اب خزاں بھی واپس جانے والی ہے۔ اور سفیدے کے جنگل پر ہریالی اتر رہی ہے اور جھیل کے پرلے کنارے تک پھیل آئے ہیں۔ اور جب سبزبانس کا جھنڈ پانی کی سطح پر جھک کر ہوا میں ڈولتا ہے تو چپکے سے رونے کو جی چاہتا ہے۔ سفیدے کا چھوٹا سا جنگل اس طرح چپ چاپ کھڑا ہے۔ اور اسسی کی خانقاہ بھی اسی طرح خاموش اپنی جگہ پر موجود ہے اور کبھی کبھی کوئی راہ گیر پتوں کو روندتا سفیدے کے جھنڈ میں سے گذر جاتا ہے۔
میری کیسل! تم نے اس موسم ان سرخ پتوں اور اس راہ گیر کی تصویر کیوں نہیں بنائی۔ خزاں جا رہی ہے۔ اور راتوں کو مٹی میں سے پھولوں کی مہک نکلتی ہے اور وہ زمانہ آنے والا ہے۔ جب لوگ گھروں سے نکل کر پانی کے کناروں پر ٹہلتے ہیں اور پورب کے کھیتوں اور گیتوں کو یاد کرتے ہیں۔ وہ دن بھر سمر ہاؤس میں بیٹھی رہتی ہے اور پتے چاروں طرف اڑتے ہیں۔ اور اسسی کے گھنٹے جھیل کے پار اپنی متوازن یکسانیت سے بجتے رہتے ہیں۔
ابھی ڈوپی آئے گا۔ اپنا گھوڑا درخت کے نیچے باندھ کر لمبے لمبے بے فکر قدم رکھتا گھر کی طرف مڑے گا اور چائے پینے کے بعد شام کو پھر شہر کی طرف نکل جائے گا۔
فضا میں بہار کی نئی ہواؤں نے منڈلانا شروع کر دیا ہے اور بانس کی ٹہنیاں آہستہ آہستہ سرسرا رہی ہیں۔ میں سوئٹزر لینڈ جا رہی ہوں۔ وہ خط میں لکھتی ہے۔ میں سوئٹزر لینڈ جا رہی ہوں وہاں سے بیلجیم چلی جاؤں گی۔ عطیہ آج کل وہیں ہے اور کتابیں لکھنے میں مصروف۔ وہ پچھلی بین الاقوامی آرٹ کی نمائش کے لیے گئی تھی۔ اور اب تک نہیں لوٹی۔ لکھتے ہی وہ خط کو پرزے پرزے کر کے کسی گملے کے پیچھے پھینک دیتی ہے جہاں ایک بڑی سبز مکھی کھڑکی کے شیشوں سے ٹکرا کر بھنبھنا رہی ہے اور اس کی آواز باہر کی ہواؤں کی گونج میں مل جاتی ہے۔ میں سوئٹزر لینڈ ہر گز نہیں جا رہی ہوں۔ وہ لکھتی ہے۔ اس کے لیے سب جگہیں ایک سی ہیں۔ لندن۔ چنکنگ۔ روم۔ روم جہاں شکنتلا ہے۔
اندھیرا گرتا آ رہا ہے اور شام کی ہوائیں بہ رہی ہیں۔ سمر ہاؤس کے باہر سایہ دار راستے کے پتوں میں مدھم سا بلب جھلملا اٹھا ہے۔ اور اس روش پر اجالا پھیل گیا ہے۔ جو گھر کی طرف جاتی ہے۔
وہ سمر ہاؤس میں بیٹھی ہے۔ اور بہار کی آمد آمد ہے۔ جھیل کے پار اسسی کے باغ پر خاموشی طاری ہے۔ اور سفیدے کے جنگل کے کنارے کنارے جو راستہ جاتا ہے۔ اس پر وہ سرخ پتھروں والا گھر ہے۔ جو آم کے درختوں میں گھرا ہے۔ جہاں وہ رہتا تھا۔
صبح کو لکڑی کے پل پر سے گزر کر راہبوں کی سفید پوش ٹولیاں عبادت خانے کے راستے کی طرف جاتی ہیں جدھر خوبانی کی ہری ٹہنیوں کے نیچے وہ لودور کی مریم کی پرستش کرتے ہیں اور سنہری بالوں والے بچے وہاں جنگلی پھل چننے کے لیے آتے ہیں۔ یہ اس کا گھر ہے۔ اس گھر میں برسوں سے رہتی آئی ہے۔ اس زمین پر وہ سب صدیوں سے جیتے اور مرتے رہے ہیں۔ یہ گھر یہ باغ۔ یہ سمرہاؤس۔ جھیل کے پار حد نظر تک پھیلے ہوئے کھیت اور چراگاہیں اور ایک بار ایسا ہوا کہ وہ ان سب چیزوں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ بہت دور چلے گئے۔ اور اب کبھی ان جگہوں کی خاموش اپنائیت ان کی چپ چاپ پکار سننے کے لیے واپس نہ آئیں گے۔
سفیدے کے جنگل کے کنارے اس راستے پر باغیچوں اور درختوں کے کنجوں میں چھپے ہوئے سارے گھر خاموش کھڑے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی مالی یا کہار آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اندر سے نکل کر احاطے کے پھاٹک پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اور ناریل کو بے دلی سے کریدنے کے بعد اکتاہٹ کے ساتھ جھیل کی طرف دیکھتا ہے۔ اور پھر اندر چلا جاتا ہے۔
یا کبھی کبھی کوئی بھولی بھٹکی کار خاموشی سے کسی پھاٹک سے برآمد ہو کر سفیدے کے جھنڈ میں سے شکنتلا قدوائی اس وقت انور جمال قدوائی روم میں ہندستانی سفارت کار تھے۔ شہر کی سمت گزر جاتی ہے۔
وہ سمر ہاؤس میں بیٹھی ہے۔ اور شام کی تاریک ہوائیں باغ پر منڈلا رہی ہیں۔ میری کیسل۔ کیا تم اس تاریکی کی تصویر نہ بناؤ گی؟ اور وہ جو پیلو سعید ہے۔ سمرہاؤس میں چپ چاپ بیٹھی ہے۔ جھیل کے پار اسسی کی خانقاہ کے گھنٹے یک لخت بجنا شروع ہو گئے ہیں۔ اور اب سفید پوش راہب اور سنہرے بالوں والے لڑکے شام کی نماز کے لیے ہاتھوں میں چاندی کی اونچی موم بتیاں اٹھائے پل پر سے گزر رہے ہیں اور سفیدے کا چھوٹا سا جنگل چپ چاپ کھڑا ہے۔
اسسی کے گھنٹے بج رہے ہیں اور سفیدے کے جنگل اور سبز بانس کے جھنڈ پر اندھیرا گرتا آ رہا ہے۔ خداوند ہمارے پرکھوں کے خدا جو ہمیشہ سے تھا اب ہے۔ اور ہمیشہ رہے گا۔ خداوند ہمارے خدا کے برے جو دنیا کے گناہوں کو اٹھا لے جاتا ہے۔ خداوند ہمارا خدائے مطلق جو ابدلا آباد تک جیتا اور سلطنت کرتا ہے۔
خوبانی کے جھنڈ میں مریم کی مورتی کے آگے جھکے وہ دعا مانگ رہے ہیں۔ اے سینٹ این کی بیٹی ہم پر رحم کر رحم کر۔ ہم حوا کے بد نصیب فرزند اس آنسوؤں کی وادی میں سے روتے چلاتے ترے سامنے سے گزرتے ہیں۔ ہم خاک اور گناہ سے بنے ہوئے انسان بہت کمزور اور بہت نالائق ہیں۔ ایسا ہوکہ ہماری گریہ و زاری تیرے حضور میں پہنچ جائے! اے ملکہ جنت ہم پر اپنا فضل کر۔ اے خدا کے برے۔ گو میری چھت اس لائق نہیں کہ تو اس کے نیچے آئے۔ لیکن اگر تو ایک بات کہہ دے تو میری روح بچ جائے گی۔
اسسی کے گھنٹوں کی گونج فضا میں منڈلاتی پھیلتی اور ڈوبتی جا رہی ہے۔ وہ سمر ہاؤس میں بیٹھی ہے۔ وہ جو پیلو سعید ہے اور نئے دیس کو جا کر وہاں سے لوٹ آئی ہے۔ اور اس نے دیکھا ہے کہ سفیدے کا جنگل اتنا ہی خوب صورت ہے اور اسسی کے گھنٹے اسی طرح گونج رہے ہیں۔ اور راستے کے سرے پر آموں میں گھرا ہوا سرخ اینٹوں والا گھر بند پڑا ہے۔ کیوں کہ وہ اس میں سے۔ جا چکا ہے۔ اور کبھی لوٹ کر نہ آئے گا۔ وہ نئے دیس کو اپنا چکا ہے۔ اس نے اپنی اس پرانی زمین کی پکار کو نہیں سنا اور اس پکار کو سننے کے بعد جو جذبہ اس نے محسوس کیا۔ اسے اس نے شکست دے دی اور آگے چلا گیا۔
لیکن بانس کی شاخیں اسی طرح سرسرا رہی ہیں۔ اور بہار آنے والی ہے۔ خزاں آہستہ آہستہ واپس جا رہی ہے۔ میری کیسل۔ کیا تم اس موسم ان سرخ پتوں۔ اور ان تاریک ہواؤں کی تصویر بناؤ گی؟ خزاں واپس جا رہی ہے۔ آؤ ہم بھی اس کے ساتھ لوٹ چلیں۔ اور پیچھے اور پیچھے۔
صبح کے روشن ستارے۔ ایلیلیلاہ گھنٹے بجنے بند ہو گئے۔ ہال میں مکمل خاموشی طاری تھی۔ ان گنت رنگ برنگے بالوں والے سر سامنے میزوں پر جھکے ہوئے تھے۔ اپنی انگلیوں میں جو روشنائی لگ گئی تھی جلدی سے اپنے بالوں میں انہیں پونچھ کر اس نے ڈائس پر جا کر دوسری کاپی لی اور اپنی میز کی طرف مڑی۔ اس وقت اس نے اپنے پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی کو پہلی بار دیکھا۔ وہ لڑکی جو عمر میں اس سے بہت بڑی معلوم ہوتی تھی۔ جس نے اپنے سیدھے سیاہ بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنا رکھا تھا۔ اور جس کے کلاسیکل قسم کے پروفائل سے غرور خود پسندی اور احساس برتری کا عجیب سا امتزاج مترشح تھا۔ اس کے ٹیونک کا رنگ مختلف تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی دوسرے اسکول سے غالباً مارٹینز سے امتحان دینے کے لیے وہاں آئی تھی۔
بے تعلقی کے ساتھ وہ اجنبی لڑکی اپنی میز پر سر جھکائے لکھنے میں مصروف رہی۔ میں قطعی طور پر اس کو پسند نہ کروں گی۔ وہ جو پیلو سعید تھی اس نے دل میں طے کیا اور دوبارہ انگلیاں بالوں میں صاف کر کے لکھنے میں مشغول ہو گئی۔ یہ سینئر کیمرج کے امتحان کا آخری روز تھا۔
باہر خانقاہ کے باغ میں دسمبر کی ہوائیں سرسرا رہی تھیں۔ جھیل کے کنارے اور سفیدے کے جھنڈ خاموش پڑے تھے۔ پھر گھنٹے بجے اور اسسی کے ہال سے وہ سب باہر نکل آئیں۔‘‘ میں طلعت جمیل ہوں۔‘‘ اجنبی لڑکی نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے اسی بے تعلقی سے مڑ کر اسے مطلع کیا۔ عطیہ فاروق کی کتابیں اگر ابھی آپ کے پاس موجود ہوں تو آپ اومیشوری سپرو کے ذریعے مجھے انہیں مارٹینز بھجوا دیجئے گا۔‘‘
’’تم پر خدا رحم کرے طلعت جمیل۔ اجنبی لڑکی کو مجمع میں سے غائب ہوتا دیکھتے ہوئے اس نے جو پیلو سعید تھی چپکے سے کہا۔ اور پھر اپنے بال پیچھے کو سمیٹ کر باہر آ گئی۔
سفیدے کا جھنڈا اور لکڑی کا پل عبور کر کے وہ بہت اکتاہٹ کے ساتھ اپنے گھر پہنچی۔ گھاس پر دھوپ میں اس کی چھوٹی بہن بلیاں اور خرگوش بیٹھے تھے۔ اس کا بھائی ڈوپی برآمدے میں میکنو سے کرین بنانے میں مشغول تھا۔ پہلو کے برآمدے میں ابی پیچوان گڑگڑا رہے تھے۔ پیچھے مرغیاں کٹ کٹ کرتی پھر رہی تھیں۔
’’منہ کیوں لٹکائے ہو کر دیا پٹرا پرچے کا؟‘‘ ڈوپی نے چلا کر بشاشت سے دریافت کیا۔
’’پہلے جا کر کھانا بھتر لو۔ پھر آ کر مطلع فرماؤ کیسا رہا پرچہ‘‘ گھاس پر سے شیرو اس کی چھوٹی بہن چلائی۔‘‘ ابھی ہائی کمانڈ کی طرف سے پریس نوٹ ریلیز ہوا ہے کہ کرسمس گزارنے کے لیے تم دونوں نہایت نا معقول لڑکیوں کو دوبارہ پھوپھی بیگم کے یہاں لے جایا جائے۔‘‘ ڈوپی نے پیچوان کی آواز کی طرف اشارہ کر کے بے حد اہمیت سے اطلاع دی۔
’’ہائے رے۔ ابھی کچھ اور امور خانہ داری سیکھنے باقی ہیں؟‘‘ شیرو نے فکر مندانہ لہجہ میں پوچھا۔ پچھلی چھٹیوں میں ان دونوں کو اپنی ایک خالہ کے ہاں کھانا پکانا سیکھنے کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن وہاں وہ کھانا پکانے کے بجائے خالہ کے چمپئن لڑکوں کے ساتھ دن بھر اسکیٹنگ کیا کرتی تھیں۔
’’اور پھوپھی بیگم کے ہاں آئے ہوئے ہیں بڑے ابا۔۔۔ ان کی ٹریننگ میں دیا جائے گا تم دونوں کو۔‘‘ ڈوپی نے پھر مطلع کیا۔ لڑکیوں نے ایک دوسری کو سہم کر دیکھا۔ اور اندر چلی گئیں۔ اس وقت پھوپھی بیگم کے ہاں جانے کے لیے پیکنگ کرتے کرتے رک کر پیلو نے یک لخت ڈوپی سے پوچھا۔ ’’ڈوپی بھیا تم طلعت جمیل کو جانتے ہو؟ تمہارے مارٹینز ہی میں ہے شاید۔ بڑی سی لڑکی ہے لمبی سی ناک۔ سمجھتی ہے اپنے آپ کو ہیلن آف ٹرائے۔۔۔‘‘
’’ارے وہ۔۔۔ طلعت آپا چچا فاروق کے ہاں جو رہتی ہیں؟ کیوں۔ تم نہیں جانتیں انہیں؟‘‘ ڈوپی نے سیٹی بجاتے بجاتے رک کر کہا۔ ’’چچا فاروق کے یہاں۔۔۔؟‘‘
’’ان کے گھر پر رہتی ہیں۔ ان کے ابا سر فاروق کے بہت گہرے دوست تھے۔‘‘ ڈوپی نے جواب دیا۔
’’اچ چھا۔۔۔ تعجب ہے کہ میں نے پہلے کبھی ان کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’زیادہ تر تو طلعت آپا بورڈنگ ہاؤس میں رہتی تھیں اسکول کے۔ نینی تال میں تو ہم روز ان کے ساتھ رائیڈنگ کے لیے جایا کرتے تھے۔۔۔‘‘ ڈوپی نے مطلع کیا۔
‘‘تم بہت مرعوب معلوم ہوتے ہو طلعت آپا سے اپنی۔۔۔‘‘ پیلو نے اور بھی جل کر کہا۔ اور پیکنگ میں مشغول ہو گئی۔
پھوپھی بیگم کا گھر ایک قسم کا ریفارم اسکول تھا۔ جہاں خاندان بھر کے سارے بچوں کو جو زیادہ شرارتیں کرتے تھے۔ ٹریننگ کے لیے بھیج دیا جاتا تھا۔ ہمیشہ چھٹیوں میں کنبے کے سارے کزن وہاں جمع ہوتے۔ اور زیادہ شرارتیں کرتے۔ دن بھر غل مچتا۔ درختوں پر چڑھ کر کھانا کھایا جاتا۔ الماریوں میں گھس کر میوزک کانفرنسیں منعقد ہوتیں۔ پلنگوں کے نیچے اور صوفوں کے پیچھے چھپ کر مشاعرے ہوتے۔ حالات جب پھوپھی بیگم کے جو گویا ڈائرکٹر جنرل تھیں۔ قابو سے باہر ہو جاتے تو پریشانی کے عالم میں بڑے ابا کو بلایا جاتا جو ڈی۔ آئی۔ جی پولیس ہونے کی وجہ سے بے حد ڈکٹیٹر قسم کے انسان تھے۔ اور ساتھ ساتھ اپنے خیال میں مصلح ملک و قوم بھی تھے اور نئی پود کی طرف سے سخت مایوس تھے۔
لہذا دن بھر وہ مختلف زاویوں سے لیکچر پلاتے رہتے۔ حکم یہ تھا کہ چھٹیوں کا ایک لمحہ بھی بے کار نہ گنواؤ۔ باغ میں جاؤ تو درختوں پر چڑھنے اور کود پھاند مچانے کے بجائے بوٹنی پریکٹیکل میں مشغول رہو۔ کھانے کے وقت فضولیات میں ایک دوسرے سے الجھنے کے بجائے ملک کی غذائی حالت اور حیاتین کے فوائد اور غذائیات سے متعلق دوسرے مسائل پر سنجیدگی سے تبادلہ کرو۔ ریڈیو پر فلمی گانوں کے بجائے صرف کلاسیکل موسیقی سنا کرو اور ہائی برو ٹیسٹ پیدا کرنے کی کوشش کرو جس کا تم لوگوں میں فقدان ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حکم تھا کہ مجمع میں صرف جنرل دل چسپی کی باتیں کی جائیں۔ لڑکے کرکٹ کا تذکرہ ہر گز نہ چھیڑیں اور لڑکیاں کسی حالت میں بھی قابل معافی نہیں اگر وہ کپڑوں اور نیٹنگ کے نمونوں کی باتیں شروع کر دیں۔ جہاں تک ہو سکے قانون ریاضی کیمسٹری معاشیات وغیرہ کا تذکرہ نوجوانوں کو کرنا چاہئے۔ اور ہر وقت خدا کو یاد کرنا اور بھی زیادہ بہتر ہے۔
رات کے کھانے کے بعد سب نشست کے بڑے کمرے میں جمع ہو جاتے جو شکار کیے ہوئے شیر چیتوں اور بارہ سنگوں کے سروں اور کھالوں سے پر تھا۔ وہیں بڑے ابا کا پیچوان لا کر رکھا جاتا اور قیلولے کے بعد بڑے ابا ایک زور دار ہونہہ کر کے آ بیٹھتے اور پھر نئی پود کو سدھارنے کی کوشش شروع کرتے۔ نئی پود نے ان نشستوں کا نام ایکسٹنشن لیکچرز رکھ چھوڑا تھا۔ پیچوان کی نے ایک طرف کو رکھ کے اور عینک اتار کے بڑے ابا اپنے بھتیجوں بھتیجیوں اور بھانجے بھانجیوں کے انتہائی نالائق گروہ کو مخاطب کرتے ہوئے قانون کی موشگافی شروع کرتے اور تواریخ اسلامیات اخلاقیات کا تذکرہ ہوتا۔ کمرے کے سرے پر کمایوں کے ایک گل دار کا سر رکھا تھا۔ جس کے متعلق روایت تھی کہ بڑے ابا اسے اس کی مونچھوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اپنے ہم راہ خیمے تک لے آئے تھے اور پھر وہاں آرام سے مسہری پر بیٹھ کر اس کا شکار کیا تھا۔ سامعین اکثر اکتا کر اسے دیکھتے رہتے۔
بڑے ابا اپنے لکچر عموماً اسی گل دار کے ذکر سے شروع کرتے۔ ’’اے نالائق بچو۔۔۔ اس خوش قسمت گل دار کو دیکھ کر عبرت پکڑو۔ جسے میں نے بائیں ہاتھ سے اور دونوں آنکھیں بند کر کے مارا تھا۔ اور تمہارا یہ حال ہے کہ تم لوگ اپنا نشانہ درست کرنے کی طرف سے بالکل غافل ہو۔ بس دن بھر فلمی گانے ہونہہ‘‘
’’بڑے ابا یہ گل دار تو ہم لوگوں کو دیکھ کر کچھ بہت زیادہ بشاش نہیں ہے۔ افیمچیوں کی سی شکل بنائے بیٹھا ہے۔ کیوں نہ ہم اس بارہ سنگھے کو دیکھ کر عبرت پکڑیں جو آپ نے۔۔۔‘‘
’’بس پھر بولے بیچ میں ساری قیامت یہ ہے کہ تم لوگوں میں ڈسپلن نہیں۔ بالکل ہے ہی نہیں ڈسپلن۔ تم لوگوں میں تو ایسا ڈسپلن ہونا چاہئے جیسے ایک فیلڈ مارشل جو جہاز کے مستول کے پاس کھڑا ہو اور۔۔۔‘‘
’’لیکن بڑے ابا جہاز کے مستول کے پاس تو فلیک آفیسر کمانڈنگ کھڑا ہوتا ہے یوں خیال فرمائیے کہ ایک گورنر جنرل کی طرح جو۔۔۔‘‘ کوئی بول اٹھتا۔‘‘ جو۔۔۔ جو باورچی خانے میں کھڑا حلوہ تیار کر رہا ہے۔۔۔‘‘ دوسرا اپنی رائے کا اظہار کرتا۔
’’ہر گز نہیں۔ بلکہ جو گھوڑے پر سوار ہے۔ اور گھوڑے کی دم پکڑے بھاگا چلا جا رہا ہے۔ پگٹیٹ۔۔۔‘‘ تیسرا کہتا۔ ’’تو آپ کے خیال میں گورنر جنرل کے گھوڑے کی دم بھی ہونی چاہئے۔۔۔؟‘‘
کوئی لڑکی سنجیدگی سے دریافت کرتی۔ ‘‘تمہاری رائے ہے کہ دم کٹا گھوڑا ہو گا گورنر جنرل کا۔۔۔؟‘‘ دوسری اس سے بگڑ کر پوچھتی۔’’بہرحال اگر گورنر جنرل کو دم کٹا گھوڑا ہی پسند ہے تو کیا میں یا آپ اسے روک سکتے ہیں کہ میاں دم کٹے گھوڑے پر سوار نہ ہو۔۔۔‘‘ کوئی اور جواب دیتا۔ اور پھر نہایت شدومد سے گھوڑوں پر تبادلہ خیال شروع ہو جاتا۔ بڑے ابا بے بسی کے عالم میں خاموشی سے ان سب کو دیکھتے رہتے اور پیچوان کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ کزن لوگ ایکد وسرے سے بحثیں کرتے کرتے الجھ پڑتے۔ کوئی اپنا نظریہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے چلا کر پوچھتا۔‘‘ کیا سمجھتے ہو تم۔ میرے سر میں عقل نہیں ہے؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ کوئی چھوٹا بھائی جواب دیتا۔
’’جی کیا۔۔۔ نہیں ہے میرے سر میں عقل۔۔۔؟‘‘
’’جی نہیں ہے۔‘‘
’’عقل۔‘‘
’’کس کی۔‘‘
’’آپ کی۔ سر میں آپ کے۔۔۔‘‘
’’میرے سر سے تمہیں کیا مطلب۔ کون پوچھ رہا ہے تم سے؟‘‘
’’ہیں؟‘‘ دیر تک بلوہ ہوتا رہتا۔ بڑے ابا رنج سے سر ہلا کر کہتے۔۔۔‘‘ بس ان لوگوں کی اصلاح نا ممکن ہے۔ ہر وقت فضول کی بحثیں ہر وقت پنگ پنگ۔‘‘
’’پونگ۔ بڑے ابا۔۔۔‘‘ کوئی چپکے سے کہتا۔ ’’پونگ کیا۔۔۔؟‘‘ بڑے ابا گرج کر غصے سے پوچھتے۔ ’’پنگ پونگ۔۔۔‘‘ آہستہ سے ان کی تصحیح کی جاتی۔ ’’کچھ نہیں اصلاح نا ممکن ہے۔ قطعی ہوہی نہیں سکتی۔ بس ہر وقت پنگ پنگ کھیلا جائے گا۔۔۔ ہر وقت۔۔۔‘‘ بڑے ابا بڑبڑاتے ہوئے اپنے مطالعے کے کمرے میں چلے جاتے۔۔۔
چھٹیاں شروع ہوئیں اور پیلو شیرو اور ڈوپی پھوپھی بیگم کے ہاں پہنچے۔ وہاں ان کے دوسرے سب کزن بھی حسب معمول چھٹیاں گزارنے آن پہنچے تھے۔ شکار کے لیے کچھ فاصلے پر ترائی میں کیمپ کیا گیا تھا۔ اپنی رینج کا دورہ کرتے بڑے ابا بھی وہاں پہلے سے آ چکے تھے۔ ایک روز وہ سب بڑے ابا سے مختلف بندوقوں کی اقسام و اوصاف پر ایک ایکسٹنشن لیکچر سننے کے بعد الاؤ کے گرد تازہ دم ہونے کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ خیموں کی طرف دفعتاً غل مچا کہ چچا رجو آ گئے۔
چچا رجو۔۔۔ سب ہڑ بڑا کر پھوپھی بیگم کے خیمے کی طرف بھاگے۔ چچا رجو کنبے کی ایک عجیب و غریب پر اسرار شخصیت تھے۔ جوانی کے زمانے میں وہ اپنے گھر والوں سے خفا ہو کر کہیں چلے گئے تھے۔ اور اب دنیا بھر کی سیر کرنے کے بعد اچانک واپس آن پہنچے تھے۔ ’’چچا تم تو بوڑھے ہو گئے بالکل۔‘‘ پیلو نے ان کے سفید بال دیکھ کر حیرت سے کہا۔
اب ہم چچا رجو سے ان کی سیاحت کی کہانیاں سنا کریں گے۔ بڑے ابا کے لیکچر اگلی چھٹیوں تک ملتوی سب نے خوش ہو کر سوچا۔ چچا رجو اپنے ساتھ قصوں کا ایک خزانہ لے کے واپس آئے تھے۔ ہر چیز میں ان کو دخل تھا۔ طب۔ فلسفہ۔ قانون۔ تصوف کلاسیکل موسیقی۔ دنیا بھر کے واقعات اور قصے وہ سناتے اور سب انتہائی دل چسپی سے سنتے۔
ایک روز سب اپنی میوزک کانفرنس میں مشغول تھے۔ چچا رجو سے بھی شدید اصرار کیا گیا کہ وہ کچھ گائیں۔ ’’ارے بیٹا۔ اب میں کچھ نہیں گا سکتا۔‘‘
انہوں نے ٹھنڈی سانس لے کر افسوس کے ساتھ کہا۔ ’’کیوں چچا۔۔۔؟‘‘ سب نے یک زبان ہو کر پوچھا۔
’’ارے میاں۔ بہت لمبا قصہ ہے۔ جب یاد آتا ہے تو دل دکھتا ہے۔ بیٹا ہمالیہ پر میں ماؤنٹ ایورسٹ کے نیچے بارہ سال تک لے باندھ کر بیٹھا تھا۔ ایک دفعہ بھگوان شیو کو آ گیا غصہ اور میری لے توڑنے کے لیے وہ مچھر بن کر میری ناک میں جا گھسے اور مجھے چھینک آ گئی اور لے ٹوٹ گئی۔ بارہ سال تک باندھی ہوئی ایسی ٹوٹی کہ میری ساری تپسیا بے کار گئی۔ چناں چہ اب میں گا ہی نہیں سکتا۔‘‘ چچا رجو نے بے حد سنجیدگی سے جواب دیا۔ چچا نے کوئی اور قصہ چھڑ دیا۔ فن لینڈ میں جب میں تھا یا برازیل جب میں پہنچا۔ اپنی سیاحت کے تذکروں کے ساتھ ساتھ چچا ان ملکوں کی عجائبات کے نمونے بھی دکھاتے۔ جو انہوں نے ساری دنیا میں گھوم پھر کر جمع کیے تھے۔
ریڈ انڈین لباس کے پر۔ اسکیموز کی ٹوپیاں۔ تبت کی چار دانی۔ چچا کو رنجیدہ کسی نے نہ دیکھا تھا۔ ہر وقت سب کے کام آنے کی کوشش میں رہتے۔ خاندان کے نوجوان افراد میں وہ بے حد مقبول ہو گئے لیکن دوسرے لوگوں پر وہ پھر کیوں کہ اتنے طویل عرصے کی غیر موجودگی کے بعد کوئی کامیابی حاصل کیے یا روپیہ کمائے بغیر وہ پھر آن پہنچے تھے۔
چھٹیاں ختم ہوئیں تو وہ پیلو اور شیرو کے ہم راہ ان کے گھر آ گئے۔ جہاں ان کو پیچھے کی طرف کا ایک فالتو سائیڈ روم دے دیا گیا جس کے سامنے وہ دن بھر بیٹھے حقہ گڑگڑاتے یا مرغیوں اور خرگوشوں کی دیکھ بھال کرتے۔ مہینہ میں ایک آدھ بار انہیں زمین داری کے کسی کام پر گاؤں کا چکر لگانے کے لیے بھیج دیا جاتا۔ گھر میں ان کی حیثیت بن بلائے غریب رشتہ دار کی تھی۔ لیکن پھر بھی اپنے بھر وہ سب کے کام آنے کی فکر میں لگے رہتے اور ہر وقت ہنستے ہنساتے رہتے۔ ایسٹر بھی نکلا اور موسم گرما آ گیا۔ پھر بارشوں کا زمانہ آن پہنچا اور سفیدے کے جنگل اور بانسوں کے جھرمٹ پر پانی برسنا شروع ہو گیا۔ جھیل کے کناروں کا سبزہ دور دور تک پھیل گیا۔
کالج کھلا۔ اور نئی ٹرم کے پہلے روز پیلو کو وہ اجنبی لڑکی دوبارہ کیمپس کے سبزے پر نظر آئی۔ سفید ساڑی میں وہ زیادہ عمر کی اور زیادہ مغرور نظر آ رہی تھی۔ اس وقت وہ انیس بیس سال کی ہو گی۔ ڈھیلے سے جوڑے میں سفید پھول لگائے۔ بے حد بھاری بھرکم طریقے سے چلتی ہوئی وہ سولہ سالہ پیلو سعید کو ایک بے تعلق اور مشفقانہ سا ہلو کہہ کر آگے چلی گئی۔ پھر چار سال وہ اس کالج میں ایک جماعت میں اکٹھی رہیں۔
لیکن اسسی کے امتحان کے ہال میں جو خاموش قسم کا مخالفت کا جذبہ جو عجیب و غریب جھنجھلاہٹ پیلو کے دل میں پیدا ہو گئی تھی۔ وہ کبھی نہ نکل سکی۔ اس کی کوئی وجہ نہ تھی۔ لیکن پھر بھی وہ نفرت اپنی جگہ پر موجود تھی۔ وہ پیلو سعید جس کو سب اتنا پسند کرتے تھے۔ اس مغرور لڑکی کی اتنی ہمت کہ اس نے پیلو سے مرعوب ہونے سے قطع انکار کر دیا۔
تمہیں خدا سمجھے طلعت جمیل۔ تم جو سفید ساڑی پہنے ہیلن آف ٹرائے بنی۔ اکیلی اکیلی اپنے راستے پر چلتی رہتی ہو۔ ڈگری کے آخری امتحانات کے اختتام پر طلعت جمیل چچا فاروق کے ہاں سے بھی جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
’’طلعت آپا کو مرکزی حکومت میں بہت عمدہ ملازمت پر بلا لیا گیا ہے۔ اور وہ شملے جا رہی ہیں‘‘۔ ڈوپی نے اطلاع دی۔
’’ضرور جائیں تمہاری طلعت آپا‘‘ پیلو نے کہا۔ گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوئیں۔ تو ایک چچا زاد بہن یعنی بڑے ابا کی لڑکی نشو آپا کا جن کی ان دنوں شادی ہوئی تھی۔ خط آیا۔ ہم لینس ڈاؤن چل رہے ہیں تمہارے بھائی صاحب کا مکان تارا گڑھ ہاؤس وہاں مدتوں سے بند پڑا ہے۔ وہاں جا کر اس کی دیکھ بھال کرنی ضروری ہے۔ تم دونوں بھی کم از کم ایک ہفتے کے لیے نینی تال جانے سے پہلے وہاں آ جاؤ۔ ڈوپی میاں کے ساتھ آ جاؤ۔ یا اگر ڈوپی میاں حسب معمول اترانا شروع کر دیں تو اکیلی ہی آ جاؤ۔ اتوار کی شام کو ہم وہاں پہنچ رہے ہیں۔ تم بھی اسی روز پہنچ جاؤ تو اچھا ہے۔ ہفتے بھر کے بعد نینی تال چلی جانا۔ شاید پنکی بھی آ جائے۔۔۔ بے حد دل چسپ ہے۔ اس سے مل کے بے حد محظوظ ہو گی تم دونوں۔ اس کے پاس ٹیکنی کلر کا مووی کیمرہ بھی ہے۔
’’بھئی واہ …… لینس ڈاؤن کی فطری خوب صورتی تارا گڑھ ہاؤس کی لائبریری کی ان گنت جاسوسی کی کتابیں۔ چلغوزے ایک مووی کیمرہ اور پنکی … ایک ہفتہ گزارنے کی اس سے بہتر تصویر اور کیا ہو سکتی ہے۔ پیلو ڈالنگ …؟ نندہ دیوی پر جب سورج نکلتا ہے …‘‘ شیرو نے آنکھیں بند کر کے کہنا شروع کیا۔
’’نندہ دیوی لینس ڈاؤن میں کہاں سے آ گئی؟‘‘ پیلو نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’اچھا تو کنچن چنگا پر جب سورج نکلتا ہے تو …‘‘ شیرو نے اسی طرح آنکھیں بند کیے کیے اپنی بات جاری رکھنی چاہی۔
’’کنچن چنگا لینس ڈاؤن میں ہے‘‘؟ پیلو نے ڈانٹ کر پوچھا۔ ’’اچھا تو امرناتھ پر نہیں نندہ دیوی پر جب … ’’یہ پنکی کون صاحبزادی ہیں۔ تم ہی دونوں جیسی کوئی چغد ہو گی …‘‘ ڈوپی نے خط پڑھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہو گی کوئی نشو آپ کی دوست۔ گلابی سی ناک سبز آنکھیں۔ سرخ بال۔ ہر وقت زکام رہتا ہو گا۔ نام سے تو یہی سب ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ پیلو نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا تو ڈوپی ہمیں لینس ڈاؤن تک پہنچا آؤ گے؟ بہت اچھے سے بھیا … شیرو نے آنکھیں کھول کر پوچھا۔ ’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس خاکسار کو آپ جیسی بے وقوف لڑکیوں کو ایسے جنگل بیابان بے تکے قسم کے پہاڑوں پر پہچانے کے علاوہ دنیا میں اور بھی بہت سے کام ہیں۔ مثلاً خود نینی تال جانا۔ لہٰذا آپ اکیلی لینس ڈاؤن تشریف لے جائیے‘‘
ڈوپی نے جواب دیا اور سیٹی بجاتا باہر چلا گیا۔ اتوار کی شام کو وہ دونوں لینس ڈاؤن پہنچیں۔ رات کے بڑھتے ہوئے اندھیرے کے ساتھ ہوا کی تیزی میں زیادتی ہوتی جا رہی تھی۔ پہاڑ کی چوٹی پر سے نشیب کی عمیق تاریکی میں دور نیچے روہیل کھنڈ کے شہروں کی مدھم روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ ہوا بہت سرد تھی۔ اور بادل چاروں طرف سے امنڈتے آ رہے تھے۔ تارا گڑھ ہاؤس سنسان پڑا تھا۔ نشو آپا اور ان کے خاندان کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ گیلری کا دروازہ کھٹکھٹانے پر ایک شاعر نما انسان برآمد ہوئے۔ ’’بیٹا تشریف لے آئیں۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے بے حد خوش ہو کر کہا ’’خاکسار کا مفتون سندیلوی تخلص ہے۔ ویسے سب دولہا بھائی کہتے ہیں۔ تارا گڑھ کا مختار عام ہوں۔ بیگم صاحب کا فون آیا ہے کہ وہ آج نہیں پہنچ سکیں کل صبح آویں گی۔ بیٹا اندر تشریف لے چلیے‘‘۔ وہ بے حد اہمیت اور مصروفیت کے ساتھ کسی انتظام کے سلسلے میں نیچے چلے گئے۔
’’اب کیا ہو گا پیلو ڈارلنگ۔۔۔۔۔؟‘‘ شیرو نے سہم کر چپکے سے پوچھا۔
’’مری کیوں جا رہی ہو۔ ایک رات اکیلے نہیں گزار سکتیں۔ نیچے دو تین گورکھے چوکیدار موجود ہیں مدفون صاحب ہیں۔ شاید پنکی وہ جو آ رہی ہے۔ وہ بھی آن پہنچے۔‘‘ پیلو نے ڈپٹ کر کہا۔ لیکن ڈر اسے بھی لگ رہا تھا۔
’’واہ بھئی نشو آپ اچھی ایکٹیوٹی کی ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔‘‘ شیرو نے کہا۔ وہ دونوں اندر آتش دان کے پاس جا بیٹھیں۔ مفتون سندیلوی کھانا منگوانے کے لیے نیچے باورچی خانے کی طرف۔ جا چکے تھے۔
باہر ہوا کا شور بڑھتا جا رہا تھا۔ بارش بھی شروع ہو چکی تھی۔ ’’اور آؤ اکیلی لینس ڈاؤن، بڑا شوق چرایا تھا‘‘۔ پیلو نے وقت گزارنے کے خیال سے شیرو سے لڑنے کا ارادہ کیا۔ شیرو پلٹ کر کوئی جواب دینے والی تھی کہ دفعتاً باہر کے طوفان کی گرج لمحہ بھر کے لیے کم ہوئی اور گیلری میں بھاری بوٹوں کی چاپ سنائی دی۔
’’یہ کون۔۔۔۔۔؟‘‘ پیلو نے خوف زدہ ہو کر چپکے سے کہا۔ ’’یا اللہ پنکی ہی آ جائے۔۔۔۔۔‘‘
’’یہ تو کوئی نگوڑا مردوا جھاڑو پیٹا کھڑا ہے باہر۔۔۔۔۔‘‘ شیرو نے ڈرتے ڈرتے گیلری میں جھانکنے کے بعد آ کر بتایا۔۔۔۔۔
’’کہیں یہ مدفون صاحب نہ ہوں اور بھیس بدل کر آئے ہوں۔ مجھے تو یہ شروع ہی سے بہروپیہ لگ رہے تھے۔‘‘ ہوا کے زور سے دروازہ کھل گیا اور وہ شے اندر آ گئی۔
’’یہ پنکی تو نہیں ہو سکتی اتنی لمبی۔۔۔۔۔‘‘ شیرو نے خوف زدہ ہو کر کہا۔ برساتی اوڑھے وہ چھ فٹ اونچی شے ہال کی روشنی میں آئی تو معلوم ہوا کہ وہ پنکی نہیں تھی بلکہ پنکی تھا۔
دونوں لڑکیاں آتش دان کے اور زیادہ قریب کو ہو کر بیٹھ گئیں۔ برساتی فرش پر پھینکنے کے بعد وہ اطمینان سے ایک آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ ’’اگر آپ لوگ ڈرپوک گلہریوں کی طرح آتش دان میں اپنی ناک ٹھونسنے کی بجائے اٹھ کر گیلری کا دروازہ بند کر دیں تو زیادہ بہتر ہو۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس تیز ہوا سے مجھے زکام ہو جانے کا احتمال ہے‘‘ یہ کہہ کر اس نے آرام سے پائپ نکالا اور آگ کی طرف ٹانگیں پھیلا کر آنکھیں بند کر لیں۔ پیلو کا رنگ غصے کی وجہ سے سرخ ہو گیا۔ شیرو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے کاہلی سے ایک آنکھ کھول کر انہیں دیکھا۔ اور پھر پائپ سلگانے میں مصروف ہو گیا۔
’’آپ دونوں غالباً ہماری دلہن بھابی کی وہ مشہور و معروف چچا زاد بہنیں ہیں۔ جن کا کافی دنوں سے ذکر خیر میں سن رہا ہوں۔۔۔۔۔ آپ کی نشو آپا اور ہمارے بھائی صاحب قبلہ دونوں نے مجھے لکھا تھا کہ اپنے سارے کام چھوڑ کر میں اتوار کی شام کو یہاں پہنچ جاؤں۔ اور خود نہیں آئے۔ مجھے کس قدر زحمت ہوئی ذرا غور کیجئے۔ بہر حال چائے منگوائیے لڑکیوں کو بے کار نہ بیٹھنا چاہئے‘‘۔ اس نے کہا۔
’’چائے تو آپ مر جائیں گے تب بھی آپ کے لیے نہیں منگواؤں گی میں۔۔۔۔۔‘‘ پیلو نے غصے سے دل میں طے کیا۔ ’’میرے سوٹ کیس کے اوپر ٹائم ٹیبل پڑا ہے۔ ذرا دیکھ کر بتائیے گا۔ شاید کوئی ٹرین گھر سے اور چلتی ہو۔ اور ان لوگوں کو راستے میں دیر ہو گئی ہو۔۔۔۔۔‘‘ اس نے مڑ کر شیرو کو حکم دیا۔ ’’لیکن پیلو ڈارلنگ مجھے ٹائم ٹیبل دیکھنا نہیں آتا۔۔۔۔۔‘‘ اس نے شیرو کی بات سن لی۔ ’’غضب خدا کا! حال یہ ہے کہ گریجویٹ ہوا چاہتی ہیں آپ لوگ اور ٹائم ٹیبل نہیں دیکھ سکتیں۔ ایک ہمارے زمانے کی تعلیم تھی۔۔۔۔۔ حد ہے بھئی حالت یہ ہے کہ آپ لوگ ہوائی جہاز اڑا لیں گی۔ فلسفے کی پروفیسر بن جائیں گی۔ لیڈری کریں گی۔ لیکن ٹائم ٹیبل دیکھنا نہیں آتا۔ ایکو ایک لڑکی کو نہیں آتا ٹائم ٹیبل دیکھنا۔۔۔۔۔‘‘ اس نے بے حد بے زاری کے ساتھ پائپ منہ میں رکھ لیا اور اخبار میں مصروف ہو گیا۔
یا اللہ نشو آپا کی شادی آپ کے بھائی کے ساتھ نہ ہوئی ہوتی تو ہمیں یہ روز بد کاہے کو دیکھنا پڑتا۔ پیلو نے اٹھ کر دوسرے کمرے میں جاتے ہوئے سوچا۔ مہربانی فرما کے مفتون صاحب سے کہئے کہ کھانا منگوائیں۔ مجھے اپنا ڈنر ہمیشہ نو بجے مل جانا چاہئے۔ اب نو بج کر دو منٹ ہو چکے ہیں‘‘ اس نے ایک اور حکم لگایا۔
’’کھا جائے آپ کو رات کو آ کر کمایوں کا چیتا۔۔۔۔۔‘‘ شیرو نے دعا مانگی۔ وہ دونوں دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔
’’کیوں بھئی مفتون صاحب وہ کرنل ریکس کا بھوت اس پچھلے کمرے میں رات کو کے بجے آیا کرتا ہے۔۔۔۔۔ عموماً۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے مفتون صاحب سے اس کمرے کی طرف اشارہ کر کے دریافت کیا جس میں ان دونوں نے آ کر پناہ لی تھی۔ وہ دونوں ڈر کے پھر نشست کے کمرے میں واپس آ گئیں۔
’’آئیے صلح کر لیں‘‘۔ اس نے ہنس کر کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ہرگز نہیں‘‘ پیلو نے بگڑ کر جواب دیا۔ ’’تو جس وقت میں گیلری میں داخل ہوا ہوں آپ کیوں دعائیں مانگ رہی تھیں کہ کاش پنکی ہی آ جائے؟‘‘
’’ہمارے اسکول میں ایک لڑکی تھی۔ جس کا نام پنکی تھا۔ ہم اس سے کمروں میں جھاڑو لگوایا کرتے تھے۔۔۔۔۔‘‘ شیرو نے بچوں کی طرح بگڑ کر کہا۔
’’ہمارے اسکول میں ایک لڑکا تھا۔ اس کا نام شیرو تھا۔ ہم اس سے باتھ روم صاف کروایا کرتے تھے‘‘۔ اس نے اسی طرح جواب دیا۔
پیلو کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ‘‘صلح۔۔۔۔۔؟‘‘ اس نے پیلو کو ہنستے دیکھ کر پوچھا۔ ’’ہرگز نہیں‘‘ پیلو نے شیرو کی طرف دیکھ کر جواب دیا۔
کھانا ختم کرتے ہی وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور سونے کے لیے اوپر کی منزل کی طرف جانے کی غرض سے زینے کی سمت چلا گیا۔ صبح مجھے ٹھیک چھ بجے چائے مل جانی چاہئے۔ لیکن چھ بجے سے پہلے مجھے ہر گز نہ جگایا جائے۔ میرے پاس جو ٹیکنی کلر مووی کیمرہ ہے۔ جو میں امریکہ سے لایا ہوں۔ اسے لے کر میں علی الصبح باہر جاؤں گا۔ نندہ دیوی پر جب سورج نکلتا ہے۔۔۔۔۔‘‘ مڑ کر اتنا کہتے ہوئے وہ زینہ پر چلا گیا۔
یہ پنکی تھا۔ پنکی اشرف۔ ہر وقت غل مچانے والا اور اسے بلی کرنے والا پنکی جو بے حد سنجیدگی سے اس سے کہتا ’’پیلو بی بی۔۔۔۔۔ کاش میں تمہارا بھائی ہوتا۔ تو بچپن میں خوب مرمت کیا کرتا تمہاری۔ گھر والوں کے لاڈ پیار نے بالکل ہی لٹیا ڈبو دی ہے تمہاری۔ اگر میں ڈوپی کی جگہ ہوتا تو اچھی طرح ٹھکائی کرتا تم دونوں کی۔ جاؤ چائے بنا کر لاؤ۔ چلو۔‘‘
’’پنکی بس تم ہر وقت بلی ہی کرتے رہتے ہو سب کو‘‘۔ وہ جل بھن کر کہتی ہے
’’جا کر گڑھیا میں منہ دھو آؤ۔ ڈوپی کی جگہ تم ہوتے تو بس یا تم ہی رہتے گھر میں یا میں‘‘
’’غضب خدا کا۔ پتہ ہے کہ میں کتنا بڑا ہوں تم سب سے۔ تمہاری نشو آپا سے بھی بڑا۔ بس تمہارے بڑے ابا کے لگ بھگ ہی ہوں گا۔ یا ان سے ذرا ہی چھوٹا ہوں۔ میں اور تمہارا نوٹس لوں۔ حد کر دی۔ جب آپ مٹی کھاتی ہوں گی اور ٹپتی ہوں گی دھبا دھوب۔ اس وقت یہ خاکسار اوکسفرڈ میں ریسرچ کر رہا تھا۔ معلوم ہے میں کتنا سینئر آدمی ہوں؟ بس اب میں بھی کل سے تمہارے بڑے ابا والے ایکسٹینشن لیکچر شروع کرنے والا ہوں۔ تم سب ابھی قابل اصلاح ہو۔۔۔۔۔ امیچیور ہو بالکل۔۔۔۔۔ جاؤ چائے بنا کر لاؤ۔ اور شیرو سے کہو میری کوٹ پر استری کرے۔ فوراً چلو۔‘‘
پھر وہ سب نینی تال گئے اور وہاں سے کنبے کے باقی افراد کے ساتھ اکٹھے اپنے شہر واپس آئے۔ پنکی بھی تبدیل ہو کر کچھ عرصے کے لیے وہیں آ گیا تھا۔
یہاں اس نے پنکی کے کردار کا دوسرا رخ دیکھا۔ یہ سنجیدہ اور سینئر قسم کا انسان جس کی ذہانت اور قابلیت سے سب بے انتہا مرعوب تھے اور ڈرتے تھے۔ پنکی اشرف جس کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے۔ ’’مجھے یہ صاحب بہادر کا بچہ لاٹ صاحب بہادر کا بچہ کی دم افلاطون زمان پنکی اشرف ایک آنکھ نہیں بھایا۔۔۔۔۔‘‘
چار باغ جنکشن کے پلیٹ فارم پر چچا فاروق نے جب تعارف کرایا تو دو تین منٹ باتیں کرنے کے بعد ہیلن آف ٹرائے دوسری طرف مڑ گئی۔ یہ کلاسیکل مغرور نقوش والی ڈائنا جس نے اپنے ماں باپ کے گھر کی زندگی کبھی نہ دیکھی تھی۔ پنکی اشرف کے اوکسفورڈ کے لہجے کی گفتگو چند لمحوں تک سنتے رہنے کے بعد پلیٹ فارم پر پھیلے ہوئے ڈھیروں سوٹ کیس تین چار پوڈلز دو طرے باز چپراسی اور ایک گونی بیرے پر نظر ڈالتی ہوئی اکتاہٹ کے ساتھ ٹہلتی بک اسٹال کی طرف چلی گئی۔
شکر کہ میں اس کے یہاں ٹرانسفر ہو کے آنے کے فوراً بعد ہی شملہ جا رہی ہوں۔ چچا میاں کے ہاں تو یہ لازمی طور پر آیا کرے گا۔ اس نے کلب کی ان لا متناہی شاموں غیر ضروری پارٹیوں۔ غیر دل چسپ چمک دار لڑکیوں کا تصور کیا جو اس کی زندگی کا یہاں لازمی جزو ہوں گی۔ شکر کہ میں اب اس حلقے۔ اس زندگی میں شامل نہیں۔۔۔۔۔ طلعت جمیل کیا تم سچ کہہ رہی ہو۔۔۔۔۔ اس نے رک کر اپنے آپ سے پوچھا۔۔۔۔۔ کیا تم سچ کہتی ہو۔ کہ تمہیں یہ پنکی اشرف ایک آنکھ نہیں بھایا۔ اور تم اس کے یہاں آنے سے واقعی نا خوش ہو۔
اگلے روز وہ چچا فاروق کے ہاں برج پارٹی پر مدعو تھا۔ سر فاروق کی برج پارٹیاں عموماً رات رات بھر جاری رہتی تھیں۔ طلعت چچا فاروق کی لڑکی کے ساتھ مہمانوں کو قہوہ اور چائے سرو کرتے کرتے یا خود کھیلتے کھیلتے اکتا جاتی تو چپکے سے اپنے کمرے میں چلی آتی اور وہاں کوئی کتاب اٹھا کر دیکھتے دیکھتے سو جاتی۔ اس روز سر شام ہی سے مہمان آ جمع ہوئے۔ اس نے ابھی شام کا لباس بھی تبدیل نہیں کیا تھا کہ کئی لڑکیاں عطیہ فاروق کے ساتھ اس کمرے میں پہنچ گئیں۔ ارے تم ابھی سے پیکنگ میں جٹ گئیں۔ چلو باہر۔ ابھی اور تو کوئی نہیں آیا۔۔۔۔۔۔؟ اس نے پوچھا۔
’’ابھی اور تو کوئی نہیں آیا۔ ابا میاں کے دو تین ملنے والے مقدمے کے سلسلے میں آئے بیٹھے ہیں۔ اور یہ بحث کرنے میں مصروف ہیں کہ مصرا صاحب سیتا پور کے ڈپٹی کمشنر جو ہیں ان کی بیوی رونلڈ بار کر آئی پی کے ساتھ ولایت کیوں بھاگ گئی۔ میورسن کے ساتھ کیوں نہیں بھاگیں۔ جو اتنے موٹے نہیں تھے بے چارے‘‘ عطیہ فاروق نے بتایا۔ ’’اور پنکی اشرف صاحب سخت برا مان رہے ہیں کہ ان کے مصرا صاحب کو کیوں اس طرح موضوع گفتگو بنایا جا رہا ہے‘‘ دوسری لڑکی نے اطلاع دی جب کہ وہ ہاؤس کوٹ پہنے پہنے ہی گیلری تک پہنچ چکی تھی۔
پہلو کے برآمدے میں اس کے سامنے پنکی موجود تھا جو بہت اکتاہٹ کے ساتھ چائے کی میز کے قریب بیٹھا کسی اخبار کے ورق پلٹ رہا تھا۔ عطیہ فاروق اور اس کے ساتھ کی دونوں لڑکیاں کسی دوسرے کمرے میں جا چکی تھیں۔
’’آئیے تشریف لائیے۔‘‘ طلعت کو دیکھ کر اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے اس نے تعظیماً کھڑے ہو کر بے حد متانت اور سنجیدگی سے کہا۔ وہ بے نیازی سے جا کر دوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’چائے بنا دوں آپ کے لیے‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’یقیناً۔۔۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ اور نظریں بچا کے ذرا غور سے اسے دیکھتا رہا۔
’’کیسا لگا آپ کو ہمارا شہر۔۔۔‘‘ طلعت نے اخلاقاً دریافت کیا۔ ’’بہت نفیس۔۔۔‘‘ اس نے اسی اخلاق سے جواب دیا۔
’’آپ برج کھیل رہی ہیں آج رات ہمارے ساتھ۔۔۔‘‘ تھوڑی دیر بعد اس نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔۔۔‘‘ طلعت نے جواب دیا۔
’’نہیں۔۔۔؟ واللہ بالکل یہی رات بائیرن کی روح نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ کے اس بے انتہا سپریئر انداز کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ سے اسی قسم کے جواب کی توقع رکھنی چاہئے۔ یعنی۔۔۔ برج کے متعلق‘‘
’’واللہ بھائی بائیرن نے یہی کہا تھا۔۔۔‘‘ اس نے بڑی رنجیدہ آواز میں کہا۔
’’کیا فرمایا آپ نے۔۔۔؟‘‘ طلعت نے ذرا سٹ پٹا کر پوچھا۔
’’جی لارڈ بائیرن کی روح نے فرمایا تھا۔ جارج گورڈن لاڈر بائیرن۔ کل رات ہم لوگ پیلو سعید کے ہاں روحیں بلا رہے تھے۔ تو اس وقت میں نے بائیرن سے آپ کے متعلق تھوڑی سی گفتگو کی تھی۔ یعنی آپ کے برج کھیلنے یا نہ کھیلنے کے متعلق۔۔۔‘‘
’’تقریباً پہلی ہی ملاقات میں بائیرن کے متعلق باتیں کرنا معاف کیجئے گا ذرا بیڈ فورم۔۔۔‘‘ طلعت نے سنبھل کر ذرا سنجیدگی سے جواب دینے کی کوشش کی۔ وہ مسکرا کر دوبارہ اسے غور سے دیکھتا رہا۔
’’ارے بھئی میں اس لیے کھیل میں شامل نہیں ہو سکتی کہ مجھے پیکنگ کرنی ہے‘‘
’’رات بھر پیکنگ کیجئے گا۔۔۔؟‘‘
’’میں شملے جا رہی ہوں کل صبح‘‘
’’افوہ۔۔۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ کس قدر زبردست واقعہ ہے یہ۔۔۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کہ آپ شملے جا رہی ہیں اپنے نئے عہدے پر فائز ہو کے۔ افوہ واقعی۔‘‘
’’طلعت بیٹا ذرا ٹائم ٹیبل دیکھ کر بتانا تمہاری ٹرین کل کے بجے چھٹتی ہے۔ یہ بھائی سریواستو بھی کل تمہارے ساتھ ہی جا رہے ہیں۔۔۔‘‘ چچا فاروق نے اپنی اسٹڈی کے دروازے پر آ کر آواز دی۔
’’بہت اچھا چچا میاں۔۔۔‘‘ وہ گیلری کی طرف بڑھی۔ ’’ار۔۔۔ کیا آپ کو ٹائم ٹیبل دیکھنا بھی آتا ہے۔۔۔؟‘‘ پنکی نے ذرا پریشان ہو کر پوچھا۔
’’جی ہاں۔۔۔ کیوں۔۔۔؟‘‘ اس نے تعجب سے سوال کیا۔ ’’قیامت ہو گئی۔ بس اب تو قرب قیامت میں کلام نہیں۔ آپ وہ پہلی خاتون ہیں جن سے مجھے نیاز حاصل ہوا ہے۔ جو ٹائم ٹیبل بھی دیکھ سکتی ہیں۔۔۔ خدا مجھ پر رحم کرے۔‘‘
’’لارڈ بائیرن نے آپ کو اس کے متعلق مطلع نہیں کیا تھا۔۔۔؟‘‘ طلعت نے پوچھا اور اندر چلی گئی۔
پنکی کچھ دیر بعد اٹھ کر ٹہلتا ہوا دوسرے مہمانوں کی طرف چلا گیا۔ کھانے کے وقت جب سب اپنی اپنی پلٹیں ہاتھ میں لے کر ادھر اُدھر منتشر ہو گئے تو گھومتی پھرتی عطیہ فاروق اس کے قریب آئی ’’پنکی بھائی کھانا کھاؤ۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔
’’طلعت کہاں گئیں۔۔۔؟‘‘ پنکی نے پوچھا۔
’’طلعت آپا اندر ممی کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ وملا۔ ٹھہرو میں آتی ہوں۔۔۔‘‘ وہ دوڑتی ہوئی دوسرے مجمع میں جا ملی۔
اسی وقت ایک ڈش اٹھائے طلعت اس کے قریب سے گزری۔‘‘ ارے بھائی طلعت۔۔۔‘‘ پنکی نے برآمدے کے ستون کے پاس سے آواز دی۔ وہ ٹھٹھک گئی۔۔۔‘‘ آپ مجھے طلعت کیوں کہہ رہے ہیں۔ مس جمیل کہیے‘‘ میں قطعی آپ کو طلعت کہوں گا طلعت۔ طلعت۔ طلعت بلکہ مستقبل قریب میں تو میرا ارادہ آپ کو طلعت ڈارلنگ کہنے کا بھی ہے۔۔۔ کہیے آپ کیا کر لیجئے گا! فی الحال تو آپ جا کر اپنی پیکنگ کیجئے۔۔۔ جائیے‘‘۔۔۔ وہ تیزی سے دوسری طرف چلی گئی۔
یہ زندگی کا اچانک پن۔ اور ہر چیز لڑکھڑاتی ہے اور ہر چیز مختلف ہے اور دنیا ہمارے اوپر زیادہ تیزی سے آ گرتی ہے۔ اور یہاں اتنی دیوانگی ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ ٹہلتا ہوا لکڑی کے پل پر سے اتر کر سفیدے کے جھرمٹ میں آ گیا۔ اور اس نے ایک پتہ توڑ کر دیکھا اور اس کے چاروں طرف بڑے بڑے گلاب کھلے تھے۔ راستے کے اختتام پر پیلو سعید کے گھر میں سے پیانو کی آواز بلند ہو رہی تھی اور چند لڑکیاں پل پر سے گزرتی کسی دوسری کوٹھی کی طرف جا رہی تھیں۔ دیکھا تم نے یہ ہے بالکل بنٹن شوٹن۔ فشن۔ ٹائپ۔ اسے دیکھ کر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا اور آگے چلی گئیں۔
جھیل کے راستے پر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر اپنے ماضی کے ویرانے کو دیکھا۔ جہاں سنسان ہوائیں چل رہی تھیں۔ میں کیا کر رہا ہوں۔ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ جھیل کے پار اسسی کی خانقاہ کے گھنٹے بجنے شروع ہو گئے تھے۔
شام کو کلب میں اسے اومیشوری سپرو ملی۔ وہ اس کے قریب بیٹھی چند نئے ریکارڈ بجا رہی تھی۔ اس اومیشوری سپرو ہی سے باتیں کی جائیں کم از کم ورنہ وہ یقیناً برا مان جائے گی۔ اس نے سوچا۔ ’’آپ کافی سے زیادہ حسین ہیں مس سپرو۔۔۔‘‘ اس نے اکتاہٹ کے ساتھ کہا۔
’’اور آپ کافی سے زیادہ دیوانے ہیں مسٹر پنکی اشرف۔‘‘ اومیشوری سپرو نے شگفتگی سے جواب دیا۔
’’ظاہر ہے جب ہی تو آپ سے ملاقات کا فخر حاصل کر رہا ہوں۔‘‘ اس نے کوشش کر کے اسی شگفتگی سے کہا۔
یہ پنکی اشرف ایک مصیبت ہے۔ دن بھر سوتا ہے۔ رات بھر برج کھیلتا ہے۔ یا چھٹیوں کے روز صبح سے اپنی اسٹڈی میں بند ہو کر Poussin کے آرٹ اور فرنچ سر ریلسٹوں کا مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ دو متضاد دل چسپیاں۔
یہ سب جگہیں ایک سی تھیں۔ یہ سارے لوگ ایک طرح کے تھے۔ دو سو سالہ پرانے انڈو برٹش اسٹائل کی زندگی کتنے مطمئن انداز سے گذرتی آ رہی ہے۔ یہ سارے شہر ایک سے تھے۔ وہی ایک سا طبقہ۔ جو آبادی سے دور سول لائنز میں رہتا۔ سب کی ایک سی کوٹھیاں۔ ایک سے باغ۔ ایک ہی ذہنیتیں اور خیالات اور اس اینگلو انڈیا کے یہ سارے مشہور اور خاص اسٹیشن پونا جھانسی آگرہ لکھنؤ کان پور الہ آباد۔ پھر ان لوگوں کے یہ ہل اسٹیشن۔ بنگال کا دار جیلنگ۔ یوپی کا نینی تال اور مسوری اور شملہ۔ شمال مغرب کا کشمیر۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ قیامت تک اسی طرح اپنے ان پرانے کلبوں میں جمع ہو کر برج اور بلیرڈ کھیلتے رہیں گے۔ جہاں کے باغوں میں غدر کی یاد گار توپیں سجی تھیں۔ یہ آئی سی ایس پی سی ایس اور آئی پی کے پرانے عہدے دار ہائی کورٹ کے جج اور انڈین آرمی کے سرخ مونچھوں والے کرنل اور ان کی بیویاں اور بیٹیاں جو صبح کے وقت ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی نیٹنگ سنبھال کر اور اپنے کتوں کے ہم راہ سول لائنز کی شفاف سایہ دار ٹھنڈی سڑکیں عبور کر کے ایک دوسرے کی کوٹھیوں کے برآمدوں میں جمع ہو کر لنچ کے وقت تک انتہائی بے کار قسم کی سوشل گفتگو میں مصروف رہتی تھیں۔ اور پھر کلب کے چیرٹی بازار کے لیے پروگرام بناتی تھیں۔ اور جاڑوں میں ہاتھیوں پر بیٹھ کر ریاستوں کے راج کماروں اور راج کماریوں اور انگریز حکام کے ساتھ شاردا ندی کے پار جا کر شیر کا شکار کیا جاتا تھا۔
لیکن طلعت جمیل۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ تم بھی تو اسی اینگلو انڈیا اسی پرانے طبقے کی پیداوار ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ تمہارا پی سی ایس باپ تمہاری پیدائش کے دوسرے سال ہی مرگیا۔ اور تم خس کی ٹٹیوں میں چھپی ہوئی ایسی کوٹھی میں نہ پل بڑھ سکیں۔ جہاں شام کو لان پر پنکھے کے نیچے ضلع کے حکام اور ان کی بیویاں جمع ہو کر انتہائی غیر ضروری باتیں کرتے یا ٹینس کھیلتے۔ تم نے اس ماحول اور اس زندگی کی روح میں سمانے کے بجائے اپنی اتنی عمر فاروق چچا کے گھر کے ایک کمرے میں محض اقتصادیات پڑھنے میں ہی گزار دی۔ طلعت جمیل تم اپنے طبقے کے ساتھ جس کی تم پروردہ ہو، بہت زیادتی کر رہی ہو۔ کیا تمہاری روح بھی قرون وسطی کے سورماؤں کی طرح زرہ بکتر پہن کر ایڈونچرز کی تلاش میں آگے نکلنا چاہتی ہے۔۔۔؟ ہاں۔ میں ضرور آگے جاؤں گی اور دیکھوں گی کہ وہاں کیا ہے۔ وہاں جہاں پر تاریکی روشنی ہے۔ غلطیاں صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ اور زندگی خواب اندر خواب ہے۔
’’طلعت جمیل‘‘ اس نے اپنے آپ سے دوبارہ پوچھا۔۔۔‘‘ کیا تم اسے بھولنا چاہتی ہو۔ جس نے تم کو طلعت طلعت طلعت کہہ کر پکارا تھا۔۔۔؟‘‘ تمہیں در اصل تصورات کا ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے۔ طلعت جمیل آخر میں اس نے خود کو جواب دیا اور ٹرین کے کمپارٹمنٹ کی کھڑکیاں گرا کے سو گئی۔
جنگ ختم ہو چکی تھی لیکن جنگ کا پرندہ کائنات کی بے کراں تاریکی کے اوپر مریخ کی مدھم سرخ گرم روشنی میں آہستہ آہستہ پرواز کرتا جا رہا تھا۔ اور یہاں پر صرف چلتے ہوئے وقت کی آواز تھی جو اس طرف جا رہا تھا جہاں بہار نہیں تھی۔ زندگی نہیں تھی جہاں کسی سوال کا جواب نہیں ملتا تھا۔ وہ جو پنکی اشرف کہلاتا تھا اس نے ٹھٹھک کر اس بھاگتے ہوئے وقت کے کنارے کو چھونے کی کوشش کی۔ آخر وہ تھک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ خدا حافظ اومیشوری سپرو۔۔۔ اس نے اپنے آپ سے کہا اور وہاں واپس جانے کے لیے تیار ہوا جہاں مرکزی حکومت کی اعلی پالیسی بنانے والوں میں اسے شامل ہونا تھا۔
ایک کہر آلود صبح ایک ایئرپورٹ کے نیلگوں دھندلکے میں وہ اسے دو بار نظر آئی۔ وہ اپنے اسٹاف کے ساتھ مشرق وسطی اور مغربی یورپ کا دورہ کر کے واپس آ رہی تھی۔ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا فضائی جہاز اُسے دوبارہ مشرقی جزیروں کی طرف لے جانے کے لیے شیڈ کے نیچے سکون سے کھڑا تھا۔ کہر آلود اور سنسان رن وے پر وہ ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ’’دیکھو وہ ہوائی جہاز پیدل چل رہا ہے۔۔۔‘‘ دوسرے رن وے پر سے گزرتے ہوئے ایک جہاز کو دیکھ کر اس نے کہا۔ پنکی نے ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
’’اس قدر فلسفیوں کی سی شکل کیوں بنا رکھی ہے آپ نے جناب۔ پنکی۔۔۔!‘‘ طلعت نے اس کے نام کا گویا مذاق اڑاتے ہوئے ہنس کر پوچھا۔
’’آؤ تمہیں اپنا ڈیکوٹا دکھاؤں۔‘‘ وہ جہاز کے قریب جا کر سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ گھر پر سب لوگ کیسے ہیں۔ عطیہ۔ چچا میاں۔ اور سارے دوست تمہارے پیلو سعید اومیشوری سپرو وغیرہ وغیرہ۔۔۔‘‘ وہ بشاشت سے باتیں کرتی رہی میں نے عطیہ کو بہت دنوں سے خط نہیں لکھا وہ بے حد خفا ہو گی۔ اور چچا میاں بھی پریشان ہوں گے۔ انہیں میں نیپلز سے ایک پکچر پوسٹ کارڈ بھیج سکی تھی صرف۔۔۔ میں رہتی در اصل اس قدر مصروف ہوں۔۔۔!!‘‘
اس نے پھر ہنس کر اسے دیکھا۔ وہ خاموش بیٹھا پائپ پیتا رہا۔ اب کے جب تم گھر جاؤ اور عطیہ سے ملو تو اس سے کہہ دینا کہ میں بہت سخت بیمار ہوں در اصل اس لیے اسے خط نہ لکھ سکی۔ اس سے کہہ دینا کہ مجھے۔۔۔ وہ ہو گیا ہے۔ وہ کیا ہوتا ہے۔ اپنڈی سائیٹس!!‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ پائپ کی راکھ جھٹکتے ہوئے اس نے ذرا غرا کر پوچھا۔ ’’اپنڈی سائیٹس بھئی۔ اور تھوڑا سا منین جائیٹس بھی اور بران کائٹس کا بھی احتمال ہے۔ اور ساتھ ساتھ نیو موتھوریکس کا ذکر بھی کر دینا تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔‘‘ اس نے شگفتگی سے کہا۔ اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
ورلڈ ہیلتھ اور گنائزیشن نے معلوم ہوتا ہے تمہیں بہت بشاش کر رکھا ہے۔ وہ جل بھن کر بولا۔ وہ یک لخت خاموش ہو گئی اور دھندلکے کو غور سے دیکھنے لگی۔
’’آؤ ٹہلیں۔۔۔‘‘ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔ وہ رن وے پر چلتے رہے۔ روشنی کے نیلگوں مینار ان کے چاروں طرف فضا میں لرز رہے تھے۔ ’’میں تمہارا ہاتھ تھامے ہوں۔ میں تمہارے دکھ میں مبتلا ہوں۔ میں تمہارے ساتھ اس رستے پر چل رہی ہوں جس پر صبح کی شبنم جھلملا رہی ہے اور خنک گھاس پرسے دھواں اٹھ رہا ہے۔‘‘
’’موسیو پنکی کیا تم سمجھتے ہو کہ اتنی دنیا گھوم کر آنے کے بعد بہت خوش ہوں؟‘‘ کچھ دیر بعد اس نے ٹھٹھک کر سوال کیا۔ وہ خاموش رہا۔ ’’مجھے وہ سیاہ آنکھوں والا خوب صورت یونانی یاد ہے۔‘‘ وہ آہستہ آہستہ کہتی رہی۔۔۔ ’ؔ’جسے وہ پکڑ لائے تھے۔ اسے انہوں نے چوکولیٹ کھانے کو دی اور دیر تک اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ گراموفون سنو گے کتے کے بچے۔۔۔؟ لو نیلی ڈینیوب سنو۔۔۔ وہ اطمینان سے گراموفون بجاتے رہے۔ اور جب اسے تنگ کرنے کے اس شغل سے تھک گئے تو اسے ایک درخت کے نیچے لے جا کر کھڑا کیا اور بندوق چلا دی۔ وہ وہیں گر کر ختم ہو گیا۔ اس روز انہوں نے اس درخت کے نیچے دس نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ وہ سیب کا درخت تھا اور اس پر سفید شگوفے کھل رہے تھے۔‘‘ وہ خاموش ہو گئی۔
دھندلکے کے پیچھے سے آفتاب طلوع ہوتا جا رہا تھا۔‘‘ وہاں ایک ترچھی معصوم آنکھوں اور چمپئی رنگ والا انڈونیزین تھا۔ وہ بری طرح زخمی ہو چکا تھا۔ جب اسے ریڈ کراس کے خیمے میں لایا گیا اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھ سے آہستہ سے کہا تھا۔ مجھے پرانے عہد نامے میں تیئسواں لحن داؤدی پڑھ کر سنا دیجئے۔ خداوند خدا میرا چرواہا ہے مجھے کوئی فکر نہیں وہ مجھے خاموش پانیوں کے کنارے کنارے لے جاتا ہے خاموش پانیوں کے کنارے کنارے۔۔۔ پھر وہ بھی مرگیا تھا۔ ان سب کو اسی طرح مارا جاتا ہے۔ وہ اسی طرح مر رہے ہیں۔ تیئسویں لحن کے باوجود۔‘‘وہ کہتی رہی۔
’’وہ مشرقی سمندر کے جزیرے ہیں۔ جہاں رقص نے جنم لیا تھا۔ جہاں بالی کی رقاصائیں اپنی بھویں گہرے سبز رنگ سے رنگ کر پنکھوں کے ساتھ ناچتی تھیں اور درختوں کے نیچے منڈولین بجائی جاتی تھیں۔۔۔‘‘ وہ خاموشی سے چلتے چلتے ایئرپورٹ کی عمارت کے نزدیک آ گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ وہاں سے چلی گئی۔ شعلے سے شعلے کی طرف گریس سے گریس کی طرف۔ جگنوؤں کی میڈونا مریم۔۔۔۔۔دنیا کے اجنبی راستوں پر میرا خیال رکھنا۔ کیا وہ بیت لحم کی طرف جا رہے ہیں؟ فضا میں بلند ہوتے ہوئے طیارے کو دیکھ کر اس نے اپنے آپ سے سوال کیا اور پھر وہ ایئرپورٹ سے واپس آ گیا۔
جنگ اور موت کا پرندہ دیس کے اندھیرے شہروں پر نیچے نیچے منڈلا رہا تھا۔ مریخ کی سرخ روشنی زیادہ تیز ہو گئی۔ وہ زمانہ آیا۔ جب وہ اپنے گھر اپنے کھنڈر اپنے کھیت چھوڑ کر لڑکھڑاتے ہوئے دوسری طرف چلے گئے۔ اپنے کھیت چھوڑ کر جہاں وہ سنہرے اناج کے ساتھ بھوک بوتے جوتتے اور کاٹتے تھے۔ اجنبی دیس کے کھیتوں میں اسی طرح بھوک بونے جوتنے اور کاٹنے کے لیے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ اس سرخ اندھیارے میں اپنی واکس ہال پر بیٹھ کر اور اپنے پوڈلز کے ہم راہ وہ بھی دوسرے دیس کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں پہنچ کر اسے ایک اور بے حد اہم عہدہ سنبھالنا تھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ لیکن دفعتاً راستے کا موڑ اس کے سامنے آ گیا۔ وہ اس راستے پر نہ جا سکتا تھا۔ جدھر وہ گئی تھی۔
خزاں کے بہت سرخ چاند کے نیچے۔ چپ چاپ اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ سرخ اندھیارا گہرا ہوتا گیا۔ عظیم خاموشی آہستہ آہستہ گرجتی ہوئی نیچے اتر رہی تھی۔ یہ حیات کی تخلیق کی پہلی اور آخری رات تھی۔ خلا کے اندھیرے میں وہ بے مقصد چاروں طرف گھومتا رہا۔
یہ میں جو میں ہوں۔ خاموشیوں کی دیوی نے آہستہ سے کہا۔ تم جس راستے پر چلو گے بالآخر مجھ تک پہنچو گے۔ جس راگ کو سنو گے اس میں میری آواز ہو گی۔ جس خوشبو کو محسوس کرو گے اس میں میری مہک پاؤ گے۔ پھولوں کے رنگ جو دیکھو گے ان میں میری جھلک موجود ہو گی۔ میں ستی ہوں میں یشودھرا ہوں۔ میں تمہارے وجود کا سایہ ہوں۔ سایہ جو کبھی جدا نہیں ہو سکتا۔ جو ہمیشہ آگے آگے چلتا ہے۔ لیکن مل نہیں سکتا۔ اور مستقبل کی صدیوں کے اندھیرے میں کھو جاتا ہے۔ بے کراں تاریکی میں وہ گھومتا رہا۔ جہاں اس کے مختلف وجود اندھیری راہوں پر چکر کاٹ رہے تھے۔ کیا تم اس سائے تک پہنچنا چاہتے ہو۔۔۔ اس کے ایک وجود نے دوسرے وجود سے سوال کیا۔ ’’ہاں۔‘‘ دوسرے وجود نے جواب دیا۔ ’’کیا تمہیں دوسری پرچھائیوں تک پہنچنے کا اتنا ہی شوق نہ تھا۔۔۔؟ پیلو سعید۔۔۔ عطیہ فاروق۔۔۔ اومیشوری سپرو۔۔۔ ان سب کو یاد کرو۔ وہ تو دفع الوقتی تھی۔ یہ بالکل دوسری چیز ہے بھائی روح۔‘‘ اس کے دوسرے وجود نے بچوں کی طرح جھنجھلا کر جواب دیا۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ بھی تمہارا تصور نہیں۔
محض ایک اور لڑکی (جسے اتفاق سے ٹائم ٹیبل دیکھنا بھی آتا ہے) نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ دوسرے وجود نے قطعی طور پر بگڑ کر کہا۔ کیسی باتیں کرتے ہو میاں یہ بالکل دوسری چیز ہے۔۔۔ سناٹا اس کے چاروں اور گرجتا رہا۔ یہاں کوئی خاتمہ نہیں۔ کوئی خاتمہ نہیں۔ تخلیق کی ڈولتی ہوئی رات کے ساتھ وہ بہت دور نکل آیا تھا۔
خدا حافظ خوابوں کے شہر۔ خدا حافظ خوابوں کے انسانو۔۔۔ اس نے پیچھے مڑ کر چپکے سے کہا۔ جدھر دور بے کراں تاریکی میں اسسی کے گھنٹے آہستہ آہستہ بج رہے تھے۔ ہم روتے ہوئے گھر جاتے ہیں لیکن گھر کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ ہم مرنے کے لیے واپس آ جاتے ہیں۔ اور مر جاتے ہیں۔ اور مرتے رہتے ہیں۔ اور اولیں پیدائش کی اندھیری ڈولتی رات کے کنارے فصیل پر پہنچ کر اپنی کالی آنکھیں جھپکا کر ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ اسسی کے گھنٹے بجا کیے۔ اور ایک روز خون کے دریاؤں اور موت کی دلدلوں پر سے گذرتی وہ اپنے ریڈ کراس کے طیارے میں بیٹھ محاذ جنگ سے واپس آئی اور اس نے دیکھا کہ دیس سنسان پڑا تھا۔ طوفان اور آگ اور موت کی ضیافتوں کے بعد اب وہاں مکمل سناٹا تھا۔
وہ پورب دیس کی ان سایہ دار سڑکوں پر سے گذری۔ جہاں آم کے جھرمٹ میں ساون کی بارش میں شرا بور کوئل بولتی تھی اور لڑکیاں ڈھولک پر اپنے پرانے گیت گاتی تھیں۔ آدم بورا۔ آمل پاکی۔ مہوہ ٹپکے آدھی رات۔ گوئیاں نیند نہ آوے۔ ہو ریلوا کی سان،۔ رات کی بے کراں تاریکی میں دور کوئی دھیرے دھیرے اب بھی گا رہا تھا۔ شیام رس بینا ڈولاؤ گوری کے لاگے بیئریا۔۔۔ شیام پنکھا آہستہ آہستہ جھل کیوں کہ گوری کو ہوا بری لگتی ہے۔۔۔
وہ اٹھ بیٹھی اور آنکھیں بند کیے سنتی رہی۔۔۔ وہ مانوس آوازیں دور ہوتی گئیں۔۔۔ سنارا ہٹونا پیاں تورے لاگوں،۔ مورے بینے گھنگھروں دے لگائے۔ گوری کے لاگے بیئریا۔ سنار کے بیٹے میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ میرے پنکھے میں گھنگھرو لگا دو۔ گوری کو ہوا لگتی۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔ لیکن وہاں کوئی آواز نہیں تھی۔ وہاں پر صرف خاموشی تھی۔ اپنے قصبوں اور گاؤں کے یہ محبوب گیت مر چکے تھے۔ دلہنوں کے دوپٹوں کی بیسر کی لڑیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ اب برکھا کی رتوں میں۔ جب اونچی اٹاری اور تالاب کے کنارے سے بچھوا جھنکار نہیں آئے گی۔ ہو ریلوا ورلڈ ہیلتھ اورگنائزیشن کے باوجود پیدا ہونے سے پہلے ہی مار ڈالا گیا تھا۔ وہ مر رہے تھے۔ یا دیس بدر ہو رہے تھے۔ اور ان کے کھیتوں اور گلیوں میں بھوت چل رہے تھے۔ وہ اپنے شہر کی چپ چاپ سڑکوں پر چلتی رہی۔
وہ اسسی کی خانقاہ کے قبرستان کے قریب سے گذری جہاں مرمریں قبروں پر مرمریں فرشتے بے حد تکلف اور شائستگی سے پر جھکائے کھڑے تھے یا دو زانو بیٹھے ہوئے اچک کر آسمان کو دیکھ رہے تھے۔ سفیدے کے جھنڈ کے کنارے کنارے کوٹھیوں کی قطاریں کہرے میں رینگ سی رہی تھیں۔ وہ اپنے گھر کے دروازے میں داخل ہوئی۔ دروازے پر کون دستک دے رہا ہے۔ اس نے آہستہ سے پوچھا۔ رات کی مملکت میں سے نکل کر آنے والی روحو تم کون ہو۔۔۔؟ ہم وہ فرشتے ہیں جو ہمیشہ تمہارے پاس آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن تم ہمیں لوٹا دیتی ہو۔ تم کون ہو۔۔۔ پھر اندھیرے میں اس نے اسے پہچانا جو بہت دور سے اس کے پاس واپس آیا تھا۔۔۔ تم میرے وجود میں شامل نہیں ہو تم مجھ سے علاحدہ دور کھڑے ہو۔ اس کہر آلودہ راستہ کے کنارے تم ایک بار آہستہ آہستہ گنگنا رہے تھے۔
امیر جمع ہیں احباب درد دل کہہ لے
پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے
اس وقت میں راستے پر تمہارے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ لیکن دفعتہً دو راہا میرے سامنے آ گیا تھا۔ اب ہم پھر تنہا ہیں۔ اور ابھی ہوائیں چلیں گی۔ اور ان تنہائیوں کو بکھیر کر آگے چلی جائیں گی۔ اور میں چپکے سے پوچھوں گی۔ تم کہاں گئے۔۔۔
موت کے وسیع احاطے میں سے جس کے چاروں طرف کانٹوں والے تار کھنچے ہیں۔ وہ سب آہستہ آہستہ گذر رہے ہیں۔ وہ تھک کر رک جاتے ہیں اور آسمان کو دیکھنے لگتے ہیں۔ اور اپنی صلیبیں اٹھا کر پھر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ تم نے اس انسان کو پہچانا جو ہمارے سامنے ان تاروں پر لٹک رہا ہے اور اس کے گلابی ہونٹوں پر (جن کو کلبوں میں خواتین بڑے تعجب اور غور سے دیکھا کرتی تھیں) عنقریب چیونٹے چڑھنے والے ہیں۔ آؤ ہم اس پر ہنسیں۔ اس کی قسمت پر۔ اس دنیا اور اس زمانے پر جس نے اسے اس لیے پیدا کیا کہ اس طرح مارا جائے اور کیڑے اس پر چلیں۔ آؤ ہم اس پر ہنسیں۔ ہم کتنے بے ہودہ ہیں کہ موت پر ہنستے ہیں۔ پھر ہم کیا کریں۔۔۔؟ تم اس کے لیے سر ریلیسٹ انداز کی ایک تصویر بناؤ پنکی اشرف۔ میں اس پر ایک مرثیہ لکھوں گی۔ تم نے اس لڑکی کو دیکھا۔ جو سامنے سے جا رہی ہے۔ جب یہ مرے گی تو وہی سب ہو گا جو ہمیشہ ہوتا ہے۔ اس کے دماغ میں مکڑی جالے لگائے گی اور چیونٹے اس کے دل میں ناچیں گے۔ لیکن اس وقت وہ پل پر سے گذرتی کلب کی طرف جا رہی ہے اور بہت خوش ہے۔
سوفو کلز۔ سوفوکلز۔ اور اس نے کہا۔ ہاں۔ ہم بہت برے زمانے میں ملے ہیں۔ اور اسسی کے گھنٹے ہمارے پیچھے بجتے جا رہے ہیں۔ ہماری زندگی کو چوہے کتر رہے ہیں اور ہمارا خدا پہاڑوں پر پیدا ہوتے ہی مر چکا ہے اور اس کی تجہیز و تکفین سے فراغت پا کر میں تمہارے پاس آئی ہوں۔
تم نے غلطی کی ہے جب یہ سفید بیمار چوہے اپنے بلوں کو واپس بھاگ جائیں تب تم بھی بور ہو چکی ہو گی۔ اسی طرح مرنے کا انتظام کرو جیسے اور سب مرتے ہیں۔ اس نے آہستہ سے جواب دیا۔ کیوں کہ یہ سب جگہیں ایک سی ہیں۔
ہاں۔۔۔ اس نے کہا۔ لیکن ان راستوں پر چلتے چلتے تو میں بہت دور آ گئی ہوں بھائی میں نے دہشت پسندوں کی مجلسوں میں ان کی باتیں سنیں۔ میں نے ٹیل کوٹ پہننے والے دیوتاؤں کے ساتھ سیمبا کیا۔ مجھے Poussin کے چیلوں نے اپنی لکیروں میں مقید کیا۔ جب کہ میرے پیچھے پہاڑ تھے۔ میرے وجود کے ٹکڑے مختلف رنگوں اور اسٹائلوں میں منتشر کیے گئے۔ اور زندگی اسی طرح گذرتی چلی گئی۔ مجھے انہوں نے محض ایک سمبل سمجھا۔ ایک طرز۔ ایک نظریہ۔۔۔ وہ رک گئی۔۔۔
تم نے میرا وہ فرکوٹ دیکھا ہے جو میں نے طہران میں خریدا تھا۔۔۔ ذرا ہماری شخصیتوں کے غرور تو دیکھو۔۔۔؟ کیسی مدھم روشنی پھیل رہی ہے۔ وہاں رات نیلگوں پٹرول اسٹیشن اور باورچی خانے کی چمنیاں جو اندھیرے میں مدغم اور رینگتی معلوم ہوتی ہیں۔ اور کلوروفارم کی ایسی نیند ہمارے دماغ پر سر سراتی ہے۔ اور بھیگے چوراہوں پر اونچی طویل دو منزلہ بسیں پر اسرار طریقے سے آ کر رکتی ہیں۔ اور آگے جاتی ہیں۔ اور اس منڈلاتے ہوئے زرد اجالے کے پس منظر میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر وہ سنسان قصبے ہیں جہاں بوڑھے تعلق دار اپنے سلیم شاہی جوتوں میں چھپے روتے ہیں۔ ہنٹن شوٹن فشن کا خاتمہ ہو رہا ہے اور کلبوں میں غدر کے وقتوں کی یادگار توپوں کی جگہ پر مشین گنیں رکھی ہیں۔ اور جرمن اور روسی بیلے کا مطالعہ کرنے کے بجائے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بم بنانے میں مصروف ہیں۔
اور معزز میزبان خاتون چاندی کے چمچے اٹھا کر شکر گھولتے ہوئے سوچتی ہے میں اس طرح کب تک جیوں گی۔ آرٹ گیلریوں میں تصویریں اونگھتی جاتی ہیں اور پہاڑوں پر ضدی خدا بالآخر پیدا ہو رہا ہے۔ اس کے استقبال کے لیے وہ اسسی کے گھنٹے بجا رہے ہیں۔ موسم کی خنکی کھیتوں اور اصطبلوں پر منڈلا رہی ہے۔ یروشلم۔۔۔ خدا حافظ خوابوں کے شہر۔ شب بخیر خوابوں کے انسانو! وہ راستے پر چلتا رہا۔
کیسی مدھم روشنی چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ جو دن اور رات کے کسی سمئے بھی پیدا نہ ہوئی تھی۔ اور بھورے اور سرمئی اور گلابی مکان سبزے پر خاموش اور پر مبہوت کھڑے تھے۔ یہ آدم زاد کے رہنے کے مکان نہیں تھے۔ اور یہاں روح چپ چاپ چاروں طرف گھومتی تھی۔ اور گہرے سبز آسمان پر بادل کے ریلے زناٹے سے بہہ رہے تھے۔
ورجن میری کے گلابی نیلگوں بادل اس وقت وہ اگر کسی بھوت کو سچ مچ دیکھ لیتا تو اسے ذرا حیرت نہ ہوتی۔ اس وقت اگر لودور کی مریم خوبانی کے جھنڈ میں چھپے ہوئے اپنے گروٹو پر سے اتر کر سڑک پر پیدل چلتی ہوئی اس کے قریب آ کر اس سے اپنا تعارف کراتی کہ میں طلعت جمیل ہوں۔ تو اسے قطعی تعجب نہ ہوتا۔ اسسی کے گھنٹے دفعتہً تیزی سے بجنا شروع ہو گئے۔ کیوں کہ یہ کرسمس کی رات تھی۔ خدا حافظ خوابوں کے شہر۔ اس نے چپکے سے دہرایا۔
شیام رس بینا ڈولاؤ گوری کے لاگے بیئریا۔ اس نے آہستہ سے کہا۔ اندھیرا ان کے چاروں طرف بہت گہرا ہو گیا۔
وہ جو پیلو سعید تھی اس نے اجنبی دیس میں پہنچ کر چاروں کھونٹ نظر ڈالی۔ وہ سب دوبارہ اکٹھے ہو گئے تھے۔ وہاں عطیہ فاروق تھی۔ ڈوپی تھا۔ شیرو تھی۔ نشو آپا۔ چچا رجو اس کا سارا کنبہ۔ سارے دوست وہاں پنکی اشرف بھی آ چکا تھا۔ چھٹیوں کی صبحیں وہ سب یاٹ کلب میں گزارتے۔ پنکی چھٹیوں کے روز حسب معمول دن بھر سوتا۔ رات بھر برج کھیلتا۔
’’پنکی تم شادی کب کر رہے ہو‘‘۔۔۔؟ وہ اس سے پوچھتے۔ ’’کیا وہ۔۔۔ آئے گی؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ وہ ایک روز ضرور آئے گی‘‘۔۔۔ وہ غیر یقینی طور پر اپنے آپ سے کہتا۔ بالآخر وہ ایک روز آ گئی۔ عطیہ نے پھولے ہوئے سانس سے پنکی کو فون کیا۔۔۔ پنکی بھیا۔ طلعت آ گئی ابھی اس نے ایئر پورٹ سے فون کیا ہے۔ سب نے بے حد ایکسائیٹ منٹ کے ساتھ ایک دوسرے کو یہ خبر سنائی اور خوش خوش پنکی کو مبارک باد دینے کے لیے ٹیلیفون کی طرف دوڑے۔ انہوں نے سرد نعمت خانے میں سے پانی کی بوتلیں نکالیں اور سمندر کے رخ پر آ بیٹھے اور اندھیرا پڑے تک پنکی کی باتیں کرتے رہے۔
وہ سب بے حد خوش تھے۔ خوش آمدید طلعت جمیل۔ انہوں نے اس سے کہا۔ یہ وہ سر زمین ہے جس کا یہودا نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اور تم بالآخر اپنی ضدوں کے باوجود یہاں پہنچ گئی ہو۔ اب ہم تمہیں واپس نہ جانے دیں گے۔ خوش آمدید۔ وہ جو خون کے دریا اور موت کی دلدلیں اور درختوں سے لٹکتی ہوئی لاشیں دیکھ کر آ رہی تھی۔ اس نے چاروں طرف نظر ڈالی۔ ایئرپورٹ کے سبزے پر شبنم کے قطرے جگمگا رہے تھے۔ اور نیا پرچم آسمان کی بلندیوں میں لہراتا تھا۔ یہاں کتنی چہل پہل اور رونق تھی اس نے تعجب سے کہا۔ ’’آؤ میں تم کو یہاں کی سیر کراؤں‘‘۔۔۔
عطیہ نے بچوں کی طرح اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔ یہاں کے ہل اسٹیشن یہاں کی رقص گاہیں۔ دیکھو اتنے سے عرصے میں ہم نے کتنی ترقی کر لی ہے۔ وہ یہ سب دیکھتی رہی۔ کتنی خوشی کی بات ہے طلعت ڈارلنگ کہ قوم کی حیات نو کے بعد سے رقص گاہوں کا مجمع پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے۔ اور ملت کی ہر فیشن ایبل بیٹی کے لیے رقص سیکھنا بال پرم ڈانس سیکھنا اور غرارے پہننا لازمی سا ہو گیا ہے۔
اسے بتایا گیا۔۔۔ دیکھو یہ بین الاقوامی جلسے ہو رہے ہیں۔ باہر کے وفد آ کر ان چیزوں کی کتنی تعریفیں کرتے ہیں۔ بے حد رعب پڑتا ہے۔ ان پر۔ یہ الف لیلیٰ کی ہالی ووڈ ورژن ایسی زندگی کس قدر طرب ناک ہے۔ کل ہمارے یہاں ایک فرانسیسی آیا تھا اور ایک امریکن اور اس کی بیوی تینوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ جب انہوں نے ہمارے اسٹریم لائنڈ ڈرائنگ روم اور میرے کھڑے پائیچوں کے پاجامے کو دیکھا (جسے یہاں غرارہ کہتے ہیں)۔
کس قدر کیوٹ اور رومینٹک کس قدر گریس فل۔۔۔ انہوں نے تعجب سے کہا۔ در اصل ہم لوگ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ آپ سب جھونپڑوں اور کچی مٹی کے مکانوں میں رہتے ہیں اور موٹے موٹے ویل پہنتے ہیں۔ انہوں نے بعد میں ذرا شرما کے اعتراف کیا۔
شیرو اسے بتا رہی تھی۔ آہ ایران کی راتیں۔ بغداد کی راتیں۔ قاہرہ کی راتیں۔ پنکی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے وہ بے حد رومینٹک انداز میں آنکھیں بند کر کے ان جگہوں کو یاد کرتے رہتے۔ وہ چپ چاپ بیٹھی سنتی رہتی۔ کاش ان جگہوں کو تم نے دن کی روشنی میں بھی دیکھنے کی کوشش کی ہوتی۔ امریکن انگریزی اور فرانسیسی ہوٹلوں اور سفارت خانوں کی جگمگاہٹ سے باہر نکل کر کاش تم ان جگہوں کے گلی کوچوں میں بھی جاتے۔ تم جو مشرق وسطیٰ کا اتنے رومینٹک انداز میں ذکر کرتے ہو۔ تم ان الٹرا فیشن ایبل خانموں کے نیولک کے فراکوں کے علاوہ ان کی روحوں کا اندازہ لگانے کی کوشش بھی کرتے۔ وہ بیٹھی قہوہ پیتی رہی۔ پنکی کے دوست حسب معمول زور شور سے بحثوں میں مصروف رہے۔ ان میں سے ایک صاحب ملک کی نئی اسکیموں کے فائیلوں کے انباروں میں اضافہ کرنے کے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ مختلف قسم کی اسکیمیں کلچر۔ ایگری کلچر۔ ہورٹی کلچر۔ فنون لطیفہ۔ تعمیرات۔ الٰہیات۔ مصنوعات۔ ادبیات۔ کتیات۔ بلیات۔ گھنٹوں یہ بحثیں جاری رہتیں اور قہوے کے بلوریں فنجان اور ووڈکا کی بوتلیں خالی ہوتی رہتیں۔
ایلس ان ونڈر لینڈ والے گرائفن کے پور پوائز کی طرح جس نے ایلس سے بگڑ کر پوچھا تھا کہ بھلا کوئی شریف عقل مند مچھلی کسی پور پوائز کے کہیں جاتی ہے۔ یہ ان کا پور پوائز تھا۔ دن بھر ریڈیو میں قوالی ہوتی رہی۔ وہ اکتا کر ریڈیو گرام کے پاس جا بیٹھی اور چند ریکارڈ چننے میں مصروف ہو گئی۔ پنکی کے دوست صاحب پیچھے سے اچک کر ان ریکارڈوں کو دیکھنے لگے۔ ’’یہ کیا۔۔۔ ماروا۔۔۔ درگا۔۔۔ غضب خدا کا۔ مومنہ ہو کر تم درگا سننے کا ارادہ رکھتی ہو جس کے نام ہی سے کفر ٹپکتا ہے۔۔۔؟‘‘ انہوں نے پک اپ پر سے وہ ریکارڈ ہٹا دیئے۔
’’اچھا مالکوس ہی کم از کم۔۔۔‘‘ اس نے مری ہوئی آواز میں کہا۔
’’ہرگز نہیں‘‘۔۔۔ وہ ڈپٹ کر بولے۔۔۔‘‘ میاں کی ملہار البتہ سن سکتی ہو۔۔۔‘‘
وہ ریڈیو گرام کے قریب آ بیٹھے۔ در اصل اب ہم مشرق وسطیٰ ایک وفد بھیج رہے ہیں۔۔۔‘‘ نگران اعلیٰ صاحب نے اسے بے حد سنجیدگی اور اہمیت کے ساتھ بتایا۔۔۔ ’’وہاں سے موسیقی امپورٹ کی جائے گی۔ یہ موسیقی جو اب تک ہم سنتے سناتے رہے ہیں ساری کی ساری خالص غیر ملکی تھی۔ ہماری روح اور ہماری وجدان سے اس کا کہیں دور کا بھی لگاؤ نہ تھا۔ یہ ہمارے اوپر امپوز کی گئی تھی اور بہت سی چیزوں کی طرح۔۔۔‘‘
’’لیکن بھائی صاحب‘‘! اس نے آہستہ سے جواب دیا ’’مشرق وسطیٰ کے پاس تو آج کل اپنی موسیقی کوئی ہے ہی نہیں۔ تھوڑی بہت عربی اور مصری موسیقی کے علاوہ ساری کی ساری یورپ کی سستی موسیقی کی انتہائی بھدی نقالی ہے اور مغربی کلاسیکل موسیقی کو سمجھنا یا پسند کرنا ان کے یا ہمارے آپ کے کسی کی بھی بس کی بات نہیں۔ آپ کون سی موسیقی امپورٹ کیجئے گا؟‘‘
’’غلط ہے۔۔۔‘‘ وہ گرج کر بولے ’’تمہارے خیالات انتہائی مفسدانہ ہیں۔ ہر بات میں مخالفت ہر بات پر اعتراض۔۔۔‘‘ وہ روٹھ کر دوسرے صوفے پر جا بیٹھے۔
’’تمہیں معلوم ہونا چاہئے طلعت بیگم کہ زندگی کے ہر شعبے میں یہ ایکسپورٹ و امپورٹ کا سلسلہ ہماری مادّی و روحانی و تمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ کلچرل اور انٹلکچوئیل ترقی کے سلسلے میں ہم امریکہ سے کپٹن مارول اور سپرو یسٹرن کومکس اور جین رسل کے فلم منگواتے ہیں۔ وہاں ہم اپنی خواتین کے گریس فل غرارے کلچرل نمائش کے طور پر بھیج رہے ہیں۔۔۔ ووگ کے تازہ پرچے دیکھو تو معلوم ہو گا کہ وہ پیرس اور نیویارک کے لباس خانوں میں غراروں کی تقلید میں اس وضع کے ایوننگ فراک تیار کیے جا رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے اسے مطلع کیا۔
اس رات اس نے ایک عجیب و غریب اور بے حد مضحکہ خیز خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ بیس سال کے بعد اس سرزمین کو واپس آئی ہے اور جب وہ بندر گاہ پر اترتی ہے تو اسے کوئی آدم زاد دکھائی نہیں دیتا۔ ہر سمت ہو کا عالم ہے۔ سڑکیں سنسان ہیں۔ دکانوں میں کوئی کاروبار نظر نہیں آتا۔ بس ہر طرف ان گنت بچے جوشیلے نعرے لگاتے لکڑی کے گھوڑوں اور تلواروں سے کھیل رہے ہیں۔ شہر کا یہ منظر دیکھ کر قرون اولیٰ کے قصبوں کا دھندلا سا تصور اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ وہ بے حد تعجب کے ساتھ ایک سڑک پر چل رہی ہے۔ اتنے میں اسے ایک جانا پہچانا سا آدمی نظر آتا ہے۔ وہ اسے غور سے دیکھتی ہے۔ اس کی بہت لمبی داڑھی ہے۔ سبز عمامہ اور ہاتھ میں کاغذات کا پلندہ۔ یہ پنکی اشرف ہے جو ترقی کر کے اس دوران میں قاضی القضاء بن چکا ہے۔ وہ کوتوال شہر بھی ہے۔ اور اس وقت شہر کا چکر لگانے کے لیے نکلا ہے۔ دو حبشی غلام اس کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ ہو لیتی ہے۔
شہر کے دیسی حصہ سے باہر نکل کر دفعتاً ایک بے حد خوب صورت صاف شفاف اور شاداب مقام اسے نظر آتا ہے۔ جہاں خوب صورت عمارتیں اور کوٹھیوں کی قطاریں ہیں اور ہر پھاٹک پر پیکارڈ اور موٹریں کھڑی ہیں۔ اس آبادی کے گرد ایک اونچی سی چہار دیواری کھنچی ہے جس کے سائے میں چھکڑے کھڑے ہیں اور اونٹ جگالی کر رہے ہیں اور سڑک پر دونوں طرف بے شمار دبلے پتلے رنگ برنگے انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے اونگھ رہے ہیں یا داڑھیوں میں انگلیاں پھیر رہے ہیں۔ یا حقہ پیتے پیتے آسمان کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب کون بے چارے ہیں اور سول لائنز ایسی آبادی کس کی ہے۔ وہ حیرت سے پوچھتی ہے۔
’’ہش‘‘ پنکی بے حد پر اسرار طریقے سے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتا ہے۔ انہیں بے چارے نہ کہو۔ یہ سب غازی ہیں۔ ہم سب غازی ہیں۔ ہم نے اپنا سارا دنیاوی کاروبار امریکنوں کو کنٹریکٹ دے دیا ہے۔ جو اس سامنے والی سول لائنز میں رہتے ہیں۔ ہم نے اپنی حکومت بھی انہیں ٹھیکے پر دے دی ہے۔ اب ہم اطمینان سے اور فرصت سے بیٹھے ہیں۔ امریکن ہماری طرف سے حکومت کا انتظام کرتے ہیں اور ہم غازیوں کو فرصت مل گئی ہے تاکہ اور مزید غازی پیدا کر سکیں۔ پھر اس کی آنکھ کھل گئی اور اسے اپنے خواب پر بے حد ہنسی آئی۔ اور اپنا یہ خواب پنکی کو سنا کر وہ دیر تک شگفتگی کے ساتھ کھلکھلا کر ہنستی رہی۔
وہ یہاں آ گئی ہے اور پنکی آج کل بہت خوش ہے اور عنقریب ان کی شادی ہونے والی ہے۔ کلبوں میں لوگ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے۔ آئینے کھڑے ہیں اور چاندی کے برش اور وہ شیلف جس پر نجنسکی رقصاں ہے اور طویل گیلریوں کے پرے سمندر گرجتا ہے۔ جہاں یاٹ ہیں اور ڈونگے اور ساحل کا بوٹ کلب۔ یہ سب چپ چاپ کھڑے ہیں۔ سمندر کتابیں نجنسکی یہ سب اندھیرے میں جگ رہے ہیں۔ اور منتظر ہیں اور انتظار میں ان کا خاتمہ ہے اور یسوع کی روح ایسی راتوں میں پانیوں پر چلتی ہے۔ اب مجھے جانا چاہئے۔
صبح ہو رہی ہے۔ آؤ ہم لوٹ چلیں۔ چھوٹی چھوٹی عورتیں ایسی راتوں میں ہاتھوں میں پنکھیاں لے کر اپنے باغوں میں گھومتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے انسانوں سے محبتیں کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ تھک کر خدا کی روح کا پانی کی سطح پر خاتمہ ہو جاتا ہے۔ خاتمہ اور تکان (تمہارے لیے اور کو کو بناؤں۔۔۔؟) انتظار کرو۔ اس نے سوچا اور شدید تکان کے اس شدید حسن کو پہچانو رات گزر رہی ہے اور نیند آتی ہے۔ بغیر نیند کی نیند۔ میں ضرور لوٹ کر آؤں گی۔ میرا انتظار کرنا۔
شہر اپنی جگہ پر چپ چاپ موجود تھا۔ سمندر سرخ چاند کی مدھم شعاعوں میں جھلملا رہا تھا اور قبرستانوں کے باسی ابدیت کی نیند سے تھوڑا سا جاگ کر خاموشی سے اوپر کی آوازیں سن رہے تھے۔ اور ان کے دماغ شاید بے بسی سے کچھ سوچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن چوں کہ وہ مر چکے تھے۔ اس لیے قبرستانوں میں بھی ویسی ہی خاموشی طاری رہی۔ آسمان جسے گہرے نیلے روغن سے رنگا گیا تھا اور سرخ مکنیکل پلوں کی قطاریں۔ اور سڑکوں کی دیواریں جن پر اندھیرے میں روشنی کی لکیریں رات رات بھر تصویریں بناتی رہتی تھیں۔ یہ سب اپنی جگہ پر موجود تھیں۔ اس کا طیارہ فضا میں بلند ہوا۔ رات کی سطح پر وہ اوپر اٹھتے گئے۔ آسمان کی شدید وسعت نے ان کی نظریں زخمی کر دیں۔ ان کی روحیں منجمد تھیں۔ صرف ان کے دل دھڑک رہے تھے اور کنٹرولز پر ان کے ہاتھ موجود تھے۔ شمال مغرب کے برفانی میدان جنگ پر اپنی امداد پہنچاتے وہ دوبارہ مشرق کی طرف مڑ گئے۔
وہ اپنے ہمالیہ کے پرانے گھر واپس پہنچ گئی۔ اس نے دریچے میں کھڑے ہو کر ان نیلی فضاؤں کی سمت دیکھا جدھر سے وہ جا کر لوٹ آئی تھی۔ وہ دریچے میں جھک کر باہر دیکھنے لگی۔ جہاں آلوچے کے زرد شگوفے کھل رہے تھے۔ چناں چہ طلعت جمیل۔ تم بالآخر واپس آ گئیں۔ اس نے اپنے آپ سے آہستہ سے کہا اور اس کے ہونٹوں پر تبسم بکھر گیا۔ چناں چہ اب تم دار السلطنت کی ٹی پارٹیوں میں بیگم اشرف بن کر مسکراہٹیں نہ برساؤ گی۔ بین الاقوامی کلچرل کانفرنسوں میں شمولیت نہ کر سکو گی۔۔۔ غیر ضروری ڈنرز میں غیر ملکی سفیروں سے غیر ضروری باتیں نہ کرو گی۔ پریس والوں کے کیمرے تمہارے چاروں طرف کلک کلک نہ کریں گے۔ تم کتنی بدقسمت اور بے وقوف ہو طلعت جمیل جو تم نے ان سب چیزوں کی دل کشی کو محسوس نہ کیا۔۔۔ اور واپس آ گئیں!!
ہمالیہ اپنی جگہ پر اپنی عظمت اور اپنی ہیبت کے ساتھ ہمیشہ کی طرح سر بلند اور اٹل کھڑا تھا۔ اس کی وادیوں اور اس کی چوٹیوں پر پھیلی ہوئی اس زندگی پر انہوں نے کبھی غور نہ کیا تھا۔ وہ جو ڈیڑھ سو سال سے موسم گرما میں وہاں جنگل میں منگل لگانے کے لیے آتے رہتے تھے۔ ان نیلگوں جنگلوں اور عظیم الشان پہاڑوں۔ خطرناک دروں اور خوب صورت وادیوں میں رینگتی ہوئی زندگی کو انہوں نے کبھی قابل اعتناء نہیں سمجھا۔ ہمالیہ کے بیٹے محض ان کی رکشائیں کھینچتے تھے اور ان کے سامان ڈھو کر بلند تریں چوٹیوں تک لے جاتے تھے۔ ان کے بلیک اینڈ وائٹ سگریٹ اور روپے چراتے تھے۔ اور جاڑوں میں جب وہ اپنے نیپال دیس یا گڑھوال واپس جاتے تھے تو فاقے سے مرتے تھے یا ٹیڑی کا مہاراج انہیں الٹا لٹکا کر پٹواتا تھا۔ اسی طرح وہ جیتے رہے۔ اور مرتے رہے۔ اور اسی طرح ان پہاڑوں پر یہ اندر سبھائیں سجتی رہیں۔
جھیل کی دھندلی کشتیاں فلیٹس کے مناظر۔ میٹروپول کے ناچ کوئیلے کے بھاری کنڈے ایک نواڑ کے ذریعے پیشانی سے باندھے وہ علی الصبح دھند آلود … سڑکوں پر بیچنے کے لیے چلاتے پھرتے تھے۔
لیکن اودے شنکر نے وہاں پہنچ کر محض ایک رقص کدہ قائم کر دیا تھا۔ یہاں سے گنگا اور جمنا آتی تھیں۔ یہاں سے شاردا اور گومتی اور گھاگرا نکلتی تھیں۔ یہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی تھی۔ دریچے میں کھڑی وہ باہر دیکھتی رہی۔ یہ وہ نینی تال تھا جس کے بوٹ کلب کے پھاٹک پر ایر اف گریس ۴۷ء تک ’’ہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ منع ہے‘‘ اور ’’ان یورپین بچوں کا داخلہ بھی ممنوع ہے جن کے ساتھ ہندوستانی نوکر ہوں‘‘ کا بورڈ لگا تھا۔ یہ سات تال تھا یہ بھیم تال تھا۔ یہ نینی تال تھا۔ جہاں بھگوان شیو کی مہارانی سستی کی آنکھیں گری تھیں۔ جہاں بھگوان شیو نے تخریب و تخلیق کا رقص کیا تھا جہاں سے دنیا کی تکمیل کی گئی تھی۔
وہ دریچے میں کھڑی رہی۔ جھیل پر روشنیاں رقص کرنے لگی تھیں اور نیچے آلوچوں کے جھرمٹ میں کوئی والگا کے ملاحوں کا نغمہ بجا رہا تھا۔ پتوں اور شگوفوں میں سے بھیگے ہوئے دھوئیں کی طرح آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی گئی۔ اس نے نغمے کو پہچاننے کی کوشش کی اور یاد آیا یہ کون سی راگنی کون سی لے تھی۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔ اس نے پہچانا اسے یاد آیا۔۔۔۔ موسیقی بہت قریب سے اٹھتی ہے۔ قریب تر۔ اس میں کیسا جوش ہے کیسی تیزی ہے۔ کتنا درد ہے۔ پھر رات کے سناٹے میں یہ لے دور ہوتی جاتی ہے۔ دور ہوتی جاتی ہے۔ دفعتاً پھر نزدیک آتی ہے۔ بہت سی آوازیں اکٹھی اٹھتی ہیں۔ کشتی دور ہو رہی ہے۔ اور دور۔۔۔ اور دور۔۔۔ اس کی نرم روی۔ اس کا سکون۔ یہ زندگی کا خاتمہ ہے۔ دنیا کا خاتمہ ہے۔ سنگیت پھر نزدیک آتی ہے۔ وہی درد ہے۔ وہی کرب ہے۔ وائلن کے سر اوپر اٹھتے جا رہے ہیں۔ گٹار اور پیانو کی ملی جلی آوازیں پھر دور ہوتی جاتی ہیں۔ یک لخت گٹار تیز ہو جاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس کی لے ڈوبتی جا رہی ہے۔ اسی نرم روئی کے ساتھ اسی سکون کے ساتھ ایک اکیلی آواز بلند ہو رہی ہے۔ یہ حیات کا نغمہ ہے۔ کاسکوں کا گیت ہے۔ والگا کی روح کی آواز ہے۔ وہ دور ہوتے جاتے ہیں۔ اور دور۔۔۔ ان کی آوازوں میں وہ تیزی وہ ولولہ باقی ہے۔ وائلن کے سر رفتہ رفتہ پھر قریب آتے جا رہے ہیں۔
قریب تر وہی زندگی ہے وہی روانی۔ وہی درد۔ یک لخت زندگی جاگتی ہے۔ روشنی جاگتی ہے۔ یہ کائنات کے نئے سرے سے تخلیق ہو رہی ہے۔ پچھلے چھ دنوں میں خدائے قدوس نے اسی سنگیت کی لہروں پر دنیا کی تشکیل کی تھی۔ یہ اس عظیم دریا کی لہریں ہیں۔ آؤ ہم اس کی روشنی میں آگے چلیں۔ یہاں پر سکون ہے۔ امٹ سکون۔ اور امید نور اور طاقت والگا۔ والگا۔ ہم ایک روز تیری طرف پہنچیں گے۔ اپنے مینڈولین کے تاروں کو بجاتے جاؤ میرے بہت پیارے ملاحو تم خدا کے اپنے بیٹے ہو تم مقصد حیات کے اعلیٰ وارث ہو۔ کاسکوں کی آوازیں رفتہ رفتہ دور ہوتی جاتی ہیں۔
ہم ایک جھٹکے کے ساتھ پھر اپنی دکھی دنیا میں واپس آ جاتے ہیں۔ اس خوش نصیب دنیا کے خوش نصیب انسانو تم پر خدا کی رحمت ہو۔ وہ دریچے میں جھکی رہی ہے۔ آلوچے کے زرد شگوفے موسیقی کے ساتھ ساتھ دھندلکے میں چھپ گئے۔ پھر اپنی چوٹیوں پر چلتے ہوئے اس نے دیکھا کہ عالم موجودات کا یہ اجتماعی لاشعور زندگی کے ویرانے پر بھٹکتا پھر رہا ہے۔ انسانوں کی جھکی ہوئی قطاریں اس نے دیکھیں۔ یہ انسان جو پگڈنڈی پر جا رہا ہے۔ جو دھان کے کھیت میں کھڑا ہے۔ جو درخت کاٹ رہا ہے۔ اور اس کے پیچھے وہ سارے زمانے گھسٹتے آ رہے ہیں۔ سنہرے زمانے سیاہ زمانے۔
لیکن ٹھہرو! اس نقرئی سرورق کو دیکھو جسے چغتائی نے بنایا ہے۔ اس کے مختلف صدیوں کے مختلف وجودوں کا جلوس اس کے پیچھے پیچھے چلتا آ رہا تھا۔ یہاں کوئی خاتمہ نہیں۔ رنج باقی ہیں۔ محنت باقی ہے۔ پچھتاوے باقی ہیں۔ وہ دنیا کے آخری سمندر۔ آخری طوفانوں کے قریب آئی۔ جہاں سناٹے مسکرا رہے تھے۔ ان سناٹوں میں آوازیں تھیں۔ آندھیوں کی اور چٹانوں پر لہروں کے ٹکرانے کی۔ وہ ان کے نزدیک آئی اور اس نے عناصر کی اس گرج دار گفتگو کو سنا۔ جو زمان و مکان کی زبان حال تھی۔ لیکن یہ سب اس کی سمجھ میں نہ آیا بہت کم کم وہ اسے پہچان سکی۔
ہوا چاروں کھونٹ سے امنڈتی آ رہی تھی اور اس کے سامنے عناصر کی سلطنتیں پھیلتی جا رہی تھیں۔ ان آوازوں اور اس زبان کے مقابلے میں اسے اپنی آواز اور اپنی زبان بہت ہی عجیب مضحکہ خیز اور قابل رحم معلوم ہوئی۔ یہاں خدا اور کائنات کا انجام تھا۔ لیکن ان قیامت خیز آندھیوں اور خطرناک سمندروں کے کناروں پر اس نے دیکھا کہ سفید پھول کھل رہے تھے۔ ٹھنڈے اور پرسکون۔ ان سفید پھولوں میں اس نے اپنا چہرہ چھپا دیا۔ اور شبنم کی خنکی کو چھوا۔ آخر کار آخر کار آخر کار وہ چلا گیا۔ سنا تم نے۔ طلعت جمیل کے واپس جانے کے بعد وہ بھی یہاں سے چلا گیا۔
مغرب کے ساتھ سمندروں اور برفیلے پہاڑوں کے اوپر سے پروازکرتا ہوا وہ ادھر گیا ہے جہاں ایلبنی کے پر غرور ایوانوں میں اس کے لیے ضیافتیں ہوتی ہیں۔ اور وہ ہے نہایت اخلاق کے ساتھ شاہ بلوط کے آتش دانوں کے قریب کھڑا پائپ پیتا رہتا ہے۔ اسے اسی ضروری کام کے لیے وہاں بھیجا گیا ہے۔ ڈوپی کہہ رہا تھا۔ پیلو بہت تھکے ہوئے قدم رکھتی آ کر دیوان پر گر گئی۔ یہاں خاتمہ نہیں ہے۔ یہاں خاتمہ نہیں ہے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ رنج باقی ہیں۔ دکھ باقی ہیں۔ پچھتاوے باقی ہیں۔ پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ ہم نندہ دیوی کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ چچا رجو۔۔۔ اس نے بچوں کی طرح کہا۔ چچا رجو۔ کوئی کہانی سناؤ فن لینڈ کی کہانی جہاں تم نے رات کا سورج دیکھا تھا۔ اور اونچی برفانی وسعتیں۔ چچا رجو تکیوں کا سہارا لے کر پلنگ پر اٹھ بیٹھے۔۔۔ پیلو بیٹا۔۔۔ انہوں نے آہستہ آہستہ کہا۔ تم کاہے کے لیے رنجیدہ ہو میں ساری عمر جھوٹ بولتا رہا۔ اپنے آپ کو خوش رکھنے اور دوسروں کو خوش کرنے کے لیے تاکہ آخری سمے مجھے اطمینان ہو کہ میری باتوں کی وجہ سے دوسروں نے کم از کم چند لمحے مسرت سے بتائے۔ میں نے دنیا کے دور دراز خطوں کے متعلق کہانیاں سوچیں۔ عجیب عجیب چیزیں جمع کر کے ان کے لیے لطیفے گھڑے۔ جب کہ میں خود کبھی اپنے ملک کے ساحل سے آگے نہ جا سکا تھا۔ میں دنیا میں اپنے لیے اور دوسروں کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ لیکن کم از کم میری وجہ سے تم سب کو ہنسی تو آ جاتی تھی۔
کسی نے ایک دفعہ مجھے ایک واقعہ سنایا تھا کہ کسی سر سبز خطے میں سے ایک ٹرین گزر رہی تھی۔ کسی وجہ سے وہ ایک جگہ پر چند منٹ کے لیے ٹھہر گئی۔ دفعتاً اس میں سے ایک آدمی اترا اور اپنا اٹیچی کیس سنبھال کر ایک طرف روانہ ہو گیا۔ جدھر نیلگوں پہاڑ اور ہرے مرغ زار تھے۔ لیکن وہاں کوئی اور خاص بات نہ تھی۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ مجھے مت روکو۔ مجھے جنم جنم سے اس جگہ پہنچنے کا انتظار رہا ہے۔ اور آج مجھے وہ جگہ نظر آ گئی ہے اور میں اس کی طرف جا رہا ہوں۔ وہ چلا گیا۔ اور ٹرین اسے وہیں چھوڑ کر آگے روانہ ہو گئی۔
ہم سب اس طرح نندہ دیوی پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ ہم سب نندہ دیوی پہنچیں گے۔ ہاں۔ ہم سب نندہ دیوی پہنچیں گے۔ پیلو نے چپکے سے دہرایا۔ وہ اس سرزمین پر لوٹ آئی۔ جسے وہ سب چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
اب خزاں بھی واپس جا رہی ہے۔ اور جھیل کے پودے کنارے تک پھیل آئے ہیں۔ وہ سمر ہاؤس میں بیٹھی ہے اور سرخ پتے اس کے چاروں طرف اڑ رہے ہیں اور سفیدے کا جنگل چپ چاپ کھڑا ہے۔ اور سفید پوش راہب چاندی کی موم بتیاں اٹھائے سایوں کی طرح لکڑی کے پل پر سے گزر رہے ہیں۔ اسسی کے گھنٹے اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ بجتے جا رہے ہیں۔ اور سبز بانس کے جھنڈ پر اندھیرا گرتا آ رہا ہے۔ خداوند ہمارے پرکھوں کے خدا جو ہمیشہ سے تھا اب ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ خداوند ہمارا خدا نے مطلق جو ابد الآباد تک جیتا اور سلطنت کرتا ہے۔ خوبانی کے جھنڈ میں لودور کی مریم کی مورتی کے آگے جھکے وہ کہہ رہے ہیں۔ اے سینٹ این کی بیٹی ہم پر رحم کر۔ خدا جس نے ازل میں تجھے اپنی دلہن منتخب کیا۔ جس کے ذریعے آسمان زمین اور سمندر تخلیق کیے گئے۔ جسے اس گناہ اور جرم سے محفوظ رکھا گیا جو زوال آدم کا باعث ہوئی۔ اے یعقوب کے نئے ستارے۔ فرشتوں کی ملکہ اور انسانوں کی ماں جسے خدا نے اپنی ماں منتخب کیا جس نے آسمانوں پر ایک روشنی پیدا کی اور زمین پر کہرا پھیلایا تاکہ ہم تیرے ذریعے بادشاہ تک پہنچ سکیں۔ ایلیلیالا۔ اسسی کے گھنٹوں کی گونج فضا میں منڈلاتی پھیلتی اور ڈوبتی جا رہی ہے۔ تاریک ہوائیں باغ میں بہہ رہی ہیں اور سارے میں ایک ایسا مدھم اجالا پھیلتا جا رہا ہے جو دن رات میں سے کس وقت پیدا نہیں ہوتا۔
میری کیسل آؤ۔ ہم اس تاریکی اور اس اجالے کی تصویر بنائیں۔ کیوں کہ ہم نے اپنا راستہ دیکھ لیا ہے۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید