تحقیق و تالیف: محمد شمس الحق
ترتیب و تہذیب: رفیق احمد نقش، عنیقہ ناز، راشد اشرف، اعجاز عبید
معروف شعراء کے اشعار
غالب
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی
دام و در اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
٭٭٭
میر
راہِ دورِ عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
سرھانے میر کے کوئی نہ بولو
(مشہورِ عام: سرہانے میر کے آہستہ بولو)
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
میر کیا سادے ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
(مشہورِ عام: اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں)
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میرے سنگ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
بہت کچھ ہے کرو میر بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس
مر گیا کوہ کن اسی غم میں
آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے
٭٭٭
میر درد
وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سناافسانہ تھا
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں
٭٭٭
نظیر اکبر آبادی
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
ہشیار یارِ جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
پڑے بھنکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے
جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے
٭٭٭
غلام ہمدانی مصحفی
میں عجب یہ رسم دیکھی، مجھے روز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا
حسرت پہ اس مسافرِ بے کس کی روئیے
جو رہ گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے
بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
پھر اس چمن میں بوم بسے یا ہما رہے
٭٭٭
حیدر علی آتش
یہ صدا آتی ہے خاموشی سے
منہ سے نکلی ہوئی پرائی بات
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈھتا تیری محفل میں رہ گیا
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجئیے دہن بگڑا
مشاق درد عشق جگر بھی ہے، دل بھی ہے
کھاؤں کدھر کی چوٹ، بچاؤں کدھر کی چوٹ
فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے
مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھے جن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے
٭٭٭
وزیر علی صبا
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
کوچۂ عشق کی راہیں کوئ ہم سے پوچھے
خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے
٭٭٭
مہتاب رائے تاباں
شعلہ بھڑک اٹھا مرے اس دل کے داغ سے
آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یا تنگ نہ کر ناصح ناداں، مجھے اتنا
یا چل کے دکھا دے ، دہن ایسا، کمر ایسی
٭٭٭
قائم چاند پوری
قسمت تو دیکھ، ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
٭٭٭
امیر مینائی
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں
پھر اِس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں ٭٭٭
انشاء اللہ خاں انشا
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
فعل بد تو ان سے ہو، لعنت کریں شیطان پر
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
٭٭٭
شیخ امام بخش ناسخ
کیا روزِ بد میں ساتھ رہے کوئی ہم نشیں
پتے بھی بھاگتے ہیں خزاں میں شجر سے دور
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
٭٭٭
شوق لکھنوی
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اب کوئی اِس میں کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
٭٭٭
مضطر خیر آبادی
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آسکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
اپنے قول وفا کو بھول گئے
تم تو بالکل خدا کو بھول گئے
٭٭٭
شیخ ابراہیم ذوق
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
اے ذوق دیکھ! دُخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
زاہد، شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں؟
کیا ڈیڑھ چُلو پانی میں ایمان بہہ گیا
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
(مشہورِ عام: پھول تو دو دن بہارِ جانفزا دکھلا گئے)
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے
٭٭٭
خواجہ محمد وزیر
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دل گیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو
اسی لئے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر
٭٭٭
مومن خاں مومن
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو، آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
یہ عذر امتحانِ جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے
٭٭٭
میر انیس
گل دستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
نہ پھول تھے، نہ چمن تھا، نہ آشیانہ تھا
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
٭٭٭
مصطفیٰ خاں شیفتہ
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے
ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ
پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لائیے
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
٭٭٭
دیا شنکر نسیم
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
کیا لطف، جو غیر پردہ کھولے
جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے
٭٭٭
نظام رام پوری
انداز اپنا دیکھتے ہیں آئینے میں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
دینا وہ اس کا ساغر مے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر اُدھر کو، ادھر کو بڑھا کے ہاتھ
٭٭٭
لالہ مادھو رام جوہر فرخ آبادی
اب عطر بھی ملو تو تکلف کی بو کہاں
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینا گلاب تھا
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرمحفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
نالۂ بلبلِ شیدا تو سنا ہنس ہنس کر
اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
سودا
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
گل پھینکو ہو اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی
(مشہورِ عام: گل پھینکے ہے عالم کی طرف بلکہ ثمر بھی
یا
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی)
جو کہ ظالم ہو وہ ہرگز پھولتا پھلتا نہیں
سبز ہوتے کھیت دیکھا ہے کبھو شمشیر کا
٭٭٭
محمد رضا برق
اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا
اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
٭٭٭
نواب مرزا داغ دہلوی
لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تُو نے پی ہی نہیں
خط ان کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی
اللہ کرے زورِ رقم اور زیادہ
راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دوچار ملاقاتوں میں
ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
کسی کا مجھ کو نہ محتاج رکھ زمانے میں
کمی ہے کون سی یارب ترے خزانے میں
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے اُبھرنے والے
وہ جب چلے تو قیامت بپا تھی چار طرف
ٹھہر گئے تو زمانے کو انقلاب نہ تھا
دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
٭٭٭
کرار نوری
اعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا ہی چلوں
جانے کس کس کو ملے میری سزا میرے بعد
اعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا ہی چلوں
جانے کس کس کو ملے میری سزا میرے بعد
٭٭٭
عزیز حامد مدنی
طلسم خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
٭٭٭
مصطفیٰ زیدی
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
انھی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
میرے گھرکے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے
٭٭٭
اقبال
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
٭٭٭
عزیز لکھنوی
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا
دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا
وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا
٭٭٭
گستاخ رام پوری
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
ساقی ادھر اٹھا تھا، ادھر ہاتھ اٹھ گئے
بوتل سے کاگ اڑا تھا کہ رندوں میں چل گئی
٭٭٭
متفرق
مجھ میں اور ان میں سبب کیا جو لڑائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
محمد امان نثار
بتاں کی بھی یہ یاد دو روز ہے
ہمیشہ رہے نام اللہ کا
میر محمد سجاد
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
(مشہورِ عام: ‘شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر، میر کے نام سے غلط منسوب)
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
محمد یار خاں امیر
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جاویں
میر حسن
آخر گِل اپنی صرفِ درِ میکدہ ہوئی
پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو
(مشہورِ عام: پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا)
جہاں دار شاہ جہاندار
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
(مشہورِ عام: گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ سے)
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
مرزا عظیم بیگ چغتائی
وصالِ یار سے دُونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
مرزا علی اکبر مضطرب
عمرِ دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
سیماب اکبر آبادی
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مہاراج بہادر برق
مہیا گرچہ سب اسباب ملکی اور مالی تھے
سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے
منشی مرزا محمد رضا معجز
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل
سید محمد خاں رند
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
نادر لکھنوی
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
خوش وقت علی خورشید
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
تسلیم لکھنوی
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزری گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خاں سیّاح
تُو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تُو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی
غلام مولا قلق
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
جلال لکھنوی
کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند
جو گنہ کیجیے ثواب ہے آج
سید محمد میر سوز
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
منشی موجی رام موجی
یادگارِ زمانہ ہیں ہم لوگ
سن رکھو تم، فسانہ ہیں ہم لوگ
شیخ نورالاسلام منتظر
جو دیکھا جانبِ غیر اُس نے دل پکار اٹھا
نگاہِ لطف کے اُمید وار ہم بھی ہیں
شوخ اکبر آبادی
سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر
ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے
فخر الدین حسین سخن
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
جلیل مانک پوری
یہ اُڑی اُڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
احسان دانش
باز آ تغافل سے ورنہ اہل دل اکثر
جس کو بھول جاتے ہیں، اس کو بھول جاتے ہیں
شکیل احمد ضیا
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
محشر بدایونی
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
خاطر غزنوی
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
رئیس فروغ
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم عاجز
گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
فرید جاوید
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
سرور بارہ بنکوی
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
سلیم احمد
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
محبوب خزاں
چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیل شفائی
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
قابل اجمیری
صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا
رسا چغتائی
نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
محسن بھوپالی
امیرِ شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
محسن احسان
نہ اِتنا تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے
شکیب جلالی
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
بشیر بدر
ہم روح ِسفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ
رضی اختر شوق
یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا
عالمتاب تشنہ
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے مرے صحن میں رستے بنا لیے
سبط علی صبا
مرے خدا مجھے اِتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اُس کو گھر کر دے
افتخار عارف
خود کو بڑھا چڑھا کے بتاتے ہیں یار لوگ
حالانکہ اِس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
روحی کنجاہی
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
خالد شریف
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
شعیب بن عزیز
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
پروین شاکر
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے
ہوش چوکوروی
غزالاں، تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزرا
(مشہورِ عام: دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری؟)
رام نرائن موزوں
در پے ہے عیب جُو ترے، حاتم تو غم نہ کر
دشمن ہے عیب جُو تو خدا عیب پوش ہے
شاہ حاتم
دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی
سید محمد اثر
ٹک ساتھ ہو حسرت دل مرحوم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
فدوی عظیم آبادی
رکھ نہ آنسو سے وصل کی امید
کھاری پانی سے دال گلتی نہیں
قدرت اللہ قدرت
اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا
جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر
شاہ نصیر
نسیم دہلوی، ہم موجد باب فصاحت ہیں
کوئ اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں
اصغر علی خاں فہیم
پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
ظہیر الدین ظہیر
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
حالی
دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئ دور ہو گئے
شاد عظیم آبادی
خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی
دیکھ آؤ مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے
حسن بریلوی
افسوس، بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے
آزاد انصاری
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے، اچھا، خفا ہو جائیے
حسرت موہانی
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں کہ عافیت ساحل میں ہے
وحشت کلکتوی
بڑی احتیاط طلب ہے وہ ۔ جو شراب ساغر دل میں ہے
جو چھلک گئ تو چھلک گئ، جو بھری رہی تو بھری رہی
بینظیر شاہ
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے
یگانہ چنگیزی
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مہاراج بہادر برق
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
عزیز الحسن مجذوب
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
فراق گورکھپوری
داور حشر میرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ‘ہاں’ بھی اب ‘نہیں’ معلوم ہوتی ہے
چراغ حسن حسرت
کب ہے عریانی سے بہتر کوئی دنیا میں لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا الٹا
صاحب مرزا شناور
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اک دھوپ تھی کہ گئی ساتھ آفتاب کے
خوش وقت علی خورشید
٭٭٭
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری ہو جائے
(مشہورِ عام:کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری مل جائے)
نواب امین الدولہ مہر
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے
کہ اُس کو بدنما لگتا ہے ، جیسے چاند کو گہنا
(مشہورِ عام: کہ جیسے خوش نما لگتا ہے ، دیکھو چاند بن گہنے)
شاہ مبارک آرزو
اگر بخشے، زہے قسمت، نہ بخشے تو شکایت کیا
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
اصغر خان اصغر
صرف مصرعے
بعض اشعار کے ایسے مصرعے بھی شامل کیے گئے ہیں جن کے پہلے یا دوسرے مصرعے کا باوجود کوشش، علم نہیں ہوسکا ہے، کتاب میں درج ایسے تمام مصرعے پیش خدمت ہیں کہ زیر نظر مضمون پڑھنے والے اگر ان سے واقف ہوں تو مرتب سے رابطہ (021-34618521 ۔ کتاب میں درج ہے) کر کے مستند حوالے کے سا تھ انہیں اس بارے میں آگاہ کرسکتے ہیں۔
آثار کہہ رہے ہیں عمارت عظیم تھی
——
میرا وقت آیا تو چلمن ڈال دی
——
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
——
ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے
——
باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی
——
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا
——
ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں
——
اگر اب بھی نہیں سمجھے تو پھر تم سے خدا سمجھے
——
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
——
ہم کو دعائیں دو، تمہیں قاتل بنا دیا
——
آبرو چاہے تو دریا سے کنواں دور رہے
٭٭٭
نا معلوم
وہ اشعار بھی شامل کیے گئے ہیں جن کے خالقوں کے نام باوجود کوشش بسیار، معلوم نہ ہوسکے، ایسی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ، اپنا مذہب چھوڑ کر
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
——
بے کار مباش کچھ کیا کر
خون دل عاشقاں پیا کر
(اس شعر کا ایک یہ روپ بھی مقبول ہے
بے کار مباش کچھ کیا کر
پاجامہ ادھیڑ کر سیا کر)
از رشتہ زلف خویش ہر دم
چاک دل عاشقاں سیا کر
——
خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر
آدمی پہچان لیتے ہیں قیافہ دیکھ کر
——
مانیں، نہ مانیں، آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
( پہلا مصرع اس طرح بھی مشہور ہے
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے)
——
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی، بری نظر ڈالی
(جس نے ڈالی نظر، بری ڈالی)
——
جان بچی سو لاکھوں پائے
خیر سے بدھو گھر کو آئے
——
ازل سے حسن پر ستی لکھی ہے قسمت میں
مرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے
——
نور حق، شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا، اس کو مٹا سکتا ہے کون
——
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی، خدا کی قسم، لاجواب کی
۔۔۔۔
ایسی ضد کا کیا ٹھکانا، اپنا مذہب چھوڑ کر
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
۔۔۔۔
محبت میں لٹتے ہیں دین اور ایماں
بڑا تیر مارا جوانی لٹا دی
٭٭٭
ضمیمہ
کتاب میں ’ضمیمہ‘ کے عنوان سے باب شامل کیا گیا ہے جس میں اردو کے وہ اشعار درج کیے گئے ہیں جو بقول مرتب، فی الحال زبان زد عام نہیں ہیں مگر ان میں ایسا ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔مذکورہ باب کتاب کے پہلے ایڈیشن (2003)میں شامل نہ ہوسکا تھا اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا مشفق خواجہ مرحوم کی ایما پر ہوا تھا ، 2011 میں کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں اس باب کو شامل کر کے شمس الحق صاحب نے اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کر لی۔ مشفق خواجہ نے اسے اصل مسودے سے کیوں حذف کیا، کتاب میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ضمیمہ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
اٹھو، وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا
جسٹس ہمایوں
—–
راہ میں ان سے ملاقات ہوئی
جس سے ڈرتے تھے، وہی بات ہوئی
مصطفی ندیم
٭٭٭