صفحات

تلاش کریں

افسانہ- دُھواں(سعادت حسن منٹو)




 ”امی جان، آج میں نے قصائی کی دکان پر دو بکرے دیکھے۔ کھال اُتری ہوئی تھی اور ان میں سے دُھواں نکل رہا تھا بالکل ایسے ہی جیسا کہ صبح سویرے میرے منہ سے نکلا کرتاہے۔ “
”اچھا۔ ! “
یہ کہہ کر اُس کی ماں چولھے میں لکڑیوں کے کوئلے جھاڑنے لگی۔
”ہاں اور میں نے گوشت کو اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تو وہ گرم تھا۔ “
”اچھا۔ ! “
یہ کہہ کر اس کی ماں نے وہ برتن اٹھایا جس میں اس نے پالک کا ساگ دھویا تھا اور باورچی خانہ سے باہر چلی گئی۔
”اور یہ گوشت کئی جگہ پر پھڑکتا بھی تھا۔ “
”اچھا۔ “
مسعود کی بڑی بہن نے درباری سرگم یاد کرنا چھوڑ دی اور اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”کیسے پھڑکتا تھا؟ “
”یوں۔ یوں۔ “
مسعود نے انگلیوں سے پھڑکن پیدا کرکے اپنی بہن کو دکھائی۔
”تو پھر کیا ہوا؟ “
یہ سوال کلثوم نے اپنے سرگم بھرے دماغ سے کچھ اس طور پر نکالا کہ مسعود ایک لحظے کے لیے بالکل خالی الذہن ہو گیا۔
”پھر کیا ہونا تھا، میں نے تو ایسے ہی آپ سے بات کی تھی کہ قصائی کی دکان پر گوشت پھڑک رہا تھا۔ میں نے انگلی سے چھو کر بھی دیکھا تھا۔ گرم تھا۔ “
”گرم تھا۔ اچھا مسعود یہ بتاؤ تم میرا ایک کام کرو گے۔ “
”بتائیے۔ “
”آؤ، میرے ساتھ آؤ۔ “
”نہیں آپ پہلے بتائیے۔ کام کیا ہے۔ “
”تم آؤ تو سہی میرے ساتھ۔ “
”جی نہیں۔ آپ پہلے کام بتائیے۔ “
”دیکھو میری کمر میں بڑا درد ہورہا ہے۔ میں پلنگ پر لیٹتی ہوں، تم ذرا پاؤں سے دبا دینا۔ اچھے بھائی جو ہوئے۔ اللہ کی قسم بڑا درد ہورہا ہے۔ “
یہ کہہ کر مسعود کی بہن نے اپنی کمر پر مکیاں مارنا شروع کردیں۔
”یہ آپ کی کمر کو کیا ہو جاتا ہے۔ جب دیکھو درد ہورہا ہے، اور پھر آپ دبواتی بھی مجھی سے ہیں، کیوں نہیں اپنی سہیلیوں سے کہتیں۔ “
مسعود اُٹھ کھڑا ہُوا۔
”چلیے، لیکن یہ آپ سے کہے دیتا ہوں کہ دس منٹ سے زیادہ میں بالکل نہیں دباؤنگا۔ “
”شاباش۔ شاباش۔ “
اس کی بہن اُٹھ کھڑی ہُوئی اور سرگموں کی کاپی سامنے طاق میں رکھ کر اس کمرے کی طرف روانہ ہوئی جہاں وہ اور مسعود دونوں سوتے تھے۔ صحن میں پہنچ کر اس نے اپنی دُکھتی ہوئی کمر سیدھی کی اور اُوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ مٹیالے بادل جُھکے ہُوئے تھے۔
”مسعود، آج ضرور بارش ہو گی۔ “
یہ کہہ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا مگر وہ اندر اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔ جب کلثوم اپنے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گئی تو مسعود نے اٹھ کرگھڑی میں وقت دیکھا۔
”دیکھئے باجی گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ میں پورے گیارہ بجے آپ کی کمر دابنا چھوڑ دوں گا۔ “
”بہت اچھا، لیکن تم اب خدا کے لیے زیادہ نخرے نہ بگھارو۔ ادھر میرے پلنگ پر آکر جلدی کمر دباؤ ورنہ یاد رکھو بڑے زور سے کان اینٹھوں گی۔ “
کلثوم نے مسعود کو ڈانٹ پلائی۔ مسعود نے اپنی بڑی بہن کے حکم کی تعمیل کی اور دیوار کا سہارا لے کر پاؤں سے اس کی کمر دباناشروع کردی۔ مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پیدا ہو گیا۔ جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ کلثوم کے کولھوں پر گوشت زیادہ تھا، جب مسعود کا پاؤں اس حصے پر پڑا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس بکرے کے گوشت کو دبا رہا ہے جو اس نے قصائی کی دکان میں اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا۔
اس احساس نے چند لمحات کے لیے اس کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا کیے جن کا کوئی سر تھا نہ پیر، وہ ان کا مطلب نہ سمجھ سکا اور سمجھتا بھی کیسے جبکہ کوئی خیال مکمل نہیں تھا۔ ایک دوبار مسعود نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے نیچے گوشت کے لوتھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی ہے، اسی قسم کی حرکت جو اُس نے بکرے کے گرم گرم گوشت میں دیکھی تھی۔ اس نے بڑی بدولی سے کمر دبانا شروع کی تھی مگر اب اسے اِس کام میں لذت محسوس ہونے لگی۔
اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھینچی بھینچی آواز جو کہ مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی اس گمنام سی لذت میں اضافہ کررہی تھی۔ ٹائم پیس میں گیارہ بج گئے مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی۔ شاباش مسعود، شاباش۔ لو اب لگے ہاتھوں ٹانگیں بھی دبا دو، بالکل اسی طرح۔ شاباش میرے بھائی۔ ”
مسعود نے دیوار کا سہارا لے کر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پاؤں کے نیچے مچھلیاں سی تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دہری ہو گئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا، لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی وہ تڑپ منجمد سی ہو گئی۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوارکا سہارا لے کر اپنی بہن کی رانیں دبائے، چنانچہ اس نے کہا۔
”یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کردیا۔ سیدھی لیٹ جائیے۔ میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں۔ “
کلثوم سیدھی لیٹ گئی۔ رانوں کی مچھلیاں اِدھر اُدھر ہونے کے باعث جو گُدگُدی پیدا ہوئی تھی اس کا اثر ابھی تک اس کے جسم میں باقی تھا۔
”نابھائی میرے گُدگُدی ہوتی ہے۔ تم اوٹ پٹانگ طریقے سے دباتے ہو۔ “
مسعود نے خیال کیا کہ شاید اس نے غلط طریقہ استعمال کیا ہے۔ نہیں، اب کی دفعہ میں پُورا بوجھ آپ پر نہیں ڈالوں گا۔ آپ اطمینان رکھیے۔ اب ایسی اچھی طرح دباؤں گا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ ”
دیوار کا سہارا لے کر مسعود نے اپنے جسم کو تولا اور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کا آدھا بوجھ کہیں غائب ہو گیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے اپنے پیر چلانے شروع کیے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر اِدھر اُدھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسے پر ایک بازیگر کو چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازیگر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسا اسی طرح پھسلتا ہو گا۔ اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں مگر وہ لذت جو کہ اسے اب محسوس ہورہی تھی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا
”کلثوم کو اگر ذبح کردیا جائے تو کھال اُتر جانے پر کیا اس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟ “
لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کردیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔
”بس بس۔ “
کلثوم تھک گئی۔
”بس بس۔ “
مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گُدگُدی کرنا شروع کردی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے۔ لیکن جب اس نے ارادہ کرکے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔ جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی ہے۔ بادل اور بھی جھک آئے تھے۔
پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہورہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دلنواز حرارت محسوس کررہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اس کے گالوں کے ساتھ مس ہُوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کی ناک پر پڑیں تو ایک جھرجھری سی اس کے بدن میں لہرا اٹھی۔ سامنے کوٹھے کی دیوار پر ایک کبوتر اور کبوتری پاس پاس پَر پھلائے بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہُوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔
گل داؤدی اور نازبو کے ہرے ہرے پتے اُوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں گھلی ہُوئی تھیں۔ ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے اردگرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اونی کپڑے۔ مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا۔ جن کا مطلب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ ان باتوں کو چُھو کردیکھ سکتا تھا مگر ان کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا، پھر بھی ایک گمنام سا مزا اس سوچ بچار میں اُسے آرہا تھا۔
بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہو گئے اور دبانے سے ان پر سفید دھبے پڑنے لگے تو اس نے مٹھیاں کَس لیں اور اُن کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اس عمل سے کچھ گرمی تو پہنچی مگر وہ نم آلود ہو گئے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانہ میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا، ابھی اُس نے پہلا لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آگیا۔ باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔
مسعود کی ماں اُٹھ کر فوراً دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت بڑھ گئی تھی کیونکہ اب ہَوا بھی چل رہی تھی، مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی۔ تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔ مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہُوئی کہ وہ اس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کوراحت انگیز گرمی پہنچے۔
دیر تک وہ ایسی شِیر گرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اس کے پٹھوں میں ہلکی ہلکی سی دُکھن پیدا ہو گئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصّے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں، کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی۔ اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا۔ البتہ اس اٹکاؤ نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہُوئے اضطراب کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اس کا سارا جسم کھنچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔
دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اُٹھا اور باورچی خانہ سے ہوتا ہوا صحن میں آنکلا۔ نہ کوئی باورچی خانہ میں تھا اور نہ صحن میں۔ اِدھر اُدھر جتنے کمرے تھے سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رُک گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کردیا۔ ایک بار جب اس نے زور سے ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پرلگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی۔
”کون؟ “
”جی میں ہُوں مسعود! “
اندر سے آواز آئی۔
”کیا کررہے ہو؟ “
”جی کھیل رہا ہوں۔ “
”کھیلو۔ “
پھر تھوڑے سے توقف کے بعد اس کے باپ نے کہا۔
”تمہاری ماں میرا سردبا رہی ہے۔ زیادہ شور نہ مچانا۔ “
یہ سُن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اس کا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم وا۔ مسعود کو ایک شرارت سوجھی۔ دبے پاؤں وہ نیم وا دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھی، خوفزدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔ بملا کے بلاؤز کے بٹن کُھلے ہوئے تھے اور کلثوم اُس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔
مسعود کچھ سمجھ نہ سکا، اس کے دماغ میں دُھواں سا چھا گیا۔ وہاں سے الٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاً اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا۔ جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت بالکل کمزور کردی۔ بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دباؤ ڈالنے پرہاکی میں خم پیدا ہوجائے گا، اور زیادہ زور لگانے پر ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زورلگانے پر بھی وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کُشتی لڑتا رہا۔ جب وہ تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اس نے ہاکی پرے پھینک دی۔