صفحات

تلاش کریں

ڈرامہ-رستم و سہراب(باب سوم)

سہراب کے لشکر کی چھاؤنی

(ہومان اور بارمان تورانی سردار اور سپاہی جشن منا رہے ہیں ۔ رقاصہ رقص و نغمہ میں مصروف ہے )

گانا

جائیں گے وہاں ، خوش دلِ دیوانہ جہاں ہو

گھر لیں گے وہیں ، اب کے پری خانہ جہاں ہو

ہو گی کوئی جنت ، مری جنت تو وہی ہے

خُم خانہ و میخانہ و پیمانہ جہاں ہو

منہ چوم نہ لے پھول کے دھوکے میں تمھارا

جانا نہ وہاں ، بلبلِ دیوانہ جہاں ہو

پانی کے عوض مستیِ رنگیں ہو برستی

پر اتنے ہی ٹکڑے پہ کہ مے خانہ جہاں ہو

اے حشرؔ مرے شعر ہیں مستی کا ترانہ

گانا یہ غزل محفلِ رندانہ جہاں ہو

ہومان :۔ بادل کی محفل میں سنہری پشواز پہن کر بجلی ناچ رہی ہے ۔

بارمان :۔ کل تلوار کی تال پر موت کانا چ بھی شروع ہو جائے گا۔

سردار (۱):۔ صرف ناچ۔

ہومان:۔ گانا بھی۔

سردار (۲):۔ کون گائے گا؟

ہومان:۔ زندگی۔

سردار(۳):۔کیا گائے گی؟

ہومان:۔ فنا کا گیت۔

سردار(۲):۔ زندگی غم اور خوشی کا سُروں سے بنا ہوا خود ایک دلچسپ گیت ہے ۔

سردار (۱):۔ ٹھیک ہے اور یہ گیت مزہ اس وقت دیتا ہے جب اسے شراب کا پیالہ ہاتھوں میں لے کر گا یا جائے ۔

سردار(۳):۔لیجیے ہونٹوں کی مضراب سے روح کے ستار میں زندگی کی راگنی بجائیے ۔

سردار(۴):۔ اہا ہا ہا ؂

شرابِ ناب کے جلووں سے ساغر میں اجالا ہے

ہزاروں چودھویں کے چاند ہیں اور ایک ہالہ ہے

سردار(۲):۔

یہ وہ شے ہے گرے تو خاک سے اکسیر پیدا ہو

ہر اک قطرے سے اک اک حسن کی تصویر پیدا ہو

(سب سردار کھڑے جھوم رہے ہیں۔ ناچ ۔ )

ٹیبلو



(سین ختم)
ایران کے شہنشاہ کیکاؤس کا دربار

(کیکاؤس تخت پر بیٹھا ہوا ہے چہرہ غصے سے خوفناک اور آنکھیں لال ہو رہی ہیں)

کیکاؤس:۔ جس کیکاؤس کے ابرو پر شکن دیکھ کر دنیا گناہگار غلام کی طرح کانپ کر سجدے میں گر جاتی ہے ، جس کے قہر کے حضور میں طوفان سے زیادہ طاقت ور اور زلزلے سے زیادہ خوفناک انسان دو زانو ہو کر رحم کی بھیک طلب کرتے ہیں اس کے غضب سے یہ بے پروائی ، اس کے حکم سے یہ سرتابی ۔ گویا وہ فرمانبردار نہیں فرماں روا ہے ۔ ایران کا خادم نہیں ایران کا آقا ہے ۔رستم ، مغرور رستم!تیری روح میں بغاوت کا مرض پیدا ہو گیا ہے ۔ میرا شاہی مرتبہ یہ جرأت اور گستاخی برداشت نہیں کر سکتا ۔

گردرز:۔جہاں پناہ ۔ خانہ زاد کی جاں بخشی ہو ۔ آپ غصے میں غلط رائے قائم کر رہے ہیں۔ رستم سے اس وقت کوئی قصور سرزد نہیں ہوا کہ اس کی بے داغ جاں نثاری پر شبہ کیا جائے ۔ دنیا میں دو چیزیں ہمیشہ اپنی روشنی سے چمکتی رہیں گی ، آسمان پر آفتاب اور زمیں پر رستم کی وفاداری۔

کیکاؤس :۔ دھوکا نہ کھاؤ۔ تم اوپر کا ملمع دیکھ کر پیتل کو سونا سمجھ رہے ہو۔

گردرز:۔ غلام کی یہ گزارش ہے کہ سہراب جیسے خوفناک دشمن کے مقابلے میں اس وقت ایران کو رستم کے مشورے ، مدد اور تلوار کی سخت ضرورت ہے اس لیے اسے ناراض کرنا مناسب نہیں ہے ۔ اگر وہ آنے کے بعد رنج و غصے کے ساتھ واپس چلا گیا تو ایران اپنے سب سے بڑے خیر خواہ اور سب سے بڑے سپاہی کی خدمت سے محروم ہو جائے گا۔

طوس:۔ جلالت مآب ! رستم کا نعرۂ جنگ سنتے ہی مردہ ہمتیں زندہ ہو جاتی ہیں ؂

ڈر نہیں کچھ بھی اگر ہو سارا عالم اک طرف

لاکھ لشکر اک طرف ہیں اور رستم اک طرف

سلطنت کی آبرو ہے ملک کا اقبال ہے

وہ ہمارے بازوؤں کا زور، سر کی ڈھال ہے

کیکاؤس: ۔ جنگ میں شرکت ہی کے لیے میں نے خط لکھ کر اسے طلب کیا تھا لیکن اس کا زابل سے ایران نہ آنا کیا ثابت کر رہا ہے ۔ یہی کہ تمھاری خوشامد اور تعریفوں نے اسے مغرور بنا دیا ہے ؂

سمجھتا ہے کہ بجھ سکتا نہیں ہرگز چراغ اُس کا

اِس سے بڑھتا جاتا ہے غرور اُس کا دماغ اُس کا

(رستم آتا ہے ...)

رستم:۔

اے تاج بخش ، باج ستاں ، شاہِ کام گار

اے ملک گیر ، قلعہ شکن، شیرِ کار زار

تو حسنِ کائنات ہے ، تو فخرِ روزگار

قسمت ہو زیرِ حکم ، ظفر زیرِ اختیار

جب تک فلک پہ جلوۂ شمس و قمر رہے

اس تاج کی ضیا سے جہاں میں سحر رہے

کیکاؤس:۔ (غصے سے دوسری طرف منہ پھیر کر) جھوٹا ، ریا کار۔

رستم:۔ خاقانِ عالم!غلام حاضر ہے ۔

کیکاؤس :۔ تو صرف ہونٹوں سے اپنے کو غلام کہہ کر میرے غصے اور اختیار کا منہ چڑاتا ہے ۔ طلبی کا خط ملنے کے بعد بھی فوراً حاضر ہونے کے بدلے میرے حکم سے بے پروائی برتنا ، کیا یہی فرض شناس غلاموں کا طریقہ ہے ؟ یہ غلامی نہیں نمک حرامی ہے ۔

رستم:۔ رستم اور نمک حرام ۔ خداوند نعمت !میرے کانوں نے آج تک ایسے ذلیل لفظ نہیں سنے ۔ جو رستم ایران کی اطاعت کو اپنا فرض ، ایران کی خدمت کو اپنا مذہب اور ایران کی محبت کو اپنا ایمان سمجھتا ہے اسے نمک حرام کہہ کر آپ اپنی قدر دانی کا ثبوت دے رہے ہیں ! ؂

صلہ اچھا ملا مجھ کو مری خدمت گزاری کا

یہی انعام ہے کیا عمر بھر کی جاں نثاری کا

کیکاؤس:۔ اب تک میری آنکھو ں پر تیری بناؤٹی وفاداریوں نے پردہ ڈال رکھا تھا، آج وہ پردہ ہٹ گیا۔ اب میں تجھے تیری اصلی شکل میں دیکھ رہا ہوں ؂

عیاں ہر حرف ہے مجھ پر ترے دل کے نوشتے کا

مجھے دھوکا نہ دے تو روپ بھر کر اک فرشتے کا

رستم:۔ بس جہاں پناہ بس! کیا حضور نے سرِ دربار مجھے ذلیل کرنے کے لیے زابل سے ایران میں طلب کیا تھا؟ ادب اور برداشت کی بھی حد ہوتی ہے ۔ ؂

میں بھی اپنے سینے میں رکھتا ہوں دل انسان کا

دھیان رکھیے اپنے رتبے اور اپنی شان کا

کیا کہوں دیتا ابھی پتھر سے پتھر کا جواب

شرم آتی ہے کہ کھایا ہے نمک ایران کا

کیکاؤس:۔ تیری بے خوفی اور سرکشی دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایران میں دو بادشاہ حکومت کر رہے ہیں۔ آج تیرے غرور کی تجھے سزا دے کر ثابت کر دوں گا کہ ایران کا بادشاہ رستم نہیں کیکاؤس ہے ۔

رستم:۔ تب میں بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ کیکاؤس کی سلطنت اور کیکاؤس کا تاج رستم ہی کی تلوار اور بازو کی مدد سے ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ اگر اس دل میں بادشاہ بننے کی خواہش ہوتی تو آج ایران کا تاج کیکاؤس کے سر پر نہیں رستم کے سر پر دکھائی دیتا ۔لیکن میرا کام بادشاہ بننا نہیں ، بادشاہ بنانا ہے ۔ میں تاج پہنتا نہیں ، تاج بخشتا ہوں ۔ ؂

تکا کرتے ہیں میری مہربانی کی نگاہوں کو

میں وہ ہوں بھیک میں دیتا ہوں تاج و تخت شاہوں کو

کیکاؤس :۔ یہ سلطنت کا مجرم ہے ۔ گرفتار کر لو... خاموش کھڑے ہو ۔ کیا میرا حکم نہیں سنا۔ قید کرو۔

رستم :۔ نا عاقبت اندیش کیکاؤس ! اپنی عقل کی تاریکی سے تاج کی چمک کم نہ کر ۔ آج مجھے معلوم ہو گیا کہ جس تخت پر جمشید ، فریدوں ، کیقباد جیسے دانا و بینا بادشاہ بیٹھ کر دنیا میں ایران کا نام روشن کر چکے ہیں تو اس شاہی تخت پر ہرگز بیٹھنے کے قابل نہیں ؂

سلطنت ایران کی پائی سمجھ پائی نہیں

ایک بچّے کے برابر تم میں دانائی نہیں

راستہ کوئی دکھا سکتا نہیں بدبخت کو

لو چلا میں تم بچاؤ اپنے تاج و تخت کو

(رستم غصے میں چلا جاتا ہے )

گودرز:۔ اعلیٰ حضرت !تباہی سہراب کی شکل میں دروازے پر موجود ہے ۔ رستم کو واپس بلائیے ۔

کیکاؤس:۔ کبھی نہیں ۔ رستم ایران سے چلا گیا تو کیا ایران کی زمیں غلّہ نہ اُگائے گی؟ ایران کا آسمان پانی نہیں برسائے گا ؟ ایران میں آفتاب و مہتاب طلوع نہ ہوں گے ؟ ایرانی تا ج کے چمکتے ہوئے ہیرے پتھر بن جائیں گے ؟ میں رستم کو کوئی چیز نہیں سمجھتا ۔ ایران کی عزت رستم سے نہیں ہے ۔

طوس:۔ ایک بار پھر غور کیجیے !

کیکاؤس:۔ ضرورت نہیں۔

طوس:۔ افسوس! آپ نے آدھی دنیا فتح کر لی لیکن اپنے غصے کو فتح نہ کر سکے ۔

کیکاؤس :۔ بس خاموش !

(غصے میں خنجر لے کر تخت سے اترتا ہے ۔ طوس سر جھکا دیتا ہے ۔ گودرز کیکاؤس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے درباری حیرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں)



(سین ختم)
سہراب کے لشکر کی چھاؤنی

(رات کا وقت ۔ بہت دور ایرانی اور تورانی لشکر کے خیمے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہومان ، بارمان اور ہجیر کے ساتھ سہراب داخل ہوتا ہے )

سہراب:۔ ہجیر تم میری قید سے رہائی چاہتے ہو؟

ہجیر:۔ چاہتا ہوں لیکن ایک شرط پر ۔ ایران میرا وطن ہے ، میں آپ کا شریک ہو کر ایران کے خلاف تلوار نہیں اٹھاؤں گا۔

سہراب:۔ قوم کی جاں نثار گرد آفرید کی طرح جس ایرانی کے دل میں وطن کی محبت نہیں ہے ، میں خود اسے دنیا کی سب سے زیادہ ذلیل ہستی سمجھتا ہوں۔ اچھا تو میں تمھیں رہائی دوں گا۔ عزت ، دولت، عہدہ، اور جاگیر بخشوں گا اور آج سے اپنا عزیز ترین بھائی سمجھوں گا۔ صرف اتنا بتا دو (ہجیر کو سوچ میں دیکھ کر) سنتے ہو بہادر ۔

ہجیر :۔ (چونک کر) سن رہا ہوں۔

سہراب:۔ کیا واقعی رستم اس لشکر میں نہیں ہے ؟

ہجیر:۔ میں نے ایرانی لشکر کا ایک ایک کونا ایک ایک خیمہ ، ایک ایک سردار کا چہرہ آپ کو دکھایا اور اُن سرداروں کے نام ، رتبے ، عہدے سے بھی واقف کرا دیا ۔تعجب ہے کہ پھر بھی آپ میری سچائی پر شک کر رہے ہیں ۔

سہراب:۔ بے شک ! میں نے بھیس بدل کر رات کی تاریکی میں تمھارے ساتھ ایرانی فوج کا پورا جائزہ لیا لیکن میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ وہ ضرور موجود ہے ۔ ہجیر!کیا یہ ممکن نہیں کہ رستم کے پہچاننے میں تمھاری آنکھوں نے غلطی کی ہو۔

ہجیر :۔ میں رستم کو ایک بار نہیں سیکڑوں بار دیکھ چکا ہوں ۔ میری نظر ابھی اتنی کمزور نہیں کہ دیکھی ہوئی صورت کو بھی نہ پہچان سکوں۔

سہراب :۔ تو پھر تسلیم کر لوں کہ وہ زابل سے ایران کی مدد کے لیے نہیں آیا۔

ہجیر:۔ مجھے جاسوس سے اطلاع ملی ہے کہ رستم اس جنگ میں کیکاؤس کی مدد کے لیے آیا تھا لیکن کیکاؤس نے سرِ دربار اس کی بے عزتی کی اور وہ بے انتہا ناراض ہو کر غصے کے ساتھ اپنے ملک کو واپس چلا گیا ۔

رستم:۔(خود سے ) ایک طرف اس کی آواز اور ایک طرف دل کی آواز۔ کس آواز کو سچائی کی آواز سمجھوں !

ہجیر:۔ (خود سے ) اگر سہراب نے رستم کی جان کو نقصان پہنچا یا تو میرے ایران کی حفاظت کون کرے گا ؟ میں سچائی کو اندھیرے سے روشنی میں نہ آنے دوں گا۔

سہراب:۔ دیکھ ہجیر!جس طرح رات کے وقت شکار کی تاک میں بیٹھے ہوئے بھیڑیے کی آنکھیں اندھیرے میں چمکتی ہیں اسی طرح مجھے تیری آنکھوں میں ایک خوفناک چمک دکھائی دیتی ہے ۔ ’’رستم نہیں ہے ‘‘ یہ کہتے وقت ہو اسے ہلتے ہوۓ پتے کی طرح تیرے ہونٹ کانپ اٹھتے ہیں اور پیلے پتے کی طرح تیرا چہرہ زرد ہو جاتا ہے ۔ (گریبان پکڑ کر) خبردار! مجھے دھوکا نہ دینا ، ورنہ قسم ہے تلوار کی تیرے خون کو موری میں بہتے ہوئے پانی سے بھی زیادہ حقیر سمجھوں گا۔ آگے بڑھ !اب دنیا میں تیرے لیے دو ہی چیزیں رہ گئی ہیں ۔ سچا ثابت ہوا تو رِہا ۔ جھوٹا ثابت ہوا تو موت۔

(دونوں جاتے ہیں)

بارمان:۔ جب سہراب، رستم کے خیمے کے پاس پہنچ کر نہایت غور سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگا ۔ اس وقت مجھے اندیشہ ہوا کہ ضرور خون کا جوش خون کو پہچان لے گا لیکن شاباش ہے ہجیر کو ، اس کے ایک جھوٹ نے باپ اور بیٹے کے درمیان سینکڑوں پردے ڈال دیے ۔

ہومان:۔ لیکن مجھے یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کیکاؤس کے دربار سے خفا ہو کر چلے آنے کے بعد رستم دوبارہ کیکاؤس کی مدد کے لیے کس طرح راضی ہو گیا۔

بارمان:۔ کیکاؤس نہایت غصہ ور اور جلد باز بادشاہ ہے ۔ جوش کم ہونے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آخر اس کے شرمندہ ہونے اور طوس و گودرز کے سمجھانے سے رستم اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور ہو گیا ۔

ہومان:۔ اپنے بادشاہ افراسیاب کی آرزو پوری کرنے کے لیے کوشش کرو کہ جنگ کے آخر تک باپ بیٹے ایک دوسرے کو نہ پہچان سکیں ۔ توران کی سلامتی کے لیے رستم و سہراب دونوں کو ، اور دونوں نہیں تو ایک کو ضرور مرنا چاہیے ۔ ورنہ یہ دونوں مل کر ساری دنیا کو ایران اور کیکاؤس کا غلام بنا دیں گے ۔

(چلے جاتے ہیں)



(سین ختم)
میدانِ جنگ

(اندر سے لڑائی کے باجے اور مارو مارو کا شور سنائی دیتا ہے ۔ ایران کے سپاہی پناہ پناہ کہتے ہوئے بھاگتے ہیں۔ گردرز اور طوس کے ساتھ رستم کا داخلہ)

رستم:۔ شاباش سہراب شاباش! آفریں ہے تیری بہادری کو، آفریں ہے تیری ماں کے دودھ کو (طوس و گودرز سے ) میدانِ جنگ میرا وطن اور تلواروں کی چھاؤں میری آرام گاہ ہے ۔ میری ساری زندگی خنجروں کی چمک اور خون کی بارش میں بسر ہوئی ہے لیکن میں نے آج تک اتنی بے جگری اور اتنی شاندار بے پروائی کے ساتھ کسی انسان کو موت سے کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کی دلیری اور جنگ کا طریقہ دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک دوسرا رستم پیدا ہو گیا۔

گودرز:۔ لیکن جس طرح آگ پر پارہ اُڑ جاتا ہے اسی طرح مقابلے کے وقت آپ کا نام سنتے ہی اس کی طاقت بھی اس کے بازوؤں سے علیٰحدہ ہو جائے گی۔

رستم:۔ میں نے صرف ایران کی محبت اور فرض سے مجبور ہو کر ایک سولہ برس کے نا تجربہ کار لڑکے کے مقابلے میں میان سے تلوار کھینچی ہے لیکن میں اس کے سامنے اپنا رتبہ اور نام ظاہر نہیں کروں گا کیوں کہ ایک کم سن بچے سے لڑنا رستم کی آبرو نہیں، رستم کے نام کی بے عزتی ہے ۔(پھر اندر شور ہوتا ہے )

طوس:۔ وہ دیکھیے !وہ دیکھیے !ہمارا لشکر پھر سیلاب کی طرح آگے بڑھنے کے بدلے کنارے سے ٹکرا کر لوٹتی ہوئی لہر کی طرح سمٹ کر پیچھے ہٹ رہا ہے ۔

رستم :۔ زندگی سے اتنی محبت ، موت کا اتنا خوف ، کیا یہ میدانِ جنگ میں تلوار و شجاعت کو ذلیل کرنے آئے تھے ۔ جاؤ ! شرم دلانے والے لفظوں سے ہمت کے جمے ہوئے سمندر میں دوبارہ طوفان پیدا کرو۔ ان سے کہو کہ مایوس نہ ہوں، رستم زندہ ہے اور ایران کا اقبال بھی زندہ رہے گا۔

(گودرز اور طوس جاتے ہیں ۔ اندر سے دوبارہ شور کی آواز)

ان بزدلوں کی روح میں غیرت کی روشنی بجھ گئی ہے ۔ اس لیے انھیں فرض کا راستہ دکھائی نہیں دیتا ...یہ کون!... سہراب...تنا بہادر کتنا خوبصورت! دیکھنے سے آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ میرا فرزند ہوتا تو آج آسمان کی طرح زمین پر بھی دو آفتاب دکھائی دیتے ... آہ ! وہ موت کی تلاش میں اس طرف آ رہا ہے ۔ واپس جا!واپس جا ! سہراب اگر تیرے ماں باپ زندہ ہیں تو ان کے بڑھاپے اور ارمانوں پر رحم کر اور واپس جا ۔ نادان تو ایران میں رستم سے نہیں اپنی قسمت سے جنگ کرنے آیا ہے ۔

سہراب:۔ (آ کر) چہرہ آگ اور دل برف ۔ خوف کی آندھی میں یہ ریت کے ذروں کی طرح اڑتے پھر رہے ہیں۔ شاید بزدلوں کے خیال میں بھاگنے ہی کا کام بہادری ہے ۔ کیکاؤس تیری قسمت کے روشن دن کی شام آ گئی۔ کل میرے قدم تیرے تخت پر اور تیرا تاج میرے قدموں میں ہو گا۔

(آگے بڑھتا ہے ۔ رستم روکتا ہے )

رستم:۔ ٹھہر۔ اس جنگ میں خود فتح تیرے خنجر کی دھار اور نصیب تیرے بازوؤں کا زور بن جائے تو بھی کیکاؤس تک زندہ نہیں پہنچ سکتا کیوں کہ اس کا تاج تیری امید سے اور اس کا تخت تیری ہمت سے بہت زیادہ بلند ہے ۔

سہراب:۔ یہ چہرہ !یہ جلال !اے ایرانی بزرگ تو کون ہے ؟

رستم:۔ ایران کا نمک خوار ، شہنشاہ کیکاؤس کا جاں نثار۔

سہراب:۔ (دل میں) میری ماں نے اپنے لفظوں سے میرے دل پر رستم کی جو تصویر کھینچ دی ہے اس تصویر سے یہ چہرہ کس قدر ملتا ہوا ہے ۔

رستم:۔ میں دنیا کی کوئی عجیب چیز نہیں ہوں، تو میر ے چہرے کی طرف غور سے کیا دیکھ رہا ہے ۔

سہراب:۔ (دل میں ) ؂

وہی شوکت عیاں ہے اس کے تیور اور قرینے سے

اُڑے جاتے ہیں نقشِ دشمنی دل کے نگینے سے

نہ جانے کون کہتا ہے کہ بڑھ قدموں پہ سر رکھ دے

یہی ہے باپ تیرا جا لپٹ جا اس کے سینے سے

رستم :۔ وہی خاموشی وہی حیرت ، تو کوئی خواب دیکھ رہا ہے ؂

آنکھ کیوں پتھرا گئی بڑھتے قدم کیوں جم گئے

کیا ہوا جو یک بہ یک آندھی کے جھونکے تھم گئے

ناز مت کر ، ہاتھ بے قیمت لہو میں رنگ کر

عورتوں سے لڑ چکا امرد سے اب جنگ کر

سہراب:۔ جنگ دشمن سے ہوتی ہے ، عزیزوں اور بزرگوں کے ساتھ نہیں ہوتی ۔ یہ جنگ خون سے شروع ہو کر آنسوؤں پر ختم نہ ہو اس لیے حملے سے پیشتر اے محترم انسان! میں تیرے نام اور رتبے سے واقف ہو جانا چاہتا ہوں ؂

جس کو دیکھا تھا کبھی آئینۂ تقدیر میں

دیکھتا ہوں میں وہی جلوہ تری تصویر میں

رستم:۔ تو عجیب طرح کی گفتگو کر رہا ہے ۔ کیا موت کے خوف سے دیوانہ ہو گیا ہے ؂

پوچھنا نام و نشاں اس جنگ کے انجام سے

لڑنے آیا ہے یہاں مجھ سے کہ میرے نام سے

سہراب:۔ میں نام اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ یہ چہرہ دیکھ کر میرے دل میں دشمنی کی جگہ تیری عزت پیدا ہو گئی ہے ؂

جس کی تلوار سے توران کے لب پر دم ہے

کیوں چھپاتا ہے یقیناً وہ تو ہی رستم ہے

رستم:۔ رستم شیروں سے ، اژدہوں سے ، دیوؤں سے ، بہادری کے طوفان سے لڑتا ہے ۔ اپنی عمر ، رتبے اور شہرت کی توہین کرنے کے لیے جنگ کے میدان کو ماں کی گود سمجھنے والے نا سمجھ لڑکوں کا مقابلہ نہیں کرتا ؂

سرد ہو جاتے ابھی یہ جوش کیا اور شور کیا

سامنے رستم کے تو کیا اور تیرا زور کیا

کانپ اٹھتا دیکھتے ہی موت کی تصویر کو

جنگ میں رستم نہ آیا دے دعا تقدیر کو

سہراب:۔ بہادر بوڑھے ، میرا دل نہیں چاہتا کہ تجھ پر حملہ کروں ۔ میں منت کرتا ہوں کہ مجھے غفلت کے اندھیرے میں نہ رکھ۔ اگر واقعی تو رستم ہے تو میں تلوار پھینک کر دو زانوں بیٹھ کر تیرے قدموں کو بوسہ دوں گا اور عزت و ادب کے ساتھ سر جھکا کر تیری بزرگی کو سلام کروں گا ؂

اور کہوں گا کہ خوش اقبال بنا دے مجھ کو

ہاتھ سر پر مرے رکھ اور دعا دے مجھ کو

رستم:۔ دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ سہراب نے رستم جیسا یکتائے زمانہ دلیر سے جنگ کی تھی، تو دھوکا دے کر مجھ سے رستم ہونے کا اقرار کرانا چاہتا ہے ؂

کیوں نہیں کہتا کہ مجھ میں جنگ کا اب دم نہیں

ہوش میں اکان کھول اور سن کہ میں رستم نہیں

سہراب:۔ اگر تو رستم نہیں تو آنکھیں بند ہونے سے پہلے دنیا کو آخری مرتبہ حسرت کی نظروں سے دیکھ لے ۔

(دونوں میں جنگ ، آخر سہراب رستم کو گرا دیتا ہے اور چھاتی پر چڑھ کر خنجر بھونکتا ہے ۔رستم ،سہراب کی کلائی پکڑ لیتا ہے )

رستم:۔ ٹھہر !ایران کے بہادروں کا دستور ہے کہ دشمن کو دو مرتبہ شکست دینے کے بعد قتل کرتے ہیں ۔ اگر تجھے اپنے بازوؤں پر بھروسہ ہے اور تیرے دل میں بہادروں کے دستور کی عزت ہے تو کل مجھے نصیب آزمانے کا ایک اور موقع دے ۔ کل کا فیصلہ قسمت کا آخری فیصلہ ہو گا۔

سہراب:۔ اگر تجھے یقین ہے کہ رات بھر کی خوشامد سے صبح کو قسمت تیری مدد کے لیے زیادہ ہو جائے گی تو اچھا زندگی بچانے کے لیے اس آخری کوشش کے لیے تجھے کل تک کے لیے مہلت دیتا ہوں (سینے سے اُٹھ کر )مرد کا زیور بہادری اور بہادری کا زیور رحم ہے ۔



(خنجر پھینک دیتا ہے )



(سین ختم)
ہومان و بارمان کا خیمہ

ہومان:۔ جس کا جوش جوان اور تجربہ بچہ ہے ، جس کا بازو طاقت ور اور عقل کمزور ہے ،وہ دنیا کو فتح کر سکتا ہے ، دنیا پر حکومت نہیں کر سکتا۔

بارمان:۔ قبضے میں آئے ہوئے شیر کو دوبارہ حملہ کرنے کے لیے آزاد کر دینا یہ سہراب کی ایسی خوفناک غلطی ہے کہ اس غلطی پر نادان بچہ اور دیوانے بھی افسوس کرتے ہوں گے ۔

ہومان:۔ اور اس احمقانہ غلطی کو وہ بہادری اور رحم کہتا ہے ۔

بارمان:۔ جنگ کیا ہے قتل ، خون ، موت کی نمائش ۔ اس لیے جنگ خود ایک بے رحمی ہے ۔ بے رحمی کی سلطنت میں رحم کے قانون پر عمل نہیں ہوتا۔

ہومان :۔ یہ اس کمزوری کا نتیجہ ہے کہ جو فتح طاقت اور تلوار سے حاصل نہ ہو سکی ہو رستم نے عقل کے زور اور فریب کے حربے سے حاصل کر لی۔

بارمان:۔ تو اب کیا کرنا چاہیے ۔ ہمارے بادشاہ افراسیاب کی آرزو اور ہماری کوشش برباد ہوا چاہتی ہے

ہومان:۔ چلو !سہراب کو اس کی غلطی پر شرمندہ کریں ، اس کی روح میں ایک نئی روشنی پھونکیں ، اس کے دل کی نیکی کو عداوت سے اور رحم کے جذبے کو غصے سے بدل دیں ۔ اگر ہمارے جھنجھوڑنے سے سہراب کی سوئی ہوئی زندگی جاگ اٹھی تو کل کا دن رستم کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔



(دونوں جاتے ہیں)