صفحات

تلاش کریں

شخصیت: غلام عباس


غالم عبّاس )۱۹۰۹ء پیدائش۱۹۸۲ ء میں انتقال( اردو کے مشہور افسانہ نگار غالم عّباس امرتسر میں ۱۹۰۹ء میں پیدا ہوئے تھل پاتھل سے متاثر ہو کر ان کے خاندان تھے۔انیسویں صدی کے وسط میں سیاسی اُ نے افغانستان سے ہندوستان کو ہجرت کی تھی۔اُن کے خاندان کے لوگ پہلے لدھیانہ میں مقیم ہوئے، بعد ازاں امرتسر میں اور پھر الہور چلے گئے۔کراچی میں ۱۹۸۲ء میں ان کا انتقال ہوا۔غالم عّباس نے کسی ادبی ادارے یا تحریک سے وابستہ ہوئے بغیر ہی اپنے افسانوں ،آنندی اور اوورکوٹ کے ذریعہ عالمی شہرت حاصل کی۔‘آنندی’ ، ‘جاڑے کی چاندنی’ اور‘ کان رس’ ان کے افسانوں کے مشہور مجموعے ہیں۔ابتدائی تعلیم الہور کے دیال سنگھ ہائی اسکول میں حاصل کی ۔ لکھنے لکھانے کا شوق فطرت میں داخل تھا۔ ساتویں جماعت میں ایک کہانی "بکری" لکھی۔ کہانی استاد محترم مولوی لطیف علی کو دکھائی۔ جنھوں نے حوالہ افزائی فرمائی تو یہ شوق اور بڑھا۔ نویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے اس قابل ہو گئے کہ انگریزی نظموں اور کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کر سکیں۔ ادبی زندگی:ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ رسالہ ہزار داستان کے مدیر حکیم احمد شجاع پاشا کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہوں نے متعدد عالمی ادب کی اصناف کو اردو میں قلب میں ڈھاال۔ فی ہفتہ 5 روپے کے عوض ٹالسٹائی کے ناول Exile Long The کا اردو ترجمہ جالوطن کے عنوان سے کیا۔ حکیم یوسف حسن کے رسالہ تازیانہ میں بھی تراجم اور کہانیاں لکھیں۔ اس کے عالوہ اپنے زمانے کے مشہور ادبی رسالوں میں ادب کے جوہر دکھاتے رہے۔ چند رسالوں کے نام جن کے لیے غالم عب اس نے لکھا: رسالہ نیرنگ خیال،رسالہ ہمایوں،رسالہ سہیلی،رسالہ امرتسرچراغ حسن حسرت کے رسالہ شیرازہ میں اپنا مشہور افسانہ "جزیرہ سخنوراں" سال 1936 سے 1937 میں شائع کروایا۔ یہ افسانہ مشہور فرانسیسی طنز نگار "آندرے مورووا" کی تصنیف "ووژا اوپے ای دیزارتی کول" سے متاثر ہو کر لکھا۔ مدیر ادبی رسائل:1928ء سے 1937ء تک بچوں کے رسالوں )پھول( اور )تہذیب نسواں( کے ایڈیٹر رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک رہے۔ آل انڈیا کے اردو ہندی رسالے )آواز( اور )سارنگ( کے مدیر بھی رہے۔ اسی دور میں کئی شاہکار افسانے بھی تخلیق کیے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آ گئے اور ریڈیو سے وابستہ رہے اور اس کے رسالے آہنگ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 2 مالزمت:مالزمت کے دوران افسانہ نگاری کی طرف توجہ کی اور چند کامیاب افسانے لکھ کر اردو افسانہ نگاری میں نمایاں حیثیت ح اصل کر لی۔ اردو ادب میں مقام:بحثیت افسانہ نگار غالم عباس کا نام اردو کے افسانہ نگاروں میں ی مقام کا حامل ہے، گو کہ انہوں نے بہت کم افسانے لکھے لیکن ٰ ایک منفرد اور اعل جتنے لکھے بہت خوب لکھے۔ غالم عباس کے افسانوں میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ ان کے کردار ہمارے روز مرہ زندگی اور معاشرے ہی کے چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کردار ہیں ۔ تصنیفات:افسانوی مجموعے:آنندی، 1948ء،جاڑے کی چاندنی، 1960ء،کن رس، 1969ء،رینگنے والے، 1980ء ناولٹ:گوندنی واال تکیہ، 1936،جزیرہ سخن وراں، 1941ء،دھنک، 1969ء بچوں کا ادب:الحمرا کے افسانے، 1931ء،چاند تارا )نظمیں(،،ننھی کی گڑیا، 1936ءتراجم:جال وطن، از لیو ٹالسٹائی،بے چارہ سپاہی،صدر ایوب کی کتاب فرینڈ ناٹ ماسٹرز کا ترجمہ، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی کے نام سےدیگن،چار چھو ٹے ناٹک، 1936ءوفات:غالم عباس 2 نومبر 1982ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستان کے ایسے ادیب، جنہوں نے غیر منقسم ہندوستان میں لکھنا شروع کیا اور شہرت پائی۔ ادبیات خاص طور پر افسانہ نویسی میں ایک مستند حوالہ بنے، ان ادیبوں میں سے ایک ممتاز نام’’غلام عباس‘‘ کا ہے، جنہوںنے کم لکھا، مگر خوب لکھا۔ ان پر ادبی نقادوں نے اظہار خیال کیا اور تحقیق بھی ہوئی۔ پاکستان کے متعدد اشاعتی اداروں نے ان کی کہانیوں کو شائع کیا ہے۔ ان پر تحقیق کے تناظر میں ایک اہم کتاب’’غلام عباس۔سوانح و فن کا تحقیقی جائزہ‘‘ ہے، جس کو ایک اردو زبان بولنے اور لکھنے والے جاپانی محقق اور مدرس’’سویامانے یاسر‘‘ نے لکھا ہے، جس میں ان کو پاکستانی مشاہیر خواجہ محمد زکریہ اور مشفق خواجہ کی معاونت دستیاب رہی۔یہ غلام عباس کی سوانح و فن کے حوالے سے مستند کتاب سمجھی جاتی ہے۔
غلام عباس 1909 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے جبکہ 1982 کو کراچی میں انتقال ہوا۔ کم عمری میں ہی لکھنے کی طرف راغب ہوگئے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں تراجم کرنے سے ابھر یں، انہوں نے کئی عالمی کہانیوں کو اردو قالب میں ڈھالا۔ مختلف ادبی رسالوں کے لیے بھی تراجم کیے، آگے چل کر ان کے لیے افسانہ نویسی بھی کی۔ ان رسالوں میں نیرنگ خیال، ہمایوں، سہیلی، امرتسر، شیرازہ، تازیانہ اور دیگر رسائل و جرائد شامل ہیں۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ان کے لکھنے کی باقاعدہ شروعات ہوئیں، تراجم اور تخلیق دونوں نے ان کو اپنے خیالات کے اظہار کا بھرپور موقع دیا۔

وہ بچوں کے کئی رسائل کے مدیر رہے۔ بچوں کے لیے تراجم اور افسانوی ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان کے تین افسانوی مجموعے، آنندی، جاڑے کی چاندنی اور کن رس اشاعت پذیر ہوئے جبکہ تین ناولٹ گوندنی والا تکیہ، جزیرہ سخن وراں، دھنک چھپے۔ بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ اور کئی غیر ملکی شعر و ادب کے تراجم کی اشاعت کتابی صورت میں ہوئی، ان میں روس، فرانس، چین، جاپان سمیت دیگر ممالک کی کہانیاں اور شاعری شامل ہے۔ سابق صدر پاکستان جنرل ایوب خان کی سوانح عمری’’فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ کا اردو ترجمہ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اسٹیج کے لیے کچھ ناٹک بھی قلم بند کیے۔ ان کو ادبی خدمات کے سلسلے میں حکومت پاکستان کی طرف سے’’ستارہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔


دوسری جنگ عظیم میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوئے، پھر ریڈیو پاکستان اور بی بی سی سے بھی منسلک رہے۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کرنے کے ساتھ بامعاوضہ ترجمہ نویسی شروع کی اور کم عمری میں معاوضہ حاصل کرنے والے مترجم ثابت ہوئے۔ آل انڈیا ریڈیو کے زمانے میں، اس ادارے کے رسالے’’آواز‘‘ کے مدیر بنے اور پاکستان آنے کے بعد ریڈیو پاکستان کا رسالہ ’’آہنگ ‘‘جاری کیا، جو آج تک شائع ہو رہا ہے۔ زندگی میں بہت سارے نشیب و فراز دیکھے۔

کم عمری میں والد کی رحلت کا دکھ برداشت کیا، زندگی کے مصائب قریب سے دیکھے، معاشرے کی ابتری کا درد شاید ان کی ذاتی زندگی کے دکھوں سے بھی عبارت تھا۔ یہ تلخ تجربات ان کی کہانیوں میں پنہاں محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے مشہور زمانہ افسانے’’آنندی‘‘ کو بے حد شہرت ملی، اسی افسانے پر ہندوستانی آرٹ سینما میں فلم بھی بنی۔ ان کے دیگر مشہور افسانوں میں اوورکوٹ، حمام، دھنک، سمجھوتہ، سیاہ و سفید، کتبہ ہیں۔


’’آنندی‘‘ معاشرے کی اخلاقی زبوں حالی کی تصویر کشی کرتا ہے، اسی نام سے شائع ہونے والے کہانیوں کے پہلے مجموعہ کا سرورق ’’عبدالرحمن چغتائی‘‘ نے بنایا تھا، جو پاکستان کے نامور مصور تھے۔ یہ کہانی بیان ہے، ایک ایسے محلہ کا، جو عین شہر کے بیچ ہے اور جہاں طوائفوں کاڈیرا ہے۔ اس مخصوص شہر ت کی حامل عورتوں کے لیے، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان عورتوں کو شہر بدر کیا جائے تاکہ معاشرہ ان کی وجہ سے اخلاقی برائیوں سے پاک ہوسکے، لیکن کہانی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اخلاقیات کے یہی ٹھیکے دار اس وقت ان عورتوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں، جب ان کو مالی فوائد ملتے ہیں۔ معاشرے کے منافقانہ رویوں کو کہانی میں بیان کیا گیا اور اچھائی برائی کے ان پہلوئوں کی عکاسی کی گئی، جو بظاہر دکھائی دینے والی حقیقت سے مختلف ہوتے ہیں۔
1983 میں غلام عباس کے اس مشہور افسانے’’آنندی‘‘ پر بننے والی فلم ’’منڈی‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی، جس کے ہدایت کار شیام بینگل ہیں۔ انہوں نے شاندار فلم سازی سے اس کہانی اوران کرداروں میں حقیقت کے رنگ بھر دیے۔ اس فلم کا اسکرین پلے شیام بینگل نے خود لکھا اور دو دیگر قلم کاروں شمع زیدی اور ستیادیو دوبے کا اشتراک بھی شامل تھا۔ فلم کے فنکاروں میں نامور ہنرمندوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں نصیرالدین شاہ، اوم پوری، امریش پوری، سعید جعفری، پنکج کپور، شبانہ اعظمی، سمیتا پٹیل، نینا گپتا، رتنا پھاٹک سمیت دیگر شامل تھے۔ یہ فلم ہندوستانی سینما میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔
عالمی ادب اور بالخصوص اردو ادب میں ناولوں اور افسانوں کو سنیما میں ڈھالنے کے لیے اگر کسی پیمانے کی ضرورت ہے، تو یہ فلم وہ پیمانہ ہے، جس سے یہ ماپا جاسکتا ہے کہ اچھا تخلیقی ادب کس طرح سینما کے پردے پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ انہوں نے ایک ناولٹ بھی لکھا تھا جس کا نام تھا 'جزیرہ سخنوراں'۔
یہ ناولٹ آخری بار 1980 کی دہائی میں ہندوستان میں چھپا تھا اور پھرکہیں گم ہوگیا، بھلا ہو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور آصف فرخی کا کہ انہوں نے اب اس کہانی کو دوبارہ چھاپ دیا ہے۔
زیرہ سخنوراں' ایک فرانسیسی ادیب کی کہانی سے متاثر ہو کر لکھا گیا اور یہ پاکستان بننے سے پہلے چھپا تھا لیکن اس کے بعد ہندوستان میں تو ایک بار چھپا لیکن پاکستان میں نہیں۔
ناولٹ کی کہانی ایک ایسے جزیرے کے گرد گھومتی ہے جہاں صرف دو طرح کے لوگ رہتے ہیں، ایک شاعر اور دوسرے ان کے مداح- شاعر حاکم ہیں اور مداح محکوم،
کسی کو اگر ترقی کرنا ہے تو اس کے لیے شاعر بننا پڑے گا۔ یہ کہانی، پاریکھ صاحب کے مطابق، ایک طنزیہ کہانی ہے۔