فہرست
میٹھا نیم، کڑوانیم، کڑوانیم، میٹھا نیم
اُس کو لگا، آنگن میں کسی نے میٹھے نیم کاپیڑ لگا کر کوئی غلطی نہیں کی۔ رُوزانہ جھاڑے گئے صاف آنگن میں نیم کا پتّاپہلے ایک گرتا، پھردو، دس، بیس، پچاس۔ پھرجھڑی لگ جاتی۔ گھرمیں پلی بکری، دن بھرپتّوں پرمُنہ مارتی پھرتی۔ بچے ہوئے پتّوں کودوپہرکی تپتی دھوپ سُکھاکرکھُرکھُراکر دیتی اورپھرماں اُن کوسنبھال سنبھال کرجھاڑتے ہوئے لے جا کرایک کونے میں جمع کر کے بوری میں ٹھونس ٹھونس کرذخیرہ کر لیتی۔ باقی کوڑے کوکنویں کی منڈیرپر پڑے ٹین کے ڈھکّن کواُٹھاکرکنویں میں جھونک دیتی۔ پڑوس کے اسکول سے ’’بھارت ماتاکی، جے‘‘کی آوازیں جب تب گونجتی رہتیں۔
ماں کے کہنے کے مطابق، سات سمندروں پارسے آئی ہوئی شہ زادی تھی، ماں۔ یعنی کہ ایک زمین دار کی اکلوتی بیٹی، اُن کوکالج لے جانے لانے والے، محلّے کے ایک ڈرائیور، یعنی کہ اُس کے ابّوسے عشق ہو گیا تھا۔ امّی بھی دِل سے مجبور ہو کرگھر کی ساری دولت لے کرابّوکے ہم راہ اَن جانے گاؤں، کرایے کے مکان میں آ گئی تھی۔ کئی ماہ تک ابّو عشق میں ڈوبے رہے، لیکن جب دولت گھٹتے دیکھی، تو چاچو کے ٹرک پر نوکری کر لی۔ کچھ دِنوں بعد ٹرک حادثے میں ابّو چلے گئے توچاچو نے گھر کی ساری ذِمّے داریاں سنبھال لیں۔ ابّو کی موت کے دو ماہ بعد وہ پیدا ہوئی۔ مرتا، کیانہ کرتا…؟ماں نے بھی جہاز کے پنچھی کی طرح چاچو، اور اُس کے سہارے زندگی گزارنے کا عہد کر لیا۔ چاچو بہت دوراَندیش تھے۔ اُنھوں نے اُس کی ماں کی دولت سے ، پہلے تواُن کے لیے اپنے ہی محلّے میں میٹھے نیم اور اَندھے کنویں والا مکان خرید کر، نل لگوایا۔ گھر چلانے کے لیے مُرغیاں، بکریاں اورایک گائے خریدی۔ باقی رقم، پوسٹ آفس میں جمع کر وادی۔ بڑے گھر کی بیٹی کو مُرغیوں، بکریوں اور گائے کی گندگی سے گھِن آئی تو چاچو نے گھر کے کام کے لیے محلّے کی آٹھ سا لہ لڑکی شبنم کا انتظام کر دیا۔ گوبر کا کام نبٹانے کی وجہ سے ماں، شبنم کو کسی اور کام میں ہاتھ نہ لگانے دیتی۔ بچّی کو بھی گود میں لینے کی اجازت نہ تھی، شبنم کو۔ یہاں تک کہ شبنم کا بستر اور برتن تک الگ کر دِیے تھے، ماں نے۔
صبح صبح گوالاگائے کادودھ دوہنے کے لیے دروازے کی کنڈی مارتا۔ شبنم اُٹھ کر پہلے پہل دروازہ کھوتی، پھرمُر غیوں کاڈرباکھول کرانھیں باہر نکالتی، اَنڈے جھولی میں بھر کرماں کودکھلا کر الماری میں رکھتی اورفراغت کے بعد مکان کی صفائی میں لگ جاتی۔ ماں ہانڈی، چولھاسنبھالتی۔ گوالا، دودھ دوہ لے جاتا۔ شبنم، گائے کا گوبراُٹھاتی۔ کنڈے تھوپتے وقت پڑوس کے اسکول سے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا، اوربھارت ماتا کی ، جے‘‘کی آوازیں گونجتیں۔ شبنم ، سوکھے کنڈے بازار میں فروخت کر کے لکڑیاں لاتی۔
کام کرتے وقت کبھی کبھی ماں کا ذہن بدبو سے بھر جاتا، ماں پلٹ کر دیکھتی۔ اُس کے دونوں ہاتھ چھی میں اَٹے ہوتے۔ ماں کام چھوڑ کر دوڑتی، دونوں ہاتھ تھام کرچھی نہ چھونے کی تاکید کے ساتھ دھُلا کرصاف ستھراکر دیتی۔
رات دن گزرتے گئے۔ وہ گھٹنوں چل کر شبنم کے پاس جانے لگی۔ ماں نے شبنم کو صابن سے ہاتھ دھونے کے بعد گود میں لینے کی اِجازت دے دی۔ گھر کے کام سے فارغ ہو کر، شبنم اُس کو لیے لیے محّلے میں گھومتی پھرتی۔ اَب اُس کا ذہن آہستہ آہستہ پُختہ ہونے لگا تھا۔ اُس کو آنگن میں پُٹ پُٹ کر کے چلنا آنے لگا تھا۔ وہ چلتے چلتے اکثر گرتی، اُٹھتی، پھر گرتی، کبھی ایسی بھی گرتی کہ گوبرمیں ہاتھ اَٹ جاتے۔ وہ چھی چھی کر کے چیخ پڑتی اورماں دوڑ کر صاف سُتھرا کر دیتی۔
چاچو گھرمیں کب اورکس طرح آتے جاتے ہیں ….؟اور کیا کیا ہوتا ہے ….؟ محلّے والوں کو علم ہو گیا۔ شبنم کی ماں نے بھی شبنم کو گھر بِٹھا لیا۔ مجبوری نے راستے بنا لیے۔ بڑے گھر کی بیٹی یعنی کہ اس کی ماں کے اُصولوں کومجبوری نے خُردبُردکرڈالا۔ ماں، ناک پر کپڑا لگا کرشبنم کے سارے کام خود نبٹانے لگی۔ ماں جب ناک پر کپڑا لگا کرگوبر میں ہاتھ لگاتی، تووہ ’’چھی‘‘ کی آواز کے ساتھ گوبر کی جانب اُنگلی اُٹھا دیتی۔
دروازے کی کنڈی اکثرچڑھی رہتی۔ نہ کوئی آتا، نہ کوئی جاتا۔ کبھی کبھی ماں، نیم کی ڈال میں جھولا ڈال کر ایک چھوٹا کھٹولا ڈال دیتی۔ وہ جھولتے جھولتے سو جاتی۔ سو کر اُٹھتی، تواُس کی نظر اکثردروازے کی کنڈی کی جانب ہوتی۔ شام کا دھندلکا چھانے لگتا، ماں گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر بڑے چاوسے اپنی مانگ چوٹی کرتی، کریم پاؤڈر سے سجتی، سنور تی۔ ایک ٹھیکرے میں اَنگارے بھرتی، لوبان ڈالتی، نیم کے میٹھے پتّوں کادھُواں اپنا سینہ تانے اِٹھلاتا، بل کھاتا ہوا اُٹھتا، ماں، پورے مکان میں ٹھیکرا لیے لیے پھرتی، دھویں سے سارا مکان اَٹ جاتا۔ اُس کو نیم کے پتّوں کادھُواں زہر لگتا۔ سانس رُندھ جاتی اوروہ چیخ کر رو پڑتی۔ ماں اُس سے دورچلی جاتی اوردھُواں آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتا۔ جب اَندھیراگہرا جاتا، وہ جاگنے کی کوشش میں اکثر سو جاتی، کبھی کبھی جاگتی رہتی۔ دروازے پر کھٹاکا ہوتا اوروہ دروازے کی جانب ہاتھ اُٹھا دیتی۔ ماں لپک کر پہلے اُس کا منہ چومتی، پھر ننگے پاؤں دوڑ کردروازہ کھولتی۔ صاف سُتھرے، موٹے تگڑے چاچو اندر آتے۔ اُن کو دیکھ کر وہ خوب خوب ہمکتی۔ چاچو مسکراتے آتے، اور اُس کے سامنے کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ رکھ کر، پردہ پڑے کمرے میں سرک جاتے۔ ماں اندر باہرچکّر لگاتی۔ کبھی اُس کو دیکھتی، توکبھی چاچو کو۔ وہ چاچوکالایاکچھ نہ کچھ کھاتے کھاتے اکثر سو جاتی۔ میٹھے نیم کے پتّوں کادھُواں ، مچھروں سے اُس کو محفوظ رکھتا۔ کبھی کبھی دیر رات گئے مچھروں کے یلغارسے اُس کا جِسم آگ اُگلنے لگتا، وہ ہڑبڑا کرسوتے سے اُٹھ جاتی۔ ماں پردہ پڑے کمرے سے نکل کر جلدی سے اُس کوگود میں اُٹھا کردبی آواز میں تھپ تھپا کرچُپانے، اورسُلانے کی کوشش کرتی، وہ اپنا جِسم رگڑرگڑ کرچیختی۔ ماں اُس کوگود میں لیے لیے ٹھیکرے میں آگ جلاتی، نیم کے پتّے ڈال کرسارے مکان میں دھُواں کرتی اور بڑی کوشش سے اُس کو نیند کی آغوش میں دھکیل کرکمرے میں پھر سرک جاتی۔
ایک دِن وہ پُٹ پُٹ کرتے ہوئے، چاچوکی کھوج میں پردہ پڑے کمرے میں چلی گئی۔ خوش بو اور بدبو سے اَٹا کمرا عجیب سالگا، اُس کو۔ چاچو، وہاں نہ تھے۔ وہ وہاں پڑی بدبوداربوتل باہر اُٹھا لائی اورماں چھین کر اُسی کمرے کی الماری میں سجا آئی۔ کبھی کبھی اُس کو لگتاکہ چاچو آ کرکمرے میں چپ چاپ چلے گئے اورکمرے نے اپنے جادو سے چاچو کوبدبو دار بوتل بنا دیا۔ چاچو آتے رہے، بوتلیں بڑھتی رہیں۔
دروازے کی کنڈی دِن میں بھی کھٹکتی۔ دس بارہ کے سِن کاچاچو کا نوکر دیپو، تھیلا لٹکائے آتا، اُس کی نظردیپوسے پھسل کر تھیلے پرجم جاتی۔ تھیلا طرح طرح کی چیزیں اُگلتا، سبزیاں، کپڑے، پان، چھالی اورمیک اَپ کا سامان بھی۔ اُس میں اُس کے کھانے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا۔ اپنے کھانے کی چیزدیکھتے ہی، وہ قریب آ جاتی۔ ماں سب سے پہلے اُسی کی چیز، اُس کو تھما دیتی۔ نیم پر کووّں کی آوازیں بڑھ جاتیں۔ ماں آواز کے ساتھ دوپٹّے کا کونا ہوا میں اُچھالتی اوراُس کودبوچ کرپہلومیں بٹھالیتی۔
دِن گزر تے گئے۔ چاچو آتے رہے۔ ماں اُس کو بھوتوں، چڑیلوں، جنّاتوں، خبیثوں، دیووں اور پریوں کی کہانیاں سُنا سُنا کرسُلاتی رہی۔ کمرا، چاچو کو بدبو دار بوتلوں میں تبدیل کرتا رہا۔ چاچو کے آنے جانے کے اَ وقات بدل گئے۔ کبھی اُس کو لگتاکہ رات چاچو نہیں آئے، مگر پردہ پڑے کمرے نے جادو سے بوتل کو پھر چاچو بنا دیا۔ چاچو کمرے سے نکل آئے۔ چاچو جب بھی کمرے سے نکلتے، اُس کے ہاتھ پر سکّے رکھ جاتے۔ ماں، چاچوکے پیچھے پیچھے مسکراتی ہوئی لپکتی، چاچوکوباہرنکال کر کنڈی چڑھا آتی اور پھر لپک کر اُس کے ہاتھ سے چاچوکے دِیے سکّے لے کر ڈبّے میں ذخیرہ کر لیتی۔
اَندھے کنویں میں بھی بدبو داربوتلوں اورکوڑے کا ذخیرہ بڑھتا گیا۔ اُس نے بھی سِنِ شعورمیں قدم جما لیا۔
ایک رات مچھروں نے جب اُس کوجم کر بھنبوڑا، تووہ سوتے سے ہڑبڑا کر اُٹھی، ماں اِدھراُدھر نظر نہ آئی، چراغ کی مدھّم روشنی نے چغلی کی اوروہ پلنگ سے اُتر کر پردے والے کمرے میں داخل ہو گئی۔ دوجسم سہم گئے۔ اُس پرایک عجیب قِسم کی دہشت وحشت، اُکتاہٹ اورگھبراہٹ طاری ہو گئی۔ کل ملاکرچاچو کا کمرے میں ہونا پسند نہ آ یا اُس کو۔ اُس کے بعد سے پردے والے کمرے کی کنڈی اندرسے چڑھائی جانے لگی۔ اُس کے ذریعے دروازہ کھٹکانے پر دوبار توماں باہر آ گئی، پھر ماں نے دروازہ نہ کھٹکانے کی تاکید کر دی۔ وہ اکثر رات میں جاگ کر چُپ چاپ پڑی رہتی۔ اُس کے ذہن کا تِل چٹّا بے چین کیے رہتا، اُس کو۔ وقت گزرا، موسم بدلا اورمیٹھے نیم کے پتّے کڑوے ہونے لگے اور پھر زہر ہو گئے۔ پتّوں کا گرنا، ماں کا سنبھال سنبھال کر رکھنا، اُس کو بے چین کرنے لگا۔ دروازے کی کنڈی کھٹک کرذہن پر ہتوڑے برسانے لگی۔ چاچو کی لائی ہوئی مٹھائی کڑوی ہو گئی۔ سکّوں کا ذخیرہ ڈسنے لگا۔ نیم کے پتوں کو پیروں تلے مسل کرچلنا اچھا لگنے لگا، اُس کو۔ ایک رُوز اُس نے نیم کے پتوں کو کوڑے کے ساتھ اَندھے کنویں میں جھونک کرجھانکا، کنویں کا اَندھیرا کھینچنے لگا، اُس کو۔ وہ کھنچتی گئی۔ پہلے دھیرے دھیرے، پھر تیز، پھر اُس سے تیزاور پھر ایک دم، تیز۔ کنویں کے بھوتوں اور خبیثوں کی چمک دار آنکھیں ڈرانے لگیں۔ اُس کو لگا، کالے ناگوں کی شعلے اُگلتی آنکھیں اورزبانیں اُس کو کھا جانے کے لیے بڑھ رہی ہیں۔ وہ چیخ کر پیچھے گری۔ کنویں کی مُنڈیر کا ڈھکّن دھڑام سے مُنڈیر پر آگِرا۔ ماں چیخ کے ساتھ اِزاربند تھامے بیت الخلا سے باہر آ کر جائزہ لیتے ہی اُس پربرس کرکنویں میں کبھی نہ جھانکنے کی تاکید کر کے، بیت الخلاپھرلوٹ گئی۔ پھروہ بستر پر چُپ چاپ لیٹ کرنہ جانے کیا کیاسوچتے سوچتے سو گئی۔ لمبے لمبے ناخنوں والے، ڈراؤنے ڈراؤنے بھوتوں نے اُس کو گھیر لیا۔ بڑے بڑے دانتوں والے خبّیث، اُلٹے پیروں والی چڑیلیں، آنکھوں سے آگ اُگلنے والے جنّات اورسُرخ زبان نکال کر پھنکارنے والے اژدہے، ساتوں آسمانوں سے پرے تک اُس کاپیچھا کرنے لگے۔ کبھی کوئی بد شکلاخوف ناک جانوراپنے سینگ، پیٹ میں اُڑس دیتا، اُس کے۔ کبھی مگر مچھ، اُس کے پیر پکڑ کرآگ کے دریا میں کھینچ لے جاتا، کبھی ڈائنا سور، مرغی کے انڈے کی طرح اُس کو دبوچ کربیٹھ جاتا۔ کبھی پہاڑوں کے اژدہے، پہاڑوں کی گپھاؤں میں کھوجتے پھرتے، اُس کو۔ وہ ڈری، سہمی، بھاگی بھاگی پھرتی۔ پھر سون پری مل جاتی، بہلاتی، پھُسلاتی، خوب پیار کرتی، پھل اورمٹھائیاں دیتی، پرستان کی سیر کراتی، باغوں میں جھولا جھُلاتی، نہلاتی، دھُلاتی اور سولہ سنگار کر کے دُلھن بناکر، کسی خوف ناک خبیث کے سپرد کر دیتی، خبیث ، ایک کمرے میں بند کر لیتا۔ اُس کو۔ اُس کا حامی و مدد گار کوئی نہ ہوتا۔ وہ چیخ مار کر بیٹھ جاتی۔ ماں دوڑ کر چھاتی سے لگا لیتی، ماں کا چھاتی سے لگا لینا ایک پل نہ بھاتا، اُس کو۔
ماں کے کاموں میں ہاتھ بٹانا اُس کو آ گیا۔ نیم کی شاخ پر جھولا خودڈالنے لگی۔ پینگ، لمبے ہونے لگے۔ دِل چاہتا، آسمان چھولے۔ ایک روزدیوارکے طاقوں کے سہارے چھت پر گئی، تو اِحساس ہوا کہ بستی میں اور لوگ بھی رہتے ہیں۔ پیچھے اسکول میں پڑھتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر دِل چاہا ، اسکول میں اُتر جائے اوربچّوں کے ساتھ خوب پڑھے لکھے، کھیلے کودے۔ اُس کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ صبح کو ’’سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا اوربھارت ماتا کی، جے‘‘ والی آوازیں یہیں سے آتی تھیں۔ کچھ دیر چھت پر رہنے کے بعد احساس ہوا کہ اُس کو دیکھنے کے لیے لوگ اپنے اپنے کمروں سے باہرنکل آئے ہیں۔ ماں کو جب اُس کے چھت پر جانے کا اِحساس ہوا تو ماں کی خوف ناک آوازیں بلند ہونے لگیں۔ وہ اسکول میں اُترنے کے بجائے اپنے کڑوے نیم اور اَندھے کنویں والے مکان میں اُتر آئی۔ ماں نے ڈانٹ کر دوبارہ چھت پر نہ جانے کی تاکید کر دی۔
دِن، ماہ اورسال گزرتے گئے۔ کنویں میں کوڑا بڑھتا گیا۔ اندر کے سارے بھوت، خبیث اورجنّات وغیرہ کانچ کی بوتلوں میں بدل گئے۔ موٹے تگڑے چاچو، دُبلے ہو گئے۔ ماں کے بالوں میں چاندی اتر آئی۔ چاچو کا آنا کم ہو گیا۔ پوسٹ آفس کی رقم کو دیمک چٹ کر گئی۔ ماں کے چہرے پر فکروں کی لکیریں بڑھنے لگیں۔ حالات اور بگڑنے لگے۔ پہلے گائے بکی، پھرایک ایک کر کے بکریاں۔ اُس کی جوانی نے اپنے سارے نقوش اُبھار لیے۔ دیپو کی آنکھوں میں چمک اُبھر آ ئی۔ دیپو کے آنے اور دیر تک بیٹھنے میں اضافہ ہو گیا۔ ماں بھی اُس کو گھنٹوں بِٹھائے رکھتی۔ دیپو کا آنا اور دیر تک بیٹھنا، اچھانہ لگتا، اُس کو۔ وہ جب اُس کو دیکھ کر مسکراتا، توایک آنکھ کا کالا کلوٹا دیپو ایک پل نہ بھاتا۔ دل چاہتا کہ شعلہ بن کر اُس کی آنکھوں میں اُتر جائے اور دھڑام سے اُس پر ایسی گرے کہ دیپو، زمین کی ساتوں تہوں کے نیچے پہنچ کر نیست نابود ہو جائے۔ وہ جب بھی آتا، تو وہ اُس کو دیکھ کر یہ ضرور دیکھتی کہ اُس کے دیکھنے کا انداز ہے کیسا.؟اُس کے غلط انداز پر آنکھیں نکال کر ناراضگی کا اظہار کرتی۔ دیپو کے دیکھنے کا انداز نہ بدلتا، بل کہ ماں کی شہ پراُس کا دیکھنے کا انداز دن بہ دن پیارا اور نیارا ہوتا گیا۔ دیپو کے بار بار آنے پرماں بہت خوش ہوتی، اُس کو بٹھا کر چاچو کے بارے میں طرح طرح کے سوالات پوچھتی، ’’ شوق سے کیا کھاتے ہیں .؟ بی بی جی کے لیے کیا کیا لاتے ہیں …؟ کہاں کہاں گھماتے ہیں …؟‘‘وغیرہ وغیرہ۔ دیپو بھی اُس کی جانب دیکھتے ہوئے مزے لے لے کربتا تے ہوئے مسکراتا جاتا، وہ جل جاتی۔ ماں چاہتی کہ وہ یوں ہی باتیں کرتا رہے۔ دیپو کی حرکتیں اُس کوایک پل نہ بھاتیں۔ کسی نہ کسی بہانے وہاں سے اُٹھ جاتی، وہ۔
ایک روز کنڈی کچھ اِس طرح کھٹکی کہ دروازے کے ساتھ دِل بھی دہل گیا۔ ماں کانپ گئی۔ سمجھی کہ کچھ نہ کچھ اَن ہونی ضرور ہوئی ہے۔ لپک کر در وازہ کھولا۔ دیپو نے بتایا، ’’چاچو چلے گئے۔‘‘ماں چکرا کر گر پڑی۔ اُس نے دیپو کے سہارے ماں کوکھینچ کر پلنگ پر ڈالا، آنکھوں سے دھکّادے کر دیپو کو باہر نکالا اورلپک کردروازے کی کنڈی چڑھا لی۔ ماں کے چہرے پرپانی چھڑکا، آوازیں دیں، ہلایا، ڈُلایاپھرجیسے تیسے ماں کو ہوش آیا۔ ماں کی آنکھوں سے خاموش دریا اُبل کر بہنے لگے اور لگاتار بہتے ہی گئے ، دو چار دنوں میں خزانہ خالی ہو گیا۔ آنکھیں خشک جھیل کی طرح اندر کو دھنس گئیں۔ چہرہ پیلا پڑ گ یا۔ کبھی کبھی یادوں کی لہر آ جاتی۔ آنکھوں سے چشمے اُبل پڑتے۔ رقم کے ذخیرے نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ ماں جیسے تیسے دیپو سے سامان منگوالیتی اور کبھی کبھی مجبو ری میں خود بھی اُس کو ساتھ لے کر بازارنکل جاتی۔ ماں کا باہر نکلنامجبوری بن گیا۔ جب کبھی وہ ماں کے ساتھ بازار جاتی، تو محلے والے ایک الگ انداز سے گھورتے۔ وہ دِل و دماغ سے لہو لُہان ہو جاتی۔ زخم، ناسور بن جاتے۔ ٹیسیں اُٹھتیں۔ وہ گھرلوٹ کرخوب روتی۔ ماں سبب پوچھتی، وہ کچھ نہ بولتی، بس روتی جاتی۔ ماں بہلاتی، مگر وہ چُپ نہ ہوتی۔ ماں غصے میں خوب پیٹتی، اُس کو۔ وہ اور روتی۔ روتے روتے سوجاتی۔ اُٹھتی، پھر روتی، پھرسو جاتی۔ یہ سلسلہ کئی روزچلا۔ اُس کا دِل چاہتا کہ کڑوا نیم کاٹ ڈالے۔ دروازے کی کنڈی توڑ دے۔ کمرے کے پردے کو آگ لگا دے۔ گھرکی گرہستی اور ماں کو کمر میں باندھ کراَندھے کنویں میں چھلانگ لگادے۔ دیپو تھیلا لے کر آتا، توایک پل نہ بھاتا۔ تھیلے کی ساری چیزیں سانپ بچھو کی طرح اُس کو چمٹ جاتیں۔ دِل چاہتاکہ ساری چیزیں کنویں میں جھونک دے۔ اُس نے گھرسے باہر نکلنا بند کر دیا۔ اب یاتو دیپو بازار جاتا، یاپھر ماں۔
رات دِن ڈھلتے گئے۔ دِن، رات۔ پھردِن۔ وقت کاخاموش پنچھی ، جہاز کے گرداپنے بازو چلاتارہا، چلاتارہا۔ نقاہت، بازوؤں کوشَل کرنے لگی۔ گھر میں کھانے پینے کا سامان تو پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ چاچو کے دِیے سکّوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ ماں کی فکریں حدیں پار کر گئیں۔ گھر کاچھوٹاموٹاسامان بکنے لگا۔ پہلے انڈے نہ دینے والی مُرغیاں بکیں، پھرانڈے دینے والی بھی بِک گئیں۔ ایک روزماں کی بے چینیاں حد پار گئیں، توماں ٹہلتے ٹہلتے اَندھے کنویں میں اُتر گئی اور دوپٹّے میں بدبوداربوتلیں بھرلائی۔ پھردیپو کے کان میں چپکے سے کچھ کہا۔ اور دیپو، بوتلوں کا تھیلا لے کرباہر سرک گیا۔ بازار سے داغی امرود بھر لایا۔ ماں نے کام چلایا۔ اگلے دِن ماں دوچار گھنٹے آنگن میں ٹہل ٹہل کر اپنی اُداس بٹیا کا مُنہ تاکتی رہی، پھر آہستہ سے اندر جا کر کمرا بند کیا اور دوپٹّے کومنہ میں ٹھونس کر اپنے کیے پر پچھتاکر خوب روئی، چپکے چپکے۔ جب ٹھاٹیں مارتا سیلاب اُترا، اور شام نے بہ مشکل تمام دستک دی، تو ماں، نقاب اُوڑھ کر رات کے اندھیرے میں گھر سے نکل گئی۔ تقریباً دوگھنٹے بعد سامان سے بھرا تھیلا لیے لوٹی، تواُس نے ماں کو کھا جانے والی نظر سے گھورا۔ ماں کی لاکھ ضِد کے باوجود کھانے کی کسی شے میں ہاتھ نہ لگایا، اُس نے۔ ماں نے چراغ گل کیا اور بنا کچھ کھائے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔ اُس نے بھی چارپائی سیدھی کی اور پیر پھیلا دِیے۔ پرنیند نہ آئی، اُس کو۔ کئی بار اُٹھ اُٹھ کرپانی پیا۔ بے چینیاں بڑھیں، تو وہ چپکے سے اُٹھی۔ ماں کی نیند کا جائزہ لیا۔ ماں کے خرّاٹے اوربلند ہو گئے۔ اُس نے چپکے سے سامان کا تھیلا ٹٹول کر ایک بڑا سیب نکالا اور آ کرچپکے سے لیٹ رہی۔ پیٹ کی آگ نے سیب کے وجود کولپک کر اپنی آغوش میں لینا چاہا، لیکن اُس کے ضمیر کی بارش نے پھر ٹھنڈا کر دیا۔ وہ ایک جذبے کے ساتھ اُٹھی ، سیب، تھیلے میں واپس رکھا اورپانی کے دو گلاس چڑھا کرپھرلیٹ گئی۔ اُس کے باوجودنیند نہ آئی۔ بھوک سے مجبور ہو کرجیسے ہی اُٹھ کر دوبارہ جھولے سے سیب نکالا، اُس کے ضمیر کا شیر بڑی بھیانک آواز میں دہاڑا، گھنگورگھٹائیں بھی چھائیں، بارشیں بھی ہوئیں، طوفان بھی آئے، سارے جہاں کے پانی نے مل کر زور لگایالیکن پیٹ کی آگ کچھ ایسی بھڑکی کہ ضمیربھسم ہو گیا، اُس کا۔ اُس نے کئی سیب نکال کر کھائے اور جیسے ہی بستر پر پہنچی، ماں اطمینان سے باہر نکلی اور سامان کا جھولا لے کر اندر چلی گئی۔ اگلی صبح ماں دن چڑھے اُٹھی اور جھاڑو دینے کے بعد ماں نے اُس کو جگایا۔ وہ جھلّاکر چادر پھینکتے ہوئے اُٹھی، مکان کا جائزہ لیا۔ سارا آنگن، کڑوے نیم کے پتّوں سے صاف تھا۔ برتن، پچھلے روز کے جیوں کے تیوں سجے تھے۔ اُس نے چادر کھینچ کر پیر پھر پھیلا دِیے۔
ماں کے اِس طرح باہر جانے کامعمول بن گیا اور اُس کے اِس طرح پیر پھیلانے کا بھی۔ ماں، ایک شام گھر سے ایسی نکلی کہ واپس نہ آئی، اور آئی بھی تو چار کاندھوں پر۔ اُس کی چیخ نے ساتوں طبق لرزادِیے۔ اُس کے بعد کیا ہوا، اُس کا ذہن محفوظ نہ رکھ سکا۔ رات آئی، توبھوتوں اورچڑیلوں کو ساتھ لیے۔ دِن آیا، توپہاڑ جیساڈھنڈار، اپنی نا ہم واریوں کے ساتھ۔ رات، پھر دِن۔ وہ مقابلہ کرتی بھی تو کب تک…؟آخر وقت کے بھوکے پنچھی نے اپنے بازو ڈھیلے چھوڑ دِیے۔ اُس کے اَنگ اَنگ میں کیڑے مکوڑے کلبلانے لگے۔ پہلے وہ کچھ سوچتی رہی۔ آخر کڑوے نیم کی پتیاں، میٹھی ہو گئیں۔ اُس نے اَندھے کنویں کی مُنڈیر سے ٹین کا ڈھکّن اُٹھایا اورکنوِیں میں اُتر گئی۔ کوڑے کرکٹ میں جہاں تہاں ہیرے جواہرات چمک رہے تھے۔ وہ جھولی میں ٹوٹی پھوٹی بوتلیں لیے جیسے ہی باہر آ ئی، اُس کو باہرسڑک پر ہنگامہ سنائی دیا۔ اُس نے ذراسا دروازہ کھول کر جھانکا، یومِ نسواں کی ریلی میں شہر کے بڑے بڑے لیڈر شامل تھے۔ ’’سارے جہاں سے اچھاہندستاں ہمارا اور بھارت ماتا کی، جے‘‘کی جے جے کارسے ساتوں آسمان گونج رہے تھے۔ لیکن اُس کو نہ تو کسی کی کوئی آواز سنائی دے رہی تھی اور نہ ہی کوئی شکل دکھائی دے رہی تھی۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھ کر لمباسانس لیا اورآہستہ سے دروازہ بند کر کے ایک آنکھ والے کالے کلوٹے دیپو کا بے صبری سے انتظار کرنے لگی۔
آج پورے تین سال بعد دروازہ کی کنڈی کھٹکنے پردیپو ڈیڑھ سال کی بچّی کو گود میں لیے باہر نکلا، تو محلّے کے با رسوخ لوگوں کے ہم راہ، ووٹ کے لیے سابق ایم۔ پی۔ ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔
٭٭٭
برف، ٹھنڈے خون کی
’’حرام جادی ….!کل تک دُم ہلاتی تھی چھپکلی کی مانند، اُوپر۔ اور آج رنگ بدل رہی ہے گرگٹ کی طرح نیچے۔ کمرے کی چھت، اورکمرے کے اندراِتنا پھرک‘‘۔ سہاگ رات میں راجو کے کہنے پر رجنی نے گھونگٹ نہ اٹھا یا، تو راجو نے لہاڑیاں سنائیں، جس پر رجنی جواب دینے کے بجائے سمٹ گئی۔
’’میری بات کا جواب دے سالی….!‘‘راجو نے جواب نہ پا کر سہاگ کا دوپٹّا اس کے جسم سے نوچ پھینکا۔
’’کیا جواب دوں ….؟‘‘وہ، اورسمٹی۔
’’یہی کہ جب تو چھت پر آتی تھی تودوپٹّا ہوتا تھا کبھی سر پر….؟پھر آج یہ ڈراما کیوں ….؟‘‘
’’وہاں تو چھُپ کر آتی تھی سب سے۔‘‘شراب کے نشے میں دھُت راجو کی آنکھوں کے لپکتے شعلوں سے سہم کراُس نے جواب دیا۔
’’حرام جادی….! جب میری نہیں تھی، تو کھُلے کھجانے میری تھی۔ اور جب میری ہو گئی، تو نکھرے دکھاتی ہے۔ مکّار کہیں کی۔ اُتار کپڑے ….!‘‘راجو نے تماچا جمایا۔ رجنی کو بھی کمرے کی چھت اور کمرے کے اندر کافرق کچھ عجیب لگا۔ وہ سوچنے لگی، ’’آج سے پہلے جب مَیں راجو کی نہیں تھی، تو وہ کتنا چاہتا تھا مجھ کو۔ اور آج جب سماج کو ٹھُکرا کراُس کے کمرے میں بیاہ کر آ گئی، تواِتنا پھرک۔‘‘ پھر بھی تماچاکچھ خاص برا نہ لگا اُس کو۔ لہٰذا بِناکسی احتجاج کے پہلے وہ کچھ مسکرائی، اور اُس کے بعد اُس کے کپڑے یکے بعد دیگرے، صوفے پر جا گرے، اور گہنے، ڈبل بیڈ کی دراز میں۔
’’ہاں ….! اَب کتنی اچھی لگ رہی ہے تو….!کتنی پیاری، کتنی سلونی، کتنی سندر، چندا جیسی۔ معلوم ہے …؟ کتنی ہمت سے دُلھن بنایا ہے تجھ کو، جان پرکھیل کر۔ اگر تو نہ ملتی تو ساری دنیا کو آگ لگا دیتا۔‘‘اس نے رجنی کو باہوں میں بھر کر بہ آواز بلندکہا۔ رجنی نے بھی پوری طرح سپرد کر دیا خود کو۔ دونوں کے دلوں میں اُٹھے طوفان کی لہریں ملنے کے لیے بے تاب ہو اُٹھیں۔
’’اور یہ چوڑیاں بھی تو اُتار…!‘‘راجو نے پھر ٹوکا۔
’’سہاگ کی ہیں یہ۔ یہ نہیں اتاری جاتیں۔‘‘ رجنی نے بحث کے انجام سے لرز کر، اُسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ارے اُتار دے سالی….!اُتار دے ….!‘‘
’’نہیں، مَیں نہیں اُتاروں گی اپنے سہاگ کو۔‘‘ رجنی اُس کے جسم کو بڑے پیار سے سہلاتے ہوئے چمٹ گئی۔
’’ یہ ٹوٹ جائیں گی۔‘‘اُس نے رجنی کو بھینچا۔
’’یہ تو ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔‘‘رجنی تڑپی۔
’’کھون نکل آئے گا ہاتھوں میں۔‘‘وہ بھی بے تاب ہوا۔
’’نکل آنے دو۔‘‘وہ بھی محبت کے نشے میں لہرائی، اور بے تاب ہو کر ہونٹوں سے ہونٹ ملا دِیے۔ اس سے پہلے کہ کسی لذّت سے آشنا ہوتی، پانچویں بار چوڑیوں کی کھنک سے راجو کا طوفان برف ہو گیا۔ بالکل برف، پتھّر کا۔ جہاں کا تہاں۔ ساری کائنات جم گئی ہو جیسے۔‘‘
چوڑیوں کی کھنک آج پانچویں بار سُنی تھیں راجو نے۔ پہلی بار تب، جب کہ وہ چھوٹا تھا، یعنی کہ چار پانچ کے سن کا۔ دوپہر میں سوتے سوتے اچانک اُس کی آنکھ کھلی، تو کمرے سے چوڑیاں کھنکنے کی آواز آ رہی تھی۔ پہلے تو وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا، پھر کچھ سوچ کر اُس کادل بہت تیزی سے دھڑکنے لگا، پھر وہ چُپ چاپ لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ چوڑیوں کے کھنکنے کی آواز یں آتی رہیں۔ اُس کی گھبراہٹ مسلسل بڑھتی رہی اور اس قدر بڑھی کہ وہ ’’ماں‘‘ کہہ کر چیخ پڑا۔ ماں ہڑبڑا کر کمرے سے باہر آ گئی۔ کچھ دیر بعد اُس کے پاپا نکلے، شرمندہ سے۔ اس کے بعد اُس نے اپنی ماں کی چوڑیوں کی، اس طرح کی کھنک کبھی نہ سنی۔ لیکن اُن چوڑیوں کی کھنک نے اُس کے جسم، اوردل و دماغ کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر وقت سے پہلے جوان کر دیا۔ اور جب اُس کی بے باک نظرجوانی کے نشے میں لڑکھڑائی تو محلّے کی لڑکیوں کے دل دھڑکنے لگے۔
دوسری بار دیپا بھابی کی کلائیوں بھری چوڑیوں کی کھنک اُس کے من کو بھائی، تو وہ جب تب اُن کے یہاں جانے لگا۔ دیپا بھابی اُس امیرزادے کی کم زوری جان کر، اپنی شوہر پرستی کا ڈھونگ کر کے اُس کے ہاتھ تو نہ آئیں۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ان چوڑیوں کی کھنک کے سہارے کچھ نہ کچھ مجبوریاں، پریشانیاں جتا کر اُس سے رقم اینٹھنے لگیں۔ راجو بھی کچھ کم نہ تھا۔ اُس کی نظر کی گرمی سے محلے کی حسین پارو پگھلی، تو رقم کی دھار پر اُس نے بھابی کے ذریعے اپنا راستہ بنا لیا۔ دیپا بھابی نے پارو سے ربط ضبط کر کے پیار کی ڈوری میں جکڑ کر اُس کوراجو کے لیے اپنے یہاں بلا لیا۔
پھرتو ایک دوپہر پارو کی چوڑیوں کی کھنک سے اُس کے جسم میں تیسری بار ایسا طوفان اُٹھا کہ پارو کی چوڑیوں نے ٹوٹ کر، پارو کی کلائیاں ایسی لہو لہان کر دیں کہ سارا محلہ چونک پڑا۔ حالاں کہ پارو نے لاکھ بہانہ کیا کہ زمین پر گرنے سے چوڑیاں ٹوٹ کر کلائیوں میں چبھی ہیں، لیکن پارو اور راجو کے عشق کی خوش بوکے سبب اس کی بات پر کسی نے یقین نہ کیا۔ اورعشق کی خوش بوسارے جہاں میں پھیل گئی۔
پھر تو ایک دن ایسا بھی آ گیا جب دیپا بھابی نوٹوں کی دھارسے راجو کے اشاروں پر ناچنے لگیں، اور راجواِتنا بگڑا گیا کہ دیپا بھابی کی کوششوں سے چمن کی ساری تتلیاں راجو پر خود بہ خود منڈلانے لگیں۔
پارو کی کلائیوں کے زخموں نے سبھی لڑکیوں کے ذہنوں کو واکر دیا۔ نتیجتاً پدمنی، شیلا، رانی اور شکنتلاوغیرہ سبھی نے اس کھونٹے پر گرنے سے پہلے ہی اپنی اپنی چوڑیاں بھابی کے یہاں اُتار دیں تھیں۔
سارے محلے کی لڑکیوں میں رجنی، راجو کے پڑوس کی تھی، ایک تو بھابی کا مکان رجنی کے مکان سے دور تھا۔ دوسرے بھابی کا مکان محلے میں پوری طرح بدنام بھی ہو چکا تھا۔ بھابی کے یہاں جانے والی ہر لڑکی شک کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ راجو کو بھی رجنی کابھابی کے یہاں جانا پسند نہ تھا، کیوں کہ دن میں بھابی کے یہاں ہر وقت دوچار لڑکیاں راجو کودست یاب تھیں، لیکن راجو کواپنے یہاں کی رات رنگین کرنے کے لیے، صرف رجنی ہی تھی، جو کچھ دنوں تک راجو کے عشق میں اور پھر بدنامی پھیلنے پر راجو کی دادا گیری کے سبب کھلے عام اُس کی چھت پر آنے لگی۔
راجو کی چھت پر آتے ہی وہ سب سے پہلے چوڑیاں اتار کر خود ہی رکھ دیتی، اُس کے بعد گھنٹوں باتیں ہوتیں۔ وہ اکثر راجو کو بھابی کے یہاں جانے سے منع کرتی، لیکن خون لگا شیر کب ماننے والا تھا۔ راجو کا کہنا تھا کہ وہ سب سے زیادہ اسے ہی پیار کرتا ہے۔ اسی لیے وہ سب سے زیادہ اسے ہی ٹائم دیتا ہے۔ ساری ساری رات۔
راجو کے اس رویّے سے محلے میں کئی بار جم کر ہنگامہ بھی ہوا، لیکن راجو لڑنے مرنے پر تیار ہو گیا۔ اس کی کمر میں ہر وقت کارتوس لگے دو کٹّے لگے رہتے، اور جان سبھی کو پیاری تھی۔
چوتھی بار چوڑیوں کی کھنک راجو نے تب سنی تھی، جب وہ ایک رات چھت پر رجنی کی آہٹ پا کر زینے پر چڑھنے لگا، اچانک غسل خانے میں اُسے آہٹ سنائی دی، اُس کا ما تھا ٹھنکا، ذہن میں طوفان اُٹھا، جب اُس نے زینے سے غسل خانے میں جھانکا تو اُس کی بہن پوجا اور رجنی کا بھائی دیپوموجود تھے، اور چوڑیاں بڑی تیزی سے کھنک رہیں تھیں۔ اُس نے کمر سے دونوں کٹّے نکالے، اور گولیاں دونوں کے اتار دیں۔ محلے میں ایک دم ہنگامہ ہو گیا۔ دونوں کی لاشیں غسل خانے میں پڑیں تھیں، جن کو دیکھ کر محلے کے کچھ لوگوں نے راجو کی پیٹھ ٹھوکی اور کچھ نے، ’’کرنی کاپھل‘‘ بتایا۔
بہر حال راجو نے اقبالِ جرم کر لیا۔ اورکئی ماہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت ہو گئی۔ مگر رجنی پر اس کا کچھ بھی اثر نہ پڑا، وہ پہلے کی طرح ہر روز راجو سے ملنے چھت پرپھر آنے لگی۔ اس واقعے کے باوجود رجنی نے سماج کو ٹھکرا کر کھلے عام راجو کو اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے راجو سے بیاہ کر لیا۔
’’سہاگ رات میں آج پانچویں بار چوڑیوں کی کھنک سے، راجو کا ذہن غسل خانے کے واقعے میں پہنچ کر یخ ہو گیا۔ پھر تورجنی محبت کے نشے سے لے کر، بے حیائی، بے شرمی کی آگ سے راجو کو پگھلانے کی کوشش کے ساتھ، رات بھرجھنجوڑنے کے باوجود مانندماہیِ بے آب ریت پر تڑپتی رہی۔
رجنی کے تمام حربوں کے باوجودجب راجو ٹس سے مس نہ ہوا، تورجنی نے اپنے ہاتھ زمین پر پٹک کر سہاگ کی چوڑیاں توڑ کر کلائیاں لہو لہان کیں، کپڑے پہنے اور راجوکوگالیاں دیتی ہوئی گھر سے نکل گئی، مگر راجو برف سا پڑا رہا۔ جیسے بائک کے کلچ کاٹوٹاتار، جیسے نمبرپھٹانوٹ، جیسے کمرٹوٹاشیر، جیسے پانی پڑا پٹاخا، جیسے بھبوکے کی راکھ۔ جیسے فیوزبلب۔ جیسے چٹخا گھڑا۔ جیسے پھٹا غُبارا۔‘‘
دوسرے دن اخبار میں تھا کہ بائک، فرج اور ٹی۔ وی نہ لانے پر دُلھن کو پہلی رات گھر سے نکالا۔
٭٭٭
آنسو، عقیدت کے
’’ڈیئر سرتاج
’’اس وقت میری برات میرے گھر بیٹھی ہے۔ میری سہیلیاں اورہم جولیاں مجھ کو دُلھن بنانے کی تیاری میں ہیں …..اور…. میرے گورے گورے من59ہدی والے ہاتھوں میں زہر کی شیشی ہے۔ اس کوتو رات ہی میں نے اپنے وجود کے گوشے میں اُتار لینا چاہا تھا، لیکن.. یہ سوچ کر باز رہی، ’’ انسان کے سامنے بہت سی ایسی مجبوریاں آ جاتی ہیں، جن سے وہ مجبور ہو جاتا ہے۔‘‘ممکن ہے ایسی ہی کوئی مجبوری ہو تمھارے سامنے بھی….!لیکن سرتاج…!وہ مجبوری ہے کیا…؟ بتا تودو۔ جس کے سبب اتنی بڑی سزا دی تم نے، مجھ کو۔‘‘
’’دیکھوسرتاج…! میں عورت ہونے کے ناتے تم سے وعدہ کرتی ہوں، کہ تم جوچاہو گے، ہو گا وہی۔ میرے نزدیک تواسی جذبے کا نام محبت ہے، جواپنے محبوب کی رضا کے لیے ہو۔ اور …..تم جانتے بھی ہوسرتاج….! کہ رفعت، اپنی جان دے سکتی ہے، پیار کے اس کھیل میں۔‘‘
’’میں پوچھتی ہوں، ’’ کمی کیاتھی مجھ میں ….؟‘‘ذرا یاد کرو وہ حسین لمحات…! جب دیکھتے ہی دیوانہ واراپنی مضبوط بانہوں کے حصار میں قید کر لیتے تھے، مجھ کو…..اگر تمھاری نظر میں مجھ سے زیادہ خوب صورت کوئی اور ہے، تو مجھ کوبھی پریوں کی شہزادی کہا تھا تم نے ….!‘‘
’’کیا تم نے مجھ کواپنے پہلو میں بٹھاکر میری تعریفوں کے پُل نہیں باندھے تھے ….؟یا کہ تمھارے اشاروں پر ناچی نہیں تھی میں …؟رہی خاندانی بندشوں کی بات….!تووہ بھی نہ تھیں، ہمارے اور تمھارے درمیان۔ میرے ابّوکو یہ رشتہ پوری طرح پسند تھا….اور تمھاری امّی بھی مجھ کو اپنی بہو بنانے کے لیے دل وجان سے راضی تھیں۔ پھراِس محبت کے افسانے کوانجام دینے میں کوئی دشواری تو تھی نہیں، نہ تم کو، اور نہ ہی مجھ کو۔ پھرمیری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ تم آخر مجھ کو ٹھکرا کیوں رہے ہو…؟‘‘
’’مجھ کواچھی طرح یاد ہیں وہ دِن بھی…، جب میں راشد پر اپنی جان نثار کرتی تھی…اورخاص طورسے وہ دن بھی، جب ابّو، رات کی ڈیوٹی میں فیکٹری گئے ہوئے تھے۔ اور میری چھوٹی بہن گلنار کواچانک بخار نے آدبوچا تھا۔ میرے مکان کے کِرایے داربھی اپنے گان59و گئے ہوئے تھے اور میں اکیلی گھبرا رہی تھی، اسی لیے میں نے راشد کواپنے گھر رات گزارنے کے لیے بلا لیا تھا۔ راشد بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر میرے شباب کا قطرہ قطرہ نچوڑ لینے پر آمادہ تھا، اُس روز، لیکن تم اپنی بالائی منزل کے کمرے کی کھڑکی سے حالات کی نزاکت کو بھانپ کرمیرے گھر آ کر، ہم دونوں کے درمیان دیوار بن گئے تھے۔‘‘
’’خداکی قسم سرتاج..!اُس رات تم بہت ہی برے لگے تھے، مجھ کو۔ اُس رات میں نے تمھاری نظروں میں شرارت کورقص کرتے پہلی باردیکھا تھا۔ میں اینٹ کے جواب میں پتھر اُٹھا سکتی تھی، لیکن راشد کے اشارے پر میں خاموش رہی تھی، بالکل خاموش۔ راشد نے تم کوایک جانب لے جا کر کچھ منوانے کی کوشش بھی کی تھی، لیکن تم ٹس سے مس نہ ہوئے تھے۔ آخر اُس رات، راشد کوپیاسا ہی لوٹنا پڑا تھا، میرے گھرسے۔ پھر توتم جب تب چھیڑنے لگے تھے، مجھ کو۔‘‘
’’ پہلے توتمھاری شرارتیں کانٹے کی طرح کھٹکیں مجھ کو، لیکن پھر دیوار کے سہارے چڑھنے والی بیل کی طرح مجبور ہو گئی، میں بھی، اور جب تب تمھارے بالائی کمرے کی جانب پہلے نظر اٹھنے لگی، میری۔ اورپھر قدم بھی اُٹھنے کے لیے مجبور ہو گئے۔ پھر تو نہ جانے کتنی حسین گھڑیاں تمھاری آغوش میں گزار دیں، میں نے۔ تم بھی اپنے کشادہ سینے سے لگاکر اتنے بوسے دیتے تھے کہ میں پاگل ہو جاتی تھی۔ پیار کے جام ہم دونوں کے ہونٹوں پر چھلکتے رہے ، لیکن ہم دونوں کی تشنگی برقرار رہی۔‘‘
’’سرتاج….!کیا تم کو وہ دِن یاد نہیں …؟جب میرے ضبط کا پیمانہ لبریزہو گیا تھا، جس کا اظہار میرے بھڑکتے ہوئے جذبات اور مخمور نگاہوں کے چھلکتے پیمانوں نے کر دیا تھا۔ اور میرے تشنہ جذبات نے سماجی بندھنوں کی زنجیروں کوپامال کر دینا چاہا تھا، جس کی جھنکار سے کانپ گئے تھے تم..اور تم نے سماجی بندھنوں کویہ کہہ کر مضبوط کر لیا تھا، ’’رفّو.!یہ سب شادی سے پیشتر گناہ ہے، بہت ہی بڑاگناہ
’’تمھاری یہ بے وقت کی نصیحت کس قدر ناگوار گزری تھی، مجھ کو۔ لیکن میں تم سے بے پناہ پیار کرتی تھی۔ تمھارے اشارے پر تاحیات کن59واری رہ سکتی ہوں۔ چاہو تو آزمالو، اب بھی…!تمھاری چاہت سے انکاربھی کب کیا، میں نے …؟ لیکن آج صرف اتنابتادو مجھ کو۔ کہ مجھ کو نہ اپنانے میں کیا مجبوریاں رہیں، تمھاری…؟‘‘
’’ جب بھی کسی لڑکے سے میرے رشتے کی بات چلی، ابّونے تمھاری وجہ سے اُس کوصاف انکارکر دیا، کیوں کہ اُن کے ذہن میں میرے لیے تم ہی سب سے زیادہ مناسب تھے۔ میں نے اپنے لیے آئے ہر رشتے کے بارے میں بتایا، تفصیل سے سمجھا سمجھا کر، تم کو۔ لیکن تم، ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ہربات کی حد ہوتی ہے، آخر۔ بہ ہرحال میرے ابّوبھی کب تک انتظار کرتے، تمھارا…؟ آخرکومجبوراً انھوں نے ایک رشتہ منظور کر کے، بات پکی کی اور فوراًتاریخ دے دی۔ اس خبر سے جب میں نے تم کوآگاہ کیا، تو تم نے میرے آن59سو پونچھتے ہوئے بڑی اپنائیت سے کہا، ’’رفّو ..! تم میری ہو، اور میری ہی رہو گی۔ تم کومجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ’تمھاری بات پر نہ جانے کیوں اب تک یقین ہے، مجھ کو۔ کیوں کہ تم نے مجھ کو راشد سے خود بڑی جد و جہد کر کے چھینا تھا۔ پھر بھلا اِس دنیا میں کون چھین سکتا ہے تم سے مجھ کو…..؟‘‘
’’لیکن سرتاج…!اس روز تم کوکھڑکی میں کھڑا دیکھ کر میری ایک سہیلی نے تمھارے بارے میں مجھ کوجوکچھ بتایا، پریقین نہیں آیا، مجھ کو۔ کیوں کہ تم نے میرے لاکھ چاہنے کے باوجود میرے دامن میں کوئی داغ نہ لگایا، پھر تم دوسری معصوم لڑکیوں کی زندگیوں سے بھلا کیوں کر کھیلے ہو گے …؟‘‘
’’ نہیں ….نہیں ….، تم ہرگز ایسے نہیں ہو سکتے، یقیناًمیری سہیلی جھوٹ بولی، یا پھر اُس کوزبر دست غلط فہمی ہوئی، تمھاری طرف سے۔ تم ایسے نہیں ہو سکتے، کبھی بھی نہیں ہو سکتے، تم ایسے ، کبھی بھی نہیں۔ پھر بھی نہ جانے کیوں میرے ذہن کے ناہم وارجنگل میں خوف ناک درندے چیخ رہے ہیں، زہریلے اژدہے، بچھواورکنکھجورے کلبلا رہے ہیں، چاروں طرف سے خاردار جنگلی جھاڑیوں میں الجھی ہوئی ہوں میں، پوری طرح۔ جس سے تم ہی نکال سکتے ہو، مجھ کو۔ لیکن سرتاج….!میں اپنے ہاتھوں میں رچی من59ہدی کونظرانداز نہیں کر سکتی اس وقت۔ کروں بھی تو کیسے …؟گھر آئی ہوئی برات کو جھٹلایا بھی تو جا سکتا۔ میرا مائیوں میں بیٹھنا، میری سہیلیوں کابار بارمیرے کمرے میں آ آ کر مجھ کو چھیڑنا اورپورا گھر مہمانوں سے بھرا ہونا….!یہ سب خواب تونہیں …..!حالاں کہ اس حقیقت کو جھٹلانے کے لیے اپنے سر کوکئی بار دیوار سے ٹکرا چکی ہوں، میں۔ لیکن کوئی خواب ہو تو ٹوٹے بھی، ہاں …!ایسے خواب تو میں نے بار بار دیکھے ہیں کہ میں تمھاری دُلھن بنائی جا رہی ہوں، اورتم دُولھا بنے میرے سامنے کھڑے ہو۔‘‘
’’مگر سرتاج…!خواب توبہ ہرحال خواب ہی ہوتے ہیں اور حقیقت، حقیقت۔ وہ خواب تھے، جوٹوٹ گئے اور یہ حقیقت ہے، جس نے میرے سر میں گومڑے ڈال دِیے ہیں۔ بھلا کیسے نظرانداز کر دوں، ان گومڑوں کو، جِن کے درد سے میرا سر پھٹا جا رہا ہے۔‘‘
’’ کیایہ حقیقت نہ تھی کہ تم نے دوروزپہلے کی رات میرے رونے اور گڑ گ ڑانے پر ترس کھا کر، کل کی رات جوگزر گئی، میرے ساتھ نکل کر کہیں دور ایک نئی دنیا، پیار کی دنیا، بسانے کاوعدہ نہیں کیا تھا، تم نے ….؟اور …..!جب میں تمھارے وعدے پر بھروسا کر کے، پچاس ہزار روپے اپنے بریف کیس میں رکھ کر تمھارے کمرے پر پہنچی، تو بہت ہی سخت مایوسی ہوئی، مجھ کو…! کیوں کہ تم نے اپنے کمرے کا دروازہ نہ کھولا۔ جب کہ اپنے کمرے میں موجود تھے، تم…!میں تم کو آواز دیتے دیتے تھک گئی۔ لیکن تم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ٹیبل فین چلنے کی آواز، اور کمرے کے اندر جلتی ہوئی ٹیوب کی روشنی، تمھارے وہاں موجود ہونے کا ثبوت تھے۔‘‘
’’سرتاج…..!کہہ دو کہ تم اپنے کمرے میں نہیں تھے …!لیکن تم تھے اپنے کمرے میں۔ یہ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ تم اپنے کمرے میں موجود تھے، اُس وقت۔ کیوں کہ تمھارے چھینکنے کی آوازپہچان لی تھی میں نے، اچھی طرح۔ لیکن سرتاج…!تم تو مجھ کو بے حد چاہتے ہو، نا….؟تم ہرگز نہیں کر سکتے، ایسا. …!‘‘
’’ کہہ دو سرتاج کہ تم اُس وقت اپنے کمرے میں نہیں تھے۔ میں تمھاری جھوٹی بات کا اعتبار کر کے جھٹلالوں گی، خود کو۔ یا پھریہ کہہ دو کہ تم کواچانک کوئی مجبوری لاحق ہو گئی تھی۔ اچھے اچھے جھک جاتے ہیں، مجبوریوں کے آگے۔ لیکن سرتاج…! تم جھک سکتے ہو کسی مجبوری کے آگے …..!میں نہیں۔ میری محبت کے آگے کسی بھی مجبوری کی کوئی بساط نہیں۔ یہ زہر کی شیشی میری ساری مجبوریوں کو فنا کر دے گی، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اور میں سدا کے لیے چلی آؤں گی، تمھارے پاس۔ یہ فانی جسم نہ ہوا تو کیا….؟لافانی رُوح توتم تک پہنچ کر میرے اِس دعوے کوثابت کر دے گی کہ ایسی کوئی بھی مجبوری نہیں ہو سکتی پیار کے راستے میں ، کبھی بھی نہیں۔‘‘
’’سرتاج…! اگر تم نے اب بھی مجھ کو نہ اپنایا، تو یہ زہر حلق میں اتار لوں گی پوری طرح، اور یہ رُوح تم سے جاملے گی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت جدانہ کر سکے گی، ہم دونوں کو۔‘‘
صرف تمھاری
رفّو………!
’’پیاری رفّو……!تمھارا خط پڑھ کر تمھاری نادانی پر بے اختیار ہنسی آئی مجھ کو، بے اختیار….!‘‘
’’تمھاری سہیلی نے تم سے بالکل ٹھیک کہا میرے بارے میں، کہ تم جیسی بھولی بھالی نہ جانے کتنی لڑکیوں کو میں نے اپنے فریب کانشانہ بنایا ہے، اس میں غلط فہمی کی توکوئی بات ہی نہیں۔ رفّو..! میں ہراُس بھولی بھالی معصوم لڑکی سے اپنے پیار کاڈھونگ رچاتا ہوں، جس کے دامنِ عِفّت کوسماج کے آوارہ کُتّے، جھُوٹے پیار کاجال ڈال کرتا ر تار کر دینا چاہتے ہیں۔‘‘
’’رفّو….! یقین کرو…!اُس رات راشد بھی تم کوایک نوخیز کلی کی مانند اپنی ہوس کا شکاربناکرتمھاری زندگی کے خرمن میں انگارے بھر دینا چاہتا تھا اورتم اُس تباہی کو محض اپنی نادانی کے سبب دعوت بھی دے رہی تھیں۔ جس کومیری نگاہوں نے محض چند منٹوں میں پرکھ لیا تھا۔ اسی لیے میں اپناوالہانہ پیارلے کر تمھاری جانب صرف اِسی جذبے کے تحت بڑھا تھا کہ تم میرے پیارکے گورکھ دھندے میں الجھ کروقتی طورسے راشدکونظراندازکر دو، اورتمھاری معصومیت پر جال پھینکنے کا موقع نہ مل سکے اُس کو، شادی سے پیشتر۔‘‘ مجھ کواپنا منصوبہ پاے تکمیل تک پہچانے میں کچھ دشواریاں توآئیں، لیکن میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا، بہ ہر حال۔ راشد کے فریبی پیار کو نظر اندازکر کے میری الفت کے گورکھ دھندے میں الجھ گئیں پوری طرح، تم۔‘‘
’’رفّو…! اپنے اُسی والہانہ پیار کے ذریعے میں تم کواِس مقام تک لانے میں پوری طرح کامیاب ہو گیا۔ یقین جانو، رفّو…! میں نے تم سے کوئی فریب نہیں کیا، بل کہ تمھاری اصل منزل تک پہنچادیا ہے، صاف ستھرا، تم کو، جس کی کہ متمنّی تھیں، تم۔ یعنی کہ میں نے جو راشد سماجی بھیڑیے کے روپ میں تم سے چھینا تھا، وہی آج اپنی کوششوں سے تمہارے شوہر کے روپ میں تم کولو58ٹارہا ہوں، جواِس وقت تمھارے دروازے پرسہرا باندھے، تمھارے دُولھا کے روپ میں، بڑی عقیدت کے ساتھ تمھارے پیار کی بھیک مانگنے آیا ہے۔ رفّو…! یہ کل کا وہی فریبی راشد، آج کاوفا پرست تمھارا شریکِ حیات بننے کامتمنّی ہے۔ آج اُس کے پاس فریب کاوہ جال نہیں، جوتمھاری معصومیت کا گلا گھونٹ سکے۔‘‘
’’کل کا فریبی راشد، جو سماج کے سامنے تم کورسوا کرنے پر آمادہ تھا، آج اُس کاوہی پیار سماج کو تمھارے پیار کے قدموں پرجھکانے لایا ہے، خود کو۔‘‘
’’ میرے اِس منصوبے کو ممکن ہے تم فریب اوردھوکے کا نام دو، لیکن میرے نزدیک یہ ایک عبادت ہے۔ اسی عبادت کے ذریعے میں بھولی بھالی معصوم لڑکیوں کو سماج کی بخشی ہوئی، اُس سیج تک پہچانے کی کوشش کرتا ہوں، جہاں اُن کوسچا پیار، سماجی وقار اور حقیقی زندگی سے فیضیاب ہونے کے مواقع میّسر آتے ہیں۔‘‘
’’اِس عبادت کے ذریعے میں نے تم کوبھی تمھاری اُس منزل تک پہنچادیا ہے، جس کے لیے تم اُس رات بہت بے قرار تھیں۔‘‘
’’رفّو…! مجھ کو پوری اُمید ہے کہ میرے پیار کے فلسفے کو اچھی طرح سے سمجھ لیا ہو گا، تم نے۔ اوراب تم نے خوشی خوشی راشد کی ہو جانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہو گا، پوری طرح۔ اگر نہیں …! تو پھر میرے ہاتھ میں بھی زہر کی شیشی ہے۔‘‘
تمھارا راہ بر
’’سرتاج
٭٭٭
چمچے، اسٹیل کے
پاگل ہے دنیا۔ دنیانہیں، تومیں۔ میں نہیں، تووہ، یعنی کہ میری بیوی، رجنی۔ ہم تینوں میں، ہے ضرورکوئی پاگل۔ تینوں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ توفلاسفرز کا کہنا ہے، اور ڈاکٹرز کابھی، ’’دنیا کاہرشخص پاگل ہے۔ کوئی کم، توکوئی زیادہ۔‘‘
میں نے جب اپنے الیکشن کی کنویسنگ میں اسٹیج پرکہا، ’’امریکہ وغیرہ تو چاند پر پہنچے، اگرہماری سرکاربنی، توہم سورج پرجائیں گے۔ وہاں بھی جیون ہے۔‘‘اتنا کہنا تھا کہ ٹماٹروں کی بارش ہونے لگی اورمجھ کودُم دبا کربھاگنا پڑا۔
بس اُسی دِن سے سمجھ گیا کہ دنیا پاگل ہے، اورجاہل بھی۔ اِس کواتنا تک نہیں معلوم، کہ ہنڈرڈ پرسینٹ جیون ہے سورج پر۔ اگرہم سمندرمیں نہ اُترے ہوتے، تو کیا تصور کر سکتے تھے، کہ پانی کے اندربھی جیون ہو سکتا ہے اوراگرپانی کے اندرجیون ہو سکتا ہے، ہوا میں جیون ہو سکتا ہے، مٹّی کے اندرجیون ہو سکتا ہے، تو آگ میں کیوں نہیں …؟ یعنی کہ سورج میں۔ اور پھر لغت تو چیخ چیخ کرکہتا ہے، کہ آتش پرستوں کے آتش کدوں میں چوہوں جیسی شکل کے کیڑے پائے جاتے ہیں، جِن کو سمندرکہتے ہیں جو صرف آگ کھاتے ہیں اورآگ سے باہرنکلنے پر مر جاتے ہیں۔ اِس کے متعلق حالیؔ نے بھی کہا ہے،
آگ سے جب ہواسمندر دور
اُس کے جینے کا پھر نہیں مقدور
جب اُن چھوٹے چھوٹے آتش کدوں میں سمندرہیں، توسورج میں توکروڑوں برسوں سے آگ دہک رہی ہے، وہاں نہ جانے کتنے طرح کے جیودھاری ہوں گے اور آکسیجن توہے ہی وہاں۔ کیوں کہ آکسیجن کے بِنا آگ ہونا ممکن نہیں، آکسیجن ہے جہاں، جیون ہے وہاں۔ بس اُسی روز سے لوگ پاگل کہنے لگے مجھ کواورمیری بیوی نے لاکھوں ووٹوں سے مجھ کوہراکرالیکشن نکال لیا۔ حالاں کہ پاگل تووہ تھی پوری طرح۔ اَب سے نہیں، بچپن سے۔
جب مجھے زیادہ ترلوگ پاگل کہنے لگے، تومجھے خود پرشک ہوا اورمیں فوراً پی۔ جی۔ آئی۔ جاپہنچا۔ پہلے تو نیروسرجن اورمریضوں کے درمیان کی گفتگو سنتا رہا۔ جب میرانمبر آیا، تومیں نے نیرو سرجن سے فلاسفرزاورڈاکٹرز والی بات دُہرادی۔
’’تو کیا، میں بھی پاگل ہوں .؟‘‘نیروسرجن سنجیدہ ہو گیا۔
’’جی ہاں ….!‘‘میں نے وثوق سے جواب دیا۔
’’وہ کیسے ….؟‘‘اُس کے تیور چڑھ گئے۔
’’میں دیکھ رہا ہوں، آپ مریضوں سے، مریضوں کے اِستر کی بات نہ کر کے ، اپنے استرکی بات کر رہے ہیں، جب کہ ڈاکٹرز کولازم ہے، کہ وہ مریض اورمرض کو ملحوظ رکھتے ہوئے مریضوں کے استرکی بات کرے۔‘‘بات چوں کہ سچ تھی، لہٰذاوہ بناحرکت مجھے گھورنے لگا، جیسے، اُس کاہارٹ فیل ہو گیا ہو۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو، ہرشخص تھوڑابہت پاگل ضرورہوتا ہے، میں بھی ہوں۔‘‘اُس نے کمپیوٹرپرکچھ فیڈکرتے ہوئے کہا۔ میں نے سوچا، ’’میں پاگل توہوں، لیکن نہیں کے برابر، یعنی کہ دنیا اور رجنی کی بہ نسبت بہت کم۔‘‘اب رجنی اورساری دنیا کاعلاج کروانا تو میرے بس کا تھانہیں۔ ہاں، میں ضرورتھوڑے بہت علاج کا مستحق تھا۔ لہٰذاخودکوتھوڑابہت پاگل سمجھ کرپی۔ جی۔ آئی۔ سے اپنے ہی شہرکے نیروسرجن کے پاس آ گیا۔
جب میں نے ڈاکٹرکے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے نمستے کیا۔ پہلے تو اُس نے اپنا چہرہ اُٹھاکر مجھے غورسے دیکھا، پھرکھڑے ہو کرنمستے کاجواب دیتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر، میرے آنے کاسبب دریافت کیامجھ سے۔
’’ڈاکٹرکے پاس مریض ہی آتا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
پہلے تواُس نے میری بات ہنسی میں اُڑادی، پھرمیری تواضع کے واسطے اپنے ملازم کوآوازدی، کیوں کہ میں معمولی انسان توتھانہیں، بل کہ ایک پرائم منسٹر کاشوہر تھا۔ بہ ہرحال میری ضد پر ڈاکٹر صاحب نے دوچارسوالات کرنے کے بعد مجھ کومیرے بالکل ٹھیک ہونے کا یقین دِلا دیا، پھرمیراذہن رجنی کی جانب لپکا، لیکن بے سود۔ کیوں کہ اُس کے الیکشن جیتتے ہی میں نے اُسے پاگل ڈکلیئرکر کے مقدمہ کر دیا تھا، کیوں کہ ہم دونوں ساتھ ساتھ کھیلے اور پڑھے بھی تھے۔ میں نے ایم۔ ایس۔ سی۔ کر لیا تھا اوروہ آٹھویں کلاس میں فیل ہو گئی تھی۔
وہ اکثرپاگل پن کی حرکتیں کرتی تھی، مثلاًایک بارہم دونوں کے بچپن میں یوں ہوا کہ جب اُس نے کنویں میں جھانکتے ہوئے کہا، ’’ارے ! کنویں میں ہاتھی….!‘‘ اس کے کہنے پر جیسے ہی میں نے کنویں میں جھانکا، اُس نے دھکّادے دیا اوراُچھل اُچھل کرتا لیاں بجاتی ہوئی بھاگ گئی۔ وہ تو یہ کہوکہ پانی کم تھا، ورنہ اُسی روزمیراکام تمام ہو جاتا۔
ایک بارہم دونوں نے کھیل کھیل میں گھروندے بنائے۔ جب اُس کے گھروندے سے میراگھروندابہتربنا، تووہ میرا گھروندابگاڑ کربھاگ لی۔
ایک باراُس کی ماں نے میرے لیے کھیربھیجی، جیسے ہی میں نے پہلاچمچہ، مُنہ میں رکھا، تونمک ہی نمک۔ وہ بڑے اہتمام سے ڈھانپ کر لائی تھی۔ اِس طرح کبھی برتنوں میں اینٹ پتھرنکلتے، توکبھی اُچھلتے ہوئے مینڈک۔ ایسی حرکتوں پر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتی وہ، اور میں ہکّابکّا رہ کراُس کو تاکتا رہ جاتا۔
وہ کبھی کسی کی ہانڈی میں نمک جھونک آتی، توکبھی مرچ۔ موقع دیکھ کرعورتوں کے مجمع میں گھُس جاتی۔ کبھی کسی کے نیچے پانی سے بھیگا کپڑا رکھ دیتی، توکبھی دوعورتوں کی چوٹیاں باندھ دیتی، کبھی کسی کے بیٹھنے کے مقام پرچُپکے سے پان کی پیک اُگل دیتی۔ اِن سب حرکتوں کے بعد خوب اُچھل اُچھل کرتالیاں بجاتی، اورہنستی ہنساتی نکل جاتی۔
محلّے کے شاطرسے شاطرکُتّے، اُس کودیکھتے ہی دُم دباکربھاگ نکلتے۔ اگرکبھی کسی سوتے ہوئے کُتّے پراُس کی نظر پڑ جاتی، توفوراًاُس کی پچھلی ٹانگیں پکڑتی، گھماتی اورپھینک دیتی۔ پھرتودوردورتک قیوں قیوں کی آوازیں ہی سنائی پڑتیں۔
چڑیاں، اُس کودیکھتے ہی اُڑ جاتیں، کبھی کوئی چڑیا، اُس کودیکھنے میں چوک جاتی، تب تواُس کانشانہ نہ چوکتا، بس غلیل میں غُلّہ لگایا اورچڑیانیچے۔
کبھی کوئی بکری یابکرانظر آیا، کان پکڑا اورپیٹھ پرسوار۔ جہاں کسی دھوبی نے اپنا گدھاباندھنے کی چوک کی، اُس نے فوراً اُس کی دُم میں ٹوٹاہواپیپاباندھ دیا۔
لڑکوں کی گلّی ڈنڈے میں وہ شامل، کبڈّی میں اُس کودخل، کرکٹ میں چوکے چھکے، تیراکی میں وہ ماہر، پتنگ بازی میں تو لڑکوں کواُس کاہُچکا تھامتے ہی بنتا، ورنہ ڈور توڑی اورپتنگ چھوڑ دی۔
پان، ہروقت چبائے رہتی وہ۔ لڑکوں کانئے کپڑے پہن کرنکلنامحال تھا۔ جہاں کوئی چوکا، فوراًپان کی پیک ماردی۔
ماسٹر صاحب، اُس کواسکول کے دروازے پردیکھتے ہی، ڈنڈاسنبھال لیتے، ورنہ اسکول میں داخل ہو کربچّوں کی کتابوں پر چیل، کوّے بناڈالتی۔
رکشے والوں نے محلّے میں آنابند کر دیا تھا۔ کبھی کوئی آنکلا، تواُس کے رکشے کے پہیّے کی تیلیوں میں ڈنڈا جانے دیا۔ سائکل والے تودورسے ہی دیکھ کراُترلیتے۔
راستہ چلتے کسی کو مُنہ چڑادیا، کسی کے لتّی ماردی اورکسی کو دھکا دے دیا۔ لوگوں نے اُس کی گلی سے نکلنا بندکر دیا تھا۔ وہ اکثردیوارپرلٹکی رہتی۔ کوئی بھولے سے اُدھرآ گیا فوراً ٹوپی اُتار کرزنّاٹے دارٹیپ جانے دی۔
خوانچے والا، جیسے ہی گلی سے گزرا، مال غائب۔ پھرتوخوب اُچھل اُچھل کر سارا مال بچّوں کوبانٹ بانٹ کرکھاتی کھلاتی۔
شیرخواراکثراُس کی گودمیں کھیلتے کھیلتے اُس کے چٹکی لینے سے چیخ پڑتے ، سمجھدار بچے تواُس کودیکھتے ہی اپنی ماؤں کوبلبلاکرچمٹ جاتے۔ جس گلی میں نکل جاتی کہرام مچ جاتا۔ بچّے، اپنے گھروں میں سہم جاتے۔ لوگوں کے گھروں کے پیڑپودے نوچ ڈالتی، بھگائی جاتی۔
پڑوسن تھی وہ میری، اورکچھ کچھ دورکی رشتے داری کے ساتھ ساتھ ٹھیکرے کی منگیتربھی۔ حالاں کہ میں اُس کے ساتھ شادی کرنے سے انکارکرتارہا، لیکن ماں کے آگے ایک نہ چلی اورمیری ماں، اُس اکلوتی کو دولت کی رانی کے ناتے بیاہ لائیں۔ دولت کا انبار تو میرے یہاں بھی تھا، لیکن وہ ہرمعاملے میں مجھ سے سِواتھی۔ پہلی ہی رات میں اُس نے مجھ کوناکوں چنے چبوادِیے۔ اُس نے کہا، ’’آدمی اورعورت برابرکادرجہ رکھتے ہیں میاں۔ تم بھی میری ہی طرح کپڑے اورزیورات پہن کرسنگارکرو…!‘‘ میں نے انکارکیاتووہ چیخنے لگی۔ مجھے اپنی عزت بچانی تھی، لہٰذا اُس نے جوکہا، مجھے وہ سب کرنا پڑا۔ حالاں کہ صبح ہوتے ہی میں نے اپنی ماں سے بہت احتجاج کیا، کہ میں اُس سے نباہ نہ کر سکوں گا، لیکن اُن کی گھڑکی نے میری زبان میں تالا ڈال دیا، آخر کارماں کو ایک دن ماں کوکہنا پڑا، ’’تھی توپاگل، لیکن میں سمجھتی تھی کہ شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گی، اب ٹھیک نہ ہوئی ، توتیری قسمت۔ چراغ جلانے اورخاندان چلانے کو دو بیٹے توہو گئے۔ گھرمیں کام کاج کے لیے ہیں توچارچار نوکرانیاں ، سمجھ لے ایک پاگل پڑی ہے، گھرمیں۔ خدا نے دوکان اِسی لیے تودِیے ہیں ، ایک سے سُن اوردوسرے سے نکال۔ اِسی میں عافیت ہے، اب تیری۔ اُس کے والدخود نہ لڑ کراب کے تجھ کواُتاریں گے الیکشن میں۔‘‘
جب الیکشن آیاتوآزاداُمیدوارکی حیثیت سے تال ٹھوک کرمیرے مقابل میدان میں اُتر آئی وہ۔ میرے خاندان کے علاوہ اُس کے والدین نے بھی بہت سمجھایا، لیکن رہی کتے کی دم، آدم کی پسلی، یعنی کہ ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی۔ یہ میں خوب جانتا تھا کہ جیتوں گامیں ہی الیکشن، کیوں کہ اُس کے والد میرے ہی سپورٹر تھے۔ میں یہ بھی سمجھتا تھا کہ اُس کے جیتنے سے میری عزت سرِعام نیلام ہو جائے گی، کیوں کہ میری بیوی پاگل ہے۔ حالاں کہ جب سے بیاہ کرمیرے گھر آئی تھی۔ میں نے علاج میں کوئی کسرنہ چھوڑی اُس کے، لیکن اُس کاپاگل پن، دِن دُونارات چوگنابڑھتاہی گیا، بھرشٹ آچار کی طرح، آتنک واد کی مانند۔
آخرکاراُس نے اپنی گاڑی سنبھالی اور کنویسنگ کونکل پڑی۔ میرے پاس پانچ کی پانچ ہی رہیں گاڑیاں، اُس کی مدد کوتیس چالیس گاڑیاں اورہولیں۔
میں الیکشن کی تقریرمیں، سورج پرجیون ہونے کی بات کرتا، توٹماٹربرستے۔ وہ کچھ بھی کہتی، تولاددی جاتی پھولوں سے، تالیوں کے ساتھ۔ کہنے کواُس نے چھوڑاہی کیا تھا، وہ وہ باتیں کہیں، کہ جِن کے سرنہ پیر، مگرتالیوں کی گونج نے دوسری پارٹیوں کے دِل دہلادِیے۔ اُس نے کہا، ’’ زمین کوآسمان پرلے جاؤں گی۔‘‘تب تالیاں، ’’عورتوں کو مردوں کا اورمردوں کوعورتوں کالباس پہنواؤں گی۔‘‘تب تالیاں، ’’کسی عورت کو بچّے پیداکرنے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے گی۔ بچّے، ٹیسٹ ٹیوب میں تیارہوں گے یاپھرامپورٹ کیے جائیں گے۔ اوراُن کی پرورش مردکریں گے۔‘‘تب تالیاں، ’’جھاڑوبرتن سے لے کر کھانابنانے تک کے گھرکے سارے کام، مردوں کوکرنا پڑیں گے۔‘‘تب تالیاں، ’’مچھلیوں کوپیڑوں پراور پرندوں کوپانی میں رہنا پڑے گا۔‘‘تب تالیاں، ’’ہرشخص دن کی گرمی میں نہیں بل کہ رات کے ٹھنڈے موسم میں کام کرے گا۔‘‘تب تالیاں، ’’سڑکوں اورٹرین کی پٹریوں میں اربوں کاخرچ آتا ہے، اُن کی جگہ نہریں کھدوائی جائیں گی، جن میں کشتیاں چلیں گی۔‘‘تب تالیاں، ’’اَب کوئی دُلھن بیاہ کردُلھے کے یہاں نہیں جائے گی، بل کہ دُلھے کودُلھن کے یہاں آنا پڑے گا۔‘‘تب تالیاں، ’’ہرشخص کواُڑنے والی مشین دی جائے گی۔‘‘تب تالیاں، ’’اب جانوروں کے بیاہ بھی کیے جائیں گے، کیوں کہ بچّوں کی پیدایش کے بعد نرآزادگھومتے ہیں۔ بچّے، بے چاری ماداؤں کوپالنے ہوتے ہیں۔ اب مادائیں، صرف دودھ پلائیں گی اوراُن کی خوراک نرمہیّاکرائیں گے۔‘‘تب تالیاں، ’’ ہرجیودھاری کو جینے کا حق ہے یعنی کہ مچھراورمکھّی کواَب مارانہیں جائے گا۔‘‘تب تالیاں، ’’اب تعلیم کی ضرورت نہیں، صرف انگوٹھالگاکرپرکھوں کی تہذیب کوبرقرار رکھا جائے گا۔‘‘تب تالیاں۔ تالیاں بجانے کا اندازبھی نرالا تھا اُس کا۔ بات کہی اورخودتالیاں بجاتے ہوئے لوگوں سے کہا، ’’بجاؤ تالیاں .!‘‘پھرتوایسی بجیں تالیاں کہ پرندے ترس گئے پیڑوں پر بیٹھنے کے لیے۔
اُس کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کہا، ’’ اگر میں الیکشن جیت گیاتوزمین کے نارتھ پول کے نگیٹواور ساؤتھ پول کے پازِیٹوکرنٹ کوفریکوانسی میں تبدیل کرا کر بناتاروں کی الیکٹرک عوام کو فری فراہم کراؤں گا۔ میرے خیال سے جب خلاء میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور زمین کے دونوں پولوں کے نگیٹو، پازیٹوکرنٹ، اُس نمی میں فلو ہو کرآپس میں ٹکراتے ہیں، تب تیز چمک کے ساتھ دھماکہ ہوتا ہے، جس کو سائنس داں بادلوں کی رگڑ سے پیدا ہونے والی بجلی کہتے ہیں۔‘‘میری اِس دلیل کو سراہنے کے بجائے انڈوں اورٹماٹروں کی بارش کی گئی مجھ پر۔ اِس سے بڑھ کر یہ کہ جب میں نے اپنی ذہانت کا لوہامنوانے کے لیے آسمانی اِندر دھنک کو زمین پرسیکڑوں گانو والوں کے درمیان دھوپ میں نمی پیداکر کے دکھا یا، تب بھی ٹماٹروں اورانڈوں کی بارش کے ساتھ جادوگر کے خطاب سے نوازا گیامیں۔
حالات یہاں تک پہنچ گئے، کہ میرے زیادہ تردوست مجھ سے ٹوٹ کراُس سے جاملے اورآگے بات یہاں تک پہنچ گئی کہ میرے بولنے کی جگہ میرے پہنچنے سے پیشتر ہی وہاں انڈوں، ڈنڈوں اورٹماٹروں کا انتظام ہو جاتا، پھرمجھ میں کہاں ہمّت کہ وہاں پہنچ پاتا۔ جب کہ اُس کے ابّونے اُس کو پاگل ڈکلیئر کر دیا تھا، جس کانتیجہ یہ ہوا کہ مجھ کوسات سودس ووٹ ملے اوراُس کوپانچ لاکھ، تریپن ہزار، چار سو، انتیس۔ میرے ساتھ ساتھ سبھی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ سونے پرسُہاگا یہ کہ ایک پارٹی نے اپنے میں شامل کر کے پرائم منسٹربنا دیا اُس کو۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ میں اُس پر کیا گیامقدمہ بھی ہار گیا۔ اَب تو میں شرمندگی کے باعث مکان کے اندراوروہ بڑے بڑے نیتاؤں کے درمیان ، مکان کے باہر۔ پھرجیسے کہ جنتاسے اُس نے وعدے کیے تھے، ایوان کی توثیق حاصل کر کے یکے بعد دیگرے اُن کانفاذبھی شروع کر دیا۔ پانی، سرسے اُوپرہوتا دیکھ کرمیں بھڑک گیا۔ انجام یہ ہوا کہ مجھے پاگل قرار دے کرایک چھوٹے سے کمرے میں ٹھونس دیا اس نے۔ حویلی کے باہرہنگامے ہوتے رہے اورمیں قیدخانے میں اپنی قسمت کو روتارہا۔ کھانا پانی مل جاتا، وہ بھی وقت بے وقت۔ باہر کیا ہو رہا ہے اُس سے پوری طرح بے خبر رہتا۔ ہاں، کبھی کبھارکوئی ملازم رحم کھاکراخبارڈال جاتا۔ اخبارمیں اُس کے احمقانہ رویّے پڑھ کرمن ہی من کڑھتا میں۔ لیکن پبلک، اُس کوبڑی گرم جوشی سے سراہتی، تالیاں بجاتی۔
میری ماں جب کبھی میرے قید خانے کی جانب آ جاتی، میں اُس کے کیے کا رونا روتا۔ کسی طرح اِس کا اُس کوعلم ہوا، تومیری ماں کوبھی مجھ سے الگ ایک کمرے میں ٹھونس دیا۔ اُس کے والد نے احتجاج کیا تواُن کابھی میرے جیسا حشرہوا۔ ایک روز، جینزشرٹ پہنے ایک ملازمہ مجھ کوشلوار جھمپر تھما گئی، جومجھ کوپہننا پڑا۔ تھوڑی دیربعدساڑی بلاؤزپہنے ایک فوٹو گرافر میرا فوٹو لے گیا۔ دوسرے روزاخبارمیں اپنی ماں کونیکرشرٹ اورخسر کو اِسکرٹ ٹاپ میں دیکھ کرہنسی آئی، اور رونابھی۔ ساڑی بلاؤز، شلوار کرتے، اسکرٹ ٹاپ میں بڑے بڑے حاکموں کے درمیان اُس کوجینزشرٹ میں دیکھ کربچپن سے اَب تک کے اُس کے پاگل پن کے سارے کارنامے یاد آ گئے اورمیں خون کے آنسوروتارہا۔
دن گزرتے گئے اوراُس کے پاگل پن کی حرکتیں بڑھتی گئیں ، جن کو دنیا والے گرم جوشی سے سراہتے رہے۔
ایک روزاچانک خبرملی کہ اُس کا پلین کریش ہوا، اوراُس کی موت ہو گئی۔ دوسرے دِن اخبار میں تھا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق، وہ پوری طرح پاگل تھی۔ میں یہ فیصلہ کرنے سے آج بھی قاصرہوں کہ آخرپاگل تھاکون..؟، میں …؟وہ …؟یا کہ چمچے ، اسٹیل کے ..؟
٭٭٭
تجدید ، سہاگ رات کی
’’دوہتّڑ، لاٹھیوں کی مار، بات بات میں گالی گلوج، تین تین دِن تک کھانے سے محروم، امّی پھر بھی خوش تھیں۔ ہر طرح مطمئن، بہت ہی پیار تھا اُن کو، ابّوسے۔ صبح صبح ناشتا۔ توے کی روٹی، گرماگرم، کپڑے دھُلے، چماچم، پریس لگی، ٹناٹن۔ روزجسم کی مالِش کرنا، گرم پانی سے نہلانا، دیر رات تک پیردبانا، سب ہی کچھ توتھاٹھوربیٹھے، ابّوکا۔ مجھ سے تونہ ہوئی شوہرکی یہ غلامی اورنہ ہی اپنی بیٹی نجمہ کو کرنے دیا، یہ سب کچھ۔‘‘
اُس کی نیندپوری طرح اُڑی ہوئی تھی۔ وہ سسرال سے لڑ کر آئی، اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی تھی، ’’اچّھاہواجوشوہرکومارپیٹ کرچلی آئی۔ وہ بولا ہی کیوں تھا، اپنی بہن کی طرف داری میں۔۔ ۔۔ ؟اَب کیا جائے گی اُس گھرکوکبھی، جائے گی بھی توغلام بناکر رکھے گی، شوہرکو۔ آخرمیری بیٹی ہے، نا۔۔ ۔۔ ! ہتکنڈے، تومیرے ہی سکھائے ہوئے ہیں، سب۔ اِس میدان کی تواُتّم کھلاڑی رہی ہوں، میں۔ ہاں۔۔ ۔ ! والدنے پالاضرور تھا ، گائے بکری کی طرح کبھی دبادباکر، مجھ کو۔ امّی پرابّوکے مظالم دیکھ کرمردذات سے نفرت اور بغاوت کاجذ پلتاہی رہا تھا، مجھ میں۔ اورپھرتسلیمہ نسرین کے رویّے نے توساری ڈگریاں ہی سونپ دیں تھیں، مجھ کو۔ اسکول سے کالج کی دوڑتک مکمّل طورسے مرد کے خلاف کھڑی ہو گئی تھی، مَیں، شلوار، جھمپرکوبائی بائی کر کے۔ جینس، شرٹ پہننے والی، چوٹی کٹواکربواے کٹ بال رکھوانے والی، یعنی کہ خودسراورآزادخیال بھی۔ میرارویّہ دیکھ کر، ایک پولِس آفیسر کی ساری جائیدادمیرے نام لکھوا کر، اُس سے بیاہ دیا تھا ابّونے، مجھ کو۔ میں بھی جوان، سجیلے، اِسمارٹ اورلحیم شحیم مرد سے کسی حد تک مطمئن بھی تھی ، بس۔۔ ۔ ! جنسی خواہشات کی تکمیل تک۔ لیکن وہ جب بھی مردانگی دِکھاتا، میں توڑمروڑ کر رکھ دیتی تھی، حرام زادے کو۔ آخر کرتا کیا۔۔ ۔ ؟اُس کی جائیدادجونام تھی میرے۔ میں نے بھی خوب ہی پریشان کیا اُس کو۔ شیوبنانے بیٹھا، تونیابلیڈ، گٹّھل۔ صابن، جسم پراورباتھ روم کاپانی ندارد۔ نہاکر نکلا، تو تولیا کاپتانہیں۔ ڈیوٹی چلا، توجوتاغائب۔ سبزی میں کبھی نمک زیادہ، توکبھی مرچ، یہ سب تو الگ سے ڈال دیا کرتی تھی، اُس کی پلیٹ میں۔ چاردِنوں میں ہی ہتیارڈال دِیے تھے، کم بخت نے۔‘‘
دریاکی کانٹا پھنسی مچھلی کی طرح مضطرب تھی، وہ، ’’میں، جب بھی ماضی کے دھندلکوں میں جھانکتی ہوں، توچنداہم واقعات ذہن میں اُبھر آتے ہیں، یہ کیوں اورکیسے اُبھرتے ہیں۔۔ ۔۔ ؟شایدواقعات، ذہن پر اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ جودفتاًفوقتاًابھرتے رہتے ہیں۔ میرے پروفیسرکاکہنا تھا، ’’واقعات، ذہن پراپنے نقوش بناتے ہیں۔ چھوٹا واقعہ ، چھوٹانشان۔ بڑاواقعہ، زخم کاری۔‘‘ جب کوئی نغمہ پہلے پہل سنوتواچھالگتا ہے۔ بار باردِل چاہتا ہے، سننے کو، پھراُکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ شاید اِس لیے کہ نغمہ ، ذہن میں ایک خاص جگہ پراپنانشان بنابناکرزخم کر دیتا ہے اورزخم کی ٹیسیں پاگل کر دیتی ہیں، انسان کو۔‘‘
’’رانی، میری بچپن کی سہیلی تھی، بڑی ہنس مکھ اورملنسار۔ مسکراتی توپھول جھڑتے۔ پہلی ہی ملاقات میں مرمٹی، امجد پر۔ کہتی تھی، ’’جب وہ توتلی زبان میں مجھے ’’لانی‘‘ کہتا تھا، توبہت پیارا لگتا تھا۔‘‘ گھروالوں کی لاکھ مخالفت کے باوجودشادی اُسی سے کی، رانی نے۔ وہ بھی اُسے ’’لانی لانی‘‘ کہتے نہ تھکتا تھا۔ کچھ دِنوں تک تورانی کواُس کا ’’لانی‘‘ کہنا دِل چسپ لگا، پھر اکتاہٹ ہونے لگی۔ رانی کے منع کرنے پربھی جب وہ اُس کو ’’لانی‘‘ کہتا، تو رانی کے ذہن میں ٹیس اُٹھتی اوروہ چیختی، ’’مت کہو مجھ کو لانی۔۔ ۔۔ ۔ !!میں رانی ہوں، رانی۔۔ ۔ !!!‘‘ اس کے با و جود امجد اُس کو ’’لانی‘‘ کہنے پرمجبور رہا، تورانی نے چِڑ کرطلاق لے لی، امجد سے۔ رانی سے لوگ جب پوچھتے، ’’تیرادُولھا کیا کہتا تھا، تجھ کو۔۔ ۔ ؟‘‘ تواَندرونی کرب کے زِیراَثراُس کا چہرہ سرخ ہو جاتا، ہونٹ پھڑپھڑانے لگتے، وہ چیختی اورگِر کربے ہوش ہو جاتی۔ اس کے باوجود لوگوں نے اُس کوچھیڑنانہ چھوڑا۔ رفتہ رفتہ وہ اندرسے بری طرح لہولہان ہو کر بھٹکنے لگی، سڑکوں پر۔ آخرایک دِن پوری طرح پاگل ہو کر، ہو گئی اللہ کوپیاری، وہ بے چاری، ہنس مکھ اور ملنسار۔‘‘
’’میراشوہربھی کسی سوچ میں گُم رہتا ہے، میری مردانگی سے اُکتایا ہوا۔ وہ بھی تو مردانگی دِکھاتا تھا، اورپھر مجھ کو۔۔ ۔۔ !اَب توجوچاہتی ہوں، کرتی ہوں۔ ہم تین ہی تو اَفرادہیں، گھر میں۔ میں، میری بیٹی اوروہ حرام زادہ۔ یعنی کہ میرا شوہر۔ کسی مصرف کا نہیں رہا، کم بخت۔ بس نام کا ہے مرد، نامردکہیں کا۔ کبھی دکھاتا تھامردانگی۔ کہتا تھا، ’’نمک، نمک ہے۔ اور مرچ، مرچ۔ مرد، مردہے اور عورت، عورت۔ خدانے عورت کو، عورت بنایا ، یعنی کہ مرد سے نرم۔ عورت کوخدانے چوڑیاں دیں، گھرمیں کھنکانے کے لیے۔ پستان دِیے، بچّے کو دودھ پلانے کے لیے۔ ہرماہ، ایک خاص کرب میں مبتلاہونا پڑتا ہے، عورت کو۔ ورنہ نوماہ کے لیے گرفتار، اُلجھنوں اورپریشانیوں میں۔ بیج پردھان ہوتا ہے، دھرتی نہیں۔ مردجب چاہے، اِستعمال کر سکتا ہے، عورت کو۔ عورت نہیں کر سکتی، ایسا۔‘‘ بھاڑمیں جائے، وہ۔ میں نے پچھاڑا ہے، اُس کو۔ حکومت کرتی ہوں، گھر میں۔ زندگی اِسی کا نام ہے، جیوشان سے۔ پردیکھا جائے تو یہ زندگی کہاں۔۔ ۔ ؟عورت کی زندگی تومرد کی مردانگی میں ہے۔ لیکن میرا مرد، اَب ہے ہی کہاں مرد۔۔ ۔ ؟ہاں چوڑا چکلا تواب بھی ہے۔ کھاتا بھی خوب ہے، پہلے کی طرح۔ پھرکسی لائق کیوں نہ رہایہ۔۔ ۔۔ ؟ایک دِن تھا، جب کسی بدمعاش نے گولی ماری تھی، اُس کے ہاتھ میں اور اُس رات اُس کادِل لانے کے لیے میں خودکو بناسنوار کر اُس کے پاس چلی گئی تھی۔ اپنے ہاتھ میں شدیددرد کے باوجودپہلے سے کہیں زیادہ دیر تک اِنبساط میں ڈوبا رہا تھا، وہ۔ اِسی لیے میراجسم بے حدٹوٹا تھا، اَگلے دِن۔ اس کے برعکس تقریباً پانچ ماہ پہلے چھٹّی آنے پر، اِس سے پہلے کہ وہ اپنی جنسی اِنبساط سے محظوظ ہوتا، میں نے چوری گئے زیورات نہ بنوانے پرخفگی ظاہرکی، جس پر ناکارہ ہو گیا تھاوہ، پھُس سے۔ شایدذہنی انتشار کے سبب۔‘‘
اُس کاذہن گھایَل تتلی کی طرح پھڑپھڑایا، ’’میرے بالاخانے کے سامنے ایک جھونپڑی ہے، چھوٹی سی اوراُس کے قریب ایک شان دارمکان بھی۔ جھونپڑی اورمکان کے اندرتک میرے بالاخانہ سے صاف دِکھائی دیتا ہے۔ پہلے وہ مکان بھی جھونپڑی تھا، دونوں جھونپڑیوں میں احمداورنور رہتے تھے۔ اَب بھی وہی رہتے ہیں۔ بس فرق ہے تو صرف اِتناکہ جھونپڑی میں احمد، اورمکان میں نور رہتا ہے۔ دونوں بھائی ڈرائیورہیں۔ کہتے ہیں، دونوں بھائیوں کی پیدایش ایک ہی دن، ایک ساتھ ہوئی تھی۔ ماں نے اُن کا کھان پان بھی ایک سا کرایاہمیشہ اورشادیاں بھی ایک ہی دِن پرکیں، دونوں کی۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ سہاگ رات میں دونوں جھونپڑیوں کے بلب ایک ساتھ آف ہو کر، ایک ساتھ روشن ہو گئے۔ جب کہ اُن کے سوئچ الگ الگ اپنی اپنی جھونپڑیوں میں تھے۔‘‘
’’احمد کی بیوی بہت تیزہے، اُس نے اپنے میاں کونتھ پہنا رکھی ہے، ہروقت ذہن اُلجھائے رکھتی ہے، میاں کا۔ اِسی لیے توسات ایکسیڈنٹ کر چکا ہے، وہ بے چارہ۔ شکرخداکاکہ معمولی چوٹیں آئیں۔ بیس سال میں بھی کوئی ترقّی نہ کر سکا، وہ۔ بس وہی جھونپڑی ہے پھوس کی، اُس کی۔ اس کے برعکس نور نے بہت شان دارمکان بنوایا ہے۔ ڈرائیوری کے علاوہ سائڈبزنس بھی کرتا ہے۔ بیوی سلیقہ مند، سیدھی اورفرماں بردارہے، شوہر کی۔ نور بھی بہت چاہتا ہے، اُس کو۔ گاڑی بہت تیزچلانے کے باوجودکوئی ایکسیڈنٹ نہ ہواکبھی، اُس سے۔‘‘
’’پچھلی رات احمد کی جھونپڑی میں بلب آف ہو کرڈیڑھ منٹ بعد روشن ہو گیا۔ اُس کی بیوی کے لڑنے کی آوازیں بھی آئیں، چوٹ کھائی ناگن لگ رہی تھی، وہ۔ جب کہ نورکی بیوی کے کمرے کا بلب آف ہو کرکافی دیربعدروشن ہوا اوراُس کی بیوی اگلی صبح بہت دیرسے اُٹھی۔ اُس کے تین بیٹے ہیں۔ چست اورخوش مزاج بھی۔ لیکن احمد کے ایک بھی نہیں۔ میرے بھی ایک ہی بچّی ہو کر رہ گئی۔ کہتے ہیں کہ ذہن سکون میں ہو، تب ہی اولادوجودمیں آتی ہے۔‘‘
’’کل دوپہرمیری بالکنی کے سامنے، دور سے دوڑ کر آتے سانڈکی جانب تیزی سے لپکنے کے سبب، چھنگادادا کواپنی بچھیاکی رسّی مجبوراً چھوڑ نا پڑی۔ بچھیا، جیسے ہی سانڈ کے قریب پہنچی، سانڈنے اُس کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے فوراً جست لگائی۔ لیکن بچھیا گرفت میں نہ آ کرگھبراتے ہوئے بھاگ نکلی۔ سانڈ کافی دیر تک اُس کا پیچھا کرنے کے بعد تھک کر نیم کے سایے میں بیٹھ گیا۔ چھنگادادا نے بہ مشکل تمام بچھیا کو پکڑ کر نیم کی جڑ سے باندھا۔ آخر کارسانڈ کو اُٹھانے کی ناکام کوشش کے بعد چھنگادادا کواپنی بچھیالے کریوں ہی واپس لوٹنا پڑا۔‘‘
پانی کی لہروں پر پڑے کاغذکی طرح اُس کاذہن ہوامیں تیرنے لگا اوروہ سوچنے لگی، ’’ذہن سے جسم کا تعلق قدرتی نظام ہے۔ یہ نظامِ قدرت ہے کیا۔۔ ۔۔ ؟یہی نا۔۔ ۔۔ ! کہ ستاروں کے گِرد سیاروں کی گردش۔ ستاروں کی مقناطیسی قوّت اورحرارت ضائع ہو جائے تو۔۔ ۔۔ ۔ ؟یا سیارے گردش بندکر دیں۔ توسارے موسم ختم، بارش ہونا، ہوائیں چلنا، رات دِن ہونا، گیسیں بننا، پیڑپودے اُگنا، چرند وپرند کاوجودمیں آنا، سب کے سب بند۔ سارا نظام درہم برہم۔ نیست ونابوددنیا۔ یہ نظام چلاتاکون ہے۔۔ ۔ ؟ ہے کوئی طاقت۔ شاید قدرت۔ قدرت نے اپنے نظام کے تحت ہی موالیدثلاثہ کی تشکیل کی ، چرند وپرند بنائے ، اُن کی سہولیات کے مطابق، اُن کے جسموں کی تشکیل بھی کی۔‘‘
’’سانپ کی ضرورت کے مطابق، آہٹ اوردھمک کوجسم سے محسوس کرنے کی صلاحیت، بڑاوربچھّووغیرہ کوڈنک۔ یہاں تک کہ بھنگری کے بالوں میں زہر۔ ہر چرند و پرند میں کھانا ہضم کرنے کے لیے اپنے اپنے طورکے اِنزائم۔ انسان کے میٹھا اِنزائم، مُنہ میں، کڑوا اورکسیلا، میدے اورپِت میں۔ اِس کے برعکس کڑوا اورکسیلا مُنہ میں ہوتا۔۔ !تو۔۔ ؟ اور ہاں۔۔ ۔ ! زبان ایک، اور مزے پرکھنے کی صلاحیتیں بے شمار۔ جسم کے اندرکیمیائی عمل خود بہ خود ہوتے رہتے ہیں۔ معدہ خالی ہو تواِنزائم معدے میں گِر کرکھرونچ پیدا کر کے بھوک کا احساس دِلاتے ہیں۔ کھانا سامنے آئے، تواِنزائم خودبہ خودنکلنے لگتے ہیں۔ اِنزائم جسم اورمعدے کی ضروریات کے مطابق ہی نکلتے ہیں۔ مثلاًبناروغن کے کھاناحلق سے اُتارنامشکل ہو جاتا ہے اورمرغّن غذا۔۔ ۔ !بہ آسانی کھالیتی ہوں ، لیکن روغن صرف پانچ یا چھ چمچے ہی حلق سے اُتارسکتی ہوں۔ اِس سے ثابت ہے کہ ہمارے جسم کوجتنے روغن کی ضرورت ہو، اُتنا ہی لیاجا سکتا ہے۔ اس کے بعد طبیعت خود بہ خودانکار کرنے لگتی ہے اوراگرزیادتی کرو۔۔ ۔ ! تو معدہ باہرنکال پھینکتا ہے، اُس کو۔ اورہاں۔۔ ! آنکھ میں کچھ چلا جائے۔۔ ! تو آنسواُس کوفوراًباہر کر دیتے ہیں۔ کھانا ، سانس نلی میں چلا جائے۔۔ ۔ ! توفوراً دھانسا۔ ناک میں کچھ چلا جائے یا دماغ میں رطوبت بن جائے ،۔۔ ۔ !تو چھینک۔‘‘
اُس کاذہن پھرپھڑپھڑایا اوروہ سوچنے لگی، ’’سارے انسانوں کے چہرے یک ساں ہونے کے باوجوداُن کی شناختیں جُداجُدا۔ اپنی سہیلی کو چودہ سال بعد بھی چھبّیس جنوری کے پروگرام میں دورسے ہی پہچان لیا تھا، لال قلعہ پر۔ اِسی طرح تقریباًبیس سال سے بچھڑے ہوئے اپنے پروفیسر کوامریکا میں اپنے پڑوس کے کمرے سے آنے والی اُن کی آوازسے ہی توپہچانا تھا، میں نے۔ آوازیں اورچہرے یک ساں ہوتے۔۔ ۔ !توکس طرح پہچان ہوتی۔۔ ۔ ؟ انسان کے جسم کی بناوٹ بھی توقدرتی نظام کے تحت ہے ، سرپربال ، کھُلنے اوربند ہونے والی آنکھیں ، اُن پرپلکیں ، اُن کے اندر اِدھراُدھرگھومتے ہوئے دوغُلّے ، پتا نہیں سامنے کا دیکھ کرکس طرح ذہن میں محفوظ کر لیتے ہیں۔۔ ۔ ؟اُس پریہ کہ ضرورت پڑنے پراُسی نظارے کا جب چاہوپھرسے تصور کر لو۔ چھبّیس جنوری پرسہیلی کو دیکھتے ہی مختلف اوقات کی ساری باتیں اورواقعات پلک جھپکتے ہی سارے کے سارے آ گئے تھے سامنے۔ ہاں۔۔ ۔ !تودونوں آنکھوں کے بیچ نیچے کورُخ کیے ناک، اُس کے نیچے مُنہ، مُنہ میں ضرورت کے مطابق اِسٹائل لیے دانت، دانتوں کے بیچ اِدھراُدھرکاجائزہ لینے والی لچک دار زبان، اِدھراُدھراِسٹائل لیے دوکان، اُن کے اندرحبابی پردے ، اُس کے نیچے اِدھراُدھر مڑنے والی گردن، ہاتھ، اوراُن میں اندرکوہی مڑنے والی چھوٹی بڑی انگلیاں ، اُنگلیوں میں ضرورتاًناخن، جسم میں ضرورت کے مطابق جگہ جگہ جوڑ، قدرت کے اِسی نظام کے تحت بچّہ پیدا ہوتے ہی ماں کے دودھ آ جاتا ہے، اوربچّے کودودھ پینے کا سلیقہ، ورنہ بچّے کو کہاں اتنا شعور۔۔ ؟قدرت ہی گائڈکرتی ہے، اِنسان کو۔ انسان کوہی نہیں، حیوان کوبھی۔‘‘
’’انسان کچھ زیادہ ہی حساس ہے، دیکھیے نا۔۔ ۔۔ ۔ !بجلی چلی جانے پرکچھ بھی دکھائی نہ دینے کے باوجودماچس کی جگہ پرپہنچ جاتی ہوں۔ نابینا نوری ، اپنے گھرکے سارے کام کرتی ہے۔ یہاں تک کہ سوئی میں خوددھاگا ڈال کرکپڑے سی لیتی ہے۔ نوٹ اور ریزگاری پہچان لیتی ہے، ٹٹول کر۔ کتاب پڑھتے وقت ورق ڈبل پلٹ جائے، توفوراً اِحساس ہو جاتا ہے، مجھ کو۔‘‘
’’کل کمرے میں بدبومحسوس ہوئی، ذہن کے اِشارے پر آنکھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا، ناک کے ذریعے جائزہ لیتی ہوئی سیدھی ڈریسنگ ٹیبل کے پاس پہنچ گئی۔ نیچے جھانکا ، تو سڑا چوہا پڑا تھا۔ باہرنکال پھینکا، تو بدبو ختم۔‘‘
’’آج صبح بادام کھاتے وقت ایک تلخ بادام مُنہ میں پہنچ گیا، ذہن نے زبان کے ذریعے اُس کی تلخی محسوس کر کے تھوکنے کاحکم دیا اوربادام مُنہ سے باہر۔ یہ سارے جسمانی نظام چلاتاکون ہے۔۔ ۔۔ ؟شایدذہن۔‘‘
’’میں اپنے کُتّے کوجب بھی راتب دیتی ہوں ، وہ پیشاب کر کے ہی کھاتا ہے۔ میں جب بھی باہرسے اپنے مکان میں داخل ہوتی ہوں ، میرا پیشاب روکے نہیں رکتا۔ میرا خرگوش جب بھی پانی کی ٹنکی کی جانب جاتا ہے ، چاہے کم سہی، مینگنی ضرور کرتا ہے۔ چھچوندر، رات میں میرے پلنگ کے نیچے ہی بیٹ کرجاتی ہے۔ صرف انسان وحیوان میں ہی نہیں، موالیدثلاثہ میں بھی کیمیائی عمل خودبہ خود ہوتے رہتے ہیں۔ پانی ایک خاص وقت پر برس کر تحلیل ہو جاتا ہے۔ لوہا گل جاتا ہے۔ میں پیدا ہوئی تھی ایک دِن۔ ایک دِن فنا ہو جاؤں گی۔ ایک نظام ہی کے تحت تو۔۔ ۔۔ !!!‘‘
’’لحیم شحیم چھیدانانا، دِل کے مریض تھے۔ بڑے اطمینان سے بازارسے کوئی غزل گنگناتے آ رہے تھے۔ دورسامنے اِلکٹرک ویلڈنگ کی شعاعیں ، فُٹ پاتھ پرکھڑی بائک کے شیشے سے ٹکراکراچانک اُن کی آنکھوں پر پڑیں ، جھجک گئے۔ آنکھوں نے دیکھ کر ذہن کواطلاع دی۔ ذہن کے حکم پرجسم کو حرکت میں لانے کے لیے دِل نے اچانک گھبرا کرتیزی سے خون پھینکنے کی ناکام کوشش کی، اور ہارٹ فیل۔ اِسی طرح میرے پڑوسی پروفیسر، جوہمیشہ اپنے بیٹے کوگاڑی آہستہ چلانے کی صلاح دیتے تھے۔ اپنے اصول کے مطابق ہی اُس روز اُن کی گاڑی سِلوتھی۔ اچانک سائڈسے کُتّے کابچّہ سامنے آ گیا۔ اُنھوں نے فوراً گاڑی دائیں موڑ کر اُس کوبچایا۔ آگے چلنے والی گاڑی کی وجہ سے دوسری سمت سے آنے والی گاڑی جودکھائی نہیں دینا چاہیے تھی، اچانک سامنے آ جانے سے ٹکرا گئے ، اور فوراً موت۔ اس صورت میں کوئی گاڑی کتنی ہی سلوکیوں نہ ہو، ایکسیڈنٹ تو ہو گاہی۔ ایسے حالات پیدا ہو جانانظام قدرت ہی تو ہے، نا۔۔ ۔ !‘‘
’’ذہن، اِنسان کے بس میں کہاں۔۔ ۔۔ ؟کیسی کیسی اٹھکھیلیاں کرتا ہے، اِنسان سے۔ ساری دنیا گھما کر رکھ دیتا ہے، پل بھرمیں۔ کبھی انسان سے ناتاجوڑ لیتا ہے، تو کبھی آزاد پروازکرتا ہے۔ ابھی چندمنٹ پہلے، ٹی۔ وی دیکھ رہی تھی، اچانک یاد آیا، ایک رُوزاَنجلی کہہ رہی تھی، ’’ایک روزپاروتی نے شنکربھگوان سے ضد کی، ’’یہ پنڈت، مہا تپسّوی ہونے کے اُپرانت، نِردھن ہے ، اِسے کچھ دیجیے۔‘‘ پاروتی کی ضد پرشنکربھگوان نے پنڈت جی کے راستے میں اَشرفیاں بکھیردیں ، لیکن پنڈت جی یہ سوچ کرآنکھیں بندکر کے اَشرفیوں پرسے گزر گئے، ’’اندھا ہو جانے پرمندرکس طرح پہنچاکروں گا۔‘‘ پنڈت جی کے ذہن میں اَندھا ہونے کا خیال کیوں آیا۔۔ ۔ ؟یقیناًبرہمانے اُن کے ذہن کوکٹھ پتلی کی طرح گھما دیا ہو گا۔ ذہن، یقیناً آزادنہیں رہتا۔ وہ قدرت کے اشارے پراِنسان کونچاتارہتا ہے۔ تو کیاذہن، انسان کے بس میں نہیں۔۔ ۔۔ ؟کئی باریوں ہوا، جوبات نجمہ نے کہی۔ وہی میں سوچ رہی تھی۔ آزادذہنوں کے درمیان رابطہ کرنے والی ہے ضرورکوئی طاقت۔ شاید، قدرت۔ اِتنے میں نیوز ختم۔ لیکن اَنجلی کی بات کے خیال کے درمیان ٹی۔ وی نیوزکانہ توکچھ دکھائی دیا اورنہ ہی سنائی دیا، کچھ۔ حالاں کہ میری آنکھیں اورکان ، ، بہ دستوراپنا اپناکام انجام دے رہے تھے۔ توپھراُن چندلمحوں میں، سائنس کے مطابق، اُنھوں نے اپنا کام کیوں نہ انجام دیا۔۔ ۔۔ ؟میرا ذہن، کیوں نہ رہا، نیوزمیں۔۔ ۔ ؟یہ تھاکس کے بس میں۔۔ ۔ ؟ شاید، قدرت کے۔ میں قدرت کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہوں اوریہ ساری دنیابھی۔ یہ دنیا اُسی کے نظام کے مطابق ہی اپنے محورپر گھومتی ہے۔ جہاں نظام میں گڑبڑی ہوئی، تباہی ہی تباہی۔ قدرت نے اپنے نظام کے مطابق ہی توہم سب کوزندگی کی حسین ترین لذّتوں سے محظوظ ہونے کے لیے پیدا کیا ہے۔ کیامیں اُن لذّتوں سے محظوظ ہوئی ہوں۔۔ ۔۔ ؟ اگرنہیں ، تو کیوں۔۔ ۔۔ ؟شایدنظامِ قدرت سے بھٹک جانے کے باعث۔ مرچ، جب نمک کا کام کرنے لگے گی۔ تونمک ہی کہلائے گی، مرچ نہیں۔ مرچ کہلانے کے لیے اُس کومرچ ہی رہنا پڑے گا۔ مردبن کرملا کیامجھ کو۔۔ ۔ ؟ تسلیمہ کوکیا ملا۔۔ ۔ ؟بربادی، رسوائی اورتنہائی بھی۔ مرد کی پسلی سے پیداشدہ عورت کی زندگی، مرد کی آغوش ہی تو ہے۔ کاش میں عورت ہی رہی ہوتی۔ کتنا تڑپی ہوں ، دنیا کی حسین ترین لذت واِنبساط کے لیے۔۔ ۔۔ ؟‘‘
اُس کو لگا، مچھلی اپنے ہی جال میں تڑپ رہی ہو۔ وہ سرد آہ بھر کرجوش میں اُٹھی اوربیٹی کوسوتے سے اُٹھا کربہت سمجھایا۔ بیٹی نے جب سسرال جانے سے صاف انکار کر دیا، تواُس نے بیٹی کاسوٹ کیس تھماکر کہا، ’’ابھی نکل جامیرے گھرسے۔۔ ۔ !!!!نظامِ قدرت سے ہٹ کرچلنے والوں کے لیے میرے ہاں جگہ نہیں۔۔ ۔ !!!!‘‘
بیٹی، ماں کا طیش دیکھ کرچپ چاپ باہرنکل گئی اوروہ ایک انوکھے انداز میں خود کو سجا، سنوار کراپنے شوہرکے کمرے میں داخل ہو گئی۔ اُس کولگا، اُس کی جوانی کی لذّت و انبساط کا سورج، اتنے حسیں انداز میں آج پہلی بار طلوع ہواہو۔
٭٭٭
مسلمان
’’تم تو مسلمان ہو۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’ہاں، ہوں مسلمان۔‘‘
’’یعنی کہ دیش دروہی۔ اِسی لیے توہم تم کو دست خط نہیں کرنے دیں گے، اِس پر۔‘‘
’’تم نے مسلمان مانا، مجھ کو۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’پکّا مسلمان۔‘‘
’’وہ مسلمان نہیں جومالک، حاکم اور اپنے ملک کا وفا دار نہ ہو۔‘‘
’’تو پھر اپنے ملک کی ہار پر گولے کیوں داغتے ہو۔۔ ۔ ؟آتنک کیوں مچاتے ہو۔۔ ؟‘‘
’’یہ سب تم کرتے ہو، مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے۔‘‘
’’تو پھر بندے ماترم کیوں نہیں کہتے۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’ہم کہتے نہیں، کرتے ہیں۔‘‘
’’کب کرتے ہو۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’تم دیکھتے نہیں کہ ہم چوبیس گھنٹوں میں پانچ وقت کرتے ہیں، یعنی کہ ۳۸؍ سجدے فرض، اسی زمین پرتو۔‘‘
’’سجدہ کیا زمین کو کرتے ہو۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’نہیں، زمین کو نہیں، خدا کو۔‘‘
’’زمین کو کیوں نہیں۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’سجدہ تو ہم اُس کو کرتے ہیں، جس نے زمین کو پیدا کیا، ہم سب کو پیدا کیا۔‘‘
’’زمین ہماری ماں ہے، اس کو سجدہ کرو۔۔ ۔۔ !‘‘
’’ہمارے مذہب میں سجدے کی اجازت تو اُس ماں کو بھی نہیں، جس ماں نے ہم کو پیدا کیا۔ ہم صرف ایک خدا کومانتے ہیں، جس نے ساری دنیا بنائی ہے، بس۔۔ ۔۔ !‘‘
’’بس اِسی لیے تو غدّار ہو ملک کے، دیش دروہی۔‘‘
’’اِتہاس دیکھو۔۔ ۔۔ !ملک کے لیے خون بہایا ہے، ہم نے۔ جانیں دی ہیں، جانیں، ہمیشہ ہمیشہ۔‘‘
’’کچھ بھی سہی، لیکن ہم تم کو اِس پر دست خط نہیں کرنے دیں گے۔‘‘
’’اور ہم اِس پر دست خط کر کے رہیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور کچھ لوگوں نے ایک جُٹ ہو کراُسے پیچھے دھکیل دیا۔ اور ’’ماں تجھے سلام‘‘ ابھیان کی گاڑی آگے بڑھ گئی۔
یہ نفرت وہ بچپن سے سہتا چلا آ رہا تھا۔ وہ اس نفرت کے بارے میں اکثر سوچتا، ’’آخر یہ نفرت ہے، تو ہے کیوں۔۔ ۔۔ ؟ خالق نے توساری کائنات سب کے لیے بنائی ہے۔ وہ توسبھی کو پسند کرتا ہے۔ اگر وہ کسی کو پسند نہ کرتا تو اُسے بناتاہی کیوں۔۔ ۔۔ ؟اُس نے تو انسان بنائے ہیں۔ ہندو یا مسلمان تھوڑے ہی بنائے ہیں۔ یہ جو آج سب کچھ دکھائی دے رہا ہے، صرف اقتدار کے لیے ہی تو۔ یہ زمین کے بٹوارے، شور شرابے، خون خرابے، یہ ہندو، وہ مسلمان، یہ ہند، وہ پاکستان، نفرتیں، سب کرسیوں کے لیے ہی تو ہیں۔ آج یہ انسان، انسان سے حیوان بن گیا ہے، اقتدار کے لیے ہی تو۔۔ ۔ !نا۔۔ ۔۔ ؟ورنہ تو سب ایک ہیں، کچھ بھی تو فرق نہیں، ایک دوسرے میں۔ سارے کے سارے انسان ہیں۔ ہاں انسان جب جب انسانیت سے گرا توخدا نے اَوتار بھیجے۔ اور ان اوتاروں نے انسانیت سے گرے ہوؤں کوپھرانسانیت کی ڈگر پرلے جانے کی کوششیں کیں۔ انسان اگر انسانیت سے نہ گرا ہوتا تو شاید کسی اوتارکی ضرورت نہ ہوتی۔ خدا تو اپنے بندوں کوانسان بنا کر ہی رکھنا چاہتا ہے۔ اُس نے تو سبھی کو بنایا ہے۔ اُسے یہ نفرتیں، یہ خون خرابے، پسند ہی کب ہیں۔۔ ۔ ؟وہ تو سب کوایک ہی رکھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتاکب ہے کہ ایک بندہ اُس کے بنائے ہوئے دوسرے بندے سے نفرت کرے۔۔ ۔۔ ؟ اُس کا خون بہائے۔۔ ۔۔ ؟‘‘
یہی سب سوچتے ہوئے تواُس نے اپنی زندگی میں عہدکر رکھا تھا کہ وہ انسانیت کی ڈگر پر چل کرآپس میں محبت سے رہنے کی ترغیب دے گا، سب کو۔ لیکن اُسے تو بچپن سے نفرتیں ملی ہیں، اُس نے توسب سے محبت کی، لیکن لوگوں نے اسے مسلمان کہہ کر نظرانداز کیا۔
وہ تو ایک باراپنے ایک دوست سوشیل کمار دیکچھت کی خاطر اپنی ماں سے بھی عید کے روز اُس وقت لڑا تھا، جب وہ سویّاں کھا رہا تھا، اور اُس کے دوست دیکچھت نے اُسی کے پیالے میں سویّاں کھانے کی کوشش کی تھی، جس پراُس کی ماں نے اُس کے سامنے سے یہ کہتے ہوئے پیالہ اُٹھا لیا تھا، ’’نہیں بیٹا، سویّاں ہندو نہیں کھاتے۔‘‘ اور دیکچھت کے ناراض ہو کر چلے جا نے پرجب وہ ماں سے لڑا تھا، توپھر ماں نے اُسے سمجھایا تھا، ’’جس برتن میں سیکڑوں بار میٹ پک چکا ہے تو مَیں اُس برتن میں پکی سویّاں اُس پنڈت کو کیسے کھالینے دیتی۔ ؟ اَب مَیں جب کورے برتن منگا کر پکاؤں، اور کورے پیالے میں نکال کر دوں، تب تم دونوں ایک ساتھ ایک ہی پیالے میں کھالینا۔‘‘ پھر ماں نے دوسرے ہی دن کورے برتن منگواکر سویّاں پکائیں اورجب اُس نے یہ سب دیکچھت کوبتایا توپھردونوں نے بڑی محبت سے ایک ساتھ سویّاں کھائیں۔
کارگل کی جنگ چھڑتے وقت فوج میں بھرتی کے دوران یہ کہتے ہوئے کچھ ہندوؤں نے اُسے لائن سے باہر کر دیا تھا، ’’وہاں کیا پاکستان کی طرف داری میں پلٹ کر مجھ ہی کو مارے گا۔۔ ۔۔ ؟ غدّار کہیں کا۔‘‘
اُسی دوران وہ ہر روزکارگل کی سرحد پر خون خرابے ، ٹی۔ وی پر دیکھ کریہ سوچتے ہوئے پریشان رہتا کہ وہ اپنے ملک کے کس طرح کام آئے۔۔ ۔۔ ؟
ایک روزاخبارمیں تھا، ’’سرحد پر گھایَل ہوئے دیش کے جوانوں کوبچانے کے لیے خون کی بے حد ضرورت ہے۔ دیش پریمی اپنے ملک کے جوانوں کو خون دینے کے لیے ملیٹری ہسپتال فوراً پہنچیں۔‘‘
وہ یہ خبرسن کر جب ہسپتال پہنچا تووہاں اُس کے علاوہ خون دینے والا اور کوئی دوسرا نہ تھا۔ اُس نے گھوم پھر کر ہسپتال کا جائزہ لیا۔ بہت سے جوان بے ہوش پڑے تھے اور کافی تعداد میں درد سے تڑپ رہے تھے، وہ ڈاکٹرز سے رابطہ کر کے اپنانام شری رام بتاکر اُن کے کہنے پرخون دینے کے لیے میز پر لیٹ گیا۔ نرس اُس کا خون لینے کے لیے ڈِرپ لگا کر مریضوں میں اُلجھ گئی۔
نرس نے یکے کے بعد دیگرے اُس کا تین بوتل خون لینے کے بعد جب اس کا ڈِرپ نکالنے کی کوشش کی، توکسی مریض کے کراہنے کی آواز سن کر اُس نے مزید خون دینے کی التجا کی۔ نرس اُس کی ضد پرہاف بوتل خون مزیدلینے کے لیے ڈِرپ چالو کر کے دوسرے مریضوں کی جانب چلی گئی۔ اُس نے مزید مریضوں کو راحت پہچانے کی غرض سے آہستہ سے ڈِرپ کی اسپیڈ بڑھا کر چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔
نرس کی کرب ناک آوازپر ڈاکٹرنے جلدی سے اُس کے بیڈ کے قریب آ کرنبض ٹٹولی، چہرے سے چادر ہٹا کر آنکھ کی پتلی دیکھی اور چہرے کو چادر سے پھر ڈھانپ کر ڈِرپ نکالی تو کلائی پر مسلمان لکھا تھا۔
٭٭٭
حیا دار کون۔۔ ۔ ؟
مجھے یقین تھا کہ اُس کو اُس رات شری صاحب کے کمرے میں دیکھ لینے کے بعد، ہر روز کی طرح مجھے اپنے کمرے کے پٹ کھولنے پر، اب وہ مجھے حیرت سے گھور کرپردہ پڑی ٹوٹی کھڑکی سے کبھی سرکتی دکھائی نہ دے گی۔
ایک وہ دن تھا کہ جب بارہ قتل کرنے والے اپنی بیوی کے بھائی کی گالی برداشت نہ کرنے پر اُس کوپیٹنے کے بعد یہ کمرا کِرایے پر لینے کے لیے دوسال پہلے یہاں آیا تھا اور جیسے ہی مکان مالک نے مجھ کودکھانے کے لیے یہ کمراکھولا تھا، تووہ ہڑبڑا کر کھڑے ہوتے ہوئے مجھے گھورنے کے بعد پڑوس کے کمرے میں پردہ پڑی ٹوٹی کھڑکی سے شری صاحب کے کمرے میں چُپ چاپ سرک گئی تھی۔ تب ہی مکان مالک نے بتایا تھا، ’’پڑوس کے کمرے میں شری صاحب قریب پانچ ماہ سے رہ رہے ہیں۔ یہ کس مذہب کے ہیں، اور کہاں سے آئے ہیں۔۔ ۔۔ ؟کوئی نہیں جانتا۔ لوگ صرف اِتنا جانتے ہیں کہ وہ بہت قابل ہیں اور صرف انگلش بولتے ہیں۔‘‘
میرے اور شری صاحب کے درمیان کی کھڑکی کے پٹ ٹوٹے ہوئے تھے، جس پراُن کی جانب سے ایک صاف ستھرا پردہ پڑا تھا۔ کمرے کواپنی ضرورت کے مطابق غنیمت جان کرمَیں نے ایک ماہ کاکِرایہ ایڈوانس دے کرتا لا چابی پکّی کر لی تھی اور اُسی روز بازار سے ایک پلنگ، بستر، ایک جگ اور گلاس سے کمرے کو آراستہ کر کے بڑے اطمینان سے سو گیا تھا۔
شری صاحب کا کمراہمیشہ اندر سے بند رہتا تھا۔ اُن کے کمرے میں جانے کی مجھ میں ہمّت نہ تھی، اور نہ ہی مجھے اُن کی آواز کبھی سنائی دی تھی۔ ہاں صبح چار بجے کے قریب شری صاحب کادروازہ کھلنے اور باہر سے تالا پڑنے کی آہٹ ضرورہوتی۔
مَیں اپنے معمول کے مطابق ہر صبح چھ بجے سو کر اُٹھتا، بڑے اطمینان سے باہر کے نل پر نہاتا، ہوٹل سے چاے پانی کر کے اسکول چلا جاتا۔ واپسی پر ہوٹل سے کھانا کھا کر لوٹتا، شری صاحب کا کمرا اندر سے بند پاتا۔ اپنے کمرے کے تالے میں چابی لگاتا، ہر روز کی طرح وہ ہڑبڑاکرکھڑے ہوتے ہوئے مجھے گھور کر ٹوٹے پٹ والی پردہ پڑی کھڑکی سے سرک جاتی۔
ایک روز سفید لباس میں آپے سے بڑھی سفید زلفوں اورداڑھی والے پروقار شخص کو ، بینک کے منیجر سے زنآٹے کی انگلش بولتے دیکھ کرشری صاحب کو پہچاننے میں دیر نہ لگیِ مجھ کو۔ لیکن اُن کی پروقار شخصیت سے مرعوب ہو کر اُن سے بات کرنے کی جُراَت نہ کر سکا۔ بینک منیجر سے اُن کی گفتگوکے درمیان اندازہ ہوا کہ وہ کہیں سروس میں تھے اور ہر ماہ اپنی پِنشن لینے آتے ہیں۔
اَب شری صاحب اکثرسامنے کے پارک میں دکھائی دے جاتے اورمَیں بھی کبھی کبھار پارک میں چلا جاتا، لیکن اُن کو ہمیشہ تنہاٹہلتے پاتا، یا کسی بینچ پر چُپ چاپ بیٹھے دیکھائی دے جاتے وہ۔
وہ اکثراُن کے ہم راہ ہوتی، جومیری نظریں ملتے ہی بڑے غور سے مجھے دیکھ کرچوکڑی بھرتی ہوئی بھاگ جاتی۔ اُس کے اِس عمل سے مَیں نے اُس پر نظر رکھنی شروع کر دی، تواحساس ہوا کہ وہ پارک میں شری صاحب کے ہم راہ بڑی چوکنّی رہتی اور جیسے ہی اُس کی نظر مجھ پر پڑتی وہ فوراً دبے پانو پارک سے سرک جاتی۔
’’اُس رات اُس واقعے کے بعد سنہ پچاسی کا وہ حیرت انگیز منظر میرے سامنے رقص کرنے لگا، جب میری سینیرٹی کو نظر انداز کر کے میری تقر ری دہی علاقے کے اسکول میں کر دی گئی تھی اور مَیں شکایت لے کر ایک دوپہر ریزیڈینسی سے گزر کر بانس منڈی میں ایجوکیشن منسٹر کے یہاں جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا ریز ڈینسی سے لگے قبرستان سے داہنے طرف ایک جھاڑی کے نیچے زمین پر ایک دوشیزہ ہم جنس کے ہم راہ آنکھیں بند کیے مستی میں پڑی اُچھل رہی تھی اورجیسے ہی مَیں اُس کو اُس کی بے حیائی کا احساس دلانے کی غرض سے کھانسا، اُس نے بِناکسی جھجک کے آنکھیں کھول کرپہلے تومجھ کو بڑے اطمینان سے گھورا، پھر اپنے ہاتھ کا اَدھ کھایا سیب میری جانب اُچھالتے ہوئے کہا، ’’لے، تو بھی لے لے۔‘‘
اُس رات مجھے شری صاحب کے کمرے میں اُن کے بیمار ہونے کا کچھ احساس ہوا، مَیں نے آہستہ سے اُٹھ کر کھڑکی کا پردہ سرکا کرٹارچ سے دیکھا تو وہ عورتوں کے انداز میں شری صاحب کے نیچے مستی میں پڑی تھی، روشنی ہوتے ہی اُس نے کان کھڑے کیے اور مجھے دیکھتے ہی ہڑبڑا کر شری صاحب کے نیچے سے سرک گئی اور شری صاحب شرمندہ سے اپنے بستر پرہی اوندھے ہو گئے۔
مَیں نے دیکھا کہ وہ دروازے کے قریب بڑی ندامت سے سر جھُکائے آنکھیں بند کیے شر مندہ سی سہمی سہمی کھڑی تھی۔ اُس کے بعد سے وہ آج تک مجھے پھر کبھی کہیں دکھائی نہ دی۔
تقریباًدس سال پہلے کے اِس واقعے پر غور کر کے مَیں سوچ رہا ہوں کہ ریزیڈینسی کے قریب کھُلّم کھُلا ہم جنس کے ساتھ مستی میں اُچھلنے والی میری کھنکارسن کر ادھ کھائے سیب کو اُچھال کر کہنے والی کہ لے تو بھی لے لے، حیا دار تھی یا کہ اُس رات کے واقعہ سے حیا کھا کرہمیشہ کے لیے سامنے نہ پڑنے والی، وہ کتیا۔۔ ۔۔ ؟
٭٭٭
چوراہا
’’تھوڑاسراُٹھایا ہی تھا کہ گولی باز کی نا کام جھپیٹ سی میراسر چھوتی گزر گئی۔ میں نے تلملا کر سر دُبکا لیا۔ سر ٹٹولنے پربھیگے نمک سی چپچپاہٹ ہوئی اور سوزش بڑھ گئی۔ دیکھاتو خون نہیں بل کہ پگھلی ہوئی چربی کا لعاب تھا۔‘‘
’’اب تک کئی گولیوں سے بال بال بچ چکا ہوں۔ غالباًیہ گولیاں سفید بلڈنگ کا ایک سوراخ اُگل رہا تھا۔ ذراسنبھل کر جو نشانہ لگایا تو بس ایک چیخ گونجی۔ فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ رائفل کو بوسہ دیا اور خطرہ محسوس کیے بغیرسڑک پر دیکھنے لگا۔ کچھ دیر پہلے اپنے جِس دوست پر نشانہ لگایا تھا، وہ اب خود کو گھسیٹتا ہوانیم کے درخت کی اُوٹ میں محفوظ ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ بڑے اطمینان سے رائفل اُس کی طرف سیدھی کی اوراس کا کام تمام کر دیا۔ دوست تھا تو کیا، غیر مذہبی بھی تو تھا۔ مذہب کے نام پر ہزاروں دوستوں کونچھاور کر سکتا ہوں۔‘‘
’’کبھی پاس اورکبھی دور سے گولیوں کی آوازوں کے ساتھ چیخ وپکار کی بھی آوازیں آ رہی ہیں۔ سڑک پر جا بہ جالاشوں سے خون بہہ بہہ کرگلے مل رہا ہے، دو دریاؤں کی مانند، اوربے تابی کے ساتھ بھی۔ کچھ لوگ نیم مردہ حالت میں چیخوں اور کراہوں کے ساتھ ہاتھ، پانو پٹخ رہے ہیں، اور ایک دوسرے سے امداد کے خواہاں ہیں، حالاں کہ وہ الگ الگ مذاہب کے ہیں، لیکن اب اُنھوں نے ایک اور مذہب اختیار کر لیا ہے۔ زخمیوں کا مذہب، کراہنے کامذہب، ایک ساتھ مرنے کامذہب، ایک ہی طرح رُوح پرواز کرنے کا مذہب، ایک ڈگر پر چلنے کامذہب، ایک منزل پر پہنچنے کا مذہب، ایک جگہ رہنے کامذہب اور ایک ساتھ رہنے کامذہب۔ جہاں کوئی جھگڑا نہ ہو، جہاں کوئی نفرت نہ ہو۔‘‘
’’میری نظر، پاس کی ٹوکری پر پڑی۔ ابھی کارتوس بہت ہیں، حالاں کہ بڑی فراخ دلی سے پھونکے ہیں۔ پڑوسی کے دو ماہ کے بچّے پربھی کارتوس ہی خرچ کیا۔ چاہتا تو پلاسٹک کے کھلونے کی طرح اُس کی ہڈّیاں چُرمُر کر دیتا، لیکن نہیں۔ کارتوس، جمع کس دِن کے لیے کیے ہیں۔۔ ۔ ؟سڑک پر تڑپنے والے غیرمذاہب کے لوگوں پردوبارہ بھی نشانے لگا چکا ہوں۔‘‘
’’سب سے زیادہ لاشیں، تین منزلاعمارت کے سامنے پڑی ہیں۔ پچھلے بلوے میں بھی اُنھوں نے ہی سب سے زیادہ لاشیں گرائی تھیں۔ تین منزلا عمارت والے غیر مذہبی ہیں۔ اسی لیے تو میرے مذہب والوں کو چُن چُن کر مارا تھا، اُنھوں نے۔ کیسے چیخ چیخ کر گرے تھے، بے چارے۔ میرا بس چلے تو اُن ظالموں کوبھون کر رکھ دوں۔ میں بھی کتنا بے وقوف ہوں کہ ایک بم کا انتظام نہ کر سکا۔ اتنے زیادہ کارتوس خریدنے سے کیافائدہ ہوا۔۔ ؟ ایک بم ہوتا توآج وہ عمارت بھسم پڑی ہوتی، اور اُن پانچوں بھائیوں کی ہڈّیاں بھی نہ ملتیں۔ ساری رقم پر یاروں کاقبضہ ہوتا، اورنہ بھی ہوتا تو کیا۔۔ ۔ ؟یہاں ہے ہی کون۔۔ ۔ ؟آگے ناتھ، نہ پیچھے پگھا۔ لے دے کے ایک جیون ساتھی ہے، وہ بھی روز کی بیمار۔ چلوآج تمنّاتو پوری کر لی، مگر تمنّا کیا خاک پوری کر لی۔ اُن پانچوں کوتونہ مار سکا۔ کہتے ہیں، جِس کے سرپر بال نہیں ہوتے ہیں، بلاکاذہین ہوتا ہے۔ ذہین کیا خاک ہوں۔۔ ۔ ؟میرے سر میں سوزش بڑھ گئی، اوراُنگلیاں زخم پر پہنچ گئیں۔ زندگی اورموت میں فرق ہی کتنا ہے۔ یہی گولی ذرا اور دب کر آتی، تو بس ٹیں ہو جاتا۔‘‘
’’شایدکھڑکی والی بلڈنگ سے گلی میں فائر ہوا۔ ایک اجنبی گھبرایا ہوا سڑک پر آیا، نہ جانے کیوں مجھے اُس اجنبی کا چہرہ نہ بھایا، شاید اِس لیے کہ وہ دیکھنے میں میرے مذہب کانہیں لگا۔ میں نے فوراًنال سیدھی کیمگر رک گیا۔ سامنے کھڑکی میں کوئی اجنبی پرنشانہ لگانے آپہنچا۔ میں نے اجنبی پر نشانہ ترک کر کے خود کو محفوظ کر لیا۔ کھڑی والاغیر مذہب کا ہے، اِس لیے اب اجنبی، جِس مذہب کا بھی ہو، میرا دوست ہے۔ دشمن کا دشمن، دوست ہی تو ہوتا ہے۔ مجھے اب اجنبی کو بچانا اور کھڑکی والے کو مارنا ہے۔ میں نے رائفل کارُخ کھڑکی کی جانب کر کے فائر کر دیا۔ چیخ نکلنے کا مطلب یہ کہ نشانہ ٹھیک بیٹھا، اوراِس کے ساتھ اُس کی دونوں جوان بیٹیاں بھی چیخ کر روپڑیں۔ میں نے بڑے اطمینان سے سرنکال کر سڑک پر دیکھا۔ اجنبی، دہشت زدہ سا آگے بڑھ رہا تھا۔ اُس کا غیر مذہب سے وابستہ چہرہ میرے ذہن میں اُبھر آیا۔ میں نے اُس پر بھی نشانہ لگا دیا۔ نشانہ کبھی چوکا ہوتا تو چوکتا۔‘‘
’’سامنے یوکلپٹس کی شاخ پر وہی کھُردرے پروں والا بوڑھا کوّابیٹھا ہے، جِس کو میں اکثراُسی یوکلپٹس پر بیٹھے دیکھتا ہوں۔ بے چارہ نیچے جھونپڑی میں اُتر کرپیٹ بھر لیتا ہے۔ اب جھونپڑی والا بھکاری تو مارا گیا۔ یہ بھی اچھاہوا۔ تھا تو وہ بھی غیر مذہبی۔ وہ کوّابھی شایدبھکاری کے مذہب کا ہے۔ اِسی لیے تووہ میرے نیم کے درخت پرکبھی نہیں بیٹھتا۔ لے روک نشانہ، اوربیٹھ بھکاری کے یوکلپٹس پر۔ کیسا گِراغیر مذہبی، کم بخت۔‘‘
’’کھڑکی والی بلڈنگ سے اچانک ’’بچاؤ بچاؤ‘‘ کی آوازیں آنے لگیں، شاید کوئی وہاں گھُس گیا ہے۔ وہاں اب خطرہ ہی کیا ہے۔ جوتھا، وہ میں نے ختم کر دیا۔ دوجوان لڑکیاں ہی توبچی ہیں وہاں۔ اور دولت ہے، بس۔۔ !جس کا دل چاہے، نوچے کھائے۔ ہو گا کوئی ہم مذہب ہی۔ اگر اِس طرف سے گزرا، اورغیر مذہبی ہوا، تودیکھ لوں گا۔ کھڑکی والی بلنڈنگ سے ہی ایک کتانکل کر گلی میں سوالیہ نشان سا کھڑا ہو گیا۔ اس بلڈنگ سے باہر نکلنے والا کتا، میرے مذہب کا تو ہو نہیں سکتا۔ میں نے رائفل کُتّے کی طرف سیدھی کی، لیکن فائر کرتے کرتے رک گیا۔ یہ کتا اُس بلڈنگ والوں کاتو ہے نہیں۔ اُن کاتوکالا تھا، جس کو میں پچھلے بلوے میں اُڑا چکاہوں۔ یہ توشایداُن لوگوں کا ہے جولڑکیوں کی عزت لوٹ رہے ہیں۔ ممکن ہے، وہ میرے ہی ہم مذہب ہوں۔ ایسے میں کتابے چارہ مفت میں جان سے جائے گا۔ خیر۔۔ ۔ ! دیکھوں گا، یہ جائے گا کہاں۔۔ ۔ ؟غیر مذہبی ہوا، تواُن کے ساتھ اِسے بھی گِن لوں گا۔‘‘
’’کُتّے کے سامنے دولاشیں، خون میں لت پت پڑی ہیں۔ ایک ہم مذہب کی، جِس کوکھڑکی والے نے مارا ہے۔ اور دوسری کسی اور کی، جِس کو میں نے مار کر بدلاپورا کیا ہے۔ دونوں لاشوں سے خون بہہ کرگنگا جمنا کی مانندگلے مل رہا ہے۔ کتاجب ہم مذہبی لاش کو دیکھتا ہے، تو میں اُس پر فائر کر دینا چاہتا ہوں، لیکن جب وہ غیر مذہبی لاش کی جانب مُنہ کرتا ہے، تواُس کی لپلپاتی زبان مجھے بہت پیاری لگتی ہے، اورمیری انگلی ٹریگر سے اُتر آتی ہے۔‘‘
’’ارے۔۔ !یہ رونے کی آواز کہاں سے آنے لگی۔ دور سڑک پر کوئی چیختا پکارتا، اور ہر لاش کو لپٹاتاچمٹاتا چلا آ رہا ہے۔ اچھا۔۔ ۔۔ !تو وہ ہے، ڈھوں گی، بہروپیا کہیں کا۔ آنے دو یہاں تک۔ اُس سے تو سخت نفرت ہے مجھ کو۔ میں جب بھی اُس کو دیکھتا ہوں، میرا خون کھول جاتا ہے۔ آج نہ چھوڑوں گا اُس کم بخت کو۔ کوئی مذہب بھی تو ہو تھالی کے بینگن کا۔ لیکن رکھتا ہے ہر مذہب سے واسطہ۔ کبھی مندر نہیں جاتا، لیکن جب رامائن کی چوپائیاں پڑھتا ہے، تو پورا تلسی داس لگتا ہے۔ گُرودوارے کا کبھی رُخ نہیں کرتا، لیکن اُس رُوز اَجیت سنگھ کے پاپا کی موت پر ایسا بلک بلک کر رو رہا تھا، جیسے، اُس کے ہی پاپاکی موت ہوئی ہو۔ نماز کے نام پرکبھی عید تیوہارپربھی دوٹکریں نہیں مارتا، لیکن میلادالنبی میں آیاتِ قرآنی اور اُس کے ترجمے۔۔ ! کیا بات ہے، اور پھر بیانِ شہادت اِس طرح کرتا ہے کہ کلیجے پھٹنے لگتے ہیں لوگوکے۔ گِرجاکے نام سے تواُس کو چِڑ ہے، لیکن بڑے دِن پر پربھوایشوکے پروچن اِس طرح پڑھتا ہے، مانو، اُن کایہی اوتار ہے۔ اِسی لیے تواِس بہروپیے سے سب نفرت کرتے ہیں۔ آنے دویہاں تک، ایسی جماؤں گا گولی، کہ ساراڈھونگ دھرا رہ جائے گا کم بخت کا۔ دیکھو، کیسا لاشوں سے لپٹ لپٹ کر رو رہا ہے۔ جیسے، سب اُسی کے خاندان کی ہوں۔ ویسے اُس کا یہاں تک پہنچنا ہے تو بہت مشکل۔ میری طرح سب اُس سے نفرت کرتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی بیچ میں ہی بھون دے گا اس حرام زادے کو۔‘‘
’’سامنے مکان کی کھڑکی سے سفید گلاب جیسی بے لباس لڑکی نے چھلانگ لگا دی۔ کیسی کبوتری کی طرح زمین پر تڑپ رہی ہے۔ میں نے رائفل اُس کی جانب سیدھی کر دی۔ شاید وہ اپنی عزت لُٹ جانے کے باعث مرجانا چاہتی ہے۔ نہیں نہیں میں اُس کو نہ ماروں گا۔ اُس کا تڑپنا، تو مجھ کو اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
’’ارے۔۔ !وہ بہروپیاتو ہر جگہ سے بچتا چلا آ رہا ہے۔ شاید اُس کوسب نے اپنے اپنے مذہب کا سمجھ کر چھوڑ دیا۔ لیکن میں نہ چھوڑوں گا، اُس بہروپیے کو۔‘‘
’’سامنے کی گلی میں کتا، میرے مذہب والی لاش کاخون چاٹنے لگا۔ میں نے فوراً رائفل اُس کی طرف کر کے فائر کر دیا۔ وہ ’’کیوں کیوں‘‘ کی آواز کے ساتھ اِس طرح ڈھیر ہو گیا، جیسے، مکّھی، صابن کے جھاگ پر بیٹھ کرٹیڑھی ہو جاتی ہے۔‘‘
’’لڑکی نے تڑپناکیوں بند کر دیا۔۔ ۔۔ ۔ ؟شاید مر گئی۔ اگریہ پتا ہوتا، کہ اتنی جلدی مرجائے گی، تو میں ہی اُس کوماردیتا۔ یہ توہوتا، کہ میں نے اُس کومارا۔ لیکن میں مارتاہی کیوں۔۔ ؟ اُس کاتڑپناتو مجھ کو اچھا لگ رہا تھا۔ اُس کے مر جانے کا افسوس رہے گا، زندگی بھر، کہ وہ میری گولی سے نہ مری، چلواب نشانہ لگاتا ہوں۔ یہ تو رہے گا کہ میں نے بھی گولی جمائی تھی اس پر۔ اُبھرے سینے پر ہی نشانہ پڑے، تب بات ہے۔ میں نے نشانہ لگا دیا۔ ارے۔۔ !وہ تو زندہ تھی، کیسی تھرتھرا کر رہ گئی کبوتری کی طرح۔ بُرا کیا اُس کو مار کر۔ زندہ رہتی، تو یہ تورہتاکہ بلوے میں اسی کی عزت لوٹی گئی تھی۔ لوگ اُنگلیاں اُٹھاتے، توکتنا خوش ہوتا۔‘‘
’’بہروپیا، اب میرے سامنے آپہنچا۔ میں نے رائفل کارُخ اُس کی سمت کر کے اُنگلی ٹریگرپرجمالی، اورچاہاکہ فائر کر دوں، اتنے میں وہ میرے مذہب والی لاش پرگر کربلکنے لگا، یہ سوچ کرمیری اُنگلی ڈھیلی پڑ گ ئی کہ میرے مذہب کا ہوا تو۔۔ ؟اچانک وہ غیر مذہب کی لاش سے لپٹ گیا۔ میری اُنگلی، پھر سختی پکڑ نے لگی۔ میں فائر کرناہی چاہتا تھا کہ میرے اندر کا آدمی چیخ پڑا، ’’ارے۔۔ ! کیا کرتا ہے مورکھ۔۔ ؟اپنے بھائی کو مار رہا ہے۔‘‘ میں نے سرجھٹک کر جودیکھاتو وہ میرے مذہب والی لاش سے لپٹا تھا۔ اُس کوایسا کرتے دیکھ کر میرے دِل سے دماغ کارشتہ ٹوٹ گیا۔ اُنگلی بے جان سی ٹریگر پر دھری رہ گئی۔ اور پھر مجھے اپناوجود گھڑی کے پنڈولم کی مانند جھولتا، پتّے کی طرح فضا میں ڈولتامحسوس ہونے لگا، اور جب میں اپنے وجودکوچیر کر باہر نکلاتو بہروپیا میری رسائی سے بہت دور نکل چکا تھا۔ اب میرے ذہن میں ایک سوالیہ نشان لٹک کر رہ گیا، ’’کیا کسی کے پاس بھی اُس کو مارنے والی گولی نہ تھی، ایسا کیوں۔۔ ؟‘‘
٭٭٭
مُتَلَوِّنْ گرگٹ ، سہ بُرُوْتی
محوِ غفلت تھا مَیں ، پہلے پہل ۔۔۔ ! پھر لگا الکٹران، پروٹان ٹکرا گئے ہوں ، آپس میں، بل کھا کر ۔۔۔ ! اور نا قابلِ برداشت دھماکے سے موالید ثلاثہ کا ذرّہ ذرّہ لرز گیا ، کرب سے، تھرّا کر ۔۔۔ ۔! جیسے کائنات کو، دو پیالوں میں کس کر بگھار دیا ہو کسی نے جامنوں کی طرح، جھلّا کر ۔۔۔ ۔! پھر میرے یخ وجود میں ہلکی سی انگڑائی لی، حرارت نے، مسکرا کر۔۔! اُس کے بعد میرے احساس کے ساکت سمندر کی سطح پر دستک دی ، ہوا کے معصوم جھونکے نے، شرما کر۔۔! اور جب میرے شعور کی کالی رات کو اُفق کی نئی نویلی کرن نے احساس کرایا، اپنے وجود کا، جگا کر۔! تو میرے سامنے ایک عجیب و غریب، لحیم شحیم، نٹ کھٹ، مُتَلَوِّنْ گرگٹ ، سہ بُرُوْتی کھڑا مسکرا رہا تھا۔
’’ت، ت، تم ہو کون ۔۔۔ ۔۔۔ ؟‘‘ مَیں نے جھجک کر پوچھا۔
’’کیوں ۔۔۔ ۔۔ ؟ ڈر گئے کیا ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘اس نے پہلے، اپنی گول گول آنکھیں گھمائیں، پھر فٹا فٹ سارے رنگ بدل کر مجھ پر بھرپور رعب جماتے ہوئے بڑے اطمینان سے پوچھا۔
’’ہاں ۔۔۔ ۔۔!‘‘ مَیں نے اپنے شعور کے تانے بانے توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے ، داعش کی زد میں آئے معصوم و مظلوم بچّے کی طرح گھبرا کر ہانپتے کانپتے جواب دیا۔
’’ڈرنا کیا، اِس میں۔۔ ؟‘‘اُس نے کہتے ہوئے اپنی آنکھیں پھر گھمائیں ، گول مٹول۔ پھر مٹک مٹک کر چلتے ہوئے زمین پر ایک دائرہ بنایا، گول گول۔ پھر اپنا بد رنگا جسم پھُلایا، لمبی دُم کو اوپر اُٹھایا۔ پھر اپنے اندر کے یکے بعد دیگرے سبھی جبلّتی رنگوں کو بدل بدل کر دِکھلایا، پھر اُچھل کر پیروں پر کھڑے ہو کر دونوں ہاتھوں سے اپنی بائیں کالی مونچھ کو زمین میں اور بیچ کی کھچڑی دار مونچھ کو موالید ثلاثہ کے ذرّے ذرّے میں پھیلایا، پھر دائیں سفید مونچھ کو اوپر کی جانب ہوا میں لہرایا۔ یعنی کہ اپنے سارے کے سارے کرتب دکھا ڈالے ، داعش کے کسی خوں خوار سرغنہ کی طرح، اِٹھلا اِٹھلا کر۔
’’دائیں طرف کی تمھاری سفید مونچھ تو جا رہی ہے سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ کو اور بائیں طرف کی کالی مونچھ، تحت الثریٰ کو اور بیچ کی کھچڑی دار مونچھ ، کائنات کو گرفت میں لیے ہوئے ہے ، جو کبھی اوپر کی سفید مونچھ میں پیوست ہونے کی کوشش کرتی ہے، تو کبھی نیچے کی کالی مونچھ میں۔‘‘ مَیں نے ڈرتے ہوئے قصیدہ پڑھا، اُس کا۔
’’تو اس میں حیرت کیا ہے ۔۔۔ ۔۔ ؟ جناب ۔۔۔ ۔۔!‘‘
’’ہے کیوں نہیں حیرت ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’ یہ آج سے تو ہیں نہیں، میری مونچھیں ، یہ تو ازل سے ہیں، بچّو ۔۔۔ ! اور رہیں گی بھی، ابد تک۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں، بھائی ۔۔۔ ۔۔!‘‘
’’پر مَیں نہیں جانتا، اَنکل ۔۔۔ ۔۔!‘‘ مَیں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بھولے انداز میں کہا۔
’’ہو تو تم بڑے فطرتی، نسلاً۔ یعنی کہ عالم، فاضل اور نہ جانے کیا کیا ۔۔۔ ۔ ؟ اُس پر اَشرف المخلوقات بھی اور اتنا نہیں جانتے ۔۔۔ ۔ ؟‘‘
’’نہیں انکل ۔۔۔ ! مَیں نہیں جانتا، یہ سب۔‘‘
’’بڑے بھولے ہو، نا ۔۔۔ ! بھولے کا ہے کو۔ یوں کہو کہ فطرتی، جیسی کہ فطرت ہے، تمھاری۔ یعنی کہ عام لوگوں جیسی۔ وہی تو بول رہی ہے ، اندر سے تمھارے۔ تمھارے آباء و اجداد جیسی، تمھاری اپنی فطرت۔‘‘امریکا ، جیسے شیر نے دریا کا پانی میمنے کے گندا کرنے سے انکار پر، الزام اس کے باپ پر تھوپتے ہوئے، آنکھیں مجھ پر نکالیں۔
’’نہیں ۔۔۔ ۔۔! مَیں نہیں جانتا، فطرت وطرت۔‘‘ مَیں نے بھی میمنے کی طرح، پانی گندا ہونے کی لا علمی ظاہر کی۔
’’آ ۔۔۔ ۔۔۔ ہاہاہا ۔۔۔ ۔۔! کیا بات کہہ دی۔ کوئلے کی کان میں رہ کر، کوئلہ نہیں جانتے ۔۔۔ ۔۔ ؟ سمندر کے واسی، پانی نہیں پہچانتے ۔۔۔ ۔ ؟ آگ میں رہ کر، شعلوں کو نہیں گردانتے ۔۔۔ ؟ اپنی مونچھوں کو، مونچھیں نہیں مانتے ۔۔۔ ۔ ؟ دیکھو ۔۔۔ ۔! دیکھو ذرا غور سے ۔۔۔ ۔!‘‘اس نے رعب سے آنکھیں نکال کر، سینہ تان کر، اپنی مونچھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اشارہ کرتے ہوئے آگے کہا، ’’ یہ ہیں میری، مونچھیں ۔۔۔ ! یہ مونچھیں تو ہمیشہ رہی ہیں، میری۔ صرف میرے ہی نہیں، سبھی کے ہوتی ہیں یہ۔ تمھارے بھی ہیں۔ ہیں کہ نہیں ۔۔۔ ۔ ؟‘‘اس نے آنکھیں مزید نکال کر انگلیاں ہوا میں نچاتے ہوئے پوچھا کہا۔
’’نہیں۔! میرے تو ہیں نہیں مونچھیں۔‘‘مَیں نے اپنے ہونٹوں کے اوپر ٹٹول کر جواب دیا۔
’’ہیں ، ہیں، ہیں ۔۔۔ ۔۔! ہیں مونچھیں، تمھارے بھی۔ مکمل ہیں، پوری طرح ہیں، سمجھے ۔۔۔ ! لیکن ، ابھی پیٹ میں ہیں، دوست ۔۔۔ ! تم محسوس بھی کر رہے ہو۔ لیکن، چھپا رہے ہو تم، ان مونچھوں کو، اپنی فطرت کے مطابق۔ ایک تم ہی نہیں، سبھی چھپائے رہتے ہیں، اِن مونچھوں کو، ایک دوسرے سے اور مصنوعی چہرہ عیاں رکھتے ہیں سب، اپنا اپنا اور جب بھی موقع ملتا ہے ، اینٹھنا شروع کر دیتے ہیں ، اِن مونچھوں کو، بڑے رعب کے ساتھ۔ جو سب کرتے ہیں ، وہی تم بھی کر رہے ہو، بچّو ۔۔۔ ۔!‘‘ گِرگَٹ نے غصّے میں پہلے جسم پھلا یا، پھر فٹافٹ اپنے رنگوں میں بدلاؤ لایا۔ بڑی بڑی مونچھیں دکھا کر امریکا کی طرح اپنے سارے ہتھیاروں اور بین الاقوامی رسوخ کی دھونس دیتے ہوئے، بندر گھڑکی کے ساتھ اُچھل اُچھل کر پہلا مدار ہلا ڈالا۔
’’اچھا، یہ بتاؤ ۔۔۔ ۔! تمھاری اوپر اور نیچے کی مونچھوں میں تضاد کیوں ہے، اتنا ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘ مَیں نے سوال کرنے کی جسارت کی۔
’’تضاد ۔۔۔ ! تضاد کا ہونا بہت ضروری ہے، پیارے ۔۔۔ ! یہ تضاد سبھی میں ہوتا ہے ، بڑی اہمیت ہے تضاد کی، اسی تضاد سے مدارج قائم ہیں۔ مثلاً تحت الثریٰ نہ ہو تو سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ کی اہمیت کیا ۔۔۔ ۔ ؟ اور اگر سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ نہ ہو تو تحت الثریٰ کا کیا مقام ۔۔۔ ؟ نہیں سمجھے ۔۔۔ ؟‘‘ اس نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں ۔۔۔ ۔!‘‘ میں نے انکار کیا۔
’’اور سمجھو گے بھی نہیں، ابھی تم ۔۔۔ ۔۔! چلو سمجھاتا ہوں تم کو، ، تمھاری بھاشا میں، یوں سمجھو کہ کالا رنگ نہ ہو تو، کیا مقام ہے، سفید کا ۔۔۔ ۔۔ ؟ اور سفید نہ ہو تو، کیا اہمیت ہے، کا لے کی ۔۔۔ ۔۔ ؟ گرمی نہ ہو تو، سردی، اور سردی نہ ہو تو، کیا مقام ہے، گرمی کا ۔۔۔ ۔۔ ؟ سمجھے ۔۔۔ ۔۔ ؟ یا نہیں ۔۔۔ ۔۔ ؟ اگر نہیں ۔۔۔ ۔! تو اور سمجھاؤں ۔۔۔ ۔ ؟ یعنی کہ تفصیل سے۔ ویسے مَیں یہ جانتا ہوں کہ تم سمجھتے سب کچھ ہو۔ چوں کہ میری اِن مونچھوں کی طرح تمھارے اندر بھی لبادے ہیں۔ اسی لیے تم اندر کے کالے پن کو، سفیدی کے لبادے سے ڈھانکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہو۔ دنیا والوں کی طرح۔ کیوں کہ تم رہ ہی رہے ہو، اس دنیا میں۔ جو نہ اوپر میں ہے اور نہ نیچے میں۔ نہ سفید میں ہے ، اور نہ کالے میں۔ نہ دن میں ہے ، اور نہ ہی رات میں۔ مطلب یہ کہ نہ اِدھر میں ، اور نہ اُدھر میں۔ چوں کہ مَیں بھی اسی دنیا میں ہوں۔ اسی لیے نہ اِدھر میں ہوں ، اور نہ اُدھر میں۔ دنیا بھی اِدھر ادھر کے چکّر میں لٹک گئی۔ اس لیے تو کچھ بھی نہ رہی۔ ہاہاہا ۔۔۔ ۔۔!‘‘اس نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے آگے کہا، ’’ایک بات اور بتاؤں ۔۔۔ ؟ معرکے کی۔ لو، سن لو ۔۔۔ ۔۔! اگر یہ اوپر ہوتی، تو سبھی کچھ ہوتی اور نیچے ہوتی، تب بھی سبھی کچھ ہوتی۔ اگر یہ اُوپر ہوتی، تو اُوپر ہونے کا اندازہ کس سے لگایا جاتا ۔۔۔ ؟ تحت الثریٰ نہ ہوتا تو ۔۔۔ ۔۔ ؟ غالبؔ نے یہی کہا ہے، ’’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا، ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا مَیں، تو کیا ہوتا ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘ جانتے ہو غالبؔ چچا کو ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘اس نے رک کر سوال کیا۔
’’وہ تو میرے ابّا تھے۔‘‘ مَیں نے خوشی سے اچھل کر بتایا۔
’’ابّا تھے تمھارے ۔۔۔ ؟ اُن کے اولاد تو تھی نہیں کوئی، پھر تم کہاں سے ٹپک پڑے غالبؔ کے ابّا ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘پہلے تو وہ اُچھل کر ہنسا، پھر اس نے اپنے ہاتھ کے پنجے کے بیچ کی انگلی اٹھا کر ہوا میں دائرہ بناتے ہوئے گھمائی اور آگے پوچھا، ’’اپنے ابّا کا کوئی شعر یاد ہے، تم کو ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’شیر ۔۔۔ ۔۔! شیر تو کوئی تھا نہیں، میرے یہاں۔‘‘
’’یہی امید تھی تم سے، غالبؔ کے ابّا ۔۔۔ ۔!‘‘اس نے ٹھٹّا لگا کر آگے کہا، ’’شعر(اشعار) تو بے شمار تھے، اُن کے، کچھ کو تو جلا کرتا پ گئے ہو گے۔ کچھ ردّی میں بیچ کر پتنگیں اُڑا ڈالی ہوں گی، اچھا ہوا، جو کچھ بھی ہوا، اور ہوتا بھی کیا اُن کا ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ پڑھنے والے ہی کتنے رہ گئے ہیں، اُن کے ۔۔۔ ۔ ؟‘‘وہ کچھ سوچ کر آگے بولا، ’’ہاں، تو مَیں کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔ ۔ ؟ ہاں ۔۔۔ ! مَیں کہہ رہا تھا کہ کسی اور نے بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے ، غالبؔ سے ملتا جلتا، ’’ تو مثلِ سیاہی، حرف ہوں مَیں، تو آبِ بقا، اور برف ہوں مَیں، جب حرف مٹا، اور برف گلا، تو اور نہیں ، مَیں اور نہیں۔ یعنی کہ کوئی فرق ہی نہ ہوتا۔‘‘ سمجھے ۔۔۔ ! اور اگر اب بھی نہیں، تو اور آگے سمجھاؤں ۔۔۔ ۔ ؟ لو وضاحت کیے دیتا ہوں۔ یہ کالا پن، وہ ہے، جس سے سفیدی کا معیار قائم ہے۔ مَیں بھی چاہتا ہوں کہ یہ میری بائیں کالی مونچھ ، جو تحت الثریٰ میں پیوست ہے ، کسی طرح سفید ہو جائے اور مَیں پھر اپنے اُسی مقام پر پہنچ جاؤں۔ یا پھر یہ دائیں طرف کی سفید مونچھ، جو سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ کی جانب لپک رہی ہے ، کسی طرح کالی ہو جائے۔ تو بھی بات بن جائے۔ یوں تو نہ اِدھر کا ہوں ، اور نہ اُدھر کا۔ اور یہ جو بیچ کی مونچھ ہے، نا۔۔ ؟ یعنی کہ کھچڑی دار ۔۔۔ ؟ جو موالید ثلاثہ میں پیوست ہے، یعنی کہ دنیا کو جکڑے۔ اوپر نیچے دونوں میں شامل ہونے کے باوجود نہ اِدھر کی ہے ، اور نہ اُدھر کی۔ یعنی کہ معلّق۔ بس اِسی طرح مَیں بھی ہوں اور تم بھی۔ کہیں دور نہ جاؤ ۔۔۔ ۔! سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ اور تحت الثریٰ کی بات بھی چھوڑ و۔۔! دنیا کو ہی لے لو۔ چلے جاؤ۔! اُوپر، یعنی کہ پہاڑ پر۔ کیا ملے گا ۔۔۔ ۔۔ ؟ صاف ہوا۔ شفاف پانی۔ سفید ہی سفید برف۔ ٹھنڈا ٹھنڈا کول کول۔ کیا کہلاتا ہے ۔۔۔ ۔ ؟ پہاڑ ۔۔۔ ! یعنی کہ سب سے بڑا، سب سے اُونچا۔ پھر برف کی طرح پگھلو ۔۔۔ ۔! چلے آؤ بہتے ہوئے نیچے۔ پتھروں سے ٹکراتے ہوئے۔ دنیا کی غلاظت اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے۔ ، کیا بن گئے اب ۔۔۔ ۔۔ ؟ سمندر بن گئے، نا۔۔ ؟ یعنی کہ سب سے بڑے۔ اوپر تھے ، تب بھی بڑے۔ نیچے پہنچے، اب بھی بڑے۔ بیچ میں کیا تھے ۔۔۔ ۔۔ ؟ کچھ بھی تو نہیں۔ یعنی کہ غلاظت ہی غلاظت۔‘‘
’’پانی کیسا ہوتا ہے، سمندر کا ۔۔۔ ؟ کھارا۔ یعنی کہ بدمزہ۔ وہی جب اُوپر چلا جاتا ہے، پھر ٹھنڈا ٹھنڈا کول کول۔ وہی غرور اُسے لے آتا ہے نیچے، میری طرح۔ یعنی کہ غلاظت ہی غلاظت اور جب اس میں عاجزی و انکساری آ جاتی ہے، تو زمین اُس کے وجود کو اپنے میں جذب کر کے پاتال میں لے جا کر پھر شفاف، ٹھنڈا اور شیریں بنا دیتی ہے۔ اگر کچھ بننا چاہتے ہو تو پاتال کے پانی سے سیکھو۔۔! پہاڑ پر رہو ۔۔۔ ! یا پاتال میں۔ پسند کیے جاؤ گے، بیچ میں کچھ نہ پاؤ گے۔ گندے نالے کا کوئی مقام نہیں۔ کچھ بننا ہے دنیا میں۔ تو اندر کے کالے پن کو نکال پھینکو۔ یا پھر سفید پن کو۔ سب کچھ بن جاؤ گے۔ دنیا سلام کرے گی، جھکے گی تمھارے سامنے، یہ دنیا۔ آمیزش میں کچھ نہ ملے گا۔ لیکن مَیں جانتا ہوں۔ کہ مکمل طور سے نکال نہ سکو گے، کسی کو بھی۔ کیوں کہ یہ دنیا نکالنے ہی نہ دے گی، کبھی۔ کوشش تومیں بھی کر رہا ہوں، ازل سے۔ لگتا ہے ، نکال نہ سکوں گا کبھی۔ کاجل کی کوٹھری میں ہوں، نا۔ ؟ دیکھو ۔۔۔ ! اس کالی مونچھ کو ۔۔۔ ! کئی بار کاٹ چکا ہوں اسے، لیکن بار بار نکل آتی ہے، کم بخت۔ اسی طرح تم بھی نہ بچ سکو گے، کاجل کی کوٹھری سے۔ کیوں کہ جو مَیں ہوں ، وہی تم بھی ہو۔ ہو، نا وہی تم ۔۔۔ ۔ ؟ یعنی کہ دنیا والے۔ خربوزے کی طرح ایک دوسرے کا رنگ پکڑ نے والے۔ شاہین جیسی فطرت اب کہاں، تم میں ۔۔۔ ؟ تم بھی چھپائے رہتے ہو اپنی مُتلوِّن فطرت، ایک دوسرے سے، میری طرح۔‘‘
’’آدم علیہ صلاۃ والسلام کا نام تو سنا ہو گا ۔۔۔ ۔ ؟‘‘اُس نے کچھ سوچ کر سوال کیا۔
’’ہاں، ہاں۔‘‘میں نے برجستہ اقرار کیا۔
’’کیوں نہیں، ابّا جو تھے تمھارے وہ، کبھی اُوپر تھے، سفید پوش۔ پھر میرے ایک اشارے پر یعنی کہ قدرتی نظام کے تحت نیچے آ گئے، دھڑام سے ، ہاہاہا ۔۔۔ ہا۔۔! ۔ کہتے ہیں، تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغامبر آئے، دنیا میں۔ سارے کے سارے، سفید پوش۔ سفید چہروں پر مونچھیں لیے، سفید سفید۔ پیغام بھی دیے، اپنی نسل کو۔ لیکن اولادوں کی مونچھیں نکلیں پھر کالی، بھیڑوں جیسی چال والی۔ تم بھی وہی ہو، نا ۔۔۔ ۔ ؟‘‘
’’ مَیں کہاں ۔۔۔ ۔ ؟‘‘میری آواز ممیا گئی، شیر کے سامنے۔
’’کہا نا مَیں نے ۔۔۔ ۔۔ ؟ تم چھپا رہے ہو خود کو، مجھ سے۔ دیکھو ۔۔۔ ! مَیں تمھارا ہی بھائی ہوں، پہچانتا خوب ہوں، تم کو۔ مجھے بے وقوف بنا رہے ہو ۔۔۔ ! دائی سے پیٹ چھپا رہے ہو ۔۔۔ ۔ ؟‘‘اُس نے پھر گھڑکی دی۔
’’نہیں بھائی، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ میں کانپ گیا۔
’’ہے ۔۔۔ ، ہے ۔۔۔ ۔ ، ایسا ہی ہے کچھ۔ ابھی اُتارتا ہوں، تمھارے کپڑے۔ کرتا ہوں ننگا سرِ عام، تم کو، پیاز کے چھلکوں کی طرح۔ سمجھے ۔۔۔ ۔!‘‘اس نے لمبا سانس لے کر آگے پوچھا، ’’اچھا پہلے یہ بتاؤ ۔۔۔ ۔! کہ تم ہو کون ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’اُسی آدم کی اولاد ۔۔۔ ۔۔۔ ! جس کی تم بات کر رہے تھے۔‘‘
’’اوہ ۔۔۔ ۔۔! آدم ۔۔۔ ۔۔ ؟ تھا جو مسجودِ ملائک، تم وہی آدم ہو ۔۔۔ ۔ ؟‘‘
’’ہاں، ہاں وہی وہی ۔۔۔ ۔۔!‘‘
’’ہاں ہاں وہی وہی ۔۔۔ ۔! تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ اوپر سے تو آئے تھے آدم کے روپ میں۔ مگر اب کیا ہو، وہی وہی ۔۔۔ ۔ ؟ میرا مطلب سکھ ہو ۔۔۔ ؟ ہندو ہو ۔۔۔ ؟ یا پھر عیسائی ۔۔۔ ۔ ؟ کچھ تو بولو ۔۔۔ ! میرے بھائی ۔۔۔ ۔ ؟ کون ہو، اُن میں سے تم ۔۔۔ ؟ وہی وہی ۔۔۔ !‘‘ اس نے ایک ہاتھ اٹھلا کر انگلیاں نچاتے ہوئے میرا مذاق بنایا۔
’’ مَیں تو مسلمان ہوں، بھائی۔‘‘
’’مسلمان ۔۔۔ ۔۔! آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ۔۔۔ ۔۔ ؟ شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ۔۔۔ ۔۔! مسلمان اب رہے کہاں ۔۔۔ ؟ ابے نمرود ۔۔۔ ! بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے ، بت گر ہیں۔ ہو گا، تو ہو گا کوئی، ڈھکا چھپا۔ میری نظر میں تو کوئی ہے نہیں مسلمان، اب۔ ہاں، نام نہاد تو ہیں ، بے شمار ہیں۔‘‘اس نے ذرا رُک کر پوچھا، ’’ جانتے ہو ۔۔۔ ؟ نام نہاد مسلمان، کیا ہوتا ہے ۔۔۔ ۔ ؟‘‘
’’بالکل جانتا ہوں۔‘‘مَیں نے وثوق سے کہا۔
’’بتاؤ تو ذرا ۔۔۔ ۔ ؟‘‘اس نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
’’پکا مسلمان، میری طرح۔‘‘ مَیں نے برجستہ بتایا، جس پر وہ ہنستے ہنستے لوٹ گیا، پھر بڑی دیر میں پیٹ پر ہاتھ رکھ کر، ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولا، ’’چلو مان لیتا ہوں کہ پکے مسلمان ہو تم، یعنی کہ نام نہاد۔ مگر یہ تو بتاؤ میرے دوست کہ تم ہو کون سے مسلمان ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’کون سے مسلمان ۔۔۔ ۔۔!‘‘ مَیں نے تعجب کیا۔
’’ہاں بھئی ہاں، ہو کون سے مسلمان ۔۔۔ ۔ ؟ مسلمانوں کی کٹاگری ایک دو تو ہیں نہیں۔ دنیا بھری پڑی ہے، مسلمانوں کی کٹاگری سے ۔۔۔ ! اور ان کی مسجدیں الگ الگ ہیں، بھائی ۔۔۔ ۔۔! خدا ایک اور اس کی مساجد کے خدا، جدا جدا ، یعنی کہ بے شمار ۔۔۔ ۔! سمجھے کہ نہیں ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘اس نے مجھ کو ٹارگٹ مان کر مِزائل داغ دیا۔
’’نہیں‘‘اور میں نے نہیں کہہ کر خود کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔
’’ سمجھو گے بھی نہیں تم، اور نہ ضرورت ہے سمجھنے کی، ابھی تم کو۔ بس، نام ہی کے بنے رہو مسلمان۔ آپس میں مار کاٹ کرنے والے۔ کچھ دنوں میں خود ہی سمجھ جاؤ گے۔ ابھی تو اتنا بتاؤ ۔۔۔ ! میرے بھائی کہ ہو کون سے مسلمان ۔۔۔ ۔ ؟ شام کے نصری ۔۔۔ ۔ ؟ عمان کے عبادی ۔۔۔ ۔ ؟ دروز ۔۔۔ ؟ داعش ۔۔۔ ۔ ؟ کر دوں ۔۔۔ ؟ خارِجی تکفیری ۔۔۔ ؟ داؤدی بوہرا ۔۔۔ ۔۔ ؟ آغا خانی بوہرا ۔۔۔ ۔۔ ؟ ایزدی ۔۔۔ ۔۔ ؟ سنّی ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ یا پھر شیعہ ۔۔۔ ۔ ؟‘‘اُس نے میرا سراغ لگانے کے لیے مجھ کٹی پتنگ کو پھانس کر لانے کے لیے اپنی پتنگ کی ڈھیل مزید بڑھا دی۔
’’ شیعہ شیعہ۔‘‘ مَیں نے برجستہ کہا۔
’’پر کون سے شیعہ ہو بھائی ۔۔۔ ؟ کون سے شیعہ۔۔ ؟ علوی ۔۔۔ ؟ حسنی ۔۔۔ ؟ یا پھر حسینی ۔۔۔ ؟ زیدی ۔۔۔ ؟ باقری ۔۔۔ ؟ جعفری ۔۔۔ ؟ کاظمی ۔۔۔ ؟ رضوی ۔۔۔ ؟ تقوی ۔۔۔ ؟ نقوی ۔۔۔ ؟ عسکری ۔۔۔ ؟ کچھ تو بولو بھائی ۔۔۔ !‘‘ یا پھر آنے والے منہدی ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’نہیں نہیں، شیعہ نہیں۔ مَیں تو سنّی ہوں ، سنّی، یعنی کہ ٹنا ٹن سنّی۔‘‘
’’اوہ ۔۔۔ ! ٹنا ٹن سنّی۔۔ ؟ سمجھ گیا، سمجھ گیا مَیں ، پوری طرح سمجھ گیا، تم سنّی ہو، یعنی کہ ٹنا ٹن سنّی۔ مگر ٹنا ٹن سنّی صاحب ۔۔۔ ۔! یہ تو بتاؤ، ہو کون سے سنّی ٹنا ٹن۔۔ ؟ سلفی۔۔ ؟ شافعی۔۔ ؟ صوفی ۔۔۔ ؟ مالکی ۔۔۔ ؟ حنبلی۔۔ ؟ یا پھر حنفی ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’م۔ م۔ م۔ مَیں حنفی ہوں، حنفی۔‘‘
’’کون سے حنفی بھائی ۔۔۔ ۔ ؟ بریلوی ۔۔۔ ۔ ؟ یا دیو بندی ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’دیو بندی۔‘‘
’’کون سے دیوبندی۔ ؟‘‘وہابی۔۔ ؟ تبلیغی۔ ؟ مظاہری۔۔ ؟ قاسمی۔۔ ؟ جماعت اسلامی۔۔ ؟ مودودی۔۔ ؟ سر سیّد والے نیچری۔۔ ؟ چکڑالوی ۔۔۔ ؟ قادیانی ۔۔۔ ۔ ؟ شمع نیازی ۔۔۔ ۔ ؟ سلفی ۔۔۔ ۔ ؟ یا اہلِ حدیثی ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’ نہیں نہیں۔ مَیں دیو بندی نہیں ، بریلوی ہوں، بریلوی۔‘‘
’’کون سے بریلوی بھائی ۔۔۔ ؟ کون سے بریلوی ۔۔۔ ؟ قادری۔۔ ؟ سہروردی ۔۔۔ ؟ نقشبندی ۔۔۔ ؟ چشتی۔۔ ؟ قطبی ۔۔۔ ؟ فریدی ۔۔۔ ۔ ؟ صابری۔ ؟ واحدی ۔۔۔ ؟ برکاتی۔۔ ؟ اَشرفی۔۔ ؟ رِضوی ۔۔۔ ؟ عطاری ۔۔۔ ۔ ؟ قدیری ۔۔۔ ۔ ؟ فردوسی ۔۔۔ ۔ ؟ یاسالمی۔۔ ؟‘‘اصولی؟ اخباری؟ ملنگ؟ اثنا عشری خوجہ۔ ؟ مولائی۔ ؟ دیوبندی ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ بریلوی ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ سلفی ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ حنفی ٹنا ٹن۔۔ ؟ شافعی ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ اہلِ حدیث ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ مواحدون ٹنا ٹن۔۔ ؟ خواجہ ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ یا کہ پھر صوفی ٹنا ٹن ۔۔۔ ۔ ؟ تم ہو کون سے سنّی ٹنا ٹن، یہ تو بتاؤ ۔۔۔ ۔ ؟‘‘
’’ کون سے سنّی ۔۔۔ ۔ ؟‘‘ مَیں نے کہا۔
’’ارے بھئی ہاں۔ مجھے لگتا ہے کہ تمھیں پتا ہی نہیں کہ تم ہو کون ۔۔۔ ۔۔ ؟ بھئی ٹنا ٹن سنّی صاحب ۔۔۔ ۔! اگر تم نے بتا بھی دیا کہ مَیں فلاں سنّی ہوں ، تو مَیں پھر پوچھوں گا کہ تم سیّد ہو ۔۔۔ ۔ ؟ ادریسی ہو۔۔ ؟ قریشی۔ ؟ عباسی۔۔ ؟ تیلی۔۔ ؟ نائی۔ ؟ دھوبی۔۔ ؟ تنبولی۔ ؟ بہشتی۔۔ ؟ رنگریز یا انصاری۔۔ ؟ یا کہ پٹھان ۔۔۔ ۔ ؟ سلمانی، فاروقی، میراثی، کون ہو ٹنا ٹن بھائی ۔۔۔ ۔ ؟‘‘
’’پٹھان، پٹھان، پٹھان، بھئی پٹھان ہوں مَیں تو پٹھان، ٹنا ٹن پٹھان۔‘‘ مَیں نے برجستہ جواب دیا۔
’’پٹھان۔۔! او۔۔ ہ۔۔! پٹھان۔۔ ؟ یعنی کہ خان بھائی۔ لڑھی جوت، یا لال منہ کے پٹھان یا پھر چوڑی ہڈّی والے یعنی کہ۔۔‘‘
’’ہاں ہاں ۔۔۔ وہی وہی۔‘‘میں نے اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی چوڑی ہڈی والے پٹھان ہونے کی حامی بھر لی۔
’’خان بھئی، پہلے اپنی پٹھانوی پر ایک لطیفہ سن لو، ایک پٹھان تھے یعنی کہ خان صاحب ، اور ایک تھے پنڈت جی۔ دونوں کی ایک دوسرے سے دوستی تھی، دانت کاٹی اور ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا بھی۔ ایک بار ہندو مسلم فساد ہوا، تو خاں صاحب نے پنڈت جی کے یہاں جانا بند کر دیا، لیکن پنڈت جی برابر آتے رہے، خان بھائی کے یہاں۔ پنڈت جی نے خاں صاحب سے ان کے نہ آنے کا شکوہ کیا تو خاں صاحب نے کہا، ’’ پہلے آپ مسلمان ہو جائیں ، تب ہی آؤں گا، ورنہ نہیں۔‘‘پہلے تو پنڈت جی بہت چکرائے، لیکن جب محبت نے جوش مارا تو بے چارے مجبور ہو گئے۔ انھوں نے خاں صاحب سے کہا، ’’ مجھے بتاؤ ۔۔۔ ۔! مَیں کیسے مسلمان بنوں۔۔ ؟‘‘خان صاحب نے برجستہ کہا، ’’ قلمہ (کلمہ )پڑھو۔۔! قلمہ (کلمہ)۔‘‘ پنڈت جی نے جوش میں آ کر کہا، ’’اچھا، پڑھاؤ کلمہ۔۔!‘‘ خاں صاحب پہلے تو کچھ دیر کے لیے خاموش رہے، پھر چکرا کر بولے، ’’ قلمہ(کلمہ) تو بھائی مجھے بھی نہیں آتا ۔۔۔ !‘‘ لگتا ہے اسی طرح کے خان ہو، تم بھی ۔۔۔ ۔۔ ؟ ٹنا ٹن۔‘‘
’’اچھا ۔۔۔ ! اچھا، اب تم بتاؤ ۔۔۔ ۔۔! کہ تم کون ہو ۔۔۔ ۔ ؟‘‘ مَیں نے گِرگَٹ سے پوچھا۔
’’ارے۔۔! کمال ہے، کمال ہے بھائی ۔۔۔ ! ساری دنیا جانتی ہے ، اور تم نہیں پہچانتے مجھے ۔۔۔ ۔ ؟‘‘
’’نہیں، مَیں نہیں پہچانتا ۔۔۔ ۔!‘‘مَیں نے برجستہ کہا۔
’’ نہیں پہچانتے ۔۔۔ ؟ تو سنو ۔۔۔ ! تم نے اقبالؔ کو تو پڑھا ہو گا۔۔ ؟ ، ’’گر کبھی خلوت میسّر ہو تو پوچھ اللہ سے ، قصّۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو، مَیں لرزتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح، تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو۔‘‘
’’نہیں، مَیں نے تو نہیں پڑھا۔‘‘
’’نہیں پڑھا، تو تم کیا جانو، اُن کو ۔۔۔ ۔ ؟‘‘
’’ہاں، جانتا تو ہوں۔‘‘
’’جانتے ہو ۔۔۔ ۔! مگر کیسے ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’وہ تو میرے چچا تھے، گھنگرو باندھ کر ناچتے تھے اور دوسروں کو بھی سکھاتے تھے۔‘‘ مَیں نے بتایا اور اس نے بڑے زور سے ٹھٹّا لگایا۔
’’چلو شکر ہے ، اتنا تو جانتے ہو اقبالؔ کو۔ وہ ناچتے تھے اور دوسروں کو بھی سکھاتے تھے۔‘‘اس نے ٹھنڈی سانس لے کر آگے کہا، ’’وہ بے چارے ناچ ناچ کر خود کو گھایَل کر کے زندگی بھر دوسروں کو درس دیتے دیتے مر گئے اور تم ان کے گھنگروؤں کی آواز بھی نہ سمجھ سکے، یار ۔۔۔ ۔۔! اور اَب سمجھ بھی نہ سکو گے۔ اب تو اُن کے گھنگروؤں کی وہ دل دوز جھنکار اردو ہی چھین لی، مَیں نے، تم سب سے، جس میں درس تھا اُن کا اور تمھارا سبھی کلچر بھی۔ جس سے شناخت تھی تمھاری۔ اَب نہ رہا بانس اور نہ بجے گی بانسری، اب تو اپنی ہی بجے گی بانسری اور بج بھی رہی ہے۔ سنو ۔۔۔ ! اردو ختم کرنے والا کون۔۔ ؟ حوّا کو بہکانے والا کون۔۔ ؟ آدم کو نیچے لانے والا کون ۔۔۔ ؟ دنیا کو ملکوں میں بٹوانے والا کون ۔۔۔ ۔ ؟ مذہبی تفریق پھیلانے والا کون۔۔ ؟ مسلمانوں کو مسلکوں میں بٹوانے والا کون۔۔ ؟ انسان کو شیطان بنانے والا کون ۔۔۔ ؟ سمجھے ۔۔۔ ۔ ؟ مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا، ہم نے اُسے انسان سے شیطان بنایا۔ انسان تو انسان، بھگوان کی ہر شے کو مذہبوں کے رنگ دے ڈالے ہیں، مَیں نے، سمجھے ۔۔۔ ؟ یہاں تک کہ چرندوں، پرندوں، سبزیوں، پھلوں، اَناجوں، کھانوں، مٹھائیوں، دِنوں، مقاموں، مکانوں کی گرستیوں، سمتوں، پیڑ، پودوں، ندیوں، پتھروں، لباسوں اور رنگوں تک کو مذہبی رنگوں میں رنگ ڈالا ہے۔ ساری دنیا میں میری ہی حکومت ہے، اِس وقت۔ یہ اُونچ نیچ، ذاتیں، میری ہی ہیں کراماتیں۔ ننگا ناچ، مَیں ہی تو کروا رہا ہوں، دنیا میں۔ یہاں تک کہ سڑکوں پر نیم برہنہ دوشیزائیں مٹکتی پھرتی ہیں، چھیل چھبیلی، خوش بودار، تنگ کپڑوں میں، اپنے جسموں کی نمایش کرتی ہوئی، سرخی پاؤڈر پوتے ، میرے ہی اشارے پر تو۔ تو تم کیا سمجھتے ہو، یہ سب جنّت میں جائیں گی ۔۔۔ ۔۔ ؟ ان کو بہلا پھسلا کر، بہکا کر بے غیرت، بے شرم، بے حیا اور ننگا اسی لیے کر دیا ہے کہ یہ سب جہنّم میں جھونکی جائیں، سمجھے ۔۔۔ ۔۔ ؟ اور مَیں عیش کروں، اُن کے ساتھ، سمجھے ۔۔۔ ۔ ؟ عورتیں پسند ہیں، مجھ کو، کیوں کہ یہ اپنے شوہروں کی اتنی نہیں مانتیں ، جتنی کہ میری۔ حوّا نے بھی میری مان کر آدم کو گندم کھلایا تھا۔ مَیں انھیں میں رہتا بھی ہوں، زیادہ تر یعنی کہ بٹورے پر۔ وہیں اپنے رنگ ڈھنگ بدل بدل کر دل بہلاتا ہوں، اِن کے ساتھ۔‘‘
’’لے تو اُن کے شوہروں کو بھی جاؤں گا جہنم میں۔ پیر دبوانے کے لیے، اپنے۔ کیوں کہ وہ اپنی عورتوں کو آوارہ چھوڑے ہیں، بے لگام۔ یہ لوگ اپنے ماں باپ کی خدمت نہ تو خود کرتے ہیں اور نہ اپنے بیوی بچّوں سے کرواتے ہیں۔ ضرورت تو بچّوں کی بھی ہو گی، وہاں۔ اسی لیے تو بگاڑ رکھا ہے، اُن کو۔ وہ اب میرے اشاروں پر چلتے ہیں، وہ اب بڑوں کا کہنا نہیں مانتے اور نہ ہی پڑھنے میں من لگاتے۔ ٹی۔ وی اور موبائل پر فیس بک وغیرہ میں لگ رہتے ہیں۔ یہ لت مَیں نے ہی ڈال رکھی ہے، اُن میں۔‘‘ گِرگَٹ نے اچھل اچھل کر ناچتے ہوئے بتایا۔
’’مگر یہ تو بتاؤ ۔۔۔ ! ایسا تم کر ہی کیوں رہے ہو ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘
’’اپنی بھلائی کے لیے۔‘‘
’’اس میں کیا ہے تمھاری بھلائی ۔۔۔ ۔ ؟‘‘ مَیں نے تعجب سے پوچھا۔
’’جس کے گناہ زیادہ ہوں گے وہی تو جائے گا جہنم میں، سب جانتے ہیں کہ مَیں نے بے شمار خدا کی عبادت کی ہے تمھاری بہ نسبت۔ بس ایک نافرمانی پریہ حشر ہوا میرا۔ اور تم سب تو بے شمار نافرمانیاں کرتے ہو روز، اللہ کی، تم لوگ تو ہم سے کہیں زیادہ گناہ گار ہو۔ مَیں اَب بھی تم سب سے لاکھ گنا اچھا ہوں۔ اس لیے میں جاؤں گا بہشت میں، یہاں تک کہ دس جانور تک بہشت میں جائیں گے، اصحاب کہف کا کتا اور زبیر عَلَیہِ السّلام کا گدھا بھی۔ اور میاں تم جیسے حضرت یعنی کہ اشرف المخلوقات جہنم میں۔ مَیں تو خوب عیش کروں گا بہشت میں حسیناؤں کے ساتھ۔ او۔ کے۔‘‘ گِرگَٹ نے کہتے ہوئے اپنا سینہ تان کر اپنے سارے جسم کے سفید رنگ کو سمیٹ کر سفید مونچھ میں پیوست کر کے، سفید مونچھ کو مزید سفید کیا اور پھر ایک بھیانک آواز کے ساتھ، بھر پور زور لگاتے ہوئے آسمان کی جانب اُٹھاتا گیا، اُٹھاتا گیا۔ اور پھر ایک بھیانک دردناک چیخ کے ساتھ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کی سفید مونچھ آگ سے جھلس کر کالی پڑ گئی۔
’’اس کا مطلب کہ توابلیس ہے ۔۔۔ ۔۔ ؟‘‘جب وہ کافی دیر بعد ہوش میں آیا تو مَیں نے مسکرا کر پوچھا۔
’’تم نے صحیح پہچانا، دوست ۔۔۔ ۔! مَیں ابلیس ہی ہوں۔‘‘
’’اچھا ٹھہر ۔۔۔ ۔! تیرا علاج تو ہے میرے پاس ۔۔۔ !‘‘ اور جیسے ہی لاحول پڑھا مَیں نے۔ وہ بجلی جانے پر ٹی۔ وی۔ کے اسکرین سے تصویر کی طرح غائب تو ہو گیا۔ لیکن میرے وجود کے سیہ خانوں میں سہ بُرُوْتی کے کَلّے پھوٹنے لگے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے پانچ افسانوں کی فائلیں فراہم کیں۔( باقی افسانے انٹر نیٹ سے حاصل ہوئے)
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید