر

ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیوں کر ہو

غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا

نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو

بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار

یہ نیش ہو رگِ جاں میں فِرو تو کیوں کر ہو

مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بہ قولِ حضور[209]

’فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو‘





۱۳۶



کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو

نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں[210]

سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو

کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو

نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم

گری ہے جس پہ کل بجلی، وہ میرا آشیاں کیوں ہو

یہ کہہ سکتے ہو‘‘ہم دل میں نہیں ہیں‘‘ پر یہ بتلاؤ

کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے

نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں

عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی

بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالبؔ

ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو







۱۳۷



رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے

کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیمار دار [211]

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو





[212]۱۳۸



بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو

کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو

تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو

ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو

بے تاب ہوں بلا سے، کن[213] آنکھوں سے دیکھ لیں

اے خوش نصیب! کاش قضا کا پیام ہو

کیا شرم ہے، حریم ہے، محرم ہے راز دار

میں سر بہ کف ہوں، تیغِ ادا بے نیام ہو

میں چھیڑنے کو کاش اسے گھور لوں کہیں

پھر شوخ دیدہ بر سرِ صد انتقام ہو

وہ دن کہاں کہ حرفِ تمناّ ہو لب شناس

ناکام، بد نصیب، کبھی شاد کام ہو

گھس پل کے چشمِ شوق قدم بوس ہی سہی

وہ بزمِ غیر ہی میں ہوں اژدہام[214] میں

اتنی پیوں کہ حشر میں سرشار ہی اٹھوں

مجھ پر جو چشمِ ساقیِ بیت الحرام ہو

پیرانہ سال غالبؔ مے کش کرے گا کیا

بھوپال میں مزید جو دو دن قیام ہو



ردیف ہ


۱۳۹



شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ[215]

ہوا ہے موجبِ آرامِ جان و تن تکیہ

خراج بادشہِ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج؟

کہ بن گیا ہے خمِ جعدِ [216] پُر شکن تکیہ

بنا ہے تختۂ گل ہائے یاسمیں بستر

ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن تکیہ

فروغِ حسن سے روشن ہے خواب گاہ تمام

جو رختِ خواب ہے پرویں، تو ہے پرن تکیہ

مزا ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا

رکھے جو بیچ میں وہ شوخِ سیم تن تکیہ

اگرچہ تھا یہ ارادہ مگر خدا کا شکر

اٹھا سکا نہ نزاکت سے گل بدن تکیہ

ہوا ہے کاٹ کے چادر کو ناگہاں غائب

اگرچہ زانوئے نل پر رکھے دمن تکیہ

بہ ضربِ تیشہ وہ اس واسطے ہلاک ہوا

کہ ضربِ تیشہ پہ رکھتا تھا کوہ کُن تکیہ

یہ رات بھر کا ہے ہنگامہ صبح ہونے تک

رکھو نہ شمع پر اے اہلِ انجمن تکیہ

اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے لیکن

اٹھائے کیوں کہ یہ رنجورِ خستہ تن تکیہ

غش آ گیا جو پس از قتل میرے قاتل کو

ہوئی ہے اس کو مری نعشِ بے کفن تکیہ

[217]جو بعدِ قتل، مرا دشت میں مزار بنا

لگا کے بیٹھتے ہیں، اس سے راہ زن، تکیہ

شبِ فراق میں یہ حال ہے اذیّت کا

کہ سانپ فرش ہے اور سانپ کا ہے من تکیہ

روا رکھو نہ رکھو، تھا جو لفظ تکیہ کلام

اب اس کو کہتے ہیں اہلِ سخن‘‘سخن تکیہ‘‘

ہم اور تم فلکِ پیر جس کو کہتے ہیں

فقیر غالبؔ مسکیں کا ہے کہن تکیہ


۱۴۰



از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ[218]

طوطی کو‘‘شش جہت‘‘ سے مقابل ہے آئینہ

حیرت، ہجوم لذتِ غلطانیِ تپش

سیماب بالش، و کمرِ دل ہے آئینہ

غفلت، بہ بالِ جوہرِ شمشیرِ پَر فشاں

یاں پشتِ چشمِ شوخیِ قاتل ہے آئینہ

حیرت نگاہ برق، تماشا بہار شوخ

در پردۂ ہوا پرِ بسمل ہے آئینہ

یاں رہ گئے ہیں ناخنِ تدبیر ٹوٹ کر

جوہرِ طلسمِ عقدۂ مشکل ہے آئینہ

ہم زانوئے تامل و ہم جلوہ گاہِ گل

آئینہ بندِ خلوت و محفل ہے آئینہ

دل کار گاہِ فکر و اسدؔ بے نوائے دل

یاں سنگِ آستانۂ بیدل ہے آئینہ







۱۴۱



جز، دل سراغِ درد بدل خفتگاں نہ پوچھ

آئینہ عرض کر، خط و خالِ بیاں نہ پوچھ

پرواز، یک تپِ غمِ تسخیرِ نالہ ہے

گرمیِ نبضِ خار و خسِ آشیاں نہ پوچھ[219]

ہے سبزہ زار، ہر در و دیوارِ غم کدہ

جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ

ناچار بے کسی کی بھی حسرت اٹھائیے

دشواریِ رہ و ستمِ ہمرہاں نہ پوچھ

ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا

جاہ و جلالِ عہد وصلِ بتاں نہ پوچھ

تو مشقِ ناز کر، دلِ پروانہ ہے بہار

بے تابیِ تجلیِ آتش بجاں نہ پوچھ

غفلت متاع کفۂ میزانِ عدل ہیں

یا رب، حسابِ سختیِ خوابِ گراں نہ پوچھ

ہر داغِ تازہ یک دلِ داغ انتظار ہے

عرضِ فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ

کہتا تھا کل وہ محرم راز اپنے سے کہ آہ

دردِ جدائیِ اسد اللہ خاں نہ پوچھ







ردیف ی


۱۴۲



صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے

طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے

[220]دل ہی نہیں کہ منتِ درباں اُٹھائیے

کس کو وفا کا سلسلہ جنباں اُٹھائیے؟

تا چند داغ بیٹھیے، نقصاں اُٹھائیے؟

اب چار سوئے عشق سے دُکاں اُٹھائیے

ہستی، فریب نامۂ موجِ سراب ہے

یک عمر نازِ شوخیِ عنواں اُٹھائیے

ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق

یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے

دیوار بارِ منّتِ مزدور سے ہے خم

اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے

یا میرے زخمِ رشک کو رسوا نہ کیجیے

یا پردۂ تبسّمِ پنہاں اٹھائیے

[221]ضبطِ جنوں سے، ہر سرِ مو ہے ترانہ خیز

یک نالہ بیٹھیے تو، نیستاں اُٹھائیے

نذرِ خراشِ نالہ، سرشکِ نمک اثر

لطفِ کرم، بدولتِ مہماں اُٹھائیے

انگور، سعیِ بے سرو پائی سے سبز ہے

غالب ؔ، بہ دوشِ دل خُمِ مستاں اُٹھائیے







۱۴۳



مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے

بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے

[222]وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے

صاحب کے ہم نشیں کو کرامات چاہیے

عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر

آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے

دے داد اے فلک! دلِ حسرت پرست کی[223]

ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری

تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا

ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بے خودی

رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے

یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانۂ صفات

عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے

نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو

خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے







۱۴۴



بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی

سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی

رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلّف سے

تکلّف بر طرف، تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی

خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے

مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی

نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم

کہ ہو گا باعثِ افزائشِ دردِ دروں وہ بھی

نہ اتنا بُرّشِ تیغِ جفا پر ناز فرماؤ

مرے دریائے بے تابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی

مئے عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجے

لیے بیٹھا ہے اک دو چار[224] جامِ واژگوں وہ بھی

مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے

کہیں ہو جائے جلد اے گردشِ گردونِ دوں، وہ بھی!

نظر راحت پہ میری کر نہ وعدہ شب کو آنے کا

کہ میری خواب بندی کے لیے ہو گا فسوں وہ بھی

مرے دل میں ہے غالبؔ شوقِ وصل و شکوۂ ہجراں

خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں، وہ بھی





۱۴۵



ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے

تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے

ہے دورِ قدح وجہ پریشانیِ صہبا

یک بار لگا دو خمِ مے میرے لبوں سے

رندانِ درِ مے کدہ گستاخ ہیں زاہد

زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے

بیدادِ وفا دیکھ، کہ جاتی رہی آخر

ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے

[225]کیا پوچھے ہے بر خود غلطی ہائے عزیزاں؟

خواری کو بھی اک عار ہے، عالی نسبوں سے

گو تم کو رضا جوئیِ اغیار ہے، لیکن

جاتی ہے ملاقات کب ایسے سببوں سے؟

مت پوچھ، اسدؔ، غصۂ کم فرصتیِ زیست

دو دن بھی جو کاٹے، تو قیامت تعبوں سے





۱۴۶



تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا

سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے

غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو

وہ سن کے بلا لیں، یہ اجارا نہیں کرتے


۱۴۷



گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا

وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر، سو ہے





۱۴۸



غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی

فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی

کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب!

قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی

لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے

ولے مشکل ہے حکمت، دل میں سوزِ غم چھپانے کی

انہیں منظور اپنے زخمیوں کا[226] دیکھ آنا تھا

اٹھے تھے سیرِ گل کو، دیکھنا شوخی بہانے کی

ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا

ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی

لکدکوبِ حوادث کا تحمّل کر نہیں سکتی

مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی

کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالبؔ

بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بار ہا نیکی



۱۴۹



حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی

دل، جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی

اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے

میں بھی جلے ہؤوں میں ہوں داغِ نا تمامی

[227]کرتے ہو شکوہ کس کا؟ تم اور بے وفائی

سر پیٹتے ہیں اپنا، ہم اور نیک نامی

صد رنگ گل کترنا، در پردہ قتل کرنا

تیغِ ادا نہیں ہے پابندِ بے نیامی

طرفِ سخن نہیں ہے مجھ سے، خدا نہ کردہ

ہے نامہ بر کو اُس سے دعوائے ہم کلامی

طاقت فسانۂ باد، اندیشہ شعلہ ایجاد

اے غم، ہنوز آتش، اے دل ہنوز خامی!

ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن

ہے شرحِ شوق کو بھی، جوں شکوہ، نا تمامی

ہے یاس میں اسد ؔ کو ساقی سے بھی فراغت

دریا سے خشک گزری مستوں کی تشنہ کامی






۱۵۰



کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے

جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے

ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے

پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے

حالاں کہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ

غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے

کی اس نے گرم سینۂ اہلِ ہوس میں جا

آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے

کیا خوب! تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا

بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے

بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوارِ یار میں

فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے

ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا

کس سے کہوں کہ ’’داغ‘‘ جگر کا نشان ہے

ہے بارے اعتمادِ وفاداری اس قدر

غالبؔ ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے

دلّی کے رہنے والو اسدؔ کو ستاؤ مت

بے چارہ چند روز کا یاں میہمان ہے[228]





۱۵۱



درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے

تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ

تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے

کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال

دشمنی اپنی تھی، میری دوست داری ہائے ہائے

عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا

عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے

زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی

یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے

گل فشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا

خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے

شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں

ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے

خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی

اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے

ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا

دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے

کس طرح کاٹے کوئی شب‌ ہائے تارِ برشکال

ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے

گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال

ایک دل تِس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے

عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگ

رہ گیا، تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے

گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتا اسدؔ

میری دلّی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائے[229]









۱۵۲



سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے

تسکیں کو دے نوید[230] کہ مرنے کی آس ہے

لیتا نہیں مرے دلِ آوارہ کی خبر

اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے

کیجے بیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک

ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے

ہے وہ غرورِ حسن سے بیگانۂ وفا

ہرچند اس کے پاس دلِ حق شناس ہے

پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب

اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے

[231]کیا غم ہے اُس کو، جس کا علی سا امام ہو

اتنا بھی اے فلک زدہ، کیوں بے حواس ہے

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ

مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے







۱۵۳





گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے

خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے

کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ

دل فردِ جمع و خرچِ زباں ہائے لال ہے

کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا

رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے

ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی

اے شوقِ منفعل! یہ تجھے کیا خیال ہے

مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان

نافِ زمین[232] ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا

دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

[233]پہلو تہی نہ کر غم و اندوہ سے، اسدؔ

دل وقفِ درد رکھ کہ فقیروں کا مال ہے





۱۵۴



نظر بہ نقصِ گدایاں، کمالِ بے ادبی ہے

کہ خارِ خشک کو بھی دعویِ چمن نسبی ہے

ہوا وصال سے شوقِ دلِ حریص زیادہ

لبِ قدح پہ، کفِ بادہ، جوشِ تشنہ لبی ہے

خوشا! وہ دل کہ سراپا طلسمِ بے خبری ہو

جنونِ یاس و الم، رزقِ مدعا طلبی ہے[234]

تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے[235] پوچھو

حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے

دلا یہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر

نہ گریۂ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہے

چمن میں کس کی، یہ برہم ہوئی ہے، بزمِ تماشا؟

کہ برگ برگِ سمن، شیشہ ریزۂ حلبی ہے

امامِ ظاہر و باطن، امیرِ صورت و معنی

علی، ولی، اسد اللہ، جانشینِ نبیؐ ہے
۱۵۵



بس کہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے[236]

ناخنِ انگشت بتخالِ لبِ بیمار ہے

زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ

ورنہ صد محشر بہ رہنِ صافیِ رخسار ہے

در خیال آبادِ سودائے سرِ مژگانِ دوست

صد رگِ جاں جادہ آسا وقفِ نشتر زار ہے

ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا، سو[237] بھی مٹ گیا

ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے

جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں

ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے

آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا

ہر کوئی در ماندگی میں نالے سے نا چار ہے

ہے وہی بد مستیِ ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ

جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی

زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے [238]

آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا

تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرتِ دیدار ہے

[239]جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں

ہم نہیں جلتے، نفس ہر چند آتش بار ہے

ہے وہی بد مستی ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ

جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

بس کہ ویرانی سے کفر و دیں ہوئے زیر و زبر

گردِ صحرائے حرم تا کوچۂ زنّار ہے

[240]اے سرِ شوریدہ، ذوقِ عشق و پاسِ آبرو!

جوشِ سودا کب حریفِ منتِ دستار ہے

وصل میں دل انتظارِ طرفہ رکھتا ہے مگر

فتنہ، تاراجِ تمنا کے لیے درکار ہے

خانماں ہا پائمالِ شوخیِ دعویٰ اسدؔ

سایۂ دیوار سے سیلابِ در و دیوار ہے




۱۵۶



پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے

کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے


۱۵۷



یہ بزمِ مے پرستی، حسرتِ تکلیف بے جا ہے[241]

کہ جامِ بادہ کف بر لب بہ تقریبِ تقاضا ہے

مری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنّا ہے

جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے

خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم ہو

وہی ہم ہیں، قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے

وفائے دلبراں ہے اتّفاقی ورنہ اے ہمدم

اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے

نہ لائی[242] شوخیِ اندیشہ تابِ رنجِ نومیدی

کفِ افسوس سودن کفِ افسوس ملنا عہدِ تجدیدِ تمنّا ہے

[243]نشاطِ دیدۂ بینا ہے، کُو خواب؟ و چہ بیداری؟

بہم آوردہ مژگاں، روئے بر روئے تماشا ہے

نہ سووے آبلوں میں گر، سرشکِ دیدۂ نم سے

بہ جولاں گاہِ نومیدی، نگاہِ عاجزاں پا ہے

وفائے دلبراں ہے اتفاقی، ورنہ، اے ہمدم

اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے

نگہ معمارِ حسرت ہا، چہ آبادی؟ چہ ویرانی؟

کہ مژگاں جس طرف وا ہو، بہ کف دامانِ صحرا ہے

بہ سختی ہائے قیدِ زندگی، معلوم آزادی

شرر بھی صیدِ دامِ رشتۂ رگ ہائے خارا ہے

اسدؔ، پاسِ تمنا سے نہ رکھ امیدِ آزادی

گدازِ ہر تمنا آبیارِ صد تمنا ہے





۱۵۸



نشۂ مے، بے چمن، دودِ چراغِ کشتہ ہے

جام، داغِ شعلہ اندودِ چراغِ کشتہ ہے

رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے[244]

نبضِ بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے

[245]دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں

ورنہ یاں بے رونقی سودِ چراغِ کشتہ ہے

داغِ ربطِ ہم ہیں اہلِ باغ، گر گُل ہو شہید

لالہ، چشمِ حسرت آلودِ چراغِ کشتہ ہے

شور ہے کس بزم کی عرضِ جراحت خانہ کا؟

صبح، یک زخمِ نمک سودِ چراغِ کشتہ ہے

نامرادِ جلوہ، ہر عالم میں حسرت گُل کرے

لالہ، داغِ شعلہ فرسودِ چراغِ کشتہ ہے

ہو جہاں، تیرا دماغِ ناز، مستِ بے خودی

خوابِ نازِ گل رخاں، دودِ چراغِ کشتہ ہے

ہے دلِ افسردہ، داغِ شوخیِ مطلب، اسدؔ

شعلہ، آخر فالِ مقصودِ چراغِ کشتہ ہے




۱۵۹



چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے[246]

سرمہ تُو کہوے کہ دودِ شعلۂ آواز ہے

پیکرِ عشّاق سازِ طالعِ نا ساز ہے

نالہ گویا گردشِ سیّارہ کی آواز ہے

دست گاہِ دیدۂ خوں بارِ مجنوں دیکھنا

یک بیاباں جلوۂ گل فرشِ پا انداز ہے

ہے صریرِ خامہ، ریزش ہائے استقبالِ ناز

نامہ خود پیغام کو بال و پرِ پرواز ہے

سر نوشتِ اضطراب انجامیِ الفت نہ پوچھ

نالِ خامہ، خار خارِ خاطرِ آغاز ہے

شرم ہے طرزِ تلاشِ انتخابِ یک نگاہ

اضطرابِ چشمِ برپا دوختہ غمّاز ہے

نغمہ ہے کانوں میں اس کے، نالۂ مرغِ اسیر

رشتۂ پا، یاں نوا سامانِ بندِ ساز ہے

نقشِ سطرِ صد تبسم ہے بر آب زیرِ گاہ

حسن کا خط پر نہاں خندیدنی انداز ہے

شوخیِ اظہار غیر از وحشتِ مجنوں نہیں

لیلیِٰ معنی، اسدؔ، محمل نشینِ راز ہے





۱۶۰



عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

میری[247] وحشت تری شہرت ہی سہی

قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی

اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے

غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی

اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو

آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

عمر ہر چند کہ ہے برق خرام

دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی

ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں

نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی

کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف

آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

بے نیازی تری عادت ہی سہی

یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ

گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی







۱۶۱



ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے

صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے

ڈھونڈے ہے اس مغنّیِ آتش نفس کو جی

جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے

مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال

تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے

کرتا ہے بس کہ باغ میں تو بے حجابیاں

آنے لگی ہے نکہتِ گل سے حیا مجھے

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

[248]ہے پیچ تابِ رشتۂ شمعِ سحر گہی

خجلت گدازیِ نفسِ نا رسا مجھے

واں رنگ ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز

یاں شعلۂ چراغ ہے، برگِ حنا مجھے

پرواز ہا نیازِ تماشائے حسنِ دوست

بالِ کشادہ ہے، نگہِ آشنا مجھے

از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے

موجِ غبارِ سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے

تا چند پست فطرتیِ طبعِ آرزو؟

یا رب ملے بلندیِ دستِ دعا مجھے

یاں آب و دانہ، موسمِ گل میں، حرام ہے

زنارِ واگسستہ ہے، موجِ صبا مجھے

یک بار امتحانِ ہوس بھی ضرور ہے

اے جوشِ عشق، بادۂ مرد آزما مجھے

میں نے جنوں سے کی جو، اسدؔ، التماسِ رنگ

خونِ جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے







۱۶۲



[249]اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے

مگر ایک شعر میں انداز رسا رکھتے تھے

اس کا یہ حال کہ کوئی نہ ادا سنج ملا

آپ لکھتے تھے ہم اور آپ اٹھا رکھتے تھے

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری[250] غالبؔ

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے





۱۶۳



اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے

بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے

دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا

میں اور جاؤں در سے ترے بِ ن صدا کیے

رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجّادہ رہنِ مے

مدّت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے

بے صرفہ ہی گزرتی ہے، ہو گرچہ عمرِ خضر

حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے[251]لئیم

تو نے وہ گنج‌ ہائے گراں مایہ کیا کیے

کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو؟

کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے؟

صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو

دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے

ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں

بھولے سے اس نے سینکڑوں[252] وعدے وفا کیے

غالبؔ تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا

مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے






۱۶۴



رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے

اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے[253]

بالِ تَدَرو[254] جلوۂ موجِ شراب ہے

زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا

نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے

جادا دِبادہ نوشیِ رنداں ہے شش جہت

غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے

نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا

جوشِ بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے

میں نا مراد دل کی تسلّی کو کیا کروں

مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے

گزرا اسدؔ مسرّتِ پیغامِ یار سے

قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے





۱۶۵



دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے

میں اسے دیکھوں، بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے

آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے

غیر کو یا رب وہ کیوں کر منعِ گستاخی کرے

گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے

شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے

دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے

دور چشمِ بد تری بزمِ طرب سے واہ واہ

نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے

گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق

پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے

اس کی بزم آرائیاں سن کر دلِ رنجور، یاں

مثلِ نقشِ مدّعائے غیر بیٹھا جائے ہے

ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا

رنگ کھُلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے

نقش کو اس کے مصوّر پر بھی کیا کیا ناز ہیں

کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے

سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسدؔ

پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے





۱۶۶



گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے

تب اماں ہجر میں دی بردِ لیالی نے مجھے

نسیہ و نقدِ دو عالم کی حقیقت معلوم

لے لیا مجھ سے مری ہمّتِ عالی نے مجھے

کثرت آرائیِ وحدت ہے پرستاریِ وہم

کر دیا کافر ان اصنامِ خیالی نے مجھے

ہوسِ گل کے تصوّر میں بھی کھٹکا نہ رہا

عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے

[255]زندگی میں بھی رہا ذوق فنا کا مارا

نشہ بخشا غضب اس ساغرِ خالی نے مجھے

بس کہ تھی فصلِ خزانِ چمنستانِ سخن

رنگِ شہرت نہ دیا تازہ خیالی نے مجھے

جلوۂ خور سے، فنا ہوتی ہے شبنم، غالبؔ

کھو دیا سطوتِ اسمائے جلالی نے مجھے



۱۶۷



کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے

برقِ خرمنِ راحت، خونِ گرمِ دہقاں ہے

غنچہ تا شگفتن ہا برگِ عافیت معلوم

باوجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں ہے

ہم سے رنجِ بے تابی کس طرح اٹھایا جائے

داغ پشتِ دستِ عجز، شعلہ خس بہ دنداں ہے

حیرتِ تپیدن ہا، خوں بہائے دیدن ہا

[256]رنگِ گل کے پردے میں آئینہ پَر افشاں ہے

عشق کے تغافل سے، ہرزہ گرد ہے عالم

روئے شش جہت آفاق، پشتِ چشمِ زنداں ہے

وحشتِ انجمن ہے گل، دیکھ لالے کا عالم

مثلِ دودِ مجمر کے، داغ بال افشاں ہے

اے کرم نہ ہو غافل، ورنہ ہے اسدؔ بیدل

بے گُہر صدف گویا، پشتِ چشمِ نیساں ہے

جورِ زلف کی تقریر پیچ تابِ خاموشی

ہند میں اسدؔ نالاں، نالہ در صفاہاں ہے




۱۶۸





فرصت، آئینہ صد رنگِ خود آرائی ہے

روز و شب، یک کفِ افسوسِ تماشائی ہے

وحشتِ زخمِ وفا دیکھ کہ سر تا سرِ دل

بخیہ، جوں جوہرِ تیغ، آفتِ گیرائی ہے

شمع آسا، چہ سرِ دعوی؟ و کُو پائے ثبات؟

گلِ صد شعلہ، بہ یک جیبِ شکیبائی ہے

نالہ خونیں ورق، و دل گلِ مضمونِ شفق

چمن آرائے نفس، وحشتِ تنہائی ہے

بوئے گل فتنۂ بیدار و چمن جامۂ خواب

وصل ہر رنگِ جنوں کسوتِ رسوائی ہے

شرم طوفانِ خزاں رنگِ طرب گاہِ بہار

گلِ مہتاب بہ کف چشمِ تماشائی ہے

شرم، طوفانِ خزاں رنگِ طرب گاہِ بہار

ماہتابی بہ کفِ چشمِ تماشائی ہے

باغِ خاموشیِ دل سے سخنِ عشق، اسدؔ

نفسِ سوختہ رمزِ چمن ایمائی ہے[257]

اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ

ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے



۱۶۹



سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے

بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے

دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائے گی

یہ جو اک لذّت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے

رنجِ رہ کیوں کھینچیے؟ واماندگی کو عشق ہے[258]

اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم، منزل میں ہے

جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی

فتنۂ شورِ قیامت کس کی[259] آب و گِل میں ہے

ہے دلِ شوریدۂ غالبؔ طلسمِ پیچ و تاب

رحم کر اپنی تمنّا پر کہ کس مشکل میں ہے
۱۷۰

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی

دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ، خوشا لذّتِ فراغ

تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی

وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں

اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں

بارے اب اے ہوا! ہوسِ بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقشِ پا

موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بو‌الہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی

نظّارے نے بھی کام کِیا واں نقاب کا

مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرِقہ یک بار مٹ گیا

کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

مارا زمانے نے اسدؔ اللہ خاں تمہیں

وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی



۱۷۱



تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے

حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل

میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم

ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم

میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے

تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کِیا

فرصت کشاکشِ غمِ پنہاں سے گر ملے

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں

جانا[260] کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

اے ساکنانِ کوچۂ دل دار دیکھنا

تم کو کہیں جو غالبؔ آشفتہ سر ملے





۱۷۲



کوئی دن گر زندگانی اور ہے

اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں

سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے

بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں

پر کچھ اب کے[261] سر گرانی اور ہے

دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر

کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے

قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم

وہ بلائے آسمانی اور ہے

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اور ہے





۱۷۳



کوئی امّید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد

پر طبعیت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں

میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا

بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی







۱۷۴



دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟

آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے



ق

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے[262]

نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟

ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟

ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا

اَور درویش کی صدا کیا ہے؟

جان تم پر نثار کرتا ہوں

میں نہیں جانتا دعا کیا ہے؟

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے





۱۷۵



کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے

یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی‘‘کہ وو آئے‘‘

ہوں کشمکشِ نزع میں ہاں جذبِ محبّت

کچھ کہہ نہ سکوں، پر وہ مرے پوچھنے کو آئے

ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم[263]

آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں، گو آئے

ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین

ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے

جلاّد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے

ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے

ہاں اہلِ طلب! کون سنے طعنۂ نا یافت

دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے

اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں

اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی کو ہو آئے

کی ہم نفسوں نے اثرِ گریہ میں تقریر

اچّھے رہے آپ اس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے

اس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے غالبؔ

ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے





۱۷۶



پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے

سینہ جویائے زخمِ کاری ہے

پھِر جگر کھودنے لگا ناخن

آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے

[264]قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز

پھر وہی پردۂ عماری ہے

چشم دلاّلِ جنسِ رسوائی

دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے

وُہ ہی[265] صد رنگ نالہ فرسائی

وُہ ہی صد گونہ اشک باری ہے

دل ہوائے خرامِ ناز سے پھر

محشرستانِ بے قراری ہے

جلوہ پھر عرضِ ناز کرتا ہے

روزِ بازارِ [266] جاں سپاری ہے

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے

ق

پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز

گرم بازارِ فوج داری ہے

ہو رہا ہے جہان میں اندھیر

زلف کی پھر سرشتہ داری ہے

پھر دیا پارۂ جگر نے سوال

ایک فریاد و آہ و زاری ہے

پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب

اشک باری کا حکم جاری ہے

دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا

آج پھر اس کی روبکاری ہے

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے





۱۷۷



جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر[267] شادمانی کی

نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی

کشاکش‌ ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی

ہوئی زنجیر، موجِ [268] آب کو فرصت روانی کی

پس از مردن[269] بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے

شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی

نہ کھینچ اے دستِ سعیِ نا رسا زلفِ تمنّا کو

پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانیؔ کی

کماں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں، انصاف بہتر ہے

نہ کھینچے طاقتِ خمیازہ تہمت ناتوانی کی

[270]تکلف بر طرف، فرہاد اور اتنی سبک دستی

خیال آساں تھا، لیکن خوابِ خسرو نے گرانی کی

اسدؔ کو بوریے میں دھر کے پھونکا موجِ ہستی نے

فقیری میں بھی باقی ہے شرارت نوجوانی کی




۱۷۸



نِکوہِش ہے سزا فریادیِ بیدادِ دِلبر کی

مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی

رگِ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنوں ریشگی بخشے

اگر بو دے بجائے دانہ دہقاں نوک نشتر کی

پرِ پروانہ شاید بادبانِ کشتیِ مے تھا

ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دَورِ ساغر کی

کروں بیدادِ ذوقِ پَر فشانی عرض کیا قدرت

کہ طاقت اُڑ گئی، اڑنے سے پہلے، میرے شہ پر کی

کہاں تک روؤں اُس کے خیمے کے پیچھے، قیامت ہے!

مری قسمت میں یا رب کیا نہ تھی دیوار پتھّر کی؟

[271]مرا دل مانگتے ہیں عاریت اہل ہوس، شاید

یہ جایا چاہتے آج دعوت میں سمندر کی

غرورِ لطفِ ساقی نشۂ بے باکیِ مستاں

نمِ دامانِ عصیاں ہے، طراوت موجِ کوثر کی

تھکا جب قطرہ بے دست و پا بالا دویدن سے

زِ بہرِ یادگاری ہا گرہ دیتا ہے گوہر کی

بہ جز دیوانگی ہوتا نہ انجامِ خود آرائی

اگر پیدا نہ کرتا آئینہ زنجیر جوہر کی

اسد ؔ، جز آب بخشیدن ز دریا خضر کو کیا تھا!

ڈبوتا چشمۂ حیواں میں، گر، کشتی سکندر کی







۱۷۹





بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے

جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے

پنہاں تھا دام، سخت قریب[272] آشیان کے

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے

یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قَسم ہوئے

سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیا خبر

وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے

تیری وفا سے کیا ہو تلافی؟ کہ دہر میں

تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

اللہ ری[273] تیری تندیِ خو جس کے بیم سے

اجزائے نالہ دل میں مرے رزقِ ہم ہوئے

اہلِ ہوس کی فتح ہے ترکِ نبردِ عشق

جو پاؤں اٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے

نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے

جو واں نہ کھنچ[274] سکے سو وہ یاں آ کے دم ہوئے

چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی

سائل ہوئے تو عاشقِ اہلِ کرم ہوئے







۱۸۰



جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی

تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی

مجھے اس سے کیا توقّع بہ زمانۂ جوانی

کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی

یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا

کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی[275]





۱۸۱



ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے

اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے

نے مژدۂ وصال نہ نظّارۂ جمال

مدّت ہوئی کہ آشتیِ چشم و گوش ہے

[276]ہو کر شہید عشق میں، پائے ہزار جسم

ہر موجِ گردِ رہ، مرے سر کو دوش ہے

مے نے کِیا ہے حسنِ خود آرا کو بے حجاب

اے شوق یاں[277] اجازتِ تسلیمِ ہوش ہے

گوہر کو عقدِ گردنِ خوباں میں دیکھنا

کیا اوج پر ستارۂ گوہر فروش ہے

دیدار بادہ، حوصلہ ساقی، نگاہ مست

بزمِ خیال مے کدۂ بے خروش ہے

ق

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل

زنہار اگر تمہیں ہوسِ نائے و نوش ہے

دیکھو مجھے! جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

میری سنو! جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی

مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط

دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے

لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ

یہ جنّتِ نگاہ وہ فردوسِ گوش ہے

یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں

نے وہ سرور و سوز[278] نہ جوش و خروش ہے

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے


۱۸۲



آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے

طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے

دیتے ہیں جنّت حیاتِ دہر کے بدلے

نشّہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے

گِریہ نکالے ہے تیری[279] بزم سے مجھ کو

ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر

خاک میں عشّاق کی غبار نہیں ہے

دل سے اٹھا لطفِ جلوہ‌ ہائے معانی

غیرِ گل آئینۂ بہار نہیں ہے

قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے

وائے اگر عہد استوار نہیں ہے

تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ

تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے




۱۸۳



میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں

چل نکلتے جو مے پیے ہوتے

قہر ہو یا بلا ہو، جو کچھ ہو

کاشکے تم مرے لیے ہوتے

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ

کوئی دن اور بھی جیے ہوتے





۱۸۴



ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے

کہ تارِ دامن و تارِ نظر میں فرق مشکل ہے

ہوا ہے مانعِ عاشق نوازی، نازِ خود بینی

تکلّف بر طرف، آئینۂ تمیز حایل ہے

بہ سیلِ اشک لختِ دل ہے دامن گیر مژگاں کا

غریقِ بحر جویائے خس و خاشاکِ ساحل ہے

بہا ہے یاں تک اشکوں میں غبارِ کلفتِ خاطر

کہ چشمِ تر میں ہر یک پارۂ دل پائے در گِل ہے

نکلتی ہے تپش میں بسملوں کی برق کی شوخی

غرض اب تک خیالِ گرمیِ رفتار قاتل ہے

رفوئے زخم سے مطلب ہے لذّت زخمِ سوزن کی

سمجھیو مت کہ پاسِ درد سے دیوانہ غافل ہے

وہ گل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالبؔ

چٹکنا غنچۂ گل[280] کا صدائے خندۂ دل ہے


۱۸۵



ہم زباں آیا نظر فکرِ سخن میں تُو مجھے

مردمک، ہے طوطیِ آئینۂ زانو مجھے

باعثِ واماندگی ہے عمرِ فرصت جُو مجھے

کر دیا ہے پا بہ زنجیرِ رمِ آہو مجھے[281]

پا بہ دامن ہو رہا ہوں بس کہ میں صحرا نورد

خارِ پا ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے

دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت[282]

ہے نگاہِ آشنا تیرا سرِ ہر مو مجھے

ہوں سراپا سازِ آہنگِ شکایت کچھ نہ پوچھ

ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے

خاکِ فرصت بر سرِ ذوقِ فنا! اے انتظار

ہے غبارِ شیشۂ ساعت، رمِ آہو مجھے

یادِ مژگاں میں بہ نشتر رازِ صحرائے خیال

چاہیے وقتِ تپش یک دست صد پہلو مجھے

کثرتِ جور و ستم سے، ہو گیا ہوں بے دماغ

خوبرویوں نے بنایا عاقبت بد خو مجھے

اضطرابِ عمر بے مطلب نہیں آخر، کہ ہے

جستجوئے فرصتِ ربطِ سرِ زانو مجھے

چاہیے درمانِ ریشِ دل بھی تیغِ ناز سے

مرہمِ زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے

فرصتِ آرام غش، ہستی ہے بحرانِ عدم

ہے شکستِ رنگِ امکاں، گردشِ پہلو مجھے

سازِ ایمائے فنا ہے عالمِ پیری، اسدؔ

قامتِ خم سے ہے حاصل شوخیِ ابرو مجھے





۱۸۶



جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے

جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے

سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر

تو اس قدِ دل کش سے جو گل زار میں آوے

تب نازِ گراں مائگیِ اشک بجا ہے

جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے

دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر!

کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے

اس چشمِ فسوں گر کا اگر پائے اشارہ

طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب

اک آبلہ پا وادیِ پر خار میں آوے

مر جاؤں نہ کیوں رشک سے جب وہ تنِ نازک

آغوشِ خمِ حلقۂ زُنّار میں آوے

غارت گرِ ناموس نہ ہو گر ہوسِ زر

کیوں شاہدِ گل باغ سے بازار میں آوے

تب چاکِ گریباں کا مزا ہے دلِ نالاں[283]

جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے

آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے

اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے

جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے







۱۸۷



حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے

اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ

جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچّھا ہے

بے طلب دیں تو مزہ اُس میں سوا ملتا ہے

وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچّھا ہے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے

دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا

جس طرح کا کہ[284] کسی میں ہو کمال اچّھا ہے

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے

کام اچّھا ہے وہ، جس کا کہ مآل اچّھا ہے

خضر سلطاں کو رکھے خالقِ اکبر سر سبز

شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچّھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچّھا ہے





۱۸۸



نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی

امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی

خار خارِ المِ حسرتِ دیدار تو ہے

شوق گل چینِ گلستانِ تسلّی نہ سہی

مے پرستاں خمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے

ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی

نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا

گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلی نہ سہی

ایک ہنگامے پہ[285] موقوف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی؟ نہ سہی

عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو

نہ ہوئی غالبؔ اگر عمرِ طبیعی نہ سہی





۱۸۹



عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے

قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادۂ الفت

فقط خراب لکھا، بس نہ چل سکا قلم آگے

غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی

وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذّتِ الم آگے

خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا

کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے

یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے

تمہارے آئیو، اے طرّہ‌ ہائے خم بہ خم آگے

دل و جگر میں پَر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے

ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے

قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ

ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے





۱۹۰



شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے

یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گِلا ہوتا ہے

پُر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا

اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے

گو سمجھتا نہیں پر حسنِ تلافی دیکھو

شکوۂ جور سے سر گرمِ جفا ہوتا ہے

عشق کی راہ میں ہے چرخِ مکوکب کی وہ چال

· سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے

کیوں نہ ٹھہریں ہدفِ ناوکِ بیداد کہ ہم

آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے

خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ

کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے

نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب

لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے

ق

خامہ میرا کہ وہ ہے باربُدِ بزمِ سخن

شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے

اے شہنشاہِ کواکب سپہ و مہرِ علم

تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے

سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے

تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے

ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال

آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے

میں جو گستاخ ہوں آئینِ غزل خوانی میں

یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے





۱۹۱



ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا

کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے

وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن

ہمارے جَیب[286] کو اب حاجتِ رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ سے ہی[287] نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز

سوائے بادۂ گل فامِ مشک بو[288] کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار

یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی

تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے





۱۹۲

غیر لیں محفل میں بوسے جام کے

ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے

خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ

ہتھکنڈے ہیں چرخِ نیلی فام کے

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

رات پی زم زم پہ مے اور صبح دم

دھوئے دھبّے جامۂ احرام کے

دل کو آنکھوں نے پھنسایا کیا مگر

یہ بھی حلقے ہیں تمہارے دام کے

شاہ کی ہے غسلِ صحّت کی خبر[289]

دیکھیے کب دن پھریں حمّام کے

عشق نے غالبؔ نکمّا کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے




۱۹۳



پھر اس انداز سے بہار آئی

کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی

دیکھو اے ساکنانِ خطّۂ خاک

اس کو کہتے ہیں عالم آرائی

کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر

رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی

بن گیا روئے آب پر کائی

سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے

چشمِ نرگس کو دی ہے بینائی

ہے ہوا میں شراب کی تاثیر

بادہ نوشی ہے باد پیمائی

کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی غالبؔ

شاہِ دیں دار[290] نے شفا پائی




۱۹۴



تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے[291]

اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے

رہا آباد عالم، اہلِ ہمّت کے نہ ہونے سے

بھرے ہیں جس قدر جام و سبو، مے خانہ خالی ہے

بتانِ شوخ کا دل سخت ہو گا کس قدر، یا رب!

مری فریاد کو، کہسار، سازِ عجز نالی ہے

نشان بے قرارِ شوق، جز مژگاں نہیں باقی

کئی کانٹے ہیں اور پیراہنِ شکلِ نہالی ہے

جنوں کر، اے چمن تحریرِ درسِ شغلِ تنہائی

نگاہِ شوق کو، صحرا بھی، دیوانِ غزالی ہے

سیہ مستی ہے اہلِ خاک کو ابرِ بہاری سے

زمیں جوشِ طرب سے، جامِ لب ریزِ سفالی ہے

اسدؔ، مت رکھ تعجب خر دماغی ہائے منعم کا

کہ یہ نامرد بھی شیر افگنِ میدانِ قالی ہے
۱۹۵

کب وہ سنتا ہے کہانی میری

اور پھر وہ بھی زبانی میری

خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ

دیکھ خوں نابہ فشانی میری

کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار

مگر آشفتہ بیانی میری

ہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیال

بھول جانا ہے نشانی میری

متقابل ہے مقابل میرا

رک گیا دیکھ روانی میری

قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں

سخت ارزاں ہے گرانی میری

گرد بادِ رہِ بے تابی ہوں

صرصرِ شوق ہے بانی میری

دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا

کھل گئی ہیچ مدانی میری

کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ

ننگِ پیری ہے جوانی میری


۱۹۶



تشنۂ خونِ تماشا جو وہ پانی مانگے

آئینہ، رخصتِ اندازِ روانی مانگے

[292]نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب

پائے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے

تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے

غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے

وہ تبِ [293] عشق تمنّا ہے کہ پھر صورتِ شمع

شعلہ تا نبضِ جگر ریشہ دوانی مانگے

رنگ نے گُل سے دمِ عرضِ پریشانیِ بزم

برگِ گُل، ریزۂ مینا کی نشانی مانگے

زلف تحریرِ پریشانِ تقاضا ہے، مگر

شانہ ساں، مُو بہ زباں خامۂ مانی مانگے

آمدِ خط ہے، نہ کر خندۂ شیریں کہ، مباد!

چشمِ مور، آئینۂ دل نگرانی مانگے

ہوں گرفتارِ کمیں گاہِ تغافل کہ جہاں

خوابِ صیاد سے، پرواز، گرانی مانگے

چشمِ پرواز و نفس خفتہ، مگر ضعفِ امید

شہپرِ کاہ، پئے مژدہ رسانی مانگے

وحشتِ شورِ تماشا ہے کہ جوں نکہتِ گل

نمکِ زخمِ جگر بال فشانی مانگے

گر ملے حضرتِ بیدل کا خطِ لوحِ مزار

اسد ؔ، آئینۂ پردازِ معانی مانگے







۱۹۷



گلشن کو تری صحبت از بس کہ خوش آئی ہے

ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے

واں کُنگرِ استغنا ہر دم ہے بلندی پر

یاں نالے کو اُور الٹا دعوائے رسائی ہے

از بس کہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے

جو داغ نظر آیا اک چشم نمائی ہے

آئینہ نفس سے بھی ہوتا ہے کدورت کش

عاشق کو غبارِ دل اک وجہِ صفائی ہے

ہنگامِ تصوّر ہوں دریوزہ گرِ بوسہ

یہ کاسۂ زانو بھی اک جامِ گدائی ہے

وہ دیکھ کے حسن اپنا مغرور ہوا غالبؔ

صد جلوۂ آئینہ، یک صبحِ جدائی ہے





۱۹۸



جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی

لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی

اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر

دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی

کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے

یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی

[294]اے بے خبراں! میرے لبِ زخمِ جگر پر

بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی

گو زندگیِ زاہدِ بے چارہ عبث ہے

اتنا تو ہے، رہتی تو ہے تدبیر وضو کی[295]

دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو

خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی

صد حیف وہ ناکام کہ اک عمر سے غالبؔ

حسرت میں رہے ایک بتِ عربدہ جو کی


۱۹۹



یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے

پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے

سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم

حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے

بعد از وداعِ یار بہ خوں در طپیدہ[296] ہیں

نقشِ قدم ہیں ہم کفِ پائے نگار کے

ظاہر ہے ہم سے کلفتِ بختِ سیاہ روز

گویا کہ تختۂ مشق ہے خطِّ غبار کے

حسرت سے دیکھ رہتے ہیں ہم آب و رنگِ گل

مانندِ شبنم اشک ہے مژگانِ خار کے

آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے

اے عندلیب چل! کہ چلے دن بہار کے

ہم مشقِ فکرِ وصل و غمِ ہجر سے اسدؔ

لائق نہیں رہے ہیں غمِ روزگار کے





۲۰۰



عاشق، نقابِ جلوۂ جانانہ چاہیے

فانوسِ شمع کو پرِ پروانہ چاہیے

[297]ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں

معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہئے

اُس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو، ہاں!

شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہئے

پیدا کریں دماغِ تماشائے سرو و گل

حسرت کشوں کو ساغر و مینا نہ چاہیے

دیوانگاں ہیں حاملِ رازِ نہانِ عشق

اے بے تمیز، گنج کو ویرانہ چاہیے

ساقی، بہارِ موسمِ گل ہے سرور بخش

پیماں سے ہم گزر گئے، پیمانہ چاہیے

جادو ہے یار کی روشِ گفتگو، اسدؔ

یاں جز فسوں نہیں، اگر افسانہ چاہیے





۲۰۱



چاہیے اچھّوں کو، جتنا چاہیے

یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے

صُحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر

جائے مے، اپنے کو کھینچا چاہیے

[298]دل تو ہو اچھا، نہیں ہے گر دماغ

کچھ تو اسبابِ تمنا چاہیے

چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل؟

بارے اب اِس سے بھی سمجھا چاہیے!

چاک مت کر جیب، بے ایامِ گُل

کُچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے

دوستی کا پردہ ہے بیگانگی

منہ چھُپانا ہم سے چھوڑا چاہیے

دُشمنی نے میری، کھویا غیر کو

کِس قدر دُشمن ہے، دیکھا چاہیے

اپنی، رُسوائی میں کیا چلتی ہے سَعی

یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے

غافل، اِن مہ طلعتوں کے واسطے

چاہنے والا بھی اچھا چاہیے

چاہتے ہیں خُوب رویوں کو اسدؔ

آپ کی صُورت تو دیکھا چاہیے





۲۰۲



ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے

میری[299] رفتار سے بھاگے ہے، بیاباں مجھ سے

درسِ عنوانِ تماشا، بہ تغافلِ خُوشتر

ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے

وحشتِ آتشِ دل سے، شبِ تنہائی میں

صورتِ دُود، رہا سایہ گُریزاں مجھ سے

غمِ عشاق نہ ہو، سادگی آموزِ بُتاں

کِس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے

اثرِ آبلہ سے، جادۂ صحرائے جُنوں

صُورتِ رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے

بے خودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو![300]

پُر ہے سایے کی طرح، میرا شبستاں مجھ سے

شوقِ دیدار میں، گر تُو مجھے گردن مارے

ہو نگہ، مثلِ گُلِ شمع، پریشاں مجھ سے

بے کسی ہائے شبِ ہجر کی وحشت، ہے ہے!

سایہ خُورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے

گردشِ ساغرِ صد جلوۂ رنگیں، تجھ سے

آئینہ داریِ یک دیدۂ حیراں، مُجھ سے

نگہِ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے، اسدؔ!

ہے چراغاں، خس و خاشاکِ گُلستاں مجھ سے







۲۰۳



نکتہ چیں ہے، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے

کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے

میں بُلاتا تو ہوں اُس کو، مگر اے جذبۂ دل

اُس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بِ ن آئے نہ بنے

کھیل سمجھا ہے، کہیں چھوڑ نہ دے، بھول نہ جائے

کاش! یُوں بھی ہو کہ بِ ن میرے ستائے نہ بنے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ، اگر

کوئی پُوچھے کہ یہ کیا ہے، تو چھُپائے نہ بنے

اِس نزاکت کا بُرا ہو، وہ بھلے ہیں، تو کیا

ہاتھ آویں، تو اُنھیں ہاتھ لگائے نہ بنے

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے

پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے

موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بِ ن آئے نہ رہے

تم کو چاہوں؟ کہ نہ آؤ، تو بُلائے نہ بنے

بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے

کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے

عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ!

کہ لگائے نہ لگے اور بُجھائے نہ بنے





۲۰۴



چاک کی خواہش، اگر وحشت بہ عُریانی کرے

صبح کے مانند، زخمِ دل گریبانی کرے

جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ، گر کیجے خیال

دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے

ہے شکستن سے بھی دل نومید، یا رب! کب تلک

آبگینہ کوہ پر عرضِ گِراں جانی کرے

مے کدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست

مُوئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے

خطِّ عارض سے، لکھا ہے زُلف کو الفت نے عہد

یک قلم منظور ہے، جو کچھ پریشانی کرے

ہاتھ پر گر ہاتھ مارے یار وقتِ قہقہہ

کرمکِ شب تاب آسا مِہ پر افشانی کرے

وقت اس افتادہ کا خوش، جو قناعت سے اسدؔ

نقشِ پائے مور کو نقشِ سلیمانی کرے





۲۰۵



وہ آ کے، خواب میں، تسکینِ اضطراب تو دے

ولے مجھے تپشِ دل، مجالِ خواب تو دے

کرے ہے قتل، لگاوٹ میں تیرا رو دینا

تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے

دِکھا کے جنبشِ لب ہی، تمام کر ہم کو

نہ دے جو بوسہ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے

پلا دے اوک سے ساقی، جو ہم سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا، نہ دے شراب تو دے

یہ کون کہوے ہے آباد کر ہمیں، لیکن

کبھی زمانہ مرادِ دلِ خراب تو دے

اسدؔ! خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھُول گئے

کہا جو اُس نے، ’’ذرا میرے پاؤں داب تو دے‘‘







۲۰۶



تپِ ش سے میری، وقفِ کش مکش، ہر تارِ بستر ہے

مِرا سر رنجِ بالیں ہے، مِرا تَن بارِ بستر ہے

سرشکِ سر بہ صحرا دادہ، نور العینِ دامن ہے

دلِ بے دست و پا اُفتادہ بر خوردارِ بستر ہے

[301]خوشا اقبالِ رنجوری! عیادت کو تم آئے ہو

فروغِ شمع بالیں، طالعِ بیدارِ بستر ہے

بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ شامِ تنہائی

شعاعِ آفتابِ صبحِ محشر تارِ بستر ہے

ابھی آتی ہے بُو، بالش سے، اُس کی زلفِ مشکیں کی

ہماری دید کو، خوابِ زلیخا، عارِ بستر ہے

[302]بہ ذوقِ شوخیِ اعضاء تکلّف بارِ بستر ہے

معافِ پیچ تابِ کشمکش ہر تارِ بستر ہے

معمّائے تکلّف سر بہ مہرِ چشم پوشیدن

گدازِ شمعِ محفل پیچشِ طومارِ بستر ہے

مژہ فرشِ رہ و دل ناتوان و آرزو مضطر

بہ پائے خفتہ سیرِ وادیِ پُر خارِ بستر ہے

· اسد جوشِ بہارِ دیدۂ بیدار کے صدقے

ہماری دید کو خوابِ زلیخا عارِ بستر ہے

کہوں کیا، دل کی کیا حالت ہے ہجرِ یار میں، غالبؔ!

کہ بے تابی سے ہر یک تارِ بستر، خارِ بستر ہے







۲۰۷



[303] خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے[304]

غرورِ دوستی آفت ہے، تُو دُشمن نہ ہو جائے

بہ پاسِ شوخیِ مژگاں سرِ ہر خار سوزن ہے

تبسّم برگِ گل کو بخیۂ دامن نہ ہو جائے

جراحت دوزیِ عاشق ہے جائے رحم ترساں[305] ہوں

کہ رشتہ تارِ اشکِ دیدۂ سوزن نہ ہو جائے

غضب شرم آفریں ہے رنگ ریزی ہائے خود بینی

سپیدی آئنے کی پنبۂ روزن نہ ہو جائے

سمجھ اس فصل میں کوتاہیِ نشو و نما، غالبؔ!

اگر گُل سَرو کے قامت پہ، پیراہن نہ ہو جائے







۲۰۸



فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے

نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے؟

گر باغ گدائے مَے نہیں ہے

ہر چند ہر ایک شے میں تُو ہے

پَر تُجھ سی[306] کوئی شے نہیں ہے

ہاں، کھائیو مت فریبِ ہستی!

ہر چند کہیں کہ‘‘ہے‘‘، نہیں ہے

شادی سے گُذر کہ، غم نہ ہووے[307]

اُردی جو نہ ہو، تو دَے نہیں ہے

کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد!

مَے ہے یہ مگس کی قَے نہیں ہے

[308]انجامِ شمارِ غم نہ پوچھو

یہ مصرفِ تا بکَے نہیں ہے

جس دل میں کہ ’تا بکَے‘ سما جائے

واں عزّتِ تختِ کَے نہیں ہے

ہستی ہے، نہ کچھ عَدم ہے، غالبؔ!

آخر تُو کیا ہے، ’’اَے نہیں ہے؟‘‘





۲۰۹



بہارِ تعزیت آبادِ عشق، ماتم ہے

کہ تیغِ یار، ہلالِ مہِ محرم ہے[309]

نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا

کہ اِس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی

وہ اِک نگہ کہ، بظاہر نگاہ سے کم ہے

بہ رہنِ ضبط ہے، آئینہ بندیِ گوہر

وگرنہ بحر میں ہر قطرہ چشمِ پُر نم ہے

چمن میں کون ہے طرز آفرینِ شیوۂ عشق؟

کہ گل ہے بلبلِ رنگین و بیضہ شبنم ہے

اگر نہ ہو وے رگِ خواب صرفِ شیرازہ

تمام دفترِ ربطِ مزاج، درہم ہے

اسدؔ بہ نازکیِ طبعِ آرزو انصاف!

کہ ایک وہمِ ضعیف و غمِ دو عالم ہے







۲۱۰



ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے

مرتے ہیں، ولے، اُن کی تمنا نہیں کرتے

در پردہ اُنھیں غیر سے ہے ربطِ نہانی

ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے

یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ ہوس ہے

غالبؔ کو بُرا کہتے ہو، اچھا نہیں کرتے







۲۱۱



شفق بدعویِ عاشق گواہِ رنگیں ہے

کہ ماہ دزدِ حنائے کفِ نگاریں ہے

[310]کرے ہے بادہ، ترے لب سے، کسبِ رنگِ فروغ

خطِ پیالہ، سراسر نگاہِ گل چیں ہے

کبھی تو اِس سرِ [311] شوریدہ کی بھی داد ملے!

کہ ایک عُمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے

بجا ہے، گر نہ سُنے، نالہ ہائے بُلبلِ زار

کہ گوشِ گُل، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے

عیاں ہے پائے حنائی بہ رنگِ پرتوِ خورشید

رِکاب روزنِ دیوارِ خانۂ زیں ہے

جبینِ صبح، امیدِ فسانہ گویاں پر

درازیِ رگِ خوابِ بتاں خطِ چیں ہے

ہوا نشانِ سوادِ دیارِ حسن عیاں

کہ خط غبارِ زمیں خیزِ زلفِ مشکیں ہے

نہ پوچھ کچھ سر و سامان و کار و بارِ اسدؔ[312]

جنوں معاملہ، بے دل، فقیرِ مسکیں ہے

اسدؔ ہے نزع میں، چل بے وفا! برائے خُدا!

مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں ہے



۲۱۲



دل سراپا وقفِ سودائے نگاہِ تیز ہے

یہ زمیں، مثلِ نیستاں، سخت ناوک خیز ہے

[313]کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو؟

یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے

مرتے مرتے، دیکھنے کی آرزُو رہ جائے گی

وائے ناکامی! کہ اُس کافر کا خنجر تیز ہے

ہو سکے کیا خاک دست و بازوئے فرہاد سے؟

بے ستوں، خوابِ گرانِ خسروِ پرویز ہے

ان ستم کیشوں کے کھائے ہیں، زبس، تیرِ نگاہ

پردۂ بادام، یک غربالِ حسرت بیز ہے

خوں چکاں ہے جادہ، مانندِ رگِ سودائیاں

سبزۂ صحرائے اُلفت، نشترِ خوں ریز ہے

ہے بہارِ تیز رو، گلگونِ نکہت پر سوار

یک شکستِ رنگِ گل، صد جنبش مہمیز ہے

عارضِ گُل دیکھ، رُوئے یار یاد آیا، اسدؔ!

جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے


۲۱۳



دیا ہے دل اگر اُس کو، بشر ہے، کیا کہیے

ہوا رقیب، تو ہو، نامہ بر ہے، کیا کہیے

یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بِ ن نہ رہے

قضا سے شکوہ ہمیں کِس قدر ہے، کیا کہیے!

رہے ہے یوں گِہ و بے گہِ ، کہ کُوئے دوست کو اب

اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے، کیا کہیے!

زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب

کہ بن کہے ہی[314] انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے

سمجھ کے کرتے ہیں، بازار میں وہ پُرسشِ حال

کہ یہ کہے کہ، سرِ رہ گزر ہے، کیا کہیے؟

تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂ وفا کا خیال

ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے، مگر ہے کیا؟ کہیے!

اُنہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے، کیوں لڑیئے

ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے، کیا کہیے؟

حَسد، سزائے کمالِ سخن ہے، کیا کیجے

سِ تم، بہائے متاعِ ہُنر ہے، کیا کہیے!

کہا ہے کِس نے کہ غالبؔ بُرا نہیں، لیکن

سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے، کیا کہیے[315]





۲۱۴



دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے

کر گئی وابستۂ تن میری عُریانی مجھے

بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فَساں

مرحبا مَیں! کیا مبارک ہے گراں جانی مجھے

کیوں نہ ہو بے التفاتی، اُس کی خاطر جمع ہے

جانتا ہے محوِ پُرسش ہائے پنہانی مجھے

میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی

لِکھ دیا مِن جملۂ اسبابِ ویرانی، مجھے

بد گماں ہوتا ہے وہ کافر، نہ ہوتا، کاشکے!

اِس قدر ذوقِ نوائے مُرغِ بُستانی مجھے

وائے! واں بھی شورِ محشر نے نہ دَم لینے دیا

لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے

وعدہ آنے کا وفا کیجے، یہ کیا انداز ہے؟

تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے؟

ہاں نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری، واہ واہ!

پھر ہُوا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے

دی مرے بھائی کو حق نے از سرِ نَو زندگی

میرزا یوسف ہے، غالبؔ! یوسفِ ثانی مجھے[316]


۲۱۵



یاد ہے شادی میں بھی، ہنگامۂ‘‘یا رب‘‘، مجھے

سُبحۂ زاہد ہوا ہے، خندہ زیرِ لب مجھے

ہے کُشادِ خاطرِ وابستہ دَر، رہنِ سخن

تھا طلسمِ قُفلِ ابجد، خانۂ مکتب مجھے

یا رب! اِس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے!

رشک، آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے

طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت کیا کروں!

آرزو سے، ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے

[317]صبح، نا پیدا ہے کلفت خانۂ ادبار میں

توڑنا ہوتا ہے رنگِ یک نفس، ہر شب مجھے

شومیِ طالع سے ہوں ذوقِ معاصی میں اسیر

نامۂ اعمال ہے، تاریکیِ کوکب مجھے

درد نا پیدا و بے جا تہمتِ وارستگی

پردہ دارِ یاوگی ہے، وسعتِ مشرب مجھے

دل لگا کر آپ بھی غالبؔ مُجھی سے ہو گئے

عشق سے آتے تھے مانِع، میرزا صاحب مجھے





۲۱۶



حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے

چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے

قد و گیسو میں، قیس و کوہ کُن کی آزمائش ہے

جہاں ہم ہیں، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے

کریں گے کوہ کُن کے حوصلے کا امتحاں آخر

ہنوز[318] اُس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے

نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی!

اُسے یوسف کی بُوئے پیرہن کی آزمائش ہے

وہ آیا بزم میں، دیکھو، نہ کہیو پھر کہ ’’غافل تھے‘‘

شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمائش ہے

رہے دل ہی میں تیر [319]، اچھا، جگر کے پار ہو، بہتر

غرض شِستِ بُتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے

نہیں کچھ سُبحۂ و زُنّار کے پھندے میں گیرائی

وفا داری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے

پڑا رہ، اے دلِ وابستہ! بے تابی سے کیا حاصل؟

مگر پھر تابِ زُلفِ پُر شکن کی آزمائش ہے

رگ و پَے میں جب اُترے زہرِ غم، تب دیکھیے کیا ہو!

ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے

وہ آویں گے مِرے گھر، وعدہ کیسا، دیکھنا، غالبؔ!

نئے فتنوں میں اب چرخِ کُہن کی آزمائش[320] ہے





۲۱۷



کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں، گر آ جائے ہے، مُجھ سے

جفائیں کر کے اپنی یاد، شرما جائے ہے، مُجھ سے

خُدایا! جذبۂ دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے!

کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھِنچتا[321] جائے ہے مُجھ سے

وہ بَد خُو اور میری داستانِ عشق طُولانی

عبارت مُختصر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے، مُجھ سے

اُدھر وہ بد گمانی ہے، اِدھر یہ ناتوانی ہے

نہ پُوچھا جائے ہے اُس سے، نہ بولا جائے ہے مجھ سے

سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی! کیا قیامت ہے!

کہ دامانِ خیالِ یار، چھُوٹا جائے ہے مُجھ سے

تکلف بر طرف، نظارگی میں بھی سہی، لیکن

وہ دیکھا جائے، کب یہ ظُلم دیکھا جائے ہے، مُجھ سے

ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی

نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے

قیامت ہے کہ ہووے مُدعی کا ہم سفر غالبؔ!

وہ کافر، جو خُدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مُجھ سے


۲۱۸



ز بس کہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے

کشاد و بستِ مژہ، سیلیِ ندامت ہے

نہ جانوں، کیونکہ مٹے داغِ طعنِ بد عہدی

تجھے کہ[322] آئینہ بھی ورطۂ ملامت ہے

بہ پیچ و تابِ ہوس، سِلکِ عافیت مت توڑ

نگاہِ عجز سرِ رشتۂ سلامت ہے

وفا مقابل و دعوائے عشق بے بُنیاد

جنونِ ساختہ و فصلِ گُل، قیامت ہے!

[323]اسد! بہارِ تماشائے گلستانِ حیات

وصالِ لالہ عذارانِ سرو قامت ہے







۲۱۹



لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے

میرا ذمہ، دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے

کیا تعجب ہے کہ[324] اُس کو دیکھ کر آ جائے رحم

واں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے

منہ[325] نہ دکھلاوے، نہ دکھلا، پر بہ اندازِ عتاب

کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے

یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خوش ہے کہ، مَیں

زلف گر بن جاؤں تو شانے میں اُلجھا دے مجھے





۲۲۰



بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک

اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور

جز وہم نہیں ہستیِ اشیا مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے

گھِستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے

تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں، نہ کیوں ہوں

بیٹھا ہے بتِ آئینہ سیما مرے آگے

پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیِ گفتار

رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا

کیوں کر کہوں، لو نام نہ ان کا مرے آگے

ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام

مجنوں کو برا کہتی ہے لیلےٰ مرے آگے

خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے

آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے

ہے موج زن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو

آتا ہے ابھی دیکھیے، کیا کیا مرے آگے

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے!

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا

غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے[326]





۲۲۱



کہوں جو حال تو کہتے ہو ’’مدعا کہیے‘‘

تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟

نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ ’’ہم ستم گر ہیں‘‘

مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو ’’بجا‘‘ کہیے

وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے

نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے

نہیں ذریعۂ راحت جراحتِ پیکاں

وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دل کُشا کہیے

جو مدعی بنے اس کے نہ مدعی بنیے

جو نا سزا کہے اس کو نہ نا سزا کہیے

کہیں حقیقتِ جانکاہیِ مرض لکھیے

کہیں مصیبتِ نا سازیِ دوا کہیے

کبھی شکایتِ رنجِ گراں نشیں کیجے

کبھی[327] حکایتِ صبرِ گریز پا کہیے

رہے نہ جان تو قاتل کو خون بہا دیجے

کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے

نہیں نگار کو الفت، نہ ہو، نگار تو ہے!

روانیِ روش و مستیِ ادا کہیے

نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو بہار تو ہے!

طراوتِ چمن و خوبیِ ہوا کہیے

سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا غالبؔ

خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیے



۲۲۲



رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے

دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے[328]

صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ مے کشی

تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے

رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم[329]

بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے

کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر

پردے میں گُل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے

پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا

آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے

کرنے گئے تھے اس سے تغافُل کا ہم گِلہ

کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے

پوچھے ہے کیا معاشِ جگر تُفتگانِ عشق[330]

جوں شمع آپ اپنی وہ خوراک ہو گئے

اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش[331]

دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے


۲۲۳



شوخیِ مضرابِ جولاں، آبیارِ نغمہ ہے

برگ ریزِ ناخنِ مطرب، بہارِ نغمہ ہے[332]

نشّہ ہا شادابِ رنگ و ساز ہا مستِ طرب

شیشۂ مے سروِ سبزِ جوئبارِ نغمہ ہے

ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کر نہ بزمِ عیشِ دوست

واں تو میرے نالے کو بھی اعتبارِ نغمہ ہے

کس سے، اے غفلت، تجھے تعبیرِ آگاہی ملے؟

گوش ہا سیمابی و دل بے قرارِ نغمہ ہے

سازِ عیشِ بے دلی ہے، خانہ ویرانی، مجھے

سیل، یاں کوکِ صدائے آبشارِ نغمہ ہے

سنبلی خواں ہے، بہ ذوقِ تارِ گیسوئے دراز

نالۂ زنجیرِ مجنوں، رشتہ دارِ نغمہ ہے

شوخیِ فریاد سے ہے پردۂ زنبور، گل

کسوتِ ایجادِ بلبل، خار خارِ نغمہ ہے

غفلت استعداد ذوق، و مدعا غافل اسدؔ

پنبۂ گوشِ حریفاں، پود و تارِ نغمہ ہے









۲۲۴





عرضِ نازِ شوخیِ دنداں برائے خندہ ہے

دعویِ جمعیّتِ احباب جائے خندہ ہے

[333]خود فروشی ہائے ہستی بس کہ جائے خندہ ہے

دو جہاں وسعت بہ قدرِ یک فضائے خندہ ہے

ہے[334] عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گُل

یک جہاں زانو تامّل در قفائے خندہ ہے

کلفتِ افسردگی کو عیشِ بے تابی حرام

ورنہ دنداں در دل افشردن بِنائے خندہ ہے

سوزشِ [335] باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں

دل محیطِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے

[336]ہر شکستِ قیمتِ دل میں صدائے خندہ ہے[337]

نقشِ عبرت در نظر ہا نقدِ عشرت در بساط

[338]جائے استہزاء ہے عشرت کوشیِ ہستی اسدؔ

صبح و شبنم فرصتِ نشو و نمائے خندہ ہے





۲۲۵



حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے

آئینہ زانوئے فکرِ اختراعِ جلوہ ہے

تا کُجا اے آگہی رنگِ تماشا باختن؟

چشمِ وا گر دیدہ آغوشِ وداعِ جلوہ ہے

عجزِ دیدن ہا بہ ناز و نازِ رفتن ہا بہ چشم

جادۂ صحرائے آگاہی، شعاعِ جلوہ ہے

[339]اختلافِ رنگ و بو، طرحِ بہارِ بے خودی

صلحِ کل، گردِ ادب گاہِ نزاعِ جلوہ ہے

حسنِ خوباں بس کہ بے قدرِ تماشا ہے، اسدؔ

آئینہ یک دستِ ردِّ امتناعِ جلوہ ہے



۲۲۶



جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی

مشکل، کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی

عالم غُبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بہ سر

کب تک خیالِ طرّۂ لیلیٰ کرے کوئی

افسردگی نہیں طرب انشائے التفات

ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی

رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے

آخر کبھی تو عُقدۂ دل وا کرے کوئی

[340]تمثالِ جلوہ عرض کر، اے حسن، کب تلک

آئینۂ خیال کو دیکھا کرے کوئی

چاکِ جگر سے جب رہِ پرسش نہ وا ہوئی

کیا فائدہ کہ جَیب کو رسوا کرے کوئی

لختِ جگر سے ہے رگِ ہر خار شاخِ گل

تا چند باغبانیِ صحرا کرے کوئی

ناکامیِ نگاہ ہے برقِ نظارہ سوز

تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

ہر سنگ و خشت ہے صدفِ گوہرِ شکست

نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی

سَر بَر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عُمر

فُرصت کہاں کہ تیری تمنّا کرے کوئی

ہے وحشتِ طبیعتِ ایجاد یاس خیز

یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی[341]

بے کاریِ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل

جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی

حسنِ فروغِ شمعِ سُخن دور ہے اسدؔ

پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی







۲۲۷



ابنِ مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

شرع و آئین پر مدار سہی

ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

چال جیسے کڑی کمان[342] کا تیر

دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

بات پر واں زبان کٹتی ہے

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

نہ سنو اگر برا کہے کوئی

نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی

بخش دو گر خطا کرے کوئی

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند

کس کی حاجت روا کرے کوئی

کیا کیا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہنما کرے کوئی

جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ

کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی





۲۲۸



بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟

غُلامِ ساقیِ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے

تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے

رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے

کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے

کوئی بتاؤ کہ وہ زُلفِ خم بہ خم کیا ہے

لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود

کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے؟

نہ حشر و نشر کا قائل نہ کیش و ملت کا

خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟

وہ داد و دید گراں مایہ شرط ہے ہمدم

وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے

سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی

یقین ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے







۲۲۹



باغ تجھ بن گلِ نرگس سے ڈراتا ہے مجھے

چاہوں گر سیرِ چمن، آنکھ دکھاتا ہے مجھے

باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے

سایۂ شاخِ گُل افعی نظر آتا ہے مجھے

ماہِ نو ہوں، کہ فلک عجز سکھاتا ہے مجھے[343]

عمر بھر ایک ہی پہلو پہ سلاتا ہے مجھے

جوہرِ تیغ بہ سر چشمۂ دیگر معلوم

ہُوں میں وہ سبزہ کہ زہر آب اُگاتا ہے مجھے

مدّعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے

آئینہ خانے میں کوئی لئے جاتا ہے مجھے

نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کفِ خاک

آسمان بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے

زندگی میں تو وہ محفل سے اُٹھا دیتے تھے

دیکھوں اب مر گئے پر کون اُٹھاتا ہے مجھے

شورِ تمثال ہے کس رشکِ چمن کا یا رب!

آئینہ بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے

حیرت آئینہ انجامِ جنوں ہوں جوں شمع

کس قدر داغِ جگر شعلہ دکھاتا ہے مجھے

میں ہوں اور حیرتِ جاوید، مگر ذوقِ خیال

بہ فسونِ نگہِ ناز ستاتا ہے مجھے

حیرتِ فکرِ سخن سازِ سلامت ہے اسدؔ

دل پسِ زانوئے آئینہ بٹھاتا ہے مجھے





۲۳۰



روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہریار کی

اترائے کیوں نہ خاک سرِ رہ گزار کی

جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ[344]

لوگوں میں کیوں‌ نمود نہ ہو لالہ زار کی

بھُوکے نہیں ہیں سیرِ گلستان کے ہم ولے

کیوں کر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی


۲۳۱



ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے[345]

جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گردن پر

وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

مگر[346] لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اِس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی

پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

[347]خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم

کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ! اور کہاں واعظ

پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے





۲۳۲



[348]کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے

بے تکلف اے شرارِ جستہ! کیا ہو جائیے

بیضہ آسا ننگِ بال و پر ہے یہ کنجِ قفس

از سرِ نو زندگی ہو، گر رِہا ہو جائیے

یاد رکھیے ناز ہائے التفاتِ اولیں

آشیانِ طائرِ رنگِ حنا ہو جائیے

لطفِ عشقِ ہر یک اندازِ دگر دکھلائے گا

بے تکلف یک نگاہِ آشنا ہو جائیے

داد از دستِ جفائے صدمۂ ضرب المثل!

گر ہمہ اُفتادگی، جوں نقشِ پا ہو جائیے

از دلِ ہر درد مندے جوشِ بے تابی زدن

اے ہمہ بے مدعائی، یک دعا ہو جائیے

وسعتِ مشرب، نیازِ کلفتِ وحشت، اسدؔ

یک بیاباں سایۂ بالِ ہُما ہو جائیے





۲۳۳



مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے[349]

موجِ شراب یک مژہِ خواب ناک ہے

جُز زخمِ تیغِ ناز، نہیں دل میں آرزو

جیبِ خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے

کلفت، طلسمِ جلوۂ کیفیّتِ دگر

زنگار خوردہ آئینہ، یک برگِ تاک ہے

ہے عرضِ جوہرِ خط و خالِ ہزار عکس

لیکن ہنوز دامنِ آئینہ پاک ہے

ہوں، خلوتِ فسردگیِ انتظار میں

وہ بے دماغ جس کو ہوس بھی تپاک ہے

جوشِ جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں، اسدؔ[350]

صحرا ہماری آنکھ میں یک مشتِ خاک ہے







۲۳۴



غم و عشرت، قدم بوسِ دلِ تسلیم آئیں ہے

دعائے مدّعا گم کردگاں، لبریزِ آمیں ہے

تماشا ہے کہ ناموسِ وفا رسوائے آئیں ہے

نفس تیری گلی میں خوں ہو اور بازار رنگیں ہے

[351]لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی

قیامت کشتۂٴ لعل بتاں کا خواب سنگیں ہے

ہمارا دیکھنا گر ننگ ہے، سیرِ گلستاں کر

شرارِ آہ سے، موجِ صبا، دامانِ گل چیں ہے

پیامِ تعزیت پیدا ہے اندازِ عیادت سے

شبِ ماتم، تہِ دامانِ دودِ شمعِ بالیں ہے

زبس جز حسن، منت نا گوارا ہے طبیعت پر

کشادِ عقد، محوِ ناخنِ دستِ نگاریں ہے

نہیں ہے، سر نوشتِ عشق، غیر از بے دماغی ہا

جبیں پر میری، مدِّ خامۂ قدرت خطِ چیں ہے

بہارِ باغ، پامالِ خرامِ جلوہ فرمایاں

حنا سے دست، و خونِ کشتگاں سے تیغ رنگیں ہے

بیابانِ فنا ہے بعدِ صحرائے طلب، غالبؔ

پسینہ توسنِ ہمت کا سیلِ خانۂ زیں ہے



۲۳۵

دیکھتا ہوں وحشتِ شوقِ خروش آمادہ سے

فالِ رسوائی، سرشکِ سر بہ صحرا دادہ سے[352]

آمدِ سیلابِ طوفانِ صدائے آب ہے

نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے

بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشمِ مست کا

شیشے میں نبضِ پری پنہاں ہے موجِ بادہ سے

دام گر سبزے میں پنہاں کیجیے طاؤس ہو

جوشِ نیرنگِ بہارِ عرضِ صحرا دادہ سے

خیمۂ لیلیٰ سیاہ و خانۂ مجنوں خراب

جوشِ ویرانی ہے عشقِ داغ بیروں دادہ سے

بزمِ ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم، اسدؔ

دیکھتے ہیں چشمِ از خوابِ عدم نہ کشادہ سے


۲۳۶



ہوں میں بھی تماشائیِ نیرنگِ تمنا

مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے[353]


۲۳۷



کہوں کیا گرم جوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی

کہ شمعِ خانۂ دل، آتشِ مے سے فروزاں کی

[354]سیاہی جیسے گِر جاوے دمِ تحریر کاغذ پر

مری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہائے ہجراں کی

بہ زلفِ مہ وشاں، رہتی ہے، شب بیدار، ظاہر ہے

زبانِ شانہ سے تعبیرِ صد خوابِ پریشاں کی

ہمیشہ مجھ کو طفلی میں بھی مشقِ تیرہ روزی تھی

سیاہی ہے مرے ایام میں، لوحِ دبستاں کی

دریغ! آہِ سحر گہ کارِ بادِ صبح کرتی ہے

کہ ہوتی ہے زیادہ، سرد مہری شمعِ رویاں کی

مجھے اپنے جنوں کی، بے تکلف، پردہ داری تھی

ولیکن کیا کروں، آوے جو رسوائی گریباں کی

ہنر پیدا کیا ہے میں نے، حیرت آزمائی میں

کہ جوہر آئینے کا، ہر پلک ہے، چشمِ حیراں کی

خدایا، کس قدر اہلِ نظر نے خاک چھانی ہے!

کہ ہیں صد رخنہ، جوں غربال، دیواریں گلستاں کی

ہوا شرمِ تہی دستی سے وہ بھی سرنگوں آخر

بس، اے زخمِ جگر، اب دیکھ لی شورش نمک داں کی

بہ یادِ گرمیِ صحبت، بہ رنگِ شعلہ دہکے ہے

چھپاؤں کیوں کہ غالبؔ، سوزشیں داغِ نمایاں کی





۲۳۸



ہجومِ نالہ، حیرت عاجزِ عرضِ یک افغاں ہے

خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بہ دنداں ہے

تکلف بر طرف، ہے جانستاں تر لطفِ بد خویاں

نگاہِ بے حجابِ ناز تیغِ تیزِ عریاں ہے

ہوئی یہ کثرتِ غم سے تلف کیفیّتِ شادی

کہ صبحِ عید مجھ کو بد تر از چاکِ گریباں ہے

دل و دیں نقد لا، ساقی سے گر سودا کیا چاہے

کہ اس بازار میں ساغر متاعِ دستگرداں ہے

غم آغوشِ بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو

چراغِ روشن اپنا قلزمِ صرصر کا مرجاں ہے

[355]کجا مے؟ کُو عرق؟ سعیِ عروجِ نشّہ رنگیں تر

خطِ رخسارِ ساقی، تا خطِ ساغر چراغاں ہے

رہا بے قدر دل، در پردۂ جوشِ ظہور آخر

گل و نرگس بہم، آئینہ و اقلیمِ کوراں ہے

تکلف سازِ رسوائی ہے، غافل، شرمِ رعنائی

دلِ خوں گشتہ، در دستِ حنا آلودہ عریاں ہے

تماشا، سرخوشِ غفلت ہے با وصفِ حضورِ دل

ہنوز آئینہ، خلوت گاہِ نازِ ربطِ مژگاں ہے

تکلف برطرف، ذوقِ زلیخا جمع کر، ورنہ

پریشاں خواب آغوشِ و داعِ یوسفستاں ہے

اسد ؔ، جمعیّتِ دل در کنارِ بے خودی خوشتر

دو عالم آگہی، سامانِ یک خوابِ پریشاں ہے





۲۳۹

خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے

نگاہ دل سے تری[356] سُرمہ سا نکلتی ہے

فشارِ تنگیِ خلوت سے بنتی ہے شبنم

صبا جو غنچے کے پردے میں‌ جا نکلتی ہے

نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آبِ تیغِ نگاہ

کہ زخمِ روزنِ در سے ہوا نکلتی ہے

[357]بہ حلقۂ خمِ گیسو ہے راستی آموز

دہانِ مار سے گویا صبا نکلتی ہے

بہ رنگِ شیشہ ہوں یک گوشۂ دلِ خالی

کبھی پری مری خلوت میں آ نکلتی ہے

بہار شوخ و چمن تنگ و رنگِ گل دلچسپ

نسیم، باغ سے پا در حنا نکلتی ہے

اسدؔ کو حسرتِ عرضِ نیاز تھی دمِ قتل

ہنوز، یک سخنِ بے صدا نکلتی ہے




۲۴۰



جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے

نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے

کس کا سراغِ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا!

آئینہ فرشِ شش جہتِ انتظار ہے

ہے ذرہ ذرہ تنگیِ جا سے غبارِ شوق

گر دام یہ ہے و سعتِ صحرا شکار ہے

دل مدّعی و دیدہ بنا مدّعا علیہ

نظارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے

چھڑکے ہے شبنم آئینۂ برگِ گل پر آب

اے عندلیب وقتِ وداعِ بہار ہے

پچ آ پڑی ہے وعدۂ دلدار کی مجھے

وہ آئے یا نہ آئے، پہ یاں انتظار ہے

بے پردہ سوئے وادیِ مجنوں گزر نہ کر

ہر ذرّے کے[358] نقاب میں دل بے قرار ہے

اے عندلیب یک کفِ خس بہرِ آشیاں

طوفانِ آمد آمدِ فصلِ بہار ہے

دل مت گنوا، خبر نہ سہی سیر ہی سہی

اے بے دماغ آئینہ تمثال دار ہے

[359]زنجیر یاد پڑتی ہے، جادے کو دیکھ کر

اُس چشم سے ہنوز نگہ یادگار ہے

سودائیِ خیال ہے طوفانِ رنگ و بو

یاں ہے کہ داغِ لالہ، دماغِ بہار ہے

بھونچال میں گرا تھا یہ آئینہ طاق سے

حیرت شہیدِ جنبشِ ابروئے یار ہے

حیراں ہوں شوخیِ رگِ یاقوت دیکھ کر

یاں ہے کہ صحبتِ خس و آتش برار ہے

غفلت کفیلِ عمر و اسدؔ ضامنِ نشاط

اے مرگِ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے







۲۴۱



آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

ہے انتظار سے شرر آبادِ رُست خیز

مژگانِ کوہ کُن رگِ خارا کہیں جسے

حسرت نے لا رکھا تری بزمِ خیال میں

گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے

کس فرصتِ وصال پہ ہے گل کو عندلیب

زخمِ فراق خندۂ بے جا کہیں جسے

یا رب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو

یہ محشرِ خیال کہ دنیا کہیں جسے

[360]درکار ہے شگفتنِ گل ہائے عیش کو

صبحِ بہار، پنبۂ مینا کہیں جسے

پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا

افسونِ انتظار، تمنا کہیں جسے

سر پر ہجومِ دردِ غریبی سے ڈالیے

وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے

ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں

شوقِ عناں گسیختہ، دریا کہیں جسے

درکار ہے شگفتنِ گلہائے عیش کو

صبحِ بہار پنبۂ مینا کہیں جسے

غالبؔ برا نہ مان جو واعظ برا کہے

ایسا بھی کوئی[361] ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟





۲۴۲



شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے

داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے

دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار

آئینہ بہ دستِ بتِ بد مستِ حنا ہے

شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی

جی کس قدر افسردگیِ دل پہ جلا ہے

تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بہ صد ذوق

آئینہ بہ اندازِ گل آغوش کشا ہے

قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ

اے نالہ! نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے؟

خو نے تری افسردہ کیا وحشتِ دل کو

معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے

مجبوری و دعوائے گرفتاریِ الفت

دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے

معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ

تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے

اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب اِدھر بھی

سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے

سر رشتۂ بے تابیِ دل در گرہِ عجز

پرواز بہ خوں خُفتہ و فریاد رسا ہے

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یا رب اگر اِن کردہ گناہوں کی سزا ہے

بیگانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالبؔ

کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے





۲۴۳



منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور [362]کی

قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی

اِک خوں چکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں

پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی

واعظ! نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو

کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی!

لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل، کہ کیوں اٹھا؟

گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی

آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج

اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں

کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ نہ[363] ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر

کی جس سے بات اُس نے شکایت ضرور کی

غالبؔ گر اِس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں

حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی



۲۴۴

غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام، بہت ہے

کہتے ہوئے ساقی سے، حیا آتی ہے ورنہ

ہے یوں کہ مجھے دردِ تہِ جام بہت ہے

نَے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں

گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی

پاداشِ عمل کی طمَعِ خام بہت ہے

ہیں اہلِ خرد کس روشِ خاص پہ نازاں؟

پا بستگیِ رسم و رہِ عام بہت ہے

زمزم ہی پہ چھوڑو، مجھے کیا طوفِ حرم سے؟

آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے

ہے قہر گر اب بھی نہ بنے بات کہ ان کو

انکار نہیں اور مجھے اِبرام بہت ہے

خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ

رہنے دے مجھے یاں، کہ ابھی کام بہت ہے

ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے؟

شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے




۲۴۵



مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے

جوشِ قدح سے بزم چراغاں[364] کئے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو

عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے

پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم

برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے

پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفَس

مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کئے ہوئے

پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق

سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہوئے

پھر بھر رہا ہوں[365] خامۂ مژگاں بہ خونِ دل

سازِ چمن طرازیِ داماں کئے ہوئے

باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب

نظارہ و خیال کا ساماں کئے ہوئے

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے

پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے

پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب

عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کئے ہوئے

دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال

صد گلستاں نگاہ کا ساماں کئے ہوئے

پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا

جاں نذرِ دل فریبیِ عنواں کئے ہوئے

مانگے[366] ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس

زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے

چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو

سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کئے ہوئے

اک نوبہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ

چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے

پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں

سر زیر بارِ منتِ درباں کئے ہوئے

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ[367] رات دن

بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے

غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوشِ اشک سے

بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ طوفاں کئے ہوئے





۲۴۶



نویدِ امن ہے بیدادِ دوست، جاں کے لئے

رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے

بلا سے! گر مژہِ یار تشنۂ خوں ہے

رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانِ خوں فشاں کے لئے

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے

رہا بلا میں بھی، میں مبتلائے آفتِ رشک

بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لئے

فلک نہ دور رکھ اُس سے مجھے، کہ میں ہی نہیں

دراز دستیِ قاتل کے امتحاں کے لئے

مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری[368] جو شامت آئے

اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے

ق

بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے

دیا ہے خلق کو بھی، تا اسے نظر نہ لگے

بنا ہے عیش تجمُّل حسین خاں کے لئے

زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لئے

نصیرِ دولت و دیں اور معینِ ملّت و ملک

بنا ہے چرخِ بریں جس کے آستاں کے لئے

زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرائش

بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لئے

ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے[369]




۲۴۷



آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی[370]

یہ بھی اے[371] حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی

رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر[372]

ذہن میں خوبیِ تسلیم و رضا ہے تو سہی

ہے غنیمت کہ بہ اُمّید گزر جائے گی عُمر

نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی

دوست ہی کوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری[373]

نہ سہی، لیک تمنّائے دوا ہے تو سہی

غیر سے دیکھیے کیا خوب نباہی اُس نے

نہ سہی ہم سے، پر اُس بُت میں وفا ہے تو سہی

نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں مَیں

کچھ نہ کچھ روزِ ازل تم نے لکھا ہے تو سہی

کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالبؔ

شہرۂ تیزیِ شمشیرِ قضا ہے تو سہی


۲۴۸



لطفِ نظّارۂ قاتِل دمِ بسمل آئے[374]

جان جائے تو بلا سے، پہ کہیں دِل آئے

ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری

دوست جو ساتھ مرے تا لبِ ساحل آئے

وہ نہیں ہم، کہ چلے جائیں حرم کو، اے شیخ!

ساتھ حُجّاج کے اکثر کئی منزِل آئے

آئیں جس بزم میں وہ، لوگ پکار اٹھتے ہیں

‘‘لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے‘‘

دیدہ خوں بار ہے مدّت سے، ولے آج ندیم

دل کے ٹکڑے بھی کئی خون کے شامل آئے

سامنا حور و پری نے نہ کیا ہے، نہ کریں

عکس تیرا ہی مگر، تیرے مقابِل آئے

[375]موت بس ان کی ہے، جو مر کے وہیں دفن ہوئے

زیست ان کی ہے، جو اس کے کوچے سے گھائل آئے

بن گیا سبحہ وہ زنار، خدا خیر کرے!

وہ جو نازک ہے کمر، اس پہ بہت دل آئے

اب ہے دِلّی کی طرف کوچ ہمارا غالبؔ!

آج ہم حضرتِ نوّاب سے بھی مِل آئے





۲۴۹



میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی[376]

تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی

غیر کی مرگ کا غم کس لئے، اے غیرتِ ماہ!

ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا اور سہی

تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خُدائی کیوں ہے؟

تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی

حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی

آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی

تیرے کوچے کا ہے مائل دلِ مضطر میرا

کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی

کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ!

خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یا رب

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

مجھ کو وہ دو۔ کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں

زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی

مجھ سے غالبؔ یہ علائیؔ نے غزل لکھوائی

ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی

اختتام حصۂ غزل

۲۰ ستمبر ۱۹ تا ۱۹ اکتوبر ۱۹

٭٭٭







قصائد




۱


منقبتِ حیدری



سازِ یک ذرّہ نہیں فیضِ چمن سے بے کار

سایۂ لالۂ بے داغ سویدائے بہار

مستیِ بادِ صبا سے ہے بہ عرضِ سبزہ

ریزۂ شیشۂ مے جوہرِ تیغِ کہسار

سبز ہے جامِ زمرّد کی طرح داغِ پلنگ

تازہ ہے ریشۂ نارنج صفت روئے شرار

مستیِ ابر سے گل چینِ طرب ہے حسرت

کہ اس آغوش میں ممکن ہے دو عالم کا فِشار

کوہ و صحرا ہمہ معموریِ شوقِ بلبل

راہِ خوابیدہ ہوئی خندۂ گل سے بیدار

سونپے ہے فیضِ ہوا صورتِ مژگانِ یتیم

سر نوشتِ دو جہاں ابر بہ یک سطرِ غبار

کاٹ کر پھینکئے ناخن جو بہ اندازِ ہلال[377]

قوت نامیہ اس کو بھی نہ چھوڑے بے کار

کفِ ہر خاک بہ گردون شدہ قمری پرواز

دامِ ہر کاغذِ آتش زدہ طاؤسِ شکار

مے کدے میں ہو اگر آرزوئے گل چینی

بھول جا یک قدحِ بادہ بہ طاقِ گل زار

موجِ گل ڈھونڈھ بہ خلوت کدۂ غنچۂ باغ

گُم کرے گوشۂ مے خانہ میں گر تو دستار

کھینچے گر مانیِ اندیشہ چمن کی تصویر

[378]سبزہ مثلِ خطِ نو خیز ہو خطِّ پرکار

لعل سے کی ہے پئے زمزمۂ مدحتِ شاہ

طوطیِ سبزۂ کہسار نے پیدا منقار

وہ شہنشاہ کہ جس کی[379] پئے تعمیرِ سرا

چشمِ جبریل ہوئی قالبِ خشتِ دیوار

فلک العرش ہجومِ خمِ دوشِ مزدور

رشتۂ فیضِ ازل سازِ طنابِ معمار

سبزۂ نُہ چمن و یک خطِ پشتِ لبِ بام

رفعتِ ہمّتِ صد عارف و یک اوجِ حصار

واں کی[380] خاشاک سے حاصل ہو جسے یک پرِ کاہ

وہ رہے مِروحۂ بالِ پری سے بے زار

خاکِ صحرائے نجف جوہرِ سیرِ عُرفا

چشمِ نقشِ قدم آئینۂ بختِ بیدار

ذرّہ اس گرد کا خورشید کو آئینۂ ناز

گرد اُس دشت کی اُمّید کو احرامِ بہار

آفرینش کو ہے واں سے طلبِ مستیِ ناز

عرضِ خمیازۂ ایجاد ہے ہر موجِ غبار



نسخۂ رضا مزید اشعار

سنگ، یہ کار گہِ ربطِ نزاکت ہے، کہ ہے

خندۂ بے خودیِ کبک، بہ دندانِ شرار

کشتۂ افعیِ زلفِ سیہِ شیریں کو

بے ستوں، سبزے سے، ہے سنگِ زمرد کا مزار

حسرتِ جلوۂ ساقی ہے کہ ہر پارۂ ابر

سینہ، بے تابی سے، ملتا ہے بہ تیغ کُہسار

دشمنِ حسرتِ عاشق ہے، رگِ ابرِ سیاہ

جس نے برباد کیا ریشۂ چندیں شبِ تار

چشم بر چشم چنے ہے بہ تماشا، مجنوں

ہر دو سو خانۂ زنجیر، نگہ کا بازار

خانۂ تنگ، ہجومِ دو جہاں کیفیت

جامِ جمشید ہے یاں قالبِ خشتِ دیوار

سنبل و دامِ کمیں خانۂ خوابِ صیاد

نرگس و جام سیہ مستیِ چشمِ بیدار

طرہ ہا، بس کہ، گرفتارِ صبا ہیں، شانہ

زانوئے آئینہ پر مارے ہے دستِ بے کار

بس کہ یک رنگ ہیں دل، کرتی ہے ایجاد نسیم

لالے کے داغ سے، جوں نقطہ و خط، سنبلِ زار

اے خوشا! فیضِ ہوائے چمنِ نشو و نما

بادہ پُر زور و نفس مست و مسیحا بیمار

ہمتِ نشو و نما میں یہ بلندی ہے کہ سرو

پرِ قمری سے کرے صیقلِ تیغِ کہسار

ہر کفِ خاک، جگر تشنۂ صد رنگِ ظہور

غنچے کے مے کدے میں مستِ تامل، ہے بہار

کس قدر عرض کروں ساغرِ شبنم، یا رب؟

موجۂ سبزۂ نوخیز، ہے لب ریزِ خمار

غنچۂ لالہ، سیہ مستِ جوانی ہے ہنوز

شبنمِ صبح، ہوئی رعشۂ اعضائے بہار

جوشِ بیدادِ تپش سے ہوئی عریاں آخر

شاخِ گلبن پہ، صبا، چھوڑ کے پیراہنِ خار

سازِ عریانیِ کیفیتِ دل ہے، لیکن

یہ مئے تند، نہیں موجِ خرامِ اظہار

موجِ مے پر ہے، براتِ نگرانی امید

گلِ نرگس سے کفِ جام پہ ہے، چشمِ بہار

گلشن و مے کدہ، سیلابی یک موجِ خیال

نشہ و جلوۂ گل، بر سرِ ہم فتنہ عیار

پشتِ لب، تہمتِ خط کھینچے ہے بے جا یعنی

سبز ہے موجِ تبسم بہ ہوائے گفتار

جائے حیرت ہے کہ گل بازیِ اندیشۂ شوق

اس زمیں میں نہ کرے سبز قلم کی رفتار



مطلعِ ثانی



فیض سے تیرے ہے اے شمعِ شبستانِ بہار

دلِ پروانہ چراغاں، پرِ بلبل گلنار

شکلِ طاؤس کرے آئینہ خانہ پرواز

ذوق میں جلوے کے تیرے بہ ہوائے دیدار

تیری اولاد کے غم سے ہے بروئے گردوں

سِلکِ اختر میں مہِ نو مژہِ گوہر بار

ہم عبادت کو، ترا نقشِ قدم مُہرِ نماز

ہم ریاضت کو، ترے حوصلے سے استظہار

مدح میں تیری نہاں زمزمۂ نعتِ نبی

جام سے تیرے عیاں بادۂ جوشِ اسرار

جوہرِ دستِ دعا آئینہ یعنی تاثیر

یک طرف نازشِ مژگان و دگر سو غمِ خار[381]

مَردُمک سے ہو عزا خانۂ اقبالِ نگاہ

خاکِ در کی ترے جو چشم نہ ہو آئینہ دار

دشمنِ آلِ نبی کو بہ طرب خانۂ دہر

عرضِ خمیازۂ سیلاب ہو طاقِ دیوار

دیدہ تا دل اسدؔ آئینۂ یک پرتوِ شوق

فیضِ معنی سے خطِ ساغرِ راقم سرشار



نسخۂ رضا سے مزید اشعار

لعل سی، کی ہے پے زمزمہ مدحتِ شاہ

طوطیِ سبزۂ کُہسار نے پیدا، منقار

کسوتِ تاک میں ہے نشۂ ایجادِ ازل

سبحۂ عرضِ دو عالم، بہ کفِ آبلہ دار

بہ نظر گاہِ گلستانِ خیالِ ساقی

بے خودی، دامِ رگِ گل سے ہے پیمانہ شکار

بہ ہوائے چمنِ جلوہ، ہے طاؤس پرست

باندھے ہے پیرِ فلک موجِ شفق سے زنّار

یک چمن جلوۂ یوسف ہے بہ چشمِ یعقوب

لالہ ہا داغ بر افگندہ، و گل ہا بے خار

بیضۂ قمری کے آئینے میں پنہاں صیقل

سروِ بیدل سے عیاں، عکسِ خیالِ قدِ یار

عکسِ موجِ گل و سرشاریِ اندازِ حباب

نگہِ آئینۂ کیفیتِ دل سے دوچار

کس قدر سازِ دو عالم کو ملی جرأتِ ناز

کہ ہوا، ساغرِ بے حوصلۂ دل، سرشار

ورنہ وہ ناز ہے، جس گلشنِ بیداد سے تھا

طور، مشعل بہ کف از جلوۂ تنزیہہِ بہار

سایۂ تیغ کو دیکھ اُس کے، بہ ذوقِ یک زخم

سینۂ سنگ پہ کھینچے ہے الف، بالِ شرار

بت کدہ، بہرِ پرستش گریِ قبلۂ ناز

باندھے زنارِ رگِ سنگ، میانِ کُہسار

سبحہ گرداں ہے اسی کی کفِ امید کا، ابر

بیم سے جس کے، صبا، توڑے ہے صد جا زنار

رنگ ریزِ گل و جامِ دو جہاں ناز و نیاز

اولیں دورِ امامت، طرب ایجادِ بہار

جوشِ طوفانِ کرم، ساقیِ کوثر ساغر

نُہ فلک، آئینہ ایجادِ کفِ گوہر بار

پہنے ہے پیرہنِ کاغذِ ابری، نیساں

یہ تُنک مایہ، ہے فریادیِ جوشِ ایثار

پر یہ دولت تھی، نصیبِ نگہِ معنیِ ناز

کہ ہوا صورتِ آئینہ میں، جوہر، بیدار

اے خوشا! مکتبِ شوق و بلدستانِ مراد

سبقِ نازکی، ہے عجز کو صد جا، تکرار

مشقیِ نقشِ قدم، نسخہ آبِ حیواں

جادۂ دشتِ نجف، عمرِ خضر کا طومار

جلوہ تمثال ہے، ہر ذرۂ نیرنگ سواد

بزمِ آئینۂ تصویر نما، مشتِ غبار

دو جہاں طالبِ دیدار تھا، یا رب کہ، ہنوز

چشمکِ ذرہ سے ہے گرم، نگہ کا بازار

ہے، نفس مایہ شوقِ دو جہاں ریگِ رواں

پائے رفتار کم، و حسرتِ جولاں بسیار

دشتِ الفت چمن، و آبلہ مہماں پرور

دلِ جبریل، کفِ پا پہ ملے ہے رخسار

یاں تک انصاف نوازی کہ اگر ریزۂ سنگ

بے خبر دے بہ کفِ پائے مسافر آزار

یک بیاباں تپشِ بالِ شرر سے، صحرا

مغزِ کُہسار میں کرتا ہے فرو، نشترِ خار

فرش اِس دشتِ تمنا میں نہ ہوتا، گر، عدل

گرمیِ شعلۂ رفتار سے جلتے خس و خار

ابرِ نیساں سے ملے موجِ گُہر کا تاواں

خلوتِ آبلہ میں گم کرے، گر تو، رفتار

یک جہاں بسملِ اندازِ پر افشانی ہے

دام سے اُس کے، قضا کو ہے رہائی دشوار

موجِ طوفانِ غضب چشمۂ نُہ چرخِ حباب

ذو الفقارِ شہِ مرداں، خطِ قدرت آثار

موجِ ابروئے قضا، جس کے تصور سے، دونیم

بیم سے جس کے، دلِ شحنہ تقدیر، فگار

شعلہ تحریر سے اُس بر ق کی، ہے کلکِ قضا

بالِ جبریل سے مسطر کشِ سطرِ زنہار

موجِ طوفاں ہو، اگر خونِ دو عالمِ ہستی

ہے حنا کو سرِ ناخن سے گزرنا دشوار

دشتِ تسخیر ہو، گر گردِ خرامِ دُلدل

نعلِ در آتشِ ہر ذرہ ہے، تیغِ کہسار

بالِ رعنائیِ دُم، موجۂ گل بندِ قبا

گردشِ کاسۂ سُم، چشمِ پری آئینہ دار

گردِ راہ اس کی بھریں شیشۂ ساعت میں اگر

ہر نفس راہ میں ٹوٹے، نفسِ لیل و نہار

نرم رفتار ہو جس کوہ پہ وہ برق گداز

رفتنِ رنگِ حنا ہے، تپشِ بالِ شرار

ہے سراسر رویِ عالمِ ایجاد اُسے

جَیبِ خلوت کدۂ غنچہ میں، جولانِ بہار

جس کے حیرت کدۂ نقشِ قدم میں، مانی

خونِ صد برق سے باندھے بہ کفِ دست نگار

ذوقِ تسلیمِ تمنا سے بہ گل زارِ حضور

عرضِ تسخیرِ تماشا سے بہ دامِ اظہار

مطلعِ تازہ ہوا موجۂ کیفیتِ دل

جامِ سرشارِ مے و غنچۂ لب ریزِ بہار



مطلعِ ثالث

(از نسخۂ رضا)

گردِ جولاں سے ہے تیری، بہ گریبانِ خرام

جلوۂ طور، نمک سودۂ زخمِ تکرار

جس چمن میں ہو، ترا جلوۂ محروم نواز

پرِ طاؤس، کرے گرم نگہ کا بازار

جس ادب گاہ میں تو آئینۂ شوخی ہو

جلوہ، ہے ساقیِ مخموریِ تابِ دیوار

تو وہ ساقی ہے کہ ہر موجِ محیطِ تنزیہہ

کھینچے خمیازے میں تیرے لبِ ساغر کا خمار

گرد باد آئینہ فتراکِ دماغِ دل ہا

تیرا صحرائے طلب، محفلِ پیمانہ شکار

ذوقِ بے تابی دیدار سے تیرے، ہے ہنوز

جوشِ جوہر سے، دلِ آئینہ، گل دستۂ خار

تیرا پیمانۂ مے، نسخۂ ادوارِ ظہور

تیرا نقشِ قدم، آئینۂ شانِ اظہار

آیتِ رحمتِ حق، بسملۂ مصحفِ ناز

مسطرِ موجۂ دیباچۂ درسِ اسرار

قبلۂ نورِ نظر، کعبۂ ایجادِ مسیح

مژہِ دیدۂ نخچیر سے، نبضِ بیمار

تہمتِ بے خودیِ کفر نہ کھینچے، یا رب

کمیِ ربطِ نیاز، و خطِ نازِ بسیار

ناز پروردۂ صد رنگِ تمنا ہوں، ولے

پرورش پائی ہے، جوں غنچہ، بہ خونِ اظہار

تنگیِ حوصلہ، گردابِ دو عالم آداب

دیدِ یک غنچہ سے ہوں بسملِ نقصانِ بہار

رشکِ نظارہ تھی یک برقِ تجلی کہ ہنوز

تشنۂ خونِ دو عالم ہوں، بہ عرضِ تکرار

وحشتِ فرصتِ یک جیبِ کشش نے کھویا

صورتِ رنگِ حنا، ہاتھ سے دامانِ بہار

شعلہ آغاز ولے حیرتِ داغِ انجام

موجِ مے لیک ز سر تا قدم آغوشِ خمار

ہے اسیرِ ستمِ کشمکشِ دامِ وفا

دلِ وارستۂ ہفتاد و دو ملت بیزار

مژہِ خواب سے کرتا ہوں، بہ آسائشِ درد

بخیۂ زخمِ دلِ چاک، بہ یک دستہ شرار

محرمِ دردِ گرفتاریِ مستی معلوم

ہوں نفس سے، صفتِ نغمہ، بہ بندِ رگِ تار

تھا سرِ سلسلہ جنبانیِ صد عمرِ ابد

ساز ہا مفتِ بہ ریشم کدۂ نالۂ زار

لیکن اس رشتۂ تحریر میں سرتا سرِ فکر

ہوں بہ قدرِ عددِ حرفِ علی سبحہ شمار

دشمنِ آل نبی کو، بہ طرب خانۂ دہر

عرضِ خمیازۂ سیلاب ہو، طاقِ دیوار

دوست اس سلسلۂ ناز کے جوں سنبل و گل

ابرِ مے خانہ کریں ساغرِ خورشید شکار

لنگرِ عیش پہ سرشارِ تماشائے دوام

کہ رہے خونِ خزاں سے بہ حنا پائے بہار

زلفِ معشوق کشش، سلسلۂ وحشتِ ناز

دلِ عاشق، شکن آموزِ خمِ طرۂ یار

مئے تمثالِ پری، نشۂ مینا آزاد

دلِ آئینہ طرب، ساغرِ بختِ بیدار


۲


منقبت (حضرت علی کے لئے)





دہر جُز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں

ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بے کسی ہائے تمنّا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

ہَرزہ ہے نغمۂ زیر و بمِ ہستی و عدم

لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں

نقشِ معنی ہمہ خمیازۂ عرضِ صورت

سخنِ حق ہمہ پیمانۂ ذوقِ تحسیں

لافِ دانش غلط و نفعِ عبارت معلوم!

دُردِ یک ساغرِ غفلت ہے۔ چہ دنیا و چہ دیں

مثلِ مضمونِ وفا باد بہ دستِ تسلیم

صورتِ نقشِ قدم خاک بہ فرقِ تمکیں

عشق بے ربطیِ شیرازۂ اجزائے حواس

وصل، زنگارِ رخِ آئینۂ حسنِ یقیں

کوہ کُن، گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب

بے ستوں، آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں

کس نے دیکھا نفسِ اہلِ وفا آتش خیز

کس نے پایا اثرِ نالۂ دل ہائے حزیں!

سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں، لیکن

نہ سرو برگِ ستائش، نہ دماغِ نفریں

کس قدر ہَرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ

یک قلم خارجِ آدابِ وقار و تمکیں

نقشِ لاحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر

یا علی عرض کر اے فطرتِ وسواسِ قریں

مظہرِ فیضِ [382] خدا، جان و دلِ ختمِ رسل

قبلۂ آلِ نبی، کعبۂ ایجادِ یقیں

ہو وہ سرمایۂ ایجاد جہاں گرمِ خرام

ہر کفِ خاک ہے واں گَردۂ تصویرِ زمیں

جلوہ پرداز ہو نقشِ قدم اس کا جس جا

وہ کفِ خاک ہے ناموسِ دو عالم کی امیں

نسبتِ نام سے اس کی ہے یہ رُتبہ کہ رہے

اَبَداً پُشتِ فلک خَم شدۂ نازِ زمیں

فیضِ خُلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا[383]

بوئے گل سے نفسِ بادِ صبا عطر آگیں

بُرّشِ تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا

قطع ہو جائے نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں

کُفر سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے

رنگِ عاشق کی طرح رونقِ بت خانۂ چیں

جاں پناہا! دل و جاں فیض رسانا! شاہا!

وصیِ ختمِ رسُل تو ہے بہ فتوائے یقیں

جسمِ اطہر کو ترے دوشِ پیمبر منبر

نامِ نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں

کس سے ممکن ہے تری مدح بغیر از واجب

شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں

آستاں پر ہے ترے جوہرِ آئینۂ سنگ

رَقَمِ بندگیِ حضرتِ جبریلِ امیں

تیرے در کے لئے[384] اسبابِ نثار آمادہ

خاکیوں کو جو خدا نے دیئے جان و دل و دیں

تیری مدحت کے لئے ہیں دل و جاں کام و زباں

تیری تسلیم کو ہیں لَوح و قلم دست و جبیں

کس سے ہو سکتی ہے مدّاحیِ ممدوحِ خدا

کس سے ہو سکتی ہے آرائشِ فردوسِ بریں!

ق

جنسِ بازارِ معاصی اسدؔ اللہ اسدؔ

کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

شوخیِ عرضِ مطالِ ب میں ہے گستاخِ طلب

ہے ترے حوصلۂ فضل پہ از بس کہ یقیں

دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسنِ قبول

کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں

غمِ شبّیر سے ہو سینہ یہاں تک لب ریز

کہ رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگیں

طبع کو الفتِ دُلدُل میں یہ سرگرمیِ شوق

کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں

دلِ الفت نسب و سینۂ توحید فضا

نگہِ جلوہ پرست و نفسِ صدق گزیں

صَرفِ اعدا اثرِ شعلۂ دودِ [385] دوزخ

وقفِ احباب گُل و سنبلِ فردوسِ بریں[386]



مزید اشعار از نسخۂ رضا



توڑے ہے عجزِ تُنک حوصلہ، بر روئے زمیں

سجدہ تمثال وہ آئینہ، کہیں جس کو جبیں

توڑے ہے نالہ، سرِ رشتۂ پاسِ انفاس

سر کرے ہے، دلِ حیرت زدہ، شغلِ تسکین

یاس، تمثالِ بہار آئینۂ استغنا

وہم، آئینۂ پیدائیِ تمثالِ یقیں

خوں ہوا، جوشِ تمنا سے دو عالم کا دماغ

بزمِ یاس، آں سوئے پیدائیِ و اخفا رنگیں

خانہ ویرانیِ امید و پریشانیِ بیم

جوشِ دوزخ، ہے خوانِ چمنِ خلدِ بریں

بادِ افسانۂ بیمار ہے، عیسیٰ کا نفس

استخواں ریزۂ موراں ہے، سلیماں کا نگیں

موجِ خمیازۂ یک نشّہ، چہ اسلام، و چہ کفر

کجیِ یک خطِ مسطر، چہ توہّم، چہ یقیں

قبلہ و ابروئے بت، یک رہِ خوابیدۂ شوق

کعبہ و بت کدہ، یک محملِ خوابِ سنگیں

عیشِ بسمل کدۂ عیدِ حریفاں معلوم

خوں ہو آئینہ، کہ ہو جامۂ طفلاں رنگیں

نزعِ مخمور ہوں اُس دید کی دھن میں کہ مجھے

رشتۂ سازِ ازل ہے، نگہِ باز پسیں

حیرت، آفت زدۂ عرضِ دو عالم نیرنگ

مومِ آئینۂ ایجاد ہے، مغزِ تمکیں

وحشتِ دل سے پریشاں ہیں، چراغانِ خیال

باندھوں ہوں آئنے پر چشمِ پری سے آئیں

کوچہ دیتا ہے پریشاں نظری پر، صحرا

رمِ آہو کو ہے ہر ذرے کی چشمک میں کمیں

چشمِ امید سے گرتے ہیں، دو عالم، جوں اشک

یاس پیمانہ کشِ گریۂ مستانہ نہیں

کس قدر فکر کو ہے نالِ قلم موئے دماغ

کہ ہوا خونِ نگہ شوق میں نقشِ تمکیں

عذرِ لنگ، آفتِ جولانِ ہوس ہے، یا رب

جل اُٹھے گرمیِ رفتار سے، پائے چوبیں

نہ تمنا، نہ تماشا، نہ تحیر، نہ نگاہ

گردِ جوہر میں ہے، آئینۂ دل پردہ نشیں

کھینچوں ہوں آئنے پر خندۂ گل سے مسطر

نامہ، عنوانِ بیانِ دلِ آزردہ نہیں

رنجِ تعظیم مسیحا نہیں اُٹھتا مجھ سے

درد ہوتا ہے مرے دل میں، جو توڑوں بالیں

بس کہ گستاخیِ اربابِ جہاں سے ہوں ملول

پرِ پروانہ، مری بزم میں ہے خنجرِ کیں

اے عبارت، تجھے کس خط سے ہے درسِ نیرنگ

اے نگہ، تجھ کو ہے کس نقطے میں مشقِ تسکیں؟

جلوۂ ریگِ رواں دیکھ کہ گردوں ہر صبح

خاک پر توڑے ہے آئینۂ نازِ پرویں

شورِ اوہام سے، مت ہو شبِ خونِ انصاف

گفتگو بے مزہ، و زخمِ تمنا نمکیں

ختم کر ایک اشارت میں عباراتِ نیاز

جوں مہِ نو، ہے نہاں گوشۂ ابرو میں، جبیں

معنیِ لفظِ کرم، بسملۂ نسخۂ حسن

قبلۂ اہلِ نظر، کعبۂ اربابِ یقیں

جلوہ رفتارِ سرِ جادۂ شرعِ تسلیم

نقشِ پا جس کا ہے توحید کو معراجِ جبیں

کوہ کو، بیم سے، اُس کے ہے جگر باختگی

نہ کرے نذرِ صدا، ورنہ، متاعِ تمکیں

وصفِ دُلدُل، ہے مرے مطلعِ ثانی کی بہار

جنتِ نقشِ قدم سے ہوں، میں اس کے گل چیں

مطلع

گردِ رہ، سرمہ کشِ دیدۂ اربابِ یقیں

نقشِ ہر گام، دو عالم صفہاں زیرِ نگیں

برگِ گل کا، ہو جو طوفانِ ہوا میں عالم

اُس کے جولاں میں نظر آئے ہے یوں، دامنِ دیں

اُس کی شوخی سے بہ حسرت کدۂ نقشِ خیال

فکر کو حوصلۂ فرصتِ ادراک نہیں

جلوۂ برق سے ہو جائے نگہ، عکس پذیر

اگر آئینہ بنے حیرتِ صورت گرِ چیں

ذوقِ گل چینیِ نقشِ کفِ پاسے تیرے

عرش چاہے ہے کہ ہو در پہ ترے خاک نشیں

تجھ میں اور غیر میں نسبت ہے، ولیکن بہ تضاد

وصیِ ختمِ رسل تو ہے بہ اثباتِ یقیں

دادِ دیوانگیِ دل کہ ترا مدحت گر

ذرّے سے باندھے ہے خورشیدِ فلک پر آئیں





۳


مدحِ شاہ



ہاں مہِ نو سنیں ہم اس کا نام

جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

دو دن آیا ہے تو نظر دمِ صبح

یہی انداز اور یہی اندام

بارے دو دن کہاں رہا غائب؟

‘‘بندہ عاجز ہے، گردشِ ایّام

اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا

آسماں نے بچھا رکھا تھا دام‘‘

مرحبا اے سرورِ خاصِ خواص

حبّذا اے نشاطِ عامِ عوام

عذر میں تین دن نہ آنے کے

لے کے آیا ہے عید کا پیغام

اس کو بھولا نہ چاہیئے کہنا

صبح جو جائے اور آئے شام[387]

ایک میں کیا؟ سب نے جان لیا

تیرا آغاز اور ترا انجام

رازِ دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے

مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نمّام؟

جانتا ہوں کہ آج دنیا میں

ایک ہی ہے امیدگاہِ انام

میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بہ گوش

غالبؔ اس کا مگر نہیں ہے غلام؟

جانتا ہوں کہ جانتا ہے تُو

تب کہا ہے بہ طرزِ استفہام

مہرِ تاباں کو ہو تو ہو، اے ماہ!

قربِ ہر روزہ[388] بر سبیلِ دوام

ق

تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا

جز بہ تقریبِ عیدِ ماہِ صیام

جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو

پھر بنا چاہتا ہے ماہِ تمام

ماہ بن، ماہتاب بن، میں کون؟

مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام

میرا اپنا جدا معاملہ ہے

اور کے لین دین سے کیا کام

ہے مجھے آرزوئے بخششِ خاص

گر تجھے ہے امیدِ رحمتِ عام

جو کہ بخشے گا تجھ کو فرِّ فروغ

کیا نہ دے گا مجھے مئے گلفام؟

جب کہ چودہ منازلِ فلکی

کر چکے[389] قطع تیری تیزیِ گام

تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر

کوئے و مشکوئے و صحن و منظر و بام

دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز

اپنی صورت کا اک بلوریں جام

پھر غزل کی روِ ش پہ چل نکلا

توسنِ طبع چاہتا تھا[390] لگام



غزل

زہرِ غم کر چکا تھا میرا کام

تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام؟

مے ہی پھر کیوں نہ میں پیئے جاؤں؟

غم سے جب ہو گئی ہے زیست[391] حرام

بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت ہے

کہ نہ سمجھیں وہ لذّتِ دشنام

کعبے میں جا بجائیں گے ناقوس

اب تو باندھا ہے دَیر میں احرام

اس قدح کا ہے دَور مجھ کو نقد

چرخ نے لی ہے جس سے گردشِ ایّام

[392]بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار

دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام

چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے

کیوں رکھوں ورنہ غالبؔ اپنا نام

کہہ چکا میں تو سب کچھ، اب تُو کہہ

اے پری چہرہ پیکِ تیز خرام

کون ہے جس کے در پہ ناصیہ سا

ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام

تُو نہیں جانتا تو مجھ سے سن

نامِ شاہنشہِ بلند مقام

قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ

مظہرِ ذو الجلال و الاکرام

شہ سوارِ طریقۂ انصاف

نو بہارِ حدیقۂ اسلام

جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز

جس کا ہر قول معنیِ الہام

بزم میں، میزبان قیصر و جم

رزم میں اوستادِ رستم و سام

اے ترا لطف زندگی افزا

اے ترا عہد فرخی فرجام

چشمِ بد دور! خسروانہ شکوہ

لوحش اللہ! عارفانہ کلام

جاں نثاروں میں تیرے قیصرِ روم

جُرعہ خواروں میں تیرے مرشدِ جام

وارثِ ملک جانتے ہیں تجھے

ایرج و تور و خسرو و بہرام

زورِ بازو میں مانتے ہیں تجھے

گیو و گودرز و بیزن و رَہّام

مرحبا مو شگافیِ ناوک

آفریں آب داریِ صمصام

تیر کو تیرے تیرِ غیر ہدف

تیغ کو تیری تیغِ خصم نیام

ق

رعد کا کر رہی ہے کیا دم بند

برق کو دے رہا ہے کیا الزام

تیرے فیلِ گراں جسد کی صدا

تیرے رخشِ سبک عناں کا خرام

ق

فنِ صورت گری میں تیرا گُرز

گر نہ رکھتا ہو دست گاہِ تمام

اس کے مضروب کے سر و تن سے

کیوں نمایاں ہو صورتِ ادغام؟

جب ازل میں رقم پذیر ہوئے

صفحہ ہائے لیالی و ایّام

اور ان اوراق میں بہ کلکِ قضا

مجملاّ مندرج ہوئے احکام

لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کُش

لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام

آسماں کو کہا گیا کہ کہیں

گنبدِ تیز گردِ نیلی فام

حکمِ ناطق لکھا گیا کہ لکھیں

خال کو دانہ اور زلف کو دام

آتش و آب و باد و خاک نے لی

وضعِ سوز و نم و رم و آرام

مہرِ رخشاں کا نام خسروِ روز

ماہِ تاباں کا اسم شحنۂ شام

تیری توقیعِ سلطنت کو بھی

دی بہ دستور صورتِ ارقام

کاتبِ حکم نے بہ موجبِ حکم

اس[393] رقم کو دیا طرازِ دوام

ہے ازل سے روانیِ[394]آغاز

ہو ابد تک رسائیِ انجام







۴




مدحِ شاہ



صبح دم دروازۂ خاور کھلا

مہرِ عالم تاب کا منظر کھلا

خسروِ انجم کے آیا صرف میں

شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا

وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود

صبح کو رازِ مہ و اختر کھلا

ہیں کواکب، کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

سطحِ گردوں پر پڑا تھا رات کو

موتیوں کا ہر طرف زیور کھلا

صبح آیا جانبِ مشرق نظر

اک نگارِ آتشیں رُخ، سر کھلا

تھی نظر بندی، کِیا جب ردِّ سِحر

بادۂ گل رنگ کا ساغر کھلا

لا کے ساقی نے صبوحی کے لئے

رکھ دیا ہے ایک جامِ زر کھلا

بزمِ سلطانی ہوئی آراستہ

کعبۂ امن و اماں کا در کھلا

تاجِ زرّیں مہرِ تاباں سے سوا

خسروِ آفاق کے منہ پر کھلا

شاہِ روشن دل، بہادر شہ، کہ ہے

رازِ ہستی اس پہ سر تا سر کھلا

وہ کہ جس کی صورتِ تکوین میں

مقصدِ نُہ چرخ و ہفت اختر کھلا

وہ کہ جس کے ناخنِ تاویل سے

عقدۂ احکامِ پیغمبر کھلا

پہلے دارا کا نکل آیا ہے نام

اُن کے سَرہنگوں کا جب دفتر کھلا

روُشناسوں کی جہاں فہرست ہے

واں لکھا ہے چہرۂ قیصر کھلا



ق

توُسنِ شہ میں ہے وہ خوبی کہ جب

تھان سے وہ غیرتِ صرصر کھلا

نقشِ پا کی صورتیں وہ دل فریب

توُ کہے بت خانۂ آزر کھلا

مجھ پہ فیضِ تربیت سے شاہ کے

منصبِ مہر و مہ و محور کھلا

لاکھ عُقدے دل میں تھے، لیکن ہر ایک

میری حدِّ وُسع سے باہر کھلا

تھا دلِ وابستہ قُفلِ بے کلید

کس نے کھولا، کب کھلا، کیوں کر کھلا؟

باغِ معنی کی دکھاؤں[395] گا بہار

مجھ سے گر شاہِ سخن گستر کھلا

ہو جہاں گرمِ غزل خوانی نَفَس

لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھلا



غزل

کُنج میں بیٹھا رہوں یوں پَر کھلا

کاشکے ہوتا قفس کا در کھلا

ہم پکاریں اور کھلے، یوں کون جائے

یار کا دروازہ پاویں گر کھلا

ہم کو ہے اس راز داری پر گھمنڈ

دوست کا ہے راز دشمن پر کھلا

واقعی دل پر بھلا لگتا تھا داغ

زخم لیکن داغ سے بہتر کھلا

ہاتھ سے رکھ دی کب ابرو نے کماں

کب کمر سے غمزے کی خنجر کھلا

مُفت کا کس کو بُرا ہے بدرقَہ

رہروی میں پردۂ رہبر کھلا

سوزِ دل کا کیا کرے بارانِ اشک

آگ بھڑکی، مینہ اگر دم بھر کھلا

نامے کے ساتھ آ گیا پیغامِ مرگ

رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا

دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی

ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا

پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال

پھر مہ و خورشید کا دفتر کھلا

خامے نے[396] پائی طبیعت سے مدد

بادباں بھی، اٹھتے ہی لنگر، کھلا

مدح سے، ممدوح کی دیکھی شکُوہ

یاں عَرَض سے رُتبۂ جوہر کھلا

مہر کانپا، چرخ چکّر کھا گیا

بادشہ کا رائتِ لشکر کھلا

بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب

اب عُلوِّ پایۂ مِنبر کھلا

سِکۂ شہ کا ہوا ہے رو شناس

اب عِیارِ آبروئے زر کھلا

شاہ کے آگے دھرا ہے آئینہ

اب مآلِ سعیِ اِسکَندر کھلا

ملک کے وارث کو دیکھا خَلق نے

اب فریبِ طغرل و سنجر کھلا

ہو سکے کیا مدح، ہاں، اک نام ہے

دفترِ مدحِ جہاں داور کھلا

فکر اچھّی پر ستائش نا تمام

عجزِ اعجازِ ستائش گر کھلا

جانتا ہوں، ہے خطِ لوحِ ازل

تم پہ اے خاقانِ نام آور! کھلا

تم کرو صاحب قِرانی، جب تلک

ہے طلسمِ روز و شب کا در کھلا!





۵


ایلین براؤن



ملاذِ کشور و لشکر، پناہِ شہر و سپاہ

جنابِ عالی ایلن برون والا جاہ

بلند رتبہ وہ حاکم وہ سرفراز امیر

کہ باج تاج سے لیتا ہے جس کا طرفِ کلاہ

وہ محض رحمت و رافت کہ بہرِ اہلِ جہاں

نیابتِ دمِ عیسیٰ کرے ہے جس کی نگاہ

وہ عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی

بنے ہیں شعلۂ آتش انیسِ پَرّۂ کاہ

زمیں سے سودۂ گوہر اٹھے بجائے غبار

جہاں ہو توسنِ حشمت کا اس کے جولاں گاہ

وہ مہرباں ہو تو انجم کہیں‘‘الٰہی شکر‘‘

وہ خشم گیں ہو تو گردوں کہے‘‘خدا کی پناہ‘‘

یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش

کہ دشت و کوہ کے اطراف میں بہ ہر سرِ راہ

کہ دشت و کوہ کے اطراف میں، بہر سرِ راہ

ہزبر پنجے سے لیتا ہے کام شانے کا

کبھی جو ہوتی ہے الجھی ہوئی دُمِ رو باہ

نہ آفتاب، ولے آفتاب کا ہم چشم

نہ بادشاہ، ولے مرتبے ہیں ہمسرِ شاہ

خدا نے اس کو دیا ایک خوبرو فرزند

ستارہ جیسے چمکتا ہوا بہ پہلوئے ماہ

زہے ستارۂ روشن کہ جو اسے دیکھے

شعاعِ مہرِ درخشاں ہو اس کا تارِ نگاہ

خدا سے ہے یہ توقع کہ عہدِ طفلی میں

بنے گا شرق سے تا غرب اس کا بازی گاہ

جوان ہوکے کرے گا یہ وہ جہان بانی

کہ تابع اس کے ہوں روز و شب سپید و سیاہ

کہے گی خلق اسے داورِ سپہر شکُوہ

لکھیں گے لوگ اسے خسرو ستارہ سپاہ

عطا کرے گا خداوندِ کار ساز اسے

روانِ روشن و خوئے خوش و دلِ آگاہ

ملے گی اس کو وہ عقلِ نہفتہ داں کہ اسے

پڑے نہ قطعِ خصومت میں احتیاجِ گواہ

یہ ترکتاز سے برہم کرے گا کشورِ روس

یہ لے گا بادشہِ چیں سے چھین، تخت و کلاہ

سنینِ عیسوی اٹھارہ سو اور اٹھاون

یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے شام و پگاہ

یہ جتنے سیکڑے ہیں سب ہزار ہو جاویں

دراز اس کی ہو عمر اس قدر، سخن کوتاہ

امید وارِ عنایات‘‘شیو نرائن‘‘

کہ آپ کا ہے نمک خوار اور دولت خواہ

یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عزّ و جاہ کے ساتھ

تمہیں اور اس کو سلامت رکھے سدا، اللہ۔ [397]





۶


والیِ الور کی سالگرہ پر



گئی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ

ابھی حساب میں باقی ہیں سو ہزار گرہ

گرہ کی ہے یہی گنتی کہ تا بہ روزِ شمار

ہوا کرے گی ہر اک سال، پیش کار گرہ

یقین جان! برس گانٹھ کا جو ہے تاگا

یہ کہکشاں ہے کہ ہیں اس میں بے شمار گرہ

گرہ سے اَور گرہ کی امید کیوں نہ پڑے

کہ ہر گرہ کی گرہ میں ہیں تین چار گرہ

دِکھا کے رشتہ کسی جوتشی سے پوچھا تھا

کہ دیکھو کتنی اٹھا لائے گا یہ تار گرہ

کہا کہ چرخ پہ ہم نے گنی ہیں نو گرہیں

جو یاں گنیں گے تو پاویں گے نو ہزار گرہ

خود آسماں ہے مہا راجا راؤ پر صدقے

کرے گا سیکڑوں، اس تار پر نثار گرہ

وہ راؤ راجا بہادر کہ حکم سے جن کے

رواں ہو تار پہ فی الفور دانہ وار گرہ

انہیں کی سالگرہ کے لئے ہے سال بہ سال

کہ لائے غیب سے غنچوں کی نو بہار گرہ

انہیں کی سالگرہ کے لئے بناتا ہے

ہوا میں بوند کو ابرِ تگرگ بار گرہ

انہیں کی سالگرہ کی یہ شادمانی ہے

کہ ہو گئے ہیں گہر ہائے شاہ وار گرہ

انہیں کی سالگرہ کے لئے ہے یہ توقیر

کہ بن گئے ہیں ثمر ہائے شاخ سار گرہ

سن، اے ندیم! برس گانٹھ کے یہ تاگے نے

تجھے بتاؤں کہ کیوں کی ہے یہ اختیار گرہ

پئے دعائے بقائے جنابِ فیض مآب

لگے گی اس میں ثوابت کی استوار گرہ

ہزار دانہ کی تسبیح چاہتا ہے یہی

بلا مبالغہ درکار ہے ہزار گرہ

عطا کیا ہے خدا نے یہ جاذبہ اس کو

کہ چھوڑتا ہی نہیں رشتہ زینہار گرہ

کشادہ رخ نہ پھرے کیوں جب اس زمانے میں

بچے نہ از پے بندِ نقابِ یار گرہ

متاعِ عیش کا ہے قافلہ چلا آتا

کہ جادہ رشتہ ہے اور ہے شتر قطار گرہ

خدا نے دی ہے وہ غالبؔ کو، دستگاہِ سخن

کروڑ ڈھونڈ کے لاتا ہے خاکسار گرہ

کہاں مجالِ سخن؟ سانس لے نہیں سکتا

پڑی ہے دل میں مرے، غم کی پیچ دار گرہ

گرہ کا نام لیا پر نہ کر سکا کچھ بات

زباں تک آ کے، ہوئی اُور استوار گرہ

کھلے یہ گانٹھ تو البتّہ دم نکل جاوے

بری طرح سے ہوئی ہے گلے کا ہار گرہ

اِدھر نہ ہو گی توجہ حضور کی جب تک

کبھی کسے سے کھلے گی نہ زینہار گرہ

دعا ہے یہ کہ مخالف کے دل میں از رہِ بغض

پڑی ہے یہ جو بہت سخت نابکار گرہ

دل اس کا پھوڑ کے نکلے بہ شکل پھوڑے کی

خدا کرے کہ کرے اس طرح اُبھار گرہ







۷


میکلوڈ صاحب کی خدمت میں





کرتا ہے چرخ روز بہ صد گونہ احترام

فرماں روائے کشورِ پنجاب کو سلام

حق گو و حق پرست و حق اندیش و حق شناس

نوّاب مستطاب، امیرِ شہ احتشام

جم رتبہ میکلوڈ بہادر کہ وقتِ رزم

تُرکِ فلک کے ہاتھ سے وہ چھین لیں حُسام

جس بزم میں کہ ہو انہیں آئینِ مے کشی

واں آسمان شیشہ بنے، آفتاب جام

چاہا تھا میں نے تم کو مہِ چار دہ کہوں

دل نے کہا کہ یہ بھی ہے تیرا خیالِ خام

دو رات میں تمام ہے ہنگامہ ماہ کا

حضرت کا عزّ و جاہ رہے گا علی الدّوام

سچ ہے تم آفتاب ہو، جس کے فروغ سے

دریائے نور ہے فلکِ آبگینہ فام

میری سنو، کہ آج تم اس سر زمیں پر

حق کے تفضّلات سے ہو مرجعِ انام

اخبارِ لدھیانہ میں، میری نظر پڑی

تحریر ایک، جس سے ہوا بندہ تلخ کام

ٹکڑے ہوا ہے دیکھ کے تحریر کو جگر

کاتب کی آستیں ہے مگر تیغِ بے نیام

وہ فرد جس میں نام ہے میرا غلط لکھا

جب یاد آ گئی ہے، کلیجا لیا ہے تھام

سب صورتیں بدل گئیں ناگاہ یک قلم

لمبر رہا نہ نذر، نہ خلعت کا انتظام

ستّر برس کی عمر میں یہ داغِ جاں گداز

جس نے جلا کے راکھ مجھے کر دیا تمام

تھی جنوری مہینے کی تاریخ تیرھویں

استادہ ہو گئے لبِ دریا پہ جب خیام

اس بزمِ پُر فروغ میں اس تیرہ بخت کو

لمبر ملا نشیب میں از روئے اہتمام

سمجھا اسے گراب، ہوا پاش پاش دل

دربار میں جو مجھ پہ چلی چشمکِ عوام

عزت پہ اہلِ نام کی ہستی کی ہے بناء

عزت جہاں گئی تو نہ ہستی رہے نہ نام

تھا ایک گونہ ناز جو اپنے کمال پر

اس ناز کا فلک نے لیا مجھ سے انتقام

آیا تھا وقت ریل کے کھلنے کا بھی قریب

تھا بارگاہِ خاص میں خلقت کا اژدہام

اس کشمکش میں آپ کا مدّاحِ درد مند

آقائے نامور سے نہ کچھ کر سکا کلام

جو واں نہ کہ سکا تھا وہ لکھا حضور کو

دیں آپ میری داد کہ ہوں فائز المرام

ملک و سپہ نہ ہو تو نہ ہو، کچھ ضرر نہیں

سلطانِ بّر و بحر کے در کا ہوں میں غلام

وکٹوریہ کا دہر میں جو مداح خوان ہو

شاہانِ مصر چاہیئے لیں عزت اس سے وام

خود ہے تدارک اس کا گورنمنٹ کو ضرور

بے وجہ کیوں ذلیل ہو غالبؔ ہے جس کا نام

امرِ جدید کا تو نہیں ہے مجھے سوال

بارے قدیم قاعدے کا چاہیئے قیام

ہے بندہ کو اعادۂ عزت کی آرزو

چاہیں اگر حضور تو مشکل نہیں یہ کام

دستورِ فنِّ شعر یہی ہے قدیم سے

یعنی دعا پہ مدح کا کرتے ہیں اختتام

ہے یہ دعا کہ زیرِ نگیں آپ کے رہے

اقلیمِ ہند و سند سے تا ملکِ روم و شام







۸


نوّاب یوسف علی خاں



مرحبا سالِ فرّخی آئیں

عیدِ شوّال و ماہِ فروردیں

شب و روز افتخارِ لیل و نہار

مہ و سال اشرفِ شہور و سِنیں

گرچہ ہے بعد عید کے نو روز

لیک، بیش از سہ ہفتہ بعد نہیں

سُو اس اکّیس دن میں ہولی کی

جا بجا مجلسیں ہوئیں رنگیں

شہر میں کو بہ کو عبیر و گلال

باغ میں سو بہ سو گل و نسریں

شہر گویا نمونۂ گل زار

باغ گویا نگار خانۂ چیں

تین تہوار اور ایسے خوب

جمع ہرگز ہوئے نہ ہوں گے کہیں

پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں

منعقد محفلِ نشاط قریں

محفلِ غسلِ صحّتِ نوّاب

رونق افزائے مسندِ تمکیں

بزم گہ میں، امیرِ شاہ نشاں

رزم گہ میں حریفِ شیرِ کمیں

[398]پیش گاہِ حضور، شوکت و جاہ

خیر خواہِ جناب، دولت و دیں

جن کے مسند کا آسماں گوشہ

جن کی خاتم کا آفتاب نگیں

جن کے دیوارِ قصر کے نیچے

آسماں ہے گدائے سایہ نشیں

دہر میں اس طرح کی بزمِ سرور

نہ ہوئی ہو کبھی بہ روئے زمیں

انجمیں چرخ، گوہر آگیں فرش[399]

نور، مے، ماہ، ساغرِ سیمیں

راجا اِندَر کا جو اکھاڑا ہے

ہے وہ بالائے سطحِ چرخِ بریں

وہ نظر گاہِ اہلِ وہم و خیال

یہ ضیاء بخشِ چشمِ اہلِ یقیں

واں کہاں یہ عطاء و بذل و کرم؟

کہ جہاں گریہ گر کا نام نہیں[400]

ہاں زمیں پر نظر جہاں تک جائے

ژالہ آسا بچھے ہیں درِّ ثمیں

نغمۂ مطربانِ زہرہ نوا

جلوۂ لولیانِ ماہ جبیں

اس اکھاڑے میں جو کہ ہے مظنون

یاں وہ دیکھا بہ چشمِ صورت بیں

سرورِ مہر فر ہوا جو سوار

بہ کمالِ تجمل و تزئیں

سب نے جانا کہ ہے پری توسن

اور بالِ پری ہے دامنِ زیں

نقشِ سمِّ سمند سے، یکسر

بن گیا دشت دامنِ گل چیں

فوج کی گردِ راہ مشک فشاں

رہروؤں کے مشام عطر آگیں

بس کہ بخشی ہے فوج کو عزّت

فوج کا ہر پیادہ ہے فرزیں

موکبِ خاص یوں زمیں پر تھا

جس طرح ہے سپہر پر پرویں

چھوڑ دیتا تھا گور کو بہرام

ران پر داغ تازہ دے کے وہیں

اور داغ آپ کی غلامی کا

خاص بہرام کا ہے زیب سریں

بندہ پرور ثنا طرازی سے

مدّعا عرضِ فنِّ شعر نہیں

آپ کی مدح اور میرا منہ

گر کہوں بھی تو آئے کس کو یقیں

اور پھر اب کہ ضعفِ پیری سے

ہو گیا ہوں نزار و زار و حزیں

پیری و نیستی خدا کی پناہ

دستِ خالی و خاطرِ غمگیں

صرف اظہار ہے ارادت کا

ہے قلم کی جو سجدہ ریز جبیں

مدح گستر نہیں دعاگو ہے

غالبؔ عاجز نیاز آگیں

ہے دعا بھی یہی کہ دنیا میں

تم رہو زندہ جاوداں، آمیں





۹


مدح نصرت الملک بہادر



نُصرت الملک بہادُر مجھے بتلا کہ مجھے

تجھ سے جو اتنی اِرادت ہے تو کس بات سے ہے؟

گرچہ تُو وہ ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے

رونقِ بزم مہ و مہر تری ذات سے ہے

اور میں وہ ہوں کہ، گر جی میں کبھی غور کروں

غیر کیا، خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے

خستگی کا ہو بھلا، جس کے سبب سے سرِ دست

نسبت اِک گونہ مرے دل کو ترے ہات سے ہے

ہاتھ میں تیرے رہے توسنِ دَولت کی عِ ناں

یہ دُعا شام و سحر قاضیِ حاجات سے ہے

تُو سکندر ہے، مِرا فخر ہے ملنا تیرا

گو شرف خضر کی بھی مجھ کو ملاقات سے ہے

اِس پہ گُزرے نہ گماں رِیو و رِیا کا زِنہار

غالبؔ خاک نشیں اہلِ خرابات سے ہے





۱۰


در مدحِ شاہ



اے شاہِ جہاں گیر جہاں بخشِ جہاں دار

ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گُونہ بشارت

جو عُقدۂ دُشوار کہ کوشش سے نہ وا ہوا

تو وَا کرے اُس عُقدے کو، سو بھی بہ اشارت

ممکن ہے، کرے خضر سکندر سے ترا ذکر

گر لب کو نہ دے چشمۂ حیواں سے طہارت

آصف کو سُلیماں کی وزارت سے شرف تھا

ہے فخرِ سُلیماں، جو کرے تیری وزارت

ہے نقشِ مُریدی ترا، فرمانِ الٰہی

ہے داغِ غُلامی تِرا، توقیعِ امارت

تُو آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں

تو آگ سے گر دفع کرے تابِ شرارت

ڈھُونڈے نہ مِلے موجۂ دریا میں روانی

باقی نہ رہے آتشِ سوزاں میں حرارت

ہے گر چہ مجھے نُکتہ سرائی میں توغُل

ہے گرچہ مجھے سحر طرازی میں مہارت

کیوں کر نہ کروں مدح کو میں ختم دُعا پر

قاصر ہے ستائش[401] میں تِری، میری عبارت

نَو روز ہے آج اور وہ دن ہے کہ ہوئے ہیں

نظارگیِ صنعتِ حق اہلِ بصارت

تجھ کو شرفِ مہرِ جہان تاب مُبارک!

غالبؔ کو ترے عتبۂ عالی کی زیارت!







۱۱


گزارش مصنّف بہ حضورِ شاہ



اَے شَہنشاہِ آسماں اَورنگ

اَے جہان دارِ آفتاب آثار

تھا میں اِک بے نَوَائے گوشہ نشیں

تھا میں اِک درد مندِ سینہ فگار

تُم نے مجھ کو جو آبرُو بخشی

ہوئی میری وہ گرمیِ بازار

کہ ہوا مجھ سا ذرۂ ناچیز

رُو شناسِ ثوابت و سیّار

گر چہ از رُوئے ننگ و بے ہُنری

ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار

کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی

جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار

شاد ہوں لیکن اپنے جی میں، کہ ہوں

بادشہ کا غلامِ کار گزار

خانہ زاد اور مُرید اور مداح

تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ نگار

بارے نوکر بھی ہو گیا صد شُکر

نسبتیں ہو گئیں مُشخّص چار

نہ کہُوں آپ سے تو کس سے کہوں

مُدعائے ضروری الاظہار

پِیر و مُرشد! اگرچہ مجھ کو نہیں

ذوقِ آرائشِ سر و دستار

کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر

تا نہ دے بادِ زَمہریر آزار

کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش

جسم رکھتا ہوں، ہے اگرچہ نَزار

کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال

کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار

رات کو آگ اور دن کو دھُوپ!

بھاڑ میں جائیں ایسے لَیل و نہار!

آگ تاپے کہاں تلک اِنسان

دھُوپ کھاوے[402] کہاں تلک جان دار

دھُوپ کی تابِ ش، آگ کی گرمی!

وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّار!

میری تنخواہ جو مقرر ہے

اُس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار

رسم ہے مُردے کی چھ ماہی ایک

خلق کا ہے اِسی چلن پہ مدار

مجھ کو دیکھو تو[403]، ہُوں بہ قیدِ حیات

اور چھ ماہی ہو سال میں دو بار!

بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض

اور رہتی ہے سُود کی تکرار

میری تنخواہ میں تہائی کا

ہو گیا ہے شریک ساہُو کار

آج مجھ سا نہیں زمانے میں

شاعرِ نغز گوئے خوش گُفتار

رزم کی داستان گر سُنئیے

ہے زباں میری تیغِ جوہر دار

بزم کا التزام گر کیجے

ہے قلم میری[404] ابرِ گوہر بار

ظُلم ہے گر نہ دو سُخن کی داد

قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار

آپ کا بندہ اور پھِروں ننگا؟

آپ کا نوکر اور کھاؤں اُدھار؟

میری تنخواہ کیجے ماہ بہ ماہ

تا، نہ ہو مجھ کو زندگی دُشوار

ختم کرتا ہُوں اب دُعا پہ کلام:

(شاعری سے نہیں مجھے سروکار)

تُم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار









مثنوی


۱




در صفتِ انبہ



ہاں، دلِ درد مندِ زمزمہ ساز

کیوں نہ کھولے درِ خزینۂ راز

خامے کا صفحے پر رواں ہونا

شاخِ گل کا ہے گل فشاں ہونا

مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے؟

نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے!

بارے، آموں کا کچھ بیاں ہو جائے

خامہ نخلِ رطب فشاں ہو جائے

آم کا کون مردِ میدان ہے

ثمر و شاخ گوئے و چوگاں ہے

تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں

آئے، یہ گوئے اور یہ میداں

آم کے آگے پیش جاوے[405] خاک

پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک

نہ چلا جب کسی طرح مقدور

بادۂ ناب بن گیا انگور

یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے

شرم سے پانی پانی ہونا ہے

مجھ سے پوچھو، تمہیں خبر کیا ہے!

آم کے آگے نیشکر کیا ہے!

نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ، نہ بار [406]

جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار[407]

اور دوڑائیے قیاس کہاں

جانِ شیریں میں یہ مٹھاس کہاں

جان میں ہوتی گر یہ شیرینی

کوہ کُن باوجودِ غمگینی

جان دینے میں اس کو یکتا جان

پَر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان

نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر

کہ دوا خانۂ ازل میں، مگر

آتشِ گل پہ قند کا ہے قوام

شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام

یا یہ ہو گا، کہ فرط رافت سے

باغبانوں نے باغِ جنت سے

انگبیں کے، بہ حکم رب الناس

بھر کے بھیجے ہیں سر بہ مہر گلاس

یا لگا کر خضر نے شاخِ نبات

مدتوں تک دیا ہے آبِ حیات

تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل

ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل

تھا ترنجِ زر ایک خسرو پاس

رنگ کا زرد پر کہاں بو باس

آم کو دیکھتا اگر اک بار

پھینک دیتا طلائے دست افشار

رونقِ کار گاہِ برگ و نوا

نازشِ دودمانِ آب و ہوا

رہروِ راہِ خلد کا توشہ

طوبیٰ و سِدرہ کا جگر گوشہ

صاحبِ شاخ و برگ[408]و بار ہے آم

ناز پروردۂ بہار ہے آم

خاص وہ آم جو نہ ارزاں ہو

نو برِ نخلِ باغِ سلطاں ہو

وہ کہ ہے والیِ ولایتِ عہد

عدل سے اس کے ہے حمایتِ عہد

فخرِ دیں عزِ شان و جاہِ جلال[409]

زینتِ طینت و جمالِ کمال

کار فرمائے دین و دولت و بخت

چہرہ آرائے تاج و مسند و تخت

سایہ اُس کا ہما کا سایہ ہے

خلق پر وہ خدا کا سایہ ہے

اے مفیضِ وجودِ سایہ و نور!

جب تلک ہے نمودِ سایہ و نور

اِس خداوندِ بندہ پرور کو

وارثِ گنج و تخت و افسر کو

شاد و دلشاد و شادماں رکھیو

اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو!





۲


پتنگِ کاغذی



ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی

لے کے دل سر رشتۂ آزادگی

خود بخود کچھ ہم سے کَنیانے لگا

اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا

میں نے کہا اے دل، ہوائے دلبراں

بس کہ تیرے حق میں رکھتی ہے زیاں

بیچ میں ان کے نہ آنا زینہار

یہ نہیں ہیں گے کِسے کے یارِ غار

گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر

کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر

اب تو مِل جائے گی ان سے تیری گانٹھ

لیکن آخر کو پڑے گی ایسی سانٹھ [410]

سخت مشکل ہو گا سلجھانا تجھے

قہر ہے، دل ان میں الجھانا تجھے

یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے

بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے

ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں

مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں

دل نے سن کر۔ کانپ کر، کھا پیچ و تاب

غوطے میں جا کر، دیا کٹ کر جواب

رشتۂ در گردنم افگندہ دوست

می بُرد ہر جا کہ خاطر خواہِ اوست





خمسہ


تضمین بر غزل بہادر شاہ ظفر





گھستے گھستے پاؤں کی زنجیر آدھی رہ گئی

مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی

سب ہی پڑھتا کاش، کیوں تکبیر آدھی رہ گئی

‘‘کھنچ کے، قاتل! جب تری شمشیر آدھی رہ گئی

غم سے جانِ عاشقِ دل گیر آدھی رہ گئی‘‘



بیٹھ رہتا لے کے چشمِ پُر نم اس کے رو برو

کیوں کہا تو نے کہ کہہ دل کا غم اس کے رو برو

بات کرنے میں نکلتا ہے دم اس کے رو برو

‘‘کہہ سکے ساری حقیقت کب ہم اس کے رو برو

ہم نشیں! آدھی ہوئی تقریر، آدھی رہ گئی‘‘



تو نے دیکھا! مجھ پہ کیسی بن گئی، اے راز دار!

خواب و بیداری پہ کب ہے آدمی کو اختیار

مثلِ زخم آنکھوں کو سی دیتا، جو ہوتا ہوشیار

‘‘کھینچتا تھا رات کو میں خواب میں تصویرِ یار

جاگ اٹھا جو، کھینچنی تصویر آدھی رہ گئی‘‘



غم نے جب گھیرا، تو چاہا ہم نے یوں، اے دل نواز!

مستیِ چشمِ سیہ سے چل کے ہوویں چارہ ساز

توُ صدائے پا سے جاگا تھا، جو محوِ خوابِ ناز

‘‘دیکھتے ہی اے ستم گر! تیری چشمِ نیم باز

کی تھی پوری ہم نے جو تدبیر، آدھی رہ گئی‘‘



اس بتِ مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات

جس کے حسنِ روز افزوں کی یہ اک ادنیٰ ہے بات

ماہِ نو نکلے پہ گزری ہوں گی راتیں پان سات

‘‘اس رُخِ روشن کے آگے ماہِ یک ہفتہ کی رات

تابشِ خورشیدِ پُر تنویر آدھی رہ گئی‘‘



تا مجھے پہنچائے کاہش، بختِ بد ہے گھات میں

ہاں فراوانی! اگر کچھ ہے، تو ہے آفات میں

جُز غمِ داغ و الم، گھاٹا ہے ہر اک بات میں

‘‘کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات میں

آتے ہی خاصیّتِ اکسیر آدھی رہ گئی‘‘



سب سے یہ گوشہ کنارے ہے، گلے لگ جا مرے

آدمی کو کیا پکارے ہے، گلے لگ جا مرے

سر سے گر چادر اتارے ہے، گلے لگ جا مرے

‘‘مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے، گلے لگ جا مرے

وصل کی شب، اے بتِ بے پیر آدھی رہ گئی‘‘



میں یہ کیا جانوں کہ وہ کس واسطے ہوں پھِر گئے

پھر نصیب اپنا، انھیں جاتے سنا، جوں پھر گئے

دیکھنا قسمت وہ آئے اور پھر یوں پھِر گئے

‘‘آ کے آدھی دور، میرے گھر سے وہ کیوں پھِر گئے

کیا کشش میں دل کی ان تاثیر آدھی رہ گئی‘‘



ناگہاں یاد آ گئی ہے مجھ کو، یا رب! کب کی بات

کچھ نہیں کہتا کسی سے، سن رہا ہوں سب کی بات

کس لئے تجھ سے چھپاؤں، ہاں! وہ پرسوں شب کی بات

‘‘نامہ بر جلدی میں تیری وہ جو تھی مطلب کی بات

خط میں آدھی ہو سکی، تحریر آدھی رہ گئی‘‘



ہو تجلّی برق کی صورت میں، ہے یہ بھی غضب

پانچ چھ گھنٹے تو ہوتی فرصتِ عیش و طرب

شام سے آتے تو کیا اچھی گزرتی رات سب

‘‘پاس میرے وہ جو آئے بھی، تو بعد از نصف شب

نکلی آدھی حسرت، اے تقدیر! آدھی رہ گئی‘‘



تم جو فرماتے ہو، دیکھ اے غالبؔ آشفتہ سر

ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے، گیا کیوں اُس کے گھر؟

جان کی پاؤں اماں، باتیں یہ سب سچ ہیں مگر

‘‘‘‘دل نے کی ساری خرابی، لے گیا مجھ کو ظفر

واں کے جانے میں مری توقیر آدھی رہ گئی‘‘





مرثیہ





ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو

اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو

اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو

اے ماتمیانِ شہِ مظلوم! کہاں ہو



بگڑی ہے بہت بات، بنائے نہیں بنتی

اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی



تابِ سخن و طاقتِ غوغا نہیں ہم کو

ماتم میں شہِ دیں کے ہیں، سودا نہیں ہم کو

گھر پھونکنے میں اپنے، مُحابا نہیں ہم کو

گر چرخ بھی جل جائے تو پروا نہیں ہم کو



یہ خرگۂ نُہ پایا جو مدّت سے بَپا[411] ہے

کیا خیمۂ شبّیر سے رتبے میں سِوا ہے؟



کچھ اور ہی عالم نظر آتا ہے جہاں کا

کچھ اور ہی نقشہ ہے دل و چشم و زباں کا

کیسا فلک! اور مہرِ جہاں تاب کہاں کا!

ہو گا دلِ بے تاب کسی سوختہ جاں کا



اب صاعقہ و مہر میں کچھ فرق نہیں ہے[412]

گِرتا نہیں اس رُو سے کہو برق نہیں ہے



سلام



سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو

تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے

کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو

خدا کی راہ میں ہے شاہی و خسروی کیسی؟

کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا

اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟

فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی

کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو

کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی

اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی

ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل، سبیل

شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو

عدو کی سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات

کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند

بہ قدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اُس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک

کہ لوگ جوہرِ [413] تیغِ قضا کہیں اُس کو

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے

اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو

ہمارا منہ ہے کہ دَیں اس کے حسنِ صبر کی داد

مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو

زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں

پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو

وہ ریگِ لقمۂ[414] وادی میں خامہ فرسا ہے

کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد

پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں

علی سے آگے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ

بُرا نہ مانیئے گر ہم بُرا کہیں اُس کو

علی کے بعد حسن اور حسن کے بعد حسین

کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے

رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟

بھرا ہے غالبؔ دِل خستہ کے کلام میں درد

غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو







سہرے


۱


خوش ہو اے بخت



[415]خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا

باندھ شہزادہ[416] جواں بخت کے سر پر سہرا

کیا ہی اِس چاند سے مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے!

ہے تِرے حُسنِ دل افروز کا زیور سہرا

سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاہ

مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا

ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی

ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا

سات دریا کے فراہم کئے ہوں گے موتی

تب بنا ہو گا اِس انداز کا گز بھر سِہرا

رُخ پہ دُولھا کے جو گرمی سے پسینا ٹپکا

ہے رگِ ابرِ گُہر بار سَراسَر سِہرا

یہ بھی اِک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے

رہ گیا آن کے دامن کے برابر سِہرا

جی میں اِترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اِک چیز

چاہیے پھُولوں کا بھی ایک مقرّر[417] سہرا

جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے

گوندھے پھُولوں کا بھلا پھر کوئی کیوں کر سِہرا

رُخ روشن کی دَمک، گوہرِ غلتاں[418] کی چمک

کیوں نہ دکھلائے فروغِ مہ و اختر سہرا

تار ریشم کا نہیں، ہے یہ رَگِ ابرِ بہار

لائے گا تابِ گراں باریِ گوہر سِہرا!

ہم سُخن فہم ہیں، غالبؔ کے طرف دار نہیں

دیکھیں، اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا![419]


۲


قطعہ

ہم نشیں تارے ہیں اور چاند شہاب الدیں خاں

بزمِ شادی ہے فلک، کاہکشاں ہے سہرا

ان کو لڑیاں نہ کہو، بحر کی موجیں سمجھو

ہے تو کشتی میں، ولے بحرِ رواں ہے سہرا


۳


چرخ تک دھوم ہے



چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا

چاند کا دائرہ لے، زہرہ نے گایا سہرا

رشک سے لڑتی ہیں آپس میں اُلجھ کر لڑیاں

باندھنے کے لئے جب سر پہ اُٹھایا سہرا

[420]جسے کہتے ہیں خوشی، ا س نے بلائیں لے کر

کبھی چوما، کبھی آنکھوں سے لگایا سہرا

صاف آتی ہیں نظر آبِ گہر کی لہریں

جنبشِ بادِ سحر نے جو ہلایا سہرا





۴


بیانِ مصنّف



منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی

اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے

سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری

کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے

آزادہ رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل

ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں

مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے

اُستادِ شہ سے ہو مجھے پَرخاش کا خیال؟

یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے

جامِ جہاں نُما ہے شہنشاہ کا ضمیر

سَوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے

میں کون اور ریختہ، ہاں اِس سے مدعا

جُز انبساطِ خاطرِ حضرت نہیں مجھے

سِ ہرا لکھا گیا ز رہِ امتثالِ اَمر

دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے

مقطع میں آ پڑی ہے[421] سُخن گُسترانہ بات

مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

رُوئے سُخن کسی کی طرف ہو تو رُو سیاہ

سودا نہیں، جُنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے

قسمت بُری سہی پَہ طبیعت بُری نہیں

ہے شُکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے

صادق ہوں اپنے قول میں[422] غالبؔ، خدا گواہ

کہتا ہوں سچ کہ جھُوٹ کی عادت نہیں مجھے[423]







قطعات


۱


گزارشِ غالبؔ



اے شہنشاہِ فلک منظرِ بے مثل و نظیر

اے جہان دارِ کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل

پاؤں سے تیرے مَلے فرقِ ارادتِ اَورنگ

فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادتِ اِکلیل

تیرا اندازِ سُخَن شانۂ زُلفِ اِلہام

تیری رفتارِ قلم جُنبشِ بالِ جبریل

تجھ سے عِ الم پہ کھُلا رابطۂ قُربِ کلیم

تُجھ سے دنیا میں بِ چھا مائدۂ بَذلِ خلیل

بہ سُخَن اَوجِ دہِ مرتبۂ معنی و لفظ

بہ کرم داغِ نِہِ ناصیۂ قُلزُم و نِیل

تا، ترے وقت میں ہو عَیش و طرب کی توفیر[424]

تا، ترے عہد میں ہو رنج و اَلَم کی تقلیل

ماہ نے چھوڑ دیا ثَور سے جانا باہر

زُہرہ نے ترک کیا حُوت سے کرنا تحویل

تیری دانش، مری اصلاحِ مَفاسدؔ کی رَہین

تیری بخشش، مِرے اِنجاحِ مقاصد کی کفیل

تیرا اقبالِ تَرَحُّم مِرے جینے کی نَوِید

تیرا اندازِ تَغافُل مِرے مرنے کی دلیل

بختِ ناساز نے چاہا کہ نہ دے مُجھ کو اماں

چرخِ کج باز نے چاہا کہ کرے مُجھ کو ذلیل

پیچھے ڈالی ہے سرِ رشتۂ اوقات میں گانٹھ

پہلے ٹھونکی ہے بُنِ ناخُنِ تدبیر میں کیل

تَپِشِ دل نہیں بے رابطۂ خَوفِ عظیم

کششِ دم نہیں بے ضابطۂ جَرِّ ثقیل

دُرِ معنی سے مِرا صفحہ، لقا کی ڈاڑھی

غَمِ گیتی سے مِرا سینہ امَر[425] کی زنبیل

فکر میری گُہر اندوزِ اشاراتِ کثیر

کِلک میری رقَم آموزِ عباراتِ قلیل

میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدُق توضیح

میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل

نیک ہوتی مِری حالت تو نہ دیتا تکلیف

جمع ہوتی مِری خاطر تو نہ کرتا تعجیل

قبلۂ کون و مکاں، خستہ نوازی میں یہ دیر؟

کعبۂ امن و اماں، عُقدہ کُشائی میں یہ ڈھیل؟



۲
قطعہ

گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری

کیا کرتے تھے تم تقریر، ہم خاموش رہتے تھے

بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی، جانے دو، مل جاؤ

قَسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں ’’کیوں ہم نہ کہتے تھے‘‘


۳


ہائے ہائے

کلکتے کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں!

اِک تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

وہ سبزہ زار ہائے مُطرّا کہ، ہے غضب!

وُہ نازنیں بُتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے!

صبر آزما وہ اُن کی نگاہیں کہ حف نظر!

طاقت رُبا وہ اُن کا اشارا کہ ہائے ہائے!

وہ میوہ ہائے تازۂ شیریں کہ، واہ واہ

وہ بادہ ہائے نابِ گوارا کہ ہائے ہائے!


۴


در مدح ڈلی[426]

ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی

زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھّا کہیے

خامہ انگشت بہ دنداں، کہ اسے کیا لکھیے

ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

مُہرِ مکتوبِ عزیزانِ گرامی لکھیے

حرزِ بازوئے شگرفانِ خود آرا کہیے

مِسی آلود سر انگشتِ حسیناں لکھیے

داغِ طرفِ جگرِ عاشقِ شیدا کہیے

خاتمِ دستِ سلیماں کے مشابہ لکھیے

سرِ پستانِ پری زاد سے مانا کہیے

اخترِ سوختۂ قیس سے نسبت دیجے

خالِ مشکینِ رُخِ دل کشِ لیلیٰ کہیے

حجر الاسودِ دیوارِ حرم کیجے فرض

نافہ، آہوئے بیابانِ خُتن کا کہیے

وضع میں اس کو اگر سمجھیے قافِ تریاق[427]

رنگ میں سبزۂ نو خیزِ مسیحا کہیے

صَومعے میں اسے ٹھہرائیے گر مُہرِ نماز

مے کدے میں اسے خشتِ خُمِ صہبا کہیے

کیوں اسے قُفلِ درِ گنجِ محبّت لکھیے

کیوں اسے نقطۂ پَرکارِ تمنّا کہیے

کیوں اسے گوہرِ نایاب تصوّر کیجے

کیوں اسے مردُمکِ دیدۂ عَنقا کہیے

کیوں اسے تکمۂ پیراہنِ لیلیٰ لکھیے

کیوں اسے نقشِ پئے ناقۂ سلمیٰ کہیے

بندہ پرور کے کفِ دست کو دل کیجے فرض

اور اِس چِکنی سُپاری کو سُویدا کہیے



۵


بیسنی روٹی

نہ پُوچھ اِس کی حقیقت، حُضُورِ والا نے

مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی رَوغَنی روٹی

نہ کھاتے گیہوں، نکلتے نہ خُلد سے باہر

جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسَنی روٹی


۶


چہار شنبہ آخرَ ماہِ صفر

ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صَفَر چلو

رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مُشک بُو کی ناند

جو آئے، جام بھر کے پیے اور ہو کے مست

سبزے کو رَوندتا پھرے، پھُولوں کو جائے پھاند

غالبؔ یہ کیا بیاں ہے، بجُز مدحِ پادشاہ[428]

بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشتِ [429] خواند

بَٹتے ہیں سونے رُوپے کے چھلے حُضُور میں

ہے جن کے آگے سیم و زر و مہر و ماہ ماند

یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کیے ہوئے

لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند


۷


روزہ



افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو[430]

اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے

جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو

روزہ اگر نہ کھائے تو نا چار کیا کرے







۸


طائرِ دل

[431] اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ، مَیں جوشِ وحشت میں

پھرا آسیمہ سر، گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے

نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ[432]

ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے

کہا میں نے کہ‘‘او گمنام! آخر ماجرا کیا ہےَ

پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے‘‘

ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا

تو یہ رویا کہ جوئے خوں بہی پلکوں کے داماں سے

کہا،‘‘میں صید ہوں اُس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں

پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے

اسی کی زلف و رُخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو

نہ مطلب کُفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے‘‘

بہ چشمِ غور جو دیکھا، مِرا ہی طائرِ دل تھا

کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آہِ سوزاں سے[433]


۹


خط منظوم بنام علائی



خوشی تو ہے آنے کی برسات کے[434]

پئیں بادۂ ناب اور آم کھائیں

سر آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم

کہ دِلّی کو چھوڑیں، لوہارو کو جائیں

سِ وا اناج کے جو ہے مطلوبِ جاں[435]

نہ واں آم پائیں، نہ انگور پائیں

ہوا حکم باورچیوں کو، کہ ہاں

ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں

وہ کھٹّے کہاں پائیں اِملی کے پھول

وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں

فقط گوشت، سو بھیڑ کا ریشہ دار

کہو اس کو کیا کھا کے ہم حِظ اُٹھائیں


۱۰


قطعہ تاریخ



خُجستہ انجمن طُوئے میرزا جعفر

کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ

ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالبؔ

نہ کیوں ہو مادۂ سالِ عیسوی‘‘محظوظ‘‘[436]





۱۱


قطعہ تاریخ



ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی

ہوا بزمِ طرب میں رقصِ ناہید

کہا غالبؔ سے:‘‘تاریخ اس کی کیا ہے؟‘‘

تو بولا:‘‘اِنشراحِ جشنِ جمشید‘‘[437]
۱۲


قطعہ تاریخ



اِس کتابِ طرب نصاب نے جب

آب و تاب انطباع کی پائی

فکرِ تاریخِ سال میں، مجھ کو

ایک صورت نئی نظر آئی

ہندسے پہلے سات سات کے دو

دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی

اور پھر ہندسہ تھا بارہ کا

با ہزاراں ہزار زیبائی

سالِ ہجری تو ہو گیا معلوم [438]

بے شمولِ عبارت آرائی

مگر اب ذوقِ بذلہ سنجی کو

ہے جدا گانہ کار فرمائی

سات اور سات ہوتے ہیں چودہ

بہ اُمیدِ سعادت افزائی

غرض اِس سے ہیں چار دہ معصُوم

جس سے ہے چشمِ جاں کو زیبائی

اور بارہ امام ہیں بارہ

جس سے ایماں کو ہے توانائی

اُن کو غالبؔ یہ سال اچھا ہے

جو ائِمّہ کے ہیں تولاّئی



۱۳


بلا عنوان[439]



سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے

جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے

ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے

کہ جو شریک ہو میرا، شریکِ غالبؔ ہے


۱۴


قطعہ



سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آ پڑی

مجھ پہ کیا گُزرے گی، اتنے روز حاضر بِن ہوئے

تین دن مسہل سے پہلے، تین دن مسہل کے بعد

تین مُسہل، تین تَبریدیں، یہ سب کَے دِن ہوئے؟
۱۵


قطعہ

[440]گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں

دربار دار لوگ بہم آشنا نہیں

کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سلام

اس سے مُراد یہ ہے کہ ہم آشنا نہیں[441]


۱۶


قطعہ

یک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس

یوں کہا آتی نہیں اب کیوں صدائے عندلیب؟[442]

بال و پر دو چار دکھلا کر کہا صیّاد نے

یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب[443]
۱۷


قطعہ

اے جہاں آفریں خدائے کریم

ضائعِ ہفت چرخ، ہفت اقلیم

نام میکلوڈ جن کا ہے مشہور

یہ ہمیشہ بہ صد نشاط و سرور

عمر و دولت سے شادمان رہیں

اور غالبؔ پہ مہربان رہیں[444]


۱۸


قطعہ



گوڑ گانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم

عاشق ہے اپنے حاکمِ عادل کے نام کی

سو یہ نظر فروز قلم دان نذر ہے

مسٹر کووان صاحبِ عالی مقام کی









رباعیات


رباعی۱

شب زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا

کیا شرح کروں کہ طُرفہ تَر عالَم تھا

رویا میں ہزار آنکھ سے صُبح تلک

ہر قطرۂ اشک دیدۂ پُر نَم تھا


رباعی ۲

دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا

اُس سے گِلہ مند ہو گیا ہے گویا

پَر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں

غالبؔ منہ بند ہو گیا ہے گویا





رباعی ۳

دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ

دل رُک رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ[445]

واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں

سونا سَوگند ہو گیا ہے غالبؔ


رباعی ۴

آتش بازی ہے جیسے شغلِ اطفال

ہے سوزِ جگر کا بھی اسی طور کا حال

تھا مُوجدِ عشق بھی قیامت کوئی

لڑکوں کے لئے گیا ہے کیا کھیل نکال!


رباعی ۵

بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال

ایّامِ جوانی رہے ساغر کَش حال

آ پہنچے ہیں تا سوادِ اقلیم عدم

اے عُمرِ گُذشتہ یک قدم استقبال




رباعی ۶

مشکل ہے ز بس کلام میرا اے دل

سُن سُن کے اسے سخنورانِ کامل

آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش

گویم مشکل و گر نگویم مشکل


رباعی ۷

ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم

آثارِ جلالی و جمالی باہم

ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم

ہے اب کے شبِ قدر و دِوالی باہم


رباعی ۸

کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں

عُشّاق کی پُرسش سے اُسے عار نہیں

جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہو گا

کیوں کر مانوں کہ اُس میں تلوار نہیں!


رباعی ۹

سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں؟

آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں؟

روزہ مِرا اِیمان ہے غالبؔ! لیکن

خَس خانہ و برفاب کہاں سے لاؤں؟


رباعی ۱۰

دل تھا، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی

بے تابیِ رشک و حسرتِ دید سہی

ہم اور فُسُردن اے تجلی افسوس

تکرار روا نہیں تو تجدید سہی
رباعی ۱۱

ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لئے

وحشت کدۂ تلاش لڑنے کے لئے

یعنی ہر بار صُورتِ کاغذِ باد[446]

ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لئے


رباعی ۱۲

بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال

ہے لُطف و عنایاتِ شہنشاہِ پہ دال

یہ شاہ پسند دال بے بحث و جِدال

ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال


رباعی ۱۳



حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے

تا شاہ شیوعِ دانش و داد کرے

یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ

ہے صِفر کہ افزائشِ اعداد کرے
رباعی ۱۴

اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں، بلکہ سِوا

اِتنے ہی برس شُمار ہوں، بلکہ سِوا

ہر سیکڑے کو ایک گرہ فرض کریں

ایسی گرہیں ہزار ہوں، بلکہ سِوا


رباعی ۱۵

ہم گرچہ بنے سلام کرنے والے

کرتے ہیں دِرنگ، کام کرنے والے

کہتے ہیں کہیں خدا سے، اللہ اللہ!

وُہ آپ ہیں صُبح و شام کرنے والے!


رباعی ۱۶

اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے

بھیجے ہیں جو اَرمُغاں شہِ والا نے

گِن کر دیویں گے ہم دُعائیں سَو بار

فیروزے کی تسبیح کے، ہیں یہ دانے
رباعی ۱۷

رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے

ثاقب! حرکت یہ کی ہے بے جا تم نے

حاجی کلّو کو دے کے بے وجہ جواب

غالبؔ کا پکا دیا کلیجا تم نے


رباعی ۱۸

اے روشنیِ دیدہ شہاب الدیں خاں

کٹتا ہے بتاؤ کس طرح سے رَمَضاں؟

ہوتی ہے تراویح سے فرصت کب تک

سُنتے ہو تراویح میں کتنا قرآں
رباعی ۱۹

اے منشیِ خیرہ سر! سخن ساز نہ ہو

عصفور ہے تو، مقابلِ باز نہ ہو

آواز تیری نکلی اور آواز کے ساتھ

آواز تیری نکلے اور آواز کے ساتھ

[447]لاٹھی وہ لگی کہ جس میں آواز نہ ہو


رباعی ۲۰



جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری

کہتے ہیں مجھے وہ رافضی و دہری

دہری کیوں کر ہو جو کہ ہووے صوفی؟

شیعی کیوں کر ہو ماوراء النہری





متفرقات



جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں[448]

کپڑوں میں جوئیں، بخیے کے ٹانکوں سے سوا ہیں

==

ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم

جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں فریاد

==





ضمیمۂ اول
از نوائے سروش (نسخۂ مہر)



نوٹ از مولانا مہر:

یہ غزلیں مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہیں لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے


غزل۱



آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ

پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہو جاتا

کاش نا قدر نہ ہوتا ترا اندازِ خرام

میں غبارِ سرِ دامانِ فنا ہو جاتا

یک شبہ فرصتِ ہستی ہے اک آئینۂ غم

رنگِ گل کاش! گلستاں کی ہَوا ہو جاتا

مستقل مرکزِ غم پہ ہی نہیں تھے ورنہ

ہم کو اندازۂ آئینِ فنا ہو جاتا

دستِ قدرت ہے مرا خشت بہ دیوارِ فنا

گر فنا بھی نہ میں ہوتا تو فنا ہو جاتا

حیرت اندوزیِ اربابِ حقیقت مت پوچھ

جلوہ اک روز تو آئینہ نما ہو جاتا





غزل ۲



بدتر از ویرانہ ہے فصلِ خزاں میں صحنِ باغ

خانۂ بلبل بغیر از خندۂ گل بے چراغ

پتّا پتّا اب چمن کا انقلاب آلودہ ہے

نغمۂ مرغِ چمن زا ہے صدائے بوم و زاغ

ہاں بغیر از خوابِ مرگ آسودگی ممکن نہیں

رختِ ہستی باندھ تا حاصل ہو دنیائے فراغ

شورِ طوفانِ بلا ہے خندۂ بے اختیار

کیا ہے گل کی بے زبانی کیا ہے یہ لالے کا داغ

چشمِ پُر نم رہ، زمانہ منقلِب ہے اے اسدؔ

اب یہی ہے بس مے شادی سے پُر ہونا ایاغ







غزل ۳



خزینہ دارِ محبت ہوئی ہوائے چمن

بنائے خندۂ عشرت ہے بر بِنائے چمن

بہ ہرزہ سنجیِ گلچیں نہ کھا فریبِ نظر

ترے خیال کی وسعت میں ہے فضائے چمن

یہ نغمۂ سنجیِ بلبل متاعِ زحمت ہے

کہ گوشِ گل کو نہ راس آئے گی صدائے چمن

صدائے خندۂ گل تا قفس پہنچتی ہے

نسیمِ صبح سے سنتا ہوں ماجرائے چمن

گل ایک کاسۂ دریوزۂ مسرّت ہے

کہ عندلیبِ نواسنج ہے گدائے چمن

حریفِ نالۂ پرورد ہے، تو ہو، پھر بھی

ہے اک تبسّمِ پنہاں ترا بہائے چمن

بہار راہ رو جادۂ فنا ہے اسدؔ

گلِ شگفتہ ہیں گویا کہ نقشِ پائے چمن







غزل ۴



کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں

انہیں ہنساکے رلانا بھی کوئی بات نہیں

کہاں سے لا کے دکھائے گی عمرِ کم مایہ

سیہ نصیب کو وہ دن کہ جس میں رات نہیں

زبان حمد کی خوگر ہوئے تو کیا حاصل

کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں

خوشی، خوشی کو نہ کہہ، غم کو غم نہ جان اسدؔ

قرار داخلِ اجزائے کائنات نہیں





غزل ۵



جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں

اُور اس کے سواکچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں

اک سرحدِ معدوم میں ہستی ہے ہماری

سازِ دل بشکستہ کی بے کار صدا ہیں

جس رخ پہ ہوں ہم، سجدہ اسی رخ پہ ہے واجب

گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں

مت ہو جیو اے سیلِ فنا ان سے مقابل

جانبازِ الم نقش بہ دامانِ بقا ہیں

پائی ہے جگہ ناصیۂ بادِ صبا پر

خاکستر پروانۂ جانبازِ فنا ہیں

ہر حال میں ہیں مرضیِ صیّاد کے تابع

ہم طائرِ پر سوختہ رشتہ بہ پا ہیں

اے وہم طرازانِ مجازی و حقیقی

عشّاق فریبِ حق و باطل سے جدا ہیں

ہم بے خودیِ شوق میں کر لیتے ہیں سجدے

یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصیہ سا ہیں

اب منتظرِ شوقِ قیامت نہیں غالبؔ

دنیا کے ہر ذرّے میں سو حشر بپا ہیں




غزل ۶



نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں

یہ بھی اے چرخِ ستم گار! کروں یا نہ کروں

مجھ کو یہ وہم کہ انکار نہ ہو جائے کہیں

ان کو یہ فکر کہ اقرار کروں یا نہ کروں

لطف جب ہو کہ کروں غیر کو بھی میں بدنام

کہیئے کیا حکم ہے سرکار! کروں یا نہ کروں





غزل ۷



وضعِ نیرنگیِ آفاق نے مارا ہم کو

ہو گئے سب ستم و جَور گوارا ہم کو

دشتِ وحشت میں نہ پایا کسی صورت سے سراغ

گردِ جولانِ جنوں تک نے پکارا ہم کو

عجز ہی اصل میں تھا حاملِ صد رنگِ عروج

ذوقِ پستیِ مصیبت نے ابھارا ہم کو

ضعف مشغول ہے بے کار بہ سعیِ بیجا

کر چکا جوشِ جنوں اب تو اشارہ ہم کو

صورِ محشر کی صدا میں ہے افسونِ امّید

خواہشِ زیست ہوئی آج دوبارا ہم کو

تختۂ گور سفینے کے مماثل ہے اسدؔ

بحرِ غم کا نظر آتا ہے کنارا ہم کو





غزل ۸



حسنِ بے پروا گرفتارِ خود آرائی نہ ہو

گر کمیں گاہِ نظر میں دل تماشائی نہ ہو

ہیچ ہے تاثیرِ عالم گیریِ ناز و ادا

ذوقِ عاشق گر اسیرِ دامِ گیرائی نہ ہو

خود گدازِ شمع آغازِ فروغِ شمع ہے

سوزشِ غم درپئے ذوقِ شکیبائی نہ ہو

تار تارِ پیرہن ہے اک رگِ جانِ جنوں

عقلِ غیرت پیشہ حیرت سے تماشائی نہ ہو

بزمِ کثرت عالمِ وحدت ہے بینا کے لئے

بے نیازِ عشق اسیرِ زورِ تنہائی نہ ہو

ہے محبت رہزنِ ناموسِ انساں اے اسدؔ

قامتِ عاشق پہ کیوں ملبوسِ رسوایِ نہ ہو





غزل ۹



نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ

لبوں پہ جان بھی آ جائے گی جواب کے ساتھ

مجھے بھی تاکہ تمنّا سے ہو نہ مایوسی

ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ

نہ ہو بہ ہرزہ روا دارِ سعیِ بے ہودہ

کہ دورِ عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ

بہ ہر نمط غمِ دل باعثِ مسرّت ہے

نموئے حیرتِ دل ہے ترے شباب کے ساتھ

لگاؤ اس کا ہے باعث قیامِ مستی کا

ہَوا کو لاگ بھی ہے کچھ مگر حباب کے ساتھ

ہزار حیف کہ اتنا نہیں کوئی غالبؔ

کہ جاگنے کو ملا دے وے آ کے خواب کے ساتھ







غزل ۱۰





بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکُل کو کیا سمجھے

اِسے ہم سانپ سمجھے اور اُسے من سانپ کا سمجھے

یہ کیا تشبیہِ بے ہودہ ہے، کیوں موذی سے نسبت دیں

ہُما عارض کو اور کاکل کو ہم ظلِّ ہما سمجھے

غلط ہی ہو گئی تشبیہ، یہ تو ایک طائر ہے

اسے برگِ سمن اور اُس کو سنبل کی جٹا سمجھے

نباتاتِ زمیں سے کیا ان کو نسبت؟ معاذ اللہ

اسے برق اور اُسے ہم کالی ساون کی گھٹا سمجھے

گھٹا اور برق سے کیوں کر گھٹا کر ان کو نسبت دیں

اسے ظلمات، اُسے ہم چشمۂ آبِ بقا سمجھے

جو کہیے یہ، فقط مقصود تھا خضر و سکندر سے

یدِ بیضا اسے اور اُس کو موسیٰ کا عصا سمجھے

جو اس تشبیہ سے بھی داغ اُن دونوں کو آتا ہو

اسے وقتِ نمازِ صبح اور اُس کو عشاء سمجھے

جو یہ نسبت پسندِ خاطرِ والا نہ ہو تو پھر

اسے قندیلِ کعبہ، اُس کو کعبے کی ردا سمجھے

اسدؔ ان ساری تشبیہوں کو رد کر کے یہ کہتا ہے

سویدا اِس کو سمجھے اُس کو ہم نورِ خدا سمجھے









غزل ۱۱



نسیمِ صبح جب کنعاں میں بوئے پیرَہن لائی

پئے یعقوب ساتھ اپنے نویدِ جان و تن لائی

وقارِ ماتمِ شب زندہ دارِ ہجر رکھنا تھا

سپیدی صبحِ غم کی دوش پر رکھ کر کفن لائی

شہیدِ شیوۂ منصور ہے اندازِ رسوائی

مصیبت پیشگیِ مدّعا دار و رسن لائی

وفا دامن کشِ پیرایہ و ہستی ہے اے غالبؔ

کہ پھر نزہت گہِ غربت سے تا حدِّ وطن لائی







غزل ۱۲



وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے

ازل کے دن سے یہ اے یار ہوتی آئی ہے

جوابِ جنٓتِ بزمِ نشاطِ جاناں ہے

مری نگاہ جو خونبار ہوتی آئی ہے

نموئے جوشِ جنوں وحشیو! مبارک باد

بہار ہدیۂ انظار ہوتی آئی ہے

دل و دماغِ وفا پیشگاں کی خیر نہیں

جگر سے آہِ شرر بار ہوتی آئی ہے





غزل ۱۳



یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے

دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے

وجہِ مایوسیِ عاشق ہے تغافل ان کا

نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے

دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو

بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے

منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی

ہم بھی اب پیروئے گیسوئے پریشاں ہوں گے

گردشِ بخت نے مایوس کیا ہے لیکن

اب بھی ہر گوشۂ دل میں کئی ارماں ہوں گے

ہے ابھی خوں سے فقط گرمیِ ہنگامۂ اشک

پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے

باندھ کر عہدِ وفا اتنا تنفّر، ہے ہے

تجھ سے بے مہر کم اے عمرِ گریزاں! ہوں گے

اس قدر بھی دلِ سوزاں کو نہ جان افسردہ

ابھی کچھ داغ تو اے شمع! فروزاں ہوں گے

عہد میں تیرے کہاں گرمیِ ہنگامۂ عیش

گل میری قسمت واژونہ پہ خنداں ہوں گے

خوگرِ عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب

اُن کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے

موت پھر زیست نہ ہو جائے یہ ڈر ہے غالبؔ

وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے





غزل ۱۴



نمائش پردہ دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے

تسلّی جانِ بلبل کے لئے خندیدنِ گل ہے

نمودِ عالَمِ اسباب کیا ہے؟ لفظِ بے معنی

کہ ہستی کی طرح مجھ کو عدم میں بھی تامّل ہے

نہ رکھ پابندِ استغنا کو قیدی رسمِ عالم کا

ترا دستِ دعا بھی رخنہ اندازِ توکّل ہے

نہ چھوڑا قید میں بھی وحشیوں کو یادِ گلشن نے

یہ چاکِ پیرہن گویا جوابِ خندۂ گل ہے

ابھی دیوانگی کا راز کہہ سکتے ہیں ناصح سے

ابھی کچھ وقت ہے غالبؔ ابھی فصلِ گل و مُل ہے





غزل ۱۵



خود جان دے کے روح کو آزاد کیجئے

تاکے خیالِ خاطرِ جلّاد کیجئے

بھولے ہوئے جو غم ہیں انہیں یاد کیجئے

تب جا کے ان سے شکوۂ بے داد کیجئے

حالاں کہ اب زباں میں نہیں طاقتِ فغاں

پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجئے

بس ہے دلوں کے واسطے اک جنبشِ نگاہ

اجڑے ہوئے گھروں کو پھر آباد کیجئے

کچھ دردمند منتظرِ انقلاب ہیں

جو شاد ہو چکے انہیں ناشاد کیجئے

شاید کہ یاس باعثِ افشائے راز ہو

لطف و کرم بھی شاملِ بے داد کیجئے

بیگانۂ رسومِ جہاں ہے مذاقِ عشق

طرزِ جدیدِ ظلم کچھ ایجاد کیجئے





غزل ۱۶



ہم سے خوبانِ جہاں پہلو تہی کرتے رہے

ہم ہمیشہ مشقِ از خود رفتگی کرتے رہے

کثرت آرائی خیالِ ما سوا کی وہم تھی

مرگ پر غافل گمانِ زندگی کرتے رہے

داغ ہائے دل چراغِ خانۂ تاریک تھے

تا مغاکِ قبر پیدا روشنی کرتے رہے

شورِ نیرنگِ بہارِ گلشنِ ہستی، نہ پوچھ

ہم خوشی اکثر رہینِ ناخوشی کرتے رہے

رخصت اے تمکینِ آزارِ فراقِ ہمرہاں

ہو سکا جب تک غمِ واماندگی کرتے رہے





غزل ۱۷



درد ہو دل میں تو دوا کیجے

دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے

آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب

توبہ توبہ خدا خدا کیجے

رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہو گی

پہلے دل درد آشنا کیجے

عرضِ شوخی نشاطِ عالم ہے

حسن کو اور خود نما کیجے

دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا

اب حقِ دوستی ادا کیجے

موت آتی نہیں کہیں غالبؔ

کب تک افسوس زیست کا کیجے





غزل ۱۸



سکوت و خامشی اظہارِ حالِ بے زبانی ہے

کمینِ درد میں پوشیدہ رازِ شادمانی ہے

عیاں ہیں حال و قالِ شیخ سے اندازِ دلچسپی

مگر رندِ قَدَح کش کا ابھی دورِ جوانی ہے

ثباتِ چند روزہ کار فرمائے غم و حسرت

اجل سرمایہ دارِ دورِ عیش و کامرانی ہے

گدازِ داغِ دلِ شمعِ بساطِ خانہ ویرانی

تپش گاہِ محبت میں فروغ جاودانی ہے

وفورِ خود نمائے رہنِ ذوقِ جلوہ آرائی

بہ وہم کامرانی جذبِ دل کی شادمانی ہے

دلِ حرماں لقب کی داد دے اے چرخِ بے پروا

بہ غارت دادۂ رخت و متاعِ کامرانی ہے







غزل ۱۹



کس کی برقِ شوخیِ رفتار کا دلدادہ ہے

ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے

ہے غرورِ سرکشی صورت نمائے عجز بھی

منقلب ہو کر بسانِ نقشِ پا افتادہ ہے

خانہ ویراں سازیِ عشقِ جفا پیشہ نہ پوچھ

نامرادوں کا خطِ تقدیر تک بھی سادہ ہے

خود نشاط و سرخوشی ہے آمدِ فصلِ بہار

آج ہر سیلِ رواں عالم میں موجِ بادہ ہے

زندگانی رہروِ راہِ فنا ہے اے اسدؔ

ہر نفس ہستی سے تا ملکِ عدم اک جادہ ہے







غزل ۲۰



اس جور و جفا پر بھی بد ظن نہیں ہم تجھ سے

کیا طرفہ تمنّا ہے امیدِ کرم تجھ سے

امّیدِ نوازش میں کیوں جیتے تھے ہم آخر

سہتے ہی نہیں کوئی جب درد و الم تجھ سے

وارفتگیِ دل ہے یا دستِ تصرّف ہے

ہیں اپنے تخیّل میں دن رات بہم تجھ سے

یہ جور و جفا سہنا پھر ترکِ وفا کرنا

اے ہرزہ پژوہی بس عاجز ہوئے ہم تجھ سے

غالبؔ کی وفا کیشی اور تیری ستم رانی

مشہورِ زمانہ ہے اب کیا کہیں ہم تجھ سے





ضمیمۂ دوم


(انتخاب از نسخۂ حمیدیہ)
۱



دعویِٰ عشقِ بتاں سے بہ گلستاں گل و صبح

ہیں رقیبانہ بہم دست و گریباں گل و صبح

ساقِ گل رنگ سے اور آئینۂ زانو سے

جامہ زیبوں کے سدا ہیں تہِ داماں گل و صبح

وصل آئینۂ رخاں ہم نفسِ یک دیگر

ہیں دعا ہائے سحر گاہ سے خواہاں گل و صبح

آئینہ خانہ ہے صحنِ چمنستاں تجھ سے[449]

بس کہ ہیں بے خود و وارفتہ و حیران گل و صبح

زندگانی نہیں بیش از نفسِ چند اسدؔ

غفلت آرامیِ یاراں پہ ہیں خنداں گل و صبح


۲





صاف ہے از بس کہ عکسِ گل سے گل زار چمن

جانشینِ جوہرِ آئینہ ہے خارِ چمن

ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن

قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن

برشگالِ گریۂ عشاق دیکھا چاہیے

کھل گئی مانندِ گل سو جا سے دیوارِ چمن[450]

تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار

جوہرِ آئینہ ہے یاں نقشِ احضارِ چمن

بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست

ہے کلاہِ نازِ گل بر طاقِ دیوارِ چمن

الفتِ گل سے غلط ہے دعویِ وارستگی

سرو ہے با وصفِ آزادی گرفتارِ چمن

وقت ہے گر بلبلِ مسکیں زلیخائی کرے

یوسفِ گل جلوہ فرما ہے بہ بازارِ چمن

وحشت افزا گریہ ہا موقوفِ فصل گل اسدؔ

چشمِ دریا ریز ہے میزابِ سرکارِ چمن




۳



ہم زباں آیا نظر فکرِ سخن میں تو مجھے

مردمک ہے طوطیِ آئینۂ زانو مجھے

یادِ مژگاں بہ نشتر زارِ صحرائے خیال

چاہیے بہرِ تپش یک دست صد پہلو مجھے

خاکِ فرصت برسرِ ذاقِ فنا اے انتظار

ہے غبارِ شیشۂ ساعت رمِ آہو مجھے

اضطرابِ عمر بے مطلب نہیں آخر کہ ہے

جستجوئے فرصتِ ربطِ سرِ زانو مجھے

چاہیے درمانِ ریشِ دل بھی تیغِ یار سے

مرہمِ زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے

کثرتِ جور و ستم سے ہو گیا ہوں بے دماغ

خوبرویوں نے بنایا ہے اسدؔ[451] بد خو مجھے




۴



نیم رنگی جلوہ ہے بزمِ تجلی رازِ دوست

دودِ شمع کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

چشم بندِ خلق جز تمثال خود بینی نہیں

آئینہ ہے قالبِ خشتِ در و دیوارِ دوست

برق خرمن زارِ گوہر ہے نگاہِ تیز یاں

اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیِ رفتارِ دوست

ہے سوا نیزے پہ اس کے قامتِ نوخیز سے

آفتابِ روزِ محشر ہے گلِ دستارِ دوست

اے عدوئے مصلحت چندے بہ ضبط افسردہ رہ

کردنی ہے جمع تابِ شوخیِ دیدارِ دوست

لغزشِ مستانہ و جوشِ تماشا ہے اسدؔ

آتشِ مے سے بہارِ گرمیِ بازارِ دوست







ضمیمۂ سوم

دیوانِ غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے وہ کلام جو متداول دیوان کا حصہ نہیں


حصۂ غزلیات
ردیف الف


۱



تنگ ظرفوں کا رتبہ جہد سے برتر نہیں ہوتا

حبابِ مے بہ صد بالیدنی ساغر نہیں ہوتا

عجب، اے آبلہ پایانِ صحرائے نظر بازی

کہ تارِ جادۂ رہ رشتۂ گوہر نہیں ہوتا

خوشا! عجزے کہ عاشق جل بجھے جوں شعلہ خامُش

کہ کم از سرمہ اس کا مشتِ خاکستر نہیں ہوتا

تماشائے گل و گلشن ہے مفتِ سر بہ جیبی ہا

بہ از چاکِ گریباں، گلستاں کا در نہیں ہوتا

نہ رکھ چشمِ حصولِ نفع، صحبت ہائے ممسک سے

لبِ خشکِ صدف، آبِ گہر سے تر نہیں ہوتا

نہ دیکھا کوئی ہم نے آشیاں بلبل کا گلشن میں

کہ جس کے در پہ غنچہ شکلِ قفلِ زر نہیں ہوتا

صفا کب جمع ہو سکتی ہے غیر از گوشہ گیری ہا

صدف بن قطرہ نیساں، اسدؔ، گوہر نہیں ہوتا







۲



نہاں کیفیتِ مے میں ہے سامانِ حجاب اس کا

بُنا ہے پنبۂ سینا سے ساقی نے نقاب اس کا

اگر اس شعلہ رو کو دوں پیامِ مجلس افروزی

زبانِ شمعِ خلوت خانہ دیتی ہے جواب اس کا

عیاں کیفیت مے خانہ ہے جوئے گلستاں میں

کہ مے عکس شفق ہے اور ساغر ہے حباب اس کا

اٹھائے ہیں جو میں افتادگی میں متصل صدمے

کروں گا اشک ہائے وا چکیدہ سے حساب اس کا

اسدؔ کے واسطے رنگے بہ روئے کار ہو پیدا

غبار، آواہ و سر گشتہ ہے یا بو تراب اس کا





۳



خود آرا وحشتِ چشمِ پری سے شب وہ بد خو تھا

کہ موم، آئینۂ تمثال کو تعویذ بازو تھا

بہ شیرینیِ خواب آلودہ مژگاں، نشترِ زنبور

خود آرائی سے، آئینہ، طلسمِ مومِ جادو تھا

نہیں ہے باز گشتِ سیل غیر از جانبِ دریا

ہمیشہ دیدۂ گریاں کو، آبِ رفتہ در جو تھا

رہا نظارہ وقتِ بے نقابی، آپ پر لرزاں

سرشک آگیں مژہ سے، دست از جاں شستہ برو تھا

غمِ مجنوں، عزا دارانِ لیلیٰ کا پرستش گر

خمِ رنگِ سیاہ، پیمانہ ہر چشمِ آہو تھا

رکھا غفلت نے دور افتادہ، ذوقِ فنا ورنہ

اشارت فہم کو، ہر ناخنِ بریدہ، ابرو تھا

اسدؔ خاکِ درِ مے خانہ اب سر پر اڑاتا ہوں

گئے وہ دن کہ پانی، جامِ مے سے زانو زانو تھا



۴

شبِ اختر قدحِ عیش نے محمل باندھا

باریک قافلۂ آبلہ منزل باندھا

سبحہ واماندگیِ شوق و تماشا منظور

جادے پر زیورِ صد آئینہ منزل باندھا

ضبطِ گریہ، گُہرِ آبلہ لایا آخر

پائے صد موج بہ طوفان کدۂ دل باندھا

حیف! اے ننگِ تمنا، کہ پے عرضِ حیا

یک عرق آئینہ، بر جبۂ سائل باندھا

حسن آشفتگیِ جلوہ، ہے عرضِ اعجاز

دستِ موسیٰ بہ سرِ دعویِ باطل باندھا

تپشِ آئینہ، پروازِ تمنا لائی

نامۂ شوق، بہ بالِ پرِ بسمل باندھا

دیدہ تا دل ہے یک آئینہ چراغاں، کس نے

خلوتِ ناز پہ پیرایۂ محفل باندھا؟

نا اُمیدی نے، بہ تقریبِ مضامینِ خمار

کوچۂ موج کو خمیازۂ ساحل باندھا

مطربِ دل نے مرے تارِ نفس سے غالبؔ

ساز پر رشتہ، پے نغمۂ بیدل باندھا


۵



کیا کس شوخ نے ناز از سرِ تمکیں نشستن کا

کہ شاخِ گل کا خم، انداز ہے بالیں شکستن کا

نہاں ہے، مردمک میں، شوقِ رخسارِ فروزاں سے

سپندِ شعلہ نادیدہ صفت، انداز جستن کا

گدازِ دل کو کرتی ہے، کشودِ چشم، شب پیما

نمک ہے، شمع میں جوں مومِ جادو، خواب بستن کا

نفس در سینہ ہائے ہم دگر رہتا ہے پیوستہ

نہیں ہے رشتۂ الفت کو اندیشہ گسستن کا

ہوا نے ابر سے کی موسم گل میں نمد بافی

کہ تھا آئینۂ خور پر تصور رنگ بستن کا

تکلف عافیت میں ہے، دلا! بند قبا وا کر

نفس، بعد از وصالِ دوست تاواں ہے گسستن کا

ہر اشکِ چشم سے یک حلقۂ زنجیر بڑھتا ہے

بہ بندِ گریہ ہے نقشِ بر آب، اندیشہ رستن کا

عیادت سے، اسدؔ، میں بیشتر بیمار رہتا ہوں

سبب ہے ناخنِ دخلِ عزیزاں، سینہ خستن کا




۶



فرو پیچیدنی ہے فرش بزمِ عیش گستر کا

دریغا! گردش آموزِ فلک ہے، دور ساغر کا

خطِ نوخیز کی، آئینے میں دی کس نے، آرائش

کہ ہے تہ بندیِ پر ہائے طوطی رنگ جوہر کا

گیا جو نامہ بر، واں سے بہ رنگِ باختہ آیا

خطوطِ روئے قالیں، نقش ہے پشتِ کبوتر کا

شکستِ گوشہ گیراں، ہے محرم کو حاصل گردش

صدف سے آسیائے آب میں ہے دانہ گوہر کا

فزوں ہوتا ہے ہر دم جوشِ خونباری، تماشا ہے

نفس کرتا ہے رگ ہائے مژہ پر کام نشتر کا

خیالِ شربتِ عیسیٰ، گدازِ تر جبینی ہے

اسدؔ! ہوں مستِ دریا، بخشیِ ساقیِ کوثر کا







۷



وہ فلک رتبہ کہ بر توسنِ چالاک چڑھا

ماہ پر، ہالہ صفت، حلقۂ فتراک چڑھا

نشہ مے کے اتر جانے کے غم سے انگور

صورتِ اشک، بہ مژگانِ رگِ تاک چڑھا

بوسہ لب سے ملی طبع کیفیتِ حال

مے کشیدن سے مجھے نشہ تریاک چڑھا

میں جو گردوں کو بہ میزانِ طبیعت تولا

تھا یہ کم وزن کہ ہم سنگِ کفِ خاک چڑھا

اے اسدؔ! وا شدنِ عقدۂ غم گر چاہے

حضرتِ زلف میں جوں شانہ دلِ چاک چڑھا





۸



بہ مہرِ نامہ جو بوسہ گلِ پیام رہا

ہمارا کام ہوا اور تمہارا نام رہا

ہوا نہ مجھ سے بجز درد حاصلِ صیاد

بسانِ اشک، گرفتارِ چشمِ دام رہا

دل و جگر تف فرقت سے جل کے خاک ہوئے

ولے ہنوز خیالِ وصال خام رہا

شکستِ رنگ کی لائی سحر شبِ سنبل

پہ زلفِ یار کا افسانہ نا تمام رہا

دہانِ تنگ مجھے کس کا یاد آیا تھا

کہ شب خیال میں بوسوں کا ازدحام رہا

نہ پوچھ حال شب و روزِ ہجر کا غالبؔ

خیالِ زلف و رخِ دوست صبح و شام رہا







۹



عیادت سے ز بس ٹوٹا ہے دل، یارانِ غمگیں کا

نظر آتا ہے موئے شیشہ، رشتہ شمعِ بالیں کا

صدا ہے کوہ میں حشر آفریں، اے غفلت اندیشاں

پئے سنجیدنِ یاراں ہوں، حامل خوابِ سنگیں کا

بجائے غنچہ و گل ہے، ہجومِ خار و خس، یاں تک

کہ صرفِ بخیۂ دامن ہوا ہے خندہ گل چیں کا

نصیبِ آستیں ہے، حاصلِ روئے عرق آگیں

چنے ہے کہکشاں، خرمن سے مہ کے خوشہ پرویں کا

بہ وقتِ کعبہ جوئی ہا، جرس کرتا ہے ناقوسی

کہ صحرا فصلِ گل میں رشک ہے، بت خانۂ چیں کا

تپیدن دل کو سوزِ عشق میں خوابِ فرامش ہے

رکھا اسپند نے مجمر میں پہلو گرم تمکیں کا

اسدؔ! اربابِ فطرت قدر دانِ لفظ و معنیٰ ہیں

سخن کا بندہ ہوں، لیکن نہیں مشتاق تحسیں کا





۱۰



زِ بس ہے ناز پروازِ غرورِ نشہ صہبا

رگِ بالیدہ، گردن ہے، موجِ بادہ در مینا

در آبِ آئینہ از جوشِ عکسِ گیسوئے مشکیں

بہارِ سنبلستان جلوہ گر ہے آں سوئے دریا

کہاں ہے دیدۂ روشن کہ دیکھے بے حجابانہ

نقابِ یار ہے از پردہ ہائے چشمِ نا بینا

نہ دیجئے پاسِ ضبطِ آبرو، وقتِ شکستن بھی

تحمل پیشہ تمکیں رہیے آئینہ آسا

اسدؔ، طبع متیں سے گر نکالوں شعر برجستہ

شرر، ہو قطرہ خونِ فسردہ در رگِ خارا





۱۱



کرے گر حیرتِ نظارہ، طوفاں نکتہ گوئی کا

حبابِ چشمۂ آئینہ ہو وے، بیضہ طوطی کا

بہ روئے قیس، دستِ شرم، ہے مژگانِ آہو سے

مگر روزِ عروسی گم ہوا تھا شانہ لیلی کا

فسانِ تیغِ نازک قاتلاں، سنگِ جراحت ہے

دلِ گرمِ تپش، قاصد ہے پیغامِ تسلی کا

نہیں گرداب جز سر گشتگی ہائے طلب ہرگز

حبابِ بحر کے، ہے، آبلوں میں خار ماہی کا

نیازِ جلوہ ریزی، طاقتِ بالیں شکستن ہا

تکلف کو خیال آیا ہو گر بیمار پرسی کا

نہ بخشی فرصتِ یک شبنمستاں جلوۂ خور نے

تصور نے کیا ساماں ہزار آئینہ بندی کا

اسد تاثیرِ صافی ہائے حیرت جلوہ پرور ہو

گر آبِ چشمۂ آئینہ دھوئے عکس زنگی کا





۱۲



وحشی بن صیاد نے ہم رم خوردوں کو کیا رام کیا

رشتۂ چاکِ جیبِ دریدہ، صرفِ قماشِ دام کیا

عکسِ رخِ افروختہ تھا تصویر بہ پشتِ آئینہ

شوخ نے وقتِ حُسن طرازی تمکیں سے آرام کیا

ساقی نے از بہرِ گریباں چاکیِ موجِ بادۂ ناب

تارِ نگاہِ سوزنِ مینا، رشتۂ خطِ جام کیا

مہر بجائے نامہ لگائی بر لبِ پیکِ نامہ رساں

قاتلِ تمکیں سنج نے یوں خاموشی کا پیغام کیا

شامِ فراقِ یار میں جوشِ خیرہ سری سے ہم نے اسدؔ

ماہ کو، در تسبیحِ کواکب، جائے نشینِ امام کیا





۱۳



یادِ روزے کہ نفس سلسلۂ یا رب تھا

نالۂ دل، بہ کمر دامنِ قطع شب تھا

بہ تحیّر کدۂ فرصتِ آرائشِ وصل

دلِ شب، آئینہ دارِ تپشِ کوکب تھا

بہ تمنا کدۂ حسرتِ ذوقِ دیدار

دیدہ گو خوں ہو، تماشائے چمن مطلب تھا

جوہرِ فکر پر افشانیِ نیرنگِ خیال

حسن آئینہ و آئینہ چمن مشرب تھا

پردۂ دردِ دل آئینۂ صد رنگِ نشاط

بخیۂ زخمِ جگر خندۂ زیرِ لب تھا

نالہ ہا حاصلِ اندیشہ کہ جوں گشتِ سپند

دلِ نا سوختہ آتش کدۂ صد تب تھا

عشق میں ہم نے ہی ابرام سے پرہیز کیا

ورنہ جو چاہیے، اسبابِ تمنا سب تھا

آخر کار گرفتارِ سرِ زلف ہوا

دلِ دیوانہ کہ وارستۂ ہر مذہب تھا

شوق سامان فضولی ہے وگرنہ غالبؔ

ہم میں سرمایۂ ایجادِ تمنا کب تھا

اسدؔ افسردگی آوارۂ کفر و دیں ہے

یادِ روزے کہ نفس در گرہِ‘‘یا رب‘‘ تھا



۱۴

بس کہ جوشِ گریہ سے زیرو زبر ویرانہ تھا

چاکِ موجِ سیل، تا پیراہنِ دیوانہ تھا

داغِ مہرِ ضبطِ بے جا مستیِ سعیِ سپند

دودِ مجمر، لالہ ساں، دُزدِ تہِ پیمانہ تھا

وصل میں بختِ سیہ نے سنبلستاں گل کیا

رنگِ شب، تہ بندیِ دودِ چراغِ خانہ تھا

شب، تری تاثیرِ سحرِ شعلۂ آواز سے

تارِ شمع، آہنگِ مضرابِ پرِ پروانہ تھا

موسمِ گل میں مئے گلگوں حلالِ مے کشاں

عقدِ وصلِ دختِ رز، انگور کا ہر دانہ تھا

انتظارِ جلوۂ کاکل میں شمشادِ باغ

صورتِ مژگاں عاشق، صرف عرضِ شانہ تھا

حیرت، اپنے نالۂ بے درد سے، غفلت بنی

راہِ خوابیدہ کو غوغائے جرس افسانہ تھا

کُو بہ وقتِ قتل حقِ آشنائی، اے نگاہ!

خنجرِ زہراب دادہ، سبزۂ بیگانہ تھا

جوشِ بے کیفیتی ہے اضطراب آرا، اسدؔ

ورنہ بسمل کا تڑپنا، لغزشِ مستانہ تھا




۱۵



ہے تنگ زِ واماندہ شدن حوصلۂ پا

جو اشک گرا خاک میں، ہے آبلۂ پا

سر منزلِ ہستی سے ہے صحرائے طلب دور

جو خط ہے کفِ پا پہ، سو ہے سلسلۂ پا

دیدار طلب ہے دلِ واماندہ کہ آخر

نوکِ سرِ مژگاں سے رقم ہو گلۂ پا

آیا نہ بیابانِ طلب گامِ زباں تک

تبخالۂ لب ہو نہ سکا آبلۂ پا

فریاد سے پیدا ہے اسد گرمیِ وحشت

تبخالۂ لب ہے جرسِ آبلۂ پا





۱۶



جگر سے ٹوٹی ہوئی ہو گئی سناں پیدا

دہانِ زخم میں آخر ہوئی زباں پیدا

بسانِ سبزہ رگِ خواب ہے زباں ایجاد

کرے ہے خامشی احوالِ بے خوداں پیدا

صفا و شوخی و اندازِ حسن پا بہ رکاب

خط سیاہ سے ہے، گردِ کارواں پیدا

نہیں ہے آہ کو ایمائے تیرہ بالیدن

وگرنہ ہے خمِ تسلیم سے کماں پیدا

نصیبِ تیرہ، بلا گردش آفریں ہے، اسدؔ

زمیں سے ہوتے ہیں، صد دامن آسماں پیدا





۱۷



گرفتاری میں فرمانِ خطِ تقدیر ہے پیدا

کہ طوقِ قمری از ہر حلقۂ زنجیر ہے پیدا

زمیں کو صفحۂ گلشن بنایا خون چکانی نے

چمن بالیدنی ہا، از رمِ نخچیر ہے پیدا

مگر وہ شوخ ہے طوفاں طرازِ شوقِ خون ریزی

کہ در بحرِ کہاں بالیدہ موجِ تیر ہے پیدا

نہیں ہے کف لبِ نازک پہ فرطِ نشۂ مے سے

لطافت ہائے جوشِ حسن کا سر شیر ہے پیدا

عروجِ اُمیدی چشم زخمِ چرخ کیا جانے؟

بہارِ بے خزاں از آہِ بے تاثیر ہے پیدا

اسد جس شوق سے ذرے تپش فرسا ہوں روزن میں

جراحت ہائے دل سے جوہرِ شمشیر ہے پیدا







۱۸



سحر گہ باغ میں وہ حیرتِ گل زار ہو پیدا

اُڑے رنگِ گل اور آئینۂ دیوار ہو پیدا

بتاں! زہر آب اس شدت سے دو پیکانِ ناوک کو

کہ خطِ سبز تا پشتِ لبِ سوفار ہو پیدا

لگے گر سنگ سر پر یار کے دست نگاریں سے

بجائے زخم گل بر گوشۂ دستار ہو پیدا

کروں گر عرض سنگینیِ کہسار اپنی بے تابی

رگِ ہر سنگ سے نبضِ دلِ بیمار ہو پیدا

بہ سنگِ شیشہ توڑوں، ساقیا! پیمانۂ پیماں

اگر ابرِ سیہ مست از سوئے کہسار ہو پیدا

اسدؔ مایوس مت ہو، گرچہ رونے میں اثر کم ہے

کہ غالب ہے کہ بعد از زاریِ بسیار ہو پیدا





۱۹



شب کہ دل زخمی عرضِ دو جہاں تیر آیا

نالہ بر خود غلطِ شوخیِ تاثیر آیا

وسعتِ جیبِ جنونِ تپشِ دل مت پوچھ

محملِ دشت بدوشِ رمِ نخچیر آیا

ہے گرفتاریِ نیرنگِ تماشا ہستی

پرِ طاؤس سے، دل پائے بہ زنجیر آیا

دید حیرت کش و خورشید چراغانِ خیال

عرضِ شبنم سے، چمن آئینہ تعمیر آیا

عشقِ ترسا بچہ و نازِ شہادت مت پوچھ

کہ کلہ گوشہ، بہ پروازِ پرِ تیر آیا

اے خوشا ذوقِ تمنائے شہادت کہ اسدؔ

بے تکلف بہ سجودِ خمِ شمشیر آیا





۲۰



دویدن کے کمیں، جوں ریشہ زیرِ زمیں پایا

بہ گردِ سرمہ، اندازِ نگاہِ شرم گیں پایا

اگی اک پنبۂ روزن سے ہی چشم چشمِ سفید آخر

حیا کو، انتظارِ جلوہ ریزی کے کمیں پایا

بہ حسرت گاہِ نازِ کشتہ جاں بخشیِ خوباں

خضر کو چشمۂ آبِ بقا سے تر جبیں پایا

پریشانی سے، مغزِ سر، ہوا ہے پنبۂ بالش

خیالِ شوخیِ خوباں کو راحت آفریں پایا

نفس، حیرت پرستِ طرزِ ناگیرائیِ مژگاں

مگر یک دست و دامانِ نگاہِ واپسیں پایا

اسدؔ کو پیچ تابِ طبعِ برق آہنگ مسکن سے

حصارِ شعلہ جوالہ میں عزلت گزیں پایا





۲۱



نزاکت، ہے فسونِ دعویِٰ طاقت شکستن ہا

شرارِ سنگ، اندازِ چراغ از چشمِ جستن ہا

سیہ مستیِ چشمِ شوخ سے ہیں، جوہر مژگاں

شرار آسا، ز سنگِ سرمہ یک سر بارِ جستن ہا

ہوا نے ابر سے کی موسمِ گل میں نمد بافی

کہ تھا آئینہ خود بے نقابِ زنگ بستن ہا

دل از اضطراب آسودہ، طاعت گاہِ داغ آیا

بہ رنگِ شعلہ ہے، مہرِ نماز، از پا نشستن ہا

تکلف عاقبت میں ہے ولا، بندِ قبا وا کر

نفس ہا بعدِ وصلِ دوست، تاوانِ گسستن ہا

اسدؔ ہر اشک ہے یک حلقہ بر زنجیر افزودن

بہ بندِ گریہ ہے، نقش بر آب، امیدِ رستن ہا







۲۲



بسانِ جوہرِ آئینہ از ویرانیِ دل ہا

غبارِ کوچہ ہائے موج ہے خاشاکِ ساحل ہا

نگہ کی ہم نے پیدا رشتۂ ربطِ علائق سے

ہوئے ہیں پردہ ہائے چشمِ عبرت جلوہ حائل ہا

نہیں ہے باوجودِ ضعف سیرِ بے خودی آساں

رہِ خوابیدہ میں افگندنی ہے طرحِ منزل ہا

غریبی بہرِ تسکینِ ہوس درکار ہے ورنہ

بہ وہمِ زر گرہ میں باندھتے ہیں برقِ حاصل ہا

تماشا کردنی ہے انتظار آبادِ حیرانی

نہیں غیر از نگہ جوں نرگسستاں فرشِ محفل ہا

اسد تارِ نفس ہے نا گزیرِ عقدہ پیرائی

بہ نوکِ ناخنِ شمشیر کیجئے حلِ مشکل ہا







۲۳



خط جو رخ پر، جانشینِ ہالۂ مہ ہو گیا

ہالہ دودِ شعلۂ جوالۂ مہ ہو گیا

حلقۂ گیسو کھلا دورِ خطِ رخسار پر

ہالۂ دیگر بہ گردِ ہالۂ مہ ہو گیا

شب کہ مستِ دیدن مہتاب تھا وہ جامہ زیب

پارہ چاکِ کتاں، پرکالۂ مہ ہو گیا

شب کہ وہ باغ میں تھا جلوہ فرما، اے اسدؔ!

داغِ مہ جوشِ چمن سے، لالۂ مہ ہو گیا





۲۴



بس کہ عاجز نا رسائی سے کبوتر ہو گیا

صفحۂ نامہ، غلافِ بالشِ پر ہو گیا

صورتِ دیبا تپش سے میری، غرقِ خوں ہے آج

خارِ پیراہن رگِ بستر کو نشتر ہو گیا

بس کہ آئینے نے پایا گرمیِ رخ سے گداز

دامنِ تمثال، مثلِ برگِ گل، تر ہو گیا

شعلہ رخسارا! تحیر سے تیری رفتار کے

خارِ شمعِ آئینہ، آتش میں جوہر ہو گیا

بس کہ وقتِ گریہ نکلا تیرہ کاری کا غبار

دامنِ آلودۂ عصیاں، گراں تر ہو گیا

حیرتِ اندازِ رہبر ہے عناں گیر اے اسدؔ

نقشِ پائے خضر یاں، سدِّ سکندر ہو گیا







۲۵



دلِ بے تاب کہ سینے میں دمِ چند رہا

بہ دمِ چند، گرفتارِ غمِ چند رہا

زندگی کے ہوئے ناگہ نفس چند تمام

کوچۂ یار جو مجھ سے قدمِ چند رہا

لکھ سکا نہ میں اسے شکوہ پیماں شکنی

لا جرم، توڑ کے، عاجز، قلم چند رہا

الفتِ زر ہمہ نقصان ہے، کہ آخر قارون

زیر بارِ غمِ دام و درم چند رہا

عمر بھر ہوش نہ یک جا ہوئے میرے کہ، اسدؔ

میں پرستندہ روئے صنم چند رہا







۲۶



یک گامِ بے خودی سے لوٹیں بہارِ صحرا

آغوشِ نقشِ پا میں کیجے فشارِ صحرا

وحشت اگر رسا ہے بے حاصلی ادا ہے

پیمانۂ ہوا ہے، مشتِ غبارِ صحرا

اے آبلہ کرم کر، یاں رنجہ یک قدم کر

اے نورِ چشمِ وحشت، اے یادگارِ صحرا

دل در رکابِ صحرا، خانہ خرابِ صحرا

موجِ سرابِ صحرا، عرضِ خمارِ صحرا

ہر ذرہ یک دلِ پاک، آئینہ خانہ بے خاک

تمثالِ شوقِ بے باک، صد جا دو چارِ صحرا

دیوانگی اسدؔ کی حسرت کشِ طرب ہے

سر میں ہوائے گلشن، دل میں غبارِ صحرا



۲۷



تنگی رفیقِ رہ تھی، عدم یا وجود تھا

میرا سفر بہ طالعِ چشمِ حسود تھا

تو یک جہاں قماشِ ہوس جمع کر، کہ میں

حیرت متاعِ عالمِ نقصان و سود تھا

گردش محیطِ ظلم رہا جس قدر، فلک

میں پائے مالِ غمزۂ چشمِ کبود تھا

پوچھا تھا گرچہ یار نے احوالِ دل، مگر

کس کو دماغِ منتِ گفت و شنود تھا

[452]لیتا ہوں، مکتبِ غمِ دل میں، سبق ہنوز

لیکن یہی کہ‘‘رفت‘‘ گیا اور‘‘بود‘‘ تھا

[453]ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی

میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

خور شبنم آشنا نہ ہوا، ورنہ میں اسدؔ

سر تا قدم گزارشِ ذوقِ سجود تھا

٭٭





ردیف ب
۲۸



بس کہ ہے مے خانہ ویراں، جوں بیابانِ خراب

عکسِ چشمِ آہوئے رم خوردہ ہے داغِ شراب

تیرگیِ ظاہری ہے طبعِ آگہ کا نشاں

غافلاں عکسِ سوادِ صفحہ ہے گردِ کتاب

یک نگاہِ صاف، صد آئینۂ تاثیر ہے

ہے رگِ یاقوت عکسِ خطِ جامِ آفتاب

ہے عرق افشاں مشی سے ادہمِ مشکینِ یار

وقتِ شب اختر گنے ہے چشمِ بیدارِ رکاب

ہے شفق سوز جگر کی آگ کی بالیدگی

ہر یک اختر سے فلک پر قطرۂ اشکِ کباب

بس کہ شرمِ عارضِ رنگیں سے حیرت جلوہ ہے

ہے شکستِ رنگِ گل آئینہ پروازِ نقاب

شب کہ تھا نظارگی روئے بتاں کا اے اسدؔ

گر گیا بامِ فلک سے صبح، طشتِ ماہتاب





۲۹



ہے بہاراں میں خزاں پرور خیال عندلیب

رنگِ گل آتش کدہ ہے زیرِ بالِ عندلیب

عشق کو ہر رنگ شانِ حسن ہے مدِ نظر

مصرعِ سروِ چمن ہے حسبِ حالِ عندلیب

حیرتِ حسنِ چمن پیرا سے تیرے رنگِ گل

بسمل ذوقِ پریدن ہے بہ بالِ عندلیب

عمر میری ہو گئی صرفِ بہارِ حسنِ یاد

گردشِ رنگِ چمن ہے ماہ و سالِ عندلیب

منع مت کر حسن کی ہم کو پرستش سے کہ ہے

بادۂ نظارۂ گلشن، حلالِ عندلیب

ہے مگر موقوف بر وقتِ دگر، کارِ اسدؔ

اے شبِ پروانہ و روزِ وصالِ عندلیب





۳۰



دودِ شمعِ کشتۂ گل بزم سامانی عبث

یک شبہ آشفتہ نازِ سنبلستانی عبث

ہے ہوس محمل بہ دوشِ شوخیِ ساقی مست

نشۂ مے کے تصور میں نگہبانی عبث

باز ماندن ہائے مژگاں ہے یک آغوشِ وداع

عید در حیرت سوارِ چشمِ قربانی عبث

جز غبارِ کردہ سیر آہنگیِ پرواز کُو؟

بلبلِ تصویر و دعوائے پر افشانی عبث

سر نوشتِ خلق ہے طغرائے عجزِ اختیار

آرزو ہا خار خارِ چینِ پیشانی عبث

جب کہ نقشِ مدعا ہووے نہ جز موجِ سراب

وادیِ حسرت میں پھر آشفتہ جولانی عبث

دست برہم سودہ ہے مژگانِ خوابیدہ اسدؔ

اے دل از کف دادۂ غفلت پیشمانی عبث





۳۱



نازِ لطفِ عشق با وصفِ توانائی عبث

رنگ ہے سنگِ محک دعوائے مینائی عبث

ناخنِ دخلِ عزیزاں یک قلم ہے نقب زن

پاسبانیِ طلسمِ کنجِ تنہائی عبث

محملِ پیمانۂ فرصت ہے بر دوشِ حباب

دعویِ دریا کشی و نشہ پیمائی عبث

جانِ عاشق حاملِ صد غلبۂ تاثیر ہے

دل کو اے بیداد خو تعلیمِ خارائی عبث

یک نگاہِ گرم ہے، جوں شمع، سر تا پا گداز

بہرِ از خود رفتگاں، رنجِ خود آرائی عبث

قیس بھاگا شہر سے شرمندہ ہو کر سوئے دشت

بن گیا تقلید سے میری یہ سودائی عبث

اے اسدؔ، بے جا ہے نازِ سجدہ، عرض نیاز

عالمِ تسلیم میں یہ دعویٰ آرائی عبث







ردیف ج
۳۲



جنبشِ ہر برگ سے ہے گل کے لب کو اختلاج

حَبِّ شبنم سے صبا ہر صبح کرتی ہے علاج

شاخِ گل جنبش میں ہے گہوارہ آسا ہر نفس

طفلِ شوخِ غنچۂ گل بس کہ ہے وحشی مزاج

سیرِ ملکِ حسن کر، مے خانہ ہا نذرِ خمار

چشمِ مستِ یار سے ہے گردنِ مینا پہ باج

گریہ ہائے بیدلاں گنجِ شرر در آستیں

قہرمانِ عشق میں حسرت سے لیتے ہیں خراج

رنگ ریز جسم و جاں نے، از خمستانِ عدم

خرقۂ ہستی نکالا ہے بہ رنگِ احتیاج

ہے سوادِ چشمِ قربانی میں یک عالم مقیم

حسرتِ فرصت جہاں دیتی ہے حیرت کو رواج

اے اسدؔ، ہے مستعدِ شانہ گیسو شدن

پنجۂ مژگاں بخود بالیدنی رکھتا ہے آج





ردیف چ


۳۳



بیدل، نہ نازِ وحشتِ جیبِ دریدہ کھینچ

جوں بوئے غنچہ، یک نفسِ آرمیدہ کھینچ

یک مشتِ خوں ہے پرتوِ خور سے تمام دشت

دردِ طلب بہ آبلۂ نا دمیدہ کھینچ

پیچیدگی، ہے حاملِ طومارِ انتظار

پائے نظر بہ دامنِ شوقِ دویدہ کھینچ

برقِ بہار سے ہوں میں پا در حنا ہنوز

اے خارِ دشت، دامنِ شوقِ رمیدہ کھینچ

بے خود بہ لطفِ چشمکِ عبرت ہے، چشمِ صید

یک داغِ حسرتِ نفسِ نا کشیدہ کھینچ

بزمِ نظر ہیں بیضۂ طاؤس خلوتاں

فرشِ طرب بہ گلشنِ نا آفریدہ کھینچ

دریا بساطِ دعوتِ سیلاب ہے اسدؔ

ساغر بہ بارگاہِ دماغِ رسیدہ کھینچ


۳۴



قطعِ سفرِ ہستی و آرامِ فنا ہیچ

رفتار نہیں بیشتر از لغزشِ پا ہیچ

حیرت ہمہ اسرار پہ مجبورِ خموشی

ہستی نہیں جز بستنِ پیمانِ وفا ہیچ

تمثال گداز آئینہ، ہے عبرتِ بینش

نظارہ تحیر، چمنسانِ بقا ہیچ

گل زارِ دمیدن، شررستانِ رمیدن

فرصت تپش و حوصلۂ نشو و نما ہیچ

آہنگِ عدم نالہ بہ کہسار گرو ہے

ہستی میں نہیں شوخیِ ایجادِ صدا ہیچ

کس بات پہ مغرور ہے اے عجزِ تمنا؟

سامانِ دعا وحشت و تاثیرِ دعا، ہیچ

آہنگِ اسدؔ میں نہیں جز نغمۂ بیدلؔ

عالم ہمہ افسانۂ ما دارد و ما ہیچ







ردیف د


۳۵



بہ کامِ دل کریں کس طرح گمرہاں فریاد؟

ہوئی ہے، لغزشِ پا، لکنتِ زباں فریاد!

کمالِ بندگیِ گل ہے رہنِ آزادی

ز دستِ مشتِ پر و خارِ آشیاں فریاد

نوازشِ نفسِ آشنا کہاں؟ ورنہ

بہ رنگِ نَے ہے نہاں در ہر استخواں فریاد

تغافل، آئینہ دارِ خموشیِ دل ہے

ہوئی ہے محو بہ تقریبِ امتحاں فریاد

ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم

جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں آباد

جوابِ سنگ دلی ہائے دشمناں، ہمت

ز دست شیشۂ دلی ہائے دوستاں فریاد

ہزار آفت و یک جانِ بے نوائے اسدؔ

خدا کے واسطے، اے شاہِ بے کساں! فریاد




۳۶



بس کہ وہ پا کوبیاں در پردۂ وحشت ہیں یاد

ہے غلافِ دفچۂ خورشید، ہر یک گرد باد

طرفہ موزونی ہے صرفِ جنگجوئی ہائے یار

ہے سرِ مصراعِ صافِ تیغ، خنجر، مستزاد

ہاتھ آیا زخمِ تیغِ یار سا پہلو نشیں

کیوں نہ ہو وے آج کے دن، بے کسی کی روح شاد

کیجے آہوئے ختن کو خضرِ صحرائے طلب

مشک ہے سنبلستانِ زلف ہیں، گردِ سواد

ہم نے سو زخمِ جگر پر بھی زباں پیدا نہ کی

گل ہوا ہے ایک زخمِ سینہ پر خواہانِ داد

بس کہ ہیں در پردہ مصروفِ سیہ کاری تمام

آستر ہے خرقۂ زہاد کا، صوفِ مداد

تیغ در کف، کف بہ لب، آتا ہے قاتل اس طرف

مژدہ باد، اے آرزوئے مرگِ غالبؔ، مژدہ باد





۳۷



تو پست فطرت اور خیالِ بسا بلند

اے طفلِ خود معاملہ، قد سے عصا، بلند

ویرانے سے، جز آمد و رفتِ نفس نہیں

ہے کوچہ ہائے نَے میں، غبار صدا، بلند

رکھتا ہے انتظارِ تماشائے حسنِ دوست

مژگانِ باز ماندہ سے، دستِ دعا، بلند

موقوف کیجیے یہ تکلف نگاریاں

ہوتا ہے، ورنہ، شعلۂ رنگِ حنا، بلند

قربانِ اوج ریزیِ چشمِ حیا پرست

یک آسماں ہے، مرتبۂ پشتِ پا، بلند

ہے دلبری، کمیں گر ایجادِ یک نگاہ

کارِ بہانہ جوئی چشمِ حیا، بلند

بالیدگی نیازِ قدِ جاں فزا، اسدؔ

در ہر نفس، بہ قدرِ نفس ہے قبا، بلند



۳۸

حسرتِ دست گہ و پائے تحمل تا چند؟

رگِ گردن، خطِ پیمانۂ بے مُل تا چند؟

ہے گلیمِ سیہِ بختِ پریشاں کاکل

موئنہ بافتنِ ریشۂ سنبل تا چند؟

کوکبِ بخت، بہ جز روزنِ پر دود نہیں

عینکِ چشمِ جنوں، حلقۂ کاکل تا چند؟

چشم بے خونِ دل، و دل تہی از جوشِ نگاہ

بہ زباں عرضِ فسونِ ہوسِ گُل تا چند؟

بزم داغِ طرب و باغ کشادِ پرِ رنگ

شمع و گل تا کے؟ و پروانہ و بلبل تا چند؟

نالہ دامِ ہوس و دردِ اسیری معلوم

شرحِ بر خود غلطی ہائے تحمل تا چند؟

جوہرِ آئینہ فکرِ سخنِ ہوئے دماغ

عرضِ حسرت، پسِ زانوئے تامل تا چند؟

سادگی ہے عدمِ قدرتِ ایجادِ غنا

نا کسی، آئینۂ نازِ توکل تا چند؟

اسدؔ خستہ، گرفتارِ دو عالم اوہام

مشکل آساں کنِ یک خلق، اے غافل تا چند؟


ردیف ر


۳۹



شیشۂ آتشیں، رخِ پُر نور

عرق از خط چکیدہ، روغنِ مور

بس کہ ہوں بعدِ مرگ بھی نگراں

مردمک سے ہے خال بر لبِ گور

بار لاتی ہے دانہ ہائے سرشک

مژہ ہے ریشۂ رزِ انگور

ظلم کرنا گدائے عاشق پر

نہیں شاہانِ حُسن کا دستور

دوستو، مجھ ستم رسیدہ سے

دشمنی ہے، وصال کا مذکور

زندگانی پہ اعتماد غلط

ہے کہاں قیصرؔ اور کہاں فغفورؔ؟

کیجے، جوں اشک اور قطرہ زنی

اے اسد ؔ، ہے ہنوز دلی دور


۴۰



بس کہ مائل ہے وہ رشکِ ماہتاب آئینے پر

ہے نفس، تارِ شعاعِ آفتاب آئینے پر

بازگشتِ جادہ پیمائے رہِ حیرت کہاں؟

غافلاں غش جان کر، چھڑکے ہیں آب آئینے پر

بدگماں کرتی ہے عاشق کو خود آرائی تری

بے دلوں کو ہے براتِ اضطراب آئینے پر

نازِ خود بینی کے باعث مجرم صد بے گناہ

جوہرِ شمشیر کو ہے پیچ و تاب آئینے پر

ناتوانی نے نہ چھوڑا بس کہ بیش از عکسِ جسم

مفت وا گستردنی ہے، فرشِ خواب آئینے پر

مدعی میرے صفائے دل سے ہوتا ہے خجل

ہے تماشا زشت رویوں کا عتاب آئینے پر

سد اسکندر بنے بہرِ نگاہ گل رخاں

گر کرے یوں امر، نہی بو تراب، آئینے پر

دل کو توڑا جوشِ بے تابی سے، غالبؔ کیا کیا؟

رکھ دیا پہلو بہ وقتِ اضطراب آئینے پر؟


۴۱



دنداں کا خیال، چشمِ تر، کر

ہر دانۂ اشک کو گہر کر

آتی نہیں نیند، اے شبِ تار

افسانۂ زلفِ یار سر کر

اے دل، بہ خیالِ عارض یار

یہ شامِ غم آپ پر سحر کر

ہر چند امیدِ دور تر ہو

اے حوصلے! سعیِ بیشتر کر

میں آپ سے جا چکا ہوں اب بھی

اے بے خبری، اسے خبر کر

افسانہ، اسدؔ، بہ ایں درازی

اے غم زدہ! قصہ مختصر کر





۴۲



بینش بہ سعیِ ضبطِ جنوں، نو بہار تر

دل، در گدازِ نالہ، نگہ آبیار تر

قاتل بہ عزمِ ناز و دل از زخم در گداز

شمشیر آب دار و نگاہ آب دار تر

ہے کسوتِ عروجِ تغافل، کمالِ حسن

چشمِ سیہ بہ مرگِ نگہ، سوگوار تر

سعیِ خرام، کاوشِ ایجادِ جلوہ ہے

جوشِ چکیدنِ عرق، آئینہ کار تر

دہر گرد باد، حلقۂ فتراکِ بے خودی

مجنونِ دشتِ عشق، تحیر شکار تر

اے چرخ! خاک بر سرِ تعمیرِ کائنات

لیکن بنائے عہدِ وفا استوار تر

سمجھا ہوا ہوں عشق میں نقصاں کو فائدہ

جتنا کہ نا امید تر، امید وار تر

آئینہ داغِ حیرت و حیرت شکنجِ یاس

سیماب بے قرار و اسدؔ بے قرار تر


۴۳



دیا یاروں نے بے ہوشی میں درماں کا فریب آخر

ہُوا سکتے سے میں آئینۂ دستِ طبیب آخر

رگِ گل، جادۂ تارِ نگہ سے حد موافق ہے

ملیں گے منزلِ الفت میں ہم اور عندلیب آخر

غرورِ ضبط، وقتِ نزع ٹوٹا بے قراری سے

نیاز پر افشانی ہو گیا صبر و شکیب آخر

ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں

تکلف بر طرف! مل جائے گا تجھ سا رقیب آخر

اسدؔ کی طرح میری بھی بغیر از صبح رخساراں

ہوئی شامِ جوانی، اے دلِ حسرت نصیب، آخر





ردیف ز


۴۴



حسنِ خود آرا کو ہے مشقِ تغافل ہنوز

ہے کفِ مشاطہ میں آئینۂ گل ہنوز

سادگیِ یک خیال، شوخیِ صد رنگ نقش

حیرتِ آئینہ ہے جیبِ تامل ہنوز

سادہ و پرکار تر، غافل و ہشیار تر

مانگے ہے شمشاد سے شانۂ سنبل ہنوز

ساقی و تعلیمِ رنج، محفل و تمکیں گراں

سیلیِ استاد ہے ساغرِ بے مُل ہنوز

شغلِ ہوس در نظر، لیک حیا بے خبر

شاخِ گلِ نغمہ ہے، نالۂ بلبل ہنوز

دل کی صدائے شکست، سازِ طرب ہے اسدؔ

شیشۂ بے بادہ سے چاہے ہے قلقل ہنوز





۴۵



چاکِ گریباں کو ہے ربطِ تامل ہنوز

غنچے میں دل تنگ ہے حوصلۂ گل ہنوز

دل میں ہے سودائے، زلف مستِ تغافل ہنوز

ہے مژہِ خواب ناک ریشۂ سنبل ہنوز

پرورشِ نالہ ہے وحشتِ پرواز سے

ہے تہِ بالِ پری بیضۂ بلبل ہنوز

عشق کمیں گاہِ درد، وحشتِ دل دور گرد

دامِ تہِ سبزہ ہے حلقۂ کاکل ہنوز

لذتِ تقریرِ عشق، پردگیِ گوشِ دل

جوہرِ افسانہ ہے عرضِ تحمل ہنوز

آئینۂ امتحاں، نذرِ تغافل، اسدؔ

شش جہت اسباب ہے وہمِ توکل ہنوز







۴۶



میں ہوں سرابِ یک تپش آموختن ہنوز

زخمِ جگر ہے تشنۂ لب دوختن ہنوز

اے شعلہ فرصتے کہ سویدائے دل سے ہوں

کشتِ سپندِ صد جگر اندوختن ہنوز

فانوسِ شمع ہے کفنِ کشتگانِ شوق

در پردہ ہے معاملۂ سوختن ہنوز

مجنوں، فسونِ شعلہ خرامی فسانہ ہے

ہے شمعِ جادہ داغِ نیفروختن ہنوز

کُویک شرر؟ کہ سازِ چراغاں کروں اسدؔ

بزمِ طرب ہے پردگیِ سوختن ہنوز





۴۷



نہ بندھا تھا بہ عدم نقشِ دلِ مور ہنوز

تب سے ہے یاں دہنِ یار کا مذکور ہنوز

سبزہ ہے نوکِ زبانِ دہنِ گور ہنوز

حسرتِ عرضِ تمنا میں ہوں رنجور ہنوز

صد تجلی کدہ ہے صرفِ جبینِ غربت

پیرہن میں ہے غبارِ شررِ طور ہنوز

زخمِ دل میں ہے نہاں غنچۂ پیکانِ نگار

جلوۂ باغ ہے در پردۂ ناسور ہنوز

پا پُر از آبلہ راہِ طلبِ مے میں ہوا

ہاتھ آیا نہیں یک دانۂ انگور ہنوز

گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی

سر خوشِ خواب ہے وہ نرگسِ مخمور ہنوز

اے اسدؔ، تیرگی بختِ سیہ ظاہر ہے

نظر آتی نہیں صبحِ شبِ دیجور ہنوز





۴۸



کُو بیابانِ تمنا و کجا جولانِ عجز؟

آبلے پا کے ہیں یاں رفتار کو دندانِ عجز

ہو قبولِ کم نگاہی، تحفۂ اہلِ نیاز

اے دل و اے جانِ ناز، اے دین و اے ایمانِ عجز

بوسۂ پا انتخابِ بد گمانی ہائے حسن

یاں ہجومِ عجز سے تا سجدہ ہے جولانِ عجز

حسن کو غنچوں سے ہے پوشیدہ چشمی ہائے ناز

عشق نے وا کی ہے ہر یک خار سے مژگانِ عجز

اضطرابِ نارسائی، مایۂ شرمندگی

ہے عرق ریزیِ خجلت جوششِ طوفانِ عجز

وہ جہاں مسند نشینِ بارگاہِ ناز ہو

قامتِ خوباں، ہو محرابِ نیازستانِ عجز

بس کہ بے پایاں ہے صحرائے محبت، اے اسدؔ ؔ

گرد باد اس راہ کا، ہے عقدۂ پیمانِ عجز





ردیف س


۴۹



دشتِ الفت میں ہے خاکِ کشتگاں محبوس و بس

پیچ و تابِ جادہ ہے، خطِ کفِ افسوس و بس

نیم رنگی ہائے شمع محفلِ خوباں سے ہے

پیچکِ مہ، صرفِ چاکِ پردۂ فانوس و بس

ہے تصور میں نہاں سرمایۂ صد گلستاں

کاسۂ زانو ہے مجھ کو بیضۂ طاؤس و بس

کفر ہے غیر از وفورِ شوق رہبر ڈھونڈھتا

راہِ صحرائے حرم میں ہے، جرس، ناقوس و بس

یک جہاں گل تختۂ مشق شگفتن ہے اسدؔ

غنچۂ خاطر رہا افسردگی مانوس و بس





۵۰



حاصلِ دل بستگی ہے عمرِ کوتہ اور بس

وقفِ عرضِ عقدہ ہائے متصّل تارِ نفس

کیوں نہ طوطیِ طبیعت نغمہ پیرائی کرے

باندھتا ہے رنگِ گل آئینہ تا چاکِ قفس

اے ادا فہماں، صدا ہے تنگیِ فرصت سے خوں

ہے بہ صحرائے تحیر چشمِ قربانی، جرس

تیز تر ہوتا ہے خشمِ تند خویاں عجز سے

ہے رگِ سنگِ فسانِ تیغِ شعلہ، خار و خس

سختیِ راہِ محبت، منعِ دخلِ غیر ہے

پیچ و تابِ جادہ ہے یاں جوہرِ تیغِ عسس

اے اسدؔ ہم خود اسیرِ رنگ و بوئے باغ ہیں

ظاہرا صیّادِ ناداں ہے گرفتارِ ہوس







۵۱



کرتا ہے بہ یادِ بتِ رنگیں دلِ مایوس

رنگِ ز نظر رفتہ حنائے کفِ افسوس

تھا خواب میں کیا جلوہ پرستارِ زلیخا؟

ہے بالشِ دل سوختگاں میں پرِ طاؤس

حیرت سے ترے جلوے کی از بس کہ، ہیں بیکار

خور، قطرۂ شبنم میں ہے جوں شمع بہ فانوس

دریافتنِ صحبتِ اغیار غرض ہے

اے نامہ رساں! نامہ رساں چاہیے جاسوس

ہے مشق، اسدؔ، دستگہِ وصل کی منظور

ہوں خاک نشیں از پئے ادراکِ قدم بوس





ردیف ش


۵۲



بہ اقلیمِ سخن ہے جلوۂ گردِ سواد، آتش

کہ ہے دودِ چراغاں سے، ہیولائے مداد، آتش

اگر مضمون خاکستر کرے دیباچہ آرائی

نہ باندھے شعلۂ جوالہ غیر از گرد باد، آتش

کرے ہے لطفِ اندازِ برہنہ گوئیِ خوباں

بہ تقریبِ نگارش ہائے سطر شعلہ باد آتش

دیا داغِ جگر کو آہ نے ساماں شگفتن کا

نہ ہو بالیدہ، غیر از جنبشِ دامانِ باد، آتش

اسدؔ، قدرت سے حیدر کی، ہوئی ہر گبر و ترسا کو

شرارِ سنگِ بت، بہرِ بنائے اعتقاد، آتش





ردیف غ


۵۳



عشاق اشکِ چشم سے دھوویں ہزار داغ

دیتا ہے اور، جوں گل و شبنم، بہار داغ

جوں چشمِ ، باز ماندہ ہے ہر یک بہ سوئے دل

رکھتا ہے داغِ تازہ کا یاں انتظار، داغ

بے لالہ عارضاں مجھے گل گشتِ باغ میں

دیتی ہے، گرمیِ گل و بلبل، ہزار داغ

جوں اعتماد نامہ و خط کا ہو مہر سے

یوں عاشقوں میں ہے سببِ اعتبار، داغ

ہوتے ہیں محو جلوۂ خور سے، ستارگاں

دیکھ اُس کو دل سے مٹ گئے بے اختیار داغ

وقتِ خیالِ جلوۂ حسنِ بتاں اسدؔ

دکھلائے ہے مجھے دو جہاں لالہ زار داغ





۵۴



بلبلوں کو دور سے کرتا ہے منعِ بارِ باغ

ہے زبانِ پاسباں خارِ سرِ دیوارِ باغ

کون آیا جو چمن بے تاب استقبال ہے؟

جنبشِ موجِ صبا، ہے شوخیِ رفتارِ باغ

میں ہمہ حیرت، جنوں بے تابِ دورانِ خمار

مردمِ چشمِ تماشا، نقطۂ پرکارِ باغ

آتشِ رنگِ رخِ ہر گل کو بخشے ہے فروغ

ہے دمِ سردِ صبا سے، گرمیِ بازارِ باغ

کون گل سے ضعف و خاموشیِ بلبل کہہ سکے؟

نے زبانِ غنچہ، گویا نے زبانِ خارِ باغ

جوشِ گل، کرتا ہے استقبالِ تحریرِ اسدؔ

زیرِ مشقِ شعر، ہے نقش از پئے احضارِ باغ





ردیف ف


۵۵



عیسیِٰ مہرباں ہے شفا ریز یک طرف

درد آفریں ہے طبعِ الم خیز یک طرف

سنجیدنی ہے ایک طرف رنجِ کوہ کن

خوابِ گرانِ خسروِ پرویز یک طرف

خرمن بہ باد دادۂ دعوے ہیں، ہو سو ہو

ہم یک طرف ہیں برقِ شرر بیز، یک طرف

مفتِ دل و جگر خلشِ غمزہ ہائے ناز

کاوش فروشیِ مژہِ تیز یک طرف

ہر مو بدن پہ شہپر پرواز ہے مجھے

بے تابیِ دلِ تپش انگیز یک طرف

یک جانب، اے اسدؔ، شبِ فرقت کا بیم ہے

دامِ ہوس ہے، زلفِ دلاویز، یک طرف





ردیف ک


۵۶



آئے ہیں پارہ ہائے جگر درمیان اشک

لایا ہے لعل بیش بہا، کاروان اشک

ظاہر کرے ہے جنبش مژگاں سے مدعا

طفلانہ ہاتھ کا ہے اشارہ، زبانِ اشک

میں وادیِ طلب میں ہوا جملہ تن غرق

از بس کہ قطرہ زنی تھا بسانِ اشک

رونے نے طاقت اتنی نہ چھوڑی کہ ایک بار

مژگاں کو دوں فشار، پئے امتحانِ اشک

دل خستگاں کو ہے طربِ صد چمن بہار

باغِ بخون تپیدن، و آبِ روانِ اشک

سیل بنائے ہستیِ شبنم ہے آفتاب

چھوڑے نہ چشم میں، تپشِ دل نشانِ اشک

ہنگامِ انتظارِ قدومِ بتاں، اسدؔ

ہے بر سر مژہ نگراں، دید بان اشک


ردیف ل


۵۷



بدر، ہے آئینۂ طاقِ ہلال

غافلاں، نقصان سے پیدا ہے کمال

ہے بہ یادِ زلفِ مشکیں سال و ماہ

روزِ روشن شامِ آں سوئے خیال

بس کہ ہے اصلِ دمیدن ہا، غبار

ہے نہالِ شکوہ، ریحانِ سفال

صافیِ رخ سے ترے، ہنگامِ شب

عکسِ داغِ مہ ہوا عارض پہ خال

نور سے تیرے ہے اس کی روشنی

ورنہ ہے خورشید یک دستِ سوال

شورِ حشر اُس فتنہ قامت کے حضور

سایہ آسا ہو گیا ہے پائمال

ہو جو بلبل پیروِ فکرِ اسد

غنچۂ منقارِ گُل ہو زیرِ بال


۵۸



ہوں بہ وحشت، انتظار آوارۂ دشتِ خیال

اک سفیدی مارتی ہے دور سے، چشمِ غزال

ہے نفس پروردہ، گلشن، کس ہوائے بام کا؟

طوقِ قمری میں ہے، سروِ باغ، ریحانِ سفال

ہم غلط سمجھے تھے، لیکن زخمِ دل پر رحم کر

آخر اس پردے میں تو ہنستی تھی، اے صبحِ وصال

بے کسی افسردہ ہوں، اے ناتوانی، کیا کروں؟

جلوۂ خرشید سے ہے گرم، پہلوئے ہلال

شکوہ درد و درد داغ، اے بے وفا، معذور رکھ

خوں بہائے یک جہاں اُمید ہے، تیرا خیال

عرضِ دردِ بے وفائی، وحشتِ اندیشہ ہے

خوں ہوا دل تا جگر، یا رب زبانِ شکوہ لال

اُس جفا مشرب پہ عاشق ہوں کہ سمجھے ہے، اسدؔ

مالِ سُنّی کو مباح اور خونِ صوفی کو حلال





۵۹



ہر عضو، غم سے ہے شکن آسا شکستہ دل

جوں زلفِ یار، ہوں میں سراپا شکستہ دل

ہے سر نوشت میں رقمِ وا شکستگی

ہوں، جوں خطِ شکستہ، بہر جا شکستہ دل

امواج کی جو یہ شکنیں آشکار ہیں

ہے چشمِ اشک ریز سے، دریا، شکستہ دل

نا سازیِ نصیب و درشتیِ غم سے ہے

امید و نا امید و تمنا شکستہ دل

ہے سنگِ ظلمِ چرخ سے مے خانے میں، اسدؔ

صہبا فتادہ خاطر و مینا شکستہ دل



۶۰

بہرِ عرضِ حالِ شبنم، ہے رقم ایجاد گل

ظاہرا ہے اس چمن میں لالِ مادر زاد، گل

گر کرے انجام کو آغاز ہی میں یاد، گل

غنچے سے منقارِ بلبل وار ہو فریاد، گل

گر بہ بزمِ باغ، کھینچے نقشِ روئے یار کو

شمع ساں ہو جائے قطِّ خامۂ بہزاد، گل

دست رنگیں سے جو رُخ پروا کرے زلفِ رسا

شاخِ گل میں ہو نہاں جوں شانہ در شمشاد گل

سعیِ عاشق ہے فروغ افزائے آبِ روئے کار

ہے شرارِ تیشہ بہرِ تربتِ فرہاد، گل

ہے تصور صافیِ قطعِ نظر از غیرِ یار

لختِ دل سے لاوے ہے، شمعِ خیال آباد، گل

گلشن آبادِ دلِ مجروح میں ہو جائے ہے

غنچۂ پیکانِ شاخِ ناوکِ صیاد، گل

برقِ سامانِ نظر ہے، جلوۂ بے باکِ حسن

شمعِ خلوت خانہ کیجے، ہر چہ بادا باد، گل

خاک ہے عرضِ بہارِ صد نگارستاں، اسدؔ

حسرتیں کرتی ہے، میری خاطرِ آزاد، گل




۶۱



گر چہ ہے یک بیضۂ طاؤس آسا تنگ، دل

ہے چمن سرمایۂ بالیدنِ صد رنگ، دل

بے دلوں سے ہے، تپش، جوں خواہشِ آب از سراب

ہے شرر موہوم، اگر رکھتا ہووے سنگ دل

رشتۂ فہمیدِ ممسک ہے بہ بندِ کوتہی

عقدہ ساں ہے کیسۂ زر پر خیالِ تنگ دل

ہوں ز پا افتادۂ اندازِ یادِ حسنِ سبز

کس قدر ہے نشہ فرسائے خمارِ بھنگ، دل

شوقِ بے پروا کے ہاتھوں مثلِ سازِ نا درست

کھینچتا ہے آج نالے خارج از آہنگ، دل

اے اسد خامُش ہے طوطیِ شکر گفتارِ طبع

ظاہرا رکھتا ہے آئینہ اسیرِ زنگ دل







ردیف م


۶۲



از آنجا کہ حسرت کشِ یار ہیں ہم

رقیبِ تمنّائے دیدار ہیں ہم

رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے[454]

عبث محفل آرائے رفتار ہیں ہم

نفس ہو نہ معزولِ شعلہ درودن

کہ ضبطِ تپش سے شرر کار ہیں ہم

تغافل کمیں گاہِ وحشت شناسی

نگہبانِ دل ہائے اغیار ہیں ہم

تماشائے گلشن تماشائے چیدن

بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم

نہ ذوقِ گریباں، نہ پروائے داماں

نگاہ آشنائے گل و خار ہیں ہم

اسدؔ شکوہ کفرِ دعا نا سپاسی

ہجومِ تمنّا سے لاچار ہیں ہم





۶۳



یاں اشک جدا گرم ہے اور آہ جدا گرم

حسرت کدہ عشق کی ہے آب و ہوا گرم

اس شعلے نے گلگوں کو جو گلشن میں کیا گرم

پھولوں کو ہوئی باد بہاری، وہ ہوا گرم

وا کر سکے یاں کون بہ جز کاوشِ شوخی

جوں برق ہے پیچیدگیِ بندِ قبا گرم

گر ہے سر دریوزگی جلوہ دیدار

جوں پنجہ خرشید ہو، اے دستِ دعا، گرم

یہ آتشِ ہمسایہ کہیں گھر نہ جلا دے

کی ہے دلِ سوزاں نے مرے پہلو میں جا گرم

غیروں سے اسے گرمِ سخن دیکھ کے، غالبؔ

میں رشک سے، جوں آتشِ خاموش، رہا گرم





۶۴



جس دم کہ جادہ وار ہو تارِ نفس تمام

پیمائشِ زمینِ رہِ عمر بس تمام

کیا دے صدا؟ کہ الفتِ گم گشتگاں سے، آہ

ہے سرمہ، گردِ رہ، بہ گلوئے جرس تمام

ڈرتا ہوں کوچہ گردیِ بازارِ عشق سے

ہیں، خارِ راہ، جوہرِ تیغِ عسس تمام

اے بالِ اضطراب! کہاں تک فسردگی؟

یک پر زدن تپش میں ہے، کارِ قفس تمام

گذرا جو آشیاں کا تصور بہ وقتِ بند

مژگانِ چشمِ دام ہوئے، خار و خس تمام

کرنے نہ پائے ضعف سے شورِ جنوں، اسدؔ

اب کے بہار کا یہیں گزرا برس تمام





ردیف ن


۶۵



[455]اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں

ہے حیا مانعِ اظہار۔ کہوں یا نہ کہوں

نہیں کرنے کا میں تقریر ادب سے باہر

میں بھی ہوں واقفِ اسرار۔ کہوں یا نہ کہوں

شکوہ سمجھو اسے یا کوئی شکایت سمجھو

اپنی ہستی سے ہوں بیزار۔ کہوں یا نہ کہوں

اپنے دل ہی سے میں احوالِ گرفتاریِ دل

جب نہ پاؤں کوئی غم خوار، کہوں یا نہ کہوں

دل کے ہاتھوں سے، کہ ہے دشمنِ جانی اپنا

ہوں اک آفت میں گرفتار۔ کہوں یا نہ کہوں

میں تو دیوانہ ہوں اور ایک جہاں ہے غمّاز

گوش ہیں در پسِ دیوار۔ کہوں یا نہ کہوں

آپ سے وہ مرا احوال نہ پوچھے تو اسدؔ

حسبِ حال اپنے پھر اشعار کہوں یا نہ کہوں


۶۶



مجلس شعلہ عذاراں میں جو آ جاتا ہوں

شمع ساں میں تہہ دامان صبا جاتا ہوں

ہووے ہے، جادہ راہ، رشتہ گوہر ہر گام

جس گزرگاہ سے میں آبلہ پا جاتا ہوں

سر گراں مجھ سے سُبک رو کے، نہ، رہنے سے رہو

کہ بہ یک جنبش لب، مثل صدا جاتا ہوں







۶۷



جس جا کہ پائے سیلِ بلا درمیاں نہیں

دیوانگاں کو واں ہوسِ خانماں نہیں

کس جرم سے ہے چشم تجھے حسرتِ قبول

برگِ حنا مگر مژہِ خوں فشاں نہیں

ہر رنگ گردش، آئینہ ایجادِ درد ہے

اشکِ سحاب، جز بوداعِ خزاں، نہیں

جز عجز کیا کروں بہ تمنائے بے خودی!

طاقت، حریفِ سختیِ خوابِ گراں نہیں

عبرت سے پوچھ دردِ پریشانیِ نگاہ

یہ گردِ وہم جز بسرِ امتحاں نہیں

گل، غنچگی میں غرقۂ دریائے رنگ ہے

اے آگہی، فریبِ تماشا کہاں نہیں

برقِ بجانِ حوصلہ آتش فگن، اسدؔ

اے دل فسردہ! طاقتِ ضبطِ فغاں نہیں





۶۸



مرگِ شیریں ہو گئی تھی کوہ کن کی فکر میں

تھا، حریرِ سنگ سے، قطعِ کفن کی فکر میں

فرصتِ یک چشمِ حیرت، شش جہت آغوش ہے

ہوں سپند آسا وداعِ انجمن کی فکر میں

وہ غریبِ وحشت آبادِ تسلی ہوں، جسے

کوچہ دے ہے زخمِ دل، صبحِ وطن کی فکر میں

سایۂ گل داغ و جوشِ نکہتِ گل موجِ دُود

رنگ کی گرمی ہے تاراجِ چمن کی فکر میں

فالِ ہستی، خار خارِ وحشتِ اندیشہ ہے

شوخیِ سوزن ہے ساماں پیرہن کی فکر میں

غفلتِ دیوانہ، جز تمہیدِ آگاہی نہیں

مغزِ سر، خوابِ پریشاں ہے، سخن کی فکر میں

مجھ میں اور مجنوں میں، وحشت سازِ دعویٰ ہے، اسدؔ

برگ برگِ بید ہے ناخن زدن کی فکر میں





۶۹



اے نوا سازِ تماشا، سر بہ کف جلتا ہوں میں

یک طرف جلتا ہے دل اور یک طرف جلتا ہوں میں

شمع ہوں، لیکن بپا در رفتہ خارِ جستجو

مدعا گم کردہ، ہر سو، ہر طرف جلتا ہوں میں

ہے، مساسِ دستِ افسوس، آتش انگیزِ تپش

بے تکلف آپ پیدا کر کے تف جلتا ہوں میں

ہے تماشا گاہِ سوزِ تازہ، ہر یک عضوِ تن

جوں چراغانِ دوالی، صف بہ صف جلتا ہوں میں

شمع ہوں، تو بزم میں جا پاؤں غالبؔ کی طرح

بے محل، اے مجلس آرائے نجف! جلتا ہوں میں







۷۰

فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں

بہ رنگِ جادہ، سرِ کوئے یار رکھتے ہیں

برہنہ مستیِ صبحِ بہار رکھتے ہیں

جنونِ حسرتِ یک جامہ دار رکھتے ہیں

طلسمِ مستیِ دل آں سوئے ہجومِ سرشک

ہم ایک مے کدہ دریا کے پار رکھتے ہیں

ہمیں، حریرِ شرر بافِ سنگ، خلعت ہے

یہ ایک پیرہنِ زرنگار رکھتے ہیں

نگاہِ دیدۂ نقشِ قدم ہے جادۂ راہ

گزشتگاں، اثرِ انتظار رکھتے ہیں

ہوا ہے، گریۂ بے باک، ضبط سے تسبیح

ہزار دل پہ ہم ایک اختیار رکھتے ہیں

بساطِ ہیچ کسی میں، بہ رنگِ ریگِ رواں

ہزار دل بہ وداعِ قرار رکھتے ہیں

بہ رنگ سایہ سروکارِ انتظار نہ پوچھ

سراغِ خلوتِ شب ہائے تار رکھتے ہیں

جنونِ فرقتِ یارانِ رفتہ ہے، غالبؔ

بسانِ دشت، دلِ پُر غبار رکھتے ہیں


۷۱



بہ غفلت عطرِ گل، ہم آگہی مخمور، مَلتے ہیں

چراغانِ تماشا، چشمِ صد ناسور مَلتے ہیں

رہا کس جرم سے میں بے قرارِ داغِ ہم طرحی؟

سمندر کو پرِ پروانہ سے کافور مَلتے ہیں

چمن نا محرمِ آگاہیِ دیدارِ خوباں ہے

سحر گل ہائے نرگس چند چشمِ کور مَلتے ہیں

کجا جوہر؟ چہ عکسِ خط؟ بتاں، وقتِ خود آرائی

دلِ آئینہ زیرِ پائے خیلِ مور مَلتے ہیں

تماشائے بہار آئینۂ پردازِ تسلی ہے

کفِ گل برگ سے پائے دلِ رنجور مَلتے ہیں

گراں جانی سبک سار، و تماشا بے دماغ آیا

کفِ افسوسِ فرصت، سنگِ کوہِ طور مَلتے ہیں

اسد ؔ حیرت کشِ یک داغِ مشک اندودہ ہے، یا رب

لباسِ شمع پر عطرِ شبِ دیجور مَلتے ہیں





۷۲



خوں در جگر نہفتہ، بہ زردی رسیدہ ہوں

خود آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ ہوں

ہے دستِ رد بہ سیرِ جہاں، بستنِ نظر

پائے ہوس بہ دامنِ مژگاں کشیدہ ہوں

میں چشم وا کشادہ و گلشن نظر فریب

لیکن عبث کہ شبنمِ خرشید دیدہ ہوں

تسلیم سے یہ نالۂ موزوں ہوا حصول

اے بے خبر، میں نغمۂ چنگِ خمیدہ ہوں

پیدا نہیں ہے اصلِ تگ و تازِ جستجو

مانندِ موجِ آب، زبانِ بریدہ ہوں

سر پر مرے وبالِ ہزار آرزو رہا

یا رب، میں کس غریب کا بختِ رمیدہ ہوں

میں بے ہنر کہ جوہرِ آئینہ تھا، عبث

پائے نگاہِ خلق میں خارِ خلیدہ ہوں

میرا نیاز و عجز ہے مفتِ بتاں، اسدؔ

یعنی کہ بندۂ بہ درم نا خریدہ ہوں





۷۳



سودائے عشق سے دمِ سردِ کشیدہ ہوں

شامِ خیالِ زلف سے صبحِ دمیدہ ہوں

دورانِ سر سے گردشِ ساغر ہے متصل

خمخانۂ جنوں میں دماغِ رسیدہ ہوں

کی متصل ستارہ شماری میں عمر، صرف

تسبیحِ اشک ہائے ز مژگاں چکیدہ ہوں

ظاہر ہیں مری شکل سے افسوس کے نشاں

خارِ الم سے، پشت بہ دنداں گزیدہ ہوں

دیتا ہوں کشتگاں کو سخن سے سرِ تپش

مضرابِ تار ہائے گلوئے بریدہ ہوں

ہے جنبشِ زباں بدہن سخت ناگوار

خونابۂ ہلاہلِ حسرت چشیدہ ہوں

جوں بوئے گل، ہوں گر چہ گرانبارِ مشتِ زر

لیکن، اسدؔ، بہ وقتِ گزشتن جریدہ ہوں





۷۴



ہوئی ہیں آب، شرمِ کوششِ بے جا سے، تدبیریں

عرق ریزِ تپش ہیں، موج کی مانند، زنجیریں

خیالِ سادگی ہائے تصور، نقشِ حیرت ہے

پرِ عنقا پہ رنگِ رفتہ سے کھینچی ہیں تصویریں

ز بس ہر شمع یاں آئینۂ حیرت پرستی ہے

کرے ہیں غنچۂ منقارِ طوطی نقش گل گیریں

سپند، آہنگیِ ہستی و سعیِ نالہ فرسائی

غبار آلودہ ہیں، جوں دودِ شمعِ کشتہ، تقریریں

ہجومِ سادہ لوحی، پنبۂ گوشِ حریفاں ہے

وگرنہ خواب کی مضمر ہیں افسانے میں، تعبیریں

بتانِ شوخ کی تمکینِ بعد از قتل کی حیرت

بیاضِ دیدۂ نخچیر پر کھینچے ہے تصویریں

اسدؔ، طرزِ عروجِ اضطرابِ دل کو کیا کہیے

سمجھتا ہوں تپش کو الفتِ قاتل کی تاثیریں





۷۵



بے دماغی، حیلہ جوئے ترکِ تنہائی نہیں

ورنہ کیا موجِ نفس، زنجیرِ رسوائی نہیں؟

وحشیِ خو کردۂ نظارہ ہے، حیرت، جسے

حلقۂ زنجیر، جز چشمِ تماشائی نہیں

قطرے کو جوشِ عرق کرتا ہے دریا دستگاہ

جز حیا، پر کارِ سعیِ بے سروپائی نہیں

چشمِ نرگس میں نمک بھرتی ہے شبنم سے، بہار

فرصتِ نشو و نما، سازِ شکیبائی نہیں

کس کو دوں، یا رب، حسابِ سوز ناکی ہائے دل؟

آمد و رفتِ نفس، جز شعلہ پیمائی نہیں

مت رکھ، اے انجام غافل! سازِ ہستی پر غرور

چیونٹی کے پر، سر و برگِ خود آرائی نہیں

سایۂ افتادگی بالین و بستر ہوں، اسدؔ

جوں صنوبر، دل سراپا قامت آرائی نہیں





۷۶



ظاہرا سر پنجۂ افتادگاں گیرا نہیں

ورنہ کیا حسرت کشِ دامن پہ نقشِ پا نہیں

آنکھیں پتھرائی نہیں، نا محسوس ہے تارِ نگاہ

ہے زمیں از بس کہ سنگیں جادہ بھی پیدا نہیں

ہو چکے ہم جادہ ساں صد بار قطع اور پھر ہنوز

زینتِ یک پیرہن جوں دامنِ صحرا نہیں

ہو سکے ہے، پردۂ جوشیدنِ خونِ جگر

اشک، بعدِ ضبط، غیر از پنبۂ مینا نہیں

ہو سکے کب کلفتِ دل، مانعِ طوفانِ اشک

گردِ ساحل، سنگِ راہِ جوششِ دریا نہیں

ہے طلسمِ دہر میں، صد حشرِ پاداشِ عمل

آگہی غافل، کہ یک امروز بے فردا نہیں

بسمل اس تیغِ دو دستی کا نہیں بچتا، اسدؔ

عافیت بیزار، ذوقِ کعبتین اچھا نہیں





۷۷



ضمانِ جادہ رویاندن ہے خطِ جامِ مے نوشاں

وگرنہ منزلِ حیرت سے کیا وقف ہیں مدہوشاں؟

نہیں ہے ضبط، جز مشاطگی ہائے غم آرائی

کہ میلِ سرمہ چشمِ داغ میں ہے، آہِ خاموشاں

بہ ہنگامِ تصور ساغرِ زانو سے پیتا ہوں

مئے کیفیتِ خمیازہ ہائے صبح آغوشاں

نشانِ روشنیِ دل نہاں ہے تیرہ بختوں کا

نہیں محسوس، دودِ مشعلِ بزمِ سیہ پوشاں

پریشانی، اسدؔ، در پردہ ہے سامانِ جمیعت

کہ آبادیِ صحرا، ہجومِ خانہ بر دوشاں





۷۸



نہیں ہے بے سبب قطرے کو، شکلِ گوہر، افسردن

گرہ ہے حسرتِ آبے بروئے کار آورن

مہ نو سے ہے، رہزن وار، نعلِ واژگوں باندھا

نہیں ممکن بہ جولاں ہائے گردوں دخلِ پے بردن

خمارِ ضبط سے بھی نشۂ اظہار پیدا ہے

تراوش شیرہ انگور کی ہے مفتِ افشردن

خراب آبادِ غربت میں عبث، افسوسِ ویرانی

گل از شاخِ دور افتادہ ہے نزدیکِ پژمردن

فغان و آہ سے حاصل بہ جز دردِ سرِ یاراں

خوشا! اے غفلت آگاہاں، نفس دزدیدن و مردن

دریغا! بستنِ رختِ سفر سے ہوکے میں غافل

رہا پامالِ حسرت ہائے فرشِ بزم گستردن

اسدؔ، ہے طبع مجبورِ تمنا آفرینی ہا

فغاں! بے اختیاری و فریبِ آرزو خوردن





۷۹



دیکھیے مت چشمِ کم سے سوئے ضبط افسردگاں

جوں صدف پُر دُر ہیں، دنداں در جگر افشردگاں

گرمِ تکلیفِ دلِ رنجیدہ ہے از بس کہ، چرخ

قرصِ کافوری ہے، مہر، از بہرِ سرما خوردگاں

رنجشِ دل یک جہاں ویراں کرے گی، اے فلک

دشت ساماں ہے، غبارِ خاطرِ آزردگاں

ہاتھ پر ہو ہاتھ، تو درسِ تاسف ہی سہی

شوق مفتِ زندگی ہے، اے بہ غفلت مُردگاں

خار سے گل سینہ افگارِ جفا ہے، اے اسدؔ

برگ ریزی ہے پر افشانیِ ناوک خوردگاں




۸۰



سازشِ صلحِ بتاں میں ہے نہاں جنگیدن

نغمہ و چنگ، ہیں جوں تیر و کماں فہمیدن

بس کہ شرمندہ بوئے خوشِ گل رویاں ہے

نکہتِ گل کو ہے غنچے میں نفس دزدیدن

ہے فروغِ رخِ افروختہ خوباں سے

شعلہ شمع، پر افشانِ بہ خود لرزیدن

گلشنِ زخم کھلاتا ہے جگر میں، پیکاں

گرہِ غنچہ ہے، سامانِ چمن بالیدن

چمنِ دہر میں ہوں سبزہ بیگانہ، اسدؔ

وائے! اے بے خودی و تہمت آرامیدن





۸۱



طاؤس نمط، داغ کے گر رنگ نکالوں

یک فردِ نسب نامۂ نیرنگ نکالوں

کُو تیزیِ رفتار؟ کہ صحرا سے زمیں کو

جوں قمریِ بسمل، تپش آہنگ نکالوں

دامانِ شفق، طرفِ نقابِ مہِ نو ہے

ناخن کو جگر کاوی میں بے رنگ نکالوں

کیفیتِ دیگر ہے، فشارِ دلِ خونیں!

یک غنچہ سے صد خُمِ مے گل رنگ نکالوں

پیمانۂ وسعت کدۂ شوق ہوں، اے رشک

محفل سے مگر شمع کو دل تنگ نکالوں

گر ہو بلدِ شوق مری خاک کو وحشت

صحرا کو بھی گھر سے کئی فرسنگ نکالوں

فریاد! اسدؔ غفلتِ رسوائیِ دل سے

کس پردے میں فریاد کی آہنگ نکالوں





۸۲



کیا ضعف میں امید کو دل تنگ نکالوں؟

میں خار ہوں، آتش میں چبھوں، رنگ نکالوں

نے کوچۂ رسوائی و زنجیر پریشاں

کس پردے میں فریاد کی آہنگ نکالوں

یک نشو و نما جا نہیں جولانِ ہوس کو

ہر چند بہ مقدارِ دلِ تنگ نکالوں

گر جلوۂ خورشید خریدارِ وفا ہو

جوں ذرۂ صد آئینہ بے زنگ نکالوں

افسردۂ تمکیں ہے، نفس گرمی احباب

پھر شیشے سے عطرِ شررِ سنگ نکالوں

ضعف، آئینہ پردازیِ دستِ دگراں ہے

تصویر کے پردے میں مگر رنگ نکالوں

ہے غیرتِ الفت کہ، اسدؔ، اُس کی ادا پر

گر دیدہ و دل صلح کریں، جنگ نکالوں





۸۳



بہ قدرِ لفظ و معنی، فکرت احرامِ گریباں ہیں

وگرنہ کیجیے جو ذرہ عریاں، ہم نمایاں ہیں

عروجِ نشۂ واماندگی پیمانہ محمل تر

بہ رنگِ ریشۂ تاک، آبلے جادے میں پنہاں ہیں

بہ وحشت گاہِ امکاں اتفاقِ چشم مشکل ہے

مہ و خورشید باہم سازِ یک خوابِ پریشاں ہیں

طلسمِ آفرینش، حلقۂ یک بزمِ ماتم ہے

زمانے کے، شبِ یلدا سے، موئے سر پریشاں ہیں

یہ کس بے مہر کی تمثال کا ہے جلوہ سیمابی

کہ مثلِ ذرہ ہائے خاک، آئینے پر افشاں ہیں

نہ انشا معنیِ مضموں، نہ املا صورتِ موزوں

عنایت نامہ ہائے اہلِ دنیا، ہرزہ عنواں ہیں

مگر آتش ہمارا کوکبِ اقبال چمکاوے

وگرنہ، مثلِ خارِ خشک، مردودِ گلستاں ہیں

اسد ؔ، بزمِ تماشا میں تغافل پردہ داری ہے

اگر ڈھانپے، تو آنکھیں ڈھانپ، ہم تصویرِ عریاں ہیں


۸۴



پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں

میرے ہاتھوں کو جدا باندھتے ہیں

آہ کا، کس نے، اثر دیکھا ہے؟

ہم بھی ایک اپنی ہوا باندھتے ہیں

حسنِ افسردہ دلی ہا رنگیں

شوق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں

تیرے بیمار پہ ہیں فریادی

وہ جو کاغذ میں دوا باندھتے ہیں

قید میں بھی ہے، اسیری، آزاد

چشمِ زنجیر کو وا باندھتے ہیں

شیخ جی کعبے کا جانا معلوم

آپ مسجد میں گدھا باندھتے ہیں

کس کا دل زلف سے بھاگا؟ کہ اسدؔ

دستِ شانہ بہ قفا باندھتے ہیں







ردیف و


۸۵



منقار سے رکھتا ہوں بہم چاکِ قفس کو

تا گل ز جگر زخم میں ہے راہِ نفس کو

بے باک ہوں از بس کہ بہ بازارِ محبت

سمجھا ہوں زرہ جوہرِ شمشیرِ عسس کو

رہنے دو گرفتار بہ زندانِ خموشی

چھیڑو نہ مجھ افسردہ دزدیدہ نفس کو

پیدا ہوئے ہیں ہم الم آبادِ جہاں میں

فرسودنِ پائے طلب و دستِ ہوس کو

نالاں ہو، اسدؔ، تو بھی سرِ راہ گزر پر

کہتے ہیں کہ تاثیر ہے فریادِ جرس کو





۸۶



اگر وہ آفتِ نظارہ جلوہ گستر ہو

ہلال، ناخنکِ دیدہ ہائے اختر ہو

بہ یادِ قامت، اگر ہو بلند آتشِ غم

ہر ایک داغِ جگر، آفتابِ محشر ہو

ستم کشی کا، کیا دل نے، حوصلہ پیدا

اب اُس سے ربط کروں جو بہت ستم گر ہو

عجب نہیں، پئے تحریرِ حالِ گریۂ چشم

بہ روئے آب جو، ہر موج، نقشِ مسطر ہو

امیدوار ہوں، تاثیرِ تلخ کامی سے

کہ قندِ بوسۂ شیریں لباں مکرر ہو

صدف کی، ہے ترے نقشِ قدم میں، کیفیّت

سرشکِ چشمِ اسدؔ، کیوں نہ اس میں گوہر ہو





۸۷



بے درد سر بہ سجدۂ الفت فرو نہ ہو

جوں شمع غوطہ داغ میں کھا، گر وضو نہ ہو

دل دے کفِ تغافلِ ابروئے یار میں

آئینہ ایسے طاق پہ گم کر کہ تو نہ ہو

زلفِ خیال نازک و اظہار بے قرار

یا رب، بیان شانہ کشِ گفتگو نہ ہو

تمثالِ ناز، جلوۂ نیرنگِ اعتبار

ہستی عدم ہے، آئینہ گر روبرو نہ ہو

مژگاں خلیدۂ رگِ ابرِ بہار ہے

نشتر بہ مغز، پنبۂ مینا فرو نہ ہو

عرضِ نشاطِ دید ہے، مژگانِ انتظار

یا رب کہ خارِ پیرہنِ آرزو نہ ہو

واں پر فشانِ دامِ نظر ہوں جہاں، اسدؔ

صبحِ بہار بھی، قفسِ رنگ و بو نہ ہو





۸۸



مبادا! بے تکلف فصل کا برگ و نوا گم ہو

مگر طوفانِ مے میں پیچشِ موجِ صبا گم ہو

سبب وارستگاں کو ننگِ ہمت ہے، خداوندا

اثر سرمے سے اور لب ہائے عاشق سے صدا گم ہو

نہیں جز درد، تسکینِ نکوہش ہائے بے درداں

کہ موجِ گریہ میں صد خندۂ دنداں نما گم ہو

ہوئی ہے ناتوانی، بے دماغِ شوخیِ مطلب

فرو ہوتا ہے سر سجدے میں اے دست دعا گم ہو

تجھے ہم مفت دیویں یک جہاں چینِ جبیں، لیکن

مباد، اے پیچ تابِ طبع، نقشِ مدّعا گم ہو

بلا گردانِ تمکینِ بتاں، صد موجۂ گوہر

عرق بھی جن کے عارض پر بہ تکلیفِ حیا گم ہو

اُٹھا وے کب وہ جانِ شرم تہمت قتلِ عاشق کی

کہ جس کے ہاتھ میں، مانندِ خوں، رنگِ حنا گم ہو

کریں خوباں جو سیرِ حسن، اسدؔ، یک پردہ ناز ک تر

دمِ صبحِ قیامت، در گریبانِ قبا گم ہو


۸۹



خشکیِ مے نے تلف کی مے کدے کی آبرو

کاسۂ دریوزہ ہے، پیمانۂ دستِ سبو

بہرِ جاں پروردنِ یعقوب، بالِ چاک سے

وام لیتے ہیں پرِ پرواز، پیراہن کی بو

گردِ ساحل، ہے نمِ شرمِ جبینِ آشنا

گر نہ باندھے قلزمِ الفت میں سر، جائے کدو

گرمیِ شوقِ طلب، ہے عین تا پاکِ وصال

غافلاں، آئینہ داں ہے، نقشِ پائے جستجو

رہن خاموشی میں ہے، آرائشِ بزمِ وصال

ہے پرِ پروازِ رنگِ رفتۂ خوں، گفتگو

ہے تماشا، حیرت آبادِ تغافل ہائے شوق

یک رگِ خواب و سراسر جوشِ خونِ آرزو

خوئے شرمِ سرد بازاری، ہے سیلِ خانماں

ہے، اسدؔ نقصاں میں مفت اور صاحبِ سرمایہ تو





۹۰



رنگِ طرب ہے صورتِ عہدِ وفا گرو

تھا کس قدر شکستہ کہ ہے جا بجا گرو

پروازِ نقد، دامِ تمنائے جلوہ تھا

طاؤس نے اک آئینہ خانہ رکھا گرو

عرضِ بساطِ انجمنِ رنگ مفت ہے

موجِ بہار رکھتی ہے اک بوریا گرو

ہر ذرّہ خاک، عرضِ تمنائے رفتگاں

آئینہ ہا شکستہ، و تمثال ہا گرو

ہے تاک میں سلم ہوسِ صد قدح شراب

تسبیحِ زاہداں، بہ کفِ مدعا گرو

برق آبیارِ فرصتِ رنگِ دمیدہ ہوں

جوں نخلِ شمع، ریشے میں نشو و نما گرو

طاقت، بساطِ دستگہِ یک قدم نہیں

جوں اشک، جب تلک نہ رکھوں دست و پا گرو

ہے وحشتِ جنونِ بہار اس قدر کہ ہے

بالِ پری، بہ شوخیِ موجِ صبا گرو

بے تابِ سیرِ دل ہے سرِ ناخنِ نگار

یاں نعل ہے بہ آتشِ رنگِ حنا گرو

ہوں سخت جانِ کاوشِ فکرِ سخن اسدؔ

تیشے کی، کوہسار میں ہے، یک صدا گرو





ردیف ہ
۹۱



اشکِ چکیدہ، رنگِ پریدہ

ہر طرح ہوں میں از خود رمیدہ

گو، یاد مجھ کو کرتے ہیں خوباں

لیکن بسانِ دردِ کشیدہ

ہے رشتہ جاں فرطِ کشش سے

مانندِ نبضِ دستِ بریدہ

ٹوٹا ہے، افسوس! موئے خمِ زلف

ہے شانہ یکسر دستِ گزیدہ

خالِ سیاہ رنگیں رخاں سے

ہے داغِ لالہ در خوں تپیدہ

جوشِ جنوں سے جوں کسوتِ گل

سر تا بہ پا ہوں جیبِ دریدہ

یارو، اسدؔ کا نام و نشان کیا؟

بیدل، فقیرِ آفت رسیدہ


۹۲



خوشا! طوطی و کنجِ آشیانہ

نہاں در زیرِ بال آئینہ خانہ

سرشکِ بر زمیں افتادہ آسا

اٹھا یاں سے نہ میرا آب و دانہ

حریفِ عرضِ سوزِ دل نہیں ہے

زباں ہر چند ہو جاوے زبانہ

دلِ نالاں سے ہے بے پردہ پیدا

نوائے بربط و چنگ و چغانہ

کرے کیا دعویِ آزادیِ عشق

گرفتارِ الم ہائے زمانہ

اسدؔ، اندیشہ ششدر شدن ہے

نہ پھریے مہرہ ساں خانہ بہ خانہ





۹۲



رفتار سے شیرازۂ اجزائے قدم باندھ

اے آبلے! محمل پئے صحرائے عدم باندھ

بے کاریِ تسلیم، بہر رنگ چمن ہے

گر خاک ہو، گلدستۂ صد نقشِ قدم باندھ

اے جادے بہ سر رشتۂ یک ریشہ دویدن

شیرازۂ صد آبلہ جوں سبحہ بہم باندھ

حیرت، حدِ اقلیمِ تمنائے پری ہے

آئینے پہ آئینِ گلستانِ ارم باندھ

پامردِ یک انداز نہیں، قامتِ ہستی

طاقت اگر اعجاز کرے، تہمتِ خم باندھ

دیباچۂ وحشت ہے، اسدؔ، شکوۂ خوباں

خوں کر دلِ اندیشہ و مضمونِ ستم باندھ







۹۴



خلق ہے صفحۂ عبرت سے سبق نا خواندہ

ورنہ ہے چرخ و زمیں یک ورقِ گرداندہ

دیکھ کر بادہ پرستوں کی دل افسردگیاں

موجِ مے، مثلِ خطِ جام، ہے بر جا ماندہ

خواہشِ دل ہے زباں کو سببِ گفت و بیاں

ہے، سخن، گرد ز دامانِ ضمیر افشاندہ

کوئی آگاہ نہیں باطنِ ہم دیگر سے

ہے، ہر اک فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ

حیف! بے حاصلیِ اہلِ ریا پر، غالبؔ

یعنی ہیں ماندہ ازاں سو و ازیں سو راندہ





۹۵



بس کہ مے پیتے ہیں اربابِ فنا پوشیدہ

خطِ پیمانۂ مے، ہے نفسِ دزدیدہ

بہ غرورِ طرحِ قامت و رعنائیِ سرو

طوق ہے گردنِ قمری میں رگِ بالیدہ

کی ہے وا اہلِ جہاں نے بہ گلستانِ جہاں

چشمِ غفلت نظرِ شبنمِ خور نادیدہ

اے دریغا! کہ نہیں طبعِ نزاکت ساماں

ورنہ کانٹے میں تُلے ہے سخنِ سنجیدہ

یاس آئینۂ پیدائیِ استغنا ہے

نا امیدی ہے پرستارِ دلِ رنجیدہ

واسطے فکرِ مضامینِ متیں کے، غالبؔ

چاہیے خاطرِ جمع و دلِ آرامیدہ





۹۶



جوشِ دل ہے مجھ سے حسنِ فطرتِ بیدل نہ پوچھ

قطرے سے مے خانہ دریائے بے ساحل نہ پوچھ

پہنِ گشتن ہائے دل بزمِ نشاطِ گردِ باد

لذتِ عرضِ کشادِ عقدۂ مشکل نہ پوچھ

آبلہ پیمانۂ اندازۂ تشویش تھا

اے دماغِ نارسا! خم خانۂ منزل نہ پوچھ

نے صبا بالِ پری، نے شعلہ سامانِ جنوں

شمع سے جز عرضِ افسونِ گدازِ دل نہ پوچھ

یک مژہ برہم زدن، حشرِ دو عالم فتنہ ہے

یاں سراغِ عافیت، جز دیدۂ بسمل نہ پوچھ

بزم ہے یک پنبۂ مینا، گدازِ ربط سے

عیش کر، غافل، حجابِ نشۂ محفل نہ پوچھ

تا تخلص جامۂ شنگرفی ارزانی، اسدؔ

شاعری جز سازِ درویشی نہیں، حاصل نہ پوچھ





۹۷



شکوہ و شکر کو ثمر بیم و امید کا سمجھ

خانۂ آگہی خراب! دل نہ سمجھ، بلا سمجھ

ریگِ روان و ہر تپش درسِ تسلّیِ شعاع

آئینہ توڑ، اے خیال جلوے کو خوں بہا سمجھ

وحشتِ دردِ بے کسی، بے اثر اس قدر نہیں

رشتۂ عمرِ خضر کو نالۂ نا رسا سمجھ

شوقِ عناں گسل اگر درسِ جنوں ہوس کرے

جادۂ سیرِ دو جہاں، یک مژہ خوابِ پا سمجھ

گاہ بہ خلد امیدوار، گہ بہ جحیم بیم ناک

گرچہ خدا کی یاد ہے، کلفتِ ماسوا سمجھ

شوخیِ حسن و عشق ہے آئینہ دارِ ہم دگر

خار کو بے نیام جان، ہم کو برہنہ پا سمجھ

اے بہ سرابِ حسنِ خلق تشنۂ سعیِ امتحاں

شوق کو منفعل نہ کر، ناز کو التجا سمجھ

نغمۂ بے دلاں، اسدؔ، سازِ فسانگی نہیں

بسملِ دردِ خفتہ ہوں، گریے کو ماجرا سمجھ




۹۸



کلفتِ ربطِ این و آں، غفلتِ مدعا سمجھ

شوق کرے جو سرگراں، محملِ خوابِ پا سمجھ

جلوہ نہیں ہے دردِ سر، آئینہ صندلی نہ کر

عکس کجا و کُو نظر؟ نقش کو مدّعا سمجھ

حیرت اگر خرام ہے، کارِ نگہ تمام ہے

گر کفِ دست بام ہے، آئنے کو ہوا سمجھ

ہے خطِ عجزِ ما و تُو، اولِ درسِ آرزو

ہے یہ سیاقِ گفتگو، کچھ نہ سمجھ، فنا سمجھ

شیشہ شکست اعتبار، رنگ بہ گردش استوار

گر نہ مٹیں یہ کوہسار، آپ کو تو صدا سمجھ

نغمہ ہے، محوِ ساز رہ، نشہ ہے، بے نیازِ رہ

رندِ تمام ناز رہ، خلق کو پارسا سمجھ

چربیِ پہلوئے خیال، رزقِ دو عالم احتمال

کل ہے جو وعدۂ وصال، آج بھی، اے خدا، سمجھ

نے سرو برگِ آرزو، نے رہ و رسمِ گفتگو

اے دل و جانِ خلق، تو ہم کو آشنا سمجھ

لغزشِ پا کو ہے بلد، نغمۂ‘‘یا علی مدد‘‘

ٹوٹے گر آئینہ، اسدؔ، سبحہ کو خوں بہا سمجھ







ردیف ی


۹۹



کرے ہے رہرواں سے خضرِ راہِ عشق جلادی

ہوا ہے موجۂ ریگِ رواں شمشیرِ فولادی

نظر بندِ تصور ہے قفس میں، لطفِ آزادی

شکستِ آرزو کے رنگ کی کرتا ہوں صیادی

کرے ہے حسنِ ویراں کار رُوئے سادہ رویاں پر

غبارِ خط سے تعمیرِ بنائے خانہ بربادی

چنار آسا عدم سے با دلِ پُر آتش آیا ہوں

تہی آغوشیِ دشتِ تمنا کا ہوں فریادی

اسدؔ، از بس کہ فوجِ درد و غم سرگرمِ جولاں ہے

غبارِ راہ ویرانی ہے ملکِ دل کی آبادی





۱۰۰



یہ سر نوشت میں میری ہے، اشک افشانی

کہ موجِ آب ہے، ہر ایک چینِ پیشانی

جنونِ وحشتِ ہستی، یہ عام ہے کہ بہار

رکھے ہے کسوتِ طاؤس میں پر افشانی

لبِ نگار میں آئینہ دیکھ، آبِ حیات

بہ گمرہیِ سکندر ہے، محوِ حیرانی

نظر بہ غفلتِ اہلِ جہاں، ہوا ظاہر

کہ عیدِ خلق پہ حیراں ہے چشمِ قربانی

کہوں وہ مصرعِ برجستہ وصفِ قامت میں

کہ سرو ہو نہ سکے اُس کا مصرعِ ثانی

اسدؔ نے کثرتِ دل ہائے خلق سے جانا

کہ زلفِ یار ہے مجموعۂ پریشانی





۱۰۱



بے خود زِ بس خاطرِ بے تاب ہو گئی

مژگانِ باز ماندہ، رگِ خواب ہو گئی

موجِ تبسمِ لب آلودۂ مسی

میرے لیے تو تیغِ سیہ تاب ہو گئی

رخسارِ یار کی جو کھلی جلوہ گستری

زلفِ سیاہ بھی، شبِ مہتاب ہو گئی

بیدادِ انتظار کی طاقت نہ لا سکی

اے جانِ بر لب آمدہ، بے تاب ہو گئی

غالؔب، زِ بس کہ سوکھ گئے چشم میں سرشک

آنسو کی بوند گوہرِ نایاب ہو گئی





۱۰۲



دریوزۂ ساماں ہا، اے بے سر و سامانی

ایجادِ گریباں ہا، در پردۂ عریانی

تمثالِ تماشا ہا، اقبالِ تمنا ہا

عجزِ عرقِ شرمے، اے آئینہ حیرانی

دعوائے جنوں باطل، تسلیم عبث حاصل

پروازِ فنا مشکل، میں عجزِ تن آسانی

بیگانگیِ خو ہا، موجِ رمِ آہو ہا

دامِ گلۂ اُلفت، زنجیرِ پشیمانی

پرواز تپش رنگی، گل زار ہمہ تنگی

خوں ہو قفسِ دل میں، اے ذوقِ پر افشانی

سنگ آمد و سخت آمد، دردِ سرِ خود داری

معذورِ سبکساری، مجبورِ گراں جانی

گل زارِ تمنا ہوں، گل چینِ تماشا ہوں

صد نالہ اسدؔ! بلبل در بندِ زباں دانی





۱۰۳



دلا، عبث ہے تمنائے خاطر افروزی

کہ بوسۂ لبِ شیریں ہے اور گلو سوزی

طلسمِ آئینہ زانوئے فکر ہے، غافل

ہنوز حسن کو ہے، سعیِ جلوہ اندوزی

ہوئی ہے سوزشِ دل، بس کہ داغِ بے اثری

اُگی ہے دودِ جگر سے شبِ سیہ روزی

بہ پَر فشانیِ پروانۂ چراغِ مزار!

کہ بعدِ مرگ بھی ہے لذتِ جگر سوزی

تپش تو کیا، نہ ہوئی مشقِ پر فشانی بھی

رہا میں ضعف سے شرمندۂ نو آموزی

اسدؔ! ہمیشہ پئے کفشِ پائے سیم تناں

شعاعِ مہر سے کرتا ہے چرخ زر دوزی





۱۰۴



خبر نگہ کو، نگہ چشم کو عدو جانے

وہ جلوہ کر، کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے

نفس بہ نالہ رقیب و نگہ بہ اشک عدو

زیادہ اُس سے گرفتار ہوں کہ تو جانے

بہ کسوتِ عرقِ شرم قطرہ زن ہے خیال

مباد، حوصلہ معذورِ جستجو جانے

جنوں فسردۂ تمکیں ہے، کاش! عہدِ وفا

گدازِ حوصلہ کو پاسِ آبرو جانے

نہ ہووے کیوں کہ اُسے فرض قتلِ اہلِ وفا

لہو میں ہاتھ کے بھرنے کو جو وضو جانے

زباں سے عرضِ تمنائے خامشی معلوم

مگر وہ خانہ بر انداز گفتگو جانے

مسیحِ کشتۂ اُلفت ببر علی خاں ہے

کہ جو، اسدؔ! تپشِ نبضِ آرزو جانے





۱۰۵



اگر گُل حسن و اُلفت کی بہم جو شیدنی جانے

پرِ بلبل کے افسردن کو دامن چیدنی جانے

فسونِ حُسن سے ہے، شوخیِ گلگونہ آرائی

بہار، اس کی کفِ مشاطہ میں بالیدنیجانے

نوائے بلبل و گل، پاسبانِ بے دماغی ہے

بہ یک مژگانِ خوباں، صد چمن خوابیدنی جانے

زہے! شب زندہ دارِ انتظارستاں، کہ وحشت سے

مژہ، پیچک میں مہ کی سوزن آسا، چیدنی جانے

خوشا! مستی، کہ جوشِ حیرتِ اندازِ قاتل سے

نگہ، شمشیر میں جوں جوہر، آرامیدنی جانے

جفا شوخ و ہوس گستاخِ مطلب ہے، مگر عاشق

نفس، در قالبِ خشتِ لحد دزدیدنی جانے

نوائے طائرانِ آشیاں گم کردہ آتی ہے

تماشا ہے کہ رنگِ رفتہ بر گردیدنی جانے

اسدؔ! جاں نذرِ الطافے کہ ہنگامِ ہم آغوشی

زبانِ ہر سرِ مُو، حالِ دل پرسیدنی جانے




۱۰۶



گلستاں، بے تکلف پیشِ پا افتادہ مضموں ہے

جو تو باندھے کفِ پا پر حنا، آئینہ موزوں ہے

بہارِ گلِ دماغِ نشۂ ایجادِ مجنوں ہے

ہجومِ برق سے، چرخ و زمیں، یک قطرۂ خوں ہے

رجوعِ گریہ سوئے دل، خوشا! سرمایۂ طوفاں

بر انگشتِ حسابِ اشک، ناخن، نعلِ واژوں ہے

عدم وحشت سراغ و ہستی آئیں بندِ رنگینی

دماغِ دو جہاں پر، سنبل و گل، یک شبے خوں ہے

تماشا ہے علاجِ بے دماغی ہائے دل، غافل

سویدا مردمِ چشمِ پری، نظّارہ افسوں ہے

فنا، کرتی ہے زائل سر نوشتِ کلفتِ ہستی

سحر، از بہرِ شست و شوئے داغِ ماہ، صابوں ہے

اسدؔ! ہے آج مژگانِ تماشا کی حنا بندی

چراغانِ نگاہ و شوخیِ اشکِ جگر گوں ہے





۱۰۷



دیکھتا ہوں وحشتِ شوقِ خروش آمادہ سے

فالِ رسوائی، سرشکِ سر بہ صحرا دادہ سے

دام گر سبزے میں پنہاں کیجیے طاؤس ہو

جوشِ نیرنگِ بہارِ عرضِ صحرا دادہ سے

آمدِ سیلابِ طوفانِ صدائے آب ہے

نقشِ پا، جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے

بزمِ مے، وحشت کدہ ہے کس کی چشمِ مست کا؟

شیشے میں، نبضِ پری، پنہاں ہے موجِ بادہ سے

خیمۂ لیلیٰ سیاہ و خانۂ مجنوں خراب

جوشِ ویرانی ہے عشقِ داغ بیروں دادہ سے

بزمِ ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم، اسدؔ

دیکھتے ہیں چشمِ از خوابِ عدم نہ کشادہ سے





۱۰۸



اے خیالِ وصل، نادر ہے مے آشامی تری

پختگی ہائے کبابِ دل ہوئی خامی تری

رچ گیا جوشِ صفائے زلف کا، اعضا میں، عکس

ہے نزاکت جلوہ، اے ظالم، سیہ فامی تری

برگ ریزی ہائے گل، ہے وضعِ زر افشاندنی

باج لیتی ہے گلستاں سے گل اندامی تری

بس کہ ہے عبرت ادیبِ یاوگی ہائے ہوس

میرے کام آئی دلِ مایوس ناکامی تری

ہم نشینیِ رقیباں، گرچہ ہے سامانِ رشک

لیکن اس سے ناگوارا تر ہے بدنامی تری

تجھ کو، اے غفلت نسب پروائے مشتاقاں کہاں

یاں نگہ آلودہ ہے دستارِ بادامی تری

سر بہ زانوئے کرم رکھتی ہے شرمِ ناکسی

اے اسدؔ! بے جا نہیں ہے غفلت آرامی تری





۱۰۹



چشمِ گریاں، بسملِ شوقِ بہارِ دید ہے

اشک ریزی، عرضِ بال افشانیِ امید ہے

دامنِ گردوں میں رہ جاتا ہے ہنگامِ وداع

گوہرِ شب تاب، اشکِ دیدۂ خرشید ہے

رتبۂ تسلیمِ خلت مشرباں، عالی سمجھ

چشمِ قربانی، گلِ شاخِ ہلالِ عید ہے

کچھ نہیں حاصل تعلق میں بغیر از کشمکش

اے خوشا! رندے کہ مرغِ گلشنِ تجرید ہے

کثرتِ اندوہ سے حیران و مضطر ہے اسدؔ

یا علی، وقتِ عنایات و دمِ تائید ہے





۱۱۰



نظر پرستی و بے کاری و خود آرائی

رقیبِ آئینہ ہے، حیرتِ تماشائی

ز خود گزشتنِ دل، کاروانِ حیرت ہے

نگہ، غبارِ ادب گاہِ جلوہ فرمائی

نہیں ہے حوصلہ، پامردِ کثرتِ تکلیف

جنونِ ساختہ، حرزِ فسونِ دانائی

بہ چشم درشدہ مژگاں، ہے جوہرِ رگِ خواب

نہ پوچھ نازکیِ وحشتِ شکیبائی

خرابِ نالۂ بلبل، شہیدِ خندۂ گل

ہنوز دعویِ تمکین و بیمِ رسوائی

شکستِ سازِ خیال، آں سوئے گریوۂ غم

ہنوز نالہ پر افشانِ ذوقِ رعنائی

ہزار قافلۂ آرزو، بیاباں مرگ

ہنوز محملِ حسرت بہ دوشِ خود رائی

وداعِ حوصلہ، توفیقِ شکوہ، عجزِ وفا

اسدؔ ہنوز، گمانِ غرورِ دانائی!


۱۱۱



نگہ اُس چشم کی، افزوں کرے ہے نا توانائی

پرِ بالش ہے وقتِ دید، مژگانِ تماشائی

شکستِ قیمتِ دل، آں سوئے عذرِ شناسائی

طلسمِ نا اُمیدی ہے، خجالت گاہِ پیدائی

پرِ طاؤس ہے نیرنگِ داغِ حیرت انشائی

دو عالم دیدۂ بسمل چراغاں جلوہ پیمائی

تحیّر ہے گریباں گیرِ ذوقِ جلوہ پیرائی

ملی ہے جوہرِ آئینہ کو، جوں بخیہ گیرائی

شرارِ سنگ سے پا در حنا گلگونِ شیریں ہے

ہنوز اے تیشۂ فرہاد، عرضِ آتشیں پائی

غرورِ دستِ رد نے شانہ توڑا فرقِ ہُدہُد پر

سلیمانی، ہے ننگِ بے دماغانِ خود آرائی

جنوں افسردہ و جاں ناتواں، اے جلوہ شوخی کر

گئی یک عمرِ خود داری بہ استقبالِ رعنائی

نگاہِ عبرت افسوں، گاہ برق و گاہ مشعل ہے

ہوا ہر خلوت و جلوت سے حاصل، ذوقِ تنہائی

جنونِ بے کسی ساغر کشِ داغِ پلنگ آیا

شرر کیفیتِ مے، سنگ محوِ نازِ مینائی

خدایا، خوں ہو رنگِ امتیاز اور نالہ موزوں ہو

جنوں کو سخت بیتابی ہے، تکلیف شکیبائی

خراباتِ جنوں میں ہے، اسدؔ، وقتِ قدح نوشی

بہ عشقِ ساقیِ کوثر، بہارِ بادہ پیمائی







۱۱۲



روتا ہوں بس کہ در ہوسِ آرمیدگی

جوں گوہر، اشک کو ہے فرامش چکیدگی

بر خاک اوفتادگیِ کشتگانِ عشق

ہے سجدہ سپاسِ بمنزل رسیدگی

انسان نیاز مندِ ازل ہے کہ جوں کماں

مطلب ہے ربط سے رگ و پے کی خمیدگی

ہے بسملِ ادائے چمن عارضاں، بہار

گلشن کو رنگِ گل سے ہے در خوں تپیدگی

دیکھا نہیں ہے ہم نے بہ عشقِ بتاں، اسدؔ

غیر از شکستہ حالی و حسرت کشیدگی





۱۱۳



نہ چھوڑ و محفلِ عشرت میں جا، اے میکشاں، خالی

کمیں گاہِ بلا ہے، ہو گیا شیشہ، جہاں خالی

نہ دوڑا ریشہ دیوانگی صحنِ بیاباں میں

کہ تارِ جادہ سے ہے لُجۂ ریگِ رواں خالی

دکانِ ناوکِ تاثیر ہے، از خود تہی ماندن

سراسر عجز ہو، کر خانہ مانندِ کماں خالی

محبت، ہے نوا سازِ فغاں در پردہ دل ہا

کرے ہے مغز سے مانند نے کے استخواں خالی

عبث ہے، خطِ ساغر جلوہ، طوقِ گردنِ قمری

مئے الفت سے ہے مینائے سروِ بوستاں خالی

نہ پھولو ریزشِ اعداد کی قطرہ فشانی پر

عزیزاں، ہے بہ رنگِ صفر جامِ آسماں خالی

اسدؔ، ہنستے ہیں میرے گریہ ہائے زار پر مردم

بھرا ہے دہر بے دردی سے، دل کیجئے کہاں خالی



۱۱۴

وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی؟

ہستی کو لفظِ معنیِ عنقا کرے کوئی

لختِ جگر سے ہے، رگِ ہر خار، شاخِ گل

تا چند باغبانیِ صحرا کرے کوئی

جو کچھ ہے، محوِ شوخیِ ابروئے یار ہے

آنکھوں کو رکھ کے طاق پہ دیکھا کرے کوئی

ہر سنگ و خشت، ہے صدفِ گوہرِ شکست

نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی

ہے وحشتِ طبیعت ایجاد، یاس خیز

یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی

ناکامیِ نگاہ، ہے برقِ نظارہ سوز

تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

عرضِ سرشک پر ہے، فضائے زمانہ، تنگ

صحرا کہاں کہ دعوتِ دریا کرے کوئی

خوانا نہیں ہے خط رقم اضطرار کا

تدبیرِ پیچ تابِ نفس کیا کرے کوئی

وہ شوخ اپنے حسن پہ مغرور ہے، اسدؔ

دکھلا کے اس کو آئینہ توڑا کرے کوئی


۱۱۵



پھونکتا ہے نالہ ہر شن شب صور اسرافیل کی

ہم کو جلدی ہے، مگر تو نے قیامت ڈھیل کی

کی ہیں کس پانی سے یاں یعقوب نے آنکھیں سفید

ہے جو آبی پیرہن، ہر موج رودِ نیل کی

عرش پر تیرے قدم سے ہے، دماغِ گردِ راہ

آج تنخواہِ شکستن ہے کُلہ جبریل کی

مدعا در پردہ، یعنی جو کہوں باطل سمجھ

وہ فرنگی زادہ کھاتا ہے قسم انجیل کی

خیر خواہِ دید ہوں از بہرِ دفعِ چشم زخم

کھینچتا ہوں اپنی آنکھوں میں سلائی نیل کی

نالہ کھینچا ہے، سراپا داغِ جرأت ہوں، اسدؔ

کیا سزا ہے میرے جرمِ آرزو تاویل کی؟





ردیف ے


۱۱۶



بے تابیِ یادِ دوست، ہم رنگِ تسلی ہے

غافل، تپشِ مجنوں، محمل کشِ لیلی ہے

کلفت کشیِ ہستی، بدنامِ دو رنگی ہے

یاں تیرگیِ اختر، خالِ رخِ زنگی ہے

دیدن ہمہ بالیدن، کردن ہمہ افسردن

خوشتر ز گل و غنچہ، چشم و دلِ ساقی ہے

وہمِ طربِ ہستی، ایجادِ سیہ مستی

تسکیں دہِ صد محفل، یک ساغرِ خالی ہے

زندانِ تحّمل میں مہمانِ تغافل ہیں

بے فائدہ یاروں کو فرقِ غم و شادی ہے

ہو وے نہ غبارِ دل تسلیمِ زمیں گیراں

مغرور نہ ہو، ناداں، سر تا سرِ گیتی ہے

رکھ فکرِ سخن میں تو معذور مجھے، غالبؔ

یاں زورقِ خود داری، طوفانیِ معنی ہے




۱۱۷





صبح سے معلوم، آثارِ ظہورِ شام، ہے

غافلاں، آغازِ کار، آئینۂ انجام ہے

بس کہ ہے صیاد راہِ عشق میں محوِ کمیں

جادۂ رہ سر بہ سر، مژگانِ چشمِ دام ہے

بس کہ تیرے جلوۂ دیدار کا ہے اشتیاق

ہر بتِ خرشید طلعت، آفتابِ بام ہے

مستعدِ قتلِ یک عالم ہے جلاّدِ فلک

کہکشاں موجِ شفق میں تیغِ خوں آشام ہے

کیا کمالِ عشق نقص آبادِ گیتی میں ملے

پختگی ہائے تصور، یاں خیالِ خام ہے

ہو جہاں، وہ ساقیِ خرشید رُو، مجلس فروز

واں، اسد، ؔ تارِ شعاعِ مہر خطِّ جام ہے





۱۱۸



مژہ، پہلوئے چشم، اے جلوۂ ادراک باقی ہے

ہوا وہ شعلہ داغ اور شوخیِ خاشاک باقی ہے

چمن میں کچھ نہ چھوڑا تو نے غیر از بیضۂ قمری

عدم میں، بہرِ فرقِ سرو، مشتِ خاک باقی ہے

گدازِ سعیِ بینش شست و شوئے نقشِ خود کامی

سراپا شبنم آئیں، یک نگاہِ پاک باقی ہے

ہوا ترکِ لباسِ زعفرانی دل کشا، لیکن

ہنوز آفت نسب یک خندہ، یعنی چاک، باقی ہے

چمن زارِ تمنا ہو گئی صرفِ خزاں، لیکن

بہارِ نیم رنگِ آہِ حسرت ناک باقی ہے

نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی

مری محفل میں غالبؔ گردشِ افلاک باقی ہے







۱۱۹

صبا لگا وہ طمانچہ طرف سے بلبل کے

کہ روئے غنچہ سوئے آشیاں پھر جائے


۱۲۰



دیکھ وہ برقِ تبسم، بس کہ، دل بے تاب ہے

دیدہ گریاں میرا، فوارہ سیماب ہے

کھول کر دروازۂ مے خانہ، بولا مے فروش

اب شکست توبہ مے خواروں کو فتح الباب ہے





۱۲۱



ضبط سے، جوں مردمک، اسپند اقامت گیر ہے

مجمرِ بزمِ فسردن، دیدۂ نخچیر ہے

آشیاں بندِ بہارِ عیش ہوں ہنگامِ قتل

یاں پرِ پروازِ رنگِ رفتہ، بالِ تیر ہے

ہے جہاں فکرِ کشیدن ہائے نقشِ روئے یار

ماہتابِ ہالہ پیرا گردۂ تصویر ہے

وقتِ حسن افروزیِ زینت طرازاں، جائے گل

ہر نہالِ شمع میں اک غنچۂ گل گیر ہے

گریے سے بندِ محبت میں ہوئی نام آوری

لخت لختِ دل، مکینِ خانۂ زنجیر ہے

ریزشِ خونِ وفا ہے جرعہ نوشی ہائے یار

یاں گلوئے شیشۂ مے، قبضۂ شمشیر ہے

جو بہ شامِ غم چراغِ خلوتِ دل تھا، اسدؔ

وصل میں وہ سوز، شمعِ مجلسِ تقریر ہے





۱۲۲



اک گرم آہ کی، تو ہزاروں کے گھر جلے

رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم، ’’جگر جلے‘‘

[456]پروانے کا نہ غم ہو تو پھر کس لیے اسدؔ

ہر رات شمع شام سے لے تا سحر جلے





۱۲۳



ہر رنگِ سوز، پردۂ یک ساز ہے مجھے

بال سمندر، آئینۂ ناز ہے مجھے

طاؤسِ خاک، حسنِ نظر باز ہے مجھے

ہر ذرہ، چشمکِ نگہِ ناز ہے مجھے

آغوشِ گل ہے آئینۂ ذرّہ ذرّہ خاک

عرضِ بہار، جوہرِ پرداز ہے مجھے

ہے بوئے گل غریبِ تسلی گہِ وطن

ہر جزوِ آشیاں، پرِ پرواز ہے مجھے

ہے جلوۂ خیال، سویدائے مردمک

جوں داغ، شعلہ سر خطِ آغاز ہے مجھے

وحشت بہارِ نشّہ و گل ساغرِ شراب

چشمِ پری، شفق کدۂ راز ہے مجھے

فکرِ سخن بہانۂ پردازِ خامشی

دودِ چراغ، سرمۂ آواز ہے مجھے

ہے خامہ فیضِ بیعتِ بیدل بہ کف، اسدؔ

یک نیستاں قلمروِ اعجاز ہے مجھے


۱۲۴



آنکھوں میں انتظار سے جاں پر شتاب ہے

آتا ہے آ، وگرنہ یہ پا در رکاب ہے

حیراں ہوں، دامنِ مژہ کیوں جھاڑتا نہیں

خط صفحۂ عذار پہ گردِ کتاب ہے

جوں نخلِ ماتم، ابر سے مطلب نہیں مجھے

رنگِ سیاہِ نیل، غبارِ سحاب ہے

ممکن نہیں کہ ہو دلِ خوباں میں کارگر

تاثیر جستن اشک سے نقش بر آب ہے

ظاہر ہے، طرزِ قید سے، صیاد کی غرض

جو دانہ دام میں ہے، سو اشکِ کباب ہے

بے چشمِ دل نہ کر ہوسِ سیرِ لالہ زار

یعنی یہ ہر ورق، ورقِ انتخاب ہے

دیکھ، اے اسدؔ! بہ دیدہ باطن کہ ظاہرا

ہر ایک ذرہ غیرتِ صد آفتاب ہے





۱۲۵



جنوں رسوائیِ وارستگی؟ زنجیر بہتر ہے

بہ قدرِ مصلحت دل بستگی، تدبیر بہتر ہے

خوشا خود بینی و تدبیر و غفلت نقد اندیشہ

بہ دینِ عجز اگر بد نامیِ تقدیر بہتر ہے

کمالِ حسن اگر موقوفِ اندازِ تغافل ہو

تکلف بر طرف، تجھ سے تری تصویر بہتر ہے

دلِ آگاہ تسکیں خیزِ بے دردی نہ ہو یا رب!

نفس آئینہ دارِ آہِ بے تاثیر بہتر ہے

خدایا، چشم تا دل درد ہے، افسونِ آگاہی!

نگہ، حیرت سوادِ خوابِ بے تعبیر بہتر ہے

درونِ جوہرِ آئینہ، جوں برگِ حنا، خوں ہے

بتاں، نقشِ خود آرائی، حیا تحریر بہتر ہے

تمنا ہے، اسدؔ! قتلِ رقیب اور شکر کا سجدہ

دعائے دل بہ محرابِ خمِ شمشیر بہتر ہے





۱۲۶



تر جبیں رکھتی ہے، شرمِ قطرہ سامانی مجھے

موجِ گردابِ حیا ہے، چینِ پیشانی مجھے

شبنم آسا کُو مجالِ سبحہ گردانی مجھے؟

ہے، شعاعِ مہر، زنارِ سلیمانی مجھے

بلبلِ تصویر ہوں بے تابِ اظہارِ تپش

جنبشِ نالِ قلم، جوشِ پریشانی مجھے

ضبطِ سوزِ دل ہے وجہِ حیرتِ اظہارِ حال

داغ ہے مُہرِ دہن، جوں چشمِ قربانی مجھے

شوخ، ہے مثلِ حباب از خویش بیروں آمدن

ہے گریباں گیرِ ، فرصت ذوقِ عریانی مجھے

وا کیا ہرگز نہ میرا عقدۂ تارِ نفس

ناخنِ بریدہ ہے تیغِ صفاہانی مجھے

ہوں ہیولائے دو عالم، صورتِ تقریر، اسدؔ

فکر نے سونپی خموشی کی گریبانی مجھے





۱۲۷



کاوشِ دزدِ حنا پوشیدہ افسوں ہے مجھے

ناخنِ انگشتِ خوباں، لعلِ واژوں ہے مجھے

ریشۂ شہرت دوانیدن ہے، رفتن زیرِ خاک

خنجرِ جلاد، برگِ بیدِ مجنوں، ہے مجھے

ساقیا! دے ایک ہی ساغر میں سب کو مے، کہ آج

آرزوئے بوسۂ لب ہائے مے گوں ہے مجھے

ہو گئے باہم دگر، جوشِ پریشانی سے، جمع

گردشِ جامِ تمنا، دورِ گردوں، ہے مجھے

دیکھ لی جوشِ جوانی کی ترقّی بھی کہ اب

بدر کے مانند، کاہش روز افزوں ہے مجھے

غنچگی ہے، بر نفس پیچیدنِ فکر، اے اسدؔ!

وا شگفتن ہائے دل در رہنِ مضموں ہے مجھے





۱۲۸



دیکھ تری خوئے گرم، دل بہ تپش رام ہے

طائرِ سیماب کو، شعلہ، رگِ دام ہے

شوخیِ چشمِ حبیب، فتنۂ ایام ہے

قسمتِ بختِ رقیب، گردشِ صد جام ہے

جلوۂ بینش پناہ بخشے ہے ذوقِ نگاہ

کعبۂ پوشش سیاہ مردمک احرام ہے

کُو نفس و چہ غبار؟ جرأتِ عجز آشکار

در تپش آبادِ شوق، سرمہ، صدا نام ہے

غفلتِ افسردگی، تہمتِ تمکیں نہ ہو

اے ہمہ خوابِ گراں، حوصلہ بدنام ہے

بزمِ وداعِ نظر، یاس طربِ نامہ بر

فرصتِ رقصِ شرر، بوسہ بہ پیغام ہے

گریۂ طوفاں رکاب، نالۂ محشر عناں

بے سر و ساماں اسدؔ! فتنہ سر انجام ہے





۱۲۹



بس کہ سودائے خیالِ زلف، وحشت ناک ہے

تا دلِ شب، آبنوسی شانہ آسا، چاک ہے

یاں، فلاخن باز، کس کا نالۂ بے باک ہے؟

جادہ تا کہسار، موئے چینیِ افلاک ہے

ہے دو عالم ناز یک صیدِ شہِ دُلدل سوار

یاں، خطِ پرکارِ ہستی، حلقۂ فتراک ہے

خلوتِ بال و پرِ قمری میں وا کر راہِ شوق

جادۂ گلشن، بہ رنگِ ریشہ، زیرِ خاک ہے

عیش گرمِ اضطراب و اہلِ غفلت سرد مہر

دورِ ساغر، یک گلستاں برگ ریزِ تاک ہے

عرضِ وحشت پر ہے، نازِ ناتوانی ہائے دل

شعلۂ بے پردہ، چینِ دامنِ خاشاک ہے

ہے کمندِ موجِ گل، فتراکِ بے تابی، اسدؔ

رنگ یاں بُو سے، سوارِ توسنِ چالاک ہے





۱۳۰



کوشش، ہمہ بے تابِ تردد شکنی ہے

صد جنبشِ دل، یک مژہ برہم زدنی ہے

گو حوصلہ پامردِ تغافل نہیں، لیکن

خاموشیِ عاشق، گلۂ کم سخنی ہے

دی لطفِ ہوا نے بہ جنوں، طرفہ نزاکت

تا آبلہ، دعوائے تنک پیرہنی ہے

رامش گرِ اربابِ فنا، نالۂ زنجیر

عیشِ ابد، از خویش بروں تا ختنی ہے

از بس کہ ہے محوِ بہ چمن تکیہ زدن پا

گل برگ، پرِ بالشِ سروِ چمنی ہے

آئینہ و شانہ، ہمہ دست و ہمہ زانو

اے حسن، مگر حسرتِ پیماں شکنی ہے

فریاد، اسدؔ، بے نگہی ہائے بتاں سے

سچ کہتے ہیں، واللہ، کہ اللہ غنی ہے





۱۳۱



کاشانۂ ہستی کہ بر انداختنی ہے

یاں سوختنی اور وہاں ساختنی ہے

ہے شعلۂ شمشیرِ فنا، حوصلہ پرداز

اے داغِ تمنا، سپر انداختنی ہے

جز خاک بہ سر کردنِ بے فائدہ حاصل؟

ہر چند بہ میدانِ ہوس تاختنی ہے

اے بے ثمراں! حاصلِ تکلیفِ دمیدن

گردن، بہ تماشائے گل، افراختنی ہے

ہے سادگیِ ذہن، تمنائے تماشا

جائے کہ، اسدؔ، رنگِ چمن باختنی ہے





۱۳۲



حکمِ بے تابی نہیں اور آرمیدن منع ہے

باوجودِ مشقِ و حشت ہا، رمیدن منع ہے

شرم، آئینہ تراشِ جبۂ طوفان ہے

آب گردیدن روا، لیکن چکیدن منع ہے

بے خودی، فرمان روائے حیرت آبادِ جنوں

زخم دوزی جرم و پیراہن دریدن منع ہے

مژدۂ دیدار سے رسوائیِ اظہار دُور

آج کی شب، چشمِ کوکب تک پریدن منع ہے

بیمِ طبعِ نازکِ خوباں سے، وقتِ سیرِ باغ

ریشۂ زیرِ زمیں کو بھی دویدن منع ہے

یار معذورِ تغافل ہے، عزیزاں شفقتے!

نالۂ بلبل بہ گوشِ گل شنیدن منع ہے

مانعِ بادہ کشی ناداں ہے، لیکن، اسدؔ

بے ولائے ساقیِ کوثر کشیدن منع ہے





۱۳۳



چار سوئے عشق میں صاحب دکانی مفت ہے

نقد ہے داغِ دل اور آتش زبانی مفت ہے

زخمِ دل پر باندھیے حلوائے مغزِ استخواں

تن درستی فائدہ اور ناتوانی مفت ہے

نقدِ انجم تا بکے از کیسہ بیروں ریختن؟

یعنی، اے پیرِ فلک، شامِ جوانی مفت ہے

گر نہیں پاتا درونِ خانہ، ہر بیگانہ، جا

بر درِ نکشودۂ دل، پاسبانی مفت ہے

چوں کہ بالائے ہوس پر ہر قبا کوتاہ ہے

بر ہوس ہائے جہاں دامن فشانی مفت ہے

یک نفس، ہر یک نفس، جاتا ہے قسطِ عمر میں

حیف ہے اُن کو جو سمجھیں زندگانی مفت ہے

مال و جاہ دست و پا بے زر خریدہ ہیں، اسدؔ

پس بہ دل ہائے دگر راحت رسانی مفت ہے



۱۳۴

گدائے طاقتِ تقریر ہے، زباں، تجھ سے

کہ خامشی کو ہے پیرایۂ بیاں تجھ سے

فسردگی میں ہے فریادِ بے دلاں تجھ سے

چراغِ صبح و گلِ موسمِ خزاں تجھ سے

بہارِ حیرتِ نظارہ، سخت جانی ہے

حنائے پائے اجل، خونِ کشتگاں، تجھ سے

پری بہ شیشہ و عکسِ رخ اندر آئینہ

نگاہِ حیرتِ مشاطہ، خوں فشاں تجھ سے

طراوتِ سحر ایجادی اثر یک سُو

بہارِ نالہ و رنگینیِ فغاں تجھ سے

چمن چمن گلِ آئینہ در کنارِ ہوس

امید، محوِ تماشائے گلستاں تجھ سے

نیاز، پردۂ اظہارِ خود پرستی ہے

جبینِ سجدہ فشاں تجھ سے، آستاں تجھ سے

بہانہ جوئیِ رحمت، کمیں گرِ تقریب

وفائے حوصلہ و رنجِ امتحاں تجھ سے

اسدؔ طلسمِ قفس میں رہے، قیامت ہے

خرام تجھ سے، صبا تجھ سے، گلستاں تجھ سے


۱۳۵



شکلِ طاؤس، گرفتار بنایا ہے مجھے

ہوں وہ گل دام کہ سبزے میں چھپایا ہے مجھے

پرِ طاؤس، تماشا نظر آیا ہے مجھے

ایک دل تھا کہ بہ صد رنگ دکھایا ہے مجھے

عکسِ خط، تا سخنِ ناصحِ دانا سر سبز

آئینہ، بیضۂ طوطی نظر آیا ہے مجھے

سُنبلستانِ جنوں ہوں، ستمِ نسبتِ زلف

مُوکشاں خانۂ زنجیر میں لایا ہے مجھے

گرد باد، آئینۂ محشرِ خاکِ مجنوں

یک بیاباں دلِ بے تاب اُٹھایا ہے مجھے

حیرتِ کاغذِ آتش زدہ ہے، جلوۂ عمر

تہِ خاکسترِ صد آئینہ پایا ہے مجھے

لالہ و گل بہم آئینۂ اخلاقِ بہار

ہوں میں وہ داغ کہ پھولوں میں بسایا ہے مجھے

دردِ اظہارِ تپش کسوتی گل معلوم!

ہوں میں وہ چاک کہ کانٹوں سے سلایا ہے مجھے

بے دماغِ تپش و عرضِ دو عالم فریاد

ہوں میں وہ خاک کہ ماتم میں اُڑایا ہے مجھے

جامِ ہر ذرہ ہے سرشارِ تمنا مجھ سے

کس کا دل ہوں؟ کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے

جوشِ فریاد سے لوں گا دیتِ خواب، اسدؔ

شوخیِ نغمۂ بیدل نے جگایا ہے مجھے





۱۳۶



قتلِ عشاق نہ غفلت کشِ تدبیر آوے

یا رب، آئینہ بہ طاقِ خمِ شمشیر آوے

بالِ طاؤس ہے رعنائیِ ضعفِ پرواز

کون ہے داغ کہ شعلے کا عناں گیر آوے

عرضِ حیرانیِ بیمارِ محبت معلوم

عیسیٰ، آخر بہ کفِ آئینہ تصویر آوے

ذوقِ راحت اگر احرامِ تپش ہو، جوں شمع

پائے خوابیدہ، بہ دل جوئیِ شبگیر آوے

اُس بیاباں میں گرفتارِ جنوں ہوں کہ جہاں

موجۂ ریگ سے دل، پائے بہ زنجیر آوے

وہ گرفتارِ خرابی ہوں کہ فوّارہ نمط

سیل، صیادِ کمیں خانۂ تعمیر آوے

سرِ معنی بہ گریبانِ شقِ خامہ، اسدؔ

چاکِ دل، شانہ کشِ طرّۂ تحریر آوے





۱۳۷



خوابِ جمعیّتِ مخمل ہے پریشان مجھ سے

رگِ بستر کو ملی شوخیِ مژگاں مجھ سے

غمِ عشاق نہ ہو سادگی آموزِ بتاں

کس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے

کنجِ تاریک و کمیں گیری اختر شمری

عینکِ چشم بنا روزنِ زنداں مجھ سے

اے تسلی، ہوسِ وعدہ فریب افسوں ہے

ورنہ کیا ہو نہ سکے نالہ بہ ساماں مجھ سے

بستنِ عہدِ محبت ہمہ نادانی تھا

چشمِ نہ کشودہ رہا عقدۂ پیماں مجھ سے

آتش افروزیِ یک شعلۂ ایما تجھ سے

چشمک آرائیِ صد شہرِ چراغاں مجھ سے

اے اسدؔ! دسترسِ وصلِ تمنا، معلوم

کاش! ہو قدرتِ برچیدنِ داماں مجھ سے





۱۳۸



گریہ، سرشاری شوق بہ بیاباں زدہ ہے

قطرۂ خونِ جگر، چشمکِ طوفاں زدہ ہے

گریہ بے لذّتِ کاوش نہ کرے جرأتِ شوق

قطرۂ اشک، دل بر صفِ مژگاں زدہ ہے

بے تماشا نہیں جمعیّتِ چشمِ بسمل

مژہ فالِ دو جہاں خوابِ پریشاں زدہ ہے

فرصت آئینہ و پروازِ عدم تا ہستی

یک شرر بالِ دل و دیدہ چراغاں زدہ ہے

نقشِ رنگینیِ سعیِ قلمِ مانی ہے

بہ کمر دامنِ صد رنگ گلستان زدہ ہے

درسِ نیرنگ ہے کس موجِ نگہ کا، یا رب؟

غنچہ، صد آئینہ زانوئے گلستاں زدہ ہے

سازِ وحشت رقمی ہا، کہ بہ اظہارِ اسدؔ

دشت و ریگ آئینۂ صفحۂ افشاں زدہ ہے





۱۳۹



خوابِ غفلت بہ کمیں گاہِ نظر پنہاں ہے

شام، سائے میں بہ تاراجِ سحر پنہاں ہے

دو جہاں، گردشِ یک سبحۂ اسرارِ نیاز

نقدِ صد دل بہ گریبانِ سحر پنہاں ہے

خلوتِ دل میں نہ کر دخل، بہ جز سجدۂ شوق

آستاں میں، صفتِ آئینہ در پنہاں ہے

فکرِ پروازِ جنوں ہے، سببِ ضبط نہ پوچھ

اشک، جوں بیضہ، مژہ سے تہِ پر پنہاں ہے

ہوش، اے ہرزہ درا، تہمتِ بے دردی چند!

نالہ، در گردِ تمنائے اثر پنہاں ہے

وہمِ غفلت، مگر، احرامِ فسردن باندھے

ورنہ، ہر سنگ کے باطن میں شرر پنہاں ہے

وحشتِ دل ہے، اسدؔ! عالمِ نیرنگِ نشاط

خندۂ گل، بہ لبِ زخمِ جگر پنہاں ہے





۱۴۰



تا چند نازِ مسجد و بت خانہ کھینچیے

جوں شمع، دل بہ خلوتِ جانانہ کھینچیے

بہزاد، نقشِ یک دلِ صد چاک عرض کر

گر زلفِ یار کھینچ نہ سکے، شانہ کھینچیے

راحت کمینِ شوخیِ تقریبِ نالہ ہے

پائے نظر بہ دامنِ افسانہ کھینچیے

زلفِ پری، بہ سلسلۂ آرزو رسا

یک عمر، دامنِ دلِ دیوانہ کھینچیے

یعنی دماغِ غفلتِ ساقی رسیدہ تر

خمیازۂ خمار سے پیمانہ کھینچیے

پرواز آشیانۂ عنقائے ناز ہے

بالِ پری بہ وحشتِ بے جا نہ کھینچیے

عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر

دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے

ہے ذوقِ گریہ، عزمِ سفر کیجیے، اسدؔ

رختِ جنونِ سیل بہ ویرانہ کھینچیے


۱۴۱



دامانِ دل بہ وہمِ تماشا نہ کھینچیے

اے مدعی، خجالتِ بے جا نہ کھینچیے

گل، سر بہ سر، اشارۂ جیبِ دریدہ ہے

نازِ بہار جز بہ تقاضا نہ کھینچیے

حیرت حجابِ جلوہ و وحشت غبارِ چشم

پائے نظر بہ دامنِ صحرا نہ کھینچیے

واماندگی بہانہ و دل بستگی فریب

دردِ طلب بہ آبلۂ پا نہ کھینچیے

کرتے ہوئے تصورِ یار آئے ہے حیا

کیا فائدہ کہ منتِ بیگانہ کھینچیے

گر صفحے کو نہ دیجیے پروازِ سادگی

جز خطِ عجز، نقشِ تمنا نہ کھینچیے

دیدارِ دوستانِ لباسی ہے ناگوار

صورت بہ کارخانۂ دیبا نہ کھینچیے

ہے بے خمار نشّۂ خونِ جگر، اسدؔ

دستِ ہوس بہ گردنِ مینا نہ کھینچیے
۱۴۲



دامانِ صد کفن، تہِ سنگِ مزار ہے

کس کا سراغِ جلوہ ہے، حیرت کو، اے خدا؟

آئینہ، فرشِ شش جہتِ انتظار ہے

عبرت طلب ہے، حلِ معمائے آگہی

شبنم، گدازِ آئینۂ اعتبار ہے

ہے ذرہ ذرہ، تنگیِ جا سے، غبارِ شوق

گر دام یہ ہے، وسعتِ صحرا شکار ہے

دل مدعی و دیدہ بنا مدعا علیہ

نظارے کا مقدمہ پھر روبکار ہے

چھڑ کے ہے شبنم، آئینۂ برگِ گل پہ، آب

اے عندلیب! وقتِ وداعِ بہار ہے

خجلت کشِ وفا کو شکایت نہ چاہیے

اے مدعی، طلسمِ عرق بے غبار ہے

پچ آ پڑی ہے وعدہ دلدار کی مجھے

وہ آئے یا نہ آئے، پہ یاں انتظار ہے

کیفیتِ ہجومِ تمنا رسا، اسدؔ

خمیازہ، ساغرِ مئے رنجِ خمار ہے


۱۴۳



وائے خفتۂ الفت، اگر بے تاب ہو جاوے

پرِ پروانہ، تارِ شمع پر مضراب ہو جاوے

اگر وحشت عرق افشانِ بے پروا خرامی ہو

بیاضِ دیدۂ آہو، کفِ سیلاب ہو جاوے

ز بس طوفانِ آب و گِل ہے، غافل، کیا تعجب ہے!

کہ ہر یک گرد بادِ گلستاں گرداب ہو جاوے

اثر میں یاں تک، اے دستِ دعا، دخلِ تصرف کر

کہ سجدہ قبضۂ تیغِ خمِ محراب ہو جاوے

بہ رنگِ گل، اگر، شیرازہ بندِ بے خودی رہیے

ہزار آشفتگی، مجموعۂ یک خواب ہو جاوے

نمک بر داغ، مشک آلودہ وحشت تماشا ہے

سوادِ دیدہِ آہو، شبِ مہتاب ہو جاوے

اسدؔ! با وصفِ مشق بے تکلف خاک گردیدن

غضب ہے، گر غبارِ خاطرِ احباب ہو جاوے





۱۴۴



دلِ بیمارِ از خود رفتہ، تصویرِ نہالی ہے

کہ مژگاں ریشہ دارِ نیستانِ شیرِ قالی ہے

سرورِ نشۂ گردش، اگر، کیفیت افزا ہو

نہاں ہر گرد بادِ دشت میں جامِ سفالی ہے

عروجِ نشہ ہے سر تا قدم، قدِ چمن رویاں

بجائے خود، وگرنہ، سرو بھی مینائے خالی ہے

ہوا آئینہ، جامِ بادہ عکسِ روئے گلگوں سے

نشانِ خالِ رخ، داغِ شرابِ پرتگالی ہے

بہ پائے خامۂ مو، طے رہِ وصفِ کمر کیجے

کہ تارِ جادۂ سر منزلِ نازک خیالی ہے

اسدؔ، اُٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش

لباسِ نظم میں بالیدنِ مضمونِ عالی ہے





۱۴۵



زلفِ سیہ، افعی نظرِ بد قلمی ہے

ہر چند خطِ سبز و زمرد رقمی ہے

ہے مشقِ وفا، جانتے ہیں، لغزشِ پا تک

اے شمع، تجھے دعویِ ثابت قدمی ہے

ہے عرضِ شکست، آئینۂ جرأتِ عاشق

جز آہ کہ سر لشکرِ وحشت عَلَمی ہے

واماندۂ ذوقِ طربِ وصل نہیں ہوں

اے حسرتِ بسیار، تمنا کی کمی ہے

وہ پردہ نشیں اور اسدؔ آئینۂ اظہار

شہرت چمنِ فتنہ و عنقا ارمی ہے





۱۴۶



اس قامتِ رعنا کی جہاں جلوہ گری ہے

تسلیم فروشی، روشِ کبک دری ہے

شرمندہ الفت ہوں مداوا طلبی سے

ہر قطرہ شربت مجھے اشکِ شکری ہے

سرمایہ وحشت ہے، دلا، سایہ گل زار

ہر سبزہ نو خاستہ یاں بالِ پری ہے

روشن ہوئی یہ بات دمِ نزع کہ آخر

فانوس، کفن بہرِ چراغِ سحری ہے

ہم آئے ہیں، غالبؔ، رہ اقلیمِ عدم سے

یہ تیرگی حالِ لباسِ سفری ہے





۱۴۷



تا چند، نفس، غفلتِ ہستی سے بر آوے

قاصد تپشِ نالہ ہے، یا رب، خبر آوے!

ہے طاقِ فراموشیِ سودائے دو عالم

وہ سنگ کہ گلدستۂ جوشِ شرر آوے

درد، آئینہ کیفیتِ صد رنگ ہے، یا رب

خمیازہ طرب، ساغرِ زخمِ جگر آوے

جمعیّتِ آوارگیِ دید نہ پوچھو

دل تا مژہ، آغوشِ وداعِ نظر آوے

اے ہر زہ دری، منّتِ تمکینِ جنوں کھینچ

تا آبلہ محمل کشِ موجِ گُہر آوے

وہ تشنۂ سرشارِ تمنا ہوں کہ جس کو

ہر ذرہ بہ کیفیتِ ساغر نظر آوے

زاہد کہ جنوں سبحۂ تحقیق ہے، یا رب

زنجیریِ صد حلقۂ بیرونِ در آوے

تمثالِ بتاں گر نہ رکھے پنبۂ مرہم

آئینہ بہ عریانیِ زخمِ جگر آوے

ہر غنچہ، اسدؔ، بارگہِ شوکتِ گل ہے

دل فرشِ رہِ ناز ہے، بیدل اگر آوے


۱۴۸



محوِ آرامیدگی، سامانِ بے تابی کرے

چشم میں توڑے نمک داں، تا شکر خوابی کرے

آرزوئے خانہ آبادی نے ویراں تر کیا

کیا کروں، گر سایۂ دیوار سیلابی کرے

نغمہ ہا، وابستۂ یک عقدۂ تارِ نفس

ناخنِ تیغِ بتاں، شاید کہ مضرابی کرے

صبح دم وہ جلوہ ریزِ بے نقابی ہو اگر

رنگِ رخسارِ گلِ خرشید، مہتابی کرے

زخم ہائے کہنۂ دل رکھتے ہیں جوں مردگی

اے خوشا! گر آبِ تیغِ ناز تیزابی کرے

بادشاہی کا جہاں یہ حال ہو، غالبؔ، تو پھر

کیوں نہ دلی میں ہر اک ناچیز نوابی کرے



۱۴۹



اے خوشا! وقتے کہ ساقی یک خمستاں وا کرے

تار و پودِ فرشِ محفل، پنبۂ مینا کرے

گر تبِ آسودۂ مژگاں تصرف وا کرے

رشتۂ پا، شوخیِ بالِ نفس پیدا کرے

گر دکھاؤں صفحۂ بے نقشِ رنگِ رفتہ کو

دستِ رد سطرِ تبسم یک قلم انشا کرے

جو عزا دارِ شہیدانِ نفس دزدیدہ ہو

نوحۂ ماتم بہ آوازِ پرِ عنقا کرے

حلقہ گردابِ جوہر کو بنا ڈالے تنور

عکس، گر طوفانیِ آئینۂ دریا کرے

یک درِ بر روئے رحمت بستہ دورِ شش جہت

نا امیدی ہے، خیالِ خانہ ویراں کیا کرے

توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو، پھر ہم کو کیا؟

آسمان سے بادہ گل فام گر برسا کرے

ناتوانی سے نہیں سر در گریبانی، اسدؔ

ہوں سراپا یک خمِ تسلیم، جو مولا کرے





۱۵۰



بہ نقصِ ظاہری، رنگِ کمالِ طبع، پنہاں ہے

کہ بہرِ مدعائے دل، زبانِ لال، زنداں ہے

خموشی، خانہ زادِ چشمِ بے پروا نگاہاں ہے

غبارِ سرمہ، یاں گردِ سوادِ نرگسستاں ہے

صفائے اشک میں داغِ جگر جلوہ دکھاتے ہیں

پرِ طاؤس، گویا، برقِ ابرِ چشمِ گریاں ہے

بہ بوئے زلفِ مشکیں یہ، دماغ، آشفتۂ رم ہیں

کہ شاخِ آہواں، دودِ چراغ آسا پریشاں ہے

تکلف بر طرف، ہے جانستاں تر لطفِ بدخویاں!

نگاہِ بے حجابِ ناز، تیغِ تیز عریاں ہے

اسدؔ، یہ فرطِ غم نے کی تلف کیفیتِ شادی

کہ صبحِ عید مجھ کو بدتر از چاکِ گریباں ہے

دیکھیے غزل ۲۴۷ کا تیسرا شعر





۱۵۱



تمام اجزائے عالم صیدِ دامِ چشمِ گریاں ہے

طلسمِ شش جہت، یک حلقہ گردابِ طوفاں ہے

نہیں ہے مردنِ صاحب دلاں، جز کسبِ جمیعت

سویدا میں نفس، مانندِ خط نقطے میں، پنہاں ہے

غبارِ دشتِ وحشت، سرمہ سازِ انتظار آیا

کہ چشمِ آبلہ میں، طولِ میلِ راہ، مژگاں ہے

ز بس دوشِ رمِ آہو پہ ہے محمل تمنا کا

جنونِ قیس سے بھی شوخیِ لیلیٰ نمایاں ہے

نقابِ یار ہے، غفلت نگاہی اہلِ بینش کی

مژہ پوشیدنی ہا، پردہ تصویر عریاں ہے

اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ

اگر وا ہو، تو دکھلا دوں کہ یک عالم گلستاں ہے





۱۵۲



تغافل مشربی سے، نا تمامی بس کہ پیدا ہے

نگاہِ ناز، چشمِ یار میں زنارِ مینا ہے

تصرف وحشیوں میں ہے تصور ہائے مجنوں کا

سوادِ چشمِ آہو، عکسِ خالِ روئے لیلیٰ ہے

محبت، طرزِ پیوندِ نہالِ دوستی جانے

دویدن، ریشہ ساں، مفتِ رگِ خوابِ زلیخا ہے

کیا یکسر گدازِ دل نیازِ جوششِ حسرت

سویدا، نسخۂ تہہ بندیِ داغِ تمنا ہے

ہجومِ ریزشِ خوں کے سبب رنگ اُڑ نہیں سکتا

حنائے پنجہ صیاد، مرغِ رشتہ بر پا ہے

اسدؔ، گر نامِ والائے علی تعویذِ بازو ہو

غریقِ بحرِ خوں، تمثال در آئینہ رہتا ہے





۱۵۳



اثر سوزِ محبت کا، قیامت بے محابا ہے

کہ رگ سے سنگ میں تخمِ شرر کا ریشہ پیدا ہے

نہاں ہے گوہرِ مقصود جیبِ خود شناسی میں

کہ یاں غوّاص ہے تمثال اور آئینہ دریا ہے

عزیزو، ذکرِ وصلِ غیر سے، مجھ کو نہ بہلاؤ

کہ یاں افسونِ خواب، افسانۂ خوابِ زلیخا ہے

تصورِ بہر تسکینِ تپیدن ہائے طفلِ دل

بہ باغِ رنگ ہائے رفتہ، گل چینِ تماشا ہے

بہ سعیِ غیر ہے، قطعِ لباسِ خانہ ویرانی

کہ تارِ جادۂ رہ، رشتۂ دامانِ صحرا ہے

مجھے شب ہائے تاریکِ فراقِ شعلہ رویاں میں

چراغِ خانۂ دل، سوزشِ داغِ تمنا ہے

ترے نوکر ترے در پر اسدؔ کو ذبح کرتے ہیں

ستم گر، ناخدا ترس، آشنا کش، ماجرا کیا ہے؟





۱۵۴



بہرِ پروردن سراسر لطف گستر، سایہ، ہے

پنجۂ مژگاں، بہ طفلِ اشک دستِ دایہ ہے

فصلِ گل میں، دیدۂ خونیں نگاہانِ جنوں

دولتِ نظّارۂ گل سے شفق سرمایہ ہے

شورشِ باطن سے یاں تک مجھ کو غفلت ہے، کہ آہ!

شیونِ دل، یک سرودِ خانۂ ہمسایہ ہے

کیوں نہ تیغِ یار کو مشاطۂ الفت کہوں؟

زخم، مثلِ گل، سراپا کا مرے پیرایہ ہے

اے اسدؔ! آباد ہے مجھ سے جہانِ شاعری

خامہ میرا تختِ سلطانِ سخن کا پایہ ہے





۱۵۵



وہ نہا کر آبِ گل سے، سایہ گل کے تلے

بال کس گرمی سے سِکھلاتا تھا، سنبل کے تلے

کثرتِ جوشِ سویدا سے نہیں تل کی جگہ

خال کب مشاطہ دے سکتی ہے کاکل کے تلے

بس کہ خوباں باغ کو دیتے ہیں وقتِ مے شکست

بال اگ جاتا ہے شیشے کا رگِ گل کے تلے

ہے پر افشانِ تپیدن ہا بہ تکلیفِ ہوس

ورنہ صد گل زار ہے یک بالِ بلبل کے تلے

پے بہ مقصد بردنی ہے خضرِ مے سے، اے اسدؔ

جادہ منزل ہے خطِ ساغر مل کے تلے



۱۵۶

جوہرِ آئینہ ساں، مژگاں بدل آسودہ ہے

قطرہ جو آنکھوں سے ٹپکا، سو نگاہ آلودہ ہے

دام گاہِ عجز میں سامانِ آسائش کہاں؟

پَر فشانی بھی فریبِ خاطرِ آسودہ ہے

اے ہوس، عرضِ بساطِ نازِ مشتاقی نہ مانگ

جوں پرِ طاؤس، یکسر داغِ مشک اندودہ ہے

ہے ریا کا رتبہ بالا تر تصور کردنی

تیرگی سے داغ کی، مہ سیمِ مس اندودہ ہے

کیا کہوں پرواز کی آوارگی کی کشمکش؟

عافیت، سرمایۂ بال و پرِ نکشودہ ہے

پنبۂ مینائے مے رکھ لو تم اپنے کان میں

مے پرستاں ناصحِ بے صرفہ گو بیہودہ ہے

جس طرف سے آئے ہیں، آخر اُدھر ہی جائیں گے

مرگ سے وحشت نہ کر، راہِ عدم پیمودہ ہے

ہے سوادِ خط پریشاں موئیِ اہلِ عزا

خامہ میرا شمعِ قبرِ کشتگاں کا دودہ ہے

کثرتِ انشائے مضمونِ تحیر سے، اسدؔ

ہر سرِ انگشت، نوکِ خامۂ فرسودہ ہے


۱۵۷



عذارِ یار، نظر بندِ چشمِ گریاں ہے

عجب کہ پرتوِ خور، شمعِ شبنمستاں ہے

ہجومِ ضبطِ فغاں سے، مری زبانِ خاموش

بہ رنگِ بستہ، بہ زہراب دادہ پیکاں ہے

قبائے جلوہ فزا ہے، لباسِ عریانی

بہ طرزِ گل، رگِ جاں مجھ کو تارِ داماں ہے

لبِ گزیدۂ معشوق ہے دلِ افگار

کہ بخیہ جلوہ آثارِ زخمِ دنداں ہے

کشودِ غنچۂ خاطر عجب نہ رکھ غافل

صبا خرامیِ خوباں، بہار ساماں ہے

فغاں! کہ بہرِ شفائے حصولِ ناشدنی

دماغ، ناز کشِ منّتِ طبیباں ہے

طلسمِ منتِ یک خلق سے رہائی دی

جہاں جہاں مرے قاتل کا مجھ پہ احساں ہے

جنوں نے مجھ کو بنایا ہے مدعی میرا

ہمیشہ ہاتھ میں میرے مرا گریباں ہے

اسدؔ کو زیست تھی مشکل، اگر نہ سن لیتا

کہ قتلِ عاشقِ دلدادہ تجھ کو آساں ہے




۱۵۸



بہ فکرِ حیرتِ رم، آئینہ پرداز زانو ہے

کہ مشکِ نافہ تمثالِ سوادِ چشمِ آہو ہے

ترحّم میں ستم کوشوں کے ہے، سامانِ خونریزی

سرشکِ چشمِ یار، آبِ دمِ شمشیرِ ابرو ہے

کرے ہے دست فرسودِ ہوس، وہمِ توانائی

پرِ افشاندہ در کنجِ قفس، تعویذِ بازو ہے

ہوا چرخِ خمیدہ، ناتواں بارِ علائق سے

کہ ظاہر، پنجۂ خرشید، دستِ زیرِ پہلو ہے

اسدؔ، تا کے طبیعت طاقتِ ضبطِ الم لاوے؟

فغانِ دل بہ پہلو، نالۂ بیمارِ بد خو ہے




۱۵۹



ہوا جب حسن کم، خط بر عذارِ سادہ آتا ہے

کہ بعد از صافِ مے، ساغر میں دُردِ بادہ آتا ہے

نہیں ہے مزرعِ الفت میں حاصل غیرِ پامالی

نظر دانہ، سرشکِ بر زمیں افتادہ، آتا ہے

محیطِ دہر میں بالیدن، از ہستی گزشتن ہے

کہ یاں ہر یک حباب آسا، شکست آمادہ آتا ہے

دیارِ عشق میں جاتا ہے جو سوداگری ساماں

متاعِ زندگانی ہا بغاوت دادہ آتا ہے

اسدؔ، وارستگاں با وصفِ ساماں بے تعلق ہیں

صنوبر گلستاں میں با دلِ آزادہ آتا ہے





۱۶۰



نگاہِ یار نے جب عرضِ تکلیفِ شرارت کی

دیا ابرو کو چھیڑ اور اُس نے فتنے کو اشارت کی

روانی موجِ مے کی، گر خطِ جام آشنا ہووے

لکھے کیفیت اُس سطرِ تبسم کی عبارت کی

شہِ گل نے کیا جب بندوبستِ گلشن آرائی

عصائے سبز دے نرگس کو دی خدمت نظارت کی

نہیں ریزش عرق کی، اب اسے ذوبانِ اعضا ہے

تبِ خجلت نے یہ نبضِ رگِ گل میں حرارت کی

ز بس نکلا غبارِ دل بہ وقتِ گریہ آنکھوں سے

اسدؔ، کھائے ہوئے سر مے نے آنکھوں میں بصارت کی





۱۶۱



خدایا، دل کہاں تک دن بہ صد رنج و تعب کاٹے

خمِ گیسو ہو شمشیرِ سیہ تاب اور شب کاٹے!

کریں گر قدرِ اشکِ دیدۂ عاشق، خود آرا یاں

صدف، دندانِ گوہر سے، بہ حسرت اپنے لب کاٹے

دریغا! وہ مریضِ غم کہ فرطِ ناتوانی سے

بہ قدرِ یک نفس جادہ، بہ صد رنج و تعب کاٹے

یقیں ہے، آدمی کو دست گاہِ فقر حاصل ہو

دمِ تیغِ توکل سے اگر پائے سبب کاٹے

ہوے یہ رہرواں دل خستہ شرمِ نا رسائی سے

کہ دستِ آرزو سے یک قلم پائے طلب کاٹے

اسدؔ مجھ میں ہے اُس کے بوسۂ پا کی کہاں جرأت؟

کہ میں نے دست و پا باہم بہ شمشیرِ ادب کاٹے





۱۶۲



تماشائے جہاں مفتِ نظر ہے

کہ یہ گل زار باغِ رہ گزر ہے

جہاں شمعِ خموشی جلوہ گر ہے

پرِ پروانگاں بالِ شرر ہے

بہ جیبِ اشکِ چشم سرمہ آلود

مسی مالیدہ دندانِ گہر ہے

شفق ساں موجۂ خوں ہے، رگِ خواب

کہ مژگانِ کشودہ نیشتر ہے

کرے ہے روئے روشن آفتابی

غبارِ خطِ رخ، گردِ سحر ہے

ہوئی یک عمر صرفِ مشقِ نالہ

اثر موقوف بر عمرِ دگر ہے

اسدؔ، ہوں میں پر افشانِ رمیدن

سوادِ شعر در گردِ سفر ہے





۱۶۳



بس کہ زیرِ خاک با آبِ طراوت راہ ہے

ریشے سے ہر تخم کا دَلْو، اندرونِ چاہ ہے

عکسِ گل ہائے سمن سے چشمہ ہائے باغ میں

فلسِ ماہی آئینہ پردازِ داغِ ماہ ہے

واں سے ہے تکلیفِ عرضِ بے دماغی ہائے دل

یاں صریرِ خامہ، مجھ کو نالۂ جانکاہ ہے

حسن و رعنائی میں وہمِ صد سر و گردن ہے فرق

سرو کے قامت پہ، گل، یک دامنِ کوتاہ ہے

رشک ہے آسایشِ اربابِ غفلت پر، اسدؔ

پیچ تابِ دل، نصیبِ خاطرِ آگاہ ہے



۱۶۴

بس کہ چشم از انتظارِ خوش خطاں بے نور ہے

یک قلم، شاخِ گلِ نرگس، عصائے کور ہے

بزمِ خوباں، بس کہ، جوشِ جلوہ سے پُر نور ہے

پُشتِ دستِ عجزیاں ہر برگِ نخلِ طور ہے

ہوں، تصور ہائے ہم دوشی سے، بدمستِ شراب

حیرتِ آغوشِ خوباں، ساغرِ بلور ہے

ہے عجب مُردوں کو غفلت ہائے اہل دہر سے

سبزہ جوں انگشتِ حیرت در دہانِ گور ہے

حسرت آبادِ جہاں میں ہے، الم، غم آفریں

نوحہ، گویا خانہ زادِ نالۂ رنجور ہے

کیا کروں؟ غم ہائے پنہاں لے گئے صبر و قرار

دزد گر ہو خانگی، تو پاسباں معذور ہے

ہے ز پا افتادگیِ نشہ بیماری مجھے

بے سخن، تبخالہ لب، دانہ انگور ہے

جس جگہ ہو مسند آرا جانشینِ مصطفے ٰ

اس جگہ تختِ سلیماں، نقشِ پائے مور ہے

واں سے ہے تکلیفِ عرضِ بے دماغی اور اسدؔ

یاں صریرِ خامہ مجھ کو نالۂ رنجور ہے


۱۶۵



سوختگاں کی خاک میں ریزشِ نقشِ داغ ہے

آئینۂ نشانِ حال مثلِ گلِ چراغ ہے

لطفِ خمارِ مے کو ہے در دلِ ہمدگر اثر

پنبۂ شیشۂ شراب، کف بہ لبِ ایاغ ہے

مفتِ صفائے طبع ہے، جلوۂ نازِ سوختن

داغِ دلِ سیہ دلاں، مردمِ چشمِ زاغ ہے

رنجشِ یارِ مہرباں، عیش و طرب کا ہے نشاں

دل سے اُٹھے ہے جو غبار گردِ سوادِ باغ ہے

شعر کی فکر کو، اسدؔ، چاہیے ہے دل و دماغ

وائے! کہ یہ فسردہ دل، بیدل و بے دماغ ہے



۱۶۶



سمجھاؤ اسے، یہ وضع چھوڑے

جو چاہے کرے، پہ دل نہ توڑے

تقریر کا اس کی حال مت پوچھ

معنیٰ ہیں بہت، تو لفظ تھوڑے

نذرِ مژہ کر دل و جگر کو

چیرے ہی سے جائیں گے یہ پھوڑے

عاشق کو یہ چاہیے کہ ہر گز

اندوہ سے، ڈر کے، منھ نہ موڑے

آ جا لبِ بام، کوئی کب تک

دیوار سے اپنے سر کو پھوڑے

جاتے ہیں رقیب کو خط اس کے

کاغذ کے دوڑتے ہیں گھوڑے

ق

غم خوار کو ہے قسم کہ زنہار

غالبؔ کو نہ تشنہ کام چھوڑے

حسرت زدہ طرب ہے یہ شخص

دم جب کہ بہ وقتِ نزع توڑے

پانی نہ چوائے اس کے منھ میں

گل مے میں بھگو بھگو نچوڑے[457]


۱۶۷



کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے

ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے

خراجِ دیہہِ ویراں، یک کفِ خاک

بیاباں خوش ہوں تیری عاملی سے

پر افشاں ہو گئے شعلے ہزاروں

رہے ہم داغ، اپنی کاہلی سے

خدا، یعنی پدر سے مہرباں تر

پھرے ہم در بدر نا قابلی سے

اسدؔ قربانِ لطفِ جورِ بیدل

خبر لیتے ہیں، لیکن بے دلی سے



۱۶۸

ربطِ تمیزِ اعیاں، دُردِ مئے صدا ہے

اعمیٰ کو سرمۂ چشم، آوازِ آشنا، ہے

موئے دماغِ وحشت، سر رشتۂ فنا ہے

شیرازۂ دو عالم، یک آہِ نارسا، ہے

دیوانگی ہے، تجھ کو درسِ خرام دینا

موجِ بہار یکسر زنجیرِ نقشِ پا، ہے

پروانے سے ہو، شاید، تسکینِ شعلۂ شمع

آسایشِ وفا ہا، بے تابیِ جفا، ہے

اے اضطرابِ سرکش، یک سجدہ وار تمکیں

میں بھی ہوں شمعِ کشتہ، گر داغ خوں بہا ہے

نے حسرتِ تسلی، نے ذوقِ بے قراری

یک درد و صد دوا ہے، یک دست و صد دعا ہے

دریائے مے ہے ساقی، لیکن خمار باقی

تا کوچہ دادنِ موج خمیازہ آشنا ہے

وحشت نہ کھینچ، قاتل، حیرت نفس ہے بسمل

جب نالہ خوں ہو، غافل، تاثیر کیا بلا ہے

بت خانے میں اسدؔ بھی بندہ تھا گاہ گاہے

حضرت چلے حرم کو، اب آپ کا خدا ہے
۱۶۹

گر یاس سر نہ کھینچے، تنگی عجب فضا ہے

وسعت گہِ تمنا، یک بام و صد ہوا ہے

برہم زنِ دو عالم، تکلیفِ یک صدا، ہے

مینا شکستگاں کو کہسار خوں بہا ہے

فکرِ سخن یک انشا زندانیِ خموشی

دودِ چراغ، گویا، زنجیرِ بے صدا ہے

موزونیِ دو عالم، قربانِ سازِ یک درد

مصراعِ نالۂ نَے، سکتہ ہزار جا ہے

درسِ خرام تا کَے خمیازۂ روانی؟

اِس موجِ مے کو، غافل، پیمانہ نقشِ پا ہے

گردش میں لا، تجلی، صد ساغرِ تسلی!

چشمِ تحیر آغوش، مخمورِ ہر ادا ہے

یک برگِ بے نوائی، صد دعوتِ نیستاں

طوفانِ نالۂ دل، تا موجِ بوریا ہے

اے غنچۂ تمنا، یعنی کفِ نگاریں

دل دے، تو ہم بتا دیں، مٹھی میں تیری کیا ہے

ہر نالۂ اسدؔ ہے مضمونِ داد خواہی

یعنی، سخن کو کاغذ احرامِ مدعا ہے




۱۷۰



ذوقِ خود داری، خرابِ وحشتِ تسخیر ہے

آئینہ خانہ، مری تمثال کو، زنجیر ہے

ذرہ دے مجنوں کے کس کس داغ کو پردازِ عرض؟

ہر بیاباں، یک بیاباں حسرتِ تعمیر ہے

میکشِ مضموں کو حسنِ ربطِ خط کیا چاہیے؟

لغزشِ رفتارِ خامہ، مستیِ تحریر ہے

خانمانِ جبریانِ غافل از معنیِ خراب!

جب ہوئے ہم بے گنہ، رحمت کی کیا تقصیر ہے؟

چاہے گر جنت، جز آدم وارثِ آدم نہیں

شوخیِ ایمانِ زاہد، سُستیِ تدبیر ہے

شب دراز و آتشِ دل تیز، یعنی، مثلِ شمع!

مہ، ز سر تا ناخنِ پا، رزقِ یک شبگیر ہے

آب ہو جاتے ہیں، ننگِ ہمتِ باطل سے، مرد

اشک پیدا کر، اسدؔ، گر آہ بے تاثیر ہے





قصائد



بہ گمانِ قطعِ زحمت نہ دو چارِ خامشی ہو

کہ زبانِ سرمہ آلود، نہیں تیغِ اصفہانی

بہ فریبِ آشنائی، بہ خیالِ بے وفائی

نہ رکھ آپ سے تعلق، مگر ایک بد گمانی

نظرے سوئے کہستان نہیں غیرِ شیشہ ساماں

جو گدازِ دل ہو مطلب، تو چمن ہے سنگ جانی

بہ فراز گاہِ عبرت، چہ بہار و کُو تماشا؟

کہ نگاہ ہے سیہ پوش بہ عزائے زندگانی

پہ فراقِ رفتہ یاراں، خط و حرف، مو پریشاں

دلِ غافل از حقیقت ہمہ ذوقِ قصّہ خوانی

تپشِ دلِ شکستہ، پئے عبرت آگہی ہے

کہ نہ دے عنانِ فرصت بہ کشاکشِ زبانی

نہ وفا کو آبرو ہے، نہ جفا تمیز جُو ہے

چہ حسابِ جاں فشانی؟ چہ غرورِ دلستانی؟

بہ شکنجِ جستجو ہا، بہ سرابِ گفتگو ہا

تگ و تازِ آرزو ہا، بہ فریبِ شادمانی

نہیں شاہ راہِ اوہام، بہ جز آں سوئے سیدن

تری سادگی ہے، غافل، درِ دل پہ پاسبانی

چہ امید و نا امیدی؟ چہ نگاہ و بے نگاہی؟

ہمہ عرضِ نا شکیبی؟ ہمہ سازِ جاں ستانی

اگر آرزو ہے راحت، تو عبث بہ خوں تپیدن

کہ خیال ہو تعب کش بہ ہوائے کامرانی

شر و شورِ آرزو سے، تب و تابِ عجز بہتر

نہ کرے اگر ہوس پر، غمِ بے دلی، گرانی

ہوسِ فروختن ہا، تب و تابِ سوختن ہا

سرِ شمع نقشِ پا ہے، بہ سپاسِ ناتوانی

شررِ اسیرِ دل کو ملے اوجِ عرضِ اظہار

جو بہ صورتِ چراغاں کرے، شعلہ نردبانی

ہوئی مشقِ جرأت ناز، رہ و رسمِ طرحِ آداب

خمِ پشت خوش نما تھا بہ گزارشِ جوانی

اگر آرزو رسا ہو، پئے دردِ دل دوا ہو

وہ اجل کہ خوں بہا ہو بہ شہیدِ ناتوانی

غمِ عجز کا سفینہ بہ کنارِ بے دلی ہے

مگر ایک شہ پرِ مور کرے سازِ بادبانی

مجھے انتعاشِ غم نے پئے عرضِ حال بخشی

ہوسِ غزل سرائی، تپشِ فسانہ خوانی

دلِ نا اُمید کیوں کر، بہ تسلی آشنا ہو

جو امید وار رہیے، نہ بہ مرگ نا گہانی

مجھے بادۂ طرب سے بہ خمار گاہِ قسمت

جو ملی تو تلخ کامی، جو ہوئی تو سر گرانی

نہ ستم کر اب تُو مجھ پر، کہ وہ دن گئے کہ ہاں تھی

مجھے طاقت آزمانی، تجھے اُلفت آزمانی

بہ ہزار اُمید واری رہی ایک اشک باری

نہ ہوا حصولِ زاری، بہ جز آستیں فشانی

کروں عذرِ ترکِ صحبت، سو کہاں وہ بے دماغی؟

نہ غرورِ میرزائی، نہ فریبِ نا توانی

ہمہ یک نفس تپش سے تب و تابِ ہجر مت پوچھ

کہ ستم کشِ جنوں ہوں، نہ بہ قدرِ زندگانی

کفِ موجۂ حیا ہوں بہ گذارِ عرضِ مطلب

کہ سرشک قطرہ زن ہے بہ پیامِ دل رسانی

یہی بار بار جی میں مرے آئے ہے کہ غالبؔ

کروں خوانِ گفتگو پر دل و جاں کی مہمانی[458]





قطعات


۱



مژدہ! اے رہروانِ راہِ سخن

پایہ سنجانِ دست گاہِ سخن

طے کرو راہِ شوق، زودا زود

آن پہنچی ہے منزلِ مقصود

پاس ہے اب، سوادِ اعظمِ نثر

دیکھیے، چل کے، نظمِ عالمِ نثر

سب کو اس کا سوادِ ارزانی!

چشمِ بینش ہو جس سے نورانی

یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا

جلوۂ مدعا نظر آیا

ہاں، یہی شاہ راہِ دہلی ہے

مطبعِ بادشاہِ دہلی ہے

منطبع ہو رہی ہے پنج آہنگ

گل و ریحان و لالہ رنگا رنگ

ہے یہ وہ گلشنِ ہمیشہ بہار

بارور جس کا سرو، بے خار

نہیں اس کا جواب، عالم میں

نہیں ایسی کتاب، عالم میں

اس سے اندازِ شوکتِ تحریر

اخذ کرتا ہے آسماں کا دبیر

مرحبا! طرزِ نغز گفتاری

حبذا! رسم و راہِ نثاری

نثر مدحت سرائے ابراہیم

ہے مقرر جو، اب، پئے تعلیم

اس کے فقروں میں کون آتا ہے

کیا کہیں، کیا وہ راگ گاتا ہے

تین نثروں سے کام کیا نکلے؟

ان کے پڑھنے سے نام کیا نکلے؟

ورزشِ قصۂ کہن کب تک؟

داستانِ شہِ دکن کب تک؟

تا کجا درسِ نثر ہائے کہن؟

تازہ کرتا ہے دل کو، تازہ سخن

تھے ظہوریؔ و عرفیؔ و طالبؔ

اپنے اپنے زمانے میں غالب

نہ ظہوری ہے اور نہ طالبؔ ہے

اسد اللہ خان غالبؔ ہے

قول حافظؔ کا ہے بجا، اے دوست

‘‘ہر کرا پنج روز، نوبت اوست‘‘

کل وہ سرگرمِ خود نمائی تھے

شمعِ بزمِ سخن سرائی تھے

آج یہ قدر دانِ معنی ہے

بادشاہِ جہانِ معنی ہے

نثر اس کی، ہے کارنامہ راز

نظم اس کی، نگار نامہ راز

دیکھو اس دفترِ معانی کو

سیکھو آئینِ نکتہ دانی کو

اس سے جو کوئی بہرہ ور ہو گا

سینہ گنجینہ گہر ہو گا

ہو سخن کی جسے طلب گاری

کرے اس نسخے کی خریداری

آج جو دیدہ ور کرے درخواست

تین بھیجے رُپے، وہ بے کم و کاست

منطبع جب کہ ہو چکے گی کتاب

زرِ قیمت کا اور ہو گا حساب

چار سے، پھر نہ ہو گی کم قیمت

اس سے لیویں گے، کم، نہ ہم، قیمت

جس کو منظور ہو کہ زر بھیجے

احسن اللہ خاں کے گھر بھیجے

وہ بہارِ ریاض و مہر و وفا

جس کو کہتے ہیں عمدۃ الحکما

میں جو ہوں درپے حصولِ شرف

نام عاصی کا ہے غلام نجف

ہے یہ، القصہ، حاصلِ تحریر

کہ نہ ارسالِ زر میں ہو تاخیر

چشمہ انطباع جاری ہے

ابتدائے ورق شماری ہے[459]



۲

مسلمانوں کے میلوں کا ہوا قل

پجے ہے جوگ مایا اور دیبی

نشاں باقی نہیں ہے سلطنت کا

مگر، ہاں، نام کو اورنگ زیبی


۳

جب کہ سید غلام بابا نے

مسندِ عیش پر جگہ پائی

ایسی رونق ہوئی برات کی رات

کہ کواکب ہوئے تماشائی


۴

ہزار شکر کہ سید غلام بابا نے

فرازِ مسندِ عیش و طرب جگہ پائی

زمیں پہ ایسا تماشا ہوا برات کی رات

کہ آسماں پہ کواکب بنے تماشائی[460]


۵

سلیم خاں کہ وہ ہے نور چشمِ واصل خاں

حکیم حاذق و دانا ہے، وہ لطیف کلام

تمام دہر میں اس کے مطب کا چرچا ہے

کسی کو یاد بھی لقمان کا نہیں ہے نام

اسے فضائلِ علم و ہنر کی افزائش

ہوئی ہے مبدعِ عالم سے، اس قدر انعام

کہ بحثِ علم میں، اطفال ابجدی اس کے

ہزار بار فلاطوں دے چکے الزام

عجیب نسخہ نادر، لکھا ہے، ایک اس نے

کہ جس میں حکمت و طب ہی کے مسئلے ہیں تمام

نہیں کتاب، ہے اک منبعِ نکاتِ بدیع

نہیں کتاب، ہے اک معدنِ جواہر کام

کل اس کتاب کے سالِ تمام میں، جو مجھے

کمالِ فکر میں دیکھا، خرد نے، بے آرام

کہا یہ جلد کہ تو اس میں سوچتا کیا ہے؟

‘‘لکھا ہے نسخہ تحفہ‘‘ یہی ہے سالِ تمام٭

٭ ۱۲۷۹ ھ (۱۸۶۲ء)


۶



مقامِ شکر ہے، اے ساکنانِ خطہ خاک

رہا ہے زور سے، ابر ستارہ بار، برس

کہاں ہے ساقی مہوش، کہاں ہے ابرِ مُطیر

‘‘بیار‘‘ لا مئے گلنار گوں،‘‘ببار‘‘ برس

خدا نے تجھ کو عطا کی ہے گوہر افشانی

درِ حضور پر، اے ابر، بار بار برس

ہر ایک قطرے کے ساتھ آئے جو ملک، وہ کہے

‘‘امیر کلب علی خاں جئیں ہزار برس‘‘

فقط ہزار برس پر کچھ انحصار نہیں

کئی ہزار برس، بلکہ بے شمار برس

جنابِ قبلہ حاجات، اس بلا کش نے

بڑے عذاب سے کاٹے ہیں، پانچ چار برس

شفا ہو آپ کو، غالبؔ کو بندِ غم سے نجات

خدا کرے کہ یہ ایسا ہو سازگار برس[461]





۷

در پر امیر کلب علی خاں کے ہوں مقیم

شائستہ گدائی ہر در نہیں ہوں میں

بوڑھا ہوا ہوں، قابلِ خدمت نہیں، اسدؔ

خیرات خوارِ محض ہوں، نوکر ہوں میں[462]


۸

ہندوستان کی بھی عجب سر زمین ہے

جس میں وفا و مہر و محبت کا ہے وفور

جیسا کہ آفتاب نکلتا ہے شرق سے

اخلاص کا ہوا ہے اسی ملک سے ظہور

ہے اصل تخمِ ہند سے اور اس زمیں سے

پھیلا ہے سب جہاں میں، یہ میوہ دور دور





۹



ہند میں اہل تسنن کی ہیں دو سلطنتیں

حیدرآباد دکن، رشکِ گلستانِ ارم

رام پور، اہلِ نظر کی ہے نظر میں وہ شہر

کہ جہاں ہشت بہشت آ کے ہوئے ہیں باہم

حیدر آباد بہت دور ہے، اس ملک کے لوگ

اُس طرف کو نہیں جاتے ہیں، جو جاتے ہیں تو کم

رام پور آج ہے وہ بقعہ معمور کہ ہے

مرجع و مجمع، اشرافِ نژادِ آدم

رام پور اک بڑا باغ ہے، از روئے مثال

دل کش و تازہ و شاداب و وسیع و خرم

جس طرح باغ میں ساون کی گھٹائیں برسیں

ہے اسی طور پہ یاں، دجلہ فشاں دستِ کرم

ابرِ دست کرم کلب علی خاں سے مدام

درِ شہوار ہیں، جو گرتے ہیں قطرے پیہم

صبح دم باغ میں آ جائے، جسے نہ ہو یقیں

سبزہ و برگِ گل و لالہ پہ دیکھے شبنم

حبذا! باغِ ہمایوں تقدس آثار

کہ جہاں چرنے کو آتے ہیں غزالانِ حرم

مسلکِ شرع کے ہیں، راہرو و راہ شناس

خضر بھی یاں اگر آ جائے، تو لے ان کے قدم

مدح کے بعد دعا چاہیے اور اہل سخن

اس کو کرتے ہیں بہت بڑھ کے بہ اغراق، رقم

حق سے کیا مانگیے؟ ان کے لیے جب ہو موجود

ملک و گنجینہ و خیل و سپہ و کُوس و علم

ہم نہ تبلیغ کے مائل، نہ غلو کے قائل

دو دعائیں ہیں کہ وہ دیتے ہیں نواب کو ہم

یا خدا! غالبِ ِؔ عاصی کے خداوند کو دے

وہ وہ چیزیں کہ طلب گار ہے جن کا، عالم

اولاً، عمرِ طبیعی بہ دوامِ اقبال

ثانیاً، دولتِ دیدارِ شہنشاہِ امم[463]





رباعیات



ہر چند کہ دوستی میں کامل ہونا

ممکن نہیں یک زبان و یک دل ہونا

میں تجھ سے اور مجھ سے تُو پوشیدہ

ہے مفت، نگاہ کا مقابل ہونا





سامانِ ہزار جستجو، یعنی، دل!

ساغر کشِ خونِ آرزو، یعنی دل

پشت و رخِ آئینہ ہے، دین و دنیا

منظور ہے دو جہاں سے تُو، یعنی دل





اے کاش بتاں کا خنجرِ سینہ شگاف

پہلوئے حیات سے گزر جاتا صاف

ایک تسمہ لگا رہا کہ تا روزے چند

رہیے نہ مشقتِ گدائی سے معاف







اے کثرتِ فہمِ بے شمار اندیشہ

ہے اصلِ خرد سے شرم سار اندیشہ

یک قطرۂ خون، و دعوتِ صد نشتر

یک وہم و عبادتِ ہزار اندیشہ





بے گریہ کمالِ تر جبینی ہے مجھے

در بزمِ وفا خجل نشینی ہے مجھے

محرومِ صدا رہا بغیر از یک تار

ابریشمِ ساز، موئے چینی ہے مجھے





گر جوہرِ امتیاز ہوتا ہم میں

رسوا کرتے نہ آپ کو عالم میں

ہیں نام و نگیں، کمیں گہِ نقبِ شعور

یہ چور پڑا ہے خانۂ خاتم میں







گلخن، شرر اہتمام بستر ہے آج

یعنی تبِ عشق شعلہ پرور ہے آج

ہوں دردِ ہلاکِ نامہ بر سے بیمار

قارورہ مرا خونِ کبوتر ہے آج





دل، سوزِ جنوں سے جلوہ منظر ہے آج

نیرنگِ زمانہ، فتنہ پرور ہے آج

یک تارِ نفس میں، جوں طنابِ صباغ

ہر پارۂ دل، بہ رنگِ دیگر ہے آج





اصحاب کو جو نا سزا کہتے ہیں

سمجھیں تو ذرا دل میں کہ کیا کہتے ہیں

سمجھا تھا نبیؑ نے ان کو اپنا ہمدم

ہے، ہے! نہ کہو، کسے برا کہتے ہیں





یارانِ رسول، یعنی اصحابِ کبار

ہیں گرچہ بہت، خلیفہ ان میں ہیں چار

ان چار میں ایک سے ہو جس کو انکار

غالبؔ، وہ مسلماں نہیں ہے زنہار





یارانِ نبی میں تھی لڑائی کس میں؟

الفت کی نہ تھی جلوہ نمائی کس میں؟

وہ صدق، وہ عدل، وہ حیا اور وہ علم

بتلاؤ کوئی کہ تھی برائی کس میں؟





یارانِ نبی سے رکھ تولا، باللہ!

ہر یک ہے کمالِ دیں میں یکتا، باللہ!

وہ دوست نبی اور تم ان کے دشمن

لا حول ولا قوۃ الا باللہ![464]





متفرقات



نیاز عشق، خرمن سوزِ اسبابِ ہوس بہتر

جو ہو جاوے نثار برق مشت خار و خس بہتر

٭٭



یاد آیا جو وہ کہنا، کہ نہیں، واہ غلط

کی تصور نے بہ صحرائے ہوس راہ غلط

٭٭

شمشیر صافِ یار، جو زہراب دادہ ہو

وہ خط سبز ہے کہ بہ رخسارِ سادہ ہو

٭٭



دیکھتا ہوں اسے، تھی جس کی تمنا مجھ کو

آج بیداری میں ہے خوابِ زلیخا مجھ کو

٭٭

ہنستے ہیں، دیکھ دیکھ کے، سب، ناتواں مجھے

یہ رنگِ زرد، ہے چمنِ زعفراں مجھے

٭٭

زخم دل تم دکھایا ہے کہ جی جانے ہے

ایسے ہنستے کو رلایا ہے کہ جی جانے ہے

٭٭

بتو! توبہ کرو، تم کیا ہو؟ جب وہ ادبار آتا ہے

تو یوسف سا حسیں، بکنے سرِ بازار آتا ہے

٭٭

طرز بیدل میں ریختہ کہنا

اسد االلہ خان قیامت ہے

٭٭



ملے، دو مرشدوں کو قدرتِ حق سے، ہیں دو طالب

نظام الدین کو خسرو، سراج الدین کو غالبؔ

٭٭



ان دل فریبیوں سے نہ کیوں اس پہ پیار آئے؟

روٹھا جو بے گناہ، تو بے عذر من گیا

٭٭



خوشی جینے کی کیا، مرنے کا غم کیا

ہماری زندگی کیا اور ہم کیا

٭٭



مسجد کے زیرِ سایہ، اک گھر، بنا لیا ہے

یہ بندہ کمینہ، ہمسایہ خدا ہے

٭٭

دمِ واپسیں بر سرِ راہ ہے

عزیزو، اب اللہ ہی اللہ ہے[465]

٭٭







غالبؔ کے کچھ ہنگامی مصرعے اور شعر


۱

گاتی تھیں شمرو کی بیگم، تن نا ہا یا ہو

دودھ میں پکے تھے شلغم، تن نا ہا یا ہو



مولوی احتشام الدین مرحوم نے اپنے مضمون‘‘غالبؔ کے بعض غیر مطبوعہ اشعار اور لطیفے‘‘ (ماہِ نو، فروری ۱۹۵۰ء) میں لکھا ہے کہ‘‘یہ مطلع مرزا کی ایک مہمل غزل کا ہے جو بچوں کے جھولے میں گانے کے لئے موزوں فرمائی تھی‘‘اندازہ ہے کہ شعر ۱۸۶۵ء کے ابتدائی مہینوں میں کہا گیا ہو گا (خط نمبر ۱۱۲ بنام منشی ہر گوپال تفتہ، آخر مئی ۱۸۶۵ء)

٭ زیب النسا عرف بیگم شمرو


۲

تم سلامت رہو قیامت تک

دولت و عز و جاہ، روز افزوں



اس شعر کا پہلا مصرع مرزا نے نواب یوسف علی خاں ناظمؔ کے نام خط مورخہ ۱۵ فروری ۱۸۵۷ء میں

اور پورا شعر انہیں کے نام کے خط مورخہ ۱۴ اگست ۱۸۶۳ء میں لکھا ہے


۳



درم و دام اپنے پاس کہاں

چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں



آبِ حیات میں درج ہے کہ حسین علی خاں (عارف کا چھوٹا لڑکا)ایک دن کھیلتا کھیلتا آیا کہ دادا جان (غالبؔ ) مٹھائی منگا دو۔ آپ نے فرمایا کہ پیسے نہیں۔ وہ صندوقچہ کھول کر ادھر ادھر ٹٹولنے لگا اور آپ نے یہ شعر فرمایا

حسین علی خاں شاداںؔ کا سالِ ولادت ۱۸۵۰ء ہے۔ اندازہ ہے کہ اس واقعے کے وقت (آغازِ ۱۸۵۷ء) وہ سات آٹھ برس کا ہو گا


۴

سات جلدوں کا پارسل پہنچا

واہ کیا خوب، بر محل پہنچا



یہ شعر میرزا حاتم علی مہرؔ کے نام خط مورخہ ۲۰ نومبر ۱۸۵۸ء میں درج ہے

٭٭


۵

یہ خبط نہیں تو اور کیا ہے



برہانِ قاطع کا وہ نسخہ جس کے حاشیوں پر ابتداً مرزا صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ لکھے اور جو بعد کو قاطع برہان کے نام سے مرتب ہو کر چھپے

لفظ‘‘خسک‘‘پر حاشیہ لکھتے ہوئے یہ مصرع بھی مرزا صاحب کے قلم سے نکل گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ۱۸۵۸ء میں ہی لکھا گیا ہو گا

٭٭


۶

روز اس شہر میں حکم نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوتا ہے



غالبؔ نے یہ شعر اپنے خط بنام میر مہدی مجروحؔ مورخہ ۲ فروری ۱۸۵۹ء میں لکھا ہے

٭٭


۷

دیکھئے کیا جواب آتا ہے



مندرجہ خط بنام مجروحؔ، ۱۳ دسمبر ۱۸۵۹ء، یہ پورے جملے کا ایک ٹکڑا ہے جو از خود موزوں ہو گیا ہے

‘‘میں نے اس کا اپیل لیفٹیننٹ گورنر کے یہاں کیا ہے، دیکھئے کیا جواب آتا ہے‘‘۔

٭٭


۸

خدا سے بھی میں چاہوں از رہِ مہر

‘‘فروغِ میرزا حاتم علی مہرؔ‘‘



مندرجہ خط بنام مہرؔ، اپریل ۱۸۵۹ء۔ اس شعر کا دوسرا مصرع کود مہرؔ کا ہے جو ان کی مثنوی‘‘شعاعِ مہر‘‘ میں درج ہے

٭٭


۹

پیر و مرشد معاف کیجئے گا

میں نے جمنا کا کچھ نہ لکھا حال



مندرجہ خط بنام نواب انور الدولہ بہادر شفقؔ، ۱۹ جولائی ۱۸۶۰ء۔ عودِ ہندی میں یہ اسی طرح درج ہے مگر اردوئے معلیٰ میں اسے نثر کی شکل دے دی گئی ہے اگرچہ اسے منظوم بھی پڑھا جا سکتا ہے

٭٭


۱۰

خدا کے بعد نبی اور نبی کے بعد امام

یہی ہے مذہبِ حق، والسلام والاکرام



مندرجہ خط بنام مجروحؔ، مئی ۱۸۶۱ء

٭٭


۱۱

تھا تو خط پر جواب طلب نہ تھا

کوئی اس کا جواب کیا لکھتا



یہ شعر چودھری عبد الغفور سرورؔ کے نام خط میں لکھا ہے۔ خط پر تاریخ درج نہیں، مگر قرائن سے پتا چلتا ہے کہ ۱۸۶۲ء کا لکھا ہوا ہے

٭٭


۱۲

میں بھولا نہیں تجھ کو، اے میری جاں

کروں کیا، کہ یاں گر رہے ہیں مکاں



مندرجہ خط بنام مجروحؔ، مورخہ ۲۶ ستمبر ۱۸۶۲ء ٭٭


۱۳



جویائے حالِ دہلی و الور سلام لو



یہ مصرع خط مورخہ ۱۶ دسمبر ۱۸۶۲ء، بنام مجروحؔ، کا سر نامہ ہے

٭٭


۱۴



ولی عہدی میں شاہی ہو مبارک

عنایاتِ الہی ہو مبارک



مندرجہ خط بنام علائی، اپریل مئی ۱۸۶۳ء

٭٭





۱۵



معلوم ہوا خبر کا ٹھینگا باجا



مندرجہ خط بنام علائی، ۱۸ مئی ۱۸۶۴ء

٭٭


۱۶

کوئی اس کو جواب دو صاحب

سائلوں کا ثواب لو صاحب



مندرجہ لطائفِ غیبی، مطبوعہ ۱۸۶۴ء، صفحہ ۲۲

اب یہ عام طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ لطائفِ غیبی، سیاحؔ کی نہیں بلکہ خود مرزا کی تصنیف ہے

٭٭


۱۷

خوشنودیِ احباب کا طالب، غالبؔ



ظاہر ہے کہ یہ مصرع خط کے خاتمے کے الفاظ پر مبنی ہے، صحیح سالِ تحریر کا علم نہیں مگر یہ ایک خط بنام قدرؔ بلگرامی کے آخر میں (تاریخ درج نہیں صرف دن اور وقت لکھا ہے، چہار شنبہ، ۱۲ پر ۳ بجے)

اور مثنوی‘‘شعاعِ مہرؔ‘‘ کی تقریظ کو تمام کرتے ہوئے لکھا ہے

٭٭


۱۸

کھانا نہ انہیں، کہ یہ پرائے ہیں آم



یہ غالبؔ کی ایک رباعی کا چوتھا مصرعہ ہے، جو جلوہ خضر میں درج ہے۔ اس کے ۳ مصرعے صفیرؔ بلگرامی کو یاد نہیں رہے۔ صفیرؔ ۱۸۶۵ء میں غالبؔ سے ملنے دلی آئے تھے

٭٭


۱۹

میں قائلِ خدا و نبی و امام ہوں

بندہ خدا کا اور علی کا غلام ہوں



مندرجہ خط بنام صفیر ؔ بلگرامی، مورخہ ۳ مئی ۱۸۶۵ء

٭٭


۲۰

ہاتفِ غیب سن کے یہ چیخا

ان کی تاریخ میرا تاریخا



جناب احسن مارہروی مرحوم نے اپنی کتاب ‘‘مکاتیب الغالبؔ‘‘ صفحہ ۳۵ پر لکھا ہے

‘‘راقم الحروف کے پردادا شاہ سید عالم صاحب (صاحب عالم مارہروی، ولادت ۶ ربیع الثانی، ۱۲۱۱ ھ بمطابق ۸ اکتوبر ۱۷۹۶ء) سے مرزا کی اکثر خط و کتابت ہوتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت صاحب نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ آپ کی ولادت کس سن میں ہوئی اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دی کہ میری ولادت لفظ ‘‘تاریخ‘‘ سے نکلتی ہے جس کے عدد ۱۲۱۱ ہوتے ہیں۔ مرزا نے جواب میں یہ شعر لکھ بھیجا‘‘

جناب صاحب عالم مارہروی جن کی مرزا بہت عزت کرتے تھے، مرزا سے ایک سال پہلے پیدا ہوئے اور تین سال بعد فوت ہوئے یعنی ان کی وفات ۲ محرم ۱۲۸۸ ھ (۲۴ مارچ ۱۸۷۱ء) کو ہوئی۔ صاحبِ عالم، ان کے صاحبزادے شاہ عالم اور عبد الغفور سرورؔ (جن کے خطوں میں صاحبِ عالم کے کئی خط شامل ہیں)کے نام کے خطوط جو آج تک دستیاب ہوئے ہیں، وہ ۱۸۵۸ء سے ۱۸۶۶ء تک کے عرصے میں لکھے گئے ہیں۔ یہ شعر ان خطوں میں درج نہیں۔ ہو سکتا ہے انہی دنوں میں کبھی لکھا گیا ہو مگر خط محفوظ نہ رہا ہو۔ اس لیے اس شعر کو۱۸۵۸ءکے بعد اور ۱۸۶۶ء سے پہلے کا کہا ہوا ہی کہا جا سکتا ہے

٭٭


۲۱

تحریر ہے یہ غالبِ یزداں پرست کی

تاریخ اس کی آج نویں ہے اگست کی



مندرجہ خمخانہ جاوید جلد اول صفحہ ۸۲۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ شعر کا زمانہ فکر ۱۸۶۶ء کے لگ بھگ ہو گا

٭٭


۲۲

سنین عمر کے ستر ہوئے شمار برس

بہت جیوں تو جیوں اور تین چار برس



غالبؔ کا سالِ ولادت ۱۷۹۷ء ہے۔ اس طرح یہ شعر ۱۸۶۷ء میں کہا گیا ہو گا

ہجری حساب سے ستر برس ۱۲۸۲ھ (۶۶، ۱۸۶۵ء) میں پڑیں گے

٭٭


۲۳

آج یک شنبے کا دن ہے آؤ گے؟

یا فقط رستا ہمیں بتلاؤ گے



خمخانہ جاوید، جلد اول صفحہ۸۱ میں لالہ سری رام نے لکھا ہے کہ پیارے لال آشوب دہلی میں ہوتے تھے، تو کوئی ہفتہ مرزا صاحب کی ملاقات سے خالی نہ جاتا تھا۔ دیر ہو جاتی تو مرزا ایک نہ ایک شعر لکھ کر آشوب کے پاس بھیج دیتے، جس کا مضمون حسنِ طلب ہوتا۔ ان میں سے ا یک یہ شعر ہے۔ غالبؔ نے دسمبر ۱۸۶۷ء کو ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کیا تھا، اس مقدمے میں پیارے لال آشوبؔ (جو ابھی ۳۶ سال کے بھی نہ تھے) گواہوں میں سے ایک تھے۔ شاید یہ شعر انہی دنوں کا ہو

٭٭



مندرجہ بالا اشعار کی کوئی ادبی حیثیت نہیں، یہ غالبؔ کی شوخی طبع اور حاضر دماغی کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی قدر و قیمت اس پر منحصر ہے کہ یہ غالبؔ کے کہے ہوئے ہیں اور یہ کسی نہ کسی واقعے کی نشاندہی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں

٭٭





ضمیمۂ چہارم


قادر نامہ



"قادر" اور "اللہ" اور "یزداں"، خدا

ہے "نبی، مُرسل، پیمبر"، رہنما

پیشوائے دیں کو کہتے ہیں "امام"

وہ رسول اللہ کا قائم مقام

ہے "صحابی" دوست، خالص "ناب" ہے

جمع اس کی یاد رکھ "اصحاب" ہے

بندگی کا ہاں "عبادت" نام ہے

نیک بختی کا "سعادت" نام ہے

کھولنا "افطار" ہے اور روزہ "صوم"

"لیل" یعنی رات، دن اور روز، "یوم"

ہے "صلوٰۃ" اے مہرباں اسمِ نماز

جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز

جا نماز اور پھر "مصلّا" ہے وہی

اور "سجّادہ" بھی گویا ہے وہی

"اسم" وہ ہے جس کو تم کہتے ہو نام

"کعبہ، مکّہ" وہ جو ہے "بیت الحرام"

گرد پھرنے کو کہیں گے ہم "طواف"

بیٹھ رہنا گوشے میں ہے "اعتکاف"

پھر "فلک، چرخ" اور "گردوں" اور "سپہر"

آسماں کے نام ہیں اے رشکِ مہر

"مہر" سورج، چاند کو کہتے ہیں "ماہ"

ہے محبت "مہر"، لازم ہے نباہ

"غرب" پچھّم اور پورب "شرق" ہے

ابر "بدلی" اور بجلی "برق" ہے

آگ کا "آتش" اور "آذر" نام ہے

اور انگارے کا "اخگر" نام ہے

تیغ کی ہندی اگر تلوار ہے

فارسی پگڑی کی بھی "دستار" ہے

نیولا "راسُو" ہے اور "طاؤس" مور

"کبک" کو ہندی میں کہتے ہیں چکور

"خُم" ہے مٹکا اور ٹھلیا ہے "سبو"

"آب" پانی، "بحر" دریا، نہر" جُو"

"چاہ" کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں

"دُود" کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں

دودھ جو پینے کا ہے وہ "شیر" ہے

"طفل" لڑکا اور بوڑھا "پیر" ہے

"سینہ" چھاتی، "دست" ہاتھ اور "پائے" پاؤں

"شاخ" ٹہنی، "برگ" پتا، "سایہ" چھاؤں

"ماہ" چاند، "اختر" ہیں تارے، رات "شب"

دانت "دنداں"، ہونٹ کو کہتے ہیں "لب"

"استخواں" ہڈّی ہے اور ہے "پوست" کھال

"سگ" ہے کتّا اور گیدڑ ہے "شغال"

تِل کو" کنجد" اور "رُخ" کو گال کہہ

گال پر جو تل ہو اس کو "خال" کہہ

کیکڑا "سرطان"، کچھوا "سنگ پشت"

"ساق "پنڈلی، فارسی مٹھی کی "مشت"

ہے "شکم" پیٹ اور بغل "آغوش" ہے

کہنی "آرنج" اور کندھا "دوش" ہے

ہندی میں "عقرب" کا بچھّو نام ہے

فارسی میں بھوں کا "ابرو" نام ہے

ہے وہی "کژدُم" جسے "عقرب" کہیں

"نیش" ہے وہ ڈنک جس کو سب کہیں

ہے لڑائی، "حرب" اور "جنگ" ایک چیز

"کعب"، ٹخنہ اور "شتالنگ" ایک چیز

ناک "بینی"، "پرّہ" نتھنا، "گوش" کان

کان کی لو "نرمہ" ہے، اے مہربان

"چشم" ہے آنکھ اور "مژگاں" ہے پَلک

آنکھ کی پتلی کو کہیے "مردمک"

منہ پر گر جھُری پڑے "آژنگ" جان

فارسی چھینکے کی تو "آونگ" جان

مسا، "آژخ" اور چھالہ، "آبلہ"

اور ہے دائی، جنائی، "قابلہ"

اونٹ "اُشتر" اور "اُشغر" سیّہ ہے

گوشت ہے "لحم" اور چربی "پیّہ" ہے

ہے "زنخ" ٹھوڑی، گلا ہے "خنجرہ"

سانپ ہے "مار" اور جھینگر "زنجرہ"

ہے "زنخ" ٹھوڑی، "ذقن" بھی ہے وہی

"خاد" ہے چیل اور "زغن" بھی ہے وہی

پھر "غلیواز" اس کو کہیے جو ہے چیل

چیونٹی ہے "مور" اور ہاتھی ہے "پیل"

لومڑی "روباہ" اور "آہو" ہرن

"شمس" سورج اور "شعاع" اس کی کرن

"اسپ" جب ہندی میں گھوڑا نام پائے

"تازیانہ" کیوں نہ کوڑا نام پائے

"گربہ" بلّی، "موش" چوہا، "دام" جال

"رشتہ" تاگا، "جامہ" کپڑا، قحط "کال"

"خر" گدھا اور اس کو کہتے ہیں "اُلاغ"

"دیگداں" چولہا جسے کہیے "اُجاغ"

ہندی چڑیا، فارسی "کنجشک" ہے

مینگنی جس کو کہیں وہ "پشک" ہے

"تابہ" ہے بھائی توے کی فارسی

اور "تیہو" ہے لوے کی فارسی

نام مکڑی کا "کلاش" اور "عنکبوت"

کہتے ہیں مچھلی کو" ماہی" اور "حوت"

"پشّہ" مچھّر اور مکھّی ہے "مگس"

"آشیانہ" گھونسلا، پنجرہ "قفس"

بھیڑیا "گرگ" اور بکری "گوسپند"

"میش" کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند

نام "گُل" کا پھول، "شبنم" اوس ہے

جس کو نقّارہ کہیں وہ "کوس" ہے

"خار" کانٹا، "داغ" دھبّا، "نغمہ" راگ

"سیم" چاندی، "مس" ہے تانبا، "بخت" بھاگ

"سقف" چھت ہے، "سنگ" پتھّر، اینٹ "خشت"

جو بُرا ہے اس کو ہم کہتے ہیں "زشت"

"زر" ہے سونا اور "زرگر" ہے سنار

"موز" کیلا اور ککڑی ہے "خیار"

"ریش" داڑھی، مونچھ "سلبت" اور "بُروت"

احمق اور نادان کو کہتے ہیں "اُوت"

زندگانی ہے "حیات" اور "مرگ" موت

"شوے" خاوند اور ہے "انباغ" سَوت

"جملہ" سب اور "نصف" آدھا، "ربع" پاؤ

"صرصر" آندھی، "سیل" نالا، "باد" باؤ

ہے "جراحت" اور "زخم" اور گھاؤ "ریش"

بھینس کو کہتے ہیں بھائی "گاؤ میش"

"ہفت" سات اور "ہشت" آٹھ اور "بست" بیس

"سی" اگر کہیے تو ہندی اس کی تیس

ہے "چہل" چالیس اور "پنجہ" پچاس

"نا امیدی" یاس اور "اُمّید" آس

"دوش" کل کی رات اور "امروز" آج

"آرد" آٹا اور "غلّہ" ہے اناج

چاہیے ہے ماں کو "مادر" جاننا

اور بھائی کو "برادر" جاننا

پھاؤڑا "بیل" اور درانتی "واس" ہے

فارسی "کاہ" اور ہندی گھاس ہے

سبز ہو جب تک اسے کہیے "گیاہ"

خشک ہو جاتی ہے جب، کہتے ہیں "کاہ"

"چکسہ" پڑیا، "کیسہ" کا تھیلی ہے نام

فارسی میں دھپّے کا "سیلی" ہے نام

"اخلگندو" جھجھنا، "نیرو" ہے زور

"بادفر"، پھِرکی اور ہے "دُزد" چور

"انگبیں" شہد اور "عسل"، یہ اے عزیز

نام کو ہیں تین، پر ہے ایک چیز

"آجُل" اور "آروغ" کی ہندی ڈکار

"مے" شراب اور پینے والا "میگسار"

روئی کو کہتے ہیں "پنبہ" سن رکھو

آم کو کہتے ہیں "انبہ" سن رکھو

"خانہ" گھر ہے اور کوٹھا "بام" ہے

قلعہ "دژ"، کھائی کا "خندق" نام ہے

گر "دریچہ" فارسی کھڑکی کی ہے

"سرزنش" بھی فارسی جھڑکی کی ہے

ہے بنولا، "پنبہ دانہ" لا کلام

اور تربُز، "ہندوانہ" لا کلام

ہے کہانی کی "فسانہ" فارسی

اور شعلہ کی "زبانہ" فارسی

"نعل در آتش" اسی کا نام ہے

جو کہ بے چین اور بے آرام ہے

"پست" اور ستّو کو کہتے ہیں "سویق"

"ژرف" اور گہرے کو کہتے ہیں "عمیق"

"تار"، تانا، "پود" بانا، یاد رکھ

"آزمودن"، آزمانا یاد رکھ

"یوسہ"، مچھّی، چاہنا ہے "خواستن"

کم ہے "اندک" اور گھٹنا "کاستن"

خوش رہو، ہنسنے کو "خندیدن" کہو

گر ڈرو، ڈرنے کو "ترسیدن" کہو

ہے "ہراسیدن" بھی ڈرنا، کیوں ڈرو؟

اور "جنگیدن" ہے لڑنا، کیوں لڑو؟

ہے گزرنے کی "گزشتن" فارسی

اور پھرنے کی ہے "گشتن" فارسی

وہ "سرودن" ہے جسے گانا کہیں

ہے وہ "آوردن" جسے لانا کہیں

"زیستن" کو جانِ من جینا کہو

اور "نوشیدن" کو تم پینا کہو

دوڑنے کی فارسی ہے "تاختن"

کھیلنے کی فارسی ہے "باختن"

"دوختن" سینا، "دریدن" پھاڑنا

"کاشتن" بونا ہے، "رُفتن" جھاڑنا

"کاشتن" بونا ہے اور "کشتن" بھی ہے

کاتنے کی فارسی "رِشتن" بھی ہے

ہے ٹپکنے کی "چکیدن" فارسی

اور سننے کی "شنیدن" فارسی

کودنا "جستن"، "بریدن" کاٹنا

اور "لیسیدن" کی ہے ہندی چاٹنا

"سوختن" جلنا، چمکنا "تافتن"

ڈھونڈنا "جستن" ہے، پانا "یافتن"

دیکھنا "دیدن"، "رمیدن" بھاگنا

جان لو، "بیدار بودن"، جاگنا

"آمدن" آنا، بنانا "ساختن"

ڈالنے کی فارسی "انداختن"

باندھنا "بستن"، "کشادن" کھولنا

"داشتن" رکھنا ہے، "سُختن" تولنا

تولنے کو اور جو "سنجیدن" کہو

پھر خفا ہونے کو "رنجیدن" کہو

فارسی سونے کی "خفتن" جانیے

منہ سے کچھ کہنے کو "گفتن" جانیے

کھینچنے کی ہے "کشیدن" فارسی

اور اُگنے کی "دمیدن" فارسی

اونگھنا پوچھو، "غنودن" جان لو

مانجھنا چاہو، "زدودن" جان لو

ہے قلم کا فارسی میں "خامہ" نام

ہے غزل کا فارسی میں "چامہ" نام

کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو

ہاں غزل پڑھیے، سبق گر یاد ہو



غزل

صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا

جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا

وہ چُراوے باغ میں میوہ، جسے

پھاند جانا یاد ہو دیوار کا

پُل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ

ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا

شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہے بھیڑ

آج عالم اور ہے بازار کا

لال ڈِگی پر کرے گا جا کے کیا؟

پُل پہ چل، ہے آج دن اتوار کا

گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلائیں تمھیں

کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا

واہ بے! لڑکے، پڑھی اچھّی غزل

شوق، ابھی سے ہے تجھے، اشعار کا



لو سنو کل کا سبق، آ جاؤ تم

"پوزی" افسار اور دمچی "پاردم"

چھلنی کو "غربال پرویزن" کہو

چھید کو تم "رخنہ" اور "روزن" کہو

"چہ" کے معنی کیا، "چگویم" کیا کہوں

"من شَوَم خاموش"، میں چُپ ہو رہوں

"باز خواہم رفت"، میں پھر جاؤں گا

"نان خواہم خورد"، روٹی کھاؤں گا

فارسی کیوں کی "چرا" ہے یاد رکھ

اور گھنٹالا "درا" ہے یاد رکھ

"دشت، صحرا" اور جنگل ایک ہے

پھر "سہ شنبہ" اور منگل ایک ہے

جس کو "ناداں" کہیے وہ انجان ہے

فارسی بینگن کی "بادنجان" ہے

جس کو کہتے ہیں جمائی "فازہ" ہے

جو ہے انگڑائی، وہی "خمیازہ" ہے

"بارہ" کہتے ہیں کڑے کو، ہم سے پوچھ

پاڑ ہے "تالار"، اک عالم سے پوچھ

جس طرح گہنے کی "زیور" فارسی

اسی طرح ہنسلی کی "پرگر" فارسی

بھِڑ کی بھائی، فارسی "زنبور" ہے

دسپنا "اُنبر" ہے اور "انبور" ہے

فارسی "آئینہ"، ہندی آرسی

اور ہے کنگھے کی "شانہ" فارسی

ہینگ "انگوزہ" ہے اور "ارزیر" رانگ

"ساز" باجا اور ہے آواز "بانگ"

"زوجہ" جورو، "یزنہ" بہنوئی کو جان

"خشم" غصے اور بدخوئی کو جان

لوہے کو کہتے ہیں "آہن" اور "حدید"

جو نئی ہے چیز اسے کہیے "جدید"

ہے "نوا" آواز، ساماں اور اُول

"نرخ"، قیمت اور "بہا"، یہ سب ہیں مول

"سیر" لہسن، "تُرب" مولی، "ترہ" ساگ

کھا "بخور"، "برخیز" اُٹھ، "بگریز" بھاگ

روئی کی پونی کا ہے "پاغُند" نام

"دُوک" تکلے کو کہیں گے، لا کلام

"گیتی" اور "گیہاں" ہے دنیا یاد رکھ

اور ہے "ندّاف" دھُنیا یاد رکھ

"کوہ" کو ہندی میں کہتے ہیں پہاڑ

فارسی "گلخن" ہے اور ہندی ہے بھاڑ

تکیہ "بالش" اور بچھونا بسترا

اصل "بستر" ہے سمجھ لو تم ذرا

بسترا بولیں سپاہی اور فقیر

ورنہ "بستر" کہتے ہیں برنا و پیر

"پیر" بوڑھا اور "برنا" ہے جواں

جان کو البتہ کہتے ہیں "رواں"

اینٹ کے گارے کا نام "آژند" ہے

ہے نصیحت بھی وہی جو "پند" ہے

پند کو "اندرز" بھی کہتے ہیں، ہاں

"ارض" ہے، پر، "مرز" بھی کہتے ہیں ہاں

کیا ہے "ارض" اور "مرز" تم سمجھے؟ زمیں

"عنق" گردن اور پیشانی "جبیں"

"آس" چکّی، "آسیا" مشہور ہے

اور "فَوفل" چھالیا مشہور ہے

بانسلی "نے" اور "جلاجل" جانجھ ہے

پھر "ستَروَن" اور "عقیمہ" بانجھ ہے

"کُحل" سرمہ اور سلائی "مِیل" ہے

جس کو جھولی کہیے، وہ "زنبیل" ہے

پایا قادر نامے نے آج اختتام

اک غزل اب اور پڑھ لو، والسّلام!



غزل



عمر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں

مانتا لیکن ہمارا دل، نہیں

علم ہی سے قدر ہے انسان کی

ہے وہی انسان جو جاہل نہیں

کیا کہِیں کھائی ہے حافظ جی کی مار؟

آج ہنستے آپ جو کھِل کھِل نہیں

کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق؟

ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں

جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا

اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں



٭مثنوی قدر نامہ، غالبؔ کی زندگی میں پہلی بار ۱۲۷۲ھ (۱۸۵۶ء) میں مطبع سلطانی دہلی سے۔ اور دوسری بار ۲۲ محرم ۱۲۸۰ھ مطابق ۹ جولائی ۱۸۶۳ء کو محبس پریس دہلی سے چھپی

٭٭٭





کتابیات



۱۔ دیوانِ غالب۔ مکتبہ الفاظ علی گڑھ

۲۔ دیوان غالب۔ نسخہ تاج کمپنی لاہور

۳۔ دیوانِ غالب۔ نول کشور پریس لکھنؤ

۴۔ نوائے سروش از مولانا غلام رسول مہر(نسخۂ مہر)

۵۔ شرحِ دیوانِ غالبؔ از علامہ عبدالباری آسی ( نسخۂ آسی)

۶۔ دیوانِ غالبؔ (فرہنگ کے ساتھ)

۷۔ دیوانِ غالبؔ نسخۂ طاہر

۸۔ دیوان غالب (نسخۂ حمیدیہ)

۹۔ دیوانِ غالب (بہ تصحیحِ متن و ترتیب حامد علی خان) مطبوعہ ۱۹۶۹

۱۰ گلِ رعنا، نسخۂ شیرانی، نسخۂ بھوپال بخطِ غالب، نسخۂ رضا سے

۱۱۔ انتخاب نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، فروری ۲۰۰۷ء (نسخۂ مبارک علی کے حوالے اسی سے ماخوذ ہیں)

۱۲۔ دیوانِ غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضاؔ

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید




[1] اب کلیات میں یہ تعداد صرف چار رہ گئی ہے۔ باقی تین غزلیں نسخۃ رضا میں شامل ہو گئی ہیں۔ جویریہ مسعود (ج۔ م۔)


[2] یہ دیباچہ میرے محترم جناب اعجاز عبید (۱۔ ع۔) نے دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب ڈاٹ آرگ کے لکھا تھا، تبرک کے لئے اسے یہاں رہنے دیا گیا ہے۔ (ج۔ م۔)


[3] اکثر مروجہ نسخوں میں ’کاوِ کاوِ‘ درج ہے اور لوگ بے خیالی میں اسی طرح پڑھتے ہیں۔ بعض حضرات نے ’کاؤ کاؤ‘ بھی لکھا ہے جس کا یہاں کوئی محل نہیں۔ کاؤ۔ کاوش۔ علی العموم ’کاؤ کاؤ‘ بہ تکرار مستعمل ہے۔ اس مصرع میں ’کاؤ کاوِ’ پڑھنا چاہیے۔ حامد علی خاں (ح۔ع۔خ۔)۔


[4] نسخۂ حمیدیہ میں ’مزہ‘ نسخۂ عرشی میں ’مژہ’۔ ہم نے حمیدیہ کے متن کو ترجیح دی ہے (ج۔ م۔)


[5] عرشی میں ’زنجیری‘ عرشی نے ’زنجیر سے‘ کو سہو مرتب لکھا ہے (ج۔ م۔)


[6] یہاں درست لفظ ‘سپند‘ ہے جیسا کہ نسخۃ حمیدیہ کالی داس گپتا میں دیا گیا ہے۔ نسخۃ حمیدیہ شائع کردہ مجلسِ ترقی ادب لاہور میں غلطی سے پسند لکھا گیا ہے (ج۔م)


[7] یہاں ’’حُسود‘‘ کی جگہ ’’حَسود‘‘ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ حُسود جمعِ حاسد۔ حَسود۔ بہت حسد کرنے والا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[8] یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (ج۔ م۔)


[9] یہ اور اگلا شعر نسخۂ رضا کے ایک اور غزل کا حصہ ہیں جس کا مطلع ہے

تنگی رفیقِ رہ تھی، عدم یا وجود تھا

میرا سفر بہ طالعِ چشمِ حسود تھا (ج۔ م۔)


[10] یہ غزل نسخۂ رضا میں نہیں (ج۔ م۔)


[11] یہ غزل نسخۂ رضا میں نہیں (ج۔ م۔)


[12] نسخۂ حمیدیہ میں ’خیال‘ بجائے ’خرام‘ (ج۔ م۔)


[13] نسخۂ حمیدیہ میں ’وقف‘ بجائے ’نقش‘ (ج۔ م۔)


[14] نسخۂ حمیدیہ میں ’دل‘ بجائے ’گل‘ (ج۔ م۔)


[15] نسخۂ حمیدیہ میں ’سمِّ جنوں‘ بجائے ’ستم جنوں‘ (ج۔ م۔)


[16] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: ’شعلہ رویاں جب ہوے گرمِ تماشا جل گیا‘ (ج۔ م۔)


[17] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: دل ز آتش خیزیِ داغِ تمنا جل گیا۔ (ج۔ م۔)


[18] بعض نسخوں میں ’اے‘ کی جگہ ’ہے‘ اور بعض میں اس کی جگہ ’تھی‘ بھی چھپا ہے۔ حسرت موہانی اور طباطبائی کے نسخوں، نیز بعض دوسرے نسخوں میں ’اے‘ ہی چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[19] یہ تین شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں (ج۔ م۔)


[20] نسخۂ حمیدیہ میں مزید شعر (ا۔ ع۔)


[21] نسخۂ رضا سے مزید (ج۔ م۔)


[22] شارحینِ کلام کے نزدیک وقفہ ’جو‘ کے بجائے ’گیا‘ کے بعد ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)۔ حامد علی خان کے نسخے میں یہ مصرع یوں ہے:

دھمکی میں مر گیا جو، نہ بابِ نبرد تھا (ج۔ م۔)


[23] نسخۂ حمیدیہ میں ’حجابِ سیرِ گل‘ (ج۔ م۔)


[24] اصل نسخۂ نظامی میں ’غلتیدن‘ ہے جو سہوِ کتابت ہے (ا۔ ع۔)


[25] یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے۔ (ج۔ م۔)


[26] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے : ’صفحہ آئینہ ہوا، آئینہ طوطی نہ ہوا‘ (ج۔ م۔)


[27] نسخۂ حمیدیہ میں مزید (ا۔ ع۔)

مزید نسخۂ رضا میں ’’جاوے‘‘ بجائے ’’جائے‘‘ ۔ (ج۔ م۔)


[28] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرعہ یوں ہے:

مرگیا صدمۂ آواز سے ’قم‘ کے غالب (ا۔ ع۔)


[29] نسخۂ حسرت موہانی میں ’سرگشتہ‘ (ا۔ ع۔)


[30] اس شعر سے مقطع تک نسخۂ رضا سے شامل شدہ ہیں (ج۔ م۔)


[31] اس غزل کے صرف یہ دو اشعار مروجہ دیوان کا حصہ ہیں، باقی نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں (ج۔ م۔)


[32] طُعمہ، خوراک۔ طَعمہ، لقمہ۔ (ح۔ع۔خ۔)


[33] قدیم نسخوں میں ’اک‘ کی جگہ ’یک‘ درج ہے (ح۔ع۔خ۔)


[34] مقطع کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ اور اگلی غزل در اصل دو الگ الگ غزلیں تھیں جن کو بعد میں خود غالب نے ایک کر کے پیش کیا تھا۔ (ا۔ ع۔)


[35] کمخواب کا املا کمخاب بھی ہے مگر کمخواب قابلِ ترجیح ہے، خصوصاً اس شعر میں (ح۔ع۔خ۔)


[36] نسخۂ حمیدیہ میں ’محشر آبادِ نگاہ‘ (ج۔ م۔)


[37] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[38] نسخۂ رضا میں ’’کے‘‘ کے بجائے ’’کی‘‘ ۔ شاید کتابت کی غلطی ہے۔ (ج۔ م۔)


[39] نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)


[40] نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)


[41] نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)


[42] نسخۂ طاہر میں ’پریشاں‘ (ج۔ م۔)


[43] بعض حضرات ’قسمت‘ کی جگہ ’قیمت‘ لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں لیکن یہاں ‘قسمت‘ ہی ہے (ح۔ع۔خ۔)


[44] نسخۂ حمیدیہ میں ’آوازہ‘ بجائے ’دروازہ‘ (ج۔ م۔)


[45] قدیم نسخوں میں قافیے فرماویں، جاویں وغیرہ چھپے ہیں۔ بعد کے نسخوں میں فرمائیں، جائیں وغیرہ قافیے درج ہیں، مثلاً شو نرائن اور طباطبائی۔ (ح۔ع۔خ۔)


[46] بعض لوگوں کی زبان پر ’رہیں‘ کے بجائے ’رہے‘ بھی ہے۔ اس کا سبب ایک پرانے نسخے کا اندراج ہے مگر اکثر نسخوں میں ’رہیں‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[47] ایک نسخے میں ’قیمتِ دل‘ کی جگہ ’شیشۂ دل‘ لکھا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[48] کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا (نسخۂ حسرت، نسخۂ مہر) (ج۔ م۔) مزید: نسخۂ مہر اور حسرت موہانی میں یہ شعر یوں ملتا ہے:

نام کا ہے میرے وہ دکھ جو کسی کو نہ ملا

کام کا ہے مِرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا

اس ترتیب الفاظ کے ظاہری حسن کے باوجود دوسرے قدیم و جدید نسخے سے یہ ثبوت نہیں ملا کہ غالب نے خود یہ شعر یوں بدل دیا تھا۔ غالب کو شاید دوسرے مصرع کا وہ مفہوم مطلوب ہی نہ تھا جو ’کام کا‘ سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے قدیم و جدید نسخوں کے علاوہ عرشی، طباطبائی، مالک رام اور بیخود دہلوی کے نسخوں میں بھی یہ شعر یوں ہی ملا ہے جیسا کہ متن میں درج ہوا ہے اور نسخۂ نظامی مطبوعۂ ۱۸۶۲ میں بھی اسی طرح چھپا ہے۔ (حاشیہ از ح۔ع۔خ۔)


[49] خط بنام نبی بخش حقیرؔ (بعد از ۱۸ جون ۱۸۵۴ء) نادراتِ غالبؔ، صفحہ ۵۶ (نسخۂ رضا)


[50] مروجہ دیوان میں صرف مقطع درج ہے۔ باقی غزل نسخۂ رضا سے منتخَب ہے۔ (ج۔ م۔)


[51] یہ شعر نسخۂ بھوپال بخظِ غالب میں ایک علیٰحدہ غزل کا مطلع ہے جس کا ایک اور شعر یہ ہے:

تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے

مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا

درمیان میں تین مزید اشعار اور آخر میں مطلع بھی ہے (ا۔ ع۔)


[52] اصل نسخے میں ’یوں‘ غالباً چھوٹ گیا ہے۔ (ا۔ ع۔)

مزید: نسخۂ حمیدیہ میں ’تغافل کو نہ کر‘ بجائے ’تغافل یوں نہ کر‘ (ج۔ م۔)


[53] نسخۂ حمیدیہ، نظامی، حسرت اور مہر کے نسخوں میں لفظ ’قاتل‘ ہے (ج۔ م۔)

مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ حمیدیہ، نیز دیگر تمام پیشِ نظر قدیم نسخوں میں یہاں لفظ ’’غافل‘‘ ہی چھپا ہے۔ یہی لفظ نسخۂ طباطبائی اور نسخۂ عرشی میں ہے اور یہ معنوی لحاظ سے درست بھی معلوم ہوتا ہے مگر نسخۂ حسرت اور نسخۂ مہر دونوں میں یہاں لفظ ’قاتل‘ ملتا ہے۔ شاید اس تبدیلی کا ذمہ دار نسخۂ حسرت کا کاتب ہو۔ (حاشیہ از ح۔ع۔خ۔)


[54] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: ’گر وہ مستِ نازِ تمکیں دے صلائے عرضِ حال‘ (ج۔ م۔)


[55] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م)


[56] نسخۂ مہر، نسخۂ علامہ آسی میں 'یوں' کے بجا ئے ’یہ‘ آیا ہے (ج۔ م۔) مزید: نسخۂ حسرت موہانی میں یوں کی جگہ ’یہ‘ درج ہے (ح ع خ)


[57] نسخۂ مبارک علی میں ’نہ پائی وسعتِ‘ ہے۔ (ا۔ ع۔)


[58] نسخۂ نظامی کی املا ہے ’خند ہائے‘ (ا۔ ع۔)


[59] نسخۂ نظامی نیز دوسرے قدیم و جدید نسخوں یہاں ’اِس‘ کے بجائے ’اُس‘ درج ہے۔ ’اِس‘ کا اشارہ فلک کی طرف ہے ’کارفرما‘ محبوب ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[60] نسخۂ حمیدیہ میں ’اخگر‘، شیرانی و عرشی میں ’اختر‘ (ج۔ م۔)


[61] نسخۂ حمیدیہ میں ’نا افسردگاں‘، شیرانی و عرشی میں ’خو ناکردگاں‘ (ج۔ م۔)


[62] مزید شعر از نسخۂ رضا


[63] مزید شعر از نسخۂ رضا


[64] مزید شعر از نسخۂ رضا (ج۔ م۔)


[65] بعض جدید نسخوں میں یہاں ’شوق‘ درج ہے مگر غالب ہی کے کلام سے ثبوت ملتا ہے کہ بعض مقامات پر جہاں آج کل ہم ’شوق‘ استعمال کرتے ہیں، وہاں غالب نے ’ذوق‘ لکھا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[66] ح۔ع۔خ۔ کے نسخے میں نیرنگِ نظر کے گاف پر اضافت نہیں (ج۔ م۔) ملاحظہ ہو ان کا حاشیہ:

’’بہت سے نسخوں میں ’نیرنگ نظر‘ کی جگہ ’نیرنگِ نظر‘ چھپا ہے جو صحیح نہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[67] نسخۂ حمیدیہ میں ’کمیں دارِ‘ (ج۔ م۔)


[68] نسخۂ حمیدیہ میں ’غریبِ بدر جستۂ‘ بجائے ’غریبِ ستم دیدۂ‘ (ج۔ م۔)


[69] مروجہ نسخوں کی اکثریت میں یہاں ’مِرے‘ چھپا ہے۔ مطلب یہ کہ ’میرے داغِ جگر سے تحصیل جاری تھی‘ مگر سوال یہ ہے کہ سمندر کے مقابلے میں یہاں کون تحصیلِ آتش کر رہا تھا؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جب تک یہاں ’مِرے‘ کی بجائے ’مِری‘ نہ پڑھا جائے یعنی داغِ جگر سے میری تحصیلِ تب و تاب اس وقت بھی جاری تھی جب کہ سمندر تک کو آتش کدہ عطا نہ ہوا تھا۔ نسخۂ نظامی میں ’مِری‘ ہی چھپا ہے مگر قدیم نسخوں میں تو ’مِرے‘ کو بھی ’’مِری‘‘ ہی لکھا جاتا تھا۔ لہٰذا صرف معنوی دلیل ہی متن کے اندراج کے حق میں دی جا سکتی ہے۔ حسرت موہانی اور عرشی کا بھی غالباً اسی دلیل پر اتفاق ہو گا۔ ان دونوں کے سوا شاید اور کسی فاضل مرتبِ دیوان غالب نے یہاں ’مِری‘ نہیں لکھا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[70] نسخۂ رضا میں ’یک‘ بجائے ’ایک‘ (ج۔ م۔)


[71] نسخۂ رضا میں ’کہوں‘ بجائے ’کروں‘ (ج۔ م۔)


[72] نسخۂ رضا میں یہ شعر زاید ہے۔ (ج۔ م۔)


[73] نسخۂ مبارک علی میں لفظ ’مے خانہ‘ ہے۔ (ا۔ ع۔)


[74] متداول دیوان میں صرف یہ اور اگلا شعر درج ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے انتخاب ہیں۔ (ج۔ م۔)


[75] متداول دیوان میں صرف یہ شعر درج ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے انتخاب ہیں۔ (ج۔ م۔)


[76] نسخۂ رضا میں ’دستِ قاتل‘ (ج۔ م۔)


[77] یہ تین اشعار نسخہ بھوپال میں ہیں، اس مصرعے میں نسخۂ عرشی میں لفظ ’فرصت گزار‘ ہے (ا۔ ع۔)


[78] نسخۂ مبارک علی (اور نسخۂ حمیدیہ) میں ہے ’ہوں قطرہ زن بوادیِ حسرت شبانہ روز‘ (ا۔ ع۔)


[79] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[80] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسد۔ (ج۔ م۔)


[81] نسخۂ حمیدیہ میں ’’آشنا کی‘‘ بجائے ’’آشنائی‘‘ (ج۔ م۔)


[82] نسخۂ رضا سے مزید (ج۔ م۔)


[83] اکثر نسخوں میں ’’اُدھر‘‘ کی جگہ ’’اِدھر‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ میں ’’پرے‘‘ چھپا ہے۔ شعر کا صحیح مفہوم ’’اُدھر‘‘ یا ’’پرے‘‘ سے ادا ہوتا ہے۔ ’’اِدھر‘‘ لکھنے والوں نے اس شعر کی جو شرحیں لکھی ہیں وہ تسلی بخش نہیں ہیں۔)ّ نسخۂ نظامی : ’’اِدھر‘‘)ّ (ح۔ع۔خ۔)


[84] نسخۂ حمیدیہ میں ’’عزلت گزینِ‘‘ بجائے ’’عزّت گزینِ‘‘ (ج۔ م۔)


[85] اس شعر سے لے کر مقطع تک مروجہ دیوان میں الگ غزل کے طور پر درج ہیں، مگر نسخۂ حمیدیہ اور نسخۂ رضا میں یہ ایک اور غزل کا حصہ ہیں جس کا مطلع ہے:

طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا

یا رب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا؟ (ج۔ م۔)


[86] یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ملا۔ (ج۔ م۔)۔


[87] متداول میں صرف یہ دو شعر بطورغزل درج ہیں۔ (ج۔ م۔)


[88] نسخۂ آگرہ، منشی شیو نارائن، ۱۸۶۳ء میں ’مری قسمت‘ (ا۔ ع۔)


[89] نسخۂ حسرت موہانی میں ’’ہو ظاہر‘‘ کی جگہ ’’عیاں ہو‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[90] نسخۂ حمیدیہ میں ’’خونِ گل‘‘ بجائے ’’خونِ دل‘‘ (ج۔ م۔)


[91] نسخۂ حمیدیہ میں ’’آبلوں سے‘‘ بجائے ’’سالوں سے‘‘ ہو سکتا ہے نسخۂ حمیدیہ میں سہو کتابت ہو (ج۔ م۔)


[92] متداول دیوان میں صرف یہ اور اگلا شعر بہ طور غزل درج ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[93] نسخۂ مبارک علی میں ’درد‘ ہے لیکن نسخۂ عرشی میں پہلا لفظ ’دود‘ ہے۔ (ا۔ ع۔)


[94] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: غالبؔ، ایسے گنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا (ج۔ م۔)۔


[95] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[96] نسخۂ رضا میں ’’لاتا‘‘ بجائے ’’دیتا‘‘ ۔ (ج۔ م۔)۔


[97] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[98] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[99] گِرداب


[100] مروجہ دیوان میں یہ آخری تین شعر بہ طور غزل درج ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[101] نسخۂ نظامی میں اگرچہ ’دیداں‘ ہے لیکن معانی کے لحاظ سے ’دنداں‘ مناسب ہے، دیداں سہوِ کتابت ممکن ہے۔ (ا۔ ع۔)

دیداں دودہ کا جمع ہے اس سے مراد کیڑے ہیں۔ تب اس کا مطلب بنتا ہے کہ انگلیوں کو قبر کی کیڑوں کا خوراک بنا دیا۔ نسخۂ مہر اور نسخہ علامہ آسی میں لفظ دیداں ہی آیا ہے ہاں البتہ نسخۂ حمیدیہ (شایع کردہ مجلسِ ترقی ادب لاہور ۱۹۸۳)ّ میں لفظ دندان آیا ہے (ج۔ م۔) مزید: نسخۂ نظامی اور بعض دوسرے نسخوں میں ’’دندان‘‘ کے بجائے ’’دیداں‘‘ چھپا ہے۔ دودہ عربی میں کیڑے کو کہتے ہیں، اس کی جمع ’’دود‘‘ ہے اور جمع الجمع ’’دیدان‘‘ ۔ یہ بات خلاف قیاس معلوم ہوتی ہے کہ غالب نے دیداں لکھا ہو۔ اس میں معنوی سقم یہ ہے کہ قبر میں پورا جسم ہی کیڑوں کی نذر ہو جاتا ہے، انگلیوں کی کوئی تخصیص نہیں نہ خاص طور پر انگلی کے گوشت سے کیڑوں کی زیادہ رغبت کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کسی مرے ہوئے محبوب کا ماتم بھی نہیں ہے بلکہ زمانے کی ناقدری کا ماتم ہے کہ جو انگلی عقدِ گہر کی قابل تھی وہ حسرت و افسوس کے عالم میں دانتوں میں دبی ہے۔ خوبصورت دانتوں کو موتیوں کی لڑی سے تشبیہ دی جاتی ہے اس لیے موتی کے زیور کی رعایت ملحوظ لکھی گئی ہے۔ کیڑوں کو موتیوں سے تشبیہ دینا مذاقِ سلیم کو مکروہ معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[102] بعض نسخوں میں یہاں ’’تِری‘‘ اور بعض میں ’’تِرا‘‘ چھپا ہے۔ متن میں ’’تری‘‘ کو ترجیح دی گئی ہے۔ اس صورت میں علامتِ وقف ’’تری‘‘ کے بعد ہے۔ دوسری صورت میں علامتِ وقف ’’نشانی‘‘ کے بعد ہونی چاہیے یعنی : کافی ہے نشانی، ترا چھلے کا نہ دینا۔۔۔ متن کے اندراج کا مفہوم یہ ہے کہ تیری یہی نشانی میرے لیے کافی ہے کہ رخصت کے وقت جب میں نے تجھ سے نشانی کا چھلا مانگا تو تُو نے مجھے ایک ادائے خاص سے ٹھینگا دکھادیا۔ نسخۂ نظامی میں بھی اس متن کے مطابق ’’تری‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[103] نسخۂ رضا مزید شعر۔ (ج۔ م۔)۔


[104] اس شعر سے مقطع تک نسخۂ رضا سے انتخاب۔ (ج۔ م۔)


[105] شاید بعض حضرات اس کو ’’رُفتہ‘‘ پڑھتے ہیں۔ یقین ہے کہ غالب کا لفظ یہاں ’’رَفتہ‘‘ ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[106] مقطع سےپہلے چار اشعار نسخۂ رضا سے انتخاب ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[107] نسخۂ رضا میں ’’کشودہ‘‘ بجائے ’’کشادہ‘‘ ۔ (ج۔ م۔)۔


[108] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: سر رشتہ چاکِ جیب کا تارِ نظر ہے آج (ج۔ م۔)


[109] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: سیلابِ گریہ دشمنِ دیوار و در ہے آج


[110] نئے مروجہ نسخوں میں یہاں ’’بیمار دار‘‘ کی جگہ عموماً ’’تیمار دار‘‘ چھپا ہے مگر قدیم نسخوں میں یہاں لفظِ ’’بیمار دار‘‘ ہی ملتا ہے جو کم از کم غالب کے عہد میں اس مفہوم کے لیے زیادہ موزوں تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[111] ‘سعی‘ اور ’نفی‘ جیسے الفاظ میں اضافت کے لیے زیر کے بجائے ہمزہ کا استعمال نہیں کیا گیا کیوں کہ اضافت سے یہاں ’’الف‘‘ کی نہیں ’’ی‘‘ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[112] صحیح تلفظ سینِ مضموم (یعنی س پر پیش) سے ہے مگر بعض لوگ اس تلفظ میں ذمّ کا پہلو دیکھتے ہیں اور سَفرہ بہ سینِ مفتوح (یعنی س پر زبر) بولتے ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[113] نسخۂ حمیدیہ میں ہے ’لبِ ساقی پہ‘۔ اکثر نسخوں میں بعد میں یہی املا ہے۔ (ا۔ ع۔)

مزید: نسخۂ مہر، آسی اور باقی نسخوں میں لفظ 'پہ' ہے۔ (ج۔ م۔)

مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ عرشی، نسخۂ حسرت موہانی اور بعض دیگر نسخوں میں یہاں ’’میں‘‘ ہی چھپا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ میں ’’پہ‘‘ درج ہے۔ ظاہراً ’’میں‘‘ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر غالب نے ’’میں‘‘ ہی کہا تھا تو اس کی مراد یہ ہو گی کہ غلبۂ غم کے باعث صلا لبوں پر نہ آ سکی لبوں میں ہی رہ گئی۔ (ح۔ع۔خ۔)


[114] یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے۔ (ج۔ م۔)


[115] مولانا عبد الباری آسی لکھنوی کے نسخے میں ’’کاشانہ‘‘ بجائے ’’کاشانے‘‘ (ج۔ م۔)


[116] نسخۂ حسرت: جی ہی میں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[117] نسخۂ حمیدیہ: کافر کو پوجنا۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[118] نسخۂ رضا مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[119] متداول دیوان میں پہلے دو شعر درج ہیں۔ باقی غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)۔


[120] اس غزل کے پہلے تین شعر متداول دیوان کا حسہ نہیں اور نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[121] (مرزا زین العابدین خان عارف اپریل ۱۸۵۲ میں فوت ہوئے تھے، یہ غزل انہی کا مرثیہ ہے)ّ۔ (حاشیہ از نسخۂ رضا)


[122] ’’ایک‘‘ کی جگہ قدیم نسخوں میں ’’یک‘‘ چھپا ہے (ح۔ع۔خ۔)


[123] عرشی: ’’دیدہ‘‘ بجائے ’’دید‘‘ (ج۔ م۔)


[124] یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (ج۔ م۔)


[125] یہ شعر بھی نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (ج۔ م۔)


[126] نسخۂ رضا میں یہ مقطع زاید ہے۔ (ج۔ م۔)


[127] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ان تین اشعار پر مشتمل ہے۔ مطلع اور باقی اشعار تا مقطع نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[128] متداول دیوان میں یہ غزل صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ مطلع اور باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[129] بعض نسخوں میں ’’تپ‘‘ بھی چھپا ہے جو ’’تب‘‘ کا ہم معنی ہے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)

مزید: ہم نے اس نسخے میں ’’تپ‘‘ کو ترجیح دی ہے کیوں کہ اکثر نسخوں میں ’’تپ‘‘ ہی درج ہے۔ (ج۔ م۔)


[130] بعض نسخوں میں ’’نہ‘‘ کی جگہ ’’نے‘‘ بھی چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں ’’نہ‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[131] نسخۂ حمیدیہ، طباطبائی، حسرت موہانی، نیز مہر، بیخود اور نشتر جالندھری کے نسخوں میں ’’دور و دراز‘‘ چھپا ہے لیکن نسخۂ نظامی، عرشی اور مالک رام نیز متعدد قدیم نسخوں میں یہاں ’’دور دراز‘‘ ہی ملتا ہے۔ دور دراز (بلا عطف) صحیح فارسی ترکیب ہے جس کی شہادت فرہنگِ آنند راج اور شٹائن گاس کی فارسی انگریزی لغت سے بھی ملتی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[132] یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے مگر نسخۂ رضا میں درج ہے (ج۔ م۔)


[133] متداول دیوان میں یہ غزل صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ مطلع اور باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[134] بیشتر نسخوں میں ’’لگا دے‘‘ کی جگہ ’’لگاوے‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[135] ممکن ہے غالب نے یہاں ’’ہوتا ہے‘‘ کہا ہو اور ’’ہوتی ہے‘‘ سہوِ مرتبین ہو۔ (ح۔ع۔خ۔)


[136] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ایک شعر پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[137] نسخۂ مہر میں ’’شعلہ‘‘ ، نسخہ آسی میں شعلے۔ شعلہ زیادہ صحیح ہے (ج۔ م۔)


[138] متداول دیوان میں یہ غزل صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[139] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے: زخم پر باندھے ہیں کب طفلانِ بے پروا نمک (ج۔ م۔)


[140] ایک نسخے میں ’’واہ وا‘‘ بہ تخفیف بھی دیکھا گیا ہے لیکن اکثر قدیم و جدید نسخوں میں ’’واہ واہ‘‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[141] بعض نسخوں میں ’’توفیر‘‘ کی جگہ ’’توقیر‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں ’’توفیر‘‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[142] اکثر قدیم نسخوں میں ’ہوتے تک‘ ردیف ہے۔ نسخۂ نظامی میں بھی لیکن کیوں کہ نسخۂ حمیدیہ میں مروج قرأت ’ہونے تک‘ ہی دی گئی ہے اس لئےاسی کو قابلِ ترجیح قرار دیا گیا ہے۔

مزید: مالک رام صاحب نے لکھا ہے کہ غالب کی زندگی میں دیوان کے جتنے ایڈیشن شائع ہوئے، ان میں ردیف ’’ہوتے تک‘‘ ہے۔ راقم الحروف (ح۔ع۔خ۔) کے مشاہدے کی حد تک بھی مالک رام صاحب کی اس قول کی تائید ہوتی ہے مگر مولانا غلام رسول مہر نے ’’ہونے تک‘‘ کی ردیف کی حق میں ایک نیم مشروط سی دلیل پیش کی ہے حالانکہ سہوِ کتابت کہیں بھی خارج از امکان نہیں۔ البتہ مالک رام صاحب نے قدیم نسخوں میں بھوپال کے نسخۂ حمیدیہ کا ذکر نہیں کیا جس میں ردیف ’’ہونے تک‘‘ درج ہے۔ راقم الحروف (ح۔ع۔خ۔) کی رائے میں یہ بھی سہوِ کتابت ہے یا تحریف کیوں کہ آج کل بیشتر اہلِ ذوق ’’ہونے تک‘‘ کو صوتی لحاظ سے پسندیدہ سمجھتے ہیں مگر اپنی پسند غالب کے کلام کو عمداً بدل ڈالنے کا حق نہیں دیتی۔ مہر صاحب نے تحریر فرمایا ہے: ’’عرشی صاحب نے اب بھی ردیف‘‘ ہونے تک‘‘ ہی رکھی ہے‘‘ عرشی کا جو نسخہ راقم کی نظر سے گزرا ہے، اس میں مولانا کے مشاہدے کے بر عکس اس غزل کی ردیف ’’ہوتے تک‘‘ ہی ملتی ہے۔ بہر حال ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[143] نسخۂ مبارک علی میں الفاظ ہیں ’ہم پہ یہ بھاری ہیں‘ (ا۔ ع۔)


[144] نسخے میں اگرچہ 'طپش' ہے لیکن صحیح تپش ہی درست ہونا چاہئے (ا۔ ع۔)


[145] متداول دیوان میں یہ غزل صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[146] نسخۂ رضا میں مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[147] نسخۂ رضا میں مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[148] نسخۂ حمید سے مزید شعر۔ ملاحظہ ہو حاشیہ از نسخۂ حمیدیہ: اس مصرع پر ’’لا لا‘‘ لکھا ہے اور حاشیے موٹے قلم سے شکستہ خط میں اس کے بجائے مصرعِ ذیل تحریر کیا ہے: ہے فروغِ ماہ سے ہر موج یک تصویرِ خاک۔ (ج۔ م۔)


[149] متداول دیوانِ غالب میں یہ غزل شعرِ ہذا تا آخر ہے۔ مطلع اور اس سے پہلے کے اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[150] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: شامِ غم میں سوزِ عشقِ شمع رویاں سے اسد۔ ملاحظہ نسخۂ حمیدیہ کا حاشیہ (ج۔ م۔)

اس مصرع کا آخری حصہ بعد میں ’’سوزِ عشقِ آتشِ رخسار سے‘‘ بدلا گیا ہے۔ حاشیے میں موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ مقطع لکھا ہے:

دائم الحبس اس میں ہے لاکھوں تمنائیں اسدؔ

جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم (حواشی از پروفیسر حمید احمد خان) (ج۔ م۔)


[151] مروجہ دیوان میں یہ غزل صرف اس ایک شعر پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[152] مروجہ دیوان میں یہ غزل صرف اس مقطع پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[153] ممکن ہے غالب نے خد و خال کہا ہو۔ (ح۔ع۔خ۔)


[154] نسخۂ رضا سے مزید دو شعر۔ (ج۔ م۔)


[155] یہاں ’’اِس‘‘ کی بجائے ’’اُس‘‘ نہیں پڑھنا چاہیے۔ نسخۂ نظامی میں ’’اِس‘‘ ہی چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[156] فارسی میں گھاس کے لیے ’’گیاہ‘‘ اور ’’گیا‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض لغت نویسوں کی رائے ہے کہ لفظ ’’گیا‘‘ خشک گھاس کے لیے مخصوص ہے مگر یہ خیال درست نہیں۔ مہر گیا کو مردم گیا بھی کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی لغت نویس کسی ایک خیال پر متفق نہیں ہوتے۔ اس کے مفاہیم میں محبوب، رخِ نگار، سبزۂ خط، سورج مکھی، نیز مردم گیا کی دو شاخہ جڑ جو انسان نما سمجھی جاتی ہے، شامل ہے۔ عوام کا خیال تھا کہ جو شخص اس گھاس کی جڑ اپنے پاس رکھتا ہے محبوب اس پر مہربان اور ہر شخص اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[157] نسخۂ مہر اور آسی میں ’’ہم ہیں‘‘ درج ہے۔ (ج۔ م۔)


[158] پہلے تین شعر بشمول مطلع اور آخری دو شعر بشمول مقطع نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[159] ح۔ع۔خ۔ کے مرتب کردہ نسخے میں، نیز نسخۂ رضا میں یہاں ’’لائے‘‘ کی جگہ ’’لاوے‘‘ درج ہے۔ (ج۔ م۔)


[160] یہ اور اگلے دو شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[161] نسخۂ حمیدیہ میں ’’پردے‘‘ بجائے ’’سبزے‘‘ (ج۔ م۔)


[162] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے: ریختے کا وہ ظہوری ہے، بقولِ ناسخ (ج۔ م۔)


[163] متداول دیوان میں صرف مطلع ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[164] متداول دیوان میں صرف یہ اور اگلے دو شعر درج ہیں، مطلع اور باقی شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[165] ’طباطبائی میں ہے کی جگہ ’بھی‘ درج ہے۔ (ا۔ ع۔)


[166] از نسخۂ رضا۔ (ج۔ م۔)


[167] بعض نسخوں میں ’’کہ‘‘ کی جگہ ’’کر‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی: ’’کہ‘‘ (ح۔ع۔خ۔)


[168] یہ اور اگلے تین شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[169] نسخۂ نظامی مطبوعہ ۱۸۶۲ میں ’’تھمے‘‘ کی جگہ ’’تھکے‘‘ چھپا ہے۔ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[170] نسخۂ رضا مزید۔ (ج۔ م۔)


[171] نسخۂ رضا مزید۔ یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (ج۔ م۔)


[172] نسخۂ رضا میں ’’محرومیِ تسلیم‘‘ ۔ (ج۔ م۔)


[173] ’’اثبات‘‘ غالباً بالاتفاق مذکر ہے۔ غالب نے خود دوسری جگہ اس لفظ کو مذکر استعمال کیا ہے۔ تاہم غالب کا یہ شعر اس لفظ کی تانیث کا بھی جواز پیدا کر دیتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[174] نسخۂ مہر اور نسخۂ ح۔ع۔خ۔ میں ’تراوِش‘ (ج۔ م۔)


[175] مفتی انوار الحق کے مطابق یہ مصرع متن میں پہلے یوں تھا:

ہوتے ہیں بے قدر در گنجِ وطن صاحب دلاں (ج۔ م۔)


[176] متداول دیوان میں صرف یہ ایک شعر ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[177] متداول دیوان میں صرف یہ ایک شعر اور مطلع ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[178] متداول دیوان میں صرف یہ اور اگلا شعر ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[179] نسخۂ نظامی میں ’آئے‘ (ا۔ ع۔)


[180] یہ شعر نسخۂ رضا میں اس غزل کے بجائے ایک اور غزل میں درج ہے جس کا مطلع ہے:

پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں

میرے ہاتھوں کو جدا باندھتے ہیں

(ج۔ م۔)


[181] متداول دیوان میں صرف مطلع ہے، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[182] ’ مہر نے اس غزل کے پانچویں۔ چھٹے اور ساتویں شعر کو نعتیہ اشعار میں شمار کیا ہے۔ ‘ (ج۔ م۔)


[183] * (غالب ۴ جولائی ۱۸۵۰ء کو بادشاہ کے با قاعدہ ملازم ہوئے تھے)ّ (حاشیہ از نسخۂ رضا)


[184] کچھ نسخوں میں ’جو‘۔ نسخۂ نظامی : ‫‘کہ’ (ا۔ ع۔)


[185] جنازے کے آگے چلنے والی ماتم وار لڑکیاں؟ یہاں یہ لفظ غالباً ’’اِبنُ‘‘ کی جمع کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔ غالب نے صیغۂ تانیث استعمال کیا ہے۔ ح۔ع۔خ۔)


[186] حالی نے یادگارِ غالبؔ میں یوں درج کیا ہے: جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں (ج۔ م۔)


[187] (یہ غزل دہلی اردو اخبار جلد ۱۴ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۸ اگست ۱۸۵۲ میں چھپی تھی) حاشیہ از نسخۂ رضا


[188] جَیب، جیم پر فتح (زبر) مذکّر ہے، بمعنی گریبان۔ اردو میں جیب، جیم پر کسرہ (زیر) کے ساتھ، بمعنیِ کیسہ (Pocket) استعمال میں زیادہ ہے، یہ لفظ مؤنث ہےاس باعث اکثر نسخوں میں ’ہماری‘ ہے۔ قدیم املا میں یائے معروف ہی یائے مجہول (بڑی ے) کی جگہ بھی استعمال کی جاتی تھی اس لئے یہ غلط فہمی مزید بڑھ گئی (ا۔ ع۔)


[189] بعض نسخوں میں ’’اور یاں‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں ’’اور یہاں‘‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

مزید: ہم نے اس نسخے میں ’’اور یاں‘‘ کو ترجیح دی ہے۔ (ج۔ م۔)


[190] متداول دیوان میں مطلع اور اگلے دو شعر شامل نہیں، یہاں نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[191] نسخۂ حمیدیہ میں ’’سویدا داغِ مرہم‘‘ بجائے ’’سوادِ زخمِ مرہم‘‘ (ج۔ م۔)


[192] اکثر قدیم نسخوں میں ’’مرا‘‘ کی جگہ ’’مِرے‘‘ چھپا ہے اور شارحین نے بلا چون و چرا اسی طرح اس کی تشریح کر دی ہے۔ قدیم نسخوں میں صرف نسخۂ حمیدیہ میں ’’مِرا‘‘ چھپا ہے اور یہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے غالب نے بھی یہی لکھا ہو کیونکہ اس سے شعر بہت صاف ہو جاتا ہے۔ ورنہ یہ تعقید بہ درجۂ عیب معلوم ہوتی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[193] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: یہاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی؟ ممکن ہے، سہوِ کتابت ہو۔ (ج۔ م۔)


[194] نسخۂ مہر میں ’’غیر‘‘ کی جگہ ’’کوئی‘‘ درج ہے۔ (ج۔ م۔)

مزید: قدیم نسخوں میں یہاں ’’غیر‘‘ ہی چھپا ہے۔ قدیم نسخۂ نظامی میں بھی ’’غیر‘‘ ہے۔ عرشی، حسرت اور مالک رام نے بھی متن میں ’’غیر‘‘ ہی رکھا ہے۔ مہر صاحب نے ’’کوئی‘‘ کو ترجیح دی ہے مگر اس طرح پہلے دونوں شعروں میں ’’کوئی ہمیں‘‘ کا ٹکڑا بہ تکرار آ جاتا ہے۔ اگر صرف یہی شعر مد نظر ہو تو البتہ ’’کوئی‘‘ پسندیدہ معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[195] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ دہلی اردو اخبار، جلد ۱۵ نمبر ۷ مورخہ ۱۳ فروری ۱۸۵۳ء


[196] نسخۂ مہر میں 'کہ' (ج۔ م۔)


[197] یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ مگر نسخۂ مہر میں غلام رسول مہر صاحب نے بغیر حوالے سے اس کو درج کیا ہے۔ (ج۔ م۔)


[198] نسخۂ مہر میں ’’رابطہ‘‘ کی جگہ ’’واسطہ‘‘ ۔ (ج۔ م۔)


[199] کچھ نسخوں میں 'فرقے' بجائے ’’زمرے‘‘ (ج۔ م۔)


[200] مشہور شعر ہے مگر نسخۂ مہر میں درج نہیں (ج۔ م۔)


[201] یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں (ج۔ م۔)


[202] یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں (جویریہ)


[203] مزید شعر از نسخۂ رضا۔ (ج۔ م۔)۔


[204] مروجہ دیوان میں اس غزل کے یہ پہلے تین شعر ہیں ، باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[205] یہ شعر نسخۂ رضا سے شامل کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو نسخۂ رضا کا حاشیہ: ٭ یہ شعر یادگارِ غالبؔ میں درج ہے


[206] یہ تینوں اشعار نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اشعار دوران سفر کلکتہ لکھے گیے تھے اور نسخۂ حمیدیہ میں شامل تمام اشعار سفر کلکتہ سے پہلے کے ہیں (ج۔ م۔)


[207] حق ناسپاس نسخۂ نظامی میں ہے، حق نا شناس۔ حسرت، مہر اور عرشی میں۔ ’ناسپاس‘ کتابت کی غلطی بھی ممکن ہے۔ (ا۔ ع۔)

مزید: نسخۂ نظامی طبع اول میں ’’حق ناسپاس‘‘ چھپا ہے۔ ایک آدھ اور قدیم نسخے میں بھی یونہی ملا ہے مگر بعض دوسرے قدیم نسخوں میں ’’ناشناس‘‘ بھی چھپا ہے۔ جدید نسخوں میں مالک رام نے متن میں ’’ناسپاس‘‘ اور طباطبائی، حسرت موہانی، عرشی اور مہر وغیر ہم نے ’’ناشناس‘‘ درج کیا ہے۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[208] نسخۂ نظامی طبع اول میں اور دیگر نسخوں میں بشمول نسخۂ حسرت موہانی، نسخۂ طباطبائی و نسخۂ عرشی، یہاں ’’ترا‘‘ ہی درج ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول اور نسخۂ مہر میں ’’تِری‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[209] حضور: بہادر شاہ ظفر، اگلا مصرعہ ظفر کا ہی ہے جس کی طرح میں غالبؔ نے درباری مشاعرے کے لئے یہ غزل کہی تھی۔ (ا۔ ع۔)


[210] کچھ نسخوں میں ’وضع کیوں بدلیں‘ ہے۔ (ج۔ م۔) مزید: اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ خود غالب نے ’’وضع کیوں بدلیں‘‘ کہا تھا (ح۔ع۔خ۔)


[211] قدیم لفظ ’بیمار دار‘ ہی تھا بعد میں لفظ ’تیمار دار‘ استعمال کیا جانے لگا تو جدید نسخوں میں اس لفظ کو تیمار دار لکھا گیا۔ (ا۔ ع۔)

مزید: بعض ما بعد نسخوں میں ’’بیمار دار‘‘ کی جگہ ’’تیمار دار‘‘ چھپا ہے۔ مگر نسخۂ نظامی مطبوعہ ۱۸۶۲ء اور اس کے قریبی عہد کے جو آٹھ نسخے نظر سے گزرے، ان سب میں ’’بیمار دار‘‘ چھپا ہے۔ مالک رام اور عرشی کے نسبتاً جدید نسخوں میں بھی ’’بیمار دار‘‘ ہی درج ہے۔ بظاہر یہی غالب کا لفظ ثابت ہوتا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں ’’تیمار دار‘‘ کا اندراج شاید سہوِ کتابت ہے۔ نسخۂ مہر میں بھی ’’تیمار دار‘‘ ممکن ہے، یہی سے لیا گیا ہو۔ بعض اور اصحاب نے بھی اپنے نسخوں میں ’’تیمار دار‘‘ غالباً اس لیے لکھا ہے کہ آج کل یہ لفظ اردو میں عام طور سے مستعمل ہے مگر ’’بیمار دار‘‘ اس مفہوم میں قابل ترجیح ہے کیوں کہ اس کا ایک یہی مقرر مفہوم ہے جو تیمار اور تیمار دار کا نہیں۔ چنانچہ فارسی میں ان الفاظ کے دوسرے مفاہیم بھی ہیں۔ علاوہ ازین غالب کا کوئی لفظ عمداً بدلنے سے احتراز واجب ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[212] نوٹ: غلام رسول مہر کو شک ہے کہ یہ غزل غالبؔ کی نہیں اور نسخۂ رضا میں بھی نہیں شامل۔ (ج۔ م۔)


[213] کَن


[214] اس لفظ کا ایک املا ازدحام بھی ہے (ج۔ م۔)


[215] یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ مگر نسخۂ مہر میں غلام رسول مہر صاحب نے ابوالکلام کے حوالے سے اس کو درج کیا ہے۔ (ج۔ م۔)


[216] نسخۂ مہر میں دال پر جزم ہے۔ (ج۔ م۔)


[217] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)۔


[218] متدوال دیوان میں صرف مطلع ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)۔


[219] متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)۔


[220] یہ اور اگلے دو شعر نسخۂ رضا سے اضافہ ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[221] یہاں سے مقطع تک نسخۂ رضا سے اضافہ ہیں۔ (ج۔ م۔)


[222] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)۔


[223] نسخۂ مہر میں ’’کو‘‘ (ج۔ م۔)

مزید: یہاں ’’کی‘‘ کے بجائے ’’کو‘‘ معنوی لحاظ سے غلط ہے کیوں کہ شاعر خود داد طلب ہے، جسے اس مصرع میں : ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد۔

بعض اچھے نسخوں میں ’’کو‘‘ سہواً چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[224] طباطبائی نے لکھا ہے کہ ان اعداد کی مجموعے سے سات آسمان پورے ہو جاتے ہیں (ح۔ع۔خ۔)


[225] یہاں سے آخر تک نسخۂ رضا سے اضافہ ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[226] نسخۂ مہر میں یہاں ’’کا‘‘ کے بجائے ’’کو‘‘ درج ہے۔ ’’کو‘‘ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے۔ (ج۔ م۔)


[227] متداول دیوان میں صرف مطلع اور اگلا شعر ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)۔


[228] نسخۂ شیرانی کا اضافہ (ا۔ ع۔)


[229] نسخۂ شیرانی کا اضافہ (ا۔ ع۔)


[230] نسخۂ عرشی میں یوں ہے: ’تسکین کو نوید‘۔ اصل نسخۂ نظامی اور دوسرے نسخوں میں اسی طرح ہے۔ (ا۔ ع۔)

مزید: عرشی صاحب کے نسخے میں یوں درج ہے : تسکین کو نوید کہ مرنے کی آس ہے۔

سترہ اٹھارہ دوسرے قدیم و جدید نسخوں میں دیکھا تو کہیں بھی یہ مصرع اس طرح درج نہ تھا۔ لہذا مندرجہ بالا صورت قائم رکھی گئی۔ ایک قدیم نسخے میں ’’دے‘‘ سہواً حذف تو ہو گیا تھا مگر وہاں بھی ذرا اوپر ’’دے‘‘ چھپا ہوا مل جاتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[231] نسخۂ رضا سے مزید شعر (ج۔ م۔)


[232] ’’نافِ زمین‘‘ میں اعلانِ نون کا عیب رفع کرنے کے لیے بعض حضرات نے اس مصرع میں ’’نہ‘‘ سے پہلے ’’یہ‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ غالب کی نظر میں عیب نہ تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[233] نسخۂ رضا میں یہ مقطع زاید ہے۔ (ج۔ م۔)


[234] متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[235] کر۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)


[236] مطلع اور اگلے دو شعر متداول دیوان کا حصہ نہیں۔ نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)


[237] وہ۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)


[238] یہ تینوں شعر اصل قلمی نسخے میں حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوئے ہیں (حاشیہ از پروفیسر حمید احمد خان)


[239] اس شعر سے مقطع تک اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[240] نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر یوں درج ہے:

اے سرِ شوریدہ نازِ عشق و پاسِ آبرو یک طرف سودا و یک سو منتِ دستار ہے

(ج۔ م۔)


[241] مطلع نسخۂ رضا سے شامل کیا گیا ہے۔ (ج۔ م۔)۔


[242] نہ لائے (نسخۂ مہر) (ج۔ م۔)


[243] اس شعر سے مقطع تک اشعارنسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[244] متداول دیوان میں یہ غزل اس اور اگلے شعر پر مشتمل ہے۔ مطلع اور باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[245] یہ شعر نسخۂ حمیدیہ اور نسخۂ رضا دونوں میں موجود نہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[246] متداول دیوان میں یہ غزل مطلع اور اگلے دو شعروں پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار تا مقطع نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[247] بعض نسخوں میں ’’میری‘‘ کی جگہ ’’مِری‘‘ اور تیسرے شعر میں ’’میرے‘‘ کی جگہ ’’مِرے‘‘ چھپا ہے۔ یہ مقامات ’’میری‘‘ اور ’’میرے‘‘ کے متقاضی ہیں اور یہی غالب کے الفاظ ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[248] یہاں سے آخر تک کے اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)۔


[249] اضافہ از نسخۂ بدایوں دریافتِ احید الدین نظامی فرزندِ مولانا نظام الدین حسین نظامی شایع کنندۂ ’’نسخۂ نظامی‘‘ بحوالہ مولانا امتیاز علی عرشی کا مضمون ’’دیوانِ غالب۔ ایک اہم مخطوطہ۔ نسخۂ بدایوں) (ج۔ م۔)


[250] قدیم نسخوں میں یاے معروف و مجہول کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہاں‘‘ گزرے‘‘ بھی پڑھا جا سکتا ہے مگر غالب نے کیا کہا؟ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[251] نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں ’’اے‘‘ کی جگہ ’’او‘‘ چھپا ہے، اور کہیں نظر سے نہیں گزرا۔ (ح۔ع۔خ۔)

مزید: نسخۂ مہر میں بھی ’’او‘‘ چھپا ہے۔ (ج۔ م۔)


[252] بعض نسخوں میں ’’سینکڑوں‘‘ کی جگہ ’’سیکڑوں‘‘ ملتا ہے مگر نسخۂ نظامی میں اور بعض دوسرے قدیم نسخوں میں ’’سینکڑوں‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔ا)


[253] اٹھارہ سے زاید قدیم و جدید نسخوں کے باہمدگر مقابلے سے معلوم ہوا کہ کہ بیشتر نسخوں میں یہ شعر اسی طرح چھپا ہے:

مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار مے بالِ تَدَر و جلوۂ موجِ شراب ہے

لیکن نسخۂ حمیدیہ میں ’’سرو نشاط سے‘‘ درج ہے جو صریحاً غلط ہے۔ ایک آدھ قدیم نسخے میں نیز عرشی، مہر مالک رام کے نسخوں میں یہ شعر ایک اور شکل میں ملتا ہے، یعنی مینا سے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے بالِ تَدَر و جلوۂ موجِ شراب ہے

یہ شعر اس طرح بھی بامعنی ہے اور اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ نشاطِ بہار نے سرو کو بھی شراب سے لبالب بھرا ہوا مینا بنادیا ہے۔ اس حالت میں آسمان پر بالِ تدرو یعنی ابرِ باران آور بھی جلوۂ موجِ شراب معلوم ہوتا ہے۔ جس سے شراب کے خوب کھل کر برسنے کی امید ہو سکتی ہے۔ (ح۔ع۔ا)


[254] تذرو اور تدرو دونوں طرح لکھا جاتاہے۔ (ج۔ م۔) بحوالۂ نسخۂ مہر)


[255] اس شعر تا مقطع نسخۂ رضا سے۔ (ج۔ م۔)


[256] اس شعر تا مقطع نسخۂ رضا سے۔ (ج۔ م۔)


[257] متداول دیوان میں صرف یہ ایک شعر درج ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)


[258] عشق ہے!: مرحبا! آفرین! یہ کلمہ بہ تغیر تلفظ اہل پنجاب کی زبانوں پر بھی ہے۔ اس شعر کو سمجھنے کے لیے دوسرے مصرع میں ’’قدم‘‘ کے بعد وقفہ ہونا چاہیے۔ بعض حضرات نے غلط فہمی سے ’’واماندگی سے عشق ہے‘‘ لکھ دیا ہے جو مقصودِ غالب نہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[259] نسخۂ طباطبائی: ’’کس کے آب و گل‘‘ ۔ ’’کے‘‘ بجائے ’’کی‘‘ (ح۔ع۔خ۔)


[260] دیوانِ غالبؔ (فرہنگ کے ساتھ) میں ’’مانا‘‘ ہے۔ (ج۔ م۔)


[261] قدیم نسخوں میں یائے مجہول و معروف کا امتیاز نہ تھا اس لیے بعض قدیم نسخوں میں یہاں ’’’اب کے‘‘ چھپا ہے جو اس موقع پر درست معلوم نہیں ہوتا۔ بالخصوص ’’بارہا ’’کے بعد۔ یہاں مراد ہے : اب کی بار (ح۔ع۔خ۔)


[262] ہیں۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)


[263] یہ مصرع نسخۂ رضا میں یوں درج ہے: ہے زلزلہ و صرصر و سیلاب کا عالم٭ (ج۔ م۔)

دیکھیں نسخۂ رضا کا حاشیہ: ٭ یہ مصرعہ ؎‘‘ صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم ’’تھا مگر انتخابِ غالبؔ مکتوبہ۱۸۶۶ءمیں غالبؔ نے یہ مصرعہ بدل دیا تھا


[264] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[265] نسخۂ مہر و آسی میں‘‘ وُہی ’’(ج۔ م۔)


[266] روز بازار : چہل پہل اور رونق کے دن کو بھی کہتے ہیں (ح۔ع۔خ۔)


[267] نسخۂ رضا میں‘‘ گو ’’بجائے‘‘ گر ’’۔ (ج۔ م۔)


[268] نسخۂ طاہر میں‘‘ زنجیرِ موجِ آب ’’(ج۔ م۔)


[269] نسخۂ مہر میں غالباً سہوِ کاتب سے‘‘ پسِ مردن ’’چھپا ہے باقی نسخوں میں‘‘ پس از مردن ’’ہے (ح۔ع۔خ۔)


[270] یہ شعر اور مقطع نسخۂ رضا سے۔ (ج۔ م۔)


[271] یہاں سے مقطع تک نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)


[272] نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں‘‘ دامِ سخت قریب ’’(ا۔ ع۔)

مزید: نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں‘‘ دامِ سخت قریب ’’چھپا ہے۔ دوسرے سب نسخوں میں‘‘ سخت قریب ’’بہ معنیِ‘‘ نہایت قریب ’’درج ہے (حامد)


[273] مالک رام اور نسخۂ صد سالہ یادگار غالب کمیٹی دہلی میں‘‘ رے ’’کی جگہ‘‘ ری ’’چھپا ہے‘‘ اللہ رے ’’اور‘‘ اللہ ری ’’میں یہ امتیاز قابل تعریف ہے مگر اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ مخاطب‘‘ تندیِ خو ’’نہیں بلکہ‘‘ تند خو محبوب ’’ہے جو محبوبہ بھی نہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[274] بعض نسخوں میں‘‘ کھِنچ ’’چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔) ح۔ع۔خ۔ کے نسخے میں‘‘ کھِچ ’’درج ہے۔ (ج۔ م۔)


[275] نسخۂ رضا کا حاشیہ: (یہ اشعار نسخہ حمیدیہ کے ایک قصیدے کے ہیں۔ غالبؔ نے وہیں سے الگ کر کے اپنے دیوان (اشاعت اول) میں بطور غزل شامل کر لیے)


[276] نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)


[277] بعض نسخوں میں‘‘ یاں ’’کی جگہ‘‘ ہاں ’’چھپا ہے۔ یہ غالباً کسی سہوِ کتابت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ‘‘ ہاں ’’سے شعر کے جو تیور بنتے ہیں غالب کے معلوم نہیں ہوتے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[278] نسخۂ آگرہ ۱۸۶۳ء اور نسخۂ مہر میں ’سور‘ (ا۔ ع۔) ، (ج۔ م۔)

مزید: نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں میں‘‘ سوز ’’ہی چھپا ہے۔ ایک نسخے میں شاید سہوِ کتابت سے‘‘ سُور ’’چھپ گیا۔ اب بعض حضرات‘‘ سُور ’’ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[279] نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں میں‘‘ تِری ’’چھپا ہے جو صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ صرف نسخۂ حسرت موہانی، نسخۂ بیخود دہلوی اور نسخۂ مطبعِ مجیدی ۱۹۱۹ء میں صحیح صورت نظر آتی ہے۔ بہ صورت دیگر یہ مصرع بحر سے خارج ہو جاتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[280] ‘‘ غنچۂ گل ’’کی جگہ بعض مؤقر نسخوں میں‘‘ غنچہ و گل ’’اور‘‘ غنچۂ دل ’’بھی چھپا ہے۔ اسے سہو کتابت کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ غنچۂ گل: گلاب کی کلی۔ غنچے کے ساتھ‘‘ گل ’’کا بھی چٹکنے لگنا محل نظر ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[281] متداول دیوان میں صرف یہ تین شعر درج ہیں۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)


[282] نسخۂ مہر میں‘‘ ہم آغوشی کے بعد ’’(ج۔ م۔)


[283] مالک رام اور عرشی میں ہے ’دلِ ناداں‘ لیکن ’نالاں‘ ہی غالبؔ کے اندازِ بیان کے مطابق زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ (ا۔ ع۔)

مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ طباطبائی، نسخۂ حسرت موہانی اور متعدد دیگر نسخوں میں‘‘ دلِ نالاں ’’چھپا ہے۔ عرشی اور مالک رام کے نسخوں‘‘ دل ناداں ’’ملتا ہے۔ مضمونِ شعر یہاں‘‘ دلِ نالاں ’’ہی سے خطاب کا متقاضی معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[284] نسخۂ مہر میں‘‘ جس طرح کا بھی ’’(ج۔ م۔)


[285] نسخۂ مہر میں‘‘ پر ’’(ج۔ م۔)


[286] ‘‘ جَیب ’’بہ معنیِ‘‘ گریبان ’’مذکر ہے۔ بیشتر مروجہ نسخوں میں جو‘‘ ہماری جیب ’’چھپا ہے وہ اس غلط فہمی کی بنا پر ہے کہ قدیم نسخوں میں یائے معروف و مجہول کا امتیاز نہ تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[287] اصل نسخے میں ’جب آنکھ سے ہی‘ ہے لیکن بعض جدید نسخوں میں ’جب آنکھ ہی سے‘ رکھا گیا ہے جس سے مطلب زیادہ واضح ہو جاتا ہے لیکن نظامی میں یوں ہی ہے۔ (ا۔ ع۔)

مزید: بعض فاضل مرتبین نے‘‘ سے ہی ’’کو قابل اعتراض سمجھ کر اپنے نسخوں میں اسے‘‘ ہی سے ’’بنادیا ہے غالب کا اصرار بہ ظاہر‘‘ آنکھ ’’پر نہیں‘‘ آنکھ سے ٹپکنے’’ پر ہے چنانچہ متن میں قدیم نسخوں کا اندراج برقرار رکھا گیا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[288] ‘‘ بادہ و گلفامِ مشک بو ’’۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)


[289] حاشیہ از نسخۂ رضا۔ دہلی اردو اخبار، ۴ دسمبر ۱۸۵۳ء میں درج ہے کہ بادشاہ نے ’’۲۱ صفر۱۲۷۰ ھ کو غسلِ صحت فرمایا‘‘ ۔ یہ مطابق ہے ۲۳ نومبر ۱۸۵۳ء کے۔ (ج۔ م۔)


[290] اصل نسخے میں املا ہے ’دیندار‘ جب کہ تقطیع میں نون غنہ آتا ہے اس لئے تلفّظ کی وضاحت کے لئے یہاں ’دیں دار‘ لکھا گیا ہے (ا۔ ع۔)


[291] متداول دیوان میں صرف مطلع اور ایک شعر ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)


[292] متداول دیوان میں یہ تین شعر ہیں۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)


[293] تپ۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)


[294] یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں (ج۔ م۔)


[295] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: اتنا ہے کہ رہتی تو ہے تدبیر وضو کی۔ (ج۔ م۔)


[296] اس لفظ کی جدید املا تپیدہ ہے۔ (ا۔ ع۔)


[297] متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ باقی اشعار نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)


[298] نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔ م۔)


[299] بعض نسخوں میں ’’میری‘‘ کی جگہ یہاں ’’مِری‘‘ چھپا ہے مگر یہاں ’’میری‘‘ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اور اکثر نسخوں میں ’’میری‘‘ ہی چھپا ہے (ح۔ع۔خ۔)


[300] ہو جو۔ ہو جیو۔ یہ ’’ہو جو‘‘ نہیں ہے۔ جیسا بعض اصحاب پڑھتے ہیں۔ ’’ہُو‘‘ بہ واو معروف بولا جاتا ہے (ح۔ع۔خ۔)


[301] نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر یوں ہے اور اسی غزل کا مطلع اولیٰ ہے:

عیادت بس کہ تجھ سے گرمیِ بازارِ بستر ہے

فروغِ شمعِ بالیں طالعِ بیدارِ بستر ہے (ج۔ م۔)


[302] اس شعر سے مقطع اولیٰ تک نسخۂ رضا سے شامل شدہ ہے۔ (ج۔ م۔)


[303] متداول دیوان میں یہ غزل صرف مطلع اور مقطع پر مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضا/حمیدیہ سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[304] نسخۂ بھوپال میں اس غزل کی ردیف ’جاوے‘ ہے (ا۔ ع۔)


[305] نسخۂ حمیدیہ میں ’’ڈرتا ہوں‘‘ درج ہے۔ (ج۔ م۔)


[306] نسخہ نظامی، نسخۂ عرشی اور نسخۂ مالک رام میں یہ مصرع یوں ہے: پَر تُجھ سی کوئی شے نہیں ہے۔ ایک خستہ حال پرانے نسخے میں بھی جو شاید مطبعِ احمدی دہلی چھپا تھا لفظ ’’تو‘‘ نہیں ہے (نسخۂ حامد میں یہ مصرع یوں ہے: پَر تُجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے (ج۔ م۔) باقی تمام قدیم و جدید نسخوں میں، جو نظر سے گزرے، ’’تُو‘‘ موجود ہے۔ دو قدیم نسخوں میں ’’سی‘‘ کی جگہ ’’سے‘‘ بھی چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[307] نسخۂ عرشی: ’’رہوے‘‘ (ح۔ع۔خ۔)


[308] یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں۔ یہاں نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[309] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ان دو شعروں مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضاسے شامل کئے گئے ہی۔ (ج۔ م۔)


[310] متداول دیوان میں یہ غزل ان تین شعروں اور اسدؔ ہے نزع۔۔۔ والے مقطع مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضاسے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[311] نسخۂ حامد علی خاں میں ’’سرِ شوریدہ‘‘ کی جگہ ’’دلِ شوریدہ‘‘ درج ہے۔ ملاحظہ ہو ان کا حاشیہ (ج۔ م۔)

نسخۂ عرشی میں غالباً بالیں کی رعایت سے ’’سرِ شوریدہ‘‘ درج کیا گیا ہے مگر دوسرے قدیم و جدید نسخوں میں جو نظر سے گزرے، ’’دلِ شوریدہ‘‘ ہی چھپا ہے۔ طباطبائی نے متن میں ’’دل شوریدہ‘‘ درج کر کے احتمال ظاہر کیا ہے کہ غالب نے ’’سرِ شوریدہ‘‘ ہی لکھا ہو گا۔ پھر لکھتے ہیں کہ معنیِ شعر دونوں طرح ظاہر ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[312] نسخۂ حمیدیہ میں مقطع نہیں ہے (ج۔ م۔)


[313] متداول دیوان میں یہ غزل ان دو شعروں اور مقطع مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضاسے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[314] نظامی، حمیدیہ اور متعدد دوسرے قدیم نسخوں: نیز طباطبائی، حسرت موہانی، بیخود دہلوی، مہر وغیرہم کے نسخوں میں ’’ہی‘‘ ہی چھپا ہے۔ مگر نسخۂ عرشی میں ’’بھی‘‘ درج ہے جو غالباً منشی شیو نارائن کے نسخے کی تقلید میں ہے۔ بہر حال اس سے کوئی خاص معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ (ح۔ ا۔ خ۔)


[315] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ یہ غزل قلعے کے مشاعرے منعقدہ ۳ جمادی الثانی ۱۲۶۹ ھ، مطابق ۱۰ اپریل ۱۸۵۳ء کے لئے کہی گئی تھی (خط بنام حقیرؔ بحوالہ غالب کے خطوط صفحہ ۱۱۴۵)۔ اور دہلی اردو اخبار (تتمہ) جلد ۱۵ نمبر ۱۷ میں ۲۴ اپریل ۱۸۵۳ء کو شائع ہوئی تھی


[316] حاشیہ از نسخۂ رضا: (اس غزل کے دو شعر (تیسرا اور چوتھا) نسخہ شیرانی (۱۸۲۶) میں موجود ہیں۔ اور جس غزل میں یہ دو شعر اضافہ کیے گئے ہیں۔ وہ اصلاً نسخہ بھوپال میں ہے اور اس کی جداگانہ حیثیت ہے۔ اس لیے اصول کے مطابق اس غزل کو نسخہ شیرانی میں ہی رکھا جائے گا۔ تاہم مکمل غزل گلِ رعنا میں شامل ہے۔ آخری شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے متداول غزل کے باقی شعر اپنے بیمار بھائی یوسف کی صحت یابی کی خبر (اپریل ۱۸۲ء) سن کر کلکتے کے قیام کے دوران فکر کیے ہوں گے۔ چونکہ گلِ رعنا کلام کا انتخاب ہے اس لیے تین شعر (مطلع، مقطع اور پانچواں شعر) انتخاب نہیں کیے گئے)


[317] یہ اور اگلے دو شعر نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)


[318] نسخۂ عرشی میں ’’ہنوز‘‘ کی جگہ ’’ابھی‘‘ چھپا ہے۔ جو قدیم و جدید نسخے نظر سے گزرے، ان سے اس کی کوئی سند نہیں ملی۔ یہ غالباً سہوِ کتابت ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[319] نسخۂ مہر میں ’’رہے گر دل میں تیر‘‘ (ج۔ م۔) مزید: نظامی، عرشی، حمیدیہ اور متعدد دیگر نسخۂ ہائے قدیم و جدید میں یہ مصرع اسی طرح درج ہے جس طرح متن میں درج کیا مگر نسخۂ مہر غالباً سہوِ کتابت سے ’’رہے گر دل میں تیر اچھا‘‘ ملتا ہے۔ بعض قدیم نسخوں میں ’’دل میں ہی‘‘ چھپا ہے جو سہوِ کتابت ہے۔ مگر ’’رہے گر دل میں تیر‘‘ کہیں نہ ملا۔ نہ یہ قابل ترجیح معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[320] اصل نسخوں میں آزمایش ہے لیکن ہم نے موجودہ املا کو ترجیح دے کر آزمائش لکھا ہے۔ (ا۔ ع۔)


[321] نسخۂ ح۔ع۔خ۔ میں ’’کھِچتا‘‘ (ج۔ م۔) ملاحظہ ان کا حاشیہ:

نظامی اور بعض دیگر قدیم نسخون میں ’’کھِچتا‘‘ ہی درج ہے جو بجائے خود درست ہے مگر اکثر جدید نسخوں میں ’’کھنچتا‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[322] طباطبائی کی رائے میں یہاں ’’کہ‘‘ کی بجائے ’’تو‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[323] مقطع نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔ م۔)


[324] نسخۂ عرشی میں ’’کہ‘‘ کی جگہ ’’جو‘‘ چھپا ہے۔ نظامی میں ’’کہ‘‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[325] اس شعر کا پہلا مصرع یوں ہی ہے۔ دوسرے کے متعلق طباطبائی نے لکھا ہے کہ غالب نے آنکھیں دکھانا بہ صیغۂ جمع باندھا ہے مگر فصیح وہی ہے کہ ’’آنکھ دکھانا کہیں‘‘ ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ اردو کے اکثر فصیح اساتذہ نے آنکھیں دکھانا بھی کہا ہے۔ ان میں میر، مصحفی، امیر، اُنس، ذوق، مومن، ظفر، جرأت، نسیم دہلوی وغیرہم شامل ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[326] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ یہ غزل بھی ’’بشر ہے، کیا کہیے‘‘ والی غزل کے ساتھ کہی گئی تھی، ۱۰ اپریل ۱۸۵۳ء کو یا اس سے ایک دو روز پہلے۔ مگر دہلی اردو اخبار (تتمہ) میں ۲۲ مئی ۱۸۵۳ء کو شائع ہوئی تھی


[327] نسخۂ نظامی میں یہاں ’’کبھی‘‘ کی جگہ ’’کہیں‘‘ درج ہے جو مبرہن طور پر سہوِ کتابت ہے۔ دیگر قدیم و جدید نسخوں میں یہ دونوں شعر صحیح یا غلط، دونوں ہی صورتوں میں ملتے ہیں۔ صحیح صورت سے مراد وہ صورت ہے جو متن میں درج کی گئی۔ دوسری صورت میں ’’کہیں‘‘ کے ساتھ غلط ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[328] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے، شاید کتابت کی غلطی ہے: (ج۔ م۔) : دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے


[329] ایک آدھ نسخے میں ’’ہم‘‘ بھی درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[330] نسخۂ رضا سے مزید۔ نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر درج نہیں۔ (ج۔ م۔)


[331] نسخۂ مہر میں یہ مصرع یوں درج ہے: اس رنگ سے کل اٹھائی اس نے اسدؔ کی نعش

مقابلے سے معلوم ہوا کہ دوسرے کسی زیرِ نظر قدیم و جدید نسخے میں یہ مصرع یوں درج نہیں۔ لہٰذا اسے سہو کتابت سمجھنا چاہیے۔ ایک آدھ نسخے میں ’’نعش‘‘ کی جگہ ’’لاش‘‘ بھی چھپا ہے۔ (ح۔ ع۔ خ۔)


[332] متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔ م۔)


[333] نسخۂ رضا۔ (ج۔ م۔)


[334] نسخۂ رضا میں ’’ہیں‘‘ بجائے ’’ہے‘‘ ۔ (ج۔ م۔)


[335] نسخۂ عرشی اور دوسرے مؤقر نسخوں میں یہاں ’’سوزش‘‘ کی جگہ ’’شورش‘‘ چھپا ہے۔ شاعر نے یقیناً ’’سوزشِ باطن‘‘ ہی کہا ہو گا کیونکہ احباب اس کے لب ہائے خنداں کو دیکھ کر اس کے غمِ پنہاں کا انکار کرتے ہیں۔ خندہ آشنا لب کا تقابل ’’سوزشِ باطن‘‘ سے ہو سکتا ہے۔ شورش باطن کا ذکر یہاں غیر متعلق سا ہے۔ نسخہ نظامی میں ’’سوزشِ باطن‘‘ ہی درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[336] نسخۂ رضا۔ (ج۔ م۔)


[337] نسخۂ حمیدیہ: تا شکستِ قیمتِ دل ہا صدائے خندہ ہے۔ (ج۔ م۔)


[338] نسخۂ رضا۔ (ج۔ م۔)


[339] یہ شعر اور مقطع نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔ م۔)


[340] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[341] نوٹ: یہ مصرعہ مختلف نسخوں میں مختلف ہے۔ (ج۔ م۔)

نسخۂ مہر: یہ درد وہ نہیں ہےکہ پیدا کرے کوئی

نسخۂ طاہر: یہ درد وہ نہیں ہے جو پیدا کرے کوئی

نسخۂ آسی: یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی

نسخۂ حمیدیہ: یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی

مزید: نسخۂ رضا میں یہ شعر اُس غزل کا حصہ ہے جس کا مطلع ہے

وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی؟

ہستی کو لفظِ معنیِ عنقا کرے کوئی (ج۔ م۔)


[342] ایک اچھے نسخے میں بلا اعلانِ نون ’’کاں کا تیر‘‘ چھپا ہے۔ باقی تمام زیرِ نظر نسخوں میں ’’کمان کا تیر‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[343] نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر درج نہیں ہے۔ (ج۔ م۔)


[344] زیادہ نسخوں میں ’’بادشاہ‘‘ اور کم میں ’’پادشاہ‘‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[345] یہ شعر نسخۂ مہر کے علاوہ کسی اور نسخے میں نہیں ملا۔ مہر صاحب نے نوائے سروش میں اس شعر کو متن میں جگہ تو دی ہے مگر تشریح نہیں لکھی۔ میرا خیال ہے کہ غالب سے اس کی نسبت مشکوک ہے (ج۔ م۔)


[346] نسخۂ حمیدیہ (اور مہر) میں یہاں لفظ ’’اگر‘‘ ہے، دوسرے تمام نسخوں میں ’’مگر‘‘ ، صرف طباطبائی نے حمیدیہ کی املا قبول کی ہے۔ ممکن ہے کہ حمیدیہ میں یہ لفظ کتابت کی غلطی ہو۔ (ا۔ ع۔)

مزید: نسخۂ مہر میں یہاں ’’مگر‘‘ کی جگہ ’’اگر‘‘ چھپا ہے لیکن نسخۂ حمیدیہ، نسخۂ عرشی، نسخۂ مالک رام، نسخۂ نظامی، نسخۂ حسرت موہانی نسخۂ بیخود اور دیگر تمام پیشِ نظر قدیم و جدید نسخوں میں ’’مگر‘‘ ہی چھپا ہے اور اس میں احتمالِ معنوی نے ایک مزید لطف بھی پیدا کر دیا ہے۔ تمام مہیا شہادتوں سے یہاں ’’مگر‘‘ ہی غالب کا لفظ معلوم ہوتا ہے البتہ نسخۂ طباطبائی (لکھنو ۱۹۶۱) میں نسخۂ مہر ہی کی طرح ’’اگر‘‘ چھپا ہے۔ اس نسخے میں اغلاطِ کتابت کی کثرت ہے۔ غالباً ان دونوں نسخوں میں ’’اگر‘‘ غلطیِ کاتب ہے۔ علاوہ ازیں نسخۂ مہر میں کاتب نے اس غزل کے اشعار کی ترتیب بے محابا بدل ڈالی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[347] یہ مشہور شعر نسخۂ مہر اور نسخۂ طاہر کے علاوہ کسی اور نسخے میں نہیں ملا۔ گمان غالب ہے کہ یہ شعر بہادر شاہ ظفر کا ہے۔ نیز مہر صاحب نے نوائے سروش میں اس شعر کو متن میں جگہ تو دی ہے مگر تشریح نہیں لکھی۔ (ج۔ م۔)


[348] متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔ م۔)


[349] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ان دو شعروں اور مقطع پر مشتمل ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔ م۔)


[350] نسخۂ مہر میں ’’اسد‘‘ کی جگہ ’’مجھے‘‘ چھپا ہے مگر یہ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے کیونکہ دوسرے مصرع میں متکلم نے صیغۂ جمع استعمال کیا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[351] متداول دیوان میں یہ غزل صرف اس ایک شعر پر مشتمل ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔ م۔)


[352] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ان دو شعروں پر مشتمل ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔ م۔)


[353] آئے۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)


[354] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ایک شعر پر مشتمل ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔ م۔)


[355] اس شعر سے آخر تک کے اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[356] نسخۂ حسرت موہانی میں ’’ترے‘‘ چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں ’’ترے‘‘ اور ’’تری‘‘ کی تمیز مشکل تھی۔ شعر کا مفہوم دونوں صورتوں میں تقریباً ایک ہی رہتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[357] اس شعر سے آخر تک کے اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[358] نسخۂ طباطبائی میں ’’کی نقاب‘‘ چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں یوں بھی یائے حطی ہی چھپی ہے۔ مگر نقاب کی تذکیر و تانیث کے بارے میں تو دہلی و لکھنو کا جدا جدا شیوہ بھی تھا۔ غالب نے لکھا ہے: زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے رخ پر کھلا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[359] یہاں سے آخر تک کے چار اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[360] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔ م۔)


[361] نسخۂ مہر میں ’’کوئی ہے‘‘ کی جگہ ’’ہے کوئی‘‘ چھپا ہے۔ کسی دوسرے پیشِ نظر قدیم و جدید نسخوں میں یہ شعر اس طرح درج نہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[362] نسخۂ عرشی میں ’’نور‘‘ کی جگہ ’’طور‘‘ چھپا ہے۔ یہ سہوِ طباعت ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[363] نسخۂ مہر ’’آؤ نا‘‘ (ح۔ع۔خ۔)


[364] بعض حضرات بہ اضافت ’’بزمِ چراغاں‘‘ لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ ’’بزم کرنا‘‘ کوئی اردو محاورہ نہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جوشِ قدح سے بزم کو چراغاں کیے ہوئے مدت گزر چکی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[365] نسخۂ مہر میں ’’ہے‘‘ (ج۔ م۔)


[366] نسخۂ رضا میں ’’ڈھونڈے ہے‘‘ بجائے ’’مانگے ہے‘‘


[367] نسخۂ مہر میں ’’کے‘‘ (ج۔ م۔)


[368] یہ عجیب بات ہے کہ نسخۂ نظامی اور نسخۂ مہر میں نیز متعدد دوسرے قدیم نسخوں میں یہ مصرع ایک ہی طور پر مہمل چھپا ہے، یعنی:

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری خوشامد سے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[369] حاشیہ از نسخۂ رضا: (غزل میں نواب تجمل حسین خاں فرخ آبادی سے متعلق مدحیہ اشعار ہیں۔ نواب صاحب کا انتقال ۹ نومبر ۱۸۴۶ کو ہوا تھا۔ غزل نسخہ کراچی مکتوبہ ۳۰ اگست ۱۸۴۵ میں نہیں ہے لہذا اسے ۳۰ اگست ۱۸۴۵ تا ۹ نومبر ۱۸۴۶ کی فکر کردہ تسلیم کرنا چاہیے۔ دیوانِ ذوقؔ مرتبہ آزادؔ میں درج ہے کہ یہ غزل نواب اصغر علی خاں نسیمؔ رام پوری مقیم دہلی کے طرحی مشاعرہ منعقدہ ۱۸۴۵ میں پڑھی گئی تھی۔ ذوق ؔ، مومنؔ، داغؔ وغیرہ بھی موجود تھے۔ گویا مشاعرہ ۱۸۴۵ء میں بعد از ۳۰ اگست منعقد ہوا تھا۔ ظاہر ہے غزل بھی اسی زمانے میں کہی گئی ہو گی)


[370] یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ مگر نسخۂ مہر میں غلام رسول مہر صاحب نے ابوالکلام کے حوالے سے اس کو درج کیا ہے۔ (ج۔ م۔)


[371] نسخۂ رضا میں ’’یا‘‘ بجائے ’’اے‘‘ (ج۔ م۔)


[372] نسخۂ رضا میں ’’کیوں کر‘‘ بجائے ’’کیوں سر‘‘ (ج۔ م۔)


[373] یہ مصرع نسخہ رضا میں یوں درج ہے: دوست گر کوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری


[374] یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ اس کی وجہ غلام رسول مہر کے بقول یہ ہے کہ غالب کی زندگی میں آخری بار جو دیوان چھپا تھا، یہ اس سے بعد کہی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)

مزید‘ ٭ ’’یہ غزل مرزا صاحب نے اپنے دوسرے سفرِ رام پورمیں ۲۸ دسمبر ۱۸۶۵ء کو یہاں سے رخصت ہونے سے پہلے کہی تھی۔ اس زمانے میں کلب علی خاں بہادر رام پور کے نواب تھے۔‘‘ نسخہ عرشی طبع دوم، صفحہ ۴۳۳ (نسخۂ رضا)


[375] نسخۂ رضا سے مزید دو شعر۔ (ج۔ م۔)


[376] یہ غزل بھی متداول دیوان میں درج نہیں۔ اس کی وجہ غلام رسول مہر کے بقول یہ ہے کہ غالب کی زندگی میں آخری بار جو دیوان چھپا تھا، یہ اس سے بعد کہی گئی ہے۔ (ج۔ م۔)

مزید: ٭خط بنام نواب امین الدین احمد خاں، مورخہ ۲۶ جولائی ۱۸۶۵ء (نسخۂ رضا)


[377] نسخۂ رضا: کاٹ کر پھینکیے ناخن، تو باندازِ ہلال (ج۔ م۔)


[378] سبز، مثلِ خطِ نوخیز، ہو خطِ پرکار (نسخۂ رضا)


[379] مروجہ نسخوں میں ’’کے‘‘ کی جگہ ’’کی‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)

مزید: حامد علی خاں کے نسخے میں یہ مصرع یوں ہے: وہ شہنشاہ کہ جس کے پئے تعمیرِ سرا (ج۔ م۔)


[380] اکثر مروجہ نسخوں میں ’’کی خاشاک‘‘ چھپا ہے۔ لفظِ خاشاک بہ صیغۂ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ دیکھیے فرہنگِ آصفیہ۔ اس قسم کے اغلاط کی وجہ پہلے حواشی میں جگہ جگہ بیان ہو چکی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔) مزید: نسخۂ حامد علی خاں میں : واں کے خاشاک سے حاصل ہو جسے یک پرِ کاہ (ج۔ م۔)


[381] نسخۂ مہر میں ’’غم خوار‘‘ (ج۔ م۔)


[382] نسخۂ مہر میں یہاں ’’مظہرِ ذات خدا‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ یہ الفاظ دوسرے کسی زیر نظر نسخے میں نہیں ملے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[383] نسخۂ مہر میں یہاں ’’سدا‘‘ کی جگہ ’’اسد‘‘ چھپا ہے مگر اس کی تصدیق کسی دوسرے نسخے سے نہیں ہو سکی۔ (ح۔ع۔خ۔)


[384] نسخۂ عرشی: ’’کیے‘‘ (ح۔ع۔خ۔)


[385] بعض اچھے نسخوں میں ’’شعلۂ دود دوزخ‘‘ چھپا ہے۔ ’’شعلۂ دود‘‘ بے محل بات ہے۔ (ح۔ع۔خ۔) مزید: نسخۂ ح۔ع۔خ۔ میں : ’’شعلہ و دود دوزخ‘‘ (ج۔ م۔)


[386] بعض نسخوں میں ’’گُل و سنبل و فردوسِ بریں‘‘ کی عجیب و غریب ترکیب چھپی ہے۔ غالب نے ’’شعلہ و دودِ دوزخ‘‘ کا مقابلہ ’’گُل و سنبلِ فردوسِ بریں‘‘ سے کیا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[387] نسخۂ نظامی : جائے، آئے۔۔ نسخۂ شِو نرائن : جاوے، آوے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[388] بعض نسخوں میں ’’ہر روزہ‘‘ کی جگہ ’’ہر روز‘‘ چھپا ہے جو سہوِ کتابت ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[389] بعض نسخوں میں غلط فہمی کی بنا پر ’’چکے‘‘ کی جگہ ’’چکی‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[390] بعض مروجہ نسخوں میں ’’چاہتا ہے لگام‘‘ چھپا ہے۔ جو غلط ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[391] نسخۂ مہر میں ’’غم سے زیست ہو گئی ہو حرام‘‘ یہ غالباً سہوِ کتابت ہے۔ (ح۔ع۔خ۔) مزید: نسخۂ رضا میں بھی ’’ہو حرام‘‘ (ج۔ م۔)


[392] مزید شعر از نسخۂ رضا۔ (ج۔ م۔)


[393] نسخۂ نظامی کی تقلید میں مستند نسخوں میں بھی یہاں ’’اُس‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں یہ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے کیوں کہ‘‘ اِس رقم‘‘ میں اشارہ قریبی تحریرِ ما بعد یعنی آخری شعر کی طرف ہے۔ نظر بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[394] چند نسخوں میں ’’روائیِ‘‘ ہے۔ اکثر جگہ ’روانی‘ کر دیا گیا ہے جو غلط ہے۔ (ا۔ ع۔) مزید: بعض نسخوں میں ’’روائی‘‘ کی جگہ ’’روانئی‘‘ چھپا ہے، غالب نے ’’رسائی‘‘ کے مقابلے میں ’’روائی‘‘ لکھا تھا۔ دیکھیے طباطبائی۔ (ح۔ع۔خ۔)

مزید: ہم نے متن میں اکثر مستند نسخوں کی تقلید میں ’’روانئی‘‘ کو ترجیح دی ہے۔ (ج۔ م۔)


[395] نسخۂ عرشی اور بعض دیگر مستند نسخوں میں ’’دکھا دوں گا‘‘ ہے مگر نسخۂ نظامی میں، نیز دیگر قدیم نسخوں ’’میں دکھاؤں گا‘‘ ہی ہے۔ (ح۔ ا۔ خ۔)


[396] نسخۂ مہر میں ’’پائیں‘‘ (ج۔ م۔)

مزید: نسخۂ عرشی میں یہ مصرع یوں چھپا ہے: خامے سے پائی طبیعت نے مدد۔ دونوں طرح شعر تقریباً ہم معنی ہی رہتا ہے۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ نسخۂ مہر میں دوسرا مصرع یوں چھپا ہے: بادباں کے اٹھتے ہی لنگر کھلا

یہ صریحاً سہوِ کتابت ہے۔ لنگر اٹھتا، بادبان کھلتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[397] ٭یہ قصیدہ مرزا صاحب نے منشی شیو نرائن کی طرف سے مسٹر ایلن برون کے یہاں بیٹا پیدا ہونے کی مبارک باد پر لکھا تھا (نسخۂ رضا)


[398] مزید شعر از نسخۂ رضا۔ (ج۔ م۔)


[399] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: انجمِ چرخ، گوہر آگیں فرش (ج۔ م۔)


[400] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے : کہ جہاں گدیہ گر کا نام نہیں۔ (ج۔ م۔)


[401] نسخۂ نظامی میں ’’ستائش‘‘ کی جگہ ’’شکایت‘‘ چھپا ہے، ستائش ہی بہ ظاہر درست ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[402] نسخۂ مہر میں ’’کھائے‘‘ (ج۔ م۔)


[403] بعض قدیم و جدید نسخوں میں ’’تو‘‘ کی جگہ ’’کہ‘‘ چھپا ہے۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[404] غالب نے قلم مذکر و مونث دونوں طرح لکھا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[405] نسخۂ مہر میں ’’جائے‘‘ (ج۔ م۔)


[406] نسخۂ آسی میں ’’نہ شاخ و برگ و بار (ج۔ م۔)


[407] جب خزاں ہو تب آئے اس کی بہار (نسخۂ مہر)


[408] نسخۂ مہر میں ’’شاخِ برگ و بار‘‘ (ج۔ م۔)


[409] نسخۂ مہر میں ’’عز جاہ و شانِ جلال‘‘ چھپا ہے۔ اس سے کوئی خاص معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[410] نسخۂ مہر میں یہ شعر اس طرح درج ہے:

اب تو مِل جائے گی ان سے تیری سانٹھ لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ (ج۔ م۔)


[411] نسخۂ مہر میں ’’بہ جا‘‘ (ج۔ م۔)


[412] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ اس طرح درج ہے: اب مہر میں اور برق میں کچھ فرق نہیں ہے (ج۔ م۔)


[413] نسخۂ مہر میں ’’کہ ایک جوہر‘‘ (ج۔ م۔)


[414] نسخۂ مہر میں ’’تفتہ‘‘ (ج۔ م۔)


[415] غالب نے یہ سہرا اپنے دیوان میں شامل نہیں کیا تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[416] نسخۂ مہر میں ’’شہزادے‘‘ (ج۔ م۔)


[417] نسخۂ حسرت میں ’’مکرر‘‘ چھپا ہے لیکن کسی اور نسخے میں اس کی سند نہیں ملی۔ (ح۔ع۔خ۔)


[418] اس کی ایک املا ’’غلطاں‘‘ بھی ہے (ج۔ م۔)


[419] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ اس طرح درج ہے:

دیکھیں، کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا! (ج۔ م۔)

مزید: محمد حسین آزاد کی آبِ حیات میں ’’بڑھ کر‘‘ کی جگہ ’’بہتر‘‘ چھپا ہے مگر مروجہ نسخوں میں اختلاف ہے۔ معلوم نہیں کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)

مزید: (مرزا جواں بخت کی شادی کی تاریخیں یکم و دوم ماہِ اپریل۱۸۵۲ بتائی جاتی ہیں) نسخۂ رضا


[420] آخری دو شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)


[421] نسخۂ مہر میں ’’تھی‘‘ (ج۔ م۔)


[422] آزاد کے آبِ حیات میں ’’قول کا‘‘ چھپا ہے، نسخۂ نظامی میں ’’قول میں‘‘ (ح۔ع۔خ۔)


[423] حاشیہ از نسخۂ رضا: (یہ قطعہ دہلی اردو اخبار جلد ۱۴ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۸ مارچ ۱۸۵۲ء میں شائع ہوا تھا)


[424] نسخۂ نظامی، سہوِ کتابت: توقیر۔ (ح۔ع۔خ۔)


[425] غالبؔ نے اسے جان بوجھ کر الف سے لکھا ہے حالاں کہ زنبیل سے مراد عَمر عیّار (جسے عَمرو عیّار بھی کہتے ہیں) کی زنبیل ہی ہے۔ مبادا یہ دانستہ اس لئے الف سے لکھا ہے کہ کسی کا دھیان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف نہ جائے۔ (ا۔ ع۔)

مزید: غالب نے یہاں ’’امر‘‘ ہی لکھا ہے، یعنی متحرک میم کے ساتھ۔ جن حضرات کا یہ خیال ہے کہ یہاں ’’عمرو‘‘ ہی لکھنا مناسب ہے، انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ’’عمرو‘‘ میں میم ساکن ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[426] نسخۂ مہر میں عنوان ’’چکنی ڈلی‘‘ (ج۔ م۔)


[427] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ یوں درج ہے:

وضع میں اس کو سمجھ لیجئے قافِ تریاق (ج۔ م۔) مزید: غالب نے ’’سمجھیے‘‘ میں میم کو متحرک اور ساکن دونوں طرح استعمال کیا ہے۔ اب اس لفظ میں سکون جائز نہیں۔ نسخۂ مہر میں ’’اگر سمجھیے‘‘ کی جگہ ’’سمجھ لیجیے‘‘ چھپا ہے لیکن اور کسی دستیاب نسخے میں یہ شعر یوں نہیں ملا۔ (ح۔ع۔خ۔)


[428] ٭ نسخۂ مہر میں ’’بادشاہ‘‘ (ج۔ م۔)


[429] نسخۂ حمیدیہ اور نسخۂ مہر میں ’’نوشت و خواند‘‘ چھپا ہے۔ باقی اکثر نسخوں میں (بشمول نسخۂ نظامی، عرشی) ’’نوشت خواند‘‘ چھپا ہے جو اہلِ زبان بولتے ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)


[430] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: افطارِ صوم کی کچھ، اگر، دستگاہ ہو۔ (ج۔ م۔)


[431] چند نسخوں میں یہ مصرع یوں درج ہے: اٹھا اک دن بگولہ سا جو تھا کچھ جوشِ وحشت میں (ا۔ ع۔)


[432] نسخۂ مہر میں ’’تشنہ‘‘ لفظ آیا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے۔ (ج۔ م۔)


[433] حاشیہ از نسخۂ رضا: یہ قطعہ رسالہ مخزن اپریل ۱۹۰۷ء میں اس تمہید کے ساتھ شائع ہوا تھا:۔ ’’تھوڑے دن ہوئے میجر سید حسن صاحب بلگرامی سے تذکرہ شعرا ہو رہا تھا جس میں انہوں نے غالبؔ کا ایک قطعہ سنایا۔ قطعے کے عمدہ ہونے میں کیا شک ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ان کے اس بیان نے کہ یہ قطعہ ان کے والد مرحوم سے ان کو پہنچا اور اب تک غالبؔ کے کسی کلام میں شائع نہیں ہوا، اس کی خوبی زیادہ کر دی۔ میں نے اسے لکھ لیا اور ان کی اجازت سے مخزن کو بھیجتا ہوں۔ شیداؔ از کیمبرج۔‘‘ (ج۔ م۔)


[434] نسخۂ مہر میں مصرعہ یوں ہے: خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے (ج۔ م۔)


[435] نسخۂ رضا میں مصرعہ یوں ہے: سِوا اناج کے، جو ہے مقلوبِ جاں


[436] محظوظ سے سال ۱۸۵۴ عیسوی نکلتا ہے


[437] ۱۲۷۰ ہجری


[438] ۱۲۷۷ ہجری


[439] نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا عنوان ہے۔ شریکِ غالبؔ (ج۔ م۔)


[440] نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا عنوان ہے۔ درباری (ج۔ م۔)


[441] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ یوں ہے: اس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں (ج۔ م۔)


[442] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ اس طرح درج ہے:

یوں کہا آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب؟ (ج۔ م۔)


[443] حاشیہ از نسخۂ رضا: مولانا نظامیؔ بدایونی مرحوم نے اپنی شرح دیوانِ غالبؔ صفحہ نمبر ۲۴۸ میں قطعہ #۴ اور قطعہ #۵ کے متعلق لکھا ہے، کہ سب سے پہلے ان قطعات کا اضافہ طبعِ سوم میں اس ریمارک کے ساتھ ہوا تھا کہ بعض نقادانِ سخن ان قطعات کے طرزِ بیان کو حضرتِ غالبؔ کے رنگ سے جداگانہ سمجھتے ہیں۔ اس پر طبعِ سوم کے ناظرین میں سے بعض اہل الرائے حضرات نے شکایت کی کہ ان قطعات کو دیوانِ غالبؔ میں جگہ دینا غالبؔ کے کلام کی توہین کرنا ہے۔ ہم نے نواب عماد الملک (میجر سید حسن بلگرامی کے بھائی) سے ان کے متعلق دریافت کیا۔ وہ فرمانے لگے کہ وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غالبؔ کے مصنفہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بزرگ سے سنے تھے جو ان کو غالبؔ سے منسوب کرتے تھے، ممکن ہے کہ یہ غالبؔ کا ابتدائی کلام ہو۔

یعنی (۱) شیداؔ نے ان اشعار کو میجر سید حسن بلگرامی سے لیا اور سید حسن صاحب کو یہ ان کے والد گرامی سے پہنچے اور (۲) نظامی بدایونی کے دریافت کرنے پر سید حسن صاحب کے بھائی نے تصدیق کی کہ انہوں نے اپنے ایک بزرگ سے (اپنے والد مرحوم سے نہیں) سنا تھا اور اس لیے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غالبؔ کے مصنفہ ہیں۔ یہ روایت خاصی ضعیف ہے

جناب قاضی عبد الودود نے اپنے مضمون ’’کتب خانہ خدا بخش اور غالبؔ‘‘ مشمولہ اردوئے معلیٰ دہلی، غالبؔ نمبر، حصہ دوم، صفحہ ۷۸میں لکھا ہے کہ ’’دیوانِ غالبؔ اردو کے ان نسخوں میں سے جو غالبؔ کے دورانِ حیات میں طبع ہو چکے تھے، یہاں موجود ہیں: نسخہ مطبع احمدی، مطبع نظامی۔ مقدم الذکر کے یہاں دو نسخے تھے، جن میں سے ایک کا باوجودِ تلاش اس وقت کچھ پتا نہ ملا۔ اس کے آخر میں جناب قاسم حسن خان و برادر زادہ خدا بخش خان منتظمِ کتب خانہ کے قول کے مطابق غالبؔ کا ایک قطعہ ہے جو محمد بخش خاں پدرِ خدا بخش خاں کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ یہ قطعہ وہی ہے جو عماد الملک کی روایت پر غالبؔ سے منسوب کیا گیا ہے۔ نیز مخزن میں اس قطعے کو شائع کرنے والے صاحب کا نام شیدا لکھا گیا ہے۔ یہ عبدالحمید خواجہ ہیں جو ان دنوں کیمبرج میں مقیم تھے۔۔۔۔‘‘

(نوٹ: اب میں نے معلوم کر لیا ہے کہ قطعہ نمبر ۵ ’’صدائے عندلیب‘‘ غالبؔ کے شاگرد مرزا عبدالصمد بیگ ذاکرؔ کا ہے (دیکھو دیوانِ ذاکرؔ صفحہ ۲۱)


[444] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ یہ مثنوی مرزا غالبؔ کے مرتبہ اس بے نام اردو کتابچے کے دیباچے کے آخر میں ملتی ہے، جو شاید انہوں نے ہندوستان میں مقیم انگریزوں کو اردو سکھانے کے لئے اپنے منتخب رقعات اور اشعار پر مشتمل ترتیب دیا تھا


[445] کچھ نسخوں میں یہ مصرعہ یوں ہے: دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ

اور اس سلسلے میں خضر ناگپوری (رازِ حیات۔ خضر ناگپوری) نے بحث کی ہے کہ وہی مصرعہ درست ہے جس میں ’رک رُک‘ ہے (ا۔ ع۔)

مزید: اس رباعی کے دوسرے مصرع کے متعلق بڑا جھگڑا رہا ہے۔ یہ بہ ظاہر حضرت طباطبائی کے عروضی اعتراض سے شروع ہوا جو غالباً غلط فہمی پر مبنی تھا۔ اس کے بعد مختلف حضرات اس مصرع پر طبع آزمائی کرتے رہے اور انہوں نے ’’رک رک کر‘‘ کے بجائے صرف ’’رک کر‘‘ رکھ کر اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی مگر یہ لحاظ نہ فرمایا کہ س اصلاح سے رباعی کی جان بھی نکالی گئی ہے۔ ’’دل رک کر بند ہو گیا‘‘ تو ایسا ہی مہمل ہے جیسا ’’دل رک کر رک گیا‘‘ یا ’’دل بند کر بند ہو گیا‘‘ ۔ غالب نے ’’دل رک رک کر‘‘ کہا تھا تو اس طرح ایک ایسے تدریجی عمل کی طرف ایک بلیغ اشارہ کیا تھا جو آخرِ کار حرکتِ قلب کاملاً بند ہو جانے کی تمہید بنا تھا اور جس کا ذکر کیے بغیر مصرع قطعاً بے کیف رہ جاتا ہے۔ عروض خواہ کچھ کہے ’’رک کر‘‘ کو ’’رک رک کر‘‘ کی جگہ نہیں دی جا سکتی۔ (ح۔ع۔خ۔)


[446] نسخۂ طباطبائی میں یہ مصرع یوں درج ہے: ’’یعنی ہر بار کاغذِ باد کی طرح‘‘ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)


[447] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: لاٹھی وہ لگے کہ جس میں آواز نہ ہو (ج۔ م۔)


[448] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: جس دن سے کہ ہم غمزدہ زنجیر بپا ہیں (ج۔ م۔)۔


[449] یہاں متن میں ’’تجھ سے‘‘ کو کاٹ کر موٹے قلم سے شکستہ خط میں ’’یکسر‘‘ تحریر کیا ہے۔ (حاشیہ از پروفیسر حمید احمد خان مرتبِ نسخۂ حمیدیہ) (ج۔ م۔)


[450] یہ شعر مرتب کے بقول قلمی مخطوطے کے متن کے بجائے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں درج ہے۔ (ج۔ م۔)


[451] اس مصرع میں ’’ہے اسد‘‘ کے لفظ کو کاٹ کر ’’غالب‘‘ لکھا گیا ہے۔ (حاشیہ از حمید احمد خان)


[452] ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۔ (ج۔ م۔)


[453] ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۔ (ج۔ م۔)


[454] نسخۂ حمیدیہ میں بھی یہ شعر بعینہ درج ہے جیسا کہ اس نسخۂ نظامی میں، مگر نسخۂ رضا میں یہ شعر دونوں مصرعوں کے دو لفظوں کے اختلاف کے ساتھ یوں درج ہے:

رمیدن، گلِ باغِ واماندگی ہے

عبث محمل آرائے رفتار ہیں ہم

(ج۔ م۔)


[455] یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ مگر نسخۂ مہر میں غلام رسول مہر صاحب نے ذیل کے حوالے سے اس کو درج کیا ہے۔ (ج۔ م۔)

(یہ غزل دیوانِ نواب الہی بخش خان معروفؔ متوفی ۱۸۲۶ کے ایک مخمس میں ملتی ہے۔ قیاس ہے کہ یہ۱۸۲۱ کے بعد ہی کہی گئی ہو گی کیونکہ یہ نسخہ بھوپال (قدیم) بہ خطِ غالب (۱۸۱۶) اور نسخہ بھوپال (۱۸۲۱) دونوں میں شامل نہیں۔


[456] نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: پروانہ خانہ غم ہو تو پھر کس لئے اسدؔ (ج۔ م۔)


[457] حاشیہ از نسخۂ رضا: (یہ غزل نسخہ بھوپال کے حاشیے پر کسی دوسرے کے قلم سے درج ہے، اس لیے اسے ۱۸۱۶ کے بعد کے کلام میں رکھا گیا۔ مگر غزل کا اسلوب غالبؔ کے اسلوب سے میل نہیں کھاتا۔ اگر یہ غالبؔ ہی کا کلام ہے تو ابتدائی مشق کا نمونہ سمجھنا چاہیے، کیونکہ ۲۰ سال کی عمر تک غالبؔ کے فکر و فن کی توانائی ظاہر ہو چکی تھی) (ج۔ م۔)


[458] حاشیہ از نسخۂ رضا: (اس قصیدے کے کُل ۲۹ اشعار میں سے ۳ شعر غزل؎ ’’جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی‘‘ کے طور پر الگ سے متداول دیوان میں درج ہوئے ہیں۔ اس لیے اب یہ قصیدہ ۲۶ اشعار پر مشتمل ہے


[459] حاشیہ از نسخۂ رضا: (منظوم اشتہار (اسعد الاخبار آگرہ۔ ۱۲ مارچ ۱۸۴۹ء) یہ اشتہار غالبؔ کے شاگرد غلام نجف خاں کے نام سے چھپا تھا)


[460] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ خط بنام سیاحؔ ۳۱ جولائی ۱۸۶۰ء


[461] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭یہ قطعہ، خط بنام نواب کلب علی خاں، مورخہ ۱۱ اگست ۱۸۶۵ء کے ساتھ بھیجا گیا تھا


[462] حاشیہ از نسخۂ رضا: مرزا صاحب نے اس زمین میں اپنی برسوں پرانی غزل کا مقطع حذف کر کے اور آخر میں یہ دو شعر بڑھا کر، نواب کلب علی خاں بہادر والیِ رامپور کی خدمت میں ۹ جون ۱۸۶۶ء کو بھیجی تھی


[463] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭یہ قطعہ، مکتوبِ غالبؔ بنام نواب کلب علی خاں بہادر مورخہ ۵ رجب ۱۲۸۴ھ (۳ نومبر ۱۸۶۷ء) کے ساتھ بھیجا گیا تھا اور یہ مرزا غالبؔ کا آخری کلام ہے جو تا حال دریافت ہوا ہے


[464] (یہ پانچوں رباعیاں سید الاخبار دہلی، جلد ۸، شمارہ۲۸، ۱۶ نومبر ۱۸۵۰ء میں شائع ہوئی تھیں)


[465] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ خط بنام مولانا احمد حسین میناؔ مرزا پوری، مورخہ ۱۳ جولائی ۱۸۶۷ء