صفحات

تلاش کریں

آب حیات از عمہیرہ احمد (قسط نمبر 11 تا 20 )

قسط نمبر 11

سالار سے بات ختم کرنے کے بعد سکندر اٹھ کر اوپر والے فلور پر چلے گئے۔ دروازے پر دستک دے کر وہ اندر آئے تھے۔

”بیٹا! نیچے آنا تھا، ہم لوگوں کے پاس آکر بیٹھیں کچھ دیر۔”

سکندر یہ کہتے ہوئے اندر آئے اور امامہ کچھ ہڑ بڑا کر اٹھی تھی۔

وہ ان کے وہاں آنے کی توقع نہیں کر رہی تھی اور اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالتے ہی سکندر ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئے تھے۔ اس کی آنکھیں بری طرح سوجی ہوئی تھیں۔

”رونے والی کیا بات ہے بیٹا…؟” سکندر نے اس کے سر کو تھپکتے ہوئے کہا۔

”نہیں… وہ… میں…” وہ بے حد ندامت سے ان سے نظریں ملائے بغیر بولی۔

”چلیں! نیچے آئیں، طیبہ بھی پوچھ رہی ہیں آپ کا۔” سکندر نے ایک بار پھر اس کا سر تھپکا۔

یہ سالار نہیں تھا، جسے وہ دھڑلے سے انکار کر دیتی۔ ”جی۔” اس نے یہ کہتے ہوئے صوفے پر پڑا کمبل اھانے کی کوشش کی۔ سکندر نے اسے روک دیا۔

”ملازم اٹھا لے گا… آپ آجائیں ۔”

اس کا چہرہ دیکھ کر طیبہ بھی بے چین ہو گئیں۔ جیسے بھی حالات میں شادی ہوئی، بہرحال وہ ایک ایسی فیملی تھی۔ جسے وہ طویل عرصے سے جانتے تھے اور جن کی دیوار کے ساتھ ان کی دیوار جڑی تھی۔ اس رشتے کا پاس، بہو ہونے کے ناتھے ان پر کچھ زیادہ ذمہ داری عائد کرتا تھا۔ خود وہ بھی امامہ کو بچپن سے دیکھتے آئے تھے۔ کسی نہ کسی حد تک وہ ان کے لیے بے حد شناسا تھی۔

وہ لوگ اسے تسلیاں دیتے اس سے باتیں کرتے رہے۔ پھر سکندر نے اسے آرام کرنے کے لیے کہا۔ وہ کمرے میں آکر کچھ دیر کے لیے کھڑکی کے پاس بیٹھی رہی، پھر کچھ تھکی ہوئی آکر بیڈ پر لیٹ کر سو گئی۔

ساڑھے چار بجے اسے ملازم نے انٹر کام پر اٹھایا تھا۔ افطار کا وقت قریب تھا، سکندر اور طیبہ بھی اس کا انتظار کر رہے تھے۔ سالار بھی افطار سے چند منٹ پہلے ہی پہنچا تھا۔ سکندر اور طیبہ اس رات بھی کہیں مدعو تھے۔ کچھ دیر اُن کے پاس بیٹھ کر وہ انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے چلے گئے۔ رات کو وہ بارہ بجے کے قریب واپس آئے، گیارہ بجے سالار اور اس کی فلاٹ تھی۔ طیبہ جانے سے پہلے امامہ کوکچھ تحائف دینے آئیں تو امامہ کو وہ تحائف یاد آگئے جو وہ کراچی سے ان دونوں کے لیے لے کر آتی تھی۔

امامہ کو حیرت ہوئی جب سالار، طیبہ سے ملنے کے بعد سونے کے لیے گیٹ گیا تھا۔

”تم مجھے دس بجے اٹھا دینا۔” اس نے امامہ کو ہدایت دی تھی۔

”گیارہ بجے فلائٹ ہے، دیر تک نہیں ہو جائے گی…؟” امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

”نہیں، پہنچ جائیں گے۔” اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔

وہ کچھ دیر بیٹھی اسے دیکھتی رہی پھر وہ دوبارہ اوپر کے فلور کے اسی کمرے میں آگئی۔

اس کے گھر کے پورچ میں کوئی گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وہ ویک اینڈ تھا اور وہ یقینا گھر پر نہیں تھے۔ کہاں ہو سکتے تھے۔ امامہ نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ نو سال کے بعد یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔ اسے امید یہ تھی کہ وہ وہاں بیٹھی انہیں واپس آتے دیکھ سکتی ہے، لیکن دس بجے تک کوئی گاڑی نہیں آئی۔ وہ بوجھل دل اور نم آنکھوں کے ساتھ اٹھ کر نیچے آگئی۔ سالار کو جگانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ جانے کے لیے سامان سمیٹ کھڑا تھا۔ امامہ کا دل مزی دبوجھل ہوا، تو بالآخر ایک بار پھر سب کچھ چھوڑ کر جانے کا وقت آگیا تھا۔

باہر پورچ میں ڈرائیور ایک گارڈ کے ساتھ گاڑی میں انتظار کر رہا تھا۔ سکندر عثمان نے گارڈ کو ایرپورٹ تک ساتھ جانے کی ہدایت کی تھی۔ وہ ہر طرح کی احتیاطی تدابیر کر رہے تھے۔ سالار نے سامان گاڑی میں رکھنے کے بعد چابی ڈرائیور سے لے لی۔ امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔

”ہم لوگ بائی روڈ جا رہے ہیں، پاپا آئیں تو انہیں بتا دینا۔

ڈرائیور نے کچھ احتجاج کرنے کی کوشش کی۔ شاید سکندر اسے ضرورت سے زیادہ ہدایات کر گئے تھے، لیکن سالار کی ایک جھاڑ نے اسے خاموش کر دیا۔

”اور اب اتنی وفاداری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میرے گھر سے نکلتے ہی پاپا کو فون کر دو۔”

وہ گاڑی میں بیٹھا ہوا اس سے کہہ رہا تھا۔ اسے یقین تھا وہ اس کے گھر سے نکلتے ہی یہی کام کرے گا۔ اس لیے گیٹ سے نکلتے ہی اس نے سکندر کے فون پر کال کی تھی۔ وہ کچھ دیر کے لیے سکندر کا فون انگیج کرنا چاہتا تھا۔

”پاپا! ہم لوگ نکل رہے تھے تو سوچا آپ سے بات کر لوں۔” سالار نے سکندر سے کہا۔

”اچھا کیا۔”

”ذرا ممی سے بات کرا دیں۔” اس نے سکندر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سکندر سے کہا۔ اسے خدشہ تھا کہ سکندر ڈرائیور کی ان کمنگ کال دیکھ کر چونکیں گے۔ وہ اگر گاڑی میں ان سے بات کر رہا ہے تو ڈرائیور انہیں کیوں کال رہا تھا۔ البتہ طیبہ اس سے بات کرتے ہوئے کسی ان کمنگ کال کو چیک نہیں کرتیں اور اگر کرتیں بھی تو ان کو شک نہیں ہوتا۔ اگلے پندرہ منٹ وہ طیبہ کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ ساتھ بیٹھی امامہ کچھ حیران تھی۔ لیکن اس نے اسے نظر انداز کیا تھا۔ وہ اتنی لمبی باتیں کرنے کا عادی نہیں تھا۔ جتنا وہ اب یک دم باتونی ہو گیا تھا۔

ادھر یہی حیرانی طیبہ کو بھی ہو رہی تھی۔ سکندر ڈنر ٹیبل پر چند دوسرے افراد کے ساتھ مصروف تھے۔ پندرہ منٹ لمبی گفتگو کے بعد جب سالار کو یقین ہو گیا کہ ڈرائیور اب تک سکندر کو کئی کالز کرنے کے بعد تنگ آکر کر کالز کرنا چھوڑ چکا ہو گا یا کم از کم دوبارہ کرنے کی اگلی کوشش کچھ دیر بعد ہی کرے گا تو اس نے خدا حافظ کہتے ہوئے فون آف کر دیا۔ طیبہ اور سکندر کی واپسی بارہ بجے سے پہلے متوقع نہیں تھی اور اب اگر ڈرائیور سے پانچ دس منٹ بعد بھی ان کی بات ہوتی تو وہ بہت فاصلہ طے کر چکے ہوتے۔

”بائی روڈ آنے کی کیا ضرورت تھی؟” اس کا فون بند ہوتے دیکھ کر امامہ نے اس سے پوچھا۔

”یونہی دل چاہ رہا تھا۔ کچھ یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں۔” سالار نے سیل فون رکھتے ہوئے کہا۔

”کیسی یادیں؟” وہ حیران ہوئی۔

”تمہارے ساتھ پہلے سفر کی یادیں۔” وہ کچھ دیر اس سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔

وہ اس شخص سے کہا کہتی کہ وہ اس سفر کو یاد نہیں کرنا چاہتی۔ وہ اس کے لیے سفر نہیں تھا، خوف اور بے یقینی میں گزارے چند گھنٹے تھے جو اس نے گزارے تھے۔ مستقبل اس وقت ایک بھیانک بھوت بن کر اس کے سامنے کھڑا تھا اور اس راسے میں وہ بھوت مسلسل اسے ڈراتا رہاتھا۔

”میرے لیے خوش گوار نہیں تھا وہ سفر۔” اس نے تھکے سے لہجے میں سالار سے کہا۔

”میرے لیے بھی نہیں تھا۔” سالار نے بھی اسی انداز میں کہا۔

‘کئی سال ہانٹ کرتا رہا مجھے، دیکھنے آیا ہوں کہ اب بھی ہانٹ کرتا ہے۔” وہ بات ختم کرتے ہوئے اسے دیکھ کر بہت مدھم انداز میں مسکرایا۔
امامہ خاموش رہی۔ کئی سال پہلے کی وہ رات ایک بار پھر سے ایک اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگی تھی اور آنکھوں کے سامنے صرف رات ہی نہیں بلکہ جلال بھی آیا تھا۔ اس رات کی تکلیف کا ایک سرا اس کی ذات کے ساتھ بندھا تھا۔ دوسرا اس کی فیملی کے ساتھ ۔ اس نے دونوں کو کھویا تھا۔ اگلی صبح کا سورج لاکھ ہمیشہ جیسا ہوتا، اس کی زندگی ویسی نہیں رہی تھی۔ کبھی وہ سوچ سکتی تھی کہ وہ کبھی اس رات کو صرف تکلیف سمجھ کر سوچے گی، تقدیر سمجھ کر نہیں… اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ برابر میں بیٹھا شخص آج اس کے آنسوؤں سے بے خبر نہیں تھا، لیکن اس وقت بے خبر تھا۔ اس نے کچھ کہے بغیر ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، امامہ آنکھیں پونچھنے لگی تھی۔ وہ سارا نقشہ جو اس نے اپنی زندگی کا کھینچا تھا، اس میں یہ شخص کہیں نہیں تھا۔ زندگی نے کس کو کس کے ساتھ جوڑا… کس تعلق کو، کہاں سے توڑا تھا… پتا ہی نہیں چلا… سفر خاموشی سے ہو رہا تھا، لیکن طے ہو رہا تھا۔

”اب بہت احتیاط سے گاڑی چلا رہا ہو۔” امامہ کو کئی سال پہلے کی اس کی ریش ڈرائیونگ یاد تھی۔ ”زندگی کی قدر ہو گئی ہے اب؟” اس نے سالار سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے پوچھا۔

”تمہاری وجہ سے احتیاط کر رہا ہوں۔” وہ بول نہیں سکی۔ خاموشی کا ایک اور وقفہ آیا۔

وہ شہر کی حدود سے باہر نکل آئے تھے اور سڑک پر دھند محسوس ہونے لگی تھی۔ یہاں دھند گہری نہیں تھی، لیکن موجود تھی۔

”کبھی دوبارہ سفر کیا اکیلے اس روڈ پر…” امامہ نے کچھ دیر بعد پوچھا۔

”موٹر وے سے جاتا ہوں اب اگر گاڑی میں جانا ہو تو… بس ایک بار آیا تھا کچھ ماہ پہلے۔” وہ کہہ رہا تھا۔ ”جب پاپا نے مجھے تمہارے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ دیا۔ کیا رات تھی؟”

وہ جیسے تکلیف سے کراہا اور پھر ہنس پڑا۔

”امید تھی جس کو، اس رات میں میں مجسم فنا ہوتے دیکھا۔ سمجھ میں آیا مجھے کہ تب اس رات تم کس حالت سے گزری ہو گی۔اذیت سے بہت زیادہ… موت سے ذرا سی کم… لیکن تکلیف اس کو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔”

ونڈا سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے، وہ جو کچھ اس تک پہنچانا چاہ رہا تھا، پہنچ رہا تھا۔ اس کانچ سے وہ بھی گزری تھی۔ نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ، گردن سیٹ کی پشت سے ٹکائے، وہ اسے دیکھ رہی تھی۔

”میں سارا راستہ بس یہی سوچتا رہا کہ میں اب کروں گا کیا۔ کیا کروں گا میں زندگی میں سوچ رہا تھا۔ اللہ نے مجھے ضرورت سے زیادہ زندگی دے دی ہے… تمہارے ساتھ برا کیا تھا… برا تو ہوتا ہی تھا میرے ساتھ… یاد ہے نا، میں نے تمہارے ساتھ سفر میں کیسی باتیں کی تھیں۔”

اس نے عجیب سے انداز میں ہنس کر ایک لمحہ کے لیے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ ایک لمحہ کے لیے دونوں کی نظریں ملی تھی، پھر سالار نے نظریں چراتے ہوئے گردن سیدھی کر لی۔ سفر پھر خاموشی سے طے ہونے لگا تھا۔ وہ تعلق جو ان کے بیچ تھا، وہ جیسے خاموشی کو بھی گفت گو بنا رہا تھا۔ لفظ اس وقت خاموشی سے زیادہ بامعنی نہیں ہو سکتے تھے۔

امامہ بھی گردن سیدھی کرکے سڑک کو دیکھنے لگی۔ دھند اب گہری ہو رہی تھی۔ جیسے وہ سڑک پر نہیں بلکہ اپنے ماضی کی دھند میں داخل ہو رہے تھے۔ گہری، معدوم نہ ہونے اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینے والی گہری دھند… کیا کیا اپنے اندر چھپائے ہوئے تھی، لیکن جو کچھ تھا، وہ ابوجھل ہو گیا تھا، فراموش نہیں ہوا تھا۔

سیل فون کی رنگ ٹون نے ان دنوں کو چونکا دیا۔ سیل پر سکندر کا نمبر چمک رہا تھا۔ سالار ہنس پڑا۔ امامہ اس کی بے مقصد ہنسی کو نہیں سمجھی۔
”ہیلو!” سالار نے کال ریسیو کرتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا تھا۔ اسے حیرت تھی، سکندر عثمان کی کال اتنی دیر سے نہیں آنی چاہیے تھی۔ شاید ڈرائیور نے ان کے گھر پہنچنے پر ہی انہیں سالار کے ایڈونچر کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ سالار نے آواز کچھ کم کر دی تھی۔ جو کچھ سکندر اسے فون پر کہہ رہے تھے، وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ امامہ تک پہنچتا۔

”جی…جی۔”وہ اب تابع داری سے کہہ رہا تھا۔ سکندر اس پر بری طرح برس رہے تھے اور کیوں نہ برستے وہ، انہیں بے وقوف بنانا جیسے سالار کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور یہ احساس سکندر کے غصے میں اضافہ کر رہا تھا۔ انہوں نے کچھ دیر پہلے طیبہ کے پرس میں پڑے اپنے سیل پر ڈرائیور کی مسڈ کالز دیکھی تھیں اور اس سے بات کر کے وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے تھے۔ بائی روڈ لاہور جانا، اس وقت ان کے لیے اس کی حماقت کا اعلا ترین مظاہرہ تھا لیکن اس نے جتنی اطمینان سے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی تھی، وہ ان کے لیے زیادہ اشتعال انگیز تھا۔

”اب غصہ ختم کر دیں پاپا! ہم دونوں بالکل محفوظ ہیں اور آرام سے سفر کر رہے ہیں۔” اس نے بالآخر سکندر سے کہا۔

”تم ظفر کو دھمکیاں دے کر گئے تھے کہ وہ مجھے انفارم نہ کرے؟”

”دھمکی… میں نے ایک مؤدبانہ درخواست کی تھی اس سے کہ وہ آپ کو فی الحال انفارم نہ کرے… آپ ڈنر چھوڑ کر خوامخواہ پریشان ہوتے۔” وہ بڑی رسانیت سے ان سے کہہ رہا تھا۔

”میری دعا ہے سالار! کہ تمہاری اولاد بالکل تمہارے جیسی ہو اور تمہیں اتنا ہو خوار کرے، جتنا تم ہمیں کرتے ہو، پھر تمہیں ماں باپ کی پریشانی کا احساس ہو گا۔” وہ ہنس پڑا۔

”پاپا! اس طرح کی باتیں کریں گے تو میں اولاد ہی پیدا نہیں کروں گا۔”

امامہ نے اس کے جملے پر چونک کر اسے دیکھا۔

”پاپا دعا کر رہے ہیں کہ ہماری اولاد جلد پیدا ہو۔”

امامہ کو چونکتے دیکھ کر سالار نے فون پر بات کرتے ہوئے اسے بتایا۔ وہ بے اختیار سرخ ہوئی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ اس طرح کی دعا کا کون سا وقت اور طریقہ ہے۔ دوسری طرف سکندر فون پر اس کا جملہ سن کر کچھ بے بسی سے ہنس پڑے تھے۔ ان کا غصہ کم ہونے لگا تھا۔ کئی سالوں کے بعد انہیں سالار سے اس طرح بات کرنا پڑی تھی۔ وہ اب اس سے پوچھ رہے تھے کہ وہ کہاں ہے۔ سکندر کو اپنے حدود اربعہ کے بارے میں بتا کر سالار نے فون بند کر دیا۔

”پاپا ناراض ہو رہے تھے…؟” امامہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔

”خوش ہونے والی تو کوئی بات نہیں ہے۔” اس نے جواباً کہا۔

”تم جھوٹ کیوں بولتے ہو؟” امامہ نے جیسے اسے شرم دلانے کی کوشش کی تھی۔

”کیوںکہ اگر میں سچ بولوں تو لوگ مجھے وہ نہیں کرنے دیتے، جو میں کرنا چاہتا ہوں۔” کمال کی منطق تھی اور بے حد سنجیدگی سے پیش کی گئی تھی۔

”چاہے تمہارے جھوٹ سے کسی کو دکھ پہنچے۔”

”میرے جھوٹ سے کسی کو دکھ نہیں پہنچاتا، بلکہ غصہ آتا ہے۔”

اسے سمجھانا بے کار تھا، وہ سالار تھا۔ وہ اب اندازہ لگا سکتی تھی کہ سکندر نے اسے فون پر کیا کہا ہو گا۔

رات کے تقریباً پچھلے پہر وہ اس سروس اسٹیشن پر پہنچے تھے۔

”یہ جگہ یاد ہے تمہیں؟” سالا رنے گاڑی روکتے ہوئے اس سے پوچھا۔ امامہ نے دھند زدہ اس جگہ کو دیکھا، جہاں کچھ لائٹس دھند اور اندھیرے کا مقابلہ کرنے میں مصروف تھیں۔

”نہیں۔” اس نے سالار سے کہا۔

”یہ وہ جگہ ہے جہاں تم نے رک کر نماز پڑھی تھی۔” وہ دروازہ کھولتے ہوئے نیچے اُتر آیا۔

امامہ نے قدرے حیران نظروں سے اس جگہ کو دوبارہ دیکھنا شروع کیا۔ اب وہ اسے کسی حد تک شناخت کر پا رہی تھی۔ وہ بھی دروازہ کھول کر اتر آئی۔ ایک کپکپی اس کے جسم میں دوڑی۔ وہ آج بھی ایک سویٹر اور چادر میں ملبوس تھی۔

وہ کمرا بدل چکا تھا، جہاں انہوں نے بیٹھی کر کبھی چائے پی تھی۔

”چائے اور چکن برگر۔” سالا رنے کرسی پر بیٹھے ہوئے اس آدمی سے کاہ، جو جمائیاں لیتے ہوئے انہیں اندر لے کر آیا تھا اور اب آرڈر کے انتظار میں کھڑا تھا۔ امامہ اس کے آرڈر پر اسے دیکھ کر مسکرائی۔

”اب کھا لو گے؟” وہ جانتا تھا، اس کا اشارہ کس طرف تھا۔ وہ کچھ کہے بغیر مسکرا دیا۔

”لاسٹ ٹائم ہم وہاں بیٹھے تھے۔ تم نے وہاں نماز پڑھی تھی۔”

وہ ہاتھ کے اشارے سے اس کمرے کی مختلف اطراف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ امامہ کو یاد نہیں تھا، کمرے میں جگہ جگہ ٹیبلز اور کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔

فجر کی اذان میں ابھی بہت وقت تھا اور فی الحال اس جگہ پر کام کرنے والے چند آدمیوں کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا۔

اب اس جگہ پر چائے اور برگر اتنے برے نہیں تھے جتنے اس وقت تھے۔ پریزنٹیشن بھی بہت بہتر تھی، لیکن ان دونوں میں سے کوئی نہ ذائقے کو دیکھ رہا تھا نہ پریزنٹیشن کو۔ دونوں اپنے اپنے ماضی کو زندہ کر رہے تھے۔ یہ چند گھونٹ اور چند لقموں کی بات نہیں تھی، زندگی کی بات تھی جو نہ جانے ریل کی پٹڑیوں کی طرح کہاں کہاں سے گزر کر ایک اسٹیشن سے لے آئی تھی۔ وہ اس مقام پر کھڑے تھے، جہاں ان پٹڑیوں کا کانٹا بدلا تھا۔ دور قریب… ایک دوسرے میں مدغم … اور اب ایک دوسرے کے ساتھ۔

اس راستے پر کچھ نئی یادیں بنی تھیں۔ ان کی شادی کے بعد سڑک کے راستے ان کا پہلا سفر اور ان نئی یادوں نے پرانی یادوں کو دھندلانے کے عمل کا آغاز کر دیا تھا۔

ٹیبل پر بل کے پیسے رکھنے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ امامہ نے بھی اس کی پیروی کی۔ سالار نے چلتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔ امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ آئی تھی۔

”امامہ! وہ پسٹل کہاں ہے؟”

وہ عمارت سے باہر آتے ہوئے اس کے سوال پر چونکی۔ اسے کیا یاد آیا تھا، وہ ہنس پڑی۔

”ابو کے پاس ہے۔” اس نے سالار سے کہا۔

”تم واقعی چلا سکتی تھیں؟” سالار نے پتا نہیں کیا یقین دہانی چاہی۔

”ہاں۔” امامہ نے سر ہلایا۔

”لیکن اس میں گولیاں نہیں تھیں۔” وہ اس کے اگلے جملے پر بے اختیار ٹھٹکا۔ ”میرے پاس بس پسٹل ہی تھا۔” وہ اطمینان سے کہہ رہی تھی۔

اس نے بے اختیار سانس لیا۔ اس کی آنکھوں میں دھول اس نے جھونکی تھی یا اللہ نے، وہ اندازہ نہیں کر سکا۔ اس پسٹل نے اسے جتنا شاک اور غصہ دلایا تھا اگر اسے اندازہ ہو جاتا کہ وہ بلٹس کے بغیر تھا تو سالار اس دن امامہ کو پولیس کے ہاتھوں ضروراریسٹ کروا کر آتا۔ وہ پسٹل ہاتھ میں لیے کیوں اتنی پر اعتماد نظر آئی تھی اسے… یہ اسے اب سمجھ میں آیا تھا۔

”تم ڈر گئے تھے۔” امامہ ہنس رہی تھی۔

”نہیں… ڈرا تو نہیں تھا، مگر شاکڈ رہ گیا تھا۔ تم سارا راستہ روتی رہی تھیں۔ میں توقع بھی نہیں کر سکتا تھا کہ تم مجھ پر پسٹل نکال لو گی۔ تمہارے آنسوؤں نے دھوکا دیا مجھے۔”

وہ اب کچھ خفگی سے کہہ رہا تھا۔ امامہ کھلکھلا کر ہنسی۔

وہ دونوں اب گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ بیٹھنے کے بعد بھی جب وہ گاڑی اسٹارٹ کرنے کے بجائے، ونڈ سکرین سے باہر دیکھتا رہا تو امامہ نے اس سے کہا۔

”گاڑی کیوں نہیں اسٹارٹ کر رہے؟”

”مجھے کیوں یہ خیال نہیں آیا کہ تمہار اپسٹل خالی بھی ہو سکتا ہے… کیوں خیال نہیں آیا…؟” وہ جیسے بڑبڑھایا ہوا ایک بار پھر کراہا۔

”اب رونا مت۔” امامہ نے اسے چھیڑا۔” ویسے کیا کرتے تم اگر تمہیں یہ پتا چل جاتا؟”

”میں سیدھا جا کر پولیس کے حوالے کرتا تمہیں۔” اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔

”تمہیں شرم نہ آتی؟” امامہ بگڑی۔

”تمہیں آئی تھی، جب تم نے مجھ پر پسٹل نکال لیا تھا، میں محسن تھا تمہارا۔” سالار نے بھی اسی انداز میں کہا۔

”محسن تھے… تم مجھے دھمکا رہے تھے۔”

”جو بھی تھا، کم از کم میں یہ ڈیزرو نہیں کرتا تھا کہ تم گن پوائنٹ پر رکھ لیتی مجھے۔”
لیکن میں نے تمہیں کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا۔” امامہ نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔

”تو میں نے کون سا نقصان پہنچایا تھا؟” گاری اب دوبارہ مین روڈ پر تھی۔

لاہور کی حدود میں داخل ہونے تک امامہ اس سے ایک بار پھر خفا ہو چکی تھی۔

٭٭٭٭

وہ اگلے دو تین دن تک اسلام آباد کے ٹرانس میں ہی رہی… وہ وہاں جانے سے جتنی خوف زدہ تھی اب وہ خوف یک دم کچھ ختم ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہ اب اسلام آباد کے اگلے دورے کی منتظر تھی۔ اس گیسٹ روم کی کھڑکی میں کھڑے سار دن کس کو، کس وقت دیکھا تھا، وہ اگلے دو تین دن سالار کو بھی بتاتی رہی اور تیرے دن اس کی تان ایک جملے پر آکر ٹوٹی تھی۔

”سالار! ہم اسلام آباد میں نہیں رہ سکتے؟”

سالار بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ گود میں رکھے کچھ ای میلز کرنے میں مصروف تھا، جب امامہ نے اس سے پوچھا۔ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اس سے صرف اسلام آباد کی ہی باتیں کر رہی تھی اور سالار بے حد تحمل سے اس کی باتیں سن رہا تھا اور اس کا جواب بھی دے رہا تھا۔

”نہیں۔” اپنے کام میں مصرو ف سالار نے کہا۔

”کیوں؟”

”کیوںکہ میری جاب یہاں ہے۔”

”تم جاب بدل لو۔”

”نہیں بدل سکتا۔” وہ چند لمحے خاموش رہی پھر اس نے کہا۔

”میں اسلام آباد میں نہیں رہ سکتی؟”

اس بار سالار نے بالآخر اسکرین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔

”اس بات کا کیا مطلب ہے؟” اس نے بے حد سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔

”میرا مطلب ہے کہ میں وہاں رہ لوں گی تم ویک اینڈ پر آجایا کرنا۔”

ایک لمحہ کے لیے سالار کو لگا کہ وہ مذاق کر رہی ہے لیکن وہ مذاق نہیں تھا۔

”میں ہر ویک اینڈ پر اسلام آباد نہیں جا سکتا۔” اس نے بے حد تحمل سے اسے بتایا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ سالار دوبارہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

”تو تم مہینے میں ایک دفہ آجایا کرو۔”

وہ اس کے جملے سے زیادہ اس کے اطمینان پر ٹھٹکا تھا۔

”بعض دفعہ میں مہینے میں ایک بار بھی نہیں آسکتا۔” اس نے کہا۔

”تو کوئی بات نہیں۔”

”یعنی تمہیں فرق نہیں پڑتا؟” وہ ای میلز کرنا بھول گیا تھا۔

”میں نے یہ تو نہیں کہا۔” امامہ نے بے ساختہ کہا۔ اسے اندزہ بھی نہیں تھا کہ وہ اس کے احساسات کو اتنی صفائی سے زبان دے گا۔

”پاپا اور ممی اکیلے ہوتے ہیں وہاں، اس …” سالا رنے اس کی بات کاٹی۔

”وہ وہاں اکیلے نہیں ہوتے۔ عمار اور یسریٰ ہوتے ہیں ان کے پاس، وہ دونوں آج کل پاکستان سے باہر ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاپا اور ممی بڑی سوشل لائف گزار رہے ہیں۔ ان کو تمہاری سروسز کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنے مجھے ہے۔” سالار نے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔

وہ کچھ دیر خاموش اس کی گود میں پڑے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو گھورتی رہی، پھر بڑبڑائی۔

”میں اسلام آباد میں خوش رہوں گی۔”

”یعنی میرے ساتھ خوش نہیں ہو؟” وہ جزبز ہوا۔

”وہاں زیادہ خوش رہوں گی۔” وہ اب بالآخر صاف صاف اپنی ترجیحات بتا رہی تھی۔

”پاپا ٹھیک کہتے تھے مجھے تمہیں اسلام آباد نہیں لے کر جانا چاہیے تھا۔ ماں باپ کی بات سننی چاہیے۔” وہ بے اختیار پچھتایا۔ ”دیکھو! اگر میں تمہیں اسلام آباد بھیج دیتا ہوں تو کتنی دیر رہ سکتی ہو تم وہاں، ہمیں اگلے سال پاکستان سے چلے جانا ہے۔” وہ اسے پیار سے سمجھانے کی ایک اور کوشس کر رہا تھا۔

”تو کوئی بات نہیں، تم پاکستان تو آیا کرو گے نا۔”

سالار کا دل خون ہو ا۔ زندگی میں آج تک کسی نے اس کی ذات میں اتنی عدم دل چسپی نہیں دکھائی تھی۔
میں امریکا میں رہوں اور میری بیوی یہاں ہو، اتنا ابنارمل لائف اسٹائل نہیں رکھ سکتا میں۔”

اس نے اس بار دو ٹوک انداز میں کہا۔ وہ کچھ دیر چپ رہی پھر چند لمحوں کے بعد سالار نے اس کے کندھے پر بے حد محبت اور ہمدردی سے اپنا ہاتھ رکھا۔

”سالار! تم دوسری شادی کر لو اور دوسری بیوی کو ساتھ لے جانا۔”

اس بار جیسے اس کے حواس غائب ہوئے۔ اگر یہ مذاق تھا۔ تو بے ہود تھا اور اگر واقعی تجویز تھی تو بے حد سنگدلانہ تھی۔ وہ کئی لمحے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتا ہے۔ وہ شادی کے تیرے ہفتے اسے دوسری شادی کا مشورہ دے رہی تھی تاکہ وہ اپنے ماں باپ کے قریب رہ سکے۔

”سنو! میں تمہیں سمجھاتی ہوں۔” امامہ نے اس کے تاثرات سے کچھ نروس ہوتے ہوئے اس سے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ سالار نے بڑی بے رخی سے اپنے نیچے سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔

”خبردار! آئندہ میرے سامنے تم نے اسلام آباد کا نام بھی لیا اور اپنے احمقانہ مشورے اپنے پاس رکھو۔ اب میرا دماغ چاٹنا بند کرو اور سو جاؤ۔” وہ بری طرح بگڑا تھا۔

اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ بے حد خفگی کے عالم میں بیڈ روم سے نکل گیا تھا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس میں اتنا ناراض ہونے والی کیا بات ہے۔ اس وقت اسے واقعی اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اپنے ماں باپ کی محبت میں وہ کتنے احمقانہ انداز میں سوچنے لگی تھی۔

لائٹس آفس کر کے اس نے کچھ دیر کے لیے سونے کی کوشش کی لیکن اسے نیند نہیں آئی۔ اسے بار بار اب سالار کا خیال آرہا تھا۔ چند لمحے لیٹے رہنے کے بعد وہ یک دم اٹھ کر کمرے سے نکل آئی۔ وہ لاؤنج کا ہیٹر آن کیے، قریب پڑے صوفے پر بیٹھا کام کر رہا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آوازپر ٹھٹکا تھا۔

”اب کیا ہے؟” امامہ کو دکھتے ہی اس نے بے حد خفگی سے کہا۔

”کچھ نہیں، میں تمہیں دیکھنے آئی تھی۔” وہ اس کے سختی سے پوچھنے پر کچھ جزبز ہوئی۔

”کافی بنا دوں تمہیں؟” وہ مصالحانہ انداز میں بولی۔

”مجھے ضرورت ہو گی تو میں خود بنا لوں گا۔” وہ اسی انداز میں بولا۔

وہ اس کے قریب صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔ کچھ کہے بغیر اس نے سالر کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے کندھر پر سر ٹکا دیا۔ یہ ندامت کا اظہار تھا۔ سالار نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے وہ لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرتا رہا لیکن یہ بڑا مشکل تھا۔ وہ اس کے کندھے پر سر ٹکائے اس کے اتنے قریب بیٹھی ہو اور وہ اسے نظر انداز کر دے… کر دیتا اگر صرف اس کی بیوی ہوتی… یہ ”امامہ ” تھی۔ لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر چلتی اس کی انگلیاں تھمنے لگیں، پھر ایک گہرا سانس لے کر وہ بڑبڑایا۔

”اب اس طرح بیٹھو گی تو میں کام کیسے کروں گا؟”

”تم مجھے جانے کا کہہ رہے ہو؟”امامہ نے برا مانا۔

”میں تمہیں جانے کا کہہ سکتا ہوں؟” اس نے اس کا سر چوما۔ ”بہت احمقانہ بات کہی تھی تم نے مجھے۔”

ایسے ہی کہا تھا، مجھے کیا پتا تھا تم اتنی بد تمیزی کرو گے میرے ساتھ؟” وہ ہکا بکا رہا گیا۔

”بد تمیزی… کیا بد تمیزی کی ہے میں نے…؟ تمہیں ایکسکیوز کرنا چاہیے جو کچھ تم نے مجھ سے کہا۔”

وہ سمجھا، وہ ندامت کا اظہار کر نے آئی ہے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا تھا۔ امامہ نے بے حد خفگی سے اس کا کندھے سے اپنا سر اوپر اٹھاتے ہوئے اس سے کہا۔

”اب میں ایکسکیوز کیا کروں تم سے…؟
” سالار نے اس کی اٹھی ہوئی ٹھوڑی دیکھی۔ کیا مان تھا…؟ کیا غرور تھا…؟ جیسے وہ اس سے یہ تو کروا ہی نہیں سکتا۔

”ایکسکیوز کروں تم سے؟” خفا سی آنکھوں اور اٹھی ٹھوڑی کے ساتھ وہ پھر پوچھ رہی تھی۔

سالار نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جھک کر اس کی ٹھوڑی کو چوما، یہ مان اسے ہی رکھنا تھا۔ وہ اس کا سر جھکا دیکھنے کا خواہش مند نہیں تھا۔

”نہیں، تم سے ایکسکیوز کروا کر کیا کروں گا میں۔”

وہ بے حد نرمی سے اس کی ٹھوڑی کو دوبارہ چومتے ہوئے بولا۔

امامہ کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آئی۔ کیا غرور تھا جو اس کی آنکھوں میں جھلکا تھا۔ ہاں، وہ کیسے اس سے یہ کہہ سکتا تھا۔ اس سے الگ ہوتے ہوئے اس نے سالار سے کہا۔

”اچھا، اب تم ایکسکیوز کرو مجھ سے ، کیوںکہ تم نے بد تمیزی کی ہے۔”

وہ اب اطمینان سے مطالبہ کر رہی تھی، وہ مسکرا دیا۔ وہ معترف سے اعتراف چاہتی تھی۔

”آئی ایم سوری۔” سالار نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔

”کوئی بات نہیں، اب آئندہ تم یہ نہ کہنا کہ میں اسلام آباد کی بات نہ کروں۔” وہ بے حد فیاضانہ انداز میں اس کی معذرت قبول کرتے ہوئے بولی۔

سالار کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ پھیلی تو سارا مسئلہ اسلام آباد کا تھا۔ اسے شاید یہ خدشہ ہو گیا تھا کہ وہ دوبارہ اسے وہاں نہیں لے کر جائے گا اور وہ اسی خدشے کے تحت اس کے پاس آئی تھی۔ کیا اندازِ دلبری تھا، وہاں اس کے لیے کچھ نہیں تھا۔ جو بھی تھا، کسی کے طفیل تھا۔ وہ ہنس پڑا۔

”کیا ہوا؟” اس نے الجھ کر سالار کو دیکھا۔

”کچھ نہیں۔” سالار نے ذرا سا آگے جھکتے ہوئے بڑی نرمی اور محبت سے اسے اس طرح گلے لگا کر اس کا سر اور ماتھا چوما، جس طرح وہ روز آفس سے آنے کے بعد دروازے پر اسے دیکھ کر کرتا تھا۔

”گڈ نائٹ۔” وہ اب اسے خدا حافظ کہہ رہا تھا۔

”گڈ نائٹ۔” وہ اپنی شال لپیٹتے ہوئے صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

بیڈ روم کا دروازہ کھولتے ہوئے اس نے گردن موڑ کر سالار کو دیکھا، وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ الوداعیہ انداز میں مسکرادی، وہ بھی جواباً مسکرایا تھا۔ امامہ نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا۔ وہ بہت دیر تک اس بند دروازے کو دیکھتا رہا۔

یہ عورت جس مرد کی زندگی میں بھی ہوتی، وہ خوش قسمت ہوتا لیکن وہ خوش قسمت نہیں تھا۔ ”خوش قسمتی” کی ضرورت کہاں رہ گئی تھی اسے!

٭٭٭٭

”حبیب صاحب کی بیوی نے کئی چکر لگائے میرے گھر کے … ہر بار کچھ نہ کچھ لے کر آتی تھیں آمنہ کے لیے۔

کہتی تھیں ہمیں جہیز نہیں چاہیے، بس آمنہ کا رشتہ دے دیں۔ کہتی کیا تھیں بلکہ منتیں کرتی تھیں… امامہ کے دفتر اپنے بیٹے کو بھی لے گئیں ایک دن … بیٹا بھی خود آیا ماں کے ساتھ ہمارے گھر … بچپن سے پلا بڑھا تھا میری نظروں کے سامنے…”

وہ صحن میں چار پائی پر بیٹھا سر جھکائے، سرخ اینٹوں کے فرش پر نظریں جمائے سعیدہ اماں کی گفت گو پچھلے آدھے گھنٹے سے اسی خاموشی کے ساتھ سن رہا تھا۔ اس کی خاموشی سعیدہ اماں کو بری طرح تپا رہی تھی۔ کم بخت نہ ہوں نہ ہاں، کچھ بولتا ہی نہیں۔ مجال ہے ایک بار ہی کہہ دے کہ آپ نے اپنی بچی کی شادی میرے ساتھ کر کے میری بڑی عزت افزائی کی یا یہی کہہ دے کہ بہت گنوں والی ہے آپ کی بچی۔ وہ باتوں کے دوران مسلسل کھول رہی تھیں۔

اتوار کا دن تھا اور وہ امامہ کے ساتھ صبح باقی کا سامان ٹھکانے لگانے آیا تھا۔ وہ الیکٹرونکس اور دوسرے سامان کو کچھ چیریٹی اداروں میں بھجوانے کا انتظام کر کے آیا تھا۔ امامہ نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا لیکن سعیدہ اماں کو ان دونوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ سامان ان کے گھر نہیں، کہیں اور بھجوایا جا رہا ہے۔

سہ پہر ہو رہی تھی اور وہ ان تمام کاموں سے فارغ ہو کر وہیں دھوپ میں صحن میں بچھی ایک چار پائی پر بیٹھ گیا تھا۔ امامہ اندر کچن میں افطاری اور کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔ انہیں آج افطاری وہی کرنی تھی۔

دھوپ کی وجہ سے سالار نے اپنا سویٹر اتار کر چارپائی کے ایک کونے پہ رکھ دیا تھا۔ جینز کی جیب میں رکھا ایک رومال نکال کر اس نے چہرے پر آئی ہلکی سی نمی کو پونچھا۔ یہ امامہ کے رشتے کی چوتھی داستان تھی، جو ہو سن رہا تھا۔

بیسن کو برتن میں گھولتے ہوئے امامہ نے صحن میں کھلنے والی کچن کی کھڑکی سے سالار کو دیکھا، اسے اس پر ترس ایا۔ وہ کچن میں سعیدہ اماں کی ساری گفت گو سن سکتی تھی اور وہ گفت گو کس حد تک ”قابل اعتراض” ہو رہی تھی، وہ اس کا اندازہ کر رہی تھی۔ تین دفعہ اس نے مختلف بہانوں سے سعیدہ اماں کو آکر ٹالنے کی کوشش کی، گفت گو کو موضوع بدلا لیکن جیسے ہی وہ کچن میں آتی، باہر صحن میں پھر وہی گفت گو شروع ہو جاتی۔
اونچا لمبا جوان۔قد تم سے کچھ آدھ فٹ زیادہ ہی ہو گا۔”

حبیب صاحب کے بیٹے کا حلیہ بیان کرتے ہوئے سعیدہ اماں مبالغے کے آخری حدوں کو چھورہی تھیں۔ سالار کا اپنا قد چھ فٹ دو انچ کے برابر تھا اور آدھ فٹ ہونے کا مطلب تقریباً پونے سات فٹ تھا، جو کم از کم لاہور میں پایا جانا ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور تھا۔

”اماں! زیرہ نہیں مل رہا مجھے۔ ” امامہ نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے سعیدہ اماں کو کہا۔

اس کے علاوہ اب اور کوئی بھی چارہ نہیں تھا کہ وہ انہیں اندر بلا لیتی۔

”ارے بیٹا ! ادھر ہی ہے جدھر ہمیشہ ہوتا ہے۔ زیرے نے کہاں جانا ہے۔” سعیدہ اماں نے اٹھتے ہوئے کہا۔

امامہ نے زیرے کی ڈبیا کو سبزی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر اس نے سعیدہ اماں کو زیرے کی تلاش میں مصرور رکھنا تھا، پھر بعد میں کچھ اور کام سونپ دیتی انہیں، وہ پلان کر رہی تھی۔

”مولوی صاحب سے دم والا پانی لا کر دو گی تمہیں… وہی پلانا… اس سے دل موم ہو گا اس کا۔”

سعیدہ اماں نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے جو کچھ کہا، وہ نہ صرف امامہ نے، بلکہ باہر صحن میں بیٹھے سالار نے بھی سنا تھا۔

”کیوں… کیا ہوا…؟” امامہ نے چونک کر پوچھا۔ وہ آلو کاٹ کر بین میں ڈال رہی تھی۔

”کیسا پتھر دل ہے اس کا … مجال ہے کسی بھی بات میں ہاں میں ہاں ملائے۔” وہ دل گرفتہ ہو رہی تھیں۔

”اماں! اب آپ اس طرح کی باتیں کریں گی تو وہ کیسے ہاں میں ہاں ملائے گا۔ آپ نہ کیا کریں اس طرح کی باتیں، اسے برا لگتا ہو گا۔” امامہ نے دبی آواز میں سعیدہ اماں کو منع کیا۔

”کیوں نہ کروں، اسے بھی تو پتا چلے کوئی فالتو چیز نہیں تھی ہماری بچی… لاکھوں میں ایک، جسے ہم نے بیاہا ہے اس کے ساتھ … یہ زیرہ کہاں گیا…؟” سعیدہ اماں بات کرتے ہوئے ساتھ زیرے کی ڈبیا کی گمشدگی پر پریشان ہونے جلگیں۔

”میں نے آپ سے کہا ہے نا! اب وہ ٹھیک ہے میرے ساتھ۔” امامہ نے اماں کو سمجھایا۔

”تو بڑی صابر ہے بیٹا… میں جانتی نہیں ہوں کیا… بات تو کرتا نہیں میرے سامنے تجھ سے… بعد میں کیا کرتا ہو گا۔” سعیدہ اماں قائل نہیں ہوئی تھیں۔

صحن میں چار پائی پر بیٹھے سالار نے جوتے اتار دیے۔ سویٹر کو سر کے نیچے رکھتے ہوئے وہ چارپائی پر چت لیٹ گیا۔ اندر سے امامہ اور سعیدہ اماں کی باتوں کی آواز اب بھی آرہی تھی لیکن سالار نے ان آوازوں سے توجہ ہٹا لی۔ وہ سرخ اینٹوں کی دیوار پر چڑھی سبز پتوں والی بیلیں دیکھ رہا تھا۔ دھوپ اب کچھ ڈھلنے لگی تھی مگر اس میں اب بھی تمازت تھی۔ برابر کے کسی گھر کی چھت سے چند کبوتر اُڑ کر صحن کے اوپر سے گزرے۔ ان میں سے ایک کبوتر کچھ دیر کے لیے صحن کی دیوار پر بیٹھ گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد اس نے دھوپ میں ایسا سکون پایا تھا۔ دھوپ میں سکون نہیں تھا، زندگی میں سکون تھا۔ اس نے آنکھیں بند کیں۔ پھر چند لمحوں کے بعد چونک کر آنکھیں کھولیں۔ وہ بڑے غیر محسوس انداز میں اس کے سر کے نیچے ایک تکیہ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے آنکھیں کھولتے دکھ کر اس نے کچھ معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”گردن تھک جاتی اس طرح تمہاری۔” اس نے سالار کا سویٹر نکالتے ہوئے کہا۔

سالار نے کچھ کہے بغیر تکیہ سر کے نیچے لے لیا۔ وہ اس کا سویٹر تہہ کرتے ہوئے۔ اپنے بازو پر ڈالتے اندر چلی گئی۔ ایسی ناز برداری کا کہاں سوچا تھا اس نے… اور وہہ دیسی ناز برداری چاہتا تھا کہاں تھا اس سے … ساتھ کی خواہش تھی وہ مل گیا تھا… کچھ اور ملتا نہ ملتا۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔

”سو گیا ہے کیا؟” سعیدہ اماں نے کھڑکی سے اسے دیکھتے ہوئے اندر آتی امامہ سے پوچھا۔

”جی، سو رہا ہے۔”

”اچھا، میں نے تو سوچا تھا ابھی اور تھوڑا سا سمجھاؤں گی اسے، یہ سو کیوں گیا؟”

سعیدہ اماں کو مایوسی اور تشویش ایک ساتھ ہوئی تھی۔

”تھک گیا ہے اماں… آپ نے دیکھا تو ہے کتنا کام کیا ہے اس نے … مزدوروں کے ساتھ مل کر سامان اٹھوایا، کل بھی گھر میں کام کرواتا رہا ہے۔ آج کل بینک میں بھی بہت مصروف رہتا ہے۔” امامہ مدھم آواز میں اماں کو بتاتی گئی۔

اس نے کچن کی کھڑکی بند کر دی تھی۔ سالار کی نیند کتنی کچی تھی، اسے اندازہ تھا۔

”ہاں! لیکن… ” امامہ نے بے اختیار سعیدہ اماں کو آہستہ سے ٹوکا۔

”اماں! آہستہ بات کریں، وہ اٹھ جائے گا پھر۔”

”دیکھ، تجھے کتنا خیال ہے اس کا… اور ایک وہ ہے… ” سعیدہ اماں رنجیدہ ہوئیں۔

امامہ اب بری طرحپچھتا رہی تھی۔ سالار کے بارے میں وہ سعیدہ اماں سے اس طرح کی غیبت نہ کرتی تو سعیدہ اماں اسے ”قابل اعتبار”سمجھتیں۔ اب مسئلہ یہ ہو رہا تھا کہ سعیدہ اماں کو اس کی لاکھ یقین دہانیوں کے باوجود بیٹھے بٹھائے سالار کی پہلی بیوی کے حولے سے بتا نہیں کیا کیا خدشات ستاتے رہتے ، انہیں جیسے یقین تھا کہ امامہ ان سے ضرور کچھ چھپانے لگی ہے۔ وہ سالار کے ساتھ اتنی خوش نہیں تھی، جتنا وہ ظاہر کرتی تھی، اور اس تاثر کی بنیادی وجہ سالار کی وہ مکمل خاموشی تھی، جو وہ سعیدہ اماں کی امامہ کے سلسلے میں کی جانے والی باتوں پر اختیار کرتا تھا۔ سالار کی خاموشی کی وجہ اس گفت گو کی نوعیت تھی، جو سعیدہ اماں اس سے کرتی تھیں۔

ایک چیز جو امامہ نے اس ساری صورتِ حال میں سیکھی تھی، وہ یہ تھی کہ اسے اپنے شوہر کے بارے میں، کچھ کسی دوسرے سے کوئی شکایت نہیں کرنی۔ اس کی زبان سے نکلے ہوئے کچھ لفظ اب اسی پر بہت بھاری پڑ رہے تھے۔

”بس افطار اور کھانے کے لیے یہی کچھ … میں نے ک

قسط نمبر 12...

وہ اس ہفتے پھر اسے اپنے ساتھ کراچی لے کر گیا۔لیکن اس بار رات کی فلائٹ سے واپس آگئے تھے وہ۔ پہلے کی طرح اس بار بھی وہ اسی ہوٹل میں رہے۔سالار آفس میں مصروف رہا جبکہ وہ انیتا کے ساتھ گھومتی پھرتی رہی۔ سالار سے اسکی دوبارہ ملاقات اسی طرح رات فلائٹ سے پہلے ہوئی تھی۔ وہ کچھ چپ تھی۔ سالار نے محسوس کیا لیکن اس کے ساتھ اس فلائٹ میں اسکے بنک کے کچھ غیر ملکی عہدیداران بھی سفر کر رہے تھے۔ امامہ سے اسکو بات کرنے کا موقع ایرپورٹ سے واپسی پر ملا۔ کارپارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے امامہ سے پہلا سوال یہی کیا۔

تم اتنی خاموش کیوں ہو؟

کس سے باتیں کروں؟ تم تو مصروف تھے۔امامہ نے جواباً کہا۔۔

چلو اب بات کرو۔ سالار نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔

کیسا رہا آج کا دن؟

بس ٹھیک تھا۔

کہا گئی تھی آج تم؟

اس نے سالار کو ان تین جگہوں کے نام بتائے جہاں وہ انیتا کے ساتھ گئی تھی۔ مگر سالار کو اسکی باتوں میں پچھلی دفعہ کی طرح جوش نظر نہیں آیا۔

تمہاری پے کتنی ہے سالار؟ وہ چند لمحوں کے لیئے ٹھٹکا۔

وہ بیحد سنجیدہ تھی۔ وہ بے اختیار ہنس دیا۔

نو کمنٹس۔

میں سیریس ہوں۔

میں بھی سیریس ہوں۔ میں شوہر ہوں تمہارا لیکن بے وقوف نہیں۔

جس اپارٹمنٹ میں ھم رہ رہے ہیں وہ تمہارا ذاتی ہے؟

اگلے سوال نے سالار کو اور زیادہ حیران کیا۔

نہیں یہ رینٹڈ ہے۔ لیکن تم یہ سب کیوں پوچھ رہی ہو۔

اپنے جواب پر اسے امامہ کے چہرے پر مایوسی اتنی صاف نظر آئی کہ اب وہ بھی سنجیدہ ہوگیا۔

ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔ میں سمجھی تمہارا اپنا ہوگا۔

میں سوچ رہی تھی کہ تم نے مجھے جو پیسے دیئے ہیں اس سے ھم کوئی پلاٹ خرید لیں۔

امامہ۔۔۔۔۔۔کیا پرابلم ہے؟ سالار نے اس بار اسکے کندھوں کے گرد بازو ہھیلاتے ہوئے کہا۔

کوئی پرابلم نہیں۔ اپنا گھر تو بنانا چاہیئے نا ھم کو۔ وہ اب بھی سنجیدہ تھی۔

تم انیتا کا گھر دیکھ کر آئی ہو؟ ایک جھماکے کی طرح سالار کو خیال آیا تھا۔

ہاں۔۔۔۔۔امامہ نے سر ہلایا۔ سالار نے گہرا سانس لیا۔ اسکا اندازہ ٹھیک نکلا۔

بہت اچھا گھر ہے نا اسکا؟ وہ اب سالار سے کہی رہی تھی۔

ہاں بہت اچھا ہے۔سالار نے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔

تم نے سوئمنگ پول کی بوٹ دیکھی ہے؟

نہیں میں نے کافی مہینوں پہلے انکا گھر دیکھا تھا تب وہ انٹیریر نہیں ہوا تھا۔

ویسے سوئمنگ پول میں بوٹ کا کیا کام؟

اصلی والی نہیں ہے۔چھوٹی سی ہے۔ لکڑی کی لگتی ہے لیکن کسی اور میٹیریل سے بنی ہے۔اس پر ایک چھوٹی سی ونڈمل ہے اور وہ ہوا سے اس سارے سوئمنگ پول میں حرکت کرتی رہتی ہے۔وہ مسکراتے ہوئے اسکا چہرہ دیکھتا رہا۔وہ اسے کشتی کی ایک ایک چیز بتا رہی تھی۔

انیتا نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر۔ اس کے خاموش ہونے پر سالار نے کہا۔

کیوں؟ وہ چونکی۔

میری شادی کے تیسرے ہفتے میری بیوی کو اپنا گھر دکھا دیا۔

کہیں زمین خرید لیتے ہیں سالار۔ امامہ نے اسکی بات نظرانداز کی۔

امامہ! میرے پاس دو پلاٹ ہیں۔ پاپا نے دیئے ہیں۔اسلام آباد میں تو گھر بنانا اتنا بڑا مسلہ نہیں ہے۔ سالار نے اسے تسلی دی۔

کتنے بڑے پلاٹ ہیں؟ وہ ایک دم پرجوش ہوئی۔

دس دس مرلے کے ہیں۔

بس؟ کم ازکم ایک دو کنال تو ہونا چاہیئے۔ وہ ایک دم مایوس ہوئی۔

ہاں دس مرلے کم ہیں۔دو کنال تو ہونا چاہیئے۔ سالار نے تائید کی۔

نہیں۔ دو نہ ہو۔ ایک بھی کافی ہے۔اس میں ایک سبزیوں کا فارم بنائیں گے۔جانور بھی رکھیں گے۔ایک سمرہاؤس بنائیں گے۔اور ایک فش فارم بھی بنا لیں گے۔

سالار کو لگا امامہ کو جگہ اندازہ کرنے میں غلطی ہوئی تھی۔

ایک کنال میں یہ سب کچھ نہیں بن سکتا امامہ۔ اس نے مدھم آواز میں کہا۔ وہ چونکی۔

لیکن میں تو ایکڑ کی بات کر رہی تھی۔

وہ چند لمحے بھونچکا سا رہ گیا۔

اسلام آباد میں تمہیں ایکڑز میں زمین کہاں سے ملے گی۔ چند لمحوں بعد اس نے سنبھل کر کہا۔

اسلام آباد سے باہر تو مل سکتی ہے نا؟ امامہ سنجیدہ تھی۔

تم پھر گھر نہ کہو۔ یہ کہو کہ فارم ہاؤس بنانا چاہتی ہو تم ۔

نہیں۔۔فارم ہاؤس نہیں۔ ایک بڑی سی کھلی سی جگہ پر ایک چھوٹا سا گھر۔جیسے کوئی وادی۔۔۔اسطرح کی وادی میں گھر۔۔

پاپا کا بھی ایک فارم ہاؤس ہے۔کبھی کبھار جاتے ہیں ھم لوگ۔۔۔۔تمہیں بھی لے جاؤں گا وہاں۔سالار نے اسے پھر ٹالا۔

میں فارم ہاؤس کی بات نہیں کر رہی اصلی والے گھر کی بات کر رہی ہوں۔۔ امامہ اب بھی اپنی بات پہ اڑی ہوئی تھی۔

جسطرح کا میرا پروفیشن ہے امامہ اس میں فارم ہاؤسز یا شہر سے باہر رہائش رکھنا میں افورڈ نہیں کرسکتا۔کم از کم جب تک میں کام کر رہا۔

اور بڑے شہروں میں بہت مشکل ہے ایکڑز میں گھر بنانا۔ یہ تمہارے ان رومینٹک ناولز میں ہوسکتا ہے لیکن ریئل لائف میں نہیں۔ جو چیز ممکن ہے اور پریکٹیکل ہے وہ یہ ہے کہ چند سالوں بعد کوئی لگژری فلیٹ لیا جائے۔ یا دو چار کنال کا کوئی گھر بنالیا جائے اس سے زیادہ افورڈیبل نہیں۔ہاں یہ ضرور کرسکتا ہوں کہ پانچ دس سال بعد اسلام آباد یا لاہور سے باہر کوئی فارم ہاؤس بنا لیا جائے۔ لیکن میں جانتا ہوں بیس یا تیس سال میں ھم دس یا بیس بار سے زیادہ وہاں جا نہیں پائیں گے وہ بھی چند دنوں کے لیئے ۔ وہ ھمارے لیئے ایک سفید ہاتھی ثابت ہوگا۔جس پر ہر ماہ ھمارے اخراجات ہونگے۔

سالار کو اندازہ نہیں تھا کہ اس نے ضرورت سے کچھ زیادہ صاف گوئی کا مظاہرہ کیا تھا۔ امامہ کا رنگ کچھ پھیکا سا پڑ گیا تھا۔وہ حقیقت تھی جو وہ اسے دکھا رہا تھا۔ سالار نے اسے دوبارہ بولتے نہیں دیکھا۔ سارا رستہ اسکی خاموشی سالار کو چھبتی رہی۔

اچھا تم گھر کا ایک سکیچ بنا دو میں دیکھوں گا اگر فیزیبل ہوا تو بنایا جاسکتا ہے۔

یہ سونے سے پہلے سرسری انداز میں امامہ سے کہا تھا اور ایک سیکنڈ میں امامہ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوتے دیکھا۔ایک چھوٹی سی بات اسے اتنا خوش کردیگی اسے اندازہ نہیں تھا۔

سحری کے وقت جب وہ الارم کی آواز پر اٹھا تو وہ بستر میں نہیں تھی۔

تم آج پہلے اٹھ گئیں۔۔

وہ کچن میں کام کر رہی تھی جب سالار سحری کے لیئے وہاں گیا۔وہ جواب دینے کی بجائے مسکرائی۔ سالار کو حیرت ہوئی

آج اس نے سحری ختم کرنے میں بڑی عجلت دکھائی تھی اور کیوں دکھائی تھی یہ راز زیادہ دیر تک راز نہیں رہا تھا۔ کھانا ختم کرتے ہی وہ اپنا سکیچ بک اٹھا لائی تھی۔

یہ میں نے سکیچ کرلیا ہے جسطرح کا گھر میں کہہ رہی تھی۔

سحری کرتے ہوئے سالار بری طرح چونکا تھا۔وہ اپنی کسی ہدایت پر اتنا فوری عمل درآمد کی توقع نہیں کر رہا تھا۔وہ سکیچ بک اسکے سامنے کھولے بیٹھی تھی۔ ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے سکیچ بک کو تھامے ہوئے سالار نے ایک نظر اس پر ڈالی اور دوسری اس گھر پر جو سکیچ میں نظر آرہا تھا۔گھر سے زیادہ اسے اسٹیٹ کہنا زیادہ بہتر تھا۔اس نے ہر وہ چیز شامل کی تھی جسکا ذکر اس نے رات کو کیا تھا۔پہاڑوں کے دامن میں کھلے سبزے میں ایک چھوٹا گھر جسکے سامنے ایک جھیل تھی اور اسکے اردگرد چھوٹے چھوٹے سٹرکچرز تھے اور سمر ہاؤس۔ اس نے اپنے سٹرکچرز کو کلر بھی کیا ہوا تھا۔

اور یہ آگے بھی ہے۔ اس نے سالار کو سکیچ بک بند کرتے دیکھ کر جلدی سے اگلا صفحہ پلٹ دیا۔

وہ اسکے گھر کا یقیناً عقبی حصہ تھا۔جہاں پر اصطبل اور اور پرندوں کی مختلف قسم کی رہائش گاہیں بنائی گئی تھی۔اس میں وہ فش فارم بھی تھا جسکا وہ رات کو ذکر کر رہی تھی۔

تم رات کو سوئی نہیں۔ سکیچ بک بند کرتے سالار نے اس سے پوچھا۔

یہ سکیچز گھنٹوں کی محنت کے بغیر نہیں بن سکتے تھے۔ امامہ کو اس تبصرے نے جیسے مایوس کردیا۔وہ سالار سے کچھ اور سننے کی توقع کر رہی تھی۔

اچھا ہے نا؟ اس نے سالار کے سوال کا جواب

دیئے بغیر کہا۔

کانٹا ہاتھ میں لیئے دیر تک وہ اسکا چہرہ دیکھتا رہا۔

بہت اچھا ہے۔ ایک لمبی سی خاموشی کے بعد کہے جانے والے اس جملے سے وہ کھل اٹھی۔ تمہارے دونوں پلاٹس بیچ کر ہم کسی جگہ پر زرا بڑی جگہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زرا بڑی جگہ؟ ایک ایکڑ کی بات کر رہی ہو کم از کم تم۔اور زمین تو چلو کسی نہ کسی طرح ہاتھ آجائے گی لیکن اس گھر کی مینٹینینس کے اخراجات ۔۔۔۔۔ویل ۔۔۔مجھے کم از کم کروڑ پتی ہو کر مرنا پڑے گا۔ اگر ارب پتی نہیں تو۔ سالار نے اسکی بات کاٹ کر کہا۔

امامہ نے بے حد خفگی سے سکیچ بک بند کردی۔

ٹھیک ہے میں نہیں کروں گی اب گھر کی بات۔

وہ پلک جھپکتے ہی اٹھ کر سکیچ بک سمیت غائب ہوگئی۔

وہ کانٹا ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہ گیا۔وہ ایک بہت مضحکہ خیز صورت حال کا سامنا کر رہا تھا۔سالار سحری ختم کر کے بیڈروم میں آگیا۔امامہ صوفے پر سکیچ بک کھولے بیٹھی تھی۔سالار کو دیکھ کر اس نے سکیچ بک بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔

اگر تمہں فوری طور پہ گھر چاہئیے تو میں خرید دیتا ہوں تمہیں۔ اس نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ اس کے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

مجھے اس طرح کا گھر چاہیئے۔اس نے پھر سکیچ بک اٹھا لی۔

ایک ایکڑ ہو یا نہ ہو لیکن ایسا ایک بنادوں گا میں تمہیں۔ وعدہ ۔ لیکن اب یہ ہوم مینیا کو اپنے سر سے اتارو۔

وہ امامہ کا کندھا تھپکتے ہوئے اٹھ گیا۔

وہ بے اختیار مطمئن ہوگئی۔وعدے کا لفظ کافی تھا فی الحال اسکے لیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہ رمضان کے باقی دن بھی اسی طرح گزرے تھے۔عید کے فوراً بعد سالار کا بنک کوئی نیا انویسمنٹ پلان لانچ کرنے والا تھا۔اور وہ ان دنوں اسی سلسلے میں بہت مصروف رہا۔امامہ کی مصروفیت کا دائرہ گھر سر شروع ہو کر گھر پہ ہی ختم ہوتا تھا۔وہ اسے دن میں دو تین بار بنک سے چند منٹ کے لیئے کال کرلیتا تھا۔

امامہ کا خیال تھا کک وہ وقتی طور پر مصروف ہے اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ وقتی طور پہ اپنی مصروفیت کو حتی الامکان کم کیئے ہوئے تھا۔

بازاروں میں عید کی تیاریوں کی وجہ سے رش بڑھتا جارہا تھا۔وہ اپنی مصروفیت کے باوجود اسے ھر رات ایک آدھ گھنٹے کے لیئے باہر لے جایا کرتا تھا۔وہ روزانہ رات کے اس ایک گھنٹے کا انتظار کرتی تھی۔

وہ عید سے دو دن قبل اسلام آباد آگئے تھے۔کامران اور معیز اپنی فیملیز کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے تھے۔وہ ان سے فون پر بات کرچکی تھی لیکن سالار کی بیوی کی حیثیت سے یہ انکی پہلی ملاقات تھی۔وہ سب اس سے بہت دوستانہ انداز سے ملے۔وہ کون تھی وہ سب پہلے سے جانتے تھے۔لہذا کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔

وہ سکندر عثمان کی وسیع و عریض سٹنگ ایریا میں بیٹھی، وہاں موجود تمام لوگوں کی گہ شپ سن رہی تھی۔سالار کے تینوں بھائیوں کے سسرال اسلام آباد میں ہی تھی اور اس وقت موضوع گفتگو تینوں بھائیوں کی سسرال کی طرف سے آنے والے قیمتی تخائف تھے جو عید پر انکے لیئے بھیجے گئے تھے۔امامہ کو وہاں بیٹھے شدید احساس کمتری ہوا۔ اسکے اور سالار کے پاس وہاں کسی دوسرے سے کسی تحفے کی تفصیلات شیئر کرنے کے لیئے کچھ نہ تھا ۔

اسلام آباد آنے سے پہلے ڈاکٹر سبط علی سعیدہ اماں اور ڈاکٹر فرقان کے علاوہ انکی بیٹیوں نے بھی اسکے لیئے کچھ کپڑے بھجوائے تھے۔لیکن ان میں سے کوئی بھی چیز انکے ماں باپ کے گھر سے نہیں آئی تھی۔ کچھ چیزوں کی کمی انکی زندگی میں ھمیشہ رہنی تھی

تم نے کیا بنوایا ہے عید کے لیئے؟ کامران کی بیوی زوہا نے اچانک پوچھا۔

میں نے؟ وہ گڑبڑائی۔

چند لمحوں کے لیئے سب کی نظریں اس پر جم گئی۔

سالار نے کپڑے لے کر دیئے ہے مجھے ۔ قمیص شلوار ہی ہے۔

امامہ کے لیئے تو عید کے کپڑے میں نے بھی بنوائے ہیں ۔یہ پہلی عید ہے اسکی۔تم عید پر تو میرے والے کپڑے ہی پہننا۔ طیبہ نے مداخلت کرتے ہوئے اسے بتایا۔

امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔وہ اسکے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔اسکے کندھوں کے بوجھ میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم صبح چل رہی ہو میرے ساتھ؟

سالار نائٹ ڈریس میں ملبوس چند لمحے پہلے واش روم سے نکلا تھا۔پہلی دفعہ کی طرح اس بار بھی وہ اسی کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔

ہاں۔ ۔۔ اس نے سالار کو دیکھے بغیر کہا۔

طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ اپنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس نے غور سے امامہ کو دیکھا۔

ہاں۔۔۔۔ اس نے اسی انداز میں جواب دیا۔

سالار کمبل کھینچتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گیا۔امامہ نے پلٹ کر اسے دیکھا۔وہ اپنے سیٹ پر الارم سیٹ کر رہا تھا۔ وہ سوچے سمجھے بغیر اسکی طرف آگئی۔ سالار نےچونک کر اسے دیکھا۔ وہ کچھ کہے بغیر اسکے قریب بیٹھ گئی۔ سیل فون سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ حیران ہوا۔وہ پریشان تھی اور یہ پوچھنے کے لیئے اسے اب تصدیق کی ضرورت نہیں تھی۔وہ پہلے کی طرح اب بھی اسکی اداسی کو اسلام آباد آنے کا نتیجہ ہی سمجھا تھا۔ لیٹے لیٹے سالار نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ اسکے ہاتھ کی گرفت میں اپنے ہاتھ کو دیکھتی رہی۔پھر اس نے نظریں اٹھا کر سالار کو دیکھا۔

تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ وہ بھونچکا سا رہ گیا۔

پھر کس سے شادی کرنی چاہیئے تھی۔ وہ حیران ہوا۔

کسی سے بھی۔ میرے علاوہ کسی سے بھی۔

اچھا مشورہ ہے لیکن دیر سے ملا ہے۔اس نے بات مذاق میں اڑانے کی کوشش کی۔امامہ نے ہاتھ چھڑا دیا۔

تم پچھتا رہے ہو نا اب؟ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

میں کیوں پچھتاؤں گا۔ وہ اب سنجیدہ ہوگیا ۔

تمہیں پتہ ہوگا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن سالار نے اسے روک دیا۔

نہیں مجھے نہیں پتا۔ تم بتادو۔ وہ واقعی حیرت زدہ تھی۔

تمہارا بھی دل چاہتا ہوگا کہ کوئی تمہیں بھی کپڑے دے۔۔تحائف دے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بات مکمل نہ کرسکی۔اسکی آواز پہلے بھرائی اور پھر آنسو ٹپکنے لگے۔

وہ ہکا بکا اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا۔جو بات اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھی وہ اسکے لیئے احساس جرم بن رہی تھی۔

میرے خدایا۔۔۔ امامہ تم کیا کیا سوچتی رہتی ہو۔۔۔۔۔وہ واقعی ششدر تھا۔

وہ اپنی آنکھوں کو رگڑ کر صاف کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

بس تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔وہ دلبرداشتہ تھی۔

بات تحفوں کی نہیں تھی بلکہ سبکی کی تھی جو لاؤنج میں بیٹھے ان لوگوں کے درمیان اس نے محسوس کی تھی۔

سالار نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے اسے گلے سے لگا کر تسلی دینے والے انداز میں تھپکا۔اسے تسلی نہیں ہوئی اس نے اسکا ہاتھ ہٹایا اور اٹھ کرچلی گئی۔ آدھے گھنٹے تک واش روم میں آنسو بہانے کے بعد اسکے دل کا بوجھ تو ہلکا نہیں ہوا البتہ اسکے سر میں درد ہونے لگا تھا۔ کپڑے تبدیل کر کے جب واپس وہ کمرے میں آئی تو وہ کمرے کی لائٹ آن کیئے ہوئے اسی طرح بیٹھا تھا ۔امامہ کو کچھ شرمندگی ہوئی۔ وہ اس سے کچھ نہ کہتی تو ٹھیک تھا۔وہ اس سے نظریں ملائے بغیر بیڈ کی دوسری طرف آ کر لیٹ گئی۔وہ بھی لائٹس آف کر کے لیٹ گیا۔ اس نے امامہ کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ اور یہ اسکے لیئے جیسے نعمت مترقبہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

+++++++++++++

امامہ بی بی آپ اتنی عقلمند نہیں جتنا میں آپکو سمجھتا تھا۔بہت ساری چیزیں ہیں جسمیں آپ خاصی حماقت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

اگلی صبح گاؤں جاتے ہوئے ڈرائونگ کے دوران وہ بیحد سنجیدگی سے اسے کہہ رہا تھا۔وہ سامنے سڑک کو دیکھتی رہی۔

کیا ہوجاتا ہے تمہیں بیٹھے بٹھائے ۔ کیوں الٹی سیدھی باتیں سوچتی رہتی ہو؟

تم اب مجھ سے اس طرح کی باتیں کر کے مجھے اپ سیٹ کر رہے ہو۔

اس نے نہایت بیزاری سے کہا۔

میں بات کروں گا۔ اس نے جواباً اسے ڈانٹا تھا۔

مجھے سسرال کے کپڑوں اور تحائف میں دلچسپی نہیں ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے کیا میں عید پر سسرال سے آئے کپڑے پہنوں گا؟ ہاں البتہ تمہیں اگر اس بات کا دکھ ہے کہ تمہیں تحائف نہیں ملے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں ہے مجھے دکھ۔۔۔پھر؟ امامہ نے بیحد خفگی سے اسکی بات کاٹی۔

تو پھر یہ ہے کہ میں تمہیں لے دیتا ہوں یہ سب کچھ، پہلے بھی لے کر دیئے ہیں، سالار کا لہجہ کچھ نرم پڑا۔

تم یہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتے۔امامہ نے اسی انداز میں کہا۔

ہاں ہو سکتا ہے، لیکن تم بھی یہ بات سمجھ لو کہ کچھ چیزیں تم بدل نہیں سکتی تمہں اسے قبول کرنا ہوگا۔

کیا تو ہے۔۔۔

تو پھر اتنا رونا کیوں۔۔۔

سب نے محسوس کیا ہوگا کہ میری فیملی نے۔ اس نے رنجیدہ ہوتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔

تم سے کسی نے کچھ کہا؟

نہیں۔

تو پھر؟

کہا نہیں لیکن پھر بھی دل میں سوچا تو ہوگا نا۔

تم انکے دلوں تک مت جاؤ جو میں کہہ رہا ہوں تم صرف وہ سنو۔سالار نے اسکی بات کاٹ کر کہا۔یہ بے معنی چیزیں ہیں، ایک نارمل ارینج میرج ہوتی تو بھی میں سسرال سے کوئی تحائف لینا پسند نہیں کرتا۔جن رواج کو میں پسند نہیں کرتا انکی وجہ سے کوئی حسرت اور پچھتاوے بھی نہیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔

تم سے زیادہ کوئی قیمتی گفٹ ہوسکتا ہے میرے لیئے؟ وہ جانتا تھا کہ وہ اسکی بات سے متاثر نہیں ہو رہی ہوگی۔ اس نے امامہ سے مزید کچھ نہ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+++++++++++++++++++

اس وسیع و عریض کمپاؤنڈ اور اسکے اندر موجود چھوٹی بڑی عمارتوں نے چند لمحوں کے لیئے امامہ کو حیران کردیا۔ اس نے سالار سے اس سکول اور دوسرے پراجیکٹس کے بارے میں سرسری تذکرہ سنا تھا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام اتنا منظم ہو رہا ہے۔

کمپاؤنڈ میں آج صرف ڈسپنسری کھلی تھی۔اور اس وقت بھی وہاں مریضوں کی ایک خاصی تعداد موجود تھی۔ یہ عید کی تعطیلات تھی۔

سالار کی گاڑی کو کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کر کچھ دیر کے لیئے کمپاؤنڈ میں ہلچل مچ گئی۔ کیریٹکرا سٹاف ایک دم الرٹ ہوگئے۔ وہاں کام کرنے والے اکثر افراد آج چھٹی پر تھے۔اور جو وہاں موجود تھے انہوں نے کمپاؤنڈ کے آخری کونے میں انیکسی کے سامنے گاڑی رکنے کے بعد سالار کے ساتھ گاڑی سے نکلنے والی چادر میں ملبوس اس لڑکی کو دلچسپی سے دیکھا۔

انیکسی کا چوکیدار پہلا آدمی تھا جسے سالار نے اپنی بیوی سے متعارف کرتے ہوئے اپنی شادی کے بارے میں مطلع کیا تھا۔اور وہ جانتا تھا جبتک وہ عمارت کے دوسرے حصوں تک جائے گا تب تک اسکی شادی کی خبر ہر طرف پھیل چکی ہوگی۔

انیکسی کے سامنے موجود لان سے گزرتے ہوئے امامہ نے بڑی دلچسپی سے اپنے قرب وجوار میں نظر اڑائی۔ بہت عرصہ بعد وہ ایسی کھلی فضا میں سانس لے رہی تھی کچھ دیر کے لیئے اداسی کی ہر کیفیت کو اس مے غائب ہوتے محسوس کیا۔

ہم یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔

انیکسی کے برآمدے میں پہنچتے ہی اس نے سالار سے کہا۔جو چوکیدار سے دروازہ کھلوا رہا تھا۔۔

نہیں۔۔۔۔۔ یہاں کچھ دیر بعد تمہیں سردی لگے گی۔اندر لاؤنج میں بیٹھ کر بھی تمیں یہ سب کچھ اسی طرح نظر آئے گا۔فی الحال ذرا میں ڈسپنسری کا ایک راؤنڈ لوں گا تمہیں اگر یہاں بیٹھنا ہے تو بیٹھ جاؤ۔سالار نے اس سے کہا۔

نہیں۔۔ میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔ اس نے فوراً کہا۔

کبھی ھم بھی یہاں رہنے کے لیئے آئے گے۔ اس نے بے اختیار کہا۔

اچھا۔۔۔۔۔۔امامہ کو لگا جیسے وہ اسے بہلا رہا ہے ۔۔۔۔دس منٹ بعد وہ اسے مرکزی عمارت اور اس سے منسلک دوسرے حصے دکھا رہا تھا۔اور سٹاف کو کچھ ہدایات بھی دیتا جارہا تھا۔

وہ سب لوگ کہہ رہے ہیں مٹھائی کھلائے جی۔چوکیدار نے سالار کو دوسرے لوگوں کی فرمائش سنادی۔

چلیں۔۔۔۔آج افطار اور افطار ڈنر کا انتظام کرلیں۔میں اکاؤنٹنٹ کو بتا دیتا ہوں۔سالار نے مسکرا کر کہا۔

دو گھنٹے وہاں گزارنے کے بعد جو وہ اسکے ساتھ وہاں سے نکلی تو پہلی بار اپنے دل میں اسکے لیئے عزت کے کچھ جذبات لیئے ہوئے تھی۔

یہ سب کیوں کر رہے ہو تم؟ اس نے رستے میں اس سے پوچھا۔

اپنی بخشش کے لیئے۔ جواب غیر متوقع تھا لیکن کہنے والا بھی تو سالار سکندر تھا۔

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنے رحمدل ہو۔ چند لمحے خاموش رہ کر امامہ نے اس سے کہا۔

نہیں۔۔۔رحمدل نہیں ہوں نا ہی ترس کھا کہ کسی لے لیئے کچھ کر رہا ہوں۔ ذمہ داری سمجھ کے کر رہا ہوں۔ رحمدل ہوتا تو مسلہ ہی کیا تھا۔آخری جملہ اس نے جیسے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

کیسے شروع کیا یہ سب کچھ۔؟

وہ اسے فرقان سے اپنی ملاقات اور اس پراجیکٹ کے آغاز کے بارے میں بتانے لگا۔ وہ چہ چاپ سنتی رہی۔

اس کے خاموش ہونے پر اس نے جیسے سراہنے والے انداز میں کہا۔۔ بہت مشکل کام تھا۔۔۔۔۔

نہیں وہ لائف سٹائل بدلنا زیادہ مشکل تھا جو میرا تھا۔

وہ چند لمحے بول نہ سکی۔ اسکا اشارہ جس طرف تھا اسے یاد کرنا بہت تکلیف دہ تھا۔۔۔۔

ہر کوئی اس طرح کا کام نہیں کرسکتا۔۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولی۔۔

ھر کوئی کرسکتا کے لیکن کرنا نہیں چاہتا۔ سروس آف ہیومینیٹی کسی کی چیک لسٹ پر نہیں ہوتی ، میں خوش قسمت تھا کہ آگئی۔ وہ ہنسا۔۔۔۔۔

تم بہت بدل گئے ہو،، امامہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ وہ مسکرایا۔۔

زندگی بدل گئی تھی میں کیسے نہ بدلتا۔۔۔۔نہ بدلتا تو سسرال سے آنے والے عید کے تحائف کے انتظار میں بیٹھا ہوتا۔

امامہ نے اسکے طنز کا برا نہیں مانا۔۔

میں مانتی ہوں کے میں بہت ٹپیکل ہوں۔۔ اس نے اعتراف کیا۔۔

ٹپیکل نہیں ہو، زندگی کو دیکھا نہیں ہے ابھی تم نے۔ وہ سنجیدہ ہوا۔

کم از کم یہ تو نہ کہو، مجھے زندگی نے بہت کچھ دکھایا اور سکھایا ہے۔ امامہ نے کچھ رنجیدگی سے اسکی بات کاٹی تھی۔

مثلاً کیا؟؟ سالار نے پوچھا۔

کیا نہیں سکھایا زندگی نے، گنوا نہیں سکتی میں۔ بہت سبق سکھائے ہیں زندگی نے مجھے۔

سبق سکھائے ہونگے گُر نہیں۔۔

امامہ نے چونک کر اسکا چہرہ دیکھا۔وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا تھا۔وہ سیدھی باتیں کبھی بھی نہیں کرتا تھا۔

اچھا لگ رہا ہوں کیا؟ سڑک پر نظریں جمائے ڈرائیو کرتے ہوئے وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔

کیا؟؟ وہ اسے دیکھتے ہی بری طرح گڑبڑائی۔

تم مجھے دیکھ رہی ہو، اس لیئے ہوچھ رہا ہوں، ۔۔۔ امامہ نے حیرانی سے اسکا چہرہ دیکھا پھر بےاختیار ہنس پڑی۔ چند لمحوں کے لیئے واقعی وہ اسے بے حد اچھا لگا تھا۔۔۔۔

-**********************

عید کے چاند کا اعلان عشاء سے کچھ پہلے ہوا تھا اور اس اعلان کے فوری بعد سکندر نے ان دونوں کو ایک گھنٹے کے اندر اندر اپنی شاپنگ مکمل کر کے واپس آنے کا کہا تھا۔

انہوں نے شاپنگ نہیں کی تھی بلکہ ایک ریسٹورنٹ سے ڈنر کیا۔اسکے بعد مہندی لگوا کر اور چوڑیاں خرید کر واپس آگئی تھی۔سالار کم از کم آج رات واقعی محتاط تھا۔اور سکندر کی ہدایات کو نظرانداز نہیں کر رہا تھا۔کیونکہ امامہ کے گھر میں مسلسل گاڑیوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔اور وہ لوگ بھی انہی مارکیٹس میں جاتے تھے جہاں سالار کی فیملی جاتی تھی۔

ساڑھے دس بجے کے قریب وہ گھر پہ تھے۔اور اس وقت گھر میں کوئی موجود نہ تھا ۔

سالار پچھلے دو گھنٹوں سے مختلف لوگوں کی فون کالز سن رہا تھا۔ یہ سلسلہ گھر آنے تک جاری تھا۔امامہ بیزار ہونے لگی تھی۔

چلو کافی بناتے ہیں اور پھر فلم دیکھتے ہیں۔۔سالار نے بلآخر اسکی بیزاری کو محسوس کرلیا تھا۔

میں ہاتھ دھو لوں؟ امامہ نے ہاتھوں پر لگی مہندی کو دیکھ کر کہا۔

نہیں،،، میں بناؤں گا کافی، تم بس میرے ساتھ کچن میں آجاؤ۔۔۔

تم بنا لوگے؟

بہت اچھی۔۔۔۔۔اس نے سیل آف کرتے ہوئے ٹیبل پر رکھا۔

مہندی لگے ہوئے دونوں ہاتھ کچن کی ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے وہ اسے کافی بناتے ہوئے دیکھتی رہی۔ کچن میں رکھے بلیک کرنٹ اور چاکلیٹ فج کیک کے دو ٹکڑے لیکر وہ کافی ٹرے میں رکھنے لگا تو امامہ نے کہا، کچھ فائدہ ہوا میرے کچن میں آنے کا؟

ہاں تم نے مجھے کمپنی دی، اس نے ٹرے اٹھا کر کچن سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔

تم اکیلے بھی بنا سکتے تھے خوامخوا مجھے اہنے ساتھ لائے۔۔۔۔

تمہیں دیکھتے ہوئے زیادہ اچھی بنی ہے۔۔ وہ اسکی بات پر ہنسی۔

یہ بڑی چیپ بات ہے۔۔۔۔۔

اوہ ریئلی۔۔۔۔ وہ تمہارے رومینٹک ناولز میں بھی تو ہیرو ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔

تم میری بکس کی بات کیوں کرتے ہو۔ وہ ایک دم بگڑی۔

اوکے۔۔۔۔ اوکے سوری۔۔سالار نے ساتھ چلتے ہوئے ٹرے سے ایک ہاتھ ہٹا کر اسکے گرد ایک لمحے کے لیئے حمائل کردیا۔

کونسی موویز لی تھی تم نے؟ بیڈروم میں آکر صوفے پر بیٹھتے ہوئے امامہ نے پوچھا۔

سالار نے مارکیٹ سے آتے ہوئے ایک مووی شاپ سے کچھ سی ڈیز لی تھی۔ سی ڈی پلیئر پر مووی لگاتے ہوئے سالار نے ان موویز کے نام دہرائے۔

ریموٹ پکڑے وہ کمبل اٹھا کر خود بھی صوفے پر آگیا اسکی اور اپنی ٹانگوں پر کمبل پھیلا کر اس نے کارنر ٹیبل پہ پڑا کافی کا مگ اٹھا کر امامہ کی طرف بڑھایا۔۔

تم پیو۔۔ پکڑنے کی ضرورت نہیں۔ اس نے امامہ کو مہندی والے ہاتھوں سے مگ پکڑنے سے روکا۔

سکرین پر فلم کے کریڈٹس چل رہے تھے ۔ امامہ نے کافی کا گھونٹ لیا۔

کافی اچھی ہے۔۔ اس نے ستائشی انداز میں مسکرا کے سر ہلایا۔

تھینک یو۔۔۔ سالار نے دوسے ہاتھ سے اپنا مگ اٹھایا۔

وہ اب سکرین کی طرف متوجہ تھا جہاں چارلی تھیرن نظر آرہی تھی۔امامہ نے اسکا انہماک محسوس کیا تھا۔وہ کچھ بے چین ہوئی۔وہ اس ایکٹریس سے ناواقف تھی۔

یہ کون ہے؟ امامہ نے اپنا لہجہ حتی المقدور نارمل رکھتے ہوئے کہا۔

تم نہیں جانتی؟ سالار اب کانٹے کے ساتھ کیک کا پیس اسکے منہ میں ڈال رہا تھا۔

نہیں۔۔۔۔۔۔۔

چارلیز تھیرن ہے۔ میرے نزدیک دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہے۔ کیک امامہ کو کڑوا لگا تھا۔ وہ پورا سکرین کی طرف متوجہ تھا۔

خوبصورت ہے نا؟ کیک کھاتے ہوئے اس نے سکرین سے نظریں ہٹا کر امامہ کو دیکھا۔۔۔۔

ٹھیک ہے بس۔۔۔ اس نے سرد مہری سے کہا۔

مجھے تو خوبصورت لگتی ہے۔ سکرین پہ نظریں جمائے وہ بڑبڑایا۔

امامہ کی دلچسپی اب فلم سے ختم ہوگئی تھی۔

خوبصورت ہے لیکن بری ایکٹریس ہے۔ چند سین گزرنے کے بعد اس نے کہا۔

آسکر جیت چکی ہے۔ ابھی تک اسکی نظریں سکرین پر تھی۔امامہ کو چارلیز اور بری لگی۔

مجھے اسکی ناک اچھی نہیں لگ رہی۔ چند لمحے مزید گزرنے پر امامہ نے کہا۔

ناک کون دیکھتا ہے۔وہ اسی انداز میں بڑبڑایا۔امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ سالار سنجیدہ تھا۔

پھر------؟؟؟؟

مجھے بال پسند ہیں اسکے۔امامہ دوبارہ سکرین دیکھنے لگی۔

سالار کو بے اختیار ہنسی آئی۔اس نے ہنستے ہوئے امامہ کو ساتھ لگایا۔

تم ذرا بھی ذہین نہیں ہو۔۔

کیا ہوا؟ ۔۔۔۔امامہ کو اسکے ہنسنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔

کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔۔ مووی دیکھو۔۔

امامہ نے ریموٹ اٹھا کر سی ڈی پلیئر بند کردیا۔

کیا ہوا؟؟ وہ چونکا

فضول مووی ہے۔ بس تم مجھ سے باتیں کرو۔ امامہ نے جیسے اعلان کردیا۔

باتیں ہی تو کر رہا ہوں۔مہندی خراب ہوئی ہوگی۔سالار نے اسکا ہاتھ دیکھتے ہوئے کہا۔

نہیں سوکھ گئی ہے۔ میں ہاتھ دھو کر آتی ہوں۔وہ ریموٹ رکھ کر چلی گئی۔

چند منٹوں کے بعد جب وہ واپس آئی تو مووی دوبارہ آن تھی۔امامہ کو آتے دیکھ کر اس نے مووی آف کردی۔وہ اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔ کافی پیتے ہوئے سالار نے اسکے مہندی والے ہاتھ باری باری پکڑ کر دیکھے۔

تمہارے ہاتھوں پر مہندی بہت اچھی لگتی ہے۔

اسکی ہتھیلی اور کلائی کی ناش و نگار پر انگلی پھیرتے ہوئے اس نے کہا۔وہ بلاوجہ مسکرا دی۔۔۔

چوڑیاں کہاں ہیں۔۔سالار کو یاد آیا۔

پہنوں؟ وہ پرجوش ہوئی۔

ہاں۔۔۔۔

وہ چوڑیاں پہن کر دوبارہ اسکے پاس آگئی۔اسکی کلائی ایکدم سرخ چوڑیوں سے سج گئی۔اپنی کلائیاں سالار کے سامنے کر کے اس نے اسے چوڑیاں دکھائی۔

پرفیکٹ۔۔۔۔وہ نرمی سے مسکرایا۔

وہ اب اسکی چوڑیوں پر انگلی پھیر رہا تھا۔۔

معجزہ لگتا ہے یہ۔۔۔چند لنحوں بعد گہری سانس لیکر کہا اس نے۔

اپنے بازو اسکے گرد حمائل کر کے اس نے امامہ کو خود سے قریب کیا۔امامہ نے اسکے سینے پہ سر رکھ دیا۔ وہ اس شخص سے محبت نہیں کرتی تھی لیکن بار بار اسکی قربت میں ایسے ہی سکون اور تحفظ کا احساس ہوتا۔۔وجہ وہ رشتہ تھا جو انکے درمیان تھا یا کچھ اور۔ ۔۔

ایک بات مانو گی؟ ۔۔۔سالار نے اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ملائمت سے کہا۔۔

کیا؟ ۔۔اسکے سینے پہ سر رکھے امامہ نے سر اونچا کر کے اسے دیکھا۔

وعدہ کرو پہلے۔

اوکے۔۔امامہ نے بے اختیار وعدہ کرلیا۔۔۔

فلم دیکھنے دو مجھے۔۔ وہ بے حد خفہ ہوکر الگ ہوئی اس سے۔

میں دیکھنے کے لیئے لیکر آیا ہوں امامہ۔

تم دوسری موویز بھی لیکر آئے ہو ان میں سے کوئی دیکھ لو۔

اوکے ٹھیک ہے۔۔امامہ حیران ہوئی کہ وہ اتنی جلدی کیسے مان گیا۔

سی ڈی پلیئر میں مووی تبدیل کر کے وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔

اب خوش؟؟ اس نے امامہ سے پوچھا۔

وہ مطمئن انداز میں مسکا کر دوبارہاسکے قریب ہوگئی۔اسکے سینے پہ سر ٹکائے اس نے فلم کے کریڈٹس دیکھے۔ وہ اسے بہت آہستہ آہستہ تھپک رہا تھا۔امامہ کو نیند آگئی۔ اسکی آنکھ لگ جاتی اگر تیسرے سین میں اسے چارلیز تھیرن نظر نہ آتی۔

کچھ کہے بغیر اس نے سر اٹھا کر سالار کو دیکھا۔

آٰئی ایم سوری تینوں موویز اسی کی ہیں۔۔اس نے ایک شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

دیکھنے دو یار۔۔اس نے جیسے التجا کی تھی۔۔

امامہ نے چند لمحے سکرین کو دیکھنے کیبعد کہا۔

تعریف نہیں کروگے تم اسکی۔۔۔۔

آئی پرامس۔۔سالار نے بے ساختہ کہا

وہ خوبصورت نہیں ہے۔امامہ نے جیسے اسے یاد دلایا۔

بلکل بھی نہیں۔۔ سالار نے تائید کی

اور بری ایکٹریس ہے۔

بے حد۔ امامہ کو تسلی ہوئی۔۔۔۔

اور تم اسے اس طرح اب کبھی نہیں دیکھو گے جیسے پہلے دیکھ رہے تھے۔اس بار سالار ہنس پڑا. ۔۔

کس طرح دیکھتا ہوں میں؟

تم دیکھتے نہیں گھورتے ہو اسے۔۔

کون ایسا نہیں کریگا وہ اتنی۔۔۔۔۔۔۔سالار روانی میں کہتے کہتے رک گیا۔۔۔

کہہ دو نا کہ خوبصورت ہے۔۔امامہ نے اسکی بات مکمل کرلی۔۔

میں تمہارے لیئے اسکو بہن نہیں بنا سکتا۔

تو صرف ایکٹریس سمجھو اسے۔۔۔

ایکٹریس ہی تو سمجھ ریا ہوں یار۔۔۔۔۔۔چھوڑو ۔۔۔میں نہیں دیکھتا۔۔آدھی مووی تو ویسے ہی گزر گئی ہے۔۔۔سالار نے اس بار کچھ خفہ ہوکر ریموٹ سے مووی آف کردی۔

امامہ بے حد مطمئن انداز میں صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہوئی وہ اب صوفے سے چیزیں سمیٹ رہا تھا۔

کمبل لے آؤ گے نا تم؟ واش روم کی طرف جاتے ہوئے امامہ نے پوچھا۔۔۔

جی لے آؤں گا کوئی اور حکم ہو تو وہ بھی دیں۔

وہ کمبل اٹھاتے ہوئے خفگی سے بڑبڑایا۔۔۔۔۔

قسط نمبر 13۔۔۔۔۔۔۔

سکندر نے عید کے تحفے کے طور پہ ایک بریسلیٹ دیا تھا اسے اور سوائے سالار کے سب نے ہی اسے کچھ نہ کچھ دیا تھا۔امامہ کا خیال تھا، وہ اس بار ضرور اسے زیور میں کوئی چیز تحفے میں دے گا۔اسے لاشعوری طور پہ جیسے انتظار تھا کہ وہ اسے کچھ دے۔ اس نے اس بار بھی اسے کچھ رقم دی تھی۔ وہ کچھ مایوس ہوئی لیکن اس نے سالار سے کوئی شکایت نہیں کی۔

عید کی رات شہر کے نواح میں واقع سکندر عثمان کے فارم ہاؤس میں ایک بڑا فیملی ڈنر تھا۔ وہاں سالار کی بیوی کی حیثیت سے پہلی بار وہ متعارف ہوئ تھی۔اور طیبہ کے تیار کیئے گئے سرخ لباس میں وہ بلکل نئی نویلی دلہن لگ رہی تھی۔امامہ کو اب احساس ہوا تھا کہ سالار کا اسے اسلام آباد لانے اور اپنی شناخت نہ چھپانے کا فیصلہ ٹھیک تھا۔اسے اس عزت و احترام کی اشد ضرورت تھی جو اسے وہاں ملی تھی۔

اوپن ایر میں باربی کیوز کے دوران اپنی پلیٹ لیکر وہ کچھ دیر کے لیئے فارم ہاؤس کے برآمدے میں لکڑیوں کی سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی۔ باقی افراد ٹولیوں کی شکل میں سامنے کھلے سبزے میں ڈنر کرتے ہوئے مختلف سرگرمیوں میں مصروف تھے۔

تم یہاں کیوں آکر بیٹھ گئی؟ امامہ کے قریب آتے ہوئے اس نے دور سے کہا۔

ایسے ہی۔۔شال لینے آئی تھی۔۔پھر یہی بیٹھ گئی۔ وہ مسکرائی۔اس کے قریب بیٹھتے ہوئے سالار نے سوفٹ ڈرنک کا گلاس اپنی ٹانگوں کے درمیان نچلی سیڑھی پہ رکھا ۔

امامہ لکڑی کے ستون سے ٹیک لگائے ایک گھٹنے پر کھانے کی پلیٹ ٹکائے کھانا کھاتے ہوئے دور لان میں سٹیج پر بیٹھے گکوکار کو دیکھ رہی تھی

سالار نے اسکا کانٹا اٹھا کر اسکی پلیٹ سے کباب کا ایک ٹکڑا اپنے منہ میں ڈالا۔ وہ اب گلوکار کی طرف متوجہ تھا جو اپنی غزل شروع کرچکا تھا۔

انجوائے کر رہی ہو؟ سالار نے اس سے پوچھا۔

ہاں۔۔۔۔اس نے مسکرا کر کہا۔وہ اب غزل سن رہی تھی۔

کسی کی آنکھ پرنم ہے محبت ہوگئی ہوگی۔

زباں پر قصہ غم ہے محبت ہوگئی ہوگی۔

وہ بھی سوفٹ ڈرنک پیتے ہوئے غزل سننے لگا۔

کبھی ہنسنا کبھی رونا کبھی ہنس ہنس کے رو دینا،

عجب دل کا یہ عالم ہے محبت ہوگئی ہوگی۔۔

اچھا گا رہا ہے۔۔امامہ نے ستائشی انداز میں کہا۔۔

سالار نے کچھ کہنے کی بجائے سر ہلا دیا۔

خوشی کا حد سے بڑھ جانا بھی اب اک بیقراری ہے،،

نہ غم ہونا بھی اک غم ہے محبت ہوگئ ہوگی۔۔۔

سالار سوفٹ ڈرنک پیتے ہوئے ہنس پڑا۔امامہ نے اسکا چہرہ دیکھا۔ وہ شاید کہی اور پہنچا ہوا تھا۔

تمہیں کچھ دینا چاہ رہا تھا میں۔۔۔۔۔۔

وہ جیکٹ کی جیب سے کچھ نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔

بہت دنوں سے دینا چاہتا تھا لیکن ۔۔۔ ۔ وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔۔

اسکے ہاتھ میں اک ڈبیا تھی۔امامہ کے چہرے پہ بے اختیار مسکراہٹ آئی۔تو بلآخر اسے اسکا خیال آ ہی گیا اس نے ڈبیا لیتے ہوئے سوچا اور اسے کھولا۔ وہ ساکت ری گئی۔ اندر ایر رنگز تھے۔ ان ایر رنگز سے تقریباً ملتے جلتے جو وہ اکثر پہنا کرتی تھی۔اس نے نظریں اٹھا کر سالار کو دیکھا۔

میں جانتا ہوں یہ اتنے ولیوایبل تو نہیں ہوں گے جتنے تمہارے فادر کے ہیں لیکن مجھے اچھا لگے گا اگر تم کبھی کبھار اسے بھی پہنو۔

ان ایر رنگز کو دیکھتے ہوئے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

تم نہیں پہننا چاہیتی تو بھی ٹھیک ہے۔۔۔ میں ریپلیس کرنے نہیں دے رہا۔

سالار نے اسکی آنکھوں میں نمودار ہوتی نمی کو دیکھ کر بے ساختہ کہا ۔۔

کچھ کہنے کی بجائے امامہ نے اپنے دائیں کان میں لٹکتا جھمکا اتارا۔

میں پہنا سکتا ہوں؟؟

سالار نے ایک ایر رنگ نکالتے ہوئے کہا۔امامہ نے سر ہلادیا۔۔۔سالار نے باری باری اسکے کانوں میں ایر رنگز پہنا دیئے ۔

وہ نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا دی۔۔۔ وہ دیر تک مبہوت سا اسے دیکھتا رہا۔

اچھی لگ رہی ہو۔۔

مجھ سے زیادہ کوئی تم سے محبت نہیں کرسکتا، کوئی مجھ سے زیادہ تمہاری پرواہ نہیں کرسکتا۔مجھ سے زیادہ خیال نہیں رکھ سکتا تمہارا۔میرے پاس تمہارے علاوہ کوئی قیمتی چیز نہیں۔

اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اسے کہہ رہا تھا۔۔۔

مجھے نوازا گیا ہے۔۔سیدھا ہوتے ہوئے اس نے امامہ سے کہا۔۔

رومانس ہورہا ہے؟ اپنے عقب میں آنے والی کامران کی آواز پہ وہ ٹھٹکے۔

کوشش کر رہے ہیں۔۔سالار نے پلٹے بغیر کہا۔۔

گڈ لک۔۔۔وہ کہتا ہوا اسکے پاس سے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے انہے دیکھے بغیر چلاگیا۔۔

امامہ کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔وہ جھینپ گئ تھی ۔ سالار اور اسکی فیملی کم از کم ان معاملات میں آزاد خیال تھے۔۔

لکڑی کی ان سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے پاس بیٹھے وہ گلوکار کی سریلی آواز کو سن رہے تھے زندگی کے وہ لمحے یاد بن رہے تھے۔

*********---*-*****----*-*

لاہور واپسی پر عید ڈنر کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔وہ امامہ کو اپنے سوشل اور بزنس سرکل میں متعارف کروا رہا تھا۔

عید کے چوتھے دن وہ اسے پہلی بار اپنی ہی بنک کی طرف سے دییے گئے عید کے ڈنر میں لیکر گیا تھا اور ایک بڑے ہوٹل میں ہونے والے اس ڈنر میں جاتے ہی امامہ کو پسینہ آنے لگا۔گیدرنگ کا ایک بڑا حصہ غیر ملکی مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھا۔وہ فیملی ڈنر تھا۔کم از کم سالار اسے یہ ہی بتا کر اسے وہاں لایا تھا۔ لیکن وہاں آنے والی فیملیز کون تھی یہ اس نے نہیں بتایا تھا ۔۔

چند لمحوں کے لیئے اسے لگا جیسے وہ مس ورلڈ کے مقابلہ حسن میں آگئ ہو۔وہاں موجود عورتیں بیس سے ساٹھ سال کی عمر تک کے درمیان تھی لیکن یہ طے کرنا زیادہ مشکل تھا کہ ان میں ست کون عمر کی کس سیڑھی پر ہے. سگریٹ پیتے ہوئے ہاتھ میں ڈرنکس لیئے وہ گرمجوشی اور بے تکلفی کے ساتھ مختلف مردوں سے گلے ملتے ہوئے گفتگو میں مصروف تھیں۔ شیفون کے لباس پر دوپٹہ اوڑھے امامہ کو اپنا آپ الوباٹا لگا ۔

وہاں کھڑے جیسے اس نے خود کو جانچنا شروع کیا تھا۔اس نے پہلی بار سالار اور اپنے حلییے کا فرق بھی نوٹس کیا۔۔

ایک برانڈڈ سیاہ ڈنر سوٹ میں سرخ دھاری دھار ٹائی کے ساتھ وہ بلکل اس ماحول کا حصہ لگ رہا تھا ۔۔وہاں لگڑے اس پر یہ ہولناک انکشاف بھی ہوا کہ اسکا حلیہ سالار کے اس لک کے ساتھ بلکل میچ نہیں کر رہا ۔

وہ اوڈ کپل تھے ۔اسے احساس کمتری کا دوسرا بڑا دورہ بڑے غلط وقت اور غلط جگہ پر پڑا تھا۔ وہ اسکا تعارف باری باری مختلف لوگوں سے کروا رہا تھا۔اور امامہ اس پذیرائی اور گرمجوشی پر حیران تھی۔جو اسے مل رہی تھی پھر اسے ایکدم احساس ہوا اس کی وجہ بھی سالار تھا ۔یہ پروٹوکول مسز سالار سکندر کے لیئے تھا۔امامہ ہاشم کے لیئے نہیں۔یہ ٹیگ جسکے گلے میں لٹکا ہوتا، اسے یہ ہی پروٹوکول ملتا۔چاہے اسکا حلیہ اس سے بھی بدتر ہوتا۔۔اسکا احساس کمتری کا پارہ اوپر جارہا تھا۔سالار کے ساتھ کھڑےاسے اپنے ہی حلییے کی چند اور خواتین بھی بلآخر اس مجمع میں نظر آ ہی گئی۔اور اسے کچھ حوصلہ ملا۔

ڈرنک پلیز! "مشروبات کی ٹرے پکڑے ویٹر نے بلکل اسکے پاس آ کر کہا۔ وہ چونکی اور اس نے ٹرے پر نظر دوڑائی۔وائن گلاس میں ایپل جوس تھا۔اس نے ایک گلاس اٹھا لیا۔اپنے سامنے کھڑے ایک غیر ملکی جوڑے سے باتیں کرتے ہوئے سالار نے بیحد غیر محسوس انداز میں امامہ کو دیکھے بنا اسکے ہاتھ سے گلاس لیا ۔وہ چونک اٹھی۔ ایک لمحے کے لیئے اسے خیال آیا جیسے وہ خود پینا چاہتا ہو لیکن اسکا گلاس ہاتھ میں لیئے اسی طرح وہ اس جوڑے سے باتیں کرتا رہا۔ویٹر دائرے میں کھڑے تمام افراد کو سرو کرتا ہوا واپس سالار کے پاس آیا۔ سالار نے امامہ کا گلاس بیحد غیر محسوس انداز سے ٹرے میں واپس رکھتے ہوئے ویٹر سے کہا.

سوفٹ ڈرنک پلیز ۔۔

امامہ کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ٹرے میں رکھا اپنا گلاس اس بے دور جاتے دیکھا۔پھر اس نے سالار کو دیکھا وہ اب بھی وہاں مصروف تھا۔ویٹر چند لمحوں بعد ایک دوسری ٹرے لیئے موجود تھا۔اس بار اسکا گلاس اٹھانے سے پہلے ہی سالار نے ایک گلاس اٹھا کر اسے دیا اور دوسرا خود پکڑ لیا ۔۔۔

اوہ ہیلو۔۔۔۔سالار ۔۔۔وہ چالیس پینتالیس سال کی ایک عورت تھی جس نے سالار کے قریب آتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔اور پھر بے حد دوستانہ انداز میں بے تکلفی کیساتھ اسکے بازو پہ ہاتھ رکھ لیا ۔وہ وہاں موجود دوسرے مردوں کی طرح عورتوں سے گلے نہیں مل ریا تھا۔ لیکن ان میں سے کچھ عورتوں سے ہاتھ ملا رہا تھا۔امامہ کے لیئے یہ ہضم کرنا بلکل مشکل ہورہا تھا۔

مجھے کسی نے تمہاری بیوی کے بارے میں بتایا ۔یہ میرے لیئے ایک بڑی خبر ہے۔کب شادی کی تم نے؟

وہ عورت اب کہہ رہی تھی اس سے۔ سالار بے شائستگی سے امامہ کا تعارف کرایا۔

مسز لئیق نے اس سے ملتے ہوئے اسے ڈنر پر مدعو کیا ۔۔سالار نے ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ کوئی دن طے کیئے بغیر دعوت قبول کرلی. امامہ نے اپنے عقب میں کسی کو دیکھ کر سالار کو مسکراتے ہوئے دیکھا ۔

ہائے رمشا۔۔۔۔

امامہ نے بےاختیار پلٹ کر دیکھا

اوہ ہائے۔۔۔۔رمشا بھی مسکراتی ہوئی اسکے پاس آئی۔

سالار نے دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کرایا۔رمشا بڑی خوشدلی سے اس سے ملی۔۔

بڑی لکی ہیں آپ ۔ اگر آپ اسے نہ ملتی تو اس بندے سے میں نے شادی کرلینی تھی ۔۔رمشا نے بڑی بے تکلفی سے امامہ سے کہا۔۔۔بس۔۔۔۔کچھ دیر ہوگئی مجھے سالار سے ملنے میں.

وہ بھی جواباً خوشدلی سے ہنسا تھا۔۔

ولیمہ کب ہے؟ وہ پوچھ رہی تھی ۔

بیس تاریخ کو اسلام آباد میں۔۔۔وہ سالار سے کہہ رہی تھی۔

امامہ نے اس بار سالار کو اسے ٹالتے نہیں دیکھا۔وہ اسکے ساتھ ملاقات طے کر رہا تھا ۔اسکے پاس آنے والی وہ پہلی لڑکی تھی جسکے ساتھ سالار کا رویہ کچھ زیادہ ہی بے تکلفی لیئے ہوئے تھا۔امامہ اس پر سے نظریں نہ ہٹا سکی۔۔۔

************************

کوئی بات کرو ۔واپسی پر سالار نے اسکی خاموشی محسوس کر کے کہا۔۔

کیا بات کروں۔۔۔

کوئی بھی۔۔ وہ پھر خاموش ہوگئی۔

عجیب لوگ تھے سارے۔۔کچھ دیر بعد سالار نے اسے بڑبڑاتے ہوئے سنا۔وہ چونک کر اسکی طرف متوجہ ہوا ۔

عجیب کیوں۔۔۔۔

تمہیں عورتیں اسطرح کی لباس میں یہ سب کرتی اچھی لگتی ہے؟؟ اس نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس سے پوچھا.

تم نے وہ پہنا جو تمہیں اچھا لگا انہوں نے بھی وہ پہنا جو انکو اچھا لگا۔

اس نے بے یقینی سے سالار کو دیکھا ۔ کم از کم وہ اس سے ایسے جواب کی توقع نہیں کر رہی تھی۔

تمہیں کچھ برا نہیں لگا؟

میرے لیئے وہ سب ریسپیکٹیبل لوگ تھے۔کچھ میرے کلائنٹس تھے اور کچھ کو میں ویسے ہی جانتا ہوں۔

تمہیں برا کیوں لگے گا سالار تم مرد ہو۔۔۔تمہیں تو بہت اچھا لگے گا اگر تمہیں عورتیں اس طرح کے کپڑوں میں نظر آئیں گی۔۔

بات کرتے ہوئے اسے اندازہ نہیں ہوا کہ اسکا لہجہ کتنا سخت تھا۔۔ سالار کا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔

میں ایسی گیدرنگز میں مرد بن کر نہیں جاتا مہمان بن کر جاتا ہوں۔مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کس نے کیا پہنا ہے۔ میرے لیئے ہر عورت بغیر اپنے پہناوے کے قابل احترام ہے میں لباس کی بنا پر کسی کا کردار نہیں جانتا۔اگر تمہارا خیال ہے کہ تم نے دوپٹا لیا ہوا ہے تو تم قابل عزت ہو ۔۔اور وہ عورت جو ایک قابل اعتراض لباس پہنے ہوئے ہے وہ عزت کے قابل نہیں۔۔تو تم بلکل غلط ہو۔

وہ بول نہ سکی۔سالار کے لہجے میں پہلے بار اس نے ترشی محسوس کی۔

تمہیں کیسا لگے گا اگر کوئی تمہارے پردے کی وجہ سے تمہارے بارے میں یہ ہی بات کہے۔۔۔جیسی تم انکے بارے میں کہہ رہی ہو۔

تم انکی حمایت کیوں کر رہی ہو۔وہ جھنجھلائی۔

میں کسی کی حمایت نہیں کررہا صرف یہ کہہ رہا کہ دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں یہ ھمارا مسلہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں یہ سب پسند ہے؟ وہ اسکے سوال پر ہنسا تھا۔۔

یہ ایشو نہیں ہے مجھے یہ سب اپنی زندگی کے لیئے پسند نہیں ہے لیکن مجھے ایسے ڈنر میں اس لیئے جانا پڑتا ہے کیونکہ مجھے اپنی جاب کی وجہ سے کسی حد تک سوشل رہنا ہے۔

ایک بات پوچھوں؟ سالار نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔

اگر میں تمہاری زندگی میں نہیں آتی تو تم اس طرح کی لڑکیوں سے شادی کرلیتے جو آج وہاں تھی؟

وہ رمشا کا نام لینا چاہتی تھی لیکن اس نے نہیں لیا۔

تمہارا مطلب ہے کہ میں پردہ کرنے والی اور پردہ نہ کرنے والی میں کس سے شادی کرتا۔۔۔سالار نے براہ راست سوال کردیا۔

وہ اسکا چہرہ دیکھتی رہی وہ واقعی یہ ہی پوچھنا چاہتی تھی۔۔

آنیسٹلی میں تمہیں ایک بات بتاؤں۔۔میں کسی عورت کا صرف پردہ دیکھ کر اس سے شادی نہ کرتا۔کسی عورت کا پردہ کرنا نہ کرنا میرے لیئے اتنا اہم نہیں جتنا اس میں کچھ دوسری خوبیوں کا ہونا۔۔۔ اسے آج شاک پہ شاک لگ رہے تھے۔

اگر ایک عورت اللہ کے احکامات پہ عمل کرتی ہیں سر اور جسم چھپاتی ہے

لیکن میں اس ایک چیز کے علاوہ بھی اس عورت میں کچھ اور خوبیاں چاہتا جس سے میں نے شادی کرنی ہوتی ۔۔۔

کیسی خوبیاں؟ ۔۔۔اسے تجسس ہوا۔۔

صبر و برداشت و اطاعت۔۔وہ اسکا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔

یہ دونوں نادر کوالٹیز ہیں۔۔باقی سب کچھ ہوتا ہے لڑکیوں میں ۔۔۔ڈگریز اوور لک اور مینرزم اور پردہ بھی۔۔۔۔لیکن یہ دو کوالٹیز ناپید ہوتی جارہی ہے۔اگر اسے کوئ زعم تھا تو ختم ہوگیا تھا۔

میں کیوں اچھی لگی تمہیں؟ اس نے بلآخر سالار سے پوچھ ہی لیا۔

خالی پردہ تمہیں امپریس نہیں کرتا ۔تحمل اور اطاعت تو کبھی دکھائی نہیں میں نے. پھر؟؟؟

پتہ نہیں۔۔۔یہ وہ سوال ہے جسکا جواب مجھے کبھی نہیں ملا تمہیں ناپسند کرنے کے کئ جواز بتا سکتا ہوں لیکن پسند کرنے کے لیئے میرے پاس کوئی جواز نہیں۔وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔

پہلے تم مجھے intrigue کرتی تھی۔ پھر تم مجھے ایریٹیٹ کرنے لگی اسکے بعد تم مجھے haunt کرنے لگی۔ پھر میں تم سے جیلس ہونے لگا۔۔پھر حسد کرنے لگا اور پھر محبت،،، وہ قدرے بے بسی سے ہنسا۔

ان ساری سٹیجز میں صرف ایک چیز کامن تھی ۔میں تمہیں کبھی بھی اپنے ذہن سے نہیں نکال سکا۔مجھے تمہارا خیال آتا تھا اور آتا ہے۔اور بس میرا دل تمہاری طرف کھنچتا تھا۔خوار جو کرنا تھا اللہ نے مجھے میری اوقت بتا کر۔۔بس اور کوئی بات نہیں تھی۔اس لیئے یہ تو کبھی پوچھو ہی مت کہ کیوں اچھی لگی تم مجھے۔وہ محبت سے زیادہ بے بسی کا اظہار تھا ۔

اور اگر یہ سب نہ ہوا ہوتا تو پھر تم میرے بجائے کسی اور لڑکی سے شادی کرلیتے۔مثلاً رمشا سے۔۔۔

سالار نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر ہنس دیا۔۔۔

تو یہ سوال رمشا کی وجہ سے ہو رہے تھے۔۔ یو آر سلی۔۔۔

تمہیں پسند ہے ناوہ؟ وہ اسکی ہنسی کو نظرانداز کر کہ سنجیدہ ہی رہی۔

ایک دوست اور کولیگ کے طور پر۔۔سالار نے کہا۔

امامہ نے کچھ نہیں کہا۔ سالار کو لگا جیسے وہ گہری سوچ میں ہے۔

کیا ہوا؟؟ سالار نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

کچھ نہیں۔۔۔ تمہارے ساتھ کھڑی اچھی لگی تھی وہ مجھے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔،،،

بعض دفعہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے بہت سے لوگ اچھے لگتے ہیں حتی کہ دو دشمن بھی ساتھ ساتھ کھڑے اچھے لگتے ہیں۔۔اس سے کیا ہوتا ہے. ۔۔۔ سالار نے اسکی بات کاٹی۔۔

کچھ نہیں، ایسے ہی خیال آیا تھا۔۔۔

میں تمہارے ساتھ بہت خوش ہوں امامہ! یہ میری زندگی کا سب سے اچھا وقت ہے ۔فی الحال دنیا میں ایسی کوئی شے نہیں جسکی مجھے کمی محسوس ہورہی ہو۔اس لیئے تم اپنے اندازوں اور خیالوں سے باہر آؤ۔ ڈنر میں جاؤ کھانا کھاؤ لوگوں سے گپ شپ کرو اینڈ دیٹس اٹ۔۔۔اس دنیا کو اپنے ساتھ گھر لیکر مت آؤ۔۔۔

اس رات ناول پڑھتے ہوئے وہ سالار کیساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں سوچ رہی تھی۔وہ اپنے لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہا تھا۔ناول سے نظریں ہٹا کر وہ سالار کو دیکھنے لگی۔وہ اپنے کام میں منہمک تھا۔۔

سالار ۔۔۔ اس نے کچھ دیر بعد اسے مخاطب کیا۔

ہاں۔۔۔۔اسی طرح کام کرتے ہوئے اس نے کہا۔۔

تم اچھے انسان ہو ویسے،،،،، اسکی تعریف کرتے ہوئے وہ عجیب سی شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔

اچھا۔۔۔ وہ اسی طرح مصروف تھا۔امامہ کو لگا اس نے اسکی بات غور سے نہیں سنی۔۔میں نے تمہاری تعریف کی ہے۔۔اس نے دہرایا۔۔۔

بہت شکریہ۔۔۔اسکا لہجہ اب بھی اتنا ہی سرسری تھا۔۔۔۔

تمہیں خوشی نہیں ہوئی۔۔۔اسکا اتنا نارمل رہنا ہے۔۔امامہ کو ہضم نہیں ہوا تھا۔۔۔

کس چیز سے؟ وہ چونکا۔

میں نے تمہاری تعریف کی۔۔

اور میں نے تمہارا شکریہ ادا کردیا۔۔

لیکن تمہیں اچھا نہیں لگا؟ وہ کچھ متجسس تھی۔۔

کیا اچھا لگتا مجھے۔۔میری باتیں سن کر مجھے اچھا آدمی کہہ رہی ہو ۔عمل دیکھ کر کہتی تب خوشی ہوتی مجھے۔۔اور فی الحال میں ایسا کوئی عمل تمہیں پیش نہیں کرسکتا۔۔

امامہ بول نہ سکی۔وہ پھر اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ تھا۔

وہ کچھ دیر چپ چاپ اسکا چہرہ دیکھتی رہی اور پھر کہا۔

تم نے میرے ہاتھ سے وہ ڈرنک کیوں لی تھی؟ اسے اچانک یاد آیا تھا۔

کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم مجھے شوٹ کردو ۔۔۔وہ اسکے بے تکے جواب پر حیران ہوئی۔

یہ کیا بات ہوئی۔۔۔؟

شراب تھی وہ۔۔وہ ہل نہ سکی۔

سوری۔۔سالار نے سکرین سے نظریں ہٹاتے ہوئے اس سے معذرت کی۔امامہ کا رنگ اڑ گیا تھا۔ان پارٹیز میں ہارڈ ڈرنک بھی ہوتی ہے۔سوشل ڈرنک سمجھی جاتی ہے وہاں۔۔وہ سنجیدگی سے اسے بتاتے ہوئے دوبارہ سکرین کی طرف متوجہ ہوا۔

امامہ کا دل یکدم جیسے ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا۔اس نے زندگی میں پہلی بار شراب دیکھی تھی اور شراب ہاتھ میں لی تھی۔ اگر وہ سالار کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو شاید پی بھی لیتی۔اسکا شوہر ان پارٹیز میں جانے کا عادی تھا۔اور وہ وہاں کس حد تک اجتناب کرپاتا تھا۔کرتا بھی یا نہیں۔۔۔اسکا اعتماد پھر تڑخنے لگا۔

وہ چند ہفتوں میں کسی کا کردار نہیں جانچ سکتی تھی۔وہ بھی تب جب وہ اسے شادی کے اس پہلے مہینے میں مکمل طور پر متاثر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

چند لمحے پہلے دل میں سالار کے لیئے نمودار ہونے والا احترام سیکنڈز میں غائب ہوا تھا۔۔۔

وہ جس شیشے سے اسے دیکھ رہی تھی ۔وہ پھر دھندلا گیا۔اسکی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ سالار سے اگلا جملہ کیا کہے وہ اپنی ای میلز کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آٰئی۔دوسرے بیڈروم کے واش روم میں آکر وہ بے مقصد اپنا دایاں ہاتھ رگڑ رگڑ کر دھوتی رہی۔وہ احمقانہ حرکت تھی لیکن اس وقت وہ اپنی ڈپریشن ختم کرنے لے لیئے اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔وہ بے مقصد گھر کے ہر کمرے میں پھرتی رہی نیند اسکی آنکھوں سے مکمل غائب ہوچکی تھی۔

اللہ سکون کے آسمان کو اندیشوں کی زمین کے بغیر کیوں نہیں کھڑا کرتا۔ اس نے سوچا۔

وہ تاریکی اور سردی میں کتنی ہی دیر ٹیرس کی ریلنگ کے پاس کھڑی رہی وقت کا احساس ہی نہیں ہوا ۔

تم کیا کر رہی ہو یہاں؟ اپنے عقب میں سالار کی آواز نے اسکی سوچوں کے تسلسل کو توڑا ۔۔وہ کمرے سے اسکی طویل عدم موجودگی کی طنا پر اسے ڈھونڈتا ہوا یہاں آگیا تھا۔

میں۔۔۔۔امامہ نے چونک کر پلٹ کر اسے دیکھا۔۔میں نیچھے دیکھ رہی تھی۔

نیچھے کیا ہے۔۔سالار نے اسکے قریب آکر نیچھے جھانکا۔

نیچھے۔۔؟امامہ کو کو خود پتہ نہیں تھا۔

نیچھے۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔سالار نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔وہ اسے غائب دماغ لگی تھی۔۔۔یا پریشان۔۔۔

اندر چلیں؟ ۔۔وہ کچھ کہنے کی بجائے شال ٹھیک کرتے ہوئے اسکے ساتھ اندر آگئی۔

تم سو جاؤ میں تھوڑی دیر بعد آؤنگی۔۔اس نے اندر آتے ہوئے سالار سے کہا۔

میں کچھ دیر ٹی وی دیکھوں گی۔۔سالار ٹھٹک گیا۔

امامہ ریموٹ ہاتھ میں لیکر اب ٹی وی آن کر ررہی تھی۔شادی کے بعد پہلی بار وہ ٹی وی دیکھنے میں اتنی دلچسپی ظاہر کر رہی تھی۔

ٹی وی پر کوئی خاص پروگرام آرہا ہے؟ اس نے پوچھا۔۔۔

نہیں ویسے ہی دیکھوں گی۔امامہ نے اسکی طرف دیکھے بنا کہا ۔وہ چاہتی تھی کہ وہ چلا جائے۔

وہ جانے کی بجائے صوفے پر اسکے قریب آکر بیٹھ گیا۔اس نے امامہ کے ہاتھ سے ریموٹ لیکر ٹی وی آف کردیا۔

امامہ نے کچھ جز بز ہوکر اسے دیکھا۔

میں شراب نہیں پیتا امامہ۔۔میں یہ پھل چکھ چکا ہوں اسکا ذائقہ کیا ہے اسکا اثر کیا ہے میں دونوں سے واقف ہوں مجھے شراب میں کوئی غم ڈبونا ہے نا کسی سرور کی تلاش ہے میرے لیئے یہ ان گناہوں میں سے ایک ہے جسکو میں چھوڑ چکا ہوں۔تم ہر روز بس اللہ سے یہ دعا کیا کرو کہ وہ مجھے سیدھے رستے سے نہ بھٹکائے۔وہ اس سے سوال کی توقع کر رہی تھی جواب کی نہیں۔۔ وہ کسی سائکالوجسٹ کی طرح اسکا ذہن پڑھ رہا تھا۔

اب تمہیں ٹی وی دیکھنا ہے تو دیکھو۔۔ورنہ آکر سو جاؤ۔۔۔ گڈ نائٹ۔۔

اس نے ٹی وی آن کر کے ریموٹ امامہ کے ہاتھ میں دیا۔اور بیڈروم چلا گیا۔وہ اسے دیکھتی رہ گئی تھی ۔

************-------**--****

سالار کے ساتھ اس گفتگو نے اسکے لیئے بہت آسانی پیدا کرلی تھی۔دوبارہ ڈنر پر جاتے ہوئے امامہ نے وہاں آنے والے لوگوں کو نہیں جانچا تھا۔اس بار وہ اسے اتنے برے بھی نہیں لگے۔

تم کسی سے کوئی بات کیوں نہیں کرتی؟ وہ شاید چوتھا ڈنر تھا جب واپسی پر رات کو سونے سے قبل کپڑے تبدیل کرتے سالار نے اس سے پوچھا تھا۔۔وہ ناول پڑھتے ہوئے چونکی۔۔

کیسی بات؟

کوئی بھی بات۔۔وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔

جب کوئی مجھ سے کچھ پوچھتا ہے تو میں جواب دیتی ہوں۔۔

لیکن تم بھی تو کسی سے کچھ پوچھا کرو۔وہ ان پارٹیز میں اسکی مسلسل خامشی کو نوٹ کر رہا تھا۔

کیا پوچھا کروں۔۔۔

تم حال چال پوچھا کرو۔ پھر فیملی کے بارے میں پوچھا کرو بچوں کے بارے میں بات کرسکتی ہو۔فار گاڈ ایک امامہ عورتوں کو تو یہ بتانا نہیں پڑتا کہ انہوں نے آپس میں کیا باتیں کرنی ہے ۔وہ اسے بتاتے ہوئے کچھ سٹپٹا گیا۔

اچھا میں کوشش کروں گی۔اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔۔

میرا یہی سوشل سرکل ہے یہی لوگ بار بار ملیں گے تمہیں ۔ان ہی میں سے تم نے دوست بنانے ہیں۔۔

لیکن میں نے دوست بنا کر کیا کرنا ہے ۔اس نے دوبارہ ناول کھولتے ہوئے کہا سالار نے ہاتھ بڑھا کر ناول اس سے لے لیا

کتابیں اچھی ہوتی ہے لیکن ایک دنیا اسکے باہر ہے۔وہ بھی اچھی ہے۔وہ سنجیدہ تھا۔ وہ اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔

لوگوں سے چھپ چھپ کر بھاگ بھاگ کر اب بہت مشکل ہوگیا ہے دوبارہ انکے ساتھ چلنا۔۔وہ خود بھی سمجھ نہ پائی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔

اسی لیئے چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کیساتھ انٹرایکٹ کرو ۔اب ضرورت نہیں رہی چھپنے کی جہاں میں تمہیں لیکر جاتا ہوں وہاں تم میری فیملی ہو۔وہاں تم سے کوئی تمہاری فیملی کے بارے میں انویسٹی گیٹ نہیں کریگا۔۔وہ اسے سمجھا رہا تھا۔۔

اچھا میں کوشش کروں گی۔۔اس نے غیر محسوس انداز میں سالار سے کتاب لیتے ہوئے کہا ۔۔۔

بھابھی کے ہاں بھی جایا کرو۔ وہ اسے نوشین کے بارے میں کہہ رہا تھا۔

جاتی ہوں۔۔اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا ۔۔

وہ اسے چپ چاپ کچھ دیر دیکھتا رہا۔

اب اس طرح مت دیکھو مجھے۔امامہ نے اسکی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے گردن موڑ کر کہا۔میں نے کہا ہے نا میں کوشش کروں گی۔۔۔

وہ کچھ کہنے کی بجائے کمبل لیتا ہوا چت لیٹ گیا۔وہ دوبارہ کتاب پڑھنے لگی لیکن کچھ دیر بعد پھر اسے سالار کی نظریں خود پر محسوس ہوئی۔

اب کیا ہے۔۔اس نے کچھ جھنجھلا کر سالار کو دیکھا۔۔

کچھ نہیں۔۔۔امامہ نے اسکی نظروں میں عجیب سا تاثر محسوس کیا تھا۔وہ بہت سنجیدگی کے ساتھ کچھ سوچ رہا تھا

********-----*****----+***

عید کے دو ہفتے بعد اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں انکے ولیمہ کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔اگر سالار کی ضد نہ ہوتی تو سکندر کبھی اس تقریب لے لیئے اسلام آباد کا انتخاب نہ کرتے۔ولیمہ کی تقریب خاصی سادگی سے ہوئی ۔دوہزار کے قریب افراد کی موجودگی میں امامہ اتنا ہی غیر آرام دہ محسوس کر رہی تھی جتنا اسے کرنا چاہیئے تھا۔لیکن اسکے باوجود وہ خوش تھی۔وہ باقاعدہ طور پر سالار کی فیملی کا حصہ بن کر جیسے کسی چھت کے نیچھے آ گئی تھی۔

وہ ولیمہ لے بعد دو ہفتوں کے لیئے بہماس گئے تھے ۔پاکستان سے باہر سالار کیساتھ امامہ کا یہ پہلا سفر تھا۔ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ زندگی میں دوبارہ کبھی ان پندرہ دنوں جیسے پرسکون اور بے فکری کے دن انکی زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں آنے والے تھے۔۔ انکا رشتہ نیا تھا لیکن تعلق پرانا تھا۔ا

سالار کا فون انٹرنیشنل رومنگ پر تھا لیکن دن کا زیادہ وقت وہ آف رہتا تھا۔بنک اور ان سے متعلقہ کاموں کو اس نے پندرہ دنوں کے لیئے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا۔سالار بہماس پہلے بھی دو مرتبہ آچکا تھا۔وہ اسے لیکر ان تمام جگہوں پر جارہا تھا جہاں کی سی فوڈز مشہور تھی۔

ھم اپنے گھر میں اسطرح کا ایک رانچ بنائیں گے۔

سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ایک لمحے کے لیئے اسے مذاق لگا۔ لیکن وہ سنجیدہ تھی۔

کس پر بنائیں گے؟ سالار نے اسے جیسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی ۔

جھیل پر۔۔بلا کی سنجیدگی تھی۔

اور جھیل کہاں سے آئے گی۔۔۔وہ ہکا بکا تھا۔

وہ تم بناؤ گے نا۔۔وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔

اور اس جھیل میں پانی کہاں سے آئیگا؟

امامہ نے ایک لمحے کے لیئے سوچا۔۔۔۔ نہر سے۔ وہ ہنس پڑا لیکن امامہ نہیں ہنسی۔۔

پانی کی نہر نکالنا دودھ کی نہر نکالنے سے زیادہ مشکل ہے سویٹ ہارٹ ۔۔

اس نے امامہ کے کندھوں پر بازو پھیلایا۔۔امامہ نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔

تم نہیں بنا کر دوگے؟ وہ سوال نہیں تھا۔۔دھمکی تھی۔۔

ھم یہاں آجایا کرینگے بلکہ اگلے سال میں تمہیں ماریشس لیکر جاؤں گا۔پھر اس سے اگلے سال مالدیپ۔۔۔

امامہ نے اسکی بات کاٹی۔

تم نہیں بنا کردوگے جھیل۔۔۔

امامہ جھیل کیسے بنا کر دوں میں تمہیں۔۔ہاں یی ہوسکتا ہے کہ ھم کسی ایسی جگہ پر گھر بنائے جہاں قدرتی طور پر آس پاس اسطرح پانی ہو ۔سالار نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔۔

ہاں یہ ٹھیک ہے۔اس پر بروقت اثر ہوا تھا اور سالار نے جیسے سکھ کا سانس لیا۔۔

سالار تم بہت اچھے ہو ۔ امامہ نے اب اسکا ہاتھ پیار سے پکڑ کر کہا ۔۔

امامہ یہ بلیک میلنگ ہے۔سالار نے ہاتھ چھڑائے بنا گہرا سانس لیکر احتجاج کیا۔وہ اسکے جھوٹ کو اسکے گلے کی ہڈی بنا رہی تھی۔

ہاں۔۔۔ہے تو۔۔۔اس نے بڑے آرام سے کندھے اچکا کر ہنستے ہوئے کہا۔

وہاں دوبارہ امامہ نے باقی دن رانچ کا ذکر نہیں کی اور اس پر سالار نے اللہ کا شکر ادا کیا۔اسے امید تھی کہ وہ بھول جائیگی۔۔

واپس آنے کے چوتھے دن بعد اس نے فخریہ انداز میں سالار کو اس گھر کے نئے ڈیزائنز دکھائے۔وہ جھیل اور رانچ بھی اسکا حصہ بن چکے تھے۔۔وہ ہنی مون اسے بہت مہنگا پڑا تھا۔وہ دنیا کی پہلی بیوی تھی جس نے ہنی مون پر جھیل اور رانچ کی شاپنگ کی تھی۔۔اور وہ دنیا کا پہلا شوہر تھا جس نے اس شاپنگ پر اعتراض نہیں کیا تھا۔

انکے اپارٹمنٹ کی دیوار پر اب کچھ اور تصویروں کا اضافہ ہوگیا تھا۔جن میں ایک چیز کامن تھی۔انکے چہرے اور آنکھوں میں نظر آنے والی خوشی اور چمک اور انکے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ۔۔۔۔

وہ ایک دوسرے کے لیئے بنے تھے۔۔۔کم از کم وہ تصویریں ہر لحاظ سے یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔

زندگی آھستہ آھستہ اپنے معمول پر آرہی تھی۔سالار واپس آنے کیبعد مصروف ہوگیا ۔۔وہ بنک سے تقریباً دس بجے گھر آرہا تھا اور پہلے کی طرح گھر سے باہر کافی کے لیئے نکلنے کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیئے منقطع ہوگیا۔سالار کے اصرار کے باوجود وہ کھانے پہ اسکا انتظار کرتی تھی۔

وہ نوشین کیساتھ اب وقتاً فوقتاً گھر سے نکلنے لگی تھی۔۔اسکی زندگی کا دائرہ اب گھر سے باہر بڑھنے لگا تھا اور سالار اس چیز کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا

جاری

قسط نمبر 14۔۔۔۔

وہ اس دن چینل سرفنگ کر رہی تھی جب اسکی نظریں ایک چینل پہ ٹہر گئی۔چند لمحوں کے لیئے اسکو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا۔ وہ اسٹاک مارکیٹ کے حوالے سے کوئی پروگرام تھا ۔اور اس میں شامل دو شرکاء میں سے سالار بھی تھے ایک لمحے کے لیئے امامہ کو یقین نہیں آیا وہ سکرین پر سالار کو دیکھ رہی ہے لیکن چند لمحوں کیبعس سالار کا نام اور اسکا عہدہ سکرین پر چند لمحوں کے لیئے فلیش ہوا ۔۔

تو وہ مجھ سے جھوٹ بول رہا تھا۔ ۔۔۔؟امامہ نے اسکا عہدہ دیکھ کر سوچا۔۔وہ پی آر سے منسلک نہیں تھا لیکن اس وقت اسے سکرین پر دیکھتے ہوئے وہ اتنی ایکسائٹڈ تھی کہ اس نے سالار کے جھوٹ اور اسکے وجوہات پر غور ہی نہیں کیا ۔۔زندگی میں پہلی بار اس نے فنانس سے متعلق کوئی پروگرام اتنے شوق اور لگن سے دیکھا تھا۔ آدھ گھنٹا اس پروگرام میں اسے سنتے اور دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ بہت امپریسیو تھا ۔کمپوزڈ۔۔کانفیڈنٹ۔۔بے حد شارپ اور مکمل پروفیشنل ۔۔۔وہ زندگی میں پہلی بار اسکی شکل و صورت اور پرسنالٹی پر غور کر رہی تھی ۔۔اور پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اسکی آواز بہت اچھی ہے۔شادی کے دو ہی مہینے بعد اپنے شوہر کو ٹی وی پر دیکھتے ہوئے وہ بری طرح متاثر ہورہی تھی۔۔

سالار کسی پوسٹ لنچ میٹنگ میں تھا جب امامہ نے اسے کال کی میٹنگ ختم ہورہی تھی اس لیئے وہ کال لیتے ہوئے بورڈ روم سے باہر آیا ۔

سالار تم ٹی وی پہ آئے ہو؟ اس نے چھوٹتے ہی کہا۔

ایک لمحے کے لیئے سالار سمجھ نہ سکا۔۔۔

کیا؟

تم ٹی وی چینل پہ آئے تھے ایک پروگرام میں اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں۔۔

دوماہ پہلے ریکارڈ کیا تھا انہوں نے ریپیٹ کیا ہوگا۔۔ سالار کو یاد آگیا۔

تم کیا کر رہی ہو۔ اس نے موضوع بدلا لیکن امامہ کس حد تک متاثر تھی اس پروگرام سے اسکا اندازہ اسے گھر آکر ہی ہوا۔

میں نے اسے ریکارڈ کرلیا ہے۔وہ کھانا کھا رہے تھے جب امامہ نے اسے بتایا۔۔

کسے؟ وہ چونکا کیونکہ وہ کوئی اور بات کر رہے تھے۔۔۔

تمہارے اس پروگرام کو۔۔۔

اس میں ریکارڈ کرنے والی کیا بات تھی۔۔ وہ حیران ہوا۔۔۔۔

تم ٹی وی پر بہت اچھے لگ رہے تھے ۔ امامہ نے اسکی بات کا جواب دینے کی بجائے کہا۔۔۔۔

اور تم انویسٹمنٹ بنکنگ میں ہو ۔ پی آر میں نہیں۔۔امامہ نے اسے بتایا۔

وہ مسکرایا لیکن اس نے جواباً کچھ نہیں کہا۔۔۔

تم نے دیکھا ہے اپنا پروگرام؟

سالار نے کانٹا ہاتھ سے رکھتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔۔

سویٹ ہارٹ ایسے بہت سے پروگرامز ہوتے ہیں جن میں ہر روز بہت سارے ایکسپرٹس بلائے جاتے ہیں اس میں ایسی کونسی خاص بات ہے کہ اسکو بیوی کیساتھ بیٹھ کر دیکھا جائے۔۔اس سے پہلے بھی کئی پروگرامز میں آچکا ہوں اور آئندہ بھی کہی نہ کہی نظر آتا رہوں گا۔ یہ بھی میری جاب کا ایک حصہ ہے۔۔۔

وہ اسکا ہاتھ تھپک کر اب دوبارہ کانٹا اٹھا رہا تھا ۔ امامہ چند لمحے کچھ بول نہ سکی۔ اس نے جیسے ٹھنڈے پانی کا گلاس اس پر انڈیل دیا تھا ایسے وہ شرمندہ ہو رہی تھی۔۔۔۔

سالار سود حرام ہے نا۔۔۔

وہ خود سمجھ نہ پائی کہ اس نے سالار کی باتوں کے جواب میں یہ کیوں کہا۔۔۔شاید یہ اس شرمندگی کا رد عمل تھا۔

ہاں۔۔۔۔۔وہ کانٹے سے کباب کا ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوئے صرف ایک لمحے لے لیٰے ٹھٹکا۔۔

بلکل اسی طرح جس طرح جھوٹ حرام ہے۔ غصہ حرام ہے۔ غیبت حرام ہے۔منافقت تہمت اور بد دیانتی حرام ہے۔۔ وہ اطمینان سے کہہ رہا تھا ۔۔

میں ان چیزوں کی بات نہیں کر رہی۔

امامہ نے اسکی بات کاٹی ۔۔۔اس نے جواباً امامہ کی بات کاٹی۔۔۔۔۔۔۔

کیوں؟ کیا ان ساری چیزوں سے کیا معاشرے کو کم نقصان پہنچتا ہے؟ امامہ کو جواب نہیں سوجھا۔۔۔۔

تم جسٹی فائی کر رہے ہو سود کو۔۔۔۔۔؟ اس نے بلآخر کہا۔۔

نہیں میں جسٹی فائی نہیں کر رہا میں صرف یہ کہہ رہا تھا کہ ھم جز کو کل سے الگ نہیں کر سکتے۔اسلامی معاشرے کو سود اتنا نقصان نہیں پہنچا رہا جتنا دوسری خرابیاں۔وہ اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

میں اگر پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی پانچ خرابیاں بتاؤں اور کہوں ان میں سے کوئی ایک ختم کردو جس سے معاشرہ بہتر ہوجائے ۔۔ کرپشن کو غربت کو۔

نا انصافی کو بدیانتی یا سود کو تو میں شرط لگاتا ہوں امامہ یہ پانچواں آپشن کبھی بھی کسی کی پہلی ترجیح نہیں ہوگا۔وہ چیلنج کر رہا تھا اور وہ چیلنج جیت بھی سکتا تھا ۔کیونکہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا وہ بھی پہلی چار میں سے ہی ایک کو ختم کرنا چاہیں گی۔۔ امامہ بے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔۔۔

اور سود صرف بنکنگ میں تو نہیں ہے ۔ کوئی یوٹیلٹی بل لیٹ ہوجاتا ہے تو اس پر سرچارج لگ جاتا ہے۔۔ سکول کالج کی فیس لیٹ ہوجائے تو اس پر فائن لگ جاتا ہے۔۔۔ یہ بھی تو سود کی قسمیں ہیں۔

اسکے پاس اسکی توجیہات کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔

تو تم بنکنگ میں اس لیئے ہو کیونکہ تم سود کو دوسری برائیوں جیسی عام برائی سمجھتے ہو؟؟ امامہ نے بحث سمیٹنے کی کوشش کی۔

نہیں میں اسے بہت بڑی لعنت سمجھتا ہوں تو پھر میری سوچ میں کیا تبدیلی آئے گی۔یہ سوچ لیکر ساری دنیا کے مسلمان بنک میں کام کرنا بند کردے۔۔اور دوسرے مذاہب والوں کو کھلا راستہ چھوڑیں کہ وہ آئے اور ٹیک اوور کرے۔۔۔ھماری اکانومی کو اپنی مٹھی میں لے لیں۔جب چاہے جیسے چاہے ھمارا گلہ دبا دے۔

امامہ الجھی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔۔ سود کے بارے میں یہ انکی پہلی بحث تھی۔۔*****

*****************---*****

رمضان میں اور اسکے بعد امامہ کو کھانا پکانے کا کوئی خاص موقع نہیں ملا تھا۔لیکن اب وہ اسکے لئے باقاعدہ طور پہ گھر کا کھانا بنانے لگی۔وہ سی فوڈز کے علاوہ کسی خاص کھانے کا شوقین نہیں تھا۔سی فوڈز کو شدید ناپسند کرنے کے باوجود وہ ہفتے میں اسکے لیئے ایک ہا دو بار ڈبے میں بند سی فوڈز کی جگہ بازار سے تازہ سی فوڈ لاکر پکانے لگی۔

اتوار کا دن تھا اور وہ لنچ کی تیاریوں میں مصروف تھی ۔کسی دوست سے فون پر بات کرتے ہوئے سالار کو وہم سا ہوا تھا کہ وہ سنک کے سامنے کھڑی رو رہی ہے۔

ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی آف کرتے ہوئے اور دوست کو خدا حافظ کہتے ہوئے وہ صوفے سے اٹھ کر کچن میں آگیا۔سنک کے سامنے کھڑی وہ رو نہیں رہی تھی بلکہ زار و قطار رو رہی تھی۔۔۔ سالار کے چودہ طبق روشن ہوگئے ۔۔

کیا ہوا؟؟

نفی میں سر ہلا کر وہ اسی طرح اپنے کام میں مصروف رہی۔

سالار نے ہاتھ بڑھا کر سنک کا نل بند کردیا۔

کیوں رو رہی ہو تم؟؟ وہ واقعی سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔۔۔۔۔امامہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے ماں باپ کے گھر میں نے کبھی ان چیزوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔۔جنہیں اب مجھے دھونا پڑ رہا ہے۔۔۔پانی دوبارہ کھولتے ہوئے اس نے بھرائ آواز میں کہا۔۔

وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔اسکے گھر میں بھی سی فوڈز اتنے ہی شوق سے کھائے جاتے تھے لیکن وہ ان سے شدید قسم کی کراہت رکھتی تھی۔

سالار کو کچھ دیر سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے۔۔۔

میں نے تمہیں کب کہا ہے کہ مجھے یہ بنا کر دو۔۔

تم نے خود کہا تھا میں تمہیں سی فوڈ لا کر دوں گا اور تم آج یہ بنانا۔۔

سالار نے پھر کچھ خفگی سے پانی بند کردیا۔۔

چھوڑو مت بناؤ۔۔ اس نے سختی سے کہتے ہوئے وہ برتن سنک سے اٹھا کر شیلف پر رکھ دییے۔۔

یہ بات نہیں ہے۔۔ میں سوچ رہی تھی جب شوہر کو بنا کر کھلا سکتی ہوں تو ماں باپ کو بھی بنا کر کھلادیتی۔۔۔اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔۔

کیا رنج تھا۔۔۔ کیا پچھتاوا تھا ۔۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔۔

اسکے منع کرنے کے باوجود اس نے اس دن سی فوڈ ہی تیار کیا۔۔ لیکن اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر سالار کو اس قدر احساس جرم ہوا کہ وہ ٹھیک طرح کھانا بھی نہ کھا سکا۔۔

میں آہستہ آہستہ یہ سی فوڈ کھانا چھوڑ دوں گا۔ تمہیں یہ دوبارہ گھر پر نہیں بنانا پڑے گا۔۔۔

نہیں۔۔۔تمہیں پسند ہے تم کیوں چھوڑو گے۔۔پتہ نہیں مجھے ایسے ہی خیال آگیا تو۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ میری ناپسندیدگی کم ہوجائے گی۔۔۔

میں۔۔۔۔۔۔

امامہ نے اسکی بات کاٹ دی۔۔۔رہنے دو بس۔۔۔اگر کچھ چھوڑنا ہے تو یہ جو تم انرجی ڈرنکس وغیرہ پیتے ہو انہیں چھوڑ دو میں تمہیں کچھ فریش جوسز بنا کر دوں گی۔

وہ ہنس پڑا۔۔۔وہ واقعی ان ڈرنکس کا بہت عادی تھا اور اسکی بنیادی وجہ اسکا لائف سٹائل اور اسکا فروفیشن تھا۔۔اسکے سہارے وہ ساری رات آرام سے کام کیا کرتا تھا۔ وہ امامہ کے ہاتھ کے بنے کھانے کا عادی ہونے لگا تھا ۔امامہ اسکے رات کو بہت دیر سے گھر آنے پر بھی اسے تازہ چپاتی بنا کر دینے کی عادی ہ گئی تھی۔اور سالار نے زندگی میں ایسی چپاتی نہیں کھائی تھی۔ وہ ناشتے میں سلائس اور ایک انڈا کھا کر چائے کافی کے ایک کپ کے ساتھ بھاگ جانے والا آدمی تھا۔۔اور زندگی میں پہلی دفعہ ناشتہ کا کوئی مینیو ہونے لگا تھا انڈا تلے ہوئے یا ابلے ہوئے کی جگہ مختلف قسم کے آملیٹ ملنے لگے۔ بعض دفعہ پراٹھا ہوتا۔ ڈبے کی جگہ تازہ جوس کے گلاس نے لے لی تھی۔لنچ کے لیئے گھر کے بنے سینڈوچز اور سلاد ہوتے۔شروع شروع میں وہ امامہ کے اصرار پر کچھ بے دلی سے اس لنچ پیک کو گھر سے لاتا تھا لیکن آہستہ آہستہ اسکی ناخوشی ختم ہونے لگی ۔وہ گھر کا کھانا تھا۔۔ بہت ویلیوایبل تھا۔کیونکہ اسکو بنانے کے لیئے صبح سویرے اٹھ کر اسکی بیوی اپنا کچھ وقت صرف کرتی تھی ۔۔وہ پانی کے اس گلاس کا بھی اس طرح عادی ہونے لگا تھا جو ہر روز گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اسے دیتی تھی۔

میں دودھ نہیں پیتا۔۔۔۔جب اس نے پہلی بار گرم دودھ کا گلاس اسے دیا تو اس نے بیحد شائستگی سے اسے بتایا۔۔

کیوں؟ جواباً اس نے اتنی حیرت کا اظہار کیا کہ وہ شرمندہ سا ہوکر رہ گیا ۔

مجھے پسند نہیں ہے۔۔۔

مجھے تو بڑا پسند ہے ۔ تمہیں کیوں نہیں پسند۔۔

مجھے اسکا ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔

تو میں اسمیں اوولٹین ڈال دوں۔۔۔سالار نے اسکے جواب کو مکمل ہونے سے پہلے ہی گلاس اٹھا کر پی لیا۔وہ زہر پی سکتا تھا لیکن اوولٹین نہیں۔۔

اسکے اپنے گھر میں مردوں کا جسطرح خیال رکھا جاتا تھا وہ بھی اس کا اسی طرح خیال رکھ رہی تھی *****----

****-----*****-----***&---

امامہ کے لیئے زندگی بدل گئی تھی ۔ یا بہت عرصہ کیبعد پھر شروع ہوئی تھی۔۔سالار نے اس سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا وہ اس گھر کے سیاہ و سفید کی مالک تھی۔۔

یہ ناممکن تھا کہ ایسا شخص کسی کی دعاؤں کا حصہ نہ بنےاسے کبھی نماز کیبعد دعا کرتے ہوئے سالار کو یاد نہیں کرنا پڑا تھا۔۔۔۔

******************

آر یو شیور۔۔۔ تم اکیلے رہ لوگی ۔۔سالار اب بھی جیسے یقین دہانی چاہتا تھا۔۔

وہ دو ہفتوں کے لیئے نیویارک اپنے بنک کے کسی ورکشاپ کے سلسلے میں جا رہا تھا۔

میں رہ لوں گی۔۔۔ ویسے بھی فرقان بھائی اور بھابھی تو پاس ہی ہیں۔کچھ نہیں ہوتا۔۔۔اس نے سالار کو تسلی دی۔۔اسکی فلائٹ صبح گیارہ بجے تھی وہ اس وقت پیکنگ سے فارغ ہوا تھا۔

میرے بغیر رہ لو گی تم؟ اس نے امامہ کی بات سننے کے بعد کہا۔۔

ہاں دو ہی ہفتوں کی تو بات ہے۔امامہ نے بیحد اطمینان سے کہا۔۔۔

دو ہفتوں میں پندرہ دن ہوتے ہیں۔۔ سالار نے بریف کیس بند کرتے ہوئے کہا ۔۔

کوئی بات نہیں گزر جائیں گے۔۔

سالار نے گہرا سانس لیا۔ہاں تمہارے تو گزر جائینگے میرے نہیں گزریں گے میں تو ابھی اے تمہیں مس کرنے لگا ہوں یار۔۔ وہ ہنس پڑی۔۔۔

پہلے بھی تو جاتے ہو تم۔دو ہفتے پہلے دبئ گئے تھے۔پچھلے مہینے سنگاپور۔۔اس نے تسلی دینے والے انداز میں یاد دلایا۔

دو دن کے لیئے دبئ گیا تھا اور چار دن کے لیئے سنگاپور۔ یہ تو دو ہفتے ہیں۔۔

ہاں تو دو ہفتے ہیں نا۔ دو مہینے یا دو سال تو نہیں۔اس نے کمال اطمینان سے کہا ۔۔

سالار اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔

چلو اچھا ہے یہ بھی۔ نا میں یاد آؤں گا نا ہی نظر آؤں گا۔ نا میرا کوئی کام ہوگا۔۔وقت ہی وقت ہوگا تمہارے ساتھ۔۔وہ نجانے اس سے کیا سننا چاہتا تھا۔۔

ہاں کافی وقت ہوگا میں ایک دو پینٹنگز مکمل کرلوں گی ۔گھر کے کچھ اور کام ہے وہ بھی کرلوں گی ۔میں نے بہت کچھ پلان کیا ہوا ہے۔۔

اس نے ناول پکڑے اپنی جماہی روکنے کے لیئے منہ پہ ہاتھ رکھا۔۔ وہ ہنس پڑا تھا۔۔

تمہارے لیئے تو blessing in disguise ہوگیا ہے میرا ٹرپ۔۔میں نے تو سوچا ہی نہیں تھامیری وجہ سے تمہارے اتنے کام پینڈنگ ہورہے ہیں۔۔۔

اگر اسکے لہجہ میں گلہ تھا تو امامہ نے نوٹس نہیں کیا ۔۔

چلو یہ بھی اچھا ہے۔وہ بڑبڑایا۔۔

ویزی لگا ہوتا تو میں تمہیں لے جاتا. اسے پھر کچھ خیال آیا تھا۔۔

تم پریشان مت ہو میں یہاں پہ بلکل ٹھیک رہوں گی۔ امامہ نے فوراً سے پیشتر کہا۔ ۔

سالار جواب دینے کی بجائے چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔۔

کیا دیکھ رہے ہو۔۔امامہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔

تمہارا اطمینان۔۔۔۔

میں فلمی ہیروئنز کی طرح ڈائلاگ نہیں بول سکتی۔۔

صرف فلمی ہیروئنز ہی ڈائلاگ بولتی ہے؟

نہیں ہیرو بھی بولتے ہیں۔۔۔وہ اطمینان سے ہنسی. ۔۔سالار مسکرایا تک نہیں تھا۔ وہ پھر سنجیدہ ہوگئی۔۔۔

مت جاؤ پھر۔۔۔؟ اگر اتنا مس کر رہے ہو تو۔۔اس نے جیسے اسے چیلنج کیا.

پیار سے کہتی تو نہ جاتا. لیکن میں تمہارا کوئی چیلنج قبول نہیں کروں گا. ۔مجھے تم سے ہار پسند ہے۔۔وہ ہنسی.

تم بات بدل رہے ہو۔

نہیں خود کو تسلی دے رہا ہوں ۔۔چلو آؤ تمہیں کافی پلوا کر لاؤں۔۔۔

وہ یکدم بستر سے اٹھ کر بولا۔

اس وقت؟ را ت کے اس وقت امامہ تیار نہیں تھی ۔۔

ہاں ۔۔۔۔اتنے دن تک تو نہیں پلوا سکوں گا کافی۔۔۔وہ دراز سے والٹ اور کار کی چابیاں نکال رہا تھا

لیکن اب میں پھر کپڑے بدلوں؟

مت بدلو۔۔چادر لے لو یہی ٹھیک ہے۔۔۔

سالار نے اسکی بات کاٹی وہ اب سیل فون اٹھا رہا تھا۔۔۔۔

فورٹریس سے کافی پینے کے بعد وہ بے مقصد سٹیڈیم کے گرد ڈرائیو کرتا رہا۔۔

اب گھر چلیں۔۔تمہیں آرام کرنا چاہیئے۔۔امامہ کو اچانک خیال آیا۔۔

میں پلین میں آرام کروں گا۔۔

امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنا سنجیدہ اور گہری سوچ میں کیوں ڈوبا ہوا ہے۔۔واپس آتے ہوئے اس نے ایک دکان سے بہت سا پھل خریدا۔۔

تم یہاں نہیں ہو گے تو اتنا پھل خریدنے کی کیا ضرورت؟ امامہ حیران ہوئی تھی۔۔

تمہارے لیئے خریدا ہے۔ شاید پھل کھاتے ہوئے ہی تمہں میں یاد آجاؤں۔ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔

یہ پھل کھانے کے لیئے شرط ہے؟ وہ بے اختیار ہنسی۔۔

نہیں۔۔۔امید۔۔۔امامہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔

***--------*&******----****

اسے واقعی سالار کے جانے کیبعد دو دن کوئی مسلہ نہیں ہوا ۔سالار کی عدم موجودگی میں رات کا کھانا وہ فرقان کے ہاں کھایا کرتی تھی۔ دو دن تک تو وہ اطیمینان کیساتھ کھانا کھا کر گھر واپس آجاتی تھی پھر کوئی ناول نکال لیتی تھی۔اور سونے تک پڑھتی رہتی۔۔لیکن مسلہ تیسری رات کو ہوا تھا۔۔ اس دن سالار نے دن بھر اسے کوئی کال نہیں کی تھی اور اتنے مہینوں میں یہ پہلا دن تھا۔۔اس طرح سے نہ میسج نہ ہی کوئی ای میل آئی تھی۔وہ پچھلی رات سے بہت مصروف تھا۔اس نے اسے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ شاید اگلے چند دن وہ اس سے بات نہ کر سکیں۔۔

وہ اس رات فرقان کے ہاں کھانے پہ نہیں گئی۔اسکی بھوک غائب ہوگئی تھی۔اس دن اس نے کمپیوٹر مسلسل آن رکھا ہوا تھا۔ اس آس میں کہ شاید وہ اسے کوئی ای میل کردے۔۔

رات کو اس نے کافی کے لیئے کریم نکالنے کے لیئے فریج کھولا تو اس نے کیک کا وہ ٹکڑا دیکھاجو دو دن پہلے ایئرپورٹ جانے سے پہلے وہ کھاتے کھاتے چھوڑ گیا تھااور امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے کیک کا بچا ہوا ٹکڑا فریج میں کیوں رکھ چھوڑا تھا۔۔

کافی بنا کر وہ ٹیرس پر نکل آئی تھی جہاں وہ ویک اینڈ پہ اکثر بیٹھا کرتے تھے۔

تمہیں بچے اچھے لگتے ہیں؟؟ ایک دن وہاں کھڑے اس نے نیچھے کھیلتے اور شور مچاتے بچوں کو دیکھتے ہوئے سالار سے پوچھا تھا۔۔

ہاں۔۔۔۔۔لیکن اس طرح کے نہیں۔۔۔۔

وہ ہنس پڑی۔۔اسکا اشارہ شور کی طرف تھا۔۔

مجھے تو ہر طرح کے بچے اچھے لگتے ہیں۔۔۔شور کرنے والے بھی اس نے نیچھے جھانکتے ہوئے کہا.

گڈ فار یو بٹ آئی کانٹ سٹینڈ دم۔۔۔۔

سالار نے لاپرواہی سے کہا۔۔دوسروں کے بچے ہیں نا اس لیئے برے لگتے ہیں۔اپنے بچوں کا شور کبھی برا نہیں لگے گا تمہیں۔۔اس نے روانی سے کہا. ۔۔۔۔

بچے؟ ۔۔۔۔۔ایک بچہ کافی ہے۔۔وہ چائے پیتے پیتے اٹکا۔۔۔

امامہ نے چونک کر نیچھے جھانکتے دیکھا۔۔

ایک کیوں؟؟

تو کتنے ہونے چاہیئے۔ وہ سنجیدہ ہوا۔۔اس نے ایک لمحے کے لیئے سوچا۔ کم سے کم چار۔۔

اور زیادہ سے زیادہ بارہ۔۔۔سالار نے ہنستے ہوئے اسکے جملے میں اضافہ کیا تھا۔ وہ اسے مذاق سمجھا تھا۔

میں سیریس ہوں۔۔۔اس کی ہنسی رکنے پہ اس نے کہا۔۔

چار بچے۔۔۔تم حواسوں میں ہو۔۔سالار نے مگ منڈھیر پہ رکھ دیا۔

کون پالے گا انہیں؟ اسے بے اختیار تشویش ہوئی۔۔

تم اور میں۔۔۔اس نے اطمینان سے کہا۔۔

میں ایک بچہ پال سکتا ہوں چار نہیں۔۔۔

سالار نے ہاتھ اٹھا کر جیسے ختمی انداز میں کہا۔۔

ٹھیک ہے تم ایک پال لینا۔ تین میں پال لوں گی۔۔وہ اطمینان سے کہہ کر دوبارہ نیچھے جھانکنے لگی۔۔

امامہ۔۔میں سنجیدہ ہوں۔۔

اور میں بھی۔۔۔

ھم چار بچے افورڈ نہیں کرسکتے۔

میں تو کرسکتی ہوں۔ میرے پاس وہ پیسے ہیں جو ۔۔۔۔۔۔۔

وہ میں نے اس لیئے نہیں دیئے کہ تم انہیں بچوں کی فوج پہ انویسٹ کرو۔۔۔

سلالار نے جھنجھلا کر اسکی بات کاٹی۔۔۔

امامہ کو برا لگا وہ کچھ کہنے کی بجائے بے حد خفگی کے عالم میں پھر نیچھے دیکھنے لگی۔

سویٹ ہارٹ۔۔۔ھم کو،،،،، سالار نے اسکے کندھے کر گرد بازو پھیلا کر اسے منانے کی کوشش کی۔

ہاتھ ہٹاؤ۔۔۔۔امامہ نے اسکا ہاتھ جھٹکا۔۔

میں نے کیا کیا ہے؟ وہ جھنجھلایا ۔ تم چاہتی ہو میں گھر آفس سکول ڈاکٹرز اور مارکیٹوں کے چکر لگاتے لگاتے بوڑھا ہوجاؤں۔۔

تو تم کیا کرتے ہوئے بوڑھا ہونا چاہتے ہو۔۔تڑ سے جواب آیا تھا۔۔وہ لاجواب ہوگیا۔۔وہ خفگی بھری سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ رات کے وقت اپنے بچوں کو گھر میں کیوں نہیں رکھتے۔دوسروں کو دکھانے کے لیئے باہر کیوں لے آتے ہیں۔وہ اسکے سوال کا جواب دییے بغیر اپنا مگ اٹھا کر اندر چلا گیا۔۔۔امامہ کو بےاختیار ہنسی آئی تھی۔

وہ اب بھی ہنس پڑی تھی منڈیر کے اس نشان کو دیکھ کر نیچھے لان میں پھر وہی شور برپا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیوار کے ساتھ لگے اس رگ کو دیکھا جس پر وہ دیوار کیساتھ ٹیک لگا کر کبھی کبھار گٹار بجایا کرتا تھا۔۔

اسے احساس نہیں ہوا کہ اسکی کافی ٹھنڈی ہوچکی ہے۔وہ اسی طرح بھرا ہوا مگ لیکر واپس اندر آگئی۔۔۔*****

**********---************

فجر کے بعد وہ مسلسل کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی تھی۔کال نہیں تو کوئی ای میل ہی سہی۔اس نے وقفے وقفے سے اسے چار پانچ ای میلز کی تھی پھر وہ مایوس ہوگئی۔ جواب نہ آنے کا مطلب تھا کہ وہ ای میلز چیک نہیں کر رہا تھا۔

اگلے دن اداسی کا دورہ اور بھی شدید تھا۔۔۔اس دن نہ وہ کوئی پینٹنگ بنا سکی نہ ہی کوئی کتاب پڑھ سکی اور اس نے کھانا بھی نہیں پکایا۔فریج میں چند دنوں کا پڑا ہوا کھانا کھا لیا۔ شام تک وہ اگلے دن سعیدہ اماں کے ہاں جانے کا پروگرام بنا چکی تھی۔اسکا خیا تھا یہ تنہائی تھی جو اسے مضحمل کر رہی تھی۔وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ نو سال تنہا ہی رہی تھی اس سے زیادہ تنہا۔۔ اس سے زیادہ برے حالات میں۔۔۔

اس دن اسے سالار کی تین لائنوں کی ایک ای میل ملی تھی اور ان تین لائنوں کو اس نے رات تک کم از کم تین سو بار پڑھا تھا۔۔۔

Hi sweetheart! How are you? This workshop has really nailed me down, how is your painting going? Love you,,,,,

ان تین جملوں کی ای میل کے جواب میں اس نے ایک لمبی ای میل کی تھی جس میں اسے اپنی ہر ایکٹیویٹی بتائی تھی۔ایک کے بعد دوسرا۔۔۔ دوسرے کے بعد تیسرا جھوٹ۔۔وہ اسے یہ کیسے کہہ دیتی کہ وہ اداس ہے۔پھر وجہ پوچھتا وہ۔۔تو وہ اسے اپنی اداسی کی کیا وجہ بتاتی۔۔۔۔****----***---**-***-+--**--*****

بیٹا چیرہ کیوں اترا ہوا ہے تمہارا؟ کوئی پریشانی ہے؟ جھگڑا کر کے تو نہیں گیا سالار تمہارے ساتھ؟ سعیدہ اماں نے اسکے چہرے پر پہلی نظر ڈالتے ہی اپنے سوالوں سے اسے بوکھلا دیا۔۔۔

نہیں،،، نہیں کچھ بھی نہیں ہوا۔۔بس ایسے ہی گھر میں اکیلی تھی شاید اس لیئے۔۔۔۔

اس نے مصنوعی مسکراہٹ سے اسے بہلایا لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئی۔۔

امامہ نے کپڑوں کا بیگ کمرے میں رکھنے کے فورا بعد ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو دیکھا۔۔وہ واقعی بہت پریشان لگ رہی تھی۔کوئی بھی اسکا چہرہ با آسانی سے ہڑھ سکتا تھا ۔۔۔۔اگلے دس منٹ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر وہ اپنے تاثرات کو ریلیکس کرنے کی کوشش کرتی رہی ۔ مسکرا کر گہرے سانس لیکر چہرے کے تاثرات کو نرم رکھ کر پھر جیسے زچ ہوکر اس نے ہار مان لی۔

جہنم میں جائے۔۔۔اب لگتی ہوں پریشان تو کیا کروں۔۔۔کتنا مسکراؤں میں۔۔۔۔؟

پھر وہ باہر نکل آئی۔۔سونا یہاں بھی مشکل تھا۔۔۔ اداسی یہاں بھی ویسی ہی تھی۔۔

اتنی چپ تو تم پہلے کبھی نہیں رہی تھی بیٹا۔۔۔اب کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔۔؟ اگلی شام تک سعیدہ اماں یقینی طور پہ فکرمند ہوگئی تھی ۔۔۔حالانکہ اس دن صبح سالار سے اسکی بات بھی ہوئی تھی۔۔۔

تم سالار کیساتھ خوش تو ہو نا؟ وہ تشویش سے پوچھ رہی تھی اور وہ انکا چہرہ دیکھنے لگی۔۔اداسی بری طرح بڑھی تھی ۔مسلہ خوشی کا نہیں تھا۔۔مسلہ یہ نہیں تھا کہ وہ اسکے ساتھ خوش ہے یا نہیں۔۔۔بات صرف اسکے ساتھ رہنے کی تھی ۔۔خوش یا اداس جیسے بھی ہو لیکن اسکے ساتھ ہی۔۔۔۔

اس نے سعیدہ اماں کو جواب دینے کی بجائے موضوع بدل دیا۔۔وہ دو دن وہاں رہ کر پھر اسی بے چینی کے عالم میں واپس آئی تھی۔۔

لیکن تم نے تو کہا تھا کہ تم میرے آنے تک وہی رہو گی۔۔۔سالار اسکی واپسی پر حیران ہوا۔۔

میری مرضی۔۔۔۔وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی لیکن معلوم نہیں اس نے یہ کیوں کہا۔۔

اوکے۔۔۔۔وہ جواب پر حیران ہوا تھا۔۔

مجھے نیویارک سے ورکشاپ کے ختم ہونے کے بعد یہیں سے دو ہفتے کے لیئے کینیڈا جانا ہے۔۔

سالار نے اسے اگلی خبر سنائی۔۔۔

کیا مطلب۔۔۔۔

جو کولیگ مانٹریال والی کانفرنس اٹینڈ کر رہا تھا اسے کوئی میڈیکل ایمرجنسی ہوگئی تھی۔۔فوری طور پر مجھے کانفرنس میں جانے کے لیئے کہا گیا ہے کیونکہ میرے پاس ویزہ بھی ہے اور میں قریب بھی ہوں۔۔۔

وہ صدمے سے بول ہی نہ سکی دو ہفتے اور باہر رہنے کا مطلب تھا کہ وہ عید کے ایک ہفتے بعد واپس پاکستان آتا۔۔

ہیلو۔۔۔۔۔سالار نے اسکی لمبی خاموشی پر لائن پر اسکی موجودگی چیک کی۔۔۔

یعنی عید کے بعد آؤ گے تم؟

اس نے اپنے لہجے کی مایوسی پر قابو پاتے ہوئے سالار کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ عید قریب ہے۔۔۔

ہاں۔۔۔یک حرفی جواب آیا تھا۔۔یقیناً اسے یاد تھا۔۔

اور میں عید پر کیا کروں گی؟

اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بات کرے اس سے۔۔مایوسی کی انتہا تھی۔۔جسکا وہ اس وقت شکار ہورہی تھی۔ایک ہفتے کا انتظار تیب ہفتوں میں تبدیل ہوگیا تھا۔۔اور تین ہفتے کے لیئے اس اپارٹمنٹ میں اکیلا رہنا ۔۔۔۔ اسے سالار پر غصہ آنے لگا تھا۔۔

تم اسلام آباد چلی جانا عید پر۔۔سالار نے کہا۔۔

نہیں۔۔۔میں یہی رہونگی۔۔اس نے بلاوجہ ضد کی۔۔

ٹھیک ہے یہی رہنا۔۔سالار نے با آسانی گھٹنے ٹیک دیئے۔

تمہیں کیوں بھیج رہے ہیں۔۔۔۔بھیجنا تھا تو پہلے ہی کہنا چاہیئے تھا نا اسے۔۔۔

اسے اب بنک والوں پر غصہ آرہا تھا۔۔

ایسی ایمرجنسی ہو جاتی ہے کبھی کبھار وہ کسی اور کو اتنے شارٹ نوٹس پر پاکستان سے نہیں بھیج سکتے۔۔ورنہ مجھے کہا بھیجنا تھا انہوں نے۔۔۔سالار نے وضاحت کی۔۔

پھر بھی۔۔۔۔تم کہہ دیتے کہ تم مصروف ہو۔۔تمہیں ان دنوں پاکستان میں کوئی کام ہے۔۔۔۔وہ ہنس پڑا۔۔۔

لیکن مجھے تو کوئی کام نہیں ہے۔۔۔۔میں جھوٹ بولتا؟؟

امامہ کو غصہ آیا۔۔زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا کیا؟

نیور۔۔۔اپنے کام میں؟ ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اس نے اطمینان سے کہا۔امامہ کچھ بول نہ سکی۔۔

تم ایسا کرو ڈاکٹر صاحب کے گھر چلی جاؤ۔ اتنے دن اکیلی رہوگی تو بور ہوجاؤ گی۔۔

نہیں۔۔میں بور نہیں ہونگی مجھے یہاں بڑے کام ہیں۔۔وہ اسکے مشورے پر کچھ چڑ سی گئی۔

سالار کو اسکی ٹون نے حیران کیا تھا۔ وہ اس طرح کبھی بات نہیں کرتی تھی اور ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ بے حد خوشگوار اور پرجوش انداز میں بات کر رہی تھی پھر یکدم اسے کیا ہوگیا۔۔ وہ امامہ سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن فوری طور پہ اس نے موضوع بدلنا بہتر سمجھا۔۔

اپ سیٹ ایک چھوٹا لفظ تھا اس کیفیت لے لیئے جو وہ اس وقت محسوس کر رہی تھی ۔وہ بے حد غم و غصہ میں تھی۔ آخر وہ اسے چار ہفتے کا کہہ کر تو باہر نہیں گیا تھا۔۔وہ بعد میں ان تیس دنوں کے ایک ایک گھنٹے کو گننے لگی۔۔

میں بھی اب اسے ای میل نہیں کرنگی۔ نہ ہی کال کروں گی۔ نہ ہی اس سے پوچھوں گی کہ اس نے کب آنا ہے اور کب نہیں۔۔ آتا ہے تو آئے نہیں تو نہ آئے۔۔جہنم میں جائے میرا ہی قصور ہے۔۔بار بار اس سے نہ پوچھتی تو اس طرح نہیں کرتا وہ۔۔۔

اس رات بستر پر لیٹے ہوئے وہ بے حد رنجیدگی کے عالم میں ان تمام چیزوں کی فہرست بناتی رہی جن میں اسے اب سالار کی نافرمانی کرنی تھی۔ بستر پر لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے اسکی فہرست ابھی دو سو پچپن اینٹریز تک پہنچی تھی لہ اسے بیڈ کے بلکل اوپر چھت پر چھپکلی نظر آئی ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔اکیلا گھر اور چھپکلی ۔یہ فی الحال اسکے لیئے بد ترین تھا۔۔وہ چھپکلی کو دیکھ کر ہی بیڈ سے اٹھ کر صوفے پر چلی گئ اور سے پھر سالار پر غصہ آنے لگا تھا۔۔ایک چھوٹی سی چھپکلی دو ہفتے پہلے اپارٹمنٹ میں نمودار ہوئی تھی ۔۔

وہ اس وقت بیڈ سائڈ ٹیبل لیمپ آن کیئے ناول پڑھ رہی تھی جو بے حد دلچسپ موڑ پہ تھا جب بستر پہ نیم دراز ہو کہ اپنی ٹانگیں سکیڑے ہوئے اسکی نظریں اچانک چھت پر اپنے بیڈ کے بلکل اوپر موجود چھپکلی پر پڑی ۔سالار برابر والے بستر پر گہری نیند سو رہا تھا ۔وہ عام حالات میں اسے کبھی نہیں جگاتی لیکن یہ اسکے لیئے عام حالت نہیں تھی۔۔اس نے اوندھے لیٹے سالار کا کندھا جھنجھوڑا۔۔

سالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔سالار۔۔۔۔۔۔۔وہ نیند میں اسکی آواز پر ہڑبڑا گیا۔۔

کیا ہوا؟؟

وہ اوپر دیکھو۔۔۔میرے بیڈ کے اوپر چھت پر چھپکلی ہے۔۔

امامہ نے حواس باختہ ہوکر اسے کہا۔۔

سالار نے موندی ہوئی آنکھوں کو مسلتے لیٹے لیٹے ایک نظر چھت کو دیکھا۔۔پھر امامہ کو۔۔اور دوبارہ اوندھے منہ لیٹ گیا۔۔

سالار۔۔۔۔۔امامہ نے دوبارہ اسکا کندھا ہلایا۔۔۔۔

اسکا خیال تھا کہ وہ شاید نیند میں وہ چھپکلی دیکھ نہیں پایا تھا۔۔

دیکھ لی ہے میں نے امامہ۔۔سونے دو۔۔وہ لیٹے لیٹے بڑبڑایا۔۔۔

دیکھ لی ہے تو کچھ کرو اسکا۔۔۔وہ اسکی بے توجہی پر ناراض ہوئی۔۔

چلی جائے گی خود ہی۔۔تم لائٹ آف کر کے سو جاؤ۔۔۔وہ پھر بڑبڑایا۔۔

میں کیسے سو جاؤں وہ مجھے دیکھ رہی ہے ۔اسکی خفگی بڑھی۔۔۔

لائٹ بند کردو۔۔نہ تم سے دیکھو نہ وہ تمہیں دیکھے۔۔۔

اسے اسکے مشورے سے زیادہ اسکی بے حسی پہ غصہ آیا۔۔

تم میرے لیئے ایک چھپکلی نہیں مار سکتے ۔

میں رات کے اڑھائی بکے چھپکلی نہیں مار سکتا۔۔جسٹ اگنور اٹ۔۔۔

میں نہیں اگنور کرسکتی اسے۔۔۔یہ اگر گرے تو سیدھا میری ٹانگوں پہ گرے گی۔۔اس نے چھت کو دیکھتے ہوئے بے بسی سے کہا۔

یار میں تمہاری سائڈ پہ آجاتا ہوں تم میری سائڈ پہ آجاؤ۔۔

وہ کروٹ لیتے کہتا ہوا اسی طرح اسکی سائڈ پر چلا گیا۔وہ اسکے ایثار سے زیادہ اسکی دلیری سے متاثر ہوئی تھی۔کمرے کی بڑی لائٹ بند کرتے ہوئے وہ اپنا ناول لییے سالار کا بیڈ سائڈ ٹیبل لیمپ آن کر کے اسکے بستر میں بیٹھ گئی۔سالار تب تک اسی طرح اوندھے منہ لیٹے لیٹے اسکا سئڈ لیمپ آف کرچکا تھا۔۔خود کو قدرے محفوظ پاتے ہوئے کچھ پرسکون انداز میں اس نے ناول کے چند جملے پڑھے پھر دوبارہ چھکلی کو دیکھا۔۔وہ جیسے اسی جگہ پر چپک کر رہ گئی تھی۔۔۔۔امامہ نے سالار کو دیکھا۔۔وہ اس چھپکلی کے عین نیچے بے حد اطمینان سے اسی طرح کمبل اوڑھے اوندھے منہ لیٹا تھا۔۔

سالار۔۔۔۔۔۔تم مرد کتنے بہادر ہوتے ہو۔۔۔اس نے مردوں کو سراہنا ضروری سمجھا۔۔۔

اور سمجھدار بھی۔۔اسے جواباً بڑبڑاہٹ سنائی دی۔

سمجھدار کیسے؟ وہ صفحہ پلٹتے پلٹتے چونکی. ۔۔۔

چھپکلی گرتی تمہارے بیڈ پر لیکن بھاگتی میرے بیڈ لی طرف۔۔اسکا منہ میرے بیڈ کی طرف ہے۔۔جماہی لیتے اسی طرح آنکھیں بند کییے ہوئے سالار نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا۔۔

امامہ نے سر اٹھا کر چھت کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ بیڈ سے باہر تھی۔۔چھپکلی کا رخ واقعی سالار کے بیڈ کی طرف تھا۔۔۔

تم سارے مرد بے حد خود غرض ہوتے ہو اور ایک جیسے ہوتے ہو۔۔

وہ بیڈروم سے باہر نکلتے ہوئے جتنی بلند آواز میں یہ اس سے کہہ سکتی تھی اس نے کہا۔۔۔۔

سالار نے بلآخر آنکھیں کھول دی تھی۔۔وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔۔۔لیکن اسے اندازہ ہوا کہ تنگ کرنے کے لیئے شاید یہ موقع غلط تھا۔۔

دس منٹ بعد اسے چھپکلی کا صفایا کرنے کی اطلاع دیکر وہ اسے منا کر لاؤنج سے واپس لے آیا تھا۔اس نے اگلے کئی دن یہ چھپکلی نہیں دیکھی تھی اور آج یہ چھپکلی پھر آگئی تھی۔۔یقیناً اس نے جھوٹ بولا تھا اس نے اس چھپکلی کو نہیں مارا تھا۔۔ وہ احمقانہ بات اس وقت اسکے لیئے ایک اور پوائنٹ ہوگیا تھا۔۔۔

اگلے دن فون پر اس نے سالار کو اس چھپکلی کے نمودار ہونے کا بتایا۔۔

تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ تم نے اسے مار دیا تھا۔۔اس نے چھوٹتے ہی سالار سے کہا۔۔

میں نے اسے واقعی مار دیا تھا۔یہ کوئی اور چھپکلی ہوگی۔۔سالار نے لاپرواہی سے کہا۔۔۔۔۔

نہیں یہ وہی چھپکلی تھی ۔تم نے اگر اسے مارا ہوتا تو تم مجھے دکھاتے۔۔وہ اپنی بات پر مصر تھی۔

سالار کا سر گھوم کر رہ گیا۔۔وہ امامہ سے اس سے زیادہ احمقانہ گفتگو کی توقع نہیں رکھ سکتا تھا۔۔

تم اگر کہتی تو میں تمہیں وہ مری ہوئی چھپکلی بھی دکھا دیتا۔۔۔اس نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔۔

نہیں یہ وہی تھی میں اسے پہچانتی ہوں۔۔۔

اگر یہ وہی تھی تو اتنے دن سے کہاں تھی۔۔۔

اس نے ایک ال لوجیکل چیز پر لاجک دینے کی کوشش کی۔۔

جہاں بھی تھی مجھے نہیں پتا لیکن تم یہی چاہتے تھے کہ میں پریشان ہوں۔

سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔۔ وہ اس الزام کے جواب میں کیا کہتا۔امامہ کو کچھ ہوا تھا۔۔لیکن کیا ہوا تھا اسے سمجھ نہیں آئی۔۔

تمہیں پتہ ہے مجھے چھپکلی سے ڈر لگتا ہے لیکن تم پھر بھی اسے یہاں چھوڑ کر گئے۔کیونکہ تمہیں احساس نہیں ہے میرا۔۔تم مجھے پریشان دیکھ کر خوش ہوتے ہو ۔تمہارے لیئے ہر چیز مذاق ہے۔۔اسکی کسی بات کا کوئی سر پیر نہیں تھا ۔۔وہ اسکی گفتگو سنتا رہا۔۔

تم ھمیشہ میرے ساتھ ایسا کرتے ہو اور مجھے پتا ہے تم نے ھمیشہ اسی طرح کرنا ہے۔۔کیونکہ تمہارے لیئے صرف تمہاری اپنی اہمیت ہے اور میں تمہارے گھر کی نوکرانی ہوں۔۔۔۔تم جہاں مرضی پھرو لیکن میں ھمیشہ گھر پہ رہوں جیسے غلام رہتے ہیں۔۔۔میں سا را دن کام کروں اور تم میرے لیئے ایک چھپکلی نہیں مار سکتے۔۔اس بے ربط گفتگو کے اختتام پر وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔

ساری گفتگو میں ایشو کیا تھا ۔چھپکلی کا نہ مارا جانا، اسکی خود غرضی۔۔اسکے گھر پہ نہ ہونا یا وہ سارے کام جو اسے کرنے پڑ رہے تھے۔۔وہ سمجھ نہ سکا ۔۔

اگلے پانچ منٹ وہ تحمل سے اسکی ہچکیاں رکھنے کا انتظار کرتا رہا۔۔اور پھر بلآخر طو فا ن جب تھم گیا تو اس نے کہا۔۔آئی ایم سوری میرا قصور تھا۔میں فرقان سے کہتا ہوں وہ ملازم کو بھیجے وہ چھپکلی کو مار دے گا۔فی الحال معذرت کے سوا اسے صورت حال سے نبٹنے کا اور کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔۔

نہیں۔۔۔اب میں چھپکلی کے ساتھ رہو گی تاکہ تمہیں پتا چلے۔۔۔اس نے ناک رگڑتے ہوئے اس سے کہا۔۔سالار کو بے اختیار ہنسی آگئ تھی جسے اس نے کھانس کر اس پہ قابو پالیا۔۔وہ جلتی پر تیل نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔امامہ کا مسلہ کیا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔

فرقان کے ملازم نہیں اس دن آ کر چھپکلی کو مار دیا تھا۔لیکن اس چیز نے بھی امامہ کے دل میں ممنویت کو پیدا نہیں کیا تھا۔۔

اگلے دن کھانا پکاتے ہوئے اسکے ہاتھوں پر چھری سے کٹ لگ گیا۔۔سنک میں پانی کے نیچھی انگلی رکھے وہ پھر اسے یاد آنے لگا۔۔

یہ کیا ہوا ہے۔۔ ؟

وہ اس دن آفس سے آنے کے بعد لاؤنج میں ٹہلتے ہوئے فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔امامہ ڈنر کے لیئے برتن لگا رہی تھی۔۔وہ بات کرتے ٹہلتے ہوئے کچن کاؤنٹر پہ پڑے پیالے سے کچھ بیینز کھا رہا تھا جب امامہ نے وہاں آکر رکھے ہوئے چاول اٹھائیں۔۔سالار نے اسکے ہاتھ کی پشت پر چند آبلے دیکھے ۔فون پر بات سنتے سنتے اس نے بے اختیار اس سے کہا۔۔

کیا ہوا؟؟ ۔۔۔۔۔۔

یہ؟؟ امامہ نے چونک کر اسکی نظروں کے تعاقب میں اپنا ہاتھ دیکھا۔۔

کچھ نہیں ۔ ۔کھانا بنا رہی تھی تو آئل کے کچھ چھینٹیں گر گئے۔۔اس نے لاپرواہی سے بتایا۔۔۔۔

وہ اسی طرح فون پر بات سنتے ہوئےاسکا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا۔۔۔پھر اس کا ہاتھ چھوڑ کر اسی طرح فون پر بات کرتے لاؤنج سے غائب ہوگیا۔۔وہ فریج سے پانی نکال رہی تھی جب وہ دوبارہ نمودار ہوا۔۔اس نے فون پر سٹاک مارکیٹ کے کسی ایشو پر بات کرتے ہوئے اس نے امامہ کا ہاتھ پکڑ کر چند لمحوں میں اس پر مرحم لگایا اور پھر اسی طرح دوبارہ چلا گیا۔۔وہ ہل نہ سکی تھی۔اتنے سالوں میں اسکے کسی زخم پہ رکھا جانے والا یہ پہلا مرہم تھا۔۔

کھانا کھاتے ہوئے سالار کی نظر ایک بار پھر اسکے ہاتھ پر پڑی تھی اور اس نے قدرے خفگی کے عالم میں اس سے کہا۔

اگر اسی وقت کچھ لگا لیتی تو یہ آبلے نہ پڑتے۔

مجھے اس سے تکلیف نہیں ہوئی۔

مگر مجھے تکلیف ہو رہی ہے سویٹ ہارٹ۔۔۔

وہ اس سے نظریں ملا کر جواب نہ دے سکی۔اسے یقین تھا کہ اسے تکلیف ہو رہی ہوگی اور اس مرحم سے زیادہ ٹھنڈک اسکے اس جملے نے پہنچائی تھی اسے، تو اب کوئی تھا جسے اسکے ہاتھ پہ آنے والے ایک معمولی زخم پر بھی تکلیف ہوتی تھی۔۔

وہ درد کے احساس سے جیسے دوبارہ آشنا ہورہی تھی اور اب اتنے مہینوں بعد یہ پہلا کٹ تھا جسکے بارے میں اس سے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔اور اسے یہ پوچھنے والا ایک بار پھر بری طرح یاد آیا تھا۔۔

دوسرے ہفتے کے اختتام تک وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بری طرح جھنجھلانے لگی تھی۔۔مازمہ کیساتھ، مالی کیساتھ، اسکے گھر آنے والے فرقان کے بچوں کیساتھ اور خود سالار کیساتھ۔۔۔

ًامامہ۔۔۔۔۔۔۔کیا ہورہا ہے تمہیں؟۔۔سب ٹھیک ہے نا؟ سالار کو بلآخر اس سے ڈائریکٹ ہوکر پوچھنا پڑا۔

کیا ہونا ہے مجھے۔۔۔وہ اسکے سوال پر بری طرح چڑی۔۔۔

وہی تو پوچھ رہا ہوں۔۔اس نے تحمل سے کہا۔۔۔

کچھ نہیں ہورہا ہے مجھے۔۔۔۔۔

پھر تم۔۔۔۔۔وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔۔۔۔یہ کہنا ذرا مشکل تھا کہ وہ اسکے ساتھ تلخ ہورہا تھا۔۔

پھر میں کیا؟۔۔۔۔امامہ نے اسکے خاموش ہونے پر پوچھا۔۔

کچھ نہیں۔۔۔میں ابھی دو تین دن تک تمہیں فون نہیں کر سکوں گا۔۔

کیوں؟؟ وہ بری طرح بگڑی۔۔۔اتنا بھی کیا کام ہے کہ تم مجھے چند منٹ کے لیئے بھی کال نہیں کر سکتے۔۔۔

میں تمہیں ای میل کردیا کروں گا۔۔اگر وقت ملا تو کال بھی کروں گا۔۔ وہ اسے تحمل سے سمجھا رہا تھا۔۔

تمجھے ای میل بھی نہ کرو۔۔اس سے اور بھی وقت بچے گا تمہارا۔۔۔۔

اس نے بے حد خفگی کے عالم میں فون بند کردیا ۔اسے سالار پہ بری طرح غصہ آرہا تھا۔۔چند منٹوں بعد دوبارہ کال آنے لگی تھی۔وہ کال ریسیو نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ریسیو کرنا پڑی۔۔

تم نے فون بند کردیا تھا۔۔۔وہ حیرانی سے پوچھ رہا تھا۔۔

ہاں۔۔۔۔۔

کیوں؟؟

تاکہ تمہارا وقت ضائع نہ ہو۔میں نے کل ایک میگزین میں پڑا تھا کہ جن مردوں کو احساس کمتری ہو وہ اپنی بیویوں کو اپنی جھوٹی مصروفیت کے قصے سناتے رہتے ہیں۔۔سالار نے کچھ ہکا بکا ہوکر اسکا جملہ سنا تھا۔۔۔

تاکہ انکی بیویوں کو یہ امپریشن ملے کہ وہ کتنے اہم ہیں۔۔اور یہ دنیا اسکے بنا نہیں چل سکتی۔ سالار نے اسی اچھنبے میں اسکے باقی جملے بھی سنے۔۔اس سے انکی سیلف اسٹیم بڑھتی ہے۔۔۔

اس نے آخری جملہ کہہ کر کچھ دیر کے لیئے سالار کے رد عمل کا انتظار کیا۔۔وہ خاموش تھا۔۔

ہیلو۔۔امامہ کو حدشہ ہوا کہ شاید کال ڈراپ ہوگئ ہے۔۔۔

میں سن رہا ہوں۔۔اس میگزین میں بس اتنا لکھا تھا؟

وہ سنجیدہ لگ رہا تھا لیکن بات سنجیدہ نہیں تھی۔

ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گڈ۔۔۔ڈینٹسٹ کے پاس گئ تھی تم؟ اس نے بات بدلی۔۔

امامہ لی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوا۔وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اس سے بحث کرنا چاہتی تھی۔

دو گھنٹے بعد اس نے دو ہفتوں پر پراگرام چارٹ اسے ای میل کردی۔اس ڈاکومنٹ کو پڑھنے میں اسے پندرہ منٹ لگے۔یہ ای میل اسے کس جملے کی وجہ سے کی گئ تھی اسے اندازہ تھا لیکن اسکے باوجود اس نے کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔۔

تم نے فرقان کے گھر ڈنر پہ جانا کیوں چھوڑ دیا؟ سالار نے اس دن اس سے پوچھا۔۔

میری مرضی۔۔۔

وہ کہنا چاہتی تھی کہ ڈنر ٹیبل پر فرقان یا اسکی بیٹی کو دیکھتے ہوئے اسے وہ یاد آتا ہے اور ہر روز ڈنر کے بعد کچھ اور زیادہ اپ سیٹ ہوجاتی تھی لیکن وہ یہ سب نہ کہہ سکی۔

میں جانتا ہوں تم بہت بہادر ہو اکیلی رہ سکتی ہو ڈنر تو تمہارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، پھر بھی انکے گھر چلی جاتی تو کوئی ایکٹیویٹی ہوتی تمہارے پاس اس ناولز لے علاوہ۔۔۔

تمہیں کیا پرواہ ہے ۔۔اس نے سالار کے جملے پر جز بز ہوکر کہا۔۔

مجھے تمہاری پرواہ ہے۔۔یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھنا چھوڑ دو۔۔وہ سنجیدہ تھا۔۔

تم نے مجھے نصیحتیں کرنے کے لیئے فون کیا ہے؟ وہ جھنجھلائی ۔

ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو کرتے رہو۔۔۔۔

تم پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔۔ یہی کہنا چاہتی ہو تم۔۔

تم باہر جاکر مجھ سے مس بیہیو کرنے لگے ہو۔۔

کیا۔۔۔؟؟۔۔سالار کو لگا جیسے اس نے سننے میں کوئی غلطی کردی ہو۔۔

میں بار بار نہیں دہرا سکتی اپنی بات۔اس نے سردمہری سے کہا۔۔۔

میں مس بیہیو کر رہا ہوں تمہارے ساتھ؟؟ اس نے بے یقینی سے پوچھا۔۔

ہاں۔۔۔۔۔۔جواب بلکل دو ٹوک تھا۔۔سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔۔۔

میں اگر تمہیں کوئی عقل کی بات سمجھاتا ہوں تو میں مس بیہیو کرتا ہوں تمہارے ساتھ؟؟

اب تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں بے وقوف ہوں؟ سالار کا دماغ گھوم گیا۔۔

میں نے کب کہا تم بیوقوف ہو؟ ۔۔۔۔

اب تم مجھ کو جھوٹا کہہ رہے ہو۔۔۔وہ بے بسی سے ہنس پڑا ۔

کیا ہوا ہے تمہیں امامہ۔۔۔۔

اب تم کہہ دو کہ میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔۔

پانی پیو ۔۔

کیوں پیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا مت پیو۔۔۔ موسم کیسا ہے باہر کا۔۔۔

وہ اب موضوع بدلنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔مگر وہ امامہ کے رد عمل پہ بری طرح حیران تھا۔۔

امامہ! کوئی پریشانی ہے تمہیں؟؟ وہ اگلے دن نوشین کیساتھ اسکے کہنے پہ فورٹریس آئ تھی۔جب چلتے چلتے نوشین نے اچانک اس سے پوچھا۔وہ بری طرح چونکی۔۔۔پھر مسکرانے کی کوشش کی۔۔

نہیں۔۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔۔کیوں۔۔۔

پھر اس طرح کیوں گم صم ہو؟

نہیں میں۔۔۔۔میں کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔

سالار کیساتھ تو بات ہوتی ہے تمہاری۔۔کوئی جھگڑا تو نہیں ہے۔۔۔

نہیں تو۔۔۔روز بات ہوتی ہے۔۔۔اس نے بے اختیار مسکرانے کی کوشش کی اور ڈسپلے پر لگے ایک سوٹ کی طرف نوشین کو متوجہ کیا۔۔۔وہ اسے یہ کیسے بتاتی کہ یہاں اسکے ساتھ پھرتے ہوئے سالار کتنا یاد آرہا ہے۔۔

میگزین میں آج تم نے کچھ نہیں پڑھا ان مردوں کے بارے میں جو احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔۔اور اپنی بیویوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟؟ سالار نے اگلے دن فون پہ بات کرتے ہوئے اسے چھیڑا۔۔۔

امامہ کا موڈ بری طرح آف ہوا۔۔

تم کیا کہنا چاہ رہے ہو کہ ایسے مرد نہیں ہوتے اور میں فضول بات کرتی ہوں۔۔

میں مذاق کر رہا تھا امامہ۔۔وہ کچھ محتاط ہوا۔۔۔

ایک سنجیدہ بات کو مذاق میں لے رہے ہو تم،،،،،،

کونسی سنجیدہ بات؟ امامہ! تم آجکل کونسے میگزین پڑھ رہی ہو ۔۔وہ کہے بغیر نہ رہ سکا۔۔

تمہیں اس سے کیا۔۔۔وہ مزید بگڑی۔۔۔

اگر تم مجھے اس طرح کے اسٹوپڈ ایکسرپٹس سناؤ گی تو میں پوچھوں گا تو سہی نا۔۔۔

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے بحث کرنے لگا تھا۔۔اب تقریباً ہر روز یہی کچھ ہورہا تھا۔۔پچھلے چار دن سے فون کال کے اختتام پر اسے معذرت کر کے فون بند کرنا پڑ رہا تھا۔۔اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ امامہ کو کیا ہوا ہے؟ وہ ناراض پہلے بھی ہوتی تھی مگر اس طرح کی باتوں پہ نہیں ہوتی تھی۔

جاری





قسط نمبر 15

سالار اگر اسکے بنتے بگڑتے موڈ کو سمجھ نہیں پا رہا تھا تو وہ بھی خود کو نہیں سمجھ پارہی تھی۔۔وہ سارا دن اسکے بارے میں سوچ سوچ کر اداس ہوتی تھی اور اس بات کرتے ہوئے وہ بلاوجہ اس سے جگھڑتی۔

اسے اس پر شدید غصہ آتا تھا اور کیوں آتا تھا یہ اسکی سمجھ سے باہر تھا۔

وہ سارا دن ٹی وی آن کییے ہوئے اسکی کال کے انتظار میں بیٹھی رہتی تھی یا پھر کمپیوٹر آن کر کے پرانے ای میلز پڑھتے ہوئے کسی نئے ای میل کا انتظار کرتی۔۔۔چند لائنوں والی ای میلز جن میں وہ انکا حال پوچھتا تھا درجنوں بار پڑھتی تھی اور پھرایک لمبا چوڑا جواب لکھ کر اسکی ای میل کے انتظار میں ساری ساری رات اسکی چیزیں نکال کر صاف کرتے ری ارینج کرتی رہتی تھی۔پھر اسکے کولیکشن میں موجود چارلی تھیرون کی موویز دیکھتی تھی۔یہ واقعی بے بسی کی حد تھی۔اسے اب وہ ایکٹریس بھی بری لگنا بند ہوگئ تھی جسکو وہ پہلے سالار کے سامنے دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔ہر روز کھانے کی ٹیبل پر وہ اسکے بھی برتن لگادیتی۔یہ جیسے کھانے کی ٹیبل پہ اپنی تنہائی دور کرنے کی کوشش تھی۔۔

عید کے لیئے اسلام آباد جانے تک گھر کی اس خاموشی اور تنہائی نے اسے مکمل طور پر حواس باختہ کردیا تھا۔۔۔

اسلام آباد سے آنے کے بعد بھی اس نے خود کو بہتر محسوس نہیں کیا تھا۔۔سالار کی پوری فیملی میں سے صرف عمار اور یسریٰ عید منانے کے لیئے وہاں موجود تھے۔۔

سالار نے طیبہ کو اسکی عید کی شاپنگ کرنے کے لیئے کہا تھا۔۔وہ بڑے بجھے دل کیساتھ انکے ساتھ چلی گئی تھی۔۔

اسلام آباد آکر یہ بھی پہلی بار ہوا تھاکہ اس نے گیسٹ روم کی کھڑکی سے لگ کر اپنے گھر والوں میں سے کسی کے نظر آنے کا انتظار بھی نہیں کیا تھا۔۔

عید کی صبح پیلے کی طرح اس بار بھی سالار کی کال سے اٹھی۔۔وہ مانٹریال میں اپنا سیشن ختم کرکے کچھ دیر پہلے ہوٹل آیا تھا۔۔

کونسے کپڑے پہن رہی ہو تم آج؟ اس نے مبارکباد دینے کے بعد اس سے پوچھا۔۔

تمہیں بتانے کا فائدہ؟ اس نے بیڈ کے کراؤن کیساتھ پشت ٹکاتے ہوئے کہا۔۔

میں تصور کرنا چاہ رہا ہوں کہ تم کیسی لگ رہی ہو گی۔۔۔

میرے سامنے کبھی تم نے میرے کپڑوں کو غور سے دیکھا تک نہیں، اب وہاں بیٹھ کر کیا تصور کروگے۔

امامہ ھم کم از کم آج آرگیو نہیں کرینگے۔۔۔سالار نے مداخلت کرتے ہوئے جیسے پیشگی جنگ بندی کا اعلان کردیا۔۔۔۔ تمہیں کیا چاہیئے آج؟؟ فلاورز اور کیک تو ممی سے میں نے کہا ہے تمہارے لیئے کچھ اور چاہیئے؟؟

نہیں۔۔۔۔وہ بے حد اداس تھی۔۔۔

مجھے مس تو نہیں کر رہی تم۔۔۔سالار نے مذاق کیا تھا۔۔لیکن اس نے جیسے اسکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔اسکی آنکھوں میں آنسووں کو سیلاب امڈ آیا تھا۔۔اس نے اپنی آستین کیساتھ آنکھوں کو رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔وہ اسکی خاموشی پر غور کییے بغیر بات کر رہا تھا۔کینیڈا میں عید پہلے ہوچکی تھی اور وہ عید کے دن بھی کانفرنس اٹینڈ کرتا رہا۔۔۔

کب کی فلائٹ ہے تمہاری؟ اس نے کوشش کی تھی کہ اسکی آواز بات کرتے ہوئے نہ بھرائے۔ وہ بڑی شرمندگی محسوس کرتی اگر وہ یہ جان جاتا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اب اسے فلائٹ کا بتا رہا تھا۔۔

تم نے مجھے کپڑوں کا کلر نہیں بتایا۔۔سالار کو بات کرتے کرتے یاد آیا۔۔تم نے ممی کے ساتھ جاکر کپڑے لیئے تھے؟

ہاں لیئے تھے۔۔۔۔۔جو آج پہنوں گی وہ ہیزل گرین ہے۔۔

ہیزل گرین؟؟ وہ بے اختیار اٹکا۔۔وہ تو آنکھیں ہوتی ہیں۔۔۔

آنکھوں کا کلر ہوتا ہے ۔ھمیشہ کی طرح اس نے تصحیح کی۔۔۔

اووہ۔۔۔۔۔آج میں جینیفر کی آنکھوں کو غور سے دیکھوں گا۔۔۔اس نے ڈنر پر اپنی کسی ساتھی کا نام لیا۔۔۔

کیوں؟؟

اسکی آنکھوں میں مجھے اپنی بیوی کے کپڑوں کا کلر نظر آئے گا۔۔وہ سنجیدہ تھا۔۔۔۔۔وہ بے اختیار ہنس پڑی۔۔۔۔

امامہ۔۔۔جب سے میں یہاں آیا ہوں تم پہلی بار ہنسی ہو۔۔سالار نے اسکی ہنسی کو نوٹس کیا۔۔۔اور شادی کے بعد اتنے مہینوں میں یہ پہلا کلر ہے جسے تم نے شناخت کیا ہے اور وہ بھی کسی عورت کی آنکھوں کی وجہ سے۔۔۔

تم جیلس ہو رہی ہو۔۔وہ ہنس پڑا۔۔

ہاں بس اب ایک یہی تو کام رہ گیا ہے میرے کرنے کو۔۔۔

اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔۔

یعنی نہیں ہورہی یا نہیں ہوسکتی۔۔۔۔

وہ ہوچھ رہا تھا اور وہ جواب نہ دے سکی اسکی خاموشی پر وہ ہنسا۔۔

اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔۔وہ جزبز ہوئی۔۔۔

اہنی خوش فہمی پر ہنسا ہوں۔کم از کم تم کسی عورت سے میرے لیئے جیلس نہی. ہوسکتی۔

وہ اسے تنگ کر رہا تھا اور وہ جانتی تھی اسکا اشارہ رمشہ کی طرف تھا۔۔

تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ کب آ رہے ہو؟

اس نے بات بدلنا بہتر سمجھا۔۔

وہ عید کے دوسرے دن رات کی فلائٹ سے واپس لاہور آگئ تھی۔ کیونکہ اگلی رات آٹھ بجے کی فلائٹ سے وہ آرہا تھا۔وہ زود رنجی اور حساسیت جو پچھلے چار ہفتوں سے اسے ناخوش رکھے ہوئے تھی وہ یکدم غائب ہوگئ تھی۔

اور چار ہفتے کے بعد بلآخر اس نے کیک کا وہ ٹکڑا اور کین ڈسپوز آف کردیئے۔۔۔

اگر فرقان کو سیدھا ہسپتال سے ایئرپورٹ نہ جانا ہوتا تو وہ خود اسے ریسیو کرنے چلی جاتی وہ کچھ اتنی ایکسائٹڈ ہورہی تھی۔۔

نو بج کر پینتالیس منٹ پر بلآخر ڈور بیل بجی۔ اسے دروازے تک پہنچنے میں سیکنڈز لگے تھے۔۔

خدایا۔۔کیا خوشی اسے کہتے ہیں جو اس شخص کے چہرے پر پہلی نظر ڈالتے محسوس کی میں نے۔۔۔اس نے دروازہ کھول کر ڈور ہینڈل پر اپنا کپکپاتا ہاتھ رکھے سالار کو دیکھ کر اچھنبے سے سوچا.

فرقان سے باتیں کرتا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ سیدھا ہوا اوران دونوں کی نظریں ملیں۔۔۔وہی گرمجوش مسکراہٹ جسکی وہ عادی تھی۔وہ اسے دیکھتے ہی چند لمحوں کے لیئے جیسے ساکت ہوگئ۔۔

امامہ۔۔۔سامان کی ڈیلیوری دینے آیا ہوں چیک کرو۔۔کوئی بریکج یا ڈیمج تو نہیں۔۔۔فرقان نے ایک سوٹ کیس کھینچ کر اندر لیجاتے ہوئے اسے چھیڑا۔۔سالار مسکرایا تھا۔

امامہ نے سلام کا جواب دینے کی کوشش کی تھی لیکن اسکے گلے میں کوئی گرہ لگنے لگی تھی۔ بات یہی تک ہوتی تو ٹھیک تھی لیکن آنکھوں میں پانی کیسے اور کیوں آگیا تھا۔وہ آگے بڑھا اور ھمیشہ کی طرح اسے گلے لگایا۔۔جیسے وہ آفس سے آنے کی بعد لگایا کرتا تھا۔۔ بے اختیار آنسووں کا ایک اور ریلہ آیا۔۔۔یہی تو وہ ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔۔۔یہی نرم لمس۔۔اپنے گرد یہی بازوؤں کا حصار۔۔

کیسی ہو تم۔۔وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔گلے گرہیں اور بڑھ گئ۔ اس نے اب اسکو خود سے الگ گیا اور اسکا چہرہ اور آنسو دیکھے۔۔

کیا ہوا؟؟ وہ ٹھٹکا۔۔۔اور سوٹ کیس اندر لیجاتے ہوئے فرقان نے پلٹ کر دیکھا۔

میں ابھی۔۔۔۔ابھی سلاد کے لیئے پیاز کاٹ رہی تھی۔ اس نے کچھ گھبراہٹ میں مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئےبھرائ آواز میں کہا۔۔۔پھر شاید خود ہی اسے بہانہ کمزور لگا۔وہ سر میں کچھ درد تھا۔اور فلو تھا۔۔ فرقان کی مسکراتی نظروں سے وہ کچھ گڑبڑائی۔

سالار نے فرقان کو نظرانداز کیا اور ایک بار پھر اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔تو یار کوئی میڈیسن لینی چاہیئے تھی۔۔

کوکنگ رینج پہ کچھ رکھ کے آئی ہوں ۔۔وہ رکے بنا کچن میں چلی گئی۔

اسکے سامنے کھڑے رہ کر اس سے نظریں ملا کر جھوٹ بولنا مشکل ہوگیا تھا۔۔سنک میں چہرے پر پانی کے چھینٹے مار کر اس نے کچھ پانی پیا. آواز کی تھرتھراہٹ صرف اس سے ختم ہوسکتی تھی۔

بیٹھو کھانا کھا کر جاؤ نا۔۔۔وہ جب لاؤنج میں آئی تو سالار فرقان سے کہہ رہا تھا۔

نہیں۔۔۔اس وقت نہیں۔۔کھانے پہ انتظار کر رہے ہونگے بچے۔ کچھ دنوں بعد چلیں گے کہی ڈنر کے لیئے۔۔۔وہ بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولا۔۔سالار دروازے تک اسے چھوڑنے گیا۔وہ کچن میں آکر کھانا اور برتن لگانے لگی۔۔

وہ دروازے سے واپسی پر کچن میں سیل فون پر بات کرتے ہوئے آیا ۔فون پر سکندر تھے۔ امامہ نے اسے کچن کاؤنٹر پہ رکھے پانی کی بوتل کو کھولتے دیکھا. فون کندھے اور کان کے بیچ دبائے اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا۔۔امامہ نے اسکے گلاس کی طرف جانے سے پہلے ایک گلاس لاکر اسکے سامنے کاؤنٹر پہ رکھ دیا۔سالار سے بوتل لیکر اس نے گلاس میں اسکے لیئے پانی ڈالا۔۔

سالار نے سکندر سے بات کرتے ہوئے سر کے اشارے سے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر پانی کی گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔۔

پاپا خیریت پوچھ رہے ہیں تمہاری۔۔

فریج کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ مسکرائی۔

میں اب ٹھیک ہوں۔۔سالار نے اسکے جملے پر غور کیے بغیر سکندر تک اسکا جملہ پہنچا دیا۔۔

کاؤنٹر پر پڑے سلاد میں سے سیب کا ایک ٹکڑا ٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے وہ اسی طرح سکندر سے بات کرتے ہوئے کچن سے نکلا۔۔امامہ نے اسے ٹیرس کا دروازہ کھول کر پودوں پر نظر دوڑاتے دیکھا۔۔ٹیبل پر برتن رکھتے ہوئے اسکی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی آنے لگی۔ ایک مہینہ بعد یہ جگہ اسے گھر لگی تھی۔بات محبت کی نہیں بلکہ عادت کی تھی اور وہ اسکی عادی ہوچکی تھی اور بعض دفعہ عادت محبت سے بھی زیادہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔۔۔

اسے اچانک خیال آیا کہ وہ کھانا کھانے سے پہلے کپڑے تبدیل کریگا بیڈروم جاکر وی اسکے لیئے کپڑے نکال کر واش روم میں لٹکا کر آئی۔

وہ واش روم سے نکل رہی تھی جب وہ بیڈروم میں داخل ہوا۔

میں شاور لیکر کھانا کھاؤں گا۔۔اس نے جیسے اعلان کیا۔۔

میں نے تمہارے کپڑے اور ٹاولز رکھ دیئے ہیں اور یہ میں تمہارے لیئے نئے سلپرز لیکر آئی تھی ۔۔وہ سلپرز کا ڈبہ شوریک سے نکالتے ہوئے بولی۔

رہنے دو امامہ میں خود ہی نکال لوں گا۔۔۔

ریسٹ واچ اتارتے ہوئے اس نے امامہ کو منع کیا۔۔اسے کبھی بھی کسی دوسرے کا اپنا جوتا اٹھانا پسند نہیں تھا۔وہ جانتی تھی۔۔لیکن اسکے منع کرنے کے باوجود میں سلپرز نکال لائی تھی۔۔

کچھ نہیں ہوتا۔۔اس نے سلپرز اسکے پاس رکھ دیئے۔

وہ اب بیڈ پر بیٹھا اپنے جوتے اور جرابیں اتار رہا تھا اور وہ بے مقصد اسکے پاس کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔سالار نے کچھ حیرانی سے نوٹس کیا تھا۔۔

یہ یلو کپڑے تم نے میرے انتظار میں پہنے ہیں؟ اس نے جرابیں اتارتے ہوئے امامہ کو چھیڑا۔۔وہ بے وجہ ہنسی۔۔وہ مسٹرڈ کو یلو کہہ رہا تھا۔۔لیکن آج اس نے تصحیح نہیں کی ۔

نائس سلپرز۔۔۔اس نے سلپرز پہنے امامہ سے کہا۔۔

میں رکھ لیتی ہوں۔۔۔امامہ نے جوتے اور جرابیں اس سے لینے کی کوشش کی۔

کیوں یار۔۔پہلے کون رکھتا تھا۔۔سالار نے کچھ حیرانی سے اسے روکا۔۔امامہ رک گئی۔۔

امامہ نے بیڈ سائڈ ٹیبل پر اسکی رسٹ واچ اور سیل فون کو دیکھا۔ ہر خالی جگہ بھرنے لگی تھی۔۔ جبتک وہ نہا کر آیا امامہ کھانا لگا چکی تھی۔۔سالار نے ڈائننگ ٹیبل پہ نظر ڈالتے ہی بے اختیار کہا۔۔

امامہ کیا کیا پکا رکھا ہے یار۔۔۔

جو جو تمہیں اچھا لگتا ہے۔۔اس نے سادگی سے کہا۔۔

مجھے۔۔؟ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے ٹیبل پر ڈشز دیکھ کر جیسے سوچ میں پڑا۔۔

تم نے اپنا وقت ضائع کیا۔۔

کوئی اور وقت ہوتا تو وہ ہورے دن کی محنت پر بولے جانے والے اس جملے سے سخت ناراض ہوتی۔۔لیکن اس وقت اسے کچھ بھی برا نہیں لگ رہا تھا وہ اتنی ہی سرشار تھی۔۔۔

میں نے اپنا وقت تمہارے لیئے استعمال کیا۔۔اس نے مدھم آواز میں سالار کی تصحیح کی۔۔۔

لیکن تم تھک گئی ہوگی۔۔۔

نہیں۔۔۔کیوں تھکوں گی میں۔۔۔اس نے چاولوں کی ڈش سالار کی طرف بڑھا دی۔۔

سالار نے اسکی پلیٹ میں ہمیشہ کی طرح پہلے چاول ڈالے۔۔اپنی پلیٹ کے کونے میں پڑے ان چاولوں کو دیکھ کر اسکا دل بھر آیا تھا۔۔وہ اب اپنی پلیٹ میں چاول ڈال رہا تھا۔ ایک مہینے لے بعد وہ اسکے اتنے قریب بیٹھی تھی۔ کھانا سرو کرتے ہوئے اسکے ہاتھ دیکھ رہی تھی سفید شرٹ کی آستینیں موڑے اسکے ہاتھوں نے ھمیشہ کی طرح اسکو اپنی طرف متوجہ کیا۔

پینٹنگز مکمل ہوگئ ہیں تمہاری؟ وہ کھانا شروع کرتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا۔۔

کون سی پینٹنگز ؟اس نے بے خیالی سے کہا۔۔وہ ٹھٹکا۔۔

تم بنا رہی تھی نا کچھ۔۔۔اس نے اسے یاد دلایا۔۔۔

یہ بھی لو۔۔اس نے جواب دینے کی بجائے ایک اور ڈش اسکی طرف بڑھا دی۔

ڈر تو نہیں لگا تمہیں یہاں اکیلے رہتے ہوئے؟ اس نے پوچھا۔۔

کھانا اچھا ہے؟ امامہ نے ایک بار پھر جواب گول کیا۔۔

ھمیشہ اچھا ہوتا ہے ۔وہ مسکرایا۔۔۔

کتنے ناولز پڑھے تم نے؟ وہ اب ہوچھ رہا تھا۔۔۔

یہ چوپس بھی ہیں۔۔اس نے ایک اور ڈش سرو کی۔۔

تمہاری فلائٹ ٹھیک رہی۔۔

ہاں اوور آل کچھ بمپی رہی لیکن ٹھیک ہی تھی۔۔۔

اور کانفرنس بھی اچھی رہی؟؟

ایکسیلنٹ۔۔۔اس نے بے اختیار کہا۔۔

کیا روٹین تھی تمہاری؟ وی اسے موضوع سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔۔۔

میری روٹین۔۔۔۔۔وہ سوچ میں پڑی۔۔۔

ہاں کیا کیا کرتی تھی سارا دن۔۔وہ اب چپاتی کا ٹکڑا توڑتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔

جو پہلے کیا کرتی تھی۔۔اس نے نظریں چرا کر ایک اور ڈش اسکی طرف بڑھا دی۔۔

لیکن تب تو بہت زیادہ وقت ہوتا ہوگا تمہارے ساتھ۔۔

بلکل۔۔۔ساری شام۔۔۔ساری رات۔۔۔۔

پھر تو عیش ہوگئے ہونگے تمہارے؟ اپنی پلیٹ میں قورمہ نکالتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا۔۔

امامہ نے جواب دینے کی بجائے اپنی پلیٹ کو دیکھا جس میں چیزوں کا ڈھیر اسی طرح پڑا تھا۔ اس سے کچھ کھایا نہیں جارہا تھا۔۔۔

تم سعیدہ اماں کو یہاں لے آتی۔۔۔سالار نے یکدم اس سے کہا۔۔اسے پتا نہیں کیا خیال آیا تھا۔

میں نے کہا تھا ان سے لیکن تمہیں تو پتا ہے انکا وہ اتنے دنوں کے لیئے اپنا گھر نہیں چھوڑ سکتی۔اس مے جوب دیا۔

دیٹس انڈرسٹینڈیبل۔۔۔سالار نے کھانا کھاتے ہوئے بے اختیار ایک نوالہ اسکی طرف بڑھایا۔۔وہ آخری لقمہ ھمیشہ اسے کھلاتا تھا۔۔ایک لمحے کے لیئے وہ ٹھٹکی پھر اس نے لقمہ منی میں لے لیا۔لیکن اسے چبا نہ سکی۔ وہ لقمہ جیسے آخری حد ثابت ہوا۔۔ وہ بے اختیار رو پڑی۔۔وہ پانی پیتے پیتے یکدم رک گیا۔۔

کیا ہوا؟ وہ ہکا بکا تھا۔ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ کر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتی گئ۔

کیا ہوا ہے امامہ۔۔وہ بری طرح بدحواس ہوا۔۔کم از کم اس وقت اس طرح کی گفتگو کے دوران آنسو؟ وہ اسکی وجہ تلاش نہیں کرسکا۔۔

ایک دفعی آنسو بہہ جانے لے بعد سب کچھ آسان ہوگیا تھا۔۔

فارگاڈ ایک ۔۔تم پاگل کردو گی مجھے۔۔کیا ہوا. ؟ سب کچھ ٹھیک رہا میرے بعد؟ کسی نے تمہیں پریشان تو نہیں کیا؟ وہ اب مکمل طور پر حواس باختہ تھا۔۔ ٹشو پیپر سے آنکھیں رگڑتے ہوئے امامہ نے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے سر ہلایا۔

تو پھر کیوں رو رہی ہو۔۔سالار مطمئن نہیں ہوا۔

ایسے ہی بس میں تمہیں بہت مس کرتی رہی اس لیئے۔۔وہ کہتے کہتے پھر رو پڑی۔۔

سالار کو لگا جیسے اس نے سننے میں غلطی کی ہو۔۔۔

کس کو مس کیا؟؟

تمہیں۔۔۔اس نے سر جھکا کر روتے ہوئے کہا۔۔وہ چند لمحوں کے لیئے ساکت ہوگیا۔۔

مجھے کس لیئے؟ یہ بے یقینی کی انتہا تھی۔۔

وہ روتے روتے ٹھٹکی۔۔اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر بے حد خفگی کے عالم میں ٹیبل سے اپنی ڈنر پلیٹ اٹھاتی ہوئ کچن چلی گئی۔۔

میرا دماغ خراب ہوگیا تھا اس لیئے۔۔۔وہ کچھ بول نہ سکا۔۔۔

وہ اب برتن اٹھا اٹھا کر لے جارہی تھی اور سالار بلکل ہونق سا پانی کا گلاس ہاتھ میں لیئے اسے اپنے سامنے سے برتن اٹھاتے دیکھ رہا تھا۔۔وہ اسکے رونے سے کبھی اتنا حواس باختہ نہیں ہوا تھا جتنا اس چھوٹے سے اعتراف سے ہوا. ۔۔۔۔

وہ چار ہفتے باہر رہ کر اسکے جس رویے کو سمجھنے کی کوشش میں ناکام ہوا تھا وہ اب سمجھ آرہا تھا۔۔اسکے لیئے یہ ناقابل یقین تھا کہ امامہ اسے۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔وہ کچن میں ادھر ادھر جاتے ہوئے اسی طرح آنکھیں رگڑتی ہوئی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔۔

وہ گلاس ٹیبل پر رکھ کر کچن آگیا تھا ۔وہ فریج سے سویٹ ڈش نکال رہی تھی۔۔سالار نے اسکے ہاتھ سے دونگا پکڑ کر کاؤنٹر پہ رکھ دیا۔ کچھ کہے بغیر اس نے اسے گلے لگایا۔۔بڑی نرمی سے یوں جیسے تلافی کر رہا ہو۔۔معذرت کر رہا ہو۔۔وہ خفگی سے الگ ہونا چاہتی تھی اسکا ہاتھ جھٹکنا چاہتی تھی لیکن بے بس تھی۔۔برسات پھر ہونے لگی۔۔وی اسکی عادتیں خراب کر رہا تھا۔۔

انکے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔۔

برسات تھمنے لگی تھی۔۔وہ ہاتھ سے گال اور آنکھیں خشک کر کے اس سے الگ ہوگئ تھی۔۔

دراصل میں گھر میں اکیلی تھی اس لیئے مس کرتی رہی۔۔

انکار۔ اقرار۔۔اعتراف۔۔پھر انکار۔۔ یہ مشرقی عورت کی زندگی کا دائرہ تھا وہ بھی اس دائرے میں گھومنے لگی تھی۔۔

ہاں۔۔۔اکیلا ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔۔سالار نے اسکے جھوٹ کو سچ بنانے میں اسکی مدد کی. امامہ کا حوصلہ بڑھا۔۔

دانت میں درد تھا تو۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔اس لیئے مجھے رونا آگیا ۔۔وہ اٹکی پھر اس نے کہا۔۔

یاں مجھے اندازہ ہے دانت کا درد بہت تکلیف دہ ہوتا ہے. ایک دفعہ ہوا تھا مجھے۔۔میں جانتا ہوں کیا حالت ہوتی ہے۔۔۔وہ نظریں ملا بغیر جھوٹ بول رہے تھے۔

آ۔۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔۔وہ اٹکی اب تیسرا جھوٹ اسکے ذہن میں نہیں آرہا تھا۔جو سوال آرہا تھا اس نے وہی پوچھا۔۔۔تم نے مجھے مس نہیں کیا۔۔؟

ہر دن ہر گھنٹہ ہر سیکنڈ۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا اور امامہ کی آنکھوں میں جیسے ستارے جھلملانے لگے تھے۔۔

چار ہفتے تمہارے ساتھ نہیں تھا۔۔اگر تمہارا خیال ساتھ نہ ہوتا تو میں مر جاتا۔۔

تم جھوٹے ہو۔۔۔وہ بھرائی ہوئی آواز میں ہنسی تھی۔۔

تم بھی ۔۔۔۔سالار نے بے ساختہ بتایا۔۔۔

وہ روتے ہوئے ہنس رہی تھی لین چار ماہ میں پہلی دفعہ سالار کے لیئے وی برسات قابل اعتراض نہیں تی.-

وہ اس رات بیڈ پر اس سے چند انچ دور کروٹ کے بل لیٹی کہنی تکییے پر ٹکائے اس سے باتیں کرتی رہی تھی ۔ایک مہینے کے دوران اکھٹی ہوجانے والی ساری باتیں۔اسے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ صرف وہ بول رہی تھی ۔سالار بلکل خاموش چت لیٹا اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے اسے سن رہا تھا۔وہ خاموش سامع پلکیں جھپکائے بغیر صرف اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔اسکی آنکھوں کے تاثرات اسکے چہرے پر جھلکنے والے رنگ بات کرتے ہوئے اسکی ہنسی کی کھلکھلاہٹ وہ جیسے سینیما کی فرنٹ رو میں بیٹھا ہوا ایک سحرزدہ ناظر تھا۔۔کہنی کے بل نیم دراز جب وہ تھک جاتی تو پھر اسکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہتی۔۔۔اچھا چلو اب سو جاتے ہیں۔۔۔

یہ جملہ وہ شاید پچیس دفعہ کہہ چکی تھی۔۔

اسکے کندھے پہ سر رکھے اسے پھر کچھ یاد آجاتا تو وہ یکدم سر اٹھا کر اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھتی۔ میں نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔

سالار نفی میں سر ہلادیتا گفتگو پھر دوبارہ وہی سے شروع ہوجاتی۔ خاموش سامع پھر وہی فلم دیکھنے لگتا. ۔۔

یہ کونسی آذان ہو رہی ہے؟ وہ بات کرتے کرتے چونکی۔۔۔

دور کہی سے آذانوں کی آوازیں سنائی دی۔

فجر کی۔ سالار نے پرسکون انداز میں کہا۔۔وہ بری طرح گڑبڑائی۔

او مائی گاڈ۔۔فجر ہوگئی۔۔اور میں۔۔۔تمہیں تو سونا چاہیئے تھا تم تو تھکے ہوئے تھے۔مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ تم مجھے بتا دیتے۔۔وہ اب بری طرح نادم ہورہی تھی۔۔مجھ سے کہنا چاہیئے تھا تمہیں۔کیوں نہیں کہا تم نے۔

کیا کہتا۔۔۔وہ اب پرسکون تھا۔

یہی کہ تم سونا چاہتے ہو۔۔

لیکن میں تو سونا نہیں چاہتا تھا۔۔

لیکن مجھے تو وقت کا پتا ہی نہ چلا کم از کم تم کو مجھے بتانا چاہیئے تھا۔۔وہ واقعی شرمندہ ہورہی تھی.

تمہارا خیال ہے مجھے وقت کا احساس تھا؟

تم سو جاؤ اب۔۔۔ اور آئی ایم سوری۔ کتنی فضول باتیں کی میں نے تم بھی کیا سوچ رہے ہونگے ۔۔

میں تو نماز پڑھ کر سوؤں گا اب۔اور میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ آج تم نے مجھ سے اتنی باتیں کیسے کرلی۔۔

تم نے تو غور سے سنی بھی نہیں ہونگی میری باتیں۔۔وہ شرمندگی سے مسکرئی۔

ایک ایک بات سنی ہے۔۔چاہو تو دہرا سکتا ہوں۔۔۔آج تک تم نے جب جب جو کچھ بھی کہا ہے مجھے یاد ہے اور ھمیشہ یاد رہیگا۔۔۔

اسکا لہجہ ہموار تھا لیکن آنکھوں میں کوئی تاثر تھا جس نے چند لمحوں کے لیئے امامہ کو باندھا تھا۔۔

اسی طرح باتیں کروگی تو ہر رات جاگ سکتا ہوں تمہارے لیئے۔۔امامہ نے نظریں چرا لی۔۔۔

اس سے کچھ دور ہٹتے ہوئے اس نے تکیے پہ سر رکھ دیا ۔وہ اب سیدھی لیٹی چھت کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

سائڈ ٹیبل پر پڑے سیل فون کے یکدم بجتے الارم کو بند کرتے ہوئے سالار نے اسکی طرف کروٹ بدلی۔۔۔کہنی کے بل نیم دراز اس نے امامہ سے کہا۔۔

کچھ اور بتانا ہے تم نے؟ امامہ نے اسکا چہرہ دیکھا۔وہ سنجیدہ تھا۔۔

نہیں۔۔۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔۔۔۔

آئی لو یو۔۔۔جواباً سالار کے جملے نے اسے چند لمحوں کے لیئے ساکت کیا۔۔وہ اسکے پاس تھا اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جیسے کچھ اس سے سننے کی خواہش رکھتا ہو۔۔۔

تھینک یو۔۔۔۔

وہ بے اختیار ہنسا۔۔۔ایک گہرا سانس لیکر ۔ ایک لمحے کے لیئے آنکھیں بند کرتے ہوئے اس نے جیسے گھٹنے ٹیک دیئے۔۔وہاں اسکے قریب کوئی اور عورت ہوتی تو اسے اظہار محبت ہی ملتا ۔۔۔یہ امامہ ہاشم تھی اسکا اظہار تشکر ہی کافی تھا۔۔۔۔

*******----&*****---******

یہ میں تمہارے لیئے لایا تھا ۔۔۔وہ دس بجے کے قریب اسکے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد ٹیبل صاف کر رہی تھی جب وہ بیڈروم سے ایک خوبصورت پیکنگ میں ایک باکس لیکر اسکے پاس آیا تھا.

یہ کیا ہے۔۔؟وہ ٹیبل صاف کرتے کرتے رک گئی۔۔

دیکھ لو۔۔۔سالار نے باکس اسکی طرف بڑھایا۔۔۔

جیولری ہے؟ اسکو. ۔۔۔۔۔۔۔لیبل اور باکس ڈیزائن سے کچھ اندازہ ہوگیا تھا۔۔سالار جواب دینے کی بجائے کندھے اچکا کر خاموش رہا۔۔امامہ نے بڑے تجسس اور احتیاط سے اس باکس کی نفیس اور خوبصورت پیکنگ کو ہٹا کر باکس کھول لیا۔۔سرخ مخمل جیسے ایک بے حد مہین اور چمکدار کپڑے کی تہوں کے درمیان ایک کرسٹل رنگ کیس تھا اور اس کیس سے نظر آنے والی رنگ نے کچھ دیر کے لیئے اسے ساکت کیا۔۔اسکویر ڈائمنڈز کے بینڈ کے ساتھ وہ ایک پلاٹینم ٹیولپ ڈائمنڈ رنگ تھی۔۔چودہ قیراط کے اس ڈائمنڈ کے گرد ننھے ننھے نیلم کے گول گول نگینوں کا ایک دائرہ تھا۔۔بہت دیر. مسمرائزڈ اس رنگ پر نظریں جمائے اس نے بے اختیار گہرا سانس لیکر اپنا پہلا رد عمل دیا یہ صرف ڈائمنڈ نہیں تھے جو اسکو حیرہ کر رہے تھے بلکہ وہ پیچیدہ ڈیزائن بھی جس میں وہ سارے جیولز جڑے تھے.

یہ بہت خوبصورت ہے۔۔ اس نے بمشکل کہا۔۔سالار نے ہاتھ بڑھا کر کرسٹل کا کیس کھولا رنگ کو نکالا اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اس نے وہ رنگ اسکی انگلی میں پہنا دی۔۔

ہاں۔۔۔یہ اب خوبصورت لگ رہی ہے۔۔

اور دیکھو یہ بلکل میری انگلی کے سائز کے مطابق ہے وہ جیسے کچھ اور ایکسائٹڈ ہوئی تھی۔۔۔

تمہاری انگلی کا سائز لیکر بنائی گئی ہے کیونکہ تمہاری ایک رنگ لیکر گیا تھا میں۔۔

اس نے اسکے ہاتھ کو چومتے ہوئے کہا جس میں رنگ پہنا تھا۔

یہ ویڈنگ گفٹ ہے تمہارے لیئے۔ سالار نے اسکا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا. اس نے کچھ حیران سالار کو دیکھا۔

ویڈنگ گفٹ؟؟ چار مہینے ہوگئے ہیں شادی کو۔۔۔

ہاں۔۔۔۔۔میں نے تمہیں ویڈنگ گفٹ نہیں دیا تھا۔۔پہلے یاد نہیں تھا بعد میں پیسے نہیں تھے اس نے ہنس کر کہا۔۔۔۔۔۔۔

اور اب کہاں سے آئے پیسے۔۔۔

آگئے کہیں سے۔۔اس نے ٹالا۔۔امامہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔

کوئی غلط کام نہیں کیا میں نے۔۔۔وہ بے اختیار شرمندہ ہوئی۔۔

میں نے کب کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو ڈاکٹر صاحب کے ہاں چلتے ہیں اور سعیدہ اماں سے بھی مل کر آتے ہیں۔۔۔میرےبیگ میں کچھ گفٹس ہیں انکے لیئے وہ نکال لو۔۔سالار نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی تھی۔۔

تھینک یو سالار۔۔۔وہ جاتے جاتے ٹھٹکا۔۔۔۔

کس لیئے۔۔۔؟؟

ہر چیز کے لیئے۔۔۔

یہ سب تمہارا ہی ہے۔۔۔امامہ نے نظریں چرائی۔۔۔

میں نے سوچا تمہیں یاد بھی نہیں ہوگا کہ تم نے مجھے شادی پر کوئی گفٹ نہیں دیا۔۔۔۔۔۔اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے خوشی سے سرشار ہوئی تھی۔۔۔وہ واحد گلہ تھا جو وہ سالار کے لیئے دل میں رکھے ہوئے تھی.

نہیں بھولا نہیں تھا۔۔

************************

مائی گاڈ۔۔۔۔دیکھو۔۔۔وہ واک وے پر چلتے چلتے بے اختیار ٹھٹکی تھی۔۔۔

سالار نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا۔۔وہ دونوں ریس کورس میں لگنے والے ایک میلے کو دیکھنے آئے تھے ۔اب بے مقصد میلے کی جگہ سے کچھ دور چہل قدمی میں مصروف تھے جب امامہ واک وے کے داہنی طرف درختوں کے اطراف پانی میں ڈوبی ہوئی گھاس میں نظر آنے والے عکس کو دیکھ کر ٹھٹک گیئ تھی۔اس عکس کو دیکھ کر وہ بھی کچھ دیر کے لیئے سحرزدہ سا ہوگیا تھا۔۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ رنگ ونور سے بھری کسی وادی کے کنارے کھڑے اس میں چمکتے ہوئے رنگیں ہیرے جواہرات کے درخت دیکھ رہے ہو یا الف لیلی کا کوئی منظر دیکھ رہے ہو ۔ جیسے جنت میں رات ہوگئی ہو۔۔۔

طویل خاموشی کے بعد اس نے امامہ کی آواز سنی ۔۔اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔۔

ایسی ہوتی ہوگی جنت؟؟ سالار نے اسے کہتے سنا۔۔

وہ کچھ کہنے کی بجائے دوبارہ اس پانی کو دیکھنے لگا۔۔

جنت میں ستارے ہونگے؟ وہ پوچھ رہی تھی۔۔

ہاں بہت سارے ہونگے۔۔اس نے اندازہ لگایا۔۔

اتنے رنگوں کے؟

۔ کائنات میں موجود ہر رنگ۔۔۔وہ بے اختیار محظوظ ہوکر ہنسی۔۔اسے جواب پسند آیا ۔

رات ایسی منور ہوتی ہوگی۔۔۔عکس پہ نظریں جمائے وہ جیسے بے خود ہورہے تھے۔۔

اس سے زیادہ روشن اس سے زیادہ منور۔۔۔سالار نے بے اختیار کہا۔۔اس نے اپنی انگلی سے عکس کو چھونے کی کوشش کی ۔۔سالار نے بروقت اسے کھینچا۔۔

درختوں پر لائٹس آن ہیں پانی میں کرنٹ بھی ہوسکتا ہے۔۔وہ ناراض ہوا تھا۔۔

میں اسے چھونا چاہتی تھی۔۔

یہ عکس جنت نہیں۔۔

جنت میں اور کیا ہوگا۔

تم۔۔۔۔۔۔اس نے گردن موڑ کر دیکھا اسے وہ عکس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

صرف میں؟؟ اور تم نہیں ہوں گے؟؟ پتا نہیں۔ اس نے گردن موڑ کے عجیب مسکراہٹ کیساتھ اسے دیکھا۔۔

تو پھر تم کیسے جانتے ہو کہ میں وہاں ہونگی۔۔۔اس نے اسے تنگ کیا۔۔

جنت کے علاوہ کہی اور رکھا جاسکتا ہے تمکو؟؟ اس نے جواباً سوال کیا۔ وہ ہنس پڑی۔۔

اتنی آسانی سے مل جاتی ہے جنت؟ اس نے سالار کو بتایا۔۔۔

مجھے آسانی سے نہیں ملے گی تمہیں آسانی سے مل جائیگی۔۔۔۔۔ اس کا لہجہ پھر عجیب سا تھا۔۔ ۔

کیوں؟؟ وہ حیران ہوئی۔۔۔

تم جتنی آسانی سے ہر چیز میں جنت ڈھونڈ لیتی ہو میں آج تک نہیں ڈھونڈ سکا۔ اس لیئے کہہ رہا ہوں۔۔۔وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔۔

دو دن پہلے وہ گھر کے لیئے ایک لیمپ خریدنے گئے تھے۔۔وہ رات کو ناول پڑھتے پڑھتے لیمپ شیڈ کو دیکھنے لگی ۔ وہ ای میل چیک کرنے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ بند کرنے لگا تھا۔۔تو اس نے امامہ کو دیکھا۔

کیا دیکھ رہی ہو تم؟ وہ حیران ہوا۔۔

بیوٹی فل۔۔۔اس نے بے ساختہ لیمپ شیڈ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

ہاں اچھا ہے۔۔۔اس نے سرسری انداز میں کہا۔

یہ کونسے پھول ہیں؟؟

پھول؟؟ سالار نے لیمپ شیڈ کو حیرانی سے دیکھا ۔اس نے پہلی بات اس پرل کلر کے شیڈ پر بنے پیٹرن کو دیکھا۔۔۔سنہری مائل پیلے پھولوں کا ایک نفیس پیٹرن تھا۔۔

نہ یہ گلاب ہے نہ ہی ٹیولپ ہے۔۔وہ جیسے پھولوں کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی پھر جیسے اس نے ہتھیار ڈال دییے۔۔

ایسے پھول جنت میں ہونگے؟؟ وہ ہنس پڑا۔۔

اچھا۔۔۔۔۔

دیکھو یہ پھول رنگ بدل رہے ہیں۔۔۔۔لیکن یہ رنگ نہیں بدل رہے بلکہ یہ کھل رہے ہیں۔۔۔سالار جیسے کسی سحر میں آیا تھا وہ پھول واقعی کھل رہے تھے۔۔۔

LOVELY

وہ سراہے بغیر نہ رہ سکا۔اسے اب سمجھ آیا کہ یہ لیمپ اتنا مہنگا کیوں تھا۔۔

اور ایک ہفتے پہلے اسکی دراز صاف کرتے ہوئے سالار کی ویسٹ پیپر باکس میں سے وہ ایک پوسٹ کارڈ اسکے پاس لیکر آئی تھی۔۔۔

ہاں۔۔۔۔۔اسے پھینک دیا ہے میں نے۔۔۔۔بیکار ہے۔۔۔اس نے امامہ کے ہاتھ میں وہ پوسٹ کارڈ دیکھ کر کہا۔۔وہ کارڈ کو لیئے اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔سالار دیکھو کتنی خوبصورت جھیل ہے۔۔اور دیکھو کتنا سکون ہے اس جگہ پر۔۔

یہ صندل سے بنی ہے۔اس کشتی کا رنگ دیکھو۔۔یہ صندل کا رنگ ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے کوئی صبح سویرے اس کشتی میں بیٹھ کر کہی جاتا ہو۔۔۔۔

کتنی سکرینٹی ہے اس سین میں ۔۔۔۔۔ایسے جیسے یہ جنت ہو۔۔۔۔میں نہ بتاتی تو تم تو اسے پھینک رہے تھے۔۔وہ بے اختیار اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔وہ واقعی اسکی زندگی میں نہ آتی تو وہ جنت کو۔۔۔۔۔۔۔

اسکی پکچر بنالو سیل فون کیساتھ۔۔۔امامہ کی آواز نے یکدم اسے چونکا دیا. ۔۔۔سالار نے سیل فون نکال کر چند تصویریں کھینچی۔۔اور سیل اسے تھما دیا۔۔اس نے باری باری اس تصویروں کو دیکھا اور مطمئن ہوگئ۔۔

چلیں۔۔۔؟؟سالار نے اس سے کہا۔۔۔

ہاں۔۔۔۔دونوں نے آخری نظر عکس پر ڈالی اور چل پڑے۔۔۔

سالار نے چلتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔

خاموش کیوں ہوگئے۔۔۔کوئی بات کرو۔۔امامہ نے چند قدم چلنے کے بعد کہا۔۔

تم کرو میں سن رہا ہوں۔۔

ہوسکتا ہے تمہیں مجھ سے پہلے جنت مل جائے۔۔امامہ نے اپنے جملء کا مفہوم سمجھے بنا اسکو تسلی دی۔۔وہ ہنس پڑا تھا۔۔۔

چاہتا تو میں بھی یہی ہوں۔۔۔وہ بڑبڑایا۔۔۔

تم سے پہلے مرنا چاہتا ہوں میں۔۔۔اسے چلتے ہوئے ٹھوکر لگی۔۔کوئی چی جیسے اسکے جسم سے ایک لمحے کے لیئے تھراتی ہوئ گزری۔۔۔وہ جنت ڈھونڈتی پھر رہی تھ اس سے پہلے سامنے جو شے کھڑی تھی وہ اسے بھول گئ تھی۔۔۔

تم کیوں کہہ رہے ہو اسطرح۔۔وہ رک گئی اور اس نے سالار سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔۔

تم نے ہی تو کہا تھا شاید مجھے تم سے پہلے جنت مل جائے۔۔۔

لیکن میں نے مرنے کا نہیں کہا تھا۔۔۔

کیا اس کے بنا مل سکتی ہے؟؟

وہ بول نہ سکی۔۔وہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہے پھر سالار نے اسکی آنکھوں میں نمی امڈتے دیکھی۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔جو مرضی کہو۔۔اسکی آواز میں خفگی تھی۔۔

سالار نے اسکا ہاتھ پکڑ کر معذرت خواہانہ اندا میں دبایا۔۔۔

میں نے صرف تمہاری بات دہرائی تھی۔۔

اور میرا وہ مطلب نہیں تھا جو تم نے نکالا۔۔

میں سمجھتا ہوں۔۔

وہ دونوں پھر چلنے لگے۔۔۔

کیا تم جنت میں مجھے اپنا پارٹنر منتخب کروگی۔؟؟

وہ بول نہ سکی۔۔۔۔وہ ہنس پڑا۔۔۔

یعنی نہیں۔۔۔۔

میں نے یہ کب کہا۔۔۔وہ رک گئ۔

لیکن تم نے کچھ بھی کب کہا۔۔

میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچ لیا ۔۔۔پھر اب بتاؤ۔۔۔وہ ہنسی

تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔

جنت کی بات تم نے شروع کی تھی۔۔اس نے سالار کا چہرہ دیکھا۔۔

شاید۔۔۔وہ خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔۔۔

تمہیں یقین نہیں ہے۔

اس نے ہنس کر اس سے پوچھا۔۔۔

یقین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔

اگر تم جنت میں پہنچ گئے تو پھر تم کو ہی چننا پڑے گا۔۔۔اس نے مذاق کیا۔۔

اور اگر کوئی اور بھی پہنچ گیا تو؟ اسکی مسکراہٹ غائب ہوگئ۔۔

دونوں کے درمیان خاموشی کا لمبا وقفہ آیا تھا۔۔اس اور کا تعارف نہ امامہ نے مانگا تھا نہ سالار نے کروایا تھا۔۔مگر اس اور نے اسے سالار سے نظریں چرانے پر مجبور کیا تھا۔وہ اس سے کہہ نہ سکی بات اسکے انتخاب پر کبھی نہیں رہی تھی بات جلال کے انتخاب پر تھی۔۔اس کا انتخاب جنت میں بھی شاید وہ نہ ہوتی لیکن یہ اعتراف میں کوڑے کھانے جیسی ذلت تھی۔۔چپ بہتر تھی لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اسکی چپ سالار کو اس وقت کوڑے کی طرح لگی تھی۔۔۔

***----*****-----***-++++

سکندر عثمان کو چند لمحوں کے لیئے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آیا تھا۔۔۔

آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔وہ پلاٹ تو بک ہی نہیں سکتا۔۔۔سالار کے نام ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے احتشام الدین سے کہا۔۔۔وہ انکے ایک کاروباری دوست تھے۔۔اور چند منٹ پہلے اس نے سکندر کو فون کر کے ایک پلاٹ کی فروخت کے بارے میں شکایت کی تھی۔۔انکے کسی دوست نے انہی کے وکیل کے ذریعے ایسا ایک پلاٹ کچھ دن پہلے خریدا تھا ۔۔جو سکندر عثمان کا تھا۔۔اور جس کو ایک ڈیڑھ سال پہلے احتشام الدین نے خریدنے کی آفر کی تھی۔۔لیکن سکندر نے تب اسے یہ بتایا تھا کہ جائداد کی تقسیم کے دوران وہ یہ پلاٹ سالار کے نام کرچکا ہے۔۔البتہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اگر کبھی پلاٹ کو فروخت کرنے کی ضرورت پڑی تو احتشام الدین پہلی ترجیح ہوگا۔۔

میرے وکیل کے ذریعے سارا پیپر ورک ہوا ہے۔۔۔آپ کہیں تو آپکو نیوز پیپر میں پلاٹ کی منتقلی کا ایڈ بھی بھجوا دیتا ہوں

۔آپ کے بیٹے نے پلاٹ ڈیڑھ کروڑ میں بیچا ہے۔ مجھے تو افسوس اس بات کا ہے کہ میرے وکیل نے منتقلی کے بعد بتایا مجھے۔۔

سکندر عثمان کا سر گھوم کر رہ گیا۔۔

میں ابھی سالار سے بات کر کے دوبارہ آپ سے بات کرتا ہوں۔۔۔سکندر عثمان نے یکدم کہا۔

انہیں ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ انکو بنا بتائے پلاٹ کیسے بیچ سکتا ہے۔۔

سالار اس دن اسلام آباد میں تھا اور اس وقت اہنے کسی کام سے مارکیٹ جا رہا تھا جب اسے سکندر کی کال ملی۔

سالار تم نے اپنا پلاٹ بیچ دیا ہے؟؟

اسکو ہیلو کہتے ہی سکندر نے دوسری طرف سے کہا۔۔

چند لمحے سالار کچھ بول نہ سکا۔۔پلاٹ کی فروخت کا سکندر کو اتنی جلدی پتہ چل جائے گا اسے اندازہ نہیں تھا۔۔

تم میرے آفس آؤ. ۔۔۔ اس نے سرد مہری سے فون بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

کب بیچا تھا پلاٹ؟؟

اس کے آفس پہنچ کر کرسی پہ بیٹھتے ہی سکندر نے اس سے پوچھا۔۔

پچھلے مہینے۔۔۔اس نے لہجہ ہموار رکھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔

کیوں؟؟

مجھے کچھ رقم کی ضرورت تھی۔۔

کس لیئے۔۔؟؟

سالار اس بار جواب دیتے ہوئے جھجکا۔۔۔

کس لیئے رقم کی ضرورت تھی۔۔

مجھے امامہ کو ایک رنگ خرید کر دینی تھی۔۔۔۔سکندر کو لگا کہ اس نے سننے میں غلطی کی ہے۔۔۔

کیا؟؟؟؟؟

امامہ کے لیئے رنگ خریدنی تھی۔۔اس نے اپنا جواب دہرایا۔۔۔

لاکھ دو لاکھ کی رنگ کے لیئے تم نے پلاٹ بیچ دیا۔۔۔

اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے بنک سے پرسنل لون لیتے یا مجھ سے کہتے۔۔۔

میں لون لیکر اسے گفٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔اور ایک دو لاکھ کی انگوٹھی نہیں تھی کچھ زیادہ مہنگی تھی۔۔آپ اتنے پیسے کبھی نہ دیتے مجھے۔۔ وہ بڑی رسانیت سے کہہ رہا تھا۔۔۔

کتنی مہنگی ہوتی۔۔چار یا پانچ لاکھ کی ہوتی۔۔۔چلو دس لاکھ کی ہوتی میں دے دیتا تمہیں۔۔۔سکندر بے حد خفہ تھے۔۔وہ پلاٹ پونے دو کروڑ کا تھا جسے وہ ڈیڑھ کروڑ میں بیچ آیا تھا۔۔

دس لاکھ کی بات نہیں تھی۔۔۔سکندر نے اسے کہتے سنا۔۔۔

پھر؟؟ سکندر کے ماتھے پر بل آئے۔۔۔سالار نے اپنا گلا صاف کیا۔۔۔

13.7 یہ واحد طریقہ تھا جس وہ اس کی قیمت تین ہندسوں میں کرپایا تھا۔۔

کیا؟؟

سکندر کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔

13.7۔۔۔سالار نے ایک بار پھر گلہ صاف کر کے اگلا لفظ کہا۔۔سکندر کو چند لمحے سانس نہیں آیا۔۔۔۔

اسے پہلی بار اسکی بات سمجھ میں آئی تھی۔۔۔

13.7ملین کی رنگ دی ہے تم نے اسے؟؟ اس کا ذہن جیسے بھک اڑ گیا۔۔سالار ٹیبل پر پڑے پیپرویٹ پر انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔۔

سالار ایک کروڑ سینتیس لاکھ کی رنگ دی ہے تم نے اسے۔۔۔

جی۔۔۔۔۔اس بات سالار نے نظریں اٹھا کر سکندر کو دیکھا۔۔۔

سکندر بے یقینی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔سالار نے نظریں چرا لی۔۔۔وہ اب انکے عقب میں لگی پینٹنگ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

اسکے چہرے پہ نظریں جمائے سکندر نے ریوالونگ چیئر کی پشت سے ٹیک لگا لی۔۔۔۔وہ اگر اسے الو کا پٹھا کہتے تھے تو ٹھیک ہی کہتے تھے۔۔۔۔

جاری

قسط نمبر16

کہاں سے لی تھی رنگ۔۔؟ بلآخر انہوں نے لمبی خاموشی کو توڑا۔

Tiffanyسے۔

انہیں ایسے ہی کسی نام کی توقع تھی۔۔

ڈیزائن کیا ہوگا؟ اس مالیت کی رنگ نادر ہوتی ہے۔۔۔

جی۔۔۔jewellery statment

اس نے tiffany کی سب سے مہنگی رینج میں آنے والی جیولری کولیکشن کا نام لیا۔

تو کوئی اس سے زیادہ مہنگی رنگ نہیں تھی؟ ابھی دوسرا پلاٹ پڑا تھا۔ چار ہیرے اور لگوادیتے اس میں۔۔

سکندر نے ٹیبل پر پڑے سگار کیس سے ایک سگار نکالتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا ۔۔سالار کے دائیں گال میں ڈمپل پڑا۔۔اس نے یقیناً اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔۔سکندر کا خیال اسکی یہ مسکراہٹ شرمندگی کی وجہ سے تھی۔۔انکے پاؤں تلے سے یقیناً زمین کھسک جاتی اگر اسے یہ پتہ چلتا کہ اس نے پہلے دونوں پلاٹس بیچ کر اسے ایک نیکلس دینے کا سوچا تھا۔ لیکن پھر اسے انگوٹھی کا خیال آگیا جو امامہ مستقل طور پہ پہن سکتی تھی۔۔۔

میں کتابوں میں جب رانجھا فرہاد رومیو مجنون و غیرہ کے بارے میں پڑھتا تھا تو میں سوچتا تھا کہ یہ ساری لفاظی ہے کوئی مرد اتنا الو کا پٹھا نہیں ہوسکتا۔ لیکن تم نے تو یہ ثابت کردیا مجھ پر کہ یہ ممکن ہے۔۔کسی بھی زمانے میں کوئی بھی مرد کسی بھی عورت کے لیئے عقل سے پیدل ہوسکتا ہے۔۔

سالار نے اس بے عزتی کو سر جھکائے شہد کے گھونٹ کی طرح پیا۔۔اسکی اتنی بے عزتی کرنا تو سکندر کا حق تھا۔۔

بیوی کے لیئے تو صرف ایک شاہجہان نے پیسے لٹائے تھے وہ بھی اسکے مرنے کیبعد ۔۔۔تمہیں کیا ہوگیا تھا۔۔سکندر نے جیسے اسے شرم دلائی۔۔۔

میں نے دراصل امامہ کو ابھی تک شادی کا کوئی گفٹ نہیں دیا تھا۔۔اسکے لہجے میں بلا کا اطمینان تھا۔۔۔

سکندر زندگی میں پہلی بار اسکی ڈھٹائی سے متاثر ہوئے تھے۔۔

تو اپنے پیسوں سے اسے گفٹ دیتے۔۔انہوں نے طنزیہ کہا تھا۔۔

وہ بھی دے دیئے ہیں اسے۔۔اس نے طنز کا جواب سنجیدگی سے دے کر اسے حیران کردیا۔۔

وہ اس بادشاہ کی شکل دیکھ کر رہ گئے جو اپنی بیوی پر اپنی سلطنت لٹانے پر تلا تھا۔

اپنا سگار ایش ٹرے میں رکھتے ہوئے وہ ٹیبل پر کچھ آگء جھکے اور انہوں نے جیسے ایک ہمراز کی طرح کہا۔۔۔سالار ایسا بھی کیا ہے امامہ میں۔۔کہ تم عقل سے پیدل ہوگئے ہو ۔۔

یہ طنز نہیں تھا۔۔وہ واقعی جاننا چاہتا تھا۔۔

سالار نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا۔۔

بس،، وہ اچھی لگتی ہے مجھے ۔

وہ اس وقت سکندر کو تیس سالہ مرد نہیں بلکہ تین سال کا ایک معصوم بچہ لگا۔۔

ایک طویل سانس لیتے ہوئے وہ سیدھے ہوگئے۔۔

اسے پتہ ہے اس رنگ پرائس کا؟؟

نہیں۔۔۔۔

سکندر کچھ حیران ہوئے۔تو یہاں اپنی محبوبہ کو مرعوب اور متاثر کرنے کا کوئی جذبہ بھی کارفرما نہیں۔۔

آپ بھی ممی یا کسی اور سے بات نہ کریں۔۔میں نہیں چاہتا کہ امامہ کو پتا چلے۔

وہ اب ان سے کہہ رہا تھا۔۔

باقی تیرہ لاکھ کا کیا کیا؟؟

وہ اب کچھ اور کارناموں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔

ساتھ لاکھ تو امامہ کو حق مہر دیا وہ ڈیو تھا۔۔۔۔۔اس نے حق مہر کی اصل رقم بتائے بغیر کہا۔

اور باقی چھ لاکھ میں نے کچھ خیراتی اداروں میں دے دیئے۔۔

سکندر کا غصہ دھویں کے مرغولوں میں تبدیل ہونے لگا۔ غصے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔

سالار نے باپ کے ہونٹوں پہ ایک مشفقانہ لیکن بےحد معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوتے دیکھی ۔۔۔

اور حق مہر صرف سات لاکھ تو نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ہے نا سالار؟؟ وہ کتنے ملین دیا گیا؟؟

اس نے بےحد پچکارتی ہوئ آواز میں کہا اس سے۔

سالار بے اختیار ہنسا۔۔۔جانے دیں پاپا۔۔

یعنی ملین میں ہے۔۔اسکا اندازہ ٹھیک تھا۔۔

اب میں جاؤں؟؟ سالار نے جواب دینے کی بجائے ہوچھا۔۔سکندر نے سر ہلادیا۔۔۔

وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر اسکی طرف آیا۔اور اس نے جھکتے ہوئے سکندر کو ساتھ لگایا۔۔پھر وہ سیدھا ہوگیا۔۔۔

سالار،، جو دوسرا پلاٹ ہے اسکے پیپرز مجھے لاہور پہنچ کر بھجوادینا۔۔۔سکندر نے کہا۔۔

پاپا، ٹرسٹ می۔۔۔سالار نے کہا۔۔۔

شٹ اپ۔۔۔۔

اوکے۔۔۔وہ ہنس پڑا تھا۔۔

****---**--*-*--*******+-*

Oh tiffany statement

وہ اس رات کسی ڈنر پر تھے جب اسکی رنگ مسز یوئرز نے نوٹس کی۔

وہ بزنس کلاس کا ایک بڑا نام تھی۔اور اپنی لباس اور جیولری کی وجہ سے خاصی مشہور تھی۔۔

مائی ویڈنگ رنگ۔۔۔امامہ نے مسکرا کر کہا۔۔۔

وہ اسکا ہاتھ پکڑے بے حد مرعوب انداز میں کہہ رہی تھی۔۔اور انکا یہ انداز اس ٹیبل پہ بیٹھی تمام خواتین میں اس رنگ کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا کر رہا تھا۔۔

The most beautiful and expensive picec of jewellary under this roof tonight...

لکی ویمن۔۔تمہارے شوہر کا ذوق بہت اعلی ہے۔۔۔

امامہ ان ستائشی جملوں پہ فخریہ انداز میں مسکرائی۔۔

کیا قیمت ہوگی؟ بائیں جانب بیٹھی مسز زبیر نے بھی اس رنگ کو ستائشی انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔

مجھے نہیں پتا۔۔شاید چار پانچ لاکھ۔ امامہ نے گلاس اٹھا کر پانی کا گھونٹ بھرتے اندازہ لگایا۔۔

ایک لمحہ کے لیئے اس نے ٹیبل پر چھا جانے والی خاموشی کو محسوس کیا۔۔پھر خو پہ جمی نظروں کو۔۔۔

ڈالرز یا پاؤنڈز؟؟

اس نے حیرانی سے مسز یوئرز کی شکل دیکھی۔۔پھر ہنس پڑی۔۔اس نے اسے مذاق سمجھا تھا۔۔ میرا شوہر اتنا بے وقوف نہیں ہوسکتا۔۔اس نے بے ساختہ کہا۔

مسز یوئیرز نے دوبارہ سوال. نہیں کیا وہ سمجھی امامہ قیمت نہیں بتانا چاہتی۔۔۔ سالار اس رنگ کی قیمت کیا ہے؟ اس رات بیڈ پر بیٹھے ناول پڑھتے ہوئے امامہ کو ایک دم مسز یوئرز کا سوال یاد آگیا۔۔

کیوں؟؟ وہ بھی کوئی کتاب پڑھتے ہوئے چونکا۔

سب لوگوں نے بہت تعریف کی۔۔اس نے بےحد فخریہ انداز میں کہا ۔

دیٹس گُڈ۔۔۔وہ مسکرا کر دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہوا۔۔

مسز یوئرز نے قیمت پوچھی تھی میں نے کہا چار پانچ لاکھ کی ہوگی۔انہوں نے پوچھا ڈالرز یا پاؤنڈز میں۔۔۔میں نے کہا میرا شوہر اتنا بے وقوف نہیں ہوسکتا۔۔۔۔وہ بے اختیار ہنس پڑا۔۔۔۔

کیا ہوا؟؟؟

وہ چونکی۔۔

کچھ نہیں۔۔۔کچھ پڑھ رہا تھا۔۔سالار نے بے ساَختہ کہا۔۔

تو کیا قیمت ہے اسکی؟ امامہ نے دوبارہ پوچھا۔

یہ انمول ہے ۔۔سالار نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا۔۔

کوئی بھی چیز جو تمہارے ہاتھ میں ہو انمول ہے۔۔

پھر بھی۔۔۔۔۔۔اس نے اصرار کیا۔۔

Two hundred and fifty sex

سالار نے ڈالرز ساتھ نہیں لگایا۔۔

اوہ اچھا میں زیادہ ایکسپینسیو سمجھ رہی تھی۔وہ کچھ مطمئن ہوگئ اور دوبارہ ناول پڑھنے لگی۔وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔۔اسے فریب دینا بہلانا بہت آسان تھا۔

امامہ نے چند لمحے بعد اسکی نظروں کو اپنے چہرے پہ محسوس کیا ۔

کیا ہوا؟؟ وہ مسکرادی۔۔وہ ان نظروں کی عادی تھی۔

تمہیں کچھ بتانا چاہتا تھا۔

کیا؟؟

You are the best thing ever happened to me,

وہ ایک لمحے کے لیئے حیران ہوئی پھر ہنس پڑی۔۔

آئی لو یو۔۔وہ پھر ہنس پڑی اور بلش ہوئی۔۔۔

تھینک یو۔۔۔جواب وہی تھا جو ہمیشہ آتا تھا۔۔اس بار وہ ہنس پڑا

******-----******----******

امامہ۔۔۔وہ گاڑی کے دروازے کو بند کرتے ہوئے کرنٹ کھا کر پلٹی۔۔۔

وہ جلال تھا۔۔۔۔پارکنگ میں اسکے برابر والی گاڑی سے اسے نکلتے ہوئے دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔۔

اوہ مائ گاڈ۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آج تم سے یہاں ملاقات ہوگی۔۔

ہاؤ آر یو۔۔وہ بے حد ایکسائٹڈ انداز میں اسکی طرف آیا تھا ۔

وہ بت بنی اسے دیکھ رہی تھی۔۔وہ اسکی اڑی رنگت پہ غور کیجیے بنا بے تکلف دوستوں کی طرح کہہ رہا تھا۔۔۔

امامہ نے بلآخر مسکرانے کی کوشش کی۔۔یہ ضروری تھا۔۔۔۔بے حد ضروری تھا۔۔۔جلال سے زیادہ خود اسکے لیئے۔۔اسے نہ وہ پرانا دوست سمجھ سکتی تھی نہ بے تکلف ہوسکتی تھی۔۔۔

میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔۔۔

اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔نظریں تو وہ اس سے اب بھی نہیں ملاسکتی تھی وہ ویسا ہی تھا جیسے اس نے آخری بار کلینک پر دیکھا تھا۔۔

میں تو بلکل ٹھیک ہوں۔۔میں نے چند ماہ پہلے شادی کرلی ہے۔۔

اسکی سمجھ میں نہیں آیا اس نے اسے یہ خبر دینا کیوں ضروری سمجھا۔۔کیا اسکا اس سے کوئی تعلق تھا۔۔

بہت اچھی ہے میری بیوی ، وہ بھی ڈاکٹر ہے۔۔برٹش نیشنل ہے۔اسپیشلائزیشن بھی اس نے وہی سے کی ہے۔۔۔۔امیزنگ وومین۔۔۔اس نے چار جملوں میں اس پر اپنی بیوی کی حیثیت واضح کی۔۔۔

ایک لمحے کے لیئے وہ بھول گئی کہ وہ بھی کسی کی بیوی ہے۔۔اسکے منہ سے کسی دوسری عورت کے لیئے اپنی بیوی کے الفاظ نے اسے چند لمحوں کے لیئے ادھیڑا تھا۔۔

مبارک ہو ۔۔اس نے بلآخر وہ الفاظ کہہ دییے جو اسے کہنا چاہئے تھے۔

تھینکس۔۔۔میں تمہیں ضرور بلاتا لیکن تمہارا کنٹیکٹ نمبر میرے پاس نہیں تھا۔پہلی بار تو نہیں بلا سکا تھا لیکن دوسری بار تو بلا سکتا تھا۔۔۔جلال نے بات کرتے کرتے جیسے مذاق کیا تھا۔۔وہ مسکرا نہ سکی۔۔

تم نے تو اسکے بعد کوئی رابطہ ہی نہیں کیا۔۔کوئی فون کوئی وزٹ کچھ نہیں۔۔۔میں تو انتظار ہی کرتا رہا۔۔ وہ اب اسکا جاٰئزہ لے رہا تھا۔۔

یہ امامہ سات آٹھ ماہ پہلے والی امامہ سے بے حد مختلف تھی۔۔۔۔وہ اب بھی پہلے کی طرح ایک چادر میں ملبوس تھی لیکن اسکی چادر اور لباس بے حد نفیس اور مہنگے تھے۔۔اسکے ہاتھوں اور کانوں میں پہنی ہوئی جیولری نے جلال کو اور بھی چونکا دیا۔۔اسکی فنگر میں ایک رنگ تھی لیکن یہ وہ وہم تھا جسکی وہ تصدیق نہیں چاہتا تھا۔۔امامہ ہاشم بہت بدل چکی تھی۔۔۔کیسے ۔۔۔۔۔اس سوال نے اسے بے چین کیا۔۔۔

اسکے عقب میں کھڑی اس قیمتی گاڑی کو بظاہر سرسری دیکھتے ہوئے جلال نے اس سے پوچھا۔۔

تم اب بھی اسی فارماسیوٹیکل کمپنی میں کام کرتی ہو؟؟ اس کا جی چاہا تھا کہ کاش اس میں آنے والی ساری تبدیلیاں کسی بونس یا کسی ہینڈسم پیکج کی مرہون منت ہو۔۔مرد کو اپنی متروکہ عورت کو مووڈون دیکھ کر ہتک کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس احساس سے بچنا چاہتا تھا۔۔

نہیں میں مے جاب چھوڑ دی تھی۔۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔ ۔

اوہ اچھا۔۔۔وہ بڑبڑایا۔۔۔

تو تم کچھ نہیں کر رہی آجکل؟؟؟

امامہ چند لمحے خاموش رہی۔

میری شادی ہوگئی ہے۔۔وہ اب بھی یہ نہ کہہ سکی کہ میں نے شادی کرلی ہے۔۔جلال کے چہرے سے ایک لمحے کے لیئے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔۔

اوہ اچھا۔۔۔مبارک ہو۔۔وہ بروقت سنبھلا۔۔

تم نے بتایا ہی نہیں ۔۔نہ انوائٹ کیا۔۔کیا کرتا ہے وہ۔۔؟؟

آپ جانتے ہیں اسے۔۔سالار سکندر ۔۔اس نے گلا صاف کر کے کہا۔۔۔

اوہ۔۔۔ایک لمحے کے لیئے جلال کے پاس کہنے کے لیئے کچھ نہیں بچا ۔

وہ بنکر ہے۔۔میں جانتا ہوں۔۔جلال اسکی بات کاٹ کر اسے سالار کا بنک اور اسکے عہدے کے بارے میں بتانے لگا۔۔

آپ کو کیسے پتا؟ وہ حیران ہوئی۔۔

آدھے شہر کو تمہارے شوہر کے بارے میں پتا ہوگا ۔۔

آؤ لنچ کرتے ہیں۔۔گپ شپ لگائیں گے۔۔اتنے عرصہ بعد ملے ہیں بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔اس نے بے تکلفی اور گرمجوشی سے کہا۔۔

نہیں میں گروسری کے لیئے آئ ہوں۔۔ڈنر کے لیئے مجھے کچھ چیزیں چاہیئے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امامہ نے اسے ٹالنا چاہا اسے یقین تھا وہ اصرار نہیں کریگا۔۔جلال کے بارے میں اسکا اندازہ آج بھی غلط تھا۔۔

یار گروسری بھی ہوجائے گی میں خود کروا دوں گا لیکن لنچ کے بعد۔۔وہ سامنے ریسٹورنٹ ہے ایک گھنٹے میں فارغ ہوجائیں گے ھم۔۔۔جلال نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔

میں۔۔۔۔۔۔۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن جلال کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔وہ بادل نخواستہ اسکے ساتھ ریسٹورنٹ آگئی۔۔۔

تو کیسی گزر رہی ہے تمہاری لائف اپنے شوہر کیساتھ۔۔۔مینیو آرڈر کرتے ہوئے جلال نے بے تکلفی سے کہا۔۔۔امامہ نے اسکا چہرہ دیکھا وہ صرف سوال نہیں تھا۔۔۔وہ جیسے جاننا چاہتا تھا کہ وہ اسکے علاوہ کسی اور مرد کیساتھ خوش رہ سکتی ہے یا نہیں۔۔۔

بہت اچھی گزر رہی ہے میں بہت خوش ہوں سالار کیسات گُڈ۔۔۔ارینج میرج تو نہیں ہوگی؟؟ سالار اور تم نے اپنی مرضی سے کی ہوگی۔۔۔اس نے جلال کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔۔وہ اس سوال سے کیا جاننا چاہتا تھا۔۔۔

ہاں سالار نے اپنی مرضی سے مجھ سے شادی کی ہے۔۔اس نے فیملی سے پوچھا نہیں تھا بلکہ بتایا تھا۔۔سالار کا خیال تھا کہ مرد کو شادی کرتے ہوئے اپنی مرضی دیکھنی چاہیئے فیملی کی نہیں۔۔۔

جلال کے چہرے کا رنگ بدلا تھا ۔۔۔

بہت زیادہ انڈیپینڈنٹ سوچ رکھتا ہے وہ۔۔اس نے چند لمحوں بعد جلال کو جیسے تاویل دینے کی کوشش کی۔۔۔تاویل پچھلے جملے سے بھی زیادہ چھبی تھی۔۔

ظاہر ہے۔۔۔سالانہ لاکھوں کمانے والے شوہر کی تعریف بیوی پر فرض ہوتی ہے۔۔

اس بار اسکا ہنس کر کہا ہوا جملہ امامہ کو چھبا تھا۔۔۔۔

لاکھوں کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن اچھے شوہر کی تعریف بیوی پہ فرض ہوتی ہے۔۔

جلال نے اسکے جملے کو نظرانداز کرتے ہوئے ہنس کر کہا۔۔۔۔تو پتا رکھا کرو نا اسکے لاکھوں کا۔۔کیسی بیوی ہو تم؟؟ ڈیڑھ دوکروڑ تو بنا ہی لیتا ہوگا سال میں۔۔۔بہت بڑے بڑے مرجرز کروا رہا ہے تمہارا شوہر تمہیں پتا نہیں؟؟

نہیں۔۔۔ھم اور چیزوں کے بارے میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔۔۔ضروری چیزوں کے بارے میں۔۔۔

اسکا لہجہ بے حد سادہ تھا لیکن جلال کے پیٹ میں گرہیں پڑی تھی۔اس نے زوردار قہقہہ لگایا۔ بعض دفعہ ہنسی کی شدید ضرورت پڑ جاتی ہے۔۔

چالاک مردوں کو ایسی ہی بیویوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔تم لوگوں کی رہائش کہاں ہے۔۔؟؟

اس نے جوتا مارا۔۔۔پھر معصومیت سے سوال کیا۔۔امامہ نے اسکے تبصرے پر کچھ کہنے کی بجائے اسے اپنا ایڈریس بتا دیا۔۔وہ اسکے ساتھ سالار کو مزید ڈسکس نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔

اوہ۔۔۔اپارٹمنٹ۔۔وہ بھی رینٹڈ۔۔۔کوئی گھر ور لینا چاہیئے تھا تم لوگوں کو۔۔اگر تم لوگ انٹرسٹڈ ہو تو میرے دو تین گھر ہیں پوش ایریا میں۔۔تم لوگ رینٹ کرلو۔۔۔جلال نے فیاضانہ آفر کی۔۔۔

نہیں۔۔۔۔نہیں ضرورت نہیں۔۔ھم کم فرٹیبل ہے وہاں۔۔۔امامہ نے کہا۔۔

تم سالار کیساتھ کسی دن آؤ نا کھانے پر۔۔بات کرتے کرتےاس نے یوں کہا جیسے وہ صرف دوست ہی تھے اور دوست رہے تھے۔۔وہ بول نہ سکی۔۔اگر وہ بے حس تھا تو بہت زیادہ۔۔اگر ظالم تھا تو انتہا کا۔۔۔

جلال میں اب چلتی ہوں۔۔بہت دیر ہورہی ہے۔۔

اسے پتا نہیں اچانک کیا ہوا وہ اپنا بیگ اٹھا کر یکدم کھڑی ہوگئ۔جلال کیساتھ وہ کپل بھی چونکا۔۔نہیں کھانا آنے والا ہے کھا کر نکلتے ہیں۔۔۔

نہیں مجھے گروسری کر کے پھر کوکنگ بھی کرنی ہے۔اور میرے شوہر کو تو گھر آتے ہی کھانا تیار ملنا چاہیئے۔۔آج ویسے بھی اس نے کچھ خاص ڈشز کہی ہیں۔۔۔

اسکا انداز اتنا ختمی تھا کہ جلال اس بار اصرار نہ کرسکا۔۔

اچھا سالار کا کوئی ویزیٹنگ کارڈ اور اپنا کانٹیکٹ نمبر تو دے دو۔اس نے امامہ سے کہا۔اسکے بیگ میں سالار کے چند کارڈز تھے۔۔اس نے ایک کارڈ نکال کر جلال کے سامنے ٹیبل پہ رکھ دیا۔۔۔

اپنا فون نمبر بھی لکھ دو۔

وہ ایک لمحہ کے لیئے ہچکچائی پھر اس نے کارڈ کی پشت پر اپنا سیل نمبر لکھ دیا۔۔

جلال کے پاس کھڑا آدمی تب تک کارڈ پر نام پڑھ چکا تھا۔۔۔

اوہ۔۔آپ سالار سکندر کی بیوی ہیں؟؟ وہ اسکے سوال پہ بری طرح چونکی ۔۔

فاروق صاحب بھی بنکر ہے سالار کو جانتے ہونگے۔۔جلال نے فوراً کہا۔۔

بہت اچھی طرح سے۔۔۔اس آدمی کا انداز اب بلکل بدل چکا تھا۔۔۔اس نے امامہ کو اپنی بیوی سے متعارف کرایا۔۔

آپ کے شوہر بہت بریلیئنٹ بنکر ہے۔۔

فاروق نے اسکے لیئے ستائشی کلمات ادا کیئے۔

ہمیں انوائٹ کیا تھا اس نے کچھ ماہ پہلے ویڈنگ ریسپشن پہ لیکن ھم امریکہ میں تھے۔مسز فاروق اب بڑی گرمجوشی سے کہہ رہی تھی۔۔اور امامہ کی جان پہ بن آئی تھی۔۔وہ اندازہ نہیں کرپائی تھی کہ وہ سالار کے کتنے قریب تھے یا صرف سوشل سرکل کا حصہ تھے۔۔۔

بہت کلوز فرینڈشپ ہے امامہ اور سالار کیساتھ میری بلکہ فیملی ٹائیز ہیں۔۔۔بس درمیان میں کچھ عرصہ آؤٹ آف ٹچ رہے ہیں ھم۔۔دس بارہ سال تو ہوگئے ہونگے ھماری فرینڈشپ کو امامہ؟؟ اسکی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا کہہ رہا ہے۔اس نے کچھ حیرانی سے جلال کو دیکھا۔۔

ویری نائس۔۔۔آپ سالار کیساتھ آئیں کسی دن ھماری طرف۔۔۔فاروق نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔چند رسمی جملوں کے تبادلے کی بعد وہ انہیں خداحافظ کہہ کر باہر نکل آئی لیکن وہ بہت اپ سیٹ تھی۔۔۔وہ سٹور میں کیا خریدنے آئی تھی بھول گئ تھی۔۔۔وہ ٹرالی لیئے ایک شیلف سے دوسرے شیلف کو دیکھتے گزرتی رہی۔۔پھر خالی ٹرالی پر نظر پڑنے پر اس نے سوچا کہ وہ کیا خریدنے آئ تھی لیکن ذہن کی سکرین پہ کچھ بھی نمودار نہیں ہوا۔۔اس نے بے مقصد چند چیزیں اٹھائ اور باہر آگئی۔۔پارکنگ سے گاڑی نکالنے کے بعد اسے ایک دم احساس ہوا کہ وہ گھر نہیں جانا چاہتی پھر اسے وہ ساری چیزیں یاد آنے لگی جسے وہ خریدنے آئ تھی۔۔لیکن اب وہ دوبارہ کہی گروسری کے لیئے جانے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔بے مقصد دوپہر میں سڑک پر ڈرائیو کرتے ہوئے اسے خود اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ کہاں جارہی ہے۔اس کا خیال تھا کہ اس نے کچھ غلط ٹرن لی تھی اور اب رستہ بھول گئی ہے۔۔بہت دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ لاشعوری طور پہ اس روڈ پر جارہی تھی۔۔جس طرف سالار کا آفس تھا۔۔وہ مال روڈ پر تھی اور ون وے کی وجہ سے اب پلٹ نہیں سکتی تھی۔۔ایک سگنل پر ایک لمبے چھوڑے ٹریفک جام میں پھنسے اسے وہ سڑک اور اپنی زندگی ایل جتنا لمبے لگے تھے۔۔۔

گاڑی بند ہوگئ اور سگنل کھل گیا تھا۔۔بے تحاشہ ہارن کی آوازوں پر اس نے چونک کر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی وہ ناکام رہی اور بری طرح نروس ہوئی۔۔ایک ٹریفک وارڈن اسکے قریب آیا۔۔

گاڑی سٹارٹ نہیں ہورہی ہے۔۔امامہ نے اس سے کہا۔۔

پھر لفٹر سے اسے ہٹانا پڑے گا۔۔ورنہ ٹریفک جام ہوجائے گا۔۔اس نے اسے بتایا۔۔سگنل تب تک دوبارہ بند ہوچکا تھا۔۔۔وہ وائرلیس پر لفٹر کو بلانے لگا۔۔۔اور وہ بے حد ہڑبڑانے والے انداز میں گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔وہ ناکام رہی۔۔لفٹر آنے پر وہ گاڑی سے باہر نکل آئی۔لفٹر میں بیٹھا آدمی اسے قریبی پارکنگ میں اسے پہنچانے کے بارے میں بتاتا ہوا کسی ٹیکسی میں اسے وہاں تک جانے کا کہہ کر غائب ہوگیا۔۔مال روڈ پر اس ٹریفک میں اسے کوئی ٹیکسی یا رکشہ نہیں مل سکتا تھا۔۔ لیکن واحد کام جو وہ کر سکتی تھی وہ سڑک کراس کر کے کچھ فاصلے پر سالار کے آفس جانا تھا۔۔اس نے سیل نکال کر سالار کو فون کرنا شروع کردیا لیکن اسکا سیل آف تھا۔۔۔اسکا مطلب ی تھا کہ اسکو اسکے آفس ہی جانا تھا۔۔چند منٹ اور چلنے کے بعد اسکے جوتے کا سٹریپ نکل گیا۔آج برا نہیں بلکہ بدترین دن تھا۔وہ اس ٹوٹے ہوئے جوتے کیساتھ اسکے آفس نہیں جانا چاہتی تھی لیکن اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔۔اسے اپنی حالت پہ رونا آنے لگا تھا۔۔

اسکے بنک کے اس شاندار عمارت کے سامنے جوتا گھسیٹتے ایک لمحہ لے لیئے ہچکچائی لیکن پھر اسکے ذہن میں آیا کہ وہ سیدھی اسکے آفس چلی جائے۔۔گارڈ کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے اس نے انکی آنکھوں میں اتنی حیرانی اور بے یقینی دیکھی تھی کہ اسکے عزت نفس میں کچھ اور کمی بھی آئ تھی۔لیکن مین ریسیپشن میں داخل ہوتے ہی اسکی عزت نفس مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی۔شاندار انٹیریئر والا وسیع و عریض ماربلڈ ہال اس وقت سوٹڈ بوٹڈ کورپوریٹ کلائنٹس سے بھرا ہوا تھا۔۔آفس کا یہ لے آؤٹ کبھی اسکے تصور میں آجاتا تھا تو وہ وہاں کبھی نہ آتی لیکن اب وہ آچکی تھی۔۔ریسیپشن کاؤنٹر پر اس نے سالار سکندر سے اپنا رشتہ ظاہر کرنے کی حماقت نہیں کی تھی۔۔

مجھے سالار سکندر سے ملنا ہے۔۔۔

کیا آپ نے اپوائنمنٹ لیا ہے میڈم؟؟

ریسپشنسٹ نے بے حد پروفیشنل انداز میں کہا۔۔اسکا ذہن ایک لمحہ کے لیئے بلینک ہوگیا تھا۔۔

اپوائنمنٹ۔۔۔۔وہ حیان ہوئ۔۔اس نے جواب دینے کی بجائے ہاتھ میں پکڑے سیل پر ایک بار پھر اسکا نمبر ڈائل کیا۔۔اس بار کال ریسیو نہیں ہوئ لیکن بیل بجی تھی۔۔

میں اسکی دوست ہوں۔۔اس نے کال ختم کرتے ہوئے بے ربطی سے کہا۔۔

ابھی وہ ایک میٹنگ میں ہے انہیں تھوڑی دیر میں انفارم کردیتی ہوں۔۔۔آپکا نام؟؟

ریسپشنسٹ نے کہا۔۔۔

امامہ۔۔۔وہ اپنا نام بتا کر ہال میں پڑے صوفوں میں سے ایک صوفے پر جاکر بیٹھ گئ۔۔

اسے تقریباً پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑا تھا۔۔

پندرہ منٹ بعد اس نے چند افراد کے ساتھ سالار کو بات چیت کرتے ریسیپشن پر نمودار ہوتے دیکھا۔۔ان لوگوں کو دروازے تک چھوڑ کر وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا واپس جانے لگا۔۔ریسیپشنسٹ نے اسے روکا۔۔۔امامہ نے سالار کو اسکی بات سنتے اور پھر ٹھٹکتے دیکھا۔۔وہ اپنی ایڑھیوں پر گھوم گیا۔۔اسے اتنی دور سے بھی سالار کے چہرے پہ حیرت نظر آئ تھی۔۔پھر وہ مسکرایا۔۔۔

اس نے پلٹ کر ریسیپشنسٹ سے یقیناً اسکا تعارف کرایا تھا۔۔۔پھر وہ رکے بغیر اسکی طرف آیا۔۔اگر وہ اس وقت اس سے گھر میں سامنا کر رہی ہوتی تو اس وقت اس سے لپٹ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہوتی۔۔

واٹ اے پلیزنٹ سرپرازئز۔۔۔

اس نے قریب آتے ہوئے کہا وہ بہت خوشگوار موڈ میں تھا۔۔

میرا جوتا ٹوٹ گیا ہے ۔۔اس نے بے ربطی سے جواب دیا اس نے سالار سے نظریں ملائے بغیر کہا وہ جانتی تھی کہ وہ اس کی آنکھیں پڑنا جانتا تھا۔

سامنے سگنل پہ میری گاڑی خراب ہوگئی اور لفٹر اسے کہی لے گیا ہے۔اور یہاں تمہارا آفس تھا تو یہی آگئ۔۔لیکن شاید نہیں آنا چاہیئے تھا۔کیونکہ تم مصروف ہو بس تم مجھے گھر بھجوا دو۔۔وہ ایک کے بعد ایک مسلہ بتاتے ہوئے اسے بند بے ڈھنگے انداز میں کہا۔۔

نو پرابلم۔۔۔سالار نے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئےاسی تسلی دی۔۔

سوری میم آپ مجھے اپنا تعارف کرادیتی تو میں آپکو آفس میں بٹھاتی۔۔

ڈیسک پہ بیٹھی لڑکی نے قریب آکر معذرت کی۔۔

اٹس اوکے۔۔۔۔کسی کو بھیج کر یہاں قریبی کسی شو سٹور سے اس سائز کے جوتے منگوائیں۔

اس نے لڑکی سے کہا اور پھر اگلا جملہ امامہ سے کہا ۔۔۔

امامہ یہ ٹوٹا ہوا جوتا اتار دو۔۔

اتاردوں؟؟ وہ ہچکچائی۔

ہاں کوئی حرج نہیں میرے باتھ روم میں وضو لے سلپرز ہیں وہ پہن کر پاؤں دھو لینا تب تک نیا جوتا آجائے گا۔۔۔اور کس سگنل سے گاڑی لیکر گئے ہے۔۔امامہ نے اسے اندازے سے بتایا۔۔۔اس نے ڈیسک سے آنے والی لڑکی کو گاڑی کا نمبر دیا اور کچھ ہدایات دی. ۔۔وہ تب تک ٹوٹے ہوئے جوتے اتار چکی تھا۔۔اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیٰے وہ اسے وہاں سے لے آیا۔۔اہنے ہاتھ پر اسکی گرفت محسوس کرتی ہوئے امامہ نے سوچا اسے اس وقت اس سہارے کی بے حد ضرورت تھی۔۔وہ راستے میں ملنے والے افراد سے ریلیکس انداز میں اسکا تعارف کرتے ہوئے اپنے آفس لے آیا۔۔

ویسے تم یہاں آ کیسے گئی۔۔اس نے آفس کا دروازہ بند کرتے ہوئے امامہ سے پوچھا ۔۔۔

میں؟؟؟؟ اسے بہانہ یاد نہیں آیا۔۔۔سالار نے کچھ لمحے اسکے جواب کا انتظار کیا پھر بات بدل دی۔۔۔

تم کھڑی کیوں ہو بیٹھ جاؤ۔۔

اپنی ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے اس نے انٹرکام کا ریسیور اٹھاتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔۔۔

وہ انٹرکام پر اسکے لیئے کوئی جوس لانے کا کہہ رہا تھا۔ جب اسکا فون بجنے لگا۔ اس نے کال ریسیو کی۔۔چند لمحے بات کرتا رہا پھر اس نے امامہ سے کہا۔۔۔امامہ تمہارا کریڈٹ کارڈ کہا ہے؟؟

وہ اسکے سوال پر چونکی ۔اسکے پاس ایک سپلمنٹری کارڈ تھا۔۔

میرے بیگ میں۔۔۔۔

ذرا چیک کرو۔۔۔۔

اس نے بیگ سے والٹ نکالا اور پھر باری باری بیگ کا ہر حصہ چیک کیا۔۔کارڈ وہاں نہیں تھا۔۔۔

اسکے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔۔

اس میں نہیں ہے۔۔اس نے اڑی ہوئی رنگت کیساتھ سالار سے کہا۔۔

اس نے جواب دینے کی بجائے فون پر کہا۔۔۔

بلکل میری بیوی چھوڑ آئ تھی وہاں۔۔میں منگوا لیتا ہوں۔۔تھینک یو۔۔اس نے فون بند کردیا۔۔۔۔امامہ کی جان میں جان آئی۔۔

کہاں ہے کارڈ؟؟ امامہ نے پوچھا۔۔۔

کہاں شاپنگ کی ہے تم نے؟؟ سالار نے اسکی طرف آتے پوچھا۔۔

اسے ڈپارٹمنٹل سٹور یاد آیا۔۔

وہاں چھوڑ دیا تھا میں نے؟؟؟ اسے جیسے یقین نہیں آیا۔۔۔۔

ہاں سٹور کے مینیجر نے ہیلپ لائن کو انفارم کیا وہ تمہارے سیل پر ٹائ کررتے رہے لیکن تم۔نے کال ریسیو نہیں کی. ۔۔اب انہوں نے مجھے کال کیا ہے۔

ایک آدمی ٹرے میں پانی اور جوس کا ایک گلاس لے آیا تھا۔۔اسے اس وقت اسکی شدید ضرورت محسوس ہورہی تھی۔۔

سالار دوسرے صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔۔اس بار انٹرکام دوبارہ بجا اور وہ اٹھ گیا۔۔گاڑی کا پتا چل گیا تھا امامہ گاڑی کے پیپرز کہاں ہیں؟؟ اس نے ایک بار پھر فون ہولڈ پہ رکھتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔

امامہ کو اپنی اگلی حماقت یاد آئی۔۔گاڑی کےبپیپرز گاڑی میں ہی تھے۔ وہ پیپرز اور لائسنس گاڑی میں چھوڑ آئی تھی ۔اس برانڈ نیو گاڑی پر اگر کوئ ہاتھ صاف کرتا تو یہ دونوں چیزیں انعام میں ملتی۔ کیونکہ لفٹر اسے مطلوبہ پارکنگ میں چھوڑ کر وہاں سے جاچکا تھا۔۔جوس ایکدم اسکے خلق میں اٹکنے لگا. ۔۔

گاڑی میں۔۔۔اس نے نظریں ملائے بغیر کہا۔۔جواباً اسے ملامت نہیں کی گئ تھی جسکی وہ توقع کر رہی تھی۔۔

آئ ڈی کارڈ کی کاپی ہے؟؟ وہ کسی کو گاڑی لانے کے لیئے بھیجنا چاہتا تھا۔۔وہ گلاس رکھ کر ایک بار پھر آئ ڈی کارڈ اپنے بیگ میں ڈھونڈنے لگی۔۔وہاں اسکا کوئی وجود نہیں تھا۔۔۔اسے یاد آیا کہ وہ دوسرے بیگ میں ہے۔۔اسکا دل وہاں سے بھاگ جانے کو چاہا اسے خود پر شدید غصہ آرہا تھا۔۔ اس دفعہ سالار نے اسکے جواب کا انتظار نہیں کیا تھا۔ میرے پیپرز میں دیکھو میری وائف کی آئ ڈی کارڈ کاپی یوگی۔وہ ڈرائور کو دے دو اور کار کی چابیاں بھی بھجوا دیتا ہوں۔۔اس نے فون پر کہا۔۔۔

تمہیں اگر فریش ہونا ہو تو میرے سلپرز یہاں پڑے ہیں۔۔۔

یہ آفر بروقت آئی تھی۔۔۔اسے واقعی اس وقت کوئی ایسی جگہ چاہیئے تھی جہاں وہ اپنا منہ چھپا لیتی ۔ باتھ روم کا دروازہ بند کیئے وہ اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی گئ۔

سنا ہے تمہاری کوئی گرل فرینڈ آئ ہوئ ہے۔؟؟

اس نے باہر رمشہ کی آواز سنی۔۔وہ سالار کو چھیڑ رہی تھی۔۔ وہ جواباً ہنسا۔۔

ہاں آج کی تھکا دینے والی میٹنگ کے بعد کسی گرل فرینڈ کا ایک وزٹ تو ڈیزرو کرتا تھا میں۔۔وہ آئینہ میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے انکی باتیں سنتی رہی۔۔۔وہ دونوں اب کسی کلائنٹ اور آج کی میٹنگ کو ڈسکس کر رہے تھے۔اسکا دل چاہا کہ وہ واپس کمرے میں نہ جائے وہ اس سین سے غائب ہونا چاہتی تھی۔۔

باتھ روم کا دروزہ کھلنے پر رمشہ خیر مقدمی انداز میں اسکی طرف آئی۔۔۔

چلو کسی بہانے تمہاری بیگم تو یہاں آئی۔رمشہ نے اس سے ملتے ہوئے کہا۔۔

سالار جواب دینے کی بجائے صرف مسکرایا۔۔

چند منٹ وہ کھڑی باتیں کرتی رہی پھر اس نے کہا۔۔

اب اگلی میٹنگ ہے۔۔ تو تم آ رہے ہو کیا۔۔۔؟؟

ہاں میں آتا ہوں۔۔۔تم سٹارٹ کرلو میٹنگ میں دس پندرہ منٹ میں آتا ہوں۔۔۔اس نے کہا۔۔۔

رمشہ امامہ کو خدا حافظ کہتے ہوئے نکل گئ۔

تم چلے جاؤ۔۔ گاڑی آئیگی تو میں چلی جاؤں گی۔۔اس نے کمرے میں پڑے جوتے کے ڈبے سے نیا جوتا نکالتے ہوئے سالار سے کہا۔۔

تم سینڈوچ کھاؤ۔تم نے ہی صبح بنا کر دیئے تھے۔ آج کلائنٹس کے ساتھ لنچ کی یہ کھا نہ سکا۔۔وہ ٹیبل پر پڑے سینڈوچ کا ایک ٹکڑا اٹھا کر کہہ رہا تھا۔۔

مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔اس وقت خلق سے کچھ اتارنا بہت مشکل تھا۔۔۔

کیوں بھوک نہیں ہے۔۔۔۔لنچ کیا ہے کیا تم نے/؟؟؟

نہیں لیکن بھوک نہیں۔۔۔

پھر کھاؤ صرف ایک کھاؤ۔۔۔وہ اسے بہلا رہا تھا۔۔

امامہ کیساتھ کوئ مسلہ تھا اور اس وقت پوچھنا بے کار تھا۔۔۔وہ جب پریشان ہوتی تھی تو اسی طرح چیزیں بھولتی تھی۔وہ سر جھکائے سینڈوچ کھانے لگی جو اس نے اسکے سامنے پلیٹ میں رکھا تھا۔۔

اسکا خیال تھا کہ سالار اسکی ان حرکات پہ اب تبصرہ کریگا لیکن وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔۔۔سینڈوچ ختم ہونے کے بعد اس نے امامہ سے چائے کا پوچھا۔۔۔اور اسکے انکار پر اس نے انٹرکام پر کسی سے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کے لیئے کہا۔۔

میں تمہیں اپنی گا ڑی میں بھجوا رہا ہوں تمہاری گاڑی جب آئیگی تو میں بھجوا دیتا ہوں۔۔

میں خود ڈرائیو کر کے چلی جاتی ہوں۔۔۔اس نے کہا۔۔۔

تمہیں ڈرائیور ڈراپ کردے گا تم اپ سیٹ ہو اور میں نہیں چاہتا تم ڈرائیو کرو۔۔وہ بول نہ سکی۔۔۔

میں خود چلی جاتی ہوں۔۔اس نے بنک ایگزٹ پر سالار سے کہا۔۔

یار کلائنٹس کو بھی یہاں تک چھوڑنے آتا ہوں تم تو بیوی ہو میری ۔۔وہ مسکرایا تھا۔۔

ڈرائیور پارکنگ میں کھڑی گاڑی دروازے کے سامنے لایا تھا ۔ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھولنے آیا۔مگر اس سے پہلے سالار اسکے لیئے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول چکا تھا۔۔

وہ گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے اسے رک کر دیکھنے لگی۔۔وہ اسکا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی لیکن اسکے خلق میں ایک بار پھر گرہیں پڑنے لگی تھیں۔۔

Anything else ma'am

سالار نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

تھینک یو۔۔اس نے بلآخر کہا۔۔

Always at your disposal ma'am

اس نے اپنا بازو اس کے گرد پھیلاتے ہوئے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔

وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔سالار نے دروازہ بند کردیا۔چلتی ہوئ گاڑی میں امامہ نے ایک لمحے کے لیئے مڑ کر دیکھا وہ ابھی وہی کھڑا تھا۔۔وہ یقیناً گاڑی کے مین روڈ پہ جانے کا انتظار کر رہا تھا اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔۔

جسکی ذمہ داری تھی وہ شخص اکے لیئے کھڑا تھا۔۔ وہ جلال کی ذمہ داری نہیں تھی۔۔وی پھر کیوں یہ توقع کر رہی تھی کہ وہ اسکے لیئے اتنی کرٹسی دکھاتا۔۔اس نے ٹھیک کیا تھا اسکے ساتھ ٍڈرائیور بھیج کر وہ واقعی اس وقت ڈرائیو کرنے کے قابل نہیں تھی۔۔گھر آ کر بھی وہ بے مقصد لاؤنج میں بیٹھی رہی ۔۔آج کا دن بے حد برا تھا۔۔تکلیف دہ یادوں کا سلسلہ تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔

کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔سالار نے اس رات کھانے کی ٹیبل پہ اس سے پوچھا۔۔

کچھ نہیں۔۔۔جواب حسب توقع تھا۔۔

سالار نے کھانا کھاتے کھاتے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔۔

کوئی پریشانی نہیں۔۔بس اپنی فیملی کو مس کر رہی ہوں۔۔اس نے جھوٹ بولا۔۔

سالار نے اسے کریدا نہیں۔وہ اسے صرف بہلانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔وہ ڈنر کے بعد کام کے لیئے سٹڈی روم میں چلا گیا امامہ نے سونے کی کوشش کی لیکن سو نہ سکی۔۔کتنا وقت اس نے اندھیرے میں بستر پر چت لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے گزارا اسکو پتہ ہی نہ چلا۔۔سوچوں کا تسلسل تب ٹوٹا جب اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔۔۔۔۔سالار سونے کے لیئے حتی الامکان آہستگی سے دروازہ کھولا تھا۔۔پھر وہ دروازہ بند کر لے لائٹ آن کییے بغیر اسی طرح احتیاط سے دبے پاؤں واش روم کی طرف گیا۔۔

امامہ نے آنکھیں بند کرلی۔۔نیند اب بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔وہ کپڑے تبدیل کر کے سونے کے لیئے آ کر لیٹا تھا۔۔اس نے امامہ کی طرف کروٹ لی۔۔اور پھر امامہ نے اسکی آواز سنی۔۔

تم جاگ رہی ہو؟ ۔۔۔۔۔

تمہیں کیسے پتا چل جاتا ہے۔۔وہ کچھ جھلائی۔۔

پتا نہیں کیسے؟ بس پتا چل ہی جاتا ہے۔۔کیا پریشانی ہے؟؟ ایک لمحہ کے لیئے اسکا دل چاہا کہ وہ اسے بتادے اپنی اور جلال کی ملاقات کے بارے میں لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس خیال کو جھٹک دیا۔۔

کچھ نہیں بس میں ڈپریسڈ تھی۔

اسی لیئے تو کہا تھا باہر چلتے ہیں۔۔۔سالار نے کہا۔۔

میں ٹھیک ہوں اب۔۔۔امامہ نے ایک دم کسی ننھے بچے کی طرح اس کے سینے میں منہ چھپاتے ہوئے کہا ۔وہ اسکے سر کو چومتے ہوئےزاسے تھپکنے لگا۔۔۔امامہ کا دل بھر آیا۔۔۔

اگر اسکی زندگی میں جلال انصر نام کا کوئی باب نہ آیا ہوتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا۔۔وہ اس شخص کیساتھ بہت خوش رہ سکتی تھی۔۔

*****----+****----********

جلال کیساتھ اسکی ہونے والی ملاقات اتفاقی تھی ایک ایسا اتفاق جسے وہ دوبارہ نہیں چاہتی تھی۔اسے پتہ نہیں تھا کہ یہ اتفاقی ملاقات اسکے لیئے کتنے خطرناک اثرات لیکر آنے والی تھی۔۔۔مہینوں یا سالوں میں نہیں بلکہ دنوں میں۔۔۔

دو دنوں بعد وہ ایک ڈنر میں مدعو تھے۔۔وہ اس وقت سالار کیساتھ کھڑی چند لوگوں سے مل رہی تھی۔۔جب اس نے ہیلو کی ایک شناسائی آواز سنی۔امامہ نے گردن موڑ کر دیکھا اور پھر وہ ہل نہ سکی۔۔وہ فاروق تھا جو بے حد گرمجوشی کیساتھ سالار سے مل رہا تھا۔۔

میری بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔سالار اب اسکا تعارف کروا رہا تھا۔۔تعارف کی ضرورت نہیں ہے میں پہلے ہی ان سے مل چکا ہوں۔۔۔سالار نے کچھ حیران سا ہوکر فاروق کو دیکھا۔۔

آپ مل چکے ہیں امامہ سے؟؟؟

بلکل ابھی پرسوں ہی تو ملے ہیں۔۔ڈاکٹر جلال انصر کیساتھ لنچ کر رہی تھی۔۔دراصل جلال ھمارے فیملی ڈاکٹر ہیں۔۔انہوں نے بتایا کہ یہ انکی پرانی کلاس فیلو ہے اور جب انہوں نے اسکو آپکا ویزیٹنگ کارڈ دیا تب مجھے پتہ چلا کہ یہ آپکی وائف ہیں۔۔۔

فاروق بڑے خوشگوار انداز میں کہہ رہا تھا۔۔۔

میں نے اور میری مسز نے تو کھانے پہ بھی انوائٹ کیا تھا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ آپ آجکل مصروف ہیں۔۔

فاروق نے نہ امامہ کی فق ہوتی رنگت کو دیکھا نہ سالار کے بے تاثر چہرے کو۔۔جو کچھ وہ کہہ رہا تھا سالار کو اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔اسکے کان جیسے سن ہورہے تھے۔۔وہ جلال انصر سے مل رہی ہے؟؟ لیکن کب سے۔۔۔۔

فاروق کی بات سنتے ہوئے امامہ نے اسے خشک ہوتے گلے کیساتھ دیکھا۔۔اس نے اسکے بے تاثر چہرے کو دیکھ کر غلط اندازہ لگایا تھا۔۔

میں اسے سب کچھ بتادوں گی وہ میری بات سمجھ لے گا اسکے بے تاثر چہرے نے امامہ کو عجب خوش فہمی میں مبتلا کردیا۔

آپ ظہیر صاحب سے ملے ہیں؟؟ اس نے ایک دم سالار کو فاروق کی بات کاٹتے دیکھا۔۔۔

آئے ہوئے ہیں کیا؟؟

ہاں ابھی ہم لوگ آپ ہی کی بات کر رہے تھے۔۔آئیے میں آپکو ملواتا ہوں ۔۔سالار فاروق کو لیئے ایک طرف چلا گیا۔۔

وہ دوبارہ پلٹ کر اسکی طرف نہیں آیا۔۔ایسا پہلی سار ہوا تھا کہ وہ کسی پارٹی میں اسکے پاس نہیں آیا تھا۔۔۔وہ کچھ پریشان ہوگئی۔ لیکن اسے ابھی بھی یقین تھا کہ سالار اس چیز کو بڑا ایشو نہیں بنائے گا۔۔۔

گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بھی اسکی خاموشی ویسے ہی تھی۔۔گاڑی کے مین روڈ پر آنے کے چند منٹوں بعد امامہ نے اسکی طویل خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی۔۔

تم مجھ سے ناراض ہو۔۔۔؟؟

Will you please shut up

وہ فریز ہوگئی تھی۔۔۔

میں اس وقت گاڑی ڈرائیو کرنا چاہتا ہوں۔۔تمہاری بکواس سننا نہیں چاہتا۔۔وہ اس پر چلایا نہیں تھا لیکن جو کچھ اسکی نظروں میں اور اسکے ٹھنڈے لہجے میں تھا۔۔۔وہ امامہ کو مارنے کے لیئے کافی تھا۔ وہ اسے دوبارہ مخاطب کرنے کی ہمت نہ کرسکی ۔۔اتنے مہینوں میں اس نے اسے اندھا دھند گاڑی کو ڈرائیو کرتے ہوئے دیکھا ۔۔

اپارٹمنٹ میں داخل ہون ے کی بعد وہ اپنی جیکٹ لاؤنج میں صوفے صوفے پر پھینکتے ہوئےسیدھا کچن میں گیا۔۔امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کچن میں جائے یااسکے بیڈروم میں آنے کا انتظار کرے ۔۔اپنی چادر اتارتے ہوئے وہ کچھ دیر اپارٹمنٹ کے بیرونی دروازے کے پاس ہی کھڑی رہی اس کا ذہن اب ماؤف ہونے لگا تھا۔۔وہ اتنے عرصہ کے بعد ایک دوست اور ایک عشق کے ساتھ رہ رہی تھی لیکن آج پہلی بار ایک شوہر کا سامنا کر رہی تھی۔

کوریڈور میں کھڑے کھڑے اس نے سینڈلز اتارے۔۔تب ہی اس نے سالار کو کچن ایریا سے پانی کا گلاس لے جاتے اور پھر ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھے دیکھا ۔۔اب اسکی پشت امامہ کی طرف تھی ۔۔پانی کا گلاس حالی کر کے ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ اب اپنی ٹائ اتار رہا تھا

جاری



قسط نمبر 17۔۔۔ ۔

وہ اب اپنے گلے سے ٹائی اتار رہا تھا۔۔وہچند لمحے کھڑی اسے دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ آئی وہ کرسی کھینچ کر بیٹھی ہی تھی کہ وہ کرسی دھکیلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔۔

سالار میری بات سنو۔۔۔

ابھی کچھ اور رہ گیا ہے جو تم نے مجھے بتانا ہے؟؟ اس نے سالار کی آنکھوں میں پہلے کبھی تحقیر نہیں دیکھی تھی لیکن آج دیکھ رہی تھی۔۔

مجھے وضاحت کا موقع تو دو۔۔۔

وضاحت؟؟ کس چیز کی وضاحت؟؟ تم مجھے یہ بتانا چاہتی ہو کہ تم نے اپنے ایکس بوائے فرینڈ کے لیئے اپنے شوہر کو دھوکہ دینا کیوں ضروری سمجھا۔۔اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔

یا تم مجھے یہ بتاؤ گی کہ تمہاری ایکس بوائے فرینڈ کی وہ کونسی خوبی ہے جو تمہیں اہنے شوہر میں نظر نہیں آئی۔وہ اپنے لہجے سے اسے کاٹ رہا تھا۔۔اس سے بہتر ہے کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم کب سے اس سے مل رہی ہو۔۔۔

میں اتفاقاَ اس سے ملی وہ بھی صرف ایک بار۔۔۔۔۔اس نے بھرائ ہوئ آواز میں کچھ کہنا چاہا۔۔سالار نے پوری قوت سے ڈائننگ ٹیبل پر ہاتھ مارا۔۔

Stop befooling me women...

وہ پوری قوت سے چلایا۔۔امامہ کی ہاتھ کانپنے لگے ۔۔

تم سمجھتی ہو میں اب تم پہ اعتبار کرلوں گا۔۔تم نے میری نظروں میں اپنی عزت ختم کردی آج۔۔

You are nothing but a bloody cheater.

وہ کہتے ہوئے وہاں رکا نہں تھا۔بیڈروم میں جانے کی بعد وہ سٹڈی روم میں چلا گیا۔۔

اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر جیسے اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ دور کرنے کوشش کی۔۔اسکےالفاظ بار بار اسکے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی سالار نے بنا لی تھی لیکن اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی جتنا امامہ سمجھی تھی۔۔وہ اسکے اور جلال کے ماضی کے تعلق سے اگر واقف نہ ہوتا تو کبھی بھی کسی کلاس فیلو کیساتھ کھانے کھانے پر اتنا ہنگامہ کھڑا نہ کرتا۔۔

وہ اٹھ کر بیڈروم آگئ ۔سونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔۔وہساری رات جاگتی رہی سالار بیڈروم نہیں آیا۔اسےیقین تھا کہ صبح تک اسکا غصہ ختم نہیں تو کم ضرور ہوجائے گا۔۔اور وہ اس سے دوبارہ بات کرنا چاہتی تھی۔۔

وہ فجر کے وقت کمرے میں آیا تھا اس پر ایک نظر ڈالے بغیر وہ کہتے تبدیل کر کے نماز کے لیئے چلا گیا۔۔اسکی واپسی معمول کے مطابق جم اور جاگنگ کے بعد آفس جانے سے کچھ دیر پہلے ہوئی تھی۔۔اس نے امامہ کو تب بھی مخاطب نہیں کیا۔۔امامہ کے نکالے ہوئے کپڑوں کی بجائے وہ اہنے نکالے ہوئے کپڑے لیکر واش روم گیا۔۔

وہ کچھ دلبرداشتہ ہوکر کچن میں ناشتہ بنانے لگی۔۔سالار تیار ہوکر لاؤنج آیا لیکن ناشتے کی ٹیبل پر جانے کی بجائےسٹڈی روم چلاگیا۔اسے پتا تھا ۔وہ اپنا لیپ ٹاپ لینے گیا ہوگا وہاں لیکن ایسا وہ ناشتہ کرنے کے بعد کرتا تھا آج پہلے لینے کا مطلب تھا کہ۔۔۔۔

سالار ناشتہ لگا دیا ہے میں نے۔۔ امامہ نےاس سے کہا۔۔۔

اس کے لیئے تم جلال کو بلا لو۔۔اس نے بات نہیں کہی تھی اسے کوڑا مارا تھا۔۔۔وہ سفید پڑ گئ۔وہ ایک لمحہ رکے بنا اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔۔

وہ کتنی دیر وہاں کھڑی رہی اسکے لفظ کسی خاردار تار کی طرح اسے اپنی گرفت میں لیئے ہوئے تھے۔۔۔

وہ سارا دن کچھ کھا نہ سکی۔۔اس نے دو بار سالار کو کال کی لیکن اس نے ریسیو نہیں کی۔۔اس نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اس سے معافی مانگی۔۔اس نے ٹیکسٹ کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔وہ روزانہ سات یا آٹھ بجے کے قریب گھر اتا تھا اگر اسے کبھی دیر سے آنا ہوتا تو اسے مطلع کردیتا تھا۔۔لیکن اس دن وہ رات کو تقریباً دس بجے آیا تھا۔۔۔

آج بہت دیر ہوگئی؟ امامہ نے دروازہ کھولنے پر پوچھا۔۔۔سالار نے جواب نہیں دیا۔۔

وہ کھڑی صرف اسے دیکھتی رہ گئی۔

لاؤنج میں ریموٹ سے ٹی وی آن کرتے ہوئے وہ بیڈروم میں چلا گیا۔۔یہ جیسے اشارہ تھا کہ وہ دوبارہ ٹی وی دیکھنے کے لیئے وہاں آٰئیگا۔۔امامہ کو یقین تھا کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا لیکن پھر بھی بوجھل دل سے وہ کھانا لگانے لگی۔۔

وہ دس پندرہ منٹ بعد کپڑے تبدیل کر کے لاؤنج میں آگیا تھا۔۔فریج سے انرجی ڈرنک نکال کر وہ صوفے پر بیٹھ کر چینل سرفنگ کرنے لگا۔

کھانا تیار ہے۔۔امامہ نے اسے انفارم کیا۔۔وہ ٹی وی دیکھتا رہا۔۔

تم کھانا کیوں نہیں کھا رہے۔۔وہ آگے بڑھی۔۔اس نے ٹی وی سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔۔

یہ میرا گھر ہے، یہاں موجود ہر چیز میری ہے، اور کھانا کھانا نہ کھانا میرا مسلہ ہے تمہارا نہیں۔۔۔اسکی آنکھوں میں بے رخی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔۔۔

مں نے تمہارے انتظار میں ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔۔

Stop this bullshit

وہ عجیب سے انداز میں ہنسا تھا۔۔۔

میں تمہارے ہاتھوں بے وقوف ضرور بن گیا ہوں لیکن بے وقوف ہوں نہیں۔۔۔

سالار تم جو سمجھ رہے ہو ایسا بلکل نہیں۔۔وہ اسکے سامنے صوفے پر بیٹھ گئ ۔۔۔

بلکل تم ٹھیک کہہ رہی ہو میں جو تمہیں سمجھا تھا وہ غلط تھا۔۔

امامہ کے خلق میں پھر گرہیں پڑنے لگی۔۔

تم میری بات کیوں نہیں سن لیتے۔۔اس نے بھرائ ہوئ آواز میں کہا۔۔

امامہ ۔۔۔آج میرے سامنے رونا مت، تم مجھے استعمال کر رہی ہو ایکسپلائٹ کر رہی ہو،،، کرو ۔۔لیکن ایموشنلی بلیک میل مت کرو

۔وہ اسکے آنسو دیکھ کر بری طرح مشتعل ہوا تھا۔۔

ٹھیک ہے تم بات سننا نہیں چاہتے۔۔مت سنو۔۔لیکن معاف کردو مجھے۔۔۔میری غلطی ہے مجھے اس سے نہیں ملنا چاہیئے تھا۔۔اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔

اسطرح ملنے کی بجائے تمہیں اس سے شادی کرلینی چاہیئے ۔۔اس نے اسکی بات کاٹ کر کہا۔۔

سالار وہ شادی شدہ ہے۔۔وہ بات مکمل نہ کرسکی۔۔اسکے آنسو بہنے لگے تھے اور اسکے بات ادھورا چھوڑنے پر وہ سلگا تھا۔۔

بہت دکھ ہے تمہیں اسکے شادی شدہ ہونے کا؟؟ تو کہو اس سے تم سے دوسری شادی کرلے یا بیوی کو طلاق دے لیکن اسے ایسا کرنے کی کیا ضرورت ہے تم تو ویسے ہی اسے دستیاب ہو۔۔

وہ سانس نہ لے سکی۔۔کم از کم اسے اسکی زبان سے یی سننے کی توقع نہیں تھی۔۔

کیا مطلب ہے تمہارا؟؟ اس نے بے یقینی سے کہا۔۔

تم جو مطلب نکالنا چاہتی ہو نکال لو۔۔اس نے کہا۔۔

میرے کیریکٹر پر بات کر رہے ہو تم ؟؟اسکا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔۔

کیریکٹر ہے تمہارا؟؟ اس نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔۔

کیریکٹر تھا تو شادی کی تھی تم نے ۔۔۔اسے اپنی بھرائ ہوئ آواز اے خود ہی جھنجھلاہٹ ہونے لگی تھی۔۔

شادی نہیں غلطی کی تھی۔and i regret it وہ اسکا منہ دیکھ کر رہ گئ۔خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا تھا۔۔پھر اس نے اپنے خلق میں پھنسا آنسووں کا گولہ نگلتے ہوئے کہا۔۔

میری فیملی ہوتی نا تو میں تم سے اس طرح کی ایک بات بھی نہ سنتی۔لیکن اب اور کچھ مت کہنا ورنہ میں تمہارا گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔۔

سالار نے جواب میں ٹیبل پر پڑا اپنا سیل اٹھایا۔۔اس نے فرقان کو کال کی۔

تمہارا ڈرائیور سو تو نہیں گیا۔۔

نہیں۔۔۔دوسری طرف سے فرقان نے کہا۔۔

تمہیں ضرورت ہے؟؟

ہاں۔۔۔۔

اچھا میں اسے بتاتا ہوں۔۔سالار نے سیل فون بند کردیا۔۔

ڈرائیور تمہیں چھوڑ آتا ہے تم پیکنگ کر کے جاسکتی ہو۔۔لیکن مجھے کبھی گھر چھوڑنے کی دھمکی مت دینا۔۔جو کچھ تم میرے گھر میں رہ کے کر رہی ہو بہتر ہے یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔وہ اٹھ کر بیڈروم چلا گیا۔۔

وہ بت کی طرح وہی بیٹھی رہی۔۔اس نے اسے دھکے دیکر نہیں نکالا تھا لیکن وہ یہی سمجھی۔۔۔چند لمحے بعد وہ اٹھ کر اپارٹمنٹ سے باہر آئی۔۔

لفٹ میں اس نے اپنے دوپٹے سے بھیگی آنکھوں اور چہرے کو رگڑ کر خشک کیا۔۔وہ ڈرائیور کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی۔۔

مجھے سعیدہ اماں کی طرف چھوڑ دو۔۔اس نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے کہا۔۔

سعیدہ اماں نے نیند سے اٹھ کر دروازہ کھولااور امامہ کو دیکھ کر بری طرح پریشان ہوئی۔۔مگر اس سے زیادہ پریشان وہ اسے اندر آکر بلک بلک کر روتے دیکھ کر ہوئی تھی۔۔

سالار نے گھر سے نکال دیا؟ وہ سن کر حواس باختہ ہوگئ تھی۔۔وجہ کیا تھی۔۔وہ سعیدہ اماں کو تو کیا کسی کو بھی نہیں بتا سکتی تھی۔۔

بھائی جان کو فون ملا کردو۔۔۔میں ان سے بات کرتی ہوں۔۔ایسے کیسے گھر سے نکال سکتا ہے وہ۔۔سعیدہ اماں کو غصہ آنے لگا۔۔۔

امامہ نے اسکے اصرار کے باوجود آدھی رات کو ڈاکٹر سبط علی کو فون نہیں کیا۔۔۔یہ مصیبت اسکی تھی وہ اسکے لیئے لوگوں کی نیند خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔

وہ خود پچھلی رات نہیں سوئ اور اب اسطرح روتے روتے اسکا سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔۔فجر کی نماز کے بعد وہ سونے کے لیئے لیٹ گئ۔نیند مشکل سے آئ لیکن آ گئ تھی۔۔

دوبارہ اسکی آنکھ دوپہر کو کھلی اور آنکھ کھلنے پر اسے یہ سب ایک بھیانک خواب کی طرح لگا تھا۔۔۔

سالار نے کوئ فون تو نہیں کیا؟؟ اس نے سعیدہ اماں کے کمرے میں آنے پر پوچھا۔۔

نہیں ۔۔۔۔تم نہالو میں کھانا لگانے لگی ہوں۔۔پھر بھائ صاحب کی طرف چلتے ہیں۔۔سعیدہ اماں کہہ کر نکل گئ۔۔پتا نہیں اسے کیوں امید تھی کہ وہ پچھتا رہا ہوگا شاید اسکے چلے جانے کے بعد اسے احساس ہوگیا ہوگا کہ اس نے زیادتی کی ہے۔بارہ گھنٹے غصہ ختم ہونے کے لیئے کافی تھے اگر یہ سب کچھ اس نے غصے میں کیا تھا تو۔۔۔۔۔۔

اس نے بوجھل دل کیساتھ شاور لیا اور سعیدہ اماں کے گھر پڑے ہوئے اپنے کپڑوں میں سے ایک جوڑا نکال کر پہن لیا۔۔اسے بہت بھوک لگ رہی تھی لیکن دو لقمے لیتے ہی اسکی بھوک مرگئ۔۔

سعیدہ اماں نے زبردستی اسے کھانا کھلایا۔۔وہ کھانے کے فوراً بعد ڈاکٹر صاحب کی طرف جانا چاہتی تھی لیکن امامہ ڈاکٹر صاحب کو انکے آفس فون پر اس طرح کی گفتگو سے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔

لیکن سعیدہ اماں اس پر تیار نہیں تھی وہ اسے زبردستی ڈاکٹر صاحب کے گھر لے آٰئی۔۔کلثوم آنٹی سب کچھ سن کر سعیدہ اماں کی طرح حواس باختہ ہوئی ۔۔ڈاکٹر صاحب ابھی آفس سے نہیں آئے تھے۔۔۔

لیکن بیٹا جھگڑا کس بات پر ہوا۔۔؟؟؟امامہ کے پاس اس ایک سوال کا جواب نہیں تھا۔۔

سعیدہ اماں اور کلثوم آنٹی کے ہر بار پوچھنے پر اسے احساس ہوتا کہ اس سوال کا جواب اسکی نیت صاف ہونے کے باوجود اسکو مجرم بنا رہا تھا۔۔اگر وہ انکو یہ بتاتی کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ کھانے پر گئ تھی تو وہ کبھی کسی اچھے رد عمل کا اظہار نہیں کرتے۔۔وہ یہ سب ڈاکٹر صاحب کو بھی نہیں بتاسکتی تھی جو گھر آتے ہی اسے اس طرح دیکھ کر پریشان ہوئے تھے۔

اسے میرے کیریکٹر پر شک ہے۔۔اس نے انکے بار بار پوچھنے پر سر جھکائے ہوئے کہا۔۔ڈاکٹر سبط علی کو جیسے شاک لگا تھا۔۔سعیدہ اماں اور کلثوم آنٹی بھی بول نہ سکی۔۔ڈاکٹر صاحب نے اسکے بعد کوئ سوال نہیں کیا اس سے۔۔۔

وہ رات کو آئے گا تو میں اس سے بات کروں گا۔۔پریشانی کی بات نہیں۔۔ٹھیک ہوجائے گا سب۔۔۔اس نے امامہ کو تسلی دی۔۔

میں اسکے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔میں جاب کرلوں گی لیکن اب اسکے گھر نہیں جاؤں گی۔۔ڈاکٹر سبط علی نے اسکی کسی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔۔وہ اب بھی شاک میں تھے۔سالار سکندر کے بارے میں جو تاثر وہ آج تک بنائے بیٹھے تھے وہ بری طرح مسخ ہوا تھا۔وہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ سب کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہوسکتا ہے ورنہ سالار اس لڑکی کو آدھی رات اس طرح کا الزام لگا کر نہیں نکال سکتا جس کو وہ اپنی بیٹی کہتے تھے۔۔

فرقان اس رات اکیلا آیا تھا۔۔سالار اسکے ساتھ نہیں تھا۔ڈاکٹر صاحب نے لیکچر کے بعد اسے روک لیااور سالار لے بارے میں پوچھا۔۔

وہ کچھ مصروف تھا اس لیئے وہ نہیں آسکا۔۔فرقان نے اطمینان سے کہا۔۔

آپ کو اس نے بتایا ہے کہ اس نے امامہ کو گھر سے نکال دیا ہے؟؟ فرقان چند لمحے بول نہ سکا۔۔

امامہ کو؟؟؟ اس نے بے یقینی سے کہا۔۔۔

آپکے ڈرائیور کے ذریعے ہی اس نے کل امامہ کو سعیدہ بہن کے گھر بجوایا تھا۔۔

فرقان کو پچھلی رات سالار کی کال یاد آگئ۔

مجھے یقین نہیں آرہا،، کیسے؟؟؟مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرقان کا دماغ واقعی چکرا گیا۔۔۔سالار امامہ پر جس طرح جان چھڑکتا تھا کم از کم اس کے لیئے یہ بات ماننا ممکن نہیں تھا کہ وہ اسے گھر سے نکال سکتا ہے۔۔اور وہ بھی اس طرح آدھی رات کو۔۔وہ اسے کل جم میں بہت خاموش لگا تھا اور آج تو آیا ہی نہیں تھا۔۔

میں اسے ابھی فون کرتا ہوں میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔۔۔

فرقان نے پریشان ہوتے سالار کو اپنے سیل سے کال کی سالار کا سیل آف تھا۔۔اس نے دوبارہ گھر کے نمبر پر ٹرائی کیا کسی نے فون نہیں اٹھایا۔۔اسنے کچھ حیران ہو کر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔۔

فون نہیں اٹھا رہا۔۔سیل آف ہے۔۔میں گھر جاکر اس سے باے کرتا ہوں آپ امامہ کو میرے ساتھ بھیج دے ۔۔فرقان واقعی پریشان ہوگیا تھا۔

نہیں۔۔۔۔امامہ آپکے ساتھ نہیں جائیگی۔اس نے نکالا ہے خود ہی آکر معذرت کر کے لے جائے۔ڈاکٹر صاحب نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔

آپ اسے جاکر میرا پیغام دے۔۔فرقان نے ڈاکٹر سبط علی کو کبھی اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا۔۔****

*****-----*****-----***----

سالار نے بیل کی آواز کو چند بار نظرانداز کرنے کی کوشش کی لیکن جب اسے اندازہ ہوگیا کہ فرقان جانے کا کوئ ارادہ نہیں رکھتااور اسکا یہ ارادہ کیوں تھا وہ جانتا تھا۔اس نے جاکر دروازہ کھولا اور پھر دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر آگیا۔۔۔

تم نے امامہ کو گھر سے نکال دیا ہے؟؟فرقان نے اندر آتے ہی اپنے عقب میں دروازہ بند کرتے ہوئےکہا۔۔

میں نے نہیں نکالا وہ خود گھر چھوڑ کر گئ ہے ۔۔سالار نے پیچھے دیکھے بغیر سٹڈی روم میں جاتے ہوئے کہا۔۔

مجھ سے جھوٹ مت بولو۔ تم نے خود مجھے ڈرائیور کو بھیجنے کا کہا تھا۔۔

فرقان اسکے پیچھے سٹڈی روم میں آگیا۔۔۔

ہاں۔۔کہا تھا کیونکہ اس نے مجھے گھر چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔۔تو میں نے کہا ٹھیک ہے تمہیں کل جانا ہے تم آج چلی جاؤ ۔۔لیکن میں نے اسے نکالا نہیں۔۔۔

اس نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بے تاثر چہرے سے کہا۔۔فرقان نے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرے ایش ٹرے کو دیکھااور پھر اس سلگتے ہوئے سگریٹ کو جسے وہ دوبارہ اٹھا رہا تھا۔۔

بیویاں گھر چھوڑنے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہیں اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسے اس طرح گھر سے نکال دو۔۔فرقان نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔

دیتی ہوگی but she dare not do that to me.....

اس نے فرقان کی بات کاٹ کر کہا۔۔

ڈاکٹر صاحب کتنے پریشان ہیں تمہیں اندازہ ہے؟؟

یہ میرا اور اسکا معاملہ ہے وہ ڈاکٹر صاحب کو بیچ میں کیوں لائ ہے۔۔وہ سلگا تھا۔۔

وہ کیسے نہ لیکر آتی تم اسے گھر سے نکالتے اور ڈاکٹر صاحب کو پتا نہ چلتا؟؟؟

وہ چاہتی تو نہ پتا چلتا۔اگر اتنی جرات تھی کہ گھر چھوڑ کر چلی گئ تو پھر اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیئے تھا کہ منہ بند رکھتی۔۔۔اس نے سگریٹ کا ٹکڑا ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے کہا۔۔۔

تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔

کچھ نہیں۔۔۔۔۔

کس بات پہ جھگڑا ہوا ہے تم دونوں کا۔۔۔؟؟

بس ہوگیا کسی بات پر۔۔۔وہ کم از کم وجہ بتانے کا کوئ ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔

فرقان آدھے گھنٹے بحث کے بعد اس سے وجہ معلوم نہ ہوسکی اور پھر اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔

ٹھیک ہے جو ہو گیا سو ہوگیا اب تم اسے لے آؤ۔۔

یہ میں نہیں کروں گا۔۔نہ میں نے اسے نکالا ہے نہ میں اسے لیکر آؤں گا۔۔وہ خود آنا چاہتی ہے تو آجائے۔۔اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔

اور ڈاکٹر صاحب یہ سب نہیں ہونے دینگے۔۔انکا پیغام یہی ہے کہ تم جا کر معذرت کر کے اسے لے آؤ۔۔سالار خاموش رہا۔۔۔

میرے ساتھ چلو ابھی اسے لے آتے ہیں۔۔

میں نہیں جاؤں گا۔۔ڈاکٹر صاحب سے میں خود بات کرلوں گا۔۔

ابھی کرو بات۔۔۔۔۔۔

میں ابھی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔میں چاہتا ہوں وہ کچھ دن وہاں رہے یہ اسکے لیئے اچھا ہوگا۔۔۔فرقان اگلے دو گھنٹے بیٹھے اسے یہی سمجھاتا رہا۔۔لیکن وہ اسکے انکار کو اقرار میں نہ بدل سکا۔۔وہ بے حد ناخوش سالار کے اپارٹمنٹ سے گیا۔ اسکی خفگی نے سالار کے فرسٹریشن میں اور بھی اضافہ کیا۔۔

******-----****----*****-*

ڈاکٹر سبط علی اگلے چار دن اسکا انتظار کرتے رہے وہ نہیں آیا نہ ہی اسکا کوئی فون آیا تھا۔۔انہیں خود اسکو فون کرنے میں عار تھا۔۔انہیں کہی نہ کہی یہ توقع تھی کہ وہ انکا اتنا احترام ضرور کرتا ہے کہ اسکا پیغام ملنے پر آجاتا۔۔لیکن اسکی مکمل خاموشی نے جیسے انہیں ذہنی دھچکا پہنچایا تھا۔۔امامہ اس دن سے انکے گھر پر تھی۔

فرقان ڈاکٹر سبط علی اور سالار کے اپارٹمنٹ کے درمیان گھن چکر بنے ہوئے تھے۔۔اس ساری صورت حال میں میں سب سے زیادہ ابتر ذہنی حالت امامہ کی تھی۔۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اسکے معاملے میں اس طرح کا رویہ دکھا سکتا ہے۔۔

چوتھے دن ڈاکٹر سبط علی نے سالار کو فون کردیا۔۔وہ آفس میں بیٹھا ہوا تھا اور سیل پر ڈاکٹر صاحب کا نمبر دیکھ کر چند لمحے وہ ہل نہ سکا ۔۔یہ ایک ایسی کال تھی جس سے وہ بچنا بھی چاہتا تھا اور جسے وہ اٹینڈ نہ کرنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا تھا۔۔رسمی سلام۔دعا کے بعد ڈاکٹر سبط علی نے بغیر کسی تمہید کے اس سے کہا۔۔

آپ اگر شام کو میری طرف آسکتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ میں آجاتا ہوں۔۔اگر معاملہ ختم کرلیں گے تو ٹھیک ہے ورنہ معاملہ ختم کرلیں گے۔۔۔

انکے الفاظ میں اسکے لیئے کسی بھی قسم کا ابہام نہیں تھا۔۔

میں آجاؤں گا۔۔۔

مہربانی ہوگی آپکی۔۔۔۔اس نے مزید کوئی بات کیئے بنا سلام کر کے فون بند کردیا۔۔۔

وہ فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہا ڈاکٹر سبط علی کا یہ لہجہ اسکے لیئے نیا تھا اور غیر متوقع وہ جملہ تھا جو اس نے آخر میں کہا۔۔معاملہ ختم کرنے تک نوبت کیسے آگئ تھی۔اسکے نزدیک یہ ایک جھگڑا تھا۔۔پہلی بار اسکے پیٹ میں گرہیں پڑی تھی۔۔

اس شام پہلے کی طرح ڈاکٹر سبط علی نے اسے دروازے سے ریسیو نہیں کیا۔نہ اس سے مصافحہ کیا نہ اسکے لیئے اٹھے تھے۔۔۔وہ لاؤنج میں کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔۔اس کے آنے پر اس نے کتاب بند کر کے سائیڈ پہ رکھی۔سالار سلام کر کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔

میں تم سے بہت لمبی چھوڑی بات نہیں کروں گا سالار۔۔سالار نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔۔وہ انکے منہ سے پہلی بات تم کا طرز تخاطب سن رہا تھاورنہ وہ تو اپنے ملازم کو بھی آپ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔۔

میں پچھلے چار دن سے صرف اس بات پر شرمندہ ہوں کہ میں نے امامہ کی شادی تم سے کیوں کرائ۔تم اس قابل نہیں تھے۔۔محبت کے دعوے کرنا اور بات ہوتی ہے لیکن کسی عورت کو اپنے گھر میں عزت سے رکھناایک بلکل الگ بات ہے۔۔تم صرف پہلا کام کر سکتے تھے۔۔

لاؤنج سے منسلک کمرے میں وہ ڈاکٹر صاحب کی آواز اور اسکی خاموشی کو سن رہی تھی۔۔

اپنی بیوی کو اس طرح نکالنے والے مرد کو میں مرد تو کیا انسان بھی نہیں سمجھتا۔۔۔تمہیں اگر اس بات کا پاس نہیں تھا کہ وہ تمہاری بیوی ہے تو اس بات کا پاس ہونا چاہیئے تھا کہ وہ میری بیٹی ہے۔۔

میں نے اسے گھر سے نہیں نکالا وہ خود۔۔۔۔۔۔۔سالار نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔۔ڈاکٹر صاحب نے اسکی بات کاٹ دی۔

تم نے گاڑی ارینج کی تھی۔۔۔اندر بیٹھی امامہ کانپنے لگی تھی۔۔اس نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی اتنی بلند آواز میں بات کرتے نہیں سنا تھا۔

تمہیں جرات کیسے ہوئی کہ تم اسکے کردار کے بارے میں بات کرو۔۔

سالار نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا انکا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔۔

آپ نے اس سے یہ پوچھا کہ یہ بات میں نے کیوں کی تھی۔۔۔اندر بیٹھی امامہ کا چہرہ فق ہوگیا۔۔

میں اس سے کچھ نہیں پوچھوں گا میں تمہارے کردار کو نہیں جانتا لیکن وہ نو سال سے میرے پاس ہے وی کوئ ایسا کام نہیں کرسکتی جس پر تم اسکے کردار پر انگلی اٹھاؤ۔۔

اسے یقین تھا وہ اب جلال کا نام لے گا۔۔۔۔اب لے گا۔۔۔۔۔اسکا پورا جسم سرد پڑا تھا۔۔سالار کا ایک جملہ اسے اس وقت ڈاکٹر صاحب کی نظروں میں گرانے والا تھا۔۔۔۔۔ایک۔۔۔۔۔دو۔۔۔۔۔تین۔۔۔۔۔چار۔۔۔۔اسکا دل سیکنڈز سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے دھڑکنے لگا۔۔۔

پھر امامہ نے اسکی آواز سنی، ایک لمحے کے لیئے اسکا دل رک گیا۔۔

آئ ایم سوری۔۔۔اسے یقین نہیں آیا۔۔۔یہ وہ جملہ نہیں تھا جسکی وہ توقع کر رہی تھی۔۔اسکی سوری نے اسے شاک کیا تو ڈاکٹر صاحب کو اور بھی مشتعل کردیا۔۔

ایک بات یاد رکھنا تم سالار۔۔جو کچھ تم کو زندگی میں ملنا ہے اس عورت کے مقدر سے ملنا ہے یہ تمہاری زندگی سے نکل گئ تو خواری کے سوا کچھ تمہارے ہاتھ نہیں آئیگا۔۔ہاتھ ملو گے ساری عمر تم۔۔۔تمہاری خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے تمہیں امامہ کا کفیل بنایا کبھی رازق بننے کی کوشش بھی مت کرنا رازق تم نہیں ہو اسکے اللہ اسکو تم سے بہتر کفیل دے دیگا۔۔۔

وہ کاٹو تو لہو نہیں کے مصداق بنا بیٹھا تھا۔۔

شرمساری سی شرمساری تھی جو وہ محسوس کر رہا تھا۔۔اور اندر بیٹھی امامہ بھی اسی طرح ندامت کے سمندر میں غرق تھی۔۔۔

اسے گھر میں رکھنا ہے تو عزت سے رکھو ورنہ ابھی اور اسی وقت اسے چھوڑ دو۔تم سے کئ گنا اچھے انسان کیساتھ اسکو بیاہ دوں گا۔۔

میں آپ سے اور اس سے بہت شرمندہ ہوں۔۔آپ اسے بلائیں میں اس سے معذرت کرلیتا ہوں۔

اندر بیٹھی امامہ جیسے زمین میں گڑ گئ تھی۔۔

کلثوم آنٹی اسے بلانے آئ تھی اور اسکا دل چاہا لہ وہ کہی بھاگ جائے۔زندگی میں اپنے شوہر کا جھکا ہوا سر دیکھنے سے بڑی ندامت کا سامنا اس نے آج تک نہیں کیا تھا۔

میں بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں جو کچھ ہوا نہیں ہونا چاہیئے تھا ۔جو کچھ کیا غلط کیا میں نے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔۔سالار نے نظریں اٹھائے بغیر اسکے بیٹھتے ہی کہا۔۔امامہ کے رنج میں کچھ اور اضافہ ہوا۔۔آج سالار کیساتھ زیادتی ہوئ تھی اور اسکا ذمہ دار وہ خود کو ٹھرا رہی تھی۔۔

بیٹا آپ جانا چاہیں تو چلی جائیں اور نہیں جانا چاہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا۔۔

نہیں۔۔۔میں جانا چاہتی ہوں۔۔اس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔۔

ٹھیک ہے پھر اپنا سامان پیک کرلیں۔۔ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا۔۔وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئ۔اس نے سامان بیگ میں رکھا ۔ڈاکٹر صاحب امامہ کے اٹھتے ہی سٹڈی روم میں چلے گئے اور وہ سر جھکائے بیٹھا رہا۔۔

بیٹا کھانا لگواؤں؟؟ کلثوم آنٹی نے جیسے ماحول بہتر کرنے کی کوشش کی۔۔

نہیں ۔۔۔میں کھانا کھا کر آیا تھا۔۔

اس نے اب بھی نظریں نہیں اٹھائی۔وہ نظریں اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔۔

ملازم سوفٹ ڈرنک کا ایک گلاس اسے دیکر گیا سالار نے چند گھونٹ لیکر گلاس واپس رکھ دیا۔۔

امامہ کو پیکنگ میں پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے سالار نے کھڑے ہوکر خاموشی سے اس سے بیگ لے لیا۔۔ڈاکٹر صاحب بھی انکو گاڑی تک چھوڑنے آئے تھے لکن ھمیشہ کی طرح سالار سےاس بار بغلگیر نہیں ہوئے۔۔

گاڑی کے سڑک پر آنے تک دونوں میں کوئ بات نہیں ہوئی پھر سالار نے کہا۔۔۔

میں شرمندہ ہوں میں نے تمہارے ساتھ غلط رویہ اپنایا۔۔۔

سالار میں تم سے بہت شرمندہ ہوں مجھے پتا نہیں تھا کہ ابو کو غصہ آئے گا۔۔انہوں نے تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سالار نے اسکی بات کاٹ دی نہیں انہوں ٹھیک لیا جو بھی کیا غلط تو کچھ بھی نہیں کہا اس نے لیکن میں نے تمہارے کیریکٹر کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔

تمہارا مطلب ہے کہ تم یہ سب کہو گے اور میں یہ نہ سمجھوں کہ تم میرے کردار پہ انگلی اٹھا رہے ہو۔۔سالار خاموش رہا تھا۔

وہ مجھے اتفاقاً اس دن پارک میں مل گیا تھا اس نے کہنا شروع کیا اس دفعہ سالار نے اس کو نہیں ٹوکا۔۔۔ابھی چند ماہ پہلے اس نے دوسری شادی کی ہے اس نے لنچ کے لیئے اصرار کیا مجھے خیال بھی نہیں آیا کہ تمہیں برا لگ سکتا ہے اور میں نے تو لنچ بھی نہیں کیا۔ کچھ دیر بیٹھے رہے پھر وہ آدمی اور انکی مسز آگئیں۔۔مجھے دیر ہورہی تھی تو میں وہاں سے گھر آگئ۔بس اتنی سی بات تھی میری غلطی بس یہ تھی کہ میں نے تمہیں بتایا نہیں۔

اور میری غلطی یہ تھی کہ میں نے تمہاری بات سنی نہیں ۔سن لینی چاہیئے تھی۔۔آئ اوور ری ایکٹڈ۔۔

وہ اب مدھم آواز میں اعتراف کر رہا تھا۔۔

بے عزتی کروانی تھی اس لیئے۔۔۔وہ بڑبڑایا۔۔۔

وہ اسے کہنا چاہتی تھی کہ وہ اسکی کتنی احسان مند ہورہی تھی لیکن کہہ نہ سکی۔۔اسکے ایک لمحے کی چپ نے اسکی عزت رکھ کہ جیسے سارے دنوں کے رویوں کا کفارہ ادا کردیا۔۔

مجھے نہیں پتا تھا کہ تمہیں کسی آدمی کیساتھ میرا ملنا اتنا برا لگے گا۔۔ورنہ میں تو کبھی۔۔۔۔۔۔کچھ دیر کے بعد امامہ نے کہا۔۔۔

سالار نے اسکی بات کاٹءلی۔۔۔وہ کوئ آدمی نہیں تھا امامہ۔۔۔

وہ اب میرے لیئے صرف کوئ آدمی ہے۔۔سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اس نے ناک رگڑتے ہوئے ایک بار پھر آنکھیں صاف کرنے کی کوشش کی۔۔

طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟

ہاں ٹھیک ہے۔۔۔اس نے امامہ کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے جیسے ٹمپریچر چیک کیا۔۔

بخار ہے؟؟

تھوڑا سا ہے۔۔

ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں۔۔

نہیں۔۔میڈیسن لے رہی ہوں میں۔بیگ میں ہے۔۔وہ خاموش ہوگیا۔۔اس ایک واقعے نے اعتماد کے اس رشتے میں عجیب دراڑیں پیدا کردی تھی۔۔۔

اس رات گھر آکر انکے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئ۔امامہ میڈیسن لیکر سو گئ اور سالار سٹڈی روم جاکر سگریٹ پیتا رہا۔۔

وہ پچھلے کئ مہینوں سے اسے خوش کرنے کی آخری حد تک جارہا تھا اسکے سارے ناز نخرے اٹھا رہا تھا اسے یقین تھا وہ سب کچھ امامہ کے دل سے جلال انصر نامی شخص سے متعلقہ ہر طرح کے جذبات نکال دے گا۔۔وہ اسکے قریب آرہی تھی۔۔لیکن جلال کسی بھوت کی طرح دوبارہ نمودار ہوگیا تھا۔۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے اتنی خوبصورتی سے دھوکا دے رہی تھی۔۔وہ دو دن پہلے ہونے والی ایک ایک بات کو یاد کر کے سلگتا رہا۔وہ ملاقت اگر اتفاقی تھی تو اسکے بعد اس نے امامہ کی جو حالت دیکھی تھی وہ اس کے لیئے ناقابل برداشت تھی۔۔اس دن اسکے آفس میں امامہ جو آخری چیز بھولی تھی وہ باتھ روم بیسن کی سل پہ رکھی ہوئ اسکی شادی کی رنگ تھی۔۔وہ رنگ اسکے جانے کے بعد سالار کو وہاں سے ملی تھی۔۔اسکا خیال تھا گھر پہنچ کر اسے رنگ یاد آجائے گی لیکن اس دن تو کیا اگلے دو دن تک امامہ کو کچھ یاد نہیں آیا۔۔وہ مسلسل انگلی میں رہنے والی اتنی قیمتی چیز کو کیسے فراموش کر سکتی ہے۔

جلال سے ہونے والی اس ملاقات کے بعد اس نے اسکے رنگ اتارنے کو جیسے نیا مفہوم پہنا دیا تھا۔۔

*****---****---***--*

باجی آپ کہاں تھی۔۔؟

اگلی صبح وہ ملازمہ کے بیل دینے پر جاگی۔۔

میں چند دن اپنے گھر رہنے گئ تھی۔

منہ ہاتھ دھو کر وہ واپس آئ تو ملازمہ سٹڈی روم کی صفائ کر رہی تھی۔سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرے ایش ٹرے نے اسے چونکا دیا۔۔۔

مجھے لگتا ہے باجی سالار صاحب سگریٹ پینے لگے ہیں۔۔ہر روز اسی طرح ایش ٹرے بھرا ہوتا ہے۔۔اب روز روز تو کوئ مہمان نہیں آتا ہوگس۔۔

وہ جواب دیئے بغیر وہاں سے نکل گئی۔۔۔

******+---***-----*

اگلی صبح اس نے ایش ٹرے پھر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا دیکھا۔وہ اس بات سے پریشان ہوئ کہ وہ سموکر نہیں تھا لیکن عادی بن رہا ہے۔۔ کئ دنوں کے بعد اس رات سالار نے کھانا بڑی رغبت سے کھایا۔ وہ عام طور پر ایک چپاتی سے زیادہ نہیں کھاتا تھا۔ لیکن آج اس نے دو چہاتیاں کھائی۔

اور بنادوں؟؟ امامہ نے اسے دوسری چپاتی لیتے ہوئ دیکھ کر پوچھا۔

نہیں میں پہلے ہی اوور ایکٹنگ کر رہا ہوں۔اس نے منع کیا۔۔

امامہ نے اسکی پلیٹ میں کچھ سبزی ڈالنے کی کوشش کی اس نے روک دیا۔۔

نہیں میں ویسے ہی کھانا چاہ رہا ہوں۔۔امامہ نے کچھ حیرانی سے اسکا چہرہ دیکھا۔وہ جانتی تھی اسے اسکے ہاتھ کی چپاتی پسند ہے۔اس دن پہلی بار اس نے آخری لقمہ اسے نہیں دیا۔۔وہ کھانا کھانے کے بعد ٹیبل سے اٹھ گیا۔۔وہ برتن اکھٹے کر رہی تھی جب وہ کچھ پیپرز لیئے آیا۔۔۔۔۔

یہ کیا ہے؟؟ امامہ نے کچھ حیرانی سے پیپرز کو دیکھا۔۔۔

بیٹھ کر دیکھ لو۔۔۔وہ اسکے قریب کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔

وہ بھی کچھ الجھے انداز میں پیپرز لیکر بیٹھ گئی۔۔

پیپرز پر ایک نظر ڈالتے ہی اسکا رنگ فق ہوا۔۔

طلاق کے پیپرز ہیں یہ؟؟ وہ بمشکل بول سکی۔۔۔

جاری

قسط نمبر 18۔۔۔۔

نہیں یہ میں نے اپنے وکیل سے ایک ڈائیوورس ڈیڈ تیار کروایا ہے۔۔اگر کبھی خدانخواستہ ایسی صورت حال ہوگئ تو یہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کی ایک کوشش ہے۔۔

مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آئی۔۔وہ اب حواس باختہ تھی۔۔۔۔۔۔۔

ڈرو مت یہ کوئی دھمکی نہیں ہے ۔میں نےیہ پیپرز تمہارے تحفظ کے لیئے تیار کروائے ہیں۔۔سالار نے اسکے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔

کیسا تحفظ؟؟ اسے اب بھی ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔۔

میں نے علیحدگی کی صورت میں فنانشل سیکیورٹی اور بچوں کی کسٹڈی تمہیں دی ہے۔

لیکن میں تو طلاق نہیں مانگ رہی. اسکی ساری گفتگو اسکے سر پر سے گزر رہی تھی۔

میں بھی تمہیں طلاق نہیں دے رہا صرف قانونی طور پر خود کو پابند کر رہا ہوں کہ میں علیحدگی کے کیس کو کورٹ میں نہیں لیکر جاؤں گا۔۔ تمہیں علیحدگی کا حق اور بچوں کی کسٹڈی دے دوں گا۔۔جو بھی چیزیں اس عرصے میں حق مہر تحائف جیولری یا روپے اور پراپرٹی کی صورت میں تمہیں دوں گا وہ سب خلع یا طلاق دونوں صورتوں میں تمہاری ملکیت ہوگی۔میں انکا دعوی نہیں کروں گا۔۔۔

یہ سب کیوں کر رہے ہو تم؟؟ اس نے بے حد خائف انداز میں اسکی بات کاٹی۔۔

میں اپنے آپ سے ڈر گیا ہوں امامہ۔۔۔وہ سنجیدہ تھا۔۔۔

میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا کہ مجھے تم پہ اتنا غصہ آسکتا ہے۔میں نے تمہیں گھر سے نہیں نکالا لیکن اس رات میں نے پرواہ نہیں کی کہ تم گھر سے کیوں اور کہاں جا رہی ہو۔۔میں اتنا مشتعل تھا کہ میں نے یہ پرواہ بھی نہیں کی کہ تم بحفاظت کہی پہنچی بھی ہو یا نہیں۔وہ بے حد صاف گوئ سے کہہ رہا تھا۔۔اور پھر اتنے دن میں نے ڈاکٹر صاحب کی بات بھی نہیں سنی۔

I just wanted to punish you

وہ ایک لمحے کے لیئے رکا۔۔

اور اس نے مجھے خوفزدہ کردیا۔میرا غصہ ختم ہوا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔کہ میں اتنا گر سکتا ہوں میں تمہارے ساتھ اسطرح بیہیو کرسکتا ہوں۔۔لیکن میں نے کیا۔۔۔بہر حال میں ایک انسان ہوں تم کو ساتھی کی بجائے حریف سمجھوں گا تو شاید آئندہ بھی کبھی ایسا کروں۔۔ابھی شادی کو تھوڑا وقت ہوا ہے۔مجھے بہت محبت ہے تم سے میں خوشی خوشی یہ سارے وعدے تم سے کرسکتا ہوں سب کچھ دے سکتا ہوں تمہیں لیکن کچھ عرصہ بعد اگر ایسی کوئی سچویشن آگئ تو پتا نہیں ھمارے درمیان کتنی تلخی ہوجائے تب شاید میں اتنی سخاوت نہ دکھا سکوں اور ایک عام مرد کی طرح خودغرض بن کر تمہیں تنگ کروں۔۔۔اس لیئے اب ان دنوں جب میرا دل بڑا ہے تمہارے لیئے تو میں نے کوشش کی ہے کہ یہ معاملات طے ہوجائے صرف زبانی دعوے نہ کروں تمہارے ساتھ۔۔۔میری طرف سے میرے والد کے سگنیچرز ہیں اس پر تم ڈاکٹر صاحب سے اس پر سائن کروالو وہ چاہیں تو پیپرز اپنے پاس رکھیں یا تم اپنے لاکر میں رکھوا دو۔وہ آنکھوں میں آنسو لیئے اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔۔

میں نے تو تم سے کوئی سیکیورٹی نہیں مانگی۔۔اسکی آواز بھرائ ہوئ تھی۔

لیکن مجھے تو دینی چاہیئے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔میں یہ پیپرز جذبات میں آکر نہیں دے رہا تمہیں،،،، یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کر رہا ہوں۔۔۔تمہارے بارے میں بہت پوزیسیو، بہت ان سیکیور ہوں امامہ۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لیئے ہونٹ کاٹتے ہوئے رکا۔۔

اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ تم مجھے چھوڑنا چاہو تو میں تمہیں کتنا تنگ کرسکتا ہوں تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے لیکن مجھے اندازہ ہوگیا ہے۔ وہ پھر رک کر ہونٹ کاٹنے لگا۔۔۔تم میرا واحد اثاثہ ہو جسے میں پاس رکھنے کے لیئے فیئر اور فاؤل کی تمیز کے بنا کچھ بھی کرسکتا ہوں اور یہ احساس بہت خوفناک ہے میرے لیئے. میں تمہیں تکلیف پہنچانا چاہتا ہوں نہ ہی تمہاری حق تلفی چاہتا ہوں ھم جب تک ساتھ رہینگے بہت اچھے طریقے سے رہینگے اور اگر کبھی الگ ہوجائیں تو میں چاہتا ہوں ایک دوسرے کو تکلیف دیئے بغیر الگ ہوں۔۔

وہ اسکا ہاتھ تھپکتے ہوئے اٹھ کر چلاگیا۔۔وہ پیپرز ہاتھ میں لییے بیٹھی رہی۔۔

****----&***---****++--&

پودوں کو پانی کب سے نہیں دیا؟ اگلی صبح اس نے ناشتہ کی ٹیبل پر سالار سے پوچھا۔۔

پودوں کو؟؟ وہ چونکا۔

پتا نہیں۔۔شاید کافی دن ہوگئے ۔۔وہ بڑبڑایا تھا۔

سارے پودے سوکھ رہے تھے وہ اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے حیران تھی۔وہ جم سے آنے کے بعد روز صبح پودوں کو پانی دیا کرتا تھا۔۔اس سے پہلے کبھی بھی امامہ نے اسے روٹین بدلتے نہیں دیکھا۔۔وہ سلائس کھاتے کھاتے ایک دم اٹھ کر ٹیرس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔۔چند منٹوں بعد وہ پریشان سا واپس آیا تھا۔۔۔

ہاں۔۔۔مجھے خیال ہی نہیں رہا۔۔اس دن وہ پودوں کو پانی دے کر آئ تھی۔

تمہاری گاڑی فی الحال میں استعمال کر رہا ہوں ۔ دو چار دن میں میری گاڑی آجائے گی تو تمہاری چھوڑ دوں گا۔۔اس نے دوبارہ بیٹھتے ہوئے امامہ سے کہا۔۔

تمہاری گاڑی کہاں ہے۔۔۔

ورکشاپ میں ہے لگ گئ تھی۔۔اس نے عام سے لہجے میں کہا۔۔۔۔وہ چونک گئی۔۔

کیسے لگ گئ؟؟؟

میں نے کسی گاڑی کے پیچھے مار دی تھی۔۔۔وہ کچھ معذرت خواہانہ انداز میں اسے بتا رہا تھا۔ وہ اسکا چہرہ دیکھتی رہی وہ سلائس پر مکھن لگا رہا تھا۔ وہ ایکسپرٹ ڈرئیور تھا اور یہ ناممکن تھا کہ وہ کسی گاڑی کو پیچھے سے ٹکر مار دے۔

گھر میں آنے والی دراڑیں مرد اور عورت پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے۔۔عورت کی پریشانی آنسو بہانے کھانا چھوڑ دینے اور بیمار ہونے تک ہوتی ہے مرد اس میں کچھ نہیں کرتا اسکا ہر رد عمل اسکے آس پاس کی دنیا پر اثرانداز ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔

امامہ نے اسکے چہرے سے نظریں ہٹالی

***&&-----****-----------*&

اس رات وہ ڈاکٹر صاحب کے گھر اس واقعے کے بعد پہلی بار لیکچر کے لیئے گیا تھا امامہ ھمیشہ کی طرح آج بھی انکے ساتھ تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے آج بھی سالار کا استقبال کسی گرمجوشی کے بغیر صرف ہاتھ ملا کر کیا تھا۔لیکچر کے بعد ڈنر پہ بھی انہوں نے سالار کے لیئے وہی پرانی توجہ نہیں دکھائی۔ڈنر پر فرقان بھی تھا اور ڈاکٹر صاحب فرقان سے گفتگو میں مصروف رہے۔۔سالار سے آنٹی نے تھوڑی سی بات چیت کی تھی۔سالار سے زیادہ اس رات اس رویئے کو امامہ نے محسوس کیا تھا۔امامہ کو ڈاکٹر سبط علی کا سالار کو نظرانداز کرنا بری طرح چھبا تھا۔واپس آتے ہوئے وہ پریشان تھی ۔

اس رات وہ سونے کے لیئے نہیں گئی تھی۔ایک ناول لیکر وہ سٹڈی روم میں آگئ تھی۔وہ کام کرنے کی بجائے سگریٹ سلگائے بیٹھا تھا اسے دیکھ کر سگریٹ اس نے ایش ٹرے میں مسل دیا

کمرے میں اکیلی بیٹھی بور ہوتی اس لیئے سوچا یہاں آجاؤں۔۔اس نے سگریٹ کو نظرانداز کر کے سالار کو تاویل دی۔

تم ڈسٹرب تو نہیں ہوگے؟؟ اس نے سالار سے پوچھا۔

نہیں۔۔بلکل نہیں۔۔اس نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔

وہ راکنگ چیئر پہ جاکر بیٹھ گئی اور ناول کھول لیا۔۔وہ سگریٹ پینا چاہتا تھا لیکن اسکے سامنے نہیں پیتا تھا۔۔امامہ یہ جانتی تھی اس لیئے وہاں آکر بیٹھ گئ تھی۔

کچھ دیر وہ بے مقصد اسے دیکھتا رہا۔۔پھر اپنا لیپ ٹاپ نکال کر نہ چاہتے ہوئے بھی کام کرنے لگا تھا۔کافی دنوں کے بعد اس رات اس نے پریشان ہوکر سگریٹ کی بجائے کام کیا تھا۔وہ پچھلے ایک ہفتے میں صرف گھر آکر نہیں بلکہ آفس میں بھی اسی طرح چین سموکنگ کر رہا تھا اب اسے عادتاً طلب ہورہی تھی۔۔۔

ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد اس نے بلآخر امامہ کو مخاطب کیا.

تم سو جاؤ کافی رات ہوگئ ہے۔۔۔امامہ نے چونک کر اسے دیکھا

تم فارغ ہوگئے ہو؟؟

نہیں مجھے ابھی کافی کام ہے۔

تو پھر میں بیٹھی ہوں ابھی تم کام ختم کرلو میرا بھی ایک چپٹر رہتا ہے۔۔

سالار بے اختیار گہرا سانس لیکر رہ گیا۔۔یعنی آج رات وہ مزید کوئی سگرٹ نہیں پی سکتا تھا۔۔اس نے ایش ٹرے میں سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑوں کو قدرے مایوسی سے دیکھتے ہوئے سوچا.

مزید ایک گھنٹہ بعد جب وہ فارغ ہوا تو تب تک وہ اسی راکنگ چیئر پہ سو چکی تھی۔۔وہ اپنی کرسی پہ بیٹھا بے مقصد اسے دیکھتا رہا۔۔

اگلے چند دن بھی اسی طرح ہوتا رہا۔انکے درمیان آہستہ آہستہ گفتگو ہونے لگی تھی اور اسکا آغاز بھی امامہ کرتی تھی ۔۔سالار بے حد شرمندہ تھا اور اسکی خاموشی کی بنیادی وجہ یہی تھی۔وہ اس پورے واقعے سے بری طرح ہرٹ ہونے کے باوجود اسے بھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔

ڈاکٹر سبط علی نے اگلے ہفتے بھی سالار کیساتھ ویسے ہی سلوک کیا تھا اس بار امامہ کو پہلے سے بھی زیادہ رنج ہوا۔۔۔

******------****---*******

ابو۔۔آپ سالار سے اچھی طرح بات کیوں نہیں کرتے؟؟

امامہ اگلے دن سہ پہر کو ڈاکٹر سبط علی کے آفس سے آنے کے بعد انکے گھر آئ تھی۔۔۔

کیسے بات کرنی چاہیئے؟ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔۔

جیسے آپ پہلے بات کرتے تھے۔۔

پہلے سالار نے یہ سب نہیں کیا تھا۔۔اسکے بارے میں مجھے بڑی خوش گمانیاں تھی۔۔وہ مدھم آواز میں بولے۔۔

ابو وہ برا نہیں ہے۔۔وہ بہت اچھا ہے۔میری غلطی تھی۔ورنہ بات شاید اتنی نہ بڑھتی۔وہ بہت عزت کرتا ہے میری بہت خیال رکھتا ہے لیکن اب یہ سب ہونے کے بعد وہ بہت پریشان ہے۔۔۔وہ سر جھکائے وضاحتیں دے رہی تھی۔۔آپ جب اسے اگنور کرتے ہیں تو مجھے بہت ہتک محسوس ہوتی ہے۔۔وہ یہ سلوک ڈیزرو نہیں کرتا۔۔فرقان بھائ کے سامنے کتنی بے عزتی محسوس ہوتی ہوگی اسے۔۔۔وہ بے حد رنجیدہ تھی۔۔۔۔۔

ڈاکٹر سبط علی بے ساختہ ہنس پڑے۔۔امامہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔۔

میں جانتا ہوں سالار برا آدمی نہیں ہے وہ پریشان اور نادم ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قصور اسکا زیادہ نہیں اور میرا اسکے ساتھ رویہ آپکو برا لگتا ہوگا۔۔وہ حیرانی سے ڈاکٹر سبط علی کی چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔

بیٹا میں آپکو اسی بات کا احساس دلانا چاہتا تھا مرد جب غصے میں گھر چھوڑ کر جاتا ہے تو ویسے ہی واپس آجاتا ہے۔ اسکے گھر سے جانے پر اسکی عزت پہ کوئ حرف نہیں آتا نہ اسکی بیوی کی عزت پر حرف آتا ہے لیکن عورت جب غصے میں گھر سے نکلتی ہے تو اپنی اور مرد دونوں کی عزت لیکر باہر آتی ہے وہ واپس بھی آئے تو دونوں کی عزت کم ہوجاتی ہے ۔۔جھگڑا ہوا تھا، کوئ بات نہیں۔۔اس نے غصے میں برا بھلا کہہ دیا جانے کا کہہ دیا آپ گھر کے کسی دوسرے کمرے میں چلی جاتی وہ ہاتھ پکڑ کر تو نہیں نکال رہا تھا نا۔۔صبح تک اسکا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا۔۔ایک آدھ دن میں بات ختم ہوجاتی اتنا بڑا مسلہ نہ بنتا۔۔۔وہ رسانیت سے اسے سمجھا رہے تھے۔۔

مرد کے دل میں اس عورت کی کوئ عزت نہیں ہوتی جسے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ گھر کی دہلیز پار کرنے کی عادت ہو۔۔اور یہ دوسری بار ہوا ہے۔۔۔اس نے چونک کر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔۔

یاد ہے شادی کے دوسرے دن بھی آپ ناراض ہوکر سعیدہ اماں کے پاس رہ گئ تھی۔۔۔

امامہ نے نادم ہوکر سر جھکا لیا تھا۔۔اسے یہ واقعہ یاد نہیں رہا تھا۔۔۔

مرد کیساتھ انا کا مقابلہ کرنے والی عورت بیوقوف ہوتی ہے وہ اسے اپنا دشمن بنا لیتی ہے اکھڑ پن اور ضد سے مرد سے بات منوائ جاسکتی ہے لیکن اسکے دل میں اپنی محبت اور عزت نہیں بڑھائ جاسکتی۔۔اللہ نے آپکو محبت کرنے والا اور بہت سی خوبیوں والا شوہر دیا ہے اس نے آپکی عیب جوئی نہیں کی بلکہ آپ کو اپنے ساتھ لے گیا بہت کم مردوں میں یہ صفت ہوتی ہے۔ تو اگر کبھی کوئ کوتاہی ہوجائے اس سے تو اسکی مہربانیاں یاد کر لیا کریں

وہ سر جھکائے خاموشی سے انکی باتیں سنتی رہی ۔۔۔اگر میں یہ سب باتیں اس وقت آپکو سمجھاتا جب آپ یہاں آئ تھی تو آپ کبھی میری بات نہ سمجھتی۔۔آپکو لگتا کہ اگر اس وقت آپکے والدین ہوتے تو اس سچویشن میں آپکو سپورٹ کرتے اس لیئے یہ باتیں تب نہیں سمجھائ میں نے۔۔وہ ٹھیک کہہ رہے تھے وہ اسے اس وقت کچھ کہتے تو وہ بری طرح دلبرداشتہ ہوجاتی ۔

اس نے کچھ کہے بغیر وہ پیپرز نکال کر انہیں دیئے جو سالار نے اسے دییے تھے۔ یہ سالار نے دیئے ہیں مجھے لیکن مجھے اسکی ضرورت نہیں۔۔۔

ڈاکٹر سبط علی بے حد گہری مسکراہٹ کیساتھ وہ پیپرز پڑھتے رہیں، پھر ہنس پڑے۔۔۔۔

اس نے یہ بہت ناسب اور حکمت والا کام کیا ہے۔۔میں اپنے پاس آنے والے اکثرمردوں کو ان معاملات کے حوالے سے اسی طرح تصفیے کا کہتا ہوں اور کئ مردوں نے کیا بھی ہے سالار کے ذہن میں بھی وہی چیزیں ہے، لیکن اس نے آپکے لیئے کچھ زیادہ کردیا ہے۔۔

وہ پیپرز پر نظر ڈالتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔۔۔

لیکن میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کچھ کہنا چاہتی تھی جب ڈاکٹر صاحب نے اسکی بات کاٹ دی۔۔۔

آپ بھی اسکا کچھ زیادہ خیال رکھا کریں۔۔۔

وہ اسے پیپرز لوٹا رہے تھے یہ جیسے گفتگو ختم کرنے کا ارادہ تھا۔۔۔۔

*******-----*****----******

اس دن وہ پورا رستہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی انہوں نے اسے کبھی نصیحت نہیں کی تھی یہ پہلا موقع تھا۔۔کوئ نہ کوئ غلطی اس نے بھی محسوس کی تھی۔۔۔

تم ڈاکٹر صاحب کے پاس گئ تھی؟؟ سالار نے شام کو گھر آتے ہی سوال کیا۔۔

ہاں تمہیں کیسے پتا چلا؟؟ وہ کھانے کے برتن ٹیبل پر لگا رہی تھی۔۔

انہوں نے مجھے فون کیا تھا۔۔وہ گردن سے ٹائ نکالتے ہوئے بولا۔۔

اوہ۔۔۔کچھ کہا انہوں نے تم سے؟؟؟ اس نے سالار کا چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔

نہیں ویسے ہی کچھ دیر باتیں کرتے رہیں۔۔

امامہ کو محسوس ہوا وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے ۔۔ھمیشہ کی طرح کپڑے تبدیل کرنے کے لیئے بیڈروم میں جانے کی بجائے ٹائ نکال کر بے مقصد کچن کے کاؤنٹر سے ٹیک لگائے سلاد کھا رہا تھا۔

آج کیا ہے کھانے میں؟؟ شادی کے اتنے مہینوں میں پہلی دفعہ اس نے یہ سوال کیا تھا۔۔ امامہ نے اسے بتایا لیکن وہ حیران ہوئی تھی۔

اور سویٹ ڈش؟؟؟ یہ سوال پہلے سے بھی زیادہ اچھنبے والا تھا۔۔وہ میٹھے کا شوقین نہیں تھا. ۔۔۔

کل چائینیز بنانا۔۔وہ ایک بار پھر حیرانی سے اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔۔وہ کھانے کے معاملے میں فرمائشیں کرنے کا کہاں عادی تھا۔۔

کل بھی چائینیز تھا۔۔۔فریج سے پانی کی بوتل نکلتے ہوئے اس نے سالار کو جیسے یاد دلایا۔۔وہ گڑبڑا گیا۔۔۔

ہاں کل بھی چائینیز تھا کوئی بات نہیں کل پھر سہی۔۔۔

آئ مین اس میں کوئ ہرج نہیں۔۔امامہ نے صرف سر ہلایا۔۔وہ اب فریج سے چپاتیاں بنانے کے لیئے آٹا نکال رہی تھی۔۔

ایکوا بلیو کلر تم پہ بہت اچھا لگتا ہے ۔۔اس نے حیرت سے سالار کو دیکھا۔۔۔

آ۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔ایکوا بلیو نہیں ہے یہ؟؟ اس کی آنکھوں کے تاثر نے اسے گڑبڑایا تھا۔۔

سالار تمہارے ساتھ مسلہ کیا ہے/؟امامہ نے کہا۔۔۔

کیوں کیا ہوا؟؟ مجھے لگا یہ ایکوا بلیو ہے۔۔۔

یہ ایکوا بلیو ہی ہے۔۔اسی لیئے تو پوچھ رہی ہوں کہ مسلہ کیا ہے۔۔

وہ اسکی بات پہ ہنس پڑا۔۔پھر کچھ کہے بغیر آگے بڑھا اور اسے ساتھ لگالیا۔۔

میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔۔امامہ نے اسے کہتے سنا۔وہ جانتی تھی کہ وہ کس چیز کے لیئے شکریہ ادا کر رہا تھا۔۔

آئ ایم ریئلی سوری۔اینڈ آئ مین اٹ۔۔۔

وہ اب دوبارہ معذرت کر رہا تھا۔۔

آئ نو۔۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔۔۔

آئ لو یو۔۔۔امامہ کا دل بھر آیا۔۔۔۔۔

تمہیں کیسے پتا چلا کہ یہ ایکوا بلیو ہے۔ ؟

اپنی پوروں سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے امامہ نے بات بدلنے کی کوشش کی۔

تم ھمیشہ عجیب نام لیتی ہو کلرز کے۔ایکوا بلیو واحد عجیب نام تھاجو مجھے بلیو کلر کے لیئے اس وقت یاد آیا۔۔اس نے سادہ لہجے میں کہا۔۔۔وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی وہ کلر بلائنڈ تھا اسے اب اندازہ ہوچکا تھا۔۔

ویری سمارٹ۔۔اس نے جیسے اسے داد دی۔۔

یو تنگ سو۔۔وہ ہنسا۔۔۔

یس آئ ڈو۔۔۔

تھینک یو دن۔۔۔وہ کہتا ہوا کچن سے نکل گیا تھا۔۔۔

کچن کے وسط میں کھڑی وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔۔

*****----*****-----****--**

کیا لو گی تم؟؟ سالار نے مینیو کارڈ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔

میں تو شرمپ کی ڈشز میں سے کوئ ٹرائ کروں گا۔۔۔۔

وہ اسلام آباد میں دوسری بار کھانا کھانے نکلے تھے۔۔پندرہ منٹ بعد کھانا سرو ہوگیا اور کھانا کھانے کے دوران ویٹر نے ایک چٹ لاکر سالار کو دی اس نے حیرانی سے چٹ پر لکھی تحریر کو دیکھا۔۔۔۔

آپ یہ جگہ فوراً چھوڑ دے۔ سالار نے حیرانی سے سر اٹھا کے ویٹر کو دیکھا۔۔۔یہ کیا ہے/؟؟

اس نے ویٹر سے پوچھا۔۔اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا ایک کرنٹ اسے چھو کر گزرا۔۔وہ جان گیا تھا کہ وہ کیا تھا۔۔

بے حد برق رفتاری سے چند کرنسی نوٹ نکال کر اس نے ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے ویٹر کو بل کلیئر کرنے کا کہا۔۔۔امامہ حیرانی سے اسکی شکل دیکھنے لگی۔۔

کھانا چھوڑ دو ہمیں جانا ہے۔۔اس نے کھڑے ہوکر کہا۔۔

لیکن کیوں۔۔۔وہ نہ سمجھی تھی۔۔

امامہ یہ تمہیں باہر جاکر بتاتا ہوں تم بیگ لے لو اپنا۔۔وہ کرسی دھکیلتا ہوا پلٹا اور پھر ساکت ہوگیا۔۔انہیں نکلنے میں دیر ہوگئ تھی۔۔اس نے کچھ فاصلے پر امامہ کے والد اور بڑے بھائ کو دیکھا اور وہ انہی کی طرف آرہے تھے۔۔

وہ برق رفتاری سے امامہ کی کرسی کی طرف آیا۔۔امامہ ٹیبل کے نیچھے اپنے قدموں میں رکھا ہوا بیگ اٹھا رہی تھی اس نے ابھی انہیں آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔۔سالار کے اپنے قریب آنے پر بیگ اٹھاتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئ اور اس نے بھی اپنی فیملی کے افراد کو اپنی طرف آتا دیکھا۔۔ایک لمحہ میں اسکا خون خشک ہوگیا۔۔سالار نے کچھ کہنے کی بجائے اسے اپنے اوٹ میں کیا۔۔۔

سامنے سے ہٹو۔۔۔ہاشم مبین نے پاس آتے ہی بلند آواز میں اس سے کہا۔۔

آس پاس ٹیبلز پہ بیٹھے لوگ یکدم انکی طرف متوجہ ہوئے۔۔نہ صرف کسٹمرز بلکہ ویٹرز بھی۔۔

آپ ھمارے ساتھ گھر چلیں وہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔۔سالار نے تحمل سے ہاشم مبین کو کہا۔۔۔

اس نے جواباً ایک گالی دیتے ہوئے اسے گریبان سے پکڑا اور کھینچ کر ایک طرف ہٹانے کی کوشش کی۔۔وسیم اور عظیم سے امامہ کو وہاں سے لے جانے کا کہا۔۔ہاشم کے برعکس وسیم اور عظیم دونوں کچھ متامل تھے۔۔وہ جانتے تھے اس طرح زبردستی اس ریسٹورنٹ سے کسی کو ہال سے باہر نہیں لے جاسکتے کیونکہ سیکیورٹی کا سامنا کیئے بغیر امامہ کو بحفاظت وہاں سے لے جانا مشکل تھا۔۔

وہ سالار کے عقب میں اسکی شرٹ پکڑے تھر تھر کانپتی ہوئی تقریباً اس سے چپکی ہوئ تھی ۔۔۔۔جب ہاشم نے سالار کا گریبان پکڑتے ہوئے اسے کھینچا۔۔۔۔۔۔

سالار نے اپنا دفاع کرتے ہوئے گریبان چھڑاتے ہاشم مبین کو ذرا سا پیچھے دھکیلا۔انکے لیئے یہ دھکا کافی ثابت ہوا۔وہ پیر پھسلنے سے بے اختیار نیچھے گرے۔۔ ریسپشن تب تک باہر موجود سیکورٹی کو انفارم کر چکا تھا۔۔اس دھکے نے عظیم کو بھی مشتعل کردیا تھا وہ بھی بلند آواز سے گالیاں دیتے ہوئے جوش میں آیا اور بے حد غیر متوقع انداز میں سالار کے جبڑے پر ایک گھونسا رسید کیا۔۔چند لمحوں کے لیئے اسکی آنکھوں کے سامنے جیسے اندھیرا چھا گیا وہ اسکے لیئے بلکل بھی تیار نہیں تھا۔وہ ذرا سا جھکا اور عظیم اسکے پیچھے کھڑی امامہ تک جاپہنچا۔اس نے کانپتے ہوئے سالار کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی لیکن عظیم نے اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئےنہ صرف سالار سے الگ کرنے کی کوشش کی بلکہ اسکے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔۔سالار تب تک سنبھل کر سیدھا ہوکر اسے چھڑانے کے لیئے پلٹا تھا جب اسکے بائیں کندھے کی پشت پر درد کی ایک تیز لہر اٹھی اس نے ہونٹ بھینچ کر اپنی چیخ روکی۔۔وہ ہاشم مبین تھے جس نے ٹیبل پر پڑا ہوا چاقو اس کی پشت میں مارنے کی کوشش کی۔لیکن آخری لمحے میں ہلنے کی وجہ سےوہ اسکے بائیں کندھے میں جا کر لگا تھا۔۔

سیکورٹی اور دوسرے ویٹرز تب تک قریب پہنچ چکے تھے اور ان تینوں کو پکڑ چکے تھے۔۔امامہ نے نہ تو ہاشم مبین کو سالار کو وہ چاقو ماتے دیکھا تھا اور نہ ہی سالار کو چاقو کندھے سے نکالتے دیکھا۔۔سالار اپنی جینز کی جیب سے سیل نکال کر سکندر کو فون پر وہاں آنے کے لیئے کہہ رہے تھے اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے لیکن اسکے باوجود اپنا لہجہ نارمل رکھ کر سکندر سے بات کر رہا تھا۔۔وہ اپنے کندھے سے کمر تک خون کی نمی محسوس کر رہا تھا۔

آپ کو فرسٹ ایڈ کی ضرورت ہے آپ آجائیے۔۔مینجر نے اس کے پشت پر بہنے والے خون کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

امامہ نے مینجر کی اس بات پر حیران ہوکر سالار کو دیکھا وہ اب فون ہر بات ختم کر رہا تھا۔۔امامہ نے اس کے ہاتھ کو پہلی بار نوٹس کیا تھاجو وہ کندھے کے اوپر رکھے ہوئے تھا۔۔

کیا ہوا ہے؟؟ امامہ نے قدرے سراسیمگی کے عالم میں پوچھا۔۔

کچھ نہیں۔۔۔۔سالار نے اپنا بازو سیدھا کیا۔۔امامہ نے اسکی خون آلود انگلیاں دیکھی ۔۔اس نے سمجھا شاید اسکا ہاتھ زخمی ہے۔

اسے کیا ہوا؟؟ اس نے کچھ حواس باختہ ہوکر پوچھا۔۔اس نے جواب دینے کی بجائے قریبی ٹیبل سے نیپکن اٹھا کر اپنے ہاتھ صاف کرتے ہوئے امامہ کو چلنے کا اشارہ کیا۔۔وہ مینجر کے کمرے میں آگئے۔۔وہ پولیس کو جال کر چکا تھا۔اور اب وی پولیس کے آنے تک انہیں وہاں روکنا چاہتا تھا لیکن سالار زخمی تھا اسے فرسٹ ایڈ کی ضرورت تھی۔۔امامہ نے پہلی بار سا لار کی خون آلود پشت دیکھی اور دھک سے رہ گئ تھی۔۔۔۔

اگلے پانچ منٹ میں پولیس ایمبولینس اور سکندر آگے پیچھے پہنچے تھے ۔۔سکندر کے آتے ہی سالار نے امامہ کو گھر کی بجائے فوری طور پر کہی اور بھیجنے کا کہا۔۔سکندر خود سالار کو ہاسپٹل لیجارہے تھے۔۔وہ چاہنے کے باوجود اس سے یہ نہ کہہ سکی کہ وہ اسکے ساتھ جانا چاہتی ہے۔

سکندر نے اسے فوری طور پر اپنے بڑے بھائ شاہنواز کے گھر بھیج دیا۔۔

وہ وہاں بت کی طرح آکر گیسٹ روم میں بیٹھ گئ۔سالار کو کسی نے چاقو سے زخمی کرلیا تھا یہ اس نے سن لیا تھا مگر یہ اسکے باپ نے کیا تھا یا بھائیوں میں سے کسی نے۔۔۔یہ وہ نہ جان سکی۔۔۔

ریسٹورنٹ کی سیکیورٹی نے پولیس کے آنے تک ان تینوں کو ایک کمرے میں بند کردیا تھا۔

اسے ابھی آئے ہوئے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ سالار کی کال آگئ۔

تم پہنچ گئ۔۔۔اس نے امامہ کی آواز سنتے ہی کہا۔۔۔

ہاں۔۔تم کہاں ہو؟؟

ابھی کلینک پر ہوں۔۔سالار نے کہا۔۔

اور ابو؟؟؟

پاپا ساتھ ہیں میرے۔۔۔سالار نے اسکے لف ظوں پر غور نہیں کیا۔۔

میں اپنے ابو کا پوچھ رہی ہوں۔۔اس نے بے ساختہ کہا۔۔۔

اسے امامہ کی یہ تشویش بہت بری لگی۔۔

وہ تینوں پولیس کسٹڈی میں ہیں یہاں سے فارغ ہوکر ھم وہی جائینگے۔۔امامہ کا دل ڈوبا۔۔۔

باپ اور بھائیوں کے حوالات میں ہونے کے تصور نے چند لمحوں کے لیئے اسے سالار کے زخمی ہونے سے لاپرواہ کردیا۔۔

سالار انہیں پلیز معاف کردو۔۔۔اور ریلیز کروادو۔۔

سکندر اس وقت اسکے پاس تھے۔۔وہ امامہ سے کچھ کہہ نہ سکا لیکن وہ خفا ہوا تھا۔۔وہ اس سے زیادہ اپنی فیملی کے لیئے پریشان تھی۔۔

وہ زخمی تھا لیکن اس نے یہ تک پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ اب کیسا ہے؟

میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔۔اس نے کچھ کہنے کی بجائے فون بند کردیا.

کلینک میں اس کے چیک اپ میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔خوش قسمتی سے اسکی کوئ رگ کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔۔۔

کلینک میں ہی سکندر کی فیملی کے افراد نے آنا شروع کردیااور سالار کو سکندر کے اشتعال سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ معاملہ سنجیدہ نوعیت اختیار کرگیا ہے وہ خود بے حد ناراض ہونے کے باوجود معاملے کو ختم کرنے کے خواہشمند تھے لیکن سکندر نہیں مان رہے تھے۔۔۔

امامہ نے دو بار سالار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ایک دفعہ اس نے فون نہیں اٹھایا اور دوسری دفعہ اس نے فون بند کردیا۔۔۔یہ دوسری بار ہوا تھا کہ اس نے اپنا سیل اسکی وجہ سے آف کیا تھا۔۔۔

کیوں پیروی نہ کروں اس کیس کی؟؟؟ انہیں چھوڑ دوں تاکہ اگلی بار وہ تمہیں شوٹ کردے۔۔۔

اس نے ہسپتال سے پولیس سٹیشن جاتے ہوئے گاڑی میں سکندر سے کہا تھا۔۔میں بات بڑھانا نہیں چاہتا ۔۔

بات بڑھ چکی ہے اب اور اسکی ابتدا انہوں نے ہی کی ہے۔۔سکندر بے حد مشتعل تھے۔۔۔پاپا وہ امامہ کی فیملی ہے۔۔اس نے بلآخر کہا۔۔

نہیں۔۔۔۔وہ امامہ کی فیملی تھی۔۔اگر اسے امامہ کی پرواہ ہوتی تو اسکے شوہر پر کبھی ہاتھ نہ اٹھاتے۔اور اگر انہیں پرواہ نہیں تو امامہ کو بھی انکی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔۔یی ایک حد تھی جو میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ پار کرے لیکن انہوں نے یہ حد پار کرلی ہے ۔میری فیملی میں سے کسی کو تکلیف پہنچے گی تو میں ہاشم فیملی کو کسی سیف ہیون میں نہیں رہنے دوں گا میں انہیں انہی کی زبان میں جواب دوں گا یہ بات تم اپنی بیوی کو بتا بھی دو اور سمجھا بھی دو۔۔

پاپا پلیز اس ایشو کو حل ہونا چاہیئے۔۔سالار نے باپ سے کہا۔۔

یہ خواہش انکو کرنی چاہیئے تب ہی یہ مسلہ حل ہوگا۔ اسے میرے بیٹے کو ہاتھ لگانے کی جرات کیسے ہوئ اسکا خیال ہے میں یہ غنڈہ گردی براشت کرلوں گا؟؟ اب وہ مجھے پولیس سٹیشن سے نکل کر دکھائے۔۔انہیں ٹھنڈا کرنے کی ہر کوشش ناکام ہورہی تھی۔

جاری







قسط نمبر 19

معاملہ کس حد تک بڑھ جائے گا اسکا اندازہ سالار کو نہیں تھا۔ یہ صرف دو بارسوخ فیملیز کا مسلہ نہیں رہا تھا بلکہ یہ کمیونٹیز کا مسلہ بن گیا تھا۔اسلام آباد پولیس کے تمام اعلیٰ افسران اس معاملے کو حل کرنے کے لیئے وہاں موجود تھے۔ہاشم مبین کو سب سے زیادہ مسلہ ریسٹورنٹ کی انتظامیہ کی وجہ سے ہورہا تھا جہاں یہ سب کچھ ہوا۔۔

ابتدائ غصے اور اشتعال کے بعد بلآخر ہاشم فیملی نے واقعے کی سنگینی کو محسوس کرنا شروع کردیا مگر مسلہ یہ ہورہا تھا کہ سکندر فیملی کسی قسم کی لچک دکھانے کو تیار نہ تھے۔۔

فجر تک وہاں بیٹھنے کے بعد بھی مسلے کا کوئ حل نہیں نکلا اور وہ گھر واپس آگئے۔۔

سالار واپسی پر سارا رستہ سکندر کو کیس واپس لینے پر قائل کرتا رہا اور ناکام رہا۔۔

شاہنواز کے گھر گیسٹ روم میں داخل ہوتے ہی امامہ نے اس سے پوچھا ۔

ابو اور بھائی ریلیز ہوگئے؟؟ اسکا دماغ گھوم گیا تھا۔واحد چیز جسکی امامہ کو پرواہ تھی وہ یہ تھی کہ اسکے ابو اور بھائی ریدیکھا۔۔ ئے۔ اسکا زخم کیسا تھا۔اسکی طبیعت کیسی تھی۔امامہ کو جیسے اس سے کوئ دلچسپی ہی نہیں تھی۔۔

نہیں۔۔۔اور ہونگے بھی نہیں۔۔۔وہ بے حد خفگی سے کہتا ہوا واش روم چلاگیا۔ ۔۔۔پین کلرز لینے کے باوجود اس وقت تک جاگتے رہنے کی وجہ سے اسکی حالت واقعی خراب تھی اور رہی سہی کسر امامہ کی عدم استحکام وجہی نے ہوری کردی تھی۔۔۔

وہ پولیس سٹیشن میں ہیں/؟اسکے واش روم سے نکلتے ہی اس نے سرخ سوجی ہوئ آنکھوں کیساتھ اس سے پوچھا تھا۔۔۔وہ جواب دیئے بغیر بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹ گیا۔۔اور آنکھیں بند کرلی۔۔

وہ اٹھ کر اسکے پاس آکر بیٹھ گئ

کیس واپس لے لو سالار۔۔۔۔انہیں معاف کردو. اسکے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے ملتجیانہ انداز میں اس سے کہا۔۔۔سالار نے آنکھیں کھول دی۔۔۔۔

امامہ میں اس وقت سونا چاہتا ہوں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔

میرے ابو کی کتنی عزت ہے شہر میں۔۔۔وہ وہاں کیسے رہ رہے ہونگے اور کیسے برداشت کر رہے ہونگے یہ سب کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ رونے لگی۔۔۔

عزت صرف تمہارے ابو کی ہے/؟میری۔۔۔میرے ماں باپ۔۔۔۔میری فیملی کی کوئ عزت نہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟

وہ بے ساختہ کہہ گیا۔۔وی سر جھکائے ہونٹ کاٹتے ہوئے روتی رہی.

یہ سب میری وجہ سے ہوا ۔مجھے تم سے شادی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔۔

تمہارے پاس ہر چیز کی وجہ شادی ہے۔۔تم میرے ساتھ شادی کر کے جہنم میں آگئ ہو ۔۔شادی نہ ہوئ ہوتی تو جنت میں ہوتی تم۔۔ہے نا۔۔۔۔۔وہ بری طرح برہم ہوا۔۔

میں تمہیں تو الزام نہیں دے رہی میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے خائف ہوتے ہوئے کچھ کہنا چاہا ۔۔

کچھ میرے ساتھ بھی وفاداری کا مظاہرہ کرو ۔۔۔ویسی وفاداری جیسے تم اہنے باپ اور بھائیوں کے لیئے دکھا رہی ہو۔۔۔وہ بول نہیں سکی۔۔اس نے جیسے اسے جوتا کھینچ مارا تھا۔۔اسکا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔۔۔

وہ ایک لفظ کہے بغیر اسکے بستر سے اٹھ گئ سالار نے آنکھیں بند کرلی۔۔

دوبارہ اسکی آنکھ ساڑھے بارہ بجے کندھے میں ہونے والی تکلیف سے کھلی۔اسے ٹمپریچر بھی ہورہا تھا۔کندھے کو حرکت دینا مشکل ہوگیا تھا۔۔بستر سے اٹھتے ہی اسکی نظر امامہ پر پڑی ۔۔وہ صوفے پر بیٹھی ہوئ تھی۔۔وہ رکے بغیر واش روم چلا گیا.

نہا کر تیار ہونے کے بعد وہ باہر نکلا اور امامہ سے بات کیئے بغیر وہ بیڈروم سے چلا گیا۔۔اسے اپنا آپ وہاں اجنبی لگنے لگا تھا وہ واحد انسان تھا جو اسکی سپورٹ تھا اب وہ بھی اس سے برگشتہ ہورہا تھا۔۔۔

میں کیس واپس لے رہا ہوں۔۔ لنچ ٹیبل پر بیٹھےاس نے اعلانیہ انداز میں کہا۔۔۔پورے ٹیبل پر ایک دم خاموشی چھا گئ۔وہاں سکندر کیساتھ شاہنواز اور اسکی فیملی بھی تھی۔۔

میں نے اس پورے معاملے کے بارے میں سوچا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔طیبہ نے بے حد تلخی سے اسکی بات کاٹی۔۔

تم سوچنا کب کا چھوڑ چکے ہو۔۔۔یہ تمہاری بیوی کی پڑھائ گئ پٹی ہے۔۔

ممی۔۔۔۔امامہ کو اس ساری ایکویشن سے نکال دیں۔

اچھا تو پھر اسے طلاق دیکر اس مسلہ کو ختم کردو ۔

وہ ماں کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے ہاتھ میں پکڑا کانٹا رکھ دیا۔۔۔

یہ میں کبھی نہیں کروں گا۔۔

تو پھر ہم بھی وہ نہیں کرینگے جو تم چاہتے ہو۔امامہ کے باپ اور بھائ جیل میں رہینگے۔۔طیبہ نے بھی اسکے انداز میں کہا۔۔۔۔

کیس واپس لینے کا مطلب ہے انکو شہہ دینا۔۔تم پوری فیملی کو خطرے میں ڈال رہے ہو۔۔شاہنواز نے مداخلت کی۔۔۔

رسک تو کیس چلنے کی صورت میں بھی ہوگا۔۔۔ وہ جانتا تھا وہ جو کہہ رہا ہے اس سے پوری فیملی کی کتنی ملامت اسے ملنے والی تھی۔۔وہ امامہ کو خوش کرسکتا تھا یا اپنی فیملی کو۔۔۔اور اپنی فیملی کو ناخوش کرنا اسکے لیئے زیادہ بہتر تھا۔۔۔

امامہ رات کے نو بجے تک ویسے ہی کمرے میں بیٹھی رہی ۔۔سالار کا کوئ اتا پتا نہیں تھا۔ وہ تھکن کے عالم میں صوفے پر کب سوگئ اسے انداۃ نہیں ہوا۔۔

رات گئے اسکی آنکھ سالار کے کندھا ہلانے پر کھلی تھی۔وہ ہڑبڑا گئ۔

اٹھ جاؤ ہمیں جانا ہے۔۔وہ کمرے سے اپنی چیزیں سمیٹ رہا تھا۔

وہ کچھ دیر بیٹھی آنکھیں رگڑتی رہی.

کیس واپس لے لیا ہے میں نے تمہاری فیملی ریلیز ہوگئ ہے ۔وہ ٹھٹکی تھی۔

وہ بیگ کی زپ بند کر رہا تھا۔۔کسی نے جیسے امامہ کے کندھوں سے منوں بوجھ ہٹادیا تھا۔۔اسکے چہرے پر آنے والے اطمینان کو وہ نوٹس کیئے بغیر نہ رہ سکا۔ ۔۔

اسکے پیچھے باہر لاؤنج میں آتے ہوئے اس نے ماحول میں موجود تناؤ اور کشیدگی محسوس کی تھی۔۔۔شاہنواز اور سکندر دونوں ہی بے حد سنجیدہ تھے اور طیبہ کے ماتھے پر شکنیں تھی۔وہ نروس ہوئ تھی۔ وہ سالار کیساتھ جس گاڑی میں تھی وہ ڈرائیور چلا رہا تھا۔سالار پورا رستہ کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا۔اور گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔۔

گھر پہنچنے کے بعد بھی سب کی خاموشی اور سرد مہری ویسی ہی تھی ۔۔سالار طیبہ اور سکندر سے باہر لاؤنج میں بیٹھ گیا اور وہ کمرے میں آگئ۔۔

آدھا گھنٹہ بعد ملازم اسے کھانے پہ بلانے آیا تھا۔۔

اسکی آمد سے کوئ خاص ردعمل نہیں ہوا. صرف سالار اپنی پلیٹ میں کچھ ڈالے بغیر اسکا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے بیٹھنے پر اسی نے اس سے پوچھتے ہوئے چاول کی ڈش اسکی طرف بڑھائ اور پھر کھانے کے دوران وہ بغیر پوچھے کچھ نہ کچھ اسکی طرف بڑھاتا گیا۔۔۔

وہ کھانے کے بعد بیڈروم میں سالار کیساتھ ہی آئ تھی وہ ایک دفعہ پھر بات چیت کیئے بغیر سونے کے لیئے لیٹ گیا۔۔۔

سالار۔۔۔۔۔آنکھیں بند کیئے اسکی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ جواب دے یا نہ دے۔۔

سالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بولو۔۔۔بلآخر اس نے کہا۔۔

زخم گہرا تو نہیں تھا؟؟ نرم آواز سے اس نے پوچھا تھا ۔

کون سا والا؟؟ ٹھنڈے لہجے میں کیا ہوا سوال اسے لاجواب کرگیا. ۔۔۔

تمہیں درد تو نہیں ہورہا؟؟

اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے سوال بدلا تھا۔۔۔

اگر ہو بھی تو کیا فرق پڑتا ہے۔۔میرا زخم ہے۔میرا درد ہے۔۔

وہ پھر لاجواب ہوئ۔۔

بخار ہورہا ہے تمہیں کیا؟؟ اسکا ہاتھ کندھے سے ہٹ کر پیشانی پہ گیا. ۔۔اسکا ہاتھ ہٹاتے ہوئے سالار نے بیڈ سائڈ لیمپ آن کردیا۔

امامہ تم وہ کیوں نہیں پوچھتی جو پوچھنا چاہتی ہو؟؟ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا اس نے۔

وہ چند لمحے بے بسی سے اسے دیکھتی رہی پھر جیسے ہتھیار ڈال دیئے۔۔

ابو سے کیا بات ہوئ تمہاری؟؟

اس نے جواب میں ہاشم مبین کی گالیوں کو بے حد بلنٹ انداز میں انگلش میں ٹرانسلیٹ کیا ۔۔امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔

میں گالیوں کا نہیں پوچھ رہی ویسے کیا کہا تھا انہوں نے۔۔۔

امامہ نے خفگی سے اسکی بات کاٹ دی۔۔

اوہ سوری۔۔۔انکی گفتگو میں ستر فیصد گالیاں تھی اور کتنا ایڈیٹ کرونگا۔۔ باقی باتوں میں انہوں نے مجھے کہا کہ میں سور ہوں لیکن کتے کی موت کروں گااور جو کچھ میں نے انکی بیٹی کیساتھ کیا وہ میری بیٹی اور بہن کیساتھ ہو۔۔اسکے لیئے وہ خصوصی طور پہ بد دعا فرمائیں گے۔۔تمہارے لیئے بھی انکے کچھ پیغامات ہیں لیکن وہ اس قابل نہیں کہ تمہیں بتا سکوں۔۔یہ تھی انکی گفتگو۔۔وہ نم آنکھوں کیساتھ گنگ بیٹھی اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔

انہوں نے تم سے ایکسکیوز نہیں کی؟ بھرائ آواز میں اس نے پوچھا.

کی تھی انہوں نے۔۔۔انہیں بڑا افسوس تھا کہ اس وقت انکے پاس کوئ پسٹل کیوں نہیں تھا یا کوئ اچھا والا چاقو ۔۔کیونکہ وہ مجھے زندہ سلامت دیکھ کر بے حد ناخوش تھے۔۔اسکا لہجہ طنزیہ تھا۔۔

پھر تم نے کیس کیوں ختم کردیا۔۔۔؟؟

تمہارے لیئے کیا۔۔۔اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔وہ سر جھکا کر رونے لگی۔

میں تم اور تمہاری فیملی سے کتنی شرمندہ ہوں میں بتا نہیں سکتی۔۔اس سے تو اچھا تھا وہ مجھے مار دیتے۔۔۔۔

میں نے تم سے کوئ شکایت کی ہے؟؟ وہ سنجیدہ تھا۔۔

نہیں۔۔۔لیکن تم مجھ سے ٹھیک طرح بات نہیں کر رہے کوئ بھی نہیں کر رہا۔

میں کل رات سے خوار ہورہا تھا مجھے تو تم رہنے دو مجھے اس حوالے سے تم سے کوئ شکایت نہیں لیکن جہاں تک میری فیملی کا تعلق ہے تو وہ تھوڑا بہت تو ری ایکٹ کرینگے۔۔۔یہ فطری بات ہے۔۔دو چار ہفتے گزر جائیں پھر سب ٹھیک ہوجائیں گے۔۔اس نے رسانیت سے کہا۔۔

امامہ نے بھیگی ہوئ آنکھوں سے اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

میری کوئ عزت نہیں کرتا۔۔۔

سالار نے اسکی بات کاٹ دی۔۔یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو ۔۔کسی نے تم سے کچھ کہا؟؟ پاپا نے؟ ممی نے ی کسی اور نے؟

کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن۔۔۔۔۔۔

سالار نے پھر اسکی بات کاٹ دی۔۔اور کوئ کچھ کہے گا بھی نہیں تم سے۔جس دن تم سے کوئ کچھ کہے تب کہنا کہ تمہاری عزت نہیں کرتا کوئ۔۔۔وہ بے حد سنجیدہ تھا۔۔۔

میں تمہیں کبھی اپنے باپ کے گھر بھی نہیں لیکر آتا اگر مجھے یہ حدشہ ہوتا کہ تمہیں عزت نہیں ملے گی۔تم سے شادی جیسے بھی ہوئ تھی تم میری بیوی ہو اور ہمارے سرکل میں ایسا کوئی نہیں جو یہ بات نہیں جانتا۔۔

اب یہ رونا دھونا بند کردو۔۔۔اس نے قدرے جھڑکنے والے انداز میں کہا ۔

ساڑھے چھ بجے کی فلائٹ ہے۔۔سو جاؤ اب۔اس نے آنکھیں بند کرلی وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگی ۔۔کچھ بھی کہے بنا وہ اسکے سینے پہ سر رکھ کر لیٹ گئی یہ پرواہ کیئے بغیر کہ اسکے سر رکھنے سے اسکے کندھے میں تکلیف ہوسکتی ہے۔۔وہ جانتی تھی وہ اسے کبھی نہیں ہٹائے گا۔۔اور سالار نے اسکو نہیں ہٹایا۔۔بازو اسے گرد حمائل کرتے ہوئے اس نے دوسرے ہاتھ سے لائٹ آف کردی۔۔

ممی ٹھیک کہتی ہے۔۔۔اس کے سینے پہ سر رکھے اس نے سالار کو بڑبڑاتے سنا۔۔

کیا؟؟ وہ چونکی۔۔۔

تم نے مجھ پر جادو کیا ہوا ہے۔۔۔وہ ہنس پڑی۔۔۔

***---*****----***----**--&

اس واقعے کے چند ہفتوں بعد وہ لاہور میں بھی بڑے محتاط رہے لیکن آہستہ آہستہ ہر ڈر اور خوف ختم ہونے لگا۔ امامہ کی فیملی کی طرف سے اس بار اسطرح کی دھمکیاں بھی نہیں ملی تھی جیسی امامہ کے چلے جانے کے بعد وہ سکندر کو دیتے تھے۔۔

پولیس سٹیشن میں تصفیہ کے دوران سکندر نے ہاشم مبین کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ سالار اور امامہ کو کسی بھی طرح پہنچنے والے نقصان کی ذمہ داری وہ ہاشم کے خاندان کے علاوہ کسی پہ نہیں ڈالے گے ۔۔۔

سالار نے ٹھیک کہا تھا کچھ عرصہ بعد انکی فیملی کا رویہ بھی امامہ کیساتھ ٹھیک ہوگیا طیبہ کی تلخی بھی ختم ہوگئ اور اس میں زیادہ ہاتھ امامہ کا ہی تھا وہ فطرتاً صلح جو اور فرمانبرار تھی اور احسان مند ہونے کے لیئے اتنا کافی تھاکہ وہ اس انسان کی فیملی تھی جو اسے سر پہ آٹھائے پھرتا تھا۔

*****-------*******---*****

کوئ وسیم ہاشم صاحب ملنا چاہتے ہیں آپ سے۔۔اپنی آفس کی کرسی میں جھولتا سالار ایک دم ساکت ہوگیا۔۔

کہاں سے آئے ہیں؟؟

اسلام آباد سے۔۔کہہ رہے ہیں کہ آپکے دوست ہیں۔ ریسپشنسٹ نے مزید بتایا۔۔۔

بھیج دو۔۔۔۔اس نے انٹرکام رکھ دیا اور خود سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ۔۔وسیم کے آنے کا وہاں مقصد کیا تھا۔۔وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کرسی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا تب وسیم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔ایک لمحے کے لیئے دونوں ساکت ہوئے۔۔پھر سالار نے ہاتھ بڑھایا۔۔ایک طویل عرصے کیبعد دونوں کی ہونے والی یہ پہلی ملاقات تھی۔۔

کیا لوگے؟ چائے؟ کافی؟ سالار نے بیٹھتے ہوئے کہا۔

کچھ نہیں ۔۔۔میں صرف چند منٹ کے لیئے آیا ہوں۔۔وسیم نے جواباً کہا۔۔وہ دونوں کسی زمانے میں گہرے دوست تھے لیکن اس وقت انکو اپنے درمیان موجود تکلف کی دیوار کو ختم کرنا بلکل مشکل لگ رہا تھا۔

سالار نے دوبارہ کچھ پوچھنے کی بجائے انٹرکام اٹھا کر چائے کا آرڈر دے دیا۔۔۔

امامہ کیسی ہے؟؟ اسکے ریسیور رکھتے ہی وسیم نے پوچھا۔۔

شی از فائن۔۔سالار نے نارمل انداز میں جواب دیا۔۔

میں اس سے ملنا چاہتا تھا تمہارے گھر کا ایڈریس تھا میرے پاس لیکن میں تم سے پوچھنا چاہتا تھا ۔۔وسیم نے جتانے والے انداز میں کہا۔۔

ظاہر ہے تمہیں یہ پتا چل سکتا ہے کہ میں کہاں کام کرتا ہوں تو ہوم ایڈریس معلوم کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔سالار نے معمول کے انداز میں کہا۔۔

میں ملنا چاہتا ہوں اس سے۔۔۔۔وسیم نے کہا۔۔

مناسب تو شاید نہ لگے لیکن پھر بھی پوچھوں گا۔۔کس لیئے۔۔۔؟؟سالار نے جواباً فرینک انداز میں کہا.

کوئ وجہ نہیں ہے میرے پاس. وسیم نے جواباً کہا۔اس دن ریسٹورنٹ میں جو چٹ۔۔۔۔۔

وہ تم نے بھیجی تھی میں جانتا ہوں۔۔سالار نے اسکی بات کاٹی تھی۔وسیم ایک لمحے کے لیئے بول نہ سکا۔۔

تم نے اور امامہ نے جو کچھ کیا وہ بہت غلط کیا۔لیکن اب جو بھی ہوا وہ ہوچکا۔۔میں امامہ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔

تمہاری فیملی کو پتا ہے؟ سالار نے پوچھا۔۔

نہیں۔۔۔انہیں اگر پتا چل گیا تو وہ مجھے گھر سے نکال دینگے۔۔سالار اسکا چہرہ دیکھ ریا تھا سچ اور جھوٹ جانچنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔اسکی نیت کیا تھی وہ یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا۔لیکن وہ اور امامہ ایک دوسرے کے بہت قریب تھے وہ یہ جانتا تھا۔لیکن سالار کے لیئے پھر بھی یہ مشکل تھا کہ اسے ملنے کی اجازت دے.

وسیم میں نہیں سمجھتا کہ اب اسکا کوئ فائدہ ہے۔امامہ میرے ساتھ خوش ہے اپنی زندگی میں سیٹلڈ ہے۔میں نہیں چاہتا وہ اپ سیٹ ہوجائے یا اسے کوئ نقصان پہنچے۔۔۔

میں نا تو اسے اپ سیٹ کرنا چاہتا ہوں نا ہی اسے کوئ نقصان پہنچانا چاہتا ہوں۔۔۔میں بس کبھی کبھی اس سے ملنا چاہتا ہوں۔وسیم نے بے تابی سے کہا۔۔

میں اس پر سوچوں گا وسیم لیکن یہ بڑا مشکل ہے۔۔میں نہیں چاہتا کہ کوئ تمہیں استعمال کر کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسیم نے اسکی بات کاٹ دی۔۔

میں بھی نہیں چاہتا کہ اسے کوئ نقصان پہنچے ۔ایسی کوئ خواہش ہوتی تو اتنے سالوں میں تم سے پہلے رابطہ کرلیا ہوتا۔میں جانتا تھا وہ شادی کر کے تمہارے ساتھ گئ تھی۔تم انوالوڈ تھے پورے معاملے میں لیکن میں نے فیملی کو یہ نہیں بتایا۔۔

سالار ایک لمحے کے لیئے ٹھٹکا پھر اس نے کہا۔۔وہ اتنے عرصے سے میرے ساتھ نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔

نہیں ہوگی۔۔لیکن وہ تم سے شادی کر کے گئ تھی۔یہ میں جانتا تھا۔۔

میں سوچوں گا وسیم۔۔۔سالار نے بحث کرنے کی بجائے پھر وہی جملہ دہرایا۔۔وسیم مایوس ہوا تھا۔۔۔

میں دو دن کے لیئے ہوں لاہور میں ۔۔اور یہ میرا کارڈ ہے۔میں اس سے واقعی ملنا چاہتا ہوں۔۔وسیم نے کارڈ اسکے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا اس رات وہ خلاف معمول کچھ زیادہ ہی پریشان تھا۔۔امامہ نے نوٹس کیا لیکن وجہ معلوم نہیں تھی اسکو۔

وہ کھانے کے بعد کام کرنے کے لیئے معمول کے مطابق اسٹڈی میں جانے کی بجائے اسکے پاس آکر لاؤنج میں بیٹھ گیا ۔۔پانچ دس منٹ کی خاموشی کے بعد امامہ نے بلآخر ایک گہرا سانس لیکر اسے کہتے سنا۔۔

امامہ۔۔۔۔اگر تم وعدہ کرو کہ تم خاموشی اور تحمل سے میری بات سنو گی آنسو بہائے بغیر تو مجھے تم سے کچھ کہنا ہے.

وہ چونک کر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔کیا کہنا ہے؟ وہ کچھ حیران تھی۔۔

وسیم تم سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔اس نے بلا تمہید کہا۔۔

وہ ہل نہ سکی۔۔وسیم۔۔۔میرا بھائی؟؟ امامہ کے لہجے میں بے یقینی تھی۔ سالار نے سر ہلادیا اور اسکو اپنی آج کی ملاقات کی تفصیلات بتانے لگا اور اس دوران برسات شروع ہوچکی تھی۔۔

سالار نے بے حد تحمل کا مظاہرہ کیا۔۔اسکے علاوہ وہ اور کس چیز کا مظاہرہ کرسکتا تھا۔۔۔

تم نے کیوں اسے یہاں آنے نہیں دیا۔۔تم اسے ساتھ لیکر آتے۔اس نے ہچکیوں میں روتے ہوئے اسکی بات کاٹی۔۔

مجھے پتا تھا وسیم مجھے معاف کردے گا وہ بھی مجھے اتنا مس کرتا ہوگا جتنا میں اسکو مس کرتی ہوں۔۔میں تم سے کہتی تھی نا کہ وہ۔۔۔۔۔۔سالار نے اسکی بات کاٹی۔۔

جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے امامہ۔۔۔میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں ملنا چاہتا ہے تم سے لیکن اسکے تمہارے ساتھ ملنے سے بڑے نقصان دہ نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔۔سا لار اسکے آنسووں سے متاثر ہوئے بغیر بولا تھا۔۔وہ وسیم کے حوالے سے واقع خدشات کا شکار تھا۔۔۔

کچھ نہیں ہوگا۔۔۔مجھے پتا ہے کچھ نہیں ہوگا۔۔وہ بہت اچھا ہے۔۔تم اسے فون کر کے ابھی بلا لو ۔

میں اسے کل بلواؤں گا لیکن وہ اگر کبھی اکیلے یہاں آنا چاہے یا تمہیں کہی بلائے تو تم نہیں جاؤ گی۔۔سالار نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔

اور میں ایک بار پھر دہرا رہا ہوں نہ وہ یہاں اکیلا آئے گا نہ تم اس کے فون کرنے پہ کہی جاؤ گی۔۔سالار نے بڑی سختی سے اسے تاکید کی۔

میں اسکے بلانے پہ کہی نہیں جاؤں گی لیکن اسکے یہاں آنے پر کیوں اعتراض ہے تمہیں۔۔؟؟اس نے احتجاج کیا۔

وہ میرے گھر پر ہوتے ہوئے آئے مجھے کوئ اعتراض نہیں لیکن وہ اکیلا یہاں نہ آئے وہ تو خیر میں نیچھے سیکیورٹی والوں کو بھی بتادوں گا۔۔

وہ میرا بھائی ہے سالار۔۔۔امامہ کو بے عزتی محسوس ہوئی۔

جانتا ہوں، اسی لیئے تم سے یہ سب کہہ رہا ہوں میں تمہارے حوالے سے اس پر یا کسی پر بھی اعتبار نہیں کرسکتا۔۔

لیکن،،،،،،

تم مجھے صرف یہ بتاؤ تمہیں اس سے ملنا ہے یا نہیں۔۔۔اگر تمہیں بحث کرنی ہےاس ایشو پر تو بہتر ہے وسیم آئے ہی نا۔۔سا لار نے اسے جملہ مکمل نہیں کرنے دیا۔۔

ٹھیک ہے میں اسے اکیلے نہیں بلاؤں گی یہاں۔۔۔امامہ نے گھٹنے ٹیک دیئے۔۔

مجھے اس سے فون پر بات کرنی ہے۔۔۔سالار نے کچھ کہنے کی بجائے وسیم کا وزٹنگ کارڈ لاکر اسے دیا۔۔وہ خود اسٹڈی میں چلا گیا۔۔چند بار بیل ہونے ہر وسیم نے فون اٹھایا تھا اور اسکی آواز سننے پر امامہ کے خلق میں آنسوؤں کا پھندا لگا تھا۔

ہیلو۔۔۔میں امامہ ہوں۔۔

وسیم دوسری طرف کچھ دیر بول نہ سکا اسکی آواز بھرانے لگی تھی وہ دو گھنٹے ایک دوسرے کیساتھ بات کرتے رہے تھے ۔وسیم شادی کرچکا تھا اور اسکے تین بچے تھے وہ بہتے آنسوؤں کیساتھ یہ سب سنتی رہی۔۔

سالار دو گھنٹے بعد سٹڈی سے نکلا تھا وہ اس وقت بھی فون کان سے لگائے سرخ آنکھوں کیساتھ فون پر وسیم سے گفتگو میں مصروف تھی۔۔وہ اسکے پاس سے گزر کر بیڈروم گیا تھا۔اور امامہ نے ایک بار بھی اسے سر اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔وہ اسکا انتظار کرتے کرتے سو گیا۔۔فجر کی نماز کے لیئے جب وہ مسجد جانے کے لیئے اٹھا تو وہ اس وقت بھی بستر پر نہیں تھی۔لاؤنج میں آتے ہی وہ کچھ دیر کے لیئے ہل نہ سکا۔۔وہاں کا انٹیریر راتوں رات بدل چکا تھا۔۔

تم ساری رات یہ کرتی رہی ہو؟؟ سالار پانی پینے کے لیئے کچن میں گیا تھا۔تو اس نے کچن کے فرش کو کیبنٹ سے نکالی گئ چیزوں سے بھرا ہوا پایا۔۔اسکا دماغ گھوم کر رہ گیا۔۔۔

کیا؟؟ وہ اسی طرح کام میں مصروف اطمینان سے بولی۔۔

تمہیں پتا ہے، کیا کرتی رہی ہو تم۔۔سالار نے پانی کا گلاس خالی کر کے کاؤنٹر پہ رکھ دیا اور باہر نکل گیا۔۔۔بیرونی دروازے تک پہنچ کر وہ کسی خیال کے تحت واپس آیا تھا۔۔۔

امامہ۔۔۔۔آج سنڈے ہے اور میں ابھی مسجد سے آکر سوؤں گا. خبردار تم نے بیڈروم کی صفائی اس وقت شروع کی۔

پھر میں کس وقت صفائی کروں گی بیڈروم کی۔۔۔۔میں نے وسیم کو لنچ پہ بلوایا ہے۔۔امامہ نے پلٹ کر کہا۔۔سالار کی چھٹی حس نے بروقت کام کیا تھا۔۔۔۔

بیڈروم کی صفائی کا وسیم کے لنچ کیساتھ کیا تعلق ہے؟ وہ حیران ہوا تھا۔تم نے اسے بیڈروم میں بٹھانا ہے؟؟

نہیں۔۔۔لیکن،،، وہ اٹکی تھی۔۔۔

امامہ بیڈروم میں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔مجھے سونا ہے آکر ابھی۔۔ اس نے امامہ کو ایک بار پھر یاد دہانی کرائی تھی۔۔۔۔

یہ سامان لادینا مجھے سونے سے پہلے، کھانے کی تیاری کرنی ہے مجھے۔۔۔۔امامہ نے کاؤنٹر پہ پڑی ایک لسٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔

میں فجر کی نماز پڑھنے جارہا ہوں اور یہ سامان تمہیں سو کر اٹھنے کے بعد لاکر دوں گا۔۔وہ لسٹ کو ہاتھ لگائے بغیر چلا گیا۔۔

تمام حدشات کے باوجود واپسی پراس نے اپنے بیڈروم کو اسی حالت میں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔

اس نے دس بجے مطلوبہ اشیاء لاکر دی تھیں۔۔کچن تب تک کسی ہوٹل کے کچن کی شکل اختیار کرچکا تھا۔۔۔۔وہ پتا نہیں کون کونسی ڈشز بنا رہی تھی۔وہ کم از کم 25 افراد کا کھانا تھا۔۔جو وہ اپنے بھائی کے لیئے بنا رہی تھی۔ سالار نے اسے کوئی نصیحت نہیں کی ۔۔وہ لاؤنج میں بیٹھا انگلش لیگ کا کوئ میچ دیکھتا رہا۔۔

وسیم دو بجے آیا تھا اور دو بجے تک امامہ کو گھر میں کسی مرد کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہوا.

وسیم کا استقبال اس نے سالار سے بھی پہلے دروازے پر کیا تھا۔بہن اور بھائ کے درمیان ایک جذباتی سین ہوا۔۔

اسکے بعد ساڑھے چھ بجے تک وسیم کی موجودگی میں وہ ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہا۔۔وہ کھانے کی ٹیبل پر موجود تھا لیکن اسے محسوس ہورہا تھا کہ اسکا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔۔امامہ کو بھائ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔۔امامہ نے کھانے کی ٹیبل پر اسے کچھ سرو بھی نہیں کیا۔

وسیم کے جانے کے بعد سالار کی توقع کے عین مطابق بچا ہوا تقریباً سارا کھانا ملازمہ فرقان اور چند دوسرے گھروں میں بھیج دیا گیا۔۔

وہ عشاء کی نماز پڑھ کر آیا تو وہ اسکے لیئے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا کر خود سو رہی تھی۔۔وہ ویک اینڈ پر رات کا کھانا ہمیشہ باہر کھاتے تھے ۔۔

اس نے پہلی بار امامہ کے گھر پہ موجودگی کے باوجود اکیلے ڈنر کیا اور وہ بری طرح پچھتایا وسیم کو امامہ سے ملنے کی اجازت دے کر

*****-----****----*****--*

امامہ۔۔۔۔یہ وسیم نامہ بند ہوسکتا ہے اب۔۔؟؟وہ تیسرا دن تھا جب ڈنر پر بلآخر سالار کی قوت برداشت جواب دے گئ تھی۔

کیا مطلب؟؟ وہ حیران ہوئ تھی۔۔

مطلب یہ کہ دنیا میں وسیم کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں جنکی تمہیں پرواہ کرنی چاہیئے ۔۔سالار نے ان ڈائریکٹ انداز میں کہا۔۔۔

مثلاً کون؟؟ اس نے جواباً اتنی سنجیدگی سے پوچھا تھا کہ وہ کچھ بول نہ سکا۔۔۔

اور کون ہے جسکی مجھے پرواہ کرنی چاہیئے ۔۔وہ اب بڑبڑاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔

میرے کہنے کا مطلب تھا کہ تم گھر پہ توجہ دو اب۔۔

وہ اب اسکے علاوہ اور کیا کہتا۔۔یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجھ پہ توجہ دو۔۔

گھر کو کیا ہوا؟؟ وہ مزید حیران ہوئی۔۔وہ اس بار مزید کوئ تاویل نہ دے سکا۔۔

تمہیں میرا وسیم کے بارے میں باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا؟؟ اس نے یکدم جیسے اندازہ لگایا۔۔اسکے لہجے میں ایسے بے یقینی تھی کہ وہ ہاں نہ کہہ سکا۔۔۔

میں نے کب کہا کہ مجھے برا لگتا ہے۔۔ویسے ہی کہہ رہا ہوں تمہیں. وہ بے ساختہ بات بدل گیا۔

ہاں میں بھی یہ سوچ رہی تھی تم ایسا کیسے سوچ سکتے ہو وہ تمہارا بیسٹ فرینڈ ہے۔۔وہ یکدم مطمئن ہوئ۔

سالار اس سے یہ نہ کہہ سکا کہ وہ اسکا فرینڈ ہے نہیں کبھی تھا۔۔۔

تمہارے بارے میں بہت کچھ بتاتا تھا وہ۔۔

سالار کھانا کھاتے کھاتے رکا۔۔۔میرے بارے میں کیا؟؟

سب کچھ۔۔وہ روانی سے بولی۔۔

سالار کے پیٹ میں گرہیں سی پڑی۔۔سب کچھ کیا؟؟ مطلب جو بھی تم کرتے تھے۔

سالار کی بھوک اڑی تھی۔

مثلاً کیا؟؟ وہ پتا نہیں اپنے کن حدشات کو ختم کرنا چاہتا تھا۔۔وہ سوچ میں پڑی۔۔

جیسے تم جن سے ڈرگز لیتے تھے انکے بارے میں،، اور جب تم لاہور میں اپنے کچھ دوسرے دوستوں کیساتھ ریڈلائٹ ایریا گئے تھے۔۔وہ بات مکمل نہ کرسکی. پانی پیتے ہوئے سالار کو اچھوکا لگا۔

تمہیں اس نے یی بھی بتایا ہے کہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔سالار خود بھی اپنا سوال پورا دہرا نہ سکا۔۔۔

جب بھی جاتے تھے تو بتاتا تھا۔۔

سالار کے منہ سے بے اختیار وسیم کے لیئے زیرلب گالی نکلی تھی اور امامہ نے اسکے ہونٹوں کی حرکت کو پڑھا تھا۔۔وہ بری طرح اپ سیٹ ہوئ

تم نے اسے گالی دی ہے؟؟ اس نے شاکڈ ہوکر سالار سے کہا۔۔

ہاں وہ سامنے ہوتا تو میں اسکی دو چار ہڈیاں بھی توڑ دیتا ۔وہ اپنی بہن سے یہ باتیں جاکر کرتا تھا۔

میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔وی واقعی بری طرح برہم ہوا ۔سب کچھ کی دو جھلکیوں نے اسکے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیئے تھے۔امامہ اسکے بارے میں کیا کچھ جانتی ہے اسکا اندازی اسے آج ہوا۔۔۔

تم میرے بھائی کو دوبارہ گالی مت دینا۔امامہ کا موڈ بھی آف ہوگیا تھا۔وہ کھانے کے برتن سمیٹنے لگی تھی۔سالار کچھ کہنے کی بجائے بے حد خفگی سے کھانے کی میز سے اٹھ گیا تھا۔۔

وہ تقریباً دو گھنٹے بعد بیڈروم میں سونے کے لیئے آئ تھی۔۔وی اس وقت معمول کے مطابق اپنی ای میلز چیک کرنے میں مصروف تھا۔وہ خاموشی سے اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گئ۔۔۔

میں نے وسیم کو ایسا کچھ نہیں کہا جس پر تم اس طرح ناراض ہوکر بیٹھو۔۔

سالار نے مفاہمت کی کوششوں کا آغاز کردیا۔۔۔۔وہ اسی طرح بے حس و حرکت لیٹی رہی۔۔

امامہ میں تم سے بات کر رہا ہوں۔۔۔۔سالار نے کمبل کھینچا تھا۔۔

تم اپنے چھوٹے بھائ عمار کو وہی گالی دے کر دکھاؤ۔۔اسکے تیسری بار کمبل کھینچنے پر وہ بے حد خفگی سے اسکی طرف کروٹ بدل کر بولی۔

سالار نے بلا توقف وہی گالی عمار کو دی۔چند لمحوں کے لیئے امامہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے اس سے. اگر دنیا میں ڈھٹائی کی کوئ معراج تھی تو وہ سالار تھا۔

میں پاپا کو بتاؤں گی۔امامہ نے بھرائ ہوئ آواز میں کہا۔۔

تم نے کہا تھا عمار کو گالی دینے کو۔ ویسے تمہارے بھائ کو اس سے زیادہ خراب گالیاں میں اسکے منہ پر دے چکا ہوں اور اس نے کبھی مائنڈ نہیں کیا۔ اگر تم چاہو تو اگلی بار جب وہ یہاں آئے تو میں تمہیں دکھا دوں گا۔۔۔

وہ جیسے کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھی تھی۔

تم وسیم کو یہاں میرے سامنے گالیاں دو گے؟؟ اسے بے حد رنج ہوا تھا۔۔

جو کچھ اس نے کیا ہے میری جگہ کوئ بھی ہوتا تو اسے گالیاں ہی دیتا اور وہ بھی اس سے بری۔سالار نے لگی لپٹی کے بغیر کہا۔۔

لیکن چلو آئ ایم سوری۔۔وہ اسکی شکل دیکھ کر رہ گئ۔

سکندر ٹھیک کہتے تھے انکی یہ اولاد سمجھ میں نہ آنے والی چیز تھی۔

لیکن پاپا۔۔وہ میرا بڑا خیال رکھتے ہیں میری کوئ بات نہیں ٹالتے ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔۔۔

اس نے ایک بار سکندر کے پوچھنے پر کی وہ اسکا خیال رکھتا تھا کے جواب میں سالار کی تعریف کی تھی۔۔۔

امامہ یہ جو تمہارا شوہر ہے یہ اللہ نے اس دنیا میں صرف ایک پیس پیدا کیا ہے تیس سال میں نے باپ کے طور پر جسطرح اسکے ساتھ گزارے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں۔۔یہ تمہارے سامنے بیٹھ کر تمہاری آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے اور تمہیں کبھی پتا بھی نہیں چلے گا۔۔۔اس نے جو کرنا ہوتا ہے وہ کر کے ہی رہتا ہے چاہے ساری دنیا ختم ہوجائے اسے سمجھا سمجھا کر اور کبھی اس خوش فہمی میں مت رہنا کہ یہ تمہاری بات مان کر اپنی مرضی نہیں کریگا۔۔۔سالار سر جھکائے مسکرا کر باپ کی باتیں سنتا رہا۔اور امامہ کچھ الجھی ہوئ کبھی اسے اور کبھی سکندر کو دیکھتی۔آہستہ آہستہ چل جائے گا. تمہیں پتا کہ سالار کیا چیز ہے۔۔

یہ پانی میں آگ لگانے والی گفتگو کا ماہر ہے۔

تمہارا امہریشن بہت خراب ہے پاپا پر۔۔تمہیں کوئ وضاحت کرنی چاہیئے تھی۔۔

کیسی وضاحت؟؟ وہ بلکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔تمہیں انکی باتیں غور سے سننا چاہیئے تھی۔

وہ تب بھی اسکا منہ دیکھتی رہ گئ تھی اور اب بھی۔۔۔

آئ ایم سوری۔۔وہ پھر کہہ رہا تھا۔

تم شرمندہ تو نہیں ہو۔۔اس نے اسے شرمندہ کرنے کی آخری کوشش کی۔

ہاں وہ تو میں نہیں ہوں۔لیکن چونکہ تمہیں میرا سوری کرنا اچھا لگتا ہے اس لیئے آئ ایم سوری۔۔

اس نے تپانے والی مسکراہٹ کیساتھ کہا۔۔امامہ جواب دینے کی بجائے بیڈ سائڈ ٹیبل پر پڑا پانی کا پورا گلاس پی لیا اور دوبارہ کمبل کھینچ کر لیٹ گئ۔

پانی اور لادوں؟؟ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔۔۔امامہ نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔۔

جاری

قسط نمبر 20۔۔۔۔۔

وہ نیند میں سیل فون کی آواز پہ بڑبڑائ تھی۔۔وہ سالار کا سیل فون تھا۔۔

ہیلو۔۔۔۔۔سالار نے نیند میں کروٹ لیتے ہوئے کال ریسیو کی۔۔امامہ نے دوبارہ آنکھیں بند کرلی۔

ہاں بات کر رہا ہوں۔۔اس نے سالار کو کہتے سنا۔پھر اسے محسوس ہوا جیسے وہ یکدم بستر سے نکل گیا تھا۔۔امامہ نے آنکھیں کھولتے ہوئے نیم تاریکی میں اسے دیکھنے کی کوشش کی وہ لائٹ آن کیئے بغیر اندھیرے میں ہی لاؤنج میں چلا گیا تھا۔

وہ کچھ حیران ہوئ تھی وہ کس کا فون ہوسکتا ہے۔جسکے لیئے وہ رات کے اس پہر یوں اٹھ کر کمرے سے باہر گیا تھا۔

ایک جینز اور شرٹ پیک کردو میری۔۔مجھے اسلام آباد کے لیئے نکلنا ہے ابھی۔۔

کیوں خیریت تو ہے؟؟ وہ پریشان ہوگئ تھی۔

سکول میں آگ لگ گئ ہے۔

اسکی نیند پلک جھپکتے غائب ہوگئ تھی۔

سالار اب دوبارہ فون پر بات کر رہا تھا بے حد تشویش کے عالم میں کمرے میں واپس آکر اس نے اسکا بیگ تیار کیا وہ تب تک کمرے میں واپس آچکا تھا۔

آگ کیسے لگی؟؟

یی تو وہاں جاکر پتآیا۔

ے گا۔۔وہ بے حد عجلت میں اپنے کپڑے لیکر واش روم چلا گیا۔وہ بیٹھی رہی وہ اسکی پریشانی کا اندازہ کر سکتی تھی۔۔۔

دس منٹ میں تیار ہوکر وہ نکل گیا اور امامہ نے باقی ساری رات اسی پریشانی میں دعائیں کرتے ہوئے کاٹی۔ ۔

سالار کے گاؤں پہنچنے کے بعد بھی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔۔۔وجہ بروقت فائر بریگیڈ کا دستیاب نہ ہونا تھا اور اسکا اتنے گھنٹوں تک نہ بجھ پانے کا کیا مطلب تھا وہ امامہ سمجھ چکی تھی۔۔

وہ پورا دن جلے پاؤں کی بلی کی طرح گھر میں پھرتی رہی ۔سالار نے اسے بلآخر آگ پر قابو پانے کی اطلاع دے دی۔مگر ساتھ یہ بھی کہ وہ اسکو رات کو فون کریگا اور اس رات وی اسلام آباد میں رہنے والا تھا۔۔

سالار سے آدھی رات کے قریب اسکی بات ہوئ وہ آواز سے اتنا تھکا ہوا لگ رہا تھا کہ امامہ نے اس سے زیادہ دیر بات کرنے کی بجائے سونے کا کہہ کر فون بند کردیا۔۔لیکن وہ خود ساری رات سو نہ سکی۔۔آگ عمارت میں لگائ گئ تھی ۔۔وہاں پولیس کو ابتدائ طور پر ایسے شواہد ملے تھے۔اور یہ بات امامہ کی نیند اور حواس باطل کرنے کے لیئے کافی تھی۔۔

وہ صرف سالار کا سکول نہیں تھا وہ پورا پروجیکٹ اب ایک ٹرسٹ کے تحت چل رہا تھا۔جسکی مین ٹرسٹی سالار کی فیملی تھی۔۔

اور اس پروجیکٹ کو اسطرح کا نقصان ایکدم کون پہنچا سکتا ہے؟؟

یہی وہ سوال تھا جو اسے ہولا رہا تھا۔۔

اگلی رات کو وہ گھر پہنچا اور اسکے چہرے پر تھکن کے علاوہ اور کوئ تاثر نہیں تھا۔۔امامہ کو جیسے حوصلہ ہوا تھا ۔

بلڈنگ کے سٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے جس کمپنی نے بلڈنگ بنائ ہے وہ کچھ ایگزامن کر رہے ہیں اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔۔شاید بلڈنگ گرا کر دوبارہ بنانی پڑ جائے۔۔

کھانے کی ٹیبل پر امامہ کے پوچھنے پر اس نے بتایا۔۔

بہت نقصان ہوا ہوگا۔۔۔یہ سوال احمقانہ تھا لیکن امامہ حواس باختہ تھی۔۔

ہاں۔۔۔۔۔جواب مختصر تھا۔

سکول بند ہوگیا؟؟ ایک اور احمقانہ سوال۔۔

نہیں۔۔۔گاؤں کے چند گھر فوری طور پر خالی کروائے ہیں اور کرائے پر لیکر سکول کے مختلف بلاکس کو شفٹ کیا ہے وہاں پر ۔۔ابھی کچھ دنوں میں سمر بریک آجائے گی تو بچوں کا زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔۔وہ کھانا کھاتے ہوئے بتا رہا تھا۔

اور پولیس نے کیا کہا؟؟ ادھر ادھر کے سوالوں کے بعد امامہ نے بلآخر وہ سوال کیا جو اسے پریشان کیئے ہو ئے تھا۔

ابھی تفتیش شروع ہوئ ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔۔سالار نے گول مول بات کی تھی۔اس نے اسے یہ نہیں بتایا کہ دو دن اسلام آباد میں وہ اپنی فیملی کے ہر فرد سے اس کیس کے مشتبہ افراد میں امامہ کی فیملی کو شامل کرنے کے لیئے دباؤ کا سامنا کرتا رہا تھا۔

اب کیا ہوگا؟؟ تیسرا احمقانہ سوال۔۔

سب کچھ دوبارہ بنانا پڑے گا اور بس۔۔جواب اتنا ہی سادہ تھا۔۔

اور فنڈز۔۔۔۔۔وہ کہاں سے آئینگے۔؟؟یہ پہلا سمجھدارانہ سوال تھا۔

انڈوومنٹ فنڈ ہے سکول کا۔۔اسکو استعمال کرینگے کچھ انویسمنٹ کی ہے میں نے وہاں سے رقم نکلواؤں گا ۔وہ اسلام آباد کا پلاٹ بیچ دوں گا۔۔فوری طور پر تو تھوڑا بہت کرلوں گا۔۔

پلاٹس کیوں؟؟ وہ بری طرح بدکی تھی۔۔امامہ نے نوٹس نہیں کیا تھا کہ وہ پلاٹس نہیں پلاٹ کہہ رہا تھا۔۔

اس سے فوری طور پر رقم مل جائے گی۔بعد میں لے لوں ابھی تو مجھے اس میس سے نکلنا ہے۔۔

تم وہ حق مہر کی رقم لے لو، آٹھ دس لاکھ کے قریب ویڈنگ پر ملنے والی گفٹ کی رقم بھی ہوگی اور اتنے ہی میرے اکاؤنٹ میں پہلے سے بھی ہونگے۔ پچاس ساٹھ لاکھ تو یہ ہوجائے گا اور ۔۔۔۔۔۔۔سالار نے اسکی بات کاٹی۔۔۔

یہ میں کبھی نہیں کروں گا۔۔

قرض لے لو مجھ سے بعد میں دے دینا۔

نو۔۔۔۔اسکا انداز ختمی تھا۔۔

میرے پاس بے کار پڑے ہیں سالار تمہارے کام آئیں گے تو۔۔۔۔۔۔۔اس نے پھر امامہ کی بات کاٹ دی۔

میں نے کہا نا نہیں۔۔۔۔۔۔اس نے اس بار ترشی سے کہا۔

میرے پیسے اور تمہارے پیسے میں کوئ فرق ہے کیا؟؟

ہاں ہے۔۔۔اس نے اسی انداز میں کہا۔۔

وہ حق مہر اور شادی پر گفٹ میں ملنے والی رقم ہے میں کیسے لے لوں تم سے۔۔میں بے شرم ہوسکتا ہوں لیکن بے غیرت نہیں۔۔

اب تم خوامخوا جذاتی ہو رہے ہو اور۔۔۔۔۔۔۔

سالار نے اسکی بات کاٹی۔۔کون جذباتی ہورہا ہے۔۔کم از کم میں تو نہیں ہورہا ۔

وہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔۔

میں تمہیں قرض دے رہی ہوں سالار۔۔

بہت شکریہ۔مگر مجھے اسکی ضرورت نہیں۔۔مجھے قرض لینا ہ تو بڑے دوست ہیں میرے پاس۔

دوستوں سے قرض لو گے بیوی سے نہیں؟؟

نہیں۔۔۔۔

میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں سالار۔۔

ایموشنلی کرو فنانشلی نہیں۔

وہ اسے دیکھتی رہ گئ۔اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کسطرح قائل کرے ۔۔

اور اگر میں یہ رقم ڈونیٹ کرنا چاہوں تو؟؟ اسے بلآخر ایک خیال آیا۔

ضرور کرو۔۔۔اس ملک میں بہت سارے خیراتی ادارے ہیں ۔۔تمہارا پیسہ ہے چاہے آگ لگادو۔ لیکن میں یا میرا ادارہ نہیں لے گا ۔۔اس نے ختمی انداز میں کہا۔۔۔

تم مجھے کچھ ڈونیٹ نہیں کرنے دو گے۔۔۔

ضرور کرنا لیکن مجھے فی الحال ضرورت نہیں۔۔

وہ ٹیبل سے اٹھ گیا تھا۔

وہ بے حد اہ سیٹ اسے جاتا دیکھ رہی تھی.اسکے لیئے وہ دو پلاٹس اسکے گھر کی پہلی دو اینٹیں تھی۔ اور یہی چیز اسکے لیئے تکلیف دہ تھی۔ اور وہ احساس جرم بھی تھا جو وہ اس سارے معاملے میں اپنی فیملی کے انوالو ہونے کی وجہ سے محسوس کر رہی تھی۔۔وہ کہی نہ کہی اس رقم سے جیسے اس نقصان کی تلافی کرنا چاہتی تھی لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ سالار نے اسکی سوچ کو پہلے سے پڑھ لیا تھا۔۔وہ جانتا تھا کہ امامہ یہ کوششیں کیوں کر رہی ۔

********-----***---*******

جو کچھ ہوا اس میں میرا کوئ قصور نہیں نہ ہی میری کوئ انوالومنٹ ہے۔۔۔

اسکے سامنے بیٹھا وسیم بڑی سنجیدگی سے اسے یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب ابو نے کیا ہے۔میں نے گھر میں ایسا کچھ نہیں سنا۔۔

وسیم نے ہاشم کا بھی دفاع کرنے کی کوشش کی۔امامہ قائل نہیں ہوئ۔ وہ سالار کے سامنے اپنی فیملی کا دفاع کرنے کی کوشش کرسکتی تھی وسیم کے سامنے نہیں۔۔۔۔یہ جو کچھ ہوا تھا اس میں اسکے اہنے ہی باپ کا ہاتھ تھا۔۔

ابو سے کہنا یی سب کرنے سے کچھ نہیں ملے گا سالار کو کیا نقصان ہوگا یا مجھے کیا نقصان ہوگا۔ایک سکول ہی جلا ہے۔ پھر بن جائے گا۔۔ان سے کہنا وہ کچھ بھی کرلے ھم کو فرق نہیں پڑے گا۔۔

میں ابو سے یی سب نہیں کہہ سکتا۔۔میں بہت بزدل ہوں۔۔تمہاری طرح بہادر نہیں۔۔

تمہارے جانے کے بعد اتنے سالوں میں بہت دفعہ کمزور پڑا میں بہت دفعہ شش و پنج کا شکار بھی ہوا اور شک و شبہ کا بھی۔ ۔بہت دفعہ دل چاہتا تھا زندگی کے اس غبار کو میں بھی ختم کرلوں جس سے میری بینائ دھندلائ ہوئ ہے لیکن میں بہت بزدل ہوں۔تمہاری طرح سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نہیں جاسکتا۔۔۔۔

اب آجاؤ۔۔۔امامہ کو خود احساس نہیں ہوا اس نے یہ بات کیوں اس سے کہہ دی۔

وسیم نے اس سے نظریں نہیں ملائ پھر سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔اب تو بہت مشکل ہے جب اکیلا تھا تب کچھ نہ کرسکا اب تو بیوی بچے ہیں۔۔۔

ھم تمہاری مدد کرسکتے ہیں۔۔میں اور سالار۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوگا تمہیں۔۔اور تمہاری فیملی کو تم ایک بار کوشش تو کرو۔۔۔

امامہ بھول گئ تھی اس نے وسیم کو کیا ڈسکس کرنے کے لیئے بلایا تھا۔اور کیا باتیں لیکر بیٹھ گئ۔

انسان بہت خود غرض اور بے شرم ہوتا ہے امامہ یی جو ضرورت ہوتی ہے نا یہ صحیح اور غلط کی سب تمیز ختم کردیتی ہے۔کاش میں زندگی میں مذہب کو پہلی ترجیح بنا سکتا۔۔مگر مذہب پہلی ترجیح نہیں ہے میری ۔وسیم نے گہرا سانس لیا تھا۔جیسے کوئ رنج تھا جس نے بگولہ بن کر اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

میں تمہاری طرح فیملی نہیں چھوڑ سکتا مذہب کے لیئے۔۔تمہاری قربانی بہت بڑی ہے۔

تم جانتے بوجھتے جہنم کا انتخاب کر رہے ہو صرف دنیا کے لیئے؟؟ اپنی بیوی بچوں کو بھی اسی راستے پہ لے جاؤ گے کیونکہ تم میں صرف جرات نہیں ہے۔سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی۔۔

وہ اب بھائ کو چیلنج کر رہی تھی۔وہ ایک دم اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔۔جیسے بے قرار تھا۔۔

تم مجھے بہت بڑی آزمائش میں ڈالنا چاہتی ہو۔۔۔

آزمائش سے بچانا چاہتی ہوں۔۔۔آزمائش تو وہ ہے جسمیں تم نے خود کو ڈال رکھا ہے۔۔

اس نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھا لی ۔۔میں صرف اسی لیئے تم سے ملنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔وہ کہتے ہوئے اسکے روکنے کے باوجود اپارٹمنٹ سے نکل گیا تھا۔۔وسیم کو پارکنگ میں اپنی گاڑی کی طرف جاتا دیکھ کراسے جیسے پچھتاوا ہوا تھا۔۔وہ وسیم سے تعلق توڑنا نہیں چاہتی تھی۔لیکن اسے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔

****----******-----*****--*

وسیم میرا فون نہیں اٹھا رہا۔۔امامہ نے اس رات کھانے پر سالار سے کہا۔

ہوسکتا ہے وہ مصروف ہو۔سالار نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

نہیں وہ ناراض ہے۔۔

اس بار سالار چونکا۔۔وہ کیوں ناراض ہوگا۔۔

امامہ نے اسے اپنی اور وسیم کی ساری گفتگو سنا دی۔۔سالار گہرا سانس لیکر رہ گیا۔۔۔

تمہیں ضرورت کیا تھی اس سے اس طرح کی گفتگو کرنے کی بالغ آدمی ہے وہ بزنس کر رہا ہے بیوی بچوں والا ہے اسے اچھی طرح پتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے زندگی میں اور کیا نہیں۔۔۔تم لوگ آپس میں ملنا چاہتے ہو تو مذیب کو ڈسکس مت کرو۔سالار نے اسے سنجیدگی سے سمجھایا۔

بات اس نے شرور کی تھی۔۔امامہ نے جیسے اپنا دفاع کیا۔

اور خود بات شروع کرنے کہ بعد اب وہ تمہاری کال نہیں اٹھا رہا تو تم انتظار کرو جب اسکا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا خود ہی تمہیں کال کرلے گا۔۔سالار کہہ کر دوبارہ کھانا کھانے لگا۔۔وہ اسی طرح بیٹھی رہی۔

اب کیا ہوا؟؟ سالار نے سلاد کھاتے ہوئے اسکی خاموشی نوٹس کی۔۔

میری خواہش ہے وہ بھی مسلمان ہوجائے اور گمراہی کے اس دلدل سے نکل آئے۔۔

سالار نے ایک لمحہ رک کر اسے دیکھا اور پھر بڑی سنجیدگی سے کہا۔۔۔

تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔یہ اسکی زندگی اسکا فیصلہ ہے۔۔تم اپنی خوایش اس پر لاگو نہیں کرسکتی۔۔اور تم دوبارہ کبھی اس سے اس مسلے ہر بات نہیں کروگی نہ ہی سکول کے حوالے سے کسی گلے شکوے کے لیئے اسے بلاؤ گی۔میں اپنے مسلے خود ہینڈل کرسکتا ہوں۔۔وہ کہہ کر کھانے کی ٹیبل سے اٹھ گیا۔۔امامہ اسی طرح حالی پلیٹ لیئے بیٹھی رہی۔۔

****-----****---***----****

اسکول کی بلڈنگ کے سٹرکچر کو واقعی نقصان پہنچا تھا ۔یہ سالار کے لیئے حالیہ زندگی کا سب سے بڑا مالیاتی نقصان تھا۔۔ مختلف کیمیکلز سے انتہائ مہارت کیساتھ عمارت کے مختلف حصوں میں آگ لگائ گئ تھی۔یہ کسی عام چور اچکے کا کام نہیں تھا۔۔اگر مقصد سالار کو نقصان پہنچانا تھا تو اسے بے حد نقصان ہوا اگر مقصد اسے چوٹ پہنچانا تھا تو یہ پیٹ پر ضرب لگانے جیسا تھا۔۔وہ دوہرا ہوا تھا لیکن منہ کے بل نہیں گرا تھا۔۔

اسے چھوڑ دو سالار۔۔۔۔وہ دوسرے ویک اینڈ پر اسلام آباد میں تھے اور طیبہ اس بار جیسے گڑگڑا رہی تھی۔۔تمہیں شادی کا شوق تھا اب پورا ہوگیا۔۔اب چھوڑ دو اسے۔۔۔

آپکو اندازہ نہیں آپ کتنا تکلیف پہنچاتی ہے مجھے جب آپ مجھ سے اسطرح بات کرتی ہے۔سالار نے انکو بات مکمل نہیں کرنے دی۔

تم نے دیکھا نہیں انہوں نے کیا کیا ہے۔۔۔

ابھی کچھ ثابت نہیں ہوا۔اس نے پھر ماں کی بات کاٹی۔۔

تم عقل کے اندھے ہوسکتے ہو ہم نہیں۔۔۔اور کون ہے دشمن تمہارا امامہ کی فیملی کے سوا۔۔۔طیبہ برہم تھی۔۔۔

اس سب میں امامہ کا کیا قصور ہے۔۔

یہ سب اسکی وجہ سے ہورہا ہے تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے۔۔

نہیں سمجھتا۔۔اور نہ ہی سمجھوں گا۔ میں کل بھی آپ سے کہہ رہا تھا آج بھی کہتا ہوں اور

آئندہ بھی کہوں گا میں امامہ کو طلاق نہیں دوں گا۔آپ کو کوئ اور بات کرنی ہے تو میں بیٹھتا ہوں اس ایشو پہ مجھے نہ آج اور نہ ہی دوبارہ بات کرنی ہے۔

طیبہ کچھ بول نہ سکی تھی۔ وہ آدھ گھنٹہ بعد وہاں بیٹھا رہا پھر واپس بیڈروم آگیا امامہ ٹی دیکھ رہی تھی۔۔وہ اپنا لیپ ٹاپ نکال کر کچھ کام کرنے لگا تھا۔اسے عجیب سا احساس ہوا تھا وہ جس چینل کو دیکھ رہی تھی اس پر مسلسل اشتہار چل رہے تھے اور وہ انہیں بڑی یکسوئ سے دیکھ رہی تھی۔۔سالار نے وقتاً فوقتاً دو تین مرتبہ اسکو اور ٹی وی کو دیکھا۔اس نے دس منٹ کے دوران ایک بار بھی اسے چائے کا مگ اٹھاتے نہیں دیکھا تھا۔

اس نے لیپ ٹاپ بند کردیا اور اسکے پاس صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی سالار نے اسکے ہاتھ سے ریمورٹ لیکر ٹی وی آف کردیا۔

تم نے میری اور ممی کی باتیں سنی ہیں کیا؟؟ وہ چند لمحوں کے لیئےساکت ہوگئ۔وہ جن یا جادوگر نہیں تھا۔۔۔شیطان تھا اور اگر شیطان نہیں تھا تو شیطان کا سینئر منسٹر تھا۔اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جھوٹ بولنا بیکار تھا۔۔اس نے گردن سیدھی کرلی ۔

ہاں چائے بنانے گئ تھی میں اور تم دونوں لاؤنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے میں نے کچن میں سنا سب۔۔۔

وہ اسے یہ نہ بتا سکی کہ طیبہ کے مطالبے نے چند لمحوں کے لیئےاسکے پیروں تلے زمین نکال دی تھی۔

تم جب یہاں آتے ہو تو وہ یہ کہتی ہیں تم سے؟؟

ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے سالار سے پوچھا جو اسے تسلی دینے کے لیئے کچھ الفاظ ڈھونڈ رہا تھا۔

نہیں۔۔۔ہر بار نہیں کہتی ۔۔کبھی کبھی وہ اوور ری ایکٹ کرجاتی ہیں۔۔اس نے ہموار لہجے میں کہا ۔۔۔

میں اب اسلام آباد کبھی نہیں آؤں گی۔اس نے ایک دم کہا۔

لیکن میں تو آؤں گا اور میں آؤں گا تو تمہیں بھی آنا پڑے گا۔۔۔الفاظ سیدھے تھے لہجہ نہیں۔۔

تم اپنی ممی کی سائڈ لے رہے ہو؟؟

ہاں۔۔۔جیسے میں نے انکے سامنے تمہاری سائڈ لی تھی۔

وہ اسکے جواب پر چند لمحے کچھ بول نہ سکی۔وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔

خاموشی کا ایک اور لمبا وقفہ آیا۔۔پھر سالار نے کہا۔

زندگی میں اگر کبھی میرے اور تمہارے درمیان علیحدگی جیسی کوئ چیز ہوئ تو اسکی وجہ میرے پیرنٹس یا میری فیملی نہیں بنے گی۔۔کم از کم یہ ضمانت میں تمہیں دیتا ہوں۔۔

وہ پھر بھی خاموش رہی تھی

کچھ بولو۔۔۔

کیا بولوں؟؟

جب تم خاموش ہوتی ہو تو بہت ڈر لگتا ہے مجھے۔

امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا وہ سنجیدہ تھا۔۔

مجھے لگتا ہے تم پتا نہیں اس بات کو کیسے استعمال کروگی میرے خلاف۔۔۔۔۔۔۔

کبھی۔۔۔اس نے جملہ مکمل کرنے کے بعد کچھ توقف سے ایک آخری لفظ کا اضافہ کیا ۔۔وہ اسے دیکھتی رہی لیکن خاموش تھی۔سالار نے اسکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا۔۔۔

تم میری بیوی ہو امامہ وہ میری ماں ہیں۔۔میں تمہیں شٹ اپ کہہ سکتا ہوں انہیں نہیں. وہ ایک ماں کی طرح سوچ رہی ہیں اور ماں کی طرح ری ایکٹ کر رہی ہیں جب تم ماں بنو گی تو تم بھی اسی طرح ری ایکٹ کرنے لگو گی۔انہوں نے تم سے کچھ نہیں کہا مجھ سے کہا۔۔میں نے اگنور کردیا۔جس چیز کو میں نے اگنور کردیا اسے تم سیریسلی لوگی تو یی حماقت ہوگی۔

وہ اسے سمجھا رہا تھا وہ خاموشی سے سنتی رہی جب وہ خاموش ہوا تو اس نے مدھم آواز میں کہا ۔۔۔

میرے لئے سب کچھ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔۔جب سے شادی ہوئ ہے یہی سب کچھ ہورہا ہے تمہارے لیئے ایک کے بعد ایک مسلہ آجاتا ہے مجھ سے شادی اچھی ثابت نہیں ہوئ تمہارے لیئے۔۔ابھی سےاتنے مسلے ہورہے ہیں تو پھر بعد میں پتا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سالار نے اسکی بات کاٹ دی۔۔

شادی ایک دوسرے کی قسمت سے نہیں کی جاتی ایک دوسرے کے وجود سے کی جاتی ہے اچھے دنوں کے ساتھ کے لیئے لوگ فرینڈشپ کرتے ہیں شادی نہیں۔۔۔ھم دونوں کا ماضی حال مستقبل جو بھی ہے جیسا بھی ہے ایک ساتھ ہی ہے اب اگر تم کو یہ لگتا ہے کہ میں یہ توقع کر رہا تھا کہ تم سے شادی کے بعد پہلے میرا پرائز بانڈ نکلے گا یا پھر کوئ بونس ملے گا یا پروموشن ہوگی تو سوری مجھے ایسی توقعات نہیں ۔جو کچھ ہورہا ہے وہ بے وقت ہوسکتا ہے میرے لیئے لیکن غیر متوقع نہیں۔۔۔

میں تمہارے لیئے کس حد تک جاسکتا ہوں کتنا سینسئر ہوں وہ وقت بتا سکتا ہے اس لیئے تم خاموشی سے وقت کو گزرنے دو ۔۔یہ چائے ٹھنڈی ہوگئ ہے جاؤ دوبارہ چائے بنا لاؤ ۔۔پیتے ہیں۔۔۔وی اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔۔کوئ چیز اسکی آنکھوں میں امڈنے لگی تھی۔۔

اسکی ضرورت نہیں ہے امامہ ۔۔سالار نے اسکے چہرے پر پھسلتے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے اس سے نرمی سے کہا ۔وہ سر ہلاتے ہوئے اپنی ناک رگڑتی اٹھ گئ۔۔

******----**&*----****---*

سالار نے اس مسلے کو کیسے حل کیا تھا یہ امامہ نہیں جانتی تھی۔سکول کی دوبارہ تعمیر کیسے شروع ہوئ تھی اسے یہ بھی نہیں پتا تھا سالار پہلے سے زیادہ مصروف تھا اور اسکی زندگی میں آنے والا طوفان کسی تباہی کے بغیر گزر گیا تھا۔

***********************

مجھے ہاتھ دکھانے میں کوئ دلچسپی نہیں ہے۔سالار نے دو ٹوک انکار کرتے ہوئے کہا تھا۔

لیکن مجھے ہے۔۔امامہ اصرار کر رہی تھی۔

یہ سب جھوٹ ہوتا ہے۔۔سالار نے اسے بچوں کی طرح بہلانے کی کوشش کی۔

کوئ بات نہیں، ایک بار دکھانے سے کیا ہوگا۔اسکے انداز میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔

تم کیا جاننا چاہتی ہو اپنے مستقبل کے بارے میں مجھ سے پوچھ لو۔۔

سالار اسے پامسٹ کے پاس لیجانے کے موڈ میں نہیں تھا۔جو اس فائیو سٹار ہوٹل کی لابی میں تھا جہاں وہ کھانا کھانے آئے تھے۔

ویری فنی۔۔۔اس نے مذاق اڑایا تھا۔اپنے مستقبل کا تو تمہیں پتا نہیں میرا کیا ہوگا۔

کیوں ۔تمہارا اور میرا مستقبل ساتھ ساتھ نہیں کیا۔۔سالار نے مسکرا کر اسے جتایا۔

اسی لیئے تو کہتی ہوں پامسٹ کے پاس چلتے ہیں اس سے پوچھتے ہیں۔امامہ کا اصرار بڑھا تھا۔

دیکھو ہمارا آج ٹھیک ہے ۔۔کافی ہے۔۔۔تمہیں کل کا مسلہ کیوں ہورہا ہے۔۔۔وہ اب بھی رضامند نہیں تھا۔

مجھے ہے کل کا مسلہ۔۔وہ کچھ جھلا کر بولی۔

کتنے لوگ ہاتھ دکھا کر جاتے ہیں اس پامسٹ کو ۔۔تمہیں پتا ہے میرے کولیگز کو اس نے انکے فیوچر کے بارے میں کتنا کچھ ٹھیک بتایا تھا بھابھی کی بھی کتنی کزنز آئ تھی اسکے پاس۔۔۔۔۔۔امامہ اب اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

بھابھی آئ تھی انکے پاس؟؟ سالار نے جواباً پوچھا تھا۔

نہیں۔۔۔۔وہ اٹکی۔۔

تو؟؟

تو یہ کہ انکو انٹرسٹ نہیں لیکن مجھے تو ہے۔اور تم نہیں لیکر جاؤ گے تو میں خود چلی جاؤں گی۔۔وہ یکدم سنجیدہ ہوگئ تھی۔

کس دن؟؟ سالار نے جیسے ٹالا۔۔

ابھی۔۔۔

وہ بے اختیار ہنسا اور اس نے جیسے ہتھیار ڈال کر کہا۔۔

پامسٹ کو ہاتھ دکھانا دنیا کی سب سے بڑی حماقت ہے اور میں تم اے ایسی حماقت کی توقع نہیں رکھتا تھا لیکن اب تم ضد کر رہی ہو تو ٹھیک ہے۔۔تم دکھا لو ہاتھ۔۔

تم نہیں دکھاؤ گے؟؟ اسکے ساتھ لابی کی طرف جاتے ہوئے امامہ نے پوچھا۔۔۔

نہیں۔۔۔سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔

چلو کوئ بات نہیں ۔۔خود ہی تو کہہ رہے ہو کہ میرا اور تمہارا مستقبل ایک ہے تو جو کچھ میرے بارے میں پامسٹ بتائے گا وہ تمہارے بارے میں بھی تو ہوگا۔۔امامہ اسے چھیڑ رہی تھی۔

مثلاً ۔۔۔۔سالار نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔

مثلاً اچھی خوشگوار ازدواجی زندگی ۔۔اگر میری ہوگی تو تمہاری بھی ہوگی۔۔

ضروری نہیں ہے۔۔۔وہ اسے اب تنگ کرنے لگا۔۔

ہوسکتا ہے شوہر کے طور پر میری زندگی بڑی بری گزرے تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔

تو مجھے کیا؟؟ میری تو اچھی گزر رہی ہوگی۔۔امامہ نے کندھے اچکا کر بے نیازی دکھائ۔

تم عورتیں بڑی سیلفش ہوتی ہو ۔سالار نے چلتے چلتے جیسے اسکے رویئے کی مذمت کی۔

تو نہ کیا کرو پھر ھم سے شادی۔۔نہ کیا کرو ھم سے محبت۔۔۔ھم کونسا مری جارہی ہوتی ہیں تم مردوں کے لیئے۔۔۔۔

امامہ نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا تھا ۔وہ ہنس پڑا۔۔۔چند لمحوں کے لیئے وہ جیسے واقعی لاجواب ہوگیا تھا۔

ہاں ھم ہی مرے جارہے ہوتے ہیں تم عورتوں پر۔۔۔۔عزت کی زندگی راس نہیں آتی شاید اس لیئے۔وہ چند لمحوں بعد بڑبڑایا۔۔

تمہارا مطلب ہے تم شادی سے پہلے عزت کی زندگی گزار رہے تھے۔؟؟امامہ ھمیشہ کی طرح فوراً برا مان گئ تھی۔

ھم شاید جنرلائز کر رہے تھے۔۔سالار اسکا بدلتا موڈ دیکھ کر گڑبڑایا۔۔

نہیں۔۔۔تم صرف اپنی بات کرو۔

تم آگر ناراض ہورہی ہو تو چلو پھر پامسٹ کی طرف نہیں جاتے۔۔سالار نے اسے بے حد سہولت سے موضوع سے ہٹایا۔

نہیں میں کب ناراض ہوں ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔۔۔امامہ کا موڈ یکدم بدلا۔

ویسے تم کیا پوچھو گی پامسٹ سے؟؟ سالار نے بات کو مزید گھمایا۔۔۔

بڑی چیزیں ہیں۔۔۔امامہ سنجیدہ تھی۔۔

وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر تب تک وہ پامسٹ تک پہنچ چکے تھے۔۔۔

پامسٹ اب امامہ کا ہاتھ پکڑے عدسے کی مدد سے اسکی لکیروں کا جائزہ لے رہا تھا۔پھر اس نے بے حد سنجیدگی سے کہنا شروع کیا۔۔

لکیروں کا علم نہ تو ختمی ہوتا ہے نہ الہامی۔ھم صرف وہی بتاتے ہیں جو لکیریں بتا رہی ہوتی ہیں بہر حال مقدر سنوارتا اور بگاڑتا اللہ تعالی ہی ہے۔۔۔وہ بات کرتے کرتے چند لمحوں کے لیئے رکا۔پھر اس نے جیسے حیرانی سے اس کے ہاتھ پر کچھ دیکھتے ہوئے بے اختیار اسکا چہرہ دیکھا۔اور پھر برابر کی کرسی پر بیٹھے اسکے شوہر کو دیکھا جو اس وقت بلیک بیری پر میسجز دیکھنے میں مصروف تھا۔۔

بڑی حیرانی کی بات ہے۔۔پامسٹ نے دوبارہ ہاتھ دیکھتے ہوئے کہا۔۔

کیا؟؟ امامہ نے کچھ بے تاب ہوکر پامسٹ سے پوچھا۔

آپکی یہ پہلی شادی ہے؟؟ سالار نے نظر اٹھا کر پامسٹ کو دیکھا۔۔اسکا خیال تھا یہ سوال اسکے لیئے تھا۔۔لیکن وہ امامہ سے مخاطب تھا۔۔

ہاں۔۔امامہ نے کچھ حیران ہوکر پہلے پامسٹ کو اور پھر اسے دیکھا۔۔

اوہ۔۔۔۔اچھا۔۔۔پامسٹ پھر کسی غور و حوض میں مصروف ہوگیا۔۔

آپکے ہاتھ پر دوسری شادی کی لکیر ہے۔۔ایک مضبوط لکیر۔۔۔ایک خوشگوار کامیاب دوسری شادی۔۔۔

پامسٹ نے امامہ کو دیکھتے ہوئے ختمی انداز میں کہا۔۔امامہ کا رنگ اڑ گیا۔۔اس نے گردن موڑ کر سالار کو دیکھا۔۔وہ اپنی جگہ ساکت تھا۔۔

آپ کو یقین ہے؟؟ امامہ کو لگا جیسے پامسٹ نے کچھ غلط پڑھا تھا۔

جہاں تک میرا علم ہے اسکے مطابق تو آپکے ہاتھ پر شادی کی دو لکیریں ہیں اور دوسری لکیر پہلی کی نسبت زیادہ واضح ہے۔۔

پامسٹ اب بھی اسکے ہاتھ پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔۔۔سالار نے امامہ کے کسی اگلے سوال سے پہلے والٹ سے ایک کرنسی نوٹ نکال کر پامسٹ کے سامنے میز پر رکھا پھر بڑی شائستگی سے کہتے ہوئے اٹھ گیا۔۔۔

تھینک یو۔۔بس اتنی انفارمیشن کافی ہے۔۔ھم لیٹ ہورہے ہیں ھمیں جانا ہے۔۔۔اسے اٹھ کر وہاں سے چلتا دیکھ کر امامہ نہ چاہنے کے باوجود اٹھ کر اسکے پیچھے آئ تھی۔۔۔

مجھے ابھی اور بہت کچھ پوچھنا تھا اس سے۔۔امامہ نے خفگی سے کہا۔۔

مثلاً؟؟ سالار نے کچھ تیکھے انداز میں کہا۔

اس نے مجھے اور پریشان کردیا ہے۔۔۔امامہ نے اسکے سوال کا جواب نہیں دیا۔۔لیکن جب وہ پارکنگ میں آگئے تو اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سالار سے کہا۔۔۔

یہ تمہارا اپنا انتخاب تھا اس نے تمہیں نہیں بلایا تھا تم خود گئ اپنا مسقبل دیکھنے۔۔۔سالار نے بے رخی سے کہا۔۔۔

سالار تم مجھے چھوڑ دو گے کیا؟؟ امامہ نے پوچھا۔

یہ نتیجہ اگر تم نے پامسٹ کی پیش گوئی کے بعد نکالا ہے تو مجھے تم پر افسوس ہے۔۔سا لار کو غصہ آیا تھا اس پر۔۔

ایسے ہی پوچھا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں پہلے کم وہم تھے میرے بارے میں کہ کسی پامسٹ کی مدد کی ضرورت پڑتی۔۔سالار کی خفگی کم نہیں ہوئ تھی۔

دوسری شادی تو وہ تمہاری پریڈیکٹ کر رہا ہے ۔۔۔ایک کامیاب خوشگوار ازدواجی زندگی اور تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ کیا میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے تم مجھے چھوڑو۔۔۔سالار نے اس بار چھبتے ہوئے انداز میں کہا۔۔اس کی گاڑی اب مین روڈ پر آچکی تھی۔۔

میں تو تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔۔امامہ نے سالار کو دیکھے بغیر بے ساختہ کہا۔۔۔

پھر ہوسکتا ہے میں مر جاؤں اور اسکے بعد تمہاری دوسری شادی ہو۔۔۔سالار کو یکدم اسے چڑانے کی سوجھی۔۔

امامہ نے اس بار اسے خفگی سے دیکھا ۔تم بے وقوفی کی بات مت کرو۔

ویسے تم کرلینا شادی اگر میں مر گیا تو ۔۔اکیلی مت رہنا۔۔۔امامہ نے کچھ اور برا مانا۔۔۔۔۔

میں کچھ اور بات کر رہی ہوں تم کچھ اور بات کرنا شروع کردیتے ہو۔۔اور تمہیں اتنی ہمدردی دکھانے کی ضرورت نہیں۔

تم اصل میں یہ چاہتے ہو کہ اگر میں مر جاؤں تو تم دوسری شادی کرلینا۔وہ کچھ لمحوں کی بعد یکدم بولی۔۔وہ اسکی ذہانت پر عش عش کر اٹھا۔۔۔

تو کیا میں نہ کروں/؟؟سالار نے جان بوجھ کر اسے چھیڑا۔

مجھے پامسٹ کے پاس جانا ہی نہیں چاہیئے تھا۔وہ پچھتائ تھی۔

تم مجھے سود کے بارے میں سوال کر تی ہو اور خود یہ یقین رکھتی ہو کہ اللہ کے علاوہ کسی انسان کو دوسرے انسان کی قسمت کا حال پتا ہوتا ہے؟؟ وہ ھمیشہ سے صاف گو تھا۔ مگر اسکی صاف گوئ نے امامہ کو پہلے کبھی اتنا شرمندہ نہیں کیا تھا جتنا اسوقت کیا. ۔گھڑوں پانی پڑنے کا مطلب اب سمجھ آیا تھا اسے۔۔

انسان ہوں۔۔فرشتہ تو نہیں ہوں میں۔۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔

جانتا ہوں۔۔اور تمہیں کبھی فرشتہ سمجھا بھی نہیں میں نے، مارجن آف ایرر دیتا ہوں تمہیں لیکن تم مجھے نہیں دیتی۔۔

وہ اسے دیکھ کر رہ گئ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا ۔وہ بہت کم کوئ بات غلط کرتا تھا امامہ کو اسکا اعتراف تھا۔۔

زندگی اور قسمت کا پتا اگر ان چیزوں سے چلتا تو پھر اللہ تعالی انسان کو کبھی عقل نہیں دیتا۔صرف یہی چیزیں دیکر اسے دنیا میں اتار دیتا۔۔۔

وہ گاڑی چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا اور وہ شرمندگی سے سن رہی تھی۔جب مستقبل نہیں بدل سکتے تو پھر جاننے کا کیا فائدہ۔ بہتر ہے غیب غیب ہی رہے اللہ سے اسکی خبر کی بجائے اسکا رحم و کرم مانگنا زیادہ بہتر ہے۔

وی بول ہی نہیں سکی تھی۔سالار بعض دفعہ اسے بولنے کے قابل نہیں چھوڑتا یہ یقین یہ اعتماد تو اسکا اثاثہ تھا۔۔یہ اسکے پاس کیسے چلا گیا. امامہ کو اس رات پہلی بار یہ بے چینی ہوئ تھی۔۔ وہ ساتھی تھے رقیب نہیں تھے۔وہ ایمان کے درجوں میں اس سے پیچھے تھا وہ اسے کیسے پیچھے چھوڑنے لگا تھا اب۔۔

*****-------****----*****-*

وہ سالار کیساتھ خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہو ئ تھی۔سالار انکے دائیں جانب تھا یہ وہاں انکی آخری رات تھی۔وہ پچھلے پندرہ دن سے وہاں تھے۔اور اپنی شادی کے ساتویں مہینے عمرے کے لیئے آئے تھے۔احرام میں ملبوس سالار کے برہنہ کندھے کو دیکھتے ہوئے امامہ کو ایک لمبے عرصے کے بعد وہ خواب یاد آیا تھا۔۔سالار کے دائیں کندھے پر کوئ زخم نہیں تھا لیکن اسکے بائیں کندھے کی پشت پر اب بھی اس ڈنر نائف کا نشان تھا۔جو ہاشم مبین نے مارا تھا۔

تم نے پہلے کبھی مجھے اس خواب کے بارے میں نہیں بتایا۔ وہ امامہ کے منہ سے اس خواب کے بارے میں سن کر شاکڈ تھا۔کب دیکھا تھا تم نے یہ خواب؟؟

امامہ کو تاریخ مہینہ دن سب یاد ہے تھا۔ کیسے بھولتی۔۔اس دن وہ جلال سے ملی تھی اتنے سالوں کے لاحاصل انتظار کے بعد۔۔۔۔۔۔

سالار گنگ تھا۔۔وہ وہی رات تھی جب وہ یہاں امامہ کے لیئے گڑگڑا رہا تھا۔اس آس میں کہ اسکی دعا قبول ہوجائے ۔۔یی جانے بغیر کہ اسکی دعا قبول ہورہی تھی۔

اس دن میں یہاں تھا۔۔اس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے امامہ کو بتایا۔اس بار وہ ساکت ہوئ۔

عمرہ کے لیئے؟؟

سالار نے سر ہلایا۔وہ سر جھکائے اپنے ہونٹ کاٹتا رہا۔وہ کچھ بول نہ سکی صرف اسکو دیکھتی رہی۔

اس دن تم یہاں نہ ہوتے تو شاید۔۔

ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہ سکی۔

شاید؟؟ سالار نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔یوں جیسے وہ چاہتا تھا کہ وہ بات مکمل کر لے۔۔وہ کیسے کہتی کہ وہ اس دن یہاں نہ ہوتا تو شاید جلال اس سےاتنی سرد مہری نہ برتتا۔۔وہ سب کچھ نہیں کہتا جو اس نے کہا تھا۔وہ اسکے اور جلال کے بیچ اللہ کو لے آیا تھا۔اور اس کے لیئے اللہ نے سالار کو چنا تھا۔۔

سالار کی باتیں اسکی سماعتوں سے چپک گئ تھی۔

اتنے سالوں میں جب بھی یہاں آیا تمہارے لیئے بھی عمرہ کرتا۔۔

وہ بڑے سادہ لہجے میں امامہ کو بتا رہا تھا اسے رلا رہا تھا۔۔۔

تمہاری طرف سے ہر سال عید پر قربانی بھی کرتا رہا ہوں میں۔۔

کیوں؟؟ امامہ نے بھرائ ہوئ آواز میں اس سے پوچھا تھا۔۔

تم منکوحہ تھی میری۔ دور تھی لیکن میری زندگی کا حصہ تھی۔۔

وہ روتی گئ۔۔اسکے لیئے سب کچھ اسی شخص نے کرنا تھا کیا۔۔۔

اسے سالار کے حافظ قرآن ہونے کا بھی اس وقت پتا چلا تھا۔۔۔وہ جلال کی نعت سن کر مسحور ہوجاتی تھی۔وہاں حرم میں سالار کی قرات سن کر گنگ تھی۔

ایسی قرات کہاں سے سیکھی تم نے؟؟ وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔

جب قرآن پاک حفظ کیا تب،،،، اب تو پرانی بات ہوگئ ہے۔اس نے بڑے سادہ لہجے میں کہا۔۔

امامہ کو چند لمحوں کے لیئے جیسے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا۔

تم نے قرآن پاک حفظ کیا ہوا ہے؟؟؟ ڈاکٹر صاحب نے کبھی نہیں بتایا۔۔وہ شاکڈ تھی۔۔۔

تم نے بھی کبھی نہیں بتایا اتنے مہینوں میں۔۔

پتا نہیں ۔۔کبھی خیال نہیں آیا ۔ڈاکٹر صاحب کے پاس آنے والے زیادہ لوگ حفاظ ہیں۔۔میرا حافظ قرآن ہونا انکے لیئے انوکھی بات نہیں ہوگی۔۔وہ کہہ رہا تھا۔

تم اتنا حیران کیوں ہورہی ہو۔۔

آنسوؤں کا ایک ریلہ امامہ کی آنکھوں میں آیا۔

جاری