صفحات

تلاش کریں

مصحف ازنمرہ احمد


سنہری صبح بھیگ رہی تھی، جب وہ سست روی سے چلتی ہوئی بس اسٹاپ تک پہنچی۔ کندھے پر بیگ لٹکائے، ہاتھ میں پانی کی چھوٹی بوتل پکڑے، چہرے پر ڈھیروں بے زاری لیئے، وہ بینچ کے قریب آئی، جہاں بیٹھ کر وہ روز 10 منٹ بس کا انتظار کرتی تھی۔
اس نے بیگ ایک طرف رکھا اور بینچ پر بیٹھ گئی۔ پھر ایک ہاتھ سے جمائی روکتے دوسرے سے بوتل کھول کر لبوں سے لگائی۔ گرمی آج کل بڑھتی جا رہی تھی صبح ہی صبح اسے پسینہ آنے لگا تھا، جانے آگے کیا ہو گا، وہ گھونٹ بھرتی بے زاری سے سوچ رہی تھی، چہرے پر بھی وہی اکتاہٹ کے تاثرات تھے، جیسے دنیا بھر سے خفا ہو، سنہری پیشانی پر مستقل پڑے بل اور کانچ سی خوبصورت بھوری سنہری آنکھوں میں چھائی خفگی، کچھ تھا اس میں جو اسے سارے میں یکتا کرتا بناتا تھا، لمبے کرتے اور جینز میں ملبوس رسی کی مانند دوپٹہ مفلر کے انداز میں گردن سے لپیٹے، ٹانگ پر ٹانگ رکھے وہ پاؤں جھلاتی، تنقیدی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اور تب ہی اسے احساس ہوا کہ وہ سیاہ فام لڑکی آج بھی بینچ پر اس کے ساتھ بیٹھی ہے۔
ان دونوں کے درمیان اس کا بیگ پڑا تھا اور اس وقت وہ سیاہ فام لڑکی سرجھکائے، نگاہ ترچھی کیے اس کے بیگ کو دیکھ رہی تھی، جہاں جگہ جگہ چاک اور وائٹنر سے اس نے اپنا نام لکھا ہوا تھا۔
محمل ابراہیم۔ ۔ ۔ ۔ محمل ابراہیم۔
آڑا ترچھا چھوٹے بڑے ہر انداز میں یہی لکھا تھا، وہ لڑکی کبھی ہی اس کے بیگ کو دیکھتی تھی مگر محمل کے تو روز کے دس منٹ اس سیاہ فام لڑکی کا جائزہ لیتے ہی گزرتے تھے۔
وہ بھی عجیب پراسرار کردار تھی، یہاں اسلام آباد میں سیاہ فام نظر آ ہی جاتے تھے، مگر وہ اپنے جیسوں سے مختلف تھی سر پر رو مال باندھ کر گردن کے پیچھے گرہ لگاتی اور نیچے اوور کوٹ موٹے ہونٹ سیاہ رنگت، مگر چمکیلی آنکھیں کوئی ایسی چمک تھی ان میں کہ محمل کبھی ان آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی تھی، ہمیشہ نظر چرا جاتی شاید ڈیڑھ مہینہ قبل وہ اسے اپنے مخصوص اوقات میں اسٹینڈ پر دیکھتی تھی اور ان ڈیڑھ ماہ میں ان کا انداز ہمیشہ یکساں رہا تھا۔
کمر سیدھی رکھے الرٹ سی بینچ بیٹھی خاموشی سے سامنے سیدھ میں دیکھتی وہ بہت چپ سی لڑکی معلوم نہیں کون تھی اور پھر اس کی وہ پر اسرار کتاب جس کا سیاہ سرورق بالکل خالی تھا اس کی گود میں دھری ہوتی اور کتاب کے کناروں پر اس کے سیاہ ہاتھ مضبوطی سے جمے ہوتے۔
اس کے انداز سے کچھ خاص جھلکتا تھا، کتاب کی حفاظت کا احساس یا پھر اس کے بیش قیمت ہونے کا۔
کتاب بالشت بھر موٹی تھی۔ صفحوں کے جھلکتے کنارے پیلے اور خستہ لگتے تھے۔ جیسے کوئی قدیم کتاب ہو سینکڑوں برس پرانا کوئی نسخہ ہو۔ کچھ تھا اس میں کوئی قدیم راز یا کوئی پراسرار کتھا، وہ جب بھی اس پر اسرار کتاب کو دیکھتی، یہی سوچتی، اور آج جانے کیا ہوا، وہ اس خاموش سی لڑکی سے مخاطب ہو ہی گئی شاید تجسس عاجز کر رہا تھا۔
ایکسکیوز می۔ ایک بات پوچھ سکتی ہوں ؟
پوچھو۔ سیاہ فام لڑکی نے اپنی چمکیلی آنکھیں اٹھائیں۔
یہ کتاب کس کی ہے ؟
میری۔
میرا مطلب اس میں کیا لکھا ہے ؟
وہ چند لمحے محمل کا چہرہ دیکھتی رہی پھر آہستہ سے بولی۔
میری زندگی کی کہانی
اچھا۔ وہ حیرت چھپا نہ سکی۔ میں سمجھی یہ کوئی قدیم کتاب ہے۔
قدیم ہی ہے صدیوں پہلے لکھی گئی تھی۔
تو آپ کو کہاں سے ملی؟
مصر کی ایک پرانی لائبریری سے، یہ کچھ کتابوں کے بیچ پڑی تھی۔ جب میں نے اسے نکالا تو اس پر زمانوں کی گرد تھی، وہ محبت سے سیاہ جلد پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہہ رہی تھی۔ اس کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ تھی میں نے وہ گرد جھاڑی اور اسے اپنے ساتھ رکھ لیا، پھر جب پڑھا تو معلوم ہوا اسے تو کسی نے میرے لئے لکھوا کر ادھر رکھ دیا تھا۔
محمل منہ کھولے اسی دیکھ رہی تھی
تمہیں کیا دلچسپی ہے اس میں ؟
میں اس کے بارے میں مزید جاننا چاہتی ہوں کیا میں اسے پڑھ سکتی ہوں ؟وہ ہلکا مسکرائی
تم نئے دور کی نئی لڑکی ہو اس قدیم زبان میں لکھے نسخے کو کہاں سمجھو گی؟
مگر یہ ہے کیا اس میں لکھا کیا ہے ؟وہ تجسس اب اسے بے چین کر رہا تھا۔
میرا ماضی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی پل ہارن بجا تو محمل نے چونک کر سامنے سڑک پر آتی بس کو دیکھا۔
میرا حال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سیاہ فام لڑکی کہہ رہی تھی
محمل بیگ کا اسٹریپ پکڑے کھڑی ہوئی اسے جلدی کالج پہنچنا تھا۔
اور میرا مستقبل بھی مجھے کیا پیش آنے والا ہے یہ کتاب سب بتا دیتی ہے۔
میں چلتی ہوں وہ بس کی طرف دیکھتے معذرت خواہانہ انداز میں کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
اس میں تمہارا بھی ذکر ہے محمل۔ وہ الٹے پاؤں مڑی۔
میرا ذکر؟میرے بارے میں کیا لکھا ہے وہ ششدر رہ گئی تھی۔
یہی کہ میں تمہیں یہ کتاب دے دوں۔ لیکن میں تو اسے تمہیں تبھی دوں گی جب تم تھک کر خود مجھ سے مانگنے آؤ گی کیونکہ اس میں تمہاری زندگی کی کہانی بھی ہے۔ جو ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے سب لکھا ہے۔
بس کا تیز ہارن پھر سے بجا تو وہ کچھ کہے بنا تیزی سے اس طرف لپکی راڈ پکر کر اوپر چڑھتے اس نے پل بھر کو پلٹ کے دیکھا تھا۔
وہ سیاہ فام لڑکی اسی طرح مسکرا رہی تھی۔
پراسرار معنی خیز مسکراہٹ محمل کو ایک دم اس سے بہت ڈر لگا تھا۔
٭٭
کالج کے بعد وہ اپنی دوست نادیہ کے ابو کی اکیڈمی میں سیونتھ کلاس کے بچوں کو سائنس اور میتھس پڑھاتی تھی گھر پہنچتے پہنچتے اسے روز ساڑھے تین ہو جا تے تھے۔
گیٹ عبور کر کے پورچ میں دیکھا تو تین گاڑیاں آگے پیچھے کھڑی تھیں۔
دل کراہ کے رہ گیا۔ گر میں گاڑیوں کے باوجود بسوں پیں دھکے کھانے پر مجبور تھی۔
ہم چچاؤں کے رحم و کرم پر پلنے والے یتیموں کے نصیب بھی کتنے یتیم ہوتے ہیں نا؟خود پر ترس کھاتی وہ اندر آئی تھی۔
لاونج میں خاموش دوپہر اتری تھی۔ وہ سب کے سونے کا ٹائم تھا۔ آغا جان اس کے سب سے بڑے تایا اس وقت تک آفس سے لوٹ آئے تھے۔ اور ان کی کچی نیند کے باعث پورے گھر کو حکم ہوتا کہ پتہ بھی نہ کھڑکے ورنہ وہ ڈسٹرب ہوں گے۔ حکم بظاہر پورے گھر کو اور در حقیقت محمل اور مسرت کو سنایا جاتا تھا۔ اور آخر میں جب آغا جان کی بیگم مہتاب تائی ان الفاظ کا اضافہ کرتیں۔
اور مسرت اپنی بیٹی کو سمجھا دینا جب لور لور شہر پھرنے سے فارغ ہو جائے تو گھر آتی ہوئی میں گیٹ آرام سے کھولا کرے۔ آغا صاحب کی نیند خراب ہوتی ہے، اب میں کچھ کہوں گی تو اسے برا لگے گا۔ گز بھر کی تو زبان ہے اس کی۔ نہ چھوتے کا لحاظ نہ برے کا ادب۔ استغفر اللہ ہماری بیٹیاں بھی کالج میں پڑھی ہیں ان کے تو انداز ایسے نہ نکلے جیسے محمل کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وغیرہ وغیرہ تو اسے تو آگ ہی لگ جاتی تھی۔ ہر روز دروازہ کھولتے ہوئے یہی فقرہ سماعت میں گونجتا تو چڑنے کے باوجود دروازہ آہستہ بند کرتی۔
کچن کی طرف آئی تو سنک میں جھوٹے برتنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ناگواری سے ناک چڑھائے اس نے بیگ سلیب پر رکھا اور ہاٹ پاٹ کی طرف بڑھی۔ صبح ناشتے کے بعد اب تک کچھ بھی نہیں کھایا تھا، اور اب زوروں کی بھوک لگی تھی۔
ہاٹ پاٹ کھولا تو وہ خالی تھا رو مال پر روٹی کے چند ذرے بکھرے تھے اس نے فریج کھولنا چاہا تو وہ لاکڈ تھا۔ مہتاب تائی اس کے آنے سے قبل فریج لاک کر دیتی تھی۔ مسرت اس کے لیے کھانا بچا کر ہاٹ پاٹ میں رکھ دیتی تھی۔ مگر جب سے مہتاب تائی نے کھانے کی خود نگرانی سٹارٹ کی تھی۔ ہاٹ پاٹ ہر تیسرے دن خالی ہی ملتا تھا۔
تکلیف سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، لیکن پھر ضبط کر کے باہر نکلی۔ اور آہستہ سے گیٹ عبور کر کے کالونی سے باہر نکڑ والے ہوٹل سے ایک نان اور ایک کباب لے آئی اس کے پاس اتنے ہی پیسے تھے۔
واپسی پر وہ پھر پرانی محمل بن چکی تھی۔
لاونج کا دروازہ کھول کے دھڑام سے بند کیا۔ فرش پر پڑی فٹ بال اٹھا کے پوری قوت کے ساتھ دیوار پر ماری اور صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھی نان کباب کا لفافہ کھولنے لگی۔
لمحے بھر بعد ہی آغا جان کے کمرے کا دروازہ کھلا اور تنتناتی ہوئی تائی مہتاب باہر آئی۔
محمل۔ وہ گرجیں، تو اس نے آرام سے سر اٹھایا۔
کباب کھائیں گی تائی ماں ؟
شٹ اپ ہزار بار کہا ہے دروازہ آرام سے کھولا کرو مگر تم۔
آہستہ بولیں تائی جان اس وقت آغا جان سو رہے ہوتے ہیں اٹھ جائیں گے۔ وہ نان پر کباب رکھ کے بے نیازی سے پاؤں جھلاتی کھا رہی تھی۔
تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احسان فراموش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں ذرا بھر بھی احساس ہے کہ آغا صاحب دن بھر کے تھکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر فقرہ مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اپنا نان کباب اٹھائے اپنے کمرے کی طرف جا چکی تھی۔
تائی مہتاب تلملاتی کلیستی رہ گئی۔
اندر مسرت آوازوں پر جاگ چکی تھی۔
کیا ہوا ہے محمل بھابھی بیگم کیوں ناراض ہو رہی تھی؟
دماغ خراب ہے ان کا پیدائشی مسئلہ ہے۔ آپ کو نہیں پتہ؟اس نے بے زاری سے نان کباب کا لفافہ بستر پر رکھ دیا۔
مگر ہوا کیا ہے ؟ان کی نگاہ پھسل کر لفافے پر گئی۔ پھر باہر سے کھانا لائی ہو فریج میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر خود ہی خاموش ہو گئی۔
آپ کے لیئے لائی ہوں آپ نے کچھ کھایا؟
میں کھا چکی، یہ تم کھاؤ میں جانتی ہوں تم نے کچھ نہیں کھایا، وہ تھکاوٹ سے مسکرائیں تو محمل نے لمحہ بھر کو ماں کو دیکھا، سادہ گھسے ہوئے کاٹن کے جوڑے میں سفید ہوئے بال اور جھریوں زدہ چہرے والی اس کی تھکی تھکی بے ضرر سی ماں جو واقعی اس عالی شان کوٹھی کی مالکن ہوتے ہوئے بھی ملازمہ لگتی ہے۔ ۔
دل برا مت کیا کرو محمل اللہ کا نام لے کر کھا لو۔
مجھے غصہ آتا ہے ان لوگوں پر اماں۔
باہر تائی مہتاب کے بہلنے کی آواز برابر آ رہی تھی۔ ۔
وہ اب شور کر کے جانے کس کس کو بتا رہی تھی۔
ناشکری مت کرو بیٹا انہوں نے رہنے کے لیے ہمیں چھت دی ہے سہارا دیا ہے۔
احسان نہیں کیا میرے باپ کا گھر ہے۔ اسے ابا نے ہمارے لیئے بنوایا تھا، یہ بزنس یہ فیکٹریاں یہ سب ابا نے خود بنایا تھا۔ سب کچھ ابا نے ہمارے نام کیا تھا۔
تمہارے ابا اب زندہ نہیں رہے محمل وہ اب کہیں بھی نہیں ہیں۔ وہ جیسے تھک کر کہہ رہی تھیں۔ ۔
اور وہ انہیں دیکھ کر رہ گئی۔ پھر اس نے سر جھٹک کر لفافہ اٹھایا نان سخت ہو چکا تھا اور کباب ٹھنڈا۔ وہ بے دلی سے لقمے توڑنے لگی۔
٭٭
یہ ٹھنڈا بے لذت کھانا کھا کے وہ کچھ دیر ہی سوپائی کہ تھاہ کی آواز کے ساتھ کمرے کے دروازے سے فٹبال ٹکرایا۔
وہ ہربرا کے اٹھ گئی۔
باہر دیوار پر فٹ بال مارنے کی آوازیں برابر آ رہی تھی۔
کچی نیند ٹوٹی تھی۔ وہ برا سا منہ بنائے جمائی روکتی اٹھی۔ سلیپر پہنے اور بال لپیٹتے دروازہ کھولا۔
اس کا اور مسرت کا مشترکہ کمرہ در اصل کچن کے ساتھ ملحقہ اسٹور روم تھا بہت چھٹا نہ بہت برا عرصہ پہلے اسے کاٹھ کباڑ سے خالی کروا کے ان دونوں کو ادھر منتقل کر دیا تھا، اس کے ساتھ باتھ روم نہیں تھا اس لیئے انہیں لاونج سے گزر کر گیسٹ روم کی طرف جانا پڑتا تھا۔
باہر لاونج میں ناعمہ چاچی کے معاذ اور معز فٹ بال سے کھیلتے دوڑتے پھر رہے تھے۔
تمیز نہیں ہے تم لوگوں کو دیکھ کر کھیلا کرو میں سو رہی تھی۔
کچن کے کھلے دروازے پر کھڑی اندر کسی سے بات کرتی ناعمہ چاچی فوراً مڑیں۔
اب میرے بچے کھیلے بھی نا؟تمہارا تو کام ہی سونا ہے نہ دن دیکھا نہ رات ہر وقت بستر ہی توڑتی رہتی ہو۔
ہاں تو میرے باپ کے پیسے سے یہ بستر ائے تھے توڑوں یا پھوڑوں میری مرضی۔ ابا کی ڈیتھ سے پہلے اسد چچا تو غالباً بے روزگار تھے نا؟وہ بھی محمل تھی سارے حساب فوراً چکا کر بے نیازی سے باتھ روم کی طرف چلی گئی۔ ادھر ناعمہ چاچی بڑبڑا کر رہ گئیں۔
منہ ہاتھ دھو کر اس نے اپنے سلکی بھورے بال دونوں ہاتھوں میں سمیٹ کر اونچے کیئے اور پونی باندھی۔ بہت اونچی سی بھوری پونی ٹیل اس پر بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ ذرا بھی سر ہلاتی تو اونچی پونی ساتھ ہی گردن کے اوپر جھولتی۔ اس کی آنکھیں کانچ سی سنہری تھی اور ہلکا سا کاجل بھی اسے دہکا دیتا تھا۔ وہ بلا شبہ گھر کی سب سے حسین لڑکی تھی۔
اسی لئے تو جلتی ہیں یہ سب اسے ہنسی آ گئی۔ ایک نظر خود پر ڈالی۔ جینز کے اوپر کھلا سا کرتا اور گردن کے گرد لپیٹا دوپٹہ، مفلر کی طرح ایک پلو سامنے لٹکتا اور ایک پیچھے کمر میں وہ واقعی سب سے منفرد تھی۔
کچن میں تائی مہتاب نگٹس نکال کے مسرت کے سامنے رکھ رہی تھیں جو بہت تابعداری سے ایک طرف چائے کا پانی چڑھا کر دوسری ٹرف تیل گرم کر رہی تھی اس پر نظر پڑی تو نگٹس رکھتے ہوئے ذرا لا پرواہی سے گویا ہوئی۔
یہ بچوں کے لیے فرائی کر دو مسرت اب ہر کوئی باہر سے منہ مار کے تو نہیں آتا نا!
بجا فرمایا تائی اماں۔ یہاں تو لوگ گھر کے اندر ہی دوسروں کے مال پر منہ مارتے ہیں وہ اطمینان سے کہہ کر کولر سے پانی بھرنے لگی۔
زبان کو سنبھالو لڑکی، توبہ ہے ہماری بیٹیاں تو کبھی ہمارے سامنے ایسے نہیں بولیں۔
آپ برا مت مانیں بھابھی بیگم۔ میں سمجھا دوں گی۔ گھبرا کر مسرت نے ایک ملتجی نظر محمل پر ڈالی۔ وہ کندھے اچکا کر کھڑے کھڑے پانی پینے لگی۔
سمجھا دینا بہتر ہو گا۔ اس پر ایک تنفر نظر ڈال کرتا ئی مہتاب باہر چلی گئیں۔ ناعمہ چچی پہلے ہی جا چکی تھی۔ اب مسرت اور محمل ہی کچن میں رہ گئے تھے۔
اب یقیناً برتن بھی آپ ہی کو دھونے ہوں گے ؟اماں۔
دھو بھی دوں تو کیا ہے ؟ان کے احسان کم ہیں ہم پر؟وہ مصروف سی ایک ایک نگٹس کڑاہی میں ڈال رہی تھی۔ محمل نے ایک گہری سانس لی اور آستین موڑ کر سنک کی طرف متوجہ ہوئی اسے غم تھا، کہ اگر وہ نہ کرے گی تو مسرت کو ہی کرنا ہو گا اور ابھی تو انہوں نے رات کا کھانا بھی تیار کرنا تھا۔
رہنے دو بیٹا میں کر لوں گی لیکن میں بھی ان لوگوں پر تھوڑا احسان کرنا چاہتی ہوں۔ وہ برتن دھو کر فارغ ہوئی تو مسرت ٹرالی بھر چکی تھی۔ محمل یہ باہر لے جاؤ، سب لان میں ہوں گے وہ بنا احتجاج ٹرالی گھسیٹنے لگی، لان میں روز شام کی طرح کرسیاں لگی تھیں۔
آغا کریم اخبار کھولے دیکھ رہے تھے، ساتھ ہی مہتاب تائی اور نا عمہ چاچی باتیں کر رہی تھی، ناعمہ چاچی سب سے چھٹے اسد چچا کی بیوی تھی جو قریب ہی بیٹھے غفران چچا سے کچھ کہہ رہے تھے۔ غفران چچا اور محمل کے ابا آغا ابراہیم جڑواں تھے آغا کریم ان سے برے اور اسد چچا چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
غفران چچا کی بیگم فضہ چچی برآمدے میں کھڑی اپنی بیٹی کو اواز دے رہی تھیں اسے ٹرالی لاتا دیکھ کر مسکرائی۔
ارے محمل جان تم اکیلی لگی رہی، ندا یا سامیہ کو کہہ دیا ہوتا تمہاری ہیلپ کروا دیتی۔
فضہ چچی مہتاب تائی اور ناعمہ چچی کی طرح زبان کی کڑوی نہ تھی بلکہ اتنی میٹھی تھی کہ جب اپنی مٹھاس اپنے لبوں سے دوسرے کے حلق میں انڈیلتی تو وہاں کانٹے اگ جاتے۔
اٹس اوکے۔ وہ بھی بس مسکرا کے ٹرالی آگے لے گئی۔ اب کیا کہتی کہ ندا اور سامیہ نے پہلے کونسے کام کیئے ہیں جو آج کرتیں، اگر وہ انہیں بلاتی وہ فوراً چلی آتیں، ایک دو چیزیں پکڑاتی چولہا جلاتی باتیں بگھارتیں۔ اور پھر آہستہ سے کھسک جاتیں، اس کے بعد لان میں فضہ چاچی ایک ایک چیز یہ چکھیں میری سامیہ نے بنائی ہے۔ اور میری ندا کے ہاتھوں میں تو بہت ذائقہ ہے کہہ کر پیش کرتی، اس پر مہتاب تائی ان کی تعریف کرتی اور محمل کو کاہلی کے وہ طعنے ملتے اس سارے قصے سے بچنے کے لیئے محمل نے کبھی ان دونوں کو بلانے کی غلطی نہ کی تھی۔
مگر فضہ چاچی کی یہ میٹھی زبان ہی تھیک نی وہ کبھی ان کو پلٹ کے جواب دے سکی نہ ہی کچھ جتا سکی وہ موقع ہی نہ دیتی۔
لاؤ لاؤ جلدی لاؤ دونوں ماں بیٹی لگتی ہیں پھر بھی گھنٹہ لگ جاتا ہے۔
تائی آپ کوئی ملازمہ کیوں نہیں رکھ لیتی کم سے کم آپ کو ہم ماں بیٹی پر چلانا تو نہیں پرے گا۔ وہ تیزی سے کہہ کر ٹرالی چھوڑ کر واپس گئی۔
سب باتیں چھوڑ کر اس طرف دیکھنے لگے تھے۔ احسان کرنے کا تو زمانہ ہی نہیں رہا، تائی نے ٹرالی اپنی طرف کھینچی، آغا کریم نگاہیں چرا کر پھر سے اخبار میں گم ہو چکے تھے۔
وہ کچن کی طرف واپس آئی تو فواد تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا نیچے آ رہا تھا۔
چائے لگ گئی؟آخری سیڑھی پر اترتے مصروف سے انداز میں کہتے وہ کلائی پر گھڑی باندھ رہا تھا
اسنیکس رکھ آئی ہوں، چائے لاتی ہوں، وہ زیادہ غور سے سنے بغیر نکل گیا۔ محمل نے لمحہ بھر کو رک کے اسے جاتے دیکھا،، ،، ،، ،، ،، ،۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ مہتاب تائی کا بڑا بیٹا تھا۔ حنان وسیم اس کے بعد تھے اور سدرہ مہرین سب سے چھوٹی تھی، فواد آغا جان کے آفس جاتا تھا اونچا لمبا خوش شکل تو تھا ہی مگر ڈریسنگ اور دولت کی چمک دمک سے مزید پرکشش اور ہینڈسم لگتا تھا۔ خاندان کا سب سے ہینڈسم اور پاپولر لڑکا، جس پر ہر لڑکی کا دل اور اور لڑکی کی ماں کی نظر تھی
ندا اور سامیہ ہوں یا ناعمہ چاچی کی مغرور نخریلی آرزو سب فواد کے آگے پیچھے پھرتیں رضیہ پھپھو تو اپنی اکلوتی فائقہ کے لیئے کبھی فواد کو ڈنر پر بلا رہی ہوتی۔ تو کبھی فائقہ انڈوں کا حلوہ بنا کے لا رہی ہے۔ فواد میٹھا شوق سے کھاتا تھا سو یہ لڑکیاں ماؤں کے بنائے کو اپنا کہہ کر بہت شوق سے پیش کرتی تھیں۔ مگر وہ بھی سدا کا بے نیاز تھا۔
اپنی اہمیت کا احساس تھا کہ بے زاری اور اتراہٹ کم نہ ہوتی تھی، ورنہ حنان تو بمشکل ایف اے کر کے دبئی ایسا گیا کہ نہ تو پھر خط پتر بھیجا نہ پھوٹی کوڑی گھر بھیجی۔
تعلیمی ریکارڈ اس کا اتنا برا تھا کہ تائی کڑھتی رہتی تھیں۔ مگر یہ وسیم تھا جس نے تائی اور آغا کریم کا ہر جگہ سر شرم سے جھکایا تھا۔
نالائق نکما ایف اے میں دو بار فیل ہو کر پڑھائی چھوڑ کر آوارہ گردی میں مشغول سگریٹ کا عادی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور کہنے والے تو دبے لفظوں کہہ بھی دیتے تھے۔ کہ ان گلیوں کا بھی پرانا شناسا ہے جہاں دن سوتے اور راتیں جاگتی ہیں۔
وہ سر جھٹک کر کچن میں آئی تو مسرت جلدی جلدی کپڑے سے سلیب صاف کر رہی تھیں۔ ان کی پیالی میں آدھا کپ چائے پڑی تھی۔ ان سے کچھ کہنا بے کار تھا اس نے ٹرے اٹھا لی۔
لان میں فضہ چاچی کے ساتھ والی کرسی پر فواد بیٹھا تھا۔ وہ اسے مسکرا کے بہت توجہ سے کچھ بتا رہی تھیں۔ اور وہ لاپرواہی سے سن رہا تھا۔
محمل اس کے کپ میں چائے انڈیل ہی رہی تھی کہ وہ کہہ اٹھا۔
میرے کپ میں چینی مت ڈالنا۔
نہیں ڈالی۔ وہ پنجوں کے بل گھاس پر بیٹھی سب کو چائے اٹھا کر دے رہی تھی۔
ارے بیٹا چینی کیوں نہیں پی رہے ؟فضہ چاچی بہت زیادہ فکر مند ہوئیں۔
یونہی کچھ ویٹ لوز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اتنے تو سمارٹ ہو اور کیا لوز کرو گے ؟: آرزو اسی پل سامنے والی کرسی پر آ بیٹھی تھی اور میری چائے میں آدھا چمچ چینی محمل۔
وہ فواد کے بالکل سامنے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کے بیٹھی تھی۔ چست سا سفید ٹراؤزر اور اوپر قدرے کھلے گلے والی ریڈ شارٹ شرٹ۔ کندھوں تک اسٹیپ میں کٹے بال اور گندمی عام سا چہرہ جس کو بہت محنت سے اس نے قدرے پر کشش بنایا تھا مگر پتلی کمان سی آئی برو اس کو بہت شاطر دکھاتی تھیں۔
فٹ تو رکھنا پڑتا ہے خود کو۔ محمل یہ کباب پکڑانا۔ فواد نے ہاتھ بڑھا کر کہا تو محمل نے فوراً کباب کی پلیٹ اٹھا کر دینی چاہی اور دیتے دیتے اس کی انگلیاں فواد کے ہاتھ سے مس ہوئیں۔
وہ چونکا تو گھبرا کر محمل نے پلیٹ چھوڑ دی۔ وہ گر جاتی اگر وہ تھام نہ لیتا۔ محمل نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ پلیٹ پکڑے ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ چونک کر، سب بھول کر، جیسے اسے پہلی دفعہ دیکھا ہو۔ بس لمحے بھر کا عمل تھا۔ اس نے رخ پھیر لیا۔ تو وہ بھی دوسری جانب متوجہ ہو گیا۔
فضہ چاچی اور آرزو کسی اور جانب متوجہ تھیں۔ کسی نے بھی وہ لمحہ محسوس نہیں کیا تھا جو آ کر گزر بھی چکا تھا اور فواد وہ وقفے وقفے سے اس پر ایک نگاہ ڈالتا تھا، جو پنجوں کے بل گھاس پر بیٹھی سب کو چائے سرو کر رہی تھی۔ ذرا سا سر کو جھکاتی تو بھوری پونی ٹیل اور اونچی لگتی۔ سر اٹھا تی پونی بھی ساتھ ہی جھولتی اور وہ کانچ سی سنہری آنکھیں ان ساری لڑکیوں کے پاس اس جیسا کچھ بھی نہ تھا۔
وہ چائے کے سپ لیتا خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
٭٭٭
شام میں وہ کمرے میں بند پڑھتی تھی پھر مغرب ڈھل گئی تو کچن میں آ گئی جہاں مسرت پھرتی سے کٹنگ بورڈ پر پیاز ٹماٹر کاٹتی رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں کچن میں اور کوئی نہیں تھا اور سارا پھیلاؤ یقیناً انہیں کو سمیٹنا تھا۔
اماں !یہ تائی اماں اور چاچیوں میں سے کوئی کھانے کی ذمے داری کیوں نہیں لیتا؟ہمیشہ آپ ہی کیوں بناتی ہیں ؟ وہ یہ سب دیکھ کر ہول گئی تھی۔
تو ہمارا گھر ہے بیٹا یہ کر دوں گی تو کیا ہو جائے گا؟
آپ تھکتی نہیں ہیں ان کی خدمت کرتے کرتے ؟
نہیں تھکن کیسی؟وہ اب جھک کر چولہا جلا رہی تھی۔
اچھا بتائیں کیا بنانا ہے ؟میں کچھ کروا دوں۔
بریانی تو بنانی ہی ہے۔ باقی مہتاب بھابھی سے پوچھتی ہوں۔ اور اس وقت مہتاب تائی نے کچن کے دروازے سے جھانکا۔
کھانا بنانا اب شروع بھی کر دو مسرت!روز دیر ہو جاتی ہے۔
مسرت چولہا جلاتے فوراً پلٹی۔ جی بھابھی بس شروع کر رہی ہوں آپ بتائے وسیم بیٹا بریانی کا کہہ گیا تھا ساتھ کیا بناؤں ؟وہ دوپٹے سے ہاتھ پونچھتے ان کے سامنے جا کر پوچھنے لگیں۔
ساتھ ہی مٹر قیمہ بنا دو، کباب بھی تل لینا اور دوپہر والا اروی گوشت بھی گرم کر لینا آلو کا ایک سالن بھی بنا لو سلاد بھی نہیں بھولنا۔
جی اور میٹھے میں ؟
دیکھ لو۔ وہ بے نیازی اور نخوت سے گویا ہوئیں۔ پڈنگ بنا لو یا ڈبل روٹی کی کھیر۔ اور ایک اچٹتی نظر اس پر ڈال کر پلٹ گئیں۔
ایک ٹائم میں دیگچے بھر بھر کر آپ تین تین چار چار ڈشز بناتی ہیں مگر رات کے لئے کچھ بچتا ہی نہیں ہے وہ کلستی بھی تھی اور حیران بھی ہوتی تھی۔
تم خود ہی تو کہتی ہو وہ ہمارا مال حرام طریقے سے کھاتے ہیں۔ پھر حرام میں کہاں برکت ہوتی ہے بیٹا؟ان کے لہجے میں برسوں کی تھکن تھی اور کہہ کر وہ پھر سے کٹنگ بورڈ پر جھک گئیں۔
وہ بالکل چپ سی پو گئی۔ واقعی کیوں یہاں دیگچے کے دیگچے ایک وقت کے کھانے میں ختم ہو جاتے تھے، اس نے تو کبھی اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھا اور اماں بھی ان کے ہر ظلم و زیادتی سے آگاہ تھیں پھر بھی چپ چاپ سہے جاتی تھیں۔
ہمارا مال!دل میں ایک کانٹا سا چبھا۔ گیارہ برس قبل ابا کی ڈیتھ سے پہلے یہ فیکٹریاں یہ جائیدادیں، بینک بیلنس، یہ امپورٹ ایکسپورٹ کی پوری بزنس ائمپائر سب ابا کا تھا اور یہ آغا کریم، یہ راجہ بازار میں کپڑوں کی ایک دکان چلاتے تھے۔ غفران چاچا ایک معمولی سی کمپنی میں انجینئر بھرتی تھے اور آرزو کے والد اسد چاچا۔ وہ تو وسیم کی طرح تھے۔ بے روزگار، نکمے، نکھٹو اور نالائق پھر کیسے ابا کے چہلم کے بعد وہ اپنے اپنے کرائے کے مکان خالی کر کے باری باری یہاں آن بسے۔
یہ آغا ابراہیم کا گھر آغا ہاؤس تین منزلہ عالی شان محل نما کوٹھی تھی، نچلی منزل پر آغا جان کی فیملی نے بسیرا جمایا بالائی پر فضہ چاچی نے اور سب سے اوپری منزل پر اسد چچا کی فیملی کا قبضہ تھا۔
وہ چند دن کے لئے آئے تھے، مگر پھر وہ چند دن کبھی ختم نہ ہوئے۔ بات بے بات جگہ کی کمی کا رونا رویا جاتا، یہاں تک کے ماسٹر بیڈ روم سے مسرت اور محمل کو نکال کے اسٹور روم میں شفٹ کر دیا گیا۔
وہ اس وقت چھوٹی تھی، شاید نو دس سال کی مگر جیسے جیسے شعور کی منزلیں طے کی تو اندر ہی اندر لاوا پکتا رہا۔ اب تو عرصہ ہوا اس نے دبنا چھوڑ دیا تھا۔ گھر کے مردوں کے سامنے تو خیر وہ زبان بند ہی رکھتی تھی۔ مگر تائی چاچیوں سے برابر کا مقابلہ کرتی اور کزنز تو کسی کھاتے میں ہی نہیں تھیں۔ لیکن اس زبان چلانے کے باعث اس پر سختیاں بڑھتی گئیں۔ وہ محض زبان سے جواب دے سکتی تھی۔ مگر تائی اماں وغیرہ دوسرے حربے بھی استعمال کرتے۔ جب اس نے اپنے ذاتی جیب خرچ کے لئے اپنی دوست کے والد کی اکیڈمی میں ٹیوشنز دینا شروع کی تھی اس کو گھر واپسی میں دیر ہو جاتی اور نتیجتا یا قسدا اس کے لئے دوپہر کا کھانا نہ رکھا جاتا۔ ایک دفعہ اماں ایک روٹی اور سالن کی پلیٹ بچا کر کمرے میں لے گئیں، مگر مہتاب تائی کی نظر پر گئی اور گھر میں بھونچال آ گیا۔
وہ باتیں سنائیں مسرت کو ایسے ایسے چوری کے الزامات و القابات سے نوازا کہ مسرت پھر کبھی اس کے لیئے کچھ نہ بچا سکیں۔ تائی یہ سب اس لیئے کرتی تھیں۔ تا کہ وہ ٹیوشنز چھوڑ دے اور جو پندرہ سو روپیہ اسے ٹیوشنز کا ملتا ہے وہ نہ ملا کرے۔
اور ٹیوشنز کی اجازت بھی تو اسے کتنی منتوں سے ملی تھی۔ جب سب کے سامنے ہی اس نے پوچھ لیا تھا تو شروع میں تو سب ہی اکھڑ گئے۔ لیکن اس کا فقرہ کہ ٹھیک ہے میری پاکٹ منی نکالیئے، لیکن وہ اتنی ہی ہو جتنی سدرہ اور مہرین آپی کو ملتی ہے۔
کیونکہ اگر مجھے پاکٹ منی نہ ملی تو میں سدرہ اور مہرین کے ہر اچھے اور مہنگے جوڑے کو آگ لگا دوں گی۔
اور وہ پہلی دفعہ اتنی جنونی ہو کر بولی تھی کہ مزید دس منٹ کی بحث کے بعد اسے اجازت مل ہی گئی تھی اور ابھی جو اماں نے یاد دلا دیا کہ وہ لوگ ان کا مال کھاتے ہیں تو وہ یہ سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ کچھ ایسا ضرور ہے کہ آغا جان اس بیس سال کی لڑکی سے خائف ہیں۔ اگر کبھی وہ اپنا حصہ مانگنے کے لئے کھڑی ہو جائے تو۔ تو کیا ان کا کیس اتنا کمزور ہے کہ وہ عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ نہ کروا سکیں گے۔
اور انہیں ہر چیز محمل کے حوالے کرنی پڑے گی؟اور کیا وہ بیس سالہ لڑکی اتنی با ہمت ہے کہ وہ ان سب کو ان شطرنج کے اتنے ماہر اور چالباز کھلاڑیوں کو اپنی انگلیوں پر نچا سکے ؟
جواب ایک زور دار نہیں تھا۔ وہ کبھی بھی انک خلاف کھڑی نہیں ہوسلتی تھی، لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کبھی اس کے ہاتھ ان کی کوئی کمزوری لگ جائے، کوئی دکھتی رگ جسے دبا کر وہ اپنے سارے حساب چکتا کر سکے، تو کتنا مزہ آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایسی کیا دکھتی رگ ہو سکتی تھی ان کی؟
بات سنو؟مہتاب تائی نے پھر سے کچن میں جھانکا تو وہ اپنے خیالات کی بہکی رو سے چونکی۔
فواد کہہ رہا ہے میٹھے میں چاکلیٹ سوفلے ہونا چاہیئے یوں کرو۔ ابھی ساتھ ساتھ شروع کر دو اور ہاں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیئے بہت عرصے بعد میرے بیٹے نے کسی خاص میٹھے کی فرمائش کی ہے۔ بہت مان و فخر اور تنبیہ بھرے انداز میں کہہ کر وہ پلٹ گئیں۔ اور محمل کے ذہن کی بھٹکتی رو اسی ایک نکتے پر منجمد ہو گئی۔
میرا بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ میرا بیٹا!
تو آغا جان اور مہتاب تائی کی کمزوری دکھتی رگ اور تڑپ کا پتہ سب کچھ فواد ہی تھا۔
اور اگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر دکھتی رگ اس کی انگلی تلے آ جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو؟
محمل!یہ آلو کاٹ دو۔ میرا خیال ہے آلو انڈے کا سالن بھی بنا لیتے ہیں سب شوق سے کھاتے ہیں۔
ہوں۔ وہ سوچ میں گم ان کے قریب آئی اور آلو چھیلنے لگی۔
مسرت نے بریانی کا مسالا بنایا، قیمہ مٹر بھی پکنے کے قریب تھا۔ محمل نے شامی کباب تلے، پھر آلو انڈے کا سالن سلاد رائتہ سب بنا چکی تو مسرت روٹی پکانے لگیں۔
فواد کے لیئے سوفلے بنا کر فریج میں رکھ دیا تھا نا؟
جی اماں آپ فکر ہی نہ کریں۔ وہ مسکرا کر بولی۔ اسے شام لان میں فواد کا خود کو چونک کر دیکھنا اور لمحے بھر کو مبہوت ہونا یاد آیا تھا۔ جو غلطی خاندان کی ساری لڑکیاں کرتی تھی وہ محمل کو نہیں دہرانی تھی اسے اپنی اہمیت نہیں گنوانی تھی، اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔ ۔
ذرا دیر کو وہ ہاتھ روک کر مسرت سے نظر بچا کر باہر لاؤنج میں گئی، جہاں تمام لڑکیاں اس وقت بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں آرزو اسی چست لباس میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی تھی۔
فواد کی بہنیں سدرہ اور مہرین بھی پاس ہی تھیں۔ سدرہ چوبیس برس کی بہت عام شکل کی لڑکی تھی اسی کمی کو پورا کرنے کے لیئے خوب سارا میک اپ اور جیولری گھر میں بھی زیب تن کیے رکھتی۔ سیاہ بالوں میں گولڈن اسٹریکنگ بھی کرا رکھی تھی۔ پھر بھی زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔
تئیس سالہ مہرین کا البتہ قد چھوٹا تھا، کافی چھوٹا اور بال بے حد گھنگھریالے۔ وہ سارا سارا دن اپنے بال سیدھے کرنے یا قد لمبا کرنے کے ٹوٹکے آزماتی رہتی۔ فضہ چچی کی ندا اور سامیہ میں سے ندا بری تھی اور سامیہ چھٹی مگر سامیہ اپنے بے حد لمبے قد کے باعث بڑی لگتی تھی۔ مہریں اس سے اسی باعث خار کھاتی تھی اور سامیہ بھی اپنی ماں کی طرح میٹھی میٹھی باتوں سے سارا دن مہریں کو مزید اھساس دلاتی رہتی۔
ندا شکل کی ذرا اچھی تھی سانولی رنگت پر بڑی بڑی آنکھیں اسے قدرے ممتاز بناتی تھی اور تبھی آرزو اسے نہ پسند کرتی تھی شاید وہ جانتی تھی فواد کے لئے اس کے مقابلے پر سامیہ کمزور جبکہ ندا ایک مضبوط امیدوار تھی۔
فواد کی بہنیں سدرہ اور مہرین تو بی اے کر کے ہی پڑھائی چھوڑ چکی تھی جبکہ بائیس سالہ سامیہ تئیس سالہ ندا بی اے کرنے کالج اور اتئیس سالہ آرزو ماسٹرز کے لئے یونیورسٹی جاتی تھی۔ آرزو مر مر کر پاس ہونے والوں میں سے تھی اور اس کی یونیورسٹی پہنچ جانے کی وجہ آغا جان کی سفارشیں تھی۔ یہ سفارشیں سدرہ اور مہرین کے وقت بھی کام آ جاتی اگر جو انہیں پڑھنے کا رتی بھر بھی شوق ہوتا۔ بات سنیں۔ اس نے بظاہر عجلت میں سب کو مخاطب کیا۔ رات کھانے کے لیے سوفلے بنانا ہے آپ لوگوں میں سے کوئی ہیلپ کرائے گا؟ نہیں۔
آرزو نے ریموٹ سے چینل بدلتے اسے دیکھنا گوارا نہیں کیا۔
ندا اپنے ناخنوں پر کیوٹکس رگڑ رہی تھی، لمبی سی سامیہ فوراً فون کی طرف متوجہ ہو گئی۔ مہرین نے چہرے کے آگے رسالہ کر لیا اور سدرہ بہت انہماک سے اسی وقت ٹی وی دیکھنے لگی۔
چلیں فائن۔ وہ واپس کچن میں آ گئی۔
ڈائننگ ہال میں روز کی طرح کھانا کھایا گیا۔
محمل ہمیشہ کی طرح سب سے آخری کرسی پر بیٹھی تھی جہ آغا جان کی سربراہی کرسی کے بالکل سیدھ میں تھی۔ مسرت ادھر ادھر چیزیں پکڑاتی پھر رہی تھی۔ ۔
میٹھا لے آؤ۔
کھانا ختم کر کے مہتاب تائی نے محمل کو اشارہ کر کے کہا۔ مسرت ابھی جھوٹے برتن اٹھا کر کچن میں گئی تھی۔
میٹھا تو آج نہیں بنا۔ وہ بہت اطمینان سے با آواز بلند بولی تو سب چونک کر اسے دیکھنے لگے۔
مگر۔ ۔ ۔ ۔ فواد نے الجھ کر ماں کو دیکھا۔ میں نے کہا تھا کہ چاکلیٹ سوفلے بنانا ہے۔
محمل یہ کیا بد تمیزی ہے ؟ تایہ اماں نے گھرکا۔
بد تمیزی فواد بھائی آپ یہ کھانے کی ڈشز گنیں۔ بریانی مٹر قیمہ اروی گوشت آلو کباب سلاد رائتہ ذرا گن کر دیکھیں، یہ سب اماں نے اکیلے بنایا ہے، میرے اگزامز ہو رہے ہیں میرے پاس وقت نہیں تھا کہ بناتی آپ کی ان بہنوں سے کہا بھی کہ فواد کے لئے سوفلے بنانا ہے ہیلپ کروا دو مگر سب نے انکار کر دیا۔
اب اتنا سارا کرنا اور اوپر سے میٹھا بنانا ہمارے بس سے باہر تھا، سوری میں کل بنا دوں گی یا میری ماں کی تھکن سے بڑھ کر آپ کے لئے ٹیسٹ ضروری ہے تو میں انہیں کہہ دیتی ہوں۔
اماں اماں اس نے آواز لگائی۔ اور جہاں لڑکیاں بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی اور مہتاب تائی کچھ سختی سے کہنے ہی لگی تھی کہ وہ کہہ اٹھا۔
نہیں نہیں اٹس اوکے۔
میں نے خیال نہیں کیا کی تمہارے ایگزامز ہیں اور ممی!۔
اس نے ماں کو تنبہیی نظر سے دیکھا۔ کچن کا کام صرف محمل اور مسرت چچی کی ذمے داری نہیں ہے اب ساری نواب زادیوں کو بھی کہا کریں ہاتھ تو بٹا سکتی ہیں یہ۔
ہاں تو کرتی تو ہیں۔
ہاں ٹھیک ہے۔ آغا جان نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بات ختم کرنا چاہی۔ جوان بیٹا جو ان سے اونچا تھا، اس کی بات کے آگے انہیں اپنی بات کمزور لگ رہی تھی۔ مہتاب تائی پہلو بدل کے رہ گئی۔
ناعمہ چاچی زیر لب کچھ بڑبڑائی اور تو اور فضہ چاچی بھی خاموش سی ہو گئی تھیں۔ لڑکیاں الگ شرمندہ۔
وہ اطمینان سے فواد کے اٹھنے سے قبل ہی اٹھ گئی۔ مسرت کو برتن اٹھاتے پہلے تو علم بھی نہ ہو سکا کہ کیا ہوا ہے اور جب ہوا تو معافی تلافی کرنے لگیں ...۔
اندر آ کر محمل کو بھی ڈانٹا مگر پرواہ کئے بغیر کتابوں میں سر دئیے بیٹھی رہی۔ فواد کے اٹھنے کے بعد یقیناً تائی نے بہت سنائی تھی مگر فواد کے الفاظ کا اثر زائل نہیں کر سکتی تھیں۔ اس کی گھر میں ایک مضبوط حیثیت تھی۔ سو بہت سی خواتین رات کو کڑھتے ہوئے سوئی تھیں۔
صبح کالج بس کے لئے وہ اسٹاپ پر رکھے بینچ پر آئی تو ذہن ابھی تک ادھر ہی الجھا ہوا تھا۔ بینچ پر بیٹھتے ہوے اس نے سرسری سا دیکھا، وہ سیاہ فام لڑکی اسی طرح بیٹھی تھی۔ گود میں رکھی کتاب کے کناروں پر مضبوطی سے ہاتھ جمائے خاموشی سے سامنے دیکھ رہی تھی۔
وہ جمائی روکتی بیٹھ ہی گئی، اور بے دلی سے بس کا انتظار کرنے لگی۔ اس نے وہی کل والا اجرک کا کرتا جینز کے اوپر پہن رکھا تھا۔ اور بال اونچی پونی میں بندھے ہوئے تھے۔ سوچ وہی فواد کے گرد گھوم رہی تھی۔ صبح وہ جلدی نکلتی تھی تب تک وہ نیچے نہیں آیا ہوتا۔
اس کا کمرہ دوسری منزل پر تھا۔ جو تھی تو غفران چچا فضہ چاچی کی آماجگاہ مگر وہ کنارے والا کمرہ فواد کا پسندیدہ تھا، سو وہ اس کو عرصہ پہلے الاٹ کر دیا گیا۔
فضہ چاچی کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا حسن ہی تھے۔ سو وہ کمرہ ان کی ضرورت سے زائد ہی تھا۔ اور یہ تو محمل کا دل ہی جانتا تھا کہ وہ کمرہ تو ابا نے بنوایا ہی اس کے لئے تھا مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیاہ فام لڑکی اسی خاموشی سے سامنے دیکھ رہی تھی۔ وہ بور ہونے لگی تو ادھر ادھر گردن گھمائی۔ سیاہ کتاب دیکھ کر کل کا واقعہ یاد آیا۔
یہ کتاب کب ملی تھی آپ کو؟
بغیر تمہید کے اچانک سوال۔ اس لڑکی نے اطمینان سے گردن اس کی طرف موڑی۔
دو سال پہلے۔
یہ کس نے آپ کے لئے خصوصاً ً چھوڑی تھی؟
ہے کوئی۔ وہ ذرا سا مسکرائی موٹی آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی۔
آپ کو اچھا لگتا ہے ؟ اس نے غور سے اس چمک کو دیکھا۔
بہت زیادہ۔
آپ اسے کافی جانتی تھیں ؟میرا مطلب ہے یہ تو صدیوں پرانی کتاب ہے۔
بس میں جانتی ہوں۔
اور یہ کتاب۔ ۔ یہ آپ کو آپ کا ماضی حال مستقبل کیسے دکھاتی ہے ؟
اس میں سب لکھا ہے۔ گزرے واقعات اور وہ جو میرے ساتھ پیش آنے والا ہے۔ اور مجھے ایسے موقع پر کیا کرنا ہے سب لکھا ہے۔
محمل کا دل زور سے دھڑکا۔ وہ سیاہ فام لڑکی اسے بہت عجیب بات بتا رہی تھی۔ جانے کیسے پر اسرار بھید بھری کتاب تھی وہ۔
آپ کو اس سے کتنا فائدہ ہوتا ہے ؟
جتنا تمہاری سوچ سے بھی اوپر ہے۔
تو آپ کے تو بہت مزے ہوں گے ؟آپ اس کو پڑھ کر سب جان جاتی ہوں گی۔
ہاں مگر اس میں کچھ عمل ہیں۔ پہلے وہ پرفارم کرنے ہوتے ہیں پھر ہر چیز ویسے ہی ہوتی ہے جیسے اس میں لکھا آتا ہے۔
عمل؟ عملیات؟ وہ چونکی اندر کوئی الارم سا بجا۔
یہ تو کوئی سفلی علم کی ماہر بیٹھی ہے، اسے تھورا احتراز برتنا چاہیے۔
ہاں۔ سیاہ فام لڑکی مسکرائی۔ جو وہ عملیات کر لے، وہ اس کتاب کے ذریعے دنیا پر راج کرتا ہے، سب لوگ اس کی مٹھی میں آ جاتے ہیں، اور ہر شئے اس کے لئے تسخیر ہو جاتی ہے۔ صرف میں نہیں اگر تم بھی اس کتاب کا خاص علم سیکھو تو تمہیں اس کے الفاظ میں اپنا ماضی حال مستقبل نظر آنے لگے گا۔ ۔
اور۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے بعد ؟ وہ سحر زدہ سی سوال پر سوال کیے جا رہی تھی۔
اس کے بعد تم اس کتاب کو چھوڑ نہیں سکتی، تمہیں اپنی زندگی اس سے باندھ کر ہی گزارنی ہو گی۔
اور اگر میں اسے چھوڑ دوں تو؟
تو تم تباہ ہو جاؤ گی تمہاری ہر چیز ہر محبت، سب تباہ ہو جائے گا۔ اس کو لے کر تم چھوڑ نہیں سکتیں۔ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔
محمل گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ میری بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی پل بس قریب آتی نظر آئی وہ دوڑ کر بس کی طرف جانے لگی۔
تم ایک دن ضرور آؤ گی میرے پاس ۔ سیاہ فام لڑکی مسکرائی تھی۔ تم ایک دن ضرور گڑ گڑا کر یہ کتاب مانگنے آؤ گی۔ میں جانتی ہوں تم لوگوں کی ستائی ہوئی ہو، تمہارا دل زخمی اور ہاتھ خالی ہیں۔ اور جس دن یہ دل پوری طرح ٹوٹ جائے گا میں تمہیں یہ کتاب دے دوں گی۔ جاؤ تمہاری بس آ گئی ہے۔
٭٭٭
شام کو اس نے بہت محنت سے چاکلیٹ سوفلے بنایا اور جب وہ خوب ٹھنڈا ہو گیا تو ٹرے میں سجا کر اوپر سیڑھیاں چڑھنے لگی ابھی دوسری سیڑھی پر ہی تھی کہ آرزو نیچے آتی دکھائی دی۔
یہ کس کے لیے ہے ؟وہ ماتھے پر بل ڈالے لمحہ بھر کو رکی فادی کے لئے ہے ؟
جی انہوں نے کل کہا تو تھا میرے پاس ٹائم کہاں تھا، آج بھی کسی کو یاد نہ آیا تو بنا ہی دیا۔ اس نے بے نیازی سے شانے جھٹکے۔ وہ دوسری سیڑھی پر ٹرے اٹھائے منتظر تھی کہ آرزو نیچے اترے تو وہ اوپر جائے۔
اور ڈنر کی تیاری کر لی تم نے ؟آرزو زینے سے اتر کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
اماں بنا رہی ہیں۔
قورما بنا لیا ہے ؟ممی نے کہا بھی تھا۔ تم نے چیک کیا؟
آپ سیدھے سیدھے کہہ دیں کہ میں چلی جاؤں اور آپ یہ ٹرے فواد بھائی کو دے کر اپنے نمبر بنا لیں تو لیں پکڑیں۔ اس نے ٹرے زور سے اسے تھمائی۔
مجھے اور بھی کام کرنے ہیں اور کھٹ کھٹ سیڑھیاں اتر کر کچن کی طرف چلی گئی۔
بد تمیز۔ وہ بڑبڑائی۔
مگر محمل جانتی تھی اس کی بلند آواز فواد سن چکا ہو گا اور اب آرزو جو چاہے کر کر لے، وہ جانتا تھا کہ کام کس نے کیا ہے اور نمبر کون بنانا چاہ رہا تھا۔
اور پھر یہی ہوا۔
رات کھانے کھانے میں جب مسرت نے چاکلیٹ سوفلے لا کر رکھا تو فواد نے سب سے پہلے کہہ ڈالا۔
یہ تم نے بنایا ہے محمل؟
جی۔ وہ سادگی سے بولی۔
آرزو نے ناگواری سے پہلو بدلا۔
بہت ٹیسٹی ہے، تم ہی روز میٹھا کیوں نہیں بناتی؟
اتنی فارغ نہیں ہوں میں سو کام ہوتے ہیں مجھے ایگزامز ہو رہے ہیں میرا دل کرے گا تو بنا دیا کروں گی ورنہ سب جانتے ہیں محمل سے یہ جی حضوریاں نہیں ہوتیں۔ اماں ایک پھلکا مجھے بھی دیں۔ وہ مصروف سی اماں کے ہاتھ سے پھلکا لینے لگی، جیسے اسے فواد کے تاثرات کی پروا ہی نہیں تھی۔
وہ تائیداً سر ہلا کر سوفلے کھانے لگا مگر بار بار نگاہ بھٹک کر اس کے مومی چہرے پر جا ٹکتی تھی۔ سوفلے کو اس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
وہ کچن میں کھڑی سنک کے سامنے دوپہر کے برتن دھو رہی تھی جب سامنے بڑی سی کھڑکی کے پار آسمان پر سرمئی بادل اکٹھے ہونے لگے۔ وہ ابھی تک اسفنج پلیٹ میں مارتے ہوئے اس سیاہ فام لڑکی کے متعلق سوچ رہی تھی، جس سے وہ گذشتہ کچھ دنوں سے احتراز برت رہی تھی۔ عین بس کے ٹائم پر اسٹاپ پر آ جاتی اور بینچ پر بیٹھنے کی بجائے ذرا فاصلے پر کھڑی ہو جاتی، نہ تو دانستہ اس لڑکی کو دیکھتی نہ اس کے قریب جاتی، معلوم نہیں کیوں اسے اس لڑکی سے اور اس کی کتاب سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔
بادل ذرا گرجے تو وہ چونکی۔ نیلگوں سنہری شام پر ذرا سی دیر میں چھایا ہو گئی تھی۔ بجلی چمکی اور یکایک موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں۔ محمل نے جلدی جلدی آخری برتن دھو کر ریک میں سجائے، ہاتھ دھوئے اور باہر لان کی طرف بھاگی۔ بارش دیکھ کر اس کا دل یونہی مچل جایا کرتا تھا۔
محمل جاؤ مسرت سے کہو بلکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تائی مہتاب جو برآمدے میں کرسی پر بیٹھی لڑکیوں سے گپ شپ میں مصروف تھیں اسے آتے دیکھ کر حکم صادر کرتے کرتے رکیں، اس کے چہرے پر بارش میں کھیلنے کا شوق رقم تھا۔ تائی نے لمحہ بھر کو سوچا اور حکم میں ترمیم کر دی۔ بلکہ جاؤ پکوڑے بنا کہ لاؤ ساتھ میں دھنیے کی چٹنی بھی ہو اور معاذ کے لئے آلو کی چپس فرائی کر لو۔
اس کے چہرے پر پھیلا اشتیاق پھیکا پر گیا۔ اس نے قدرے بے بسی سے ان کو دیکھا۔
مگر تائی ابھی کیسے ؟وہ بارش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعد میں کروں گی وہ منمنائی۔
ہاں تو بارش کے لیے ہی تو کہہ رہی ہوں۔ جاؤ شاباش جلدی کرو۔ اور ندا یہ سوٹ پھر تمہیں کتنے کا پڑا تھا؟وہ ندا کے دوپٹے کو انگلیوں میں مسل کر ستائشی انداز میں پوچھ رہی تھیں۔
صرف ڈیڑھ ہزار کا تائی! میں کل ہی آپ کو بھی لے چلتی ہوں، وہاں بہت اچھے پرنٹس آئے ہوئے تھے۔ آپ کا کمپلیکشن تو ویسے بھی فیر ہے، آپ پر تو ہر رنگ ہی کھل جاتا ہے۔
وہ آپس میں مصروف ہو گئی تھیں۔ محمل پیر پٹختی اندر آئی۔
آلو چھیل کر کاٹتے۔ بیسن گھول کر رکھا تو تب تائی مہتاب کی آواز آئی مکس پکوڑے بنانا فواد کو پیاز والے پکوڑے بہت پسند ہیں۔
بھاڑ میں گئی اس کی پسند۔ اس نے زور سے چھری سلیب پر پٹخی۔ آلو قتلوں میں کاٹے تھے اب پھر ان کو چھوٹا کرنا پڑے گا۔ مرچیں پیاز بھی کاٹنے پڑیں گے۔
شدت بے بسی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ تب ہی فواد ماں کو پکارتا ہوا کچن کے کھلے دروازے پر ٹھٹک کر رکا۔
کھلی جینز پر لمبا کرتا اور گلے میں مفلر کی طرح دوپٹہ لپیٹے، بھوری اونچی پونی باندھے وہ سر جھکائے کھڑی کٹنگ بورڈ پر ٹھک ٹھک پیار کاٹ رہی تھی۔ آنسو گالوں پر چمک رہے تھے۔
محمل!
وہ بے چین سا قریب آیا۔ کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو؟
میری مرضی آپ لوگوں کو کیا؟آپ لوگوں کو تو اپنے کھانے سے غرض ہوتی ہے۔ فواد کے دل میں جگہ بنانے کے سارے ارادے بھلا کر وہ تڑخ کر بولی۔
پھر بھی کسی نے کچھ کہا ہے ؟
یہاں کہتا کوئی نہیں ہے سب حکم صادر کرتے ہیں۔ اس نے چھری والے ہاتھ کی پشت سے گال صاف کیا۔ اور مجھ سے ابھی کوئی بات نہ کریں، میں بہت غصے میں ہوں یا تو چھری مار دوں گی یا پکوڑوں میں زہر ملا دوں گی۔
اچھا۔ وہ پتہ نہیں کیوں ہنس دیا تھا۔
وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔
آپ کیوں ہنسے ؟
کچھ نہیں۔ خیر بناؤ پکوڑے اور مکس والے بنانا۔ وہ اپنی پسند بتا کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔
اس کے آنسو پھر سے بہنے لگے۔ جانے کس بھولے پن میں وہ یہ سوچ بیٹھی تھی۔ اگر وہ اس کی مٹھی میں آ گیا تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے نفی میں سر جھٹکا۔ وہ سب ایک جیسے تھے بے حس خود غرض مطلبی۔
اور جب تک پکوڑے بنے بارش ہلکی ہو چکی تھی۔ وہ سب لڑکے لڑکیاں برآمدے میں بیٹھے دو منٹ میں ہی پکوڑے چٹ کر گئے تھے۔
اور اب حسن سب کو لانگ ڈرائیو پر لے جانے کا پروگرام بنا رہا تھا۔
تم لوگ بھی کیا یاد کرو گے، کس سخی سے پالا پڑا تھا۔ وہ ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھا فرضی کالر جھاڑ کر کہہ رہا تھا۔
حسن فضہ چاچی کا بیٹا اور ندا سامیہ کا بھائی تھا۔ شکل میں ندا سے مشابہ تھا، بڑی بڑی پر کشش آنکھیں اور سانولی رنگت۔ البتہ عادتوں میں وہ کافی مختلف تھا۔ اس نے فضہ کی میٹھی زبان تو مستعار لی تھی۔ مگر کڑوا دل نہیں کیا تھا۔ وہ گھر کا واحد فرد تھا جو دل کا بھی اچھا تھا نرم گو صاف دل اور ہینڈسم۔
ابھی بھی وہ آفس سے آیا تھا۔ اور کوٹ کرسی کے پیچھے ٹکائے آستین فولڈر کیے بیٹھا تھا وہ تھکن کے باوجود سب کو آؤٹنگ پر لے جانے کی دعوت دے رہا تھا۔
کون کون چلے گا؟سامیہ بلند آواز میں پوچھنے لگی تو محمل بھی دل میں مچلتی خواہش کے باعث باہر آ گئی۔
میں بھی چلوں گی۔
سب نے رک کر اسے دیکھا تھا۔
کندھے پر پرس لٹکائے بالوں کو سٹئل سے بینٹ میں جکڑتی آرزو نے، جو اندر سے باہر آ رہی تھی قدرے نا گواری سے اسے دیکھا۔ ان کو بھی یہ شوق ستانے لگے ہیں ؟ اور پھر سب ہی ساتھ ساتھ بہلنے لگے۔ تمہاری جگہ نہیں بنے گی۔
ہم پاپا کی ہائی ایس لے کر جا رہے ہیں۔ سب کی سیٹیں پوری ہیں۔
تم باہر جا کر کیا کرو گی؟سدرہ تمسخرانہ انداز میں ہنسی۔
مہتاب تائی کی فوٹو کاپی۔
بیٹا جان آپ کے تو ایگزامز ہو رہے تھے۔ فضہ چچی بہت فکر مندی اور پیار سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ خوب دل لگا کر پڑھو۔ آپ نے بہت اچھے مارکس لینے ہیں۔ جاؤ شاباش سارے کورس کو کم از کم دو بار ریوائز کرو۔ ابھی شروع کرو گی تو رات تک پورا ہو گا۔
ناں تم نے باہر جا کر کیا کرنا ہے ؟ رات کا کھانا کون بنائے گا؟ ماں الگ ڈرامے کر کے بستر پر پڑی ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہے ان کو بس مفت کی روٹی توڑے جاتے ہیں۔
فواد نے لمحے بھر کو کچھ کہنا چاہا، پھر خاموش رہا، اور حسن جو خاموشی سے ساری کاروائی دیکھ رہا تھا بول اٹھا۔
کوئی محمل سے بھی تو پوچھے وہ کیا چاہتی ہے ؟
ہاں اب ہم اس سے پوچھتے رہیں۔ تائی بگڑ کر بولیں۔ حسن لمحہ بھر کو بالکل چپ ہو گیا۔ مگر فضہ نے بیٹے کے جھاڑے جانے کو واضح برا مانا۔
جاؤ تم اندر جاؤ۔ بس اتنا ہی کہہ سکیں۔ تائی مہتاب سے مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
وہ پیر پٹخ کر بھاگ کر کچن میں آئی اور سنک میں سر جھکا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
کافی دیر بعد روتے روتے سر اٹھایا۔ تو کھڑکی کے پار ڈرائیو وے پر ہائی ایس باہر نکلتی نظر آئی۔
اس میں ایک دو لوگوں کی جگہ تو واضح بن جاتی تھی۔
بے اختیار اس کا دل چاہا کہ رات کے کھانے میں زہر ملا دے۔ اور کاش کہ وہ ایسا کر سکتی۔
ساری رات وہ وقفے وقفے سے آنسو بہاتی رہی تھی۔
ٹھیک سے سو بھی نہیں سکی تھی۔ صبح اٹھی تو سر بھاری بھاری سا ہو رہا تھا۔ بمشکل ہی ایک سوکھا توس اور چائے کی پیالی حلق سے اتاری اور باہر نکل گئی۔
اسٹاپ پر معمول کی ٹھنڈی صبح اتری تھی۔ بینچ پر وہ سیاہ فام لڑکی ویسے ہی خاموشی سے سیدھ کی جانب دیکھ رہی تھی۔ گود میں سیاہ جلد والی کتاب رکھی تھی۔ اور اس کے سیاہ ہاتھ کے کناروں پر مضبوطی سے جمے تھے۔
آج وہ قدرے تھکی تھکی اور غمزدہ تھی، سو جا کر بینچ پر بیٹھ ہی گئی۔ دس منٹ ہی کاٹنے تھے تو اتنا کیا احتراز برتنا۔ سیاہ فام لڑکی نے ذرا سی گردن اس کی جانب موڑ لی۔
رات کو ٹھیک سے سوئی نہیں ؟
بس ایسے ہی۔ وہ دوسری جانب دیکھنے لگی۔
سامنے سڑک خالی تھی، دوسری طرف اکا دکا لوگ بس کے منتظر ٹہل رہے تھے۔
لوگوں کی ستائی ہوئی ہو؟
اس نے چونک کر اسے دیکھا۔
آپ کیسے کہہ سکتی ہیں ؟محتاط انداز میں پوچھا۔
تمہارے چہرے پر لکھا ہے، تمہارا دل غمگین اور دل بوجھل ہے۔ تم تکلیف میں ہو اور لوگوں کی باتیں تم سے برداشت نہیں ہوتیں۔ ہے نا؟
معلوم نہیں۔ اس نے بظاہر لاپرواہی سے شانے اچکائے۔ البتہ اندر دل زور سے دھڑکا تھا۔
اور تم مستقبل کے لئے خوف زدہ اور ماضی کے بارے میں غمگین ہو شاید۔
شاید۔ اب کے وہ واضح چونکی تھی۔ بے اختیار ہی لبوں سے پھسلا تھا۔
تم اپنا مستقبل اور تمام پریشانیوں کا حل جاننا چاہتی ہو۔ کچھ ایسا ہو جس سے یہ تمہیں تنگ کرنے والے لوگ تمہارے آگے پیچھے پھرنے لگیں، تمہارا محبوب تمہارے قدموں میں آ گرے مال و دولت تم پر نچھاور ہو جائے، تم سب کو اپنی مٹھی میں کر کے دنیا پر راج کرو کیا تم یہ نہیں چاہتیں؟
ہاں۔ محمل نے بے بسی سے اسے دیکھا۔ اس کا دل موم کی طرح پگھل رہا تھا۔ وہ سیاہ فام لڑکی اس کی ہر دکھتی رگ ہا تھ میں لے رہی تھی۔ میں یہی چاہتی ہوں۔
اور اگر میں تمہیں کچھ ایسا دوں تو؟
کیا یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتاب؟
اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ اسے لگ رہا تھا وہ زیادہ دیر تک resist نہ کر پائے گی۔
ہاں اگر تم یہ لو گی تو سب تمہاری مٹھی میں آ جائے گا سب کچھ۔
محمل متذبذب سی لب کچلنے لگی۔ اس لڑکی کی باتیں بہت پر فریب پرکشش تھیں۔ اسے لگا وہ جلد ہی پھسل جائے گی۔ بہک جائے گی۔
کیا یہ سب اتنا آسان ہے ؟
شاید نہیں۔ تمہیں اس کتاب کے عمل میں بہت مشکل لگے گی۔ مگر ایک دفعہ سیکھ جاؤ گی تو سب آسان ہو جائے گا۔ زندگی سہل ہو جائے گی۔ اور پھر جن کے لیے تم روتی ہو۔ وہ تمہارے لئے روئیں گے۔ وہ تمہارے پیچھے آئیں گے۔
بس کا تیز ہارن اسے ماحول میں واپس لایا۔ وہ چونکی اور بیگ کا اسٹرپ کندھے پر ڈالے اٹھ کھڑی ہوئی دس منٹ ختم ہو چکے تھے۔
میری بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بس کی جانب بڑھی۔
دل ابھی تک زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔
محبوب قدموں میں۔ لوگ مٹھی میں دولت نچھاور اور دنیا پر راج۔ ۔ ۔ ۔
کیا یہ سب ممکن تھا؟وہ اس کے کہے گئے الفاظ پر سارا راستہ غور کرتی رہی تھی۔ لیکن پھر بار بار خود کو جھڑک دیتی۔
یہ کالے علم سفلی علم جادو ٹونے، چلے وغیرہ برے کام تھے۔ اسے ان میں نہیں پڑنا چاہیئے۔ اسے ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیئے۔
کالج کے دروازے پر اترتے ہوئے اس نے فیصلہ کر لیا تھاک وہ آئندہ اس سیاہ فام لڑکی کے قریب بھی نہیں جائے گی۔ بینچ پر بیٹھے گی نہ ہی اس سے بات کرے گی۔ اسے ڈر تھا اگر اس نے ایک بار پھر اس کی بات سن لی تو شاید وہ اسے قبول کر کے کسی ایسے گم نام رستے پر نکل پڑے جہاں سے واپسی کا سفر نا ممکن ہو۔
٭٭٭
اس دن سدرہ کے رشتے کے لیئے کچھ لوگ آ رہے تھے۔ یہ خبر مسرت نے اسے تب دی جب گھر بھر کی صفائیاں اور لڑکیوں پھرتیاں دیکھ کر ماں کی طرف آئی تھی۔
ورنہ پہلے جب بھی سہ پہر میں لاؤنج کا دروازہ آہستہ کھول کر آتی تو گھر میں سناٹا اور ویرانی چھائی ہوتی اور آج۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لمبی سی سامیہ بانس کی جھاڑو سے چھت کے جھالے صاف کر رہی تھی۔ سدرہ ڈرائنگ روم کی ڈیکوریشن کو از سر نو ترتیب دے رہی تھی۔ ندا ماں کے سر پر کھڑی لان کی صفائی میں مشغول تھی۔ تو مہرین مہتاب تائی سے سر ہلاتی کچھ ہات سن رہی تھی۔
ایک آرزو ہی تھی جو ٹیرس پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی کانوں میں واک مین لگائے کسی میگزین کے ورق الٹ رہی تھی۔ بے پرواہ بے نیاز اور مغرور شکر کہ خوبصورت نہ تھی۔ ورنہ شاید وہ آسمان سے نیچے نہ اترتی۔
رشتہ سدرہ کا ہے اور یہ خود غرض خاندان سارا کا سارا لگا ہوا ہے۔ مطلب؟
اونہہ آہستہ بولو۔ مسرت نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ پھر آہستہ سے بتانے لگی۔ در اصل بھابھی بیگم کا محض اندازہ ہے کہ رشتہ سدرہ کا ہی ہو گا۔ نعمان بھائی کی بیگم نے خصوصاً ً کسی کا نام نہیں لیا۔ سو فضہ کو شاید کوئی امید ہو۔
نعمان بھائی کون؟
تمہارے ابا کے دور کے رشتہ دار ہیں ان کا بیٹا فرقان ایرونائیکل انجینئر ہے۔ بہت اچھا گھرانا ہے اور ایک بیٹی ہے شادی شدہ آسٹریلیا میں رہتی ہے۔ بیگم نعمان نے کسی کے ذریعے کہلوایا ہے۔
اور یہ ساری لڑکیاں اس امید پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید ان کا رشتہ ہو جائے۔ واٹ ربش! وہ تمسخرانہ ہنس کر کمرے کی طرف چل دی۔
شام میں مسرت نے اسے کچن میں مدد کے لیے بلوا لیا تھا۔
اچار گوشت، بریانی سیخ کباب فرایڈ مچھلی اور کیا کچھ کریں گی آپ؟وہ برتنوں کے ڈھکن اٹھا اٹھا کر جھانکتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ یہ سب تو تیار ہیں تم میٹھے میں دو چیزیں اور رشین سلاد بنا دو۔ اور چائے کے ساتھ سنکس بھی۔
چائے بھی اور کھانا بھی؟وہ کمر پر ہاتھ رکھے حیرت سے بولی۔ اتنا سب کچھ کس لئے ؟کیا اتنا کال تھا سدرہ باجی کے رشتوں کے لئے ؟
اونہہ آہستہ بولو۔
میں کسی سے ڈرتی تھوری ہوں۔ ابھی جا کر منہ پر بھی بول سکتی ہوں۔
اور تمہارے اس کہنے پر باتیں مجھے سننی پڑتی ہے محمل! وہ تھکن سے آزردہ سی بولیں۔ تو وہ خاموش سی ہو گئی۔ پھر دوپٹے کی گرہ کس کر کام میں جت گئی۔
چائے کی ٹرالی اس نے بہت اہتمام اور محنت سے سجائی تھی۔ اس وقت بھی وہ پنجوں کے بل بیٹھی ٹرالی کے نچلے حصے میں پلیٹیں سیٹ کر رہی تھی۔ جب تائی مہتاب کچن میں کچھ کہتی ہوئی داخل ہوئیں۔ سدرہ ان کے پیچھے تھی۔
سب تیار ہے ؟
جی اس نے بیٹھیے بیٹھے گردن اٹھائی۔ مہتاب تائی قدرے عجلت میں نظر آ رہی تھی۔
ٹھیک ہے سدرہ تم یہ لے جاؤ، اور مٹھائی کدھر ہے ؟میرا خیال ہے چائے کے بعد ہی بات پکی کر دیتے ہیں۔ مٹھائی تب تک سیٹ کر لینا۔
وہ تو رشتہ مانگنے آئی ہیں بات اتنی جلدی پکی کر دیں گی؟ وہ حیرانی سے ہاتھ جھاڑتی کھڑی ہوئی۔
اور تائی بھی کسی اور موڈ میں تھی سو بتانے لگیں۔
ہاں تو اب مزید کیا انتظار۔ لڑکا اتنا اچھا اور خوش شکل ہے۔ اور پھر ہمارے پاس کوئی کمی تھوڑی ہے۔ منگنی آرام سے دو مہینے تک کریں گے۔ اور شادی سال ڈیڑھ تک۔ ایسی دھوم دھام سے شادی کروں گی سدرہ کی کہ زمانہ دیکھے گا۔ ان کے انداز سے تکبر کی بو آ رہی تھی۔
ایک لمحے کو محمل کے دل میں آیا۔ نفیس سی وہ خاتون جو ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہیں سدرہ کو نا پسند کر کے چلی جائیں۔ اور تائی صدمے سے بیمار پڑ جائیں۔ آخر خود پر غاصب لوگ کسے پسند ہوتے ہیں ؟مگر شاید ادھر تو سب پلان ہی بن چکے تھے۔
سدرہ نازک ہیل کی ٹک ٹک کرتی ٹرالی دھکیلتی ہوئی لے گئی۔ اور وہ خالی کچن میں خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ مسرت بھی مہمانوں کے پاس تھی، جانے کیسے تائی کو ان کے گھر کا فرد ہونے کا خیال آیا۔ اور ان کو وہیں بٹھا لیا۔
ٹشو محمل ٹشو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناعمہ چاچی نے زور سے آواز لگائی تو وہ تیزی سے اٹھی۔
ٹشو رکھنا بھول گئی تھی؟اف یہ ٹشو کا ڈبہ اٹھا کر بھاگی، بس لاؤنج میں شیشے کے سامنے رک کر لمحہ بھر کے لیے خود کو دیکھا۔
اونچی پونی سیاہ جینز پر سفید کرتا اور گردن کے گرد مخصوص انداز میں لپٹا تائی اینڈ ڈائی دوپٹہ جسے وہ بہت سے جوڑوں کے ساتھ چلاتی تھی۔ یہ غالباً پچھلی سے پچھلی بقر عید پر بنوایا گیا جوڑا تھا۔ جو ابھی تک خاصا گھس چکا تھا۔
خیر کونسا میرے رشتے کے لیے آئے ہیں۔ شانے اچکا کر وہ ڈراینگ روم کی طرف بھاگی۔
نفیس اور با وقار بیگم نعمان بڑے صوفے پر بری تکلف سے بیٹھیں مسکراتے ہوئے تائی مہتاب کی باتیں سن رہی تھیں۔ اسے آتا دیکھ کر قدرے خوش دلی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
محمل بیٹا آپ اب آئی ہو؟کب سے پوچھ رہی تھی تمہاری تائی سے وہ ایک دم سے گڑبڑا سی گئی۔ لیکن سنبھل کر آگے بڑھ کے ملی۔
اسلام علیکم۔
وعلیکم اسلام۔ اتنی دیر سے پوچھ رہی تھی تمہارا۔
وہ میں۔
وہ میں۔
ہاں آئی نو بیٹا تم اس اہتمام میں لگی ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے جب میں کریم بھائی کی عیادت کے لیے آئی تھی اس اکیلی بچی نے سارا کھانا بنایا تھا۔ وہ اسے پاس بٹھاتے پیار سے دیکھتے، دو برس پرانی بات دہرا رہی تھیں۔
وہ گھبرا کر کبھی تائی کے تنے نقوش کو دیکھتی تو کبھی سدرہ کی متغیر ہوتی رنگت کو۔ وہ تو بس ٹشو دینے آئی تھی۔ پھر اتنا استقبال چہ معنی دارد۔
آپ یہ ڈرم اسٹکس لے نہ بھابھی؟یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تائی نے ان کا دھیان بٹانے کے لیے بولا۔
ارے یہ تو میری فیورٹ ہے۔ محمل تم نے بنائی ہے نا؟ مجھے یاد ہے تم نے اس دفعہ بھی کھانے میں یہ بنائی تھیں۔ اور فری(بیٹی) نے اسپیشلی تم سے ریسیپی بھی لی تھی۔
اور اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ کیا کرے۔
بے بسی و بے چارگی سے وہ سر ہلا پا رہی تھی۔ ادھر تائی مہتاب اب پریشان ہو رہی تھیں۔ یہی تو ہمیشہ سے ہوتا آ رہا تھا سدرہ کے رشتے کے لیے آنے والی ہر مہمان کو وہ مسرت اور محمل کی بنائی ہوئی چیزیں۔ یہ میری سدرہ نے بنائی ہیں کہہ کر پیش کرتیں۔ مگر جانے کب وہ خاتون گھر کی ساری سن گن لانے گئی تھیں۔
بس بھابھی لڑکیاں ماشاءاللہ سب ہی سگھڑ ہیں۔ ہمارے گھر میں۔ فضہ چاچی نے بظاہر مسکرا کر بات سنبھالی مگر قدرے بے چین وہ بھی تھیں۔ کہیں کچھ بہت غلط تھا۔
جی مگر یہ سب تو سدرہ نے بنایا ہے۔ بے چاری صبح سے لگی ہوئی تھی۔ مسرت نے جلدی سے کہا۔ جی جی تائی مہتاب نے تائید کی۔
ویری گڈ سدرہ بیگم نعمان اب باکس پیٹیز لے رہی تھی۔ یہ باکس پیٹیز تو بہت اچھی بنائی ہیں۔ سدرہ اس کی فلنگ میں کیا کیا ڈالا ہے ؟
اور سدرہ کے تو فرشتوں کو بھی پتہ نہ تھا۔ کہ باکس پیٹیز میں ڈلتا کیا کیا ہے۔ وہ ایک دم کنفیوز سی ماں کی شکل دیکھنے لگی۔
در اصل میں کوکنگ کا بہت شوق رکھتی ہوں۔ اور میرے بچوں کا ٹیسٹ بھی بہت اعلا ہے۔ نعمان صاحب خود اچھے کھانوں کے بہت رسیا ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ بہو کے ہاتھ کا ٹیسٹ چکھ کر ہی رشتہ مانگنا۔ ویسے تو آپ کی ساری بیٹیاں ہی ماشاءاللہ پیاری سلیقہ مند ہیں۔ مگر محمل تو مجھے خاص طور پر عزیز ہے۔ سعیدہ آپا نے بتایا تو ہو گا میں کسی خاص مقصد کے لیے آئی ہوں تو اب لمبی چوڑی کیا تمہید باندھوں مہتاب آپا فرقان تو آپ کا دیکھا بھالا ہے اللہ کا شکر ہے ہر طرح سے نوازا ہے اس نے ہمیں۔
بس محمل کے لیے آپ لوگوں کے پاس سوال کرنے آئی ہوں۔ اگر ہو سکے تو اسے میری بیٹی بنا دیں۔
اور مہتاب تائی سے مزید سننا دشوار ہو رہا تھا۔
محمل تم اندر جاؤ۔ انہوں نے بمشکل خود کو نارمل رکھتے ہوئے اشارہ کیا۔ تو وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔
پیچھے کیا باتیں ہوئی۔ کس نے کیا کہا، کب ان خاتون کو کھانا کھلائے بغیر رخصت کیا گیا۔ اور تائی کے بند کمرے میں سب بڑوں کی کیا بات ہوئی، وہ ہر شئے سے دور اپنے کمرے میں کان لپیٹے پڑی تھی۔
اس کا دل کچھ بھی کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ عجیب سی کیفیت تھی۔ جیسے بند غار میں روشنی اور ہوا کا کوئی روزن کھل گیا ہو۔ بے کیف اور روکھی پھیکی زندگی میں ایک دم ہی کوئی خوشگوار اور سرسبز موڑ آ گیا تھا۔
امیدیں پھر سے زندہ ہو گئی تھی۔ اور اسے لگ رہا تھا ایک نئی زندگی بانہیں پھیلائے اس کے استقبال کے لئے کھڑی ہے۔
ایرو ناٹیکل انجینئیر خوش شکل فرقان ماں باپ کا اکلوتا کھانے کا شوقین۔
اس کے لب آپ ہی آپ مسکرانے لگے۔
٭٭٭
انہوں نے سدرہ کی جگہ میرا رشتہ مانگا کین یو بلیو اٹ؟
میں تو اتنی شاکڈ ہو گئی تھی، اوہ گاڈ اتنا اچھا پرپوزل ہے۔ وہ آنٹی اتنی لونگ اور سویٹ تھیں کہ میں تمہیں کیا بتاؤں اور پتہ ہے ان کا بیٹا ایرو ناٹیکل انجینئیر ہے۔ اور تم میری بات سن رہی ہو کی نہی؟اس نے فائل میں پیپر لگاتی نادیہ کا کندھا ہلایا تو وہ۔ ہاں ہاں بتاؤ پھر کیا ہوا؟ کہہ کر پھر سے صفحہ ترتیب سے لگانے لگی۔
ہونا کیا تھا تائی اماں کی شکل تو دیکھنے لائق ہو گئی تھی۔
اچھا! نادیہ اب انگلش کے ورق الٹاتی کچھ تلاش کر رہی تھی۔ وہ دونوں کالج کے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھیں تھیں۔ محمل اسے کل کی ساری روداد سنا رہی تھی۔
تائی نے تو مجھے فوراً وہاں سے بھیج دیا۔ بے چاری ہر چیز سدرہ نے بنائی کہہ کر پیش کر رہی تھیں۔ مگر وہ آنٹی بھی بہت تیز تھی ایسے پرخچے اڑائے کہ تائی اماں کئی دن تک یاد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میری بات نہیں سن رہی نادیہ۔ اس نے خفا سی ہو کر منہ موڑ لیا۔
نہیں نہیں سن رہی ہوں نا! نادیہ نے بوکھلا کر فائل ایک طرف سیڑھی پر رکھی مگر وہ منہ موڑے بیٹھی رہی۔
اچھا بتاؤ نا تو وہ صاحب مکینکل انجینئیر ہیں ؟میں دو گھنٹے بک بک کر کے تھک گئی ہوں کہ وہ ایرو ناٹیکل انجینئیر ہے تم اگر سن لیتیں تو یہ سوال نہ کرتی، مگر تم اپنی فائل جوڑنے میں لگی ہوئی ہوں۔ وہ بیگ اٹھا کر اٹھی تو نادیہ بھی ساتھ میں اٹھی۔
ارے ناراض تو نہ ہو۔
نہیں یار سیریسلی ناراض نہیں ہوں۔ مجھے یاد آیا، مجھے میڈم مصباح سے ملنا تھا ایک کام کے لیے۔ میں تھوری دیر تک آتی ہوں۔ محمل نے بظاہر مسکرا کر کہا اور مڑ کر چل دی۔ جب وہ تیز تیز سر جھکائے چلتی تھی تو اونچی پونی ساتھ ساتھ ہی ادھر ادھر جھولتی بہت اچھی لگتی تھی۔
چند قدم دور اس نے مڑ کر نادیہ کو دیکھا، نادیہ بہت آرام اور انہماک سے بیٹھی اپنی فائل میں کچھ لکھ رہی تھی۔ وہ تاسف سے آگے کو چلنے لگی۔ کتنی جلدی نادیہ نے اس کی سو کالڈ بیسٹ فرینڈ نے اس کی آخری بات پر یقین کر لیا تھا۔ جیسے وہ واقعی ناراض نہیں ہے۔ حالانکہ وہ جانتی تھی گھر میں اماں اور کالج میں وہ تھی جن سے وہ دل کی ہر بات شیئر کرتی تھی۔ مگر دونوں بے توجہی سے سنتی تھی، کبھی کام میں مصروف ہوں ہاں کہہ دیا تو کبھی سنا ہی نہیں۔
اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔ وہ سامنے والے برآمدے کے ایک ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اور اداسی سے سامنے لان کے سبزے کو دیکھ سنہری اور چمکیلی صبح ہر جانب بکھری تھی۔ گھاس پر ٹولیوں کی شکل میں سفید یونیفارم میں لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ کوئی کھانے پینے اور کوئی گپ شپ میں مصروف تھی۔ سب کی اپنی اپنی دنیا تھی اور وہ ان میں مگن تھیں۔
کیا یہی زندگی ہوتی ہے۔ یا کیا اس کی زندگی جیسی مشکل زندگی کسی اور کی نہ تھی۔ اس نے آزردگی سے سوچا تھا۔
کیا مجھے کبھی وہ خوشیاں نہیں ملیں گی جو میں چاہتی ہوں ؟بڑا سا گھر دولت اثر ورسوخ محبت کرنے والا لائف پارٹنر۔ ۔ ۔ کیا یہ سب ایک ساتھ میرے قدموں میں ڈھیر ہو سکتا ہے ؟ اس نے ستون سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ بند پلکوں پر سنہرے خواب اترنے لگے تھے۔ وہ ایرو ناٹیکل انجینئیر یا فواد ان میں سے کسی کی بھی بیوی بن جاؤں تو سب کچھ میرا ہو سکتا ہے۔
سب کچھ میرے قدموں میں ڈھیر ہو سکتا ہے۔ بلند ہر چیز کی بلندی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو وہ عملیات کر لیتا ہے وہ دنیا پر راج کرتا ہے۔
کچھ ایسا ہو کہ تمہیں تنگ کرنے والے لوگ تمہارے آگے پیچھے پھرنے لگیں۔ مال دولت تم پر نچھاور ہو۔ تمہارا محبوب تمہارے قدموں میں آگرے۔
اور اگر میں ایسا کچھ تمہیں دے دوں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں ایک دم سے ہی وہ ساری باتیں اور اس سیاہ فام لڑکی کی چمکیلی باتیں یاد آئی تھیں۔
تم سب کو مٹھی میں کر کے ساری دنیا پر راج کرو کیا تم یہ نہیں چاہتی؟
اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ یوں لگتا تھا وہ لڑکی اپنی بھید بھری آواز میں اس کے پاس سے ہی بول رہی ہے۔
پتہ نہیں کیا کروں۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، ایک لمحے کو اس نے وہ کتاب اس سے مانگنے کا سوچا مگر دوسرے ہی پل خوف کا غلبہ طاری ہو گیا۔
نہیں نہیں پتہ نہیں کونسا سفلی علم ہے اس کے پاس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ان کاموں میں نہیں پڑوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آغا جان کو معلوم ہوا تو ٹانگیں توڑ دیں گے میری۔
وہ خود کو سرزنش کرتی۔ فائل اور بیگ سنبھالے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے اب اس سیاہ فام لڑکی سے کوئی بات نہیں کرنی تھی! بس اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔
البتہ دل کے کسی چھپر خانے میں اس کتاب کو پانے کی خواہش نے بھی خاموشی سے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔
٭٭٭
ان دنوں مسرت بہت خوش رہنے لگی تھی۔ اور وہ ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی۔
پتا ہے محمل بہت اچھے لوگ ہیں یہ۔ نعمان بھائی بڑے بھلے مانس انسان ہیں۔ اور ان کا بیٹا تو بہت ہی خوبرو ہے۔ اللہ نے ہماری سن لی ہے وہ ضرور ہم پر رحم کرے گا۔
وہ کبھی کبھی بیٹھ کر ان کو بتانے لگ جاتیں۔ تو وہ خاموشی سے مسکراہٹ دبائے سر جھکائے سب سنتی چلی جاتی۔ اب تو گھر کے کام بھی آرام سے کر دیتی، کچھ دن سے تائی کو جواب دینے بھی چھوڑ دئیے تھے۔ پہلی بار اس زندان سے نکلنے کی کوئی امید جو بندھی تھی۔
سدرہ البتہ اسے اٹھتے بیٹھتے عجیب نظروں سے ضرور دیکھتی تھی۔ محمل پرواہ نہ کرتی مگر اس روز تو حد ہی ہو گئی۔ وہ شام کی چائے ٹرالی دھکیلتی لان میں لائی۔ تو سدرہ نے ایک دم ہی اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا۔
شاید ابھی تک ناراض ہے۔ اس نے سوچا اور پھر جیسے مداوا کرنے کے لئے سب سے پہلے سدرہ کا کپ بنایا۔
سدرہ آپی چائے اور بڑی شائستگی سے مسکرا کر کپ بڑھایا۔
آپی؟ میں تمہاری آپی لگتی ہوں ؟سدرہ نے کپ لیتے لیتے زور سے پٹخ دیا۔ گرم ابلتی چائے محمل کے گھٹنے پر گری۔ وہ بلبلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ کپ گھاس پر جا گرا۔
یوں لوگوں کے سامنے آپی کہہ کر تم یہ ظاہر کرتی ہو میں بوڑھی ہو گئی ہوں ہاں ؟ سدرہ یک دم چلانے لگی تھی۔ ممی ممی اس کو دیکھیں یہ ہمیشہ یہی کرتی ہے۔ یہ لوگوں کے سامنے مجھے بے عزت کرتی ہے۔ سدرہ نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔
ارے ان کی تو عادت ہے یہ ماں بیٹی اس گھر کی خوشیاں دیکھ ہی نہیں سکتیں۔ نہ میری بیٹی تو غم نہ کر۔ اور اب تو کھڑی کیوں ہے۔ جاؤ اپنی نحوست لے جاؤ میرے سامنے سے۔ تائی مہتاب نے بھی بہت دنوں کا غصہ ایک دم نکالا۔
وہ شاکڈ سی کھڑی تھی۔ بھاگ کر اندر آئی۔ مسرت پریشان سی کچن میں کھڑی تھی انہوں نے بھی سب سن لیا تھا۔ محمل کچھ کہے بغیر کمرے میں بند ہو گئی۔
اندازہ تو اسے ہو گیا تھا کہ تائی کا موڈ اس روز سے بیگم نعمان کی باتوں پر خراب ہے۔ مگر وہ کچھ کہہ بھی نہیں رہی تھی۔ شاید اس بات پہ کہ وہ اب محمل کی ہونے والی سسرال تھی۔ ان سے کیا پنگا لینا۔
مگر رات میں اس کی یہ خوش فہمی بھی دور ہو گئی۔ جب کچن میں اس نے تائی مہتاب کو مسرت سے کہتے سنا۔
ہم نے تو اسی روز نعمان بھائی لوگوں کو انکار کر دیا تھا۔ محمل کی کونسا شادی کی عمر ہے، ابھی گھر کی بڑی بیٹیاں بیٹھی ہیں پہلے ان کی ہو گی، پھر ہی محمل کا سوچیں گے۔ چائے آغا صاحب کے کمرے میں پہنچا دو۔ وہ رات کا کھانا نہیں کھائیں گے اور ٹیبل لگا دو۔ وہ حکم صادر کر کے بے نیازی سے باہر چلی گئیں۔ کچن کے دروازے پر دھواں دھواں چہرہ لیے کھڑی محمل پر بس ایک استہزائیہ نگاہ اچھالی تھی۔ جبکہ اندر نڈھال سی بمشکل کھڑی مسرت کو دیکھنا بھی گوارا نہ کیا تھا۔ جن کے دل پر انہوں نے الٹیٰ برچھی پھیر دی تھی۔
٭٭٭
اسے نہیں پتہ کیوں پر وہ رات کو دیر تک برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی روتی رہی تھی۔ اندر سب سو رہے تھے مسرت بھی سونے چلی گئی تھی۔ وہ پڑھائی کا بہانہ بنا کر باہر آئی تھی اور دیر سے یہی بیٹھی خاموش آنسو بہا رہی تھی۔
کچی عمر کا پہلا خواب دیکھا تھا۔ وہ بھی ایسا کرچی کرچی ہوا تھا کہ روح تک بلبلا اٹھی تھی۔ وہ اتنی ہرٹ ہوئی تھی کہ دل پھٹ رہا تھا۔ کوئی اتنا بھی ظالم ہو سکتا ہے جتنا تائی تھی؟جتنا یہ سب لوگ تھے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا ان سب بے خبر سوئے ہوؤں کے کمروں میں آگ لگا دے۔ یا چھری سے ان کی گردنیں کاٹ پھینکے یا زہر دے کر سب کو مار دے۔ اور آخر میں خود بھی پھانک لے۔ نفرت بہت شدید نفرت محسوس ہوتی تھی اپنے ان گھٹیا رشتے داروں سے۔ اس کا دل چاہتا تھا وہ ان سب سے دور چلی جائے۔ جہاں اسے ان سب کی شکل بھی نظر نہ آئے۔ اور واقعی اب وہ چلی بھی جائے گی۔ اس نے سوچ لیا تھا۔ بس ایک بار اسے وہ اسکالر شپ مل جائے۔ جس کے لیے اس نے برٹش ہائی کمیشن کے اعلان کے بعد اپلائی کیا تھا۔
بھلے گھر کے جو حالات ہوں۔ اس نے ایف ایس سی تک بورڈ کے ہر ایگزامز میں ٹاپ کیا تھا۔ ایف ایس سی پری انجینئیرنگ میں ٹاپ کرنے کے باوجود اس کا انجینئیرنگ کی طرف رجحان نہ تھا۔ یا رہا نہ تھا سو بی ایس سی میتھس میں ایڈمیشن لے لیا تھا اور اسے امید تھی اب بھی وہی ٹاپ کرے گی۔ اور اگر اسکالر شپ مل جائے تو بہت آسانی سے اسے اس زندان سے چھٹکارا مل جائے گا۔
وہ آنسو ہتھیلی کی پشت سےڑ گرتی اس سوچ میں غلطاں تھی۔ کہ کوئی اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا وہ جوتے دیکھ کر چونکی اور بھیگا ہوا چہرہ اٹھایا۔
وسیم اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔
وسیم بھائی؟ وہ کرنٹ کھا کر اٹھی اور دو قدم پیچھے ہٹی۔
وہ تائی مہتاب کا تیسرے نمبر کا بیٹا تھا۔ فواد کا چھوٹا نکما نالائق و آوارہ بھائی۔ اس وقت بھی وہ اپنی سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔ جانے کب اچانک آ کر ادھر کھڑا ہوا تھا۔ کھلا گریبان تنگ جینز گلے سے لپٹی چین، بکھرے بال اور سرخ آنکھیں۔ وہ نشہ کرتا تھا گھر میں سب کو علم تھا۔ یہاں تک کہ فضہ چاچی اپنی بیٹیوں کو اس کے قریب بھی نہیں جانے دیتی تھیں۔ خود حسن بھی احتیاط کرتا تھا۔ آرزو البتہ نڈر اور لا پرواہ تھی۔ ویسے بھی وسیم گھر میں بہت کم ہی نظر آتا تھا۔
محمل ہر ممکن کوشش کرتی کہ اکیلے میں اس سے سامنا نہ ہو۔ کیونکہ اسے اس کی آنکھوں سے خوف آتا تھا۔ مگر آج جانے کیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کر رہی ہو؟وہ ایک قدم اوپر اسٹیپ پر چڑھا تو وہ بے اختیار مزید پیچھے ہٹ گئی۔
کک کچھ بھی نہیں۔ وہ آغا جان آواز دے رہے ہیں۔ وہ ایک دم پلٹ کر اندر بھاگ گئی۔
ہونہہ۔ وسیم نے تمسخرانہ سر جھٹکا۔ چند لمحے ادھر کھڑا سوچتا رہا پھر گیٹ کی جانب چل پڑا۔
٭٭٭
وہ صبح بہت بوجھل سی تھی۔ وہ بس اسٹاپ پر اکیلی بیٹھی متورم آنکھوں سے دور افق پر جانے کے راستے تلاش کر رہی تھی۔ جہاں نیلی صبح کے پرندے اڑ رہے تھے۔ رات بھر رونے کے باعث اس کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ اور اوپر سے وہ سیاہ فام لڑکی بھی نہیں آئی تھی۔
جانے آج وہ کدھر رہ گئی تھی۔ ابھی تک کیوں نہ آئی تھی۔ صرف اس کے لیے محمل آج پندرہ منٹ پہلے ہی آ گئی تھی۔ تا کہ دس کی بجائے پندرہ منٹ اس کے ساتھ مل جائیں۔ مگر یہ تو اسے معلوم بھی نہ تھا کہ وہ آئی کب ہے اور کیوں اس کا انتظار کر رہی ہے حالانکہ کوئی بات ایسی نہ تھی۔ جسے وہ اس کے ساتھ شئیر کر سکتی یا اس کے پاس بیٹھ کر رو سکتی کسی مسئلے کا حل تلاش کر سکتی۔ نہیں اس کے پاس بتانے کو کچھ بھی تو نہیں تھا۔ پھر بھی اسے اس کا انتظار تھا۔ وہ بار بار کلائی پر بندھی رسٹ واچ دیکھتی۔ لمحے سرکتے جا رہے تھے۔ پندرہ منٹ ختم ہونے کو تھے۔ مگر اس سیاہ فام لڑکی کا دور دور تک کوئی اندیشہ نہ تھا۔
بس کا ہارن بجا تو وہ شکستہ قدموں کے ساتھ چل دی۔ سنگی بینچ خالی رہ گیا۔ صبح کے پرندے اپنے سفر کو چل دیئے۔ اور نیلاہٹ بھرا افق سنہری کرنوں سے بھیگنے لگا۔
وہ بہت اداس سی بس میں سوار ہوئی تھی۔ سارا راستہ خاموشی سے گردن موڑے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔ اس کی لمبی صراحی مانند سنہری گردن اونچی پونی ٹیل کے باعث پیچھے سے بھی چھلکتی تھی اور اسے یکسر ممتاز بنا دیتی تھی۔
بس کے رکنے سے قبل اس نے بیگ میں سے پاکٹ مرر نکال کر دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر متورم سوجی آنکھوں کو چھپانے کے لئیے گہرا کاجل ڈال لیا۔
محمل تم اتنا کاجل مت ڈالا کرو۔ مائنڈ مت کرنا پر تمہاری آنکھیں بالکل گولڈن ہیں۔ اور کاجل میں بالکل بلی کی طرح لگتی ہیں۔ یو نو کیٹ وومن! نادیہ دیکھ کر ہنس کر بولی۔ اور مجھے بلیاں بالکل پسند نہیں .... کھاؤ گی؟اس نے ہاتھ میں پکڑا چپس کا پیکٹ بڑھایا۔
محمل نے ایک خاموش نگاہ اس پر ڈالی او نو تھینکس کہہ کر خاموشی سے سر جھکائے اپنی کتاب میں کچھ لکھنے لگی۔ سر جھکانے سے اس کی اونچی پونی ٹیل مزید اوپر اٹھ جاتی۔ اور بھورے بال گردن پر گرتے دکھائی دینے لگتے۔
مائی پلیئژر۔ نادیہ نے شانے اچکا کر پیکٹ واپس لے لیا۔
وہ خاموشی سے سر جھکائے کچھ لکھتی رہی۔ وہ لائبریری میں نادیہ کو کل تائی کے انکار والی بات بتانے آئی تھی۔ مگر اس کا طنز سن کر دل ایک دم سے ٹوٹ سا گیا تھا۔ بس چٹکی بھر میں اس نے محمل کی خوبصورت بادامی سنہری آنکھوں کو بلی سے مشابہت دے دی تھی۔ شاید اس لئے کہ عام سی صورت والی نادیہ جب محمل کے ساتھ چل رہی ہوتی تو بہت سے سر مڑ کر محمل کو ستائشی نظروں سے دیکھتے۔
دراز قد اسمارٹ، لمبی گردن اور اونچی سنہری پونی ٹیل، وہ لڑکی جس کی آنکھیں دھوپ میں اور بھی زیادہ چمکتی تھیں پورے کالج میں پاپولر تھی۔ ایسے میں جب کاجل ڈال کر وہ مزید خوبصورت دکھتی تو نادیہ سے کبھی کبھار برداشت نہ ہوتا تھا۔ اور وہ ایسا ضرور کچھ کہہ دیتی جس سے محمل کا دل ٹوٹ جاتا۔
اب بھی وہ نادیہ اپنی بیسٹ فرینڈ کے پاس رونے آئی تھی مگر۔ نادیہ کے پاس پہلے اس کے دکھ سننے کی فرصت نہ تھی۔ وہ مسلسل اپنے کام میں مگن تھی۔ اور جب ذرا دیر کو فارغ ہوئی تو اس کا دل پھر کچھ ایسا توڑا کہ وہ کچھ کہہ ہی نہ سکی۔
ہاں تم کچھ بتا رہی تھی؟وہ چپس کا پیکٹ کتاب کی اوٹ میں لیئے مسلسل چپس نکال کر کتر رہی تھیتائی اماں کی کوئی بات تھی شاید۔
نہیں کوئی بات نہیں تھی۔
اچھا مجھے لگا۔
نہیں غلط لگا تمہیں میں چلتی ہوں زارا سے کچھ کام ہے مجھے۔ وہ مصروف سی کتابیں اٹھائے باہر نکل گئی۔
اگلے دو دن یونہی مضمحل سے گزرے۔ پریشانی مایوسی دکھ نا امیدی وہ ہر طرح کے منفی خیالات میں گری ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے دنیا سے رنگ ہی ختم ہو گئے ہوں۔ سب کچھ پھیکا پھیکا سا تھا اور دل کا باغ ویران اجڑا ہوا اور پھر اچانک تیسرے دن وہ سیاہ فام لڑکی آ گئی۔
اس نے دور سے اسے بینچ پر بیٹھے دیکھا۔ تو یکدم غصے کی ایک لہر اس کے اندر اٹھی۔ وہ تیز تیز چلتی اس کے قریب آئی
تم دو دن سے کہاں تھی؟سیاہ فام لڑکی نے سر اٹھایا۔
وہ بہت غصے سے اسے دیکھ رہی تھی۔
میرا کچھ کام تھا۔ میں۔ ۔ ۔
تمہیں اپنا انتظار کروانے میں مزہ آتا ہے ؟
تمہیں لگتا تھا میں تمہاری مدد کے بغیر مر جاؤں گی؟ ہاں حالانکہ ایسا نہیں ہو گا۔ تم توجہ لینے کے لیئے ایسا کرتی ہو۔ جس سے دوسرا تمہاری طرف کھنچا چلا آئے۔
مگر مجھے تمہاری بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ مجھے تمہاری پرواہ ہے۔ اور مجھے کتاب کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ میں نہیں مر رہی تمہاری مدد کے بغیر، دیکھو دیکھ لو میں زندہ ہوں تیز تیز بولتے وہ ہانپنے لگی تھی۔
سیاہ فام لڑکی ذرا سا مسکرائی۔
تو تم میرا انتظار کر رہی تھی۔
نہیں ہرگز نہیں۔ وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔
تم شاید بلند آواز میں اپنے دل کی بات کو جھٹلا رہی ہو۔ اگر ایسا ہے تو مت کرو۔ اپنے دل کی سنو وہ تمہیں کچھ کہہ رہا ہے۔
مجھے ڈکٹیٹ مت کرو۔ میں اپنا اچھا برا خوب سمجھتی ہوں۔ تم میرے ساتھ امید افزا بات کر کے اپنی کتاب بیچنا چاہتی ہو۔ میں خوب سمجھتی ہوں تمہارا مقصد۔ مگر یاد رکھنا میں تم سے یہ کتاب ہرگز نہیں خریدوں گی۔
نہ ہی میں تمہیں یہ بیچ رہی ہوں۔ لیکن ایک دن ایسا ضرور آئے گا تم خود مجھ سے یہ کتاب مانگنے آؤ گی۔ اور تب میں تمہیں فوراً تھما دوں گی۔ ابھی تم سفر کے آغاز میں ہو اور جب تھکوں گی تو اس کتاب کے پیچھے آؤ گی۔ مجھے تمہاری کسی بات کا برا نہیں لگا مجھے بس تمہارے تھکنے کا انتظار ہے۔ جاؤ تمہاری بس آ گئی۔
اس وقت تو وہ غصے سے پلٹ گئی مگر پھر سارا دن یہ سوچتی رہی۔ کہ اس کو اس سیاہ فام لڑکی کو دیکھ کر اتنا غصہ کیوں آیا تھا۔ وہ کیا لگتی تھی اس کی۔ اس نے کیا بگاڑا تھا اس کا۔ اور اسے غصہ کس بات کا تھا۔ یوں انجانے لوگوں کے ساتھ اس طرح سلوک تو محمل کبھی نہ کرتی تھی پھر اب کیوں ؟
ندامت اور شرمندگی کے احساس نے اسے سارا دن جکڑے رکھا۔ وہ کچن کے سارے کام بے دلی سے نپٹا رہی تھی۔ پڑھائی بھی ٹھیک سے نہ کر سکی پیپرز ہو رہے تھے۔ اب بھی اس کے پاس پڑھنے کو بہت کچھ تھا۔ مگر سارا دن احساس جرم اسے اندر سے کچوکے لگاتا رہا اور رات کو جب اچانک رضیہ پھپھو کی آمد کا شور اٹھا، تو وہ بہت بے دلی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آئی۔
فائقہ آج کل سارا دن میرے ساتھ کچن میں لگی رہتی ہے۔ میں تو منع کرتی ہوں مگر مجال ہے یہ مجھے کسی کام کو ہاتھ لگانے دے۔ آج بھی پڈنگ بنائی تھی۔ کہہ رہی تھی سارے ماموں شوق سے کھاتے ہیں۔ انہیں دے آؤں میں نے کہا خود دے آؤ۔ ماموں میں تو جان ہے میری بچی کی اور سب ٹھیک ہے گھر میں ؟ فواد کہاں ہے نظر نہیں آ رہا۔ مہتاب تائی کے ہمراہ اندر آتی رضیہ پھپھو نے بات کے اختتام پر ادھر ادھر نظر دوڑاتے سرسری سے انداز میں پوچھا۔ فواد تو نظر نہیں آیا مگر محمل پر نظر پڑی تو چہرے پر ناگواری کے تاثرات چھا گئے۔ شاید اس بات پر کہ ان کی آخری بات پر وہ استہزائیہ مسکرئی تھی۔
لڑکی کوئی کام کاج بھی ہے کہ نہیں تجھے۔ جب دیکھو لوٹھا کے لوٹھا بھاگتی پھرتی ہے ادھر ادھر۔ میری بھابھی کا جگرہ ہے جو مفت خوروں کو ٹکا رکھا ہے گھر میں ورنہ میں ہوتی تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہونہہ۔ انہیں اس کی مسکراہٹ تپا گئی تھی۔ جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔ سو بگڑ کر کہتی بڑے صوفے پر بیٹھ گئی۔
فائقہ بھی ٹرے پکڑے جس میں دو ڈونگے تھے چلی آ رہی تھی۔ فیشن کے مطابق شورٹ شرٹ کے نیچئ ٹراؤزر اور لمبے بال کھلے تھے۔ جن میں چوٹی کے بل صاف نظر آ رہے تھے۔ وہ سدرہ کی طرح خوب میک اپ کرتی تھی۔ اور اسطرح شاید ذرا قابل قبول لگ جاتی۔ اگر وہ گہرے مسکارے اور آئی میک اپ کے اوپر وہ سیاہ فریم والا چشمہ نہ لگاتی تو۔
یہ کہاں رکھوں ممانی جان؟ وہ رک کر مدھم آواز میں پوچھ رہی تھی۔ ورنہ یہی فائقہ تھی جو کچھ عرصہ پہلے بے ہنگم شور کیا کرتی تھی۔ کچن میں رکھ دو بلکہ محمل تم لے جاؤ۔ لائیے۔ محمل آگے بڑھی تو فائقہ نے قدرے تذبذب سے ماں کو دیکھا۔
دے دیں فایقہ باجی۔ فواد بھائی تو ویسے بھی ابھی آفس سے نہیں آئے۔ پھپھو پوچھ رہی تھی ابھی ان کا۔ وہ بے نیازی سے کہہ کر ٹرے لے کر کچن میں رکھ آئی۔
فواد ابھی تک نہیں آیا؟پھپھو نے بے چینی سے گھڑی دیکھی۔ پھر فایقہ کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ وہ فوراً مہتاب تائی کے بالکل مقابل سوفے پر مؤدب ہو کر بیٹھ گئی۔
ہاں کچھ کام تھا شاید۔ اور تم تھیک ہو؟تائی ریموٹ اٹھا کر چینل بدل رہی تھی۔ انداز میں عجب شان بے نیازی تھی۔ ۔ جن کے فواد جیسے بیٹے ہوں ان پر بیٹیوں کی مائیں یونہی مکھیوں کی طرح بھنبھنایا کرتی ہیں۔ وہ رضیہ پھپھو کے اطوار خوب سمجھتی تھی۔
یہ پڈنگ فائقہ باجی نے بنائی ہے پھپھو؟ وہ واپس آ کر سامنے صوفے میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی۔ وہی کرتا جینز گلے میں مفلر کی طرح لپیٹا دوپٹہ۔ پونی ٹیل یہ اس کا مخصوص انداز تھا۔
ہاں تو اور نہیں تو کیا؟
اچھا آپ تو اس روز اپنی سلیمہ سے پڈنگ بنا رہی تھی۔ وہ جب میں آپ کے گھر گئی تھی۔ آپ تو کہہ رہی تھی نہ آپ کو نہ ہی فائقہ باجی کو پڈنگ بنانا آتی ہے۔ فائقہ باجی اس نے چہرہ فائقہ باجی کی طرف موڑا ابھیر یسینٹلی سیکھا ہے اپ نے ؟
ہاں ہاں میرے ساتھ اج کل سب کچھ سیکھ رہی ہے۔ بیٹھ کر مفت روٹیاں نہیں تورتی۔ پھپھو چمک کر بولی۔ تائی مہتاب ریموٹ پکڑے چینل بدل رہی تھی۔ چہرے پر البتی واضح بے زاری چھائی تھی۔
اور آپ نے کس سے سیکھی اپنی ماما سے ؟
زیادہ زبان نہیں چلنے لگی تیری محمل؟یہ تو میری بھابھی کا حوصلہ ہے کہ تمہیں برداشت کرتی ہیں۔ ان کی جگہ میں ہوتی تو دو دن میں گھر سے باہر نکال دیتی۔ ان کی جگہ آپ کیسے ہو سکتی تھی پھپھو۔ دوسروں کے پیسے پر عیش کرنا ایک آرٹ ہوتا ہے۔ اور یہ ہر کسی کو نہیں آتا نا!
شٹ اپ محمل۔ تائی نے غصے سے ریموٹ رکھا۔ زیادہ بک بک کی تو ٹانگیں تور کر رکھ دوں گی۔ ارے ہم نہ رکھتے تو کدھر جاتی تم ہاں ؟
انگلینڈ۔ وہ ارام سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے جھلا رہی تھی۔ کیا مطلب وہ سب چونکے۔
میں نے اسکالر شپ کے لئیے اپلائی کر دیا ہے۔ اور بہت جلد میں تو اماں کو لے کر انگلینڈ چلی جاؤں گی۔ سو آپ ابھی سے ملازم ڈھونڈنا شروع کر دیں۔ آپ بیٹھیں میں ذرا کچن دیکھ لوں۔ وہ اٹھ کر کچن کی طرف چلی آئی، جانتی تھی کہ ان کے سروں پر بم پھوڑ کر آئی ہے۔ مگر اس وقت ان سب کو ستانے کا دل کر رہا تھا۔
کھانے پر ہی اس کی پیشی ہو گئی۔ تم نے کونسے اسکالر شپ کے لیئے اپلائی کیا ہے ؟مہتاب بتا رہی تھی کیا بات ہے۔ آغا جان نے جیسے ایک دم یاد آنے پر کھانے سے ہاتھ روک کر پوچھا۔
اسکالر شپ؟آرزو نے آبرو اچکائی۔ ندا اور سامیہ باتیں کرتی ٹھٹھک گئیں۔ فضہ چاچی نے حیرت سے گلاس رکھا۔ اور فواد لقمہ منہ میں لئیے بری طرح چونکا تھا۔
باقی سب بھی ایک دم رک کر اسے دیکھنے لگے۔ جو اطمینان سے بازو بڑھا کر رائتے کا ڈونگا اٹھا رہی تھی۔
جی اغا جان بڑٹش ہائی کمیشن سے کچھ اسکالرشپس اناؤنس ہوئی ہیں۔ ماسٹرزکے لئیے میں نے اپلائی کر دیا۔ اب وہ بڑا چمچ رائتہ چاولوں پر ڈال رہی تھی۔ امید ہے جلدی ہی مل جائے گی۔ پھر میں انگلینڈ چلی جاؤں گی۔ سوچ رہی ہوں وہی ساتھ ساتھ جاب وغیرہ بھی کر لوں۔ آخر خرچے بھی تو پورے کرنے ہوتے ہیں نا! چمچہ چاولوں میں ہلاتے رائتہ مکس کرتے اس نے لا پروائی سے اطلاع دی اور اسے لگا تھا ابھی گھر بھر میں طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔
ہوں ضرور اپلائی کرو۔ آغا جان پھر سے کھانے کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ اب کے حیران ہونے کی باری محمل کی تھی۔ اس نے لمحے بھر کو ٹھٹھک کر آغا جان کو دیکھا اور سنبھل کر بولی!
تھھینک یو آغا جان!
اس کے الفاظ پر جہاں مسرت اطمینان سے کھانا کھانے لگی تھی۔ وہی ٹیبل پر موجود بہت سے لوگوں کی خاموش معنی خیز نگاہوں کے تبادلے ہوئے تھے۔
وہ سر جھکائے چاول کھاتی رہی۔ امید تو نہ تھی کہ وہ کوئی ڈراما کھڑا نہ کریں گے۔ مگر وجہ بھی فوراً سمجھ میں آ گئی۔ وہ باہر چلی جائے تو ان سے جائیداد میں سے حصہ مانگنے کون کھڑا ہو گا؟ان کے لیئے تو اچھا ہی تھا کہ وہ چلی جائے۔
ایسے تو نہیں چھوڑوں گی میں یہاں سے چلی بھی گئی توایک دن ضرور واپس آؤں گی۔ اور اپنا حصہ طلب کروں گی۔ اور تم سب کو ہر اس عدالت میں گھسیٹوں گی جہاں جانے سے تم لوگ ڈرتے ہو۔ اس نے دل ہی دل میں تہیہ کیا تھا۔ اور پھر جب پانی کا جگ اٹھانے کو سر اٹھایا تو یک دم چونکی۔ ۔
بے توجہی سے کھانا کھاتا فواد اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسے سر اٹھاتا دیکھ کر فوراً اپنی پلیٹ پر جھک گیا۔ اور بعد میں کتنا ہی پھپھو نے میری فائقہ نے پڈنگ بنائی کہہ کر روکنا چاہا پر وہ رکا نہیں اور کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا۔
مجھے کام ہے چلتا ہوں۔
ہاں بیٹا تم کام کرو۔ مہتاب نے بھی فوراً اس کی تائید کی تھی۔ ادھر پھپھو ہائیں ہائیں کرتی رہ گئیں۔ اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔ محمل کا دل یکدم اداس سا ہو گیا تھا۔ نہ جانے کیوں۔ ۔
دور بینچ پر بیٹھی سیاہ فام لڑکی کو دیکھ کر اس کے پاؤں میں تیزی آ گئی۔ وہ سبل رفتاری سے چلتی بینچ کے قریب آئی۔
گڈ مارننگ۔
سیاہ فام لڑکی نے چونک کر سر اٹھایا۔ اور پھر ذرا سا مسکرائی گڈ مارننگ ٹو یو۔
وہ اسی طرح کتاب کے کنارے پر ہاتھ جمائے بیٹھی تھی۔
میں در اصل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل ذرا سا متذبذب سی ساتھ بیٹھی۔ مجھے، مجھے کل کے رویہ پر شرمندگی ہے۔ میں کبھی بھی اتنی روڈ نہیں ہوتی۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جانے دو۔ مجھے برا نہیں لگا۔
نہیں آئی ایم سوری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایم رئیلی ویری سوری۔ میں کچھ پریشان تھی۔
میں نے تو تجھے تمہاری ہر پریشانی کا حل بتایا تھا۔ تم خود ہی اس طرف نہیں آنا چاہتی۔
نہیں وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے بے ساختہ نظریں چرائی۔ مجھے اس کتاب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
مگر اس کتاب کو تم سے ہے۔ اس نے مجھے کہا ہے کہ میں اسے تمہارے حوالے کر دوں۔
وہ بری طرح چونکی تھی۔ پہلی گفتگو میں بھی اس نے کچھ ایسی ہی بات کی تھی۔
یہ، یہ کتاب مجھے جانتی ہے ؟سو فیصد جانتی ہے۔ تمہاری زندگی کی ساری کہانی اس میں لکھی ہے۔ گزرے واقعات اور آنے والے حالات۔
واقعی وہ ششدر اسے دیکھ رہی تھی۔
عجب بے یقینی سی بے یقینی تھی۔
ہاں اس میں لکھا ہے۔
تم نے، تم نے میری کہانی پڑھی ہے ؟
نہیں میں وہ نہیں پڑھ سکتی۔
کیوں ؟کیا تم نے یہ کتاب پوری نہیں پڑھی؟
میں نے پوری پڑھ رکھی ہے۔ مگر مجھ پر صرف میری زندگی کی کہانی کھلی ہے۔ تمہاری زندگی کی کہانی صرف تم پر کھلے گی۔
تم کیا کہہ رہی ہو میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ اب کہ وہ واقعی پریشان ہو گئی تھی۔
آ جائے گی۔ ہر بات سمجھ میں آ جائے گی۔ بس تھوڑا وقت لگے گا۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ وہ لڑکی کون تھی کہاں سے آئی تھی۔ اور کس نے یہ کتاب صدیوں پہلے اس کے لئیے رکھ کر چھوڑی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔
بس کا ہارن بجا تو وہ چونکی۔ اور پھر بنا کچھ کہے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
سیاہ فام لڑکی مسکراتے ہوئے اسے بس میں سوار ہوتے دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭
فواد کو چائے کمرے میں دے آؤ اور محمل تم ٹرالی لان میں لے آؤ۔ تائی مہتاب اپنی ازلی بے نیازی سے کہہ کر پلٹ گئی تھی۔ تو ٹرالی سیٹ کرتی محمل کسی خیال سے چونکی۔ فواد کی ٹرے الگ سیٹ کر دو محمل میں دے آؤں گی تم ٹرالی باہر دے آؤ۔
میں نہیں دے کر آ رہی ٹرالی تنگ آ گئی ہوں میں ان ذلیل لوگوں کے سامنے۔
اچھا اچھا چپ کرو مسرت بوکھلا کر آگے بڑھی۔ اور ٹرالی کا کنارہ تھام لیا۔ میں لے جاتی ہوں تم فواد کو چائے دے آؤ۔
اور یہی تو وہ چاہتی تھی۔ سو شانے اچکا کر لاپرواہی سے ٹرے سیٹ کی اور پھر اسے اٹھا کر دھپ دھپ سیڑھیاں چڑھتی گئی۔
فواد بھائی اس نے دروازے پر ہلکا سا ناک کیا۔
ہوں آ جاؤ۔
اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ فواد آنکھوں پر بازو رکھے بیڈ پر نیم وا پڑا تھا۔
فواد بھائی آپ کی چائے۔
ہاں رکھ دو وہ کسلمندی سے اٹھا۔ انداز سے تھکا تھکا لگ رہا تھا۔
کیا بات ہے فواد بھائی آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔ اس نے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور کپ اٹھا کر اس کے پاس آئی۔
ہاں۔ کچھ نہیں آفس کا مسئلہ ہے۔ اس نے چائے پکڑنے کے لیئے ہاتھ بڑھایا تو چائے پکڑاتی محمل کی انگلیاں ذرا سی مس ہو گئی۔ اس نے فوراً ہاتھ پیچھے کیا تو وہ بے ساختہ مسکرا دیا۔
پھر چائے کا گھونٹ بھرا۔
ہوں چائے تو تم اچھی بنا لیتی ہو۔
اماں نے بنائی ہے۔ وہ جز بز سی اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اونچی بھوری پونی ٹیل والی دراز قد محمل۔
لائی تو تم ہو۔ ذائقہ ہے تمہارے ہاتھ میں۔ اچھا، وہ مسکرا دی۔
اور یہ انگلینڈ جانے کا کیا سین ہے ؟
وہ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔ وہ سر جھکائے کھڑی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔
مگر تم جاب کرنے کا کہہ رہی تھی۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ وہ جائے کا کپ ایک سائیڈ پر رکھے بری سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
میں صرف اپنے خرچوں کے لئیے جاب کرنا چاہتی ہوں۔
اور یہ اتنی بڑی بزنس ایمپائر۔ یہ کون سنبھالے گا؟
محمل نے جھٹکے سے گردن اٹھائی۔ اسے لگا اس نے غلط سنا ہے۔
بزنس ایمپائر؟
ہاں تم اس کے اونرز میں سے ہو۔ کیا تمہارا فرض نہیں ہے تم اپنے ابا کے بزنس پر بھی دھیان دو۔ آخر کبھی نہ کبھی تمہیں یہ سب سنبھالنا ہے۔
جی؟وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
اتنی حیران کیوں ہو محمل؟وہ اٹھ کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ محمل نے دیکھا وہ اس سے خاصا لمبا تھا۔
میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں پتہ نہیں۔
کیا تم یہ سب نہیں سنبھالنا چاہتی؟
میں سنبھالنا چاہتی ہوں مگر کیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
تم واقعی سنبھالنا چاہتی ہو؟ فواد کے چہرے پر خوشگوار حیرت اتری۔ یعنی اگر میں تمہیں اپنے ساتھ آفس میں لگانا چاہوں تو تم کام کرو گی میرے ساتھ؟
جی جی بالکل۔ اس کا دل ایک دم کسی اور لے پر دھڑکنے لگا تھا ہاتھ لرزنے لگے تھے۔
ٹھیک ہے پھر میں شام میں آغا جان سے بات کر لیتا ہوں۔
وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اجازت دے دیں گے ؟ اس کے اندر وسوسوں نے سر اٹھایا۔
شیور کیوں نہیں دیں گے۔ وہ مسکرا کر اسے تسلی دے رہا تھا۔ اور اسے سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرے۔ ایک دم ہی اسے سب اپنی مٹھی میں آتا دکھائی دینے لگا تھا۔
دولت نچھاور محبوب قدموں میں۔
اب اسے اس سیاہ فام لڑکی کی کتاب کی ہرگز ضرورت نہ تھی۔
وہ ہواؤں میں اڑتی واپس اپنے کمرے میں آئی تھی۔
اور پھر رات میں جب فواد نے آغا جان کے سامنے اسے اپنے ساتھ کام پر لگانے کی تجویز پیش کی تھی۔ تو سب سے پہلے حسن نے پہلو بدلا تھا۔
اس کی کیا ضرورت ہے فواد، محمل کو ابھی اپنی پڑھائی پر توجہ دینی چاہیئے۔ وہ ناگواری سے بولا تو محمل کو واضح برا لگا تھا۔ شکر تھا خاندان کی عورتیں وہاں نہ تھیں نہیں تو طوفان ہی آ جاتا۔
تم بیچ میں مت بولو حسن میں آغا جان سے بات کر رہا ہوں۔
اور میں تمہاری باتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھتا ہوں۔
حسن نے ایک کٹیلی نگاہ محمل پر ڈالی۔ مجھے اچھی طرح پتا ہے یہاں کیا چکر چل رہا ہے۔
شٹ اپ، فواد بھڑک اٹھا تو آغا جان نے دونوں کو ہی جھڑک دیا۔
شٹ اپ یو بوتھ۔ حسن تم جاؤ اپنے کمرے میں۔ اور وہ فوراً تیز تیز چلتا وہاں سے نکل گیا۔
اور فادی حسن ٹھیک کہہ رہا ہے۔ محمل کا آفس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ ہی وہ کبھی آفس جائے گی۔
مگر آغا جان۔
آغا بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں محمل کا آفس میں کیا کام؟
بالکل لڑکیوں کو ادھر دھکے کھانے کی کیا ضرورت ہے ؟غفران چچا اور اسد چچا نے بھی فوراً آغا جان کی تائید کر دی تو محمل نے بے بسی سے مدد طلب نظروں سے فواد کو دیکھا۔
اوکے جیسے آپ کی مرضی۔ وہ شانے اچکا کر اب جھک کر اپنے بوٹ کے تسمے بند کر رہا تھا۔
اس کا دل جیسے کسی گہری کھائی میں جا گرا وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی کچن میں آئی اور سنک پر جھک کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ اس کے آنسوؤں کے ساتھ سارے خواب گرتے بہتے چلے گئے۔ وہ اتنا روئی کہ ہچکی بندھ گئی۔ تو بالآخر نل کھول کر منہ پر پانی ڈالنے لگی۔
اس نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ آخری بار رو رہی ہے۔ وہ آج کے بعد ہرگز نہیں روئے گی۔ اس نے تو سیدھے طریقے سے سب حاصل کرنے کا سوچا تھا۔ لیکن ان لوگوں کو سیدھا طریقہ راس نہیں آتا۔ ٹھیک ہے اب ان سے انتقام لینے کے لیئے اسے جادو یا سفلی علم کا سہارا بھی لینا پڑا تو وہ لے گی۔
اسے اب صبح کا انتظار تھا۔ صبح اسے بس اسٹاپ پر جا کر اس سیاہ فام لڑکی سے وہ کتاب لینی تھی۔
ویسے نہیں تو ایسے سہی۔
چہرے پر ٹھنڈا پانی ڈالتے ہوئے اس نے نفرت سے سوچا تھا۔
٭٭٭
صبح اسے کالج نہیں جانا تھا۔ ایگزامز ختم ہو چکے تھے۔ مگر وہ پھر بھی بہانہ بنا کر مضصوص وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے بس اسٹاپ پر چلی گئی۔ اور اب مسلسل بینچ کے آس پاس ٹہل رہی تھی۔
سیاہ فام لڑکی ابھی تک نہیں آئی تھی۔ محمل بار بار کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتی۔ پھر بے چین نگاہوں سے گردن ادھر ادھر گھماتی۔ بھوری اونچی پونی بھی ساتھ ساتھ ہی جھولتی۔ اسے شدت سے اس لڑکی کا انتظار تھا۔ اور آج تو لگ رہا تھا وقت بہت دیر سے گزر رہا ہے۔ بالآخر وہ بینچ پر بیٹھی اور سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔
کیا میرا انتظار کر رہی تھی؟کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ کرنٹ کھا کر اٹھی۔
وہ سیاہ فام لڑکی سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ میں تمہارا ہی ویٹ کر رہی تھی۔
اور میں جانتی ہوں کہ کیوں۔ وہ آرام سے بینچ پر بیٹھی۔ بیگ کا اسٹرپ کندھے سے اتار کر ایک طرف رکھا اور کتاب احتیاط سے گود میں رکھی۔ پھر جیسے فارغ ہو کر محمل کا چہرہ دیکھا۔
تم تھک گئی ہو؟
ہاں میں تھک گئی ہوں میں تنگ آ گئی ہوں اس دنیا میں میرے لئیے کچھ نہیں ہے کوئی نہیں ہے۔
اونہوں ایسے نہیں کہتے۔ ابھی تو تم نے وہ کچھ لینا ہے جس کی چمک سے تمہاری آنکھیں چکا چوند رہ جائیں گی۔ ابھی تو تم صحیح راستے پر آئی ہو۔
مجھے صحیح اور غلط کا نہیں پتہ اور نہ ہی میں صحیح اور غلط کی تفریق میں پڑنا چاہتی ہوں۔ اس نے بے اختیار نگاہیں چرائی تھی۔ اپنے دل سے اپنے اندر بیٹھے گلٹ کے احساس سے۔ کوئی بات نہیں شروع شروع میں یہ کتاب مشکل لگے گی۔ جیسے کوئی عذاب ہو کوئی قید ہو۔ مگر پھر تم عادی ہو جاؤ گی۔ وہ ویسے ہی مسکرائی تھی۔ یہ کتاب مجھ سے کیسے بات کرے گی؟
محمل سحر زدہ سی اس لڑکی کی گود میں پڑی کتاب کو دیکھ رہی تھی۔
روز اس کا ایک صفحہ پڑھنا اگر مشکل لگے تو میں تمہیں کچھ ایسے لوگوں کا پتہ بتاؤں گی گو اس کتاب کا علم سکھاتے ہیں۔ بالکل چپ چاپ خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ میں تمہیں ادھر لے جاؤں گی۔ وہ تمہیں اس قدیم کتاب کا علم سکھائیں گے۔ جس میں یہ کتاب لکھی ہوئی ہے۔ پھر جب تم روز اس کا ایک ایک صفحہ پڑھنے کے قابل ہو جاؤ۔ تو تمہیں پتہ چلے گا کہ ہر صفحہ تمہارے لیے yesterday کی روداد ہے اور تمہیں tomorrow کی تدابیر بتائے گی۔
اور اگر میں ایڈوانس میں ایک صفحہ آگے پڑھ لوں تو؟ تو مجھے اپنے آنے والے کل کا علم ہو جائے گا ہے نا؟نہیں تم ایک دن میں پوری کتاب بھی پڑھ لو تب بھی وہ تمہاری yesterday کی روداد ہی سنائے گی۔ لیکن اگر وہی صفحے تم اگلے دن پھر سے پڑھو تو وہ اس دن کے حساب سے تمہاری گزشتہ دنوں کی روداد بن جائے گا۔
کیا مطلب؟وہ الجھ سی گئی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ایک صفحے کا ایک دن میں ہی مطلب بدل جائے۔
اگر یہ نہ ہوتا تو کیا آج تم اس کتاب کی طرف یوں نہ کھینچے چلے آتی؟
تم واقعی سچ کہہ رہی ہو وہ اندر ہی اندر خود زدہ بھی تھی۔
تمہیں شک ہے کیا؟
نہیں، مگر تم مجھے یہ کیوں دے رہی ہو؟ تمہارا اس میں کیا فائدہ، اپنی دانست میں محمل نے خاصا عقل مندانہ سوال کیا تھا۔
میرا ہی تو اصل فائدہ ہے ؟ وہ پھر اسی پراسرار انداز میں مسکرائی۔ جو کچھ تمہیں حاصل ہو گا اس کا ایک شئیر تو مجھے ہی جائے گا۔
شئیر وہ دنگ رہ گئی۔ کیا مطلب اور کتنا شئیر کتنے پرسینٹ؟
شاید آدھا شاید اس سے کچھ کم۔ معلوم نہیں۔ مگر یہ تمہارا مسئلہ نہیں۔ میرا حصہ مجھ تک پہنچ جائے گا۔ یہ کتاب خود میرے پاس آ کر میرا حصہ دلوائے گی۔
اچھا۔ وہ متحیر سی ہو گئی۔ پھر یہ میں لے لوں۔
پہلے خوب اچھی طرح سوچ لو؟
سب سوچ لیا ہے۔ وہ تیزی سے بولی اور کتاب پر ہاتھ رکھ دیا۔ مبادا وہ اسے واپس نہ لے جائے۔
پھر لے جاؤ پر یاد رکھنا یہ ایک بوہجھ ہے۔ جو میں تجھے دے رہی ہوں۔ اگر تم نے وہ جنہیں تم عملیات کہتی ہو۔ کر لیئے اور ویسے ہی کیئے جیسے یہ کتاب کہتی ہے تو سب کچھ بدل جائے گا۔
تم اس کتاب میں رہنے لگو گی۔ اس کتاب کے علاوہ تمہیں کچھ نظر نہیں آئے گا۔ دیوانی ہو جاؤ گی مجنوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر اگر تم نے اس کو چھوڑنا چاہا تو تباہ ہو جاؤ گی۔ جو ملا تھا وہ بھی کھو دو گی۔ اور جو پہلے سے تھا وہ بھی عذاب بن جئے گا۔ جاؤ اسے لے جاؤ۔
اس نے سیاہ جلد والی بھاری کتاب اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دی۔ اور جب محمل نے اسے لینے کے لئے ہاتھ بڑھائے تو لرز رہے تھے۔
تھینک یو۔ کیا یہ مجھے تمہیں واپس کرنی پڑے گی؟
نہیں۔ اور جب میں پوری پڑھ لوں ختم کر لوں تب؟
تب پھر سے شروع کر لینا۔ یہ کتاب کبھی پرانی نہیں ہو گی۔
'تھینک یو۔ کپکپاتی انگلیوں سے کتاب پکڑے تیز تیز چلتی گھر کی سمت بڑھ گئی۔ کتاب کی سیاھ جلد سرد تھی، بے حد یخ سرد۔ کوئی اسرار تھا اس میں کوئی قدیم راز، جسے وہ آج بے نقاب کرنے جا رہی تھی۔
جب اس نے گیٹ کھولا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھی اور دل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل تو ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینہ توڑ کر باہر آ گرے گا۔ بوجھ بہت بھاری بوجھ تھا۔ جو اس تھکی ہوئی لڑکی سے لیا تھا۔
اندر ہی اندر اس کا دل ڈر رہا تھا۔ کہیں وہ تباہی کے کسی رستے کی طرف تو نہیں جا رہی، یہ سیاہ علم یہ سفلی عملیات اچھے کام تو نہیں تھے۔ پھر وہ کیسے اسے اٹھا لائی تھی؟
اس نے رک کر سوچنا چاہا، مگر اب واپسی کا کوئی راستہ نہ رہا تھا۔
دولت نچھاور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محبوب قدموں میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دلوں پر راج۔
اسے بہت سی چیزیں اکٹھی کرنی تھی۔ اور وہ کتاب اس کے ہر مسئلے کا حل تھا۔ اسے بیگم نعمان کے ٹھکرائے ہوئے رشتے کا خیال آیا۔ اس رات فواد کی بات پر سب کے رد عمل یاد آیا۔ اسے اپنی بے پناہ دولت بھی یاد آئی تھی جس پر عیش کوئی اور کر رہا تھا۔ پھر کیسے وہ اس لڑکی کو وہ کتاب، سب خزانوں کی کنجی واپس کر آتی؟پھر وہ نہیں رکی اور کتاب سینے سے لگائے سر جھکائے تیز قدموں سے چلتی لاؤنج میں داخل ہوئی۔
کہاں سے آ رہی ہو؟
وہ جو اپنے خیالوں میں گم تھی، آواز پر گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹی۔
سامنے تائی مہتاب قدرے مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ تائی وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس نے بے اختیار خشک لبوں پر زبان پھیری۔ وہ نادیہ سے کچھ نوٹس لینے تھے۔ ذرا اسٹاپ تک گئی تھی اماں کو بتا کر گئی تھی۔
ماں۔ تمہاری ماں تو کہیں کی لینڈ لیڈی ہے۔ جس کی اجازت کافی تھی۔
وہ تائی وہ تائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا اسد کو بھی بتایا تھا
پہلی دفعہ وہ تائی کے سامنے یوں ہکلا رہی تھی۔
اچھا جاؤ سر نہ کھاؤ۔ تائی بے زاری سے ہاتھ جھلا کر آگے بڑھ گئیں۔
وہ کمرے کی طرف لپکی، اور جلدی سے الماری کھول کر ایک خانے میں سب کپڑوں کے نیچے وہ دبیز کتاب چھپا دی۔ پھر الماری احتیاط سے بند کی۔ ادھر ادھر دیکھا۔ صد شکر کہ کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا۔
محمل۔ باہر اماں نے پکارا تو وہ جلدی سے منہ سے پسینہ پونچھتے ہوئے باہر آئی۔
جی؟
مسرت جو کچن میں سارے گھرانے کا ناشتہ بنانے میں مصروف تھی، پین میں انڈا پلٹتے ہوئے مڑ کر اسے مڑ کر اسے دیکھا؟۔
تم تو کالج گئی تھی اتنی جلدی کیسے واپس آ گئی؟
جی بس !
خیریت؟
اوہو۔ آج سب کو میری اتنی فکر کیوں لگ گئی؟نادیہ سے نوٹس لینے تھے مل گئے تو واپس آ گئی۔ وہ خواہ مخواہ چڑ گئی۔ پھر ادھر ادھر برتنوں میں ہاتھ مارتی بظاہر کچھ تلاش کرنے لگی۔
میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔ اچھا ناشتہ تو کر لو۔
نہیں بھوک نہیں ہے۔ وہ بس منظر سے ہٹنا چاہتی تھی۔ سو اتنا کہہ کر وہ باہر لاؤنج میں آ گئی۔ ذہن ابھی تک الماری میں کپڑوں کے نیچے چھپی اس سیاہ جلد والی کتاب میں اٹکا ہوا تھا۔
پھر گھر کے کام کاج، صفائی اور اس کے بعد مسرت کے ساتھ مشین لگائے وہ میکانکی انداز میں خاموشی سے کام کرتی گئی۔ مسلسل اس کا دل بار بار پلٹ کر اس کتاب کی طرف جاتا۔ وہ کئی بار کمرے میں آئی اور کپڑوں کے نیچے ہاتھ تھپ تھپا کر دیکھا۔
وہ سیاہ کتاب وہی رکھی تھی۔
پھر سارا دن وہ موقع ڈھونڈتی رہی۔ کہ اسے جا کر پڑھے۔ کچھ تو پتہ تو چلے۔ کوئی راہ تو نکلے۔ مگر کاموں کا بوجھ اور کچھ فطری سا خوف تھا جو اس کتاب کو نکالنے کی ہمت نہ کر سکی۔

رات کھانے کے بعد جب اس نے سب کو ڈائننگ ہال میں سب کو سویٹ ڈش میں مصروف پایا۔ تو بالآخر الماری سے وہ کتاب نکالی۔ اور اسے سینے سے لگائے دبے پاؤں اوپر سیڑھیاں چڑھتی گئی۔

ڈائننگ ہال سے براستہ کچن کی طرف جاتی مہتاب تائی نے چونک کر اسے آخری سیڑھی پھلانگتے دیکھا۔

یہ محمل کیا کرتی پھر رہی ہے آج۔ انہوں پیچھے سے چاچی ناعمہ کو آتے روک کر سرگوشی کی۔

ابھی کوئی کتاب پکڑے اوپر گئی ہے۔

اچھا۔ وہ متجسس سی تائی کے پاس آئی۔

پڑھائی وڑھائی تو اب ختم ہے اور چھت پر تو کبھی بھی نہیں گئی یہ پڑھنے کے لئے۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔

اور ان کی سرگوشیوں سے بے خبر وہ باہر ٹیرس پر نکل آئی۔ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور ریلنگ کے ساتھ نیچے زمین پر بیٹھ گئی۔ کتاب گھٹنوں پر رکھے وہ کتنی دیر اس کو دیکھتی رہی۔

محرومیوں۔ نارسائیوں دکھوں کے اس کئی برس پرانے کرب کی اب جیسے انتہا ہو چکی تھی۔ اس سے اب مزید برداشت نہیں ہوتا تھا غلط ہو یا صحیح وہ زندگی سے اپنا حصہ ضرور وصول کرے گی۔

ایک ٹھوس اور حتمی فیصلہ کر کے محمل ابراہیم نے سیاہ جلد والی کتاب پر ہاتھ رکھا۔ وہ بے حد سرد تھی۔ ٹھنڈی اور پر سکون۔ وہ جلد پلٹنے ہی لی تھی کہ ٹیرس کا دروازہ ایک دم دھڑام سے کھلا

اس نے گھبرا کر سر اٹھایا۔ اور ایک لمحے کو زمیں آسمان اس کی نگاہوں میں گھوم گیا۔

آغا جان دونوں چچا تائی مہتاب چچی ناعمہ چچی فضہ لڑکیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مسرت بھی۔ سب ایک ساتھ باہر آئے تھے۔

یہ کیا ہو رہا ہے یہاں آغا جان غصے سے غرائے تھے۔ محمل کیا کر رہی ہو ادھر۔ وہ ہکا بکا منہ کھول کر انہیں دیکھتی رہ گئی۔

ادھر کیا بیٹھی ہو سامنے آؤ۔ تائی مہتاب چمک کر بولی۔ اور اس کی تو جیسے ٹانگوں میں جان ہی نہیں رہی تھی۔ بمشکل اٹھی اور دو قدم آگے بڑھی۔ کتاب اسی طرح ہاتھوں میں پکڑی تھی اور پورا جسم لرز رہا تھا۔

وہ آغا جان میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں پوچھ رہا ہوں اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو؟

مم میں پڑھ رہی تھی۔ لفظ لبوں پر ہی دم توڑ گئے۔ اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ کیا پڑھ رہی تھی؟ ادھر دکھاؤ۔ آغا جان کے لہجے کی سختی کم نہ ہوئی تھی۔ انہوں نے کتاب لینے کو ہاتھ بڑھایا تو وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔

کک کک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کتاب پیچھے کرنا چاہی۔ اور پھر اس نے دیکھا آغا جان کے پیچھے کھڑی مسرت کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور تائی فاتحانہ مسکرئی تھی۔

ارے ہم بھی تو دیکھیں بھری رات میں کتابوں میں چھپا کر کونسی خط و کتابت ہو رہی ہے۔ میں تو پہلے ہی کہتی تھی یہ لڑکی کوئی چاند ضرور چڑھائے گی۔

اس کے اردگرد جیسے دھماکے ہو رہے تھے۔

نہیں تائی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتی نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ میں نے کچھ نہیں کیا میں تو پڑھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آغا جان نے زور سے اس کے ہاتھ سے کتان چھینی، پڑھ رہی تھی تو دکھاتی کیوں نہیں ہو؟

ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈال کر انہوں نے کتاب اپنے سامنے کی۔

میں بھی کہوں کیوں راتوں کو چھت پر آ جاتی ہے۔ کس کے ساتھ منہ کالا کرتی ہے جو اتنی لمبی زبان ہو رہی ہے۔ ارے میں بھی کہوں کوئی تو ہے اس کے پیچھے آغا صاحب!اسے کہیئے جس مردود کو چٹھیاں ڈالنے یہ یہاں آتی ہے وہ ابھی آئے اور اسے دو بول پڑھوا کر ابھی لے جائے۔ خاندان بھر میں بدنام کرے گی ہمیں کیا؟

اور اسے لگا آج وہ واقعتاً ہار گئی ہے۔ آغا جان صفحے پلٹ رہے تھے۔ ہر پلٹتے صفحے کے ساتھ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ اس نے سر جھکا کر آنکھیں سختی سے میچ لیں۔ آج وہ اسے یقیناً قتل کر ڈالیں گے۔ وہ سفلی عملیات میں پڑ گئی۔ کبھی معاف نہیں بخشیں گے۔

شرم نہیں آتی تمہیں گٹھیا عورت! آغا جان ایک دم دھاڑے تو اس کی رہی سہی جان بھی نکل گئی۔ اسے لگا وہ لہرا کے گرنے کو ہے جب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں میں نے کیا کیا ہے ؟ تائی کی ہکلاتی آواز نکلی۔

محمل نے جیسے کسی خواب سے جا کر سراٹھایا۔ وہ کھلی کتاب ہاتھ میں پکڑے محمل سے نہیں تائی سے مخاطب تھے۔

تمہیں شرم نہیں آئی اس یتیم بچی پر الزام لگا کر ہم سب کو اکٹھا کر کے۔ ڈوب مرو تم ایسے الفاظ کہنے سے پہلے۔ وہ اب چھت پر پڑھ بھی نہیں سکتی؟

محمل نے پلکیں زور سے جھپکائیں یہ آغا جان کیا کہہ رہے تھے۔

مگر آغا صاحب وہ اس کتاب میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈوب مرو تم بے دین عورت وہ قرآن پڑھ رہی تھی، تم قرآن کی حرمت کا تو پاس رکھ لیتی۔ انہوں نے سیاہ کتاب بند کی اسے چوما آنکھوں سے لگایا اور محمل کی طرف بڑھا دیا۔

بیٹا نیچے پڑھ لیتی تو سب پریشان نہیں ہوتے۔ یہ لو، وہ اسے کتاب تھما کر ایک کٹیلی نگاہ اس عورت پر ڈال کر واپس ہو لیئے۔

نہ تو اب چوروں کی طرح پڑھے گی تو بندہ شک تو کرے گا ہی! ورنہ میرا کیا دماغ خراب ہے جو ایسا کہتی تائی شرمندہ سی پلٹیں۔

آغا جان کبھی کبھار انہیں یونہی سب کے بیچ میں جھڑک دیا کرتے تھے۔ خصوصاً ً جب وہ اپنے رشتے داروں پر بے دریغ پیسے لٹایا کرتی تھی۔

اور نہیں تو کیا سب نادم سے پلٹے تھے۔

وہ اسی طرح ساکت سی کتاب ہاتھ میں لیئے کھڑی تھی۔ ٹیرس خالی ہو چکا تھا۔ سب جا چکے تھے۔ پرسکون اور سرخرہ مسرت بھی اور وہ اسی طرح پتھر کا بت بنے وہاں کھڑی تھی۔

اس کتاب کا ہر صفحہ تمہارے گزرے دن کی روداد ہے۔

یہ کتاب کبھی پرانی نہیں ہو گی۔

تم سب کو اپنی مٹھی میں کر کے دنیا پر راج کرو گی۔ ۔

اس سیاہ فام لڑکی کا ایک ایک فقرہ طمانچے کی طرح اس کے منہ پر برس رہا تھا۔

تڑاخ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تڑاخ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تڑاخ

اسے لگا وہ کبھی اپنی جگہ سے ہل نہیں سکے گی، یونہی صدیوں اس اندھیرے ٹیرس پر کھڑی رہے گی۔ دھوکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مذاق فریب تمسخر قرآن کی بے حرمتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سیاہ فام لڑکی نے کیا نہیں کیا تھا۔ اتنا بڑا مذاق اس سیاہ فام لڑکی نے ایک پریشان حال لڑکی کو سبز باغ دکھا کر اس کی ہی مقدس کتاب تھما دی۔ یہ ہوا کیا تھا اس کے ساتھ۔

اس کے ہاتھ ابھی تک لرز رہے تھے۔ نہایت بے یقینی کے ساتھ اس نے سیاہ جلد والی کتاب کو چہرے کے سامنے کیا۔

سیاہ جلد صاف تھی۔ بے داغ، بے لفظ۔ اس نے درمیان سے کتاب کھولی۔

اوپر عربی کی عبارتیں تھی اور نیچے انگریزی میں۔

سب سے اوپر لکھا تھا۔

الکہف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ the cave

اس نے چند صفحے آگے کھولے۔

العنکبوت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ the spider

اس نے شروع سے دیکھا۔

المائدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ the table spread

محمل نے کتاب بند کر دی۔

آغا جان نے ٹھیک کہا تھا وہ قرآن تھا۔ ان کی مذہبی کتاب مقدس کتاب اور اس فرنگن نے کیسے کیسے قصے گڑ دیئے تھے اس کے ساتھ۔

ذلیل عورت، وہ شاکڈ سے باہر نکلی تو اسے غصہ آ گیا تھا۔ وہ لڑکی تو گھر بیٹی اس پر ہنس رہی ہو گی۔ اس کا تمسخر اڑا رہی ہو گی۔ اور وہ بھی کتنی جلدی بے وقوف بن گئی اف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ تیز تیز قدموں سے سیرھی کی طرف لپکی۔

نہ سر پر دوپٹہ نہ وضو نماز اور چلے ہیں قرآن پڑھنے۔ ہونہہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیچے لاؤنج میں بڑے صوفے پر بیٹھی تائی اسے زینے سے نیچے اترتا دیکھ کر بڑبڑائی۔

بڑے عرصے بعد ؟آغا جان نے ان کو سب کے سامنے بے عزت کیا تھا اور وہ بھی صرف اور صرف محمل کی وجہ سے انہیں اب کسی نہ کسی طرح غصہ تو اتارنا ہی تھا۔ مگر محمل کوئی بھی جواب دیئے بغیر سر جھکائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

٭٭٭



صبح پھر وہ جلدی آ گئی۔ سیاہ فام لڑکی بہت پہلے سے آ کر بینچ پر بیٹھی تھی

اسے دیکھ کر محمل کے قدم تیز ہو گئے۔

قدموں کی چاپ پر ہی اس نے سر اٹھایا محمل نے دیکھا، اسے دیکھ کر اس کی سیاہ آنکھوں میں امید کے دئیے جل اٹھے تھے۔

سڑک خالی تھی دور نارنجی سورج طلوع ہو رہا تھا۔

محمل اس کے بالکل سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ سورج کی نارنجی شعاعیں اس کے پیچھے چھپ گئیں۔

تمہیں شرم تو نہیں آئی ہوگی میرے ساتھ ایسا بے ہودہ مذاق کرتے ہوئے۔ سیاہ فام لڑکی کی نگاہیں اس کے ہاتھ میں پکڑی کتاب پر پڑیں۔ ایک دم ہی اس کی آنکھوں کی جوت بجھ گئی۔

مصحف واپیس کرنے آئی ہو؟

مصحف ؟اکھڑی اکھڑی محمل نے ابرو اٹھائی۔

ہممم ایرب ورلڈ(عربی دنیا) میں قرآن کو مصحف کہتے ہیں۔

تم نے مجھے کیا قصے کہانیاں سنا کر قرآن تھما دیا۔ یہ کوئی مذاق کرنے کی کتاب تو نہ تھی۔ یہ تو قرآن تھا۔

قرآن نہیں قرآن ہوتا ہے۔ وہ اداسی سے مسکرائی تو محمل نے شانے اچکائے۔

بہر حال تمہیں یہ پریکٹیکل جوک کر کے مجھے شرمندہ کرنے پر شرم آنی چاہیئے۔ میں تو کیا سوچ رہی تھی اور تم نے مجھے مقدس کتاب تھما دی؟

تو تم کسی غیر مقدس چیز کی توقع کر رہی تھی کیا؟

جی نہیں، وہ تلملائی پھر قرآن اس کی گود میں رکھا یہ میرے پاس پہلے سے ہے مجھے ضرورت نہیں ہے۔

بیٹھ کر بات کر لو۔

میں ٹھیک ہوں وہ اسی طرح سینے پر ہاتھ باندھے اکھڑی اکھڑی سی کھڑی تھی۔

اچھا، اس نے پیار سے سیاہ جلد والی مصحف پر ہاتھ پھیرا تو تم نے یہ پڑھ رکھا ہے اس کے لہجے میں صبح کی ساری اداسی سموئی ہوئی تھی۔

ہاں اور بچپن میں ہی پڑھ لیا تھا اللہ کا شکر ہے۔ کہ ہم شروع سے ہی مسلمان ہیں۔ وہ عادتاً جتا کر بولی۔ اور تمہیں ہماری مقدس کتاب کو لے کر غلط فہمیاں ہیں یہ کوئی فال نکالنے والی کتاب نہیں ہے۔ نہ ہی اس میں میری اور تمہاری سٹوری ہے، ،، ،، ،، ، لا حول ولا قوۃ اللہ باللہ۔

اچھا! چلو پھر بیٹھو اور مجھے بتاؤ اس میں کیا کیا ہے ؟

اس میں احکامات ہیں نماز روزے حج زکوٰۃ کے۔ وہ اس کے ساتھ بینچ پر بیٹھی کر بہت سمجھداری سے اسے بتانے لگی۔ اس میں پرانی قوموں کے قصے ہیں قوم ثمود قوم عاد اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بنی اسرائیل۔

یہ بنی اسرائیل کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟

مطلب؟

وہ ہلکا سا گڑبڑائی۔ بنی اسرائیل کا مطلب ہوا اسرائیل کے بیٹے وہ بتا رہی تھی یا پوچھ رہی تھی خود بھی نہ سمجھ سکی۔

اسرائیل کا مطلب عبداللہ ہوتا ہے ایل اللہ کو کہتے ہیں یہ یعقوب کا نام تھا۔

آں ہاں حضرت یعقوب کا قصہ حضرت یوسف کا قصہ سب پڑھ رکھا ہے میں نے، سب پتہ ہے مجھے یوسف اور زلیخا کا قصہ تو کورس میں پڑھایا گیا ہے ہمیں۔

یوسف اور کس والا؟سیاہ فام لڑکی کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔

یوسف اور زلیخا والا قصہ۔

عزیز مصر کی بیوی کا نام زلیخا تھا؟

کیا نہیں تھا؟وہ کنفیوژڈ ہو گئی۔

کوئی دلیل ہے تمہارے پاس کوئی حجت؟

دلیل حجت؟ وہ ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ہمارے کورس کی گائیڈ بک میں لکھا تھا۔

کورس کی گائیڈ بک ۔ انسان کی بات ہے اور انسانوں کی بات میں دلیل نہیں ہوتی۔ دلیل بس قرآن اور حدیث سے بیان کی جاتی ہے ، کیونکہ دونوں نازل خداوندی ہوتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں اور اسرائلیات میں کہیں بھی نہیں بتایا گیا کہ اس عورت کا نام زلیخا تھا۔ اس کا لہجہ نرم تھا، مصر کی اس عورت سے ایک جرم سرزد ہوا تھا۔ مگر اللہ نے اس کا پردہ رکھ لیا تھا۔ اس کا فعل تو بتایا پر نام نہیں، پر جس چیز پر اللہ پردہ رکھے وہ کھل نہیں سکتا۔ مگر ہم نے یوسف و زلیخا کے قصے ہر مسجد و منبر پر جا کے سنائے۔ ہم کیسے لوگ ہیں ؟

ہیں تو کیا اس کا نام زلیخا نہیں تھا؟ وہ ساری خفگی بھلا کر حیرت سے پوچھ رہی تھی۔

اس کا نام ایک راز ہے اور اللہ وہ راز نہیں کھولنا چاہتا۔ سو یہ ہمیشہ راز ہی رہے گا۔

اچھا۔ اس نے شانے اچکائے۔ پہلی بار اسے اپنی کم علمی کا احساس ہوا تھا مگر یہ ماننا اس کی انا کی شکست تھی۔ سو لا پرواہی سے ادھر ادھر دیکھتے بولی۔

بہرحال مجھے افسوس ہے قرآن کو لے کر تمہارا کانسیپٹ غلط ہے۔ یہ کتاب وہ نہیں ہے جیسا تم سمجھتی ہو۔

اور اگر یہ وہ نہ ہوئی جیسا تم اسے سمجھتی ہو تو؟

میں سہی ہوں مجھے سب پتہ ہے۔

تمہیں جو کوئی اس نور کی طرف بلائے گا تم اسے ایسا ہی کہو گی؟

مگر تم نے یہ تو نہیں بتایا تھا کہ یہ قرآن ہے۔ تم نے تو کچھ اور قصے سنئے تھے آخر کیوں ؟

اگر میں تمہیں تبلیغ کرتی تو تم مجھ سے اکتا کر دوہ بھاگ جاتی۔

اب بھی تو یہی ہو گا۔ وہ جتا کر بولی تو سیاہ فام لڑکی نے مسکرا کر سر جھٹکا۔

لیکن اب تمہاری حجت تمام ہو چکی ہے آگے تمہاری مرضی۔

ایک سیاہ مرسڈیز زن کر کے ان کے سامنے سے گزری۔ تھوڑی دور جا کر اس کے ٹائر چرچرا کر رکے اور وہ تیزی سے ریورس ہوئی۔ محمل نے چونک کر دیکھا۔

ڈرئیونگ سیٹ پر فواد تھا۔

وہ حیران سی کھڑی ہوئی۔ وہ اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا۔

وہ جیسے کھل کے مسکرائی اور بینچ پر رکھا بیگ کندھے پر ڈالا۔ سیاہ فام لڑکی نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا، اور پھر محمل کی مسکراہٹ کو۔

تمہارے پاس دو راستوں کا انتخاب تھا۔ مصحف یا دل۔ تم نے اپنا انتخاب کر لیا۔ مگر مجھے ساری زندگی افسوس رہے گا۔ کہ میں تمہیں مصحف کی طرف نہیں لا سکی۔ اب تمہیں جو بھی لے آئے میرا اس میں کوئی حصہ نہ ہو گا۔ لیکن میں ہمیشہ تمہارے لیئے دعا کروں گی۔

سیاہ مصحف والی کتاب کو سینے سے لگائے اپنے بیگ کو کندھے سے لٹکائے خالی سڑک پر ایک جانب چل پڑی۔ محمل نے دیکھا وہ لنگڑا رہی تھی۔ وہ سر جھٹک کر گاڑی کی طرف چل دی۔

جی فواد بھائی؟اسنے فرنٹ سیٹ والے کھلے شیشے سے جھک کر پوچھا۔

آؤ بیٹھو۔

مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ متذبذب ہوئی۔ گھر تو کالج کا کہہ کر آئی تھی۔

کالج کیوں جانا ہے ؟

ایسے ہی فرینڈز گیٹ ٹو گیدر کر رہی ہیں۔

پھر کبھی چلی جانا ابھی بیٹھو۔ ! وہ حکم دے کر جیسے کچھ سننے کے موڈ میں نہ تھا۔ وہ مسکراہٹ دبائے بیٹھی اور دروازہ بند کیا۔

ونڈ اسکرین کے اس پار سیاہ فام لڑکی لنگڑا کر جاتی ہوئی دور ہوتی جا رہی تھی۔

محمل کو نہیں پتہ تھا وہ اسے اس اداس صبح میں آخری بار دیکھ رہی ہے۔ اس کا نام کیا تھا وہ کدھر سے آئی تھی وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ مگر اس لمحے اسے جاتے دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ وہ بس اسٹاپ پر بس کے لیئے نہیں آتی تھی۔ اور شاید اس کے بس پکڑ لینے کے بعد یونہی چلی جاتی تھی۔

ہم کہاں جا رہے ہیں فواد بھائی؟فواد نے گاڑی آگے بڑھائی تو وہ پوچھ بیٹھی۔

تم مجھے بھائی کہنا چھوڑ نہیں سکتی؟

وہ کیوں ؟دھڑکن بے ترتیب ہوئی مگر وہ سادگی سے بولی تھی۔

ایسے ہی۔

پر ہم جا کہاں رہے ہیں ؟

آفس بتایا تو تھا۔ اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھے۔ ذرا سا چہرہ اس کی طرف موڑا اور مسکرایا۔

آفس؟اب کے وہ واقعتاً حیران ہوئی تھی۔ مگر آغا جان نے تو منع کیا تھا۔

ان سے تو میں نے رسماً پوچھا تھا۔ وہ لاپروا تھا۔

اور حسن بھائی نے بھی۔

جہنم میں گیا حسن تم آفس جانا چاہتی ہو کہ نہیں ؟

جانا چاہتی ہوں اس کے بگڑنے پر وہ جلدی سے بولی۔

وہ کھل کر مسکرادیا۔

ایسے ہی اعتماد سے زندگی گزارو گی تو خوش رہو گی ورنہ لوگ تجھے ہضم کر جائیں گے۔ زندگی سے اپنا حصہ وصول کرنا سیکھو لڑکی!۔ وہ بہت موڈ میں ڈرائیو کر رہا تھا۔ اور وہ یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اسے تو کچھ بھی کرنا نہ پڑا تھا اور قسمت اس پر مہربان ہو گئی تھی۔

اور یہ جوڑا تم نے پہن رکھا ہے میں غالباً پچھلے دو سال سے دیکھ رہا ہوں۔

تین سال سے اس نے تصحیح کی۔

امیزنگ۔ یہ تمہاری کزنز تو 3 بار سے زیادہ جوڑا نہیں پہنتی اور تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ تین سال پہلے عید پر بنوایا تھا۔ محمل نے کرتے کے دامن پر ہاتھ پھیرتے بغور اسے دیکھا۔

میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ نئے جوڑے بنوا سکوں۔ آغا جان تو بس عید کے عید کپڑے بنوانے کے پیسے دیتے ہیں۔ اس کا دل نہ جانے کیوں بھر آیا۔ آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو پھسلے تھے۔

ارے نہیں محمل ایسے نہیں روتے۔ اس کے رونے پر وہ پریشان سا ہو گیا اور گاڑی سائیڈ پر روک دی۔ میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا۔ اور جب تک میں ہوں تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس نے سر اٹھایا تو بھوری آنکھیں بھیگی ہوئی تھی۔

اور ابھی آفس نہیں جاتے جناح سپر چلتے ہیں۔ وہاں سے تمہارے لیئے ڈیزائنر وئر لیں گے۔ تم بہت خوبصورت ہو محمل۔ تمہیں خوبصورت چیزیں ہی پہننا چاہیئے۔ وہ اس کے بہت قریب مخمور سا کہہ رہا تھا۔ پھر چونکا اور سیدھا ہو کر انگنیشن میں چابی گھمائی۔ وہ سر جھکائے ہتھیلی کی پشت سے گیلے رخسار رگڑنے لگی۔ ایک دلفریب مسکراہٹ اس کے لبوں پر بکھر گئی۔ اگر جو تائی ماں کو پتہ چلے کہ ان کا یہ ولی عہد میرے آنسوؤں کی اتنی پرواہ کرتا ہے تو کتنا مزہ آئے۔

فواد ترپ کا وہ پتا تھا جس کے ذریعے اس نے ان سب سے انتقام لینا تھا۔

وہ اسے ڈیزائنر آؤٹ لٹس پر لے گیا۔ محمل ایک دو دفعہ ہی ندا سامیہ کے ساتھ یہاں آئی تھی۔ رنگوں خوشبوؤں اور خوابوں کی سر زمین۔ چمکتے سنگ مر مر کے فرش اور قیمتی ملبوسات۔ اسے لگا وہ کسی خواب میں چل رہی ہے۔ سب کچھ جیسے واقعی اس کے قدموں میں ڈھیر ہو چکا تھا۔

٭٭٭



آج کل ایسی شڑٹس کا فیشن ہے۔ اور جیسی کرتیاں پہنتی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک تنقیدی نگاہ اس پر ڈال کر اس نے ایک جدید تراش خراش کے لباس کا ہینگر اتارا اور اس کے کندھے کے ساتھ لگایا۔ ہوں یہ ٹھیک ہے ! تمہیں کیسا لگا؟

اچھا ہے وہ تو جیسے بول ہی نہیں پا رہی تھی۔

یہ پیک کر دیں۔ اس نے ہینگر بے نیازی سے سیلز گرل کی طرف بڑھایا اور دوسرے ریک کی طرف بڑھ گیا۔

سدرہ کی منگنی کے لیے بھی کوئی نیا جوڑا تو لینا ہی ہو گا نا؟

سدرہ باجی کی منگنی؟وہ چونکی۔

ہاں اس کا رشتہ طے ہو گیا ہے اور نیکسٹ سنڈے اس کی منگنی ہے۔ تمہیں نہیں پتہ؟وہ فارملز کے ریک پر کپڑے الٹ پلٹ کر رہا تھا۔

نہیں۔ وہ گھر میں غائب دماغ رہتی تھی۔ یا تائی اماں لوگوں نے بات چھپا کر رکھی تھی۔ وہ فیصلہ نہ کر سکی۔

یہ منگنی کے فنکشن کے لیئے لے لو اچھا ہے نا۔ اس نے ایک نارمل سا جوڑا نکال کر اس سے پوچھا۔

محمل اس کے قریب چلی آئی۔

پی کاک گرین رنگ کی سیدھی لمبی سی شرٹ اور ساتھ سلور چوڑی دار پائجامہ۔ گہرے سبز رنگ کی قمیض کے گلے اور دامن پر بھی موتیوں کا نازک کام تھا۔

ٹیپکل نہیں ہے، پر بہت کلاسک ہے۔ یہ بھی پیک کر دیں۔ اس کے چہرے پر پسندیدگی دیکھ کر اسے بھی سیلز گرل کو تھما دیا۔

بس بہت ہے فواد بھائی۔ میں یہ سب کیسے لے کے جاؤں گی گھر؟جب وہ اگلے بوتیک کی طرف بڑھا تو اس نے گھبرا کر روکا۔

واقعی یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ چلو پھر کوئی چھوٹی موٹی چیزیں لے لیتے ہیں۔ جوتے، پرفیومز، کاسمیٹکس، جیولری.سبز اور سلور جوڑے کے ساتھ میچنگ کانچ کی چوڑیاں دلوا کر اس کے بصد اسرار بالآخر فواد نے بس کر دی۔

میرا دل کرتا ہے محمل میں تمہیں پوری دنیا خرید کر دے دوں۔ پتہ نہیں کیوں وہ فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اور وہ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے گم صم سی اسے دیکھ رہی تھی۔ یہی سب تو چاہا تھا اس نے پر کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی آسانی سے ہو جائے گا۔

پھر وہ اسے فیکٹری لے آیا۔

ہیڈ آفس میں پاپا اور حسن ہوتے ہیں۔ اسد چچا اور غفران چچا پنڈی والی برانچ میں ہوتے ہیں۔ جبکہ میں فیکٹری سائیڈ پر ہوتا ہوں۔ تم آج سے روز ادھر میرے ساتھ کام کرو گی۔ میں تمہیں آہستہ آہستہ سب کام سکھا دوں گا ٹھیک؟

ٹھیک ہے مگر میں گھر میں کیا کہوں گی؟

تم ٹیوشن پڑھانے جاتی ہو نا؟تو بس تمہیں ایک ٹیوشن اور مل گئی ہے۔ جس کی پر سے تم نے اتنی ساری شاپنگ کر لی۔ مسرت چاچی کو شاپنگ کے بارے میں یہی کہہ دینا اور باقیوں کو کچھ دکھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے رائٹ؟اب چائے لو گی یا کافی؟وہ سیٹ سنبھالتے بے نیازی سے ہدایت دیتا فون کی طرف بڑھا تو وہ طمانیت سے مسکرا دی۔

کافی اور اس کے مقابل کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔

گڈ وہ بھی مسکرایا۔ مسکراتے ہوئے وہ بہت اچھا لگتا تھا۔

اس دن فواد نے اسے کوئی کام نہیں کرنے دیا۔ بس ادھر بیٹھ کر مجھے آبزرو کرو اور سیکھو۔ کہہ کر اسے اپنے سامنے بٹھا لیا۔ کام کرتے کرتے گاہے بگاہے وہ اسے مسکرا کر دیکھتا تو وہ ہنس پڑتی۔

وہ دن اس کو اپنی زندگی کا یادگار دن لگا۔ اماں مجھے دوسری ٹیوشن بھی مل گئی ہے سو اب صبح جایا کروں گی۔

مسرت اپنے کاموں میں الجھی تھیں سو اس نے دھیان نہ دیا اور اس نے سارے کپڑے اور چیریں الماری میں راکھ دیں۔

پھر روز کا یہی معمول بن گیا۔ نادیہ کے والد کی اکیڈمی سے اس نے مہینے بھر کی چھٹی لے لی۔ اور صبح سے شام ڈھلے فواد کے ساتھ فیکٹری چلی جاتی تھی۔ اس نے آغا جان سے پیسے مانگنے چھوڑ دیئے تھے۔ اور جب سدرہ کی منگنی کے کپڑے بنوانے کے لئیے آغا جان نے چند سو روپے دینے چاہے۔ تو اس نے بے نیازی سے انکار کر دیا۔

تھینک یو آغا جان پر میرے پاس پہلے ہی بہت ہیں۔ تین تین ٹیوشنز پڑھا رہی ہوں میرے خرچے پورے ہو ہی رہے ہیں۔ پھر بھی اگر چاہیئے ہوں گے تو آپ سے مانگ لوں گی۔ آغا جان اور تائی مہتاب نے پھر کبھی اس کے شام کو گھر آنے پر اعتراض نہیں کیا۔ محمل ان سے پیسوں کا مطالبہ نہیں کرتی انہیں اور کیا چاہیئے تھا۔

٭٭٭



سیڑھیوں کے ساتھ لگے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی وہ کان میں جھمکا پہن رہی تھی۔ جھمکا چاندی کا تھا اس کے سلور چوڑی دار پائجامے جیسا۔ اور سبز قمیض پر بھی ایسا کام تھا۔ اور دوپٹہ تو ایسا تھا جیسے سبز آسمان پر تارے بکھرے ہوں۔ چھوٹی آستین سے اس کے نرم گداز بازو نمایاں تھے۔ اور گوری کلائی میں سبز اور سلور چوڑیاں۔ ہلکا سا میک اپ اور سنہرے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ سیڑھیوں کے ساتھ لگے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی وہ کان میں جھمکا پہن رہی تھی۔ جھمکا چاندی کا تھا اس کے سلور چوڑی دار پائجامے جیسا۔ اور سبز قمیض پر بھی ایسا کام تھا۔ اور دوپٹہ تو ایسا تھا جیسے سبز آسمان پر تارے بکھرے ہوں۔ چھوٹی آستین سے اس کے نرم گداز بازو نمایاں تھے۔ اور گوری کلائی میں سبز اور سلور چوڑیاں۔ ہلکا سا میک اپ اور سنہرے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔

جھمکا کان میں جا کے ہی نہیں دے رہا تھا۔ وہ چوڑیوں بھرے دونوں ہاتھوں سے کان کے سوراخ میں جھمکا ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سب باہر لان میں جمع تھے۔ منگنی کا فنکشن سروع تھا بس ایک اس کی تیاری باقی تھی۔

اف او۔ اس نے جھلا کر جھمکا کان سے ہٹایا۔ کان کی لو سرخ پر چکی تھی۔

اب کیا کروں ؟

اسی پل آئینے میں اس کے سامنے فواد کا چہرہ ابھرا

فواد بھائی آپ ادھر۔ وہ حیران سے پلٹی۔ سب تو باہر ہیں۔

تم بھی تو ادھر ہو۔ وہ اس کے بالکل سامنے آ کھڑا ہوا۔ بلیک سوٹ میں وہ اتنا سمارٹ بندہ بنا پلک جھپکے مبہوت سا اسے دیکھے جا رہا تھا۔ اس کی نظریں بلا ارادہ ہی جھک گئیں۔

تم کتی خوبصورت ہو محمل۔

محمل کا دل زور سے دھڑکا۔ اس نے بمشکل پلکیں اٹھائیں۔ وہ ان ہی مخمور نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظروں کی حدت سے اس کے رخسار سرخ پڑنے لگے تھے۔

وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جھمکا پہنا نہیں جا رہا۔ وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھ کر بولی۔

ادھر دکھاؤ۔ فواد نے اس کے ہاتھ سے جھمکا لیا ذرا سا جھکا۔ ایک ہاتھ سے اس کا کان پکڑا اور دوسرے سے جھمکا ڈال دیا۔

لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنی سی بات تھی اور تم نے پورا کان سرخ کر ڈالا۔ اس نے نرم لہجے میں کہتے ہوئے اس کے بھورے بالوں کو چھوا اور پیچھے ہٹ گیا۔ وہ بھی سنبھل کر جھمکے کا سہارا لگانے لگی۔

ایک دم ہی فواد کچھ کہے بنا باہر چلا گیا۔ اور وہ پیچھلے لمحے کے فسوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ چونک کر پلٹی وہ دروازہ بند کر کے جا چکا تھا۔

یہ کیا؟ وہ الجھ کر آئینے کی طرف پلٹی تو ٹھٹھک گئی۔ حسن سیڑھیوں کے اوپر کھڑا تیکھی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

وہ گڑبڑا کر جلدی سے بالوں میں برش پھیر کر جانے لگی۔ مگر حسن سیڑھیاں تیز تیز پھلانگتا نیچے آیا اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اگر آج کے بعد میں نے تجھے فواد کے دس فٹ کے قریب بھی دیکھا تو ٹانگیں توڑ گھر بٹھا دوں گا۔ سمجھیں۔ غصے سے اس کی کلائی پکڑ کر اس نے اتنی زور سے جھٹکا دیا کہ اس کی چیخ نکل گئی۔

حسن بھائی۔ ۔ ۔

آئی سمجھ کہ نہیں ؟ اس نے دوبارہ جھٹکا دے کر اس کی کلائی چھوڑی۔ اور ایک غصیلی نگاہ ڈال کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔

وہ ساکت سی اپنی جگہ پر کھڑی رہ گئی۔ اس نے سبز چوڑیوں والی کلائی پکڑی تھی۔ اور آدھی سے زیادہ چوڑیاں تڑ تڑ ٹوٹ کر گرنے لگی تھی۔ بہت سا کانچ اسے چبھ گیا تھا۔ اور جگہ جگہ سے خون کے قطرے رسنے لگے تھے۔

یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسن بھائی۔ انہیں کیا ہوا؟ وہ دکھ سے اپنی کلائی دیکھتی رہ گئی تھی۔ سبز کانچ کے ٹکڑے زمین پر بکھرے پرے تھے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

یتیم ہونے کا یہ مطلب تھا۔ جس کا دل چاہے اس پر ہاتھ اٹھائے۔ وہ آنسو پیتی اندر کے زخموں کو بمشکل مرہم لگاتی زمین سے کانچ چننے لگی۔ دل چاہ رہا تھا وہ بہت روئے مگر خود کو سنبھالتے وہ دوسری چوڑیاں پہن کر باہر آ گئی۔

سدرہ بڑے صوفے پر دلہن کی طرح سجی سنوری بیٹھی تھی۔ عام سی شکل کی سدرہ بہت میک اپ کے بعد بھی عام سی ہی لگ رہی تھی۔ اس کا منگیتر خاصا موٹا تھا۔ اور خاصا شرمایا ہوا بھی۔ اس میں کچھ ایسا نہیں تھا کہ کوئی متاثر ہوتا۔ اور ندا سامیہ مسکرا مسکرا کر جلے ہوئے تبصرے بھی کر رہی تھیں۔ سننے میں آیا تھا وہ مہتاب کی کسی سیکنڈ کزن کا بیٹا تھا۔ یہی اسلام آباد میں ایک اچھی پوسٹ پر کام کر رہا تھا۔ جانے کب رشتہ آیا اور ہاں ہوئی۔ اسے اور مسرت کو تو غیروں کی طرح خبر دی گئی۔

لان میں قمقموں اور روشنی کی بہار تھی۔ وہ جس وقت باہر آئی اس وقت رسم ہو رہی تھی۔ اور سمدھنیں ایک دوسرے کو مٹھائی کھلا رہی تھی سب ہنس بول رہے تھے۔

وہ خاموشی سے گھاس پر چلتی ہوئی ایک کرسی پر آ بیٹھی۔ اس کا دل اداس اور آنکھیں غمگین تھیں۔

فواد بھی وہیں اسٹیج پر کسی بات پر ہنستا ہوا اپنے بہنوئی کو مٹھائی کھلا رہا تھا۔ محمل نے اردگرد متلاشی نگاہوں سے دیکھا۔ اسٹیج کے سامنے گھاس پر ساڑھی میں ملبوس فضہ اپنی کسی جاننے والی خاتون سے حسن کا تعارف کروا رہی تھی۔ حسن کا بازو تھامے بہت فخر سے وہ حسن کے بارے میں بتا رہی تھی۔ اور وہ مسکراتے ہوئے اس عورت سے بات کر رہا تھا۔ اس نے بھی بلیک ڈنر سوٹ پہن رکھا تھا۔ اور بلا شبہ وہ بھی بہت گڈ لکنگ تھا۔

محمل نے اسے دیکھا۔ اس پل اسے حسن سے بڑا منافق اور دوغلا بندہ کوئی نہ لگا۔ حسن نے اس کی نازک کلائی کو ہی نہیں اس کے دل کو بھی زخمی کیا تھا۔ سارے فنکشن کا مزہ خراب کر دیا تھا۔ وہ اتنی بد دل اور غم زدہ ہو کے بیٹھی تھی کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کب وسیم اس کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا۔

آج کتنوں کو گرانے کا ارادہ ہے سرکار؟وہ ایک دم پاس آ کر بولا تو وہ اچھلی۔ وہ اپنے ازلی لوفرانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔

بڑے لشکارے ہیں چھوٹی کزن، خیریت؟ وہ معنی خیز مسکرایا تو وہ گھبرا کر اٹھی۔ اور لڑکیوں کے گروپ کی طرف بڑھ گئی۔ ساتھ ہی بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی۔ وسیم ادھر ادھر گھومتے مسلسل اسے اپنی نگاہوں کے حصار میں لیئے ہوئے تھا۔ ۔

وہ بچتی بچاتی لوگوں میں ہی گھری رہی۔ وہ سب کزنز بہت خوش اور ایک ساتھ مکمل نظر آ رہے تھے۔ صرف وہ ایک فالتو کردار تھی۔ حالانکہ کتنی ہی عورتوں نے پوچھا تھا یہ سبز اور سلور سوٹ والی لڑکی کون ہے۔ وہ تھی ہی اتنی منفرد اور دلکش اور ہر شئے سے بے خبر وہ سارا وقت افسردہ ہی رہا۔

سدرہ کی منگنی پر جتنے شغل اور مزے کا اس نے سوچا تھا۔ اس سے بڑھ کر بد مزہ ہوئی تھی۔

٭٭٭



فواد اسے آفس میں چھوٹے موٹے کام دینے لگا۔ زیادہ تر سپر وژن کا کام دیتا۔

یہ ڈرافٹ بنانا ہے۔ اپنی نگرانی میں فنانس کے ذاکر صاحب سے بنوا لاؤ۔ اس چیک پر سائن کروانا ہے مفتی صاحب سے کروا لاؤ۔

اور یہ سارے کام بہت اعتماد طلب ہوتے ہیں۔ اسے اچھا لگتا تھا وہ اس پر بھروسہ کرتا ہے۔ اس کا خیال کرتا ہے۔ وہ ایک ساتھ ہی لنچ کرتے تھے۔ باقی وقت وہ آفس میں کام کرتا اور محمل اپنے کیبن میں بیٹھی دوسروں کا بغور مشاہدہ کرتی۔ کبھی کبھی اسے احساس ہوتا کہ اتنے دن گزر جانے کے بعد نہ تو وہ کام کو ٹھیک سے سمجھ پائی اور نہ ہی فواد کے زیادہ قریب آ پائی۔ وہ ہمیشہ اس کی پسند کی چیزیں منگواتا۔ اس سے اس کے مشاغل اور سٹڈی کے بارے میں ہلکی پھلکی گپ شپ بھی کرتا۔ مگر اس شام آئینے کے سامنے جھمکا پہنانے جیسی بے خودی اور جرأت دوبارہ نہیں کی تھی۔

اس روز صبح فواد کے ساتھ آفس نہیں گئی تھی۔

دوپہر میں اسٹاپ پر آنا میں پک کر لوں گا۔

آج مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ وہ صبح دھیرے سے کہہ گیا تھا۔ اور اب وہ مسرور دوپہر کا انتظار کرتی اوپر ٹیرس پر بیٹھی چائے پی رہی تھی۔

جانے فواد کو کیا بات کرنا تھی۔ اتنا کیا خاص کام تھا۔ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے چائے کے سپ لیتی سوچ رہی تھی۔ نگاہیں یونہی ساتھ والوں کے لان میں بھٹک رہی تھیں۔ وہاں گھاس پر سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ اور ان پر سفید شلوار قمیض اور سفید ٹوپی پہنے مدرسے کے بچے ہل ہل کر قرآن پاک پڑھ رہے تھے۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی میز پڑی تھی جس پر ایک بڑا قرآن پاک اور کچھ سپارے پڑے ہوے تھے۔ ساتھ ہی اگر بتیاں جل رہی تھیں۔

وہ بلا ارادہ ہی بڑے بند قرآن کو دیکھے گئی۔ ذہن کے نہاں خانوں سے وہ چہرہ نکل کر اس کے کے سامنے آ گیا۔

سیاہ فام لڑکی کا چہرہ۔ سیاہ آنکھیں اور موٹے موٹے سیاہ ہونٹ۔ وہ مصحف کو سینے سے لگائے لنگڑاتے ہوئے سڑک پر دور جا رہی تھی۔ کبھی کبھی اسے لگتا۔ جاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ کیوں رو رہی تھی اسے سمجھ نہیں آئی تھی۔ اسی طرح بچے ہل ہل کر سیپارے پڑھ رہے تھے۔ اس نے دیکھا کونے پر بیٹھے ہوئے ایک بچے نے صفحہ پلٹتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا اور دو تین صفحے ایک ساتھ پلٹ دئیے۔ اور پھر بلند آواز میں لہک لہک کر پڑھنے لگا۔

نہ چاہتے ہوئے بھی محمل ہنس دی۔ وہ چھوٹا سا بچہ اپنی دانست میں آس پاس کے لوگوں کو دھوکہ دے رہا تھا یا پھر رب کو وہ جان نہیں بائی۔

بچے آہستہ آہستہ اٹھ کر سیپارے رکھنے لگے۔ یہاں تک کہ سارے سیپاروں کا واپس ڈھیر میز پر لگ گیا۔ تو قاری صاحب نے پاس کھڑے ملازم کو بلایا۔

قرآن خوانی ہو چکی ہے بریگیڈئیر صاحب کو بلا دیں آ کر دعا میں شرکت کر لیں۔ ملازم سر ہلا کر اندر چلا گیا۔ وہ فواد کو بھول کر دلچسپی اور تجسس سے ریلنگ پر جھکی ساری کاروائی دیکھنے لگی۔

سر کہہ رہے ہیں وہ بزی ہیں دعا میں شرکت نہیں کر سکتے۔ مگر آپ کا شکریہ کہ آپ نے قرآن پڑھا دیا۔ سر کہہ رہے ہیں کہ انہیں سکون نہیں ہے باقی سب ٹھیک ہے۔ بس یہی دعا کروا دیں کے انہیں سکون مل جائے۔

قاری صاحب نے گہری سانس لی اور دعا کے لیئے ہاتھ اٹھا لیئے۔

وہ جیسے شاکڈ سی سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ دل میں نا معلوم افسوس سا اتر آیا تھا۔ ایک عجیب سا احساس ندامت، عجیب سی بے کلی۔ وہ اس احساس کو کوئی نام تو نہ دے پائی پر کپ اٹھا کر نیچے آ گئی۔

اور پھر دوپہر کو وہ اس واقعے کو بھول بھال چکی تھی۔ اسٹاپ پر ٹائم پر فواد کی مرسڈیز آتی دکھائی دی۔ تو وہ خوش اور پر شوق بینچ سے اٹھی۔

کیسی ہو؟ وہ دروازہ کھول کر اندر بیٹھی تو وہ مسکرا کر، جیسے بے تابی سے پوچھ رہا تھا۔

ٹھیک ہوں فواد بھائی آپ کیسے ہیں ؟وہ سادگی سے کہہ کر بیگ کندھے سے اتار کر پیچھے رکھنے لگی۔ اپنے انداز سے اس نے کبھی ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ فواد کے جذبات تک رسائی حاصل کر چکی ہے۔ وہ خود کو ہمیشہ اس کے احسانوں کے بوجھ تلے ممنون ظاہر کرتی۔

آج کا دن بہت اسپیشل ہے محمل۔ وہ کار سڑک پر ڈال کے بہت جوش سے بتا رہا تھا۔ آج مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے۔

جی کہیئے ؟

اونہوں ابھی نہیں۔ ابھی سرپرائز نہیں کھول سکتا۔

اچھا۔ ایسا کیا ہے فواد بھائی۔

تم خود دیکھ لینا۔ خیر ابھی تو ہم شاپنگ پر جا رہے ہیں۔ تمہارے لیئے کچھ بہت سپیشل لینا ہے۔ ۔

کپڑے، مگر ابھی تو کوئی فنکشن قریب نہیں ہے۔

ہے نا! آج ہے کچھ خاص

اچھا کون کون ہو گا ادھر؟

میں اور تم۔ اس نے موہوم سا مسکرا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔

آفس میں ؟ وہ کچھ کچھ سمجھ رہی تھی۔ مگر انجان بنی رہی..

اونہوں میرٹ میں آج ہم ساتھ ڈنر کریں گے۔

میرٹ لمحے بھر کو تو وہ سانس لینا بھول گئی تھی۔ میرٹ میں ڈنر تو کیا اس نے تو کبھی میرٹ کی اندر سے شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ لیکن پھر ڈنر کا لفظ اسے ذرا پریشان کر گیا۔

میں اتنی رات کو کیا کہہ کر باہر رہوں گی فواد بھائی؟

نہیں ہم جلدی آ جائیں گے۔ اور آج رات میں خود تمہیں گھر لے کر جاؤں گا مگر تمہارے جواب کے بعد۔

جواب؟کس چیز کا جواب؟

کچھ پوچھنا ہے تم سے۔

اس کا دل زور سے دھڑکا۔ کیا وہ جو سمجھ رہی تھی صحیح تھا؟

مگر کیا؟

یہ تو وہی بتاؤں گا۔ آؤ کچھ کپڑے لیتے ہیں تمہارے۔ وہ کار پارک کر کے سیٹ بیلٹ ہٹا رہا تھا۔

مگر یہ ٹھیک تو ہے۔ اس نے معمولی سا احتجاج کیا۔

اونہوں آج تمہیں اسپیشل تیار ہونا پڑے گا۔

اس کے انداز میں نرم سی دھونس تھیں۔ وہ ہنس کر اچھا کہتے نیچے اتری۔

وہ اسے ایک خاصے مہنگے بوتیک میں لے گیا۔

کپڑوں سے زیادہ کپڑوں کی قیمتیں ہو اڑا رہی تھی۔ وہ خود ہی آگے بڑھ کر کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ پھر رک کر پوچھا تمہیں ساڑھیاں پسند ہیں محمل؟

ساڑھیاں وہ حیران ہوئی۔ جی مگر وہ بہت فارمل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کوئی اگر مگر نہیں، یہ ساڑھی دیکھو، کیسی ہے۔

اس نے ایک سیاہ ساڑھی آگے کی سیاہ شفون کی ساڑھی پر سلور مقیش بکھری تھی۔ یہ اتنی خوبصورت جھلملاتی ساڑھی تھی کہ نظریں خیرہ کرتی تھیں۔

اچھی ہے مگر بہت قیمتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تم سے زیادہ قیمتی نہیں ہے یہ پیک کر دیں۔

پھر میچنگ جوتے اور ایک ناک سلور نگوں والا آرٹیفشل سیٹ لیتے خاصا وقت لگ گیا۔ دوپہر ڈھلنے لگی تھی جب وہ ایک جیولری کی شاپ میں داخل ہوئے۔ گولڈ اینڈ ڈائمنڈ جیولری شاپ میں محمل کا دل ور سے دھڑکا تھا۔ کیا فواد اس کے لیئے کچھ اتنا قیمتی لینے جا رہا تھا؟کیا وہ اس کے لیئے اتنی خاص تھی؟

ڈائمنڈ رنگز دکھائیے۔ وہ کرسی کھینچ کے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا قدرے تحکم و رعب سے بولا تو محمل تو سانس لینا بھول گئی۔ خدا اس طرح چھپر پھاڑ کر بھی مہربان ہوتا ہے۔ اسے آج پتہ چلا تھا۔

معمر، با ریش سنار صاحب نے فوراً کچھ سیاہ کیس آگے کیئے اور جیس جیسے وہ سیاہ کیس کھولے جا رہا تھا جگر جگر کرتی ہیرے کی انگوٹھیوں سے اس کی آنکھیں چندھیا رہی تھی۔

سر solitaire میں دکھاؤں ؟

ہاں بالکل۔

وہ تو بالکل چپ بیٹھی تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ری ایکٹ کس طرح کرے۔

فواد کو کوئی رنگ پسند نہیں آ رہی تھی۔ وہ اس سے رائے بھی نہیں لے رہا تھا۔ بس دھڑا دھڑ انگوٹھیاں رد کرتا جا رہا تھا۔

یوں کرو تم پہلے تیار ہو جاؤ رنگ بعد میں لے لیں گے۔ شاپ سے نکلتے ہوئے اس نے گھڑی دیکھی۔

میری چھے سے سات ایک میٹنگ ہے۔ بہت ضروری ہے مس نہیں کر سکتا۔ چھے سے سات تمہیں میرے ساتھ آفس میں بیٹھنا پڑے گا۔ اور پھر سات بجے ہم اکٹھے میرٹ کے لیے نکلیں گے۔ سو تم ابھی تیار ہو جاؤ۔

کدھر وہ واقعی حیران ہوئی تھی۔

پارلر میں اور کدھر؟ میں نے تمہارے لیئے اپائنمنت لے لی تھی۔ تم صرف اندر جانا اور وہ تمہیں تیار کر دیں گی۔

وہ اسے قریبی پارلر لے آیا تھا۔ اور پھر ویسے ہی ہوا جیسے اس نے کہا تھا۔ محض ایک گھنٹے بعد جب اس نے پارلر کے قد آدم آئینے میں خود کو دیکھا تو اسے خود پر رشک آیا۔

سیاہ مقیش والی دلکش ساری میں اس کا دراز قد سیاہ و سلور پنسل ہیل کے باعث اور نمایاں ہو گیا تھا۔

لمبی صراحی سی گردن اونچے جوڑے کے باعث بے حد دلکش لگ رہی تھی۔ جوڑے سے کچھ لٹیں گھنگھریالی کر کے اس کی گردن اور چہرے پر جھول رہی تھیں۔ لائٹ لپ اسٹک کے ساتھ بلیک اسموکی آئیز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بلیک بلاؤز کی چھوٹی بازو سے جھلکتے اس کے بے حد گورے سنہرے بازو۔ ذرا سی محنت سے وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ خود کو دیکھ دیکھ کر اس کا دل نہیں بھر رہا تھا۔

وہ باہر آئی تو وہ جو اس کے انتظار میں گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ایک دم سیدھا ہوا۔ اور پھر مبہوت سا دیکھتا رہ گیا۔ وہ ساڑھی کا پلو انگلی پر لپیٹے احتیاط سے پارلر کی باہر کی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔

اتنی حسین ہو تم محمل؟مجھے اتنے برس پتہ ہی نہیں چلا۔ وہ جیسے متاسف ہوا تھا۔ وہ بے اختیار مسکرا دی۔

تھینک یو، چلیں ؟اس نے آسمان کو دیکھا جہاں شام ڈھلنے کو تھی۔

ہاں میری میٹنگ شروع ہونے میں یادہ وقت نہیں ہے چلو۔ ایک بھرپور مسکراتی نگاہ اس پر ڈال کر وہ کار کا لاک کھولنے ہی لگا تھا کہ اس کا فون بجا۔

اس وقت کون کہتے کہتے اس نے اسکرین کو دیکھا اور جلدی سے سیل کان کے ساتھ لگا لیا۔

جی ملک صاحب؟خیریت؟جی کیا مطلب اس نے لب بھینچ کر کچھ دیر دوسری طرف ہونے والی بات سنی۔ مگر آپ نے ان کو بتایا کہ میں نے . ہی بھیجا ہے ؟ مگر کیوں ؟انہوں نے سائن کیوں نہیں کیے ؟

اس وقت کون کہتے کہتے اس نے اسکرین کو دیکھا اور جلدی سے سیل کان کے ساتھ لگا لیا۔

جی ملک صاحب؟خیریت؟جی کیا مطلب اس نے لب بھینچ کر کچھ دیر دوسری طرف ہونے والی بات سنی۔ مگر آپ نے ان کو بتایا آپ کو میں نے ہی بھیجا ہے ؟ مگر کیوں ؟انہوں نے سائن کیوں نہیں کیے ؟اور اسے ایک دم فواد کے چہرے پر ابھرتی غصے کی لہر دکھائی دی۔ آپ سینئر آفیسر ہیں یا جونیئر انہیں اس سے کیا غرض؟ آپ کو پتہ ہے ملک صاحب اگر انہوں نے فائل سائن نہ کی تو صبح تک ہماری فیکٹری ڈوب جائے گی۔ ہم برباد ہو جائیں گے۔ اس نے رک کر کچھ سنا اور ایک دم بدکا۔ کیا مطلب میں اس وقت کیسے آ سکتا ہوں اتنی دور؟میری میٹنگ ہے صدیق صاحب کے ساتھ۔ چھے سے سات میں ابھی اے ایس پی صاحب سے کیسے مل سکتا ہوں ؟کیا بکواس ہے اس نے جھلا کر فون بند کر دیا۔

کیا ہوا؟ وہ گھبرا کر قریب آئی۔

معلوم نہیں کیا ہو گا اب۔ وہ پریشانی سے دوسرا نمبر پریس کرنے لگا۔ لمحے بھر کو تو وہ جیسے بھول ہی گیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کھڑی ہے۔

جی راؤ صاحب میں نے ملک الیاس کو بھیجا تھا آپ کی طرف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر راؤ صاحب اتنی بھی کیا بے اعتباری؟ اس نے رک کر دوسری طرف سے سنا اور جیسے ضبط کرتا ہوئے بے بسی سے بولا۔ آپ کے اے ایس پی کا دماغ تو ٹھیک ہے ؟اس کا باپ جاگیردار ہو گا گاؤں کا ہم اس کے مزارعے نہیں ہیں۔ بورڈ آف ڈائریکٹر میں سے کسی کے پاس بھی اتنا ٹائم نہیں ہے کہ ان کے ایک فون کال پر بھاگا چلا آئے اور نہ ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لمحے بھر کو رکا اور پھر میں کچھ دیر میں آپ کو بتاتا ہوں۔

کہہ کر وہ اب کوئی اور نمبر ملانے لگا تھا۔ اے ایس پی ہمایوں داؤد نہ جانے کیا مسئلہ ہے اس بندے کا۔

محمل بد دل سی اس کے ساتھ گاڑی کے باہر کھڑی تھی۔ نجانے کیا ہوا تھا۔ دل میں عجیب عجیب سے وسوسے آ رہے تھے۔

خیریت ہے فواد بھائی۔

خیریت ہی تو نہیں ہے۔ اے ایس پی جان کو آ گیا ہے۔ کہتا ہے کمپنی کے مالکوں کو بھیجو تو فائل اپروو ہو گی۔ میں ملازموں سے بات نہیں کرتا۔ اب کس کو بھیجوں ادھر؟ وہ ابھی اسی وقت بلا رہا ہے۔ اور اس کے گھر پہنچنے کے لئے آغا جان یا حسن کو ڈیڑھ گھنٹہ تو لگ جائے گا۔ اور اگر نہ پہنچے تو میرا کروڑوں کا پروجیکٹ ڈوب جائے گا۔

وہ جھنجھلا کر کسی کو بار بار فون ملاتا بہت بے بس لگ رہا تھا۔ اب یہی حل ہے میں ابھی اس کے پاس چلا جاؤں۔ اور واپس آ کر صدیقی صاحب سے میٹنگ کر لوں۔

اور ڈنرکینسل؟اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔

کرنا پڑے گا محمل۔ اس نے ہاتھ روک کر محمل کا تاریک پڑتا چہرہ دیکھا۔ آئی ایم سوری میں یوں تمہیں ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر میری مجبوری ہے۔ وہ ملازم سے بات نہیں کرے گا۔ گھر کے بندے کو ہی جانا پڑے گا۔

میں بھی ملازم ہوں فواد بھائی؟ایک خیال سا محمل کے دماغ میں میں ابھرا۔

کیا مطلب وہ جیسے چونکا۔

اگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر میں آپ کے دو کاموں میں سے ایک کر دوں تو تب تو ہم ڈنر پر جا سکتے ہیں نا؟ وہ ہچکچا کر بولی کہ کہیں برا نہ مان جائے۔

ارے مجھے یہ خیال کیوں نہیں آیا؟تم بھی تو کمپنی کی اونرز میں سے ہو۔ تم بھی تو یہ فائل سائن کروا سکتی ہو۔ بلکہ یوں کرتے ہیں تم فائل کو لے کر ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ۔ جب تک میں صدیقی صاحب سے نپٹ لیتا ہوں۔ اور پھر ڈرائیور تمہیں ہوٹل لے آئے گا ٹھیک؟ اس نے منٹوں میں سارا پلان ترتیب دے لیا۔ وہ گہری سانسیں بھر کے رہ گئی۔

ٹھیک ہے میں پھر چینج کر لوں ؟

نہیں نہیں ایسے ہی ٹھیک ہے۔ اس طرح تو تم واقعی پر اعتماد ایگزیکٹو لگ رہی ہو۔ یہ ساری بزنس وومن فارملی ایسے ہی ڈریس اپ ہوتی ہیں۔ میں ڈرائیور کو کال کر لوں۔

وہ مطمئن تھا مگر محمل کو قدرے عجیب لگ رہا تھا۔ وہ اتنی قیمتی اور جھلملاتی ساڑھی میں کسی فنکشن کے لیئے تیار ہوئی لگ رہی تھی۔ کسی آفیشل معاملے کے لیئے موزوں نہیں۔ لیکن اگر فواد کہہ رہا ہے تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا۔

سارا رستہ وہ پچھلی سیٹ سے سر ٹکائے آنکھیں بند کئے ہیرے کی انگوٹھی کے متعلق سوچ رہی تھی۔ جو فواد نے یقیناً اس کے لیئے لے لی ہو گی۔ اور جب وہ تائی اماں کے سامنے کھڑا محمل سے شادی کا کہہ رہا ہو گا۔

تب تو گھر میں سچی میں طوفان آ جائے گا۔ مگر اچھا ہے۔ ایسا ایک طوفان ان فرعونوں کو لرزانے کے لیئے آنا چاہیئے۔

وہ پرسکون پر اعتماد اور مطمئن تھی۔

گاڑی طویل ڈرائیو وے عبور کر کے پورچ میں داخل ہوئی۔ تو وہ ایک پر ستائش نگاہ خوبصورت سے لان پر ڈال کر گاڑی سے اتری۔

مین ڈور پر جیسے ایک سوٹڈبوٹڈ ادھیڑ عمر شخص جیسے اس کا منتظر کھڑا تھا۔

اے ایس پی ہمایوں داؤد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے ذہن میں اندازہ لگایا۔ اور فائل ہاتھ میں پکڑے اعتماد سے چلتی ان کے قریب آئی۔

میں آغا گروپ آف انڈسٹریز سے۔

جی میڈم محمل ابراہیم۔ آئیے اے ایس پی صاحب آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔ اس نے دروازہ کھول کر راستہ دیا۔ وہ لمحے بھر کو ہچکچائی پھر خود کو ڈپٹتے ہوئے آگے بڑھی۔

روشنیوں سے گھرا بے حد نفیس اور قیمتی سامان سے آراستہ گھر اندر سے اتنا خوبصورت تھا کہ خود کو سنجیدہ رکھنے کے باوجود اس کی نظر بار بار بھٹک کر آس پاس کا جائزہ لینے لگتی۔

اے ایس پی صاحب کدھر ہیں ؟وہ اندر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ اس کے آگے تیز تیز چلتا ہوا لاؤنج میں لے آیا۔ سر یہ پہنچ گئی ہیں۔

اس نے لاؤنج میں قدم رکھا تو ایک شخص کو اپنی طرف متوجہ پایا۔

وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے صوفے پر بیٹھا تھا۔ تھوڑی تھوڑی سی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ اور بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔

بلیک کوٹ میں ملبوس جس کے اندر سفید شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھلے تھے۔ ایک ہاتھ میں اورنج جوس سے بھرا وائن گلاس لیئے وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔

ایک لمحے کو تو محمل کے قدم ڈگمگائے۔ اس کا پالا تو ابھی تک بس گھر کے لڑکوں سے پڑا تھا۔ فواد اور حسن خوش شکل تھے۔ کچھ دولت کی چمک دمک سے بھی سٹائلش لگتے تھے۔ باقی اس کے چچاؤں میں سے بھی کوئی متاثر کن شخصیت کا مالک نہیں تھا۔ جتنا صوفے پر بیٹھا وہ مغرور سا دکھنے والا شخص تھا۔ ہینڈ سم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے حد ہینڈ سم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنا وجیہہ مرد اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مرعوب ہو گئی۔

وہ خاموشی سے اسے بغور جانچتی نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ آ کر سیدھی سامنے والے صوفے پر بیٹھی اور فائل میز پر رکھ دی۔ یہ فائل اپروو کروانی تھی اے ایس پی صاحب۔

وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے اس کے مقابل بیٹھی خاصے اعتماد سے بولی۔ تو وہ ذرا سا مسکرایا اور پاس کھڑے سوٹڈ بوٹڈ شخص کی طرف دیکھا۔ ۔

ان کو آغا فواد کریم نے ہی بھیجا ہے راؤ صاحب؟

مسکرا کر کہتے اس نے جوس کا گلاس لبوں سے لگایا۔

محمل نے چونک کر راؤ کو دیکھا۔

وہ بھی مسکرا دیا تھا۔

کچھ تھا ان دونوں کی معنی خیز مسکراہٹ میں۔ کہ دور اس کے ذہن میں خطرے کا الارم بجا۔

تو آپ فائل اپروو کروانے آئی ہیں ؟وہ استہزائیہ مسکراتی نگاہوں سے کہہ رہا تھا۔ محمل کو الجھن ہونے لگی۔

جی یہ آغا انڈسٹریز کی فائل ہے اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور آپ کی اپنی فائل وہ کہاں ہے ؟اس نے گلاس سائیڈ پر رکھ کر جھک کے فائل اٹھائی۔

میری کون سی فائل؟کچھ تھا جو اسے کہیں غلط لگ رہا تھا۔ کہیں کچھ بہت غلط لگ رہا تھا۔

آپ جائیں راؤ صاحب۔ اس نے فائل کے صفحے پلٹا کر ایک سرسری سی نظر ڈالی۔ اور پھر فائل اس کی طرف بڑھائی۔ محمل لینے کے لیئے اٹھی مگر بہت تیزی سے راؤ صاحب نے آگے بڑھ کر فائل تھامی۔

اور جا کر آغا فواد کے ڈرائیور سے کہیں کہ فائل اپرووڈ ہے صبح انہیں رسید مل جائے گی۔

بہتر سر! راؤ صاحب فائل لے کر پلٹے تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

مجھے دے دیں میں لے جاتی ہوں۔

وہ دونوں ایک دم چونکے تھے۔ اور پھر رک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ ہمایوں نے اشارہ کیا تو راؤ صاحب مسکرا کر باہر نکل گئے۔

آپ بیٹھیئے مادام ڈرائیور دے آئے گا۔

ایک دم ہی اس کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی زور زور سے بجے لگی۔ اسے لگے وہ غلط وقت پر غلط جگہ اور غلط لوگوں میں آ گئی ہے۔ اسے وہاں نہیں آنا چاہیئے تھا۔

نہیں میں چلتی ہوں۔ وہ پلٹنے ہی لگی تھی کہ وہ تیزی سے اٹھا اور زور سے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف گھمایا۔ اس کے لبوں سے چیخ نکلی۔

زیادہ اوور سمارٹ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو کہا جا رہا ہے ویسے ہی کرو۔ اس کے بازو کو وہ اپنی آہنی گرفت میں لیئے غرایا تھا۔ لمحے بھر کو تو زمین آسمان محمل کی نگاہوں کے سامنے گھوم گیا تھا۔

چھوڑیں مجھے۔ وہ سنبھل ہی نہیں پائی تھی کہ ہمایوں داؤد نے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنے سامنے کیا۔

زیادہ چالاکی دکھائی تو اپنے پیروں پر گھر نہیں جاؤ گی۔

مم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے چھوڑیں۔ مجھے گھر جانا ہے محمل نے اسے دھکیلنا چاہا۔ مگر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔

گھر جانا ہے ؟گھر ہی جانا تھا تو یہ اتنا بناؤ سنگھار کس لیئے کیا تھا ہوں ؟

اس نے ہولے سے اس کی ٹھوڑی انگلی سے اوپر کی۔ دوسرے ہاتھ سے کہنی اتنی مضبوطی سے پکڑی تھی کہ وہ ہل نہیں پائی اور گھبرا کر چہرہ پیچھے کیا۔

میں فنکشن پر جا رہی تھی۔ آپ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔ آپ فواد بھائی سے میری بات کروائیں۔ انہیں بتائیں کہ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بھائی؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چونکا آغا فواد تیرا بھائی ہے ؟

جی جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ میرے بھائی ہیں۔ آپ بے شک ان سے پوچھ لیں۔ مجھے یہاں نہیں آنا تھا فواد بھائی کو خود آنا تھا۔ مگر ان کی میٹنگ تھی۔ وہ ایک دم رونے لگی تھی۔ آپ پلیز مجھے گھر جانے دیں میں غلط لڑکی نہیں ہوں میں ان کی بہن ہوں۔

جھوٹ بول رہی ہے۔ راؤ پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔ اسی کو ادھر آنا تھا چار ہفتے پہلے تو ڈیل ہوئی تھی سر اور اسی کے نام سے ہوئی تھی۔ کم عمر خوبصورت اور ان چھوئی۔ آغا نے کہا تھا یہ ہماری ڈیمانڈ پر پوری اترتی ہے۔ راؤ کا لہجہ سپاٹ تھا۔

محمل ابراہیم نام ہے نہ تمہارا؟ تم آغا کی بہن کیسے ہو سکتی ہو؟ وہ تین کروڑ کے نفع کے لیے اپنی بہن کو ایک رات کے لیے نہیں بیچ سکتا۔

اس کے اردگرد جیسے دھماکے ہو رہے تھے۔ اسے بہت زور کا چکر آیا تھا۔ وہ گرنے ہی لگی تھی کہ ہمایوں نے اس کی دوسری کہنی سے پکڑ کر اسے کھڑا رکھا۔

اب سیدھی طرح بتاؤ تم ہمیں بے وقوف بنا رہی ہو یا آغا نے تمہیں بے وقوف بنایا ہے۔ تم محمل ابراہیم ہو اور وہ فواد کریم۔ وہ تمہارا سگا بھائی ہے ؟اتنے عرصے سے لڑکیاں فراہم کر رہا ہے تو کبھی اپنی بہن کا سودا نہیں کیا۔

نہیں۔ اس نے بے یقینی میں نفی میں سر ہلایا۔ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ فواد بھائی میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ میری ان سے بات کروائیں۔ آپ خود سن لینا وہ میرا ویٹ کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک فنکشن پر جانا تھا۔

عام انسان کی طرح محمل کو بھی ہلکی پھلکی جھوٹ کی عادت تو تھی ہی۔ اور اسی پرانی عادت کا کمال تھا کہ اس کے لبوں پر خود بخود ڈنر کی جگہ فنکشن نکلا تھا۔ کہیں لا شعوری طور پر اسے احساس تھا کہ اگر فواد اور اپنے خاص ڈنر کا بتاتی تو وہ اسے بڑی لڑکی سمجھتا۔

راؤ صاحب آغا فواد کو فون ملائیں۔

رائٹ سر! راؤ موبائل پر نمبر ملانے لگا۔

اور اسپیکر آن رکھیں۔ اس نے کہہ کر ایک گہری نظر محمل پر ڈالی۔ جو بے قرار اور ہراساں سی کھڑی راؤ کے ہاتھ میں پکڑے فون کو دیکھ رہی تھی۔

جی راؤ صاحب۔ ؟

ایک دم کمرے میں فواد کی آواز گونجی۔ مال پہنچ گیا؟

پہنچ تو گیا ہے مگر پرزے آواز بہت دیتے ہیں۔ آپ بات کر لیں۔ اس نے فون آگے پڑھا کر محمل کے کان سے لگایا۔

ہیلو فواد بھائی! وہ رو پڑی تھی۔ فواد بھائی یہ لوگ مجھے غلظ سمجھ رہے ہیں۔ آپ پلیز ان کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بکواس مت کرو اور میری بات غور سے سنو۔

تمہیں وہ ڈائمنڈ رنگ چاہیے یا نہیں ؟چاہیئے نا؟تو جیسے اے ایس پی صاحب کہتے ہیں کرتی جاؤ۔

فواد بھائی! وہ حلق کے بل چلائی۔ یہ میرے ساتھ کچھ غلط کر دیں گے۔

وہ جو کرتے ہیں کرنے دو۔ ایک رات کی ہی تو بات ہے۔ اب زیادہ بک بک مت کرنا صبح تمہیں ڈرائیور لینے آ جائے گا۔

ساتوں آسمان اس کے سر پر ٹوٹے تھے۔

وہ ساکت سی کھڑی رہ گئی۔

صرف ایک رات ہی کی تو بات ہے۔ سرف ایک رات ہی کی تو بات ہے۔ اس کی آواز اس کے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔

بس ایک ڈائمنڈ رنگ کا لالچ دیا ہے اس نے تمہیں ؟اور تم تو کہتی ہو وہ تمہارا بھائی ہے ؟فون اس کے کان سے ہٹا کر بند کرتے ہوئے ہمایوں نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا۔

وہ اسی طرح پتھر کا بت بنی کھڑی تھی۔ اس کا ذہن، دل کان آنکھیں سب بند ہو چکے تھے۔

راؤ صاحب پتہ کروائیں یہ واقعی فواد کریم کی بہن ہے یا نہیں ؟ اور اس کی بات میں کتنی سچائی ہے، یہ تو ہم بعد میں خود معلوم کر لیں گے۔ شمس بچل اس نے زور سے آواز لگائی۔

اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے تھے۔ ساکت کھڑے وجود سے سہمی سہمی جان آہستہ آہستہ نکل رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرے بادل چھانے لگے تھے۔

دو گن مین دوڑتے ہوئے اندر آئے تھے۔

شمس اسے اوپر والے کمرے میں بند کردہ، اور دھیان کرنا بھاگ نہ پائے بچل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ اس کا فقرہ مکمل ہوتا محمل چکرا کر گری اور اگر اس نے اسے دونوں بازوؤں سے تھام نہ رکھا ہوتا تو وہ نیچے گر پڑتی۔

محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل! وہ اس کا چہرہ تھپتھپا رہا تھا۔

اس کی آنکھیں بند ہوتی گئیں۔ اور ذہن گہرے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔

٭٭٭



اس کی آنکھوں پر کچھ نمی ڈالی گئی تھی۔ گیلے پن کا احساس تھا یا کچھ اور اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔

اٹھ جاؤ بہت سولیا۔ وہ گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر سامنے کرسی پر جا بیٹھا تھا۔

چند لمحے تو وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی، اور جب آہستہ اہستہ ذہن بیدار ہوا تو وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔

وہ بڑا سا پر تعیش بیٹ روم تھا۔ قیمتی صوفے قالین اور بھاری خوبصورت پردے۔ وہ ایک بیڈ پر لیٹی تھی۔ اور اس کے اوپر بیڈ کور ڈالا ہوا تھا۔

اسے یاد آیا وہ اسے کسی کمرے میں بند کرنے کی بات کر رہا تھا۔ جب وہ شاید بے ہوش ہو گئی تھی۔ اب وہ کدھر تھی؟اور اسے کتنی دیر بیت چکی تھی۔ گھر میں سب پریشان ہو رہے ہوں گے۔

وہ گھبرا کر قدرے سیدھی ہو کر بیٹھی۔ وہ ابھی تک اسی سیاہ جھلملاتی ساڑھی میں ملبوس تھی۔ اور بیوٹیشن کی لگائی ہوئی ساری پینیں ابھی تک ویسے ہی کس کر لگی ہوئی تھیں۔

مم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کدھر ہوں ؟کیا وقت ہوا ہے ؟صبح ہو گئی؟وہ پریشان سی ادھر ادھر دیکھنے لگی تو سامنے وال کلاک پر نظر ٹکی۔

ساڑھے تین بج رہے تھے۔

ابھی صبح نہیں ہوئی؟اور آپ وہیں ہیں۔ جہاں آنے کے لیے فواد نے آپ کو ڈائمنڈ رنگ کا لالچ دیا تھا۔

مجھے فواد بھائی نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا، انہوں نے کہا تھا میں فائل سائن کروا کے واپس آ جاؤں۔

میں جھوٹ نہیں بول رہی۔

میں کیسے مان لوں کہ تم سچ کہہ رہی ہو؟آغا فواد تو کہتا ہے تم اس کے گھر میں پلنے والی ایک یتیم لڑکی ہو، نہ کہ اس کی بہن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یتیم ہوں تبھی تو تم جیسے عیاشوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا، اس نے مجھے، میرا سگا تایا زاد بھائی تھا۔ تم سب گدھوں کا بس یتیموں پر ہی تو چلتا ہے۔ وہ پھٹ پڑی تھی۔

مجھے یہ آنسو اور جذباتی تقریریں متاثر نہیں کرتیں۔ وہ اب اطمینان سے سگریٹ سلگا رہا تھا۔ مجھے بس سچ سننا ہے وہ بھی ٹھیک ٹھیک نہیں تو تمہیں تھانے لے جا کر تمہاری کھال ادھیڑ دوں گا۔

میں جھوٹ نہیں بول رہی۔

مجھے یہ بتاؤ اس سے پہلے وہ تمہیں کتنا شئیر دیتا رہا ہے۔ کدھر کدھر بھیجا ہے اس نے تمہیں۔ اور تمہارے اس گینگ میں کون کون ہے ؟

سگریٹ کا ایک کش لے کر اس نے دھواں چھوڑا تو لمحے بھر کو دھوئیں کے مرغولے ان دونوں کے درمیان حائل ہو گئے۔

مجھ سے قسم لے لو میں سچ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

قسم لے لوں واقعی؟

ہاں لے لیں۔

سو بندوں کے سامنے عدالت میں اٹھاؤ گی قسم؟وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا سگریٹ لبوں میں دبائے کش لے رہا تھا۔

میں تیار ہوں۔ مجھے عدالت میں لے جائیں میں یہ سب دہرانے کو تیار ہوں۔

وہ تب ہو گا جب میں تیرے کہے پر یقین کروں گا۔ یقین جو ابھی تک نہیں آیا۔ اس نے سگریٹ ایش ٹرے پر جھٹکی۔ راکھ کے چند ٹکڑے ٹوٹ کر گرے۔

میں سچ کہہ رہی ہوں میرا کسی گینگ سی کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے فواد بھائی نے کچھ نہیں بتایا تھا۔

تم اسے بچانے کی کوشش کر رہی ہو میں جانتا ہوں۔

نہیں پلیز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لحاف اتار کر بستر سے اتری اور گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں آ بیٹھی۔

اے ایس پی صاحب! اس نے اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دئے۔

میں لاعلم تھی کہ آپ کا کیا مقصد ہے۔ کہ فواد بھائی کا کیا مقصد ہے۔ میں میرٹ میں ڈنر پر جانے کے لیئے تیار ہوئی تھی۔ میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس کی کانچ سنہری آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گرنے لگے تھے اللہ کی قسم یہ سچ ہے۔

اللہ کی قسم کھانے کے لیئے آغا فواد نے کیا پیش کیا تھا؟ڈائمنڈ سیٹ؟

وہی شکی پولیس آفیسر، اور مخصوص طنزیہ انداز۔ جتنا وہ شخص وجیہہ تھا اس کی زبان اس سے بڑھ کر کڑوی تھی۔ محمل کا دل چاہا اس کا منہ نوچ لے۔ اور اگلے ہی پل وہ اس پر جھپٹی اور اس کی گردن دبوچنی چاہی مگر ہمایوں نے اس کی دونوں کلائیاں اپنی گرفت میں لے لیں۔ اسی کشمکش میں محمل کے دو ناخن اس کے گال سے رگڑے گئے۔

صرف آنکھیں نہیں تمہاری تو حرکتیں بھی بلیوں جیسے ہیں وہ کھڑا ہوا اور اس کو کلائیوں سے پکڑے پکڑے بھی کھڑا کیا پھر جھٹکا دے کر چھوڑا۔ وہ دو قدم پیچھے جا ہوئی۔

مجھے گھر جانا ہے۔ مجھے گھر جانے دو۔ میں تمہاری منت کرتی ہوں۔ وہ مڑ کر جانے لگا تو وہ تڑپ کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اور پھر سے ہاتھ جور دیئے۔ صبح ہو گی تو بدنام ہو جاؤں گی۔

میں نے کہا نا بی بی مجھے یہ جذباتی تقریر متاثر نہیں کرتیں۔ اس نے اپنے گال پر ہلکا سا ہاتھ پھیرا پھر استہزائیہ مسکرایا۔ پھر کہا۔ تم بہادر لڑکی ہو۔ میں تمہیں گھر جانے دوں گا مگر ابھی نہیں۔ ابھی تم ادھر ہی رہو گی کم از کم صبح تک،، ،، ،۔

میں بدنام ہو جاؤں گی اے ایس پی صاحب۔ رات گزر گئی تو میری زندگی تباہ ہو جائے گی۔

ہو جائے مجھے پروا نہیں ہے۔ وہ سگریٹ ایش ٹرے میں ڈال کر دروازے کی طرف بڑھا۔

وہ ہاتھ جوڑے کھڑی رہ گئی اور وہ دروازہ باہر سے بند کر کے جا چکا تھا۔ دروازے کی جانب وہ لپکی اور ڈور ناب زور سے کھینچا۔ وہ باہر سے بند تھا۔

دروازہ کھولو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھولو۔ وہ دونوں ہاتھوں سے زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی۔ مگر جواب ندارد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ بے بس سی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔

فواد۔ ۔ فواد اس کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے ؟اسے یقین نہ آتا تھا۔ اس نے کیا بگاڑا تھا فواد کا جو اس نے چند روپوں کے عوض اسے بیچ دیا؟

وہ گھٹنوں پر سر رکھے، آنسو بہاتی وہ شام یاد کر رہی تھی۔ جب وہ اسے دیکھتے دیکھتے چونکا تھا اور چائے کا کپ لیتے ہوئے اس کی انگلیاں مس ہوئی تھیں۔

کم عمر ،خوبصورت اور ان چھوئی۔ آغا نے کہا تھا یہ ہماری ڈیمانڈ پر پر پوری اترتی تھی۔ تو وہ اس لیئے چونکا تھا کہ کسی عیاش شخص کی بتائی گئی ڈیمانڈ پر اس کے گھر میں پلنے والی یتیم لڑکی پوری اتری تھی۔

تم کتنی خوبصورت ہو محمل!مجھے پتہ ہی نہیں تھا۔ اس کے لہجے کا افسوس اور پھر اس کی ساری عنایتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی کمزوری کیا ہے، اس نے اس کو اس کی من پسند چیزیں دکھائی یہاں تک جب وہ اس کے مکمل قابو میں آ گئی تو فواد نے اسے ادھر بھیج دیا اور وہ بھی کتنی بے وقوف اور سادہ تھی، اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ وہ آفس میں اس کو ادھر ادھر چیزیں سائن کروانے بھیج دیتا ہے اور کوئی کام تو اس نے محمل سے لیا ہی نہیں تھا، وہ تب بھی نہ سمجھ سکی؟

اور اب یہ شخص ہمایوں داؤد وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ آدمی کون تھا۔ اس سے یہ سب باتیں کون پوچھ رہا تھا۔ اور اس کا کیا مقصد تھا۔ اسے صرف علم تھا تو اتنا کہ اگر رات بیت گئی تو صبح اسے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ اور قبول تو شاید اب بھی کوئی نہ کرے۔ کوئی فواد کے خلاف اس کی بات کا یقین نہیں کرے گا، کوئی اسے بے گناہ نہیں مانے گا اور فواد وہ تو شاید سرے سے ہی مکر جائے کہ وہ کبھی محمل کو آفس لے کر ہی نہی گیا۔ خدایا وہ کیا کرے ؟

اس نے بھیگا چہرہ اٹھایا۔ کمرے قدرے دھندلا سا دکھائی دیتا تھا۔ اس نے پلکیں جھپکائیں۔ تو آنسوؤں کی دھند لڑھکتی چلی گئی۔

کمرہ نہایت خوبصورتی سے آراستہ تھا۔ قیمتی قالین، خوبصورت فرنیچر، اور بھاری مخملیں پردے ؟وہ چونکی۔ کیا ان کے پیچھے کوئی کھڑکی تھی؟

وہ پردوں کی طرف دوڑی اور جھٹکے سے انہیں ایک رخ کھینچا۔ پردہ کھلتا چلا گیا۔

باہر ٹیرس تھا۔ اور اس کی روشنیاں جلی ہوئی تھیں۔ جن میں وہ بغیر دقت کے دو گن مین چوکس کھڑے دیکھ سکتی تھی۔

اس نے گھبرا کر پردہ برابر کیا۔

اللہ تعالیٰ پلیز! وہ رو کر دعا کرنے لگی اور جب دعا کرتے کرتے تھک گئی تو۔ ۔ ۔ ۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اور اپنا عکس دیکھا۔

رونے سے سارا کاجل بہہ گیا تھا، آنکھیں متورم اور قدرے بھیانک لگ رہی تھیں۔ جوڑا ڈھیلا ہو کر گردن تک آ گیا تھا اور گھنگھریالی لٹوں کے بل سیدھے ہونے لگے تھے۔

محمل ایک مضبوط اعصاب کی لڑکی تھی، اس کے باوجود فواد کے اس بھیانک روپ کا صدمہ اتنا شدید تھا کہ شروع میں تو اس نے ہمت ہاردی اور اعصاب جواب دے گئے لیکن اب وہ کسی حد تک سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئی تھی۔ فواد سے سارے بدلے تو وہ بعد میں چکائے گی ابھی اسے اس اکھڑ اور سرد مہر اے ایس پی کی قید سے نکلنا تھا۔

اس نے ادھر ادھر دیکھا، کچھ خاص نظر نہ آیا۔ تو پھر وارڈ روب کھولا۔ اندر مردانہ کپڑے ٹنگے ہوئے تھے۔ اس نے کچھ ہینگرز الٹ پلٹ کیئے اور کچھ سوچ کر ایک کرتا شلوار نکالا۔ براؤن کرتا اور سفید شلوار کو پہن کر بال سیدھے کر کے بینڈ میں باندھے۔ اور باتھ روم میں جا کر منہ اچھی طرح دھویا۔ باہر نکلنے کے لیئے کسی روزن کو تلاشتی اس کی نگاہوں کو باتھ روم کی کوئی کھڑکی دروازہ نظر نہ آیا تو مایوسی سے پلٹنے ہی لگی تھی کہ ایک دم چونکی۔

ایک دیوار میں شیلف تھا۔ اس میں شیمپو اور شیو کا سامان رکھا تھا۔ شیلف کے اندر کا رنگ باقی دیوار سے زیادہ چکنا سفید تھا۔ بھلا کیوں ؟

وہ قریب آئی سارا سامان نیچے اتارا، پھر بغور اندر دیکھتے ہاتھ پھیرا تو احساس ہوا اس خانے کے پیچھے دیوار نہیں بلکہ کارڈ بورڈ کے سفید پھٹے تھے جو میخوں سے جڑے تھے۔ میخیں کچی اور تازہ لگ رہی تھی۔

آگے کا کام بہت آسان تھا۔ اس نے سارے نل کھول دیئے، تاکہ آواز باہر نہ جائے اور تھوڑی سی محنت کے بعد پھٹے کھینچ کر اتار لیئے۔ وہ جلدی میں لگائے لگ رہے تھے، سو اسے زیادہ زور نہیں لگانا پڑا تھا۔

ان کے پیچھے کھڑکی تھی۔ اچھی خاصی چوڑی تھی۔ وہ اس میں سے با آسانی گزر سکتی تھی۔ بے حد مطمئن ہو کر محمل نے کھڑکی کھولی اور جب باہر جھانکا تو ایک لمحے کو تو سر چکرایا۔ کھڑکی سے دو فٹ کے فاصلے پر چار دیواری کھڑی تھی۔ اور چار دیواری کے درمیان صرف خلا تھا۔ اور نیچے بہت نیچے پکا فرش تھا۔ وہ اس گھر کی غالباً تیسری منزل پر موجود تھی۔ شاید اسی لیئے انہوں نے کچے پکے پھٹے لگا دیئے تھے۔ اندازہ ہو گا کہ وہ یہاں سے نہیں نکل سکتی۔

اس کا ڈوب کر ابھرا۔ یہ آخری راستہ بھی بند ہوتا نظر آہا تھا۔ وہ مایوسی سے نل بند کرنے ہی لگی تھی کہ سناٹے میں ہلکی سی آواز سنائی دی تھی۔

آپ صحن میں کیا کر رہی ہیں ؟

باجی وہ میڈم مصباح نے کہا تھا کی ارلی مارننگ منہ پر گلاس رکھ کر پریکٹس کروں تو آواز اچھی نکلتی ہے۔ وہی کر رہی ہوں۔

لڑکیوں کی باتیں کرنے کی آوازیں بہت قریب نہیں تو بہت دور بھی نہیں تھی۔ وہ چونکی اور پھر باتھ روم کی لائٹ بند کی۔

باہر کا منظر قدرے واضح ہوا۔ کھڑکی سے دیوار کا فاصلہ دو فٹ کا تھا، مگر وہ دیوار کی منڈیر تھی۔ اور وہ آوازیں کہیں نیچے سے نہیں برابر سے آ رہی تھی۔ بالکل برابر یعنی اس باتھ روم کے برابر بالکل سامنے صحن تھا۔

اگر وہ یہ دیوار پھاند جائے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

اس اچھوتے خیال نے ذہن میں سر اٹھایا تو اس نے جوتے اتارے اور نیچے جھانکا۔ اگر گر گئی تو نہیں بچے گی۔ مگر موت اس ذلت سے تو بہتر ہو گی جو صبح یا اس سے بھی بدیر گھر پہنچنے پر اسے اٹھانی پرے گی۔

اس نے دونوں ہاتھ چوکھٹ پر رکھے ہی تھے۔ کہ کمرے کا دروازہ کسی نے زور زور سے کھٹکھٹایا۔ دروازے کی وہ اندر سے کنڈی لگا چکی تھی۔ سو وہ کھول نہ پا رہے تھے۔ یقیناً کسی نے پھٹے اکھاڑنے کی آواز سن لی تھی۔ وہ لمحے بھر کو بھی نہ گھبرائی اور ہاتھ بڑھا کر دیوار کو ٹٹولا۔ وہ قریب ہی تھی۔

اونہوں۔ ۔ ۔ ۔ برابر والے صحن میں وہ کھنکھاری تھی۔ اگلے اور لمحے اس کی مدھر مگر ہلکی آواز اندھیری فضا میں گونجنے لگی۔

اللھم جعل فی قلبی نورا۔ (اے اللہ میرے دل میں نور ڈال دے )

محمل نے دیوار پر دونوں ہاتھ رکھے اور نیچے دیکھے بغیر دونوں پاؤں بھی رکھ دیئے۔

وفی بصری نورا وفی سمعی نورا۔ (اور میری بصارت میری سماعت میں نور ہو)

گھوڑے کی پیٹھ پر سوار سی وہ دیوار پر بیٹھی اور نیچے دیکھا۔ صحن کی زمین بہت قریب تھی۔ دیوار چھوٹی سی تھی۔

وعن یمنی نورا وعن یساری نورا۔ (اور میرے دائیں اور بائیں جانب نور ہو)

اس نے آہستہ سے دونوں پاؤں زمین پر رکھے۔ وہ بالآخر برابر والی چھت پر اتر آئی تھی۔ لمحے بھر کو وہ پلٹ کر بے یقین سی دیوار کو دیکھنے لگی۔ جس کے اس پار اے ایس پی ہمایوں کا گھر تھا۔ بلکہ قید خانہ جس سے وہ نکل آئی تھی۔ اسی پل دیوار کے پار سے روشنی سی چمکی وہ ٹھٹھکی یقیناً اس نے باتھ روم کی لائٹ آن کی تھی۔ اپنی بے وقوفی پر اسے غصہ آیا۔ اسے باتھ روم کا دروازہ بند کر کے نل کھول کے آنا چاہیئے تھا۔

مگر عادی فراری تو نہ تھی یا پھر اس لڑکی کی آواز کے فسوں میں ایسی کھوئی تھی کہ ہوش نہ رہا تھا۔

وفوقی نورا وتحتی نورا (اور میرے اوپر اور نیچے نور ہو۔ )

سامنے ایک برآمدہ تھا۔ جس کے آگے گرل لگی ہوئی تھی۔ گرل کا دروازہ کھلا تھا اور دروازے سے کافی دور ایک لڑکی زمین پر بیٹھی، گرل سے ٹیک لگائے۔ آنکھیں بند کیئے منہ پر گلاس رکھے گنگنا رہی تھی۔

وہ دیوار کے ساتھ ساتھ گھٹنوں کے بل رینگتی گرل تک آئی۔ وہ لڑکی دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی مناجات میں گم تھی۔

واجعل لی نورا۔ (اور میرے لیے نور بنا دے۔ ۔ )

محمل چاپ پیدا کیے بغیر کھلے دروازے سے اندر رینگ گئی۔ لڑکی اسی طرح مگن سی تھی۔

اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ ادھر ادھر دیکھا۔ لمبا سا برآمدہ خالی تھا۔ بس دور ایک فریج پڑی تھی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ جالی دار الماری تھی۔ اندھیرے میں مدھم چاندنی کے باعث اسے بس اتنا نظر آیا۔ وہ بہت آہستہ سے اٹھی اور دبے پاؤں چلتی ہوئی فریج کے پاس آئی۔

ولحمی نورا ودمی نورا۔ (اور میرے گوشت اور میرے خون میں نور ہو) فریج اور الماری کے درمیان چھپنے کی جگہ تھی۔ وہ جھٹ ان کے درمیان آ بیٹھی۔ مگر سامنے ہی دروازہ تھا۔ وہ لڑکی واپس آتی تو سیدھی اس پر نظر پڑتی۔ نہیں اسے یہاں چھپنے کی بجائے نیچے جانا چاہیئے۔

وشعری نورا وبشری نورا۔ (اور میرے بال اور کھال میں نور ہو)

اندر جانے والا دروازہ بند تھا۔ اگر اسے کھولتی تو آواز باہر جاتی۔ وہ پریشان سی کھڑی ہوئی۔ تب ہی جالی دار الماری کے دروازے کے ہینڈل سے کچھ لٹکا ہوا نظر آیا۔ اس نے جھپٹ کر وہ اتارا سیاہ جارجٹ کا لبادہ۔

اس نے چاند کی روشنی میں آنکھیں پھاڑ پھار کر دیکھنا چاہا

واجعل فی نفس نورا۔ (اور میرے نفس میں نور ہو)

اس نے لبادہ کھولا۔ وہ سیاہ عبایا تھا اور ساتھ ایک گرے اسکارف۔ محمل نے پھر کچھ نہیں سوچا اور عبایا پہننے لگی۔ تبھی اسے احساس ہو وہ مردانہ کرتا شلوار میں کھڑی ہے اور ننگے پاؤں ہے۔ وہ عبایا بھی اسے غنیمت لگا تھا۔

واعظم لی نورا۔ ( اور میری ہڈیوں میں نور ہو۔ )

اسکارف کو اس نے بمشکل چہرے کے گرد لپیٹا۔

عادت نہ تھی تو مشکل لگ رہا تھا۔ اب اسے کسی طرح نیچے جا کر سڑک تک پہننچنا تھا۔ آگے اپنے گھر کا رستہ تو آنکھیں بند کر کے بھی آتا تھا۔

الھم اعطنی نورا۔ (اے اللہ مجھے نور عطا فرما۔ )

وہ اسی ترنم میں پڑھ رہی تھی۔ محمل تیزی سے عبایا کے بٹن بند کر کے اسکارف پر ہاتھ پھیر کے درست کر رہی تھی۔ کہ ایک دم اسے بہت خاموشی لگی۔

باہر صحن بہت چپ سا ہو گیا تھا۔ شاید اس لڑکی کی دعا ختم ہو گئی تھی۔

اس نے قدرے گھبراہٹ قدرے جلد بازی میں دروازہ کھولنا چاہا۔ اسی پل اس لڑکی نے پیچھے گرل کی چوکھٹ پر قدم رکھا۔

اسلام علیکم۔ ۔ ۔ ۔ کون؟ چوکنی سی آواز اس کے عقب میں ابھری۔ تو اس کے بڑھتے قدم رک گئے۔

دروازے پر ہاتھ رکھے رکھے وہ گہری سانس لے کر پلٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ سامنے شلوار قمیض میں ملبوس، سر پر دوپٹہ لپیٹے، ہاتھ میں کتاب پکڑے، الجھی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

محمل کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ وہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی جانے اب کیا ہو گا؟

وہ میں آپ کی آواز سن کر آئی تھی بہت اچھی تلاوت کرتی ہیں آپ۔

تلاوت نہیں دعائے نور تھی۔ میری آواز نیچے تک آ رہی تھی کیا؟لڑکی کا انداز سادہ مگر محتاط تھا۔ محمل کا دماغ تیزی سے کال کر رہا تھا۔ اسے کسی طرح اس لڑکی کو باتوں میں الجھا کر وہاں سے نکلنا تھا۔ ایک دفعہ وہ سڑک تک پہنچ جائے گھر کے تمام راستے اسے آتے تھے۔

خوبصورت آواز ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔ میں تلاوت سمجھ کر آئی تھی معلوم نہ تھا آپ دعا مانگ رہی ہیں۔

دعا مانگ نہیں یاد کر رہی تھی۔ آپ نے بتایا نہیں آپ کا نام؟

شائستگی سے کہتی وہ لڑکی دو قدم آگے آئی تو گرل سے چھن کر آتی چاندنی میں اس کا چہرہ واضح ہوا۔

چکنی سپید رنگت۔ بے حد گلابی ہونٹ اور بادامی آنکھیں۔ جن کی رنگت سنہرے پکھراج کی سی تھی۔ گولڈن کرسٹل یہ پہلا لفظ محمل کے ذہن میں آیا تھا۔ اور اسے دیکھتے ہی وہ لمحے بھر کو چونکی تھی۔ بہت شدت سے محمل کو احساس ہوا تھا کہ اس نے اس لڑکی کو کہیں دیکھا ہوا تھا۔ کہیں بہت قریب۔ ابھی کچھ وقت پہلے اس کے نقش یہ بھوری آنکھیں تھیں جو شناسا تھیں۔

میں محمل ہوں۔ جانے کیسے لبوں سے پھسل پڑا۔ مجھے در اصل راستے نہیں پتا تو بھٹک جاتی ہوں۔

اوہ آپ ہوسٹل میں نئی آئی ہیں ؟ نیو کمر ہیں ؟

اور اسے امید کا ایک سرا نظر آ گیا۔ وہ شاید کوئی گرلز ہاسٹل تھا۔ جی میں شام میں ہی آئی ہوں۔ نیو کمر اوپر آ تو گئی ہوں مگر نیچے جانے کا رستہ نہیں مل رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نیچے آپ کے رومز تو تھرڈ فلور پر ہی ہے نا؟پھر نیچے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوہ آپ تہجد پڑھنے کے لیئے اٹھی ہوں گی یقیناً۔ وہ خود سے ہی کہہ کر مطمئن ہو گئی۔ میں بھی تہجد کے لیئے بڑے ہال میں جا رہی ہوں۔ آپ میرے ساتھ آ جائیں۔

اس لڑکی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، پھر گردن موڑ کر اسے دیکھا۔

میں فرشتے ہوں۔ آ جائیں۔ وہ دروازہ دھکیل کر آگے بڑھ گئی۔ تو محمل بھی متذبذب پیچھے ہو لی۔

سامنے سنگ مر مر کی طویل راہداری تھی۔ دائیں طرف اونچی کھڑکیاں تھیں جن سے چھن کر آتی چاندنی سے راہداری کا سفید مرمری فرش چمک رہا تھا۔

فرشتے راہداری میں تیز تیز آگے چلتی جا رہی تھی۔

وہ ننگے پاؤں اس کے تعاقب میں چلنے لگی۔ مردانہ کھلے پائنچے اس کے پاؤں میں آ رہے تھے۔ مگر اوپر عبائے نے ڈھانپ رکھا تھا۔

راہداری کے اختتام پر سیڑھیاں تھیں۔ سفید چمکتے سنگ مر مر کی سیڑھیاں جو گولائی میں نیچے جا رہیں تھی۔

اس نے ننگے پاؤں زینے پر رکھے۔ رات کے اس پہر زینوں کا سنگ مر مر بے حد سرد تھا۔ یخ ٹھنڈا۔ وہ محسوس کیے بغیر تیز تیز سیڑھیاں اترنے لگی۔

تین منزلوں کے زینے ختم ہوئے تو سامنے ایک کشادہ برآمدہ تھا۔ برآمدے کے آگے بڑے بڑے سفید ستون تھے اور سامنے لان نظر آ رہا تھا۔ ہلکی چاندنی میں برآمدہ نیم تاریک سا لگ رہا تھا۔

ایک کونے میں چوڑی بے حد چوڑی سیڑھیاں نیچے جاتی دکھائی دے رہی تھیں۔ فرشتے ان سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ تو لمحے بھر کو تو اسے خوف آیا۔ وہ بے حد چوڑی سیڑھیاں کافی نیچے جا رہی تھیں۔ مدھم چاندنی میں چند زینے ہی دکھائی دیتے تھے۔ آگے سب تاریکی میں گم تھا جانے کیا تھا نیچے ؟

فرشتے کے پیچھے وہ نیم تاریک زینے سہج سہج کے اترنے لگی۔ بہت نیچے جا کر فرش قدموں تلے آیا تو محسوس ہوا۔ کہ نیچے نرم سا قالین تھا۔ جس میں اس کے پاؤں دھنس گئے تھے۔ وہ ایک بے حد طویل و عریض کمرے میں کھڑی تھی۔ وہ کدھر شروع کدھر ختم ہوتا تھا کچھ پتہ نہ چلتا تھا۔ وہ ادھر ادھر گردن گماتی اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

فرشتے نے دیوار پر ہاتھ مارا۔ بٹن دبانے کی آواز آئی۔ اور اگلے ہی لمحے جیسے پورا آسمان روشن ہو گیا۔ محمل نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔

وہ ایک بہت بڑا سا ہال تھا۔ چھت گیر فانوس اور اسپاٹ لائٹس جگمگا اٹھی تھیں۔ ہال چھے اونچے ستونوں پر کھڑا تھا۔ بے حد سفید ستون، دیواریں روشنیوں سے جگمگاتی اونچی چھت اور دیواروں میں اونچی گلاس ونڈوز۔

وضو کی جگہ وہ سامنے ہے۔ فرشتے نے اپنے دوپٹے کو پن لگاتے ہوئے ایک طرف اشارہ کیا۔ ٓ تو وہ جیسے چونکی۔ پھر سر ہلا کر اس طرف بڑھ گئی۔

وضو کی جگہ نیم تاریک تھی۔ سنگ مر مر کی چوکیاں اور سامنے ٹونٹیاں۔ ایک ایک ٹائل چمک رہی تھی۔ وہ ہر شئے کو ستائش سے دیکھتی ایک چوکی پر بیٹھ گئی اور جھک کر ٹونٹی کھولی۔

فواد اور وہ اے ایس پی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل ابراہیم کو سب فراموش ہو چکا تھا۔

سنو کھلے دروازے سے فرشتے نے جھانکا۔

بسم اللہ پڑھ کر وضو کرنا۔

محمل نے یونہی سر ہلا دیا۔ پھر اپنے گیلے ہاتھوں کو دیکھا جن پر ٹونٹی سے پانی نکل کر پھسل رہا تھا۔ وہ سر جھٹک کر وضو کرنے لگی۔

فرشتے جیسے اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔

محمل اس کے برابر نماز کے لیئے کھڑی ہو گئی شاید تہجد پڑھنی تھی۔ اس نے ہاتھ اٹھائے تو رات بھر کے تمام مناظر ذہن میں تازہ ہو گئے۔ درد کی ایک تیز لہر سینے میں اٹھی تھی۔

دھوکہ دہی اعتماد کا خون، فراڈ بے وقوف بنائے جانے کا احساس، کیا کچھ فواد نے نہیں کیا تھا اس کے ساتھ؟وہ کس کس کا ماتم کرتی؟

سلام پھیر کے دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو ساری عمر کی محرومیاں اور نارسائیاں سامنے آ گئیں۔

میں کیا مانگوں ؟مانگنے کی ایک طویل فہرست ہے میرے سامنے۔ مجھے کبھی وہ نہ ملا جس کی میں نے تمنا کی تھی۔ جو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیئے انسان کے پاس ہونا چاہیئے، مجھے کبھی بھی وہ نہ ملا جو لوگ جمع کرتے ہیں۔ کیوں ؟کیوں میرے پاس وہ سب نہیں ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں ؟

اور جب کوئی جواب نہ دیا تو اس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کے آنسو خشک کیئے اور سر اٹھایا۔

سامنے ہال کے سرے پر ایک بڑا سا اسٹیج بنا تھا۔ درمیان میں میز اور کرسی رکھی تھی۔ ایک طرف فاصلے پر ڈائس بھی پڑا تھا۔ شاید وہاں درس و تدریس کا کام بھی ہوتا تھا۔

کرسی کے پیچھے دیوار پر ایک بے حد خوبصورت خطاطی سے مزین فریم آویزاں تھا۔ اس پر وہ سرسری سی نگاہ ڈالتی ایک دم ٹھٹک کر رکی۔

خوب صورت عربی کے نیچے اردو میں خوش خط لکھا تھا۔

پس لوگوں کو چاہیئے اسی میں خوشی منائیں۔

قرآن ان سب چیزوں سے بہتر ہے۔ جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں۔

(یونس: 58)

وہ یک لخت چونکی۔

کیا دیکھ رہی ہو محمل؟فرشتے بغور اسے دیکھ رہی تھی۔

یہی کہ میں نے بھی ابھی کچھ ایسا سوچا تھا۔ جو ادھر لکھا ہے کتنا عجیب اتفاق ہے نا۔

اتفاق کی کیا بات ہے ؟یہ فریم اسی لیئے تو ادھر لگا تھا۔ کیونکہ تم نے آج صبح یہی یہ بات سوچنی تھی۔

مگر فریم لگانے والے کو تو علم نہیں تھا کہ میں یہی سوچوں گی۔

لیکن اس آیت کے اتارنے والے کو تو تھا نا۔

وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔ کیا مطلب؟

جس نے قرآن اتارا ہے وہ جانتا ہے تم نے کب کیا سوچنا ہے اور یہ تمہاری سوچ کا جواب ہے۔

نہیں اس نے شانے اچکائے۔ میری سوچ کا اس سے کوئی تعلق نہیں، میں تو بہت کچھ سوچتی رہتی ہوں۔

مثلاً کیا؟؟ وہ دونوں دو زانو ہو کر بیٹھی تھیں۔ اور فرشتے بہت نرمی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

یہی کہ اچانک کسی بے قصور آدمی پر مصیبت کیوں آ جاتی ہے ؟

غلط بالکل غلط۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نہیں مانتی۔ وہ جیسے بھڑک اٹھی۔ ایک لڑکی کو اس کا تایا زاد پرپوز کرنے کے بہانے ڈنر کا جھانسہ دے کر خوب بننے سنورنے کا کہہ کر اپنے کسی عیاش دوست کے گھر جا کر ایک رات کے لیئے بیچ آئے یہ خواہ مخواہ کا ظلم خواہ مخواہ کی مصیبت نہیں کیا؟

نہیں۔

نہیں ؟ محمل نے بے یقینی سے پلکیں جھپکائیں۔

ہاں قطعاً نہیں۔ اسی صورت حال سے بچنے کے لیئے تو اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے بتا دیا تھا۔

یقیناً اس لڑکی کو علم ہو گا کہ اسے ایک نامحرم کے لیئے تیار نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کے ساتھ ڈنر پر نہیں جانا چاہیئے۔ کزن بھی تو نا محرم ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ ہو گا کہ اسے اپنا چہرہ ایسے ڈھکنا چاہیئے کہ کسی نامحرم بالفرض کزن کو بھی علم نہ ہو سکے کہ وہ اتنی خوبصورت ہے کہ وہ اسے بیچنے کا سوچے۔

اب یہ بتاؤ ظلم ہے یا اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی؟

وہ دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ بنا پلک جھپکے فرشتے کو دیکھ رہی تھی۔

اور یقیناً اپنے کزن کے جھانسے میں آنے سے پہلے اللہ کے حکم سے کسی نے اسے خبردار ضرور کیا ہو گا۔ اس کے ضمیر نے یا شاید کسی انسان نے مگر اس نے پھر بھی نہیں سنا اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اسے عزت اور حفاظت سے رکھے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے ۔ ہم اتنے بے قصور ہوتے نہیں محمل جتنا ہم خود کو سمجھتے ہیں۔

وہ کہے جا رہی تھی اور اس کے ذہن میں دھماکے ہو رہے تھے۔

چچاؤں کا قطعیت سے فواد کے آفس میں کام کرنے سے منع کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسن کے الفاظ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ تنبیہ جو سدرہ کی منگنی والے روز اس نے کی تھی۔

اس نے اپنی دائیں کلائی دیکھی۔ اس پر ادھ مند مل ہوئے زخم کے نشان تھے۔ ہاں حسن نے اسے خبردار کیا تھا۔

میں فرشتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واقعی مجھے۔

اپنی نادانیوں پر کسی کو گواہ نہیں بناتے محمل!

چلو فجر کی اذان ہو رہی ہے نماز پڑھتے ہیں۔

آگہی کا آئینہ بہت بھیانک تصور پیش کر رہا تھا۔

اسے ایک ایک کر کے تمام باتیں پھر سے یاد آنے لگیں۔ فرشتے ٹھیک کہہ رہی تھی۔ سب سے زیادہ قصور تو خود اسی کا تھا۔ وہ آخر فواد کی گاڑی میں بیٹھی ہی کیوں تھی۔ اس نے دل اور مصحف میں سے دل کا انتخاب کیوں کیا تھا؟

اس نے بھیگی آنکھیں اٹھائیں۔ فرشتے اسی سکون سے رکوع میں کھڑی تھی۔ اور سامنے وہی الفاظ چمک رہے تھے۔ قرآن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں۔

اس کا دل رو دیا تھا۔

کیسے ڈھٹائی سے اس نے اس سیاہ فام لڑکی کو مصحف واپس کیا تھا۔ اس سمے اس کی آواز میں کیسی بے رخی تھی۔

ٹی وی پر اذان لگتی، یا تلاوت ہوتی تو وہ چینل بدل دیا کرتی تھی۔ سیپارے پڑھنا کتنا کٹھن لگا کرتا تھا۔ اور فجر تو سوائے پیپروں کے اس نے کبھی نہیں پڑھی تھی۔ اب وہی فجر پڑھنے کے لیئے وہ فرشتے کے برابر کھڑی ہو گئی تھی۔

میرے اللہ مجھے گھر واپس پہنچا دے۔ وہ پھر سے رو دینے کو تھی۔ مجھے تیری قسم ہے میں پھر کبھی فواد بھائی کو کہیں بھی اکیلے نہیں ملوں گی۔ میں قسم کھاتی ہوں آئی سوئیر!

دعا مانگ کر قدرے پر سکون ہوئی تو چہرے پر ہاتھ پھیر کر اٹھی۔

ایک بات پوچھوں فرشتے ؟وہ دونوں ساتھ ساتھ ہال کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔

پوچھو!

قسم کھانے سے اللہ مان جاتا ہے ؟

قسم نا پسندیدہ چیز ہے یہ قسمت نہیں بدلتی۔ جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔

اور اگر قسم کھا لی جائے تو؟

تو مرتے دم تک اس کو نبھانا پڑتا ہے۔ آخری سیڑھی چڑھتے فرشتے ذرا سا چونکی۔ کوئی الٹی سیدھی قسم مت کھانا کہ یہاں سے رہائی ملنے پر تم فلاں اور فلاں کام کرو گی۔

رہائی؟برآمدے کی چوکھٹ پار کرتے ہوئے محمل گڑبڑا گئی۔ دل زور سے دھڑکا۔

ہاں تمہیں گھر جانا ہے نا؟میں تمہیں چھوڑ آتی ہوں۔ وہ ساکت سی اسے دیکھے جا رہی تھی۔

رک کیوں گئی آؤ نا؟

آپ کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو کیسے پتا چلا؟

بات یہ ہے محمل۔ اول تو تہجد کے وقت یہاں کوئی عبایا پہن کر نہیں پھرتا۔ دوم یہ کہ تم نے میرا عبایا اور اسکارف پہن رکھا ہے۔ اور سوئم میں نے تمہیں صحن پھلانگتے دیکھ لیا تھا۔

محمل نے بوکھلا کر اپنے جسم پر موجود عبایا کو دیکھا۔ جس سے لمبی مردانہ شلوار کے پائنچے ذرا ذرا سے جھانک رہے تھے۔

وہ در اصل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہمایوں کی باتھ روم کی کھڑکی ہماری چھت پر کھلتی ہے۔ اس نے تمہیں باتھ روم میں بند کر دیا تھا؟میں اس سے بات کروں گی۔ اسے ایسے نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ تھورا سا خشک مزاج ہے۔ مگر دل کا برا نہیں ہے۔ آؤ۔ پھر اس کی شاکڈ شکل دیکھ کر وضاحت کی۔ ہمایوں میرا فرسٹ کزن ہے وہ برا آدمی نہیں ہے آؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسی پل گیٹ کسی نے زور سے بجایا۔ ساتھ ہی بیل بھی دی۔ فرشتے نے گہری سانس لی۔ آؤ لڑکی۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گیٹ تک لائی، پھر ہاتھ چھوڑ کر دروازہ کھولا۔

فرشتے ادھر وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسلام علیکم اور یہ کیا غلط حرکت ہے ؟تمہیں مسئلہ اس کے کزن کے ساتھ ہے تو اس کو کیوں باتھ روم میں بند کیا تھا؟

بالکل ٹھیک کیا تھا ہے کدھر وہ؟ وہ جواباً بگڑ کر بولا تھا۔

محمل سہم کر قدرے اوٹ میں ہو گئی۔ یہ تو وہی تھا وہ اس کی آواز پہچانتی تھی۔

وہ میرے ساتھ ہے۔ مگر تمہیں اس سے عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیئے تھا۔ فرشتے کے لہجے میں دبی دبی سختی تھی۔

جو بھی ہے تم اسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نہیں ہمایوں ! تم اسے مجرم کی طرح ٹریٹ مت کرو۔ اس کا کیا قصور ہے ؟وہ تو اپنے بھائیوں جیسے کزن پر ٹرسٹ کر کے معصومیت میں چلی آئی تھی۔

وہ حق دق سنے جا رہی تھی۔ ابھی تو فرشتے کو بالواسطہ ساری کتھا سنا آئی تھی۔ اور تب فرشتے فواد کو نامحرم کہہ رہی تھی۔ اور اب ہمایوں کے سامنے اس کی نادانیوں پر کیسے پردہ ڈال رہی تھی۔

اس کا قصور یہ ہے کہ یہ فواد کریم کی کزن ہے۔

اسے لے کر آؤ۔ اب کے ہمایوں داؤد کا لہجہ متوازن تھا۔ فرشتے اسے راستہ دینے کے لیئے چوکھٹ پار کر کے باہر چلی گئی تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ گیٹ کی اوٹ سے نکلی۔

سامنے ہی وہ کھڑا تھا۔ یونیفارم میں ملبوس، مکمل طور پر تیار، اکھڑ تیور اور ماتھے پر بل لیے۔

جب میں نے بکواس کی تھی کہ وہاں رہو تو تم نے قدم کیوں باہر نکالا؟

نوکر نہیں ہوں میں آپ کی، جو آپ کا حکم مانوں۔ آپ ہے کون مجھے حکم دینے والے، ہاں ؟وہ بھی جواباً غرائی تھی۔

وہاٹ؟تم۔

زبان سنبھال کر بات کریں اے ایس پی صاحب!

میں مسجد میں کھڑی ہوں اور اب آپ کا مجھ پر کوئی زور نہیں ہے۔ اس نے گیٹ کا کنارہ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔

تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کچھ سخت کہتے کہتے ضبط کر گیا۔ پھر فرشتے کی طرف پلٹا جو خاموشی سے سب دیکھ رہی تھی۔

اس سے کہو میرے ساتھ آئے میں اس کا دشمن نہیں ہوں۔

فرشتے نے خاموشی سے ہمایوں کی بات سنی اور جب وہ چپ ہوا تو وہ محمل کی طرف مڑی۔

اس کے ساتھ چلی جاؤ یہ تمہارا دشمن نہیں ہے۔

مجھے ان پر رتی برابر بھروسہ نہیں ہے۔

ہونا بھی نہیں چاہیئے مگر تمہارے تنہا گھر جانے اور پولیس موبائل میں جانے میں فرق ہو گا۔ آگے تم اپنے فیصلوں میں آزاد ہو۔

بات کچھ ایسی تھی کہ وہ خاموش سی ہو گئی۔

ٹھیک ہے آئیں۔ اس نے باہر قدم رکھے، پھر پلٹ کر فرشتے کو دیکھا جو گیٹ کے ساتھ سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔

اس کی پشت پر وہ عالیشان تین منزلہ عمات تھی۔ جس کے اونچے سفید ستون بہت وقار سے کھڑے تھے۔ جیسے کوئی بلند و بالا سفید محل ہو۔ اس کا گنبد نہ تھا مگر فرشتے اسے مسجد کہہ رہی تھی۔

اس سے متصل بنگلہ اپنی خوبصورت آرائش کے ساتھ وہیں موجود تھا۔ جہاں اس نے رات میں دیکھا تھا۔

تھینکس وہ کہہ کر رکی نہیں۔

ہمایوں سامنے کھڑی پولیس موبائل کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا۔ وہ اعتماد سے چلتی ہوئی آئی اور فرنٹ ڈور کھول کر نشست سنبھالی۔

آپ مجھے میرے گھر لے کے جا رہے ہیں ؟

نہیں۔ سرد سا کہہ کر وہ گاڑی سڑک پر ڈال چکا تھا۔

پھر؟پھر ہم کہاں جا رہے ہیں ؟

تھانے !

مگر مجھے گھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بی بی مجھے بحث پسند نہیں ہے خاموش رہو۔

اس کو جھڑک کر ہمایوں نے سپیؔڈ اور بڑھا دی۔

وہ نم آنکھوں سے سامنے سڑک کو دیکھنے لگی۔

جانے اس کی قسمت اس کو اب کیا کیا دکھانے والی تھی۔

٭٭٭



آج آغا ابراہیم کی عالیشان محل نما کوٹھی کے لان میں صبح سے ہی سب جمع تھے۔

آغا ابراہیم چہرے پر ڈھیروں غیض و غضب لیے پر رعونت انداز میں کرسی پر براجمان تھے۔ مہتاب تائی فضہ چاچی اور ناعمہ چاچی بھی پاس ہی کرسیوں پر بیٹھی معنی خیزی سے مدھم سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ غفران چچا اور اسد چچا بھی پاس ہی پریشان بیٹھے تھے۔

برآمدے کئ مختصر زینے پر آرزو بیٹھی تھی۔ گھٹنوں پر پلیٹ رکھے، وہ اپنی ازلی بے نیازی سے توس پر جیم لگا رہی تھی۔

اس کے پیچھے برآمدے میں بچھی کرسیوں پر باقی لڑکیاں بیٹھی کھسر پھسر کر رہی تھیں۔

حسن مضطرب سا گھاس پر ٹہل رہا تھا۔ بار بار اپنے سیل پر کوئی نمبر پریس کرتا وہ جھنجھلا رہا تھا۔ وسیم اپنے کمرے میں تھا اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فواد آغا جان کے برابر کرسی پر بیٹھا سرسری سا اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا۔ گاہے بگاہے سر اٹھا کر سب کے چہروں کے تاثرات دیکھتا۔ اس کے انداز میں اطمینان و سرشاری تھی۔

بس ایک مسرت تھی جو کچن میں کرسی پر بیٹھی خاموش آنسو بہا رہی تھی۔ اس کی ساری زندگی کی ریاضت رائیگاں گئی تھی۔ محمل کل اکیڈمی کا کہہ کر باہر نکلی تھی اور جب شام تک واپس نہ آئی تو ان کا دل بیٹھنے لگا تھا۔ کتنے نوافل پڑھ ڈالے کتنی دعائیں کی مگر وہ واپس نہیں آئی۔

یہ بات چھپنے والی کہاں تھی بھلا؟سب کو خبر ہو ہی گئی۔ آغا جان تو سراپا غیض و غضب بن گئے۔ تھانے جانے کی بات کی تو فواد نے ہی انہیں سمجھایا کہ گھر کی عزت داؤ پر لگانے کا فائدہ تھوری دیر مزید انتظار کر لیتے ہیں۔

حسن اور اسد چچا ساری رات اسے ہسپتالوں، مردہ خانوں اور سڑکوں پر تلاشتے رہے تھے۔ مگر جب تین بجے کے قریب ناکام گھر واپس لوٹے تو گھر میں جیسے صف ماتم بچھ گیا تھا۔

عورتوں کی معنی خیز نگاہیں، مردوں کے ملامت بھرے فقرے مسرت کو اپنی روح میں گڑتی محسوس ہوئی تھی۔ وہ اسی وقت سے روئے چلی جا رہی تھی۔ کوئی صفائی کوئی دہائی نہیں، بس لبوں پر ایک دعا محمل کی لاش کسی ندی نالے کسی ہسپتال سے مل جائے۔ وہ نہ ہو جو ان کی ساری محنت ساری ریاضت رائیگاں جائے۔

بھاگ گئی کسی کے ساتھ، ارے میں تو پہلے ہی کہتی تھی۔ صبح کا سورج طلوع ہونے لگا تھا۔ جب تائی مہتاب کی آواز کچن میں سنائی دی تھی۔

شک تو مجھے بھی یہی ہے۔ ناعمہ چاچی نے بلند سر گوشی کی۔ وہ سب رات سے جاگ رہے تھے۔ البتہ حسن کے علاوہ دوسرے لڑکے لڑکیاں بھر پور نیند لے کر ابھی بیدار ہوئے تھے۔

بس ! آغا جان ایک دم دھاڑے اندر کچن میں روتی مسرت نے ایک دم دہل کر بھیگا چہرہ اٹھایا۔

سب نے چونک کر آغا جان کو دیکھا جن کا سرخ و سفید چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا۔

اب اگر وہ زندہ اس دہلیز پر آئی تو میں اسے زندہ یہی گاڑ دوں گا سن لیا سب نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ارے ایسی بیٹیوں کا تو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دینا چاہیے۔ ابراہیم اس کو بھی ساتھ لے کر مرتا ہماری عزت داغ دار کرنے کے کیئے چھوڑ گیا اسے توبہ توبہ۔

ضرور کسی کے ساتھ چکر تھا۔ قرآن اٹھا کر چھت پر جاتی تھی۔ تا کہ ہمیں اس پر شک نہ ہو۔ اسی لیئے تو میں نے اس دن کہا تھا۔ مگر کوئی سنے تو نہ۔ تائی مہتاب کو اپنا غم یاد آ گیا تھا۔

مسرت کا دل ڈوبتا چلا گیا۔

تم مر جاؤ محمل خدارا مر جاؤ مگر واپس نہ آؤ۔ ان کا دل درد سے چلا اٹھا۔

آج کے بعد کوئی اس کا نام اس گھر میں نہیں لے گا اور اگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آغا جان کی بات ادھوری رہ گئی۔

کسی نے زور سے گیٹ پر دستک دی تھی۔

سب نے چونک کر گیٹ کو دیکھا، یہاں تک کہ برآمدے کے زینے پر بیٹھی آرزو نے بھی اپنا سر اٹھایا۔

مسرت دھڑکتے دل کے ساتھ کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی۔ صبح کے سات بجے پہلے تو کبھی ایسے دستک نہیں ہوئی تھی۔

حسن دروازہ کھولو۔ اسد چچا نے کہا تو حسن نے آگے بڑھ کر گیٹ کے چھوٹے دروازے کا ہک کھولا اور پیچھے ہوا۔

دروازہ کھلتا چلا گیا۔ ایک مرمریں سپید ہاتھ دروازے پر دھرا اور پھر چوکھٹ پر اندر آتے سپید ننگے پاؤں دکھائی دیئے۔

آغا جان بے چینی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ باقی سب بھی ساتھ ہی اٹھے سب کی نظریں گیٹ پر جم تھیں جہاں چھوٹے دروازے کو کھول کر وہ اندر داخل ہو رہی تھی۔

سیاہ پاؤں تک آتا عبایا اور چہرے کے گرد سختی سے لپیٹا سرمئی اسکارف، ننگے پاؤں، سر جھکائے محمل ابراہیم نے قدم اندر رکھا۔

حسن اس سے کہو یہاں سے دفعہ ہو جائے، ورنہ میں اس کا خون کر دوں گا۔ آغا جان زور سے دھاڑے تھے۔ ابھی اور اسی وقت یہاں سے نکل جاؤ بے شرم لڑکی ورنہ۔

آپ کے باپ کا گھر ہے جو نکل جاؤں ؟

وہ جو سر جھکائے اندر داخل ہوئی تھی ایک دم سر اٹھا کر بے خوفی سے غرائی کہ لمحے بھر کو سب بھونچکا رہ گئے۔ تائی مہتاب نے تو ششدر سی ہو کر منہ پر ہی ہاتھ رکھ لیا۔

حسن الجھ کر محمل کو دیکھ رہا تھا اور فواد۔ ۔ ۔ ۔

فواد اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا۔

وہ اب پلٹ کر گیٹ کھول رہی تھی۔

دوسرے ہی لمحے زن سے پولیس موبائل آگے پیچھے ڈرائیووے پر اندر آئیں۔ کھٹا کھٹ دروازے کھلے اور سپاہی اتر کر تیزی سے اردگرد پھیلتے چلے گیے۔ پورے گھر کی تلاشی لو۔ بلند حکمیہ کہتا وہ ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اترا۔ یونیفارم میں ملبوس، چہرے پر مدھم سی فاتحانہ مسکراہٹ لیئے وہ گھاس پر کھڑے ان پتھر ہوئے لوگوں کے پاس آیا۔

وہ سب اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ کوئی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔ فواد کو ہی سب سے پہلے ہوش آیا۔ اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگائی جا رہی تھی۔

کیا بکواس ہے ؟اس نے غرا کر ہاتھ پیچھے کرنا چاہے۔

اس بکواس میں لکھا ہے کہ تمہاری ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ ہو چکی ہے۔ اور یہ کہ تمہیں فوری گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔

مسئلہ کیا ہے آفیسر؟کیا کیا ہے میرے بیٹے نے ؟

آغا صاحب آپ کے بیٹے نے اپنی کزن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہمایوں نے ایک نگاہ محمل پر ڈالی جو گیٹ کے ساتھ سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی نفرت بھری نظروں سے فواد کو دیکھ رہی تھی۔ محمل ابراہیم کو اپنی ایک پھنسی ہوئی فائل نکلوانے کے عوض ایک رات کے لیئے بیچا اور ابھی ناشتا کرتے ہوئے وہ غالباً اسی فائل کے اپروو ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے سر میرا بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ کا بیٹا شمالی علاقہ جات کی لڑکیوں کے اغوا اور خریدو فروخت میں ملوث ہے، یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔ اس دفعہ انہوں نے چالاکی کی اپنی کزن کا سودا کر کے انہیں متعلقہ پارٹی کے پاس بھیجا البتہ آپ کی بھتیجی پولیس کی حفاظت میں ہی رہی۔ کیونکہ وہ سب پولیس کے پلان کے تحت تھا۔ آغا فواد نے گینگ کو منظر عام پر نہ لانے کے لیئے چال تو اچھی چلی تھی۔ مگر ہر چال کامیاب نہیں ہوتی۔

محمل کا اس اے ایس پی کے ساتھ چکر تھا۔ فواد خاموشی سے سن کر آرام سے بولا میں نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ اب اپنے کرتوت پر پردہ ڈالنے کے لیئے یہ مجھے پھنسا رہے ہیں تا کہ۔

خاموش ہو جائیں۔ وہ پھٹ پڑی تھی۔ ایک لفظ بھی آپ نے میرے متعلق بولا تو منہ نوچ لوں گی آپ کا۔ آپ نے میرے ساتھ کیا کیا، آپ کو اندازہ ہے ؟

ارے یہ کیا چپ رہے میں بتاتی ہوں تائی مہتاب کو جیسے ہوش آیا تھا۔ ایک دم سینے پر ہاتھ مارتی سامنے آئیں۔ سارا فساد اسی لڑکی کا مچایا ہوا ہے۔ یہ میرے بیٹے کو پھنسا رہی ہے۔ تا کہ اس کے کرتوت نہ کھلیں، آغا صاحب۔ انہوں نے تائید طلب نظروں سے آغا جان کو دیکھا اور پھر ادھر ادھر گردن گھنائی۔ سب خاموش کھڑے تھے۔ کسی نے ہاں یا ناں نہیں کی۔

لڑکی کا نام محمل ابراہیم ہے۔ ہمایوں نے موبائل کا بٹن دبا کر ان کے سامنے کیا۔ اسپیکر سے آواز گونجنے لگی۔ فواد کی آواز۔ جو بنا دقت پہچانی جاتی تھی۔

تین تاریخ، ہفتے کی شام وہ آپ کے پاس ہو گی۔ معصوم ان چھوئی اور نوجوان ہے۔ آپ کی ڈیمانڈ پر پوری اترتی ہے۔ ۔ اور قہقہہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

محمل کو اپنا چہرہ تمتماتا ہوا محسوس ہوا۔

ذرا سے وقفے سے مختلف آوازیں گونجی تھیں۔

فواد بھائی یہ لوگ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں۔

فواد بھائی یہ لوگ میرے ساتھ کچھ غلط کر دیں گے۔

بکواس بند کرو اور میری بات غور سے سنو۔

تمہیں وہ ڈائمنڈ رنگ چاہیئے ہے نا؟ تو جیسے وہ کہیں کرتی جاؤ۔ بس ایک رات ہی کی تو بات ہے۔ صبح تمہیں ڈرائیور لینے آ جائے گا۔

ہمایوں نے بٹن دبایا، اور موبائل نیچے کیا۔ فواد نے سر جھٹکا۔

آڈیو قانون کی عدالت میں قابل قبول نہیں ہوتا اے ایس پی صاحب۔

گھر کی عدالت میں تو ہوتا ہے۔

اور وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ ان سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ ہر شخص اپنی جگہ ساکت و متاسف کھڑا تھا۔

دیکھ لوں گا میں ایک ایک کو دیکھ لوں گا۔

فی الحال تو تمہیں ایک لمبے عرصے تک جیل کی دیواروں کو دیکھنا ہو گا۔

اسی دن کے لیئے۔ حسن ایک دم تیزی سے سامنے آیا اسی دن کے لیئے کہتا تھا کہ اس سے دور رہو، ساری دنیا جانتی ہے یہ کس قماش کا آدمی ہے۔ لڑکیوں کا کاروبار کرتا ہے۔ اسی لیئے تمہیں منع کرتا تھا۔

مجھے منع کر سکتے تھے اس کے ہاتھ نہیں توڑ سکتے تھے ؟ میری جگہ اپنی بہن ہوتی تو بھی کچھ نہ کرتے ؟وہ جواباً ایسے تڑخ کر بولی کہ حسن کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ محمل کبھی ایسے نہ بولی تھی۔ ۔

محمل۔ ۔ میں۔

مجھے آپ کی کوئی وضاحت نہیں چاہیئے۔ سب ایک سے ہیں۔ اس نے منہ پھیر لیا تھا۔ ان کے قریب برآمدے کی سیڑھی پر بیٹھی ؟آرزو بنا پلک جھپکے مبہوت سی اس مغرور اور وجیہہ سے اے ایس پی کو دیکھ رہی تھی۔ توس کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں رہ گیا تھا۔

آغا صاحب ! انہیں روکیں یہ میرے بیٹے کو کدھر لے جا رہے ہیں۔ وہ فواد کو لے جانے لگے تو تائی مہتاب آغا جان کا بازو جھنجھوڑ کر رو پڑی تھیں۔ آغا جان چپ کھڑے تھے، بالآخر غفران چچا آگے بڑھے۔

بھابھی بیگم! حوصلہ کریں ان شاء اللہ فواد شام تک گھر ہو گا۔ ان کی بات پر ہمایوں نے استہزائیہ سر جھٹکا اور پلٹا۔

ایک منٹ اے ایس پی صاحب۔

آغا جان ٹھہرے ہوئے انداز میں مخاطب ہوئے تھے۔ وہ چونک کر پلٹا۔

یہ لڑکی رات باہر گزار آئی ہے۔ ہم شریف لوگ ہیں اسے قبول نہیں کر سکتے۔ آپ اسے بھی بھلے ساتھ ہی لے جائیے۔

محمل ساکت رہ گئی۔ اسے لگا وہ کبھی اپنی جگہ سے ہل نہیں پائے گی۔

واقعی ہمایوں نے ابرو اٹھائی۔ برآمدے کے ستون سے لگی محمل کے آنسو پھر سے ابل پڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭



جی واقعی! ان کے چبا کر کہنے پر وہ مسکرایا۔

ٹھیک ہے محمل بی بی ! تھانے چلیئے آپ سلطانی گواہ ہیں، گواہی دیں اور فواد کریم کو ساری زندگی جیل میں سڑتا دیکھیں۔ میں نے تو سوچا تھا گھر کی بات گھر میں رہ جائے، لیکن اگر آپ چاہتے ہو کہ ساری دنیا کو علم ہو کہ فواد نے گھر کی بچی کا سودا کیا ہے تو ٹھیک ہے، ہم اس سلطانی گواہ کو ساتھ لے چلتے ہیں نہ آپ اس بچی کو سمجھا بجھا کر چپ کرا سکیں گے، نہ ہی فواد کبھی باہر آئے گا۔ چلو محمل۔

ارے نہیں اے ایس پی صاحب محمل ہماری بچی ہے۔ بھائی صاحب بس یونہی ناراض ہیں، ہمیں یقین ہے کہ یہ پولیس کی حفاطت میں رہی ہے۔ عزت سے گھر آئی ہے۔ غفران چچا نے بوکھلا کر بات سنبھالی۔

نہ بھی یقین کریں، تو بھی ہم نے محمل کو مسجد بھجوا دیا تھا۔ عورتوں کی مسجد ہے۔ میری بہن ادھر پڑھاتی ہے۔ اس نے آغا جان کو بغور دیکھتے ہوئے بہن پر زور دیا اور ایک سخت نظر ڈالتا ہوا پلٹ گیا۔

وہ ابھی تک ویسے ہی شاکڈ ساکت کھڑی تھی۔ جیسے اسے آغا جان کے الفاظ کا ابھی تک یقین نہیں آیا تھا۔

گاڑیاں گیٹ سے باہر نکل گئیں۔ ۔ ۔ ۔ غفران چچا موبائل پر کوئی نمبر ملانے لگے۔ تائی مہتاب زور زور سے رونے لگیں۔

یہ سارا اسی منحوس کا کیا دھرا ہے۔ اسے گھر سے نکالیئے آغا صاحب، کمبخت نے میرے بچے کو پھنسا دیا۔ اپنے باپ کے ساتھ کیوں نہیں مر گئی؟

وہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھی مگر حسن درمیان میں آ گیا۔

کیا کر رہی ہیں آپ تائی اماں ؟ان کے دونوں ہاتھ گرفت میں لیئے اس نے بمشکل انہیں باز رکھا۔

بھلا ایک لڑکی کے کہنے پر فواد کریم جیسے اثر و رسوخ رکھنے والے آدمی کے اریسٹ وارنٹ جاری ہو سکتے ہیں ؟

یہ جھوٹ بکتی ہے میں اسے جان سے مار دوں گی۔

محمل اندر جاؤ۔ فضہ چاچی نے آہستہ سے کہا تو وہ چونکی پھر اندر کی طرف دوڑی۔

فضہ اور ناعمہ نے معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ آغا جان ڈرائیووے کی طرف بڑھ گئے تھے۔ تائی اماں ابھی تک حسن کے بازوؤں میں رو اور چیخ رہی تھیں۔

وہ بھاگتی ہوئی برآمدے کے سرے پر رکی ستون سے لگی کھڑی مسرت نے منہ پھیر لیا۔ اسے دھکا سا لگا۔

اماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! اس کی آنکھوں میں مرچیں سی چبھنے لگیں۔

اے محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! آرزو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ ذرا سا چونکی۔

یہ ہینڈسم آفیسر کون تھا؟

یہ ہمایوں تھا ہمایوں داؤد۔

ہوں نائس نیم۔ کدھر رہتا ہے ؟

جہنم میں۔ ایڈریس چاہیئے ؟وہ زہر خندہ ہوئی تو آرزو نے منہ سا بنا لیا۔ محمل اس کا ہاتھ جھٹک کر ایک شکوہ کناں سی نظر ماں پر ڈال کر اندر بھاگتی گئی۔

ہمایوں داؤد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! آرزو زیر لب مسکرائی۔ اور پھر توس کھانے لگی۔

٭٭٭



گھر میں اگلے کئی روز تک خاموشی چھائی رہی۔ بس ایک حسن تھا جو ہر وقت ہر ایک کے سامنے اس کا دفاع کرتا نظر آتا تھا۔

اگر محمل کی جگہ آرزو ہوتی تو بھی آپ یہی کہتی چچی؟وہ ناعمہ کی کسی بات پر بھڑک کے بولا۔ تو وہ جو سر منہ لپیٹے اندر پڑی تھی۔ جھٹکے سے اٹھی اور تیزی سے باہر آئی۔

آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے ہر ایک کے سامنے میری صفائی دینے کی۔ وہ لاؤنج میں آ کر ایک دم چکا کر بولی تو سب چونک کر اسے دیکھنے لگے۔

مگر محمل!

اگر ان لوگوں نے یونہی مجھے پورے خاندان میں بے عزت کرنا ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر عزت ایک دفعہ چلی گئی تو میں کس عزت کو بچانے کے لیئے کورٹ میں چپ رہوں گی؟ میں بھی بھری عدالت میں پورے شہر کو بتاؤں گی سن لیں آپ سب۔

اپنے پیچھے دھڑ سے دروازہ بند کر کے اس نے پھر سے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔

اندر مسرت بستر کی چادر درست کر رہی تھیں۔

اسے آتا دیکھ کر لمحے بھر کو سر اٹھایا، پھر واپس کام مصروف ہو گئیں۔

آپ بھی مجھ سے ناراض ہیں اماں ؟ مسرت خاموشی سے تکیئے پر غلاف چڑھاتی رہی۔

اماں ! اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔ وہ تکیئے درست کر کے دروازے کی طرف بڑھی۔

میں نے کیا کیا ہے اماں ؟وہ رو پڑی تھی۔

دروازے کی طرف بڑھتی مسرت نے گردن موڑی۔

تم نے اچھا نہیں کیا محمل۔ وہ بہت دنوں بعد بولی تھیں۔

اماں۔ وہ تڑپ کر ان کے قریب آئی۔ فواد بھائی نے مجھے فنکشن کا کہہ کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے پتا ہے۔

پتہ ہے مگر یقین نہیں ہے ؟

میں برسوں ان کی خدمت کرتی رہی کہ شاید کبھی یہ ہمیں کچھ عزت دیں، مگر میری بیٹی ان ہی کے بیٹے کو پکڑوا کر کورٹ کچہری میں گواہی دیتی پھرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے زندگی کم مشکل تھی محمل جو تم نے اور مشکل بنا دی؟ وہ تھکی تھکی سی پلٹ گئی۔

وہ نم آنکھوں سے انہیں جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔

ایک غلط قدم اسے یہاں لا پہنچائے گا اس نے سوچا بھی نہ تھا۔

٭٭٭



پھر کتنے ہی دن وہ ماتم کرتی رہی، اس کے پاس رونے کو بہت کچھ تھا۔ پھر کئی دنوں بعد اسے عبایا اسکارف اور مردانہ شلوار قمیض کا خیال آیا تو دونوں کو الگ الگ شاپر میں ڈال کر فرشتے کو واپس کرنے نکلی۔

کوئی ضرورت نہیں ہے ہمایوں داؤد کے منہ لگنے کی فرشتے کو واپس کر دوں گی۔ وہی آگے پہنچا دے گی۔ اس نے سوچا تھا۔

بس اسٹاپ کا بینچ اب ویران ہوتا تھا۔ وہ سیاہ فام لڑکی مڑ کر کبھی واپس نہیں آئی تھی۔ جانے کون تھی کہاں سے آئی تھی وہ اکثر سوچتی رہ جاتی۔

بس سے اتر کر اس نے سڑک پر کھڑے گردن اونچی کر کے دیکھا۔ وہ دونوں عمارتیں ساتھ ساتھ تھیں۔ ہمایوں داؤد کا کا بنگلہ سبز بیلوں سے ڈھکا تھا اور ساتھ موجود سفید ستونوں والی عمارت کوئی انسٹیٹیوٹ تھا شاید۔

کوئی ضرورت نہیں ہے اس فضول انسان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی۔ میں مسجد میں ہی چلی جاتی ہوں۔ وہ مسجد کے سیاہ گیٹ کے سامنے آئی۔ گیٹ کا سیاہ لوہا چمک رہا تھا۔ اسے اس چمکتے لوہے میں اپنا عکس نظر آیا۔

بلیو جینز کے اوپر گھٹنوں تک آتا کرتا، گردن سے لپٹا دوپٹہ، اونچی بھوری پونی ٹیل باندھے ماتھے پر بل ڈالے وہ اپنے مخصوص حلیئے میں تھی۔

گیٹ کے اس طرف ایک بورڈ لگا تھا جس کو وہ پہلے نہ دیکھ سکی تھی۔ اس پر واضح لکھا تھا۔

No men Allowed (مردوں کا داخلہ ممنوع ہے )

ساتھ با وردی گارڈ بیٹھا تھا۔ اس نے گہری سانس لے کر اندر قدم رکھا۔

بڑا سا سر سبز قالین۔ سامنے سفید سنگ مر مر کا چمکتا برآمدہ۔ برآمدے کے کونے میں ریسپشن ڈیسک کے پیچھے کھڑی لڑکی، جو سیاہ عبایا کے اوپر سرمئی اسکارف میں ملبوس فون کان سے لگائے محو گفتگو تھی۔

سامنے سے سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک لڑکی چلی آ رہی تھی۔ اس نے عنابی اسکارف لے رکھا تھا۔ جیسے یونیفارم ہو۔ محمل کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے مسکرا کر اسلام علیکم کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جی؟ وہ چونکی۔ وہ لڑکی مسکرا کر اس کے پاس سے گزرتی چلی گئی۔

ہیں اس نے مجھے سلام کیں کیا؟کیا یہ مجھے جانتی ہے ؟ وہ الجھ ہی رہی تھی کہ ریسپشنسٹ کی آواز آئی۔

اسلام علیکم کین آئی ہیلپ یو؟

جی۔ مجھے فرشتے سے ملنا ہے۔ وہ ڈیسک کے قریب آئی۔

فرشتے باجی کلاس میں ہوں گی۔ اندر کاریڈور میں رائٹ فرسٹ ڈور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اچھا۔

وہ ادھر ادھر دیکھتی سنگ مر مر کے فرش پر چلتی جا رہی تھی۔ ۔

مرتین سے مراد بنی اسرائیل میں ہونے والا دو مرتبہ کا فساد ہے۔ مفسر کے مطابق پہلی دفعہ سے مراد زکریا کا قتل، جبکہ دوسری دفعہ سے مراد عیسی کے قتل کی سازش مراد ہے۔

اس نے کھلے دروازے سے گردن اندر کی۔ سامنے بنے پلیٹ فارم پر کرسی پر وہ بیٹھی اپنے آگے میز پر کتاب کھولے مصروف سی پڑھا رہی تھی۔ اس کے سامنے قطار در قطار لڑکیاں کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔ عنابی اسکارف میں لپٹے بہت سے جھکے سر اور چلتے قلم۔ وہ واپس پلٹ گئی۔

برآمدے میں ریسیپشن ڈیسک کے سامنے دیوار سے لگے کاؤچ پر بیٹھ کے وقت کاٹنا اسے بہتر لگا، سو کتی ہی دیر وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی پاؤں جھلاتی چیونگم چباتے ہوئے تنقیدی نگاہوں سے اردگرد گزرتی لڑکیوں کا جائزہ لیتی رہی۔

وہاں ایک منظم سی چہل پہل ہمہ وقت ہو رہی تھی۔ وہ جیسے کوئی اور ہی دنیا میں تھی۔ یونیفارم میں ملبوس ادھر ادھر تیزی سے آتی جاتی لڑکیاں۔ وہاں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔ اسٹوڈنٹس کی شلوار قمیض اور اوپر کسی رنگ کا اسکارف تھا، جبکہ تمام ٹیچرز اور آفیشلز کے سیاہ عبائے اور سرمئی اسکارف تھے۔ ان کے عبائے اور اسکارف لینے کا انداز بے حد نفیس تھا۔

بہت پر اعتماد، ایکٹو اور مصروف سی لڑکیاں جیسے وہ الگ سی دنیا لڑکیاں ہی چلا رہی تھیں۔ کچھ تھا اس مسجد میں جو محمل کو کہیں اور نظر نہیں آیا۔

٭٭٭



ا سلام علیکم۔ اگر آپ بور ہو رہی ہیں تو اس کا مطالعہ کر لیں۔

شیور۔ اس نے شانے اچکا کے اس ریسپشنسٹ کے ہاتھ سے وہ دبیز کتاب لے لی۔

چند صفحے پلٹتے ہی اسے وہ شام یاد آئی جب آغا جان نے اسے ٹیرس پر اس سے وہ سیاہ جلد والا مصحف چھینا تھا۔

وہ قرآن کی سادہ ٹرانسلیشن تھی۔

وہ یونہی درمیان سے کھول کر پڑھنے لگی۔

اور اس نے ہی غنی کو اور مالدار بنایا ہے۔ اور وہی ہے جو شعری(ستارے ) کا رب ہے اور بلا شبہ اس نے ہی پہلی قوم عاد کو ہلاک کیا اور قوم ثمود کو بھی۔ بلا شبہ یہ سب انتہائی ظالم و سرکش لوگ تھے اور اسی نے پلٹا الٹی ہوئی بستیوں کو۔ پھر ان پر چھا گیا جو چھانا تھا۔ تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں پر جھگڑو گے ؟یہ تو تنبیہ تھی۔ پہلی تنبیہات میں سے۔ آنے والی قریب آ گئی۔ اللہ کے علاوہ! کوئی ظاہر کرنے والا نہیں تو کیا تم اس قرآن سے تعجب کرتے ہو ہنستے ہو، روتے نہیں اور کھیل تماشا کر رہے ہو؟

محمل؟ ارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

وہ جو بالکل کھو کے پڑھتی جا رہی تھی، بری طرح چونکی۔

فرشتے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے قرآن بند کیا اور میز پر رکھ کر کھڑی ہوئی۔

اسلام علیکم کیسی ہو؟

فرشتے اس کے گلے لگ کر الگ ہوئی اور اسے شانوں سے تھام کر مسکرا کر دیکھا۔ وہ محمل سے دو انچ لمبی تھی۔ شفاف سپید چہرہ سرمئی اسکارف میں مقید اور وہ کانچ سی بھوری آنکھیں۔

میں ٹھیک، آپ کیسی ہیں ؟

الحمد للہ۔ اتنے دنوں بعد تمہیں دیکھ رہی ہوں، گھر میں سب ٹھیک ہے ؟

جی۔ اس نے نگاہیں جھکائیں اور بہت سی نم اپنے اندر اتاری۔

چلو کوئی بات نہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔

آپ کی چیزیں تھیں میرے پاس۔ اس نے شاپر اوپر کیا۔

میں سمجھی، تم میرے لیئے کوئی گفٹ لائی ہو۔ وہ ہنسی اور شاپر لے لیا۔ کوئی تکلف نہیں کوئی خالص سا اندازہ۔ سچا اور خالص۔

لیکن اگر تم یہ رکھنا چاہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نہیں میں یہ عبایا وغیرہ نہیں لیتی۔

نو پرابلم۔ بہت شکریہ۔ وہ خوش دلی سے مسکرائی تو محمل کو اچھا لگا۔

بہت مذہبی لوگ عموماً اتنے سنجیدہ اور سخت نظر آتے ہیں کہ جیسے ایک وہی نیک مومن ہوں اور باقی سب گناہگار کافر۔ اسے ایسے لوگوں سے شدید چڑ تھی۔ جن کے سامنے اسے لگے کہ وہ بہت گناہگار سمجھ رہا ہے۔ مگر فرشتے اور اس کی مسجد کی لڑکیاں اس روایتی امیج سے بہت مختلف تھیں۔

یہ ان کا ہے۔ اس نے دوسرا شاپر آگے کیا۔ ہمایوں کا ؟

جی۔

اچھا ہمایوں کبھی شہر میں ہوتا ہے کہیں نہیں۔

میرا اس سے ایز سچ کونٹیکٹ نہیں رہتا۔ میں بھول بھی جاتی ہوں بہت اگر تم یہ اس کے چوکیدار کو دے دو تو وہ پہنچا دے گا۔

فرشتے انہوں نے آپ کو اپنی اور فواد بھائی کی ڈیل کے بارے میں بتایا تھا؟

ڈیل نہیں، وہ در اصل آغا فواد سے بہت تنگ تھا۔ اور اسے اس کی گینگ کی کسی لڑکی کے ذریعے پکڑنا چاہتا تھا۔

وہ گینگ کی لڑکی کی توقع کر رہے تھے تو آپ کو کیسے علم ہوا کہ ان کی کزن ہوں ؟

تم نے خود بتایا تھا جب ہم پرئیر ہال میں تہجد پڑھ رہے تھے۔

اوہ کئی دن کی الجھن سلجھ گئی۔ میں تو گینگ کی لڑکی نہیں تھی، پھر انہوں نے فواد بھائی کو کیسے اریسٹ کر لیا؟

یہ تو تم ہمایوں سے پوچھنا۔ میری تو عرصے سے اس سے بات نہیں ہوئی۔

ٹھیک دو بجنے کو ہیں فرشتے میں پھر آؤں گی۔

اور وہ سوچ رہی تھی کہ اس کا ہمایوں سے زیادہ رابطہ نہیں رہتا، مگر اسے فواد کے کیس کی ہر بات معلوم تھی۔

عجیب بات تھی۔

اور میں دعا کروں گی کہ کبھی تم ہمارے ساتھ آ کر قرآن پڑھو۔

معلوم نہیں۔ شاید میں کچھ عرصے تک انگلینڈ چلی جاؤں۔

اوہ فرشتے کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔

آپ مسجد میں قرآن پڑھاتی ہیں ؟

ہاں، یہ در اصل ایک اسلامک اسکول ہے۔ ہوں میں چلتی ہوں۔ وہ اسے لان تک چھوڑنے آئی۔

تمہیں کبھی کسی نے اس کتاب کی طرف نہیں بلایا محمل؟ جاتے سمے اس نے پوچھا تو اس کے قدم رک گئے۔ یادوں کے پردے پر ایک سیاہ فام چہرہ لہرایا تھا۔

بلایا تھا، مگر میں نے دل کا انتخاب کیا اور میں خوش تھی۔ اس نے کہا تھا یہ کتاب سحر کر دیتی ہے۔ اور مجھے مسحور ہونے سے ڈر لگتا ہے۔

کتاب سحر نہیں کرتی پڑھنے والا خود سحر زدہ محسوس کرتا ہے۔ ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟

بہت سے لفظوں کو الگ الگ پرکھنا سیکھو نہیں تو زندگی کی سمجھ نہیں آئے گی۔

فرشتے چلی گئی اور وہ شاپر اٹھائے خود کو گھسیٹتی ہوئی باہر نکلی۔

ساتھ والے گیٹ میں اندر جاتی گاڑی لمحے بھر کو رکی۔ شیشہ نیچے ہوا۔ سر پر کیپ اور وجیہہ چہرے پر ڈارک گلاسز لگائے اس نے اسے دیکھا تھا جو گیٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ چوکیدار کو کچھ کہہ کر گاڑی زن سے اندر لے گیا۔

چوکیدار بھاگتا ہوا اس کے قریب آیا۔

صاحب کہہ رہے ہیں آپ کو اندر ڈرائنگ روم میں بٹھائیں وہ آتے ہیں۔

تمہارے صاحب نے سوچا بھی کیسے کہ میں اس سے ملنے آئی ہوں۔ مائی فٖٹ۔ یہ پکڑو اور اپنے صاحب کے منہ پر مارنا۔ غصے سے اس کی آواز بلند ہونے لگی۔ سارا کیا دھرا اس شخص کا تھا۔ اسے اس پر بے طرح غصہ آیا تھا۔ اس نے شاپر اسے تھمایا۔

اسی پل وہ کیپ ہاتھ میں لیئے تیزی سے چلتا ہوا اس تک آیا۔

خان گیٹ بند کردو اور بتول سے کہو چائے پانی کا بندوبست کرے۔ مہمان ہیں۔ اور آپ پلیز اندر آ جائیں۔ شائستہ و ہموار لہجہ وہ قطعاً مختلف لگ رہا تھا۔

مجھے اندر آنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ لیکن آغا فواد کے باہر آنے کی خبر سننے کا ہو گا؟

وہ متذبذب سی سوچتی رہ گئی تو ہمایوں نے مسکراتے ہوئے راستہ چھوڑ دیا۔

دن کی روشنی میں اس کا لاؤنج اتنا ہی نفیس جتنا اس دن رات کو لگا تھا۔

اونچی دیوار گیر کھڑکیوں کے ہلکے پردے نفاست سے بندھے تھے ، سنہری روشنی چھن کر اندر آ رہی تھی۔ کونوں میں نفاست سے لگے مغلیہ دور طرز کے سنہری گملوں میں لگے پودے بہت ترو تازہ لگ رہے تھے۔

بیٹھیے۔ وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا سامنے صوفے پر بیٹھا۔ اس کے چہرے پر کھڑکی سے روشنی سیدھی پڑ رہی تھی۔

تھینک یو۔ وہ ذرا تکلف سے بیٹھی۔ اس کا صوفہ اندھیرے میں تھا۔ ہمایوں کو اس کا وجود بھی اسی تاریکی کا حصہ لگا تھا۔

آپ نے جو بھی کہنا ہے ذرا جلدی کہیئے ؟

ڈر گئی ہیں ؟ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے ٹیک لگائے مسکرایا۔

میں ڈرتی نہیں ہوں۔ بلکہ آپ کو بے حد نا قابل اعتبار سمجھتی ہوں۔

شوق سے سمجھیں۔ مگر میں نے آپ کو اغوا نہیں کیا تھا۔ آپ کورٹ میں میرے خلاف بیان نہیں دے سکتیں۔

آپ کو کس نے کہا کہ میں آپ کے خلاف بیان دے رہی ہوں۔

آپ کے تایا نے۔

محمل نے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ بات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی تھی۔

وہ کہتے ہیں آپ کورٹ میں یہ بیان دیں گی کہ میں نے آپ کو حبس بے جا میں رکھا تھا۔ اور یقیناً وہ اس کے لیئے آپ پر دباؤ ڈالیں گے۔

آپ کو کیوں لگا کہ انہیں مجھ پر دباؤ ڈالنا پڑے گا؟وہ اب مطمئن سی ٹانگ پر ٹانگ رکھے جھلا رہی تھی۔ انداز میں ہلکا سا طنز تھا۔ ہمایوں ذرا چونک کر سیدھا ہوا۔ کیا مطلب؟

حبس بے جا میں تو آپ نے مجھے رکھا تھا اے ایس پی صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مس محمل ابراہیم اتنی آسانی سے اتنے بڑے بیان نہیں دیئے جا سکتے۔ حالانکہ اپ جانتی ہیں کہ میں بے قصور ہوں۔

بے قصور؟اگر آپ مجھے گھر جانے دیتے تو میں یوں بدنام نہ ہوتی۔

پہلے آپ بے ہوش ہوئیں، حالانکہ آپ اس وقت ایک اے ایس پی کی تحویل میں تھیں۔ ہمایوں داؤد کی نہیں۔ اگر آپ دیوار نہ پھلانگتیں تو میں رات میں ہی آپ کا بیان لے کر آپ کو اکیلے گھر چھور آتا۔

مجھے کمرے میں بند کرتے وقت تو آپ نے کسی بیان کا ذکر نہیں کیا تھا۔

مجھے قانون مت سکھائیں۔ وہ میرا تفتیش کا طریقہ تھا۔

اور آپ کے اس طریقے میں بھلے کوئی بدنام ہو جائے ؟

تو ہو جائے مجھے پرواہ نہیں۔

آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا دل چاہا وہ گملے اس کے سر پر پھوڑ دے۔

میم اس وقت آپ کو آپ کے گھر نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ ہم فواد کو ڈھیل دے رہے تھے۔ میں جانتا تھا آپ مسجد گئی ہیں۔ اور فجر سے پہلے مسجد کے دروازے نہیں کھلتے۔ سو میں اذان سنتے ہی آپ کو لینے آیا تھا۔

مجھے آپ کی کہانی نہیں سننی۔ وہ پیر پٹختی اٹھی۔ وہ ابھی تک تاریکی میں تھی۔ جس سے اس کے چہرے کے نقوش مدھم پڑ گئے تھے۔

نہ سنیں مگر میرا کارڈ رکھ لیں۔ ہو سکتا ہے آپ کو میری مدد کی ضرورت پڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس نے ایک کارڈ اس کے ہاتھ میں گویا زبردستی رکھنا چاہا۔

مجھے ضرورت نہیں ہے۔ اس نے پکڑ تو لیا مگر جتانا نہ بھولی اور پھر اسی طرح کارڈ پکڑے باہر نکل گئی۔

وہ لاؤنج میں تنہا کھڑا رہ گیا۔ کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی ابھی تک اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔

٭٭٭



لاؤنج میں سب بڑے موجود تھے۔ وہ سر جھکائے کارڈ کو احتیاط سے پاکٹ میں چھپا کر اندر جانے لگی۔

محمل! غفران چچا نے قدرے رعب سے پکارا۔

آغا جان نے تو اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا تھا۔ وہ اس دن سے اس سے مخاطب نہیں ہوئے تھے۔

جی؟ وہ ناگواری سے رکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کدھر سے آ رہی ہو؟

پرچہ کٹوانے گئی تھی تھانے !

واٹ؟ غفران چچا غضب ناک سے اس کی طرف بڑھے۔

جی آپ کے فواد آغا کے خلاف پرچہ کٹوانے گئی تھی۔ کیوں نہیں کٹوا سکتی؟وہ ان کے بالکل سامنے کھڑی بلند آواز میں بد لحاظی سے بول رہی تھی۔ اور مجھ سے آئندہ سوال جواب مت کیجیئے گا، میں جدھر بھی جاؤں میری مرضی۔ آپ لوگ ہوتے کون ہیں مجھ سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چٹاخ کی آواز کے ساتھ اس کے منہ پر تھپڑ لگا تھا۔

وہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔ اور چہرے پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے غفران چچا کو دیکھا۔

پرچہ کٹواؤ گی تم؟ہاں ؟ انہوں نے اس کو بالوں سے پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا۔

ہاں ہاں کٹواؤں گی۔ مجھے نہیں روک سکتے آپ لوگ۔ وہ حلق پھاڑ کے چلائی تھی۔

دوسرے ہی لمحے اسد چچا اٹھے اور پھر ان دونوں بھائیوں نے کچھ نہ دیکھا۔ تابڑ توڑ اس پر تھپڑوں کی برسات کر دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آغا جان بڑے صوفے پر آرام سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے اسے پٹتے دیکھتے رہے تھے۔ تائی مہتاب ناعمہ اور فضہ بھی قریب ہی بالکل خاموش بیٹھی تھیں۔ سامیہ کچن کے کھلے دروازے میں کھڑی تھی۔ اوپر سیڑھیوں سے ندا جھانک رہی تھی۔

وہ اسے بری طرح گالیاں بکتے مارتے چلے گئے۔ وہ صوفے پر بے حال سی گری چیخ چیخ کر رو رہی تھی، مگر ان دونوں نے اسے نہیں چھوڑا۔

بول کٹوائے گی پرچہ؟وہ دونوں بار بار یہی پوچھتے، یہاں تک کے نڈھال سی محمل میں جواب دینے کی سکت نہ رہی تو انہوں نے ہاتھ روک لیا۔ صوفے کہ ایک ٹھوکر مار کر غفران چچا باہر چلے گئے۔

امی امی۔ وہ صوفے پر گری منہ پر بازو رکھے گھٹی گھٹی سسکیوں سے رو رہی تھی۔ مسرت ادھر کہیں بھی نہیں تھی۔ آہستہ آہستہ سب بڑے ایک ایک کر کے اٹھ کر باہر چلے گئے۔ سیڑھیوں سے لگی تماشا دیکھتی لڑکیاں بھی اپنے کمروں کو ہو لیں۔

مر جاؤ تم سب اللہ کرے تم سب کے بچے مر جائیں، چھت گرے تم لوگوں پر۔ گردن کاٹ دوں میں تمہارے بچوں کی۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہچکیوں سے روتی گھٹ گھٹ کے بد دعائیں دیئے جا رہی تھی۔

کتنی ہی دیر بعد لاؤنج کا دروازہ کھلا اور دن بھر کا تھکا ہارا حسن اندر داخل ہوا۔ کوٹ بازو پر ڈالے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا وہ ممی ممی پکارتا ذرا آگے آیا تو ایک دم ساکت رہ گیا۔

کارپٹ پر بکھرے کشن اور ایک صوفہ جسے ٹھوکر مار کر جگہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس پر عجیب طرح سے گری محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بکھرے بال چہرے پر نیل۔ ۔ بازوؤں پر سرخ نشان۔ ۔ ۔ وہ بازوؤں سے آدھا چہرہ چھپائے سسکیوں سے رو رہی تھی۔

وہ متحیر سا چند قدم آگے آیا۔

محمل! وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہا تھا کس نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس نے کیا یہ سب؟

مر جاؤ تم ! ایک دم بازو ہٹا کر اس نے حسن کو دیکھا اور پھر چلائی تھی۔ خدا کرے تم سب مر جاؤ، یتیموں پر ظلم کرتے ہو خدا کرے تمہارے بچے مر جائیں۔ سب کے۔ ۔

محمل مجھے بتاؤ یہ کس نے کیا ہے۔

مر جاؤ تم سب وہ پوری قوت سے چلائی اپھر یکدم بلک کر رو دی اور اٹھ کر لڑکھڑاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

٭٭٭



رات کا تیسرے پہر اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ مدھم سی چرچراہٹ سنائی دی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ لاؤنج سناٹے اور تاریکی میں ڈوبا تھا۔

وہ دکھتے جسم کو زبردستی گھسیٹتی ٹی وی لاؤنج تک لائی۔ ساتھ ہی فون اسٹینڈ رکھا تھا۔ اس نے کارڈ لیس نکالا اور ادھر ادھر احتیاط سے دیکھتی واپس آئی۔

مسرت آج گھر پر نہ تھی۔ صبح جب وہ مسجد جانے کے لیئے نکلی تھی تب مسرت گھر میں ہی تھی۔ مگر شاید اس کے جاتے ہی ان کو کہیں بھیج دیا گیا تھا۔ غالباً رضیہ پھپھو کے گھر۔

وہ دروازے کی کنڈی لگا کر بیڈ پر بیٹھی تھی۔ لایٹ آن کر رکھی تھی۔ سامنے دیوار پر آئینہ لگا تھا۔ اسے اپنا عکس سامنے ہی دکھائی دے رہا تھا۔

لمبے بال چہرے کے اطراف میں گرے سوجے ہونٹ۔ ماتھے اور گال پر سرخ سے نشان جو نیلے پر رہے تھے۔ اس نے بے اختیار بال کانوں کے پیچھے اڑسے۔ وہ کارڈ ابھی تک جینز کی جیب میں تھا۔ اس نے مڑا تڑا سا وہ کارڈ نکالا اور نمبر ڈائل کرنے لگی۔

پہلی گھنٹی پوری بھی نہ گئی تھی کہ چوکنی سی ہیلو سنائی دی۔

اے۔ ۔ ۔ ۔ اے ایس پی صاحب؟اس کی آواز لڑکھڑائی۔

کون؟ وہ چونکا تھا۔

مم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل۔ اسے اپنا گھمنڈی انداز یاد کر کے رونا آیا۔

محمل کدھر ہو تم؟ خیریت ہے ؟

وہ چپ رہی آنسو اس کے چہرے پر لڑھکتے گئے۔

محمل بولو۔

مجھے۔ مجھے انہوں نے ٹارچر کیا ہے۔ مارا ہے۔

اوہ۔ وہ چپ ہو گیا۔ پھر آہستہ آہستہ بولا۔ اب کیسی ہو؟

مجھے نہیں پتہ۔ وہ رونے لگی تھی۔ مجھے بتائیں فواد بھائی جیل میں ہیں ؟

ہے تو سہی مگر شاید جلد اس کی ضمانت ہو جائے وہ لوگ عنقریب تمہیں میرے خلاف گواہی دینے پر اکسائیں گے۔

پھر میں کیا کروں ؟

مان جاؤ۔

کیا؟اس نے بے یقینی سے فون کو دیکھا۔ عجیب سر پھرا شخص ہے۔

تم جھوٹا وعدہ کر لو کہ تم میرے خلاف گواہی دو گی۔ ورنہ یہ تمہیں کورٹ میں نہیں پہنچنے دیں گے۔

اور کورٹ میں جا کر مکر جاؤں ؟

ہاں وہاں سچ بتا دینا۔

اور وہ اس دھوکے پر میرا کیا حشر کریں گے آپ کو اندازہ ہے ؟

تم اس کی پرواہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ سب مجھے اپنے اپنے مقصد کے لیئے استعمال کر رہے ہو۔ آپ کو مجھ سے کوئی سچی ہمدردی نہیں ہے۔

چند لمحے خاموشی چھائی رہی، پھر ہمایوں نے ٹھک سے فون بند کر دیا۔ وہ دکھی سی فون ہاتھ میں لیئے بیٹھی رہ گئی۔

٭٭٭



مسرت اگلی صبح ہی آ گئی تھی۔ انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا۔ کوئی جواب نہ مانگا۔ بس اسے دیکھ کر ایک جامد سی چپ ہونٹوں پر لگ گئی۔ بہت دیر بعد آہستہ سے بولی تو بس اتنا کہ تم فواد کے خلاف ضرور گواہی دو گی۔ انہوں نے میری بیٹی کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ اور پھر چپ چاپ کام میں لگ گئیں۔

پورے گھر کا اس سے سوشل بائیکاٹ تھا۔ وہ کمرے میں کھانا کھاتی اور سارا دن اندر ہی بیٹھی رہتی۔ باہر نہ نکلتی۔ اگر نکلتی بھی تو کوئی اس سے بات نہ کرتا تھا۔ ۔

اس روز بہت سوچ کے وہ فرشتے سے ملنے مسجد چلی آئی۔

کالونی کی سڑک گھنے درختوں کی باڑ سے ڈھکی تھی۔

درختوں نے سارے پر ٹھنڈی چھایا کر رکھی تھی۔ آہنی گیٹ کے سامنے رک کر اس نے گردن اوپر اٹھائی۔

سفید اونچے ستونوں والی وہ عالیشان عمارت اپنے ازلی وقار و تمکنت کے ساتھ کھڑی تھی۔ برابر میں سبز بیلوں سے ڈھکا بنگلہ تھا جس کی بیرونی دیوار کے ساتھ ایک خالی سنگی بینچ نصب تھا۔ محمل جب بھی ادھر آتی وہ بینچ ویران نظر آتا۔ اسے بے اختیار ہی بس اسٹاپ کا بینچ اور وہ سیاہ فام لڑکی یاد آئی تھی۔ نہ جانے کیوں۔

سفید سنگ مر مر کی لش پش چمکتی راہداریاں آج بھی ویسے ہی پر سکوں تھیں جیسی وہ ان کو چھوڑ کے گئی تھی۔

باب دجال مدینہ طیبہ میں نہ آ سکے گا۔

آخری کھلے دروازے سے اسے فرشتے کی آواز سنائی دی۔ اس نے ذرا سا جھانکا۔

وہ کتاب ہاتھ میں لیئے منہمک سی پڑھا رہی تھی۔

سیاہ عبایا کے اوپر سرمئی اسکارف میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ اور وہ سہری چمکدار کرسٹل سی آنکھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہیں دیکھ رکھی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر کہاں ؟

وہ ان ہی سوچوں میں گھری دروازے کی اوٹ میں کھڑ تھی جب فرشتے باہر آئی۔

ارے محمل اسلام علیکم۔

اور اسے دیکھ کر خود وہ بھی بہت خوش ہوئی تھی۔

تم کیسی ہو محمل؟آؤ بلکہ یوں کرو میرے ساتھ اندر آفس میں چلتے ہیں۔ فرشتے نے اس کا ہاتھ ہولے سے تھاما اور پھر اسے تھامے ہی مختلف راہداریوں سے گزرتی اپنے آفس تک لائی۔

اور یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے ؟

پتا نہیں۔ اس نے بیٹھتے ہوئے میس کے شیشے کی سنک میں اپنا عکس دیکھا۔ بھوری اونچی پونی ٹیل سے نکلتی لاپروا لٹیں، آنکھوں تلے گہرے حلقے، ماتھے اور گال پر گہرے نیل اور ہونٹوں کے سوجے کنارے۔

یکدم روشنی اس کے چہرے پر پڑی تو اس نے آنکھیں چندھیا کر چہرہ پیچھے کر لیا۔ فرشتے اپنی کرسی کی پشت پر کھڑکی کے بلائنڈز کھول رہی تھی۔

ہمایوں نے بتایا تھا تم نے اسے کال کی تھی؟

وہ ذرا سی چونکی۔ ہمایوں ہر بات کیوں اسے بتاتا تھا؟

اسے نہیں بتانا چاہیئے تھا۔

ہمایوں کو تمہاری بہت فکر تھی۔ وہ واپس کرسی پر آ بیٹھی تھی۔

انہیں میری نہیں اپنی فکر ہے۔ بہت خود غرض ہیں آپ کے کزن۔

جانے دو وہ نرمی سے مسکرائی۔ کسی کے پیچھے اس کا برا ذکر نہیں کرتے۔

جو بھی ہے اس نے شانے اچکائے۔ وہ یقیناً اپنے کزن کی برائی نہیں سن سکتی تھی۔

اچھا یہ بتاؤ۔ وہ ذرا کرسی پر آگے کو ہوئی۔ آگے پڑھائی کا کیا پروگرام ہے ؟

ستمبر میں یونیورسٹی جوئن کرنی ہے۔

تو ابھی گرمیوں کی چھٹیوں میں ادھر اسکول آ جاؤ۔

قرآن پڑھنے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایکچوئلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پاس قرآن ہے ترجمے والا گھر میں پڑھ لوں گی۔

بی ایس سی میں کون سا سبجیکٹ تھا؟

میتھس۔

کس سے پڑھا تھا؟

کالج میں پروفیسر سے اور شام میں ایک باجی کے پاس ٹیوشن جاتی تھی۔ ۔

میتھس کی بک تھی تو تمہارے پاس پھر دو دو جگہ سے کیوں پڑھا؟گھر بیٹھ کر پڑھ لیتی؟

گھر میں خود سے کہاں پڑھا جاتا ہے اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر رک گئی اور جیسے سمجھ کر گہری سانس لی۔ قرآن اور نصابی کتابوں میں فرق ہے۔

اس لیئے ہم چار سال کی عمر سے گھنٹوں نصاب کو پڑھتے رہتے ہیں، اور قرآن کو اللہ نے آسان بنا کر اتارا ہے تاکہ ہر کوئی سمجھ سکے۔ میتھس ٹیچر کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ قرآن آ جاتا ہے سمجھ؟

ہاں کیوں نہیں۔

فرشتے نے جھک کر دراز سے ایک سیاہ جلد والی دبیز کتاب نکالی۔

یہ انجیل مقدس کا ایک عظیم حصہ ہے۔ اس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ظہور کی پیش گوئی ہے۔ کافی دلچسپ ہے یہ پڑھو۔ اس نے ایک صفحہ کھول کر اس کے سامنے کیا۔ محمل نے کتاب اپنی جانب کھسکا لی۔

اس کی امت کی اناجیل ان کے سینوں میں ہوں گی۔ وہ بے اختیار رکی۔ اناجیل؟ اس نے پوچھا۔

انجیل کی جمع۔ مراد ہے قرآن مجید۔ یہ یہاں سے پڑھو۔ فرشتے نے ایک جگہ انگلی رکھی۔ مخروطی سپید انگلی جس کا ناخن نفاست سے تراشیدہ تھا۔ اس نے انگلی میں زمرد جڑی چاندی کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔

اوہ اچھا۔ وہ ادھر سے پڑھنے لگی۔

وہ بازاروں میں شور کرنے والا ہو گا، نہ بے ہودہ گو۔ نام احمد ہو گا۔ وہ آفتاب کے سایوں پر نظر رکھنے والا ہو گا۔ اس کے اذان دینے والے کی پکار دور تک سنی جائے گی۔ وہ رک کر جیسے الجھ کر پھر سے شروع سے پڑھنے لگی۔

ملک شام ہو گا؟

بعد میں مسلمانوں کی حکومت شام تک پھیل جائے گئی تھی اسی طرف اشارہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور آفتاب کے سایوں پر نظر رکھنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

نمازوں کے اوقات کے لیئے۔ ۔ ۔ ۔

اور اذان دینے والا۔ ۔ ۔ ۔ ؟

بلال۔ ۔ فرشتے جواب دیتے ہوئے مسکرائی۔

گھر بیٹھ کر پڑھو گی تو یہ سوال کس سے پوچھو گی؟

قرآن کی تفاسیر بھی تو پڑھی جا سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔

علم پڑھنے سے نہیں سمجھنے سے آتا ہے۔

آخر گھر بیٹھ کر پڑھنے میں کیا ہے ؟

موسی کو خضر کے پاس جانا پڑتا ہے میری جان، خضر موسی کے پاس نہیں آتے۔ ۔ ۔ اچھی کوالٹی کے علم کے لیئے اتنا ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔

آپ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی ساری باتیں ٹھیک مگر، مگر میری بات بھی ٹھیک ہے۔ مذبذبین بین ثالک، لا الی ھولاء ولا الی ھولاء۔

فرشتے پین کو انگلیوں کے درمیان گھماتی مسکرا کر گہری سانس لے کر بولی۔ وہ ان کے دریاں تذبذب میں ہیں، نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ہیں۔

آپ نے عربی میں کچھ کہا نا؟اب عام بندے کو عربی کہاں سمجھ میں آتی ہے ؟قرآن اردو میں کیوں نہیں اترا؟

اچھا سوال ہے۔ وہ اپنی نشست سے اٹھی اور سامنے کتابوں کے ریک کی طرف گئی۔ پھر سیدھی کھڑی کتابوں کی جلد پر انگلی گزارتی کسی کتاب کی تلاش کرنے لگی۔

تو تمہارا نقطہ یہ ہے کہ صرف خالی محاورتاً ترجمہ دیکھ کر قرآن پڑھنا بھی کافی ہے۔ اس نے ایک کتاب پر انگلی روکی اور اسے کھینچ کر باہر نکالا۔

یہ سورۃ بنی اسرائیل میں ابلیس کے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے کا قصہ ہے۔ یہاں ابلیس نے اولاد آدم کے لیئے کیا لفظ استعمال کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پڑھو اس نے بڑا سا ترجمے والا قرآن اس کے سامنے کھول رکھا اور اپنی زمرد جڑی انگوٹھی والی انگلی ایک لفظ پر رکھی۔ محمل بے اختیار قرآن پر جھکی۔

لاحتنکن، البتہ میں ضرور قابو کروں گا۔ اس نے لفظ اور ترجمہ دونوں پڑھے۔

رائٹ۔ اگر البتہ اور ضرور کے ضمائر کو نکال دو تو تین حرفی لفظ رہ جاتا ہے۔ حنک یعنی حنک، حنک کے تین معنی ہیں۔ کسی چیز کو خوب باریکی میں سمجھنا، ٹڈیوں کے کھیت کا صفایا کرنا اور گھوڑے کے جبڑوں کے درمیان سے لگام گزار کر گھوڑے کو قابو کرنا اردو میں بس اتنا لکھا ہے قابو کرنا۔

جسے انگریزی میں کنٹرول کہتے ہیں۔ جبکہ عربی کی وسعت ہمیں بتاتی ہے۔ کہ شیطان کس طرح ہماری نفسیات سمجھ کر، ہمارے ایمان کا صفایا کر کے ہمیں لگام ڈالتا ہے اور وہ لگام عموماً منہ کے راستے ڈالی جاتی ہے اور قرآن اسی لیئے عربی میں اترا اور۔ ۔ ۔ ۔ تم میری بات سے بور ہو رہی ہو۔ چلو جانے دو۔ ابھی تمہارے پاس ٹائم ہے، اس لیئے کہہ رہی تھی، ورنہ بعد میں دنیاوی تعلیم میں کھو کر تمہیں اس کا ٹائم نہیں ملے گا۔

یعنی آپ بھی ٹیپکل مولویوں کی طرح دنیاوی تعلیم کو گناہ سمجھتی ہیں ؟

میں دنیاوی تعلیم میں کھو کر مادہ پرست بننے کو گناہ سمجھتی ہوں۔

ہاں۔ تمہیں دیر ہو رہی ہے، گھر میں سب پریشان ہو رہے ہوں گے۔

پریشان وریشان کوئی نہیں ہوتا، یتیموں کی پرواہ کسی کو نہیں ہوتی۔

کون یتیم؟

میں ! میرے ابا نہیں ہیں۔

عمر کیا ہے تمہاری؟

بیس سال۔

پھر تو تم یتیم نہیں ہو۔ یتیم تو اس نابالغ بچے کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہو جائے، بلوغت کے بعد کوئی یتیمی نہیں ہوئی۔ اپنی اس خود ترسی کو اپنے اندر سے نکال دو محمل!

آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟محمل بے یقینی سے پیچھے ہٹی اور چند لمحے اسے یونہی بے اعتبار نگاہوں سے دیکھ کر بنا کچھ کہے تیزی سے بھاگ گئی۔

فرشتے کی بات نے ایک دم اسے بہت ڈسٹرب کر دیا تھا۔

بھاڑ میں گئی ڈکشنری، میں یتیم ہوں ! وہ تیزی سے راہداری عبور کر کے برآمدے میں آئی۔ آگے نکل ہی نہ پائی تھی کہ ریسپشنسٹ نے روک لیا۔

اسلام علیکم۔ یہ آپ کا ایڈمیشن فارم، فرشتے باجی نے کہا تھا آپ کو اس کی ضرورت ہے۔

اف! وہ گہری سانس بھر کر ڈیسک کے قریب آئی۔

دکھائیے۔

بس دیکھ کر واپس کر دوں گی مجھے مولوی نہیں بننا۔ ماسٹرز کرنا ہے اس نے سوچا۔

نیا پیچ کونسا ہے ؟وہ اب پراسپیکٹس کے صفحے پلٹ کر دیکھ رہی۔ تھی۔

علم الکتاب پرسوں پہلی کلاس ہے۔

میں فرشتے کو صاف انکار کر دوں گی، بھلے وہ برا منائے، بس پورا دیکھ کر واپس کر دوں گی۔ وہ سوچ رہی تھی۔

اور یہ فارم فل کر کے کدھر دینا ہے ؟

اسی ڈیسک پر۔

اور فیس؟

علم کی فیس نہیں ہوتی۔

پھر بھی کچھ چارجز تو ہوں گے۔

ہم قرآن پاک کے چارجز نہیں لیتے۔

تو نہ لیں، مجھے کونسا ادھر داخلہ لینا ہے۔ میں تو پورا دن اسکارف لپیٹ کر قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ آئی ایم سوری فرشتے، مگر میں یہ نہیں کروں گی۔ اس نے خود کلامی کی تھی۔

٭٭٭



وہ بیگ کو اسٹریپ سے تھامے ہاتھ گرائے یوں تھکے تھکے قدموں چل رہی تھی کہ بیگ لٹکتا ہوا میں کو چھو رہا تھا۔ کالونی کے گھنے درخت خاموشی سے جھکے کھڑے تھے۔ وہ آہستہ سے بینچ پر جا بیٹھی جو آج بھی اداس تھا۔ وہ فارم جمع کروا کے فرشتے سے ملے بغیر وہاں سے نکلی تھی، تب ہی کسی کے دوڑتے قدم اس کے قریب آ کے سست پڑے۔

کیسی ہو؟ کوئی اس کے پاس کھڑا ہوا تھا۔

اس نے ہولے سے سر اٹھایا۔

ہمایوں بہت سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ سیاہ ٹراؤزر پر رف سی شرٹ پہنے، ماتھے کے گیلے بال اور چہرے پر نمی پھولی سانس جیسے تیز جاگنگ کرتا ادھر آیا تھا۔

کیا فرق پڑتا ہے آپ کو؟

فرق تو پڑتا ہے۔ تمہیں ایسے دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم میرے خلاف کورٹ میں پیش ہونے کے لیئے تیار ہو گئی ہو۔

ہونا پڑے گا۔ مگر اب کیا کروں۔

کچھ نہ کرو۔ وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ محمل چہرہ موڑ کے اسے دیکھنے لگی۔ جو سامنے درختوں کی باڑ کو دیکھ رہا تھا۔ جب تک تم عدالت میں جاؤ گی ہمارا پھندا فواد کی گردن کے گرد مزید تنگ ہو چکا ہو گا۔ بس ابھی ان کی مانتی جاؤ اور کورٹ میں سچ بول دینا۔

استعمال کر لیں سب مجھے اپنے اپنے مقصد کے لیئے۔ وہ دکھ سے اسے جھٹکتی اٹھی اور زمین پر گرا بیگ اسٹریپ سے اٹھایا۔

کمزور ہو گئی ہو بہت اپنا خیال رکھا کرو۔

آپ کی فکر میں بھی غرض چھپا ہے۔ کاش میں آپ کے خلاف بیان دے سکوں۔ وہ تیز تیز قدموں سے سڑک پر آگے بڑھ گئی۔

وہ شانے اچکا کر گیٹ کی طرف آیا۔ گیٹ بند کرتے ہوئے اس نے لمحہ بھر کو مڑ کے اس کی طرف دیکھا ضرور تھا جو سر جھکائے تیز تیز سڑک کے کنارے چلتی جا رہی تھی۔

ہمایوں پلٹ کر ڈرائیووے پر جا گنگ کی طرح بھاگتا ہوا اندر بڑھ گیا۔

درختوں کی بھاڑ اور بینچ پھر سے ویران ہو گئے۔

٭٭٭



ہیلو!

وہ بیڈ سے ٹیک لگائے، گھٹنوں پر پراسپیکٹس رکھے پڑھ رہی تھی جب دروازہ کھلا۔ آواز پر محمل نے سر اٹھایا۔

چوکھٹ پر آرزو کھڑی تھی۔ ریڈ ٹراؤزر کے اوپر سلیو لیس سفید شرٹ، یہ اس کا مخصوص ایکسرسائز کا لباس تھا۔ کٹے ہوئے بال شانوں تک آئے تھے۔ پتلی کمان سی بھنوئیں اٹھائے وہ مسکرا تے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔

کیسی ہو؟ انداز دوستانہ تھا۔ محمل بمشکل سنبھل پائی۔

ٹھیک ہوں آپ کیسی ہو؟وہ سیدھی ہو بیٹھی اور پراسپیکٹس نا محسوس طریقے سے ایک طرف کھسکا دیا۔

فٹ! وہ بے تکلفی سے بیڈ کے کنارے ٹک گئی۔ اندر آتے ہوئے اس نے دروازہ پورا بند کر دیا تھا۔ محمل بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ جو عادتاً بالوں میں انگلیاں پھیرتے بھنویں سکیڑتے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔

کتنا چھوٹا کمرہ ہے تمہارا محمل؟ایٹ لیسٹ آغا جان کو تمہیں پراپر بیڈ روم دینا چاہیئے تھا۔ بعد دفعہ آغا جان بہت زیادتی کر جاتے ہیں۔ ہے نا؟اس نے رائے مانگی۔ محمل نے ایک نظر دروازے کو دیکھا جو بند تھا۔

معلوم نہیں۔

تم کہو تو میں ابا سے کہہ کر تمہیں بڑا روم دلوا دوں ؟

(یہ خیال اتنے سالوں میں تو آپ کو نہیں آیا آج کیوں ؟)

اٹس اوکے۔ میں خوش ہوں۔ اس نے پھر سے بند دروازے کو دیکھا۔ مجھے آغا جان سے کوئی شکایت نہیں۔

خیر آغا جان کی ہی کیا بات۔ خود فواد نے تمہارے ساتھ کتنی زیادتی کی۔ کم از کم گھر کی عزت کا ہی خیال کر لیا ہوتا۔

آپ کو، آپ کو میرا یقین ہے ؟اسے جھٹکا لگا تھا۔

آف کورس۔ فواد کو کون نہیں جانتا اور اب تو یہ لوگ تمہارے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔

کیسی سازشیں ؟وہ محتاط ہوئی۔

یہ تم سے اے ایس پی کے خلاف بیان دلوائیں گے۔ کیا نام تھا اس کا؟ہمایوں ؟اس کا انداز بے حد سرسری تھا۔

ہمایوں داؤد۔ بات کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔

ہاں اس کے گھر فواد تمہیں لے گیا تھا نا؟کدھر رہتا ہے وہ؟اب آرزو بہت ہی لاپرواہی سے کہتی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔

یہ تو مجھے نہیں پتہ آرزو باجی کہ وہ کس کا گھر تھا۔

فون نمبر تو ہو گا تمہارے پاس؟

جی ہے۔ آپ کو چاہیئے ؟

ہاں بتاؤ! آرزو یکدم الرٹ سی ہوئی۔ سارا سرسری پن اڑن چھو ہو گیا۔

ون فائیو پر کال کر لیں، یہی نمبر ہوتا ہے پولیس والوں کا اس نے مسکراہٹ دبائے پراسپیکٹس پھر سے اٹھا لیا۔

خیر رہنے دو۔ مجھے کام ہے، چلتی ہوں۔ آرزو ناگواری سے کہتی ہوئی تیزی سے اٹھ کر باہر نکل گئی۔

ان کا بھی کیسا دل ہے فٹ بال کی طرح فواد اور ہمایوں کے درمیاں لڑھکتا رہتا ہے۔ ہونہہ۔ اس نے استہزائیہ سر جھٹک کر پھر سے پراسپیکٹس اٹھا لیا۔

٭٭٭



آج کتنے ہی دنوں کے بعد وہ خود سے ناشتے کی میز پر موجود تھی۔ کسی نے اس کو مخاطب نہیں کیا۔ وہ خود بھی خاموشی سے تیز تیز لقمے لے رہی تھی۔ سفید شلوار قمیض پہنے اور بے بی پنک اسکارف گردن میں ڈالے بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے وہ اپنی پلیٹ پر جھکی تھی۔

محمل فضہ چاچی نے خود ہی اسے مخاطب کیا۔

وہ بغور اسے دیکھ رہی تھی۔ کالج جوئن کر لیا ہے ؟

توس پر جام لگاتے حس نے چونک کر اسے دیکھا جو سر جھکائے ناشتے میں مگن تھی۔ اونچی بھوری پونی سے ایک لٹ نکل کر گال چھو رہی تھی۔ فضہ کے پکارنے پر اس نے گردن اٹھائی۔

نہیں ایک انسٹی ٹیوٹ میں ایڈمشن لیا ہے۔

کیا پڑھتی ہو ادھر؟

میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔ وہ کرسی دھکیلتی اٹھ گئی تھی۔ حسن کی نگاہوں نے دور تک اسے باہر جاتے دیکھا تھا۔

اسکول کی ایک راہداری میں لگے ایک قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے اسکارف کو سر پر رکھا اور چہرے کے گرد نفاست سے لپیٹ کر پن لگائی، یوں کہ دمکتی سنہری رنگت والا چہرہ بے بی پنک بیضوی ہالے میں مقید ہو گیا۔ اونچی پونی ٹیل کے باعث پیچھے سے اسکارف کافی اوپر اٹھ گیا تھا۔

ہوں نائس۔ وہ خود کو سراہتی واپس برآمدے تک آئی۔ گھر سے اسکارف لے کر آنا اسے عجیب سا لگ رہا تھا، سو یہیں آ کر اس نے اسے سر پر لیا تھا۔

برآمدے سے چوڑی سیڑھی نیچے حال تک جاتی تھیں۔ ساتھ ہی جوتوں کا ریک پڑا تھا۔ اس نے جوتے ریک پر اتارے اور ننگے پاؤں سنگ مر مر کے ٹھنڈے زینے اترنے لگی۔

وسیع و عریض prayer hall بھرا ہوا تھا۔ قالین پر سفید چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ ان سے بہت سلیقے سے صفوں میں ڈیسک لگے تھے۔ وہ ڈیسک زمیں سے بازو بھر ہی اونچے تھے۔ عموماًمدرسوں میں ہوتے ہیں۔

ڈیسکوں کے پیچھے سفید یونیفارم اور بے بی پنک اسکارف سے ڈھکے سروں والی لڑکیاں سفید چادروں ہی دو زانو مؤدب سی بیٹھی تھیں۔

محمل نے آہستہ سے آخری سیڑھی پر پاؤں رکھا۔ وہ ہال کے آخر میں تھی۔ ان کے سامنے اب ساری صفوں میں بیٹھی لڑکیوں کی پشت تھی۔ سامنے اونچے پلیٹ فارم پر میڈم کی کرسی اور میز تھا۔ ان کے پیچھے دیوار پر کیلی گرافی آویزاں تھی۔

قرآن سب چیزوں سے بہتر ہے۔ جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں۔

اسے لگا وہ ان لڑکیوں کی طرح نیچے نہیں بیٹھ سکے گی۔ سو ہال کے آخر میں دیوار ساتھ لگی کرسیوں کی طرف بڑھ گئی۔

اس کی کتابیں خاصی انٹرسٹنگ تھیں۔ کتاب الطہارۃ، کتاب الزکوٰۃ، کتاب العلم، کتاب الصلوۃ، کتاب الصیام، کتاب الحج و عمرہ۔ چھوٹے چھوٹے کتابچے تھے۔ باقی ایک سیپارہ تھا۔ پہلا سیپارہ بہت بڑے سائز کا، ہر صفحے پر بڑے بڑی پانچ عربی کی سطریں تھی۔ اور ہر دو کے درمیاں خالی دو لائینیں تھیں۔ غالباً نوٹس لینے کے لیئے۔ عربی کے ہر لفظ کے نیچے اس کا اردو ترجمہ ایک چوکور خانے میں لکھا ہوا تھا۔ یوں ہر لفظ الگ الگ نظر آتا تھا۔

وہ دس منٹ لیٹ تھی۔ میڈم مصباح کا لیکچر شروع ہو چکا تھا۔

سب سے پہلے تو آپ لوگ یہ ذہن میں رکھ لیں کہ یہاں آپ کو دین پڑھایا جائے گا۔ مذہب نہیں۔ دین اور مذہب میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ دین religion کہہ کہتے ہیں۔ اور مذہب عقیدے یا اسکول آف تھاٹ کو۔

دین پڑھنے سے قبل ایک بات ذہن میں نقش کر لیں اور گرہ باندھ لیں۔ دین میں دلیل صرف قرآن کی آیت یا حدیث صلی اللہ علیہ و سلم سے دی جاتی ہے۔

اب وہ سورہ فاتحہ سے آغاز کر رہی تھی۔

الحمد للہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عربی کے لفظ تین یا چار حروف سے بنتے ہیں جنہیں ہم روٹ ورڈ کہتے ہیں۔ الحمد میں روٹ ورڈ حا میم دال (حم د) ہے۔ یعنی تعریف، اسی حمد ، سے حامد حماد احمد محمد حمید، محمود بنتے ہیں۔ حامد تعریف کرنے والا، احمد تعریف والا، حمید خوب خوب تعریف والا جب آپ قرآن کو کولسٹرل ورڈ ڈفینیشن پر پڑھیں گے تو آپ اینجوئے کریں گے کہ بس۔ جیسے سجدہ کا روٹ ورڈ سجد ہے اس سے مسجد، ساجد بنتا ہے۔

پڑھانے کا انداز دلچسپ تھا۔ محمل تیزی سے نوٹس لے رہی تھی۔ ۔ اس نے بارہا سوچا کہ یہ فیصلہ صحیح تھا یا غلط مگر اندر سے متذبذب ہی رہی تھی۔

اگلے کچھ روز وہ پڑھائی میں اتنی مصروف رہی۔ فرشتے سے ملی ہی نہ سکی۔ تجوید تفسیر، حدیث کی پڑھائی۔ ۔ ۔ ۔ پڑھائی ٹھیک تھی اور بس ٹھیک ہی تھی۔ کوئی غیر معمولی چیز تو اسے ابھی تک نظر نہیں آئی تھی۔

البتہ اپنی رائے اسے صحیح لگی تھی قرآن میں وہی کچھ تھا جو اس نے سوچا تھا۔ نماز کا حکم، زکواۃ دینا مال خرچ کرنے کی تاکید۔ مومن، کافر، منافق کی تعریف وہی، مدینہ کے منافقوں کا ذکر۔ بھئی اب مسلمان ہیں اتنا تو پڑھ ہی رکھا ہے۔ ہاں وہ باتیں ہرگز نہیں تھیں جس کا ذکر وہ سیاہ فام لڑکی کیا کرتی تھی۔

البتہ وہ قرآن کو بہت دھیان سے پڑھتی، الفاظ کے معنی یاد کرنے کی کوشش کرتی، نوٹس لیتی، اور روٹ ورڈ سمجھتی۔ آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا وہ کتنا قرآن پڑھتی تھی۔ الفاظ کا مجہول ادا کرتی تھی۔

مثلاً بِ (با زیر) بی ہوتا ہے۔ مگر وہ با زیر (بے ) پڑھتی تھی اور یہ ساری امیاں نانیاں اور دادیاں جو ہمیں قرآن سکھاتی ہیں۔ ص اور ث کا فرق ہی نہیں پتا چلتا۔ جب ہم زیر زبر کو بہت لمبا کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم قرآن میں ایک حرف کا اضافہ کر رہے ہیں۔

قرآن میں تحریف کر رہے ہیں۔ معانی بدل رہے ہیں۔ انگریزی کو تو خوب برٹش امریکن لہجے میں بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرآن جس کو عربی لب و لہجے میں پڑھنے کا حکم ہے اور جس زیر زبر کا اصل سے زائد کھینچنا بھی حرام درجے کی غلطی شمار ہوتا ہے، اس کے سیکھنے کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔

مسجد میں ایک اور عجیب رواج تھا۔ اسے شروع میں تو عیب ہی لگا اور بعد میں اچھا۔ وہاں ہر کسی کو سلام کیا جاتا تھا۔ راہداریوں میں سے گزرتے، سیڑھیوں پر اترتے چڑھتے، جو بھی لڑکی نظر آتی اس کو مسکرا کر سلام کیا جاتا۔ بھلے کسی کو آپ جانتے ہیں یا نہیں مگر سلام فرض تھا۔ کسی کو مخاطب کرنے کے لیئے بھی ایکسکیوزمی کی جگہ اسلام علیکم کہہ کر مخاطب کیا جاتا۔

ایکسکیوزمی کہہ کر معافی کس غلطی کی مانگیں جو ہوئی ہی نہیں ؟دعا کیوں نہ دیں ؟فرشتے نے بہت پہلے اسے بتایا تھا تو وہ سوچتی رہ گئی تھی۔

ان تمام سوزوں کے برعکس محمل قرآن کو عزت دیتی۔ اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی صبح کے نوٹس پڑھ رہی تھی۔ جب دروازہ ہولے سے بجا۔

اس نے حیرت سے سر اٹھایا۔ یہ کھٹکھٹا کر کون آئے گا بھلا اس کے کمرے میں ؟

جی؟ دروازہ ہولے سے کھلا۔ وہ الجھ کر آہستہ آہستہ کھلتے دروازے کو دیکھے گئی۔ یہاں تک کہ وہ پورا کھل گیا اور لمحے بھر کو تو وہ سن سی رہ گئی۔ پھر جیسے بوکھلا کر نیچے اتری۔

آ۔ ۔ ۔ آغا جان۔ آپ؟

وہ دہلیز میں کھڑے تھے اطراف کا جائزہ لیتے کمر پر ہاتھ باندھے اندر داخل ہوئے۔

آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ بیٹھیں آغا جان! چھوٹا سا کمرہ تھا وہ انہیں کہاں بٹھاتی۔ جلدی سے سیپارہ اوپر شیلف پر رکھا اور بیڈ کی چادر ٹھیک کی۔ وہ خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئے۔

ادھر آؤ بیٹا مجھے تم سے بات کرنی ہے۔

یہ اس واقعہ کے بعد پہلی دفعہ تھا جب وہ اس سے مخاطب ہوئے تھے۔ اور انداز میں کافی نرمی تھی۔ وہ کسی معمول کی طرح ان کے سامنے آ بیٹھی۔

جج۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی۔

محمل! وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتے آہستہ سے بولے۔ محمل سانس روکے ان کو دیکھے گئی۔

فواد نے تمہارے ساتھ برا کیا بہت برا۔ میں تم سے اس کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔

نہیں نہیں آغا جان پلیز۔

انہوں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے۔ تو وہ موم کی طرح پگھلنے لگی۔ بے اختیار ان کے ہاتھ پکڑ لیئے۔

تمہارے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں میں جانتا ہوں۔ اور اب میں ان کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔

جیَ وہ کچھ سمجھ نہ پا رہی تھی۔

میں جائیداد میں تمہارا حصہ الگ کرنا چاہ رہا ہوں۔ تا کہ تم اس کی دیکھ بھال کر سکو۔ ففٹی پرسنٹ کی تم مالک ہو۔ تم وہ حصہ لے لو۔ میں نے وکیل کو پیپرز تیار کرنے کا کہہ دیا ہے۔

وہ حق دق ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

کیا تم اپنا حصہ لینا چاہتی ہو؟

جج جیسے آپ کہیں۔ ۔ ۔ بعض دفعہ اپنے حقوق کی بات اکیلے میں کہنا آسان ہوتا ہے بہ نسبت اپنے مخالفین کے سامنے۔ وہ اور کچھ کہہ ہی نہ سکی بس یک ٹک انہیں دیکھے گئی جو اس کے سامنے بیڈ پائنتی ہی بیٹھے تھے۔

میں آج جائیداد کے کاغذات سائن کر دیتا ہوں۔ مگر تم میری ایک شرط ہے وہ لمحے بھر کو رکے ان کی نگاہیں اس کے چہرے پر جمی تھیں وہ پلک نہیں جھپک رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے جو دم سادھے انہیں دیکھ رہی تھی۔

مگر تم فواد کے خلاف نہیں بلکہ اے ایس پی ہمایوں داؤد کے خلاف گواہی دو گی کورٹ میں۔

وہ ادھ کھلے لب اور پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھے گئی۔

عدالت نے ہمیں تاریخ دے دی ہے اگلے ماہ کی تاریخ میں چاہتا ہوں تم عدالت میں اپنے بیان سے نہ پھرو۔ تا کہ میں جائیداد کے کاغذات تمہارے حوالے کر دوں۔ جیسے ہی تم کورٹ میں بیان دو گی میں دستخط کر دوں گا۔

وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ انہیں دیکھنے کے لیئے گردن بھی نہ اٹھا سکی۔ تمہارے پاس وقت ہے خوب اچھی طرح سوچ لو۔ اور اسے ایک بزنس ڈیلنگ سمجھو۔ یہ تمہیں آئندہ ابراہیم کی بزنس ایمپائر سنبھالنے میں مدد دے گی۔ وہ دروازے کی طرف بڑھے۔

مجھے منظور ہے۔ وہ تیزی سے بولی فیصلہ کرنے میں اسے ایک پل لگا تھا۔ بھاڑ میں جائے ہمایوں حبس بے جا میں تو اس نے بھی مجھے رکھا تھا۔

انہوں نے ذرا سا مڑ کر فاتحانہ مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔

تم اچھی بزنس وومن بن سکتی ہو ٹیک کئیر۔ اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئے۔

کیا یوں ہمایوں گرفتار ہو جائے گا؟اور۔ ۔ ۔ ۔ اور فواد کیا گھر آ جائے گا؟نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جائیداد۔ اپنے مقام کو پا لینے کی خواہش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی وہ بھی تائی پر یونہی حکومت کرے۔ سب اس کی عزت کریں۔ اس کے حکم سے گھر میں کام ہوں اس کی موجودگی ہر جگہ ضروری سمجھی جائے۔ وہ الجھ کر رہ گئی تھی۔

کیا اس نے صحیح کیا ؟کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

٭٭٭



صبح آٹھ بجے وہ مسجد کے گیٹ پر تھی۔ اندر داخل ہونے سے قبل اس نے بیلوں سے ڈھکے بنگلے کو دیکھا جس کا سنگی بینچ آج بھی ویران تھا۔

بابا! تمہارا صاحب ہے ؟کچھ سوچ کر اس نے با وردی گارڈ کو مخاطب کیا۔

وہ تو شہر سے باہر گیا ہے۔

کب آئے گا؟

معلوم نہیں۔

اچھا اس نے ذرا سی ایڑی اونچی کر کے گیٹ کے پار دیکھا۔ ہمایوں کی گاڑی کھڑی تھی۔

وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بیبی ! وہ جہاز پر گیا ہے۔ گارد قدرے گڑبڑایا۔

بھاڑ میں گیا تمہارا صاحب میری طرف سے۔

اس سفید سر پر جھوٹ تو نہ بولو۔ نہیں ملنا چاہتا تو منع کر دو۔ جھوٹ بولنا منافقت کی نشانی ہے۔ ایمان کی نہیں ہمایوں نے اس کے لیئے یہ کیوں کہہ رکھا تھا۔

( اور پتا نہیں میں نے صحیح کیا یا غلط۔ مگر وہ ایسے میری جائیداد کبھی نہیں دیں گے، پھر اور کیا کرتی؟)

بے زار سا تاثر چہرے پر سجائے، بیگ اٹھائے وہ سست روی سے برآمدے کی طرف چل رہی تھی۔

(اور یہ جھوٹ تو نہیں، اس نے مجھے حبس بے جا میں رکھا تھا۔ )

اس نے چپل ریک میں اتاری اور خود کو گھسیٹتی ہوئی نیچے سیڑھیان اترنے لگی۔

(مگر اغوا تو نہیں کیا تھا، میں ادھر اپنی مرضی سے ہی گئی تھی تو اس پر یوں اغواء کا الزام لگا دینا جھوٹ نہیں ہو گا؟)

وہ سر جھکائے آہستہ آہستہ زینے سے نیچے اتر رہی تھی۔

(نہیں جھوٹ کہاں، اس نے ڈیل تو کی تھی، اغوا اور خریدنا ایک ہی بات ہے۔ اگر ذرا سا لفظوں کا ہیر پھیر کر دوں تو کیا ہے؟)

اس نے کرسی پر بیٹھ کر کتابیں سائیڈ ٹیبل پر رکھیں، اور ساتھ بیٹھی لڑکی کے سیپارے پر جھانکا اور پھر مطلوبہ صفحہ کھولنے لگی۔ تفسیر شروع ہو چکی تھی۔ وہ آج بھی لیٹ تھی۔

(فواد کے خلاف گواہی نہ بھی دوں تو بھی وہ سزا پائے گا، اور وہ اتنا بڑا اے ایس پی کوئی میرے بیان سے اسے سزا تھوڑی نہ ملے گی؟بس لفظوں کو تھوڑا سا انٹر چینج کر دیا جائے تو کیا ہے، میری نیت تو صاف ہے )

مطلوبہ صفحہ کھول کر اس نے پین کا کیپ اتاری اور آج کی تاریخ لکھنے لگی۔

اور تم جھوٹ کو سچ کے ساتھ نہ ملاؤ اور نہ تم سچ کو چھپاؤ حالانکہ تم خوب جانتے ہو۔

میڈم مصباح کی بات پر جیسے کرنٹ کھا کر اس نے سر اٹھایا۔ وہ اپنی چئیر پر بیٹھی کتاب سے پڑھ رہی تھی۔ اس نے بے اختیار اپنے سیپارے کو دیکھا۔ اس صفحے پر سب سے اوپر یہی لکھا تھا۔

تم میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو، اور صرف مجھ سے ہی ڈرو۔ اور تم جھوٹ کو سچ سے نہ ملاؤ۔ اور نہ تم حق کو چھپاؤ حالانکہ تم جانتے بھی ہو۔

وہ سن سی بے حد ساکت سی پھٹی پھٹی نگاہوں سے ان الفاظ کو دیکھ رہی تھی۔ مگر اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ساری آوازیں جیسے بند ہو کر رہ گئی تھیں۔ وہ بنا پلک جھپکے ان ہی الفاظ کو دیکھے جا رہی تھی۔

کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو؟اور اپنے نفس کو بھول جاتے ہو؟حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ کیا پھر تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔ ذرا دیر پہلے گارڈ کو کی گئی نصیحت اس کے کانوں میں گونجی۔ اسے لگا وہ کتاب اسے اس سے زیادہ جانتی ہے۔ (پھر۔ ۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔ ۔ میں کیا کروں ؟)اس کا دل کانپنے لگا تھا۔ بے اختیار اس نے رسی تھامنا چاہی۔ کلام کی رسی۔ وہ نہ جانتی تھی کہ دوسرے سرے پر کون ہے، مگر اسے یقین تھا کہ دوسرے سرے پر کوئی ضرور موجود ہے۔

صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو۔ بے شک وہ (نماز) سب پر بھاری ہے۔ سوائے ان کے جو ڈرنے والے ہیں۔

اس نے وحشت زدہ سی ہو کے سر اٹھایا۔ پنک اسکارف والے بہت سے سر اپنی کتابوں پر جھکے تھے۔ کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہ تھا۔

اس نے پھر سے ان الفاظ کو پڑھا۔ وہ کوئی مضمون نویسی نہ تھی۔ باتاو مائی گاڈ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

it's talking to me

ساتھ بیٹھی لڑکی نے سر اٹھایا۔

تو یہ ٹاک ہی تو ہے۔ کلام۔ اس کو ہم کلام پاک اسی لیئے تو کہتے ہیں۔ وہ سادگی سے کہہ کر اپنے سیپارے پر جھک گئی۔

محمل نے سیپارہ بند کر دیا، اور کچھ بھی اٹھائے بنا، تیزی سے بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھتی گئی۔

فرشتے اپنے آفس میں آئی تو وہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔

محمل تم؟

میں۔ ۔ ۔ ۔ میں آئندہ نہیں آؤں گی، میں مدرسہ چھوڑ رہی ہوں۔ وہ جو کرسی پر بیٹھی تھی، بے چینی سے کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سا خوف اور گھبراہٹ تھی۔ فرشتے نے آرام سے فائل میز پر رکھی اور کرسی کی دوسری جانب جگہ سنبھالی، کھڑکی کے بلائنڈز بند تھے، کمرے میں چھاؤں سی تھی۔

آپ میری بات سن رہی ہیں ؟

بیٹھو۔ وہ میز کی دراز کھول کر جھکی کچھ تلاش کرنے لگی تھی۔ محمل بمشکل ضبط کرتی کرسی پر ٹکی اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ادھر سے بھاگ جائے۔

میں نہیں آؤں گی آئندہ فرشتے ! اس نے دہرایا۔ وہ ابھی تک دراز میں مصروف تھی۔

پھر کہاں جاؤ گی؟

بس قرآن چھوڑ رہی ہوں۔

اسے چھور کر کہاں جاؤ گی محمل! وہ کچھ کاغذات نکال کر سیدھی ہوئی اور اسے دیکھا۔

اپنی نارمل لائف میں۔

تمہیں یہ ابنارمل لائف لگتی ہے ؟

یہ مجھ سے بات کرتی ہے فرشتے ! وہ دبی دبی سی چیخی۔ آپ سمجھ نہیں سکتیں میں کتنے کرب سے گزر رہی ہوں۔ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو رہا۔ آپ سمجھ نہیں سکتیں۔

میں سمجھتی ہوں۔ جب قرآن مخاطب کرنے لگتا ہے تو سب ہی اس کرب سے گزرتے ہیں۔

نہیں۔ اس نے سختی سے نفی میں سر ہلایا۔ وہ کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتا جو میرے ساتھ ہوا، آپ تصور نہیں کر سکتیں۔

تمہیں لگتا ہے تم پہلی ہو؟

اس نے گہری سانس لے کر آنکھیں بند کیں اور سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔

ہم انسان ہی تو یہ بوجھ اٹھانے کے قابل ہیں، پھر تم اتنی کمزور کیوں پر رہی ہو؟ہم پہار ہوتے تو نہ سہار سکتے دب جاتے۔

وہ میری سوچیں پڑھ رہی ہے فرشتے !

وہ مخلوق نہیں ہے وہ کلام ہے۔ بات ہے اللہ کی بات، اور اللہ ہی تو سوچیں پڑھ سکتا ہے۔

وہ گم صم سی ہو گئی۔

میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اللہ تعالیٰ سے بات کر رہی تھی؟

تمہیں کوئی شک ہے ؟

مگر یہ چودہ سو سال پرانی کتاب ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاسٹ (ماضی) میں ہو کر ہم سے چودہ سو سال بعد کے فیوچر (مستقبل) سے کونٹیکٹ کر لے ؟ اٹس لائیک اے میریکل۔ ( یہ تو معجزے کی طرح ہے )۔

یہی تو ہم اسے کہتے ہیں۔ معجزہ!

اور جب یہ ختم ہو جائے گی؟

تو پھر سے شروع کر لینا۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہا کرتے تھے، قرآن کے معجزے بار بار دہرانے سے پرانے نہیں ہوں گے۔ فہماً بتا رہی ہوں۔

میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اسے چھوڑ دوں تو؟

فرشتے نے تاسف سے اسے دیکھا۔

محمل!روز قیامت جب اللہ زمین آسمان کو بلائے گا تو ہر چیز کھینچی چلی آئے گی طوعاً یا کرہا خوشی سے یا نا خوشی سے۔ جب ہم اللہ کے بلانے پر نماز قرآن کی طرف نہیں آتے تو اللہ ہمارے لیئے ایسے حالات بنا دیتا ہے۔ دنیا اتنی تنگ کر دیتا ہے کہ ہمیں خاموشی کے عالم میں آنا ہی پڑتا ہے۔

پھر وہ مزید کوئی بحث نہ کر سکی۔

اسے فرشتے کی بات سے بے حد خوف آیا تھا۔ اسے لگا وہ اب کبھی قرآن چھوڑ نہ سکے گی۔

٭٭٭



اگر اسے پتہ ہوتا اس ایک لفظ میں اس کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان چھپا ہے۔ تو وہ اسے کبھی مس نہ کرتی، اور نہیں تو اس کا مطلب لغت میں ہی تلاش کر لیتی۔ مگر جانے کیسے وہ اس سے لکھنا رہ گیا تھا۔

آج کا یہ رکوع میڈم مصباح کے علاوہ کوئی اور ٹیچر پڑھا رہی تھیں۔ میڈم ذکیہ آیات بنی اسرائیل کے ہیکل میں داخل ہونے کا قصہ بیان کر رہی تھیں۔

اور دروازے میں داخل ہو جاؤ سجدہ کرتے ہوئے اور کہو حطۃ ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے۔ اور عنقریب ہم محسنین کو زیادہ دیں گے۔

وہ آیت پڑھ کر اب لفظوں کی گہرائی میں جا رہیں تھی۔ حطۃ کا مطلب گرانا مراد گناہ گرانے یعنی بخشش مانگنے سے ہے، اب بنی اسرائیل نے کیا یہ کہ انہوں نے جیسا کہ اگلی آیت میں ذکر ہے منہ ٹیڑھا کر کے بات کو بدل دیا، وہ سجدہ کرتے یعنی جھک کر حطۃ کہہ کر داخل ہونے کے بجائے حنطۃ کہہ کر داخل ہوئے حنطتۃ کہتے ہیں۔

وہ تیز تیز قلم چلا کر لکھ رہی تھی کہ کسی نے برہمی سے پین اس کے رجسٹر پر رکھا۔ اس نے ہڑبڑا کر سر اٹھایا۔

ایک کلاس انچارج اس کے سر پر کھڑی تھیں۔

بعض لوگ قرآن پڑھتے ہیں، اور قرآن ان کے لیئے دعا کرتا ہے۔ اور بعض لوگ قرآن پڑھتے ہیں تو قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔

کیا ہوا میم؟

آپ رجسٹر قرآن پر رکھ کر لکھ رہی ہیں۔ انچارج نے صدمے سے اسے دیکھا تو اس نے گھبرا کر قرآن نیچے سے نکالا۔ یہ اس کا تجوید کا قرآن تھا۔ سمپل آف وائٹ جلد والا۔

سوری میم۔ اس نے قرآن احتیاط سے ایک طرف رکھا اور رجسٹر پر جھک گئی۔ پھر ادھر ادھر ساتھ والی لڑکیوں کے رجسٹر پر جھانکا تا کہ دیکھ سکے حنطۃ کا کیا مطلب میڈم نے لکھوایا ہے۔ مگر اس نے کچھ نہ لکھا تھا۔ قرآن کی کلاس تھی وہ بول نہ سکتی تھی۔ سو مایوسی سے واپس اپنے نوٹس کو دیکھا۔ صفحے کی لائن یہاں ختم ہوتی تھی، وہاں اس نے لکھا تھا حنطۃ یعنی گند۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گند کے دال کے ؟آگے صفحہ ختم تھا۔

بعض دفعہ ہم میکانکی انداز میں کچھ لکھتے ہوئے جب صفحہ ختم ہو جائے تو آگے جو بھی چیز ہو بھلے نیچے رکھی ہوئی کتاب ہو یا ڈیسک کی لکڑی اس پر لکھ دیتے ہیں اور بعد میں یاد ہی نہیں آتا۔

گند اس کا مطلب ہے ؟وہ اس ادھورے لفظ پر حیران ہوئی۔ کوئی سینس نہ بنتا تھا، مگر خیر وہ آگے لکھنے لگی۔ سوچا بعد میں کسی سے پوچھ لے گی۔ مگر بعد میں یاد ہی نہیں رہا۔

چھٹی کے وقت اس نے ہمایوں کو اپنا گیٹ بند کرتے دیکھا۔ وی ہک چڑھا کے پلٹا ہی تھا کہ وہ سامنے آ کھڑی ہوئی۔

پنک اسکارف میں مقید چہرہ کندھے پر بیگ، سفید یونیفارم اور سینے پر ہاتھ باندھے وہ تیکھی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

یہ تبدیلی کیسے آئی؟وہ بے اختیار مسکرا دیا۔ غالباً اچھے موڈ میں تھا۔ محمل اسی طرح تیکھی نظروں سے اسے دیکھے گئی۔

خیریت؟ وہ دو قدم آگے بڑھا۔ اس کے پیچھے سیاہ گیٹ کے باہر اس کا مستعد چوکیدار کن اکھیوں سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ جو آمنے سامنے کھڑے تھے۔ ہمایوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور وہ سخت تیوروں ساتھ سینے پر بازو لپیے۔

آپ کو مسئلہ کیا ہے فواد بھائی کے ساتھ؟

شاطر مجرم کسی بھی پولیس آفیسر کے لیئے چیلنج ہوتا ہے۔ اور مجھے چیلنج لینے میں مزہ آتا ہے۔

اس مزے میں آپ الٹا پھنس گئے تو؟

میں کیوں پھنسوں گا؟تم نے کورٹ میں مکر جانا ہے نا؟

آپ کو کس نے کہا کہ میں مکر جاؤں گی؟

کیا مطلب وہ یک لخت چونکا۔

وہ اسی طرح اسے چبھتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی پلٹی اور سینے پر بازو لپیٹے سر جھکائے سڑک پر چل دی۔ عقل کے سارے راستے دھوئیں میں گم ہوتے تھے، وہ کچھ سمجھ نہ پا رہی تھی۔

٭٭٭



کتنے دنوں بعد وہ شام کی چائے سرو کرنے ٹرالی دھکیلتے لان میں لائی تھی۔ لان میں سب سے بڑے یونہی بیٹھے تھے۔ ادھر ادھر کی خوش گپیاں تبادلہ خیال چل رہے تھے۔

محمل، آغا جان نے اسے مسکرا کر دیکھ کے غفران چچا سے بات کرنے میں مصروف ہو گئے، ناعمہ اور فضہ نے معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ جب سے فواد جیل گیا تھا ان دونوں کا الائنس (اتحاد) تائی مہتاب سے ہٹ کر بن چکا تھا۔ دونوں کے خواب اسے داماد بنانے کے چکنا چور ہو چکے تھے۔ اور وہ اب مزید تائی کی خوشامدیں کرنے کی بجائے انہیں بے رخی دکھانے لگی تھیں۔

یہ لیجئے آغا جان۔ اس نے بھی پورے اعتماد سے کپ انہیں تھمایا اور پھر تائی مہتاب کو جو الگ سی گم صم سی بیٹھی تھیں۔

تھنک یو محمل۔ جانے انہوں نے کس دل سے بظاہر مسکرا کر کہا۔ فضہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ناعمہ کو ہلکا سا اشارہ کیا، ناعمہ نے ہونہہ کہہ کے سر جھٹکا۔ ان کی سجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ اچانک وہ اس پر اتنی مہربان کیوں ہو رہے ہیں۔

وہ خالی ٹرالی لیئے اندر آئی تو سیڑھیوں سے اترتا حسن جو شرٹ کے کف بند کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کے لمحے بھر کو رک گیا۔ محمل!

ایک پرانا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا۔ فواد کا یوں اترنا پھر اس کا اسے چائے دینا اور وہ انگلیوں کا ٹکرانا۔ کیا تب فواد نے یہ سوچا تھا کہ یہ لڑکی بھی اس کا ہتھیار بن سکتا ہے۔ اتنی ارزاں تھی وہ؟

منظر وہی تھا، بس چہرہ بدل چکا تھا اس کی آنکھوں کرچیاں سی چبھنے لگیں۔

مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا۔ وہ تیزی سے کچن کی طرف آئی۔ محمل رکو سنو۔ وہ سرعت سے اس کے پیچھے لپکا۔ اور کچن کے دروازے پر ٹھہر سا گیا۔

اندر مسرت کپڑے سے سلیب صاف کر رہی تھی۔ محمل ساتھ ہی کرسی پر رخ موڑے بیٹھی تھی۔ اونچی بھوری پونی ٹیلس سے اس کی گردن پیچھے سے جھکتی تھی اور کرتے کے اوپر دوپٹے کو شانوں پر ٹھیک سے پھیلائے، ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے وہ چہرہ موڑے بیٹھی تھی۔ اس کے اس سائیڈ پوز سے بھی حسن کو اس کے جھکی آنکھوں کا سوگوار سا رنگ دکھائی دیا تھا، اسے وہ بہت بدل گئی ہے۔

محمل ! مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ مسرت کاسلیب کو رگڑتا ہاتھ تو رک گیا، انہوں نے حیرت سے گردن موڑی۔

حسن۔

چچی محمل کو کہیں ذرا میری بات سن لے۔

انہوں نے اسے دیکھا جو بے تاثر سی لب بھینچے سر جھکائے کرسی پر بیٹھی تھی۔

محمل حسن بلا رہا ہے۔

میں ان کے باپ کی نوکر ہوں جو آؤں۔ اس کا دل چاہا وہ یہ کہہ دے، مگر صبح ہی تو فرشتے نے اسے کچھ کہا تھا۔

محمل۔ مسرت نے پھر پکارا۔

انہیں جو کہنا ہے یہیں کہہ لیں۔ منظور نہیں ہے تو بے شک نہ کہیں وہ سر جھکائے ٹیبل کو دیکھ رہی تھی، وہ قسم اسے اب آخری سانس تک نبھانی تھی۔

محمل تم سمجھتی کیوں نہیں ہو۔ وہ بے بس سا اس کے سامنے آیا۔ وہ تمہیں فواد کے لیئے استعمال کر رہے ہیں۔ تم خود کو اس کیس میں مت الجھاؤ۔ اس نے گردن اٹھائی۔ وہ سامنے کھڑا فکر مندی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

محمل کا چہرہ بے تاثر تھا، بالکل سپاٹ۔

آپ نے کہہ لیا جو کہنا تھا؟ اب آپ جا سکتے ہیں۔

اس نے آلوؤں کی ٹوکری قریب کھسکا کر چھری اٹھا لی، وہ چند لمحے بے بس سا اسے دیکھتا رہا پھر تیزی سے باہر نکل گیا۔ مسرت الجھی سی اس کے قریب آئیں۔

کس کیس کی بات کر رہا ہے حسن؟

آلو گوشت میں بناؤں گی، آپ قورمہ دیکھ لیجیئے گا اور کھیر بھی، کیونکہ میں نہیں چاہتی کسی کو کوئی شکایت ہو۔ وہ اب مگن سی آلو چھیل رہی تھی۔

مسرت گہری سانس لے کر سلیب صاف کرنے لگیں۔ وہ جانتی تھیں اب وہ نہیں بتائے گی۔

اور وہ چھیلتے اس عجیب بات کے بارے میں سوچ رہی تھی جو صبح اس کو فرشتے نے کہی تھی۔ جب وہ رشتے داروں اور یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی آیتیں پڑھ کر تڑپ گئی تھی۔ اور پوچھا تھا کہ جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں ان کے لیے کیا سزا بتائی گئی ہے۔

یتیموں سے پہلے قرابت داروں کا ذکر ہے محمل۔ میں اور میری ماں ان قرابت داروں کی جیسے خدمت کرتی ہیں آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔

تو اس خدمت کا کبھی ان کو احساس بھی دلایا؟

اماں تو ہر وقت جتی رہتی ہیں، مگر میں ادھار رکھنے کی قائل نہیں ہوں، وہ ایک کہیں تو میں دس سناتی ہوں۔ ایک ایک آئٹم گنواتی ہوں جو بناؤں۔

اس نے فخر سے کہا اور پھر فرشتے کا سنجیدہ چہرہ دیکھا تو لگا کچھ غلط کہہ دیا ہے۔

یعنی سب کیا کرایا ملیا میٹ کر دیتی ہو، یہ تو ان پر ظلم ہے۔

ظلم؟میں ظلم کرتی ہوں ان پہ؟ وہ شاکڈ رہ گئی۔ ظلم کی تعریف کیا ہوتی ہے ؟کسی کے حق میں کمی کرنا۔ ایک کی ایک سنانا برابر کا بدلہ ہے، مگر نواد پر سنانا زیادتی ہے ان کے حق میں کمی ہے۔

وہ مجھے جو بھی بول دیں اور میں آگے سے چپ کر جاؤں ؟ایک بھی نہ سناؤں ؟

تم اگر سنا دو گی تو سب برابر کر دو گی، پھر تم ان کے کیے کا شکوہ کسی سے کرنے کی حق دار نہیں ہو گی۔ معاف کر دیا کرو۔ اور جانتی ہو۔ معاف کرنا کیا ہوتا ہے ؟

اس کا سر خود بخود نفی میں ہل گیا۔

اس کو دکھ نہ دینا جس نے آپ کو دکھ دیا ہو، ان کو ان کے رویے کا احساس تک نہ دلانا۔ کچھ نہ بتانا۔ یہ معاف کرنا ہوتا ہے۔ تم معاف کر دیا کرو صبر کیا کرو۔

ساری زندگی صبر ہی تو کیا ہے میں نے۔

وہ صبر نہیں ہوتا جو تم کرتی ہو۔ صبر وہ ہوتا ہے کہ اگر سر بھاری پتھر لگ جائے تو لبوں سے اف تک نہ نکلے صبر وہ ہوتا ہے جو تمہاری ماں کرتی ہے۔ ۔

صبر اور معاف کرنے کے بعد کسی کے برے رویے کے جواب میں اچھا رویہ دو۔

میں کیوں کروں یہ سب وہ کیوں نہیں کرتے ؟رشتے داروں کے ساتھ ویسا ہی رویہ رکھنا چاہیئے جیسا وہ ہمارے ساتھ رکھتے ہوں۔

مگر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا کرتے تھے کہ بدلے کی صلہ رحمی کرنے والا صلہ رحمی نہیں کرتا۔ اس پر تو آپ کو اجر ہی نہیں ملے گا۔ اجر تو تب ملے گا جب آپ برے کے جواب میں اچھا کریں۔ تم انہیں معاف کرو اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔

انہوں نے میری جائیداد کھائی ہے۔ وہ چیخ پڑی تھی ابا اپنی ساری پراپرٹی میرے نام کر کے گئے تھے۔

بہت غلط کر کے گئے تھے پھر انہیں حق ہی تہیں تھا کہ ساری پراپرٹی وصیت کرتے۔ ان کا حق تو بس ایک تہائی پر تھا اس کو بے شک تمہارے نام وصیت کر جاتے مگر باقی دو تہائی حصے کی شرعاً تقسیم کی اجازت دے جاتے، تو شاید تمہارے چچا لوگ اپنے حصے پر قناعت کر لیتے۔ وارث تو اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں جانے والے کو برا بھلا نہیں کہہ رہی، مگر ایک غلط فیصلہ بہت سوں کی زندگی برباد کر دیتا ہے۔ محمل! تم کچھ لوگوں کے غلط فیصلوں کو بنیاد بنا کر اپنے رشتے داروں پر ظلم کرو گی تو یہ مت بھو لو کہ پل صراط پر رحم اور امانت کے کانٹے ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے، ہر خائن اور قطع رحمی کرنے والے کو وہ پل صراط سے نیچے جہنم میں گرائیں گے۔ اور ہر صلہ رحمی کرنے والا اور امانت دار پل پار کر جائے گا، تم وہ پل پار نہیں کرنا چاہتیں ؟

وہ سر جھٹک کر تیزی سے آلو چھیلنے لگی۔

٭٭٭



میڈم مجھے ایک بات پوچھنی ہے ؟جی ضرور پوچھیئے۔

میم۔ مجھ سے نماز پڑھی نہیں جاتی، تو خیر ہے ؟

ہاں کیوں نہیں خیر ہے۔ اٹس اوکے، اگر آپ نہیں پڑھ سکتیں تو۔ محمل کو لگا منوں بوجھ اس کے کندھے سے اتر گیا ہو۔ وہ ایک دم کسی قید سے آزاد ہو گئی تھی۔

وہی تو میم!میں باقی نیکیاں کر لوں، قرآن پڑھ لوں، ٹھیک ہے نا نماز پڑھنا بہت ضروری تو نہیں ہے ؟

نہیں اتنا ضروری تو نہیں ہے۔ اگر آپ نہیں پڑھنا چاہتیں تو نہ پڑھیں۔ میم کوئی فرق تو نہیں پڑے گا نا؟

قطعاً فرق نہیں پڑے گا۔ یہ بالکل آپ کی اپنی مرضی پر ہے۔

اوہ اوکے۔ وہ بے حد سی آسودہ سی مسکرائی۔ مگر۔ میڈم مصباح کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ یقین کریں محمل کوئی فرق نہیں پڑے گا اسے۔ آپ بے شک نماز نہ پڑھیں بے شک سجدہ نہ کریں۔ جو ہستیاں اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتیں۔ اگر آپ کر لیں اسے کیا فرق پڑے گا۔ اس آسمان کا بالشت بھر بھی حصہ خالی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ سجدہ نہ کر رہا ہو۔ اور فرشتہ جانتی ہو کتنا بڑا ہو سکتا ہے ؟جب اس پہاڑ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جبرائیل علیہ السلام کے پکارنے پر پلٹ کر دیکھا تھا، تو جبرائیل علیہ السلام کا قد زمیں سے آسمان تک تھا۔ اور ان کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آسمان نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایسے ہوتے ہیں فرشتے۔ 70 ہزار فرشتے کعبہ کا طواف کرتے ہیں یہ تعداد عام سی لگتی ہے مگر جانتی ہو، جو 70 ہزار فرشتے روز طواف کرتے ہیں ان کی باری پھر قیامت تک نہیں ائے گی۔ اس رب کے پاس اتنی لاتعداد ہستیاں ہیں عبادت کرنے کے لیئے، آپ نماز نہ بھی پڑھیں تو اسے کیا فرق پڑے گا؟

میڈم مصباح جا چکی تھیں اور وہ دھواں دھواں چہرے کے ساتھ کتابیں سینے سے لگائے ساکت سی کھڑی تھی۔ اس کو لگا وہ اب کبھی نماز چھوڑ نہ سکے گی۔

شام میں اس نے بہت اہتمام کے ساتھ نماز عصر پڑھی۔ پڑھ کے لاؤنج میں فون اسٹینڈ کے ساتھ بیٹھی ہی تھی کہ نادیہ کو فون کرے۔ ناعمہ چاچی معاذ کو کان سے پکڑے بے بس سی ڈانٹ رہی تھیں۔ اور وہ کان چھڑا کر چھپاک سے منہ چڑاتا بھاگ گیا تھا۔

اتنا شیطان ہو گیا ہے یہ لڑکا، میں کیا کروں میں اس کا۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھ کے پریشانی سے بولیں اور محمل کی فون نمبر پریس کرتی انگلیاں رک گئیں۔

شیطان ہو گیا ہے یہ لڑکا ! اس نے زیر لب دہرایا۔

لفظ شیطان کا روٹ ورڈ کیا تھا؟شین طا نون (ش ط ن )شطن۔ یعنی رحمت سے دور، اللہ کی رحمت سے دور، دھتکارا ہوا۔ اوہ گاڈ، انہوں نے اپنے بچے کو اللہ کی رحمت سے دور ہوا کہہ دیا؟

چچی۔ اس نے ہولے سے انہیں پکارا فون کا رسیور ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔

ہاں ؟ناعمہ چاچی نے پریشانی سے چونک کر اسے دیکھا۔

معاذ کو شیطان تو نہ کہیں۔ چچی اللہ! نہ کرے وہ شیطان ہو۔ شیطان تو اللہ کی رحمت سے دور ہونے کو کہتے ہیں۔

اچھا اچھا۔ ۔ ۔ ۔ بس کرو دو سیپارے کیا پڑھ لیئے اب ہمیں سکھائے گی یہ۔ ہونہہ ان کا تو قبلہ ہی بدل گیا ہے۔ وہ استہزائیہ کہتی باہر نکل گئیں اور وہ جہاں تھی وہی سن سی بیٹھی رہ گئی۔ ۔

ان کا تو قبلہ ہی بدل گیا ہے۔ وہ تکرار اس کے ذہن میں گونج رہی تھی۔

بہت پہلے ملنے والی سیاہ فام لڑکی ایک دم اسے یاد آئی تھی۔

اس میں تمہارا ماضی ہے، حال ہے اور مستقبل لکھا ہے۔

٭٭٭



وہ سر جھکائے خاموشی سے برتن دھو کر ریک میں لگا رہی تھی۔ دھلی پلیٹوں سے پانی کے قطرے ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ اس کے ہاتھ سست روی سے کام کر رہے تھے۔ وہ کچن میں اکیلی تھی، اماں جانے کہاں تھیں۔ باقی لوگ تو کام کے وقت کچن میں آنا مزاج کے خلاف سمجھتے تھے، مگر خیر اس نے سر جھٹکا۔ وہ اب کوشش کرتی تھی کہ ایسی سوچوں کو دل میں جگہ نہ دے۔ اب محسوس ہوتا تھا کہ اس نے اپنے بدصورت رویئے سے اپنے اور ان کے درمیاں فرق نہ رکھا تھا، پہلے وہ ہر چیز اس دنیا میں برابر کرنے پر تلی تھی، اب اس نے صبر کرنا شروع کر دیا تھا۔

زندگی ویسے بھی اب ٹف تھی۔ اب مسجد کی ٹیچرز نے اسے دیر سے آنے پر الٹی میٹم دے دیا تھا، وہ خود بھی اپنی تجوید درست کرنے فجر کے بعد آنا چاہتی تھی۔ کہ تب لڑکیاں اکٹھی بیٹھ کے تجوید پریکٹس کرتی تھیں۔ صرف یہ مسئلہ تھا فجر کے وقت فریج لاک ہوتا تھا۔ اس کے لاکھ کہنے پر بھی کسی پر اثر نہیں ہوا تھا، اس کے پاس اپنے ناشتے کے پیسے نہ تھے، یا تو وہ ٹرانسپورٹ کا کرایہ ادا کرتی یا اپنا ناشتہ لا کر کرتی۔ سو اس نے ناشتہ قربان کر کے وین والے کو فیس دے دی۔ اور روز صبح تہجد پر اٹھ کر وہ آدھے گھنٹے اپنا ہوم ورک کرتی، پھر فجر پڑھ کر نکل جاتی۔ عصر کے قریب واپس آتی۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے علم فقر و فاقے کے بغیر نہیں آتا، ٹھیک ہی کہتے تھے۔

اس نے آخری پلیٹ ریک پر رکھی، ٹونٹی بند کی اور ہاتھ خشک کرتی اپنے دھیان میں پلٹی تھی۔ کہ کچن کے کھلے دروازے میں کسی کو کھڑا دیکھ کر ٹھٹکی اور پھر دوسرے ہی پل ساکت رہ گئی۔

کیسی ہو؟ فواد سینے پر ہاتھ باندھے مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔

وہ گنگ سی بنا پلک جھپکے اسے دیکھے گئی۔ یہ کب واپس آیا؟

تم مجھے بہت یاد آئی محمل! میں ایک بہت بڑی سازش کا نشانہ بنا ہوں۔

اماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اماں۔ وہ ایک دم بلند آواز میں پکارنے لگی۔ خون ابلنے لگا تھا، اسے محسوس ہوا اس کا جسم کپکپا رہا ہے۔

کیا ہوا؟مسرت بوکھلا کر اندر آئیں، اور پھر فواد کو دیکھ کر چپ سی ہو گئیں۔ فواد بیٹا تم؟

چاچی۔ وہ ان کی طرف بے قراری سے پلٹا۔ میرے ساتھ بہت بڑی سازش ہوئی ہے، یہ سب اس اے ایس پی کا کیا دھرا ہے۔ میں بھلا محمل کے ساتھ ایسا کر سکتا ہوں ؟

٭٭٭



محمل! تم۔ وہ اب اس کی جانب مڑا۔ تم جانتی ہو میں بے قصور ہوں۔

ریکارڈنگ جو انہوں نے تمہیں سنائی وہ ان کے کسی فنکار کی تھی۔ ہم ان پولیس والوں کو بھتہ نہیں دیتے۔ اس لیئے انہوں نے ایسا کیا۔ تم یاد کرو تم نے خود کہا تھا میں سائن کروانے چلی جاتی ہوں۔ میں نے اگر سودا کیا ہوتا تو میں خود تجھے مجبور کرتا۔

وہ ایک دم چونکی وہ ٹھیک کہہ رہا تھا مگر۔

آپ نے مجھ پر الزام لگایا کہ آپ نے مجھے رنگے ہاتھوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے آگے اس سے بولا نہیں گیا۔

وہ سب مجھے اے ایس پی نے رات کو کہا تھا۔ کہ میں تمہارے اور اس کے درمیان آنے کی کوشش نہ کروں۔ بھلا بتاؤ میں ایسا کر سکتا ہوں ؟ پھر مجھے یقین آ ہی گیا تم جیسی با کردار اور پارسا لڑکی ایسا کر ہی نہیں سکتی۔ میں پورے گھر کے سامنے تمہارے کردار کی قسم کھانے کے لیئے تیار ہوں۔ چاچی آپ میرا یقین کریں۔

وہ بے بس سا مسرت کے پاس جھکا اور ان کے دونوں ہاتھ پکڑ لیئے۔

یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا، لیکن اگر آپ سمجھتی ہیں کہ محمل میری وجہ سے بدنام ہوئی ہے تو میں محمل سے شادی کرنے کے لیئے تیار ہوں۔ آپ جب کہیں آغا جان دھوم دھام سے محمل کو اپنی بہو بنائیں گے۔

آپ ہاں تو کریں۔ ایک دفعہ میری محمل سے شادی تو ہو جائے پھر دیکھیں ہو گی کسی میں ہمت محمل پر انگلی اٹھانے کی؟ہم وہ انگلی کاٹ دیں گے۔ اللہ گواہ ہے چچی ہم ایسا کریں گے۔

فواد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! تم سچ کہہ رہے ہو؟فرط جذبات سے مسرت کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے۔

وہ جو ساکت سی سلیب کا سہارا لیئے کھڑی تھی۔ ایک دم بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی۔

اس نے رات کا کھانا نہیں کھایا، بس سر منہ لپیٹے پڑی رہی۔ باہر چہل پہل کی آوازیں آ رہی تھیں۔

ہنسی مذاق باتیں شور قہقہے دعوت کی طرح کا سماں تھا اشتہا انگیز کھانوں کی مہک اس کے کمرے تک آ رہی تھی، مگر اس کا کسی چیز کے لیئے دل نہیں چاہ رہا تھا۔

وہ چت لیتی دیر تک چھت پر گھومتے پنکھے کو دیکھتی رہی تھی۔ تینوں پر گول گول گھوم رہے تھے۔ بار بار ایک ہی مدار کے گرد چکر کاٹتے، آخر میں وہی پہنچ جاتے جہاں سے چلے تھے۔ وہ بھی وہیں پہنچ گئی تھی۔

٭٭٭



صبح پرئیر ہال کی کشادہ سفید سیڑھیاں وہ ننگے پاؤں سست روی سے اتر رہی تھی۔ سفید شلوار قمیض کے اوپر پنک اسکارف نفاست سے اوڑھے، ایک ہاتھ ریلنگ پر رکھے وہ جیسی پانی پر چلتی غائب دماغی سے نیچے اتری تھی۔ اس کو آج کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا، وہ چپ چاپ اپنی جگہ پر آئی۔ بیگ ڈیسک پر رکھا اور گرنے سے انداز میں بیٹھی۔ ۔

اگر کالج ہوتا تو یقیناً آج نہ آتی، اتنی ڈپریسڈ ہو گئی تھی کہ وہ پڑھ نہ سکی تھی۔ مگر وہ کالج نہ تھا، نہ ہی وہ پڑھنے آئی تھی۔ وہ تو سننے آئی تھی۔

بعض چیزیں اتنی حیرت انگیز ہوتی ہیں کہ انسان ان پر حیران ہونا ترک کر دیتا ہے۔ معجزانہ کتاب بھی ایسی ہی تھی، عاجز کر دینے والی۔ وہ جو سوچتی تھی اس کتاب میں لکھا آ جاتا تھا۔ اب محمل نے حیران ہونا ترک کر دیا تھا۔ اسے لگا وہ اب کبھی حیران نہیں ہو سکے گی، مگر آج کی آیات پر وہ پھر چونکی تھی۔

اور لوگوں میں سے کوئی ہے، اچھی لگتی ہے تمہیں اس کی بات دنیا کی زندگی کے متعلق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے سر گھٹنوں پر رکھ دیا اور بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹ لیئے۔

اور وہ اپنی بات پر اللہ کو گواہ بنا لیتا ہے، جبکہ حقیقت میں وہ بے حد جھگڑالو ہے۔

اس نے سر اٹھایا چہرہ دائیں جانب گھمایا، پنک اسکارف میں ملبوس لڑکیاں سر جھکائے تیزی سے قلم پیپر پر چلا رہی تھیں۔ وہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے۔

بس وہی جانتا تھا جس نے یہ کتاب اس کے لیے اتاری تھی۔ اسے کبھی کبھی لگتا تھا یہ بس اس کی کہانی ہے، کسی اور کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا۔

اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے۔ اس نے دونوں کنپٹیوں کو انگلیوں سے سہلایا۔

اچھی لگتی ہے تمہیں۔

وہ آہستہ سے اٹھی سیپارہ بند کیا اور کچھ بھی لیے بغیر سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔

اس کی بات۔

وہ دھیرے دھیرے زینے چڑھ رہی تھی۔

دنیا کی زندگی کے متعلق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ آخری زینہ عبور کر کے برآمدے کی طرف بڑھی۔

اور وہ اپنی بات پر اللہ کو گواہ بنا لاتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ سخت جھگڑالو ہے۔ وہ تھکاوٹ سے باہر برآمدے کے اسٹیپس پر بیٹھ گئی۔ سامنے ہرا بھرا لان تھا۔ وہ ستون سے سر ٹکائے لان کے سبزے کو خالی خالی نظروں سے دیکھے گئی۔

یہ تو اس نے اپنے دل سے بھی نہ کہا تھا کہ اسے فواد کی بات اچھی لگی تھی۔ اس کی آفر دلفریب تھی، دلکش تھی۔ وہ اپنے دل سے اقرار کرنے سے ڈرتی تھی، مگر وہ تو ہر نگاہوں کی خیانت بھی جانتا ہے، اس سے کیسے چھپ سکتی تھی کوئی بات مگر اس نے اسے ڈانٹا نہیں ذلیل نہیں کیا جیسے لوگ کرتے تھے۔ اس کا تماشا نہیں بنایا تھا جیسے خاندان والے بناتے تھے۔ اس کی بات سنی ان سنی نہیں کی جیسے نادیہ کرتی تھی، کوئی ڈانٹ ڈپٹ لعن طعن نہیں کیا۔ بس وہی ایک نرم مہربان انداز جس کی تڑپ میں وہ قرآن سننے آئی تھی، وہ ڈانٹتا ہی تو نہیں تھا، اس کی طرح کوئی سمجھاتا ہی نہیں تھا۔ کوئی اس کی طرح تھا ہی نہیں۔

وہ وہی بیٹھی تھی جب ساتھ میں وہ لڑکی آ بیٹھی۔ غالباً مڈ بریک تھی۔ اور لڑکیاں اس میں بھی بیٹھ کر تجوید کرتی تھیں۔

وہ ٹھوڑی ہتھیلی پر رکھے چہرہ موڑے یونہی اسے دیکھے گئی۔

وہ لڑکی گھٹنوں پر قرآن رکھے بائیں ہاتھ سے صفحے پلٹ رہی تھی، دایاں ہاتھ یونہی ایک طرف گرا پڑا تھا۔ مطلوبہ صفحہ کھول کر اس نے بائیں ہاتھ سے گرے ہوئے ہاتھ کو اٹھایا اور گود میں رکھا، پھر ٹھیک ہاتھ سے صفحے کا کنارہ پکڑے پڑھنے لگی۔

ان المسلمین و المسلمات۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ رک رک کر اٹک اٹک کر پڑھتی، بار بار آواز ٹوٹ جاتی۔ وہ پھر سے شروع کرتی، مگر ہکلاہٹ زدہ زبان پھر ساتھ چھوڑ جاتی۔ مخارج صحیح نہ نکل پاتے وہ بدقت تمام ایک لفظ بولتی تو ساتھ گاں گاں آواز بھی آتی۔

یکدم محمل کو احساس ہوا وہ رونے لگی تھی۔ اس کا مفلوج دایاں ہاتھ بار بار نیچے گر جاتا، وہ بائیں ہاتھ سے اسے اٹھاتی، پھر سے تجوید سے پڑھنے کی کوشش کرتی۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی اور آنسو ابل کر گال پر لڑھکنے لگے۔ وہ بائیں ہاتھ سے آنسو رگڑتی، دبی دبی سسکیوں کے ساتھ پھر سے کوشش کرنے لگی۔

محمل گم صم اسے دیکھے گئی۔ وہ اپاہج لڑکی اپنے اللہ سے بات کر رہی تھی، وہ اس کا بہت ہمدرد تھا۔ اسے محمل کی ہمدردی کی اس وقت ضرورت نہ تھی۔ لمحے بھر کو بھی اسے اس پر ترس نہیں آیا تھا، بلکہ رشک ہوا تھا، کوئی ایسے بھی تڑپ کر قرآن پڑھتا ہے جیسے وہ پڑھ رہی تھی؟اور ایک ہم ہیں برسوں اس مصحف کو لپیٹ کر سب سے اونچے شیلف میں سجائے رکھتے ہیں اور بس سجائے ہی رکھتے ہیں۔ وہ ایسے ہی ہتھیلی ٹھوڑی تلے دبائے گردن پوری اس کی طرف موڑے پلک جھپکے بنا اسے دیکھے جا رہی تھی۔

وہ پھر سے ہکلاتی زبان میں پڑھنے لگی، مگر ٹھیک پڑھا نہ جا رہا تھا، آنسو ٹپ ٹپ اس کی آنکھوں سے گر رہے تھے۔ دبی دبی سسکیوں کے درمیاں وہ مسلسل استغفراللہ کہے جا رہی تھی۔ عام سی شکل کی اپاہج لڑکی۔ اسے بے اختیار وہ سیاہ فام لنگڑی لڑکی یاد آ گئی۔

وہ کتنوں کو سہارا دئیے ہوئے تھا، اور وہ کتنے بد نصیب ہوتے ہیں جو تلاوت کی آواز سن کر کان بند کر لیتے ہیں۔ کبھی میں بھی ان بد نصیبوں میں تھی۔

وہ آہستہ سے اٹھی اور سر جھکائے چل دی۔

برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی اپاہج لڑکی اسی طرح رو رہی تھی۔

٭٭٭



وہ گیٹ بند کر کے اندر داخل ہوئی تو لان میں کرسیاں ڈالے تقریباً تمام کزنز بیٹھے ہوئے تھے۔ فواد بھی ان کے ساتھ ہی تھ۔ وہ کسی بات پر ہنس رہا تھا۔ شرٹ کا اوپری بٹن کھولے، قیمتی رست واچ پہنے، اس کے پرفیوم کی مہک یہاں تک آ رہی تھی۔

وہ کرسیوں کا دائرہ بنا کر بیٹھے تھے۔ یہ ندا تھی جو اس کی بات دلچسپی سے سن رہی تھی، جبکہ آرزو بھی اسی دائرے میں لا تعلق سی بیٹھی تھی اور فائقہ بھی۔ رضیہ پھپھو کی فائقہ، وہ بھی جیسے فواد سے احتراز برت رہی تھی۔ جیل جانے کے بعد بھلے تائی مہتاب جتنی تاویلیں پیش کرتیں، فواد کی اہمیت اب وہ نہ رہی تھی۔ وہ کتابیں سینے سے لگائے سر کو جھکائے تیز تیز چلنے لگی۔

محمل! وہ برآمدے کے اسٹیپ پر تھی جب فواد نے اسے بے اختیار پکارا تھا۔ اس نے ایک پاؤں سیڑھی پر رکھے گردن موڑی۔ وہ مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔ آؤ بیٹھو۔

مجھے کام ہے وہ روکھے تاثرات دے کر برآمدے کا دروازہ پار کر گئی۔ لان میں بہت سی معنی خیز نگاہوں کا تبادلہ ہوا تھا۔

اس کی ہمت کیسے ہوئی یوں مجھے سب کے سامنے بلائے۔ مائی فٹ! وہ پیر پٹختی اندر آئی تھی۔ لاؤنج میں حسن نظر آیا تو ایک دم ٹھٹک کر رکی، پھر سر جھٹک کر اندر جانے لگی۔

محمل! اس کے قدم رک گئے مگر پلٹی نہیں۔

تمہیں فواد کی ہر بات پر یقین ہے ؟

مجھے آپ پر بھی یقین نہیں ہے۔ اس کا گلا رندھ گیا تھا، تیزی سے کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور پھر دھڑام سے اپنے پیچھے بند کیا تھا۔

حسن نے تاسف و بے بسی سے چند لمحے ادھر دیکھا پھر سست روی سے سیٹھیاں چڑھنے لگا۔

٭٭٭



اس نے چمچہ ہلا کر پتیلی کا ڈھکن بند کیا، جھک کر چولہا قدرے آہستہ کیا اور واپس کٹنگ بورڈ کی طرف آئی جہاں سلاد کی سبزیوں کا ڈھیر لگا تھا۔ وہ وہی کھڑے سر جھکائے کھٹ کھٹ سبزیان کاٹنے لگی۔

ادھر ہو محمل! رضیہ پھپھو نے اندر جھانکا۔

محمل نے سر اٹھایا۔ آج اس نے پونی نہیں باندھی تھی اور بھورے لمبے بال شانوں پر گر رہے تھے جنہیں اس نے کانوں کے پیچھے اڑس سکھا تھا۔

جی پھپھو؟وہ آہستہ سے گویا ہوئی، یہ محمل کے اندر ایک واضح تبدیلی تھی وہ پہلے جیسی بد لحاظ نہیں رہی تھی۔ ورنہ پہلے تو اسے مخاطب کرتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔

میں نے سوچا تمہاری کوئی مدد کروا دوں۔ مسرت کو تو بھابھی نے دوسرے کاموں میں لگا رکھا ہے۔ کوئی تک ہے بھلا؟جب دیکھو بے چاری سے کام ہی کرواتی رہتی ہیں۔

تو کوئی بات نہیں پھپھو، ہمارا فرض ہے۔ وہ نرمی سے مسکرا کر پھر سے سبزیاں کاٹنے لگی تھی۔

یہ فواد رہا کب ہوا؟پھپھو سامنے کاؤنٹر سے ٹیک لگائے گویا ہوئیں۔

معلوم نہیں۔

ہک ہا۔ بڑا ظلم کیا اس نے تمہارے ساتھ۔ میرا تو مانو اس کی شکل دیکھنے کو دل نہیں کرتا۔

وہ سر جھکائے کھٹا کھٹ پیاز کاٹتے جا رہی تھی۔

آنکھوں میں آنسو گرنے لگے تھے۔

بڑا دل تھا میرا اپنی فائقہ کے لیے مگر دل ایسا ٹوٹا تھا کہ پھر ادھر آنے کو ہی نہیں چاہتا تھا، کتنے چہرے نکلتے ہیں نہ لوگوں کے محمل!

جانے دیں پھپھو انا للہ پڑھ لیں۔ فائقہ باجی کوئی کم تھوڑی ہیں۔ وہ کسی اچھے بندے کے قابل ہیں اچھا ہی ہوا جو بھی ہوا۔

اسے پھپھو کے آزردہ چہرے کو دیکھ کے دکھ ہوا تھا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ وہ اس سے ایسے بات کر رہی تھیں۔ ورنہ پہلے تو محمل نے درمیاں میں اتنی دیواریں کھڑی کر رکھی تھیں کہ انہیں پاٹنا مشکل تھا، وہ اس کے ابا کی ایک ہی بہن تھی۔ وہ کیوں لوگوں سے شکایت کرے ؟اس نے خود بھی تو کبھی بنا کے رکھنے کی کوشش نہ کی تھی۔

ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسی لمحے فواد نے کچن کا دروازہ کھولا۔ ان دونوں نے چونک کے ادھر دیکھا، محمل کے لب سختی سے بھینچ گئے تھے وہ تیز تیز سبزی کاٹنے لگی۔

محمل! ایک کپ چائے مل سکتی ہے ؟

یہ فارغ نہیں ہے۔ اپنی بہنوں سے کہہ دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ فارغ ہی بیٹھی تھیں باہر۔ پھپھو نے نہایت بے رخی سے کہا، وہ چند لمحے کھڑا رہا پھر مڑ گیا۔

ہونہہ، حکم دیکھو کیسے چلا رہا ہے۔ تم ذرا بھی اس کی نہ سنا کرو۔ میرے بھی کتنے خواب تھے، ہمیں کوئی کمی تھوڑی ہے۔ فائقہ کے پاپا کے بزنس کا تو تمہیں پتا ہے کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ ان کی طرح یتیموں کا مال نہیں کھاتے۔

میں یتیم نہیں ہوں پھپھو! میں بالغ ہوں۔ اور بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہوتی۔

وہ اب سلاد میں لیموں نچوڑ رہی تھی۔

ہاں ہاں، تمہیں پتہ ہے ؟ ابھی فائقہ کے پاپا نے نیا گھر بنوایا ہے، دوسرا گھر تو پھر فرنش کر کے فائقہ کو دیں گے جہیز میں۔

محمل کی لیموں نچوڑتی انگلیاں تھمیں۔ ایک خیال کے پیش نظر اس نے چونک کر سر اٹھایا۔

پھپھو!اس کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔ آپ کو مدد کی ضرورت ہو گی نا۔ گھر شفٹ کیا ہے آپ اکیلے کیسے کریں گی سب؟نوکروں پر بھروسہ کر ہی نہیں سکتے۔ میں آ جاؤں آپ کے پاس ہیلپ کرا دوں گی۔

ہاں ہاں کیوں نہیں۔ پھپھو تو نہال ہو گئیں۔ میں تم سے کہنے ہی لگی تھی پھر سوچا تمہاری پڑھائی ہے۔ (تو اسی لیے اتنا پیار جتا رہیں تھیں، خیر)

کوئی بات نہیں ویک اینڈ ہے اور پھر آپ کی ہیلپ بھی تو کرانی ہے نا۔

اسے فواد سے دور رہنے کا یہی طریقہ نظر آیا تھا، پھپھو نے تو فوراً ہامی بھر لی۔ وہ جلدی سے اپنا بیگ تیار کرنے لگی۔

تیاری کیا تھی دو جوڑے رکھے چند ضروری چیزیں اور پھر قرآن رکھتے رکھتے رہ گئی۔

قرآن تو وہاں ترجمے والا مل ہی جائے گا، دو دن کی تو بات ہے، اب ساتھ کیا رکھوں۔ کوئی بات نہیں اس نے بیگ کی زپ بند کر دی۔

٭٭٭



پھپھو کا سامان شفٹ ہو گیا تھا، بس ڈبوں میں بند تھا۔ وہ جاتے ہی کام میں لگ گئی فائقہ تو ٹی وی میں ہی مگن تھی۔ ڈش بھی لگ گئی تھی اور وہ بہت شوق سے کچھ دیکھ رہی تھی۔ پھپھو نے اس سے کچھ نہ کہا، محمل ہی ساری چیزیں نفاست سے سیٹ کرتی رہی۔

رات بارہ بج گئے جب اس نے آج کے لیے بس کی۔ اور پھر نہا کر نیا سوٹ پہنا۔ پھر نئے سرے سے وضو کیا، اور دوپٹہ سر پر لپیٹے وہ پھپھو کے پاس چلی آئی۔ پھپھو آپ کے پاس ترجمے والا مصحف ہو گا؟

کیا ترجمے والا؟وہ اپنے کپڑوں کی الماری سیٹ کر رہی تھیں۔

قرآن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن ہو گا۔ اس نے جلدی سے وضاحت کی۔

ترجمے والا تو فائقہ کی دادی کا تھا پیچھلے گھر میں۔ مگر وہ کسی نے مانگ لیا تھا، ترجمے بغیر والا ہو گا۔

اچھا چلیں وہی دے دیں۔

کتابوں کے ڈبے سے نہیں نکلا؟

نہیں تو میں نے خود ساری کتابیں ادھر رکھی ہیں۔

پھر شاید کہیں مس پلیس ہو گیا ہو، فائقہ سے پوچھ لو۔ وہ پھر سے کام میں مگن ہو گئیں۔

وہ بے دلی سے فائقہ کے پاس آئی۔

فائقہ باجی آپ کے پاس قرآن ہو گا؟

میرے پاس؟مجھے کیا کرنا ہے ؟وہ الٹا حیران ہوئی۔ اماں سے پوچھو ان کو ہی پتا ہو گا۔

وہ مایوس سی خود ہی ڈھونڈنے لگی۔ کتابوں کے ریک کو پھر سے دیکھا، ایک ایک چیز چھان ماری مگر قرآن نہ تھا نہ ملا۔

وہ اپنے کمرے میں آئی اور اپنا بیگ پھر سے کھولا۔ شاید کوئی معجزہ ہو جائے اور شاید اس نے قرآن رکھ دیا ہو، سارے کپڑے اوپر نیچے کیے مگر وہ ہوتا تو ملتا۔

وہ پھر سے لاؤنج میں آ گئی۔

فائقہ باجی آپ کے پاس کوئی کیسٹ ہو گی تلاوت کی؟

نہیں فائقہ نے لاپرواہی سے شانے جھٹکے۔

کوئی چینل ہو گا جس پر تلاوت آتی ہو؟

تنگ مت کرو محمل میں مووی دیکھ رہی ہوں۔

وہ اکتا کر رخ پورا ٹی وی کی طرف کر کے بیٹھ گئی۔

محمل تھکے تھکے قدموں سے واپس آئی اور پھر بیڈ پر گر کر نہ جانے کیوں رونے لگی تھی۔

رات وہ بے چین سی نیند سوئی۔ اگلا دن کام کرواتے وہ مغموم، بے چین رہی، کھانے کے بھی چند لقمے لے سکی۔ اس سے کھایا ہی نہیں جا رہا تھا۔

ہفتے اور اتوار کے وہ دو دن جیسے اس کی زندگی کے بدترین دن تھے۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا وہ اڑ کر گھر پہنچ جائے اور اپنا قرآن تھام لے۔ کوئی ایسا اتفاق تھا کہ رضیہ پھپھو کا ڈرائیور چھٹی پر چلا گیا، وہ اب ان کے میاں نفیس انکل سے کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔ گھر سے بھی کوئی دے کر نہیں جائے گا وہ جانتی تھی۔

اللہ اللہ کر کے اتوار کی رات گھر سے گاڑی اسے لینے آئی۔

پھر جس لمحے وہ گھر آئی بجائے کسی سے ملنے کے بجائے کہیں اور جانے کے وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی۔ شیلف پر بیگ ایک طرف ڈالا اور شیلف پر سے قرآن اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ اسے لگا اب وہ زندگی بھر قرآن کے بغیر کہیں نہ جا سکے گی۔ لوگ چابی بٹوہ اور موبائل کے لیے آتے ہیں، قرآن کے لیے کوئی واپس نہیں آتا نہ جانے کیوں۔

محمل! اماں پکارتی ہوئی آئیں تو اس نے آنسو خشک کیئے اور اپنے مصحف کو احتیاط سے شیلف پر رکھا۔

محمل۔ یہ لو۔ اماں نے دروازہ کھولا اور ایک خط کا لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ تمہاری ڈاک آئی تھی۔ کل۔

میری ڈاک ؟اس نے حیرت سے لفافہ تھاما۔ مسرت جلدی میں اسے لفافہ دے کر پلٹ گئی۔ اس نے الجھتے ہوئے لفافہ چاک کیا اور اندر موجود کاغذات نکالے۔

وہ اسکالر شپ تھا جو اس کو دیا گیا تھا۔ انگلینڈ میں اعلی تعلیم کا اسکالر شپ۔

وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

٭٭٭



محمل تمہاری ڈاک آئی تھی کیا یہ وہ اسکالر شپ تھا؟

کھانے کی میز پر آغا جان نے پوچھا تو یکدم سناٹا چھا گیا۔ محمل نے جھکا ہوا سر اٹھایا۔ سب ہاتھ روکے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔

جی۔ اسے اپنی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔ خوشی یا جوش سے خالی آواز۔

ہوں۔ تو کلاسز کب اسٹارٹ ہوں گی؟آغا جان بات کرنے کے ساتھ ساتھ چمچہ کانٹا پلیٹ میں چلا رہے تھے۔ باقی سب دم سادھے محمل کو دیکھ رہے تھے۔ بلا شبہ وہ ایک بڑی خبر تھی۔

ستمبر میں۔

تمام اخراجات وہی اٹھائیں گے ؟

جی۔ وہ بھی جواب دینے کے ساتھ ساتھ کھانے لگی تھی۔ ڈائننگ ہال میں اب اس کے چمچے کی آواز بھی آ رہی تھی۔

ویری گڈ۔

انگلینڈ میں ؟

اسکالر شپ؟

محمل انگللینڈ چلی جائے گی؟

سرگوشیاں چہ میگوئیاں شروع ہو چکی تھیں۔ اس نے سر جھکائے خاموشی سے کھانا ختم کیا، پھر کرسی کھسکا کر اٹھی اور بنا کچھ کہے ڈائننگ ہال سے چلی گئی۔

اسے نہیں معلوم تھا وہ خوش تھی یا نا خوش۔ اسے ایک نئی زندگی گزارنے کا موقع مل رہا تھا، اسے خوش ہونا چاہیئے۔ لیکن پھر یہ ناخوشی؟دل ڈوبنے کا یہ احساس؟شاید یہ اس لئیے تھا اس صورت میں اسے علم الکتاب اور مسجد چھوڑنی پڑے گی۔ قرآن کی تعلیم ادھوری رہ جائے گی۔ لیکن وہ تو میں بعد میں بھی کر سکتی ہوں۔ انگلینڈ جانے کا موقع بعد میں نہیں ملے گا۔

ان ہی سوچوں میں گم نیند نے اسے آ لیا۔

٭٭٭



صبح کلاس میں سیپارہ کھولتے وقت اسے امید تھی کہ آج کے سبق میں اس کے اسکالرشپ کے بعد کے خیالات کے متعلق آیات ضرور آ جائیں گی، لیکن آج کی آیات سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کے کسی قدیم قصے کی تھیں۔

یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ اسے اس کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ اور وہ واقعہ جو بیان کیا جا رہا تھا وہ بھی قدرے ناقابل فہم تھا۔ بلکہ تھا نہیں اسے لگا تھا۔ وہ اسکالر شپ بھلا کر اس واقعے میں ہی الجھ گئی۔

واقعہ کچھ یوں تھا کہ جب طالوت کا لشکر جالوت سے مقابلے کے لیے نکلا، تو راستے میں آنے والی نہر میں ان کے لیے آزمائش ڈال دی گئی۔ اللہ نے اس نہر کے پانی کو سوائے ایک چلو کے پینے سے منع کیا، تو جو لوگ پانی پینے گئے اور جنہوں نے چلو سے زیادہ نہ پیا، وہ آگے نکل گئے اور انہیں میں حضرت داؤد علیہ السلام تھے، جنہوں نے جالوت کو قتل کر کے اسے اس کے انجام تک پہنچایا۔

پوری تفسیر سن کے بھی اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ نہر کا پانی کیوں نہیں پینا تھا؟ پانی تو حرام نہیں ہوتا پھر کیوں ؟وہ پورا دن یہی سوچتی رہ گئی تھی، یہاں تک کہ رات جب میٹھا لینے کچن میں آئی تب بھی یہی سوچ رہی تھی۔

کچن خالی تھا، اس نے فریزر کا ڈھکن کھولا، سویٹ ڈش کے ڈونگے نکالے، ٹرے میں رکھے اور ٹرے اٹھا کر باہر آئی۔

پھر جب طالوت اپنے لشکر کے جدا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ ٹرے اٹھائے ڈائننگ ہال میں آئی۔ اونچی پونی جھکے سر سے اور اٹھ جاتی تھی۔ کندھوں پر پھیلایا دوپٹہ، اور شفاف چہرے پر سنجیدگی لیے اس نے ٹرے ٹیبل پر رکھی۔ سب وقفے وقفے سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ متاثر جلن زدہ نگاہیں۔

اس نے کہا بے شک اللہ تمہیں آزمانے والا ہے ایک نہر کے ساتھ۔

وہ خاموشی سے ٹرے سے ڈونگے نکال رہی تھی۔

پہلا ڈونگا اس نے آغا جان کے سامنے رکھا۔

تو جو کوئی اس نہر سے پئیے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

دوسرا ڈونگا دونوں ہاتھوں سے ہی اٹھا کر اس نے ٹیبل کے وسط میں رکھا۔

اور جو کوئی اس نہر سے نہیں پئیے گا، سوائے اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر پینے کے، وہ بے شک مجھ میں سے ہے۔

اس نے آخری ڈونگا ٹیبل کے آخری سرے پر رکھا اور واپس اپنی کرسی پر آ گئی۔

تو سوائے چند ایک کے انہوں نے اس (نہر میں ) سے پی لیا۔

سب سویٹ ڈش شروع کر چکے تھے۔ شیشے کے پیالوں اور چمچوں کے آوازیں وقفے وقفے سے آ رہیں تھیں، ان آوازوں کے درمیان وہ مدھم نرم آواز بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ اور وہ تو ابھی دور کہیں اس آواز میں کھوئی ہوئی تھی۔

تو سوائے چند ایک کے انہوں نے اس میں سے پی لیا۔

اس نے پیالہ آگے کیا، اور تھوڑی سی کھیر اپنے پیالے میں ڈالی۔

تو سوائے چند ایک کے انہوں نے اس میں سے پی لیا۔

وہ اب آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے چمچ لے رہی تھی۔

تو تمہیں کب تک جانا ہو گا محمل؟

آغا جان نے پوچھا تو یکدم پھر سے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ چمچوں کی آواز رک گئی۔ بہت سی گردنیں اس کی طرف مڑیں۔ اس نے سر اٹھایا۔ سب اس کی طرف متوجہ تھے۔

اگست کے اینڈ تک۔

یعنی تم ستمبر کے پہلے تک نہیں ہو گی؟

نہیں !

کیا مطلب؟آغا جان چونکے۔

میں نہیں جا رہی۔ اس نے چمچ واپس پیالے میں رکھا اور نیپکن سے لب صاف کرنے لگی۔

کیا مطلب؟

تم اتنا بڑا اسکالرشپ چھوڑ دو گی؟فضہ چاچی نے تحیر سے کہا تھا۔

میں چھوڑ چکی ہوں۔

مگر۔ ۔ مگر کیوں ؟

وہ نیپکن ایک طرف رکھ کر کھڑی ہوئی۔

کیونکہ ہر جگہ رکنے کے لیے نہیں ہوتی، اگر میں نے اس نہر سے پانی پی لیا تو میں ساری زندگی بیٹھی رہ جاؤں گی۔ اور طالوت کا لشکر دور نکل جائے گا۔ بعض حلال چیزیں کسی خاص وقت میں حرام ہو جاتی ہیں۔ اگر اس وقت آپ اپنے نفس کو ترجیح دیں، تو خیر کا کام کرنے والے لوگ دور نکل جاتے ہیں۔ می نہر پر ساری عمر بیٹھی نہیں رہنا چاہتی۔ مجھے وہ داؤد بننا ہے جو جالوت کو مار سکے۔

وہ سوچ کر رہ گئی اور کہا تو بس اتنا۔

مجھے ابھی قرآن پڑھنا ہے اور تیز تیز قدم اٹھاتی باہر نکل گئی۔

٭٭٭



شام کی ٹھنڈی ہوا اپنی لے پر بہہ رہی تھی۔ وہ ٹیرس پر کرسی ڈالے دور آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ جہاں شام کے پرندے اپنے گھروں کو اڑتے جا رہے تھے۔

ٹیرس سے سامنے والوں کا گھر نظر آتا تھا۔ ان ہی بریگیڈیر صاحب کا گھر جن کی قرآن خوانی اس نے ایک دن دیکھی تھی۔ قرآن کو بھی پتا نہیں کیا کیا ہم لوگوں نے بنا دیا ہے۔

اس نے کسی خیال کے تحت کپ سائیڈ پر رکھا اور اٹھی۔ ابھی مڑی ہی تھی کہ سامنے فواد کا چہرہ دکھائی دیا۔ وہ گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹی۔

وہ اندر کھلنے والے دروازے میں کھڑا تھا۔ سینے پر ہاتھ باندھے لب بھینچے اسے دیکھ رہا تھا۔

تم مجھ سے کتراتی پھر رہی ہو؟حالانکہ جانتی ہو معرا قسور نہیں ہے۔ وہ چپ رہی۔

کل دوپہر تین بجے میں تمہارا اسٹاپ پر انتظار کروں گا، مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ آئی ہوپ کہ تم ضرور میری بات سننے آؤ گی۔ وہ کہہ کر ایک طرف ہو گیا۔ محمل کا رستہ کھل گیا۔ وہ بنا اسے دیکھے تیزی سے دہلیز پار کر گئی۔

ایک قسم تھی جو اس نے کھا لی تھی۔ وہ اسے توڑ نہیں سکتی تھی۔ اور اس لمحے سیڑھیاں اترتے اسے محسوس ہوا کہ شاید وی اس قسم کے بوجھ سے اب نجات چاہتی ہے۔ اب اس سے وہ قسم نبھائی نہیں جا رہی۔ بس اگر ایک دفعہ وہ فواد سے باہر مل لے تو کیا ہو جائے گا؟بس ایک دفعہ۔ کل دوپہر تین بجے۔ نہیں میں قسم نہیں توڑوں گی اس نے گھبرا کر سر جھٹکا۔ اس کے اندر کی سوچیں اسے وحشت زدہ کرنے لگی تھیں۔ پھر اسے یاد آیا وہ ٹیرس سے بھلا کیوں نیچے آنے لگی تھی؟اور ہاں وہ قرآن خوانی والا گھر وہ کچھ سوچ کے گھر سے باہر آئی۔

ساتھ والا بنگلہ بیلوں سے ڈھکا خوبصورت بنگلہ تھا، اس نے گیٹ کے ساتھ نصب بیل پر ہاتھ رکھا، دوپٹہ شال کی طرح کندھے کے گرد لپیٹے اونچی کسی ہوئی پونی ٹیل ادھر ادھر جھلاتی۔ وہ اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی۔

قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اور پھر گیٹ کھلا۔ اسی ملازم کی شکل نظر آئی۔

جی؟

بریگیڈیر صاحب گھر پر ہیں ؟

نہیں آپ کون؟

میں محمل ابراہیم ہوں، ساتھ والے گھر میں رہتی ہوں، آغا ہاؤس میں۔ یہ کچھ پمفلٹس ہیں بریگیڈیر صاحب کو دے دینا، وہ پڑھ کر مجھے واپس کر دیں، میں ان سے واپس لینے ضرور آؤں گی۔ یہ ذمے داری میں تمہیں دے رہی ہوں، اور ذمے داری امانت ہوتی ہے۔ اگر امانت میں خیانت کی تو پل صراط پار نہیں کر پاؤ گے سمجھے ؟

چند پمفلٹس اور کارڈ اسے تھما کر اس نے تنبیہ کی تو ملازم نے گھبرا کر اچھا جی کہہ کر سر اندر کر لیا۔

٭٭٭



وہ شام وہ رات اور اگلی صبح بہت کٹھن تھی۔ وہ لمحے بھر کو بھی نہ سو سکی تھی۔ ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتے گزری۔ مستقبل بہت سے اندیشوں میں لپٹا ہوا نظر آ رہا تھا۔ وہ کیا کرے کس سے مشورہ کرے کس سے پوچھے ؟

اور جواب تو اسے سوچنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جب صبح کے قریب اس نے قسم توڑنے کا سوچا تو بستر سے نکلی اور معاملہ اللہ پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

کل ان کی کلاس میں سورہ بقرہ ختم ہوئی تھی۔ ، اور آج آل عمران شروع ہونا تھی۔ غالباً پہلی گیارہ آیات پڑھنی تھیں۔ اسے پکا یقین تھا کہ کوئی حل آج کے سبق میں موجود ہو گا۔ سو اس نے آج کی آیات کھولیں۔

پھر ان تمام آیات کو اس نے دو تین دفعہ پڑھا۔ دل میں عجیب سی بے چینی پیدا ہوئی۔ وہاں کوئی ذکر نہ تھا۔ نہ قسم کا نہ قسم توڑنے کے کفارے کا۔

کفارہ؟ وہ چونکی۔ تو کیا میں قسم توڑنا چاہتی ہوں ؟

ہاں دل نے واضح جواب دیا تو اس نے خود سے نگاہیں چرا کر مصحف بند کر دیا اور اوپر رکھ دیا۔

فرشتے ایک فائل پر سرسری نگاہ ڈالتے کوریڈور سے گزر رہی تھی جب وہ پھولی سانس کے تقریباً دوڑتی ہوئی اس کے سامنے آئی۔

فرشتے مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے ؟

فائل کے صفحے کا کنارہ فرشتے کی انگلیوں میں تھا، اس نے سر اٹھایا۔

اسلام علیکم!کیا بات ہے ؟

وعلیکم السلام۔ وہ پھولی سانسوں کے درمیان تیز تیز بول رہی تھی۔ وہ ایک فتویٰ لینا ہے۔

میں مفتی نہیں ہوں۔ مگر بس ایک فقہی مسئلہ ہے۔

ضرور پوچھنا، مگر آج کی تفسیر سن لو اس میں ہے تمہارا مسئلہ۔ محمل کو جھٹکا لگا۔

آپ کو میرے مسئلہ کا کیسے پتا ہے ؟

ارے نہیں مجھے تو آج کی آیات کا بھی نہیں پتہ، میڈم مصباح لیتی ہیں نا آج کل اپ کی کلاسز؟

پھر آپ کو کیسے پتہ کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کیونکہ یہی ہمیشہ ہوتا ہے۔ تفسیر کا ویٹ کر لو، تمہارا مسئلہ کلیر کٹ لفظوں میں آ جائے گا۔ اس نے فائل کا صفحہ پلٹا اور سرسری سا اوپر نیچے دیکھنے لگی۔

مگر میں نے آج کی آیات پڑھ لی ہیں، ان میں میرا مسئلہ نہیں ہے مجھے پتا ہے۔

صبر لڑکی علم صبر کے ساتھ آتا ہے۔ تفسیر کے بعد پوچھ لینا مگر اس کی یقیناً نوبت نہیں ائے گی۔ وہ ہلکا سا اس کا گال تھپتھپاتی فائل دیکھتی آگے بڑھ گئی۔ محمل نے اپنے گال کو چھوا اور پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔

٭٭٭



یہ کبھی نہیں ہوا تھا وہ جو سوچے وہ قرآن میں لکھا ہوا نہ ہو۔ لوگ اس کی بات نہیں سنتے تھے، توجہ نہیں کرتے، اگر توجہ بھی کرتے تو سمجھتے نہیں تھے، اور ایک قرآن تھا اسے کہنا بھی نہیں پڑھتا اور وہ دل کی بات دھیان سے سنتا توجہ کرتا، سمجھتا اور پھر دانائی اور حکمت کے ساتھ اسے سمجھاتا تھا، اور اس جیسا کوئی نہ سمجھاتا تھا۔

مگر اسے لگا آج کی آیات میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ جو اس سے متعلق ہو۔

بہت بے دلی اور رنج سے اس نے سیپارہ کھولا۔ وہ سفید چادر پر دو زانو ہو کر بیٹھی تھی۔ سامنے ڈیسک پر سیپارہ کھلا پڑا تھا۔ ایک طرف رجسٹر تھا جس کی طرف جھکی وہ تیزی سے لکھ رہی تھی۔

محکمات وہ آیات تھی جن کا مطلب ہم سمجھ سکتے ہیں، مثلاً احکامات، اس دنیا کی باتیں دنیا کے کسی باغ کی مثال، تاریخی واقعات اور متشابہات وہ آیات تھیں جو ہم تصور کر سکتے، ان پر ایمان بالغیب لانا ضروری ہے۔ مثلاً جنت دوزخ، اللہ کا ہاتھ، فرشتوں کی ہئیت، مشابہات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیئے۔ اور جو پڑے اس سے دور رہنا چاہیئے۔ میڈم مصباح یہی سمجھا رہیں تھیں۔ سست روی سے تمام پوائنٹ رجسٹر پر لکھ رہی تھی۔

متشابہات پر ایمان بالغیب ایسا ہونا چاہیئے جیسے۔ ۔ ۔ ۔ میڈم کی آواز ہال میں گونج رہی تھی۔ جیسے اگلی آیات میں ذکر ہے راسخون فی العلم ان پر ایمان لاتے ہیں۔ اب یہ راسخون فی العلم کون ہوتے ہیں ؟

ایک ہوتا ہے طالب علم ایک صاحب علم اور اس سے بڑا درجہ راسخ علم والے کو ہوتا ہے یہ کون لوگ ہوتے ہیں ؟ان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ راسخون فی العلم کون ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔

وہ جو قسم پوری کرتے ہیں۔

محمل کے ہاتھ سے پین گر پڑا۔ سیاہی کے چند چھینٹے چادر کو بھگو گئے۔

میڈم آگے بھی کہہ رہی تھیں۔ جن کے دل مستقیم ہوں۔

مگر وہ یک ٹک پھٹی پھٹی آنکھوں سے سیپارے پر لکھے راسخون فی العلم کے الفاظ کو دیکھے جا رہی تھی۔ ایک ہی تکرار اس کے کانوں میں گونجے جا رہی تھی۔

وہ جو قسم پوری کرتے ہیں۔

وہ بس سکتہ کی کیفیت میں سیپارے کو دیکھے جا رہی تھی۔

راسخون فی العلم۔ سیپارے کے الفاظ دھندلا گئے اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے تھے۔

صدیوں پہلے عرب کے صحراؤں میں کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا تھا کہ پختہ علم والے کون ہوتے ہیں۔ اور تب انہوں نے بتایا تھا کہ وہ جو قسم پوری کرتے ہیں۔ اسے لگا صدیوں پہلے کہی گئی بات کسی اور کے لیے نہیں صرف اسی کے لیے تھی۔ وہ انگلیوں کے پوروں سے ان تین الفاظ کو بار بار چھو رہی تھی۔ انہیں محسوس کر رہی تھی۔ آنسو اس گالوں سے لڑھک کر گردن پر پھسل رہے تھے۔

ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ اس نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ قسم کھانا ناپسندیدہ تھا مگر اب وہ اسے ہمیشہ نبھانی تھی۔ اور جانتی تھی کہ یہی اس کے لیے بہتر ہے۔

اس روز وہ تین بجے سے پہلے ہی گھر آ گئی تھی۔

٭٭٭



وہ صبح بہت زرد سی طلوع ہوئی تھی۔ آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی۔ آج اس نے اونچی پونی کی بجائے سادہ سی چوٹی بنائی تھی۔ شفاف سے چہرے پر ذرا سی یژ مردگی چھائی تھی۔ وہ چند لمحے خود کو دیکھتی رہی پھر سیاہ چادر سر پر رکھی۔ آج اسے گواہی دینی تھی۔ فواد کے خلاف یا اپنے خلاف۔ ۔ ۔ ۔

لاؤنج میں تینوں چچا انتظار کر رہے تھے۔ کلف لگے سفید شلوار قمیض میں آغا جان کمر پر ہاتھ باندھے ادھر ادھر بے چینے سے ٹہل رہے تھے۔ اسے راہداری سے آتے دیکھا تو رک گئے۔

چلیں۔ وہ سپاٹ چہرہ لیے ان کو دیکھے بغیر دروازے کی طرف بڑھی اور اسے کھول کر باہر نکلی۔ وہ سب اکٹھے باہر نکلے۔

گیٹ کھلا یکے بعد دیگرے دونوں گاڑیاں پورچ سے باہر سڑک پر رواں دواں تھیں۔ اس اونچے گھر کی بہت سی کھڑکیوں سے بہت سی عورتیں انہیں جاتا دیکھ رہیں تھیں۔ گاڑیاں گم ہو گئیں تو لڑکیوں نے پردے چھوڑ دئیے۔

زرد سی راہداری میں وہ سمٹی سمٹائی نگاہیں نیچی کیے آغا جان کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ ادھر ادھر پولیس والے وکلاء اور کتنے ہی لوگ گزر رہے تھے۔ بہت وحشت ناک جگہ تھی وہ۔ اس سے سر نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔ بس لمحے بھر کو اس نے چہرہ اوپر کیا تو کاریڈور کے اختتام پر وہ کھڑا تھا، اپنے کسی سپاہی کو اکھڑتے تیور لیے غصے سے کچھ کہتا یونیفارم میں ملبوس، سر پر کیپ۔ وہ بہت وجیہہ تھا۔ اور زندگی میں پہلے دفعہ محمل کو اس پر غصہ نہیں آیا تھا۔ اسے تمام لوگوں میں ایک وہی اپنا ہمدرد لگا تھا۔

اس نے نگاہیں جھکا لیں، کاریڈور کے موڑ کے قریب ہی تھی جب ہمایوں کی نگاہیں اس پر پڑی اور وہ ٹھہر گیا۔ آغا کریم کے بائیں کندھے کے پیچھے چھپی ہوئی گردن جھکائے آئی سیاہ چادر میں لپٹی لڑکی جس کے چہرے پر زمانوں کی تھکن رقم تھی۔ اس نے سر نہیں اٹھایا۔ وہ اسے دیکھتا رہا، یہاں تک کے وہ اس کے قریب سے سر جھکائے گزر گئی۔

ہاں آغا کریم نے ایک متنفر نگاہ اس پر ضرور ڈالی تھی۔

وہ اب گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔ شاید وہ اس کی آنکھیں دیکھنا چاہتا تھا۔ انہیں پڑھنا چاہتا تھا۔ کاریڈور کے درمیان میں اچانک اس سیاہ چادر والی لڑکی نے گردن پیچھے موڑی۔ دونوں کی نگاہیں لمحے بھر کو ملیں، محمل کی آنکھوں میں زمانے بھر کی تھکن اور دکھ تھا، پھر اس نے چہرہ موڑ لیا۔ اور اسی طرح سر جھکائے اپنے چچاؤں کے نرغے میں آگے چلی گئی۔

کمرہ عدالت میں وہ قطار کے بائیں نشست پر سب سے آخر میں بیٹھی تھی۔ آغا جان اس کے دائیں طرف تھے اس کے بائیں طرف کچھ نہ تھا قطار خالی تھی۔ وہ سر جھکائے ساری کاروائی سنتی رہی اس سے نظر تک نہ اٹھائی جاتی تھی۔ یوں جیسے ہر کوئی اسے ہی دیکھ رہا ہو۔

اور پھر ایک ساعت کو اس نے جیسے ہی سر اٹھایا۔ وہ دوسرے اسٹینڈ میں بیٹھا گردن ترچھی کیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ ہمایوں کی نگاہوں میں سوال تھے۔ چبھتے ہوئے۔

پریشان کن سوال۔ اس سے زیادہ دیر دیکھا نہیں گیا۔ وہ گردن موڑ کر آغا جان کو دیکھنے لگی جو لب بھینچے وکلاء کے دلائل سن رہے تھے۔ نگاہوں کے ارتکاز پر چونک کر محمل کو دیکھا۔

کیا؟وہ جس طرح انہیں دیکھ رہی تھی، وہ ذرا سے الجھے۔

جائیداد میں میرا حصہ مجھے مل جائے گا؟اس نے سرگوشی کی نگاہیں ان پر سے ہٹائے بغیر۔

ہاں کیوں نہیں ؟

یہیں اگر میں پوچھتی کہ کیوں نہیں تو؟

کیا مطلب؟

میں ابھی جا کر ہمایوں داؤد کے خلاف بیان دوں تو کیا گارنٹی ہے کہ آپ مکر نہیں جائیں گے ؟

تمہیں مجھ پر شک ہے ؟

اگر ہے تو؟

آغا جان کے ماتھے پر غصے کی لکیر ابھری جسے وہ ضبط کر گئے۔ تم اب کیا چاہتی ہو؟

یہ! اس نے کالی چادر میں سے بیگ نکالا زپ کھولی اور ایک کاغذ اور پین نکال کر ان کی طرف بڑھائے۔

میری صرف فیکٹری میں شئیر کی قیمت نو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ باقی کا حساب میں ابھی نہیں مانگ رہی۔ یہ آپ کی چیک بک کا چیک ہے رقم میں نے بھر دی ہے آپ سائن کر دیں۔ اس نے پین ان کے سامنے کیا، وہ کبھی اس کو دیکھتے کبھی پین کو۔

آغا جان! محمل بچی نہیں ہے۔ آپ مجھ سے میری آخرت خرید رہے ہیں۔ اگر میں نے جھوٹی گواہی دی تو پل پار کرنے سے پہلے ہی گر جاؤں گی۔ اگر گرنا ہے تو کچھ ورتھ تو ہونا چاہیئے نا؟آپ یہ سائن کریں۔ میں ابھی جا کر جھوٹی گواہی دیتی ہوں۔

اس نے پین اور چیک ان کے ہاتھ پر رکھا۔

اس ہال میں کوئی میرے اشارے کا منتظر ہے، میں چیک سائن کروا کر ابھی اسے بینک بھیجتی ہوں، جیسے جیسے ہی چیک کیش ہو گا، وہ مجھے سگنل کرے گا تب میں گواہی دے دوں گی ورنہ نہیں۔

انہوں نے چیک کو ایک نظر دیکھا۔ اور پھر پین کو۔ دوسری طرف محمل کا نام پکارا گیا۔ وہ انہیں متنبہ نگاہوں سے دیکھتی اٹھی اور سر اٹھائے پورے اعتماد سے کٹہرے کی طرف بڑھی۔

آغا کریم کبھی چیک کو دیکھتے اور کبھی اسے جو کٹہرے میں کھڑی تھی۔ اور اس کے سامنے غلاف میں لپٹا قرآن لایا گیا تھا۔ وہ نگاہیں ان پر جمائے پلک جھپکے بغیر قرآن پر ہاتھ رکھ کر چند فقرے دہرا رہی تھی۔

انہوں نے آخری بار چیک کو دیکھا اور پھر طیش میں ا کر اسے مروڑ کر دو ٹکڑے کیے۔

محمل تلخی سے مسکرئی، سر جھٹکا اور وکیل کی طرف متوجہ ہوئی۔ وہ اس سے کچھ پوچھ رہا تھا۔

٭٭٭



فواد کی ضمانت منسوخ ہو گئی، اس کے خلاف ثبوت بہت سے تھے۔ وہ واپس جیل بھیج دیا گیا۔

واپسی کا سفر بہت خاموشی سے کٹا۔ آغا جان کی لینڈ کروزر کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی وہ بہت خاموشی سے سارا رستہ باہر دیکھتی آئی تھی۔ ۔ جب گاڑی پورچ میں رکی تو وہ سب سے پہلے اتری۔

لان میں بہت سی عورتیں ان کی طرف بڑھی تھیں۔

کیا ہوا؟وہ کسی کو دیکھے بغیر تیزی سے اندر چلی گئی۔

اس احسان فراموش لڑکی نے فواد کے خلاف گواہی دے دی۔

ذلیل نہ ہو تو۔

مگر فکر کی بات نہیں ہے۔ وہ جلد باہر آ جائے گا، کیس اتنا مضبوط نہیں ہے۔

غفران چچا اور اسد چچا انہیں تسلی دینے لگے، مگر تائی مہتاب کا چہرہ سفید بڑ گیا۔

ہائے میرا فواد۔ وہ سینے پر دو ہتڑ مار اونچا اونچا رونے لگیں، روتے روتے وہ لڑھکنے کو تھیں کہ فضہ اور ناعمہ نے بڑھ کر انہیں سہارا دیا۔ پل بھر میں لان میں کہرام مچ گیا تھا۔ اپنے کمرے میں پردے کو ہاتھ میں پکڑ کر ذرا سی جھری سے دیکھتی وہ پر سکون کھڑی تھی۔ کالی چادر سر سے پھسل کر پیچھے گردن پر پڑے بالوں پر پھسل گئی تھی۔ بھورے بال چہرے کے اطراف میں گرے تھے۔ وہ کانچ سی سنہری آنکھیں سکیڑے پر سوچ نگاہوں سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔

٭٭٭



وہ ستون سے ٹیک لگائے ننگے پاؤں گھاس پر رکھے بیٹھی تھی۔ جوتے ساتھ اترے پڑے تھے۔ سفید شلوار قمیض اور سر پر پنک اسکارف کس کر باندھے وہ گردن جھکائے دونوں ہاتھوں میں چھوٹا قرآن لیے پڑھ رہی تھی۔ اسے سورہ کہف پڑھنی تھی آج جمعہ تھا۔

السلام علیکم۔ سارہ آہستہ سے آئی اور اس کے ساتھ پاؤں لٹکا کر سیڑھی پر بیٹھی۔ اس نے صفحے کا کنارہ پکڑے سر کے اثبات سے جواب دیا اور صفحہ پلٹا۔ ربیعہ اپنی گود میں رکھی اسائنمنٹ کمپلیٹ حل کرنے لگی۔ گیٹ کے قریب فرشتے کھڑی ایک لڑکی سے بات کر رہی تھی۔ وہ لڑکی منمنائے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی۔ ، مگر فرشتے نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ اس کا ازلی پر اعتماد مضبوط اور دو ٹوک مگر نرم انداز۔

کیا کر رہی ہو سارہ؟

فرشتے باجی کی اسائنمنٹ کر رہی ہوں۔ فرشتے باجی نے دی ہے ؟الجھ کر سر اٹھایا۔ یہ دین اور مذہب میں کیا فرق ہوتا ہے ؟

دین ریلجن کو کہتے ہیں، جیسے اسلام اور مذہب کسی بھی دین کے کسی اسکول آف تھاٹ کو کہتے ہیں۔ مسلک کسی دین مذہب کے اندر کسی طریقے کا نام ہوتا ہے، مثلاً فقہی مسالک جیسا کہ شافعی، حنفی وغیرہ۔ آئی سمجھ؟

ہوں۔ تمہارا فہم اچھا ہے محمل!

فرشتے نے سمجھایا تھا اس دن۔ اس نے ذرا سی گردن موڑی۔ فرشتے اسئ طرح اس سے بات کر رہی تھی۔ سارہ بھی اس کی نگاہوں کے تعاقب میں اسے دیکھنے لگی۔

فرشتے کی آئیز (آنکھیں ) مجھے بہت پسند ہیں۔

محمل کے لبوں سے پھسلا۔

ہاں بہت مشابہت ہے آئی نو۔ وہ بری طرح چونکی۔

مشابہت؟وہ ایک دم بہت پر جوش ہو کر اس کی طرف مڑی۔ مشابہت ہے نا سارہ! مجھے ہمیشہ فرشتے کی آنکھیں دیکھ کر لگا ہے کہ یہ کسی سے ملتی ہیں ؟

تو تمہیں نہیں پتہ؟ربیعہ حیران ہوئی۔

کیا ان کے کزن سے ؟

کزن کون؟

چھوڑو تم بتاؤ کس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس سے ملتی ہیں ؟

ربیعہ کچھ دیر حیرت سے اسے دیکھتی رہی، پھر ہنس پڑی۔

تم سے ملتی ہیں محمل۔ ۔ ۔ بالکل تمہارے جیسی ہیں۔ کیا تم آئینہ نہیں دیکھتی؟

مجھ سے ؟محمل ساکت رہ گئی۔ اپنا چہرہ ہر وقت نگاہوں کے سامنے نہیں رہتا شاید اس لیئے وہ اتنے عرصے میں اندازہ نہ کر سکی۔

اس لڑکی کی کسی بات پر فرشتے ذرا سا مسکرائی۔ اس کی آنکھیں مسکراتے ہوئے کناروں سے ذرا سی چھوٹی ہو جاتیں۔ بالکل اس کی اپنی طرح۔ ہو بہو۔ وہ پلک جھپکے بنا اسے دیکھے گئی۔

وہ میڈ کراؤن سے ٹیک لگائے گھٹنوں پر کتاب رکھے سوچ میں گم تھی۔ بھورے بال کھلے شانوں پر گرے تھے۔ مسرت اندر داخل ہوئیں۔ تو وہ اسی طرح خلاء میں گھور رہی تج۔ آہٹ پر چونکی۔

اماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بات سنیں۔

ہاں بولو۔ مسرت الماری کھول کر کچھ تلاش کر رہی تھیں۔

آپ ماموں لوگوں سے پھر کبھی نہیں ملیں ؟

نہیں۔ ان کے ہاتھ لمحے بھر کو رکے، پھر دوبارہ کپڑے الٹ پلٹ کرنے لگے۔

ماموں کی ایک ہی بیٹی ہے نا؟

ہاں شاید۔

اس کا کیا نام ہے ؟

پتہ نہیں وہ میری شادی کے بعد ہوئی تھی۔ وہ مطلوبہ کپڑا نکال کر کھلے دروازے سے باہر چلی گئیں۔

اور یہ تو وہ جانتی تھی کہ اماں شادی کے بعد ماموں سے کبھی نہیں ملی تھیں۔ اور نہ ہی وہ خود ملی تھی۔ اس نے تو ان کو دیکھا تک نہیں تھا، اماں اور ابا کی پسند کی شادی تھی۔ اور اماں کے خاندان والوں نے پھر کبھی کوئی رابطہ نہ رکھا تھا۔ آج فرشتے کی آنکھیں دیکھ کر اسے یونہی کچھ لگا تھا کہ شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر خیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم نے فیصلہ کر دیا ہے۔ باہر تائی کے زور سے بولنے کی آواز پر یکدم اس کا دل دھڑکا۔ وہ کتاب بند کیے لحاف اتار کر تیزی سے ننگے پاؤں باہر آئی۔ اس نے دروازہ کھول کر دیکھا۔

آغا جان اور تائی مہتاب بڑے صوفے پر رعونت بھرے انداز میں بیٹھے تھے۔ اور مسرت ان کے سامنے جیسے بے بس سی کھڑی تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر مسرت نے اسے دیکھا۔ بے بسی آنکھوں میں آنسو۔

اپنی بیٹی کو بھی بتا دینا۔ تائی نے ایک تنافر بھری نگاہ اس پر ڈالی ہم اس کو بہو بنا رہے ہیں ہمارا احسان ساری زندگی بھی تم دونوں چاہو تو نہیں اتار سکتیں۔

وہ جہاں تھی وہی کھڑی رہ گئی۔ تو کیا فواد واقعی جیل سے باہر آ جائے گا؟

مگر بھابھی۔ مسرت کی آنسوؤں میں ڈوبی آواز آئی۔ محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل کبھی نہیں مانے گی وسیم کے لیے۔

وسیم؟وہ جھٹکے سے دو قدم پیچھے ہٹی۔

اور چند دنوں پرانی ہی تو بات ہے جب فریدہ پھپھو نے گھر آ کر خوب مزے لے کر وسیم کے آنکھوں دیکھے قصے سنائے تھے۔ فریدہ پھپھو محمل کے ابا کی کزن تھیں۔ اور ہر خبر پورے خاندان میں سب سے پہلے ان کے پاس پہنچتی تھی۔ گھر میں تو چلو تائی نے انہیں چپ کرا دیا تھا۔ مگر ہفتے بعد ایک شادی کی تقریب میں انہوں نے وہی قصے پھر سے چھیڑ دیئے۔ ابھی فواد کی گرفتاری کے چرچے پرانے نہیں ہوئے تھے کہ خاندان والوں کے ہاتھ ایک اور شوشہ لگ گیا۔

پوری تقریب گویا اکھاڑہ بن گئی۔ تائی مہتاب ان عورتوں کو جتنا لعن طعن کر سکتی تھیں کیا، مگر وہ اکیلی تھیں اور مقابل پورا جتھا تھا۔ معنی خیز نگاہیں اور طنزیہ انداز۔

برا نہ ماننا مہتاب بھابھی! مگر وسیم کو میرے سمیع نے ہی نشے کی حالت میں رات کو دو بجے سڑک سے اٹھا کر تمہارے گھر پہنچایا تھا

ہاں تو سمیع خود اس وقت وہاں کیا کر رہا تھا؟تائی ہاتھ نچاتے ہوئے غصے سے بے قابو ہو کر بولی تھیں۔

وسیم کی بات بچپن سے آغا جان کے چچا زاد آغا سکندر کی بیٹی سے طے تھی۔ کچھ عرصہ سے آغا سکندر کی فیملی کھنچی کھنچی سی رہنے لگی تھی۔ اور جب یہ باتیں سامنے آئیں تو انہوں نے فون پر ہی دو ٹوک رشتہ ختم کر دیا۔

گزرے برسوں کی ایک نادانی تھی، وی مہتاب بھابھی! بھلا کیسے ہم اپنی بیٹی کو اس لڑکے سے بیاہ دیں جسے پورے خاندان میں کوئی رشتہ دینے کو تیار نہیں ؟

اور میں بھی آپ کو خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی وسیم کی دلہن بنا کے دکھاؤں گی۔ تائی نے بھی کھولتے ہوئے فون پٹخا تھا۔

محمل کو قابو کرنے اس کی جائیداد پر قبضہ کرنے اور وسیم کی شادی کر کے خاندان میں گردن اونچی کرنے کا بہترین حل تائی مہتاب کو مل ہی گیا تھا۔ انہوں نے ایک تیر سے تین شکار کر لیے تھے۔

٭٭٭



وہ سر جھکائے تیز تیز سڑک کے کنارے چلتی جا رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ لمبے لمبے بھورے بال شانوں پر پھیل کر کمر پر گر رہے تھے، کہاں کدھر اسے کچھ پتہ نہ تھا۔

زندگی اس کے ساتھ یوں بھی کر سکتی ہے اس نے سوچا بھی نہ تھا ایک تنگ پھندا تھا جو اسے اپنی گردن کے گرد کستا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

اداس درختوں کی گھنی بھاڑ آج بھی ویسے ہی کھڑی تھی۔ شام کے پرندے شاخوں پر لوٹ آئے تھے۔ وہ راستہ جانا پہچانا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی۔ جب اس کی سماعتوں نے وہ آواز سنی۔

محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکو۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مگر وہ نہیں رکی، اسے رکنا نہیں تھا، وہ رکنے والا راستہ تھا ہی نہیں۔

محمل! وہ تیز دوڑتا اس کے ساتھ آ ملا۔ بات تو سنو۔

پھولی سانسوں سے اس کے بائیں جانب اس کی رفتار سے بمشکل مل پاتا وہ ہمایوں تھا، ٹریک سوٹ میں ملبوس وہ شاید جاگنگ سے آیا تھا۔

کیا ہو محمل؟ مجھے بھی نہیں بتاؤ گی؟

اس کے قدم تھمے، بہت آہستہ سے اس نے گردن اٹھائی، بھیگی سنہری آنکھوں سے مسلسل آنسو گر رہے تھے۔

میرا اور آپ کا کیا رشتہ ہے جو میں آپ کو بتاؤں ؟

کیا انسانیت کا رشتہ کچھ نہیں ہوتا؟

کچھ نہیں ہوتا۔ وہ تیزی سے چلنے لگی تھی۔

مگر ہوا کیا ہے ؟

میری تائی نے میرا رشتہ اپنے آوارہ بیٹے سے طے کر دیا ہے۔

تو تم رو کیوں رہی ہو؟

پھر کیا خوشی مناؤں ؟وہ پوری اس کی طرف گھومی۔ غصہ بہت شدت سے ابلا تھا۔ یہی شخص تھا اس کی ہر مشکل کا ذمے دار۔

ٹھیک ہے تم صاف انکار کر دو۔ کچھ اور کر لو، لیکن اگر یونہی اپنے آپ پر ظلم سہتی روتی رہو گی تو گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گی۔ اس نے بھیگی آنکھوں سے ہمایوں کا چہرہ دیکھا مغرور مگر فکر مند چہرہ۔

میں مروں یا جیوں آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ؟

اس کے انداز پر وہ چند لمحے لب بھینچے خاموش کھڑا رہا، پھر گہری سانس اندر کو کھینچی۔ ہاں مجھے نہیں فرق پڑتا۔ اور واپس پلٹ گیا۔

ہونہہ! محمل نے استہزائیہ سر جھٹکا۔ آپ وہ ہی ہیں نہ بیچ راہ میں چھوڑنے والے۔ وہ جیسے چونک کر پلٹا۔

اسی پل ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا تھا اس کے بھیگے چہرے اطراف میں گرنے والے بال پیچھے کو اڑنے لگے تھے۔

اور آپ کو پتہ ہے ہمایوں اس لیے آپ سے کبھی میں نے امید ہی نہیں لگائی تھی، پھر کیا میں نہ روؤں۔ وہ کہہ کر واپس پلٹ گئی، ہوا بھی پلٹ گئی شام کے پرندے بھی پلٹ گئے۔

وہ ساکت سا تارکول کی ویران سڑک پر کھڑا رہ گیا۔

درختوں کی باڑ اب بھی اداسی سے سر جھکائے کھڑی تھی۔

٭٭٭



اس نے اسٹاف روم کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔ چند لمحے منتظر سی کھڑی رہی، پھر جواب نہ پا کر اندر جھانکا اسٹاف روم خالی تھا۔

وہ کتابیں سینے سے لگائے متذبذب سی واپس پلٹ گئی۔ اسی پل سامنے سے ایک گروپ انچارج آتی دکھائی دی۔

السلام علیکم، باجی میم فرشتے کہاں ہیں ؟

فرشتے باجی ہاسٹل میں لائبریری میں ہوں گی ان کو کوئی کام تھا آج اس لیے نہیں آ سکیں۔

اچھا۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگنے لگی۔

لائبریری کا گلاس ڈور کھلا تھا۔ اس نے قدرے جھجھکتے ہوئے اندر قدم رکھا۔

کتابوں کے اونچے ریکس، اور دیوار گیر فرینچ ونڈوز لائبریری کا مخصوص خاموش ماحول۔

فرشتے ؟اس نے ہولے سے پکارا۔ خاموش لائبریری کا تقدس زخمی ہوا تو وہ گڑبڑا کے چپ ہو گئی۔

ادھر۔ لائبریرین کسی کونے سے نکل آئی اور ایک طرف اشارہ کیا، وہ شرمندہ سی ادھر لپکی۔

چند ریکس سے گزر کر اس نے دوسری طرف جھانکا۔

وہ کتاب اٹھائے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ ہلکی گلابی شلوار قمیض پر گرے دوپٹہ شانوں کے گرد لپیٹے، فرشتے کی اس کی طرف پشت تھی، محمل کو اس کی کمر پر گرتے سیدھے بھورے بال دکھائی دئیے تھے۔

وہ ذرا سی حیران ہوئی تھی۔ اس نے ہمیشہ حجاب میں ملبوس فرشتے کو دیکھا تھا۔ سر ڈھکے بغیر تو وہ قطعاً مختلف لگ رہی تھی۔

فرشتے ؟وہ جیسے چونک کر مڑی اسے دیکھا تو مسکرا دی۔ ارے ماشاءاللہ آج تو لوگ لائبریری آئے ہیں۔

مگر صرف آپ سے ملنے۔

بیٹھو۔ وہ کھڑکی سے لگی کرسی پر آ بیٹھی، جس کے سامنے میز تھی۔ میز.. کے اس طرف ایک خالی کرسی رکھی تے تھی۔ وہ محمل نے سنبھال لی اور کتابیں میز پر رکھ دیں۔

٭٭٭



مجھے ہمایوں نے کچھ بتایا تھا۔ وہ کہنے لگی تو محمل خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔

لمبے سیدھے بھورے بال جو اس نے کانوں کے پیچھے کر رکھے تھے۔ دمکتی رنگت والا چہرہ اور کانچ سی سنہری آنکھیں، اس کے نقش مختلف تھے، مگر آنکھیں اور بال یوں تھے جیسے آئینہ دیکھ رہی ہو۔

تو تمہارا رشتہ انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ طے کر دیا ہے ؟

محمل نے اثبات میں سر ہلایا۔

تو تم انکار کر دو۔

کس کے لیے انکار کروں ؟ اس کے لیے جو بیچ راہ میں چھوڑ جاتا ہے ؟وہ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہ سکی۔ یہ تو ابھی اس نے اپنے دل سے بھی نہیں کہا تھا، فرشتے سے کیسے کہتی؟

میں کیوں انکار کروں ؟کیا میں صبر کر کے اجر نہ لوں ؟

محمل ! مظلومیت اور صبر میں فرق ہوتا ہے۔ اور وہ فرق احتجاج کرنے کا حق رکھنے کا ہوتا ہے۔ بجائے اپنی زندگی خراب کرنے کے، تم ایک بہتر راستہ چن لو، صاف صاف انکار کر دو۔

مجھے ان کے ری ایکشن سے ڈر لگتا ہے۔

اس پر تم صبر کر لینا۔ وہ ہلکی سی مسکرائی۔ رشتے داروں ساتھ بہت صبر سے گزارہ کرنا پڑتا ہے لڑکی۔

آپ کرتی ہیں صبر؟

کیا مطلب؟

آپ کے رشتے دار ہیں فرشتے ؟آپ کے پیرنٹس؟اور ہمایوں کے پیرنٹس۔ اس نے سوال ادھورا چھوڑ دیا۔ جانتی تھی فرشتے کو ادھورے سوال پڑھنے آتے ہیں۔

میری امی کی ایک ہی بہن تھی۔ ہمایوں ان کا بیٹا ہے۔ ان کی ڈیتھ کے بعد امی نے ہمایوں کو گود لے لیا تھا۔ بہت پرانی بات ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے میری امی کی ڈیتھ ہو گئی۔ پھر میں نے اور ہمایوں نے فیصلہ کیا کہ گھر میں ہمایوں رہے اور میں ہاسٹل میں رہوں۔

اور آپ کے ابو ؟

میں میٹرک میں تھی جب ان کی ڈیتھ ہو گئی تھی۔

آپ کے ابو کی کوئی بہن تو ہو گی؟اس نے اندھیرے میں تیر چلایا۔

ہاں ایک بہن ہیں۔ فرشتے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔

کدھر رہتی ہیں ؟

یہیں اسی شہر میں۔

وہ آپ سے ملتی ہیں ؟

نہیں کچھ پرابلمز کی وجہ سے وہ لوگ مجھ سے نہیں ملتے۔

اور آپ؟

میں کوشش تو کرتی ہوں ہر عید پر ان کے گھر ہو آؤں، لیکن وہ میرے اوپر دروازے بند کر دیتے ہیں۔

پھر؟وہ بنا پلک جھپکے اس کو دیکھتی آگے ہوئی۔ پھر میں کیک اور پھول دے کے واپس آ جاتی ہوں۔ میری اتنی ہی استطاعت ہے آگے کیا کر سکتی ہوں ؟ وہ سادگی سے مسکرائی۔

(کیک اور پھول؟عید پر بہت سی جگہوں سے مٹھائی اور کیک پھول وغیرہ آتے تھے، کیا وہ بھی بھیجتی تھی؟)

آپ کی پھپھو کے کتنے بچے ہیں ؟

ایک ہی بیٹی ہے۔ اور اسے پتہ تھا فرشتے جھوٹ نہیں بولتی، اس کا تجسس تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

کیا عمر ہو گی اس کی؟

مجھ سے تو چند سال چھوٹی ہی ہے۔

نام کیا ہے ؟

یہ ضروری تو نہیں ہے محمل!فرشتے ذراسی مضطرب ہوئی تھی۔

ہو سکتا ہے میں آپکی فیمیلز کو لانے میں مدد کر سکوں ؟

نہیں۔ فرشتے نے بغور اسے دیکھتے نفی میں سر ہلایا۔ تم میری پھپھو کی بیٹی کو نہیں جانتیں۔

پھر بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کیا ہم ٹاپک چینج کر سکتے ہیں ؟

اس کے ٹھوس ازلی اور قطعی انداز پر وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔

یہ کھڑکیاں بہت خوبصورت ہیں۔ وہ کہہ کر پر سوچ انداز میں کھڑکی کے باہر اترتی صبح کو دیکھنے لگی۔

٭٭٭



رات کھانے کے بعد اس نے سب کے کمروں میں چلے جانے کا انتظار کیا، یہاں تک کہ لاؤنج میں ٹی وی کے سامنے جمی بیٹھی لڑکیاں بھی اٹھ اٹھ کے جانے لگیں، اور لاؤنج خالی رہ گیا تو وہ دبے قدموں باہر نکلی۔ آج اسے آغا جان کو صاف انکار کرنا تھا۔

لاؤنج اندھیرے میں ڈوبا تھا۔ آغا جان کے بیڈ روم کے دروازے سے روشنی کی لکیر آ رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی دروازے تک آئی۔ قریب تھا کہ دستک دیتی اندر سے آتی آوازوں نے اس کا ہاتھ روک لیا۔

کون فرشتے ؟تائی کا حیران کن لہجہ۔ پھر وہی پرانی بات کرنے کہ محمل کی جائیداد میں اس کا بھی حصہ نکالیں ؟

محمل کو لگا پوری چھت اس پر آن گری ہے۔

ہاں، آج وہ آفس آئی تھی، اور یہ بھی کہہ رہی تھی اگر ہم نے وسیم سے محمل کا رشتہ کرنے کی کوشش کی تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تایا جان کچھ کہہ رہے تھے اور چند دن پہلے کی پڑھی حدیث اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ جس کا فہم کچھ اس طرح تھا،کہ اگر کوئی تمہارے گھر میں جھانکے اور تم پتھر مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔

نہیں۔ وہ گھبرا اٹھی اسے نہیں دیکھنا چاہیئے۔ وہ غلط کر رہی ہے، وہ کسی کی پرائیویسی میں جھانک رہی ہے۔ اگلے ہی لمحے وہ واپس کمرے کی طرف بھاگی تھی۔

دروازے کی کنڈی لگا کر وہ پھولی سانسوں کو قابو کر کے بیڈ پر گر سی گئی، او دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔

محمل کی جائیداد میں فرشتے کا حصہ؟

گو کہ اسے شک تھا فرشتے کا اس سے تعلق ضرور ہے اور شاید بلکہ یقیناً وہ اس کے ان ننھیالی رشتہ داروں میں سے ہے جو ان سے قطع تعلق کیے ہوئے ہیں، لیکن پھر بھی تائی کے منہ سے اس کا نام سن کر اسے بہت بڑا جھٹکا لگا تھا۔ اس سے بھی بڑا جھٹکا فرشتے کا مطالبہ جان کر، کیا فرشتے نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ محمل کے حصے میں سے اسے بھی کچھ دیا جائے ؟مگر کیوں ؟فرشتے ایسے کیوں کرے گی؟

اس کی نگاہوں میں ایک سراپا لہرایا۔

سیاہ عبایا میں ملبوس گرے اسکارف میں ملائم چہرے کو مقید کیے سنہری آنکھیں جھکائے دونوں ہاتھوں میں چھوٹا قرآن پکڑے بال پوائنٹ سے صفحے پر کچھ مارک کرتی فرشتے۔

وہ کون تھی؟اس کا پورا نام کیا تھا؟وہ ہمایوں سے زیادہ ملتی نہ تھی۔ مگر محمل کے متعلق ہر خبر اس کے پاس ہوتی تھی۔ اور وہ کیوں آغا جان سے ملتی تھی؟

بہت سی الجھنوں کے سرے وہ سلجھا نہ پا رہی تھی۔ لیکن ایک بات طے تھی فرشتے کا عظمت بھرا وہ تصور جو اس نے ذہن میں بنا رکھا تھا گر کر پاش پاش ہو گیا تھا، پتا نہیں کیوں۔

٭٭٭



وہ چینی کی پلیٹیں احتیاط سے کیبنٹ سے نکال کر کاؤنٹر پر رکھ رہی تھی۔ جب آہٹ پر چونک کر پلٹی۔ کچن کے کھلے دروازے میں فضہ چاچی کھڑی اس کو بغور دیکھ رہی تھیں۔

جی چچی؟وہ قدرے الجھی۔ پھر ایک نظر خود پر ڈالی، سادہ سی شلوار قمیض پر سیاہ دوپٹہ کاندھوں پر لپیٹے سلکی بالوں کو اونچی پونی ٹیل میں مقید کیے وہ ہر دن کی طرح ہی لگ رہی تھی، پھر چچی کو کیا ہوا تھا؟

کچھ چاہیئے چچی؟اس نے پھر پوچھا۔ ان کی نظریں اب اس کو پریشان کرنے لگی تھیں۔

ہوں، نہیں۔ فضہ چچی نے سر جھٹکا اور واپس چلی گئیں۔ جاتے سمے اسے ان کے چہرے پر ہلکا سا تنفر نظر آیا تھا۔

ان کو کیا ہوا ہے ؟وہ پلیٹیں کپڑے سے صاف کرتے ہوئے سوچنے لگی، پھر شانے اچکا کر کام میں مصروف ہو گئی۔ ڈنر کا ٹائم ہونے والا تھا اور اسے میز لگانی تھی۔ ۔ سب آتے ہی ہوں گے۔

میں نے اور مسرت نے وسیم اور محمل کا رشتہ طے کر دیا ہے۔ آپ سب کو یقیناً علم ہو گا۔ وہ رائتہ کا ڈونگا میز پر رکھ رہی تھی۔ جب آغا جان نے سب کو مخاطب کیا۔

ڈائننگ ہال میں سناٹا چھا گیا۔ گو کہ سب کو معلوم ہی تھا۔ پھر بھی سب چپ تھے۔ وہ سر جھکائے اپنی آخری کرسی پر آ بیٹھی اور پلیٹ اپنی جانب کھسکائی۔

یہ فیصلہ آپ نے بالا ہی بالا کر لیا مسرت چاچی سے پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی؟حسن کے طنزیہ لہجے نے سب کو چونکا دیا تھا۔ وہ بھی بے اختیار سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی، جو اکھڑے تیوروں کے ساتھ آغا جان کو دیکھ رہا تھا۔

کیا مطلب؟مسرت کی مرضی سے ہوا ہے رشتہ۔ آغا جان برہم بھی ہوئے اور حیران بھی۔

کیوں چچی؟اس نے خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی مسرت کو مخاطب کیا۔ آپ کو اس وسیم کا رشتہ منظور ہے جس خاندان میں کوئی بیٹی دینے کو تیار نہیں ہے ؟

مسرت کا جھکا سر مزید جھک گیا، فضہ نے ناگواری سے پہلو بدلا۔

بتائیے چچی!اگر آپ خاموش رہیں تو اس کا مطلب آغا جان نے آپ کے ساتھ زبردستی کی ہے۔

کیا بکواس ہے یہ حسن؟

آغا جان مجھے مسرت چچی سے بات کرنے دیں۔ حسن کی آواز بلند ہونے لگی تھی۔ سب دم بخود اسے دیکھ رہے تھے۔ بتائیے چچی آپ کو یہ رشتہ منظور ہے ؟

نہیں ! محمل نے قطعی انداز میں کہا۔ اسے معلوم تھا اس کی ماں کچھ بھی نہ بول سکے گی۔

سب نے چونک کر اسے دیکھا۔ خود حسن بھی قدرے ٹھٹکا۔

تم بیچ میں مت بولو۔ آغا جان برہم ہوئے۔

ابھی نہیں بولی تو نکاح کے وقت انکار کر دوں گی۔

یہ حق مجھے میرے دین نے دیا ہے۔ آپ نے میرے ساتھ زبردستی کی تو میں کورٹ تک چلی جاؤں گی۔

مگر تمہیں کیا مسئلہ ہے وسیم سے ؟غفران چچا جھنجھلائے۔ ایسی ہی جھنجھلاہٹ فضہ چچی کے چہرے پر بھی تھی۔

اگر وسیم اتنا ہی اچھا ہے تو غفران چچا آپ ندا یا سامیہ باجی کا رشتہ کیوں نہیں کر دیتے اس کے ساتھ؟

بہت دنوں بعد پورے گھر نے پرانی محمل دیکھی تھی۔

شٹ اپ!

میں انکار کر چکی ہوں، اگر آپ لوگوں کو اپنی بے عزتی کروانے کا شوق ہے تو میں نکاح والے دن اس سے بھی زور دار انکار کروں گی۔

ارے شکر کرو ہم تمہیں اپنی بہو بنا رہے ہیں۔ بہت دیر سے خاموش بیٹھی تائی مہتاب ضبط نہ کر پائیں۔ جو لڑکی ایک رات گھر سے باہر رہ چکی ہو اسے کوئی نہیں قبول کرتا، ہم بہو نہ بنائیں تو کون قبول کرے گا تمہیں۔

میں !حسن جیسے بھڑک کر بولا تھا۔ میں قبول کروں گا محمل کو۔ وہ وسیم سے شادی نہیں کرنا چاہتی میں اپنا نام مسرت چچی کے سامنے رکھ رہا ہوں اور چچی!میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا ا۔

ہرگز نہیں فضہ پھٹ پڑیں۔ میں اس لڑکی کو کبھی قبول نہیں کروں گی جو کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔

ممی! وہ زور سے چیخا تھا۔

اس سے مزید کچھ سنا نہیں گیا، وہ کرسی دھکیل کر بھاگتی ہوئی ڈائننگ ہال سے باہر نکل گئی۔

٭٭٭



بریگیڈئیر فرقان کا بنگلہ، جس کے ٹیرس پر بوگن ویلیا کی بیلوں کا راج تھا، آج بھی اسے ویسا ہی اداس اور ویران لگا تھا، بلکہ وہ شاید ہمیشہ ہی ایسا ہوتا تھا۔ مکین کے خود قرآن پڑھنے اور مکان کو محض سنوانے میں بہرحال فرق تو ہوتا ہے۔

آج پھر وہ چند پمفلٹس ہاتھ میں پکرے ان کے گیٹ پر کھڑی تھی۔

بیل پر ملازم نے بھاگ کے چھوٹا دروازہ کھولا۔

جی بی بی اس نے سر باہر نکالا۔

مجھے بریگیڈئیر فرقان سے ملنا ہے وہ اندر ہیں ؟

جی وہ کام کر رہے ہیں۔

ان سے کہو محمل آئی ہے !قدرے تحکم سے کہہ کر وہ سینے پر ہاتھ باندھے وہی کھڑی ہو گئی۔ فوراً ملازم اندر کو دوڑا۔ چند لمحے ہی بعد اس کی واپسی ہو گئی۔ صاحب کہہ رہے ہیں آپ اپنے یہ کاغذ لے لیں۔ اس نے پرانے پمفلٹس اس کی طرف بڑھائے۔

انہوں نے پڑھ لیے ہیں ؟

نہیں جی وہ مصروف تھے۔

اپنے صاحب کو بولو یہ ان پر میری امانت تھی۔ جب انہوں نے لیے تھے تو ان پر سونپی گئی میری ذمے داری بھی انہیں نبھانی تھی، ورنہ لینے سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے خیانت کر کے یہ لوٹائے ہیں اور اگر میں نے معاف نہیں کیا تو انہیں معافی نہیں ملے گی۔ ملازم ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگا اور پھر اندر کی طرف لپکا۔

صاحب آپ کو اندر بلا رہے ہیں۔ وہ پیغام دے کر جلد ہی اندر آیا تھا۔

شکریہ۔ وہ پورے اعتماد سے اندر چلی آئی۔

اسٹڈی کا دروازہ کھلا تھا۔ محمل نے چوکھٹ پر کھڑے کھڑے دروازہ انگلی سے بجایا۔

اسٹڈی ٹیبل کے پیچھے ریوالونگ چئیر پر بیٹھے بریگیڈئیر فرقان نے کتاب پر جھکا سر اٹھایا اور عینک کے پیچھے سے اسے دیکھا جو دروازے کے بیچ کڑی تھی۔

یونیفارم کی سفید قمیض اور چہرے کے گرد نفاست سے لپیٹا تر و تازہ گلابی اسکارف جو پیچھے سے جو پیچھے سے اونچی پونی کے باعث ذرا سا اٹھ گیا تھا۔ ہاتھ میں چند پمفلٹس پکڑے وہ دراز قد سنہرئ آنکھوں والی لڑکی منتظر کھڑی تھی۔

کم ان۔ بریگیڈئیر فرقان نے چشمہ اتار کے میز پر رکھا، کتاب بند کی اور کرسی پر قدرے پیچھے کو ٹیک لگائی۔

میں کچھ پمفلٹس دے کے گئی تھی۔

اور میں نے واپس کر دیے تھے، اور کچھ؟ان کے با رعب چہرے پر قدرے ناگواری تھی۔

جی یہ کچھ اور ہیں۔ وہ آگے بڑھی اور چند پمفلٹس ان کی میز پر رکھ دئیے۔ یہ آپ پڑھ کر مجھے واپس کر دیجیئے گا۔

مگر مجھے یہ نہیں چاہیئے۔ وہ بے زار سے بولے۔

میں نے آپ کو چوائس تو نہیں دی سر!آپ کو یہ لینے پڑیں گے، میں کچھ عرصہ بعد آ کے لے جاؤں گی۔ پڑھ کر سنبھال لیجیئے گا۔ ان پر اللہ کا نام لکھا ہے، امید ہے آپ پھینکیں گے نہیں، وہ کھڑی کھڑی کہہ کر واپس پلٹ گئی۔

برگیڈئیر فرقان نے تلملا کر ایک نظر ان پمفلٹس کو دیکھا، پھر دراز میں ڈال کر اپنی عینک اٹھائی اور کچھ بڑبڑاتے ہوئے کتاب کھول لی۔

٭٭٭



وہ اپنی دھن میں راہداری میں چلتی جا رہی تھی۔ کہ اچانک دوسری طرف سے آتی فرشتے پر نگاہ پڑی، اس کے لب بھینچ گئے، بے اختیار ہی وہ پیچھے ہوئی تھی۔

فرشتے نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے ساتھ ساتھ چلتی ٹیچر سے کچھ فکر مندی سے کہتی جا رہی تھی۔ ۔ محمل الٹے قدموں واپس ہوئی اور برآمدے میں رخ موڑ کر کھڑی ہو گئی۔ توقع کے عین مطابق فرشتے نے اس کی موجودگی نوٹ نہیں کی۔ ساتھی ٹیچر کے ساتھ پرئیر ہال کی سیڑھیاں اترتی چلی گئی تھی۔

پرئیر ہال میں ملک کے نامور مذہبی اسکالر ڈاکٹر سرور مرزا کے لیکچر کا انعقاد تھا۔ وہ بھی سست روی سے چلتی ہوئی ایک درمیانی نشست پر آ بیٹھی۔ ابھی لیکچر شروع نہیں ہوا تھا۔ محمل نے ہاتھ میں پکڑا پاکٹ سائز قرآن کھولا اور یونہی پڑھنے کے لیے صفحے پلٹنے لگی۔

فرشتے نے ایسا کیوں کیا؟یہ سوال مسلسل اس کے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔

اس نے آغا جان سے محمل کی جائیداد میں سے حصہ کیوں مانگا؟فرشتے جیسی لڑکی اتنی مادہ پرست ہو سکتی ہے ؟وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

اس نے مطلوبہ صفحہ پلٹا اور وہ آیات نکالیں جو آج پڑھائی جانے والی تھی۔ مگر ڈاکٹر سرور کے لیکچر کے باعث آج تفسیر کی کلاس نہیں ہونا تھی۔

اور ان چیزوں کے بارے میں سوال نہیں کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔

اوہ!گہری سانس لے کر محمل نے قرآن بند کر دیا۔

میرا کچھ بھی پرائیویٹ نہیں ہے۔ اس نے آہستہ سے گردن اوپر کو اٹھائی، اور پھر اوپر دیکھتے ہوئے مسکرا کر سر جھٹکا، جب بھیا ایسا کچھ ہوتا ہے قرآن پر بے حد پیار آتا تھا۔ اسے لگتا تھا دنیا میں اس سے بڑا کوئی کمیونیکیشن ایجاد نہیں ہوا تھا۔

مگر ایسا کیا ہے جو مجھے اس سوال کا جواب برا لگے گا؟

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پھر سے سوچنے لگی تھی۔

ڈاکٹر سرور لیکچر شروع کر چکے تھے پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، دور دور تک پنک اسکارف سے ڈھکے سر دکھائی دے رہے تھے۔ اسٹیج کے قریب چئیرز پر اسٹاف موجود تھا۔ فرشتے بھی وہی ایک کرسی پر بیٹھی تیز تیز ڈائری پر لیکچر نوٹ کر رہی تھی۔ اسے نوٹس لیتے دیکھ کر وہ بھی چونک کے ڈاکٹر سرور کی طرف متوجہ ہوئی جو روسٹرم پر کھڑے تھے۔ سر پر جناح کیپ، سفید داڑھی، شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس وہ خاصے منجھے ہوئے اسکالر تھے وہ اکثر ان کو ٹی وی پر دیکھتی رہتی تھی۔

اپنی سوچوں کو جھٹک کر وہ بغور لیکچر سننے لگی۔

بعض لوگ قرآن پڑھ کر بھٹکتے ہیں۔ واقعی ایسا ہوتا ہے۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں کہہ رہے تھے۔

اس لیے بہتر ہے کہ قرآن کسی اچھے غیر متعصب عالم سے زندگی میں ایک بار ضرور پڑھ لینا چاہیئے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کسی کا دامن پکڑنا ضروری ہے۔ نہیں۔ بلکہ کسی غیر متعصب تفسیر کو پڑھ کر بھی کسی حد تک قرآن کی سمجھ بوجھ پیدا کی جا سکتی ہے۔

قرآن کو پڑھ کر ہم ہر آیت کے اپنے حالات کے مطابق کئی مطلب نکال لیتے ہیں، وہ مطلب نکالنا غلط نہیں ہے، مگر ظاہر کو باطن سے تشبیہہ دینا قطعاً غلط ہے۔

مثلاً بنی اسرائیل کو جو گائے ذبح کرنے کا حکم اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے موسیؐ کے ذریعے دیا تھا، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اس واقع سے ہم یہ سبق تو نکال سکتے ہیں کثرت سوال سے حکم مشتبہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا کہ وہاں گائے سے مراد ایک صحابیہ ہیں نعوذ باللہ، محض لوگوں نے واقعتاً یہاں گائے سے مراد صحابیہ کو لیا ہے۔ ایک اور مثال سورہ ہجر کی آخری آیات میں ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرو، یہاں تک کے تمہارے پاس یقین آ جائے۔

اب یہاں یقین سے مراد موت ہے۔ یعنی موت آنے تک عبادت کرتے رہو۔ مگر بعض لوگ یہاں یقین سے مراد belief لے کر اپنی عبادت کو کافی سمجھ کر بس کر دیتے ہیں کہ جی، ہمیں اپنی عبادت پر یقین آ گیا ہے تو سب عبادتیں بس ختم!

سورہ حجر کہاں تھی بھلا؟اس نے آہستہ سے اپنا چھوٹا قرآن کھولا اور صفحے پلٹنے لگی۔ سورہ حجر ملی تو اس نے اس کی آخری آیات کھولیں۔ آیت وہی تھی جو وہ کہہ رہے تھے۔ مگر آخر تین الفاظ حتی یا تی الیقین تھے۔ (حتی کہ یقین آ جائے )

یقین؟ اس نے الیقین پر انگلی پھیری، پھر الجھ کر ڈاکٹر سرور کو دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے۔

یہاں پر یقین سے مراد یقین نہیں بلکہ موت ہے۔ سو اس طرح کے الفاظ کا من چاہا مطلب نکالنا انسان کو بھٹکا سکتا ہے۔ اینی کوئسچن؟انہوں نے رک کر ایک گہری نظر ہال پر ڈالی۔ محمل نے ہاتھ ہوا میں بلند کیا۔

یس؟انہوں نے سر کے اشارے سے اجازت دی، وہ ہاتھ میں قرآن پکڑے اپنی نشست سے اٹھی۔

سر مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی میرے پاس بغیر ترجمے والا مصحف ہے، اس میں مذکورہ آیت میں واقعتاً یقین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سو اس کا مطلب موت کیسے ہوا؟دونوں الفاظوں میں خاصا فرق ہے۔

اس کا مطلب موت ایسے ہے کہ۔ وہ ذرا دیر کو رکے، اور بغور اسے دیکھا میں نے اس کا مطلب موت نکالا ہے۔

جی سر میرا یہی سوال ہے کہ کیسے ؟اس کی دلیل کیا ہے ؟

دلیل یہ ہے کہ میں نے ڈاکٹر سرور مرزا نے اس کا مطلب موت نکالا ہے۔ میں اس ملک کا سب سے بڑا اسلامی اسکالر ہوں۔ آپ میرے کیرڈنشلز اٹھا کے دیکھیں، میری ڈگریز دیکھیں۔ کیا میری بات بطور ایک ٹھوس دلیل کے کافی نہیں ؟

اگلی صفحوں میں بیٹھی لڑکیاں اسے گردنیں موڑ کر دیکھنے لگیں۔ جو ہاتھ میں چھوٹا قرآن پاک پکڑے کھڑی تھی۔

سر آپ کی بات یقیناً اہم ہے مگر قرآن کا بعض اس کے بعض کی تفسیر کرتا ہے، حدیث بھی یہ کرتی ہے۔ کیا قرآن حدیث میں کہیں یہ ذکر ہے کہ یہاں یقین سے مراد موت ہے ؟وہ بہت شائستگی و لحاظ سے مؤدب سی پوچھ رہی تھی۔ ڈاکٹر سرور کے چہرے پر واضح ناگواری ابھری۔

یعنی اگر میں آپ کو اس بات مطلب کی دلیل نہ دوں تو اسے محض میری بات سمجھ کر جھٹلا دیں گی؟

یعنی آپ کو میری بات کے مزید دلیل چاہیئے ؟

جی! اس نے ہولے سے سر ہلا دیا۔

پورے ہال میں ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔

لڑکیاں قدرے پریشان ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔

یعنی آپ ایک دینی اسکالر کو چیلنج کر رہی ہیں ؟

سر میں بہت ادب سے صرف دلیل مانگ رہی ہوں۔

اگر اس کی دلیل قرآن حدیث میں نہ ہو تو کیا آپ یقین کا مطلب موت تسلیم کریں گی؟

نہیں سر کبھی بھی نہیں۔

ہوں ڈاکٹر سرور نے ایک گہری سانس لے کر ہال پر نظر دوڑائی، کیا کوئی اور بھی ہے جو اپنی عمر سے زیادہ طویل تجربے کے حامل ایک اسکالر کو چیلنج کرے ؟

کسی اور کو بھی دلیل چاہیئے ؟

بہت سے سر نفی میں ہل گئے، وہ اکیلی کھڑی تھی۔

یعنی تین سو لڑکیوں میں سے ایک کو دلیل چاہیئے، یہی پڑھا رہے ہیں آپ لوگ اس مسجد میں ؟کون ہے آپ کی کلاس انچارج؟

میڈم مصباح کھڑی ہوئیں۔

کیا آپ اس ناکام کلاس رپورٹ کی ذمے داری لیتی ہیں ؟ ون آؤٹ آف تھری ہنڈرڈ کی؟

جی سر! میڈم مصباح کا سر قدرے جھک گیا۔ ڈاکٹر سرور نے محمل کو دیکھا۔ کیا آپ کو ابھی بھی دلیل چاہیئے ؟

جی سر!

وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتے رہے، پھر ہلکے مسکرائے۔

المدثر آیت 47۔ 43 میں یقین کا لفظ موت کے لیے استعمال ہے، وہاں سے ہم دلیل لیتے ہیں کہ یہاں بھی یقین سے مراد موت ہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مرغوب ہوئے بغیر ادب کے دائرے میں رہ کر مجھ سے دلیل مانگی، اور مجھے افسوس ہے کہ صرف ایک بچی نے یہ جرأت کی باقی سب خاموش رہیں۔ دو سو ننانوے لڑکیوں میں یقیناً ابھی یہ کمی موجود ہے۔ جو کہ ایک قرآن کلاس کی ناکام کار کردگی کا ثبوت ہے۔

کیا کوئی شخص ڈگریوں کا پلندہ لے کر آپ کے پاس آئے۔ خود کو سب سے بڑا مذہبی اسکالر بتائے۔ تو آپ اس کی بات کو بطور دلیل مان لیں گے، کیا آپ کو پہلے ہی دن نہیں بتایا گیا تھا کہ دلیل صرف قرآن یا حدیث ہوتی ہے ؟کسی عالم کی بات دلیل نہیں ہوتی پھر؟

بہت سے گلابی اسکارف میں لپٹے سر جھک گئے۔

محمل سرخرو سی اپنی نشست پر بیٹھی گئی۔

ڈاکٹر سرور اور بھی بہت کچھ کہہ رہے تھے، مگر وہ سورہ المدثر کھول کر اس آیت کو کاؤنٹر چیک کر رہی تھی۔

(سورہ المدثر کی 43۔ 47 تک کا ترجمہ ڈاکٹر سرور کی تصدیق کر رہا تھا)

محمل!

لیکچر کے بعد کاریڈور سے گزر رہی تھی۔ جب فرشتے نے پیچھے سے اسے پکارا۔ اس کے قدم وہیں تھم گئے۔ مگر وہ مڑی نہیں۔ فرشتے تیز تیز چلتی اس کے قریب آئی۔

آئی ایم پراؤڈ آف یو محمل!وہ یقیناً بہت خوش تھی۔ گرے اسکارف میں مقید اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔

محمل اجنبی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ ۔

ڈاکٹر سرور تم سے بہت خوش ہیں، انہوں نے ایک سیمینار کے لیے تمہارا نام دے دیا ہے، اور تم میرے ساتھ جا کر ادھر اسپیچ کرو گی۔

آپ کے ساتھ؟وہ بولی تو اس کی آواز میں خزاؤں جیسی خشکی تھی، پھر مجھے نہیں جانا۔

کیا مطلب؟فرشتے کی مسکراہٹ پہلے مدھم ہوئی پھر آنکھوں میں حیرت ابھری۔

مجھے جھوٹے لوگ سخت ناپسند ہیں !

محمل ! وہ ششدر رہ گئی، میں نے کون سا جھوٹ بولا ہے ؟

یہ سوال آپ خود سے کیوں نہیں کرتیں ؟

تم سے کسی نے کچھ کہا ہے ؟

میں بچی نہیں ہوں فرشتے۔ وہ گویا پھٹ پڑی تھی۔ اندر ابلتے لاوے کو باہر کا راستہ مل گیا تھا۔

آپ کیوں گئی میرے آغا جان کے پاس ؟کیا لگتے ہیں وہ آپ کے ؟میں ایک یتیم لڑکی ہوں، کیا آپ کو یتیم کے مال میں سے حصہ چاہیئے ؟کیوں کی آپ نے ایسی حرکت؟آپ کو جانے کس اونچی مسند پر بٹھا رکھا تھا میں نے، بہت بری طرح گرایا ہے خود کو آپ نے۔

میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی آپ ایسے کریں گی، کیا رشتہ ہے آپ کا مجھ سے ؟آپ جھوٹ نہیں بولتیں مگر سچ چھپانا بھی تو جھوٹ ہی ہوتا ہے ؟میں نے پوچھا آپ کی پھپھو کی بیٹی کا کیا نام ہے آپ نے نہیں بتایا آخر کیوں ؟

فرشتے کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا۔ جذبات سے عاری بالکل ساکت، جامد وہ بنا پلک جھپکے محمل کو دیکھ رہی تھی۔ کتنی ہی دیر وہ کچھ کہہ نہ سکی پھر آہستہ سے لب کھولے۔

کیونکہ میری پھپھو کی بیٹی کا نام فائقہ ہے۔

جی؟اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔

میں نے کہا تھا نہ کہ تم نہیں جانتیں۔ میری پھپھو کی بیٹی کا نام فائقہ ہے۔ میں فرشتے ابراہیم ہوں، آغا ابراہیم کی بیٹی جاؤ اپنے گھر میں سے کسی سے بھی پوچھو، مگر وہ کیوں بتائیں گے ؟وہ میری تسلیم نہیں کرتے تو کیسے بتائیں گے۔

وہ تھکے تھکے انداز میں کہہ کر اس کے ایک جانب سے نکل کر چلی گئی۔ محمل مڑ کر اسے جاتا بھی نہ دیکھ سکی۔ اسے تو جیسے ادھر ہی کسی نے برف بنا دیا تھا۔ وہ دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ بیچ کاریڈور می بت بنی کھڑی تھی۔

فرشتے ابراہیم۔

آغا ابراہیم کی بیٹی۔

اسے پوری مسجد میں ان الفاظ کی گونج پلٹ پلٹ کر سنائی دے رہی تھی۔

٭٭٭



اسے نہیں معلوم وہ کن قدموں پر چل کر مسجد کے۔

گیٹ تک آئی تھی۔ بس وہ پتھر کا بت بنی خود کو گھسیٹتی ہر شے سے غافل چلتی جا رہی تھی۔ اس کا بیگ اور کتابیں کلاس میں رہ گئیں تھیں۔ اس نے انہیں ساتھ نہیں لیا تھا۔ اسے لگا تھا اس کا بہت کچھ مسجد میں کھو گیا ہے وہ کیا کیا سمیٹتی؟

برابر والے بنگلے کے ساتھ نصب بینچ پر وہ گر سی گئی۔

آغا ابراہیم کی بیتی۔ فرشتے ابراہیم۔

اس کا دماغ انہیں دو جملوں پر منجمد ہو گیا تھا۔ آگے بڑھتا تھا نہ پیچھے۔

دور کہیں یاد کے پردے پر آغا جان کی آواز لہرائی۔

اس لڑکی سے کچھ بعید نہیں آج پھر میرے آفس میں آ گئی تھی۔

پھر آ گئی تھی۔ اس کا ذہن جیسے چونک کر بیدار ہونے لگا تھا۔ پھر کا مطلب تھا، وہ پہلے بھی ادھر جاتی رہتی تھی۔ وہ سب اس کو جانتے تھے۔ اور شاید اس سے خائف بھی تھے۔ تو کیا وہ واقعی آغا ابراہیم کی بیٹی تھی؟

نہیں ! اس نے تنفر سے سر جھٹکا آغا ابراہیم کی صرف ایک بیٹی ہے اور وہ ہے محمل ابراہیم۔ میری کوئی بہن نہیں ہے۔ میں نہیں مانتی۔

وہ زور زور سے نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا آج اس کے دماغ کی رگ پھٹ جائے گی۔ غصہ تھا کہ اندر ہی اندر ابلا جا رہا تھا۔

کیا واقعی وہ ابا کی بیٹی ہے ؟مگر اس کی ماں کون ہے ؟ میری اماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر مجھے کون بتائے گا؟آغا جان اور تائی تو کبھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اماں کو تو شاید پتہ بھی نہ ہو! پھر کس سے پوچھوں ؟

وہ چکرا کر رہ گئی اور سر دونوں ہاتھوں میں گرا دیا۔ مگر اگلے ہی لمحے جیسے جھٹکے سے سر اٹھایا۔

ہمایوں ! اور پھر اس نے کچھ نہیں سوچا اور گیٹ کی طرف لپکی۔

٭٭٭



صاحب اندر ہیں ؟ مجھے اندر جانا ہے۔

جی آپ چلی جاؤ۔ چوکیدار فوراً سامنے سے ہٹا۔ وہ اندر کی طرف دوڑی۔ شاہانہ طرز کا لاؤنج خالی تھا۔ وہ ادھر ادھر دیکھتی آگے بڑھی پھر کچن کے کھلے دروازے کو دیکھ کر رک گئی۔ کچھ سوچ کر وہ کچن میں آئی۔

ماربل فلور کا چمکتا صاف ستھرا کچن خالی پڑا تھا۔ چمچوں کا اسٹینڈ سامنے ہی تھا۔ اس نے لپک کر ایک بڑی چھری نکالی اور آستین میں چھپا کر باہر آئی۔

ہمایوں ؟لاؤنج میں کھڑے ہو کر گردن اوپر کر کے اس نے پکارا۔ آواز گونج کر لوٹ آئی۔ اس کا کمرہ اوپر تھا۔ اسے یاد تھا۔ وہ تیز تیز سیڑھیاں چڑنے لگی۔ سیاہ ماربل کی چمکتی سیڑھیاں گولائی میں اوپر جا رہیں تھیں۔ وہ بالائی منزل پر رکی، ادھر ادھر جھانکا، پھر تیسری منزل کی سیڑھیوں کی طرف جانے لگی۔ دفعتاً سامنے والے کمرے سے اس کی آواز آئی۔

بلقیس؟وہ اندر سے غالباً ملازمہ کو آواز دے رہا تھا۔ وہ دوڑ کر اس کمرے کے دروازے تک آئی۔

دروازہ کھولیں !اس نے دروازہ زور سے بجایا اور پھر دھرا دھر بجاتی چلی گئی۔

کون؟ہمایوں نے حیران سا ہو کر دروازہ کھولا۔ اسے دیکھ کر وہ بری طرح چونکا تھا۔

تم خیریت؟

مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے، ٹھیک ٹھیک بتائیے گا۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا!

وہ اتنے جارحانہ انداز میں غرائی تھی کہ وہ پریشان ہی ہو گیا۔

کیا ہوا محمل؟

میری بات کا جواب دیں۔

اچھا اندر آ جاؤ۔ وہ اسے راستہ دیتے ہوئے پیچھے ہوا۔ بلیک ٹراؤزر پر گرے آدھے بازوؤں والی شرٹ پہنے، ہاتھ میں تولیہ پکڑے وہ غالباً ابھی نہا کر نکلا تھا۔ ماتھے پر بکھرے گیلے بالوں سے پاتی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔

وہ دو قدم اندر آئی، یوں کہ اب دروازے کی چوکھٹ میں کھڑی تھی۔

آپ فرشتے کے کزن ہیں ؟

ہاں کیوں ؟

فرشتے کس کی بیٹی ہے ؟اس کا باپ کون ہے ؟

باپ؟وہ ذرا سا چونکا، اس نے تم سے کچھ کہا ہے ؟

میں نے پوچھا ہے۔ فرشتے کس کی بیٹی ہے ؟وہ دبی دبی سی غرائی تھی۔

ادھر بیٹھو، آرام سے بات کرتے ہیں۔ وہ اس کو راستہ دیتا اس کی بائیں طرف سے قریب آیا۔

میں بیٹھنے نہیں آئی مجھے جواب چاہیئے ؟

ادھر بیٹھو تو سہی، ٹھنڈے دماغ سے میری بات سنو۔ وہ بچوں کی طرح اسے بہلاتے ہوئے آگے بڑھا۔ اور نرمی سے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا۔

ہاتھ مت لگائیں مجھے۔ وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔

محمل ادھر آؤ۔ وہ دو قدم آگے اس کے قریب آیا ہی تھا کہ محمل نے اچانک آستین میں چھپی چھری نکال لی۔

مجھے آپ پر ذرا بھروسہ نہیں ہے۔ دور رہیں۔ وہ چھری کی نوک اس کی طرف کیے مزید دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔

چھری کیوں لائی ہو؟مجھے مارنے ؟اس کے ماتھے پر بل پڑے اور آنکھوں میں غصے کی لہر ابھری۔ وہ تیزی سے بڑھا اور محمل کا چھری والا ہاتھ مروڑا۔

چھوڑیں مجھے، ورنہ میں آپ کو مار دوں گی۔ وہ اس کی مضبوط گرفت کے باوجود کلائی چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے اس کے کندھے کو پیچھے دھکیلنے چاہا۔ ہمایوں اس کے چھری والے ہاتھ کا رخ دوسری طرف موڑ رہا تھا، اور پھر اسے پتہ بھی نہیں چلا چھری کی تیز دھار گوشت میں گھسی چلی گئی۔

محمل کو لگا وہ مرنے والی ہے۔ اس نے خون ابلتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر اپنی چیخ سنی۔ مگر نہیں اسے چھری نہیں لگی تھی۔ پھر؟

وہ کراہ کر پیچھے ہٹا تو محمل کی کلائی آزاد ہو گئی۔ ہمایوں کے دائیں پہلو میں سے خون ابل رہا تھا۔ وہ چھری پر ہاتھ رکھے لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہٹا تھا۔

اوہ میرے خدا یہ میں نے کیا کر دیا۔ خوف سے اس کی آنکھیں پھٹ گئیں۔

چھری پر رکھا ہمایوں کا ہاتھ خون سے سرخ پڑنے لگا تھا۔ وہ درد کی شدت سے دیوار کے ساتھ بیٹھتا چلا گیا۔

وہ دہشت زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کا پورا جسم کانپنے لگا تھا۔ یقین ہی نہیں آ رہا تھا یہ سب اس نے کیا ہے خدایا یہ اس نے کیا کر دیا تھا۔

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو دیکھتی قدم قدم ہٹنے لگی اور پھر ایک دم مڑی اور سیڑھیاں پھلانگتی گئی۔ پوری قوت سے لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر بھاگی تھی۔

چوکیدار گیٹ پر نہیں تھا، کہاں تھا اسے پرواہ نہیں تھی۔ وہ تیز دوڑتی ہوئی مسجد میں داخل ہوئی تھی۔

فرشتے فرشتے کدھر ہیں ؟ پھولی سانسوں کے ساتھ درمیان پوچھتی وہ ذرا دیر کو ریسپشن پر رکی تھی۔

فرشتے باجی لائبریری میں ہوں گی یا

اس نے پوری بات نہیں سنی اور راہداری میں دوڑتی گئی۔

لایبریری کے اسی کونے میں وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے بیٹھی تھی۔ ۔ وہ بدحواس سی بھاگتی ہوئی اس کے سامنے جا رکی۔

آہٹ پر فرشتے نے چہرے سے ہاتھ ہٹائے اسے دیکھ کر اس کی نگاہیں جھک گئیں۔

میں جانتی ہوں تم ہرٹ ہوئی ہو۔ ایک گہری سانس لے کر وہ اپنی رو میں کہنے لگی تھی۔ اور میں اسی ڈر سے تمہیں یہ پہلے نہیں بتا رہی تھی۔ کہتے کہتے فرشتے نے نگاہیں اٹھائیں اور پھر اگلے الفاظ اس کے لبوں پر دم توڑ گئے۔

محمل کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

محمل کیا ہوا؟ وہ پریشان سی کھڑی ہوئی۔

فرشتے۔ فرشتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہمایوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رو دینے کو تھی۔

کیا ہوا ہمایوں کو؟ بتاؤ محمل؟، اس نے فکر مندی سے محمل کو دونوں شانوں سے تھام کر پوچھا۔

وہ ہمایوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمایوں مر گیا

محمل کے شانوں پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔

اسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی۔

یہ کیا کہہ رہی ہو؟

میں نے جان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جان بوجھ کے نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمایوں کو۔ وہ اسے چھری لگ گئی۔ میں نے غلطی سے اسے میری۔

وہ کدھر ہے ابھی ؟فرشتے نے تیزی سے بات کاٹی۔

اپنے گھر بیڈ روم میں۔

فرشتے نے اگلا لفظ نہیں سنا اور تیزی سے باہر کی طرف بھاگی تھی۔ وہ کہیں بھی جاتی تھی تو ہمیشہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ لے کر جاتی تھی۔ آج اس نے اس کا ہاتھ نہیں تھاما تھا۔ آج وہ اکیلی بھاگی تھی۔

اسے خود بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، بس وہ بھی فرشتے کے پیچھے لپکی تھی۔

ہمایوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمایوں۔ وہ محمل کے آگے بھاگتی ہوئی ہمایوں کے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی۔ اور اسے آوازیں دیتی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔

ہمایوں ؟

وہ آگے پیچھے گول سیڑھیوں کے دہانے رکی تھیں۔ ہمایوں کمرے کی بیرونی دیوار کے ساتھ لگا زمین پر بیٹھا تھا۔ خون آلودہ چھری اس کے ایک طرف رکھی تھی۔ ہمایوں تم ٹھیک ہو؟ وہ پریشان سی گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی، اس نے جیسے چونک کر آنکھیں کھولیں۔

تم ادھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی فرشتے سے اس کی نظر کے پیچھے کھڑی محمل پر جا رکی۔

مجھے محمل نے بتایا کہ۔

فرشتے تم جاؤ اس بے وقوف لڑکی کو بھی لے جاؤ۔

مگر ہمایوں۔

میں نے احمر کو کال کر دیا ہے، پولیس پہنچنے والی ہے، تم دونوں کی ادھر موجودگی ادھر ٹھیک نہیں ہے، جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

درد کی شدت سے بدقت بول پا رہا تھا۔

مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرشتے نے تذبذب سے گردن موڑ کر محمل کو دیکھا جو سفید پڑتا چہرہ لیے ادھر کھڑی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ اس وقت کیا کرے۔

میں نے کہا نہ جاؤ۔ وہ گھٹی گھٹی آواز میں چلایا تھا۔

اچھا وہ گھبرا کر کھڑی ہوئی۔

نہیں میں نہیں جاؤں گی۔ بے شک مجھے پولیس پکڑ لے مگر میں۔

محمل جاؤ!!!!!!! وہ زور سے چیخا تھا۔

چلو محمل۔ فرشتے نے جیسے فیصلہ کر کے اس کا ہاتھ پکڑا اور سیڑھیاں اترنے لگی۔

ہمایوں میں نے جان بوجھ کے نہیں کیا آئی ایم سوری۔ ۔ ۔ آئی ایم رئیلی۔ فر شتے اس سے آگے اس کا ہاتھ کھینچتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ مگر وہ اسی طرح گردن موڑ کر ہمایوں کو دیکھتی روہانسی سی کہے جا رہی تھی۔

جسٹ گو!وہ وہی سے جھنجھلا کر بولا تھا۔ وہ اب سیڑھیوں کے درمیان میں تھی۔ وہاں اسے ہمایوں کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا، آنسو اس کی آنکھوں سے ابل پڑے تھے۔ فرشتے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے باہر لے آئی تھی۔

تم کیوں گئی اس کے گھر محمل؟مجھے بتاؤ، ادھر کیا ہوا تھا ؟مسجد کے گیٹ پر فرشتے نے پوچھا تو اس نے اپنا ہاتھ زور سے چھڑایا۔

محمل ! ناراض مت ہو۔ ابھی وہاں میری اور تمہاری موجودگی ٹھیک نہیں ہے۔

وہ ادھر مر رہا ہے اور آپ۔ اس کی آنکھوں سے متواتر آنسو گر رہے تھے۔

وہ ابھی اسے ہسپتال لے جائیں گے۔ زخم بہت زیادہ نہیں تھا، وہ ٹھیک ہو جائے گا مگر تم نے کیوں مارا اسے ؟

بھلا یوں ہمایوں کو مار سکتی ہوں۔ میں کر سکتی ہوں ایسا؟وہ ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ فرشتے بری طرح چونکی تھی۔ محمل کے چہرے پر چھایا حزن ملال اور آنسو۔ وہ عام آنسو نہیں تھے۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ایسا۔ آئی سوئیر۔

اچھا اندر آؤ، آرام سے بات کرتے ہیں۔ اس نے خود کو سنبھال کر کہنا چاہا مگر وہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھی۔

انہوں نے بھی یہی کہا تھا۔ میرا قصور نہیں تھا۔ وہ اسی طرح گیٹ پر کھڑی روئے چلی جا رہی تھی۔ ، وہ ٹھیک تو ہو جائے گا فرشتے ؟

ہوں۔ فرشتے نے شاید اس کی بات نہیں سنی تھی بس گم صم اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو دیکھ رہی تھی۔ وہ واقعی عام آنسو نہیں تھے۔

میں گھر جا رہی ہوں پلیز۔ آپ مجھے ہمایوں کے بارے میں بتاتی رہیئے گا۔

اچھا۔ اس نے غائب دماغ سے سر ہلا دیا۔

محمل اب درختوں کے باڑ کے ساتھ دوڑتی ہوئی دور جا رہی تھی۔ وہ جیسے نڈھال سی گیٹ سے لگی یک ٹک اسے دیکھے گئی۔ ۔

ہاں وہ آنسو بہت خاص تھے۔

٭٭٭



ہسپتال کا ٹائلز سے چمکتا کاریڈور خاموش پڑا تھا۔

کاریڈور کے اختتام پر وہ بینچ پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔

محمل جو دوڑتی ہوئی ادھر آ رہی تھی۔

اسے بیٹھے دیکھ کر لمحے بھر کو ٹھٹکی رکی، پھر بھاگتی ہوئی اس کے قریب آئی۔

فرشتے۔ فرشتے۔

فرشتے نے ہاتھوں میں گرا سر اٹھایا۔ وہ کیسا ہے ؟

محمل اس کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھی اور دونوں ہاتھ اس کے گھٹنوں پر رکھے۔

بنائیں نا، وہ کیسا ہے ؟وہ بے قراری سے اس کی سنہری آنکھوں میں دیکھتی جواب تلاش کر رہی تھی۔

ٹھیک ہے۔ زخم زیادہ گہرا نہیں ہے۔ وہ بھی محمل کی بھوری آنکھوں میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔

میں اس سے مل سکتی ہوں ؟

ابھی وہ ہوش میں نہیں ہے۔

کیوں ؟وہ تڑپ کر بولی تھی، وہ فجر کا وقت تھا، اور جیسے ہی فرشتے نے اسے اطلاع دی تھی۔ وہ بھاگتی ہوئی آئی تھی۔

ڈاکٹرز نے خود اسے سلایا رکھا ہے۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا محمل تم پریشان نہ ہو۔

میں کیسے پریشان نہ ہوں ؟ میں نے ان کو چھری ماری ہے۔ میں۔ ۔

ایسا کیا ہوا تھا محمل؟تم نے کیوں کیا ایسے ؟

میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔ میں ان سے پوچھنے گئی تھی۔ وہ لب کچلتی ڈبڈباتی آنکھوں سے کہتی چلی گئی۔ فرشتے اسی تھکے تھکے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔

تم مجھ سے پوچھ لیتی محمل! اس کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر چھوڑ دو کوئی بات نہیں۔

چند لمحے یونہی سرک گئے وہ اسی طرح فرشتے کے سامنے فرش پر دو زانوں بیٹھی تھی۔ اس کے ہاتھ ابھی تک فرشتے کے گھٹنوں پر تھے۔ بہت دیر بعد اس نے خاموشی کو چیر دیا۔

آپ نے کہا آپ آغا ابراہیم کی بیٹی ہیں ؟

ہاں میں آغا ابراہیم کی بیٹی ہوں۔

میرے ابا کی،، ،، ،، ،، اس کا گلا رندھ گیا۔

تمہیں یہ انہونی کیوں لگتی ہے ؟سوائے تمہارے، تمہارے سب بڑوں کو علم ہے۔ تمہاری امی کو بھی۔

امی کو بھی؟اسے جھٹکا لگا تھا۔

ہاں۔ ابا مجھ سے ملتے تھے۔ ۔ میری امی ان کی فرسٹ وائف تھیں۔ ڈائیورس کے بعد امی اور ابا الگ ہو گئے تھے۔ پھر انہوں نے تمہاری امی سے شادی کی۔ دونوں ان کی پسند کی شادیاں تھیں، ہے نا عجیب بات؟خیر مجھ سے وہ ہر ویک اینڈ پر ملنے آتے تھے، میں اپنے چچاؤں سے متعارف تو نہ تھی مگر وہ سب جانتے تھے کہ میں کون ہوں، کدھر رہتی ہوں مگر ابا کی ڈیتھ کے بعد انہوں نے مجھے تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا میں بہت دفعہ اپنا حق مانگنے گئی۔ مگر وہ نہیں دیتے۔ ابا کی پہلی شادی خفیہ تھی، سوائے ہمارے بڑوں کے خاندان میں کسی کو علم نہ تھا تم سے بھی چھپا کر رکھا گیا کہ کہیں تم میرے ساتھ مل کر حصہ نہ مانگنے کھڑی ہو جاؤ۔

آپ نے کیس کیوں نہیں کیا ان پہ؟بہت دیر بعد وہ بول پائی تھی۔

مجھے جائیداد سے حق نہیں رشتوں سے حق چاہیئے۔ محمل میں بہت دفعہ تمہارے گھر پر گئی ہوں مگر اندر داخلہ۔ خیر یہ لمبی کہانی ہے، کئی برسوں سے اپنے حق کی جنگ لڑ رہی ہوں۔ وارث اللہ نے بنائے ہیں، میں ابا کی وارث ہوں۔ یہی سوچ کر اب میں جائیداد سے حصہ مانگتی ہوں، مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بات ادھوری چھوڑ گئی۔

آپ کو پتہ تھا میں آپ کے بارے میں نہیں جانتی؟

ہاں مجھے پتہ تھا۔ میں نے جب بھی تم سے ملنے کی کوشش کی، کریم تایا نے یہی کہہ کر روک دیا کہ محمل ذہنی طور پر ڈسٹرب ہو جائے گی اور ابا سے نفرت کرے گی، پھر میں نے صبر کر لیا۔ میں جانتی تھی جو رب بن یامین کو یوسف علیہ السلام کے پاس لا سکتا ہے وہ محمل کو بھی میرے پاس لے آئے گا۔ وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔ محمل کو لگا اس کی سنہری آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔

فواد بھائی ان کا کیس۔

ہمایوں نے مجھے بتایا تھا کہ میرے کزن فواد نے اس کے ساتھ کسی لڑکی محمل کا معاملہ طے کیا ہے۔ کم عمر ہے اور خوبصورت بھی۔ میرا دل تب ہی سے کھٹک گیا تھا۔ مگر ہمایوں ماننے کو تیار نہیں تھا کہ فواد تمہارے ساتھ یہ کر سکتا ہے، اسے گمان تھا وہ کوئی اور لڑکی ہو گی مگر جس لمحے میں نے مسجد کی چھت پر تمہیں دیکھا تھا میں تمہیں پہچان گئی تھی۔

آپ نے تو مجھے کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دیکھا تھا، ایک دفعہ تمہارے اسکول آئی تھی تم سے ملنے۔ بینچ پر بیٹھتی تمہیں دیکھتی ہی رہی، تم الجھی الجھی چڑچڑی سی لگ رہی تھی۔ مجھ سے تمہیں مزید ذہنی اذیت نہیں دی گئی، سو واپس پلٹ گئی۔

فرشتے تھک کر چپ ہو گئی۔ شاید اب اس کے پاس کہنے کو کچھ نہ بچا تھا، وہ یاسیت سے اسے دیکھے گئی جو بہت تھکی تھکی نظر آ رہی تھی، بہت دیر بعد اس نے پھر لب کھولے۔

تم خوش قسمت ہو محمل!کہ تم رشتوں کے درمیاں رہی ہو۔ تم یتیم نہیں رہی ہو۔ یتیموں والی زندگی تو میں نے گزاری ہے۔ اس کے باوجود میں نے کبھی یتیمی کا لیبل خود پر نہیں لگایا۔ میری خالہ اور ہمایوں یہی تھے میرے رشتے اور اب میرے پاس کھونے کو مزید رشتے نہیں بچے، ایک چیز مانگوں تم سے ؟کبھی مجھے اس آزمائش میں مت ڈالنا۔ میں مزید رشتے نہیں کھونا چاہتی۔

اے ایس پی صاحب کے ساتھ آپ ہیں ؟آواز پر ان دونوں نے چونک کے سر اٹھایا۔ سامنے یونیفارم میں ملبوس نرس کھڑی تھی۔

جی۔ محمل اس کے گھٹنوں سے ہاتھ ہٹاتی بے چینی سے گھبرا کے اٹھی۔

ان کو ہوش آ گیا ہے، اب خطرے سے باہر ہیں۔ آپ ان کی؟

میں۔ ۔ ۔ ۔ میں ان کی فرینڈ ہوں۔ اس نے جلدی سے فرشتے کی طرف اشارہ کر کے بتایا یہ ہمایوں صاحب کی بہن ہیں۔

بہن؟اس نے چونک کر محمل کو دیکھا، مگر وہ نرس کی طرف متوجہ تھی۔ بہن؟وہ ہولے سے زیر لب بڑبڑائی۔ پھر ہلکا سا نفی میں سر ہلایا۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی، مگر محمل نرس کے پیچھے جا رہی تھی۔ اس نے کچھ بھی نہ سنا۔

وہ خالی ہاتھ بیٹھی رہ گئی۔ اس کی سنہری آنکھوں میں شام اتر آئی تھی، محمل وہ شام نہ دیکھ سکی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر ہمایوں کے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔

وہ بیڈ پر آنکھ موندے لیٹا تھا، اور چادر منہ پر اوڑھی تھی۔

آہٹ پر قدرے نقاہت سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔

محمل!

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے سامنے جا رکی۔

بھورے سلکی بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے فیروزی شلوار قمیض ہم رنگ دوپٹہ شانوں پر پھیلائے وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

آئی ایم سوری ہمایوں ! آنسو آنکھوں سے پھسل پڑے تھے۔ وہ فقط مسکرایا۔

ادھر آؤ۔

وہ چند قدم آگے بڑھی۔ اتنی غصے میں کیوں تھیں۔

مجھے معاف کر دیں پلیز۔ اس نے بے اختیار دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔ ہمایوں نے بایاں ہاتھ اٹھایا اور اس کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو تھام لیا۔

تم نے کیوں کہا، تمہیں مجھ سے کوئی امید نہیں ؟

تو کیا رکھتی؟اس کے دونوں ہاتھ اور ہمایوں کا ہاتھ اوپر تلے ایک دوسرے میں بند ہو گئے تھے۔

تمہیں لگتا ہے میں بیچ راہ میں چھوڑ دینے والوں میں سے ہوں ؟

کیا نہیں ہیں ؟آنسو اسی طرح اس کی آنکھوں سے ابل رہے تھے۔

کیوں اتنی بدگمان رہتی ہو مجھ سے ؟

بدگمان تو نہیں بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر چھری کیوں لائی تھیں ؟تمہیں لگتا تھا تم میرے گھر غیر محفوظ ہو گی؟ وہ نرمی سے کہہ رہا تھا۔

آپ مجھے معاف کر دیں پلیز، آپ نے معاف کر دیا تو اللہ بھی مجھے معاف کر دے گا۔

کہہ کہ وہ لمحے بھر کو خود بھی چونک گئی۔ آخری فقرہ ادا کرتے ہوئے دل میں عجیب سا احساس ہوا تھا۔ ایک دم اس نے اپنے ہاتھ چھڑائے تھے، یہ سب ٹھیک نہیں تھا۔

آپ آرام کریں، مجھے مدرسہ بھی جانا ہے۔ وہ دروازے کی طرف لپکی تھی۔

مت جاؤ۔ وہ بے اختیار پکار اٹھا تھا۔

میں گھر سے مدرسہ کا کہہ کر نکلی تھی، اگر نہ گئی تو یہ خیانت ہو گی اور پل صراط پر خیانت کے کانٹے ہوں گے، مجھے وہ پل پار کرنا ہے۔

تھوڑی دیر رک جاؤ گی تو کیا ہو جائے گا؟وہ جھنجھلایا تھا۔

یہ حقوق العباد کا معاملہ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ٹھیک ٹھیک ہے مادام آپ جا سکتی ہیں۔

وہ مسکراہٹ دبا کر بولا تو اسے لگا وہ کچھ زیادہ ہی بول گئی ہے۔

سوری۔ ایک لفظ کہہ کر دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔

فرشتے اسی طرح بینچ پر بیٹھی تھی۔ آہٹ پر سر اٹھایا۔

میں چلتی ہوں فرشتے مجھے مدرسے جانا ہے، نا محسوس انداز میں اس نے اپنا ہاتھ دوپٹے کے اندر کیا کہ اس پر وہ کسی کا لمس نہ دیکھ لے۔

مل لیں ہمایوں سے ؟اس کی آواز بہت پست تھی۔ ۔ ہاں اس نے بے اختیار نگاہیں چرائیں فرشتے اسی طرح گردن اٹھا کر اسے دیکھتی جانے اس کے چہرے پر کیا کھوج رہی تھی۔ وہ جیسے گھبرا کر جانے کو پلٹی۔

محمل سنو! وہ جیسے بے چینی سے پکار اٹھی اور اس سے پہلے کہ وہ پلٹتی اس نے نفی میں سر ہلاتے دھیرے سے کہا۔ نہیں کچھ نہیں جاؤ۔

جاؤ تمہیں دیر ہو رہی ہے۔

اوکے السلام علیکم۔ وہ راہداری میں تیز تیز قدم اٹھاتی دور ہوتی گئی۔ فرشتے نے پھر سے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔

٭٭٭



اس کا دل بہت بوجھل سا ہو رہا تھا۔ مدرسہ آ کر بھی اسے سکون نہ مل رہا تھا۔ اسے تھوڑی دیر ہو گئی تھی۔ اور تفسیر کی کلاس وہ مس کر چکی تھی۔ سارا دن وہ یونہی مضمحل سی پھرتی رہی۔ بریک میں سارہ نے اسے جا لیا۔ وہ برآمدے کے اسٹیپس پر بیٹھی تھی۔ گود میں کتابیں رکھے چہرے پر بیزاری سجائے۔

تمہیں کیا ہوا ہے ؟سارہ دھپ سے ساتھ آ بیٹھی۔

پتا نہیں۔ وہ جھنجھلائے ہوئے گود میں رکھی کتاب کھولنے لگی۔

پھر بھی کوئی مسئلہ ہے ؟

ہاں ہے۔

کیا ہوا ہے ؟

اللہ تعالی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سر جھٹک کر صفحے پلٹنے لگی۔

بتاؤ نا؟

اللہ تعالیٰ ناراض ہیں، دیٹس اٹ!زور سے اس نے کتاب بند کی۔

اوہو۔ تم خواہ مخواہ قنوطی ہو رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ کیوں ناراض ہوں گے بھلا؟

بس ہیں نا!

اتنی مایوسی اچھی نہیں ہوتی۔ تمہیں کیسے پتہ کہ وہ ناراض ہیں ؟

ایک بات بتاؤ!وہ جیسے کوفت زدہ سی اس کی طرف گھومی۔ اگر تم چوبیس گھنٹے کسی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہو، گھر میں داخل ہوتے ہی تمہیں اس شخص کا موڈ دیکھ کر پتہ نہیں چل جاتا کہ وہ ناراض ہے ؟

بھلے وہ منہ سے کچھ نہ کہے، بھلے تمہیں اپنی غلطی بھی سمجھ میں نہ آ رہی ہو مگر تم جان لیتی ہو کہ ماحول میں تناؤ ہے اور پھر تم دوسروں سے پوچھتی پھرتی ہو کہ اسے کیا ہوا ہے ؟اور پھر تم اپنی غلطی سوچتی ہو۔ میں بھی اس وقت یہی کر رہی ہوں سو مجھے کرنے دو!

مگر محمل۔

تمہیں پتا ہے اتنے عرصے سے میں روز ادھر آ کر قرآن سنتی تھی۔ آج میری تفسیر کی کلاس مس ہو گئی ہے۔ آج میں قرآن نہیں سن سکی۔ تمہیں پتہ ہے کیوں ؟کیونکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہیں، وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ سو ابھی مجھے اکیلا چھوڑ دو!

سارہ کے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ کتابیں سنبھالتی اٹھی اور تیز تیز قدموں سے چلتی اندر آ گئی۔

پرئیر ہال خالی پڑا تھا۔ بتیاں بجھی تھیں۔ وہ کھڑکی کے ساتھ آ بیٹھی۔ کھڑکی کے شیشے سے روشنی چھن کر اندر آ رہی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے۔

اللہ تعالی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الفاظ لبوں پر ٹوٹ گئے۔ آنسو ٹپ ٹپ گالوں پر گرنے لگے۔ اس نے دعا کے لیے اٹھتے ہاتھوں کو دیکھا۔ یہ ہاتھ چند گھنٹے پہلے ہمایوں کے ہاتھ میں تھے۔ لڑکے لڑکی ہاتھ پکڑنا تو اب عام سی بات ہو گئی تھی۔ مگر قرآن کی طالبہ کے لیے وہ عام سی بات نہ تھی۔ وہ جیسے جذبات کے ریلے میں بہہ آئی کہ خیال ہی نہ آیا کہ اسے یوں تنہا کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمایوں نے خود کو کیوں نہ روکا؟ مگر نہیں وہ ہمایوں کو کیوں الزام دے ؟وہ تو قرآن کا طالب علم نہ تھا، طالبہ تو وہ تھی۔ سمعنا و اطعنا (ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی)کا وعدہ تو اس نے رکھا تھا۔ پھر؟

آنسو اسی طرح اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ وہ سر جھکائے آج کا سبق کھولنے لگی۔

اللہ تعالیٰ پلیز مجھے معاف کر دے۔ مجھے ہدایت پر قائم رکھ۔

وہ دل ہی دل میں دعا مانگتے ہوئے مطلوبہ صفحہ کھولنے لگی۔

کس طرح اللہ اس قوم کو ہدایت دے سکتا ہے جو ایمان لانے کے بعد کفر کریں۔

اس کے آنسو پھر سے گرنے لگے۔ اس کا رب اس سے بہت ناراض تھا اس کی معافی کافی نہ تھی۔ وہ سسکیوں کے درمیان پھر سے استغفار کرنے لگی۔

اور انہوں نے رسول کے برحق ہونے کی گواہی دی تھی اور ان کے پاس روشن نشانیاں آئی تھیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

وہ جیسے جیسے پڑھتی جا رہی تھی اس کا رواں رواں کانپنے لگا تھا۔ قرآن وہ آئینہ تھا جو بہت شفاف تھا۔ اس میں سب کچھ صاف نظر آتا تھا۔ اتنا صاف کہ کبھی کبھی دیکھنے والے کو خود سے نفرت سی ہونے لگتی تھی۔ ۔

ان لوگوں کی جزا یہ ہے کہ بے شک ان پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب کے سب لوگوں کی۔ ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی وہ مہلت دیے جائیں گے۔ ۔

اس نے قرآن بند کر دیا۔ یہ خالی زبانی استغفار کافی نہ تھا۔ اس نے نوافل کی نیت باندھی اور پھر کتنی ہی دیر وہ سجدے میں گر کر روتی رہی۔ جس کے ساتھ ہر پل رہو جو رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہو اس کی ناراضی دور کرنے کے لیے اتنا ہی کوشش کرتا ہے جتنی وہ اس سے محبت کرتا ہے۔

جب دل کو کچھ سکون آیا تو اس نے اٹھ کر آنسو پونچھے اور قرآن اٹھا کر ٹھیک اسی آیت کو کھولا جہاں سے چھوڑا تھا۔ آیت روز اول کی طرح روشن تھی۔ مگر اس کے بعد جن لوگوں نے توبہ کر لی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اس کا دل زور سے دھڑکا ) اور انہوں نے اصلاح کر لی تو بے شک اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔

بہت دیر سے روتے دل کو ذرا امید بندھی۔ ذرا قرار آیا۔

یہ توبہ کی قبولیت کی نوید تو نہ تھی، مگر امید ضرور تھی۔ اس نے آہستہ سے قرآن بند کیا۔ میڈم مصباح کہتی تھیں اگر قرآن کی آیات میں آپ کے لیے ناراضی کا اظہار ہو تو بھی بخشش کی امید رکھا کریں کم از کم اللہ آپ سے بات تو کر رہا ہے۔ ۔

وہ ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ محمل نے اٹھتے ہوئے سوچا تھا۔

٭٭٭



مہتاب تائی نے کمرے کے کھلے دروازے سے اندر جھانکا۔

محمل سے کہو شاپنگ کے لیے چلے۔ اس کے جوتے کا ناپ لینا ہے۔ ورنہ بعد میں خود کہے گی کہ پورا نہیں آیا۔

وہ بیڈ پر کتابیں کھولے بیٹھی تھی۔ جبکہ مسرت الماری سے کچھ نکال رہی تھی۔ تائی کی آواز پر دونوں نے بری طرح چونک کر دیکھا تھا، جو اسے نظر انداز کیے مسرت سے مخاطب تھی۔

(تو وہ وسیم والا قصہ ابھی تک باقی ہے ؟)اس نے کوفت سے سوچا تھا۔ پچھلے کچھ دنوں میں پے درپے واقعات نے اسے وہ معاملہ بھلا دیا تھا۔ یہ بھی کہ حسن کی مخالفت ابھی برقرار تھی۔ مگر تائی اماں میں انکار کر چکی ہوں۔

لڑکی! میں تمہاری ماں سے بات کر رہی ہوں۔ اس کا لہجہ نرم مگر مضبوط تھا۔

مسرت؟اس سے کہو تیار ہو جائے، میں گاڑی میں اس کا ویٹ کر رہی ہوں۔ وہ کھٹ کھٹ کرتی وہاں سے چلی گئیں۔ اس نے بے بسی سے ماں کو دیکھا۔ وہ اس سے بھی زیادہ بے بس نظر آ رہی تھیں۔

اماں آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ابھی چلی جاؤ محمل!ورنہ وہ ہنگامہ کر دیں گی۔

یہ سمجھتی کیوں نہیں ہیں ؟وہ زچ سی ہو کر کتابیں رکھنے لگی۔

شاید حسن کچھ کر سکے۔ مجھے حسن سے بہت امید ہے۔

اور مجھے اللہ سے ہے ! وہ کچھ سوچ کر عبایا پہننے لگی۔ پھر سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹا اور پن لگائی۔ خواہ مخواہ ہنگامہ کرنے کا فائدہ نہ تھا، چلی ہی جائے تو بہتر ہے۔ باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔

لاؤنج میں سیڑھیوں کے پاس لگ آئینے کے سامنے وہ رکی۔ ایک نظر اپنے عکس کو دیکھا۔ سیاہ حجاب میں سنہری چہرہ دمک رہا تھا۔ اونچی پونی ٹیل سے حجاب پیچھے سے اٹھ سا گیا تھا وہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ یونہی خود کو دیکھتی پلٹی ہی تھی کہ سیڑھی اترتے حسن پر نظر پڑی۔

کدھر جا رہی ہو؟

تائی اماں کے ساتھ شادی کی شاپنگ پہ۔

تم راضی ہو محمل؟وہ بھونچکا سا اس کے قریب آیا۔ وہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹی۔

اس گھر میں مجھے اپنی رضا سے اس فیصلے کا حق نہیں ملا حسن بھائی۔

وہ کتنے ہی لمحے خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ پھر آہستہ سے لب وا کیے۔

ہم کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔

اور محمل کو لگا اس نے تھپڑ دے مارا ہے۔

آپ کو پتہ ہے آپ کیا کہہ رہے ہو؟وہ بمشکل ضبط کر پائی تھی۔

ہاں میں تمہیں اس دلدل سے نکالنے کی بات کر رہا ہوں۔

آپ کورٹ میرج کی بات؟ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ مجھ سے یہ بات کریں گے۔

تمہیں اعتراض کیوں ہے محمل!یہ زبردستی تمہاری شادی وسیم سے کر دیں گے اور تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حسن بھائی پلیز، آپ کو پتہ ہے کورٹ میرج کیا ہوتی ہے ؟سرکاری شادی، کاغذوں کی شادی۔ میں ایسی شادی کو نہیں مانتی جس میں لڑکی کے ولی کی مرضی شامل نہ ہو۔

اور میں کیوں یوں چھپ کر شادی کروں گی؟نہ آپ سے نہ وسیم سے۔ میرا رستہ چھوڑیں۔ وہ بے بس سا سامنے سے ہٹا تو وہ تیزی سے باہر نکل گئ۔

گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تائی مہتاب اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اندر بیٹھی اور دروازہ ذرا زور سے بند کیا۔

اسی پل ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر کوئی اندر بیٹھا۔ اس نے ڈرائیور سمجھ کر یونہی بیک ویو میں دیکھا تو جھٹکا سا لگا۔

وہ وسیم تھا۔ اپنے ازلی معنی خیز انداز میں مسکراتے، وہ گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔ اسے لگا اس سے غلطی ہو چکی ہے، مگر اب کیا کیا جا سکتا تھا،، ؟

لب کچلتی وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

تائی مہتاب منگنی کی شاپنگ کر رہی تھیں یا شادی کی، وہ کچھ نہ سمجھ سکی۔ بس چپ چاپ ان کے ساتھ میٹرو میں چلی آئی۔ وہ جہاں بیٹھی ان کے ساتھ بیٹھی گئی۔

سنا ہے تم نے بہت شور ڈالا تھا۔ تائی اٹھ کر ایک شو کیس کے قریب گئیں تو وہ اس کے ساتھ صوفے میں دھنس کر بیٹھا۔ محمل بدک اٹھی۔

ارے بیٹھو بیٹھو تم سے بات کرنی ہے۔

شاپ کی تیز پیلی روشنیاں وسیم کے چہرے پر پڑ رہی تھیں، گریبان کے کھلے بٹن، گردن سے لپٹی چین، اور شوخ رنگ کی شرٹ اف، اسے اس سے کراہت آئی تھی۔

تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو کس سے کرنا چاہتی ہو؟ وہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھ رہا تھا۔ اس کے ذہن کے پردے پر ایک چہرہ سا ابھرا۔

ایک اندرونی خواہش۔ ایک دبتی دباتی محبت کی ادھوری داستان، اس نے بے اختیار سر جھٹکا۔

نہ آپ سے نہ کسی اور سے۔ آپ میرا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟

ایسے نہیں محمل ڈئیر، ابھی تو ہم نے بہت وقت ساتھ گزارنا ہے، وہ کھڑے ہو کر اس کے قریب آیا۔ وہ پھر دو قدم پیچھے ہٹی دکان لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ پھر بھی محمل کو اس کے بے باک انداز سے خوف اتا تھا۔ نہ معلوم وہ کیا کر ڈالے۔

اچھا ادھر آؤ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ وہ قدم اٹھاتا اس کے نزدیک آ رہا تھا ادھر آئس کریم پارلر میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔

تائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تائی اماں۔ بے بس سی وہ بھیڑ میں تائی مہتاب کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

تمہاری تائی کو ان کی کوئی فرینڈ مل گئی ہے۔ وہ ابھی نہیں آئیں گی۔ تم ادھر قریب تو آؤ نا محمل ڈئیر۔ وسیم نے ہاتھ بڑھا کر اس کی کلائی تھامنا چاہی، اس کی انگلیاں اس کے ہاتھ سے ذرا سی مس ہوئیں۔ محمل کو جیسے کرنٹ لگا تھا، ہاتھ میں پکڑا ہینڈ بیگ اس نے پوری قوت کے ساتھ وسیم کے منہ پر دے مارا۔

بیگ اس کی ناک پر زور سے لگا تھا، وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا۔ شور کی آواز پر بہت سے لوگ ادھر متوجہ ہوئے، سیلز بوائے کام چھوڑ کر ادھر لپکے۔

یو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یو بچ۔ ۔ ۔ ! وسیم غصّے سے پاگل ہو گیا۔ ناک پر ہاتھ رکھے وہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف لپکا ہی تھا کہ ایک لڑکے نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا۔

کیا تماشا ہے ؟ کیوں بچی کو تنگ کر رہے ہو؟

میڈم کیا ہوا ہے ؟یہ بندہ تنگ کر رہا تھا آپ کو؟

بہت سی اوازیں آس پاس ابھریں۔ کچھ لڑکوں نے وسیم کو بازوؤں سے پکڑ رکھا تھا۔

یہ مجھے تنگ کر رہا تھا اکیلی لڑکی جان کر۔ اس نے بمشکل خود کو سنبھالا اور کہہ کر پیچھے ہٹ گئی۔ اسے معلوم تھا اب کیا ہو گا۔ اور واقعی وہی ہوا، اگلے ہی لمحے وہ لڑکے وسیم پر پل پڑے۔ وہ گالیاں بکتا خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا، مگر وہ سب بہت زیادہ تھے۔ مارو اسے اور مارو شریف لڑکیوں کو چھیڑتا ہے۔

ایک عمر رسیدہ صاحب ہجوم کے پاس کھرے غصے سے کہہ رہے تھے۔

زور سے مارو اسے عبرت کی مثال بنا دو۔

اپنے گھر ماں بہن نہیں ہے کیا۔ ۔ ۔ ؟

اور وہ ماں جب تک دوکان میں لگے ہجوم تک پہنچی، وہ وسیم کو مار کر ادھ موا کر چکے تھے۔ تائی اس کی طرف لپکیں۔ تھوڑی ہی دور صوفے پر محمل بیٹھی تھی۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھے مطمئن سی وسیم کو پٹتے دیکھ رہی تھی۔

محمل یہ اسے کیوں مار رہے ہیں ؟

کیوں کہ اس کے باپ کے کہنے پر کبھی مجھے ایسے ہی مارا گیا تھا۔

بکواس مت کرو۔

بڑی دلچسپ بکواس ہے یہ، آپ بھی انجوائے کریں نا۔ ۔ ۔ ۔ وہ محفوظ سی وسیم کو پٹتے دیکھ رہی تھی۔ شاپ کا بوکھلایا ہوا مینجر اور سیلز بوائز، مشتعل نوجوانوں کو چھڑوانے کی کوشش کر رہے تھے۔

سر پلیز۔ سر دیکھیں۔ سیلز بوائز کی منت کے باوجود لڑکے ان کو دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کر رہے تھے۔ حواس باختہ سی تائی مہتاب ان کی طرف دوڑیں۔

میرے بیٹے کو چھوڑو، پڑے ہٹو مرددو! وہ چلا چلا کر ان لڑکوں کو ہٹانے کی سعی کر رہی تھیں۔

صوفے پر بیٹھی محمل مسکراتے ہوئے چپس کا پیکٹ کھول رہی تھی۔

اب یہ مرتے دم تک مجھے ساتھ نہیں لائیں گی۔ ساری صورتحال سے لطف اندوز ہوتی وہ چپس نکال کر کترنے لگی۔

٭٭٭



اس نے دروازہ ہولے سے بجایا۔ مدھم دستک نے خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا۔

آ جاؤ محمل! اندر فرشتے کی تھکن زدہ مسکراتی آواز آئی اس نے حیرت دروازہ کھولا۔

السلام علیکم۔ اور آپ کو کیسے پتہ یہ میں ہوں ؟

میں تمہاری چاپ پہچانتی ہوں۔ وہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔ گھٹنوں پر لحاف پڑا تھا۔ ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔ بھورے سیدھے بال شانوں پر تھے۔ اور چہرے پر ذرا سی تکان تھی۔ محمل اندر داخل ہوئی تو فرشتے نے کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔ اور ذرا سا کھسک کر جگہ بنائی۔ آؤ بیٹھو۔

نائس روم فرسٹ ٹائم آئی ہوں آپ کے ہاستل ! محمل ستائشی نظریں اطراف میں ڈالتی بیڈ کی پائنتی کے قریب بیٹھی۔ وہ اسکول یونیفارم میں ملبوس تھی۔ ، جبکہ فرشتے بالکل مختلف گھر والے حلیئے میں تھی۔

پھر کیسا لگا ہاسٹل؟

بہت اچھا اور آپ آج اسکول کیوں نہیں آئیں ؟

یونہی طبیعت ذرا مضمحل سی تھی۔ وہ تکان سے مسکرائی۔ اس کا چہرہ محمل کو بہت زرد سا لگا تھا۔ شاید وہ بیمار تھی۔

اپنا خیال رکھا کریں۔ پھر قدرے توقف سے گویا ہوئی، آپ ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں جا کر کیوں نہیں رہتیں ؟وہ آپ کا بھی گھر ہے آپ کا حق ہے اس پہ، آپ کو اپنے اس گھر میں سے حصہ مانگنا چاہیئے۔

تو ان پر زور دیں نا۔

کوئی اور بات کرو محمل!

اف! وہ ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ میری ایک بہن بھی ہے اور ساری عمر میں بہن کے لیے ترستی رہی۔

ہم لوگوں کے ساتھ کے لیے نہیں ترستے محمل، ہم لوگوں کے ساتھ کی چاہ کے لیے ترستے ہیں، اور اسی چاہ سے محبت کرتے ہیں۔ وہ لوگ مل جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ تو کچھ نہ تھے۔ سب کچھ تو وہ چاہ تھی جس کی ہم نے صدیوں پرستش کی تھی۔

آپ بیمار ہو کر کافی فلسفی ہو گئی ہیں، سو پلیز، اچھا سنیں، ایک بات بتاؤں۔ وہ پر جوش سی بتانے لگی۔ کل تائی اماں مجھے وسیم کے ساتھ شاپنگ پر لے گئیں، اور میں نے اسے شاپ میں لوگوں سے پٹوایا۔

بری بات۔ قرآن کی طالبہ ایسی ہوتی ہے کیا؟

ارے اس نے میرے ساتھ بدتمیزی کی تھی،، اور اسے سبق سکھانے کے لیے یہ ضروری تھا، یو نو سیلف ڈیفنس! ہمایوں کیسا ہے ؟ایک دم اس نے پوچھا اور خود بھی حیران رہ گئی۔

اب بہتر ہے۔

اوہ شکر الحمد للہ۔ وہ واقعتاً خوش ہوئی تھی۔ چہرہ جیسے کھل اٹھا تھا۔ فرشتے بغور اس کے تاثرات جانچ رہی تھی۔

تم اسے پسند کرتی ہو رائٹ؟

اس کی نگاہیں بے اختیار جھک گئیں۔ رخسار گلابی پڑ گئے۔ اسے توقع نہ تھی کہ فرشتے اتنے آرام سے اسے پوچھ لے گی۔

بتاؤ نا۔ فرشتے ٹیک چھوڑ کر سیدھی ہوئی اور غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔ پتا نہیں !

مجھے سچ بولنے والی محمل پسند ہے۔

ہاں شاید۔ اس نے اعتراف کرتے ہوئے پل بھر کو نگاہیں اٹھائیں۔ فرشتے ہنوز سنجیدہ تھی۔

اور ہمایوں ؟

ہمایوں ؟اس کے لب مسکرا دئے۔ وہ کہتا ہے وہ بیچ راہ میں چھوڑ دینے والوں میں سے نہیں ہے۔

وہ سر جھکائے مسکراتی ہوئی بیڈ شیٹ پر انگلی پھیر رہی تھی۔ دوسری طرف دیر تک خاموشی چھائی رہی و اس نے چونک کر سر اٹھایا۔

فرشتے بالکل خاموش تھی۔ اس کے دل کو یونہی شک سا ہوا کہیں فرشتے تو ہمایوں سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟آخر وہ دونوں ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔

کیا سوچ رہی ہیں ؟

یہی کہ جب میں ہمایوں کے لیے تمہارا رشتہ لینے جاؤں گی تو کریم چچا مجھے شوٹ تو نہیں کر دیں گے ؟آخر میں ہمایوں کی بہن ہوں نا!

اور محمل کھلکھلا کر ہنس دی۔ سارے وہم شک و شبے ہوا ہو گئے۔ فرشتے بھلا ایسی فیلنگز کیسے رکھ سکتی تھی؟وہ عام لڑکیوں سے بہت مختلف تھی۔

اچھا یہ دیکھو۔ اس نے کتاب میں سے ایک لفافہ نکالا۔ ایک لنچ انوی ٹیشن ہے۔ مجھے انوائٹ کیا ہے نسیم آنٹی نے۔ وہ اماں کی ایک پرانی فرینڈ ہیں، ان ہی کے کلب میں ہے اس سنڈے کو۔ تم چلو گی۔ ؟

مگر ادھر کیا ہو گا؟

یہ تو مجھے نہیں پتہ۔ صرف لنچ ہے آنٹی نے کہا اگر میں آ جاؤں تو اچھا ہے، اماں کی کچھ پرانی فرینڈز سے بھی مل لوں گی۔ تم چلو گی؟

شیور! وہ پورے دل سے مسکرائی، اور پھر کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلی آئی۔

٭٭٭



اتوار کی دوپہر مقر رہ وقت پر مدرسے کے برآمدے میں کھڑی تھی۔ سیاہ عبایا میں ملبوس سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹے، وہ کھڑی بار بار کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتی تھی۔ عبایا وہ اب کبھی کبھی باہر پہنتی تھی۔ ، ہاں نقاب نہیں کرتی تھی، صرف حجاب لے لیا کرتی تھی۔

دفعتاً اوپر سیڑھیوں پر آہٹ ہوئی۔ محمل نے سر اٹھایا۔

فرشتے تیزی سے زینے اتر رہی تھی۔ ایک ہاتھ سے چابی پکڑے دوسرے سے وہ پرس میں کچھ کنگھال رہی تھی۔

السلام علیکم، تم پہنچ گئیں، چلو! عجلت میں کہتے ہوئے اس نے پرس بند کیا، اور برآمدے کی سیڑھیاں اتر گئی۔ محمل اس کے پیچھے ہو لی۔

ہمایوں گھر میں ہی ہو گا مل نہ لیں ؟وہ گیٹ کے باہر رک کر بولی تو محمل مسکرا دی۔

شیور!

وہ لاؤنج میں ہی تھا، صوفے پر بیٹھے پاؤں میز پر رکھے، چند فائلز کا سرسری سا مطالعہ کر رہا تھا۔ انہیں آتے دیکھا تو فائلز رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

خوش آمدید! فرشتے کے پیچھے محمل کو آتا دیکھ کر وہ مسکرا دیا تھا۔ اس کا چہرہ پہلے سے قدرے کمزور لگ رہا تھا، مگر ہسپتال میں پڑے ہمایوں سے وہ خاصا بہتر تھا۔

میں ہمایوں کو اتنے سالوں میں بھی السلام علیکم کہنا نہیں سکھا سکی، محمل ! اور کبھی تو مجھے لگتا ہے میں اسے کچھ بھی نہ سکھا سکوں گی۔

اچھا بھئی السلام علیکم۔ وہ ہنس دیا تھا۔ بیٹھو۔

وہ اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی مگر فرشتے کھڑی رہی۔

نہیں ہمایوں ہمارے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔

مگر تمہاری بہن تو بیٹھ گئی ہے۔

فرشتے نے مڑ کر محمل کو دیکھا جو آرام سے صوفے پر بیٹھی تھی۔

بہن! اٹھو ہم بیٹھنے نہیں آئے۔

محمل ایک دم گڑبڑا کر کھڑی ہو گئی۔

فرشتے ہمایوں کی طرف پلٹی۔

ہم بس تمہارا حال پوچھنے آئے تھے۔ تم اب ٹھیک ہو؟

میں ٹھیک ہوں، مگر بیٹھو تو سہی۔

نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں لنچ پر جانا ہے، نسیم آنٹی کی طرف۔

اماں کی کچھ فرینڈز سے بھی مل لیں گے۔

اور محمل؟اس نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔

محمل ظاہر ہے میری بہن ہے تو میرے ساتھ ہی رہے گی نا۔

وہ بے اختیار مسکرا دیا۔ عبایا میں ملبوس وہ دونوں دراز قد لڑکیاں اس کے سامنے کھڑی تھیں۔ سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹے دونوں کی ایک جیسی سنہری آنکھیں تھیں، یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ان میں سے کون زیادہ خوبصورت ہے۔ ہاں فرشتے دو انچ زیادہ لمبی ضرور تھی۔ اس کے چہرے پر ذرا سنجیدگی تھی۔ جبکہ محمل کے چہرے پر کم عمری کی معصومیت برقرار تھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ وہ محمل تو نہ تھی جس سے وہ پہلی بار اس لاؤنج میں ملا تھا۔ سیاہ مقیش کی ساڑھی، چھوٹی آستینوں سے جھلکتے گداز بازو، اور اونچے جوڑے سے نکلتی گھنگھریالی لٹوں والی۔ اسے اس کا ایک ایک نقش یاد تھا۔ وہ کوئی اور محمل تھی، اور یہ عبایا اور حجاب والی کوئی اور تھی۔

ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟

یہی کہ تم نے محمل کو اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے۔

یہ میرا رنگ نہیں ہے یہ صبغت اللہ ہے، اور اللہ کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہو سکتا ہے۔ چلو محمل۔ اوکے ہمایوں اپنا خیال رکھنا۔ السلام علیکم۔ وہ محمل کا بازو تھامے مڑی ہی تھی کہ وہ پکار اٹھا۔

سنو فرشتے ! ہاں ! وہ دونوں ساتھ ہی پلٹیں۔

تم بولتی بہت ہو، اور تم نے محمل کو ایک لفظ بھی نہیں بولنے دیا۔ تمہیں معلوم ہے ؟

مجھے معلوم ہے اور تم نے ساری عمر تو اسی کو سننا ہے، یہ کم ہے کہ میں نے تمہیں اس سے ملوا دیا ہے ؟

مگر نہیں۔ بے شک انسان بہت ناشکرا ہے، چلو محمل! وہ محمل کو بازو سے تھامے اسی عجلت میں واپس لے گئی۔ اور وہ حیرتوں میں گھرا کھڑا رہ گیا۔

پھر سر جھٹک کر مسکرا دیا تھا۔ یہ فرشتے کو کس نے بتایا؟

٭٭٭



اس گول میز کے گرد دونوں اپنی نشستوں پر بور سی بیٹھی تھیں۔

باقی کرسیوں پر آنٹی ٹائپ کچھ خواتین جلوہ افروز تھیں۔ محمل بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتی۔ وہ واقعی بہت بور ہو رہی تھی۔

فرشتے ہی تھی جو اپنے ساتھ بیٹھی نسیم آنٹی سے کوئی نہ کوئی بات کر لیتی تھی، ورنہ وہ تو مسلسل جماہی روکتی بے زاری سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔

اس ملک میں عورتوں کو وہ حقوق حاصل نہیں جو مردوں کو ہیں۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسز رضی کی طرف متوجہ ہو گئی جو ناک چڑھائے اپنا انگوٹھیوں سے مزین ہاتھ ہلا کر کہہ رہی تھیں۔

اور یہ اس صدی کی سب سے بے وقوفانہ بات ہے، اگر کوئی کہے کہ مرد عورت سے برتر ہے۔ میں تو نہیں مانتی ایسی باتوں کو!

بالکل!وہ سب غرور و تفاخر میں ڈوبی عورتیں ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھیں۔ محمل کا پرس میز پر رکھا تھا۔ اس نے اس کو اٹھا کر گود میں رکھا پھر اندر سے اپنا سفید کور والا قرآن نکالا جو ہمیشہ ساتھ رکھتی تھی۔

یہ سب جہالت کی باتیں ہیں مسز رضی، جب تک اس ملک میں تعلیم عام نہیں ہو گی، لوگ عورتوں اور مردوں کے برابر حقوق تسلیم نہ کر سکیں گے۔

اور نہیں تو کیا اسی قدامت پرستی کی وجہ سے ہم آج یہاں ہیں۔ اور دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے۔

اس نے سر اٹھایا اور ذرا سا کھنکاری۔

مجھے آپ لوگوں سے اتفاق نہیں ہے۔

تمام خواتین چونک کر اسے دیکھنے لگیں۔

اور میرے پاس اس کے لیے دلیل بھی ہے، یہ دیکھیں۔ اس نے گود میں رکھا قرآن پاک اوپر کیا، ادھر سورہ نسا میں۔

نہیں پلیز!

اف نہیں ! ناٹ اگین۔

اوہ پلیز ڈونٹ اوپن اٹ۔

ملی جلی ناگوار، مضطرب سی آوازوں پر رک کر ناسمجھی کے عالم میں انہیں دیکھنے لگی۔ ۔

جی؟

خدا کے لیے اس کو مت کھولیں۔

وہ کہہ رہی تھی اور وہ حق دق بیٹھی رہ گئی۔

یہ مسلمان عورتیں تھیں ؟یہ واقعی مسلمان عورتیں تھیں ؟ان کو آسمانی کتابوں پر ایمان نہ تھا؟یہ قرآن کو نہیں سننا چاہتی تھیں جس نے ان کو ان کا مال اور حسن دیا تھا۔ ۔ ۔ ؟جو چاہتا تو ان کی سانسیں روک دیتا، ان کے دل بند کر دیتا۔ مگر اس نے ان کو ہر نعمت دے رکھی تھی۔ پھر بھی وہ اس کی بات نہیں سننا چاہتی تھیں؟

یہ تو قرآن کی بات ہے اللہ کا کلام ہے آپ سنیں تو سہی، یہ تو۔ اس نے کہنا چاہا۔

پلیز آپ ہماری ڈسکشن میں مخل نہ ہوں۔

اور وہ خاموش ہو گئی۔ اتنی ہٹ دھرمی۔ شاید وہ بد نصیب عورتیں تھیں، جب کو اللہ اپنی بات سنوانا نہیں چاہتا تھا۔ اور ہر وہ شخص جو روز قرآن نہیں پڑھتا وہ بد نصیب ہوتا ہے اللہ اس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔

پھر وہ ادھر نہیں بیٹھی، تیزی سے اٹھی قرآن بیگ میں رکھا اور فرشتے سے میں گھر جا رہی ہوں کہہ کر بغیر کچھ سنے وہاں سے چلی آئی، اس کا دل جیسے درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ آنسو ابلنے کو بے تاب تھے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ کیسے اس غم کو قابو کرے، کیسے۔ کیسے مسلمان ہو کر وہ یہ سب کہہ سکتی تھیں ؟اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔

دل بہت بھر آیا تو آنسو بہہ پڑے، وہ چہرہ پھیرے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ سڑک کے ایک جانب درخت پیچھے کو بھاگ رہے تھے، گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا جسے وہ ساتھ لے کر آئی تھی۔ تائی مہتاب کی بہو بننے پر اعزاز تو اسے ملنا ہی تھا۔ اور روک ٹوک بھی قدرے کم ہو گئی تھی۔ مگر ابھی وہ ان باتوں کو نہیں سوچ رہی تھی۔ اس کا دل تو ان عورتوں کے رویوں پر اٹک سا گیا تھا۔ اسے لگا۔

ایک دم گاڑی جھٹکے سے رکی۔ وہ چونک کر آگے دیکھنے لگی۔

کیا ہوا؟

بی بی! گاڑی گرم ہو گئی ہے، شاید ریڈی ایٹر میں پانی کم ہے، میں دیکھنا بھول گیا تھا۔ ڈرائیور پریشانی سے کہتا باہر نکلا۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔

سڑک سنسان تھی گو وقفے وقفے سے گاڑیاں گزرتی دکھائی دیتی تھیں مگر ارد گرد آبادی کم تھی۔ وہ کوئی انڈسٹریل ایریا تھا۔ بہت دور اونچی عمارتیں دکھائی دیتی تھیں۔ ڈرائیور بونٹ کھول کر چیک کرنے لگ گیا تو وہ سر سیٹ سے ٹکائے، آنکھیں موندے انتظار کرنے لگی۔

بی بی!تھوڑی دیر بعد اس کی کھڑکی کا شیشہ بجا۔

اس نے چونک کے آنکھیں کھولیں۔ باہر ڈرائیور کھڑا تھا۔

کیا ہوا؟ اس نے شیشہ نیچے کیا۔

انجن گرم ہو گیا ہے، میں کہیں سے پانی لے کر آتا ہوں، آپ اندر سے سارے دروازے لاک کر لیں، مجھے شاید تھوڑی دیر لگ جائے۔

ہوں ٹھیک ہے جاؤ۔ اس نے شیشہ چڑھایا۔

سارے لاک بند کیے اور چہرے پر حجاب کا ایک پلو گرا کے آنکھیں پھر سے بند کر لیں، ادھیڑ عمر ڈرائیور چھے سات برسوں سے ان کے ہاں ملازمت کر رہا تھا، اور خاصا شریف النفس انسان تھا سو وہ مطمئن تھی۔

وہ گرمیوں کی دوپہر تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں گاڑی حبس زدہ ہو گئی۔ گھٹن اور حبس اتنا شدید تھا کہ اس نے شیشہ کھول دیا۔ ذرا سی ہوا اندر آئی مگر گاڑی کے ساکن ہونے کی وجہ سے ماحول پہلے سے زیادہ گرم ہو گیا۔

وہ تھوڑی ہی دیر میں پسینہ پسینہ ہو گئی۔ بے اختیار سیٹ پر تہہ کر کے رکھا دوپٹہ اٹھایا اور اس سے ہوا جھلنے لگی۔ گرمی اتنی شدید تھی کہ اسے لگا وہ بھٹی میں جل رہی ہے۔

کافی دیر گزر گئی مگر ڈرائیور کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔

بے اختیار وہ سورہ طلاق کی تیسری آیت آخر سے پڑھنے لگی۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے راستہ بنا ہی دیتا ہے۔

ڈیڑھ گھنٹے سے اوپر ہونے کو آیا تھا، وہ گرمی سے نڈھال، پسینے میں شرابور کتنی ہی دیر سے دعائیں کر رہی تھی۔ مگر جانے کیوں آج کوئی راستہ نہیں کھل رہا تھا۔ پھر جب سورج سر پر پہنچ گیا اور باہر سے آتی دھوپ و گرمی میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو اس نے گھبرا کر شیشے بند کر دئیے۔

اور پھر سے وہی ہوا، گھٹن زدہ اور حبس زدہ بند گاڑی جیسے ڈبہ ہو یا قبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا سمندر میں تیرتی کسی مچھلی کا پیٹ!

مچھلی کا پیٹ؟اس نے حیرت سے دہرایا۔ یہ میرے دل میں کیسے خیال آیا کہ یہ مچھلی کا پیٹ ہے ؟وہ الجھی اور پھر سے اسے وہ کلب کی عورتیں یاد آئیں اور ان کا وہ گھمنڈی رویہ!اس کے خیال کی رو بھٹکنے لگی۔ پتا نہیں وہ کیوں اس رب کی بات سننا نہیں چاہتی تھیں جس کے ہاتھ میں ان کی سانسیں ہیں، اگر وہ چاہیں تو ان منکرین کی سانسیں روک دے، مگر وہ ایسا نہیں کرتا۔

کیوں ؟اس نے خود سے سوال کیا۔ اس کی آواز بند شیشوں سے ٹکرا کر پلٹ آئی۔

باہر فضا صاف دکھائی دے رہی تھی۔ دور سے جھلکتی اونچی عمارتیں، ان کے اوپر آسمان۔ جہاں سے پرندے اڑتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، یہ عمارتیں یہ آسمان زمین یہ اڑتے پرندے، یہ زمین کو روندتے ہوئے چلتے متکبر لوگ، وہ سب زندہ تھے۔ ان کی سانسیں اپنے انکار کے باوجود نہیں رکتی تھیں۔ ۔

کیوں ؟

کیونکہ ان کی سانسیں ان کو ملی مہلت کی علامت ہے۔ محمل بی بی!کسی کے گناہ کتنے ہی شدید ہوں، اگر سانس باقی ہے تو امید ہے شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔ وہ رب تو ان نافرمانوں سے مایوس نہیں ہوا، پھر تم کیوں ہوئیں ؟کوئی اس کے اندر بولا تھا۔

وہ جیسے سناٹے میں آ گئی۔

کتنی جلدی وہ نہ ماننے والوں سے مایوس ہو گئی؟

ان پر کڑھنے لگی؟پھر کیوں وہ کسی کی ہٹ دھرمی دیکھ کر یہ فرض کر بیٹھی کہ وہ کبھی بدل نہیں سکتیں کیوں اس نے مایوس ہو کر بستی چھوڑ دی۔

اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے۔ بے اختیار اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔

نہیں کوئی الہ تیرے سوا، پاک ہے تو بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔

ندامت کے آنسو اس کے گال پر لڑھک رہے تھے۔ اسے بستی نہیں چھوڑنی چاہیئے تھی۔ اگر کچھ لوگ قرآن نہیں سننا چاہتے تو کہیں تو ہو گا جو سننا چاہے گا۔ خود وہ کیا تھی؟قرآن کو اس روز چھت پر کھلتے ہی بدکنے والی، آج کدھر تھی!صرف اس سیاہ فام لڑکی کی ذرا سی کوشش ذرا سے تجسس کو بھڑکانے والے عمل سے وہ کسی نہ کسی طرح آج ادھر پہنچ گئی تھی۔ کہ اللہ اس سے بات کرتا تھا، پھر اپنی پارسائی پر غرور اور دوسرے کی تحقیر کیسی؟

اس کے آنسو ابھی بہہ رہے تھے کہ ڈرائیور سامنے آتا دکھائی دیا۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں پانی کی بوتلیں تھیں۔

اور جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے راستہ نکال ہی دیتا ہے۔

بے اختیار اس کے لبوں سے نکلا تھا۔ اسے لگا اس کی توبہ شاید قبول ہو گئی تھی۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا ایمان اور تقویٰ بھی سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح ہوتا ہے۔ ایک صحیح قدم کسی معراج پر پہنچا دیتا ہے تو دوسرا غلط قدم گہری کھائی میں، اس نے بے ساختہ سوچا تھا۔

گاڑی گھر کے سامنے رکی، اور ڈرائیور نے ہارن بجایا۔ چوکیدار گیٹ کھول ہی رہا تھا جب اس کی نظر ساتھ والے بنگلے پر پڑی۔

تم جاؤ میں آتی ہوں۔ وہ سبک رفتاری سے باہر نکلی۔

بریگیڈئیر صاحب کا چوکیدار وہی گیٹ ہی کھڑا تھا۔ اس نے فوراً بیگ کھنگالا۔

سنو یہ اپنے صاحب کو دے دینا۔ اور چند پمفلٹس نکال کے اس کی طرف بڑھائے۔ ان سے کہنا یہ امانت ہے چاہیں تو پڑھ لیں، کوئی دباؤ نہیں، مگر میں واپس ضرور لینے آؤں گی، پکڑ لو نا۔ ۔ متذبذب کھڑے چوکیدار کو پمفلٹس زبردستی تھمائے، اور واپس گھر کی جانب ہو لی۔

کوئی تو ہو گا جو اسے سننا چاہے گا۔ آج نہیں۔ کل نہیں مگر کبھی تو وہ ان پمفلٹس کو کھولیں گے۔

٭٭٭



کاریڈور میں لگا سافٹ بورڈ آج کچھ زیادہ ہی چمک رہا تھا یا شاید وہ اس کیلی گرافی کے کناروں پر لگی افشاں کی چمک تھی۔ وہ سافٹ بورڈ کے وسط میں آویزاں تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلی ہوئی دیوار کے قریب آئی۔ کیلی گرافی بہت خوبصورت تھی۔ اس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر کہے گئے الفاظ رقم تھے۔ وہ گردن اٹھائے ان الفاظ کو پڑھنے لگی۔

عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، آپ بھی روتے ہیں ؟آپ نے فرمایا اے ابن عوف، یہ رحمت اور شفقت ہے۔ اور آپ پھر سے رو پڑے اور فرمایا۔

بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے۔ اور دل غمگین ہے۔ لیکن ہم زبان سے وہی بات نکالیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ اے ابراہیم بے شک ہم تیری جدائی پر بہت غم زدہ ہیں۔

وہ مسحور سی اسی طرح گردن اونچی اٹھائے بار بار الفاظ پڑھتی گئی۔ کچھ تھا ان میں جو اسے بار بار کھینچتا تھا۔ وہ وہاں سے جا ہی نہ پا رہی تھی۔ جانے کے لیے الفاظ اٹھاتی مگر وہ الفاظ اسے روک دیتے اور واقعی پھر سے رک جاتی۔

جب تفسیر کی کلاس کا وقت ہونے لگا وہ بمشکل خود کو وہاں سے کھینچ لائی۔ قرآن کھولتے ہوئے نظر درمیاں کے کسی صفحے پر پڑی۔

ہر نفس موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔

وہ صفحے پیچھے پلٹنے لگی۔ انگلی سے صفحے پلٹتے ہوئے ایک جگہ اور یونہی نظر پھسلی۔

آج تم ایک موت نہ مانگو، بلکہ آج تم کئی موتیں مانگو۔

وہ سر جھٹک کر اپنے سبق پر آئی۔

آج کی پہلی آیت ہی یہی تھی۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی ایک پر موت حاضر ہو جائے۔

اوہو، مجھے کیا ہو گیا ہے ؟وہ بے بسی سے مسکرا کر رہ گئی۔ آج تو ساری موت کی آیتیں پڑھ رہی ہوں، کہیں میں مرنے تو نہیں والی؟اف محمل فضول مت سوچو اور سبق پر توجہ دو۔

وہ سر جھٹک کر نوٹس لینے لگی۔ موت کی وصیت کے متعلق آیات پڑھی جا رہی تھیں۔

اسے یاد آیا، ابھی اس نے ایک حدیث بھی کچھ ایسی ہی پڑھی تھی۔

اچانک لکھتے لکھتے اس کا قلم پھسل گیا۔ وہ رک گئی اور پھر آہستہ سے سر اٹھایا۔

کیا کوئی مرنے والا ہے ؟اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ وہ جو قرآن میں پڑھتی تھی اس کے ساتھ وہ پیش آ جاتا تھا، یا آنے والا ہوتا تھا۔ کبھی ماضی، کبھی حال، اور کبھی مستقبل۔ کوئی لفظ بے معنی بے مقصد اس کی آنکھوں سے نہیں گزرتا تھا۔ پھر آج وہ کیوں ایک ہی طرح کی آیت پڑھی جا رہی تھی۔ کیا کوئی مرنے والا ہے ؟کیا کوئی اسے چھوڑ کر جانے والا ہے ؟کیا اسے قرآن ذہنی طور پر تیار کر رہا ہے ؟اسے صبر کرنے کو کہہ رہا ہے، مگر کیوں ؟ کیا ہونے والا ہے ؟

وہ بے چینی سے قرآن کے صفحے آگے پلٹنے لگی۔

اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

ایک سطر پڑھ کر اس نے ڈھیر سارے صفحے پلٹے۔

صبر کرنے والے اپنا صلہ۔ ۔ ۔ ۔

پورا پڑھے بغیر اس نے آخر سے قرآن کھولا۔

اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہو۔

اور پھر وہ صفحے تیز تیز پلٹتی ایک نظر سے سب گزارتی جا رہی تھی۔

اور کوئی نہیں جانتا وہ کونسی زمین پر مرے گا۔

محمل کا دم گھٹنے لگا تھا۔ بے اختیار گھبرا کر اس نے قرآن بند کیا۔ اسے پسینہ آ رہا تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ کچھ ہونے والا تھا۔ کیا وہ برداشت کر پائے گی؟شاید نہیں اس میں اتنا صبر نہیں ہے۔ وہ کچھ نہ برداشت کر پائے گی۔ کبھی بھی نہیں۔ اس نے وحشت سے ادھر ادھر دیکھا۔

میڈم مصباح کا لیکچر جاری تھا۔ لڑکیاں سر جھکائے نوٹس لے رہیں تھیں۔ کوئی اس کی طرف متوجہ نہ تھا۔ اس نے ذرا سی گردن اوپر کو اٹھائی۔ اوپر چھت تھی۔ چھت کے پار آسمان تھا۔ وہاں کوئی اس کی طرف ضرور متوجہ تھا مگر وحشت اتنی تھی کہ دعا بھی نہ مانگ سکی۔ تب ہی آیا اماں اسے دروازے میں نظر آئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چت تھی۔ وہ میڈم مصباح کے پاس گئیں اور چٹ ان کی طرف بڑھا دی۔ میڈم نے لیکچر روک دیا اور چٹ تھامی۔

محمل بنا پلک جھپکے ان کو دیکھ رہی تھی۔

میڈم مصباح نے چٹ پڑھ کر سر اٹھایا، ایک نگاہ پوری کلاس پر ڈالی، پھر چہرہ مائیک کے قریب کیا۔

محمل ابراہیم پلیز ادھر آ جائیں۔

اور اسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گی۔ وہ جان گئی تھی۔ کوئی مرنے والا نہیں تھا۔ اب کسی کو نہیں مرنا تھا۔ اس کا نام پکارا جا رہا تھا اور اس کی ایک ہی وجہ تھی۔

جسے مرنا تھا، وہ مر چکا تھا۔ کہیں کوئی اس کا پیارا اوپر جا چکا تھا۔

وہ نیم جاں قدموں سے اٹھی اور میڈم کی طرف بڑھی۔

آنکھ آنسو بہاتی ہے۔

دل غمگین ہے۔

مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہو۔

اے ابراہیم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے شک ہم تیری جدائی پر بہت غمزدہ ہیں۔

صدیوں پہلے کسی کے کہے گئے الفاظ کی باز گشت اسے سارے ہال میں سنائی دے رہی تھی۔ باقی ساری آوازیں بند ہو گئی تھیں۔ اس کے کان بند ہو گئے تھے۔ زبان بند ہو گئی تھی۔

بس وہ ایک آواز اس کے ذہن میں گونج رہی تھی۔

آنکھ آنسو بہاتی ہے۔

دل غمگین ہوتا ہے۔

دل غمگین ہوتا ہے۔

دل غمگین ہوتا ہے۔

وہ بمشکل میڈم مصباح کے سامنے کھڑی ہوئی۔

جی میڈم؟

آپ کا ڈرئایور آپ کو لینے آیا ہے، ایمرجنسی ہے، آپ کو گھر جانا۔ ۔ ۔ ۔

مگر وہ پوری بات سنے بغیر ہی سیڑھیوں کی طرف بھاگی۔ ننگے پاؤں زینے پھلانگتی وہ تیزی سے اوپر آئی تھی۔ جوتوں کا ریک ایک طرف رکھا تھا، مگر محمل کو اس وقت جوتوں کا ہوش نہ تھا۔ وہ سنگ مر مر کے فرش پر ننگے پاؤں دوڑتی جا رہی تھی۔

غفران چچا کی اکارڈ سامنے کھڑی تھی۔ ڈرائیور دروازہ کھولے منتظر کھڑا تھا، اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔

بی بی آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پلیز خاموش رہو۔ وہ بمشکل ضبط کرتی اندر بیٹھی۔ اور جلدی چلو۔

اس کا دل یوں دھڑک رہا تھا گویا ابھی سینہ پھاڑ کر باہر آ جائے گا۔

آغا ہاؤس کا میں گیٹ پورا کھلا تھا، باہر گاریوں کی قطار لگی تھی۔ ڈرائیو وے پر لوگوں کا جم غفیر اکٹھا تھا۔

گاڑی ابھی گیٹ کے باہر سڑک پر ہی تھ کہ وہ دروازہ کھول کر باہر بھاگی۔ ننگے پاؤں تارکول کی سرک پر جلنے لگے، مگر اس وقت جلن کی پرواہ کسے تھی۔

اس نے رش میں گھرے آغا جان کو دیکھا، غفران چچا کو دیکھا، حسن کو دیکھا، وہ سب اس کی طرف بڑھے تھے، مگر وہ اندر کی طرف لپک رہی تھی۔ لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتی وہ ان کی آوازوں تک پہنچنا چاہتی تھی۔ جو لان سے آ رہی تھیں۔ عورتوں کے بین، رونے آہ و بکا کی آوازیں۔

لوگ ہٹ کر اس سفید یونیفارم اور گلابی اسکارف والی لڑکی کو راستہ دینے لگے تھے۔ وہ بھاگتی ہوئی لان تک آئی اور پھر گھاس کے دہانے پر بے اختیار رک گئی۔

لان میں عورتوں کا ایک ہجوم اکٹھا تھا۔ درمیاں میں چارپائی رکھی تھی، اس پر کوئی سفید چادر اوڑھے لیتا تھا۔ چار پائی کے چاروں طرف عورتیں رو رہی تھیں۔ ان کے چہرے گڈ مد سے ہو رہے تھے۔ ایک فضہ چچی تھیں، اور ہاں ناعمہ چچی بھی تھیں، اور وہ سینے پر دو ہتھڑ مار کر روتی رضیہ پھپھو تھیں، اور وہ اونچی آواز میں بین کرتی تائی مہتاب تھیں۔ سب تو ادھر موجود تھے۔

پھر کون تھا اس چارپائی پہ؟کون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کون تھا وہ؟

اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی، وہاں سارا خاندان اکٹھا تھا بس ایک چہرہ نہ تھا۔

اماں ! اس کے لب پھڑ پھڑائے۔

اس نے انہیں پکارنے کے لیے لب کھولے، مگر آواز نے گویا ساتھ چھور دیا۔ وہ وحشت سے ادھر ادھر دیکھنے لگی، شاید اس کی ماں کسی کونے میں بیٹھی ہو، مگر وہ کہیں نہ تھیں۔ اس کی ماں کہیں نہ تھی۔

محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل۔ وہ عورتیں اسے پکار رہی تھیں۔ اٹھ اٹھ کر اسے گلے سے لگا رہی تھیں، کسی نے راستہ بنا دیا، تو کوئی میت کے پاس سے ہت گیا، کوئی اسے ہاتھ سے پکڑ کر چار پائی کے قریب لے آیا، کسی نے شانوں پر زور دے کے اسے بٹھایا، کسی نے میت کے چہرے سے چادر ہٹا دی۔ کون کیا کر رہا ہے اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، ساری آوازیں آنا بند ہو گئیں، اردگرد کی عورتوں کے لب ہل رہے تھے، مگر وہ سن نہ پا رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں، رو رہی ہیں یا ہنس رہی ہیں، وہ تو بس یک ٹک بنا پلک جھپکے اس زرد چہرے کو دیکھ رہی تھی جو چار پائی پر آنکھیں موندے لیٹا تھا۔ نتھنوں میں روئی ڈالی گئی تھی۔ اور چہرے کے گرد سفید پٹی تھی۔ وہ چہرہ واقعی اماں سے بہت ملتا تھا۔ بالکل جیسے اماں کا چہرہ ہو اور شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید وہ اماں کا چہرہ ہی تھا۔

اسے بس ایک پل لگا تھا تھا یقین آنے میں اور پھر اس نے چاہا کہ وہ بھی دھاڑیں مار کر رونے لگے، نوحہ کرے بین کرے، زور زور سے چلائے، مگر وہ رحمت العالمین کے کہے الفاظ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہو۔

اور اس کے لب کھلے رہ گئے، آواز حلق میں ہی دم توڑ گئی۔ زبان ہلنے سے انکاری ہو گئی۔

اس کا شدت سے دل چاہا کہ اپنا سر پیٹے، سینے پر دو ہتھڑ مار کر بین کرے۔ دوپٹہ پھاڑ ڈالے اور اتنا چیخ چیخ کہ روئے کہ آسمان ہل جائے، اور پھر اس نے ہاتھ اٹھائے بھی مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نوحہ کرنے والی اگر توبہ کیے بغیر مر گئی تو اس کے لیے تارکول کے کپڑے اور آگ کے شعلے کی قمیض ہو گی۔

جو گریبان چاک کرے اور رخساروں پر طمانچے مارے اور بین کرے ہم میں سے نہیں۔

یہ ہدایت تو ابد تک کے لیے تھی۔

اس کے ہاتھ اٹھنے سے انکاری ہو گئے۔ آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے لیکن لب خاموش تھے۔

اسے رلاؤ، اسے کہو اونچا رو لے، ورنہ پاگل ہو جائے گی۔

اس سے کہو دل ہلکا کر لے۔

بہت سی عورتیں اس کے قریب زور زور سے کہہ رہی تھیں۔

میری بچی! تائی مہتاب نے روتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا۔ وہ اسی طرح ساکت سی بیٹھی ماں کی میت کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو گر کر گردن پر لڑھک رہے تھے۔ اس کا پورا چہرہ بھیگ گیا تھا، مگر زبان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زبان نہیں ہلتی تھی۔

مسرت تو ٹھیک ٹھاک تھی پھر کیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بس صبح کہنے لگی سینے میں درد ہے، ہم فوراً ہسپتال لے گئے مگر۔

ادھوری ادھوری سی آوازیں اس کے اردگرد سے آ رہی تھیں، مگر اسے سنائی نہ دے رہی تھی، اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اسے لگا اسے چکر آ رہے ہیں، عجیب سی گھٹن تھی، اس کا سانس بند ہونے لگا تھا۔

وہ ایک دم اٹھی اور عورتوں کو ہٹاتی اندر بھاگ گئی۔

٭٭٭



کسی نے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔ ایک دفعہ، دو دفعہ، پھر تیسری دفعہ، اس نے گھٹنوں پر رکھا سر ہولے سے اٹھایا۔ دروازہ بج رہا تھا۔ وہ آہستہ سے اتھی، بیڈ سے اتری، سلیپر پاؤں میں ڈالے اور کنڈی کھولی، باہر فضہ چچی کھڑی تھیں۔

محمل بیٹا تمہارے آغا جان تمہیں بلا رہے ہیں۔

آتی ہوں۔ اس نے ہولے سے کہا تو فضہ چچی پلٹ گئیں۔ وہ کچھ دیر یونہی ادھر کھڑی رہی، پھر باہر آ گئی۔

سیڑھیوں کے قریب لگے ہوئے آئینے کے پاس سے گزرتی ہوئی وہ پل بھر کو رکی، اس کا عکس بھی رک کر اسے دیکھ رہا تھا۔

ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پر سفید ململ کا دوپٹہ سر پر لیے وہ کمزور پژمردہ سی محمل ہی تھی؟ہاں شاید وہ ہی تھی۔ سفید دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ کملایا ہوا لگ رہا تھا۔ آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے، وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔

آغا جان کے کمرے میں سب چچا اور چچیاں موجود تھیں، وسیم بھی ایک طرف کھڑا تھا۔

آؤ محمل! اسے آتے دیکھ کر آغا جان نے سامنے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ آج اماں کو گزرے چوتھا دن تھا، اور گھر والوں کا رویہ پہلے کی نسبت اب کافی نرم تھا۔

وہ چپ چاپ صوفے پر بیٹھ گئی۔

اس صبح جب مسرت کی ڈیتھ ہوئی، اس نے درد شروع ہوتے ہی یہ کچھ چیزیں وصیت کی تھیں تمہارے لیے۔ ( اسے لگ رہا تھا وہ اب مزید نہیں جی پائے گی)ہم نے سوچا کہ تمہیں دے دی جائیں۔ انہوں نے ایک طرف رکھا ڈبہ اٹھایا۔ محمل نے سر اٹھا کر ڈبے کو دیکھا۔ یہ ڈبہ اماں کے زیورات کا تھا۔ وہ ہمیشہ اسے تالا لگا کر الماری کے نچلے حصے میں رکھا کرتی تھیں۔

یہ ایک ڈبہ تھا اس کی یہ چابی ہے، تم خود دیکھ لو اور ساتھ یہ کچھ رقم تھی، اس کی جمع پونجی، اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہارے اکاؤنٹ میں جمع کروا دوں مگر میں نے سوچا یہ تمہارے حوالے ہی کر دوں، تم بہتر فیصلہ کر سکتی ہو۔

انہوں نے ایک پھولا ہوا لفافہ ڈبے کے اوپر رکھا۔ محمل نے آہستہ سے لفافہ اٹھایا اور کھول کر دیکھا۔ اندر ہزار ہزار کے کئی نوٹ تھے۔ شاید اماں نے اس کے جہیز کے لیے رکھے تھے۔ اس کا دل بھر آیا۔ اس نے لفافہ ایک طرف رکھا اور چابی سے کاسنی ڈبے کا تالا کھولا۔

اندر کچھ زیورات تھے۔ خالص سونے کے جڑاؤ زیورات، اس نے ڈبہ بند کر دیا۔ معلوم نہیں اماں نے کب سے سنبھال کر رکھے تھے۔

وسیم سمیت تمام لوگ اس وصیت کے وقت موجود تھے، تم سب سے پوچھ سکتی ہو میں نے تمہارا حق پورا ادا کر دیا ہے، یا نہیں۔

اس نے بھیگی آنکھیں اٹھائیں، سامنے صوفوں اور کرسیوں پر بیٹھے تمام نفوس کے چہرے مطمئن تھے، مطمئن اور بے نیاز۔

چیزیں تو آپ نے ادا کر دیں ہیں آغا بھائی، مگر مسرت کی وصیت ؟ دفعتاً فضہ چچی نے اضطراب سے پہلو بدلا۔

اوہو فضہ ! ابھی اس کی ماں کو گزرے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ تائی مہتاب نے نگاہوں سے تنبیہ کی۔

مگر بھائی مسرت نے کہا تھا جلد از جلد۔

رہنے دو فضہ !ہم اس کا فیصلہ محمل پر چھوڑ چکے ہیں۔ اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو گا۔

مگر ایٹ لیسٹ اسے بتا تو دیں۔

ابھی اس کا غم ہلکا تو ہونے دو پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ان کی دبی دبی سرگوشیاں اسے بے چین کر گئیں۔

تائی اماں ! کیا بات ہے ؟اماں نے کچھ اور بھی کہا تھا؟

سب ایک دم خاموش سے ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

محمل میں تمہیں کچھ دن تک بتاؤں گی، ابھی اس قصے کو چھوڑ دو۔

پلیز تائی اماں مجھے بھی بتائیں۔

مگر تمہارا غم ابھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں ٹھیک ہوں مجھے بتائیں۔ اس نے بے چینی سے بات کاٹی۔

تائی مہتاب نے ایک نظر سب کو دیکھا، پھر قدرے ہچکچا کر گویا ہوئیں۔

بات یہ ہے کہ مسرت نے مرنے سے پہلے وسیم کو بلوا کر سب کے سامنے تمہارے آغا جان سے کہا کہ اگر وہ بچ نہ سکی تو جلد از جلد محمل کو وسیم کی دلہن بنا کر سہارا دیں، اس کو بے آسرا نہ چھوڑیں، اور تمہارے آغا جان نے وعدہ کر لیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔

وہ اپنی جگہ سن سی ہو گئی، زمین جیسے قدموں تلے سے سرکنے لگی تھی۔ اور آسمان سر سے ہٹنے لگا تھا۔

اماں نے یہ سب کہا؟

ہاں یہ سب لوگ جو یہاں ہیں اس بات کے گواہ ہیں، تم کسی سے بھی پوچھ لو۔

وہ ایک دم بالکل چپ سی ہو گئی۔ عجیب سی بات تھی اسے یقین نہ آ رہا تھا۔

لیکن محمل! ہم نے یہ فیصلہ تم پر چھوڑ دیا ہے، تم چاہو تو یہ شادی کرو چاہو تو نہ کرو، ہم نے اس لیے تمہیں آگاہ کر دیا کیونکہ یہ تمہاری ماں کی آخری خواہش تھی۔

یہ تم پر منحصر ہے تم اس کی بات رکھتی ہو کہ نہیں۔ ہم میں سے کوئی تم پر زور نہیں ڈالے گا۔

وہ سر جھکائے کاسنی ڈبے کو دیکھ رہی تھی۔ ذہن میں جیسے جھکڑ چل رہے تھے۔

مگر یہ ڈبہ اور یہ لفافہ ثبوت تھا کہ یہ وصیت واقعی اس کی ماں نے کی تھی۔

اگر تمہیں منظور ہے تو ہم اگلے جمعے نکاح رکھ لیتے ہیں کہ مسرت کی خواہش تھی یہ کام جلد از جلد کیا جائے، اگر نہیں تو کوئی بات نہیں، تم جو چاہو گی وہی ہو گا۔ تائی مہتاب اتنا کہہ کر خاموش ہو گئیں۔

اس نے ہولے سے سر اٹھایا۔ سنہری آنکھیں پھر سے بھیگ چکی تھیں۔ کمرے میں موجود تمام نفوس دم سادھے اسے دیکھ رہے تھے۔

میں اپنی ماں کی بات کا مان رکھوں گی۔ آپ جب کہیں گی میں شادی کے لیے تیار ہوں۔

پھر وہ رکی نہیں، ڈبہ اور لفافہ اٹھا کر تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔

٭٭٭



وہ کچن میں کرسی پر بیٹھی تھی، ہاتھ میں صبح و شام کی دعاؤں اور اذکار کی کتاب تھی، اور وہ منہمک سی پڑھ کر دعا مانگ رہی تھی۔

ہم نے صبح کی فطرت اسلام پہ

اور کلمہ اخلاص پہ

اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دین پہ

اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت پہ

جو یکسو مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ۔

محمل۔ ! کسی نے زور سے کچن کا دروازہ کھولا۔

اس نے چونک کر سر اٹھایا۔ سامیہ عجلت میں اندر داخل ہوئی تھی۔

تم سے کوئی ملنے آیا ہے ڈرائنگ روم میں ہے جاؤ مل لو۔

کون ہے ؟

وہی پولیس والا! وہ کہہ کر پلٹ گئی۔

ہمایوں آیا ہے ؟وہ کتنی ہی دیر کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی، پھر آہستہ سے اسے بند کیا، سلیب پر رکھا، لباس کی شکنیں درست کیں اور سیاہ دوپٹہ ٹھیک سے سر پر لے کر باہر آ گئی۔

ڈرائنگ روم سے باتوں کی آواز آ رہی تھی جیسے دو لوگ گفتگو میں مشغول ہوں۔ یہ ہمایوں سے کون باتیں کر رہا ہے ؟وہ الجھتی ہوئی اندر آئی ڈرائنگ روم اور ڈائننگ ہال کے درمیان سفید جالی دار پردہ تھا۔ وہ پردے کے پیچھے ذرا دیر کو رکی۔

سامنے بڑے صوفے پر ہمایوں بیٹھا تھا۔ اس کے بالکل مقابل سنگل صوفے پر آرزو بیٹھی تھی۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھے، آدھی پنڈلی تک ٹراؤزر پہنے وہ اپنے مخصوص بے نیاز حلیے میں تھی۔ کٹے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرتی وہ ہنس ہنس کر ہمایوں سے کچھ کہہ رہی تھی۔

جانے کیوں اسے یہ اچھا نہ لگا۔ اس نے ہاتھ سے پردہ سمیٹا اور اندر قدم رکھا۔

وہ جیسے اسے دیکھ کر کچھ کہتے کہتے رکا اور پھر بے اختیار کھڑا ہو گیا۔ بلیو شرٹ اور گرے پینٹ میں ملبوس وہ ہمیشہ کی طرح بہت شاندار لگ رہا تھا۔ آغا جان اسے پسند نہیں کرتے تھے، مگر پھر بھی اسے اندر آنے دیا گیا۔ شاید اس لیے کہ اب وہ ان کی بہو بننے والی تھی۔ اور اس کو وہ ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔

السلام علیکم۔ وہ آہستہ سے کہہ کر سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔ آرزو کے چہرے پر ذرا سی ناگواری ابھری۔ ، جسے ہمایوں نے نہیں دیکھا تھا، وہ پوری طرح محمل کی طرف متوجہ تھا۔

مجھے مسز ابراہیم کی ڈیتھ کا پتہ بہت دیر بعد چلا، میں کراچی گیا ہوا تھا، آج ہی آیا ہوں، فرشتے نے جیسے ہی بتایا میں آ گیا، آئی ایم ویری سوری محمل! واپس صوفے پر بیٹھتے ہوئے وہ بہت تاسف سے کہہ رہا تھا۔

محمل نے جواب دینے سے پہلے ایک نظر آرزو کو دیکھا۔

آرزو باجی !آپ جا سکتی ہیں، اب میں آ گئی ہوں۔

ہاں شیور۔ آرزو اٹھ کھڑی ہوئی۔ مگر جاتے ہوئے ان کو شادی کا کارڈ دے دینا۔ استہزائیہ مسکرا کر وہ گویا جتا گئی تھی۔ محمل کے سینے میں ہوک سی اٹھی۔

کس کی شادی وہ چونکا تھا۔

محمل کی شادی وسیم کے ساتھ آپ کو نہیں پتا اے ایس پی صاحب؟اسی فرائیڈے ان کا نکاح ہے، آپ ضرور آئیے گا میں آپ کا کارڈ نکلوا دیتی ہوں، ٹھہریے ! وہ خوشدلی سے کہتی باہر نکل گئی۔

کتنے ہی لمحے خاموشی کی نظر ہو گئے۔

یہ کیا کہہ رہی تھی؟وہ بولا تو اس کی آواز میں حیرت تھی۔ بے پناہ حیرت۔

ٹھیک کہہ رہی تھی۔ وہ سر جھکائے ناخن کھرچتی رہی ۔

٭٭٭



مگر کیوں محمل؟

آپ غالباً تعزیت کے لیے آئے تھے۔

پہلے میری بات کا جواب دو، تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟

میں آپ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں۔ اس نے تلملا کر سر اٹھایا۔ یہ میری ماں کی آخری خواہش تھی۔ مرتے وقت انہوں نے یہی وصیت کی تھی۔

تمہیں کیسے پتہ تم تو ان کی ڈیتھ کے وقت مدرسے میں تھی۔

ہاں مگر انہوں نے آغا جان سے کہا تھا، سب لوگ وہاں موجود تھے سب گواہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔

تم! وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا، وہ کیا کر ڈالے۔ تم انتہائی بے وقوف اور احمق ہو۔

میں اپنی ماں کی بات کا مان رکھنا چاہتی ہوں، اس میں کیا حماقت ہے ؟وہ چڑ گئی۔

نادان لڑکی!تمہیں یہ لوگ بے وقوف بنا رہے ہیں، استحصال کر رہے ہیں۔

کرنے دیں آپ کو کیا ہے ؟وہ پیر پٹخ کر کھڑی ہو گئی۔ آپ میرے کون ہو جو مجھ سے پوچھ گچھ کر رہے ہو؟

میں جو بھی ہوں مگر تمہارا دشمن نہیں ہوں۔ وہ بھی ساتھ ہی کھڑا ہوا، اس کی آواز میں بے بسی تھی۔ کبھی یہی بات اس نے بہت اکھڑ لہجے میں بھی کہی تھی۔ جب وہ مدرسے کے باہر اسے لینے آیا تھا، اس رات کی صبح جو اس کی زندگی اجاڑ گئی تھی۔

اگر آپ کے دل میں میری ماں کا ذرا سا بھی احترام ہے تو مجھے وہ کرنے دیں جو میری ماں چاہتی تھی۔ ماں باپ کبھی اولاد کا برا نہیں چاہتے۔ اسی میں کوئی بہتری ہو گی، آپ جا سکتے ہیں۔ وہ ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہو گئی۔

اسی پل پردہ ہٹا کر آرزو نمودار ہوئی۔

آپ کا کارڈ، آئیے گا ضرور۔ اس نے مسکرا کر کارڈ ہمایوں کی طرف بڑھایا۔ ہمایوں نے ایک قہر آلود نظر محمل پر ڈالی، اور دوسری محمل پر اور لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر نکل گیا۔

نو پرابلم۔ آرزو شانے اچکا کر کارڈ لیے واپس مڑ گئی۔

اماں ! وہ کراہ کر صوفے پر گر سی گئی۔ یہ اماں اسے کس منجدھار میں چھوڑ کے چلی گئی تھیں ؟کیوں کیا انہوں نے یہ فیصلہ؟کیوں اماں ؟دونوں ہاتھوں میں سر جھکائے وہ سوچتی رہ گئی۔

٭٭٭



سارے گھر میں دبا دبا سا شادی کا شور اٹھ چکا تھا، گو کہ ابھی صرف نکاح تھا، مگر مہتاب تائی بھرپور تیاریاں کر رہی تھیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فواد جلد ہی گھر واپس آ رہا تھا۔ اس خبر سے محمل پر تو کوئی اثر نہ ہوا، البتہ مہتاب تائی اپنی اندرونی خوشی چھپائے سب کچھ محمل پر ڈال گئی تھیں۔

سوچ رہی ہیں تھوڑا سا گہما گہمی والا فنکشن رکھیں، تاکہ محمل کا دل بہل جائے، ورنہ سچ پوچھو تو مسرت کے جانے کے بعد وہ بجھ سی گئی ہے۔ اب ہمارا دل نہیں چاہتا کہ شور ہنگامہ ہو۔ مگر بس محمل اچھا محسوس کرے، اس لیے۔

وہ کسی نہ کسی کو ہر وقت فون پر وضاحتیں دے رہی ہوتی تھیں۔

محمل چپ چاپ کچن میں کام نمٹا تی رہتی، جیسے وہ خاموش ماتم کر رہی تھی، نمازیں، تسبیحات، دعائیں، وہ سب کر رہی تھی، ہاں مدرسے وہ ابھی نہیں جا رہی تھ، وہ صرف اور صرف ماتم چاہتی تھی۔ مسرت کا یا شاید اپنا، وہ نہیں جانتی تھی۔

فون کی گھنٹی بجی تو وہ جو رو مال سے میز صاف کر رہی تھی، آہستہ سے رو مال چھوڑ کے اٹھی۔

اسٹینڈ پر رکھا فون مسلسل بجے جا رہا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی قریب آئی اور رسیور اٹھایا۔

السلام علیکم!

وعلیکم السلام، محمل؟نسوانی آواز رسیور میں گونجی، وہ لمحے بھر میں ہی پہچان گئی۔

فرشتے کیسی ہیں آپ؟

میں ٹھیک ہوں، ہمایوں نے مجھے بتایا ہے کہ تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرشتے قدرے پریشانی سے کہہ رہی تھی کہ اس نے تیزی سے بات کاٹی۔

ہمایوں ہر بات آپ کو کیوں جا کے بتاتے ہیں ؟ان سے کہیں ایسا مت کیا کریں۔

مگر محمل تم اس طرح سے کیسے ؟

آپ لوگ مجھے احمق کیوں سمجھتے ہیں ؟کیوں میرے لیے پریشان ہو رہے ہیں ؟میری ماں میرے لیے کچھ غلط نہیں سوچ سکتی، پلیز مجھے میری زندگی کے فیصلے خود کرنے دیں۔

محمل اب میں تمہیں کیا کہوں !اچھا ٹھیک ہے جو کرنا، سوچ سمجھ کے کرنا، اوکے، چلو اب ہمایوں سے بات کرو۔

ارے نہیں۔ وہ روکتی رہ گئی، مگر فرشتے نے فون اسے پکڑا دیا تھا۔

اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے اور تمہارے وہ فیری ٹیل سسرال والے اجازت دیں تو کیا میں اور فرشتے تمہاری شادی کے فنکشن میں آ سکتے ہیں ؟

اونہوں ہمایوں ! پیچھے سے فرشتے کی تنبیہی آواز ابھری۔

ہاں شیور کیوں نہیں۔ جمعہ کو رات آٹھ بجے فنکشن ہے۔ ضرور آئیے گا اللہ حافظ۔

اس نے کھٹ سے فون بند کر دیا۔ غصہ اتنا ابل رہا تھا کہ فرشتے سے بھی بات کرنے کو جی نہیں چاہا تھا۔

فون کی گھنٹی پھر سے بجنے لگی، مگر وہ سر جھٹک کر میز کی طرف بڑھ گئی جہاں جھاڑ پونچھ کا رو مال اس کا انتظار کر رہا تھا۔

٭٭٭



بیوٹیشن نے کام دار دوپٹہ اس کے سر پر رکھا۔ اور پھر اسے ایک ہاتھ سے پکڑے، وہ جھک کر ڈریسنگ ٹیبل سے پنیں اٹھانے لگی۔ محمل بت بنی اسٹول پر بیٹھی سامنے آئینے میں خود کو دیکھ رہی تھی، بیوٹیشن اس کے پیچھے کھڑی اس کا دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی۔

وہ کام دار شلوار قمیض گہرے سرخ رنگ کی تھی۔ جس پر سلور سلمہ ستارے کا کام تھا۔ دوپٹے کے بارڈر پر بھی چوڑی پٹی کی صورت میں سلور کام کیا گیا تھا۔ ساتھ میں نازک سا وائٹ گولڈ اور روبی کا نیکلس تھا اور ایک خوبصورت قیمتی سا ٹیکہ جس میں بڑا سا سرخ روبی جڑا تھا، اس کے ماتھے پر سجا تھا۔ جانے تائی نے کب یہ سب بنوایا تھا، وہ بھی چپ چاپ ہر چیز پہنتی گئی۔

گھر میں ہونے والے ہنگاموں سے کہیں نہیں لگتا تھا کہ مسرت کو مرے ابھی بیس دن بھی نہیں ہوئے۔

مگر وہ شکوہ کس سے کرتی؟مسرت کی زندگی میں بھی ان کی اتنی اہمیت کہاں تھی کہ مرنے کے بعد کوئی انہیں یاد رکھتا؟اور سنا تھا آج تو فواد بھی گھر آ گیا تھا، پھر کا ہے کا ماتم؟

وہ اپنے کمرے کی بجائے تائی کے کمرے میں تھی، تاکہ وہ ٹھیک سے تیار ہو جائے۔ اسے تیار کرنے کے لیے تائی نے وہ ماہر بیوٹیشن بلوائی تھی جو کافی دیر سے اس پر لگی ہوئی تھی۔

دقعتاً باہر لاؤنج سے چند آوازیں گونجیں۔ وہ ذرا سی چونکی، کیا فواد آ گیا تھا؟مگر نہیں، یہ آواز تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سنو، یہ دروازہ تھورا سا کھول دو۔ بے چینی سے اس نے بیوٹیشن سے کہا، تو وہ سر ہلاتی آگے بڑھی اور لاؤنج میں کھلنے والا دروازہ آدھا کھول دیا۔

سامنے لاؤنج کا منظر آدھا نظر آ رہا تھا اور اس کا شک درست تھا۔

تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم ادھر کیوں آئی ہو؟تائی مہتاب کی تلملاتی بلند آواز اندر تک سنائی دے رہی تھی۔

فکر مت کریں میں رنگ میں بھنگ ڈالنے نہیں آئی، محمل کی شادی ہے میرا آنا فرض بنتا تھا۔ وہ اطمینان سے کہتی باہر صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ ادھ کھلے دروازے سے وہ محمل کو صاف نظر آ رہی تھی۔

سیاہ عبایا کے اوپر سیاہ حجاب کے تنگ ہالے کو چہرے کے گرد لپیٹے وہ اب بے نیازی سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی اطراف کا جائزہ لے رہی تھی۔

محمل نے لمحے بھر کو محسوس کرنا چاہا کہ اسے فرشتے کے آنے کی خوشی ہوئی ہے۔ ، مگر اسے اپنے محسوسات بہت جامد لگے تھے، برف کی طرح ٹھنڈے۔

اندر باہر خاموشی ہی خاموشی تھی، فرشتے آئے یا فواد اب اسے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔

مگر ہم تمہارا اس گھر سے کوئی رشتہ تسلیم نہیں کرتے۔

نہ کریں مجھے پرواہ نہیں ہے۔ وہ اب ہاتھ میں پکڑے موبائل کے بٹن دباتی اس کی طرف یوں متوجہ تھی جیسے سامنے غصے سے بل کھاتی تائی مہتاب کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ فرشتے کے پاس موبائل نہیں تھا، وہ شاید ہمایوں کا موبائل لے کر آئی تھی۔

دیکھو لڑکی تمہارا محمل سے کوئی تعلق نہیں ہے، بہتر ہے کہ تم چلی جاؤ اس سے پہلے کہ میں گارڈ کو بلواؤں۔

پھر آپ گارذ کو بلوا لیں، کیونکہ میں تو ایسے جانے والی نہیں ہوں، سوری۔

مسز کریم! میں موبائل پر بزی ہوں، آپ دیکھ رہی ہیں، مجھے ڈسٹرب مت کریں، اور پلیز محمل کو بلا دیں۔

وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی موبائل پر چہرہ جھکائے ہوئے مصروف تھی، محمل کے لبوں کو ہلکی سی مسکراہٹ چھو گئی۔ فرشتے بدتمیز یا بد لحاظ نہ تھ، بلکہ ازلی ٹھنڈے اور با وقار انداز میں تائی مہتاب کو بہت آرام سے جواب دے رہی تھی۔ البتہ محمل بدتمیزی کر جاتی تھی، اسے لگتا تھا وہ کبھی بھی فرشتے کی طرح پر اعتماد اور با وقار نہیں بن سکے گی۔

محمل تم سے نہیں ملے گی، تم جا سکتی ہو۔

آغا جان کی آواز پر موبائل پر مصروف فرشتے نے چونک کر سر اٹھایا۔ وہ سامنے سے چلے آ رہے تھے۔ کلف لگے شلوار قمیض میں ملبوس کمر پر ہاتھ باندھے وہ غیض و غضب کی تصویر بنے ہوئے تھے۔

السلام علیکم چچا! وہ موبائل رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ چہرے پر ازلی اعتماد اور سکون تھا۔

فرشتے تم یہاں سے جا سکتی ہو۔

آپ مجھے نکال سکتے ہیں ؟ وہ ذرا سا مسکرائی۔ آپ کو لگتا ہے کریم چچا کہ آپ مجھے نکال سکتے ہیں ؟

میں نے کہا یہاں سے جاؤ۔ وہ ایک دم غصے سے دھاڑے تھے۔

میں بھی اتنا ہی اونچا چیخ سکتی ہوں، مگر میں ایسا نہیں کروں گی، میں یہاں یہ کرنے نہیں آئی، میں صرف محمل سے ملنے آئی ہوں۔ وہ سینے پر ہاتھ باندھے پر اعتماد سی ان کے سامنے کھڑی تھی۔

لاؤنج میں سب اکٹھے ہونے لگے تھے۔ لڑکیاں ایک طرف لاعلم سی کھڑی اشاروں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہیں تھیں، حسن بھی شور سن کے سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا تھا۔ لاؤنج کے بیچوں بیچ آغا جان کے سامنے کھڑی وہ دراز قد سیاہ عبایا والی لڑکی کون تھی۔ ؟

بہت سی آنکھوں میں سوال تھا۔

تمہارا محمل سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تم سے نہیں ملے گی سنا تم نے ؟

آپ یہی بات محمل کو بلوا کر پوچھ لیں نہ کریم چچا! کہ وہ مجھ سے یہ ملے گی یا نہیں۔

ہم تمہیں نہیں جانتے کہ تم کون ہو، کہاں سے اٹھ کر آ گئی ہو۔ تم فوراً نکل جاؤ، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔

آغا جان! یہ کون ہیں ؟حسن الجھا ہو آگے بڑھا۔

تم بیچ میں مت بولو۔ انہوں نے پلٹ کر اتنی بری طرح سے جھڑکا کہ حسن خائف ہو گیا۔

ہٹو۔ بیوٹیشن کا ہاتھ ہٹا کر وہ اٹھی اور کامدار دوپٹہ سنبھالتی ننگے پاؤں باہر لپکی۔

آپ مجھ سے ملنے آئی ہیں ؟لاؤنج کے سرے پر وہ رک کر بولی تو سب نو چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ فرشتے ذرا سا مسکرائی۔

کریم چچا کہہ رہے تھے کہ تم مجھ سے نہیں ملو گی؟

محمل! تم اندر جاؤ۔ تائی مہتاب پریشانی سے آگے بڑھیں۔

آغا جان! تائی اماں ! فرشتے کو میں نے خود شادی میں انوائیٹ کیا ہے، آپ گھر آئے مہمان کو کیسے نکال سکتے ہیں ؟

تم نے ؟ تائی مہتاب بھونچکی رہ گئی۔ تم جانتی ہو اسے ؟

ہاں میں انہیں جانتی ہوں۔

اور یہ کیسے نہیں جانتی ہوں گی، ان کے اس عاشق کی عزیزہ ہیں نہ یہ۔ ۔ ۔ ۔

کوئی تمسخرانہ انداز میں کہتا ہوا سیڑھیوں سے اتر رہا تھا۔ محمل نے چونک کر گردن اٹھائی۔ وہ فواد تھا۔ ہشاش بشاش چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ لیے، وہ ان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔

یہ کون ہیں ؟فرشتے نے قدرے ناگواری سے اسے دیکھ کر محمل کو مخاطب کیا۔

یہ اس ملک میں قانون کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جن کو قانون زیادہ دیر تک حراست میں نہ رکھ سکتا۔

ایک جتاتی نگاہ فواد پر ڈال کر اس نے چہرہ موڑ لیا تھا۔ آپ اندر آ جائیں فرشتے ! بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔

ہرگز نہیں۔ تائی تیزی سے آگے بڑھیں۔

محمل! یہ لڑکی فراڈ ہے، یہ صرف ابراہیم کی جائیداد کے پیچھے ہے۔

وہ تو آپ بھی ہیں مہتاب آنٹی!اور شاید اسی لیے آپ محمل کو بہو بنا رہی ہیں ؟

اس نے فرشتے کو کسی سے اتنا درشتی میں بات کرتے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، مگر اسے حیرت نہیں ہوئی تھی۔

یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے، تم بیچ میں مت بولو۔

میں بیچ میں بولوں گی، محمل کے لیے میں ضرور بولوں گی! وہ پلٹی اور محمل کو دونوں کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا۔

محمل! مجھے بتاؤ ان لوگوں نے تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے ؟یہ تمہیں کیوں مجبور کر رہے ہیں اس شادی کے لیے ؟

مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا یہ میرا اپنا فیصلہ ہے، میں اس پر خوش ہوں۔

فرشتے ایک دم چپ ہو گئی۔ اس کے شانوں پر اس کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے۔

سن لیا تم نے ؟اب جاؤ۔ آغا جان استہزائیہ سر جھٹکا اور دروازے کی طرف اشارہ کیا، مگر وہ ان کی طرف متوجہ نہ ہوئی۔

محمل تم نے اتنا بڑا فیصلہ اکیلے کیسے کر لیا؟وہ دکھ سے اسے دیکھ رہی تھی۔ جب کسی کو اپنا مخلص دوست کہا جاتا ہے اور اپنے دوست کی محبت اور خلوص کے دعوے کیے جاتے ہیں تو اتنے بڑے فیصلوں سے قبل اسے مطلع بھی کیا جاتا ہے۔

میں آپ کو بتانے ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں اپنی بات نہیں کر رہی۔

پھر ؟ کون؟ وہ چونکی۔ کیا ہمایوں ؟اس کا نام اس نے آہستہ سے لیا تھا۔

میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مزید اس کے قریب آئی اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے دھیرے سے بولی۔ میں اس مصحف کی بات کر رہی ہوں جس کے اتارنے والے سے تم نے سمعنا و اطعنا(ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی) کا وعدہ کیا تھا۔ کیا تم نے اسے بتایا؟

فرشتے !وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہی تھی۔

اللہ کو سب پتا ہے میں کیا بتاؤں ؟

کیا تمہیں دن میں 5 بار اسے اپنی اطاعت کا بتانا نہیں پڑتا؟پھر اپنے فیصلوں میں تم اسے کیسے بھول سکتی ہو؟

محمل ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ فرشتے کیا کہہ رہی ہے، کیا سمجھنا چاہ رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔

مگر میں نے نماز تسبیح کچھ نہیں چھوڑا، میں ساری نمازیں پڑھتی ہوں۔ وہ دونوں بہت مدھم سرگوشی میں بات کر رہی تھیں۔

لیکن کیا تم نے اس کی سنی؟اس نے کچھ تو کہا ہو گا تمہارے فیصلے پر۔ فرشتے نے ابھی تک اسے کندھوں سے تھام رکھا تھا اور وہ یک ٹک اسے تکے جا رہی تھی۔

محمل! تم اس کی بات سنتی تو سہی، اس سے پوچھتی تو سہی!تم قرآن کھولو اور سورہ مائدہ کا ترجمہ دیکھو۔

اس کی آواز میں تاسف گھل گیا۔ محمل نے ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ اپنے شانوں سے ہٹائے اسے لگا اس سے غلطی ہو گئی ہے۔

میں ابھی آتی ہوں آپ جائیے گا نہیں۔

وہ کام دار دوپٹے کا پلو انگلیوں سے تھامے ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی کمرے کی طرف گئی۔

محترمہ آپ جا سکتی ہیں۔ فواد نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔

یہ میرے باپ کا گھر ہے، اس میں ٹھہرنے کے لیے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں، وہ رکھائی سے کہتی صوفے پر بیٹھی اور پھر سے موبائل اٹھا لیا۔

فواد اور آغا جان نے ایک دوسرے کو دیکھا، نگاہوں میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشاروں کا تبادلہ کیا اور آغا جان بھی گہری سانس لیتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے۔ تقریب کے شروع ہونے میں دو ڈھائی گھنٹے باقی تھے۔ مہمانوں آمد کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔

محمل دوڑتے قدموں سے اپنے کمرے میں آئی تھی۔ دروازے کی چٹخنی چڑھا کر شیلف کی طرف لپکی۔

سب سے اوپر والے خانے میں اس کا سفید جلد والا مصحف رکھا تھا۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے اوپر رکھا، مصحف اٹھایا اور آہستہ سے اسے دونوں ہاتھوں میں تھامے اپنے چہرے کے سامنے لائی، اسے سب یاد رہا تھا، صرف یہ بھول گیا تھا کیوں ؟

وہ اسے مضبوطی سے پکڑے بیڈ پر آ بیٹھی اور کور کھولا۔

وہ سورہ مائدہ کی 106 آیت تھی۔

اے ایمان والوں جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو۔

چند الفاظ پڑھ کر ہی اس کا دل بری طرح دھڑکا۔ اس نے زور سے پلکیں جھپکیں، کیا وہ سب کچھ واقعی ادھر لکھا تھا؟وصیت۔ ۔ ۔ موت کا وقت، وصیت مسرت نے مرتے وقت وصیت کی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تمہارا رشتہ وسیم سے۔ ۔ ۔ بہت سی آوازیں ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگیں۔ وہ سر جھٹک کر پھر سے پڑھنے لگی۔

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں دو صاحب عدل آدمی گواہ لے لیے جائیں پھر اگر (ان کی بتائی ہوئی وصیت میں )کوئی شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو ( مسجد میں روک لیا جائے اور وہ قسم کھا کر کہیں کہ ہم کسی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو(ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں )اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہگاروں میں شمار ہو جائیں گے۔

وہ ساکت سی ان الفاظ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ قرآن کو تھامے دونوں ہاتھ بے جان سے ہو گئے تھے۔ کیا وہ سب واقعی یہاں لکھا تھا؟مگر۔ ۔ ۔ مگر کیسے ؟وصیت۔ ۔ ۔ دو افراد کا قسم کھا کر گواہی۔ ۔ ۔ رشتہ دار یہ سب تو۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب تو اس کے ساتھ ہو رہا تھا۔

وہ پلک تک نہ جھپک پا رہی تھی۔ اس کا دل جیسے رعب سے بھر گیا تھا۔ رعب سے اور خوف سے۔

یکایک اسے لگا اس کے ہاتھ کپکپا رہے ہیں، اسے ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں، وہ بہت بھاری کتاب تھی۔

بہت بھاری، بہت وزنی وہ جس کا بوجھ پہاڑ بھی نہ اٹھا سکتے ہوں، وہ کیسے اٹھا سکتی تھی؟اسے لگا اس کی ہمت جواب دے جائے گی۔ وہ اب مزید یہ بوجھ نہیں اٹھا پائے گی۔ وہ عام کتاب نہ تھی، اللہ کی کتاب تھی۔ ۔ ۔ اسے اللہ نے اس کے لیے خاص، خاص اس کے لیے اتارا تھا۔ ہر لفظ ایک پیغام تھا۔ ہر سطر ایک اشارہ تھی۔

اس نے اتنی زندگی ضائع کر دی۔ اس نے یہ پیغام کبھی دیکھا ہی نہیں۔

محمل تم نے اتنی عمر بے کار گزار دی۔ یہ کتاب غلاف میں لپیٹ کر بہت اونچی سجانے کے لیے تو نہ تھی۔ یہ تو پڑھنے کے لیے تھی۔

ہر دفعہ کی طرح آج بھی پھر اس کتاب نے اسے بہت حیران کیا تھا۔ سوچنا سمجھنا تو دور کی بات وہ تو متحیر سی ان الفاظ کو تکے جا رہی تھی، یہ سب کیا تھا؟کیسے اس کتاب کو سب پتہ ہوتا تھا؟

کیونکہ یہ اللہ کی کتاب ہے نادان لڑکی! یہ اللہ کی بات ہے، اس کا پیغام ہے، خاص تمہارے لیے، تم لوگ نہ سننا چاہو تو یہ الگ بات ہے۔ کسی نے اس کے دل سے کہا تھا۔

وہ کون تھا وہ نہ جانتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر سب نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ آہستہ سے چلی آ رہی تھی۔ کام دار دوپٹے کا کنارہ ٹھوڑی کے قریب سے اس نے دو انگلیوں میں رکھا تھا۔ اس کے چہرے کی رنگت قدرے سفید پڑی ہوئی تھی یا شاید یہ کچھ اور تھا جو انہیں چونکا گیا تھا، وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

آغا جان ! اس نے ان کی آنکھوں میں جھانکا۔ وہ اس کے اجنبی لہجے پر چونک سے گئے۔

ہاں بولو۔

میری ماں کی وصیت کے وقت موجود لوگوں میں سے کون سے دو لوگ عصر کی نماز کے بعد اللہ کے نام کی قسم اٹھا کر گواہی دیں گے کہ انہوں نے یہ وصیت کی تھی یا نہیں ؟

پل بھر میں لاؤنج میں سکوت سا چھا گیا، فرشتے نے مسکراہٹ دبا کر سر نیچے کر لیا۔

آغا جان حیران سے کھڑے ہوئے۔

کیا مطلب؟

آپ کو پتہ ہے سورہ مائدہ میں لکھا ہے نماز کے بعد آپ میں سے دو لوگوں کو اللہ کے نام کی قسم اٹھا کر گواہی دینی پڑے گی۔

کیا بکواس ہے ؟ وہ بھڑک اٹھے۔ تمہیں ہماری بات کا اعتبار نہیں ؟

نہیں ہے !

تم! وہ غصہ ضبط کرتے مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے۔

تب ہی نگاہ فرشتے پر پڑی تو اس نے فوراً شانے اچکا دیے۔

میں نے تو کچھ نہیں کیا کریم چچا!

تم سے تو میں بعد میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ لوگ گواہی دیں گے یا نہیں ؟ وہ ان کی بات کاٹ کر زور سے بولی تھی۔ پھر چہرے کا رخ صوفوں پر بیٹھے نفوس کی طرف موڑا۔ کون کون تھا اس وقت آپ میں سے ادھر؟کون دے گا گواہی؟کون اٹھائے گا قسم۔ بولیے جواب دیجیے۔

سب خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اسے اس کے سارے جواب مل گئے تھے۔ کاش وہ پہلے اس آیت کو پڑھ لیتی تو اتنا غلط فیصلہ نہ کرتی، صحیح کہتا ہے اللہ تعالیٰ ہماری بہت سی مصیبتیں ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوئی ہیں۔

تو آپ لوگوں نے مجھ سے جھوٹ بولا، بہت بہتر مجھے اب کوئی شادی نہیں کرنی۔ اس نے ماتھے پر جھولتا ٹیکہ نوچ کر سامنے پھینکا۔ نازک سا ٹیکہ ایک آواز کے ساتھ میز پر گرا۔

اب میرا فیصلہ بھی سن لو۔ آغا جان نے ایک گہری سانس لی۔ مگر پہلے تم لڑکی! انہوں نے حقارت سے فرشتے کو اشارہ کیا۔ مجھے تم یہاں سے چلتی نظر آؤ۔

میرے باپ کا گھر ہے، میں تو کہیں نہیں جاؤں گی۔

ٹھیک ہے فواد۔ انہوں نے فواد کو اشارہ کیا۔ وہ سر ہلا کے آگے بڑھا اور صوفے پر بیٹھی فرشتے کو ایک دم بازو سے کھینچا۔

چھوڑو مجھے۔ وہ اس اچانک افتاد کے لیے تیار نہ تھی، بے اختیار چلا کر خود کو چھڑانے لگی، مگر وہ اسے بازو سے کھینچ کر گھسیٹتا ہوا باہر لے جانے لگا۔ اسی پل آغا جان محمل کی طرف بڑھے۔

تو تم یہ شادی نہیں کرو گی؟

ہاں ہرگز نہیں کرو گی۔ میری بہن کو چھوڑ دو۔ وہ غصے سے فواد پر جھپٹنا ہی چاہتی تھی جو فرشتے کو باہر لے کے جا رہا تھا، مگر اس سے پہلے ہی آغا جان نے اس کو بالوں سے پکڑ کے واپس کھینچا۔

تو تم شادی نہیں کرو گی؟انہوں نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارا۔ وہ چکرا کر گری۔

تمہیں لگتا ہے ہم پاگلوں کی طرح تمہاری منتیں کریں گے ؟تمہارے آگے ہاتھ جوڑیں گے ؟نہیں بی بی شادی تو تمہیں کرنی پڑے گی، ابھی اور اسی وقت۔ اسد نکاح خواں کو ابھی بلواؤ۔ میں بھی دیکھتا ہوں یہ کیسے شادی نہیں کرتی۔

میں نہیں کروں گی سنا آپ نے۔ وہ روتے ہوئے بولی، وہ مسلسل اسے تھپڑوں اور مکوں سے مار رہے تھے۔

میری بہن کو چھوڑ دو۔ خود کو چھڑاتی فرشتے محمل کو پٹتے دیکھ کر لمحے بھر کو سکتہ میں رہ گئی تھی، اور پھر دوسرے ہی پل اس نے زور سے فواد کو دھکا دینا چاہا۔ مگر وہ مرد تھا، وہ اس کو دھکیل نہ سکتی تھی، وہ اس کو بازو سے پکڑتے ہوئے دروازے سے باہر نکال رہا تھا۔

فواد اسے چھوڑ دو۔ یکدم حسن نے فواد کو پوری قوت کے ساتھ دھکیلا تھا۔ فواد اس حملے کے لیے تیار نہ تھا، ایک دم بوکھلا کر پیچھے کو ہٹا۔ اس کی گرفت ڈھیلی پڑی، اور فرشتے بازو چھڑاتی محمل کی طرف بھاگی، جسے آغا جان ابھی تک مار رہے تھے۔ فواد نے غصے سے حسن کو دیکھا مگر اس سے پہلے اسے کچھ سخت کہتا فضہ نے بازو سے پکڑ کر حسن کو ایک طرف کر دیا۔ میری بہن کو چھوڑیں ہٹیں۔ وہ چیختی ہوئی آغا جان کا ہاتھ روکنے لگی، مگر ساتھ ہی انہوں نے ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پر بھی مارا۔ فرشتے تیورا کر ایک طرف گری۔ منہ میز کے کونے سے لگا۔ ہونٹ کا کنارہ پھٹ گیا۔ لمحے بھر کو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، اگلے ہی پل وہ خود کو سنبھالتی ہوئی تیزی سے اٹھی۔

محمل اپنے بازو چہرے پر رکھے، روتی ہوئی اپنا کمزور سا دفاع کر رہی تھی۔ اب کی بار فرشتے نے آغا جان کا ہاتھ نہیں روکا، بلکہ محمل کو پیچھے سے پکڑ کے کھینچا۔

محمل گٹھڑی بنی چند قدم پیچھے کھینچتی گئی۔ اس کا دوپٹہ سر سے اتر کر پیچھے ڈھلک گیا تھا، بالوں کی لٹیں جوڑے سے نکل کر چہرے پر بکھر گئیں۔

اس سے پہلے کہ آغا جان اپنے اور محمل کے درمیاں چند قدم کا فاصلہ عبور کرتے فرشتے ان کے اور محمل کے درمیان آ کھڑی ہوئی۔

ہاتھ مت لگائیے میری بہن کو۔ اپنے پیچھے گٹھڑی بنی بیٹھی محمل کے سامنے وہ اپنے دونوں بازو پھیلائے چیخ پڑی تھی۔ آپ لوگ اس حد تک گر جائیں گے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ کیا بگاڑا ہے اس نے آپ کا؟

سامنے سے ہٹ جاؤ ورنہ تم آج میرے ہاتھوں سے ختم ہو جاؤ گی! وہ غصے سے ایک قدم آگے بڑھے ہی تھے کہ فواد نے ان کا بازو تھام لیا۔

آرام سے آغا جان!آپ کا بی پی شوٹ کر جائے گا۔ ان کو سہارا دے کر وہ نرمی سے بولا تھا۔ محمل ابھی تک گھٹنوں پر سر رکھے رو رہی تھی، جبکہ فرشتے اس کے آگے بازو پھیلائے کھڑی تھی۔ فواد چاہتا تو اسے پھر پکڑ لیتا، مگر جانے کیوں وہ آغا جان کو سہارا دئیے وہی کھڑا تھا۔ اس کے طرف نہیں بڑھا۔

میں اب محمل کو ادھر نہیں رہنے دوں گی۔ اٹھو محمل! اپنا سامان پیک کرو، اب تم میرے ساتھ رہو گی۔ چلو۔

اس نے محمل کو اٹھانا چاہا مگر وہ ایسے ہی گری روتی جا رہی تھی۔

آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ اسے لے گئیں تو ہم لوگوں کو کہیں گے کہ محمل کی نام نہاد بہن اسے لے گئی اور بس؟ محمل کو بازو سے پکڑ کر اٹھاتے اس کے ہاتھ ایک ثانیے کو تھم گئے اس نے قدرے الجھ کے سر اٹھایا اور فواد کو دیکھا۔ چہرے پر چھایا غصہ ایک دم الجھن میں ڈھلا تھا۔ ۔

کیا مطلب؟

مطلب محمل وہ لڑکی ہے نا جو ایک بار پہلے بھی ایک رات باہر گزار چکی ہے ؟ تو اس کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ یہ نکاح سے پہلے کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے تو فوراً یقین کر لیا جائے گا نا؟

اس کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ تھی۔

نہیں۔ محمل نے تڑپ کے آنسوؤں سے بھیگا چہرہ اٹھایا۔

تمہارے نہیں کہنے سے یہ بدنامی ٹل تو نہیں جائے گی ڈیر کزن!تم اپنی بہن کے ساتھ گئیں تو ہم تمہیں پورے خاندان میں بدنام کر دیں گے۔ اور پھر یہ تمہیں کتنا عرصہ سنبھالے گی؟اس کے بعد تم کہاں جاؤ گی؟

محمل پھٹی پھٹی نگاہوں سے فواد کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ خود فرشتے بھی سن رہ گئی۔

اگر تم نے اس گھر سے قدم بھی باہر نکالا تو تم بدنام ہو جاؤ گی۔ پورا خاندان تھوکے گا تم پر کہ ماں کے مرتے ہی کھلی چھوٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نہیں، نہیں۔ ۔ ۔ میں نہیں جاؤں گی۔ وہ خوف زدہ سی گھٹی گھٹی آواز میں بمشکل بول پائی۔

یعنی تم وسیم سے شادی کرنے پر تیار ہو۔ ویری گڈ کزن!

وہ اسی عیاری سے مسکرایا۔ اسد چچا یقیناً نکاح خواں کو لاتے ہی ہوں گے۔ وسیم کدھر ہے کوئی اسے بھی بلائے۔ ۔

ہرگز نہیں۔ فرشتے نے غصے میں تڑپ کے اسے دیکھا۔ محمل کی شادی تمہارے بھائی سے ہرگز ہونے نہیں دوں گی۔ تم لوگ یہ سب صرف اس کی جائیداد ہتھیانے کے لیے کر رہے ہو۔ میں جانتی ہوں تم شادی کے بعد اس سے جائیداد اپنے نام لکھواؤ گے، اسے طلاق دلا کر گھر سے باہر نکال دو گے۔

ہاں بالکل ہم یہی کریں گے۔ وہ بہت سکون سے بولا۔ گو کہ یہ بات فرشتے نے خود کہی تھی مگر اسے فواد سے اعتراف کی توقع نہیں تھی۔ وہ اپنی جگہ ششدر رہ گئی۔

تو تم واقعی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہاں۔ ہم اس لیے تو محمل کی شادی وسیم سے کروانا چاہتے ہیں۔

فواد! آغا جان نے تنبیہی نظروں سے اسے ٹوکنا چاہا۔

مجھے بات کرنے دیں آغا جان! ہاں تو محمل ! ہم اسی لیے تمہاری شادی وسیم سے کروا رہے ہیں۔ تمہیں منظور ہے نا؟کیونکہ فرشتے کے ساتھ تو تم جا نہیں سکتیں۔ اب تمہیں شادی تو کرنا ہی ہو گی۔

نہیں۔ نہیں۔ وہ بے اختیار وحشت سے چلائی۔ میں نہیں کروں گی شادی۔

محمل تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔

تمہیں شادی کرنا پڑے گی۔ وہ بغور اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہتا آہستہ آہستہ اس کے چاروں طرف سے گھیر رہا تھا۔

کاش میں تمہیں بد دعا دے سکتی آغا فواد! مگر میں عاملین قرآن میں سے ہوں، ایسا نہیں کروں گی، کیا تمہیں اللہ سے ڈر نہیں لگتا؟ فرشتے نے تنفر سے اسے دیکھا۔

میں نے کچھ غلط تھوڑی کہا ہے۔

تم غلط کر رہے ہو ایک یتیم لڑکی کے ساتھ۔

یہ تو ہم کافی سالوں سے کر رہے ہیں۔ یقین کیجیے ہم پر کبھی کوئی طوفان نہیں آیا۔

تمہیں اس طوفان کی خبر تب ہو گی جب وہ تمہارے سر پر پہنچ چکا ہو گا۔ اللہ سے ڈرو۔ تمہیں اس یتیم پر ظلم کر کے کیا ملے گا؟

تو آپ اس ظلم کو اپنے حق میں کیوں نہیں بدل لیتیں ؟

کیا مطلب؟ وہ چونکی۔

وہ جواب دیے بنا اس پر ایک نظر ڈالتا محمل کی طرف متوجہ ہوا جو زمین پر بیٹھی سر اٹھائے اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔

ایک صورت میں میں تمہاری شادی محمل سے روک دوں گا، اور چاہو تو تم اپنی بہن کے ساتھ چلی جاؤ۔ ہم خاندان والوں کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ پھر فرشتے جہاں چاہے تمہاری شادی کروا دے، ہم کیا پورا خاندان شریک ہو گا۔ کیا تم وہ صورت اختیار کرنا چاہو گی؟

محمل کے چہرے پر بے یقینی اتر آئی۔ وہ بنا پلک جھپکے فواد کا چہرہ دیکھنے لگی۔

سدرہ میری بیڈ سائیڈ ٹیبل پر کاغذ پڑا ہے وہ لے کر آؤ اور ساتھ پین بھی۔ اس نے مہرین اور ندا کے ساتھ دیوار سے لگی خاموش کھڑی سدرہ کو اشارہ کیا جو اس کی بات سن کر سر ہلاتے ہوئے تیزی سے سیڑھیوں کی طرف لپکی۔

تم کیا کہنا چاہتے ہو؟خطرے کا الارم دور کہیں بجتا فرشتے کو سنائی دے رہا تھا۔

یہی کہ محمل کی شادی رک سکتی ہے وہ تمہارے ساتھ جا سکتی ہے اگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے سیڑھیوں سے اترتے سدرہ کو دیکھا جو بھاگتی ہوئی آئی اور اسے کاغذ قلم پکڑا دیا۔

اگر تم دونوں یہ پیپر سائن کر دو۔

یہ کیا ہے فرشتے کا لہجہ محتاط تھا۔

مجھے معلوم تھا کہ آپ نکاح کے وقت ڈرامہ کرنے ضرور آئیں گی اسی لیے ہم نے پہلے سے انتظام کر رکھا تھا۔ آپ کو کیا لگتا ہے ہمیں علم نہیں تھا کہ آپ محمل سے مل کے اسے کیا پٹیاں پڑھا رہی ہیں۔ ہمیں سب پتہ تھا محترمہ!یہ بھی کہ محمل کب کب آپ کے کزن سے ملتی رہی ہے۔ مگر اس وقت کے لیے ہم نے آنکھ بند کر رکھی۔

آپ کی کیا شرط ہے وہ بات کریں۔ وہ سرد لہجے میں بولی۔

یہ فرشتے ابراہیم اور محمل ابراہیم کا اعلان دستبرداری ہے۔ اس گھر فیکٹری اور آغا ابراہیم کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے یہ دونوں دستبرداری کا اعلان کرتی ہیں اور ہر چیز ہمارے حوالے کرتی ہیں۔ یہ کبھی بھی ہم سے کسی بھی موروثی ملکیت سے حصہ مانگنے نہیں آئیں گی اور آپ جانتی ہیں کہ بدلے میں ہم وسیم کی شادی محمل سے نہیں کریں گے۔

آف کورس یہ آخری بات اس کاغذ میں نہیں لکھی گئی۔

فرشتے کے چہرے پر پہلے الجھن ابھری پھر حیرت اور پھر واضح بے یقینی۔

تم۔ تم ہمیں ہمارے حق سے ہمارے گھر سے بے دخل کرنا چاہتے ہو؟

بالکل صحیح۔

تم ایسا کیسے کر سکتے ہو آغا فواد! تم۔ ۔ ۔ اس کی بے یقینی اور تحیر غصے میں بدل گیا۔

تم ہمیں ہمارے گھر سے بے دخل کیسے کر سکتے ہو؟یہ ہمارا گھر ہے۔ ہمارے باپ کا گھر ہے، اس پر ہمارا حق ہے، ہمیں ضرورت ہے پیسوں کی، محمل کی پڑھائی اور پھر اس کی شادی کے لیے۔ ۔ ۔ ہمیں ان سب کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔

یہ ہمارا درد سر نہیں ہے۔ تم یہ سائن کر دو تو محمل کی جان وسیم سے چھوٹ جائے گی۔

مگر ہم تمہیں اپنا حق کیوں دیں ؟

کیونکہ ان سب پر میرے شوہر اور بیٹوں کا حق ہے۔

تائی مہتاب چمک کر کہتی آگے بڑھیں۔ ابراہیم کی وفات کے وقت یہ بزنس دیوالیہ ہو چکا تھا۔ میرا شوہر دن رات محنت نہ کرتا تو یہ بزنس کبھی اسٹیبلش نہ ہو سکتا تھا۔

اگر اتنے ہی محنتی تھے آپ کے شوہر اور بیٹے تو میرے ابا کی ڈیتھ کے وقت تک روزگار کیوں پھر رہے تھے ؟اور تم ؟ وہ فواد کی طرف پلٹی۔ اور وارث تو اللہ نے بنائے ہیں ہم کیوں اپنا حق نہ لیں۔

فرشتے بی بی! یہ پراپرٹی تو آپ کو چھوڑنا ہی پڑے گی۔ کچھ دیر میں مہمانوں کی آمد شروع ہو جائے گی۔ شادی والا گھر ہے، ذرا سی بات کا بتنگڑ بن جائے گا اور بدنامی کس کی ہو گی؟صرف محمل کی! اول تو وسیم سے شادی کرنی ہی پڑے گی، لیکن اگر آپ یونہی اڑی رہیں تو ٹھیک ہے ہم خاندان سے کہہ دیں گے کہ محمل کسی کے ساتھ بھاگ گئی۔ کس کا خاندان چھوٹے گا، کس کا میکا بدنامی کے باعث چھوٹے گا آپ فیصلہ کر سکتی ہیں۔

وہ کہتے کہتے ذرا دیر کو رکا۔ وہ تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی۔

آغا فواد تمہیں اللہ سے ڈر نہیں لگتا؟

وہ ہولے سے مسکرا دیا۔ ہم کوئی غلط بات تھوڑی کر رہے ہیں ؟اپنا حق ہی مانگ رہے ہیں۔ خیر دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اور محمل اس پر سائن کریں اور اپنے حصے سے دستبردار ہو جائیں، ہم با عزت طریقے سے شادی کینسل کر دیں گے، آپ محمل کو اپنے ساتھ لے جائیے گا، آپ جس سے چاہیں جب چاہیں اس کا نکاح کرا دیں، ہم بھرپور شرکت کریں گے، بلکہ پورا خاندان شرکت کرے گا۔ یہ گھر محمل کا میکہ رہے گا، وہ جب چاہے ادھر آ سکتی ہے، مگر اس کی ملکیت میں آپ دونوں میں سے کسی کا حصہ نہیں ہو گا لیجیے !

اس نے کاغذ قلم اس کے سامنے کیے۔ کر دیجئیے سائن۔

مگر فواد۔ ۔ ۔ ۔ آغا جان نے کچھ کہنا چاہا لیکن تائی مہتاب نے ان کا بازو تھام لیا۔

اسے بات کرنے دیں وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔

ہونہہ۔ فرشتے نے سر جھٹکا۔ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں آپ کی اس بلیک میلنگ میں آ جاؤں گی؟ آپ کو تو۔ ۔ ۔ ۔۔

اس کی بات ابھی ادھوری تھی کہ اسے اپنے دائیں ہاتھ پر دباؤ محسوس ہوا۔ اس نے چونک کر دیکھا۔ محمل اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔

اس کا کام دار دوپٹہ سر سے ڈھلک گیا تھا، بھوری لٹیں گالوں کو چھو رہی تھیں۔ آنسوؤں نے کاجل دھو ڈالا تھا۔ وہ بدقت فرشتے کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی، اس کے انداز میں کچھ تھا کہ اس کا ما تھا ٹھنکا اور اس سے پہلے کہ فرشتے اس کو روک پاتی اس نے جھپٹ کر فواد کے ہاتھ سے کاغذ چھینا۔

کدھر کرنے ہیں سائن؟بتاؤ مجھے ! وہ ہذیانی کیفیت میں چلائی تھی۔ فواد ذرا سا مسکرایا اور اپنی انگلی کاغذ پر ایک جگہ رکھی۔

نہیں محمل! فرشتے کو جھٹکا لگا تھا۔ ہمارے پاس کئی راستے ہیں، ہمیں ان کی بلیک میلنگ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مگر فرشتے مجھے ہے !میں اب تنگ آ چکی نہیں چاہیئے مجھے کوئی جائیداد، کوئی دولت۔ مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔ لے لیں سب۔ وہ دھرا دھر سائن کرتی جا رہی تھی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے برابر گر رہے تھے۔

فرشتے ساکت سی اسے دیکھے گئی۔ اس نے تمام دستخط کر کے کاغذ اور قلم فواد کی طرف اچھال دیئے۔

لے لو سب کچھ۔ تم لوگوں کو اللہ سے ڈر نہیں لگتا۔ میں اب تم سے اپنا کوئی حق نہیں مانگوں گی۔ چھوڑتی ہوں میں اپنے سارے حقوق۔ وہ کہتے کہتے نڈھال سی صوفے پر گر گئی اور گہری سانسیں لینے لگی۔

وہ واقعی تھک چکی تھی ٹوٹ چکی تھی۔

فواد نے کاغذ سیدھا کر کے دیکھا، پھر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ارد گرد خاموش اور بے یقین بیٹھے حاضرین پر ایک نگاہ ڈالی، پھر فرشتے کی طرف پلٹا۔

محمل نے دستخط کر دئیے اب آپ بھی کر دیں۔

اس نے کاغذ قلم اس کی طرف بڑھایا مگر فرشتے نے اسے نہیں تھاما۔ وہ ابھی تک سکتے کے عالم میں محمل کو دیکھ رہی تھی۔

دستخط کرو بی بی اور اسے لے جاؤ۔ تائی مہتاب نے آگے بڑھ کر اس کا شانہ ہلایا تو وہ چونکی، پھر ناگواری سے ان کا ہاتھ ہٹایا اور فواد کے بڑھتے ہاتھ کو دیکھا۔

نہیں۔ تم محمل کو نفسیاتی طور پر گھیر کر بے وقوف بنا سکتے ہو۔ یہ چھوٹی ہے، کم عقل ہے مگر فرشتے ایسی نہیں ہے۔ میں تمہاری بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گی۔ میں ہرگز سائن نہیں کروں گی اور میں کیوں کروں سائن؟ مجھے ضرورت ہے اپنے حصے کی، مجھے پی ایچ ڈی بھی کرنا ہے۔ مجھے باہر جانا ہے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کی بات ادھوری رہ گئی۔ فواد نے کاغذ قلم میز پر پھینکا اور صوفے پر بیٹھی محمل کو گردن سے دبوچ کر اٹھایا اور اپنے سامنے ڈھال کی طرح رکھتے ہوئے جانے کہاں سے پستول نکال کر اس کی گردن پر رکھا۔

اب بھی نہیں کرو گی تم سائن؟ وہ غرایا۔

فرشتے سناٹے میں آ گئی۔

فواد نے بازو کے حلقے میں اس کی گردن دبوچ رکھی تھی۔ وہ شاک کے باعث اس کی آنکھیں ابل کر باہر آنے لگیں۔ بے اختیار وہ کھانسی۔

اپنی بہن سے کہو شرافت سے سائن کر دے ورنہ میں واقعی گولی چلا دوں گا اور تم جانتی ہو کہ میں قانون کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہوں۔ یہی کہا تھا نہ تم نے میرے بارے میں ؟اس کے کان کے قریب منہ لے جا کر اس کے بظاہر سرگوشی میں کہا مگر سب کے کانوں تک اس کی سرگوشی پہنچ گئی۔

سب کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ حسن نے آگے بڑھنا چاہا مگر فضہ چچی نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔

کیا کر رہے ہو۔ اگر اس نے گولی چلا دی تو وہ مر جائے گی۔ کیا تم یہی چاہتی ہو؟انہوں نے بیٹے کو گھڑکا تو وہ بے بسی سے کھڑا رہ گیا۔

بولو فرشتے بی بی تم سائن کرو گی یا نہیں ؟

اس نے پستول کی ٹھنڈی نال محمل کی گردن پر چبھوئی۔ وہ سسک کر رہ گئی۔

بولو فرشتے وہ زور سے چیخا۔

نہیں ! وہ جیسے ہوش میں آئی۔ میں سائن نہیں کروں گی۔ اس کا لہجہ اٹل تھا۔

میں تین تک گنوں گا فرشتے ! اگر میں نے گولی چلا دی تو تمہاری بہن کبھی واپس نہیں آئے گی۔

فرشتے پلیز محمل بلک پڑی۔ پلیز میری خاطر فرشتے ! آج اپ اپنا حق چھوڑ دیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں، اگر ضرورت پڑی تو میں بھی آپ کے لیے اپنا حق چھوڑ دوں گی۔ آئی پرا مس۔

نہیں ! میں سائن نہیں کروں گی۔

ٹھیک ہے میں تین تک گنوں گا۔

فرشتے نے دیکھا اس کی انگلی ٹرائگر پر مضبوط ہوئی اور واقعی گولی چلانے والا تھا۔

ایک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لمحہ بھر کو اس کا دل کانپا۔ اگر گولی چلا دے تو محمل مر جائے گی پھر بھلے وہ ہمایوں کو بلا لے، کورٹ کچہری میں گواہیاں دیتی پھرے، کچھ بھی کر لے اس کی بہن واپس نہیں آئے گی۔

دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بھلے فواد کو پھانسی ہو جائے اور وہ ساری جائیداد کی مالک بن بیٹھے، اس کی بہن واپس نہیں آئے گی۔

تین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

رکو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! میں سائن کر دوں گی۔ وہ شکست خوردہ لہجے میں بولی لیکن آپ کو محمل کی شادی اسی وقت وہاں کرنی ہو گی جہاں میں کہوں گی اور اور اس میں نہ صرف آپ سب بلکہ آپ کا پورا خاندان شریک ہو گا۔ محمل اسی گھر سے رخصت ہو گی۔

منظور ہے۔ فواد جھٹ بولا تھا۔ محمل پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی، فرشتے کیا کہنا چاہ رہی ہے، وہ نہیں سمجھ پا رہی تھی، پھر اس نے حسن کو دیکھا جو اسی طرح بے بس سا کھڑا تھا، فضہ نے سختی سے اس کا بازو تھام رکھا تھا۔ بے بس اور کمزور مرد۔ وہ جو اتنے دعوے کرتا تھا سب بے کار گئے تھے۔

ٹھیک ہے پھر نکاح خواں کو بلوائیے، میں ہمایوں کو بلاتی ہوں۔ اس نے جھک کر میز پر رکھا موبائل اٹھایا۔

ہمایوں ؟ ہمایوں داؤد؟فواد کو گویا کرنٹ لگا تھا۔ جی وہی۔ فرشتے تلخی سے مسکرا کر سیدھی ہوئی۔ بولیے اب آپ کو یہ معاہدہ منظور ہے ؟

ہمایوں داؤد وہ ای ایس پی؟

وہ پولیس والا؟

نہیں ہرگز نہیں۔ بہت سی حیران غصیلی آوازیں ابھری تھیں جن میں سب سے بلند آغا جان کی تھی۔

وہ شخص اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا جس نے میرے بیٹے کو جیل بھجوایا تھا، تمہیں دستخط نہیں کرنا تو نہ کرو مگر محمل کی شادی کبھی اس سے نہیں کروں گا۔

میں آپ سے بات نہیں کر رہی کریم چچا!میں یہ معاہدہ آغا فواد سے کر رہی ہوں، ان ہی کو بولنے دیجیئے نا۔

مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نہیں آغا جان کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ بلائیے اس کو ہمیں قبول ہے۔ وہ سنبھل چکا تھا چہرے کی مسکراہٹ واپس آ گئی تھی۔

مگر فواد یہ کل کو مکر گئی تو؟آغا جان نے پریشانی سے اس کا کندھا پکڑ کر اپنی جانب کیا۔

یہ نہیں مکریں گی، یہ ماشاءاللہ سے مسل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مان ہیں۔ یہ وعدے سے نہیں پھریں گی۔ مسلمان کو توڑ کر کہتے ہوئے اس نے استہزائیہ مسکراہٹ فرشتے کی جانب اچھالی۔ وہ لب بھینچے تنفر سے اسے دیکھتی رہی۔

ٹھیک ہے۔ آپ بلائیے اپنے کزن کو۔ فنکشن تو آج ہونا ہی ہے۔ اسد اب تک نکاح خواں کا بندوبست کر چکا ہو گا۔ غفران چچا مصروف سے لہجے میں کہتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ ان کی جیسے جان چھوٹ گئی تھی۔ فضہ سے بھی اپنا اطمینان اور خوشی چھپانی مشکل ہو رہی تھی۔ ان دونوں کو گویا اپنا بیٹا واپس مل گیا تھا، پھر بھی وہ حسن کا بازو مضبوطی سے تھامے کھڑی تھیں، مگر اب شاید وہ رسی تڑوا کے بھاگنے کے قابل نہ رہا تھا۔ اس کا تو آسرا ہی ختم ہو گیا تھا۔

آؤ اندر چلو۔ فرشتے نے تھکے تھکے انداز میں محمل کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ سب گردن موڑ کر انہیں جاتا دیکھنے لگے تھے۔ پورے گھر میں عجیب سی خاموشی دور گئی تھی۔

٭٭٭



وہ سب کسی خواب کی سی کیفیت میں ہوا تھا۔ شاید وہ ایک حسین خواب ہی تھا جس کی تعبیر کی اسے بہت بھاری قیمت چکانی پڑی تھی۔ بہت سے خواب توڑنے پڑے تھے، مگر اسے اس وقت وہی صحیح لگا تھا۔ یہ نہ کرتی تو وہ لوگ اسے خاندان بھر میں بدنام کر دیتے۔ اس کے مرحوم ماں باپ کا نام اچھالا جاتا یا پھر سب سے بڑی وجہ وہ تھی جو فواد کو بھی معلوم تھی اور جس کو اس نے استعمال کیا تھا۔ محمل کی دکھتی رگ کہ اس کا خاندان اس کو عزت سے بیاہ دے۔ اسے دولت سے زیادہ اپنا مقام اور عزت چاہیئے تھی اور فواد نے اسی دکھتی رگ کو ایسے دبایا تھا کہ اس کا دل تڑپا تھا تھا۔ وہ فیصلہ جذباتی تھا مگر اسے صحیح لگا تھا۔

پھر جو بھی ہوا جیسے نیند کی حالت میں ہوا۔ فرشتے اس کا چہرہ کلینزر سے صاف کر کے بیوٹیشن کے ساتھ اس کا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی، پھر وہ تائی مہتاب کے زیور اتار کر اس کی ماں کے زیور پہنا رہی تھی، پھر وہ اس کا میک اپ کر رہی تھی، پھر وہ اس کی سینڈل کے سٹریپ بند کر رہی تھی، پھر وہ مسکراتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی، اور پھر وہ بہت کچھ کر رہی تھی، مگر اسے آواز نہیں آ رہی تھی۔ ساری آوازیں بند ہو گئی تھیں۔ سارے منظر دھندلا گئے تھے، بس وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی بت بنی بیٹھی تھی۔

وہ خواب حسین تھا، مگر اس کا دل خالی تھا۔ سارے جذبات گویا مر سے گئے تھے۔ خواہش کے جگنو کھو گئے تھے۔

یا شاید ہمیں خوشی سے محبت نہیں ہوتی، خوشی کی خواہش سے محبت ہوتی ہے۔ ہماری سب محبتیں، خواہشات سے ہوتی ہیں کبھی کسی کو پانے کی تمنا کبھی کوئی خاص چیز پانے کی آرزو۔ ۔ ۔ ۔ شاید محبت صرف خواہش سے ہوتی ہے، چیزوں یا لوگوں سے نہیں۔

اس نے اپنی خواہش کو اپنے پہلو میں بیٹھا دیکھا، مگر اس کا اپنا سر جھکا تھا، سو زیادہ دیکھ نہ پائی اور اسی جھکے سر کے ساتھ نکاح نامے پر دستخط کرتی گئی، کرتی گئی، کرتی گئی۔

جب اس کا ہاتھ تھامے فرشتے اسے اٹھا رہی تھی تو اس نے لمحے بھر کو اسے دیکھا، جو سامنے لب بھینچے کھڑا تھا۔ براؤن شلوار کرتے میں ملبوس، سنجیدہ اور وجیہہ۔

اس نے نگاہیں جھکا لیں۔ اسے اس کی سنجیدگی سے خوف آیا تھا۔ کیا وہ اس پر مسلط کی گئی تھی؟ان چاہی بے وقعت بیوی؟

اس نے بے عزتی اور توہین محسوس کرنا چاہی مگر دل اتنا خالی تھا کہ کوئی احساس بیدار نہ ہوا۔

اردگرد لوگ بہت کچھ کہہ رہے تھے مگر اس کی سماعتیں بند ہو گئی تھیں۔ وہ سر جھکائے ہمایوں کی گاڑی کی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اسے لگا اب زندگی کٹھن ہو گی بہت کٹھن۔

وہ اسی جہازی سائز بیڈ کے وسط میں سر گھٹنوں پر رکھے گم صم بیٹھی تھی۔ فرشتے کچھ دیر ہوئی اسے وہاں بٹھا کر نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔ اور ہمایوں کو تو اس نے گاڑی سے نکل کر دیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ تیزی سے اندر چلا گیا تھا اور پھر دوبارہ سامنے نہیں آیا تھا۔

اس کے دل میں عجیب عجیب سے خیال آ رہے تھے۔ وہ بار بار اعوذبا اللہ پڑھتی مگر وسوسے اور وہم ستانے لگے تھے۔ شاید وہ اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا تھا، شاید وہ اس پر مسلط کیا گیا تھا۔ اب شاید اس کے پاس نہیں آئے گا، بلکہ شاید وہ بات تک نہ کرے، شاید وہ اسے چھوڑ دے، شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ شاید۔

بہت سے شاید تھے جن کے آگے سوالیہ نشان تھے۔ بار بار وہ شاید اس کے ذہن کے پردے پر ابھرتے اور اس کا دل ڈوبنے لگتا۔ وہ مایوس ہونے لگی تھی جب دروازہ کھلا۔

بے اختیار سب کچھ بھلا کر وہ سر اٹھائے دیکھنے لگی۔

وہ اندر داخل ہو رہا تھا۔ اس کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ جانے وہ اب کیا کرے گا؟وہ دروازہ بند کر کے اس کی طرف پلٹا، پھر اسے یوں بیٹھا دیکھ کر ذرا سا مسکرایا۔

السلام علیکم، کیسی ہو؟آگے بڑھ کر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل دراز کھولی وہ خاموشی سے کچھ کہے بنا سے دیکھے گئی۔ وہ اب دراز میں چیزیں الٹ پلٹ کر رہا تھا۔

تم تھک گی ہو گی، اتنے بڑے ڈراما سے گزری ہو۔

پریشان مت ہونا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ اب نچلے دراز میں کچھ تلاش کر رہا تھا۔ لہجہ متوازن تھا اور الفاظ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الفاظ پر تو اس نے غور ہی نہیں کیا، وہ بس اس کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جو دراز میں ادھر ادھر حرکت کر رہے تھے اور پھر اس نے ان میں ایک میگزین پکڑے دیکھا۔

(کیا اس میں گولیاں بھی ہیں ؟کیا یہ مجھے مارے گا؟)

وہ عجیب سی باتیں سوچ رہی تھی۔

وہ میگزین نکال کر سیدھا ہوا۔

آئی ایم سوری محمل! ہمیں سب بہت جلدی میں کرنا پڑا اور میں جانتا ہوں۔ تم اس کے لیے تیار نہ تھیں۔

وہ کہہ رہا تھا، اور وہ خاموشی سے اس کے ہاتھ میں پکڑا میگزین دیکھ رہی تھی۔

میں ابھی آن ڈیوٹی ہوں، اور مجھے ریڈ کے لیے جانا ہے۔ رات فرشتے تمہارے ساتھ رک جائے گی، میں پرسوں شام تک واپس آ جاؤں گا، تم پریشان نہ ہونا۔

وہ خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھے گئی۔ عجیب شادی، عجیب سی دلہن، اور عجیب سا دلہا اسے اس کی باتیں بہت عجیب لگی تھیں۔

تم سن رہی ہو؟وہ اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھا بغور اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ وہ ذرا سا چونکی۔

ہوں جی۔ جی بے ساختہ نگاہیں جھکا لیں۔

پھر پتا نہیں وہ کیا کیا کہتا رہا، محمل نظریں نیچی کیے سنتی رہی۔ الفاظ؟ اس کے کانوں سے ٹکرا کے گویا واپس پلٹ رہے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ کب خاموش ہوا، کب اٹھ کر چلا گیا، اسے تب ہوش آیا جب پورچ سے گاڑی نکلنے کی آواز آئی۔

اس نے ویران نظروں سے کمرے کو دیکھا۔ یہی وہ کمرہ تھا جس کبھی ہمایوں نے اسے بند کیا تھا، تب وہ سیاہ ساڑھی میں ملبوس تھی۔

آج اس نے سرخ شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ عروسی جوڑا، عروسی زیورات، وہ دلہن تھی اور پتہ نہیں کیسی دلہن تھی۔ اس نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اس کمرے میں کبھی یوں ہمایوں کی دلہن بن کر آئے گی۔ ہاں فواد کے خواب اس نے دیکھے تھے، مگر وہ اس کے دل کا ایک چھپا ہوا راز تھا، جس کی خبر شاید خود فواد کو بھی نہ تھی۔

اور حسن؟اندر سے کسی نے سرگوشی کی۔

حسن کے لیے اس کے دل میں کبھی کوئی جذبہ نہ ابھرا تھا اور اچھا ہی ہوا۔ شام کو جب فواد نے اس کے نام کے ساتھ ہمایوں کا نام لیا تو وہ کیسے چپ ہو گیا تھا۔ وہ جو ہر موقع پر محمل کے حق کے لیے بولتا تھا، لڑتا تھا، اتنے اہم موقعے پر یوں کیوں پیچھے ہٹ گیا تھا؟وہ فیصلہ نہ کر سکی۔ اور فرشتے اس نے کتنی بڑی قربانی دی تھی اس کے لیے۔ وہ کبھی بھی اس کا احسان نہ اتار سکتی تھی، وہ جانتی تھی، اس نے اپنا حق چھوڑ دیا، کاش فرشتے بھی کبھی اسے موقع دے اور وہ اس کے لیے اپنا حق چھوڑ سکے۔

اس نے تھک کر سر بیڈ کراؤن سے ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں، اس کا دل اداس تھا، روح بوجھل تھی، سکوں چاہیئے تھا۔ اپنے خاندان والوں کی قید سے آ نکلنے کے احساس کو محسوس کرنے کی حس چاہیئے تھی۔ اسے غم سے نجات چاہیئے تھی۔ اس نے ہولے سے لبوں کو حرکت دی اور آنکھیں موندے دھیمی آواز میں دعا مانگنے لگی۔

یا اللہ، میں آپ کی بندی ہوں اور آپ کے بندے کی بیٹی ہوں اور آپ کی بندی کی بیٹی ہوں۔ میری پیشانی آپ کے قابو میں ہے، میرے حق میں اپ کا حکم جاری ہے، آپ کا فیصلہ میرے بارے میں انصاف پر مبنی ہے، میں اپ سے سوال کرتی ہوں، آپ کے ہر اس نام کے واسطے سے جو آپ نے اپنے لیے پسند کیا اپنی کتاب میں اتارا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا یا اپنے علم غیب میں آپ نے اس کو اختیار کر رکھا ہے، اس بات کو کہ اپ قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار اور میری آنکھوں کا نور بنا دیں اور میرے فکر اور غم کو لے جانے کا ذریعہ بنا دیں۔

وہ دعا کے الفاظ بار بار دہراتی گئی، یہاں تک کہ دل میں سکون اتر گیا، اس کی آنکھیں بوجھل ہو گئیں اور وہ نیند سے ڈوب گئی۔

٭٭٭



وہ دو دن فرشتے اس کے ساتھ رہی۔ ان دو دنوں میں انہوں نے بہت سی باتیں کیں، سوائے اس شام کے ڈرامے کے۔ وہ ایسا موضوع تھا کہ دونوں ہی کسی خاموش معاہدے کے تحت اس سے احتراز برت رہی تھیں فرشتے نے اسے بہت کچھ بتایا ابا کے بارے میں، اپنی ماں کے بارے میں، ہمایوں کی امی کے بارے میں، اپنی زندگی، گھر پرانی یادوں کے بارے میں۔ وہ چائے کا مگ تھامے گھنٹوں لان میں بیٹھی باتیں کرتی رہتیں، چائے ٹھنڈی ہو جاتی، مگر ان کی باتیں ختم نہ ہوتیں۔

پتا ہے محمل! ادھر لان میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دونوں برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھیں۔ چائے کے مگ ہاتھ میں تھے، جب فرشتے نے بازو لمبا کر کے اشارہ کیا۔ وہاں ایک جھولا تھا بالکل کونے میں۔

محمل گردن موڑ کر اس طرف دیکھنے لگی جہاں اب صرف گھاس اور کیاریاں تھیں۔

ہم بچپن میں اس جھولے پر بہت کھیلتے تھے اور اس کے اس طرف طوطوں کا پنجرہ تھا۔ ایک طوطا میرا تھا اور ایک ہمایوں کا۔ اگر میرا طوطا اس کی ڈالی گئی چوری کھا لیتا تو ہمایوں بہت لڑتا تھا۔ وہ ہمیشہ سے ہی اتنا غصے والا تھا، مگر غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو اس سے بڑھ کر لونگ اور کیئرنگ بھی کوئی نہیں ہے۔

محمل مدھم مسکراہٹ لیے سر جھکائے سن رہی تھی۔

جب میں بارہ سال کی ہوئی تو ابا نے پوچھا کہ میں ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں کہ اماں کے ساتھ؟ میں وقتی طور پر ابا کے ساتھ جانے کے لیے راضی ہو گئی، مگر اس دن ہمایوں مجھ سے بہت لڑا۔ اس نے اتنا ہنگامہ مچایا کہ میں نے فیصلہ بدل لیا۔ چائے کا مگ اس کے دونوں ہاتھوں میں تھا اور وہ کہیں دور کھوئی ہوئی تھی۔

پھر جب ہم بڑے ہوئے اور میں نے قرآن پڑھا تو ہمایوں سے ذرا دور رہنے لگی۔ وہ خود بھی سمجھدار تھا، مجھے زیادہ آزمائش میں نہیں ڈالتا تھا۔ پھر میری اماں کی ڈیتھ ہوئی تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دفعتاً، گاڑی کا ہارن بجا۔ وہ دونوں چونک کر اس طرف دیکھنے لگیں۔ اگلے ہی لمحے گیٹ کھلا اور سیاہ گاڑی زن سے اندر داخل ہوئی۔

چلو تمہارا میاں آ گیا، تم اپنا گھر سنبھالو میں اپنا سامان پیک کر لوں۔ وہ ہنس کر کہتے ہوئے اٹھ کر اندر چلی گئی۔

محمل متذبذب سی بیٹھی رہ گئی۔ وہ گاڑی سے نکل کر اس طرف آ رہا تھا۔ یونیفارم میں ملبوس، کیپ ہاتھ میں لیے تھکا تھکا سا۔ اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔

تو تم میرے انتظار میں بیٹھی ہو، ہوں ؟وہ مسکرا کر کہتا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تو وہ گڑبڑا کر کھڑی ہو گئی۔ گلابی شلوار قمیض میں بھورے بالوں کی اونچی پونی ٹیل، وہ اداس شام کا ایک حصہ لگ رہی تھی۔

وہ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہہ دو کہ تم میرا انتظار نہیں کر رہی تھیں۔

نہیں۔ وہ۔ چائے لاؤں ؟

اونہوں، یہی کافی ہے۔ اس نے محمل کے ہاتھ سے مگ لے لیا۔ ایک گھونٹ بھرا اور مگ لیے دروازے کی طرف بڑھ گیا، پھر جاتے جاتے پلٹا، فرشتے ہے ؟

جی، وہ اندر ہیں۔

اوکے میں شاور لے کر کھانا کھاؤں گا، تم ٹیبل لگا دو۔ وہ کہہ کر دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔

وہ چند لمحے خاموش کھڑی کھلے دروازے کو دیکھتی رہی، وہ دروازہ بند کر کے نہیں گیا تھا، کیا اس کا مطلب تھا وہ اندر آ جائے؟پہلے بھی تو وہ بغیر اجازت اس کی زندگی میں داخل کر دی گئی تھی۔ اب بھی چلی جائے تو کیا مضائقہ ہے ؟

اس نے تلخی سے سر جھٹکا اور کھلے دروازے سے اندر چلی آئی۔

لاؤنج کے سرے پر سیڑھیوں کے قریب فرشتے اور ہمایوں کھڑے تھے۔ وہ اپنے بیگ کا ہینڈل تھامے سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے انگلی سے ٹھوڑی کے نیچے اڑس رہی تھی۔

نہیں بس، اب میں چلتی ہوں، کل کلاس لینی ہے۔

کم از کم کچھ دن تو تمہیں ادھر رہنا چاہیئے۔

وہ دونوں باتیں کر رہے تھے۔ ان کی آواز بے حد مدھم تھی، محمل کو اپنا آپ ادھر بے کار لگا تو وہ سر جھکائے کچن میں چلی گئی۔

بلقیس جا چکی تھی۔ کچن صاف ستھرا پڑا تھا۔ اس نے چولہا جلایا اور کھانا گرم کرنے لگی۔ شاید وہ بھی اس گھر میں بلقیس کی طرح تھی۔ ایک نوکرانی۔

محمل! فرشتے نے کھلے دروازے سے جھانکا۔

محمل نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔ وہ جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔

آپ مت جائیے فرشتے پلیز! وہ بے اختیار روہانسی ہو کر اس کے قریب آئی۔

اوہو، میرا کزن بہت اچھا انسان ہے۔ تم کیوں پریشان ہو رہی ہو پاگل!

اس نے ہولے سے اس کا گال تھپتھپایا۔ محمل چند لمحے اسے دیکھتی رہی، پھر یکایک اس کی بھوری آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔ وہ جھک کر چولہے کو تیز کرنے لگی۔

محمل!کیا ہوا ہے ؟تم مجھے پریشان لگ رہی ہو؟وہ ذرا فکر مند سی اس کے پیچھے آئی۔ محمل کی اس کی طرف پیٹھ تھی، فرشتے اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔

کسی کی شادی ایسے بھی ہوتی ہے جیسے میری ہوئی؟ بہت دیر بعد وہ بولی تو آواز میں صدیوں کی یاس تھی۔ فرشتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہ بولی تو وہ پلٹی۔

فرشتے بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے لگا اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہے۔

کیا؟ وہ گڑبڑا گئی۔

محمل! تم! حیرت کی جگہ خفگی نے لے لی۔

کیا ہوا؟

تم بہت۔ ۔ ۔ بہت نا شکری ہو محمل! بہت زیادہ! وہ جیسے غصہ ضبط کرتے ہوئے تیزی سے مڑ گئی۔

فرشتے رکیں محمل بوکھلا کر اس کے پیچھے لپکی۔ وہ تیزی سے باہر نکل رہی تھی۔ اس نے اسے بازو سے تھاما تو وہ رک گئی چند لمحے۔ کھڑی رہی پھر گہری سانس لے کر اس کی طرف گھومی۔

تمہیں ہمایوں مل گیا محمل!تم اب بھی نا خوش ہو؟ وہ بہت دکھی سی ہو کر بولی تھی۔ محمل نے بے چینی سے لب کچلا۔ فرشتے اسے غلط سمجھ رہی تھی۔

نہیں میں بس اس خوشی کو محسوس کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جسٹ اسٹاپ اٹ! وہ بہت خفا تھیں۔ محمل چپ سی ہو گئی۔ چند لمحے دونوں کے درمیاں خاموشی حائل رہی، پھر فرشتے نے آگے بڑھ کر اس کے دونوں شانوں پر اپنے ہاتھ رکھے اور اسے اپنے بالکل سامنے لیا۔

تم واقعی ناخوش ہو؟

نہیں۔ مگر اس سب سے میرا دل کٹ کر رہ گیا ہے۔

لوگوں کی روح تک کٹ کے رہ جاتی ہے محمل! سب قربان ہو جاتا ہے او پھر بھی راضی ہوتے ہیں اور تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اب بھی شکر نہیں کرتیں ؟اس کی سنہری آنکھوں میں سرخ سی نمی ابھری تھی۔ اس کے ہاتھ ابھی تک محمل کے کندھوں پر تھے۔

نہیں میں بہت شکر کرتی ہوں، مگر بس سب کچھ بہت عجیب لگ رہا ہے جیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بس کرو محمل!اس نے تاسف سے سر جھٹک کر اپنے ہاتھ ہٹائے اور تیزی سے بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی۔ اسے یونہی شک سا گزرا کہ وہ رو رہی تھی۔

وہ دل مسوس کر رہ گئی۔ اس نے شاید فرشتے کو ناراض کر دیا تھا، لیکن وہ ٹھیک کہتی تھی، وہ واقعی ناشکری کر رہی تھی۔ صرف زبان سے الحمد للہ کہنا کافی نہیں ہوتا، اصل اظہار تو رویے سے ہوتا ہے۔

کدھر گم ہو؟

آواز پر وہ چونکی۔ ہمایوں کاؤنٹر سے ٹیک لگائے بغور اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ جھجک سی گئی۔

فرشتے چلی گئی؟وہ کاؤنٹر سے ہٹ کر فریج کی طرف بڑھا اور اسے کھول کر پانی کی بوتل نکالی۔

جی۔

فرشتے بہت اچھی ہے۔ وہ ہے نا؟اس نے ڈھکن کھول کر بوتل منہ سے لگائی۔

بیٹھ کر پئیں پلیز۔ وہ خود کو کہنے سے روک نہ سکی۔ وہ بوتل منہ سے ہٹا کر ہنس دیا۔

فرشتے نے تمہیں بھی اچھی لڑکی بنا دیا ہے۔

تو کیا پہلے میں بری تھی؟وہ برا مان گئی۔

ارے نہیں تم ہمیشہ سے اچھی تھیں۔ مسکرا کر کہتے اس نے پھر بوتل لبوں سے لگا لی۔ محمل نے دیکھا وہ بیٹھا نہیں تھا، اب بھی کھڑا ہو کر پی رہا تھا۔ خود کو بدلنا بھی آسان نہیں ہوتا مگر دوسرے کو بدلنا بہت ہی کٹھن ہوتا ہے۔

اچھا یہ بتاؤ تمہارا دل کیوں کٹ کر رہ گیا؟

اف! وہ بری طرح چونکی۔ وہ تو شاور لینے گیا تھا کب آ کر سب سن لیا، اسے تو پتہ ہی نہیں چلا تھا۔

وہ۔ در اصل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ گھر سے کسی نے کال نہیں کی تو میں۔

وہ کیوں کریں گے کال؟ان کی اس شادی میں مرضی شامل نہیں تھی۔ فرشتے نے بہت مشکل سے انہیں راضی کیا تھا، وہ اس بات پر ابھی تک غصہ ہیں، آئی تھنک۔

وہ یکدم ٹھٹک گئی۔

فرشتے نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔

اس نے کتنی مشکل سے ان کو راضی کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم جانتی ہو!وہ پھر بوتل سے گھونٹ بھر رہا تھا۔

وہ دم بخود سی اسے دیکھ رہی تھی۔ کیا وہ کچھ نہیں جانتا؟اسے نہیں معلوم کہ کیسے ان دونوں نے فواد کے دیئے کاغذ پر دستخط کیے تھے ؟فرشتے نے اسے کچھ نہیں بتایا؟

مگر کیوں ؟

تم فکر مت کرو ہم نے یہ شادی ان سے زبردستی کروائی ہے، ان کو کچھ عرصہ ناراض رہنے دو۔ ڈونٹ وری۔

تو وہ واقعی کچھ نہیں جانتا۔ وہ بتائے یا نہیں ؟اس نے لمحے بھر کو سوچا اور پھر فیصلہ کر لیا۔ اگر فرشتے نے کچھ نہیں بتایا تو وہ کیوں بتائے ؟ چھوڑو جانے دو۔

صرف ان کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے یا آپ کے ساتھ بھی؟

تو تم اس لیے پریشان تھیں ؟اس نے مسکرا کر سر جھٹکا۔ تمہیں لگتا ہے کوئی ہمایوں داؤد کو مجبور کر سکتا ہے ؟

مجبوراً قائل تو کر سکتا ہے !

نہیں کر سکتا۔ قطعاً نہیں۔

پھر آپ نے۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے کیوں شادی کی مجھ سے ؟

اگر تم چاہتی ہو کہ میں تم سے کہوں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا تھا وغیرہ وغیرہ تو میں ایسا نہیں کہوں گا، کیونکہ واقعی مجھے تم سے کوئی طوفانی قسم کی محبت نہیں تھی۔ ہاں تم مجھے اچھی لگتی ہو اور میں نے اپنی مرضی سے تم سے شادی کی ہے اور میں اس فیصلے پر بہت خوش ہوں۔

اس کا انداز اتنا نرم تھا کہ وہ آہستہ سے مسکرا دی۔

دل پر لدا بوجھ ہلکا ہو گیا۔

یعنی آپ خوش ہیں ؟

آف کورس محمل! ہر بندہ اپنی شادی پر خوش ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر میں بھی پریکٹیکل انسان ہوں۔ لمبی بات نہیں کرتا اور مجھے بے کار کی مبالغہ آرائی نہیں پسند۔ میں کوئی دعویٰ کروں کا نہ وعدہ۔ یہ تم وقت کے ساتھ دیکھ لو گی کہ تم اس گھر میں خوش رہو گی۔

وہ جیسے کھل کر مسکرا دی۔ اطمینان و سکون اس کے رگ و پے میں دوڑ گیا تھا۔

تم اس پر کچھ نہیں کہو گی؟

میں کیا کہوں ؟

میں بتاؤں ؟

جی بتائیے۔ وہ بہت دھیان سے متوجہ ہوئی۔

سالن جل رہا ہے۔

اوہ۔ وہ بوکھلا کر پلٹی۔ دیگچی سے دھواں اٹھنے لگا تھا۔ مدھم سی جلنے کی بو سارے میں پھیل رہی تھی۔ اس نے جلدی سے چولہا بند کیا۔

ویلکم ٹو پریکٹیکل لائف!وہ مسکرا کر کہتا باہر نکل گیا۔ وہ گہری سانس لے کر دیگچی کی طرف متوجہ ہوئی۔

سالن جل گیا تھا مگر اس کے اندر ہر سو بہار چھا گئی تھی۔ وہ مسکراہٹ دبائے دیگچی اٹھا کر سنک کی طرف بڑھ گئی۔

٭٭٭



محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل! وہ نیچے لاؤنج میں کھڑا مسلسل سر اونچا کیے اسے آوازیں دے رہا تھا۔ جلدی کرو دیر ہو رہی ہے۔

آ رہی ہوں بس ایک منٹ۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے لپ گلوز اٹھایا اور سامنے آئینے میں دیکھتے ہوئے اسے لپ اسٹک پر لگایا، لپ اسٹک چمک اٹھی تھی۔

محمل! وہ پھر چلایا تھا۔ ۔ ۔ ۔

بس آ گئی۔ اس نے ایک عجلت بھری نظر سنگھار میز کے آئینے میں جھلکتے اپنے وجود پر دالی۔ ٹی پنل بنارسی ساڑھی میں ملبوس، لمبے سیدھے بال کمر پر گرائے کانوں میں چمکتے ڈائمنڈ کے ائیر رنگز، گردن سے چپکا نازک ہیروں کا سیٹ جو ہمایوں نے اسے تیمور کی پیدائش پر دیا تھا اور کلائی میں وائٹ گولڈ کے موتی جڑے کنگن، ساتھ مناسب سا میک اپ۔ وہ مطمئن ہو گئی۔ بیڈ پر لیٹے تیمور کو اٹھایا اور باہر نکل آئی۔

تم اتنی دیر کر رہی ہو کیا ارادہ بدل گیا؟

آخری فقرہ کہتے ہوئے وہ زیر لب مسکرایا۔ وہ جو تیمور کو اٹھائے سہج سہج سیڑھیاں اتر رہی تھی مسکرا اٹھی۔

ہرگز نہیں۔ آخر کو اپنے میکے جا رہی ہوں، ارادہ کیوں بدلوں گی؟وہ سیڑھیاں اتر آئی۔ وہ مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔ بلیک ڈنر سوٹ میں ملبوس بالوں کو جیل سے پیچھے کیے وہ بہت شاندار لگ رہا تھا۔

اچھے لگ رہے ہیں۔

تم بھی!

بس اتنی سی تعریف؟اس کا چہرہ اتر گیا۔

شادی کے ایک سال بعد اب اور میں کیا کہوں ؟

وہ دونوں ساتھ ساتھ باہر آئے تھے۔

ایک سال گزر گیا ہمایوں پتا ہی نہیں چلا۔ ہے نا؟

وہ فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے کھو سی گئی تھی۔

ہاں وقت بہت جلدی گزر جاتا ہے۔ وہ گاڑی سڑک پر ڈال کے بہت دیر بعد بولا تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہے۔

ہوں۔ محمل نے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں۔

ایک سال گزر بھی گیا، یوں جیسے پتا ہی نہ چلا ہو۔

پورے ایک برس پہلے وہ بیاہ کے اس گھر میں آئی تھی، آج ہمایوں نے شادی کی سالگرہ پر اسے اسی گھر لے جانے کا تحفہ دیا تھا۔

پورا سال نہ انہوں نے اس کی خبر گیری کی اور نہ ہی محمل نے فون کیا تھا۔ شروع میں اسے غصہ تھا، پھر آہستہ آہستہ وہ غم میں ڈھل گیا اور اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب اسے اپنے فرائض یاد آئے۔ صلہ رحمی کے احکامات یاد آئے تو اس نے تہیہ کر لیا کہ اپنے رشتے داروں سے پھر سے تعلق جوڑے گی۔ پہلے بھی یہ خیال کئی بار آیا، مگر ہمایوں جانے پر راضی نہ ہوتا تھا، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ فواد کا کیس اندر ہی اندر دبتا چلا گیا اور پھر ہمایوں نے ہی ایک دن اسے بتایا کہ فواد ملک سے باہر چلا گیا ہے۔ شاید آسٹریلیا۔ وہ بھی کسی حد تک سکون میں آ گئی، نہ جانے کیوں۔

ہفتہ پہلے ہمایوں کو کہیں آغا کریم ملے، اس نے محمل کو بتایا کہ وہ بہت خوشدلی سے ملے اور اسے گھر آنے کی دعوت دی۔ منافقت دنیاداری اور پھر اب وہ کس چیز کا بغض چہرے پر سجائے رکھتے ؟فواد تو باہر چلا گیا اور جائیداد انہیں مل گئی، پھر ہمایوں داؤد جیسے بندے کو داماد کہنے میں کیا مضائقہ؟بلکہ فخر ہی تھا۔

ایک تبدیلی اور بھی آئی تھی۔ فرشتے اسکاٹ لینڈ چلی گئی تھی۔ اسے قرآن سائنسز میں میں پی ایچ ڈی کرنا تھی۔ ، خوب سارا علم حاصل کرنا تھا، پھر اس کا تھیسز اور۔ ۔ ۔ ۔ بہت کچھ۔ وہ چلی گئی تو مدرسہ میں اس کی جگہ کسی اور نے لے لی۔

اور رہی محمل تو وہ آج بھی تیمور کو لے کے فجر کی نماز کے ساتھ مدرسہ جاتی تھی۔ ۔ اس کے علم الکتاب کا ابھی آدھا سال رہتا تھا۔

٭٭٭



گاڑی رکی تو وہ چونک کر حال میں آئی۔ وہ آغا ہاؤس کے پورچ میں کھڑی تھی۔

وہ تیمور کو اٹھائے باہر نکلی، اور گم صم سی ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں۔

لان کے کونے میں مصنوعی آبشار بن چکی تھی، گھر کا پینٹ بدل چکا تھا، پورچ کے ٹائلز بھی نئے اور قیمتی تھے۔

لاؤنج کے دروازے پر مہتاب تائی اور آغا جان کھڑے تھے۔ محمل اور ہمایوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر جیسے گہری سانس لے کر ان کی طرف بڑھے۔ شال اس نے ایک کندھے پر ڈال لی تھی۔ بھورے سیدھے بال دونوں کانوں کے پیچھے اڑسے تھے۔ پورچ کی مدھم لائٹ میں بھی اس کے جگ جگ کرتے ہیرے چمکے تھے۔

محمل! یہ تم ہو؟کیسی ہو؟تائی مہتاب پر تپاک استقبال کے ساتھ آگے لپکی تھیں۔

محمل ! میری بیٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آغا جان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔

اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔ شاید انہیں احساس ہو گیا تھا کہ انہوں نے اس کے ساتھ کتنا ظلم کیا۔

دونوں چچیاں اور دوسری لڑکیاں بھی وہیں آ گئیں۔ وہ ان کے ساتھ ان کے سوالوں کا جواب دیتی اندر آئی تھی۔

ایک تو ہمایوں کی شاندار پرسنلٹی، اوپر سے محمل کا بدلا، سجا سنورا، دولت اور آسائشوں کی فراوانی ظاہر کرتا سراپا۔ فضہ نے تو ازلی میٹھے انداز میں تعریف کی، البتہ ناعمہ کے تو ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ وہ اپنی جلن چھپا نہ پا رہی تھی۔

لاؤنج کا بھی حلیہ بدلا ہوا تھا۔ قیمتی فانوس، پردے، بیش قیمت ڈیکوریشن پیسز، گو کہ پہلے بھی وہاں ہر چیز قیمتی تھی، مگر اب تو جیسے پیسے کی ریل پیل ہو گئی تھی۔ ایک ایک کونا چمک رہا تھا۔ شاید اب انہیں کھلا اختیار جو مل گیا تھا۔

سدرہ باجی کدھر ہیں اور آرزو؟صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے متلاشی نگاہ ادھر ادھر دوڑائی۔

سدرہ کی تو دسمبر میں شادی ہو گئی، وہ کینیڈا چلی گئی۔ تائی مہتاب نے فخر سے بتایا۔ چہرے پر اسے نہ بلانے کی کوئی ندامت نہ تھی۔ اس کا دل اندر ہی اندر ڈوب کر ابھرا۔ وہ غلط تھے ان کو کوئی شرمندگی نہ تھی بلکہ نعمتوں کی بے پناہ بارش نے انہیں مزید مغرور کر ڈالا تھا۔

مہرین کا نکاح پچھلے ماہ ہوا ہے، لڑکا ڈاکٹر ہے، انگلینڈ میں ہوتا ہے، اسی سال شادی کریں گے۔

اچھا ماشاءاللہ! وہ دل سے خوش ہوئی مگر الجھن بہرحال تھی۔ انہوں نے اس کے ساتھ کتنا ظلم کیا، پھر بھی ان کی خوشیوں میں اضافہ کیوں ہوتا چلا گیا؟

ندا کی بھی منگنی ہو گئی۔ فضہ چچی کیوں پیچھے رہتیں۔ وہ بھی ڈاکٹر سے، سعودیہ کی رائل فیملی کے ڈاکٹرز میں سے ہے۔ سامیہ کی بھی آج کل بات چل رہی ہے۔

اور آرزو؟یونہی اس کے لبوں سے پھسل پڑا۔ نگاہ سب سے الگ بیٹھی ناعمہ چچی پر جا پڑی۔ ان کی کوفت میں جیسے اضافہ ہوا تھا۔

رشتوں کی لائن لگی ہے میری بیٹی کے لیے، ہر دوسرے دن کسی شہزادے کا رشتہ آ جاتا ہے۔ وہ ہاتھ نچا کر بہت چمک کر بولی تھیں۔

مگر وہ مانے بھی تو۔ فضہ چچی نے دھیمی سرگوشی کی، آواز یقیناً ناعمہ چچی تک نہیں گئی تھی۔ مخاطب محمل ہی تھی، جو سن کر ذرا سی چونکی تو فضہ چچی معنی خیز انداز میں مسکرائیں۔

آرزو باجی کدھر ہیں ؟نظر نہیں آ رہیں ؟اس نے دوسری دفعہ پوچھا تو ناعمہ چچی اٹھیں اور پیر پٹختی ہوئی وہاں سے نکل گئیں۔

انہیں کیا ہوا؟اس نے حیرت سے تائی مہتاب کو دیکھا، جنہوں نے استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ سر کو جھٹکا۔

بیٹی کا دل آ گیا کسی پہ، اب مان کے نہیں دے رہی۔

اچھا! اسے حیرت ہوئی۔ اسی پل سیڑھیوں سے اترتے ہوئے کوئی رکا۔ آہٹ پر محمل نے نگاہ اٹھائی، اور بے اختیار شال کا پلو سر پر پلو ڈال لیا۔

حسن مبہوت سا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ کف کا بٹن بند کرتے اس کے ہاتھ وہیں رک گئے تھے۔

السلام علیکم حسن بھائی۔ وہ خوشدلی سے مسکرائی تو وہ چونکا، پھر سر جھٹک کر آخری زینہ اترا۔

وعلیکم السلام، کیسی ہو محمل، کب آئیں ؟وہ ان کی طرف چلا آیا تھا۔ یہ تمہارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹا ہے یا بیٹی؟

بیٹا ہے، تیمور۔ اس نے جھک کر اسے پیار کیا، پھر سیدھا ہوا۔

اکیلی آئی ہو؟

ارے نہیں، ہمایوں اس کے ساتھ آیا ہے۔

تمہارے آغا جان کے ساتھ ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہے۔ جاؤ مل لو۔ تائی مہتاب کے کہنے پر وہ سر ہلاتا ڈرائنگ روم کی طرف بڑھا۔

حسن بھائی کی کہیں منگنی وغیرہ نہیں کی چچی؟وہ سادہ سے لہجے میں فضہ سے مخاطب ہوئی۔ اسے لگا اس کا جوگ لیے ابھی تک بیٹھا ہو گا۔

ارے نہیں، حسن کی تو شادی بھی ہو گئی۔ میری بھانجی طلعت یاد ہے تمہیں ؟اسی سے۔ آج کل وہ میکے گئی ہوئی ہے۔ سامیہ سامیہ، انہوں نے بیٹی کو پکارا۔ جاؤ حسن کی شادی کا البم لے آؤ۔

محمل کو واقعتاً جھٹکا لگا تھا مگر پھر وہ سنبھل گئی۔ وہ جوگ لینے والا بندہ تو نہ تھا، کمزور مرد جو کبھی اس کے لیے مضبوط سہارا نہ بن سکتا، لیکن بھلا اسے اس کا تو سہارا چاہیئے بھی کیوں تھا؟کبھی بھی نہیں۔ اس کی تو حسن کے ساتھ کبھی بھی کوئی جذباتی وابستگی نہ رہی تھی۔ سو افسوس بھی نہ تھا۔

پھر انہوں نے اسے حسن اور سدرہ کی شادیوں کے البم دکھائے۔ وہ تو سجاوٹ اور دھوم دھام دیکھ کر حق دق رہ گئی۔ دلہنوں کے عروسی لباس اور زیورات تو ایک طرف محض ایونٹ ڈیزائنگ پر پیسہ پانی کی طرح لٹایا گیا تھا۔ انہیں محمل نے وہ سب خود دیا تھا، اب بھلا کیوں وہ اس کا پر تپاک استقبال نہ کرتے ؟

ڈنر بہت پر تکلف تھا۔ آغا جان اور ہمایوں کے انداز سے لگ رہا تھا ان کی گہری دوستی رہی ہے۔ کون کہہ سکتا تھا، کبھی آغا جان اس شخص کا نام نہیں سن سکتے تھے ؟

بس اس کے ایک دستخط نے ساری دنیا بدل دی تھی۔ پھر بھی وہ خوش تھی۔ اسے میکے کا مان جو مل گیا تھا۔ چاہے منافقت کا ملمع اوڑھے، جھوٹا ہی سہی، مگر مان تو تھا نا۔

بس چند لمحوں کے لیے وہ تیمور کا بیگ لینے گاری تک آئی تھی اور تب اس نے لان میں کرسی پر بیٹھی آرزو کو دیکھا تو رک گئی۔ وہ بھی اسے دیکھ چکی تھی، سو تیزی سے اٹھ کر اس کے پاس چلی آئی۔

بہت خوب مسز ہمایوں ! خوب عیش کر رہی ہو۔

اس کے قریب سینے پر بازو لپیٹے کھڑی، وہ سر سے پاؤں تک اس کا جائزہ لیتے بہت طنز سے بولی تھی۔ اس نے بمشکل خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا۔

اللہ کا کرم ہے آرزو باجی! ورنہ میں اس قابل کہاں تھی؟

قابل تو تم خیر اب بھی نہیں ہو، یہ تو اپنی اپنی چالاکی کی بات ہوتی ہے۔

مجھے چالا کیاں آتی ہوتیں تو اس گھر سے ایسے ہی رخصت ہوتی جیسے سدرہ باجی ہوئیں۔

اوہ ڈونٹ پرینٹنڈ ٹو بی انوسینٹ۔ ( زیادہ معصوم بننے کی کوشش نہ کرو) وہ تیزی سے جھڑک کر بولی۔

تم جانتی تھی کہ ہمایوں صرف اور صرف میرا ہے، پھر بھی تم نے اس سے شادی کی۔ تمہیں لگتا ہے میں تمہیں یونہی چھوڑ دوں گی؟

یہ ہمایوں آپ کے کب ہو گئے آرزو باجی؟

نام تک تو آپ ان کا جانتی نہیں تھیں۔ وہ بھی مجھ سے ہی پوچھا تھا۔

اپنی چھوٹی سی عقل پر زیادہ زور نہ دو محمل ڈئیر۔

اس نے انگلی سے اس کی تھوڑی اٹھائی۔ اور یاد رکھنا آرزو ایک بار کسی کو چاہ لے تو پھر اس کو حاصل کر کے ہی چھوڑتی ہے۔

کیوں ؟آرزو خدا ہے کیا؟اس کے اندر غصہ ابلا تھا۔ بے اختیار اس نے اپنی ٹھوڑی تلے سے اس کی انگلی ہٹائی۔

یہ تو تمہیں وقت بتائے گا کہ کون خدا ہے اور کون نہیں۔ وہ تمسخرانہ انداز میں کہتی مڑی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی اندر چلی گئی۔

عجیب لڑکی ہے یہ، کسی کے شوہر پر حق جما رہی ہے۔ اونہہ! وہ غم و غصے سے کھولتی ہوئی اندر آ گئی۔

٭٭٭



تمہاری کزن آرزو کے ساتھ کوئی دماغی مسئلہ ہے کیا؟واپسی پر ڈرائیو کرتے ہوئے ہمایوں نے پوچھا تھا۔ وہ بری طرح چونکی۔

کیوں ؟کچھ کہا اس نے ؟اس کا دل ایک دم ڈر سا گیا۔

ہاں عجیب سی باتیں کر رہی تھی۔

آپ کو کب ملی؟لاؤنج میں تو آئی ہی نہیں۔

پتا نہیں، عجیب طریقے سے سب مردوں کے درمیان آ کر بیٹھ گئی، اور مجھ سے پے در پے سوالات شروع کر دئیے۔ بہت آکورڈ لگ رہا تھا مگر اس کے باپ کو تو فرق ہی نہیں پڑا۔

پھر؟وہ دم بخود سی سن رہی تھی۔

پھر حسن کو برا لگا تو اس نے اسے جھڑکا کہ اندر جاؤ، بٹ شی واز لائیک کہ میں تمہاری نوکر ہوں جو اندر جاؤں، عجیب سی سچویشن بن گئی تھی۔ میں تو فون کا بہانہ کر کے اٹھ گیا، واپس آیا تو وہ نہ تھی۔ کوئی مسئلہ ہے اس کے ساتھ؟

پتا نہیں وہ لب کچل کر رہ گئی۔

ایک بات کہوں محمل!

ہوں کہیئے۔

تم یہ مت سمجھنا کہ میں لالچی ہوں مگر حق حق ہوتا ہے۔ تم نے دیکھا وہ لوگ کیسے تمہاری جائیداد پر عیش کر رہے تھے۔ تمہیں ان سے اپنا حصہ مانگنا چاہیئے۔

رہنے دیں مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی، ہمایوں کو کیسے بتاتی کہ اس کے لیے اپنا حق وہ بہت پہلے چھوڑ چکی ہے۔ اگر فرشتے نے چھپایا تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو گی۔

وہ اندر سے ایک دم ہی بہت افسردہ ہو گئی تھی۔ سو بیگ میں رکھا چھوٹا قرآن نکالا۔ جس کے سفید کور پر م لکھا تھا۔

میم یہ ادھر کیوں لکھا ہے ؟وہ ہر دفعہ قرآن کھولنے پر اپنا لکھا م پڑھ کر سوچتی اور پھر یاد نہ آنے پر شانے اچکا کر آگے پڑھنے لگتی۔ اس نے صبح کی تلاوت پر لگائے گئے بک مارک سے کھولا۔ سب سے اوپر لکھا تھا۔

اور اس نے عطا کیا تم کو ہر اس چیز سے جو تم نے اس سے مانگی تھی۔ اور اگر تم شمار کرو اللہ کی نعمت کو، اسے تم شمار نہیں کر سکتے۔ بے اختیار اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

کیوں مسکرا رہی ہو؟وہ ڈرائیو کرتے ہوئے حیران ہوا تھا۔

نہیں، نہیں اس کے دل کی تسلی ہو گئی تھی، سو قرآن بند کر کے رکھنے لگی۔ اسے واقعی ہر وہ چیز مل گئی تھی جو کبھی اس نے مانگی تھی۔

بتاؤ نا۔

اصل میں میرے لیے بڑی پیاری آیت اتاری تھی اللہ تعالیٰ نے وہی پڑھ کر ان پر بہت پیار آیا تھا۔ وہ سر جھٹک کے ہنس دیا۔

ہنسے کیوں ؟

کم آن محمل! اٹس آل ان یور مائنڈ!

کیا! وہ حیران ہوئی اور الجھی بھی۔

محمل! وہ آیت تمہارے لیے نہیں تھی، یہ الہامی کتاب ہے، اوکے اتنا casually ٹریٹ مت کرو اسے۔ یہ قرآن پاک ہے۔ اس میں نماز روزے کے احکام ہیں۔ اٹس ناٹ اباؤٹ یو۔ اس نے موڑ کاٹا۔

کھلی شاہراہ رات کے اس پہر سنسان پڑی تھی۔

وہ سکتے کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

تم دیکھو محمل! ایک ہی تصویر کو ہر شخص اپنی زاویے سے دیکھتا ہے، مثلاً نقاد اس کی خامی ڈھونڈے گا، شاعر اس کے حسن میں کھوئے گا، سائنس دان کسی اور طرح اسے دیکھے گا۔ اٹس آل ان یور مائنڈ۔

نہیں ہمایوں !قرآن میں وہی کچھ ہوتا ہے جو میں سوچتی ہوں۔

اس لیے تم وہی پڑھنا چاہتی ہو۔ ۔ تمہیں ہر چیز اپنے سے ریلیٹڈ لگتی ہے کیونکہ تم خود سے ریلیٹ کرنا چاہتی ہو۔ محمل! یہ سب تمہارے ذہن میں ہے، یہ الہامی کتاب ہے اس میں تمہارا ذکر نہیں ہے۔ ٹرائی ٹو انڈر اسٹینڈ۔

دفعتاً اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اس نے ڈیش بورڈ پر رکھا موبائل اٹھایا، چمکتی اسکرین پر اپنا نمبر دیکھا، اور پھر بٹن دبا کر کان سے لگا لیا۔

جی رانا صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ محو گفتگو تھا۔

محمل نے گم صم سی نگاہ گود میں سوئے تیمور پر ڈالی اور پھر ہاتھوں میں پکڑے قرآن کو دیکھا جس کو وہ ابھی بیگ میں رکھنے ہی لگی تھی۔ اسے لگا ہمایوں کی بات نے اس کی جان ہی نکال لی تھی۔ روح کھینچ لی تھی۔ وہ لمحے بھر میں کھوکھلی ہو گئی۔ اس کا دل کھوکھلا ہو گیا، خیال کھوکھلا ہو گیا۔ امید کھوکھلی ہو گی۔

تو کیا اتنا عرصہ وہ یہ سب تصور کرتی آئی تھی۔ وہ وہی پڑھتی تھی جو وہ پڑھنا چاہتی تھی۔ اسے وہی دکھائی دیتا جو اس کی خواہش ہوتی ؟وہ ہر چیز کا من چاہا مطلب نکالتی تھی؟

اس کا دل جیسے پاتال میں گرتا گیا۔ ہمایوں ابھی تک فون پر مصروف تھا مگر اسے اس کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ سب آوازیں جیسے بند ہو گئی تھیں۔ وہ گم صم سی ہاتھوں میں پکڑے قرآن کو دیکھے گئی، پھر درمیاں سے کھول دیا۔ دو صفحے سامنے روشن ہو گئے۔

پہلے صفحے کے وسط میں لکھا تھا۔

بے شک (اس قرآن) میں ذکر ہے تمہارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس سے آگے پڑھا ہی نہیں گیا۔ وہ جیسے پھر سے جی اٹھی تھی۔

ساری اداسی، ویرانی ہوا ہو گئی۔ دل پھر سے منور ہو گیا۔ اب اسے کسی کا نظریہ یا رائے خود پر مسلط نہیں کرنا تھی۔ اسے اس کا جواب نظر آ گیا تھا۔ دلیل مل گئی تھی۔

مسکراہٹ لبوں پر بکھیرے اس نے واپس سنبھال کر قرآن بیگ میں رکھا اور زپ بند کی، پھر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ اسے ہمایوں سے بحث نہیں کرنا تھی۔ اسے کچھ نہیں سمجھانا تھا۔ وہ اسے سمجھا ہی نہیں سکتی تھی کہ اکثر لوگ نہیں جانتے، نہیں مانتے۔

٭٭٭



صبح نئی سی اتری تھی۔ چڑیاں چہچہاتے ہوئے اپنی منزلوں کی طرف اڑ رہی تھیں۔ رات بارش کھل کے برسی تھی، سو سڑک ابھی تک نم تھی۔ سیاہ بادل اب نیلی چادر سے قدرے سرک گئے تھے اور موسم خاصا خوشگوار ہو گیا تھا۔

وہ گیٹ پار کر کے باہر نکلی تو درختوں کی باڑ کے ساتھ کاشف سائیکل دوڑاتا آ رہا تھا۔ وہ تیمور کی پرام دھکیلتی سڑک پر آگے بڑھنے لگی۔ اس کا رخ کاشف کی طرف تھا۔

محمل باجی السلام علیکم۔ کاشف اسے دیکھ کر چہک اٹھا۔ تیزی سے سائیکل بھگاتا اس کی طرف آیا۔ وہ کالونی کے ان بچوں میں سے تھا جنہیں شام کو محمل اپنے گھر میں جمع کر کے ناظرہ پڑھاتی تھی۔

وعلیکم السلام۔ صبح ہی صبح کدھر جا رہے ہو کاشف؟ وہ رک گئی تھی۔

ہمارے اسکول کی چھٹیاں ہو گئی ہیں نا، تو صبح فارغ ہوتا ہوں۔ اس نے اپنی الٹی پی کیپ سیدھی کی۔ اب وہ سائیکل روک کر اس کے ساتھ کھڑا تھا۔

حنان اور راحم وغیرہ کی بھی؟

جی باجی، سب آف ہو گیا ہے۔

تو پھر یوں نہ کریں کہ آئندہ فجر کے بعد کلاس رکھ لیں ؟

باجی! میں تو آ جاؤں گا مگر ارحم وغیرہ۔ ۔ ۔ اس نے متذبذب سے اپنے ہمسائے کا نام لیا۔

آپ ان سے خود ہی پوچھ لیجئے گا۔

کاشف بائیک دوڑاتا دور نکل گیا۔

اس کا ارادہ سامنے مدرسے جانے کا تھا، مگر پھر نکڑ پر چھلی والا نظر آ گیا۔

بارش کے بعد کا ٹھنڈا سہانا موسم اور بھنے ہوئے دانے۔ وہ رہ نہ سکی اور پرام دھکیلتی نکڑ پر کھڑی ریڑھی کی طرف بڑھ گئی۔

سڑک سنسان پڑی تھی۔ چھلی والا خاموشی سے سر جھکائے ریت گرم کر رہا تھا۔ وہ پرام دھکیلتی آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہی تھی۔ اسے یاد آیا اس نے آج صبح کی دعائیں نہیں پڑھی تھیں۔ حالانکہ روز پابندی سے صبح و شام کی دعائیں پڑھتی تھی، مگر آج جانے کیسے رہ گئیں۔ وہ ہولے ہولے تسبیح پڑھنے لگی۔ تب ہی فاصلہ سمٹ گیا اور وہ ریڑھی کے پاس پہنچی تو دھیان بٹ گیا۔

ایک چھلی بنا دو، اور ساتھ میں پانچ روپے کے دانے بھی ذرا زیادہ ہو۔ اس کی تسبیح ادھوری رہ گئی، بوڑھا چھلی والا سر ہلا کہ چھلی بھوننے لگا۔ وہ محویت سے اسے بھوننے دیکھنے لگی۔

ذہن کے کسی کونے میں اس دن آرزو کی کہی گئی باتیں گونجنے لگی وہ بار بارا نہیں ذہن سے جھٹکنا چاہتی مگر یونہی ایک دھڑکا سا دل کو لگ گیا تھا۔ بس ایسے ہی اس کا دل گھبرا سا جاتا۔ وہ نیند میں ڈر جاتی جانے کیا بات تھی۔

دس روپے ہوئے بی بی۔

بوڑھے شخص کی آواز پر وہ چونکی، پھر سر جھٹک کر ہاتھ میں پکڑا پاؤچ کھولا۔ اندر سے پیسے اور چند کاغذ، بل وغیرہ رکھے تھے۔ اس نے دس کا نوٹ نکالنا چاہا تو ایک کاغذ جو نوٹ کے اوپر اڑس کر رکھا گیا تھا، اڑ کر دور سڑک پر جا گرا۔

اوہ ایک منٹ۔ وہ دس کا نوٹ اس کے ہاتھ پر رکھ کر تیمور کی پرام وہیں چھوڑے دوڑتی ہوئی گئی جہاں سڑک کے وسط میں مڑا تڑا سا کاغذ پڑا تھا۔ اس نے جھک کر کاغذ اٹھایا اور اسے کھول کر پڑھا، پھر تحریر دیکھ کر مسکرا دی۔ اگلے ہی پل سامنے سڑک کے کونے سے آتی گاڑی کی آواز آئی۔ اس نے گھبرا کر سر اٹھایا۔ گاڑی تیزی سے اس کی طرف بڑھی تھی۔ وہ بھاگنا چاہتی تھی، ایک ہی جست میں اڑ کر سڑک پار کرنا چاہتی تھی، مگر موقع نہ ملا۔

تیز ہارن کی آواز تھی اور کوئی چیخ رہا تھا۔ اس کے پاؤں حرکت کرنے سے انکاری تھے۔ اس نے گاڑی کو خود سے ٹکراتے دیکھا، پھر اس نے خود کو پورے قد سے گرتے دیکھا، شور تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت شور اس نے اپنی چیخیں سنیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے سر سے نکل کے سڑک پر بہتے خون کو دیکھا بہتا ہوا لال خون بے حد لال۔

اس کی کلائی وہیں اس کے چہرے کے ساتھ بے دم سی گر گئی اس نے ہاتھ کھول دیا۔ مڑا تڑا سا کاغذ نکل کر سڑک پر لڑھک گیا۔ اس نے اردگرد لوگوں کو اکٹھے ہوتے دیکھا۔ کہیں دور بچہ رو رہا تھا۔ بہت اونچا حلق پھاڑ پھاڑ کر دور۔ ۔ ۔ بہت دور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جو آخری بات اس کے ڈوبتے ذہن نے سوچی تھی، وہ یہ تھی کہ آج اس نے صبح کی دعائیں نہیں پڑھیں تھیں۔

٭٭٭



اس کا ذہن گھپ اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔ تاریکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیاہ کالی مہیب سی تاریکی، بنا رنگ کے، بنا شور کے، خاموشی سی تاریکی۔ اندھیرے پر اندھیرا، پردے پر پردہ۔

اس کا ذہن زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو چکا تھا۔ پانی پر بہہ رہا تھا۔ بادلوں پر تیر رہا تھا۔

زمین و آسمان کے درمیان، نہ اوپر نہ نیچے، ہوا کے بیچ کہیں معلق، کہیں درمیان میں کسی تیرتے بادل پہ۔

پھر آہستہ آہستہ تیرتے بادل کو قرار آیا۔ ذرا سا جھٹکا لگا اور بادل کسی بلبلے کی طرح پھٹ کر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ اور ہر طرف روشنی بھرتی گئی، تیز پیلی روشنی اس نے ہولے سے آنکھیں کھولیں۔ دھندلا سا ایک منظر سامنے تھا۔ سفید دیواریں، سفید چھت، چھت سے لٹکتا پنکھا، اس کے تین پر تھے، ہولے ہولے وہ ایک دائرے میں گھوم رہے تھے۔ دائرے دائرے بار بار دائرے۔

وہ کتنی ہی دیر یک ٹک چھت کو دیکھے گئی۔ وہ کون تھی؟کدھر تھی؟کیوں تھی؟وہ خالی خالی نگاہوں سے چھت کو تکتی رہی۔ پھر یکایک ادھر ادھر دیکھنا چاہا۔

اردگرد سفید دیواریں تھیں۔ قریب ہی ایک کاؤچ رکھا تھا۔ تپائی پر سوکھے پھولوں کا گلدستہ سجا تھا۔ اس نے کہنیوں کے بل اٹھنا چاہا، مگر جسم جیسے بے جان سا ہو گیا تھا یا شاید وہ بے حد تھک چکی تھی۔ اس نے کوشش ترک کر دی اور اپنے بازوؤں کو دیکھا، جن میں بے شمار نالیاں سی پیوست تھیں۔ ہر نالی کسی نا کسی مشین کے سرے پر جا رکتی تھی۔ وہ شاید اسپتال کا کمرہ تھا اور وہ شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ یقیناً محمل ابراہیم تھی۔

خود کو کیسے بھولا جا سکتا ہے بھلا؟آہستہ اہستہ ساری یاد داشتیں ذہن کے گوشے سے ابھرنے لگیں۔ ایک ایک بات ایک ایک چہرہ اسے یاد آتا گیا۔ تھک کر اس نے آنکھیں موند لیں۔ آخری بات بھلا کیا ہوئی تھی؟کس چیز نے اسے ادھر اسپتال پہنچایا؟شاید کوئی ایکسیڈنٹ؟ اور اسے دھیرے دھیرے یاد آتا گیا۔ وہ بھٹہ لینے سڑک کے اس پار گئی تھی۔ اس کے ساتھ کاشف بھی تھا۔ وہ سائیکل چلا رہا تھا۔ وہ نظروں سے اوجھل ہی ہوا تھا کہ وہ ریٹرھی والے کے پاس چلی گئی۔ پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کچھ ہوا تھا۔ اسے ٹکر لگی تھی۔ خون بکھرے کاغذ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روتا بچہ۔

بچہ؟اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔ پھر ادھر ادھر دیکھا کمرہ خالی تھا۔ وہ ادھر اکیلی تھی۔ مگر وہ روتا بچہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آواز جو اسے آخری پل سنائی دی تھی؟ تیمور۔ ۔ ۔ ۔ تیمور رو رہا تھا۔ ہاں اسے یاد تھا، کہاں ہے تیمور؟

اس نے متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، اسی پل دروازہ کھلا۔

سفید یونیفارم میں ملبوس نرس اندر داخل ہوئی۔

اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔ وہ تیزی سے ٹرے لیے بیڈ کی طرف بڑھی، پھر اسے جاگتے دیکھ کر ٹھٹکی۔

اوہ شکر ہے آپ کو ہوش آ گیا، وہ حیران سی کہتی اس کے قریب آئی۔ تب ہی کھلے دروازے میں ایک بچہ نظر آیا۔

چھ، سات برس کا، خوب صورت سا بچہ، شاید وہ کاشف کا ہمسایہ تھا۔ ہاں وہ ارحم ہی تھا یا شاید راحم کا چھوٹا بھائی، وہ فیصلہ نہ کر پائی۔

آر یو آل رائٹ ؟ نرس نے آہستہ سے اس کے ہاتھ کو چھوا، پھر حیرت سے پوچھا۔ ۔ ۔ وہ بنا جواب دیے بچے کا چہرہ دیکھتی رہی، جو عجیب انہماک سے اسے دیکھ رہا تھا۔ یہ شاید وہ لڑکا تھا جس کو وہ شاید شام میں ناظرہ پڑھایا کرتی تھی۔

ہم آپ کی سسٹر کو بلاتے ہیں ابھی، نرس خوشی سے چہکتی باہر کو بھاگی۔ وہ ابھی تک بچے کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی، جن میں عجیب سی کوفت تھی اور ننھی پیشانی پر ذرا سے بل، وہ اس عجیب سی کوفت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا کاؤچ پر بیٹھا اور کہنیاں گھٹنوں پر رکھ کر دونوں ہتھیلیوں میں چہرہ گرا دیا۔ وہ ابھی تک اسی طرح اسے دیکھ رہی تھی۔

راحم! اس نے پکارا اسے اپنی آواز بہت ہلکی لگی، پھٹی پھٹی سنائی دی۔ بچہ اسی طرح سے دیکھتا رہا۔

راحم! اس نے پھر سے آواز دی۔ وہ بمشکل بول پا رہی تھی۔

میں سنی ہوں۔ پھر لمحے بھر کو رک کر عجیب سے تنفر سے بولا۔ آئی ڈونٹ لائیک یو۔

سنی؟ وہ دنگ رہ گئی، اس بچے کو وہ روز ناظرہ پڑھاتی تھی، وہ شاید راحم کا چھوٹا بھائی تھا۔ پھر وہ ایسے بات کیوں کر رہا تھا

اسی پل دروازہ زور سے کھلا۔

محمل نے چونک کر دیکھا۔

دروازے میں فرشتے کھڑی تھی۔ سیاہ عبایا پر سفید حجاب چہرے کے گرد لپیٹے وہ بے یقینی سے بستر پر لیتی محمل کو دیکھ رہی تھی۔

فر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرشتے۔ وہ اپنی جگہ جامد رہ گئی۔ فرشتے تو باہر تھی وہ پاکستان کب آئی؟

اوہ میرے اللہ محمل ! اس نے بے اختیار اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔ کتنے ہی پل وہ بے یقین سی کھڑی رہی۔ اس کا چہرہ کافی کمزور ہو گیا تھا۔

محمل ! محمل ! ایک دم اس نے آگے بڑھ کے بے قراری سے اس کا چہرہ چھوا۔

تم مجھے دیکھ سکتی ہو محمل؟تم مجھے پہچانتی ہو؟تم بول سکتی ہو؟

میں تمہیں کیوں نہیں پہچانوں گی فرشتے ؟ تم کب آئیں ؟

میں ؟ فرشتے متعجب۔ ۔ ۔ ۔ نظروں سے اسے تک رہی تھی۔ میں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تو کافی عرصہ ہو گیا محمل! تم، میں نے تم سے اتنی باتیں کیں تم نے، تم نے سنا؟

کیا؟ وہ الجھ سی گئی۔ نہیں میں نے تو کوئی بات نہیں سنی میں تو۔ ۔ وہ رک رک کر اٹک اٹک کر بول رہی تھی۔ میں تو صبح ریڑھی والے کے پاس گئی تھی۔ مجھے گاڑی نے ٹکر ماردی اور، اور تم نے بتایا بھی نہیں کہ تم آ رہی ہو؟

فرشتے بے یقینی سے پھیلی پھیلی آنکھوں سے اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔ گویا اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہ ہو۔

فرشتے !بولو اسے فرشتے کی یہ حیرت و بے یقینی پریشان کر رہی تھی، کہیں کچھ غلط تھا۔

محمل تم۔ وہ کچھ کہتے کہتے پھر رک گئی جیسے سمجھ میں نہ آیا ہو کہ کیا کہے۔

یو اینڈ یور اوور ایکٹنگ ! ہونہہ۔ وہ چھوٹا لڑکا بے زاری سے کہہ اٹھا تھا۔ فرشتے نے چونک کر اسے دیکھا۔

سیاہ حجاب میں دمکتے فرشتے کے چہرے پر ہلکی سی ناگواری ابھری۔

سنی پلیز بیٹا جاؤ یہاں سے، مجھے بات کرنے دو۔ میں کیوں جاؤں ؟ میری مرضی، آپ دونوں چلی جائیں۔

فرشتے ! یہ کون ہے ؟ کیوں ضد کر رہا ہے ؟ وہ الجھ کر پوچھ رہی تھی مگر فرستے دوسری طرف متوجہ تھی۔ آئی ڈونٹ وانٹ ٹو گو۔ وہ بد تمیزی سے چیخا تھا۔ شٹ اپ تیمور! اینڈ گیٹ آؤٹ تم دیکھ نہیں رہے میں ماما سے بات کر رہی ہوں۔

فرشتے کہہ رہی تھی اور اسے لگا کسی نے اس کے اوپر ڈھیروں پتھر لڑھکا دیے ہیں۔

تم نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے تیمور کہا فرشتے ؟وہ ساکت رہ گئی تھی.۔

ہاہ!شی از ناٹ مائی مام! وہ سر.جھٹکتا اٹھ کر باہر گیا اور اپنے پیچھے زور سے دروازہ بند کیا۔

تم نے تیمور کہا؟ نہیں، یہ تیمور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا تیمور کہاں ہے ؟ اس کا دل بند ہو رہا ہے، کہیں کچھ غلط تھا، کہیں کچھ بہت غلط تھا۔

کہیں کچھ غلط تھا۔ بہت غلط۔

فرشتے نے آہستہ سے گردن اس کی طرف موڑی۔ ۔

اس کی سنہری آنکھوں میں گلابی سی نمی ابھر آئی تھی۔

محمل! تمہیں کچھ یاد نہیں ؟

کیا۔ کیا یاد نہیں ؟ میرا بچہ کہاں ہے ؟ وہ گھٹی گھٹی سی سسک اٹھی۔ کچھ تھا جو اس کا دل ہولا رہا تھا۔

محمل۔ ۔ ۔ ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر گال پر لڑھکنے لگے، بے اختیار اس نے محمل کے ہاتھ تھام لیے۔ تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔

فرشتے میں پوچھ رہی ہوں کہ میرا بیٹا کہاں ہے ؟

تمہارے سر پر چوٹ آئی تھی، تمہارا اسپائنل کارڈ ڈیمج ہوا تھا۔

فرشتے میرا بچہ۔ اس کی آواز ٹوٹ گئی۔ وہ بے قراری سے فرشتے کی بھیگی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔

محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل! تم بے ہوش ہو گئی تھیں۔ تم کوما میں چلی گئی تھی۔

مجھے پتا ہے میرا صبح ایکسیڈنٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ صبح نہیں تھا وہ سات سال پہلے تھا۔

وہ سکتے کے عالم میں اسے دیکھتی رہ گئی۔

وقت سات سال آگے بڑھ گیا ہے۔ تمہیں کچھ یاد نہیں ؟وہ ساری باتیں جو میں اتنے برس تم سے کرتی رہی؟وہ دن وہ راتیں جو میں نے ادھر تمہارے ساتھ گزاریں، تمہیں کچھ یاد نہیں ؟

وہ پتھر کا بت بن گئی تھی۔ فرشتے کو لگا وہ اس کی بات نہیں سن رہی ہے۔

ڈاکٹرز کہتے تھے۔ تم کبھی بھی ہوش میں آ سکتی ہو۔ ہم نے بہت ویٹ کیا تمہارا محمل بہت زیادہ۔

آنسو متواتر اس کے دمکتے چہرے پر گر رہے تھے۔

وہ گم صم سی اسے دیکھے گئی۔ گویا وہ وہاں تھی ہی نہیں۔

میں نے تمہارے اٹھ جانے کی بہت دعائیں کی محمل! میں نے اپنا پی ایچ ڈی بھی چھوڑ دیا، تمہارے ایکسیڈنٹ کے دوسرے مہینے میں آ گئی تھی، دو ماہ رہی، پھر واپس گئی، مگر دل ہی نہیں لگ سکا۔ میں پڑھ ہی نہیں سکی، پھر میں نے سب پڑھائی چھوڑ دی اور تمہارے پاس آ گئی۔ اتنے برس محمل، اتنے برس گزر گئے، تمہیں کچھ بھی یاد نہیں ؟ محمل۔

فرشتے نے ہولے سے اس پتھر کے مجسمے کا شانہ ہلایا۔ وہ ذرا سی چونکی، پھر اس کے لب کپکپائے۔

میرا۔ ۔ ۔ میرا تیمور؟

یہ تیمور تھا نہ سنی، ہم اسے سنی کہتے ہیں۔

مگر وہ کیسے مانتی؟وہ جسے کوئی کالونی کا بچہ سمجھی تھی، وہ اس کا اپنا بچہ تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا؟اسے تو لگا تھا کہ وہ تو بس ایک دن کے لیے سوئی ہے یا شاید دن ایک حصہ۔ پھر صدیاں کیسے بیت گئیں ؟اسے کیوں نہیں پتا چلا؟ اور تیمور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔

اسے کاٹ میں لیٹا اپنا نومولود بیٹا یاد آیا۔

فرشتے وہ میرا بچہ ہے۔ اف میرے خدایا۔ اس نے بے یقینی سے آنکھیں موند کر کھولیں۔ وہ اتنا بدل گیا ہے ؟

بہت کچھ بدل گیا ہے محمل!کیونکہ وقت بدل گیا ہے۔ وقت ہر شے پر اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے۔

ہمایوں ؟ اس کے لب پھڑپھڑائے۔ ہمایوں کہاں ہے ؟

نرس نے جب بتایا تو میں نے اسے کال کر دیا تھا۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لمحے بھر کو ہچکچائی۔ وہ میٹنگ میں تھا، رات تک آ سکے گا۔

نہیں فرشتے، تم اس کو بلاؤ پلیز بلاؤ اس سے کہو محمل جاگ گئی ہے، محمل اس کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ میرے ایک فون پر ہی دوڑتا چلا آتا تھا۔

وہ سات سال پہلے کی بات تھی محمل! وقت کے ساتھ یہاں بہت کچھ بدلتا ہے محمل لوگ بھی بدل جاتے ہیں۔

وہ کیوں نہیں آیا؟وہ کھوئی کھوئی سی بولی تھی۔ عجیب بے یقینی سی بے یقینی تھی۔

محمل! پریشان نہ ہو پلیز دیکھو۔

وقت ہمایوں کو نہیں بدل سکتا۔ میرا ہمایوں ایسا نہیں ہے، میرا تیمور ایسا نہیں ہے۔

وہ ہذیانی انداز میں چلائی۔ اتنی بے یقینی تھی کہ اسے رونا بھی نہیں آ رہا تھا۔

فرشتے تاسف سے اسے دیکھتی رہی۔

ابھی اسے سنبھلنے میں وقت لگے گا، وہ جانتی تھی۔

٭٭٭



فرشتے چلی گئی اور وہ منہ پر چادر ڈالے آنکھیں موندے لیٹی رہی۔ اسے یقین نہ تھا کہ فرشتے نے اس سے سچ بولا ہے، اسے لگ رہا تھا کہ یہ سب ایک بھیانک خواب ہے اور ابھی وہ آنکھ کھولے گی تو وہ خواب ٹوٹ جائے گا۔

پھر اس نے آنکھ ہی نہ کھولی، اسے ڈر تھا کہ اگر خواب ٹوٹا تو وہ ٹوٹ جائے گی۔

جانے کتنا وقت گزرا، وہ لمحوں کا حساب نہ رکھ پائی۔ اور اب کون سے حساب باقی رہ گئے تھے ؟

دروازے پر ہولے سے دستک ہوئی۔ اس نے لمحے بھر کو آنکھیں کھولیں۔ ہوا سے چہرے پر پڑی چادر سرک گئی تھی، منظر صاف واضح تھا۔

کھلے دروازے کے بیچ وہ کھڑا تھا۔

اس کی نگاہیں وہیں ٹھہر سی گئیں۔ وقت تھم گیا، لمحے ساکن ہو گئے۔ وہ اسے ویسا ہی لگا تھا۔ اتنا ہی وجیہہ اور شاندار، مگر اس کا جذبات سے عاری چہرہ اس پر چھائی سنجیدگی نہیں وہ شاید ویسا نہیں رہا تھا۔

وہ آہستہ سے قدم اٹھاتا بیڈ کے قریب آیا اور پائنتی کے ساتھ رک گیا۔

ہمایوں ! تڑپ کر رہ گئی۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔

ہوں، کیسی ہو؟وہ پائنتی کے قریب کھڑا رہا، اس سے آگے نہیں بڑھا، آواز میں بھی عجیب سرد مہری تھی۔

ہمایوں ! وہ رونے لگی تھی۔ یہ سب کیا ہے ؟یہ کہتے ہیں اتنے سال گزر گئے میری نیند اتنی لمبی کیوں ہو گئی؟

معلوم نہیں۔ ڈاکٹرز کب تمہیں ڈسچارج کریں گے ؟وہ کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ رہا تھا۔ جیسے جانے کی جلدی ہو، اس کے لہجے میں کوئی ناراضی کا عنصر نہ تھا، بلکہ بہت ہموار لہجہ تھا۔ لیکن شاید ان کے درمیاں کچھ بھی باقی نہ رہا تھا۔

میں ٹھیک ہو جاؤں گی نا ہمایوں ؟جیسے وہ تسلی کے دو بول سننا چاہتی تھی۔

ہوں۔ وہ اب جیبوں میں ہاتھ ڈالے تنقیدی نگاہوں سے اطراف کا جائزہ لے رہا تھا۔

یہ سب کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ؟ہمایوں اور تیمور۔ ۔ وہ اس کے ساتھ یوں کیوں کر رہے تھے ؟

ہمایوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے بات تو کریں۔

ہاں کہو، میں سن رہا ہوں۔ وہ متوجہ ہوا، لمحے بھر کو نگاہ اس پر جھکائی۔

اس کے آنسو تھم گئے۔ وہ بالکل چپ ہو کر رہ گئی۔ یہ تو محبت کی نگاہ نہ تھی، یہ تو خیرات تھی۔ بھیک تھی۔

وہ چند لمحے منتظر سا اسے دیکھتا رہا، پھر جانے کو مڑا۔

اسی پل دروازے میں فرشتے کا سراپا ابھرا۔ وہ ہاتھ میں فروٹ باسکٹ پکڑے تیزی سے اندر آ رہی تھی۔ ہمایوں اس کے ایک طرف سے نکل کے باہر چلا گیا۔

فرشتے نے پلٹ کر اسے جاتا دیکھا۔

ہمایوں ابھی تو آیا تھا؟ چلا بھی گیا؟ کیا کہہ رہا تھا؟ اچنبھے سے کہتے ہوئے اس نے گردن اس کی جانب موڑی۔ محمل کے چہرے پر کچھ تھا وہ لمحے بھر کو چپ سی ہو گئی۔

فکر مت کرو وہ ہر کسی سے ایسے ہی بی ہیو کرتا ہے۔ وہ ماحول کو خوشگوار کرنے کے لیے کہتی آگے بڑھی اور فروٹ باسکٹ سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔

مگر میں کسی تو نہیں تھی فرشتے۔ وہ ابھی تک نم آنکھوں سے کھلے دروازے کو دیکھ رہی تھی۔

ٹھیک ہو جائے گا سب کچھ تم کیوں فکر کرتی ہو؟

مگر وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہا تھا؟اس کی آنکھیں پھر سے ڈبڈبائیں۔

محمل دیکھو اس تبدیلی نے وقت لیا ہے تو اس کو ٹھیک ہونے میں بھی وقت لگے گا۔ تم اس کو کچھ وقت دو۔ وہ اس کے ریشمی بھورے بال نرمی سے ہاتھ میں لیے برش کر رہی تھی۔

وقت، وقت، وقت۔ وہ ایک ہی تکرار ہر جگہ دہرائی جا رہی تھی۔ اس وقت نے کیا کچھ بدل دیا تھا، اسے اس کا اندازہ آہستہ آہستہ ہو رہا تھا۔

وہ اپنے نچلے دھڑ کو حرکت نہیں دے سکتی تھی، وہ اپنے پاؤں نہیں ہلا سکتی تھی۔ اٹھ بیٹھ نہیں سکتی تھی۔ خود کھانا نہیں کھا سکتی تھی۔ اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کے قابل نہیں رہی تھی۔ یہ سب کیا ہو گیا تھا۔ ۔

اس دن اس دن جب میں گھر سے نکلی تھی تو میں نے صبح کی دعائیں نہیں پڑھی تھیں۔ یہ سب اسی لیے ہوا ہے فرشتے کہ میں دعائیں پڑھے بغیر گھر سے نکلی تھی، ہے نا۔ وہ نرمی سے اس کے بال سلجھا رہی تھی، جب وہ بھیگی آنکھوں اور رندھے گلے سے کہنے لگی۔ فرشتے نے گہری سانس لی کہا کچھ نہیں۔

نہ تھا کہ اس کو اللہ سے کام آتا کچھ بھی مگر حاجت تھی یعقوب علیہ السلام کے دل میں تو اس نے اسے پورا کیا۔ بہت دھیرے سے اس کے دل میں کسی نے سرگوشی کی تھی۔ وہ یکلخت چونک سی گئی۔ نہ تھا کہ اس کو اللہ سے کام آتا کچھ بھی مگر ایک حاجت تھی یعقوب علیہ السلام کے دل میں تو اس نے اسے پورا کیا۔

اس نے سننے کی کوشش کی۔ کوئی اس کے اندر مسلسل یہ الفاظ دہرا رہا تھا۔ دھیمی مدھر آواز، ترنم اور پر سوز سے پر۔ اس کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ وہ ایک دم سناٹے میں آ گئی۔

یہ الفاظ یہ بات یہ سب بہت جانا پہچانا تھا۔ شاید یہ ایک آیت تھی۔

ہاں یہ آیت تھی، سورہ یوسف، تیرہواں سپارہ، جب یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو غالباً نظر بد سے بچاؤ کے لیے احتیاطا شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہونے کی تاکید کی تھی تو اس پر اللہ نے جیسے تبصرہ کیا تھا کہ ان بھائیوں کو اگر اللہ کی مرضی اور منشاء ہوتی تو پھر اللہ کے فیصلے سے کوئی بھی بچا نہ پاتا، مگر وہ احتیاط تو یعقوب علیہ السلام کے دل کی ایک حاجت تھی، تو یعقوب علیہ السلام نے اسے پورا کیا۔

ایک خاموش لمحے میں اس پر کچھ آشکار ہوا تھا۔ یہ جو ہو تھا اسے ایسا ہی ہونا تھا، وہ جو کر لیتی، یہ اللہ کی مرضی تھی، یہ اس کی تقدیر تھی شاید اس کی دعاؤں نے اسے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ہو، مگر کیا اس سے بھی کوئی بڑا نقصان ہو سکتا تھا؟کوما معز وری، بے زار شوہر، بدکتا بچہ۔ اب کیا رہ گیا تھا زندگی میں۔

کتنا کم تم شکر ادا کرتے ہو!

کسی نے پھر اسے ذرا خفگی سے مخاطب کیا تھا۔ وہ پھر سے چونکی اور قدرے مضطرب ہوئی۔ یہ کون اسے بار بار اندر ہی اندر مخاطب کرتا تھا؟یہ کون تھا؟

فرشتے پلیز مجھے کچھ دیر کے لیے، پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ وہ بہت بے بسی سے بولی تو فرشتے کا اس کے بالوں میں برش کرتا ہاتھ رک گیا۔ پھر اس نے جیسے سمجھ کر سر ہلا دیا۔

اوکے۔ اس نے برش سائیڈ پر رکھا اور اٹھ کر باہر نکل گئی۔

ہم نے بسایا تم کو زمین میں اور ہم نے تمہارے لیے اس میں زندگی کے سامان بنائے، کتنا کم تم شکر ادا کرتے ہو۔ (سورہ اعراف)

کوئی اس کے اندر ہی اندر اسے جھنجھوڑ رہا تھا، پکار رہا تھا۔ اس کے اندر باہر اتنا شور تھا کہ وہ سن نہ پا رہی تھی۔ سمجھ نہ پا رہی تھی۔ فرشتے گئی تو اس نے آنکھیں موند لیں۔

اب اس کے ہر سو اندھیرا اتر آیا، خاموشی اور تنہائی، اسے غور سے سننا چاہا، چند ملی جلی آوازیں بار بار گونج رہی تھیں۔

ہم تم میں سے ہر ایک کو آزمائیں گے، شر کے ساتھ اور خیر کے ساتھ۔

کہہ دو بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے جو رب ہے تمام جہانوں کا۔

اس کے ذہن میں جیسے جھماکا سا ہوا، ایک دم اندر باہر روشنی بکھرتی چلی گئی، اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔

میرا قرآن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا کلام پاک، میرا مصحف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ کبھی قرآن کے بغیر گھر سے نہیں نکلتی تھی۔ اس روز بھی وہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ بلکہ بیگ میں رکھا تھا۔ جب ایکسیڈنٹ کے بعد ادھر لائی گئی ہو گی یقیناً وہ بھی ساتھ لایا گیا ہو گا، پھر اسے ادھر ہونا چاہیئے۔

مگر سات سال اسے یاد آیا، وہ سات سال درمیاں میں آ گئے تھے۔ ان کے پیچھے تو ہر شئے گویا دھول میں گم ہو گئی تھی اوہ خدایا وہ کیا کرے۔

اس نے تھک کر آنکھیں موند لیں۔ یہ ایسی عجیب سی بات تھی، جس پر اسے یقین ہی نہیں آتا تھا۔ وہ جتنا سوچتی اور الجھ جاتی۔

تب ہی دروازہ ہولے سے کھلا، اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔

تیمور دروازے میں تھا، جینز شرٹ پہنے اس کے بھورے بال ماتھے پر کٹ کر گر رہے تھے۔

اس کی ناک بالکل ہمایوں کی طرح تھی، کھڑی مغرور ناک اور آنکھیں محمل کی سی سنہری چمکتے کانچ جیسی۔

اور ماتھے کے وہ بل، وہ نہ جانے کس جیسے تھے !

تیمور۔ اس کو دیکھ کر محمل کی آنکھیں جگمگا اٹھی تھیں۔ وہ اس کا بیٹا تھا اس کا تیمور تھا۔

ادھر آؤ بیٹا۔

وئیر از مائی ڈیڈ؟ (میرے ڈیڈ کہاں ہیں ) وہ اسی تنفر سے چبھتے ہوئے انداز میں بولا تھا۔ منہ پھٹ، اکھڑ، بد تمیز، اگر وہ اس کی ماں نہ ہوتی تو یہ تین الفاظ اس کے ذہن میں اس کے متعلق فوراً ابھرتے۔

وہ ابھی آئے تھے پھر چلے گئے۔ تم ماما سے نہیں ملو گے ؟اس نے ممتا سے مجبور اپنے بازو پھیلائے۔

نہیں۔ اس نے باہر نکل کے زور سے دروازہ بند کر دیا۔

وہ سن ہو کر رہ گئی۔ بازوآہستہ سے پہلو میں آن گرے۔

یہ سات سال کا بچہ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے دل میں اتنی نفرت، اتنی کڑواہٹ کیسے آ گئی؟کیا قصور تھا اس کا کہ وہ اس طرح سے اس سے متنفر تھا؟اور صرف اس سے نہیں بلکہ فرشتے سے بھی۔

بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ اور پھر کب وہ روتی سو گئی، اسے پتا بھی نہیں چلا۔

٭٭٭



فریو تھراپستٹ اسے ایکسرسائز کرانے کی ناکام کوشش کرانے کی ناکام کوشش کر کے جا چکی تھی۔ وہ اسی طرح دنیا سے بے زار آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی تھی۔ یہ دایاں بازو تو بالکل ٹھیک کام کرتا تھا۔ بایاں البتہ ذرا سا ڈھیلا تھا، مگر امید تھی کہ وہ بھی جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ ٹانگوں کے متعلق کچھ کہنے سے ڈاکٹرز ابھی قاصر تھے۔ کبھی وہ کہتے کہ فریو تھراپی سے آہستہ آہستہ وہ ٹھیک ہو جائے گی اور بعض اوقات ان سب کا انحصار وہ وہ اس کی خود کی قوت ارادی پر گردانتے۔ وہ قوت ارادی جس کو استعمال کرنے کی سعی وہ ابھی نہیں کر رہی تھی۔

ایک دم پھولوں کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی تو اس نے دھیرے سے بازو ہٹایا اور آنکھیں کھولیں۔

فرشتے بڑا سا سرخ گلابوں کا بوکے لیے اندر داخل ہوئی تھی۔ اس کے سیاہ اسکارف میں مقید دمکتے چہرے پر وہی ٹھنڈی ٹھنڈی مسکراہٹ تھی۔

السلام علیکم مائی سسٹر!کیسی ہو ؟ اور یہ فزیو تھراپسٹ کو کیوں تم نے بھگا دیا؟ وہ کانچ کے گلدان میں گلدستہ لگاتے ہوئے بولی تھی۔

مجھے کسی فزیو کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ٹھیک ہوں، یہ لوگ مجھے گھر کیوں نہیں جانے دے رہے ؟

میں نے ڈاکٹرز سے بات کی ہے وہ کہتے کہ تمہیں عنقریب گھر شفٹ کر دیں گے۔ ۔

شاید ایک ہفتے تک تم مینٹلی بالکل ٹھیک ہو اور تمہیں مزید اسپتال میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وہ پھول سیٹ کر کے شاپر سے کچھ اور نکالنے لگی۔

اور تیمور نہیں آیا؟

اسے آنا تھا کیا؟اس کا دل ڈوب کے ابھرا۔

ہاں میں اسے روز ساتھ ہی لاتی ہوں پتا نہیں شاید لان میں بیٹھا ہو ابھی آ جائے گا۔ وہ کہہ کر خود ہی شرمندہ ہوئی۔

محمل نے پھر سے چہرے پر بازو رکھ لیا۔ وہ اب یوں ہی ساری دنیا سے چھپ جانا چاہتی تھی۔

فرشتے روز صبح آتی تھی۔ پھر دوپہر میں چلی جاتی اور گھنٹے بھر بعد تیمور کو ساتھ لے آتی۔ وہ باہر ہی پھرتا رہتا اندر نہ آتا، پھر عصر کے وقت فرشتے چلی جا تی غالباً اسے مسجد جانا ہوتا تھا، رات کو وہ پھر ایک چکر لگا لیتی۔ چھٹی کے دن وہ تیمور کو صبح ہی ساتھ لے آتی اور باقی دنوں میں اس کے اسکول کے باعث دوپہر کو لاتی، ہاں رات کو تیمور اس کے ساتھ نہیں آتا تھا۔ اور ہمایوں، وہ تو بس ایک دفعہ آیا تھا۔ پھر اس کے بعد ہمیشہ وہ شاید بزی ہو گا، والا جواب فرشتے خوب شرمندہ ہو کر دیتی۔

وہ دن میں تین تین چکر لگاتی، گویا گھن چکر بنی رہتی۔ محمل کا ہر چھوٹا بڑا کام کرتی اور نہیں تو اس کے ساتھ بیٹھی تسلی اور پیار بھری باتیں کرتی رہتی۔ اب بھی وہ جانے کیا چیز الٹ پلٹ کر رہی تھیں۔ مگر وہ یونہی بے زار سی منہ پر بازو رکھے لیٹی رہی۔ محمل کو کھٹ کھٹ کی آواز یں آ رہی تھیں مگر وہ ویسے ہی لیٹی رہی۔ اور پھر آہستہ سے وہ مترنم آواز پورے کمرے میں گونجنے لگی تھی۔

سب تعریف اس اللہ کی، وہ ذات جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں بنایا۔

اس نے جھٹکے سے بازو ہٹایا۔

فرشتے ٹیپ ریکارڈر بند کر کے ہاتھ میں پکڑے کیسٹ کور بند کر رہی تھی۔ محمل کی طرف اس کی پشت تھی۔ درست کرنے والی (کتاب ) تاکہ وہ اپنے پاس موجود سخت عذاب سے ڈرائے، اور خوش خبری دے ان مومنوں کو جو اچھا کام کرتے ہیں کہ بے شک ان کے لیے اچھا اجر ہے۔

وہ یہ آواز لاکھوں میں پہچان سکتی تھی قاری مشاری کی سورہ الکہف۔

وہ رہنے والے ہیں اس میں ہمیشہ اور ڈرائے ان لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔

لفظ بوند بوند اس کی سماعت میں اتر رہے تھے۔ آج جمعہ تھا اور وہ ہمیشہ جمعے کو سورہ کہف پڑھا کرتی تھی۔ نہ ان کے پاس اس کا کوئی علم ہے نہ ہی ان کے آباء و اجداد کے پاس ہے۔ ان کے منہ سے یہ بہت بڑی بات نکلی ہے وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ کھٹ سے فرشتے نے اسٹاپ کا بٹن دبایا تو آواز رک گئی اس نے تڑپ کر فرشتے کو دیکھا۔

لگائیں نہ بند کیوں کر دی؟

اوہ تم جاگ رہی تھیں۔ وہ چونک کر پلٹی۔ میں سمجھی تم سو گئی ہو، میں نے سوچا تمہیں تنگ نہ کروں۔

کوئی قاری مشاری کی سورہ کہف سے بھی تنگ ہو سکتا ہے بھلا؟ اس میں تو میری جان مقید ہے فرشتے ! آپ کو یاد ہے جب جمعے کو کلاس میں سورہ کہف شروع ہوئی تھی تو الحمد للہ الذی پر ہی میرے آنسو گرنے لگتے تھے۔

تمہارے آنسو اب بھی گر رہے ہیں محمل! وہ آہستہ سے اس کے قریب آ بیٹھی اور اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔

محمل کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا تھا۔

میں جانتی ہوں تم تیمور اور ہمایوں کی وجہ سے اپ سیٹ ہو۔ بھول جاؤ ان کی نا قدریاں محمل!وہ نا سمجھ ہیں، ان کی وجہ سے اپنا چین سکون برباد نہ کرو، وہ وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ جائیں گے، مگر ایک بات تمہیں ذہن میں بٹھا لینی چاہیئے، کہ تمہاری زندگی ان پر انحصار نہیں کرتی، تم ان کے بغیر مر نہیں جاؤ گی، ان کے بغیر جینا سیکھو محمل۔ خود کو اسٹرانگ کرو اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ٹھیک ہے اس نے تیزی سے بات کاٹی، مگر ابھی آپ سورہ کہف لگائیں نا پلیز مجھے سننا ہے۔ فرشتے ذرا سی حیران ہوئی، پھر گہری سانس لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

اٹھ کھڑی ہوئی۔ اچھا ٹھیک ہے میں لگاتی ہوں۔

اور میرا قرآن ؟

ہاں۔ وہ میں کل ڈھونڈ کے لے آؤں گی، ابھی تم یہ سنو۔ میں تیمور کو ڈھونڈتی ہوں۔ اس نے پلے کا بٹن دبایا اور خود باہر نکل گئی۔

بس شاید تم ان کے پیچھے خود کو ہلاک کرنے والے ہو، اگر وہ اس کلام کے ساتھ ایمان نہ لائے، بہت افسوس کے ساتھ، بے شک جو بھی زمین پر ہے، ہم ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے کام کرتا ہے۔ اور بے شک ہم اس کو بنجر صاف میدان بنانے والے ہیں۔

اس نے آنکھیں موند لیں۔ آنسو آہستہ آہستہ اس کے تکیے کو بھگونے لگے تھے۔

سورہ کہف کے ساتھ اسے وہ تمام مناظر یاد آنے لگے تھے جو کبھی اس کی زندگی کا حصہ تھے۔

سنگ مر مر کی چمکتی راہداریاں، روشنیوں سے گھرا ہال، جو اونچے اونچے ستونوں پر کھڑا تھا۔ مسجد کے برآمدے کے سامنے ہری گھاس سے بھرا لان، وہ پنک اسکارف میں لپٹے بہت سے جھکے سر، جو تیزی سے نوٹس لینے میں مصروف ہوتے، لائبریری کی اونچی گلاس ونڈوز جن سے فیصل مسجد دکھائی دیتی تھی۔ وہ کالونی کی سڑک پر درختوں کی باڑ، یادوں کا ایک طویل سلسلہ تھا جو امڈ کر اس کے ذہن میں آیا تھا۔ ڈاکٹرز صحیح کہتے تھے وہ ذہنی طور پر بالکل ٹھیک تھی۔

سورہ کہف ختم ہوئی تو کیسٹ رک گئی۔ اس نے بے بسی سے ٹیپ کو دیکھا۔ وہ اس سے خاصے فاصلے پر تھا، وہ اٹھ کر اس کو ری پلے بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کیسی بے بسی تھی کیسی لاچاری تھی۔

اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ ہر راہ بند ہوتی دکھائی دینے لگی۔ ہر دروازے کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اسے لگا وہ اب ہمیشہ کسی اندھیرے بند کہف میں مقید رہے گی۔

تیمور اور ہمایوں سے دور۔ ۔ ۔ ۔ بہت دور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭



صبح وہ سو کر خاصی دیر سے اٹھی، رات بھر سو نہ سکی تو فجر کے قریب ہی آنکھ لگی تھی۔

سسٹر میرین بیڈ ٹیبل پر دوائیں رکھ رہی تھی، اسے جاگتے دیکھ کر مسکرائی۔

گڈ مارننگ مسز ہمایوں، ہاؤ آر یو؟

فائن۔ وہ جبرا مسکرائی، کس کا نام اس کے نام کے ساتھ جڑتا تھا، وہ جو خود ہی اس سے دور بھاگنے لگا تھا۔

آپ کی سسٹر صبح آئی تھیں، آپ سو رہی ہیں، وہ یہ بک دے کر گئی ہیں۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی کتاب کی طرف اشارہ کیا۔

فرشتے آئی تھی؟وہ چونکی، پھر اس کی اشارہ کردہ کتاب کی طرف دیکھا تو ٹھہر سی گئی۔

سیاہ سادہ جلد والی دبیز کتاب، اس کا سانس رک گیا، دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔

مصحف قرآنی۔ وہ زیر لب بڑبڑائی۔

یہ آپ کا قرآن ہے میڈم؟سسٹر میرین نے اسے متوجہ پا کر احتیاط سے قرآن اٹھا کر اس کے سامنے کیا۔ اس نے بے قراری سے اسے تھاما اور سینے سے لگا لیا۔

یو لو یور ہولی بک ٹو مچ، رائٹ؟ وہ مسکرا کر کہتی اسے بیٹھنے میں مدد دینے لگی۔

آف کورس سسٹر! وہ بہت خوش تھی۔

پھر وہ بیٹھ گئی تو سسٹر میرین نے اس کے پیچھے تکیے سیٹ کر دیئے۔

پھر سسٹر جانے کب وہاں سے گئی۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا، وہ بس اپنے قرآن میں گم تھی۔

اس نے دھیرے سے پہلا صفحہ کھولا تو عربی عبارات سے مزین اوراق سامنے آئے۔ اس کا دل ایک دم رعب سے بھر گیا۔ ہاتھ ذرا سے کپکپائے، لب لرزے، آنکھوں کے گوشے بھیگتے چلے گئے۔

اوہ خدا وہ کتنی نوازی گئی تھی۔ اسے اللہ نے اپنے کلام کو تھامنے کا موقع دے دیا تھا۔ وہ اس کی سن لیتا تھا اور مخاطب بھی کرتا تھا۔ برسوں کا یہ ساتھ بھلا کیسے ٹوٹ سکتا تھا؟

اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

وہ اسے بھولا نہیں تھا، اس نے اسے یاد رکھا تھا۔

محمل ابراہیم اپنے رب تعالیٰ کو یاد تھی۔ کیا اسے واقعی اب کچھ اور چاہیئے ؟

اس نے شروع کے چند صفحے پلٹے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کدھر سے پڑھنا شروع کرے۔ پھر اس نے آغاز میں رکھے ایک بک مارک سے کھولا تھا۔ دوسرے سیپارے کے اوائل سے۔ برسوں پرانا بک مارک نہ جانے کب اس نے رکھا تھا؟

اس نے دھڑکتے دل سے پڑھنا شروع کیا۔

بس تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری مت کرنا۔

آنسو اس کی رخساروں سے پھسل کر گردن پر لڑھک رہے تھے، وہ کہنا چاہتی تھی میں نے آپ کو خوشی میں یاد رکھا، آپ مجھے غم میں مت بھولیے گا، مگر لب کھل نہ پائے۔

اس نے آگے پڑھا۔

اے ایمان والو تم صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ساتھ ہی حاشئیے میں پین کے ساتھ چھوٹا چھوٹا کچھ لکھا ہوا تھا۔ اس نے قرآن قریب کر کے پڑھنا چاہا۔ وہ اس کے اپنے لکھے تفسیر نوٹس سے۔

مصیبت میں صبر اور نماز وہ دو کنجیاں ہیں جو آپ کو اللہ تعالیٰ کا ساتھ دلواتی ہیں۔ ان کے بغیر یہ ساتھ نہیں ملتا۔ اس لیے کوئی مصیبت آئے تو نماز میں زیادہ توجہ اور لگن ہونا چاہیئے۔ مصیبت میں خاموشی کے ساتھ اللہ کی رضا پر راضی ہو کر جو کچھ موجود ہے اس پر شکر کرنا اور آگے اچھے کی امید رکھنا صحیح معنی میں صبر ہے۔

یہ سب اس نے لکھا تھا؟وہ اپنے لکھے پر حیرت زدہ سی رہ گئی۔ کلاس میں آگے بیٹھنا ٹیچر کی ہر ایک بات نوٹ کرنا، وہ سب اسے کتنا فائدہ دے گا اس نے تو کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔

اس نے قدرے آگے پڑھا۔

اور البتہ ہم تمہیں کچھ چیزوں کے ساتھ ضرور آزمائیں گے۔ (یعنی)خوف سے اور بھوک سے جانوں اور مالوں کے نقصان سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خوشخبری دے دو ان کو جو صبر کرنے والے ہیں، ان ہی لوگوں پر ان کہ رب کی طرف سے عنایتیں اور رحمت ہے اور یہ ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

اس نے ساتھ حاشیے میں لکھے اپنے الفاظ پڑھے۔

صابرین کا مصیبت میں بس انا للہ و انا الیہ راجعون کہہ دینا کافی نہیں ہے، ، بلکہ یہ الفاظ ان دو عقائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن پر جمے بغیر کوئی صبر نہیں کر سکتا۔ انا للہ ( بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں )عقیدہ توحید ہے اور و انا الیہ راجعون (بے شک ہم اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے )عقیدہ آخرت پر ایمان ہے کہ ہر دکھ اور ہر مصیبت ایک دن ختم ہو جائے گی اور اگر کچھ ساتھ رہے گا تو صرف آپ کے صبر کا اجر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس نے اگلی آیت پڑھی۔ بے شک صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں تو جو کوئی حج کا ارادہ کرے۔ صبر کے فوراً بعد صفا مروہ اور حج کا ذکر؟وہ ذرا حیران ہوئی۔ پھر اپنے ہاتھ کے لکھے نوٹس پڑھے۔

صفا اور مروہ در اصل ایک عورت کے صبر کی نشانی ہیں، جب آپ کو بے قصور کسی تپتے صحرا میں چھوڑ دیا جائے اور آپ اس توکل پر کہ اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا صبر کریں تو پھر زم زم کے میٹھے چشمے پھوٹتے ہیں۔

اس کے بے قرار دل کو جیسے ڈھیروں ٹھنڈک مل گئی تھی۔ آنسوؤں کو قرار مل گیا تھا اندر باہر سکون سا اتر گیا۔ اور اس کے بعد جیسے گہری خاموشی سی چھا گئی۔

سارے ماتم دم توڑ گئے تھے۔ اسے صبر آ ہی گیا تھا۔

اب رونے کا پہر تمام ہوا تھا۔ کتاب اللہ اس کے پاس تھی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امتی تھی، دین کا علم اسے عطا کیا گیا تھا۔ اب کسی شکوے کی گنجائش باقی نہ رہی تھی دور جاہلیت سے نکلنے والے انسان کی زندگی میں مکہ کی سختیاں، مدینے کی ہجرت، بدر کی جیت اور احد کی شکست آتی ہے۔ طائف کے پتھر بھی آتے ہیں اور اسری اور معراج کی بلندیاں بھی۔ مگر آخر میں ایک فتح مکہ بھی ضرور آتا ہے اور اس دور میں کسی کا مکی دور بعد میں آتا ہے اور مدنی دور پہلے آ جاتا ہے۔

وہ ایک سال جو اس نے ہمایوں کے ساتھ اپنے گھر میں گزارا، ایک پرسکون من چاہی ریاست میں، وہ دور ختم ہو چکا تھا۔ اس کا مکہ اب شروع ہوا تھا۔ طائف کے پتھر اب لگنے لگے تھے۔ مگر وہ جانتی تھی کہ وہ کمزوروں کا رب اگر ساتھ ہے تو اسے بھی کسی عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ مل جائے گی۔ اسے بھی انگور کے خوشے مل جائیں گے۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طائف کی دعا یاد آئی اور اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ تب ہی دروازہ کھول کر سسٹر اندر داخل ہوئی۔ اسے جاگتا دیکھ کر ذرا سا مسکرائی اور آگے بڑھی۔

کیسا فیل کر رہی ہیں اپ؟وہ اس کے ساتھ لگی ڈرپ کو چیک کرنے لگی تھی۔ ہوں۔ جیسے کسی خیال سے جاگی۔ فائن الحمد للہ

آپ کو بہت ٹائم بعد ہوش آیا ہے۔ ڈاکٹرز ہوپ کھو چکے تھے۔

معلوم نہیں۔ وہ قدرے بے بسی سے مسکرائی۔ میں نے تو وقت کا تعین بھی کھو دیا تھا۔

مایوسی کی باتیں مت کریں میم! خداوند آپ کی مدد کرے گا۔

وہ ذرا سی چونکی یہ انگور کے خوشے لے کر ہمیشہ نینوا کے عداس کیوں آتے ہیں۔ اس نے بے اختیار سوچا تھا۔

ہاں مجھے یقین ہے وہ میری مدد کرے گا، وہ کھل کر مسکرا دی۔ شاید پہلی دفعہ وہ یوں مسکرائی تھی۔ تمہارا اس کی مدد پر کتنا ایمان ہے سسٹر؟

بہت زیادہ، میم!کرائسٹ مدد مانگنے والوں کو خالی نہیں لوٹاتا۔

ہوں۔ وہ نرمی سے مسکراتی اس کا پر یقین چہرہ دیکھے گئی۔ تم جانتی ہو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ قرآن کیا کہتا ہے ؟

نلکی کو تھامے سسٹر میرین کے ہاتھ لمحے بھر کو تھمے۔ اس نے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا، اس کی سیاہ آنکھوں میں حیرت بھرا سوال ابھرا تھا۔

محمل نے ایک ثانیے کو اس کی آنکھوں میں دیکھا، پھر آہستہ سے بولی۔

ہینڈسم، اے ویری ہینڈ سم میں ہی واز مسیح، عیسی بن مریم۔

رئیلی؟سسٹر میرین کی آنکھوں میں دیپ سے جل اٹھے۔

آف کورس ہماری کتاب میں لکھا ہے کہ وہ بے حد ہینڈسم تھے، بہت وجیہہ صرف بیان نہیں اس کے پاس رائٹنگ پاور بھی تھی۔ قلم کی طاقت، وہ بہت اچھا لکھتے تھے، اور جانتی ہو وہ اپنے اس ٹیلنٹس اور مریکلز کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے ؟

کیا؟وہ دم بخود بنا پلک جھپکے سن رہی تھی۔ وہ کہتے تھے، یہ مجھے میرے رب نے سکھایا ہے۔ وہ سانس لینے کو رکی، پھر جیسے یاد کر کے بتانے لگی۔ جب سے مجھے یہ پتا چلا میں اپنی کوئی بھی تعریف سن کر عیسی علیہ السلام کو کوٹ کرتی تھی، کوئی میری تعریف کرتا تو میں کہتی یہ مجھے میرے رب نے سکھایا ہے۔

بیوٹی فل! سسٹر میرین بے خود سی کہہ اٹھی پھر آہستہ سے چیزیں سمیٹنے لگی۔

مسر ہمایوں آپ پہلی مسلم ہو جس نے بتایا ہے کہ آپ کی ہولی بک یسوع مسیح کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ ورنہ مسلم ہمیشہ بہت سختی سے کہتے ہیں تمہارا عقیدہ غلط ہے۔

السلام علیکم فرشتے نے جھانکا، تم اٹھ گئیں ؟

ہاں کب کی۔ وہ چونکی پھر سنبھل گئی۔ فرشتے اندر چلی آئی۔ عبایا اور سیاہ حجاب کو چہرے کے گرد لپیٹے ہمیشہ کی طرح تازہ اور خوبصورت۔

آپ نے شادی نہیں کی فرشتے ! محمل نے کہا، اور پھر اس نے دیکھا کہ فرشتے کی سیاہ آنکھوں میں سایہ سا لہرایا ہے۔

شادی میں کیا رکھا ہے محمل؟وہ پھیکا سا مسکرائی۔

سنت سمجھ کے کر لیں۔

وہ سر جھکائے چادر پر انگلی سے نادیدہ لکیریں کھینچنے لگی۔

پھر آپ شادی کر لیں گی نا؟

جب تک تم ٹھیک نہیں ہوتیں، میں شادی نہیں کروں گی۔

اور اگر میں کبھی ٹھیک نہ ہوئی تو؟

تو میرے لیے تم، ہمایوں اور تیمور بہت ہو، مجھے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے، چلو تمہاری فزیو تھراپسٹ آنے والی ہو گی۔ اس سے بنا کر رکھو، اب اس کو بھگانا نہیں ہے، گھر شفٹ ہو کر بھی روز اس کی شکل دیکھنا ہو گی نا۔ فرشتے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی۔

اور وہ ایک خیال اسے اطمینان بخش گیا۔

گھر،، اس کا گھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا گھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ہفتے وہ واپس چلے جائے گی۔

اس نے طمانیت سے سوچا تھا۔ سسٹر میرین فائل ہاتھ میں پکڑے پین سے اس میں کچھ اندراج کر رہی تھی۔

محمل تکیوں کے سہارے ٹیک لگائے خاموش گم صم سی بیٹھی تھی۔ اس کے بھورے سیدھے بال شانوں پر پھسلتے کمر پر گر رہے تھے۔ یہ بال کبھی بے حد گھنے اور سلکی ہوا کرتے تھے۔ مگر طویل بیماری نے انہیں بے حد پتلا اور پھول کی پتیوں جیسا کر دیا تھا۔

میڈم! لکھتے لکھتے ایک دم سسٹر نے سر اٹھایا۔ اس کے چہرے پر یکایک ڈھیروں تفکر امڈ آیا تھا۔

ہوں۔ وہ چونکی۔ آج کل وہ پکارے جانے پر یوں ہی چونک اٹھتی تھی۔

کافی دن ہو گئے، وہ نہیں آئے۔

کون؟

وہ کوئی صاحب ہیں کافی عرصے سے آپ کو دیکھتے آ رہے ہیں۔ کافی بڑی عمر کے ہیں، اتنی لمبی داڑھی بھی ہے۔ بہت کائنڈ اور جینٹل سے ہیں۔

کب سے آ رہے ہیں ؟

میں تین سال سے ادھر ہوں، جب سے انہیں آتا دیکھتی ہوں عموماً فرائی ڈے کو آتے ہیں، بس ادھر سے جھانک کر۔ اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور مجھ سے آپ کا حال پوچھ کر چلے جاتے ہیں، کبھی آپ کے پاس رکے نہیں۔

کیا میرے کوئی رشتہ دار ہیں ؟سوال کرنے کے ساتھ ہی اس کے ذہن کے پردے پر بہت سے چہرے ابھرے۔ آغا ہاؤس کے خوش حال و مطمئن چہرے، ایک کسک سی دل میں اٹھی۔ کیا ان کو وہ یاد ہو گی؟کیا کبھی اپنے عیش و آرام سے فرصت پا کر انہوں نے اس کے لیے چند لمحے نکالے ہوں گے ؟

نہیں، وہ کہتے تھے کہ وہ آپ کے رشتے دار نہیں ہیں۔ بس یوں ہی جاننے والے ہیں۔

فرشتے اور میرے ہزبینڈ جانتے تھے وہ؟ ان کے ہوتے ہوئے وہ کبھی نہیں آئے، ہمیشہ ان کی غیر موجودگی میں آتے ہیں۔ مگر اب کافی دن ہو گئے نہیں آئے۔

کوئی نام اتا پتا؟

کبھی بتایا نہیں۔ سسٹر اب دوبارہ فائل پر جھکی اندراج کرنے لگی۔ وہ مایوس سی ہو گئی۔ جانے کون تھا۔

کیوں آتا تھا۔

رات میں فرشتے آئی تو اس نے یونہی پوچھ لیا۔

مجھے ادھ کون کون دیکھنے آتا تھا فرشتے۔

ہم سب۔ وہ اس کے بھورے بالوں میں برش کر رہی تھی۔

آغا جان لوگ کبھی نہیں آئے ؟

پتا نہیں۔ دونوں ہاتھوں میں بال پکڑ کر اس نے اوپر کیے اور پونی باندھی، پھر سیدھی لمبی پونی ٹیل کو احتیاط سے آہستی آہستہ اوپر سے نیچے برش کرنے لگی۔

کوئی تو آیا ہو گا۔

میں ان لوگوں کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی محمل۔ پلیز مجھے دکھ مت دو۔ اس کے انداز میں منت بھرا احتجاج تھا، پھر محمل کچھ نہ پوچھ سکی۔ سر جھکائے بال بنواتی رہی۔

یہ دیکھو۔ فرشتے نے پاکٹ مرر اس کے چہرے کے سامنے کیا۔ اس نے جھکا سر اٹھایا، آئینے میں اپنا عکس دکھائی دیا تو لمحے بھر کو وہ پہچان ہی نہ پائی۔

بے حد کمزور چہرہ، اندر کے نیچے گہرے جامنی حلقے، پژمردہ، بیمار، روکھا پھیکا سا چہرہ، اوپر اونچی پونی ٹیل، جو کبھی اسی تر و تازہ محمل ابراہیم پر بہت اچھی لگا کرتی تھی۔ اس بیمار لا غر محمل پر بہت بری لگ رہی تھی۔

رہنے دیں، مجھے یہ بال نہیں بنانے۔ اس نے نے ہاتھ سے پونی پکڑ کر کھینچی۔ بال شکنجے سے نکل کر شانوں پر بکھر گئے اور پونی اس کے ہاتھ میں آ گئی۔

کیوں کھول دئیے ؟فرشتے کو تاسف ہوا۔

میں ایسے بال نہیں بنانا چاہتی، پلیز مجھے دکھ مت دیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کے الفاظ لوٹا گئی۔

فرشتے چپ سی ہو گئی اور پھر کمرے سے نکل گئی۔ شاید وہ جانتی تھی کہ اس وقت محمل کو تنہا چھوڑ دینا ہی بہتر ہو گا۔

٭٭٭



ہمایوں کا گھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل کا گھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمایوں اور محمل کا گھر۔

وہ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ خوب صورتی سے آراستہ، کونا کونا چمکتا ہوا، فانوس کی روشنیاں، جگر جگر کرتی بتیاں، قیمتی پردے، یہ ہی سب پہلے بھی اس کے گھر میں تھا، اب بھی تھا، مگر رنگ بدل گئے تھے۔

لاؤنج کے صوفے، پردے یہاں تک کہ گملے بھی بدل گئے تھے۔ چیزیں رکھی گو اسی ترتیب میں تھیں۔ جیسے ہمایوں تھا۔ اپنی جگہ پر ویسے ہی موجود مگر پھر بھی بدل چکا تھا۔

کیسا لگا تمہیں اپنا گھر؟ اس کی وہیل چیئر پیچھے سے دھکیلتی فرشتے خوش دلی سے پوچھ رہی تھی۔

وہ گم صم خالی خالی آنکھوں سے درو دیوار کو دیکھ رہی تھی۔ سات سال پہلے وہ اس کا گھر تھا۔ اب شاید وہ صرف ہمایوں کا تھا۔

ڈاکٹرز نے اس کا مزید اسپتال میں رہنا بے فائدہ کہہ کر اسے گھر شفٹ کر دیا تھا۔ اس کی بیماری وہیں تھی۔ دایاں ہاتھ ٹھیک بایاں بازو اور ہاتھ سست اور نچلا دھڑ مکمل طور پر مفلوج، وہ کہتے تھے کہ اچانک۔ بھی ٹھیک ہو سکتی ہے اور ساری عمر بھی اس طرح رہ سکتی ہے۔ بس آپ دعا کریں، اب وہ کیا کہتی، آپ کو لگتا ہے کہ ہم دعا نہیں کرتے ؟ مگر ایسی باتیں کہی کہاں جاتی ہیں۔

فرشتے اسے لاؤنج کے ساتھ بنے کمرے کی طرف لے گئی۔ اس وہ اس کے مطابق سیٹ کروا دیا تھا۔ ۔

مگر میرا کمرہ تو اوپر تھا فرشتے۔

محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیڑھیاں چڑھنا اس وہیل چئیر کے ساتھ۔ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ اس نے سمجھ کر سر ہلا دیا۔

اور ہمایوں کا سامان؟ کچھ دیر چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے وہ پوچھ بیٹھی۔ ان کا سامان کدھر ہے ؟ ہمایوں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اس سے کہا تھا۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئی تھنک وہ اپنے کمرے میں زیادہ کمفرٹیبل ہے۔

تو وہ یہاں نہیں آئیں گے ؟محمل ششدر رہ گئی۔

کوئی بات نہیں محمل! وہ اسی گھر میں رہتا ہے، کسی بھی وقت آ جا سکتا ہے۔ فرشتے خواہ مخواہ شرمندہ ہو رہی تھی۔

نہیں فرشتے ! تم ان سے کہہ دو مجھے یوں اکیلا نہ کریں۔

اس نے بے اختیار فرشتے کے ہاتھ پکڑ لیے۔ اس کے ہوش میں آنے کے بعد وہ صرف ایک بار اس سے ملنے آیا تھا، پھر کبھی نہیں آیا۔

محمل، پلیز میرے لیے تم دونوں بہت عزیز ہو، وہ کزن ہے اور تم بہن، اس لیے میں نہیں چاہتی کہ میری کسی بات میں تم ہرٹ ہو۔ پلیز مجھے اچھا نہیں لگتا میں تم دونوں کے پرسنلز میں دخل دوں، مجھے اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس نے بہت نرمی سے اسے سمجھایا۔ وہ اس کے ہاتھ تھامے گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ محمل لا جواب سی ہو گئی۔

اور تیمور؟اس کا کمرہ کدھر ہے ؟بے اختیار اسے یاد آیا۔

لاؤنج کے اس طرف والا کمرہ۔

ہمایوں اسے اپنے ساتھ نہیں سلاتے ؟وہ اتنا چھوٹا ہے، وہ اکیلا کیسے سو سکتا ہے ؟اس کا دل تڑپ کر رہ گیا۔

جن بچوں سے ان کے ماں باپ دونوں چھن جائیں، وہ عادی ہو جاتے ہیں محمل!اگر وہ مجھے پسند کرتا ہوتا تو میں اسے ساتھ سلاتی مگر۔ ۔ ۔ ۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتا۔

کیوں ؟وہ بنا سوچے بول اٹھی۔ جواباً فرشتے اداسی سے مسکرائی۔

وہ تو تمہیں بھی پسند نہیں کرتا کیا اس میں تمہارا قصور ہے ؟

محمل کا سر آہستہ سے نفی میں ہل گیا۔

سو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے، اگر وہ مجھے پسند نہیں کرتا۔ تم بیٹھو، میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں۔ اب تم نارمل فوڈ لے سکتی ہو۔ میں نے ڈاکٹر سے بات کر لی تھی۔ وہ جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو محمل بے اختیار کہہ اٹھی۔

آپ بہت اچھی ہیں فرشتے !میں کبھی آپ کی اس کئیر کا بدلہ نہیں دے سکتی۔

میں نے بدلہ کب مانگا ہے ؟وہ نرمی سے اس کا گال تھپتھپا کر باہر نکل گئی

دن پژمردگی سے گزرنے لگے۔ وہ سارا دن کمرے میں پڑی رہتی، یا فرشتے کے زبردستی مجبور کرنے پر باہر لان میں آتی اور وہاں بھی گم صم ہی رہتی، فرشتے ہی کوئی نہ کوئی بات کر کے ذہن بٹا رہی ہوتی اور یہ باتیں عموماً فرشتے اس سے نہیں کرتی تھی۔ بلکہ اس کی وہیل چئیر دھکیلتے ہوئے کبھی کیاری میں گوڈی کرتے مالی سے مخاطب ہوتی، تو کبھی برآمدے کا فرش دھوتی ملازمہ سے۔ فرشتے اب اتنا نہیں بولتی تھی، جتنا پہلے بولتی تھی۔ اس کا انداز پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔ اور یہ وقت کا اثر تھا، وہ اثر جو نہ چاہتے ہوئے بھی وقت ہر انسان پر چھوڑے ہی جاتا ہے۔

فرشتے نے گھر کو اچھی سے سنبھالا ہوا تھا۔ گو کہ ہر کام کے لیے جزوقتی ملازمائیں رکھی ہوئی تھیں۔ مگر تمام انتظام اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے باوجود وہ نہ کسی پر حکم چلاتی تھی نہ اس گھر کی پرائیوسی میں دخل دیتی تھی۔ محمل ملازموں سے بات کرنے کے علاوہ زیادہ کلام بھی نہ کرتی تھی، وہ بھی شدید ضرورتاً اور تیمور تو ویسے بھی ہر شے سے چڑا ہوا لڑکا تھا۔ سو وہ اسے مخاطب نہیں کرتی تھی۔ کبھی جو کر لیتی تو تیمور اس بدتمیزی سے پیش آتا کہ الامان۔

محمل نے نوٹ کیا تھا کہ تھوڑی بدتمیزی کر کے تیمور چیخنے چلانے پر آ جاتا تھا اور اگر مزید کچھ کہا جائے تو چیزیں اٹھا کر توڑ پھوڑ کرنے سے بھی گریز نہ کرتا تھا۔ فرشتے بہت محتاط طریقے سے اس گھر میں رہ رہی تھی، جیسے اس کے ذہن میں تھا اسے جلد ہی یہاں سے چلے جانا ہے۔ ملازمہ بلقیس نے اسے بتایا تھا کہ فرشتے اپنے پیسوں سے ماہانہ راشن کی چیزیں لے آتی ہے، خصوصاً ً چکن اور گوشت وہ ہمیشہ خود ہی خریدتی تھی۔ جب ہمایوں کو پتا چلا اور اس نے فرشتے کو روکنا چاہا تو فرشتے نے صاف کہہ دیا کہ اگر اس نے اسے روکا تو وہ واپس اسکاٹ لینڈ چلی جائے گی۔ نتیجتا ہمایوں خاموش ہو گیا۔ صاف ظاہر تھا وہ ان پر بوجھ بننا نہیں چاہتی تھی اور شاید اس کے ذہن میں ہو کہ کہیں کوئی اسے مفت خورا نہ سمجھ لے۔ اپنی عزت نفس اور وقار کو اس نے ہمیشہ قائم رکھا تھا، محمل خود کو اس کا زیر بار سمجھنے لگی۔

ہمایوں سے اس کی ملاقات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ وہ کبھی دوپہر میں گھر آتا تو کبھی رات کو۔ کھانا وہ اپنے کمرے میں کھاتا۔ اور پھر وہی رہتا اکثر بہت رات گئے گھر واپس اتا۔ وہ انتظار میں لاؤنج میں وہیل چئیر پر لاؤنج میں بیٹھی ہوتی۔ وہ آتا سرسی سا حال پوچھتا اوپر سیڑھیاں چڑھ جاتا اور وہ اس کی پشت کو نم آنکھوں سے دیکھتی رہ جاتی۔

تیمور دوپہر میں اسکول سے آتا تھا۔ وہ کھانا ڈائنگ ٹیبل پر اکیلے کھاتا تھا۔ اگر محمل کو ادھر بیٹھے دیکھتا تو فوراً واپس چلا جاتا نتیجتا بلقیس اسے اس کے کمرے میں کھانا دے آتی۔ وہ جنک فوڈ کھاتا تھا۔ برگر پنیر کے ڈبوں سے فریزر اور فرنچ فرائیز کے لیے آلوؤں سے سبزی والی ٹوکری بھری رہتی۔ کھانے پینے کا وہ بہت شوقین تھا۔ اسکول سے لائے چپس کے پیکٹس اور چاکلیٹس عموماً کھاتا نظر آتا۔ شام کو ٹی وی لاؤنج میں کارٹون لگائے بیٹھا رہتا۔ اگر محمل کو آتا دیکھتا تو اٹھ کر چلا جاتا۔ وہ جان ہی نہ پا رہی تھی کہ وہ اتنا ناراض کس بات پر ہے ؟ آخر اس نے کیا ہی کیا ہے ؟

اس گھر کے تینوں مکیں اجنبیوں کی طرح رہ رہے تھے، اور اب وہ چوتھی اجنبی ان کی اجنبیت بٹانے آ گئی تھی۔

فرشتے شام میں مدرسے جاتی تھی۔ وہ غالباً اب شام میں کلاسز لے رہی تھی۔ محمل نے ایک بار پوچھا تو وہ اداسی سے مسکرا دی تھی۔

صبح کی کلاسز لینا اسپتال کی وجہ سے ممکن نہ تھا۔ مختصراً بتا کر وہ حجاب صحیح کرتی باہر نکل گئی تھی۔

وہ محمل کا بہت خیال رکھتی تھی۔ اس کی دوا، مساج، مفلوج اعضاء کی ایکسر سائز، فریوتھراپسٹ کے ساتھ اس پر محنت کرنا، پھر غذا کا خیال، وہ انتھک لگی رہتی، بلا کسی اجر کی تمنا کیے یا احسان جتائے۔

اس شام بھی فرشتے مدرسے گئی ہوئی تھی۔ جب سیاہ بادل آسمان پر چھانے لگے۔ ہمایوں تو کبھی بھی شام میں گھر نہیں ہوتا تھا۔ تیمور جانے کہاں تھا۔ وہ اپنے کمرے سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے دن میں رات کا سماں بندھ گیا، بادل زور سے گرجنے لگے۔ موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ گرنے لگیں، بجلی کڑکتی تو ایک لمحے کو خوف ناک سی روشنی بکھر جاتی۔

اسے بارش سے پہلے کبھی نہیں ڈر لگا تھا۔ مگر آج لگ رہا تھا، ہمایوں نہیں تھا، فرشتے بھی نہیں تھی، اسے لگا وہ اکیلی ہے، تنہا ہے۔

بجلی بار بار کڑک رہی تھی۔ ساتھ ہی اس کی دھڑکن بھی تیز ہو رہی تھی۔ بے اختیار اسے پسینہ آنے لگا تھا، کیا کرے کسے بلائے ؟

وہ تیزی سے دونوں ہاتھوں سے وہیل چئیر چلاتی لاؤنج میں آئی۔ فون ایک طرف تپائی پر دھرا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک چٹ بھی تھی جس پر ہمایوں اور فرشتے کا نمبر لکھے تھے۔ وہ غالباً تیمور کے لیے لکھے گئے تھے۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے رسیور اٹھایا اور فرشتے کا نمبر ڈائل کیا، پھر رسیور کان کے ساتھ لگایا۔

گھنٹی جا رہی تھی، مگر وہ اٹھا نہ رہی تھی۔ غالباً کلاس میں تھی۔ اس نے مایوسی سے فون رکھ دیا، اس کی نگاہ دوبارہ چٹ پر پڑی۔

کچھ سوچ کر اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ رسیور دوبارہ اٹھایا۔ نمبر ڈائل کرتے ہوئے اس کی انگلیاں لرز رہی تھیں۔

تیسری گھنٹی پر ہمایوں نے ہیلو کہا تھا۔

ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمایوں۔ وہ بمشکل بول پائی تھی۔ کون؟

میں محمل۔

دوسری جانب ایک لمحے کو سناٹا چھا گیا۔

ہاں بولو۔ مصروف، سرد مہر سی آواز ابھری۔

آپ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کدھر ہیں ؟

پرابلم کیا ہے ؟قدرے بے زاری۔

وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ باہر اسٹورم(طوفان) آ رہا ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے پلیز آپ گھر آ جائیں۔ اس کا گلا رندھ گیا آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔

اوہو۔ میں میٹنگ میں بیٹھا ہوں۔ ابھی کہاں سے آ جاؤں۔

مجھے نہیں پتہ پلیز آ جائیں جیسے بھی ہو۔ باہر طوفان کا شور بڑھ رہا تھا، ساتھ ہی اس کے آنسوؤں میں شدت آ گئی تھی۔

میں نہیں آ سکتا، فرشتے یا کسی ملازمہ کو بلا لو۔ وہ جھلایا تھا۔

فرشتے گھر پر نہیں ہے، آپ آ جائیں ہمایوں پلیز۔

کیا بکواس ہے ؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم معذوری کا ڈرامہ رچا کہ میری ہمدردی حاصل کر سکتی ہو تو اس خیال کو دل سے نکال دو اور مجھے میری زندگی جینے دو، خدا کے لیے اب پیچھا چھوڑ دو میرا۔ اور ٹھک سے فون بند ہو گیا۔

وہ سکتے کے عالم میں ریسیور ہاتھ میں لیے سن سی بیٹھی رہ گئی۔ کتنے لمحے گزرے، کتنے بادل گرجے کتنی بجلی چمکی، کتنے قطرے برسے، وہ ہر شے سے غافل، بنا پلک جھپکے شل سی بیٹھی تھی۔ لب ادھ کھلے آنکھیں پھٹی پھٹی اور ہاتھ میں پکڑا رسیور کان سے لگائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کوئی مجسمہ تھا جو ٹیلی فون اسٹینڈ کے ساتھ اس وہیل چیئر پر بے حس و حرکت پڑا تھا۔

پھر کتنی ہی دیر بعد رسیور اس کے ہاتھ سے پھسلا اور نیچے لڑھک گیا۔ اس کے زمین سے ٹکرانے کی آواز پر بے اختیار اس نے پلکیں جھپکیں اور آن کی آن میں اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں۔

اس کی ہچکی بندھ گئی تھی، اور پورا وجود لرز رہا تھا، وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی۔

ہمایوں نے اسے وہ سب کہا تھا؟اتنے غصے اور بے زاری سے، جیسے وہ اس سے اکتا چکا تھا۔ ہاں وہ مرد تھا۔ وجیہہ، شان دار سا مرد، کب تک ایک کومے میں بے ہوش پڑی نیم مردہ بیوی کی پٹی سے لگا رہتا؟اس کو اب محمل کی ضرورت نہ تھی۔ شاید وہ اب اس سے شادی کرنے پر پچھتا رہا تھا۔ اپنی وقتی جذباتیت پر پچھتا رہا تھا۔

دفعتاً آہٹ پر اس نے آنکھیں کھولیں۔

تیمور سامنے صوفے کے اس طرف کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ چبھتی خاموش نگاہیں جن میں عجیب سا تنفر تھا۔

تیمور! اس کی زخمی مامتا بلبلائی۔ ادھر میرے پاس آؤ بیٹا! اس نے دونوں ہاتھ پھیلائے۔ شاید وہ اس کے گلے سے لگ جائے، شاید کہ ہمایوں کے روئیے کی تپش کچھ کم پڑ جائے۔

آئی ہیٹ یو۔ وہ تڑخ کر بولا اور اسے دیکھتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا۔ ہمایوں کے الفاظ کیا کم تھے جو اوپر سے اس سات سالہ لڑکے کا انداز، اس کی روح تک چھلنی ہو گئی۔

میں نے کیا کیا ہے تیمور؟تم ایسے کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ؟کیوں ناراض ہو مجھ سے ؟

یو لیفٹ می وین آئی نیڈ یو۔ (آپ نے مجھے اس وقت چھوڑا جب مجھے آپ کی ضرورت تھی۔ )

وہ زور سے چیخا تھا۔ آئی ہیٹ یو فار ایوری تھنگ۔

اور مڑ کر بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ لمحے بھر بعد اس نے تیمور کے کمرے کا دروازہ زور سے بند ہوتے سنا۔

کیا تمہیں چھوڑنے میں میرا اپنا اختیار تھا تیمور؟ تم اتنی سی بات پر مجھ سے ناراض نہیں ہو سکتے۔ شاید تمہارے باپ نے تمہیں مجھ سے بد ظن کیا ہے۔ وہ دکھی دل سے سوچتی واپس کمرے تک آئی تھی۔ اس کے ripple بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر سیاہ کور والا قرآن رکھا تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ سے اٹھایا اور دونوں ہاتھوں میں تھامے اپنے سامنے کیا۔

سیاہ کور پر مدھم سا مٹا مٹا سا م لکھا تھا۔ جانے اس نے کیوں اور کب ادھر لکھا تھا؟وہ کوشش کے باوجود نہ یاد کر پائی، پھر سر جھٹک کر اسے وہاں سے کھولا جہاں سے فجر کے بعد تلاوت چھوڑی تھی۔ اس نے وہ آیت دیکھی جہاں ایک بار مارک لگا تھا، پھر تعوذ تسمیہ پڑھا اور اگلی آیت سے پڑھنا شروع کیا۔

ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ان کی بات غمگین کرتی ہے۔

اس نے بے یقینی سے اس آیت کو دیکھا۔

ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ان کی بات غمگین کرتی ہے، پس بے شک وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے، بلکہ وہ ظالم تو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے ہیں۔ اس نے پھر سے پڑھا اور پھر سے دم بخود سی ہو کر ایک ایک حرف کو انگلی سے چھونے لگی۔ کیا وہ واقعی ادھر لکھا تھا؟

اوہ اللہ تعالی۔ اس کے آنسو پھر سے گرنے لگے تھے۔ آپ کو۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو ہمیشہ سے پتا چل جا تا ہے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کبھی بھی آپ سے کچھ نہیں چھپا سکتی۔ وہ بری طرح رو دی تھی۔ اب کی بار یہ دکھ کے آنسو نہ تھے، بلکہ خوشی کے تھے، سکون کے تھے رضا کے تھے۔ اگر آپ مجھ سے یونہی بات کرتے رہیں تو آپ مجھے جس حال میں بھی رکھیں میں راضی ! میں راضی! میں راضی! اس نے چہرہ اٹھایا اور ہتھیلی کی پشت سے آنسو صاف کیے۔

اب اسے رونا نہیں تھا۔ اب اسے صبر کرنا تھا، طائف کے پتھر در اصل اب لگنے شروع ہوئے تھے۔ صبر اور شکر۔ ۔ ۔ ۔ اس نے ان دو سہاروں کو بالآخر تھام ہی لیا تھا۔

٭٭٭



شام بہت سہانی سی اتری تھی۔ کالونی کی صاف سڑک کے اطراف سبز درختوں کے تازہ پتوں کی مہک، ٹھنڈی ہوا سے بکھر گئی تھی۔

بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی سڑک کے کنارے آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی ادھر ادھر کی باتیں بھی کر رہی تھی۔ مگر محمل کا دھیان کہیں اور تھا۔ وہ گم صم سی دور افق کو دیکھ رہی تھی۔ جہاں پرندوں کے غول اڑ رہے تھے۔ اس روز کے طوفان کے بعد موسم بہت ٹھنڈا ہو گیا تھا اور اس ٹھنڈی ہوا میں باہر نکلنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔

بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی دور پارک تک لے آئی تھی۔ اس سے آگے ان کے سیکٹر کا مرکز تھا، وہاں بوتیکس، شاپس اور ریسٹورنٹ کی چہل پہل ہوتی تھی اور ایسی جگہوں پر جاتے ہوئے اس کا دل گھبراتا تھا، سو اس نے بلقیس کو آگے جانے سے منع کر دیا۔

بس یہیں پارک تک ٹھیک ہے، اسی میں چلتے ہیں۔

بلقیس سر ہلا کر وہیل چئیر اندر لے جانے لگی۔

جب آپ کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا نا محمل بی بی تو صاحب بہت روئے تھے۔ میں نے خود انہیں روتے دیکھا تھا۔ بہت دھچکا لگا تھا ان کو۔

کون ؟ ہمایوں ؟ وہ چونکی تھی۔

ہاں جی! انہوں نے چھٹی لے لی تھی، کئی ماہ تو وہ اسپتال میں آپ کے ساتھ ہی رہے تھے۔ تیمور بابا کو تو بھلا ہی دیا تھا، میں نے بڑا کیا ہے جی تیمور با با کو۔ بڑا پیارا بچہ تھا ہمارا بابا، جب چار سال کا تھا تو آپ کے لیے پھول لے کے جاتا تھا، اور وہاں اسپتال میں آپ کے سرہانے بیٹھ کر گھنٹوں بولا کرتا تھا۔

پھر اب کیا ہوا ہے اسے بلقیس؟ اس نے دکھ سے پوچھا تھا۔ بلقیس آہستہ آہستہ پارک کی پتھریلی روش پر وہیل چئیر چلا رہی تھی۔ دور گھاس پر بچے کھیل رہے تھے۔ ایک طرف ایک بچہ ماں کی انگلی پکڑے رو رہا تھا۔ اسے ہر بچے میں اپنا تیمور نظر آ رہا تھا۔

تیمور بابا ایسا نہیں تھا بی بی!وہ تو بہت پیار کرنے والا بچہ تھا، مگر پھر اب دو ایک سالوں میں بہت چڑ چڑا ہو گیا ہے۔ صاحب بھی تو اسے توجہ نہیں دیتے، پہلے تو چھوٹا تھا پر اب بہت سمجھدار ہو گیا ہے، ساری باتیں سمجھتا ہے، اسی لیے سب سے ناراض رہتا ہے۔

اور تمہارے صاحب؟وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟

پتا نہیں بی بی!وہ شروع میں آپ کا بہت خیال رکھتے تھے، پھر آپ کے حادثے کے چھٹے برس ان کی پوسٹنگ کراچی ہو گئی تھی۔ وہ سوا سال ادھر رہے۔ وہاں سے واپس آئے تو بہت بدل گئے تھے جی۔ اب تو ڈیڑھ سال ہو گیا ہے جی ان کو واپس آئے ہوئے، مگر اب تو آپ کا یا تیمور بابا کا حال تک بھی نہیں پوچھتے۔

کراچی میں ایسا کیا ہوا جو بدل گئے ؟وہ کھوئی کھوئی سی بولی تھی۔

معلوم نہیں بی بی، مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لمحے بھر کو ہچکچائی۔

ان کے کراچی جانے کے کوئی دو ہفتے پہلے مجھے یاد ہے، ادھر آپ کے گھر آپ کا کوئی رشتے دار آئے تھے، ان سے بہت بہت لڑائی ہوئی تھی صاحب کی۔

کون ؟ کون آیا تھا؟اس نے وحشت زدہ سی ہو کر گردن گھمائی۔ بلقیس کے چہرے پر تذبذب کے آثار تھے۔

اصل میں بی بی! آپ کے رشتے دار کبھی آئے ہی نہیں، تو وہ جو بس ایک ہی دفعہ آئے تو مجھے یاد رہ گیا، آپ کے تایا کے بیٹے تھے۔

کون؟فو۔ ۔ ۔ ۔ فواد ؟ اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ نام وام تو نہیں معلوم، مگر صاحب نے ان سے بہت لڑائی کی تھی۔ دونوں بہت دیر تک اونچا اونچا لڑتے رہے تھے۔

مگر کیا ہوا تھا؟جھگڑا کیوں ہوا ان کا؟وہ مضطرب اور بے چین سی ہو گئی تھی۔

میں کچن میں تھی بی بی!کچھ سمجھ میں تو نہیں آیا کہ وہ کیوں لڑ رہے تھے، مگر شاید کوئی کچہری وغیرہ کا معاملہ تھا اور دونوں آپ کا نام بار بار لیتے تھے، پھر صاحب نے فرشتے بی بی کو بھی ادھر بلوا لیا۔ وہ پتا نہیں کچھ بولیں یا نہیں، ان کی آواز ہی نہیں آئی مجھے، پھر وہ آپ کے تایا زاد چلے گئے اور صاحب دیر تک فرشتے بی بی پر چلاتے رہے، میں کھانے کا پوچھنے گئی تو دیکھا فرشتے بی بی رو رہی تھیں اور اپنا سامان پیک کر رہی تھیں، میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ جا رہی ہیں، میں نے پوچھا کہ کدھر تو بولیں، پتا نہیں اور روتی جا رہی تھیں، پھر اگلے دن رشید نے بتایا کہ صاحب اپنا ٹرانسفر کراچی کروا رہے ہیں، پھر صاحب چلے گئے اور فرشتے بی بی رک گئیں۔

وہ دم سادھے ساری تفصیلات سن رہی تھی۔ اس کے پیچھے کیا، کیا ہوتا رہا، اسے خبر ہی نہیں ہو سکی۔ کیا فواد نے ہمایوں کو اس کے خلاف بہکایا تھا؟ اور فرشتے کو اس نے ایسی کیا بات کہی کہ وہ روئی؟وہ تو بہت مضبوط لڑکی تھی۔ یوں کبھی نہیں روتی تھی۔ اس نے تو اس کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے تھے، اوہ خدایا اس نے سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔

وہ کیا کرے ؟ کس سے پوچھے ؟ فرشتے تو کبھی نہ بتاتی۔ ہمایوں سے امید بھی نہ تھی اور تیمور تو اس کا دیکھنے کا روادار نہ تھا پھر؟کیا کرے ؟صبر اور نماز کا سہارا۔ اس کے دل سے آواز اٹھی تھی۔

بلقیس کو کوئی جاننے والی مل گئی تو وہ اس سے باتیں بگھارنے ذرا فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔

محمل نے قرآن اٹھا لی، وہ قرآن لیے گھر سے نہ نکلتی تھی اسے آہستہ سے کھولا۔ کل جہاں سے تلاوت چھوڑی تھی ان آیت پر نشان لگا تھا۔ وہ بہت غور سے دھیان سے آگے پڑھنے لگی۔

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں (مائدہ 10)

لمحے بھر کو اس کا دماغ چکرا کر رہ گیا۔ مگر فوراً خود کو سرزنش کی۔

یہ کوئی فال نکالنے کی کتاب تو نہیں ہے، اسی لیے اس نے مجھے ایسے سوال کرنے سے منع کیا ہے، میں بھی خواہ مخواہ۔ ۔ ۔ وہ سر جھٹک کر آہستہ سے آگے تلاوت کرنے لگی۔

اگلی آیات دوسری چیزوں کے متعلق تھیں۔ اس کی سوچوں پر بالکل خاموش، لب سے کسی اور طرف توجہ مبذول کرواتیں۔ اس کے الجھے دماغ کو سکون آنے لگا۔ جو بھی ہوا کبھی نہ کبھی کھل ہی جائے گا، اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہ تھی۔

وہ زیر لب ترنم سے تلاوت کرنے لگی۔

٭٭٭



رات کے دو بج چکے تھے اور ہمایوں ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔ وہ مضطرب سی لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ بار بار دیوار ہی آویزاں گھڑی کو دیکھتی اور پھر دروازے کو گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھتی جا رہی تھیں۔ مگر دروازہ ہنوز ساکت و جامد تھا۔ باہر بھی خاموشی تھی۔

اس کے دل میں وسوسے سے آنے لگے تھے۔ نا جانے وہ ٹھیک بھی ہیں یا نہیں، کیا پتہ اس کی گاڑی خراب ہو گئی ہو، کیا پتا کسی مشکل میں پھنس گئے ہوں۔ اس نے بے اختیار اس کے لیے دعا کی تھی۔

دفعتاً گاڑی کا ہارن سنائی دیا اور پھر گیٹ کھلنے کی آواز آئی، وہ مڑ کر دروازے کو پیاسی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ قدموں کی آواز اور پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھاری چر چراہٹ کے ساتھ دروازہ کھلا، کیپ اور اسٹک ہاتھ میں لیے وہ تھکا تھکا سا یونیفارم میں چلا آ رہا تھا۔ اندر داخل ہو کر اس نے مڑ کر دروازہ بند کیا اور پھر چند قدم آگے آیا۔ دفعتاً اسے بیٹھا دیکھ کر ہمایوں کے قدم تھمے۔ چہرے پر حیرت بھری ناگواری ابھر آئی۔

تم ادھر کیوں بیٹھی ہو؟

السلام علیکم، آپ کا ویٹ کر رہی تھی۔ آپ نے بہت دیر لگا دی۔ وہ آہستہ سے بولی تھی۔

میں دیر سے آؤں یا جلدی آؤں خدا کے لیے میرے انتظار میں ادھر مت بیٹھا کرو۔

اس نے بہت تحمل سے اس کا بے زار لہجہ سنا، پھر دھیرے سے بولی۔ میں پریشان ہو گئی تھی کہ خیریت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مر نہیں گیا تھا میں سو کام ہوتے ہیں، اگر آئندہ مجھے تم یہاں بیٹھی ملیں تو میں گھر ہی نہیں آیا کروں گا۔ خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دو محمل! وہ جھڑک کر کہتا تیزی سے اوپر سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔

اس نے بڑے صبر و ضبط سے آنسو پی لیے، یہاں تک کہ وہ اپنے دروازے کے پیچھے گم ہو گیا۔ تب اس نے گود میں دھرے ہاتھ اٹھائے اور اپنی وہیل چئیر کو کمرے کی طرف موڑنے لگی۔

کبھی تو اسے احساس ہو گا کہ یہ وہی محمل ہے جو کبھی اس کی من چاہی بیوی تھی اور جب وہ یہ محسوس کرے گا تو لوٹ آئے گا۔ اسے یقین تھا اور یہ ہی یقین اس نے دل میں اٹھتے درد کو دلایا تھا۔

وہ تارکول کی سڑک پر آج پھر بلقیس کے ساتھ وہیل چئیر پر جا رہی تھی۔ باہر کا موسم اس کی طبیعت پر بہت اچھا اثر ڈالتا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ اس کی معذوری میں رتی بھر بھی فرق نہ آیا تھا۔

بلقیس ادھر ادھر کی باتیں کرتی اس کی وہیل چئیر دھکیل رہی تھی۔ وہ آج بھی اسے نہیں سن رہی تھی، بس خاموش مگر پرسکون نگاہوں سے دور افق کو دیکھ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ ٹھہراؤ اس کی شخصیت کا حصہ بنتا جا رہا تھا۔

بلقیس تمہیں میرے تایا کے گھر کا پتا ہے ؟ایک دم ہی وہ کسی خیال کے تحت چونکی اور پھر پوچھ لیا۔

نہ بی بی ! میں تو ادھر کبھی نہیں گئی۔

اچھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر مجھے راستہ یاد ہے، تم مجھے ادھر لے چلو گی؟

پیدل؟

ہاں زیادہ دور نہیں ہے، جتنا فاصلہ یہاں سے مرکز تک ہے اتنا ہی ہے میں پیدل بھی آ جایا کرتی تھی۔

اسے بے اختیار وہ شام یاد آئی جب وسیم سے اپنے رشتے کی بات سن کر روتی ہوئی پیدل ہی مدرسے کے سامنے سڑک پر آ گئی تھی۔ اور اس نے ہمایوں سے کہا تھا کہ وہ بیچ راہ میں چھوڑ دینے والوں میں سے نہیں ہے اور پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چلیں پھر ٹھیک ہے۔ آپ راستہ بتائیں۔ بلقیس کی آواز پر وہ یادوں کے ہجوم سے باہر نکلی اور راستہ بتانے لگی۔ چھوٹی سڑک سے ایک راستہ پل سے ہوتا ہوا ان کے سیکٹر میں جا اترتا تھا، جس سے وہ بیس منٹ میں ادھر پہنچ سکتی تھیں۔

آج وہ بیس منٹ پوری صدی لگ رہے تھے۔ وہ اس راستے پر جاتے ہی دور کہیں کھو گئی تھی۔ نہ جانے وہ سب کیسے ہوں گے ؟اتنے ہی عیش و آرام سے رہ رہے ہوں گے ؟ جتنے پہلے تھے ؟کیا ان میں سے کسی نے اس کو یاد کیا ہو گا؟کبھی وہ اسپتال بھی آئے ہوں گے کہ نہیں ؟اور نہ جانے فواد نے جا کر ہمایوں سے کیا کہا تھا جس پر فرشتے روتی رہی؟بہت یاد کرنے پر بھی ایسی کوئی بات ذہن میں نہیں آئی جو وہ ہمایوں سے یوں کہہ سکتا تھا یا شاید اس کی سوچنے کی صلاحیت اب سست ہوتی جا رہی تھی۔

یہ آپ کا گھر ہے جی؟ بڑا سوہنا ہے۔

بلقیس کہہ رہی تھی اور وہ چونک کر اس اونچے عالیشان محل نما گھر کو دیکھنے لگی اس کا پینٹ، کھڑکیوں کے شیشے اور بیرونی گیٹ بدل گیا تھا۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گیا تھا۔

یہ وہ گھر تھا جہاں اس نے اپنی زندگی کے اکیس سال گزارے تھے اور اسی سے وہ ایک رات نکالی گئی تھی۔ بظاہر رخصتی کی آڑ میں اسے اس گھر سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

بیل بجاؤ بلقیس!

بلقیس آگے بڑھی اور گھنٹی بجائی۔ چند لمحوں بعد قدموں کی چاپ سنائی دی، جیسے کوئی دوڑتا ہوا گیٹ کھولنے آ رہا ہو۔ اس کے دل کی دھڑکن ٹھہر سی گئی۔ وہ اتنے سالوں بعد کسے دیکھنے جا رہی تھی؟ فواد حسن آغا جان؟

دروازہ آہستہ سے کھلا اور کسی نے سر باہر نکال کر دیکھا۔

جی کس سے ملنا ہے ؟وہ حلیے اور لہجے سے ملازم لگتا تھا۔

بلقیس نے جواباً محمل کو دیکھا تو وہ ہمت مجتمع کر کے بولی۔

آغا کریم گھر پر ہیں ؟

ملازم کے چہرے پر ہلکی سی الجھن ابھری۔

کون آغا کریم؟

آغا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آغا کریم جو اس گھر کے مالک ہیں، جن کا یہ گھر ہے۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہاؤس نمبر ٹو تھرٹی ہے نا؟

آہو جی یہ ٹو تھرٹی ہے، مگر یہ تو چوہدری نذیر صاحب کی کوٹھی ہے۔ ادھر تو کوئی آغا کریم نہیں رہتے۔

بی بی کہیں ہم غلط گھر میں تو نہیں آ گئے ؟بلقیس نے ہولے سے کہا تو اس نے سختی سے نفی میں سر ہلایا۔ نہیں یہی گھر ہے، آغا کریم سات سال پہلے ادھر ہی رہتے تھے۔

سات سال تو بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے میڈم جی جانے اب وہ کدھر گئے۔

اچھا آپ ٹھہرو، میں بیگم صاحبہ سے پوچھ کر آتا ہوں۔ وہ انہیں وہیں چھوڑ کر اندر چلا گیا۔ چند لمحوں بعد اس کی واپسی ایک نوجوان کے ساتھ ہوئی۔

جی فرمائیے ؟وہ بیس اکیس برس کا مہذب اور شائستہ سا نوجوان تھا۔

وہ۔ ادھر آغا کریم اور ان کی فیملی رہتی تھی۔ وہ لوگ کدھر گئے ؟

میم! ہم دو سال سے ادھر رہ رہے ہیں، دو سال پہلے ایک شیخ عامر سے ہم نے یہ گھر خریدا تھا۔ ہو سکتا ہے ان کو آغا کریم نے یہ بیچا ہو، مگر میں ان کے بارے میں قطعی لاعلم ہوں۔

آغا جان نے یہ گھر بیچ دیا؟مگر کیوں ؟وہ شاکڈ سی رہ گئی۔

معلوم نہیں میم کیا آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں ؟

اس کا سر نفی میں دائیں سے بائیں ہلا۔ لڑکا معذرت کر کے واپس چلا گیا اور وہ پریشان سی بیٹھی رہ گئی۔

بی بی! ہمسایوں سے پوچھتے ہیں۔ اور اس کے منع کرنے سے قبل بلقیس ساتھ والے گھر کی گھنٹی بجا چکی تھی۔ اس گھر میں کون رہتا تھا؟خاصا جانا پہچانا سا گھر تھا، مگر یاد نہیں آ رہا تھا۔

بمشکل ایک منٹ بعد ہی گیٹ کھل گیا۔ محمل نے گردن اٹھا کر دیکھا۔

ادھر کھلے گیٹ کے اس پار بریگیڈئیر فرقان کھڑے تھے۔

شلوار قمیض میں ملبوس، چہرے پر نفاست سے تراشیدہ داڑھی اور بھر پور مسکراہٹ لیے وہ اسے دیکھ رہے تھے۔ انہیں دیکھ کے اسے بہت کچھ یاد آنے لگا۔

السلام علیکم لٹل گرل! میں کافی دیر سے آپ کو ٹیرس سے دیکھ رہا تھا۔ آئیے اندر آ جائیں۔ انہوں نے گیٹ پورا کھول دیا اور ایک طرف کو ہٹ گئے۔

بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی اندر روش پر لے آئی۔

ادھر آ جائیے۔ وہ لان میں گھاس پر رکھی لان چئیرز کو جوڑنے لگے، یوں کے وہیل چیئر کی جگہ بن جائے۔

کیسی ہیں آپ؟وہ اس کی سامنے والی کرسی پر بیٹھے اور بہت ہی شائستگی سے پوچھنے لگے ان کا مخصوص لب و لہجہ اسی طرح بھاری تھا، البتہ سختی کی جگہ نرمی نے لے لی تھی۔

ٹھیک ہوں الحمد للہ۔ وہ ذرا سا مسکرائی اور سر جھکا لیا، پھر کچھ سوچ سوچ کر اسی جھکے سر کے ساتھ کہنے لگی۔ میرا کچھ سال پہلے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا، تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں جانتا ہوں، میں آپ کو دیکھنے اسپتال آتا تھا۔

اس نے ہولے سے سر اٹھایا۔ سنہری آنکھوں میں حیرت اتر آئی تھی۔

اچھا؟اور پھر اسے یاد آ گیا۔ ہاں مجھے نرس نے بتایا تھا۔ تو وہ آپ تھے ؟

جی ہاں۔ وہ دھیمے سے مسکرائے۔ آپ کی امانت نے میری زندگی بدل دی بیٹا۔

وہ بنا پلک جھپکے انہیں دیکھ رہی تھی۔

میں نے دو سال وہ پمفلٹ نہیں کھولے، پھر زندگی میں ایک موڑ ایسا آیا کہ ہر جگہ اندھیرا دکھنے لگا تو نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ان کو کھول لیا۔ میرا خیال تھا اس میں کسی تنظیم کا لٹریچر ہو گا یا کسی سیاسی پارٹی کا منشور، مگر ان میں تو صرف قرآن کی آیات تھیں اور ان کا سادہ ترجمہ۔ میں پڑھتا چلا گیا اور پھر سب بدل گیا، سب ٹھیک ہو گیا۔

مختصر الفاظ میں انہوں نے ساری بات سمیت دی۔ وہ چپ چاپ انہیں سنتی چلی گئی۔

آپ کچھ عرصہ پہلے گھر شفٹ ہو گئی تھیں، مجھے پتا چلا تھا۔ اب طبیعت کیسی ہے آپ کی؟

ایم فائن۔ پھر لمحے بھر کے توقف کے بعد بولی۔ آغا جان وغیرہ کدھر گئے ؟انہوں نے گھر کیوں بیچ دیا؟

جن دنوں وہ گئے تھے میں ملک سے باہر تھا، بس ملازم سے ہی تھوڑا بہت سنا تھا کہ شاید تینوں بھائیوں نے جائیداد کا بٹوارہ کیا ہے اور گھر بیچ کے رقم تقسیم کر کے الگ الگ جگہوں پر شفٹ ہو گئے ہیں۔ آپ کے ایکسیڈنٹ کا بھی میرے ملازم نے ہی بتایا تھا۔

کب کی بات ہے یہ کب بیچا انہوں نے گھر؟

آپ کے ایکسیڈنٹ کے تقریباً سال ڈیڑھ بعد۔

اوہ! اس کے لب سکڑے اور پھر اس نے ایک گہری سانس لی۔ کوئی اندازہ ہے آپ کو کہ وہ کہاں گئے ؟

اب میں ان سے کدھر ملوں ؟

اونہوں قطعی نہیں۔ انہوں نے معذرت خواہانہ انداز میں نفی میں سر ہلایا۔ ہمارے کبھی اتنے تعلقات تھے ہی نہیں، ہاں آغا اسد کے بارے میں، میں نے ایک دوست سے سنا تھا۔ وہ کلب میں آغا اسد کے ساتھ ہوتا تھا۔

ان کے الفاظ پر وہ چونکی، دل زور سے دھڑکا۔

کیا؟ کیا سنا تھا؟

یہ ہی کہ ان کو کینسر ہو گیا تھا، اور پھر ان کی ڈیتھ ہو گئی۔ آپ کو نہیں پتا چلا؟

وہ سانس روکے ہکا بکا سی رہ گئی۔

آئی ایم ویری سوری محمل۔ انہیں افسوس ہوا۔ کب؟ کب ہوا یہ؟چند لمحے بعد اس کے لب پھڑپھڑائے۔ آنکھیں پتھرا سی گئیں تھیں۔

غالباً پانچ سال قبل، ان کے گھر بیچنے کے چھ سات ماہ بعد۔

اور،، ان کے بچے ؟معاذ اور معز تو بہت چھوٹے تھے۔

معلوم نہیں یتیم بچے تو پھر مجبوراً رشتے داروں کے تسلط میں ہی رہتے ہیں۔ اللہ ان پر رحم کرے۔

اور وہ لفظ یتیم بچے محمل کے دل میں کھب گیا۔

بہت پہلے پڑھی گئی ایک آیت ذہن میں گونجی۔ ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے کمزور یتیم بچے چھوڑ جاتے۔ (نساء9)

یتیم بچے ؟اسد چچا کے بچے یتیم ہو گے ؟آرزو معاذ معز۔ وہ ابھی تک بے یقین تھی۔

اور پھر کب وہ بریگیڈئیر فرقان کو خدا حافظ کہہ کر بلقیس کے ہمراہ باہر آئی اسے کچھ پتہ نہ چلا۔ دل و دماغ بس ایک ہی نقطے پر منجمد ہو گئے تھے۔ اسد چچا کے بچے یتیم ہو گئے۔

بے اختیار ہی اسے لاؤنج کا وہ منظر یاد آ گیا۔

صوفے پر گری محمل اور اس کو تھپڑوں اور جوتوں سے مارتے اسد چچا اور غفران چچا۔

غفران چچا نہ جانے کہاں گئے ؟ اور آغا جان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کدھر چلے گئے ؟وہ ان لوگوں کو کدھر ڈھونڈے ؟

مگر وہ ان لوگوں کو کیوں ڈھونڈنا چاہتی ہے ؟اس نے خود سے پوچھا، کیا وہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ان لوگوں کو ان کے کیے کی سزا ملی یا نہیں کہ آخر یہ قانون فطرت ہے۔ یا وہ ان خون کے رشتوں کی محبت میں انہیں یاد کر رہی تھی۔ ؟

شاید خون کی محبت غالب آ گئی تھی یا شاید اپنے سب سے قریبی رشتوں شوہر اور بیٹے کے ٹھکرائے جانے کے بعد اسے کسی رشتے کی ضرورت تھی، ہاں شاید یہی بات تھی۔

وہ انہیں سوچوں میں الجھتی گھر واپس آئی تھی۔

٭٭٭



سارے میں فجر اتری تھی جب وہ وہیل چیئر کو خود گھسیٹتی کھینچتی لان میں لائی۔ ۔ شبنم کے قطرے گھاس پر بکھرے تھے۔ دور کہیں پرندوں کی حمد کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ مختلف بولیاں، مگر ایک ہی بات انسانوں کی سمجھ میں نہ آئے، وہ اور بات ہے۔

تب ہی وہ آہستہ آہستہ وہیل چئیر خود ہی چلاتی دیوار کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔ دیوار کے اس پار مدرسے کی عمارت تھی۔ صبح کے وقت مدرسے کے صحن میں ناظرہ کی کلاس ہوتی تھی۔

وہاں بچے بلند آواز میں قرآن پڑھا کرتے تھے۔ ان کی تجوید کی ہلکی ہلکی آواز ان کے لان میں بھی سنائی دیتی تھی۔

وہ آواز آج بھی آ رہی تھی۔ وہ وہیں دیوار کے ساتھ وہیل چئیر روکے کان لگا کر سننے لگی۔

وہ سب مل کر بلند آواز میں پڑھ رہے تھے۔ ترجمہ اور داخل ہو جاؤ دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے، اور کہو حطۃ۔ ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ دیں گے۔

آج اس نے بہت عرصے بعد یہ دعا سنی تھی۔

بے اختیار وہ گود میں رکھے قرآن کے صفحے پلٹنے لگی۔

وہ بنی اسرائیل کے ہیکل میں داخل ہونے کا قصہ تھا۔ سورۃ البقر کی 58 آیت، جب انہوں نے حطتہ کے بجائے حنطتہ کہا تھا۔ محمل کو کبھی یہ قصہ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اب بھی وہ الجھ سی گئی اور صفحہ نکالا۔

اس میں اس نے کوئی خاص نوٹس نہیں لکھے تھے۔

شاید پرانے رجسٹر میں ہوں جو الگ سے تھے۔ اس نے اپنی وہیل چئیر کا رخ موڑا اور اندر لے گئی۔ اسٹڈی میں ایک جگہ اس نے اپنے پرانے نوٹس رکھے تھے۔ وہ انہیں کو ڈھونڈنے اسٹڈی میں آئی۔ دروازہ ادھ کھلا تھا وہ اندر آ گئی۔

ہمایوں اس کی طرف پشت کیے ریک میں سے کوئی بک نکال رہا تھا۔ آہٹ پر پلٹا۔ ایک نظر اسے دیکھا اور پھر واپس کام میں لگ گیا۔ اجنبیت، سرد مہری، بے حسی، مگر زیادہ دل جلائے بغیر وہ مطلوبہ حصے کی طرف بڑھ گئی۔

اس کے نوٹس وہیں رکھے تھے۔ گرد کی ایک تہ ان پر جمی ہوئی تھی، جیسے ان گزرے برسوں میں بس واجبی سی صفائی کی جاتی رہی ہو۔ ظاہر ہے فرشتے کیا کیا دیکھے، اسے کسی دن اسٹڈی کی صفائی کروانا چاہیئے۔ وہ سوچتی ہوئی مطلوبہ رجسٹر ڈھونڈنے لگی۔

بغیر کسی دقت کے اسے وہ رجسٹر سامنے ہی مل گیا۔ اس پر ہلکی ہلکی سی گرد کی تہ جمی تھی۔ محمل نے وہ ترچھا کر کے چہرے کے سامنے کیا اور پھونک ماری، گرد اڑ کر دور بکھر گئی۔

میں تمہیں چھوڑنا چاہتا ہوں۔ ہمایوں بغیر کسی تمہید کے کھڑے کھڑے کتاب کے صفحے الٹ پلٹ کرتے بولا تھا۔

لمحے بھر کو محمل کو لگا وہ دھول مٹی ار کر ہر طرف چھانے لگی ہے۔ اس نے بمشکل رخ موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ بے نیاز سا کتاب کے ورق پلٹ رہا تھا۔

میرا مطلب مکمل علیحدگی سے ہے۔ میں اب یہ رشتہ مزید نہیں نبھانا چاہتا۔ سو مجھے اپنے پیروں کی زنجیر کھولنے دو۔ سنی ہم دونوں کا بیٹا ہے اور سات سال کا ہو چکا ہے۔ اس کی کسٹڈی اسے خود ڈیسائیڈ کرنے دینا۔

دھول شاید اس کی آنکھوں میں بھی پڑ گئی تھی۔ وہ سرخ پڑنے لگی تھیں۔ وہ لب کچلتی اس کی بات سن رہی تھی۔

اگر سنی تمہارے ساتھ رہنا چاہے تو میں اسے مجبور نہیں کروں گا کہ وہ میرے ساتھ رہے اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہے تو تم اسے مجبور نہیں کرنا، جو بھی فیصلہ کرو مجھے بتا دینا، لیکن میں فیصلہ کر چکا ہوں، اس نے کتاب ریک میں رکھی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔

وہ شدید صدمے کے زیر اثر پتھر بنی وہیں بیٹھی رہ گئی۔

کیا ہمایوں اس طرح اسے اپنی زندگی سے دور کر سکتا ہے ؟

اگر کرتا ہے تو کرنے دو میں مر نہیں جاؤں گی اس کے بغیر۔ ایک دم اس نے سر جھٹکا۔

آنکھ آنسو بہاتی ہے۔

اور دل غمگین ہوتا ہے۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہو۔

بے اختیار ہی مدھم آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔ اس کے دل کو جیسے قرار سا آ گیا۔

اس نے رجسٹر کھولا نوٹس میں اس واقعے کے متعلق بس اتنا لکھا تھا کہ ہیکل میں داخلے سے قبل جب بنی اسرائیل کو کہا گیا کہ سواریوں پر جھکتے ہوئے عاجزی سے حطتہ یعنی بخشش کہتے ہوئے داخل ہو، تو تمسخر اڑاتے ہوئے زبانیں مروڑ کر حنطتہ حنطتہ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے۔ آگے لکھا تھا۔

حنطتہ کا مطلب ہوتا ہے گن۔ اس سے ؟آگے صفحہ ختم تھا۔

اس نے ذہن سے تمام سوچوں کو جھٹک کے ان الفاظ پر غور کیا اور پھر نئے سرے سے الجھ گئی۔ وہ واقعہ اسے بہت عجیب سا لگ رہا تھا۔ بنی اسرائیل جتنی جینئیس اور عقل مند قوم نے ایسا کیوں کیا؟انہوں نے گن کس چیز کو کہا؟جب ان کو سیدھے طریقے سے بتایا گیا تھا کہ وہ بخشش مانگیں تو انہوں نے گن گن کیوں کہا؟ ایک طرف وہ اتنے ذہین تھے کہ حطتہ سے ملتا جلتا لفظ ڈھونڈ لائے، اور پھر دوسری طرف اس لفظ کو کہنے کا مطلب ہی نہیں بنتا تھا۔ آخر کیوں انہوں نے صحیح لفظ نہ بولا؟ حنطتہ کیوں کہا؟

وہ سمجھ نہ پائی اور پھر قرآن بند کر کے رکھ دیا۔ دل اتنا خالی تھا کہ تفسیر کھول کر تفصیل پڑھنے کو بھی نہیں چاہا۔ کانوں میں ابھی تک ہمایوں کے الفاظ گونج رہے تھے۔

ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا اور رخسار پر پھسلتا گیا۔

تو جس حال میں رکھے میرے مالک میں تجھ سے راضی ہوں۔ اور نہایت بے دردی سے اس نے ہتھیلی کی پشت سے آنسو رگڑ ڈالا تھا۔

٭٭٭



تیمور توس کے چھوٹے چھوٹے لقمے لے رہا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر اس کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔

وہ اپنی وہیل چئیر گھسیٹتی ڈائننگ ہال میں داخل ہوئی وہ آہت پر چونکا۔ لقمہ توڑتے چھوٹے چھوٹے ہاتھ رکے اور سر اٹھایا۔ محمل کو آتے دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑ گیا۔ اس نے توس کا بچا ٹکڑا زور سے واپس پلیٹ میں پھینکا اور کرسی پیچھے کو دھکیلی۔

بیٹھو تیمور مجھے تم سے بات کرنا ہے۔

آئی ڈونٹ وانٹ ٹو ٹاک یو۔ (میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا) وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

مگر مجھے کرنا ہے، اور یہ تمہارے ڈیڈ کا میسج ہے میرا نہیں۔

واٹ؟وہ لمحے بھر کو رکا، ماتھے پر بل اور بھنویں تنی ہوئی۔

شاید میں اس گھر سے چلی جاؤں، شاید اب ہم ساتھ نہ رہیں، میں اور تمہارے ڈیڈی۔

آئی ڈونٹ کئیر!

تیمور تم کس کے ساتھ رہنا چاہو گے ؟میرے ساتھ یا ڈیڈی کے ساتھ؟وہ جانتی تھی کہ تیمور کا جوام کم از کم اس کے حق میں نہیں ہو گا، پھر بھی پوچھ لیا۔

کسی کے ساتھ بھی نہیں۔ اس نے بے زاری سے شانے اچکائے تھے۔

مگر بیٹا آپ کو کسی کے ساتھ تو رہنا ہی ہو گا۔

میں آپ کا نوکر ہوں جو کسی کے ساتھ رہوں ؟

جسٹ لیو می آلون۔ وہ ایک دم زور سے چیخا تھا اور پھر کرسی کو ٹھوکر مارتا اندر چلا گیا۔

وہ تاسف سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی۔ یہ تلخ لہجہ، یہ بد مزاجی، یہ اندر بھرا زہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کس نے تیمور کے اندر ڈالا۔

اور اس سے پہلے کہ وہ اس کے باپ کو مورد الزام ٹھہراتی ایک منظر سا اس کی نگاہوں کے سامنے بننے لگا۔

جینز کرتے میں ملبوس، اونچی پونی تیل والی ایک لڑکی چہرے ہی ڈھیروں بے زاری سجائے چلا رہی تھی۔

میں آپ کے باپ کی نوکر ہوں جو یہ کروں ؟

اس کے مخاطب بہت سے چہرے تھے، کبھی تائی مہتاب، کبھی مسرت، کبھی کزنز تو کبھی کوئی چچا۔

اسے وہ منہ پھٹ بد تمیز اور تلخ لڑکی یاد آئی اور اس کا رواں رواں کانپ اٹھا۔

ہاں۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنے بڑوں کے ساتھ جیسا کرتے ہیں اس کے چھوٹے بھی اس کے ساتھ ویسا ہی کرتے ہیں۔ کوئی اس کے اندر بولا تھا۔

راستہ ایک ہی ہے، اس پر انسان ایک وقت تک چلتا ہے، اور پھر آ کر واپس اپنے قدموں کے نشانوں پر لوٹتا ہے جو ببول اگا کر جاتے ہیں ان کو لہولہان کرنے والے کانٹے ہی ملتے ہیں اور جنہوں نے پھول بکھیرے ہوں ان کا انتظار گلستان کر رہے ہوتے ہیں۔

محمل! کسی نے پکارا تو وہ خیالوں سے جاگی اور پھر سختی سے اپنی آنکھیں رگڑیں۔

کیا میں نے ٹھیک سنا؟فرشتے جیسے بے یقین سی اس کے سامنے آئی۔

کیا؟اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے سر اٹھایا۔

محمل! تم اور ہمایوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم الگ ہو رہے ہو؟ وہ متحیر سی کہتی اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی اور دونوں ہاتھ اس کی گود میں دھرے ہاتھوں پر رکھے۔

ہاں۔ ۔ شاید۔

مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر تم نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟وہ مضطرب سی اس کی آنکھوں میں دیکھتی جواب تلاش کر رہی تھی۔

میں نے نہیں کیا۔ ۔ ۔ ہمایوں نے کیا ہے۔

کیا اس نے خود تمہیں ایسا کہا ہے ؟

ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے مان لیا؟وہ بے یقین تھی۔

میرے پاس چوائس بچی ہے کیا؟

فرشتے ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

فرشتے ! میرے اختیار میں نہ کل کچھ تھا، نہ آج ہے۔ ہمایوں نے فیصلہ سنانا تھا سنا دیا۔ اگر وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو کیا میں اسے مجبور کروں ؟ نہیں۔ اس نے سختی سے نفی میں سر ہلایا۔ اگر وہ علیحدگی ہی چاہتا ہے تو ٹھیک ہے۔ میں مصالحت کی آخری کوشش ضرور کروں گی، مگر اس سے بھیک نہیں مانگوں گی۔

پھر۔ ۔ ۔ پھر کیا کرو گی کدھر جاؤ گی؟

فرشتے ! میں ہمایوں کی محتاج نہیں ہوں۔ اللہ کی دنیا بہت بڑی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو لے کر کہیں بھی چلی جاؤں گی۔

تم اس کے بغیر رہ لو گی؟

کیا وہ میرے بغیر نہیں رہ رہا؟ وہ پھیکا سا مسکرائی۔

مگر کیا تم خوش رہو گی؟

اگر اللہ نے میرے مقدر میں خوشیاں لکھی ہیں تو وہ مجھے مل ہی جائیں گی، بھلے ہمایوں میرے ساتھ ہو یا نہ ہو۔

فرشتے تاسف سے اسے دیکھتی رہی۔

آئی ایم ویری سوری محمل اگر تم کہو تو میں اس کا فیصلہ بدلنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نہیں۔ اس نے تیزی سے اس کی بات کاٹی۔ آپ اس معاملے میں نہیں بولیے گا۔

مگر ایک بار مصالحت کی ایک کوشش تو۔

پلیز فرشتے مجھے بھکاری مت بنائیں !اس نے کچھ ایسی بے بسی سے کہا کہ فرشتے لب کاٹتی رہ گئی۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے ؟کیا اس نے تمہیں وجہ بتائی ہے ؟

کیا میں نہیں جانتی؟ ہونہہ ! اس نے تلخی سے سر جھٹکا۔ وہ ایک معذور عورت کے ساتھ کب تک رہے، کب تک میری خدمت کرے، وہ میری بیماری سے اکتا گیا ہے، میں جانتی ہوں۔

کیا یہی واحد وجہ ہے ؟

اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے ؟

و اللہ اعلم۔ خیر جو بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا، اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس پر اپنے دل کو بھی راضی کر لینا۔ لو یو سسٹر!اس نے اپنے ہاتھ محمل کے ہاتھوں سے ہٹائے اور ہولے سے اس کا گال تھپتھپاتی کھڑی ہو گئی۔

بس یہ یاد رکھنا میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں اور جب تک تم ٹھیک نہیں ہو جاتیں، میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔ اوکے۔

محمل نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔

٭٭٭



جب سے ہمایوں نے علیحدگی کی بات کی تھی فرشتے کے سامنے وہ لاکھ خود کو صابر شاکر ظاہر کرتی مگر اندر سے وہ مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ اس کی یاد داشت میں ہمایوں کے ساتھ بیتا ایک ہی سال تھا۔ باقی کے ماہ و سال ذہن کے پردے پر اترے بغیر ہی سرک گئے تھے۔

اور وہ ایک سال جو اس نے اس گھر میں محبتوں اور چاہتوں کے بیچ گزارا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وہ دونوں گھنٹوں باتیں کرتے تھے۔ وہ کیندل لائٹ ڈنرز، وہ لانگ ڈرائیوز، وہ روز ہمایوں کے لیے تیار ہونا، وہ ٹیرس پر جا کر رات کو باتیں کرنا وہ ایک ساتھ کی گئی شاپنگز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر شے اس کی یاد داشت سے فلم کی طرح گزرتی تھی اور ہر یاد اس کے دل پر مزید آنسو گرا جاتی تھی۔ اور اگر تیمور بھی اس کے ساتھ نہ رہا، تب وہ کیا کرے گی؟ کدھر جائے گی؟اگر ہمایوں نے اسے گھر سے نکال دیا، تو وہ کہاں رہے گی؟ کیا اپنے چچاؤں کے پاس؟ کیا وہ اسے رکھیں گے ؟فرشتے کے ساتھ؟ مگر فرشتے تو خود تنہا تھی۔ ہمایوں کے گھر میں مہمان تھی۔ پھر وہ کیا کرے گی؟

یوں لگتا تھا چلچلاتی دھوپ میں اسے لا کھڑا کر دیا گیا ہے۔ نہ چھت نہ سائبان، مستقبل کا خوف کسی بھیانک آسیب کی طرح اس کے دل کے ساتھ چمٹ گیا تھا۔

بار بار یہ سوال ذہن میں اٹھتے اور وہ بمشکل اس کو جھٹلا پاتی۔

اور پھر آخر کب تک وہ ان کو یوں جھٹکے گی؟کبھی نہ کبھی تو اسے ان کا جواب چاہیئے ہو گا اور جس کتاب سے جواب مل جایا کرتے تھے، اس کے صفحے بار بار ایک ہی آیت سے کھل جاتے تھے۔ کبھی ایک جگہ سے کھل جاتے تو کبھی دوسری جگہ سے اور یہی صفحہ سامنے آ جاتا۔

اور داخل ہو جاؤ دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے اور کہو حطۃ۔

مگر ہیکل سلیمانی کا دروازہ کہاں تھا؟وہ تو بن سواری کے شہر سے باہر نکال دی جا رہی تھی۔ اندر کیسے جاتی؟

وہ سہ پہر بہت زرد سی اتری تھی۔ بلقیس نے اسے بیڈ سے وہیل چئیر پر بٹھایا اور باہر لے آئی۔

تیمور لاؤنج میں صوفے پر کتابیں پھیلائے بیٹھا تھا۔ اسے آتا دیکھ کر ایک خاموش نگاہ اس پر ڈالی۔ اور پھر نگاہیں کتاب پر جما لی۔ وہ پیاسی نگاہوں سے اسے تکتی رہی، یہاں تک کہ بلقیس وہیل چئیر لاؤنج کے داخلی دروازے تک لے آئی۔

دروازے کی چوکھٹ پر لگے بیل بوٹوں اور نقش و نگار کے درمیان اسے صوفے پر بیٹھے تیمور کا چہرہ نظر آیا، جو بہت غور سے اسے باہر جاتے دیکھ رہا تھابلقیس وہیل چئیر لان میں لے آئی تازہ ہوا کا جھونکا چہرے سے ٹکرایا تو بال پیچھے کو اڑنے لگے۔ اسنے آنکھیں موند کے لمحے بھر کو موسم کی تازگی اپنے اندر اتارنا چاہی۔ تب ہی دیوار کے اس پار سے مدھم مدھم سی بھنبھناہٹ سماعت میں اتری۔

اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جاتی ہے۔

اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔ اسے گھر آئے ہوئے مہینہ ہونے کو آیا تھا مگر وہ کبھی مسجد نہیں گئی تھی۔ نہ جانے کیوں ؟

بلقیس مجھے مسجد لے چلو۔ ایک دم سے اس کا دل مچل گیا تھا۔

بلقیس نے فرمانبرداری سے سر ہلا کر وہیل چئیر کا رخ موڑ دیا۔

فرشتے کدھر ہے ؟اس نے سوچا کہ اسے بھی ساتھ لے لے۔

وہ کھانا کھا کر سو گئی تھیں۔

چلو ٹھیک ہے۔ وہ جانتی تھی فرشتے تھکی ہوئی ہو گی۔ صبح بھی وہ فزیو تھراپست کے ساتھ محمل کی ایکسرسائزز اور پھر مساج کرنے میں لگی رہی تھی۔ پھر سبزی لانا اور گھر کی نگرانی۔ وہ شام کو مسجد جائے گی ہی، پھر ابھی اسے کیوں تھکائے سو اس نے فرشتے کو بلانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

مسجد کا ہرا بھرا گھاس سے مزین لان ویسا ہی خوبصورت تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ سفید ستونوں پر کھڑی عالیشان اونچی عمارت، چمکتے سنگ مر مر کے برآمدے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کونوں میں رکھے سبز لہلہاتے گملے شور مچاتی دنیا سے دور، ہنگامے سے پاک، ٹھہرا ہو، کونا کونا سکون میں ڈوبا ہوا ماحول۔

مسجد کے اندر کوئی اور ہی دنیا تھی۔ ٹھنڈی تازگی بھری، با وقار سی دنیا۔ اس کے درو دیوار سے سکون ٹپکتا تھا۔

وہ جیسے بچوں کی طرح کھل اٹھی تھی۔ آنکھوں میں چمک آ گئی اور بے اختیار گردن ادھر ادھر گھماتی وہ ہر شے دیکھ لینا چاہتی تھی۔ بلقیس آہستہ آہستہ وہیل چئیر اگے بڑھا رہی تھی۔

برآمدے میں سنگ مر مر کی چمکتی سیڑھیاں تھیں۔ ان پر مسلسل لڑکیاں اوپر نیچے آ جا رہی تھیں۔ سفید یونیفارم کے اوپر لائٹ گرین اسکارف پہنے، وہ مسکراتی ہوئی خوش باش لڑکیاں، ہاتھوں میں قرآن اور کتابیں پکڑے ہر کسی کو مسکرا کر سلام کرتیں، آس پاس نظر آ رہی تھیں۔

وعلیکم السلام۔ وعلیکم السلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مسکرا کر ہر کسی کے سلام کا جواب دے رہی تھی۔ وہ وہاں کسی کو نہیں جانتی تھی اور کوئی اسے نہیں جانتا تھا پھر بھی سلام کرنا اور سلام میں پہل کرنے کا حرص رکھے ہر کوئی پاس سے گزرتے ہوئے سلام کرتا تھا۔ اس کا پور پور خوشی میں ڈوب رہا تھا۔ یہ ماحول یہ درو دیوار۔ یہ تو اس کی ذات کا حصہ تھے۔ وہ کیسے اتنا عرصہ ان سے کٹی رہی؟

وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے وہیل چئیر پر بیٹھی مسلسل سب کے سلام کا جواب دے رہی تھی۔ نہ کسی نے رک کر ترس کھا کر پوچھا کی اسے کیا ہوا ہے۔ نہ کسی نے ترحم بھری نگاہ ڈالی۔ نہ کوئی تجسس نہ کرید۔ وہ کونے میں وہیل چئیر پر بیٹھی ساری چہل پہل دیکھ رہی تھی۔

پھر کتنے ہی دیر وہ ایسے ہی بیٹھی رہی یہاں تک کہ بلقیس نے مرکز تک جانے کی اجازت مانگی۔

رات صاحب کے کوئی سرکاری مہمان آنے ہیں اور فرشتے بی بی نے مجھے گوشت بنوانے کو کہا تھا، میں بھول ہی گئی۔ آپ بیٹھو میں لے آتی ہوں۔

نہیں میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی، آج دل کر رہا ہے دنیا کو پھر سے دیکھنے کا۔

ایک الوہی سی چمک نے محمل کے چہرے کا احاطہ کر رکھا تھا۔ وہ اس ماحول میں آ کے جیسے بہت خوش تھی اور اس خوشی کو اپنے اندر سمیٹ کر اب وہ دنیا کا مقابلہ کرنے کو تیار تھی۔

آج اسے بازار جانے سے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔

بلقیس عادتاً چھوٹی موتی ادھر ادھر کی باتیں کرتی اس کی وہیل چئیر چلاتی مرکز تک لے آئی۔ مرکز وہاں سے بہت قریب پڑتا تھا۔ وہ گوشت بنوانے دکان میں چلی گئی جبکہ محمل باہر بیٹھی رہی۔

گاڑیاں بہت تیزی سے گزر رہی تھیں، لوگ بہت اونچا بول رہے تھے۔ موٹر سائیکلیں بہت شور مچا رہی تھیں۔ روشنیاں بہت تیز تھیں۔

ذرا سی دیر میں ہی سارا سکون ہوا ہو گیا۔ اس کا دل گھبرانے لگا۔

جلدی کرو بلقیس!وہ لفافے تھامے دکان سے باہر آئی تو محمل سخت اکتا چکی تھی۔

بس بی بی! یہ سامنے والے پلازہ میں ہوٹل ہے ،تیمور بابا کے لیے پزا لے لوں۔ ورنہ بابا کھانا نہیں کھائے گا۔ بس بی بی پانچ منٹ۔

وہ تیزی سے وہیل چئیر دھکیلتی کہہ رہی تھی۔ محمل نے بے زاری اور بے چینی سے سڑک کو دیکھا۔ وہ فراٹے بھرتی گاڑیاں اسے بہت بری لگ رہی تھیں۔ ایسے ہی کسی گاڑی نے اسے ٹکر ماری تھی۔

بلقیس ایک فاسٹ فوڈ کے سامنے اسے کھڑا کر کے اندر چلی گئی، اور وہ اس ریسٹورنٹ کی گلاس والز کو تکتے اس گاڑی کو یاد کرنے لگی جس نے اسے ٹکر ماری تھی۔ نا جانے وہ کون تھا یا تھی؟پکڑا بھی گیا یا نہیں ؟

کیا ہمایوں نے اس پر مقدمہ کیا ہو گا؟اسے جیل بھیجا ہو گا؟مگر یوں مقدمہ کرنے سے اس کا نقصان پورا تو نہیں ہو سکتا تھا۔

خیر جانے دو میں نے معاف کیا سب کو۔

اس نے سر جھٹکا اور پھر بے چین اور منتظر نگاہوں سے ریسٹورنٹ کی گلاس وال کو دیکھنے لگی۔ بلقیس جانے کہاں گم ہو گئی تھی۔

وہ یونہی بے زار سی نگاہیں ادھر ادھر گھماتی رہی اور دفعتاً بری طرح ٹھٹکی۔ ریسٹورنٹ کی گلاس وال کے اس طرف کا منظر بالکل واضح تھا۔

کونے والی میز پر بیٹھا مسکراتے ہوئے والٹ کھولتا ہمایوں ہی تھا۔ وہ یک ٹک اس کی مسکراہٹ کو دیکھے گئی۔ کیا اسے مسکرانا یاد تھا؟کیا اسے مسکرانا آتا تھا؟

اور تب اس کی نظر ہمایوں کے مقابل بیٹھی لڑکی پر پھسلی۔ شولڈر کٹ بال، سلیو لیس شرٹ، دوپٹہ ندارد کمان کی طرح پتلی آئی بروز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مسکراتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی، اور ہمایوں سر جھٹک کر مسلسل مسکرائے جا رہا تھا۔

اس لڑکی کو وہ اچھی طرح پہچانتی تھی۔ وہ آرزو تھی۔ وہ واقعی آرزو ہی تھی۔

ہمایوں اب والٹ سے چند نوٹ نکالتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا جبکہ وہ ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ دونوں کے درمیان بے تکلفی واضح اور عیاں تھی۔

تو یہ بات تھی ہمایوں داؤد ! تمہیں آرزو ہی ملی تھی؟اس نے غم سے لب کاٹتے ہوئے سر جھٹکا تھا۔

فرشتے ٹھیک کہتی تھی۔ یقیناً وجہ کوئی اور تھی۔ اس کی معذوری کا تو بہانہ تھا۔ اصل وجہ تو وہ پتلی کمان سی ابرو والی شاطر لڑکی تھی جو اس کے شوہر کے ساتھ سر عام لنچ کر رہی تھی۔

اس نے کہا تھا وہ ہمایوں کو اس سے چھین لے گی اس نے ٹھیک کہا تھا۔

محمل نے کرب سے سوچا۔

مغرب کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں، جب بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی گھر کے گیٹ میں داخل ہوئی۔

اس کے سامنے ایک ہی منظر تھا کونے کی ٹیبل پر بیٹھے، ہنستے مسکراتے دو نفوس، ایک جانا پہچانا سا فرد اور ایک جانی پہچانی سی عورت۔

وہ اجڑی اجڑی سی صورت لیے گم صم سی وہیل چئیر پر بیٹھی تھی۔ بلقیس کب اسے کمرے میں لائی اسے کچھ علم نہیں تھا۔

کسی نے اس کا شانہ ہلایا تو وہ چونکی، اور پھر گردن اٹھا کر سامنے دیکھا۔

فرشتے حیران سی اس کے سامنے کھڑی تھی۔ زرد شلوار قمیض میں ملبوس، دوپٹہ شانوں پر پھیلائے اس نے گیلے بھورے بال سمیٹ کر دائیں شانے پر ڈال رکھے تھے۔ شاید ابھی وہ نہا کر آئی تھی۔

کدھر گم ہو محمل؟ کب سے تمہیں بلا رہی ہوں۔ وہ پنجوں کے بل اس کے سامنے کارپٹ پر بیٹھی اور اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔ دائیں شانے پر پڑے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک کر اس کا دامن بھگو رہے تھے۔

آپ ؟ٹھیک کہتی تھیں فرشتے۔ وہ جیسے ہار گئی تھی۔ فرشتے کو لگا وہ رو رہی ہے، مگر اس کے آنسو باہر نہیں اندر گر رہے تھے۔

میں نے آج خود ان دونوں کو دیکھا ہے۔

کن دونوں کو؟وہ بری طرح چونکی۔

ہمایوں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آرزو کو۔

آرزو اسد انکل کی بیٹی آرزو؟

ہاں وہی۔ کیا اسد چچا کی ڈیتھ ہو گئی ہے ؟

تم نے انہیں کدھر دیکھا؟وہ اس کا سوال نظر انداز کر گئی تھی۔

مرکز کے ایک ریسٹو رنٹ میں۔ وہ دونوں لنچ کر رہے تھے یا شاید ہائی ٹی۔ فرشتے !ہمایوں ہنس رہے تھے، میں تو سمجھی تھی وہ ہنسنا بھول گئے ہیں۔

مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پتا نہیں مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ متذبذب تھی کچھ کہتے کہتے رک گئی۔

مجھے پتا ہے وہ آرزو کی وجہ سے میرے ساتھ یوں کر رہے ہیں۔ اس نے کہا تھا وہ ہمایوں کو مجھ سے چھین لے گی۔ اور اس نے یہ کر دکھایا۔ کیا وہ کبھی اس گھر میں آئی ہے ؟

ہاں وہ اکثر آتی رہتی ہے، مگر تمہارے گھر شفٹ ہو جانے کے بعد وہ کبھی نہیں آئی۔

واقعی ؟ اسے حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ آخر وہ کس حیثیت سے آئی تھی اس گھر؟

آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں ؟ اندر کیوں آنے دیا؟

یہ میرا گھر نہیں ہے محمل! مجھے اس کا حق نہیں ہے۔

محمل چپ سی ہو گئی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔

ہمایوں کے کچھ گیسٹ آنے ہیں چائے پر۔ ابھی پہنچنے والے ہوں گے، میں ذرا کچن دیکھ لوں۔ وہ اس کے ہاتھوں سے ہاتھ نکال کے کھڑی ہو گئی۔ گیلے بال شانے سے پھسل کر کمر پر جا گرے۔

آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ بہت اچھی ہیں فرشتے۔ وہ کہے بغیر نہ رہ سکی۔

وہ تو مجھے پتا ہے۔ وہ نرمی سے مسکرائی اور زرد دوپٹے کا پلو سر پر ڈالا، پھر اچھی طرح چہرے کے گرد حصار بنا کر دایاں پلو کندھے پر ڈال لیا۔ یوں کہ بال اور کان چھپ گئے۔

تم آرام کرو۔ وہ باہر نکل گئی اور محمل وہیں اداس ویران سی بیٹھی رہ گئی

باہر سے چہل پہل کی مدھم سی آوازیں آ رہی تھیں۔ کافی دیر بعد اس نے کھڑکی سے ہمایوں کی گاڑی کو آتے دیکھا تھا۔ اس کے ہمراہ دو تین معزز اشخاص بھی تھے، ہمایوں اسی لباس میں تھا جس میں وہ شام کو آرزو کے ساتھ ریسٹو رنٹ میں تھا۔ گویا وہ واقعی وہی تھا، یہ اس کا واہمہ نہیں تھا۔

وہ حسرت و یاس سے کھڑکی سے لگی ان کو اندر جاتے دیکھتی رہی۔ اس کے کمرے میں اندھیرا اتر آیا تھا۔ باہر روشنی تھی۔ باہر والے اسے نہیں دیکھ سکتے تھے، اور وہ باہر والا تو شاید اب کبھی بھی اسے نہ دیکھ سکے۔ اس کے پاس اب بہتر انتخاب تھا۔

جوان اسٹائلش، زندگی سے بھرپور عورت، بے شک وہ محمل کی طرح خوبصورت نہ تھی، مگر اس کی تراش خراش کی گئی شکل اب محمل سئ حسین لگتی تھی۔

کیا کبھی حالات بدلیں گے، کیا کبھی ہمایوں لوٹے گا ؟ کیا کبھی اس کی معذوری ختم ہو گی؟کیا کبھی تیمور اس کے پاس آئے گا؟کیا یہ گھر اس کا رہ سکے گا؟کیا وہ دربدر کر دی جائے گی؟کیا وہ بے سہارا چھوڑ دی جائے گی؟

اندر کا خوف اور بے بسی آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں سے نکل کر چہرے پر لڑھکنے لگی۔ مستقبل ایک بھیانک سیاہ پردے کی مانند ہر طرف چھاتا دکھائی دے رہا تھا، اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

اللہ اس چیز سے بڑا ہے، جس سے میں ڈرتی اور خوف کھاتی ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا کا وہ ایک کلمہ وہ زیر لب بار بار دہرا رہی تھی۔ یہاں تک کے اندر کا کرب قدرے کم ہوا اور ذرا سکون آیا تو اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔

اگر ان لوگوں نے مجھے چھوڑ ہی دینا ہے نکال ہی دینا ہے تو مجھے کسی بے قدرے کے حوالے مت کرنا، میرے مالک کوئی امید کا سرا دکھا دے، کوئی روشنی دکھا دے۔ وہ بنا لب ہلائے دعا کے لیے اٹھے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو اسی طرح بہہ رہے تھے۔

پھر جب بہت رو چکی، تو چہرہ پونچھا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا سفید کور والا قرآن اٹھایا، اس کے فرنٹ کور پر مٹا مٹا سا م اسی طرح لکھا تھا۔

اسے یاد نہیں تھا اس نے آخری بار تلاوت کدھر چھوڑی تھی، پتا نہیں نشان کہیں لگایا تھا یا نہیں۔ بس جہاں سے صفحہ کھلا اس نے پڑھنا شروع کر دیا۔

لا شعوری طور پر وہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہتی تھی۔

اور کس کی بات اس شخص کی بات سے زیادہ اچھی ہو سکتی ہت، جو اللہ کی طرف بلائے اور اچھے عمل کرے اور کہے، بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

اس نے اگلی آیت پڑھی۔

اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی سو ( برائی کو ) اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو پھر دفعتاً وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے، یوں ہو جائے گا گویا کہ تمہارا حمیم ( گہرا جاں نثار دوست) ہو۔

اس نے اچنبھے سے ان آیات کو دیکھا، کیا اب بھی کوئی امید تھی کہ وہ شخص اس کا حمیم ( گہرا جان نثار دوست) بن سکتا ہے؟اب تو کچھ باقی نہیں رہا تھا، سب ختم ہو گیا تھا۔ اس نے اس آیت کو دوبارہ پڑھا۔

بہت ہی عجب ماجرا تھا۔ آج وہ اپنے شوہر کو کسی دوسری عورت کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے دیکھ آئی تھی، اپنے اس شوہر کو جو برملا اس سے علیحدگی کا کہہ چکا تھا۔ اس کا اپنا بچہ اس سے بکتا تھا۔ اس سے نفرت کرتا تھا۔ اس کی بے انتہا پر امید رہنے والی بہن بھی آج خاموش تھی، آج اس نے بھی امید نہیں دلائی تھی کہ ہمایوں کا رویہ سب کے سامنے تھا۔

اس نے پھر پڑھا۔

پھر دفعتاً وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے، یوں ہو جائے گا گویا تمہارا حمیم ہو، اور اس (خوبی ) کو ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں حاصل کر سکتا جو بہت صبر کرتے ہیں اور اس ( خوبی ) کو ان کے علاوہ کوئی نہیں حاصل کر سکتا جو بڑی قسمت والے ہوتے ہیں۔

میں اتنی صبر کرنے والی اور قسمت والی کہاں ہوں اللہ تعالی؟اس نے پاس سے سوچا تھا۔ کیا واقعی کبھی بھی ان عداوتوں کو پگھلا نہیں سکے گی؟کیا اسے مایوس ہو جانا چاہیئے ؟

باہر سے چہل پہل کی آوازیں بدستور آ رہی تھیں۔ محمل کے کمرے کے سامنے ہی ڈرائنگ ہال اور ڈائننگ روم تھا۔

اس نے قرآن بند کر کے شیلف پر رکھا، اور وہیل چئیر کو گھسیٹتی ہوئی کھڑکی کے پاس لے آئی۔ قد آور کھڑکی کے شفاف شیشوں کے اس پار ڈوبتی شام کا منظر نمایاں تھا۔ دور اوپر کہیں آدھا چاند بادلوں سے جھانک رہا تھا۔ یہاں تک کہ شام ڈوب گئی اور چاندنی سے کھڑکی کے شیشے روشن ہو گئے۔ وہ اسی طرح اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں بیٹھی، گردن اٹھائے چاند کو دیکھ رہی تھی۔

ادفع بالتی احسن۔

(دور کرو اسے اس طریقے سے جو بہترین ہو۔ )

جو بہترین ہو۔

جو بہترین ہو۔

ایک آواز بار بار اس کی سماعت میں گونج رہی تھی۔ وہ چپ چاپ چاند کو دیکھتی کچھ سوچے گئی۔

٭٭٭



اس نے دیوار پر آویزاں گھڑی پر نگاہ دوڑائی۔ ایک بجنے میں ابھی چند منٹ تھے اور ہمایوں ڈیڑھ بجے تک گھر آ جاتا تھا۔

وہ وہیل چئیر گھسیٹتی سنگھار میز کے سامنے لے آئی اور قد آور آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔ وہیل چئیر پر بیٹھی ایک کمزور سی لڑکی جس کے گھٹنوں پر چادر پڑی تھی اور گیلے بال شانوں پر بکھرے تھے۔ چہرے کی سپید رنگت میں زردی کھنڈی تھی اوور بھوری آنکھوں تلے حلقے تھے۔

اس نے ہئیر برش اٹھایا اور آہستہ آہستہ بالوں میں اوپر سے نیچے کنگھی کرنے لگی۔ گیلے بالوں سے موتیوں کی طرح ٹپکتے قطرے اس کی سرخ قمیض کو بھگو رہے تھے۔ یہ خوبصورت جوڑا فرشتے نے اس کے لیے بنوایا تھا، اور آج بہت شوق سے اس نے پہنا تھا۔

بال سلجھ گئے تو اس چہرے پر ہلکا سا فاؤنڈیشن لگایا، پھر گلابی سا بلش آن بکھیرا، آنکھوں میں گہرا کاجل اور اوپر لائٹ پنک آئی شیڈو پھر پنک اور ریڈ لپ آسٹک ملا کر لبوں پر لگائی، یوں کہ اوور بھی نہ لگے اور بہت پھیکی بھی نہیں۔ بال ذرا ذرا سوکھنے لگے تھے۔ اس نے ان کو برش سے سمیٹا، پھر دونوں ہاتھوں میں پکڑے اونچا کیا، اور پونی میں باندھا، یوں کہ اونچی پونی ٹیل اس کی گردن پر جھولنے لگی۔

محمل کی یادگار پونی ٹیل۔

وہ اسے دیکھ کر اداسی سے مسکرادی۔ ۔ پھر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا جیولری باکس کھولا اور لٹکتے سرخ یاقوت کا سونے کا سیٹ نکالا۔ کانوں میں آویزے پہنے، اور گردن میں نازک سا نیکلس، اب اپنا عکس دیکھا تو خوشگوار سی حیرت ہوئی۔ وہ واقعی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ترو تازہ اور خوبصورت۔

جیولری باکس کے ساتھ ہی اس کی کانچ کی سرخ چوڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ ایک ایک چوڑی اٹھا کر کلائی میں ڈالتی گئی۔ یہاں تک کہ دونوں کلائیاں بھر گئیں اور جب اس نے سرخ بڑے سے یاقوت کی انگوٹھی اٹھائی تو اسے پہنتے ہوئے چوڑیاں بار بار کھنک اٹھتیں۔

ڈیڑھ بجنے والا تھا، اس نے ایک نظر گھڑی کو دیکھا اور پھر پرفیوم اسپرے کر کے خود کو باہر نکال لائی۔

ہمایوں ابھی تک نہیں آیا تھا۔ وہ بے چین سی لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ کبھی آویزے درست کرتی کبھی چوڑیاں ٹھیک کرتی اور بار بار دروازے کو دیکھتی۔

دو بجنے والے تھے جب اس نے گاڑی کی آواز سنی۔ ایک دم اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

یہ ہی طریقہ اسے بہترین لگا تھا سو اس نے اسی کو اپنایا تھا۔

قدموں کی آواز اسے قریب ہوتی سنائی دی۔ وہ خواہ مخواہ گود میں دھرے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔ وہ نروس ہو رہی تھی اور یہ وہ جانتی تھی۔

دروازہ کھلا اور اسے ہمایوں کے بھاری بوٹوں کی چاپ سنائی دی۔ مگر نہیں، ساتھ میں نازک ہیل کی ٹک ٹک بھی تھی۔

اس نے حیرت سے سر اٹھایا اور اگلے ہی پل زور کا جھٹکا لگا۔

ہمایوں اور آرزو آگے پیچھے اندر داخل ہوئے۔

وہ یونیفارم میں ملبوس تھا، ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ تھا اور وہ آرزو سے بغیر کچھ سنے چلا آ رہا تھا۔ وہ اس کے ہم قدم مسرور سی چل رہی تھی۔ وائٹ ٹراؤزر پر پنک گھٹنوں تک آتی شرٹ، اور دوپٹہ نا پید، کمان پتلی ابروز اور تیکھی نگاہیں۔

اسے سامنے بیٹھے، گردن اٹھائے خود کو دیکھتے، ان دونوں کے قدم ذرا سست پڑ گئے۔

چند لمحے وہ شدید صدمے کی حالت میں رہی تھی۔ مگر پھر سنبھل گئی۔

بظاہر سکون سے ان دونوں کو آتے دیکھا اور اسی سکون سے سلام کیا۔

السلام علیکم!

وعلیکم السلام۔ ہمایوں نے جواب دے کر ایک نظر آرزو کو دیکھا جو سینے پر بازو باندھے تیکھی نگاہوں سے محمل کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی نگاہوں میں واضح استہزا تھا۔

میں آپ کا انتظار کر رہی تھی ہمایوں !مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ وہ آرزو کو یکسر نظر انداز کیے سپاٹ لہجے میں ہمایوں سے مخاطب تھی۔

مجھے بھی تم سے بات کرنی ہے۔ وہ سنجیدگی سے کہتا اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھا، خاکی لفافہ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔

ٹھیک ہے آپ بتائیں۔

وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے، اور آرزو اسی طرح سینے پر بازو لپیٹے اکھڑی اکھڑی سی کھڑی تھی۔ چند لمحے خاموشی حائل رہی۔ ہمایوں ہاتھ میں پکے خاکی لفافے کو دیکھتا رہا، جیسے کچھ کہنے کے لیے الفاظ تلاش کر رہا ہو۔ اس نے سر اٹھایا اور ان ہی سنجیدہ نگاہوں سے محمل کا چہرہ دیکھا۔

میں شادی کر رہا ہوں۔

ایک لمحے کو سکوت چھا گیا، مگر نہ آسمان گرا نہ زمین پھٹی نہ ہی کوئی طوفان آیا۔ اس نے بہت صبر سے اس کی بات سنی اور پھر سوالیہ ابرو اٹھائے۔ تو؟

تو یہ کہ ہم دونوں کو الگ ہو جانا چاہیئے۔ یہ لو۔

اس نے خاکی لفافہ محمل کی طرف بڑھایا، جسے اس نے دایاں ہاتھ بڑھا کر تھاما۔ دونوں لمحے بھر کو رکے، دونوں نے اسی وقت خاکی لفافہ تھام رکھا تھا۔ مگر وہ بس ایک لمحے کا فسوں تھا۔ پھر ہمایوں نے ہاتھ کھینچ لیا اور محمل نے سفاکی سے لفافہ چاک کیا۔

کیا ہے اس میں ہمایوں صاحب؟ کیا میرا طلاق نامہ ہے ؟اندر سے تہ شدہ کاغذ نکالتے ہوئے ہوئے وہ بہت آرام سے بولی تھی۔ وہ خاموش رہا۔ محمل نے کاغذ کی تہیں کھولیں۔

وہ واقعی طلاق نامہ تھا۔ ہمایوں کے دستخط، محمل کا نام۔

نہ اس کے ہاتھ سے کاغذ پھسلا نہ وہ چکرا کر گری۔ بس ایک نظر میں پورا صفحہ پڑھ ڈالا اور پھر گردن اٹھائی۔ لمحوں میں ہی اس نے سارے فیصلے کر لیے تھے۔

اس پہلی طلاق کا شکریہ ہمایوں داؤد ! جس عالم نے آپ کو یہ بتایا کہ تین طلاقیں اکٹھی دینا ایک قبیح عمل ہے۔ سو طلاق ایک ہی دینا بہتر ہے، تو اس نے یقیناً یہ بھی بتایا ہو گا کہ اب عدت کے تین ماہ میں اسی گھر میں گزاروں گی، کیا نہیں بتایا؟

مجھے معلوم ہے، تم تین ماہ ادھر ہی رہ سکتی ہو، اس کے بعد میں شادی کر لوں گا۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ محمل نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا جس کے بے وفا چہرے پر کوئی پچھتاوا کوئی ملال نہ تھا۔

پوچھ سکتی ہوں آپ دوسری شادی کس سے کر رہے ہو؟

ہمایوں نے ایک نظر سامنے کھڑی آرزو کو دیکھا اور پھر شانے جھٹکے۔

یہ بتانا ضروری نہیں ہے۔ میں ذرا چینج کر کے آتا ہوں۔ آخری فقرہ آرزو سے کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا گیا۔

وہ چند لمحے اسے اوپر جاتے دیکھتی رہی۔ زندگی میں پہلی بار اسے ہمایوں داؤد سے نفرت محسوس ہوئی تھی، شدید نفرت۔

آپ تو اپاہج ہو کر بھی خوب بنی سنوری رہتی ہو۔ آرزو کی طنزیہ آواز پر اس نے چہرہ اس کی جانب موڑا۔

اگر شکل اچھی ہو تو معذوری میں بھی اچھی ہی لگتی ہے۔ آرزو بی بی ورنہ لوگ تو گھنٹوں کی تراش خراش کے بعد بھی خوبصورت نہیں لگتے۔

چچ چچ۔ رسی جل گئی، بل نہیں گئے۔ وہ اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔ دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ پر چڑھائی اور بڑے استحقاق سے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہمایوں کا موبائل اٹھایا جو اس نے بیٹھتے ہوئے ادھر رکھا تھا۔

وہ خاموش رہی۔

میں نے تم سے کہا تھا نا محمل! مجھے اس سے پیار ہو گیا ہے، لو ایٹ فرسٹ سائیٹ، میں اسے حاصل کر ہی لوں گی۔

اور میں نے بھی تب کہا تھا آرزو! کہ تم خدا نہیں ہو جو ہر چیز تمہاری مرضی سے ہو۔ آج وہ تمہارے لیے مجھے چھوڑ رہا ہے، کل کو کسی اور کے لیے تمہیں بھی چھوڑ دے گا، تب میں تمہاری آہیں سننے ضرور آؤں گی۔

آرزو بے اختیار محفوظ سی ہنس پڑی۔

اس کا انداز محمل کے اندر آگ لگا گیا، مگر اس نے آگ چہرے پر نہ آنے دی۔ وہ بہت کمال ضبط کا وقت تھا۔

تمہارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس سے میں جیلس ہوں۔ رہا ہمایوں تو تم شوق سے اسے لے لو، مجھے کھنکتی مٹی کے اس پیلے کا کیا کرنا جس میں وفا نہ ہو۔

تمہاری اکڑ ابھی تک نہیں گئی محمل۔

اور میری یہ اکڑ جائے گی بھی نہیں، تمہیں کیا لگتا ہے، محمل ہمایوں کے بغیر مر جائے گی؟ ہونہہ۔ اس نے تلخی سے سر جھٹکا۔ میں سات سال کوما میں پڑی رہی، تب میرے پاس ہمایوں نہیں تھا، میں تب بھی نہیں مری تو اب اس کے بغیر کیوں مروں گی؟خیر اگر تم نے بیٹھنا ہے تو بیٹھو، کھانے پینے آئی ہو تو سامنے کچن ہے، ویسے بھی دوسروں کا مال کھانے کی تمہاری خاندانی عادت ہے اور ہمایوں کی خیرات کرنے کی۔ جو کھانا ہو کھا لینا ٹیک کئیر۔

اس نے دانستہ اسلام علیکم کہنے سے احتراز برتا۔ کم از کم اس وقت وہ آرزو پر سلامتی نہیں بھیج سکتی تھی، اور وہیلل چئیر کا رخ اپنے کمرے کی طرف موڑ دیا۔

تہ شدہ زرد کاغذ ادھ کھلا اس کی گود میں رکھا تھا۔

اسے آرزو کے بڑبڑانے، اٹھنے اور سیڑھیاں چڑھنے کی آواز سنائی دی تھی۔ اس کا گھر تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکا تھا۔ اب کچھ باقی نہیں رہا تھا۔

کمرے میں آ کر اس نے دروازہ بند کر دیا۔ لاک نہیں لگایا، اب کس کو ادھر آنا تھا بھلا؟ سب کچھ بکھر گیا تھا۔

وہ وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں ہاتھوں سے گھسیٹتی سنگھار میز کے سامنے لائی۔ کمرے کی بتی بجی تھی کھڑکی کے آگے پردہ گرا تھا، کہیں درزوں سے زرد سی روشنی جھانک رہی تھی، جس سے کمرے میں نیم اندھیرا سا تھا۔

وہ اس نیم تاریک ماحول میں اپنا عکس آئینے میں دیکھے گئی۔

ہر شئے اجڑ گئی تھی، سب ختم ہو گیا تھا۔ راکھ کا ڈھیر لگا تھا اور اس میں کوئی چنگاری نہیں بچی تھی۔

اپنے عکس کو دیکھتے اس کا دل چاہا، وہ کانوں سے آویزے نوچ پھینکے، نازک سا ہار اتار کر دیوار پر مارے، چوڑیاں توڑ دے۔ زور زور سے چلائے۔ دھاریں مار مار کر روئے۔

اس نے ہاتھ آویزوں کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ دفعتاً نیم تاریک کمرے میں ایک مدھم سی آواز ابھری۔

آنکھ آنسو بہاتی ہے۔

اور دل غمگین ہے۔

مگر زبان سے وہی کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہو۔

آویزے کو پکڑے اس کا ہاتھ بے دم سا گر گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا تھا صبر، صدمے کی پہلی چوٹ پر ہوتا ہے۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا، کہ جو شخص گریبان چاک اور رخساروں پر طمانچے مارے اور جاہلیت کی طرح بین ( نوحہ) کرے۔ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

اس نے سر وہیل چئیر کی پشت پر ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں۔ قطرہ قطرہ آنسو بند آنکھوں سے ٹپکنے لگے۔ وہ بے آواز روتی رہی بلکتی رہی۔ اندھیرے کمرے میں بیٹھی ایک معذور، کمزور لڑکی جو بے آواز روتے ہوئے بس ایک ہی لفظ دہرائے جا رہی تھی۔

یارب المستفعفین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے کمزوروں کے رب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے کمزوروں کے رب۔

دوپہر دم توڑ گئی شام ڈوب گئی اور ہر سو رات چھانے لگی۔ جانے رات کا کون سا پہر تھا جب کسی نے دروازے پر دستک دی اور پھر چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ وہ کھلتا چلا گیا۔

اس نے گردن موڑ کر نہیں دیکھا۔ اسے اب کوئی خوش فہمی نہ تھی کہ ہمایوں کبھی اس کے پاس آئے گا۔

قدموں کی چاپ سنائی دی اور ایک ہیولا سا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

محمل! وہ فرشتے کی آواز تھی۔

وہ چپ چاپ آنکھیں چھت پر جمائے بیٹھی رہی۔

محمل کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو؟

چند لمحے کی خاموشی کے بعد اس کی متفکر سی آواز ابھری۔

محمل تم ٹھیک ہو؟

اس نے دھیرے سے چہرہ اٹھایا اور متورم آنکھوں سے اندھیرے میں کھری فرشتے کو دیکھا۔ اس نے سیاہ جوڑا پہن رکھا تھا سیاہ دوپٹے کے ہالے میں مقید اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔

محمل!

ہمایوں نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ وہ دھیرے سے بولی تو آواز میں آنسوؤں کی نمی تھی۔

کتنے ہی پل ماحول پر سکتہ چھایا رہا۔

کب؟

آج دوپہر میں، میں عدت اس گھر میں پوری کروں گی، پھر اس کے بعد میں چلی جاؤں گی اور وہ شادی کر لے گا۔ اس نے رخ فرشتے سے موڑ لیا تھا تا کہ وہ اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے۔

آئی ایم ویری سوری محمل۔ وہ ماسف کھڑی تھی۔ تم عدت کے بعد کہاں جاؤ گی۔

کیا تم خود کو اتنا اسٹرونگ فیل کرتی ہو کہ حالات کا مقابلہ کر لو گی؟

ہاں میں کر لوں گی، آپ جائیں، مجھے اکیلا چھوڑ دیں پلیز۔

فرشتے نے سمجھ کر سر ہلایا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ دروازے کے بند ہونے کی آواز پر اس نے چہرہ موڑا۔

کمرہ پھر سے سنسان ہو چکا تھا وہ جا چکی تھی۔

وہ رات بہت عجیب تھی۔ محمل نے اتنی ویران رات کبھی نہیں گزاری تھی۔ تب بھی نہیں جب وہ مسجد کی دیوار پھلانگ رہی تھی۔ تب بھی نہیں جب اسے اس کی جائیداد اور گھر سے محروم کر کے نکال دیا گیا تھا۔ تب بھی نہیں جب اس کی ماں مری تھی، اور تب بھی نہیں جب وہ سات سال بعد کومے سے جاگی تھی۔ ایسی رات پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔

وہ وہیل چئیر کی پشت سے سر ٹکائے چھت کو دیکھ رہی تھی۔ پردوں سے چھن چھن کر اندر آتی چاندنی میں پردے یوں چمک رہے تھے جیسے چاندی کے ورق ہوں۔

زندگی ایک دم گویا ختم سی ہو گئی تھی۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ اس کے پاس آگے چلنے کو کوئی امید نہ تھی۔ ہمایوں اس کا نہیں رہا تھا، تیمور اس کا نہیں رہا تھا، نہ کسی رشتے دار کا آسرا تھا اور رہی فرشتے تو وہ اس کے جانے کے بعد مسجد شفٹ ہو جاتی، وہ کب تک فرشتے کو اپنی وجہ سے پابند رکھتی؟

رات یونہی خاموشی سے بیتتی گئی۔ وہ اسی طرح برف کا مجسمہ بنی وہیل چئیر پر بیٹھی رہی۔ پردوں کی چمک ختم ہو گئی تھی اور کمرے میں مہیب گھپ اندھیرا چھا گیا۔

اسے اس اندھیرے سے خوف آنے لگا، وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھنے کی سعی کرنے لگی، اور تب ہی کھڑکی کے کناروں میں صبح کاذب کی نیلاہٹ ابھرنے لگی۔

دور کہیں فجر کی اذانیں بلند ہو رہی تھیں۔

اس کے برف بنے وجود میں پہلی بار جنبش ہوئی۔

اس نے اپنے سن ہوتے ہوئے ہاتھ اٹھائے اور پہیوں کو آگے کی طرف گھسیٹا۔ شیلف پر ایک طرف وضو کے پانی کا برتن رکھا تھا۔

محمل نے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ پھر جب دعا کے لیے ہا تھ اٹھائے تو کوئی دعا ذہن میں ہی نہ آئی، بس ایک وہی لفظ۔

اے کمزوروں کے رب ! لبوں پر اترا۔ اس نے کئی بار اسے دہرایا، آنکھوں سے ٹپ ٹپ انسو گرنے لگے تو اس نے آمین کہہ کر چہرے پر ہاتھ پھیر لیے۔

کمرے میں ہلکی ہلکی نیلاہٹ اترنے لگ تھی۔ وہ وہیل چئیر کو شیلف کے قریب لائی، جہاں ٹیپ ریکارڈر اور ساتھ کیسٹوں کا ڈبہ رکھا تھا۔ اس نے بنا دیکھے ایک کیسٹ لگا لی اور ٹیپ میں ڈال کر پلے کا بٹن دبا یا۔ کہیں درمیان سے تلاوت شروع ہو گئی تھی۔

اور کس کی بات اس شخص کی بات سے زیادہ اچھی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے ؟

وہ حیرت سے چونکی، یہ آیت تو پرسوں اس نے پڑھی تھی، پھر یہی کیوں لگ گئی؟

اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتیں۔

وہ حیران سی سن رہی تھی۔ اللہ اسے یہ آیت پھر سے کیوں سنوا رہا تھا؟یہ آیات تو گزر چکی تھیں، پھر دوبارہ کیوں ؟

برائی کو اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو؟

قاری صاحب کی آواز پڑھتے ہوئے بھرا گئی تھی۔

وہ الجھ سی گئی۔ اللہ اسے پھر سے کیوں وہی بات بتا رہا تھا؟وہ شخص تو اب سارے تعلق کاٹ چکا تھا، اب تو کوئی امید نہیں رہی تھی۔ پھر کیوں اسے برائی کو بہترین طریقے سے دور کرنے کو کہا جا رہا تھا؟

وہ میرا حمیم میرا جان نثار نہیں بن سکتا اللہ تعالی! اس نے مجھے طلاق دے دی ہے، وہ مجھے تین ماہ بعد گھر سے نکال دے گا۔ اب تو درمیان کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا، پھر آپ کیوں مجھے عداوت کو دور کرنے کا کہہ رہے ہیں ؟وہ ایک دم رو پڑی تھی۔

پردوں کے دوسری جانب روشنی جھانکنے لگی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر پردے ہٹا دیئے۔

باہر لان میں صبح اتر آئی تھی۔ گہری سیاہ رات کے بعد اترتی صبح۔

برائی کو اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو۔

گھاس پر تیمور بیٹھا تھا۔ نیکر شرٹ میں ملبوس سوئی سوئی آنکھیں لیے وہ گھاس پر بیٹھی بلی کی کمر پر پیار سے ہاتھ پھیر رہا تھا۔ شاید اس کے ہاتھ میں کچھ تھا جو وہ بلی کو کھلانے لایا تھا۔

پھر دفعتاً وہ شخص۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر دفعتاً وہ شخص۔

پھر دفعتاً وہ شخص۔

قاری صاحب کی آواز اور اس کی سوچیں آپس میں گڈ مد ہو رہی تھیں۔

تیمور اب بلی کے منہ میں روٹی کا ٹکڑا ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا۔

وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے۔

وہ الفاظ کمرے کی دیواروں کے ساتھ ٹکرا رہے تھے۔

وہ بنا پلک جھپکے تیمور کو دیکھ رہی تھی۔ اس اترتی نیلی صبح میں اس پر اچانک سے آشکار ہوا تھا۔ وہ شخص ہمایوں نہیں تھا، نہیں تھا، نہیں تھا۔

وہ شخص تیمور تھا۔

اس کا بیٹا، اس کا خون، اس کے جسم کا ٹکڑا، کیا وہ اس کا حمیم اس کا (جان نثار دوست)بن سکتا تھا؟ کیا واقعی ؟

کیا وہ ایسی قسمت والی ہے ؟کیا ایسا ممکن ہے ؟

وہ ایک نئی آگہی کے احساس کی ساتھ حیرت میں گھری بیٹھی تھی۔

تیمور اب روٹی کے چھوتے چھوٹے ٹکڑے کر کے سامنے گھاس پر ڈال رہا تھا، بلی لپک کر آگے گئی اور گھاس پر منہ مارنے لگی۔

٭٭٭



بلقیس کرسی پر چڑھی اوپر بنے کیبنٹ کو کھولے کھڑی تھی، جبکہ وہ سامنے وہیل چئیر پر بیٹھی، گردن اوپر اٹھائے اسے ہدایات دے رہی تھی۔ اس کے اور ہمایوں کے ٹوٹے تعلق کی بات ابھی ملازموں تک نہیں پہنچی تھی۔

بلیو کلر کا ویلوٹ کور کا البم ہو گا، سائیڈ پر دیکھو۔

یہ والا بی بی؟اس نے البم نکال کے وہی سے لہرایا۔

یہ میرون ہے بلقیس، میں بلیو کہہ رہی ہوں، نیلا آسمانی رنگ۔ وہ اس البم کی تلاش میں اسٹڈی کے کئی دراز اور شیلف چھنوا چکی تھی۔ اب اوپر والے کیبنٹ کی باری آئی تھی۔

ایک منٹ جی۔ شاید اسے کچھ نظر آیا تھا، کچھ دیر اندر سر گھسائے ہاتھ مارتی رہی، پھر کہیں پیچھے سے کھینچ کے البم نکالا۔

یہ ہی ہے، لاؤ مجھے دو۔ اس نے سکون کی گہری سانس اندر کو کھینچی۔

یہ لیں جی۔ بلقیس نے ننگے پاؤں زمین پر رکھے، اور البم اس کو پکڑا کے چپل اڑسنے لگی۔ میں ذرا ہانڈی دیکھ لوں۔

ہاں جاؤ۔ اس نے البم دونوں ہاتھوں میں لیا، اس پر جمی گرد جھاڑی اور پہلا صفحہ کھولا۔

یہ آغا ہاؤس میں کھینچی گئی ملی جلی تصاویر کا البم تھا۔ جب وہ اپنی شادی کے سال بعد آغا ہاؤس گئ تھی تو واپسی میں اپنی کچھ دوسری چیزوں کے ساتھ اسے بھی لے آئی تھی۔ اس میں زیادہ تصاویر اس کی اپنی تھیں۔ کہیں وہ تیرہ سال کی تھی تو کہیں انیس سال کی۔ کچھ تصاویر خاندان میں ہونے والی شادیوں کی بھی تھیں، وہ محو سی اس کو دیکھتی صفحے پلٹنے لگی۔

معلوم نہیں یہ سب لوگ اب کدھر ہوں گے۔ سوائے آرزو کے، کسی کا کچھ پتا نہیں تھا اور آرزو سے ان کا پتا وہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ویسے بھی اس روز کے بعد آرزو ادھر نہیں آئی تھی۔ یاں ہر شام ہمایوں کہیں باہر کسی دوست کے ساتھ اس وقت شام کی چائے پیتے ہیں، اور دوستی کا ایک نظارہ تو وہ اس روز مرکز کے ریسٹورنٹ میں دیکھ ہی چکی تھی۔ سو اب مزید کریدنے کی حاجت نہیں رہی تھی۔

اور رہے یہ لوگ تو ان کی تصویریں دیکھتے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح یہی سوچ رہی تھی کہ ان کا کیا بنا؟کیا وہ ابھی تک بے مہار گھوم رہے ہیں یا اللہ نے ان کی رسی کھینچی؟ظلم اور والدین کی نافرمانی دو ایسے گناہ ہیں جن کی سزا دنیا میں بھی لازمی ملتی ہے، تو کیا ان کو سزا ملی؟کیا ان کو احساس ہوا؟اور سب سے بڑھ کر کیا اس شخص کو سزا ملی جو اس وقت اس کے سامنے تصویر میں مسکرا رہا تھا؟

آغا فواد کریم، آغا جان کا ولی عہد، جس نے اس کو بکاؤ مال بنایا، بلیک میل کر کے تمام جائیداد اپنے نام لکھوائی اور پھر اس کی گردن پر پستول رکھ کے فرشتے کو دھمکایا، گھر سے نکلوایا اور بعد میں جانے وہ ہمایوں کو آ کر کیا کہہ گیا تھا کہ ہمایوں اس کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔

ہانڈی نہیں لگی تھی، شکر مالک کا۔ بلقیس تیزی سے اندر داخل ہوئی، اس نے خیالات سے چونک کر سر اٹھایا۔

ہائے کتنے سوہنے فوٹو ہیں، یہ آپ کے گھر والوں کے ہیں جی؟وہ کھلے البم کو اشتیاق سے دیکھ کر اس کے کندھے کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور سر جھکائے دیکھنے لگی۔

ہاں میرے رشتے دار ہیں۔ اس نے صفحہ پلتا۔ اگلے صفحے پر آرسو اور فواد، تائی اماں کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ خاندان کی کسی شادی کا فوٹو تھا۔

یہ تو وہ ہیں ! بلقیس گویا حیرت زدہ رہ گئی۔

تب اسے یاد آیا بلقیس نے ہی تو اسے فواد کے آنے کا بتایا تھا، شاید وہ اسے پہچان گئی تھی۔

یہ آپ کے رشتے دار ہیں جی؟یہ تو ادھر آتی رہتی ہیں، کمال ہے مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔

کون؟ یہ لڑکی؟اسے حیرت ہوئی، وہ تو سمجھی تھی بلقیس فواد کی بات کر رہی ہے۔

ہاں جی! یہ آرزو بی بی! اس نے آرزو کے چہرے پر انگلی رکھی۔

ہاں یہ میری کزن ہے اور یہ ساتھ فواد ہے جو ہمایوں کے پاس آیا تھا۔

آیا ہو گا جی۔ وہ ابھی تک اشتیاق سے آرزو کے کپڑے دیکھ رہی تھی۔ اس کے انداز میں ذرا سی لاپرواہی تھی۔ یک دم محمل کو کچھ کھٹکا۔ اسے لگا وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہے۔

بلقیس، یہ وہی بندہ ہے جو اس روز ہمایوں کے پاس آیا تھا، جب ہمایوں نے فرشتے کو ڈانٹا تھا؟اس نے البم ذرا اس کے قریب کیا۔ تمہیں یاد ہے تم نے مجھے بتایا تھا؟

نا جی، یہ تو کبھی نہیں آیا۔

یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کبھی نہیں آیا؟اسے جھٹکا لگا تھا۔ تو پھر وہ کون تھا؟

پتا نہیں جی کوئی آپ کا رشتے دار تھا۔ آپ کے چچا تایا کسی کا بیٹا تھا۔

میرے چچا کا بیٹا؟ ایک منٹ، یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دیکھو۔ وہ جلدی جلدی البم کے صفحے پیچھے کو پلٹنے لگی۔ پھر حسن کی تصویر پر رکی۔

یہ تھا؟

نہیں جی، یہ تو بڑا بابو لوگ ہے بی بی، وہ تو عمر میں کم تھا۔

کیا مطلب کم تھا؟وہ الجھی۔ بلقیس متذبذب سی کھڑی تھی، جیسے اپنی بات سہی نہ پہنچا پا رہی ہو۔

اچھا یہ تو نہیں تھا؟اس نے ساتھ لگی وسیم کی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ بلقیس پہلے نا جی میں سر ہلانے لگی، پھر یک دم رک گئی، اور چہرہ جھکا کر غور سے تصویر کو دیکھا۔ کافی دیر وہ تصویر کو بغور دیکھے گئی۔

ہاں بی ںی یہ والا تھا، یہ ہی تھا۔

تو کیا وسیم؟ وہ ابھی حیران بھی نہ ہو پائی تھی کہ بلقیس نے معیز کی شکل پر انگلی رکھی جو تصویر میں وسیم کے ساتھ کھڑا تھا۔ یہ سدرہ کی منگنی کی تصویر تھی۔

معز؟ وہ معز تھا؟ معز آیا تھا؟وہ ششدر رہ گئی۔

یہ ہی تھا بی بی، مجھے اچھی طرح یاد ہے، ابھی ذرا بچہ لگ رہا ہے مگر شاید یہ پرانی تصویر ہے جی جب ادھر آیا تھا تو اس سے بڑا تھا، مسیں بھیگ رہی تھی قد بھی اونچا لمبا تھا، میں آپ کو کہہ رہی تھی نا کہ عمر میں کم تھا۔

اور وہ ایسی دم بخود بیٹھی تھی کہ کچھ کہہ ہی نہ سکی۔ تصویر میں معز بارہ سال کا تھا، اب بیس کا ہو گا اور جب وہ ادھر آیا تھا تو یقیناً سترہ برس کا ہو گا۔ مگر وہ کیوں آیا؟وہ کیوں ہمایوں سے لڑا؟وہ دونوں کیوں بلند آواز میں جھگڑتے رہے ؟

بہت سے سوال تھے جن کے جواب اسے معلوم نہ تھے۔ بلقیس سے پوچھنا بے کار تھا۔ اس سے پہلے جب اس کے کزن کا ذکر کیا تھا تو ایسے تعظیم سے ان اور وہ آئے۔ جیسے الفاظ استعمال کیے تھے کہ وہ بالکل غلط سمجھ بیٹھی۔ مگر خیر، بلقیس کا قصور نہیں تھا اور پتا نہیں کس کا قصور تھا۔

اس نے بے دلی سے البم بند کیا اور میز پر رکھ دیا۔

٭٭٭



چمکیلی صبح برآمدے میں پھسل رہی تھی۔ بلقیس پائپ لگائے سفید سنگ مر مر کا چمکتا برآمدہ دھو رہی تھی۔

وہ صبح ناچتے کا وقت تھا۔ ہمایوں کو اس کے کمرے میں ناشتہ دے کر بلقیس اب یہاں مصروف تھی۔ تیمور کدھر تھا، اسے کچھ پتا نہیں تھا، وہ آج اپنی فجر کی تلاوت نہ کر سکی تھی اب ادھر وہیل چئیر پر بیٹھ کر وہی کرنا چاہ رہی تھی، مگر بار بار دھیان بٹ جاتا تھا۔

بلقیس پائپ اٹھائے برآمدے سے نیچے اتر گئی۔

اب ڈرائیو وے پر پانی ڈال رہی تھی۔ برآمدے کے فرش پر کہیں کہیں پانی چمک رہا تھا۔

دقعتاً دروازہ کھلا تو وہ چونک کر دیکھنے لگی۔

ہمایوں عجلت بھرے مصروف انداز میں کف بند کرتا باہر آ رہا تھا۔ اس نے محمل کو ادھر بیٹھے دیکھا کہ نہیں، اس کے بے نیاز انداز سے یہ پتا لگانا مشکل تھا۔ وہ سیدھا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

بلقیس نے جھاڑو اٹھائی اور بھاگ کر پائپ ڈرائیو وے سے ہٹایا۔ چوکیدار جو گھاس کا ٹ رہا تھا پھرتی سے آگے بڑھا اور گیٹ کے دونوں پٹ کھول دیے۔

وہ گاڑی میں بیٹھا، زور سے گاری کا دروازہ بند کیا اور پیچھے دیکھتا ہوا گاری نکال کر لے گیا۔

گیٹ کے دونوں پٹ کھلے رہ گئے۔ چوکیدار نے ابھی انہیں بند نہیں کیا تھا، وہ واپس درانتی اٹھائے گھاس کی طرف آ گیا تھا۔

بلقیس پھر سے پانی کا فوارہ سفید بجری کے ڈرائیو وے پر ڈالنے لگی۔ وہ سر جھٹک کر اپنی آیات کی طرف متوجہ ہوئی۔

مگر پھر پڑھتے پڑھتے نگاہ پھسلی، پہلے ناخنوں کے کناروں کو دیکھا، پھر ہاتھوں کو، پھر ان سے ہوتی ہوئی پیروں پر جا ٹکی اور پھر سے پائپ کے پانی کی طرف بھٹک گئی۔

کھلے گیٹ کے اس پار سامنے والوں کا گیٹ بھی کھلا نظر آ رہا تھا۔ وہ بے دھیانی میں کسی سوچ میں گم ادھر دیکھے گئی۔ سامنے والوں کے گیٹ کے پاس ایک لڑکی کھڑی تھی، اس کے کندھے پر پیارا سا پھولے پھولے گالوں والا بچہ تھا۔ ساتھ ہی گاری کا دروازہ کھولے ایک گڈ لکنگ سا آدمی مسکرا کر انہیں کچھ کہہ رہا تھا۔ لڑکی ہنس رہی تھی، پھر وہ آدمی جو غالباً اس کا شوہر تھا، گاڑی میں بیٹھ گیا اور لڑکی بچے کا ہاتھ پکڑ کر بائے بائے کے انداز میں گاڑی کی طرف ہلانے لگی۔ بچہ قلقاریاں مار رہا تھا۔ آدمی نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور گاری اسٹارٹ کرنے لگا۔

ایک مکمل اور خوبصورت فیملی۔

وہ چپ چاپ ان تینوں کو دیکھے گئی، یہاں تک کہ گاڑی فراٹے بھرتی سڑک پر اگے نکل گئ اور لڑکی بچے کو کندھے سے لگائے گیٹ بند کرنے لگی۔

اس نے ہولے سے سر جھٹکا اور اپنی خاموش بالکل خاموش نظریں واپس قرآن پر جھکا دیں اور پڑھا آگے کیا لکھا ہوا تھا۔

اس کی طرف مت دیکھا کرو جو ہم نے دوسرے جوڑوں کو عطا کیا ہے۔

محمل نے بے اختیار ٹھنڈی سانس لے کر سر اٹھایا۔ پھر ادھر ادھر گردن گھمائی، بلقیس اپنے کام میں مگن تھی اور چوکیدار اپنے کام میں، وہاں کسی نے اس کی وہ ایک لمحے کی نظر نہیں پکڑی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔

اس نے ذرا سی گردن اٹھا کر اوپر آسمان کو دیکھا۔

مگر کوئی تھا جو اس کی لمحے بھر کی بھی بھٹکی نگاہ پکڑ لیتا تھا اور کسی دوسرے کو بتاتا بھی نہیں تھا۔ خاموشی سے اسے تنبیہ کر دیتا تھا۔ سمجھا دیتا تھا، بہت احسان تھے اس کے اس پر، وہ تو شکر بھی ادا نہیں کر سکتی تھی۔

بلقیس! آج کون سا دن ہے ؟ایک دم اسے خیال آیا تو اسے پکارا۔

جمعہ ہے جی۔ وہ اب پائپ بند کر کے اسے سمیٹ رہی تھی۔

اوہ اچھا۔ اسے یاد آیا، آج سورہ کہف پڑھنی تھی۔ جانے وہ کیسے بھول گئی، خود کو سرزنش کرتی قرآن کے صفحے پلٹنے لگی۔

چوکیدار گیٹ بند کر کے اپنے کواٹر میں چلا گیا تھا اور بلقیس اندر، وہ برآمدے میں تنہا رہ گئی تھی، پہلے قرآن سے پڑھنے کا سوچا، مگر سورہ کہف یاد تھی ہی، سو قرآن میز پر رکھا اور سر کرسی کی پشت پر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔

کبھی کبھی اس کو لگتا اس کی زندگی مصحف قرآنی کے گرد ہی گھومنے لگی ہے۔ اس کا کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جس میں اس کا کردار نہ ہو۔ ہر لمحے ہر وقت وہ قرآن کو اپنے ساتھ رکھتی تھی۔ اب اس کے بغیر اس کا گزارہ بھی نہیں تھا۔

آنکھیں موند کے وہ بسم اللہ پڑھ کر سورۃ کہف پڑھنے لگی۔

اس ٹھنڈی صبح میں ہر طرف خاموشی اور میٹھی چاشنی چھا گئی تھی۔ وہ آنکھیں موندے اپنی تلاوت کر رہی تھی۔

ام حسبت ان اصحب الکہف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

والرقیم۔ ۔ ۔ ۔

ابھی اس نے نویں آیت اصحب الکہف تک ہی پڑھی تھی کہ کسی نے اگلا لفظ والرقیم پڑھ دیا۔ اس کے ہلتے لب رک گئے۔ بہت حیرت سے چونکتے ہوئے اس نے آنکھیں کھولیں۔

سامنے کھلے دروازے میں تیمور کھڑا تھا۔

اپنے نائٹ سوت میں ملبوس، کچی نیند سے خمار آلود آنکھیں لیے وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہا تھا۔

وہ سانس روکے اسے دیکھے گئی۔

چند لمحوں کے لیے سارے میں سناٹا چھا گیا۔ وہ دونوں بنا پتلیوں کو حرکت دیے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔

اور پھر اسی طرح تیمور کی بھوری آنکھوں کو نگاہوں میں لیے اس نے ہولے سے لب کھولے اور پھر سے وہ آیت دہرائی۔

ام حسبت ان اصحب الکہف۔ وہ دانستہ رکی تو تیمور کے ننھے سرخ ہونٹ حرکت کیے۔

والرقیم۔

کانومن ایتنا عجبا اس نے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے آیت مکمل کی۔

تیمور اسی طرح ساکت سا مجسمہ بنے کھڑا تھا جیسے برآمدے اور لان میں مبہوت ہوئی خلق کا حصہ ہو۔

ادھر آؤ۔ وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔ وہ کسی معمول کی طرح آہستہ سے چھوتے چھوتے قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا۔

اس نے اس کے ہاتھ تھامنے کو دونوں ہاتھ بڑھائے اور کسی سحر زدہ شخص کی طرح تیمور نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیے۔

تمہیں کیسے پتا چلا اصحب الکہف کے بعد والرقیم آتا ہے ؟

وہ خاموش کھڑا رہا جیسے اسے خود بھی نا معلوم ہو۔

تمہیں سورہ کہف آتی ہے ؟نرمی سے اس کے ہاتھ تھامے محمل نے پوچھا تو۔

اس نے آہستہ سے سر نفی میں ہلایا۔

پھر تمہیں کیسے پتا چلا؟

it....... it just slipped (میرے منہ سے نکل گیا)وہ اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔ آنکھیں ابھی تک محمل کے چہرے پر جمی تھیں۔

اسے یاد تھا کہ تیمور کی پریگننسی میں وہ ہر جمعہ کو یوں ہی بیٹھ کر آنکھیں موندے بلند آواز میں سورۃ کہف پڑھا کرتی تھی، تاکہ وہ جنم لینے سے قبل ہی قرآن کا عادی ہو اور شاید وہ واقعی عادی ہو گیا تھا، اور شاید سات سال بعد اس نے یہ آواز سنی تھی۔

تمہیں اور سورتیں آتی ہیں ؟

اس نے پھر نفی میں سر ہلایا۔ وہ اپنے ہاتھ ابھی تک محمل کے ہاتھ میں دیے کھڑا تھا۔

تمہیں قرآن پڑھنا آتا ہے ؟

اس نے اثبات میں گردن کو جنبش دی۔

مسجد جاتے ہو یا کہیں اور سے سیکھا ہے ؟

گھر پر قاری صاحب لگوائے تھے ڈیڈی نے۔

کتنی دفعہ قرآن ختم کیا ہے ؟

ٹو ٹائمز۔

کیا قاری صاحب کا قرآن بھی یونہی سنا کرتے تھے جیسے میرا سنتے ہو؟

نہیں۔ وہ بالکل اچھا نہیں بولتے تھے۔

اور میں ؟

آپ۔ ۔ ۔ ۔ آپ اچھا بولتی ہو۔ وہ اب بھی اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔

اور فرشتے کا اچھا لگتا ہے ؟

she never reads ( وہ کبھی نہیں پڑھتیں )

وہ recite (تلاوت کو) read (پڑھنا) کہہ رہا تھا۔ مگر وہ وقت اس کی غلطی نکالنے کا نہیں تھا، نہ ہی یہ بتانے کا کہ وہ کونسا پڑھتی ہو گی، وہ لمحے تو بہت خاص تھے، ان کو ضائع نہیں کرنا تھا۔

تم ایسا پڑھ سکتے ہو؟

نو! اس نے نفی میں گردن ہلائی۔

پڑھنا چاہتے ہو؟

وہ خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔

محمل نے آہستہ سے اس کے ہاتھ چھوڑے۔

چلو کل صبح پھر پڑھیں گے۔ اور سر وہیل چئیر کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ اس نے سوچا کہ اسے کھلا چھوڑ دے۔ اگر وہ اس کا ہوا تو واپسا جائے گا، نہ ہوا تو نہ آئے گا۔

کافی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو تیمور ادھر نہیں تھا۔ فرش کا پانی سوکھ چکا تھا۔ چڑیاں اڑ گئی تھیں۔ سرخ کیڑے اپنے بلوں میں جا چکے تھے۔ چیونٹیاں بکھر گئی تھیں، سفید بلی بھی واپس چلی گئی تھی۔

اور اللہ کی طرف بلانے والی بات سے اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے بھلا۔

اس نے بے اختیار سوچا تھا۔ دشمن کو دوست بنانے کا احسن طریقہ تو اسی آیت میں دے رکھا تھا، اس کی سمجھ میں ذرا دیر سے آیا تھا۔

٭٭٭



اگلی صبح وہ لان میں پہلے سے موجود تھی۔ لان میں لاؤنج کی کھڑکی کھلتی تھی اور اس کے سامنے تیمور کا کمرہ تھا۔ آواز کا راستہ صاف اور کھلا تھا۔

پچھلا پورا دن اس نے دانستہ تیمور کا سامنا نہیں کیا۔ وہ بھی کمرے سے باہر نہیں نکلا۔ اس کی غالباً چھٹیاں تھیں، سو آج کل گھر پر ہی ہوتا تھا۔ وہ جانتی تھی کل قرآن سنا کر تیمور کو اس نے ذہنی طور پر ڈسٹرب کر دیا ہے۔ اگر واقعی وہ قرآن کی چاہ رکھتا ہے تو اس کے اندر مزید سننے کی خواہش ضرور بھڑکے گی اور وہ خود ہی چل کر ائے گا۔ اس نے نو ماہ اسے قرآن سنایا تھا۔ وہ سات سالوں میں اسے کیسے بھول سکتا تھا؟

بلقیس نے اسے لان میں ہی ٹیپ ریکارڈر سیٹ کر کے دے دیا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ تیمور ابھی جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے، پھر بھی اس نے پلے کا بٹن دبایا اور اونچی آواز کر دی۔

قاری المشاری کی سورہ کہف چلنے لگی تھی۔ گو کہ قاری حضرات اور بھی بہت اچھے تھے۔

مگر جو بات قاری مشاری کے دھیمے، پر سوز انداز میں تھی، وہ اسے دنیا میں کہیں نہیں لی تھی۔ اور سورۃ کہف تو شروع ہوتی اور اس کے آنسو بہنے لگتے تھے۔

پہلا رکوع ابھی ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ برآمدے کا دروازہ کھلا اور تیمور بھاگتا ہوا برامدے کی سیڑھیاں اتر کر گھاس پر آیا۔ پھر اسے بیٹھے دیکھ کر اس کے قدم سست پڑ گئے۔

وہ کہنیوں تک آستین فولڈ کیے ہوئے تھا۔ جن کے کنارے اور اس کے بازو گیلے تھے۔ پاؤں بھی دھلے لگ رہے تھے۔ شاید وضو کر کے آیا تھا۔

اس نے مسکرا کر سر خم کر کے اسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ سر جھکائے آہستہ آہستہ چلتا ہوا قریب آیا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

دونوں خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے وہ مدھر، مترنم سی اواز سنتے رہے جو غار والوں اور کتے والوں کا قصہ بیان کر رہی تھی۔ ان چند نوجوانوں کا قصہ جو کہیں چلے گئے تھے۔ اور دو باغوں کے مالک کا قصہ جسے اپنے مال اور اولاد پر بہت غرور تھا۔ اور موسی علیہ السلام کا قصہ جو اللہ کہ ایک بندے سے ملنے اس جگہ کو ڈھونڈ رہے تھے جہاں مچھلی نے سمندر میں راستہ بنایا تھا۔ اور اس گردش کرنے والے آدمی کا قصہ جو سفر کرتا ہوا مشرق سے مغرب جا پہنچا تھا۔

وہ چار قصے تھے جو قرآن کے درمیاں میں رکھ دیے گئے تھے۔ جب وہ ختم ہوئے تو تیمور نے سر اٹھایا۔ محمل اب اسٹاپ کا بٹن دبا رہی تھی۔

تمہیں پتا ہے یہ کس کی آواز ہے ؟

تیمور نے نفی میں سر ہلایا۔

یہ قاری مشاری تھے۔ تمہیں پتا ہے وہ کون ہیں ؟

اس نے پھر گردن دائیں سے بائیں ہلائی۔

پہلے وہ سنگر تھے۔ پھر انہوں نے قرآن پڑھا تو گلوکاری چھوڑ دی اور قاری بن گئے۔ ا ان کے گیارہ مختلف ٹون میں قرآن مجید موجود ہیں۔ مگر مجھے یہ والی ٹون سب سے زیادہ پسند ہے، تمہیں پسند آئی؟

جی!وہ بے ساختہ کہہ اٹھا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی چیختا چلاتا بدتمیزی کرتا بچہ تھا، جو اب جاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا۔

چند لمحے وہ خاموشی سے اپنے بیڑے کو دیکھتی رہی۔ (آخر تھا تو وہ بچہ ہی، کتنا ناراض رہ سکتا تھا بھلا؟)اور پھر آہستہ سے بولی۔

مجھ سے ابھی تک خفا ہو؟

تیمور نے آنکھیں اٹھا کر خاموشی سے اسے دیکھا، منہ سے کچھ نہ بولا۔

کیوں خفا تھے مجھ سے ؟

وہ چپ رہا بالکل چپ۔

تمہیں میں بری لگتی ہوں ؟تمہارا دل کرتا ہے تم مجھے قتل کر دو؟

نو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیور! وہ گھبرا کر کہہ اٹھا، پھر ایک دم چپ ہو کر لب کاٹنے لگا۔

تم پہلے تو ایسے نہیں تھے۔ تم اسپتال میرے لیے پھول لے کے آتے تھے، مجھ سے اتنی باتیں کرتے تھے، تمہیں بھول گیا ہے ؟

اس کی بھوری آنکھوں میں استعجاب پھیل گیا۔

آپ کو سنائی دیتا تھا سب؟ زندگی میں پہلی دفعہ اس نے محمل سے یوں بات کی، وہ اندر سے تڑپ کر رہ گئی۔

تمہیں لگتا تھا کہ میں اپنے تیمور کی باتیں نہیں سنوں گی؟کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟اس نے الٹا سوال پوچھا۔ تردید نہیں کی، نہ جھوٹ بولنا چاہتی تھی، نہ ہی اسے مایوس کرنا چاہتی تھی۔

آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ پھر اس رات بولتی کیوں نہیں تھیں جب ڈیڈی نے مجھے مارا تھا؟ آپ کو سب سنتا تھا تو آپ بولتی کیوں نہیں تھیں ؟اس کی آواز بلند ہونے لگی تھی غصے سے نہیں دکھ سے۔

میں بول نہیں سکتی تھی، بیمار تھی۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈیڈی نے تمہیں مارا کیوں تھا؟

وہ تڑپ کر رہ گئی مگر بظاہر خود کو کمپوزڈ رکھا۔

وہ اس چڑیل (چڑیل ) سے شادی کر رہے تھے۔ میں نے ان سے بہت لڑائی کی تھی۔

اس کی موٹی موٹی بھوری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ وہ کہتے تھے وہ اس بچ سے شادی کر لیں گے۔ وہ آپ کو ڈائیورس کر دیں گے۔ میں ان سے بہت لڑا تھا۔ اور ایک دم وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

تیمور ! وہ متحیر رہ گئی۔ اس نے کبھی اسے روتے نہیں دیکھا تھا۔ محمل نے بے اختیار بازو بڑھا کر اس کے ہاتھ تھامے۔

میرے پاس آؤ۔ اسے ہاتھوں سے تھام کر کھڑا کیا اور خود سے قریب کیا۔

ڈیڈی نے کیوں مارا تمہیں ؟

میں نے کہا تھا کہ میں ان کو اور اس وچ کو گھر میں نہیں رہنے دوں گا۔ ۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری ماں ایک بری عورت ہے۔ میں نے ان پر بہت شاؤٹ کیا، تو انہوں نے مجھے ادھر تھپڑ مارا۔ اس نے ہاتھ اپنے آنسوؤں سے بھیگے گال پر رکھا۔ محمل نے بے اختیار اس کا گال چوما۔ وہ بیٹھی تھی، اور وہ اس کے ساتھ کھڑا رو رہا تھا۔

تم میرے پاس آئے تھے ؟

ہاں، میں اتنی دیر آپ کے پاس روتا رہا تھا۔ بٹ یو ور سلیپنگ۔ آپ نے مجھے جواب نہیں دیا، آپ نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا، آپ بولتی نہیں تھی، آپ نے مجھے پیار بھی نہیں کیا۔

اور تم مجھ سے ناراض ہو گئے ؟وہ ہچکیوں کے درمیان آنسو پونچھ رہا تھا۔

میں تب بیمار تھی بول نہیں سکتی تھی، لیکن اب میں تمہارے پاس ہوں نا، اب تو تم ناراض نہیں ہو ؟

ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلایا۔ اس نے بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا۔

ایک دم ہی اس کے ادھورے وجود میں ٹھنڈک اتر آئی۔ اسے لگا وہ مکمل ہو گئی ہے، اب اسے کسی ہمایوں داؤد نامی شخص کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے اس کا تیمور واپس مل گیا تھا۔

٭٭٭



وہ دن بہت خوبصورت دن تھا۔ جب وہ دونوں خوب رو چکے تو مل بیٹھ کر خوب باتیں کیں، کبھی لان میں، کبھی ڈائننگ ٹیبل پہ، کبھی لاؤنج میں اور پھر تیمور کے کمرے میں۔

اس سے بات کر کے محمل کو پتہ چلا تھا کہ اس کا یہ رویہ اس رات کا رد عمل تھا جو اس نے ہمایوں سے تھپڑ کھانے کے بعد محمل کو پکارتے گزاری تھی۔ شاید وہ ساری رات روتا رہا تھا، مگر اس کی ماں نے جواب نہیں دیا تھا تو وہ بد ظن ہو گیا تھا۔ مگر بچہ تھا آخر کتنی دیر ناراض رہ سکتا تھا۔ بالآخر اپنے اندر کا سارا لاوا نکال کر اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور یہ بد گمانی کی عادت تو اس نے اپنے ماں اور باپ دونوں سے ورثے میں ملی تھی۔ اس کا قصور نہیں تھا۔

اس کی باتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ آرزو اور ہمایوں کے تعلق کے بارے میں بھی جانتا تھا۔ مگر محمل دانستہ اس موضوع کو نہیں چھیڑتی تھی۔ محمل کو اب احساس ہوا تھا کہ تیمور غیر معمولی ذہن اور سمجھدار لڑکا تھا۔ وہ ایک ایک چیز کے بارے میں خبر رکھتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ کب ہمایوں نے اسے طلاق دی، کب جھڑکا، کب اس پر چلایا اور دوسری ہو شئے جو ان دونوں کے درمیان تھی، وہ ظاہر کرتا تھا کہ اسے اس سے نفرت ہے، مگر اس کے باوجود وہ اس کے ہر پل کی خبر رکھتا تھا۔

اگر ڈیڈی نے آپ کی ڈائیورس واپس نہ لی تو آپ یہاں سے چلی جائیں گی؟وہ دونوں تیمور کے کمرے میں بیٹھے تھے، جب اس نے بے حد اداسی سے کہا۔

جانا تو ہے۔

مگر ابھی ٹو اینڈ ہاف منتھ آپ ادھر ہی ہیں نا؟

آپ کی ڈائیورس کے تھری منتھس بعد تک آپ نے یہیں رہنا ہے نا؟

وہ اپنی باتوں سے اسے حیران کر دیتا تھا۔ اس کی عمر اتنی نہیں تھی، مگر وہ ہر بات سمجھتا تھا۔

ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ابھی تو ہاف منتھ ہوا ہے، ابھی تو ٹائم ہے، کیا پتا ڈیڈی۔ ڈائیورس واپس لے لیں۔

اس نے سوچا کہ اسے سمجھائے کہ پہلی طلاق واپس نہیں ہوتی، بلکہ اس میں رجوع ہو سکتا ہے، مگر اس کے ننھے دماغ کو خواہ مخواہ کہاں الجھاتی، سو بات بدل دی۔

مجھے اپنی بکس دکھاؤ۔

آپ ٹاپک مت چینج کریں، میں آپ کو ساری بکس دکھا چکا ہوں۔

اوہ میرا مطلب تھا کاپیز دکھاؤ۔

محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمل۔ اس سے پہلے کہ تیمور جواب دیتا، اس نے فرشتے کی آواز سنی جو باہر اسے پکار رہی تھی۔ اس کی وہیل چئیر دروازے سے ذرا دور تھی۔ سو اس نے تیمور کو اشارہ کیا۔

بیٹا! دروازہ کھولو۔

پلیز نو! اس نے برا سا منہ بنایا اور وہیں بیڈ پر بیٹھا رہا۔

محمل۔ فرشتے کی آواز میں پریشانی تھی۔

تیمور پلیز دروازہ کھولو خالہ بلا رہی ہیں۔ وہ چاہتی تو فرشتے کو آواز دے لیتی، مگر ابھی تیمور کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔

شی از ناٹ مائی خالہ۔ وہ منہ ہی منہ میں بدبداتا اٹھا، دروازہ آدھا کھول کر سر باہر نکالا اور غصے سے بولا۔

واٹس رانگ ود یو؟

اوہ سوری سنی میں محمل کو ڈھونڈ رہی تھی۔

فرشتے کی خجل سی آواز آئی۔

شی از ود می، پلیز ڈونٹ ڈسٹرب از۔

اس نے زور سے دروازہ بند کیا۔ پھر واپس مڑا تو محمل قدرے خفا سی اس کو دیکھ رہی تھی۔

وہ میری بہن ہے، تم اسے مجھ سے بات بھی نہیں کرنے دو گے بیٹا؟

آپ کیوں اس وچ نمبر ٹو کو پسند کرتی ہیں ؟ میرا تو دل کرتا ہے اسے کہوں اپنا بروم اسٹک اٹھائے اور یہاں سے چلی جائے۔ بگڑ کر کہتے ہوئے اس نے پلٹ کر دروازہ کھولا۔

آ جاؤ۔ فرشتے کا چہرہ دکھائی دیا تو محمل نے مسکرا کر کہا۔

وہ حیران سی دروازے میں کھڑی تھی۔

تم اور سنی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوہ گاڈ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کیسے ہوا ؟وہ حیرت زدہ بھی تھی اور خوش بھی۔

بس اللہ کا شکر ہے !اس نے مسکراہٹ دبا کر کندھے اچکائے، جیسے خود بھی اس خوش گوار واقعے پر لا جواب ہو گئی ہو۔

آئی ایم سو ہیپی محمل!فرط جذبات سے محمل کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اور اس سے پہلے کہ محمل جواباً کچھ کہہ پاتی تیمور زور سے بولا نو یو آر ناٹ، آپ جھوٹ بولتی ہو، مجھے سب پتا ہے۔ فرشتے کا چہرہ ماند پڑ گیا۔

سنی میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یو کین گو ناؤ، جسٹ گو اوے ! وہ ایک دم زور سے چلایا۔ فرشتے لب کاٹتی ایک دم پلٹی اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

تیمور بھی غصے میں مٹھیاں بھینچ رہا تھا۔ وہ گئی تو اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور قریب رکھا کاغذ پھاڑ ڈالا۔ پھر اس کے ٹکڑے دروازے پر دے مارے۔

محمل بغور اس کا رویہ دیکھ رہی تھی۔ وہ واپس آ کر بیڈ پر بیٹھا تو اس نے اس کی رف کاپی اٹھائی، تین صفحے نکال کر اسے پکڑاتی جا رہی تھی اور وہ وحشیانہ انداز میں اسے پھاڑتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور سر ہاتھوں پر گرا دیا۔

محمل نے اس کی کاپی بند کر کے بیڈ پر ڈال دی۔

اٹھو پانی پیو اور مجھے بھی پلاؤ۔

اس کے اندر کا لاوا باہر آ چکا تھا۔ سو خاموشی سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔ چند لمحوں بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پانی سے بھرا شیشے کا گلاس تھا۔ محمل نے گلاس تھاما، پانی پیا اور پھر گلاس واپس اس کی طرف بڑھا یا۔

اس کو بھی دیوار پر مارو اور توڑ دو۔

تیمور لب کاٹتے اسے دیکھتا رہا، گلاس لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا۔

اسے توڑنا چاہتے ہو؟

نو۔ اب وہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔

چلو لان میں چلتے ہیں، میں تمہیں ایک سٹوری بھی سناؤں گی۔

اس کی بات پر وہ مسکرا دیا، اور گلاس اس سے لے کر دروازہ کھولا، پھر ایک طرف ہٹ کر اسے راستہ دیا۔ وہ آسودگی سے مسکراتی وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں ہاتھوں سے گھماتی آگے بڑھنے لگی۔

وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ محمل کے ہاتھوں میں قرآن کے قصوں کی کتاب تھی اور وہ موسی علیہ السلام کا قصہ تیمور کو سنا رہی تھی۔ ان گزرے کچھ دنوں میں اس نے آہستہ آہستہ بہت سے قصے تیمور کو سنا ڈالے تھے۔ وہ چاہتی تھی کہ تیمور میں قرآن کا شوق پیدا ہو جائے۔

اور پھر موسی علیہ السلام کی ماں کا دل خالی ہو گیا۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ لا شعوری طور پر رک گئی۔

جانتی تھی اس وقت کون آیا ہو گا۔ بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔ اس نے سر نہیں اٹھایا۔

آگے بتائیں نا ماما!تیمور چند لمحوں کے انتظار کے بعد بے چین ہو گیا، اسی پل ہمایوں اندر داخل ہوا، بے ساختہ ہی محمل نے سر اٹھا لیا۔

وہ تھکا تھکا سا سرخ آنکھیں لیے، آستین کہنیوں تک فولڈ یے چلا آ رہا تھا۔ ان دونوں کو یوں اکٹھا بیٹھے دیکھ کر ایک دم ٹھٹک کر رکا۔ آنکھوں میں واضح حیرت اور الجھن ابھری۔ وہ پچھلے دنوں کافی دیر سے گھر آ رہا تھا اور سوئے اتفاق وہ ان کی اس دوستی کے بارے میں کچھ جان سکا نہ ہی دیکھ سکا۔

محمل نے نگاہیں کتاب پر جھکا لیں اور آگے پڑھنے لگی۔

اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی۔ تیمور صوفے سے اٹھا اور لپک کر فون ریسیور اٹھایا۔

ہیلو؟ کچھ دیر تک وہ دوسری طرف سنتا رہا، پھر سر ہلایا، جی وہ ہیں، ایک منٹ!

وہ ریسیور ہاتھ میں پکڑے محمل کی طرف گھوما۔ اسی پل ہمایوں کے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔

ماما! آپ کا فون ہے۔

کون ہے ؟وہ ذرا حیران ہوئی۔ اس کے لیے بھلا کہاں فون آتے تھے۔

وہ کہہ رہے ہیں ان کا نام آغا فواد ہے۔ تیمور نے ریسیور اس کی طرف بڑھایا۔ تار لمبی تھی ریسیور اس تک پہنچ ہی گیا۔

آغا فواد؟ وہ بے یقینی سے بڑ بڑائی، پھر ریسیور تھاما۔ کتنی ہی دیر وہ سن سی اسے کان کے ساتھ لگائے بیٹھی رہی۔

ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیلو اور پھر بمشکل لفظ ہونٹوں سے نکل ہی پایا تھا کہ کسی نے سختی سے ریسیور اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔ محمل نے بری طرح چونک کر پیچھے دیکھا۔

میرے گھر میں یہ سب نہیں ہو گا، یہاں سے جا کر جو بھی کرنا ہو کر لینا۔ ریسیور ہاتھ میں لیے ہوئے درشتی سے کہتا ہوا وہ محمل کے ساتھ آغا فواد کو بھی سنا چکا تھا۔

وہ ششدر سی بیٹھی رہ گئی۔ ہمایوں نے ایک شعلہ بار نگاہ اس پر ڈالی اور ریسیور کھٹاک سے کریڈل پر ڈال دیا۔ پھر جیسے آیا تھا اسی طرح تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا گیا۔

تیمور خاموشی سے مگر بغور سب دیکھ رہا تھا، ہمایوں واپس ہو لیا تو وہ آہستہ سے محمل کی طرف بڑھا۔

ماما! اس نے ہولے سے محمل کا ہاتھ چھوا، پھر ہلایا۔

وہ اسی طرح شل سی بیٹھی تھی۔

ایک بار پہلے بھی ان کا فون آیا تھا آپ کے لیے، ڈیڈی نے تب ان کو کہا تھا یہاں کوئی محمل نہیں رہتی، ماما! ڈیڈی ان کے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟وہ تو آپ کے کزن ہیں نا؟

وہ ابھی تک سن تھی، پہلی بار ہمایوں نے اتنی زہریلی بات کی تھی۔ یہ اتنا سارا زہر اس کے اندر کس نے بھر دیا تھا؟

اچھا چھوڑیں نا، مجھے اسٹوری آگے سنائیں۔ وہ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کیا۔ محمل نے سر جھٹک کر کتاب اٹھا لی۔

٭٭٭



وہ لان میں بیٹھی تھی اور تیمور پانی کا پائپ اٹھائے گھاس پر پانی کا چھڑکاؤ کر رہا تھا۔ قطرے موتیوں کی طرح سبز گھاس پر گر رہے تھے۔ جب اسے زندگی میں گھپ اندھیرا نظر آنے لگا تھا، وہیں پر فجر کی پہلی کرن چمکی تھی۔ ہمایوں کی بے وفائی کا غم اب اتنا شدید نہیں رہا تھا جتنا اس سے قبل تھا۔ تیمور کی محبت مرہم کا کام کر رہی تھی۔

شام اتر رہی تھی جب اس نے گیٹ پر آہٹ سنی تو گردن موڑ کے دیکھا، فرشتے نے باہر سے ہاتھ اندر کر کے گیٹ کا ہک کھولا تھا اور اب وہ دروازہ کھول کے داخل ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ہینڈ بیگ تھا اور وہ اپنے مخصوص سیاہ عبایا اور اسکارف میں ملبوس تھی۔ جس میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ وہ غالباً مسجد سے آ رہی تھی۔ اس وقت وہ ادھر پڑھانے جاتی تھی۔

السلام علیکم، جلدی آ گئیں ؟اسے آتے دیکھ کر محمل نے مسکرا کر مخاطب کیا۔

ہاں بس ذرا تھک گئی تھی۔ وہ تھکان سے مسکراتی اس کی طرف چلی آئی۔

کھانا کھا لیں، آپ نے دوپہر میں بھی نہیں کھایا تھا۔

ہاں کھاتی ہوں۔ اس نے تھکے تھکے انداز میں کہہ کر انگلی سے کنپٹی سہلائی۔ اس کی مخروطی انگلی میں چاندی کی وہی انگوٹھی تھی جو وہ اکثر دیکھتی تھی۔ جانے کیوں وہ محمل کو قدرے پریشان لگ رہی تھی۔

خیریت فرشتے ؟مجھے آپ ٹینس لگ رہی ہیں۔

نہیں تو۔ وہ پھیکا سا مسکرائی۔ تب ہی فاصلے پر کھڑے تیمور نے پائپ پھینکا اور ان کی طرف آیا۔

وہ ٹینس بھی ہیں تو آپ کیوں کئیر کرتی ہیں ؟جسٹ لیو ہر الون! وہ بہت غصے اور بد تمیزی سے بولا تھا۔ محمل نے فرشتے کی مسکراہٹ کو واضح ماند پڑتے دیکھا، اس کا دل دکھا۔

تیمور بیٹا ! وہ تمہاری خالہ ہیں ایسے بات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جسٹ گو! چلی جاؤ آپ یہاں سے۔ وہ پیر پٹخ کر چیخا۔ بالکل ہمایوں کا پرتو۔

سوری سنی! وہ شکستگی سے اٹھی، بیگ ہاتھ میں لیا اور تیز تیز قدموں سے لان کی روش پار کر گئی۔

اور جہاں میری ماما ہوں وہاں مت آیا کرو۔ وہ اس کے پیچھے چلایا تھا۔ محمل نے تاسف سے برآمدے میں دیکھا، جہاں فرشتے دروازہ بند کر کے غائب ہو گئی تھی۔

تیمور ابھی تک لب بھینچے دروازے کو دیکھ رہا تھا۔

اف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لڑکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے سمجھاؤں اسے کہ تمہارے بڑے تمہارے دشمن نہیں ہیں۔ وہ سر جھٹک کر رہ گئی۔

٭٭٭



وہ کچن میں اپنی وہیل چئیر پر بیٹھی تھی۔ گود میں ٹوکری تھی جس میں مٹر رکھے تھے۔ تیمور بلقیس کے ساتھ مرکز تک گیا تھا۔ وہ مٹر چھیلتے ہوئے لا شعوری طور پر اس کا انتظار کر رہی تھی۔

کچن کا دروازہ نیم وا تھا۔ وہ ویسے بھی اس سمت میں بیٹھی تھی کہ لاؤنج میں نظر نہ آ سکتی تھی۔ تب ہی اسے بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ قدموں کی چاپ بھی پھر قریب آتی آوازیں۔ ۔ ۔ ۔ مٹر چھیلتے اس کے ہاتھ ٹھہر گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایسا کب تک چلے گا ہمایوں ؟وہ آرزو تھی اور تنک کر کہہ رہی تھی۔

کیا؟

انجان مت بنو۔ ہم کب شادی کر رہے ہیں ؟ان کی آواز قریب آ رہی تھیں۔ وہ دم سادھے بیٹھی رہ گئی۔ مٹر کے دانے ہاتھ سے پھسل گئے۔

کر لیں گے۔ اتنی جلدی بھی کیا ہے۔

کیا مطلب جلدی؟اتنا عرصہ ہو گیا ہے تمہیں اسے طلاق دیئے ہوئے۔

اس کی عدت ختم ہو لینے دو۔

اور کب ختم ہو گی وہ؟

ایک دو ہفتے رہتے ہیں۔ وہ رسان سے کہہ رہا تھا۔ وہ دونوں وہیں لاؤنج کے وسط میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔

کیا اس کی عدت ختم ہونے سے پہلے ہم شادی نہیں کر سکتے ؟

نہیں ! اس کا انداز اتنا سرد مہر اور قطعی تھا کہ پل بھر کو آرزو بھی چپ رہ گئی۔

مگر ہمایوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! اس نے کہنا چاہا۔

کہا نا نہیں ! وہ اب سختی سے بولا تھا۔ اگر تمہیں منظور نہیں ہے تو بے شک شادی نہ کرو۔ جاؤ چلی جاؤ۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔

نہیں، ہمایوں، سنو، رکو۔ وہ بوکھلائی ہوئی سی اس کے پیچھے لپکی۔

سیڑھیاں چڑھنے کی آواز مدھم ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ دونوں اب اس سے دور جا چکے تھے۔

ماما!کتنی ہی دیر بعد تیمور نے اسے پکارا تو اس نے چونک کر سر اٹھایا۔ وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔

تم کب آئے ؟ وہ سنبھلی۔

ماما! وہ آہستہ سے اس کے قریب آیا۔ آپ رو رہی ہیں ؟ اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھ اس کے چہرے پر گرتے آنسوؤں پر رکھے۔ وہ حیران رہ گئی۔ پتا نہیں کب یہ آنسو پھسل پڑے تھے۔

آپ نہ رویا کریں۔ وہ اب آہستہ سے اس کے آنسو صاف کر رہا تھا۔ محمل بھگی آنکھوں سے مسکرائی اور اس کے ہاتھ تھام لیے۔

میں تو نہیں رو رہی۔

آپ رو رہی ہیں۔ میں بچہ تھوڑی ہوں۔ وہ اس کی غلط بیانی پر خفا ہوا۔

اچھا اب تو نہیں رو رہی۔ اور شاپ سے کیا لائے ہو؟

چپس! اس نے چپس کا پیکٹ سامنے کیا۔ اور میں اتنی دیر سے گیا ہوا ہوں پر آپ نے ابھی تک مٹر نہیں چھیلے یو آر ٹو سلو ماما! اس نے مٹر کی ٹوکری اس کی گود سے اٹھائی اور کاؤنٹر پر رکھ دی۔

آئیں باہر چلتے ہیں۔

رہنے دو تیمور میرا دل نہیں کر رہا۔

بلقیس بوا! اس کی سنے بغیر بلقیس کو پکارنے لگا ماما کو باہر لے آؤ۔

اور وہ اپنی نا قدری کا غم اندر ہی اندر دباتی رہ گئی۔

٭٭٭



بڑے عرصے سے لائبریری کی صفائی نہیں ہوئی تھی۔ وہ کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ کسی دن کروا لے، آج ہمت کر ہی لی۔

بلقیس کو تو کہنے کی دیر تھی۔ وہ فوراً لگ گئی۔ وہ دروازے کی چوکھٹ پر وہیل چئیر پر بیٹھی ہدایات دے رہی تھی۔

یہ والی بکس اندر رکھ دو، اس طرف والی سامنے کر دو۔ میز سے یہ سب ہٹا لو اور اس والے شیلف میں رکھ دو۔

جھاڑ پونچھ سے گرد آڑ رہی تھی۔ سالوں سے کسی نے کتابوں کو صاف نہیں کیا تھا۔

بیبی ان کو تو کیڑا لگ گیا ہے۔ وہ پریشان سی کچھ کتابوں کے کنارے دکھا رہی تھی۔ تاریخ کی پرانی کتابیں۔

ان کو الگ کر دو۔ اور وہ دراز خالی کرو، یہ اس میں رکھ دیں گے۔

اچھا جی! بلقیس اب اسٹڈی ٹیبل کی درازوں سے کتابیں نکال رہی تھی۔

ان کو اس آخری شیلف پر نہ سیٹ کر دوں ؟ اس نے دراز سے نکلنے والی کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔

ہاں کر دو۔ اسے بھلا کیا اعتراض تھا۔ بلقیس پھرتی اور انہماک سے کتابیں صاف کر کے اوپر لگانے لگی۔

ڈھیر ذرا ہلکا ہوا تو اسے اس کتابوں کے بیچ ایک بھولا ہوا خاکی لفافہ رکھا نظر آیا۔

یہ لفافہ اٹھا کر دو۔ شاید ہمایوں کے کام کا ہو۔

کتابیں سیٹ کرتی بلقیس رکی اور خاکی لفافہ اٹھا کر اسے تھمایا۔

لفافہ وزنی نہیں تھا، مگر بھولا ہوا تھا۔ اس نے الٹ پلٹ کر دیکھا۔

کوئی نام پتہ نہیں لکھا تھا۔ اوپر اکھڑی ہوئی سی ٹیپ لگی تھی جیسے کھول کر پھر لگا دی گئی ہو۔

پتا نہیں کس کا ہے۔ بنا کسی تجسس کے ٹیپ اتاری اور لفافہ گود میں الٹ دیا۔ ایک عدالتی کاغذ اور ساتھ ایک سفید خط کا کور گود میں گرا۔ اس نے زرد عدالتی کاغذ اٹھایا۔

اس کی تہیں کھولیں اور چہرے کے سامنے کیا۔

اسٹمپ پیپر کی تحریر کے نیچے بہت واضح دستخط تھے۔

محمل ابراہیم۔

فرشتے ابراہیم۔

وہ بری طرح سے چونکی اور تیزی سے اوپر تحریر پر نگاہیں دوڑائیں۔

یہ وہی کاغذ تھا جو فواد نے اس سے اور فرشتے سے سائن کروایا تھا۔ وسیم سے نکاح نہ کروانے کی شرط پہ، اس کی گردن پستول رکھ کر۔

مگر یہ ادھر ہمایوں کی لائبریری میں کیا کر رہے ہیں ؟وہ تو اس معاملے سے قطعی لا علم تھا۔ یہ موضوع کبھی زیر بحث آیا ہی نہیں، بس ایک دفعہ آغا جان کے گھر سے واپسی پر ہمایوں نے اسے اپنا حصہ لینے کے لیے کہا تھا مگر وہ ٹال گئی تھی۔ اگر وہ راست پوچھتا تو وہ بتا دیتی۔ پھر فرشتے نے بھی نہیں بتایا کہ یہ کاغذ اس کے ہاتھ کیسے لگا اور کیا وہ اس کی وجہ سے اس سے بد ظن تھا؟مگر یہ اتنی بڑی وجہ تو نہیں تھی۔ اور یہ کاغذ ہمایوں کے ہاتھ لگا بھی کیسے یہ تو اس کے پاس تھا۔

اس نے دوسرا سفید لفافہ اٹھایا۔ وہ بے دردی سے چاک کیا گیا تھا اس نے اس کے کھلے منہ میں جھانکا اندر کچھ فوٹو گراف تھے شاید۔

محمل نے لفافہ گود میں الٹ دیا۔ چند تصویریں اس کے گھٹنے پر پھسلتی فرش پر جا گریں اس نے ہاتھ جھکا کر تصویروں کو اٹھایا اور سیدھا کیا۔

وہ فواد اور محمل کی تصاویر تھیں۔ فواد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ ساکت سی ان تصویروں کو دیکھ رہی تھی۔ ان میں وہ کچھ تھا جو کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا تھا۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا فواد اور اس کے کندھے پر سر رکھے محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتا فواد اور محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ساتھ کسی شادی میں رقص کرتے۔ ۔ قابل اعتراض تصاویر۔ ۔ قابل اعتراض مناظر۔ ۔ وہ سب جو کبھی نہیں ہوا تھا۔ ۔ ۔ ۔

اس نے پھر سے تصویر کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔

اس کا لباس اور چہرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر تصویر میں ذرا الگ تھا۔ کوئی بچہ بھی بتا سکتا تھا کہ وہ کوئی فوٹو شاپ یا ایسی ہی کسی ٹرک کا کمال ہے۔ پہلی نظر میں واقع پتا نہیں چلتا تھا۔ مگر بغور دیکھنے سے سب ظاہر ہو جاتا تھا کہ وہ سب نقلی ہے ہمایوں خود ایک پولیس آفیسر تھا، وہ ان بچوں والی باتوں میں نہیں آ سکتا تھا۔ اور کس نے لا کر دیں اس کو یہ تصاویر؟

کیا معز جو ایک دفعہ آیا تھا، اسی لیے آیا تھا؟اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔

پزل کے سارے ٹکڑے ایک ساتھ جڑنے لگے۔

آرزو نے کہا تھا کہ وہ ہمایوں کو اس سے چھین لے گی۔ محمل کو سجا سنورا اور ہنستا بستا دیکھ کر شاید شدید حسد کی آگ میں جلنے لگی تھی۔ اس سے اس کی خوشیاں برداشت نہیں ہو رہی تھیں، پھر اسد چچا کی ناگہانی موت کے بعد یقیناً وہ لوگ مالی کرائسز کا شکار ہوئے ہوں گے۔ ایسے میں محمل کی طویل بے ہوشی نے آرزو کو امید دلائی ہو گی۔ اور شاید یہ سب ایک سوچا سمجھا پلان تھا۔

یہ جعلی تصاویر بنا کر، محمل اور فرشتے کا دستخط شدہ کاغذ ہمایوں کو دکھا کر اس نے ہمایوں کو بھڑکایا ہو گا۔ مگر کیا ہمایوں چھوٹا بچہ تھا جو ان کی باتوں میں آ جاتا؟کیا ایک منجھا ہوا پولیس آفیسر اس قسم کے بچکانہ کھیل کا شکار بن سکتا تھا؟کیا بس اتنی سی باتوں پر ہمایوں اتنا بد ظن ہو گیا تھا؟اپنی بیوی سے دوری اور آرزو سے بڑھتا ہوا التفات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پزل کا کوئی ٹکڑا اپنی جگہ سے غائب تھا۔ پوری تصویر نہیں بن رہی تھی۔

اس نے بے اختیار ہو کر سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ دماغ چکرا کر رہ گیا تھا۔

بی بی تسی ٹھیک ہو؟بلقیس نے اس کا شانہ ہلایا تو وہ چونکی۔

ہاں مجھے باہر لے جاؤ۔ اس نے جلدی سے تصویریں لفافے میں ڈالیں، مبادا بلقیس انہیں دیکھ نہ لے۔

پزل کا کوئی ٹکڑا واقعی غائب تھا۔

٭٭٭



شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے، جب بیرونی گیٹ پر ہارن کی آواز سنائی دی۔ وہ جو دانستہ لاؤنج میں بیٹھی تھی، فوراً الرٹ ہو گئی۔

ہمایوں کی گاڑی زن سے اندر داخل ہونے کی آواز آئی۔ پھر لاک کی کھٹ کھٹ، وہ سر جھکائے بیٹھی تمام آوازیں سنتی گئی، یہاں تک کہ دروازے کے اس طرف بھاری بوٹوں کی چاپ قریب آ گئی۔ اس نے بے چینی سے سر اٹھایا۔

وہ اندر داخل ہو رہا تھا، یونیفارم میں ملبوس، کیپ ہاتھ میں لیے، وہ چند قدم چل کر قریب آیا، اسے وہاں بیٹھا دیکھ کر لمحے بھر کو رکا۔

السلام علیکم۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ اس نے آہستہ سے کہا۔

بولو۔ وہ اکھڑے تیوروں سے سامنے اکھڑا ہوا۔ آپ بیٹھ جائیں۔

میں ٹھیک ہوں بولو۔

محمل نے گہری سانس لی اور الفاظ ذہن میں مجتمع کیے۔

مجھے صرف ایک بات کا جواب چاہیئے ہمایوں !بس ایک بار مجھے بتا دیں کہ میرے ساتھ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ آنسوؤں کا گولا اس کئ حلق میں پھنسنے لگا تھا۔

کیا کر رہا ہوں ؟

آپ کو لگتا ہے آپ کچھ نہیں کر رہے ؟

علیحدگی چاہتا ہوں، یہ کیا کوئی جرم ہے ؟وہ سنجیدہ اور بے نیاز تھا۔

مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ اتنے بدل کیوں گئے ہیں ؟آپ پہلے تو ایسے نہیں تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ شکوہ کر بیٹھی۔

پہلے میں کاٹھ کا الو تھا، جس کی آنکھ پر پٹی بندھی تھی۔ ہوش اب آیا ہے، دیر ہو گئی، مگر خیر۔

ہو سکتا ہے کسی نے اب آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہو۔ آپ مجھے صفائی کا ایک موقع تو دیں۔

اس نے سوچا تھا وہ اس کی منت نہیں کرے گی، مگر اب وہ کر رہی تھی، یہ وہ شخص تھا جس سے اسے بے حد محبت تھی، وہ اسے نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔

صفائی کا موقع ان کو دیا جاتا ہے جن پر شک ہو۔ مگر جن پر یقین ہو، ان پر صرف حد جاری ہوتی ہے۔ وہ بہت چبا چبا کر بولا تھا۔

یہ آپ کی اپنی بنائی گئی حدود ہیں ایس پی صاحب!لوگوں کو ان کے اوپر نہ پرکھیں۔ کھوٹے کھرے کو الگ کرنے کا پیمانہ دل میں ہوتا ہے، ہاتھوں میں نہیں، کہیں آپ کو پچھتانا نہ پڑ جائے۔

کھوٹے کھرے کی پہچان مجھے بری دیر سے ہوئی ہے محمل بی بی!جلدی ہوتی تو اتنا نقصان نہ اٹھاتا۔

ان تین ماہ میں پہلی دفعہ اس نے محمل کا نام لیا تھا۔ وہ اداسی سے مسکرا دی۔

اگر میں کھوٹی ہوں تو جس کے پیچھے مجھے چھوڑ رہے ہیں، اس کے کھرے پن کو بھی ماپ لیجئے گا۔ کہیں پھر دھوکا نہ ہو جائے۔

وہ تم سے بہتر ہے۔ چند لمحے خاموش رہ کر وہ سرد لہجے میں بولا اور ایک گہری چبھتی ہوئی نگاہ اس پر ڈال کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔

وہ نم آنکھوں کے ساتھ اسے زینے چڑھتے دیکھتی رہی۔ آج ہمایوں نے اپنی بے وفائی پر مہر لگا دی تھی۔

٭٭٭



وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے برش لیے مغموم، گم صم سی بیٹھی تھی، جب فرشتے نے کھلے دروازے سے اندر جھانکا۔

میری چھوٹی بہن کیا کر رہی ہے ؟اس نے چو کھٹ سے ٹیک لگا کے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

کچھ خاص نہیں۔ محمل نے مسکرا کے گردن موڑی۔ اس کے کھلے بال شانوں پر گرے تھے۔

تو کچھ خاص کرتے ہیں۔ وہ اندر چلی آئی۔ فیروزی شلوار قمیض پر سلیقے سے دوپٹہ لیے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح بہت ترو تازہ لگ رہی تھی۔

تمہارے بال ہی بنا دوں لاؤ۔ اس نے رسان سے کہتے ہوئے برش محمل کے ہاتھ سے لے لیا اور اس کے کھلے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیتا۔

بس اب تم بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گی۔ وہ اب پیار سے اس کے بالوں میں اوپر سے نیچے برش کر رہی تھی۔ وہ محمل کی وہیل چئیر کے پیچھے کھڑی تھی، محمل کو آئینے میں اس کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔

تم نے آگے کا کیا سوچا؟

پتا نہیں، جب عدت ختم ہو جائے گی تو چلی جاؤں گی۔ وہ بے زار سی ہوئی۔

لیکن کدھر؟فرشتے نے اس کے بالوں کو سلجھا کر سمیٹ کر اونچا کیا۔

اللہ کی دنیا بہ وسیع ہے، پہلے آغا جان کو ڈھونڈوں گی، اگر وہ نہ ملے تو مسجد چلی جاؤں گی۔ مجھے امید ہے کہ مجھے ہاسٹل میں رہنے دیا جائے گا۔

ہوں۔ اس نے اونچی سی پونی باندھی، پھر ان بالوں کو دوبارہ سے ذرا سا برش کیا۔

اور آپ نے کیا سوچا؟میرے بعد تو آپ کو بھی جانا ہو گا۔

میں شاید ورکنگ ویمن ہاسٹل چلی جاؤں , پتا نہیں ابھی کچھ ڈیسائیڈ نہیں کیا، خیر چھوڑو، آج میں نے چائینیز بنایا ہے، تمہیں منچورین پسند ہے نا؟اب فٹا فٹ چلو کھانا کھاتے ہیں۔ اس نے محمل کی وہیل چئیر پیچھے سے تھام کر اس کا رخ موڑا۔

اب وہ کیا بتاتی کہ عرصہ ہوا ذائقے محسوس کرنا چھوڑ دیئے ہیں، اسی لیے چپ رہی۔ ہمایوں کی طرف سے دل اتنا دکھا ہوا تھا کہ ایسے میں فرشتے کا دھیان بٹانا اچھا لگا۔

ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا ہوا تھا۔ گرم گرم چاولوں کی خوشبو سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔

تیمور کدھر ہے ؟وہ پوچھتے پوچھتے رک گئی۔ پھر تھک کر بولی۔ میں کیا کروں جو وہ آپ کو نا پسند کرنا چھوڑ دے ؟

یہ چاول کھاؤ بہت اچھے بنے ہیں۔ فرشتے نے مسکرا کر ڈش اس کے سامنے رکھی، اس کا ضبط بھی کمال کا تھا۔

تیمور کی ساری بد لحاظیوں پر میں آپ سے معافی مانگتی ہوں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ بھیگ گیا۔ اونہوں، جانے دو، میں مائنڈ نہیں کرتی، خالہ بھی ماں جیسی ہی ہوتی ہے۔

محمل بھیگی آنکھوں سے ہنس دی۔

فرشتے نے رک کر اسے دیکھا۔ کیوں ؟کیا نہیں ہوتی؟

میرے بھانجے نہیں ہیں، ورنہ ضرور اپنی رائے دیتی۔ لیکن چونکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی فرمایا ہے تو آف کورس، ٹھیک ہے۔

کیا؟فرشتے الجھی۔

یہ ہی کہ خالہ ماں جیسی ہوتی ہے۔ یہ ایک حدیث ہے نا۔

اوہ اچھا؟مجھے بھول گیا تھا۔ فرشتے سر جھٹک کر مسکرا دی اور چاول اپنی پلیٹ میں نکالنے لگی۔

٭٭٭



وہ اپنی دانست میں ہمایوں کے گھر میں اس کا آخری دن تھا۔ کل دوپہر اس کی عدت کو تین قمری ماہ مکمل ہو جانے تھے اور تب وہ شرعی طور پر ہمایوں کی بیوی نہ رہتی اور پھر اس گھر میں رہنے کا جواز بھی ختم ہو جاتا۔

آج وہ صبح اترتے ہی لان میں آ بیٹھی تھی۔ چڑیاں اپنی مخصوص بولی میں کچھ گنگنا رہی تھیں۔ گھاس شبنم سے گیلی تھی۔ سیاہ بادلوں کی ٹکڑیاں آسمان پر جا بجا بکھری تھیں۔ امید تھی کہ آج رات بارش ضرور ہو گی۔

شاید اس کی اس گھر میں آخری بارش۔

فرشتے صبح جلدی ہی کسی کام سے باہر گئی تھی۔ ہمایوں رات دیر سے گھر آیا تھا اور صبح سویرے نکل گیا تھا۔ تیمور اندر سو رہا تھا۔ بلقیس اپنے کواٹر میں تھی۔ سو وہ لان میں تنہا اور مغموم بیٹھی چڑیوں کے اداس گیت سن رہی تھی۔ آنسو قطرہ قطرہ اس کی کانچ سی بھوری آنکھوں سے ٹوٹ کر گر رہے تھے۔

اس گھر کے ساتھ اس کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ زندگی کا ایک بے حد حسین اور پھر ایک بے حد تلخ دور اس نے اس گھر میں گزارا تھا۔ یہاں اسی ڈرائیو وے پر وہ پہلی بار سیاہ ساڑھی میں اتری تھی، اس رات جب اس کی مشکلات کا آغاز ہوا تھا۔ پھر ادھر ہی وہ سرخ کامدار جوڑے میں دلہن بنا کر لائی گئی تھی۔ کبھی وہ ادھر ملکہ کی حیثیت سے بھی رہی تھی، مگر خوشی کے دن جلدی گزر جاتے ہیں، اس کے بھی گزر گئے تھے۔ ایک سیاہ تاریک نیند کا سفر تھا اور وہ بہت نیچے لا کر پھینک دی گئی تھی۔

ماما۔ تیمور نیند بھری آنکھیں لیے اس کا شانہ جھنجھوڑ رہا تھا۔ اس نے چونک کر اسے دیکھا، پھر مسکرا دی۔

ہاں بیٹا! اس نے بے اختیار پیار سے اس کا گال چھوا۔

کیوں رو رہی ہیں اتنی دیر سے ؟کب سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ معصومیت بھری فکر مندی لیے اس کے ساتھ آ بیٹھا۔ وہ نائٹ سوٹ میں ملبوس تھا۔ غالباً ابھی جاگا تھا۔

نہیں کچھ نہیں۔ محمل نے جلدی سے آنکھیں رگڑیں۔

آپ بہت روتی ہیں ماما۔ ہر وقت روتی رہتی ہیں۔ وہ خفا تھا۔

مجھے لگتا ہے آپ دنیا کے سارے لوگوں سے زیادہ روتی ہوں گی۔

نہیں تو اور تمہیں پتا ہے کہ دنیا کے سارے لوگوں سے زیادہ آنسو کس نے بہائے تھے ؟

کس نے ؟ وہ حیرت اشتیاق سے اس کے قریب ہوا۔

ہمارے باپ آدم علیہ السلام نے جب ان سے اس درخت کو چھونے کی غلطی ہوئی تھی۔ وہ نرمی سے اس کے بھورے بالوں کی سہلاتی بتا رہی تھی، اسے تیمور کو اپنی وجہ سے پریشان نہیں کرنا تھا، اس کا ذہن بٹانے میں وہ کسی حد تک کامیاب ہو گئی تھی۔

اچھا! وہ حیران ہوا۔ اور ان کے بعد ؟

ان کے بعد داؤد علیہ السلام نے، جب اس سے ایک فیصلے میں ذرا سی کمی رہ گئی تھی۔

اور ان کے بعد ؟

ان کے بعد اس نے گہری سانس لی۔ پتا نہیں بیٹا ! یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ آپ بھی بہت روتی ہو مما، مگر آپ کو پتا ہے آپ جیسی مدر کسی کی نہیں ہیں۔ میرے کسی فرینڈ کی بھی نہیں، کوئی ٹیچر بھی نہیں۔

میرے جیسی کیسی ؟ اسے حیرت ہوئی۔

آپ جیسے nobel اور Honourable۔ آپ کو پتا ہے میرے لیے پوری دنیا میں سب سے زیادہ آنریبل اور نوبل ہیں۔

جبکہ میں ایسی نہیں ہوں۔ تمہیں پتا ہے نوبل کون تھے ؟

محمل نے ایک گہری سانس لی۔

یوسف علیہ السلام جو پیغمبر کے بیٹے، پیغمبر کے پوتے اور پیغمبر کے پڑ پوتے تھے

وہ کیوں ماما؟

وہ کیوں ؟ اس نے زیر لب سوال کو دہرایا۔ بے اختیار آنکھوں میں اداسی چھا گئی۔ کیونکہ شاید وہ بہت صبر کرنے والے تھے اور الفاظ لبوں پر ٹوٹ گئے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔ ہر بات سمجھانے والی نہیں ہوتی۔

بتائیں نا ماما۔ وہ بے چین ہوا۔ میں جب بھی آپ سے حضرت یوسف کی سٹوری سنتا ہوں آپ یوں ہی اداس ہو جاتی ہیں۔

پھر کبھی بتاؤں گی، تمہارے اسکول کب کھل رہا ہے ؟ اس نے بات پلٹی۔

منڈے کو۔

اور تمہارا ہوم ورک ڈن ہے ؟

یہ باتیں چھوڑیں، مجھے پتا ہے آپ اپ سیٹ ہیں۔ کل آپ اور ڈیڈی ہمیشہ کے لیے الگ ہو جائیں گے، ہے نا؟وہ ہتھیلیوں پر چہرہ گرائے، اداسی سے بولا۔

ہاں ! ہو تو جائیں گے، تم میرے ساتھ چلو گے یا ڈیڈی کے پاس رہو گے ؟اس نے خود کو بے پرواہ ظاہر کرنا چاہا۔

میں آپ کے ساتھ جاؤں گا، اس چریل (چڑیل) کے ساتھ نہیں رہوں گا۔ مجھے پتا ہے ڈیڈی فوراً شادی کر لیں گے۔ اسے شاید آرزو بہت بری لگتی تھی۔ وہ محمل کو اس پر ترجیح دے رہا تھا۔ اسے یاد آیا ہمایوں نے کہا تھا وہ اس سے بہتر ہے۔

وہ مجھ سے بہتر ہے تیمور؟وہ ہمایوں کی اس زہریلی بات کو یاد کر کے پھر سے دکھی ہو گئی۔

کون؟تیمور کی سفید بلی بھاگتی ہوئی اس کے قدموں میں آ بیٹھی تھی۔ وہ جھک کر اسے اٹھانے لگا۔

آرزو۔ بہت دفعہ سوچا تھا کہ بچے سے یہ معاملہ ڈسکس نہیں کرے گی، مگر رہ نہیں سکی۔

آرزو آنٹی ؟تیمور بلی کو بازوؤں میں اٹھا کر سیدھا ہوا۔ وہ جو اپ کی کزن ہیں جو ادھر آتی ہیں ؟

ہاں وہی۔

وہ آپ سے اچھی تو نہیں، بالکل نہیں۔ وہ سوچ کر نفی میں سر ہلانے لگا۔

پھر تمہارے ڈیڈ کیوں اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں ؟کیا تم اسے ماں کے روپ میں قبول کر سکو گے ؟کتنا خود کو سمجھایا تھا کہ بچے کو درمیان میں انوالو نہیں کرے گی، مگر ہمایوں کی اس روز کی بات کہیں اندر چبھ رہی تھی، لیکن پھر کہہ کر خود ہی پچھتائی۔

چھوڑو جانے دو یہ بلی ادھر دکھاؤ۔

مگر تیمور الجھا الجھا سا اسے دیکھ رہا تھا۔ بلی ابھی تک اس کے بازوؤں میں تھی۔

ڈیڈی آرزو آنٹی سے شادی کر رہے ہیں ؟اس کی آواز میں بے پناہ حیرت تھی۔

تمہیں نہیں پتا؟

آپ کو یہ کس نے کہا ہے ؟وہ کنفیوزد بھی تھا اور حیرت زدہ بھی۔

تمہارے ڈیڈی نے بتایا تھا اور ابھی تم خود کہہ رہے تھے کہ وہ اس سے شادی کر لیں گے۔

تیمور اسی طرح الجھی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ موٹی بلی اس کے ننھے ننھے ہاتھوں سے پھسلنے کو بے تاب کسمسا رہی تھی۔

آرزو آنٹی سے ؟ نہیں ماما، ڈیڈی تو ان سے شادی نہیں کر رہے۔

مگر تم نے۔ مگر تیمور کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔

وہ تو فرشتے سے شادی کر رہے ہیں۔ آپ کو نہیں پتا؟

تیمور!وہ درشتی سے چلائی تھی۔ تم ایسی بات سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟

بلی سہم کر تیمور کے بازوؤں سے نیچے کودی۔

آپ کو نہیں پتا ماما؟وہ اس سے بھی زیادہ حیران تھا۔

تم نے ایسی بات کی بھی کیسے ؟مائی گاڈ، وہ میری بہن ہے، تم نے اتنی غلط بات کیوں کی اس کے بارے میں ؟غصہ اس کے اندر سے ابلا تھا۔ وہ گمان بھی نہیں کر سکتی تھی تیمور ایسے کہہ سکتا ہے۔

ماما آپ بے شک ڈیڈی سے پوچھ لیں، فرشتے سے پوچھ لیں، وہ دونوں شادی کر رہے ہیں۔

شٹ اپ جسٹ شٹ اپ تم اس لڑکی کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے ہو جو میری بہن ہے ؟

جی ماما! اسی لیے تو ڈیڈی نے آپ کو ڈائیورس دی ہے، بی کاز شی از یور سسٹر اور مسلم ایک ٹائم پر دو سسٹرز سے شادی نہیں کر سکتے۔

محمل کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ وہ شل سی بیٹھی رہ گئی۔

آئی تھاٹ آپ کو پتا ہے، میں نے آپ کہ کہا تو تھا کہ ڈیڈی اس چڑیل سے شادی کر رہے ہیں۔

اور تیمور فرشتے کو بھی چڑیل کہتا تھا، وہ کیوں بھول گئی؟اس کا دماغ بری طرح چکرانے لگا تھا۔

نہیں تیمور وہ میری بہن ہے۔ اس کی زبان لڑ کھڑائی۔

وہ اسی لیے تو ادھر ہمارے ساتھ رہتی ہے، تا کہ جب آپ چلی جائیں تو وہ ڈیڈی سے شادی کر لے۔

تیمور وہ میری بہن ہے۔ اس کی آواز ٹوٹنے لگی تھی۔

آپ نے نہیں دیکھا، جب وہ ڈیڈی کے ساتھ شام کو باہر جاتی ہے ؟ایک دفعہ وہ مجھے بھی لے گئے تھے، وہ سمجھتے ہیں میں بچہ ہوں، مجھے کچھ پتہ نہیں چلتا۔

مگر تیمور! وہ تو میری بہن ہے۔ وہ بکھری، شکست خوردہ سی گھٹی گھٹی آواز میں چلائی تھی۔ اسے لگ رہا تھا، کوئی دھیرے دھیرے اس کی جان نکال رہا ہے۔

تیمور کیا کہہ رہا تھا اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

مجھے اسی لیے وہ اچھی نہیں لگتی، وچ نمبر ون، اس کی وجہ سے ڈیڈی آپ کو سیپریٹ کر رہے ہیں۔ آپ نے نہیں دیکھا، شام کو ڈیڈی کے ساتھ جب وہ ریسٹورنٹ جاتی ہے ؟

نہیں، تم غلط کہہ رہے ہو، شام کو تو وہ مسجد جاتی ہے، وہ ادھر پڑھاتی ہے۔

اسے یاد آیا شام کو فرشتے مسجد جاتی تھی۔ یقیناً تیمور کو غلط فہمی ہوئی ہو گی، اس نے غلط سمجھا ہو گا۔

مسجد؟اس نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں۔

یہ ساتھ والی مسجد ماما؟ آپ کدھر رہتی ہیں ؟فرشتے تو کبھی مسجد نہیں گئی۔

وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ادھر قرآن پڑھاتی ہے، تمہیں نہیں پتا تیمور وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ تو کبھی قرآن نہیں پڑھتی، میں نے آپ کو بتایا تھا۔

نہیں وہ مجھ سے اور تم سے زیادہ قرآن پڑھتی ہے۔ اس نے۔ ۔ ۔ ۔ اس نے ہی تو مجھے قرآن سکھایا تھا۔ تم غلط کہہ رہے ہو، وہ ایسے نہیں کر سکتی۔ وہ نفی میں سر ہلاتے، اسے جھٹلا رہی تھی۔

آپ نے کبھی اس کو قرآن پڑھتے دیکھا؟

وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جو فرشتے کے دفاع میں تیمور کو کچھ کہنے لگی تھی ایک دم رک گئی۔

اس نے اسپتال سے آ کے کبھی فرشتے کو مسجد جاتے نہیں دیکھا تھا۔ ہاں نمازیں وہ ساری پڑھتی تھی۔

کم آن ماما، آپ بلقیس بوا سے پوچھ لیں، وہ مسجد نہیں جاتی، کیا آپ کو اس نے خود کہا کہ وہ مسجد جاتی ہے ؟اور تیمور کے سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔

اسپتال کی وجہ سے صبح کی کلاسز لینا ممکن نہیں تھا۔ فرشتے نے تو اس کے استفسار پر مبہم سا جواب دیا تھا۔ باقی سب اس نے خود فرض کر لیا تھا۔

تو کیا تیمور سچ کہہ رہا تھا؟نہیں ہرگز نہیں، فرشتے اس کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ وہ تو اس کی بہت پیاری، بہت خیال رکھنے والی بہن تھی، وہ بھلا کیسے۔

وہ مسجد نہیں جاتی، وہ ڈیڈی کے ساتھ جاتی ہے، پہلے ڈیڈی گاڑی پر نکلتے ہیں، پھر وہ باہر نکلتی ہے، اور کالونی کے اینڈ پر ڈیڈی اس کو پک کر لیتے ہیں، تا کہ بلقیس بوا کو پتا نہ چلے۔ میں نے ٹیرس سے بہت دفعہ دیکھا ہے، صبح بھی وہ ڈیڈی کے ساتھ ہی گئی تھی۔

وہ پتھر بنی سن رہی تھی۔

جب آپ اسپتال میں تھیں تب بھی وہ یوں ہی کرتے تھے۔ پر میں کوئی چھوٹا بے بی تو نہیں ہوں، مجھے سب سمجھ آتا ہے۔

یہ سب کب ہوا کیسے ہوا؟وہ متحیر، بے یقین سی سکتے کے عالم میں بیٹھی تھی۔ تیمور آگے بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا، مگر وہ نہیں سن رہی تھی، تمام آوازیں بند ہو گئیں تھی۔ سب چہرے مٹ گئے تھے۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ سناٹا تھا۔

ماما! آپ ٹھیک ہو؟ تیمور نے پریشانی سے اس کا ہاتھ ہلایا۔ وہ ذرا سا چونکی۔ آنکھوں کے آگے جیسے دھند سی چھا رہی تھی۔

مجھے۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اکیلا چھوڑ دو بیٹا۔ اس نے بے اختیار چکراتا ہوا سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔

ابھی۔ ۔ ۔ ۔ ابھی جاؤ یہاں سے پلیز۔

چند لمحے وہ اداسی سے اسے دیکھتا رہا، پھر جھک کر گھاس پر بیٹھی موٹی سفید بلی اٹھائی اور واپس پلٹ گیا۔

کیا یہی واحد وجہ ہے ؟

کیا تمہیں بالکل امید نہیں ہے کہ وہ رجوع کرے گا؟

کیا تم خود کو اتنا اسٹرونگ فیل کرتی ہو کہ حالات کا مقابلہ کر لو گی؟اس کے ذہن میں فرشتے کی باتیں گونج رہیں تھی۔

ہر شام ہمایوں گھر سے چلا جاتا۔ کسی دوست کے پاس، ہر شام فرشتے بھی گھر سے چلی جاتی۔ اس نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ کدھر جاتی ہے۔ اس نے کبھی نہیں بتایا کہ محمل کی عدت ختم ہونے کے بعد وہ کدھر جائے گی؟اور وہ ابھی تک ادھر کیوں رہ رہی تھی؟کیا صرف محمل کی کئیر کے لیے ؟وہ کئیر تو کوئی نرس بھی کر سکتی تھی۔ پھر وہ کیوں ان کے گھر میں تھی؟

اس نے کبھی فرشتے کو قرآن پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔ جس روز وہ مسجد گئی تھی۔ فرشتے ادھر نہیں تھی۔ وہ شام تک وہی رہی، مگر وہ ادھر نہیں آئی۔ وہ غلط فہمی کا شکار رہی اور فرشتے نے اس کئ غلط فہمی نہیں دور کی۔

اور آرزو؟اس کا کیا قصہ تھا؟وہ گواہ تھی کہ ہمایوں اس سے شادی کر رہا تھا۔ اس نے خود آرزو سے یہی کہا تھا مگر جب محمل نے پوچھا تھا تب اس نے کیا کہا تھا، یہ بتانا ضروری نہیں ہے۔ اس نے کبھی نہیں کہا کہ وہ آرزو سے شادی کر رہا ہے۔ فرشتے نے کبھی اس کے اور آرزو کے غیر واضح تعلق پر فکر مندی ظاہر نہیں کی۔ وہ سب کسی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ تھا۔ وہ دونوں جانتے تھے اور ایک اسی کو بے خبر رکھا تھا۔ وہ تم سے بہتر ہے۔ یہ ہی کہا تھا ہمایوں نے، اور یقیناً فرشتے کی بات کر رہا تھا۔

لیکن وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے ؟وہ اس کے گھر میں خیانت کیسے کر سکتی ہے ؟وہ تو قرآن کی طالبہ تھی، وہ تو سچی تھی امانت دار تھی۔ پھر وہ کیوں بدل گئی؟وہ جو لمحوں کی امانت کا خیال رکھتی تھی رشتوں میں خیانت کیسے کر گئی؟

سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ دل ڈوبا جا رہا تھا۔ آج اسے لگا تھا کہ سب دھوکے باز نکلے تھے، سب خود غرض نکلے تھے۔ ہر شخص اپنی زمین کی طرف جھکا تھا۔ اس کا کوئی نہیں تھا، کوئی بھی نہیں، وہ کتنی ہی دیر ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھی رہی۔

بہت سے لمحے سرکے، تو اسے یاد آیا کہ جہاں سب بدل گئے تھے، وہاں کوئی نہیں بدلا تھا۔ جہاں سب نے دھوکا دیا، وہاں کسی نے اس کا خیال بھی رکھا تھا۔ جہاں سب چھوڑ گئے۔ وہاں کسی نے سہارا بھی دیا تھا۔

اوہ !اس نے آہستہ سے سر اٹھایا اور پھر دھیرے سے وہیل چئیر کے پہیوں کو اندر کی جانب موڑا۔

اس کے کمرے میں شیلف کے اوپر اس کا سفید کور والا مصحف پڑا تھا، اس نے سرعت سے اسے اٹھایا اس وقت اسے اس کی بے حد ضرورت تھی۔

مصحف کے نیچے اس کا پرانا رجسٹر رکھا تھا۔ اس نے قرآن اٹھایا تو رجسٹر پھسل کر نیچے گر گیا۔ محمل نے ہاتھ میں قرآن پکڑے، جھک کر رجسٹر اٹھایا۔ وہ درمیان سے کھل گیا تھا۔ اسے بند کر کے رکھتے ہوئے ٹھہر سی گئی، کھلے صفحے پر سورہ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر لکھی تھی جس پر وہ ہمیشہ الجھتی تھی۔ حطتہ اور حنطتہ۔ یہ صفحہ بہت دفعہ کھولنے کے باعث اب رجسٹر کھولتے ہی یہ کھل جاتا تھا۔

کھلا ہوا رجسٹر اس کے دائیں ہاتھ میں تھا، اور قرآن بائیں ہاتھ میں، دونوں اس کے بالکل سامنے تھے۔ رجسٹر کی سطر حنطتہ کا مطلب ہوتا ہے گن۔ کے آگے صفحہ ختم تھا۔ وہ بے اختیار اس سطر کو قرآن کے سفید کور کے قریب لائی جہاں مٹا مٹا سا م لکھا تھا۔

اس نے گن اور م کو ملایا۔ دونوں کے درمیان ایک ننھا سا نقطہ تھا۔ اس نے نقطوں کو جوڑا، ادھورا لفظ مکمل ہو گیا۔

گندم۔

وہ ننھے نقطے دال کے دو حصے تھے۔

اسے یاد آیا وہ غلطی سے قرآن پر رجسٹر رکھ کر لکھ رہی تھی۔ صفحہ ختم ہوا تا لا شعوری طور پر اس نے لفظ قرآن کے کور پر مکمل کر دیا۔ اسی وقت اسے کلاس انچارج سے ڈانٹ پڑی تو یہ بات ذہن سے محو ہو گئی۔ وہ کبھی جان ہی نہ پائی کہ یہ مٹا مٹا سام اس ادھورے لفظ کی تکمیل تھا۔

آج برسوں بعد وہ قصہ مکمل ہو گیا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک روشنی کا کوندا سا لپکا تھا اور ساری گتھیاں سلجھ گئی تھیں۔

بنی اسرائیل کو شہر کے دروازے میں داخل ہونے سے قبل بخشش مانگنے کا حکم ملا تھا۔ مگر وہ گندم مانگتے رہے۔ بخشش نہیں مانگی۔ یہ بنی اسرائیل کی ریت تھی اور یہ ہی ریت خود اس نے بھی دہرائی تھی۔

ہم زمانہ جاہلیت سے دور اسلام میں آ کر ایک ہی دفعہ توبہ کرتے ہیں، مگر بار بار کی توبہ بھول جاتے ہیں، ہم ایک کھائی سے بچ کر سمجھتے ہیں زندگی میں پھر کبھی کھائی نہیں آئے گی اور اگر آئی تو بھی ہم بچ جائیں گے۔ ہم ہمیشہ نعمتوں کو اپنی نیکیوں کو کا انعام سمجھتے ہیں اور مصیبتوں کو گناہ کی سزا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دنیا میں جزا بہت کم ملتی ہے اور اس میں بھی امتحان ہوتا ہے، نعمت شکر کا امتحان ہوتی ہے اور مصیبت صبر کا اور زندگی کے کسی نئے امتحان میں داخل ہوتے ہی منہ سے پہلا کلمہ حطتہ کا نکلنا چاہیئے۔ مگر ہم وہاں بھی گندم مانگتے رہتے ہیں۔

اللہ اسے زندگی کے ایک مختلف فیز میں لایا تو اسے بخشش مانگنی چاہیئے تھی۔ مگر وہ ہمایوں اور تیمور کو مانگتی رہی۔ حنطتہ حنطتہ کہنے لگ گئی۔ گندم مانگنا برا نہیں تھا۔ مگر پہلے بخشش مانگنا تھی، وہ پہلا زینہ چڑھے بغیر دوسرے کو پھلانگنا چاہتی تھی اور ایسے پار کب لگا جاتا ہے ؟

اسے نہیں معلوم وہ کتنی دیر تک میز پر سر رکھے زار و قطار روتی رہی، آج اسے اپنے سارے گناہ پھر سے یاد آ رہے تھے۔ آج وہ پھر سے توبہ کر رہی تھی۔ وہ توبہ جو بار بار کرنا ہم نیک ہونے کے بعد بھول جاتے ہیں۔

زندگی میں بعض لمحے ایسے ہوتے ہیں جب آپ سے خود قرآن نہیں پڑھا جاتا۔ اس وقت اپ کسی اور سے قرآن سننا چاہتے ہیں۔ آپ کا دل کرتا ہے کہ کوئی آپ کے سامنے کتاب اللہ پڑھتا جائے اور آپ روتے جائیں۔ بعض دفعہ آپ خوش ہونے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں اور بعض دفعہ صرف رونے کے لیے۔

اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ خوب روئے۔ قرآن سنتی جائے اور روتی جائے۔ تلاوت کی کیسٹوں کا ڈبہ قریب ہی رکھا تھا۔ ٹیپ ریکارڈ بھی ساتھ تھا۔ اس نے بنا دیکھے آخر سے ایک کیسٹ نکالی اور بنا دیکھے ہی ڈال دی۔ ابھی نہ معافی جاننا چاہتی تھی، نہ ہی فہم پر غور و فکر کرنا چاہتی تھی۔ ابھی وہ صرف سننا چاہتی تھی۔

اس نے پلے کا بٹن دبایا اور میز پر رکھ دیا۔ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک کر میز کے شیشے پر گر رہے تھے۔ قاری صہیب احمد کی مدھم، پر سوز آواز دھیرے سے کمرے میں گونجنے لگی تھی۔ والضحی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قسم ہے دن کی۔

وہ خاموشی سے سنتی رہی۔ اسے اپنی زندگی کے روشن دن یاد آ رہے تھے، جب وہ اس گھر کی ملکہ تھی۔

اور قسم ہے رات کی جب جب وہ چھا جائے۔

اس کو وہ سناٹے بھری رات یاد آئی جب ہمایوں نے اسے طلاق دی تھی، وہ رات جب وہ یہیں بیٹھی چھت کو دیکھتی رہی تھی۔

تمہارے رب نے تمہیں اکیلا نہیں چھوڑا اور نہ ہی ناراض ہے۔ ( الضحی، 3)

اس کے آنسو روانی سے گرنے لگے تھے۔ یہ کون تھا جو اس کی ہر سوچ پڑھ لیتا تھا؟ یہ کون تھا؟

یقیناً تمہارے لیے انجام آغاز میں بہتر ہو گا۔ (الضحی 4)

اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔ کیا واقعی اب بھی اس سارے کا انجام اچھا بھی ہو سکتا تھا؟

تمہارا رب بہت جلد تمہیں وہ دے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے۔ (الضحی 5)

ذرا چونک کر بہت آہستہ سے محمل نے سراٹھایا۔

اللہ کو اس کی اتنی فکر تھی کہ وہ اس کے اداس دل کو تسلی دینے کے لیے یہ سب اسے بتا رہا تھا؟کیا واقعی اس نے اسے چھوڑا نہیں تھا؟

کیا اس نے تمہیں یتیم پا کر ٹھکانا نہیں دیا؟ (الضحی 6)

وہ اپنی جگہ سن سی رہ گئی۔ یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنا واضح، اتنا صاف، یہ سب اس کے لیے اترا تھا؟کیا وہ اس قابل تھی؟

کیا اس نے تمہیں راہ گم پا کر ہدایت نہیں دی؟ (الضحی 7)

وہ ساکت سی سنے جا رہی تھی، ہاں یہی تو ہوا تھا۔

اور تمہیں نادار پا کر غنی نہیں کر دیا ؟(الضحی 8)

اس کے آنسو گرنا رک گئے تھے۔ کپکپاتے لب ٹھہر گئے تھے۔

پس تم بھی یتیم سے سختی نہ کرنا، اور سائل کو مت ڈانٹنا۔ اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہنا۔ (الضحی 9)

سورۃ الضحی ختم ہو چکی تھی۔ اس کی زندگی کی ساری کہانی گیارہ آیتوں میں سمیٹ کر اسے سنا دی گئی تھی۔ وہ سورہ جیسے ابھی ابھی آسمانوں سے اتری تھی، اس کے لیے صرف اس کے لیے۔

اس نے تھک کر سر کرسی کی پشت سے ٹکا لیا، اور آنکھیں موند لیں۔ وہ کچھ دیر ہر سوچ سے بے نیاز سونا چاہتی تھی۔ پھر اٹھ کر اسے فرشتے سے ملنا تھا۔

٭٭٭



بادل زور سے گرجے تھے۔

محمل نے ایک نظر کھڑکی سے باہر پھسلتی شام پر دالی اور دوسری بند دروازے پہ۔ اس کی دوسری طرف اسے قدموں کی چاپ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ابھی چند منٹ قبل اس نے فرشتے کو گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکھا تھا۔ اس کے آنے کے کچھ دیر بعد ہمایوں کی گاڑی اندر داخل ہوئی تھی۔ البتہ وہ پانچ منٹ بعد ہی کچھ کاغذات اٹھا کر واپس چلا گیا تھا۔ اس کی گاری ابھی ابھی نکلی تھی۔

وہ کھڑکی کے اس طرف چوکیدار کو گیٹ بند کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی، جب دروازہ ہولے سے بجا۔

محمل؟فرشتے نے اپنے مخصوص نرم انداز میں پکارا، پھر ہولے سے دروازہ کھولا۔ اب وہ کثرت سے سلام نہیں کرتی تھی۔ محمل نے گردن موڑ کر دیکھا۔ وہ دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ دراز قد کانچ سی سنہری آنکھوں والی لڑکی، جو کھلتے گلابی رنگ کے لباس میں، سر پر دوپٹہ لیے کھڑی تھی۔ وہ کون تھی۔ اسے لگا وہ اسے نہیں جانتی۔

کیسی ہو؟نرم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ اندر داخل ہوئی۔

بلقیس بتا رہی تھی تم میرا پوچھ رہی تھی۔ وہ آگے بڑھ کر عادتاً شیلف پر پڑی کتابیں، رجسٹر اور ٹیپ وغیرہ سلیقے سے جوڑنے لگی تھی۔ اس کے بھورے بال کھلے تھے اور اس نے انہی پر دوپٹہ لے رکھا تھا، ایسے کہ چند لٹیں باہر گر رہی تھیں۔ گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔

جی۔ مجھے پتا نہیں کہ آپ کدھر ہیں۔ محمل نے بغور اس کو دیکھا، جو اس کے سامنے سر جھکائے کتابیں سیٹ کر رہی تھی۔

اسے ابھی بھی تیمور کی بات پر مکمل یقین نہیں تھا۔ فرشتے ایسا نہیں کر سکتی تھی، کبھی بھی نہیں، یقیناً تیمور کو سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی۔

میں ایک دوست کے ساتھ تھی کچھ شاپنگ کرنا تھی۔ بے حد رسانیت سے بتا کر اس نے رجسٹر ایک دوسرے کے اوپر رکھے۔ نہ اس نے جھوت بولا نہ سچ بتایا۔ اس کا یقین ڈگمگانے لگا۔

آپ نے آگے کا کیا سوچا ہے فرشتے ؟ میرے جانے کے بعد آپ کیا کریں گی؟

ابھی پلان کروں گی دیکھو کیا ہوتا ہے۔ وہ اب گلدان میں رکھے سوکھے پھول احتیاط سے نکال رہی تھی۔ اس کے جواب مبہم تھے۔ ۔ ۔ ۔ نہ سچ نہ جھوٹ۔

اور تم سارا دن کیا کرتی رہیں ؟اس نے چڑمڑائے سوکھے پھول ڈسٹ بن میں ڈالے۔ کچھ خاص نہیں۔

دونوں خاموش ہو گئیں، اپنی اپنی سوچوں میں گم۔ اب اس کے پاس حقیقت جاننے کا ایک ہی راستہ تھا اور اس نے استعمال کرنے کا ارادہ کیا۔

فرشتے، وہ جسم کس کی کرسی پر ڈالا گیا تھا؟

کون سا جسم ؟فرشتے نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ پلٹنے سے اس کا دوپٹہ سرکنے سے بھورے بال جھلکنے لگے تھے۔

قرآن میں ایک جگہ ایک جسم کا ذکر ہے جو کسی کی کرسی پر ڈالا گیا تھا۔ آپ کو یاد ہے وہ کس کا جسم تھا؟اس کا انداز یوں تھا جیسے بھول گئی ہو۔

فرشتے نے الجھ کر چند لمحے سوچا، پھر نفی میں سر ہلا دیا۔ نہیں مجھے نہیں یاد آ رہا۔

اور محمل کو سارے جواب مل گئے تھے۔ فرشتے قرآن بھول گئی تھی۔ اگر وہ اسے پڑھتی رہتی تو اسے یاد رہتا، لیکن وہ اسے پڑھنا چھوڑ چکی تھی اور قرآن تو چند دن کے لیے بھی چھوڑ دیا جائے تو وہ فوراً ذہنوں سے مکمل طور پر محو ہو جاتا ہے۔ یہ کتاب اللہ کی سنت تھی اور کبھی یہ تبدیل نہیں ہو گی۔

اس نے گہری سانس لی۔

وہ سلیمان علیہ السلام کی کرسی تھی جس پر ایک جسم ڈال دیا گیا تھا۔

اوہ اچھا۔ فرشتے نے میز پر گرے پانی کے قطرے ٹشو سے صاف کیے۔

کیوں کیا آپ نے ایسے فرشتے ؟ وہ بہت دکھ سے بولی تھی، اب وقت آ گیا تھا کہ چوہے بلی کا کھیل بند کر دے۔

کی َفرشتے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر صرف استفسار تھا۔

وہ جو اس گھر میں ہوتا رہا میں وہ سب جاننا چاہتی ہوں ؟

مثلاً؟اس نے ابرو اٹھائی، اس کے چہرے پر وہ ہی نرم سا تاثر تھا۔ سب کچھ!

سب کچھ؟ کس بارے میں میری اور ہمایوں کی شادی کے بارے میں ؟اس کے انداز میں ندامت تھی، نہ پکڑے جانے کا خوف، وہ بہت آرام سے پوچھ رہی تھی۔

سب کچھ! اس نے آہستہ سے دہرایا۔

جب ہمایوں کراچی سے آیا تو اس نے مجھے پرپوز کیا۔ وہ تمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتا تھا، مگر طلاق سے قبل وہ مجھ سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ سو ہم نے ڈیسائیڈ کیا جب تم ہوش میں آؤ گی وہ تمہیں ڈائیورس دے گا اور ہم شادی کر لیں گے۔

وہ جیسے موسم کی کوئی خبر سنا رہی تھی۔

وہ کہتا تھا علماء سے فتوی لے لیتے ہیں، مگر میرا دل نہیں مانا، میں نے سوچا کہ کچھ وقت اور انتظار کر لیتے ہیں۔ اور پھر تم ہوش میں آ گئیں۔ سو اس نے ڈائیورس پیپرز سائن کر دیے۔ مجھے پرپوز کرنے سے قبل ہی وہ تمہیں ڈائیورس دینے کا فیصلہ کر چکا تھا، اگر یہ ضروری نہ ہوتا وہ تب بھی ایسے ہی کرتا، کیونکہ وہ یہ شادی رکھنے کو راضی نہیں تھا۔

وہ بہت سکون اور اطمینان سے میز سے ٹیک لگائے کھڑی اس کے بارے میں ان کہے سوالات کے جوابات دے رہی تھی۔

میں نے اس کا پرپوزل اس لیے قبول کر لیا کیونکہ طلاق کے بعد اسے بھی کسی نہ کسی سے شادی کرنا ہی تھی، اور مجھے بھی اور چونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے تھے، سو اس کے پرپوزل میرے لیے بہترین چوائس تھا۔ میں اس کو تمہارے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی تھی، نہ ہی وہ کسی کی مانتا ہے۔ سو شرعی لحاظ سے میرے پاس پرپوزل قبول کرنے کا حق تھا سو میں نے وہ استعمال کیا۔

اس کے پاس دلائل تھے، توجیہات تھیں، ٹھوس اور وزنی شرعی سہارے تھے۔ محمل خاموشی سے اس کی ساری باتیں سنتی رہی، وہ ذرا دیر کو چپ ہوئی تو اس نے لب کھولے۔

اور جب ہمایوں نے آپ سے میرے اور فواد کے تعلق کی نوعیت اور ان تصاویر کے بارے میں پوچھا تھا تب آپ نے کیا کہا تھا؟اس نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا۔

وہ ہی جو سچ تھا۔ وہ اب بھی پرسکون تھی۔ اس کو معز نے کچھ تصاویر اور ایگری منٹ لا کر دکھایا تھا جو ہم نے فواد سے طے کیا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ تم نے اس کے بارے میں ہمایوں کو بتا دیا ہو گا، میں نے اس کے غصے کے ڈر سے خود نہیں بتایا تھا۔ مگر تم نے بھی نہیں بتایا تو اس کا غصہ کرنا لازمی تھا۔ اس نے مجھے بلایا، پھر وہ مجھ پر چیخا، چلایا، میں چپ کر کے سنتی رہی، اس نے پوچھا کہ یہ ایگری منٹ سچا ہے یا جھوٹا۔ میں نے سچ بولا۔ وہ غصے میں چلاتا رہا، اسے دکھ تھا کہ ہم دونوں نے اس پر ٹرسٹ نہیں کیا۔ پھر اس نے وہ تصویریں مجھے دکھائیں اور پوچھا کہ وہ سچ ہے یا جھوٹ؟ میں نے سچ ہی بولا۔

کیا بولا؟ محمل نے تیزی سے اس کی بات کاٹی۔ یہی کہ مجھے معلوم نہیں اور مجھے واقعی معلوم نہیں تھا۔

اور وہ اسے دیکھتی رہ گئی، یہ فرشتے کا سچ تھا؟

پھر اس نے پوچھا معز اسے جو باتیں بتا کر گیا وہ سچ ہیں یا جھوٹ؟وہ اسے یہ بتا کر گیا تھا کہ تمہارا اور فواد کا افیر تھا اس رات فواد نے تمہیں پرپوز کرنا تھا، کوئی رنگ بھی دی تھی غالباً اور پھر اس نے تمہیں بہانے سے ہمایوں کے گھر بھیج دیا۔ اس رنگ کا ذکر فواد کی اس فون کال میں بھی تھا جو ہمایوں نے ٹیپ کی تھی۔

یہ بات اس نے پہلے اگنور کر دی تھی، پھر ظاہر ہے معز نے یاد دلایا تو وہ الجھ گیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے سچ بولا۔

اب کی بار وہ خاموش رہی۔ اس نے نہیں پوچھا کہ فرشتے کا سچ کیا تھا۔ وہ جان گئی تھی کہ وہ کیا کہنے جا رہی ہے۔

میں نے اسے کہہ دیا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی، نہ ہی تم نے کبھی مجھے اس معاملے میں راز دار بنایا ہے۔ اس نے اس رات کے متعلق پوچھا تو میں نے سچ سچ بتا دیا کہ فواد تمہیں پرپوز کرنے کے بہانے ڈنر پر لے جا رہا تھا۔ تم نے مجھے یہی بتایا تھا سو میں نے یہی بتا دیا۔

وہ چپ چاپ یک لخت سامنے کھڑی مطمئن سی لڑکی کو دیکھتی رہی۔ جس کے چہرے پر ملال تک نہ تھا۔ وہ اس کا ایک راز تک نہ سنبھال سکی تھی۔

وہ سچ کیسے ہو سکتا ہے، جس میں کسی امانت کا خون شامل ہو؟وہ تو اسے جانتی تھی، وہ اس کی بہن تھی، کیا وہ اس کی پردہ پوشی نہیں کر سکتی تھی؟فواد نے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ اسے پرپوز کرنے جا رہا ہے۔ یہ سب تو اس نے خود اخذ کیا تھا۔ اس سے ایک غلطی ہوئی تھی۔ وہ سمجھی کہ وقت کی دھول نے اس کی غلطی کو دبا دیا ہو گا، مگر لڑکیوں کی کچی عمر کی نادانیاں اتنی آسانی سے کہاں دبتی ہیں۔

اس ٹیپ میں کسی رنگ کا بھی ذکر تھا۔ ہمایوں نے اسے بار بار سنا، وہ مجھ پر غصہ ہوتا رہا کہ میں نے اسے بے خبر کیوں رکھا، پھر اس نے اپنا ٹرانسفر کراچی کروا لیا۔

وہ اب کھڑکی سے باہر لان میں دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

وہاں کراچی میں اسے آرزو ملی۔ اس کے فادر کی ڈیتھ کے بعد کریم چچا اور غفران چچا نے اس کا حصہ بھی دبا لیا تھا۔ سو اس نے سوچا کہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں۔ اس نے فواد سے تمہارا اور میرا سائن کردہ کاغذ لیا اور معز کے ہاتھوں ہمایوں کو بھجوا دیا۔ فواد آرزو کو پسند کرنے لگا تھا، وہ اب اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، وہ اسے اپنانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ مگر آرزو کو ہمایوں بہتر لگا، سو اس نے چاہا کہ ہمایوں تمہارا حصہ قانونی طور پر آغا کریم سے واپس لے، اس کا حصہ لینے میں بھی مدد کرے تو تمہارے حصے پر بھی وہ قابض ہو سکے جو ہمایوں کی ملکیت میں ہو گا، اور نیچرلی، تمہارے بارے میں وہ پر یقین تھی کہ تم کبھی نہیں اٹھو گی۔

بادل ایک دفعہ پھر زور سے گرجے، دور کہیں بجلی چمکی تھی، شام کی نیلاہٹ سارے میں بھر رہی تھی۔

وہ ابھی تک خاموشی سے فرشتے کو سن رہی تھی۔

مگر ہمایوں کو فواد سے ضد ہو گئی تھی۔ صرف اس لیے کہ فواد آرزو کو پسند کرتا تھا۔ اس نے آرزو کو اپنے قریب آنے دیا۔ فواد ہمایوں کی منتیں کرتا رہا کہ وہ آرزو کو چھوڑ دے، مگر ہمایوں اس سے اپنے سارے بدلے چکانا چاہتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ فواد نے اس کی محبت کو اس سے چھینا ہے، وہ بھی اس کی محبت کو ویسے ہی چھینے گا۔ وہ آرزو سے کبھی بھی شادی نہیں کر رہا تھا، مگر اس نے آرزو کو دھوکے میں رکھا ابھی مجھے ڈراپ کر کے وہ آرزو کے پاس ہی گیا ہے، اس کو بتانے کہ جیسے وہ اس کو استعمال کر رہی تھی، ویسے ہی وہ بھی اس کو استعمال کر رہا تھا۔ وہ شدت پسند لڑکی ہے جانے غصے میں کیا کر ڈالے۔ مگر جو بھی ہو وہ آج اسے آئینہ دکھا کر ہی واپس آئے گا۔

کھڑکی کے بند شیشے پر کسی چڑیا نے زور سے چونچ ماری، پھر چکرا کر پیچھے کو گری، بادل وقفے وقفے سے گرج رہے تھے۔

شاید تم یہ سمجھو کہ میں نے تمہارے ساتھ برا کیا ہے یا یہ کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ لیکن تم یہ سوچو میں پھر اور کیا کرتی؟میں ہمایوں سے بہت محبت کرتی تھی اور کرتی ہوں۔ مگر جب مجھے لگا تم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہو تو میں درمیان سے نکل گئی، لیکن اب وہ تمہیں نہیں چاہتا، اور مجھے بھی کسی نہ کسی شادی تو کرنا تھی۔ مجھے بتاؤ میں نے کیا غلط کیا؟

میرے دین نے مجھے پرپوزل سلیکٹ کرنے کا اختیار دیا تھا۔ سو میں نے اسے استعمال کیا۔ تم کسی بھی مفتی سے پوچھ لو، اگر کوئی عورت شوہر کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہی ہو تو شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے، اور اس میں کسی کی حق تلفی کی کوئی بات نہیں ہے۔ نہ ہی قطع رحمی کا عنصر شامل ہے، یاد کرو سورۃ نساء میں ہم نے کیا پڑھا تھا؟کہ اگر کوئی ایک حقوق ادا نہ کر سکے تو پھر اپنے حقوق چھوڑ دے، الگ ہو جائے کہ اللہ دونوں کے لیے وسعت پیدا کر دے گا۔

اپنے مطلب کی آیات اسے آج بھی یاد تھیں۔

آئی ہوپ کہ اب تمہاری کنفیوژن اور اعتراضات دور ہو گئے ہوں گے۔ میں نے سات سال تمہاری خدمت کی، حالانکہ یہ میرا فرض نہیں تھا، مگر اس لیے کہ تم کبھی یہ نہ سمجھو کہ میں تم سے پیار نہیں کرتی ہوں۔ تم نے ایک بار مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر تم میرے لیے اپنا حق چھوڑ دو گی، فواد نے تمہاری گردن پر پستول رکھا تھا، تمہیں بچانے کے لیے میں نے اپنا حق چھوڑ دیا تھا۔ یہ باتیں میں نے آج کے دن کے لیے سنبھال کر رکھی تھیں، تا کہ آج میں تم سے تمہارے وعدے کی وفا مانگ سکوں۔

وہ خاموش ہو گئی۔ اب محمل کے بولنے کی منتظر تھی۔

محمل چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی، پھر آہستہ سے لب کھولے۔

آپ نے کہہ لیا جو آپ نے کہنا تھا؟

ہاں۔

تو پھر سنیئے ' اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ اس نے تعوذ پڑھا تو فرشتے نے الجھ کر اسے دیکھا۔ مگر وہ رکی نہیں تھی۔ بہت دھیمے مگر مضبوط لہجے میں وہ عربی میں اسے کچھ سنانے لگی تھی۔ وہ عربی جو ان دونوں کی سمجھ میں آتی تھی۔

اور اسی طرح ہم کھول کھول کر آیات بیان کرتے ہیں، شاید کہ وہ پلٹ آئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید کہ وہ پلٹ آئیں۔

فرشتے کی آنکھوں میں الجھا سا تاثر ابھرا۔ محمل بنا پلک جھپکے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پڑھتے جا رہی تھی۔

ان لوگوں کو اس شخص کی خبر سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیات دی تھیں۔ پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو اس کے پیچھے شیطان لگ گیا، تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔

فرشتے کی بھوری آنکھوں میں بے چینی ابھری تھی۔ محمل! میری بات سنو۔

مگر وہ نہیں سن رہی تھی۔ وہ پتلیوں کو حرکت دئیے بنا نگاہیں اس پر مرکوز کیے کہتی جا رہی تھی۔

تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔ اس کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ اور اگر ہم چاہتے تو اس ان ہی آیات کے ساتھ بلندی عطا کرتے، لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا۔

محمل چپ کرو۔ وہ زیر لب بڑ بڑائی تھی، مگر محمل کی اواز اونچی ہو رہی تھی۔

لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا اور اس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ تو اس کی مثال کتے جیسی ہے۔ تو اس کی مثال کتے جیسی ہے۔

اگر تم اس پر حملہ کرو تو اپنی زبان باہر نکالتا ہے، یا تم اس کو چھوڑ دو، تو بھی وہ زبان باہر نکالتا ہے۔

خاموش ہو جاؤ! خدا کے لیے خاموش ہا جاؤ! اس نے تڑپ کر محمل کے منہ پر ہاتھ رکھنا چاہا، اس دوپٹہ کندھوں سے پھسل گیا تھا، کھلے بال شانوں پر آگرے تھے۔

محمل نے سختی سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔ اسی میکانکی انداز میں اسے دیکھتی پڑھتی جا رہی تھی۔ جسے اللہ ہدایت بخشے، پس وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے، بس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہے اور بھٹکا دے، بس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔

اس کے ہاتھ بے دم ہو کر اپنی گود میں آگرے تھے۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھتی، گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں گری تھی۔

بے شک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنوں میں سے اور بہت سے انسانوں میں سے پیدا کیے ہیں۔

ان کے لیے دل ہیں۔ وہ ان سے کچھ نہیں بھی نہیں دیکھتے۔ اور اور ان کے لیے کان ہیں۔ وہ ان سے کچھ بھی نہیں سنتے۔ یہی لوگ مویشیوں کی طرح ہیں، بلکہ یہ تو زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں جو غافل ہیں، جو غافل ہیں۔ وہ کسی معمول کی طرح بار بار وہی الفاظ دہرا رہی تھی۔

فرشتے سفید چہرہ لیے بے دم سی بیٹھی تھی۔ اس کے لب ہولے ہولے کپکپا رہے تھے۔ محمل نے آہستہ سے پلک جھپکی تو دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے۔

اور اسی طرح کھول کھول کر آیات بیان کرتے ہیں شاید کہ وہ پلٹ آئیں !

اس نے وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں اطراف سے تھاما اور اس کا رخ کھڑکی کی طرف موڑا وہ آہستہ آہستہ وہیل چئیر کو کھڑکی کی طرف بڑھانے لگی۔

فرشتے پیچھے بیٹھی رہ گئی تھی۔ محمل نے پلٹ کر اسے نہیں دیکھا۔ وہ ابھی پلٹنا بھی نہیں چاہتی تھی۔

اور اسی طرح ہم کھول کھول کر آیات بیان کرتے ہیں، شاید کہ وہ پلٹ آئیں۔ ۔ ! وہ کھڑکی کے پار دیکھتے ہوئے زیر لب بڑ بڑائی تھی۔

فرشتے سے مزید کچھ نہیں سنا گیا۔ وہ تیزی سے اٹھی، اور منہ پر ہاتھ رکھے بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی۔

محمل اسی طرح نم آنکھوں سے باہر چمکتی بجلی کو دیکھتی رہی۔

٭٭٭



وہ تب بھی کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی جب ہمایوں کی گاڑی اندر آئی۔ اور تب بھی، جب رات ہر سو چھا گئی۔ اس کی اس گھر میں آخری رات۔ ۔ ۔ اور وہ اسے سکون سے گزارنا چاہتی تھی۔ تب اس نے بلقیس کو بلوایا جس نے اسے بستر میں لیٹنے میں مدد دی۔ پھر وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے کب گہری نیند میں چلی گئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔

اس کے ذزہن میں اندھیرا تھا، گھپ اندھیرا جب اس نے وہ آواز سنی۔ تاریکی کو چیرتی، مدھر آواز اپنی جانب کھینچتی آواز۔

محمل نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔

کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا۔ کھڑکی کے آگے پردے ہٹے تھے۔ وہ رات کے وقت شیشے کے پٹ کھول کر رکھتی تھی تا کہ جالی سے ہوا اندر ائے۔ وہیں باہر سے کوئی آواز اندر آ رہی تھی۔

اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا، اور بٹن دبایا۔ ٹیبل لیمپ فوراً جل اٹھا۔ روشنی سامنے دیوار گیر گھڑی پر پڑی۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔ وہ مدھم سی دکھ بھری آواز ابھی تک آ رہی تھی۔

اس نے رک کر سننا چاہا۔ لفظ کچھ کچھ سنائی دینے لگے تھے۔

اللھم جعل فی قلبی نورا

(اے اللہ میرے دل میں نور ڈال دے )

محمل نے بے اختیار سائیڈ ٹیبل پر رکھی بیل پر ہاتھ مارا۔

وفی بصری نورا

(اور میری بصیرت میں نور ہو)

بلقیس تیزی سے دروازہ کھول کر اندر آئی تھی۔

محمل کی وجہ سے وہ کچن میں ہی سوتی تھی۔

جی بی بی؟

مجھے بٹھا دو، بلقیس ! اس نے بھرائی ہوئی آواز میں وہیل چئیر کی طرف اشارہ کیا۔ بلقیس سر ہلا کر آگے بڑھی، تب ہی کھڑکی کے اس پار سے آواز آئی۔

وفی سمعی نورا

(اور میری سماعت میں نور ہو)

بلقیس چونک کر کھڑکی کو دیکھنے لگی، پھر سر جھٹک کر اس کی طرف آئی۔

وعن یمنی نورا و عن یساری نورا

(اور میرے دائیں جانب اور بائیں جانب نور ہو)

بہت احتیاط سے بلقیس نے اسے وہیل چئیر پر بٹھا دیا۔

اب تم جاؤ۔ اس نے اشارہ کیا۔ بلقیس سر ہلاتی متذبذب سی واپس پلٹی۔

وفوقی نورا وتحتی نورا

(اور میرے اوپر اور نیچے نور ہو)

مدھم چاندنی کی چاشنی میں ڈوبی آواز ہر شے پر چھا رہی تھی۔ محمل نے وہیل چئیر کا رخ باہر کی جانب موڑا۔

وامامی نورا وخلفی نورا ( اور میرے آگے پیچھے نور ہو) آواز میں اب آنسو گرنے لگے تھے۔ وہ وہیل چئیر کو بمشکل گھسیٹتی باہر لائی۔

واجعل لی نورا

( اور میرے لیے نور بنا دے )

چاندنی میں ڈوبا برآمدہ سنسان پڑا تھا۔ وہ مترنم، غم زدہ آواز لان سے آ رہی تھی۔

وفی لسانی نورا وعصبی نورا ( اور میری زبان اور اعصاب میں نور ہو )

اس نے سوز میں پڑھتے ذرا سی ہچکی لی۔

محمل آہستہ آہستہ برآمدے کی آرام دہ ڈھلان سے نیچے وہیل چئیر کو اتارنے لگی۔ یہ ڈھلان فرشتے نے ہی اس کے لیے بنوائی تھی۔

ولحمی نورا ودمی نورا

(اور میرے گوشت اور لہو میں نور ہو )

لان کے آخری سرے پر دیوار سے ٹیک لگائے ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ اس کا سر نڈھال سا دیوار کے ساتھ ٹکا تھا۔ آنکھیں بند تھیں جب سے قطرہ قطرہ آنسو ٹوٹ کر رخسار پر گر رہے تھے۔ لمبے بھورے بال شانوں پر گرے تھے۔

وشعری نورا وبشری نورا ( اور میرے بال و کھال میں نور ہو )

محمل وہیل چئیر کو گھاس پر آگے بڑھانے لگی گھاس کے تنکے پہیوں کے نیچے چرمڑانے لگے تھے۔

میرے نفس میں نور ہو اور میرے لیے نور کو بڑھا دے )

وہ اسی طرح آنسو بہاتی بند آنکھوں سے بے خبر سی پڑھتی جا رہی تھی۔

محمل وہیل چئیر اس کے بالکل سامنے لے آئی۔

اللھم اعطنی نورا

(اے اللہ، مجھے نور عطا کر دے !)

چاندنی میں اس کے آنسو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔

فرشتے ! اس نے ہولے سے پکارا۔

فرشتے کی آنکھوں میں جنبش ہوئی۔ اس نے پلکیں جدا کیں اور محمل کو دیکھا۔ وہ شاید بہت روئی تھی۔ اس کی آنکھیں متورم، سرخ تھیں۔

کیوں رو رہی ہیں ؟اس کے اپنے آنسو گرنے لگے تھے۔ یہ وہ لڑکی تھی جس نے اسے قرآن سنایا تھا، قرآن پڑھایا تھا۔ اس کی جان ان لوگوں سے چھڑائی تھی سات سال اس کی خدمت کی تھی۔ بہت احسان تھے اس کے محمل پہ۔ اور آج اس نے اسے رلا دیا!

مجھے رونا ہی تو چاہیے، وہ سر اٹھا کر چاند کو دیکھنے لگی، میں نے بہت زیادتی کی ہے محمل، بہت زیادتی۔

وہ خاموشی سے اس کو سنے گئی۔ شاید ابھی فرشتے نے بہت کچھ کہنا تھا وہ سب جو وہ پہلے نہیں کہہ سکی۔ میں نے سات سال توجیہات جوڑیں، دلیلیں اکٹھی کیں اور تم نے سات آیتوں میں انہیں ریت کا ڈھیر بنا دیا۔ میں نے خود کو بہت سمجھایا تھا۔ بہت یقین دلایا تھا کہ یہی صحیح ہے مگر آج میرا یقین ٹوٹ گیا ہے محمل میں خود غرض ہو گئی تھی، کتے کی طرح خود غرض، جو ہڈی ڈالنے پر بھی زبان نکالتا ہے۔

اس کے اوپر چاند کو تکتی آنکھوں سے قطرے گر رہے تھے۔

کبھی تم نے میری چاندی کی وہ انگوٹھی دیکھی ہے محمل؟تم نے کبھی نہیں پوچھا کہ وہ مجھے کس نے دی تھی۔ جانتی ہو، وہ مجھے میری خالہ نے دی تھی۔ وہ انہوں نے اپنی بہو کے لیے رکھی تھی، اور اپنی وفات سے قبل وہ بیمار تھیں، انہوں نے مجھے وہ پہنا دی۔ میری امی ان کا مطلب سمجھتی تھیں، مگر خاموش رہیں۔ وہ وقت آنے پر ہمایوں سے بات کرنا چاہتی تھیں، مگر وقت نہیں آیا۔ آ ہی نہ سکا۔ امی فوت ہوئیں تو میں چپ چاپ مسجد چلی گئی۔ میں برسوں انتظار کرتی رہی کہ ہمایوں کبھی تو اس انگوٹھی کے بارے میں پوچھے گا، مگر اس نے نہیں پوچھا۔ پھر میں نے صبر کر لیا، مگر انتظار تو مجھے تھا نا۔ میں نے بچپن سے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام سنا تھا مجھے اس پر اپنا ہی حق لگتا تھا۔ اور جب ایک روز ہمایوں نے مجھے کہا کہ مجھے شادی کے بارے میں سوچنا چاہیئے، تو میں نے اس کو خالہ کی خواہش کے بارے میں بتانے کا سوچا۔

اس رات میں بہت دیر تک مسجد کی چھت پر بیٹھی رہی تھی، اور جب میں فیصلہ نہ کر پائی تو دعائے نور پڑھنے لگی۔ تمہیں پتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس دعا کا ایک حصہ سجدے میں پڑھا کرتے تھے ؟ اور یہ دعا قرآن سمجھنے میں مدد دیتی ہے میں جب بھی فیصلہ نہ کر پاتی اس دعا کو پڑھتی۔ اس رات بھی میں پڑھ کر ہٹی ہی تھی کہ تم ہماری چھت پر آئیں، اور پھر تم ہماری زندگی میں بھی آ گئیں۔

میں نے آج تک تمہارے لیے جو بھی کیا ہے وہ اللہ کے لیے کیا ہے۔ مجھے یاد بھی نہیں کہ میں نے کیا کیا تھا، پھر جب میں نے ہمایوں کو تمہارے لیے مسکراتے دیکھا اور اس کے لیے تمہاری آنکھوں کو چمکتے دیکھا تو میں نے سوچا کہ تمہیں آگاہ کر دوں، اور تمہیں یاد ہے جب تم اسپتال میں ہمایوں کو دیکھنے آئی تھیں، تو میں تمہیں بتانے ہی والی تھی۔ مگر تم نے نہیں سنا، تب میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں گی۔ قربانی دے دوں گی۔ تب میرا جینا، اور میرا مرنا۔ اور میری نماز اور میری قربانی صرف اللہ کے لیے تھی۔ میں نے ہر چیز بہت خلوص دل سے کی تھی۔ خود تمہاری شادی کروائی اور اپنے تئیں میں مطمئن تھی لیکن۔

جب تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا اور میں پاکستان واپس آئی تو مجھے پہلی دفعہ لگا شاید تم زندہ نہ رہ سکو، اور ہمایوں میرا نصیب۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے آگے سوچنے سے بھی میں ڈرنے لگی تھی۔ سو واپس چلی گئی۔ مگر ہمایوں جب بھی کال کرتا اور تمہاری مایوس کن حالت کی خبر دیتا تو مجھے لگتا کہ یہی تقدیر ہے۔ شاید تم ہمیں چھوڑ جاؤ، تب ہمایوں میرے پاس واپس آ جائے، مجھے لگا میری قربانی قبول ہو گئی ہے۔ اس کا انعام مجھے دیا جانے لگا ہے۔ مجھے بھول گیا کہ وہ قربانی تو اللہ کے لیے تھی، اللہ کو پانے کے لیے تھی، دنیا کے لیے یا ہمایوں کے لیے تو نہ تھی۔ مگر تمہاری طرف سے ہم اتنے مایوس ہو گئے تھے کہ آہستہ آہستہ مجھے سب بھولتا گیا۔ میں ہر نماز میں، ہر روز تلاوت کے بعد ہمایوں کو خدا سے مانگنے لگی۔ میں آہستہ آہستہ زمین کی طرف جھکنے لگی تو میرے ساتھ شیطان لگ گیا۔

اس کی اٹھی لمبی گردن پر آنکھوں سے نکلتے آنسو پھسل رہے تھے۔ اس کی نگاہیں ابھی بھی اوپر چاند پر ٹکی تھیں۔ شاید وہ ابھی محمل کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔

جب میں دوبارہ واپس آئی تو اپنی زمین کی طرف جھکی ہوئی آئی . اس امید پر تمہاری خدمت کرنے لگی کہ شاید یہی دیکھ کر ہمایوں کا دل میری طرف کھنچ جائے۔ میری اس انتھک خدمت میں ریا شامل. .ہو گئی...مجھے اس وقت سے ڈر نہیں لگا جب میں حشر کے روز اپنے اعمال نامے پر ان بڑی بڑی نیکیوں پر کاٹا لگے دیکھوں گی کہ یہ تو ریا کے باعث ضائع ہو گئیں ..

قبول ہی نہیں کی گئیں۔ مجھے ڈر نہیں لگا۔ میں ریا کاری کرتی گئی مگر یقین کرو، قرآن مجھ سے نہیں چھوٹا۔ میں تب بھی روز اسے پڑھتی تھی مگر میرا جینا مرنا نماز اور قربانی ہمایوں کے لیے ہو گئی۔

یکدم بادل زور سے گرجے اور اگلے ہی لمحے بارش کے ٹپ ٹپ قطرے گرنے لگے مگر وہ دونوں بے خبر بیٹھی تھیں۔ پھر ایک دن معز چلا آیا، اسے آرزو نے بھیجا تھا۔ وہ ان گزرے سالوں میں کئی دفعہ ہمایوں سے رابطے کی کوشش کر چکی تھی مگر جب اس نے توجہ نہ دی تو اس نے معز کو بھیجا تھا۔ ۔ اس کے پاس تصویریں تھیں اور وہ کاغذ۔ ہمایوں نے مجھ سے پوچھا تو کاغذ کی بابت میں نے سچ بولا، مگر جب اس نے تصویریں میرے سامنے پھینکیں تو میں خاموش ہو گئی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جعلی ہیں، مگر ٹیکنیکلی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ سچ ہیں یا نہیں۔

میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا مگر میرا دل۔ ۔ ۔ ۔ بار بار کوئی میرے اندر وہ آیت دہرا رہا تھا کہ

کیوں نہیں تم نے کہا کہ یہ کھلم کھلا بہتان ہے۔

وہ آیت بھی ایک ایسی محترم ہستی کے لیے نازل ہوئی تھی جس کے اوپر لگائے گئے بہتان کی حقیقت سے مومن بے خبر تھے، پھر بھی اللہ نے ان کو سرزنش کی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کردار کی کتنی سچی ہے، تم نے اس کی حمایت نہیں کی؟

میں ہمایوں کے سامنے سر جھکائے کھڑی تھی۔ وہ میرے اوپر چلا رہا تھا اور میرے اندر مسلسل کوئی میرے اندر کہہ رہا تھا کہ کہو ہذا افک مبین( یہ بہتان ہے کھلم کھلا) میں نے سر اٹھایا، ایک نظر ہمایوں کو دیکھا، وہ ہمایوں جس سے میں محبت کرتی تھی اور پھر میں نے کہہ دیا کہ میں اس بارے میں لا علم ہوں۔

تب ایک دم میرے اندر باہر خاموشی چھا گئی۔ وہ آواز آنا بند ہو گئی۔ تب ہمایوں نے معلوم نہیں کہاں سے وہ ٹیپ نکالی اور مجھے سنوائی۔ اس میں کسی انگوٹھی کا تذکرہ تھا۔ اس نے معز کی بات دہرائی کہ کیا اس روز فواد تمہیں پرپوز کرنے کا جھانسہ دے کر باہر لے کر گیا تھا؟تب پھر سے کسی نے میرے اندر کہا۔

اللہ خیانت کار کی چال کی راہنمائی نہیں کرتا۔ مگر اب وہ آواز کمزور پڑ چکی تھی۔ مجھے امانت کے سارے سبق بھول گئے۔ میں نے اسے وہ بتا دیا جو تم نے مجھے بتایا تھا۔ تب وہ مجھ پر بہت چیخا۔ اس نے کہا کہ میں نے اپنی بہن کو بچانے کے لیے اس کے سر تھوپ دیا ہے۔ اس نے بہت مشکل سے دل بڑا کر کے اس بات کو نظر انداز کیا تھا کہ تم کس طرح پہلی دفعہ اس کے گھر لائی گئی تھی۔ مگر یہ بات کہ فواد کا اور تمہارا کوئی افیر تھا۔ اس کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ میرے ایک فقرے نے ہر چیز پر تصدیق کی مہر لگا دی۔ وہ مجھ پر کبھی ایسے نہیں برسا تھا۔ جیسے اس رات برسا تھا، میں ساری رات روتی رہی۔ نا معلوم غم کس بات کا زیادہ تھا۔ خیانت کا یا ہمایوں کے رویے کا۔ میں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ مگر ہمایوں نے اگلی صبح مجھ سے ایکسیکوز کر لیا۔ میں چپ چاپ سنتی رہی۔ تب آخری دفعہ میرے دل سے آواز آئی کہ اس کو بتا دو کہ تم نے جھوٹ بولا تھا۔

مگر میں چپ رہی۔ میں خواہشات کی پیروی میں چلنا شروع کر دیا۔ اور میں بھٹک گئی۔ وہ کراچی چلا گیا اور میں کئی دن تک تمہیں دیکھنے اسپتال نہ جا سکی۔ جس دن میں نے خیانت کی، اس دن سے آج کے دن تک تین ساڑھے تین سال ہونے کو آئے ہیں، میں قرآن نہیں کھول پائی۔ ہاں نمازیں میری آج بھی ویسی ہی لمبی ہیں، میں سجدوں میں گر کر ہمایوں کو اب بھی مانگتی ہوں، مگر قرآن پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملا۔

بارش تڑا تڑ برس رہی تھی۔ فرشتے کے بھورے بال بھیگ چکے تھے۔ موٹی موٹی لٹیں، چہرے کت اطراف میں چپک گئی تھی۔ وہ ابھی تک اوپر چاند کو دیکھ رہی تھی۔

وہ کراچی سے آیا تو بدل گیا تھا۔ پھر ایک روز اس نے مجھے پرپوز کیا۔ اچانک بالکل اچانک سے اور مجھے لگا میری ساری قربانیاں مستجاب ہو گئی ہیں۔ پھر مڑ کر پیچھے دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ وہ تم سے بہت بد ظن ہو چکا تھا۔ مگر میں نے اسے مجبور کیا کہ، کہ وہ تمہارا علاج کروانا نہ چھوڑے۔

موسلا دھار بارش میں بار بار بجلی چمکتی تو پل بھر میں سارا لان روشن ہو جاتا۔

فواد نے کئی دفعہ فون کر کے تمہارا پوچھنا چاہا، میں نے اسے کبھی کچھ نہیں بتایا، بس اس کی بات سن کر کچھ کہے بنا ہی فون بند کر دیتی۔ وہ بہت بدل گیا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر اسے اس سارے کھیل کا علم ہو گیا تو وہ ہمایوں کے پاس آ کر اسے سب بتا دے گا۔

مشکل ہی تھا کہ ہمایوں اس کا یقین کرے مگر اس ڈر سے میں نے اسے کبھی کچھ پتا نہیں لگنے دیا۔

مجھے ہمایوں نہیں چاہیئے فرشتے ! وہ روتے ہوئے بولی تھی، مجھے اپنی بہن چاہیئے !

مجھے بھی ہمایوں نہیں چاہیئے۔ مجھے بھی اپنی بہن ہی چاہیئے ! اس نے بھیگی آنکھوں کا رخ پہلی دفعہ محمل کے چہرے کی طرف کیا۔ محمل نے اس کے گھٹنوں پر رکھے ہاتھ پکڑ لیے۔ ان میں آج چاندی کی وہ انگوٹھی نہیں تھی۔

بارش زور سے ان دونوں پر برس رہی تھی۔

میں نے فواد کو فون کر دیا ہے وہ پہنچنے والا ہو گا۔ وہ خاصا سمجھدار بندہ ہے ایسے ثبوت لائے گا کہ ہمایوں اس کو جھٹلا نہیں سکے گا۔ وہ ابھی آ کر ہمایوں کو سب کچھ بتا دے گا۔ ابھی کل دوپہر میں خاصا وقت ہے۔ تمہاری عدت ختم نہیں ہوئی۔ میں جانتی ہوں کہ وہ حقیقت جان کر رہ نہیں پائے گا۔ اور تمہیں واپس اپنائے گا۔ آؤ۔ اندر چلتے ہیں۔ فرشتے نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالے، اٹھی اور پھر وہیل چئیر کی پشت تھام لی۔

بس مجھ پر ایک احسان کرنا۔ ہمایوں کو مت بتانا کہ میں خیانت کی۔ میں اس کی نظروں سے گرنا نہیں چاہتی۔ بظاہر میں نے جھوٹ نہیں بولا مگر مجھے تمہارا راز نہیں کھولنا چاہیئے تھا۔ میں اس سے کہہ دوں گی کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی، میں فواد کے سامنے تمہاری تائید کروں گی، مگر تم۔ تم میری عزت رکھ لینا۔ وہ جانتا ہے۔ کہ فرشتے جھوت نہیں بولتی، خیانت نہیں کرتی۔ اس نے ان تصویروں پر نہیں مجھ پر یقین کر کے تمہیں طلاق دی تھی۔ تم میری عزت رکھ لینا۔

وہ اس کی وہیل چئیر دھکیلتی آہستہ آہستہ بے خود سی کہہ رہی تھی۔ محمل نے سر جھکا لیا۔ وہ فرشتے کو نہیں بتا سکی کہ آج وہ پھر زمین کی طرف جھک رہی ہے مگر اسے پتہ نہیں ہے۔

تم ہمایوں کو واپس لے لو محمل۔ وہ تمہارا ہے، اسے تمہارا ہی رہنا چاہیئے۔ وہ اسے اس کے کمرے میں چھوڑ کر پلٹ گئی۔

٭٭٭



کمرے میں اسی طرح نیم اندھیرا تھا۔ کھڑکی کے پردے ہٹے تھے۔ ٹیبل لیمپ ابھی تک جل رہا تھا۔ وہ خود کو گھسیٹتی آگے بڑھی اور لیمپ کا بٹن بجھایا۔ ایک دم کمرے میں اندھیرا پھیل گیا۔ بس کھڑکی کے پار بارش کے قطرے گرتے دکھائی دے رہے تھے۔

وہ وہیں کھڑکی کے سامنے بیٹھی بارش کو دیکھے گئی۔

انسان جس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے، اللہ اسے اسی کے ہاتھوں سے توڑتا ہے، انسان کو اس ٹوٹے ہوئے برتن کی طرح ہونا چاہیئے جس سے لوگوں کی محبت آئے اور باہر نکل جائے۔

اللہ نے اسے انہی لوگوں کے کے ہاتھوں توڑا تھا جن سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتی تھی۔ ہمایوں فرشتے اور تیمور!

تب ہی گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔ وہ خاموشی سے دیکھتی رہی۔

وہ گاڑی بار بار ہارن بجا رہی تھی۔ تب اس نے برستی بارش میں ہمایوں کو گیٹ کی جانب جاتے دیکھا۔ اس نے گیٹ کھولا تو گاڑی زن سے اندر داخل ہوئی۔ ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ تیزی سے باہر نکلا تھا، وہ فواد ہی تھا، وہ پہچان گئی تھی۔

وہ ویسا ہی تھا، بس آنکھوں پر فریم لیس گلاسز تھے اور بالوں کا کٹ زیادہ چھوٹا تھا۔

کیا ہمایوں اس کی بات سن لے گا؟ کبھی بھی نہیں !

تب ہی فواد نے لپک کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا اور کسی کو بازو سے کھینچ کر باہر نکالا۔ محمل دھک سے رہ گئی۔ وہ معز تھا۔

پتلا لمبا نوجوان۔

فواد اس کو پکڑ کر ہمایوں کے سامنے لایا جو قدرے چونکا ہوا کھڑا تھا۔

برستی بارش کا شور بہت تیز تھا۔ ان کی باتوں کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ وہ تینوں بارش میں بھیگتے کھڑے تھے۔ فواد زور زور سے کچھ کہہ رہا تھا۔ ہمایوں سینے پر ہاتھ باندھے خاموشی سے صرف سن رہا تھا۔ اس کی محمل کی طرف پشت تھی۔ وہ اس کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ سکتی تھی۔

اور تب اس نے معز کو ہاتھ جوڑے دیکھا۔ شاید اس کے چہرے پر بارش کے قطرے تھے، یا شاید وہ رو رہا تھا۔ روتے ہوئے وہ کچھ کہتے ہوئے وہ ہمایوں سے معافی مانگ رہا تھا۔ اور تب اس نے فرشتے کو باہر آتے دیکھا۔ وہ بھی کچھ کہہ رہی تھی۔

محمل نے ہاتھ بڑھا کر پردہ برابر کر دیا۔ وہ اس منظر کو اب مزید نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔

کتنی ہی دیر بعد اس نے فرشتے کی اواز سنی، وہ فواد اور معز کو ادھر لا رہی تھی۔

اس کے کمرے کا دروازہ کھلا، محمل کی اس کی طرف پشت تھی۔

محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فواد کی بھرائی ہوئی آواز اسے سنائی دی۔

معز نے ہمایوں کو سب کچھ بتا دیا ہے۔ اگر مجھے پہلے پتا ہوتا تو۔ ۔ ۔ محمل ہمیں معاف کر دو۔ ہم نے تمہارے ساتھ بڑی زیادتی کی۔

آپا! ہمیں معاف کر دو ! وہ معز تھا وہ رو رہا تھا۔

اماں اور آرزو آپا نے مجھے یہ سب کرنے کو کہا تھا۔ آپا! اماں بیمار ہیں۔ وہ اب پہلے جیسی نہیں ہیں۔ وہ سارا دن چیختی چلاتی ہیں۔ آپا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں۔ وہ کہہ رہا تھا اور کوئی دھیمے سے اس کے اندر بولا تھا۔

پس تم یتیم کے ساتھ سختی نہ کرنا۔

آپا! آرزو آپا نے خود کشی کر لی ہے۔ آج ہمایوں بھائی نے اس کو ریجیکٹ کر دیا تھا۔ اماں سنبھل نہیں پا رہیں۔ ہمیں بدعا مت دینا آپا۔

جاؤ معز ! میں نے تمہیں معاف کیا۔ سب کچھ معاف کیا۔

وہ کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی۔

آپا دعا کرو آرزو آپا بچ جائیں۔ ان کے لیے بد دعا مت کرنا۔

میں دعا کروں گی تم جاؤ۔

اور وہ ویسے ہی الٹے قدموں واپس پلٹ گیا۔

کیا تم ہمیں معاف کر سکتی ہو محمل؟َوہ شکست خوردہ، ٹوٹا ہوا آغا فواد ہی تھا۔

میں نے معاف کیا سب معاف کیا۔ وہ اب بھی پیچھے نہیں مڑی تھی۔

آغا جان کو آدھے جسم کا فالج ہو گیا ہے۔ وہ تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ ممی ان کے غم کی وجہ سے نہ زندوں میں رہی ہیں نہ مردوں میں۔ سدرہ کے شوہر کی ڈیتھ ہو گئی ہے اور اس کے وہ خاندانی سسرال والے اس کو میکے نہیں آنے دیتے۔ وہ اور اس کے یتیم بچے اپنے گھر میں اس سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں جو تم نے مسرت چچی نے گزاری تھی۔ مہرین کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے کچھ مت بتائیں فواد بھائی۔ پلیز میں نے معاف کیا۔ سب معاف کیا۔ مجھے یہ سب بتا کر اور دکھ نہ دیں۔ ابھی مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔ اس کے نرم لہجے میں منت تھی۔

ٹھیک ہے۔ اور یہ تمہارا حصہ ہے ان میں تمام سالوں کے منافع سمیت۔ فرشتے کا حصہ میں اسے ادا کر چکا ہوں۔ ہو سکے تو ہمارے لیے دعا کرنا۔ وہ ایک فائل اور ایک مہر بند لفافہ اس کی بیڈ کی پائنتی پر رکھ کر واپس مڑ گیا تھا۔

محمل نے گردن پھیر کر دیکھا۔ وہ سر جھکائے نادم و شکستہ حال جا رہا تھا۔

وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ آغا فواد کا کیا انجام ہوا؟مگر یہ دنیا انجام کی جگہ تھوڑی ہے ؟یہ تو امتحان کی جگہ ہے اپنے گناہ نظر آنا بھی ایک امتحان ہے اصل فیصلہ تو روز حساب ہی ہو گا۔

اس کے بیڈ کی پائنتی پر چند کاغذ رکھے تھے۔ وہ کاغذ جو کبھی اس کی زندگی کا محور تھے مگر آج اس نے ان پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی۔ انہیں کاغذوں کے لیے اس نے فواد کا جھانسہ قبول کیا تھا، آج فواد نے اسے خود لا دیے تھے مگر کتنی بھاری قیمت تھی اس غلطی کی جو اسے چکانی پڑی تھی۔

کچی عمر کے کچے سودے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بارش دھیمی ہو چکی تھی۔ کھڑکی کی جالیاں گیلی ہو چکی تھیں۔ ان سے مٹی کی سوندی خوشبو اندر آ رہی تھی۔ بہت دیر تک وہ وہی بیٹھی خوشبو سونگھتی رہی۔ اسے لا شعوری طور پر اس کا انتظار تھا۔ وہ جانتی تھی اب وہ اس کے کمرے میں ضرور آئے گا۔

کافی لمحے بیت گئے تو اس نے چوکھٹ پر آہٹ سنی۔ وہ آہستہ سے مڑی۔

ہمایوں تھکا ہارا سا دروازے میں کھڑا تھا۔ یہ وہ دروازہ تھا جو اس نے محمل کی موجودگی میں کبھی پار نہیں کیا تھا۔ یہ وہ چوکھٹ تھی جس پر وہ کبھی سوالی بن کر نہیں آیا تھا۔ مگر آج وہ آیا تھا۔

اس کے تھکے تھکے ٹوٹے قدم آہستہ آہستہ اندر داخل ہوئے تھے۔

محمل! ٹوٹی ہوئی آواز میں اس نے پکارا تھا۔ اور پھر وہ پورے قد سے، گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں آن گرا تھا۔

مجھے معاف کر دو محمل !اس کی آنکھیں سرخ تھیں، اور چہرے پر صدیوں کی تھکان تھی۔

مجھے معاف کر دو۔ میں بہت دور چلا گیا تھا۔ اس نے تاسف سے ہمایوں کو دیکھا۔ پہلے بھی وہ سب اس سے اس کا سب کچھ چھین کر لے گئے تھے۔ آج بھی وہ مانگ ہی رہے تھے مانگنے ہی آئے تھے۔

ہر ایک کو اپنے ضمیر کے بوجھ سے نجات چاہیئے تھی۔ محمل ابراہیم تو کہیں بھی نہیں تھی!

میں نے صرف فرشتے کی بات پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آج وہ کہہ رہی ہے کہ تم نے اس سے صرف ایک مسئلہ پوچھا تھا، اس نے خود غلط اخذ کیا۔ میں نے صرف فرشتے کی وجہ سے۔

کیا آپ نے پہلے زندگی کے سارے فیصلے فرشتے کے دماغ سے کیے تھے ایس پی صاحب ؟ وہ سپاٹ لہجے میں بولی تھی۔ آپ چھوٹے بچے تھے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ میرے رشتے دار میرے کھلے دشمن ہیں ؟ آپ ان پڑھ جاہل تھے جو یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ایسی محمل، یقین کرو میں۔

ایک منٹ ایس پی صاحب ! میں نے کئی مہینے صرف آپ کی سنی ہے۔ آج آپ میری سنیں گے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ نے فرشتے کے کہے پر یقین کر لیا؟ آج میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ آپ نے فرشتے سے پوچھا ہی کیوں ؟ آپ میری طرف سے اتنے بدگمان تھے کہ آپ کو دوسروں سے پوچھنا پڑا ؟

کیوں نہیں آپ نے تصاویر معز کے منہ پر دے ماریں ؟کیا آپ بہت قابل پولیس آفیسر نہیں تھے ؟ کیا اپ کو کھرا اور کھوٹا الگ کرنا نہیں آتا تھا؟ کیا آپ آرزو کی خصلت کو نہیں جانتے تھے ؟ یا شاید آپ کی دلچسپی ایک بیمار، بے ہوش عورت میں ختم ہو گئی تھی۔ شاید آپ کو میری خدمت سے دور بھاگنے کا ایک موقع چاہیئے تھا۔ آپ آزاد ہو نا چاہتے تھے۔ اگر ایسانہ ہوتا تو آپ مجھے صفائی کا موقع تو دیتے۔ ایک بار تو پوچھتے کہ کیا تم نے ایسا کیا ہے ؟ مگر آپ خود بھی مجھ سے تھک گئے تھے۔ آپ نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا ہمایوں کہ اگر میری جگہ آپ یوں بیمار ہوتے اور میں آپ کے ساتھ یہی کرتی تو آپ کی کیا حالت ہوتی؟

بولتے بولتے اس کا سانس پھول گیا تھا۔ تب ہی کھلے دروازے سے تیمور اندر آیا۔ شور سن کر وہ نیند سے جاگا تھا۔ وہ بھاگ کر اس کے پاس آیا اور اس کے گھٹنوں سے لپٹ گیا۔ مگر ہمایوں اور محمل اس کو نہیں دیکھ رہے تھے۔ ۔

محمل، مجھے معاف کر دو۔ میں رجوع کرنا چاہتا ہوں۔ میرے ساتھ چلو۔ ہمایوں نے اس کا ہاتھ تھامنے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر محمل ایک دم پیچھے کو ہوئی۔

لیکن اب میں ایسا نہیں چاہتی۔ ٹوٹے دھاگے کو دوبارہ جوڑا جائے تو اس میں ایک گرہ رہ جاتی ہے۔ ہمارے درمیان بھی وہ گرہ رہ گئی ہے، سو اس دھاگے کو ٹوٹا رہنے دیں۔

محمل! وہ بے یقین تھا۔ معافی کے لیے جڑے اس کے ہاتھ نیچے گر گئے۔ محمل نے گہری سانس لی۔

میں نے آپ کو معاف کر دیا ہے ہمایوں ! دل سے معاف کر دیا ہے۔ مگر اب رجوع کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ آپ فرشتے سے شادی کر لیں۔ آپ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ درمیان میں، میں آ گئی تھی۔

مگر محمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر آج وہ نہیں سن رہی تھی۔

مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمایوں۔ میرا بیٹا میرے پاس ہے۔ فواد نے مجھے میرا حصہ بھی دلا دیا ہے۔ میں لوگوں کی محتاج نہیں رہی، آپ فرشتے سے شادی کر لیں۔ وہ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔

اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ ہمایوں نے گردن موڑ کر دیکھا۔

فرشتے وہاں کھڑی رو رہی تھی۔ ہمایوں کو گردن موڑتے دیکھ کر، وہ منہ پر ہاتھ رکھے باہر کو بھاگی تھی۔

آپ اس کا اور امتحان نہ لیں۔ اس سے شادی کر لیں۔ میں تیمور ایک دوسرے کو بہت ہیں۔ ہمارا تیسرا اللہ ہے۔ آپ ہمیں جانے دیں۔ اب ہمارا ساتھ نا ممکن ہے۔

وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا تھا۔

میں نے تمہاری قدر نہیں کی محمل! وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اٹھا، اور شکستہ قدموں سے باہر کی جانب بڑھ گیا۔

دروازہ بند کر جائیے گا۔

اس کے الفاظ پر وہ ذرا دیر کو رکا، مگر پلٹا نہیں۔ اب شاید وہ پلٹنے کی ہمت خود میں نہیں پاتا تھا۔

بہت آہستہ سے وہ باہر نکلا اور کمرے کا دروازہ بند کیا۔

وہ محمل کی زندگی سے جا چکا تھا۔

فرشتے کہتی تھی کہ اس نے سنا نہیں جب وہ برسوں پہلے اس اسپتال میں کچھ بتانا چاہتی تھی۔ حالانکہ وہ منظر تو اسے آج بھی یاد تھا۔ وہ جو نرس کے پکارنے پر اٹھی تھی۔ وہ ہمیشہ سے جانتی تھی کہ فرشتے ہمایوں کو پسند کرتی ہے۔ مگر جب فرشتے نے خود اپنے رویے سے یقین دلایا تو وہ بھی بظاہر خود کو مطمئن کرنے لگی کہ بھلا فرشتے ایسے جذبات کیوں رکھے گی، مگر دور اندر وہ ہمیشہ سے جانتی تھی۔ اگر آرزو کو درمیان میں نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتی کہ ہمایوں کس سے شادی کر رہا ہے۔ ہاں وہ جانتی تھی کہ فرشتے کیوں ان کی شادی کے بعد باہر چلی گئی تھی۔

وہ سب جانتی تھی۔ یہ بھی کہ اب وہ معذور ہو گئی تھی۔ ایک بے کشش عورت بن گئی تھی۔ ہمایوں نادم ہو کر پلٹا تو تھا۔ مگر تھا تو مرد ہی۔ کب تک اس سے بندھا رہتا؟ جو کانوں کا اتنا کچا تھا کہ اس فون کال میں ایک انگوٹھی کا ذکر اس کی سمجھ میں آیا۔ اور اس کی مسلسل فواد بھائی کی تکرار میں بھائی کا لفظ سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ کب تک اس کا رہتا؟ایک نہ ایک دن وہ پھر کسی دوسری عورت کی طرف چلا جاتا۔ تب بھی وہ اکیلی رہ جاتی مگر تب وہ شاید برداشت نہ کر پاتی۔ اس میں بار بار ٹوٹنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ سو اس نے ٹوٹا ہوا برتن بننے کا سوچا۔ فرشتے نے اعتراف کیا تھا، معافی نہیں مانگی تھی۔ ہمایوں نے معافی مانگی تھی مگر اعتراف نہیں کیا تھا۔ اور وہ دونوں سمجھتے تھے کہ وہ بری الذمہ ہو گئے ہیں۔ خیر !

تیمور ! اس نے گود میں سر رکھے تیمور کے نرم بھورے بالوں کو پیار سے سہلایا۔

ہوں ؟ وہ کچی نیند میں تھا۔

تم نے ایک بار مجھ سے پوچھا تھا کہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے ذکر پر اداس کیوں ہو جاتی ہوں، ہے نا؟

جی ماما! وہ نیم غنود سا بولا۔

پتا ہے کیوں اداس ہو جاتی ہوں ؟ اس نے اپنے آنسو پونچھے، کیونکہ وہ بہت صبر کرنے والے تھے اور وہ اپنے والد کے بہت پیارے تھے۔ اسے بولتے ہوئے کچھ اور بھی یاد آ رہا تھا۔

مگر ان کے اپنے بھائیوں نے اس کو ایک اندھے کنویں میں ڈال دیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کچھ مناظر تیزی سے چل رہے تھے۔

پھر ان کو درہم کے عوض بیچا گیا۔ اس پر بہتان لگایا گیا۔ ان کو برسوں قید میں رکھا گیا۔ اور پھر ایک دن آیا جب وہ اسی مصر کے فنانس منسٹر بنے جس میں کبھی ان کو بیچا گیا تھا۔ ان کو اپنا بچھڑا ہوا بھائی مل گیا۔ اور وہ جنہوں نے ان پر تہمتیں لگائی تھیں۔ اور وہ جنہوں نے ان کو ان کے گھر سے بے دخل کیا تھا، وہ ان کے پاس معافی مانگنے آئے۔ مگر اس ہستی نے کچھ نہیں جتایا، کچھ نہیں گنوایا، سب معاف کر دیا۔ میں اس لیے اداس ہوتی ہوں تیمور کہ میں صبر کے اس مقام تک کبھی نہیں پہنچ سکی۔ کیا تم سن رہے ہو؟ اس نے چند لمحے اس کے جواب کا انتظار کیا۔ اور پھر جھک کر اس کے بالوں کو چوما۔

تیمور گہری نیند سو چکا تھا۔

٭٭٭

ٹی وی لاؤنج کی مرکزی دیوار پر بڑی سی پلازمہ اسکرین لگی تھی۔ اس پر ایک خوبصورت منظر پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

روشنیوں سے منور ایک بڑا ساہال، ہزاروں لوگوں کا مجمع۔ اسٹیج پر بیٹھی نامور دینی شخصیات اور روسٹرم پر کھڑا وہ شخص جو لیکچر دے رہا تھا۔

ٹی وی کے سامنے صوفے پر بیٹھے ہمایوں داؤد نے ریموٹ اٹھا کر آواز اونچی کی۔ والیوم کے بڑھتے نقطے اسکرین پر موجود شخص کے کوٹ پر نمودار ہوئے تھے۔

ہمایوں نے ریموٹ رکھ دیا۔ اب وہ بنا پلک جھپکے، ساکت بیٹھا اسکرین کو دیکھ رہا تھا۔

یہ فیصلہ آج نہیں ہوا تھا، بلکہ بیسویں صدی کے اوائل میں ہی ہو گیا تھا کہ قرآن صرف عربی کا قرآن ہے۔ اس کے تراجم قرآن نہیں ہیں۔

وہ روشن چہرے والا شخص اپنے خوبصورت انگریزی لب و لہجے میں کہہ رہا تھا۔ وہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا۔ چہرے پر نفاست سے تراشیدہ داڑھی تھی، اور سر پر سفید جالی دار ٹوپی اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ کانچ سی بھوری چمکتی ہوئی۔ اور مسکراہٹ بہت دلفریب تھی۔ کچھ تھا اس کی مسحور کن شخصیت میں کہ ہزاروں لوگوں سے بھرے ہال میں سناٹا تھا۔ سب سانس روکے اس کی بات سب رہے تھے۔

آج کے دور کا مسلم جب قرآن کھولتا ہے تو کہتا ہے کہ اسے اس میں وہ انداز کلام نظر نہیں آ رہا جس کے قصے وہ بچپن سے سنتا آیا ہے وہ انداز کلام جسے سنتے ہی عرب کے لوگ لاجواب ہو جاتے تھے۔ سجدے میں گر جاتے تھے، فوراً ایمان لے آتے تھے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس قرآن کا لاکھ انکار کرنے کے باوجود ابو جہل بن ہشام جیسے لوگ بھی چھپ چھپ کر اسے سننے آتے تھے ؟اور کیا وجہ ہے کہ ہمیں اس میں وہ بات نہیں نظر آتی جو ان عربوں کو نظر آتی تھی؟ہمیں کیوں یہ صرف قصوں کا مجموعی لگتا ہے جن کے درمیان چند نصیحتیں ہیں اور نماز روزے کے احکام ؟

ہمایوں نے ریموٹ اٹھا کر دوبارہ آواز اونچی کی۔ اور پھر مضطرب انداز میں واپس رکھ دیا۔ کیا آپ نے ڈاکٹر موریس بکائی کا واقعہ سنا ہے ؟ اس نے لمحے بھر کو توقف کیا اور پورے ہال پر نگاہ دوڑائی۔ سب دم سادھے اس کو سن رہے تھے۔ ڈاکٹر موریس بکائی ایک فرنچ ڈاکٹر تھے۔ وہ اپنے پاس آنے والے ہر مسلمان مریض سے کہتے تھے کہ قرآن حق نہیں ہے بلکہ ایک من گھڑت کتاب ہے۔ مریض بے چارے آگے سے خاموش ہو جاتے۔ پھر ایک دفعہ جب شاہ فیصل ان کے پاس زیر علاج تھے۔ انہوں نے یہی بات شاہ فیصل سے کہی تو انہوں نے پوچھا کیا تم نے قرآن پڑھا ہے اس نے کہا ہاں تو شاہ فیصل نے کہا کہ تم نے صرف قرآن کا ترجمہ پڑھا کیونکہ قرآن صرف عربی میں ہے۔

ڈاکٹر بکائی نے اس کے بعد دوسال لگا کر عربی سیکھی اور پھر جب انہوں نے اصل قرآن پڑھا تو وہ فورا ًمسلمان ہو گئے۔ بات در اصل یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا ہوتا۔ جو عربی ہم پڑھتے ہیں اس کا لیٹرل ورڈ میننگ ہمیں نہیں آتا ہوتا اور اس کا جو اردو ترجمہ ہم پڑھتے ہیں وہ اللہ نے نہیں اتارا ہوتا۔ کسی حد تک یہ تراجم اثر کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی قرآن کا اصل جاننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ عربی کا قرآن پڑھے۔

ہمایوں کے صوفے کے پیچھے جانے کب آہستہ سے فرشتے آ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ نا پلک جھپکے اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔

اب اس کے دو طریقے ہیں، یا تو آپ پوری عربی سیکھیں، یا آپ صرف قرآن کی عربی سیکھیں اور صرف قرآن کی عربی سیکھ کر بھی آپ بالکل درست طور پر اصل قرآن سمجھ سکتے ہیں۔ اینی کوئسچن ؟

اس نے رک کر ہال پر نظر دوڑائی۔ ۔

اسٹیج کے سامنے لگے مایک کے قریب کھڑی ایک پاکستانی لڑکی فوراً آگے بڑھی اور مائیک تھاما۔

السلام علیکم ڈاکٹر تیمور۔ ۔

وعلیکم السلام ! وہ سر کے خفیف اشارے سے جواب دیتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوا۔

سر! مجھے آپ کی بات سن کر یہ سب بہت مشکل لگ رہا ہے۔ عربی بہت مشکل زبان ہے اور پیچیدہ اور یہ ہماری مادری زبان نہیں ہے۔ عام آدمی۔ اسے کیسے سیکھ سکتا ہے ؟

وہ ذرا سا مسکرایا اور اپنا چہرہ مائیک کے قریب لایا۔

بالکل ایسے جیسے ہمارے ملک کے عام آدمی نے دنیا کا علوم حاصل کرنے کے لیے انگریزی سیکھی ہے۔ وہ بھی ہماری زبان نہیں ہے۔ مگر ہمیں آتی ہے۔ کیا نہیں آتی؟

عربی سیکھنا تو زیادہ آسان اس لیے بھی ہے کہ یہ اردو سے بہت قریب ہے۔

لڑکی نے لا جواب ہو کر گہری سانس بھری پیچھے پورے ہال میں ایک تبسم بکھر گیا۔

میرا ایک کوئسچن ہے سر! ایک نو عمر، لمبا سا لڑکا مائیک پر آیا.

میں نے آپ کے پچھلے لیکچر سے متاثر ہو کر قرآن سیکھنا شروع کیا تھا.مگر قرآن پڑھتے اب مجھ پر پہلے والی کیفیت طاری نہیں ہوتی. دل میں گداز نہیں پیدا ہوتا. میں قرآن پڑھتا ہوں تو میرا ذہن بھٹک رہا ہوتا ہے .

تیمور نے مائیک قریب کیا، پھر بغور اس لڑکے کو دیکھتے ہوئے پوچھا. آپ کہیں جھوٹ تو نہیں بولتے ؟

جی؟ وہ بھونچکا رہ گیا .

...

ایک بار یاد رکھیے گا، قرآن صرف صادق اور امین کے دل میں اترتا ہے . میں نے اس کتاب کے بڑے بڑے علما کو دیکھا ہے، جو امانت کی راہ سے ذرا سے پھسلے اور پھر ان سے قرآن کی حلاوت چھین لی گئی. اور پھر کبھی وہ اس کتاب کو ہاتھ نہ لگا سکے .

بات کرتے ہوئے تیمور ہمایوں کی کانچ سی بھوری آنکھوں میں ایک کرب ابھرا تھا.اس نے صوفے کی پشت پر ہاتھ رکھے .

فرشتے ساکت کھڑی تھی.اس کے پیچھے دیوار میں شیلف بنا تھا. ایک طرف میز تھی .میز پر تازہ تہہ کی ہوئی جائے نماز ابھی ابھی رکھی گئی تھی.

ساتھ شیلف کے سب سے اوپر والے خانے میں احتیاط سے غلاف میں لپٹی ایک کتاب رکھی تھی. اس کا غلاف بہت خوبصورت تھا. سرخ ویلویٹ کے اوپر سلور ستارے . مگر گذرتے وقت نے غلاف کے اوپر گرد کی ایک تہہ جما دی تھی اور وہ شیلف اتنا اونچا تھا کہ اس تک اسٹول پر چڑھے بغیر ہاتھ نہیں جاتا تھا.

جس شخص میں صداقت اور امانت ہوتی ہے اور وہ واقعی قرآن حاصل کرنا چاہتا ہے تو قرآن اس کو دے دیا جاتا ہے . اسکرین پر وہ روشن چہرے والا شخص کہ رہا تھا.

ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے عرب معاشرے کے بارے میں عمومی تاثر یہ رکھتے ہیں کہ وہ بہت جاہل اور گنوار لوگ تھے اور بیٹیوں کو زندہ دبانے والے وحشی تھے . لیکن ان لوگوں میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں . وہ مہمان نواز تھے، عہد کی پاس داری کرتے تھے . جہاں تک بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا تعلق ہے تو یہ کام عرب کے کچھ غریب قبائل کرتے تھے اور اس وقت بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں تھیں جو فدیہ دے کر ان بچیوں کو چھڑاتی تھیں .

اور رہی بات صداقت کی تو عرب معاشرے میں جھوٹ بولنا انتہائی قبیح عمل سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس شخص پر حیران ہوتے تھے جو جھوٹ بولتا ہو. اسی لئے ان لوگوں کو قرآن دیا گیا تھا اور اسی لئے ہم لوگ اس کی سمجھ سے محروم کر دے گئے ہیں، کیوں کہ نہ تو ہم سچ بولتے ہیں اور نہ ہی امانت کا خیال رکھتے ہیں بھلے وہ کسی ذمہ داری کی امانت ہو، کسی کی عزت کی یا کسی کے راز کی.

محمل مسکرا کر ٹی وی اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔ وہ سیمینار ملائشیا سے لائیو آ رہا تھا۔ سیمینار ختم ہوتے ہی تیمور نے فلائٹ لینی تھی اور وہ جانتی تھی کہ رات کھانے پر وہ ان کے ساتھ ہو گا۔ ابھی اس نے تیمور کے لیے اسپیشل ڈش کی تیاری بھی شروع کرنا تھی وہ پروگرام چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

تیمور کے لیے کھانا وہ ہمیشہ اپنے ہاتھوں سے بناتی تھی۔ ایک ایک سبزی خود کاٹتی تھی ہاں، آغا جان کا پرہیزی کھانا ملازمہ بنا لیتی تھی۔

وہ سیڑھیوں کے ایک طرف سے نکلتی ہوئی آغا جان کے کمرے کے دروازے کے باہر رکی اور ہولے سے کھٹکھٹا کر کھولا۔

آغا جان ! آپ نے ناشتہ کر لیا؟

وہ بیڈ پر لیٹے تھے۔ ان کے ہونٹ فالج کے باعث ذرا ٹیڑھے ہو گئے تھے۔ اس کی آہٹ سن کر انہوں نے آنکھیں کھولیں اور پھر مسکرانے کی کوشش کی۔ جب سے وہ اپنی اولاد پر بوجھ بنے تھے، محمل انہیں اپنے پاس لے آئی تھی۔

تیمور کہہ رہا تھا وہ رات تک پہنچ جائے گا۔

وہ آگے بڑھی اور کھڑے کھڑے اس کا ہاتھ نرمی سے تھامے بتانے لگی۔

میں رات کو کچھ اسپیشل بنانے کا سوچ رہی ہوں، کتنے دنوں بعد ہم تینوں اکٹھے کھائیں گے، ہے نا؟

آغا جان نے پھر مسکرانے کی سعی کی، اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے دوآنسو ٹوٹ کر گرے۔

آپ فکر مت کریں، میں ہوں نا آپ کے پاس۔ جس طرح اللہ نے مجھے شفا دی آپ کو بھی دے گا۔

اس نے نرمی سے ان کے آنسو صاف کیے، اچھا مجھے مسجد میں ایک لیکچر دینا ہے، بس گھنٹہ لگے گا، میں ابھی چلتی ہوں، جلدی آنے کی کوشش کروں گی، پھر ڈنر کی تیاری بھی کرنی ہو گی۔ وہ گھڑی دیکھتی جانے کو مڑی۔

آغا جان اب سسک سسک کر رو رہے تھے۔ باہر آ کر وہ سیڑھیوں کے پاس لگے آئینے کے سامنے رکی۔ سامنے کیل پر اس کی پونی ٹنگی تھی۔ اس نے پونی اٹھائی اور لمبے بال سمیٹ کو اونچی پونی میں جکڑے پھر آئینے میں خود کو دیکھا اور مسکا دی۔

وہ آج بھی اتنی ہی صبیح، تر و تازہ اور خوبصورت تھی جتنی برسوں پہلے لگتی تھی۔ اور آج بھی ہر صبح وہ وہیں جاتی تھی جہاں پہلے جایا کرتی تھی۔

اس نے ٹی وی بند کیا۔ ( تیمور کا پروگرام ختم ہو چکا تھا) اور میز سے اپنا بیگ اور سفید جلد والا قرآن اٹھائے آغا ہاؤس، سے باہر نکل آئی۔

٭٭٭



وہ مسجد جانے سے پہلے پندرہ منٹ کے لیے بس اسٹاپ ضرور جایا کرتی تھی۔ اسے کئی برسوں سے اس سیاہ فام لڑکی کی تلاش تھی۔ جس نے اس تک قرآن پہنچایا تھا۔ وہ ایک دفعہ اس سے مل کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔

سنہری سی صبح اتری ہوئی تھی۔ دور کہیں پرندے بول رہے تھے، وہ دھیمی رفتار سے چلتی، سفید جلد والا قرآن سینے سے لگائے بینچ پہ آ بیٹھی۔ ہر صبح کی طرح آج بھی وہ اسی موہوم۔ امید پر ادھر آئی تھی کہ شاید وہ لڑکی آ جائے۔

رات خوب بارش ہوئی تھی۔ سرمئی سڑک ابھی تک گیلی تھی۔ وہ سر جھکائے اداس سی بیٹھی سڑک پر چلتی چیونٹیاں دیکھ رہی تھی۔

پندرہ منٹ ہونے کو آئے تھے مگر وہ لڑکی کہیں بھی نہیں تھی۔

مایوس ہو کر محمل نے جانے کے لیے بیگ اٹھایا۔ تب ہی اسے سڑک پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے بے اختیار سر اٹھایا۔ ایک لڑکی دور سے چلی آ رہی تھی۔

کندھے پر کالج بیگ، ہاتھ میں موبائل، شولڈر کٹ بال کیچر میں جکڑے ہوئے جینز پر کرتا پہنے چیونگم چباتی، قدرے جھنجھلاتی ہوئی سی وہ دھپ سے آ کر اس کے ساتھ بینچ پر بیٹھی۔ محمل یک ٹک اسے دہکھے جا رہی تھی۔ وہ لڑکی روز اس وقت ادھر آتی تھی، مگر آج سے پہلے وہ اسے دیکھ کر اتنی چونکی نہیں تھی۔ اب پاؤں جھلاتی ہوئی اکتا کر مو بائل کے بٹن پریس کر رہی تھی۔

پتا نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو۔ وہ زیر لب غصے سے بڑبڑا کر اس نے بٹن زور سے دبایا اور موبائل بیگ میں پھینکا۔

وہ ابھی تک یونہی لڑکی کو دیکھ رہی تھی۔ بہت دھیرے سے اسے کچھ یاد آیا تھا۔

وہ لڑکی ادھر ادھر گردن گھماتی تنقیدی نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی۔ دفعتاً محمل کی نگاہوں کا ارتکاز محسوس کر کے وہ چونکی۔

محمل نے ذرا سنبھل کر نگاہیں جھکا لیں۔ نیچے اس لڑکی کا بیگ پڑا تھا، جس پر جگہ جگہ چاک سے اس کا نام لکھا تھا۔ عشاء حیدر۔ وہ زیر لب مسکرادی، بہت کچھ یاد آ گیا تھا۔

ایکسکیوزمی ! اس نے چیونگم چبانا روک کر ایک دم محمل کو مخاطب کیا۔ محمل نے نرمی سے نگاہیں اٹھائیں۔

جی؟

میں روز آپ کو دیکھتی ہوں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے محمل کی گود میں رکھے سفید کور والے قرآن کی طرف اشارہ کیا۔ اور آپ کی اس بک کو بھی۔

آپ اتنی کئیر سے اسے رکھتی ہیں، اس میں کیا کچھ خاص ہے ؟

محمل نے سر جھکا کر سفید قرآن کو دیکھا، جس کی صاف جلد اب خستہ ہو گئی تھی اور جھلکتے صفحے زرد پڑ گئے تھے۔ وہ دیکھنے سے کوئی قدیم کتاب لگتی تھی۔

خاص تو ہے۔ اس نے مسکرا کر سر اٹھایا۔

اچھا واٹس سو اسپیشل ؟ وہ متجسس ہوئی۔ اس میں کسی عشاء حیدر کا ذکر ہے، اس کی زندگی کی کہانی ہے اور اس کے لیے کچھ میسیجز ہیں۔ اس لیے اسپیشل تو پر۔

وہ لڑکی یک ٹک منہ کھولے اسے دیکھے گئی۔

کون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کون عشاء حیدر؟ بہت دیر بعد بمشکل وہ بول پائی تھی۔

ہے ایک اس زمین پر بسے والی لڑکی جس کو لوگوں کی بات غمگین کرتی ہیں جس کے کہنے سے قبل کوئی اس کے دل کی با نہیں سمجھتا اور جس کو زندگی سے اپنا حصہ وصول کرنا ہے۔

اسی لمحے بس ہارن بجایا۔ محمل نے بات روک کر دور سے آتی بس کو دیکھا۔

میں چلتی ہوں، تمہاری بس آ گئی ہے۔ وہ سفید جلد والی کتاب اٹھائے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ لڑکی ابھی تک ششدر سی بیٹھی تھی۔

بس قریب آ رہی تھی۔

محمل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بینچ سے دور جانے لگی۔

سنیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بات سنیں، ایک منٹ رکیں۔ یک دم وہ بے چینی سے اٹھی اور تیزی سے اس کے پیچھے لپکی۔

٭٭٭