لفظ لفظ
حصہ اول
فیض احمد فیض
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
دستِ صبا
نقشِ فریادی
اور
زنداں نامہ کا کلام
ترتیب و تدوین
اعجاز عبید
اے دلِ بیتاب ٹھہر!
تیرگی
ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب
کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
چل
رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
دونوں
عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے
رات
کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہی
تاریکی تو ہے غازۂ رخسارِ سحر
صبح
ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر
ابھی
زنجیر چھنکتی ہے پسِ پردۂ ساز
مطلق
الحکم ہے شیرازۂ اسباب ابھی
ساغرِ
ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں
لغزشِ
پا میں ہے پابندیِ آداب ابھی
اپنے
دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو
اپنے
میخانوں کو میخانہ تو بن لینے دو
جلد
یہ سطوتِ اسباب بھی اُٹھ جائے گی
یہ
گرانباریِ آداب بھی اُٹھ جائے گی
خواہ
زنجیر چھنکتی ہی، چھنکتی ہی رہے
٭٭٭
سیاسی لیڈر کے نام
سالہا
سال یہ بے آسرا جکڑے ہوئے ہاتھ
رات
کے سخت و سیہ سینے میں پیوست رہے
جس
طرح تنکا سمندر سے ہو سر گرمِ ستیز
جس
طرح تیتری کہسار پہ یلغار کرے
اور
اب رات کے سنگین و سیہ سینے میں
اتنے
گھاؤ ہیں کہ جس سمت نظر جاتی ہے
جا
بجا نور نے اک جان سا بن رکھا ہے
دور
سے صبح کی دھڑکن کی صدا آتی ہے
تیرا
سرمایہ، تری آس یہی ہاتھ تو ہیں
اور
کچھ بھی تو نہیں پاس، یہی ہاتھ تو ہیں
تجھ
کو منظور نہیں غلبۂ ظلمت، لیکن
تجھ
کو منظور ہے یہ ہاتھ قلم ہو جائیں
اور
مشرق کی کمیں گہ میں دھڑکتا ہوا دن
رات
کی آہنی میت کے تلے دب جائے!
٭٭٭
مرے ہمدم، مرے دوست
گر
مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم، مرے دوست
گر
مجھے اس کا یقین ہو کہ ترے دل کی تھکن
تیری
آنکھوں کی اداسی، ترے سینے کی جلن
میری
دلجوئی، مرے پیار سے مت جائے گی
گر
مرا حرفِ تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی
اٹھے پھر ترا اُجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری
پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری
بیمار جوانی کو شفا ہو جائے
گر
مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم، مرے دوست!
روز
و شب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں
تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے، شیریں،
آبشاروں
کے، بہاروں کے ، چمن زاروں کے گیت
آمدِ
صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ
سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے
مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم
ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
کیسے
اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے
دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں
کس
طرح عارضِ محبوب کا شفاف بلور
یک
بیک بادۂ احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے
گلچیں کے لیے جھکتی ہے خود شاخِ گلاب
کس
طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یونہی
گاتا رہوں، گاتا رہوں تیری خاطر
گیت
بنتا رہوں، بیٹھا رہوں تیری خاطر
یہ
مرے گیت ترے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغمہ
جراح نہیں، مونس و غم خوار سہی
گیت
نشتر تو نہیں، مرہمِ آزار سہی
تیرے
آزار کا چارہ نہیں، نشتر کے سوا
اور
یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس
جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں
مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا
٭٭٭
صبح آزادی
اگست 47ء
یہ
داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ
انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ
وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے
تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک
کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں
تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں
تو جا کے رکے گا سفینۂ غمِ دل
جواں
لہو کی پراسرار شاہراہوں سے
چلے
جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ
حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی
رہیں باہیں، بدن بلاتے رہے
بہت
عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت
قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
سبک
سبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن
سنا
ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور
سنا
ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام
بدل
چکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور
نشاطِ
وصل حلال و عذابِ ہجر حرام
جگر
کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی
پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں
سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی
ابھی
چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی
گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ
دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے
چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
٭٭٭
لوح قلم
ہم
پرورشِ لوح قلم کرتے رہیں گے
جو
دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اسبابِ
غمِ عشق بہم کرتے رہیں گے
ویرانیِ
دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے
ہاں
تلخیِ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں
اہلِ ستم، مشقِ ستم کرتے رہیں گے
منظور
یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا
دم
ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
مے
خانہ سلامت ہے، تو ہم سرخیِ مے سے
تزئینِ
درو بامِ حرم کرتے رہیں گے
باقی
ہے لہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگِ
لب و رخسارِ صنم کرتے رہیں گے
اک
طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک
عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
٭٭٭
شورشِ بربط و نَے
پہلی آواز
اب
سعِی کا امکاں اور نہیں پرواز کا مضموں ہو بھی چکا
تاروں
پہ کمندیں پھینک چکے، مہتاب پہ شبخوں ہو بھی چکا
اب
اور کسی فردا کے لیے ان آنکھوں سے کیا پیماں کیجے
کس
خواب کے جھوٹے افسوں سے تسکینِ دل ناداں کیجے
شیرینیِ
لب، خوشبوئے دہن، اب شوق کا عنواں کوئی نہیں
شادابیِ
دل، تفریحِ نظر، اب زیست کا درماں کوئی نہیں
جینے
کے فسانے رہنے دو، اب ان میں الجھ کر کیا لیں گے
اک
موت کا دھندا باقی ہے، جب چاہیں گے نپٹا لیں گے
یہ
تیرا کفن، وہ میرا کفن، یہ مری لحد، وہ تیری ہے
دوسری آواز
ہستی
کی متاعِ بے پایاں ، جاگیر تری ہے نہ میری ہے
اس
بزم میں اپنی مشعلِ دل، بسمل ہے تو کیا، رخشاں ہے تو کیا
یہ
بزم چراغاں رہتی ہے، اک طاق اگر ویراں ہے تو کیا
افسردہ
ہیں گر ایام ترے، بدلا نہیں مسلکِ شام و سحر
ٹھہرے
نہیں موسمِ گل کے قدم ، قائم ہے جمالِ شمس و قمر
آباد
ہے وادیِ کاکل و لب، شاداب و حسیں گلگشتِ نظر
مقسوم
ہے لذتِ دردِ جگر، موجود ہے نعمتِ دیدۂ تر
اس
دیدۂ تر کا شکر کرو، اس ذوق نظر کا شکر کرو
اس
شام و سحر کا شکر کرو، اس شمس و قمر کا شکر کرو
پہلی آواز
گر
ہے یہی مسلکِ شمس و قمر ان شمس و قمر کا کیا ہوگا
رعنائیِ
شب کا کیا ہوگا، اندازِ سحر کا کیا ہوگا
جب
خونِ جگر برفاب بنا، جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں
اس
دیدۂ تر کا کیا ہوگا، اس ذوقِ نظر کا کیا ہوگا
جب
شعر کے خیمے راکھ ہوئے، نغموں کی طنابیں ٹوٹ گئیں
یہ
ساز کہاں سر پھوڑیں گے، اس کلکِ گہر کا کیا ہوگا
جب
کنجِ قفس مسکن ٹھہرا، اور جیب و گریباں طوق و رسن
آئے
کہ نہ آئے موسمِ گل، اس دردِ جگر کا کیا ہوگا
دوسری آواز
یہ
ہاتھ سلامت ہیں جب تک، اس خوں میں حرارت ہے جب تک
اس
دل میں صداقت ہے جب تک، اس نطق میں طاقت ہے جب تک
ان
طوقِ سلاسل کو ہم تم، سکھلائیں گے شورشِ بربط و نَے
وہ
شورش جس کے آگے زبوں ہنگامۂ طبلِ قیصر و کَے
آزاد
ہیں اپنے فکر و عمل بھر پور خزینہ ہمت کا
اک
عمر ہے اپنی ہر ساعت، امروز ہے اپنا ہر فردا
یہ
شام و سحر یہ شمس و قمر، یہ اختر و کوکب اپنے ہیں
یہ
لوح قلم، یہ طبل و علم، یہ مال و حشم سب اپنے ہیں
٭٭٭
دامنِ یوسف
جاں
بیچنے کو آئے تو بے دام بیج دی
اے
اہلِ مصر، وضعِ تکلف تو دیکھیے
انصاف
ہے کہ محکمِ عقوبت سے بیشتر
اک
بار سوئے دامن یوسف تو دیکھیے!
٭٭٭
طوق و دار کا موسم
روش
روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں
ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم
گراں
ہے دل پہ غمِ روزگار کا موسم
ہے
آزمائشِ حسنِ نگار کا موسم
خوشا
نظارۂ رخسارِ یار کی ساعت
خوشا
قرارِ دلِ بے قرار کا موسم
حدیثِ
بادہ و ساقی نہیں تو کس مصرف
حرامِ
ابرِ سرِ کوہسار کا موسم
نصیبِ
صحبتِ یاراں نہیں تو کیا کیجے
یہ
رقص سایۂ سرو و چنار کا موسم
یہ
دل کے داغ تو دکھتے تھی یوں بھی پر کم کم
کچھ
اب کے اور ہے ہجرانِ یار کا موسم
یہی
جنوں کا، یہی طوق و دار کا موسم
یہی
ہے جبر، یہی اختیار کا موسم
قفس
ہے بس میں تمہارے، تمہارے بس میں نہیں
چمن
میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم
صبا
کی مست خرامی تہِ کمند نہیں
اسیرِ
دام نہیں ہے بہار کا موسم
بلا
سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ
گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
سرِ مقتل
(قوالی)
کہاں
ہے منزلِ راہِ تمنا ہم بھی دیکھیں گے
یہ
شب ہم پر بھی گزرے گی، یہ فردا ہم بھی دیکھیں گے
ٹھہر
اے دل، جمالِ روئے زیبا ہم بھی دیکھیں گے
ذرا
صیقل تو ہولے تشنگی بادہ گساروں کی
دبا
رکھیں گے کب تک جوشِ صہبا ہم بھی دیکھیں گے
اٹھا
رکھیں گے کب تک جام و مینا ہم بھی دیکھیں گے
صلا
آ تو چکے محفل میں اُس کوئے ملامت سے
کسے
روکے گا شورِ پندِ بے جا ہم بھی دیکھیں گے
کسے
ہے جا کے لوٹ آنے کا یارا ہم بھی دیکھیں گے
چلے
ہیں جان و ایماں آزمانے آج دل والے
وہ
لائیں لشکرِ اغیار و اعدا ہم بھی دیکھیں گے
وہ
آئیں تو سرِ مقتل،تماشا ہم بھی دیکھیں گے
یہ
شب کی آخری ساعت گراں کیسی بھی ہو ہمدم
جو
اس ساعت میں پنہاں ہے اجالا ہم بھی دیکھیں گے
جو
فرقِ صبح پر چمکے گا تارا ہم بھی دیکھیں گے
۔
تمہارے حسن کے نام
سلام
لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام
بکھر
گیا جو کبھی رنگِ پیرہن سرِ بام
نکھر
گئی ہے کبھی صبح، دوپہر ، کبھی شام
کہیں
جو قامتِ زیبا پہ سج گئی ہے قبا
چمن
میں سرو و صنوبر سنور گئے ہیں تمام
بنی
بساطِ غزل جب ڈبو لیے دل نے
تمہارے
سایۂ رخسار و لب میں ساغر و جام
سلام
لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام
تمہارے
ہاتھ پہ ہے تابشِ حنا جب تک
جہاں
میں باقی ہے دلداریِ عروسِ سخن
تمہارا
حسن جواں ہے تو مہرباں ہے فلک
تمہارا
دم ہے تو دمساز ہے ہوائے وطن
اگر
چہ تنگ ہیں اوقات ، سخت ہیں آلام
تمہاری
یاد سے شیریں ہے تلخیِ ایام
سلام
لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام
٭٭٭
ترانہ
دربارِ
وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ
اپنی سزا کو پہنچیں گے ، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے
خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب
تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب
ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو
دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے
بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے
بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے
ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ
حشر تو ان سے اُٹھے گا۔ کچھ دور تو نالے جائیں گے
٭٭٭
(نذرِ سودا)
فکر
دلداریِ گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ
مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
قصۂ
سازشِ اغیار کہوں یا نہ کہوں
شکوۂ
یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں
جانے
کیا وضع ہے اب رسمِ وفا کی اے دل
وضعِ
دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں
جانے
کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس
مدحِ
زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں
یوں
بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا
پوچھتی
ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں
گویا
اس سوچ میں ہے دل میں لہو بھر کے گلاب
دامن
و جیب کو گلنار کروں یا نہ کروں
ہے
فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل
گرمیِ گفتار کروں یا نہ کروں
دو عشق
(۱)
تازہ
ہیں ابھی یاد میں اے ساقیِ گلفام
وہ
عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام
وہ
پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت
وہ
دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام
امید
کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ
لو
شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر
لو
ڈوب گئے درد کے بے خواب ستارے
اب
چمکے گا بے صبر نگاہوں کا مقدر
اس
بام سے نکلے ترے حسن کا خورشید
اُس
کنج سے پھوٹے گی کرن رنگِ حنا کی
اس
در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
اُس
راہ پہ پھولے گی شفق تیری قبا کی
پھر
دیکھے ہیں وہ ہجر کے تپتے ہوئے دن بھی
جب
فکرِ دل و جاں میں فغاں بھول گئی ہے
ہر
شب وہ سیہ بوجھ کہ دل بیٹھ گیا ہے
ہر
صبح کی لو تیر سی سینے میں لگی ہے
تنہائی
میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا
کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں
سے لگایا ہے کبھی دست صبا کو
ڈالی
ہیں کبھی گردنِ مہتاب میں باہیں
(۲)
چاہا
ہے اسی رنگ سے لیلائے وطن کو
تڑپا
ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈی
ہے یونہی شوق نے آسائشِ منزل
رخسار
کے خم میں کبھی کاکل کی شکن میں
اُس
جانِ جہاں کو بھی یونہی قلب و نظر نے
ہنس
ہنس کے صدا دی، کبھی رو رو کے پکارا
پورے
کیے سب حرفِ تمنا کے تقاضے
ہر
درد کو اجیالا، ہر اک غم کو سنوارا
واپس
نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا
نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریّتِ
جاں، راحتِ تن، صحتِ داماں
سب
بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی
اس
راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا
پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار
گرجے
ہیں بہت شیخ سرِ گوشۂ منبر
کڑکے
ہیں بہت اہلِ حکم برسرِ دربار
چھوڑا
نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی
نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اس
عشق، نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر
داغ ہے ، اس دل میں بجز داغِ ندامت
٭٭٭
نوحہ
مجھ
کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جانے ہوئے
لے
گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
اس
میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس
میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب
اس
کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے
غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
کیا
کروں بھائی ، یہ اعزاز میں کیونکر پہنوں
مجھ
سے لے لو مری سب چاک قمیضوں کا حساب
آخری
بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج
تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب
آ
کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ
کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
٭٭٭
ایرانی طلبا کے نام
جو امن اور آزادی کی جدوجہد میں کام آئے
یہ
کون سخی ہیں
جن
کے لہو کی
اشرفیاں،
چھن چھن، چھن چھن،
دھرتی
کے پیہم پیاسے
کشکول
میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول
کو بھرتی جاتی جاتی ہیں
یہ
کون جواں ہیں ارضِ عجم
یہ
لکھ لُٹ
جن
کے جسموں کے
بھرپور
جوانی کا کندن
یوں
خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں
کوچہ کوچہ بکھرا ہے
اے
ارضِ عجم، اے ارضِ عجم
کیوں
نوچ کے ہنس ہنس پھینک دئے
ان
آنکھوں نے اپنے نیلم
ان
ہونٹوں نے اپنے مرجاں
ان
ہاتوں کی ’’بے کل چاندی
کس
کام آئی، کس ہاتھ لگی؟’’
’’اے
پوچھنے والے پردیسی!
یہ
طفل و جواں
اُس
نور کے نورس موتی ہیں
اُس
آگ کی کچی کلیاں ہیں
جس
میٹھے فور اور کڑوی آگ
سے
ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا
صبح
بغاوت کا گلشن
اور
صبح بغاوت کا گلشن
اور
صبح ہوئی من من، تن تن،
ان
جسموں کا چاندی سونا
ان
چہروں کے نیلم، مرجاں،
جگ
مگ جگ مگ، رَخشاں رَخشاں
جو
دیکھنا چاہے پردیسی
پاس
آئے دیکھے جی بھر کر
یہ
زیست کی رانی کا جھومر
یہ
امن کی دیوی کا کنگن!’’
٭٭٭
نثار میں تیری گلیوں کے۔
نثار
میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی
ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو
کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر
چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے
اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ
سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت
ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے
جو
چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے
ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسیے
وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر
گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے
فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں
بجھا
جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ
تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک
اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ
اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض
تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتِ
سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں
یونہی
ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ
اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی
ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ
اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی
سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے
فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے
گر
آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ
رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر
آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ
چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو
تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ
گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
٭٭٭
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
موتی
ہو کہ شیشہ، جام کہ دُر
جو
ٹوٹ گیا، سو ٹوٹ گیا
کب
اشکوں سے جڑ سکتا ہے
جو
ٹوٹ گیا ، سو چھوٹ گیا
تم
ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن
میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں
کا مسیحا کوئی نہیں
کیا
آس لگائے بیٹھے ہو
شاید
کہ انہی ٹکڑوں میں کہیں
وہ
ساغرِ دل ہے جس میں کبھی
صد
ناز سے اُترا کرتی تھی
صہبائے
غمِ جاناں کی پری
پھر
دنیا والوں نے تم سے
یہ
ساغر لے کر پھوڑ دیا
جو
مے تھی بہا دی مٹی میں
مہمان
کا شہپر توڑ دیا
یہ
رنگیں ریزے ہیں شاید
اُن
شوخ بلوریں سپنوں کے
تم
مست جوانی میں جن سے
خلوت
کو سجایا کرتے تھے
ناداری،
دفتر، بھوک اور غم
ان
سپنوں سے ٹکراتے رہے
بے
رحم تھا چو مکھ پتھراؤ
یہ
کانچ کے ڈھانچے کیا کرتے
یا
شاید ان ذروں میں کہیں
موتی
ہے تمہاری عزت کا
وہ
جس سے تمہارے عجز پہ بھی
شمشاد
قدوں نے رشک کیا
اس
مال کی دھن میں پھرتے تھے
تاجر
بھی بہت، رہزن بھی کئی
ہے
چور نگر، یا مفلس کی
گر
جان بچی تو آن گئی
یہ
ساغر، شیشے، لعل و گہر
سالم
ہوں تو قیمت پاتے ہیں
یوں
ٹکڑے ٹکڑے ہوں، تو فقط
چبھتے
ہیں، لہو رُلواتے ہیں
تم
ناحق شیشے چن چن کر!
دامن
میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں
کا مسیحا کوئی نہیں
کیا
آس لگائے بیٹھے ہو
یادوں
کے گریبانوں کے رفو
پر
دل کی گزر کب ہوتی ہے
اک
بخیہ اُدھیڑا، ایک سیا
یوں
عمر بسر کب ہوتی ہے
اس
کارگہِ ہستی میں جہاں
یہ
ساغر، شیشے ڈھلتے ہیں
ہر
شے کا بدل مل سکتا ہے
سب
دامن پر ہو سکتے ہیں
جو
ہاتھ بڑھے ، یاور ہے یہاں
جو
آنکھ اُٹھے، وہ بختاور
یاں
دھن دولت کا انت نہیں
ہوں
گھات میں ڈاکو لاکھ ، مگر
کب
لوٹ جھپٹ سے ہستی کی
دو
کانیں خالی ہوتی ہیں
یاں
پربت پربت ہیرے ہیں
یاں
ساگر ساگر موتی ہیں
کچھ
لوگ ہیں جو اس دولت پر
پردے
لٹکائے پھرتے ہیں
ہر
پربت کو، ہر ساگر کو
نیلام
چڑھائے پھرتے ہیں
کچھ
وہ بھی ہیں لڑ بھِڑ کر
یہ
پردے نوچ گراتے ہیں
ہستی
کے اُٹھائی گیروں کی
ہر
چال اُلجھائے جاتے ہیں
ان
دونوں میں رَن پڑتا ہے
نِت
بستی بستی نگر نگر
ہر
بستے گھر کے سینے میں
ہر
چلتی راہ کے ماتھے پر
یہ
کالک بھرتے پھرتے ہیں
وہ
جوت جگاتے رہتے ہیں
یہ
آگ لگاتے پھرتے ہیں
وہ
آگ بجھائے رہتے ہیں
سب
ساغر، شیشے، لعل و گوہر
اس
بازی میں بَد جاتے ہیں
اُٹھو
سب خالی ہاتھوں کو
اس
رَن سے بلاوے آتے ہیں
٭٭٭
زنداں کی ایک شام
شام
کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ
زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں
صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے
کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ
زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں
،محو ہیں بنانے میں
دامنِ
آسماں پہ نقش و نگار
شانۂ
بام پر دمکتا ہے!
مہرباں
چاندنی کا دستِ جمیل
خاک
میں گھل گئی ہے آبِ نجوم
نور
میں گھل گیا ہے عرش کا نیل
سبز
گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے
ہیں جس طرح دل میں
موجِ
دردِ فراقِ یار آئے
دل
سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی
شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم
کا زہر گھولنے والے
کامراں
ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ
گاہِ وصال کی شمعیں
وہ
بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند
کو گل کریں تو ہم جانیں
٭٭٭
زنداں کی ایک صبح
رات
باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آ کر
چاند
نے مجھ سے کہا۔’’جاگ سحر آئی ہے
جاگ
اس شب جو مئے خواب ترا حصہ تھی
جام
کے لب سے تہِ جام اتر آئی ہے’’
عکسِ
جاناں کو وداع کر کے اُٹھی میری نظر
شب
کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
جا
بجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند
کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبتے،
تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے
رات
اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے
صحنِ
زنداں میں رفیقوں کے سنہرے چہرے
سطحِ
ظلمت سے دمکتے ہوئے ابھرے کم کم
نیند
کی اوس نے ان چہروں سے دھو ڈالا تھا
دیس
کا درد، فراقِ رخِ محبوب کا غم
دور
نوبت ہوئی، پھرنے لگے بیزار قدم
زرد
فاقوں کے ستائے ہوئے پہرے والے
اہلِ
زنداں کے غضبناک ، خروشاں نالے
جن
کی باہوں میں پھرا کرتے ہیں باہیں ڈالے
لذتِ
خواب سے مخمور ہوائیں جاگیں
جیل
کی زہر بھری چور صدائیں جاگیں
دور
دروازہ کھلا کوئی، کوئی بند ہوا
دور
مچلی کوئی زنجیر ، مچل کر روئی
دور
اُترا کسی تالے کے جگر میں خنجر
سر
ٹپکنے لگا رہ رہ کے دریچہ کوئی
گویا
پھر خواب سے بیدار ہوئے دشمنِ جاں
سنگ
و فولاد سے ڈھالے ہوئے جناتِ گراں
جن
کے چنگل میں شب و روز ہیں فریاد کناں
میرے
بیکار شب و روز کی نازک پریاں
اپنے
شہپور کی رہ دیکھ رہے ہیں یہ اسیر
جس
کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر
(ناتمام)
٭٭٭
یاد
دشتِ
تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری
آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب
دشتِ
تنہائی میں، دوری کے خس و خاک تلے
کھل
رہے ہیں، تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
اٹھ
رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ
اپنی
خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم
دور۔افق
پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر
رہی ہے تری دلدار نظر کی شبنم
اس
قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل
کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں
گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل
گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
٭٭٭
خدا وہ وقت نہ لائے
خدا
وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں
کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے
تری
مسرّتِ پیہم تمام ہو جائے
تری
حیات تجھے تلخ جام ہو جائے
غموں
سے آئینۂ دل گداز ہو تیرا
ہجومِ
یاس سے بیتاب ہو کے رہ جائے
وفورِ
درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا
شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے
غرورِ
حسن سراپا نیاز ہو تیرا
طویل
راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے
تری
نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں
رسیدہ تمنا بہار کو ترسے
کوئی
جبیں نہ ترے سنگِ آستاں پہ جھکے
کہ
جنسِ عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے
فریبِ
وعدۂ فردا پہ اعتماد کرے
خدا
وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے
وہ
دل کہ تیرے لیے بیقرار اب بھی ہے
وہ
آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے
٭٭٭
انتہائے کار
پندار
کے خوگر کو
ناکام
بھی دیکھو گے؟
آغاز
سے واقف ہو
انجام
بھی دیکھو گے
رنگینیِ
دنیا سے
مایوس
سا ہو جانا
دکھتا
ہوا دل لے کر
تنہائی
میں کھو جانا
ترسی
ہوئی نظروں کو
حسرت
سے جھکا لینا
فریاد
کے ٹکڑوں کو
آہوں
میں چھپا لینا
راتوں
کی خموشی میں
چھپ
کر کبھی رو لینا
مجبور
جوانی کے
ملبوس
کو دھو لینا
جذبات
کی وسعت کو
سجدوں
سے بسا لینا
بھولی
ہوئی یادوں کو
سینے
سے لگا لینا
٭٭٭
انجام
ہیں
لبریز آہوں سے ٹھنڈی ہوائیں
اداسی
میں ڈوبی ہوئی ہیں گھٹائیں
محبت
کی دنیا پہ شام آ چکی ہے
سیہ
پوش ہیں زندگی کی فضائیں
مچلتی
ہیں سینے میں لاکھ آرزوئیں
تڑپتی
ہیں آنکھوں میں لاکھ التجائیں
تغافل
کے آغوش میں سو رہے ہیں
تمہارے
ستم اور میری وفائیں
مگر
پھر بھی اے میرے معصوم قاتل
تمہیں
پیار کرتی ہیں میری دعائیں
٭٭٭
سردوِ شبانہ
گم
ہے اک کیف میں فضائے حیات
خامشی
سجدۂ نیاز میں ہے
حسنِ
معصوم خوابِ ناز میں ہے
اے
کہ تو رنگ و بو کا طوفاں ہے
اے
کہ تو جلوہ گر بہار میں ہے
زندگی
تیرے اختیار میں ہے
پھول
لاکھوں برس نہیں رہتے
دو
گھڑی اور ہے بہارِ شباب
آ
کہ کچھ دل کی سن سنا لیں ہم
آ
محبت کے گیت گالیں ہم
میری
تنہائیوں پہ شام رہے؟
حسرتِ
دید نا تمام رہے؟
دل
میں بیتاب ہے صدائے حیات
آنکھ
گوہر نثار کرتی ہے
آسماں
پر اداس ہیں تارے
چاندنی
انتظار کرتی ہے
آ
کہ تھوڑا سا پیار کر لیں ہم
زندگی
زر نگار کر لیں ہم!
٭٭٭
آخری خط
وہ
وقت مری جان بہت دور نہیں ہے
جب
درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور
حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک
جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن
چائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں
چھن
جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی
شاید
مری الفت کو بہت یاد کرو گی
اپنے
دلِ معصوم کو ناشاد کرو گی
آؤ
گی مری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز
بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے
شاید
مری تربت کو بھی ٹھکرا کے چلو گی
شاید
مری بے سود وفاؤں پہ ہنسو گی
اس
وضع کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہوگا
لیکن
دلِ ناکام کو احساس نہ ہوگا
القصّہ
مآل غمِ الفت پہ ہنسو تم
یا
اشک بہاتی رہو، فریاد کرو تم
ماضی
پہ ندامت ہو تمہیں یا کہ مسرت
خاموش
پڑا سوئے گا واماندۂ الفت
٭٭٭
حسینۂ خیال سے!
مجھے
دے دے
رسیلے
ہونٹ، معصومانہ پیشانی، حسیں آنکھیں
کہ
میں اک بار پھر رنگینیوں میں غرق ہو جاؤں!
مری
ہستی کو تیری اک نظر آغوش میں لے لے
ہمیشہ
کے لیے اس دام میں محفوظ ہو جاؤں
ضیاء
حسن سے ظلماتِ دنیا میں نہ پھر آؤں
گزشتہ
حسرتوں کے داغ میرے دل سے دھل جائیں
میں
آنے والے غم کی فکر سے آزاد ہو جاؤں
مرے
ماضی و مستقبل سراسر محو ہو جائیں
مجھے
وہ اک نظر، اک جاودانی سی نظر دے دے
(بروئننگ)
٭٭٭
مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
مری
جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
ابھی
تک دل میں تیرے عشق کی قندیل روشن ہے
ترے
جلووں سے بزمِ زندگی جنت بدامن ہے
مری
روح اب بھی تنہائی میں تجھ کو یاد کرتی ہے
ہر
اک تارِ نفس میں آرزو بیدار ہے اب بھی
ہر
اک بے رنگ ساعت منتظر ہے تیری آمد کی
نگاہیں
بچھ رہی ہیں راستہ از کار ہے اب بھی
مگر
جانِ حزیں صدمے سہے گی آخرش کب تک
تری
بے مہریوں پر جان دے گی آخرش کب تک؟
تیری
آواز میں سوئی ہوئی شیرینیاں آخر
مرے
دل کی فسردہ خلوتوں میں جا نہ پائیں گی
یہ
اشکوں کی فراوانی سے دھندلائی ہوئی آنکھیں
تری
رعنائیوں کی تمکنت کو بھول جائیں گی
پکاریں
گے تجھے تو لب کوئی لذّت نہ پائیں گے
گلو
میں تیری الفت کے ترانے سوکھ جائیں گے
مبادا
یاد ہائے عہدِ ماضی محو ہو جائیں
یہ
پارینہ فسانے موج ہائے غم میں کھو جائیں
مرے
دل کی تہوں سے تیری صورت ڈھل کے بہہ جائے
حریم
عشق کی شمع درخشاں بجھ کے رہ جائے
مبادا
اجنبی دنیا کی ظلمت گھیر لے تجھ کو!
مری
جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
٭٭٭
بعد از وقت
دل
کو احساس سے دوچار نہ کر دینا تھا
سازِ
خوابیدہ کو بیدار نہ کر دینا تھا
اپنے
معصوم تبسم کی فراوانی کو
وسعتِ
دید پہ گلبار نہ کر دینا تھا
شوقِ
مجبور کو بس ایک جھلک دکھلا کر
واقفِ
لذّتِ تکرار نہ کر دینا تھا
چشمِ
مشتاق کی خاموش تمناؤں کو
یک
بیک مائلِ گفتار نہ کر دینا تھا
جلوۂ
حسن کو مستور ہی رہنے دیتے
حسرتِ
دل کو گنہگار نہ کر دینا تھا
٭٭٭
سرودِ شبانہ
نیم
شب، چاند خود فراموشی
محفلِ
ہست و بود ویراں ہے
پیکرِ
التجا ہے خاموشی
بزمِ
انجم فسردہ ساماں ہے
آبشارِ
سکوت جاری ہے
چار
سو بے خودی سی طاری ہے
زندگی
جزوِ خواب ہے گویا
ساری
دنیا سراب ہے گویا
سو
رہی ہے گھنے درختوں پر!
چاندنی
کی تھکی ہوئی آواز
کہکشاں
نیم وا نگاہوں سے
کہہ
رہی ہے حدیثِ شوقِ نیاز
سازِ
دل کے خموش تاروں سے
چھن
رہا ہے خمارِ کیف آگیں
آرزو،
خواب، تیرا روئے حسیں
٭٭٭
انتظار
گزر
رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاضِ
زیست ہے آزردۂ بہار ابھی
مرے
خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو
حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی
تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
طویل
راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری
اداس
آنکھوں تری دید کو ترستی ہیں
بہارِ
حسن ، پہ پابندیِ جفا کب تک؟
یہ
آزمائشِ صبرِ گریز پا کب تک؟
قسم
تمہاری بہت غم اٹھا چکا ہوں میں
غلط
تھا دعویِ صبر و شکیب، آ جاؤ
قرارِ
خاطرِ بیتاب، تھک گیا ہوں میں
٭٭٭
تہِ نجوم
تہِ
نجوم ، کہیں چاندنی کے دامن میں
ہجومِ
شوق سے اک دل ہے بے قرار ابھی
خمارِ
خواب سے لبریز احمریں آنکھیں
سفید
رخ پہ پریشان عنبریں آنکھیں
چھلک
رہی ہے جوانی ہر اک بنِ مو سے
رواں
ہو برگِ گلِ تر سے جیسے سیلِ شمیم
ضیاء
مہ میں دمکتا ہے رنگِ پیراہن
ادائے
عجز سے آنچل اُڑا رہی ہے نسیم
دراز
قد کی لچک سے گداز پیدا ہے
ادائے
ناز سے رنگِ نیاز پیدا ہے
اداس
آنکھوں میں خاموش التجائیں ہیں
دل
حزیں میں کئی جاں بلب دعائیں ہیں
تہِ
نجوم کہیں چاندنی کے دامن میں
کسی
کا حسن ہے مصروف انتظار ابھی
کہیں
خیال کے آباد کردہ گلشن میں
ہے
ایک گل کہ ہے ناواقفِ بہار ابھی
٭٭٭
حسن اور موت
جو
پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو
فروغِ
نور ہو جس سے فضائے رنگیں میں
خزاں
کے جورو ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو
بہار
نے جسے خونِ جگر سے پالا ہو
وہ
ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں
ہزار
پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے
اجل
کی آنکھ فقط ایک کو ترستی ہے
کئی
دلوں کی امیدوں کا جو سہارا ہو
فضائے
دہر کی آلودگی سے بالا ہو
جہاں
میں آ کے ابھی جس نے کچھ نہ دیکھا ہو
نہ
قحط عیش و مسرت ، نہ غم کی ارزانی
کنارِ
رحمتِ حق میں اسے سلاتی ہے
سکوتِ
شب میں فرشتوں کی مرثیہ خوانی
طواف
کرنے کو صبح بہار آتی ہے
صبا
چڑھانے کو جنت کے پھول لاتی ہے
٭٭٭
تین منظر
تصور
شوخیاں
مضطر نگاہِ دید سرشار میں
عشرتیں
خوابیدہ رنگِ غازۂ رخسار میں
سرخ
ہونٹوں پر تبسم کی ضیائیں جس طرح
یاسمن
کے پھول ڈوبے ہوں مے گلنار میں
سامنا
چھنتی
ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں
بے
خوابیاں، افسانے، مہتاب، تمنائیں
کچھ
الجھی ہوئی باتیں، کچھ بہکے ہوئے نغمے
کچھ
اشک جو آنکھوں سے بے وجہ چھلک جائیں
رخصت
فسردہ
رخ، لبوں پر اک نیاز آمیز خاموشی
تبسم
مضمحل تھا، مرمریں ہاتھوں میں لرزش تھی
وہ
کیسی بے کسی تھی تیری پر تمکیں نگاہوں میں
وہ
کیا دکھ تھا تری سہمی ہوئی خاموش آہوں میں
٭٭٭
سرود
موت
اپنی، نہ عمل اپنا، نہ جینا اپنا
کھو
گیا شورشِ گیتی میں قرینہ اپنا
ناخدا
دور، ہوا تیز ، قریں کامِ نہنگ
وقت
ہے پھینک دے لہروں میں سفینہ اپنا
عرصۂ
دہر کے ہنگامے تہِ خواب سہی
گرم
رکھ آتشِ پیکار سے سینہ اپنا
ساقیا
رنج نہ کر جاگ اُٹھے گی محفل
اور
کچھ دیر اٹھا رکھتے ہیں پینا اپنا
بیش
قیمت ہیں یہ غم ہائے محبت، مت بھول
ظلمتِ
یاس کو مت سونپ خزینہ اپنا
٭٭٭
یاس
بربطِ
دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں
زمیں بوس راحتوں کے محل
مٹ
گئے قصہ ہائے فکر و عمل!
بزمِ
ہستی کے جام پھوٹ گئے
چھن
گیا کیفِ کوثر و تسنیم
زحمتِ
گریۂ و بکا بے سود
شکوۂ
بختِ نارسا بے سود
ہو
چکا ختم رحمتوں کا نزول
بند
ہے مدتوں سے بابِ قبول
بے
نیازِ دعا ہے ربِ کریم
بجھ
گئی شمعِ آرزوئے جمیل
یاد
باقی ہے بے کسی کی دلیل
اِنتظارِ
فضول رہنے دے
رازِ
الفت نباہنے والے
یارِ
غم سے کراہنے والے
کاوشِ
بے حصول رہنے دے
٭٭٭
آج کی رات
آج
کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ
سے بھر پور دن تمام ہوئے
اور
کل کی خبر کسے معلوم
دوش
و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو
نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی
ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت
ہے ممکن آج کی رات
آج
کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
اب
نہ دہرا فسانہ ہائے الم
اپنی
قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکرِ
فردا اتار دے دل سے
عمر
رفتہ پہ اشکبار نہ ہو
عہدِ
غم کی حکایتیں مت پوچھ
ہو چکیں
سب شکایتیں مت پوچھ
آج
کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
٭٭٭
ایک رہگزر پر
وہ
جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں
وہ
حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں
ہزار
فتنے تہِ پائے ناز، خاک نشیں
ہر
اک نگاہِ خمارِ شباب سے رنگیں
شباب
جس سے تخیّل پہ بجلیاں برسیں
وقار،
جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
ادائے
لغزشِ پا پر قیامتیں قرباں
بیاضِ
رخ پہ سحر کی صباحتیں قرباں
سیاہ
زلفوں میں وارفتہ نکہتوں کا ہجوم
طویل
راتوں کی خوابیدہ راحتوں کا ہجوم
وہ
آنکھ جس کے بناؤ پہ خالق اِترائے
زبانِ
شعر کی تعریف کرتے شرم آئے
وہ
ہونٹ فیض سے جن کے بہارِ لالہ فروش
بہشت
و کوثر و تسنیم و سلسبیل بدوش
گداز
جسم ، قبا جس پہ سج کے ناز کرے
دراز
قد جسے سروِ سہی نماز کرے
غرض
وہ حسن جو محتاجِ وصف و نام نہیں
وہ
حسن جس کا تصور بشر کا کام نہیں
کسی
زمانے میں اس رہگزر سے گزرا تھا
بصد
غرور و تجمّل، ادھر سے گزرا تھا
اور
اب یہ راہگزر بھی ہے دلفریب و حسیں
ہے
اس کی خاک میں کیف ِ شراب و شعر مکیں
ہوا
میں شوخیِ رفتار کی ادائیں ہیں
فضا
میں نرمیِ گفتار کی صدائیں ہیں
غرض
وہ حسن اب اس رہ کا جزوِ منظر ہے
نیازِ
عشق کو اک سجدہ گہ میسر ہے
٭٭٭
ایک منظر
بام
و در خامشی کے بوجھ سے چور
آسمانوں
سے جوئے درد رواں
چاند
کا دکھ بھرا فسانۂ نور
شاہراہوں
کی خاک میں غلطاں
خواب
گاہوں میں نیم تاریکی
مضمحل
لَے رباب ہستی کی
ہلکے
ہلکے سروں میں نوحہ کناں
٭٭٭
میرے ندیم!
خیال
و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے
فضائے
فکر و عمل ارغوان تھی جن سے
وہ
جن کے نور سے شاداب تھے مہ و انجم
جنونِ
عشق کی ہمت جوان تھی جن سے
وہ
آرزوئیں کہاں سو گئیں ہیں میرے ندیم؟
وہ
ناصبور نگاہیں، وہ منتظر راہیں
وہ
پاسِ ضبط سے دل میں دبی ہوئی آہیں
وہ
انتظار کی راتیں، طویل تیرہ و تار
وہ
نیم خواب شبستاں، وہ مخملیں باہیں
کہانیاں
تھیں، کہیں کھو گئی ہیں، میرے ندیم
مچل
رہا ہے رگِ زندگی میں خونِ بہار
الجھ
رہے ہیں پرانے غموں سے روح کے تار
چلو
کہ چل کے چراغاں کریں دیارِ حبیب
ہیں
انتظار میں اگلی محبتوں کے مزار
محبتیں
جو فنا ہو گئیں ہیں میرے ندیم!
٭٭٭
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
مجھ
سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں
نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا
غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری
صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری
آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو
جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں
نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور
بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں
اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان
گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم
و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جا
بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک
میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ
جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب
بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور
بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں
او ر بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ
سے پہلی سے محبت مری محبوب نہ مانگ
٭٭٭
سوچ
کیوں
میرا دل شاد نہیں
کیوں
خاموش رہا کرتا ہوں
چھوڑو
میری رام کہانی
میں
جیسا بھی ہوں اچھا ہوں
میرا
دل غمگیں ہے تو کیا
غمگیں
یہ دنیا ہے ساری
یہ
دکھ تیرا ہے نہ میرا
ہم
سب کی جاگیر ہے پیاری
تو
گر میری بھی ہو جائے
دنیا
کے غم یونہی رہیں گے
پاپ
کے پھندے، ظلم کے بندھن
اپنے
کہے سے کٹ نہ سکیں گے
غم
ہر حالت میں مہلک ہے
اپنا
ہو یا اور کسی کا
رونا
دھونا، جی کو جلانا
یوں
بھی ہمارا، یوں بھی ہمارا
کیوں
نہ جہاں کا غم اپنا لیں
بعد
میں سب تدبیریں سوچیں
بعد
میں سکھ کے سپنے دیکھیں
سپنوں
کی تعبیریں سوچیں
بے
فکرے دھن دولت والے
یہ
آخر کیوں خوش رہتے ہیں
ان
کا سکھ آپس میں بانٹیں
یہ
بھی آخر ہم جیسے ہیں
ہم
نے مانا جنگ کڑی ہے
سر
پھوڑیں گے ، خون بہے گا
خون
میں غم بھی بہہ جائیں گے
ہم
نہ رہیں ، غم بھی نہ رہے گا
٭٭٭
رقیب سے
آ
کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس
نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس
کی الفت میں بھُلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر
کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا
ہے ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس
کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں
گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس
کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ
سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس
کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ
پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس
میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو
نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی
جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ
پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ
کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم
پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے
احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم
نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز
ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی
سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس
حرماں کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر
دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد
آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب
کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک
آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں
کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو
تولے ہوئے منڈ لاتے ہوئے آتے ہیں
جب
کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں
پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ
سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے
دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
٭٭٭
تنہائی
پھر
کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو
ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل
چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے
لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو
گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی
خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ
گل
کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے
بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب
یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
٭٭٭
چند روز اور مری جان!
چند
روز اور مری جان! فقط چند ہی روز
ظلم
کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور
کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رولیں
اپنے
اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم
پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر
محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی
ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی
کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس کے
ہر
گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن
اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک
ذرا صبر، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصۂ
دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم
کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا ہے
اجنبی
ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم
آج
سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
یہ
ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی
دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاندنی
راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد
دل
کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پکار
چند
روز اور مری جان! فقط چند ہی روز
٭٭٭
مرگِ سوز محبت
آؤ
کہ مرگِ سوزِ محبت منائیں ہم
آؤ
کہ حسنِ ماہ سے دل کو جلائیں ہم
خوش
ہوں فراقِ قامت و رخسارِ یار سے
سرو
گل و سمن سے نظر کو ستائیں ہم
ویرانیِ
حیات کو ویران تر کریں
لے
ناصح آج تیرا کہا مان جائیں ہم
پھر
اوٹ لے کے دامنِ ابرِ بہار کی
دل
کو منائیں ہم کبھی آنسو بہائیں ہم
سلجھائیں
بے دلی سے یہ الجھے ہوئے سوال
واں
جائیں یا نہ جائیں ، نہ جائیں کہ جائیں ہم
پھر
دل کو پاسِ ضبط کی تلقین کر چکیں
اور
امتحانِ ضبط سے پھر جی چرائیں ہم
آؤ
کہ آج ختم ہوئی داستانِ عشق
اب
ختمِ عاشقی کے فسانے سنائیں ہم
٭٭٭
کتے
یہ
گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ
بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے
کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں
بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ
آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت
میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو
بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا
ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ
ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ
فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ
مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو
انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ
چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ
آقاؤں کی ہڈّیاں تک چبا لیں
کوئی
ان کو احساسِ ذلّت دلا دے
کوئی
ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
٭٭٭
بول
بول،
کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول،
زباں اب تک تیری ہے
تیرا
ستواں جسم ہے تیرا
بول
کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ
کے آہن گر کی دکاں میں
تند
ہے شعلے، سرخ ہے آہن
کھلنے
لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا
ہر اک زنجیر کا دامن
بول،
یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم
و زباں کی موت سے پہلے
بول،
کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول،
جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
٭٭٭
اقبال
آیا
ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا
اور اپنی دھن میں غزلخواں گزر گیا
سنسان
راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران
میکدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں
چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر
اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
اب
دور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما
اور
پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند
اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
وہ
اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پر
اُس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور
اس کی لَے سے سینکڑوں لذت شناس ہیں
اس
گیت کے تمام محاسن ہیں لازوال
اس
کا وفور اس کا خروش، اس کا سوز و ساز
یہ
گیت مثلِ شعلۂ جوالہ تند و تیز
اس
کی لپک سے بادِ فنا کا جگر گداز
جیسے
چراغ وحشتِ صر صر سے بے خطر
یا
شمع بزم صبح کی آمد سے بے خبر
٭٭٭
موضوعِ سخن
گل
ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل
کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور
مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور
اُن ہاتھوں سے مَس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہات
ان
کا آنچل ہے ، کہ رخسار ، کہ پیراہن ہے
کچھ
تو ہے جس ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
جانے
اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
ٹمٹماتا
ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں
آج
پھر حسنِ دلآرا کی وہی دھج ہوگی
وہی
خوابیدہ سی آنکھیں، وہی کاجل کی لکیر
رنگِ
رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار
صندلی
ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر
اپنے
افکار کی ، اشعار کی دنیا ہے یہی
جانِ
مضموں ہے یہی، شاہدِ معنی ہے یہی
آج
تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے کے تلے
آدم
و حوّا کی اولاد پہ کیا گزری ہے؟
موت
اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم
پہ کیا گزرے گی، اجداد پہ کیا گزری ہے
ان
دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں
فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے؟
یہ
حسین کھیت ، پھٹا پڑتا ہے جو بن جن کا!
کس
لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے
یہ
ہر اک سمت پر اسرار کڑی دیواریں
جل
بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ
یہ
ہر اک گام پہ اُن خوابوں کی مقتل گاہیں
جن
کے پرتو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ
یہ
بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے
لیکن
اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے
اس جسم کے کمبخت دلآویز خطوط
آپ
ہی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہوں گے
اپنا
موضوعِ سخن ان کے سوا اور نہیں
طبعِ
شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں
٭٭٭
ہم لوگ
دل
کے ایواں میں لیے گُل شدہ شمعوں کی قطار
نورِ
خورشید سے سہمے ہوئے اکتائے ہوئے
حسنِ
محبوب کے سیّال تصور کی طرح
اپنی
تاریکی کو بھینچے ہوئے لپٹائے ہوئے
غایتِ
سود و زیاں، صورتِ آغاز و مآل
وہی
بے سود تجسس، وہی بے کار سوال
مضمحل
ساعتِ امروز کی بے رنگی سے
یادِ
ماضی سے غمیں ، دہشتِ فردا سے نڈھال
تشنہ
افکار جو تسکین نہیں پاتے ہیں
سوختہ
اشک جو آنکھوں میں نہیں آتے ہیں
اک
کڑا درد کہ جو گیت میں ڈھلتا ہی نہیں
دل
کے تاریک شگافوں سے نکلتا ہی نہیں
اور
اک الجھی ہوئی موہوم سی درماں کی تلاش
دشت
و زنداں کی ہوس، چاکِ گریباں کی تلاش
٭٭٭
شاہراہ
ایک
افسردہ شاہرہ ہے دراز
دور
افق پر نظر جمائے ہوئے
سرد
مٹی پہ اپنے سینے کے
سرمگیں
حسن کو بچھائے ہوئے
جس
طرح کوئی غمزدہ عورت
اپنے
ویراں کدے میں محوِ خیال
وصلِ
محبوب کے تصور میں
مو
بمو چور، عضو عضو نڈھال
٭٭٭
اے حبیبِ عنبر دست!
کسی
کے دستِ عنایت نے کنجِ زنداں میں
کیا
ہے آج عجب دل نواز بندوبست
مہک
رہی ہے فضا زلفِ یار کی صورت
ہوا
ہے گرمیِ خوشبو سے اس طرح سرمست
ابھی
ابھی کوئی گزرا ہے گل بدن گویا
کہیں
قریب سے ، گیسو بدوش ، غنچہ بدست
لیے
ہے بوئے رفاقت اگر ہوائے چمن
تو
لاکھ پہرے بٹھائیں قفس پہ ظلم پرست
ہمیشہ
سبز رہے گی وہ شاخِ مہر و وفا
کہ
جس کے ساتھ بندھی ہے دلوں کی فتح و شکست
یہ
شعرِ حافظِ شیراز ، اے صبا! کہنا
ملے
جو تجھ سے کہیں وہ حبیبِ عنبر دست
خلل
پذیر بود ہر بنا کہ مے بینی
بجز
بنائے محبت کہ خالی از خلل است
(سنٹرل
جیل حیدر آباد ۲۸۔٢٩ اپریل ۵۳ء)
٭٭٭
ملاقات
یہ
رات اُس درد کا شجر ہے
جو
مجھ سے ، تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم
تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں
لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے
کارواں، گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار
مہتاب، اس کے سائے
میں
اپنا سب نور، رو گئے ہیں
یہ
رات اُس درد کا شجر ہے
جو
مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر
اسی رات کے شجر سے
یہ
چند لمحوں کے زرد پتے
گرے
ہیں، اور تیرے گیسوؤں میں
الجھ
کے گلنار ہو گئے ہیں
اسی
کے شبنم سے خامشی کے
یہ
چند قطرے، تری جبیں پر
برس
کے ، ہیرے پرو گئے ہیں
بہت
سیہ ہے یہ رات لیکن
اسی
سیاہی میں رونما ہے
وہ
نہرِ خوں جو مری صدا ہے
اسی
کے سائے میں نور گر ہے
وہ
موجِ زر جو تری نظر ہے
وہ
غم جو اس وقت تیری باہوں
کے
گلستاں میںسلگ رہا ہے
(وہ
غم، جو اس رات کا ثمر ہے)
کچھ
اور تپ جائے اپنی آہوں
کی
آنچ میں تو یہی شرر ہے
ہر
اک سیہ شاخ کی کماں سے
جگر
میںٹوٹے ہیں تیر جتنے
جگر
سے نوچے ہیں، اور ہر اک
کا
ہم نے تیشہ بنا لیا ہے
الم
نصیبوں، جگر فگاروں
کی
صبح، افلاک پر نہیں ہے
جہاں
پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سحر
کا روشن افق یہیں ہے
یہیںپہ
غم کے شرار کھل کر
شفق
کا گلزار بن گئے ہیں
یہیں
پہ قاتل دکھوں کے تیشے
قطار
اندر قطار کرنوں
کے
آتشیں ہار بن گئے ہیں
یہ
غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ
غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں
جو غم سے کریم تر ہے
سحر
جو شب سے عظیم تر ہے
منٹگمری
جیل
۱۲اکتوبر ۔۳ نومبر ۵۳ء
٭٭٭
واسوخت
سچ
ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے
شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں،
جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی!
ہاں،
ہم ہی کار بندِ اصولِ وفا نہ تھے
آئے
تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے
تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
کیوں
دادِ غم، ہمیں نے طلب کی، برا کیا
ہم
سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے
گر
فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں
محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے
ہر
چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ
ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے
لب
پر ہے تلخیِ مئے ایام ، ورنہ فیضؔ
ہم
تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے
٭٭٭
اے روشنیوںکے شہر
سبزہ
سبزہ، سوکھ رہی ہے پھیکی، زرد دوپہر
دیواروںکو
چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور
افق تک گھٹتی، بڑھتی ، اُٹھتی، گرتی رہتی ہے
کہر
کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا
ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے
روشنیوں کے شہر
کون
کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر
جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک
کرہر سو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا
دل فکر میں ہے
اے
روشنیوں کے شہر
شب
خوں سے منھ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر
ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج
کی شب جب دیئے جلائیں، اونچی رکھیں لو
لاہور
جیل ۲۸
مارچ ،منٹگمری جیل ۱۵ اپریل ۵۴ء
٭٭٭
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
(ایتھل اور جولیس روز برگ کے خطوط
سے متاثر ہو کر لکھی گئ)
تیرے
ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار
کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے
ہاتوںکی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم
تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں
پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے
ہونٹوںکی لالی لپکتی رہی
تیری
زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے
ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب
گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم
چلے آئے ،لائے جہاں تک قدم
لب
پہ حرفِ غزل ، دل میں قندیلِ غم
اپنا
غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ
قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم
جو تاریک راہوںمیں مارے گئے
نارسائی
اگر اپنی تقدیر تھی
تیری
الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس
کا شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر
کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل
گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور
نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن
کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر
کر چلے درد کے فاصلے
کر
چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں
گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم
جو تاریک راہوں میںمارے گئے
منٹگمری
جیل
۱۵مئی ۵۴ء
٭٭٭
دریچہ
گڑی
ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر
ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے
ہر
ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے
کسی
پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں
کسی
پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی
پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دونیم
کسی
پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں
ہر
آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال
لہو
میںغرق مرے غمکدے میںآتے ہیں
اور
آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید
جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں
منٹگمری
جیل
دسمبر
۵۴ء
٭٭٭
درد آئے گا دبے پاؤں
اور
کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر
آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد
آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ
جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے
شعلۂ
درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا
دل
کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا
حلقۂ
زلف کہیں، گوشۂ رخسار کہیں
ہجر
کا دشت کہیں، گلشنِ دیدار کہیں
لطف
کی بات کہیں، پیار کا اقرار کہیں
دل
سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل
یہ
جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ
تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس
سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہوگا
مشتعل
ہو کے ابھی اٹھّیں گے وحشی سائے
یہ
چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات
بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگا
جنگ
ٹھہری ہے کوئی کھیل نہیں ہے اے دل
دشمنِ
جاں ہیں سبھی، سارے کے سارے قاتل
یہ
کڑی رات بھی ، یہ سائے بھی ، تنہائی بھی
درد
اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل
لاؤ
سلگاؤ کوئی جوشِ غضب کا انگار
طیش
کی آتشِ جرار کہاں ہے لاؤ
وہ
دہکتا ہوا گلزار کہاں سے لاؤ
جس
میں گرمی بھی ہے ، حرکت بھی توانائی بھی
ہو
نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر
ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
ان
کو شعلوںکے رجز اپنا پتا تو دیںگے
خیر،
ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی ، صدا تو دیں گے
دور
کتنی ہے ابھی صبح ، بتا تو دیں گے
منٹگمری
جیل
یکم
دسمبر ۵۴ء
٭٭٭
AFRICA
COME BACK
(ایک رجز)
آ
جاؤ، میں نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ
آ
جاؤ، مست ہو گئی میرے لہو کی تال
’آ
جاؤ ایفریقا‘
آ
جاؤ، میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا
آ
جاؤ، میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال
آ
جاؤ، میں نے درد سے بازو چھڑا لیا
آ
جاؤ، میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال
’آ
جاؤ ایفریقا‘
پنجے
میں ہتھکڑی کی کڑی بن گئی ہے گرز
گردن
کا طوق توڑ کے ڈھالی ہے میں نےڈھال
’آ
جاؤ ایفریقا‘
جلتے
ہیں ہر کچھار میں بھالوں کے مرگ نین
دشمن
لہو سے رات کی کالک ہوئی ہے لال
’آ
جاؤ ایفریقا‘
دھرتی
دھڑک رہی ہے مرے ساتھ ایفریقا
دریا
تھرک رہا ہے تو بن دے رہا ہے تال
میں
ایفریقا ہوں، دھار لیا میں نے تیرا روپ
میں
تو ہوں ،میری چال ہے تیری ببر کی چال
’آ
جاؤ ایفریقا‘
آؤ
ببر کی چال
’آ
جاؤ ایفریقا‘
منٹگمری
جیل ۱۴
جنوری ٥٥ء
٭٭٭
یہ فصل امیدوں کی ہمدم
سب
کاٹ دو بسمل پودوں کو
بے
آب سسکتے مت چھوڑو
سب
نوچ لو
بیکل
پھولوں کو
شاخوں
پہ بلکتے مت چھوڑو
یہ
فصل امیدوں کی ہمدم
اس
بار بھی غارت جائے گی
سب
محنت، صبحوں شاموں کی
اب
کے بھی اکارت جائے گی
کھیتی
کے کونوں، کھدروں میں
پھر
اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر
مٹی سینچو اشکوں سے
پھر
اگلی رت کی فکر کرو
پھر
اگلی رت کی فکر کرو
جب
پھر اک بار اُجڑنا ہے
اک
فصل پکی تو بھر پایا
جب
تک تو یہی کچھ کرنا ہے
٭٭٭
بنیاد کچھ تو ہو
کوئے
ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ
تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو
بیداد
گر سے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو
بولو،
کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے
چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف تھا
اتنا
تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل
میں کچھتو رنگ جمے جشنِ رقص کا
رنگیں
لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
خوں
پر گواہ دامنِ جلاّد کچھ تو ہو
جب
خونبہا طلب کریں ،بنیاد کچھ تو ہو
گر
تن نہیں ، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام،
نالہ، ہاؤ ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے
ہے درد، اے دلِ برباد کچھ تو ہو
بولو
کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو
کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
منٹگمری
جیل 13 اپریل 55ء
٭٭٭
کوئی عاشق کسی محبوبہ سے!
یاد
کی راہگزر جس پہ اسی صورت سے
مدتیں
بیت گئی ہیں تمہیں چلتے چلتے
ختم
ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو
موڑ
پڑتا ہے جہاں دشتِ فراموشی کا
جس
سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو
سانس
تھامے ہیں نگاہیں کہ نہ جانے کس دم
تم
پلٹ آؤ، گزر جاؤ، یا مڑ کر دیکھو
گرچہ
واقف ہیں نگاہیں کہ یہ سب دھوکا ہے
گر
کہیں تم سے ہم آغوش ہوئی پھر سے نظر
پھوٹ
نکلے گی وہاں اور کوئی راہگزر
پھر
اسی طرح جہاں ہوگا مقابل پیہم
سایۂ
زلف کا اور جنبشِ بازو کا سفر
دوسری
بات بھی جھوٹی ہے کہ دل جانتا ہے
یاں
کوئی موڑ کوئی دشت کوئی گھات نہیں
جس
کے پردے میںمرا ماہِ رواں ڈوب سکے
تم
سے چلتی رہے یہ راہ، یونہی اچھا ہے
تم
نے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو کوئی بات نہیں
اگست
55
٭٭٭
غزلیں
برو اے عقل و منہ منطق و حکمت درپیش
کہ مرا نسخۂ غمہائے فلاں درپیش است
عرفی
٭٭٭
ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے
گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے
٭٭٭
غزل
تم
آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش
میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
جنوں
میں جتنی بھی گزری، بکار گزری ہے
اگرچہ
دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی
ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب
وہ
شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے
وہ
بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ
بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
نہ
گل کھلے ہیں، نہ اُن سے ملے، نہ مے پی ہے
عجیب
رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن
میں غارتِ گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس
سے آج صبا بے قرار گزری ہے
٭٭٭
غزل
تمہاری
یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی
بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
حدیثِ
یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
تو
ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں
ہر
اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جواب
بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں
صبا
سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکرِ وطن
تو
چشمِ صبح میں آنسو اُبھرنے لگتے ہیں
وہ
جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا
میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں
درِ
قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو
فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں
٭٭٭
غزل
شفق
کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام
شبِ
فراق کے گیسو فضا میں لہرائے
کوئی
پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک
کو قافلۂ روز و شام ٹھہرائے
یہ
ضد ہے یادِ حریفانِ بادہ پیما کی
کہ
شب کو چاند نہ نکلے، نہ دن کو ابر آئے
صبا
نے پھر درِ زنداں پہ آ کے دی دستک
سحر
قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے
٭٭٭
غزل
عجزِ
اہل ستم کی بات کرو
عشق
کے دم قدم کی بات کرو
بزمِ
اہل طرب کو شرماؤ
بزمِ
اصحابِ غم کی بات کرو
بزمِ
ثروت کے خوش نشینوں سے
عظمتِ
چشمِ نم کی بات کرو
ہے
وہی بات یوں بھی اور یوں بھی
تم
ستم یا کرم کی بات کرو
خیر،
ہیں اہلِ دیر جیسے ہیں
آپ
اہل حرم کی بات کرو
ہجر
کی شب تو کٹ ہی جائے گی
روزِ
وصلِ صنم کی بات کرو
جان
جائیں گے جاننے والے
فیض،
فرہاد و جم کی بات کرو
٭٭٭
غزل
گرانیِ
شبِ ہجراں دو چند کیا کرتے
علاجِ
درد ترے درد مند کیا کرتے
وہیں
لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے
یہ
فرق دستِ عدو کے گزند کیا کرتے
جگہ
جگہ پہ تھے ناصح تو کُو بکُو دلبر
انھیں
پسند، اُنھیں ناپسند کیا کرتے
ہمیں
نے روک لیا پنجۂ جنوں ورنہ
ہمیں
اسیر یہ کوتہ کمند کیا کرتے
جنھیں
خبر تھی کہ شرطِ نوا گری کیا ہے
وہ
خوش نوا گلۂ قید و بند کیا کرتے
گلوئے
عشق کو دارو رسن پہنچ نہ سکے
تو
لوٹ آئے ترے سر بلند ، کیا کرتے !
٭٭٭
غزل
وہیں
ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں
وہ
اِک خلش کہ جسے ترا نام کہتے ہیں
تم
آ رہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں
نہ
جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں
یہی
کنارِ فلک کا سیہ تریں گوشہ
یہی
ہے مطلعِ ماہِ تمام کہتے ہیں
پیو
کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید
گراں
ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں
فقیہہِ
شہر سے مے کا جواز کیا پوچھیں
کہ
چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں
نوائے
مرغ کو کہتے ہیں اب زیانِ چمن
کھلے
نہ پھول ، اسے انتظام کہتے ہیں
کہو
تو ہم بھی چلیں فیض، اب نہیں سِردار
وہ
فرقِ مرتبۂ خاصہ و عام ، کہتے ہیں
٭٭٭
غزل
رنگ
پیرہن کا خوشبو ، زلف لہرانے کا نام
موسمِ
گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
دوستو
، اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں
کی بات رنگیں ہے، نہ میخانے کا نام
پھر
نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر
تصور نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام
(ق)
دلبری
ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام
اب
نہیں لیتے پر رُو زلف بکھرانے کا نام
اب
کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں
ان
دونوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام
محتسب
کی خیر، اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند
کا ، ساقی کا، مے کا، خم کا ،پیمانے کا نام
ہم
سے کہتے ہیں چمن والے، غریبانِ چمن
تم
کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
فیض
اُن کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنھیں
آشنا
کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام
٭٭٭
غزل
دل
میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے
بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
ایک
اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری
منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں
رقصِ
مے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو
سوئے
مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں
کچھ
ہمیں کو نہیں احسان اُٹھانے کا دماغ
وہ
تو جب آتے ہیں، مائل بہ کرم آتے ہیں
اور
کچھ دیر گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل
بھی کم دکھتا ہے، وہ یاد بھی کم آتے ہیں
٭٭٭
غزل
اگست1952ء
روشن
کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن
میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
اب
بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے
رہِ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں
ٹھہری
ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ
کچھ سحر کے رنگ پَر افشاں ہوئے تو ہیں
ان
میں لہو جلا ہو ہمارا، کہ جان و دل
محفل
میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
ہاں
کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لٹا کے ہم
اب
بے نیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں
اہلِ
قفس کی صبحِ چمن میں کھلے گی آنکھ
بادِ
صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں
ہے
دشت اب بھی دشت، مگر خونِ پا سے فیض
سیراب
چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں
٭٭٭
غزل
اب
وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو
بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج
تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب
وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے
ہے
خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو
آج سرِ کوئی بتاں ٹھہری ہے
ہے
وہی عارضِ لیلیٰ ، وہی شیریں کا دہن
نگہِ
شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے
وصل
کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر
کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے
بکھری
اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل
سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے
دستِ
صیاد بھی عاجز ، ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے
گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے
آتے
آتے یونہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے
جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ہم
نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض
گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
٭٭٭
غزل
آئے
کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس
کے بعد آئے جو عذاب آئے
(ق)
بامِ
مینا سے ماہتاب اُترے
دستِ
ساقی میں، آفتاب آئے
ہر
رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے
پھر وہ بے نقاب آئے
عمر
کے ہر ورق پہ دل کو نظر
تیری
مہر و وفا کے باب آئے
کر
رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج
تم یاد بے حساب آئے
نہ
گئی تیرے غم کی سرداری
دل
میں یوں روز انقلاب آئے
جل
اُٹھے بزم غیر کے در و بام
جب
بھی ہم خانماں خراب آئے
(ق)
اس
طرح اپنی خامشی گونجی
گویا
ہر سمت سے جواب آئے
فیض
تھی راہ سر بسر منزل
ہم
جہاں پہنچے، کامیاب آئے
٭٭٭
غزل
نذرِ غالب
کسی
گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں
پھر
آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں
بہار
آئے گی جب آئے گی، یہ شرط نہیں
کہ
تشنہ کام رہیں گرچہ بادہ رکھتے ہیں
تری
نظر کا گلہ کیا؟ جو ہے گلہ دل کا
تو
ہم سے ہے، کہ تمنا زیادہ رکھتے ہیں
نہیں
شراب سے رنگیں تو غرقِ خوں ہیں کہ ہم
خیالِ
وضعِ قمیص و لبادہ رکھتے ہیں
غمِ
جہاں ہو، غمِ یار ہو کہ تیر ستم
جو
آئے، آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
جوابِ
واعظِ چابک زباں میں فیض ہمیں
یہی
بہت ہیں جو دو حرفِ سادہ رکھتے ہیں
٭٭٭
غزل
تیری
صورت جو دلنشیں کی ہے
آشنا
شکل ہر حسیں کی ہے
حسن
سے دل لگا کے ہستی کی
ہر
گھڑی ہم نے آتشیں کی ہے
صبحِ
گل ہو کہ شامِ مے خانہ
مدح
اس روئے نازنیں کی ہے
شیخ
سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم
نے توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکر
دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات
گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک
تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے
خوں
سے تر آج آستیں کی ہے
کیسے
مانیں حرم کے سہل پسند
رسم
جو عاشقوں کے دیں کی ہے
فیض
اوجِ خیال سے ہم نے
آسماں
سندھ کی زمیں کی ہے
٭٭٭
غزل
یادِ
غزال چشماں، ذکرِ سمن عذاراں
جب
چاہا کر لیا ہے کنج قفس بہاراں
آنکھوں
میں درد مندی، ہونٹوں پہ عذر خواہی
جانا
نہ وار آئی شامِ فراقِ یاراں
ناموسِ
جان و دل کی بازی لگی تھی ورنہ
آساں
نہ تھی کچھ ایسی راہِ وفا شعاراں
مجرم
ہو خواہ کوئی، رہتا ہے ناصحوں کا
روئے
سخن ہمیشہ سوئے جگر فگاراں
ہے
اب بھی وقت زاہد، ترمیم زہد کر لے
سوئے
حرم چلا ہے انبوہِ بادہ خواراں
شاید
قریب پہنچی صبحِ وصالِ ہمدم
موجِ
صبا لیے ہے خوشبوئے خوش کناراں
ہے
اپنی کشتِ ویراں، سرسبز اس یقیں سے
آئیں
گے اس طرف بھی اک روز ابرو باراں
آئے
گی فیض اک دن بادِ بہار لے کر
تسلیمِ
مے فروشاں، پیغامِ مے گساراں
٭٭٭
غزل
قرضِ
نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب
کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم
کچھ
امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ
اُن کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم
اب
احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی
قاتل
سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم
دیکھیں
ہے کون کون، ضرورت نہیں رہی
کوئے
ستم میں سب کو خطا کر چکے ہیں ہم
اب
اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں
رہبر
سے اپنی راہ جد اکر چکے ہیں ہم
ان
کی نظر میں، کیا کریں پھیکا ہے اب بھی رنگ
جتنا
لہو تھا صرفِ قبا کر چکے ہیں ہم
کچھ
اپنے دل کی خو کا بھی شکرانہ چاہیے
سو
بار اُن کی خو کا گِلا کر چکے ہیں ہم
٭٭٭
غزل
حسن
مرہونِ جوشِ بادۂ ناز
عشق
منت کشِ فسونِ نیاز
دل
کا ہر تار لرزشِ پیہم
جاں
کا ہر رشتہ وقفِ سوز و گداز
سوزشِ
دردِ دل کسے معلوم!
کون
جانے کسی کے عشق کا راز
میری
خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے
نالوں کی گم شدہ آواز
ہو
چکا عشق، اب ہوس ہی سہی
کیا
کریں فرض ہے ادائے نماز
تو
ہے اور اک تغافلِ پیہم
میں
ہوں اور انتظارِ بے انداز
خوفِ
ناکامیِ امید ہے فیض
ورنہ
دل توڑ دے طلسمِ مجاز
٭٭٭
غزل
عشق
منت کشِ قرار نہیں
حسن
مجبورِ انتظار نہیں
تیری
رنجش کی انتہا معلوم
حسرتوں
کا مری شمار نہیں
اپنی
نظریں بکھیر دے ساقی
مے
باندازۂ خمار نہیں
زیر
لب ہے ابھی تبسّمِ دوست
منتشر
جلوۂ بہار نہیں
اپنی
تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ
تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
چارۂ
انتظار کون کرے
تیری
نفرت بھی اُستوار نہیں
فیض
زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی
کیا
ہوا گر وفا شعار نہیں
٭٭٭
غزل
ہر
حقیقت مجاز ہو جائے
کافروں
کی نماز ہو جائے
دل
رہینِ نیاز ہو جائے
بے
کسی کارساز ہو جائے
منتِ
چارہ ساز کون کرے؟
درد
جب جاں نواز ہو جائے
عشق
دل میں رہے تو رسوا ہو
لب
پہ آئے تو راز ہو جائے
لطف
کا انتظار کرتا ہوں
جور
تا حدِ ناز ہو جائے
عمر
بے سود کٹ رہی ہے فیض
کاش
افشائے راز ہو جائے
٭٭٭
غزل
ہمّتِ
التجا نہیں باقی
ضبط
کا حوصلہ نہیں باقی
اک
تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ
دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنی
مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھینچ
میں
نہیں یا وفا نہیں باقی
تیری
چشمِ الم نواز کی خیر
دل
میں کوئی گلا نہیں باقی
ہو
چکا ختم عہدِ ہجر و وصال
زندگی
میں مزا نہیں باقی
٭٭٭
غزل
چشمِ
میگوں ذرا ادھر کر دے
دستِ
قدرت کو بے اثر کر دے
تیز
ہے آج دردِ دل ساقی
تلخیِ
مے کو تیز تر کر دے
جوشِ
وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاکِ
دامن کو تا جگر کر دے
میری
قسمت سے کھیلنے والے
مجھ
کو قسمت سے بے خبر کر دے
لٹ
رہی ہے مری متاعِ نیاز
کاش
وہ اس طرف نظر کر دے
فیض
تکمیلِ آرزو معلوم!
ہو
سکے تو یونہی بسر کر دے
٭٭٭
غزل
دونوں
جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ
جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
ویراں
ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم
کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک
فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن
دیکھے
ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا
نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ
سے بھی دلفریب ہیں غم روز گار کے
بھولے
سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت
پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
٭٭٭
غزل
وفائے
وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں
وہ
مجھ سے روٹھے تو تھے، لیکن اس قدر بھی نہیں
برس
رہی ہے حریمِ ہوس میں دولتِ حسن
گدائے
عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ
جانے کس لیے امّید وار بیٹھا ہوں
اک
ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
نگاہِ
شوق سرِ بزم بے حجاب نہ ہو
وہ
بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ
عہد ترکِ محبت ہے کس لیے آخر
سکونِ
قلب ادھر بھی نہیں ادھر بھی نہیں
٭٭٭
غزل
رازِ
الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل
بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور
کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ
سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ
مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان
کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج
ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب
کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیض
تکمیلِ غم بھی ہو نہ سکی
عشق
کو آزما کے دیکھ لیا
٭٭٭
غزل
کچھ
دن سے انتظارِ سوال دگر میں ہے
وہ
مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے
سیکھی
یہیں مرے دلِ کافر نے بندگی
ربِ
کریم ہے تو تری رہگزر میں ہے
ماضی
میں جو مزا مری شام و سحر میں تھا
اب
وہ فقط تصوّرِ شام و سحر میں ہے
کیا
جانے کس کو کس سے ہے اب داد کی طلب
وہ
غم جو میرے دل میں ہے تیری نظر میں ہے
٭٭٭
غزل
پھر
حریفِ بہار ہو بیٹھے
جانے
کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی،
مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی
آج
کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
تیرے
در تک پہنچ کے لوٹ آئے
عشق
کی آبرو ڈبو بیٹھے
ساری
دنیا سے دور ہو جائے
جو
ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے
نہ
گئی تیری بے رخی نہ گئی
ہم
تری آرزو بھی کھو بیٹھے
فیض
ہوتا رہے جو ہونا ہے
شعر
لکھتے رہا کرو بیٹھے
٭٭٭
غزل
پھر
لوٹا ہے خورشیدِ جہانتاب سفر سے
پھر
نورِ سحر دست و گریباں ہے سحر سے
پھر
آگ بھڑکنے لگی ہر سازِ طرب میں
پھر
شعلے لپکنے لگے ہر دیدۂ تر سے
پھر
نکلا ہے دیوانہ کوئی پھونک کے گھر کو
کچھ
کہتی ہے ہر راہ ہر اک راہگزر سے
وہ
رنگ ہے امسال گلستاں کی فضا کا
اوجھل
ہوئی دیوارِ قفس حدِ نظر سے
ساغر
تو کھنکتے ہیں شراب آئے نہ آئے
بادل
تو گرجتے ہیں گھٹا برسے نہ برسے
پا
پوش کی کیا فکر ہے، دستار سنبھالو
پایاب
ہے جو موج گزر جائے گی سر سے
٭٭٭
غزل
کئی
بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے
مگر
دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی
کئی
بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا
مگر
یہ چشمِ حیراں ، جس کی حیرانی نہیں جاتی
نہیں
جاتی متاعِ لعل و گوہر کی گراں یابی
متاعِ
غیرت و ایماں کی ارزانی نہیں جاتی
مری
چشمِ تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے
بہت
جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
سرِ
خسرو سے نازِ کج کلاہی چھن بھی جاتا ہے
کلاہِ
خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی
بجز
دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے؟
جہاں
عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی
٭٭٭
غزل
نصیب
آزمانے کے دن آ رہے ہیں
قریب
ان کے آنے کے دن آ رہے ہیں
جو
دل سے کہا ہے، جو دل سے سنا ہے
سب
اُن کو سنانے کے دن آ رہے ہیں
ابھی
سے دل و جاں سرِ راہ رکھ دو
کہ
لٹنے لٹانے کے دن آ رہے ہیں
ٹپکنے
لگی اُن نگاہوں سے مستی
نگاہیں
چرانے کے دن آ رہے ہیں
صبا
پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن
کو سجانے کے دن آ رہے ہیں
چلو
فیض پھر سے کہیں دل لگائیں
سنا
ہے ٹھکانے کے دن آ رہے ہیں
٭٭٭
غزل
شیخ
صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر
ہے زندگی تباہ نہ کی
تجھ
کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تجھ
کو چاہا تو اور چاہ نہ کی
تیرے
دستِ ستم کا عجز نہیں
دل
ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی
تھے
شبِ ہجر، کام اور بہت
ہم
نے فکرِ دلِ تباہ نہ کی
کون
قاتل بچا ہے شہر میں فیضؔ
جس
سے یاروں نے رسم و راہ نہ کی
٭٭٭
غزل
سب
قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم
لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شمعِ
نظر، خیال کے انجم ، جگر کے داغ
جتنے
چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
اٹھ
کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ
دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
ہر
اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی
ہم
گھوم پھر کے کوچۂ قاتل سے آئے ہیں
بادِ
خزاں کا شکر کرو، فیضؔ جس کے ہاتھ
نامے
کہاں بہار شمائل سے آئے ہیں
٭٭٭
غزل
ستم
کی رسمیں بہت تھیں لیکن، نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا،
خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرم سخن سے پہلے
جو
چل سکو تو چلو کہ راہِ وفا بہت مختصرہوئی ہے
مقام
ہے اب کوئی نہ منزل، فرازِ دار و رسن سے پہلے
نہیں
رہی اب جنوں کی زنجیر پر وہ پہلی اجارہ داری
گرفت
کرتے ہیں کرنے والے خرد پہ دیوانہ پن سے پہلے
کرے
کوئی تیغ کا نظارہ، اب اُن کو یہ بھی نہیں گوارا
بضد
ہے قاتل کہ جانِ بسمل فگار ہو جسم و تن سے پہلے
غرورِ
سرو سمن سے کہہ دو کہ پھر وہی تاجدار ہوں گے
جو
خارو خس والیِ چمن تھے عروجِ سرو سمن سے پہلے
ادھر
تقاضے ہیں مصلحت کے، ادھر تقاضائے دردِ دل ہے
زباں
سنبھالیں کہ دل سنبھالیں ، اسیر ذکر وطن سے پہلے
(حیدرآباد
جیل ١٧، ٢٢ مئی ٥٤ء)
٭٭٭
غزل
شامِ
فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آ کے ٹل گئی
دل
تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزمِ
خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد
کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی
جب
تجھے یاد کر لیا، صبح مہک مہک اٹھی
جب
ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی
دل
سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے
میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی
آخرِ
شب کے ہمسفر فیضؔ نجانے کیا ہوئے
رہ
گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی
جولائی
53ء جناح ہسپتال کراچی
٭٭٭
غزل
رہِ
خزاں میں تلاشِ بہار کرتے رہے
شبِ
سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے
خیالِ
یار، کبھی ذکرِ یار کرتے رہے
اسی
متاع پہ ہم روزگار کرتے رہے
نہیں
شکایتِ ہجراں کہ اس وسیلے سے
ہم
اُن سے رشتۂ دل استوار کرتے رہے
وہ
دن کہ کوئی بھی جب وجہِ انتظار نہ تھی
ہم
اُن میں تیرا سوا انتظار کرتے رہے
ہم
اپنے راز پہ نازاں تھے ، شرمسار نہ تھے
ہر
ایک سے سخنِ راز دار کرتے رہے
ضیائے
بزمِ جہاں بار بار ماند ہوئی
حدیثِ
شعلہ رخاں بار بار کرتے رہے
انھیں
کے فیضؔ سے بازارِ عقل روشن ہے
جو
گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
جناح
ہسپتال، کراچی ۲ اگست ۵۳ء
٭٭٭
غزل
بات
بس سے نکل چلی ہے
دل
کی حالت سنبھل چلی ہے
اب
جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب
طبیعت بہل چلی ہے
اشک
خونناب ہو چلے ہیں
غم
کی رنگت بدل چلی ہے
یا
یونہی، بجھ رہی ہیں شمعیں
یا
شبِ ہجر ٹل چلی ہے
لاکھ
پیغام ہو گئے ہیں
جب
صبا ایک پل چلی ہے
جاؤ
اب سو رہو ستارو
درد
کی رات ڈھل چلی ہے
منٹگمری
جیل ۲۱۔
نومبر ۵۳ء
٭٭٭
غزل
شاخ
پر خونِ گل رواں ہے وہی
شوخیِ
رنگِ گلستاں ہے وہی
سر
وہی ہے تو آستاں ہے وہی
جاں
وہی ہے تو جانِ جاںہے وہی
اب
جہاں مہرباں نہیں کوئی
کوچۂ
یارِ مہرباں ہے وہی
برق
سو بار گر کے خاک ہوئی
رونقِ
خاکِ آشیاں ہے وہی
آج
کی شب وصال کی شب ہے
دل
سے ہر روز داستاں ہے وہی
چاند
تارے ادھر نہیں آتے
ورنہ
زنداں میں آسماں ہے وہی
منٹگمری
جیل
٭٭٭
غزل
کب
یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد
شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل
ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل
والو کوچۂ جاناں میںکیا ایسے بھی حالات نہیں
جس
دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ
جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدانِ
وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق
تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر
بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر
جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
٭٭٭
غزل
ہم
پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام
تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے
ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوقِ
فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے
دل
مدّعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے
اے
جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
دل
نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی
ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دستِ
فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ
فلک میں گردشِ ایّام ہی تو ہے
آخر
تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ
یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے
بھیگی
ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو
وقتِ
سرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے
٭٭٭
غزل
گلوں
میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے
بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس
اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں
تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی
تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی
تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا
ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے
نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
جو
ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے
اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضورِ
یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ
میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام،فیضؔ
، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو
کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
منٹگمری
جیل ۲۹
جنوری ۵۴ء
٭٭٭
غزل
کچھ
محتسبوں کی خلوت میں، کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم
بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر آتی ہے
یوں
عرض و طلب سے کب اے دل، پتھر دل پانی ہوتے ہیں
تم
لاکھ رضا کی خو ڈالو، کب خوئے ستمگر جاتی ہے
بیداد
گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر
پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے
ہاں،
جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجے
ہر
رہ جو اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے
اب
کوچۂ دلبر کا رہرو، رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے
سے عدو ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے
ہم
اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیمِ صبحِ وطن
یادوں
سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے
منٹگمری
جیل 17 جون 54ء
٭٭٭
غزل
گرمیِ
شوقِ نظارہ کا اثر تو دیکھو
گل
کھِلے جاتے ہیں وہ سایۂ در تو دیکھو
ایسے
ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو
، پند گرو، راہگزر تو دیکھو
وہ
تو وہ ہے، تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک
نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو
وہ
جواب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں
دیکھنے
والو کبھی اُن کا جگر تو دیکھو
دامنِ
درد کو گلزار بنا رکھا ہے
آؤ
اک دن دلِ پر خوں کا ہنر تو دیکھو
صبح
کی طرح جھمکتا ہے شبِ غم کا افق
فیضؔ،
تابندگیِ دیدۂ تر تو دیکھو
٭٭٭
غزل
یوں
بہار آئی ہے اس بار کے جیسے قاصد
کوچۂ
یار سے بے نیلِمرام آتا ہے
ہر
کوئی شہر میں پھرتا ہے سلامت دامن
رند
میخانے سے شائستہ خرام آتا ہے
ہوسِمطرب
و ساقی میںپریشاں اکثر
ابر
آتا ہے کبھی ماہِ تمام آتا ہے
شوق
والوںکی حزیںمحفلِ شب میں اب بھی
آمدِ
صبح کی صورت ترا نام آتا ہے
اب
بھی اعلانِ سحر کرتا ہوا مست کوئی
داغِ
دل کر کے فروزاں سرِ شام آتا ہے
(ناتمام)
مارچ
۵۴ لاہور
٭٭٭
غزل
صبح
کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا
خبر آج خراماں سرِگلزار ہے کون
شام
گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ
جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون
رات
مہکی ہوئی آتی ہے کہیں سے پوچھو
آج
بکھرائے ہوئے زلفِ طرحدار ہے کون
پھر
درِ دل پہ کوئی دینے لگا ہے دستک
جانیے
پھر دلِ وحشی کا طلبگار ہے کون
٭٭٭
غزل
تری
امید، ترا انتظار جب سے ہے
نہ
شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
کسی
کا درد ہو، کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ
ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہوا
ہے جب سے دلِ ناصبور بے قابو
کلام
تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر
شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے
طرح
طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں
گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ
سحری ہم کلام کب سے ہے
لاہور
مارچ ۵۷
٭٭٭
غزل
شہر
میںچاک گریباں ہوئے ناپید اب کے
کوئی
کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے
لطف
کر، اے نگہِ یار ، کہ غم والوں نے
حسرتِ
دل کی اُٹھائی نہیںتمہید اب کے
چاند
دیکھا تری آنکھوں میں ، نہ ہونٹوں پہ شفق
ملتی
جلتی ہے شبِ غم سے تری دید اب کے
دل
دکھا ہے نہ وہ پہلا سا، نہ جاں تڑپی ہے
ہم
ہی غافل تھے کہ آئی ہی نہیں عید اب کے
پھر
سے بجھ جائیں گی شمعیںجو ہوا تیز چلی
لا
کے رکھو سر محفل کوئی خورشید اب کے
٭٭٭
قطعات اور اشعار
اے ساکنانِ کنجِ قفس! صبح کو صبا
سنتی ہی جائے گی سوئے گلزار ، کچھ کہو!
(سودا)
رات
ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ
سلگاؤ آبگینوں میں
دلِ
عشّا قکی خبر لینا
پھول
کھلتے ہیں ان مہینوں میں
٭٭٭
نہ
پوچھ جب سے ترا انتظار کتنا ہے
کہ
جن دنوں سے مجھے تیرا انتظار نہیں
ترا
ہی عکس ہے اُن اجنبی بہاروں میں
جو
تیرے لب، ترے بازو، ترا کنار نہیں
٭٭٭
صبا
کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
ٹھہر
ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ
ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساطِ محفل میں
کہ
دل کے داغ کہاں ہیں نشستِ درد کہاں
٭٭٭
پھر
حشر کے ساماں ہوئے ایوانِ ہوس میں
بیٹھے
ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں
ہاں
جرمِ وفا دیکھیے کس کس پہ ہے ثابت
وہ
سارے خطا کار سرِ دار کھڑے ہیں
ترا
جمال نگاہوں میں لے کے اُٹھا ہوں
نکھر
گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی
نسیم
تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے
مری
سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی
ہمارے
دم سے ہے کوئے جنوں میں اب بھی خجل
عبائے
شیخ و قبائے امیر و تاج شہی
ہمیں
سے سنتِ منصور و قیس زندہ ہے
ہمیں
سے باقی ہے گل دامنی و کج کلہی
میخانے
کی رونق ہیں کبھی خانقہوں کی
اپنا
لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
دلداریِ
واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب
شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے
رات
یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے
ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے
صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے
بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
دل
رہینِ غمِ جہاں ہے آج
ہر
نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت
ویراں ہے محفلِ ہستی
اے
غمِ دوست تو کہاں ہے آج
وقفِ
حرمان و یاس رہتا ہے
دل
ہے، اکثر اداس رہتا ہے
تم
تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ
کو احساں کا پاس رہتا ہے
فضائے
دل پہ اداسی بکھرتی جاتی ہے
فسردگی
ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے
فریبِ
زیست سے قدرت کا مدّعا معلوم
یہ
ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے
فکرِ
سود و زیاں تو چھوٹے گی
منتِ
این و آں تو چھوٹے گی
خیر،
دوزخ میں مے ملے نہ ملے
شیخ
صاحب سے جاں تو چھوٹے گی
نہ
آج لطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے
وہ
رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں
یہ
آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصالِ
یار فقط آرزو کی بات نہیں
صبح
پھوٹی تو آسماں پہ ترے
رنگِ
رخسار کی پھوہار گری
رات
چھائی تو روئے عالم پر
تیری
زلفوں کی آبشار گری
تمام
شب دلِ وحشی تلاش کرتا ہے
ہر
اک صدا میں ترے حرفِلطف کا آہنگ
ہر
ایک صبح ملاتی ہے بار بار نظر
ترے
دہن سے ہر اک لالہ و گلاب کا رنگ
تمہارے
حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر
تمہاری
یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے
رہی
فراغتِ ہجراں تو ہو رہے گا طے
تمہاری
چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے
کھِلے
جو ایک دریچے میں آج حسن کے پھول
تو
صبح جھوم کے گلزار ہو گئی یکسر
جہاں
کہیں بھی گرا نور اُن نگاہوں سے
ہر
ایک چیز طرحدار ہو گئی یکسر
٭٭٭
اشعار
وہ
عہدِ غم کی کاہش ہائے بے حاصل کو کیا سمجھے
جو
ان کی مختصر روداد بھی صبر آزما سمجھے
یہاں
وابستگی، واں برہمی، کیا جانیے کیوں ہے؟
نہ
ہم اپنی نظر سمجھے نہ ہم اُن کی ادا سمجھے
فریبِ
آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم
اپنے دل کی دھڑکن کو تری آوازِ پا سمجھے
تمہاری
ہر نظر سے منسلک ہے رشتۂ ہستی
مگر
یہ دور کی باتیں کوئی نادان کیا سمجھے
نہ
پوچھو عہدِ الفت کی، بس اک خوابِ پریشاں تھا
نہ
دل کو راہ پر لائے نہ دل کا مدعا سمجھے
٭٭٭
لفظ لفظ
حصہ دوم
فیض احمد فیض
دستِ تہِ سنگ، شامِ شہر یاراں
فہرست
آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا
ہے خیال
دستِ تہِ سنگ
اِنتساب
دیس پردیس کے یارانِ قدح خوار کے نام
حسنِ آفاق، جمالِ لب و رخسار کے نام
سرآغاز
شاید
کبھی افشا ہو، نگاہوں پہ تمہاری
ہر
سادہ ورق، جس سخنِ کُشتہ سے خون ہے
شاید
کبھی اُس گیت کا پرچم ہو سرافراز
جو
آمدِ صرصر کی تمنا میں نگوں ہے
شاید
کبھی اُس دل کی کوئی رگ تمہیں چُبھ جائے
جو
سنگِ سرِراہ کی مانند زبوں ہے
تقریر
فیض صاحب کی تقریر جو انہوں نے ماسکو میں بین الاقوامی لینن امن انعام کی
پر شکوہ تقریب کے موقع پر اردو زبان میں کی:
محترم اراکینِ مجلسِ صدارت، خواتین اور حضرات!
الفاظ کی تخلیق و ترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ
ہے۔لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے۔۔۔آج عجزِ بیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے۔ایسے کوئی الفاظ میرے
ذہن میں نہیں آ رہے، جن میں اپنی عزت افزائی کے لئے لینن پرائز کمیٹی،سوویٹ یونین
کے مختلف اداروں،دوستوں اور سب خواتین اور حضرات کا شکریہ خاطر خواہ طور سے ادا کرسکوں۔لینن امن انعام کی عظمت تو اسی ایک
بات سے واضح ہے کہ اس سے لینن کا محترم نام اور مقدس لفظ وابستہ ہے۔لینن جو دور حاضر میں انسانی حریت کا سب سے بزرگ علم بردار ہے اور امن جو انسانی
زندگی اور اس زندگی کے حسن و خوبی کی شرطِ اول ہے۔مجھے اپنی تحریر و عمل میں ایسا کوئی کام نظر نہیں آتا
جس اس عظیم اعزاز کے شایان شان ہو۔لیکن اس عزت بخشی کی ایک وجہ ضرور ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس تمنا اور
آدرش کے ساتھ مجھے اور میرے ساتھیوں کو وابستگی رہی ہے یعنی امن اور آزادی کی تمنا وہ بجائے خود اتنی عظیم ہے کہ اس واسطے سے ان کے حقیر اور ادنیٰ
کارکن بھی عزت اور اکرام کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
یوں تو ذہنی
طور سے مجنون اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیز ہے اور
سبھی تصور کرسکتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت،دلہن کا آنچل ہے اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ،شاعر کا قلم ہے اور مصور کا
موئے قلم اور آزادی ان سب صفات کی ضامن اور غلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اور حیوان میں تمیز کرتی ہے۔یعنی شعور اور ذہانت،انصاف اور صداقت،
وقار اور شجاعت، نیکی اور رواداری____اس لئے بظاہر امن اور آزادی کے حصول اور تکمیل
کے متعلق ہوشمند انسانوں میں اختلاف
کی گنجائش نہ ہونا چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے یوں نہیں ہے کہ انسانیت کی ابتداء سے اب
تک ہر عہد اور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرِعمل اور برسرپیکار رہی ہیں۔یہ قوتیں ہیں،تخریب و تعمیر،ترقی اور زوال،روشنی اور تیرگی،انصاف
دوستی کی قوتیں۔یہی صورت آج بھی ہے اور اسی نوعیت کی کشمکش آج بھی جاری ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ آج کل انسانی مسائل اور گزشتہ دور کی انسانی
الجھنوں میں کئی نوعیتوں سے بھی فرق ہے۔دورِ حاضر میں جنگ سے دو قبیلوں کا باہمی خون خرابہ مراد نہیں ہے۔نہ آج کل امن سے خون خرابے کا خاتمہ مراد ہے۔آج کل
جنگ اور امن کے معنی ہیں امنِ آدم کی بقا اور فنا۔بقا اور فنا ان دو الفاظ پر انسانی تاریخ کے خاتمے یا تسلسل کا دارومدار ہے۔انہیں پرانسانوں کی
سرزمین کی آبادی اور بربادی کا انحصار ہے۔یہ پہلا فرق ہے۔دوسرا فرق یہ ہے کہ اب سے پہلے انسانوں کو فطرت کے ذخائر پر اتنی دسترس اور پیداوار کے
ذرائع پر اتنی قدرت نہ تھی کہ ہر گروہ اور برادری کی ضرورتیں پوری طرح تسکین پاسکتیں۔اس لئے آپس میں چھین جھپٹ اور لوٹ مار کا کچھ نہ کچھ جواز بھی
موجود ہے۔لیکن اب یہ صورت حال نہیں ہے۔انسانی عقل، سائنس اور صنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی
جھولیاں بھرسکتی ہیں۔بشرطیکہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر پیداوار کے یہ بے اندازہ خرمن،بعض اجارہ داروں اور
مخصوص طبقوں کی تسکینِ ہوس کے لئے نہیں،بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لئے کام میں لائے جائیں۔اور عقل اور سائنس اور
صنعت کی کل ایجادیں اور صلاحیتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں۔لیکن
یہ جبھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اور انسانی معاشرے کے
ڈھانچے کی بنائیں ہوسِ،استحصال
اور اجارہ داری کے بجائے انصاف برابری،آزادی
اور اجتماعی خوش حالی میں اٹھائیں جائیں۔اب یہ ذہنی اور خیالی
بات نہیں،عملی کام
ہے۔اس عمل میں امن کی جدوجہد اور آزادی کی حدیں آپس میں مل جاتی ہیں۔اس لئے کہ امن کے دوست اور دشمن اور آزادی کے
دوست اس دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ،ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں۔ایک طرف وہ سامراجی قوتیں ہیں جن کے مفاد،جن کے اجارے جبر اور حسد کے بغیر قائم نہیں رہ
سکتے اور جنہیں ان اجاروں کے تحفظ کے لئے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے۔دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جنہیں
بنکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان زیادہ عزیز ہے۔جنہیں دوسروں پر حکم
چلانے کے بجائے آپس میں ہاتھ بٹانے اور ساتھ مل کر کام کرنے
میں زیادہ لطف آتا ہے۔سیاست و اخلاق،ادب اور فن،روزمرہ
زندگی،غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اور تخریب انسان دوستی اور انسان
دشمنی کی یہ چپقلش
جاری ہے۔
آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لئے ان میں سے
ہر محاذ اور ہر صورت پر توجہ دینا ضروری ہے۔مثال کے طور پر سامراجی اور غیر سامراجی قوتوں کی لازمی کشمکش کے علاوہ بدقسمتی سے بعض ایسے ممالک میں بھی
شدید اختلاف موجود ہیں،جنہیں حال ہی میں آزادی ملی۔ایسے اختلافات ہمارے ملک پاکستان اور ہمارے سب سے قریبی ہمسایہ ہندوستان میں موجود ہیں۔بعض عرب
ہمساہہ ممالک میں اور بعض افریقی حکومتوں میں موجود ہیں۔ظاہر ہے کہ ان کے اختلافات سے وہی طاقتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں جو امن عالم اور انسانی برادری
کی دوستی اور یگانگت کو پسند نہیں کرتیں۔اسلئے صلح پسنداور امن دوست صفوں میں ان اختلافات کے منصفانہ
حل پر غور و فکر اور اس
حل میں امداد دینا بھی لازم ہے۔
اب سے کچھ دن پہلے جب سوویت فضاؤں کا تازہ
کارنامہ ہر طرف دنیا میں گونج رہا تھا تو مجھے بار بار خیال آتا رہا کہ آج کل جب ہم ستاروں کی دنیا میں بیٹھ
کر اپنی ہی دنیا کا نظارہ
کرسکتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی کمینگیاں،خود غرضیاں،یہ
زمین کے چند ٹکڑوں کو بانٹنے کو کوششیں اور انسانوں کی چند
ٹولیوں پر اپنا سکہ
چلانے کی خواہش کیسی بعید از عقل باتیں ہیں۔اب جبکہ ساری کائنات کے راستے ہم پر کشادہ ہو گئے ہیں۔ساری دنیا کے
خزینے انسانی بس میں آسکتے ہیں،توکیاانسانوں میں ذی شعور،منصف مزاج اور دیانت دار لوگوں کی اتنی
تعداد موجود نہیں ہے جو سب
کو منواسکے کہ یہ جنگی اڈے سمیٹ لو۔یہ بم اور راکٹ،توپیں بندوقیں سمندر میں غرق کر
دو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے
سب مل کر تسخیر کائنات کو چلو۔جہاں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ہے،جہاں
کس کو کسی سے الجھنے کی
ضرورت نہیں ہے،جہاں لا محدود فضائیں ہیں اور ان گنت
دنیائیں۔مجھے یقین ہے کہ سب رکاوٹوں اور مشکلوں کے باوجود ہم
لوگ اپنی انسانی برادری سے یہ
بات منوا کر رہیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے آج
تک کبھی ہار نہیں کھائی اب بھی فتح
یاب ہو کر رہے گی۔اور آخرِ کار جنگ و نفرت اور ظلم و کدورت کے بجائے ہمارے باہمی زندگی کی بنا وہی ٹھہرے گی جس کی تلقین
اب سے بہت پہلے فارسی شاعر حافظ نے کی تھی
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل است
فیض از فیض
اپنے بارے میں باتیں کرنے سے مجھے سخت وحشت ہوتی
ہے۔اس لئے کہ سب لوگوں کا مرغوب مشغلہ یہی ہے۔اس انگریزی لفظ کے معذرت چاہتا ہوں لیکن اب تو ہمارے ہاں اس کے مشتقات بوریت وغیرہ بھی استعمال
میں آنے لگے ہیں۔اس لئے اب اسے اردو میں روزمرہ میں شامل سمجھنا چاہیے۔تومیں یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے اپنے بارے میں قیل و قال بری لگتی ہے۔بلکہ میں تو
شعر میں بھی حتیٰ الامکان واحد متکلم کا صیغہ استعمال نہیں کرتا،اور ’’میں ‘‘کے بجائے ہمیشہ ’’ہم‘‘ لکھتا آیا ہوں۔چنانچہ جب ادبی
ساغران حضرات مجھ سے یہ پوچھنے بیٹھتے ہیں کہ تم شعر کیوں کہتے ہو تو بات کو ٹالنے کے لئے جو دل میں آئے کہہ دیتا ہوں۔مثلاً یہ کہ بھئی میں جیسے بھی کہتا ہوں
جس لئے بھی کہتا ہوں تم شعر میں خود ڈھونڈو اور میرا سر کھانے کی کیا ضرورت
ہے۔لیکن ان میں ڈھیٹ
قسم کے لوگ جب بھی نہیں مانتے۔چنانچہ آج کی گفتگو کی سب ذمہ
داری ان حضرات کے سر
ہے مجھ پر نہیں ہے۔
شعر گوئی کا واحد عذرِ گناہ تو مجھے نہیں معلوم۔اس
میں بچپن کی فضائے گرد و پیش میں شعر کا چرچا دوست احباب کی ترغیب اور دل کی لگی سبھی کچھ شامل ہے۔یہ نقشِ فریادی کے پہلے حصے کی بات ہے جس میں ۹۲۔۸۲ء سے۵۳ء تک کی تحریریں شامل ہیں،جو ہماری طالب العلمی کے دن تھے۔یوں تو ان سب
اشعار کا قریب قریب ایک ہی ذہنی اور جذباتی واردات سے تعلق ہے اور اس واردات کا ظاہری محرک تو وہی ایک حادثہ ہے جواس عمر میں نوجوان دلوں پر
گزر جایا کرتا ہے۔لیکن اب جو دیکھتا ہوں تو یہ دور بھی ایک دور نہیں تھا بلکہ اس کے بھی دو الگ الگ حصے تھے۔جن کی داخلی اور خارجی کیفیت کافی مختلف
تھی۔وہ یوں ہے کہ۰۲ء سے۰۳ء تک زمانہ
ہمارے ہاں معاشی اور سماجی طورسے کچھ عجب طرح کی بے فکری،آسودگی اور ولولہ انگیزی کا زمانہ تھا،جس میں اہم
قومی اور سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ نثر و نظم میں بیشتر سنجیدہ فکر و مشاہدہ کے بجائے کچھ رنگ رلیاں منانے کا سا انداز تھا۔شعر میں اولاً حسرت موہانی اور ان کے
بعد جوش،حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی کی ریاست قائم تھی،افسانے میں یلدرم اور تنقید میں حسن برائے حسن اور ادب برائے ادب کا چرچا تھا۔ نقشِ
فریادی کی ابتدائی نظمیں، ’’خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوارہوتو‘‘مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو‘‘ تہ نجوم کہیں
چاندنی کے دامن میں ‘‘وغیرہ وغیرہ اسی ماحول کے
زیر اثر مرتب ہوئیں اور اس فضا میں ابتدائے عشق
کا تحیر بھی شامل تھا۔لیکن
ہم لوگ اس دور کی ایک جھلک بھی ٹھیک سے نہ دیکھ پائے تھے کہ
صحبتِ یار آخر شد۔پھر دیس پر عالمی کساد بازاری کے سائے
ڈھلنے شروع ہوئے۔کالج
کے بڑے بڑے بانکے تیس مار خاں تلاشِ معاش میں گلیوں کی خاک
پھانکنے لگے۔یہ وہ دن تھے جب یکایک بچوں کی ہنسی بجھ گئی، اجڑے
ہوئے کسان
کھیت کھلیان چھوڑ کر شہروں میں مزدوری کرنے لگے اور اچھی
خاصی شریف بہو بیٹیاں بازار
میں آ بیٹھیں۔گھر کے باہر یہ حال تھا اور گھر کے اندر مرگِ سوزِ محبت کا کہرام مچا تھا۔یکایک یوں محسوس ہونے
لگا کہ دل و دماغ پر سبھی راستے بند ہو گئے ہیں اور اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔اس کیفیت کا اختتام جو نقشِ فریادی کے پہلے حصے کی آخری نظموں کی
کیفیت ہے ایک نسبتا غیر معروف نظم پر ہوتا ہے، جسے میں نے یاس کا نام دیا تھا۔وہ یوں ہے:
یاس
بربطِ دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل
مٹ گئے قصہ ہائے فکر و عمل
برم ہستی کے جام پھوٹ گئے
چھِن گیا کیف کوثر و تسنیم
زحمتِ گریہ و بکا بے سود
شکوہ بختِ نارسا بے سود
ہو چکا ختم رحمتوں کا نزول
بند ہے مدتوں سے بابِ قبول
بے نیازِ دُعا ہے رب کریم
بُجھ گئی شمعِ آرزوئے جمیل
یاد باقی ہے بے کسی کی دلیل
انتظارِ فضول رہنے دے
راز الفت نباہنے والے
بارِ غم سے کراہنے والے
کاوش بے حصول رہنے دے
ء
میں ہم لوگ کالج سے فارغ ہوئے اور ۵۳ء میں میں نے ایم اے او کالج امرتسر
میں ملازمت کر لی۔یہاں سے میری اور میرے بہت سے ہمعصر لکھنے
والوں کی ذہنی اور جذباتی
زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔اس دوران کالج میں اپنے رفقاء
صاحب زادہ محمود الظفر مرحوم اور ان کی بیگم رشیدہ جہاں سے
ملاقات ہوئی۔پھر ترقی
پسند تحریک کی داغ بیل پڑی، مزدور تحریک کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا
کہ جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھا کہ اپنی ذات
باقی دنیا سے الگ کر کے سوچنااول تو ممکن ہی نہیں،اس لئے کہ اس میں بہر حال گرد و پیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو بھی
تو انتہائی غیر سودمند فعل ہے کہ ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں مسرتوں اور رنجشوں
کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی بہت محدود اور حقیر شے ہے۔اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے
ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں،خاص طور پر انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے۔چنانچہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔اسی
نئے احساس کی ابتداء نقشِ فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم سے ہوتی ہے۔اس نظم کا عنوان ہے ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘
اور اگر آپ خاتون ہیں تو ’’مرے محبوب نہ
مانگ‘‘
’’مجھ سے پہلی سی
محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھاتھاکہ توہے درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوادنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نِگُوں ہو جائے
یوں نہ تھا،میں نے فقط چاہا تھا۔ یُوں ہو جائے
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت سے سوا
راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بُنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں
جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنّوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن،مگر کیا کیجئے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
اس کے بعد تیر ہ چودہ برس’’کیوں نہ جہاں
کا غم اپنا لیں ‘‘میں گزرے اور پھر فوج،صحافت ٹریڈیونین وغیرہ میں گزارنے کے بعد
ہم چار برس کے لئے جیل خانے چلے گئے۔ نقشِ فریادی کے بعد کی دو کتابیں ’’دست صبا‘‘
اور ’’زنداں نامہ‘‘ اسی جیل خانے کی یادگار ہیں۔بنیادی طور پر تو یہ تحریریں انہیں ذہنی محسوسات اور معمولات
سے منسلک ہیں جن کا سلسلہ مجھ سے پہلی سی محبت،سے شروع ہوا تھا لیکن جیل خانہ
عاشقی کی طرح خود ایک بنیادی تجربہ ہے،جس میں فکر و نظر کا ایک آدھ نیا دریچہ خود بخود
کھل جاتا ہے۔چنانچہ اول تو یہ ہے کہ ابتدائے شباب کی طرح تمام حسیات یعنی(Sensations)پھر تیز ہو جاتی ہیں اور صبح
کی پَو،شام کے دھُندلکے،آسمان کی نیلاہٹ،ہوا کے گداز کے بارے میں وہی پہلا سا تحیر
لوٹ آتا ہے۔دوسرے یوں ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا کا وقت اور فاصلے دونوں باطل ہو جاتے
ہیں۔نزدیک کی چیزیں بھی بہت دور ہو جاتی ہیں اور دور کی نزدیک اور فرداودی کا
تفرقہ کچھ اس طور سے مت جاتا ہے کہ کبھی ایک لمحہ قیامت معلوم ہوتا ہے اور کبھی
ایک صدی کل کی بات۔تیسری بات یہ ہے کہ فراغتِ ہجراں میں فکر و مطالعہ کے ساتھ
عروسِ سخن کے ظاہری بناؤ سنگھاؤ پر توجہ دینے کی زیادہ مہلت ملتی ہے۔جیل خانے کے
بھی دو دور تھے۔ایک حیدرآباد جیل کا جواس تجربے کے انکشاف کے تحیر کا زمانہ
تھا،ایک منٹگمری جیل کا جو اس تجربے سے اکتاہٹ اور تھکن کا زمانہ تھا۔ان دو کیفیتوں
کی نمائندہ یہ دو نظمیں ہیں،پہلی’’دستِ صبا‘‘ میں ہے دوسری’’زندان نامہ‘‘ میں ہے۔
زندان نامہ کی ایک شام
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں، محو ہیں بنانے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار
شانہ بام پر دمکتا ہے
مہرباں چاندنی کا دست جمیل
خاک میں گھُل گئی ہے آب نجوم
نُور میں گھُل گئی ہے عرش کا نیل
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں
موجِ دردِ فراقِ یار آئے
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہوسکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں
سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی،بڑھتی،اٹھتی،گرتی رہتی
ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اِس کُہر کے پیچھے روشنیوں کا
شہر
اے روشنیوں کے شہر
اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہر سُو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند
سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر
شبخوں سے منہ پھیر نہ جائے ارمانوں کی
رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی،ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیئے جلائیں اونچی رکھیں لو
زنداں نامے کے بعد کچھ ذہنی افراتفری کا
زمانہ ہے جس میں اپنا اخباری پیشہ چھُٹا،ایک بار جیل گئے۔مارشل لاء کا دور آیا،اور
ذہنی گرد و پیش کی فضا میں پھر سے کچھ انسداد راہ اور کچھ نئی راہوں کی طلب کا
احساس پیدا ہوا۔اس سکوت اور انتظار کی آئینہ دار ایک نظم ہے ’’شام‘‘ اور ایک نا مکمل
غزل کے چند اشعار:
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی!
فیض
یہ خوں کی مہک ہے کہ لبِ یار کی خوشبو
کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو
گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہُوا آباد
کِس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو
دستِ تہِ سنگ آمدہ
بیزار فضا، در پئے آزارِ صبا ہے
یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے
ہاں بادہ کشو آیا ہے اب پہ موسم
اب سیر کے قابل روشِ آب و ہوا ہے
اُمڈی ہے ہر اک سمت سے الزام کی برسات
چھائی ہوئی ہر دانگ ملامت کی گھٹا ہے
وہ چیز بھری ہے کہ سلگتی ہے صراحی
ہر کاسہ ہے زہرِ ہلاہل سے سوا ہے
ہاں جام اٹھاؤ کہ بیادِ لبِ شیریں
یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے
اس جذبۂ دل کی نہ سزا ہے نہ جزا ہے
مقصود رہِ شوق وفا ہے نہ جفا ہے
احساسِ غمِ دل جو غمِ دل کا صلا ہے
اس حسن کا احساس ہے جو تیری عطا ہے
ہر صبح گلستاں ہے ترا روئے بہاریں
ہر پھول تری یاد کا نقشِ کفِ پا ہے
ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے
ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
ہر حرف تمنّا ترے قدموں کی صدا ہے
تعزیر سیاست ہے، نہ غیروں کی خطا ہے
وہ ظلم جو ہم نے دلِ وحشی پہ کیا ہے
زندانِ رہِ یار میں پابند ہوئے ہم
زنجیر بکف ہے، نہ کوئی بند بپا ہے
’’مجبوری و دعویٰ گرفتاریِ
الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے‘‘
***
میخانوں کی رونق ہیں، کبھی خانقہوں کی
اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
دلداری واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے
پیکنگ
یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ
کروڑ
اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے
دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے
میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال
میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنانِ گلگوں
میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری
میرے مقدر میں ہے معجزۂ کُن فَیَکُوں
سِنکیانگ
اب کوئی طبل بجے گا، نہ کوئی شاہسوار
صبح دم موت کی وادی کو روانہ ہو گا!
اب کوئی جنگ نہ ہو گی نہ کبھی رات ہو گی
خون کی آگ کو اشکوں سے بُجھانا ہو گا
کوئی دل دھڑکے گا شب بھر نہ کسی آنگن میں
وہم منحوس پرندے کی طرح آئے گا
سہم، خونخوار درندے کی طرح آئے گا
اب کوئی جنگ نہ ہو گی مے و ساغر لاؤ
خوں لُٹانا نہ کبھی اشک بہانا ہو گا
ساقیا! رقص کوئی رقصِ صبا کی صورت
مطربا! کوئی غزل رنگِ حِنا کی صورت
بساطِ رقص پہ صد شرق و غرب سے سرِ شام
دمک رہا ہے تری دوستی کا ماہِ تمام
چھلک رہی ہے ترے حُسنِ مہرباں کی شراب
بھرا ہوا ہے لبالب ہر اِک نگاہ کا جام
گلے میں تنگ ترے حرفِ لطف کی راہیں
پسِ خیال کہیں ساعتِ سفر کا پیام
ابھی سے یاد میں ڈھلنے لگی ہے صُحبتِ شب
ہر ایک روئے حسیں ہو چلا ہے بیش حسیں
ملے جو کچھ ایسے، جُدا یوں ہوئے کہ فیض
اب کے
جو دل پہ نقش
بنے گا وہ گُل ہے، داغ نہیں
ہانگ چاؤ (چین)
جشن کا دن
جنُوں کی یاد مناؤ کہ جشن کا دن ہے
صلیب و دار سجاؤ کہ جشن کا دن ہے
طرب کی بزم ہے بدلو دِلوں کے پیراہن
جگر کے چاک سِلاؤ کہ جشن کا دن ہے
تنگ مزاج ہے ساقی نہ رنگِ مَے دیکھو
بھرے جو شیشہ، چڑھاؤ جشن کا دن ہے
تمیزِ رہبر و رہزن کرو نہ آج کے دن
ہر اک سے ہاتھ ملاؤ کہ جشن کا دن ہے
ہے انتظارِ ملامت میں ناصحوں کا ہجوم
نظر سنبھال کے جاؤ کہ جشن کا دن ہے
وہ شورشِ غمِ دل جس کی لے نہیں کوئی
غزل کی دھُن میں سُناؤ کہ جشن کا دن ہے
***
آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے
منتظرِ بیٹھے ہیں ہم دونوں کی مہتاب
اُبھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
***
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سُلگاؤ آبگینوں میں
دلِ عُشاق کی خبر لینا
پھول کھِلتے ہیں ان مہینوں میں
شام
اس طرح ہے کہ ہر اِک پیڑ کوئی مندر ہے
کوئی اُجڑا ہوا، بے نُور پُرانا مندر
ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے
چاک ہر دم، ہر اک در کا دمِ آخر تک
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ ملے، ماتھے پر سیندور ملے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا
دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بُجھے گی نہ اندھیرا ہو گا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہو گا
آسماں آس لئے ہے کہ یہ جادو ٹُوٹے
چُپ کی زنجیر کٹے، وقت کا دامن چھُوٹے
دے کوئی سنکھ دہائی، کوئی پایل بولے
کوئی بت جاگے، کوئی سانولی گھونگھٹ
کھولے
غزل
جمے گی بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ
گئے تھے
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام
بُجھ گئے ہیں
وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے
نہ شمعِ وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام
بُجھ گئے ہیں
بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی
ہے اب کے برکھا
ہر ایک قرار مٹ گیا ہے تمام پیغام بُجھ
گئے ہیں
قریب آ اے مہِ شبِ غم، نظر پہ کھُلتا
نہیں کچھ اس دم
کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے، کون سے
نام بُجھ گئے ہیں
بہار اب آ کے کیا کرے گی کہ جن سے تھا
جشنِ رنگ و نغمہ
وہ گل سرِ شاخ جل گئے ہیں، وہ دل تہِ
دام بُجھ گئے ہیں
***
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں !
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں، دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی، نہ کوئی علم
منتشِر دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں
جسم خستہ ہے، ہاتھوں میں یارا نہیں
اپنے بس کا نہیں بارِ سنگ ستم
بارِ سنگِ ستم، بار کہسار غم
جس کو چھُو کر سبھی اک طرف ہو گئے
بات کی بات میں ذی شرف ہو گئے
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کھِلے گا نہ کیا
اس کفِ نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لَوٹے گا کیا
شورِ آوازِ حق، نعرۂ گیر و دار
شوق کا امتحاں جو ہُوا سو ہُوا
جسم و جاں کا زیاں جو ہُوا سو ہُوا
سُود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی
دوستو، ماتم جسم و جاں
اور بھی
اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی
***
نہ دید ہے نہ سخن، اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلہ تسکین نہیں اور آس بہت ہے
اُمیدِ یار، نظر کا مزاج، درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پُوچھو کہ دل اُداس
بہت ہے
غزل
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بھُلا کیوں نہیں دیتے
**لاہور جیل
شورشِ زنجیر بسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم
اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم
اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم
اللہ
درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جُنوں والے
دریدہ دامنوں والے،پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم
اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم
اللہ
گنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرستش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالہ شب گیر بسم اللہ
ستم کی داستاں، کُشتہ دلوں کا ماجرا
کہئے
جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا
کہئے
مُصرِ ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہئے
لگی ہے حرفِ نا گُفتہ پر اب تعزیر بِسم
اللہ
سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بِسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم
اللہ
**لاہور جیل
آج بازار میں پابجولاں چلو
چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکم شہر بھی، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب با صفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو
**لاہور جیل
غزل
یہ جفائے غم کا چارہ، وہ نَجات دل کا
عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ، تری یاد رُوئے
مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ
ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم
تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے تری گیسوؤں کی شبنم
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَر مِٹیں ہم، نہ ہُوا کہ جی
اُٹھیں ہم
لو سُنی گئی ہماری، یُوں پھِرے ہیں دن
کہ پھر سے
وہی گوشہ قفس ہے، وہی فصلِ گُل کا ماتم
**لاہور جیل
قید تنہائی
دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
خواب ہی خواب میں بیدار ہُوا درد کا شہر
خواب ہی خواب میں بیتاب نظر ہونے لگی
عدم آبادِ جُدائی میں سحر ہونے لگی
کاسہ دل میں بھری اپنی صبُوحی میں نے
گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر
دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
آنکھ سے دُور کسی صبح کی تمہید لیے
کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت
بے خبر گزری، پریشانیِ اُمیّد لئے
گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر
حسرتِ روزِ ملاقات رقم کی میں نے
دیس پردیس کے یارانِ قدح خوار کے نام
حُسنِ آفاق، جمالِ لب و رخسار کے نام
*** زندانِ قلعہ لاہور
***
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا
پوچھتے ہو
جو عُمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے
لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ جِگر، ساغر میں ہے
خونِ حسرتِ مَے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام اُلٹائے
دیتے ہیں
** قلعہ لاہور
زندگی
ملکۂ شہرِ زندگی تیرا
شُکر کسِ طور سے ادا کیجئے
دولتِ دل کا کچھ شمار نہیں
تنگ دستی کا کیا گلہ کیجے
جو ترے حُسن کے فقیر ہوئے
ان کو تشویشِ روزگار کہاں ؟
درد بیچیں گے گیت گائیں گے
اِس سے خوش وقت کاروبار کہاں ؟
جام چھلکا تو جم گئی محفل
مِنّت لُطفِ غم گسار کسے؟
اشک ٹپکا تو کھِل گیا گلشن
رنجِ کم ظرفیِ بہار کسے؟
خوش نشیں ہیں کہ چشم و دل کی مراد
دَیر میں ہے نہ خانقاہ میں ہے
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
ہر صنم اپنی بارگاہ میں ہے
کون ایسا غنی ہے جس سے کوئی
نقدِ شمس و قمر کی بات کرے
جس کو شوقِ نبرد ہو ہم سے
جائے تسخیرِ کائنات کرے
غزل
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار
چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزر
چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی
گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرنے غم گسار
چلے گئے
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ
شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے
گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار
چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار
کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے
گئے
***
آ گئی فصلِ سکُوں چاک گریباں والو
سِل گئے ہونٹ، کوئی زخم سِلے یا نہ سِلے
دوستوں بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے
کھِل گئے زخم، کوئی پھول کھِلے یا نہ کھِلے
***
ڈھلتی ہے موجِ مَے کی طرح رات ان دِنوں
کھِلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے
پُر
ویراں ہیں جام پاس کرو کچھ بہار کا
دل آرزو سے پُر کرو، آنکھیں لہُو سے پُر
غزل
کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی
کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی
واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی
(۱)
ملاقات مری
ساری دیوار سیہ ہو گئی تا حلقۂ دام
راستے بجھ گئے رُخصت ہُوئے رہ گیر تمام
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری
اک ہتھیلی پہ حِنا، ایک ہتھیلی پہ لہو
اک نظر زہر لئے ایک نظر میں دارو
دیر سے منزلِ دل میں کوئی آیا نہ گیا
فرقتِ درد میں بے آب ہُوا تختہ داغ
کس سے کئے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے ایاغ
اور پھر خود ہی چلی آئی ملاقات مری
آشنا موت جو دشمن بھی ہے غم خوار بھی ہے
وہ جو ہم لوگوں کی قاتل بھی ہے دلدار
بھی ہے
(۲)
ختم ہوئی بارشِ سنگ
ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سَمت اندھیرا نہ اُجالا ہو گا
بُجھ گئی دل کی طرح راہِ وفا میرے بعد
دوستو! قافلہ درد کا اب کیا ہو گا
اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
تھم گیا شورِ جنوں ختم ہوئی بارشِ سنگ
خاکِ رہ آج لئے ہے لبِ دلدار کا رنگ
کُوئے جاناں میں کھُلا میرے لہو کا پرچم
دیکھئے دیتے ہیں کِس کِس کی صدا میرے
بعد
’’کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد
افگنِ عشق
ہے مکّرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد‘‘
ان دنوں رسم و رہِ شہرِ نگاراں کیا ہے
قاصدا، قیمتِ گلگشتِ بہاراں کیا ہے
کُوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ میخانہ ہے
آج کل صورتِ بربادی یاراں کیا ہے
غزل
آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم
زدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی جیسے
پیغامِ دیدارِ یار آگیا
جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رُو
برُو پھر سرِ رہگزر آگیا
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا، عمر رفتہ
ترا اعتبار آگیا
رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا، رنگِ
گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گُل کھِلا، اشک
اُمڈے کہ ابرِ بہار آگیا
خونِ عُشاق سے جام بھرنے لگے، دل سُلگنے
لگے، داغ جلنے لگے
محفلِ درد پھر رنگ پر آ گئی، پھر شبِ آرزو
پر نکھار آگیا
سر فروشی کے انداز بدلے گئے، دعوتِ قتل
پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا، لاد کر
کوئی کاندھے پہ دار آگیا
فیض کیا جانئے یار کس آس پر، منتظر ہیں کہ
لائے گا کوئی خبر
میکشوں پر ہُوا محتسب مہرباں، دل فگاروں
پہ قاتل کو پیار آگیا
کہاں جاؤ گے
اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ
چاند
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے
عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری
سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں
اپنی تنہائی سمیٹے گا، بچھائے گا کوئی
بے وفائی کی گھڑی، ترک مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یا نہ آئے گا کوئی!
ترکِ دنیا کا سماں، ختمِ ملاقات کا وقت
اِس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے
اِس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں، رہنے دو
کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو
اور ملے گا بھی تو اس طور کہ پچھتاؤ گے
اس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے
اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشترِ صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے
اور ہر کشتہ واماندگی آخر شب
بھول کر ساعتِ درماندگی آخرِ شب
جان پہچان ملاقات پہ اصرار کرے
غزل
یک بیک شورشِ فغاں کی طرح
فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح
صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں
ہر روش کھِنچ گئی کماں کی طرح
پھر لہو سے ہر ایک کاسہ داغ
پُر ہُوا جامِ ارغواں کی طرح
یاد آیا جنونِ گُم گشتہ
بے طلب قرضِ دوستاں کی طرح
جانے کس پر ہو مہرباں قاتِل
بے سبب مرگِ ناگہاں کی طرح
ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
شہرِ یاراں
آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفل ابر
جم رہا ہے ابر کے ہونٹوں پہ خوں آلود کف
بُجھتے بُجھتے بُجھ گئی ہے عرش کے حُجروں
میں آگ
دھیرے دھیرے بِچھ رہی ہے ماتمی تاروں کی
صف
اے صبا شاید ترے ہمراہ یہ خونناک شام
سر جھکائے جا رہی ہے شہرِ یاراں کی طرف
شہر یاراں جس میں اِس دم ڈھونڈتی پھرتی
ہے موت
شیر دل بانکوں میں اپنے تیر و نشتر کے
ہدف
اِک طرف بجتی ہیں جوشِ زیست کی شہنائیاں
اِک طرف چنگھاڑتے ہیں اہر من کے طبل و
دف
جا کے کہنا اے صبا، بعد از سلامِ دوستی
آج شب جس دم گُزر ہو شہر یاراں کی طرف
دشتِ شب میں اس گھڑی چپ چاپ ہے شاید رواں
ساقیِ صبحِ طرب، نغمہ بلب، ساغر بکف
وہ پہنچ جائے تو ہو گی پھر سے برپا
انجمن
اور ترتیبِ مقام و منصب و جاہ و شرف
غزل
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ
گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ
لُٹا دیا
مرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دُشمناں کو
خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج
چُکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو
گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے
بھلا دیا
اُدھر ایک حرف کہ کُشتنی یہاں لاکھ عذر
تھا گفتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا، دیا جو لکھا تو
پڑھ کے مٹا دیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو
جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
خوشا ضمانتِ غم
دیارِ یار تری جوششِ جنوں پہ سلام
مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر
رہِ یقین افشانِ خاک و خوں پہ سلام
مرے چمن ترے زخموں کے لالہ زار کی خیر
ہر ایک کشتہ ناحق کی خامشی پہ سلام
ہر ایک دیدۂ پُر نم کی آب و تاب کی خیر
رواں رہے یہ روایت، خوشا ضمانتِ غم
نشاطِ ختمِ غمِ کائنات سے پہلے
ہر اک کے ساتھ رہے دولتِ امانتِ غم
کوئی نجات نہ پائے نَجات سے پہلے
سکوں ملے نہ کبھی تیرے پا فگاروں کو
جمالِ خونِ سرِ خار کو نظر نہ لگے
اماں ملے نہ کہیں تیرے جاں نثاروں
جلالِ فرقِ سرِدار کو نظر نہ لگ
جب تیری سمندر آنکھوں میں
(گیت)
یہ دھُوپ کنارا، شام ڈھلے
مِلتے ہیں دونوں وقت جہاں
جو رات نہ دن، جو آج نہ کل
پل بھر کو امر،پل بھر میں دھواں
اِس دھوپ کنارے، پل دو پل
ہونٹوں کی لپک
باہوں کی چھنک
یہ میل ہمارا، جھوٹ نہ سچ
کیوں زار کرو،کیوں دوش دھرو
کس کارن، جھوٹی بات کرو
جب تیری سمندر آنکھوں میں
اس شام کا سورج ڈوبے گا
سُکھ سوئیں گے گھر دَر والے
اور راہی اپنی رہ لے گا
(لندن سے)
رنگ ہے دل کا مرے
تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو
ہے
آسماں حدِّ نظر، راہگزر شیشہ مَے شیشہ
مے
اور اب شیشہ مَے،راہگزر،رنگِ فلک
رنگ ہے دل کا مرے،’’خون جگر ہونے تک‘‘
چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا
رنگ
سرمئی رنگ کہ ہے ساعت بیزار کا رنگ
زرد پتّوں کا،خس و خار کا رنگ
سُرخ پھُولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا
رنگ
زہر کا رنگ، لہو رنگ، شبِ تار کا رنگ
آسماں، راہگزر،شیشہ مَے،
کوئی بھیگا ہُوا دامن،کوئی دُکھتی ہوئی
رگ
کوئی ہر لحظہ بدلتا ہُوا آئینہ ہے
اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ،کوئی
رُت،کوئی شے
ایک جگہ پر ٹھہرے،
پھر سے اک بار چیز وہی ہو کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر، راہگزر شیشہ مَے شیشہ
مے
پاس رہو
تم مرے پا س رہو
میرے قاتل، مرے دِلدار،مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے،
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہمِ مُشک لئے،نشترِالماس لئے
بَین کرتی ہوئی،ہنستی ہُوئی،گاتی نکلے
درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے
جس گھڑی سینوں میں ڈُوبے ہُوئے دل
آستینوں میں نہاں ہاتھوں کی رہ تکنے لگیں
آس لئے
اور بچوں کے بلکنے کی طرح قُلقُل مے
بہرِ ناسودگی مچلے تو منائے نہ مَنے
جب کوئی بات بنائے نہ بنے
جب نہ کوئی بات چلے
جس گھڑی رات چلے
جس گھڑی ماتمی، سُنسان،سیہ رات چلے
پاس رہو
میرے قاتل،مرے دلدار مرے پاس رہو!
غزل
تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے
ہے
کس کا درد ہو کرتے ہیں ہم تیرے نام رقم
گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہُوا ہے جب سے دلِ نا صبُور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے
طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے
غزل
ہر سَمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے دیئے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے
ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے
تھے بزم میں سب دودِ سرِ بزم سے شاداں
بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے
مَے خانے میں عاجز ہُوئے آزُردہ دِلی سے
مسجد کا نہ رکھا ہمیں آشفتہ سری نے
یہ جامہ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض، کبھی بخیہ گری نے
غزل
شرحِ فراق، مدحِ لبِ مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
یار آشنا نہیں کوئی،ٹکرائیں کس سے جام
کس دل رُبا کے نام پہ خالی سَبُو کریں
سینے پہ ہاتھ ہے، نہ نظر کو تلاشِ بام
دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں
کب تک سنے گی رات، کہاں تک سنائیں ہم
شکوے گِلے سب آج ترے رُو برُو کریں
ہمدم حدیثِ کوئے ملامت سُنائیو
دل کو لہو کریں کہ گریباں رفو کریں
آشفتہ سر ہیں، محتسبو، منہ نہ آئیو
سر بیچ دیں تو فکرِ دل و جاں عدو کریں
’’تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ
جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں ‘‘
منظر
رہ گزر، سائے شجر، منزل و در،حلقہ بام
بام پر سینہ مہتاب کھلا،آہستہ
جس طرح کھولے کوئی بندِ قبا،آہستہ
حلقہ بام تلے،سایوں کا ٹھہرا ہُوا نیل
نِیل کی جھِیل
جھِیل میں چُپکے سے تَیرا،کسی پتّے کا
حباب
ایک پل تیرا،چلا،پھُوٹ گیا،آہستہ
بہت آہستہ،بہت ہلکا،خنک رنگِ شراب
میرے شیشے میں ڈھلا،آہستہ
شیشہ و جام،صراحی،ترے ہاتھوں کے گلاب
جس طرح دور کسی خواب کا نقش
آپ ہی آپ بنا اور مِٹاآہستہ
دل نے دُہرایا کوئی حرفِ وفا،آہستہ
تم نے کہا ’’آہستہ‘‘
چاند نے جھک کر کہا
اور ذراآہستہ‘‘’’
ہارٹ اٹیک
درد
اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا
چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا
چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں
گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو
میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر
آنے لگا
میرے ویرانہء تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی
طنابیں کھُل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ فاصلہء شوق کی
تّیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی
ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری
دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے
بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی، مگر دل
نہ ٹھہرنا چاہا
متفرق قطعات
-----------
یہ خوں کی مہک ہے کہ لبِ
یار کی خوشبو
کس راہ کی جانب سے صبا
آتی ہے دیکھو
گلشن میں بہار آئی کہ
زنداں ہوا آباد
کس سمت سے نغموں کی صدا
آتی ہے دیکھو
-----------
پیش گفتار
جب میں نے اس مجموعے کا مسودہ اشاعت کے
لیے بھیجا تو اپنے دوست اور ناشر چودھری عبد الحمید صاحب کی جانب سے فرمائش وصول ہوئی کہ اس میں کچھ نثر کا بھی اضافہ ہونا چاہیے، اس لیے کہ بقول ان کے
بعض لوگوں کو مصنف کی ذات میں بھی دلچسپی ہے۔ ایک عزیز اور کرم فرما مرزا ظفر الحسن پہلے ہی سے اس کام کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ انہی کے جمع
کردہ مصالح کا کچھ حصہ ان صفحات میں شامل کر دیا گیا ہے۔
فیض
عہدِ طفلی سے عنفوانِ شباب تک
(مرزا ظفر الحسن سے ایک گفتگو)
ہمارے
شعرا کو مستقلاً یہ شکایت رہی ہے کہ زمانے نے ان کی قدر نہیں
کی۔ ناقدریِ ابنائے
وطن ہماری شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے۔ ہمیں اس سے اُلٹ شکایت یہ ہے کہ ہم پہ لطف و عنایات کی اس قدر بارش رہی
ہے، اپنے دوستوں کی طرف سے، اپنے ملنے والوں کی طرف سے اور ان کی جانب سے بھی جن کو ہم جانتے بھی نہیں، اکثر ندامت ہوتی ہے کہ اتنی داد و دہش
کا مستحق ہونے کے لیے جو تھوڑا بہت کام ہم نے کیا ہے اس سے بہت زیادہ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ بچپن ہی سے
اس قسم کا تاثر رہا ہے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے اسکول میں پڑھتے تھے تو سکول کے لڑکوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات قائم ہو گئے تھے کہ خوامخواہ
انہوں نے ہمیں لیڈر تسلیم کر لیا تھا حالانکہ لیڈری کی صفات ہم میں نہیں تھیں۔ یا تو آدمی بہت لٹھ باز ہو کہ دوسرے اس کا رعب مانیں یا وہ سب سے بڑا
فاضل ہو۔ ہم پڑھنے لکھنے میں ٹھیک تھے، کھیل بھی لیتے تھے، لیکن پڑھائی میں ہم نے کوئی ایسا کمال پیدا نہیں کیا تھا کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔
بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک یہ بات
خاص طور پر یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ایک ہجوم تھا۔ ہم جو تین بھائی تھے ان میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین
سے باغی ہو کر کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے ان خواتین کے ہاتھ آ گئے۔ اس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ
ان خواتین نے ہم کو انتہائی شریفانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اجڈ قسم کی بات اس زمانے میں ہمارے منہ سے نہیں
نکلتی تھی۔ اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا، جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کے لہو و لعب کی زندگی گزارنے سے ہم
محروم رہے۔ مثلاً یہ کہ گلی میں کوئی پتنگ اُڑا رہا ہے، کوئی گولیاں کھیل رہا ہے، کوئی لٹو چلا رہا ہے، ہم بس کھیل کود کو دیکھتے رہتے تھے،
اکیلے بیٹھ کر۔ ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے کے مصداق ہم ان تماشوں کے صرف تماشائی بنے رہتے اور ان میں شریک ہونے کی ہمت اس لیے نہیں ہوتی تھی کہ
اسے شریفانہ شغل یا شریفانہ کام نہیں سمجھتے تھے۔
اساتذہ بھی ہم پر مہربان رہے۔ آج کل کی
میں نہیں جانتا، ہمارے زمانے میں تو سکول میں سخت پٹائی ہوتی تھی۔ ہمارے عہد کے استاد تو نہایت ہی جلاد قسم کے لوگ تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ان میں سے کسی
نے ہم کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ ہر کلاس میں ہم کو مانیٹر بناتے تھے۔ بلکہ (ساتھی لڑکوں کو) سزا دینے کا منصب بھی ہمارے حوالے کرتے تھے۔ یعنی فلاں
کو چانٹا لگاؤ، فلاں کو تھپڑ مارو۔ اس کام سے ہمیں بہت کوفت ہوتی تھی اور ہم کوشش کرتے تھے کہ جس قدر بھی ممکن ہو یوں سزا دیں کہ ہمارے شکار کو
وہ سزا محسوس نہ ہو۔ طمانچے کی بجائے گال تھپتھپا دیا، یا کان آہستہ سے کھینچا وغیرہ۔ کبھی ہم پکڑے جاتے تو استاد کہتے یہ کیا کر رہے ہو، زور سے
چانٹا مارو۔
دو تاثر بہت گہرے ہیں ایک تو یہ کہ بچوں
کی جو دلچسپیاں ہوتی ہیں ان سے محروم رہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور اپنے اساتذہ سے ہمیں بے پایاں شفقت و خلوص ملا جو بعد کے زمانے
کے دوستوں اور معاصرین سے بھی ملا اور آج تک مل رہا ہے۔
صبح ہم اپنے ابّا کے ساتھ فجر کی نماز
پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اُٹھ بیٹھے، ابّا کے ساتھ مسجد گئے، نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر
سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا، ابّا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لیے گئے پھر سکول۔ رات کو ابّا بُلا لیا کرتے خط
لکھنے کے لیے۔ اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقّت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سیکرٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان
مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ انگریزی اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔
ایک اور یاد تازہ ہوئی۔ ہمارے گھر سے
ملی ہوئی ایک دکان تھی، جہاں کتابیں کرائے پر ملتی تھیں۔ ایک کتاب کا کرایہ دو پیسے ہوتا۔ وہاں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں سب "بھائی صاحب"
کہتے تھے۔ بھائی صاحب کی دکان میں اردو ادب کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ ہماری چھٹی ساتویں جماعت کی طالب علمی میں جن کتابوں کا رواج تھا وہ آج کل قریب قریب
مفقود ہو چکی ہیں جیسے طلسم ہوش ربا، فسانہ آزاد، عبد الحلیم شرر کے ناول وغیرہ۔ یہ سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے بعد شاعروں کا کلام پڑھنا شروع کیا۔
داغ کا کلام پڑھا۔ میر کا کلام۔ غالب تو اس وقت بہت زیادہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسروں کا کلام بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا نہیں آتا
تھا۔ لیکن ان کا دل پہ اثر کچھ عجب قسم کا ہوتا تھا۔ یوں شعر سے لگاؤ پیدا ہوا اور ادب میں دلچسپی ہونے لگی۔
ہمارے ابّا کے منشی گھر کے ایک طرح کے
مینجر بھی تھے۔ ہمارا ان سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ اچھا آج ہم تمہاری شکایت کریں گے کہ تم ناول پڑھتے ہو۔ سکول کی کتابیں پڑھنے کی
بجائے چھُپ کر انٹ سنت کتابیں پڑھتے ہو۔ ہمیں اس سے بہت ڈر لگا اور ہم نے ان کی بہت منّت کی کہ شکایت نہ کریں مگر وہ نہ مانے اور ابّا سے شکایت کر
ہی دی۔ ابّا نے ہمیں بلایا اور کہا میں نے سنا ہے تم ناول پڑھتے ہو۔ میں نے کہا جی
ہاں۔ کہنے لگے ناول ہی پڑھنا ہے تو انگریزی ناول پڑھو۔ اردو کے ناول اچھے نہیں ہوتے۔ شہر کے قلعہ میں جو لائبریری ہے وہاں سے ناول لا کر پڑھا
کرو۔
ہم نے انگریزی ناول پڑھنے شروع کیے۔
ڈکنس، ہارڈی اور نہ جانے کیا کیا پڑھ ڈالا۔ وہ بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا پلّے نہ پڑتا تھا۔ اس مطالعہ کی وجہ سے ہماری انگریزی بہتر ہو گئی۔ دسویں
جماعت میں پہنچنے تک محسوس ہوا کہ بعض استاد پڑھانے میں کچھ غلطیاں کر جاتے ہیں۔ ہم ان کی انگریزی درست کرنے لگے۔ اس پر ہماری پٹائی تو نہ
ہوئی البتہ وہ استاد کبھی خفا ہو جاتے اور کہتے تمھیں ہم سے اچھی انگریزی آتی ہے تو پھر تم ہی پڑھایا کرو ہم سے کیوں پڑھتے ہو۔
اس زمانے میں کبھی کبھی مجھ پر ایک خاص
قسم کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ جیسے یکایک آسمان کا رنگ بدل گیا ہے۔ بعض چیزیں کہیں دور چلی گئی ہیں۔ دھوپ کا رنگ اچانک حنائی ہو گیا ہے۔ پہلے جو
دیکھنے میں آیا تھا، اس کی صورت بالکل مختلف ہو گئی ہے۔ دنیا ایک طرح کی پردۂ تصویر کے قسم کی چیز محسوس ہونے لگتی تھی۔ اس کیفیت کا بعد میں
بھی کبھی کبھی احساس ہوا ہے مگر اب نہیں ہوتا۔
مشاعَرے بھی ہوا کرتے تھے۔ ہمارے گھر سے
ملی ہوئی ایک حویلی تھی جہاں سردیوں کے زمانے میں مشاعرے کیے جاتے تھے۔ سیالکوٹ میں پنڈت راج نرائن ارمان ہوا کرتے تھے جو ان مشاعروں کے
انتظامات کرتے تھے، ایک بزرگ منشی سراج دین مرحوم تھے۔ علّامہ اقبال کے دوست سری نگر میں مہاراجہ کشمیر کے میر منشی۔ وہ صدارت کیا کرتے تھے۔ جب دسویں
جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کر دی اور ایک دو مشاعروں میں شعر پڑھ دیے۔ منشی سراج دین نے ہم سے کہا میاں ٹھیک ہے۔ تم بہت تلاش سے شعر
کہتے ہو، مگر یہ کام چھوڑ دو، ابھی تو تم پڑھو لکھو اور جب تمہارے دل و دماغ میں پختگی آ جائے، تب یہ کام کرنا۔ اِس وقت یہ تضیع اوقات ہے۔ ہم نے
شعر کہنا ترک کر دیا۔
جب ہم مرّے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور
وہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے جو اقبال کے مفسر بھی ہیں تو انہوں نے مشاعرے کی طرح ڈالی اور کہا طرح پر شعر کہو۔ ہم نے کچھ شعر کہے اور
ہمیں بہت داد ملی۔ چشتی صاحب نے منشی سراج دین کے بالکل خلاف مشورہ دیا اور کہا فوراً اس طرف توجہ کرو۔ شاید تم کسی دن شاعر ہو جاؤ۔
گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے جہاں بہت ہی
فاضل اور مشفّق اساتذہ سے نیاز مندی ہوئی۔ پطرس بخاری تھے، اسلامیہ کالج میں ڈاکٹر تاثیر تھے، بعد میں صوفی تبسّم صاحب آ گئے۔ ان کے علاوہ شہر کے
جو بڑے ادیب تھے، امتیاز علی تاج تھے، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری صاحب تھے، اختر شیرانی تھے، ان سب سے ذاتی مراسم ہو گئے۔ ان دنوں اساتذہ اور طلبا
کا رشتہ ادب کے ساتھ ساتھ کچھ دوستی کا سا بھی ہوتا تھا۔ کالج کی کلاسوں میں تو شاید ہم نے کچھ زیادہ نہیں پڑھا۔ لیکن ان بزرگوں کی صحبت اور
محبت سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی محفلوں میں ہم پر شفقت ہوتی تھی اور ہم وہاں سے بہت کچھ حاصل کر کے اٹھتے تھے۔
ہم نے اپنے دوستوں سے بھی بہت کچھ
سیکھا۔ جب شعر کہتے تھے تو سب سے پہلے خاص دوستوں کو ہی سناتے تھے۔ ان سے داد ملتی تو مشاعروں میں پڑھتے۔ اگر کوئی شعر خود کو پسند نہ آیا یا دوستوں نے
کہا نکال دو تو اسے کاٹ دیتے۔ ایم اے میں پہنچنے تک باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔
ہمارے ایک دوست ہیں خواجہ خورشید انور،
ان کی وجہ سے ہمیں موسیقی میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ خورشید انور پہلے تو دہشت پسند تھے، بھگت سنگھ گروپ میں شامل۔ انہیں سزا بھی ہوئی جو بعد میں معاف
کر دی گئی۔ دہشت پسندی ترک کر کے وہ موسیقی کی طرف مائل ہوئے۔ ہم دن میں کالج جاتے اور شام کو خورشید انور کے والد خواجہ فیروز الدّین مرحوم کی
بیٹھک میں بڑے بڑے استادوں کا گانا سنتے۔ یہاں اس زمانے کے سبھی استاد آیا کرتے تھے۔ استاد توکل حسین خاں، استاد عبد الوحید خاں، استاد عاشق علی
خاں اور چھوٹے غلام علی خاں وغیرہ۔ ان استادوں کے ہم عصر اور ہمارے دوست رفیق غزنوی مرحوم سے بھی صحبت ہوتی تھی۔ رفیق لاء کالج میں پڑھتے تھے۔
پڑھتے تو خاک تھے، رسمی طور پر کالج میں داخلہ لے رکھا تھا۔ کبھی خورشید انور کے کمرے میں اور کبھی رفیق کے کمرے میں بیٹھک ہو جاتی تھی۔ غرض اس طرح
ہمیں اس فن لطیف سے حظ اندوز ہونے کا کافی موقع ملا۔
جب ہمارے والد فوت ہوئے تو پتا چلا کہ
گھر میں کھانے تک کو کچھ نہیں ہے۔ کئی سال تک در بدر پھرے اور فاقہ مستی کی۔ اس میں بھی لطف آیا، اس لیے کہ اس کی وجہ سے تماشائے اہلِ کرم دیکھنے کا
موقع ملا۔ خاص طور پر اپنے دوستوں سے کالج میں ایک چھوٹا سا حلقہ بن گیا تھا۔ کوئٹہ کے ہمارے دو دوست تھے احتشام الدّین اور شیخ احمد حسین۔ ڈاکٹر
حمید الدّین بھی اس حلقے میں شامل تھے۔ ان کے ساتھ شام کو محفل رہا کرتی۔ جوانی کے دنوں میں جو دوسرے واقعات ہوتے ہیں وہ بھی ہوئے اور ہر کسی کے
ساتھ ہوتے ہیں۔
گرمیوں کی تعطیلات ہوتیں تو ہم کبھی
خورشید انور اور بھائی طفیل کے ساتھ سری نگر چلے جایا کرتے اور کبھی اپنی ہمشیرہ کے پاس لائل پور پہنچ جاتے۔ لائل پور میں باری علیگ اور ان کے گروہ کے
دوسرے لوگوں سے ملاقات رہتی۔ کبھی اپنی سب سے بڑی ہمشیرہ کے ہاں دھرم سالہ چلے جاتے۔ جہاں منظر قدرت دیکھنے کا موقع ملتا اور دل پر ایک خاص قسم
کا نقش ہوتا۔ ہمیں انسانوں سے جتنا لگاؤ رہا اتنا قدرت کے مناظر اور مطالعۂ حسن فطرت سے نہیں رہا۔ پھر بھی ان دنوں میں نے محسوس کیا کہ شہر کے جو
گلی محلے ہیں ان میں بھی اپنا ایک حسن ہے جو دریا و صحرا کوہسار یا سرو و سمن سے کم نہیں۔ البتہ اس کو دیکھنے کے لیے بالکل دوسری طرح کی نظر
چاہیے۔
مجھے یاد ہے کہ ہم مستی دروازے کے اندر
رہتے تھے۔ ہمارا گھر بالائی سطح پر تھا۔ نیچے بدرو بہتی تھی۔ چھوٹا سا ایک چمن تھا۔ چار طرف باغات تھے۔ ایک رات چاند نکلا ہوا تھا۔ چاندنی بدرو اور ارد
گرد کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پڑ رہی تھی۔ چاندنی اور سائے یہ سب مل کر کچھ عجیب پر اسرار منظر بن گئے تھے۔ چاند کی عنایت سے منظر کی بد وضعی چھپ
گئی تھی اور کچھ عجیب ہی قسم کا حسن پیدا ہو گیا تھا۔ جسے میں نے لکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ایک آدھ نظم میں منظر کشی کی ہے جب شہر کی گلیوں محلّوں اور
کٹڑیوں میں کبھی دوپہر کے وقت کبھی شام کے وقت کچھ اس قسم کا روپ آ جاتا ہے جیسے معلوم ہو کوئی پرستان ہے۔ "نیم شب، چاند، خود
فراموشی، بام و در، خامشی کے بوجھ سے چُور" وغیرہ اسی زمانے سے متعلق ہیں۔
ایم۔اے میں پہنچے تو کبھی کلاس میں جانے
کی ضرورت ہوئی کبھی بالکل جی نہ چاہا۔ دوسری کتابیں جو نصاب میں نہیں تھیں پڑھتے رہے۔ اس لیے امتحان میں کوئی خاص اعزاز حاصل نہیں کیا، لیکن مجھے
معلوم تھا کہ جو لوگ اول دوم آتے ہیں ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں خواہ ہمارے نمبر ان سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ نات ہمارے اساتذہ بھی جانتے تھے۔ جب کسی
استاد کا جیسے پروفیسر ڈکنسن یا پروفیسر ہریش چندر کٹا پالیا تھے، لیکچر دینے کو جی نہ چاہتا تو ہم سے کہتے ہماری بجائے تم لیکچر دو، ایک ہی بات
ہے۔ البتہ پروفیسر بخاری بڑے قاعدے کے پروفیسر تھے وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ پروفیسر ڈکنسن کے ذمّے انیسویں صدی کا نثری ادب تھا مگر انہیں اس
موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے ہم سے کہا دو تین لیکچر تیار کر لو۔ دوسرے جو دو تین لائق لڑکے ہمارے ساتھ تھے ان سے بھی کہا دو دو تین تین
لیکچر تم لوگ بھی تیار کر لو۔ کتابوں وغیرہ کے بارے میں کچھ پوچھنا ہو آ کے ہم سے پوچھ لینا۔ چنانچہ نیم استاد ہم اسی زمانے میں ہو گئے تھے۔
ابتدائی شاعری کے دوران میں یا کال کے
زمانے میں ہمیں کوئی خیال ہی نہ گزرا کہ ہم شاعر بنیں گے۔ سیاست وغیرہ تو اس وقت ذہن میں بالک ہی نہ تھی۔ اگرچہ اس وقت کی تحریکوں، مثلاً کانگریس
تحریک، خلافت تحریک یا بھگت سنگھ کی دہشت پسند تحریک کے اثرات تو ذہن میں تھے۔ مگر ہم خود ان میں سے کسی قصے میں شریک نہیں تھے۔
شروع میں خیال ہوا کہ ہم کوئی بڑے کرکٹر
بن جائیں کیونکہ لڑکپن سے کرکٹ کا شوق تھا وہ بہت کھیل چکے تھے۔ پھر جی چاہا استاد بننا چاہیے۔ ریسرچ کرنے کا شوق تھا۔ ان میں سے کوئی بات بھی نہ بنی۔
ہم کرکٹر بنے نہ نقّاد اور نہ ریسرچ کیا۔ البتہ استاد ہو کر امرتسر چلے گئے۔
ہماری زندگی کا شاید سب سے خوشگوار
زمانہ امرتسر ہی کا تھا اور کئی اعتبار سے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ جب ہمیں پہلی دفعہ پڑھانے کا موقع ملا تو بہت لطف آیا، اپنے طلبا سے دوستی کا لطف۔ ان سے ملنے
اور روز مرہ کی رسم و راہ کا لطف، ان سے کچھ سیکھنے اور انہیں پڑھانے کا لطف۔ ان لوگوں سے دوستی اب تک قائم ہے۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں کچھ
سنجیدگی سے شعر لکھنا شروع کیا۔ تیسرے یہ کہ امرتسر میں ہی پہلی بار سیاست میں تھوڑی بہت بصیرت اپنے کچھ رفقا کی وجہ سے پیدا ہوئی جن میں محمود
الظفر تھے، ڈاکٹر رشید جہاں تھیں۔ بعد میں ڈاکٹر تاثیر آ گئے تھے۔ یہ ایک نئی دنیا ثابت ہوئی۔ مزدوروں میں کام شروع کیا۔ سول لبرٹیز کی ایک انجمن بنی
تو اس میں کام کیا۔ ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو اس کی تنظیم میں کام کیا۔ ان سب سے ذہنی تسکین کا ایک بالکل نیا میدان ہاتھ آیا۔
ترقی پسند ادب کے بارے میں بحثیں شروع
ہوئیں اور ان میں حصہ لیا۔ 'ادب لطیف' کی ادارت کی پیش کش ہوئی تو دو تین برس اس کا کام کیا۔ اس زمانے میں لکھنے والوں کے دو بڑے گروہ تھے۔ ایک
"ادب برائے ادب" والے دوسرے ترقی
پسند تھے۔ کئی برس تک ان دونوں کے درمیان بحثیں چلتی رہیں جس
کی وجہ سے کافی
مصروفیت رہی جو بجائے خود ایک بہت ہی دلچسپ اور تسکین دہ تجربہ تھا۔ بر صغیر میں ریڈیو شروع ہوا۔ ریڈیو میں
ہمارے دوست تھے۔ ایک سید رشید احمد تھے جو ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ہوئے۔ دوسرے سومناتھ چپ تھے، جو آج کل ہندوستان میں شعبۂ سیاحت کے سربراہ ہیں۔
دونوں باری باری سے لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ہم اور ہمارے ساتھ شہر کے دو چار اور ادیب ڈاکٹر تاثیر، حسرت، صوفی صاحب اور ہری چند
اختر وغیرہ، ریڈیو اسٹیشن آنے جانے لگے۔ اس زمانے میں ریڈیو کا پروگرام ڈائریکٹر آف پروگرامز نہیں بناتا تھا۔ ہم لوگ مل کر بنایا کرتے تھے۔ نئی نئی
باتیں سوچتے تھے۔ ان دنوں ہم نے ڈرامے لکھے، فیچر لکھے، دو چار کہانیاں لکھیں، یہ سب ایک مستقل مشغلہ تھا۔ رشید جب دلی چلے گئے تو ہم دہلی جانے
لگے۔ وہاں نئے نئے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ دہلی اور لکھنؤ کے لکھنے والے گروہوں سے شناسائی ہوئی۔ مجاز، سردار جعفری، جاں نثار اختر، جذبی اور
مخدوم مرحوم سے ریڈیو کے توسط سے رابطہ پیدا ہوا جس سے دوستی کے علاوہ بصیرت اور سوجھ بوجھ میں طرح طرح کے اضافے ہوئے۔ وہ سارا زمانہ مصروفیت کا
بھی تھا اور ایک طرح سے بے فکری کا بھی۔
فیض سے میری پہلی ملاقات
صوفی غلام مصطفیٰ
تبسم
سن 1929ء تھا اور اکتوبر کا مہینہ۔ مجھے
سینٹرل ٹریننگ کالج سے گورنمنٹ کالج میں آئے ہوئے کوئی تین ہفتے گزرے تھے۔ سابقہ درس گاہ کی خشک تدریسی فضا اور ضبط و نظم سے طبیعت گھٹی گھٹی سی
تھی۔ نئے کالج میں آتے ہی طبیعت میں انبساط کی لہر دوڑ گئی۔ ادب و شعر کا شوق پھر سے ابھرا۔ چنانچہ
"بزم سخن"
کی وساطت سے ایک بڑے مشاعرے کی صدارت پروفیسر پطرس بخاری کے سپرد ہوئی۔ شام ہوتے ہی کالج کا ہال طلبہ سے بھر
گیا۔ سٹیج کے ایک طرف نیاز مندانِ لاہور اپنی پوری شان سے براجمان تھے۔
مقابل میں لاہور کی تمام ادبی انجمنوں
کے نمائندے صف آرا تھے۔ دونوں جانب سے خوش ذوقی اور حریفانہ شگفتگی ایک دوسرے کا خیر مقدم کر رہی تھی۔
روایتی دستور کے مطابق صدر نے اپنے کالج
کے طلباء سے شعر پڑھانے کا اعلان کیا۔ دو ایک برخوردار آئے اور بڑے ادب و انکسار سے کلام پڑھ کر چلے گئے۔ اچانک ایک دبلا پتلا، منحنی سا لڑکا سٹیج پر
نمودار ہوا، سیاہ رنگ، سادہ لباس، انداز میں متانت بلکہ خشونت، چہرے پر اجنبی ہونے کا شدید احساس۔ ادھر اُدھر چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ اتنے میں
اس نے کہا: عرض کیا ہے، کلام میں ابتداء مشق کے باوجود پختگی اور اسلوب میں برجستگی تھی۔ سب نے داد دی۔ یہ حفیظ ہوشیار پوری تھے۔
پھر ایک نوجوان آئے، گورے چٹّے، کشادہ
جبیں، حرکات میں شیریں روانی، آنکھیں اور لب بیک وقت نیم تبسم میں ڈوبے ہوئے۔ پطرس نے کچھ معنی خیز نظروں میں لاہور کے نیاز مندوں سے باتیں کیں
اور ان کی نیم خاموشی کو رضا سمجھ کر دونوں نوجوانوں کو دوبارہ سٹیج پر بلایا۔ نیا کلام سنا۔ فیض صاحب نے غزل کے علاوہ ایک نظم بھی سنائی۔ غزل اور
نظم دونوں میں سوچ کا انداز اور بیان کا اچھوتا اسلوب تھا۔
مشاعرہ ختم ہوا۔ قرار پایا کہ احباب ان
دونوں کو ہمراہ لے کر غریب خانے پر جمع ہوں۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ انہیں بورڈنگ میں پہنچنا تھا۔ بخاری صاحب نے ان کی غیر حاضری کا ذمہ لیا اور پھر
گھنٹہ بھر کے لیے شعر و سخن کی صحبت قائم رہی۔ یہ ان کی طبع آزمائی کا امتحان نہیں، اساتذہ کی حوصلہ افزائی کا امتحان تھا۔ دونوں کامیاب رہے۔
ابھی پورا مہینہ نہیں گزرا تھا کہ کالج
کے امتحانات کا آغاز ہوا، جس دن کی میں بات کر رہا ہوں اس دن پطرس کالج ہال میں مہتمم امتحانات تھے اور ہم جیسے نو تجربوں کو چھوٹے کمرے سپرد کیے گئے
تھے۔ مجھے کالج کی دوسری منزل میں متعین کیا گیا۔ یہاں ایم۔اے انگلش کے طلبہ تھے اور ان میں فیض احمد فیض بھی تھے۔
امتحان کا کمرہ مقام احرام ہوتا ہے۔
امید واروں کے ذہنی امتحان کے ساتھ ساتھ ضبط و نظم کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی ممنوع تھی۔ میں نے اپنی عادت کو دبانے کے لیے پان کا انتظام کر لیا
تھا۔ مگر فیض صاحب کبھی سوالات کے پرچے کی طرف نظر ڈالتے اور کبھی میری طرف نیم متبسم نظروں سے دیکھتے اور پھر قلم کو اُٹھا کر سر کو کھجاتے اور کبھی
خاموشی سے اپنے پڑوسیوں کی مزاج پرسی کرتے، کبھی کبھی ان کا بایاں ہاتھ ایسے حرکت کرتا جیسے وہ کسی نامعلوم شے کو ٹٹول رہے ہیں۔ میں سوچ رہا
تھا، وہ اٹھے اور کہا ہمیں یہاں سگریٹ پینے کی اجازت ہے؟ میں نے کہا میں ابھی بتاتا ہوں۔
اتنے میں پطرس مختلف کمروں کا معاینہ
کرتے کرتے میرے کمرے کے باہر آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں تعظیماً پلیٹ فارم سے اتر کر دروازے پر پہنچا، پوچھا: سب ٹھیک ہے؟
میں نے کہا: جی!
میں نے عرض کیا: پروفیسر صاحب (میں
انہیں پروفیسر صاحب کہا کرتا تھا) بعض طلبہ سگریٹ پینا چاہتے ہیں۔ اجازت ہے؟
پطرس نے میرے کان میں دبی آواز میں کہا۔
"جب تک
پروفیسر جودھ سنگھ اس کالج کے پرنسپل نہیں بنتے، اس وقت تک پی سکتے ہیں۔" اور
پھر مسکرا کر چلے گئے۔
میں نے اندر آتے ہی فیض صاحب کی طرف
دیکھا اور اشاروں سے سگریٹ نوشی کا اعلان کیا۔ فیض صاحب کے ہاتھ میں فی الفور ایک سگریٹ نمودار ہوا جیسے قلم ہی سے ابھر آیا ہے۔
پھر قلم کے رش اور سگریٹ کے کش میں
مقابلہ شروع ہوا اور اس کشمکش میں معطر دھوئیں کے غبارے پورے کمرے میں پھیل گئے۔ میں معلم تھا، ضبط و نظم کی زنجیروں میں جکڑا ہوا بیٹھا رہا اور قوام
دار پان کو چھوڑ کر اس خوشبو سے اپنے ذوق سگریٹ نوشی کی تسکین میں محو ہو گیا۔
کیا معلوم تھا کہ دھوئیں کے یہ غبارے
کالج کی چار دیواری سے دور دور تک فضا میں پھیل جائیں گے اور ان میں سگریٹ پینے والے کے معطر انفاس کی خوشبوئیں بھی لہرائیں گی اور ہنر و فن اور ادب
کی دنیا کو اپنی آغوش میں لے لیں گی۔
ملامتی صوفی
اشفاق احمد
میرا
اور فیض صاحب کا نظریاتی اختلاف ہے۔ میں ایک شرعی آدمی ہوں اور
فیض صاحب ملامتی صوفی ہیں۔
تاریخ میں ڈھونڈنے سے آپ کو کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی
جہاں ایک شرعی اور صوفی کی دوستی ہو گئ اور دونوں نے ایک
دوسرے کے ہاتھ میں
ہاتھ ڈال کر آخری منزلیں طے کیں۔ لیکن ایک شرعی آدمی کی کسی ملامتی سے دوستی نہیں ہوئی۔ فیض صاحب نے صوفی ازم کا
اکتساب کسی سلسلہ میں بیعت کر کے نہیں کیا۔ نا ہی میرے اندازہ اور تحقیق کے مطابق انہوں نے ورد و وظیفہ یا چلہ کشی کی ہے۔ انہوں نے صوفیا کا ایک
تیسرا راستہ اختیار کیا ہے جو مجاہدے پر محیط ہے، اسی کو بزرگانِ دین ادب اور تواضع کا نام دیتے ہیں۔
حضرت حاجی صاحب مہاجر مکی فرماتے ہیں کہ
ایک دم میں ولایت حاصل کرنے کے لیے ادب اور خدمت کو اختیار کرنا چاہیے۔ بزرگانِ دین اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طریقِ تصوف کے طالب
کو چاہیے کہ ادبِ ظاہری اور باطنی کو نگاہ میں رکھے۔ ادبِ ظاہری یہ ہے کہ مخلوقِ
خدا کے ساتھ بحسنِ ادب و کمال تواضع اور اخلاق کے ساتھ پیش آوے اور ادبِ باطنی یہ ہے کہ تمام اوقات و احوال و مقامات میں با حق رہے۔ حسنِ
ادب ظاہر سرنامہ ادبِ باطن کا ہے اور حسنِ ادب ترجمانِ عقل ہے اور عقل چراغِ راہِ صداقت کے تیل سے منور ہے۔
یہ ادب، یہ صبر، ایسا دھیما پن، اس قدر
درگزر، کم سخنی اور احتجاج سے گریز۔ یہ صوفیوں کے کام ہیں۔ ان سب کو فیض صاحب نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ اوپر سے ملامتی رنگ یہ اختیار کیا
ہے کہ اشتراکیت کا گھنٹا بجاتے پھرتے ہیں کہ کوئی قریب نہ آئے اور محبوب کا راز کھل جائے۔ واہ بابا ٹل واہ! کیا کہنے! چوری کر، تے بھن گھر رب دا
اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ۔
میرا تعلق چونکہ اونچے خانوادے سے ہے اور
میں مسلمان بادشاہوں کا پرستار ہوں اور ملوکیت کو ہی اسلام سمجھتا ہوں، اس لیے میری اور بابا ٹل کی نہیں بن سکتی۔ لیکن کبھی اکیلے بیٹھے بیٹھے،
خاموش اور چپ چاپ، میں سوچا کرتا ہوں کہ اگر فیض صاحب حضور سرور کائنات صلّی اللہ علیہ و سلّم کے زمانے میں ہوتے تو ان کے چہیتے غلاموں میں سے ہوتے۔ جب
بھی کسی بد زبان، تند خو، بد اندیش یہودی دکاندار کی دراز دستی کی خبر پہنچتی تو حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کبھی کبھی ضرور فرماتے: آج فیض کو
بھیجو، یہ بھی دھیما ہے، صابر ہے، برد بار ہے، احتجاج نہیں کرتا پتھر بھی کھا لیتا ہے۔ ہمارے مسلک پر عمل کرتا ہے۔
فیض سے میری رفاقت
شیر محمد حمید
1929ء کی بات ہے کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں
تیسرے سال کا طالبعلم تھا۔ چوہدری نبی احمد اور آغا عبد الحمید میرے دوست تھے۔ ہم سب نیو ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ہر شام ہم سیر کو نکلتے تو ایک
نوجوان کو دیکھتے جو باہر جنگلے پاس تنہا کھڑا گرد و پیش سے بے خبر کالج ٹاور کی سمت نظریں جمائے، دور کہیں افق کی بلندیوں کو دیکھ رہا ہوتا۔ اس
کا سراپا دلکش اور محویت جاذب توجہ۔ تین چار دنوں کے بعد نبی احمد کے ذوق جستجو نے ہمیں اس نوجوان سے ہم کلام ہونے پر آمادہ کر لیا۔ قریب جا کر نبی
احمد نے پوچھا "معاف کیجیے گا، آپ کون ہیں اور یوں گم سم تنہا کھڑے کیا دیکھا کرتے ہیں؟" نوجوان
محویت کے عالم سے چونکا اور کہنے
لگا "میرا نام فیض ہے، میں نے مرے کالج سیالکوٹ سے
ایف۔اے پاس کر کے یہاں تھرڈ ایئر میں داخلہ لیا ہے۔ یہاں
میرا کوئی واقف آشنا
نہیں ہے"! نبی احمد نے معاً کہا۔ آئیے آج سے آپ ہمارے دوست ہیں۔ یہ شیر محمد ہیں، یہ آغا حمید ہیں، یہ بھی آپ
کے ہم جماعت ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن، ایک کم پچاس برس بیت چکے ہیں، زندگی ہزاروں نشیب و فراز سے گزری فیض کی دوستی کا وہ بندھن بدستور برقرار ہے،
اور یہ دوستی ہمارے لیے فخر و مسرت کا باعث رہی ہے۔
فیض کے والد خان بہادر سلطان محمد خان
سیالکوٹ کے سرکردہ وکیل، معزز و مخیر شہری، ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے۔ وجاہت و شرافت کا پیکر تھے، گھر میں ہر طرح کی آسودگی تھی۔ فیض نے ناز و
نعمت میں آنکھ کھولی تھی، لاڈ پیار میں پرورش اور گھریلو رکھ رکھاؤ اور ناز برداریوں میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ لاہور آئے تو ماحول مختلف پایا۔
کچھ گھُٹے گھُٹے رہتے۔ ہمیں کافی جدّ و جہد کرنا پڑی کہ فیض اپنے خول سے باہر نکلیں۔ چھے سات ماہ کے بعد ہم کامیاب ہوئے اور فیض حلقۂ احباب میں چہچہانے
لگے۔
وہ زمانہ گورنمنٹ کالج کا سنہری دور
تھا۔ بڑے بڑے نامور اساتذہ مختلف شعبوں کے سربراہ تھے۔ پروفیسر لینگ ہارن انگریزی کے صدر شعبہ تھے۔ تھرڈ ایئر کے امتحان میں انہوں نے ہمارے انگریزی
کے پرچے دیکھے۔ پرچے واپس ملے تو فیض کے پرچے پر ایک سو پینسٹھ نمبر درج تھے، کسی طالب علم نے پروفیسر صاحب سے پوچھا ان کو ڈیڑھ سو میں سے ایک سو
پینسٹھ نمبر کیسے مل گئے۔ جواب ملا Because I could not give more.فیض کی انگریزی دانی کے متعلق ایک
نامور انگریز استاد کے یہ الفاظ سند رہیں گے۔
انہی دنوں پطرس بخاری کیمبرج سے فارغ
التحصیل ہو کر گورنمنٹ کالج آئے۔ کالج کی علمی و ادبی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ بخاری اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کی دلفریب شخصیت کا پرتو کالج
کے ہر شعبے پر پڑا۔ کالج میں "بزم
سخن" نام کی ایک اردو انجمن موجود تھی۔ اس کے اجلاس مشاعروں اور رسمی تقاریب تک محدود تھے۔ بخاری صاحب نے نا کافی
سمجھ کر "مجلس" کے نام سے ایک
نئی انجمن کا اجرا کیا۔ اردو علم و ادب سے شغف رکھنے والے
طلبا کو چن چن کر اس
کا رکن بنایا۔ فیض، راشد، آغا حمید، نبی احمد، حفیظ ہوشیار پوری اور یہ خاکسار اس
کے بانی اراکین میں سے تھے۔ طالب علموں کے علاوہ بخاری صاحب
کے ایما اور دعوت پر لاہور کے برگزیدہ ادیب و دانشور شریک
مجلس ہوتے۔ ڈاکٹر
تاثیر، مولانا سالک، امتیاز علی تاج، صوفی تبسم، چراغ حسن حسرت بالالتزام اور حفیظ جالندھری کبھی کبھار
تشریف لاتے۔ اجلاس اکثر و بیشتر بخاری کے دولت کدے پر ہوتے۔ ایک طالب علم مقالہ پڑھتا، ایک دو نظم یا غزل پیش کرتے پھر سوال و جواب، تنقید و تبصرے کا
دور چلتا۔ صاحب مقالہ کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی اور نئے نئے گوشوں کی طرف رہنمائی بھی۔ موضوع کے ہر پہلو کو کھنگالا جاتا۔ اور مشرق و مغرب کے
اسالیب تنقید، قدیم و جدید اصولوں کے معیار پر پرکھا جاتا۔ غرض کوئی زاویہ، کوئی پہلو نظر انداز نہ کیا جاتا۔ اس دوران زمام بحث اکثر بخاری کے
چابک دست ہاتھوں میں رہتی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی یہ نشست مہینوں کی دیدہ ریزی پر حاوی ہوتی۔ ہم لوگ انشراح قلب کی کیفیت لیے واپس لوٹتے۔ یہ
بخاری کی کرشمہ زائی تھی کہ مدفون امکانات کو اجاگر کر کے فیض اور راشد جیسے نامور اکابر "مجلس"
نے پیدا کیے۔
فیض میں شاعری کا مادہ فطری و وہبی تھا۔
ہم لوگوں میں بھی فیض کی صحبت اور بخاری، تاثیر اور تبسم جیسے جید اساتذہ کے
التفات نظر کے باعث شعر و ادب سے کچھ لگن پیدا ہو گئی۔ احباب کا حلقہ وسیع ہو چکا تھا۔ ہر شام ہوسٹل کے کسی کمرہ میں محفل مشاعرہ برپا کر بیٹھتے۔
طرح مصرع پر ہر کوئی دو چار شعر لکھ کر لاتا۔ محفل کے اختتام پر ہر غزل میں سے شعر انتخاب کر کے ایک غزل مرکب تیار کر لیتے جو کالج کے مجلّہ راوی
میں "احباب" کے نام سے چھپتی۔
ظاہر ہے اس غزل مرکب میں حصہ وافر فیض کا ہوتا۔ "دی
احباب" کے عنوان سے ایک طنزیہ فیض نے راوی میں لکھا تھا جو اب ان کی کتاب "متاع لوح و
قلم" میں شامل ہے۔
فیض کی شاعری پروان چڑھتی رہی۔ بین
الکلیاتی مشاعروں میں فیض اکثر انعامات سمیٹتے رہے۔ ابھی کالج کا زمانہ تھا کہ فیض صفِ شاگرداں سے اٹھ کر مجلس اساتذہ میں شریک ہو گئے اور بخاری، تاثیر اور
تبسم کے احباب میں جگہ پا لی۔
ہم فورتھ ایئر میں تھے۔ دسمبر کی چھٹیوں
میں فیض کی ہمشیرہ کی شادی تھی، وہ سیالکوٹ چلے گئے۔ ان کے والد اس تقریب کی تیاری میں مصروف تھے۔ جس صبح برات کو آنا تھا اسی رات حرکت قلب بند ہو
جانے سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اس قیامت کا اندازہ کیجیے جو اس ناگہانی موت سے ان کے خاندان پر گزر گئی۔ فیض نے ایک فقرہ کا خط لکھا: "تمہارا فیض
یتیم ہو گیا" ان حشر سامانیوں کو کون
سمجھے جو اس ایک فقرہ کی تہہ میں موجود ہیں۔ اس سانحہ عظیم
نے گویا زندگی کی بساط
الٹ دی۔ فیض کی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔ اس کے قلب و ذہن میں ایک انقلاب آ گیا۔
اچانک گرفتاری، خوف و دہشت کی فضا، قید
تنہائی اور پھر سنٹرل جیل میں مقدمے کی سماعت، عجب گو مگو کا عالم تھا۔ فیض کے اعزہ اور اقربا دوست احباب سب پریشان تھے۔ فیض کے بڑے بھائی حاجی
طفیل احمد، جو میرے بھی کرم فرما تھے، حیدر آباد جیل میں فیض سے ملاقات کو گئے اور وہیں حرکت قلب رک جانے سے انتقال کر گئے۔ میں تعزیت اور دلجوئی
کے لیے فیض سے ملنے حیدر آباد گیا۔ جیل کے اندر ملاقات ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ مقدمے کی سنگینی، جیل کی مصیبت اور اب شفیق بھائی کی ناگہانی
موت نے فیض کو سخت مضمحل اور بد حال کر رکھا ہو گا۔ میں یہ دیکھ کر متعجب رہ گیا
کہ فیض کی ظاہری شکل و صورت میں کسی غیر معمولی تبدیلی کے آثار نظر نہ آئے۔ اضمحلال و پریشانی کا کوئی خاص نشان نہ تھا۔
فیض ٹھنڈے مزاج کے بے حد صلح پسند آدمی
ہیں۔ بات کتنی بھی اشتعال انگیز ہو، حالات کتنے بھی ناسازگار ہوں، وہ نہ برہم ہوتے ہیں اور نہ مایوس۔ سب کچھ تحمل اور خاموشی سے برداشت کر لیتے ہیں۔
نہ کسی کا گلہ نہ چڑچڑاہٹ نہ بد گوئی۔ میں نے فیض کو نہ کبھی طیش میں دیکھا ہے اور نہ کبھی کسی کا شکوہ شکایت کرتے سنا ہے۔ ان کے دل کی گہرائیوں
میں لاکھ ہیجان برپا ہوں، چہرے پر برہمی کی یا پریشانی کی کوئی لکیر نظر نہ آئے گی۔ فیض کا ظرف کتنا وسیع ہے۔ سمندر کی تہہ میں طوفانوں کی رستا خیز
ہے، سطح پر سکون ہے۔ یہ عظمت ہر کسی کو کہاں نصیب!
ہر معتدل آدمی کی طرح فیض پر بھی عشق و
محبت کے حادثے گزرے ہیں۔ کچھ عام نوعیت کے رومانی واقعات جن کا دیر پا اثر فیض کی زندگی اور شاعری پر نہیں پڑا۔ لیکن دو ایک وارداتیں اس قدر شدید تھیں
کہ فیض کے قلب و جگر کو گرما کے رکھ گئیں۔ "نقش فریادی" کی نظمیں رقیب سے، ایک راہ گزر پر،
ایک ایسے ہی حادثہ
کی یادگار ہیں جس کا اختتام مرگ سوز محبت پر ہوا۔ ایسے حادثے ہر کسی پر گزرتے ہیں لیکن فیض جیسے حسن بیں اور حسن
آفریں حساس فنکار پر ان کت جو گہرے اثرات مرتب ہوئے ان کا سراغ جا بجا ان کی شعری تخلیقات میں مل جاتا ہے۔
یہاں سے اس کی سوچ اور فکر کے ساتھ ساتھ
اس کی شاعری نے بھی نیا رخ اختیار کیا، غم جاناں کے ساتھ غم روز گار کا جاں گسل پیوند لگ جانے سے سوچ کے دھارے نئی سَمت میں بہنے لگے۔
فیض نے انگریزی اور عربی میں ایم۔اے کر
لینے کے بعد ایم اے او کالج میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ وہاں ڈاکٹر تاثیر بطور پرنسپل اور صاحب زادہ محمود الظفر بطور وائس پرنسپل
آ گئے۔ صاحب زادہ کی معروف رفیقہ حیات ڈاکٹر رشیدہ جہاں اور ان کے زمرہ کے دوسرے لوگوں سے میل جول بڑھا تو فکر و نظر کو اور وسعت ملی۔ ترقی
پسند مصنفین کی انجمن کا اجرا انہی دنوں ہوا۔ فیض اس کے بانی رکن ہیں۔ اب وہ غم جاناں اور غم روز گار سے گزر کر غم وطن اور غم جہاں کی سنگلاخ راہوں
پر چل نکلے۔ اپنی ذات کا دکھ عالمگیر دکھ کے سامنے ہیچ اور اس آفاقی دکھ کا ایک معمولی حصہ نظر آیا۔ فیض وطن دوستی اور انسان دوستی کی جس راہ پر
گامزن ہوئے اس میں ہزار آفتوں کا سامنا تھا، جسم و جان کی قربانیاں درکار تھیں۔ الحمد اللہ کہ فیض کسی مصیبت کا سامنا کرنے سے نہیں ہچکچایا۔ نگار
وطن کی حرمت آزادی اور پھر تزئین و تجمیل کے شوق نے جس جس قربانی کا تقاضا کیا، پیش کر دی۔ یہ راہ طویل بھی ہے اور کٹھن بھی، لیکن راہرو عشق
کے قدموں میں نہ لغزش آئی اور نہ تھکن محسوس کی۔
تحریک آزادی کا یہ جیالا تحریک پاکستان
کے معرکوں میں بھی ہراول رہا۔ پاکستان ٹائمز کے اجرا پر مدیر اعلیٰ مقرر ہوا تو صحافتی محاذ پر قلمی جہاد کے معرکے سر کرتا رہا، پاکستان معرض
وجود میں آیا تو تعمیر وطن کے مرحلے سامنے آئے۔ جس پاکستان کے خواب دیکھے تھے ان کی تعبیر حسب مراد نظر نہ آئی تو سازش کیس میں دھر لیے گئے اور قید
و بند کے مصائب جھیلنا پڑے۔ سازش کیس کا معما کیا تھا۔ اس کے متعلق نہ کبھی ہم نے دریافت کیا اور نہ ہی فیض نے بتایا۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
میرے نزدیک فیض کی زندگی کے اہم ترین
واقعات میں ایلس جارج سے ان کی شادی ہے۔ یہ بظاہر ایک مشرقی نوجوان کا ایک فرنگی نژاد خاتون سے نکاح ہے۔ ایسے نکاح آئے دن ہوتے رہتے ہیں، لیکن حقیقتاً یہ
مشرقی قلب و روح اور مغربی جسم و دل کا وہ بار اور پیوند ہے جس نے مشرق و مغرب کی رعنائیاں یک جا کر دی ہیں۔ فیض ایک لا ابالی، بے نیاز این و آں
اور خود فراموش سا نوجوان تھا۔ ایلس نے اس کی زندگی میں ترتیب اور سنوار پیدا کر دی۔ اس کی بے قرار روح کو ایک حسین قالب میسر آ گیا۔ ایلس نے
مغرب اور اس کی تہذیبی روایات کو خیر باد کہہ کر مشرق اور اس کی ثقافتی اقدار کو اپنا لیا۔ دیس کے ساتھ بھیس اور وطن کے ساتھ زبان تک بدل لی۔ مجھے
یہ کہنے میں باک نہیں کہ ایلس نے فیض کے فکر و نظر، جذبات و حیات اور آدرش تک اپنا لیے۔ قید و بند کی جن جن آزمائشوں سے فیض گزرے ہیں، ایلس کی غم
خواری اور حوصلہ مندی کے بغیر ان جان لیوا مراحل سے یوں اعتماد اور یقین محکم کے ساتھ گزرنا مشکل تھا۔
فیض کا پیدائشی شہر سیالکوٹ ہے۔ رہائشی
شہر لاہور کہہ لیجیے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ لائل پور سے بھی ان کو نسبت خاص ہے۔ ان کی جوانی کی کئی حسین یادیں اس شہر سے وابستہ ہیں۔ ان کے مداح اور
پرستار ملک کے اندر اور باہر ہر جگہ موجود ہیں۔ لیکن لائل پور کے باسی ان سے دو گونہ التفات کے مستحق ہیں۔ اس لیے یہ آرزو کرنا کوئی بڑی جسارت نہ
ہو گی کہ فیض ہمیں دل کے کسی محفوظ اور مخصوص گوشے میں جگہ دیے رکھیں۔
سجاد ظہیر کے نام
نہ اب ہم ساتھ سیرِ گُل کریں گے
نہ اب مل کر سرِ مقتل چلیں گے
حدیثِ دلبراں باہم کریں گے
نہ خونِ دل سے شرحِ غم کریں گے
نہ لیلائے سخن کی دوست داری
نہ غم ہائے وطن پر اشکباری
سنیں گے نغمۂ زنجیر مل کر
نہ شب بھر مل کے چھلکائیں گے ساغر
بنامِ شاہدِ نازک خیالاں
بیادِ مستیِ چشمِ غزالاں
بنامِ انبساطِ بزمِ رنداں
بیادِ کلفتِ ایّامِ زنداں
صبا اور اُس کا اندازِ تکلّم
سحر اور اُس کا آغازِ تبسّم
فضا میں ایک ہالہ سا جہاں ہے
یہی تو مسندِ پیرِ مغاں ہے
سحر گہ اب اُسی کے نام ساقی
کریں اتمامِ دورِ جام ساقی
بساطِ بادہ و مینا اُٹھا لو
بڑھا دو شمعِ محفل بزم والو
پیو اب ایک جامِ الوداعی
پیو اور پی کے ساغر توڑ ڈالو
***دہلی ستمبر 1973ء
اے شام مہرباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہرِ یاراں
ہم پہ مہرباں ہو
دوزخی دوپہر ستم کی
بے سبب ستم کی
دوپہر درد و غیظ و غم کی
بے زباں درد و غیظ و غم کی
اس دوزخی دوپہر کے تازیانے
آج تن پر دھنک کی صورت
قوس در قوس بٹ گئے ہیں
زخم سب کھُل گئے ہیں
داغ جانا تھا چھٹ گئے ہیں
ترے توشے میں کچھ تو ہو گا
مرہمِ درد کا دوشالہ
تن کے اُس انگ پر اُڑھا دے
درد سب سے سوا جہاں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہرِ یاراں
ہم پہ مہرباں ہو
دوزخی دشت نفرتوں کے
بے درد نفرتوں کے
کرچیاں دیدۂ حسد کی
خس و خاشاک رنجشوں کے
اتنی سنسان شاہراہیں
اتنی گنجان قتل گاہیں
جن سے آئے ہیں ہم گزر کر
آبلہ بن کے ہر قدم پر
یوں پاؤں کٹ گئے ہیں
رستے سمٹ گئے ہیں
مخملیں اپنے بادلوں کی
آج پاؤں تلے بچھا دے
شافیِ کربِ رہرواں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے مہِ شبِ نگاراں
اے رفیقِ دلفگاراں
اس شام ہمزباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شام مہرباں ہو
اے شامِ شہریاراں
ہم پہ مہرباں ہو
1974ء
گیت
چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں
جو گزر گئی ہیں راتیں
اُنہیں پھر جگا کے لائیں
جو بسر گئی ہیں باتیں
اُنہیں یاد میں بُلائیں
چلو پھر سے دل لگائیں
چلو پھر سے مسکرائیں
کسی شہ نشیں پہ جھلکی
وہ دھنک کسی قبا کی
کسی رگ میں کسمسائی
وہ کسک کسی ادا کی
کوئی حرف بے مروّت
کسی کُنجِ لب سے پھُوٹا
وہ چھنک کے شیشۂ دل
تہِ بام پھر سے ٹوٹا
یہ مِلن کی نا مِلن کی
یہ لگن کی اور جلن کی
جو سہی ہیں وارداتیں
جو گُزر گئی ہیں راتیں
جو بِسر گئی ہیں باتیں
کوئی ان کی دھُن بنائیں
کوئی ان کا گیت گائیں
چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں
1974ء
ہم تو مجبور تھے اس دل سے
ہم تو مجبور تھے اس دل سے کہ جس میں ہر دم
گردشِ خوں سے وہ کُہرام بپا رہتا ہے
جیسے رندانِ بلا نوش جو مل بیٹھیں بہم
میکدے میں سفرِ جام بپا رہتا ہے
سوزِ خاطر کو ملا جب بھی سہارا کوئی
داغِ حرمان کوئی، دردِ تمنّا کوئی
مرہمِ یاس سے مائل بہ شِفا ہونے لگا
زخمِ اُمّید کوئی پھر سے ہرا ہونے لگا
ہم تو مجبور تھے اس دل سے کی جس کی ضد پر
ہم نے اُس رات کے ماتھے پہ سحر کی تحریر
جس کے دامن میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھا
ہم نے اُس دشت کو ٹھہرا لیا فردوس نظیر
جس میں جُز صنعتِ خونِ سرِ پا کچھ بھی نہ تھا
دل کو تعبیر کوئی اور گوارا ہی نہ تھی
کلفتِ زیست تو منظور تھی ہر طور مگر
راحتِ مرگ کسی طور گوارا ہی نہ تھی
1974ء
غزل
نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا
جُدا تھے ہم تو میسّر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا
پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے
اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا
کیا
ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا
1974ء
ڈھاکہ سے واپسی پر
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مُلاقاتوں کے
بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبّے دھُلیں گے کتنی برساتوں کے
بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے
بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ
دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے
بعد
اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ
کیے
اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے
بعد
1974ء
غزل
یہ موسِمِ گرچہ طرب خیز بہت ہے
احوالِ گُل و لالہ غم انگیز بہت ہے
خوش دعوتِ یاراں بھی ہے یلغارِ عدو بھی
کیا کیجیے دل کا جو کم آمیز بہت ہے
یوں پیرِ مغاں شیخِ حرم سے ہوئے یک جاں
میخانے میں کم ظرفیِ پرہیز بہت ہے
اک گردنِ مخلوق جو ہر حال میں خم ہے
اک بازوئے قاتل ہے کہ خوں ریز بہت ہے
کیوں مشعلِ دل فیض چھپاؤ تہِ داماں!
بُجھ جائے گی یُوں بھی کہ ہوا تیز بہت
ہے
1975ء
بہار آئی
بہار آئی تو جیسے یک بار
لَوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جیے تھے
نِکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مُشکبو ہیں
جو تیرے عُشّاق کا کہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی
غُبارِ خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے
سوال سارے جواب سارے
بہار آئی تو کھِل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے
اپریل 1975ء
تم اپنی کرنی کر گزرو
اب کیوں اُس دن کا ذکر کرو
جب دل ٹکڑے ہو جائے گا
اور سارے غم مِٹ جائیں گے
جو کچھ پایا کھو جائے گا
جو مل نہ سکا وہ پائیں گے
یہ دن تو وہی پہلا دن ہے
جو پہلا دن تھا چاہت کا
ہم جس کی تمنّا کرتے رہے
اور جس سے ہر دم ڈرتے رہے
یہ دن تو کئی بار آیا
سو بار بسے اور اُجڑ گئے
سو بار لُٹے اور بھر پایا
اب کیوں اُس دن کا ذکر کرو
جب دل ٹکڑے ہو جائے گا
اور سارے غم مِٹ جائیں گے
تم خوف و خطر سے در گزرو
جو ہونا ہے سو ہونا ہے
گر ہنسنا ہے تو ہنسنا ہے
گر رونا ہے تو رونا ہے
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہو گا دیکھا جائے گا
اکتوبر 1975ء
موری اَرج سُنو
(نذرِ خسرو)
"موری ارج
سُنو دست گیر پیر"
"مائی ری،
کہوں کاسے میں
اپنے جیا کی پیر"
"نیا باندھو
رے،
باندھو رے کنارِ دریا"
"مورے مندر
اب کیوں نہیں آئے"
اس صورت سے
عرض سناتے
درد بتاتے
نیّا کھیتے
مِنّت کرتے
رستہ تکتے
کتنی صدیاں بیت گئی ہیں
اب جا کر یہ بھید کھُلا ہے
جس کو تم نے عرض گزاری
جو تھا ہاتھ پکڑنے والا
جس جا لاگی ناؤ تمھاری
جس سے دُکھ کا دارُو مانگا
تورے مندر میں جو نہیں آیا
وہ تو تُمھیں تھے
وہ تو تُمھیں تھے
ستمبر 1975ء
غزل
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
مقابلِ صفِ اعداء جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی
کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
بہت تلاش پسِ قتلِ عام ہوتی رہی
یہ برہمن کا کرم، وہ عطائے شیخِ حرم
کبھی حیات کبھی مَے حرام ہوتی رہی
جو کچھ بھی بن نہ پڑا، فیض لُٹ کے یاروں
سے
تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی
***
تجھے پکارا ہے بے ارادہ
جو دل دکھا ہے بہت زیادہ
ندیم ہو تیرا حرفِ شیریں
تو رنگ پر آئے رنگِ بادہ
عطا کرو اک ادائے دیریں
تو اشک سے تر کریں لبادہ
نہ جانے کس دن سے منتظِر ہے
دلِ سرِ رہ گزر فتادہ
کہ ایک دن پھر نظر میں آئے
وہ بامِ روشن، وہ در کشادہ
وہ آئے پُرسش کو پھر سجائے
قبائے رنگیں، ادائے سادہ
***
حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا
عذاب
اپنے ذمّے ہے ترا فرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
"ڈھونڈتا ہے
دلِ شوریدہ بہانے کب سے"
لینن گراڈ کا گورستان
سرد سِلوں پر
زرد سِلوں پر
تازہ گرم لہو کی صورت
گلدستوں کے چھینٹے ہیں
کتبے سب بے نام ہیں لیکن
ہر اک پھول پہ نام لکھا ہے
غافل سونے والے کا
یاد میں رونے والے کا
اپنے فرض سے فارغ ہو کر
اپنے لہو کی تان کے چادر
سارے بیٹے خواب میں ہیں
اپنے غموں کا ہار پرو کر
امّاں اکیلی جاگ رہی ہے
لینن گراڈ 1976ء
غزل
یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا
پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا
غمِ جہاں ہو، رخِ یار ہو کہ دستِ عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا
تھے خاکِ راہ بھی ہم لوگ قہرِ طوفاں بھی
سہا تو کیا نہ سہا اور کیا تو کیا نہ
کیا
خوشا کہ آج ہر
اک مُدّعی کے لب پر ہے
وہ راز جس نے ہمیں راندۂ زمانہ کیا
وہ حیلہ گر جو وفا جُو بھی ہے جفا خُو
بھی
کِیا بھی فیض تو کس بُت سے دوستانہ کیا
**1976
***
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام اُلجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم ہے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
1976ء
درِ اُمید کے دریوزہ گر
]پھر پھُرَیرے بن کے میرے تن بدن کی
دھجّیاں
شہر کے دیوار و در کو رنگ پہنانے لگیں
پھر کف آلودہ زبانیں مدح و ذَم کی
قمچیاں
میرے ذہن و گوش کے زخموں پہ برسانے لگیں
پھر نکل آئے ہوَسناکوں کے رقصاں طائفے
درد مندِ عشق پر ٹھٹھّے لگانے کے لیے
پھر دُہل کرنے لگے تشہیرِ اخلاص و وفا
کشتۂ صدق و صفا کا دل جلانے کے لیے
ہم کہ ہیں کب سے درِ اُمّید کے دریوزہ
گر
یہ گھڑی گُزری تو پھر دستِ طلب پھیلائیں
گے
کوچہ و بازار سے پھر چُن کے ریزہ ریزہ
خواب
ہم یونہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں
گے
مارچ 1977ء
آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
(1)
آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے
خیال
مدھ بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی
دل نشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرفِ اُلفت کوئی دلدارِ نظر ہو جیسے
جس سے ملتی ہے نظر بوسۂ لب کی صورت
اتنا روشن کہ سرِ موجۂ زر ہو جیسے
صحبتِ یار میں آغازِ طرب کی صورت
حرفِ نفرت کوئی شمشیرِ غضب ہو جیسے
تا ابَد شہرِ ستم جس سے تبہ ہو جائیں
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے
لب پہ لاؤں تو مِرے ہونٹ سیہ ہو جائیں
(2)
آج ہر سُر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا
ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اُس کی
آواز
جوششِ درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہُوا آج ہر اک پردۂ ساز
آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تری عمر دراز
نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی
جولائی 1977ء
غزل
کس شہر نہ شُہرہ ہُوا نادانیِ دل کا
کس پر نہ کھُلا راز پریشانیِ دل کا
آؤ کریں محفل پہ زرِ زخم نمایاں
چرچا ہے بہت بے سر و سامانیِ دل کا
دیکھ آئیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ
شاید کوئی محرم ملے ویرانیِ دل کا
پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو
سونپا تھا جسے کام نگہبانیِ دل کا
دیکھو تو کدھر آج رُخِ بادِ صبا ہے
کس رہ سے پیام آیا ہے زندانیِ دل کا
اُترے تھے کبھی فیض وہ آئینۂ دل میں
عالم ہے وہی آج بھی حیرانیِ دل کا
اشعار
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے
خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ
جزا گیا
جو نفس تھا خارِ گلُو بنا، جو اُٹھے تھے
ہاتھ لہُو ہوئے
وہ نَشاطِ آہِ سحر گئی، وہ وقارِ دستِ
دُعا گیا
جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ قدرِ
رسمِ وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مُدّعی، تو ثوابِ صدق و
وفا گیا
کلامِ تازہ
دلِ من مسافرِ من
مرے دل، مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سراغ کویہ پائیں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوۓ ناشناساں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں
یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں یا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
۔۔ 1978ء
غزل
سہل یوں راہِ زندگی کی ہے
ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے
ہم نے دل میں سجا لئے گلشن
جب بہاروں نے بے رُخی کی ہے
زہر سے دھو لئے ہیں ہونٹ اپنے
لطفِ ساقی نے جب کمی کی ہے
بس وہی سرخرو ہوا جس نے
بحرِ خوں میں شناور ی کی ہے
جو گزرتے تھے داغ پر صدمے
اب وہی کیفیت سبھی کی ہے
۔۔ 1978ء
پھول مرجھا گئے ہیں سارے
پھول مرجھا گئے ہیں سارے
تھمتے نہیں آسماں کے آنسو
شمعیں بے نور ہو گئی ہیں
آئینے چور ہو گئے ہیں
ساز سب بج کے کھو گئے ہیں
پایلیں بُجھ کے سو گئی ہیں
اور اُن بادلوں کے پیچھے
دور اِس رات کا دلارا
درد کا ستارا
ٹمٹما رہا ہے
جھنجھنا رہا ہے
مسکرا رہا ہے
۔۔ 1978ء
غزل
ستم سکھلاۓ گا رسمِ وفا، ایسے
نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے
مقتل میں
مرے قاتل حسابِ دوستاں ایسے نہیں ہوتا
جنإبِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ
تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب، ہر گھڑی، گزرے قیامت، یوں تو
ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبضِ دوراں گردشوں میں آسماں
سارے
جو تم کہتے ہو سب اچھا، کبھی ایسے نہیں
ہوتا
۔۔ 1978ء
کوئ عاشق کسی محبوبہ سے
گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادٕ صبا
پھر سے چاہے گل افشاں ہو تو ہو جانے دو
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو
یسے بیگانے سے اب ملتے ہو، ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گر چہ مل بیٹھیں گے ہم تم جو ملاقات کے
بعد
اپنا احساسِ زیاں جانئے کتنا ہو گا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں تو ہر بات کے
بیچ
ان کہی باتوں کا موہوم سا پردا ہو گا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا نہ تم
کوئ مضموں نہ وفا کا، جفا کا ہو گا
گردِ اّیام کی تحریر کو دھونے کے لیے
تم سے گویا ہیں دمِ دید جو بوجھل پلکیں
تم جو چاہو تو سنو اور نہ چاہو نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو اور نہ چاہو نہ کہو
۔۔ 1978ء
(فرمایشیں)
مرثیۂ امام
رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے
دشمن کی سپہ خواب میں مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بُکا اہلِحرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے
اِک گوشے میں ان سوختہ سامانوں کے سالار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے
تھے
ہاں تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے
کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا
الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
وہ ظلم میںکامل ہیں تو ہم صبر میں کامل
بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو
پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا
پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ اعدا
تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
کی آنے میں تاخیر جو لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے
فرمایا کہ کیوں در پئے آزار ہو لوگو
حق والوں سے کیوں برسرِ پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو
کیوں آپ کے آقاؤں میں اور ہم میں ٹھنی
ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے
سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
اور نگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو
سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں ہمیں بس
ہے
طالب ہیں اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں تو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکرِ دیں ہے
تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ابرار کہے گا
جو بندۂ حُر ہے، ہمیں احرار کہے گا
نام اونچا زمانے میں ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا
کر ختم سخن محوِ دعا ہو گئے شبّیر
پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر
مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اِس خاک تلے جنّتِ فردوس کا در تھا
(1964)
مدح
حسین شہید سہروردی مرحوم نے راولپنڈی "سازش" کیس ملزموں کی جانب
سے وکالت کی تھی۔ مقدمے کے خاتمے پر انھیں یہ سپاسنامہ پیش کیا گیا۔
کس طرح بیاں ہو ترا پیرایۂ تقریر
گویا سرِ باطل پہ چمکنے لگی شمشیر
وہ زور ہے اِک لفظ اِدھر نُطق سے نکلا
واں سینۂ اغیار میں پیوست ہُوئے تیر
گرمی بھی ہے ٹھنڈک بھی، روانی بھی سکوں
بھی
تاثیر کا کیا کہیے، ہے تاثیر سی تاثیر
اعجاز اسی کا ہے کہ اربابِ ستم کی
اب تک کوئی انجام کو پہنچی نہیں تدبیر
اطرافِ وطن میں ہُوا حق بات کا شُہرہ
ہر ایک جگہ مکر و ریا کی ہُوئی تشہیر
روشن ہوئے اُمّید سے رُخ اہلِ وفا کے
پیشانیِ اعدا پہ سیاہی ہوئی تحریر
(2)
حرّیتِ آدم کی رہِ سخت کے رہگیر
خاطر میں نہیں لاتے خیالِ دمِ تعزیر
کچھ ننگ نہیں رنجِ اسیری کہ پُرانا
مردانِ صفا کیش سے ہے رشتۂ زنجیر
کب دبدبۂ جبر سے دبتے ہیں کہ جن کے
ایمان و یقیں دل میں کیے رہتے ہیں تنویر
معلوم ہے ان کو کہ رہا ہو گی کسی دن
ظالم کے گراں ہاتھ سے مظلوم کی تقدیر
آخر کو سرافراز ہُوا کرتے ہیں احرار
آخر کو گرا کرتی ہے ہر جَور کی تعمیر
ہر دَور میں سر ہوتے ہیں قصرِ جم و دارا
ہر عہد میں دیوارِ ستم ہوتی ہے تسخیر
ہر دَور میں ملعون شقاوت ہے شمر کی
ہر عہد میں مسعود ہے قربانیِ شبّیر
(3)
کرتا ہے قلم اپنے لب و نطق کی تطہیر
پہنچی ہے سرِ حرفِ دعا اب مری تحریر
ہر کام میں برکت ہو ہر اک قول میں قوّت
ہر گام پہ ہو منزلِ مقصود قدم گیر
ہر لحظہ ترا طالعِ اقبال سوا ہو
ہر لحظہ مددگار ہو تدبیر کی تقدیر
ہر بات ہو مقبول، ہر اک بول ہو بالا
کچھ اور بھی رونق میں بڑھے شعلۂ تقریر
ہر دن ہو ترا لطفِ زباں اور زیادہ
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ
گیت
منزلیں، منزلیں
شوقِ دیدار کی منزلیں
حُسنِ دلدار کی منزلیں، پیار کی منزلیں
پیار کی بے پنہ رات کی منزلیں
کہکشانوں کی بارات کی منزلیں
سربلندی کی، ہمّت کی، پرواز کی
جوشِ پرواز کی منزلیں
راز کی منزلیں
زندگی کی کٹھن راہ کی منزلیں
سربلندی کی، ہمّت کی، پرواز کی
جوشِ پرواز کی منزلیں
راز کی منزلیں
آن ملنے کے دن
پھول کھلنے کے دن
وقت کے گھور ساگر میں صبح کی
شام کی منزلیں
چاہ کی منزلیں
آس کی، پیاس کی
حسرتِ یار کی
پیار کی منزلیں
منزلیں حسنِ عالم کے گلزار کی
منزلیں، منزلیں
موج در موج ڈھلتی ہوئی رات کے درد کی
منزلیں
چاند تاروں کے ویران سنسار کی منزلیں
اپنی دھرتی کے آباد بازار کی منزلیں
حق کے عرفان کی
نور انوار کی منزلیں
وصلِ دلدار کی منزلیں
قول و اقرار کی منزلیں
منزلیں، منزلیں
(فلم، "قسم اُس وقت کی")
گیت
اب کے دیکھیں راہ تمھاری
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات
تھم گئے آنسو
تھک گئیں اکھّیاں
گزر گئی برسات
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات
کب سے آس لگی درشن کی
کوئی نہ جانے بات
کوئی نہ جانے بات
بیت چلی ہے رات
چھوڑو غم کی بات
تم آؤ تو من میں اترے
پھولوں کی بارات
بیت چلی ہے رات
اب کیا دیکھیں راہ تمھاری
بیت چلی ہے رات
(فلم، "جاگو ہُوا سویرا")
گیت
ہم تیرے پاس آئے
سارے بھرم مٹا کر
سب چاہتیں بھلا کر
کتنے اداس آئے
ہم تیرے پاس جا کر
کیا کیا نہ دل دکھا ہے
کیا کیا بہی ہیں اکھیاں
کیا کیا نہ ہم پہ بیتی
کیا کیا ہوئے پریشاں
ہم تجھ سے دل لگا کر
تجھ سے نظر ملا کر
کتنے فریب کھائے
اپنا تجھے بنا کر
ہم تیرے پاس آئے
سارے بھرم مٹا کر
تھی آس آج ہم پر کچھ ہو گی مہربانی
ہلکا کریں گے جی کو سب حالِ دل زبانی
تجھ کو سنا سنا کر
آنسو بہا بہا کر
کتنے اداس آئے
ہم تیرے پاس جا کر
ہم تیرے پاس آئے
سارے بھرم مٹا کر
(فلم۔ "سُکھ کا سپنا")
غزل
جگر دریدہ ہوں چاکِ جگر کی بات سنو
الم رسیدہ ہوں دامانِ تر کی بات سنو
زباں بریدہ ہوں زخمِ گلو سے حرف کرو
شکستہ پا ہوں ملالِ سفر کی بات سنو
مسافرِ رہِ صحرائے ظلمتِ شب سے
اب التفاتِ نگارِ سحر کی بات سنو
سحر کی بات، امیدِ سحر کی بات سنو
غزل
حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے
سر پر ہیں خداوند سرِ عرش خدا ہے
کب تک اسے سینچو گے تمنائے ثمر میں
یہ صبر کا پودا تو نہ پھولا ہے نہ پھلا
ہے
ملتا ہے خراج اس کو تری نانِ جویں سے
ہر بادشہِ وقت ترے در کا گدا ہے
ہر ایک عقوبت سے ہے تلخی میں سوا تر
وہ رنج جو نا کردہ گناہوں کی سزا ہے
احسان لیے کتنے مسیحا نفسوں کے
کیا کیجیے دل کا، نہ جلا ہے نہ بجھا ہے
اکتوبر 77ء
(پنجابی نظماں)
لمّی رات سی درد فراق والی
تیرے قول تے اساں وساہ کر کے
کَوڑا گھُٹ کیتی مٹھڑے یار میرے
مٹھڑے یار میرے، جانی یار میرے
تیرے قول تے اساں وساہ کر کے
جھانجراں وانگ، زنجیراں چھنکائیاں نیں
کدی کنّیں مندراں پائیاں نیں
کدی پیریں بیڑیاں چائیاں نیں
تیری تاہنگ وِچ پَٹ دا ماس دے کے
اساں کاگ سدّے، اساں سنیہہ گھلّے
رات مُکدی اے، یار آوندا اے
اسیں تک دے رہے ہزار ولّے
کوئی آیا نہ بِناں خُنامیاں دے
کوئی پُجّا نہ سوا اُلاہمیاں دے
اَج لاہ اُلاہمے مٹھڑے یار میرے
اَج آ ویہڑے وِچھڑے یار میرے
فجر ہووے تے آکھیے بسم اللہ
اَج دولتاں ساڈے گھر آئیاں نیں
جیہدے قول تے اساں وساہ کیتا
اوہنے اوڑک توڑ نبھائیاں نیں
1971ء
گیت
کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
وے پردیسیا تیریاں
کاگ اُڈاواں، شگن مناواں
وگدی وا دے ترلے پاواں
تری یاد پوے تے روواں
ترا ذکر کراں تاں ہسّاں
کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
وے پردیسیا تیریاں
درد نہ دسّاں گھُلدی جاواں
راز نہ کھولاں مُکدی جاواں
کس نوں دل دے داغ وِکھاواں
کس در اَگّے جھولی ڈھاواں
وے میں کس دا دامن کھسّاں
کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
وے پردیسیا تیریاں
شام اُڈیکاں، فجر اُڈیکاں
آکھیں تے ساری عمر اُڈیکاں
آنڈ گوانڈی دیوے بلدے
ربّا ساڈا چانن گَھلدے
جگ وَسدائے میں وی وَسّاں
کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
وے پردیسیا تیریاں
1971ء
میری ڈولی شوہ دریا
(74ء کے سیلاب زدوں کے امدادی فنڈ کے لیے لکھے
گئی)
کل تائیں سانوں بابلا
تو رکھّیا ہِک نال لا
سَت خیراں ساڈیاں منگیاں
جد جھُلّی تتّی وا
اَج کیکن ویہڑیوں ٹوریا
کویں لاہے نی میرے چاء
میرے گہنے نیل ہتھ پیر دے
میری ڈولی شوہ دریا
اَج لتھّے سارے چاء
میری ڈولی شوہ دریا
نال رُہڑدیاں رُڑھ گیاں سدّھراں
نال روندیاں رُل گئے نیر
نال ہُونج ہُونج کے لَے گئے
میرے ہتھ دی لیکھ لکیر
میری چُنّی بک سواہ دی
میرا چولا لِیر و لِیر
لج پالن بَوہڑے بھین دی
کوئی کرماں والے وِیر
میرے کرماں والے وِیر
میرا چولا لِیر و لِیر
میرے لتّھے سارے چاء
میری ڈولی شوہ دریا
سسّی مر کے جنتن ہو گئی
میں تر کے اَوتر حال
سُن ہاڑے اِس مسکین دے
ربّا پورا کر سوال
میری جھوک وَسّے، میرا ویر وَسّے
فیر تیری رحمت نال
کوئی پُورا کرے سوال ربّا
تیری رحمت نال
میرے لتّھے سارے چاء
میری ڈولی شوہ دریا
ربّا سچّیا
ربّا سچّیا توں تے آکھیا سی
جا اوئے بندیا جگ دا شاہ ہیں توں
ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں
ساڈا نَیب تے عالیجاہ ہیں توں
ایس لارے تے ٹور کد پُچھیا ای
کِیہہ ایس نمانے تے بیتیاں نیں
کدی سار وی لئی اُو رب سائیاں
تیرے شاہ نال جگ کیہہ کیتیاں نیں
کِتے دھونس پولیس سرکار دی اے
کِتے دھاندلی مال پٹوار دی اے
اینویں ہڈّاں چ کلپے جان میری
جیویں پھاہی چ کُونج کُرلاوندی اے
چنگا شاہ بنایا اِی رب سائیاں
پَولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے
مینوں شاہی نئیں چاہیدی رب میرے
میں تے عزّت دا ٹُکّر منگناں ہاں
مینوں تاہنگ نئیں، محلاں ماڑیاں دی
میں تے جِیویں دی نُکّر منگناں ہاں
میری مَنّیں تے تیریاں مَیں منّاں
تیری سَونہہ جے اِک وی گلّ موڑاں
جے ایہہ مانگ نئیں پُجدی تیں ربّا
فیر میں جاواں تے رب کوئی ہور لوڑاں
1974ء
قطعہ
اَج رات اِک رات دی رات جی کے
اَساں جُگ ہزاراں جی لِتّا اے
اَج رات امرت دے جام وانگوں
اینہاں ہتھّاں نے یار نوں پی لتا اے
تراجم
ناظم* حکمت
زندان سے ایک خط
مری جاں تجھ کو بتلاؤں، بہت نازک یہ
نکتہ ہے
بدل جاتا ہے انساں جب مکاں اس کا بدلتا
ہے
مجھے زنداں میں پیار آنے لگا ہے اپنے
خوابوں پر
جو شب کو نیند اپنے مہرباں ہاتھوں سے
وا کرتی ہے در اس کا
تو آ گرتی ہے ہر دیوار اس کی میرے قدموں
پر
میں ایسے غرق ہو جاتا ہوں اس دم اپنے
خوابوں میں
کہ جیسے اِک کرن ٹھہرے ہوئے پانی پہ
گرتی ہے
میں ان لمحوں میں کتنا سرخوش و دلشاد
پھرتا ہوں
جہاں کی جگمگاتی وسعتوں میں کس قدر آزاد
پھرتا ہوں
جہاں درد و الم کا نام ہے کوئی نہ زنداں
ہے
"تو پھر
بیدار ہونا کس قدر تم پر گراں ہو گا؟"
نہیں ایسا نہیں ہے، میری جاں، میرا یہ
قصہ ہے
میں اپنے عزم و ہمت سے
وہی کچھ بخشتا ہوں نیند کو جو اس کا حصہ
ہے
ویرا * کے نام
اُس نے کہا آؤ
اُس نے کہا ٹھہرو
مسکاؤ کہا اس نے
مر جاؤ کہا اس نے
میں آیا
میں ٹھہر گیا
مسکایا
اور مر بھی گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ناظم حکمت کی
رُوسی بیوی
وا میرے وطن
او میرے وطن، او میرے وطن، او میرے وطن
مرے سر پر وہ ٹوپی نہ رہی
جو تیرے دیس سے لایا تھا
پاؤں میں وہ اب جوتے بھی نہیں
واقف تھے جو تیری راہوں سے
مرا آخری کُرتا جاک ہوا
ترے شہر میں جو سِلوایا تھا
اب تیری جھلک
بس اُڑتی ہوئی رنگت ہے میرے بالوں کی
یا جھُرّیاں میرے ماتھے پر
یا میرا ٹوٹا ہوا دل ہے
وا میرے وطن، وا میرے وطن، وا میرے وطن
اولنجر*، عمر علی سلیمان
صحرا کی رات
کہیں بھی شبنم کہیں نہیں ہے
عجب، کہ شبنم کہیں نہیں ہے
نہ سرد خورشید کی جبیں پر
کسی کے رخ پر، نہ آستیں پر
ذرا سی شبنم کہیں نہیں ہے
پسے ہوئے پتھروں کی موجیں
خموش و ساکن
حرارتِ ماہِ نیم شب میں سلگ رہی ہیں
اور شبنم کہیں نہیں ہے
برہنہ پا غول گیدڑوں کے
لگا رہے ہیں بنوں میں ٹھٹھے
کہ آج شبنم کہیں نہیں ہے
ببول کے استخواں کے ڈھانچے
پکارتے ہیں
نہیں ہے شبنم، کہیں نہیں ہے
سفید، دھندلائی روشنی میں
ہیں دشت کی چھاتیاں برہنہ
ترس رہی ہیں جو حسنِ انساں لیے کہ شبنم کا ایک قطرہ
کہیں پہ برسے
یہ چاند بھی سرد ہو رہے گا
افق پہ جب صبح کا کنارا
کسی کرن سے دہک اٹھے گا
کہ ایک درماندہ راہرو کی
جبیں پہ شبنم کا ہاتھ چمکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قازقستان کا ممتاز نوجوان شاعر
ٹائپنگ: وہاب اعجاز خان، محمد وارث، فاتح الدین بشیر، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
حصہ
سوم
فیض احمد فیض
سر وادیِ سینا، غبارِ ایّام، مرے
دل مرے مسافرمجموعے
جمع و ترتیب اور ٹائپنگ: فرخ منظور
فہرست
انتساب
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے
خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کِرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب اللہ
فی الارض،
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے
کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی
ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے
نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گُل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار
کھل کھل کے
مرجھا گئے ہیں
ان بیاہتاؤں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا
گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں ٭ اور گلیوں، محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے
کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحابِ طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے
سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صر صر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں
(ناتمام)
٭ کٹڑی۔ کٹڑے کی تصغیر، پنجابی میں ملحقہ
مکانوں کے احاطے کو کہتے ہیں
٭٭٭
لہو کا سراغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانۂ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی عَلم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
کراچی، جنوری 1965ء
٭٭٭
٭٭٭
زنداں زنداں شورِ انالحق، محفل محفل
قلقلِ مے
خونِ تمنا دریا دریا، دریا دریا عیش کی
لہر
دامن دامن رُت پھولوں کی، آنچل آنچل
اشکوں کی
قریہ قریہ جشن بپا ہے، ماتم شہر بہ شہر
کراچی، جنوری 1965ء
٭٭٭
٭٭٭
دیدۂ تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے
کاسۂ چشم میں خوں نابِ جگر لے کے چلو
اب اگر جاؤ پئے عرض و طلب اُن کے حضور
دست و کشکول نہیں کاسۂ سر لے کے چلو
کراچی، جنوری 1965ء
٭٭٭
یہاں سے شہر کو دیکھو
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ مخلصی کی سبیل
جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی
جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال
کوئی چھنک، کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی
یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں
نہ کوئی صاحبِ تمکیں، نہ کوئی والیِ ہوش
ہر ایک مردِ جواں مجرمِ رسن بہ گلو
ہر اِک حسینۂ رعنا، کنیزِ حلقہ بگوش
جو سائے دُور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں
نہ جانے محفلِ غم ہے کہ بزمِ جام و سبُو
جو رنگ ہر درو دیوار پر پریشاں ہے
یہاں سے کچھ نہیں کھُلتا یہ پھول ہیں کہ
لہو
کراچی، مارچ 1965ء
٭٭٭
غزل
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ
سایۂ چشم میں حیراں رُخِ روشن کا جمال
سُرخیِ لب میں پریشاں تری آواز کا رنگ
بے پئے ہوں کہ اگر لطف کرو آخرِ شب
شیشۂ مے میں ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ
چنگ و نَے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے
دل نے لےَ بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا
رنگ
اک سخن اور کہ پھر رنگِ تکلم تیرا
حرفِ سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ
کراچی، 1965ء
٭٭٭
غم نہ کر، غم نہ کر
درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا، غم
نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا،
غم نہ کر، غم نہ کر
دن نکل آئے گا
غم نہ کر، غم نہ کر
ابر کھُل جائے گا، رات ڈھل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر
رُت بدل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر
جون 1965ء
٭٭٭
بَلیک آؤٹ
جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں
خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں نہ جانے کس
جا
کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں
تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری
اس طرح ہے کہ ہر اِک رگ میں اُتر آیا ہے
موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا
تیرا ارمان، تری یاد لیے جان مری
جانے کس موج میں ٖغلطاں ہے کہاں دل میرا
ایک پل ٹھہرو کہ اُس پار کسی دنیا سے
برق آئے مری جانب، یدِ بیضا لے کر
اور مری آنکھوں کے گُم گشتہ گہر
جامِ ظلمت سے سیہ مست
نئی آنکھوں کے شب تاب گُہر
لوٹا دے
ایک پل ٹھہرو کہ دریا کا کہیں پاٹ لگے
اور نیا دل میرا
زہر میں دھُل کے، فنا ہو کے
کسی گھاٹ لگے
پھر پئے نذر نئے دیدہ و دل لے کے چلوں
حسن کی مدح کروں، شوق کا مضمون لکھوں
ستمبر 1965ء
٭٭٭
غزل
کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جانِ جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار
انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوستِ گلو، جب چھیڑی شوق
کی لےَ ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص
آغاز کیا
بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اِس ہاتھ
پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقتِ سفر نظارۂ بامِ ناز کیا
جس خاک میں مل کر خاک ہوئے، وہ سرمۂ چشمِ خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا، ہمرنگِ گلِ
طناز کیا
لو وصل کی ساعت آ پہنچی، پھر حکمِ حضوری
پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کیے، اور سینے کا
در باز کیا
٭٭٭
سپاہی کا مرثیہ
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال،
اب جاگو میرے لال
تمری سیج سجاون کارن
دیکھو آئی رین اندھیارن
نیلے شال دو شالے لے کر
جن میں اِن دُکھیَن اکھیَن نے
ڈھیر کیے ہیں اتنے موتی
اتنے موتی جن کی جیوتی
دان سے تمرا
جگ جگ لاگا
نام چمکنے
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
گھر گھر بکھرا بھور کا کندن
گھور اندھیرا اپنا آنگن
جانے کب سے راہ تکے ہیں
بالی دلہنیا، بانکے ویِرن
سونا تمرا راج پڑا ہے
دیکھو کتنا کاج پڑا ہے
بیری بیراجے راج سنگھاسن
تم ماٹی میں لال
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو، جاگو میرے لال
ہٹ نہ کرو ماٹی سے اٹھو، جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
اکتوبر 1965ء
٭٭٭
ایک شہرِ آشوب کا آغاز
اب بزمِ سخن صحبتِ لب سوختگاں ہے
اب حلقۂ مے طائفۂ بے طلباں ہے
گھر رہیے تو ویرانیِ دل کھانے کو آوے
رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے
پیوندِ رہِ کوچۂ زر چشمِ غزالاں
پابوسِ ہوس افسرِ شمشاد قداں ہے
یاں اہلِ جنوں یک بہ دگر دست و گریباں
واں جیشِ ہوس تیغ بکف در پئے جاں ہے
اب صاحبِ انصاف ہے خود طالبِ انصاف
مُہر اُس کی ہے میزان بہ دستِ دگراں ہے
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
فروری، 1966ء ٭٭٭
٭٭٭
دیوارِ شب اور عکسِ رُخِ یار سامنے
پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا
پھر وضعِ احتیاط سے دھندلا گئی نظر
پھر ضبطِ آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا
1966ء
٭٭٭
غزل
کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے
شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے
وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیطِ حسن کرتے
تری دید کے وسیلے خد و خال تک نہ پہنچے
وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے
ترا لطف وجہِ تسکیں، نہ قرار شرحِ غم سے
کہ ہیں دل میں وہ گلے بھی جو ملال تک نہ
پہنچے
کوئی یار جاں سے گزرا، کوئی ہوش سے نہ
گزرا
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے
چلو فیض دل جلائیں کریں پھر سے عرضِ
جاناں
وہ سخن جو لب تک آئے پہ سوال تک نہ
پہنچے
1966ء
٭٭٭
سوچنے دو
(آندرے وزنیسن سکی کے نام)
اک ذرا سوچنے دو
اس خیاباں میں
جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں
کون سی شاخ میں پھول آئے تھے سب سے پہلے
کون بے رنگ ہوئی رنگ و تعب سے پہلے
اور اب سے پہلے
کس گھڑی کون سے موسم میں یہاں
خون کا قحط پرا
گُل کی شہ رگ پہ کڑا
وقت پڑا
سوچنے دو
اک ذرا سوچنے دو
یہ بھرا شہر جو اب وادیِ ویراں بھی نہیں
اس میں کس وقت کہاں
آگ لگی تھی پہلے
اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول
زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کماں
کس جگہ جوت جگی تھی پہلے
سوچنے دو
ہم سے اس دیس کا تم نام و نشاں پوچھتے
ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آ نکلتا ہے کبھی رات بِتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لیے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو
ماسکو
مارچ 1967 ء
٭٭٭
غزل
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر
رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ
عدو کی ہے
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے
تو بے طلب
نہ وہ صبح درودو وضو کی ہے، نہ وہ شام
جام و سبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا
کا گلہ کریں
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل
میں کبھو کی ہے
کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے
سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے
لہو کی ہے
نہیں خوفِ روزِ سیہ ہمیں، کہ ہے فیض
ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اُس آئینہ
رُو کی ہے
1967ء
٭٭٭
سرِ وادیِ سینا
(عرب اسرائیل جنگ کے بعد)
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقت
پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
اے دیدۂ بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتلِ جاں چارہ گرِ کلفتِ غم ہے
گلزارِ ارم پرتوِ صحرائے عدم ہے
پندارِ جنوں
حوصلۂ راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا، اے دیدۂ
بینا
پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
مابینِ من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسمِ ستم حکمت خاصانِ زمیں ہے
تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
٭٭٭
دُعا
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہر امروز میں شیرینیِ فردا بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کر دے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کر دے
جن کا دیں پیرویِ کذب و ریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظرِ تیغِ جفا ہیں ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرِ نہاں جانِ تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی
طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے
یومِ آزادی، 14 اگست 1967ء
٭٭٭
دلدار دیکھنا
طوفاں بہ دل ہے ہر کوئی دلدار دیکھنا
گُل ہو نہ جائے مشعلِ رخسار دیکھنا
آتش بہ جاں ہے ہر کوئی سرکار دیکھنا
لو دے اٹھے نہ طرۂ طرار دیکھنا
جذبِ مسافرانِ رہِ یار دیکھنا
سر دیکھنا، نہ سنگ، نہ دیوار دیکھنا
کوئے جفا میں قحطِ خریدار دیکھنا
ہم آ گئے تو گرمیِ بازار دیکھنا
اُس دلنواز شہر کے اطوار دیکھنا
بے التفات بولنا، بیزار دیکھنا
خالی ہیں گرچہ مسندو منبر، نگوں ہے خلق
رعبِ قبا و ہیبتِ دستار دیکھنا
جب تک نصیب تھا ترا دیدار دیکھنا
جس سمت دیکھنا، گل و گلزار دیکھنا
پھر ہم تمیزِ روز و مہ و سال کر سکیں
اے یادِ یار پھر اِدھر اِک بار دیکھنا
1967ء
٭٭٭
ہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانۂ تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھُل
کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ قافلۂ شوق کی تیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر
آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
1967ء
٭٭٭
٭٭٭
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہدو پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا
ہے
1968ء
٭٭٭
مرثیے
(1)
دور جا کر قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے
وصل و ہجراں بہم ہوئے کتنے
٭٭
(2)
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہ و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
سازو سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
اگست 1968ء
٭٭
(3)
کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ
دکھلاؤ گے
کب تک چین کی مہلت دو گے، کب تک یاد نہ
آؤ گے
بیتا دید اُمید کا موسم، خاک اُڑتی ہے
آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا
برساؤ گے
عہدِ وفا یا ترکِ محبت، جو چاہو سو آپ
کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا
منواؤ گے
کس نے وصل کا سورج دیکھا، کس پر ہجر کی
رات ڈھلی
گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے، ان کو کیا
جتلاؤ گے
فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی،
لُٹ جانا بھی
تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن
اتراؤ گے
اکتوبر 1968ء
٭٭٭
خورشیدِ محشر کی لو
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
کھُل کے ہنسنے کے دن، گیت گانے کے دن
پیار کرنے کے دن، دل لگانے کے دن
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں
دشت کتنے ابھی راہِ منزل میں ہیں
تیر کتنے ابھی دستِ قاتل میں ہیں
آج کا دن زبوں ہے، مرے دوستو
آج کے دن تو یوں ہے، مرے دوستو
جیسے درد و الم کے پرانے نشاں
سب چلے سوئے دل کارواں، کارواں
ہاتھ سینے پہ رکھو تو ہر استخواں
دے اٹھے نالۂ الاماں، الاماں
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
کب تمہارے لہو کے دریدہ عَلم
فرقِ خورشیدِ محشر پہ ہوں گے رقم
از کراں تا کراں کب تمہارے قدم
لے کے اٹھے گا وہ بحرِ خوں یم بہ یم
جس میں دھُل جائے گا آج کے دن کا غم
سارے دردو الم سارے جورو ستم
دور کتنی ہے خورشید محشر کی لو
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
مارچ، اپریل 1969ء ٭٭٭
٭٭
بالیں پہ کہیں رات ڈھل رہی ہے
یا شمع پگھل رہی ہے
پہلو میں کوئی چیز جل رہی ہے
تم ہو کہ مری جاں نکل رہی ہے
مئی۔ جون 1970ء
٭٭٭
٭٭٭
اِک سخن مطربِ زیبا کہ سلگ اٹھے بدن
اِک قدح ساقیِ مہوش جو کرے ہوش تمام
ذکرِ صبحے کہ رُخ یار سے رنگیں تھا چمن
یادِ شب ہا کہ تنِ یار تھا آغوش تمام
جون 1970ء
٭٭٭
جرسِ گُل کی صدا
اس ہوس میں کہ پکارے جرسِ گل کی صدا
دشت و صحرا میں صبا پھرتی ہے یوں آوارہ
جس طرح پھرتے ہیں ہم اہلِ جنوں آوارہ
ہم پہ وارفتگیِ ہوش کی تہمت نہ دھرو
ہم کہ رمازِ رموزِ غمِ پنہانی ہیں
اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہ فگن خاطرِ
دوست
ہم بھی شوقِ رہِ دلدار کے زندانی ہیں
جب بھی ابروئے درِ یار نے ارشاد کیا
جس بیاباں میں بھی ہم ہوں گے چلے آئیں گے
در کھُلا دیکھا تو شاید تمہیں پھر دیکھ
سکیں
بند ہو گا تو صدا دے کے چلے جائیں گے
جولائی 1970ء
٭٭٭
فرشِ نومیدیِ دیدار
دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی
کسک
ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح
ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھی ہے فریاد کناں
دل یہ کہتا ہے کہ کہیں اور چلے جائیں جہاں
کوئی دروازہ عبث وا ہو نہ بیکار کوئی
یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ہو
محرمِ حسرتِ دیدار ہو دیوار کوئی
نہ کوئی سایۂ گُل ہجرتِ گل سے ویراں
یہ بھی کر دیکھا ہے سو بار کہ جب راہوں میں
دیس پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں
قافلے قامت و رخسار و لب و گیسو کے
پردۂ چشم پہ یوں اترے ہیں بے صورت و رنگ
جس طرح بند دریچوں پہ گرے بارشِ سنگ
اور دل کہتا ہے ہر بار چلو لوٹ چلو
اس سے پہلے کہ وہاں جائیں تو یہ دکھ بھی
نہ ہو
یہ نشانی کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اُس صحن میں ہر سُو یونہی پہلے کی
طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اگست 1970ء
٭٭٭
غزل
رہا نہ کچھ بھی زمانے میں جب نظر کو
پسند
تری نظر سے کیا رشتۂ نظر پیوند
ترے جمال سے ہر صبح پر وضو لازم
ہر ایک شب ترے در پر سجود کی پابند
نہیں رہا حرمِ دل میں اِک صنم باطل
ترے خیال کے لات و منات کی سوگند
مثال زینۂ منزل بکارِ شوق آیا
ہر اِک مقام کہ ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند
خزاں تمام ہوئی کس حساب میں لکھیے
بہارِ گل میں جو پہنچے ہیں شاخِ گل کو
گزند
دریدہ دل ہے کوئی شہر میں ہماری طرح
کوئی دریدہ دہن شیخِ شہر کے مانند
شعار کی جو مداراتِ قامتِ جاناں
کیا ہے فیض درِ دل، درِ فلک سے بلند
نومبر 1970ء
٭٭٭
غزل
شرح بے دردیِ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ بننے پایا
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی
پھر وہ پروانے جنہیں اذنِ شہادت نہ ملا
پھر وہ شمعیں کہ جنہیں رات نہ ہونے پائی
پھر وہی جاں بلبی لذتِ مے سے پہلے
پھر وہ محفل جو خرابات نہ ہونے پائی
پھر دمِ دید رہے چشم و نظر دید طلب
پھر شبِ وصل ملاقات نہ ہونے پائی
پھر وہاں بابِ اثر جانیے کب بند ہوا
پھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی
فیض سر پر جو ہر اِک روز قیامت گزری
ایک بھی روز مکافات نہ ہونے پائی
23، مارچ 1971ء
٭٭٭
حذر کرو مرے تن سے
سجے تو کیسے سجے قتلِ عام کا میلہ
کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا
مرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے
نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس
بجھے
مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
مگر وہ زہرِ ہلاہل بھرا ہے نس نس میں
جسے بھی چھیدو ہر اِک بوند قہرِ افعی ہے
ہر اک کشید ہے صدیوں کے دردو حسرت کی
ہر اک میں مُہر بلب غیض و غم کی گرمی ہے
حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ہے
حذر کرو کہ مرا تن وہ چوبِ صحرا ہے
جسے جلاؤ تو صحنِ چمن میں دہکیں گے
بجائے سرو و سمن میری ہڈیوں کے ببول
اسے بکھیرا تو دشت و دمن میں بکھرے گی
بجائے مشکِ صبا میری جان زار کی دھول
حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیاسا ہے
مارچ 1971ء
٭٭٭
تہ بہ تہ دل کی کدورت
میری آنکھوں میں امنڈ آئی تو کچھ چارہ
نہ تھا
چارہ گر کی مان لی
اور میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے
دھو لیا
میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے دھو لیا
اور اب ہر شکل و صورت
عالمِ موجود کی ہر ایک شے
میری آنکھوں کے لہو سے اس طرح ہم رنگ ہے
خورشید کا کندن لہو
مہتاب کی چاندی لہو
صبحوں کا ہنسنا بھی لہو
راتوں کا رونا بھی لہو
ہر شجر مینارِ خوں، ہر پھول خونیں دیدہ
ہے
ہر نظر اک تارِ خوں، ہر عکس خوں مالیدہ
ہے
موجِ خوں جب تک رواں رہتی ہے اس کا سرخ
رنگ
جذبۂ شوقِ شہادت، درد، غیظ و غم کا رنگ
اور تھم جائے تو کجلا کر
فقط نفرت کا، شب کا، موت کا،
ہر اک رنگ کے ماتم کا رنگ
چارہ گر ایسا نہ ہونے دے
کہیں سے لا کوئی سیلابِ اشک
آبِ وضو
جس میں دھُل جائیں تو شاید دھُل سکے
میری آنکھوں، میری گرد آلود آنکھوں کا
لہو ....
8 اپریل 1971
٭٭٭
غزل
ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی
آشوبِ نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی، گل رنگ نظر آئی
امیدِ تلطف میں رنجیدہ رہے دونوں
تو اور تری محفل، میں اور مری تنہائی
یک جان نہ ہو سکیے، انجان نہ بن سکیے
یوں ٹوٹ گئی دل میں شمشیرِ شناسائی
اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہِ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں، اے چشمِ تماشائی
٭٭٭
٭٭٭
یار اغیار ہو گئے ہیں
اور اغیار مُصِر ہیں کہ وہ سب
یارِ غار ہو گئے ہیں
اب کوئی ندیمِ با صفا نہیں ہے
سب رند شراب خوار ہو گئے ہیں
1971ء
٭٭٭
غزل
کہیں تو کاروانِ درد کی منزل ٹھہر جائے
کنارے آ لگے عمرِ رواں یا دل ٹھہر جائے
اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے
کوئی دم بادبانِ کشتیِ صہبا کو تہہ رکھو
ذرا ٹھہرو غبارِ خاطرِ محفل ٹھہر جائے
خُمِ ساقی میں جز زہرِ ہلاہل کچھ نہیں باقی
جو ہو محفل میں اس اکرام کے قابل، ٹھہر
جائے
ہماری خامشی بس دل سے لب تک ایک وقفہ ہے
یہ طوفاں ہے جو پل بھر بر لبِ ساحل ٹھہر
جائے
نگاہِ منتظر کب تک کرے گی آئینہ بندی
کہیں تو دشتِ غم میں یار کا محمل ٹھہر
جائے
٭٭٭
داغستان کے ملک الشعرا رسول حمزہ کے افکار
میں تیرے سپنے دیکھوں
برکھا برسے چھت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں
برف گرے پربت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں
صبح کی نیل پری، میں تیرے سپنے دیکھوں
کویل دھوم مچائے، میں تیرے سپنے دیکھوں
آئے اور اُڑ جائے، میں تیرے سپنے دیکھوں
باغوں میں پتے مہکیں، میں تیرے سپنے دیکھوں
شبنم کے موتی دہکیں، میں تیرے سپنے دیکھوں
اس پیار میں کوئی دھوکا ہے
تو نار نہیں کچھ اور ہے شے
ورنہ کیوں ہر ایک سمے
میں تیرے سپنے دیکھوں
٭٭
بھائی
آج سے بارہ برس پہلے بڑا بھائی مِرا
اسٹالن گراڈ کی جنگاہ میں کام آیا تھا
میری ماں اب بھی لیے پھرتی ہے پہلو میں یہ
غم
جب سے اب تک ہے وہی تن پہ ردائے ماتم
اور اس دُکھ سے مِری آنکھ کا گوشہ تر ہے
اب مِری عمر بڑے بھائی سے کچھ بڑھ کر ہے
٭٭
داغستانی خاتون اور شاعر بیٹا
اس نے جب بولنا نہ سیکھا تھا
اس کی ہر بات میں سمجھتی تھی
اب وہ شاعر بنا ہے نامِ خدا
لیکن افسوس کوئی بات اس کی
میرے پلے ذرا نہیں پڑتی
٭٭
بہ نوکِ شمشیر
میرے آبا کہ تھے نا محرمِ طوق و زنجیر
وہ مضامیں جو ادا کرتا ہے اب میرا قلم
نوکِ شمشیر پہ لکھتے تھے بہ نوکِ شمشیر
روشنائی سے جو میں کرتا ہوں کاغذ پہ رقم
سنگو صحرا پہ وہ کرتے تھے لہو سے تحریر
٭٭٭
آرزو
مجھے معجزوں پہ یقیں نہیں مگر آرزو ہے
کہ جب قضا
مجھے بزمِ دہر سے لے چلے
تو پھر ایک بار یہ اذن دے
کہ لحد سے لوٹ کے آ سکوں
ترے در پہ آ کے صدا کروں
تجھے غمگسار کی ہو طلب تو ترے حضور میں آ
رہوں
یہ نہ ہو تو سوئے رہ عدم میں پھر ایک
بار روانہ ہوں
٭٭٭
سالگرہ
شاعر کا جشنِ سالگرہ ہے شراب لا
منصب، خطاب، رُتبہ انہیں کیا نہیں ملا
بس نقص ہے تو اتنا کہ ممدوح نے کوئی
مصرع کسی کتاب کے شایاں نہیں لکھا
٭٭٭
ایک چٹان کے لئے
کتبہ
جواں مردی اسی رفعت پہ پہنچی
جہاں سے بزدلی نے جست کی تھی
تیرگی جال ہے اور بھالا ہے نور
اک شکاری ہے دن، اک شکاری ہے رات
جگ سمندر ہے جس میں کنارے سے دور
مچھلیوں کی طرح ابنِ آدم کی ذات
جگ سمندر ہے ساحل پہ ہیں ماہی گیر
جال تھامے کوئی، کوئی بھالا لیے
میری باری کب آئے گی کیا جانیے
دن کے بھالے سے مجھ کو کریں گے شکار
رات کے جال میں یا کریں گے اسیر؟
٭٭٭
نسخۂ الفت میرا
گر کسی طور ہر اک الفتِ جاناں کا خیال
شعر میں ڈھل کے ثنائے رُخِ جانانہ بنے
پھر تو یوں ہو کہ مِرے شعرو سخن کا دفتر
طول میں طولِ شبِ ہجر کا افسانہ بنے
ہے بہت تشنہ مگر نسخۂ الفت میرا
اس سبب سے کہ ہر اک لمحۂ فرصت میرا
دل یہ کہتا ہے کہ ہو قربتِ جاناں میں بسر
٭٭٭
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں
طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
جب دُکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل بانہوں میں
لوہُو میں کتنی لالی تھی
یُوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے
اور ناؤ پُورم پار لگی
ایسا نہ ہُوا ، ہر دھارے میں
کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں
کچھ مانجھی تھے انجان بہُت
کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں
اب جو بھی چاہو چھان کرو
اب جِتنے چاہو دوش دھرو
ندیا تو وہی ہو ، ناؤ وہی
اب تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
اب کیسے پار اُترنا ہے
جب اپنی چھاتی میں ہم نے
اِس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے
تھا ویدوں پر وشواس بہت
اور یاد بہت سےنسخے تھے
یُوں لگتا تھا بس کچھ دِن میں
ساری بپتا کٹ جائے گی
اور سب گھاؤ بھر جائیں گے
ایسا نہ ہُوا کہ روگ اپنے
کچھ اِتنے ڈھیر پُرانے تھے
وید اُن کی ٹوہ کو پا نہ سکے
اور ٹوٹکے سب بیکار گئے
اب جو بھی چاہو چھان کرو
اب جتنے چاہو دوش دھرو
چھاتی تو وہی ہے ، گھاؤ وہی
اب تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
یہ گھاؤ کیسے بھرنا ہے
لندن ۱۹۸۱
٭٭٭
عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا
دار کی رسیوں کے گلو بند گردن میں پہنے
ہوئے
گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے
پایلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں
تھے
راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آ کے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سُرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ
کبھی پاؤں میں رقصِ زنجیر
اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح
رسن در گلو، پابجولاں ہمیں
اسی قافلے میں کشاں لے چلا
بیروت، جولائی ۱۹۸۱
٭٭٭
غزل
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی
گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدۂ فردا کی گفتگو ہی سہی
دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیض ذکرِ وطن اپنے روبرو ہی سہی
لاہور، فروری 82
٭٭٭
میجر اسحاق کی یاد میں
لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم
نے
باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا
اور
یہ عہد کہ تا عمرِ رواں ساتھ رہو گے
رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہلِ صفا اور
ہم سمجھے تھے صیّاد کا ترکش ہوا خالی
باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور
ہر خار رہِ دشت وطن کا ہے سوالی
کب دیکھیے آتا ہے کوئی آبلہ پا اور
آنے میں تامّل تھا اگر روزِ جزا کو
اچھا تھا ٹھہر جاتے اگر تم بھی ذرا اور
بیروت۔ 3 جون 1982
٭٭٭
ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
بچوں کی ہنستی آنکھوں کے
جو آئنے چکنا چور ہوئے
اب ان کے ستاروں کی لَو سے
اس شہر کی راتیں روشن ہیں
اور رخشاں ہے ارضِ لبنان
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
جو چہرے لہو کے غازے کی
زینت سے سوا پُر نور ہوئی
اب ان کے رنگیں پرتو سے
اس شہر کی گلیاں روشن ہیں
اور تاباں ہے ارضِ لبنان
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
ہر ویراں گھر، ہر ایک کھنڈر
ہم پایۂ قصرِ دارا ہے
ہر غازی رشکِ اسکندر
ہر دختر ہمسرِ لیلیٰ ہے
یہ شہر ازل سے قائم ہے
یہ شہر ابد تک دائم ہے
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
بیروت ۔ جون 82
٭٭٭
ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اِک دن جیتیں گے
بالآخر اِک دن جیتیں گے
کیا خوف ز یلغارِ اعداء
ہے سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف ز یورشِ جیشِ قضا
صف بستہ ہیں ارواح الشہدا
ڈر کاہے کا!
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اِک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زَہَق الباطِل
فرمودۂ ربِّ اکبر
ہے جنت اپنے پاؤں تلے
اور سایۂ رحمت سر پر ہے
پھر کیا ڈر ہے!
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اِک دن جیتیں گے
بالآخر اِک دن جیتیں گے
بیروت۔ 15 جون 83ء
٭٭٭
غزل
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں
تھا
تھک کر یونہی پل بھر کے لئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا
واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
لاہور فروری 83ء
٭٭٭
اس وقت تو یُوں لگتا ہے
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں
ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
میو ہسپتال، لاہور
4، مارچ 82ء
٭٭٭
غزل
دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں
طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے
جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
یہ خونِ شہیداں ہے کہ زر خانۂ جم ہے
حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے ٭٭٭
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول
تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے
باندھ کر آرزو کے پلے میں
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
٭٭٭
یہ کس دیارِ عدم میں ۔ ۔ ۔
نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں پیدا
کسی کے حسن میں شمشیرِ آفتاب کا حسن
نگاہ جس سے ملاؤ تو آنکھ دکھنے لگے
کسی ادا میں ادائے خرامِ بادِ صبا
جسے خیال میں لاؤ تو دل سلگنے لگے
نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں باقی
جہاں میں بزمِ گہِ حسن و عشق کا میلا
بنائے لطف و محبت، رواجِ مہر و وفا
یہ کس دیارِ عدم میں مقیم ہیں ہم تم
جہاں پہ مژدۂ دیدارِ حسنِ یار تو کیا
نویدِ آمدِ روزِ جزا نہیں آتی
یہ کس خمار کدے میں ندیم ہیں ہم تم
جہاں پہ شورشِ رندانِ میگسار تو کیا
شکستِ شیشۂ دل کی صدا نہیں آتی
(ناتمام)
٭٭٭
نذرِ مولانا حسرت موہانی
مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے
احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے
کیا کچھ نہ ملا ہے جو کبھی تجھ سے ملے
گا
اب تیرے نہ ملنے کی شکایت نہ کریں گے
شب بیت گئی ہے تو گزر جائے گا دن بھی
ہر لحظہ جو گزری وہ حکایت نہ کریں گے
یہ فقر دلِ زار کا عوضانہ بہت ہے
شاہی نہیں مانگیں گے ولایت نہ کریں گے
ہم شیخ نہ لیڈر نہ مصاحب نہ صحافی
جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے
٭٭٭
غزل
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں
گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
٭٭٭
غزل
جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم
رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم
سر خوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں
گزرے
کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم
کبھی منزل، کبھی رستے نے ہمیں ساتھ دیا
ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم
ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا
ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی جھنکار سے
ہم
فیض جب چاہا جو کچھ چاہا سدا مانگ لیا
ہاتھ پھیلا کے دلِ بے زر و دینار سے ہم
٭٭٭
جو میرا تمہارا رشتہ ہے
میں کیا لکھوں کہ جو میرا تمہارا رشتہ
ہے
وہ عاشقی کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں
لکھا گیا ہے بہت لطفِ وصل و دردِ فراق
مگر یہ کیفیت اپنی رقم نہیں ہے کہیں
یہ اپنا عشق ہم آغوش جس میں ہجر و وصال
یہ اپنا درد کہ ہے کب سے ہمدمِ مہ و سال
اس عشقِ خاص کو ہر ایک سے چھپائے ہوئے
"گزر گیا ہے زمانہ گلے لگائے
ہوئے"
٭٭٭
آج شب کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی
خواب در خواب محلّات کے در وا ہیں کئی
اور مکیں کوئی نہیں ہے،
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
"کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر
صورت"
کوئی امّید، کوئی آس مسافر صورت
کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں
کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دُور ہو تم
ہر گھڑی سایہ گرِ خاطرِ رنجور ہو تم
اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں، کوئی
نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
٭٭٭
٭٭٭
شام دھندلانے لگی اور مری تنہائی
دل میں پتھر کی طرح بیٹھ گئی
چاند ابھرنے لگا یک بار تری یاد کے ساتھ
زندگی مونس و غم خوار نظر آنے لگی
٭٭٭
٭٭٭
باقی ہے کوئی ساتھ تو بس ایک اُسی کا
پہلو میں لیے پھرتے ہیں جو درد کسی کا
اِک عمر سے اِس دھُن میں کہ ابھرے کوئی
خورشید
بیٹھے ہیں سہارا لیے شمعِ سحری کا
٭٭٭
ترک شاعر ناظمِ حکمت کے افکار
جینے کے لیے مرنا
یہ کیسی سعادت ہے
مرنے کے لیے جینا
یہ کیسی حماقت ہے
۔۔۔۔۔۔
اکیلے جیو ایک شمشاد تن کی طرح
اور مل کر جیو
ایک بَن کی طرح
۔۔۔۔۔۔
ہم نے امّید کے سہارے پر
ٹوٹ کر یوں ہی زندگی کی ہے
جس طرح تم سے عاشقی کی ہے
۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
اِدھر نہ دیکھو
اِدھر نہ دیکھو کہ جو بہادر
قلم کے یا تیغ کے دھنی تھے
جو عزم و ہمت کے مدعی تھے
اب ان کے ہاتھوں میں صدقِ ایماں کی
آزمودہ پرانی تلوار مڑ گئی ہے
جو کج کلہ صاحبِ حشم تھے
جو اہلِ دستار محترم تھے
ہوس کے پر پیچ راستوں میں
کلہ کسی نے گرو رکھ دی
کسی نے دستار بیچ دی ہے
اُدھر بھی دیکھو
جو اپنے رخشاں لہو کے دینار
مفت بازار میں لٹا کر
نظر سے اوجھل ہوئے
اور اپنی لحد میں اس وقت تک غنی ہیں،
اُدھر بھی دیکھو
جو حرفِ حق کی صلیب پر اپنا تن سجا کر
جہاں سے رخصت ہوئے
اور اہلِ جہاں میں اس وقت تک نبی ہیں
٭٭٭
٭٭٭
رفیقِ راہ تھی منزل ہر اِک تلاش کے بعد
چھُٹا یہ ساتھ تو رہ کی تلاش بھی نہ رہی
ملُول تھا دلِ آئنہ ہر خراش کے بعد
جو پاش پاش ہُوا اِک خراش بھی نہ رہی
٭٭٭
غزل
پھر آئنۂ عالم شاید کہ نکھر جائے
پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے
صحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے
خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو
اپنا
اس فصل میں ممکن ہے یہ قرض اتر جائے
دیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سنتے ہیں
جو خندہ بلب آئے وہ خاک بسر جائے
یا خوف سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اِک بات ٹھہر جائے
21، نومبر 1983ء
٭٭٭
غزل
پھول مسلے گئے فرشِ گلزار پر
رنگ چھڑکا گیا تختۂ دار پر
بزم برپا کرے جس کو منظور ہو
دعوتِ رقص، تلوار کی دھار پر
دعوتِ بیعتِ شہ پہ ملزم بنا
کوئی اقرار پر، کوئی انکار پر
(ناتمام)
23، فروری 1984ء
٭٭٭
غزل
بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے
اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے
دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ کیا
اور ہمیں چاک گریباں نہیں کرنے دیتے
ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ہے
اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے
دل میں وہ آگ فروزاں ہے عدو جس کا بیاں
کوئی مضموں کسی عنواں نہیںکرنے دیتے
جان باقی ہے تو کرنے کو بہت باقی ہے
اب وہ جو کچھ کہ مری جاں نہیں کرنے دیتے
30 اکتوبر، 1984ء
٭٭٭
غزل
بہت مِلا نہ مِلا، زندگی سے غم کیا ہے
متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے
ہم ایک عمر سے واقف ہیں، اب نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں، ستم کیا ہے
کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف
کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشمِ نم کیا
ہے
لحاظ میں کوئی کچھ دور ساتھ چلتا ہے
وگرنہ دہر میں اب خضر کا بھرم کیا ہے
اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے
سجاؤ بزم، غزل گاؤ، جام تازہ کرو
"بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا
ہے"
نومبر، 1984ء
٭٭٭
شامِ غربت
دشت میں سوختہ سامانوں پہ رات آئی ہے
غم کے سنسان بیابانوں پہ رات آئی ہے
نورِ عرفان کے دیوانوں پہ رات آئی ہے
شمعِ ایمان کے پروانوں پہ رات آئی ہے
بیت شبیر پہ ظلمت کی گھٹا چھائی ہے
درد سا درد ہے تنہائی سی تنہائی ہے
ایسی تنہائی کہ پیارے نہیں دیکھے جاتے
آنکھ سے آنکھ کے تارے نہیں دیکھے جاتے
درد سے درد کے مارے نہیں دیکھے جاتے
ضعف سے چاند سارے نہیں دیکھے جاتے
ایسا سنّاٹا کہ شمشانوں کی یاد آتی ہے
دل دھڑکنے کی بہت دور صدا جاتی ہے
٭٭٭
نعت
اے تُو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تُو
آوردہ ام سرائے دِگر از برائے تُو
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویشِ مُلک و مال
بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تُو
آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر
اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لقائے تُو
آتش فشاں ز قہر و ملامت زبانِ شیخ
از اشک تر ز دردِ غریباں ردائے تُو
باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کُند
روزے بسُوئے عدل و عنایت صَدائے تُو
٭٭٭
دلِ من مسافرِ من
مرے دل، مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتا تھا اپنے گھر کا
سرِ کوۓ ناشنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
لندن 1978ء
٭٭٭
پھول مرجھا گئے سارے
پھول مرجھا گئے ہیں سارے
تھمتے نہیں ہیں آسماں کے آنسو
شمعیں بے نور ہو گئی ہیں
آئینے چور ہو گئے ہیں
ساز سب بج کے کھو گئے ہیں
پایلیں بُجھ کے سو گئی ہیں
اور اُن بادلوں کے پیچھے
دور اِس رات کا دلارا
درد کا ستارا
ٹمٹما رہا ہے
جھنجھنا رہا ہے
مسکرا رہا ہے
لندن 1978ء
٭٭٭
کوئی عاشق کسی محبوبہ سے!
گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادِ صبا
پھر سے چاہے کہ گل افشاں ہو، تو ہو جانے
دو
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو، تو ہو جانے
دو
جیسے بیگانے سے اب ملتے ہو، ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گر چہ مل بیٹھیں گے ہم تم، تو ملاقات کے
بعد
اپنا احساسِ زیاں اور زیادہ ہو گا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں، تو ہر بات
کے بیچ
ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہو گا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا، نہ تم
کوئ مضموں وفا کا، نہ جفا کا ہو گا
گرد ایّام کی تحریر کو دھونے کے لیے
تم سے گویا ہوں دمِ دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو، اور جو نہ چاہو، نہ
سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو اور جو نہ چاہو نہ
کہو
لندن 1978ء
٭٭٭
دو غزلیں
مخدوم کی یاد میں
(1)
"آپ کی یاد آتی رہی رات بھر"
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی، گاہ بجھتی ہوئی
شمعِ غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایۂ شاخِ گُل کے تلے
کوئی قِصہ سناتی رہی رات بھر
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیرِ در
ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر
ماسکو، ستمبر 1978ء
٭٭
(2)
"اسی انداز سے چل بادِ صبا آخرِ
شب"
یاد کا پھر کوئی دروازہ کھُلا آخرِ شب
دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخرِ شب
صبح پھوٹی تو وہ پہلو سے اُٹھا آخرِ شب
وہ جو اِک عمر سے آیا نہ گیا آخرِ شب
چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخرِ شب
کون کرتا ہے وفا، عہدِ وفا آخرِ شب
لمسِ جانانہ لیے، مستیِ پیمانہ لیے
حمدِ باری کو اٹھے دستِ دعا آخرِ شب
گھر جو ویراں تھا سرِ شام وہ کیسے کیسے
فرقتِ یاد نے آباد کیا آخرِ شب
جس ادا سے کوئی آیا تھا کبھی اولِ شب
"اسی انداز سے چل بادِ صبا آخرِ
شب"
ماسکو اکتوبر، 1978ء
٭٭٭
ایک دکّنی غزل
کچھ پہلے اِن آنکھوں آگے کیا کیا نہ
نظارا گزرے تھا
کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا
گزرے تھا
تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے
فرصت تھی
سب پو چھیں تھے احوال جو کوئی درد کا
مارا گزرے تھا
اب کے خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے
بھول گئے
جب موسمِ گُل ہر پھیرے میں آ آ کے دو بارا
گزرے تھا
تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی
بیزار نہ تھے
جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا
گزرے تھا
اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے، لیکن اب سے
پہلے تو
آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالمَ سارا
گزرے تھا
ماسکو اکتوبر 1978ء
٭٭٭
منظر
آسماں آج اِک بحرِ پُر شور ہے
جس میں ہر سُو رواں بادلوں کے جہاز
ان کے عرشے پہ کرنوں کے مستول ہیں
بادبانوں کی پہنے ہوئے فرغلیں
نیل میں گنبدوں کے جزیرے کئی
ایک بازی میں مصروف ہے ہر کوئی
ابابیل کوئی نہاتی ہوئی
کوئی چیل غوطے میں جاتی ہوئی
کوئی طاقت نہیں اس میں زور آزما
کوئی بیڑا نہیں ہے کسی ملک کا
اِس کی تہ میں کوئی آبدوزیں نہیں
کوئی راکٹ نہیں، کوئی توپیں نہیں
یوں تو سارے عناصر ہیں یاں زور میں
امن کتنا ہے اِس بحرِ پُر شور میں
سمرقند، مارچ 1978ء
٭٭٭
دو نظمیں
قفقار کے شاعر قاسن علی سے ماخوذ
(۱)
ہر اک دور میں ہر زمانے میں ہم
زہر پیتے رہے، گیت گاتے رہے
جان دیتے رہے زندگی کے لیے
ساعتِ وصل کی سرخوشی کے لیے
فقر و فاقہ کا توشہ سنبھالے ہوئے
جو بھی رستہ چنا اس پہ چلتے رہے
مال والے حقارت سے تکتے رہے
طعن کرتے رہے ہاتھ ملتے رہے
ہم نے اُن پر کیا حرفِ حق سنگ زن
جن کی ہیبت سے دنیا لرزتی رہی
جن پہ آنسو بہانے کو کوئی نہ تھا
اپنی آنکھ ان کے غم میں برستی رہی
سب سے اوجھل ہوئے حکمِ حاکم پہ ہم
قید خانے سہے، تازیانے سہے
لوگ سنتے رہے سازِ دل کی صدا
اپنے نغمے سلاخوں سے چھَنتے رہے
خونچکاں دہر کا خونچکاں آئینہ
دکھ بھری خلق کا دکھ بھرا دل ہیں ہم
طبعِ شاعر ہے جنگاہِ عدل و ستم
منصفِ خیر و شر، حق و باطل ہیں ہم
٭٭
(۲)
شوپیں* کا نغمہ بجتا ہے
چھلنی ہے اندھیرے کا سینہ، برکھا کے
بھالے برسے ہیں
دیواروں کے آنسو ہیں رواں، گھر خاموشی میں
ڈوبے ہیں
پانی میں نہائے ہیں بوٹے
گلیوں میں ہُو کا پھیرا ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے
اِک غمگیں لڑکی کے چہرے پر چاند کی زردی
چھائی ہے
جو برف گری تھی اِس پہ لہو کے چھینٹوں کی
رُشنائی ہے
خوں کا ہر داغ دمکتا ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے
کچھ آزادی کے متوالے ، جاں کف پہ لیے میداں
میں گئے
ہر سُو دشمن کا نرغہ تھا، کچھ بچ نکلے،
کچھ کھیت رہے
عالم میں اُن کا شہرہ ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے
اِک کونج کو سکھیاں چھوڑ گئیں آکاش کی نیلی
راہوں میں
وہ یاد میں تنہا روتی تھی، لپٹائے اپنی
باہوں میں
اِک شاہیں اس پر جھپٹا ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے
غم نے سانچے میں ڈھالا ہے
اِک باپ کے پتھر چہرے کو
مردہ بیٹے کے ماتھے کو
اِک ماں نے رو کر چوما ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے
پھر پھولوں کی رُت لوٹ آئی
اور چاہنے والوں کی گردن میں جھولے ڈالے
باہوں نے
پھر جھرنے ناچے چھن چھن چھن
اب بادل ہے نہ برکھا ہے
شوپیں کا نغمہ بجتا ہے
ماسکو 1979ء
-------------------------
* شوپیں Chopin پولینڈ کا ممتاز نغمہ ساز
٭٭٭
لاؤ تو قتل نامہ مرا
سننے کو بھیڑ ہے سرِ محشر لگی ہوئی
تہمت تمہارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی
رندوں کے دم سے آتش مے کے بغیر بھی
ہے میکدے میں آگ برابر لگی ہوئی
آباد کر کے شہرِ خموشاں ہر ایک سو
کس کھوج میں ہے تیغِ ستمگر لگی ہوئی
آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میانِ قاتل و خنجر لگی ہوئی
"لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ
لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی"
٭٭٭
غزل
سہل یوں راہِ زندگی کی ہے
ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے
ہم نے دل میں سجا لیے گلشن
جب بہاروں نے بے رُخی کی ہے
زہر سے دھو لیے ہیں ہونٹ اپنے
لطفِ ساقی نے جب کمی کی ہے
تیرے کوچے میں بادشاہی کی
جب سے نکلے گداگری کی ہے
بس وہی سرخرو ہوا جس نے
بحرِ خوں میں شناوری کی ہے
"جو گزرتے تھے داغ پر صدمے"
اب وہی کیفیت سبھی کی ہے
لندن 1979ء
٭٭٭
تین آوازیں
ظالم
جشن ہے ماتمِ امّید کا آؤ لوگو
مرگِ انبوہ کا تہوار مناؤ لوگو
عدم آباد کو آباد کیا ہے میں نے
تم کو دن رات سے آزاد کیا ہے میں نے
جلوۂ صبح سے کیا مانگتے ہو
بسترِ خواب سے کیا چاہتے ہو
ساری آنکھوں کو تہِ تیغ کیا ہے میں نے
سارے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا ہے میں نے
اب نہ لہکے گی کسی شاخ پہ پھولوں کی حنا
فصلِ گُل آئے گی نمرود کے انگار لیے
اب نہ برسات میں برسے گی گہر کی برکھا
ابر آئے گا خس و خار کے انبار لیے
میرا مسلک بھی نیا راہِ طریقت بھی نئی
میرے قانوں بھی نئے میری شریعت بھی نئی
اب فقیہانِ حرم دستِ صنم چومیں گے
سرو قد مٹی کے بونوں کے قدم چومیں گے
فرش پر آج درِ صدق و صفا بند ہوا
عرش پر آج ہر اِک بابِ دعا بند ہوا
٭٭٭
مظلوم
رات چھائی تو ہر اک درد کے دھارے چھوٹے
صبح پھوٹی تو ہر اک زخم کے ٹانکے ٹوٹے
دوپہر آئی تو ہر رگ نے لہو برسایا
دن ڈھلا، خوف کا عفریت مقابل آیا
یا خدا یہ مری گردانِ شب و روز و سحر
یہ مری عمر کا بے منزل و آرام سفر
کیا یہی کچھ مری قسمت میں لکھا ہے تو نے
ہر مسرت سے مجھے عاق کیا ہے تو نے
وہ یہ کہتے ہیں تو خوشنود ہر اک ظلم سے
ہے
وہ یہ کہتے ہیں ہر اک ظلم ترے حکم سے ہے
گر یہ سچ ہے تو ترے عدل سے انکار کروں؟
ان کی مانوں کہ تری ذات کا اقرار کروں؟
٭٭٭
ندائے غیب
ہر اِک اُولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے
اُٹھے گا جب جَمِّ سرفروشاں
پڑیں گے دارو رَسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہوگا
سمرقند، مئی 79
٭٭٭
یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے
ٹھہر گئی آسماں کی ندیا
وہ جا لگی افق کنارے
اداس رنگوں کی چاندنیّا
اتر گئے ساحلِ زمیں پر
سبھی کھویّا
تمام تارے
اکھڑ گئی سانس پتیوں کی
چلی گئیں اونگھ میں ہوائیں
گجر بچا حکمِ خامشی کا
تو چپ میں گم ہو گئی صدائیں
سحر کی گوری کی چھاتیوں سے
ڈھلک گئی تیرگی کی چادر
اور اس بجائے
بکھر گئے اس کے تن بدن پر
نراس تنہائیوں کے سائے
اور اس کو کچھ بھی خبر نہیں ہے
کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہے
کہ دن ڈھلے شہر سے نکل کر
کدھر کو جانے کا رخ کیا تھا
نہ کوئی جادہ، نہ کوئی منزل
کسی مسافر کو اب دماغِ سفر نہیں ہے
یہ وقت زنجیرِ روز و شب کی
کہیں سے ٹوٹی ہوئی کڑی ہے
یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے
یہ وقت آئے تو بے ارادہ
کبھی کبھی میں بھی دیکھتا ہوں
اتار کر ذات کا لبادہ
کہیں سیاہی ملامتوں کی
کہیں پہ گل بوٹے الفتوں کے
کہیں لکیریں ہیں آنسوؤں کی
کہیں پہ خونِ جگر کے دھبّے
یہ چاک ہے پنجۂ عدو کا
یہ مہر ہے یارِ مہرباں کی
یہ لعل لب ہائے مہوشاں کے
یہ مرحمت شیخِ بد زباں کی
یہ جامۂ روز و شب گزیدہ
مجھے یہ پیراہن دریدہ
عزیز بھی، ناپسند بھی ہے
کبھی یہ فرمانِ جوشِ وحشت
کہ نوچ کر اس کو پھینک ڈالو
کبھی یہ حرفِ اصرارِ الفت
کہ چوم کر پھر گلے لگا لو
تاشقند، 1979ء
٭٭٭
ہم تو مجبورِ وفا ہیں
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کرے
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پرزے ہوے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بد خواہوں کی
خواب کتنے تری شاہراہوں میں سنگسار ہوے
"بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو، ہوا سو
ہوا
مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو
ہوا" ×
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے، ہمارا کیا
ہے
نوٹ: × یہ دو اشعار
مرزا رفیع سودا کے ہیں۔
٭٭٭
غزل
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں،
سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں،
کبھی قربتیں
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق
تری یاد کے
کوئی لمحہ صبحِ وصال کا، کئی شامِ ہجر کی
مدّتیں
جو تمہاری مان لیں ناصحا، تو رہے گا
دامنِ دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں، نہ کسی صنم کی
مروّتیں
چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم، جو بچا ہے
مقتلِ شہر میں
یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں، یہ ہیں اہلِ
صدق کی تربتیں
مری جان آج کا غم نہ کر، کہ نہ جانے
کاتبِ وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر، کہیں لکھ
رکھی ہوں مسرّتیں
بیروت 1979ء
٭٭٭
٭٭٭
مقتل میں نہ مسجد میں نہ خرابات میں کوئی
ہم کس کی امانت میں غمِ کارِ جہاں دیں
شاید کوئی ان میں سے کفن پھاڑ کے نکلے
اب جائیں شہیدوں کے مزاروں پہ اذاں دیں
بیروت 1979
٭٭٭
پیرس
دن ڈھلا کوچہ و بازار میں صف بستہ ہوئیں
زرد رُو روشنیاں
ان میں ہر ایک کے کشکول سے برسیں رم جھم
اس بھرے شہر کی ناسودگیاں
دور پس منظرِ افلاک میں دھندلانے لگے
عظمتِ رفتہ کے نشاں
پیش منظر میں
کسی سایۂ دیوار سے لپٹا ہوا سایہ کوئی
دوسرے سائے کی موہوم سی امید لیے
روزمرہ کی طرح
زیرِ لب
شرحِ بے دردیِ ایّام کی تمہید لیے
اور کوئی اجنبی
ان روشنیوں سایوں سے کتراتا ہوا
اپنے بے خواب شبستاں کی طرف جاتا ہوا
پیرس ، اگست 1979
٭٭٭
قوّالی
جلا پھر صبر کا خرمن، پھر آہوں کا دھواں
اٹھّا
ہوا پھر نذرِ صرصر ہر نشیمن کا ہر اِک
تنکا
ہوئی پھر صبحِ ماتم آنسوؤں سے بھر گئے
دریا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا
ہر اِک جانب فضا میں پھر مچا کہرامِ یارب
ہا
امڈ آئی کہیں سے پھر گھٹا وحشی زمانوں کی
فضا میں بجلیاں لہرائیں پھر سے تازیانوں
کی
قلم ہونے لگی گردن قلم کے پاسبانوں کی
کھلا نیلام ذہنوں کا، لگی بولی زبانوں کی
لہو دینے لگا ہر اِک دہن میں بخیہِ لب
ہا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا
ستم کی آگ کا ایندھن بنے دل پھر سے،
دادلہا!
یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
خداوندا
بنا پھرتا ہے ہر اِک مدّعی پیغام بر تیرا
ہر اِک بت کو صنم خانے میں دعویٰ ہے
خدائی کا
خدا محفوظ رکھے از خداوندانِ مذہب ہا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا
بیروت 1979ء
٭٭٭
کیا کریں
مری تری نگاہ میں
جو لاکھ انتظار ہیں
جو میرے تیرے تن بدن میں
لاکھ دل فگار ہیں
جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے
سب قلم نزار ہیں
جو میرے تیرے شہر کی
ہر اک گلی میں
میرے تیرے نقش ِ پا کے بے نشاں مزار ہیں
جو میری تیری رات کے
ستارے زخم زخم ہیں
جو میری تیری صبح کے
گلاب چاک چاک ہیں
یہ زخم سارے بے دوا
یہ چاک سارے بے رفو
کسی پہ راکھ چاند کی
کسی پہ اوس کا لہو
یہ ہے بھی یا نہیں، بتا
یہ ہے، کہ محض جال ہے
مرے تمہارے عنکبوتِ وہم کا بُنا ہوا
جو ہے تو اس کا کیا کریں
نہیں ہے تو بھی کیا کریں
بتا ، بتا ،
بتا ، بتا
بیروت 1980ء
٭٭٭
فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے
(ا)
میں جہاں پر بھی گیا ارضِ وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
تیری الفت، تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے اَن دیکھے رفیقوں کا جِلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دور پردیس کی بے مہر گذر گاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جس زمیں پر بھی کھُلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
بیروت 1980 ء
٭٭٭
(۲)
فلسطینی بچے کے لیے لوری
مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچے
تیرا بھائی
اپنے خواب کی تتلی پیچھے
دور کہیں پردیس گیا ہے
مت رو بچے
تیری باجی کا
ڈولا پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچے
تیرے آنگن میں
مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندرما دفنا کے گئے ہیں
مت رو بچے
امی، ابا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رلوائیں گے
تو مسکائے گا تو شاید
سارے اک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے
بیروت 1980ء
٭٭٭
نذرِ حافظ
ناصحم گفت بجز غم چہ ہنر دارد عشق
بر وائے خواجۂ عاقلِ ہنرِ بہتر ازیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قندِ دہن، کچھ اس سے زیادہ
لطفِ سخن، کچھ اس سے زیادہ
فصلِ خزاں میں لطفِ بہاراں
برگِ سمن کچھ اس سے زیادہ
حالِ چمن پر تلخ نوائی
مرغِ چمن، کچھ اس سے زیادہ
دل شکنی بھی، دلداری بھی
یادِ وطن، کچھ اس سے زیادہ
شمعِ بدن فانوسِ قبا میں
خوبیِ تن، کچھ اس سے زیادہ
عشق میں کیا ہے غم کے علاوہ
خواجۂ من، کچھ اس سے زیادہ
بیروت 1980ء
٭٭٭
میرے ملنے والے
وہ در کھلا میرے غمکدے کا
وہ آ گئے میرے ملنے والے
وہ آ گئی شام، اپنی راہوں میں
فرشِ افسردگی بچھانے
وہ آ گئی رات چاند تاروں کو
اپنی آزردگی سنانے
وہ صبح آئی دمکتے نشتر سے
یاد کے زخم کو منانے
وہ دوپہر آئی آستیں میں
چھپائے شعلوں کے تازیانے
یہ آئے سب میرے ملنے والے
کہ جن سے دن رات واسطا ہے
پہ کون کب آیا، کب گیا ہے
نگاہ و دل کو خبر کہاں ہے
خیال سوئے وطن رواں ہے
سمندروں کی ایال تھامے
ہزار وہم و گماں سنبھالے
کئی طرح کے سوال تھامے
بیروت 1980ء
٭٭٭
گاؤں کی سڑک
یہ دیس مفلس و نادار کج کلاہوں کا
یہ دیس بے زر و دینار بادشاہوں کا
کہ جس کی خاک میں قدرت ہے کیمیائی کی
یہ نائبانِ خداوندِ ارض کا مسکن
یہ نیک پاک بزرگوں کی روح کا مدفن
جہاں پہ چاند ستاروں نے جبّہ سائی کی
نہ جانے کتنے زمانوں سے اس کا ہر رستہ
مثالِ خانۂ بے خانماں تھا در بستہ
خوشا کہ آج بفضلِ خدا وہ دن آیا
کہ دستِ غیب نے اس گھر کی در کشائی کی
چنے گئے ہیں سبھی خار اس کی راہوں سے
سنی گئی ہے بالآخر برہنہ پائی کی
بیروت 1980ء
٭٭٭
غزل
اب کے برس دستورِستم میں کیا کیا باب ایزاد
ہوئے
جو قاتل تھے مقتول ہوئے، جو صید تھے اب
صیّاد ہوئے
پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے پر یوں نہیں
جیسے اب کے برس
سارے بوٹے پتہ پتہ روش روش برباد ہوئے
پہلے بھی طوافِ شمعِ وفا تھی، رسم محبت
والوں کی
ہم تم سے پہلے بھی یہاں منصور ہوئے،
فرہاد ہوئے
اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام
مچا
اک چہرہ کمھلا جانے سے کتنے دل ناشاد
ہوئے
فیض، نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو
یاد کرے×
اپنی کیا، کنعاں میں رہے یا مصر میں جا
آباد ہوئے
× غنی روزِ سیاہ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
٭٭٭
غزل
غم بہ دل، شکر بہ لب، مست و غزل خواں چلیے
جب تلک ساتھ ترے عمرِ گریزاں چلیے
رحمتِ حق سے جو اس سَمت کبھی راہ ملے
سوئے جنّت بھی براہِ رہِ جاناں چلیے
نذر مانگے جو گلستاں سے خداوندِ جہاں
ساغرِ مے میں لیے خونِ بہاراں چلیے
جب ستانے لگے بے رنگیِ دیوارِ جہاں
نقش کرنے کوئی تصویرِ حسیناں چلیے
کچھ بھی ہو آئینۂ دل کو مصفّا رکھیے
جو بھی گزرے، مثلِ خسروِ دوراں چلیے
امتحاں جب بھی ہو منظور جگر داروں کا
محفلِ یار میں ہمراہِ رقیباں چلیے
٭٭٭
غزل
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے
خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ
جزا گیا
جو نفس تھا خارِ گلُو بنا، جو اُٹھے تھے
ہاتھ لہُو ہوئے
وہ نَشاطِ آہِ سحر گئی، وہ وقارِ دستِ
دُعا گیا
نہ وہ رنگ فصلِ بہار کا نہ روش وہ ابرِ
بہار کی
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاجِ بادِ
صبا گیا
جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ آبروئے
وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مُدّعی، تو ثوابِ صدق و
صفا گیا
ابھی بادبان کو تہ رکھو ابھی مضطرب ہے
رخِ ہوا
کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آ کے
چلا گیا ٭٭٭
غزل
ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں
ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں
ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے
مقتل میں
مرے قاتل حسابِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ
تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب، ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو
ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبضِ دوراں، گردشوں میں آسماں
سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ایسے نہیں
ہوتا
٭٭٭
٭٭٭
اپنے انعامِ حسن کے بدلے
ہم تہی دامنوں سے کیا لینا
آج فرقت زدوں پہ لطف کرو
پھر کبھی صبر آزما لینا
٭٭٭
گیت
جلنے لگیں یادوں کی چتائیں
آؤ کوئی بَیت بنائیں
جن کی رہ تکتے تکے جُگ بیتے
چاہے وہ آئیں یا نہیں آئیں
آنکھیں موند کے نِت پل دیکھیں
آنکھوں میں اُن کی پرچھائیں
اپنے دردوں کا مُکٹ پہن کر
بے دردوں کے سامنے جائیں
جب رونا آوے مسکائیں
جب دل ٹوٹے دیپ جلائیں
پریم کتھا کا انت نہ کوئی
کتنی بار اسے دھرائیں
پریت کی ریت انوکھی ساجن
کچھ نہیں مانگیں، سب کچھ پائیں
فیض اُن سے کیا بات چھپی ہے
ہم کچھ کہہ کر کیوں پچھتائیں
٭٭٭
٭٭٭
اٹھ اُتاں نوں جٹّا
مردا کیوں جائیں
بھولیا! تُوں جگ دا ان داتا
تیری باندی دھرتی ماتا
توں جگ دا پالن ہار
تے مردا کیوں جائیں
اٹھ اُتاں نوں جٹّا
مردا کیوں جائیں
جرنل، کرنل، صوبیدار
ڈپٹی، ڈی سی، تھانیدار
سارے تیرا دتّا کھاون
توں جے نہ بیجیں، توں جے نہ گاہویں
بھُکھّے، بھانے سب مر جاون
ایہہ چاکر توں سرکار
مردا کیوں جائیں
اٹھ اُتاں نوں جٹّا
مردا کیوں جائیں
وچ کچہری، چونکی تھانے
کیہہ اَن بھول تے کیہہ سیانے
کیہہ اشراف تے کیہہ نمانے
سارے کھجّل خوار
مردا کیوں جائیں
اٹھ اُتاں نوں جٹّا
ایکا کر لئو، ہو جاؤ کٹھّے
بھُل جاؤ رانگڑ، چیمے چٹھے
سبھے دا اِک پریوار
مردا کیوں جائیں
جے چڑھ آون فوجاں والے
توں وی چھَویاں لمب کرا لے
تیرا حق، تری تلوار
تے مردا کیوں جائیں
دے اللہ ہُو دی مار
تے مردا کیوں جائیں
٭٭٭
ایک نغمہ
(تارکینِ وطن کے لیے)
"وطنے دیاں ٹھنڈیاں چھائیں او یار
ٹِک رہو تھائیں او یار"
روزی دیوے گا سائیں او یار
ٹِک رہو تھائیں او یار
ہیر نوں چھَڈ ٹر گیوں رنجھیٹے
کھیڑیاں دے گھر پاے گئے ہاسے
کانگ اڈاون ماواں بھیناں
ترلے پاون لکھ ہزاراں
پِنڈ وچ کڈی ٹوہر شریکاں
یاراں دے ڈھے پئے منڈاسے
ویراں دیاں ٹُٹ گئیاں بائیں
او یار
ٹِک رو تھائیں او یار
روزی دیوے گا سائیں
کانگ اُڈاون ماواں بھیناں
ترلے پاون لکھ ہزاراں
خیر مناون سنگی ساتھی
چرخے اولے روون مٹیاراں
ہاڑاں دردیاں سُنجیاں رائیں
او یار
ٹِک رو تھائیں او یار
وطنے دیاں ٹھنڈیاں چھائیں
چھڈ غیراں دے محل چو محلے
اپنے ویہڑے دی رِیس نہ کائی
اپنی جھوک دیاں ستّے خیراں
بیبا تُس نے قدر نہ پائی
موڑ مہاراں
تے آ گھر باراں
مُڑ آ کے مول نہ جائیں
او یار
ٹِک رو تھائیں او یار
٭٭٭
مآخذ:
http://www.alqlm.org/qalam/threads/مرے-دل-مرے-مسافر-کتاب-از-فیض-احمد-فیض.8113
http://www.alqlm.org/qalam/threads/غبارِ-ایّام-۔-فیض-احمد-فیض.8443
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سرِ-وادیِ-سینا-از-فیض-احمد-فیض.49384/