"میں نے دیکھا۔ " سکینہ کی آواز بھیگتی چلی گئی۔ " حافظ صاحب تلاوت میں اس طرح منہمک ہیں کہ انہیں یہ تک ہوش نہیں کہ شیطان کو اپنے خیالوں سی، اپنی سوچوں سے نکال پھینکنے کے لئے انہوں نے اپنا جو ہاتھ جلتے چراغ کی لو پر رکھا تھا، وہ خشک لکڑی کی طرح آگ پکڑ چکا ہے۔ جل رہا ہے۔ پگھل رہا ہے۔ میں بھاگی۔ ان کے کمرے میں پہنچی۔ ان کے قریب پہنچی تو درویش بابا نے مزار کے باہر اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ میں نے حافظ صاحب کا ہاتھ جلتے چراغ سے ہٹایا۔ وہ سر سے پاؤں تک پسینے میں ڈوبے ہوئے تھی۔ درد اور تکلیف کا احساس انہیں تب ہوا جب میں نے ان کا ہاتھ کمبل کے پلو میں لپیٹا اور انہوں نے مجھے دیکھا۔ ایک کراہ کے ساتھ وہ غش کھا گئے۔ اسی وقت درویش بابا اذان ختم کر کے اندر آئے اور انہوں نے حافظ صاحب کو لے جا کر اسی چارپائی پر ڈال دیا جس پر ساری رات میں کروٹیں بدلتی رہی تھی۔ یہ ہاتھ۔۔۔ " سکینہ نے سسکی لی اور حافظ عبداللہ کے جلے ہوئے ہاتھ کی جانب اشارہ کیا۔ " خود بخود جلتے ہوئے چراغ پر نہیں جا پڑا تھا۔ حافظ صاحب نے اسے خود آگ کے حوالے کر دیا تھا، تاکہ ان کے خیالوں میں بار بار نقب لگاتا شیطان جل کر خاک ہو جائے۔ درد اور اذیت کی جس منزل سے وہ گزرے ہیں ، میں اور آپ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ اور یہ سب انہوں نے صرف اس لئے کیا کہ ان کا دھیان میری طرف سے ہٹا رہے۔ میں ان کی نفسانی گمراہی سے محفوظ رہوں۔ سکینہ کی عزت بچی رہی۔ سکینہ اپنے پچھلوں تک پہنچے تو اس کا دامن پاک ہو۔ "وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے اپنی لرزتی آواز پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔ آنسو بہنے کا اسے کوئی ہوش نہ تھا۔
چوہدری حسن دین بُت بنا سب کچھ سن رہا تھا تو باقی لوگوں کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا۔ ان کے اذہان میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ وہ سب کچھ سن رہے تھے اور تصور میں فلم سی چلتی دیکھ رہے تھے۔
"ایک جوان لڑکی کو اپنے نفس کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کے لئے حافظ صاحب نے خود کو جس امتحان میں ڈالا، کیا وہ کسی عام انسان کے بس کی بات ہے؟" سکینہ نے چند لمحوں کے بعد آنکھیں خشک کرتے ہوئے ان سب سے سوال کیا۔ " ان کا ہاتھ زندگی بھر کے لئے ناکارہ ہو گیا۔ ایک دن میری شادی ہونا ہی ہے۔ جس طرح ہر لڑکی چاہتی ہے کہ اس کا ہونے والا شوہر خوبصورت ہو۔ خوبیوں میں ایسا ہو کہ دوسری لڑکیاں اس پر رشک کریں۔ اسی طرح میں بھی اپنے لئے ایسا ہی شوہر چاہتی ہوں۔۔۔ لیکن کیا مجھے حافظ صاحب جیسا مرد ملے گا؟ ایسا مرد جس نے اپنے نفس کو پچھاڑ کر ثابت کر دیا کہ مردانگی عزت لوٹنے کا نام نہیں ، عزت کی حفاظت کرنے کا نام ہے۔ میرے جسم کو صرف ایک غیر مرد نے اب تک چھوا اور وہ حافظ صاحب ہیں۔ انہوں نے جن حالات میں مجھے مس کیا، وہ ان کی مجبوری تھی لیکن انہوں نے میری مجبوری سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ میرا جسم میرے شوہر کی امانت ہے۔ میں چاہتی ہوں ، چار کلمے پڑھ کر جس انسان کو میرے جسم کا مالک بننا ہے، وہ وہی ہو جس نے پہلی اور آخری بار میرے جسم کو چھُوا اور اس میں اس کی بدنیتی کو کوئی دخل نہ تھا۔۔۔ ہاں مگر اس کے لئے میں حافظ صاحب کی رضا کی مکمل پابند ہوں۔ اگر وہ نہیں چاہتے تو میں انہیں اس کے لئے مجبور نہیں کروں گی کہ وہ مجھ سے شادی کے لئے ہاں کریں۔ "
سکینہ خاموش ہو گئی۔
چوہدری حسن دین نے ہاتھ بڑھایا اور اسے بازو کے کلاوے میں لے کر اس کا ماتھا چوم لیا۔ وہ سسکتی ہوئی اس کے سینے سے لگ گئی۔
سب لوگ سر جھکائے بیٹھے تھے۔ انہیں فیصلہ کرنے میں دقت ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ یہ کوئی گڈے گڑیا کا بیاہ نہیں تھا جس کے لئے بغیر سوچے سمجھے ہاں کر دی جاتی۔ حافظ عبداللہ نے ایک بار پھر مزار کی طرف نظر اٹھائی اور یہ دیکھ کر چونکا کہ مزار کے بجائے درویش گاؤں کی طرف سے آنے والے رستے پر چلا آ رہا تھا۔ اس کے سر پر مٹھائی کی ٹوکری تھی جسے وہ ایک ہاتھ سے سنبھالے ہوئے تھا۔
اسے آتا دیکھ کر حافظ عبداللہ نے بڑا حوصلہ محسوس کیا۔ درویش نے چوہدری حسن دین کے قریب پہنچ کر مٹھائی کی ٹوکری اسے تھما دی۔
"بابا۔ یہ کیا ہے؟" وہ حیرت سے بولا۔
"بابے شاہ مقیم کی طرف سے تبرک بھی ہے اور منہ میٹھا کرنے کے لئے مبارک بھی۔ " درویش نے دھیرے سے کہا۔ پھر باقی لوگوں کی طرف متوجہ ہوا جو اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے تھے۔
"بیٹھو بیٹھو اللہ والیو۔ کھڑے کیوں ہو گئے۔ بیٹھ جاؤ۔ لگتا ہے ابھی بات تم لوگوں کے حلق سے نہیں اتری۔ میرے حافظ کو تول رہے ہو ابھی۔ " وہ رکا تو حافظ عبداللہ اٹھا اور تیزی سے چلتا ہوا اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ سکینہ اب درویش کے دائیں اور حافظ عبداللہ بائیں طرف تھا۔ باقی سب لوگ اس کے سامنے تھے۔ حافظ عبداللہ نے کچھ کہنا چاہا مگر درویش نے اسے ہاتھ اٹھا کر خاموش کرا دیا۔ اس کے بیٹھنے پر سب لوگ پھر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔
"ہاں۔ تو ابھی تک حافظ کا تول پورا نہیں ہوا۔ یہی بات ہے ناں ؟" درویش نے میاں نذرو اور سلیم کی طرف دیکھا۔
"بات یہ ہے بابا۔۔۔ " میاں نذرو نے زبان کھولی۔
"حافظ عبداللہ کا رنگ سانولا ہے۔ چہرہ مہرہ بھی واجبی سا ہے۔ مال دولت پلے ہے نہیں۔ مسجد کے حجرے میں رہتا ہے۔ آگے پیچھے رونے والا بھی کوئی نہیں۔ سکینہ جیسی پڑھی لکھی، خوبصورت، اچھے اور اونچے گھرانے کی لڑکی کے قابل نہیں ہے وہ۔ یہی بات ہے ناں میاں ؟" درویش نے میاں نذرو کی بولتی بند کر دی۔ "مگر اس سے شادی کا فیصلہ تو سکینہ نے کیا ہے۔ وہ بالغ ہے۔ اپنی پسند کا نکاح کر سکتی ہے۔ پھر تم لوگوں کو کیا اعتراض ہے اس پر؟"
"اعتراض ہے بھی اور نہیں بھی بابا۔ " اس بار سلیم نے کہا۔
"جو میں نے گِنوائے ہیں ، ان کے علاوہ کوئی اور اعتراض ہو تو کہو۔ " درویش نے اسے مسکراتی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
"لڑکی کی ماں سے بھی تو پوچھ لینا چاہئے۔ "
"ہاں۔ یہ جائز بات ہے۔ " درویش نے تاج بی بی کا رخ کیا۔ "تو بول۔ تو کیا کہتی ہے بی بی۔ تجھے کیا اعتراض ہے اس انہونی پر؟"
"مجھے؟" تاج بی بی نے گھبرا کر میاں نذرو اور پھر سلیم کی طرف دیکھا جو اسے سرد سی نظروں سے تک رہے تھے۔ "مجھے کیا اعتراض ہو گا بابا جی۔ جو فیصلہ کرنا ہے سکینہ کے چاچا اور سلیم پتر نے کرنا ہے۔ "
"مطلب یہ ہے کہ تجھے اس نکاح پر کوئی اعتراض تو نہیں ناں ؟"
"میں کیا کہہ سکتی ہوں جی؟" تاج بی بی نے بیچارگی سے کہا اور سر جھکا لیا۔
"ہاں۔ تو کیا کہے گی بیچارئیے۔ تیری زبان پر تو بیوگی نے تالا ڈال رکھا ہے۔ بولے گی تو بے گھر ہو جائے گی اس عمر میں۔ اپنا کیا ہے تیرے پاس، سوائے سکینہ کی۔۔۔ " درویش نے طنز بھری نگاہوں سے میاں نذرو اور سلیم کی جانب دیکھا جنہوں نے سر جھکا لئے تھی۔
" آپ ہماری مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کریں بابا۔ " سلیم نے آہستہ سے کہا۔ "لوگ کیا کہیں گے۔ برادری کیا کیا باتیں نہ بنائے گی؟ہم کس کس کا منہ بند کرتے پھریں گے۔ "
"باقی سب کی فکر چھوڑ۔ صرف اپنا منہ بند کر لے۔ " درویش نے اس کی جانب انگلی اٹھائی۔ "تو نہ چاہے گا تب بھی یہ نکاح تو ہو گا۔"
"کوئی زبردستی ہے؟" سلیم ہتھے سے اکھڑ گیا۔
"نہیں۔ " درویش مسکرایا۔ "زبردستی نہیں۔ فیصلہ ہے اس کا۔ " اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ " اور اس کے فیصلے تیرے میرے چاہنے سے نہیں بدلتے۔ تو زور لگا کر دیکھ لے۔ ہو گا وہی جو اس کی مرضی ہے۔ "
"ابا۔ اٹھ جا۔ چلیں اب۔ بہت ہو گئی۔ چل تائی۔ سکینہ کو ساتھ لے اور گھر چل۔ " سلیم نے اچانک اپنی جگہ چھوڑ دی۔
میاں نذرو نے اس کی جانب دیکھا۔ پھر دوپٹے میں منہ چھپائے بیٹھی آنسو بہاتی تاج بی بی پر نگاہ ڈالی۔ آخر میں اس کی نظر سر جھکائے بیٹھی سکینہ پر جم گئی۔ چند لمحے وہ انگلیاں مروڑتی سکینہ کو دیکھتا رہا۔ پھر حافظ عبداللہ کی طرف نگاہ اٹھائی، جو اپنے جلے ہوئے ہاتھ کو گھور رہا تھا۔
"ابا۔۔۔ " سلیم نے اس کا شانہ ہلایا۔
میاں نذرو نے آہستہ سے اس کا ہاتھ شانے سے ہٹا دیا اور درویش کی طرف متوجہ ہوا۔ "بابا۔ آپ نے فیصلہ تو سنا دیا مگر اب تک حافظ عبداللہ سے نہیں پوچھا کہ اس کی کیا مرضی ہے؟"
"تواب پوچھ لیتے ہیں اللہ والیا۔ " درویش نے حافظ عبداللہ کی طرف دیکھا۔ "کیوں حافظ۔ تجھے سکینہ سے نکاح منظور ہے یا نہیں ؟ دل سے جواب دینا۔ کوئی زبردستی ہے نہ دباؤ۔ تو اپنے فیصلے میں آزاد ہے۔ "
"بابا۔ " حافظ عبداللہ نے ایک نظر سکینہ پر ڈالی جو اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نجانے کیا تھا کہ حافظ عبداللہ ان میں کھو کر رہ گیا۔ پھر چند لمحوں کے بعد اس نے سر جھکا لیا۔ " میں خود کو اس قابل نہیں پاتا۔ "
"سیانا نہ بن۔ " درویش نے اسے جھڑکی سی دی۔ "جو نعمت اللہ تجھے دے رہا ہے اس کا کفران کر رہا ہے۔ شرم کر شرم۔ "
"بابا۔۔۔ میں۔۔۔ " حافظ ہکلا کر رہ گیا۔
"سکینہ۔ پگلئے، یہ تو بڑا بزدل نکلا۔ ڈرتا ہے۔ امتحان سے نہیں ڈرا۔ نتیجے سے ڈر گیا۔ " درویش نے سکینہ کی جانب گردن جھکائی۔ " اب بول۔ کیا کرے گی تو؟"
"کچھ نہیں بابا۔ " سکینہ نے بڑے سکون سے کہا۔ " میں نے کہا ناں۔ مجھے جس نے ایک بار چھو لیا، وہی میرا صاحب ہے۔ یہ میرے قابل نہیں ، بات یہ نہیں۔ اصل میں ، مَیں ان کے قابل نہیں ہوں۔ یہ مجھے نہ اپنائیں۔ ان کی مرضی۔ میں ساری زندگی ان کے نام پر بیٹھ کر گزار دوں گی۔ لوگوں کے سائیں پردیس بھی تو چلے جاتے ہیں بابا۔ "
"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟" حافظ عبداللہ نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔
"ٹھیک کہہ رہی ہوں حافظ صاحب۔ " اس کے لبوں پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔ "میں نے آپ کا رنگ ڈھنگ، آپ کا نام نسب، آپ کا خاندان اور مال و دولت نہیں دیکھی۔ آپ نے یہ سب کچھ دیکھا۔ فیصلہ آپ کا رہا۔ آپ نے مجھے ٹھکرا دیا مگر میں نے آپ کو اپنا لیا ہے۔ اپنا مان لیا ہے۔ "
" آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ " حافظ کا لہجہ بھرا گیا۔ " میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کو کوئی سُکھ دے سکوں۔ لوگوں کے دیے ہوئے پر دو وقت کی روٹی چلتی ہے۔ مسجد کے حجرے میں رہتا ہوں۔ آپ نازوں کی پلی میرے ساتھ رُل جائیں گی۔ "
"رُل جانے دیجئے مجھے۔ میں مرضی سے رُل جانے کو تیار ہوں۔ آپ مجھے نہ رُلنے پر مجبور کرنے والے کون ہوتے ہیں ؟" سکینہ کی آواز ڈوب گئی۔
"بابا۔ " اچانک چوہدری حسن دین نے درویش کی جانب دیکھا۔ "مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے۔ "
"ہاں ہاں۔ سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ تو بھی بول۔ مجھے پتہ ہے تو اچھا ہی بولے گا۔ بول۔ "
"اگر بات اتنی ہی سی ہے تو۔۔۔ " اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا۔ اس میں سے ایک چابی نکالی اور دری پر رکھ دی۔ "یہ میرے آبائی مکان کی چابی ہے۔ میں ابھی اسی وقت یہ مکان اور اپنے چار کھیت جو اس مکان کے ساتھ جڑے ہیں ، حافظ عبداللہ کے نام کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے اب انہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ "
سب لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ سلیم کا حال سب سے برا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا ہے۔
"یہ کی ناں پگلوں والی بات۔ " درویش قلقاری مار کر ہنسا۔ " اب بول حافظ۔ اب کیا کہتا ہے۔ اب تو تو بھی ساہوکار ہو گیا۔ اب کیسے ہچر مچر کرے گا؟"
"بابا۔ " حافظ عبداللہ کی آواز حلق میں پھنس گئی۔ درد کی ایک لہر آنسوؤں میں بھیگ کر پلکوں سے اتری اور رخساروں پر پھیل گئی۔ وہ بایاں ہاتھ چہرے پر رکھ کر سسک پڑا۔
"مبارک ہو سکینہ۔ تیرا پگلا پن کام آ گیا۔ " درویش نے مسکراتے ہوئے سکینہ کی جانب دیکھا۔ وہ سرخ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ کر ہولے سے ہنس دی۔
"پگلی۔ اٹھا لے یہ رسید۔ اس پر قبولیت کے دستخط ہو گئے ہیں۔ " درویش نے چابی کی طرف اشارہ کیا تو چوہدری حسن دین نے نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں بابا۔ میں نے خالی خولی صلح نہیں ماری تھی۔ یہ سب اب حافظ۔۔۔ "
"پتہ ہے۔ پتہ ہے۔ " درویش نے چابی اٹھا کر اس کی جیب میں ڈال دی۔ " تو نے جس نیت سے کہا تھا، وہی تو قبول ہوئی ہے پگلی۔ رہے یہ دونوں۔ تو ان کے لئے میرا اللہ اور اس کا پیارا حبیب کافی ہیں۔ "
چوہدری حسن دین خاموش ہو گیا۔
" ہاں بھئی چھوٹے میاں۔ اب کیا خیال ہے تیرا؟" درویش نے سلیم کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ جواب میں وہ خاموشی سے اٹھا اور ایک طرف سر جھکا کر جا بیٹھا۔
"بابا۔ " چوہدری حسن دین کی آواز پر وہ سب ایک دم چونکی۔ "اگر اجازت ہو تو میں حافظ عبداللہ کے لئے میاں نذرو سے سکینہ بیٹی کا ہاتھ باقاعدہ مانگ لوں۔ "
"تو بھی مانگنا چاہتا ہے چوہدری۔ " درویش بڑے اچھے موڈ میں تھا۔ " مانگ لے۔ مانگ لے۔ تو بھی نام لکھوا لے۔ جلدی کر۔ "
اور چوہدری حسن دین نے آگے سرک کر اپنی اچکن کا پلہ میاں نذرو کے سامنے پھیلا دیا۔ "میاں۔ اپنی بیٹی میرے حافظ صاحب کے لئے میری جھولی میں ڈال دے یار۔ "
"اس کا اختیار میری بھوجائی کو ہے چوہدری۔ " میاں نذرو نے تاج بی بی کی طرف اشارہ کر دیا۔
چوہدری نے اس کی طرف رخ کیا تو تاج بی بی نے گردن گھما کر نم آنکھوں سے سلیم کی طرف دیکھا۔ "سلیم پتر۔ تیری بہن کا ہاتھ مانگ رہے ہیں چوہدری صاحب۔ کیا ہاں کر دوں بیٹا؟"
"تائی۔ " سلیم اٹھ کر آیا اور تاج بی بی سے لپٹ گیا۔ وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
"واہ بھئی واہ۔ آج تو یہاں سب ہی اللہ والے اکٹھے ہو گئے۔ " درویش جھومتے ہوئے بولا۔ " آج تو سب کے اندر دھوئے جا رہے ہیں۔ سب کا میل نکالا جا رہا ہے۔ واہ میرے مالک۔ آج تو کیا دکھانا چاہتا ہے؟" وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
"میری ایک درخواست ہے چوہدری صاحب۔ " حافظ عبداللہ نے جھجکتے ہوئے چوہدری حسن دین سے کہا۔
" آپ حکم دیں حافظ صاحب۔ درخواست کیوں کرتے ہیں آپ۔ " وہ بڑے خلوص سے بولا۔
"اگر یہ بات طے ہو ہی گئی ہے تو میں چاہوں گا کہ نکاح بڑی سادگی اور خاموشی سے ہو۔ کوئی ہلا گلا نہ کیا جائے۔ "
"مگر۔۔۔ " سلیم نے کہنا چاہا۔
"حافظ صاحب ہمارے سر کے صاحب ہیں سلیم پتر۔ یہ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی کرو۔ " میاں نذرو نے سلیم کی جانب دیکھ کر کہا۔ " اگر ہم اسے روایتی شادی کے طور پر کریں گے تو شرعی پابندیوں کا تماشا ضرور بنے گا اور میرا خیال ہے، حافظ صاحب چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔ "
"جی ہاں۔ " حافظ عبداللہ نے نظر اٹھائی۔ "میرا یہی مطلب تھا۔ "
"تو ٹھیک ہے۔ " چوہدری حسن دین نے دخل دیا۔ "اگر معاملہ اسی طرح توڑ چڑھنا ہے تو دیر کس بات کی۔ ابھی نکاح پڑھاؤ اور دھی رانی کو وداع کر دو۔ "
"اتنی جلدی اور اس حالت میں ؟" اب کے تاج بی بی بولی۔
"ارے بہن میری۔ نیک کام میں دیر کی جائے تو شیطان سو سو حیلے رکاوٹیں پیدا کر دیتا ہے۔ یہاں داج وری کا جھگڑا تو ہے کوئی نہیں۔ اللہ کا دیا میرے پاس حافظ صاحب کے لئے سب کچھ موجود ہے۔ میں تو کہتا ہوں بابا شاہ مقیم کی دعاؤں کی چھاؤں میں یہ کام آج ابھی کر کے سرخرو ہو جاؤ۔ "
بابا شاہ مقیم کا نام آیا تو سب کے منہ بند ہو گئے۔ حافظ عبداللہ کے سر پر چوہدری حسن دین نے اپنا پٹکا ڈالا اور سکینہ کا گھونگھٹ نکال کر اس کی ماں کے پاس بٹھا دیا گیا۔ حافظ عبداللہ نے اپنا نکاح خود پڑھایا۔ حق مہر کی ادائیگی اسی وقت چوہدری حسن دین نے اپنی انگلی سے سونے کی انگوٹھی اتار کے کر دی۔ حافظ عبداللہ نے خود سکینہ کو انگوٹھی پہنائی۔
نکاح ہو گیا تو درویش نے مبارک مبارک کا شور مچا دیا۔
"لاؤ بھئی لاؤ۔ مٹھائی لاؤ۔ بابا شاہ مقیم انتظار میں ہو گا۔ چلو چوہدری۔ سب کا منہ میٹھا کراؤ بھئی۔ " وہ بچوں کی طرح خوش تھا۔ سب سے پہلے اس نے مٹھائی کا ٹکڑا اٹھا کر سکینہ کے منہ سے لگایا۔ پھر حافظ عبداللہ کو برفی کھلائی۔ اس کے بعد ہاتھ چوہدری حسن دین کے آگے پھیلا دیا۔
"لاؤ چوہدری۔ میرا حصہ؟"
"بابا۔ " چوہدری حسن دین حیرت سے بولا۔ " آپ کا حصہ کیسا؟ یہ سب آپ ہی کا تو ہے۔ " اس نے مٹھائی کا ٹوکرا درویش کے آگے کر دیا۔
"نہیں بھائی۔ میرا حصہ دیتا ہے تو دے۔ ورنہ میں چلا۔ " وہ جیسے ناراض ہو گیا۔
چوہدری حسن دین نے جلدی سے ایک بڑا گلاب جامن اٹھا کر درویش کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
"میرے پگلے کا حصہ بھی دے۔ " اس نے دوسرا ہاتھ آگے کر دیا۔
"پگلا؟" چوہدری حسن دین کے ساتھ باقی سب بھی حیران ہوئی۔ " وہ کون ہے بابا؟"
"تجھے اس سے کیا کہ وہ کون ہے؟ تو اس کا حصہ دے دے۔ لا جلدی کر۔ "
چوہدری حسن دین نے اس کی ناراضگی کے ڈر سے فوراً ہی دوسرا گلاب جامن اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
درویش ایک دم پلٹا اور یوں تیز تیز قدموں سے مزار کی جانب چل دیا، جیسے وہ ان میں سے کسی کا واقف ہی نہ ہو۔ پھر مزار کے اندر جا کر اس نے دروازہ بند کر لیا۔
سکینہ اور حافظ عبداللہ نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور ان کے سر جھک گئے۔ خاموشی۔ سناٹا۔ چُپ۔ ہر طرف ہُو کا عالم طاری تھا۔ انہیں صرف اپنے اپنے دل دھڑکنے کی صدا سنائی دے رہی تھی اور بس۔
* * *
دن کے گیارہ بجے تھے جب طاہر، ملک بلال اور اس کے چند ملازم بابا شاہ مقیم کے مزار کے باہر پجارو سے اتری۔
اگر دس پندرہ منٹ پہلے آتے تو وہ حافظ عبداللہ، سکینہ اور باقی سب لوگوں سے بھی مل لیتے۔ نکاح کے فوراً بعد جو درویش مزار کے اندر گیا تو پھر باہر نہ آیا۔ وہ کچھ دیر اس کا انتظار کرتے رہی۔ پھر جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ جلد باہر نہ آئے گا تو باہم مشورے سے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ طے یہ ہوا کہ سب لوگ پہلے نور پور چلیں۔ وہاں چوہدری حسن دین کے ہاں قیام کیا جائے۔ آج کا باقی دن اور آنے والی رات وہاں گزاری جائے۔ اگلے دن وہ سکینہ کو ساتھ لے کر سائیاں والے کو لوٹ جائیں گے۔ دو دن بعد چوہدری حسن دین سکینہ کو باقاعدہ جا کر سائیاں والا سے واپس نور پور لے آئے گا۔
تانگے میں وہ سب لوگ کسی نہ کسی طرح پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے اور ایک چھوٹی سی بارات کی شکل میں نور پور کی طرف روانہ ہو گئی۔
برگد تلے بچھی دریاں دیکھ کر ملک بلال نے آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا کیا اور ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دونوں کمرے دیکھے۔ کوئی نہ ملا تو وہ سب مزار کی طرف چلے۔
مزار کے باہر رک کر طاہر نے کھسہ اتارا۔ پھر کرتے کی جیب سے رومال نکال کر سر پر باندھا۔ ملک نے اپنی ٹوپی سر پردرست کی۔ ملازموں نے تب تک گاڑی سے اجناس کی دو بوریاں اور مٹھائی کا ٹوکرا اتار لیا تھا۔ مزار کا دروازہ اندر سے بند پا کر وہ رک گئے۔ پھر اس سے پہلے کہ ملک کچھ کہتا، ایک دم دروازہ کھلا اور درویش ان کے سامنے آ گیا۔
" آ گیا پگلے۔ " اس نے اپنی چمکدار آنکھوں سے طاہر کی جانب دیکھا۔
طاہر، جیسے مسحور ہو گیا۔ اس کی زبان سے کچھ نکلا نہ ہونٹ ہلے۔ وہ تو بُت بنا درویش کی آنکھوں میں گم ہو گیا تھا۔
"بابا۔ " ملک نے کہنا چاہا۔ " یہ میرے چھوٹے مالک۔۔۔ "
"جانتا ہوں۔ " درویش نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روک دیا۔ "تو یہیں رک ابھی۔ اور تو آ جا میرے ساتھ۔ " اس نے طاہر کا ہاتھ تھام کر اسے اندر کھینچ لیا۔ دروازہ پھر بند ہو گیا۔ ملک اور باقی سب لوگ منہ پھاڑے رہ گئے مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ کچھ کہتا یا اندر جانے کی کوشش کرتا۔
طاہر اپنے حواس سے بیگانہ، کسی بے وزن شے کی طرح درویش کے ساتھ کھنچا چلا جا رہا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ہی لفظ ریت اڑا رہا تھا۔ "پگلے۔ پگلے۔ پگلے۔ "
درویش اسے لئے ہوئے بابا شاہ مقیم کے سرہانے اسی جگہ آ رکا، جہاں حافظ عبداللہ بیٹھا کرتا تھا۔
"بیٹھ جا۔ " درویش نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
طاہر کسی معمول کی طرح اس کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا اور کھوئی کھوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
"بابا کو سلام کر لے۔ " پیار سے درویش نے کہا تو وہ چونکا۔ حواس میں آ گیا۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے بابا شاہ مقیم کے مزار کی جانب نظر جمائی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر قبر کو چھو لیا۔ ہاتھوں کی انگلیاں چوم کر آنکھوں سے لگائیں اور دعا میں محو ہو گیا۔ چند منٹ بعد آمین کہتے ہوئے اس نے ہاتھ چہرے پر پھیرے اور درویش کی جانب متوجہ ہوا جو سر جھکائے، آنکھیں بند کئے جیسے مراقبے میں گم تھا۔
طاہر کا جی چاہا، اس پُرسکون چہرے کو دیکھتا رہی۔ اسے درویش کے چہرے میں عجیب سا سحر دکھائی دے رہا تھا۔ دل کو مٹھی میں لے کر دھیرے دھیرے مسلنے والا سحر۔ جس کی لذت دل کو درد سہنے پر اکسائی۔ رگ و پے میں سرور بن کر تیر جانے والا درد۔ اس کا دل ہولے ہولے جیسے آہیں بھرنے لگا۔ وہ اس کیفیت میں ڈوب جانے کو تھا کہ درویش کی آواز نے اس کی سماعت میں خوشبو اتار دی۔
"عشق کا جام ہونٹوں تک نہیں پہنچا۔ یہی دُکھ لئے پھر تا ہے ناں تو؟" آہستہ سے درویش نے سر اٹھایا اور آنکھیں کھول دیں۔
طاہران سرخ سرخ ڈوروں سے لبریز آنکھوں کی چمک سے خیرہ ہو گیا۔ اس کے ہونٹ کانپی، آواز نہ نکلی۔ نظر میں غبار سا پھیل گیا۔ درویش کا دمکتا چہرہ اس کی بصارت کے حلقے میں دھندلا گیا۔
"کوئی اَن چھُوا تجھے چاہے، یہی تمنا تجھے کُو بکو خوار کرتی پھر تی ہے ناں اب تک۔ "
"بابا۔ " بمشکل طاہر کے لبوں سے نکلا اور اس سرگوشی کے بعد وہ بے زبان ہو گیا۔ کوشش کے باوجود کچھ اور نہ کہہ سکا۔ حلق میں اُگتے کانٹوں کا درد پیاس میں شدت پیدا کرتا چلا گیا۔
"پگلا ہے تو۔ " درویش اس کی آنکھوں میں دیکھے جا رہا تھا۔ " شرط لگا رکھی ہے کہ اس سے عشق کرے گا جو پہلے تجھ سے عشق کرے، جو پہلے تجھے چاہے۔ جس نے تجھ سے پہلے کسی کو نہ چاہا ہو۔ اَن چھوا ہو۔ جس کے خیالوں میں سب سے پہلے تیرا عکس ابھرا ہو۔ تو خود کسی کے لئے ایساکیوں نہیں بن جاتا۔ اَن چھوا۔ سب سے پہلا تصور۔ سب سے پہلا خیال۔ سب سے پہلا عکس۔ "
طاہر بے جان بُت کی طرح سن رہا تھا۔ سمجھ رہا تھا۔ بولنے سے معذور نہیں تھا۔ بولنا نہیں چاہتا تھا۔ صرف سننا چاہتا تھا۔ اس پر ادراک کے در وَا ہو رہے تھے۔ پرت کھل رہے تھے۔ حقیقتیں بے نقاب ہو رہی تھیں۔ اس بے حجابی میں ایک اور ہی لطف تھا۔ ایک اور ہی مزا تھا جو اس کو بے صدا کئے ہوئے تھا۔
"عشق شرطوں سے نہیں کیا جاتا۔ عشق تو اس سے بھی ہو جاتا ہے جو ہر رات کسی نئے مرد کا بستر بنتی ہے مگر جو اس پر عاشق ہوتا ہے، اسے صرف وہ نظر آتی ہے، اس کے گاہک نظر نہیں آتے۔ وہ بستر بھی نظر نہیں آتا جس پر پڑی سلوٹیں شمار نہیں ہو پاتیں۔ اس کے لئے تو وہ اَن چھوئی ہو جاتی ہے۔ عشق، اسے ایسا بینا کرتا ہے کہ اس کے سوا سب کچھ دِکھنا ختم ہو جاتا ہے۔ جانتا ہے کیوں ؟"
درویش رکا۔ طاہر کی آنکھوں میں سوال ابھرا، زبان نہ ہلی۔ تب جواب نے پر کھولے۔
"اس لئے کہ عشق کا پہلا حرف عین، عاشقِ صادق پر نازل ہو جاتا ہے۔ عین، عبادت۔ عشق کا پہلا حرف عین، عبادت سے منور ہے۔ اور عبادت کیا ہے؟ عجز۔ عبودیت۔ عشق کا بندہ عاجز ہو جاتا ہے۔ عجز نہ ہو تو عبادت نہیں ہو سکتی۔ عجز نہ ہوتا تو عشق کا پہلا حرف نہ ہوتا۔ وہ جو سب سے پہلا عشق کرنے والا ہے ناں۔ " درویش نے شہادت کی انگلی چھت کی طرف اٹھا دی۔ " اس نے جب آدم میں عشق کا عین ودیعت کیا تو ایک ایسی صفت کی شکل میں کیا، جسے اس نے اپنے لئے ممنوع قرار دے دیا۔ عجز۔ عبودیت۔ یہ آدم کے خمیر میں ڈالا۔ خود تکبر کے تخت پر بیٹھا اور استکبار کو آدم کے لئے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا۔ آدم کو بندہ، بنایا۔ اسے عبد کیا۔ اپنا عبد۔ عبداللہ۔ عین، عشق کا پہلا حرف۔ عبد میں عجز ہو گا تو وہ عبادت کے لئے عبودیت کے مرتبے پر فائز ہو گا اور عبادت جب عجز سے عبارت ہوتی ہے تو عشق کا پہلا حرف سمجھ میں آتا ہے پگلی۔ عبادت کر۔ عجز میں ڈوب کر۔ جیسے۔۔۔ "
درویش خاموش ہو گیا۔
طاہر کا سانس سینے میں رک سا گیا۔ بیتابی نے اسے شدت سے جکڑ لیا۔
"کہتے رہئے بابا۔ " وہ نشے میں ڈوبی آواز میں بولا۔ اس نے پورا زور لگا دیا تب جا کر وہ یہ چند الفاظ کہہ پایا تھا۔ اسے لگا جیسے اس کی طاقت لڑکھڑا رہی ہو۔ بے خود ہو کر اپنا آپ چھوڑ گئی ہو۔
"جیسی۔۔۔ " درویش نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ " کسی کو چاند کے داغ دکھائی نہ دئیے۔ اپنا عجز یاد رہا۔ چاند کا گرہن نظر نہ آیا۔ اپنی عبادت کے آگے سب کچھ ہیچ لگا۔ یاد آیا کچھ؟"
طاہر کے دماغ میں ریگستان سا جاگا۔ تصور میں امبر اور قمر کے ہیولے ابھرے اور معدوم ہو گئے۔
"ہاں بابا۔ " وہ شرابیوں کے انداز میں جیسے کسی کنویں کی تہہ سے بولا۔ "یاد آگیا۔ "
"عشق کا پہلا حرف۔ عین عبادت۔ یاد رکھنا۔ عبادت میں عجز لازم ہے۔ عجز نہ ہو تو عبادت نہیں ہوتی۔ عجز نہ ہو تو انسان کو خود پر عبد کے بجائے معبود ہونے کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ اپنے آپ کو چاہنا تو اس متکبر کے لئے ہے اور بس۔ کسی اور کے لئے یہ روا نہیں ہے۔ اس نے اپنے نور کو خود چاہا۔ اپنے نور سے عشق کیا۔ اپنے نور کو اپنا حبیب بنایا۔ اپنا محبوب بنایا۔ پھر ساری مخلوق کو اپنے حبیب سے عشق کا حکم دیا۔ کہا، جو مجھے پانا چاہے، وہ میرے حبیب کو چاہے۔ جو اس تک جانا چاہے۔ اسے اس کے حبیب کا منظورِ نظر ہونا پڑتا ہے۔ اس وسیلے کے بغیر وہ ہاتھ نہیں آتا۔۔۔ اور جو اس کی" اپنے آپ کو چاہنے کی صفت " سے متصف ہونا چاہتا ہے ناں ، اس پر استکبار کا رنگ چڑھنے لگتا ہے۔ تکبر سے جُڑتے ہی انسان مشرک ہو جاتا ہے۔ اور وہ کہتا ہے کہ اس کے ہاں ہر گناہ کی معافی ہے، شرک کی معافی نہیں ہے پگلی۔ "درویش نے اس کی جانب تنبیہ کے انداز میں انگلی اٹھائی۔
"بابا۔ " طاہر ساری جان سے لرز کر رہ گیا۔
"ہاں۔ " درویش نے سر ہلا کر کہا۔ " پگلا بن کر رہ۔ سیانا بننے میں جان کانٹوں پر گھسیٹی جاتی ہے۔ پگلے پن میں معافی مل جاتی ہے۔ آسانی پگلا بن کر رہنے میں ہے۔ سیانا وہ ہے جو چاہے جانے کی خواہش کا اسیر ہو جائے۔ پگلا وہ ہے جو کسی کو چاہنے لگے۔ عبد ہو جائے۔ ایک سیانا حافظ عبداللہ ہے جو چاہا گیا۔ ایک پگلی سکینہ ہے جس نے حافظ عبداللہ سے عشق کر لیا۔ اس کی عبادت میں محو ہو گئی۔ "
"بابا۔ عبد کی عبادت۔۔۔ ؟" طاہر نے حیرت سے کہا۔
"نہ نہ پگلے۔ " درویش نے کانپ کر کانوں کو چھوا۔ " عبادت تو صرف اس کی ہے جو معبود ہے۔ مگر مجاز میں خدائی بھی تو چھپا رکھی ہے اس نے۔ خود ہی تو کہتا ہے کہ اگر اپنے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو عورت اپنے مجازی خدا کو سجدہ کرتی۔ کہتا ہے کہ ماں کو ایک بار محبت سے دیکھنے کا ثواب بیٹے کو ایک حجِ مقبول کے برابر دیتا ہوں۔ عبادت نہیں کی، مگر کی ہے۔ حج نہیں کیا مگر ہو گیا۔ یہ استعارے ہیں۔ تشبیہیں ہیں۔ مثالیں ہیں۔ انہیں اسی طرح لینا چاہئے۔ عجز پیدا ہوتا ہے عبادت کی طرف رغبت سے۔ پگلی سکینہ نے حافظ عبداللہ کے سامنے عاجزی سے اقرار کیا کہ وہ اسے چاہتی ہے۔ سیانا حافظ عبداللہ اکڑ گیا کہ وہ اس کے قابل نہیں ہے۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر اس سیانے کو سمجھایاکہ پگلا بن۔ سیانا نہ بن۔ اللہ کی نعمت کا کفران نہ کر۔ شکر ہے اسے سمجھ آ گئی۔ اب سکینہ کو رغبت کے لئے راستہ مل گیا۔ عبادت میں عجز کے لئے چن لیا اس نے حافظ عبداللہ کو۔ وہ اس کی خدمت کرے گی اور عبادت کا ثواب پائے گی۔ یہ ہے عشق کے عین کی حقیقت۔ "
"بابا۔ " طاہر کے اندر چراغ سے جل اٹھے۔
"اسی لئے کہتا ہوں تو پگلا ہے۔ " درویش نے اس کی جانب پیار سے دیکھا۔ "اتنی جلدی پگلے ہی بات سمجھ بھی لیتے ہیں اور مان بھی لیتے ہیں۔ "
"اور عشق کا دوسرا حرف۔۔۔ "
"شین کی بات کر رہا ہے۔ " درویش ہولے سے ہنسا۔ " ابھی نہیں۔ پہلے عین کو تو دیکھ لے۔ جان لے۔ "
"کیسے بابا؟" طاہر اتاولے پن سے بولا۔
"صبر پگلے۔ صبر۔ " درویش نے اس کے گال کو چھوا۔ "دکھائیں گے تجھی۔ چند دن ٹھہر جا۔ ابھی لوٹ جا۔ تیرے گھر میں بھی ایک پگلی ہے۔ ابھی اس کے پاس لوٹ جا۔ تجھے چند دن بعد دکھائیں گے کہ عین کے پرت کیسے کھلتے ہیں ؟"
"تب تک میرا کیا حال ہو جائے گا بابا؟" طاہر نے درویش کے دونوں ہاتھ تھام کر سینے سے لگا لئے۔ اس کا دل یوں دھک دھک کر رہا تھا جیسے کوئی دھان کوٹ رہا ہو۔
"اچھا ہے۔ " درویش نے مسکرا کر کہا۔ ایک اطمینان اس کی آنکھوں سے جھلکا۔ "بہت اچھا ہے۔ جوت جگ گئی ہے۔ اسے انتظار کی ہوا دے۔ اس الاؤ کو بھڑکنے دے۔ اس پر ہاتھ تاپ۔ اپنی آگ پر ہاتھ تاپنے کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے پگلے۔ اپنے الاؤ پر ہاتھ تاپ۔ کباب ہونے سے پہلے کی سوندی سوندی خوشبو لے۔ اشتہا کو بڑھنے دے۔ خوب چمک جائے تو بھوک لذت دیتی ہے۔۔۔ لذت۔۔۔ " درویش نے سسکاری بھر کر آنکھیں بند کر لیں۔ " لذت سے عشق کا شین شروع ہوتا ہے پگلی۔ عشق کا شین۔۔۔ "
درویش ایک سلگتی ہوئی آہ بھر کر خاموش ہو گیا۔
طاہر کے سارے جسم میں پھریریاں سی چکر ا رہی تھیں۔ اسے لگ رہا تھا ابھی کے ابھی اس کے جسم میں پھلجھڑیاں چھوٹنے لگیں گی۔ وہ درویش کے چہرے میں گم ہو کر رہ گیا جہاں زردی چھا گئی تھی۔ سرسوں کے پھولوں جیسی۔ شفق کی ابتدا جیسی۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔ تب آہستہ سے درویش نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھوں کی سرخی اور بڑھ گئی تھی۔ طاہر اس سرخی کی لپک کو سہہ نہ سکا اور گھبرا کر نظر ہٹا لی۔
"ارے۔ میں تو بھول ہی گیا۔ " اچانک درویش کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر قبر کے تعویذ پر رکھے دو میں سے ایک گلاب جامن اٹھایا اور ہتھیلی پر رکھ کر ہاتھ طاہر کی جانب دراز کر دیا۔ "لے۔ یہ تیرا حصہ ہے۔ "
طاہر نے بسم اللہ کہہ کر ایک گلاب جامن اٹھا لیا۔
"کھا لے۔ یہ بابے شاہ مقیم کا تبرک ہے جو سکینہ اور حافظ عبداللہ کے ایک ہو جانے کی خوشی میں تیرے لئے آیا رکھا ہے۔ "
طاہر نے آہستہ آہستہ گلاب جامن کھانا شروع کیا۔ اسے لگا، اس نے ایسی لذیذ مٹھائی آج سے پہلے کبھی نہیں کھائی۔ جوں جوں وہ گلاب جامن حلق سے اتارتا گیا، اس کے جسم میں تیرتی بے چینی دم توڑتی چلی گئی۔ اس کے رگ و پے میں ایک سکون اور صبر سا پر پھیلاتا چلا گیا۔
"اور یہ لے۔ اپنی پگلی کے لئے لے جا۔ یہ صرف اسی کو دینا۔ میں اپنا حصہ اسے بھجوا رہا ہوں۔ " درویش نے دوسرا گلاب جامن ایک کاغذ میں لپیٹ کر اسے تھما دیا۔ طاہر نے سر سے رومال کھولا۔ کاغذ اس میں رکھ کر گانٹھ ماری اور کرتے کی جیب میں ڈال لیا۔
"اب جا۔ باہر وہ بونے تیرا انتظار کر رہے ہیں۔ جا۔ اللہ تیرا اندر آباد رکھے۔ " درویش نے اس کا شانہ تھپکتے ہوئے کہا۔
طاہر اٹھ کھڑا ہوا۔ قبر کے تعویذ کو پیروں کی طرف سے چھوا۔ درویش کی جانب جھکا تو اس نے ہاتھ اٹھایا اور اسے خم ہونے سے روک دیا۔
"یہ صرف اس کا حق ہے۔ " چھت کی جانب شہادت کی انگلی اٹھا کر مسکراتے ہوئے وہ بولا۔ " اس کے سوا کسی کے آگے سر جھکانا شرک ہے۔ "
سر اثبات میں ہلاتے ہوئے طاہر ایک دم سیدھا ہو گیا۔
"اللہ حافظ بابا۔ " اس نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر آنکھیں جھکائیں۔
"اللہ حافظ۔ " درویش نے ہاتھ کھڑا کیا۔
طاہر الٹے پاؤں باہر نکلا۔ چوکھٹ پر ایک پل کو رکا پھر دروازے پر چلا آیا۔ پٹ کھلے تو باہر بیتابی سے ٹہلتا ملک بلال نظر آیا۔
طاہر نے باہر قدم رکھا۔ مگر نہیں۔ یہ طاہر تو نہیں تھا۔ یہ اس کا چھوٹا مالک تو نہیں تھا۔ یہ تو کوئی اور تھا۔ کوئی اور۔۔۔ جس کے چہرے پر زردی اور آنکھوں میں آگ سی آباد تھی۔ طاہر کا چہرہ ایک عجیب سے جلال کے ہالے میں دمک رہا تھا۔ یہ کیسی زردی تھی جس پر سرخیاں نثار ہو رہی تھیں۔ یہ کیسی آگ تھی، جس میں خنکی کروٹیں لے رہی تھی۔
ملک بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ باقی کے ملازم بھی طاہر کی بدلی ہوئی حالت کو حیرت سے جانچ رہے تھے۔
"ملک۔ تم سب بھی سلام کر لو۔ میں گاڑی میں تم لوگوں کا انتظار کر رہا ہوں۔ " طاہر کہہ کر پجارو کی طرف بڑھ گیا۔
ملک نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کا حوصلہ نہ ہوا۔ آہستہ سے وہ ملازموں کی جانب مڑا۔ پھر انہیں اجناس کی بوریاں اور مٹھائی کا ٹوکرا اٹھا لانے کا کہتے ہوئے وہ مزار کی طرف چل دیا۔ اس کے آہستہ آہستہ اٹھتے ہوئے قدم اس کے کسی سوچ میں ڈوبے ہونے کے غماز تھے اور اس سوچ کا تعلق صرف اور صرف طاہر کی موجودہ حالت سے تھا۔
٭
"کیا بات ہے؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟" طاہر کمرے میں داخل ہوا تو صفیہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔
"ہاں۔ " طاہر مسکرایا۔ "کیا ہوا میری طبیعت کو۔ "
"ٹھیک نہیں لگتی۔ " وہ بیتابی سے اس کا ماتھا چھوتے ہوئے بولی۔ " رنگ دیکھئے کیسا زرد ہو رہا ہے اور جسم بھی تپ رہا ہے۔ " اس نے اس کے رخسار پر ہاتھ کی پشت رکھ دی۔
"ارے نہیں۔ تمہیں وہم ہو رہا ہے۔ " طاہر نے لاپروائی سے کہا۔ "میں بالکل ٹھیک ہوں۔ "
" آپ ٹھیک نہیں ہیں۔ " صفیہ بے قرار ہو رہی تھی۔ اس کی آواز میں فکر عود کر آیا۔ "ٹھہرئیے۔ میں آپ کا ٹمپریچر چیک کرتی ہوں۔ ابھی پتہ چل جائے گا۔ "وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف لپکی۔ دراز کھولا۔ اس میں سے تھرمو اسٹک نکالی اور واپس اس کی طرف آ گئی۔ طاہر تب تک بیڈ پر بیٹھ چکا تھا۔
صفیہ نے آتے ہی اسٹک اس کے ماتھے پر چپکا دی اور کسی ماہر نرس کی طرح رسٹ واچ پر ٹائم نوٹ کرنے لگی۔ طاہر نے اسے روکنا مناسب نہ سمجھا۔ ایک تو اسے یاد آ گیا کہ بابا نے صفیہ کے بارے میں پگلی کا لفظ استعمال کیا تھا اور دوسرے اسے علم تھا کہ صفیہ اس کے بارے میں کسی قسم کی رو رعایت سے کام نہیں لے گی۔ جب تک اس کا اطمینان نہ ہو جائے وہ اپنا کام جاری رکھے گی۔
"ارے۔ " ایک منٹ بعد اسٹک ہٹا کر جب اس نے اس پر ٹمپریچر چیک کیا تو حیرت بھری آواز اس کے لبوں سے نکلی۔ "یہ کیا؟"
"کیا ہوا؟" طاہر نے نیم دراز ہوتے ہوئے پوچھا۔
"ٹمپریچر تو نارمل ہے۔ " وہ سوچ میں ڈوب گئی۔ "مگرجسم اب بھی گرم ہے آپ کا۔ " اس نے دوبارہ اس کی گردن چھو کر دیکھی۔
"کہہ تو رہا ہوں ، میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ تمہیں وہم ہو رہا ہے۔ "
"ہو سکتا ہے یہ اسٹک خراب ہو گئی ہو۔ " وہ اب بھی یقین نہ کر رہی تھی۔ " میں بازار سے تھرمامیٹر منگواتی ہوں۔ " اس نے اسٹک تپائی پر ڈالی اور قالین پر اکڑوں بیٹھ کر طاہر کے پاؤں سے کھسہ اتارنے لگی۔ " آپ آرام سے لیٹ جائیں۔ میں آپ کے لئے کوئی ہلکی سی گولی اور چائے لے کر آتی ہوں۔ "
"پستول کی گولی کے بارے میں کیا خیال ہے؟" طاہر نے اسے ستانے کے انداز میں کہا۔
تڑپ کر صفیہ نے اس کی جانب دیکھا۔ پھر اس کے لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ پا کر اس کا چہرہ نارمل ہو گیا۔ "میں جانتی ہوں ، آپ مجھے ایسی باتوں سے دُکھ دے کر خوش ہوتے ہیں طاہر۔ لیکن پلیز، کچھ اور کہہ لیا کیجئے۔ مجھے تھپڑ مار لیا کیجئے، اپنے بارے میں ایسی بات نہ کہا کیجئے۔ " سر جھکا کر وہ اس کی جرابیں اتارتے ہوئے دھیرے سے بولی۔
"میں تو مذاق کر رہا تھا۔ " طاہر ہنس پڑا۔
"جانتی ہوں۔ " وہ پھیکے سے انداز میں مسکرائی۔ " آپ کا مذاق کسی دن میری جان لے لے گا۔ تب آپ کو یقین آئے گا کہ۔۔۔ " وہ خاموش ہو گئی۔ جرابیں اور کھسہ بیڈ کے نیچے سرکا کر اس نے طاہر کے پاؤں دونوں ہاتھوں سے سہلائے، پھر اس سے پہلے کہ طاہر کچھ سمجھ پاتا اس نے اس کے دونوں پیروں کو باری باری چوم لیا۔
"ارے ارے۔ " اس نے پاؤں کھینچ لئے۔ " یہ کیا دیوانگی ہے بھئی۔ " وہ گھبرا گیا۔
"عقیدت ہے یہ۔ " صفیہ نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔ " اس سے آپ مجھے کبھی مت روکئے گا طاہر۔ " وہ اٹھ گئی۔ "میں آپ کے لئے ڈسپرین اور چائے لاتی ہوں۔ "
"رکو۔ " طاہر نے اٹھتے ہوئے کہا۔ "اپنا تحفہ تو وصول کر لو۔ "
"یہ کیا ہے؟" طاہر نے جیب سے نکال کر رومال کا گولہ صفیہ کے ہاتھ پر رکھا تو اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
"کھول کر دیکھو۔ " طاہر نے کہا۔
صفیہ نے رومال کی گانٹھ کھولی۔ اندر سے کاغذ میں لپٹا ہوا خوشبو دیتا گلاب جامن نکلا تو اس نے حیرت سے طاہر کی جانب دیکھا۔
"بابا شاہ مقیم کے دربار کا تبرک ہے۔ وہاں کے درویش بابا نے خاص طور پر تمہارے لئے بھیجا ہے۔ کہہ رہے تھے کہ یہ صرف تمہیں دوں۔ یہ ان کا اپنا حصہ ہے جو انہوں نے تمہارے لئے رکھ چھوڑا تھا۔ "
"بسم اللہ۔ " صفیہ نے ادب سے آنکھیں بند کر کے کہا۔ " میں قربان اس تحفے کی۔ " ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو ان میں نمی سی چمک رہی تھی۔ وہ آگے بڑھی اور قالین پر، طاہر کے قدموں میں گھٹنے موڑ کر بیٹھ گئی۔
"لیجئے۔ ذرا اسے جھوٹا کر دیجئے۔ " اس نے گلاب جامن انگلیوں میں تھام کر طاہر کے ہونٹوں کی جانب بڑھایا۔
"اوں ہوں۔ " طاہر نے نفی میں سر ہلایا۔ " میں اپنا حصہ وہاں کھا آیا ہوں۔ "
"جانتی ہوں۔ " وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔ " مگر میں اپنا حصہ آپ کے بغیر کیسے کھا سکتی ہوں۔ لیجئے۔ ذرا سا ہی لے لیجئے۔ "
"مگر۔۔۔ " طاہر نے کہنا چاہا۔
"طاہر۔ " صفیہ نے گلاب جامن اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ " آپ اسے جھوٹا کر دیں گے تو میرا حصہ مجھ پر حلال ہو جائے گا۔ مجھے حرام کھانے سے بچانا آپ پر فرض ہے یا نہیں ؟"اور بے اختیار طاہر کے ہونٹ وَا ہو گئی۔ اس نے ذرا سا گلاب جامن دانتوں سے کاٹ لیا۔
"شکریہ۔ " وہ کھل اٹھی۔ پھر اس نے ہاتھ واپس کھینچا اور بچوں کی طرح گلاب جامن کھاتی ہوئی اٹھ کر چل دی۔
"پگلی۔ " بے ساختہ طاہر کے دماغ میں درویش بابا کی آواز گونجی۔ اسے بے طرح صفیہ پر پیار آ گیا، جو دروازے سے باہر قدم رکھ چکی تھی۔
اس کے جانے کے بعد طاہر بستر پر دراز ہو گیا اور ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر آنکھیں موند لیں۔ اس کے ذہن میں صبح کے واقعے کی فلم سی چلنے لگی۔ درویش کی ایک ایک بات اسے ازبر تھی۔ راستے بھر بھی وہ خاموش رہا۔ ملک بلال نے ایک دو بار کوئی بات کرنا چاہی مگر جب اس کی طرف سے کوئی خاص توجہ نہ ملی تو وہ بھی خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔
حویلی پہنچ کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا اور اب بستر پر لیٹا پھر انہی سوچوں میں ڈوب گیا جن سے رستے بھر اس کا دل اور دماغ الجھے رہے تھے۔۔
عشق کا فلسفہ آج ایک عجیب رنگ میں اس پر کھلا تھا۔ عشق کا ہر حرف اپنے اندر کیا وسعت رکھتا تھا، یہ تو اس کے لئے ایک اچنبھا تھا۔ ایک اسرار کا عالم تھا، جس میں اسے درویش نے داخل کر کے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ تھا اور درویش کی باتیں۔ ہر ہر بات ہشت پہلو تھی۔ وہ جتنا ان پر غور کرتا گیا، اس کا ذہن فراخ ہوتا چلا گیا۔ سوچوں میں روشنی پھیلتی چلی گئی۔ حیرت کا ایک جہان تھا، جو اس کے لئے اپنی باہیں پسارے اسے عشق کا مفہوم سمجھانے کے لئے جھوم رہا تھا۔ عین سے عاشقِ صادق۔ عین عجز سے عبادت، عبودیت اور عبد کے بعد اب عین سے عقیدت نے اس کی سوچوں کو اور بہت کچھ عطا کر دیا تھا۔ کہیں امبر اور قمر تھے تو کہیں حافظ عبداللہ اور سکینہ۔ اور کہیں صفیہ اور۔۔۔
صفیہ پر آ کر اس کا دماغ رک گیا۔ صفیہ۔۔۔ جس نے اسے عین عقیدت کا احساس دلایا تھا۔۔۔ اس کے ساتھ طاہر کا نام جوڑا جاتا یا سرمد کا؟ وہ الجھ کر رہ گیا۔ سرمد کے بقول وہ صفیہ کے لئے دنیا تیاگ دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔۔۔ اور وہ خود صفیہ کو دل کے تخت پر جو مقام دے کر بٹھا چکا تھا، کیا وہ سرمد کے جذبے سے کمتر نہیں تھا؟ اس کے لئے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہو گیا۔ درویش نے صفیہ کو پگلی اور اسے پگلا کہا تھا۔ یعنی ایک پگلی کے لئے ایک سیانا درکار تھا۔ کہیں وہ سیانا سرمد تو نہیں تھا؟وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ لگا جیسے اس کا دل کسی نے مٹھی میں لے کر مسل دیا ہو۔
اسی وقت صفیہ ایک منی ٹرے میں چائے کا کپ اور ڈسپرین کی گولیاں رکھے اندر داخل ہوئی۔ طاہر نے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی جانب دیکھا جومسکراتے ہوئے اس کے قریب آ چکی تھی۔
"کیا بات ہے طاہر؟" وہ جیسے اس کے دل تک پہنچ گئی۔ " دل گھبرا رہا ہے تو ڈاکٹر کو بلوا لیں۔ " اس نے ٹرے تپائی پر رکھی اور اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا جو برف کی طرح سرد ہو رہا تھا۔
"ارے۔ " اب بالکل ہی ٹھنڈا ہو گیا آپ کا جسم۔ " وہ پریشانی سے بولی۔ " یہ ہو کیا رہا ہے؟"اس نے طاہر کی طرف تشویش سے دیکھا۔
"کچھ نہیں۔ " طاہر نے سر کو ہلکاسا جھٹکا دیا۔ "تم چائے دو مجھے۔ میرا خیال ہے، ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ " اس نے بہانہ بنایا۔
"چائے تو پی لیں آپ۔ " اس نے کپ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ " مگر میں ڈاکٹر کو بلوا رہی ہوں۔ اسے چیک کر لینے دیجئے۔ "
"کیا ضرورت ہے۔ " طاہر نے اسے روکا۔ "میں نے کہا ناں ، معمولی ٹھنڈ کا اثر ہے۔ چائے پینے سے دور ہو جائے گا۔ اگر فرق نہ پڑا تو پھر ڈاکٹر کو بلوا لیں گے۔ "
"چلئے۔ یونہی سہی۔ آپ چائے پی کر آرام کریں۔ میں آپ کے لئے یخنی بنواتی ہوں۔ " صفیہ نے کمبل کھول کر اس کی ٹانگوں پر پھیلا دیا اور اس کی جانب فکر مندی سے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی۔
تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ کمرے میں لوٹی تو طاہر سینے تک کمبل اوڑھے بے خبر سو رہا تھا۔ وہ دبے پاؤں اس کے پاس آئی۔ آہستہ سے اس کا ماتھا چھو کر دیکھا۔ حرارت نارمل محسوس ہوئی تو بے اختیار اس کے لبوں سے " یا اللہ تیرا شکر ہے" کے الفاظ نکل گئے۔ اس نے جھک کر طاہر کی پیشانی کو ہلکا سا بوسہ دیا۔ لائٹ آف کی اور چائے کا خالی کپ ٹرے میں رکھ کر کمرے سے نکل گئی۔ دروازہ بیحد آہستگی سے بند کر کے جاتی ہوئی صفیہ کب جانتی تھی کہ طاہر اب بھی جاگ رہا تھا اور اس کے بوسے نے طاہر کی روح تک میں ایک سرشاری سی بھر دی تھی۔ سرمد کا خیال ایک دم اس کے دل و دماغ سے یوں محو ہو گیا جیسے اس کا کہیں وجود ہی نہ رہا ہو۔
* * *
ایک ہفتہ اور گزر گیا۔
عادل اور زبیدہ کی شادی ہو گئی۔ طاہر اور صفیہ خاص طور پر ان کی شادی میں شریک ہوئے۔ صفیہ بہت خوش تھی۔ گاؤں کی شادی اس نے پہلی بار دیکھی تھی۔ وہاں کے رسم و رواج اس کے لئے جہاں اچنبھے کا باعث تھے، وہیں دلچسپی بھی رکھتے تھے۔
زبیدہ کی رخصتی تک وہ دونوں ماسٹر محسن کے ہاں موجود رہے۔ پھر جب وہ اپنے ماں باپ، بھائی اور سہیلیوں کو آنسوؤں کے حوالے کر کے بلکتی ہوئی پیا کے گھر کو سدھار گئی تو اداس اداس صفیہ نم آنکھیں لئے طاہر کے ساتھ حویلی لوٹ آئی۔
رات وہ کتنی ہی دیر تک جاگتی رہی۔ اس کا جی چاہا وسیلہ خاتون سے بات کری۔ وقت دیکھا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ اس وقت سو گئی ہوں گی، اس نے سوچا۔ پھر صبح ان سے بات کرنے کا خیال دل میں لئے وہ طاہر کے بازو پر سر رکھ کر سو گئی، جو آنکھیں موندے نجانے کیاسوچ رہا تھا۔
صبح اٹھ کر اس نے سب سے پہلے وسیلہ خاتون کو فون کیا۔ وہ اس کی طرف سے فکرمند تھیں۔ جب اس نے انہیں اپنے بارے میں خیریت کا بتایا تو ان کی جان میں جان آئی۔ دوپہر کے قریب بیگم صاحبہ کا فون آ گیا۔ وہ اعجاز اور ڈاکٹر ہاشمی اس وقت مدینہ منورہ میں تھے اور خوش تھی۔ طاہر نے ان کی واپسی کا جان بوجھ کر نہ پوچھا۔ ایسی مقدس جگہ سے لوٹ آنے کو کس کا جی چاہتا ہے؟ وہ ان سے واپسی کا پوچھ کر گستاخی کا مرتکب نہ ہونا چاہتا تھا۔ صفیہ اور طاہر کو بہت سی دعائیں دے کر انہوں نے فون بند کیا تو صفیہ کے ساتھ ساتھ طاہر کا موڈ بھی بہت اچھا ہو چکا تھا۔
"طاہر۔ آپ بتا رہے تھے کہ آپ کو پھر بابا شاہ مقیم کے مزار پر جانا ہے۔ " وہ موبائل تپائی پر ڈالتے ہوئے بولی۔
"ہاں۔ جانا تو ہے مگر کل۔ " دن کا حساب لگاتے ہوئے اس نے بتایا۔
"میں بھی آپ کے ساتھ چلوں ؟" وہ اشتیاق سے بولی۔
"تم؟" وہ سوچ میں پڑ گیا۔
"کیوں ؟ کیا کوئی دقت ہے؟" اسے غور سے دیکھتے ہوئے صفیہ نے پوچھا۔
"نہیں۔ دقت کوئی نہیں۔ " طاہر نے صاف گوئی سے کہا۔ "دراصل بابا نے مجھے اکیلے آنے کو کہا تھا۔ "
"اچھا اچھا۔ " وہ مطمئن ہو گئی۔ "تو اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات ہے۔ آپ اکیلے چلے جائیں مگر لوٹ جلدی آئیے گا۔ پھر ٹھنڈ نہ لگوا بیٹھئے گا۔ "
"تمہیں برا تو نہیں لگا؟" طاہر نے اس کی جانب دیکھا۔
"اری۔ " وہ ہنسی۔ " برا کیوں لگے گا۔ آپ نے کہہ دیا، میں نے مان لیا۔ بس۔ "
طاہر کے دل میں ہوک سی اٹھی۔ اتنا عجز۔ اتنی فرمانبرداری۔ اتنا خلوص۔ وہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتا رہ گیا۔
اسی وقت موبائل بول پڑا۔ طاہر نے جیب سے سیٹ نکالا اور سکرین پر امبر کا نمبر دیکھ کر جلدی سے بٹن دبا دیا۔
"ہیلو سر۔ مارننگ۔ میں بول رہی ہوں امبر۔ " دوسری طرف سے وہ چہکی۔
"مارننگ۔ مارننگ۔ " طاہر ہنسا۔ "کیا حال ہے لیڈی ؟"
"بالکل ٹھیک سر۔ آپ سنائیے۔ کیسی گزر رہی ہیں چھٹیاں ؟"
"فسٹ کلاس۔ " وہ صفیہ کی جانب دیکھ کر بولا جو اس کے قریب کھڑی اشارے سے پوچھ رہی تھی کہ کس کا فون ہے۔
"امبر کا فون ہے۔ " طاہر نے ہولے سے بتایا۔
"اچھا اچھا۔ " صفیہ بھی مسکرائی اور اس کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ کر سر اس کے سر کے ساتھ جوڑ لیا۔ اب وہ بھی امبر کی باتیں سن سکتی تھی۔
"کیسا جا رہا ہے آفس؟" طاہر نے پوچھا۔
"میں نے آپ کو کسی قسم کی رپورٹ دینے کے لئے فون نہیں کیا سر۔ " امبر نے خوش گفتاری سے کہا۔ " آپ کی رپورٹ لینے کے لئے کیا ہے۔ "
" وہ تو میں نے بتا دیا لیڈی۔ " طاہر پھر ہنسا۔ امبر سے بات کرتے ہوئے اس کے ذہن میں درویش کا اس کے بارے میں "پگلی " کا لفظ گونج رہا تھا۔ وہ اسی تناظر میں اسے دیکھ اور سن رہا تھا۔ "تم سناؤ۔ تمہارے پروفیسر صاحب کیسے ہیں ؟"
"بالکل ٹھیک سر۔ THE POROUD کے معاملات میں میرا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ "
"مفت کام نہ لیتی رہنا ان سے۔ گھر کے مرغے کو دال برابر سمجھو گی تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ "
"اس کی آپ فکر نہ کریں سر۔ " امبر اس کے کمنٹ پر ہنس ہنس کر بے حال ہو گئی۔ " آپ کی اس بات پر میں آپ کی چھٹی مزید کتنی ایکسٹنڈ کر دوں ؟"
"ابھی پہلی چھٹی ختم ہونے میں تین دن باقی ہیں بھئی۔ " طاہر نے جلدی سے کہا۔
"اسی لئے تو کہہ رہی ہوں سر کہ آج میرا موڈ بہت اچھا ہے، فائدہ اٹھا لیجئے۔ "
"تو پھر یہ بھی تم پر رہا کہ تم ہمیں اور کتنی چھٹی دے سکتی ہو۔ " طاہر شگفتگی سے بولا۔
"اگر میری مرضی پر بات ٹھہری ہے تو سر، آپ جب جی چاہے لوٹئے گا۔ آپ کے لئے کھلی آفر ہے۔ "
"واقعی؟" طاہر نے حیرت سے پوچھا۔
"یس سر۔ جب جی چاہے آئیے گا۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ "
"مگر امبر۔۔۔ "
"پروفیسر صاحب کو کالج سے تین ماہ کی چھٹی مل گئی ہے سر۔ اب میرے پاس وقت ہی وقت ہے۔ "
"اوہ۔ تو یہ بات ہے۔ میں بھی کہوں اتنی نوازش کا سبب کیا ہے؟"
"شکریہ امبر۔ " اچانک بیچ میں صفیہ بول پڑی۔ " آپ نے بہت اچھا کیا جو انہیں مزید کچھ عرصے کے لئے ٹینشن فری کر دیا۔ "
"ارے۔ آپ بھی وہیں ہیں صفیہ جی۔ " امبر کا موڈ اور خوشگوار ہو گیا۔ "بہرحال میں نے اکیلے سر کو نہیں ، آپ کو بھی ان کے ساتھ مزید انجوائے کرنے کا وقت دیا ہے۔ " اور صفیہ نے جھینپ کر سر پیچھے ہٹا لیا۔ "اوکے۔ آلویز بی ہیپی اینڈ بائی۔ " امبر نے ہنستے ہوئے رابطہ ختم کر دیا۔
طاہر نے موبائل جیب میں ڈالا اور انگڑائی لی۔ ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور دروازے کی جانب چل پڑا۔
"میں ڈیرے پر جا رہا ہوں۔ دوپہر کا کھانا وہیں کھاؤں گا۔ " کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
صفیہ اٹھی اور کرسی پر جا بیٹھی۔ ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی آن کر دیا۔
امبر کی باتوں نے اس کا حال عجب کر دیا تھا۔ اس کا بدن ایک دم ٹوٹنے لگا۔ ایک دم تھکن نے گھیر لیا۔ وہ اپنی یہ حالت طاہر پر ظاہر نہ ہونے دینا چاہتی تھی۔ امبر کیا سمجھ رہی تھی، اسے اس کا احساس ہوا تو جذبات میں جوار بھاٹا سا اٹھا مگر وہ امبر کو کیا بتاتی کہ جب سے طاہر نے سرمد کی باتیں سنی تھیں اور اس کے ساتھ گھر لوٹا تھا، تب سے آج تک و ہ دونوں ہر وقت ایک ساتھ ہوتے ہوئے بھی اتنے ہی دور تھے، جتنا شادی سے پہلے۔
صبح کے نو بجے تھے جب مقررہ دن طاہر اکیلا ہی پجارو میں بابا شاہ مقیم کے مزار پر جا پہنچا۔ اس نے ملک یا کسی اور ملازم کو ساتھ نہ لیا۔ ہاں ملک بلال کو اتنا بتا دیا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ ساتھ ہی منع کر دیا کہ کوئی اس کے پیچھے نہ آئے۔
درویش اسے مزار کے باہر ہی مل گیا۔ وہ گاڑی سے اترا اور اس کے پاس چلا آیا۔
" آ گیا پگلے۔ " وہ اسے دیکھ کر معصومیت سے مسکرایا۔
"جی بابا۔ " اس نے ادب سے جواب دیا۔
"چلیں ؟" درویش نے پوچھا۔
"ضرور بابا۔ " یہ پوچھنے کو اس کا جی ہی نہ چاہا کہ کہاں جانا ہے؟ "مگر۔۔۔ " اس نے مزار کی طرف دیکھا۔
"سلام کرنا چاہتا ہے؟" درویش مسکرایا۔ " بابا شاہ مقیم وہاں۔۔۔ " درویش نے مزار کی جانب اشارہ کیا۔ " اندر موجود نہیں ہے۔ کہیں گیا ہوا ہے۔ اینٹ روڑوں کو سلام کرنا ہے تو یہیں سے کر لے۔ کیا خیال ہے؟ " وہ ہنسا۔ " آ جا۔ چلیں۔ "اور وہ سر جھکائے اس کے ساتھ چل پڑا۔ ان کا رخ نور پور گاؤں کی جانب تھا۔
گاؤں میں داخل ہوئے تو جگہ جگہ لوگوں نے درویش کو سلام کیا۔ وہ جواب دیتا ہوا، طاہر کو ساتھ لئے نور پور کی اکلوتی مسجد پر چلا آیا۔ مسجد کا دروازہ بھڑا ہوا تھا۔
درویش نے دروازہ کھول دیا۔ دونوں اندر داخل ہوئے۔ اب وہ جہاں کھڑے تھے وہ ڈیوڑھی نما جگہ تھی جو نمازیوں کے جوتیاں اتارنے کے لئے تھی۔ اس کے بعد سامنے مسجد کا صحن اور اس کے بعد مسجد کی عمارت۔ صحن میں دائیں ہاتھ وضو خانہ بنا ہوا تھا۔ جس کے آخر پر طہارت خانے کے بعد چھوٹی سی کھوئی کے اوپر چرخی اور اس میں رسی سے بندھا چمڑے کا ڈول دکھائی دے رہا تھا۔ بائیں ہاتھ حافظ عبداللہ کا حجرہ تھا، جس کی دیوار آگے کی جانب مسجد کے ساتھ جا ملی تھی۔ حجرے کی مسجد کے صحن میں کھلنے والی کھڑکی کے پٹ وَا تھے۔
"پگلے۔ " درویش نے اپنے دائیں ہاتھ کھڑے طاہر کی طرف دیکھا۔ " عشق کے عین کا نظارہ کرنے کے لئے تیار ہو جا۔ "
طاہر کا دل زور سے دھڑکا اور رگوں میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔ نجانے اس کے سامنے کیا آنے والا تھا۔ درویش نے قدم آگے بڑھایا اور کھلی کھڑکی کے قریب جا کھڑا ہوا۔ طاہر اس کے ساتھ تھا۔
اندر کا منظر دیکھ کر طاہر کو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر نجانے کیوں اسے لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ ایسا خواب جو دھند بن کر اس کی آنکھوں میں غبار اڑا رہا ہے۔ چمکیلا، رگوں میں سنسناہٹ دوڑاتا، دماغ کے بند دریچوں کو پُر شور آواز کے ساتھ کھولتا ہوا خواب۔
دلہن کے لباس میں ملبوس جواں سال خوبصورت گوری چٹی سکینہ، اپنے سامنے چٹائی پر بیٹھے باریش، سانولے اور واجبی سی شکل کے حامل حافظ عبداللہ کو اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرا رہی تھی۔ وہ روٹی کا لقمہ توڑتی۔ اسے سالن لگاتی اور حافظ عبداللہ کے ہونٹوں کی طرف بڑھا دیتی۔ بچوں کی طرح حافظ عبداللہ منہ کھول کر لقمہ لے لیتا۔ پھر وہ گود میں پڑے اپنے لنجے ہاتھ سے ہونٹ صاف کرنا چاہتا تو وہ بڑی نرمی سے اسے روک دیتی۔ اس کے لنجے ہاتھ کو تھام کر چومتی۔ پھر اپنے گوٹے کناری سے سجے سرخ دوپٹے کے پلو سے اس کے ہونٹوں کو ارد گرد سے صاف کرتی۔ طاہر نے صاف دیکھا کہ حافظ عبداللہ کی آنکھوں میں شبنم لبالب تھی۔ لگتا تھا وہ کسی وقت بھی چھلک پڑے گا۔ نجانے کیوں ؟
طاہر کو لگا جیسے اس کے سامنے جنت کے باسیوں کا کوئی منظر چل رہا ہو۔ ایک حور اپنے مالک کی خدمت کر رہی تھی۔
"یہ ہے عشق کا عین پگلے۔ عبادت، عجز، عقیدت۔ " درویش کی بیحد آہستہ سی آواز نے طاہر کو ہوش و حواس کی دنیا میں کھینچ لیا۔ " وہ پگلی ایسا کیوں کر رہی ہے اور وہ سیانا کیوں اندر سے بلک رہا ہے؟ آ۔ تجھے عین کے ہجے کر کے بتاؤں۔ "
کھڑکی سے ہٹ کر وہ حجرے کے دروازے پر آ گئے۔ درویش نے ایک پل کو کچھ سوچا پھر آہستہ سے دستک دی۔
"کون؟" اندر سے حافظ عبداللہ کی آواز ابھری۔
"اللہ والیا۔ تیرے ہاں مہمان آیا ہے۔ " درویش نے جواب میں کہا اور کوئی جیسے بڑی جلدی میں اٹھ کر دروازے کی طرف لپکا۔ ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور درویش کے پیچھے کھڑے طاہر نے دیکھا، ان کے سامنے حافظ عبداللہ حیران حیران کھڑا تھا۔ پھر اس نے جلدی سے اپنی آستین سے آنکھیں خشک کر ڈالیں۔
"ارے بابا آپ۔۔۔ " اسے جیسے یقین نہ آ رہا تھا۔ نظر طاہر پر پڑی تو وہ اور کھل گیا۔ " آئیے ناں بابا۔ آئیے۔ آپ بھی آئیے جی۔ باہر کیوں کھڑے ہیں۔ " وہ انہیں راستہ دیتا ہوا ایک طرف ہٹ گیا۔
درویش اور طاہر آگے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ کھلی کھڑکی سے آتی سورج کی روشنی سے منور کمرہ جیسے ان کے استقبال کے لئے مسکرا رہا تھا۔
"سلام بابا۔ " چٹائی پر بیٹھی سکینہ اٹھ کھڑی ہوئی اور درویش کے آگے سر جھکا دیا۔
"کیسی ہے تو اللہ والئے؟" درویش نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"نہال ہوں بابا۔ سُکھ میں ہوں۔ " وہ ہنس کر بولی۔
"سُکھی رہے گی تو۔ میرے رب کے حکم سے۔ " وہ پیار سے بولا۔ "لگتا ہے تم لوگ کھانا پینا کر رہے تھے۔ " درویش نے چٹائی پر برتن پڑے دیکھ کر کہا۔
"ہاں بابا۔ ناشتہ کر رہے تھے۔ آپ بیٹھئے ناں۔ میں آپ کے لئے بھی ناشتہ بناتی ہوں۔ " اس نے اب تک ایک بار بھی طاہر کی جانب نہ دیکھا تھا۔
"بیٹھتے ہیں۔ بیٹھتے ہیں۔ " درویش نے چپل اتار دی اور طاہر اس کی تقلید میں چٹائی پر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ سکینہ کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔ سہاگ کی چادر سے خود کو ڈھکے، وہ اسے کوئی ایسا محل نظر آ رہی تھی جس میں غلیظ ہوا کے کسی جھونکے کے داخلے کے لئے کوئی روزن موجود نہ ہو۔ حافظ عبداللہ بھی دروازہ بھیڑ کر ان کے پاس آ بیٹھا۔
"لے بھئی پگلے۔ یہ ہے حافظ عبداللہ۔ اس کی کہانی تو تجھے ہم بعد میں سنائیں گے پہلے اپنی بیٹی سے یہ کہہ دیں کہ ہمارے لئے صرف چائے بنائے۔ "
" اچھا بابا۔ " سکینہ مسکرا کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
حافظ عبداللہ نے کھانے کے برتنوں پر رومال دے کر انہیں ایک طرف سرکا دیا۔ درویش نے اس کے ہاتھ پر نظر ڈالی۔
"کیا حال ہے حافظ اس نشانی کا؟"
"بس۔ ٹھیک ہو گیا ہے بابا۔ اب اس سے تھوڑا بہت کام لینے لگ گیا ہوں۔ " حافظ عبداللہ نے اپنے چُرمرائے ہوئے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"جانتا ہے، اس ہاتھ کے ساتھ کیا کیا میرے اوپر والے نے؟" درویش نے اچانک طاہر کا رخ کر لیا۔
"کیا بابا؟" حافظ عبداللہ کے ہاتھ کو دیکھتا ہوا طاہر ہمہ تن گوش ہو گیا۔
اور حافظ عبداللہ کا سر جھک گیا۔ درویش نے کہنا شروع کیا تو طاہر کے اندر روزن کھلتے چلے گئے۔ روشنی اور رنگوں کے فوارے چھوٹنے لگی۔ اس کی حیرت فزا آنکھیں حافظ عبداللہ کے چہرے کا طواف کرتی رہیں جہاں سوائے حیا کے کچھ نہ تھا۔ شاید وہ داستان میں اپنی تعریف پر خود کو شرمندہ شرمندہ محسوس کر رہا تھا۔
"یوں میری پگلی نے اس سیانے کو اپنے پلو سے باندھ لیا۔ اس کا یہ ہاتھ، جو بظاہر دیکھنے میں لنجا لولا لگتا ہے، میرے رب کی مہر کی وہ نشانی ہے، جس کے آگے دنیا کی ساری خوبصورتیاں ہیچ ہیں۔ کیوں پگلی، ٹھیک کہا ناں میں نے؟" درویش نے اسے چمکتی آنکھوں سے دیکھا۔
"ہاں بابا۔ " طاہر کے حلق سے بڑی چھلکتی ہوئی آواز نکلی۔ "ایسے ہاتھ نصیبوں والوں کے ہوتے ہیں۔ "
"ہاں۔ " درویش بچوں کی طرح خوش ہو کر بولا۔ "یہی تو میں کہتا ہوں۔ ایسے ہاتھ نصیبوں والے کے ہوتے ہیں جنہیں کوئی دم دم بوسے دیتا رہے۔ چومتا رہے۔ "
"بابا۔ " حافظ عبداللہ نے آبدیدہ ہو کر سر جھکا لیا۔ " سکینہ تینوں وقت مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہے۔ ہر نماز کے لئے وضو کراتی ہے۔ میرے اس ناکارہ ہاتھ کو سو سو بوسے دیتی ہے۔ مجھے ہر وہ کام کرنے سے روک دیتی ہے جو مجھے اس ہاتھ سے کرنا ہوتا ہے۔ وہ میرا دایاں ہاتھ بن گئی ہے بابا۔ " حافظ عبداللہ کی آواز بھرا گئی۔
"وہ بھی تو اپنے اس بندے کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ زبان بن جاتا ہے۔ کان بن جاتا ہے۔ آنکھ بن جاتا ہے جو اس کے لئے اپنا آپ تیاگ دیتا ہے۔ عاجز ہو جاتا ہے۔ عبودیت کی سیڑھی پر پاؤں رکھ دیتا ہے۔ عشق کے عین کے رستے پر چل پڑتا ہے۔ " درویش نے وجد میں آ کر کہا۔
"کیا میں غلط کرتی ہوں بابا؟" اسی وقت سکینہ چائے کے تین پیالے پلاسٹک کے پھولدار ٹرے میں رکھے آ گئی اور ٹرے ان کے سامنے چٹائی پر رکھ دی۔
درویش نے طاہر کی جانب نظر کی، جو حیران حیران سا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں دیے سے جل رہے تھے۔ لو دے رہی تھیں اس کی آنکھیں۔
" کیا مجھے عبادت نہیں کرنی چاہئے ؟"
"کرنی چاہئے میری پگلی بیٹی۔ کرنی چاہئے۔ " درویش کا حلق آنسوؤں سے بھرا ہوا تھا۔ " یہ اگر کبھی تجھے روکے ناں۔ تو اس کی بات کبھی نہ ماننا۔ اپنی سی کرتی رہنا۔ یہ سیانا ہے۔ کبھی اسے خیال آ گیا ناں کہ تیری نیکیاں بڑھتی جا رہی ہیں ، تیری عبادت پہ رنگ آ رہا ہے تو شاید رشک کے مارے تجھے روکنا چاہے مگر اس وقت اس کی نہ ماننا۔ اپنے اللہ کی کہی کرنا۔ وہ کہتا ہے ناں کہ جس کا مالک اس سے راضی، وہ بھی اس سے راضی۔ تو اپنے دونوں مالکوں کو راضی کرتی رہنا۔ ایک کی خدمت اور دوسرے کی عبادت میں بڑا گہرا تعلق ہے پگلی۔ تو نے یہ جان لیا ہے۔ بس اس بھید کا دامن نہ چھوڑنا۔ مضبوطی سے پکڑ ے رکھنا اسے۔ "
"جی بابا۔ "
"کیوں پگلے۔ عشق کے عین کی حقیقت پلے پڑی؟" درویش نے چائے کا پیالہ اس کے آگے سرکایا۔
"ہاں بابا۔" وہ جلتی ہوئی آواز میں بولا۔
"تو پھر اس کی خدمت کو قبول کر کے بھی کیوں انجان بنا رہتا ہے؟ کیوں اس کی عبادت کو صبر کے کانٹوں پر ڈال دیتا ہے؟ وہ جو تیرا ماتھا چوم کر کمرے سے نکل جاتی ہے، اسے آنسوؤں سے وضو کرا کے تیرے من کو سکون ملتا ہے کیا؟"
"نہیں بابا نہیں۔ "وہ جلدی سے بول اٹھا۔ "بس۔ اندر ایک پھانس سی چبھ گئی ہے۔ وہ نہیں نکلتی۔ " وہ بے بسی سے بے حال ہو گیا۔
"نکل جائے گی۔ نکل جائے گی۔ " درویش نے اس کے کندھے پر ہاتھ پھیرا۔ "ابھی یہ تبرک حلق سے اتار۔ "
بڑے ضبط سے کام لیتے ہوئے طاہر نے آنکھوں کو چھلکنے سے روکا۔ پھر آستین سے چہرہ صاف کیا اور چائے کا پیالہ اٹھا لیا۔ حافظ عبداللہ اور سکینہ بھی چٹائی کے ایک کونے پر بیٹھ گئے۔
"سکینہ بیٹی۔ ایک بات تو بتا۔ " درویش نے طاہر کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"جی بابا۔ " اس نے پلکیں اٹھائیں۔
"تو نے میرے ساتھ آئے اس مشٹنڈے سے پردہ کیوں نہیں کیا؟" درویش کا اشارہ طاہر کی طرف تھا۔
"میں نے انہیں دیکھا ہی نہیں بابا۔ " وہ سادگی سے بولی۔ " اور جو نظر ہی نہ آئے اس سے پردہ کیسا؟"
"اللہ۔۔۔۔ " درویش نے بے اختیار ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور یوں جھومنے لگا جیسے اس پر جذب طاری ہو گیا ہو۔ "ٹھیک کہتی ہے پگلی۔ جو دکھائی نہ دے اس سے پردہ کیسا؟ وہ بھی تو دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لئے تو اس سے بھی پردہ نہیں کیا جاتا۔ اس سے پردہ کیسا؟ اس سے پردہ کیسا؟" وہ بڑبڑائے جا رہا تھا۔
"چل پگلی۔ آ جا۔ چلیں۔ " ایک دم درویش اٹھ کھڑا ہوا۔ " یہ تو بہت آگے چلی گئی۔ اسے تو حافظ کے سوا کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ آ جا۔ چلیں۔ اس نے عبادت کی منزل کو چھو لیا ہے۔ عشق کا عین اس پر کھل گیا ہے بابا۔ عین کا در اس پر وَا ہو گیا ہے۔ " درویش کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
طاہر اس کے پیچھے لپکا۔ درویش بڑبڑاتا ہوا مسجد سے باہر نکل چکا تھا۔ طاہر نے پلٹ کر دیکھا۔ حافظ عبداللہ اور سکینہ اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑے اسی کی جانب دیکھ رہے تھے۔ اس کی نظریں حافظ عبداللہ سے ملیں تو دونوں بے اختیار مسکرا دئیے۔ لرزتا ہوا نچلا ہونٹ دانتوں میں داب کر اس نے حافظ عبداللہ کی جانب ہاتھ ہلایا۔ جواب میں اس نے بھی اپنے جلے ہوئے ہاتھ سے اس کی جانب اشارہ کیا تو وہ جلدی سے مسجد کا دروازہ پار کر گیا۔ آنکھوں میں چھا جانے والی دھند کے پار دیکھا تو درویش اس سے کتنی ہی دور بھاگتا ہوا گلی کا موڑ مڑ رہا تھا۔ طاہر نے خود کو تیز قدموں سے اس کی آواز کے تعاقب میں ڈال دیا، جو ہوا کے دوش پر لہرا لہرا کر رقص کر رہی تھی۔
"اس سے پردہ کیسا؟
اس سے پردہ کیسا؟
اس سے پردہ کیسا؟"
* * *
طاہر اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا مگر درویش کو زمین نگل گئی تھی یا آسمان، اس کا پتہ نہ چلا۔ وہ پاگلوں کی طرح اسے تلاش کرتا ہوا بابا شاہ مقیم کے مزار پر آیا۔ درویش وہاں بھی نہیں تھا۔ طاہر کا حال عجیب ہو رہا تھا۔ اس کا دل اس کے قابو میں نہ تھا۔ جی چاہتا تھا وہ کپڑے پھاڑ کر جنگلوں میں نکل جائے۔ اس کا رنگ ایک دم سرخ ہو گیا۔ لگتا تھا ابھی رگیں پھٹ جائیں گی اور خون ابل پڑے گا۔ سینے میں ایک الاؤ سا دہکنے لگا تھا جس کی لپٹیں اسے جھلسائے دے رہی تھیں۔ سکون کس چڑیا کا نام ہے؟ وہ بھول گیا تھا۔ قرار کسے کہتے ہیں ؟ اسے یاد نہ تھا۔ بے کلی تھی کہ اسے آگ کے پالنے میں جھُلا رہی تھی۔
"بابا۔۔۔۔ " اس نے بے بس ہو کر پورے زور سے صدا دی اور چررر چررر کی آواز کے ساتھ اس کا گریبان لیر لیر ہو گیا۔ چیتھڑے اڑ گئے۔ اس نے اپنے بال نوچ لئے۔ گھٹنوں کے بل وہ کچی زمین پر گرا اور دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر ہچکیاں لینے لگا۔
وہ دیوانوں کی طرح رو رہا تھا۔ آہیں بھر رہا تھا۔ اس کی سسکیوں میں کوئی فریاد بار بار سر اٹھاتی اور دم توڑ دیتی۔ وہ کیا کہہ رہا تھا؟ کس سے کہہ رہا تھا؟ کون جانے۔ ہاں ، ایک بابا شاہ مقیم کا مزار تھا جو روشن دھوپ میں سر اٹھائے اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی اس حالت کا گواہ ہو رہا تھا۔
دوپہر سے شام ہوئی اور شام سے رات۔ درویش نے آنا تھا نہ آیا۔
وہ کسی بے آسرا، بے سہارا، بے زبان کی طرح اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے خاک کے فرش پر سر جھکائے بیٹھا رہا۔ اس کا ذہن سفید لٹھے کی طرح کورا ہو چکا تھا۔ کوئی سوچ، کوئی خیال، کوئی شبیہ اس پر ابھر ہی نہ پا رہی تھی۔ بالکل خالی الذہنی کے عالم میں وہ وہاں یوں بیٹھا تھا جیسے دنیا اور دنیا والوں سے اس کا تعلق ٹوٹ چکا ہو۔
گھٹنے کھڑے کئے، ان کے گرد دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے سے تھامے، سر جھکائے، آنکھیں بند کئے وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر بیٹھا تھا کہ ایک آہٹ نے اسے اپنا سُتا ہوا چہرہ اٹھانے پر مجبور کر دیا۔
آہستہ سے اس نے سر گھمایا۔ دائیں دیکھا۔ کچھ نہ تھا۔ بائیں دیکھا۔ خاموشی مہر بہ لب تھی۔ مگر یہ اس کا وہم نہیں تھا۔ اس نے کسی کے تیز تیز قدموں سے پتوں اور گھاس پر چلنے کی آواز سنی تھی۔ اسی وقت وہ آواز پھر ابھری۔ اب اس کے ساتھ کسی کی صدا بھی ابھری۔
وہ تڑپ کر کھڑا ہو گیا۔ اس آواز کو تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔
"اس سے کیسا پردہ؟" درویش کی آواز اب کے صاف سنائی دی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اسے آواز کی سمت کا اندازہ ہو گیا۔ بابا شاہ مقیم کے مزار کے عقب میں ایک چھوٹا سا قبرستان تھا، آواز اسی طرف سے آ رہی تھی۔ وہ دیوانہ وار اس طرف بھاگا۔
درویش قبرستان میں تیز تیز قدموں سے ٹہل رہا تھا۔ اسے کوئی ہوش نہ تھا کہ اس کے پاؤں تلے آنے والے کانٹے اسے زخم زخم کئے دے رہے ہیں۔ اس کے کپڑے تار تار ہو چکے تھے۔ بالوں میں خاک اور جسم پر مٹی نے تہہ جما دی تھی۔ وہ جذب کے عالم میں قبرستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہر شے سے بیگانہ ٹہل رہا تھا۔ کبھی کبھی آسمان کی طرف دیکھ لیتا۔ پھر اس کے ٹہلنے میں اور شدت آ جاتی۔ ہونٹوں پر ایک ہی فقرہ تھا جو کبھی نعرہ بن جاتا اور کبھی سرگوشی۔
"اس سے پردہ کیسا؟ اس سے پردہ کیسا؟ اس سے پردہ کیسا؟"
طاہر گرتا پڑتا اس کے قریب پہنچا اور پھر ایک بار جب وہ پلٹ کر قبروں کے درمیان سے دوسری جانب جانے کو تھا کہ وہ اس کے قدموں سے جا لپٹا۔
"بابا۔ "
"ارے۔۔۔ " ایک دم درویش کی زبان تھم گئی۔ " پگلے۔ تو ابھی یہیں ہے؟" وہ اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ "
"بابا۔ " طاہر نے اس کے ہاتھ تھام کر اپنا ماتھا ان پر ٹکا دیا۔ "میں کہاں جاؤں اب؟" اس کا بھیگا ہوا لہجہ تھکان سے لبریز تھا۔
"کہاں جاؤں سے کیا مطلب؟" سسکتے ہوئے طاہر پر درویش کی نظریں جم سی گئیں۔ "ارے۔ واپس جا۔ "
"واپس کہاں بابا؟" طاہر نے برستی ہوئی آنکھیں درویش کی جانب اٹھائیں۔ چٹکی ہوئی چاندنی میں وہ دونوں قبرستان کے خاموش ماحول میں دو روحوں کی طرح ہمکلام نظر آ رہے تھے۔ "مجھے تو کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ کوئی راستہ سامنے نہیں ہے جس پر چل کر میں جہاں سے آیا تھا وہاں لوٹ کر جا سکوں۔ "
"پگلا ہوتا جا رہا ہے تو واقعی۔ " درویش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ "اور یہ تو نے اپنا حال کیا بنا لیا ہے؟"
"پتہ نہیں بابا۔ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہونے والا ہے؟"
"چل۔ ادھر چلتے ہیں۔ یہ تیری جگہ نہیں ہے۔ چل۔ " درویش نے اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکالی۔ اسے اٹھایا اور دونوں ایک دوسرے کے سہارے کمرے میں چلے آئے۔ وہاں تک آتے آتے طاہر کی حالت کافی سنبھل گئی۔ طبیعت میں ٹھہراؤ سا آ گیا اور الاؤ کی دہک میں کمی بھی۔
کمرے میں داخل ہو کر چٹائی پر بیٹھتے ہی ایک دم طاہر گھبرا گیا۔ اس کی نظر درویش کے پیروں پر پڑی جو لہو لہان ہو رہے تھے۔ کانٹوں نے اس کی پنڈلیوں تک کو خون میں نہلا رکھا تھا۔ خون اور مٹی میں لتھڑے اس کے پاؤں دیکھ کر وہ تھرا گیا۔
"بابا۔ آپ تو زخمی ہیں۔ " اس نے بے اختیار اس کے پاؤں چھو لئے۔
"اچھا۔ " درویش نے حیرت سے اپنے پیروں کی جانب دیکھا۔ "یہ کیسے ہو گیا؟"
" آپ یہیں بیٹھئے۔ میں پانی لاتا ہوں انہیں دھونے کے لئے۔ "طاہر اٹھا اور درویش کے روکتے روکتے کمرے سے نکل گیا۔ دوسرے کمرے میں بھی کچھ نہ ملا تو وہ مزار کے صحن میں چلا آیا۔ دروازے کے پاس ہی ایک میلا سا سٹیل کا جگ پڑا تھا۔ اس نے اس میں ہینڈ پمپ سے پانی نکالا اور واپس لوٹ آیا۔
درویش سرہانے بانہہ دھرے چٹائی پر آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔ طاہر نے اپنے پھٹے کرتے کے دامن سے ایک ٹکڑا پھاڑا اور درویش کے پاس بیٹھ گیا۔ کپڑے کو جگ کے پانی میں بھگو بھگو کر وہ درویش کے زخم صاف کرنے لگا اور بڑی نرمی سے تلووں سے کانٹے نکالنے لگا۔ درویش یوں بے حس و حرکت پڑا تھا جیسے بڑے آرام سے سو رہا ہو۔ طاہر اس کے کانٹے نکالتا رہا۔ خون اور مٹی صاف کرتا رہا۔ زخم برہنہ ہوتے چلے گئی۔ جگہ جگہ سے گوشت اڑ گیا تھا۔ اذیت کا احساس ہوا تو طاہر کا دل بھر آیا۔
"پگلے۔ " اچانک درویش نے آنکھیں کھول دیں۔ " رات بہت جا چکی۔ اب گھر جا۔ "
"نہیں بابا۔ " طاہر نے نفی میں سر ہلایا اور اس کے پیروں میں بیٹھ گیا۔ " اب کسی گھر کی یاد دل میں باقی رہی ہے نہ کہیں جانے کو جی چاہتا ہے۔ مجھے یہیں اپنے قدموں میں پڑا رہنے دیں۔ "
"نہیں رے۔ " درویش نے پاؤں سمیٹ لئے اور اٹھ بیٹھا۔ "تو اکیلا نہیں ہے۔ کوئی اور بھی بندھا ہے تیرے نام سے۔ اس کا حق مارے گا تو وہ ناراض ہو جائے گا۔ " درویش نے اوپر کی جانب دیکھا۔
"میں اسے آزاد۔۔۔ "
"بس۔ " درویش نے سختی سے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ "ایک لفظ اور نکالا تو راندہ درگاہ ہو جائے گا۔ " وہ بھڑک اٹھا۔ " اپنی مستی کے لئے اسے خود سے الگ کرنا چاہتا ہے۔ پگلے۔ اس کی تو اجازت ہی نہیں ہے۔ "
"تو پھر میں کیا کروں بابا؟" وہ بے بسی سے نم دیدہ ہو گیا۔ " میں کیا کروں ؟ ایک پھانس ہے جو اس دل میں اٹک گئی ہے۔ نکلتی ہی نہیں۔ "
"نکالنا ہی پڑے گی۔ " درویش آنکھیں موند کر بڑبڑایا۔ "تو نے ہمارے کانٹے نکالے ہیں۔ اب تیری پھانس بھی نکل ہی جانی چاہئے۔ "اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔
"ادھر دیکھ۔ " وہ تحکم سے بولا۔
بے اختیار طاہر کی نظریں اٹھیں اور درویش کی نظروں میں مدغم ہو گئیں۔
"یہ جو تیرے اندر پھانس اٹکی ہوئی ہے ناں۔ یہ پھانس نہیں ہے، عشق کا دوسرا حرف ہے۔ شین۔ کیا سنا تو نے؟ عشق کا دوسرا حرف شین ہے یہ۔ جانتا ہے شین کس کی علامت ہے؟ مگر نہیں تو کیسے جانے گا؟ تو تو بس اسے دل میں اتار کر بے خبر ہو گیا۔ یہ نہ سوچا کہ یہ حرف تیرے دل میں اترا کیسے؟ کیوں اترا؟"
طاہر بُت بنا درویش کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ اس کے اندر ایک عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ عشق کے عین نے اس کا یہ حال کر دیا تھا جو اس کے ساتھ بیتا بھی نہ تھا۔ اور عشق کا شین اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا جو اس کے اندر پھانس بن کر اٹکا ہوا تھا۔ اس کے دل میں اندر تک اترا بیٹھا تھا۔
اس کا جی چاہا، درویش سے کہے۔ "بابا، رکو مت۔ بولتے رہو۔ بولتے رہو۔ " اس کے بولنے میں سُکھ تھا۔ سکون تھا۔ ٹھہراؤ تھا۔ فیض تھا۔ ایسا فیض جو طاہر کی بے کلی کو تسلی کی چادر سے ڈھانپ لیتا تھا۔ تشفی کے دامن میں سمیٹ لیتا تھا۔
"شین۔۔۔ " درویش نے آنکھیں بند کر لیں اور ایک سسکی لی۔ " عشق کے پہلے حرف عین سے عبادت۔ عجز میں ڈوبے عبد کی عبادت اور عقیدت ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ عبادت، جیسی سکینہ کر رہی ہے۔ جیسی تیرے گھر میں ہو رہی ہے۔ جیسی تیرے شہر میں داغدار قمر کے دامن میں پھول کھلا رہی ہے۔ اور اب عشق کادوسرا حرف شین۔ " درویش ایک لمحے کو رکا۔ پھر اس کی آواز ابھری تو نشے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ خمار آلود، بھرائی ہوئی۔ طاہر اپنے آپ سے بے خبر ہوتا چلا گیا۔ اسے صرف درویش کی خوشبو سے بوجھل، تپش سے لبریز آواز سنائی دے رہی تھی۔ نہیں۔ سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بے خودی کا شہد تھا جو قطرہ قطرہ اس کے کانوں میں ٹپک رہا تھا۔ اس کے دل پر شبنم بن کر اتر رہا تھا۔
"عشق حقیقی تک پہنچنے کے لئے عشق مجازی ضروری ہے۔ جیسے کسی چھت تک پہنچنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھت پر پہنچ کر سیڑھی سے الگ ہو جانا ایک قدرتی امر ہے۔ سیڑھی کے بغیر چھت پر پہنچنا غیر فطری ہے۔ ہاں جو پیدا ہی چھت پر ہوا ہو اس کے لئے سیڑھی کی ضرورت نہیں پڑتی مگر ہم عام اور بے حیثیت انسانوں کے لئے وسیلہ اور حیلہ دونوں ضروری ہیں۔ کبھی سیڑھی کا وسیلہ۔ کبھی کمند کا حیلہ۔ عشق مجازی کے لئے ضروری ہے کہ کوئی دل کے دروازے پر آ کر دستک دے۔ اس میں آ کر مکین ہو جائے۔ دل کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر قابض ہو جائے۔ اس میں اپنی مرضی کی دھڑکنیں جگائے۔ کبھی اسے توڑے۔ کبھی اسے جوڑے۔ کبھی اچانک غائب ہو جائے اور رلا رلا کر دل والے کو عاجز کر دے۔ کبھی ایسا مہربان ہو کہ نہال کر دے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب دل میں ایسا گداز پیدا ہو جاتا ہے کہ دل والا بات بے بات آبگینے کی طرح پھوٹ پڑتا ہے۔ آنسو اس کی پلکوں کی نوکوں پر موتیوں کی طرح اٹکے رہتے ہیں۔ وہ غم ملے تو روتا ہے۔ خوشی پائے تو روتا ہے۔ سوئے تو روتا ہے۔ جاگے تو روتا ہے۔ سوچے تو روتا ہے۔ سمجھے تو روتا ہے۔ یہ رونا اس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے۔ اس وقت۔۔۔ " درویش نے دھیرے سے پلکیں وَا کیں۔ طاہرسر جھکائے، بے حس و حرکت بیٹھا، ہر شے سے بیگانہ اس کی بات سن رہا تھا۔ اس نے طاہر کے چہرے پر نگاہیں جما دیں اور پھر گویا ہوا۔
"اس وقت اس کے دل میں اس قدر نرمی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہاں رحمان آن بسیرا کرتا ہے اور اگر ذرا سا۔۔۔ " درویش نے انگلی کی پور کے کونے پر انگوٹھے کا ناخن رکھ کر کہا۔ "اتنا سا بھی شیطان کو موقع مل جائے تو وہ چھلانگ مار کر دل کے سنگھاسن پر آ بیٹھتا ہے۔ تب گداز پر غیریت کا پردہ پڑ جاتا ہے۔ رحمانیت رخصت ہو جاتی ہے اور شیطانیت لوریاں دینے لگتی ہے۔ دوئی لپک کر آتی ہے اور وحدانیت سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ پھر انسان، انسان صرف اس حد تک رہ جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پیر انسانوں جیسے ہیں اور بس۔ اس کے اندر دہکتا عشق کا الاؤ ہوس کی آگ بن جاتا ہے۔ لوگ اس کے ہاتھ پیر چومنے لگتے ہیں۔ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ جوانیاں اس کے انگ لگتی ہیں تو وہ اسے نفس پر غلبے کا نام دے کر خوش ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ خود شیطان کو خوش کر رہا ہوتا ہے۔ عشق کے نام پر بھڑکنے والے شعلے پر ہوس کے چھینٹے پھوار بن کر برسنے لگتے ہیں اور پھوار میں بھیگنے کا تو ایک اپنا ہی مزا ہوتا ہے ناں۔ یہ مزا انسان کو عشق کی کسک سے دور لے جاتا ہے۔ اس چبھن سے دور لے جاتا ہے جس کا نام مجاز ہے۔ وہ دھیرے دھیرے اس رنگ میں ایسا رنگا جاتا ہے کہ اس کا اپنا رنگ، عشق کا رنگ ناپید ہو جاتا ہے۔ ہوش اسے تب آتا ہے جب آخری لمحہ اس کے سامنے اس کا کچا چٹھا لئے آن کھڑا ہوتا ہے۔۔۔ مگر اس وقت اس کا ہوش میں آنا بیکار ہو جاتا ہے۔ عشق کے نام پر پھیلائی ہوئی بربادی اسے اپنے پیروں تلے روندتی ہوئی گزر جاتی ہے اور اس کا وجود تو مٹ جاتا ہے تاہم اس کا نام ابد الآباد تک عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔ اور اگر۔۔۔ " درویش نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کا لہجہ گمبھیر ہو تا چلا گیا۔ آواز میں ایک عجیب سی نرمی پر کھولنے لگی۔۔۔ " اگر یہ گداز رحمانیت کو چھو لے تو عشق مجازی کا ہاتھ عشق حقیقی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ دل، اس کا گھر بن جاتا ہے جو ہر کافر کے دل میں بھی کبھی نہ کبھی پھیرا ضرور ڈالتا ہے۔ پھر جسے وہ چُن لے، وہ کافر رہتا ہے نہ مشرک، بس اس کا بندہ بن جاتا ہے اور جس کا دل اسے پسند نہ آئے وہ اس کے آنے کو یوں بھول جاتا ہے جیسے جاگنے پر خواب یاد نہیں رہتا۔۔۔ عشقِ مجازی کی پہلی منزل عشق کے پہلے حرف عین سے شروع ہوتی ہے۔ عبادت جہاں پھل پانا شروع کرتی ہے، وہاں سے عشق کے دوسرے حرف شین کے رخ سے پردہ اٹھتا ہے۔ شین۔۔۔ " درویش نے ایک مستی بھری سسکی لی۔ "شین۔۔۔ شین سے شک ہوتا ہے پگلے۔ "
"شک۔۔۔ ؟" ایک دم طاہر کا ذہن جھنجھنا اٹھا۔ سارے بدن میں ایک پھریری سی دوڑ گئی۔ لرز کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
"ہاں پگلے۔ " درویش کی نگاہیں اسی کی جانب مرکوز تھیں۔ وہ درویش کی لو دیتی آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ زبان کو مزید کچھ کہنے کا یارا ہی نہ رہا۔ وہ ایک بار پھر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا۔ درویش کہہ رہا تھا۔
"شک۔۔۔ عشق کو مہمیز کرتا ہے۔ اسے ایڑ لگاتا ہے۔ انسان جس سے عشق کرتا ہے اس کے بارے میں ہر پل، ہر لمحہ شک کا شکار رہتا ہے۔ کبھی اسے یہ شک چین نہیں لینے دیتا کہ اس کا محبوب کسی اور کی طرف مائل نہ ہو جائے تو کبھی یہ شک نیندیں اڑا دیتا ہے کہ کوئی اور اس کے محبوب پر کمند نہ ڈال رہا ہو۔ کبھی یہ شک بے قراری کی آگ کو ہوا دینے لگتا ہے کہ اس کے عشق میں کوئی کمی نہ رہ جائے کہ اس کا محبوب ناراض ہو جائے تو کبھی یہ شک کانٹوں پر لوٹنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کسی اور کے جذبے کی شدت میرے محبوب کو متاثر نہ کر لے۔ شک کے یہ ناگ جب انسان کو ڈسنے لگتے ہیں تو وہ درد کی اذیت سے بے چین ہو ہو جاتا ہے۔ شک اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے محبوب کے آس پاس رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رہے۔ اس پر کسی دوسرے کا سایہ نہ پڑنے دے۔ اسے دل میں یوں چھپا لے کہ کسی کی اس پر نظر نہ پڑے۔ کھو دینے کا یہ خوف اسے کچھ پا لینے کی منزل کی طرف ہانک دیتا ہے۔ جتنی شدت سے یہ شک کا خوف اس پر حملہ آور ہوتا ہے، اتنی ہی جلدی وہ عشق کی یہ دوسری منزل طے کر لیتا ہے۔ جب صدیق کو یہ شک ستاتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے محبوب کے حضور اس سے بڑھ نہ جائے تو گھر کی سوئی تک نچھاور کر دی جاتی ہے۔ جب عمر کو یہ شک مس کرتا ہے تو صدیق سے آگے بڑھ جانے کے لئے رشک کی آخری منزل تمنا بن کر دل میں جنم لیتی ہے۔ جب عبداللہ کو یہ شک بے قرار کرتا ہے تو وہ اپنے سگے باپ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ جب تک وہ اس کے محبوب سے معافی نہ مانگ لے گا وہ اسے مدینہ میں داخل نہ ہونے دے گا۔ جب یہ شک زید کی جان کو آتا ہے تو وہ اپنے باپ کے ساتھ عیش و آرام کی زندگی کو ٹھکرا کر اپنے آقا کے در پر ابدی غلامی کے لمحات کو چُن لیتا ہے۔ قیس کو یہ شک لیلیٰ کے کتے کو چومنے پر مائل کر لیتا ہے کہ وہ اس کتے سے بھی پیار کرتی ہے۔ یہ شک رانجھے کو کان پھڑوا کر جوگی بنا دیتا ہے تاکہ وہ کسی اور کو حالتِ ہوش میں ویسے دیکھ ہی نہ سکے جیسے ہیر کو دیکھتا تھا۔ یہ شک مہینوال کو ران کے کباب بنا کر سوہنی کے حضور پیش کرنے پر آمادہ کر لیتا ہے اور۔۔۔ یہی شک ہے جو اپنے پر پھڑپھڑاتا ہے تو ساری ساری رات سونے نہیں دیتا۔ انسان کروٹیں بدلتے بدلتے چپکے سے اٹھتا ہے۔ یخ بستہ پانی سے وضو کرتا ہے اور محبوبِ حقیقی کی آرزو میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ میرے علاوہ اور کس کس کی طرف مائل بہ لطف ہے؟ کون کون اس کی مِہر سے فیض یاب ہو رہا ہے؟ کس کس طرح کوئی اس کے حضور آہ و زاری کے نذرانے پیش کر رہا ہے؟ جن سے متاثر ہو کر وہ رونے والوں پر کیا کیا مہربانیاں کر رہا ہے؟ کیا کیا ناز دکھا رہا ہے کہ اپنے عشق کے مبتلاؤں کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا؟ بندہ یہ سبب ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ناپید ہو جاتا ہے کہ جس کے باعث اس کا رب اوروں پر مہربان اور اس خام و ناکام کی طرف سے لاپروا ہوا بیٹھا ہے۔ بندہ اس شک میں مبتلا رہتا ہے کہ اس کا خالق، اس کا مالک اس کے علاوہ باقی سب پر مہربان ہے۔ اور ایسا ہے تو کیوں ؟ یہ "کیوں "اسے اپنے مالک کے حضور لرزہ بر اندام رکھتا ہے۔ اس "کیوں " کا جواب پانے کے لئے یہ شک اسے ایسے قیام میں ڈبو دیتا ہے کہ اپنی خبر بھی نہیں رہتی۔ ایسے رکوع میں گم کر دیتا ہے کہ اس کی طوالت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ سُوہ لینے کی اس حالت میں یہ شک رات رات بھر سجدے کراتا ہے۔ ایسے سجدے کہ سر اٹھانے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ لگتا ہے کہ ابھی سجدے میں سر رکھا تھا کہ فجر کی اذان ہو گئی۔ محبوبِ حقیقی کی دبے پاؤں یہ تلاش اس شک ہی کی دین ہوتی ہے جس میں انسان یہ سوچ کر نکل کھڑا ہوتا ہے کہ:
کوٹھے تے پِڑ کوٹھڑا ماہی، کوٹھے سُکدیاں توریاں
ادھی ادھی راتیں جاگ کے میں نپیاں تیریاں چوریاں "
بڑی پُرسوز آواز میں درویش نے تان لگائی۔
طاہر کا دل ایک دم کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ اس کی حالت ایسی غیر ہوئی کہ وہ بیقراری کے عالم میں سر مار کر رہ گیا۔ دونوں ہتھیلیاں پہلوؤں میں چٹائی پر ٹیکے وہ ہلکورے لے رہا تھا۔ جھوم رہا تھا۔ لوہا جانے کیسا گرم تھا کہ ایک ہی چوٹ نے اسے سانچے میں ڈھال دیا۔
"وہ جو سب کا محبوبِ حقیقی ہے۔ محبوبِ ازلی ہے۔ اسے اپنے علاوہ کسی اور کی طرف مائل دیکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ " درویش نے ایک سرد آہ بھری۔ "مگر۔۔۔ " اس کے ہونٹوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ نے جنم لیا۔ " وہ تو سب کا محبوب ہے ناں۔ سوائے ایک کے کسی اور ایک کا ہو کر رہنا اس کی سرشت ہی میں نہیں۔ جس ایک کا وہ ہے، اسے اس نے اپنا محبوب بنا لیا ہے۔ باقی سب کا وہ مشترکہ محبوب ہے۔ اسی لئے تو وہ ہر جگہ مل جاتا ہے۔ ہرجائی جو ہے۔۔۔ ہرجائی۔۔۔ ہر جگہ مل جاتا ہے۔ " درویش کی آنکھوں کے سوتے ابل پڑے۔ "ہرجائی۔۔۔ وہ تیرا بھی ہے اور میرا بھی۔ اس کا بھی ہے اور اُس کا بھی۔ یہاں بھی ہے اور وہاں بھی۔۔۔ وہ سب کا ہے اور کسی کا بھی نہیں۔۔۔ ہرجائی۔ " وہ بچوں کی طرح سسک پڑا۔ "مگرکیسا ہرجائی ہے وہ کہ ہر جگہ ہے اور کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ پھڑائی نہیں دیتا۔ لکن میٹی کھیلتا ہے ہمارے ساتھ۔ خود چھپا رہتا ہے اور ہمیں ڈھونڈنے پر لگا دیا ہے۔ پھر کہتا ہے میں تو تمہاری شہ رگ کے قریب ہوں۔ سرجھکاؤ اور مجھے پا لو۔ میں تمہارے دل میں رہتا ہوں۔ دل۔۔۔ جس میں اس کے عشق کے تینوں حرف اودھم مچائے رکھتے ہیں۔ شک ان میں سب سے زیادہ لاڈلا ہے۔ اسے کھل نہ کھیلنے دو تو یہ روٹھ جاتا ہے۔ منہ پھیر کر چل دیتا ہے۔ اسے کبھی دل سے جانے نہ دینا پگلے۔ اس کے ہونے سے ہی عشق کی سج دھج ہے۔ عشق کا الاؤ اسی چنگاری سے دہکتا ہے۔ یہ چنگاری سلگنا بند کر دے تو عشق کا شعلہ سرد پڑنے لگتا ہے۔ دم توڑنے لگتا ہے۔ یہ شک ہی ہے جو انسان کا ہاتھ پکڑ کر عشقِ مجازی کے راستے سے عشقِ حقیقی کی منزل تک لے جاتا ہے۔ محبوب کی نظروں میں ہلکا پڑ جانے کا شک انسان کو کبھی بے وزن نہیں ہونے دیتا۔ اسے محبوب سے دور نہیں جانے دیتا۔ دل میں پھانس بن کر اٹک جانے والا یہ شک۔۔۔ " درویش رک گیا۔
"بولتے رہئے بابا۔ رکئے مت۔ " طاہر نے مچل کر درویش کی جانب دیکھا۔ جان سمٹ کر جیسے لبوں پر آ گئی۔
طاہر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے درویش کے لبوں پر بڑی عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔ طاہر اس مسکراہٹ سے اور بے قرار ہو گیا۔
"یہی وہ شک ہے۔ وہ پھانس ہے۔ عشق کے شین کی یہی وہ شدت ہے جس نے کسی تیسرے کا خوف تیرے دل میں بٹھا دیا ہے۔ "درویش نے اس کی جانب انگلی سے اشارہ کیا۔
طاہر کے دل کا بھید آشکار ہوا تو وہ حیرت سے سُن ہو گیا۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے ہونٹ کھولے۔
"نہ۔۔۔ " درویش نے انگلی اس کی جانب اٹھا دی۔ اسے بولنے سے روک دیا۔ "تجھے یہ شک نہیں ہے کہ تیری پگلی اور اس تیسرے میں کوئی واسطہ ہے۔ نہ نہ۔ تجھے تیرے عشق کی شدت نے ا س شک میں مبتلا کر دیا ہے کہ کسی روز وہ سامنے آ گیا تو اس کے عشق کی شدت تیری پگلی کو تجھ سے دور نہ لے جائے۔ وہ ایک پل کو بھی اگر اس کے بارے میں کچھ سوچ لے گی تو تیرا کیا حال ہو گا؟ اس کا خیال بھی تیرے اور تیری پگلی کے درمیان نہ آ جائے، یہ شک تجھے تیری پگلی کے قریب نہیں جانے دیتا۔ ایساہی ہے ناں پگلے؟" درویش نے اس کی جانب مسکرا کر دیکھا۔
بے بسی سے ہونٹ کاٹتے ہوئے طاہر نے سر جھکایا اور اثبات میں ہلا دیا۔
"اسی لئے تو میں تجھے پگلا اور اسے پگلی کہتا ہوں جو دن رات تیری پوجا کرتی ہے۔ پگلا ہونے میں بڑا فائدہ ہے۔ سیانا ہو جائے ناں بندہ تو اس کے ہر ہر فعل کی جانچ ہوتی ہے۔ اس کا امتحان لیا جاتا ہے جیسے حافظ عبداللہ کا لیا گیا۔ اسے تو اس کی پگلی نے بچا لیا۔ تو بول۔ تیرے پاس کوئی پگلی ہے جو تجھے بچا لے؟"
جواب میں طاہر درویش کو درد بھری نظروں سے دیکھ کر رہ گیا۔ اس کے پاس درویش کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
" ہے۔ تیرے لئے ہونی تو سیانی چاہئے تھی مگر اس کے رنگ نیارے ہیں۔ اس نے تجھ جیسے پگلے کو سیانی نہیں دی، پگلی ہی دی۔ وہ جو تیرے گھر میں پڑی ہے ناں۔ تیرے جیسی ہی پگلی ہے۔ پگلا اور پگلی۔ دونوں کو سمجھانے کے لئے میری جان عذاب میں آئی ہوئی ہے۔ اسے تو کیا سمجھاؤں گا، تو ہی اکیلا کافی ہے میرے لئے۔ " وہ بگڑ گیا۔
"بابا۔ " طاہر نے لجاجت سے کہتے ہوئے اس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔
"دیکھ۔ " درویش نرم پڑ گیا۔ " دیکھ پگلی۔ سیانے جو ہوتے ہیں ناں۔ انہیں سب معلوم ہو جاتا ہے اور یہ پھنس جاتے ہیں۔ جو جتنا سبق یاد کرتا ہے اسے اتنا ہی قابل سمجھا جاتا ہے۔ اور جو جتنا قابل ہوتا ہے اسے اتنی ہی بڑی ذمے داری نبھانا پڑتی ہے۔ پھر ان سیانوں کی کمر دوہری ہو جاتی ہے ذمے داری کے بوجھ سے۔ آزمائش اور امتحان کے کانٹوں بھرے طویل راستے پر احتیاط کا دامن پھٹنے نہ پائی، یہ احساس انہیں اس اکیلے کی طرح تنہا کر دیتا ہے جس کا عشق ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ پھر بھی یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کب ان کا نتیجہ فیل ہونے کی صورت میں نکل آئے۔ اس کے مقابلے میں تجھ جیسے پگلے بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں۔ اتنا ہی جانتے ہیں جس سے گزارا ہو جائے۔ بس خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ سر جھکائے عشق کے سفر پر چل دیتے ہیں۔ دنیا بھی نبھ جاتی ہے اور مقصود بھی ہاتھ آ جاتا ہے۔ جہاں غلطی ہو جائے، کوتا ہے ہو جائے، وہاں معافی بھی مل جاتی ہے، پگلا ہونے کا یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔ جبکہ سیانا بیچارہ معافی کے لفظ سے ہی نا آشنا ہو جاتا ہے۔
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا "
کہہ کر درویش قلقاری مار کر ہنسا۔ طاہر اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کی ہر ہر بات ایک نیا بھید، ایک نیا راز آشکار کر رہی ہو اور اسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہ وہ ان رازوں کو ان بھیدوں کو کہاں سنبھال کر رکھے کہ کسی اور کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔
"اسی لئے کہا تھا میں نے کہ اس پگلی کو چھوڑنے کا خیال بھی کبھی دل میں مت لانا۔ اس پر، اپنے جذبے پر شک کر تو صرف اس لئے کہ تو اسے جی جان سے چاہتا ہے۔ اسے کھو دینے کا ڈر اس کے ساتھ کسی کا بھی نام آتا دیکھنا نہیں چاہتا، یہ اچھا ہے۔ اس طرح تیرا اس سے عشق کا تعلق "دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی "جیسا ہو جائے گا۔۔۔ مگر کبھی اس پر شبہ نہ کرنا۔ شک اور شُبے میں یہی بنیادی فرق ہے پگلی۔ عشق میں شک جائز بھی ہے اور ضروری بھی، اگر کھوٹ درمیان میں نہ آئے اور شُبہ۔۔۔ الامان الحفیظ۔۔۔ " درویش نے کانوں کو لووں کو چھوتے ہوئے کہا۔ "عشق میں شُبہ در آئے تو پاک دامن بیوی بیسوا نظر آتی ہے۔ بستر کی شکنوں میں کسی باہر والے کا جسم لپٹا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا بناؤ سنگھار کسی دوسرے کے لئے لگتا ہے۔ کاجل کی دھار، گناہ آلود راتوں کی طرح خیالات پر بال کھولے بین کرنے لگتی ہے۔ شُبے سے ہمیشہ بچنا۔ اسے کبھی دل میں جگہ نہ دینا۔ پھر تو بچا رہے گا برباد ہونے سی۔ "
" آپ روشن ضمیر ہیں بابا۔ " طاہر کے حواس لوٹ رہے تھے۔ " آپ جانتے ہیں میں نے صفیہ کو کبھی شبے کی نظر سے نہیں دیکھا۔ جو پھانس تھی وہ کسی حد تک نکال دی ہے آپ نے۔ "
"یعنی ابھی اس کی ٹیس کچھ باقی ہے دل میں ؟" درویش نے بھویں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
"بس اتنی سی بابا کہ اگر کبھی سرمد لوٹ آیا تو۔۔۔ ؟" اس نے سر جھکا لیا۔
"تو۔۔۔ " درویش نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ " تو کیا ہو گا؟"
"یہی تو میری سمجھ میں نہیں آتا بابا۔ " وہ اسی طرح بیٹھے ہوئے بولا۔ "تب کیا ہو گا؟"
"تب کیا ہو گا، یہ تو میں نہیں بتا سکتا تجھی۔ اجازت نہیں ہے مجھے۔۔۔ مگر ایک بات تجھے ابھی سمجھا سکتا ہوں میں۔ "
طاہر نے نظریں اٹھائیں۔ درویش اسے بڑی سرد نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"ایک پارسا تھا۔ ، اس نے کہنا شروع کیا۔ " اس کے گھر سے کھانا آتا تو وہ سالن میں پانی ملا کر کھایا کرتا تھا۔ کسی نے سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ میں کھانے کی لذت ختم کر کے کھاتا ہوں تاکہ میرا نفس مزہ لینے کی عیاشی نہ کر سکے اور میں اس کے بہکاوے میں نہ آ جاؤں۔ میں نے سنا تو اتنے بڑے بڑے پھکڑ تولے میں نے۔ اسے گالیاں دیں میں نے۔ جانتا ہے کیوں ؟ "
درویش نے انگلی اس کی جانب اٹھائی اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر کہا۔
"اس لئے کہ وہ میرے مالک کی نعمت کا کفران کر رہا تھا۔ میں نے کہا ارے بھڑوے۔ اگر لذت نہ دے کر نفس کو مارنا چاہتا ہے تو کھانا ہی پھیکا، بدمزہ اور بے لذت کیوں نہیں پکواتا۔ میرا رب تجھے اچھی نعمت دے رہا ہے اور تو اس میں خرابی پیدا کر کے کھاتا ہے۔ اس کی دی ہوئی چیز میں اپنی طرف سے مین میخ نکال کر، خود کو پارسا ظاہر کر رہا ہے تاکہ لوگ تجھے نیکو کار سمجھیں یا کم از کم تیرا نفس تجھے اس بھول میں رکھے کہ تو بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ اس سے تیرا رب تجھ سے راضی ہو گا لیکن اگر رب نے پوچھ لیا کہ پاگل کے بچے۔ میں نے تجھے ایک نعمت دی کہ تو اس سے بہرہ ور ہو۔ اس سے لطف اٹھائے اور میرا شکر ادا کرے مگر تو نے اسے بد ہیئت اور بدمزہ کیوں کیا؟ تو تیرے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ تلا جائے گا یا نہیں اس وقت؟ تو بھی اس پارسا کی طرح اللہ کی بخشی ہوئی نعمت کو آنے والے، نادیدہ، مستقبل کی دھند میں لپٹے وقت کا پانی ڈال کر بد مزہ کرنے کا گناہ کر رہا ہے۔ یہ ریا کاری ہے میرے بچے۔ اللہ نے تجھے پاکیزہ لباس عطا کیا ہے، اسے وہم کا پیوند نہ لگا۔ اسے چوم چاٹ کر پہن۔ اسے کھونٹی پر ٹانگے رکھے گا تو وہ بوسیدہ ہو جائے گا۔ اس پر بے توجہی کا غبار جم جائے گا۔ گزرتے وقت کی ٹڈیاں اسے جگہ جگہ سے کتر ڈالیں گی۔ اور جب تجھے اس لباس کی اہمیت کا اندازہ ہو گا تب تک وہ اس قابل نہیں رہے گا کہ تو اسے پہن سکے۔ پھر تجھ سے کفرانِ نعمت کا حساب لیا جائے گا۔ دے سکے گا تواس کا حساب؟ سیانا نہ بن۔ پگلا بنا رہ۔ کوتا ہے اور غلطی کی معافی مانگ کر لوٹ جا اپنی پگلی کے پاس۔ اسے پہن لے جا کر۔ اسے بوسیدہ ہونے سے پہلے پہن لے۔ ایسے پاکیزہ لباس کسی کسی کو نصیب ہوتے ہیں۔ "
درویش خاموش ہو گیا۔
طاہر کے اندر آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ اسے عشق کے عین نے چھو لیا تھا کہ صفیہ اسے کس بلندی پر رکھ کر دیکھتی ہے۔ عشق کے شین کا فہم عطا ہو گیا تھا۔ ادراک ہو گیا تھا اسے کہ اس کا عشق صفیہ کے لئے کس مقام پر پہنچا ہوا تھا۔ صفیہ کے بارے میں تو وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے لئے کیا جذبات رکھتی ہے مگر آج اسے اپنے بارے میں جو احساس ہوا تھا اس نے اس کے لئے ایک نئے جہان کے در وَا کر دیے تھی۔ خودشناسی کے در کھلے تو اسے پتہ چلا کہ عشق ہوتا کیا ہے؟ عشق کا عین اور شین اس پر ادراک کے نئے نئے عالم آشکار کر رہے تھے۔
"کیا سوچ رہا ہے؟ ابھی کوئی الجھن باقی ہے کیا؟" درویش نے اس کی بدلتی ہوئی حالت دیکھ کر آہستہ سے پوچھا۔
"نہیں بابا۔ " اس کے لبوں سے سرگوشی آزاد ہوئی۔ "اب کوئی الجھن نہیں۔۔۔ بس ایک خواہش چٹکیاں لے رہی ہے۔ "
"خواہش۔۔۔ ؟" درویش نے اسے غور سے دیکھا۔
"ہاں بابا۔ " طاہر نے دونوں ہاتھوں میں اس کا ہاتھ تھام لیا۔ " عشق کا عین اور شین تو آپ نے سمجھا دئیے۔ عشق کا قاف ابھی باقی ہے۔ "
"توبہ کر توبہ۔ " درویش نے تڑپ کر ہاتھ کھینچ لیا۔ ایک دم وہ خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزنے لگا تھا۔ چہرے پر زردی کھنڈ گئی اور آواز ایسی پست ہو گئی جیسے کسی کنویں سے آ رہی ہو۔
"بابا۔۔۔ " طاہر نے کہنا چاہا۔
"سبق یاد ہو گیا تو چھٹی نہیں ملے گی۔ باز آ جا۔ اس بھیدکو بھید ہی رہنے دے۔ " درویش کانپے جا رہا تھا۔
"نہیں بابا۔ " طاہر پر ضد سی سوار ہو گئی۔ "میں اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کے بارے میں مکمل طور پر نہ جان سکوں ، یہ بات مجھے چین سے مرنے بھی نہ دے گی۔ "
"مکمل طور پر جاننا میرے تیرے لئے ممکن نہیں ہے پگلے۔ " درویش نے اٹھ جانا چاہا۔ "ضد نہ کر۔ "
"میں ضد کہاں کر رہا ہوں بابا۔ " طاہر بھی اس کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ "میں تو عرض کر رہا ہوں۔ "
"مت بہکا مجھے۔ " درویش نے اسے جھڑک دیا۔ " یوں چاپلوسی کرے گا تو میں پھسل جاؤں گا۔ چُپ ہو جا۔ "
"بابا۔ " طاہر نے اس کا راستہ روک لیا۔ "اگر آپ نہیں بتائیں گے تو میں گھر نہیں جاؤں گا۔ "
"تو نہ جا۔ " وہ بھڑک گیا۔ "میرے باپ کے سر پر کیا احسان کرے گا جا کر۔ پوچھ تجھ سے ہو گی۔ جواب دینا پھر اسے۔ " اس نے کمرے سے باہر قدم رکھا۔ " میں تو کہہ دوں گا کہ میں نے اسے سمجھا دیا تھا۔ اب یہ جان بوجھ کر کفرانِ نعمت کرے تو اس میں میرا کیا قصور؟"
"میں بھی کہہ دوں گا کہ آپ نے مجھے آدھی بات بتا کر ٹال دیا تھا۔ "
"کیا۔۔۔ کیا۔۔ ؟" درویش نے کچی زمین پر اتر کر قدم روک لئے۔ "میں نے تجھے آدھی بات بتائی۔ یہ کہا تو نے؟" وہ غصے سے بولا۔
"ہاں تو اور کیا؟" طاہر بچوں کی طرح مچلا۔ " عشق کا تیسرا حرف کہاں سمجھایا آپ نے مجھے؟"
"تو سہہ نہیں پائے گا۔ " ایک دم وہ طاہر کو جیسے بہلانے پر آ گیا۔ " ہر چیز کا ایک وزن ہوتا ہے پگلے۔ تو اٹھا نہیں سکے گا اس بوجھ کو۔"
"تو کیا ہو گا؟" طاہر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ " زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ میں اس بوجھ تلے دب کر مر جاؤں گا۔ یہ منظور ہے مجھے مگر ۔۔۔ نہ جاننے کا ناسور دل میں پال کر میں زندہ نہیں رہنا چاہتا بابا۔ "
"تو پگلا کم اور سیانا زیادہ ہے۔ " درویش نے ایک آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھا جہاں چاند مسکرا رہا تھا۔ چاروں طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ بابا شاہ مقیم کا مزار کسی بھید کی طرح ان کے سامنے بُکل مارے کھڑا تھا۔
" آپ جو بھی سمجھیں بابا۔ " طاہر نے امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
"ٹھیک ہے۔ " کچھ دیر بعد درویش نے آسمان سے نظریں ہٹائیں اور طاہر کی طرف دیکھ کر پھر ایک سرد آہ بھری۔ " میں تجھے عشق کے قاف سے بھی ملا دوں گا مگر ۔۔۔ " اس نے رک کر طاہر کی جانب ہاتھ کھڑا کیا۔ "ابھی نہیں۔ "
"ابھی کیوں نہیں بابا؟" طاہر جلدی سے بولا۔
"ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے پگلے۔ " درویش پھر جھلا گیا۔ "یہ امکانات کی دنیا ہے۔ مجھے یہ بھید تجھ پر کھولنے کا جب حکم ہو گا تو اس کے اسباب پہلے پیدا ہوں گے۔ اس کی تمثیل جنم لے گی۔ تیرے سامنے عین اور شین کی مثالیں موجود ہیں ناں۔ اسی لئے تجھے انہیں سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ اب اس تیسرے بھید کے لئے بھی کچھ تو ایسا ہو جو تجھ پر فہم اور ادراک کے دروازے کھول سکی۔ جب بھی ایسا ہو گا۔ جب بھی مجھے حکم ہو گا، میں تجھے ضرور آگاہ کر دوں گا۔۔۔ یہ میرا وعدہ ہے تجھ سے۔ "
"ٹھیک ہے بابا۔ " کچھ دیر تک اس کی آنکھوں میں کھوئے رہنے کے بعد طاہر نے دھیرے سے کہا۔ "میں انتظار کروں گا۔ "
"بے صبرا نہ ہو۔ میں نے کہا ناں۔ وقت آنے پر تجھے ضرور بتاؤں گا۔ اب تو جا۔ رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو گئی ہے۔ کہیں وہ پگلی تیری تلاش میں نہ نکل پڑے۔ " درویش نے اس کے کندھے پر تھپکی دی۔
"اچھا بابا۔ " طاہر نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔ "میری گستاخی معاف کیجئے گا۔ "
"پگلا ہے تو۔ " درویش ہنس پڑا۔ "گستاخی کیسی؟ یہ تو تیرے نصیب کی بات ہے۔ اگر اس میں لکھا ہے کہ تو مکتبِ عشق میں داخلہ لے لے تو میں کون ہوتا ہوں تجھے روکنے یا چھٹی دینے والا۔ "
طاہر نے درویش کا دایاں ہاتھ تھاما۔ دل سے لگایا۔ ماتھے سے چھوا اور آہستہ سے چھوڑ دیا۔ پھر الٹے پاؤں اپنی گاڑی تک آیا۔ دروازہ کھول کر اندر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔
درویش اسے وہیں کھڑا تب تک دیکھتا اور دایاں ہاتھ ہلاتا رہا جب تک اس کی گاڑی وجاہت آباد جانے والے راستے پر نہ مڑ گئی۔ پھر وہ آہستہ سے پلٹا اور مزار کی طرف چل پڑا۔
"عشق کا قاف۔ عشق کا قاف۔ پگلا ہے بالکل۔ " بڑبڑاتے ہوئے اچانک رک کر ایک دم اس نے مزار کی جانب نظر اٹھائی۔
"خود آرام سے تماشا دیکھتے رہتے ہو۔ ساری مصیبت میری جان پر ڈال دی ہے۔ " وہ جیسے بابا شاہ مقیم سے لڑنے لگا۔ "اسے یہاں رکنے ہی کیوں دیا تھا؟ آیا تھا تو اس کا رخ گھر کی طرف کر کے روانہ کر دیتے۔ مگر نہیں۔ تم ایسا کیوں کرو گے۔ تمہیں تو مزا آتا ہے مجھے تنگ کر کے۔ " اس نے پاؤں پٹخ کر کہا۔ پھر اس کی آواز بھرا گئی۔ "پگلا ہے وہ۔ بچوں کی طرح ضد کرتا ہے مجھ سے۔ کہتا ہے وہ اس سے کہہ دے گا کہ میں نے اسے پوری بات نہیں بتائی۔۔۔ پوری بات۔۔۔ " ایک دم وہ جیسے روتے روتے ہنس پڑا۔ "پوری بات جاننا چاہتا ہے۔۔۔ پوری بات۔ " اس کے حلق سے قہقہہ ابلا اور وہ ہنستے ہنستے بے حال ہو گیا۔ " پوری بات۔۔۔ "وہ کچی زمین پر گر پڑا۔ "پوری بات۔۔۔ دم نکل جائے گا اس پگلے کا پوری بات جان کر۔ "
وہ یوں خاک میں لوٹ پوٹ ہو رہا تھا جیسے پھولوں کے بستر پر مچل رہا ہو۔ رات کی تنہائی اس کی آواز سے گونج رہی تھی۔ سناٹا کان لگائے اسے سن رہا تھا۔ ہوا نے اپنے قدم آہستہ کر لئے کہ اس کی بات میں مخل نہ ہو۔ چاندنی اس کے گرد ہالہ بنائے ہاتھ باندھے دم بخود کھڑی تھی۔ ستاروں نے پلکیں جھپکنا چھوڑ کر دیا تھا اور چاند یوں ساکت ہو گیا تھا جیسے اپنا سفر بھول کر اس کے لبوں سے کسی انہونی واردات کا قصہ سننا چاہتا ہو۔
"پوری بات۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ " درویش بڑبڑا رہا تھا۔ مچل رہا تھا۔ ہنس رہا تھا۔ رو رہا تھا۔ ایک سیانا، پگلا ہو گیا تھا۔
* *
صبح صادق طلوع ہو رہی تھی جب طاہر نے گاڑی حویلی کے پورچ میں روکی۔ گیٹ کھولنے والا ملازم گیٹ بند کر کے مڑا تو طاہر گاڑی سے اتر رہا تھا۔ ملازم اس کے پھٹے ہوئے کرتے اور مٹی میں اٹے جسم کو دیکھ کر حیران ہوا۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، مردانے سے ملک بلال نے باہر قدم رکھا۔
"چھوٹے مالک۔ کیا ہوا؟ " وہ گھبرا کر اس کے قریب چلا آیا۔
"کچھ نہیں۔ " طاہر نے مختصر سا جواب دیا اور اندر کو چلا۔
"مگر یہ۔۔۔ " ملک نے اس کے کپڑوں کی جانب حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ "کیا کسی سے جھگڑا ہو گیا؟"
"نہیں۔ " طاہر اس کے قریب سے گزر گیا۔
" آپ آ کہاں سے رہے ہیں چھوٹے مالک؟" سارے لوگ آپ کے انتظار میں جاگ رہے ہیں۔ مالکن اس قدر پریشان ہیں کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ آپ تو بابا شاہ مقیم کا کہہ کر گئے تھے۔۔۔ "
"میں وہیں سے آ رہا ہوں۔ " طاہر نے قدم برآمدے میں رکھا۔
"تو ساری رات آپ وہیں تھی؟" ملک کی حیرت دوچند ہو گئی۔
"ہاں۔۔۔ اور اب بس۔ " طاہر، ہال کمرے کے دروازے پر رکا۔ پلٹا اور ملک کی آنکھوں میں اس انداز سے دیکھا کہ ملک کو مزید کچھ کہنے کا یارا، نہ رہا۔ "اور کوئی سوال نہیں۔ تم نے جو دیکھا، سمجھو، نہیں دیکھا۔ سب کو سمجھا دو۔ دن میں ڈیرے پر ملاقات ہو گی۔ " وہ اندر داخل ہو گیا۔
ملک خاموش، منہ پھاڑے کھڑا رہ گیا۔ اس کے ذہن میں بے شمار سوال مچل رہے تھے مگر اسے زبان بندی کا حکم دے کر طاہر جا چکا تھا۔ اسی وقت وہ ملازم تیز تیز قدموں سے اس کے پاس چلا آیا جس نے گیٹ کھولا تھا۔
"ملک صیب۔ " وہ سرگوشی کے لہجے میں بولا۔ "کیا ہوا۔ چھوٹے مالک کا کسی سے جھگڑا ہو گیا کیا؟"
" آں۔۔۔ " ملک چونکا۔ اس کی نظر ملازم پر پڑی تو جیسے ہوش میں آ گیا۔ "کیا کہا تو نے؟"
ملازم نے اپنی بات دہرائی تو ملک ایک دو لمحے اس کی جانب خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا، پھر اس کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔
"گیٹ تو نے کھولا تھا؟" ملک کا لہجہ سخت پا کر ملازم گھبرا گیا۔
"ج۔۔ جی ہاں ملک صیب۔ " وہ ہکلایا۔
"اور کس نے چھوٹے مالک کو اس حال میں دیکھا ہے؟"
"کسی نے نہیں جی ملک صیب۔ باقی ملازم ڈیرے پر ہیں۔ "
"تو بس۔ " ملک نے ہاتھ اٹھا کر تحکم سے کہا۔ "چھوٹے مالک کو تو نے بھی نہیں دیکھا کہ وہ کس حال میں لوٹے ہیں۔ سمجھ گیا۔ "
"سمجھ گیا جی۔ بالکل سمجھ گیا۔ " ملازم نے زور زور سے سر ہلایا۔
"زبان کو گانٹھ دے کر رکھنا۔ مجھے بات دہرانی نہ پڑے۔ " کہہ کر ملک اندر جانے کے لئے پلٹا۔
"جی ملک صیب۔ " ملازم کا رنگ بدل گیا۔ ملک اس کی دگرگوں حالت کو نظر انداز کرتا ہوا ہال میں داخل ہو گیا، جہاں اس کی توقع کے مطابق طاہر موجود نہیں تھا۔ وہ زنان خانے میں جا چکا تھا۔
٭
"میرے مالک۔ ان کو اپنی امان میں رکھنا۔ انہیں ہر بلا سے محفوظ فرمانا۔ مجھے ان کا کوئی دُکھ نہ دکھانا۔ میرے معبود۔ انہیں حفاظت کے ساتھ گھر لے آ۔ ان کی آئی مجھے آ جائے۔ ان کی بلا مجھ پر پڑے۔ انہیں کچھ نہ ہو میرے مالک۔ انہیں کچھ نہ ہو۔ تجھے تیرے حبیب کا واسطہ۔ مجھے میرے حبیب سے خیر و عافیت کے ساتھ ملانا۔ "
سجدے میں پڑی صفیہ زار زار روئے جا رہی تھی۔ اس کی آواز ہچکیوں میں ڈوبی ٹوٹ ٹوٹ کر ابھر رہی تھی۔ اسے یوں بلکتا دیکھ کر دروازے میں کھڑا طاہر بے کل سا ہو گیا۔
کاریڈور میں قدم رکھا تو اس کی حالت پر حیرت زدہ فہمیدہ نے سلام کر کے کمرے کی طرف دوڑ لگانا چاہی۔ شاید وہ صفیہ کو طاہر کے آنے کی خبر سناناچاہتی تھی مگر طاہر نے اسے روک دیا۔ اسے خاموشی سے چلے جانے کا کہہ کر وہ کمرے کی جانب بڑھا اور آہستہ سے کھلے دروازے میں آ کھڑا ہوا۔ شاید وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کی گم خبری پر صفیہ کا کیا حال ہے؟اور اب اسے یوں تڑپتا پاکر اس کا دل ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔
"صفو۔۔۔ "
آواز تھی یا نوید حیات۔ صفیہ کا خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپتا جسم ایک دم ساکت ہو گیا۔ ایک پل کو اسے لگا کہ یہ اس کی سماعت کا دھوکا ہے مگر دوسرے ہی پل اس نے سر سجدے سے اٹھایا اور دروازے کی جانب دیکھا۔
"طاہر۔۔۔ " شبنم میں دھلتا ہوا اس کا چہرہ دودھ کی طرح سفید ہو رہا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ دروازے میں کھڑے طاہر کی حالت دیکھ کر وہ سُن ہو گئی۔
"صفو۔۔۔ " طاہر کے بازو وَا ہوئے۔
اب شبے کی گنجائش کہاں تھی؟
"طاہر۔۔۔ " وہ تڑپ کر جائے نماز سے اٹھی اور بھاگتی ہوئی اس کے سینے سے آ لگی۔ "طاہر۔۔۔ طاہر۔۔۔ " وہ اس سے لپٹی سسک رہی تھی۔ "یہ آپ کو کیا ہوا؟ کہاں تھے آپ اب تک؟ کہاں تھے؟"
"شش۔۔۔ " طاہر نے اسے باہوں کے گھیرے میں لے کر بھینچ لیا۔ "خاموش ہو جاؤ صفو۔ کچھ مت کہو۔ کچھ مت کہو۔ " اس کی زلفوں میں چہرہ چھپا کر طاہر نے سرگوشی کی۔
بچوں کی طرح ہچکیاں لیتی ہوئی صفیہ نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کر لئے اور یوں لپٹ گئی جیسے جدا ہونا اس کے لئے ممکن نہ رہا ہو۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔
پھر طاہر نے اسے آہستہ سے اپنے آپ سے الگ کیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ اس کی باہوں میں جھول گئی۔ وہ غش کھا گئی تھی۔
"صفو۔۔۔ " طاہر گھبرا گیا۔ اسے ہاتھوں پر اٹھا کر بستر پر ڈالا۔ کمبل اوڑھایا اور بیڈ کی پٹی پر بیٹھ کر اس کے چہرے کو والہانہ دیکھنے لگا، جو یوں پُرسکون تھا جیسے پریاں اس پر کہانیوں کے رنگ لے کر اتر رہی ہوں۔ چہرے کی سفیدی، سرخی میں بدلتے پا کر اسے کچھ حوصلہ ہوا۔ اس نے چاہا کہ فہمیدہ کو آواز دے۔ پھر نجانے کیوں اس کا جی چاہا کہ بس ایک ٹک صفیہ کو دیکھتا رہے۔ کسی بھی تیسرے کا اس وقت وہاں آنے کا خیال اسے اچھا نہ لگا۔ آنسوؤں نے صفیہ کا چہرے شبنم دھلے گلاب کا سا کر دیا تھا۔ بے اختیار وہ جھکا اور صفیہ کے رخسار پر ہونٹ رکھ دئیے۔
یکبارگی صفیہ کا سارا جسم لرز گیا۔ اس نے ہولے سے حرکت کی۔
"طاہر۔۔۔ " ہونٹ لرزے تو آہ نکلی۔
"صفو۔۔۔ " طاہر نے اس کے ہاتھ تھام لئے جو برف کی طرح سرد ہو رہے تھے۔
"طاہر۔۔۔ " آہستہ سے پلکوں کو حرکت ہوئی۔
"صفو میری جان۔۔۔ " طاہر نے اس کے ہاتھ ہونٹوں سے لگا لئے۔
"طاہر۔۔۔ " پلکیں وَا ہوئیں تو آنکھوں کے گوشوں سے آنسو ڈھلک پڑے۔
"بس۔۔۔ " طاہر نے ہونٹوں سے وہ شفاف موتی چُن لئے۔ " بس۔ اب نہیں۔ کبھی نہیں۔ " اس نے گڑیا سی صفیہ کو کمر میں ہاتھ ڈال کر اٹھایا اور سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ پھر پاگلوں کی طرح اسے چومنے لگا۔ اس کی دیوانگی صفیہ کو رُلا رہی تھی۔ کھلا رہی تھی۔ بتا رہی تھی کہ اس کا صبر رنگ لے آیا ہے۔ اس کا طاہر لوٹ آیا ہے۔ وہ اس کے بازوؤں میں بے خود سی پڑی اس دیوانگی کو سینت سینت کر دل کے نہاں خانے میں رکھتی رہی۔ سنبھالتی رہی۔ یہ وہ لمحے تھے جن کا وہ کب سے انتظار کر رہی تھی۔ بہار کے یہ پل جو اس کے لئے خواب ہو چکے تھے، خزاں ختم ہو جانے کی نوید لے کر لوٹے تو وہ سر تا پا گلاب ہو گئی۔ ایسا گلاب، جس کی شبنم قطرہ قطرہ، طاہر کا غبار دھو رہی تھی۔ یقین اور اعتماد کا غسل دے رہی تھی۔
عشق کا عین، عشق کے شین کا ہاتھ تھامے اپنی پوری وضاحتوں کے ساتھ طاہر پر نازل ہو رہا تھا۔
٭
غسل کر کے طاہر باتھ روم سے نکلا تو صفیہ میز پر ناشتہ سجا چکی تھی۔
"جلدی آ جائیے۔ ایک دم بھوک حملہ آور ہو گئی ہے۔ " وہ اس کے لئے کرسی سرکاتے ہوئے بولی اور گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا۔
"طاہر۔۔۔ " اس کے لبوں پر ایک لفظ مچلا اور وہ مسحور و حیراں اسے تکتی رہ گئی۔ سفید شلوار کرتے میں دھلا دھلایا طاہر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ مگر نہیں۔ یہ وہ طاہر تو نہیں تھا جو کل تک اس کے سامنے رہتا تھا۔ یہ تو کوئی اور تھا۔ ایک عجیب سا نورانی ہالہ جس کے چہرے کو چوم رہا تھا۔ ایک ناقابلِ برداشت چمک جس کی آنکھوں میں لو دے رہی تھی۔ ایک ملکوتی مسکراہٹ جس کے لبوں پر مہک رہی تھی۔ اسے لگا جیسے طاہر اس کے سامنے نہیں ، بہت بلندی پر، بہت اونچی جگہ پر کھڑا اسے دیکھ رہا ہو۔ ایسی بلندی، جس کا اسے ادراک تو ہو رہا تھا، مگر جسے وہ کسی اور کو سمجھا نہ سکتی تھی۔ یہ سب کیا تھا؟ کیسے ہوا؟ کب ہوا؟ اس کا ذہن ریشمی تاروں میں الجھ کر رہ گیا۔
"کیا دیکھ رہی ہو؟" طاہر اپنی جگہ سے اس کی طرف چل پڑا۔
"کچھ نہیں۔ " وہ گڑبڑا سی گئی۔ گھبرا کر نظریں اس کے چہرے سے ہٹا لیں۔ اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ مزید چند لمحے اسے یونہی دیکھتی رہی تو طاہر کو نظر لگ جائے گی۔ کرسی کی پشت پر ہاتھ ٹکا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور ایک گہرا سانس لیا۔ جیسے وہ طاہر کی اس شبیہ کو اپنے دل میں ، اپنی سانسوں میں ، اپنی روح میں اتار لینا چاہتی ہو۔
تینوں ویکھیاں صبر نہ آوی
وے چناں تیرا گھُٹ بھر لاں
اس کے اندر سے ایک صدا ابھری اور سارے وجود پر سرور بن کر چھا گئی۔
"کہاں کھو گئیں ؟" طاہر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
"یہیں ہوں۔ آپ کے قدموں میں۔ " وہ نشے میں ڈوبی آواز میں بولی اور اس کے سینے میں سما گئی۔
"میری طرف دیکھو۔ " طاہر نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا۔
" نہیں۔ " صفیہ نے مچل کر کہا اور اس سے الگ ہو تے ہوئے چہرہ پھیر لیا۔
"کیوں ؟" طاہر ہولے سے ہنسا۔
"نظر لگ جائے گی آپ کو۔ " صفیہ نے اس کی جانب دیکھنے سے گریز کیا۔
"تمہاری نظر۔۔۔ " طاہر نے مسکراتے ہوئے حیرت سے کہا۔ " اور مجھے لگ جائے گی؟" وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
اثبات میں سر ہلاتے ہوئے صفیہ اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گئی۔ " اور اب بس۔ خاموشی سے ناشتہ کیجئے۔ "
"جو حکم سرکار کا۔ " طاہر نے سر خم کیا اور دونوں ناشتے میں مصروف ہو گئے۔
ناشتہ واقعی خاموشی سے کیا گیا۔ پھر فہمیدہ آئی اور برتن لے گئی۔
صفیہ نے اس کے پیروں سے چپل نکالی اور اسے بستر میں گھس جانے کا اشارہ کیا۔ اس نے کوئی ہچر مچر نہ کی۔ صفیہ نے کمبل اسے خوب اچھی طرح اوڑھایا اور خود اس کے پاس پیروں کی جانب بیٹھ گئی۔
"میں جانتی ہوں آپ تھکے ہوئے ہیں اور اس وقت آپ کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز نیند ہے لیکن میرا ضبط اور صبر اب ختم ہو رہا ہے۔ مجھے بتائیے کہ کل کا سارا دن اور آج رات آپ کہاں رہے؟ جس حالت میں آپ لوٹے، وہ کوئی اچھی خبر نہ دے رہی تھی۔ مجھے ایک ایک بات بتائیے۔ "
"ایک ایک بات۔ " طاہر نے کہا اور اس کی جانب بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"کیوں ؟ بتانے کی بات نہیں ہے کیا؟" صفیہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھنا چاہا۔ پھر نظر ہٹا لی۔ ان بلور آنکھوں کی چمک اس سے سہی نہ گئی۔
"نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں جو میں تم سے چھپاؤں۔ مگر صفو۔۔۔ "وہ ایک پل کو رکا۔ سر جھکا کر آنکھیں بند کر لیں۔ پھر دائیں ہاتھ سے ماتھا سہلانے لگا۔
چند لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے تو صفو نے زبان کھولی۔
"کیا سوچ رہے ہیں ؟"
"سوچ رہا ہوں۔ " طاہر نے ایک گہرا سانس لیا اور ہاتھ ماتھے سے ہٹا لیا۔ " تمہیں کیا بتاؤں ؟ کیسے بتاؤں ؟ میں تو خود نہیں جانتا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟ بس یوں لگتا ہے کہ میں کسی خواب میں گم ہو گیا تھا۔ جاگا ہوں تو سب کچھ یاد ہے مگر اسے بیان کرنا میرے لئے اتنا ہی مشکل ہے صفو، جتنا کسی کو یہ بتانا کہ ہم جس کی عبادت کرتے ہیں وہ کیسا ہے؟کہاں نہیں ہے؟"
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ " صفیہ نے اسے حیرت سے دیکھا۔ " آپ کل گھر سے بابا شاہ مقیم کے مزار پر گئے تھی۔ یہ کہہ کر کہ شام تک لوٹ آئیں گے۔ شام گئی۔ رات ہوئی۔ جب آدھی رات نے دم توڑا تو میرا حال برا ہو گیا۔ آپ کا موبائل بھی یہیں تھا۔ ملک نے بتایا کہ آپ سختی سے منع کر گئے ہیں کہ کوئی آپ کے پیچھے نہ آئے۔ حویلی کے سب لوگ پریشان تھی۔ سب جاگ رہے تھے۔ ملازم ڈیرے پر چلے گئے کہ جب بھی آپ لوٹے، وہ فوراً یہاں خبر کر دیں گے۔ ملک یہیں مردانے میں رک گیا۔ اس کی پریشانی میری وجہ سے دو چند ہو گئی تھی۔ جب مجھے کچھ نہ سوجھا تو میں نے مصلیٰ پکڑ لیا۔ پھر مجھے کچھ پتہ نہیں کہ کتنا وقت گزرا اور کیسے گزرا۔ آپ کے آنے سے کچھ دیر پہلے میرا بڑی شدت سے جی چاہ رہا تھا کہ میں آپ کی تلاش میں بابا شاہ مقیم کے مزار کی طرف چل پڑوں۔۔۔ "
"ہاں۔۔۔ تمہاری اس حالت کی خبر ہے مجھے۔ " طاہر نے اس کی جانب نظر اٹھائی۔
"کیسے؟" وہ حیران ہوئی۔
"اس نے بتایا تھا۔ " وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔ "اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اب تو گھر چلا جا ورنہ وہ تیری تلاش میں نکل پڑے گی۔ "
"کس کی بات کر رہے ہیں آپ؟" صفیہ نے اسے گھبرا کر دیکھا۔
"درویش کی۔ " طاہر ایک گہرا سانس لے کر بولا۔ " وہ بابا شاہ مقیم کے مزار پر رہتا ہے۔ میں کل سارا دن اور آج رات اسی کے ساتھ تھا۔ "
"درویش کے ساتھ؟" صفیہ اچنبھے سے بولی۔
"ہاں۔ کل جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ مجھے حافظ عبداللہ اور سکینہ کے پاس لے گیا۔ "
"حافظ عبداللہ؟ سکینہ؟" صفیہ اور الجھ گئی۔۔۔ مگر ان دو ناموں کے ساتھ ہی جیسے بات کا سِرا طاہر کے ہاتھ آ گیا۔
"ہاں۔ " وہ نیم دراز ہو گیا۔ " میں تمہیں ان کی کہانی سناتا ہوں صفو۔ ایسی بات تم نے شاید اپنی زندگی میں کبھی نہ سنی ہو گی۔ "
پھر وہ ہولے ہولے بولتا رہا۔ کبھی اس کی آواز بھیگ جاتی تو کبھی لہجے میں تھکن اتر آتی۔ کبھی آنکھوں کے گوشے نم ہو جاتے تو کبھی چہرہ لرزہ بر اندام ہو جاتا۔ بُت بنی صفیہ، حافظ عبداللہ اور سکینہ کی داستان سنتی رہی اور ایک ایک پل، ایک ایک گھڑی میں یوں سانس لیتی رہی، یوں جیتی رہی جیسے وہ خود سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو۔
"اب وہ دونوں نور پور کی مسجد کے حجرے میں یک جان دو قالب بنے بیٹھے ہیں۔ ایک سانس لیتا ہے تو دوسرا زندہ دکھائی دیتا ہے۔ ایک کا دل دھڑکتا ہے تو دوسرے کا سینہ متحرک لگتا ہے۔ درویش کہتا ہے یہ عشق کا عین ہے جس نے ان دونوں کو اپنی باہوں میں لے لیا ہے۔ عشق کا عین جو عاشقِ صادق کی عبادت سے شروع ہوتا ہے اور عقیدت تک پھیلا ہوا ہے۔ "
طاہر خاموش ہو گیا۔
صفیہ کتنی ہی دیر ایک کیف میں ڈوبی رہی۔ اس کا سارا جسم سنسنا رہا تھا۔ اس سنسناہٹ میں ایک لذت تھی۔ ایک سرور تھا۔ ایسی باتیں اس نے پہلے کب سنی تھیں مگر یوں لگتا تھا جیسے وہ ان باتوں سے ہمیشہ سے آگاہ ہو۔ ان کا مفہوم اسے قطعاً اجنبی نہ لگا۔ طاہر نے جو کہا، ایک ایک لفظ اس کے لئے آشنا نکلا۔ اس بات پر اسے حیرت بھی تھی مگر اس سے زیادہ وہ اس لذت میں گم تھی جس نے اس کے رگ و پے میں سفر شروع کر دیا تھا۔
"ارے۔۔۔ " آہستہ سے اس نے نظر اٹھائی تو بے ساختہ اس کے لبوں سے نکلا۔ " آپ رو رہے ہیں طاہر؟" آگے سرک کر وہ اس کے پہلو میں آ گئی۔
"کہاں ؟" طاہر نے دھیرے سے اپنی آنکھوں کو چھوا۔ اس کے ہاتھ نم ہو گئے تو وہ مسکرا دیا۔ " ارے واقعی۔۔۔ مگر کیوں ؟ یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں ؟"
"یہ آنسو نہیں ہیں۔ موتی ہیں۔ گوہر ہیں۔ " صفیہ نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر اس کی آنکھوں سے سارے موتی، سارے گوہر چوم چوم کر چُن لئے۔
طاہر نے تھکے تھکے انداز میں آنکھیں موند لیں اور سر صفیہ کے سینے پر رکھ دیا جو اسے کسی بچے کی طرح سینے سے لگائے بیٹھ گئی۔
" یہ تو ہوئی دن کی بات۔ رات کی بات ابھی باقی ہے۔ اب وہ سنائیے۔ " وہ پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
"رات کی بات۔۔۔ " طاہر آہستہ سے ہنسا۔ " اچھا کہا تم نے۔ رات کی بات۔ " اس نے دہرایا۔ "کہتے ہیں رات گئی بات گئی۔۔۔ مگر صفو۔ لگتا ہے جو رات میں درویش کے ساتھ گزار کر آیا ہوں ، اس کی بات تو شروع ہی اب ہوئی ہے۔ ختم کب ہو گی، کون جانے۔ "
وہ خاموش ہو گیا۔
صفیہ کچھ دیر اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی۔ جب خاموشی طویل ہو گئی تو اس نے آہستہ سے طاہر کے چہرے کی جانب دیکھا۔ وہ تو سکون سے سو رہا تھا۔ صفیہ اس کے چہرے کو وارفتگی سے تکتی رہی۔ جی ہی نہ بھر رہا تھا اسے دیکھ دیکھ کر۔ دھیرے سے اس نے طاہر کے ہونٹوں کا بوسہ لے لیا۔ پھر دونوں رخساروں پر پیار کیا۔ آخر میں پیشانی کو نرم ہونٹوں سے چھوا اور اسے بستر پر آرام سے لٹا یا اور بیڈ سوئچ دبا کر لائٹ آف کر دی۔ وہ طاہر کو خوب سونے دینا چاہتی تھی۔ کمبل اس پر اچھی طرح اوڑھا کر کے وہ اس کے پاؤں کی طرف سمٹ کر یوں لیٹ گئی کہ طاہر کے پاؤں اس کے بازوؤں کے حلقے میں سینے کے ساتھ بھنچے تھے اور ہونٹ تلووں کو چھُو رہے تھے۔
کمرے کے نیم اندھیرے میں سکون نے آہستہ سے آنکھ کھولی اور کسی پہرے دار کی طرح ان کی رکھوالی کرنے لگا۔
٭
جدہ ایر پورٹ پر بیگم صاحبہ اعجاز اور ڈاکٹر ہاشمی بورڈنگ کارڈ حاصل کرنے کے بعد فلائٹ کی اناؤنسمنٹ کے انتظار میں لاؤنج میں چلے آئے۔
عمرہ کے بعد انہوں نے مدینہ شریف میں پورے دو ماہ گزارے تھے۔ اب مزید قیام بڑھوانا ممکن نہ رہا تو مجبوراً بیگم صاحبہ نے واپسی کی تیاری کر لی۔ طاہر اور صفیہ کے ساتھ ساتھ وسیلہ خاتون کو بھی واپسی کی اطلاع دو دن پہلے دی جا چکی تھی۔ فلائٹ کا وقت تین بجے کا تھا۔ ابھی دو بج کر چالیس منٹ ہوئے تھے۔
بیگم صاحبہ اعجاز اور ڈاکٹر ہاشمی آمنے سامنے گدیلے صوفوں پر بیٹھے تھے۔ بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں تسبیح چل رہی تھی جبکہ ڈاکٹر ہاشمی ایر پورٹ کی گہما گہمی کو نظروں میں تولتے ہوئے کاؤنٹر پر انگوٹھا چلا رہے تھے۔ رہ گیا اعجاز تو وہ سوائے بتیاں دیکھنے کے اور کیا کرتا۔
"ارے۔۔۔ " ایک دم بیگم صاحبہ کے ہونٹوں سے تحیر بھری آواز نکلی۔ وہ ڈاکٹر ہاشمی کے پچھلی طرف کسی کو دیکھ رہی تھیں۔
"کیا ہوا بیگم صاحبہ؟" ڈاکٹر ہاشمی چونکے۔
"ڈاکٹر صاحب۔ یہ اپنا سرمد یہاں کیا کر رہا ہے؟" وہ جلدی سے بولیں۔
"سرمد۔۔۔ اور یہاں ؟" ڈاکٹر ہاشمی نے حیرت سے کہا اور پلٹ کر دیکھا۔ "ارے ہاں۔ یہ تو سرمد ہی ہے۔ " وہ اٹھ گئی۔ " آپ بیٹھئے۔ میں اسے لے کر آتا ہوں۔ " وہ کہہ کر تیزی سے باہر جاتے سرمد کی طرف بڑھے جو احرام باندھے خارجی دروازے کی طرف چلا جا رہا تھا۔
"سرمد۔۔۔ " انہوں نے اسے پیچھے سے آواز دی۔
سر جھکائے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا سرمد رک گیا۔ بڑی آہستگی سے اس نے گردن گھمائی اور ڈاکٹر ہاشمی کی جانب دیکھا۔
ڈاکٹر ہاشمی کے ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ دونوں باپ بیٹا آمنے سامنے کھڑے تھے۔ سرمد کندھے پر سفری بیگ ڈالے بڑی سپاٹ سی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا اور ڈاکٹر ہاشمی اس کے سُتے ہوئی، زرد اور بجھے بجھے چہرے کو حیرت سے جانچ رہے تھے۔
"ارے ابو آپ۔۔۔ " بڑی آہستگی سے سرمد کی آنکھوں میں شناسائی جاگی۔ جیسے اس نے انہیں پہچاننے میں بڑی دقت محسوس کی ہو۔
"سرمد۔ " ڈاکٹر ہاشمی اس کے کمزور سراپے کو نظروں سے کھنگالتے ہوئے بولے۔ "یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے بیٹے۔ تمہاری صحت کو کیا ہوا؟" انہوں سے سرمد کو گلے لگا لیا۔
"صحت کو کیا ہوا ابو۔ اچھی بھلی تو ہے۔ " وہ پھیکی سی ہنسی ہنسا اور ان کے کندھے پر سر رکھ دیا۔
"خاک اچھی ہے۔ مجھے بے وقوف بنا رہے ہو۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اسے بھینچ لیا۔ پھر اس کی گردن پر بوسہ دیتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا۔
"مجھے کچھ نہیں ہوا ابو۔ آپ کو وہم ہو رہا ہے۔ " نم آنکھوں سے باپ کو دیکھ کر سرمد نے کہا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا وہ ماں جیسی شفقت لٹاتے باپ کے کندھے پر سر رکھ کر خوب روئے۔ اتنا روئے کہ اندر رکا ہوا سارا غبار دھل جائے۔ جل تھل ہو جائے۔۔۔ مگر اس نے خود پر قابو پا لیا۔
" آپ عمرے سے فارغ ہو گئے اور میں کرنے جا رہا ہوں۔ " سرمد نے باپ کا ہاتھ تھام کر کہا۔
" آؤ۔ ادھر آؤ۔ بیگم صاحبہ سے ملو۔ " وہ اسے لئے ہوئے بیگم صاحبہ کے پاس چلے آئے۔ سرمد نے انہیں ادب سے سلام کیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اعجاز کو جیسے اس نے دیکھا ہی نہ تھا۔
"ارے بیٹے۔ یہ تمہاری صحت کو کیا ہو گیا؟"بیگم صاحبہ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
"یہی ابو بھی کہہ رہے ہیں آنٹی۔ " وہ ہنسا۔ "مگر میں تو خود کو بالکل ٹھیک محسوس کر رہا ہوں۔ "
"ہم دونوں غلط کہہ رہے ہیں اور تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اپنی جگہ بیٹھتے ہوئے خفگی سے کہا تو سرمد نے سر جھکا لیا۔
"چلئے ابو۔ آپ ہی ٹھیک ہیں۔ "
"تو اب سیدھے سیدھے بتا دو کہ تمہاری اس کمزوری اور خراب صحت کا سبب کیا ہے؟" ڈاکٹر ہاشمی نے تلخی سے کہا۔
"کچھ خاص نہیں ابو۔ بس بخار نے یہ حالت کر دی۔ چند دنوں میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ واپس جاتے ہی اپنا علاج باقاعدگی سے کراؤں گا۔ "
"واپس کہاں ؟" ڈاکٹر ہاشمی نے سختی سے کہا۔ " تم عمرہ کر کے سیدھے پاکستان آؤ گے۔ رزلٹ آ چکا ہے۔ اب واپس جانا ضروری نہیں ہے۔ "
"مگر ابو۔ مجھے ساری کاغذی کارروائیاں پوری کرنا ہیں۔ اپنے رزلٹ ڈاکومنٹس وصول کرنا ہیں اور۔۔۔ "
"کچھ نہیں سنوں گا میں۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اسی لہجے میں کہا۔ ان کا دل تڑپ رہا تھا۔ پھول جیسا بیٹا سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا۔ لگتا تھا کوئی روگ اندر ہی اندر اسے چاٹ رہا ہے۔ انہوں نے بال دھوپ میں سفید نہیں کئے تھے۔ انہیں کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا کہ بات کیا ہو سکتی ہے؟مگر وہ سرمد سے بات کئے بغیر کسی نتیجے پر پہنچنا نہ چاہتے تھے۔ اور بات کرنے کے لئے یہ جگہ مناسب تھی نہ یہ ماحول۔
بیگم صاحبہ بھی اندر ہی اندر کسی سوچ کے گرد خیالوں کا جال بُن رہی تھیں۔ باپ بیٹے کی گفتگو میں انہوں نے کوئی دخل نہ دیا۔ تاہم اتنا تو وہ بھی سمجھ ہی سکتی تھیں کہ بخار جینے کی امنگ چھین لیتا ہے نہ زندگی کو بے رونق کر دیتا ہے۔ سرمد کی آنکھوں میں زندگی کی وہ علامت مفقود تھی جو چمک چمک کر انسان کو حالات کے سامنے سینہ سپر رکھتی ہے۔ اسے دیکھ کر تو لگتا تھا وہ جینا ہی نہیں چاہتا۔ بس کسی مجبور کی طرح سانس لے رہا ہے کہ موت آنے تک زندہ کہلا سکی۔ ان کا جی چاہا ڈاکٹر ہاشمی سے کہیں کہ سرمد کی اس حالت کا سبب ضرور کوئی جذباتی حادثہ ہے۔ طاہر کی ماں ہونے کے ناطے وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ محبت کی چوٹ سے بڑا کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے جو انسان کو نیم جان کر دے مگر پھر انہوں نے بھی اس بات کو پاکستان پہنچنے تک کے لئے موقوف کر دیا۔
"تم عمرہ کر کے فوراً وطن پہنچو۔ اور اگر تمہارا ارادہ کسی گڑ بڑ کا ہے تو میں کچھ بھی کر کے رک جاتا ہوں۔ تمہیں ساتھ لے کر ہی جاؤں گا۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے کہا تو سرمد گھبرا گیا۔
"کیسی باتیں کر رہے ہیں ابو۔ " اس نے جلدی سے کہا۔ "میں وعدہ کرتا ہوں کہ یہاں سے لندن نہیں جاؤں گا۔ "
"لندن نہیں جاؤ گے اور پاکستان آؤ گے۔ یوں کہو۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے لفظوں پر گرفت کمزور نہ ہونے دی۔
"جی ہاں۔ ایسا ہی ہو گا۔ " وہ بیچارگی سے ہنس پڑا۔
"پیسے ویسے ہیں ؟" انہوں نے جیب سے پرس نکالا۔
"وافر ہیں ابو۔ ضرورت ہوتی تو میں خود ہی کہہ دیتا۔ " اس نے انہیں روک دیا۔
"پھر بھی یہ رکھ لو۔ " انہوں نے ویزا کارڈ پرس سے نکال کر اسے تھما دیا۔
سرمد جانتا تھا، ضد کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے اس نے خاموشی سے کارڈ، بیگ کھول کر اندر رکھ لیا۔
اسی وقت پاکستان جانے والی فلائٹ کی اناؤنسمنٹ کی جانے لگی۔
"اپنا خیال رکھنا۔ " ڈاکٹر ہاشمی کے ساتھ ہی بیگم صاحبہ اور سرمد بھی اٹھ گئے۔ انہوں نے کھینچ کر اسے پھر گلے سے لگا لیا۔ وہ بھی باپ کے سینے سے لگا ایسے سکون میں ڈوب گیا جس نے اس کی آنکھیں نم کر دیں۔ کتنی ہی دیر گزر گئی۔ تب دونوں الگ ہوئی۔ ڈاکٹر ہاشمی نے چشمہ اتارا۔ رومال سے آنکھیں خشک کیں۔ سرمد کی آنکھیں پونچھیں۔
"ارے۔ آپ تو بچوں کی طرح جذباتی ہو گئے ڈاکٹر صاحب۔ " بیگم صاحبہ نے صورتحال کو مزید گمبھیر ہونے سے بچانا چاہا۔
"یہ میرا اکلوتا بچہ ہے بیگم صاحبہ اور میں عمر کے اس حصے میں ہوں جب انسان ویسے ہی بچہ بن جاتا ہے۔ " وہ پھیکے سے انداز میں مسکرائے تو سنجیدگی میں خاصی کمی آ گئی۔
"اچھا آنٹی۔ اللہ حافظ۔ " سرمد نے سر جھکا دیا۔ بیگم صاحبہ نے اس کے سر پر پیار دیا اور پیشانی چوم لی۔
"جیتے رہو۔ جلدی پاکستان آ جانا۔ زیادہ انتظار نہ کرانا ہمارے ڈاکٹر صاحب کو۔ "
"جی آنٹی۔ " اس نے مختصراً کہا اور باپ کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں تھام کر ہونٹوں سے لگا لیا۔ " اپنا خیال رکھئے گا ابو۔ میرا بھی اور کون ہے آپ کے سوا۔ "
"جلدی آ جانا۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔ نجانے کیوں ابھی تک انہیں سرمد کے پاکستان چلے آنے کا یقین نہ ہو رہا تھا۔
"جی ابو۔ " اس نے باپ کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ تیزی سے پلٹا اور خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ جب تک وہ باہر نہ نکل گیا، ڈاکٹر ہاشمی اسے ایک ٹک دیکھتے رہے۔ پھر جب وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تو بیگم صاحبہ کی طرف مڑے۔
"نجانے کیا ہو گیا ہے اسے؟" وہ آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے بڑبڑائے۔
"اسے پاکستان آ لینے دیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ فکر نہ کریں۔ " بیگم صاحبہ نے انہیں تسلی دی لیکن نجانے کیوں یہ الفاظ کہتے ہوئے ان کا دل بڑے زور سے دھڑک اٹھا۔
" آئیے۔ چلیں۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے رن وے کی جانب کھلنے والے گیٹ کا رخ کیا۔ بیگم صاحبہ نے ایک نظر پلٹ کر اس دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے چند لمحے پہلے سرمد باہر گیا تھا۔ پھر اعجاز کے ساتھ ڈاکٹر ہاشمی کے پیچھے قدم بڑھا دئیے۔
* * *
جس دن سرمد کی وسیلہ خاتون سے بات ہوئی، وہ اس کی زندگی میں مسکراہٹوں اور شگفتگی کا آخری دن تھا۔
ہنستا کھیلتا، زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتا سرمد ایک دم مرجھا گیا۔ اس کے ساتھی لڑکے اور لڑکیاں اس کی حالت پر پہلے تو حیران ہوئے۔ اسے بہلانے اور کریدنے کی کوششیں کرتے رہے۔ اس کے لبوں سے چھن جانے والی ہنسی کی واپسی کے راستے ڈھونڈتے رہے لیکن جب انہیں اپنی ہر کوشش میں ناکامی ہوئی تو آہستہ آہستہ وہ اس سے دور ہوتے چلے گئے۔ لندن کی ہنگامہ خیز رُتوں میں کسی کے پاس اس پر ضائع کرنے کے لئے وقت نہ تھا۔ ایک انڈین لڑکی ریحا نے بڑے دنوں تک اس کا انتظار کیا۔ اس کے فلیٹ کے چکر کاٹے۔ دن رات کی پرواہ کئے بغیر اسے اپنے ماحول میں کھینچ لانے کے جتن کئے مگر جب سرمد کی اداسی بڑھتی ہی چلی گئی۔ صحت مسلسل گرنے لگی اور ہونٹوں پر سوائے آہوں کے کچھ نہ رہا تو وہ بھی مایوس ہو کر لوٹ گئی۔
رزلٹ کے بعد یہ مہینہ بھر کا وقت پارٹیوں ، ہاؤ ہو اور مستی کا تھا۔ سرمد کے گرو پ کے سبھی سٹوڈنٹ کامیاب ہوئے تھے۔ واپس اپنے اپنے ملک جانے سے پہلے وہ آخری دنوں کو یادگار بنا دینا چاہتے تھے۔ سرمد ان سے کٹتا کٹتا بالکل اکیلا ہو گیا تو وہ اسے بھولنے لگی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ پورا ایک ہفتہ اپنے فلیٹ میں پڑا بخار سے جنگ لڑتا رہا اور کوئی اسے ملنے بھی نہ آیا۔ اس دن کے بعد وہ خود ہی ان سب سے دور ہو گیا۔
وہ کرتا بھی کیا؟ اس نے اپنے حساب میں کوئی غلطی کی تھی نہ وقت ضائع کیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ اس نے ڈاکٹر ہاشمی کے ساتھ اپنے طور پر کی ہوئی کمٹ منٹ نبھانے کے لئے یہ فیصلہ کر لیا کہ اپنا رزلٹ آنے تک وہ ان سے کوئی بات نہیں کرے گا۔ جب اس کا رزلٹ نکلا تو اپنے آپ سے کئے ہوئے وعدے کے مطابق اس نے سب سے پہلے انہیں یہ خوشخبری سنانا چاہی مگر ساتھ ہی اس خیال سے کہ اس اچھی خبر کے بعد وہ انہیں صفیہ کے رشتے کے لئے اس کے گھر جانے کو کہے گا، وسیلہ خاتون سے پوچھ لینا مناسب سمجھا۔ اسے بظاہر اپنے لئے انکار کی کوئی وجہ نظر نہ آ رہی تھی، پھر بھی وہ ان کا عندیہ لے لینا چاہتا تھا۔ تاکہ کسی بھی قسم کی کوئی بدمزگی پیدا ہی نہ ہو۔ اس کی یہ احتیاط ایک طرف اگر اس کے لئے زندگی بھر کے زخم کا پیغام لے کر آئی تو دوسری طرف باپ سے اس بارے میں بات کر کے جو شرمندگی اس کے حصے میں آنے والی تھی، اس سے بچ گیا۔
سب باتیں اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت تھیں مگر وہ اپنے دل کا کیا کرتا جو دھڑکنا ہی بھولتا جا رہا تھا۔ صفیہ کا خیال اب اس کے لئے شجرِ ممنوعہ تھا مگر وہ اس کے خیال سے دامن چھڑاتا تو کیسی؟ اس کی راتیں بے خواب ہو گئیں۔ دن بے رونق ہو گئی۔ وقت کا ایک ایک لمحہ ٹیس بنتا چلا گیا۔ سانس لیتا تو آہ نکلتی۔ آنکھ اٹھاتا تو ہر طرف اس دشمنِ جاں کی تصویر سجی نظر آتی جو کبھی اس کی تھی ہی نہیں۔ وہ اکیلا ہی اس آگ میں جلتا رہا تھا۔ اس نے صفیہ کے ساتھ گزرے ہوئے ایک ایک پل میں جھانکا۔ کسی جگہ اسے صفیہ کی جانب سے کوئی ہمت افزائی کا اشارہ نہ ملا۔ کہیں اس کی نظروں سے چھلکنے والا کوئی پیغام نہ تھا۔ وہ کس وہم کے سہارے زندگی میں اس کے تصور کو جینے کا بہانہ مان لیتا؟اگر یہ عشق تھا تو یک طرفہ تھا۔ اگر یہ محبت تھی تو صرف اسی کی طرف سے تھی۔ اگر یہ پیار تھا تو اس میں صفیہ کی رضا کہیں نہ تھی۔
آہیں ، آنسو، پچھتاوا۔ یہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ صفیہ کا خیال آتا تو آہ ہونٹوں پر مچل جاتی۔ اس کے طاہر کا ہو جانے کے بارے میں سوچتا تو آنسو دل کا دامن بھگو دیتی۔ اپنی طرف سے کی گئی دیر پچھتاوا بن کر دل مسل ڈالتی تو وہ تڑپ تڑپ جاتا۔ بڑی کوشش کی کہ کسی طرح خود کو سنبھال لے مگر عشق میں ناکامی کا داغ ایسی آسانی سے دھُل جانے والا ہوتا تو کوئی بات بھی تھی۔ یہ ناسور تو ایساتھاجو اندر کی جانب رِستا تھا۔ اس کا سارا زہر سوچوں اور خیالوں میں اترتا اور وہیں پڑا چرکے لگایا کرتا۔ وہ چند ہفتوں ہی میں سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔
ایک دن فلیٹ کے پتے پر خط آیا۔ کھولا تو یونیورسٹی کی طرف سے انوی ٹیشن تھا۔ یونیورسٹی والوں نے کامیاب طلبہ کے اعزاز میں ایک فنکشن ارینج کیا تھا جس میں انہیں ڈگریاں دی جانے والی تھیں۔ تب اسے خیال آیا کہ اس نے ابھی تک باپ کو اپنی کامیابی کی اطلاع ہی نہیں دی۔ خود کو سنبھالا کہ باپ کہیں اس کی آواز اور لہجے سے اس کے دُکھ کا بھید نہ جان لی۔ پھر اسے فون کیا۔ ڈاکٹر ہاشمی نے اس کی آواز سن کر بیتابی سے پوچھا کہ اتنے دنوں تک رابطہ کیوں نہیں کیا۔ بتایا کہ وہ اسے وقفے وقفے سے کنٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر اس کا موبائل نہ مل رہا تھا۔ سرمد نے بہانہ کیا کہ موبائل خراب تھا اور وہ رزلٹ آنے پر ہی انہیں بتانا چاہتا تھا اس لئے جان بوجھ کر رابطہ نہیں کیا۔ وہ اس کی کامیابی کا سن کر پھولے نہ سمائے۔ اس وقت سرمد کو پتہ چلا کہ وہ پاکستان میں نہیں ، ارضِ حجاز پر ہیں۔
تقسیمِ اسناد کی تقریب میں شرکت کے لئے وہ عین وقت پر گیا اور ڈگری وصول کر کے نکال آیا۔ ریحا نے اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ لوٹ آیا۔
اب اس کا لندن میں کوئی کام نہ تھا۔ اہم امور نمٹانے میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگ جاتا۔ اس کے بعد وہ وطن جا سکتاتھا مگر وہ وہاں نہ جانے کے بارے میں اپنا فیصلہ وسیلہ خاتون کو سنا چکا تھا۔ ویسے بھی وہ وہاں جا کر کیا کرتا؟ خود پر قابو نہ رکھ پاتا تو معمولی سی حرکت صفیہ کے لئے وبالِ جان بن سکتی تھی۔ اس نے عزم کر لیا کہ کبھی پاکستان نہیں جائے گا۔ ڈاکٹر ہاشمی کو کس طرح سمجھایا جاتا، اس بات کو اس نے آنے والے وقت پر چھوڑ دیا۔
پندرہ دن پہلے آخری بار اس کی بات ڈاکٹر ہاشمی سے ہوئی۔ ان کا ارادہ ابھی مزید مدینہ شریف میں رکنے کا تھا۔ تین مہینے کا وقت پورا کئے بغیر وہ واپس پاکستان جانا چاہتے تھے نہ بیگم صاحبہ۔
اب پہلی بار وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پندرہ دن بعد جب ڈاکٹر ہاشمی کا ارضِ حجاز پر قیام ختم ہو جاتا تو وہ لازماً واپس چلے جاتے۔ پھر وہ لندن میں مزید رکنے کا کیا بہانہ کرتا؟
سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھوڑا بن گیا۔ ایک طرف صفیہ سے دور رہنے کا ارادہ اور دوسری طرف تنہائی کا مارا باپ۔ جو اس کے لئے گن گن کر دن گزار رہا تھا۔
اس شام ریحا اس سے ملنے آئی۔ دونوں کتنی ہی دیر چُپ چاپ بیٹھے رہے۔ وہ اس کی حالت پر بیحد دُکھی تھی۔
"سرمد۔ " خاموشی طویل ہو گئی تو ریحا نے لب کھولی۔ "ایک بات پوچھوں ؟"
"پوچھو۔ " اس نے بجھی بجھی نظروں سے اس کے ملیح چہرے کو دیکھا۔
"مجھے تمہارے نجی معاملے میں دخل تو نہیں دینا چاہئے لیکن ہم نے ابھی تک بڑا اچھا وقت گزارا ہے۔ تم اسے دوستی کہہ لو مگر میں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں رکھتی کہ میں تم میں انٹرسٹڈ تھی۔ آں ہاں۔۔۔ چونکو مت۔ " ریحا نے ہاتھ اٹھا کراسے کچھ کہنے سے روک دیا۔ "اسی لئے میں اب تک تمہارے لئے خوار ہو رہی ہوں۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ تم مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے مگر میں ڈھیٹ بن کر تمہارے ارد گرد منڈلاتی رہی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم دونوں کا مذہب جدا ہے۔ کلچر جدا ہے۔ رہن سہن جدا ہے، میں اس آس پر تمہیں مائل کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ تم لندن کے آزاد ماحول میں پل بڑھ رہے ہو۔ ہم کسی نہ کسی کمپرومائز پر پہنچ کر ایک ہو جائیں گی۔ تمہاری ایک دم بدل جانے کی کیفیت نے مجھے تم سے قریب رکھا جب میں نے پوری طرح جان لیا کہ ہماری یونیورسٹی کی یا باہر کی کسی لڑکی میں تم انٹرسٹڈ نہیں ہو۔ مگر تمہارے گریزاں رویے نے مجھے بد دل کر دیا تو میں کچھ دنوں کے لئے تم سے دور چلی گئی۔ یہ سوچ کر کہ شاید میری دوری تمہیں میرے ہونے کا احساس دلائے اور تم مجھ سے ملنا چاہو مگر ۔۔۔ " وہ پھیکے سے انداز میں مسکرائی۔ "یہ میری بھول تھی۔ تم آج بھی ویسے ہی ہو جیسے چند ماہ پہلے پتھر ہو گئے۔ بہرحال۔۔۔ " اس نے اپنے بال جھٹکے سے چہرے سے ہٹائے اور اس کی حیران حیران آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ " آج میں تم سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا تمہاری یہ حالت کسی لڑکی کی وجہ سے ہے؟"
سرمد نے اس سے نظریں چرا لیں۔ اس کے لب کانپے اور سر جھک گیا۔
"خاموش مت رہو سرمد۔ " وہ اٹھی اور اس کے سامنے قالین پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور اسے والہانہ دیکھنے لگی۔ "یہ مت سوچو کہ تمہارے اقرار سے مجھے دُکھ ہو گا۔ ہو گا مگر اس سے زیادہ یہ ضروری ہے سرمد کہ میں حقیقت جان لوں تاکہ مجھے یہ پچھتاوا نہ رہے کہ میں نے تم سے اصل بات جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بولو سرمد۔ ویسے بھی جب تک تم اپنا دُکھ کسی کو بتاؤ گے نہیں ، تمہارے غم کا مداوا نہ ہو سکے گا۔ یہی سوچ کر بولو سرمد کہ شاید میں ، تمہارے کسی کام آ سکوں۔ "
بے اختیار سرمد کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے اور ریحا کے ہاتھوں پر گری۔
"سرمد۔ " بے چین ہو کر ریحا نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے لیا، جس پر کئی دنوں کی بڑھی ہوئی شیو نے اداسی اور یاسیت کھنڈ دی تھی۔
"میں کیا بولوں ریحا؟" وہ یوں رو دیا جیسے اسے اب تک ریحا ہی کے کندھے کا انتظار تھا۔ ریحا اٹھی اور اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔ سرمد نے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا اور اس کی گود میں سر رکھ کر بلکنے لگا۔ ریحا اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی اور اپنے آنسوپینے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔
جی بھر کر رو لیا تو سرمد کا من ہلکا ہو گیا۔ ریحا نے اس کا منہ ہاتھ دھلوایا۔ اصرار کر کے شیو کرائی۔ کپڑے بدلوائے اور اپنی ننھی سی ٹو سیٹر میں اسے ہل پارک میں لے آئی۔
شام ہونے کو تھی۔ آمنے سامنے گھاس کے فرش پر بیٹھے جب چند منٹ سکوت کے عالم میں گزر گئے تو ریحا نے محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر سہلاتے ہوئے کہا۔
"ہاں تو سرمد جی۔ اب کھل جائے۔ ذرا بتائیے تو کہ وہ کون مہ وش ہے جس نے ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے؟"
"ڈاکہ؟" سرمد نے نظریں اٹھائیں اور مسکراتی ہوئی ریحا کو دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر بھی ابھری۔ پھر یہ مسکراہٹ ایک سرد آہ میں بدل گئی۔
"وہ مجھ سے ٹیوشن پڑھا کرتی تھی ریحا۔۔۔ " ہولے ہولے اس نے کہنا شروع کیا۔ ریحا سنتی رہی اور جب سرمد نے بات ختم کی تو ریحا کو اداسی پوری طرح گرفت میں لے چکی تھی۔
سرمد خاموش ہو گیا۔
ریحا سر جھکائے تنکے توڑ تی رہی۔ لگا، جیسے اسے سرمد کی بات ختم ہونے کا پتہ ہی نہیں۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ تب ہوا کے ایک سرد جھونکے نے انہیں کپکپا کر رکھ دیا۔
ریحا نے سر اٹھایا۔ شام اتر آئی تھی۔ پرندے چہچہانا ختم کر چکے تھے۔ پارک سے لوگ رخصت ہو رہے تھے۔
"تمہارا اداس ہونا سمجھ میں آتا ہے سرمد۔ " ریحا نے ایک گہرا سانس لیا۔ "واقعی۔ بات ہی ایسی ہے کہ انسان اپنے قابوسے باہر ہو جاتا ہے، جیسے کہ تم۔۔۔ مگر اب کیا؟ ساری زندگی تو دُکھ کی یہ چادر اوڑھ کر نہیں گزاری جا سکتی۔ "
"گزاری جا سکتی ہے ریحا۔ " پہلی بار سرمد کے لبوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ بکھری۔ " آج سے پہلے مجھے بھی یہ زندگی بوجھل لگتی تھی۔ سانس جیسے سینے میں آرا بن کر چلتا تھا۔ چاہتا تھا کہ جیسے تیسے یہ جینا ختم کر کے دنیا سے چل دوں مگر ۔۔۔ " اس نے بڑی محبت سے ریحا کا ہاتھ تھام لیا۔ " آج تمہارے کندھے پر سر رکھ کر رو لیا ہے تو لگتا ہے سانس لینا آسان ہو گیا ہے۔ میں تمہارا یہ احسان مرتے دم تک یاد رکھوں گا ریحا۔ تم نے میرا من دھو کر سارا غبار اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ اب صفیہ کا دُکھ، دُکھ نہیں رہا۔ ایک نشہ بن گیا ہے۔ اس کی یاد اب نشتر نہیں چبھوتی، ٹیس بن کر درد جگاتی ہے۔ اس درد میں ایک لذت ہے ریحا۔ میں نے ایسی لذت کبھی محسوس ہی نہیں کی، جس سے آج گزر رہا ہوں۔ یاد ایسی مست بھی ہوتی ہے، مجھے اس سے تم نے آشنا کیا۔ یہ غم کا مزہ تمہاری دین ہے۔ صفیہ کے ساتھ تمہاری یاد جُڑ گئی ہے ریحا۔ اسے میں چاہوں بھی تو الگ نہیں کر سکتا۔ "
"میں ایسی گہری اور مشکل مشکل باتیں نہ کر سکتی ہوں نہ سوچ سکتی ہوں سرمد۔ " ریحا نے مسکرا کر کہا۔ "بس یہ جان کر خوش ہوں کہ اب تم زندگی کی طرف لوٹ رہے ہو۔ ساری بات سمجھ کر ایک امید کی جوت دل میں جگا لی ہے میں نے کہ شاید ایک دن تم میرے پاس آ جاؤ اور کہو کہ ریحا۔ مجھے اپنی باہوں میں لے لو۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔ آؤ مل کر ایک آشیانہ بنائیں جس میں۔۔۔ "
"بس۔ " سرمد نے اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔ "مجھ سے کوئی وعدہ نہ لینا ریحا۔ اگر تم میرا نصیب ہو تو ایسا ضرور ہو گا اور اگر میں تمہارا حصہ نہیں ہوں تو آرزو کا پودا پالنے سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔ "
"جانتی ہوں۔ " ریحا نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا اور چوم لیا۔ "تمہارا یہ بوسہ میرے لئے کافی ہے۔ تمہارا یہ لمس میری تمنا کے پودے کو سینچتا رہے گا سرمد۔ میں جب تک ممکن ہو سکا تمہارا انتظار ضرور کروں گی۔ زندگی کے آخری سانس تک انتظار کا وعدہ اس لئے نہیں کر سکتی کہ ماں باپ کی نافرمان نہیں ہونا چاہتی تاہم کوشش کروں گی کہ اس وقت تک کسی کی سیج نہ سجاؤں جب تک تمہاری طرف سے نا امیدی کی خزاں کا جھونکا میرے یقین کے گلشن میں نہ در آئے۔ "
ایک عجیب سے وعدے اور امید کے دیپ دلوں میں جلا کر دونوں اٹھے اور چل پڑی۔ اسے فلیٹ پر چھوڑ کر ریحا نے باہر ہی سے رخصت چاہی تو سرمدکو پتہ چلا کہ وہ اگلے دن واپس انڈیا جا رہی ہے۔
"کبھی لوٹنا چاہو تو بڑا سیدھا سا پتہ ہے سرمد۔ سرینگر میں جموں کشمیر روڈ پر کوٹھی نمبر تین میرا گھر ہے۔ میرا موبائل نمبر تمہیں ازبر ہے۔ کوشش کرنا کہ یہ سیٹ تم بھی کبھی نہ بدلو جس کا نمبر میرے پاس ہے۔ اس پر میں اکثر تمہیں تنگ کرتی رہوں گی۔ "
"واپس جا کر کیا کرو گی؟" سرمد نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر پوچھا۔
"سب سے پہلے ماں سیتا کے مندر جاؤں گی۔ ان سے تمہیں مانگوں گی۔ فرقت کا دُکھ وہ خوب سمجھتی ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر تم میرے نصیب میں نہیں بھی ہو تو وہ میرا نصیب بدل دیں گی۔ تمہیں ضرور میرے دامن میں ڈال دیں گی۔۔۔ اور جب تک ایسا ہو نہیں جاتا تب تک مجھے سکون اور سُکھ کا وردان ضرور دیں گی۔ "
ریحا نے اس کا ہاتھ ہونٹوں سے لگایا۔ آنکھوں سے مس کیا اور اس کی جانب دیکھے بغیر گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو گئی۔ شاید اس میں جاتے ہوئے سرمد کو چھوڑ جانے کے احساس سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہ تھی۔
ریحا چلی گئی۔
مگر۔۔۔ وہ اپنی جگہ بُت بنا کھڑا تھا۔ اس کے دماغ میں بگولے سے چکرا رہے تھے۔ کانوں میں سیٹیاں سی بج رہی تھیں۔ کیا کہہ گئی تھی ریحا؟ اس کا ایک بُت پر کیسا پختہ یقین تھا۔ اسے کیسا اعتماد تھا ایک پتھر پر کہ وہ اس کا مقدر بدل دے گا۔ اسے سکون اور اطمینان بخش دے گا۔ ہونی کو انہونی کر دکھائے گا۔ یہ ایک باطل مفروضے پر قائم مذہب نما ڈھکوسلے پر یقین رکھنے والی ریحا کا حال تھا اور وہ خود جو ایک آفاقی، ازلی و ابدی سچ کے حامل دین کا پیروکار تھا۔ جس کا ایمان ایک، اکیلے اور واحد اللہ پر تھا۔ اس کی سوچ اپنے معبود کی طرف گئی ہی نہ تھی، جو اسے سب کچھ دے سکتا تھا۔ انہونی کو ہونی کر سکتا تھا۔ سکون اور سُکھ کے لئے جس کی طرف رجوع کر لینا ہی کافی تھا۔ وہ اس کے بارے میں اب تک غفلت کا شکار تھا۔
ندامت سے اس کی پیشانی پر پسینہ آ گیا۔ جسم میں شرمندگی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ صفیہ تو اب اس کی نہ ہو سکتی تھی مگر اس نے اپنے خالق سے اس زخم کا تریاق مانگا ہی نہ تھا۔ تنہائی اوڑھ لی تھی۔ اداسی پہن لی تھی۔ نا امیدی کے رستے پر تھکے تھکے قدم اٹھاتا وہ زندگی کا لاشہ گھسیٹ رہا تھا۔ بھول گیا تھا کہ ہر غم، ہر دُکھ، ہر زخم کا مداوا جس کے پاس ہے وہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور اس کے پکار لینے کا ہر آن منتظر ہے۔
ایک بُت پرست نے اپنے دو فقروں سے اسے ملیا میٹ کر دیا۔ گرتا پڑتا وہ فلیٹ میں پہنچا اور قبلہ رخ ہو کر سجدے میں گر پڑا۔ کچھ نہ کہا۔ کچھ نہ بولا۔ بس، روتا رہا۔ ہچکیاں لیتا رہا۔ سسکتا رہا۔ اس کے حضور ندامت کی سب سے اعلیٰ زبان آنسو ہیں اور آنسو اسے جس قدر پسند ہیں ، اس کے بارے میں آنسو بہانے والا سب سے بہتر جانتا ہے۔ یہ آبگینے جب جب پھوٹتے ہیں تب تب اس کے دربار میں بیش قیمت ہوتے جاتے ہیں۔
دوسرے دن اس نے عمرے کے لئے ویزا اپلائی کر دیا۔ اس کے اندر ایک اور ہی شمع روشن ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا اڑ کر حرم جا پہنچی۔ اپنے آقا کے حضور جائے اور پھر لوٹ کر نہ آئی۔ اسے شرم آتی تھی ریحا کے پتھر کے بے جان بھگوان کے بارے میں سوچ کر۔ جس کا ذکر کر کے ریحا نے اسے اس کے سچے خدا کی طرف رجوع کا ادراک بہم پہنچایا تھا۔ ریحا کا یہ دوسرا احسان اس کے پہلے احسان سے بھی بڑا تھا جو اس نے سرمد کی ذات پر کیا تھا۔
٭
ڈاکٹر ہاشمی سے رخصت ہو کر وہ ایر پورٹ سے باہر نکلا اور مکہ کے لئے روانہ ہو گیا۔
ہوٹل میں سامان رکھ کر حرم پہنچا تو اس کی حالت غیر ہو گئی۔ جسم سے جان نکل گئی۔ ہاتھ پاؤں سرد پڑ گئی۔ وہ گرتا پڑتا صحنِ حرم میں داخل ہوا اور گر پڑا۔ اپنے رب کے گھر کے سامنے سجدے میں پڑا وہ سسک رہا تھا۔ کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس کا سر اٹھانے کو جی ہی نہ چاہتا تھا۔ پھر جیسے دل کو قرار سا آ گیا۔ سکون اس کا شانہ تھپک کر تسلی دیتا ہوا جسم و جان میں اتر گیا۔ آنسو خشک ہو گئے یا شاید ختم ہو گئی۔
اس نے سجدے سے سر اٹھایا۔ کعبہ، اپنے اللہ کے پہلے اور آخری گھر پر نظر ڈالی۔ اسے لگا، کعبہ اسے اپنی طرف بلا رہا ہے۔ باہیں پسارے اسے سینے سے لگانے کو اشارے کر رہا ہے۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور عمرے کے ارکان ادا کرنے لگا۔ حجرِ اسود کو چومنے کے لئے جھکا تو ایک خیال برق کی طرح اس کے دل و دماغ میں روشنی دے گیا۔
"اسے میرے آقا نے بوسہ دیا ہے۔ "
اس کے لئے حجرِ اسود کا بوسہ لینا مشکل ہو گیا۔ جس پتھر کو اس کے آقا نے اپنے لبِ اطہر سے چوما تھا، وہ اسے کس ادب سے بوسہ دے؟ کس احترام سے ہونٹوں سے لگائے؟ لرزتے کانپتے ہوئے اس نے اس جنتی پتھر کو بوسہ دیا اور بادل نخواستہ پیچھے ہٹ گیا۔ طواف کرتے کرتے وہ جب بھی حجرِ اسودکے بوسے کے لئے رکا، اس کی یہی حالت ہوئی۔
وہ مکہ میں ارکانِ عمرہ سے فارغ ہو گیا۔ اب اسے مدینہ شریف جانا تھا۔ اپنے اللہ کے حبیب پاک کے حضور حاضر ہونا تھا۔ اپنے آقا و مولا کا خیال آتے ہی اس پر ایک کیف سا طاری ہو گیا۔ رات گزارنا اس کے لئے مشکل ہو گیا۔ ساری رات وہ حرم میں نفل پڑھتا رہا۔ اسے صبح صبح شہرِ نبی کے لئے روانہ ہو جانا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ اس دوران نیند میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرے۔
صبح آخری بار حرم کا طواف کر کے جب وہ رخصت ہوا تو اس کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے۔ دل سے ایک خوشبو کا جھونکا نکلا اور حرم کی جانب روانہ ہو گیا۔
"میرے معبود۔ اسے سُکھی رکھنا۔ "
آمین کے لفظ کے ساتھ اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے حرم کو نگاہوں میں جذب کر لینا چاہا تو جدائی کا احساس، رخصت ہونے کا غم اس کی آنکھوں کو دھندلا گیا مگر جانا تو تھا۔ اس نے سر جھکا کر دونوں ہاتھ کسی غلام کی طرح باندھ لئے اور قدم وداع ہونے کے لئے اٹھا دیا۔
٭
بیگم صاحبہ کا فون آیا تو طاہر نے صفیہ سے واپسی کی تیاری کرنے کا کہہ دیا۔ وہ دو دن بعد آ رہی تھیں۔
"طاہر۔ " جھجکتے ہوئے صفیہ نے کہنا چاہا۔
"کہو ناں۔ رک کیوں گئیں ؟" طاہر نے اسے باہوں میں لے لیا۔
"واپسی سے پہلے ایک بار بابا شاہ مقیم کے مزار پر لے چلئے مجھے بھی۔ " صفیہ نے اس کے سینے پر پیشانی ٹکا دی۔
"تو پھر آج ہی چلو۔ صبح واپس جانا ہے۔ وقت نہیں ملے گا۔ "
"تو چلئے۔ میں تیار ہوں۔ " وہ کھل اٹھی۔
"کرایہ دینا پڑے گا جانے آنے کا؟" شرارت سے طاہر نے اسے ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچا۔
"واپس آ کر۔ " اس نے ہاتھ چھڑایا اور شرما کر الماری کی طرف بڑھ گئی۔ طاہر ہنسا اور وضو کرنے چلا گیا۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ بابا شاہ مقیم کے مزار پر تھی۔ درویش برگد تلے دری بچھائے جیسے انہی کے انتظار میں بیٹھا تھا۔
"سلام کر کے ادھر ہی آ جانا اللہ والیو۔ " اس نے وہیں سے صدا لگائی۔ صفیہ نے خود کو چادر میں خوب اچھی طرح ملفوف کر رکھا تھا۔ اس نے گاڑی سے اتر کر درویش کی جانب نظر اٹھائی جو سر جھکائے ہولے ہولے جھوم رہا تھا۔
" آ جاؤ۔ پہلے سلام کر لیں۔ " طاہر اسے لئے ہوئے مزار کی جانب چل پرا۔
سادہ سے مزار کے اندر داخل ہوتے ہی صفیہ کو ایک عجیب سے سکون نے گھیر لیا۔ جتنی دیر وہ طاہر کے ساتھ اندر کھڑی دعا کرتی رہی اس کا سارا جسم کسی نامعلوم احساس سے لرزتا رہا۔ اس کپکپاہٹ میں ایک ایسا سرور تھا ، ایک ایسی لذت تھی، ایک ایسا کیف تھا، جسے وہ بیان نہ کر سکتی تھی۔
دعا کے بعد وہ دونوں باہر آئے اور درویش کے پاس دری پر جا بیٹھی۔ طاہر نے اس سے مصافحہ کیا اور اس کے چہرے پر کچھ تلاش کرنے لگا۔ کوئی پیغام۔ کوئی سندیسہ۔
"بیٹی آئی ہے۔ " اس نے صفیہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"جی بابا۔ " صفیہ نے ادب سے جواب دیا۔
"جیتی رہو۔ تمہارے سُکھ کی دعا تو وہاں قبول ہوئی ہے جہاں۔۔۔ " کہتے کہتے درویش خاموش ہو گیا۔ "اس پگلے کا خیال رکھا کرو۔ " اس نے بات بدل دی۔
"اپنی سی کوشش تو کرتی ہوں بابا۔ " صفیہ نے آنکھ نہ اٹھائی۔
"کوشش ہی فرض ہے پگلی۔ اس کے بعد تو سب اس کی مرضی پر ہے۔ " درویش نے آسمان کی جانب دیکھا۔ "اور کوشش کا پھل وہ ضرور دیتا ہے۔ "
صفیہ خاموش رہی۔
"بابا۔ کل صبح ہم واپس جا رہے ہیں۔ " طاہر نے پہلی بار زبان کھولی۔
"خیر سے جاؤ اللہ والیو۔ خیر سے جاؤ۔ خیر سے رہو۔ " وہ جھوم کر بولا۔
" آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے ناں بابا؟"
"یاد ہے۔ یاد ہے۔ " درویش نے اس کی جانب مسکرا کر دیکھا۔ "اتاولا نہ ہو۔ وقت آنے دے۔ وعدے سارے پورے ہوں گے اس کے حکم سے۔ " پھر اس نے پاس پڑی ایک کاغذ کی پڑیا اٹھائی اور صفیہ کی جانب بڑھا دی۔ "یہ لے بیٹی۔ یہ بابے شاہ مقیم کا تبرک ہے۔ گھر جا کر دونوں چکھ لینا۔ "
" جی بابا۔ "صفیہ نے پڑیا لے کر پرس میں رکھ لی۔
"بس اب جاؤ۔ اللہ کی پناہ۔ رسول کی امان۔ " درویش نے دونوں ہاتھوں سے صفیہ کے سر پر پیار دیا۔ طاہر سے ہاتھ ملایا۔ اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھا۔ دھیرے سے مسکرایا اور دو زانو بیٹھا رہا۔
طاہر اور صفیہ اٹھی۔ الٹے پاؤں دری سے اتری۔ جوتے پہنے اور ایک بار پھر اسے سر خم کر کے سلام کر کے گاڑی میں آ بیٹھی۔ درویش آنکھیں بند کئے جھوم رہا تھا۔ طاہر نے گاڑی سٹارٹ کی تو درویش کے لبوں سے ایک مدھ بھری تان نکلی۔
پیلُو پکیاں وی۔ پکیاں نے وے
آ چُنوں رَل یار
وہ جھوم جھوم کر گاتا رہا۔ طاہر نے بڑی خوابناک نظروں سے صفیہ کی طرف دیکھا جو درویش کی تان میں گم پلکیں موندے اس کے شانے سے لگی بیٹھی تھی۔ جسم میں پھریریاں لیتے سرور نے طاہر کو مست سا کر دیا۔ بے خودی کے عالم میں اس نے ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھا دیا۔ نور پور کی حدود سے نکلنے تک درویش کی تان ان کا یوں پیچھا کرتی رہی جیسے انہیں رخصت کرنے کے لئے ان کے ساتھ ساتھ محو سفر ہو۔
* * *
بیگم صاحبہ ڈاکٹر ہاشمی اور اعجاز کو طاہر، صفیہ، وسیلہ خاتون، نزدیکی رشتے دار اور طاہر کے آفس کے لوگ چھوٹے موٹے جلوس کی شکل میں کوٹھی لے کر آئی۔
یہاں طاہر نے نیاز کا اہتمام کر رکھا تھا جس کا انتظام پروفیسر قمر اور امبر کے سپرد تھا۔ عشا کے قریب فراغت ہوئی۔ رشتے داروں کے بعد ڈاکٹر ہاشمی اور وسیلہ خاتون رخصت ہو گئے تو پروفیسر قمر اور امبر نے بھی اجازت لی۔ رات کے آٹھ بجے تھے جب صفیہ اور طاہر بیگم صاحبہ کے کمرے میں ان کے دائیں بائیں بستر پر آ بیٹھی۔ بڑے سے ایرانی کمبل میں تینوں کا چھوٹاسا خاندان سما گیا۔ پھر مکہ اور مدینہ، حرم اور حرم والی۔ گنبدِ خضریٰ اور آقائے رحمت کی باتیں شروع ہوئیں تو وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ بیگم صاحبہ کا سارا طمطراق، سادگی اور عاجزی میں بدل چکا تھا۔ شہرِ نبی کی بات پر وہ بار بار پُر نم ہو جاتیں۔ ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتیں۔ وہیں مر مٹ جاتیں۔
دیوار گیر کلاک نے رات کے گیارہ بجنے کا اعلان کیا تو بیگم صاحبہ نے انہیں جا کر سونے کو کہا۔ "بس بیٹی۔ اب تم لوگ بھی جا کر سو جاؤ۔ رات آدھی ہونے کو ہے۔ اور صبح اٹھ کر نماز بھی پڑھا کرو۔ "
"جی امی۔ " صفیہ نے شرارت سے طاہر کی جانب دیکھا۔ "میں تو پڑھتی ہوں۔ انہیں کہئے۔ "
"طاہر۔ " بیگم صاحبہ نے تسبیح تکئے تلے رکھتے ہوئے کہا۔ "نماز پڑھا کرو بیٹے۔ اب تم بچے نہیں رہے۔ "
"جی امی۔ " اس نے چوری چوری صفیہ پر آنکھیں نکالیں۔
پھر دونوں انہیں سلام کر کے اپنے کمرے میں آ گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہی طاہر نے اسے چھاپ لیا۔
"نماز نہیں پڑھتا میں۔ ہے ناں۔ "
"ہاں تو اور کیا۔ " وہ اس کی باہوں میں مچلی۔ "روز کہتی ہوں آپ سے۔ آپ سنتے ہی نہیں۔ "
"وجہ کا تو پتہ ہے ناں تمہیں۔ کیوں نہیں پڑھتا میں ؟" طاہر نے اس کے رخسار پر چٹکی لی۔
"کوئی وجہ نہیں۔ صرف آپ کی سستی ہے۔ " وہ گال پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
"وجہ ہے صفو جان۔ " طاہر نے اسے سینے پر ڈال لیا۔ " نہ تم ساری رات جگاؤ نہ میری نماز رہ جایا کرے۔ "
"کیا۔ کیا۔ " صفیہ نے پُر زور احتجاج کیا۔ "میں جگاتی ہوں یا آپ نہیں سونے دیتے؟"
"ایک ہی بات ہے۔ " وہ لاپروائی سے بولا۔
"بہر حال آج سے کوئی وجہ قابل قبول نہیں ہو گی۔ صبح آپ وقت پر اٹھیں گے اور نماز پڑھیں گے۔ " وہ مچل کر اس کی گرفت سے نکل گئی۔
"جیسے حکم سرکار کا۔ " طاہر نے ہار مان لی۔ " اب سونے کی اجازت ہے یا نہیں ؟"
"بالکل ہے۔ سو جائیے چُپ چاپ۔ "اس نے کمبل کھول کر طاہر پر پھیلایا۔ طاہر نے اسے شریر نظروں سے گھور کر دیکھا۔ صفیہ نے شرما کر رخ پھیر لیا۔
"اب آ جاؤ۔ ورنہ میں جاگتا رہوں گا۔ پھر صبح وقت پر نہیں اٹھوں گا اور نماز رہ جائے گی۔ " بڑی معصومیت سے اس نے کہا تو صفیہ کی ہنسی نکل گئی۔ آہستہ سے وہ کمبل میں در آئی۔
"مطلب کے پورے پکے ہیں آپ۔ "
"شش۔ " طاہر نے اس کے لبوں پر مہر محبت ثبت کر دی۔ "بات کرنے کا نہیں۔ سونے کا ہے بابا۔ " اور ہاتھ بڑھا کر بیڈ سوئچ آف کر دیا۔
٭
مسجدِ نبوی کے صحن میں بیٹھ کر گنبدِ خضریٰ کو تکتے رہناسرمد کا سب سے پسندیدہ عمل تھا۔ وہ جب سے اپنے آقا کے شہر میں آیا تھا اس نے نماز اور درود کے علاوہ اور کسی شے کی طرف دھیان ہی نہ دیا تھا۔ ہوٹل میں کپڑے بدلنے یا غسل کے لئے جاتا ورنہ اس کا سارا وقت وہیں گزرتا۔
اللہ کے حبیب کے حضور حاضر ہو کر اس نے جو کیف پایا تھا، اس کا اظہار لفظوں میں ممکن ہی نہ تھا۔ دل کی دھڑکنیں زبان کے ساتھ صدا دیتی ہوئی، د رود شریف کے ورد میں شامل رہتیں۔ ایک مہک تھی جو اسے ہر طرف رقصاں محسوس ہوتی۔ ایک نور تھا جو ہر شے پر محیط نظر آتا۔ ایک سکون تھا جو اسے ہواؤں میں تیرتا ملتا۔ آنکھیں بند کرتا تو اجالے بکھر جاتی۔ پلکیں وَا کرتا تو قوس قزح کے رنگ چھلک پڑتی۔ آقا کا خیال آتا تو نظر اشکوں سے وضو کرنے لگتی۔ واپس جانے کا خیال آتا تو جگر میں ایک ٹیس سی آنکھ کھول لیتی۔ مگر ، ہر ایک کیفیت میں مزا تھا۔ ایک لذت تھی۔ درد بھی اٹھتا تو سرور آمیز لگتا۔
آخری دن تھا جب وہ دربارِ نبوی میں ہدیہ درود و سلام پیش کرنے کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑا تھا۔ زبان گنگ تھی۔ لب کانپ رہے تھے اور دعا کے الفاظ کہیں گم ہو چکے تھے۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس کے آنسو تھم ہی نہ رہے تھے۔ ہچکی بندھ گئی تو وہ کھڑا نہ رہ سکا۔ آہستہ سے وہ اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور سسکنے لگا۔
"میرے آقا۔ میرے مولا۔ میں کیا مانگوں ؟ کوئی طلب ہی نہیں رہی۔ آپ کے در پر آ گیا۔ اب اور کیا چاہوں ؟ کس کے لئے چاہوں ؟"
اور "کس کے لئے " کے الفاظ پر ایک دم اس کے تصور میں ایک چہرہ ابھرا۔
"ہاں۔ اس کے لئے سُکھ عطا کیجئے۔ " دل سے ایک بار پھر مہک نکلی۔
"اپنے لئے بھی تو کچھ مانگ پگلے۔ " ایک سرگوشی نے اسے چونکا دیا۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ جس کی صدا تھی، وہ کہیں نظر نہ آیا۔ لوگ اس سے دور دور تھی۔
"اس در پر آ کر کچھ نہ مانگنا بد نصیبی ہے۔ کچھ مانگ لے۔ کچھ مانگ لے۔ " کوئی اسے اکسا رہا تھا۔ اسے سمجھا رہا تھا۔ مگر کون؟ اس نے بار بار تلاش کیا۔ کوئی دکھائی نہ دیا۔ تھک کر اس نے سر جھکا لیا اور آنکھیں موند لیں۔
"کیا مانگوں ؟" اب وہ خود سے سوال کر رہا تھا۔ "کیا مانگوں ؟ کیا مانگوں ؟" اس کا رواں رواں پکار رہا تھا۔ پھر جیسے یہ سوال جواب میں بدل گیا۔ اسے اپنی زبان پر اختیار نہ رہا۔ اپنی طلب پر اختیار نہ رہا۔ اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔
"میرے آقا۔ میں خام ہوں۔ ناکام ہوں۔ مجھے وہ دیجئے۔ وہ عطا کیجئے جو مجھے کامیاب کر دے۔ "
ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی جیسے اس کی زبان پر تالا لگ گیا۔ اس کا سارا جسم ہلکا ہو گیا۔ ہوا سے بھی ہلکا۔ وہ بے وزن ہو گیا۔ اس نے بات ان کی مرضی پہ چھوڑ دی تھی جنہیں اللہ نے اپنا حبیب بنایا اور لوح و قلم پر تصرف عطا کر دیا۔ مانگے سے لوگ من کی مرادیں پاتے ہیں۔ بِن مانگے، اپنی مرضی سے وہ کیا عطا کر دیں ، کون جان سکتا ہے ؟سرمد نے نفع کا سودا کر لیا تھا۔ ایسے نفع کا سودا، جس کے لئے اس کے پلے صرف اور صرف عشق کا زر تھا۔ عشق۔۔۔ جس سے اس کا ازلی و ابدی تعلق ظاہر ہو چکا تھا۔ عشق۔۔۔ جس نے اسے ہجر و فراق کی بھٹی میں تپا کر کندن بنانے کی ٹھان لی تھی۔
اپنے آقا و مولا کے در کے بوسے لیتا ہوا وہ مسجدِ نبوی سے رخصت ہوا۔ چوکھٹ کو چوم کر دل کو تسلی دی۔ حدودِ مدینہ سے نکلنے سے پہلے خاکِ مدینہ پر سجدہ کیا۔ اسے ہونٹوں اور ماتھے سے لگایا۔ پھر مٹھی بھر یہ پاکیزہ مٹی ایک رومال میں باندھ کر اپنی اوپر کی جیب میں رکھ لی۔ اس کے لئے یہ کائنات کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔
ہوٹل کے کمرے سے اپنا مختصر سامان سمیٹ کر اس نے سفری بیگ میں ڈالا اور چیک آؤٹ کے لئے کاونٹر پر چلا آیا۔
ٹیکسی نے اسے جدہ ایر پورٹ کے باہر اتارا تو دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ اچانک وہ ایر پورٹ کی عمارت میں داخل ہوتے ہوتے رک گیا۔
"کہاں جا رہا تھا وہ؟" اس نے خود سے سوال کیا۔
اس کی لندن واپسی کی ٹکٹ کنفرم تھی مگر اس نے باپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عمرے کے بعد لندن نہیں جائے گا، پاکستان آئے گا۔ سوچوں نے اس پر یلغار کر دی۔ اس کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ کیا کرے؟ پاکستان جانا تو اس کے لئے ممکن ہی نہیں تھا اور لندن جانے کا راستہ اس نے ڈاکٹر ہاشمی سے وعدے کی صورت میں بند کر لیا تھا۔ وہ خیالوں میں ڈوبا ہوا ایر پورٹ میں داخل ہوا اور پتھر کے ایک بنچ پر بیٹھ کر آنکھیں موند لیں۔
اس کی پشت پر دوسری جانب اسی بنچ پر دو نوجوان بیٹھے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ انہوں نے سرمد کو بیٹھتے دیکھا تو خاموش ہو گئے۔ چند لمحے سر جھکائے رہے۔ پھر انہوں نے آہستہ سے گردن گھما کر سرمد کی طرف دیکھا جو دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے ہی خیالوں میں گم تھا۔ چند لمحے اس کا جائزہ لیتے رہنے کے بعداس نوجوان نے، جس کی عمر بائیس تئیس سال سے زیادہ نہ تھی، اپنے پچیس چھبیس سالہ ساتھی کی طرف دیکھا جو اس عرصے میں وہاں موجود باقی تمام نشستوں کا جائزہ لے چکا تھا۔ کوئی بھی جگہ خالی نہ پا کر اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔ پہلے نوجوان نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں سرمد کی طرف سے اطمینان دلایا۔ چند لمحوں کے بعد وہ پھر سرگوشیاں کرنے لگے۔
" آج آخری دن ہے حسین۔ اگر آج بھی طلال نہ پہنچا تو ہم دونوں کو روانہ ہو جانا پڑے گا۔ مزید وقت نہیں ہے ہمارے پاس۔ "
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو حمزہ بھائی مگر طلال اکیلا کیسے کمانڈر تک پہنچ پائے گا۔ " چھوٹی عمر کے نوجوان نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"وہ بعد میں دیکھیں گی۔ کل کے بعد ہمیں کمانڈر تک لے جانے والا شخص پھر ایک ماہ بعد مل پائے گا۔ اور یہ سارا عرصہ ہم سوائے دعائیں مانگنے کے اور کیسے گزاریں گے۔ " حمزہ کی سرگوشی تیز ہو گئی۔
"ہوں۔ " حسین نے کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ "تو پھر پروگرام کیا رہا؟"
"ابھی عراق سے آنے والی فلائٹ چیک کریں گے۔ اگر طلال آ گیا تو ٹھیک۔ ورنہ آج رات نو بجے صبح کی فلائٹ کے لئے ٹکٹیں کنفرم کرا لیں گے۔ "
"سیدھا دہلی اور وہاں سے سرینگر۔۔۔ "
"شش۔۔۔۔ " حمزہ نے حسین کا ہاتھ دبا دیا۔ "نام مت لو کسی جگہ کا۔ " اس کے لہجے میں سختی تھی۔
"سوری بھائی۔ " حسین نے معذرت خواہانہ آواز میں کہا۔
"تمہاری یہ سوری کسی دن ایسا کام دکھائے گی کہ۔۔۔ " حمزہ نے ہونٹ کاٹتے ہوئے سر جھٹکا اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔
اسی وقت عراق کے شہر نجف سے آنے والی فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہونے لگی۔ حمزہ اور حسین ایک ساتھ اٹھے اور داخلی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ بڑے اطمینان اور سکون سے قدم اٹھا رہے تھے۔ ان کی چال میں کسی قسم کا اضطراب نہ تھا۔ اضطراب تو وہ بُت بنے بیٹھے سرمد کی جھولی میں ڈال گئے تھے جو کہنیاں گھٹنوں پر رکھی، ہاتھوں پر چہرہ ٹکائے ان دونوں کو دزدیدہ نگاہوں سے جاتا دیکھ رہا تھا۔
ان کی گفتگو نے سرمد کے قلب و ذہن میں جوار بھاٹا پیدا کر دیا تھا۔ اسے فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ خشک ہوتے حلق کو اس نے تھوک نگل کر تر کیا اور جب نجف سے آنے والی فلائٹ کے پہلے مسافر نے کلیرنس کے بعد لاؤنج میں قدم رکھا تو اس نے اپنی نشست چھوڑ دی۔ اس کا رخ باہر کی جانب تھا۔
اسے کہاں جانا تھا، فیصلہ ہو چکا تھا۔ راستہ دکھایا جا چکا تھا۔ اب تو اسے صرف قدم بڑھانا تھا اور منزل تک پہنچنا تھا۔
٭
آدھ گھنٹے بعد وہ جدہ کے ہوٹل الخامص کے دوسرے فلور پر کمرہ نمبر تین سو تیرہ کے باہر کھڑا تھا۔ سفری بیگ اس نے خوب سنبھال کر کندھے پر درست کیا۔ ادھر ادھر دیکھا۔ کاریڈور بالکل خالی تھا۔ اس کا ہاتھ دستک کے لئے اٹھا۔
"کون؟" اندر سے حمزہ کی آواز ابھری۔
جواب میں اس نے پھر ہولے سے دستک دی۔ فوراً ہی کسی کے دروازے کی طرف چل پڑنے کی آہٹ سنائی دی۔ پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا۔
"تم؟" سامنے کھڑے حمزہ کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔
"کون ہے حمزہ بھائی؟" حسین نے پوچھا۔ پھر وہ بھی اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ سرمد کو دیکھ کر اس کا حال بھی حمزہ سے مختلف نہ رہا۔
"کیا آپ مجھے اندر آنے کے لئے نہ کہیں گے؟" سرمد مسکرایا۔
"یہ تو وہی ہے جو۔۔۔ " حسین نے کہنا چاہا۔
"جی ہاں۔ میں ایر پورٹ پر موجود تھا۔ " سرمد نے اخلاق سے کہا۔
"اندر آ جاؤ۔ " اچانک حمزہ نے کہا اور ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچ لیا۔ پھر جب تک سرمد سمجھ پاتا، دروازہ بند ہو گیا اور ایک سیاہ ریوالور کی نال اس کی پیشانی پر آ ٹکی۔ حسین نے دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔
"کون ہو تم؟" حمزہ کا لہجہ بیحد سرد تھا۔
"اس کے بغیر بھی پوچھیں گے تو میں سچ سچ بتا دوں گا۔ " سرمد نے اچھل کر حلق میں آ جانے والے دل کی دھڑکن پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے ریوالور کی طرف اشارہ کیا۔
"بکواس نہیں۔ " حمزہ نے اسی لہجے میں کہا۔ " تم یہاں تک پہنچے کیسے؟"
"ٹیکسی میں آپ کا پیچھا کرتے ہوئے۔ " سرمد نے بیگ کندھے سے فرش پر گرا دیا۔ اسی وقت حسین نے پیچھے سے آ کر اس کی گردن میں بازو ڈال کر گرفت میں لے لیا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے سرمد کا دایاں ہاتھ مروڑ کر کمر سے لگا دیا۔
"میرا پہلا سوال ابھی جواب طلب ہے۔ کون ہو تم؟" حمزہ نے اسے مشکوک نظروں سے گھورتے ہوئے پھر پوچھا۔
"ایک پاکستانی۔ " سرمد نے مختصراً کہا۔
"فرشتے نہیں ہوتے پاکستانی۔ " حمزہ نے تلخی سے کہا۔ " تم ہمارا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟"
"یہ ذرا تفصیل طلب بات ہے اور اس حالت میں تو میں وضاحت نہ کر سکوں گا۔ " سرمد نے آنکھ کے اشارے سے حسین کی جانب اشارہ کیا۔
"ہوں۔ " حمزہ بڑی سرد نظروں سے چند لمحے اسے گھورتا رہا۔ پھر اس نے ریوالور اس کی پیشانی سے ہٹا لیا۔ "چھوڑ دو اسے۔ "
حسین نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑ دیا اور سرمد اس کے دھکے سے بستر پر جا گرا۔ حمزہ کرسی گھما کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور ریوالور اس پر تان لیا۔ اس کا انداز بتاتا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں اسے نشانہ بنا سکتا ہے۔
"حسین۔ باہر کا جائزہ لو۔ یہ اکیلا ہے یا۔۔۔ "
جواب میں حسین نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ریوالور پر ہاتھ جماتے ہوئے بڑی احتیاط سے دروازہ کھولا۔ دائیں بائیں گردن گھما کر دیکھا۔ پھر باہر نکل گیا۔ تقریباً دو منٹ بعد لوٹا تو اس کے چہرے کی وحشت غائب ہو چکی تھی۔
"لگتا ہے یہ اکیلا ہی ہے حمزہ بھائی۔ " وہ دروازہ لاک کر کے دوسری کرسی پر آ بیٹھا۔
"ہوں۔ " حمزہ نے سرمد کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "اب کھل جاؤ بچے۔ کون ہو اور کیوں آئے ہو؟ اور بولنے سے پہلے یہ سمجھ لو کہ ہمارے پاس تمہارے سچ جھوٹ کو جانچنے کے لئے وقت ہے نہ کوئی جواز۔ اس سے کم وقت میں ہم تمہاری لاش کو باتھ روم میں بند کر کے نکل جائیں گے۔ اس لئے جلدی، کم اور سچ بولو۔ "
"میرا نام سرمد ہاشمی ہے۔ پاکستانی ہوں۔ یہاں عمرہ کرنے آیا تو زندگی کا کوئی مقصد نہ تھا۔ واپس جا رہا تھا تو آپ دونوں کی باتیں کان پڑیں۔ لگا، جیسے راستہ مل گیا ہے۔ اب بے مقصد جینے سے جان چھوٹ جائے گی۔ "
"کیا مطلب؟" حمزہ نے حیرت سے پوچھا۔ "ہماری باتوں سے کیا جان لیا تم نے؟"
"یہ کہ آپ کسی بڑے مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ مجھے بھی اس میں شامل کر لیجئے۔ " سرمد نے تمہیدیں باندھنے سے گریز کیا۔
"او بھائی۔ کیا سمجھ رہے ہو تم؟" حمزہ ہنسا۔ " ہم کسی خاص مقصد کے لئے کوئی بڑا کام نہیں کر رہے۔ ہم تو سیدھے سادے اردنی ہیں۔ "
"اردنی؟" اب سرمد کے حیران ہونے کی باری تھی۔ "مگر آپ تو بڑی روانی سے اردو بول رہے ہیں۔ "
"تو اس میں کیا ہے۔ کیا تم لوگ ہماری طرح عربی نہیں بول لیتے؟" حمزہ نے لاپرواہی سے کہا۔ "بہر حال۔ تم نے جو سمجھا غلط سمجھا اور یہاں آ کر اس سے بھی بڑی غلطی کی۔ اب جب تک ہم جدہ سے نکل نہیں جاتے، تم یہاں قید رہو گے۔ "
"بالکل نہیں۔ میں چاہوں گا کہ آپ طلال کی جگہ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں۔ "
"طلال؟" حمزہ کے ساتھ حسین بھی اچھل پڑا۔ " اس کے بارے میں تم کیسے اور کیا جانتے ہو؟"
"صرف یہ کہ آپ دونوں اس کے نجف سے آنے کے منتظر تھی۔ اور آج بھی اس کے نہ آنے پر اب آپ اکیلے ہی انڈیا کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ "
بھک سے جیسے حمزہ کے دماغ کا فیوز اڑ گیا۔ اس نے ایسی نظروں سے حسین کی طرف دیکھا جن سے بے اعتباری مترشح تھی۔
"یہ تو ہماری ساری باتیں سن چکا ہے حمزہ بھائی۔ اب اس کا زندہ رہنا ٹھیک نہیں۔ " اس نے جیب سے ریوالور نکال لیا۔
"رکو۔ " حمزہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے کسی بھی اقدام سے منع کر دیا۔ پھر اس نے سرمد کی جانب دیکھا۔ "تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم لوگ کون ہیں اور کس کام میں لگے ہیں ؟"
"میرا اندازہ ہے۔ " سرمد بازو سہلاتا ہوا بولا۔ " آپ لوگ انڈیا میں کسی ایسی تحریک سے وابستہ ہیں جو حربی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ آپ کے پاس یہ اسلحہ اور آپ کی گفتگو میں کمانڈر اور سرینگر کا لفظ یہی بتاتا ہے اور۔۔۔ "
"اور۔۔۔ " حمزہ کا سانس رکنے لگا۔
"اور یہ کہ۔۔۔ " سرمد نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں دال دیں۔ " انڈیا میں صرف ایک ہی حربی تحریک چل رہی ہے۔ کشمیر کی۔۔۔ "
"تمہارا کیا خیال ہے اس تحریک کے درست اور نادرست ہونے کے بارے میں ؟"
"میں اسے جہادی تحریک سمجھتا ہوں۔ " سرمد نے بڑے اعتماد سے کہا۔
"حمزہ بھائی۔ اس کی باتوں میں نہ آئیے۔ یہ کوئی بڑی گیم کھیل رہا ہے۔ "حسین نے بیتابی سے بات میں دخل دیا۔
"ہوں۔ " حمزہ نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس کی تیز اور اندر تک چھید کرتی نگاہوں نے سرمد کا سر سے پاؤں تک ایک بار بھرپور جائزہ لیا۔ پھر اس کے چہرے پر رک گئیں۔
"تو تم ہمارے ساتھ اس لئے شامل ہونا چاہتے ہو کہ تم کسی مقصد کے لئے جینا چاہتے ہو؟" اب حمزہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔
" مرنا بھی اسی مقصد کے لئے چاہتا ہوں۔ " سرمد کے لہجے سے عجیب سا عزم جھلک رہا تھا۔
"اور تمہارا خیال ہے کہ ہمیں تمہاری بات پر یقین آ جائے گا؟" تمسخر سے حمزہ نے پوچھا۔
" آ تو جانا چاہئے۔ " سرمد نے گھبرائے بغیر جواب دیا۔
"وہ کیوں ؟" حمزہ نے اسی لہجے میں پوچھا۔
"اس لئے کہ میں جس جگہ اپنی بے مقصد زندگی سے نجات کی دعا کر کے آ رہا ہوں ، وہاں جھوٹ کو اجازت ہی نہیں کہ پر مار سکے۔ "
"کہاں سے آ رہے ہو تم؟" حمزہ ایک دم حیران ہوا۔
"اپنے آقا و مولا کے درِ اقدس سے۔ "
اور حمزہ کا ہاتھ بے جان ہو کر نیچے ہو گیا۔ ریوالور چھوٹ کر فرش پر جا پڑا۔ ایسا لگا، کسی انجانی طاقت نے ایک جھٹکے سے اسے کرسی سے کھڑا کر دیا ہو۔ حسین کا ریوالور والا ہاتھ بھی جھک گیا۔ بالکل ساکت کھڑا حمزہ چند لمحے اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
"میں قربان جاؤں اس نام پر۔ " اس کی آواز لرز رہی تھی۔ "مجھے اب تک گناہ گار کیوں کر رہے تھے تم سرمد ہاشمی؟ ارے۔ تم آتے ہی بتا دیتے کہ تمہیں میرے آقا نے بھیجا ہے۔ آ جاؤ۔ سینے سے لگو۔ ٹھنڈی ڈالو۔ میرے آقا کے بھیجے ہوئے۔ میری پلکوں پر تشریف رکھو۔ میرے دل میں قیام کرو۔ میرے سینے پر اترو مرشد۔ "
حمزہ نے بازو پسار دئیے۔ سرمد آہستہ سے اٹھا۔ پھر لپک کر اس کے سینے سے جا لگا۔ حسین ان دونوں سے آ کر لپٹ گیا۔
وہ تینوں سسکیاں بھر رہے تھے۔ انہیں اپنی منزل پر اپنے آقا کی رحمت، رضا اور خوشنودی کا سایہ چھاؤں کرتا دکھائی دے گیا تھا۔
* * *
"ہم دونوں کشمیری ہیں سرمد۔ " حمزہ بتا رہا تھا۔ "وہاں اس وقت جتنی بھی جماعتیں جہاد کے نام پر سرگرم عمل ہیں ، ہم ان میں سے کسی ایک سے بھی تعلق نہیں رکھتے۔ اس لئے کہ کہیں نہ کہیں ان کے سیاسی مفادات اصل مقصد سے ٹکراتے ہیں۔ کمانڈر کے نام سے ہم جسے پکارتے ہیں ، ایک اللہ کا بندہ ہے جس کے دل میں اپنے غلام وطن کا دردٹیس بن کر دھڑکتا ہے۔ اس کا کسی جہادی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ گوریلا کارروائیوں سے جس طرح کا نقصان پہنچا رہا ہے، وہ دن بدن بھارتی فوجوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس مجاہد کا تعلق کس کس علاقے اور کس کس فرد سے ہے لیکن یہ جانتے ہیں کہ اس کے گروپ میں شامل ہونے والے لا وارث مرتے ہیں نہ ان کی لاشوں کے سودے کئے جاتے ہیں۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی میتیں ان کے اپنے علاقوں میں پہنچائی جاتی ہیں۔ کیسے؟ یہ ہم نہیں جانتے۔ کمانڈر کے گروپ کا نام "عشاق" ہے۔ وہ اللہ کے عاشق ہیں۔ رسول اللہ کے عاشق ہیں اور بس۔ ان کا ایک ہی نعرہ ہے " عزت کی آزاد زندگی یا شہادت۔ " گروپ میں ہر شامل ہونے والے کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ عمرہ کرے۔ اللہ کے گھر میں حاضری دینے کے بعد اپنے آقا کے در پر پہنچے۔ اپنے تن من کو قبولیت کا غسل دے۔ اس کے بعد گروپ میں شمولیت کے لئے کمانڈر کے خاص آدمی سے رابطہ کرے۔ ایک ماہ کی گوریلا ٹریننگ کے بعد معرکوں میں شمولیت کے لئے ڈیوٹی لگ جاتی ہے۔ پھر یہ اپنا اپنا نصیب ہے کہ شہادت ملتی ہے یا مجاہدانہ حیات۔ "
"تو آپ دونوں بھی یہاں۔۔۔ "
"ہاں۔ " حمزہ نے سرمد کی بات اچک لی۔ "ہم پہلے کشمیری مجاہدین کی ایک جماعت کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں۔ ٹریننگ کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم عمرہ کی شرط پوری کرنے کے لئے یہاں آئے تھے۔ "
"اور طلال کون ہے؟"
"یہ ہمارا عراقی ساتھی ہے۔ عشاق میں دنیا بھر سے جذبہ شہادت سے سرشارلوگ جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں۔ ہمیں کل تک بہر صورت سرینگر پہنچنا ہے۔ طلال نہ آیا تو ہم دونوں اس کے بغیر رخصت ہو جائیں گے۔ "
"لیکن اب مجھے بھی آپ کے ساتھ جانا ہے۔ " سرمد نے جلدی سے کہا۔
"تم عمرہ کر چکے ہو۔ اور نجانے کیوں مجھے تمہاری باتوں میں سچائی نظر آتی ہے۔ کیوں حسین۔ "حمزہ نے گردن گھمائی۔ " کیا خیال ہے؟"
"میں آپ سے متفق ہوں بھائی۔ " حسین نے ان دونوں کی جانب دیکھا۔ "سرمد ہمارے آقا کے در پر حاضری دے کر آ رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں اس کی نیت پر شک کرنا چاہئے۔ "
"لیکن سرمد۔ " حمزہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔ " تمہارے گھر والے۔۔۔ "
"ان کے علم میں نہیں ہے کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔ میں چاہتا بھی نہیں کہ ان سے بحث و تمحیص کے بعد اس راہ پر قدم رکھوں جو مجھے میرے آقا کے در سے تفویض ہوئی ہے۔ "
"شادی ہو چکی ہے تمہاری؟" حمزہ نے پوچھا۔
"عاشقوں کی شادیاں ان کے مقصد سے ہو چکی ہوتی ہیں حمزہ بھائی۔ " سرمد نے گول مول جوا ب دیا۔ ایک پل کے لئے ایک معصوم سا چہرہ اس کے تصور میں ابھرا، جسے اس نے فوراً ہی تیز ہوتی دھڑکن کے پردے میں چھپا لیا۔
"یہ تو تم نے سچ کہا۔ " حمزہ اس سے متاثر ہو چکا تھا۔ " پھر بھی عشاق کے منشور میں ہے کہ ساری معلومات سچی اور صاف صاف بہم پہنچائی جائیں۔ "
"اس کے لئے میں تیار ہوں۔ میرا دنیا میں سوائے اپنے والد کے اور کوئی نہیں ہے۔ انہیں معاشی طور پر میری مدد کی ضرورت بھی نہیں۔ وہ بڑے نامور ڈاکٹر ہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ انہیں میرے اس اقدام کے بارے میں تب پتہ چلے جب میں کچھ کر کے دکھاؤں تاکہ وہ مجھ پر فخر کر سکیں۔ "
"ہوں۔ " حمزہ نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا۔ "اپنا پاسپورٹ دو۔ "
سرمد نے قالین پر پڑا بیگ کھولا۔ پاسپورٹ نکال کر حمزہ کے حوالے کیا، جسے وہ کھول کر دیکھنے لگا۔
"سرمد۔ آخری بار سوچ لو۔ اس کے بعد تمہیں یہ موقع نہیں ملے گا کہ تم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکو۔ "
"سوچ لیا حمزہ بھائی۔ " ایک عزم سے سرمد نے کہا۔ " فیصلہ تو میرے آقا نے فرما دیا۔ مجھے تو اس پر صرف عمل کرنا ہے۔ "
"تو ٹھیک ہے۔ " حمزہ اٹھ گیا۔ "تم حسین کے ساتھ چلے جاؤ۔ اپنی تمام چیزیں جن سے تمہاری شناخت ہو سکے، یا تو ضائع کر دو، یا اپنے گھر پاکستان کوریئر کر دو۔ صرف یہ پاسپورٹ اور آئیڈنٹی کارڈ ہے جو تمہاری پہچان رہے گا، وہ بھی سرینگر تک۔ اس کے بعد یہ بھی تمہارے لئے بیکار ہو جائے گا۔ "
"میرے پاس ویزا کارڈ اور کریڈٹ کارڈ کے علاوہ سعودی کرنسی بھی ہے حمزہ بھائی۔ اس کا کیا کروں ؟" سرمد نے بیگ سے چیزیں نکالتے ہوئے پوچھا۔
"اگر تم چاہو تو عشاق کو عطیہ کر سکتے ہو لیکن یہ تمہاری خوشی پر منحصر ہے۔ اس کے لئے کمانڈر کی طرف سے کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔ "
"تو یہ لیجئے۔ یہ میری طرف سے عشاق کو عطیہ کر دیجئے۔ " سرمد نے اپنا کریڈٹ کارڈ، ڈاکٹر ہاشمی کا دیا ہوا ویزا کارڈ اور سعودی کرنسی حمزہ کے حوالے کر دی۔ بیگ سے اس نے تمام کاغذات نکال لئے۔ ان کا ایک پیکٹ بنایا۔ اس پر گھر کا پتہ لکھا اور حسین کے حوالے کر دیا۔
"حسین بھائی۔ یہ کوریئر کرا دینا۔ میرا جانا ضروری تو نہیں ہے اس کے لئے۔ "
"ٹھیک ہے۔ " حمزہ نے حسین کو اشارہ کیا۔ اس نے پیکٹ لے لیا۔ " تم یہیں رکو۔ حسین کچھ دیر میں لوٹ آئے گا۔ مجھے واپسی میں تین چار گھنٹے لگیں گے۔ "
"ٹھیک ہے حمزہ بھائی۔ " سرمد ان کے ساتھ دروازے تک آیا۔
"کسی بھی انجان شخص کے لئے دروازہ کھولنے کی ضرورت ہے نہ کسی سے بات کرنے کی۔ میں تمہارے لئے کافی اور کچھ کھانے کو بھجوا تا ہوں۔ "
جواب میں سرمد نے محض سر ہلا دیا۔ وہ دونوں کمرے سے نکلے تو اس نے دروازہ اندر سے لاک کر لیا۔
اچانک اسے کچھ خیال آیا۔ کچھ دیر وہ سوچ میں ڈوبا رہا پھر موبائل جیب سے نکال کر ایک نمبر ملایا۔
"ہیلو۔ ریحا از ہیئر۔ " دوسری جانب سے وہ بیتابی سے چہکی۔ "اچھے تو ہو سرمد؟ "
"ہاں ہاں۔ " وہ ہولے سے مسکرایا۔ "میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ۔ "
"میں بھی ٹھیک ہوں۔ سنو سرمد۔ کیا تم یقین کرو گے آج صبح سے میں چاہ رہی تھی کہ تم مجھے فون کرو۔ اور دیکھو، تم نے فون کر دیا۔ " وہ ہنسے جا رہی تھی۔ کھلی جا رہی تھی۔
"دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ریحا۔ " وہ بے اختیار کہہ گیا۔
"اچھا۔ " حیرت سے اس نے کہا۔ "تمہارے دل کو بھی میرے دل سے راہ ہو گئی سرمد۔ "
"میں تو محاورتاً کہہ رہا تھا پگلی۔ " سرمد کو اپنے الفاظ کی نزاکت کا احساس ہوا۔
"چلو۔ ہم محاورے ہی میں سہی، تمہارے دل کے قریب تو آئے۔ اچھا یہ کہو۔ خیریت سے فون کیا ؟" اس نے خود ہی بات بدل دی۔ شاید اس ڈر سے کہ سرمد کا اگلا فقرہ، حقیقت کا آئینہ دکھا کر اس سے یہ چھوٹی سی خوشی بھی چھین نہ لے۔
"ہاں۔ " سرمد نے جھجک کر کہا۔ "ایک چھوٹا سا کام تھا ریحا۔ "
"تو کہو ناں۔ جھجک کیوں رہے ہو؟ سرمد۔ یقین کرو اگر مجھے زندگی میں تم سے کوئی کام پڑا ناں۔ تومیں تمہیں حکم دوں گی۔ درخواست نہیں کروں گی۔ ارے ہمارا ایک دوسرے پر جو حق ہے اسے کھل کر استعمال کرو یار۔ نفع نقصان، لینا دینا، تعلق کو ناپ تول کر کیش کرنا، یہ تو ہم ہندو ساہوکاروں کی بدنامیاں ہیں۔ تم مسلمان ہو کر اس چکر میں کیسے پڑ گئے؟" وہ اس کے لتے لے رہی تھی۔
"نہیں۔ ایسی بات نہیں ریحا۔ " وہ جھینپ گیا۔
"تو پھر جلدی سے کہہ ڈالو۔ کیا کام ہے؟"
"ریحا۔ " اس نے سارے تکلفات بالائے طاق رکھنے کی ہمت کر ڈالی۔ "تمہیں ایک بار لندن جانا پڑے گا۔ "
"تم آ رہے ہو وہاں تو میں ہزار بار لندن جانے کو تیار ہوں سرمد۔ " ریحا ایک دم بے چین ہو گئی۔
"نہیں۔ میں نہیں آ رہا لندن۔ "
"تو پھر۔ " وہ حیران ہوئی۔
"تم وہاں میرے فلیٹ پر چلی جانا۔ دروازے کے سامنے اوپر جاتی سیڑھیاں ہیں۔ ساتویں زینے کے کارپٹ کے نیچے فلیٹ کی چابی ہے۔ اندر میری رائٹنگ ٹیبل کے نچلے دراز میں میرے تمام ڈاکومنٹس، رزلٹ کارڈ اور ڈگری ایک لفافے میں بند پڑے ہیں۔ وہ میرے گھر کے پتے پر میرے پاپا کے نام کوریئر کر دینا پلیز۔ "
"مگر۔۔۔ "
"دو مہینے کا کرایہ میرے ایڈوانس میں ابھی باقی ہے۔ میرے لینڈ لارڈ سے مل کر میرا حساب چکا دینا۔ سامان جسے چاہے دے دینا۔ مجھے کسی چیز سے کچھ لینا دینا نہیں۔ " اس نے ریحا کی بات کاٹ کر کہا۔
"وہ تو میں سب کر دوں گی۔ مگر تم ہو کہاں ؟"
"میں۔۔۔ " ایک پل کو سرمد رکا۔ پھر بولا۔ "میں سعودی عرب میں ہوں ریحا۔ عمرہ کرنے آیا تھا یہاں۔ "
"تو واپسی کب تک ہے تمہاری؟"
"جلد ہے۔ " اس نے بات گول کر دی۔
"وہاں سے پاکستان جاؤ گے کیا؟"
"شاید۔ " اس کی آواز دھیمی ہو گئی۔ " ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن لندن نہ جانے کا میں اپنے پاپا سے وعدہ کر چکا ہوں ریحا۔ اس لئے تمہیں تکلیف دے رہا ہوں۔ "
"وہ تکلیف تو میں اٹھا لوں گی سرمد لیکن مجھ سے وعدہ کرو تم جہاں بھی رہو گے مجھ سے رابطہ رکھو گے۔ "
"ہاں۔ " کچھ سوچ کر سرمد نے کہا۔ " اگر ممکن ہوا تو۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔ "
"اور جب بھی ہو سکا مجھ سے ملو گے بھی۔ "اس نے مزید پاؤں پھیلائے۔
"ہاں۔ ضرور۔ "
"تو ٹھیک ہے۔ " وہ ایک دم خوش ہو گئی۔ "میں ایک دو روز میں لندن چلی جاؤں گی۔ پھر تمہیں بتاؤں گی کہ تمہارا کام ہو گیا۔ " وہ اس سے رابطے کا بہانہ محفوظ کر رہی تھی۔
"میں خود تم سے بات کروں گا ریحا۔ تم فکر نہ کرو۔ "
"چلو۔ جو پہلے بات کر لی، وہی سکندر۔ " ریحا کا موڈ بیحد خوشگوار ہو رہا تھا۔ وہ سرمد کے ہنس کر بول لینے ہی پر فدا ہوئی جا رہی تھی۔
"اچھا ریحا۔ اب اجازت۔ "
"کس دل سے کہوں کہ ہاں۔ " وہ جذباتی ہو گئی۔ "مگر ہو گا تو وہی جو طے ہے۔ اس لئے گڈ بائی سرمد۔ آل دی بیسٹ۔ "
"خوش رہو ریحا۔ سلامت رہو۔ " سرمد نے بٹن دبا دیا۔ وہ مزید اس پگلی کو باتیں کرنے کا موقع دے کر اس کے خواب کا دورانیہ طویل نہ کرنا چاہتا تھا۔ موبائل جیب میں رکھ کر اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ پھر کسی گہری سوچ میں گم بیڈ پر نیم دراز ہو گیا۔
سوچتے سوچتے ریحا کی جگہ موجودہ صورتحال نے لے لی اور بے اختیار اس کے رگ و پے میں ایک سکون سا بھر گیا تھا۔ یوں لگتا تھا، وہ جس مقصد کے لئے یہاں آیا تھا وہ پورا ہو گیا ہے۔
"عشاق۔ " اچانک اس کے ذہن کے پردے پر ایک لفظ ابھرا۔ کمانڈر نے کیسا با مقصد لفظ اپنے گروپ کے لئے چُنا تھا۔ اسے اپنے بارے میں خیال آیا تو لگا، یہ لفظ اس کے لئے ہی منتخب کیا گیا ہے۔ وہ جو ایک ناکام عاشق تھا۔ اسے ایک کامیاب راستے کی نوید دے کر اس کے آقا نے رخصت کر دیا تھا۔ صفیہ کے عشق نے، عشقِ مجازی نے اس کا ہاتھ عشقِ حقیقی کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔
٭
تقریباً ایک گھنٹے بعد حسین لوٹا۔ اس نے ڈاکٹر ہاشمی کے پتے پر سرمد کا پیکٹ کوریئر کرا دیا تھا۔ رسید سرمد کو دے کر وہ باتھ روم میں گھس گیا۔ سرمد رسید ہاتھ میں لئے کچھ دیر اسے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر ایک طویل سانس لے کر اسے ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ حسین نے اسے ایسا کرتے ہوئے دیکھا اور خاموشی سے صوفے پر آ بیٹھا۔ دوپہر کا کھانا ان دونوں نے اکٹھے کھایا۔ حمزہ شام کے قریب لوٹا۔ وہ بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
"کام ہو گیا ؟" حسین نے بیتابی سے پوچھا۔
"ہاں۔ بڑی مشکل سے ہوا مگر ہو گیا۔ " حمزہ نے تین پاسپورٹ نکال کر اس کی طرف اچھالے اور خود بستر پر گر پڑا۔
"ویری گڈ۔ " حسین نے تیسرا پاسپورٹ دیکھ کر حیرت بھرے تحسین آمیز لہجے میں کہا اور پاسپورٹ سرمد کے ہاتھ میں دے دیا۔
سرمد نے اپنا پاسپورٹ کھول کر دیکھا اور اب حیران ہونے کی باری اس کی تھی۔ "ارے" کہتے ہوئے اس نے حمزہ کی جانب دیکھا۔ "یہ کیسے ہوا حمزہ بھائی؟"
"بس ہو گیا۔ اب تم لوگ تیار رہو۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے ہم لوگ چیک آؤٹ کر جائیں گے۔ نو بجے کی فلائٹ ہے۔ میں ٹکٹ کنفرم کرا لایا ہوں۔ "
سرمد نے مزید کوئی سوال کرنا مناسب نہ سمجھا اور پاسپورٹ جیب میں رکھ لیا جس پر حمزہ نے بھارت کا ویزہ لگوا لیا تھا۔
ٹھیک پونے نو بجے وہ لوگ ایر پورٹ پر تھے۔ ان کے پاس سوائے ایک ایک ہینڈ بیگ کے اب کوئی سامان نہ تھا۔ ریوالور اور فالتو سامان ہوٹل کے کمرے ہی میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہینڈ بیگز میں ان کا ایک ایک کپڑوں کا جوڑا، چند اشیائے ضرورت اور پاسپورٹ تھی۔
پورے نو بجے گلف ایر لائن کے طیارے نے دہلی کے لئے رن وے چھوڑ دیا۔ کھڑکی کے قریب بیٹھے سرمد نے جدہ ایر پورٹ کی جلتی بجھتی روشنیوں پر نظر ڈالی۔ پھر فضا میں جہاز سیدھا ہوا تو ان لوگوں نے سیفٹی بیلٹس کھول دیں۔ بے اختیار سرمد نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ اس کا دل بڑے زور سے پھڑپھڑایا۔ گنبدِ خضریٰ اس کی نگاہوں میں دمکا اور غیر اختیاری طور پر اس کے لبوں پر درود شریف مہک اٹھا۔ سارا جسم ایک بار تن کر یوں ٹوٹا جیسے ساری تھکان، ساری کلفتیں ، ساری اداسیاں ہوا ہو گئی ہوں۔ آنکھیں بند کرتے ہوئے اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ حمزہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا کہ سرمد کے لب ہولے ہولے ہل رہے ہیں۔ اس نے کان لگا کر سنا اور عقیدت سے اس کا دل بھر آیا۔ وہ دم بخود رہ گیا۔ سرمد کے ہونٹوں پر خالقِ کون و مکاں کا پسندیدہ وظیفہ جاری تھا۔
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
"عشاق" کے لئے اس سے بڑا ورد اور کیا ہو سکتا ہے۔ " اس نے سوچا اور بے ساختہ اس کے ہونٹ بھی متحرک ہو گئے۔
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
اور وہاں سے ہزاروں میل دور، نور پور گاؤں کے قریب، بابا شاہ مقیم کے مزار کے باہر کھڑے درویش نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا۔ ہواؤں میں کچھ سونگھا اور پکار اٹھا۔
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ " پھر وہ مزار کی طرف بھاگا۔ "بابا۔ او بابا شاہ مقیم۔ دیکھ۔ وہ چل دیا ہے۔ اپنی منزل کی جانب۔ دیکھ۔ اسے میرے آقا نے قبول کر لیا ہے۔ اس کا عشق اسے مہکا رہا ہے بابا شاہ مقیم۔ اسے دہکا رہا ہے۔ اسے صلی اللہ علیہ وسلم کے پر عطا کر دیے گئے ہیں۔ وہ اڑ رہا ہے۔ اس کی پرواز شروع ہو گئی بابا۔ دیکھ۔ اس نے اپنے خالق، اپنے معبود کی رضا، اپنے مقصود، اپنی منزل کی جانب سفر شرو ع کر دیا ہے۔ دیکھ۔ دیکھ۔ بابا شاہ مقیم دیکھ۔ "
درویش پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر بھاگا پھر رہا تھا۔ آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا اٹھا کر اشارے کر رہا تھا۔ مزار والے کو بتا رہا تھا۔ وہ بچوں کی طرح خوش تھا۔ قلقاریاں مار رہا تھا۔ ہواؤں میں اڑنے کو پر کھول رہا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک دم وہ مزار کے باہر ایک جگہ رک گیا۔ بایاں بازو موڑ کر کمر پر رکھا۔ دایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا۔ سر جھکا کر آنکھیں بند کر لیں اور دھیرے دھیرے ہلکورے لینے لگا۔
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
وہ جھوم رہا تھا۔ گنگنا رہا تھا۔ رقص کر رہا تھا۔ چک پھیریاں لے رہا تھا۔ ہوا اس کے ساتھ محوِ رقص تھی۔ فضا اس کے ساتھ بے خود تھی۔ درختوں کے پتے تال دے رہے تھے۔ شاخیں سر دھُن رہی تھیں۔ مٹی سوندھی سوندھی خوشبو سے مستی پھیلا رہی تھی۔ آسمان پر فرشتے اپنے رب کے حضور گا رہے تھے۔ تارے چمک چمک کر صدائیں دے رہے تھے۔ کائنات وجد میں تھی۔ جلوت و خلوت کے لبوں پر ایک ہی گیت تھا۔ ہر طرف ایک ہی نغمہ سرور بانٹ رہا تھا۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔
* * *
ڈاکٹر ہاشمی کے سامنے سعودی عرب اور لندن سے آنے والے دونوں پیکٹ کھلے پڑے تھے۔ ایک سے سرمد کے ضروری کاغذات اور دوسرے سے اس کی ایم بی اے کی ڈگری، رزلٹ کارڈ اور یونیورسٹی کے دیگر ڈاکومنٹس بر آمد ہوئے تھے۔ دونوں کے ساتھ ہی سرمد کے طرف سے کوئی خط یا دوسری تحریر نہ تھی۔
ان کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ سرمد نے انہیں یہ سب کچھ ارسال کیا تو کیوں ؟وہ خود کہاں ہے؟ اپنا ٹھکانہ نہ بتایا تو اس کا سبب کیا ہے؟ان کے حساب سے سرمد کو کئی دن پہلے واپس ان کے پاس لوٹ آنا چاہئے تھا مگر اس کے بجائے اس کے کاغذات آئے تھے اور بس۔ مزید نہ کوئی خیر خبر نہ اطلاع۔
سوچ سوچ کر ان کاسردرد سے پھٹنے لگا۔ اپنی الجھن دور کرنے کے لئے انہوں نے آخری بار پیکٹ کے ریپر کا جائزہ لیا۔ اس پر بھیجنے والے کا نام سرمد ہاشمی تحریر تھا۔ یہ پیکٹ جدہ سے بھیجا گیا تھا۔ جبکہ لندن سے آنے والے پیکٹ پر کسی لڑکی ریحا کا نام اور پتہ سرمد کے فلیٹ کا تحریر تھا۔
کچھ سوچ کر انہوں نے لندن یونیورسٹی کے انکوائری آفس کا نمبر ملایا۔ تھوڑی دیر بعد رابطہ ہو گیا مگر وہاں سے جو معلومات حاصل ہوئیں وہ اور بھی فکرمند کر دینے والی تھیں۔ آفس والوں نے بتایا کہ سرمد عمرے کے لئے گیا اور واپس نہیں آیا۔ انہیں جس لڑکی ریحا نے سرمد کے ڈاکومنٹس ارسال کئے، وہ سرمد کی کلاس فیلو تھی۔ بھارت کی رہنے والی اور واپس انڈیا جا چکی تھی۔ وہ دوبارہ کب لندن آئی؟ اور کب اس نے سرمد کے ڈاکومنٹس ڈاکٹر ہاشمی کو کوریئر کئی، اس سے یونیورسٹی والے لاعلم تھے۔
ڈاکٹر ہاشمی کا دل گھبرا گیا۔ ان کا اکلوتا بیٹا کہاں تھا، کیا کر رہا تھا اور کس حال میں تھا؟ انہیں اس بارے میں ایک فیصد بھی علم نہ ہو پایا تھا۔ یہ بے خبری ان کے لئے سوہانِ روح بنتی جا رہی تھی۔ اچانک انہیں کچھ خیال آیا۔ ایک دم انہوں نے سامنے پڑا موبائل اٹھایا اور سرمد کا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے موبائل سرمد نے رسپانڈ نہ کیا۔ وہ بار بار ٹرائی کرتے رہی۔ پہلے مسلسل۔ پھر وقفے وقفے سے مگر کوئی رسپانس نہ پا کر ان کی بے چینی آخری حدوں کو چھونے لگی۔ انہوں نے لندن کے پیکٹ سے ریحا کا کوئی رابطہ جاننا چاہا مگر اس پر ریحا نے اپنا فون نمبر نہ لکھا تھا اور پتہ وہ دیکھ چکے تھے کہ سرمد کے فلیٹ کا تھا۔
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
انہیں سرمد کی حالت یاد آئی۔ وہ جس دگرگوں حال میں انہیں جدہ ایر پورٹ پر ملا تھا وہ اس کی ذہنی پریشانی کا منہ بولتا ثبوت تھی مگر انہوں نے اس کے پاکستان آ جانے پر معاملہ چھوڑ کر غلطی کی، اس کا احساس انہیں اب ہو رہا تھا۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہیں اس سے ساری بات جاننے کی کوشش کرتے یا اسے ساتھ لے کر لوٹتے۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟
ان کا دل جیسے کوئی مٹھی میں لے کر مسل رہا تھا۔ انہوں نے سرمد کو باپ بن کر کم اور ماں بن کر زیادہ پالا تھا۔ اس کی اچانک گمشدگی اور غیر خبری ان کے لئے ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔
آج صبح سے انہوں نے کوئی مریض نہ دیکھا تھا۔ اپنے کمرے میں آتے ہی انہیں دونوں پیکٹ مل گئے اور انہوں نے چپراسی سے کہہ دیا کہ مریضوں کو ڈاکٹر جمشید کے کمرے میں بھجوا دی۔ ڈاکٹر جمشید کو انٹر کام پر مریض دیکھنے کی ہدایت دے کر انہوں نے پیکٹ کھولے اور اب چکر کھاتے ہوئے دماغ پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
ان کا دماغ کسی ایسے ہمدرد کو تلاش کرنے میں ناکام رہا جو اس صورتحال میں انہیں صحیح راستہ دکھا سکے یا ان کی پریشانی کم کرنے کے لئے کچھ کر سکی۔ سوچتے سوچتے انہیں طاہر کا خیال آیا۔ وہ ان سے کافی بے تکلف بھی تھا۔ اس کے زندگی بھر کے معاملات ان کے سامنے، اور اکثر انہی کے ہاتھوں طے ہوئے تھے حتی ٰ کہ اس کی شادی تک ان کی مرہون منت تھی۔ اس کے تعلقات ہر شعبہ حیات میں تھے۔ THE PROUDکے حوالے سے وہ دنیا کے کئی ممالک میں جانا جاتا تھا۔
انہوں نے ٹیلی فون سیٹ اپنی طرف کھسکایا اور تیزی سے طاہر کا نمبر ملایا۔ نمبر ملاتے ہوئے ان کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ نمایاں تھی۔
"یس۔ انکل۔ طاہر بول رہا ہوں۔ " دوسری جانب سے آواز ابھری تو ڈاکٹر ہاشمی کا خشک ہوتا ہوا گلا درد سے بھر گیا۔
"طاہر۔۔۔ بیٹے۔ " ان کی آواز بھرا گئی۔
"کیا بات ہے انکل؟" وہ چونک پڑا۔ " خیریت تو ہے؟"
"پتہ نہیں بیٹے۔ " وہ بے بس سے ہو گئے۔
" انکل۔ انکل۔ " طاہر بیتابی سے بولا۔ "خیریت تو ہے ناں۔ کیا بات ہے آپ پریشان لگتے ہیں۔ "
"بیٹے۔ وہ سرمد۔۔۔ سرمد۔۔۔ " ان کی آواز ٹوٹ گئی۔
"کیا ہوا سرمد کو؟" طاہر کے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔ "انکل۔۔۔ "
"پتہ نہیں بیٹے۔۔۔ " وہ آنسو پینے کی کوشش کر رہے تھے۔ "سرمد کا کوئی پتہ نہیں چل رہا۔ "
"پتہ نہیں چل رہا؟" حیرت سے طاہر نے کہا۔ "انکل۔ وہ لندن میں ہے ناں۔۔۔ "
"نہیں۔ وہ وہاں نہیں ہے۔ جب ہم واپس آ رہے تھے تو وہ ہمیں جدہ ایر پورٹ پر ملا تھا اور بہت پریشان تھا۔ میں نے اسے عمرہ کر کے سیدھا واپس پاکستان آنے کو کہا تھا مگر ۔۔۔ "
ڈاکٹر ہاشمی کہہ رہے تھے اور طاہر بُت بنا ان کی بات سن رہا تھا۔ اس کے کانوں میں سیٹیاں سی گونج رہی تھیں۔ اسے ڈاکٹر ہاشمی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ سب کچھ سمجھ میں بھی آ رہا تھا مگر جواب دینے کے لئے اس کی زبان سے کوئی لفظ نہ نکل رہا تھا۔ حواس جیسے پتھرا گئے تھے۔
"اب بتاؤ میں کیا کروں طاہر بیٹے۔ میرا سرمد کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ کوئی نہیں بتاتا مجھے۔ " وہ بچوں کی طرح رو پڑے۔
"انکل۔ " ایک دم اسے ہوش آ گیا۔ " آپ۔۔۔ آپ گھبرائیے نہیں۔ میں آ رہا ہوں آپ کے پاس۔ فکر کی کوئی بات نہیں انکل۔ ہم مل کر سرمد کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ میں ابھی چند منٹ میں پہنچ رہا ہوں آپ کے پاس۔ "
اس نے ریسیور کریڈل پر ڈالا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے ذہن میں صرف ایک بار صفیہ اور سرمد کے واسطے سے خیال آیا، جسے سر جھٹک کر اس نے دور پھینک دیا۔ اس بارے میں درویش نے اس کا من یوں دھو ڈالا تھا کہ کیا کوئی تیزاب سنگ مرمر کو دھوتا ہو گا۔ وہ تیز تیز قدموں سے آفس سے نکلا اور چند لمحوں کے بعد اس کی گاڑی ڈاکٹر ہاشمی کے ہاسپٹل کی طرف اڑی جا رہی تھی۔
٭
حمزہ، حسین اور سرمد دہلی ایر پورٹ پر اترے تو صبح کے سات بج رہے تھے۔ سردیوں کی صبح کا سورج طلوع ہونے کی جدوجہد کر رہا تھا۔
خاصی سخت چیکنگ کے بعد وہ عمارت سے باہر نکلے۔ حمزہ نے ایر پورٹ سے باہر کھڑی ٹیکسیوں میں سے کسی کو لفٹ نہ کرائی اور ان دونوں کو ساتھ لئے ہوئے ایر پورٹ کی حدود سے باہر نکل آیا۔ جونہی اس نے ایر پورٹ بس سٹاپ پر قدم روکے، ایک آٹو رکشا ان کے قریب آ رکا۔
"خاص گنج چلیں گے صاحب؟" دبلے پتلے ڈرائیور نے گردن باہر نکالی۔
"ضرور چلیں گے بھائی۔ " حمزہ نے خوشدلی سے کہا۔ "بیٹھو بھئی۔ " اس نے حسین اور سرمد کو اشارہ کیا۔ تینوں پھنس پھنسا کر ہینڈ بیگز گود میں رکھے رکشا میں سوار ہوئے اور ڈرائیور نے رکشا آگے بڑھا دیا۔
"ناشتہ ؟" اچانک ایک موڑ مڑتے ہوئے ڈرائیور نے پوچھا۔
"گھر چل کر کریں گے۔ " حمزہ نے مختصر جواب دیا اور تب سرمد کو پتہ چلا کہ رکشا والا ان کا اپنا آدمی ہے۔
تقریباً بیس منٹ بعد رکشا خاص گنج کی گنجان آبادی میں داخل ہوا اور ایک دو منزلہ مکان کے سامنے رک گیا۔
حمزہ نے اتر کر دروازے پر دستک دی۔ حسین اور سرمد اس کے پاس آ کھڑے ہوئے۔ سرمد نے ایک طائرانہ نگاہ سے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ پاکستان کے کسی اندرون شہر کی آبادی سے ملتا جلتا ماحول تھا۔ دکانیں اور مکان بھی ویسے ہی تھے۔ بھیڑ کا بھی وہی عالم تھا۔ ڈرائیور انہیں اتار کر رکشا وہیں چھوڑ کر کسی طرف نکل گیا۔ دوسری دستک پر دروازہ کھل گیا اور کسی نے انہیں اندر آنے کا راستہ دے دیا۔
وہ تینوں اندر داخل ہوئے۔ سرمد نے اندر قدم رکھا تو دروازہ کھولنے والے باریش نوجوان نے دروازہ بھیڑ دیا۔
"قاسم کہاں ہے؟" اس نے حمزہ سے پوچھا۔
"شاید ناشتہ لینے گیا ہے۔ " حمزہ نے بتایا اور وہ ڈیوڑھی سے گزر کر صحن میں آ گئے۔
"کب روانگی ہے؟" بیٹھک نما کمرے کے دروازے پر جوتیاں اتار کر وہ اندر آئے تو فرشی نشست پر بیٹھتے ہوئے حمزہ نے پوچھا۔
"شام چھ بجے۔ " نوجوان نے کہا۔ پھر اس کی نظر سرمد سے ہٹ کر حمزہ پر ٹھہر گئی۔ "یہ کون ہیں ؟"
"اپنے ہی ساتھی ہیں۔ عمرے کے بعد وہیں مل گئے تھے۔ "
"داؤد کو خبر ہے؟"
"نہیں۔ میں خود بتا دوں گا۔ "
"ٹھیک ہے۔ " نوجوان نے بات ختم کر دی۔ پھر اس نے سرمد کی طرف مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ "خالد کمال۔ "
"سرمد۔ " اس نے گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
اسی وقت قاسم ناشتے کا سامان لئے ہوئے کمرے کے دروازے پر آ رکا۔ "خالد۔ یہ سنبھالو۔ میں ذرا داؤد کو خبر کر آؤں۔ "
خالد نے دونوں شاپر اس کے ہاتھ سے لے لئے تو وہ وہیں سے لوٹ گیا۔ خالد نے جب تک حلوہ پوڑی، چنے اور بالائی کے دونے پلیٹوں میں نکال کر رکھی، اتنی دیر میں ان تینوں نے باری باری اٹیچ باتھ روم میں جا کر رفع حاجت کی۔ منہ ہاتھ دھویا اور پھر ناشتے کے لئے بیٹھ گئے۔
"تم ناشتہ کر چکے کیا؟"حمزہ نے خالد سے پوچھا۔
"نہیں۔ تم لوگ کرو۔ میں اتنی دیر میں چائے بنا لوں۔ "وہ باہر نکل گیا۔
سرمد، ان دونوں کے ساتھ ناشتے میں مشغول ہو گیا۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ بات جتنی بھی تھی اس کی سمجھ میں آ رہی تھی اور جو نہ آ رہی تھی، اس کے بارے میں وہ سوال کرنا نہ چاہتا تھا۔ ناشتے کے بعد چائے کا دور چلا۔ کپ خالی ہوئے ہی تھے کہ قاسم لوٹ آیا۔
"داؤد کو خبر کر دی ہے میں نے۔ وہ ٹھیک چھ بجے ٹاٹا بس سٹینڈ آگرہ روڈ پر ہمارا انتظار کرے گا۔ "
حمزہ نے جواب دینے کے بجائے محض اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
"اب تم لوگ آرام کر و۔ سرینگر تک کا سفر بڑا تھکا دینے والا ہے۔ "قاسم، خالد کے ساتھ کمرے سے نکل گیا۔
حمزہ اور حسین نے تکیے سر کے نیچے رکھے اور کمبل اوڑھ لئے۔ سرمد نے تکیہ دیوار کے سہارے کھڑا کیا اور اس کے ساتھ ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گیا۔ کمبل اس نے کمر تک کھینچ لیا۔
"سونے کی کوشش کرو سرمد۔ ورنہ سفر میں دشواری ہو گی۔ "
" آپ فکر نہ کریں حمزہ بھائی۔ " سرمد مسکرایا۔ " میں جاگنے کا ایکسپرٹ ہوں۔ نیند آئی تو سو جاؤں گا۔ "
حمزہ نے اس سے بحث نہ کی۔ آنکھیں بند کر لیں۔ حسین اتنی ہی دیر میں خراٹے نشر کرنے لگا تھا۔
اب سرمد انہیں کیا بتاتا کہ سرینگر کا نام سنتے ہی اس کی آنکھوں میں ریحا اتر آئی تھی۔ وہ سرینگر میں جموں کشمیر روڈ پر رہتی تھی۔ انہیں بھی کشمیر جانا تھا۔ سوچیں گڈ مڈ ہونے لگیں۔ اس نے پلکیں موند لیں اور ایک دم ریحا کا تصور دھواں ہو گیا۔
اب گنبدِ خضریٰ سامنے تھا۔ سکون نے اسے باہوں میں لے لیا۔ ایک دم اسے کوئی خیال آیا اور سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ اس کا دل بڑے زور سے دھڑکا۔ پھر یقین نے جیسے اس کے خیال پر مہر ثبت کر دی۔ وہ بے حس و حرکت پڑا رہ گیا۔ وہ خیال کیا تھا ایک خوشبو تھی جو اس کے رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی تھی۔ اس نے جان لیا تھا کہ جب سے جدہ ایر پورٹ سے روانہ ہوا تھا، وہ جب بھی آنکھیں موندتا، گنبدِ خضریٰ اس کے تصور کے پردے پر ابھر آتا اور زبان پر درود تو ہر وقت جاری رہنے لگا تھا۔ جب وہ زبان سے کوئی بات کرنے لگتا تو دل اس وظیفے کو چومنے لگتا۔ اس وقت بھی اس نے پلکیں موندیں تو گنبدِ خضریٰ سامنے آ گیا اور زبان، وہ تو جیسے "صلی اللہ علیہ وسلم " کے لئے وقف ہو چکی تھی۔ اس کے ہولے ہولے ہلتے ہونٹ بے آواز درود پڑھ رہے تھے اور دزدیدہ نگاہوں سے حمزہ اسے دیکھ کر رشک محسوس کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سرمد ہر وقت درود شریف کے ورد میں محو رہتا ہے۔ اسے اس حال میں دیکھ دیکھ کر وہ خود بھی درود پڑھنے کا عادی ہوتا جا رہا تھا۔ اس وقت بھی جب اس نے سرمد کے ہونٹ ہلتے دیکھے تو بے اختیار خود بھی دل ہی دل میں درود پڑھنے لگا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ سرمد کو پتہ چلے کہ وہ اس کی تقلید کر رہا ہے۔ وہ اس مہک کو اپنے تک محدود رکھنا چاہتا تھا جس نے اس کے اندر عقیدت کا پودا لگا دیا تھا۔ وہ اس پودے کو چپ چاپ، خاموشی اور راز داری سے سینچنا چاہتا تھا۔
٭
داؤد تیس بتیس سال کا ایک قوی الجثہ کلین شیو آدمی تھا۔ سادہ شلوار قمیض میں بھی وہ بیحد اچھا لگ رہا تھا۔
خالد کے گھر سے چلے تو ان تینوں نے بھی یہی لباس زیب تن کیا جو استعمال شدہ تھوڑے سے مسلے ہوئے شلوار قمیض اور گرم واسکٹوں پر مشتمل تھا۔۔ سروں پر گرم اونی ٹوپیاں پہن لی گئیں اور ہینڈ بیگز وہیں چھوڑ دیے گئے۔
ٹاٹا بس سٹینڈ پر جب حمزہ نے سرمد کا تعارف داؤد سے کرایا تو اس نے چند لمحوں تک بڑی گھورتی ہوئی گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ ہنس کر اس نے سرمد کو گلے لگا لیا۔ سرمد نے محسوس کیا کہ جتنی دیر وہ اسے سر سے پاؤں تک دیکھتا رہا، اس کے جسم میں سوئیاں چبھتی رہیں۔ لگتا تھا اس کی نگاہوں سے ایکسریز خارج ہو رہی ہیں جو اس کے دل میں چھپا خیال تک جان لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ٹاٹا کی آرام دہ بس سے جب وہ چاروں سرینگر کے لئے روانہ ہوئے تو شام ہونے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ حمزہ اور حسین کے بائیں ہاتھ دوسری جانب سرمد اور داؤد کی سیٹیں تھیں۔ راستے میں دو جگہ رک کر صبح سات بجے بس نے انہی سرینگر لا اتارا۔ سارا سفر بڑی خاموشی سے کٹا۔ ایک جگہ کھانے اور دوسری جگہ چائے کے دوران چند رسمی سی باتیں ہوئیں اور بس۔
اڈے سے نکل کر وہ چاروں ایک قہوہ خانے پر آ رکی۔ قہوہ خانے کا مالک ایک کشمیری تھا۔ سردی زوروں پر تھی اور پندرہ بیس لوگ گرم گرم قہوے سے شغل کر رہے تھے۔
وہ چاروں ایک خالی لمبے بنچ پر بیٹھ گئے، جس کے آگے ٹوٹی پھوٹی ایک میز نما شے پڑی تھی۔ دو تین منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکا ان کے لئے قہوہ کے گلاس لے آیا۔ لمبی قمیض گھٹنوں سے اونچی شلوار اور ہوائی چپل پہنے ہوئے ناک سے شوں شوں کرتا وہ انہیں دو پھیروں میں قہوہ سرو کر کے جانے لگا تو داؤد نے اس کی جانب دیکھا۔
" آدھ گھنٹے بعد ٹرک جا رہا ہے۔ " اس نے میز صاف کرتے ہوئے جھک کر یوں کہا کہ شاید ہی کسی تیسرے نے سنا ہو۔ " کھائی پار موڑ پر۔ "
داؤد خاموشی سے قہوے کی چسکیاں لیتا رہا۔ اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ قہوہ ختم کرتے ہی وہ اٹھ گئے۔ داؤد نے لڑکے کو چند چھوٹے نوٹ تھمائے اور وہ چاروں جیکٹوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سرخ مٹی سے آلودہ راستے پر چل پڑے۔ تھوڑی دور سیدھا چلنے کے بعد وہ ایک موڑ پر پہنچے اور ایک دم داؤد انہیں لے کر نیچے سبزے میں اتر گیا۔ سڑک اوپر رہ گئی۔ لمبی لمبی گھاس میں ان کے جسم گم سے ہو گئے۔ تقریباً دس منٹ تک جھک کر چلتے رہنے کے بعد وہ پھر اوپر چڑھ کر دوسری جانب کی سڑک پر آ گئے۔ موڑ مڑے تو دیکھا سامنے سے ایک ٹرک چلا آ رہا تھا، جس پر آرمی سپلائی کی تختی دور سے نظر آ رہی تھی۔
وہ ایک سائڈ پر ہو کر کھڑے ہو گئے۔ ٹرک ان کے قریب آ کر رکا۔ ڈرائیور ایک بوڑھا مگر مضبوط بدن کا آدمی تھا۔
"جلدی کرو۔ " اس نے ان چاروں پر نظر ڈالی۔
داؤد ان تینوں کے ساتھ ٹرک کے پچھلے حصے میں سوار ہوا اور ترپال گرا دی۔ وہ راشن کی بوریوں پر جگہ بنا کر بیٹھ گئے۔
خاموشی ان کے لئے یوں ضروری ہو گئی تھی جیسے وہ بولیں گے تو سزاملے گی۔ ٹرک اپنی رفتار سے چلتا رہا۔ موڑ کاٹتا رہا۔ جھٹکے کھاتا رہا۔ سرمد کو جہاں جگہ ملی، وہاں سے کبھی کبھی ترپال ہلتے ہوئے ہٹ جاتی تھی اور سڑک کا منظر دِکھ جاتا تھا۔ وہ ہلتے ہونٹوں پر اپنا ورد سجائے باہر دیکھ رہا تھا۔ گیارہ بج رہے تھے جب ڈرائیور نے ٹھک ٹھک کی آواز کے ساتھ انہیں ہوشیار کیا۔
"خاموش بیٹھے رہنا۔ چیک پوسٹ ہے۔ " داؤد نے سرگوشی کی۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں ، سرمد کا سارا خون سمٹ کر اس کی کنپٹیوں میں آ گیا۔ دل یکبارگی زور سے دھڑکا۔ وہ اپنی حالت پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔ داؤد نے اس کا ہاتھ تھام کر زور سے دبایا اور شانہ تھپکا۔ اس سے آنکھیں ملتے ہی اسے حوصلہ سا ہوا۔ خشک لبوں پر زبان پھیر کر اس نے تھوک نگلا۔
"کسی کی طرف مت دیکھنا۔ بس سر جھکائے بیٹھے رہو۔ " داؤد نے دھیرے سے کہا۔ جواب میں اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
اسی وقت ٹرک رک گیا۔ فوجی بوٹوں کی آہٹیں گونجیں اور ٹرک کو چاروں طرف سے سنگین آلود رائفلوں نے گھیر لیا۔ ایک جھٹکے سے کسی نے ترپال اٹھا دی۔ ان کے سامنے کتنے ہی فوجی رائفلیں تانے کھڑے انہیں گھور رہے تھے۔
"او رحیم خان۔ " اچانک سب سے اگلے فوجی نے ان چاروں پر خشمناک نگاہ ڈال کر زور سے پکار کر کہا۔
"جی جی کیپٹن صاب۔ جی جی۔ " بوڑھا ڈرائیور لپک کر اس کے پاس چلا آیا۔
"اس بار پھر تم چار مزدور لے کر آ گئے ہو۔ تم اپنی بے ایمانی سے باز نہیں آتے۔ " وہ کڑک کر بولا۔
"بے ایمانی کیسی کیپٹن صاب۔ " رحیم خان لجاجت سے بولا۔ "کام بھی جلدی ہو جاتا ہے اور ان بیچاروں کو دو وقت کی روٹی بھی مل جاتی ہے۔ آپ کا کیا جاتا ہے۔ "
"اچھا زیادہ بڑ بڑ نہ کر۔ " وہ جھڑک کر بولا۔ پھر اس کے ہاتھ سے ایک بوسیدہ سی کاپی چھین لی۔ " میں دستخط کر رہا ہوں ان چاروں کے انٹری پاس اور تمہارے کلیرنس پیپرز پر۔ چلو تم لوگ۔ سب ٹھیک ہے۔ " اس نے فوجیوں کو اشارہ کیا اور رائفلیں جھک گئیں۔ سپاہی انہیں کینہ توز نظروں سے گھورتے ہوئے پلٹ گئے۔
"مہربانی صاب جی۔ " رحیم خان نے دانت نکال دئیے۔
"میری چیز لائے ہو؟" کیپٹن نے بیحد آہستہ آواز میں پوچھا۔
"جی جی۔ " آواز دبا کر رحیم خان نے کہا اور ادھر ادھر دیکھ کر واسکٹ کی سائڈپاکٹ سے ایک نیلا لفافہ نکال کر آہستہ سے کیپٹن کی جیب میں سرکا دیا۔
سرمد نے صاف دیکھا، کیپٹن کے چہرے کا رنگ ایک دم بدل گیا۔ اس کا سانولا پن سرخی میں ڈھل گیا۔ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر اس نے کاپی رحیم خان کو تھمائی اور اس سے نظر ملائے بغیر رخ پھیر لیا۔
"رحیم خان۔ " بڑی آہستہ سے اس نے کہا۔ "میں تمہارا ہمیشہ آبھاری رہوں گا۔ " اور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔
رحیم خان نے ان کی جانب ایک نظر دیکھ کر ترپال نیچے گرائی اور ٹرک کے اگلے حصے کی جانب بڑھ گیا۔
ٹرک چل پڑا۔ سرمد نے ہلتی جلتی ترپال کے باہر دیکھا۔ چیک پوسٹ سے بیریئر ہٹا کر ٹرک کو کلیرنس دے دی گئی تھی۔ فوجی دوبارہ اپنی اپنی جگہوں پر جا کر کھڑے ہو گئے تھے، مگر ان کی نظروں میں چھلکتی نفرت سرمد سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ کیسی عجیب بات تھی کہ بھارتی فوج راشن سپلائی کے لئے انہی کشمیریوں کی محتاج تھی جن پر وہ سالوں سے بارود برسا رہی تھی۔
"جانتے ہو رحیم کاکا نے کیپٹن اجے کو کیا چیز دی ہے؟" ٹرک کافی دور نکل آیا تو داؤد نے سوچ میں ڈوبے سرمد سے پوچھا۔
جواب میں اس نے داؤد کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔
"بھارتی فوجیوں کو کشمیر میں ڈیوٹی دیتے ہوئے اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ دو ماہ میں ایک سے زیادہ خط اپنے گھر لکھ سکیں یا وہاں سے انہیں کوئی خط آ سکے۔ ڈاک پر سنسر بہت سخت ہے۔ کوئی ایسی بات ان تک نہیں پہنچنے دی جاتی جس سے وہ ڈیوٹی کے دوران ڈسٹرب ہو جائیں۔ واپس جانے کے لئے بیتاب ہو جائیں۔ یا چھٹی کی ڈیمانڈ شدت سے کرنے لگیں۔ کیپٹن اجے کے گھر سے رحیم کاکا اس کی بیوی کا دستی خط لایا ہے۔ ساتھ اس کی تین سالہ بچی کا فوٹو ہے، جسے اس نے دو سال سے نہیں دیکھا۔ "
سرمد سنتا رہا اور اس کا دل کانپتا رہا۔
"ہم کشمیریوں پر ان فوجیوں کے مظالم کی، ہم سے نفرت کی ایک یہ بھی بہت بڑی وجہ ہے کہ ہم جیسے بھی ہیں ، جس حال میں بھی ہیں ، اپنے گھر والوں کے پاس ہیں یا ہمارے ان سے ملنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہم پر ظلم کر کے یہ اپنی اس محرومی کا بدلہ بھی لیتے ہیں اور حکومت کی نظر میں قابل فخر بھی بن جاتے ہیں۔ "
سرمد نے کچھ کہنا چاہا مگر پھر نجانے کیا سوچ کر خاموش ہو رہا۔ کچھ دیر بعد اس نے داؤد کی جانب دیکھا جو حمزہ اور حسین سے کوئی بات کر کے سیدھا ہوا تھا۔
"ہم اب کہاں جا رہے ہیں ؟"
"کشمیر کے وسطی علاقے میں بھارتی فوج کی ایک بڑی چھاؤنی ہے جہاں رحیم کاکا راشن سپلائی کرتا ہے۔ وہاں ہم راشن کی یہ بوریاں اتاریں گے۔ واپسی پر ہم ایک جگہ رات گزارنے کے لئے رکیں گے۔ وہاں تم تینوں کو کمانڈر کے حوالے کر کے میں رحیم کاکا کے ساتھ لوٹ آؤں گا۔ "
"مگر واپسی پر آپ اکیلے ہوں گے تو چیک پوسٹ پر۔۔۔ " سرمد نے کہنا چاہا۔
"تمہاری جگہ تین ساتھی میرے ساتھ وہاں سے واپس آئیں گے، جن کے ذمے سرینگر اور دہلی میں مختلف کام لگائے گئے ہیں۔"
بات سرمد کی سمجھ میں آ گئی۔ زیادہ جاننے کی خواہش ہی نہیں تھی۔ حمزہ اور حسین ہلکی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ داؤد بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ سرمد خاموش ہو کر اپنے ورد میں لگ گیا۔
* * *
طاہر نے ڈاکٹر ہاشمی کے دُکھ کو یوں سینے سے لگا یا کہ وہ کسی حد تک سنبھل گئے۔ اس نے فوری طور پر سعودی عرب اپنے دو چار ملنے والوں سے رابطہ کیا۔ THE PROUDکے حوالے سے اس کا ایک نام تھا۔ اس نے اپنا نام کیش کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ امبر نے اپنے طور پر کوشش کی۔ اس ساری بھاگ دوڑ کے نتیجے میں انہیں یہ علم ہو گیا کہ سرمد سعودی عرب سے لندن واپس نہیں گیا بلکہ اس نے انڈیا کا ویزا لگوا یا اور دہلی کے لئے روانہ ہو گیا۔
"انڈیا؟" ڈاکٹر ہاشمی طاہر کی زبان سے سن کر چونکی۔
"جی انکل۔ " طاہر نے ملازم کو کافی کا مگ ان کے آگے رکھنے کا اشارہ کیا اور اپنا مگ تھام لیا۔ "میں بھی وہی سوچ رہا ہوں جو آپ سوچ رہے ہیں۔ "
"کہیں اس لڑکی ریحا کا کوئی تعلق تو نہیں اس سارے قصے سی؟" وہ بیتاب ہو گئی۔
"ہو بھی سکتا ہے انکل۔ " وہ سوچتے ہوئے بولا۔ مگر اس کا اندر نہیں مان رہا تھا کہ سرمد کسی لڑکی کے چکر میں پڑ سکتا ہے۔ اس کا جو کیریکٹر اس کے سامنے آیا تھا۔ اس نے جو کچھ صفیہ کے حوالے سے اس کی زبان سے سنا تھا۔ اس کے بعد سرمد کے لئے کسی اور طرف دیکھنا سمجھ میں آنے اور یقین کرنے والی بات نہ تھی۔
"اس کا مطلب ہے ہمیں انڈین ایمبیسی سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ "
"ابھی نہیں انکل۔ ہمیں پہلے پورے طور پر پُر یقین ہو جانا چاہئے کہ سرمد اسی لڑکی یعنی ریحا کے چکر میں انڈیا گیا ہے۔ "
"بچوں جیسی باتیں کر رہے ہو طاہر۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے مگ کے کنڈے سے کھیلتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔ " سرمد کے ڈاکومنٹس ریحا نے مجھے بھیجے ہیں ، جو انڈین ہے۔ سرمد سعودیہ سے پاکستان آنے کے بجائے انڈیا چلا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ ریحا سے بنتا ہے یا نہیں ؟"
"بنتا ہے انکل لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ سرمد نے ہی ریحا سے کہا ہو کہ اس کے ڈاکومنٹس آپ کو بھیج دے کیونکہ آپ کے بقول آپ نے اسے لندن جانے سے منع کر دیا تھا اور اس نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ لندن نہیں جائے گا، پاکستان آئے گا۔ "
"تو پھر وہ یہاں آنے کے بجائے انڈیا کیوں چلا گیا؟" ڈاکٹر ہاشمی کا دماغ اور الجھ گیا۔
"یہی تو سوچنے کی بات ہے کہ جو لڑکا آپ سے کئے ہوئے وعدے کا اتنا پابند ہے کہ اس نے خود لندن جا کر ڈاکومنٹس لانے سے گریز کیا وہ آپ کے پاس لوٹ آنے کے بجائے انڈیا کیوں چلا گیا؟"
طاہر نے کہا اور ایک خیال اسے بے چین کر گیا۔ اسے وسیلہ خاتون سے سرمد کی گفتگو یاد آ گئی جس میں اس نے کبھی پاکستان نہ آنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ کیا وہ اپنی اسی بات کو نبھانے کے لئے غائب ہو گیا ؟ اس کے دل میں ایک کسک سی جاگی۔ بات جتنی سمجھ میں آتی تھی اس سے زیادہ سمجھ سے باہر ہوئی جا رہی تھی۔ کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنا ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔
ابھی تک یہ سارا معاملہ انہی دونوں کے بیچ تھا۔ صفیہ اور بیگم صاحبہ کو ان دونوں نے باہمی رضامندی سے اس معاملے سے الگ رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا تاکہ ان کے ساتھ وہ بھی پریشان نہ ہو جائیں۔ تیسری ہستی جو اس ساری الجھن سے واقف تھی وہ تھی امبر، جسے طاہر نے صاف منع کر دیا تھا کہ اس بات کا تذکرہ پروفیسر قمر سے بھی نہ کرے۔ امبر نے اس کے لہجے سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا اور کرید کے بجائے اس کے ساتھ صورتحال کو سلجھانے میں شریک ہو گئی۔
"ابھی آپ انڈین ایمبیسی سے کنٹیکٹ کرنے کی بات کر رہے تھے۔ " اچانک طاہر نے کسی خیال کے تحت کہا۔
"ہاں۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کافی کا خالی مگ ٹیبل پر رکھ دیا۔
"میرا خیال ہے، اس کے بجائے ہم خود انڈیا چلیں گے اگر ضرورت پڑے۔ "
تمہارا مطلب ہے ہمیں وہاں نہ جانا پڑے، ایسا بھی ممکن ہے؟" امید بھرے لہجے میں انہوں نے پوچھا۔
"بالکل ممکن ہے انکل۔ " طاہر نے وثوق سے جواب دیا۔ "میں اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوا۔ اور اس معاملے میں تو مجھے بہت زیادہ بہتری کی امید ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمد جیسا بیٹا آپ کو پریشانی سے بچانے کے لئے تو کچھ بھی کر سکتا ہے مگر میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ وہ آپ کو پریشان کرنے کے لئے کوئی الٹی سیدھی حرکت کرے گا۔ بات کچھ اور ہی ہے جس تک فی الحال ہماری رسائی نہیں ہو رہی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ چند دن حالات کے رخ کا اندازہ کرنے کے لئے انتظار کیا جائے۔ سرمد سے رابطے کی مسلسل کوشش کی جائے اور دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشکل سے نجات دے۔ "
"طاہر۔۔۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھ دئیے۔ " میرا جی چاہتا ہے میں تمہاری بات پر یقین کر لوں بیٹے مگر یہ دل۔۔۔ " وہ آبدیدہ ہو گئے۔
"میں سمجھتا ہوں انکل۔ " طاہر نے ان کے ہاتھ تھام لئے۔ "ماں باپ کا دل تو ان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا، یہ کسی اور کی بات کیسے مان سکتا ہے۔ تاہم میں یہی کہوں گا کہ آپ ذرا حوصلے سے کام لیں۔ اک ذرا انتظار کر لیں۔۔۔ "
"میں کوشش کروں گا بیٹے۔ " انہوں نے آنسو پینے کی کوشش کی۔ "بہرحال تمہاری باتوں نے میرا دُکھ بانٹ لیا ہے۔ "
"میرا بس چلے انکل تو میں آپ کا دُکھ اپنے دامن میں ڈال لوں۔ " طاہر نے خلوص سے کہا۔ " آپ نے ساری زندگی مجھے جس شفقت اور دوستی سے نوازا ہے میں اس کا مول چکا ہی نہیں سکتا۔ "
"شکریہ بیٹے۔ " انہوں نے آہستہ سے کہا اور ہاتھ کھینچ لئے۔ آہستہ آہستہ آنکھیں مسلتے ہوئے اٹھے اور کچھ دور صوفے پر جا بیٹھے۔ طاہر کے دل پر چوٹ سی لگی۔ وہ جان گیا کہ وہ اپنے آنسو چھپا رہے ہیں۔ اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا اور کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ وہ مسلسل ذہنی گھوڑے دوڑا رہا تھا کہ کسی طرح بات کا سرا اس کے ہاتھ آ جائے تو وہ سرمد کو ڈھونڈ نکالی۔
٭
کئی مربع میل پر پھیلی ہوئی فوجی چھاؤنی نمبر سینتالیس تک پہنچتے پہنچتے انہیں چار چیک پوسٹوں پر رکنا پڑا لیکن پہلی چیک پوسٹ کے کیپٹن اجے کی کلیرنس نے ان کے لئے ہر جگہ آسانی پیدا کر دی۔
ٹرک سے راشن کی بوریاں اَن لوڈ کی گئیں۔ فارغ ہوتے ہوتے انہیں رات کے آٹھ بج گئے۔ وصولی کے کاغذات پر چھاؤنی کے سٹور کیپر کے سائن لے کر رحیم خان نے کام ختم کیا۔ واؤچر بنوا کر جیب میں ڈالا اور باریک بین نگاہوں سے چاروں طرف پھیلے فوجیوں اور ایمونیشن ڈپو کا جائزہ لیتا ہوا ان چاروں کے ساتھ ٹرک میں واپس چل پڑا۔
اب داؤد اور سرمد اس کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ حمزہ اور حسین پچھلے حصے میں ٹانگیں پسارے بیٹھے تھے، جو اب بالکل خالی تھا۔ ان دونوں کا تو پتہ نہیں مگر سرمد کا جوڑ جوڑ دُکھ رہا تھا۔ اتنا بوجھ اس نے زندگی میں پہلے کب اٹھایا تھا؟
رات کی تاریکی میں ٹرک چھاؤنی کی حدود سے باہر نکلا۔ ان کے انٹری پاس چیک کئے گئے۔ پھر بیرئیر اٹھا کر جانے کا اشارہ کیا گیا۔ ٹرک کو کچے پر موڑتے ہوئے رحیم خان نے داؤد کی جانب ایک نظر دیکھا پھر ہیڈ لائٹس کی روشنی میں سامنے دیکھنے لگا۔
"عقوبت خانے کا اندازہ ہوا کچھ؟"
"میرے کانوں میں ابھی تک وہ چیخیں گونج رہی ہیں رحیم کاکا، جو دیواریں چیر کر مجھ تک پہنچ رہی تھیں۔ " داؤد نے دُکھی لہجے میں کہا مگر اس کی آواز میں ایک آگ بھڑک رہی تھی جس میں وہ دشمن کو جلا کر خاک کر دینا چاہتا تھا۔ سرمد نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے جسم میں خون کا دوران تیز ہو گیا تھا۔
"میرے گاؤں کی تین جوان لڑکیوں کو اٹھا کر لائے ہیں یہ درندے۔ ارد گرد کے علاقے سے ہر روز درجنوں نوجوانوں کو تفتیش کے نام پر یہاں لایا جاتا ہے جنہیں زندہ واپس جانا نصیب نہیں ہوتا۔ کل تک یہاں درندگی کا نشانہ بننے کے بعد خودکشی کر لینے والی بچیوں کی تعداد ایک سو سترہ ہو چکی ہے۔ "
"بس رحیم کاکا بس۔ " داؤد نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔
"کان بند کر لینے سے کچھ نہیں ہو گا بچی۔ " رحیم خان نے دُکھ سے کہا۔ " یہ چھاؤنی نہیں ایک عذاب ہے اس علاقے میں۔ یقین کرو اگراس کا وجود مٹ جائے تو ارد گرد کا ستر اسی میل کا علاقہ ان درندوں کے جبر سے محفوظ ہو جائے گا۔ "
"میں آج کمانڈر سے اسی بارے میں بات کرنے والا ہوں کاکا۔ " داؤد نے گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے کہا۔
"ایسے اور کتنے عقوبت خانے ہیں کشمیر میں ؟" سرمد نے اچانک پوچھا۔
"گنتی ممکن نہیں سرمد۔ " داؤد نے پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔ "سات لاکھ انڈین فوج کی ہزاروں چھاؤنیاں ہیں یہاں۔ اور ہر چھاؤنی اپنی جگہ ایک عذاب خانہ ہے۔ "
" آپ لوگوں نے اب تک کیا کیا اس سلسلے میں ؟"
"اپنی سی کرتے رہتے ہیں۔ " پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ داؤد نے کہا۔ " لیکن ایسی بڑی چھاؤنی اگر تباہ کر دی جائے تو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔ بے شمار لوگوں کی زندگیاں اور عزتیں کتنی ہی مدت تک محفوظ ہو سکتی ہیں۔ "
اسی وقت رحیم خان نے ٹرک ایک سائڈ پر روک دیا۔ "تم لوگ اب نکل جاؤ۔ صبح ہونے سے پہلے تینوں آدمیوں کو لے کر یہیں پہنچ جانا۔ "
ٹھیک ہے کاکا۔ " سرمد اور داؤد کے بعد حمزہ اور حسین بھی پچھلے حصے سے اتر آئے۔ رحیم کاکا نے انہیں بڑی گرمجوشی سے گلے لگا کر دعائیں دیتے ہوئے رخصت کیا۔ واپسی کے لئے تیسری چیک پوسٹ یہاں سے تقریباً تین میل دور تھی۔
داؤد آگے آگے اور وہ تینوں اس کے پیچھے پیچھے رات کے اندھیرے میں سڑک سے ڈھلوان پر اترتے ہوئے سرسراتی گھاس میں غائب ہو گئے۔ داؤد یوں ان کی رہنمائی کرتا ہوا چلا جا رہا تھا جیسے وہ ان راستوں پر پیدائش کے بعد ہی سے سفر کرتا رہا ہو۔ انہیں شروع میں تھوڑی بہت دقت ہوئی، پھر سرمد بھی حمزہ اور حسین کی طرح بے جگری سے قدم بڑھانے لگا تو جھجک اور اس کے باعث پیدا ہونے والی تھکان نے دم توڑ دیا۔ تاہم اس کا ذہن مسلسل داؤد اور رحیم خان کی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔ اخباروں میں پڑھی ہوئی باتوں ، ٹی وی پر دیکھی ہوئی فلموں اور اپنے مشاہدے میں جو فرق تھا، اس نے سرمد کے جسم میں ایک الاؤ دہکا دیا تھا، جس کی تپش وہ اپنے پاؤں کے تلووں سے سر کے بالوں تک میں محسوس کر رہا تھا۔
گھاس کے ڈھلوانی میدان کو عبور کر کے وہ ایک ذخیرے میں داخل ہوئے تو داؤد نے قدم روک لئے۔ چند منٹ تک وہ سب بے حس و حرکت کھڑے رہے۔ داؤد سُن گن لیتا رہا۔ پھر جیسے وہ مطمئن ہو گیا۔ انہیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے وہ ہلکے پیروں سے چلنے لگا۔ ذخیرے سے باہر نکلے تو چاندنی میں انہوں نے خود کو ایک چٹانی سلسلے کے سامنے پایا۔ اونچی نیچی، بڑی چھوٹی، سرخ اور بھوری چٹانیں انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔
داؤد نے ایک بار پھر اپنے چاروں اطراف کا جائزہ لیا۔ پھر جیب سے موبائل نکالا اور اس پر کسی کا نمبر ملانے لگا۔
"عزت۔ " دوسری جانب سے سلسلہ ملتے ہی ایک نسوانی مگر دبنگ آواز سنائی دی۔
" یا شہادت کی موت۔ " داؤد نے فوراً کہا۔
"ہیلو داؤد۔ پہنچ گئے کیا؟"
"ہاں خانم۔ پہنچ گئے۔ " داؤد نے ادھر ادھر نظریں گھماتے ہوئے جواب دیا۔
"کہاں ہو اس وقت؟" پوچھا گیا۔
"پڑاؤ پر۔ "
"اوکے۔ چلے آؤ۔ میں کمانڈر کو خبر کرتی ہوں۔ "
داؤد انہیں لئے ہوئے چٹانوں پر چڑھا۔ دوسری طرف اترے تو سامنے ایک بہت بڑی قدرتی جھیل دکھائی دی۔ جھیل کا پاٹ کسی چھوٹے موٹے دریا سے کم نہ تھا، جس میں کافی دور ایک بڑا شکارا تیر رہا تھا۔ وہ چاروں اپنا رخ شکارے کی طرف کر کے کھڑے ہو گئی۔ شکارے نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا رخ پھیرا اور ان کی طرف بڑھنے لگا۔ سرمد کا دل سینے میں بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اس کی نظریں شکارے پر جمی تھیں جو لمحہ بہ لمحہ ان کے قریب آتا جا رہا تھا۔ نجانے کیوں اس کا دل کہہ رہا تھا کہ کمانڈر اسی شکارے میں ہے۔
٭
شکارا کیا تھا، ایک بڑی لانچ تھی، جس کے درمیان میں ایک بہت بڑا لکڑی سے تعمیر شدہ کمرہ تھا۔ کشمیریوں کی روایتی صناعی اس میں پوری طرح کارفرما دکھائی دے رہی تھی۔
شکارا کنارے پر آن لگا۔ پہلے داؤد، پھر سرمد، حمزہ اور حسین باری باری شکارے پر چلے گئے۔ سامنے روایتی کشمیری لباس میں اپنی پوری سج دھج کے ساتھ ایک خوبصورت دوشیزہ چہرے پر باریک سا نقاب ڈالے کھڑی انہیں بغور دیکھ رہی تھی۔ چاندنی اس کے چہرے پر اپنا پرتو ڈال رہی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے وہ چاندنی رات کا ایک حصہ ہو۔ اگر وہ پردے میں چلی گئی تو رات کا حسن ادھورا پڑ جائے گا۔ وہ جس جگہ کھڑی تھی، اس کے بائیں پہلو میں سٹیرنگ دکھائی دے رہا تھا۔ یعنی وہ حقیقتاً ایک لانچ تھی، جسے شکارا بنا لیا گیا تھا۔
"خانم۔ " داؤد نے ذرا سا سر خم کر کے اسے تعظیم دی۔ اس کی پیروی میں حمزہ اور حسین کے بعد سرمد نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس نے معمولی سی سر کی جنبش سے ان کے سلام کا جواب دیا۔
"کمانڈر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ " اس نے ابرو سے کمرے کی جانب اشارہ کیا۔
داؤد خاموشی سے کمرے کے کھلے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ تینوں اس کے عقب میں تھی۔
وہ کم و بیش بارہ ضرب چوبیس کا ہال کمرہ تھا جس میں ایک سجے سجائے بیڈ سے لے کر ریموٹ کنٹرول ٹی وی تک موجود تھا۔ کشمیر کے شکارے جن دیومالائی داستانوں کے حوالے سے مشہور ہیں ، یہاں ان داستانوں کے سارے لوازمات مہیا تھی۔
لکڑی کے فرش پر کشمیری نمدہ بچھا تھا۔ فرش پر آلتی پالتی مارے کوئی شخص نمدے پرسر جھکائے بیٹھا تھا۔ فانوس اور قندیلوں کی جھلملاتی روشنی میں وہ قدیم قصے کہانیو ں کا کوئی کردار لگ رہا تھا۔
داؤد نے اس کے سامنے کھڑے ہو کر فوجی انداز میں سیلوٹ کیا اور دو زانو بیٹھ گیا۔ حمزہ، حسین اور سرمد نے بھی اس کی تقلید کی۔ جب وہ چاروں اس کے سامنے ایک قطار میں بیٹھ گئے تو آہستہ سے کمانڈر نے سر اٹھایا۔
سرمد کے ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ اس کی سرخ انگارہ آنکھوں سے جیسے برقی رو کی لہریں نکل رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں دیکھنا یا اس سے نظر ملانا ممکن نہ تھا۔ اس نے بھی گھبرا کر باقیوں کی طرح نظر چرا لی۔ ہاں ، یہ اس نے دیکھ لیا کہ کمانڈر کی عمر بمشکل تیس برس تھی۔ وہ بہت زیادہ حسین نہ تھا مگر یہ طے تھا کہ سرمد نے اس جیسا دلفریب چہرہ پہلے کم کم دیکھا تھا۔ اس میں ایک ایسی کشش تھی، جسے کوئی نام دینا مشکل تھا۔ اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی سیاہ داڑھی بہت اچھی لگ رہی تھی۔
"کیسے ہو داؤد؟" کمانڈر بولا تو ایسا لگا کوئی شیر ہولے سے غرایا ہو۔
"بالکل ٹھیک ہوں کمانڈر۔ اور آپ؟" داؤد نے ادب سے جواب دیا۔
"میں۔۔۔ ؟" جیسے کوئی درندہ ہنسا ہو۔ "میں تو ہمیشہ انتظار میں رہتا ہوں داؤد۔ دشمن کی بربادی اور اپنوں کے سُکھ کی خبر کے انتظار میں۔ کہو۔ کوئی اچھی خبر لائے ہو کیا؟"
"میں آج چھاؤنی نمبر سینتالیس کے اندر سے ہو کر آ رہا ہوں کمانڈر۔ "
"اوہ۔۔۔ " وہ چوکنا ہو گیا۔ "پھر کیا رہا؟" اس کی دہکتی ہوئی نظریں داؤد کے چہرے پر متحرک ہو گئیں۔
"اب میں اس کا نقشہ بنا سکتا ہوں کمانڈر۔ "
جواب میں کچھ کہے بغیر کمانڈر نے اپنے پہلو میں پڑے کاغذوں کا چھوٹا سا ڈھیر اور قلم اس کی طرف سرکا دیا۔
داؤد نے ایک سفید کاغذ پر چھاؤنی کا اندرونی نقشہ بنا نا شروع کیا۔ یہ کام اس نے بمشکل سات آٹھ منٹ میں کر لیا۔ اس دوران کمانڈر اس کے متحرک ہاتھ پر نظر جمائے خاموش بیٹھا رہا۔
"یہ ہے ایمونیشن ڈپو کمانڈر۔ " داؤد نے کہنا شروع کیا اور قلم کی نوک ایک جگہ پر ٹکا دی۔ پھر وہ کہتا رہا اور کمانڈر کے ساتھ ساتھ وہ تینوں بھی سنتے رہے۔ سرمد بڑی یکسوئی سے داؤد کے بیانئے کو سن رہا تھا۔
"اور ایمونیشن ڈپو کے عقب میں تقریباً بیس گز دور یہ ہے وہ عقوبت خانہ کمانڈر جہاں اس وقت بھی ہماری کم از کم بائیس بہنیں ان درندوں کی ہوس کا نشانہ بن رہی ہیں۔ یہیں وہ مظلوم بھائی بھی ہیں جن کے سامنے ان کی بہنوں کی عزتیں تار تار کی جاتی ہیں۔"
"بس۔۔۔۔ "کمانڈر تڑپ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی آواز میں بجلیاں مچل رہی تھیں۔ "داؤد۔ یہ ایک ٹارچر سیل نہیں ہے۔ یہاں قدم قدم پر ایسے تشدد خانے موجود ہیں جن کے بارے میں سن کر روح کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔ تاہم رحیم خان کی یہ بات درست ہے کہ اگر اس ایک ٹارچر سیل کا خاتمہ ہو جائے تو ہم ان بھارتی درندوں کے مظالم کا دائرہ کافی حد تک محدود کر سکتے ہیں۔ "
"تو پلان فائنل کیجئے کمانڈر۔ "کمانڈر کے ساتھ ہی داؤد اور وہ تینوں بھی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
"تھوڑا وقت لگے گا داؤد۔ یہ کشمیر کی سب سے بڑی پانچ چھاؤنیوں میں سے ایک ہے۔ ہر وقت یہاں چالیس سے پچاس ہزار فوجی موجود رہتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب ہم یہاں اٹیک کریں تو ایک بھی بھارتی درندہ بچنا نہیں چاہئے۔ "
"ایسا ہی ہو گا کمانڈر۔ " داؤد نے ایک عزم سے کہا۔
"انشاءاللہ۔ " کمانڈر کے لہجے میں بجلی کی سی کڑک تھی۔
"انشاءاللہ۔ " حمزہ، حسین اور سرمد کے لبوں سے بھی بے اختیار نکلا۔
اپنے آپ پر قابو پاتے پاتے کمانڈر کو چند منٹ لگ گئے۔ پھر اس کا لال بھبوکا چہرہ نارمل ہوا تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ اس کے سامنے ادب سے کھڑے تھے۔
"ان تینوں کا تعارف نہیں کرایا تم نے ابھی تک داؤد۔ "
"یہ دونوں حمزہ اور حسین تو حریت کانفرنس سے ٹوٹ کر آئے ہیں کمانڈر اور یہ ہے سرمد۔۔۔ "
" آں ہاں۔۔۔ " کمانڈر نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ " خانم کو بتایا تھا تم نے اس کے بارے میں۔ "
"جی ہاں۔ "
"ہوں۔۔۔ " کمانڈر نے سرمد کو بغور اور بڑی دلچسپی بھری نظروں سے دیکھا۔ سرمد کو اس کی نگاہیں جسم کے آر پار ہوتی لگیں مگر وہ بڑی ہمت سے اس کے سامنے سر جھکائے، ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا رہا۔
"اسے صرف پندرہ دن کی ٹریننگ کراؤ داؤد۔ یہ خشک لکڑی ہے۔ اسے صرف چنگاری دکھانے کی ضرورت ہے۔ "
" جو حکم کمانڈر۔ " داؤد نے سر خم کیا۔ " اور یہ دونوں۔۔۔ "
"انہیں فرنٹ پر بھیج دو۔ ایسے پُر خلوص جوانوں کی وہاں بہت ضرورت ہے۔ یہ دشمن کو جتنا زیادہ اور جتنی تیزی سے نقصان پہنچا سکیں ، اتنا ہی اچھا ہے۔ تاہم چھاؤنی نمبر سینتالیس کے مشن میں یہ تمہارے ساتھ ہوں گے۔ "
"شکریہ کمانڈر۔ " حمزہ اور حسین کے لبوں سے ایک ساتھ جذبات سے بھرائی ہوئی آواز نکلی۔ "ہم آپ کا یہ احسا ن زندگی بھر نہیں بھولیں گے۔ "
"میں جانتا ہوں حمزہ۔ تم اپنی بہن کا بدلہ لینا چاہتے ہو اور حسین اپنی منگیتر کا۔ لیکن میرے بیٹو۔ میرے بھائیو۔ یاد رکھو۔ ہمارے جذبے میں ، ہماری نیت میں جہاد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ کسی ذاتی سبب کو لے کر ہماری جنگ جاری نہیں رہ سکتی۔ یہ محدود ہو جائے گی۔ اسے اللہ کے نام پر لڑو۔ اسے رسول کی ناموس کی خاطر آفاق گیر کر دو۔ ہمارے اتحاد کا نام "عشاق " اسی لئے رکھا گیا ہے کہ ہم اللہ، اس کے حبیب اور اس کے دین کے عاشق ہیں۔ کسی اور شے کو ہمارے عشق میں در آنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں ، کوئی بھی سبب اس عشق کو مہمیز کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ہماری بنیاد وہی ہے۔ عشقِ الٰہی۔ عشقِ رسول۔ اس سے کم پر مانو نہیں اور اس سے زیادہ کچھ ہے نہیں۔ "
"یس کمانڈر۔ " حمزہ کی آنکھوں میں شمع سی جلی۔
"یس کمانڈر۔ " حسین کی آواز میں شعلے کی سی لپک ابھری۔
"تو جاؤ۔ اپنے عشق کی آگ سے دشمن کا خرمن خاک کر دو۔ " کمانڈر کی آواز میں بجلی کی سی کڑک تھی۔ "مجھے تمہاری طرف سے بہت سی خوشخبریاں چاہئیں۔ "
"ایسا ہی ہو گا کمانڈر۔ " وہ دونوں سیلوٹ کر کے دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔
"اور سرمد۔۔۔ " کمانڈر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ "تمہیں تو یہ سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں کہ عشق کیا چاہتا ہے؟ سرمد تو سر دینا جانتا ہے۔ تاریخِ عشق گواہ ہے کہ جب جب کوئی سرمد آیا، عشق کے رخ سے ایک نیا پرت اترا ہے۔ تمہیں بھی اپنے عشق کی ایک نئی تاریخ لکھنی ہے۔ اپنے لہو میں اپنا موئے قلم ڈبو نے کو تیار ہو جاؤ سرمد۔ میں دیکھ رہا ہوں تم سرخرو ہو کر رہو گے۔"
"کمانڈر۔ " سرمد نے بے اختیار جھک کر اس کا ہاتھ تھاما اور ہونٹوں سے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے اور کمانڈر کے ہاتھ کی پشت پر گرے۔
"اپنے اشکوں میں دہکتی یہ آگ بجھنے مت دینا سرمد۔ اسی آگ سے تمہیں وضو بھی کرنا ہے اور نماز بھی ادا کرنی ہے۔ نمازِ عشق تمہاری امامت کی منتظر ہے۔ "کمانڈر نے اپنا ہاتھ بڑی نرمی سے اس کے ہاتھ سے چھڑایا اور رخ پھیر لیا۔
"داؤد۔ اسے لے جاؤ۔ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اسے جلدی سے جلدی ضروری مراحل طے کرا دو۔ " نجانے کیوں کمانڈر کی آواز بھرا گئی۔ "یہ ہمارا بڑا لاڈلا مہمان ہے۔ "
"یس کمانڈر۔ " داؤد نے سیلوٹ کیا اور ان تینوں کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے کمرے سے نکل گیا۔
"میرے آقا۔ مہمان بھیجا بھی تو اتنی کم مدت کے لئے۔ میں تو اس کے ناز بھی نہ اٹھا سکوں گا اتنی دیر میں۔ " کمانڈر ہاتھ باندھے مدینہ کی طرف رخ کئے کھڑا سسک رہا تھا اور آنسو اس کے رخساروں پر موتیوں کی طرح بکھر رہے تھے۔
* * *
طاہر کے کہنے پر ڈاکٹر ہاشمی نے انتظار کرنا گوارا تو کر لیا مگر ان کے دل کا حال کچھ وہی جانتے تھے۔ جوان اور اکلوتے بیٹے کی گمشدگی اور مفقود الخبری نے انہیں ایک دم بوڑھا کر دیا۔ ان کی قابل رشک صحت کو جیسے نظر لگ گئی۔ ہاسپٹل میں بیٹھنا بالکل ختم کر کے وہ طاہر کے آفس کے ہو کر رہ گئے۔ امبر انہیں روزانہ فون کر کے تسلی و تشفی دیتی۔ پروفیسر قمر ان کے غم میں برابر کا شریک تھا۔ رہ گیا طاہر، تو اس نے کام کی زیادتی کا بہانہ کر کے زیادہ وقت آفس میں گزارنا شروع کر دیا تھا۔ اپنے طور پر لندن، سعودیہ اور انڈیا میں موجود اپنے واقف کار مختلف لوگوں سے رابطہ کر رکھا تھا۔ مگر نتیجہ ابھی تک ڈھاک کے تین پات ہی تھا۔
اس دن طاہر نے سوچ سوچ کر ایک فیصلہ کیا۔ اپنا پاسپورٹ امبر کو بھجوایا اور فون پر اسے خاص انسٹرکشنز دیں۔ امبر نے اس سے بحث نہیں کی، صرف یہ کہا کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو اسے ساتھ لے جائے مگر طاہر نے اسے نرمی سے ٹال دیا۔ رات سونے سے پہلے صفیہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا۔
"مجھے چند دنوں کے لئے انڈیا جانا ہے۔ "
"کب؟" صفیہ نے چونک کر پوچھا۔ "اور کیوں ؟"
"ایک خاص کام سے جانا ہے اور کیا مجھے وہاں فلم میں کام کرنا ہے؟" طاہر نے محبت سے کہا۔
"ویسے آپ کسی ہیرو سے کم بھی نہیں ہیں۔ " صفیہ نے شرارت سے اس کی جانب دیکھا۔ "مگر اس سے پہلے آپ کبھی ایسے ٹور پر گئے تو نہیں ؟"
"یہ بھی اچھی رہی۔ " طاہر نے ہنس کر کہا۔ " ارے بھئی اب تم نے ہمیں اپنے پلو سے باندھ لیا ہے تو اور بات ہے ورنہ تو میرے مہینے میں بیس دن ملک سے باہر گزرتے تھے۔ "
"اچھا۔ " صفیہ مسکرائی۔ " تو اکیلے جا رہے ہیں کیا؟"
"ہاں۔ " طاہر نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
"کتنے دن کے لئے جا رہے ہیں ؟" بستر پر لیٹی ہوئی وہ اس کے کالرسے کھیلتے ہوئے بولی۔
"دو دن بھی لگ سکتے ہیں اور دو ہفتے بھی۔ یہ تو کام ختم ہونے پر منحصر ہے۔ "
"اور جانا کب ہے؟" وہ اداس ہو رہی تھی۔
"کل شام۔ "
"مجھے روزانہ فون کرنا ہو گا۔ " صفیہ نے کہا اور اس کے سینے میں چہرہ چھپا لیا۔
"ایک بات کہوں صفو۔ برا نہ ماننا۔ ’" طاہر نے اس کا چہرہ سامنے لانا چاہا مگر وہ زور لگا کے اس کے سینے میں گھسی رہی۔
"میں سن رہی ہوں۔ " اس نے وہیں سے جواب دیا۔
"میں وہاں جا کر تمہیں ہرگز فون نہیں کروں گا۔ "
"وہ کیوں ؟" اس نے چہرہ اٹھایا۔
"میں جس کام سے جا رہا ہوں ناں صفو۔ اس میں تمہاری یاد ضروری ہے۔ جو ہر وقت میرے ساتھ رہے گی۔ تم سے رابطہ کروں گا تو بے چینی لگ جائے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی بھی پہلو سے اس کام میں مجھے ڈسٹربنس ہو اور میں جلدی لوٹ آنے کے چکر میں پڑ جاؤں۔ اس لئے میری جان۔۔۔ فون پر کوئی رابطہ نہیں ہو گا۔ "
"ٹھیک ہے۔ " اس نے پھر چہرہ اس کے سینے میں چھپا لیا۔
"اری۔ پاگل ہوئی ہو۔ " اسے اپنے سینے پر صفیہ کی نم آنکھوں کا احساس ہو تو بے چین ہو گیا۔ "اگر تم ایسے کرو گی تو میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔ "
"یہ میں نے کب کہا؟" وہ وہیں سے بولی۔ "بس آپ جلدی آ جائے گا۔ "
طاہر نے اسے باہوں کے حلقے میں کس لیا اور کسی سوچ میں ڈوب گیا۔
٭
اس دن صبح ڈاکٹر ہاشمی طاہر کے آفس پہنچے تو مینجر نے انہیں کافی وغیرہ پلانے کے بعد طاہر کی طرف سے ایک لفافہ دیا۔ انہوں نے چشمہ درست کرتے ہوئے لفافہ چاک کیا۔ اندر سے خط نکالا۔ لکھا تھا۔
"انکل۔
میں انڈیا جا رہا ہوں۔ سرمد کے بارے میں کچھ نہ کچھ ہے جو ہمیں وہیں سے مل سکتا ہے۔ میں نے لندن یونیورسٹی سے ریحا کا ایڈریس لے لیا ہے۔ اس سے ملنا بہت ضروری ہے۔ آپ کا ساتھ نہ جانا اس لئے بہتر ہے کہ جس دُکھ کی حالت اور عمر کے حصے میں آپ ہیں وہاں بیٹے کا فرض بنتا ہے کہ آپ کو آرام کرنے کو کہے اور خود آپ کے لئے سُکھ کی تلاش میں نکلے۔ میں بھی ایسا ہی کر رہا ہوں۔ سرمد کے ساتھ میں بھی آپ کا بیٹا ہی ہوں۔ میں یہی سمجھتا ہوں اور آپ مجھے کیاسمجھتے ہیں ، یہ کہنے کی بات نہیں۔ روزانہ آفس آتے رہئے گا۔ کافی، سینڈوچ اور کریم پف آپ کا انتظار کرتے ملیں گے آپ کو۔ دعا صرف یہ کیجئے گا کہ میں آپ کے لئے خوشی کی خبر بن کر واپس آؤں۔
آپ کا: طاہر
ڈاکٹر ہاشمی نے خط میز پر ڈال دیا اور کسی سوچ میں ڈوبی، سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گئے۔ انہیں نجانے کیوں لگ رہا تھا کہ طاہر نے انہیں ساتھ نہ لے جا کر غلط نہیں کیا۔
٭
پندرہ دن کا وقت پر لگا کر اُڑ گیا۔
داؤد نے سرمد کو ٹریننگ کیمپ میں زین خان کے حوالے کیا۔ اسے کمانڈر کے حکم سے آگاہ کیا اور خود تین ساتھیوں کے ساتھ لوٹ گیا تھا۔
ٹریننگ کیمپ کشمیر کی اترائی میں ایک ایسی جگہ قائم تھا جہاں سے آزاد کشمیر کو جانے والا ایک محفوظ تر خفیہ راستہ موجود تھا۔ بھارتی افواج کی نگاہوں سے یہ مقام اس لئے بھی پوشیدہ تھا کہ اوپر سے یہ گہری کھائی لگتا تھا، جس میں اترنا بظاہر محال مگر بباطن بیحد آسان تھا۔ آسان ان کے لئے جو اس اترائی میں جانے والی قدِ آدم گھاس میں چھپی اس پگڈنڈی سے واقف تھے جو اپنے مسافروں کے قدموں کے نشان اس طرح اپنی آغوش میں چھپا لیتی تھی جیسے کوئی ماں اپنے بیٹے کے عیب پر پردہ ڈال لیتی ہے۔
زین خان نے پندرہ دن میں سرمد کو کلاشنکوف، ریوالور اور راکٹ لانچر چلانے میں طاق کر دیا۔ گوریلا ٹریننگ کے باقی مراحل میں اس نے سرمد کو خاص خاص باتوں سے واقف کرایا اور سولھویں دن رات کو وہ پھر شکارے پر کمانڈر کے سامنے موجود تھا۔
"بیٹھو سرمد۔ " کمانڈر نے زین خان کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ سیلوٹ کر کے کمرے سے نکل گیا۔ سرمد کمانڈر کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا۔ آج وہ گوریلا یونیفارم میں تھا۔ سر پر سفید رومال بندھا تھا جو سر پر کفن باندھ کر راہِ خدا میں نکل پڑنے کی علامت تھا۔ کمانڈر کچھ دیر فرش کو گھورتے سرمد کی جانب بڑی گہری نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر اس کے لبوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ ابھری۔
"کوئی الجھن؟ کوئی پچھتاوا؟ کوئی بے چینی سرمد؟"
"نہیں کمانڈر۔ " سرمد نے نفی میں سر ہلایا۔ "بس یوں لگتا ہے جیسے میں کہیں جانا چاہتا ہوں۔ کوئی مجھے بلا رہا ہے۔ یہ مرحلہ طے نہیں ہو رہا۔ "
"ہاں۔ " کمانڈر کے چہرے پر سنجیدگی نے جنم لیا۔ "یہ ہوتا ہے۔ جب تم جیسے سچے جذبوں والے سر پر کفن باندھ لیتے ہیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلاوا آ جاتا ہے تو انتظار مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک بات ذہن میں بٹھا لو سرمد۔ جس مشن کے لئے میں نے تمہیں چُنا ہے، اس کی کامیابی اور ناکامی سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ تم اس میں کیا کردار ادا کرتے ہو؟ کشتیاں جلا کر جانا ہو گا تمہیں۔ واپسی کس روپ میں ہو گی، کوئی نہیں کہہ سکتا لیکن یہ طے ہے کہ تم جس پکار پر جا رہے ہو، اس کے لئے جان لینا اور جان دینا، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ "
"مجھے صرف اس بات کی پروا ہے کمانڈر کہ میں جس تڑپ کے ہاتھوں بے حال ہو رہا ہوں اسے قرار کب ملے گا؟کیسے ملے گا؟" سرمد نے نظر اٹھائی۔ اس کی آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈوروں سے مستی سی چھلک رہی تھی۔
"عشاق میں شامل ہوئے ہو سرمد۔ عشق تم پر نازل ہو چکا ہے۔ فصل پک چکی ہے۔ اب تو پھل پانے کا موسم ہے۔ اپنی بے قراری کو مہمیز کرتے رہو۔ یہ ضروری ہے۔ تمہارے لبوں پر جو ورد جاری ہوا ہے اس کا کوئی مقصد ہے۔ کوئی اشارہ ہے اس میں۔ کوئی رمز ہے اس کے اندر۔ "
سرمد نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ کمانڈر کیسے جانتا ہے کہ وہ ہر وقت درود پڑھتا رہتا ہے؟ اس کے ذہن میں سوال ابھرا۔
"سوالوں میں نہ الجھو سرمد۔ جواب کی طرف دھیان دو۔ میں نہیں کہہ سکتاکہ تم اس مہم سے زندہ لوٹو گے یا شہادت کا جام تمہارا منتظر ہے لیکن اتنا بتا سکتا ہوں کہ جہاں سے تمہاری ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا حکم جاری ہوا ہے، وہاں سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں آیا۔ تم بھی لوٹو گے تو کامیاب ہو کر۔ انشاء اللہ۔ "
"انشاء اللہ۔ " بے اختیار سرمد کہہ اٹھا۔
"داؤد، حمزہ، حسین اور تم سمیت بیس سرفروش اس مہم پر آج رات جا رہے ہیں۔ " کمانڈر نے اپنی جگہ چھوڑ دی تو سرمد بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ "میں تمہیں کوئی ہدایت نہیں دوں گا۔ تم عشق کا سبق پڑھ چکے ہو۔ اب تو اسے سنانے کا وقت ہے۔۔۔ اور سنانے میں کہیں اٹکنا مت سرمد۔ کہیں زبان کو لڑکھڑانے مت دینا۔ جاؤ اور سرخرو ہو جاؤ۔ "۔ کمانڈر نے دونوں ہاتھ اس کے سر پر رکھ دئیے۔ پھر پیشانی پر بوسہ دیا اور کھینچ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ "ان سے کہنا۔ میں تمہارا کوئی ناز نہیں اٹھا سکا۔ مجھے معاف فرما دیں۔ " اس نے سرمد کے کان میں سرگوشی کی۔
ایک دم جیسے سرمد کا سارا جسم جھنجھنا اٹھا۔ ایک کیف سا رگ و پے میں دوڑ گیا۔ اسے لگا کہ اس کا جسم ایک بار پھر ہوا سے ہلکا، بے وزن ہو گیا ہے۔ کمانڈر نے کس کے بارے میں یہ بات کہی؟ اس نے سوچنا ہی نہ چاہا۔ جیسے اسے سمجھ آ گیا ہو۔ جیسے اس نے سب جان لیا ہو مگر اس کا بولنے کو جی ہی نہ چاہا۔ وہ بے زبان ہو گیا۔ سبق یاد ہو جانے کی بات اس کے دل سے اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔ کمانڈر کا پیغام اسے لوریاں دے رہا تھا۔
کمانڈر نے اسے خود سے الگ کیا۔ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اس کے چہرے کو اپنی برق لٹاتی نم آنکھوں سے دیکھا اور بے اختیار اس کے دائیں گال پر پیار کر لیا۔ پھر ایک قدم پیچھے ہٹا اور سرمد کی مست نگاہی نے دیکھا کہ دونوں پاؤں جوڑ کر کمانڈر نے اسے ایک زوردار سیلوٹ کیا۔ جواب میں وہ بھی ایک قدم پیچھے ہٹا اور کمانڈر کو سیلوٹ کر کے واپسی کے لئے پلٹ گیا۔
وہ جا چکا تھا مگر کمانڈر اسی طرح اپنی تین انگلیوں سے پیشانی چھوئے ہوئے دروازے کو گھور رہا تھا۔ بھیگی ہوئی دھند تھی کہ آنکھوں میں بڑھتی جا رہی تھی۔ لو دیتی شبنم تھی کہ تن من کو بھگو رہی تھی اور جھومتا ہوا دل تھا کہ ایک ہی ورد الاپ رہا تھا۔
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
رات کا آخری پہر شروع ہو چکا تھا۔
داؤد کی کمان میں وہ انیس سرفروش تاروں کی باڑ کاٹ کر زمین پر رینگتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ چھاؤنی نمبر سینتالیس کے اندر اپنے اپنے ٹارگٹ پر ریموٹ کنٹرول بم نصب کئے۔ پھر سانپ کی سی تیزی سے اپنا کام ختم کر کے اپنی اپنی جگہ دم سادھ کر بیٹھ گئے۔ سرچ لائٹ سے بچ بچا کر کام کرنا بہت مشکل تھا مگر وہ مشکل کو نہیں ، ناممکن کو ممکن کر دکھانے آئے تھے۔
مشن کا پہلا مرحلہ طے ہو گیا تو اپنی اپنی جگہ سے انہوں نے بڑی ترتیب کے ساتھ چھاؤنی کے اندر مختلف جگہوں کو تاک لیا۔ داؤد، حسن اور سرمد کے حصے میں ٹارچر سیل سے قیدیوں کو رہا کرانے کی ذمہ داری آئی۔ حمزہ نے سات ساتھیوں کے ساتھ ایمونیشن ڈپو اڑانے کا کام سنبھالا۔ قاسم اور اس کے چار ساتھیوں کو چھاؤنی کا دایاں اور خالد اور اس کے چار ساتھیوں کو بایاں حصہ تباہ کرنا تھا۔
سب سے پہلے قاسم نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنے ساتھیوں سمیت سامنے آ گیا۔ ریموٹ کا بٹن دباتے ہی چھاؤنی کی سرچ لائٹ والا حصہ دھماکوں کی زد میں آ گیا۔ چیخیں ، شور، دھماکے، فائرنگ۔ ایک قیامت برپا ہو گئی۔ بیس سیکنڈ بعد ان کی تقلید میں خالد نے بایاں حصہ اڑا دیا اور اب وہ دس کے دس سرفروش، بھارتی فوجیوں کے لئے جہنم کے دہانے کھولے میدان میں پھیلے ہوئے انہیں گولیوں سے بھون رہے تھے۔
اس افرا تفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے داؤد، سرمد اور حسن ٹارچر سیل کے قریب پہنچ گئے۔ ہر طرف دھول اڑ رہی تھی۔ اپنے پرائے کی تمیز ختم ہو چکی تھی۔ سرچ لائٹ کی تباہی نے بھارتی فوجیوں کے لئے بڑی مشکل کھڑی کر دی تھی۔ اندھیرے میں انہیں اچانک شب خون نے دوہری تباہی سے دوچار کر دیا تھا۔ ان کے اکثر فوجی ان کی اپنی ہی فائرنگ کا شکار ہو رہے تھے۔ پھر کسی کو عقل آئی اور اس نے چیخ کر جگہ جگہ کھڑی جیپوں اور دوسری فوجی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس آن کرنے کے لئے کاشن دیا۔ مگر انہیں دیر ہو چکی تھی۔ خالد اور قاسم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرعت کے ساتھ حرکت کی اور ساری چھاؤنی میں بھاگتے دوڑتے ہوئے گاڑیوں پر راکٹ لانچروں کی برسات کر دی۔ تب وہاں روشنی کا سیلاب آ گیا۔ ہاں۔ بھارتی فوجیوں کی اپنی ہی جلتی ہوئی گاڑیوں سے اٹھتے شعلوں نے ہر طرف چراغاں کر دیا مگر یہ چراغاں انہیں بہت مہنگا پڑا۔ پٹرول بموں نے انہیں زندہ جلانے کا کام شروع کر دیا اور وہ جوابی حملے کے بجائے چیختے چلاتے اپنی جانیں بچانے کے لئے دوڑنے لگے۔ بھاگنے لگے۔ تب خالد، قاسم اور ان کے ساتھیوں کے لئے ان کا شکار اور بھی آسان ہو گیا۔
داؤد، سرمد کے ساتھ فائرنگ کرتا ہوا ٹارچر سیل کی سیڑھیاں اترتا جا رہا تھا اور وہاں موجود بھارتی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا کام بڑی تیزی سے مکمل کر رہا تھا۔ حسن تہ خانے کے گیٹ کے اندر کھڑا رہ کر دشمنوں کی خبر لینے لگا۔ اس کی کلاشنکوف کے برسٹ بھارتیوں کے لئے موت کا راگ الاپ رہے تھے۔
بمشکل ڈیڑھ منٹ میں وہاں موجود تمام درندوں کا صفایا ہو گیا۔ تب انہیں اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لینا پڑے۔
انہوں نے ادھر ادھر سے چادریں ، پتلونیں اور قمیضیں اٹھا اٹھا کر تباہی و بربادی کی ان داستانوں پر ڈالنا شروع کیں جو انہیں ویران ویران نظروں سے گھور رہی تھیں۔ ان کے برہنہ جسم اَن کہی کہانیاں سنا رہے تھے۔ جسموں پر نشتروں ، سگریٹوں اور بھنبھوڑنے کے نشانات درندگی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ زنجیروں اور لوہے کے حلقوں میں جکڑے دیواروں کے ساتھ بازوؤں کے سہارے اور الٹے لٹکائے گئے زخمی نوجوانوں کو آزاد کرانے میں انہیں تین چار منٹ لگ گئی۔ نوجوانوں میں سے جو تھوڑا بہت بھی ہوش رکھتے تھی، انہوں نے کتوں کی طرح مرے پڑے بھارتی فوجیوں کی کلاشنکوفیں ، رائفلیں اور دوسرا اسلحہ اٹھایا اور گرتے پڑتے باہر کو بھاگے۔ حسن نے انہیں قطعاً نہ روکا۔ ان کے انتقام کی آگ میں بھارتی درندوں کو جل جانے دینا اس وقت بہت ضروری تھا۔
سات بیحد نازک حالت میں زخمی آدمی تھے جنہیں باری باری حمزہ اور سرمد نے باہر پہنچایا جہاں انہیں ان کے ایک ساتھی نے ایک بڑی جیپ میں ڈالا اور چھاؤنی کے خارجی راستے کی طرف طوفانی رفتار سے روانہ ہو گیا۔
تیرہ لڑکیاں اور عورتیں تھیں جو اپنے عریاں جسموں کو چیتھڑوں ، فوجی وردیوں اور چادروں میں سمیٹے باہر نکلیں اور دوسری جیپ میں سوار کر کے انہیں بھی پہلی جیپ کے تعاقب میں روانہ کر دیا گیا۔ اس وقت تک بھارتیوں کو سنبھلنے کا کچھ موقع مل گیا۔ انہوں نے دونوں جیپوں کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر جیپوں کے عقبی حصے میں سوار خالد اور قاسم نے ان پر وہ دھواں دھار فائرنگ کی کہ انہیں جان بچانے کے لئے بھاگتے ہی بنی۔ ہوا یہ تھا کہ اچانک حملے اور اندھیرے کے باعث ایک تو بوکھلاہٹ میں انہوں نے اپنے بے شمار فوجی مار ڈالے۔ دوسرے ان کے نقصان کا ایک بڑا سبب یہ بنا کہ ایک دن پہلے وہاں سے تقریباً تیس ہزار فوجیوں کی نفری چھاؤنی نمبر انتیس میں منتقل کی گئی تھی۔ ان کی جگہ نئے فوجی دستے پہنچنے میں ابھی بارہ گھنٹے باقی تھے کہ ان پر یہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ بیالیس ہزار کی جگہ اس وقت وہاں صرف بارہ ہزار فوجی تھے جن کا صفایا ایسے شبخون میں ذرا سی سمجھداری سے مشکل تو تھا، ناممکن نہیں۔
ٹارچر سیل سے فارغ ہو کر سرمد، داؤد اور حسن بھی حمزہ کے ساتھ آ ملے۔ دھماکوں ، چیخوں اور فائرنگ کا سلسلہ اب بھی جوبن پر تھا۔ وہ لوگ ایک گڑھے نما مورچے میں چھپے بیٹھے باہر پھیلتی تباہی کا نظارہ کر رہے تھے۔
"اپنے کتنے ساتھی کام آئے؟" داؤد نے آواز دبا کر حمزہ سے پوچھا۔
"سات۔ " اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ " ان کی لاشیں ابھی ابھی نکلوائی ہیں یہاں سے میں نے۔ "
"اب ہم یہاں کل کتنے لوگ ہیں ؟"
"چار۔ " حمزہ کے لبوں پر بڑی ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ "باقی سب کو روانہ کر دیا ہے میں نے، جیپوں اور لاشوں کے ساتھ۔ "
سرمد بے چینی سے باہر جھانک رہا تھا۔ اس کی نظریں سامنے ایمونیشن ڈپو پر پڑیں تو اس نے چونک کر داؤد کی توجہ اس طرف دلائی۔ تین چار بھارتی فوجی ڈپو کا بڑا سا لوہے کا گیٹ کھول رہے تھے۔
"یہ کیا کرنے جا رہے ہیں ؟" داؤد سرسرایا۔
"میرا خیال ہے اسلحے کے ساتھ ریزرو گاڑیاں بھی اندر ہوں گی۔ باہر موجود تقریباً تمام گاڑیاں تو بیکار ہو چکی ہیں۔ " حمزہ نے جواب دیا۔
"ایمونیشن ڈپو کے گرد کتنے بم نصب کئے گئے ہیں ؟"
"ایک بھی نہیں۔ " حمزہ نے جواب دیا تو داؤد کے ساتھ ساتھ سرمد اور حسن بھی چونک پڑی۔
"وہ کیوں ؟" داؤد نے تیزی سے پوچھا۔
"بم نوید کے پاس تھے اور وہ سب سے پہلے شہید ہوا۔ اس کی لاش روانہ کر دی گئی تو خیال آیا۔۔۔ "
"اوہ۔۔۔ " داؤد چکرا کر رہ گیا۔ " اب کیا کریں ؟"
موجود اسلحے کا جائزہ لیا گیا تو ایک اور خوفناک انکشاف ہوا۔ ان کے پاس راکٹ لانچر بھی نہ تھا۔ کل ملا کر چار کلاشنکوفیں ، دو ریوالور، چالیس کے قریب راؤنڈ اور ایک دستی بم ان کے پاس بچا تھا۔
"دستی بم دھماکہ تو کر سکتا ہے مگر ایک فرلانگ میں پھیلے اس ایمونیشن ڈپو کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتا۔ " داؤد نے کچھ سوچتے ہوئے بیتابی سے کہا۔
"پھر اب کیا کیا جائے؟ ہم اس ڈپو کو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ " حسن نے زبان کھولی۔
"ایسا تو سوچو بھی مت۔ " حمزہ نے فوراً کہا۔ "ہم مٹ جائیں گے مگر مشن کو ادھورا چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ "
داؤد جواب میں اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔ اس کا دماغ تیزی سے کسی حل کی تلاش کر رہا تھا۔ اسی وقت ڈپو کا گیٹ پوری طرح کھل گیا اور باہر کھڑے کرنل رینک کے آفیسر نے ڈپٹ کر اپنے ارد گرد جمع فوجیوں سے کہا۔
"فوراً گاڑیاں نکالو اور ان کے تعاقب میں نکل جاؤ۔ یہاں سے بیس میل تک سڑک پر کوئی موڑ نہیں ہے۔ ابھی وہ اتنا فاصلہ طے نہیں کر سکے ہوں گے۔ جلدی کرو۔ "
فوجی اپنی گنیں سنبھالتے ہوئے اندر کو بھاگے۔ داؤد کسی زخمی شیر کی طرح غرایا اور پہلو بدل کر رہ گیا۔
"داؤد بھائی۔ میں کچھ کر سکتا ہوں۔ " اچانک سرمد بولا تو وہ تینوں چونکے۔
"کیا؟" بے اختیار داؤد نے پوچھا۔
" آپ یہیں میرا انتظار کیجئے۔ " کہتا ہوا سرمد ایک دم اٹھا اور گڑھے سے نکل گیا۔
"سرمد۔۔۔ " داؤد نے بڑی تیز سرگوشی کی۔ پھر ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر آواز دبا لی۔ تب تک سرمد نیچا نیچا دوڑتا ہوا ایک مردہ بھارتی فوجی کے پاس رکا۔ اسے پرے دھکا دے کر اس کے نیچے سے راکٹ لانچر نکالا اور آہستہ سے ان کی طرف لڑھکا دیا۔ حمزہ نے ذرا سا اونچا ہو کر ہاتھ بڑھایا اور اسے گڑھے میں کھینچ لیا۔ اسی وقت سرمد زمین پر گرا اور سانپ کی طرح رینگتا ہوا پچیس تیس قدم دور ایک دوسرے فوجی کے پاس جا رکا۔ اس کے پاس پڑا ایمونیشن بیگ تھاما اور واپسی کے لئے رخ بدل لیا۔ دو منٹ کے اندر اندر وہ اپنے ساتھیوں تک پہنچ گیا۔ اس کے ہاتھ میں جو بیگ تھا اس میں پانچ راکٹ موجود تھے۔
"شاباش سرمد۔ میرے شیر تم نے تو کمال کر دیا۔ " داؤد نے اسے خودسے لپٹا لیا۔ حمزہ اور حسن بھی اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
داؤد نے راکٹ، لانچر میں لاؤنج کیا۔ تقریباً چھ انچ اوپر اٹھ کر لانچر کو گڑھے کے کنارے پر رکھ دیا اور نشانہ لینے لگا۔ باقی سب لوگ اپنی اپنی جگہ کانوں پر ہاتھ رکھے ایمونیشن ڈپو کے گیٹ کو دیکھ رہے تھے۔
جونہی پہلی جیپ کی ہیڈلائٹس آن ہوئیں اور روشنی کی لکیر نے گیٹ سے باہر قدم رکھا، داؤد نے راکٹ فائر کر دیا۔
دوسرے پل ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا اور گیٹ اپنے ساتھ وہاں موجود فوجیوں کے پرخچے اڑاتا ہوا تباہی کے گھاٹ اتر گیا۔ پھر جب تک انہیں کسی بات کی سمجھ آتی، داؤد نے دوسرا راکٹ فائر کر دیا اور اب کے بار اس کا نشانہ ڈپو کا اندرونی حصہ تھا۔ بس اس کے بعد تیسراراکٹ فائر کرنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ ایمونیشن نے آگ پکڑ لی اور زمین یوں لرزنے لگی جیسے ان کے نیچے کوئی آتش فشاں کروٹیں لے رہا ہو۔ دھماکوں ، چیخوں اور اندھا دھند چاروں طرف فائرنگ کا ایک سلسلہ جو شروع ہوا تو بھارتیوں کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کیسے خود کو اس قیامتِ صغریٰ سے محفوظ رکھیں۔
اس دوران ایک بات ایسی ہوئی جس کی طرف مورچے میں چھپے ان چاروں کا دھیان ہی نہ گیا۔ پہلے راکٹ نے ان کی سمت کی نشاندہی کر دی تھی، اس کا انہیں احساس ہی نہ ہوا۔ جنرل نائر گاڑیوں میں مجاہدین کا پیچھا کرنے کا حکم دے کر وہاں سے چل پڑا تھا۔ اسے دوسری جگہوں پر تباہی کا جائزہ لینا تھا۔ اس کے خیال میں تمام مجاہدین تباہی پھیلا کر انہی کی جیپوں پر فرار ہو چکے تھے مگر جونہی پہلا راکٹ فائر ہوا، وہ چونک کر رک گیا۔ اس وقت وہ ایک سلگتی ہوئی جیپ کے پاس تھا اور اس کے دائیں بائیں اور پیچھے پچیس تیس سپاہی گنیں سنبھالے چل رہے تھے۔ ایک دم اس نے ان سب کو نیچے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور خود بھی جھک کر بھویں سکوڑ کر اس طرف دیکھنے لگا جس طرف سے راکٹ فائر کیا گیا تھا۔ دس سیکنڈ کے وقفے سے جب دوسرا راکٹ فائر ہوا تو اسے داؤد اور اس کے ساتھیوں کی پناہ گاہ کا پتہ چل گیا۔ اسی وقت ایمونیشن ڈپو دھماکوں اور چیخوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ جنرل نائر اس وقت وہاں سے تقریباً ایک سو گز دور تھا۔ زمین اس کے پیروں تلے کانپ رہی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ اسلحے کے نام پر اب ان کے پاس سوائے بربادی کے نشانات کے کچھ نہیں بچا۔
اس نے دانت اتنے زور سے بھینچے کہ جبڑوں کی ہڈیاں ابھر آئیں۔ بیحد ہلکی آواز میں اس نے اپنے پاس موجود فوجیوں کو ہدایات دیں اور خود ان کی کمان کرتا ہوا اس مورچے کی پچھلی طرف چل پڑا جس میں داؤد اور اس کے ساتھی چھپے بیٹھے تھے۔ چند منٹ بعد مورچے کو عقب اور دائیں بائیں سے اس خاموشی کے ساتھ گھیرے میں لیا گیا کہ ان لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکا کہ دشمن ان کے گرد اپنا جال مضبوط کر چکا ہے۔ پتہ تو اس وقت چلا جب جنرل نائر کی چیختی ہوئی آواز نے فضا کا سینہ چیر ڈالا۔
"ہاتھ اٹھا لو۔ تم لوگ گھیر لئے گئے ہو۔ "
تڑپ کر وہ چاروں پلٹے اور یہ دیکھ کر ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا کہ نیم دائرے میں تیرہ چودہ بھارتی فوجی اپنی گنوں کی زد پر لئے انہیں بھون ڈالنے کے لئے تیار کھڑے ہیں اور سب سے آگے جنرل نائر ان کی طرف ریوالور تانے موجود ہے۔
ایک سیکنڈ کے وقفے میں ان سب کی نظروں نے ایک دوسرے سے سوال جواب کئے اور فیصلہ ہو گیا۔ سر پر باندھے کفن کا مول چکانے کا لمحہ آن پہنچا تھا۔ ان سب کے لبوں پر ایک ہی جیسی بڑی جاندار مسکراہٹ ابھری۔
"اللہ اکبر۔ " ایک فلک شگاف نعرے نے سامنے کھڑے دشمن کا دل دہلا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کی گنوں کا رخ بھارتیوں کی جانب ہوا اور بابِ جہنم کھل گیا۔
سب سے پہلے حیرت زدہ جنرل نائر کا جسم چھلنی ہوا جس پر داؤد کی کلاشنکوف غرا رہی تھی۔ حسین، سرمد اور حمزہ نے باقی فوجیوں کو نشانے پر رکھ لیا مگر گرتے گرتے جنرل نائر کے ریوالور سے دو فائر ہوئے اور حمزہ کی پیشانی پر مہر شہادت ثبت ہو گئی۔ اسی وقت داؤد نے دشمنوں کی فائرنگ سے بچانے کے لئے حسین اور سرمد کو پرے دھکیل دیا اور خود اوپر اٹھ کر اللہ اکبر کے گرجدار نعرے کے ساتھ آگ برساتی کلاشنکوف کو نیم دائرے میں گھما دیا۔ سات آٹھ فوجیوں کو کھیت کرتا ہوا داؤد مسلسل "اللہ اکبر اللہ اکبر"کا اعلان کرتا ہوا مورچے سے نکلا اور چھلنی ہوتا چلا گیا۔ پہلے فوجیوں کے عقب میں موجود فوجیوں کی دوسری قطار نے اس وقت تک اس پر فائرنگ جاری رکھی جب تک اس کا جسم زمین پر گر کر بے حس و حرکت نہ ہو گیا۔ اور گرا وہ ایسے زاویے سے کہ اس کا چہرہ مورچے میں موجود حسین اور سرمد کی جانب ہو گیا۔ اس کے لبوں سے جو آخری الفاظ نکلی، وہ تھی۔
" لبیک اللھم لبیک۔ "
داؤد نے انہیں دشمن کی گولیوں سے بچانے کے لئے جو ایک طرف دھکا دیا تھا اس کے باعث سرمد کا سر مورچے کی سیمنٹڈ دیوار سے بڑے زور سے ٹکرایا اور وہ کوشش کے باوجود اپنے ذہن میں چھاتی تاریکی سے بچ نہ سکا۔ اس کی بیہوشی سے بے خبرحسین نے اپنے لڑھکتے جسم کو سنبھالا اور کسی زخمی شیر کی طرح اچھل کر گرجتا ہوا دشمن کی طرف لپکا۔ مورچے سے باہر نکلتے نکلتے اس کی کلاشنکوف تقریباً چھ بھارتیوں کو چاٹ گئی مگر شدید زخمی جنرل نائر نے اس وقت بھی فوجی ہمت کا مظاہرہ کیا اور آخری تین گولیاں حسین کا سینہ ادھیڑتی ہوئی نکل گئیں۔
"اللہ اکبر۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کی سرگوشی حسین کے لبوں پر ایک ابدی مسکراہٹ بن کر منجمد ہوئی اور وہ اپنے اللہ کے حضور حاضر ہو گیا۔
ڈرے ہوئی، بزدل اور موت کے خوف سے لرزہ بر اندام فوجیوں کے برسٹ اس کے ساکت جسم کو چھلنی کرنے میں مصروف تھے جب زخموں سے چور جنرل نائر کو دو تین سپاہیوں نے اٹھنے میں مدد دی۔ اس کی نظر داؤد، حمزہ اور پھر حسین پر سے ہوتی ہوئی مورچے میں بے حس و حرکت پڑے سرمد پر آ ٹھہری۔ ایک دم اس نے اپنا بایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا۔
"بس۔۔۔ " وہ زور سے چیخا۔ "بے وقوفو۔ وہ مر چکے ہیں۔ لاشوں پر گولیاں برسانا تمہاری عادت بنتی جا رہی ہے۔ "
ایک دم فائرنگ کا سلسلہ رک گیا۔ خاموشی کی چادر تن گئی۔ خون میں نہایا ہوا جنرل نائر بڑی مشکل سے اٹھا اور دائیں بائیں دو فوجیوں کے سہارے کھڑا ہو گیا۔
"دیکھو۔ یہ زندہ ہے یا۔۔۔ "
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ کوئی فوجی آگے نہ بڑھا۔ سب ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔
"سنا نہیں تم نے۔ " کرنل ان پر برس پڑا۔ "نامردو۔ حرامزادو۔ نیچے اتر کر دیکھو اسے۔ " اس نے ایک فوجی کی طرف آتشیں نگاہوں سے دیکھا۔ "تم اسے کور کرو۔ " اس نے باقی فوجیوں سے کہا اور ان سب نے گنیں مورچے کی جانب سیدھی کر لیں۔
فوجی نے تھوک نگلا اور گن بے حس و حرکت سرمد کی جانب تانے کانپتے قدموں سے مورچے میں اترنے لگا۔ اس کی جھجک سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ساکت پڑے سرمد سے بھی خوفزدہ ہے۔ مبادا وہ اس پر جھپٹ نہ پڑے۔
مورچے میں اتر کر سب سے پہلے اس نے پاؤں زمین پر پڑی کلاشنکوف پر جمایا۔ پھر جلدی سے بیٹھ کر سرمد کے نتھنوں کے نیچے ہاتھ رکھا۔
"یہ زندہ ہے سر۔ " اس نے تیزی سے کہا اور کھڑے ہو کر بیہوش سرمد پر گن تان لی، جس کا چہرہ سر کے زخم سے لہو لہان ہو رہا تھا۔
فوراً ہی جنرل نائر کے اشارے پر تین اور فوجی مورچے میں اترے اور ہوش و حواس سے بیگانہ سرمد کو قابو کر لیا۔
"اسے میرے سیل میں لے جاؤ۔ " خون بہت بہہ جانے کے باعث غنودگی کا شکار ہوتے جنرل نائر نے کہا۔ " اسے ہر حال میں زندہ رہنا چاہئے۔ یہ ہمیں اپنے ساتھیوں تک لے جا سکتا ہے۔ "
فوجیوں نے سرمد کو نہتا کیا اور مورچے سے باہر اچھال دیا۔ پھر خود باہر نکلے اور اس کے ہاتھ پیچھے باندھ کر گھسیٹتے ہوئے لے چلی۔ جبکہ جنرل نائر دو فوجیوں کے سہارے طبی امداد کے لئے چھاؤنی کے مشرقی حصے کی جانب روانہ ہو گیا۔ آنکھوں میں چھاتی ہوئی بے خبری کے عالم میں اس نے آخری بار ایمونیشن ڈپو سے اٹھتے شعلوں کو دیکھا۔ ہلکے ہوتے ہوئے دھماکوں کی آوازیں سنیں اور اس کا سر سینے پر ڈھلک گیا۔ حواس نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
* * *
طاہر، ایک ایسی این جی او کی سربراہ کی دعوت پر دہلی پہنچا تھا، جو انٹر نیشنل ایمنسٹی سے ربط رکھتی تھی۔ اس نے طاہر کی سرمد کے بارے میں بات سن کر اسے انڈیا آنے کو کہا اور اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انسانی حقوق کی حامی مس مانیا نے طاہر کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ طاہر اسے ایک بار پہلے ایک انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کانفرنس میں مل چکا تھا۔ وہ تبھی سے اس کی شیدائی تھی۔
اٹھائیس سالہ مانیا حسن کا شاہکار تھی۔ ابھی تک کنواری تھی اور بائیس تئیس سے زیادہ کی نظر نہ آتی تھی۔ اس کی نظروں میں طاہر کے لئے ایک خاص قسم کا والہانہ پن تھا۔
ہوٹل آگرہ ویو میں مانیا نے طاہر کے قیام کا انتظام و انصرام اپنی این جی او کی طرف سے کیا تھا۔ اپنے سوٹ میں پہنچ کر طاہر نے وقت ضائع کیے بغیر مانیا کے سامنے اپنا مسئلہ دوبارہ دہرایا۔ مانیا نے ساری بات سنی۔ چند لمحے غور کیا۔ پھر اپنی ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے طاہر کی جانب دیکھا۔
"مسٹر طاہر۔ اس کے بارے میں مکمل معلومات کے لئے مجھے تھوڑا وقت درکار ہو گا۔ " وہ بولی تو جلترنگ سے بج اٹھی۔
"کتنا وقت؟" طاہر نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔
"دو سے تین دن۔ کام اس سے بہت کم وقت میں بھی ہو سکتا ہے مسٹر طاہر۔ " اس نے سنجیدگی سے کہا۔ "مگر میں کم وقت کے ٹارگٹ کا رسک نہیں لینا چاہتی۔ "
"تو ٹھیک ہے۔ آپ کم سے کم وقت میں ریحا اور سرمد کے بارے میں ممکنہ معلومات حاصل کر کے مجھے بتائیے۔ "طاہر نے نرمی سے کہا۔ "میں آپ کا احسان مند رہوں گا۔ "
"میں یہ کام آؤٹ آف دی وے جا کر کروں گی مسٹر طاہر اور صرف اس لئے کہ آپ مجھے اپنے خاص دوستوں کی فہرست میں شامل کر لیں۔ " اس نے عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ "ورنہ تو یہ کام انڈین ایجنسیوں کے لئے بڑی دلچسپی کا حامل ہے کہ وہ اسے اپنا ٹارگٹ بنا کر معاملے کو سیاسی اور فوجی رنگ دے دیں۔ "
"میں سمجھتا ہوں۔ " طاہر نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔ " اور میں دوستی کے ناطے ہی آپ سے یہ درخواست کر رہا ہوں۔ "
"تو پھر احسان مندی کیسی مسٹر طاہر۔ " وہ ہنسی۔ "دوستی میں صرف حکم دیا اور مانا جاتا ہے۔ کیا نہیں ؟" اس نے طاہر کی نظروں میں جذب ہونے کی کوشش کی۔
" آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مس مانیا۔ تو اس حکم کو مان کر آپ مجھے اپنی دوستی سے نوازئیے۔ یہ تو ٹھیک ہے؟" وہ مسکرایا۔
"بالکل۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ " وہ کھل کر ہنسی۔ " تو اب مجھے اجازت دیجئے۔ میں ابھی سے یہ کام شروع کر رہی ہوں۔ ہاں۔ " وہ کھڑی ہو کر بولی۔ "مسٹر سرمد کا کوئی فوٹو ہے آپ کے پاس، تو مجھے دے دیں۔ "
جواب میں طاہر نے اپنے پرس سے پاسپورٹ سائز کا سرمد کا ایک فوٹو نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
"کیا میں امید رکھوں کہ معاملات مکمل راز داری میں رہیں گے مس مانیا؟"طاہر نے مانیا کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
"یہ کہنے کی نہیں ، آزمانے کی بات ہے مسٹر طاہر۔ اور مجھے آزمایا جانا اچھا لگتا ہے۔ " وہ فوٹو تھام کر مسکرائی۔ پھر ہاتھ ہلاتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ "اپنا سیٹ آن رکھئے گا۔ ہمارا رابطہ صرف موبائل پر رہے گا۔ " وہ کہہ باہر نکل گئی۔
٭
کرنل رائے چھاؤنی نمبر سینتالیس کی تباہی کی رپورٹ پر یوں آگ بگولہ ہو رہا تھا جیسے کسی نے اسے دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی پر بٹھا دیا ہو۔
گٹھے ہوئے بدن، قابل رشک صحت اور سرخ و سفید رنگت کا مالک ناٹے قد کا کرنل رائے یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ چھاؤنی جو ان کے ایک مضبوط قلعے کی حیثیت رکھتی تھی، یوں بربادی کے گھاٹ اترے گی کہ وہاں موجود بارہ ہزار میں سے صرف نو سو چھپن فوجی زندہ بچیں گے۔ ایمونیشن ڈپو کی تباہی اس پر مستزاد تھی۔ انکوائری کمیشن بٹھا دیا گیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس کی رپورٹ بھی ٹائیں ٹائیں فش کا راگ الاپتی نظر آئے گی۔
وہ سگار دانتوں میں دبائے اپنے نجی آفس کا قالین روند رہا تھا۔ بار بار اس کی نظر میز پر پڑے ٹیلیفون سیٹ سے ٹکراتی اور مایوس ہو کر لوٹ آتی۔ اسے انتظار تھا ایک فون کا۔ بے چینی جب انتہائی حدوں کو چھونے لگی تو رک کر بجھے ہوئے سگار کو دوبارہ سلگایا۔ لائٹر جیب میں ڈال کر اس نے دو تین گہرے کش لئے اور پھر ٹہلنے لگا۔
اچانک فون کی بیل نے اسے چونکا دیا۔ لپک کر وہ میز کے قریب پہنچا اور تیزی سے ریسیور اٹھایا۔
"ہیلو۔ کرنل رائے اسپیکنگ۔ " کٹکھنے کتے کی طرح وہ غرایا۔
"سر۔ میں کیپٹن آدیش بول رہا ہوں۔ جنرل نائر کا بھیجا ہوا آتنک وادی سیل میں پہنچ گیا ہے سر؟"
"میں آ رہا ہوں۔ " اس نے کہا اور ریسیور کریڈل پر پٹخ کر اضطراب کے عالم میں کمرے سے نکل گیا۔
اس نے اپنی ہی کوٹھی کے تہہ خانے میں تفتیشی سیل بنا رکھا تھا۔ خطرناک مجرموں اور دہشت گردوں کی زبان کھلوانے کے لئے اس کا ٹارچر سیل پوری فوج میں مشہور تھا۔ سب جانتے تھے کہ اس سیل کو فوجی سرپرستی حاصل ہے۔ یہاں ٹارچر کے ساتھ ساتھ علاج کے لئے بھی چار کمروں کا مختصر سا جدید ترین منی ہاسپٹل موجود تھا جہاں ان زخمیوں کی بہترین دیکھ ریکھ ہوتی تھی جنہیں مزید کچھ دیر زندہ رکھا جانا مقصود ہوتا تھا۔ یہاں قائم کسی ایک شعبے کا دوسرے سے براہ راست کوئی تعلق تھا۔ ہر کارکن کرنل رائے کے بعد کیپٹن آدیش کو جواب دہ تھا جو وہاں کا انچارج آفیسر تھا۔
اس سیل میں حسین ترجسمانی رشوت سے لے کر اذیت دینے کے جدید ترین طریقوں سے کھل کھلا کر کام لیا جاتا تھا اور کہیں نہ کہیں مجرم ضرور اپنا آپ ہار دیتا تھا لیکن یہ تجربہ بھی اسے ہو چکا تھا کہ کچھ دیوانے ایسے بھی ان کے ہاتھ لگتے تھے جو جان دے دیتے تھے مگر زبان کھولتے تھے نہ ہار مانتے تھے۔ ایسے لوگوں کو وہ بال آخر ہاتھ پاؤں باندھ کر تیزاب کے ٹب میں ڈبو دینے پر مجبور ہو جاتا تھا مگر تب بھی ان کے لبوں سے اللہ اکبر کے نعروں اور کلمہ طیبہ کے سوا کچھ ادا نہ ہوتا تھا۔ اس وقت اس کا جی چاہتا کہ اپنے سر پر موجود گنے چُنے بال بھی نوچ ڈالے۔ اس کی بے بسی اس کے ماتحتوں کو منہ چھپا کر ہنسنے پر مجبور کر دیتی، جس کا غصہ وہ گالیاں بک کر نکالتا۔
اپنے دماغ میں خیالاتی کھچڑی پکاتا وہ کوٹھی کی انیکسی کے ساتھ تہہ خانے میں قائم سنٹرلی ساؤنڈ پروف ٹارچر سیل کے دروازے پر پہنچا۔ دیوار میں دائیں ہاتھ ایک خانے میں لگی چمکدار میٹل پلیٹ پر انگوٹھا رکھ کر دبایا۔ اس کے انگوٹھے کی لکیریں شناخت میں آتے ہی دروازہ بے آواز کھل گیا۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اترا۔ اس کے پیچھے خود کار سسٹم کے تحت دروازہ بند ہو گیا۔ تین جگہ کھڑے گن مینوں نے اسے زوردار سیلوٹ کیا جنہیں نظر انداز کرتا ہوا وہ کاریڈور کا موڑ گھوم گیا۔ سامنے شیشے کی دیوار کے پار نیم اندھیرے کمرے کے عین درمیان کرسی کے بازوؤں اور پایوں کے ساتھ بندھا وہ آتنک وادی خون میں نہایا نظر آ رہا تھا جس کا سینے پر جھکا سر بتاتا تھا کہ وہ بیہوش ہے۔ اس کے عین اوپر چھت سے لٹکتا بے پناہ تیز روشنی دیتا مرکری بلب اپنے شیڈ سمیت ہولے ہولے آگے پیچھے ہل رہا تھا۔
"سر۔ " وہ کمرے میں داخل ہوا تو کیپٹن آدیش کے ساتھ موجود تین فوجی سپاہیوں کی ایڑیاں بھی بج اٹھیں۔ ان کے سیلوٹ کا جواب سر کی ہلکی سی جنبش سے دیتا ہوا وہ آتنک وادی کے بالکل سامنے جا کھڑا ہوا۔
"اس نے کچھ بتایا؟" وہ نفرت سے چنچنایا۔
"نو سر۔ " کیپٹن آدیش نے کھٹ سے کہا۔ "ہم نے اسے اسی حالت میں وصول کیا ہے۔ جنرل نائر نے اس پر تشدد کی انتہا کر دی ہے مگر یہ تو جیسے گونگا ہے۔ "
"یہاں گونگے بھی بول اٹھتے ہیں ، تم جانتے ہو۔ " نخوت سے کرنل رائے نے کہا۔ "اسے ہوش میں لاؤ۔ "
فوراً ہی ایک فوجی نے کونے میں رکھی میز سے جگ اٹھایا اور پانی آتنک وادی کے سر پر دور ہی سے اچھال دیا۔
لرز کر سرمد نے حرکت کی اور ورم آلود پپوٹوں کو زور لگا کر کھولنے کی کوشش کی۔ ایک کراہ اس کے پھٹے ہوئے خون آلود ہونٹوں سے خارج ہوئی اور سر اٹھتے اٹھتے پھر ڈھلک گیا۔ تاہم اب وہ ہوش میں تھا۔
اسی وقت کیپٹن آدیش نے آگے بڑھ کر اس کے سر کے بال مٹھی میں جکڑ کر ایک جھٹکے سے چہرہ اوپر اٹھایا اور بلب کی برمے جیسی تیز روشنی اس کی آنکھوں میں گھستی چلی گئی۔
"کیا نام ہے تمہارا؟" کرنل رائے اس کے سامنے آ گیا۔
جواب میں سرمد نے کراہتے ہوئے سر کے بال چھڑانے کی ناکام کوشش کی مگر کیپٹن آدیش نے اسے سختی سے قابو کئے رکھا۔
"جواب دو۔ کیا نام ہے تمہارا؟" جنرل کی آواز میں غراہٹ ابھری۔ ساتھ ہی اس کا دایاں ہاتھ گھوم گیا۔ تھپڑ اس قدر زوردار تھا کہ سرمد کے خون آلود ہونٹوں کے زخم پوری طرح کھل گئی۔ "بولو۔ " اب کے جنرل کا بایاں ہاتھ حرکت میں آیا۔ پھر وہ مسلسل اس پر تھپڑ، گھونسے اور لاتیں برسانے لگا۔ بالکل پاگلوں کے انداز میں وہ اس پر پل پڑا تھا۔
"یہ بیہوش ہو چکا ہے سر۔ " منہ سے کتوں کی طرح کف چھوڑتے اور ہانپتے جنرل کو جب کیپٹن آدیش نے بتایا تو وہ ہوش میں آ گیا۔
"جنرل نائر نے کچھ بتا بھیجا ہے اس کے بارے میں ؟" ایک طرف ہٹ کر اپنے خون آلود ہاتھ ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے اس نے پوچھا۔
"یہ فارم ساتھ آیا ہے سر۔ " کیپٹن آدیش نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
جنرل نے اس کاغذ پر نظر دوڑائی۔ نام سے لے کر پتے تک کے آگے "نامعلوم" کا لفظ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ غصے سے اس نے کاغذ کے پرزے اڑا دئیے۔ پھر کیپٹن کی طرف دیکھا۔
"اسے ہوش میں لاؤ۔ خوب پیٹ بھر کر کھلاؤ اور سونے مت دو۔ سمجھے۔ " کرنل نے سرمد کے بیہوش سراپے پر نفرت آلود نگاہ ڈالی اور واپسی کے لئے مڑ گیا۔ "میں اپنے آفس میں موجود ہوں۔ پل پل کی خبر دیتے رہنا۔ "
"یس سر۔ " کیپٹن آدیش نے فوجی انداز میں کہا اور سیلوٹ کے لئے اس کے ساتھ باقی تینوں فوجیوں نے بھی ہاتھ اٹھا دئیے۔
٭
دوسرے دن شام تک طاہر نے اپنے طور پر فون پر کچھ لوگوں سے رابطہ کر کے معلومات حاصل کرنا چاہیں مگر کوئی امید افزا بات سامنے نہ آئی۔ وہ ہوٹل کا فون قطعاً استعمال نہ کر رہا تھا۔ اس کی پوزیشن بڑی نازک تھی۔ بار بار سوچتا کہ ایک دم مانیا پر اعتماد کر لینے کا اقدام کہیں اسے کسی مشکل میں نہ ڈال دے مگر طاہر کے پاس رسک لینے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ تاہم اس کی چھٹی حس اسے بتا رہی تھی کہ اس نے مانیا کے بارے میں جو اندازہ لگا کر اس پر اعتماد کیا ہے، وہ غلط نہیں ہے۔
اس وقت وہ ٹی وی پر ایک نیوز چینل دیکھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
"یس۔ " طاہر نے ریموٹ سے ٹی وی کی آواز بند کر دی اور دروازے کی جانب دیکھا، جو اندر سے لاک نہیں تھا۔ "کم ان۔ "
دروازہ کھلا اور ہنستی مسکراتی مانیا اندر داخل ہوئی۔
"گڈ ایوننگ مسٹر طاہر۔ "
"گڈ ایوننگ مس مانیا۔ " طاہر نے خوش اخلاقی سے جواب دیا اور بیڈ سے اٹھ گیا۔ اس نے طاہر کا ہاتھ جو تھاما تو خود طاہر ہی کو واپس کھینچنا پڑا۔ "بیٹھئے۔ " طاہر اس کے ساتھ صوفے تک چلا آیا۔
" آپ نے تو رابطہ نہ کرنے کی قسم کھا لی شاید۔ میں انتظار کرتی رہی کہ آپ کنٹیکٹ کریں گے۔ " وہ مسکرا کر بولی۔
"اعتماد کرنا آتا ہے مجھے مس مانیا۔ آپ جب تک رابطہ نہ کرتیں میں اسی اعتبار کے سہارے ٹیک لگا کر وقت گزارتا رہتا کہ آپ میرے کام میں مصروف ہیں۔ " طاہر نے مانیا کو مکھن میں غوطہ دیا۔
"اوہ نو۔ " وہ حیرت سے آنکھیں پٹ پٹا کر بولی۔ "اتنی بلندی سے مت نوازیے مسٹر طاہر کہ میں نیچے دیکھنا ہی بھول جاؤں۔ "
"ایسی کوئی بات نہیں مس مانیا۔ بہر حال اب میں آپ کی طرف سے کسی اچھی خبر کے لئے بیتاب ہوں۔ "اس نے انٹر کام پر لوازمات کا آرڈر دیا اور مانیا کے سامنے آ بیٹھا۔
" خبر نہیں۔ خبریں مسٹر طاہر۔ اب وہ اچھی ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہو گا۔ " مانیا نے اپنے کندھے سے بڑا نازک سا شولڈر بیگ اتارا۔ کھولا اور اس میں سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکال کر اپنے سامنے پڑی میز پر پھیلا لیا۔ "میں ترتیب سے بتاتی ہوں۔ "
طاہر کے جسم میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔ وہ اضطراب آلود نگاہوں سے مانیا کو دیکھنے لگا جس نے سسپنس سے پرہیز کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
"بیس جنوری کو سرمد سعودی عرب سے دہلی پہنچا۔ اس نے اپنے قریبی پولیس سٹیشن میں اپنی آمد کا کوئی اندراج نہیں کرایا۔ وہ کہاں گیا؟ کہاں ٹھہرا؟ کس سے ملا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ہاں۔ اس کے حلئے کا ایک آدمی اکیس جنوری کو ٹاٹا بس سروس سے سرینگر کے لئے روانہ ہوا۔ سرینگر سے وہ کہاں گیا ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ "
سانس لینے کے لئے مانیا رکی اور اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جو ہمہ تن گوش ہو کر اسے سن رہا تھا۔
"ریحا لندن سے واپس آئی۔ واپسی کے تقریباً تین ہفتے بعد وہ ایک دن کے لئے دوبارہ لندن گئی۔ سرمد کے فلیٹ سے اس کے ڈاکومنٹس لے کر پاکستان پارسل کئے اور اگلے دن انڈیا لوٹ آئی۔ اس کی لندن جانے کی ڈیٹ تئیس جنوری اور واپس لوٹنے کی چوبیس جنوری ہے۔ اس کے بعد سے اب تک وہ سرینگر میں اپنے گھر پر موجود ہے۔ اس نے باہر آنا جانا بہت کم کر دیا ہے۔ ہر وقت ہنسنے کھیلنے والی ریحا اب چُپ چُپ رہتی ہے۔ سہیلیوں سے بھی کم کم ملتی ہے۔ ینگسٹرز کلب کی رکن ہے مگر وہاں جانا بھی تقریباً چھوڑ چکی ہے۔ اس کے والدین اس کی اداسی سے پریشان ہیں مگر وہ اس کی کوئی وجہ نہیں بتاتی۔ ہاں۔ ایک معمول بنا لیا ہے اس نے کہ ہر شام سیتا مندر جا کر دیا جلاتی ہے جو اس کے گھر سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ "
"حیرت انگیز۔ " طاہر نے تحسین آمیز نظروں سے مانیا کی طرف دیکھا تو وہ کھل اٹھی۔ "اتنے کم وقت میں ایسی امید افزا معلومات حاصل کر لینا آپ ہی کا کام ہے مس مانیا۔ "
"تھینکس مسٹر طاہر۔ " وہ مسکرا کر بولی۔ اس کی نظروں میں جلتے دیپ طاہر کے چہرے پر لو دے رہے تھے۔
"لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان معلومات سے ہمارا مسئلہ تو حل نہیں ہوا۔ " طاہر نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
"بالکل درست۔ " مانیا نے اس کی جانب دیکھا۔ " آپ غلط نہیں کہہ رہے مسٹر طاہر۔ تاہم میں ایک راستے کی نشاندہی کر سکتی ہوں جس پر چل کر ہم سرمد کے بارے میں مزید کچھ معلوم کر سکتے ہیں۔ "
"وہ کون سا راستہ ہے مس مانیا؟" طاہر نے اس کی جانب بغور دیکھا۔
"ہمیں سرینگر جانا پڑے گا۔ ریحا سے ملنا ہمارے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ "
"ہاں۔ یہ خیال تو میرے ذہن میں بھی آ رہا تھا۔ " طاہر نے پُر خیال لہجے میں کہا۔
"بس۔ تو وہاں چلتے ہیں۔ اگر میں واقعات اور صورتحال کے ڈانڈے ملانے بیٹھوں تو نجانے کیوں مجھے سرمد اور ریحا میں ایک انجانا سا تعلق محسوس ہوتا ہے۔ شاید ریحا سے مل کر ہمیں کوئی سِرا ہاتھ آ جائے۔ "
"مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے مس مانیا۔ " طاہر نے اس کی تائید کی۔
"تو پھر طے رہا کہ کل صبح ہم سرینگر چل رہے ہیں۔ " مانیا نے جیسے فیصلہ سنایا۔ " آپ اپنا پاسپورٹ مجھے دے دیں۔ تاکہ میں ضروری کاغذی کارروائی مکمل کرا لوں۔ "
طاہر نے اپنا پاسپورٹ مانیا کے حوالے کر دیا جسے اس نے اپنے شولڈر بیگ میں ڈال لیا۔ اسی وقت دونوں کی نظریں ملیں۔ طاہر کی نگاہوں میں نجانے کیا تھا کہ مانیا کا دل یکبارگی زور سے دھڑک اٹھا۔ طاہر بڑی بے باکی سے اسے گھور رہا تھا اور ایک بار جب اس کی نظریں مانیا کی نرم و نازک گردن سے نیچے اتریں تو وہ خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گئی۔
"مس مانیا۔" طاہر نے جیسے ماحول کا تناؤ کم کرنا چاہا۔ "ہمیں ریحا سے ملنے میں کس قسم کی دشواری ہو سکتی ہے؟ اس پر بھی غور کر لینا چاہئے۔ "
"کوئی دشواری نہیں ہو گی مسٹر طاہر۔ " وہ بھی سنبھل گئی۔ "ایک بات جس کا میں نے پہلے آپ سے ذکر نہیں کیا، یہ ہے کہ جب آپ نے مجھے ریحا کا ایڈریس دیا تھا میں تبھی ایک حد تک مطمئن ہو گئی تھی اور مجھے لگا تھا کہ ہمیں سرینگر جانا پڑے گا۔ "
"وہ کیوں ؟" طاہر چونکا۔
"اس لئے کہ میں تھوڑا بہت ریحا کے باپ کو جانتی ہوں۔ "
"شیام رائے کو؟" طاہر حیران ہوا۔
"شیام رائے نہیں۔ کرنل شیام رائے کو۔ ریحا کرنل رائے کی اکلوتی بیٹی ہے۔ "
"کیا؟"طاہر اچھل پڑا۔ پھر اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے اس نے سنبھالا لیا۔ "میرا مطلب ہے آپ کس طرح اسے جانتی ہیں ؟" اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔
"کرنل شیام رائے کے نجی سیل میں میرا ایک دور کا کزن ملازم ہے۔ اب تک کی معلومات میں اسی سے حاصل کر پائی ہوں۔ "مانیا نے بتایا۔
"اوہ۔۔۔ " طاہر بظاہر مطمئن سا ہو گیا۔
"اور میں چاہوں گی کہ اس سے ملاقات ہم کرنل رائے کی لا علمی میں کریں۔ یہی ہمارے لئے بہتر ہو گا۔ وہ فوجی آدمی ہے اور آپ مسلمان۔ شاید وہ اسے پسند نہ کرے۔ بات کوئی اور رنگ اختیار نہ کر جائے، اس لئے ہمیں محتاط رہنا پڑے گا۔ "
"مس مانیا۔ آپ میرے لئے خطرہ مول لے رہی ہیں۔ " طاہر نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"جی نہیں۔ " اس نے طاہر کی جانب نظر اٹھائی۔ " میں صرف آپ کی دوستی جیتنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ "
"وہ تو آپ جیت چکیں مس مانیا۔ " طاہر کی نظروں میں ا س کے لئے کوئی پیغام تھا۔
"تو میں اس کا ثبوت چاہوں گی مسٹر طاہر۔ "اس نے نگاہوں کی کمند طاہر کی جانب اچھالے رکھی۔
" ثبوت آپ کو سرینگر سے واپسی پر مل جائے گا مس مانیا۔ "
"شرط ہے کیا؟" وہ بڑے دل آویز انداز میں مسکرائی۔
"بالکل نہیں۔ " طاہر نے دھیرے سے کہا۔ "ذہنی فراغت چاہتا ہوں اور بس۔ "
"میں انتظار کروں گی اس پل کا مسٹر طاہر جب۔۔۔ "
اسی وقت ویٹر نے دروازے پر دستک دی اور مانیا کی بات ادھوری رہ گئی۔ مگر نہیں ، اس کی ادھوری بات طاہر کی نظروں میں ابھرتی اس چمک نے پوری کر دی تھی جو ایک بار پھر اس کے نیم برہنہ گداز شانوں سے ٹکرا کر پیدا ہوئی تھی۔
* * *
اذیتوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا۔
سرمد کو زبردستی حلق تک مرغن غذا کھلا کر بٹھا دیا جاتا۔ جونہی اسے غنودگی ہونے لگتی، نیند کی زیادتی اس کی پلکوں پر بوجھ ڈالتی تو سر کے بال کھینچ کھینچ کر، تھپڑوں اور گھونسوں سے اسے جاگنے پر مجبور کیا جاتا۔ کبھی اسے فاقے کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا۔ مسلسل فاقہ اسے ضعف کے مارے ہلنے جلنے سے معذور کر دیتا مگر اسے کھانے کے نام پر ایک کھیل اور پینے کے لئے پانی کا ایک قطرہ نہ دیا جاتا۔ کئی بار کرنل رائے نے فضلے سے بھرا ڈبہ اس کی ناک کے عین نیچے لٹکا کر کئی کئی گھنٹے تک غیر انسانی حالت میں رکھا۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں زخم نہ لگایا گیا ہو۔ ان زخموں میں نمک چھڑکا جاتا۔ مرچیں بھر دی جاتیں۔ زخموں پر بھوری چیونٹیاں چھوڑ دی جاتیں جو اس کا گوشت نوچتیں تو اس کی چیخیں ٹارچر سیل میں پورا پورا دن گونجتی رہتیں۔ کراہیں رات رات بھر اس کے لبوں سے خارج ہوتی رہتیں۔ سگریٹ سے اس کا سارا جسم داغ دیا گیا۔ پیروں کے ناخن کھینچ دیے گئے۔ تپتے لوہے کی پلیٹوں پر پہروں کھڑا رکھا گیا۔ برف کی سلوں پر گھنٹوں لٹایا گیا۔ جسم کے نازک حصوں پر الیکٹرک شاک دیا گیا۔ اور ان سب اذیتوں سے چھٹکارے کا لالچ دے کر اس سے پوچھا جاتا۔
"تمہارا نام کیا ہے؟"
"تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے؟"
"اپنے ساتھیوں کے نام اور پتے بتاؤ۔ "
"اپنے گروپ کا نام بتاؤ۔ "
کرنل رائے کے ہر سوال کے جواب میں سرمد کے لبوں پر ایک مسکراہٹ ابھرتی اور وہ اپنے ورم آلود ہونٹوں کو بمشکل حرکت دیتے ہوئے کہتا۔
"میرا نام غلام ہے۔ میں اپنے آقا کا غلام ہوں۔ میرا ٹھکانہ میرے اللہ کی رضا اور محبت ہے۔ میرے ساتھی اللہ اور اس کا رسول ہیں۔ میرے گروپ کا نام عشقِ رسول ہے۔ "
یہ جواب کرنل رائے کے تن بدن میں آگ لگا دیتی۔ اب تک اس کا واسطہ بڑے بڑے سخت جان مجاہدین سے پڑا تھا مگر جس قسم کی باتیں سرمد کرتا تھا وہ اسے سر تا پا شعلہ بنا دیتیں۔ پھر وہ جتنا بھی ضبط کرنا چاہتا، سب بیسود ثابت ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ سرمد پر دن بدن اس کے ستم بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ اس سخت جان آتنک وادی کا کیا حال کرے کہ اس کی زبان مطلوبہ معلومات کے لئے کھل جائے۔
کوئی اور ہوتا تو اب تک جان سے گزر گیا ہوتا مگر سرمد تھا کہ جیسے اس کے جسم میں ہر روز ایک نئی طاقت عود کر آتی تھی۔ کیپٹن آدیش نے اکثر محسوس کیا تھا کہ ہوش میں ہو یا نہ ہو، سرمد کے نیم متحرک ہونٹوں سے کچھ پڑھنے کا احساس ہوتا ہے۔ ایک روز اس نے کان لگا کر سنا اور جو الفاظ اس کے کانوں میں اترے ان کے اثر سے اس کے جسم میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا۔ اس کا رنگ فق ہو گیا۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہو گئی۔ اسے لگا جیسے وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ رہ سکے گا۔ اس کے سارے جسم پر جو لرزا طاری ہوا تو حالت سنبھلتے سنبھلتے کئی منٹ لگ گئی۔ وہ لڑکھڑا کر پرے پڑی کرسی پر گر سا پڑا اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ اب بھی اس کے کانوں میں سرمد کی مستی میں ڈوبی ہلکی ہلکی آواز خوشبو انڈیل رہی تھی۔
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
سرمد کے ہونٹ یہی دہرا رہے تھے۔
یہ کیسے الفاظ تھے؟ کیا یہ اس مسلمان کا کوئی مذہبی اشلوک تھا؟ کوئی منتر تھا؟ وہ کچھ بھی سمجھ نہ پایا مگر اس دن سے اس میں ایک تبدیلی آ گئی۔ اس دن کے بعد اس کا ہاتھ سرمد پر نہ اٹھا۔ اس کا جی ہی نہ چاہتا تھا کہ اسے اذیت دے۔ اسے تکلیف پہنچانے کا خیال ہی کیپٹن آدیش کو لرزہ بر اندام کر دیتا۔ اب اس کی کوشش ہوتی کہ سرمد پر دوسرے فوجیوں کے بجائے اسی کی ڈیوٹی لگی رہے تاکہ وہ اسے عقوبت سے بچائے رکھے۔ دن میں کئی بار اس کا جی چاہتا کہ وہ سرمد کے لبوں سے وہی طلسمی الفاظ پھر سنے جنہوں نے اس کی کایا کلپ کر دی تھی۔ ایسا وہ اس وقت کرتا جب سرمد بیہوش ہوتا اور اس کے آس پاس دوسرا کوئی نہ ہوتا۔ تب وہ چوری چوری اس کے لبوں سے کان لگا دیتا اور ان الفاظ کی مہک اپنی سماعت میں اتارنے لگتا۔ اس کا جی نہ بھرتا مگر اسے اپنے ارد گرد والوں کا خوف زیادہ دیر یہ مزہ لینے نہ دیتا۔ کئی بار اسے خیال آیا کہ یہ کوئی جادوئی الفاظ ہیں جنہوں نے اس کا دل سرمد کی طرف سے موم کر دیا ہے۔ مگر پھر اسے اپنی سوچ پر خود ہی یقین نہ آیا۔ اس نے سر جھٹک کر اس خیال کو دور پھینک دیا۔ اگر یہ جادو ہوتا تو اب تک یہ آتنک وادی وہاں سے اڑنچھو ہو چکا ہوتا۔ اس کے ذہن میں اپنے دھرم کے حوالے سے جادو کا ایسا ہی تصور تھا۔
اس دن ٹارچر سیل کا فوٹو گرافر سرمد کی تصویریں ڈیویلپ کر کے لایا اور ایک لفافے میں بند کر کے کیپٹن آدیش کے حوالے کر گیا۔ یہ تصویریں کرنل رائے کو پاس کرنا تھیں۔ پھر انہیں آرمی ہیڈ کوارٹر دہلی بھجوایا جاتا۔ تاکہ ان تصویروں کی خاص خاص مقامات پر تشہیر و ترسیل کے ذریعے سرمد کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتیں۔
کیپٹن آدیش نے لفافہ کھول کر دیکھا۔ اس میں کل آٹھ تصاویر تھیں۔ چار میں تو اس ٹارچر سیل کی درندگی اور بربریت عروج پر تھی اور چار تصویریں ایسے اینگل سے لی گئی تھیں کہ سرمد کا چہرہ بڑھے ہوئے شیو کے باوجود پہچانا جاتا تھا۔ تشدد کے آثار ان میں کم سے کم نمایاں تھی۔
اس نے تصویریں لفافے میں ڈالیں اور فرش پر بیڑیوں میں جکڑے پڑے بیہوش سرمد کی جانب دیکھا۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر نجانے کس عالم میں سانس لے رہا تھا۔ ہونٹ اب بھی ہل رہے تھے اور کیپٹن آدیش جانتا تھا کہ سرمد اب بھی انہی کیف اور الفاظ کا ورد کر رہا ہے جو اسے تبدیلی کی جانب کھینچے لئے جا رہے تھے۔
"پرسو رام۔ " اس نے دروازے کے باہر کھڑے سگریٹ پیتے فوجی کو آواز دی۔
"یس سر۔ " وہ سگریٹ مسل کر باسکٹ میں پھینکتا ہوا اندر چلا آیا۔
"میں یہ تصویریں جنرل صاحب کو دینے جا رہا ہوں۔ ڈیوٹی آنکھیں کھول کر دینا۔ " کہہ کر وہ لفافہ ہاتھ میں لئے باہر چلا آیا۔
کرنل رائے کی کوٹھی کے رہائشی حصے کی جانب جاتے ہوئے اس کے من میں سرور لہریں لے رہا تھا۔ ریحا کو دیکھنے کا خیال ہی اس کے لئے مستی بھرا تھا۔ وہ جب سے ٹارچر سیل میں ڈیوٹی پر آیا تھا، تب سے ریحا کے عشق میں مبتلا تھا۔ چونکہ جانتا تھا کہ یہ انگور کھٹے ہیں اس لئے دل ہی دل میں ریحا کی پوجا کیا کرتا۔ اسے کسی کسی دن ایک نظر دیکھ لینا ہی اس کے لئے کافی تھا۔
اس وقت بھی جب وہ کرنل رائے کے آفس کی طرف جا رہا تھا، اس کی نظریں ریحا کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔ پھر وہ اسے دیکھ لینے میں کامیاب ہو گیا۔ ریحا باغیچے میں ایک درخت کے نیچے کرسی ڈالے بیٹھی تھی۔ سرخ میکسی پر نیلی شال اوڑھے وہ نجانے کیا سوچ رہی تھی کہ روش سے گزرتے کیپٹن آدیش کے بھاری فوجی بوٹوں کی آہٹ سے بھی بے خبر رہی۔ وہ باغیچے کے باہر رک گیا۔ چند لمحے نظروں کی پیاس بجھاتا رہا۔ پھر بھی جب ریحا اس کی طرف متوجہ نہ ہوئی تو مایوس ہو کر چل پڑا۔ اس کا ریحا کی طرف یوں مائل ہونا اگر کسی کے علم میں آ جاتا تو اس کے لئے مصیبت ہو جاتی۔ کنکھیوں سے اپنے خیالوں میں گم ریحا کو دیکھتا اور یہ سوچتا ہوا وہ چلتا گیا کہ ریحا کس الجھن میں ہے جو اس کی مسکراہٹیں اور قہقہے کہیں گم ہو گئی۔ اس کے علم میں تھا کہ کچھ ہفتوں سے وہ ہر شام قریبی سیتا مندر دیا جلانے جاتی ہے اور باقی دلچسپیوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ خیالی گھوڑے دوڑاتا وہ کرنل رائے کے آفس تک پہنچ گیا جہاں دروازے پر دائیں بائیں دو گن مین مستعد کھڑے تھے۔ اسے سیلوٹ کر کے انہوں نے دروازہ کھول دیا۔
"کرنل صاحب آپ کے منتظر ہیں سر۔ " ایک گن مین نے کڑک دار آواز میں کہا، جبکہ دوسرا بُت بنا کھڑا رہا۔ وہ سر ہلاتا ہوا اندر داخل ہوا۔
کرنل رائے نے تصویروں کا لفافہ لے کر اسے واپسی کی اجازت دے دی اور خود تصویریں نکال کر شیشے کی ٹاپ والی میز پر پھیلا کر انہیں غور سے دیکھنے لگا۔ سگار اس وقت بھی اس کے ہونٹوں میں دبا ہوا تھا۔ تصویریں چھ ضرب آٹھ کے سائز میں تھیں اور خاصی واضح تھیں۔ وہ اپنی نشست پر بیٹھ کر انہیں دیکھتا ہوا کچھ سوچ رہا تھا کہ کمرے کا وہ دروازہ کھلا جو اندرونی رہائشی حصے میں کھلتا تھا۔
"ارے ریحا بیٹی۔ آؤ آؤ۔ " ریحا کو اندر آتے دیکھ کر وہ مسکرا پڑا۔
"پاپا۔ میں مندر جا رہی ہوں۔ " ریحا نے کمرے میں قدم رکھا۔
"جلدی لوٹ آنا بیٹی۔ شام ہونے کو ہے۔ ویر سنگھ کو ساتھ لے جاؤ۔ " وہ سگار منہ سے نکال کر بولا۔
"نہیں پاپا۔ میں گاڑی میں جا رہی ہوں۔ کسی کو ساتھ لے جانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ " ریحا نے کہا۔ اس کی جانب دیکھا پھر مڑتے مڑتے اچانک اس کی نظر میز پر بکھری تصویروں پر پڑ گئی۔ ایک دم اس کے قدم تھم گئی۔ آہستہ سے گردن گھما کر اس نے دوبارہ تصویروں کی جانب دیکھا اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آنکھوں میں خوف سا اترا اور دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ وہ لپک کر میز کے قریب آ گئی۔
"کیا بات ہے بیٹی؟" کرنل رائے نے چونک کر اس کی جانب دیکھا جو سرمد کی تصویروں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔
"پاپا۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ کون ہے پاپا؟" وہ بیتابی سے بولی۔
"ایک آتنک وادی ہے بیٹی۔ " کرنل رائے نے اس کے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا اور اپنی سیٹ سے اٹھ گیا۔
"یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ آتنک وادی۔۔۔ نہیں پاپا۔ آپ کو کچھ دھوکا ہوا ہے۔ " ریحا کے لہجے میں چھپی بے قراری نے کرنل رائے کے کان کھڑے کر دئیے۔
"تم کہنا کیا چاہتی ہو ریحا۔ " جنرل اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ "کیا تم اسے جانتی ہو؟"
"میں۔۔۔ میں۔۔۔ " ریحا ہکلا کر رہ گئی۔ پھر جیسے اس نے زبان کو گانٹھ دے لی۔ "نہیں پاپا۔ میں اسے نہیں جانتی مگر اس کا چہرہ مہرہ آتنک وادیوں جیسا نہیں لگتا۔ "
"نظریں نہ چراؤ ریحا۔ " کرنل نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔ " آتنک وادیوں کے چہرے ہم تم جیسے ہی ہوتے ہیں ، جن سے ہم فریب کھا جاتے ہیں مگر مجھے لگتا ہے تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔ "
"میں۔۔۔ میں آپ سے کیا چھپاؤں گی پاپا۔ " ریحا نے نظریں جھکائے جھکائے جواب دیا، جن کا ہدف اب بھی سرمد کی ایک تصویر تھا۔ کرنل کا ہاتھ شانے سے ہٹانا چاہا۔ اس کا کانپتا ہوا لہجہ اس کے جھوٹ کی چغلی کھا رہا تھا اور کرنل نے بال دھوپ میں تو سفید نہیں کئے تھے جو اس کی بات پر یقین کر لیتا۔
"ریحا۔۔۔ " کرنل نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر اٹھایا اور جب اس نے کرنل سے نظر ملانے سے گریز کیا تو اسے اپنے شک پر یقین کے سائے لہراتے نظر آنے لگی۔ "مجھ سے نظر ملا کر بات کرو ریحا۔ " کرنل کا لہجہ سخت ہو گیا۔
"کیا بات کروں پاپا؟" ایک دم وہ سسک پڑی۔
"ریحا۔ " بھک سے کرنل کے دماغ کا فیوز اڑ گیا۔ آواز میں حیرت اور کپکپاہٹ ایک ساتھ ابھرے۔ پھر اس نے روتی ہوئی ریحا کو سینے سے لگا لیا۔ "کیا بات ہے میری جان۔ صاف صاف کہو۔ روؤ مت۔ تم جانتی ہو تمہارے آنسو مجھ سے برداشت نہیں ہوں گے۔ "
"پاپا۔۔۔ پاپا۔۔۔ " ریحا بلک رہی تھی۔ "یہ وہی تو ہے جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا۔ اسی کے لئے تو میں روز سیتا مندر میں دیا جلانے جاتی ہوں۔ پاپا۔ یہ آتنک وادی کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو کسی بچے کی طرح معصوم ہے پاپا۔ "
ریحا کہتی رہی اور حیرت زدہ کرنل اس کی کمر پر ہاتھ رکھے سنتا رہا۔ اس کے دل و دماغ میں بھونچال سا آیا ہوا تھا۔ اسے ریحا نے یہ تو بتایا تھا کہ وہ لندن یونیورسٹی میں ایم بی اے کے کورس کے دوران کسی لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو گئی تھی اور جب تک اس کی طرف سے "ہاں نہ " کا صاف صاف اظہار نہ ہو جائے، اسے شادی کے فیصلے کے لئے وقت دیا جائے۔ تب کرنل اور اس کی پتنی سوجل نے اس معاملے کو مسئلہ نہ بنایا۔ بلکہ ریحا کو کچھ عرصے کے لئے اس کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ وہ لڑکا کون ہے؟یہ ریحا نے نہ بتایا۔ اور وہ کس مذہب سے ہے؟ اس بارے میں ان کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوا۔ ان کے وہم میں بھی نہ تھا کہ وہ لڑکا مسلمان ہو گا۔
کرنل کے سینے سے لگ کر ریحا نے کھل کر آنسو بہا لئے تو اس کا من ہلکا ہو گیا جبکہ کرنل رائے کے لئے سوچ اور الجھن کی کتنی ہی نئی راہیں کھل گئیں۔ بیٹی کے آنسو پونچھ کر اس نے اسے کرسی پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے میز کے کونے پر ٹک گیا۔ پھر اسے سرمد کے بارے میں اب تک کی ساری معلومہ باتیں بتائیں۔ مگر ریحا کے چہرے پر اول تا آخر بے اعتباری کے رنگ چھائے رہی۔
"اب تم بتاؤ بیٹی۔ میں تمہاری بات پر یقین کروں یا اس ساری صورتحال پر جس میں یہ لڑکا ہمارے ہاتھ لگا۔ ہاں۔۔۔ کیا نام بتایا تم نے اس کا؟" اچانک کرنل رائے نے ریحا کی جانب انگلی اٹھائی۔
"ابھی تک تو میں نے اس کا نام نہیں بتایا۔ " ریحا جیسے باپ کی چال سمجھ گئی۔ "اور معاف کیجئے گا پاپا۔ فی الحال میں آپ کو اس کا نام بتاؤں گی بھی نہیں۔ "
"یہ کوئی مشکل نہیں ہے ریحا۔ " اچانک کرنل رائے کے اندر کا ہندو فوجی باہر آ گیا۔ "میں چاہوں تو دس منٹ کے اندر اندر لندن یونیورسٹی سے اس لڑکے کے بارے میں مکمل معلومات منگوا سکتا ہوں مگر ۔۔۔ " وہ رک گیا۔ "میں چاہتا ہوں مجھے ایسا نہ کرنا پڑے۔"
ریحا کو ایک دم اپنی حماقت کا اب احساس ہوا کہ اس نے سرمد کے حوالے سے اپنے ہاتھ کاٹ کر باپ کے ہاتھ میں دے دیے ہیں۔
"تم نے میری پوزیشن بڑی نازک کر دی ہے ریحا۔ " جنرل اٹھا اور ہاتھ پشت پر باندھے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ "میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟"
"پاپا۔ " ریحا نے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "کچھ بھی ہو۔ اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے اپنے سیل میں اس کا جو حشر کیا ہے، میں اسے سہہ نہیں پا رہی ہوں۔ "
"وہ اپنی جگہ ضروری تھا ریحا۔ " کرنل نے خشک لہجے میں کہا۔ "میں بتا چکا ہوں کہ وہ ہمیں چھاؤنی نمبر سینتالیس پر اٹیک کے دوران ملا۔ "
"ہو سکتا ہے آپ کی معلومات درست ہوں پاپا لیکن مجھے وہ چاہئے۔ زندہ سلامت اور بس۔۔۔ " ریحا کھڑی ہو گئی۔
"پاگل ہو گئی ہو تم۔ " کرنل رائے کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ "یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ بھارت ماتا کا دشمن ہے اور۔۔۔"
"سب کچھ ہو سکتا ہے پاپا۔ " ریحا کے لبوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ ابھری۔ "کیا میں نہیں جانتی کہ آپ کے ٹارچر سیل میں کیا کچھ ہوتا ہے؟ اگر کاکا ابراہیم کو پچیس لاکھ کے عوض جہادی تنظیم کے حوالے کیا جا سکتا ہے تو آپ کی بیٹی کی پسند اسے کیوں نہیں مل سکتی؟"
" آہستہ بولو۔۔۔ آہستہ۔ " کرنل رائے نے آگے بڑھ کر اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی آواز میں خوف سمٹا ہوا تھا۔ "تم یہ سب جانتی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم شور مچا دینے کی دھمکی دے کر مجھے بلیک میل کرو۔ "
"دھمکی۔۔۔ " ریحا نے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ "یہ دھمکی نہیں ہے پاپا۔ سودا ہے۔ میرے اور آپ کے بیچ۔ میں اپنی پسند حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔ کسی حد تک بھی جا سکتی ہوں۔ اگر آپ ایک اچھے پاپا بنے رہے تو میں دنیا کی سب سے لاڈلی بیٹی ہوں اور اگر آپ کا سوتیلا پن جاگا تو میں اپنی ماما کی بیٹی بننے پر مجبور ہو جاؤں گی۔ "
کرنل رائے کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ بات جسے وہ وقت کی تہہ میں دفن کر چکا تھا، ریحا نے ایک ہی ٹھوکر سے اسے ماضی کی قبر سے باہر نکال لیا تھا۔ ریحا اس کی پتنی سوجل کے پہلے پتی راکیش سے تھی جس کے مرنے کے بعد کرنل رائے نے سوجل سے شادی کر لی تھی۔ سوجل کو آج بھی شبہ تھا کہ اس کے پتی راکیش کو کرنل رائے نے قتل کروایا تھا مگر ثبوت نہ ہونے کے باعث وہ خاموشی سے دن گزار رہی تھی۔ اگر اس سکینڈل کو اچھال دیا جاتا تو کرنل رائے کہاں ہوتا، اسی کی طرف اشارہ کر کے ریحا نے اسے خوف کی دلدل میں پھینک دیا تھا۔
کتنی ہی دیر وہ خالی خالی نظروں سے اس دروازے کو تکتا رہا جس سے نکل کر ریحا جا چکی تھی۔ پھر اس کی نظریں میز پر بکھری سرمد کی تصویروں پر جا پڑیں۔ اسے ہوش سا آ گیا۔ تھکے تھکے قدموں سے آگے بڑھ کر اس نے تصویریں سمیٹیں۔ لفافے میں ڈالیں اور لفافہ میز کے خفیہ خانے میں سرکا دیا۔
* * *
"مس ریحا۔ " مندر میں پرارتھنا کر کے نکلتی، سوچوں کے بھنور میں چکراتے دماغ کے ساتھ ریحا اپنی گاڑی کی طرف چلی کہ ایک نسوانی آواز نے اسے چونکا دیا۔ پلٹ کر دیکھا تو مندر کے سامنے چھوٹے سے پارک کے گیٹ پر سرخ کار کے پاس کھڑی ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر اس کے قدم رک گئی۔ وہ ریحا کے لئے بالکل اجنبی تھی، اس لئے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھنا ایک قدرتی امر تھا۔
’میں نے آپ ہی کو پکارا ہے مس ریحا۔ " وہ اس کی طرف چل پڑی۔
ریحا نے ادھر ادھر دیکھا۔ نزدیک یا دور کوئی ایسی سرگرمی نہ دکھائی دی جس سے وہ شبے میں مبتلا ہوتی، اس لئے وہ اپنی گاڑی کے پاس رکی رہی۔ لڑکی اس کے قریب پہنچی۔ وہ بڑی قیمتی ساڑھی میں ملبوس تھی۔ کندھوں پر زرتار کشمیری شال اس کے سٹیٹس کا اعلان کر رہی تھی۔
"میرا نام مانیا ہے۔ مانیا سکسینہ۔ میں دہلی سے آئی ہوں آپ سے ملنے۔ " اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
"مجھ سے ملنے؟" ریحا اور حیران ہوئی تاہم اس نے مانیا کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔
"جی ہاں۔ ایک مہمان بھی ہے میرے ساتھ۔ " اس نے پلٹ کر اپنی گاڑی کی طرف دیکھا جس کے کھلے شیشوں سے لگتا تھا کہ گاڑی میں کوئی اور بھی موجود ہے۔ ایک لمحے کو اسے خطرے کا احساس ہوا۔
"گھبرائیے نہیں مس ریحا۔ اور کسی غلط سوچ کو بھی ذہن میں جگہ مت دیجئے۔ " مانیا نے اترتی شام کے سائے میں اس کے چہرے پر ابھرتے شکوک کو بھانپ لیا۔ "اگر آپ چند منٹ ہمارے لئے نکال سکیں تو ہم دوستانہ ماحول میں بات کرنا چاہیں گے"
" آپ لوگ کون ہیں اور مجھے کیسے جانتے ہیں ؟" ریحا کا ذہن ابھی اس کی طرف سے صاف نہیں ہوا تھا۔
" آئیے۔ پارک میں بیٹھتے ہیں۔ " مانیا نے اس کا ہاتھ بڑی نرمی سے کھینچا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑی۔ پار ک میں داخل ہوتے ہوئے ریحا نے دیکھا کہ گاڑی کے دروازے کھلے اور اس میں سے ایک بڑا وجیہہ مرد نکل کر ان کے پیچھے پارک کی طرف چل پڑا۔ اس کا جی چاہا، فوراً پلٹ کر دوڑ لگا دے مگر مانیا نے اس کا ہاتھ نہ چھوڑا اور اسے لئے ہوئے پارک میں ایک درخت کے نیچے بچھے ایک ایسے لمبے بنچ پر جا بیٹھی، جو پارک میں موجود دوسرے لوگوں سے کافی ہٹ کر تھا۔ ان کے بیٹھنے کے چند لمحوں بعد ہی وہ مرد بھی ان تک آن پہنچا۔
"گڈ ایوننگ ینگ لیڈی۔ " مرد نے بڑے تہذیب یافتہ لہجے میں کہا اور بنچ پر مانیا سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گیا۔ پارک کی مدھم لائٹس میں ریحا کو ان دونوں کے چہروں اور حرکات کا جائزہ لینے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور اس کے دل نے اسے یقین دلایا کہ وہ برے لوگ نہیں ہیں۔ ان کے نرم، شرافت میں گندھے ہوئے چہرے کسی لحاظ سے اسے فریبی نہ لگے۔
"جی۔ کہئے۔ آپ لوگ مجھے کیسے جانتے ہیں اور مجھے کیوں روکا؟" ریحا نے ان تینوں کے چہروں پر ایک بار پھر نظر دوڑائی۔
"ہم آپ کو کیسے جانتے ہیں ، اسے فی الحال رہنے دیجئے مس ریحا۔ " مانیا نے نرمی سے کہا۔ " آپ کے لئے اتنا جان لینا لازم ہے کہ میں دہلی سے اور مسٹر طاہر پاکستان سے ایک شخص کے سلسلے میں آپ سے ملنے آئے ہیں۔ آج شام جب آپ اپنے گھر سے نکلیں تو ہم آپ کے پیچھے پیچھے سیتا مندر تک آئی۔ آپ پوجا کر کے باہر نکلیں تب میں نے آپ کو آواز دی۔ "
ریحا کا دل سینے میں زور سے دھڑکا۔ اس نے مانیا کے خاموش ہوتے ہی طاہر کی جانب بیتابی سے دیکھا۔
"کس کے سلسلے میں ملنے آئے ہیں آپ مجھ سے؟"اس کی آواز میں تھرتھراہٹ چھلک رہی تھی۔
"مس ریحا۔ " طاہر نے ذرا آگے جھک کر اس کی نظروں کا احاطہ کر لیا۔ "لندن یونیورسٹی میں ایک لڑکا آپ کے ساتھ پڑھتا تھا۔ سرمد۔۔۔ "
اور ریحا کا خوف چہرے پر ابل پڑا۔ وہی ہوا جو اس کے دل میں تھا۔ طاہر کے نام نے اسے وہ سب یاد دلا دیا، جو سرمد نے اپنی داستانِ غم سناتے ہوئے اس پر ظاہر کیا تھا۔ ایک نام اور تھا صفیہ۔ اس کا جی چاہا کاش وہ بھی ان کے ساتھ ہوتی۔ وہ بھی اس بہار کا دیدار کر لیتی جس نے سرمد کو خزاں خزاں کر دیا تھا مگر اس کی جگہ امبر کا نام سن کر وہ مایوس سی ہو گئی۔ اس کی ایک دم دگرگوں ہوتی کیفیت نے ان دونوں کو ہوشیار کر دیا۔
"سرمد۔۔۔ " سرسراتے لہجے میں ریحا نے کہا اور ڈری ڈری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔
"جی ہاں مس ریحا۔ " طاہر نے پہلے جیسی نرمی ہی سے کہا۔ " سرمد۔ جس کے ڈاکومنٹس آپ نے لندن سے اس کے پتے پر پاکستان پارسل کئے تھے۔ وہ عمرے کے بعد انڈیا آیا اور غائب ہو گیا۔ اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ ہم یہ سوچ کر آپ کے پاس آئے ہیں کہ یقیناً آپ اس کے بارے میں کچھ ایسا بتا سکیں گی جو ہمیں اس تک رسائی دلا سکے۔ "
ریحا آنکھیں بند کئے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔ ان سب کے دل شدت سے دھڑک رہے تھے۔ ریحا سرمد کے بارے میں جانتی تھی۔ انہیں بتا سکتی تھی، مگر کیا؟ اس سوالیہ نشان کے پنجے ان کے دل و دماغ میں پوری شدت کے ساتھ اترتے جا رہے تھے۔
چند لمحے خاموشی کے گھاٹ اتر گئے۔ امید و بیم نے انہیں جکڑے رکھا۔ آخر مانیا نے آہستگی سے ریحا کا ہاتھ تھام کر اسے خودفراموشی کی کیفیت سے باہر نکالا۔
"مس ریحا۔ " ہولے سے اس نے کہا تو ریحا نے آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا۔ خشک ہونٹوں کو زبان پھیر کر تر کیا۔
"کیا جاننا چاہتے ہیں آپ لوگ سرمد کے بارے میں ؟" اس کی آواز جیسے کسی کھائی سے ابھری۔
"سب کچھ۔۔۔ وہ سب کچھ جو آپ اس کے بارے میں جانتی ہیں۔ "
"مگر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ لوگ سرمد کے دوست ہیں۔ "وہ انہیں نظروں میں تولتے ہوئے بولی۔
جواب میں مانیا نے طاہر کا پاسپورٹ اسے تھما دیا۔ اس نے اسے کھول کر دیکھا۔ ایک حد تک اسے اطمینان ہو گیا۔ پاسپورٹ واپس کرتے ہوئے اس نے سوالیہ نظروں سے مانیا کی طرف دیکھا۔ مانیا اس کا مطلب سمجھ گئی اور پرس سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اسے دیا۔ ریحا نے اس کا جائزہ لیا اور خاصی حد تک مطمئن نظر آنے لگی۔
"کیا میں پوچھ سکتی ہوں آپ کے ساتھ سرمد کا کیا رشتہ ہے؟"اس نے طاہر سے پوچھا جو خیالوں کے غبار میں گھرا بڑی باریک بینی سے ریحا کی پوچھ گچھ کو جانچ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ وہ سرمد کے بارے میں اس قدر محتاط کیوں ہو رہی ہے۔
"جی مس ریحا۔ " طاہر نے ناپ تول کر الفاظ کا انتخاب کیا۔ "میں اس کا کزن ہوں۔ "
"ہوں۔۔۔ " ریحا ایک بار پھر کسی سوچ میں ڈوب گئی۔ لگتا تھا وہ زبان کھولنے سے پہلے ان کی باتوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ ان پر اعتماد کرنے یا نہ کرنے کی کیفیت سے دوچار ہے۔ آخر ان کا صبر رنگ لایا اور ریحا نے فیصلہ کر لیا۔
"میں جو کہنے جا رہی ہوں ، اسے بڑے حوصلے اور دھیان سے سنئے گا۔ " اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا اور طاہر کی جانب دیکھا۔ " آپ یہ تو جان ہی چکے ہیں کہ میں کرنل رائے کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ "
"جی جی۔ " طاہر اس کے رکنے پر بے چین سا ہو گیا۔ " رکئے مت مس ریحا۔ "
"لندن میں میری سرمد سے آخری ملاقات ہوئی تو میں نے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ جواب میں اس نے مجھے جو کہانی سنائی، اس نے اس کے دُکھ اور زندگی سے گریز کا پردہ فاش کیا۔ " آہستہ سے اس نے طاہر کی جانب نظر اٹھائی، جو اسے گھبرائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ماتھے پر آئے ہوئے پسینے نے ریحا کے دل میں رشک سا جگا دیا۔ اس نے صفیہ کا نام لینے سے پرہیز کرتے ہوئے کہا۔ "وہ کسی لڑکی کے عشق میں دنیا سے کٹ گیا تھا۔ میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتی تھی مگر اس نے میری حوصلہ افزائی کی نہ کوئی وعدہ کیا۔ میں نے اپنے طور پراس کا انتظار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اسے اپنے اس عزم سے آگاہ کر کے انڈیا چلی آئی۔ " وہ رکی تو طاہر نے رومال سے ماتھا خشک کیا۔ اس کی نظروں میں ریحا کے لئے تشکر کے جذبات تھی۔ ریحا نے اس بات کو محسوس کیا اور پھر کہنا شروع کیا۔
"کچھ عرصے بعداس نے سعودیہ سے مجھے کال کی کہ میں لندن جا کر اس کے ڈاکومنٹس پاکستان اس کے پاپا کے پتے پر ارسال کر دوں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور واپس آ کر اس کے انتظار کا جھولا جھولنے لگی۔ مجھے نجانے کیوں یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن میرے سرمد سے ملاقات ضرور ہو گی۔ سیتا ماں مجھے اور اسے ضرور ملا دے گی۔ میں روزانہ اس کے نام کا دیپ جلانے اس مندر میں آتی ہوں۔ "
وہ خاموش ہو گئی۔
"تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد آپ کو اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی؟" مایوسی سے طاہر نے پوچھا۔
"یہ میں نے کب کہا؟" وہ اضطراب سے ہونٹ کاٹنے لگی۔ اس کی بھرائی ہوئی آواز نے ان دونوں کو چونکا دیا۔
"تو پھر۔۔۔ ؟" مانیا نے طاہر کے ہونٹوں کے الفاظ چھین لئے۔
" آج شام۔۔۔ یہاں آنے سے پہلے۔۔۔ مجھے اس کے بارے میں خبر ملی۔ " اس کی آواز حلق میں پھنسنے لگی۔ ر کے رکے الفاظ بھیگتے چلے گئی۔ " وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ " اس نے بے چینی کے عالم میں اپنے ہاتھ رانوں تلے دبا لئے اور سر جھکا کر بلک پڑی۔ " وہ میرے پاپا کے ٹارچر سیل میں قید ہے۔ "
"کیا۔۔۔ ؟" طاہر اور مانیا اگر اچھل نہ پڑتے تو حیرانی کو خود پر حیرت ہوتی۔ "یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ مس ریحا؟" طاہر بے قراری سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں مسٹر طاہر۔ " وہ روئے جا رہی تھی۔ "میرا سرمد ایک آتنک وادی کے روپ میں میرے پاپا کے ہاتھ لگا اور اب وہ اسے ٹارچر کر رہے ہیں۔ " آنسوؤں میں بھیگی آواز میں ریحا نے انہیں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اس ساری بات سے آگاہ کیا جو کرنل رائے سے اس تک پہنچی تھی۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟" طاہر بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ "وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ایک بچے کی طرح معصوم ہے۔ "
"مگر پاپا اسے نہیں مانتی۔ " مانیا کی باہوں میں پڑی ریحا ہچکیاں لے رہی تھی۔
"یہاں مجاہدوں کو دہشت گرد ہی کہا جاتا ہے۔ " مانیا نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
"میں سمجھتا ہوں مس مانیا مگر سرمد کسی جہادی تحریک میں شامل ہوا تو کیسی؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ وہ تو اس راہ کا مسافر ہی نہیں تھا۔ "طاہر بے بسی سے بولا۔
شام، رات میں ڈھل رہی تھی۔ مانیا نے ریحا کو بڑی مشکل سے نارمل کیا۔ وہ اس کی حالت سے خاصی متاثر لگ رہی تھی۔
"مس ریحا۔ " اچانک طاہر اس کے قریب آ کر رکا اور گھٹنوں کے بل گھاس پر بیٹھ گیا۔ "یہ ٹارچر سیل کہاں ہے؟"
"ہماری رہائش گاہ میں انیکسی کے بالکل ساتھ بیسمنٹ میں۔ "ریحا نے آہستہ سے جواب دیا۔
" آپ سرمد کو وہاں سے نکالنے میں ہماری کیا مدد کر سکتی ہیں ؟"
"جان دے سکتی ہوں۔ " اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔ " آج سے پہلے میں بھی نہیں جانتی تھی کہ میں سرمد کو اس شدت سے چاہنے لگی ہوں مگر اب لگتا ہے اس کے بغیر سانس لینا مشکل ہے۔ "
"میرا خیال ہے ہمیں اس ملاقات کو یہیں روک دینا چاہئے۔ مسٹر طاہر، اٹھ جائے۔ لوگوں کی نظریں آپ پر مرکوز ہیں۔ "
طاہر کو اپنی حالت کا احساس ہوا تو وہ فوراً کھڑا ہو گیا۔ "سوری مس مانیا۔ " ہولے سے اس نے کہا۔
"اٹس او کے۔ میں سمجھ رہی ہوں۔ " مانیا نے اس کی جانب دیکھا۔ "میرا مشورہ یہ ہے کہ کل صبح مس ریحا سے میٹنگ رکھی جائے۔ اس وقت لائحہ عمل طے کیا جائے کہ ہم اس سلسلے میں کیا اور کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ وقت ایسی تفصیل کے لئے مناسب ہے نہ کافی۔ "
اس کی بات درست تھی۔ ریحا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مانیا کے دیے ہوئے ٹشو پیپر سے آنکھیں اور رخسار خشک کئے۔ پھر طاہر کی جانب دیکھا۔
" آپ کہاں ٹھہرے ہیں ؟"
"ہوٹل کشمیر پوائنٹ میں۔ روم نمبر دو سو ایک اور دو سو دو۔ " طاہر نے بتایا۔
"میں کل صبح نو بجے آپ کے پاس ہوں گی۔ رات بھر میں مزید جو بھی معلوم ہو سکا، میں اس کے لئے پوری کوشش کروں گی۔ "
"ٹھیک ہے۔ " طاہر نے اس سے اتفاق کیا۔ "وقت کا خیال رکھئے گا مس ریحا۔ آپ سمجھ سکتی ہیں کہ یہ رات ہم پر کیسی بھاری گزرے گی۔ "
"بتانے کی ضرورت نہیں مسٹر طاہر۔ " وہ اسے اداسی سے دیکھتے ہوئے بولی۔ " میں سانسوں میں کانٹوں کی چبھن سے آشنا ہو چکی ہوں۔ "
"تو یہ طے رہا کہ کل صبح نو بجے ہوٹل میں مس ریحا ہم سے آن ملیں گی۔ " مانیا جیسے اب وہاں سے رخصت ہو جانا چاہتی تھی۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آ گیا۔
"ہاں مس ریحا۔ جنرل صاحب کے سیل میں ایک شخص ہے کیپٹن آدیش۔ "
"جی ہاں۔ " وہ چونکی۔ " آپ اسے کیسے جانتی ہیں ؟"
"وہ میرا کزن ہے۔ اسی نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔ آپ اسے میرا ایک میسج دے سکیں گی؟"
"ضرور۔ مگر کیا اس پر بھروسہ کرنا مناسب ہو گا مس مانیا؟" ریحا نے پوچھا۔
"یہی تو مجھے جاننا ہے۔ " مانیا نے پُر خیال لہجے میں کہا۔ " اور اس سے ملے بغیر میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی۔ آپ اسے کہئے گا مجھے آج رات ہوٹل میں آ کر ملے۔ "
"ٹھیک ہے۔ میں اسے آپ کا میسج دے دوں گی۔ " ریحا نے دھیرے سے کہا۔ "ویسے وہ آدمی اتنا برا نہیں ہے۔ مجھ سے اس کا دو چار بار سابقہ پڑ چکا ہے۔ "
"تو آپ اسے میرا پیغام ضرور دیجئے گا۔ باقی جو بھگوان کرے۔ " مانیا نے کہا اور وہ سب پارک سے باہر جانے کے لئے چل پڑے۔
* * *
کرنل رائے کسی زخمی درندے کی طرح فرش کی سینہ کوبی کر رہا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں آتش فشاں دہک رہا تھا۔ رہ رہ کر اسے ریحا کی باتیں یاد آتیں اور وہ اس سوکھی لکڑی کی طرح چٹخ اٹھتاجسے آگ کے الاؤ میں پھینک دیا جائے۔
اسے کوئی ایسا راستہ نہ سمجھ آ رہا تھا کہ وہ ریحا کی بلیک میلنگ سے بچ سکی۔ اگر ایک بار وہ اس کی بات مان لیتا تو پھر بار بار اس کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے اسے کون بچاتا؟ وہ جب چاہتی اس کی شہ رگ پر انگوٹھا رکھ کر اپنی منوا لیتی اور یہ بات اسے کسی حال میں بھی منظور نہ تھی۔ ایک تو وہ اونچے عہدے کا فوجی تھا اوپرسے ہندو۔ منصب اور خباثت نے مل کر اس کی شخصیت میں جو حرامی پن انڈیل دیا تھا، اس کا تقاضا تھا کہ وہ ریحا کو ایسا سبق سکھائے کہ آئندہ کے لئے وہ اس کے سامنے دم نہ مار سکے۔ اور اس کے لئے وہ کسی بھی انتہا تک جا سکتا تھا کیونکہ ریحا کون سی اس کی سگی بیٹی تھی؟ بلکہ اب تو وہ اسے اپنے رقیب کی نشانی ہونے کے ناطے دشمن لگنے لگی تھی۔ اگر سوجل اور ریحا مل کر اس کے خلاف محاذ کھڑا کر لیتیں تو اس کی عزت بھی خاک میں مل جاتی اور کورٹ مارشل کی تلوار الگ سر پر لٹکنے لگتی۔ اس نے راکیش کا کیس اپنے اثر و رسوخ سے دبا دیا تھا، ورنہ اگر کوئی ذرا سی بھی کوشش کرتا تو اس کے لئے اس کیس کا مصیبت بن جانا کوئی مشکل نہ تھا۔
آٹھ بجے تو اس کے قدم رک گئے۔ ٹارچر سیل میں سٹاف کی تبدیلی کا یہی وقت تھا۔ اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر انٹر کام کا بٹن دبایا۔
"یس سر۔ " دوسری جانب سے کیپٹن آدیش الرٹ آواز میں بولا۔
" آدیش۔ ڈیوٹی آف کر کے مجھ سے مل کر جانا۔ "
"یس سر۔ " آدیش نے ادب سے جواب دیا۔
اس نے انٹر کام سے رابطہ ختم کر دیا۔ بجھے ہوئے سگار کو سلگایا اور پھر ٹہلنے لگا۔ اسی وقت ریحا نے کمرے میں قدم رکھا۔ وہ چونک کر رکا اور اس کی جانب بڑی سرد نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
"لگتا ہے پاپا۔ آپ ابھی تک مجھ سے ناراض ہیں۔ " وہ اس کے قریب چلی آئی۔
"کیا خوش ہونا چاہئے مجھے؟" وہ عجیب سے لہجے میں بولا۔
"نہیں۔ " ریحا اس کے سامنے سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔ "میری صبح کی باتیں واقعی آپ کو خفا کرنے والی تھیں مگر پاپا۔ مجھے اب تک آپ نے جس انداز میں پالا ہے۔ میرے جتنے لاڈ دیکھے ہیں۔ کیا ان کا اثر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں اپنی بات منوانے کے لئے بدتمیز ہو جاؤں ؟"
"ریحا۔ " کرنل رائے نے اسے بے اختیار گلے لگا لیا۔ "میری بچی۔ تم نہیں جانتیں تم نے مجھے کس مشکل میں ڈال دیا ہے۔ میرا آرام حرام ہو گیا ہے۔ نیند اڑ گئی ہے۔ چین کی بانسری بجانے والا کرنل رائے کیا اس وقت بیچارہ نہیں لگتا تمہیں ؟"
"پاپا۔ " ریحا اس کے سینے سے لگے لگے بولی۔ "ایسی فرمائش تو نہیں کر دی میں نے کہ آپ پوری نہ کر سکیں۔ "
"یہ تو تم کہتی ہو ناں بیٹی۔ " اس نے ریحا کو الگ کیا اور میز کے کونے پر ٹک گیا۔ "مگر میرے لئے یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ "
" آسان نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے مشکل ہے، ناممکن نہیں۔ ہے ناں پاپا؟" وہ اس کی جانب شوخی سے دیکھ کر بولی۔
" لفظوں سے کھیلنا آ گیا ہے تمہیں۔ " وہ پھیکے سے انداز میں مسکرایا۔
"تو پھر میں کیا سمجھوں پاپا؟" وہ مرضی کا جواب سننے کے لئے بیتاب تھی۔
"مجھے تھوڑا وقت دو ریحا۔ " جنرل نے کھڑے ہو کر کہا۔ "ایک تو وہ آتنک وادی ہے دوسرے مسلمان۔ تیسرے اسے جنرل نائر نے میری طرف ریفر کیا ہے جو بال کی کھال نکالنے میں مشہور ہے۔ "
"کچھ بھی ہو پاپا۔ اب اسے ٹارچر نہیں کیا جانا چاہئے۔ " ریحا نے ضدسے کہا۔
"اس کے لئے تو میں منع کر چکا ہوں مگر مجھے اس الجھن کو سلجھانے کے لئے دم لینے کی فرصت تو دو بیٹی۔ "
"ٹھیک ہے پاپا۔ مگر فیصلہ میرے حق میں ہونا چاہئے۔ " وہ خوش ہو گئی۔
"اگر ایسا نہ کرنا ہوتا تو میں تم سے مہلت کیوں مانگتا پگلی۔ کوئی راستہ نکالنے کے لئے ہی تو وقت چاہتا ہوں۔ "
"پاپا۔ " اچانک اس نے نظر جھکا کر کہا اور خاموش ہو گئی۔ کرنل رائے نے اس کی جانب دیکھا۔ جان لیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔
"کہو ریحا۔ کیا کہنا چاہتی ہو بیٹی؟" کرنل نے رسٹ واچ پر نظر ڈالی۔
"پاپا۔ کیا میں۔۔۔ کیا میں اس سے مل سکتی ہوں ؟" اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
"ہرگز نہیں۔ " کرنل رائے کے لہجے میں درشتی اتر آئی۔
"پاپا۔ میں اسے دور سے دیکھ۔۔۔ " تڑپ کر ریحا نے کہنا چاہا۔
"میں اس کی بھی اجازت نہیں دے سکتا ریحا۔ " کرنل نے حتمی اور بڑے کڑوے لہجے میں کہا۔ "میں نہیں چاہتا کہ کوئی ایسا سکینڈل کھڑا ہو، جو میری ساکھ اور میرے خاندان کے لئے تباہی کا باعث بنے۔ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے۔ میں نے کہا ناں کہ میں جلد ہی کچھ کرتا ہوں۔ تب تک تم اپنے آپ پر قابو رکھو اور ایک بات ذہن میں بٹھا لو۔ تمہیں اس سے ملنے کی اجازت میں کسی صورت نہیں دے سکتا اس کی وجہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ تم اسے دیکھ کر خود پر کنٹرول نہ رکھ سکو گی اور بات جس کے علم میں نہیں ہے، وہ بھی جان جائے گا۔ تب تم اپنے ساتھ مجھے بھی لے ڈوبو گی۔۔۔ "
اسی وقت بیرونی دروازے پر دستک ہوئی اور ایک آواز ابھری۔
"مے آئی کم ان سر؟"
"یس آدیش۔ کم ان" جنرل نے جواب دیا اور ریحا کو جانے کا اشارہ کیا۔ ریحا نے بڑی اداس نظروں سے اسے دیکھا اور پلٹ کر کمرے سے نکل گئی۔ آدیش نے کمرے میں داخل ہو کر کرنل رائے کو سیلوٹ کیا۔
"بیٹھو کیپٹن۔ " جنرل نے اسے اپنے سامنے والی کرسی آفر کی اور دونوں بیٹھ گئے تو جنرل تھوڑا سا اس کی جانب جھکا۔ "کیا حال ہے اس آتنک وادی کا؟ اس نے زبان کھولی یا نہیں ؟"
"نو سر۔ " کیپٹن آدیش نے نفی میں سر ہلایا۔ "اب تو اس کی حالت بہت خراب ہے۔ "
"اسی لئے میں نے تمہیں اس پر مزید ٹارچر سے منع کر دیا تھا۔ اور اب میں چاہتا ہوں کہ اس کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے۔ "
کیپٹن آدیش نے اس کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا۔
"اور ہاں۔ تم نے اسے نہلا دھلا کر کپڑے چینج کرائے یا نہیں ؟" بڑی نرمی سے کرنل رائے نے پوچھا۔
"یس سر۔ اس کی شیو کرا دی گئی ہے۔ کپڑے چینج کرا دیے گئے ہیں۔ البتہ نہلایا نہیں گیا۔ " آدیش نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
"وہ کیوں ؟" کرنل کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
"زخموں پر پانی پڑنے سے خرابی کا اندیشہ ہے سر۔ "
"اوہ۔ " مطمئن انداز میں کرنل نے سر ہلایا۔ " ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب ایک خاص بات دھیان سے سن لو۔ "
"وہ کیا سر؟" آدیش الرٹ ہو گیا۔
"کل رات ٹارچر سیل میں صرف تمہاری ڈیوٹی ہو گی۔ باقی سب کو چھٹی دے دینا۔ میں اب یہ قصہ ختم کر دینا چاہتا ہوں۔ لگتا ہے یہ لڑکا آتنک وادی نہیں ہے۔ جنرل نائر کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ دھیان رہے کہ کل وہاں جو کچھ ہو گا وہ میرے اور تمہارے درمیان رہے گا اور تمہاری اس راز داری کی قدر کی جائے گی۔ "
کیپٹن آدیش نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولی۔ اسے کرنل رائے کے الفاظ پر حیرت ہوئی تھی مگر جب اس کی نظریں کرنل سے ملیں تو نجانے اسے وہاں کیا دکھائی دیا کہ وہ محض "یس سر" کہہ کر رہ گیا۔
"بس۔ اب تم جا سکتے ہو۔ " کرنل نے کہا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"سر۔ میں دو گھنٹے کے لئے شہر جانا چاہتا ہوں۔ "
"تو جاؤ بھئی۔ منع کس نے کیا ہے۔ " کرنل نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ "ویسے تمہیں اب شادی کر لینی چاہئے۔ روز روز شہر جا کر بازاری دودھ پینے سے بہتر ہے گھر پر بھینس باندھ لو۔ "
"سر۔۔۔ " کیپٹن آدیش جھینپ گیا۔
"او کے او کے۔ جاؤ۔ عیش کرو۔ " کرنل رائے نے ہنس کر کہا اور کیپٹن آدیش سیلوٹ کر کے کمرے سے نکل گیا۔
کرنل رائے نے کنکھیوں سے اندرونی دروازے کی طرف دیکھا، جس کے باہر بائیں طرف دیوار سے لگی کھڑی ریحا ان کی باتیں سن رہی تھی۔
٭
سرمد پر پچھلے کچھ گھنٹوں سے تشدد روک دیا گیا تھا۔
اسے حیرت ہوئی۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید وہ لوگ اسے کچھ وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ اس کاجسم دوبارہ ٹارچر برداشت کرنے کے قابل ہو جائے۔ یقیناً یہی بات ہے۔ اس نے دل میں سوچا اور فرش پر پڑے پڑے گھسٹ کر دیوار کے قریب ہو گیا۔ پھر بڑی مشکل سے سیدھا ہو کر دیوار سے ٹیک لگائی اور نیم دراز ہونے کی کوشش میں ، ٹانگیں پسار کر بیٹھ گیا۔ اس کا رواں رواں درد سے کانپ رہا تھا۔ اس نے سر دیوار سے ٹکا دیا اور سوچوں میں گم ہو گیا۔
اب تک اس نے اپنی زبان نہیں کھولی تھی اور اس کا امکان بھی نہیں تھا کہ اس کے لبوں سی" عشاق "کے بارے میں کچھ نکل جاتا۔ حمزہ کی شہادت تو اسے یاد تھی۔ داؤد اور حسین کا کیا بنا؟ اس کا خیال آیا تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ بھی شہادت کا جام پی چکے ہیں۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس کے ساتھ یہیں ہوتی۔ تاہم اس بات کا امکان بھی تھا کہ انہیں کسی اور جگہ رکھا گیا ہو۔
سوچ کا دھارا بہنا شروع ہوا تو کمانڈر کی شبیہ ذہن کے پردے پر ابھری۔ خانم کا چہرہ یاد آیا اور اپنے عہد کے الفاظ صدا بن کر کانوں میں گونجی:
"میں اپنے معبودِ واحد اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اپنے سارے جذبے آج سے اللہ اور اپنے آقا و مولا کے نام کرتا ہوں۔ اب میرا جینا اللہ کے لئے اور مرنا اللہ کے لئے ہے۔
اب میری زندگی جہاد اور موت شہادت کی امانت ہے۔ میری سانسوں پر وحدانیت اور رسالت کے سوا کسی کا حق نہیں۔
"عشاق "کا نام میرے سینے میں دھڑکن کی طرح محفوظ رہے گا۔ میری زبان پر کبھی اس کے حوالے سے کوئی ایسا لفظ نہیں آئے گاجو دشمنوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو۔
اب میری ایک ہی شناخت اور زادِ راہ ہے۔ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد الرسول اللہ۔ "
سوچ کا سورج یہاں تک چمکا تو اجالے کی لپک سے اس کی آنکھوں میں نمی سی چھا گئی۔ اسے بے طرح اپنے والد ڈاکٹر ہاشمی یاد آ گئی۔ وہ ان سے وعدہ کر کے آیا تھا کہ بہت جلد پاکستان چلا آئے گا مگر ۔۔۔ باپ کی محبت، والہانہ پن، پیار، سب کے سب خیال اس کے آنسوؤں میں ڈھلتے چلے گئے۔ وہ اسے تلاش کرنے کے لئے کہاں کہاں نہ پہنچے ہوں گے؟ کیا کیا جتن نہ کئے ہوں گے؟ اور یہ سب کس کے سبب ہوا؟ اس کے سارے جسم میں پھیلی درد کی اذیت، ایک لذت میں سمٹ گئی۔ ایک چہرہ۔ ایک خوبصورت چہرہ۔ جس پر کشش کی قوس قزح نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ جو اس کے لئے آج بھی اتنا ہی محترم تھا جتنا پہلے دن۔ اسے لگا، ساری تکلیف، سارا دُکھ ایک مستی میں بدل گیا ہے۔ وہ ایک سرور کے دامن میں جا پڑا۔ ایک کیف کے سینے سے جا لگا۔ اس نے بے اختیار پلکیں موند لیں۔ وہ اس کیفیت کو دل میں اتار لینا چاہتا تھا۔ جذب کر لینا چاہتا تھا۔۔۔ مگر ۔۔۔ یہ کیا ہوا؟اشکوں کے موتی رخساروں پر ٹوٹ بہی۔ پلکوں کا در بند ہوا اور سکون کا منبع سامنے آ گیا۔ شادابی نے اس پر سایہ کر دیا۔ اس کا اندر ایک دم سرسبز ہو گیا۔ اس کے آقا و مولا کا مسکن۔ اس کے ربِ واحد و اکبر کی رحمتوں اور محبتوں کا محور و مرکز۔ گنبدِ خضریٰ۔۔۔ اس کی بصارت سے ہوتا ہوا بصیرت کی چوٹی پر جھلملانے لگا۔ عشقِ مجازی نے عشقِ حقیقی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ وہ جو خود اپنے حبیب پر ہر دم درود و سلام بھیجتا ہے، اس کا حکم ہے کہ اس کے بندے بھی اپنے آقا پر درود و سلام بھیجیں۔ بے اختیار اس کے لبوں پر اپنے معبود کی سنت جاری ہو گئی:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
ٹارچر سیل میں پھیلا اندھیرا دمک اٹھا۔ لو دے اٹھا۔ خوشبوؤں کے جھونکے یوں کمرے میں چکرانے لگے جیسے اس ورد کو پلکوں پر اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہوں۔ جیسے انہیں اس مقدس امانت کو سنبھال رکھنے کے لئے کوئی پاکیزہ تر جگہ نہ مل رہی ہو۔ پھر ان پر ادراک کا در کھلا اور خوشبو ہلکورے لیتی ہوئی سرمد کے رگ و پے میں اترتی چلی گئی۔ اسے لوریاں دیتی مہک کے لئے سرمد کے دل سے زیادہ متبرک جگہ اور کون سی ہوتی جہاں وہ اس ورد کو چوم کر دھڑکنوں کے سپرد کر دیتی۔
کیپٹن آدیش ڈیوٹی ختم کر کے کرنل رائے کے بلاوے پر اس کے آفس میں جا رہا تھا کہ رک گیا۔ ایک عجیب سی مہک کے احساس سے اس کے قدم کاریڈور میں رک گئی۔ ذرا غور کرنے کے بعد وہ سرمد والے کمرے میں چلا آیا۔ اندر داخل ہونے کی دیر تھی کہ وہ خوشبو سے لبالب ہو گیا۔ حیرت زدہ نظروں سے وہ دیوار سے ٹیک لگائے، پلکیں موندے نیم دراز سرمد کی جانب تکے جا رہا تھا۔ پھر وہ دبے پاؤں آگے بڑھا۔ جھکا اور کان سرمد کے ہونٹوں کے قریب کر دیا، جس کے ہونٹوں پر وہی ورد تھا، جو کیپٹن آدیش کے جسم میں کرنٹ دوڑا دیتا تھا۔ مگر یہ خوشبو۔ یہ مہک۔ یہ نئی چیز تھی جس نے اس کے حواس پر نشہ سا طاری کر دیا۔ اس کے لئے سرمد کے آنسوؤں سے تر چہرے پر نگاہ جمانا مشکل ہو گیا۔ اس کا دل سینے میں کسی زخمی پنچھی کی طرح پھڑکا تو گھبرا کر وہ الٹے پاؤں کمرے سے نکلا اور دروازہ بند کر دیا۔ شیشے کی دیوار کے پار سرمد اب بھی اسی طرح بیٹھا تھا۔ چند لمحے وہ اسے دیکھتا رہا پھر خاموشی سے چل پڑا۔ اس کا دل قابو میں نہ تھا۔ سارا جسم لرز رہا تھا اور پاؤں کہیں کے کہیں پڑ رہے تھے۔
کاریڈور کے موڑ پر رک کر اس نے ایک بار پھر گردن گھما کر سرمد کی طرف نگاہ ڈالی۔ اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی اور خوشبو تھی کہ اب بھی کیپٹن آدیش کے سر پر چکرا رہی تھی۔ وہ بے خودی کے عالم میں سیل سے نکل آیا۔
باہر نکلتے ہی سرشاری کی اس کیفیت نے دم سادھ لیا۔ خودکار دروازے کے بند ہونے پر وہ چند لمحے کھڑا رہ کر لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔ پھر کرنل رائے کے آفس کی جانب چل پڑا۔ اب اس کے ذہن میں تقریباً ایک گھنٹہ قبل ریحا کے فون پر کہے ہوئے الفاظ چکرا رہے تھے:
"کیپٹن۔ ہوٹل کشمیر پوائنٹ کے کمرہ نمبر دو سو ایک میں تمہاری کزن مس مانیا تم سے آج ہی رات ملنا چاہتی ہیں۔ "
* *
آدیش۔۔۔ " مانیا نے اس کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ دونوں گلے ملے۔ پھر وہ اسے لئے ہوئے صوفے پر آ بیٹھی۔ "میرا پیغام مل گیا تھا؟"کہتے ہوئے مانیا نے غیر محسوس انداز میں اپنے اور طاہر کے کمرے کے مشترکہ دروازے کی طرف دیکھا، جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔
"ہاں۔ " وہ پھیل گیا۔ "مس ریحا نے بتایا تھا مگر ۔۔۔ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ " وہ گدی پر ہاتھ باندھتے ہوئے بولا۔
"وہ کیا؟ مگر پہلے یہ بتاؤ کیا چلے گا؟"
"ابھی کچھ نہیں۔ ذرا دیر بعد۔۔۔ " آدیش نے اسے روک دیا۔
"او کے۔ " مانیا مسکرائی۔ "ہاں اب پوچھو۔ کیا کہہ رہے تھے تم؟"
"یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ مس ریحا کے ساتھ کیا تعلق ہے تمہارا؟چند دن پہلے تم نے فون پر اس کے بارے میں مجھ سے پوچھا اور آج اس کے ہاتھ مجھے تمہارا پیغام ملا۔ آخر چکر کیا ہے یہ؟"
"میں جانتی تھی تم یہ سب جاننے کے لئے بے چین ہو گی۔ " مانیا نے ایک طویل سانس لے کر اس کی طرف دیکھا۔ "میں تمہیں سب کچھ بتا سکتی ہوں آدیش۔ مگر پہلے مجھے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ میں تم پر کس حد تک اعتماد کر سکتی ہوں ؟"
"میں سمجھا نہیں۔ " وہ اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔ "کس معاملے میں اور کیسا اعتماد چاہتی ہو تم؟"
" آدیش۔ " مانیا کے لہجے میں سنجیدگی اتر آئی۔ "بات بہت نازک ہے اور ایسی بھی کہ جس کا اظہار شاید میرے لئے نقصان دہ ہو جائے۔ "
"میں سیدھا سادہ فوجی ہوں۔ سسپنس میرے اعصاب پر بوجھ بن جاتا ہے۔ جو کہنا ہے کھل کر کہو۔ "
"اچھا یہ بتاؤ آدیش۔ اگر تمہیں یہ پتہ چلے کہ میں کسی ایسے کام میں تمہاری مدد چاہتی ہوں جو تمہاری جاب کے حوالے سے، تمہارے محکمے کے حوالے سے تمہیں مناسب نہ لگے تو۔۔۔ "
اور ایک دم آدیش سیدھا ہو بیٹھا۔ اس نے مانیا کو بڑی ناپ تول بھری نظروں سے دیکھا جیسے اس کی بات کی گہرائی میں جانا چاہتا ہو۔ پھر سرسرایا۔
"غداری؟"
"نہیں۔ " مانیا نے ایک دم ہاتھ اٹھا کر کہا۔ "میں اسے غداری نہیں کہہ سکتی۔ "
"اور میں بات سنے بغیر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ نہ تمہاری بات کے بارے میں نہ اپنے تعاون کے حوالے سے۔ " اس نے صاف صاف کہا۔
"مگر اس بات کی گارنٹی تو دے سکتے ہو کہ اگر تم مجھ سے متفق نہ ہوئے تو یہ بات اسی کمرے میں دفن ہو جائے گی۔ ہمیشہ کے لئے۔ "
"اس پر بھی مجھے سوچنا پڑے گا۔ "
"تب میں مجبور ہوں آدیش۔ " مانیا نے حتمی لہجے میں کہا۔ "میں اپنے ہاتھ کاٹ کر تمہیں نہیں دے سکتی۔ ویری سوری کہ میں نے تمہارا وقت برباد کیا۔ "
"مطلب یہ کہ میں جا سکتا ہوں ؟" عجیب سے لہجے میں آدیش نے کہا۔
"اب میں اس قدر بد اخلاق بھی نہیں ہوں کہ تمہیں چائے کافی نہ پوچھوں۔ " پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انٹر کام تک جانے کے لئے اس نے اٹھنا چاہا۔
"رہنے دو۔ " آدیش ایک دم اٹھا اور اس کے قدموں میں جا بیٹھا۔ پھر رخ پھیرا۔ نیچے سرک کر اپنا سر مانیا کی گود میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ یوں لگا جیسے ابھی وہ کہے گا۔ "ذرا میرے سر میں تیل کی مالش کر دو۔ " مگر اس کے بجائے اس کے لبوں سے جو نکلا، اس نے مانیا کو بیحد جذباتی کر دیا۔
"دیدی بنتی ہو۔ ہر سال راکھی باندھتی ہو میری کلائی پر اور حکم دینے کے بجائے مجھ سے گارنٹیاں مانگتی ہو۔ کہتی ہو آدیش۔ کیا میں تم پر اعتماد کر سکتی ہوں ؟ یہ کیوں نہیں پوچھتیں کہ آدیش۔ کیا میں تمہارے سینے میں خنجر اتار سکتی ہوں ؟"
"بکو مت۔ " مانیا نے اس کا سر باہوں کے حلقے میں لے کر سینے میں چھپا لیا۔ "تھپڑ مار دوں گی۔ " اس کی آواز بھرا گئی۔
"گولی مار دو تو زیادہ اچھا ہے۔ " آدیش نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ " آج اس جسم پر یہ وردی کس کی دین ہے ؟ جانتی ہو ناں۔ میں سماج میں سر اٹھا کر چل سکتا ہوں تو کس کی وجہ سے؟ یہ بھی تمہیں علم ہے۔ مجھے اپنے باپ کے نام کا پتہ نہیں۔ ماں کون تھی، یہ بھی نہیں جانتا۔ صرف یہ جانتا ہوں کہ اگر تم مجھے ریل کی پٹڑی سے کھینچ کر زندگی کی پگڈنڈی پر گامزن نہ کر دیتیں تو میں کبھی کا ٹکڑوں میں بٹ کر اس دنیا سے ناپید ہو چکا ہوتا۔ اپنے ماں باپ کا نام دے کر تم نے مجھے حرامی ہونے کے الزام سے بچا لیا۔ اور آج۔۔۔ آج تم جاننا چاہتی ہو کہ تم مجھ پر اعتماد کر سکتی ہو یا نہیں ؟"
" آدیش۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔ " مانیا نے اس کے بالوں پر پے در پے کتنے ہی بوسے دے ڈالے۔ اس کا سر اب بھی مانیا کی باہوں میں بھنچا ہوا تھا۔
"معاف کر دوں۔ کیوں معاف کر دوں ؟" وہ سسک کر بچوں کی سی ضد کے ساتھ بولا۔ "جاؤ۔ نہ میں تمہیں معاف کروں گا نہ تم سے بات کروں گا۔ "
" آدیش۔۔۔ " مانیا اس کے روٹھنے کے انداز پر قربان سی ہو گئی۔ "اب بھی نہیں۔ "
اس نے بازو کھولے اور اس کے چہرے کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔
آدیش نے تڑپ کر اس کے ہاتھ تھامے۔ پاگلوں کی طرح بار بار انہیں چوما اور پھر وہ ہاتھ اپنے رخساروں پر رکھ لئے۔
"اب بس بھی کرو بے وقوف۔ کیا رلا رلا کر مار دو گے مجھے؟"
"ہاں۔ " آدیش نے اس کے بازو اپنے گرد حمائل کر لئے۔ "دوبارہ ایسی بات کی ناں ، تو میں اپنی اور تمہاری جان ایک کر دوں گا۔ "مانیا نے اس کے شانے پر ماتھا رکھ کر اپنی نم آنکھیں بند کر لیں۔ "بس یہ یاد رکھنا دیدی۔ اس ملک، اس دنیا، اس دھرم سے بھی اونچا اگر کوئی ہے تو میرے لئے تم ہو۔ صرف تم۔ "
"جانتی ہوں۔ غلطی ہو گئی بابا۔ اب ختم بھی کر دو۔ " مانیا نے پیار سے کہا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے اٹھا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ پھر اپنی ساڑھی کے پلو سے اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ خشک کیا۔
"اب ذرا سنبھل کر بیٹھو۔ چہرے پر جو بارہ بج رہے ہیں ، انہیں سوا نو کی مسکراہٹ میں بدلو۔ میں تم سے ایک خاص شخص کو ملوانے جا رہی ہوں۔ "
"کہاں ہے وہ؟" آدیش نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
"یہیں ہے۔ " مانیا نے پردے کی جانب رخ کر کے کہا۔ " آ جائیے مسٹر طاہر۔ "
دوسرے ہی لمحے پردہ ہٹا اور طاہر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ وہ گزشتہ کافی گھنٹوں سے نہیں سویا مگر وہ یہ اندازہ نہ لگا سکا کہ اس کیفیت میں اس کے اور مانیا کے درمیان ہونے والی چند لمحے قبل کی گفتگو کا بھی بہت ہاتھ تھا، جس کا اس نے ایک ایک لفظ سنا تھا۔
آدیش اور مانیا کھڑے ہو گئے۔
"مسٹر طاہر۔ یہ میرا بھائی ہے کیپٹن آدیش۔ اور آدیش یہ ہیں مسٹر طاہر۔ "مانیا نے تعارف کرایا۔
طاہر اور آدیش نے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ سب لوگ بیٹھ گئے تو مانیا نے انٹر کام پر کافی اور دوسرے لوازمات کا آرڈر دینا چاہا۔ طاہر نے اسے روک دیا۔ "ایسا نہ کیجئے۔ اس طرح کیپٹن آدیش کے ساتھ میرا آپ کے کمرے میں پایا جانا اچھا تاثر نہ دے گا۔ "
بات سب کی سمجھ میں آ گئی اس لئے کھانے پینے کا پروگرام ترک کر دیا گیا۔ پھر مانیا نے آدیش کی جانب دیکھا۔
" آدیش۔ بات گھما پھر ا کر بتانے کی میں ضرورت نہیں سمجھتی۔ ذرا اس تصویر کو دیکھو۔ " اس نے پرس سے ایک پاسپورٹ سائز فوٹو نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دی۔
"یہ۔۔۔ " آدیش اچھل پڑا۔ "یہ تو۔۔۔ یہ تو۔۔ " وہ ہکلا کر رہ گیا۔
"یہ تمہارے سیل میں ہے۔ اتنا تو میں جانتی ہوں۔ اب اس سے پہلے کی بات سن لو۔ " مانیا نے اسے ریلیکس ہونے کا اشارہ کیا اور سرمد اور ریحا کا نام لئے بغیر طاہر کی فراہم کردہ معلومات اس کے گوش گزار کر دیں۔
"یہ شخص۔۔۔ " آدیش نے اس کی تصویر سامنے پڑی میز پر ڈال دی۔ " جنرل نائر کی چھاؤنی پر اٹیک کے دوران اس کے ہاتھ لگا۔ اس کے سارے ساتھی مارے گئے۔ صرف یہ زندہ بچا۔ ہم اس کے بارے میں کچھ بھی جاننے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔۔۔ لیکن۔۔۔ " ایک دم ذہن میں جنم لینے والے کسی سوال نے اسے چونکا دیا۔ اس نے طاہر کی جانب دیکھا۔ پھر اس کی نظر مانیا پر جم گئی۔ " آپ لوگ کیسے جانتے ہیں کہ یہ کرنل رائے کے سیل میں ہے؟"
"سب سے پہلے پوچھا جانے والا سوال تم اب پوچھ رہے ہو۔ " مانیا نے کہا۔ "بہرحال اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں ریحا نے بتایا ہے۔ "
"مس ریحا نے؟" آدیش اس بار اور بری طرح چونکا۔ " اس کا اس شخص سے کیا تعلق؟"
"وہی۔۔۔ جو سانس کا جسم سے، خوشبو کا صبا سے اور بہار کا گلاب سے ہوتا ہے آدیش۔ " مانیا نے شاعری کر ڈالی۔
"یعنی۔۔۔ " آدیش کے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔
"ہاں۔ " مانیا نے اس کی نظروں میں ابھرتی حیرت پڑھ لی۔ " وہ سرمد کو اپنی جان سے زیادہ چاہتی ہے۔ "
اور آدیش کا سارا جسم سُن ہو گیا۔ دماغ سرد ہوتا چلا گیا۔ رگ و پے میں خون کی جگہ درد کی لہریں دوڑنے لگیں۔ وہ بے اختیار پیچھے ہٹا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ مانیا نے اس کی کیفیت کو اچانک انکشافات سے تعبیر کیا مگر طاہر۔۔۔ وہ بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ وہ ایسی وارداتوں سے ایک سے زیادہ بار دو چار ہو چکا تھا۔ اس نے زبان کو خاموش رکھا مگر سوچ کے لبوں سے پہرے ہٹا لئے۔ اس کا دماغ کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے پر تولنے لگا۔
"کیا ہوا؟" مانیا نے اسے فکرمند نظروں سے دیکھا۔
"کچھ نہیں دیدی۔ " آدیش نے سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں۔ "بس۔ حیرت سے یہ حال ہو گیا ہے۔ "
"محبت کرنے والے جھوٹ بولیں تو فوراً پکڑ ے جاتے ہیں کیپٹن آدیش۔ " آہستہ سے طاہر نے کہا تو آدیش کے ایک دم اتر جانے والے چہرے پر زردی گہری ہو گئی۔
"کیا مطلب؟" مانیا نے حیرت سے طاہر اور پھر آدیش کی جانب دیکھا۔
"کیپٹن آدیش۔۔۔ " طاہر نے نگاہوں کا محور مانیا کو بنایا۔ "شاید نہیں ، یقیناً مس ریحا سے محبت کرتے ہیں مس مانیا۔ "
"کیا واقعی؟" اس کے لہجے میں حیرت ہی حیرت تھی۔ " آدیش۔۔۔ ؟" مانیا نے نظر اس کے چہرے پر جما دی۔
"پیار پر بس تو نہیں ہے میرا لیکن۔۔۔ " آدیش نے مصرع ادھورا چھوڑ دیا۔ "مسٹر طاہر ٹھیک کہہ رہے ہیں دیدی۔ مجھ پر اس انکشاف سے جو اثر ہوا وہ قدرتی ہے مگر ظالم وقت نے مجھے بڑا حقیقت پسند بنا دیا ہے۔ میں جانتا تھا کہ مس ریحا کا میرا ہو جانا ایک ایسا خواب ہے جسے دیکھنا بھی میرے لئے جرم ہے۔ اسی لئے میں انہیں دل ہی دل میں پوجتا رہا اور شاید زندگی کے آخری سانس تک پوجتا رہوں گا لیکن آج یہ جان کر کہ مس ریحا کسی اور کو چاہتی ہیں مجھے ایک عجیب سے دُکھ کی لذت نے گھیر لیا ہے۔ اب میں چاہتا ہی نہیں کہ مس ریحا میری ہو جائے۔ میں اسے حاصل کر لوں۔ بلکہ ایک انوکھی سی کسک دل میں آنکھ کھولے میرے ہونٹوں سے یہ سننا چاہتی ہے کہ تم مجھے یہ بتاؤ، میں مس ریحا اور سرمد کے کس کام آ سکتا ہوں ؟"
"کیپٹن آدیش۔۔۔ " طاہر نے اس کا ہاتھ بڑی گرمجوشی سے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ حیرت سے منہ پھاڑے مانیا سب کچھ سن رہی تھی۔ دیکھ رہی تھی۔ صورتحال ذرا نارمل ہوئی تو طاہر نے مانیا کی اجازت سے آدیش سے بات چیت شروع کی۔
"کیپٹن آدیش۔ سرمد اس وقت کس حال میں ہے؟"
"اچھے حال میں نہیں ہے۔ " آدیش نے صاف گوئی سے کہا۔ " سب جانتے ہیں کہ ٹارچر سیلز میں کسی بھی ملزم سے کیا سلوک ہوتا ہے۔ مگر وہ شخص عجیب مٹی سے بنا ہوا ہے۔ اس کی زبان سے آج تک اپنے یا اپنے گروپ کے بارے میں ایک لفظ ادا نہیں ہوا۔ ہاں۔ ایک خاص بات، جو یہاں آنے سے پہلے مجھ سے کرنل رائے نے کی، وہ سن لیں شاید وہ ہمیں کسی پلان کے لئے مدد دے سکی۔ " اس کے بعد کیپٹن آدیش نے انہیں اپنی اور کرنل رائے کی تقریباً دو گھنٹے قبل کی گفتگو سے آگاہ کیا۔
"اس کا مطلب ہے کہ کل کی رات سرمد کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ "
"جی ہاں۔ " آدیش نے طاہر کی بات کے جواب میں کہا۔ "میں یہ تو اندازہ نہیں لگا سکا کہ کل رات کرنل رائے کیا کرنا چاہتا ہے اور اس کے کسی بھی اقدام کے بارے میں کوئی بھی پہلے سے کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم یہ بتا سکتا ہوں کہ کل سرمد کا قصہ آر یا پار۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ "
"ہوں۔ " مانیا، اس کی بات پر کسی سوچ میں ڈوب گئی۔ طاہر اور آدیش کی نظر ملی اور جھک گئی۔ صورتحال ان کے لئے خاصی گمبھیر تھی۔ یہ بڑا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی گھڑی تھی۔
"اچھا مسٹر طاہر۔ ایک بات تو بتائیے۔ " اچانک آدیش نے پُر خیال لہجے میں کہا۔ پھر جیسے اس نے ارادہ بدل دیا۔ "مگر نہیں۔ پہلے میں آپ کو بتاتا ہوں۔ پھر آپ میرے بیان کی روشنی میں وضاحت کیجئے گا۔ "
"جی جی۔ " طاہر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ مانیا نے بھی ان دونوں کی طرف کان لگا دئیے۔
"مسٹر طاہر۔ " آدیش نے بڑے خوابناک انداز میں کہنا شروع کیا۔ "چند دن پہلے تک میں کرنل رائے کے ساتھ سرمد پر تشدد میں پوری طرح شامل تھا مگر ایک دن عجیب بات ہوئی۔ سرمد غشی کے عالم میں فرش پر پڑا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہل رہے ہیں۔ یہ سوچ کر میں نے کان اس کے ہونٹوں سے لگا دیا کہ شاید اس کے بارے میں کسی ایسی بات کا علم ہو جائے جو ہم پر اس کا نام، پتہ یا کسی آتنک وادی تنظیم سے تعلق آشکار کر دے مگر اس کے لبوں سے نکلتے الفاظ نے میرے سارے جسم میں کرنٹ سا دوڑا دیا۔ میں اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ میری حالت ایسی ہو گئی جیسے کسی جادو نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ میرا دل پسلیاں توڑ کر سینے سے نکل جانے کو تھا۔ اور شاید ایسا ہی ہوتا اگر میں سرمد سے پرے نہ ہو جاتا۔ اس دن سے آج تک میں اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکا۔ میرا دل ہی نہیں چاہا کہ میں اسے اذیت دوں۔ بلکہ نجانے کس جذبے کے تحت میں نے اپنی ڈیوٹی مسلسل اس پر لگوائے رکھی تاکہ میری جگہ کوئی دوسرا آ کر اسے تشدد کا نشانہ نہ بنائے۔ اس دن کے بعدسے آج تک یہ میرا معمول ہے کہ جب وہ آنکھیں بند کئے دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑا ہو، روزانہ ایک دو بار میں اس کے ہونٹوں کے ساتھ کان لگا کر وہ خوبصورت الفاظ ضرور سنتا ہوں۔ میرا جی چاہتا تھا میں اس کے زخموں پر مرہم لگاؤں۔ اسے آرام پہنچاؤں مگر میں ایسا کر نہ سکا۔ میں ایسا کرتا تو غدار کہلاتا اور عتاب کا شکار ہو جاتا۔ اس پر کئے ہوئے اپنے تشدد کے لمحات یاد آتے تو میں خود پر شرمندگی محسوس کرتا۔۔۔ اور آج۔۔۔ " اس نے بات روک دی۔ آنکھیں بند کر کے سر اوپر اٹھایا اور فضا میں کچھ سونگھنا چاہا۔ محسوس کرنا چاہا۔ پھر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ تینوں یہ دیکھ کر چونک پڑے کہ اس کی آنکھوں میں نیند کی سی کیفیت انگڑائیاں لے رہی تھی۔ ا س کا لہجہ بھاری ہو گیا۔ یوں جیسے وہ بولنا چاہتا ہو اور بول نہ پا رہا ہو۔ اس کی آواز میں شبنم سی گرنے لگی۔ اس کے لہجے کو بھگونے لگی۔ غسل دینے لگی۔
" آج۔۔۔ آج وہ ہوا جس کے سبب میں ابھی تک ایک سرشاری کے سفر میں ہوں۔ میں اپنی ڈیوٹی ختم کر کے کرنل رائے کے آفس میں جا رہا تھا کہ مجھے رک جانا پڑا۔ سرمد کمرے میں دیوار سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے نیم دراز ہے۔ اس کا چہرہ آنسوؤں میں تر ہے اور ہونٹ ہولے ہولے ہل رہے ہیں۔ میں رکا تو محسوس ہوا کہ ایک عجیب سی مست کر دینے والی خوشبو وہاں چکرا رہی ہے۔ میں حیرت زدہ سا اندر داخل ہوا اور اس کے قریب چلا گیا۔ کان اس کے ہونٹوں سے لگا دئیے۔ وہ اپنا مخصوص ورد کر رہا تھا۔ میں نے صاف محسوس کیا کہ وہ خوشبو، وہ مہک جس نے سرمد کے گرد حصارسا باندھ رکھا ہے، مجھ پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ میرے حواس نشے میں ڈوبتے چلے گئے۔ دل کو بے قراری نے جکڑ لیا۔ جب میں اس کیفیت کو برداشت نہ کر سکا تو خوشبو میں نہایا ہوا کمرے سے نکل آیا۔ کسی مے نوش کی طرح لڑکھڑاتا ہوا سیل سے باہر پہنچا۔ یخ بستہ فضا میں چند گہرے گہرے سانس لئے تو ہوش کا دامن ہاتھ آیا۔ یہاں آنے تک میری حالت دگرگوں ہی رہی۔ دیدی اور آپ لوگوں سے ملا۔ گفتگو کی تو حالت سنبھلی مگر میرا دل سینے ہی میں ہے، اس میں اب بھی مجھے کسی کسی لمحے شک ہوتا ہے۔ لگتا ہے میں اب بھی وہیں ہوں۔ سرمد کے پاس۔ وہ خوشبو اب بھی میری دھڑکنوں اور آتما میں چکرا رہی ہے۔ وہ الفاظ اب بھی مجھے لوریاں دے رہے ہیں۔ مجھے اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔ مجھے کچھ سمجھا رہے ہیں۔ مگر کیا ؟ یہ میں نہیں جانتا"۔
کیپٹن آدیش خاموش ہو گیا اور سر جھکا لیا۔ وہ تینوں بُت بنے اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے جس پر ایک عجیب سی معصومیت چھائی ہوئی تھی۔
"کیپٹن آدیش۔۔۔ " آہستہ سے طاہر نے اسے پکارا تو وہ چونکا۔ مانیا نے جھرجھری لے کر اسے متوحش نظروں سے دیکھا۔
"یس مسٹر طاہر۔ " وہ تھکے تھکے سے لہجے میں بولا۔
"کیا آپ کو۔۔۔ وہ الفاظ یاد ہیں۔۔۔ جو سرمد کا ورد ہیں ؟" طاہر نے ٹھہر ٹھہر کر، رک رک کر جما جما کر الفاظ ادا کئے۔
"وہ الفاظ۔۔۔ " کیپٹن آدیش یوں مسکرایا جیسے طاہر نے اس سے کوئی بچگانہ بات پوچھ لی ہو۔ "وہ تو میری آتما پر ثبت ہو گئے ہیں مسٹر طاہر۔ میں چلتے پھر تے ان الفاظ کو اپنے لہو کے ساتھ جسم میں گردش کرتے محسوس کرتا ہوں۔ "
"کیا آپ انہیں ہمارے سامنے دہرائیں گے کیپٹن آدیش؟پلیز۔ " طاہر نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس کے لہجے میں التجا سی تھی۔
"ضرور۔ " آدیش نے کہا۔ پھر وہ کہتے کہتے رک گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ میز پر پڑا جگ اٹھایا۔ گلاس میں پانی ڈالا۔ گھونٹ بھرا اور اٹھ گیا۔ باتھ روم کا دروازہ کھول کر اس نے کلی کی اور رومال سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے لوٹ آیا۔ وہ تینوں اس کی حرکات کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
"مسٹر طاہر۔ پتہ نہیں کیوں میرا جی نہیں چاہا کہ میں کلی کئے بغیر وہ الفاظ زبان سے نکالوں۔ ظاہر ہے اگر وہ الفاظ آپ کے مذہب سے متعلق ہیں تو آپ کے عقیدے کے مطابق پاکیزہ ہی ہوں گے مگر میرے دل میں ان کا احترام جس وجہ سے ہے، میں وہ بیان نہیں کر سکتا۔ بس میرا جی چاہتا ہے کہ میں ان الفاظ کو اپنی زبان پاک کر کے ادا کروں۔ "
"اب دیر نہ کیجئے کیپٹن آدیش۔ " طاہر بیتاب ہو گیا۔ رہ گئی مانیا تو وہ سانس روکے کسی ایسے انکشاف کی منتظر تھی جو اسے حیرت کے کسی نئے جہاں میں اتار دیتا۔
صوفے پر بیٹھ کر کیپٹن آدیش نے ایک نظر ان تینوں کو مسکرا کر دیکھا۔ پھر اس کی نظر طاہر کے چہرے پر آ جمی۔
"وہ الفاظ جو سرمد کا ہمہ وقت ورد ہیں مسٹر طاہر۔ وہ ہیں۔ "دھیرے سے اس نے آنکھیں بند کیں اور کہا:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
ایک دم جیسے کمرے میں ہوا ناچ اٹھی۔ فضا جھوم اٹھی۔ لمحات وجد میں آ گئی۔ گھڑیاں رقصاں ہو گئیں۔ خوشبو نے پر پھیلا دئیے۔ مہک ان کے بوسے لینے لگی۔ ان کے دل دھڑکنا بھول گئے۔ پلکوں نے جھپکنا چھوڑ دیا۔ ہوش و حواس ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہلکورے لینے لگے۔
کیپٹن آدیش خاموش ہو چکا تھا مگر اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی بازگشت کمرے میں پھڑپھڑا رہی تھی۔ اجالوں سے گلے مل رہی تھی۔ اندھیروں کا نصیب بدل رہی تھی۔ مانیا بُت بنی بیٹھی تھی اور طاہر۔۔۔ وہ ایسی نظروں سے کیپٹن آدیش کو دیکھ رہا تھا، جن میں رشک تھا تو عروج پر۔ عقیدت تھی تو انتہا پر۔ اور پیار تھا تو اوج پر۔
کتنے ہی لمحے سکوت کے عالم میں دبے پاؤں گزر گئے۔ پھر مانیا نے ایک طویل اور گہرا سانس لیا تو سب لوگ آہستگی سے چونکی۔ کیپٹن آدیش نے سر اٹھایا اور مانیا کے بعد طاہر کی جانب دیکھا، جو اسے بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"کیا دیکھ رہے ہیں مسٹر طاہر؟" آدیش مسکرایا۔
"دیکھ نہیں سوچ رہا ہوں کیپٹن آدیش۔ " طاہر نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ "تم کتنے خوش قسمت ہو کہ سرمد کے اتنا قریب رہتے ہو۔ "
" اب کیا آپ میری ایک بات کا جواب دینا پسند کریں گے؟"
"ضرور۔ " طاہر نے بڑے خلوص سے کہا۔
"یہ الفاظ کیا ہیں جن کے اثر نے مجھے پتھر سے موم بنا دیا۔ "
"یہ الفاظ۔۔۔ " طاہر کے لہجے میں ادب در آیا۔ "کیپٹن آدیش۔ یہ ہمارے دین کی اساس ہیں۔ یہ درود شریف ہے۔ ہمارے اللہ، ہمارے معبودِ برحق کی آخری کتاب میں اس کا فرمان ہے کہ ’ میں اور میرے فرشتے اللہ کے حبیب، رحمت للعالمین، ہمارے آقا و مولا، آخری نبی اور رسول جناب محمد مصطفی پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو۔ تم بھی اپنے آقا پر درود پڑھو اور سلام بھیجا کرو،۔۔۔ درود شریف پڑھنا اللہ کی سنت ہے اور سرمد اس سنت کی ادائیگی میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے، ایسا تم نے بتایا۔ "
"اسی لئے۔۔۔ اسی لئے۔ " آدیش کہہ اٹھا۔ "یہ الفاظ مجھ پر عجب جادو سا کر دیتے ہیں مسٹر طاہر۔ میں اپنے آپ میں نہیں رہتا۔ "
"اگر آپ کو اور مس مانیا کو برا نہ لگے تو میں کہوں گا کیپٹن آدیش۔۔۔ کہ آپ بہت جلد ہم سے آ ملیں گے۔ میں ایسے ہی آثار دیکھ رہا ہوں۔ آپ پر درود شریف کا یہ اثر کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ " طاہر نے بڑے محتاط الفاظ استعمال کئے۔
" آپ کا مطلب ہے آدیش مسلمان ہو جائے گا؟" مانیا نے دھیرے سے کہا۔
"شاید۔ " طاہر نے آہستگی سے جواب دیا۔ "لیکن اس میں کوئی زبردستی نہیں ہے مس مانیا۔ ہمارے دین میں جبر ہے نہ اکراہ۔ دائرہ اسلام میں آتا وہی ہے جس کے نصیب میں ہدایت لکھی ہے۔ جسے کائنات کا وہ مالک و خالق منتخب کر لے۔ "
"چلیں۔ "مانیا مسکرائی۔ "اس معاملے کو آنے والے وقت پر چھوڑ دیجئے۔ اس وقت ہم جس مسئلے کا شکار ہیں اس پر سوچئے۔ "
"کیپٹن آدیش۔ کل رات سیل میں کون کون ہو گا؟" طاہر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ، کل کے لئے کرنل رائے کا حکم ہے کہ صرف میں اور وہ وہاں سرمد کے پاس ہوں گے۔ باقی سب لوگوں کو چھٹی دے دی جائے گی۔ " آدیش نے بتایا۔
"اور یہ کتنے بجے رات کا وقت ہو گا؟"
"سوا آٹھ بجے تک سیل خالی ہو جائے گا۔ "
"کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کل رات سرمد کو وہاں سے نکال لیا جائے ؟"
"بہت مشکل ہے۔ " آدیش سوچتے ہوئے بولا۔ "ایک تو کرنل رائے کی کوٹھی آبادی سے ہٹ کر ہے۔ دوسرے آپ دیکھ چکے ہیں کہ اس کے گرد حفاظتی باڑھ ہے، جس کے چاروں طرف دن رات آٹھ فوجی پہرہ دیتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ کوٹھی کے گیٹ پر باقاعدہ دو فوجیوں کا کیبن ہے جو اندر کوٹھی اور سیل تک پہنچنے والے کے لئے پہلے سخت چیکنگ کرتے ہیں۔ اس کے بعد سیل کے دروازے پر کمپیوٹرائزڈ سسٹم چوبیس گھنٹے آن رہتا ہے۔ اگر آپ پہلے سے وہاں آنے جانے والے ہیں یا وہاں سے متعلق فرد ہیں تو آپ کے فنگر پرنٹس آلریڈی کمپیوٹر میں فیڈ ہوں گے اور آپ کا سیل میں جانا ممکن ہو گا۔ اور اگر آپ پہلی بار وہاں آئے ہیں تو میں یا کرنل رائے آپ کو کلیر کریں گی، تب آپ وہاں داخل ہو پائیں گے۔ "
"ہوں۔" طاہر نے آدیش کی ایک ایک بات غور سے سنی۔ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہا۔ "اگر ہم ذرا سی کوشش کریں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے کیپٹن آدیش۔ "
" وہ کیسی؟" اس نے اچنبھے سے پوچھا۔ مانیا صرف سن رہی تھی۔ اس نے ابھی تک کسی بات پر رائے زنی نہ کی تھی۔
"کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ میرے فنگرپرنٹس کسی طرح کمپیوٹر سسٹم میں فیڈ کر دیں۔ "
"جی نہیں۔ " کیپٹن آدیش نے نفی میں سر ہلایا۔ " یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ "
"دوسری صورت یہ ہے کہ آپ مجھے کسی قسم کا انٹری پاس بنا دیں۔۔۔ "
"ہاں۔ یہ ہو سکتا ہے۔ " ایک دم آدیش نے اس کی بات اچک لی۔ " یہ آسان بھی ہے۔ "
"بس تو آپ ایسا کر دیں۔ " طاہر نے پُر جوش لہجے میں کہا۔ "میں چاہتا ہوں کہ کل کرنل رائے جب سیل میں سرمد کے پاس آئے تو میں وہاں موجود ہوں۔ "
"یہ تو ہو جائے گا۔ سوچنے والی بات صرف یہ ہے کہ آپ کو کس خانے میں فٹ کیا جائے کہ کرنل رائے کو آپ کی آمد مشکوک لگے نہ ناگوار گزری۔ اگر آپ پہلے سے وہاں موجود ہوئے تو یہ بات اسے ہضم نہیں ہو گی۔ "
"کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اگر خطرے کی کوئی بات ہو تو آپ مجھے فوراً مطلع کر سکیں ؟"
"اس کا ایک ہی طریقہ ہے۔ " آدیش نے جواب دیا۔ "اور وہ یہ کہ ایسا کوئی بھی لمحہ آتے ہی میں موبائل پر آپ کو بیل کر دوں۔ تب آپ وقت ضائع کئے بغیر کوٹھی میں انٹر ہو جائیں۔ "
"مگر میں سیل میں کیسے داخل ہو سکوں گا؟"
"وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ میں سیل کا خودکار سسٹم آف کر دوں گا۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ سیل کے دروازے پر پہنچ کر دروازے پر ہاتھ کا دباؤ ڈالیں۔ وہ کھل جائے گا۔ اور اب آپ مجھ سے وہاں کا نقشہ سمجھ لیں۔ "
آدیش نے مانیا کی طرف دیکھا۔ اس نے جلدی سے اپنا ہینڈ بیگ کھولا۔ پیڈ اور قلم نکالا اور آدیش کی جانب بڑھا دیا۔ پیڈ آدیش نے میز پر رکھا۔ طاہر اور مانیا آگے کو جھک آئے۔ آدیش نے بڑی مہارت سے کوٹھی کی انٹرنس سے لے کر رہائشی حصے اور سیل تک کا نقشہ بنا کر یوں سمجھایا کہ طاہر کے ساتھ ساتھ مانیا کو بھی ازبر ہو گیا۔
"بس تو یہ طے ہو گیا کہ کل رات آٹھ بجے ہم کرنل رائے کی کوٹھی سے ایک فرلانگ دور سیتا مندر کے بالمقابل پارک میں موجود رہیں گے اور سگنل موصول ہوتے ہی آپ کی طرف چل پڑیں گے۔ "طاہر نے نقشے پر نظر دوڑاتے ہوئے تہہ کر کے اسے جیب میں ڈال لیا۔ "مگر ہم اندر کیسے داخل ہوں گے کیپٹن آدیش؟"
"یہ لیجئے۔ " آدیش نے ایک پیڈ کے ایک کاغذ پر اپنے سائن کر کے مخصوص کوڈ میں کچھ لکھا اور طاہر کی طرف بڑھا دیا۔ "یہ آپ دونوں کے لئے انٹری پاس کا کام دے گا۔ بیرونی گیٹ پر آپ کو روکا جائے گا۔ انہیں یہ پاس دکھا دیجئے گا۔ میں انہیں آپ کے بارے میں زبانی بھی انسٹرکشن دے دوں گا۔ "
سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا۔ طاہر کے رگ و پے میں سکون کی ایک لہر سی تیر گئی۔ اس نے ممنونیت سے آدیش کی جانب دیکھا۔
"کچھ مت کہئے مسٹر طاہر۔ میں جس کے لئے یہ سب کر رہا ہوں ، اس سے مجھے کسی شکریے کی طلب نہیں۔ بس یہ خیال رہے کہ مس ریحا کے بارے میں میرے جذبات کبھی آپ میں سے کسی کے لبوں پر نہ آئیں۔ یہی میرا شکریہ ہے آپ کی طرف سے۔ " آدیش نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو طاہر کی نگاہ مانیا کی جانب اٹھ گئی جو بڑی محبت سے آدیش کو تک رہی تھی۔
"یہ ٹھیک کہہ رہا ہے مسٹر طاہر۔ " آخر وہ بولی۔ "لیکن کیا سب محبت کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں ؟" اس نے طاہر کی جانب عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"کیا اب بھی پوچھنے کی ضرورت باقی ہے مس مانیا؟" طاہر ہولے سے ہنسا۔ جواب میں مانیا خاموش ہو گئی۔
پھر آدیش جانے کے لئے اٹھ گیا۔ طاہر نے اس سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ مانیا نے اسے گلے لگایا اور ماتھا چوم لیا۔
"دھرم پر میرا وشواس کبھی بھی نہیں رہا آدیش۔ تم ضد کر کے مجھ سے ہر سال راکھی بندھواتے رہے۔ آج تم نے پانچ روپے کی اس راکھی کو انمول کر دیا۔ "
"دیدی۔ تم خوش تو وہ خوش۔ " اس نے اوپر دیکھا۔ " اس کے علاوہ مجھے کسی بات کی پرواہ نہیں۔ " وہ رخصت ہو گیا۔
دروازہ بند کر کے لوٹے تو مانیا کو طاہر کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا ملا۔ دونوں کی نظریں ملیں اور مانیا کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"بیٹھئے مسٹر طاہر۔ " وہ صوفے پر ٹک گئی۔ طاہر بھی اس کے سامنے آ بیٹھا۔ " آپ نے میری نظریں پڑھ لیں تھیں کیا؟"
"جی ہاں۔ " طاہر تناؤ کے شکار اعصاب پر قابو پاتے ہوئے مسکرایا۔ " یہ فن بھی آ ہی گیا ہے۔ میں نے جانا کہ آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ "
"جی ہاں۔ مگر کیا کہنا چاہتی ہوں ، کیا یہ نہیں سمجھے آپ؟"
" آپ جب تک بتائیں گی نہیں میں کیسے جان پاؤں گا مس مانیا۔ " طاہر بیحد محتاط ہو رہا تھا۔
"اب آپ اتنے نادان بھی نہیں ہیں مسٹر طاہر کہ میری نظر کو تو پڑھ لیں اور بات کو نہ سمجھ سکیں۔ " وہ ہنسی۔ "ہم جس صورتحال سے یہاں آ کر دوچار ہو گئے ہیں اس کے حوالے سے اگلا کوئی بھی لمحہ کچھ بھی گل کھلا سکتا ہے۔ آپ خوب جانتے ہیں کہ میں صرف آپ کے لئے اپنے ملک سے غداری کر رہی ہوں اور آدیش ایک طرف اپنی محبت سے مجبور ہو کر اور دوسری طرف میری وجہ سے ایسا کر رہا ہے۔ پھر انجان بننے کا فائدہ؟"مانیا نے جیسے کھیل کے پتے بانٹے۔
" آپ کہنا کیا چاہتی ہیں مس مانیا؟ کھل جائے۔ " طاہر نے پتے اٹھا لئے۔
" آپ کی دوستی کا ثبوت۔ " مانیا نے شانے اچکائے اور ریلیکس ہو کر بیٹھ گئی۔
"کیسے پیش کروں ؟" اس نے پہلا پتہ الٹ دیا۔ حکم کا نہلا تھا۔
"کیا مجھے زبان سے کہنا ہو گا؟" ساڑھی کا پلو ڈھلک گیا۔ مانیا کے ہاتھ میں پان کی بیگم تھی۔
"کوئی اور راستہ نہیں ؟" دوسرا پتہ حکم کا غلام نکلا۔
"ہی۔ " اینٹ کی دکی سامنے آ گئی۔
"مجھے دوسرا کوئی بھی راستہ منظور ہے۔ " تیسرا پتہ جوکر تھا۔ اس نے پتے پھینک دئیے۔
"صرف ایک سوال کا جواب۔ " اس نے طاہر کے چہرے پر نظریں مرکوز کر دیں۔ "یہ صفیہ وہی ہے ناں ، جس کے طاہر آپ ہیں؟"
ایک دم سے کیا جانے والا یہ سوال طاہر کے لئے حواس شکن ثابت ہوا۔ اس نے بری طرح چونک کر مانیا کی طرف دیکھا جو اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"جھوٹ نہیں مسٹر طاہر۔ " اس نے شہادت کی انگلی کھڑی کی۔ "اب تک سارا معاملہ سچ ہی پر چلتا آ رہا ہے۔ اگر آپ سچ بولیں گے تو میں بھی اپنے جھوٹ کا پردہ فاش کر دوں گی، یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ "
" آپ کا جھوٹ؟" طاہر سرسرایا۔ اب وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔
"وہ بعد میں۔ پہلے میرے سوال کا جواب۔ " وہ مسکرائی۔
"ہوں۔ " طاہر جیسے مجبور ہو گیا۔ اس نے ہاتھ دونوں گھٹنوں میں دبا لئے اور نظریں جھکا لیں۔ " آپ کا کہنا ٹھیک ہے مگر ۔۔۔"
"بس۔۔۔ " مانیا نے اسے کچھ بھی کہنے سے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔ "کچھ مت کہئے مسٹر طاہر۔ پہلے مجھے اس سچ کا مزہ لینے دیجئے۔ " اس نے آنکھیں بند کر کے سسکاری لی۔ "ایسی لذت کہاں ہو گی کسی جھوٹ میں۔ جب سے ریحا گئی، میں آپ سے اسی ایک سوال کا جواب لینے کے لئے بیتاب تھی۔ شکر ہے کہ اس وقت آپ نے میری نگاہ کی چوری پکڑ لی۔ اب میں رات کو الجھے بغیر نیند لے سکوں گی۔ "
"مگر میں یہ کہنا چاہتا تھا مس مانیا۔۔۔ "
"کسی کو کبھی خبر نہ ہو گی مسٹر طاہر۔ " اس نے آنکھیں کھول دیں۔ "یہ مہک تو دل میں چھپانے کی چیز ہے۔ دھڑکن کی طرح۔ آپ اس بارے میں بے فکر ہو جائیں۔ اور اب میری بات۔۔۔ " وہ بڑے پُراسرار انداز میں مسکرائی۔ پھر اس نے ساڑھی شانے پر درست کر لی۔ "میں پہلی ملاقات سے آپ کی اسیر ہوں مسٹر طاہر۔ آج سے پیشتر تک میں اپنے جھوٹ میں خوش تھی۔ چاہتی تھی کہ آپ کو حاصل کر لوں ، چاہے ایک رات ہی کے لئے۔ مگر سرمد اور صفیہ کے ساتھ جب آپ کا نام سنا تو چونکی۔ ہوش آیا۔ پھر آدیش نے اور بھی عجب کھیل رچا ڈالا۔ محبت کیا ہوتی ہے؟ ایثار کس شے کا نام ہے؟ بغیر کسی غرض کے انسان کسی کیلئے جان دے دینے کی حد تک کیوں چلا جاتا ہے؟جب آپ نے کوئی بھی دوسری شرط سنے بغیر مان لی تو میرا جھوٹ ہار گیا۔ آپ ایک پُر شباب جسم سے پہلے دن سے بھاگ رہے ہیں ، یہ میں جانتی ہوں۔ میں آپکی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر بھی آپ کو پا لینا چاہتی تھی۔۔۔ مگر آج جب کچھ اَن چھوئی حقیقتیں مجھ پر آشکار ہوئیں تو میں فریب کے جال سے نکل آئی۔ میں آپ کو اپنی شرط سے مُکت کرتی ہوں مسٹر طاہر۔ آپ آزاد ہیں۔ میں آپکی دوستی جیتنا چاہتی تھی مگر محسوس ہوا ہے کہ میں تو آپکی دوستی کے لائق ہی نہیں ہوں۔ ہوس اور دوستی کا کیسا ساتھ مسٹر طاہر۔ " اس کی آواز بھرا گئی۔ نظر جھک گئی اور اضطراب کے عالم میں وہ ہونٹ کاٹنے لگی۔
"بس یا کچھ اور کہنا ہے آپ کو؟" طاہر نے چند لمحے انتظار کے بعد بڑے پُرسکون لہجے میں پوچھا۔
"اور کیا کہوں گی میں ؟" وہ ہاتھوں سے آنکھیں مسلتی ہوئی بولی۔ شاید نمی میں پوشیدہ شرمندگی طاہر سے چھپا نا چاہتی تھی۔ "سوائے اس کے کہ اب مجھ پر شک نہ کیجئے گا۔ میں آخر دم تک آپ کے ساتھ ہوں۔ "
"اور دوستی کسے کہتے ہیں مس مانیا؟" طاہر نے مسکرا کر کہا۔ "دوستی کے جس معیار پراس وقت آپ ہیں ، اس کے لئے تو لوگ ترستے ترستے مر جاتے ہیں۔ "
"یعنی۔۔۔ ؟" اس نے ہاتھ ہٹا کر اسے حیرت سے دیکھا۔
"یہ شبنم بتاتی ہے کہ پھول کیسا پاکیزہ ہے۔ " طاہر کا اشارہ اس کے آنسوؤں کی طرف تھا۔
"جھوٹ۔۔۔ جھوٹ بول رہے ہیں آپ۔ " بے اعتباری سے اسنے طاہر کی جانب دیکھا اور ہنس پڑی۔ ساتھ ہی اس کے رکے ہوئے آنسوچھلک پڑی۔ دھوپ چھاؤں کا یہ امتزاج اس کے حسین چہرے پر عجب بہار دے رہا تھا۔
"جھوٹ بول کر میں آپ کی توہین نہیں کرنا چاہتا مس مانیا۔ " طاہر اب بھی مسکرا رہا تھا۔ "اپنے دل سے پوچھئے جس میں اس وقت اطمینان ہی اطمینان دھڑک رہا ہو گا۔ "
اور مانیا نے آہستہ سے پلکیں موند لیں۔ طاہرسچ کہہ رہا تھا۔
* * *
ریحا، سوجل کے سینے سے لگی سسک رہی تھی، جو کسی سوچ میں ڈوبی اس کی کمر پر بڑی محبت سے دھیرے دھیرے ہاتھ پھیر رہی تھی۔
"میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ماما۔ اور پاپا اس کے ساتھ آج رات کیا سلوک کرنے والے ہیں ، اس کے بارے میں وہ کچھ بتانے کو تیار نہیں۔ " ریحا روئے جا رہی تھی۔
"دھیرج میری بچی دھیرج۔ " سوجل نے جیسے کسی فیصلے پر پہنچ کر کہا اور اس کا چہرہ سامنے کر کے اس کے رخسار خشک کرنے لگی۔ "میں ابھی زندہ ہوں۔ تم میرے راکیش کی نشانی ہو اور میں نے کبھی تم سے یہ نہیں چھپایا کہ میں نے رائے سے شادی کی ہی اس لئے تھی کہ مجھے آج بھی شک ہے کہ راکیش کا قتل اسی نے کرایا تھا۔ میں جس روز اس حقیقت سے آگاہ ہو گئی، وہ دن میرے اور اس کے تعلق کا آخری دن ہو گا۔ رہ گئیں تم۔۔۔ تو میری جان۔ تمہاری خوشی مجھے اپنے دھرم سے بڑھ کر عزیز ہے۔ اس دھرم نے مجھے سوائے دُکھ اور جبر کے دیا کیا ہے کہ میں تمہارے اور تمہاری پسند کے درمیان دیوار بن جاؤں۔ ہو گا وہی جو تم چاہو گی۔ تم فکر مت کرو۔ "
"مگر ماما۔ آپ کریں گی کیا؟ پاپا کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ " ریحا نے بھیگی آنکھیں اس کے چہرے پر مرکوز کر دیں۔
"ہاتھ کتنے بھی لمبے ہوں ریحا۔ انہیں کاٹ دیا جائے تو انسان معذور ہو جاتا ہے۔ " سوجل نے عجیب سے لہجے میں جواب دیا۔ ریحا نے ماں کے سینے پر سر رکھ کر پلکیں موند لیں۔ اسے نجانے کیوں یقین ہو گیا کہ سوجل جیسا کہہ رہی ہے، ویسا ہی ہو گا۔
"تم یہ بتاؤ کہ کیپٹن آدیش پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے؟" کسی خیال کے تحت سوجل نے پوچھا تو ریحا سوچ میں پڑ گئی۔
"ماما۔ میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ میں نے دو تین بار کی ملاقاتوں اور اس کے بعد اس کے آنے جانے کے دوران محسوس کیا ہے کہ وہ مجھے پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ اس کی جھجک ہمارے اور اس کے درمیان سٹیٹس کے فرق کی وجہ سے ہے۔ "
"کیا تم اسے اپنی مدد پر آمادہ کر سکتی ہو؟" سوجل نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
"کیسے ماما؟" ریحا نے حیرانی سے پوچھا۔
"دیکھو بیٹی۔ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، یہ ایک یونیورسل ٹرُتھ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اگر وقتی طور پر تمہیں آدیش کو فریب دے کر بھی اپنا کام نکالنا پڑے توسرمد کو بچا لو۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ "
"مگر ماما۔۔۔ "
"صرف ایک بات کا دھیان رکھنا بیٹی۔ " سوجل نے اس کی بات کاٹ دی۔ "اور وہ یہ کہ تمہاری آبرو پر آنچ نہیں آنی چاہئے۔ باقی پیسہ ہو یا کوئی وعدہ۔ اس کی فکر نہ کرنا۔ میں اپنا آپ ہار کر بھی تمہارے الفاظ کی لاج رکھ لوں گی۔ "
ریحا نے ماں کے چہرے سے نظر ہٹا لی اور کسی سوچ میں ڈوب گئی۔ "ماما۔ " کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "اس میں ففٹی ففٹی کے چانس ہیں۔ وہ ہماری مدد بھی کر سکتا ہے اور مخبری بھی۔ "
"میں سمجھتی ہوں ریحا مگر یہ رسک ہمیں لینا ہی پڑے گا جان۔ " سوجل نے اس کی جانب بڑی گہری نظروں سے دیکھا۔ "میری طرف دیکھو۔ "
ریحا نے ماں کی آنکھوں میں جھانکا تو عجیب سے سحر میں گرفتار ہو گئی۔ سوجل کی آنکھیں ویسے ہی بڑی خوبصورت تھیں اور اس وقت ان میں کچھ ایسی چمک لہرا رہی تھی جس سے ایک پاکیزگی کا احساس ہوتا تھا۔
"تم میری بیٹی ہو۔ مجھے تمہارے ساتھ ایسی گفتگو نہیں کرنی چاہئے مگر جذبے کیا ہوتے ہیں ؟ انہیں نبھانے کے لئے کیا کچھ نچھاور کیا جاتا ہے ؟ تمہیں سمجھانے کے لئے یہ گفتگو ضروری ہے۔ سنو ریحا۔ راکیش کے بعد، میں نے آج تک رائے کے بستر پر جتنے پل گزارے ہیں ، اس ایک حقیقت کو جاننے کی قیمت کے طور پر گزارے ہیں ، جو مجھے اس کے راکیش کا قاتل ہونے سے آگاہ کر دے گی۔ یہ ففٹی ففٹی کا چانس نہیں ہے ریحا۔ یہ ایک اندھا داؤ ہے جو میں نے صرف اپنا شک دور کرنے کے لئے کھیلا ہے۔ اپنے اس عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر، جو مجھے راکیش، تمہارے باپ سے تھا نہیں ، آج بھی ہے۔ اگر آخر میں رائے بے قصور نکلا تو میری ساری زندگی کی تپسیا بیکار جائے گی مگر مجھے یہ پچھتاوا نہیں رہے گا کہ میں نے اپنی محبت کا حق ادا نہ کیا۔ میں نے اپنے راکیش کی جان لینے والے کا پتہ لگانے کی کوشش نہ کی۔۔۔ میری اس عقیدت کو سمجھو ریحا جس کا محور صرف اور صرف راکیش ہے۔ وہ راکیش جو اب صرف میری یادوں میں زندہ ہے۔ میری دھڑکنوں میں موجود ہے۔ جس کا وجود مٹ چکا ہے۔ اور سرمد۔۔۔ وہ تو ابھی سانس لے رہا ہے۔ تم اسے موت کے ہاتھوں سے چھین سکتی ہو۔ اس لئے ففٹی ففٹی کے چکر میں مت پڑو ریحا۔ اگر آدیش نے ہم سے دھوکا کیا اور رائے سے جا ملا تب بھی۔۔۔ تب بھی میری جان۔ تمہیں اپنی سی کر لینے کا جو موقع ہاتھ آ رہا ہے، اسے گنواؤ مت۔ یاد رکھو۔ اگر تم جیت گئیں تو سرمد تمہارا ہو جانے کی امید تو ہے اور اگر آدیش نے پیٹھ میں خنجر بھونک دیا تو اپنی محبت پر قربان ہو جانے کا تاج سر پر پہن کر اس کے ساتھ دوسری دنیا کے سفر پر روانہ ہو جانا۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر۔ ساتھ ساتھ۔ جدائی اور تنہائی کا دُکھ بڑا جان لیوا ہوتا ہے ریحا۔ میری جان۔ اس دُکھ کو پالنے سے بہتر ہے انسان مر جائے۔ اس کے ساتھ ہی مر جائے جس کے بعد جینا موت سے بدتر ہو جاتا ہے۔ " سوجل نے اس کے بالوں میں منہ چھپا لیا اور سسک پڑی۔
"ماما۔ " ریحا اس سے لپٹ گئی۔ "میں سمجھ گئی۔ میں سمجھ گئی ماما۔ اب کوئی خوف نہیں۔ کوئی ڈر نہیں۔ میں سرمد کو بچا نہ سکی تو اس کے ساتھ مر تو سکتی ہوں ماما۔ یہی بہت ہے۔ "
"کوئی ماں اپنی اولاد کے لئے ایسے شبد منہ سے نہیں نکالتی ریحا۔ " سوجل نے اس کا بالوں کو چوم کر کہا۔ "مگر میں تمہیں دعا دیتی ہوں کہ تم اپنے پیار کو حاصل کر لو یا اس پر نثار ہو جاؤ۔ "
"شکریہ ماما۔ "ریحا نے اس کے شانے پر بوسہ دیا۔ " آپ کی دعا مجھے لگ گئی۔ مجھے اس کا پورا یقین ہے۔ "
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اچانک سوجل کو کچھ یاد آ گیا۔ "مانیا اور سرمد کاپاکستانی رشتہ دار کس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں؟"اس نے پوچھا۔
"کشمیر پوائنٹ میں ماما۔ " ریحا نے کہا اور ایک دم ہڑبڑا کر اس سے الگ ہو گئی۔ "ارے ساڑھے آٹھ ہو گئے۔ مجھے نو بجے ان کے پاس پہنچنا ہے۔ "
"احتیاط سے جانا۔ رائے نے تمہارے پیچھے آدمی نہ لگا دیے ہوں ؟" سوجل نے تشویش سے کہا۔ "اس سے کچھ بعید نہیں۔ "
" آپ فکر نہ کریں ماما۔ میں دھیان رکھوں گی۔ " وہ جلدی جلدی تیار ہوتے ہوئے بولی۔ "پاپا ادھر کس وقت آئیں گے ناشتے کے لئے؟"
"ناشتہ تو وہ کر چکے بیٹی۔ اب تو گیارہ بجے کی چائے کے لئے آئیں گے۔ " نہ چاہتے ہوئے بھی اسے رائے کے لئے ادب کا صیغہ استعمال کرنا پڑا۔
"تب تک میں ویسے ہی لوٹ آؤں گی۔ " کہتے ہوئے اس نے پرس کندھے پر ڈالا اور ہاتھ ہلاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
"بھگوان تمہاری رکھشا کرے بیٹی۔ " سوجل نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا جہاں سے اپنی ٹو سیٹر کی طرف جاتی ریحا نظر آ رہی تھی۔
٭
نو بج کر تین منٹ پر ریحا، مانیا کے کمرے میں موجود تھی۔
سب سے پہلے اس نے انہیں سوجل سے ہونے والی اپنی گفتگو سے آگاہ کیا۔ آدیش کے ذکر پر وہ تینوں مسکرا دئیے۔ اب وہ اسے کیا بتاتے کہ آدیش اس کے راستے کے سارے کانٹے اپنی پلکوں سے چُننے کا بیڑہ اٹھا چکا ہے۔ جب مانیا نے اسے گزشتہ رات کی آدیش سے ملاقات کے بارے میں مختصراً بتایا تو ریحا آنکھیں پھاڑے بے اعتباری سے سنتی رہی۔ اسے یقین نہ آ رہا تھا کہ قسمت نے اس کے لئے راہ یوں آسان کر دی ہے۔
"تو اس کا مطلب ہے آدیش ہماری پوری پوری سہائتا کرے گا؟" اس نے مانیا کی جانب دیکھ کر سوال کیا۔
"بالکل۔ " مانیا نے مسکرا کر جواب دیا۔
"پلان کے مطابق سرمد کے پاس سیل میں آدیش، پاپا، آپ اور مسٹر طاہر موجود ہوں گے؟" ریحا نے مانیا سے پوچھا۔
"ہاں۔ رات ٹھیک سوا آٹھ بجے سیل کا خودکار سسٹم آف یا فیل کر دیا جائے گا۔ میں اور مسٹر طاہر آدیش کی طرف سے خطرے کا سگنل ملتے ہی کوٹھی میں داخل ہو جائیں گے اور سیدھے سیل میں پہنچ جائیں گے۔ آگے پھر جو ہو سو ہو۔ "
"موجودہ پلان میں کامیابی کے نتیجے میں تین سوال پیدا ہوں گے مس مانیا۔ " طاہر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"وہ کیا؟" مانیا اور ریحا اس کی جانب متوجہ ہو گئیں۔
"نمبر ایک۔ " طاہر نے شہادت کی انگلی کھڑی کی۔ "سرمد اپنے پیروں پر چلنے کے قابل نہیں ہے۔ ہم اسے لے کر کہاں جائیں گے؟"
"اس کے لئے ماما سے بات کی جا سکتی ہے۔ " ریحا نے جلدی سے کہا۔ " وہ کوئی نہ کوئی بندوبست کر دیں گی۔ "
"اب دوسرا سوال۔ سرمد کو میں ہر صورت یہاں سے پاکستان لے جانا چاہتا ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہو گا؟"
"اس پر بعد میں سوچیں گے مسٹر طاہر۔ پہلے سرمد کو وہاں سے نکال لیا جائے۔ " مانیا نے پُر خیال لہجے میں کہا۔
"اور تیسرا سوال یہ ہے کہ۔۔۔ " طاہر نے ریحا کی جانب دیکھا۔ " آپ کا کیا ہو گا؟"
"مطلب؟" ریحا نے پوچھا۔
"مطلب یہ کہ آپ اور آپ کی ماما پورے طور پر کرنل رائے کی دشمنی مول لے رہی ہیں۔ سرمد کے بعد آپ اور آپ کی ماما کا کیا بنے گا؟"
"پہلے سرمد صحیح سلامت سیل سے نکل آئے مسٹر طاہر۔ پھر ایک بار اس سے پوچھوں گی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا پسند کرے گا یا نہیں ؟ اس کے جواب پر ہی میرے مستقبل کا دارومدار ہے۔ " ریحا نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
مانیا اور ریحا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کے بعد ان تینوں نے اپنے اپنے موبائل کا وقت ملایا۔ ایک دوسرے کے نمبر فیڈ کئے۔ آدیش کا موبائل نمبر وہ رات ہی فیڈ کر چکے تھے۔ اب ریحا کو بھی وہ نمبر دے دیا گیا۔
تمام باتوں پر ایک بار پھر غور کیا گیا۔ کہیں جھول نظر نہ آیا تو ریحا ان سے رخصت ہو گئی۔ اس وقت دن کے دس بج کر پچیس منٹ ہوئے تھے۔
٭
ہوٹل سے واپس آتے ہی ریحا نے سرمد کو وہاں سے لے جانے کے بارے میں سوجل سے بات کی تو اس نے اسے بے فکر ہو جانے کو کہا۔ راکیش کا ایک فلیٹ، جو اس نے اپنی زندگی میں سوجل کے نام خریدا تھا، اس کی چابی آج بھی سوجل کے پاس تھی اور اس بات کا کرنل رائے کو قطعاً علم نہیں تھا۔ ریحا نے اس فلیٹ کے بارے میں دن ہی میں مانیا کو فون کر کے بتا دیا تھا۔ دوسرے سوجل نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ آج رات ہونے والے معرکے کے اختتام سے پہلے اپنے بارے میں کسی قسم کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ حالات اس وقت جو رخ اختیار کریں گے، اسے دیکھ کر ہی کوئی بھی قدم اٹھایا جائے گا۔
رات ٹھیک آٹھ بجے ریحا اور سوجل نے اپنے اپنے کمرے میں پہنچ کر بیڈ سنبھال لئے۔ یوں جیسے وہ سونے کی تیاری کر رہی ہوں۔ دونوں مرد ملازم کوارٹر میں جا چکے تھے اور ملازمہ آج ویسے ہی چھٹی پر تھی۔
ٹھیک اسی وقت طاہر اور مانیا سیتا مندر کے سامنے والے پارک کے گیٹ پر آ رکے۔ کار سے نکل کر وہ پارک میں گیٹ کے قریب ہی ایک بنچ پر آ بیٹھے۔ سردیوں کی وجہ سے پارک میں اکا دکا لوگ ہی رہ گئے تھے جو دور دور بیٹھے تھے۔
آٹھ بج کر پانچ منٹ پر کرنل رائے کا ٹارچر سیل خالی ہو گیا۔ کسی شخص کے ذہن میں کوئی سوال پیدا نہ ہوا کہ ان سب کو رخصت کیوں دی جا رہی ہے؟ وہ تو حکم کے غلام تھے۔ کرنل رائے نے جو کہہ دیا، اس پر عمل ان کی ڈیوٹی تھی۔ اس کے بارے میں "کیوں "کا لفظ ان کی ڈکشنری سے نکال دیا گیا تھا۔
آٹھ بج کر دس منٹ پر کیپٹن آدیش نے اپنے موبائل سیٹ کو ریڈی کر کے سامنے کی جیب میں ڈال لیا۔ اب اس کے صرف بٹن دبانے کی دیر تھی کہ مانیا کے سیٹ پر بیل ہو جاتی اور وہ اور طاہر خطرے سے آگاہ ہوتے ہی اس کی طرف چل پڑتی۔
آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر اس نے کرنل رائے کو لائن کلیر ہو جانے کی اطلاع دی۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا اپنے آفس میں بیتابی سے ٹہل رہا تھا۔ کیپٹن آدیش کا پیغام سن کر اس نے ریسیور انٹر کام پر ڈالا۔ ہولسٹر میں ریوالور کو چیک کیا۔ سر پر کیپ جمائی اور دبے قدموں اپنی خوابگاہ کے دروازے پر پہنچا۔ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ سوجل حسب عادت سونے کے لئے لیٹ چکی تھی۔ کمرے میں ہلکی سبز روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے دروازہ بند کیا اور سامنے کے کمرے کی کھڑکی پر پہنچا۔ جالی میں سے اندر جھانکا۔ یہ ریحا کا کمرہ تھا۔ وہ کمبل اوڑھے بیڈ پر سیدھی لیٹی کسی سوچ میں گم تھی۔ سینے پر ایک انگلش میگزین کھلا پڑا تھا۔ پُر اطمینان انداز میں سر ہلا کر کرنل رائے نے باہر کا راستہ لیا۔ دبے قدموں باہر آ کر اس نے برآمدے کی لائٹ بھی آف کر دی۔ چاروں اطراف تاروں کی باڑھ کے ساتھ برابر فاصلے پر آٹھ گارڈ مستعدی سے پہرہ دے رہے تھے۔ گیٹ پر اندر کی جانب آمنے سامنے کرسیوں پر گنیں سنبھالے دونوں فوجی خاموش بیٹھے تھے۔ سارے انتظام کا جائزہ لے کر وہ نیم اندھیرے میں کسی بد روح کی طرح ٹارچر سیل کی جانب روانہ ہو گیا۔
ادھر کرنل رائے نے ٹارچر سیل کے دروازے پر قدم روکا، ادھر سوجل اور ریحا نے کچن میں کھڑکی کے پاس کرسیاں ڈال لیں۔ اتنی ہی دیر میں ریحا نے کپڑے بدل لئے تھے۔ اب وہ کشمیری شلوار سوٹ میں ملبوس تھی۔ اندھیرے میں ڈوبے کچن کی کھڑکی سے ٹارچر سیل کا دروازہ کھلتا صاف نظر آ رہا تھا جس سے کرنل رائے داخل ہو رہا تھا۔
ادھر کرنل رائے نے سرمد والے کمرے میں قدم رکھا ادھر کیپٹن آدیش نے بڑی آہستگی سے مکینزم آف کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی سیل کے داخلی دروازے کا کمپیوٹرائزڈ سسٹم بیکار ہو گیا۔
کیپ سر سے اتار کر کرنل رائے نے میز پر پھینکی اور دیوار کے سہارے نیم دراز سرمد کی جانب بڑی سرد نظروں سے دیکھا۔ پھر کیپٹن آدیش کے سیلوٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ہاتھ سینے پر باندھ لئے۔ سرمد نے نیم باز آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا اور اس کے ہونٹوں کی حرکت ہلکی سی مسکراہٹ میں بدل گئی۔
"اس نے زبان کھولی یا نہیں ؟" اچانک کرنل رائے دو تین قدم آگے بڑھ کر سرمد کے قریب چلا آیا۔
"نو سر۔ " کیپٹن آدیش اس کے پیچھے دو قدم کے فاصلے پر آ کھڑا ہوا۔
"ہوں۔ " اس نے ہونٹ بھینچ کر کہا۔ "بہت ڈھیٹ لگتا ہے۔ "
کیپٹن آدیش کا جسم تن گیا۔ اسے کرنل کے لہجے سے شر کی بو آ رہی تھی، جو کرسی پر پاؤں رکھے سرمد کی طرف جھک کر اسے بڑی کینہ توز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"اسے کرسی پر بٹھاؤ کیپٹن۔ " ایک دم کہہ کر وہ پیچھے ہٹ گیا۔
"یس سر۔ " کیپٹن آدیش نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ کر سرمد کو بغلوں میں ہاتھ دے کر اٹھانے لگا۔ بڑی آہستگی اور احتیاط سے اس نے سرمد کو کرسی پر بٹھایا، جو اپنے آپ حرکت کرنے سے بھی معذور تھا۔ اس کے زخم دوا سے محروم تھے۔ خون ہونٹوں ، پیشانی اور جسم کے جوڑوں پر جم چکا تھا۔ جسم کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ ہاتھوں اور پیروں کے زخم پھوڑوں کی طرح مواد سے بھرے لگ رہے تھے۔ حلقوں سے گھری آنکھوں کا ورم کسی حد تک کم ہو چکا تھا تاہم شیو ہو جانے کے باعث چہرہ اب صاف پہچان میں آ رہا تھا۔
اس کے گھٹنوں کے جوڑ کام نہیں کر رہے تھے۔ تشدد کے باعث وہ تقریباً بیکار ہو چکے تھے اس لئے وہ دونوں ٹانگیں سمیٹ نہ سکا اور آدیش نے اس کے چہرے پر پھیلتے کرب کے پیش نظر ٹانگوں کو کرسی کے دائیں بائیں پھیلا دیا۔ سرمد دونوں ہاتھوں سے سائڈز کو تھامے بڑی مشکل سے کرسی پر جما بیٹھا تھا۔ بخار سے پھنکتا ہوا جسم، درد سے کراہتا ہوا رواں رواں اور چکراتا ہوا دماغ۔ وہ تھوک نگل کر رہ گیا۔ اسے خطرہ تھا کہ وہ کسی بھی لمحے کرسی سے گر جائے گا۔
"تو تمہارا نام سرمد ہے؟" سگار کا دھواں اڑاتا کرنل رائے اس کی جانب پلٹا تو سرمد نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ کیپٹن آدیش کے ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ ایک ہی پل میں وہ سمجھ گیا کہ کرنل رائے سرمد کے بارے میں معلومات حاصل کر چکا ہے۔
"سرمد ہاشمی۔ باپ کا نام ڈاکٹر دلاور ہاشمی۔ لندن یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری لی۔ اپنے خدا کے گھر گئے اور وہاں سے سیدھے ہماری گود میں آ رہے۔ " طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے کرنل رائے آہستہ آہستہ اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اس کی سرد نظریں سرمد کی آنکھوں میں ایکسریز کی طرح اترتی جا رہی تھیں۔
"ریحا کو کب سے جانتے ہو؟" اچانک اس نے پاؤں اٹھا کر سرمد کی ران پر رکھ دیا۔ وہ تکلیف سے کراہ کر رہ گیا۔
"لندن سے۔ " کرنل نے اس کی ران پر دباؤ بڑھا دیا۔ "ہے ناں ؟" وہ پھر طنز سے بولا۔ "بہت چاہتی ہے وہ تمہیں ؟ میری بیٹی ہو کر۔ ایک کٹر ہندو کی بیٹی ہو کر وہ ایک مسلمان آتنک وادی سے عشق کرتی ہے۔ کیا یہ اچھی بات ہے؟" وہ چیخ پڑا۔
" آ۔۔۔۔ ہ۔۔۔ آہ۔۔۔ "سرمد اس کا دباؤ اپنی ران پر مزید نہ سہہ سکا اور جل بن مچھلی کی طرح تڑپا۔ ایک دم کرنل رائے نے پاؤں اس کی ران سے اٹھایا اور کرسی کی سائڈ پر جمے سرمد کے بائیں ہاتھ پر ٹھوکر رسید کر دی۔ سرمد تڑپا اور مچل کر فرش پر گر پڑا۔ آدیش کانپ کر رہ گیا۔ اسے لگا کرنل نے یہ ٹھوکر سرمد کو نہیں ، اسے ماری ہے۔
لوٹ پوٹ ہوتا سرمد کسی نہ کسی طرح سیدھا ہوا اور کراہتا ہوا کرسی کے سہارے اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کا چہرہ اور اب جسم بھی پسینہ میں بھیگنے لگا تھا۔ درد کے آثار اس کی کراہوں سے نمایاں تھے۔
"کیا تم بھی ریحا کو چاہتے ہو؟" ایک گھٹنا فرش پر ٹیک کر کرنل رائے اس کے قریب بیٹھ گیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ "یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ہندو ہے۔ کیا تم اس سے پیار کرتے ہو؟"
جواب میں سرمد نے اسے بڑی درد بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کا سانس پھول رہا تھا اور لگتا تھا اس کا حلق پیاس کے مارے خشک ہو چکا ہے۔
"نہیں ناں ؟" کرنل رائے نے نفی میں سر ہلایا۔ "ایسا ہی ہونا چاہئے۔ " وہ جیسے اسے سمجھانے لگا۔ "وہ ہندو ہے۔ تم ملیچھ مسلمان۔ اسے تم سے پیار نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تم سے نفرت کرتی تو کوئی بات بھی تھی۔ اس نے جرم کیا ہے۔ تم سے محبت کا جرم۔ مگر سزا اسے نہیں ، تمہیں ملے گی۔ جانتے ہو کیوں ؟ اس لئے کہ تم مسلمان ہو۔ ملیچھ مسلمان۔ " نفرت سے کرنل کا چہرہ بگڑ گیا۔ ایک دم اس نے جلتا ہوا سگار سرمد کے سینے پر رکھ کر زور سے دبا دیا۔ کراہتے ہوئے سرمد کے لبوں سے چیخ نکل گئی۔ وہ معذوروں کی طرح اپنے کانپتے ہوئے زخمی ہاتھوں سے کرنل رائے کا سگار پرے ہٹانے کی کوشش کرنے لگا مگر ناکام رہا۔ کمرے میں گوشت جلنے کی چراند پھیل گئی۔ کیپٹن آدیش نے بے بسی سے ادھر ادھر دیکھا۔ وہ کیا کرے؟ اس کا دماغ الجھ کر رہ گیا۔ کیا مانیا اور طاہر کو بیل کر دے؟ ابھی وہ اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ کرنل رائے کی بھیڑیے جیسی غراتی ہوئی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
"تم سے نفرت ہر ہندو کا دھرم ہے۔ ہاں۔ ایک صورت ہے کہ تم سزا سے بچ جاؤ۔ سزا سے بچ بھی جاؤ اور انعام کے حقدار بھی ہو جاؤ۔ ریحا جیسی خوبصورت لڑکی، آزادی اور لاکھوں کروڑوں روپے کے انعام کے حقدار۔ بولو کیا یہ سب پانا چاہو گے؟"اس نے سگار ہٹا لیا۔ سرمد کا سینہ بری طرح جل گیا تھا۔ زخم سے ابھی تک دھواں نکل رہا تھا۔ وہ یوں ہانپ رہا تھا جیسے میلوں دور سے بھاگتا آ یا ہو۔ اس کا جسم اب پوری طرح پسینے میں تر تھا اور چہرے پر تو جیسے کسی نے پانی کا جگ انڈیل دیا ہو۔
بُت بنا کیپٹن آدیش سب سن رہا تھا۔ اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ کرنل رائے کرنا کیا چاہتا ہے؟ کہنا کیا چاہتا ہے؟ اس کی ہر بات دوسری بات کی ضد تھی۔
"اپنا دھرم چھوڑ دو۔ " کرنل رائے نے کرسی کے سہارے بیٹھے سرمد کے سامنے تن کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز تھی یا بجلی کا کڑاکا۔ ایک دم سرمد کا سانس رک گیا۔ اس کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔ وہ کرنل کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کے سر پر سینگ نکل آئے ہوں۔
"ہندو ہو جاؤ۔" کرنل نے یوں کہا جیسے اسے لالی پاپ دے رہا ہو۔ "ریحا بھی مل جائے گی۔ آزادی بھی اور دولت بھی۔ بولو۔ کیا کہتے ہو؟"
سرمدچند لمحے کرنل رائے کو دیکھتا رہا۔ ساری تکلیف، ساری اذیت، سارا درد جیسے اس کے حواس کا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔
"زیادہ مت سوچو۔ سوچو گے تو بہک جاؤ گے۔ ہاں کر دو۔ ہاں کہہ دو۔ تمہارا صرف "ہاں "کا ایک لفظ تمہاری ساری اذیتوں کا خاتمہ کر دے گا۔ اور ایک "نہ " کا لفظ تم پر نرک کے دروازے کھول دے گا، یہ مت بھولنا۔ " کرنل اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سمجھانے کے انداز میں کہے جا رہا تھا۔
"کیا کہا تم نے؟" اچانک سرمد نے اس کی جانب کانپتی ہوئی انگلی اٹھائی۔
کرنل نے اس کے طرزِ تخاطب پر اسے چونک کر دیکھا۔ کیپٹن آدیش کا بھی یہی حال ہوا۔ جب سے وہ ان کے ہاتھ لگا تھا، تب سے آج وہ پہلی بار بولا تھا۔۔۔ اور یوں بولا تھا کہ کیپٹن آدیش حیرت زدہ رہ گیا اور کرنل رائے کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہو گئیں۔
"بہرے نہیں ہو تم۔ میں نے جو کہا تم نے اچھی طرح سنا ہے۔ " کرنل رائے نے اسے گھورتے ہوئے دانت بھینچ لئے۔
"ہاں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ تم بار بار یہ ناپاک الفاظ دہراؤ اور میں بار بار انکار کروں۔ تم اپنے باطل دھرم کا لالچ دو اور میں اپنے سچے اللہ کی وحدانیت بیان کرتے ہوئے، اس کے پسندیدہ دین کے اظہار کے لئے اپنی زبان پر وہ الفاظ بار بار سجاؤں جو اسے سب سے زیادہ پسند ہیں۔ قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد۔ ولم یکن لہ، کفواً احد۔ "
الفاظ کیا تھی۔ پگھلا ہوا سیسہ تھا جو کرنل رائے کے کانوں میں اترتا چلا گیا۔ آتش فشاں کا لاوا تھا جواسے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ بھڑکتا ہوا الاؤ تھا جس میں اس کی ساری نرمی، سارا فریب، سارابطلان جل کر خاک ہو گیا۔
"کیا کہا تم نے؟" آگ بگولہ ہوتے کرنل رائے کے ہونٹوں سے پاگل کتے کی طرح کف جاری ہو گیا۔
"قل ھو اللہ احد۔ " سرمد نے اس طرح مسکرا کر جواب دیا، جیسے کسی بچے کی ضد پر اسے دوبارہ بتا رہا ہو۔ "اس نے اپنے حبیب کریم سے فرمایا کہ آپ ان کافروں اور مشرکوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اسے کسی نے جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا۔ اور اس "احد "کا کوئی ہمسر نہیں۔ "
"بکو مت۔۔۔۔ " کرنل رائے غصے میں دیوانہ ہو کر سرمد پر پل پڑا۔ لاتیں ، ٹھوکریں ، گھونسے، مغلظات۔ ایک طوفان غیظ و غضب تھا سرمد جس کی لپیٹ میں آ گیا۔ کیپٹن آدیش جو سرمد کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ کے سحر میں گرفتار تھا، ایک دم کرنل رائے کے چیخنے چلانے اور سرمد پر ٹوٹ پڑنے پر گھبرا کر ہوش میں آ گیا۔ اسے اور تو کچھ نہ سوجھا، ایک دم اس نے اوپری جیب میں پڑے موبائل کا بٹن دبا دیا۔
"اللہ ایک ہے۔ " سرمد مسکرائے جا رہا تھا۔ اس پر جیسے کرنل رائے ٹھوکریں ، لاتیں اور گھونسے نہیں ، پھول برسا رہا تھا۔ اذیت جیسے محسوس ہی نہ ہو رہی تھی۔ اس کی ہر چوٹ کے جواب میں سرمد ایک ہی بات کہتا:
"قل ھواللہ احد۔ اللہ ایک ہے۔ "
اس کے ہر بار کہے ہوئے یہ الفاظ کرنل رائے کے غصے اور دیوانگی میں مزید اضافہ کر دیتی۔ وہ اور بھی شدت سے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیتا۔ کیپٹن آدیش بے بسی سے ادھر ادھر قدم پھینک رہا تھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ کسی طرح سرمد کو بچا لیتا مگر اس وقت تو کرنل پاگل کتے کی طرح قابو سے باہر ہو رہا تھا۔ اس کے راستے میں آنا خود کو عتاب کے حوالے کر دینے والی بات تھی۔
"سر۔۔۔ " اچانک اس نے آگے بڑھ کر کرنل رائے سے کہا۔ "سر۔۔۔ یہ بیہوش ہو چکا ہے۔ " اور کرنل رائے کے ہاتھ پاؤں اور زبان ایک دم یوں رک گئی جیسے کسی نے اس کا بٹن آف کر دیا ہو۔
"مگر۔۔۔ اس کی زبان۔۔۔ اس کی زبان۔۔۔ " وہ ہانپتے ہوئے بولا۔ "وہ تو۔۔۔ وہ تو چل رہی ہے۔ "
کیپٹن آدیش نے کرنل کے سرمد کی طرف دراز بازو کے ہدف کو تاکا۔ واقعی سرمد کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ سرگوشی کے انداز میں آواز ابھر ری تھی۔
"قل ھو اللہ احد۔۔۔ قل ھو اللہ احد۔۔۔ قل ھواللہ احد۔ "وہ ہولے ہولے پکار رہا تھا۔ بتا رہا تھا۔ سنا رہا تھا۔ سمجھا رہا تھا۔
"یہ اپنے ہوش میں نہیں ہے سر۔ " آدیش نے دزدیدہ نگاہوں سے شیشے کے پار دیکھا۔ کاریڈور خالی تھا مگر کسی بھی لمحے طاہر اور مانیا وہاں نمودار ہو سکتے تھی۔ اس نے کنکھیوں سے کرنل کے ہولسٹر پر نظر ڈالی، جس کا بٹن کھلا ہوا تھا۔
"اسے ہوش میں لاؤ۔ " کٹکھنے کتے کی طرح کرنل غرایا۔
"یس۔۔۔ یس سر۔ " آدیش نے ہکلا کر کہا اور میز پر پڑے پانی کے جگ کی طرف بڑھ گیا۔
* * *
"یہ کون لوگ ہیں ؟" نیم روشن میدان میں دو سایوں کو ٹارچر سیل کی جانب بڑھتے دیکھ کر سوجل چونکی۔ ریحا پہچان چکی تھی۔
"ماما۔ یہ مسٹر طاہر اور مس مانیا ہیں۔ اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔ ماما۔ "
"کیا ہوا ریحا؟ بات کیا ہے؟" سوجل نے اسے بے چین دیکھ کر پوچھا۔
"ماما۔ " ریحا نے ہاتھ جھٹکی۔ "میں نے بتایا تو تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ اگر اندر خطرہ ہوا تو کیپٹن آدیش مس سونیا کو الرٹ کرے گا اور وہ اس کا دیا ہوا انٹری پاس دکھا کر ٹارچر سیل میں داخل ہو جائیں گی۔ خطرہ ماما۔۔۔ خطرہ۔ "
"تو چلو۔ جلدی کرو بیٹی۔ " سوجل نے اپنے پاس رکھا ہوا ریوالور اٹھا لیا۔ " آؤ۔ ہمیں بھی وہاں چلنا چاہئے۔ "
"مگر ماما۔ گارڈز۔۔۔ " اس نے کہنا چاہا۔
" آ جاؤ۔ یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ گارڈز کی نظروں سے بچ کر ہمیں وہاں پہنچنا ہو گا۔ " سوجل کچن کے دروازے کی جانب لپکی۔ ریحا اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔
٭
"سر۔ اس میں پانی نہیں ہے۔ " کیپٹن آدیش نے خالی جگ اٹھا کر کرنل رائے کو دکھایا۔ "میں پانی لے کر آتا ہوں۔ " وہ جلدی سے کمرے کے کونے میں بنے باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔
"ڈیم فول۔ " کرنل اسے قہر سے گھورتا رہ گیا۔ پھر بجھا ہوا سگار دیوار پر کھینچ مارا۔
"قل ھواللہ احد۔ " اچانک سرمد کی آواز بلند ہو گئی۔ وہ کراہتا ہوا ان الفاظ کا جیسے ورد کر رہا تھا۔ اٹھنے کی کوشش میں بار بار فرش پر گر پڑتے سرمد کے لہو لہان جسم کو دیکھ کر کرنل رائے کا پارہ ایک بار پھر چڑھ گیا۔
"ملیچھ۔ " اس نے سرمد کے زخمی گھٹنے پر ایک زور دار ٹھوکر رسید کر دی۔ جواب میں چیخ یا کراہ کے بجائے سرمد کے لبوں سے رک رک کر نکلا۔
"قل۔۔۔ ھواللہ۔۔۔ احد۔۔۔ لا الٰہ۔۔۔ الا اللہ۔۔۔ محمد۔۔۔ رسول اللہ۔ " اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
"تو تیری زبان بند نہیں ہو گی۔ " غصے میں کھولتے ہوئے کرنل رائے نے ہولسٹر سے ریوالور کھینچ لیا۔ سیفٹی کیچ ہٹایا اور سرمد کے سینے کا نشانہ لیا۔
"قل۔۔۔ ھو اللہ۔۔۔ احد۔ " سرمد کے لبوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ ابھری۔
" آخری بار کہہ رہا ہوں مُسلی۔ " کرنل رائے کے دل میں نجانے کیا آئی۔ "ہماری طرف لوٹ آ۔ میں تیری سب سزائیں ختم کر دو ں گا۔ "اس کی انگلی ٹریگر پر جم گئی۔
"قل ھو اللہ احد۔ " سرمد اب بھی مسکرا رہا تھا۔ "اللہ الصمد۔ "اس کی آواز بلند ہو گئی۔
کرنل رائے کی انگلی ٹریگر پر دب گئی۔
دو بار۔
مگر دھماکے تین ہوئے۔
پہلے دو دھماکوں نے سرمد کا سینہ چھلنی کر دیا۔
تیسرے دھماکے نے کرنل رائے کا ہاتھ اڑا دیا۔ اس کا ریوالور ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا۔
ایک ہچکی لے کر سرمد کا جسم جھٹکے سے ساکت ہو گیا مگر اس کے ہونٹ اب بھی ہل رہے تھے۔ "قل ھو اللہ احد۔ قل۔۔۔ ھو اللہ۔۔۔ احد۔۔۔ "
کرنل رائے کے ہونٹوں سے بڑی مکروہ چیخ خارج ہوئی اور وہ اپنا خون آلود ہاتھ دوسرے ہاتھ سے دبائے تڑپ کر پلٹا۔
"تم۔۔۔ " اس نے دروازے سے اندر داخل ہوتے طاہر اور مانیا کو دیکھا جو تیزی سے فرش پر بے سدھ پڑے سرمد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پھر اس کی نظر باتھ روم کے دروازے کے پاس کھڑے آدیش پر جم گئی جو اس پر ریوالور تانے کھڑا بڑی سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"تم نے مجھ پر گولی چلائی۔۔۔ ؟" اسے کیپٹن آدیش پر یقین نہ آ رہا تھا۔
جواب میں کیپٹن آدیش نے پاؤں کی ٹھوکر سے اس کا ریوالور دور پھینک دیا۔ مگر نہیں۔ دور نہیں۔ ریوالور شیشے کے دروازے سے اندر داخل ہوتی سوجل کے پاؤں سے ٹکرا کر رک گیا جسے اس نے اٹھا لیا۔
اسی وقت ریحا ماں کو ایک طرف ہٹاتی ہوئی اندر آئی اور فرش پر پڑے سرمد کی طرف بھاگتی چلی گئی، جس کا سر طاہر نے گود میں لے رکھا تھا اور مانیا جسے وحشت آلود نگاہوں سے تک رہی تھی۔
"سرمد۔۔۔ "ریحا گھٹنوں کے بل اس کے قریب جا بیٹھی اور اس کے زخم زخم جسم کو دیکھ کر بلکنے لگی۔ اس کے لبوں سے سوائے "سرمد۔ سرمد" کے کچھ نہ نکل رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو دھاروں دھار بہہ رہے تھے۔
سوجل نے کرنل رائے کا ریوالور تھام لیا اور کیپٹن آدیش اسے کور کئے ہوئے تھا۔ کرنل اس طرح کمرے میں پیدا ہو جانے والی صورتحال کو جانچ رہا تھا جیسے خواب دیکھ رہا ہو۔
٭
"سرمد۔۔۔ " طاہر نے اس کے خون آلود چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے لیا۔ اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔ سرمد کی یہ حالت اس سے برداشت نہ ہو رہی تھی۔ سینے کا زخم اتنا گہرا تھا کہ خون مانیا کے روکے نہ رکا۔
"مسٹر طاہر۔ " اس نے گھبرائی ہوئی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ " لگتا ہے بارود نے سینہ چیر کر رکھ دیا ہے۔ خون رک ہی نہیں رہا۔ " مانیا نے اپنی شال پھاڑ کر زخم پر پٹی باندھتے ہوئے اسے بتایا۔
"سرمد۔۔۔ " ریحا سرمدکو والہانہ دیکھے جا رہی تھی اور روئے جا رہی تھی۔ "میرے سرمد۔ آنکھیں کھولو۔ آنکھیں کھولو سرمد۔ "
پھر اسے محسوس ہوا جیسے سرمد کے ہونٹوں کو حرکت ہوئی ہو۔ اس نے وحشت بھری نظروں سے طاہر اور مانیا کی جانب دیکھا۔ " یہ۔۔۔ یہ کچھ کہہ رہا ہے مسٹر طاہر۔ " اور طاہر نے جلدی سے اس کے لبوں کے ساتھ اپنا کان لگا دیا۔
"قل۔۔۔ ھواللہ۔۔۔ احد۔۔۔ قل ھو اللہ۔۔۔ احد۔ " سرمد کے ہونٹ ہل رہے تھے۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر نے اس کا خون آلود ماتھا چوم لیا اور اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ گرم گرم آنسو سرمد کے چہرے پر گرے تو ایک دو لمحوں کے بعد اس نے آہستہ سے آنکھیں کھول دیں۔
"تم۔۔۔ ؟" بمشکل دھندلائی ہوئی نظروں سے اس نے طاہر کو پہچانا تو اس کے لہجے میں حیرت سے زیادہ مسرت نمایاں ہوئی۔ "یہاں۔۔۔ مگر کیسی؟"
"کچھ مت بولو سرمد۔ " طاہر نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر مانیا کی جانب دیکھا۔ "مس مانیا۔ اسے فوری طور پر طبی امداد۔۔۔ " اس کے الفاظ پورے ہونے سے پہلے مانیا نے کرنل رائے پر ریوالور تانے کیپٹن آدیش کی طرف نظر اٹھائی۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، سرمد کی نگاہ روتی ہوئی ریحا پر پڑ گئی۔
"ارے تم۔۔۔ ریحا۔۔۔ " وہ مسکرایا۔ "چلو اچھا ہوا۔ سب اپنے اکٹھے ہو گئے۔ " اس کی آواز میں نقاہت بڑھتی جا رہی تھی۔
"یہاں سے انہیں اس حالت میں باہر لے جانا ممکن نہیں ہے دیدی۔ " کیپٹن آدیش نے بیچارگی سے کہا۔
"ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ " اسی وقت کرنل رائے کے حلق سے قہقہہ ابل پڑا۔ "یہاں سے تم لوگ زندہ واپس نہیں جا سکو گے۔۔۔ اور کیپٹن آدیش۔۔۔ تمہیں تو میں کتے کی موت ماروں گا۔ "اس کی قہر آلود نظریں آدیش پر چنگاریاں برسانے لگیں ، جس نے اسے ریوالور کے اشارے پر دیوار سے لگ کر کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
جواب میں آدیش خاموش رہا تو اس نے نظروں کا ہدف سوجل کو بنا لیا۔ " تم ریوالور ہاتھ میں لئے چپ چاپ کھڑی ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے تم بھی ان کے ساتھ ہو۔ ایک ہندو پتنی اپنے پتی کے دشمنوں سے مل کر اسے مارنے کے درپے ہے۔ بچ تم بھی نہیں سکو گی سوجل۔ " وہ دانت پیستے ہوئے خاموش ہو گیا۔ سوجل اسے سرد نظروں سے گھورتی رہ گئی۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر بے چین ہوا جا رہا تھا۔ "کچھ کرو مس مانیا۔ کیپٹن آدیش۔ "
"ماما۔ " اچانک ریحا اٹھی اور ماں کی طرف بڑھی۔ "ماما۔ اسے بچا لو ماما۔ اسے بچا لو۔ میرے سرمد کو بچا لو۔ "
"مجھے کچھ سوچنے دو ریحا۔ " سوجل نے اسے سینے سے لگا لیا۔
"گھبراؤ نہیں طاہر۔ " سرمد نے اس کے ہاتھوں میں دبا اپنا ہاتھ سینے پر رکھ لیا۔ اس کی بار بار بند ہوتی آنکھیں اور چھل چھل بہتا خون طاہر کو اس کی لمحہ بہ لمحہ قریب آتی موت کی خبر دے رہے تھے۔ "میں جانتا ہوں میرے جانے کا وقت آ چکا ہے۔ " وہ ہولے ہولے بولا۔ "یہ تو پگلی ہے۔ میری تکلیف سے دیوانی ہوئی جا رہی ہے۔ نہیں جانتی، میں نے کس مشکل سے اپنی منزل پائی ہے۔ اب تم لوگ مجھے دوبارہ کانٹوں میں مت گھسیٹو یار۔ "
"سرمد۔۔۔ " طاہر سسک کر بولا۔ اسی وقت ریحا ان کے قریب لوٹ آئی۔ مانیا نے پرے ہو کر اسے جگہ دی تو وہ سرمد کا دوسرا ہاتھ تھام کر فرش پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی اور اسے پاگلوں کے انداز میں تکنے لگی۔ بار بار وہ ہچکی لیتی اور معصوم بچوں کی طرح سسکی بھر کر رہ جاتی۔
"اچھا طاہر۔۔۔ میرے بھائی۔ میرے دوست۔۔۔ اب جانے کا لمحہ آن پہنچا۔ میرے پاپا کا خیال رکھنا۔ اگر ہو سکے تو مجھے پاکستان لے جانا۔ اور اگر ایسا ہو سکا تو میرے پاپا سے کہنا کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ میں عمرے کے بعد لندن واپس نہیں گیا۔ پاکستان آیا ہوں۔ بس ذرا سفر طویل ہو گیا۔ میں نے انہیں دُکھ دیا ہے طاہر۔ بہت دُکھ دیا ہے۔ میری طرف سے ان سے معافی مانگ لینا۔ " وہ آنکھیں بند کر کے ہانپنے لگا۔
طاہر اس کا ہاتھ ہونٹوں سے لگائے خاموشی سے سنتا رہا۔ اس کی برستی آنکھیں اس کے جذبات کا آئینہ تھیں۔
"ریحا۔۔۔ " ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ "میں تم سے کیا ہوا کوئی وعدہ نبھا نہیں سکا۔ برا نہ ماننا۔ وقت ہی نہیں ملا۔ "
"سرمد۔۔۔ " ریحا پچھاڑ کھا کر رہ گئی۔ کیسی بے بسی تھی کہ وہ اسے بچا نے کی اک ذرا سی بھی کوشش نہ کر سکتے تھی۔ بیچارگی نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ زخمی ہاتھ بغل میں دبائے کرنل رائے ان کی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اسے اپنے انجام کی کوئی فکر نہ تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ جلد یا بدیر وہ سب اس کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
"کچھ اور کہو سرمد۔ " اچانک طاہر نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس کا لہجہ بیحد عجیب ہو رہا تھا۔ مانیا نے چونک کر اسے دیکھا۔
"کیا کہوں طاہر۔ کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں۔ " نقاہت سے اس کی آواز ڈوب گئی۔ "ہاں۔ ایک کام ہے اگر تم کر سکو۔ "
"کہو سرمد۔ میری جان۔ " طاہر بیتاب ہو گیا۔
"یہ۔۔۔ " اس نے اپنی اوپری جیب کی طرف اشارہ کیا۔ " اس جیب میں میرے آقا کے دیار کی خاک ہے۔ اسے میری قبر کی مٹی میں ملا دینا۔ جنت کی مہک میں سانس لیتا رہوں گا قیامت تک۔ کر سکو گے ایسا؟"
"کیوں نہیں سرمد۔ " طاہر نے اس کے سر کے بالوں کو چوم لیا۔ " ایسا ہی ہو گا۔ مگر کچھ اور بھی ہے سرمد جو تم بھول رہے ہو۔ " طاہر نے اس کے گال پر ہاتھ رکھ دیا۔ "ایک ہستی اور ہے جس کے لئے تمہارا پیغام میں امانت کی طرح پلکوں پر سجا کر لے جا سکتا ہوں۔ "
"شش۔۔۔ " سرمد نے اس سے ہاتھ چھڑایا اور ہونٹوں پر رکھ دیا۔ "کبھی ایسا خیال دل میں بھی نہ لانا طاہر۔ میرے لئے وہ نام اتنا پرایا ہے کہ میں اسے زبان پر لاؤں گا تو اللہ کا مجرم ٹھہروں گا۔ اتنا محترم ہے کہ اس کے باعث اللہ نے مجھے اپنے حضور طلب فرما لیا۔ اور کیا چاہئے؟ کچھ نہیں۔ کچھ نہیں۔ " پھر اس نے نظروں کا محور کرنل رائے کو بنا لیا۔ " شرک کے اس پتلے نے مجھے اپنے اللہ سے برگشتہ کرنے کے لئے ریحا سے لے کر آزادی اور دولت کا جو لالچ دیا، وہ کسی بھی سرمد کو بہکانے کے لئے کافی تھا مگر میں اس پکار کا کیا کروں طاہر جو میرے رگ و پے میں خون بن کر دوڑتی ہے۔ قل۔۔۔ ھواللہ۔۔۔ احد۔ " اچانک سرمد کی سانس اکھڑ گئی۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر اور ریحا اس پر جھک گئی۔ " بس طاہر۔ بس ریحا۔ الوداع۔۔۔ " اس کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔ جسم میں ایک دم تیز حرارت کی لہر دوڑ گئی۔ "میرے اللہ گواہ رہنا۔ میں نے عشاق کا نام بدنام نہیں ہونے دیا۔۔۔ یہ تیری دی ہوئی توفیق ہے۔ تیرے حبیب پاک اور میرے آقا کا صدقہ ہے۔ قل ھواللہ احد۔ " اس کی آنکھیں مند گئیں۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر نے اس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لے کر دبایا۔
"سرمد۔۔۔ " ریحا اس کے چہرے پر جھک گئی۔
"قل ھواللہ احد۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ و سلم۔ " اس کی آواز بلند ہوئی۔
"صلی اللہ علیہ و سلم۔ " سرمد کے ہونٹ مسکرانے کے انداز میں وا ہوئی۔
"صلی اللہ علیہ و سلم۔ " مسکراہٹ مہک اٹھی۔ ایک دم کمرے میں خوشبو کے جھونکوں داخل ہوئی۔ سرمد کی نظریں اپنے سامنے دیوار کی جانب یوں جم گئیں جیسے وہ کسی کو دیکھ رہا ہو۔ مگر کسی؟ کسے دیکھ رہ ا تھا وہ جس کے دیدار نے اس کی آنکھوں میں مشعلیں روشن کر دی تھیں۔ چہرے پر عقیدت و احترام کی سرخیاں جھلملا دی تھیں۔ ایک گہرا سانس اطمینان بھرا سانس اس کے ہونٹوں سے خارج ہوا۔ لرزتے ہوئے دونوں ہاتھ آپس میں کسی کو تعظیم دینے کے انداز میں جُڑ ی۔۔۔ "صلی اللہ علیہ و سلم " لبوں پر مہکا اور سرمد کے مسکراتے ہونٹ ساکت ہو گئے۔
خوشبو ان کے گرد لہراتی رہی۔ سرمد کو لوریاں دیتی رہی۔ اور وہ سو گیا۔ کسی ایسے معصوم بچے کی طرح جسے اس کا من پسند کھلونا مل جائے اور وہ اسے باہوں میں لے کر نیند کی وادیوں میں اتر جائے۔
* * *
کمرے میں عجیب سا سکوت طاری تھا۔
کرنل رائے اس انوکھی مہک کے آنے، کمرے میں پھیلنے اور پھر آہستہ آہستہ ناپید ہو جانے کا گواہ تھا مگر ذہنی کج روی اور فطری ہٹ دھرمی اسے اس کے اقرار سے روک رہی تھی۔
طاہر نے دھیرے سے سرمد کو باہوں میں اٹھایا اور میز پر لٹا دیا۔ کیپٹن آدیش اب بھی کرنل رائے کو کور کئے کھڑا تھا، مگر اس کے رخساروں پر آنسو کیوں بہہ رہے تھے۔ وہ خود نہ جانتا تھا۔ یا شاید جانتا تھا، بتا نہ سکتا تھا۔
دل گرفتہ مانیا نے ریحا کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ ہاتھ چھڑا کر لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھی اور میز سے نیچے لٹکتے سرمد کے پیروں سے جا لپٹی۔ خون آلود، زخم زخم پیروں کو بوسے دیتی دیتی وہ میز کے ساتھ ماتھا ٹکا کر یوں بے سدھ ہو گئی کہ سرمد کے دونوں پاؤں اس کے سینے کے ساتھ بھنچے ہوئے تھے۔
سوجل ویرا ن ویران آنکھوں سے ریحا اور سرمد کو دیکھتی رہی۔ پھر اس کی نظر کرنل رائے پر آ کر جم گئی۔
"بہت دیر ہو گئی کرنل رائے۔ " اچانک اس نے بڑی سرد آواز میں کہا تو کرنل رائے اس کی جانب متوجہ ہوا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ نجانے کیا ہوا کہ کرنل نے گھبرا کر نظریں پھیر لیں۔
"نظریں نہ چراؤ کرنل۔ میں صرف ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں۔ راکیش کا قتل تم نے کرایا تھا؟ہاں یا نہیں۔ "
کرنل رائے نے پھر چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
"ہاں یا نہیں ؟" سوجل نے اس کا ریوالور اسی پر تان لیا۔
"تم پاگل ہو سوجل۔ " گھبرا کر کرنل رائے نے کہا۔
"ہاں یا نہیں کرنل۔ " سوجل نے ٹریگر پر انگلی رکھ دی۔
"میں اسے کیسے قتل کرا سکتا تھا سوجل۔ میری اس سے کیا دشمنی تھی؟" اس کی آواز میں خوف ابھر آیا۔
"دشمنی کا نام سوجل ہے کرنل رائے۔ آج میں اس دشمنی ہی کو ختم کر دوں گی مگر اپنے راکیش کے پاس جانے سے پہلے جاننا چاہتی ہوں کہ تم گناہ گار ہو یا بے گناہ؟"
"میں بے گناہ ہوں سوجل۔ " زخمی ہاتھ اٹھا کر حلف دینے کے انداز میں کرنل رائے نے جلدی سے کہا۔
"بہت بزدل ہو تم کرنل رائے۔ " سوجل کے ہونٹوں پر بڑی اجڑی اجڑی مسکراہٹ ابھری۔ " آخری وقت میں بھی جھوٹ بول رہے ہو۔ "
" آخری وقت؟" ہکلا کر کرنل رائے نے کہا۔
"ہاں۔ " تم راکیش کے قاتل ہو، یہ بات تم مان لیتے تو شاید میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتی مگر ۔۔۔ "
"اگر ایسی بات ہے تو میں اقرار کرتا ہوں سوجل کہ میں نے راکیش کا قتل کرایا تھا مگر صرف تمہاری محبت کے سبب۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا تھا سوجل۔ اسی لئے میں نے راکیش کو راستے سے ہٹا دیا۔ "
"شکر ہے بھگوان کا۔ " سوجل نے ایک پل کو آنکھیں بند کیں اور دھیرے سے کہا۔ پھر آنکھیں کھولیں اور کرنل رائے کی جانب بڑی سرد نگاہی سے دیکھا۔
"اب تو تم مجھے نہیں مارو گی سوجل؟" اس نے لجاجت سے پوچھا۔
"تم نے میری پوری بات سنے بغیر ہی اپنے جرم کا اقرار کر لیا رائے۔" سوجل بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔ " میں کہہ رہی تھی کہ شاید میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتی مگر ۔۔۔ تم نے میرے راکیش کی نشانی، میری بیٹی ریحا کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی چھین کر اپنا قتل مجھ پر لازم کر لیا ہے۔ "
پھر اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ سکتا، پے در پے چھ دھماکے ہوئے۔ کرنل رائے کا گول مٹول جسم اچھل اچھل کر گرتا رہا۔ چوتھے فائر پر اس نے دم توڑ دیا مگر سوجل نے ریوالور خالی ہونے پر ہی انگلی کا دباؤ ٹریگر پر ختم کیا۔ حیرت زدہ، ڈرے ہوئے، فرش پر آڑے ترچھے لہولہان پڑی، کرنل رائے کی بے نور آنکھیں سوجل پر جمی ہوئی تھیں ، جس کا ریوالور والا ہاتھ بے جان ہو کر پہلو میں لٹک گیا تھا۔ کسی نے اپنی جگہ سے حرکت کی نہ اسے روکنا چاہا۔
دھماکوں کی بازگشت ختم ہوئی تو کیپٹن آدیش نے بھی غیر شعوری انداز میں ریوالور ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ لڑکھڑایا اور دیوار سے جا لگا۔
طاہر میز پر دونوں ہاتھ ٹیکے سر جھکائے سسک رہا تھا۔ پھر مانیا آئی اور اس کے شانے پر سر رکھ کر رو دی۔ سوجل تھکے تھکے انداز میں آگے بڑھی اور ایک کرسی پر گر کر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بیٹھ گئی۔ کیپٹن آدیش کی سسکیاں ، طاہر اور مانیا کا ساتھ دے رہی تھیں اور ریحا، سرمد کے پیروں سے لپٹی خاموش بیٹھی تھی۔
٭
کتنی دیر گزری، کسی کو اس کا احساس نہیں تھا۔
وہ سب چونکے تو اس وقت جب اچانک سیل کی سیڑھیاں بھاری اور تیز تر قدموں کی دھڑدھڑاہٹوں سے گونج اٹھیں۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتی، کتنی ہی لوہے کی نالیاں انہیں اپنے نشانے پر لے چکی تھیں۔ وہ سب اپنی اپنی جگہ ساکت رہ گئے۔
طاہر نے ان کی جانب دیکھا۔ وہ تعداد میں بیس سے کم نہ تھے۔ کچھ کمرے میں اور باقی کاریڈور میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے جسموں پر فوجی وردیاں اور سرو ں پر سفید رومال بندھے تھے۔ وہ یقیناً بھارتی فوجی نہیں تھے۔
سب سے اگلا شخص، جو اُن کا لیڈر لگتا تھا، اس کی عقاب جیسی نگاہوں نے ایک ہی بار میں پورے کمرے کا جائزہ لے لیا۔ مردہ کرنل رائے کو دیکھ کر وہ ایک پل کو حیران ہوا، پھر اس کی نگاہیں میز پر پڑی سرمد کی لاش پر آ کر جم گئیں۔ ایک پل کو اس کی نظروں میں اضطراب نے جنم لیا پھر وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ سرمد کو بے حس و حرکت پا کر اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔
"ہمیں دیر ہو گئی۔ " آہستہ سے وہ بڑبڑایا۔ پھر اس کی نگاہوں میں آگ سی دہک اٹھی۔
"یہ۔۔۔ " اس نے سرمد کی جانب اشارہ کیا اور تھرتھراتی آواز میں کہا۔ " کس نے جان لی اس کی؟"اس کا سوال سب سے تھا۔
"سب کچھ بتایا جائے گا۔ پہلے تم بتاؤ۔ تم کون ہو؟"طاہر نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
"تم مجھے ان میں سے نہیں لگتے۔ " وہ طاہر کی طرف پلٹا۔
"تم بھی مجھے اپنوں میں سے لگتے ہو۔ میرا نام طاہر ہے۔ اب تم بتاؤ۔ کون ہو تم؟" طاہر اس کے قریب چلا آیا۔
"یہ بتانے کا حکم نہیں ہے۔ تم کہو اس کے کیا لگتے ہو؟"
"یہ بھائی ہے میرا۔ " طاہر نے سرمد کی طرف بڑے درد بھرے انداز میں دیکھا۔ " اسے ڈھونڈ تو لیا مگر بچا نہ سکا۔ "
"غم نہ کرو۔ " اس نے طاہر کے شانے کو گرفت میں لے کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ "وہ شہید ہوا ہے۔۔۔ شہید۔۔۔ " آنکھیں بند کر کے اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ "کاش اس کی جگہ میں ہوتا۔ " اس کے لہجے میں حسرت در آئی۔
"یہ باقی سب کون ہیں اور اس کتے کو کس نے مارا؟"اس نے نفرت سے فرش پر پڑے کرنل رائے کو دیکھا۔
"یہ سب اپنے ہیں۔ " طاہر نے کیپٹن آدیش سمیت سب کی گواہی دی۔ " اور اسے۔۔۔ " اس کی نظر کرنل رائے کی لاش تک پہنچی۔
"میں نے مارا ہے اسے۔ " اچانک سوجل بول اٹھی۔ "اس کی بیوی ہوں میں۔ "
"مگر تم تو کہہ رہے تھے یہاں سب اپنے ہیں۔ " وہ حیرت سے طاہر کی جانب مڑا۔
"ہاں۔ میں نے سچ کہا ہے۔ " طاہر نے پھر کہا۔ "صرف ایک ہی بیگانہ تھا یہاں۔ " اس نے کرنل رائے کی جانب اشارہ کیا۔
"ہمارے پاس بحث کرنے کا وقت ہے نہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ہمارا مسلک ہے۔ ہم سرمد کو لینے آئے تھے۔ لے کر جا رہے ہیں۔ تم میں سے جو ساتھ چلنا چاہے، چل سکتا ہے۔ " وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔ "مگر کسی غیر مسلم کو ہم ساتھ نہیں لے جا سکیں گے۔"
"سرمد کا کوئی رشتہ دار غیر مسلم نہیں ہو سکتا۔ " طاہر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ "میں اس کا بھائی ہوں۔ یہ۔۔۔ " اس نے ریحا کی جانب اشارہ کیا جو سرمد کے پیروں سے لپٹی ویران ویران نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ " یہ اس کی منگیتر ہے۔۔۔ اور یہ۔۔۔ " اس نے کیپٹن آدیش کی طرف ہاتھ اٹھایا۔
"میں سرمد کا دوست ہوں۔ یہ وردی ان میں شامل ہونے کے لئے ضروری تھی۔ " اس نے سر سے کیپ اتاری اور دور پھینک دی۔ پھر شرٹ بھی اتار ڈالی۔ اب وہ سیاہ جرسی اور خاکی پینٹ میں تھا۔
بے اختیار طاہر کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے بازو دراز کیا۔ آدیش لپک کر آیا اور اس کے پہلو میں سما گیا۔ وہ بچوں کی طرح سسک رہا تھا۔
"اور یہ میری دوست ہیں۔ مس مانیا۔ ان کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچ پائے۔ " طاہر نے کہا تو مانیا اس کے دوسرے بازو سے آ لگی۔
"رہی میں تو میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جا رہی۔ " اسی وقت سوجل نے اپنی جگہ سے اٹھ کر کہا۔ "میں اپنے انجام سے بے خبر نہیں ہوں۔ تم لوگ سرمد کی منگیتر کو لے جاؤ۔ "
آہستہ سے ریحا اٹھی اور ماں کے سینے سے لگ گئی۔
"ستی ہو جانا اگر ان کے مذہب میں جائز ہوتا ریحا تو میں خود تجھے اس کے لئے سجا سنوار کر تیار کرتی مگر یہ بڑا پیارا دین ہے۔ تجھے یہ لوگ زندہ بھی رکھیں گے تو اس طرح جیسے پلکوں میں نور سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ چلی جا۔ سرمد کی سمادھی پر روزانہ پھول چڑھاتے سمے مجھے یاد کر لیا کرنا۔ میں جس حال میں بھی ہوئی، تیرے لئے پرارتھنا کرتی رہوں گی۔ " سوجل کی طویل سرگوشی نے اسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔ وہ ماں سے الگ ہوئی تو سوجل نے اس کے ماتھے اور گالوں کے پے در پے کتنے ہی بوسے لے ڈالے۔ پھر بھیگی آنکھوں سے طاہر کی طرف دیکھا۔ مانیا آگے بڑھی اور اسے باہوں میں لے لیا۔
"تو چلیں ؟" لیڈر نے طاہر کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ جواب میں اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ "اوکے۔ " اس نے ساتھیوں کو اشارہ کیا۔
دو جوانوں نے سرمد کی لاش کو بڑی احتیاط سے کندھوں پر ڈالا اور سب سے پہلے باہر نکلے۔ پھر باقی کے لوگ بھی تیزی سے چل پڑی۔ چند لمحوں کے بعد سیل کے کھلے دروازے سے سیٹی کی آواز سنائی دی۔ سب سے پہلے طاہر، مانیا، ریحا اور آدیش باہر نکلے۔ آخر میں لیڈر نے باہر قدم رکھنے سے پہلے پلٹ کر دیکھا۔ شیشے کے کمرے میں سر اٹھائے کھڑی سوجل اسے ایسی قابل احترام لگی کہ اس نے بے اختیار اسے ماتھا چھو کر سلام کیا۔ جواب میں سوجل کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ ابھری، اس میں صرف اور صرف آسودگی کروٹیں لے رہی تھی۔
٭
جس ٹرک میں سرمد کی لاش پوری احتیاط سے رکھی گئی وہ کوٹھی کے مین گیٹ سے کچھ ہٹ کر اندھیرے میں کھڑا تھا۔ ٹرک انڈین آرمی کا تھا اس لئے کسی خطرے کا امکان نہیں تھا۔
"اوکے دیدی۔ " آدیش اس سے گلے ملا۔ " زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ "
"راکھی باندھنے خود آیا کروں گی تجھے۔ میرا انتظار کیا کرنا۔ " وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی۔ آدیش جواب میں ہونٹ دانتوں میں داب کر رہ گیا۔
ریحا سے گلے مل کر اس نے سوائے اس کا ماتھا چومنے کے کچھ نہ کہا۔ آخر میں وہ طاہر کی طرف بڑھی۔ دونوں نے ہاتھ ملایا۔
"اپنا پاسپورٹ مجھے دے دیں مسٹر طاہر۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ کسی بھی طرح قانون کی زد میں آئیں۔ میں آپ کے باضابطہ پاکستان روانہ ہونے کی کارروائی کے بعد اسے آپ تک پہنچا دوں گی۔ "
کچھ کہے بغیر طاہر نے جیب سے اپنا پاسپورٹ نکالا اور اسے تھما دیا۔ پھر ہوٹل کے کمرے کی چابی بھی اس کے حوالے کر دی۔
"میں شکریہ اد کر کے تمہاری توہین نہیں کرنا چاہتا مانیا۔ " وہ آپ اور مس، دونوں تکلفات سے دور ہو کر بولا۔ "ہاں۔ میری کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو۔۔۔ "
"میں کبھی جھجکوں گی نہیں طاہر۔ " وہ بھی مسکرائی۔ دیواریں گریں تو اپنائیت کا چہرہ صاف صاف دکھائی دینے لگا۔
"او کے۔ گڈ بائی۔ "طاہر نے اس کا ہاتھ دوبارہ تھاما اور دبا کر چھوڑ دیا۔
"گڈ بائی۔ " ان کے ٹرک میں سوار ہو جانے کے بعد وہ تب تک وہاں کھڑی رہی جب تک ان کا ٹرک نظر آتا رہا۔ پھر تھکے تھکے قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
٭
"میرا نام جاوداں صدیقی ہے۔ " اس نے ٹرک میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے طاہر کو بتایا۔ "کمانڈر کا حکم تھا کہ آج رات سرمد کو اس ٹارچر سیل سے بہر صورت نکال لیا جائے۔ دراصل ہمیں بڑی دیر میں پتہ چلا کہ سرمد یہاں ہے ورنہ۔۔۔ " وہ ہونٹ کاٹنے لگا۔ "مگر شہادت اس کی قسمت میں تھی۔ خوش نصیب تھا وہ۔ کاش ہم بھی یہ مقام پا سکیں۔ "
" آپ کچھ بتا رہے تھے۔ " وہ کچھ دیر خاموش رہا تو طاہر نے اسے یاد دلایا۔
"ہاں۔ " وہ آہستہ سے چونکا۔ " ہمیں گارڈز پر قابو پانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ کل ملا کر دس بونے تو تھے وہ۔ ہم نے ایک ہی ہلے میں انہیں موت کی نیند سلا دیا۔ ٹارچر سیل کا دروازہ بھی توڑنا نہ پڑا۔ کھلا مل گیا مگر آپ لوگوں کو وہاں دیکھ کر حیرت ضرور ہوئی۔ "
"بس۔ یہ ایک طویل قصہ ہے۔ " طاہر نے بات گول کر دی۔ "اب ہم جا کہاں رہے ہیں ؟ کیا آپ بتانا پسند کریں گے؟"
"جہاں کمانڈر کا حکم ہو گا وہاں آپ کو پہنچا دیا جائے گا۔ " جاوداں نے محتاط لہجے میں کہا۔ "ابھی کچھ دیر میں اس کی کال آنے والی ہے۔ "
جونہی ٹرک نے کشمیر روڈ کا ساتواں سنگ میل عبور کیا، جاوداں صدیقی کی جیب میں پڑے سیٹ پر بزر نے اشارہ دیا۔ اس نے فوراً سیٹ نکالا اور رابطہ قائم کیا۔
"یس۔ جاوداں بول رہا ہوں خانم۔ "
"کیا رہا؟" دوسری جانب سے بڑی شیریں مگر تحکم آمیز آواز سنائی دی۔
"سرمد شہید ہو گیا خانم۔ " جاوداں نے اداسی سے جواب دیا۔
"تو اداس کیوں ہو پگلے ؟ کل ہمارے حصے میں بھی یہ اعزاز آئے گا۔ "خانم نے بڑے جذبے سے کہا۔
"انشاءاللہ خانم۔ " جاوداں نے جلدی سے کہا۔ پھر اس نے ٹارچر سیل کی ساری کارروائی خانم کو بتائی۔
"اس کی لاش کہاں ہے؟"
"ہم ساتھ لا رہے ہیں خانم۔ "
"کمانڈر کا حکم ہے کہ سرمد اور اس کے ساتھیوں کو مظفر آباد کے راستے پاکستان پہنچا دیا جائے مگر اس سے پہلے دریائے نیلم کے دوسرے گھاٹ پر سرمد کی لاش کو پورے اہتمام کے ساتھ تابوت کیا جائے۔ "
" جی خانم۔ ایسا ہی ہو گا۔ "
"اوکے۔ تم خود رابطہ اس وقت کرو گے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ "
"میں سمجھتا ہوں خانم۔ "
"عشاق۔ " دوسری جانب سے کہا گیا۔
"عزت کی زندگی یا شہادت۔ " جاوداں کے لبوں سے نکلا اور دوسری طرف سے بات ختم کر دی گئی۔ طاہر ہمہ تن گوش بنا سن رہا تھا کہ اسے آخری لفظ نے چونکا دیا۔ "عشاق " کا لفظ سرمد کے ہونٹوں سے بھی نکلا تھا۔
"جاوداں۔ آپ پلیز بتائیں گے کہ یہ عشاق کیا ہے؟" اس نے جاوداں کی طرف دیکھا جو ونڈ سکرین سے باہر اندھیرے میں گھور رہا تھا۔
"عشاق۔۔۔ " وہ بڑبڑایا۔ " ہمیں کسی باہر کے فرد پر یہ راز کھولنے کی اجازت نہیں ہے مسٹر طاہر لیکن آپ کے ساتھ سرمد شہید کا ایک ایسا رشتہ ہے جسے میں نظرانداز نہیں کر سکتا۔ " وہ چند لمحے خاموش رہا پھر کہا۔ "عشاق۔۔۔ سرفروشوں کی ایک ایسی تحریک ہے جس کا کمانڈر، خانم اور ہر رکن، جذبہ شہادت سے سرشار ہے۔ ہم لوگ سر پر یہ سفید رومال کفن کی علامت کے طور پر پہن کر نکلتے ہیں۔ اس کا رکن بننے کے لئے لازم ہے کہ پہلے عمرہ کیا جائے۔ بس اس سے زیادہ میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا۔ "
"سرمد بھی تو عمرہ کرنے کے بعد ہی انڈیا آیا تھا۔ تو کیا۔۔۔ ؟" طاہر کے دماغ میں ایک سوال نے سر اٹھایا۔ پھر وہ جاوداں سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
"میں اس بارے صرف یہ جانتا ہوں مسٹر طاہر کہ سرمد شہید نے عمرہ پہلے کیا اور تحریک کا رکن بننے کے بارے میں اس شرط کا اسے بعد میں پتہ چلا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اسے اللہ اور رسول نے قبولیت کے بعد اس تحریک تک پہنچایا۔ تبھی تو وہ سالوں کا فاصلہ دنوں میں طے کر کے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ "جاوداں نے ا س کے پوچھنے پر کہا۔
طاہر کے لئے اب کوئی بھی دوسرا سوال کرنا بے معنی تھا۔ اسے سرمد کے آخری الفاظ یاد آئے اور بے اختیار اس کا دل دھڑک اٹھا۔
"صلی اللہ علیہ و سلم۔ "
ہاں۔ یہی الفاظ تو تھے اس کے لبوں پر۔ عجیب سی رقت طاری ہو گئی اس پر۔ سر سینے پر جھکتا چلا گیا۔ آنکھیں بند ہوئیں تو تصور میں گنبدِ خضریٰ مہک اٹھا۔ غیر اختیاری طور پر اس کے لبوں کو حرکت ہوئی اور "صلی اللہ علیہ و سلم " کے الفاظ یوں جاری ہو گئے جیسے برسوں کا بھولا ہوا سبق اچانک یاد آ جائے۔
ٹرک رات کے اندھیرے میں پوری تیزی سے انجانے راستوں پر رواں تھا اور ایک انجانی خوشبو ٹرک کے ساتھ ساتھ محوِ سفر تھی۔ درود کی خوشبو۔ حضوری کی خوشبو۔ قبولیت کی خوشبو۔
* * *
صبح ہونے سے پہلے دریائے جھیلم کے دوسرے گھاٹ پر ٹرک چھوڑ دیا گیا۔ وہاں پہلے سے ایک بڑی کشتی میں ساگوان کی لکڑی کا تابوت لئے چار عشاق موجود ملے۔ سرمد کی لاش کو سبز کشمیری شال میں لپیٹ کر تابوت میں رکھا گیا۔ اکیس رائفلوں کی سلامی دی گئی۔ پھر جاوداں صدیقی اور ا س کے ساتھی تو وہیں رہ گئے اور چار نئے ساتھیوں کے ساتھ وہ رات ہونے تک وہیں جنگل میں چھپے رہے۔
رات کے پہلے پہر اگلا سفر شروع ہوا۔ یہ سفر اسی کشتی میں تھا۔ ان چار عشاق کا کام ہی کشتی کھینا تھا۔ کشتی میں پھل اور خشک میوہ جات موجود تھے جن سے وہ جب چاہتے لذتِ کام و دہن کا کام لے سکتے تھے مگر بھوک کسے تھی جو ان کی طرف نظر اٹھاتا۔
ریحا تابوت پر سر رکھے آنکھیں بند کئے پڑی رہتی۔ چار دن میں وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی۔ آدیش سر جھکائے نجانے کس سوچ میں ڈوبا رہتا۔ ہاں طاہر اس کے ہونٹ ہلتے اکثر دیکھتا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کیا پڑھتا رہتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس کی طرح آدیش بھی "صلی اللہ علیہ و سلم" کا اسیر ہو چکا ہے۔
وہ رات کو سفر کرتے اور دن میں کشتی کنارے پر روک کر لمبی لمبی گھاس میں ، یا گھنے درختوں تلے چھپ کر پڑ رہتی۔ سات دن گزر گئی۔ آٹھویں دن صبح کاذب نمودار ہو رہی تھی جب کشتی کنارے پر لگا دی گئی۔ ایک ساتھی نصیر نے بتایا کہ یہاں سے آگے کا سفر انہیں پیدل کرنا ہو گا۔
تابوت کو دو د و ساتھیوں نے باری باری کندھوں پر لیا اور وہ سب ایک خشک برساتی نالہ عبور کر کے پاکستانی علاقے میں داخل ہو گئی۔ طاہر اور آدیش نے تابوت اٹھانا چاہا تو ان چاروں نے منت بھرے لہجے میں کہا کہ ان سے یہ سعادت نہ چھینی جائے۔ مجبوراً طاہر نے تابوت ان چاروں کے حوالے کر دیا اور خود ریحا اور آدیش کے ساتھ ان کے پیچھے ہو لیا۔
"ہم اس وقت کہاں ہیں ؟" چلتے چلتے طاہر نے نصیر سے پوچھا۔
"مظفر آباد کے آخری حصے میں۔ یہاں سے ہم وسطی آبادی کی طرف جا رہے ہیں۔ شام تک پہنچیں گے۔ وہاں سے آپ کو سواری مل سکے گی۔ "
"ذرا رکئے۔ " اس نے نصیر سے کہا۔ اس کے کہنے پر انہوں نے تابوت ایک ٹیلے پر رکھ دیا اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
طاہر نے اپنے دماغ میں جنم لینے والے خیال پر ایک بار پھر غور کیا۔ پھر نصیر سے پوچھا۔
"نصیر بھائی۔ یہ بتائیے یہاں سے نور پور کس طرف ہے؟"
"نور پور۔ " نصیر چونکا۔ "یہ کیوں پوچھ رہے ہیں آپ؟"
"اگر آپ کو علم ہے تو بتائیے۔ شاید ہمیں وسطی علاقے کی طرف جانا ہی نہ پڑے۔ "طاہر نے نرمی سے کہا۔
"سائیاں والا کا رہائشی ہے یہ خادم حسین۔ سائیاں والا سے تیسرا گاؤں ہے نور پور۔ " نصیر نے اپنے ایک ساتھی کی طرف اشارہ کیا۔ "اس علاقے کے بارے میں یہ زیادہ بہتر بتا سکتا ہے۔ "
طاہر نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا۔ " نور پور کا گاؤں یہاں سے پیدل سات گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ آج کل وہاں سیلاب کی وجہ سے ایک قدرتی نہر بن گئی ہے اس لئے کشتیاں چلنے لگی ہیں۔ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم اس عارضی پتن پر پہنچ جائیں گے جہاں سے سائیاں والا اور نور پور کے لئے کشتی مل جائے گی۔ "
"بس۔۔۔ " اچانک طاہر کے لہجے میں جوش بھر گیا۔ "تو سمجھ لیجئے کہ ہمیں نور پور جانا ہے۔ راستہ بدل لیجئے اور اس پتن کی طرف چل دیجئے۔ "
راستہ بدل دیا گیا۔ ریحا اور آدیش، طاہر کے لہجے سے کسی خاص بات کا اندازہ تو لگا رہے تھے مگر وہ بات کیا تھی؟ یہ انہیں کیا معلوم۔
ان سے ذرا پیچھے رہ کر طاہر نے جیب سے موبائل نکالا اور دھڑکتے دل کے ساتھ گھر کا نمبر ملایا۔ اتنے دنوں بعد وہ فون کر رہا تھا اور وہ بھی کیا بتانے کے لئے۔ اس کا دل بھر آیا۔ اس نے دعا کی کہ فون صفیہ نہ اٹھائے۔ اس کی اللہ نے شاید نزدیک ہو کر سنی۔ دوسری طرف سے بیگم صاحبہ نے فون اٹھایا۔
"ہیلو۔ امی۔ میں طاہر بول رہا ہوں۔ "اس نے لہجے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
"طاہر۔ " بیگم صاحبہ ایک دم ہشاش بشاش ہو گئیں۔ " کیسا ہے بیٹے۔ تو نے اتنے دن فون کیوں نہیں کیا؟ یہاں فکر کے مارے سب کی جان عذاب میں آئی ہوئی ہے۔ "
"میں بالکل ٹھیک ہوں امی۔ آپ میری بات دھیان سے سنئے۔ " اس نے حلق تر کرتے ہوئے بمشکل کہا۔
"ٹھہر میں صفیہ کو بلاتی ہوں۔۔۔ "
"نہیں امی۔ رکئے۔ اسے مت بلائیے۔ میں جو کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنئے۔ " طاہر نے جلدی سے کہا۔ " میں نے اسی لئے موبائل پر فون نہیں کیا کہ مجھے صرف آپ سے بات کرنا ہے۔ "
"خیر تو ہے ناں بیٹا؟" وہ تشویش سے بولیں۔ گھبراہٹ ان کے لہجے میں نمایاں تھی۔
" آپ ڈاکٹر ہاشمی اور صفیہ کو لے کر نور پور میں بابا شاہ مقیم کے مزار پر پہنچ جائیں۔ ابھی چل پڑیں تو شام تک پہنچیں گے۔ میں آپ سے وہیں ملوں گا۔ "
"مگر طاہر۔ وہاں کیوں بیٹا؟ تو سیدھا گھر کیوں نہیں آ رہا ؟" وہ بے طرح گھبرا گئیں۔
"میرے کندھوں پر بڑا بوجھ ہے امی۔ " اس کی آواز بھرا گئی۔ " میں یہ بوجھ لئے گھر تک نہ آ سکوں گا۔ آپ وہیں آ جائیے انکل اور صفیہ کو لے کر۔ "
"بوجھ؟ کیسا بوجھ؟ " وہ حیرت سے بولیں۔ " سرمد تو خیریت سے ہے ؟ اور وہ تیرے ساتھ ہی ہے ناں ؟"
"ہاں امی۔ " اس کی آواز بھیگ گئی۔ " اسی کو تو کندھوں پر اٹھائے لا رہا ہوں۔ "
"کیا۔۔۔ ؟" بیگم صاحبہ کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔
"ہاں امی۔ " وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتا گیا۔ " وہ بالکل چپ ہو گیا ہے۔ بولتا ہے نہ چلتا ہے۔ خاموش لیٹا ہے۔ تابوت میں۔ " اس کی ہچکی بندھ گئی۔
" طاہر۔۔۔ " بیگم صاحبہ کے ہاتھ سے ریسیور گر پڑا۔
طاہر نے موبائل آف کیا اور بازو آنکھوں پر رکھ کر سسکیاں بھرنے لگا۔ اس کا دل ایسا رقیق تو کبھی بھی نہ تھا۔ نجانے کیوں آج کل وہ بات بے بات رونے لگتا تھا۔
ایک گھنٹے کا راستہ چالیس منٹ میں طے ہوا۔ عصر اتر رہی تھی جب وہ اس عارضی پتن پر جا پہنچے۔ پتن پر اس وقت بھی خاصے مسافر تھے۔ کشتیاں ایک درجن سے زائد موجود تھیں۔ طاہر نے ایک کشتی والے سے خود بات کی۔
"بابا شاہ مقیم تک جانا ہے بھئی۔ چلو گے؟"
" کتنے جی ہیں ؟" ملاح نے تابوت کی طرف نگاہ اٹھائی۔ "اور اس میں کیا ہے جی؟"
"پانچ جی ہیں اس تابوت سمیت۔ اور اس میں۔۔۔" طاہر کا حلق درد کر اٹھا۔ "اس میں ایک شہید ہے۔ "
"سو بسم اللہ جی۔ کیوں نہیں چلیں گے۔ آ جائیں جی، آ جائیں۔ " ملاح نے عقیدت سے کہا اور آگے بڑھ کر نصیر اور خادم حسین کے ساتھ مل کر تابوت کشتی میں رکھوانے لگا۔
چاروں عشاق ان دونوں سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو گئے۔ طاہر اور آدیش اگلے حصے میں جبکہ ریحا تابوت کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ ملاح نے جھک کر تابوت کو بوسہ دیا اور پتن پر کھڑے اپنے ساتھیوں کی طرف منہ کر کے بولا۔
"اوئے شیدو۔ گھر پر بتا دینا میں رات دیر سے لوٹوں گا۔ "
"ارے فیقی۔ تو کہاں چل دیا۔ میں ادھر تیری دیہاڑی لگوانے کی بات کر رہا ہوں۔ " شیدو دو قدم اس کی طرف چلا۔
"میرا دیہاڑا لگ گیا ہے ری۔ " فیقا ہنسا۔ " ایسا دیہاڑا جس میں نفع ہی نفع ہے۔ نصقان ہے ہی نہیں جانی۔ اللہ راکھا۔ " اس نے کشتی پانی میں دھکیل دی۔ پھر اچھل کر کشتی میں سوار ہوا اور چپو سنبھال لئے۔ سیلاب کا پانی خاصا کم ہو چکا تھا مگر اب بھی کشتی چلنے کے لئے کافی تھا۔
ریحا نے تابوت پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ آدیش پہلو کے بل نیم دراز ہو گیا اور طاہر نے چھل چھل کرتے پانی پر نگاہیں جما دیں۔ وہ اپنے اس فیصلے پر غور کر رہا تھا جس کے تحت اس نے اچانک بابا شاہ مقیم کے مزار پر، درویش کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسے اب تک یہ پتہ نہ چل سکا تھا کہ وہ کون سا احساس تھا جو اس فیصلے کے روپ میں ایک دم اس پر حاوی ہو گیا تھا اور اس نے سوچے سمجھے بغیر اس پر عمل کر ڈالا۔ وہ کونسی طاقت تھی، جس نے اس کا راستہ بدل دیا تھا۔
اسی وقت ملاح نے تان لگائی اور اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ ملاح کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ اس کے دل و دماغ میں اودھم مچا رہے تھے۔
آ یا ماہی میرے ویہڑی
دُکھ دساں میں کیہڑے کیہڑی
بولے نہ بولے، واری جاواں
بس رکھے قدماں دے نیڑی
آیا ماہی میرے ویہڑی
شام ڈھل چکی تھی نیم اندھیرے جب نور پور کا وہ ٹبہ طاہر کو دور سے دکھائی دے گیا جہاں حافظ عبداللہ روزانہ آ کر منزل کیا کرتا تھا۔ اور ایک عجیب بات اور نظر آئی کہ بابا شاہ مقیم کا مزار روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ بجلی آ گئی تھی وہاں۔ اس نے ملاح کو ٹبے کی طرف جانے کو کہا۔ پھر ٹبے کو غور سے دیکھا تو اسے وہاں کچھ ہلچل محسوس ہوئی۔ اس کا دل سینے میں زور سے دھڑکا۔ وہاں کوئی موجود تھا۔ مگر کون؟ اس کا دل گواہی دے رہا تھا کہ وہاں جو کوئی بھی ہے، اس کے لئے اجنبی نہیں ہے۔
کشتی جونہی ٹبے کے قریب پہنچی، اس پر سب روشن ہو گیا۔ وہ درویش ہی تو تھا جو ٹبے سے اتر کر پانی کے کنارے کھڑا باہیں پسارے اسے پکار رہا تھا۔
"پگلی۔ آ گیا تو۔۔۔ لے آیا میرے دولہے کو۔ ارے دلہن بھی ہے ساتھ میں۔ " وہ جیسے حیرت سے بولا۔
آدیش اور ریحا اس کی باتوں پر حیران ہو رہے تھے۔ طاہر سر جھکائی، دانت بھینچے اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ نجانے کیوں اس کا جی چاہ رہا تھا وہ چیخ چیخ کر روئی۔ یوں روئے کہ جیسے اسے چپ کرانے والا کوئی نہیں رہا۔
ملاح نے کشتی ٹبے کے پاس روکی۔ پانی میں اترا۔ رسہ کھینچ کر کشتی کنارے پر لگائی۔ طاہر نے کنارے پر قدم رکھا تو درویش نے اسے باہوں میں بھر لیا۔ اس کا ماتھا چوم لیا۔
"نہ ری۔ روتا کیوں ہے۔ پگلے کا پگلا ہی رہا۔" وہ اس کا َچہرہ ہاتھوں میں تھام کر بولا۔ "ارے زندوں کے لئے رونا گناہ ہے۔ جانتا نہیں کیا؟"
طاہر نے اثبات میں سر ہلایا اور ہچکیاں لے کر رو دیا۔ اس کا دل بس میں تھا ہی کب جو وہ درویش کی بات سہہ پاتا۔
"بس بس۔ آ، اسے کشتی سے اتاریں۔ وہ انتظار کر رہا ہے ہمارا۔ " درویش نے اس کا بازو تھاما اور ملاح کے پاس پہنچا، جو ان کا منتظر کھڑا تھا۔
"لا بھئی نصیباں والیا۔ ہماری امانت اتار دے۔ " درویش نے کہا تو ملاح نے "بسم اللہ" کہہ کر طاہر اور درویش کے ساتھ مل کر تابوت کشتی سے اتار کر ٹبے پر رکھ دیا۔ ریحا کو بازو سے لگائے کھڑا آدیش خاموشی سے سب کچھ دیکھتا رہا۔
طاہر نے خود کو سنبھالا۔ جیب سے پرس نکالا کہ ملاح نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"سوہنیو۔ ساری کمائی خود ہی کر لو گے۔ کچھ ہمیں بھی کما لینے دو۔ "
طاہر نے ملاح کو حیرت سے دیکھا۔
"ٹھیک کہتا ہے یہ پگلا۔ " درویش نے ملاح کا شانہ تھپکا۔ " جا بھئی جا۔ تیری منظوری ہو گئی۔ جا شاواشی۔ موجاں مان۔ دیہاڑا لگایا ہے تو نے دیہاڑا۔ جا بال بچے میں جا۔ "
ملاح انہیں دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا۔ تب ایک دم طاہر کو احساس ہوا کہ ریحا اور آدیش بالکل چپ کھڑے ہیں۔
"بابا۔ یہ۔۔۔ " طاہر نے ان کے بارے میں بتانا چاہا۔
"کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ آ جا۔ ادھر کتنے ہی لوگ کب سے تم سب کا انتظار کر رہے ہیں۔ آ جا۔ " درویش نے کہا۔ پھر ریحا کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ " سسرال آ گئی ہے دھی رانی۔ "
اور نجانے کیا ہوا کہ چیخیں مار کر روتی ہوئی ریحا درویش کے سینے سے لگ گئی۔ اس کی ہچکیاں بتاتی تھیں کہ کتنے آنسو تھے جو اس نے سینے میں روک رکھے تھے۔ آج بند ٹوٹا تو سب کچھ بہا لے گئی۔ صبر، قرار، چین۔ سب کچھ۔
"بس بس۔ میری دھی بس۔ سارے آنسو ابھی بہا دے گی کیا؟ انہیں سنبھال کے رکھ۔ ساری زندگی پڑی ہے۔ کہیں کم نہ پڑ جائیں۔ " وہ اس کا سر تھپکتا رہا۔ آخر ریحا کو سکون آیا۔ تب درویش نے اسے الگ کیا اور آدیش کی طرف دیکھا۔
"تو بڑا قسمت والا ہے اللہ والیا۔ چل۔ آ جا۔ لے چل میرے دولہا کو پنڈال میں۔ آ جا۔ "
نم دیدہ آدیش نے طاہر کے ساتھ مل کر سرمد کا تابوت اٹھایا اور بابا شاہ مقیم کے مزار کی طرف چل پڑی۔ درویش سب سے آگے اور ریحا ان سب کے پیچھے سر جھکائے چل رہے تھے۔
مزار کے پاس پہنچے تو طاہر کے قدم من من کے ہو گئے۔ اس سے چلنا مشکل ہو گیا۔ آنکھیں ایک بار پھر دھندلا گئیں۔ ہونٹ دانتوں میں دبانے پر بھی پھڑکتے رہے۔ اس کا حلق آنسوؤں سے لبالب ہو گیا۔ درد کی لہر خار بن کر سینہ چیرنے لگی۔
مزار کے باہر وہ سب کھڑے تھے۔ بے حس و حرکت۔ مجسموں کی طرح ایستادہ۔ ایک دوسرے کو سنبھالا دینے کی کوشش کرتے ہوئی۔ مگر یہ بتانے کی ضرورت کسے تھی کہ وہ ایک لٹے ہوئے قافلے کے مسافر تھی۔
٭
سرمد کا تابوت مزار کے سامنے برگد کے درخت تلے رکھ دیا گیا۔ وہاں تک مزار کے دروازے پر لگا بلب روشنی دے رہا تھا۔ ارد گرد کی ہر شے صاف دکھائی رہی تھی۔ طاہر تابوت رکھ کر سیدھا ہوا تو ڈاکٹر ہاشمی لرزتے کانپتے اس کے شانے سے آ لگے۔
"لے آئے میرے سرمد کو۔ " ان کے لبوں سے کپکپاتی ہوئی آواز نکلی۔ طاہر نے تڑپ کر انہیں اپنے سینے میں چھپا لیا۔ قابلِ رشک صحت کے مالک ڈاکٹر ہاشمی کا جسم ایک بیمار بچے کا سا ہو رہا تھا۔ ہڈیوں کا وہ ڈھانچہ اگر ڈاکٹر ہاشمی تھا تو طاہر کے لئے اس پر یقین کرنا مشکل تھا۔
"انکل۔۔۔ " وہ ضبط کھو بیٹھا۔
"رو لو۔ خوب رو لو۔ " درویش نے ان کے قریب آ کر کہا۔ " یہ آنسو محبت کے ہیں۔ دُکھ کے ہیں تو خوب رو لو لیکن اگر پچھتاوے کے ہیں تو ان کو روک لو۔ گناہ بن جائے گا تمہارا یہ رونا۔ میرے دولہے کے لئے بوجھ نہ بنانا ان آنسوؤں کو۔ "
"نہیں بابا۔ " ڈاکٹر ہاشمی طاہر کے سینے سے الگ ہو گئے۔ " پچھتاوا کیسا؟پھر بھی اولاد تو ہے ناں۔ "
"ہاں۔ اولاد تو ہے۔ " درویش نے ڈاکٹر ہاشمی کی آنکھوں میں دیکھا۔ " مگر کیسی اولاد ہے بابا، جس نے تیرا سر دونوں جہانوں میں فخر سے اونچا کر دیا۔ ارے کیسا نصیبوں والا ہے تو۔ کچھ پتہ ہے تجھے؟ آنسو بہا مگر اس خوشی پر بہا کہ اللہ نے، اس کے حبیب نے تیری اولاد کو اپنے لیے چُن لیا۔ "
ڈاکٹر ہاشمی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آنکھیں خشک کرنے لگے۔ اتنے ہی دنوں میں ان کی کمر جھک گئی تھی۔ وہ ایک دم بوڑھے ہو گئے تھے۔
اب اس کے سامنے بیگم صاحبہ اور صفیہ کھڑی تھیں۔ بیگم صاحبہ سفید لباس اور سفید چادر میں کوئی پاکیزہ روح لگ رہی تھیں۔ اسے سینے سے لگا کر دل کی پیاس بجھائی۔ ماتھا چوما اور آنسو اپنے پونچھنے لگیں۔
"صفو۔ " اس نے روتی ہوئی صفیہ کی جانب دیکھا۔ وہ بلک کر اس کے سینے سے لگ گئی۔
یہ آنسو کیا کچھ نہ کہہ رہے تھے؟ دونوں سن رہے تھے۔ سمجھ رہے تھے۔
"طاہر صاحب۔ " ایک آواز سن کر اس نے صفیہ کو خود سے الگ کیا اور گردن گھمائی۔ حافظ عبداللہ، سکینہ کے ساتھ اس کے بائیں طرف کھڑا تھا۔ طاہر نے اسے بھی گلے لگایا۔ سکینہ سر جھکائے چپ چاپ کھڑی رہی۔ حافظ عبداللہ نے اپنا لنجا ہاتھ بڑھایا تو طاہر نے اسے دونوں ہاتھوں میں تھام کر چوم لیا اور آنسو بہاتی سکینہ نجانے کیوں مسکرا پڑی۔
درویش نے سرمد کا تابوت، حافظ عبداللہ کے ساتھ مل کر اٹھایا اور آگے لا کر مزار کے پاس پوری طرح روشنی میں رکھ دیا۔ طاہر کے وضو کر کے لوٹ آنے پر درویش نے تابوت کے سرہانے کھڑے ہو کر اس کی جانب دیکھا جو اس سے کچھ دور رک گیا تھا۔
"پگلے۔ تو نے مجھ سے عشق کے قاف کے بارے میں پوچھا تھا۔ یاد ہے ناں ؟ "
" ہاں بابا۔ " طاہر نے اس کی جانب دیکھا۔
"تو لی۔ آج عشق کے قاف سے بھی آشنا ہو جا۔ " درویش نے آنکھیں بند کر لیں۔ "عشق کا قاف۔۔۔ تجھے یاد ہے پگلے۔ سرمد کے آخری الفاظ کیا تھے؟"
"ہاں بابا۔ " طاہر نے آنکھیں بند کر کے جیسے کچھ یاد کرنا چاہا۔
"تو دہرا ذرا ان کو۔ " درویش کی آنکھیں بھی بند ہو گئیں۔ حافظ عبداللہ، آدیش اور ڈاکٹر ہاشمی خاموشی بھری حیرت مگر پورے دھیان سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ سکینہ، صفیہ اور ریحا کا بھی یہی حال تھا۔
" اس نے کہا تھا۔ قل ھواللہ احد۔۔۔ "
"تو عشق کا قاف سمجھ میں نہیں آیا اس وقت تجھے؟" ایک دم درویش نے آنکھیں کھول دیں۔
"بابا۔۔۔ " طاہر کا اندر باہر جیسے روشن ہو گیا۔ اس نے ایسی نظروں سے درویش کو دیکھا جن میں حیرت کے ساتھ ساتھ ادراک کی لپک بھی تھی۔
"ہاں رے۔ " درویش کے ہونٹوں پر بڑی پُراسرارمسکراہٹ تھی۔ " عشقِ مجازی جب انسان کا ہاتھ عشقِ حقیقی کے ہاتھ میں دیتا ہے تو شہادت مانگتا ہے اس کے ایک ہونے کی۔ اس کے احد ہونے کی۔ اس کے لاشریک ہونے کی۔ جانتا ہے کیوں پگلے؟"درویش نے اس کی جانب مستی بھری نگاہوں سے دیکھا۔
"کیوں بابا؟" طاہر نے یوں پوچھا، جیسے کسی سحر میں گرفتار ہو۔ اس کی آواز میں عجیب سا کیف چھلک رہا تھا۔
"اس لئے کہ عشق کی انتہا ہے عشق کا قاف۔ وہ جو عشق کا سب سے پہلا مبتلا ہے اس نے جب چاہا کہ خود کو دیکھے، تو اس نے اپنے نور سے ایک مٹھی بھری اور کہا۔ "محمد ہو جا۔ " اور جب اس کا اپنا نور مجسم ہو کر اس کے سامنے آ یا تو وہ خود اپنے نور پر عاشق ہو گیا۔ اس نے اپنے نور کو اپنا حبیب بنا لیا۔ کہا۔ "میرا حبیب ہو جا۔ "پھر دوئی کا تصور تک مٹانے کے لئے، اس نے اپنے حبیب سے اپنے ہونے کی، اپنے احد ہونے کی، اپنے واحد ہونے کی شہادت چاہی اور کہا۔ "قل (کہہ دے)۔ "
حبیب نے پوچھا۔ "کیا کہہ دوں ؟"
محب نے فرمایا۔ "قل ھو اللہ احد۔۔۔ کہہ دے شہادت دے کہ اللہ ایک ہے۔ "
حبیب نے شہادت دی اس کی وحدانیت کی۔ اس کے لا شریک ہونے کی۔ اس کے احد ہونے کی۔ اس کے خالق ہونے کی۔ اس کے معبود ہونے کی۔ اس کی وحدانیت کی گواہی دینا اس کے حبیب کی سب سے پہلی سنت ہے۔
* * *
پھر جب اس نے آدم کو بنایا تو اس میں عشق کا یہ جذبہ سب سے پہلے ودیعت کیا۔ عشق۔۔۔ اسی خالقِ واحد کی سنت ہے جسے جو اختیار کرتا ہے، اسے پہلے عشقِ مجازی کی سیڑھی چڑھنا پڑتی ہے۔ عشق کے عین یعنی عبادت، عجز اور عبودیت کے بعد عشق کے شین یعنی شک کی باری آتی ہے۔ تب بندے کو سمجھایا جاتا ہے کہ اپنے خلوص میں ، اپنے جذب میں ، اپنے عشق کی انتہا کے بارے میں ہر وقت اس شک میں مبتلا رہے کہ ابھی اس میں کچھ کمی ہے۔ اس شک سے اپنے عشق کو مہمیز کرتا رہی۔ بتایا جاتا ہے کہ جس سے عشق کیا جاتا ہے اس کی توجہ پانے کے لئے، اس کی نظر میں جگہ پانے کے لئے اس کی عزیز ترین شی، جس سے وہ خود بے پناہ پیار کرتا ہو، کو اپنا حبیب بنا لیا جائے۔ پگلے۔ یہ وہ پڑاؤ ہے جس کے بعد منزل ہی منزل ہے۔ اللہ کا حبیب جس کے لئے اس نے کائنات یہ کہہ کر بنائی کہ "اے حبیب۔ اگر ہم نے آپ کو پیدا نہ کرنا ہوتا تو کچھ بھی نہ بناتے"۔ بندہ اس پڑاؤ پر اپنے معبود کے محبوب کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اپنے عشق، اپنے جذبے، اپنے خلوص میں کمی کا شک انسان کو اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں انسان اپنے اللہ کے حبیب کے عشق میں یوں بے خود ہو جاتا ہے کہ سمیعہ جان ہار کر اسلام کی پہلی شہید ہونے کا اعزاز پاتی ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جان دینا قبول کر لیتی ہیں مگر اپنے حبیب کے بارے میں ناگوار کلمہ زبان پر لانا پسند نہیں کرتیں۔ تب اپنے بندے کو اپنے حبیب کے عشق میں مجذوب دیکھ کر محبوبِ برحق اس کے لئے عشق کا تیسرا پردہ بھی اٹھا دیتا ہے اور۔۔۔۔ اس مقام پر عشق کا قاف نمودار ہوتا ہے۔ تب بلال " احد احد " پکارتا ہے۔ اسے تپتی ریت پر لٹایا جاتا ہے۔ دہکتے انگاروں پر ڈالا جاتا ہے۔ ناک میں نکیل دے کر بازاروں میں گھمایا جاتا ہے۔ کانٹوں پر گھسیٹا جاتا ہے۔ کوڑوں سے کھال ادھیڑی جاتی ہے مگر ۔۔۔ اس کے لبوں سے احد احد کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔۔۔ قل ھو اللہ احد۔۔۔ عشق کا قاف نمودار ہوتا ہے تو حسین کے گلے پر خنجر چلتا ہے مگر احد احد کی پکار ہر قطرہ خون سے بلند ہوتی ہے۔ تن سے جدا ہو جاتا ہے مگر سر نیزے پر آویزاں ہو کر بھی قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ یہ تلاوت وہ پیار بھری، محبت بھری گفتگو ہے جس کا عنوان عشق کا قاف ہے۔ عشق کا قاف جس پر نازل ہو جاتا ہے ناں۔ اسے کسی دُکھ، کسی تکلیف کا احساس نہیں رہتا۔ اسے ہر درد میں لذت اور ہر چوٹ میں سرور ملتا ہے۔ عشق کے قاف کی مستی ہی ایسی ہے کہ جسے اپنی باہوں میں لے لے اسے اپنے معبود کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اور جسے اس کے سوا کچھ نہیں سوجھتا وہ اس کے حضور مقبول ہونے کے لئے کیا کرے۔ اپنی جان نہ دے دے تو کیا کرے؟" درویش کے لبوں سے چیخ کی صورت ایک نعرہ مستانہ نکلا اور اس نے اپنا گریبان تار تار کر ڈالا۔
"بابا۔ " طاہر نے بمشکل پلکیں وا کیں۔ اسے لگ رہا تھا اس کی آنکھوں پر مستی کا، سرور کا، کیف کا بے اندازہ بوجھ ہے جو اس سے اٹھائے نہیں اٹھ رہا۔
"ہاں۔ " وہ پھر چیخا۔ " وہ اس پر اپنی جان نہ دے دے تو کیا کرے۔ اس سے بڑھ کر اس کے پاس ہے کیا جو وہ اس کی نذر کرے۔ " وہ روتا ہوا گھٹنوں کے بل گر پڑا۔
"قل ھو اللہ احد۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ اس کے واحد، محبوبِ اول اور عزیز ترین ہونے کی شہادت۔ اور شہادت لکھی کس سے جائے گی پگلی۔ خون سے۔ اپنے خون سے۔ زبانی کہہ دینا کیا کافی ہوتا ہے؟ نہیں۔ ہر گز نہیں۔ شہادت دی ہے تو اسے لکھا بھی جائے گا اور عشق، اپنے عاشق کو اپنی دلہن تب مانتا ہے جب سرخ جوڑا پہن کر شہادت دی جائے۔ اپنے خون میں ڈبویا ہوا سرخ جوڑا۔ عشق کا قاف۔۔۔ قل ھواللہ احد۔۔۔ اس کی وحدانیت کی گواہی۔ اس کے لاشریک ہونے کی گواہی۔ اس کے محبوب ترین ہونے کی گواہی۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ " درویش کہتا ہوا زمین پر سر بسجود ہو گیا۔ ایک لمحے بعد طاہر بھی لہراتا ہو ا اس کے قریب ڈھیر ہو گیا۔
سب لوگ گونگے بہرے بنے چپ چاپ کھڑے دیکھ رہے تھے۔ سن رہے تھے۔ کسی کے جسم و جان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ آگے بڑھ کر ان میں سے کسی ایک کو بھی اٹھاتا۔
پھر حافظ عبداللہ نے اپنی جگہ سے حرکت کی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان کے قریب آیا اور جھجکتے جھجکتے درویش کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ پھر گھبرا کر ایک دم اس نے ہاتھ کھینچ لیا۔ اسے لگا جیسے اس نے جلتا ہوا انگارہ چھو لیا ہو۔
اسی وقت درویش کے جسم میں حرکت ہوئی۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور اشکوں میں تر اس کا چہرہ دیکھ کر ان کے دل موم کی طرح پگھل گئی۔ ان کا جی چاہا، اس نرم و گداز چہرے کو دیکھتے رہیں۔ تکتے رہیں۔
درویش نے پاس پڑے طاہر کی جانب دیکھا اور اس کی آنکھوں میں بے پناہ پیار امڈ آیا۔ اس نے طاہر کے شانے پر ہاتھ رکھا۔
"پگلے۔ " دھیرے سے اس نے پکارا۔ "ابھی بات باقی ہے رے۔ اٹھ جا۔ "
اور طاہر زمین سے اٹھ گیا۔ اس کا چہرہ۔۔۔ اس کا اپنا چہرہ لگتا ہی نہ تھا۔ عجیب سا نور چھایا ہوا تھا اس پر۔ آنکھیں بڑی مشکل سے کھول کر اس نے درویش کی جانب دیکھا۔
"اٹھ جا رے۔ " درویش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑ اکر دیا۔ " آ۔ اب آخری بات سمجھا بھی دوں تجھے اور دکھا بھی دوں۔ "وہ اس کا ہاتھ تھامے تابوت کے سرہانے آ کھڑا ہوا۔
"تم سب لوگ بھی آ جاؤ۔ کیا اپنے شہید کا، عشق کے قاف کے گواہ کا دیدار نہ کرو گے؟"
درویش نے کہا تو سب لوگ یوں دبے پاؤں چلتے ہوئے تابوت کے پاس آ گئے، جیسے ان کی ذرا سی آہٹ سرمد کے آرام میں خلل ڈال دے گی۔ حافظ عبداللہ، آدیش اور ڈاکٹر ہاشمی درویش کے بالکل سامنے اور سکینہ، ریحا، بیگم صاحبہ اور صفیہ تابوت کے پیروں کی جانب تھیں۔
"وہ جو عشق کا خالق ہے۔ جب اس کا بندہ اس کے عشق کے قاف، اس کی وحدانیت کی گواہی اپنے خون سے دیتا ہے ناں تو وہ اس کے لئے پہلا انعام تو یہ رکھتا ہے کہ وہ اس سے راضی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے حضور اذنِ باریابی دے دیتا ہے۔ " درویش نے ایک انگلی اٹھائی۔
"دوسرا انعام یہ دیتا ہے کہ اس کی شہادت، اس کی گواہی دینے پر اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اس کی شہادت، اس کی قربانی قبول فرما لیتا ہے۔ "اس نے دوسری انگلی اٹھائی۔
"اور تیسرا انعام یہ دیتا ہے کہ اپنے شہید کو عمرِ جاوداں ، ابدی زندگی، لازوال حیات عطا کر دیتا ہے۔ وہ بظاہر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اسے قبر میں بھی اتار دیا جاتا ہے مگر وہ فرماتا ہے کہ "جو اس کی راہ میں شہید کئے جائیں ، انہیں مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں۔ انہیں اس کے ہاں سے رزق دیا جاتا ہے مگر ہم لوگوں کو ان کی زندگیوں کا شعور نہیں۔ " درویش نے تیسری انگلی اٹھائی۔
سب لوگ حیرت سے بُت بنے درویش کی جانب دیکھ رہے تھے۔ اس کی باتیں ان کے دلوں میں اتر رہی تھیں۔ کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ جی چاہتا تھا وہ کہتا رہے اور یہ سنتے رہیں۔ عمر تمام ہو جائے مگر اس کی بات نہ رکے۔
"وہ جو کہتا ہے اس کا دوسرا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔ " درویش نے ان کے خوابیدہ چہروں پر نگاہ ڈالی۔ " اگر اس نے کہا کہ شہید زندہ ہے تو وہ زندہ ہے۔ یہ دیکھو۔ "
درویش نے تابوت سے تختہ اٹھا دیا۔
وقت رک گیا۔ لمحے ساکت ہو گئی۔ ہر شے کو قرار آ گیا۔ صرف ایک انجانی خوشبو تھی جو ان کے سروں پر تھپکیاں دے رہی تھی۔ انہیں اندر باہر سے جل تھل کر رہی تھی۔ ان کے چاروں طرف، اوپر نیچے، ہر طرف اسی ایک مہک کا راج تھا۔
ان کی نظروں کے سامنے سرمد کا چہرہ کیا آیا، دل دھڑکنا بھول گئے۔ پلکوں نے حرکت کرنا چھوڑ دیا۔ دماغوں سے شعور کی گرفت ختم ہو گئی۔ ان کے جسم تنکوں سے ہلکے ہو کر جیسے ہوا میں اڑنے لگے۔ وہ حیرت اور عقیدت کے سمندر میں غوطے کھا رہے تھے۔
گلاب جیسے ترو تازہ سرمد کے لبوں پر ایک ابدی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اس کے جسم کے ہر زخم سے خون رِس رہا تھا۔ رِس رِس کر تابوت کی تہہ میں جم رہا تھا۔ اس کے دل کے زخم پر مانیا نے شال کا جو ٹکڑا باندھا تھا، وہ اب بھی زخم سے نکلنے والے خون میں تر ہو رہا تھا۔ ایک لازوال سکون کے ہالے میں دمکتے سرمد کے چہرے سے یوں لگتا تھا کہ وہ ابھی آنکھیں کھول دے گا۔ ابھی بول اٹھے گا۔ ڈاکٹر ہاشمی نے حافظ عبداللہ کا ہاتھ تھام کر اپنے امڈ آنے والے آنسوؤں کو راستہ دے دیا۔ بیگم صاحبہ کی نم آنکھیں ، سکینہ کی آنکھوں میں چھاتی ہوئی دھند اور۔۔۔ صفیہ کا لرزتا کانپتا جثہ، اس بات کا شاہد تھا کہ ان میں سے کسی کو بھی سرمد کی موت کا یقین نہیں آ رہا۔
" یہ کیسے ہو سکتا ہے؟" اچانک آدیش کی آواز نے انہیں چونکا دیا۔ اس نے کہا اور ریحا کی طرف دیکھا، جو اسی کی طرح نظروں میں بے اعتباری لئے سرمد کے چہرے اور زخموں کو حیرت سے تک رہی تھی۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ اسی وقت درویش نے آدیش کی جانب نگاہ کی۔
"کیا نہیں ہو سکتا رے؟ کچھ ہمیں بھی تو بتا۔ " اس کے ہونٹوں پر بڑی پُراسرار مسکراہٹ تھی۔ اس نے آہستہ سے ساتھ کھڑے طاہر کا ہاتھ تھام کر ہولے سے تھپتھپایا جس کے چہرے پر حیرت کے بجائے ایک فخر، ایک ناز دمک رہا تھا۔
"یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ " آدیش نے دایاں ہاتھ سرمد کے چہرے کی طرف دراز کر دیا۔ "یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ "
"کھل کر بول ناں۔ " درویش نے اسے ڈانٹا۔ "کیوں سب کو خلجان میں مبتلا کر رہا ہے۔ کیا نہیں ہو سکتا؟ بول۔ "
آدیش کا ہاتھ پہلو میں بے جان ہو کر گر پڑا۔ اس نے ایک نظر پاگلوں کی طرح سرمد کے چہرے کو تکتی ریحا کو دیکھا پھر سرمد کے چہرے پر نگاہ جما دی۔
"جس رات سرمد کو قتل کیا گیا، اس دن صبح میں نے اپنے سامنے اس کی شیو کرائی۔ خود اس کے ناخن تراشے تھے۔ اس بات کو آج آٹھ سے دس دن ہو چکے ہیں مگر ۔۔۔ "اس کی آواز حلق میں پھنس گئی۔
"مگر۔۔۔" درویش نے طاہر کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ "مگر آج اس کے ناخن بھی بڑھے ہوئے ہیں اور داڑھی بھی۔ کیوں ؟ یہی بات ہے ناں ؟"اس نے آدیش کی جانب بچوں جیسی خوشی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔۔۔ " آدیش کے لبوں سے سرگوشی سی نکلی۔
"یہی سیدھی سی بات تو میں سمجھا رہا ہوں تمہیں۔ " درویش نے مست آواز میں کہا۔ "میرے اللہ نے کہا کہ شہید وہ ہے جو اس کی راہ میں جان دے اور یہ کہ شہید زندہ ہے، اسے رزق دیا جاتا ہے۔ عشق کے قاف کا نکتہ سمجھانے کے لئے یہ شہید کہاں سے چل کر یہاں آیا ہے؟ کیا کسی مردے کے ناخن اور بال بڑھتے ہیں ؟ نہیں ناں۔ تو اور شہید کیسے بتائے کہ وہ زندہ ہے۔ کہو تو ابھی زبان سے اس کی وحدانیت کی گواہی دے دے۔ مگر سوچ لو کیا تم اسے برداشت کر سکو گے؟ کچھ اور ثبوت درکار ہے تمہیں ؟"
"نہیں بابا نہیں۔ " آدیش نے نفی میں سر ہلایا۔ " اب کسی گواہی، کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ روشن ہو گیا۔ سب کچھ عیاں ہو گیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ محمد اس کے رسول ہیں۔ " اس نے یوں کہا جیسے کوئی ماورائی طاقت اس سے کہلوا رہی ہے۔ " اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ " اس کے لبوں سے نکلا اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ گرتے گرتے اس کے ہاتھ تابوت کی دیوار پر آ ٹکی۔ اس نے ماتھا ہاتھوں کے درمیان تابوت کی دیوار پر ٹیک کر آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے ہونٹ اب بھی متحرک تھے۔
"سرمد۔۔۔ " اچانک ریحا کی بھیگی ہوئی سرگوشی نے ان سب کے حواس پر تھپکی دی۔ وہ تابوت میں لیٹے سرمد کے چہرے کو والہانہ دیکھے جا رہی تھی۔ " میں جان گئی تم زندہ ہو سرمد۔ میں تمہارے سامنے تمہارے سچے معبود کا کلمہ پڑھتی ہوں۔ وہ جس کا فرمان اتنا سچا ہے وہ خود کیسا سچا ہو گا؟ گواہ رہنا سرمد۔ میں نے تمہارے سامنے اس کی سچائی کا دامن تھاما ہے۔ " ایک پل کو رک کر اس نے سسکی لی۔ پھر کہا۔ " اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ۔ "
"جب بھی اس کے حبیب کا نام لو ریحا۔ اس پر درود ضرور بھیجو۔ سرمد کا آخری ورد یہی تھا۔ " آدیش نے سر اٹھایا اور ریحا کی جانب دیکھ کر کہا۔ "کہو۔ محمدرسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
"محمد رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ " ریحا نے بے اختیار کہا اور سرمد کے پیروں کی طرف زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
"واہ۔۔۔ واہ میرے رب۔ " درویش جھوم اٹھا۔ "کس کے نصیب میں کیا ہے اور اسے کہاں جا کر ملے گا، صرف تو جانتا ہے۔ صرف تو۔ "پھر اس نے حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔ "حافظ۔ جا۔ ان کو وضو کرا لا۔ رات بہت جا چکی ہے۔ اب شہید سے اجازت لے لیں۔ "
حافظ عبداللہ آدیش اور ریحا کو لے کر ہینڈ پمپ کی طرف چل دیا۔
"کیوں بابا۔ " درویش نے جھکی کمر کے ساتھ کھڑے ڈاکٹر ہاشمی کی جانب مسکرا کر دیکھا۔ "کچھ قرار آیا۔ کچھ چین ملا۔ کچھ سکون ہوا؟"
"ہاں بابا۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے کمر پر ہاتھ رکھ کر سیدھا ہوتے ہوئے کہا۔ "اب کوئی دُکھ نہیں۔ کوئی غم نہیں۔ اولاد کے چلے جانے کی پھانس تو آخری دم تک دل میں کسک بن کر چبھتی رہے گی مگر ۔۔۔ " انہوں نے سرمد کے پُرسکون چہرے کو یوں دیکھا جیسے اس کی شبیہ دل میں اتار لینا چاہتے ہوں۔ " اب بے قراری نہیں رہی۔ چین آ گیا ہے۔ سرمد نے مجھے ایک شہید کا باپ ہونے کا جو اعزاز دلایا ہے، اس کے بعد اب کوئی بے چینی، کوئی بے سکونی نہیں رہی۔ میرے اللہ۔ " انہوں نے آسمان کی جانب دیکھا۔ " تیرا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ پھر بھی اپنے اس ناقص بندے کا شکر قبول فرما۔ الحمد للہ۔ الحمد للہ۔ الحمد للہ۔ " انہوں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر پیشانی ان پر ٹکا دی اور سر جھکا لیا۔
درویش جو انہیں مسکراتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا، ایک دم چونک پڑا۔ اس نے ٹبے کی طرف سے آنے والے راستے پر نگاہ جمائی۔ پھر بڑبڑایا۔ "وقت ہو گیا بابا۔ " پھر اس نے حافظ عبداللہ کے ساتھ وضو کر کے لوٹتے ان دونوں کو دیکھا۔ وہ پاس آ گئے تو درویش نے اپنے کندھے سے رومال اتارا اور ریحا کے سر پر دوپٹے کی طرح ڈال دیا۔ اس کا چہرہ یوں چھپ گیا جیسے اس نے گھونگٹ نکال لیا ہو۔
"سب لوگ شہید کا آخری دیدار کر لو۔ رخصتی کا وقت ہو گیا ہے۔ " درویش نے ذرا اضطراب سے کہا اور خود تابوت سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
وہ ایک دائرے کی شکل میں سرمد کے گرد آن کھڑے ہوئی۔ ان کا جی ہی نہ بھرتا تھا۔ مگر کب تک۔ آخر کتنی ہی دیر بعد نہ چاہتے ہوئے بھی سسکیوں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے وہ ایک طرف ہٹ گئے۔ ڈاکٹر ہاشمی نے جھک کر سرمد کے ماتھے پر بوسہ دیا اور طاہر انہیں پرے لے گیا۔ بیگم صاحبہ نے سرمد کے گال کو چھو کر اپنی انگلیاں چوم لیں۔ سکینہ نے اسے سر جھکا کر سلام کیا اور صفیہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتی ہوئی الٹے پاؤں لوٹ گئی۔
آدیش نے سرمد کو سیلوٹ کیا۔ جھک کر اس کے پاؤں چھوئے اور ایک طرف تن کر کھڑا ہو گیا جیسے پہرہ دے رہا ہو۔
طاہر لوٹا۔ چند لمحے سرمد کے چہرے کو والہانہ دیکھتا رہا۔ پھر اس نے ریحا کی جانب دیکھا جو سرمد کے پیروں کی جانب آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑے ہاتھ باندھے یوں خاموش کھڑی تھی جیسے کوئی من ہی من میں اپنے دیوتا کی پوجا کر رہا ہو۔ طاہر نے سرمد کی اوپری جیب سے خون میں بھیگا ہوا رومال نکالا جس میں مدینہ شریف کی مٹی بندھی تھی اور درویش کی جانب بڑھا دیا۔ اس نے اسے کھولا۔ ہتھیلی پر رکھ کر غور سے دیکھا۔ مٹی سرمد کے خون سے بھیگی ہوئی تھی۔ اس نے اسے بوسہ دیا اور حافظ عبداللہ کی طرف بڑھا دی۔
"اسے شہید کی قبر کی مٹی میں ملا دو حافظ۔ "
حافظ عبداللہ نے چپ چاپ مٹی والا رومال لیا اور مزار کے صحن میں کھدی قبر کی طرف بڑھ گیا۔ مدینہ شریف کی مٹی۔ اللہ کے حبیب کے دیار کی مٹی۔ ایک عاشق کی قبر کی مٹی میں ملا دی گئی۔ نصیب ایسے بھی تو اوج پر آتے ہیں۔
اس وقت اچانک درویش ریحا کے قریب آیا۔ سرمد کے دل کے زخم سے رِستے لہو میں شہادت کی انگلی ڈبوئی اور وہ لہو ریحا کی مانگ میں بھر دیا۔
"سدا سہاگن رہو۔ سہاگ کا یہ جھومر سدا تمہارے ماتھے پر جگمگاتا رہے میری بچی۔ " درویش نے کہا اور ایک دم ریحا کا چہرہ کھل اٹھا۔ اس کے چہرے پر سرخی بکھر گئی۔ اشک برساتی آنکھوں میں مسکراہٹ کے دیپ جل اٹھے۔ اس نے آخری بار سرمد کے چہرے کو جی بھر کے دیکھا پھر آنکھیں موند کر پیچھے ہٹ گئی۔ وہ اس کے چہرے کو ہمیشہ کے لئے اپنے قصر تصور میں سجا لینا چاہتی تھی۔
تب طاہر نے جھک کر سرمد کے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے ہالے میں لیا۔ اسے پیار کیا اور دل پر جبر کر کے سیدھا کھڑا ہو گیا۔ درویش آگے بڑھا اور تابوت کا تختہ گرا دیا۔ پھر اس نے طاہر کے ساتھ مل کر تابوت کو ایک طرف یوں رکھا کہ اس کے پیچھے صف باندھ کر کھڑا ہونے کی جگہ کشادہ ہو گئی۔
" آؤ بھئی۔ نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔ " اس نے مردوں کو اشارہ کیا۔ ڈاکٹر ہاشمی، آدیش، طاہر اور حافظ عبداللہ اس کے پاس چلے آئی۔ عورتیں ان سے آٹھ دس فٹ دور برگد تلے خاموش کھڑی تھیں۔
"امامت آپ کرائیں بابا۔ " حافظ عبداللہ نے درویش کی جانب دیکھ کر کہا۔
"نہیں۔ " درویش نے اندھیرے میں ایک طرف نظریں گاڑ دیں۔ " امام وہ آ رہا ہے۔ " اس نے اشارہ کیا۔
ان چاروں نے حیران ہو کر اس طرف دیکھا۔ مزار کی پچھلی طرف سے آنے والے راستے پر کوئی چلا آ رہا تھا۔ سفید براق لباس میں اس کے سر پر سفید عمامہ اور اس پر سفید ہی رومال اس طرح پڑا تھا کہ اس کا چہرہ نظر آنا ممکن نہیں تھا۔ درویش نے ڈاکٹر ہاشمی اور آدیش اپنے کو بائیں اور طاہر اور حافظ عبداللہ کو دائیں کھڑا کر لیا۔
بڑے نپے تلے قدم اٹھاتا وہ شخص آیا اور "السلام علیکم و رحمت اللہ"کہتا ہواسیدھا سرمد کے تابوت کے سامنے امام کی جگہ جا کھڑا ہوا۔ چاروں عورتیں حیرت اور اچنبھے سے آنے والے کو دیکھ رہی تھیں۔ اور حیرت میں تو حافظ عبداللہ بھی گم تھا۔ اس نے یہ آواز پہلے بھی سنی تھی۔ مگر کہاں ؟ اس کا دماغ الجھ گیا۔
اسی وقت امام نے تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔
"اللہ اکبر۔ " اس کے لبوں سے بڑی گمبھیر سی آواز نکلی۔
"اللہ اکبر۔ " مقتدیوں کے لبوں سے ادا ہوا۔۔۔ اور مقتدیوں میں حافظ عبداللہ بھی تو تھا، جس کا دماغ یاد داشت کے ورق الٹ رہا تھا۔
"السلام علیکم و رحمت اللہ۔ " امام نے باری باری دائیں بائیں سلام پھیر ا۔ سب نے اپنی اپنی جگہ چھوڑ دی۔ امام نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور رومال میں چھپے چہرے کو اور بھی سینے پر جھکا لیا۔ پھر جب اس نے " آمین" کہتے ہوئے چہرے پر ہاتھ پھیرے تو ان سب نے بھی آمین کہہ کر دعا ختم کر دی۔ حافظ عبداللہ نے چاہا کہ آگے بڑھ کر اس پراسرار ہستی کو جا لے مگر جب تک وہ اپنے جوتے پہنتا، آنے والا "السلام علیکم و رحمت اللہ" کہہ کر رخصت ہو گیا۔ ان سب نے چاہا کہ اس کا رستہ روکیں۔ اس سے آگے بڑھ کر ملیں۔ مگر ان کے قدم من من بھر کے ہو گئے۔ پھر جب تک وہ لوگ ہوش میں آتے، جانے والا مزار کی دیوار کے ساتھ مڑ کر اندھیرے میں غائب ہو چکا تھا۔
اور اس وقت اچانک حافظ عبداللہ کو یاد آ گیا کہ اس نے یہ آواز کہاں سنی تھی؟اس کے ہوش و حواس میں طوفان برپا ہو گیا۔ یہ وہی آواز تو تھی جو اس نے اس وقت سنی تھی جب وہ سکینہ کو سیلاب کے پانی سے نکال کر لایا تھا۔ درویش کے کمرے کے باہر رکا تو اندر سے امام کی اسی آواز میں مغرب کی نماز میں قرات کی جا رہی تھی۔ وہ اس آواز کو ہزاروں لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔
"یہ۔۔۔ یہ کون تھے بابا؟" حافظ عبداللہ نے درویش کو بے قراری سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اس کی نظریں خالی رستے پر بار بار بھٹک رہی تھیں۔
"یہ۔۔۔ " درویش ہنسا۔ "اولیاء اللہ زندہ ہوتے ہیں حافظ۔ وہ خود زندہ ہے تو اس کے دوست بھی تو زندہ ہی ہوں گے ناں۔ مُردوں سے تو اس کی دوستی ہونے سے رہی۔ زندہ کی نماز زندہ ہی پڑھائے گا ناں۔ مسافر ہوتا تو قصر پڑھتا۔ مقیم تھا۔ پوری پڑھا کر گیا۔ "
حافظ عبداللہ کو تو پتہ نہیں اس بات کی سمجھ آئی یا نہیں ، مگر طاہر کا اندر باہر روشن ہو گیا۔ اس نے بابا شاہ مقیم کے مزار کی جانب دیکھا جو روشنیوں میں بقعہ نور بنا اسے مسکرا مسکرا کر تک رہا تھا۔ پلٹ کر اس نے درویش کی طرف دیکھا جس کے لبوں پر بڑی دل آویز مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ پھر اس کی دلوں کو چھو لینے والی آواز ابھری۔
"چلو بھئی۔ کندھا دو۔ شہید کو اس کے مسکن تک چھوڑ آئیں۔ "
طاہر جلدی سے آگے بڑھا۔ ان پانچوں نے تابوت کندھوں پر اٹھایا اور مزار کی طرف چل پڑی۔ جس کے صحن میں سرمد کا مسکن اس کا منتظر تھا۔ سرمد۔۔۔ جس پر عشق کا قاف نازل ہو گیا تھا۔ وہ سرمد، جو عشق کے قاف کی گواہی دینے کے لئے بڑی دور سے آیا تھا تھک گیا تھا۔ اب اسے آرام کرنا تھا۔
درویش سب سے آگے تھا۔ اس نے قدم اٹھایا اور بلند آواز میں صدا دی:
"کلمہ شہادت۔ "
"اشھد ان لا الٰہ الا اللہ۔ وحدہ، لا شریک لہ، و اشھد ان محمداً عبدہ، و رسولہ۔ "جواب میں ان کے ہونٹوں پر بے اختیار وردِ اکبر جاری ہو گیا۔
چہار جانب احدیت اور رسالت کے نور نے پر پھیلا دئیے۔ ہر دل کی دھڑکن میں یہی الفاظ سانس لے رہے تھے۔
دور آسمانوں میں فرشتے عشق کے قاف کے کشتہ کے استقبال کے لئے نغمہ سرا تھے:
"قل ھو اللہ احد۔ "
فرش سے عرش تک حور و غلماں زمزمہ پیرا تھے:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
دور برگد تلے صفیہ کے کندھے سے لگی کھڑی ریحا کا دل پھڑکا۔ اس کا سرمد پانچ کندھوں پر سوار اپنے گھر میں داخل ہو رہا تھا۔ ایک شفاف لہر اٹھی اور آنکھوں میں پھیلتی چلی گئی۔ منظر دھندلا گیا۔ تب اس نے محسوس کیا، کوئی اس کے کانوں کے قریب سرگوشیاں کر رہا ہے۔ اس نے آنکھوں میں امڈتے ہوئے چمکدار، بھیگے بھیگے غبار کو پلکیں جھپک کر رخساروں پر پھیلا دیا۔ کان لگا کر سنا۔۔۔ ارے۔ یہ تو اس کے سرمد کی آواز تھی۔ اس کے دل سے آ رہی تھی۔ دھیرے سے اسی مانوس مہک، اَن چھوئی خوشبو نے اسے اپنے ہالے میں لے لیا، جو اس صدا کا خاصا تھی اور غیر اختیاری طور پر اس صدا کا ساتھ دینے کے لئے ریحا کے ہونٹ بھی متحرک ہو گئی:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
٭٭٭