فہرست
فقیروں کی پہاڑی
بڑی بڑی آنکھوں والے خوش شکل نوجوان نے گھسی ہوئی بش شرٹ میلی پتلون اور شکستہ جوتے پہن رکھے تھے۔ اس نے ریستوران کے اندر جا کر کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے ہوئے ایرانی سے کچھ دریافت کیا۔ ایرانی نے انکار میں سر ہلا دیا تو نوجوان نے خاموشی سے چار مینار کا ایک پیکٹ خریدا اور کچے برآمدے کی ایک بنچ پر بیٹھ کر سامنے کی رونق دیکھنے لگا۔۔۔
برآمدہ در اصل ایک بڑا سا چھپر تھا، لیکن اندر پختہ ہال کی دیواروں پر سبز رنگ کے ٹائل لگے تھے اور ایک بڑے سے آئینے پر ایک بے حد بھدی اور بھیانک ’’سینری‘‘ پینٹ کی گئی تھی۔۔۔
سنگ مرمر کی گندی میزوں پر زائرین ناشتہ کرنے میں مصروف تھے اور ایک کونے میں ’’بوائے‘‘ ایک گندے پانی کی بالٹی میں پلیٹیں ڈبو ڈبو کر نکال رہا تھا۔ چھپر کے باہر پہاڑی کے دامن میں موٹریں، لاریاں اور ڈانڈیاں کھڑی تھیں۔ سرخ مٹی کے کچے راستے پر بگولے اڑ رہے تھے اور سامنے پہاڑی کی تین مہیب چوٹیاں دھوپ میں چمکنے لگی تھیں۔ اس وقت صبح کے نو بجے تھے۔ نوجوان کی نظریں منظر کا جائزہ لیتے لیتے مس موہنی بالا پر جارکیں جو اپنی طویل کار سے اتر کو ڈانڈی میں سوار ہو رہی تھی۔ اس کی فربہ ’’ممی‘‘ نے ٹفن باسکٹ اٹھا رکھی تھی۔ دوسری ڈانڈیوں میں بوڑھے پارسی اور بیمار یاتری سوار ہو رہے تھے۔ بیش تر زائرین جوق در جوق پہاڑ کی سیڑھیاں چڑھنے میں مصروف تھے۔ لاریوں کے اڈے اور پہاڑی کے درمیان ایک جھیل سی تھی جس میں پتھروں کی پگڈنڈی بنی تھی۔۔۔
ایک بے حد دراز قد کا ’’زنانہ‘‘ سرخ بال کندھے پر جھٹکائے پگڈنڈی کے وسط میں کھڑا تھا۔ مس موہنی بالا کی ڈانڈی جب اس کے پاس سے گذری تو اس نے ہاتھ مٹکا کر کہا۔۔۔
’’مرادپوری ہونے پر پورے سو روپے لوں گی‘‘ موہنی بالا سہم کر اپنی جاپانی چھتری کی اوٹ میں چھپ گئی۔۔۔
نوجوان سگریٹ پھینک کر چھپر سے نکلا اور ڈانڈی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔۔۔
پہاڑی کے نیچے سیمنٹ کا نیا راستہ بن رہا تھا۔ درگاہ کے برہمن مجاور پھاٹک کے پاس کرسی پر بیٹھے زائرین کو انگریزی کا پمفلٹ دیتے جا رہے تھے جس میں سڑک پکی بنانے کے لیے عطیوں کی درخواست کی گئی تھی۔
نوجوان نے پھاٹک میں داخل ہو کر سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کیا۔ یہاں سے پہاڑی کے گھنے جنگل میں بنی ہوئی فقیروں کی صاف ستھری جھونپڑیاں شروع ہوتی تھیں جن کے سامنے مقدس تصاویر، مالائیں اور تسبیحیں بک رہی تھیں۔ ایک فقیر نے ایک تین سالہ بچے کو شیو مہاراج کے بھیس میں ایک چٹان پر بٹھا رکھا تھا۔ بچہ بڑے صبر سے چپ چاپ بیٹھا تھا۔ سیڑھیوں کے دونوں جانب ان گنت کوڑھی صدائیں لگارہے تھے۔ جھونپڑیوں کے محتصر برآمدوں میں کاسے رکھے تھے۔
ایک زمانہ تھا جب وہ کالج میں پڑھتا تھا اور سوچا کرتا تھا کہ ہیرو بنے گا اور مس موہنی بالا کا لیڈنگ میں (Leading Man) کہلائے گا۔ یہ بچکانہ خواب تو خیر بہت جلد ٹوٹ گیا مگر آج، اس وقت مس موہنی بالا کا بے ضرر سا تعاقب کرنے میں کیاحرج تھا؟ لہذا وہ ڈانڈی کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ کوڑھیوں کی اس افراط کے علاوہ جو وطن عزیز کے دو بڑے فرقوں، ہندو اور مسلمان سے تعلق رکھنے کا فخر رکھتے تھے، پہاڑی پر ہر وضع کا اپاہج موجود تھا۔ اندھے، لنگڑے، لولے، لنجے اور ایسے بھکاری اور بھکارنیں جن کے محض دھڑ ہی سالم تھے۔ چٹانوں پر آڑے ترچھے لیٹے صدائیں لگا رہے تھے۔ لمبے چوغے والے آنکھوں میں سرمہ لگائے، ہزار دانہ تسبیح پھراتے، قلندر، مجذوب، بھنگ کے نشے میں مگن سادھو۔۔۔
فقیروں کی یہ عظیم الشان ’’کامن ویلتھ‘‘ یقیناً لرزہ خیز اور حیرت انگیز تھی۔ یاتریوں کی قطاروں میں سندھی تاجر اور جارجٹ ناؤن کی ساڑھیوں میں ملبوس ان کی خواتین، ٹرانزسسٹر سنبھالے بانکے، چھیلے لڑکے، بوہرے، خوجے، پارسی، گجراتی، مرہٹے، پنجابی، ہندو اور مسلمان سب ہی رواں دواں ہانپتے کانپتے، بھکاریوں کے سامنے سکے پھینکتے، چوٹی کی طرف چڑھنے میں منہمک تھے۔ اوپر جا کر جنگل گھنا ہو گیا۔
ایک ریستوراں میں چند منٹ سستا کر نوجوان پھر آگے بڑھا۔ ہر کٹھن چڑھائی کے بعد صاف ستھرے چائے خانوں میں زائرین کے گروہ چائے اور شربت سے تازہ دم ہونے میں مصروف تھے۔ نیچے گہری گھاٹیاں تھیں، اور لق و دق میدان، کھیت۔ بہت دور عظیم الشان شہر تھا، اور سمندر، اور ساری دنیا۔
موہنی بالا کی ڈانڈی اب نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ ایک ریستوراں میں قوالی ہو رہی تھی۔ چاروں طرف درختوں میں چاند تارے والے ہرے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ نیچے ایک جھرنا گر رہا تھا۔ ایک کوڑھی چٹان پر لیٹا اپنے زخمی ہاتھوں سے روٹی کھانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ نوجوان چڑھائی کرتا رہا۔ اچانک ایک بھیانک آواز اس کے کانوں میں آئی ’’بڑے بڑے سیٹھ آئے۔۔۔
ہو۔۔۔
بڑے بڑے صاحب آئے۔۔۔
ہو۔۔۔
بڑے بڑے دھنی آئے۔۔۔
ہو۔۔۔‘‘
یہ صدا چٹانوں سے ٹکراتی اور گونجتی اوپر بہت دور سے آ رہی تھی۔ اور اس کی یکسانیت ہولناک تھی۔ نوجوان نے متحیر ہو کر اسے سنا اور پھر آگے بڑھا۔ بہت سے موڑوں سے گزرنے کے بعد اس آواز کا سر چشمہ اچانک اس کے سامنے آ گیا۔۔۔
وہ ایک بے حد لمبا فقیر تھا، جو شاید اپنی پلکیں بھی نہیں جھپکاتا تھا۔ اور ایسا لگ رہا تھا گویا کسی قدیم مصری ممی کو سیدھا کھڑا کر کے اس میں کوک بھر دی گئی ہو اور وہ ممی بے تکان رٹنے جا رہی ہو: ’’بڑے بڑے سیٹھ آئے ہو۔۔۔ بڑے بڑے۔۔۔‘‘
اس نے گیروا چوغہ پہن رکھا تھا اور ایک اونچی خطرناک اور تنہا چٹان پر ڈنڈا سنبھالے اس طرح کھڑا تھا جیسے زائرین کے مقدر میں جو کچھ لکھا ہے اس کا پیغامبر ہو۔
یاتریوں کا جلوس چٹان کے نیچے سے گزر رہا تھا۔ لمبے فقیر نے چند غریب یاتریوں کو نگاہِ غلط انداز سے دیکھا اور آسمان کی طرف منہ اٹھائے اپنی رٹ میں مصروف رہا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ ایک ہائی کلاس اور نک چڑھا فقیر تھا اور ایک منفرد تکنیک اور شخصیت کا مالک ہونے کی وجہ سے ہما شما کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ پہاڑی کا راستہ ابھی آدھا طے ہوا تھا۔ ذرا اوپر جا کر نوجوان کو چند خوش باش بچّیاں نظر آئیں جو سیڑھیوں کے کنارے کھیل کود میں مشغول تھیں۔ ’’اری کم بختو، کام کا وقت آ گیا۔۔۔‘‘
ان کی ماں نے جو دوسری چٹان کے نیچے کاسہ لیے بیٹھی تھی۔ زور سے انہیں ڈانٹا۔۔۔
لڑکیوں نے فوراً ہنسنا بند کر کے ایک درخت کے پیچھے سے چٹائی کا ٹکڑا اور ٹین کے خالی ڈبّے نکالے اور چٹائی کنارے پر بچھا کر ہاتھ پھیلا دیئے۔۔۔
نوجوان کو یہ منظر دیکھ کر بے اختیار ہنسی آ گئی۔۔۔
بچّیوں کی چودہ پندرہ سالہ بڑی بہن نوجوان کو ہنستا دیکھ کر برا مان گئی اور ہونٹ نکال کر بسورنے لگی۔ نوجوان نے دس پیسے اس کے سامنے پھینکے اور سوچ میں ڈوبا آگے بڑھ گیا۔۔۔
اگلے ریستوراں میں پہنچ کر اس نے لیموینڈ کی ایک بوتل خریدی اور چھوکرے سے کہا کہ اسے نیچے لڑکی کو دے آئے۔۔۔ پھر وہ اور آگے بڑھا۔۔۔
راستے کی ڈھال پر ایک جھونپڑی نظر آ رہی تھی۔۔۔
نوجوان اس کے نزدیک ایک پتھر پر سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔ جھونپڑی میں ابھی صبح ہوئی تھی خاتون خانہ چائے کے برتن دھو رہی تھیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر انہوں نے ایک ٹرنک میں سے ایک چیتھڑا ساری نکالی۔ اپنی ثابت ساری اتار کر گوڈر زیب تن کیا اور ایک رکابی میں سے بکری کا خون انگلیوں پر لے کر چہرے اور بانہوں پر زخموں کے نشان بنائے اس دوران میں صاحب خانہ اپنے پیروں پر گندی پٹیاں باندھ چکے تھے پھر شہتیر میں سے بیساکھی اتا کر انہوں نے اپنے نونہالوں کو آواز دی: ’’منگو۔۔۔ چھٹکو۔۔۔ شبراتی۔۔۔ ارے شبراتی بے غیرت کہاں ہے؟‘‘
ایک دس سالہ لڑکا منہ پھلائے جھونپڑے کے پچھواڑے بیٹھا گٹکے کھیل رہا تھا۔ ’’ابے آج کیا دھندے پر نہیں جانا؟‘‘
والد نے گرج کر پوچھا۔ ’’ابآ۔۔۔ ابا۔۔۔ یہ شبراتی کا بچہ کہتا ہے کہ آج سے بھیک نہیں مانگے گا۔ اسکول میں پڑھے گا اور کام کرے گا۔۔۔‘‘
بڑے لڑکے نے اندر سے آواز لگائی۔ والد نے باہر آ کر شبراتی کے ایک تھپڑ رسید کیا ’’سالے موالی۔۔۔ کبھی تیرے باپ دادا نے بھی کام کیا تھا جو تو کرے گا! ناک کٹائے گا؟ بدمعاش!‘‘
ایک اور تھپڑ پڑا تو بچے نے منہ پھاڑ کر رونا شروع کیا۔ متحیر نوجوان کو جھاڑی میں سے جھانکتا دیکھ کر اچانک والدہ دہاڑیں: ’’ارے کون ہے رے؟‘‘
’’کچھ نہیں بڑی بی۔۔۔ ذرا سستا رہا تھا۔‘‘
نوجوان نے گھبرا کر جواب دیا۔ ’’بڑی بی! ارے بڑی بی ہو گی تیری ہوتی سوتی۔۔۔ جوانا مرگ میں تجھے بڑی بی سجھائی دیتی ہوں؟ صُبو صُبو آ کر پرائی بہو بیٹیوں کو تاکتا ہے۔ انگار لگے تجھے۔۔۔‘‘
’’اری نیک بخت، چپ ہو جا اب‘‘۔ معقولیت پسند صاحب خانہ نے بیوی کو سمجھایا اور مصنوعی طور پر کراہتے ہوئے باہر نکالے۔ نوجوان لپک کر پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھ گیا۔
اب گہما گہمی بہت بڑھ گئی تھی۔ روضہ بالآخر قریب آ چکا تھا۔ چائے خانوں میں بے حد رونق تھی۔ پھولوں اور ہاروں کی دوکانیں خوشبو سے مہک رہی تھیں۔ بڑی بڑی دوکانیں دیوی دیوتاؤں، مکّے مدینے اور اس درگاہ کی رنگین تصاویر، دیگر تبرکات اور اگر بتیوں کے رنگین پیکٹوں سے جگمگا رہی تھیں۔ گلیوں میں تازہ چھڑکاؤ کیا گیا تھا۔ لنگر تقسیم ہونے والا تھا۔
فوجی جوانوں کی ایک ٹولی ’’حاجی بابا کی جے‘‘ کے نعرے لگاتی روضے کے صحن سے برآمد ہوئی اور مارچ کرتی نیچے اتر گئی۔
دوسری طرف سے اسکول کے بچوں کا ایک گروہ آ رہا تھا۔ ان کے ماسٹر دھوتی باندھے، ماتھے پر تلک لگائے ’’حاجی بابا کی جے‘‘ بولتے اوپر چڑھنے لگے۔ مزار کے صحن میں بھیڑ لگی تھی۔ عود لوبان سے بوجھل اس فضا میں برہمن مجاور کی لڑکیاں نوگزی مرہٹی ساڑیاں پہنے روضے کی کنجیاں سنبھالے ایک نقشین دروازے سے نکل کر دوسرے دروازے میں داخل ہو گئیں۔ نوجوان جو خود کو ملحد سمجھتا تھا، صحن سے نکل روضے کے عقب میں جا نکلا، جہاں گھنے درختوں کی چھاؤں میں چند اور مزار موجود تھے اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پہاڑی کے پچھلے ڈھال پر درختوں کے کنج میں چھپی ہوئی کٹیوں میں مسلمان بزرگ اور ہندو یوگی خاموشی اور گم نامی کے عالم میں عبادت اور مراقبے میں مصروف تھے۔ نوجوان کو جھرجھری سی آئی۔ ایک دنیا یہ بھی ہے۔۔۔
اس نے سوچا۔ ’’تم چوٹی پر پہنچ کر بہت حیران نظر آتے ہو!‘‘ کسی نے اسے مخاطب کیا۔ اس نے چونک کر نظریں اٹھائیں۔ نورانی چہرے اور سفید داڑھی والے ایک بزرگ ایک کٹیا سے نکل کر پہاڑی چشمے کی طرف جاتے ہوئے اس کے سامنے ٹھٹھک گئے تھے۔ ان کے پس منظر میں ایک مہیب چٹان ایستادہ تھی۔ ’’جی۔۔۔ جی نہیں تو۔۔۔‘‘
نوجوان نے ذرا جھینپ کر کہا ’’مگر یہ پہاڑ خاصا حیرت انگیز ہے۔‘‘
’’دنیا کی کون سی چیز حیرت انگیز نہیں۔۔۔ زندگی، موت، دکھ، سکھ، عورت، مرد، ہر شے پر اسرار ہے۔ اور کوچ کا نقارہ دن رات بج رہا ہے۔‘‘
’’پھر کرنا کیا چاہئے؟‘‘
’’بے تعلقی۔۔۔‘‘
نوجوان نے ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اور اس کی ویران زندگی سراب کے ریلے کے مانند اس کے سامنے سے گزر گئی۔ وہ کالج سے نکل کر کلرک بھی نہیں بن سکا تھا۔ اور اس کی بچپن کی محبوبہ، کانتا دیوی کے نام سے مشہور ہیروئن بن چکی تھی۔ وہ اپنا قصبہ چھوڑ کر اس کے پیچھے اس شہر تک آیا تھا۔ مگر کانتا اب اسے پہچاننے سے منکر تھی۔ ہانپتی کانپتی وہ شہرت اور کامیابی کے پہاڑ کی اس چوٹی پر پہنچ چکی تھی جہاں موہنی بالا پہلے سے براجمان تھی۔ ماضی کی وہ سیدھی سادی بھولی لڑکی جواب کانتا دیوی کہلاتی تھی۔ اس کے شب و روز آج کل محض موہنی بالا کو نیچا دکھانے کی فکر میں گزر رہے تھے۔ موہنی بالا کی ممی اور مس کانتا دیوی کی ممی دونوں وقتاً فوقتاً پریس کو ایک نہ ایک بیان دیتی رہتی تھیں۔
نوجوان نے آنکھیں کھولیں تو بزرگ عصا ٹیکتے چشمے کی طرف چل پڑے تھے۔ ’’سب دل کے بہلاوے اور پریوں کی کہانیاں ہیں۔۔۔‘‘
نوجوان نے ذرا تلخی سے انہیں آواز دی۔ ’’کیا۔۔۔؟‘‘ انہوں نے ٹھٹھک کر دریافت کیا۔
’’یہی سب۔۔۔ یہ درگاہ، اور یہ سارا چکر۔ بے تعلقی کا فلسفہ بھی میرے لیے اتنا ہی بے معنیٰ ہے جتنی یہ روایت کہ یہ پہاڑ حاجی بابا کے ایک نعرے سے تین حصہ زمین میں دھنس گیا تھا۔ بزرگ نرمی سے مسکرانے لگے۔
نوجوان کو احساس ہوا کہ وہ ان کے ساتھ بے ادبی سے پیش آیا ہے۔ آخر بوڑھے آدمی تھے۔ لہٰذا ان کا دل رکھنے کے لیے اس نے کہا ’’وہ سامنے والی چوٹی کیسی ہے؟ بڑی عجیب سی شکل کی چٹان ہے جیسے دیونی بیٹھی ہو۔۔۔‘‘
’’یہ چٹان بھی‘‘ بزرگ نے کنج کی طرف بڑھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’پہلے ایک عورت تھی۔‘‘ پھر وہ درختوں میں غائب ہو گئے۔۔۔
نوجوان گہری سانس لے کر پھر پہاڑی کے با رونق حصے کی طرف مڑا۔ اب ایک شخص نے جسے نوجوان مجاور سمجھا اس کا پیچھا کیا۔ ’’آپ یہاں کے مجاور ہیں؟ مگر افسوس ہے کہ میرے پاس نذر دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘ نوجوان نے کہا۔
’’مجاور میں نہیں ہوں صاحب۔ اگلے وقتوں کے برہمن راجہ کی اولاد یہاں کی مجاور ہے۔۔۔ ماچس ہو گی۔۔۔؟‘‘
نوجوان نے سگریٹ کا سارا پیکٹ اسے تھما دیا۔ ’’صاحب۔۔۔‘‘
اس آدمی نے نوجوان کو ذرا غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اگر بھوک لگی ہو تو چل کر لنگر میں کھا لیجئے۔۔۔ میں بھی ادھر ہی جا رہا ہوں۔‘‘
’’آپ بڑے پریشان سے نظر آ رہے ہیں۔‘‘ اجنبی نے ڈھٹائی سے کہا۔
نوجوان نے غیر ارادی طور پر اپنی پتلون کی جیب پر ہاتھ پھیرا۔ مگر فاؤنٹن پن ابھی موجود تھا۔
’’کبھی صندل کے موقعے پر آئیے۔۔۔‘‘
اجنبی کہتا رہا۔ شاید نوجوان نے اسے غلط سمجھا تھا۔۔۔‘‘
بابا کی پالکی سارے پہاڑ کا گشت لگاتی ہے۔ بڑی زبردست آتش بازی ہوتی ہے، رات کو شیر ببر آتا ہے ہندو مسلمان بڑی عقیدت سے حاضری دیتے ہیں۔۔۔‘‘
’’یہی ہندو مسلمان شہر واپس جا کر جب بلوہ ہوتا ہے تو ایک دوسرے کو چھرا بھی مارتے ہیں۔۔۔‘‘
نوجوان نے اکتا کر کہا اور جلدی سے واپس مڑ گیا۔ اجنبی سر ہلا کر آگے بڑھا اور ایک موٹی سیٹھانی کے تعاقب میں مصروف ہو گیا۔
’’جانے کون تھا یہ شخص۔ میری طرح بے کار، آوارہ، بے مقصد۔۔۔ کیا عجیب جگہ ہے یہ فقیروں کی پہاڑی۔۔۔ کمال ہے۔۔۔‘‘ نوجوان نے سوچا۔
پہاڑی سے اترتے وقت مصری ممی یعنی لمبے فقیر کی آواز اسی طرح سنائی دی۔ راستے پر پڑتا ہوا اس کا سایہ ڈوبتے سورج کی روشنی میں اب بے حد طویل اور لرزہ خیر معلوم ہو رہا تھا۔ دوسرے فقیروں کی چادروں پر سکّوں کی ڈھیریاں بن چکی تھیں۔ یا تری تھکے ہارے، بیمار اضطراب آسودہ، صحت مند، مسرور، پر امید اور جذبہ عقیدت سے سرشار اب قطار اندر قطار واپس اتر رہے تھے۔ نوجوان جواب بہت زیادہ تھک چکا تھا، نشیب میں پہنچ کر ایک مختصرسی خاصی آرٹسٹک جھونپڑی کے برآمدے میں ٹک گیا۔ جس کے کنارے پر کاسہ بڑی نفاست سے رکھا ہوا تھا۔ سرمگیں آنکھوں اور سرخ داڑھی والے ایک بڑے میاں کشکول کے پیچھے بیٹھے تھے۔ انہوں نے لیمن ڈراپس، بتاشوں اور چنوں کا ایک بہت ہی مختصر سا خوانچہ بھی لگا رکھا تھا۔ ایک سفید صاف ستھری تولیہ کھونٹی سے ٹنگی تھی۔ اندر سے ایک جوان عورت ساڑی سے سر ڈھانپے برآمدے میں آئی اور کاسے کے پیچھے گویا اپنے آفس ڈیسک پر بیٹھ گئی۔ اندر تیل کے اسٹوو پر کیتلی چڑھی ہوئی تھی۔
’’آپ یہاں کب سے ہیں‘‘۔ نوجوان نے دو آنے کے چنے خریتے ہوئے دوستانہ لہجے میں سرخ داڑھی والے سے دریافت کیا۔ ’’بیس سال ہو گئے۔‘‘
’’آمدنی اچھی ہو جاتی ہے؟ میرا مطلب ہے آپ کی اس دوکان سے۔‘‘
’’مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے مگر اللہ کا شکر ہے‘‘ نوجوان پر شک بھری نظر ڈال کر انہوں نے جواب دیا۔
’’انگار لگے اس آمدنی کو۔۔۔‘‘ جوان عورت بڑبڑائی۔ سرخ داڑھی والے نے مسکرا کر عورت کو دیکھا۔
’’یہ میری دوسری زوجہ ہیں۔ یہاں ان کا دل گھبراتا ہے۔ کہتی ہیں شہر میں چل کر رہو۔‘‘
’’برسات میں یہاں مشکل پڑتی ہو گی۔۔۔‘‘نوجوان نے اظہار خیال کیا۔
’’جی ہاں۔ برسات میں زائرین بھی نہیں آتے۔ اور سانپ بچھو بھی بہت ہوتے ہیں۔ میری جوان بیاہی لڑکی کا انتقال ہو گیا پچھلے سال۔ تب سے میرا دل بھی یہاں سے اچاٹ ہو گیا ہے۔ مرحومہ سامنے والی جھونپڑی میں رہتی تھی۔ اس کا شوہر بھی یہاں کا فقیر تھا میں نے بیاہ کر رخصت کیا بھی تو اس طرح کہ نظروں کے سامنے رہے۔ کلیجے میں ٹھنڈک رہے۔۔۔‘‘ ایک بچّہ اپنی نشانی چھوڑا غریب نے۔‘‘ انہوں نے ایک چھنگلیا سے پلکیں خشک کیں۔
گھنے اندھیرے درختوں میں بسیرا لینے والے پرندوں نے چہچہانا شروع کر دیا تھا۔ نوجوان بہت متاثر ہو۔ شاید مدتوں سے کسی نے اس طرح بیٹھ کر اس بوڑھے شخص سے اس کا دکھ درد نہیں سنا تھا۔
’’ارے۔۔۔ محمد اکرم۔۔۔‘‘
بوڑھے نے آواز دی۔ پھر نوجوان سے کہا ’’میری بچّی کا شوہر۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ وہ بھی۔۔۔ یہی کام کرتا ہے۔‘‘
سامنے کی جھونپڑی سے گیروا کرتا پہنے، تسبیح پھراتا اور ذرا لنگڑا کر چلتا ہوا ایک جوان اور بے حد صحت مند فقیر قریب آیا۔ اس نے بھی نوجوان کو شبہ کی نظروں سے دیکھا۔ مہندی رچی داڑھی والے بڑے میاں نے بیوی کو اشارہ کیا۔ وہ اندر سے چائے بنا کر لائی اور ایک پیالی نوجوان کو پیش کی۔ ایک قبول صورت لڑکی چار سالہ بچہّ گود میں اٹھائے درختوں میں سے نمودار ہوئی۔ اور سرخ پٹّوں والے کو مخاطب کیا۔ ’’لو سنبھالو اپنے نواسے کو ماموں۔ میں روٹی پکانے جا رہی ہوں۔ مبارک ہو آج نواسے نے تین روپے کمائے ہیں۔‘‘ لڑکی نے بچے کو سائبان میں ٹکا کر بڑے سلیقے سے ڈیڑھ روپے کی ریزگاری ماموں کے حوالے کی اور ڈیڑھ روپیہ ساڑی کے آنچل میں باندھ کر اٹھلاتی ہوئی نیچے اتر گئی۔
’’سارا کنبہ یہیں ہے ماشاء اللہ؟‘‘ نوجوان نے ذرا رشک سے پوچھا۔
’’جی ہاں۔۔۔‘‘
’’یہ میری بھانجی تھی۔ بڑی سگھڑ بچی ہے۔ میری ہمشیرہ اور بہنوئی وہ نیچے والی جھونپڑی میں رہتے ہیں۔۔۔ بہنوئی۔۔۔ نابینا ہیں۔‘‘
نوجوان اٹھ کھڑا ہوا، اور اس مہربان اور ہنر مند کنبے کو خدا حافظ کہہ کر اور نیچے اترا۔
سورج کی نرم اور ترچھی کرنوں نے ڈالیوں میں سے چھن چھن کر ماحول کو دفعتاً زیادہ پر اسرار بنا دیا تھا۔ فقیر اپنے مقررہ ٹھکانوں سے اٹھ رہے تھے۔ چٹائیاں لپیٹی جا رہی تھیں۔ کوڑھی اور اپاہج اسی طرح پڑے تھے۔ اتنے میں ایک مرہٹی عورت اودا کاشٹہ باندھے، کیک بسکٹ کا بکس سر پر اٹھائے تیز تیز قدم رکھتی پگڈنڈیوں پر نمودار ہوئی ہر بھکاری کے سامنے جا کر اس نے بکس اتارا۔ بھکاریوں نے خاموشی کے ساتھ اس سے سستی خشک ڈبل روٹیاں اور بسکٹ خریدے۔ عورت نے ان سے پیسے لیے اور دوسرے فقیروں کی طرف چلی گئی۔
چنانچہ سبھی فقیر خوش حال نہیں تھے۔ بیش تر اپاہج آسمان کے نیچے لیٹے خشک باسی ڈبل روٹی پر گزر رہے تھے۔
نوجوان آخری سیڑھیاں پھلانگتا نیچے پہنچا، ایک بار پلٹ کر اس نے پہاڑی پر نظر ڈالی اور باہر نکلا۔
جھیل کے پرے، سرخ بالوں والا زنانہ ایک بنچ پر چپ چاپ بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ موٹریں اور لاریاں روانہ ہو رہی تھیں۔ (موہنی بالا بھی کب کی غائب ہو چکی تھی) کل صبح تک کے لیے پہاڑی خاموشی اور اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔ نوجوان نے پنواڑی کی دوکان سے دس پیسے کا اِن لینڈ لیٹر خریدا اور ریستوراں کے بڑے چھپّر میں پہنچ کر بنچ پر بیٹھ گیا اور خط لکھنا شروع کیا۔
والدہ صاحبہ، تسلیم مجھے اطلاع ملی تھی کہ یہاں ایک ریستوراں میں کیشیر کی جگہ خالی ہے، لیکن صبح جب میں یہاں پہنچا تو معلوم ہوا وہ جگہ بھر چکی ہے۔ بہر حال آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ اس شہر میں تین سال بے کار رہنے اور دھکّے کھانے کے بعد آج بالآخر ایک نہایت اچھا کارو بار میری سمجھ میں آ گیا ہے۔ بہت آرام دہ کام ہے، اور آمدنی بھی امید ہے معقول ہو گی۔ قیام و طعام کا انتظام مناسب اور فضا با رونق ہے۔ میرے رفیقِ کار، ہنر مند، اہل فن بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سچّے فن کار ہیں۔ اپنا پتہ آیندہ خط میں لکھوں گا۔
آپ کا تابعدار بیٹا
چند روز بعد
’’مصری ممی‘‘ نے بڑے غصے سے دیکھا کہ مقابل کی چٹان ایک سیاہ داڑھی مونچھ اور پٹّوں والے با رعب فقیر کا مسکن بن چکی ہے جو لمبا کرتا اور سفید کنٹوپ پہنے تسبیح ہزار دانہ پھیرتے ہوئے گرج دار آواز میں مجذوبانہ نعرے لگا رہے ہیں اور ریزگاری کا ڈھیر ان کے قدموں میں لگ چکا ہے۔ جب سیٹھوں کی ٹولی سامنے سے گذرتی ہے تو وہ دلدوز آواز میں:
زر کی جو محبت تجھے پڑ جائے گی بابا
دکھ اس میں تری روح بہت پائے گی
بابا پڑھتے ہیں۔ عوام کے لیے
دنیا کے امیروں میں یاں کس کا رہا ڈنکا
نت بھنگ پی اور عاشق دن رات بجا ڈنکا
موجود ہے۔ اپٹو ڈیٹ یاتریوں کے سامنے بے نقط کی اڑنگ بڑنگ انگریزی اڑانا شروع کر دیتے ہیں اور دفعتاً جب جذب طاری ہوتا ہے تو نعرہ لگاتے ہیں: ’’سب بکواس، کھا لے گھاس، کر دوں تیرا ستیا ناس۔ پلا دوں جوتے کا مکسچر۔۔۔
بولو کون بھوانی۔۔۔‘‘
نوچندی جمعرات کو جب مس کانتا دیوی چادر چڑھانے کے لیے درگاہ جاتے ہوئے سامنے سے گزریں تو شاہ صاحب ڈنڈا ہوا میں لہرا کر حسب عادت چلائے۔ ’’بولو کون بھوانی‘‘۔۔۔
کانتا نے دہل کر سر اٹھایا اور اوپر اونچی چٹان پر کھڑے شاہ صاحب کو دیکھا۔ شاہ صاحب فرماتے رہے،’’ایمان پاک۔ آدمی بے باک۔۔۔ حق اللہ۔ پاک ذات اللہ۔۔۔‘‘
کانتا دیوی ایک کمزور دل خاتون تھیں۔ ذرا سہم کر آگے بڑھنے لگیں تو شاہ صاحب گرجے: ’’احدہما الابتلا بافراط خاص من الشراب۔۔۔ ہمارے فرخ آباد میں دو گھوڑے رہتے تھے۔‘‘ کانتا دیوی لرز کر ٹھٹھک گئیں۔ ان کے سوا کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی ممی کسی زمانے میں فرخ آباد کی رنگریزن تھیں۔ کانتا دیوی سر ڈھانپ کر اور ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئیں۔ اب شاہ صاحب پر حال آ چکا تھا اور وہ جھوم جھوم کر قوالی کا ایک مصرع دہرا رہے تھے۔۔۔
اخلاص کے رنگ میں رنگ دے
پکّا لال رے رنگریجوا
کانتا دیوی مبہوت ہو کر انہیں دیکھتی رہیں۔ شاہ صاحب نے ان کی طرف سے بے پرواہ ہو کر اپنی بڑ ہانکنی شروع کی۔ ’’دریا کی لہر۔۔۔ اللہ کا قہر۔۔۔ ہنڈیا میں چڑھا۔۔۔ جوتے کا مکسچر پلا۔۔۔‘‘
مس کانتا دیوی کی آنکھیں بھر آئیں۔ ان کا سب سے بڑا پروڈیوسر جو ہر وقت ان کی خوشامد میں لگا رہتا تھا۔ ان دنوں ایک بہت ’’بڑی‘‘ پکچر کے لیے مس موہنی بالا سے کنٹریکٹ کر چکا تھا۔ شاہ صاحب نے سریلی آواز میں یک لخت گانا شروع کر دیا۔
’’ہمارے شمس آباد میں دو گھوڑے رہتے تھے
ڈبکو ڈبکو می کند، از یک توجہ پار کن‘‘
سمجھنے والے کے لیے مجذوب کا اشارہ کافی ہے۔ مس کانتا دیوی سر جھکا کر کھڑی ہو گئیں۔ تب شاہ صاحب نے آنکھیں کھول کر نعرہ لگایا۔ ’’مچھلی بیچے گی۔۔۔‘‘
’’حضور، میرے لیے کوئی حکم۔۔۔؟‘‘ کانتا دیوی نے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھائے بغیر پوچھا۔
’’مچھلی بیچے گی۔‘‘ شاہ صاحب نے دہرایا۔
’’کون حضور۔۔۔؟‘‘
’’وہی۔۔۔ اور کون۔۔۔‘‘
کانتا دیوی نے جلدی سے ان کے پاؤں چھونا چاہے۔ مگر انہوں نے پیچھے ہٹ کر کہا۔ ’’دھت۔۔۔ بھگ جا عورتیا۔۔۔‘‘
’’شاہ صاحب۔۔۔‘‘
’’پیر ہٹیلے کا مرغا۔۔۔‘‘
’’جی شاہ صاحب؟‘‘
’’پیر ہٹیلے کا مرغا۔۔۔‘‘
کانتا دیوی ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گئیں۔ مگر فوراً ہی انہیں یاد آ گیا کہ فرخ آباد میں ان کے محلے کی عورتوں کے ہاں بارہ مہینے نذر و نیاز کا سلسلہ رہتا تھا۔۔۔ شیخ سدّو کا بکرا۔۔۔ پیر دین دار کا کونڈا۔۔۔ مشکل کشا کا دونہ۔۔۔ شہید کا لمیدہ۔۔۔ حضرت عبآس کی حاضری۔۔۔ بی بی کی پڑیا۔۔۔ پریوں کا طبق۔۔۔ پیر ہٹیلے کا مرغا۔۔۔
کانتا دیوی کی ممی لطیفن بوا بھی ایک زمانے میں مسجد کے طاق بھرا کرتی تھیں۔ یوروپ کی سیاحت اور فلمی مصروفیات سے بھرپور موجودہ زندگی میں مس کانتا دیوی کو یہ سب کہاں یاد رہ سکتا تھا۔۔۔ مگر شکر کہ اس وقت یاد آ گیا۔
انہوں نے فوراً سو روپے کا نوٹ نکال کر شاہ صاحب کے قدموں میں رکھا۔۔۔
’’بھاگ جا عورتیا۔۔۔ دھت۔ ہٹ ہٹ ہٹ۔۔۔‘‘
شاہ صاحب نے آنکھ بند کر کے ڈانٹ بتائی۔ مس کانتا دیوی نے ادب سے ان کو تسلیم کی اور خوش خوش آگے چلی گئیں۔
شاہ صاحب نے اپنے فرغل کی جیب میں سے وہ نوٹ بک نکالی جس میں انہوں نے اپنی والدہ کو خط لکھ کر سارے پیروں کی نذر و نیاز کی تاریخیں منگوا کے درج کر لی تھیں۔۔۔
شاہ صاحب نے نوٹ بک کے ایک کالم میں ایک نشان بنایا اور پاؤں کے انگوٹھے کے ذریعے نوٹ گدڑی کے نیچے سرکانے کے بعد بھجن گانے میں مصروف ہو گئے۔ مارواڑیوں کی ایک ٹولی پہاڑی کی سیڑھیاں طے کرتی اوپر آ رہی تھی۔
٭٭٭
ایک شام
اوفّوہ بھئی… اللہ۔ ممی اچھے تو ہیں ہم بالکل۔ ذرا یوں ہی سا سر میں درد ہو جانے کا مطلب یہ تھوڑا ہی ہے کہ اب ہمیں دودھ اوولٹین پینا پڑے گا۔ اور ممی گھبرائی ہوئی کمرے سے چلی گئیں۔ شاید ڈاکٹر کو فون کرنے۔
میں نے لیمپ کا رخ مسہری کی طرف کر کے آسکر وائلڈ کی ایک کتاب اٹھا لی۔ ڈرائنگ روم میں سے ریڈیو کی آواز آ رہی تھی۔ وہی اختری فیض آبادی کی سمع خراش تانیں۔۔۔۔
اور پھر مجھے یاد آیا کہ ابھی کالج کا بہت سا کام کرنا باقی ہے اور اگلے ہفتے سے ششماہی امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ دودھ اوولٹین اور سوڈا بائی کار۔
میں نے جھنجھلا کر کتاب نیچے قالین پر پھینک دی اور لیمپ کے نیلے شیڈ پر بنے ہوئے چینی نقش و نگار کو غور سے دیکھنے لگی۔ اور پھر خیالات کہاں کہاں بھٹک گئے۔ لیمپ کے سرخ شیڈ اور آدھے جلے ہوئے سگریٹ۔۔۔۔ بوہیمیا۔۔۔۔ لیٹن کواٹر۔۔۔۔ تصویروں کے آڑے ترچھے بے تکے سے نقوش۔ ترچھی اور بڑی بڑی آنکھیں اور بے حد پتلی اور لمبی انگلیاں۔۔۔۔ پس منظر میں دھندلا دھندلا نہ معلوم کیا۔ اور دھواں سا بل کھاتا اور اوپر کو اٹھتا ہوا۔ لمبے لمبے فرانسیسی دریچے اور ان میں حجاب کے افسانے۔ نپولین اور لارڈ نیلسن۔ بے چارے کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ میری آنکھوں میں بھی تو درد ہو رہا ہے۔۔۔۔ اور ایک لیڈی ہملٹن تھی۔۔۔۔ اور پھر یہ اتنے سارے ’’ازم۔۔۔۔‘‘
’’سوشلزم‘‘
’’کمیونزم‘‘
’’فاشزم۔۔۔۔‘‘
’’ناتسی ازم۔۔۔۔‘‘۔ رزم وبزم۔۔۔۔ اوفوہ
بھئی۔۔۔۔ توبہ۔ اور میری نظر رسالہ ’’ادب لطیف‘‘ کے تازے پرچہ پر پڑ گئی جو پاس کی میز پر رکھا ہوا تھا۔۔۔۔ واقعی یہ نیا ادب بھی کیا کمال کی چیز نکلی ہے۔۔۔۔ ترقی پسند ادب۔۔۔۔ حسین پگڈنڈیاں۔ خوب صورت ہوائیں۔ جنتا۔ سماج۔۔۔۔ مزدور۔۔۔۔ روٹی۔۔۔۔ بھوک بھوک بھوک۔
سچ مچ مجھے بھوک معلوم ہو رہی تھی۔ کیونکہ میں نے دوپہر کا کھانا بھی نہ کھایا تھا۔ اتنے میں ممی دودھ اوولٹین لے آئیں۔
اور سونے سے پہلے ممی نے مجھ سے کہا کہ میں کل شام کو کہیں اور نہ جاؤں۔ کیونکہ پرویز رومانی ’’کافی ہاؤس‘‘ میں خالو جان کی رخصتی پارٹی دے رہے ہیں۔ خالو جان بے چارے جو ہماری سرکار والا تبار کی فوج میں لفٹننٹ کرنل ہیں۔ تبدیل ہو کر پونا جا رہے تھے۔ اور ان کی رخصتی دعوتوں کا سلسلہ کئی ہفتے پہلے سے شروع ہو چکا تھا۔ یہ پرویز رومانی صاحب جو تھے یہ ترقی پسند شاعری کرتے تھے اور محکمہ سپلائی میں ملازم ہونے سے قبل سبھاش بوس کے چیلے بھی رہ چکے تھے۔
اور دوسرے دن سہ پہر کے بعد ’’کافی ہاؤس‘‘ میں فوجی افسروں کے علاوہ پرویز صاحب کے ’’کامریڈز‘‘ یعنی ترقی پسند مصنفین جمع ہونے شروع ہوئے۔۔۔۔ ڈھیلی ڈھیلی پتلونیں۔ لمبے لمبے بال۔۔۔۔ سیاہ فریم کی عینکیں۔ انگلیوں میں پائپ یا سگریٹ اور کھدر کے پاجامے۔ اور جب چائے ختم ہوئی تو جہلم پار کے ایک نو گرفتار لفٹننٹ بولے۔ ’’جی کچھ گانا شانا نہیں ہونا ہے۔؟‘‘
اس پر ایک ترقی پسند ادیب نے میری خالہ زاد بہن فرخندہ سے فرمایا۔ ’’جی آپ لاہور سے آئے ہیں۔ ایک آدھ ڈھولک کا گیت سنا دیں۔ یہ ڈھولک کے گیت کس قدر حسین اور ستارہ بار ہوتے ہیں۔‘‘
اور میرا جی چاہا کہ اس کی اس سرخ اور لمبی ناک پر ساری چائے دانی انڈیل دوں۔
اتنے میں ہال کے دوسرے سرے میں نئے ادب کی افادیت پر نہایت شد و مد سے بحث شروع ہو گئی۔ پیام مرغی شہری فرما رہے تھے ’’جناب ہم ترقی پسند نوجوانوں نے اپنے لیے ایک نئی راہ نکالی اور ہماری خوب صورت نظموں اور افسانوں نے اردو کے دقیانوسی اور سرمایہ داروں کے ادب میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ ہمارا ایک نوجوان شاعر اپنی ایک بلند پایہ نظم میں کہتا ہے
یہ کس نے لاش پھینک دی
جوانیوں کی راہ میں
بڑھے چلو، بڑھے چلو،
تباہیوں کی راہ میں
علی جرار صابری نے ارشاد کیا۔ اسی کے متعلق میں نے کہا ہے کہ
مسرت کے جواں ملاح کشتی لے کے نکلے ہیں
غموں کے ناخداؤں کا سفینہ ڈگمگاتا ہے
خالو جان بے چارے خاموش بیٹھے سگار پی رہے تھے۔ پیام مرغی شہری نے پھر کہنا شروع کیا۔۔۔۔
’’تو گویا کہ کامریڈز۔۔۔۔ ’’ادب برائے حیات‘‘ نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ اب ہندوستان کو اس ادب کی ضرورت نہیں جو سرمایہ داروں کے سجے ہوئے ایوانوں میں جنم لیتا ہے۔ بلکہ اب ہمیں ایسا ادب چاہئے جو جنتا کی دل کی دھڑکنوں کا آئینہ دار اور مزدوروں کے اندھیرے جھونپڑوں کا باسی ہو۔ اور جو جیل کی آ ہنی سلاخوں کے پیچھے چھپی ہوئی مضطرب چیخوں کی نمائندگی کر سکے۔۔۔۔‘‘
اتنے میں ڈبلیو، اے، سی کی ایک اینگلو انڈین لڑکی نے پیام صاحب کو آئس کریم پیش کی۔ اور وہ اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’کافی ہاؤس‘‘ کا آرکیسٹرا تیزی کے ساتھ بج رہا تھا۔ ہال کے ستون کی دوسری طرف ایک نہایت ترقی پسند افسانہ نگار عظمت چنگیزی خالو جان سے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔ اور وہ بے چارے بھی ان سے ’’نئے ادب‘‘ پر گفتگو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
پام کے گملوں کے پیچھے ہال کے ایک گوشے میں فرخندہ اور پدما میرے ساتھ بیٹھی چاکلیٹ کھا رہی تھیں۔ تھوڑی دیر میں دو ترقی پسند ادیب ہمارے قریب کی میز پر آ کر بیٹھ گئے۔۔۔۔ ان کے نام مجھے یاد نہیں آ رہے۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک نے فرخندہ سے پوچھا۔ ’’آپ نے میرے تازہ ترین افسانے ’’پیٹی کوٹ‘‘ اور ’’توہین‘‘ ملاحظہ فرمائے ہوں گے؟‘‘
فرخندہ نے صاف جھوٹ بول دیا۔ ’’جی ہاں بہت عمدہ ہیں وہ‘‘۔
حالانکہ خالو جان کے ساتھ بچپن سے انگلستان میں رہنے کی وجہ سے اس کو اچھی طرح اردو پڑھنا بھی نہیں آتا۔
دوسرے ادیب نے مجھ پر عنایت کی۔ ’’جی آپ نے ’’چھپر‘‘ تو ضرور پڑھا ہو گا؟‘‘ گویا میری زندگی کا واحد مقصد ’’چھپر‘‘ پڑھنا ہی تھا۔ لیکن مجھے بھی فرخندہ کی تقلید کرنی پڑی۔
’’آپ کے افسانے تو مجھے بہت پسند ہیں۔‘‘ اور اب انہوں نے کہنا شروع کیا۔
’’بات یہ ہے محترمہ کہ ادب اور زندگی کے متعلق میرا تخیل طوفانی راتوں میں ایک جھونپڑے میں رکھے ہوئے ٹمٹماتے چراغ کے مانند ہے۔ کھیتوں کی پگڈنڈیاں۔ گلیوں کی کچی دیواروں کے سائے۔ پنگھٹ کے کنارے۔ ان تمام چیزوں میں سیکڑوں ترقی پسند افسانے پوشیدہ ہیں۔ چنانچہ میرے سنہری حاشیوں والے دھندلے دھندلے خواب خاموش پتواروں کے پاس جنم لے کر کہانیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔۔۔۔‘‘
میں ان کی اس تقریر کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ پرویز رومانی ہماری طرف آتے نظر آئے۔ اور قریب آ کر کہنے لگے۔ ’’اوہو! اس آتشیں کتاب ’’شرارے‘‘ کے مصنفین ابھی تک نہیں آئے۔ ٹھیریئے میں فون کرتا ہوں۔۔۔۔‘‘
اور پام کے گملوں کے سامنے بیٹھے ہوئے ایک ترقی پسند شاعر نے گنگنانا شروع کیا۔
یہ کس نے فون پر دی سال نو کی تہنیت مجھ کو
تمنا رقص کرتی ہے تخیل گنگناتا ہے
اور ان کے ایک ’’کامریڈ‘‘ نے پرویز صاحب سے کہا۔ ہمارے ان شعلہ بیان مصنفوں میں سے آج شاید کوئی بھی نہ آ سکے گا۔ کیونکہ ان میں سے ایک کو تو گورنمنٹ آف انڈیا میں ایک اعلیٰ عہدہ مل گیا ہے اور باقی ہندوستان کو آزاد کرانے میں مصروف ہیں۔‘‘
ہم سے کچھ دور کیپٹن و بیگم قریشی بیٹھی تھیں۔ ہم اٹھ کر ان کے پاس چلے گئے۔ بدقسمتی سے چار پانچ کمیونسٹ اور اشتراکی قسم کے ادیب وہاں بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک کیپٹن قریشی سے کہہ رہے تھے۔ ’’یہی وجہ ہے کیپٹن صاحب کہ اب ہم زندگی کو ہر ترقی پسند زاویہ نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ہماری جنتا کو اس وقت ’’پیٹی کوٹ‘‘ اور ’’رضائی‘‘ وغیرہ قسم کے حسین افسانوں کی بے حد ضرورت ہے۔۔۔۔‘‘
اور جب وہ اپنا پائپ جلانے کے لیے رکے تو دوسرے ادیب نے کہنا شروع کیا۔ ’’قصہ مختصر یہ کہ ہم ایک ایسے سنسار کے باسی ہیں جہاں بھوک ہے۔ محنت ہے۔ افلاس ہے۔ ظلم و ستم ہے۔ حکومت کا استبداد ہے۔ آنسو ہیں اور آہیں ہیں۔ ہمارے نوجوان شعرا بھی اسی دنیا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چنانچہ میں پیام مرغی شہری سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی معرکۃ الآرا نظم
سرخ و سیہ صدیوں کے سائے تلے
آدم و حوا کی اولاد پر کیا گزری ہے
سنا کر ہمیں محظوظ کریں۔۔۔۔‘‘
لیکن پیام صاحب میزبان سے اجازت لیے بغیر شاید مس مارگریٹ رولینڈ کے ساتھ سنیما دیکھنے جا چکے تھے۔ اس لیے ان ادیب صاحب نے خود ہی اپنی ایک شاہکار نظم پڑھنی شروع کی۔
دوپہر کی گرم لُو میں زرد پتیاں ویران سڑکوں پر یوں اڑ رہی ہیں جیسے میرے بھولے ہوئے خواب یا کسی بھوکے مزدور کی آہیں جو پانی کے نل کے پاس بیٹھا باسی چنے کھا رہا ہے۔ میرے سر میں ہلکا ہلکا درد پھر ہونے لگا تھا۔۔۔۔
’’واہ واہ‘‘ کے شور سے ہال گونج اٹھا۔ پھر ایک اور شاعر نے جو اب تک آرکیسٹرا میں پیانو بجانے والی لڑکی کے ساتھ بیٹھے کافی پی رہے تھے، اپنی نظم سنائی
خوابوں کے دھندلے جزیروں کے اس پار
دور شفق کے رنگین کناروں میں
کھوئے ہوئے خیالوں کی طرح
جب کلاس روم میں خاموش بیٹھا ہوتا ہوں میں
تو باہر گھاس کھودنے والی
مزدور لڑکی کی چوڑیوں کی جھنکار سن کر
مجھے غلام آباد ہندوستان کا خیال آتا ہے
اے دوست
اور میں سوچتا ہوں
کہ بپا کروں ایک خونی انقلاب
یا پھر جمنا کی بے تاب لہروں کو چیر کے
افق سے جا ٹکراؤں
نوکری ملتی نہیں ہے مجھ کو
اس لیے
نئے ادب کی شاعری کا عارضہ ہوا ہے لاحق
کاش میں ہو سکتا داخل ایمرجنسی کمیشن میں
گر نہ ہوتا مجھے خیال اے دوست تیرا
میرے سر میں درد بہت زور سے شروع ہو گیا۔ میں نے پریشان ہو کر ممی کو دیکھا اور میزبان سے معذرت چاہ کے باہر کار میں آ کر لیٹ گئی اور اس رات خواب میں مجھے یہ معلوم ہوا جیسے بہت سے ترقی پسند ادیب اپنے حسین افسانوں اور خوب صورت نظموں سمیت میرے کمرے پر دھاوا کر رہے ہیں۔ تاکہ جنتا کی حالت سدھرے۔ اور غلام آباد ہندوستان کو آزادی نصیب ہو جائے۔
٭٭٭
ارادے
اتوار کی ایک معمولی سی دوپہر۔ یعنی نہ کچھ زیادہ رنگین اور رومانوی اور نہ بالکل غیر دل چسپ۔۔۔۔ ہم بے چاری لڑکیاں امرود کے ایک گھنے درخت کے نیچے قالین پر بیٹھی جمائیاں لے رہی تھیں۔ نیند تھی کہ خواہ مخواہ چلی آ رہی تھی اور ایک دوسرے سے لڑنے کو دل چاہ رہا تھا۔ اب یہ میں کیوں بتاؤں آپ کو کہ جب اس وقت اچھی خاصی طرح کمرے میں بیٹھ سکتے تھے تو ہمیں درخت کے سائے میں بیٹھنے کی کیا خاص ضرورت پیش آئی تھی۔ لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ آج کل لڑکیاں حد سے زیادہ رومان پسند ہوتی جا رہی ہیں اور آم کے تنے سے ٹیک لگا کر چارلس بوایئر کے فلموں اور غوث محمد کے تازہ ترین ٹینس میچ پر تبصرہ کرنا ان کے لیے بے حد ضروری ہے۔
چاکلیٹ کھاتے ہوئے ہم لوگ بھی اسی قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ روس۔ مذہب، فلسفہ۔ بالی ووڈ، کیوٹکس کے رنگوں کا انتخاب۔ انڈیا گیٹ کے معرکوں کا ذکر خیر۔ یہ کہ فرخ پیاری جو شیفون کل تم لیلا رام کے یہاں سے لائی ہوئی ہو اس پر کس طرح کی Piping کرو گی اور ہائے ڈوکی پرویز کے کوہاٹ جانے کے بعد شاہد کو میں نے تین مرتبہ وینگرز میں زرینہ کے ساتھ دیکھا۔ اس قدر غضب کا اسمارٹ لگ رہا تھا کہ کیا بتاؤں۔
زبیدہ دنیا سے قطعی بے زار ایک طرف کو اکڑوں بیٹھی لکڑی سے مٹی میں گڑھا کھودتے ہوئے شاید مسائل تصوف کے حل میں مصروف تھی۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ اب وہ سب سے الگ تھلگ جنوبی فرانس کے مرغ زاروں میں ایک انگوروں کی بیل سے چھپی ہوئی شاخوں میں رہا کرے گی۔ پیانو بجائے گی۔ تصویریں بنائے گی۔ مختصر یہ کہ بالکل کسی الف لیلوی شہزادی کی سی زندگی بسر کرے گی اور یہ کہ اب اسے عزیز یا کسی اور گدھے کی ذرا بھی پروا نہیں۔ کیونکہ وجہ یہ تھی کہ زبیدہ کو اسی دن صبح خالہ جان کی میز پر پڑا ہوا ایک خط مل گیا تھا۔ جس میں اسی گدھے عزیز نے یعنی زبیدہ کے سابق منگیتر نے اپنے کسی دوست کو یہ لکھا تھا کہ صاحب مجھے اس قسم کی لڑکیوں سے تو ڈر لگتا ہے جو سر پر پگڑی سی لپیٹ کر اور پتلون پہن کر امریکن وضع کی انگریزی بولتی ہوں اور یہ کہ میں تو ایک ایسی سیدھی سادی گھریلو سی لڑکی سے شادی کر رہا ہوں جو اس سال پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان دینے والی ہے۔ جو موزوں میں رفو کرنے کے علاوہ مرغ مسلم اور پلاؤ پکانا بھی خوب جانتی ہے۔
لیکن ابھی تک میں نے اس قسم کا کوئی ارادہ نہ کیا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ ابھی دنیا کو میری کافی سے زیادہ ضرورت ہے۔ اور اسی سلسلے میں مجھے بہت سے کام کرنے باقی تھے۔ ایک تو یہ کہ اپنی نئی ٹشو کی ساری میں بارڈر لگانا تھا اور دوسرے پرویز کو فون کرنا تھا کہ ہال سرمینس کا میچ دیکھنے کے لیے چلے۔
ہم سب چپ چاپ بیٹھے امرود وں کو گن رہے تھے کہ خالہ اماں نے باورچی خانے کے برآمدے میں سے آواز دی۔ ’’لڑکیو! خالی بیٹھی کیا کر رہی ہو؟ منشی گردھاری چرن کو پرچہ لکھ دو کہ صبح سے میں نے فیضو کو کوپن دے کر موہن اسٹورز آم اور شکر لینے کے لیے بھیجا ہوا ہے۔ اب تک انہوں نے کیوں نہیں بوریاں بھجوائیں۔ سوا دو روپے من تو کوئلہ دے رہے ہیں، اللہ مارے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اُف کس قدر غیر رومانوی بات۔۔۔۔۔۔۔۔ خالدہ نے اپنے لمبے لمبے عُنّابی ناخنوں کو دیکھتے ہوئے دھوئیں سے بھرے باورچی خانے میں رکھی ہوئی کوئلے کی بوریوں کے تکلیف دہ تصور کو ایک طرف جھٹک کر پھر رومان کی دنیا میں واپس آنا چاہا۔ اس لیے وہ امرود کا ایک پتا سونگھ کر بولی ’’پرویز کتنا حسین نام ہے۔ بالکل جیسے جہلم کے کنارے کوئی چرواہا الغوزہ بجا رہا ہو۔‘‘
’’واہ! کیا زوردار تخیل ہے آپ کا۔‘‘ میں نے فوراً جل کر کہا۔ ذرا دیکھو تو لڑکی کی باتیں۔ اتھل مینن، کراکا اور ہکسلے کی کتابیں پڑھتے پڑھتے اس کا دماغ خطرناک طور پر چل گیا ہے۔ یہ بے انصافی اور زیادتی ملاحظہ کیجئے کہ میں نے خود ہی خالدہ کا پرویز سے تعارف کرا دیا تھا اور اب کس اطمینان اور بے تکلفی سے وہ فرماتی ہیں کہ جہلم کے کنارے چرواہا الغوزہ بجا رہا ہے۔۔۔۔ واہ بھئی۔
ہم پھر خاموش ہو کر جمائیاں لینے لگے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کون سی بات شروع کی جائے۔ جو موضوع بھی گفتگو کا میں چھیڑتی، یقیناً اس میں لڑائی کا کوئی پہلو نکل آتا۔ لہٰذا میں نے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا اور کنکر سے نشانہ لگا کر امرود توڑنے کے مسئلے پر غور کرنے لگی۔
’’کیوں لالہ ڈیریسٹ، یہ عارف کیوں آ رہے ہیں۔ تمہارے یہاں؟‘‘ فرخ نے مجھے گویا آنے والی جنگ کا الٹی میٹم دے دیا۔
’’کیسا لغو سوال ہے۔ عام طور سے مہمان کیوں آیا کرتے ہیں؟‘‘ میں نے فیضو کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ جو مہمان کمرے کی صفائی کے سلسلے میں نہایت مستعدی سے انتظامات کرتا پھر رہا تھا۔ ’’تو تم شادی کرو گی ان چغد سے؟‘‘
’’ارادہ تو فی الحال ایسا ہی ہے۔‘‘ گویا اب تک جتنے چغد مہمان آئے تھے ان سے شادی کا ارادہ کرنا ایک ضروری بات تھی۔
’’خاک پڑے تمہارے ارادوں پر۔ کل شام امریتا شیرگل کی تصاویر کی نمائش سے واپسی میں تم بالکل یقین کے ساتھ کہہ رہی تھیں کہ تمہارا ارادہ زندگی بھر بے لوثی سے آرٹ اور قوم کی خدمت کرنے کا ہے۔‘‘
اب میں اسے کیا یاد دلاتی کہ جب تک وہ شاہد سے نہ ملی تھی اس نے کامریڈ احمد سے صدق دل کے ساتھ وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ جنتا کی حالت سدھارے گی۔ اور اس موجودہ قومی اور پرولتاری جنگ کو جیتنے کے سلسلے میں کامریڈ اسٹالین کا ہاتھ بٹائے گی اور اب وہ شاہد کے ساتھ مسوری جانے کے پروگرام بنا رہی تھی۔
’’فرخ! نہایت بورژوا ہو تم۔‘‘ میں نے خالص ترقی پسند لہجہ میں اس سے کہا۔ اور پھر مجھے اس بے تکے سے لفظ کے استعمال کرنے پر خود ہنسی آ گئی۔
روس کس بری طرح ہم پر چھایا جا رہا ہے۔ میں نے سوچا۔ سیاسی افق پھر غبار آلود ہوتا جا رہا تھا، اس لیے میں نے فیضو کو آواز دے کر چائے منگوائی۔
بدقسمتی سے قریب کے برآمدے میں ماموں جان بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگے تھے اور دو تین دفعہ انہوں نے عینک اتار کر ہماری طرف بھی نظر کی تھی۔ شاید ان کا خیال تھا کہ بے چاری بچیاں کتنی محنت سے امتحان کی تیاری کر رہی ہیں۔ فرح بورژوا اور پرولتاری کی تکرار پر نہایت جوش سے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اب خالہ جان بھی منشی گردھاری چرن کے کوپنوں کا انتظام کرتی ہوئی برآمدے میں ماموں جان کے پاس آ چکی تھیں۔ اس لیے میں نے اچھی اچھی لڑکی بننے کی کوشش کرتے ہوئے ذرا اونچی آواز سے کہا۔ ’’خدا کے لیے لڑکیو ان لغویات کے علاوہ کبھی تو اور باتیں بھی کیا کرو۔ اب مثلاً یہ کہ تم تو اتنی قیمتی کیڈبری چاکلیٹ اپنے کتے کو کھلا رہی ہو اور سرزمین بنگالہ کے سیکڑوں فرزند فاقہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
لیکن یہ تو بے حد پیٹنٹ قسم کا جملہ ہے۔ ہزاروں دفعہ دہرایا جا چکا ہے۔ میں اپنے دماغ پر زور ڈالنے لگی کہ کوئی اور شریفانہ سا تذکرہ چھیڑوں۔ یاد آیا کہ خالہ اماں تہذیب نسواں اور عصمت میں حقوق نسواں، اصلاح نسواں اور تعلیم نسواں وغیرہ پر بہت مضامین لکھا کرتی تھیں۔ اس لیے۔۔۔۔ ’’ہاں تو ذرا اس جفا کار سماج کے مظالم پر غور کرو جو بے کس صنف نازک پر۔۔۔۔۔۔‘‘ نہیں بھئی یہ بھی نہیں، کچھ اور سوچنا چاہئے۔ ہاں خوب یاد آیا۔ قوم قوم ہماری کس تیزی سے قعر پستی میں گری جا رہی ہے۔ اس ڈوبتی نیّا کو کوئی پار لگانے والا نہیں۔ ہائے قوم۔ وائے قوم۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان۔۔۔۔۔۔۔ بہنو آؤ اور میدان عمل میں کود کر شاہراہ ترقی پر گامزن ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ زندہ باد مزدور سبھا۔۔۔۔۔۔۔ زندہ باد۔۔۔۔
’’کافی ہاؤس۔‘‘ خالدہ نے چپکے سے جملہ پورا کر دیا۔ میں نے چونک کر گھڑی دیکھی۔ سوا پانچ بج چکے تھے اور چھ بجے پرویز نے کافی ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ اور ہم سب اصلاح قوم اور آزادی ہندوستان کے ارادوں کو ملتوی کر کے تبدیل لباس کے لیے ڈریسنگ روم کی طرف بھاگ گئے۔
٭٭٭
خوابوں کے محل
اور جب وہ کار سے اُتر کر میری طرف نظر کئے بغیر رو مال سے ناک پونچھتا ہوا برآمدے کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گذشتہ رات کالج کی اسٹیج پر اس کے ساتھ آسٹرین ڈچس کے لباس میں رقص کرتی ہوئی ایمیلی شاید میرا مذاق اڑا رہی تھی۔
’’اپنے چھوٹے سے رومان کا روپہلا محل تو میں نے بنایا ہے۔ تم اس میں داخل ہونا کیسے چاہتی ہو۔ کیسے ہو سکتی ہو۔ ہا ہا ہا! یہ تو صرف میرے لیے ہے۔‘‘ اور میرے کانوں میں اس کے سریلے قہقہے کی آواز گونج کر رہ گئی۔
ثریا دریچے میں کھڑی لالہ کے پھولوں کو گل دان میں سجا رہی تھی۔ مجھے میرے کمرے میں آتا دیکھ کر اس نے اپنا آٹو گراف البم میری طرف پھینک دیا۔
’’میں کیا کروں اس کا؟‘‘
’’کرو کیا؟ اس کے دستخط ہیں اس میں۔ ڈرامہ ختم ہونے سے قبل گرین روم میں جا کر میں نے لے لیے تھے اس سے۔‘‘
’’تو آخر یہ مجھے اس خصوصیت سے کیوں دکھا رہا ہے بھئی۔‘‘ مجھے واقعی رونا آ گیا۔
ثریا نے گل دان ایک طرف رکھ سیٹی بجاتے ہوئے پھر کہا۔ ’’رومانیتک۔۔۔۔ حد سے زیادہ لیکن وہ پاؤڈر بھی لگاتا ہے۔‘‘
’’ہر گز نہیں۔ لگاتا پاؤڈر۔ واہ۔‘‘ میں فوراً اس کی طرف داری پر آمادہ ہو گئی۔
’’بالکل لگاتا ہے۔ میں نے خود اس کی سنگھار میز پر میکس فیکٹر پاؤڈر اور پونڈس کریم رکھی دیکھی ہے۔‘‘
’’آخر تم اس قدر دل چسپی اور انہماک سے کیوں کر رہی ہو؟‘‘ میں نے جل کر کہا۔ ’’وہ اتنا خوب صورت جو ہے۔ خواب ناک آنکھیں اور نقرئی آواز۔۔۔۔! ہا ہا ہا۔
’’قطعی خطرناک بات ہے۔‘‘ ثریا بہت صاف گو لڑکی ہے۔ دریچے میں بیٹھ کر ٹانگیں ہلاتے ہوئے وہ پھر بولی۔‘‘ اس وقت تو وہ خالہ جان سے نہایت سعادت مندی کے ساتھ کوئلے کی گرانی اور نوکروں کی قلت کے مسئلے پر گفتگو کر رہا ہے۔ پرسوں بھی تو آیا تھا۔‘‘
’’کون آیا تھا پرسوں بھی؟‘‘ ریاض بھیّا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دخل در معقولات کی۔
’’درزی۔‘‘ ثریا نے اطمینان سے جواب دیا اور لالہ کے پھولوں کو نئے سرے سے سجانے لگی۔
ریاض بھیّا تپائی پر جھک کر چائے بنا رہے تھے۔ اور ثریا نہایت معصومیت سے ان کے لیے سنگترہ چھیل رہی تھی۔
میرا دل چاہ رہا تھا کہ ریاض بھیا اور ثریا دونوں کو چاء دانی میں ڈبو دوں اور پھر ڈرائنگ روم کی روشنیاں گل کر کے کشتوں میں منہ چھپا کر خوب روؤں۔
خالہ جان کے کمرے میں سے باتوں، قہقہوں اور چھینکوں کی آوازیں آنی بند ہو گئی تھیں۔ ریاض بھیا اور ثریا دریچے میں سے باہر باغ میں کود کر شاید ٹینس کھیلنے کے لیے جا چکے تھے۔ ریڈیو میں چارلس جوڈا کا آرکیسٹرا تیزی سے بج رہا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اور تصور میں بھورے بالوں والی آسٹرین ڈچس پھر آ کر کھڑی ہو گئی جو رقص کرتے ہونے اس سے کہہ رہی تھی۔‘‘ میرے چھوٹے سے رومان کا روپہلی محل۔۔۔۔۔۔۔۔’’
سرو کے درختوں سے ڈھکی ہوئی پہاڑی کی چوٹی پر بنا ہوا سرخ برجیوں اور اونچے اونچے کنگوروں والا محل جس میں خوابوں کی شہزادیاں رہتی ہیں۔ پچھلے ہفتے وہ اپنے کالج کے ڈرامے کے ٹکٹ بیچنے کے لیے ہمارے یہاں آیا۔ ریاض بھیّا نے میرے اور ثریا کے لیے دس دس روپے کے ٹکٹ خرید کر کہا ’’Vepex‘‘ ہو گا آپ کے پاس؟‘‘
اور میں نے طے کر لیا کہ میں اسے اپنے اس سرخ برجیوں والے قلعے میں قطعی نہ گھسنے دوں گی۔
اسی دن شام کو ’’پکیڈلی‘‘ میں پھر اس سے ٹکر ہو گئی۔ اس کے ساتھ اس کے دوستوں کے علاوہ ایک لڑکی بھی تھی۔۔۔۔ یہ ہیں میری دوست مس ایمیلی آرکڈیل۔۔۔۔ اور یہ۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ مس۔۔۔۔ مس۔۔۔۔‘‘ اس نے نیازی سے میرا تعارف کروایا۔ گویا میرے بے کار سے نام کو یاد کرنے کے لیے اسے اپنے دماغ پر زور دینے کی ضرورت پڑ رہی تھی اور وہ فضول سی اینگلو انڈین لڑکی جسے لپ اسٹک لگا کر سائیکل پر کناٹ پلیس کے چکر لگانے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہنس ہنس کر اس کی طرف سے ٹکٹ خریدنے کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔
لیکن اگلے دن اس نے مجھے فون کیا کہ ہمارے لیے آگے کی بہترین نشستیں اس نے خاص طور پر ریزرو کروا لی ہیں اور کافی دیر تک وہ ادھر اُدھر کی بے معنیٰ باتیں کرتا رہا۔ اور روپہلے محل کے ایوان پھر جگمگا اٹھے۔ خانہ بدوشوں کے کاروان کی موسیقی سے کہر اور دھندلکے میں چھپی ہوئی وادیاں گونجنے لگیں۔ اونچے اونچے کنگوروں والے چاکلیٹ کی رنگت کے قلعے کی شہزادی نے بربط پر اپنے پسندیدہ نغمے گنگنانے شروع کر دیئے۔ میں نے ریڈیو کی آواز مدھم کر کے پھر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔
مگر اس کہانیوں کی سرزمین اس رنگین بوہیما پر کوئی بھورے بالوں والی آسٹرین ڈچس اپنا قبضہ کر لے تو۔۔۔۔؟ جگمگاتے ہوئے بال روم میں بلوری میز پر جھکا ہوا جیسے کوئی آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا۔۔۔۔ آپ کے آٹو گراف البم میں کیا لکھوں۔۔۔۔؟
ان سیاہ آنکھوں کا خیال مجھے کھوئے ہوئے خوابوں کی وادی میں پہنچا دیتا ہے۔ جہاں رائن کے پانیوں میں اترتے ہوئے زرد چاند کی کرنیں ان چمکدار پگڈنڈیوں پر پڑتی ہیں جو سر سبز پہاڑیوں اور شاہ بلوط کے گھنے جنگلوں میں سے گذرتی ہوئی خوابوں کے سرخ برجیوں والے قلعے تک باقی ہیں۔۔۔۔!
لیکن نہیں۔۔۔۔ اس نے تو کہا تھا۔ یہ میری دوست مس ایمیلی آرکڈیل۔ آپ ہمارے کالج کے ڈرامے میں ضرور تشریف لائیے گا۔ ہم دونوں کو بہت خوشی ہو گی‘‘
’’ہم دونوں‘‘۔۔۔۔ خوابوں کے سر بہ فلک قلعے پر جیسے کسی نے بمباری کر دی۔
’’اجی وہ تو فلرٹ (Flirt) ہے بالکل۔ چاہے جس سے پوچھ لو۔ ایمیلی کے کالج میں آنے سے پہلے امرجیت اس کے ساتھ گھومتی رہتی تھی۔ اب دیکھ لینا اگر ایمیلی کہیں چلی گئی تو سلطانہ کا نمبر آ جائے گا۔‘‘ ثریا کہہ رہی تھی۔۔۔۔ میں چڑ کر رہ گئی۔ بھئی اگر وہ فلرٹ ہے تو میں کیا کروں۔ آخر ثریا اس قدر باقاعدگی سے اس کی ریسرچ کیوں کر رہی ہے۔ لاحول ولا۔
میں نے مستقل مزاجی سے طے کر لیا ان روپہلے محلات کو سجانے کا کام اگلے سال پر اٹھا رکھوں گی۔ کیونکہ سالانہ امتحانات بہت قریب آ گئے تھے۔۔۔۔
کافی دن گذر گئے۔ ایک شام میں کسی کام کے لیے ڈرائنگ روم میں گئی ثریا سجی سجائی حسبِ معمول دریچے میں بیٹھی انڈین لِسنر کے ورق الٹ پلٹ کر شاید کسی کا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر چھوٹتے ہی بولی ’’ایک بڑے مزے کی بات سنو جی۔ پچھلے ہفتے تک تو شاہدہ بھلی چنگی کالج آئی تھی اور اس اتوار کو اس کی شادی ہو رہی ہے۔‘‘
’’اچھا؟ بڑی خوشی کی بات ہے۔ کس سے ہو رہی ہے؟‘‘ ظاہر ہے مجھے شاہدہ کی شادی سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہو سکتی تھی۔
’’اسی سے۔۔۔۔تم کو اس لیے انہوں نے نہیں بلایا کہ تمہاری پڑھائی میں ہرج ہو گا۔ فائینل ایئر ہے تمہارا۔۔۔۔ ہماری تو کار بھی تین دن سے ان کے وہاں منگنی میں گئی ہوئی ہے۔‘‘ اور پھر وہ ایسا انداز بنا کر بیٹھ گئی کہ برقی لیمپ کی نیلی روشنی میں اس کے چہرے پر پڑے کیونکہ ریاض بھیا کمرے میں آ چکے تھے۔
کہانی ختم ہو گئی۔۔۔۔ لیکن خوابوں کے سرخ برجیوں اور اونچے اونچے کنگوروں والے قلعے کی شہزادی آتش دان کے سامنے بیٹھی شاید تب بھی کسی شہزادے کا انتظار کر رہی ہے۔
٭٭٭
دھندلکوں کے پیچھے
لیکن اچھے دن تو بہت تیزی سے گزر جاتے ہیں نا۔ پھولوں کے موسم کی رنگین سی ہوا کے ایک ہلکے جھونکے کی طرح۔ جو آلوچے کی پتلی ٹہنیوں کو لہراتا، پردوں کو ہلاتا اور بالوں کی لہریں الجھاتا ہوا دور سیب کے گھنے سایوں میں کھو جاتا ہے۔ سیب کی سفید کلیاں کھلتی ہیں اور دوپہر ڈھلتے زرد ہو کر زمین پر گر پڑتی ہیں۔ رات کی رانی مہکنا جانتی ہے لیکن صبح ہوتے ہوتے اس کی سہانی خوشبوئیں خوابوں کے ساتھ ساتھ ناچتی نہ جانے کون سی انجانی بستی کو چلی جاتی ہیں۔ چاندنی کی ٹھنڈی موجیں تو صبح کا بھی انتظار نہیں کرتیں۔ یہ زرد اور بے حس چاند پتہ نہیں کس ان دیکھی دنیا کی وادیوں میں جا کر چھپ رہتا ہے جہاں سنا ہے کبھی گرم اور گرد آلود ہوائیں نہیں چلتیں۔ بگولے نہیں اٹھتے اور انوکھے سپنوں کے نقرئی پُل چھوٹے چھوٹے ستاروں کی طرح نہیں ٹوٹا کرتے۔
پر زندگی کے تھکے ہارے مسافر ان چمکیلے اور چھپے ہوئے راستوں کی تلاش میں بھٹکتے اندھیرے جنگلوں اور تپتے ہوئے رتیلے میدانوں میں جا نکلتے ہیں۔ جہاں شعلے لپکتے ہیں، مصیبتیں قہقہے لگاتی ہیں، تباہیاں مسکراتی ہیں۔ تلخیوں کے گرم اور کسیلے دھوئیں کی تاریکی کے پیچھے سے کوئی مدھم سی، خنک سی روشنی جھلملاتی ہے لیکن پھر دھندلکوں میں چھپ جاتی ہے۔
بھئی خدا کے لیے! مجھے جذباتی بن جانے کا الزام مت دو۔ میں کیا کروں۔ تمہیں سال نو کی وہ کہر آلود شام یاد ہے۔۔۔؟
۳۱ دسمبر۔ آج بھی وہی تاریخ ہے ہم سب اس روز کتنی اودھم مچایا کرتے تھے۔ تحفے اور مبارکبادیں۔ خوشیاں اور قہقہے۔ ۳۱ دسمبر! بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کی ہمارے دلوں میں کیسی محبوب سی، عزیز سی اہمیت اور قدر تھی۔ تمہاری سال گرہ کی تاریخ۔ عید کا دن، نو روز کی رات، امتحان کے آخری پرچے کی شام۔ ان معمولی چیزوں کی Sentimental Value کی وجہ سے زندگی زیادہ دل کش اور پرلطف معلوم ہوتی تھی نا۔ مگر یہ کیسی پیاری سی حماقت ہے۔ پرانی باتیں یاد آتی ہیں۔ رونے کو دل چاہتا ہے۔ اور پھر یہ سوچ کر ہنسی بھی آ جاتی ہے کہ پہلے ہم دوسروں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
واقعات کا جوار بھاٹا بہت ہی عجیب چیز ہے۔! دنیا بہت مزے دار جگہ تھی، ہم اور تم۔ ہمارا گھر ہمارے عزیزوں اور دوستوں کا حلقہ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی مصروفیتیں اور تفریحیں۔ ننھے منے غصے اور پیار۔ فلسفہ حیات پر غور کرنے کی کبھی ذرا سی بھی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔ تم پینٹنگ کرتی تھیں۔ میں کارٹون بناتی تھی۔ پھر دونوں مل کر اپنے کارناموں پر تبصرہ کرتے تھے۔ ابسن کا ’’گڑیا کا گھر‘‘ پڑھ کے ایک دفعہ تم تقریباً رونے لگی تھیں اور میں نے تمہیں ڈانٹا تھا ہم اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتے تھے۔ لڑتے تھے اور چاکلیٹ کھاتے تھے۔ اب تم جانے کیا بن گئی ہو۔
مجھے بھی یقین نہیں کہ اب میں کیا ہوں، کم از کم دوسرے تو مجھے نہ معلوم کیا سمجھنے لگے ہیں۔ مغرور، ضدی، خود پسند۔ اور جھوٹ کی شائق۔
واقعی زندگی اب جھوٹ اور دھوکے کے رنگین لبادے میں لپٹ کر رہ گئی ہے۔ اگر وہ گزری باتیں بے تحاشا یاد آتی ہی پی جائیں تو میں کیا کروں۔ خدارا مجھے جذباتی مت سمجھو۔ ۳۱ دسمبر کی شام! یاد ہے اس نے کہا تھا کہ اگر چمکتے ہوئے اونچے اونچے ستاروں کا عکس پگڈنڈی کے کنارے ٹھہرے ہوئے گدلے پانی میں پڑے تو اس میں ستاروں کا کیا قصور۔ لیکن جب وہ بے حقیقت جوہڑ ان ستاروں کے خواب دیکھنے لگے تو کیا ہو۔؟
وہ اونچے اونچے ستارے تو صرف گومتی کے شفاف سنہرے پانیوں میں آنکھ مچولی کھیلیں گے۔ اس کا فلسفہ، اس کی معموں جیسی باتیں، اس کا بوہیمین انداز۔ مجبوریوں کا تند رو سیلاب تاش کے پتوں کے اس محل کو بہت دور بہا لے گیا ہے جو تم نے خوشی خوشی بنایا تھا۔ وہ دن بھی ختم ہو چکے ہیں۔‘‘
میبل کارمن برانڈا کی نقل کر رہی تھی۔ اسلم وائلن پر وہی نغمہ بجا رہا تھا۔ جس سے ہم ہر سال پہلی جنوری کی رات کو خوش آمدید کرتے تھے۔ میبل اور اسلم، انور اور صبیحہ ایڈمنڈ اور خورشید۔ ملاحتیں اور صباحتیں، ناز اور نیاز۔ قہوے کی پیالیوں سے چاندی کے ننھے منے چمچے ٹکرا رہے تھے۔ زندگی، گرمی، خوشیاں، قہقہے، مجھے نامعلوم سا خوف محسوس ہو رہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ لمحے پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں۔ سپنوں کے رنگین سلسلے بہت جلد بکھر جاتے ہیں۔
اسلم وائلن بجا رہا تھا۔ میبل ان لرزتے تاروں سے اٹھتے ہوئے نغموں کے سیلاب میں بہی جا رہی تھی۔
I,I,I,I,I,I, Like You- a verry muchh! I,I,I,I,I,I, Think you- a grand.۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسا مضحکہ خیز گانا تھا۔ ہم سب ہنس ہنس کے لوٹے ہوئے جا رہے تھے۔ کتنے بے وقوف تھے ہم لوگ۔۔۔۔
Why, why, why, why, why, why, when I Feell Your touch, My heart begins to beat, the band,
میبل رقص کر رہی تھی۔ خوشیاں ناچ رہی تھیں۔ ایک پارٹی گیم ہم نے ایک دوسرے کے نام تجویز کیے تھے۔ ’’پلم پڈنگ‘‘ ’’مکی ماؤس‘‘ اور جانے کیا کیا۔
یا اللہ۔ پچھلے مہینے میں نے مکی ماؤس کا نام اسٹیٹس مین کی ہلاک شدگان کی فہرست میں دیکھا تھا۔ خیال تو کرو۔ وہ ہر وقت ہنسنے اور شور مچانے والا شخص جو صرف زندہ رہنے کے لیے پیدا ہوا تھا۔ ہم سب زندہ رہنے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ عمر بھر ہنستے رہنے اور میوزیکل چیرز کھیلنے کے لیے۔ میبل نے ایک اور گیت شروع کر دیا تھا۔ ’’آؤ رقص کریں بھئی۔‘‘ لیکن پھر ہم تینوں کمرے کی گرم و روشن فضا سے بچنے کے لیے باہر خاموش بالکونی پر نکل آئے تھے۔۔۔۔
یہ تیزی سے پرواز کرتے ہوئے لمحات ماضی کی بوجھل یادوں کو اپنے آنچل میں سمیٹ کر بہت دور لیے جا رہے ہیں چاند کی کرنوں پر سے اترتی ہوئی شبنمی نیندیں انہیں رخصت کرنا چاہتی ہیں۔ اب پچھلی ساعتوں کا غم کرنے کا کیا فائدہ…؟‘‘ اس نے بالکونی کی ریلنگ پر جھکتے ہوئے ڈرامائی انداز سے کہا تھا
’’بھئی اپنی شاعری اس وقت تو بھول جاؤ‘‘ شاید تم بولی تھیں۔ دھیمی سی آواز میں جیسے کسی سحر کے زیر اثر تھیں اور اس سے بچنا چاہتی تھیں۔ ہماری نظروں کے سامنے درختوں کے پھیلے ہوئے اندھیرے میں کہیں کہیں مدھم روشنیاں جھلملا اٹھتی تھیں۔
خوابیدہ کائنات ناکامیوں اور اندھیروں کے سرد دھندلکے میں لپٹی ہوئی آنے والی کل کے انتظار میں خاموشی کی گہری گہری سانس لے رہی تھی۔ دور، چھتر منزل کا اداس سنہری گنبد اور یونیورسٹی کی مغرور برجیاں اسی زور دار اور بھاری کہرے میں ڈوبی جا رہی تھیں۔ ہمارے محبوب لامارٹنیز کے کنگورے سیاہ دھند میں کھوئے ہوئے کیا سوچ رہے تھے۔ اس کے اونچے ہال کے روشن دانوں سے ہلکی نیلی روشنی جھلکنے لگی تھی۔
ضیافت شروع ہو چکی ہے۔ تم نے کہا تھا ہر سال ۳۱ دسمبر کی رات وہ ہال نیلی روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے جب ہم تم وہاں تھے اور اب بھی نئے سال کے استقبال کے لیے وہ شمع دان اب بھی جلائے جاتے ہیں۔
کل نیا سال ہے۔ زندگی کے غبار آلود راستے کا ایک اور نامعلوم سنگ میل کل کے بعد کیا کیا ہو گا۔ تجدید حیات نظام نو۔ نیا افق، آفتاب تازہ … ہش۔ جذباتی لغویات۔۔۔۔ دنیا تو جوں کی توں رہتی ہے۔ بوڑھی ہوتی جا رہی ہے۔ تھکن اور خستگی زیادہ ہو گئی ہے لیکن لوگ اچھے اچھے خواب دیکھنے سے باز نہیں آتے۔
خدارا اب اندر چلو۔ مجھے تو سردی بھی لگنے لگی۔ واقعی اتنی دیر تک گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتے اور شور مچاتے مچاتے زوروں کی بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ دوسرے ساتھی ڈنر کے لیے دوسرے کمرے میں جا چکے تھے۔ میوزک روم خاموش پڑا تھا۔
’’سردی لگ رہی ہے؟ راحتیں اور رنگینیاں ایک لمحے کے لیے بھی چھوڑنا نہیں چاہتیں؟ تم تو بڑی بڑی دشوار گزار پگڈنڈیوں اور ویرانوں میں سفر کرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘ وہ اسی طرح ریلنگ پر جھکا ہوا تھا۔ ’’ہاں لیکن تمہارے ساتھ۔ تمہارے سہارے!‘‘ پر یہ الفاظ زبان پر نہ آ سکے۔ تم بھی خاموش تھیں۔ فراز آسماں سے ایک ننھا سابے چارہ ستارہ ٹوٹ کر تاریکی کی گہرائیوں میں گم ہو گیا۔ ہم دونوں جیسے سہم سے گئے۔
ارے مسخرو چلو جلدی ورنہ ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرتے ہیں کھانا، اسلم نے اندر سے چلا کر آواز دی۔ پھر بارہ بجے، کریکرز توڑے گئے کرسیاں الٹی گئیں۔ کشنوں کی لڑائی ہوئی۔ ’’ہیپی نیو ایئر‘‘۔ نیا سال آ گیا۔ نئی خوشیاں، نئی امیدیں، نئی زندگی۔ یقیناً!! نئی خون آشامیاں۔ جنگوں میں مارے جانے والوں کی تازہ فہرستیں۔ تباہ کاریوں کے جدید کارخانے۔ نیا سال!! ہم سب پاگل تھے۔ احمق۔ تم بھی اور میں بھی۔ اور وہ بھی۔
اسلم، میبل، انور، سب کے سب۔ ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد تھا۔ محبت تھی اور رفاقت کا خلوص۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھی تھے۔ طوفانوں کے مقابلے میں ایک ہی تختے پر بہنے والے۔ ایک ہی پگڈنڈی کے مسافر۔ کیسی کیسی حسین اور شیریں غلط فہمیاں تھیں! وہ تمہیں چاہتا تھا۔ کم از کم یہی ظاہر کرتا تھا۔ جوہڑ کا پانی اونچے اونچے ستاروں کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اسلم، میبل پر مرتا رہتا تھا۔ لیکن اب تک بالکل تندرست ہے۔
ہاں انور مر چکا ہے۔ سوچو تو یہ تین الفاظ کہنے میں کیسے آسان ہیں لیکن اصلیت کتنی خوف ناک، بھیانک اور ظالم۔
وہ اٹلی میں اپنی یونٹ کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے ایک مورچے پر حملہ کر رہا تھا کہ اس پر مشین گن کی گولیوں کی بوچھار پڑی اور وہ مر گیا۔ نیلوفر کے ایک نازک سے پودے کی طرح گر پڑا اور ختم ہو گیا۔ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ ایک لحظے کے اندر اندر اس کا دنیا میں آنا اور نہ آنا برابر ہو کے رہ گیا۔ تم نے اس کی موت کی خبر سنی ہو گی تو گہری سی سانس بھر کر کہہ دیا ہو گا۔ چچ چچ چچ بے چارہ؟ میبل اور زبیدہ کی شاید پلکیں بھی نہ بھیگی ہوں۔ خدایا…!!
بتاؤ زبیدہ، کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ اب کے ۳۱ دسمبر کی رات کو کلاک کی طرف نظر اٹھا کے دیکھ سکو۔ وہی گھر ہے، وہی دنیا، وہی ہم تم ہیں۔ نیا سال اپنے دامن میں نہ جانے کتنی خوشیاں اور آنسو چھپائے چلا آ رہا ہے۔ ہنس کر اس کا استقبال کر سکو گی۔ وہ گیت بھول چکی ہو جس سے پہلی جنوری کو خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ اسلم کے وایلن کے تاروں میں تو شاید زنگ بھی لگ گیا ہو گا۔ وہ دن بھر راشننگ کے دفتر میں سرکھپا کر شام کو گھر جاتا ہے تو اس کی بیوی کی چلاتی ہوئی آواز اور اس کے تین چھوٹے چھوٹے چیں پیں کرتے ہوئے بچے اس کے سر کے درد کو اور بڑھا دیتے ہیں۔
ہوائیں گتار اور اس کے گزرتے ہوئے تاروں پر جنوب کے نیلے سمندروں اور پام کے درختوں پر برستی ہوئی رسیلی چاندنی کے خواب آلود نغمے راشننگ کے اعداد وشمار کی تلخیوں سے بہت دور ہیں۔ بہت ہی دور۔ پر زبیدہ اچھے دن کیوں پیچھے رہتے جاتے ہیں۔ مجھے خدا سے بڑی شکایت ہے۔ بہت سی شکایتیں ہیں۔ دیکھو تو سہی۔ میں خدا سے روٹھنا بھی سیکھ گئی ہوں۔ ذرا فلسفی بنتی جا رہی ہوں۔ ہماری کیسی خوش گوار دنیا تھی۔ ہمارا سوئیٹ پی کا باغ۔ ناشپاتی کے درخت۔ باورچی خانے کی چمنی سے اٹھتا ہوا پرسکون سا دھواں، نوکروں کی مانوس چیخ پکار۔ امی کے احکام اور ڈانٹ ڈپٹ۔ سوئیٹ پی کی کیاریوں پر منڈلاتی رنگین مکھیوں کی بھنبھناہٹ، دوپہر کے سناٹے میں ریلوے لائن کے اس پار سے آتی ہوئی پیپرمل اور پن چکی کی صدائیں۔ وہ مخصوص اور محبوب سی آوازیں، وہ عزیز فضائیں، جیسے دنیا کی ہرچیز صرف ہمارے آرام کے لیے بنائی گئی تھی۔ لیکن اگر وہ ہماری اس دنیا میں داخل نہ ہو سکتا تھا تو یہ ستاروں کا قصور تھا۔ ہم نے فرصت اور بے فکری کی ایک سہ پہر ناشپاتی کے سائے میں بیٹھ کر جتنے احمقوں کی فہرست تیار کی تھی اس میں میں نے اس کا نام سب سے اوپر رکھا تھا اور تم بگڑ گئی تھیں۔ وہ تمہارا آئیڈیل تھا نا۔۔۔۔! یہ تخیل پرستیاں بعض مرتبہ کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں! اس روز تم بھاگی بھاگی آئیں اور ریکٹ ایک طرف پھینک کر جلدی جلدی کہنے لگیں۔ آج۔ آج۔ اُف اللہ۔ کیسی عجیب باتیں ہیں۔ اس نے۔ سنو تو۔ اس نے کہا۔‘‘ میں کالج کے کام میں بہت زیادہ مصروف تھی اور جانتی تھی کہ یہ عجیب عجیب باتیں عقل سے قطعی بالاتر اور بالکل فضول ہوا کرتی ہیں۔ اس وقت میں نے تمہاری داستان سننے کی ضرورت نہ سمجھی…مجھے پڑھنے دو بھئی۔ روز ہی یہ بے وقوفیاں ہوتی رہتی ہیں تمہارے لیے۔‘‘
’’بے وقوفیاں نہیں بھئی۔ موت وزیست کا مسئلہ ہے۔ سنوتو سہی۔ اس نے کہا‘‘… تم بولیں۔ ’’اس نے کہا کہ نغمہ بہاراں کی نکہتیں انجم رنگین کی‘‘۔۔۔ میں نے چڑ کر تمہاری بات کاٹ دی تھی۔ ’’ارے نہیں۔ اللہ بات تو پوری کر لینے دو۔‘‘
’’بکواس قطعی۔۔۔ امتحان کے دن قریب آتے جا رہے ہیں اور تم بالکل نہیں پڑھتیں۔ تمہارے دماغ میں کیا بے تکی باتیں گھس گئی ہیں۔ خدارا اتنی احمق نہ بنو‘‘۔۔۔۔ میں تمہیں نصیحت کرنے چلی تھی۔ اللہ میرے۔۔۔۔! اور پھر، تم مجھ سے خفا ہو گئیں۔۔۔۔ ہونا چاہئے تھا۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو کیا کرتی۔ وہ بیمار تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ اگر ہو سکے اور مناسب سمجھو تو آ کر مجھے دیکھ جاؤ۔ کچھ عرصے بعد وہ جانے والا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ تم دہرہ دون کیوں بھیجی جا رہی ہو۔۔۔۔ میں اب کارٹون کیوں نہیں بناتی۔ اسے رخصت کرنے تم اسٹیشن تک نہ گئیں۔ شاید نہ جا سکتی تھیں تم امید کرتی تھیں کہ میں تمہیں منالوں گی۔ مگر میں اپنے آپ کو زیادہ عقل مند سمجھتی تھی۔ وہ چلا گیا۔ یہ کوئی خاص یا اہم بات نہیں تھی۔
’’دل کشا‘‘ کی ڈھلوان سے اترتے ہوئے اس نے کہا تھا۔ ’’ہم اپنے آپ کو خود ساختہ فریب میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ تین ستارے ٹکرا جائیں تو معلوم نہیں کون سا ستارہ ٹوٹے‘‘۔ اور ٹرین پلیٹ فارم کو چھوڑ کر آگے نکل گئی اور پٹڑیاں چمکتی رہیں۔ میں گھر واپس آ گئی۔ تم بھی اسی روز دہرہ دون جا چکی تھیں، رات کے گہرے سناٹے میں گھڑی کی متوازن ٹک ٹک کے ساتھ وہ لحظہ بہ لحظہ دور ہوتا جا رہا تھا۔ مجھ سے دور۔ تم سے دور۔۔۔۔ اور ۳۱ دسمبر کی رات آنے والی ہے۔
دریچے میں وہ چینی واز خالی رکھا ہے جو اس زمانے میں ہمیشہ سفید پھولوں سے بھرا رہتا تھا۔ نہ معلوم ہمارے گھر کی کیا حالت ہو گی۔ سیب کی ٹہنیوں میں کلیاں کب آئیں گی۔ سوئیٹ پی کے پودے بڑے ہوں گے تو انہیں لکڑیوں کا سہارا لینے کی ضرورت پڑنے لگے گی۔ خدا کرے بہار جلد آ جائے۔ خزاں کی خشک ہوائیں اور پت جھڑ کی ویرانیاں تم کس طرح برداشت کر سکو گی؟ دنیا غمگین ہوتی جا رہی ہے۔ انور ختم ہو چکا ہے۔ صبیحہ نے ایک گورنمنٹ کنٹریکٹر کے اکلوتے بیٹے سے شادی رچا لی ہے دماغ کی تندرستی کی یہی علامت ہے۔ میں بھی گزرے ہوئے دنوں کی یاد میں اپنا وقت کیوں خراب کروں۔
ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ میبل WACD))میں شامل ہو کر نہ جانے کہاں چلی گئی ہے۔ اسلم اپنے بچوں کے لیے بازار میں موزے اور کھلونے خریدتا دکھلائی دے جاتا ہے۔ یاد کرو ہم سب اپنے آپ کو آئیڈیلسٹ کہا کرتے تھے۔۔۔۔
کل سال نو ہے۔ آؤ اب اس افسانے کو ختم کریں۔ بھول جاؤ کہ رومان نے تمہارا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن مجبوریوں کی بھاری زنجیر نہ کھل سکی۔ چاہنے اور چاہے جانے کے نامعلوم راستے پر تم نے جتنے چراغ جلائے تھے وہ کب کے بجھ چکے۔ مسرتوں کے راگ ختم ہو گئے ہیں۔ اندھیرا بہت گہرا اور بہت ٹھنڈا ہو چلا ہے۔ بارہ بجنے والے ہیں آؤ نئی شمعیں روشن کر لیں۔ کیا پتہ اچھے دن اب زیادہ دور نہ ہوں۔۔۔
٭٭٭
میری گلی میں ایک پردیسی
قہہ قہہ قہہ خی خی خی۔ کھٹ کھٹ کھٹ۔ پٹ پٹ۔ آخ خو خی خی … کیا کہنے ہیں میرے شیر۔ ملاؤ ہاتھ۔ کمال کر گئے یار۔ ہاہ ہاہ ہاہ، اونا معقول لڑکی، پانی پلاؤ ہمیں، کیا کہا؟ شام کو سنیما میں جگہیں ریزرو کرا دوں؟ ارے جب تک ہمارے سوٹ پر استری نہیں کرو گی سنیما کیا تمہیں تو بندر کا تماشا بھی نہیں دکھایا جائے گا۔ لاؤ جی کتنے پوائنٹ بنے۔۔۔۔ کوئن میں نے لی ہے مولوی صاحب۔۔۔۔ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔ بھائی جان۔۔۔۔ آخا۔۔۔۔ خو۔۔۔۔
میں نے تنگ آ کر گیلری کا دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ جب سے چلّو بھائی رخصت پر گھر آئے تھے دن بھر اسی طرح شور مچتا رہتا تھا۔ ہر وقت برج، کیرم اودھم دھما چوکڑی۔ ایک منٹ بھی چین نہ ملتا تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ اگلے ہفتے سے خالہ بیگم کے یہاں چلی جاؤں گی۔ کچھ تو پڑھائی کا موقع ملے گا۔ چلّو بھائی کا کیا ہے کسی نہ کسی بہانہ سے چھٹی لے کر پھر آن موجود ہوں گے مگر مجھے ان سے قطعی اتنازبردست عشق نہیں کہ ان کی وجہ سے اپنا وقت برباد کروں۔ امتحان میں صرف پندرہ دن رہ گئے تھے۔
مُلّو کے کمرے میں نہایت زور شور سے کیرم ہو رہا تھا۔ کرسیاں گھسیٹی جا رہی تھیں۔ ساتھ ساتھ گراموفون بھی بج رہا تھا۔ اور گلّو اور ٹائینی گلا پھاڑ پھاڑ کر ’’والگا بوٹ مین کا گیت‘‘ الاپ رہے تھے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ سامنے کھلی ہوئی کتاب میں دھیان لگائے رکھوں۔
مسہری کے سرہانے والے دریچے پر نیلے اور سفید پھولوں کی ڈالیاں جھکی ہوئی تھیں۔ انھیں دیکھ کر مجھے معاً یاد آیا کہ بہار کا موسم کب کا شروع ہو چکا ہے۔ لیکن بہار اور شفتالو کی کلیوں کا خیال دل سے نکالتے ہوئے میں نے پھر کتاب اٹھالی۔ ہوا کے ایک دبیز سے جھونکے سے گیلری کا دروازہ دوبارہ کھل گیا۔ کاہلی کی وجہ سے جی نہ چاہا کہ اٹھ کر اسے بند کر دوں۔ باہر زردگلاب کی جھاڑیوں میں شہد کی مکھیاں بہت مصروفیت سے بھنبھنارہی تھیں اور بہت دور آلو چے کے درختوں کے نیچے نہر کا پانی پتھروں سے ٹکراتا ہوا جھیل میں گر رہا تھا۔۔۔ خاموش اور پرسکون زندگی بعض مرتبہ کیسی نعمت معلوم ہونے لگتی ہے۔ برابر والے کمرے میں اسی طرح غل غپاڑہ مچ رہا تھا۔ چلّوبھائی کے گرج دار قہقہے، نشو کی باریک سی پیاری آواز۔ ٹائینی کے بے سرے گیت۔ ہاہاہا۔ لو مسٹرگلّو۔ کیا یاد کرو گے۔ بی نشو ایک عشق بازی تو ہو گئی مکمل (Love Game کاترجمہ خالص اردو بولنے کی غرض سے عشق بازی کیا گیا تھا) بھئی بورڈ اتنا کھردرا ہو رہا ہے پھر آپ جیسے بے ایمانوں سے کیسے جیتیں۔ کیوں ہو رہا ہے بورڈ کھردرا۔۔۔۔ ساری فرنچ چاک تو لے کے گرادی آپ نے واہ۔۔۔۔ لے آؤنا وہی اپنا پاؤڈر جو سفید سفید روز اپنے منھ پر لگاتی ہو۔ اب پارٹنر بدلوجی۔ یہ قطعی قانون کے خلاف ہے۔ مستورات ایک طرف اور ہم لوگ ایک طرف، لیکن تمام مستورات یہاں موجود بھی تو نہیں۔۔۔۔ ارے رانی کہاں ہے؟ اپنے کمرے میں بے چاری پڑھ رہی ہے۔ یہ کیانامعقول حرکت ہے اس کی، شریف آدمی ایسے اچھے موسم میں کہیں پڑھا کرتے ہیں۔ لاؤ اسے پکڑ کر۔۔۔۔‘‘ یا اللہ اب میری آفت آئی اور دوسرے لمحے چلّو بھائی دریچے میں سے اندر کود آئے۔ میں نے جلدی سے پلنگ پوش اوڑھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ وہ گرج کر بولے۔ ’’اولڑکی تم کو پلنگ پوش سمیت اٹھا کر جھیل میں پھینک دیا جائے گا۔ ورنہ اٹھو شریفوں کی طرح سے۔۔۔۔‘‘
’’خدا کے لیے چلو بھائی۔ مجھے آج ہسٹری کا سارا کورس دہرا کر ختم کرنا ہے۔‘‘ میں نے التجا کی۔
’’ہش! کھڑی ہو جاؤ فوراً۔ ورنہ گیا تمہارا پاؤڈر کا ڈبہ! فرنچ چاک ختم ہو چکی ہے۔‘‘ اور سچ مچ یہ چلو بھائی میرا بہترین ’’کوٹی‘‘ کا ڈبہ اٹھا کر دریچے کی طرف مڑے۔ گویا دروازوں کے بجائے عام طور پر کھڑکیاں ہی آمدورفت کا صحیح و مناسب راستہ ہیں۔
’’ہائے اللہ میرے بہترین چلو بھیا۔ اچھا میں چلتی ہوں۔ لیکن میرا یہ پاؤڈر رکھ دیجئے۔ اب تو پانچ روپے میں بھی نہیں ملتا یہ‘‘۔
’’اچھا اگر تم آج شام کو آئس کریم بنا کر کھلاؤ تو پاؤڈر بھی واپس اور ایک مزے کی بات بھی بتائیں۔ آم کی آئس کریم ہو بھئی ایسے ٹھاٹ کی بات ہے کہ بس سن کر تمہاری طبیعت خوش ہو جائے گی۔‘‘ انھوں نے ڈبہ سنگھار میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’فرمائیے‘‘۔ میں نے بُرا سا منھ بنا کر دوبارہ پلنگ پوش اوڑھتے ہوئے کہا۔
’’ہیں ہیں۔ پھر وہی حرکت۔۔۔۔ ارے ہم تم سے شادی کر رہے ہیں۔۔۔۔ سنا‘‘۔
یہ مجھے پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا۔ لیکن میں نے تکلفاً ذرا بننے کی کوشش کی۔
‘‘آققی قی۔ یہ کیوں۔ قی قی قی۔ کس قدر گندی بات۔۔۔۔ توبہ توبہ‘‘۔ دریچے میں جا کر میں نے زور سے تھوکا آئس کریم ہی تو کھلائی جائے گی آپ کو۔ اللہ کرے آپ کو کرنل کا بھوت پکڑ کر لے جائے۔۔۔۔ خی خی خو۔۔۔۔‘‘ میرے منھ کا مزا اب تک ٹھیک نہیں ہوا۔۔۔۔ اوق۔۔۔۔‘‘
’’کرنل تو تم جیسی خود سر لڑکیوں کو پکڑتا ہے۔ شادی بیاہ کے معاملوں میں کیسی پٹاپٹ بول رہی ہو۔ ارے ذرا تو شرمایا ہوتا اچھا چلو کیرم کھیلنے ورنہ کرتا ہوں شادی اگلے ہی مہینے۔ امتحان بھی نہیں دے پاؤ گی‘‘۔ یہ بات میں نے مان لی اور ہم دونوں دریچے میں سے باہر کود کر ملو کے کمرے میں داخل ہو گئے۔
شہد کی مکھیاں اسی طرح بھنبھنائے جا رہی تھیں اور لالہ کے پھول دھوپ میں سر جھکائے کھرے اونگھ رہے تھے۔ چلو بھائی کی رخصت ختم ہو گئی اور اس کے کچھ عرصہ بعد ہمارے امتحانات بھی۔
جون کے خاموش اور غیر دل چسپ دن۔ کسی بات میں دل نہیں لگتا تھا۔ گرمیوں کی سست اور طویل دوپہر میں سبز بانس کی لمبی لمبی شاخیں جھیل کے اوپر جھولتی رہتیں۔ نرم نرم ہوا کی لپٹوں کے ساتھ دور سے بھنوروں اور سبز چمک دار مکھیوں کی تیز بھنبھناہٹ کی آوازیں تیرتی ہوئی آتیں اور گھنے پتوں میں چھپی ہوئی سرخ سرخ لیچیاں ٹپ ٹپ گھاس پر گرنے لگتیں۔ آلوچے اور نارنگی کی ڈالیوں کے سائے میں بہتے ہوئے پانی کے ہلکے ہلکے شور سے نیند آنے لگتی تھی۔ کیسا برا موسم تھا۔ یونی ورسٹی بند ہونے سے ایک روز قبل ہم سب ایک گھنے سرو کے نیچے بیٹھے دنیا جہان کے مسائل حل کر رہے تھے۔ کہ اگر سچ مچ میکس فکٹر لپ اسٹک کا بھی راشن ہو گیا تو کیا ہو گا۔ مایا کیوں اب وکٹر کے بجائے ایڈمنڈ کے ساتھ روشن آرا میں نظر آتی ہے اور اس کا اثر اب مالینی پر کیا پڑے گا۔ وغیرہ۔
اتنے میں ہمارے سروں پر سے ایک امریکن بمبار گڑگڑاتا ہوا گزرا۔ اس کے انجن کے شور نے ہمیں متوجہ کر لیا۔ ویسے بھی ہوائی جہاز ہے مزے کی چیز۔ خصوصاً جب اسے کوئی خوب صورت سا پائلٹ اڑا رہا ہو۔ خیر تو وہ طیارہ تو دور پہاڑیوں کے پیچھے قرمزی بادلوں میں غائب ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گیا اور ہم سب زیادہ دل چسپ قسم کی بکواس میں مشغول ہو گئے۔
’’بے چارے ختم بھی تو ہو جاتے ہیں اتنی جلدی‘‘۔ مالینی نے گھاس کا ایک تنکا توڑ کر کہا۔ ’’نیوی والے بھئی نسبتاً زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔ اور اسمارٹ کے اسمارٹ۔‘‘ شاہدہ نے اس سلسلے میں اپنی معلومات سے ہمیں مستفید فرمایا۔
’’ہونھ کیا ٹسٹ ہے آپ کا۔ ہر بندرگاہ میں تو ان کی ایک دوست موجود ہوتی ہے‘‘۔
ایلا کچھ عرصے سے آر۔ اے ایف کے کینٹین میں کام کرنے لگی تھی۔ بہت دیر تک اس مضمون پر بحث ہوتی رہی۔
’’چج چچ۔ کس قدر سطحی ہو تم لوگ۔۔۔ ہر وقت یہی باتیں۔‘‘ رفیعہ انتہائی۔ بے زاری کے ساتھ بولیں۔ وہ اب تک چپ چاپ بیٹھی آسمانوں کو تک رہی تھیں۔
’’جی آپ کے خیالات اور فلسفے کی گہرائی اندازاً کے ہزار فٹ ہو گی۔‘‘ میں نے ذرا تیزی سے پوچھا۔ اور اس وقت کیا ہم راجہ جی کے فارمولا پر بحث کرتے؟
تھوڑی دیر میں قرمزی بادل پہلے اودی اور پھر سرمئی رنگت اختیار کر کے سارے آسمان پر چھا گئے اور بوندیں پڑنے لگیں۔
ہم سب ایک دوسرے کو جلدی جلدی خدا حافظ کہہ کر سائیکلوں کے شیڈ کی طرف بھاگے۔ بارش تیزی سے ہونے لگی۔ دوسرے دن بھی صبح سے ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ چائے پینے کے بعد مجھے یاد آیا کہ ایلا نے چند کتابیں منگوائی تھیں جو ڈرائنگ روم کے شیلف کے نچلے خانے میں بہت دنوں سے پڑی ہوئی تھیں۔ اسی وقت ایلا کا نوکر بھی آ گیا۔
اور جب میں وہ کتابیں لینے کے لیے راج گوپال اچاریہ ڈرائنگ روم کی طرف جانے لگی تو اس کے آدھے کھلے ہوئے دروازے میں سے ایک صاحب آرام کرسی پر دراز بڑے ٹھاٹھ سے اخبار پڑھتے نظر آئے۔ شاید گلو تھا۔ قریب جا کر یہ پتہ چلا کہ کوئی اور بزرگوار ہیں۔ میرے قدموں کی چاپ سن کر انھوں نے بڑی بے اعتنائی سے اخبار سامنے سے ہٹایا اور از راہ کرم اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس انداز سے گویا مجھ پر بڑی مہربانی کر رہے ہیں۔ مجھے کمرے میں آ کر ان کے آرام میں مخل ہونا ہی نہ چاہئے تھا۔ ’’آئیے آئیے بیٹھئے۔ تشریف رکھیے۔‘‘
انھوں نے اس طرح کہا جیسے یہ ان کا گھر ہے اور میں ان سے ملنے آئی ہوں۔
میں بغیر جواب دیئے شیلف کی طرف مڑ گئی۔ نہ جان نہ پہچان۔ غصہ آنے کی بات ہی تھی۔
’’کہئے، کیسے پرچے کیے آپ نے؟‘‘ پیچھے سے آواز آئی۔
’’یا اللہ یہ کیسا عجیب انسان ہے‘‘۔ میں الماری پر جھک کر بڑی مصروفیت سے ایک ایسی کتاب تلاش کرنے لگی جو مجھے معلوم تھا کہ وہاں موجود نہیں ہے۔ اخبار کے کاغذوں کی کھرکھراہٹ برابر جاری تھی۔
’’موسم خاصہ پر لطف ہو رہا ہے۔ کیا خیال ہے آپ کا۔‘‘
میں نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا۔ کیسا بدتمیز آدمی ہے ایک تو بغیر اجازت کمرے میں آگھسا اور اب بکواس کیے چلا جا رہا ہے اپنی مصروفیات ظاہر کرنے کے لیے بہت ساری کتابیں اٹھا کر میں جلدی سے گیلری کی طرف بڑھی۔ آرام کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے پھر کہا۔
’’ذرا یہ دریچہ کیا نام اس کا بند کرتی جائیے۔ مجھے بڑے زور کا زکام ہو رہا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے ایک زور دار چھینک لی مجھے غصہ کے باوجود بے اختیار ہنسی آ گئی اور میں نے مڑ کے دریچہ بند کر دیا۔
واقعی ہوا بہت تیز تھی اور اس کے ساتھ نارنگی کی کلیوں کی لپٹیں اندر آ رہی تھیں۔
’’اگر Mistol لاویں تو اور بھی عنایت ہو گی۔ شکر ہے کہ آپ کو ہنسی تو آ گئی۔ مجھے تو فکر ہو گئی تھی کہ اگر میزبانوں کے مزاج کا یہی عالم رہا تو میں بے چارہ اس بارش میں اب اور کہا جاؤں گا‘‘۔
میں تیزی سے کمرے کے باہر نکل گئی۔ پیچھے سے اس نے ذرا اونچی آواز میں کہا ’’اگر قہوہ یا چائے منگوا لیجئے تو بھی مضائقہ نہیں۔ عام طور پر ایسے پیارے موسم میں قہوہ سب سے اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’یہ ڈرائنگ روم میں کون گدھا بیٹھا ہے۔؟‘‘
میں نے جو پہلا ملازم سامنے پڑا اس سے تقریباً چلا کر پوچھا۔
’’رانی بی بی پھاٹک تو بند ہے۔ گدھا کیسے اندر آ گیا۔‘‘مجید برتن صاف کر رہا تھا۔
میرے غصہ کی تیزی دیکھ کر گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ سے پلیٹیں چھوٹتے چھوٹتے رہ گئیں۔
’’ارے بھئی۔ تم نے کسی کو خبر کیوں نہیں کی کہ کوئی ملنے آیا ہے۔ جاؤ پوچھ کے آؤ آپ کس سے ملنا چاہتے ہیں اور کہہ دینا کوئی گھر پر نہیں ہے‘‘۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر یاد آیا کہ اس زبردستی کے مہمان گدھے نے حالانکہ وہ گدھا قطعی نہ تھا۔ بالکل ٹائرن پاور کا ہم شکل تھا؟ بے چارہ مِسٹو۱ل کی فرمائش کی تھی۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں۔ آخر میں غسل خانے میں جا کر بلاوجہ ہاتھ منھ دھونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے ٹائینی اور ملو کے قہقہوں کی آواز آئی۔ خدا کا شکر، لیکن اب ٹائینی قہوہ تیار کرنے کا حکم چلائے گا۔ میں چپکے سے غسل خانہ سے نکل کر ایلا کے گھر چلی گئی۔ نشو نپٹتی رہے گی اپنے آپ۔
اور رات کو بہت دیر تک نیند ہی نہ آئی۔ ناشپاتیوں کے باغ کے باہر سڑک پر کوئی خالی تانگہ گزر رہا تھا۔ اس کے گھوڑے کی ٹاپوں اور گھنٹیوں کی گونج خاموش اور بھیگی بھیگی فضا میں لرزتی رہی۔
میں نے روشنی بجھا کر آنکھیں بند کر لیں۔ جیسے کہیں بہت دور خوابوں کی وادی میں چاند کی کرنوں سے بنے ہوئے راستے پر سے گزرتے ہوئے سیاہ آنکھوں والے ہسپانوی خانہ بدوشوں کے کارواں کی نقرئی گھنٹیاں ایک ساتھ بج رہی ہوں۔ باہر سیاہ آسمان پر چھوٹے چھوٹے ستارے تیزی سے چمک رہے تھے اور جھیل کے کنارے بانس کی سبز گھاس میں چھپا ہوا کوئی بوڑھا جھینگر تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد چلا اٹھتا تھا۔ ستارے بھی روز چمکتے تھے اور بوڑھا جھینگر بھی ہمیشہ یوں ہی چیخا کرتا تھا۔ لیکن آج یہ چیزیں کچھ بہت خاص اور اچھی اچھی یا شاید بری بری سی معلوم ہو رہی تھیں۔
میں نے سونے کی بہت کوشش کی لیکن ستاروں کی بستی میں چاندی کی وہ ننھی منی گھنٹیاں پھر بجنے لگیں۔ ستارے اور شیفون کے اڑتے ہوئے نقاب سمر قند و بخارا۔ ڈان جوان قرطبہ کا قاضی۔۔۔۔ مسٹول کی شیشیاں۔ چاکلیٹ، شفتالو کے پھول۔۔۔۔ اور چلو بھائی بہت دور دھندلکے میں کھو گئے۔
صبح کو کھانے کے کمرے کی کھٹ پٹ نے جب جگایا تو دن کافی چڑھ گیا تھا۔ سورج کتب خانے کی چمنی تک پہنچ چکا تھا اور بھورے پروں والی چڑیوں نے جھیل میں نہا کر فراغت پالی تھی۔
کھانے کے کمرے میں پلیٹوں، چھری کانٹوں اور چمچوں کے شور میں ملی جلی بہت سی آوازیں گونج رہی تھیں، امی کے احکام، آپا کی بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ۔، ملو، گلو اور ٹائینی اور نشو کی ہنسی، لیکن آج روز کے اس خوش گوار سے شور و غل میں ایک نئے اور غیر مانوس سے قہقہے کا بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ مجید کئی دفعہ جگانے کے لیے آ چکا تھا۔ مجبوراً اٹھنا پڑا۔ منھ دھونے میں بہت دیر لگانے کے بعد کھانے کے کمرے میں گئی جہاں دودھ اور اولٹین، زبردستی ٹھونسنا پڑتا تھا۔
’’پھاٹک تو بند تھا رانی بی بی، لیکن گدھا کھانے کے کمرے تک میں کیسے گھس آیا۔؟‘‘ کمرے میں داخل ہوتے ہی نیلوفر کے پھولوں کے پیچھے سے کسی نے کہا۔ ایک زوردار قہقہہ پڑا۔ میں نے گھبرا کر میز کے دوسری طرف دیکھا۔ ایک تو تھا ہی ٹائرن پاور۔ اس وقت شیشوں میں سے چھنتی ہوئی دھوپ میں اور بھی زیادہ ٹائرن پاور لگ رہا تھا۔
’’می چی‘‘۔ ملو نے تعارف کرایا۔
’’بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔۔۔۔‘‘ اور امی کی نظر بچا کے ٹی کوزی کے آڑ میں سے میں اس کا اچھی طرح جائزہ لینے لگی۔
’’یہ بے چاری چائے دانی اتفاق سے شفاف نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے سامنے سے چائے دانی ہٹا دی۔ اتنے میں ٹائینی اخبار لے کر اندر آ گیا۔
’’رانی! آج تمہارا نتیجہ نکلنے والا تھا‘‘۔ اس نے پوچھا۔ میں تندہی سے بسکٹ پر مکھن لگانے میں مصروف تھی۔
’’اوہو، ارے ہاں خوب۔ آپ نے امتحان بھی تو دیا ہے۔۔۔۔‘‘
’’کا ہے کا؟۔۔۔۔ میٹرک؟‘‘
’’جی نہیں، بی اے آنرز۔۔۔۔‘‘ میں نے جھلا کر جواب دیا۔ کیا کہنے ہیں جیسے میں میٹرک پاس لگتی ہوں شکل سے۔۔۔۔
’’ارے باپ رے باپ! یہ لڑکیاں اتنا پڑھ کر کیا کرتی ہیں؟ اس نے گویا ڈر کر کرسی پیچھے کو سرکا لی۔ پنجاب سے کیا ہو گا غالباً۔ یہ اس نے اور بے عزتی کی۔ جان جل کر رہ گئی۔ ’’جناب عالی! میں نے الٰہ آباد سے کیا ہے بی اے۔۔۔۔‘‘ میں نے ذرا رعب سے کہا۔ ’’اوفوّہ! کس قدر خوف ناک بات۔ الٰہ آباد سے۔ ذرا خیال تو کیجئے، ہیں بھئی، ہمیں تو یقین ہی نہیں آتا۔ افوہ‘‘! وہ بولا۔ ’’میں توس پلیٹ میں چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’ارے رے رے نہیں۔ بگڑئیے مت بھئی ہم تو اتنی دور سے آپ کے یہاں آئے ہیں اور آپ ہیں کہ بس جنگ پر تلی بیٹھی ہیں‘‘ وہ ہنستے ہوئے خود بھی کھڑا ہو گیا۔ میں ٹائینی کے ہاتھ سے اخبار لے کر اس پر جھک گئی۔ ’’رزلٹ نہیں نکلا آپ کا؟‘‘ اس نے پہلی مرتبہ سنجیدگی سے بات کی۔ ’’جی نہیں، کل پرسوں تک آ جائے گا شاید‘‘۔ میں نے بھی صلح کر لینی مناسب سمجھی۔ امی جنس نکلوانے کے لیے پنیڑی کی طرف جا چکی تھیں اور ملو، گلو، ٹائینی اور نشو حسب معمول گیلری میں کھڑے کسی فضول سی بات پر الجھ رہے تھے۔ ’’آپ ہیں کون آخر؟‘‘ میں نے اخبار پرے پھینکتے ہوئے بہت شرافت کے ساتھ دریافت کیا۔ ’’میں …؟ ایک پردیسی ہوں بے چارہ۔ ادھر جنگل میں شکار کھیلنے آیا تھا۔ راستہ بھول گیا۔ یہاں سادھو کی کٹیا کے بجائے رات بسر کرنے کو ایک سجی سجائی کوٹھی مل گئی اور اس میں ایک پریوں کی شہزادی۔۔۔۔‘‘ اس نے بالکل کلارک گیبل کی طرح ایک بھوں اوپر اٹھا کر سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔ اور مجھے فوراً یاد آ گیا کہ آج اتوار ہے۔ دھوبی کو کپڑے دینے ہیں اور میں تیر کی طرح کھانے کے کمرے سے نکل کر دوسری طرف بھاگ گئی۔ اور جون کی بارش کی روپہلی پھواروں میں نرگس ولالہ کے نرم ونازک پودے جھومتے رہے۔ گلابی بادلوں میں ڈوبتے ہوئے سورج کی ترچھی رنگ برنگی کرنیں دریچوں کے شیشوں پر جھلملاتی رہیں اور ذرا سی ٹھیس سے آلوچہ سے لدی ہوئی شاخوں پر سے پانی کے بڑے بڑے قطرے ٹپ ٹپ نیچے برس جاتے۔ موسم اچھا معلوم ہونے لگا تھا۔ محاذ پر سے چلو بھائی کے لمبے لمبے اور بے حد مزے دار خط ہرہفتے آتے تھے۔ میرے بے چارے چلو بھائی‘‘۔!! ایل آ ان دنوں بڑی مصروف نظر آ رہی تھی۔ ایک روز میں نے تنگ آ کر دعا مانگی کہ ’’خدا کرے ایلا جو بھی تمہارا تازہ ترین دوست ہے اس کا کل ہی تبادلہ ہو جائے‘‘۔ کوئی بات بھی، یہ آر۔ اے ایف نہ ہوا مصیبت ہو گئی۔‘‘
’’بھئی یہ مت کہو۔ ابھی تو بے چارہ آیا ہے۔ اس نے بگڑ کر کہا ’’کون ہے وہ بے چارا۔ اللہ رحم کرے اس پر‘‘۔ رفیعہ ٹھیک تو کہتی تھی۔ لڑکیاں ہیں کہ مری جا رہی ہیں۔ خواہ مخواہ۔ بھلا دیکھو تو۔ چلو بھائی نے لکھا تھا کہ میرا دوست امید ہے تم لوگوں کو پسند آیا ہو گا۔ بہت پرلطف شخص ہے۔‘‘ اور واقعی می چی بہت باتونی تھا۔ دوپہر کو جھیل کے کنارے سبز گھاس پر اوندھے لیٹ کر دنیا بھر کے بے سرو پا قصے سنایا کرتا۔ چاکلیٹ اور امرود کی جیلی کا تو جانی دشمن تھا۔ ادھر تیار کرو اور کہیں بھی چھپا کر رکھو اور ادھر وہ آپ سے آپ غائب۔ کیرم کھیلتے تو ضد تھی کہ طرح طرح سے بے ایمانیاں کر کے ہمیں ہرادے اور خود کسی حالت میں بھی ہار ماننے پر تیار نہ ہوتا۔ مجھ سے تو اس نے کبھی دوستی کی ہی نہیں جو بات میں کروں گی اس کی مخالفت کرنے کے لیے موجود۔ مجھے ڈائنا ڈربن کے گیتوں سے عشق تھا۔ آپ کہیں سے نرائن راؤ ویاس کے سارے ریکارڈ اٹھالائے۔ ’’ہی ہی، آپ فرشتوں کی غلطی سے ہندوستان میں کیوں پیدا ہو گئیں۔ اور وہ ریکارڈ میرے غسل خانے کے برابر والے کمرے میں صبح سے شام تک بجائے جاتے! جس روز ہمارا نتیجہ نکلا می چی گھر پر نہ تھا۔ بہت جی چاہا کہ کسی طرح فوراً اس کو بتا دیا جائے کہ میں نشو، ایلا، گلو سب پاس ہو گئے ہیں۔ لیکن نہ معلوم کیوں تین دفعہ فون کی میز کے قریب جا کر میں پھر واپس آ گئی۔ شام کو اپنے دفترسے اس نے خود رنگ کیا۔ ’’ہر میجسٹی پاس ہو گئیں؟‘‘ اس نے ٹائینی سے دریافت کیا لیکن جب اس کو پتہ چلا کہ میں بھی فون کے پاس کھڑی ہوں تو وہ فوراً لہجہ بدل کر کہنے لگا۔ ’’سیکنڈ ڈویژن…؟ کل؟ وہ توکہہ رہی تھیں کہ یونی ورسٹی میں ٹاپ کرنے جا رہی ہیں۔ چلو خیر، یہ بھی اچھا ہوا بھئی۔ میری طرف سے دلی مبارک باد عرض کر دینا۔ دوسرے دن ہم نے پاس ہونے کی خوشی میں ایک زبردست مون لائٹ پکنک کا پروگرام بنایا۔ پارٹی کے بعد شام کا اندھیراچھاتے ہی ہم سب ٹہلتے ہوئے سروکے درختوں کے اس پار کالی پہاڑی کی طرف نکل گئے جہاں فرانسیسی ریزیڈنٹ کے قلعہ کے باغ میں آنکھ مچولی کھیلنے کی صلاح کی گئی تھی۔ پام کے اونچے اونچے سیاہ پتوں میں سے بڑاسازرد چاند نیچے جھانک رہا تھا، اور پہاڑی کی ڈھلان پر بنی ہوئی کرنل کی کوٹھی سنسان رات کے سناٹے کو اور بھی زیادہ ہیبت ناک بنا رہی تھی۔ کبھی کبھی اس کی کھڑکیوں میں سے ایک مدھم سی روشنی چمک کر غائب ہو جاتی۔ ہم ڈرتے ڈرتے بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی پر قدم رکھتے ہوئے پہاڑی کی جانب بڑھ رہے تھے۔ لڑکے بہت آگے جا چکے تھے۔ ’’ارے بھئی سواریاں کہاں رہ گئیں؟ تیزی سے چلوجی۔ ایلا تم تومیڈیکل مشن کے ساتھ چین جانے کو تیار تھیں۔ یہ تو فقط رات کے نوبجے قلعے کے باغ تک پہنچنے کا مرحلہ ہے۔ بہت دور اندھیرے میں سے شاید ملو نے للکار کر کہا۔ اور ایلا آگے نکل گئی۔ ’’اسی ہمت پر مردوں سے برابری کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اچھا ہے بھئی، میری ہونے والی بیوی تو صرف پنجاب کا میٹرک پاس ہے‘‘۔ یہ می چی کی آواز تھی۔ قہقہوں اور سیٹیوں کا شور اور تیز ہو گیا۔ اب ہم کرنل کی کوٹھی کے بالکل پاس سے گزر رہے تھے۔ چاند پام کے جھنڈ کے پیچھے چھپ چکا تھا۔ کوٹھی کے احاطے میں ایک طرف ان انگریز فوجیوں کی چند بھوری بھوری شکستہ قبریں بنی ہوئی تھیں جو غدر میں اس مقام پر مارے گئے تھے۔ ہماری تو اس طرف نظر ڈالنے کی بھی ہمت نہ پڑی۔ می چی ایسے ایسے عجیب قصے سنا چکا تھا۔
’’قوم کا اگر کوئی بہادر فرد اس بیچ والی کرنل کی قبر پر ماچس کی یہ ڈبیا رکھ آئے تو میں پورا ایک آنہ دینے کو تیار ہوں۔ می چی نے آگے جاتے جاتے پیچھے مڑ کر اعلان کیا۔
’’اوئی۔ ہی۔ ہی۔‘‘ لڑکیوں نے بن بن کر ڈرنا شروع کیا اور پھر پگڈنڈی کا راستہ چھوڑ کر سب لڑکے باری باری احاطے کی ٹوٹی ہوئی دیوار پر سے ہوتے ہوئے قبروں پر سے چھلانگ لگا کر دوسری طرف کود گئے۔
’’ہائیں نہیں ادھر سے مت جاؤ بھئی۔‘‘ لڑکیاں بے اختیار چلائیں۔ مجھے بھی خوف ہوا کہ کہیں اندھیرے میں می چی کا پیر نہ رپٹ جائے یا اس کو کرنل کا بھوت نہ پکڑ لے لیکن وہ چپ چاپ ٹفن باسکٹ اٹھائے پگڈنڈی پر چلتی رہی۔
لڑکے جانتے تھے کہ ہم لوگ جان جان کر ڈرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹارچ کی روشنی کوٹھی پر ڈالتے ہوئے می چی اونچی آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا… ’’ہاں تو بھئی پھر کیا ہوا کہ میں رات کو بارہ بجے میکس سے واپس آ رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جناب وہ سب سے اونچی چمنی پر چڑھا بیٹھا حقہ پی رہا ہے۔ اور اس کی ٹانگیں۔؟ بس کچھ مت پوچھو اتنی لمبی تھیں کہ دوسری منزل سے زمین تک پہنچ رہی تھیں۔‘‘
’’اوئی۔ افوہ۔’’لڑکیوں نے تیزی سے لمبی لمبی گھاس کا میدان طے کرنا شروع کیا۔
‘‘ٹہلتے ہوئے وہ ہمارے پاس سے اس طرح گزر جاتا تھا کہ اس کی باتیں ہم اچھی طرح سن سکیں۔ پھر اس گورے نے کہا۔ Halt Who Comes There میں نے سوچا کہ بھیا بھاگو یہاں سے۔ ایک تو اندھیری رات اور اوپر سے لگنے لگا ڈر۔۔۔۔ تیزی سے سائیکل جو چلائی تو وہی گورا سامنے آ کر چلا چلا کر مکھن توس کی فرمائش کرنے لگا۔ پھر کیا دیکھتا ہوں جناب عالی کہ ایک صاحب بہادر گھوڑے پر سوار اس پولو کے میدان کا چکر لگائے جا رہے ہیں۔ غور کرنے پر پتہ چلا کہ صاحب بہادر کا سر ہی غائب تھا۔ یعنی ذرا خیال تو فرمائیے کہ ان کا سر تھا ہی نہیں ایک سرے سے اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے۔ God bless the Queen where is my head اوفوہ۔۔۔۔‘‘
اور اسی وقت پولو گراؤنڈ کی طرف سے درختوں کے جھنڈ میں کوئی سفید سفید سی چیز ہلتی نظر آئی۔ ہمارا تو ہارٹ فیل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ڈر کے مارے تیزی سے چلایا بھی نہیں جا رہا تھا۔
لڑکے زور زور سے
For he is a Jolly good Fellow
گاتے ہوئے برج پر چڑھنے لگے۔ لڑکیوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ قلعے کے باغ میں پہنچ کر طرح طرح کے بے تکے کھیل ہوئے۔ ’’سزائیں‘‘۔ ''Opinions" ’’آج کی رات بہت دنوں تک یاد رہے گی نا؟۔۔۔۔ ’’می چی نے کھیلتے کھیلتے دفعتاً بہت سنجیدگی سے کہا۔ اور وہ بھی مجھ سے بڑے میلو ڈریمٹک انداز سے۔۔۔۔ مجھے ہنسی آ گئی، پھر وہ کچھ نہیں بولا۔
کھانے پینے کے بعد کیرم شروع ہوا اور اس میں ہمیشہ کی طرح اس نے سب کو ہرایا۔ لیکن کوئین تو چلو بھائی کی قسمت میں لکھی تھی۔ ایک ایک کر کے دن یوں ہی ختم ہوتے گئے۔
خوابوں کی وادی میں نقرئی گھنٹیوں والا کارواں چاند کی کرنوں پر سے بنے ہوئے راستے پر سے گزرتا ہوا اپنی نامعلوم منزل کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ پھر سفید اور نیلے پھولوں کا موسم بھی گزر گیا، زرد گلاب کی جھاڑیوں میں چھپی ہوئی شہد کی مکھیوں نے بھنبھنانا چھوڑ دیا۔ اور ہواؤں میں بکھرے ہوئے خشک پتے تیرنے لگے۔
’’می چی کل جا رہا ہے۔‘‘ ٹائینی اور گلو تقریباً رو پڑے۔۔۔۔ می چی آیا ہی کیوں تھا؟ بھلا! اور می چی واقعی چلا گیا۔ اسے صبح منھ اندھیرے پرواز کرنا تھا۔
اس لیے وہ رات ہی کو ’’ایرو ڈروم‘‘ روانہ ہو رہا تھا۔ کھانے کے بعد ہم سب اس کو پہچانے کے لیے گئے۔ کار سرو کے جھنڈ میں چھوڑ کر باقی کا راستہ ہم نے پیدل طے کرنا شروع کیا۔ ایرو ڈوروم کی سرخ روشنیاں دھندلکے میں دور سے جھلملا تی ہوئی نظر آنے لگی تھیں۔ می چی، گلو، ملو، ٹائینی بھاری بھاری قدم رکھتے ہوئے آگے جا رہے تھے۔ خاموش اور سحر آلود چاندنی میں
… I Promise, I always Pray For You
کے آخری الفاظ دیر تک گونجتے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا اس گیت سے مجھے ازلی نفرت تھی۔
می چی چلا گیا اور چاند کی ایک لرزتی ہوئی کرن بھیگی ہوئی آنکھوں میں تیرنے لگی۔ اورنرگس پر پڑے ہوئے بہت سے شبنم کے قطرے ایک ساتھ جگمگا اٹھے۔ اور پھر۔۔۔۔
وہی سفید اور نیلی کلیوں کا موسم تھا۔ اور وہی شفتالو کے پھولوں سے گھرے ہوئے راستے۔ چھوٹے چھوٹے زرد گلابوں کے گچھے، زرد قالین، زرد دیواریں اور زرد پتے، یہ رنگ ان کو پسند تھا۔ وہ صبح سے دورے پر گئے ہوئے تھے۔ برساتی میں کار کی سفید روشنی کا سیلاب سا آ گیا اور پھر دروازہ زور سے کھلا۔ می چی آیا تھا۔ وہی چاکلیٹ چرانے اور پھوتوں کی کہانیاں سنانے والا۔ می چی، اس میں ذرا سا بھی فرق نہ آیا تھا۔ وہ آتش دان کے شعلوں کو بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بات کروں۔
’’قہوہ منگواؤں یا چائے‘‘ میں بے چینی سے دعا مانگ رہی تھی کہ وہ جلدی سے آ جائیں۔
’’عام طور پر ایسے پیارے موسم میں قہوہ زیادہ اچھا لگتا ہے۔‘‘
لیکن اس نے تو صرف یہی کہا ’’جو آپ منگوا دیں۔‘‘
اور میں بلا ضرورت اون کو ادھیڑ کر پھر سے بننے لگی۔ ’’آپ ایران سے کب آئے؟‘‘
’’گزشتہ ماہ‘‘
’’کتنے دنوں کے لیے؟‘‘
’’دو مہینے کی چھٹی لی ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ایلا کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اسے اور بچی کو امی کے پاس پہچانا ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔‘‘ میں سلائیوں پر زیادہ انہماک سے جھک گئی۔ وہ Onlooker کی ورق گردانی کرتا رہا۔
اتنے میں دروازہ کھلا اور وہ اندر آ گئے۔ بے چارے دورے سے تھکے تھکائے آئے تھے۔ میں جلدی سے اٹھ کے دوسرے کمرے میں جا کے قہوہ تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔۔۔۔۔
’’یہ جو آپ نے اپنے خیال میں بڑا شاہکار افسانہ لکھا ہے قطعی فضول ہے۔ نہ ٹھکانے کا پلاٹ نہ ڈیولپمنٹ نہ کلائمکس۔ اور یہ کہ آپ ضرورت سے زیادہ جذباتی اور بے وقوف ہیں۔ ایک گدھے صاحب آتے ہیں اور چند روز آپ کے یہاں رہ کر تشریف لے جاتے ہیں۔ یعنی روزمرہ کی زندگی کا ایک بے حد معمولی اور غیر اہم واقعہ۔ جس کی وجہ سے آپ اس قدر میلو ڈریمٹک بن جاتی ہیں۔ کہ خدا کی پناہ، اور یہ ’’میری گلی میں ایک پردیسی‘‘۔۔۔۔ قسم کے گیت آپ کو قطعی نہیں سننے چاہئیں۔‘‘
اور نشو ریڈیو بند کر کے پھر سے کیرم کی گوٹیں ترتیب سے رکھنے لگی۔ کہانی واقعی ختم ہو چکی تھی۔۔۔۔!!
٭٭٭
دوسرا کنارہ
اندھیرا۔ بہت گہرا اندھیرا۔ خوابوں کا شہر، پرانے نغموں، پرانی یادوں کا چھوٹا سا ویرانہ، اس پر اندھیرا چھا گیا۔ سارے ایک دوسرے سے مل کر روتے ہوئے آگے روانہ ہو گئے۔ تاریک راستوں پر سے گزرتے ہوئے۔ سب امیدیں، سارے سپنے ان تاریک راستوں کے کنارے تھک کر گر پڑے۔ اور روحیں آئیں۔ تاریکی، وحشت اور ویرانی کی روحیں۔ چیختی چلاتی اور سائیں سائیں کرتی ہوائیں چلیں۔ اور آہستہ آہستہ بہنے والے سرخ دریا کے ساحل پر دھواں اٹھا اور احمق خداؤں کے سیاہ معبدوں میں جلنے والے چراغ روتے رہے۔ اور خوابوں کے اس ویران شہر میں رہنے والے شکست خوردہ انسان آگے بڑھے۔ ان کے دکھ بہت تھے۔ ان کے راز بے حد چھوٹے چھوٹے، بے بس، مجبور اور حماقت خیز۔ اور تاریکی چھا گئی۔
خاموش، ستاروں اور خوشبوؤں والی رات کی تاریکی۔ گہری۔ اور گہری۔ سناٹا۔ اکیلا اور ابدی اور لازوال۔ اور تھکے ہوئے وقت کے اس ریگستان کے پرے سے، اس کی عمیق وسعتوں کو کاٹتی ہوئی، ایک تیز، گمبھیر آواز تیر کی طرح نکلی اور بلند ہوئی۔
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔
اور دھواں اوپر اٹھتا رہا۔ شعلوں کی سرخ اور زرد رقصاں پرچھائیوں نے پانی کی سطح کو اور سرخ کر دیا۔ اور چاند ڈوب گیا۔ پرانے درختوں کی شاخیں آگے جھک آئیں۔ آبشار ٹوٹ کر چٹانوں پر بکھر گئے۔ چاند ٹوٹ پھوٹ کر، تھک کر، نیچے گر پڑا۔ اور ہوائیں روتی رہیں۔
پھر یہ اندھیرا کم ہوا۔ اور صبح ہوئی۔ ایک اور صبح۔ اور چھاؤنی کا بگل بج اٹھا۔ صبح، دوپہر، شام، رات، وہ بگل ہمیشہ اسی طرح بجا کرتا۔ ٹھنڈی اور سہانی صبح۔ اور دریچے کے باہر سوئیٹ پی کی خوشبوئیں اڑنے لگیں۔ اور گوبھی کے پتوں پر شبنم کے قطرے جھلملا اٹھے۔ دور پریڈ گراؤنڈز میں بگل بجتا رہا۔
پھر سورج نکلا۔ پھر بادل چھٹے۔ پھر روشنی پھیل گئی۔ پر وہ وہاں نہیں تھا۔ وہ بہت دور تھا۔ بہت دور۔ لا پرواہ، مذاق اڑاتا ہوا، خود پسند، مغرور۔ اور کرائیسٹ چرچ کے گھنٹے بجنے لگے۔ اور بہت سے شور بہت سی آوازیں۔ سب نے مل کر چاروں طرف سے جیسے اس کو دبا دیا۔
وہ بہت اکتا کر، بہت تھک کر اپنی بڑی بڑی آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔
بیٹا صاحب جگ گئیں۔ مہریوں نے ایک دوسرے سے سرگوشی میں کہا اور دوڑ بھاگ مچا کر اس کے کام میں مصروف ہو گئیں۔ اس کا کتا اچھلتا کودتا آ کر مسہری کے قریب صوفے پر پیر لٹکا کر کھڑا ہو گیا۔
کھانے کے کمرے میں صبح کی چائے کی گھنٹی تھرانے لگی۔ اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے اپنی آنکھیں آہستہ آہستہ بند کر لیں۔ سرخ اندھیرا اور زیادہ گہرا ہوتا گیا۔ اس نے کسی چیز کو دیکھنا نہ چاہا۔ ہر چیز سے۔ ہر ذرے سے اس کا خیال وابستہ تھا۔ وہ دریچے کے نیچے اس روش پر سے گزر کر اپنی کار میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہ گیلری میں رکھے ہوئے ریک پر اپنی ہیٹ پھینکتا ہوا پردہ اٹھا کر اندر بڑے بھیا کے کمرے میں چلا جاتا تھا۔ وہ ٹیلیفون کی میز پر جھک کر ڈائریکٹری کے ورق پلٹتا تھا۔ وہ اسی نیلے آسمان کے نیچے، ان ہی فضاؤں میں اب بھی سانس لے رہا ہے۔ کاش۔ کاش۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ کچھ نہ ہوتا۔ پر ایسا نہیں تھا۔ اور اس کا کتا مسہری کے نیچے کھڑا چوکلیٹ کے انتظار میں دم ہلا رہا تھا۔ وہ اس کمبخت کتے کو بھی چھو چکا تھا۔ اسے اپنے ہاتھ سے چوکلیٹ کھلا چکا تھا۔
اس نے مسہری پر سے جھک کے کتے کے ریشمی بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اور ایسا کرتے ہوئے اسے انتہائی تکلیف محسوس ہوئی۔
باہر برآمدے میں آیا بڑے بھیا کے بچے کو ڈانٹ رہی تھی۔ اگر تم نے پھر شرارت کی تو آنکل جمیل نہیں آیا کریں گے۔ وہ تمہیں کبھی اپنی موٹر سائیکل پر نہیں بٹھائیں گے۔ وہ کہہ رہے تھے ٹونی بڑا برا ہے۔ ہم اس سے خفا ہو کر جا رہے ہیں۔ آیا برابر ٹونی سے باتیں کرتی رہی۔
کتا برابر دم ہلاتا رہا۔ اب وہ پاگل ہو جائے گی۔ قطعی پاگل۔ بالکل باؤلی ایسی۔ پھر وہ مسہری پر سے اتری۔ ایک مہری روز کی طرح اس کو صبح کا اخبار دے گئی۔ وہ صوبے کا گزٹ کبھی نہیں دیکھتی تھی۔ پر اس وقت اس کی نظریں پانیئر کے گزٹ کے کالم پر پڑ گئیں۔ اس کا تبادلہ کہیں بہت دور ہو گیا تھا۔ اس نے اخبار قالین پر پھینک دیا۔ کمبخت گدھا کہیں کا۔ گدھا۔ الو۔
چھاؤنی کے بگل بجتے رہے۔ صبح، شام، رات، صبح، شام، رات۔ رنگ برنگی روشنیاں اور لرزاں سائے اس کے چاروں طرف ناچا کیے۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
اس نے بھولنا چاہا۔ ہمیشہ کے لیے بھول جانا چاہا۔ وہ لمحے۔ وہ ساعتیں۔ وہ انتہائی تکلیف دہ ساعتیں۔ ان کی انتہائی کرب انگیز یاد۔ جب اس کی بہن کی شادی کے ڈنر کی رات وہاں پر خوب تیز روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ اور دور دور تک پھیلے ہوئے یوکلپٹس اور پام کے درختوں کے پتے رات کی ہواؤں میں سرسرا رہے تھے، اور ’’شرارت‘‘ اور ’’صندل‘‘ اور ’’پیرس کی شام‘‘ کی خوشبوئیں ’’رات کی رانی‘‘ کی مہک میں مل جل کر ہوا میں اڑ رہی تھیں۔ اور لا تعداد چمک دار طویل کاروں کی قطاریں برآمدوں، درختوں اور شہ نشینوں میں سے جھانکتی ہوئی برقی روشنیوں میں جگمگا تی تھیں اور سبزے پر ملٹری بینڈ بجایا جا رہا تھا۔ اور مہمانوں کے گروپ گھاس کے قطعوں پر، جگمگاتے درختوں کے نیچے، برآمدوں اور شہ نشینوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ اور اندر آرکیسٹرا بج رہا تھا۔
اور اس وقت وہ تھوڑی دیر کے لیے گل مہر کے پیڑ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کی انگلیوں میں سگریٹ جل رہا تھا۔ اور اس نے ٹوٹو سے کہا تھا۔ میرا عزیز ترین دوست لیفٹننٹ کمانڈر رحمن کراچی سے آیا ہوا ہے۔ وہ راج کماری صاحبہ سے شادی کرنا چاہتا ہے میں بھی اس کی پر زور سفارش کرتا ہوں۔ راج کماری سے پوچھنا کیا وہ اسے پسند کر لیں گی مجھے تو وہ بے حد پسند ہے۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔
پھر وہ ٹوٹو سے باتیں کرتا ہوا دوسرے مہمانوں کی طرف چلا گیا تھا۔ اور سبز درختوں اور سرخ شہ نشینوں میں نارنجی اور نیلے برقی قمقمے جل رہے تھے اور وہ قمقمے سب کے سب ایک دم سے بجھ گئے۔
آرکیسٹرا کی موسیقی بجتی رہی۔ اور دریا کے سرخ پانیوں کے کنارے دھواں بل کھاتا ہوا اوپر اٹھا۔ اٹھتا گیا۔ اور اس کے پپوٹوں کی جلن زیادہ ہو گئی۔ اور رات کے گہرے اندھیرے میں ریڈیو گرام چلاتا رہا۔
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم۔
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔
اگر نامہ بر ملے۔
پھر وہ وہاں سے چلا گیا۔
اس وقت وہ سب بالکونی کے نیچے باتوں میں مصروف تھے۔ گل مہر کی شاخوں کے پرے اس کی ٹرک کھڑی تھی۔ اور درختوں میں بڑے بڑے سرخ پھولوں سے جیسے آگ لگ رہی تھی۔ وہ اپنی بہن کی شادی میں آئے ہوئے مہمانوں کو اپنے ساتھ پکنک اور مچھلی کے شکار پر لے جانے کے پروگرام بنا رہا تھا۔ اور اس نے بڑے بے تکلفی سے اس کی طرف مڑ کر اسماء سے کہا آپ کی ممی بھی ہمارے ساتھ جاویں گی؟ آپ کے لیے کل صبح پانچ بجے تک اسٹیشن ویگن اور ٹرک بھجوا دیئے جاویں گے۔ پھر اس نے سب کو اپنی مترنم آواز میں خدا حافظ کہا اور اس کی ٹرک سرخ بجری والی سڑک پر سے گزرتی صنوبر کے درختوں کے پرے جا کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
پھر وہ اسماء کے لیے جس کے شوہر کا تبادلہ ان ہی دنوں پونا سے وہاں کا ہوا تھا، کوٹھی کے متعلق طے کرنے کے لیے اس راستے پر سے گزری جس کے دونوں طرف جامن کے سایہ دار درخت تھے۔ اس نے اس گھر کے آگے کار روک لی جس کی روشوں کے ساتھ ساتھ چنار اور صنوبر کے درخت کھڑے تھے۔ جہاں چاروں طرف سبز گھاس کے وسیع قطعوں میں جن کے کنارے کنارے تیز سرخ، کاسنی اور سفید پھول لہلہا رہے تھے، پانی دیا جا رہا تھا۔ گھاس پر پانی کے ٹیوب دور دور تک بکھرے پڑے تھے ان میں سے بہہ بہہ کر پانی آہستہ آہستہ گھاس میں جذب ہو رہا تھا۔ سرد پر سکون۔ خاموش۔
وہ اس کا گھر تھا۔ اس کا ہو سکتا تھا۔ پر اس کا نہیں تھا۔ مالی اپنا برہا ختم کر کے لمبے لمبے قدم رکھتا پھاٹک تک آیا۔ کوٹھی ابھی خالی نہیں ہو گی مس صاب۔ صاحب بہادر سرکاری کام سے تھوڑے دن کے لیے ولایت جانے والا ہے۔ اس لیے پوری کوٹھی بند کر دی جائے گی خالی دفتر کے کمرے کھلے رہیں گے۔ اپنا کارڈ چھور جائیے مس صاحب۔ اس کی کار ایک جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھی اور دوسرے پھاٹک سے نکل کر خاموش، سایہ دار سڑک پر آ گئی۔
اور وہ اندر سو رہا تھا۔ وہ باہر ہی سے واپس چلی گئی۔ اور وہ اندر سو رہا تھا۔ پھر وہ جاگ کر اپنی ساگوان کی مسہری پر سے اٹھا۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ اس نے سگریٹ جلایا۔ اس نے ڈریسنگ گاؤن پہنا۔ اور وہ اپنے پرانے ووڈ اسٹاک اسکول کا ایک پرانا گیت گنگناتا ہوا غسل خانے میں گیا، وہاں نہاتے میں اس کی ناک میں صابن گھسا اور اسے خوب چھینکیں آئیں۔ اور اس نے چپکے سے کہا لاحول ولاقوۃ۔ پھر وہ ٹینس کے لیے تیار ہونے لگا۔ اور چائے پیتے پیتے اس نے ریڈیو گرام پر اپنا پسندیدہ ریکارڈ لگا دیا۔
تجھ سے توکچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم۔
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔
جبکہ وہ اس سایہ دار سڑک پر سے واپس جا رہی تھی۔ پھر اندھیرے میں دو کاریں آمنے سامنے مخالف سمتوں سے ایک دوسرے کی طرف بڑھیں۔ پہلی کار نے قریب پہنچ کر اپنی سامنے کی روشنیاں مدھم کر دیں۔ اور دوسری کار زناٹے کے ساتھ برابر سے نکل گئی۔ وہ کلب سے واپس آ رہا تھا۔ اور وہ اسی وقت کلب جا رہی تھی۔
وہ چلتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ دریا کے آخری پل تک پہنچ گئی۔ اس نے کار روک لی۔ وہ اسے بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ اور خوابوں، امیدوں کا ایک روتا ہوا ہجوم اندھیرے میں آگے بڑھتا گیا۔ اس کے پپوٹے یوں ہی جلتے رہے۔ چھاؤنی کا بگل بجا اور آدھی رات کے پرند باغ کی تاریک جھاڑیوں میں شور مچانے لگے۔
اللہ۔ اللہ میرے۔ میں کس قدر کی احمق ہوں۔ اْلو۔ وہ جتنی مرتبہ اب تک اس سے ملی تھی۔ کلب کے بال روم میں، ٹینس کورٹ پر، سال نو کی پریڈ کے موقع پر، ٹی پارٹیوں میں، اس کو ایک ایک منظر، ایک ایک لفظ، ایک ایک بات یاد تھی۔ وہ کس کس سے باتیں کرتا رہا تھا۔ اس نے کیا کیا کہا تھا۔ وہ کس کس موقع پر ہنسا تھا۔ اس نے کب اپنے مخصوص انداز میں اپنی سیاہ آنکھیں جھپکائی تھیں اور اس کو یہ بھی یاد تھا کہ اتنے سارے موقعوں پر اس نے کبھی اس سے ایک بات بھی نہیں کی تھی۔ وہ ہمیشہ دوسری لڑکیوں کا پارٹنر بنتا۔ کھیلوں میں، رقص میں، بحثوں میں، وہ کبھی اس گروپ میں شامل نہیں ہوا جس میں وہ موجود رہی ہو۔
سال نو پر اس نے سب کو اپنے ضلع کے جنگلوں میں شکار کے لیے مدعو کیا۔ پر اس کی طرف مڑ کر دیکھا بھی نہیں۔ وہ جب بھی کسی جگہ جاتی ہمیشہ ایسا اتفاق ہوتا کہ وہ چند لمحے قبل وہاں سے جا چکا ہوتا یا پھر اس کے جانے کے بعد وہاں پہنچتا۔ اس ساری بے تعلقی اور بے نیازی کے باوجود وہ بڑے بھیا کا بہت گہرا دوست تھا، اور ٹوٹو کا، اور اس کی ممی بڑی کنور رانی صاحبہ کا۔ بڑی کنور رانی صاحبہ کو وہ ہمیشہ ان کی ریاست کے مقدموں کے متعلق طرح طرح کے دل چسپ مشورے دیا کرتا۔ ان کے اختلاج قلب کے وہمی عارضے کے لیے نئے نئے معالج تجویز کرتا۔ بڑے بھیا کو گھوڑوں، کتوں اور موٹروں کی خریداری میں ان کی مدد کرتا۔ بڑے بھیا کی ولایتی بیوی یعنی چھوٹی کنور رانی صاحبہ کے ساتھ ان کے پسندیدہ رقص کرتا۔ ٹونی سے کھیلتا۔ ٹوٹو سے اس کی فزکس اور ہوائی جہازوں کی باتیں کرتا۔
پھر اس کا تبادلہ ہو گیا اور وہ وہاں سے بہت دور چلا گیا۔ اور اس نے یوپی گزٹ کا پرچہ آتش دان میں پھینک دیا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں کے پپوٹے اسی شدت سے جلا کیے۔ وہ اپنی اس بے کار، بے مصرف، احمق زندگی سے عاجز آ گئی۔
پھر وہ جاڑوں کے سرد، اکتائے ہوئے بے رنگ دن گزارنے کے لیے اپنے تعلقے پر چلی گئی۔ اس نے اپنے پرانے قصباتی محل کی ایک ایک چیز کو چھوا۔ شہ نشین، دالان، گیلریاں، کمرے، وہ پھاٹک جن کی محرابوں پر اودھ کی سلطنت کا پرانا نشان آمنے سامنے دو بڑی بڑی مچھلیاں سرخ پتھر سے بنی ہوئی تھیں۔ وہ درخت جن کی شاخوں پر بیٹھ کر وہ ٹوٹو کے ساتھ بچپن میں اسکول کا ہوم ورک ختم کیا کرتی تھی۔ اور باغ کے نشیب میں بانس کے ہرے جھنڈ کے نیچے بڑے حوض کے جنگلے کی جالی کے کچھ حصے شکستہ ہو کر پانی میں گر چکے تھے۔ آم کے سائے میں سرخ پتھر کے چبوترے کے چاروں طرف اونچی اونچی گھاس اور خودرو پودے اگ آئے تھے۔ اور چبوترے کی سیڑھیوں کے کونے ٹوٹ گئے تھے۔ موٹر خانے اور اصطبل کی چھت کے بھاری شہتیر بہت نیچے جھک آئے تھے۔ اور اس کا دل جیسے بیٹھا جا رہا تھا۔
اور سارے قصبے میں شور مچ رہا تھا۔ بٹیا صاحب واپس آ گئیں۔ بٹیا صاحب اب بہت بڑی ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کالج، ولایت سب پاس کر لیا ہے۔ بڑے بھیا صاحب اتنا پڑھ گئی ہیں۔ پر اب ان کو گھوڑوں کا شوق نہیں رہا۔ ان کے دونوں گھوڑے اصطبل میں اکتائے ہوئے کھڑے ہیں پر بٹیا صاحب نے بھول کر بھی رام آسرے سے ان کے لیے کچھ نہیں پوچھا۔ وہ اب موٹر بھی اتنی تیزی سے نہیں چلاتیں۔ بس دن بھر اکیلی اکیلی باغ میں گھوما کرتی ہیں یا بڑے چودھری صاحب کے مزار کی سیڑھیوں پر بیٹھی جانے کیا کیا لکھا کرتی ہیں۔
پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں۔ بٹیا صاحب کی بڑے بھیا صاحب سے لڑائی ہو گئی ہے۔ چھوٹے کنور صاحب ٹوٹو میاں تو گزارے دار ہیں ان سے بڑے بھیا سے کوئی مطلب نہیں لیکن بڑے چودھری صاحب بٹیا صاحب کو بہت چہیتے تھے وہ بٹیا صاحب کے نام بہت سے گاؤں لکھ گئے ہیں۔ ویسے تعلقداری کے قانون کے لحاظ سے لڑکی کو وراثت میں کچھ نہیں ملتا۔ اسی لیے بڑے بھیا اب ان سے جلتے ہیں۔
بڑے بھیا اپنی ریاست میں بہت ہردلعزیز تھے۔ انہیں ٹینس، کتوں، گھوڑوں اور موٹروں کا بے حد شوق تھا۔ وہ ہر سال نئی موٹریں خریدتے اور عمدہ گھوڑے اور کتے۔ لیکن وہ کبھی ریس میں نہیں جاتے تھے۔ کبھی ڈرنک نہیں کرتے تھے۔ چھتر منزل اور دل کشا کلب میں رات رات بھر ڈانس میں نہیں گزارتے تھے۔ ان کے تعلقے کو کورٹ آف وارڈ سے چھٹکارا حاصل کیے بہت کم عرصہ ہوا تھا لیکن اتنے دنوں میں انہوں نے اپنی رعایا کے دلوں میں بہت جلد جگہ بنا لی تھی۔ ان کی ولایتی میم صاحب کبھی پتلون یا اونچی اونچی اسکرٹ پہن کر باہر نہیں گھومتی تھیں جیسا کہ سنا گیا تھا کہ وہ لکھنؤ، نینی تال اور مسوری میں کرتی ہیں۔ بلکہ ہمیشہ بڑی کنور رانی صاحب اور بٹیا صاحب کی طرح ساڑی پہن کر اور آنچل سے سر ڈھک کر باہر نکلتی تھیں۔
پر اتنے اچھے بھیا صاحب کو جانے کیا ہوا کہ اپنی اکلوتی بہن سے لڑ بیٹھے۔ اور پرانی محل سرائے کی ساری مہریاں، مغلانیاں، سائیس، رکاب دار اور دوسرے ملازمین سائے کی طرح جیسے چپکے ادھر ادھر سرگوشیاں کرتے پھرتے۔ بٹیا صاحب کو دیکھ کر انہیں بڑے چودھری صاحب کا زمانہ یاد آ رہا تھا۔ ان کو مرے کتنے کم دن ہوئے تھے پر لگتا تھا جیسے مدتیں گزر گئیں۔ وہ دن جب بٹیا صاحب اسکول بند ہونے پر چھٹیوں میں نینی تال سے آتی تھیں اور چھوٹے بھیا کے ساتھ دور دور تک گھوڑا دوڑاتی چلی جاتی تھیں اور جب گرمیوں میں آم کھانے کے لیے لکھنؤ سے بھیا صاحب کے دوستوں اور ان کی سہیلیوں کی پارٹیوں کے ٹرک اور اسٹیشن ویگنیں خوب دھول اڑاتے قصبے کی سڑک پر داخل ہوتے تھے۔ وہ سب زمانے گزر گئے۔
اور بڑے چودھری صاحب سفید جالی والے سنگ مرمر کے مزار پر موتیا اور بیلے کے جھاڑ جھک آئے اور ان کے گھوڑے اصطبل میں کھڑے کھڑے بوڑھے ہو چلے۔ اور بٹیا صاحب اکیلی اکیلی دن بھر آم کے باغوں میں گھوما کرتیں۔ پھر وہ اپنے باغوں سے بھی اکتا گئی۔
اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کرے۔ اور ایک روز لکھنؤ سے آنے والی سیمنٹ کی چوڑی سڑک پر سے گرد اڑاتی ہوئی ایک سفید اسٹیشن ویگن آم کے ان ہرے کنجوں میں داخل ہوئی اور سرجو کے کنارے آ کر رک گئی۔ اور سارے میں کھلبلی مچ گئی۔ کیونکہ بڑے بھیا صاحب اور چھوٹے کنور صاحب کی غیر موجودگی میں بڑے صاحب ضلع کا دورہ کرتے ہوئے وہاں آن پہنچے تھے۔ اور بٹیا صاحب کو یہ خبر سنانے کے لیے مہریاں سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھیردار سرخ اور اودے لہنگے سمیٹتی اور پیروں کے کڑے اور جھاجن بجاتی محل سرا کے اندر بھاگیں۔ اور ڈیوڑھیوں میں بیٹھ کر شطرنج کھیلنے اور حقہ پینے والے منشی اور لالہ اور بھیا صاحب کا سارا عملہ ہڑبڑا کر اپنے اپنے کاغذات اور رجسٹروں کی طرف لپکا۔ اور قیامت کی طرح وہ اپنی سفید اسٹیشن ویگن میں سے اترا۔ اور اپنے گوگلز اتار کر اس نے چاروں طرف کی ہریالی، اور سرجو کے پگھلی ہوئی چاندی جیسے پانی پر نظر ڈالی۔ اور پھر وہ اپنے عملے کے ساتھ جانچ پڑتال کے لیے آگے روانہ ہو گیا۔ اور بٹیا صاحب پرانی محل سرا کے اندر اپنے وکٹورین طرز کے سجے ہوئے کمرے میں بیٹھی پیانو بجاتی رہیں۔
اور سرجو کے کنارے آم کے باغ میں بڑے صاحب کا پڑاؤ کئی دن تک رہا۔ اور ایکا ایکی بٹیا صاحب اپنی بیوک میں بیٹھ کر لکھنؤ واپس جانے لگیں۔ ان کا سارا عملہ اور سارے رشتے دار انہیں خدا حافظ کہنے باغ کے بڑے پھاٹک تک آئے جس کی محرابوں پر سرخ پتھروں کی دو مچھلیاں بنی ہوئی تھیں۔ اور پھر دو موٹریں اسی ٹرک پر جامنوں کی چھاؤں میں آگے پیچھے دوڑنے لگیں۔ ایک سفید اسٹیشن ویگن۔ اور ایک گہری سرمئی بیوک ایک جھٹکے کے ساتھ نیلے دھوئیں کے بادل چھوڑتی ہوئی آگے نکل گئی اور اسٹیشن ویگن سیمنٹ کی سفید ویران سڑک پر رینگتی رہی۔ اس کی آنکھوں کے پپوٹے یوں ہی چلتے رہے۔ اور چھاؤنی کے بگل اسی طرح بجا کیے۔ اور کرائیسٹ چرچ کے گھنٹے۔
پھر گرمیاں آئیں۔ اور مسوری کا سیزن… وہ ایک انگریز پولیس آفیسر تھا۔ جو صرف تین سال قبل انگلستان سے آیا تھا اور کہتے ہیں اس سیزن میں وہ اس پر بالکل مر مٹا۔ اور قصبے میں پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں۔ بٹیا صاحب کو کیا ہو گیا جو انگریز سے شادی کیے لے رہی ہیں۔ اور مسوری کی روایت ہے کہ ایلمر بریڈلے تو چٹان پر سے کود کر خود کشی کے لیے تیار تھا۔ ٹوٹو کا بمبئی سے تار آیا۔ کیا یہ افواہ صحیح ہے۔ کاش وہ صرف یہ محسوس کر لیتا۔ کاش اس کا اندازہ ہو جاتا کہ وہ یہ کچھ محض انتقاماً کرنا چاہ رہی ہے۔ بے بسی کا انتقام۔ لیکن وہ بہت دور تھا اور ہمیشہ کی طرح سب بے نیاز اور بے تعلق۔ چاہے وہ اس سے بھی زیادہ کوئی انتہائی حماقت انگیز حرکت کر بیٹھتی تب بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ اس کے متعلق کچھ سوچتا بھی نہیں۔ اور بریڈلے کی چھٹی ختم ہو رہی تھی اور وہ الٰہ آباد واپس جا رہا تھا جہاں کا وہ ایس پی تھا۔
اور جب وہ رنک سے نکل کر ایلمر بریڈلے کے ساتھ رکشا میں بیٹھ رہی تھی اسی وقت وہ لیڈی اعجاز کے خاندان کے ساتھ اس طرف آتا نظر آیا۔ اس کی سیاہ آنکھوں کی گہرائیاں بہت خاموش تھیں۔ ہمیشہ کی طرح بہت خاموش لیکن متبسم۔ رکشا کے قریب سے گزرتے ہوئے انہیں دیکھ کر وہ بریڈلے سے باتیں کرنے لگا۔ ادھر ادھر کی باتیں۔ اپنے اپنے محکموں کے واقعات۔ اور پھر قہقہے، مترنم قہقہے۔ اور مسوری کی ساری روشنیاں چکر کھاتی، گھومتی ہوئی نیچے ڈوبی جا رہی تھیں۔ اور جس چٹان پر اس کی رکشا کھڑی تھی وہ ٹوٹ کر تیزی سے نیچے کھڈ میں گر رہی تھی۔ پھر وہ اس کو سلام کیے بغیر، اس کو دیکھے بغیر لیڈی اعجاز کی چھوٹی لڑکی اور دونوں بڑے بیٹوں کے ساتھ وادی کی طرف اتر گیا۔ شاید وہ سب چاندنی رات کی پکنک کے لیے جا رہے تھے۔
یہ راج کماری جہاں آرا بیگم اس انگریز شخص سے کیوں شادی کر رہی ہیں۔ اس سے تو ہمارا لیفٹنٹ کمانڈر حفیظ الرحمن ہی کہیں بہتر تھا جو میں نے تجویز کیا تھا۔ اس نے دور سے اسے کہتے سنا پھر وہ سب وادی میں اترتے ہوئے چاندنی کے دھندلکے میں کھو گئے۔ اور اس شام، واپس سوائے پہنچ کر اس نے رات بھر میں اپنا سارا سامان پیک کر لیا۔
ٹوٹو بمبئی سے آ چکا تھا۔ بڑی کنور رانی صاحبہ کی دیکھ بھال اس کے سپرد کر کے وہ صبح پہلے گیٹ سے دہرہ دون آ گئی۔ راجپور سے اس نے ایلمر بریڈلے کو فون کیا کہ وہ جا رہی ہے اور افسوس ہے کہ اب اس سے کبھی نہیں مل سکے گی کیونکہ اس نے اپنا شادی کا ارادہ تبدیل کر دیا ہے۔ وہ گھر واپس پہنچی اور کار سے اتر نے کے بعد سیدھی اپنے کمرے میں جا کر مسہری پر گر گئی۔ اور خوب خوب رونے سے زیادہ مناسب کام اس کی سمجھ میں اس وقت اور کوئی نہ آیا۔ وہ خوب روئی۔ یہاں تک کہ شام کا اندھیرا چھا گیا اور مال پر قمقمے جگمگا اٹھے۔
پھر چھاؤنی کا رات کا بگل بجا۔ اور باغ میں رات کے پرند چیخنے لگے۔ پھر صبح ہوئی۔ ایک اور صبح۔ اور وہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی۔ اور مسہری کے سرہانے کی میز پر اس کی غیر موجودگی میں جمع شدہ ڈاک کے ایک نقرئی لفافے پر اس کی نظر پڑی۔ وہ سَر احمد و لیڈی اعجاز کی چھوٹی لڑکی کی شادی کا دعوت نامہ تھا۔ اور کھانے کے کمرے میں چھوٹی کنور رانی صاحبہ اپنے بچے کو اوولٹین پلانے کے مرحلے میں مصروف اسے طرح طرح سے بہلا پھسلا رہی تھیں ٹونی اب کے سے تمہارے انکل جمیل تمہارے لیے اسکوٹر لائیں گے۔ اور اچھا تم اپنی نئی آنٹی کو دیکھو گے؟ انکل جمیل تمہارے لیے ایک پیاری سی آنٹی لینے گئے ہیں۔ تم نے اوولٹین نہیں پیا تو ریحانہ آنٹی تم سے کبھی نہیں بولیں گی۔ اور ٹونی نے فوراً اوولٹین پینا شروع کر دیا۔
اور رات آئی۔ ایک اور رات۔ جبکہ ہوائیں چل رہی تھیں اور بارش ہو رہی تھی۔ بڑے بھیا اور چھوٹی کنور رانی صاحب گورنمنٹ ہاؤس کے ڈنر میں گئے ہوئے تھے۔ اور وہ اکیلی تھی۔ اتنے بڑے گھر میں اکیلی۔ بالکل تنہا۔
اور اس وقت اس نے سوچا۔ وہ کیوں پیدا ہوئی۔ کیوں بڑی ہوئی۔ اس نے کیوں اتنا پڑھا لکھا۔ وہ مسوری کے مقابلۂ حسن میں کیوں ہمیشہ فرسٹ آئی۔ اس نے شہسواری اور پیانو میں مہارت کس لیے حاصل کی۔ کس لیے انسان اتنا مجبور اور بے بس ہے۔ اتنا بے بس۔
پھر ٹوٹو نے بمبئی سے لکھا۔ بٹیا۔ لفٹنٹ کمانڈر رحمن سے اب بھی شادی کر لو۔ وہ تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔ لیکن وہ خاموش رہی، جن باتوں کا وہ مذاق اڑایا کرتی تھی وہی سب باتیں ایک ایک کر کے اس کے ساتھ ہو رہی تھیں۔ قسمت کتنی ستم ظریف ہے۔ اور روایت ہے کہ ایلمر بریڈلے اس قدر دل شکستہ ہوا کہ اس نے آئی سی ایس اور آئی پی والوں کے لیے (Compensation) کی تجویز منظور کر لی اور اگلے جہاز سے ولایت واپس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ اور پھر بڑے بھیا نے کہلوایا۔ میں ہرگز یہ پسند نہیں کر سکتا کہ تم اس طرح بے کار بے کار ادھر ادھر گھوما کرو۔ تمہیں اب کسی نہ کسی سے شادی ضرور کرنا پڑے گی۔
بڑی کنور رانی صاحبہ پر اختلاج قلب کا بہت سخت دورہ پڑنے والا تھا لیکن اس کی شادی کی خوشی میں وہ اچھی ہونے لگیں۔ اور پھر اسی طرح شہ نشینوں اور درختوں میں برقی قمقمے جگمگائے۔ اسی طرح ملٹری بینڈ اور آرکیسٹرا چیخا۔ اور اس کی شادی ہو گئی۔ اس نے اپنے شوہر کو ایک آدھ مرتبہ پہلے کبھی مسوری میں دیکھا تھا۔ وہ ایک چھوٹا سا تعلقہ دار تھا۔ اس کی تعلیم لکھنؤ کے لامارٹنیز اور کالون تعلقہ دارز کالج سے آگے نہ تھی۔ لیکن وہ اچھا ڈانسر تھا اور ٹینس کا اچھا کھلاڑی۔ اور اچھا فلرٹ۔ مسوری آئی ہوئی ہندوستان کی ساری راج کماریوں اور بیگمات سے فلرٹ کرنا اس کا دل چسپ ترین مشغلہ تھا۔
اور اس کی شادی ہو گئی اور وہ اس زندگی میں زبردستی دل چسپی لینے لگی جو اسے کبھی بھی زیادہ پسند نہ تھی۔ وہ گرمیوں کے چار مہینے پہاڑ پر اور سال کا باقی حصہ اپنے شوہر کے تعلقے پر بارہ بنکی یا سیتا پور میں گزارتی جہاں روز کسی نہ کسی انگریز یا ہندوستانی افسر کی آمد پر دعوتیں ہوتیں اور اکثراسے رات گئے تک رقص میں جاگنا پڑتا۔ لیکن وہ خاموش رہی۔ وہ اپنی آنکھوں کے پپوٹوں کی جلن کو بھلانے میں خاصی کامیاب ہو چکی تھی۔
اور چھاؤنی کے بگل کی آواز کو۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اپنے بچے کی دیکھ بھال میں مصروف رہنے لگی۔
اور پھر ایسا ہوا کہ اس کا تبادلہ اسی ضلع کا ہو گیا جہاں اس کے شوہر کی ریاست تھی۔ اس کی بیوی ان دنوں اپنی ممی لیڈی اعجاز کے وہاں شملے گئی ہوئی تھی۔ کاش کوئی آ کر اس سے کہتا کہ وہ بالکل اپنی بیوی سے خوش نہیں ہے۔ وہ بہت رنجیدہ رہتا ہے۔ وہ اکثر افسوس کیا کرتا ہے کہ اس نے ریحانہ اعجاز سے کیوں شادی کر لی۔ لیکن وہ تو ہمیشہ کی طرح بہت خوش اور بشاش تھا۔ اس کی سیاہ آنکھیں ویسے ہی متبسم تھیں اور اس کے قہقہے ویسے ہی مترنم۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔
اور اس سال مسوری میں اس کا شوہر جس کی اپنے مخصوص مشغلہ میں دل چسپی ایسی ہی برقرار تھی، سوسائٹی کے ایک بہت زبردست اسکینڈل میں انوولو (Involve) ہو گیا اور نئی دہلی کے ایک ’’نائٹ‘‘ کی لڑکی نے اسے کورٹ تک پہچانے کی دھمکی دی وہ یہ سب باتیں برداشت نہیں کر سکی۔
اس نے خاموشی سے طلاق لے لی اور ایک بار پھر لکھنؤ واپس آ گئی۔ اس کا بچہ اسے نہیں مل سکا بڑی کنور رانی صاحبہ نے اس سے بولنا چھوڑ دیا۔ بڑے بھیا نے اس سے قطع تعلق کر لیا ٹوٹو کسی ٹریننگ کے لیے امریکہ جا چکا تھا۔ اور اس وقت اسے ایلمر بریڈلے کا خیال آیا۔ وہ ابھی ہندوستان ہی میں تھا اور اسے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے چکی ہے۔ وہ اپنے بچے کو کسی طرح نہ چھوڑنا چاہتی تھی۔ وہ اس کو نہیں مل سکتا تھا کیونکہ وہ اپنے باپ کی ریاست کا ولی عہد تھا۔ اس کے لیے اس نے خود تلاش کر ایک عمدہ سی کورنس بھجوائی اور اس کے پہلے شوہر نے وعدہ کر لیا کہ وہ جب چاہے بچے کو آ کر دیکھ سکتی ہے۔ وہ کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
اور اس کے چاروں طرف اتنا گہرا، اتنا سرخ، اتنا بھاری اندھیرا چھا گیا کہ وہ اپنی آنکھیں نہ کھول سکی۔ فضاؤں میں وحشت اور ویرانی کی تاریک روحیں زور سے چیخیں مارنے لگیں۔ ہوائیں روتی رہیں۔ سرخ دریا کے کنارے دھواں بلند ہوتا گیا یہاں تک کہ وہ ساری کائنات پر چھا گیا۔
پر شور طوفان کی زد میں آ کر تیزی سے گھومتے ہوئے نڈھال چاند کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، ستارے ٹوٹ ٹوٹ کرا تھاہ تاریکی میں گم ہونے لگے۔ اور ایلمر بریڈلے سے اس کی سول میرج ہو گئی۔ سارے صوبے کی سوسائٹی میں اچھا خاصا تہلکہ مچ گیا۔ انڈین پولیس کے ایک یورپین آفیسر نے ایک ہندوستانی تعلقہ دار کی لڑکی سے شادی کر لی۔ گورنر سمیت سارا یورپین طبقہ تلملا اٹھا۔ لیکن ایلمر بریڈلے خاموشی سے اسے اپنے ساتھ لے کر چند ہفتوں کے لیے کشمیر چلا گیا۔ اور اس کے کچھ عرصے بعد اس کے پہلے شوہر نے اپنے خاندان کی ایک پردہ نشین لڑکی سے دوسری شادی کر لی جو اس کی تفریحات میں قطعی مداخلت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ کشمیر سے الٰہ آباد آئی۔
دن تیزی سے پرواز کرنے لگے۔ اس کا دل بے انتہا چاہ رہا تھا کہ اپنے بچے کو دیکھے لیکن ایلمر بریڈلے کو قطعی گوارا نہیں تھا کہ وہ اپنی گزشتہ زندگی سے کسی قسم کا تعلق بھی قائم رکھے۔ پھر اس سال مسوری میں ایسا اتفاق ہوا کہ سوائے میں اپنے برابر والے سوٹ میں اس کا پہلا شوہر مع اپنی بیوی اور اس کے بچے کے آ کر ٹھیرا۔ اکثر لان پر اس کو اپنا بچہ کھیلتا ہوا نظر پڑ جاتا۔ وہ دوڑ کر اس کے پاس جاتی اسے چوکلیٹ اور کھلونے دیتی۔ بچہ ممی ممی کہہ کر اس کی ساری کے آنچل یا دوپٹے کے پلو کو اپنی طرف کھینچتا لیکن وہ جی پر جبر کر کے اسے گورنس کے پاس چھوڑ کر اپنے کمروں کی طرف چلی آتی۔
اس کے پہلے شوہر کا حکم تھا کہ بچے کو تو یہ بالکل معلوم نہ ہونے پائے کہ اس کی ماں کا دوسرا شوہر ایک انگریز ہے اور اس کے سوتیلے بہن بھائی اینگلو انڈین ہوں گے۔ اور مسوری کا سارا سیزن اسی طرح گزرا اور وہ چپکے چپکے خدا سے دعا مانگتی رہی کہ وہ مر جائے۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور اس وقت وہ ایک چٹان پر کھڑی تھی۔ اس کے سیاہ لہروں والے بال اسکارف میں سے نکل نکل کر ہوا میں اڑ رہے تھے، اس کی ساڑی ہوا کے تھپیڑوں سے مخالف سمت میں اڑی جا رہی تھی۔ اور وہ اکتا کر دوربین کے ذریعے وادی کا نظارہ کر رہی تھی۔ چٹان کے نیچے بل کھاتی ہوئی سڑک پر موٹریں اور بسیں کھنکھجوروں کی طرح ایک دوسرے کا پیچھا کرتی ہوئی اوپر چڑھ رہی تھیں یا نیچے اتر رہی تھیں۔ ایلمر کیمرہ لے کر پہاڑی کی چوٹی کی طرف چڑھ گیا تھا اور وہاں سے اس کو آواز دے رہا تھا اور اسے ایک طویل سفید اسٹیشن ویگن نظر آئی جو لہراتی ہوئی سڑک پر اوپر چڑھ رہی تھی۔ اور اس نے دوربین اپنی آنکھوں پر سے ہٹا دی۔ پھر وہ ایلمر کا سہارا لے کر چٹان سے نیچے اتر آئی۔ اور ایلمر نے اس سے کہا تھا کہ وہ اب سرکاری معاوضہ لے کر ولایت واپس جانا چاہتا ہے اور اس نے یقین دلایا تھا کہ وہ اس کے انگلستان کے خوب صورت پر سکون قصباتی مکان میں اور سیب اور چیری کے شگوفوں کے درمیان پہلے سے کہیں زیادہ خوش رہ سکے گی۔ اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔
قسمت۔ قسمت کی ستم ظریفیاں۔ کم از کم اس کو اب تک یہ اطمینان تھا کہ وہ اپنے پیارے بچے کو جس سے اسے بے حد محبت تھی کبھی کبھی دیکھ سکتی تھی۔ پر اب وہ بھی اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹ رہا تھا۔ وہ انتقاماً اپنی پہلی شادی کے لیے راضی ہو گئی تھی، پھر انتقاماً اس نے اپنے پہلے شوہر کو طلاق دے دی تھی۔ اب اس تیسرے شخص سے انتقام لے کر وہ کہاں جا سکتی تھی۔
اور رات ہو رہی تھی۔ وہ سب تاج کے ٹیرس پر بیٹھے تھے۔ ایلمر وطن جانے کی خوشی میں سیٹیاں بجا رہا تھا اور اپنے دوستوں سے کہتا پھر رہا تھا کہ وہ مشرق کی الف لیلوی سرزمین میں آ کر یہاں سے ایک سچ مچ کی چھوٹی سی سوتی جاگتی گڑیا ایسی ’’پرنسس‘‘ کو اپنے ساتھ لیے جا رہا ہے۔
وہ ریلنگ پر جھک گئی۔ اس نے دیکھا۔ نچلی منزل سے وہ لفٹ کے ذریعے نیچے اتر رہا تھا۔ وہ جو کسی سرکاری کام سے انگلستان بھیجا جا رہا تھا اور وہ ان ہی کے جہاز میں سفر کرنے والا تھا۔ وہ سب ایک ساتھ ٹہلتے ہوئے گیٹ وے آف انڈیا تک گئے۔ گرین فر کے قریب تیزی سے بینڈ بج رہا تھا اور سمندر کی سیاہی مائل گہری سبز موجیں گیٹ وے کی سڑھیوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس جا رہی تھیں۔ تھکا ہوا، اکتایا ہوا چاند ناریل کے درختوں کے پیچھے سے طلوع ہو رہا تھا۔ اور کولابہ کی طرف سے ہوا کے خنک اورنم جھونکے آ رہے تھے۔ پھر اس لمبے، سفید جہاز نے سیٹی دی۔ وہ عرشے پر کھڑی رہی۔ ساحل آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتا گیا۔
شام ہوئی عرشے پر ڈانس شروع ہو گیا۔ وہ تھک کر اپنے کیبن میں آ کر سوگئی۔ اور سمندر اور آسمان کی تاریکی گھل مل کر سب گہری ہو گئی۔ موجوں کی سطح پر بہت سی آوازیں تیر رہی تھیں۔ مانوس، پرانی آوازیں۔ اور وہ آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔ لائٹ ہاؤس کی سرخ روشنیاں رفتہ رفتہ افق میں کھا کر اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ دور۔ سب دور۔
لیکن وہ اس سے دور نہیں تھا۔ وہ جو اس وقت اس کے برابر والے کیبن میں سو رہا تھا۔ اور وہ خود ایک غیر ملکی شخص کے ساتھ ایک اجنبی سرزمین کی طرف جا رہی تھی۔ ہمیشہ کے لیے، ایک نامعلوم منزل کی طرف۔ اور بڑے بڑے چینی کے گل دانوں کے سائے دیوار پر پھیل گئے۔ اور ایلمر بریڈلے اپنی برف جیسی سفید برتھ پر لیٹا خالص انگریزی اورامپریلسٹک انداز سے خراٹے لے رہا تھا۔ اور برابر والے کیبن میں دوسرا شخص بھی سو رہا تھا۔ وہ کم بخت دوسرا شخص۔ سفید پردوں کی دوسری جانب۔ سفید ریشمی پر دے جو آدھی رات کی سمندری ہوا میں آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ جہاز موجوں کے سفید جھاگ کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا گیا اور اندھیرا گہرا ہو گیا۔
٭٭٭
پچھلے برسوں کی برف
تاریک پلوں اور تار کے طویل، پر اسرار کھمبوں کے سلسلے کے پار، وہاں پر تنہا سائے لرزاں ہیں، میں وہیں جا رہی ہوں۔ تم تو مجھے بالکل نہیں جانتے، ہم اس راستے پر سے پہلے کبھی نہیں گزرے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا، اس سڑک کے دونوں طرف اندھیرے، یک منزلہ، سرخ چھتوں والے مکان کھڑے تھے۔ کچھ میں دھیمی روشنی ہو رہی تھی۔ ان میں رہنے والے بہت سے جا چکے تھے۔ بہت سے جا رہے تھے۔ دور، دور تک کے سارے تاریک گوشوں کی سمت اور مکان خاموش کھڑے تھے۔ ہم اب آگے جا رہے ہیں۔
تم چپ کیوں ہو، کیا جب بھی تم خوش ہو اس وقت وہ منظر تمہارے سامنے نہیں آ جاتا جب ہم آگ کے سامنے بیٹھے تھے۔ یا جب ہم ٹھنڈے پتھروں پر چپ چاپ ٹہلتے تھے۔ رات کی ساعتیں اپنی اپنی جگہ پر ٹھہر گئی ہیں۔ رات کے بعض لمحات اتنے عجیب، ایسے مکمل، ایسے خاموش ہوتے ہیں اور اتنے پر اسرار، جب اندھیرے، ساکت اور مہیب لوہے کی چھتوں والے پلیٹ فارم میں گرجتا، دہکتا ہوا انجن اور سوتی ہوئی، طویل بیمار ٹرین آدھی رات کو داخل ہوتی ہے، یا جیسے پچھلے پہر کی خاموش، سنسان، اندھیری سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے یک لخت بہت دور سے کوئی پٹرول لینے کا مقام نظر آتا ہے اور اس کے شیشوں میں سے نکلتی ہوئی ٹھنڈی، نیلی روشنی، اور اس کے چاروں طرف، فٹ پاتھ کے کنارے کنارے ٹھہرے ہوئے بارش کے پانی میں یہ دھندلی نیلی روشنی تیرا کرتی ہے اور آدھی رات کی گہرائی میں چند باتیں۔ کوپن دیجئے۔ کیا بجا ہو گا۔ تین بجا ہو گا۔ کہاں جائیے گا۔ وہاں۔ آداب عرض۔ بندگی۔ وہاں وہاں۔
بہت سی پرانی چیزیں پیچھے چھٹتی جاتی ہیں۔ پرانے گھر، پرانے ریشمیں پردے، قدیم چینی کے برتن، پرانی کتابیں، جس میں سے اگلے وقتوں کی مہک نکلتی تھی۔ یہ جگہ زندگی سے آگے ہے۔ یہاں پر صرف خوشبو ہے اور تنہائی، اور رات کی گمبھیرتا۔ احساس یہاں پہنچ کر دم توڑ دیتا ہے۔
کیا یہ میں ہوں۔ کیا یہ میں ہوں۔ یہ سب کس لیے ہے۔ یہ دو۔ یہ دو۔ ہمیشہ۔ ہر جگہ۔ ازلی، ابدی، یہ دو سائے۔ یہ گلاب کا شگوفہ دیکھو۔ یہ خوب صورت ہے۔ اس میں خوشبو ہے، اسے دیکھ کر خوشی نہیں ہوتی؟ تیز روشن چائے خانوں میں گزارے ہوئے چند لمحے، اور یہ گلاب کے انبار۔۔۔
تم سب مر گئے۔ آج میں نہیں ناچوں گی۔ سیاہ گوگلز لگائے، سرخ ہونٹوں، گھنگریالے بالوں اور سیاہ پتلونوں والی خوب صورت عورتیں برف کی سطح پر کودتے کودتے تھک گئیں۔ اور راتوں کی پر اسرار گلیوں میں گھومنے والے آوارہ گرد خوابیدہ شہر کے ٹھنڈے کونوں کھدروں میں پڑ کر سو گئے۔ بے بی کنیز سوئے گی۔ مطمئن اور خوش۔ جس طرح میرا باپ ٹھنڈے، گیلے موسم میں، چار خانوں والا لباس پہن کر نپے تلے، متفکر، لیکن مطمئن قدم رکھتا۔ گولف کھیلنے جاتا تھا۔
ان تاریک راہوں پر بھوت ٹہل رہے ہیں اور جس وقت ہم آگے جا رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ پر اسرار محلوں کے ستون ایک دوسرے سے لپٹتے آگے پیچھے بھاگتے رہے۔ ہم ان پرانے محلوں کو پیچھے چھوڑ آئے۔ یہ آسمان کے نیچے ایک بہت بڑی اور پر فسوں وسعت ہے۔ اور یہ موسم گرما کی ہوا ہے، جس میں جانے کیا گھلا ہے۔ اس وقت سب سو رہے ہوں گے اور جب چاند اوپر اٹھے گا تو وہ سب اس کے نیچے آ جائیں گے۔
کیا تمہیں مجھے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے؟ لیکن تم نے موت کو نہیں دیکھا، نرم، گرم، سفید، صندلی، براؤن ہاتھ جو گل دانوں میں بہار کے سرخ شگوفے سجاتے ہیں، وچتر وینا بجاتے ہیں، ریشمیں، آرام دہ چیزوں کو چھوتے ہیں۔ ان ہاتھوں کو ایک سیاہ بکس میں الگ الگ رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر وہ پھولوں کو نہیں پکڑ سکتے۔ وہ تصویریں بھی نہیں بنا پاتے، اور موسم گرما کی ہوا ان پر کوئی اثر کیے بغیر پھولوں کو سرسراتی ان کے اوپر سے روتی ہوئی گزرتی رہتی ہے۔
مجھے کدم اور سبز بانس کے جھنڈ میں دیکھ کر کاہے کے لیے اس قدر خوش ہو۔ کیونکہ کدم کی ڈالیاں، اور چمپا کے اونچے درخت اور یہ سب بہت ہی خوب صورت ہے، اور اس لیے بہت جلد ختم ہو جائے گا۔ آؤ آگے چلیں اور ان خود رو پھولوں کے پیچھے شاید ہمیں جنگل کی روحیں مل جائیں اور وہ انسان جو کبھی نہیں آتا۔ وقت بھاگتا جا رہا ہے اور یہ سب بے حد ناکافی ہے۔ بے حد ناکافی ہے۔
تمہیں معلوم ہے کہ باہر کیا ہو رہا تھا۔ جب ہم اور تم آگ کے سامنے بیٹھے تھے۔ باہر دنیا کا خاتمہ ہو رہا تھا اور خدا کے غیر ضروری انسانوں کی ان گنت قطاریں بے حد غیر ضروری طریقے سے دم توڑ رہی تھیں۔ کیا خدائے قدوس کے یہ ان گنت بدصورت، غیر اہم، احمق انسان یہ نہ چاہ سکتے تھے کہ ان سرخ ہونٹوں اور گھنگریالے بالوں والی حسین عورتوں کو قریب سے دیکھیں۔ یہ دیکھیں کہ ان کے اطلس کے لباس کیسے ہیں اور ان کے بال اور ان کی صندلی انگلیاں۔۔۔۔۔۔ اور ان باغوں میں جائیں جہاں رات کے وقت میزیں درختوں کے نیچے رکھ دی جاتی ہیں۔ اور قندیلیں ہوا میں جھولتی ہیں اور جاز کے باجے بجتے ہیں۔
مجھے اپنی روح بچانی ہے، اپنی روح بچانی ہے، میں نے بے حد فکر مندی کے ساتھ مقدس ماں سے کہا۔ انہوں نے عبادت گاہ کا دروازہ کھولا اور میں اندر گئی اور میں نے دیکھا کہ وہاں پر فرشتے قتل ہو رہے تھے اور سحر زدہ چاند کے نیچے مرے ہوئے خدا کی صلیب دھندلکے میں شبنم آلود ستاروں کی طرح جھلملا رہی تھی۔ سینٹ کیتھرین، سینٹ این، سینٹ ایگنس، میں نے ان سب کو آواز دینی چاہی پھر میں نے خداوند کو پکارنے کی کوشش کی۔ لیکن اپریل کا مہینہ میرے دماغ میں گھس گیا اور میں نے باہر آ کر اپنی آنکھیں بچوں کی طرح جلدی جلدی جھپکائیں اور اپنی روح کو پکڑنے اور اسے بچانے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے بھاگی۔
اور میں نے اتنی بہت سی چیزیں دیکھیں، خوب صورت چھوٹی چھوٹی کشتیاں اور سفید بادبان، اور سمندر کی نیلی لہروں میں تیرنے والے ہرے جزیرے جہاں سرخ پھل ہوتے ہیں اور یہ دیوانے ہجوم، سن شیڈز کے نیچے بیٹھے ہوئے لیموں اور سوڈا پینے والے فیشن ایبل لوگ، ان کے لمبے لمبے نارنجی کناروں والوں مہکتے ہوئے سگریٹ، شریف دولت مند لڑکیاں، ان کے نگراں چچا اور خالائیں اور فرانسیسی پوڈلز۔ گھٹیا قسم کے دماغ اور تیسرے درجے کے ذہن۔ چھوٹے چھوٹے بند پیانو اور برف کی چٹانیں، بوڑھے باپ، خوب صورت بیٹیاں، حاسد بھائی اور احمق شوہر۔
ہمارے احاطے کے پچھواڑے سوئیٹ پی کی کیاریوں کے پرے والا وہ خیمہ جہاں جاڑوں کی ایک دوپہر ہم نے ’’مردہ عورتوں کا گیت‘‘ پہلی بار پڑھا تھا اور سرخ ناکوں والے بد شکل انگریز بچے، زندگیوں کا یہ مستقل اجتماعی جھوٹ، طویل اکتائی ہوئی سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے بد صورت ہجوم، ایسے چلچلاتے ہوئے منظر جنہیں دیکھ کر سر میں درد ہوتا ہے۔ لرزتی ڈگمگاتی آدھی اور تیز روشنیاں اور ڈیر سوزی کارٹر، مختلف موسموں، مختلف جگہوں اور مختلف دنوں میں ہمیں جو باتیں سنائی دیں اور جب میں واپس آئی تو تم لوگ سب کے سب جلدی جلدی عالم گیر سیاسیات پر بحث کر رہے تھے اور درختوں میں قمقمے روشن کیے جا رہے تھے، رقص گاہوں کے مرمریں فرش کے نیلگوں اور شفاف سمندر پر سے تیر کر پرے نکلتے ہوئے میں نے شام کے تاریک کونوں میں چھپنے کی کوشش کی اور میں نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
میں نے یہ سب تھوڑا ہی معلوم کرنا چاہا تھا، میں نے اسے دیکھا، اس کے ہاتھوں میں گلاب کے شگوفے تھے جو اس نے بے حیائی میں آگ کے پاس سے اٹھا لیے تھے (کیا اسے پھول، بچے اور کتے پسند نہیں) اور اس کے بال بھیگے ہوئے تھے۔ اس کے بال سرخ روشنی میں جگمگا رہے تھے، میں نے اس سے پوچھا کیا تمہیں یاد ہے۔ ’’مردہ عورتوں کا گیت۔‘‘ جو ہم نے ایک بار جاڑوں کی دھوپ میں بیٹھ کر پڑھا تھا۔ مردہ عورتوں کا گیت
The Ballad of dead Women
Mais ou sont tes Mais ou' sont tes neiges l'antan'?- neiges l'antorn?
ہم آج کیا کریں، کل کیا کریں، ہمیشہ کیا کریں گے۔ ہم چلے جا رہے ہیں اور رنگ برنگے چہرے ان سرخ، تاریک پہاڑی کے دروازوں میں سے جھانک کر ہمیں دیکھتے ہیں اور ہوا چلتی رہتی ہے۔
آؤ ہم سب سفید یا سیہ لبادے پہن کر کہیں چلیں اور کہیں کسی کونے میں چل کر بیٹھ جائیں۔
رات جب گھوں گھوں ہوا چلی تو میں نے اس سے کہا: اور پھر وہ تینوں میرے سامنے آ گئے۔ جھینگر، روڈنی، شیرر۔ اور پرم جیت سنگھ عرف ٹونو۔ ان تینوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ خیالات کا تسلسل کسی طرح بھی ان تینوں کی تصویریں لازم و ملزوم طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش نہیں کر سکتا۔
یہ تینوں میرے ’’بوائے فرینڈز‘‘ تھے۔ جھینگر، روڈنی، شیریر اور پرم جیت سنگھ عرف ٹونو۔ اس راستے کے کنارے یاسمین کا ایک انبار پڑا تھا۔ یاسمین، جسے دیکھ کر سب کچھ یاد آ جاتا ہے۔ جسے دیکھ کر سب کچھ بھول جاتا ہے۔
شام کے اندھیرے میں اس انبار کے پاس میری اپنا نیلا لبادہ پہنے بیٹھی تھی۔ اور اس کے چاروں طرف گھاس میں ستارہ ہائے سحری کی کلیاں کھل رہی تھیں۔ میں نے اس سے کہا۔ میں اس باغ میں آئی ہوں۔ میرے ہاتھ میں پھولوں کا ایک تاج ہے، اور میں چھوٹے چھوٹے پر اعتماد قدم رکھتی اس باغ میں داخل ہو رہی ہوں، تاکہ آج کے دن، اور اس سے اگلے دن، اور اس سے اگلے آنے والے تمام دنوں پر تم اپنا فضل کرو۔ اور میری موت کے گھنٹے میں میرے ساتھ رہو،
پھر میں نے خدا کو دیکھا جو اپنی تخلیق کردہ کائنات سے بہت علاحدہ اور بے پرواہ الگ تھلگ باغ کے ایک کنج میں گھسا بیٹھا تھا اور اس کے آگے شمعیں جل رہی تھیں۔ میں نے اس سے کہا۔ اے میرے بہت پیارے خداوند، کیا میں ویل پہن کر تمہارے قریب آؤں۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اور اپنی خوب صورت اور بے نور آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہا۔
میرا دل ٹوٹ گیا اور فضا کی خاموشی نے اپنی حماقت اور اپنے شدید سکوت کو بڑی تکلیف کے ساتھ محسوس کیا اور قربان گاہ کے ستونوں کے سائے ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگے اور میں نے محسوس کیا کہ ہم زماں و مکاں کی اٹل قید سے آگے نہیں نکل سکتے۔ نہ اس کے پیچھے جا سکتے ہیں۔
میں نے مریم سے کہا۔ دیکھو، یہ تمہارا باغ ہے جس میں اس وقت میں تنہا تمہارے پاس آئی ہوں تم مجھے اپنے ساتھ واپس لے چلو، جہاں سے تم آتی تھیں، جہاں سے تم نے اپنا ابدی سفر شروع کیا تھا، تمہیں اس سفر میں مکمل سکون اور مسرت کہیں نہ ملے گی۔ کیونکہ تم خدا کی تخلیق کرنے کے باوجود محض ایک عورت ہو۔
یہ تینوں جانے کب سے چپکے چپکے میرے ساتھ آ رہے ہیں۔ جھینگر، روڈنی شیریر، پرم جیت سنگھ عرف ٹونو۔ یہ تینوں میرے بوائے فرینڈز۔
کیا تم نہیں جانتیں میری پیاری مادر خداوند، کہ جھینگر مر گیا۔ جھینگر برکھا کی کالی راتوں میں ہمیشہ زور، زور سے چلاتا ہے اور چلاتا چلاتا ایک دن مر جاتا ہے۔ اس کی زندگی اتنی مختصر ہوتی ہے۔ جھینگر جو میرا بوائے فرینڈ تھا وہ بھی ’’بڑی بہیّا‘‘ کے زمانے میں جانے کدھر سے بہتا بہتا آ نکلا تھا۔ چھ سال کی عمر سے اس نے میرے باپ کی کوٹھی میں پنکھا کھینچنا شروع کیا تھا اور گیارہ سال کی عمر تک پہنچ کر وہ مر گیا۔
میں نے مریم سے کہا۔ ہم سب کی زندگی اور موت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ تم نے روڈنی کو کیوں نہیں مارا۔ میرا دوسرا بوائے فرینڈ روڈنی شیریر۔ اس کی عمر بھی گیارہ سال کی ہے اور وہ روز شام کو شبیہ کے آگے جھک کر کہتا ہے۔ ہولی میری میرے لیے نجات کی دعا کرنا اور سب کی نہیں تو کم از کم اس گیارہ سالہ بچے کی نجات تو یقیناً تمہارے ہاتھ میں ہے۔ جھینگر تو بالکل قنوطی تھا، یا رجعت پسند تھا، یا غالباً فسطائیت کا حامی تھا، برسوں وہ تیز گرمیوں اور جھلستی ہوئی لْو کی دوپہروں میں برآمدے میں بیٹھا حسن کے پنکھے کی رسی کھینچتا اور ’’گلّی ہرائی ڈنڈا رووت ہے، ڈنڈے کی ماں روٹی پودت ہے۔‘‘ گاتا رہا اور گاتا گاتا ایک دن مر گیا۔
اسے انہوں نے مار ڈالا جن کا اس نے کبھی کچھ نہ بگاڑا تھا۔ کسی کا اس پر کوئی احسان نہ تھا، وہ محض ’’بڑی بہیّا‘‘ کے ساتھ جو ایک مرتبہ گومتی میں آئی تھی بہتا بہتا ہماری طرف آ نکلا تھا۔ اس نے تم سے یا کسی اور خدا سے کبھی، اپنی نجات کے لیے دعا نہیں مانگی۔ وہ یقیناً رجعت پسند تھا، روڈنی قنوطی یا فسطائی نہیں ہے۔ اسے اپنے مستقبل سے بڑی خوش آئند امیدیں ہیں، اسے تم سے بھی بڑی محبت ہے۔ اب میری پیاری، رحمدل مادر خداوند۔ زماں و مکاں کی اٹل قید سے میں نہیں نکل سکی، ورنہ اس وقت میں یہاں نہ ہوتی، میں اس خانقاہ میں ہوتی جس کے باغ میں یاسمین کے پھول کھلتے ہیں اور جہاں انسان کے بیٹے کے آگے چاندی کی شمعیں جلتی ہیں۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، خانقاہ کی طویل بھوری عمارتوں میں خوب تیز روشنی ہو رہی تھی اور اوے ماریا کا مقدس نغمہ فضا سے بلند ہو رہا تھا۔
اوے ماریا۔ اوے ماریا۔
اور میں نے اپنے آپ کو دس سال قبل کے اس طویل کمرے میں موجود پایا جس میں دونوں طرف چھوٹے چھوٹے سفید پلنگ بچھے ہوئے تھے۔ اور جہاں آتش دان میں شعلے لہک رہے تھے، اور وہ سب دعائے شب کے بعد سونے کی تیاریاں کر رہی تھیں، پھر یک لخت وہ چلائیں لڑکے۔۔۔۔۔۔!!!
کھڑکیوں کے شیشے ایک لحظے کے لیے جھلملائے اور پھر بہت سے چھوٹے چھوٹے قدم ایک ساتھ کھڑکیوں پر سے نیچے باغ کے احاطے کی دیوار پر کود گئے۔ اندھیرا گہرا ہو گیا۔
پھر صبح ہوئی مادر مقدس نے سب سے پوچھا تم ان کو پہچان سکیں، جو رات کو دریچوں میں سے جھانکنے آئے تھے۔ ہاں۔ نہیں۔ وہ سب خاموش رہیں،
وہ مقدس سیاہ پوش راہوں کی خانقاہ کے لڑکے تھے جو رات اپنی ہمسایہ خانقاہ کی لڑکیوں سے بے ضرر سا پریکٹیکل قسم کا مذاق کرنے کے لیے آئے تھے اور چاہتے تھے کہ ان چھوٹی چھوٹی خرگوشنیوں کو جو سیب کے درختوں کے اس جھنڈ میں رہتی ہیں، ڈرا دیں۔ ان سب کو مقدس راہبات کے سامنے بلایا گیا۔ تم ان میں سے کسی کو پہچان سکتی ہو؟ مادر مقدس نے مجھ سے پوچھا ہاں۔۔۔۔۔۔ نہیں۔
میں چپ ہو گئی۔ سچائی اور دوستی میں جنگ چھڑ گئی۔ وہ پندرہ سالہ نیلی آنکھوں والا شریر اور صحت مند لڑکا جو بڑا جمال میرے بھائی کا دوست اور ان سب کا رنگ لیڈر تھا۔ پرم جیت سنگھ۔ پرم جیت سنگھ عرف ٹونو۔
سنو۔ سنو بے بی کنیز، جمال نے چپکے سے مجھ سے کہا۔ ہم تمہیں چوکولیٹ دیں گے۔ تمہیں شرلی ٹمپل کی نئی فلم دکھا لائیں گے۔ اور جو کہو گی کریں گے۔ لیکن تم خدا کے لیے ہمارے ریورنڈ بردر سے یہ نہ کہہ دینا ٹونو بھی اس گروپ میں شامل تھا۔ اسے بڑی سخت سزا ملے گی۔ اس کا آئندہ کیریر تباہ ہو جائے گا۔ اگلے سال اسے شہزادہ ویلز کے حربی مدرسے میں داخل ہونا ہے، اچھا میں نہیں بتاؤں گی، میں نے جمال سے وعدہ کر لیا۔ ٹونو کو سزا نہیں ملی۔ اس کا کیریر بن گیا۔ سپاہی کا کیریر۔
ٹونو پندرہ سال کا رہا ہو گا جب اس نے ایک دفعہ مجھ سے کہا تھا۔ بے بی کنیز جب میں بڑا ہو جاؤں گا نا تو ہم ان سفید فام چقندروں کو پکڑ کر باہر نکال دیں گے۔ تب میں اور جمال شہزادہ ویلز کے سپاہی نہیں کہلائیں گے، ہم اپنی قوم کے سپاہی ہوں گے۔ تب ہر بات کتنی اچھی لگا کرے گی۔۔۔۔۔۔
وہ بڑا ہوا۔ ہم سب اکٹھے بڑے ہوئے۔ تب ایک سیاہ آندھی شمال مغرب سے اٹھی اور اس آندھی نے اس لہلہاتی وادی کو جس میں یاسمین کے پھول کھلتے تھے اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور سب کچھ اس میں جل کر بھسم ہو گیا۔ پھول، موسیقی، خوب صورتی، زندگی، محبت کے مقدس اور پاکیزہ رشتے، سب کچھ ختم ہو گیا، صرف خون اور راکھ کے ڈھیر اور بے جان زندگیاں باقی رہ گئیں۔ اور سفید ہڈیاں، ان گنت سفید ہڈیاں۔
تب میں نے خوب صورت اور بے نور آنکھوں والے زندگی کے خدا سے کہا۔ تم انسان کے بیٹے ہو۔ تم نے یہ سب دیکھا، تم نے دیکھا کہ اس چھوٹے سے بے انتہا حقیر اور بے ضرر جھینگر کو انہوں نے مار ڈالا کیونکہ وہ میرے باپ کی کوٹھی میں پنکھا کھینچتا تھا اور ٹونو نے اپنے خوبصورت جسم پر ہتھیار سجا لیے۔ اور روڈنی اب بھی تمہاری رحم دل ماں کی شبیہ کے آگے جھک کر دعا مانگتا ہے کہ وہ ہم سب کو نجات دے۔ اور پھر میں خدا کے کنج سے باہر آئی۔ اور میں نے ٹونو کو دیکھا، اس کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے، اور اس کی نیلی آنکھوں میں نفرت تھی اور اس کے دل میں خوف اور دکھ تھا۔
ٹونو۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے یاد دلانا چاہا، تم کون ہو۔۔۔۔۔۔؟ اس نے زندگی اور احساس سے عاری آواز میں پوچھا، میں بے بی کنیز ہوں۔ میں نے اس سے کہا۔ تم بے بی کنیز ہو۔ اس نے اسی طرح دہرایا۔ اور بے دھیانی میں اس کے ہتھیار جھنجھنا اٹھے۔ ان کی جھنکار کی آواز میں نے سنی،
اور میں نے شام کے گہرے سرخ اندھیرے میں اسے آہستہ سے یاد دلایا ہاں۔ میں بے بی کنیز ہوں۔ جس نے تمہارا سپاہی کا کیریر بنانے میں تمہاری مدد کی تھی۔ کیا اب تم خوش نہیں ہو۔ تم جواب موت کے سپہ سالار بن چکے ہو۔ موت اتنی دل چسپ چیز ہے!
مجھے ہنسی آ گئی، وہ خاموش رہا، پھر اس نے آہستہ آہستہ کہا۔ تم بے بی کنیز ہو تم اب تک کس طرح زندہ ہو۔ تمہیں بھی ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ۔۔۔۔۔۔ کہ کٹی میری بہن کو انہوں نے ختم کر دیا۔ پھر وہ چپ ہو گیا۔ اور اپنے ہتھیار اٹھا کر اندھیرے میں آگے بڑھ گیا۔
کچھ دور جا کر وہ دفعتاً رک گیا، اس نے ٹھہری ہوئی آواز میں آہستہ آہستہ کہا۔ جیسے وہ اپنے خداؤں سے مخاطب تھا۔ اس نے کہا۔ کٹی مر گئی، وہ بھی جوان اور خوب صورت اور مطمئن تھی اس کے سامنے بھی ایک زندگی تھی، ایک مستقبل تھا، ایک خدا تھا۔ لیکن اس کو انہوں نے زندہ نہ رہنے دیا۔ وہ مر گئی۔۔۔۔۔۔
ٹونو میں نے اسے پکارنا چاہا، لیکن وہ آگے جا چکا تھا۔ اور غروب آفتاب کی آگ کے نیچے تنہا کھڑے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ میں بہت دکھی ہوں۔ اور روڈنی نے کہا بے بی کنیز تم کیوں روتی ہو، کیوں نہ روؤں اور کیا کروں؟ میں نے اس سے معصومیت سے پوچھا۔
ٹھہرو۔ میں خداوند خدا سے تمہارے لیے دعا کرتا ہوں۔ اس نے کہا اور وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے خانقاہ کے باغ میں لے آیا جیسے میں اس کی چھوٹی سی بہن تھی۔ اور وہ گیارہ سال کا روڈنی شیریر قربان گاہ کی سیڑھی پر کھڑا ہو گیا اور تحکمانہ انداز میں اس نے کہا: کہو۔۔۔۔۔۔ خداوندا۔۔۔۔۔۔! ہمارے ماضی میں ہماری امداد اور ہمارے مستقبل کے آنے والے دنوں کے لیے ہماری امید۔ آندھیوں اور پر شور طوفانوں سے بچنے کے لیے ہماری آخری جائے پناہ، اور ہمارا ابدی گھر۔۔۔۔۔۔ ’’
آندھیوں اور پر شور طوفانوں سے بچنے کے لیے ہماری آخری جائے پناہ اور ہمارا ابدی گھر۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے اس کی چھوٹی سی شیریں آواز کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ دہرانا چاہا۔
لیکن اس وقت مجھے ازلی اندھیارے میں گھومنے میں موت کے پیغامبر اور پہرے دار نظر آئے جن پر دور سمندر کے لائٹ ہاؤس کی مدھم سرخ روشنی پڑ رہی تھی اور میں نے محسوس کیا کہ موت اتنی دل چسپ چیز نہیں۔ موت ان صندلی اور گرم ہاتھوں کو ٹھنڈا کر دیتی ہے جو کدم کی چھاؤں میں پھول چنتے ہیں اور وچتر وینا بجاتے ہیں۔ کٹی کے صندلی اور خوب صورت ہاتھوں کو اس نے ٹھنڈا کر دیا ہے۔ اور جھینگر کے کالے کالے چھوٹے چھوٹے حقیر ہاتھوں کو بھی۔
تب میں نے خانقاہ کے ایک خالی کمرے میں خود کو تنہا موجود پایا۔ لیکن میں مقدس باپ کے سامنے جھک کر اعتراف نہ کر سکی۔ دوسری منزل کی کھڑکی میں سے، جس کی روشنی نیچے باغ کے سرسراتے ہوئے درختوں کے پتوں پر لرزاں تھی، میں نے اپنے چاروں طرف دیکھا، اور مکمل امن و سکون کا شدید احساس میرے جسم پر رینگنے لگا۔
باغ میں آڑو اور چنار اور خوبانیوں کے درخت قطار اندر قطار اپنے مکمل حسن اور ترتیب کے ساتھ کھڑے رات کی ہوا میں سرسرار ہے تھے۔ جس طرح کے درخت کشمیر میں اسی طرح ہوا میں سرسرایا کرتے تھے۔ کشمیر جس نے بریگیڈیر عثمان اور جانے کس کس کی جان لی۔ جہاں میرا پیارا چھوٹا بھائی جمال بریگیڈیئر عثمان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف لڑنے گیا تھا، میرا بھائی جمال جو ٹونو کے ساتھ ایک قوم اور ملک کے خواب دیکھا کرتا تھا۔
میں نے چپکے سے اپنے دل میں اس سے پوچھا۔ یہ ہتھیار اٹھا کر تم میں کیا بہادری آ گئی، تم جب محاذ پر گئے، وہاں گولیاں چلیں، سیلوٹ کے لیے ہاتھ اٹھے اور پھر کمزوری سے گر گئے۔
نفرت۔ نفرت۔ یہ آگ کے نیچے گرتے ہوئے ان گنت جانور، محاذ کے دونوں طرف ان پر ہی ہوا چلتی ہے، ان پر ایک ہی رات سایہ کرتی ہے، خوابوں کی اندھیری وادی میں پہنچ کر یہ دونوں طرف کے انسان بالآخر مل جاتے ہیں۔ ان انسانوں کو ایک دوسرے کو مارنے کی آخر کیا ضرورت تھی۔ انسانی زندگی اتنی اہم اور بامعنی نہیں کہ اسے ختم کرنے کے لیے یہ سب جھنجھٹ کیا جاتا۔
اور چھوٹا سا ٹونو جو بارہ سال پہلے میرا ’’بوائے فرینڈ‘‘ تھا۔ بیس سال تک ہمارے کنبے ایک دوسرے کو سگے رشتے داروں سے زیادہ عزیز سمجھتے رہے، لیکن اب کے سے اس آندھی کے ساتھ جو بڑی بہیّا آئی وہ اپنے ساتھ ان ساری رنگ برنگی راکھیوں کو بھی بہا لے گئی، جو ہر سال سلونو کے موقع پر ہم لوگ ایک دوسرے کو دیا کرتے تھے۔
اور اب پتہ نہیں ٹونو کہاں ہے۔ پرم جیت سنگھ عرف ٹونو اگر تمہاری نظر سے یہ سطریں گزریں تو تم اپنے خدا سے دعا کرنا کہ تم آسانی سے مر سکو۔ اور وہ میری موت کے گھنٹے میں میرے ساتھ رہے۔ خدا جو کٹی کی موت کے گھنٹے میں اس کے ساتھ نہیں رہا۔ اور زندگی کی پریوں کی کہانی اسی طرح ختم ہو جاتی ہے۔ عقل مند وزیر اعظم مر جاتا ہے۔ ولی عہد مر جاتا ہے، خوب صورت شہزادی مر جاتی ہے، جس کی شادی خوب صورت شہزادے سے ہوئی تھی۔ اور وقت ہے کہ گزرتا جا رہا ہے۔
مرغ زاروں میں، دریاؤں کے کنارے۔ پہاڑوں کے سرخ چھتوں والے چھوٹے چھوٹے گھروں میں اور اب کرسیاں باہر لائی جا رہی ہیں اور پتوں میں قمقمے روشن ہو رہے ہیں، اور اب سب درختوں کے نیچے بیٹھیں گے۔ وقت گھٹتا جا رہا ہے، اور ہم تم گرتے پڑتے پیچھے ہٹ رہے ہیں، کوئی آخری سچائی، اصلی تقدیس ہمارے سامنے نہیں ہے، کوئی مجسمہ، کوئی مکمل تصویر، رات کے آسمان کی آدھی اور نامکمل روشنیاں ڈگمگاتی لرزتی اور بھاگتی اس راستے پر اپنا عکس ڈال رہی ہیں، جس پر سائے بھوتوں کی طرح چل رہے ہیں،
لمحات کے اس خالی پن کو میں نے محسوس کیا ہے۔ اس خاموشی کو جسے میں چھو بھی نہیں سکی، اور روتے ہوئے وقت کو۔ اور تب یاسمین کے باغ میں جا کر میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور ان سب چیزوں کو محسوس کرنا چاہا، لیکن قربان گاہ کے سرد پتھر کے علاوہ میرے ہاتھ میں اور کچھ نہ آیا
اور میں نے دیکھا کہ میری انگلیوں میں سرخ رنگ لگا تھا۔ میں نے اپنے ہونٹوں کو چھوا اور میری انگلیاں سرخ ہو گئیں۔
خون۔۔۔ خدا کا خون۔۔۔ میں نے دیکھا اور میں چلاتی ہوئی باہر بھاگ آئی۔ اور اب جب کہ میری ساری امیدیں ختم ہو چکی ہیں۔ روڈنی شیرر مقدس شبیہ کے آگے اب بھی جھکا ہوا نجات کی دعا کر رہا ہے۔ ’’مقدس مریم خدا کی ماں، مہربانی فرما کر ہم گنہگاروں کے لیے دعا کیجئے اور ہماری موت کے گھنٹے میں ہمارے ساتھ رہئے۔‘‘
ہماری موت کے گھنٹے میں۔ ہماری موت۔ کاش کچھ ایسا ہو کہ ہم سب کسی طرح چپکے بیٹھ سکیں۔
تم لوگ اتنا شور کیوں مچاتے ہو۔ دیکھو۔ یہ ہماری موت کا گھنٹہ ہے۔ ہماری موت کا گھنٹہ ہے۔ ہماری موت کا گھنٹہ۔ سنو۔ (ارے بھئی سنو تو سہی۔ )
٭٭٭
وہی زمانہ وہی فسانہ
ٹوْٹَس نے مجرمانہ انداز میں ’’اولڈ میں رور‘‘ شیلف میں واپس رکھ دیا اور چپکا بیٹھ رہا۔
اللہ اکبر۔ اس نے دل میں کہا۔
ٹوٹسی ووٹسی۔ پکسی نے شفقت کے ساتھ سوال کیا۔
کیا بات ہے۔ پھر وہ باورچی خانے کی سمت روانہ ہو گئی۔ جہنم۔
اس نے ریکارڈوں کے البم کو دیکھا اور کتابیں جن سے الماریاں سجی تھیں۔ ایک چوکور کتاب کے اوپر لکڑی کا ڈچ جوتا رکھا تھا اور ایک اسپنش پنکھا۔ کشتی میں چائے تھی۔ ٹی کوزی کے اوپر جو جاپانی عورت کڑھی تھی وہ تکونے پل پر سے بے اندازہ نزاکت کے ساتھ گزر رہی تھی۔ اس کی ترچھی آنکھوں پر موسم گرما کی دوپہروں کا چکر کاٹنے والی ایک مکھی آن بیٹھی۔
پھر باورچی خانے میں پانی گرنے کی آواز آئی۔ ایک نوکر کی بیوی نے دوسرے نوکر کی بیوی سے تبادلہ خیالات کے دوران بہ آواز بلند اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ ہمسایوں کے ہاں ایک دو سالہ بچہ رویا۔ دھوبی سامنے سے گزرا۔
گھر
جب میں زمانے بھر کا چیمپئن تھا (ٹوٹس نے ہری مکھی کو مخاطب کیا) اور کھیتوں پر ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں۔ اور دریا کے کنارے نیلے پھول کھلتے تھے اور بارشوں کے زمانے میں میں چودھری صاحب کے پاس بیٹھ کر بٹلر کے زمانے کے واقعات سنتا تھا۔ یہ نوجوان لڑکا نہایت عمدہ ہے۔ اس کو اپنی کلچر سے گہری دل چسپی ہے۔ یہ مضمون بھی لکھتا ہے۔ پرسوں اس نے پرانے ووڈ اسٹاکیوں کے ڈنر پر سترہویں صدی کے ماسک کے متعلق تقریر کی۔ یہ نوجوان لڑکا۔ لوگوں نے دہرایا۔ نہایت عقل مند ہے۔
ٹوٹسی ووٹسی۔۔۔۔۔۔ ہاؤ۔۔۔ ہو۔۔۔ اس نے نعرہ بلند کیا۔ تم جو چاہو کرو لیکن للہ آئندہ مجھے اس نفرت انگیز پیارے نام سے یاد نہ کرنا۔ میں فقط ٹوٹس ہوں۔ عمدہ اور عقل مند ٹوٹس۔ اس نے بہادری سے کہا۔
لیکن ہری مکھی کو دیکھ کر پھر چپکا ہو گیا۔ میں بھی بے حد بہادر ہوں۔۔۔۔۔۔ ڈوپی نے اس سے کہا۔ تھیں۔۔۔۔۔۔ اس نے تصحیح کی۔ ڈوپی چائے کا سامان ادھر ادھر رکھتی رہی۔ ساری بات یہ ہے، ٹوٹس نے ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھتے ہوئے پروفیسروں کی طرح انکشاف کیا کہ اب تمہارے دل میں شک و شبہے پیدا ہو چلے ہیں۔
وہ خاموش رہی۔
پھر کیا کیا جائے۔۔۔؟ تھوڑی دیر بعد ڈوپی نے پوچھا۔
دیکھو۔ میں کیا کر رہا ہوں۔
ٹوٹس نے ہاتھ کھول کر جواب دیا۔
ٹوٹسی ووٹسی۔۔۔ ڈوپی نے پیار سے کہا۔
ہری مکھی جو گرما کی سہ پہر میں دور دراز کا سفر طے کرتی ہوئی آئی تھی، ان لوگوں کی باتوں سے بور ہو کر شکر دان کے کنارے پر سے اڑی اور لیمپ کے پیچھے جا بیٹھی۔
شام کو یہاں بھی بگل بجتا ہے۔ ڈوپی نے افسوس کے ساتھ کہا۔
معلوم ہے۔ ٹوٹس نے جواب دیا۔
اس قدر شدت یعنی زندگی کے احساس کی شدت۔ ایک قسم کی یعنی کہ۔
جوتا۔ ڈوپی نے جواب دیا۔
تم جو اپنی بیگماتی زبان میں گفتگو کرتی ہو تو در اصل تمہیں جوتی کہنا چاہئے کہ تمہاری جوتی کو کیا پروا ہے۔ جو شام کو یہاں بھی بگل بجتا ہے۔۔۔؟؟ ڈوپی نے کہا۔
پھر پکسی اندر آئی۔ باورچی خانے میں وہ شکر قند کا حلوہ بنا رہی تھی جو اس نے اکثر لوگوں کو بتلایا تھا کہ اس کے قصبے کی خاص چیز ہے۔ لوگ ہمیشہ سنی ان سنی کر دیتے تھے۔ پکسی اکثر لوگوں کو اکثر باتیں بتایا کرتی تھی۔ یہ کہ وہ بہت قابل تھی۔ لیکن اب اس نے جان بوجھ کر ساری قابلیت، سارے مختلف علوم و فنون بھلانے شروع کر دئے تھے۔ وہ اخبار بھی نکالا کرتی تھی۔ چیلاپتی راؤ ڈیسمنڈ ینگ اور گھوش کا ذکر وہ نہایت مشفقانہ انداز میں کرتی۔ لوگ اس کی بھی سنی ان سنی کر دیتے۔
لوگ بہت سے تھے۔ ٹوٹس۔ جس کو اس نے ہمیشہ سعادت علی خاں کہا۔ بھائی سعادت علی خاں۔ ڈوپی، طلعت، عرفان احمد، بیگم عرفان احمد اور بھی بہت سارے۔ تمام دنیا۔ یہ سب ایک طرف تھے اور اس کے مخالف تھے۔ ان سب سے علاحدہ اور برگزیدہ پکسی تھی۔
سعادت میاں۔ اس نے ساری کے آنچل سے ہاتھ صاف کر کے کہا۔ تمہاری بی بی یعنی طلعت بیگم اب کیسی ہیں؟
نہایت تندرست و توانا۔ ٹوٹس نے جواب دیا۔
ابھی میں طلعت کو حلوہ بھجواؤں گی۔ وہ اطمینان سے کرسی پر بیٹھ گئی۔
ابو وغیرہ سب آئے ہوں گے۔ پھر شام کو کھانا ہے۔ ہم کو چاہئے کہ کمرے صاف کریں۔
ٹوٹس اور ڈوپی نے اس کی بھی سنی ان سنی کر دی۔
ابھی دھوبی بھی نہیں آیا۔ پکسی نے پھر کہا۔
پکسی وِکسی۔۔۔۔۔۔ ٹوٹس نے یک بیک بے حد تفصیل سے اس کو مخاطب کیا۔
پچھلے چوبیس سال سے تم مستقل ایکٹنگ کیے جا رہی ہو اور کمال یہ ہے کہ اب تک بور نہیں ہوئیں۔
ڈوپی اٹھ گئی اور برآمدے میں چلی گئی۔ جہاں وہ فلم انڈیا پڑھے گی کیونکہ اب ان دونوں آدمیوں کے مابین زندگی کے متعلق نہایت بصیرت افروز مکالمہ شروع ہو چکا تھا جسے وہ کئی ہزار مرتبہ سن چکی تھی۔ ہمیشہ سے خود اس میں شامل تھی۔
اور اب چونکہ ٹوٹس نے جو اپنی بیوی طلعت آراء کی مکمل ہاؤس کیپنگ اور مکمل ذہنی رفاقت اور آئیڈیل کامریڈ پنے سے عاجز آ کر کچھ دیر کے لیے یہاں آیا تھا تو یہاں پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ طلعت اور ڈوپی اور پکسی اپنی پیدائش سے لے کر اب تک مختلف قسم کے مکالموں سے اسے مستفید کرتی آئی تھیں۔
وہ ان تینوں سے سات آٹھ سال قبل دنیا میں آ گیا تھا۔ دنیا ان دنوں طویل ویک اینڈ منا رہی تھی پھر لڑائی شروع ہوئی اور وہ نیوی میں چلا گیا۔ اور ہانگ کانگ میں اشتمالی ہونے کے شبہے میں پکڑا گیا۔ جیل میں رہ کر اس نے نظمیں لکھیں۔ اس کے بعد نارمن میلر سے دوستی کی۔ نیویارک کے گرینچ ویلج میں رہ کر اس نے پال روبنسن کے نیگرو روحانی نغموں پر مقالے لکھے اور جن چینی اور لیتھونین گیتوں کا ترجمہ کیا وہ الگ۔ اس کے گلیمر کی انتہا آپ سمجھ لیجئے یہ تھی کہ اس نے اسٹیوٹ گرینجر کے ساتھ ایک فلم بنایا تھا اور بمبئی لوٹ کر وہ چیتن آنند وغیرہ انٹلیکچول لوگوں کے ساتھ ایک انتہائی پْر انٹلیکچول تصویر بنانے کی فکر میں تھا۔
لیکن پھر اس نے شادی کر لی اور یہاں آ گیا۔ ان دنوں وہ آرمی کے حساب کتاب کی جانچ پڑتال کرتا تھا اور رات کو ’’اولڈ مین رِوَر‘‘ بجاتا تھا اور اس کو ان لوگوں سے شدید چڑ تھی جو ہر وقت کہتے تھے، وہ زندگی سے انتہائی غیر مطمئن ہیں وغیرہ۔
ڈوپی ریلنگ پر جھکی فلم انڈیا پڑھتی رہی۔
ایک صحیح آئیڈیالوجی کا فقدان۔۔۔۔۔۔ اندر پکسی دھاڑ رہی تھی۔ پھر یک لخت کمرے میں سناٹا چھا گیا۔
ڈوپی نے اندر جھانک کر دیکھا۔ پکسی چائے کے سامان اٹھانے میں جٹی تھی اور ٹوٹس نے ٹانگیں پھیلا کر سیٹی بجائی۔
لڑکیوں کے سامنے وہ ہمیشہ فتح مند رہا ہے۔ اسی فتح مندی کے چکر میں اسے طلعت سے شادی کرنی پڑ گئی تھی۔ گو یہ بات نہ تھی کہ وہ طلعت کی طرف سے ڈزالوڑن ہو گیا ہو۔ حالانکہ ان کی شادی کو پورے پانچ ماہ کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ برآمدے میں آ گیا۔
ٹوٹسی ووٹسی۔۔۔۔۔۔!! ڈوپی نے دہرایا۔
اس نے مطلق برا نہ مانا اور زینے کے ستون پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
نیچے نم کیاری میں کاغذ کے چند ٹکڑے پڑے تھے اور ہمسایوں کے ہاں کوئی لونیاں گاتا تھا۔ پکسی کیا کہہ رہی ہے۔
ڈوپی نے فکر مندی سے پوچھا۔ کیونکہ ڈیسمنڈ ینگ یا نہیں ڈیسمنڈ ینگ۔۔۔۔ پکسی ان سب کی پسندیدہ کزن تھی۔
ہمسایوں کے یہاں سلائی کی مشین چلائی جا رہی تھی۔ اور کوئی صاحب میز پر طبلہ بجا رہے تھے۔ پلائی ووڈ کی جو دیوار برآمدے کو دو حصوں میں منقسم کرتی تھی اس پر پورچ پر پھیلی ہوئی بیل کا سایہ پڑ رہا تھا۔
بیگم عرفان نے ساڑھے تین سو روپے کا ڈھیلا پائجامہ سلوایا ہے ویلوشین کا جس کے اوپر جارجیٹ ہے، اور اس کو پہن کر ان کا خیال ہے وہ کسی انگریزی کاسٹیوم فلم کی ’’ہیروئن‘‘ لگیں گی۔
ڈوپی نے رسیور اٹھا کر طلعت کو مطلع کیا۔
حالانکہ ’’ہیروئن‘‘ تو وہ مسلم سوشل پکچر کی بھی نہیں لگتیں۔ طلعت نے شگفتگی سے جواب دیا۔
اب تم کٹو۔۔۔۔۔۔ میں ٹوٹس سے ضروری باتیں کر رہی ہوں۔ فون بند کر کے وہ پھر ریلنگ پر جھک گئی۔
ٹوٹس نے اسے غور سے دیکھا۔ گڈو۔ ڈوپ سی ڈوپ۔۔۔۔۔۔ ڈوپی نے پیار سے اسے مخاطب کیا۔ وہ ستون پر بیٹھا رہا۔ پھر ٹانگیں ہلا کر اس نے گانا شروع کیا۔
عرض کیا ہے کہ مورے مندر اب یوں ناہیں آئے۔۔۔ وہ اگر کوئی گانا نٹ بہاگ میں شروع کرتا تو اْسے شنکرا مالکوس بھیروں بہار سے گزارتا اس بد قسمت گانے کو حمیر میں لا کر ختم کرتا۔ پھر وہ گانا بھی ختم ہو گیا جس میں ہر بار یہ کہا جاتا تھا کہ مورے مندر اب لو یوں ناہیں آئے۔
گنگا کے کنارے سرکنڈے اگ آئے تھے۔ اداس آنکھوں والے سنیاسی ورندابن سے جا چکے تھے اور ہوائیں دہشت ناک سروں میں بڑی رنجیدہ باتیں یاد دلاتی تھیں۔ سہ پہر کا سناٹا شام کی آوازوں میں ڈھلنے لگا۔ اکثر خالی گھروں میں جب تین چار آدمی الگ الگ چپ چاپ بیٹھے ہوں تو کیسی پر اسرار خاموشی چھا جاتی ہے۔
اب شام ہو رہی ہے ٹوٹس۔۔۔ ڈوپی نے خوف زدہ ہو کر کہا۔
برآمدے کے نیچے سے گزر کر ایک کالی ہل میں تیزی سے ہمسایوں کے پورچ کی سمت مڑ گئی۔
اس میں سے عرفان احمد اترے اور ان کی بیگم صاحبہ۔۔۔ جن کے لباس پر دو کمینی بلیوں کی طرح۔۔۔ طلعت اور ڈوپی نے تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے مڑ کر ٹوٹس کو دیکھا اور اخلاقاً ہاتھ ہلایا اور بیگم عرفان زور سے کسی بات پر ہنسیں۔ پھر وہ پورچ میں چلے گئے۔
پورچ پر سرخ پھولوں والی بیل تھی اور بلب کی زرد روشنی پتوں میں سے چھن کر باہر گھاس پر پھیل گئی تھی اور شام کی اداسی سرسراتی ہوئی روحوں میں داخل ہو رہی تھی اور زندگیاں اتنی حقیر تھیں۔
اللہ اکبر۔ ٹوٹس نے آہستہ سے دہرایا۔
ڈوپی لیمپ جلا کر باہر آئی اور فون کے قریب والی آرام کرسی پر بیٹھ گئی۔
شام کو بیگم عرفان وہی مخملیں کوسٹیوم پہن کر آئیں گی۔۔۔۔۔۔! اس نے بڑے اہتمام سے لہجے میں بشاشت پیدا کر کے کہنا شروع کیا۔
ڈوپ زی۔۔۔۔۔۔ ٹوٹس نے جھنجھلا کر کہا۔
اب کچھ کہنے کا کیا فائدہ تھا۔ ڈوپی نے سوچا۔
جب تم یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہو کہ بیگم عرفان سے تمہاری کتنی دوستی ہے، یا خود عرفان احمد بالکل یوں ہی محض ایک اور دوست ہیں تو تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ تم سخت مضحکہ خیز اور قابل رحم نظر آتی ہو۔ ایکٹنگ۔ مستقل ایکٹنگ۔ ٹوٹس نے غصے سے کہا۔
شاید ہم لوگوں کو پیدا نہ ہونا چاہئے تھا۔
ڈوپی نے سوچ کر افسوس کے ساتھ کہا۔
ڈوپ زی۔ ٹوٹس نے پیار سے کہا۔ اب یہ کیا میلو ڈرامہ ہو رہا ہے۔
لاحول ولاقوۃ۔ دوسرے لمحے ٹوٹس نے غصے سے سوچا۔
دودھ والا سڑک پر سے گزرا۔ دوسری منزل پر بچہ پھر رویا۔ بیگم عرفان احمد کا بچہ، پینٹری میں چائے کے چمچوں کے کھنکنے کی آواز آئی۔ گھر۔ لیکن میں اب بھی الگ ہوں۔ ٹوٹس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر خیال کیا۔ (حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو بات کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے بعد میں سوچا)۔۔۔۔۔۔
الماری کے پاس وہ کھڑا تھا۔ اور آلوؤں کی پلیٹ اس کے ہاتھ میں تھی۔ اسی صبح وہ سب تین طیاروں میں بھر کر سمندر پار سے آئے تھے جہاں وہ جگہ جگہ تقریریں کرتا پھرا تھا اور اس کی تصویریں کھینچی تھیں۔ اور طہران سے اس نے بہت ساری ووڈکا ساتھ لے لی تھی۔ اب وہ اطمینان سے کھڑا ’آفٹر ڈنر‘ قصے سنا رہا تھا۔
ٹوٹس نے اس کا زیادہ نوٹس نہ لیا۔ کیونکہ ٹوٹس بہت سی باتوں کے متعلق اپنی رائے سختی سے محفوظ رکھتا تھا اور ڈوپی بے حد فرماں برداری کے ساتھ اس کی رائے صحیح سمجھتی تھی۔
وہ الماری کے پاس کھڑا تھا۔ بہت سارے مہمان ادھر ادھر کھڑکیوں میں، آتش دان پر، میزوں پر ٹنگے بیٹھے تھے۔
باہر اندھیرا ہے جس میں گلاب کھلے ہیں اور پانی کے راستے خوف ناک ہیں۔ اور دروازے بند ہو جائیں گے اور میں جاگتی رہوں گی۔ پھر میں بھی سو جاؤں گی (کیونکہ اندھیرا اٹل ہے)
لہٰذا جناب جب گلدر نزدیک آیا۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا۔ کھنکارنے کی ضرورت ہے۔۔۔ ڈوپی نے شگفتگی سے پوچھا۔
واللہ مقصد دور کی کھینچتے ہیں آپ۔ ٹوٹس نے اخلاقاً تعریف کی۔
کیا۔۔۔۔۔۔؟ ایک صاحب نے دریافت کیا۔
ہنستے ہنستے ڈوپی پھر کھڑکی میں جا بیٹھی۔ (کیا تم سب کو یاد رہے گا۔ اب تک جو کچھ ہوا تم سب کو یاد ہے؟)
حضرات! اولڈ لانگ زائن گائیے۔ اس نے زور سے تالی بجائی (ساری پچھلی سردیاں۔۔۔۔۔۔ اسکول کے نیم روشن ہال۔ گرم آتش دان۔ بارش اور پہاڑی راستے۔ اجل مزگاؤں کر تھا۔ ایرک والٹرز۔ اپنی پکسی۔ گڈ اولڈ پکسی۔
اب میں ان لوگوں میں سے کسی ایک سے شادی کر لوں گی۔ (سارے پروبلمز آپ سے آپ حل ہو جائیں گے)
آج رات بہت سے جہاز اڑیں گے۔ کسی نے کہنا شروع کیا۔ در اصل ملک کی معاشی تنظیم۔۔۔۔۔۔ کوئی اور کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ (بہار کی دوپہروں میں پروفیسر رادھا کمل مکرجی کے باغ کے خنک قطعے جہاں سیتل پائیاں بچھائی جاتی تھیں اور اوما پنچال تْکا رام کے بھجن گاتی تھی۔ چھ اعلیٰ امتحان اس نے پاس کیے۔ لاء کی ڈگری لی۔ اور کافی ساریاں خریدیں)
عرفان احمد صاحب یہ پلیٹ لے لیجئے۔ اس نے بہ آواز بلند کہا۔ (کیا بور نام ہے۔ دل میں اس نے سوچا اور خوب ہنسی)
عرفان احمد وہ کہلاتا تھا۔ اس نے ڈوپی کے ہاتھ سے پلیٹ لے کر سائیڈ بورڈ پر رکھ دی۔ برآمدے کی ریلنگ پر اکٹھے جھک کر سامنے پانی کو دیکھتے رہئے تو کیسی یگانگت کا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ ڈوپی سے وہ پہلی بار اسی وقت کھانے کے موقع پر ملا تھا۔ نیچے گھاس پر ہمسایوں کے بچے کھیل رہے تھے۔
بچے۔۔۔۔۔۔؟؟ جب میرا ایک بہت بڑا خاندان ہو گا تو میں ان شیطان کے خالوؤں کے کیا نام رکھوں گا۔ یہ ڈوپی پکسی ٹوٹس کس قدر خوف ناک خرافات ہے۔ جس لڑکی سے میں شادی کروں گا وہ سلطانہ خاتون ہو گی یا کنیز فاطمہ بیگم۔ (جس لڑکی سے اس کی شادی طے ہوئی تھی اس کا نام سکینہ بانو تھا)
سکینہ بانو کی طبیعت کیسی ہے۔ پکسی نے کسی دوسرے مہمان سے پوچھا۔ مجھے لگتا ہے وہ ہمیشہ بیمار رہا کرے گی مثلاً اسے بران کائٹس رہا کرے گا عموماً۔ یا اپنڈی سائٹس، پکسی نے پیغمبرانہ انداز سے کہا۔
اب کھانے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ پکسی مصروفیت سے باہر آئی۔ مہمان پھر جمع ہو رہے تھے اور کھڑکیوں، آتش دانوں اور الماریوں پر لٹکنا شروع ہو گئے تھے۔ عرفان احمد اسی الماری کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور ڈوپی نے پلیٹ اٹھا کر انہیں دی۔
سکینہ بانو۔ تمہارا پائجامہ کس قدر ڈیوائن ہے۔ طلعت نے تعریف کی۔
بیگم عرفان خوشی سے کھلکھلا کر ہنسیں۔
ڈوپی دوسری کھڑکی کے پاس گئی جہاں کچھ مہمان ریکارڈوں پر جھکے ہوئے تھے۔ یہ ’’اولڈ مین رِوَر‘‘ بجا بجا کر اتنا گھس ڈالا۔۔۔۔۔۔؟ انہوں نے کہا۔ (آخر تم کو پریشانی کیا ہے۔ ہم دونوں اتنے بہادر ہیں۔ ڈوپی نے آنکھیں اٹھا کر خاموشی سے ٹوٹس سے کہا۔)
ڈوپی ایک مذہبی، خدا ترس بلی ہے جو برابر اداس رہتی ہے۔ ٹوٹس نے دل میں کہا۔
جی ہاں۔ اس نے دوسرے مہمان سے اتفاق رائے کیا۔ ورلڈ بینک کی پالیسی۔۔۔۔۔۔
ایسی جگہیں ہیں جہاں میں اس وقت فوراً دوبارہ واپس جانا چاہتی ہوں۔ ترائی کا وہ چھوٹا سا اسٹیشن جہاں صبح منھ اندھیرے ایک لڑکا کھڑکی میں سے سر داخل کر کے کہتا تھا۔ پھلیندے لیجئے گا مس بابا۔۔۔۔۔۔؟ اور نارائن مالی کا گھر جس کے آنگن میں بیٹھ کر ہم امرود کھاتے تھے۔
پھر ایک روز اس نے پرانے عہد نامے کا انکشاف کیا تھا۔ میرا خدا جو مجھے ٹھنڈے خاموش پانیوں کے کنارے کنارے لے جاتا ہے۔ سینٹ کولمبا۔۔۔۔۔۔ اگر مجھے میرا دماغ واپس مل گیا تو میں تمہارے سامنے چار شمعیں جلاؤں گی۔
ڈوپی نے ڈشیں سائیڈ بورڈ پر رکھ دیں اور کافی کے انتظام میں جٹ گئی۔
مسوری بھی رہ گئی پیچھے۔۔۔۔۔۔ انور آپا افسوس کے ساتھ کہہ رہی تھیں (کھانا ختم کر کے وہ سب پھر اپنی اپنی جگہوں پر واپس لٹک گئے تھے)
ہر سال ہم جاتے تھے مسوری۔۔۔ انور آپا نے دوبارہ کہا۔ ارے آپا جانی۔ گولی مارئیے مسوری کو۔۔۔۔۔۔ یہاں آ کر تو ہم نے ایک بار آپ کو مری بھی نہ جاتے دیکھا۔ ہٹائیے پرانے قصوں کو۔۔۔۔۔۔ کسی نے چپکے سے کہا۔
اور جس فلیٹ میں بیٹا اب ہم رہتے ہیں اس سے چوگنا بڑا اور خوب صورت تو ہمارا شاگرد پیشہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خالہ بیگم نے کہا۔ بیگمات دوسرے کمرے میں جمع تھیں۔ جانے دیجئے۔۔۔۔۔۔ کسی اور نے کہا۔ یہ قصے بھی اب پرانے ہو گئے۔ دنیا نے آپ کو جس طرح آپ اب ہیں اسی طرح Accept کر لیا ہے۔ پرانی تاریخ کو ہٹائیے۔
پرانی تاریخ۔۔۔؟! ابھی کل ساڑھے تین سال گزرے ہیں بھیا (یہ در اصل ٹوٹس تھا) ابھی کل کی بات ہے کہ ہم لکھنؤ میں چین سے رہتے تھے۔ (اور مسوری جاتے تھے۔ انور آپا نے کہا) لوگوں نے Accept کر لیا ہے۔۔۔؟ کہ میں کون ہوں۔ ڈوپی نے برآمدے میں آ کر خود سے پوچھا۔
مہمانوں نے سیڑھیوں پہ آ کر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہنا شروع کیا۔ گڈ نائٹ عرفان صاحب گڈ نائٹ سکینہ بانو شب بخیر طلعت بیگم گڈ نائٹ۔۔۔ ہاؤس وارمنگ کب ہے؟ آپ کا لباس واقعی بہت خوب صورت ہے۔ تھینکس اے لوٹ۔۔۔۔۔۔ گڈ نائٹ۔ گڈ نائٹ۔
ٹوٹس۔۔۔۔۔۔ ڈوپی نے آہستہ سے کہا۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ باہر کتے روتے ہیں اور پانی پر تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔ وہ روش پر سے گزر کر پھاٹک پر آ گئے۔ یہ ازل تھی۔ یہ ابد ہے۔ یہیں سارا خاتمہ ہے۔ یہیں نئی زندگی ملے گی۔ یہ ہم سب کی دنیا ہے۔ ہم اسی راستے سے آگے بڑھیں گے۔
سڑک پر خنکی تھی۔ دو مشنری عورتیں ڈبے لیے ہوئے گزر رہی تھیں۔ دن بھر کی تھکی ہاری اب یہ اپنے سنٹر کو لوٹیں گی۔ اور سینڈونچز کا ناشتہ کرنے کے بعد سو جائیں گی۔ یہ دور دراز کنیڈا سے آئی ہوں گی اور نجات ان کو بھی ملے گی۔
خیال یہ ہے کہ اپنے اوپر ترس کبھی نہ کھانا چاہئے۔ ٹوٹس نے سوچ کر کہا۔ تم نہیں کھاتے ترس اپنے اوپر۔۔۔۔۔۔ ڈوپی نے غصے سے پوچھا۔ چلو عرفان احمد سے پوچھیں ان کا کیا خیال ہے۔ عرفان احمد۔۔۔۔۔۔ خداوند تعالیٰ تو ہیں نہیں۔ ڈوپی نے جل کر کہا۔ تھوڑے سے تو ہیں۔۔۔۔۔۔!! ٹوٹس نے کہا۔ وہ واپس آ کر پھر سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔
یہ اسوک کی شاخ ہے۔ ڈوپی نے بہ آواز بلند کہا۔ لیکن اس ملک میں اسے کچھ اور کہتے ہیں۔ ٹوٹس نے جواب دیا۔ اب وہ دونوں بہت خوش تھے۔ ڈوپی نے مسرت کے ساتھ پتوں کو چھوا۔ اب عرفان احمد تک کا خیال خوش گوار تھا۔ بہرحال۔ سکینہ بانو اتنی بری نہیں۔ اس نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ کہا۔ ایک مشنری عورت پھاٹک کے قریب آ گئی۔ گڈ ایوننگ مائی ڈیرز۔۔۔۔۔۔ اس نے ذرا جھجکتے ہوئے کہا۔ ڈوپی نے پانچ روپے پرس میں سے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دئے۔ وہ ششدر ہو کر ڈوپی کو دیکھتی رہی۔ ہم تمہارے لیے دعا کریں گے۔ دونوں عورتوں نے ایک ساتھ کہا۔ میں خود تمہارے لیے شب و روز دعائیں کرتی ہوں۔ ڈوپی نے سنجیدگی سے کہا اور مسرت کا ایک گہرا سانس لیا۔
پیارے سینٹ کولمبا!! اور میں بھی۔۔۔۔۔۔!! ٹوٹس نے جھک کر صلیب کا نشان بنایا۔ وہ پھر سڑک پر آ گئے۔ ایک ایمبولنس سامنے سے گزری۔ چند آوارہ گرد دوتارہ بجاتے جا رہے تھے۔ ڈوپ زی۔ ٹوٹس نے یک لخت کہا۔ میں خوش ہوں کہ ہم لوگ زندہ ہیں۔ وہ وہیں ٹھیر گئی۔ اس نے یاد کیا۔ رات ہے، تیز ہوائیں اور یہ ساری میری مہذب Imagery اور ہم واپس جا رہے ہیں۔ اچھا خدا حافظ ڈوپ زی۔ ٹوٹس نے رک کر کہا۔
میں بالکل بہادر نہیں ہوں۔ ڈوپی نے اس سے کہا۔ نہ میں۔ ٹوٹس نے جھک کر دوسری طرف دیکھا۔ اور عرفان احمد اور سکینہ بانو اور طلعت آراء بے حد چین کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے خیالات صحیح خیالات ہیں۔ سنسان راستے پر چلتے ہوئے وہ اپنی اپنی تاریکیوں کی طرف چلے گئے۔ اندر پکسی نے ’’اولڈ مین رور‘‘ لگا دیا تھا۔
٭٭٭
رام یہ کیسا گورکھ دھندا ہے
پھر شیشے کا بڑا دروازہ کھلا اور اس میں سے جو لوگ اندر آ رہے تھے اور باہر جا رہے تھے ان میں چمپا بھی تھی اس نے مجھے دیکھا اور میری میز پر آ کر بیٹھ گئی۔ ہلو…اس نے کہا۔ میں اس کو دیکھتا رہا۔
یہ کون لوگ ہیں، یہ کون جگہ ہے۔ کتنے برس بیت رہے ہیں۔ میں نے سوچا اور سوچتے ہوئے مجھے ڈر لگا۔ زمانہ بہے جا رہا ہے۔ چمپا باجی میرے سامنے موجود ہیں، ان کے بال بھی وہی ہیں۔ انہوں نے ساری بھی اسی انداز سے پہنی ہے۔ وقت کا الاؤ جو جل رہا ہے۔ اس کی لپٹوں کی روشنی میں وہ بڑی نکھری ہوئی دکھلائی دے رہی ہے۔ اور مجھے یہ بھی احساس ہوا ہے کہ اس کو دیکھ کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ کوئی رنج بھی نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہ میں اب یہاں سے اٹھ کر بھاگنا چاہتا ہوں۔
شمیم نے مجھے فون کیا تھا کہ تم لوگ کل پرسوں جانے والے ہو۔ اچھا ہوا تم سے اس وقت ملنا ہو گیا۔ اپی کیسی ہیں؟ شمیم میری بیوی کا نام ہے۔
چمپا باجی واقعہ یہ ہے کہ جس قدر اطمینان اور جس پر سکون انداز سے تم مجھ سے یہ باتیں کر رہی ہو۔ شمیم کی باتیں۔ اپی اور دوسرے دوستوں کے قصے۔ اور یہ کہ کل تم نے ایک بے حد دل چسپ سوئیڈش فلم دیکھا اور میں بھی تم سے دنیا جہان کی باتیں کر رہا ہوں۔ تم کو اپنے اور میرے اس کمینے پن پر ہنسی نہیں آتی۔ میں دل میں دعا مانگ رہا ہوں کہ تم کو یک لخت کوئی ضروری کام یاد آ جائے۔ اور تم اٹھ کر چلی جاؤ۔ مجھے تم سے مل کر خوشی نہیں ہوئی۔ میں صریحاً، مجھے ایسا سوچنا نہیں چاہئے۔
لیکن بور ہو رہا ہوں۔ میں کیا کر سکتا ہوں کہ تم چمپا ہو۔ تم دوبارہ دس پندرہ سال تک بھی نظر نہ آؤ گی تو مجھے فکر نہ ہو گی۔ پندرہ سال ہوئے میں تم کو بے بی کہتا تھا۔ اب تم تب سے بھی زیادہ خوب صورت نظر آ رہی ہو۔ زیادہ سمجھ دار، سنجیدہ، بردبار، اللہ جانے تم کیا کیا بن چکی ہو مجھ پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ میرا خیال تھا کہ تم مجھے بتاؤ گی کہ تم کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ تم کو اپنے لیے مسلسل جد و جہد کرنی پڑی ہے۔ پر یہ سب تم نے نہ کہا۔ اپی نے لکھا تھا انھوں کسی ڈوکومنٹری فلم میں تم کو دیکھا تھا۔ پھر تم کسی فلم میں اپنی آواز اردو میں ڈب۔ کرنے کے لیے روم چلی گئی تھیں۔ پھر تم تو بے حد شگفتہ، بشاش معلوم ہوتی تھیں۔ مستقل ایک کے بعد ایک لطیفے سنائے چلی جا رہی تھیں۔
میں نے باقاعدہ بور ہونا شروع کیا۔ مجھے اپنی اس بیہودگی پرسخت غصہ آ رہا تھا پھر میں بتاؤ تو سہی کہ کیا کر سکتا تھا۔
آسمان پر بادل گھر آئے تھے۔ اور ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔
چمپا باجی سامنے کون سی فلم چل رہی ہے۔ میں نے گھڑی دیکھ کر کہا۔ میں گھر جانا چاہتا تھا۔ میں نے اس کو گھر مدعو نہیں کیا۔ بڑا جھنجھٹ ہے۔ میں نے دل میں سوچا۔ ہاں چلو دیکھ لیں۔
مجھے سات بجے تک یہاں اْجلا کا انتظار کرنا ہے۔ اس نے کہا پھر ہم سنیما ہال کے اندر چلے گئے۔ آدھی فلم دیکھ کر ہم دوبارہ باہر آئے۔ دو گھنٹے، تین گھنٹے، چار گھنٹے۔ کیا میری ساری شام اس طرح برباد ہو جائے گی۔ لوگ جو سنیماؤں سے باہر نکل رہے تھے۔ ان کے چہرے اداس تھے۔ اداسی سارے ماحول پر چھائی تھی۔ بارش تیزی سے برس رہی تھی۔ روشنیاں غمگین تھیں۔ موسیقی رو رہی تھی۔ سڑک پر موٹروں اور بسوں کے چلنے کی آواز میں پژمردگی تھی۔ وقت گھٹتا جا رہا تھا۔
شام کا اندھیرا سسکیاں بھر رہا تھا۔ بارش کی پھواروں میں چمپا کا چہرہ کنول کی طرح دمکتا رہا۔ وہ شیشے کی بڑی دیوار سے ناک چپکا کر کھڑی ہو گئی اور باہر کے ٹریفک کو دیکھتی رہی۔ میں بارش کے تھمنے کا انتظار کر رہی ہوں۔ تم چلے جاؤ۔ نہیں …، نہیں …، میں تم کو ٹرین تک پہنچا کر جاؤں گا۔ میں نے بڑی گرم جوشی سے کہا اس نے مطلق نوٹس نہ لیا۔ اور اب ایک پھول بیچنے والی بڑھیا سے باتیں کرنے لگی۔
اچھا تو میں تو شاید چل ہی دوں، میں نے غیر یقینی لہجے میں کہا۔ ہاں۔ بالکل۔ کاہے اپنا رستہ کھوٹا کرتے ہو۔ شمیم سے کہنا مجھے فون کر لے۔ اب میں کبھی اس سے نہ ملوں گا۔ تم گھر نہیں چلو گی۔؟ میں نے اخلاق سے دریافت کیا۔ نہیں اس وقت تو مجھے جلدی ہے۔ اس نے کہا۔
اب میں نے اس کو بہت پیچھے کھڑا چھوڑ دیا ہے۔ میں گھر کی طرف جا رہا ہوں۔ وہی اس بے کراں اداسی، سناٹے کے اس پر شور بھنور میں اکیلی چپ چاپ شیشے کے دروازے کے پاس کھڑی رہ گئی ہے۔ وہ اور اْجلا ابھی اور دوسری باتیں کریں گی۔ قصے بیان ہوں گے۔ تازہ اسکینڈل، دوستوں کے لطیفے، دن بھر کے واقعات۔
چمپا باجی کی زندگی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ میں کیوں اس قدر تھک گیا ہوں۔ مجھے اب چپکا بیٹھا رہنے دو۔
ٹرین مضافات میں داخل ہو رہی تھی۔ کھڑکی میں سے ہوا کا جھونکا کمپارٹمنٹ میں داخل ہوا۔ اس میں آم کے پتوں کی مہک تھی۔ اب میلوں دور تک عالم باغ کا سلسلہ پھیلتا چلا آ رہا تھا۔ بارش میں بھیگی ہوئی ان گنت ریل کی پٹریاں، ریلوے ورک شاپ، کنارے کنارے پر پھولوں میں چھپے ہوئے بنگلے، ان کے سامنے اینگلو انڈین بچے کھیل رہے تھے۔ پھر ٹرین آہستہ آہستہ عالم باغ کو پیچھے چھوڑتی ہوئی چارباغ جنکشن میں داخل ہوئی۔
اسٹیشن کی سنگ سرخ کی راج پوت مغل طرز کی سیکڑوں اونچی اونچی برجیوں، گنبدوں، میناروں اور شہ نشینوں والی بے تحاشا طویل و عریض عمارات جو کسی طرح بھی ریلوے اسٹیشن نہ معلوم ہوتی تھی۔ پلیٹ فارم کے شفاف سرمئی فرش پر لوگ نرم روی سے ادھر ادھر چلتے پھرتے تھے۔ چیخ پکار تھی۔ لیکن اس شور و شغف میں تیرتے ہوئے جو جملے اور فقرے کانوں میں آتے تھے۔ وہ سرشار نے اپنے ناولوں میں لکھے تھے۔
صبح صبح ہلکے خنک دھندلے میں سندیلے کا چھوٹا سا خوب صورت اسٹیشن آتا تھا۔ یہاں لڈو ہوتے ہیں۔ شنکر نے خیال ظاہر کیا اور اسی سمے ’’لڈو سنڈیلے والے‘‘ کی صدا سنائی دی۔ سرخ بجری والے پلیٹ فارم پر نستعلیق لوگ انگرکھے، دوپلی ٹوپیاں، سفید براق پاجامے، اجلی دھوتیاں پہنے ٹرین کے انتظار میں اطمینان سے ٹہلتے تھے۔ بے اندازہ اطمینان اور سکون۔ سرخ بجری اور سفید پھولوں سے گھرا ہوا اسٹیشن آم کے باغات، باریک سرخ کاغذ میں لپٹی مٹی کی ہانڈیوں میں رکھے ہوئے لڈو بیچنے والوں کی صدائیں۔ میں نے برتھ پر لیٹے۔ لیٹے ذرا سا سر اونچا کر کے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ پھر گھڑی پر نظر ڈالی۔ کیا وقت بھی یہاں دوبارہ واپس پہنچ کر اپنے مستقر پر آن کر ٹھہر گیا تھا، میں نے آنکھیں بند کر کے فضا کی مہک مکمل طرح اپنی ناک میں داخل کی۔
اوپر کی برتھ پر سے شنکر نے آواز لگائی میں ذرا بھیرو کا ریاض کرنا چاہتا ہوں۔ اگر تم برا نہ مانو۔
میاں تم کو کون روک سکتا ہے تم بھیرو چھوڑ… آ…آ… رے …رے …دھاپا…گا…اوہو…ہو… جاگو… جاگو ارے بھائی جاگو موہن…اس نے دہاڑنا شروع کیا۔
لاحول ولا …کس قدر ایلی منٹری بھیرو…یہ والا بھجن تو فرسٹ ایئر میں سکھایا جاتا ہے۔ میں نے کروٹ بدل لی…اور دوسری بات یہ کہ میں ذرا چند لڈو کھانا چاہتا ہوں۔ میں نے اظہار خیال کیا…اے میاں …اے بھائی…جہنم میں جائے تمہارا ریاض…تم ذرا ایک دن مجھ سے اس کو بلمپت میں سننا…اے بھائی۔ میں نے آدھی بات شنکر سے کہنے کے بعد پھر لڈو والے کو آواز دی۔ کہئے مہربان…کھڑکی میں سے اندر جھانک کر لڈو والے نے نہایت شائستگی سے جواب دیا۔
جاگو…ہی ہی ہو…ارے کیا مرکیاں لیتا ہوں شنکر چنگھاڑتا رہا۔ ذرا دماغ پر زور ڈالو اور تصور کرو کہ برابر کے ڈبے میں سے تان پورے کی گونج کے ساتھ ایک مدھر آواز بلند ہو۔ ہو۔ ہواگوال بال سب گئینئے چراوت۔ اس نے انترہ اٹھایا۔ تمہرے درس کو بھوکے ٹھاڑے … میں نے غصے کے ساتھ گرج کر آواز ملائی۔
میاں شنکر یہ باتیں محض ناولوں میں ہوتی ہیں۔ وہ کانن کا نیا فلم دیکھا ہے۔ ’’جوانی کی ریت‘‘ کہ موہے اْن بِن یہ جلسہ سہائے نہ۔ کہاں دیکھا۔ ہم تو بیٹھے مرزا پور میں جھینک رہے تھے۔ کیوں گپ مارتا ہے بے …مرزا پور میں جھینک رہے تھے۔ تم مجھے بھیج دو وہاں جھینکنے کے لیے۔ میں نے غصے سے کہا۔
چلا جا بھائی لللہ وہاں چلا جا۔ اور میری جان بخش کر … شنکر نے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی۔ پر مجھے معلوم تھا کہ گپ مارتا ہے۔ نامعقول خود ہی خود بر دکھوئے کے لیے پہنچ گیا۔ اور مجھ پر رعب جھاڑ رہا تھا۔ میں ساری چھٹیاں اکیلا مسوری میں بور ہوتا رہا۔ اور شنکر سریواستو تھے کہ مرزا پور میں بیٹھے کجریاں الاپ رہے تھے۔ اب پچھلے ہفتے امّاں بیگم کا خط پہنچا کہ فوراً لوٹو رودولی سے اَپی بھی آ رہی تھیں۔
یونی ورسٹی کھلنے میں ایک ہفتہ ابھی باقی تھا۔ لیکن گھر میں ایک کرائسس درپیش تھا۔ امآں بیگم نے لکھا تھا کہ خدا خدا کر کے بھیا نے بیاہ کے لیے ہاں کر دی تھی۔ سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کہ بھیا نے ہاں کی تو لڑکی ندارد۔ اطلاع ملی کہ چمپا باجی نے انکار کر دیا ہے۔ اب گھر پہ ہائی کمانڈر کا اجلاس ہونے والا تھا۔
بھئی ذرا سرلا سروج سے پوچھنا کوئی لونڈیا ہے ان کی نظر میں … میں نے برتھ پر سے اتر کر اپنے جوتے ڈھونڈتے ہوئے کہا۔ کس قسم کی…؟ ویسی ہی جیسی چمپا باجی ہیں؟
ایسی تو دستیاب ہونا نا ممکن ہے۔ شنکر نے یک لخت بڑی سنجیدگی سے کہا۔ میں بھی چپ ہو گیا۔
لاؤ ایک بیڑی دیو۔ میں نے ایکّے والوں کے لہجے میں اس سے کہا۔ اس نے خاموشی سے سگریٹ کیس اوپر سے پھینک دیا۔ میں پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ اب ہم تیزی سے شہر کی اور آ رہے تھے۔
عالم باغ شروع ہو چکا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں، میرا دماغ در اصل ایک قسم کا بھان متی کا پٹارا تھا۔ میں بہت سی باتوں کو الگ الگ کر کے ان پر غور کرنا چاہتا تھا۔ پروہ پھر گڈمڈ ہو جاتی تھیں۔ میری تعلیمی مصروفیات تھیں۔ کنبہ تھا۔ قصبے اور زمین داری کی ذمہ داریاں دوستوں کا گروہ پھر ایک عجیب حسن اور گمبھیرتا اور نرمی کا احساس جو اس پس منظر پر چھایا ہوا تھا۔ مجھے اس سمے کسی چیز کی ضرورت نہ تھی بجز ایک سندیلے کے لڈو کے۔ میں نے شنکر سے کہا…لڈو پھینکو۔ وہ تو سماپت ہوئے … اس نے اطمینان سے منھ چلاتے ہوئے جواب دیا۔
کیا چمپا باجی نے منگوائے تھے۔؟ وہ مجھ سے کون سی چیزیں منگواتی ہیں، میں کوئی بھیا ہوں …؟ ہاں یہ بھی ٹھیک کہتے ہو… شنکر نے عقل مندی سے سر ہلایا۔
تمہاری تو بڑی خاطریں ہوئی ہوں گی مرزا پور میں۔ میں نے کروٹ بدلتے ہوئے دل چسپی سے پوچھا۔ ہاں آں …ہوئی تھیں۔ اس نے بے تعلقی سے جواب دیا۔ مگر خاطریں تو ہماری گورکھپور میں ہوئی تھیں پچھلے سال…
یہ شنکر کا باقاعدہ کیریر بنتا جا رہا تھا۔ سال میں کہیں نہ کہیں بر دکھوے کے لیے بلایا جاتا۔ ٹھاٹھ تھے بھائی کے۔
اب تو سرلا کو بدا کر کے بندہ چین کی بنسی بجائے گا۔ اس نے آرام سے لیٹے ہوئے اظہار خیال کیا۔
کمینے …بہن کو بدا کرتے سمے اس کے بجائے کہ روؤ بیٹھے خوش ہو رہے ہیں۔ کہ اب فرصت ہی فرصت ہے لڑکیوں میں گھومنے کی… میں نے اسے شرم دلانا چاہی۔
ارے پہلے کون فرصت نہیں تھی۔ میں اس غریب کی کہاں سنتا تھا۔ پھر اس نے دفعتاً بڑی اداسی سے کہا … دیکھو بہنیں ہیں۔ وہ بدا ہو جاتی ہیں۔
ہاں … میں چپ ہو گیا۔ سرلا مجھ سے کہتی تھی۔ کمال بھیا…چمپا کی طرف سے خبر دار رہو… اس کی اور سے تم کو بڑے دکھ پہنچیں گے۔
شنکر… ہاں یار… ہفتے کے روز ریڈیو پر یونی ورسٹی کا پروگرام ہے … ہاں یار… ’’وہی‘‘ ہوا پور یونی ورسٹی کا کانوکیشن۔‘‘ … ہاں … تزئین دریافت کریں گی کہ اسکرپٹ مکمل کر لیا یا نہیں
چمپا باجی کے وہاں جاؤ گے …؟ جو بات میں ختم کرنا چاہتا تھا شنکر معاً اسی نقطے پر پہنچ گیا… ہاں … نہیں …پتہ…نہیں یہ چار الفاظ ہم سب کی زندگیوں کا گویا مکمل عنوان تھے۔ جلی حروف میں لکھی ہوئی سرخی۔
ہاں …نہیں …پتہ…نہیں … ضرور جاؤں گا۔ وہ میرا کیا کر سکتی ہیں۔ وہ پیلی رنگت والی دبلی پتلی لڑکی۔ بات کرنے تک کا تو ان میں سلیقہ نہیں۔ یونین میں تقریر کرنے کھڑی ہوتی ہیں تو گھبرا جاتی ہیں۔ ہر قسم کی عقل سے معذور۔ ایک ہزار مرتبہ سمجھا یا۔ ہوائی جہاز ایسے اڑتا ہے۔ ریڈیو ایسے بجتا ہے۔ گراموفون میں آواز اس طرح بھری جاتی ہے۔ ہر دفعہ وہی مرغے کی ایک ٹانگ، میرے پلے تمہارا سائنس نہیں پڑتا۔ واہ کیا ادا ہے۔
جی ہاں میں ان سے نہیں ڈرتا ہوں۔ مطلق نہیں ڈرتا ہوں، مطلق نہیں ڈرتا ہوں۔ میں بہت معمولی ہوں، انہوں نے بھیا سے کہا تھا۔ بھیا کون آئن اسٹائن تھے۔ میں کون مارشل فوش ہوں۔ پر بھیا جب چمپا باجی سے عشق فرما رہے تھے تو لگتا تھا کہ لیگ آف نیشنز کا اجلاس ہو رہا ہے۔ یا ہاؤس آف لارڈز میں بحث کی جا رہی ہے، یا سدھانتا صاحب اٹھارہویں صدی کی انگلش نثر پر لکچر دے رہے ہیں۔
اَپی کیا کر رہی ہیں۔ شنکر نے دفعتاً سوال کیا۔ میں نے غصے سے دانت پیسے۔ میں اس ہری شنکر سریواستو سے عاجز تھا۔ جو بات میں سوچتا تھا وہ بے تار برقی کی لہر کی طرح اس کے دماغ میں پہنچ جاتی تھی یا پہلے سے ہوتی تھی۔ ہم زاد کی طرح اس سے کہیں مفر نہ تھی۔ اگر میں اس سے باتیں نہ کرتا تو بھی بے کار تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ ایسا پہنچا ہوا بھگت بن چکا ہے کہ اس سے زبانی گفتگو کی ضرورت ہی نہیں۔
پورے دو سال سے اسے معلوم تھا کہ میں چمپا کے عشق حقیقی میں مبتلا ہوں۔ نہایت ڈھٹائی سے وہ بھیا سے کہتا۔ بھیا اب چمپا باجی سے بیاہ کر لیجئے۔ یہی کمال کی بھی تمنا ہے۔ کہ آپ چمپا باجی…کیونکہ یہی بات میں بھیا سے کہتا تھا۔ بلکہ جن خوب صورت الفاظ میں کہنا چاہتا تھا۔ یہ شنکر کا بچہ مجھ سے پہلے جا کر بک آتا تھا۔
ہم ایک دوسرے کے لیے بھگوان کرشن اور ارجن کا درجہ رکھتے تھے۔ اکثر یہ درجے ادلتے بدلتے رہتے تھے۔
اَپی کیا کر رہی ہیں … اس نے آہستہ سے پوچھا۔ پتہ نہیں۔ بہن …بدا ہو جاتی ہیں … میں نے سوچا۔ پھر مجھے ایک وحشت ناک، لرزہ خیز خیال آیا۔ آپی کا کیا اب کبھی بیاہ نہ ہو گا۔ میں نے آنکھیں تکیے میں چھپا لیں۔
’’اور پھر کچھ ایسا ہوتا ہے۔ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا۔‘‘ اس سہ پہر ہم ایک اور لمبا سفر طے کر کے پانی کے کنارے پہنچے۔ جہاں گھاس پر سفید پھول کھلے تھے اور لمبی ایالوں والے گھوڑے اور گائیں سبزے پر چر رہی تھیں۔ کیم ندی کے کنارے لکڑی کی دو منزلہ عمارت تھی جس کی بالکنی سرخ رنگ کی تھی۔ اس پر زرد گلاب کی بیل ہوا میں سرسرا رہی تھی۔ کہیں دور سے بڑھئی کی کھٹ کھٹ کی آواز آ رہی تھی۔ موسم بہار کی مکمل دوپہر۔
ہم اوپر آ کر بالکنی میں بیٹھ گئے۔ چمپا باجی تم بہت خوش تھیں جیسے ایک سفید آبی پرندے کی مانند فضاؤں میں بہتی پھر رہی ہو۔ نیچے ندی میں ڈونگیاں چل رہی تھیں اور بطخیں، بہت دور کچھ لڑکے درخت کی شاخوں کے سائے میں سے پانی میں کود رہے تھے۔ بہت مدھم سی ان کے ہنسنے کی آواز سناٹے کی لہروں پر تیر تی ہوئی ادھر تک آ جاتی تھی۔
تم نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے ناچ کی دھن پر پیر چلانے شروع کر دئے۔ تم چلتے چلتے کھڑے کھڑے کوئی گیت، کوئی نغمہ یاد کر کے دفعتاً ناچنا شروع کر دیتی تھیں۔ میں در اصل ایک Frustrated رقاصہ ہوں۔ تم بنچوں کے بل پر کھڑے ہو کر بیلے کے انداز میں پھرکی کی طرح گھوم کر کہتیں۔ اگر میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا نہ ہوئی ہوتی تو میں اس وقت ملک کی سب سے بڑی رقاصہ ہوتی۔
بہار کی دھوپ میں ایک جھونکا ہوا کا پانی پر سے گزرتا ہوا آیا جس میں جانے کا ہے کی خوشبو تھی۔ نیچے جہاں کشتیاں بندھی تھیں ان کے لکڑی کے نم تختوں کو پھلانگتی گانے والوں کی ایک ٹولی گزری۔ آسمان پر سفید بادل کاہلی سے ڈولتے رہے۔
ہم نے خادمہ کو آواز دی جو ہمارے لیے چائے لے کر آئی۔ وہ اداسی سے مسکراتی رہی، مجھے اس کی شکل یاد ہے۔ اس کی سفید، زردی مائل رنگت تھی اور اس نے درمیان کی مانگ نکال کر بال بڑی نفاست سے سنوارے تھے۔ جیسے فلیمش تصویریں ہوتی ہیں۔ اور وہ بڑی خوش ہوئی۔
پھر چند لڑکیوں اور لڑکوں نے لکڑی کے زینے پر پہنچ کر بالکنی میں جھانکا۔ وہ دروازے میں کھڑے تھے اور یہ بحث کر رہے تھے کہ پہلے اندر آ کر سستائیں یا سوئمنگ کے بعد آ کر چائے پئیں۔ ہم نے ان کی طرف نظر یں اٹھائیں اور ہم بھی بلا وجہ مسکراتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ پہلے تم سب یہاں بیٹھ کر تازہ دم ہولو اور پھر تیرنے کے لیے جاؤ، تم نے ان سے مخاطب ہو کر کہا۔ گویا تم ان کی بڑی پرانی ملاقاتی تھیں۔ وہ بشاشت سے ہمارے نزدیک آ کر ادھر ادھر بیٹھ گئے۔ وہ غالباً چار پانچ تھے۔ تین لڑکے اور دو لڑکیاں۔
ہم نے کرسیاں میز کے گرد کھینچ لیں اور باتیں شروع ہو گئیں۔ یہ لمحے انسانیت کی دنیا کی تخلیق کی اصل وجہ تھے۔ یہی ہونا چاہئے تھا۔ یہ ہماری ایسی برادری تھی جس کی تشریح سوشیولوجی اور سیاسیات اور فلسفہ کا کوئی نظریہ نہ کر سکتا تھا۔ وہ جگہ جہاں ہم اس وقت خود کو موجود پا رہے تھے۔ کوئی مخصوص جگہ نہ تھی۔ یہ کسی ملک، کسی بر اعظم کا حصہ نہ تھا۔ یہ ساری کائنات کا مرکز تھا۔ وہ کون جگہ تھی۔ مجھے یاد نہیں۔ شاید وہ نینی تال تھا یا بخشی کا تالاب۔ یا سان مارنیو۔ وہ لڑکیاں اور لڑکے کون تھے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں۔ شاید یہ پریاگ کے باشندے تھے۔ یا مہابلی پورم کے۔ یا اطالوی یا کرائیسٹ چرچ، اوکسفرڈ کے طالب علم۔ یہ وہی لوگ تھے جو پریاگ کی گلیوں میں ایک دوسرے کو مذہب کی بنا پر چھرے بھونکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیس بدر کرتے ہیں۔ پندرہویں صدی کے کلیساؤں پر بمباری کرتے ہیں۔
تم لڑکیوں کے ساتھ کراس اسٹیج کے ایک نمونے پر تبادلہ خیالات کرنے لگیں جو میز پوش پر بنا تھا۔ اور لڑکے کسی آسٹریلین کھلاڑی کے متعلق باتیں کرنے میں محو ہو گئے۔ خادمہ بھی ہماری اس سازش میں شامل تھی۔ گویا ہم کو پہچانتی تھی۔ اس کا نام کیا تھا…؟ امامن مہری۔ ماریا تو رنتو۔ دوروتھی اولسن۔ مجھے کچھ یاد نہیں ہے۔
میں ڈک چیر دھوپ میں گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ بڑی گھام ہے۔ چمپا باجی نے بے دھیانی سے درختوں کی اور دیکھ کر کہا۔ بھیا اتنی جلدی اٹھ کر کیوں چلے گئے۔؟ میں نے کوشش کر کے ریڈیو کے اسکرپٹ پر دھیان دیتے ہوئے پوچھا (’’ہوا پور یونی ورسٹی کا کانوکیشن۔‘‘ میں نے بے دلی سے دیکھا۔) اللہ بہتر جانتا ہے۔ یا تم… تم ان کے کزن ہو‘‘
باجی… یہ اپنا پارٹ لیجئے۔ تمہارے گھر میں … انہوں نے کاغذات اٹھا کر کہا… میں نے سنا ہے کہ ایک کرائستیں آ گئی ہے۔
باجی… یہ اسکرپٹ … پدما کو بھیج دیجئے گا۔ تمہارا ہم زاد ہری شنکر… تم نے اسے کہاں روانہ کر دیا؟ پتہ نہیں … دن بھر تو وہ بھیا کے ساتھ ہی گھومتا رہا ہے۔ تم لوگ…کس قدر ڈریمٹک ہو…چمپا نے کہا۔
میں نے ان کو غور سے دیکھا۔ وہ میز کے کنارے پر انگلیاں رکھے یوں بیٹھی تھیں جیسے وہ ان کا ہاتھ نہیں تھا۔ کہیں اور سے وہاں آ گیا تھا۔ کہاں گئے ہیں ہری شنکر۔ انہوں نے یونہی دوبارہ پوچھا۔ دیبی… کیا اداس تھی۔ کیا ہم سب سے خفا تھی۔
باجی وہ در اصل بمبئی سے پیرین بھڑوچہ آئی ہیں آج سب لوگ اس میں لگے ہیں۔ اندر ریڈیو سے گیان وتی بھٹناگر کے گانے کی آواز آ رہی تھی۔ دنیا میں حفاظت کا احساس تھی اور سکون اور نرمی۔ بہار کی دھوپ۔
یہ آکسفورڈ اسٹریٹ تھی۔ دیبی شیشے کے دروازے کے پیچھے کھڑی رہ گئی ہے۔ اب مجھے کچھ یاد نہیں۔ میری بیچارگی کو دیکھو۔ گزرتے ہوئے برس بگولوں کی طرح میرے چاروں اور منڈلا رہے ہیں۔ سڑکیں ہیں جن پر بارش میں رات کی روشنیاں جھلملاتی ہیں۔ سوتے ہوئے مکانوں کی چمنیوں پر سے چاند لڑھکتا ہوا سمندر کی اور جا رہا ہے۔ ندی کے کنارے، آم کے باغوں میں ایسٹ اینگلیا کے جنگلوں میں تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔ سنسان بندرگاہوں میں سمندر کے سیاہ پانیوں پر رات کے پرند منڈلا رہے ہیں۔ میرے سامنے سے لوگوں کے ہجوم گزر رہے ہیں۔ ندی میں ڈونگیاں تیرتی ہیں۔ میں کنارے پر ہوں۔ مجھے اب اپنے جہاز کو تلاش کرنا۔ ایسا جہاز جس کی روشنیاں بجھ گئی ہوں اور جو چپکے سے سمندر کی عمیق تاریکی میں داخل ہو جائے۔ ایسا جہاز جو صرف اس سمت جاتا ہو جہاں مجھے کوئی خوش آمدید کہنے والا نہ ہو گا۔
(’’آگ کا دریا‘‘ کا ایک باب)
٭٭٭
میں بَوری ڈوبت ڈری!
رادھیکا پوری آشرم، ہگلی کنارے بانس کے ہرے بھرے جھنڈ میں چھپا ہوا تھا۔ شاکت اور ویشنو عقائد کے جدید امتزاج کی وجہ سے آشرم کی تعلیمات بہت مشہور تھیں۔ اتوار کے روز کشتیوں، مضافاتی ٹرینوں، موٹروں اور ٹورسٹ بسوں کے ذریعے گروہ در گروہ عقیدت مند وہاں آتے۔ غیر ملکی سیاح آشرم کے خوش منظر باغات میں ٹہلتی گایوں اور بھیک مانگتے بچوں کی تصویریں کھینچتے اور غیر ملکی دانشور گیتا اکیڈمی کے خنک ایوانوں میں سیتل پاٹیوں پر بیٹھ کر ویدانیت پر لیکچر سنتے۔
ڈاکٹر سڈنی کمبر لینڈ ان ہی غیر ملکی دانشوروں میں سے تھا اور ہندوستانی فلسفہ پر ایک کتاب لکھنے کی غرض سے آیا تھا۔ جس روز وہ شہر سے رادھیکا پوری پہنچا، ایک قومی نیتا وہاں آئے ہوئے تھے۔ ان کی وجہ سے بڑا ہنگامہ تھا۔ ڈاکٹر کمبرلینڈ کچھ دیر تک ادھر ادھر گھومتا رہا۔ گاؤں کے بازار کا چکر لگایا۔ جہاں مٹھائیاں، مورتیاں، پھول اور رادھا کرشنا اور گوری شنکر کی تصویریں بک رہی تھیں۔ اور مزید فاقہ کش بچے بخشیش طلب کر رہے تھے۔ پھر وہ آشرم کے عقب میں گنگا کنارے چلا گیا۔ دریا کے چوڑے پاٹ کے ادھر بوٹانیکل گارڈن کا سبزہ حد نظر تک پھیلا تھا۔ اور ایک سفید لانچ تیزی سے دور بندرگاہ کی سمت جا رہی تھی۔
وہ گھاٹ کی ایک سیڑھی پر رو مال بچھا کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک نو عمر لڑکی نے پیچھے سے آ کر اسے مخاطب کیا۔ ’’ڈاکٹر کمبرلینڈ۔؟ دیدی آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘
وہ فوراً اٹھا اور پورٹ فولیو سنبھال کر لڑکی کے ہم راہ باشا کے ایک خوشنما جھونپڑے میں پہنچا جو آشرم کا دفتر تھا۔ اس دفتر اور کسی اور دفتر میں کوئی فرق نہ تھا۔ سوائے اس کے کہ یہاں مادی کاروبار کے بجائے روحانی کاروبار کے انتظامات کیے جاتے تھے۔ کونوں میں چند لڑکیاں ٹائپ میں مصروف تھیں۔ وسطی میز پر فائلوں کے انبار کے پیچھے دیدی ماں بیٹھی تھیں۔
انھوں نے عینک اتار کر آنکھیں ملیں اور خاموشی سے ایک فارم نووارد کی جانب بڑھا دیا گیا اور اشارہ کیا کہ وہ اس پر اپنے دستخط کر دے۔ یہ فارم گیسٹ ہاؤس کے قیام و طعام کے متعلق تھا۔ اس نے دیدی ماں کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور عینک لگا کر پھر لکھنے میں مصروف ہو گئیں۔
ڈاکٹر کمبر لینڈ چند لمحوں تک تذبذب کے عالم میں میز کے سامنے کھڑا رہا۔ گو وہ ہندوستانی روحانیت اور گیان کا دلدادہ تھا۔ مگر وہ یہ نوٹس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ دیدی ماں ایک ملیح اور دل کش نوجوان خاتون ہیں۔ وہ اس کی موجودگی کو بالکل نظرانداز کر کے ایک ضخیم رجسٹر میں کھو چکی تھیں۔
ڈاکٹر کمبرلینڈ نے سنا تھا کہ رادھیکا پوری آشرم کے باسی روزمرہ کے کام کاج کو بھی عبادت کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور جس جذب اور استغراق کے عالم میں وہ مندر میں کیرتن کرتے ہیں اسی جذب و استغراق کے ساتھ آرا چلاتے ہیں اور سوت کاتتے ہیں۔ اور چٹائیاں بنتے ہیں۔
ڈاکٹر کمبرلینڈ جھونپڑے سے باہر آ گیا۔ اور آشرم کے ایک رکن نے اسے اس کے کمرے تک پہنچا دیا۔
سہ پہر کو وہ گیتا اکیڈمی کی سیڑھیوں پر کھڑا تھا کہ دیدی ماں وہاں آ گئیں اور انھوں نے اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور ساری عمارت کی خاموشی سے سیر کرائی۔ جب وہ ہال میں سے گزرے تو لڑکوں اور لڑکیوں نے جو نیچی نیچی چوکیوں کے سامنے مطالعے میں مصروف تھے جھک جھک کر دیدی کو پرنام کیا۔ ڈاکٹر کمبرلینڈ کو اکیڈمی کی برساتی میں چھوڑ کر دیدی ماں ایک طرف کو چلی گئیں۔
رات کو ڈاکٹر کمبرلینڈ نے ایک جرمن ویدانتسٹ سے پوچھا ’’جو اس کے پڑوس میں مقیم تھا کہ دیدی ماں اتنی مغرور کیوں ہیں، جرمن ویدانتسٹ زور سے ہنسا اور اس نے کہا کہ وہ ہفتے میں ایک دن مون برت رکھتی ہیں اور آج ان کے مون برت کا دن تھا۔
تیسرے روز سڈنی کمبرلینڈ کی ملاقات پھر دیدی ماں سے ہوئی۔ وہ شام کے وقت کتب خانے کی سیڑھیوں پر بیٹھا۔ ایک پالی مسودہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ دیدی ماں اس کے سامنے آ گئیں اور آکسفورڈ کے لہجے میں اس سے پوچھا کہ میں آپ کی کوئی اعانت کر سکتی ہوں؟ وہ ایک لمحہ کے لیے ہڑبڑا گیا۔ کیونکہ اس انوکھی سی لڑکی سے شام کے جھٹ پٹے میں اس اچانک مڈبھیڑ کی اسے توقع نہ تھی۔
یہ واقعہ تھا کہ پتن جلی پتروں پر غور کرنے کے بجائے وہ پچھلے تین دن سے برابر دیدی ماں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ یہ بات بڑی بے ہودہ تھی اور روحانیت کے اس مرکز اور اس مقدس فضاؤں میں اسے ایسا نہ سوچنا چاہئے تھا۔ مگر در اصل حقیقت یہ تھی کہ ایسی مضطرب کرنے والی عورت ڈاکٹر سڈنی کمبرلینڈ نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ دیدی ماں بڑی گمبھیرتا کے ساتھ اس سے کچھ فاصلے پر ایک سیڑھی پر بیٹھ گئیں۔ کیس میں سے عینک نکال کر اپنی سرمگیں آنکھوں پر چڑھائی اور دیر سے اسے اس قدیم پالی مسودے کے متعلق بتاتی رہیں۔ سڈنی مبہوت اور مسحور ہو کر انھیں دیکھا کیا۔ خداوندا یہ مجھے کیا ہو رہا ہے اس نے وحشت سے سوچا۔
سامنے سے ایک کشتی گزر رہی تھی۔ مندر میں سندھیا کا کیرتن شروع ہو چکا تھا۔ دیدی ماں نے ایک ادق جملے کی تشریح کرتے ہوئے سڈنی کو ذرا دھیان سے دیکھا اور آہستہ سے اور نرمی سے مسکرائیں۔ اس مسکراہٹ میں اداسی، گہرائی اور روحانیت، زندگی اور موت، کائنات اور آفاق کے رموز و اسرار اور جانے کیا کیا چھپا ہو گا غالباً۔ اگر سڈنی کمبرلینڈ اس تبسم کو ایک عقیدت مند کی آنکھوں سے دیکھتا۔ مگر اسے محض ایک دل فریب لڑکی کا دل فریب تبسم نظر آیا۔ ایسی لڑکی جو گریٹ ایسٹرن ہوٹل میں بال روم رقص کرنے والے ہندوستانی سوسائٹی گرلز اور شہر کے دانشوروں کی محفل میں شامل ہونے والی سوڈو انٹلیکچوئیل گرلز اور رنگ برنگی ساڑیوں میں ملبوس گلیمر گرلز سے مختلف تھی۔ ساری دنیا سے مختلف تھی، مگر اسی دنیا کی اور انھیں لڑکیوں میں ایک ایسی لڑکی تھی جو ایک آشرم میں رہتی تھی اور جس کے اصل نام سے وہ واقف نہ تھا۔
اپنے کمرے میں واپس آ کر اس نے اپنے دوست کو کیمبرج خط لکھا۔
’’جیری۔ کیا تم سوچ سکتے ہو کہ مجھے ہندوستان کی ایک سنیاسن سے عشق ہو گیا ہے۔‘‘
صبح کو آشرم میں خلاف معمول عجیب سا سناٹا طاری تھا۔ ناشتے کے وقت جرمن پروفیسر نے سڈنی کو آہستہ سے بتایا۔ آشرم کی ایک لڑکی نے جو کئی سال سے یہاں رہ رہی تھی۔ ایک کمیونسٹ دہریے سے شادی کر لی۔ کل آدھی رات کو ایک کشتی گھاٹ سے آ کر لگی۔ اور اس لڑکی کا شوہر اسے اپنے ساتھ بٹھال کر دوسرے کنارے لے گیا۔ وہ دیدی ماں کی پسندیدہ شاگرد تھی۔ اور دیدی ماں کا خیال تھا کہ وہ درحانی مدارج بڑی تیزی سے طے کر رہی ہے اور وہ ہمیشہ بڑی شردھا سے گایا کرتی تھی۔ ’’آدھی رات پربھو درشن دیجئے۔ پریم ندی کے تیرا۔‘‘
اسی کے بعد دیدی ماں کئی روز تک نظر نہ آئیں۔ سڈنی روز شام کو کتب خانے کی سیڑھیوں پر ان کا انتظار کرتا رہا۔ مگر وہ ایک ہفتہ کے لیے ’’ری ٹریٹ‘‘ میں چلی گئی تھیں۔ ان کے بغیر آشرم سب کو بہت سونا معلوم ہو رہا تھا۔ آشرم کے چاروں بزرگ کارکن۔ بابا جی، بڑی ماتا، دادا اور بڑی دیدی ماں کا بہت لحاظ اور خیال کرتے تھے۔ اور اپنی سنجیدگی اور وقار کے باعث وہ اس کم عمری میں بڑے پیار سے دیدی ماں پکاری جاتی تھیں۔
’’دیدی ماں کون ہیں؟‘‘ اپنے ذہنی اور جذباتی خلفشار سے عاجز آ کر سڈنی نے ایک دن جرمن پروفیسر سے دریافت کیا۔ ’’کوئی ایسی پر اسرار ہستی نہیں۔ شمال کے ایک دولت مند خاندان کی لڑکی ہیں۔ اوکسفورڈ میں فلسفہ پڑھا ہے۔ روحانیت کی طرف غالباً لڑکپن سے رجحان تھا۔ ماں باپ نے بیاہ کر دینا چاہا۔ مگر انھوں نے رادھیکا پوری آشرم میں آ کر رہنا زیادہ مناسب سمجھا۔ چند سطحی لوگوں کا خیال ہے کہ انھیں زندگی میں کوئی مایوسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے دنیا تیاگ دی ہے، ہمارے ہاں رومن کیتھولک راہبات کے لیے بھی عموماً یہی کہا جاتا ہے۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ایک خطرناک سیاسی پارٹی سے ان کا کوئی تعلق ہے اور یہاں بھیس بدل کر رہتی ہیں۔ ڈاکٹر مترا کا نظریہ ہے کہ کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہیں اور کسی ماہر نفسیات کے پاس جانے کے بجائے یہاں آ گئیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ …
’’اوہ! نمسکار دیدی ماں‘‘ دیدی ماں نزدیک سے گزریں۔ دونوں غیر ملکیوں کے نمسکار کا جواب دیا۔ اور مسکراتی ہوئی آگے چلی گئیں۔
آئندہ ہفتوں میں سڈنی کی دیدی ماں سے روزانہ ملاقات ہوتی رہی۔ دفتر میں دو گھنٹے کام کرنے کے بعد وہ سارے آشرم کا چکر لگاتیں۔ رسوئی گھر اور ورک شاپ کا معائنہ کرتیں اور گیسٹ ہاؤس کی خیر خبر رکھتیں۔ ان کے لیکچر غیر ملکیوں میں بہت مقبول تھے۔ کیونکہ لب و لہجہ اور اندازِ بیان کی وجہ سے سامعین کو کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی تھی۔
وہ عجز و انکسار کا مجسمہ تھیں۔ اور سڈنی کے ساتھ خصوصیت سے بہت اخلاق برتتیں۔ اور لیکچر کے بعد دیر تک وقت، ابدیت اور دیگر فلسفیانہ مسائل پر اس سے تبادلہ خیالات کیا کرتیں۔ رفتہ رفتہ سڈنی کمبرلینڈ سے ایک خاص انٹلیکچوئیل سطح پر ان کی دوستی ہو گئی۔
سڈنی ایک روز تالاب کے کنارے ٹہل رہا تھا کہ وہ ورک شاپ کے سمت سے آتی مل گئیں اور انھوں نے نرمی سے پوچھا ’’کہئے، آپ کا پانچواں باب مکمل ہو گیا؟ یہاں آپ کو کافی بے آرامی ہو گی، کیونکہ یہ بہرحال سادھوؤں کا رین بسیرا ہے۔‘‘
’’میں آپ سے کچھ اشد ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’کل تیسرے پہر لائبریری میں آ جائیے۔‘‘ میں آپ سے چند ذاتی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ذاتی۔!‘‘ دادا نے آپ سے بات نہیں کی؟ دادا ہمارے مہمانوں کے مسائل وغیرہ کا حل تلاش کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں، کوئی نظریاتی الجھن ہے آپ کو۔‘‘
’’جی ہاں!‘‘
’’تو بتائیے میں آپ کی ہر ممکن مدد کروں گی۔‘‘
’’میری الجھن یہ ہے کہ۔ جوان لڑکیاں سنیاس کیوں لے لیتی ہیں؟ یورپ اور امریکہ میں بھی جب کسی حسین اور نوجوان لڑکی کو سرمنڈائے، راہبہ کفنی میں لپٹا دیکھتا ہوں تو بہت پریشان اور آزردہ ہو جاتا ہوں۔‘‘ دیدی ماں خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔ ان کے عقب میں تالاب کی ہری سطح پر سرخ کنول کھلے تھے اور سفید بگلے پانی پر چکر کاٹ رہے تھے،
قدیم کائی آلود۔ مندر میں سے دیدی ماں کے پسندیدہ بھجن کی آواز بلند ہوئی۔ ’’ادھرم مَدھرم، نینم مدھرم۔‘‘
’’بتائیے!‘‘ سڈنی نے کہا۔ ’’یہ سری ولبھ اچاریہ کا مدھور اشٹک ہے۔‘‘
’’سنیے!‘‘ دیدی ماں نے جواب دیا۔ ’’رچنم مدھرم‘‘
’’بتلائیے؟‘‘سڈنی نے دہرایا۔ الفاظ پتوں کی طرح آگے پیچھے اڑتے، آ کر فضا میں بکھرتے رہے … اس کی بانسری مدھر اس۔ اس کی دوستی مدھر۔ اس کی۔ اس کی۔ دوستی۔ مدھر ودھاتا! مضبوط، بلند و بالا سمبل کی شاخیں سرسرائیں، اپراجیت کی کلیوں نے پتوں میں کروٹ لی، کرشن چورہ کی ڈالیاں چاروں طرف سے جھک آئیں۔ شیام کنج کے کاسنی اندھیرے میں جگنو اڑنے لگے۔ تیز ہوا کے زور سے سارا باغ ہل گیا۔
لیکن دیدی تالاب کے کنارے سے جا چکی تھی۔ چار مہینے گزر گئے۔ ڈاکٹر سڈنی کمبرلینڈ کی کتاب مکمل ہو گئی تھی۔ اور وطن واپس جانے والا تھا۔
غروب آفتاب سے ذرا پہلے وہ لائبریری کی کتابیں واپس کرنے کے لیے آیا۔ وہ دھوپ گھڑی کی منڈیر پر بیٹھی تھی۔ سڈنی اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ اور اس نے لجاجت سے کہا۔ ’’ان اعداد کو دیکھو جن پر تم بیٹھی ہو۔‘‘
ودھاتا نے گھبرا کر قدیم دھوپ گھڑی کے منقش اعداد پر نظر ڈالی اور جھک کر رادھا کلی کا پتہ اٹھا لیا جس پر ایک بیر بہوٹی رینگ رہی تھی۔
’’ڈارلنگ۔ ڈارلنگ۔‘‘ وہ سر ہاتھوں میں چھپا کر منڈیر پر بیٹھ گیا۔ سندھیا کا وقت آ گیا۔ مندر کے گھنٹے گونجے، پجاریوں نے مدھور اشٹک شروع کیا۔
سامنے سے ایک لانچ موجوں کو چیرتی ہوئی گزر گئی۔ سڈنی نے سر اٹھا کر اس سے کہا۔ ’’دوسرا کنارا۔ ایک مختلف یاترا۔ اور میں۔ ہم تینوں تمہارے منتظر ہیں۔ لیکن ایک دن بہت جلد یہ انتظار بھی ختم ہو جائے گا۔ وقت فلسفیوں کی پروا نہیں کرتا۔‘‘
سڈنی منڈیر پر سے کود کر نیچے پگڈنڈی پر آ گیا۔ جس پر دہکتے ہوئے کرشن چورہ نے سایہ کر رکھا تھا۔
’’گنگا مدھرا، مالا مدھرا، جمنا مدھرا، دی تھی مدھرا۔‘‘
’’وقت نکل جائے گا۔ پھر تم بیٹھی ابدیت کو چاٹتی رہنا۔‘‘ سڈنی نے غصے سے ایک کنکر چڑیوں کے حوض میں پھینکا۔
’’گوپی مدھرا، لیلا مدھرا۔‘‘ سڈنی نے اس کا ہاتھ تھام کر چاہا کہ اسے منڈیر سے نیچے اتار لے۔
’’شیشٹم مدھرا۔ سریشٹی مدھرا۔‘‘ ہوا کے تیز جھونکے سے اس کی ساڑی کا آنچل اس کے شانوں سے گر گیا۔
’’دلی تم مدھرم، پھلی تم مدھرم۔‘‘ سڈنی نے دہل کر اس پر نظر ڈالی پہلی دفعہ اس نے دیکھا کہ اس دل کش نوجوان عورت کے سر کے بال چھوٹے چھوٹے کٹے تھے اور اس کا سر پیچھے سے تقریباً منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا تھا ’’لانچ مجھے لے جانے کے لیے رات کے دس بجے گھاٹ پر آئے گی۔ میں دھوپ گھڑی کی منڈیر پر ساری رات تمہارے فیصلے کا انتظار کروں گا… یہاں تک کہ دھندلا اجالا گنگا کی لہروں پر پھیل جائے گا۔ اور مندر میں گھنٹے بج اٹھیں گے میں تمہاری راہ دیکھوں گا۔ لیکن لمحوں کے ساتھ یہ انتظار بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘
دیدی ماں دھیرے دھیرے چل کر کنارے پر آئیں۔ وہ روزانہ کا معائنہ کرنے گیسٹ ہاؤس جا رہی تھیں۔ کل رات کمرہ ۳ کا ڈاکٹر کمبر لینڈ اپنے دیس واپس چلا گیا اور انھیں وہ کمرہ مقفل کرنا تھا، کل کی عبادت کے پھول حسب معمول صبح صبح مندر سے لا کر دریا میں بہا دیئے گئے تھے۔ اور بھگوان کے شرنگار کی، سفید کلیاں لہروں پر تیرتی دور نکلی جا رہی تھیں۔ دریا پر جھک کر انھوں نے آہستہ سے کہا
جن ڈھونڈاتن پائیاں گہرے پانی پیٹھ
میں بوری ڈوبت ڈری رہی کنارے بیٹھ
پھر وہ سیدھی کھڑی ہو گئیں۔ دریائی ہوا بہت تیز تھی۔ انھوں نے آنچل سے سر کو اچھی طرح ڈھانپ لیا اور مالا کلائی پر دوہری لپیٹ کر خالی گیٹ ہاؤس کی سمت چلی گئیں۔
٭٭٭
آوازیں
بلیاں رات بھر چلاتے رہنے کے بعد تھک کر سوگئی ہیں۔ کوڑے کے ٹین پر سے دبے پاؤں اتر کر مٹیالی بلی، جس کی ایک آنکھ کسی جنگ میں ضائع ہو چکی ہے۔ ڈرین پائپ کے پیچھے جا بیٹھی ہے۔ برستی شبنم کی آواز سمندر کی پیہم سائیں سائیں میں ڈوب گئی۔ دور چاندی کی سی سطح آب پر مچھیروں نے اپنے سیاہ جال سمیٹ لیے۔ گلابی، سرمئی اور نیلی عمارتیں ابھی خوابیدہ سی ہیں۔
ان کے احاطے کا مشترکہ پھاٹک پہلو کی خوش نظر سڑک پر کھلتا ہے جو ڈھلان پر جا کر سامنے کی بڑی سڑک سے مل جاتی ہے۔ ڈھلان کے خاتمے پر سمندر ایک تصویر کی مانند اچانک سامنے آ جاتا ہے۔ عمارتوں کے درمیان سیمنٹ کے فرش پر موٹروں کی قطار کھڑی ہے۔ احاطے کی گلابی دیوار پر جھکا ہوا تاڑ کا بلند درخت پچھلے پہر کی ہوا میں سرسرا رہا ہے۔
یک چشم بلی جو اب تک شکار کی تاک میں چوکس ٹہل رہی تھی اب اس نے بھی اپنی آنکھ بند کر لی ہے۔ گلابی عمارت کا ہیڈ جمعدار بالٹی اٹھائے رات کی پرچھائیوں میں سے نمودار ہوتا ہے۔ کونے کا نل کھول کر اس نے احاطے کا فرش دھونا شروع کر دیا ہے۔ دیوار کے ادھر بچھی ہوئی کھاٹ پر سے اٹھ کر کوئی حسب معمول کیرتن الاپ رہا ہے۔
تم پورن برہم ہو پربھو تم انتریامی
پار برہم پرمیشور، گھٹ کھٹ کے سوامی
اوم جے جگدیش ہرے۔ پربھو جے جگدیش ہرے۔
کلی کرنے اور کھنکارنے کی آواز۔ دودھ والے کی کھڑکھڑاتی جھنجھناتی سائیکل۔ صبح کے پانچ بج گئے۔ فرش دھلنے کی چھپ چھپ چنی لال جمعدار کی جھاڑو کی سرک۔ سرک۔ سرک۔ نیچے بڑی سڑک پر دوڑتی بسوں کے رکنے اور چلنے کی گھڑگھڑاہٹ، سکھ بحری افسر کی موٹر سائیکل کا شور ملازموں کی مدھم چیخ پکار۔ گورکھا۔ لالہ۔ راما۔ گنگا۔ بھیا۔ زوں روں زوں۔ لفٹ چلنا شروع ہو گیا۔
سمندر پر بکھرے تارے ڈوب چکے۔ چاند غائب ہو گیا۔ سرمئی عمارت کی دوسری منزل کے ایک دریچے میں مس گل بانو کپاڈیا آہستہ سے پکارتی ہے
’’میری۔ میری‘‘۔
’’یس میم صاحب۔‘‘ میری کا باریک سا جواب۔
’’ہوشنگ۔ خورشید۔ ہومائے‘‘ گلابی عمارت کی پہلی منزل میں مسز رستم واچا گاندھی کی للکار۔ تین بچوں کے کھٹ کھٹ کرتے چھوٹے چھوٹے قدم۔ پھاٹک پر اسکول بس کا ہارن۔
’’فرانسس۔‘‘ گلابی عمارت کی تیسری منزل پر مسزجولی کی زور دار کھنکار۔ نیچے احاطے میں موٹریں اسٹارٹ ہو رہی ہیں۔ مختلف انجنوں کی مختلف مانوس گڑ گڑاہٹیں۔ آکاش وانی کا ٹائم سگنل۔
’’یہ ریڈیو سیلون ہے۔‘‘
’’حلیمہ۔ خدیجہ۔ رقیہ۔‘‘ گلابی عمارت کی دوسری منزل پر مسز فاطمہ بائی، عبدالرحمن مورے کی نحیف سی آواز۔
’’بائی بائی ممی۔‘‘ اسکول جاتی ہوئی تین بچیوں کا بشاش جواب۔
سمندر پر روشنی، بھیرویں کے سروں کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ پارک کے سبزے، مندر کے کلس اور دوکانوں پر بارش کی اچانک پھوار، رنگ برنگی پلاسٹک کی برساتیوں کی چپ چپاہٹ، خلقت اپنے اپنے کام پر چلی۔
دھوپ تیز ہو رہی ہے۔ آیائیں سودا سلف لے کر لوٹ رہی ہیں۔ خواتین خریداری کے لیے نکلیں۔ لڑکیاں بالوں کے اونچے اونچے پہاڑ سنوار کر کالج اور دفتر روانہ ہوئیں۔ گلابی عمارت میں سے مسز جولی ٹرانزسٹر کندھے سے لٹکائے پنڈلیوں پر پھنسی ہوئی اونچی سیاہ پتلون اور نارنجی امریکن چولی پہنے نیچے اتریں۔ ان کا بیرہ فرانسس پکنک کی ٹوکری، فلاسک، سمندری غسل کے لباس کا تھیلہ اور تولیے سنبھال کر کار کی پچھلی سیٹ پر جا بیٹھا۔ مسز جولی نے انجن اسٹارٹ کیا اور کسی دور کے ساحل کی سمت روانہ ہو گئیں۔ فرانسس کی نوجوان بیوی مارتھا گلابی دیوار کے نیچے سے اچک کر مسکراتی ہے اور اپنے شوہر کو خدا حافظ کہتی ہے۔ فرانسس کار کے پچھلے شیشے میں سے اسے دیکھ کر خوشی سے ہنستا ہے۔
اب صبح کے گیارہ بجے کے سناٹے میں عمارتوں کی گنگائیں اور گھانٹین ٹولیاں بنا کر ادھر ادھر بیٹھی ہیں۔ بھکاریوں کا بھیڑ! شروع ہوتا ہے۔
’’اے میری ماں سن میرے بھائی کا سوال۔ یا حاجی ملنگ دولہے۔ اللہ کے نام پر۔ رسول کے نام پر۔ ہارمونیم بجا کر گانے اور ناچنے والے بچے۔
’’اے سان ترا ہو گا مجھی پر۔ دل جلتا ہے تو جلنے دو۔ مجھے تم سے محوبتی ہو گئی ہے۔ مجھے پلکوں کی چھاؤں میں رہنے دو۔‘‘ ہارمونیم والے کی اکتاہٹ۔ گانے والوں کے چہروں کی اکتاہٹ۔ ساری زندگی کی اکتاہٹ۔
’’کچھ ہیلپ کریں گا میم صاحب‘‘ لڑکا گاتے گاتے اوپر دیکھ گھگیاتا ہے۔ جہاں ایک بالکنی میں مسز رکمنی مینن بچے کا فراک پام کے گملے پر پھیلا کر اندر چلی جاتی ہیں۔ لڑکا اور اس کی بہن فوراً دوسرا گانا تندہی سے شروع کر دیتے ہیں۔
’’میرے محبوب تجھے میری محوبت کی کسم۔‘‘
’’بھاگ جاؤ کائے کو بوم مارتا ’’سرمئی عمارت کے نیلی آنکھوں اور سرخ داڑھی والے پٹھان لالہ کی گرج۔ کرناٹک سنگیت کی ماہر مسز رکمنی مینن بالکنی سے اندر جا کر سٹنگ روم سے گزرتی باورچی خانے میں چلی جاتی ہیں۔
مسز رکمنی مینن کا یہ کمرہ کیرلا کی تہذیب کا دل کش نمونہ ہے۔ دروازے کے نزدیک کتھا کلی اسٹیج پر چلنے والے پیتل کے اونچے لیمپ میں نیک شگون کے لیے گیہوں بھرے ہیں۔ کونوں میں سرسوتی وینا اور تان پورے اور مردنگم رکھے ہوئے ہیں۔ دیواروں پر کتھا کلی رقاصوں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ نٹ راج اور میناکشی امّا کی مورتیوں کے سامنے لوبان سلگ رہا ہے۔ الماریوں میں لوک کلا کے نمونے سجے ہیں۔
سرمئی عمارت کے دریچے میں سے گل بانو کپاڈیا کو مسز رکمنی مینن کے اس پر سکون اور خوب صورت گھر کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اور وہ ایک بار پھر یہ طے کرتی ہے کہ وہ ہرمز جی اور اس کی دلہن کے کمرے کو آج کل کے فیشن کے مطابق اسی خالص ہندوستانی آرٹسٹک ڈھنگ سے سجائے گی۔ گھنشیام سندرم سری دھرا۔ گیلری کے ادھر ہونہار موسیقار کماری للتا رانا ڈے نے بھجن شروع کر دیا ہے۔
گھنشیام سندرم سری دھرا۔ اردن اودے جوالا
اٹھی لوکری وَن مالی اودے چنی مترالا۔
اے بن مالی۔
سورج نکل آیا۔ صبح ہو گئی۔ صبح شام۔ صبح شام۔ صبح شام۔ دن رات۔ ہر وقت۔ ہر گھڑی بھانت بھانگ کی زبانوں کے الفاظ گل بانو کپاڈیا کے کانوں کے کمزور پردوں سے ٹکرایا کرتے ہیں۔
اب سامنے مسز رکمنی مینن روزانہ کے ریاض کے لیے تیاگ راج کا ایک تلگو گیت الاپ رہی ہیں۔ پہلو کی نیلی عمارت میں مس چندرا موہنی کا فلیٹ ار تھاکِٹ کی آواز سے گونج رہا ہے۔
’’آئی ایم این اولڈ فیشن گرل۔‘‘
بھری دوپہر۔ سناٹا زمین پر اترتا ہے۔ دھوپ کی چلچلاہٹ۔ فضا کی اس اکتاہٹ کا حبس۔ ویرانی۔ خلا اور دن خاموش چلچلاہٹ میں وہ آواز بلند ہوتی ہے جس نے گل بانو کپاڈیا کے کمزور اعصاب کو پاش پاش کر دیا ہے۔ ان ساری آوازوں نے گل بانو کپاڈیا کے کمزور اعصاب کو پاش پاش کر دیا ہے۔
’’موگرا۔ موگرا۔‘‘ موگرے کے ہار بیچنے والا تیز تیز قدم رکھتا احاطے میں گھستا ہے۔ ’’موگرا، موگرا‘‘ کی دہاڑ باغ پر موگری کی طرح گرتی ہے (اور نوجوان لڑکیاں بالوں میں یہ پھول سجا کر شام کو کیسی اتراتی ہوئی نکلتی ہیں)
’’راکھ لے لو۔‘‘ راکھ والی گھاٹن کی بھیانک صدا۔
’’جوونا پیپر، چوپڑی، باٹلی والا۔‘‘ کباڑی کی جگر خراش چیخ۔ ’’موگرا۔ موگرا۔‘‘
’’ارے کائے کو خالی پیلی بوم مارتا۔ کنی بار بولا اس ٹیم ادھر بوم مت مارو، میم صاحب لوگ کے سونے کا ٹیم۔‘‘ گورکھا کی ڈانٹ۔
گل بانو کروٹ بدلتی ہے۔ ’’موگرا۔ موگرا‘‘
وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی ہے۔ ’’میری۔‘‘
’’یس میم صاحب۔‘‘
’’کچھ نہیں۔ جاؤ۔‘‘
’’یس میم صاحب۔‘‘ میری باہر گیلری میں آ جاتی ہے۔
’’تمہارا بائی کیسا ہے؟‘‘ شری متی راناڈے کی آیا کا سوال۔
’’اس کا مگج۔‘‘ میری انگلی اپنی کنپٹی پر رکھ کر معنی خیز انداز میں گھماتی ہے۔ ’’پچھتر اسی برس کا ایج ہے اور دلہن کا مافک سجا رہتا ہے، منھ پر لالی لگاتا ہے۔‘‘ آیا ہنسی۔
’’بڈھا بچہ ایک برابر گنگو بائی۔‘‘
میری جواب دیتی ہے۔ اندر کمرے میں گل بانو کے سرہانے اوستا کی جلد ادھ کھلی پڑی ہے جس کے پہلے صفحہ پر دھندلی روشنائی میں لکھا ہے: ’’میری پیاری چھوٹی بچی گل بانو کے لیے۔ تمہارے پاپا کی طرف سے۔ بمبئی۔ ۵ جولائی ۱۸۹۸ء‘‘
بارش پھر برسنے لگی۔ رم جھم۔ رم جھم۔ ’’نہ کوئی منزل، نہ ہے کوئی محفل۔ مجھے لے چل قیدی اکیلا کہیں بھی۔’’
اب گل بانو وکٹورین صوفے پر لیٹے لیٹے اس شربتی آنکھوں اور جھبڑے بھورے بالوں والی نوجوان بھکارن کی آواز پر کان لگاتی ہے جو نیچے منھ میں بھیگتی غلط سلط متواتر گائے جا رہی تھی۔ اپنا شیر خوار بچہ پانی سے بچانے کے لیے اس نے اپنے میلے اور تار تار دوپٹے میں چھپا لیا ہے۔
گل بانو صوفے سے اٹھ کر جھکی جھکی پھر دریچے میں جاتی ہے۔ ’’ارے او چھوکری!‘‘ بھکارن فوراً گانا بند کر کے پر امید شربتی آنکھوں سے اوپر دیکھتی ہے۔ گل بانو دریچہ کے پاس رکھی ہوئی بید کی آرام کرسی پر ٹک جاتی ہے۔
پچھلے پچیس برس سے گل بانو کپاڈیا اس مکان میں رہ رہی ہے۔ پچھلے ۲۵ برس میں یہ علاقہ ایک خاموش ساحلی خطے سے ایک پر رونق آبادی میں تبدیل ہو گیا۔ پچھلے دس برس میں آبادی اونچی اونچی جھلملاتی عمارتوں کے مہیب جنگل میں بدل چکی ہے۔ جس طرح خالی اسٹیج پل کے پل دوسرے منظر کے لیے سج جاتا ہے اور ڈرامے کا نیا ایکٹ شروع ہوتا ہے اپنا گم نام اور غیر اہم رول ادا کرنے کے بعد پچھلے پچیس برس سے گل بانو کپاڈیا ایک بڑے آسیب کی مانند اسٹیج کے ایک ونگ میں پردے کے پیچھے چھپی بیٹھی ہے۔ گل بانو اس محلے کی قدیم ترین عمارات کی مالکہ ہے۔ بہت جلد اس کی موت کے بعد یہ عمارت ڈھا دی جائے گی اور یہاں ’’لکژری فلیٹ‘‘ بن جائیں گے۔
برسہا برس سے وہ سر پر سفید ململ کا رو مال باندھے، شوخ رنگ کی جارجٹ کی ساڑی پر ہیرے کا بروچ لگائے سچے موتی کی مالا سے مزین، نفیس ترین لیس کے بلاؤز اور مخمل کی سبک سلیپر پہنے اپنے ایڈورڈ ین وضع کے مرصع کمرے میں چپ چاپ بیٹھی رہتی ہے اور خود مس گل بانو کپاڈیا آج سے ساٹھ برس قبل کے انگلستان کی ایک لینڈ لیڈی معلوم ہوتی ہے۔ آج کی دنیا میں وہ بہت مضحکہ خیز اور خبطی اور بے تکی لگتی ہے لیکن وہ کسی کو نہیں بتا سکتی کہ جب وہ ایک اٹھارہ سالہ لڑکی تھی اس وقت مضحکہ خیز اور خبطی اور بے تکی نہیں لگتی تھی۔
گل بانو کے اکلوتے مرحوم بھائی کے اکلوتے لڑکے نے جسے اس نے اپنے بیٹے کی طرح پالا تھا اسی کمرے میں آ کر کہا تھا کہ وہ بمبار پائلٹ کی حیثیت سے مغربی محاذ پر جا رہا ہے۔ گل بانو کو اس کی گمشدگی کی سرکاری اطلاع ملے بیس سال ہو چکے تھے۔ لیکن اسے اطمینان ہے کہ یہ اطلاع گمشدگی کی تھی موت کی نہیں۔ چنانچہ وہ اس ٹیکسی کی آواز پر کان لگائے بیٹھی رہتی ہے جو ہرمز جی کو بندرگاہ سے گھر لائے گی۔ گل بانو نے دل ہی دل میں ہرمز کے لیے بہت سی لڑکیاں بھی سوچ رکھی ہیں جن میں سے ایک سے وہ ہرمز جی کا بیاہ کرے گی۔ لیکن بہت ممکن ہے ہرمز جی اپنے ساتھ کوئی انگریز امریکن یا یورپین بیوی لے آئے گا جو اور بھی زیادہ خوشی کی بات ہو گی۔ کیونکہ خود گل بانو کی پرورش یورپ میں ہوئی تھی اور وہ انگریز قوم کی دل و جان سے پرستار ہے۔
نیچے بارش کی آواز کے ساتھ ساتھ بھکارن کی آواز بھی تیز ہو گئی ہے جو چلا چلا کر گا رہی ہے، تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے چشم بد دودودودور۔‘‘
’’اری چشم بدور کی بچی جاتی ہے کہ نہیں یہاں سے۔‘‘ گورکھا اس کے پیچھے دوڑتا ہے۔ پچپن سال۔ گل بانو بارش کی پھوار سے بچنے کے لیے دریچے کے پٹ بند کرتی ہے اور سامنے کی دیوار پر اس کی نظر پڑ جاتی ہے، جہاں ایک دھندلی سی پہلی تصویر میں وہ پیرس کے باغ میں فرانسیسی گاؤن پہنے کانوں میں موتیوں کے آویزے پہنے بالوں کا جوڑا سر پر سجائے جھالر دار سفید چھتری سنبھالے ہلکی ہلکی بارش میں کھڑی مسکرا رہی ہے۔ پچپن سال قبل۔
بارش تھم گئی۔ دفتروں سے موٹریں واپس آ رہی ہیں، گل بانو اب دریچے میں جا کر نیلی عمارت پر نظر ڈالتی ہے۔
بالکنی میں چندرا موہنی کھڑی ہے اس نے نہایت نفیس ہاؤس گون پہن رکھا ہے، بالوں میں کر لر لگے ہیں۔ وہ ابھی ابھی ’’بیوٹی سلیپ‘‘ لے کر اٹھی ہے، اب وہ ایک گھنٹے تک ایک طویل و عریض جھلملاتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر سنگار کرے گی جس کی بلورین سطح کسی شو روم کا کاؤنٹر معلوم ہوتی ہے، ابھی مارواڑی سیٹھ آئے گا جس نے اسے یہ فلیٹ خرید کر دیا ہے۔ امپالا کے رکنے کی دبیز آواز۔ مارواڑی سیٹھ اوپر پہنچتا ہے، چندرا موہنی فوراً کمرے میں جاتی ہے۔ ’’ہائی فائی۔‘‘ کی گونج تیز ہو گئی ہے، چندرا موہنی اس کے لیے کاکٹیل بنا رہی ہے۔ پھر وہ گھڑی دیکھتی ہے۔ لفٹ نیچے جاتا ہے۔ امپالا سرمئی بھیگی ہوئی سڑک پر تیرتی کسی نائٹ کلب کی طرف نکل جاتی ہے۔
یک چشم بلی آہستہ آہستہ چلتی ڈرین پائپ پر سے کود کر شاگرد پیشے کے گلیارے میں گھس جاتی ہے۔
گلابی عمارت میں سے الٹرا فیشن ایبل لڑ کیاں کے پرے۔ ہوا خوری کے لیے باہر نکل رہے ہیں۔ مسز جولی نہا کر واپس آتی ہے، کار تیزی سے اپنے کونے میں کھڑی کر کے سرعت سے اوپر چلی جاتی ہے، سکھ بحری افسر اپنی موٹر سائیکل پر واپس آ چکا ہے۔ بچے اسکولوں سے لوٹ کر احاطے میں بے پناہ ہلڑ مچا رہے ہیں۔
مسز فاطمہ بائی مورے کے شوہر بھی گھر آ گئے ہیں۔ وہ دونوں اپنے بیڈ روم کے دریچے میں کھڑے حسب معمول بری طرح جھگڑ رہے ہیں۔
’’آہستہ بولو۔ آواز باہر تک سنائی دے رہی ہے۔‘‘ مسٹر مورے نے جھنجھلا کر کہا۔ دریچے کا پٹ زور سے بند ہو جاتا ہے۔ مسز مورے کے رونے کی آواز۔
’’میری۔‘‘ گل بانو آہستہ آہستہ پکارتی ہے۔
’’یس میم صاحب‘‘
’’ادھر سات نمبر کا بائی بہت رورہا ہے۔ کیا بات ہے؟ ’’ابھی پتہ کرتا ہے میم صاحب۔‘‘
’’کھٹ۔ کھٹ۔‘‘
’’یس کم ان۔‘‘
’’آنٹی۔‘‘
’’یس۔ بولو ڈیر۔‘‘ فاطمہ بائی کی دس سالہ لڑکی حلیمہ دروازے میں سہمی کھڑی ہے۔
’’آنٹی۔ ہم ادھر سات نمبر میں رہتا ہے۔ ممی بولا ہے آپ کے پاس سیریڈون ہو گی۔؟‘‘ گل بانو جلدی سے اٹھ کر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سارا گھر چھان ڈالتی ہے۔ سیریڈون نہیں ملتی۔
‘‘آئی ایم سو سوری مائی ڈیئر۔‘‘ وہ ایک شفیق بڑھیا میم کی طرح کہتی ہے۔
’’اٹس آل رائٹ آنٹی۔‘‘ آسمان کا سنی ہو گیا۔
تاڑ کے پتوں کے پیچھے۔ قطب ستارہ تیزی سے جگمگا رہا ہے۔ سمندر کا رنگ کاسنی ہے۔ فضا کاسنی ہے درختوں پر کوے بسیرا لے رہے ہیں۔ شام خاموش ہے۔ جھٹ پٹا وقت ہے۔ بہتا ہوا دریا ٹھہرا۔
نیچے سڑک پر مسزفاطمہ بائی مورے سر جھکائے تیز تیز قدم اٹھاتی نکڑ کے اسٹور کی طرف جا رہی ہیں۔ ڈھلان پر پہنچ کر وہ ٹھٹکتی ہیں اور نظریں اٹھا کر تنہا قطب ستارے کو دیکھتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں وحشت ہے۔ سیریڈون خرید کر وہ اسٹور سے باہر نکل جاتی ہیں اور پارک میں پہنچتی ہیں جہاں بچے آیائیں اور بھیل پوری والے شور کر رہے ہیں۔
مسز فاطمہ بائی ریت پر جا کھڑی ہوتی ہیں۔ نوجوان جوڑے چٹانوں پر بیٹھے سرگوشیوں میں مصروف ہیں۔ جارجٹ کی دقیانوسی ساڑیوں میں ملبوس گل بانو کپاڈیا سے زیادہ بوڑھی پارسین اور اونچی کالی ٹوپی والے ضعیف العمر اور عقابی ناکوں والے پارسی بنچوں پر ساکت بیٹھے ہیں، لہریں چٹانوں پر اپنا نشان چھوڑ کر واپس جا رہی ہیں۔ سمندر کا پیغام جسے کوئی نہیں سمجھتا۔ اندھیرا گہرا ہو گیا۔ عمارتوں کے پھاٹک پر ایک عیسائی بھکاری اپنا گٹار بجا کر دل دوز آواز میں انگریزی گیت گا رہا تھا۔ وہ مہینے میں ایک بار رات کو ادھر آتا ہے۔ دنیا زندہ ہے سڑک سے پرے شہر جگمگا رہا ہے۔ بے رحم، بے پروا، بے نیاز، دیو زاد، مصروف شہر، تھیٹر، ریستوران، دوکانیں کھچاکھچ بھری ہیں، جھونپڑوں اور کھولیوں میں چراغ جل چکے ہیں۔ عورتیں کارخانوں سے لوٹ کر اپنے اپنے چولھوں پر چاول ابال رہی ہیں۔ ان چاولوں کی کانجی اپنے بچوں کو پلا کر وہ کل تک کے لیے ان کا پیٹ بھریں گی۔ ہر طرف زندگی اور موت دکھ اور سکھ، افلاس اور تونگری کی جنگ جاری ہے۔
چاند تاڑ کے پیچھے سے نمودار ہوتا ہے سمندر پھر جھلملا اٹھا۔ گلابی عمارت میں کاٹھیاواڑ کی ایک مختصر سی سابق ریاست کے دربار صاحب کے فلیٹ میں قوالی شروع ہو گئی ہے۔ اجمیر شریف سے آئی ہوئی قوال پارٹی کا کمسن لڑکا اپنی باریک آواز میں ساتھ ساتھ گا رہا ہے۔ گل بانو کپاڈیا اب غور سے قوالی سنتی ہے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ یہ تیزی سے بدلتا ہوا نیا ہندوستان اس کی سمجھ میں نہیں آتا اور وہ اپنے ایڈورڈین ڈرائنگ روم میں قلعہ بند بیٹھی سہما کرتی ہے/ کبھی کبھی وہ اپنی دقیانوسی کار میں بیٹھ کر پرنس آف ویلز میوزیم چلی جاتی ہے جہاں وہ فنون لطیفہ پر لیکچر سن لیتی ہے یا تھیوسوفیکل ہال جا کر مزید لیکچر سنتی ہے۔ مگر اس کا دل اب اس اجنبی دنیا میں نہیں لگتا۔ دنیا بدل چکی ہے۔
اب تینوں عمارتوں کے مکین سنیما گھروں اور دعوتوں سے واپس آ رہے ہیں، احاطہ پھر موٹروں سے بھر گیا۔ قہقہے لگاتے اور زور زور سے باتیں کرتے ہوئے سب اپنے فلیٹوں کی طرف رواں ہیں۔ یہ سب برسوں سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں مگر کوئی کسی کا واقف یا پرسان حال نہیں، یہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے بھی نہیں۔ یہ لوگ اپنی شادیاں اور دعوتیں بڑے بڑے ہوٹلوں میں کرتے ہیں۔ چھٹیاں قرب و جوار کی ساحلی اور پہاڑی تفریح گاہوں میں گزارتے ہیں۔ اور جب ان میں سے کسی ایک کا ستارہ گردش میں آتا ہے تو وہ خاموشی سے اس محلے سے کہیں اور چلا جاتا ہے اور کسی کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
رات بھیگ چلی۔ کہیں کہیں روشن کمروں میں چست پوش لڑکیاں اور لڑکے ابھی تک ٹوئیسٹ ناچنے میں مصروف ہیں۔ باہر بڑی سڑک کے فٹ پاتھ پر بسترے بچھا دئے گئے ہیں۔ ایک آدمی بڑے اہتمام سے گھسا ہوا پلنگ پوش اینٹوں پر بچھا تا ہے۔ بڑی نفاست سے اس کی سلوٹیں نکالتا ہے۔ پھر دوکان کی روشنی میں کتاب لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ برابر کے بستر پر تاش شروع ہو چکا ہے۔ اس کے آگے بہت سارے کنبوں نے اپنی اپنی رات کی کائنات آباد کر لی ہے۔ بارش کا ریلا آئے گا تو یہ اپنی گدڑیاں سمیٹ کر دوکانوں کے تختوں کے نیچے اور کونوں کھدروں میں پناہ لیں گے۔
چاند پر سے ایک کالا بادل گزر گیا۔ گلابی عمارت کے شاگرد پیشے سے ایک عورت کی چیخ بلند ہوتی ہے وہ زور زور سے بین کر رہی ہے۔
’’میم صاحب۔ میم صاحب۔‘‘
میری پھولی ہوئی سانس کے ساتھ اندر آتی ہے۔
’’وہ نیچے فرانسس بیرہ رہتا تھا نا۔ اس کا ڈیتھ ہو گیا۔ اس کا ڈیڈ بوڈی آیا ہے۔ وہ مورننگ میں اپنی میم صاحب کے ساتھ باہر گیا تھا۔ ادھر میم صاحب کے ایک فرینڈ نے اس کو ورسوا سے ہوچ (خانہ ساز، غیر قانونی شراب) لانے کو بولا۔ ادھر ہوچ والوں نے آپس میں دادا گیری کیا اور فرانسس کو بھی چاقو مار دیا۔ اب اس کا بی بی۔‘‘
’’سب کھڑکیاں بند کر دو میری۔‘‘
’’یس میم صاحب۔‘‘ گلابی عمارت میں مسز جولی ٹیلیفون پر جھکی ہوئی ہیں۔ ان کے شوہر ہانگ کانگ میں تجارت کرتے ہیں۔ وہ اپنے ایک پولس افسر دوست کو سرگوشی کے انداز میں فون کر رہی ہے۔
‘‘جم کل میرے ساتھ گے لارڈ میں لنچ کھاؤ گے۔‘‘ رات کا سناٹا۔ ریڈیو پر جن گن من بج رہا ہے۔
ایک اور دن ختم ہوا۔ ایک قدم برج خموشاں کے بالکل قریب وہ گدھ اس وقت مالا بار ہل کے درختوں پر بیٹھے اونگھ رہے ہیں جو بہت جلد ایک دن مجھے کھا جائیں گے۔ گل بانو کا دل اب بہت تیزی سے دھڑک رہا ہے وہ آہستہ سے اوستا کی جلد اٹھاتی ہے اور پڑھنا شروع کرتی ہے۔
بہ نام یزداں اہو رمز دہ خدائے۔ اہرمن اوادشاں دور آوازداشتا رزد شکستے باد اہرمن دیواہ، گنہ گاراں، دشمنازد شکستے باد ازہر گناہ ثبت پشیمانم۔ سردش شگفتہ زیں زیں اوزا۔ سالار داماں اہو رمزدہ برسر بنام یزد بخشندہ بخشازگارے مہرباں یاباری خدا۔
نیچے نائٹ ڈیوٹی کا گورکھا کرخت آواز میں نیپالی زبان میں رامائن پڑھ رہا ہے۔ فاطمہ بائی اپنے کمرے میں کروٹیں بدل رہی ہیں اور چپکے چپکے رو رہی ہیں، دوسرے کمرے میں مسٹر مورے اپنے کاروبار کا حساب کتاب کرتے کرتے سو چکے ہیں۔ نیلی عمارت کے نیچے امپالا آن کر رکتی ہے۔ مسز چندرا موہنی اور مارواڑی سیٹھ اوپر پہنچتے ہیں۔ گیلری میں کھڑے ہو کر بے حد موٹا سیٹھ طمانیت سے چاروں طرف نگاہ دوڑاتا ہے۔ ’’کم بخت واقعی آرٹسٹ ہے۔ کس خوب صورتی سے گھر سجاتا ہے۔ اس فلیٹ پر ستر ہزار خرچ ہو گئے۔ مگر سالا اِٹ از ورتھر اٹ بیڈ روم ایک خنک، روپہلی جنت ہے سفید پلنگ پوش، سفید قالین، سفید پردے، گل دان میں جاپانی انداز سے سجے ہوئے بڑے بڑے سرخ پھولوں نے کمرے کو مدھم مدھم جگمگا رکھا ہے۔
آدھی رات۔ جوار بھاٹا کی لہریں پارک تک آ آ کر لوٹ رہی ہیں۔ چندرا موہنی بالکنی میں جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
آٹھ سال قبل بھی یہی سمندر رہا ہو گا، یہی لہریں، یہی چاند، مگر وہ خود ایک مختلف لڑکی تھی۔ وہ فلم اسٹار بننے کے شوق میں یہاں آئی تھی۔ مگر یکے بعد دیگرے اس کی ساری فلمیں فیل ہو گئیں۔ کیونکہ اس کا نام شہناز بانو رکھا گیا تھا۔ پھر اسے للی اوبرائن بنایا گیا۔ جب یہ نام بھی راس نہیں آیا تووہ چندرا موہنی بنی۔ اس کی پبلسٹی اس طرح کی گئی کہ وہ ایک ریاست کی راج کماری ہے جو آرٹ کی خدمت کی لگن اپنے دل میں رکھتی ہے۔ اس کی تصویریں یوں چھپیں کہ وہ اپنے دیش کو پیار کر رہی ہے۔ گل دان میں پھول سجا رہی ہے، درخت کی شاخ سے جھول رہی ہے ’’آؤٹ ڈور گرل‘‘ کی حیثیت سے سمندر کے کنارے صحت اور شگفتگی کا مجسمہ بنی کھڑی ہے۔ انگریزی کے فلمی رسالوں میں اس کے نام سے اس کے فلسفہ حیات کے متعلق مضمون بھی شائع ہوئے ہیں جن میں شیکسپیئر، ملٹن اور غالب کے حوالے دیئے گئے تھے اور جنھیں ایک فاقہ کش صحافی نے لکھا تھا ’’مگر کامیاب فلم اسٹار بننا اس کی قسمت میں نہ تھا۔ چنانچہ ’’وہ سوسائٹی گرل‘‘ بن گئی۔‘‘ اس کے حلقہ احباب میں سابق مہاراجگان اور نوابین، اعلیٰ حکام، دیسی اور بدیسی تاجر اور دولت مند فلم ایکٹر شامل تھے۔ شروع شروع میں کچھ عرصہ ماڈل اور محبوبہ کی حیثیت سے مصوروں کے حلقے میں بھی رہی تھی۔ مگر ان مصوروں کے پاس پیسہ نہ تھا، لہٰذا مجبوراً وہ اپنے پرانے سرکٹ واپس آ گئی۔
ان مہاراجگان اور تجار اور حکام کے عادات و خصائل طرز گفتگو اور ذہنیت اس کے لیے جان لیوا تھے۔ لیکن مرزا غالب اور امپالا جب اس کے سامنے آئے تو اس نے امپالا کا انتخاب کیا۔
چندرا موہنی بالکنی میں کھڑے کھڑے ایک نظر مسز فاطمہ بائی کے دریچے پر ڈالتی ہے۔ کتنی خوش نصیب بیوی ہیں، اپنے گھر کی رانی۔ اپنے بچوں کی ماں اپنے پتی کی دلاری۔ جب وہ اپنے پتی اور بچوں کے ساتھ باہر نکلتی ہیں تو کتنی مسرور، مطمئن اور گمبھیر نظر آتی ہیں۔ ایک میں ہوں۔ یہ چاند اسی سمے جبل پور کے ایک گھر کے چھوٹے سے آنگن پر جھکا ہو گا جہاں اس کے سیدھے سادھے بھولے بھالے گھر والے سورہے ہوں گے۔ جو سمجھتے ہیں کہ ان کی ہونہار بیٹی بمبئی میں آرٹ کی خدمت میں مصروف ہے۔ وہ چھوٹا سا معمولی سا گم نام سا گھر۔ جب میں اس محل نما فلیٹ میں براج رہی ہوں۔ شادی…؟ عزت؟۔ شادی میں کیا رکھا ہے۔ اور عزت بڑی اضافی چیز ہے۔ چندرا موہنی چھنگلیا سے آنسو پونچھتی ہے۔ اور خشک روپہلی جنت میں واپس آ جاتی ہے جہاں سیٹھ جی کے خراٹے اونچے ہو جاتے ہیں۔
نیچے شاگرد پیشے میں مارتھا فرانسس کی لاش کے صندوق کے نزدیک اوندھی پڑی کراہ رہی ہے۔ سیاہ تابوت کے سرہانے اور پائینتی پر جلتی ہوئی اونچی موم بتی کی لَو مدھم اور خوف ناک ہے۔ فادر دعا مانگ کر اور مار تھا کو صبر کی تلقین کر کے واپس جا چکا ہے۔ مارتھا اگلے بڑے شہر کے اس لرزہ خیز جنگل میں بالکل تنہا ہے۔ میم صاحب نے آیا کے ہاتھ اسے دو سو روپے بھجوائے ہیں۔ فرانسس کی زندگی کی قیمت وہ اپنے گلے میں لٹکی ہوئی چاندی کی سی صلیب کو مٹھی میں زور سے بھینچ لیتی ہے۔ اپنے ڈرائنگ روم میں مسز جولی نے دوسرا سگریٹ سلگا لیا ہے۔ ڈیم۔ ڈیم… اس گدھے روبن چوپڑا کی وجہ سے ان کو خواہ مخواہ اس مرڈر اور پولیس کے لفڑے میں پھنسنا پڑ گیا۔ وہ طے کرتی ہیں کہ کل صبح پہلے ہوائی جہاز سے ہانگ کانگ چلی جائیں گی۔
گل بانو کپاڈیا نے رات کی مکمل خاموشی میں اب دور کی آوازوں پر کان لگا دیئے ہیں۔ سمندر کی سنسناہٹ جو کم بخت بہت نزدیک معلوم ہوتی ہے، دور سڑک پر سے گزرتی ہوئی اکا دکا موٹر۔ کسی عمارت میں ٹرنک کال کی گھنٹی متواتر بجے جا رہی ہے۔
فضا خاموش، سمندر روشن، آسمان روشن، آب نقرئی، بارش نقرئی، ہوا طلسمی، میری بھی سوگئی۔ کس مزے سے فرش پر ٹانگیں پھیلائے پڑی ہے۔ اب بلیاں تینوں عمارتوں کے کونوں کھدروں سے نکل کر گلابی دیوار تلے جمع ہو گئی ہیں۔ یک چشم بلی کیچڑ میں لت پت، ڈرین پائپ پر سے کود کر کوڑے کے ڈرم پر آ گئی ہے۔ ان سب نے روز رات کی طرح اونچی اونچی بھیانک آوازوں میں رونا شروع کر دیا۔ بلیاں عورتوں کی طرح رو رہی ہیں۔
٭٭٭
شربت والی گلی
’’یار یہ ریکٹ بھی خوب ہے۔‘‘ میرے دوست پرکاش نے ہوائی اڈے کے بک اسٹال پر رکھے ہوئے ایک فیشن میگزین کا تازہ شمارہ میری طرف سرکا کر کہا، جس کے سرورق پر ایک حسین لڑکی کی رنگین تصویر مسکرارہی تھی۔
’’کیسا ریکٹ؟‘‘ میں نے بے خیالی سے پوچھا۔ میں دلی جانے والے طیارے کا منتظر تھا۔
پرکاش نے رسالے کا ورق الٹ کر ایک کالم کی طرف اشارہ کیا، اسی بے دھیانی میں میں نے کالم پر نظر دوڑائی۔
’’انیس سالہ مس جوہی راج ناتھ جنہوں نے اسی سال بی اے کیا ہے، بیڈمنٹن کی کھلاڑی، بھرت ناٹیم، ٹوئسٹ اور تیراکی کی ماہر، مصوری، کلاسیکل موسیقی اور گھر کی آرائش سے گہری دل چسپی ہے، ہندوستانی اور انگریزی کھانا بہترین پکاتی ہیں، اپنے ملبوسات خود ڈیزائن کرتی ہیں، شادی…؟ ابھی تو میں چاہتی ہوں کہ ساری دنیا کی سیر کروں۔ لندن، پیرس، نیویارک گھوموں۔ اس کے بعد شادی بھی کر لوں گی۔ ایک خوب صورت سا گھر اور بہت سارے بچے۔!’’ ہمارے سوال کے جواب میں دل کش جوہی نے مسکرا کر کہا۔
’’یار تم نے غور کیا ہے کہ ہر فیشن میگزین اور زنانہ رسالے کی سرِورق کی حسینہ کے متعلق اندر تقریباً ایک ہی سا تعارفی مضمون چھپتا ہے۔ عمر انتیس سال، بھرت ناٹیم، ٹوئسٹ اور آرائش خانہ کی ماہر۔ اپنے ملبوسات خود ڈیزائن کرتی ہیں۔ ماشاء اللہ، مگر یہ صاحبزادی ہیں بہت خوب صورت۔ نام بھی خوب ہے!‘‘ پرکاش۔ نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔
میں نے دوسرا فیشن میگزین اٹھایا تو اس کے سرورق پر بھی مس جوہی راج ناتھ مسکرارہی تھیں۔ اندر یہ خبر درج تھی کہ بمبئی کی کسی فلم کمپنی کے منعقد کیے ہوئے ’’نئے چہروں کے مقابلۂ حسن میں اول آئی ہیں اور کیمرہ ٹیسٹ کے لیے عن قریب دلی سے بمبئی آنے والی ہیں۔ ایک نوجوان بیچلر کی حیثیت سے مجھے حسین لڑکیوں سے گہری دل چسپی ہے۔ بمبئی میں صرف سال بھر پہلے آیا تھا، جہاں ایک تجارتی فرم میں معقول تنخواہ پاتا ہوں۔ شہر کی متعدد فیشن ماڈل لڑکیوں، سوسائٹی گرلز اور نئی فلم ایکٹریسوں سے بھی واقف ہوں۔ لڑکیوں کے حلقے میں خاصا مقبول بھی ہوں۔ لیکن بمبئی کی بھیانک حد تک سطحی فیشن ایبل زندگی کا تجربہ کر کے اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ماں باپ کی پسند کی ہوئی کسی سیدھی سادی گھریلو لڑکی سے ہی شادی کروں گا۔
مگر ذرا حسن اتفاق ملاحظہ کیجئے کہ اس وقت جب میں بمبئی ایئر پورٹ سے دلی روانہ ہوا اور وہاں سے لکھنؤ پہنچا تو پتا جی نے چھوٹتے ہی کہا کہ ان کے ایک پرانے شناسا دیوان راج ناتھ کے یہاں سے میرے لیے بات آئی ہے۔ دیوان صاحب خاصے دولت مند ہیں، اکلوتی لڑکی کی تصویر پیش کی تو میں چونک اٹھا، کیونکہ یہ وہی ’’ملکہ فیشن جوہی‘‘ تھی۔ میں خاموش رہا۔
میرا رد عمل دیکھ کر پتا جی بولے ’’لڑکی ذرا آزاد خیال نظر آتی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے، آج کل زمانہ ہی آزادی کا ہے۔ شادی کے بعد قابو میں رکھنا۔ مگر ایسے رشتے روز روز نہیں آتے۔ لوٹتے میں دلی جا کر اس کے بارے میں پوچھ تاچھ کر لو۔‘‘
معاملہ امریکہ جانے کا تھا، اس لیے میں چپ ہو گیا۔ لکھنؤ سے دلی پہنچا۔ کافی ہاؤس میں پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی تو وہاں بھی جانے کس طرح جوہی راج ناتھ کا ذکر چھڑ گیا۔ رشید کہنے لگا ’’لڑکی بہت اچھی ہے۔ بس ذرا پیاز کھاتی ہے۔‘‘
موہن کو پیاز کھانے والا لطیفہ نہیں معلوم تھا۔ اس نے پوچھا: ’’کیا مطلب؟‘‘
رشید نے بتایا کہ اس کی عمر تو خیر انیس برس سے بہت زیادہ ہے، مگر لڑکی قرینے کی ہے۔ بس ذرا پیاز…‘‘
’’ابے یار…‘‘ میں نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’یہ پہیلیاں کیوں بجھواتے ہو؟‘‘
’’بھئی قصہ یہ ہے کہ جوہی یہاں ایک کالج میں پڑھتی تھی اور ہم سب اس سے واقف ہیں۔ بہت شریف لڑکی ہے۔ مگر پچھلے تین سال سے ایک عجیب بات ہو گئی ہے۔ وہ جس نئے لڑکے سے دوستی کرتی ہے چند روز بعد اس سے تین چار سو روپے ادھار لیتی ہے، مگر واپس نہیں کرتی۔ تعجب یہ ہے کہ ایک امیر باپ کی بیٹی کو اس طرح روپیہ مانگنے کی ضرورت کیا ہے؟ اب تو خیر وہ فلم اسٹار بننے والی ہے۔ وارے نیارے ہو جائیں گے‘‘۔ رشید نے کہا۔ یہ سب سن کر میں نے ان دوستوں کو یہ نہیں بتایا کہ اسی لڑکی کے والد نے میرا رشتہ مانگا ہے،
مجھے بڑا عجیب سا لگا، سوچا دیوان صاحب سے ملنے جاؤں یا نہ جاؤں، پھر خیال آیا کہ محض افواہوں پر اعتبار کر کے کسی لڑکی کی طرف سے بدگمان ہو جانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ بہرحال اسی شام دیوان صاحب کے وہاں پہنچا۔ پوسا روڈ پر کوٹھی تھی۔ دیوان صاحب باہر گھاس پر بیٹھے ہوئے اخبار پڑھ رہے تھے۔ وہ اداس آنکھوں والے خوب رو آدمی تھے۔ چہرے سے بھولپن اور نیک دلی ٹپکتی تھی۔ بے حد تپاک اور خلوص سے ملے، معلوم ہوا کہ جوہی سہیلیوں کے ساتھ چاندنی رات میں تاج کی سیر کے لیے آگرے گئی ہوئی ہے۔ مجھے دوسرے ہی دن واپس بمبئی پہنچنا تھا۔ جب میں چلنے لگا تو دیوان صاحب نے میرا بمبئی کا پتہ لکھنے کے لیے واسکٹ کی جیب میں سے نوٹ بک نکالی۔ اس کے ساتھ ہی ان کا دوہرا پرس گھاس پر گر کر کھل گیا۔ دیوان صاحب کے ہاتھوں میں خفیف سا رعشہ تھا۔ میں نے جلدی سے جھک کر پرس اٹھایا تو اس میں پلاسٹک کے اندر لگی ہوئی ایک مانوس تصویر پر میری نظر پڑی۔ یہ تصویر میں نے بچپن میں ہر کیلنڈر پر ماہر فلمی رسالے میں، ہر پنواڑی کی دوکان پر اور ہر سنیما ہال کے باہر دیکھی تھی۔
میں چند لمحوں تک تصویر کو دیکھتا رہا۔ میرے ذہن میں بچپن کا وہ زمانہ گھوم گیا جب ہمیں سنیما دیکھنے کی اجازت نہ تھی اور میں اور میرے بڑے بھائی صاحب چھپ چھپ کر اس وقت کی مشہور فلم اسٹار مس ڈولی کی فلمیں دیکھنے جایا کرتے تھے … مار دھاڑ کی فلم میں مس ڈولی سرپٹ گھوڑا دوڑا رہی ہیں، کوسیٹوم پکچر میں مس ڈولی مجنوں یا فرہاد کے ساتھ ڈائیلاگ بول رہی ہیں۔ ’’سوشل پکچرز‘‘ میں مس ڈولی جھولے پر بیٹھی گانا گا رہی ہیں … میری محویت دیکھ کر دیوان صاحب نے ذرا سا کھنکار کر حلق صاف کیا۔ میں نے جھینپ کر پرس ان کو دے دیا۔ دیوان صاحب نے آہستہ سے ’’یہ میری پہلی بیوی تھیں۔ ہماری شادی کے چند سال بعد ہی ان کا… ایک حادثے میں … انتقال ہو گیا‘‘۔
’’اوہ…‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
اجازت چاہ کر میں کرسی سے اٹھا ہی تھا کہ ایک نہایت فربہ خاتون بھد بھد چلتی ہوئی برآمدے سے اتریں۔
’’یہ جوہی کی ماں ہیں‘‘ دیوان صاحب نے تعارف کرایا۔ میں نے موٹی خاتون کو نمسکار کیا اور ان سے دو چار باتیں کرنے کے بعد وہاں سے چلا آیا۔ بمبئی لوٹ کر میں اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور جوہی کے متعلق تقریباً طے کر لیا کہ اتنی الٹرا ماڈرن لڑکی اپنے بس کا روگ نہیں۔ اور پھر اس سے ملاقات ہی کہاں ہوئی تھی کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کر سکتا۔
اسی تذبذب میں تھا کہ ایک روز دفتر میں میرے فون کی گھنٹی بجی۔ اور دوسرے سرے پر ایک دل کش آواز نے کہا ’’میں ہوں مس راج ناتھ …‘‘
میرا دل دھڑک اٹھا۔ اس نے بتایا کہ وہ نئے چہروں کے فلمی مقابلۂ حسن کے تقسیم انعامات کی تقریب میں شرکت کے لیے بمبئی آئی ہے۔ ’’آپ سے کب ملاقات ہو سکتی ہے؟‘‘ اس نے دریافت کیا۔
یہ فیصلے کا لمحہ تھا۔ اگر میں فلمی پری سے شادی نہیں کرنا چاہتا تو ملاقات کا کیا فائدہ؟‘‘
’’آپ کو دیوان صاحب نے فلم لائن میں آنے کی اجازت کیسے دے دی جب کہ میں نے سنا ہے کہ وہ آپ کی شادی کر دینا چاہتے ہیں؟‘‘
میں نے ذرا ڈھٹائی سے پوچھا۔ اس نے میری سرد مہری کا اندازہ لگا لیا اور میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے صرف اتنا بتایا کہ ’’فنکشن فلاں تھیٹر ہال میں کل شام کے سات بجے ہے۔ میں آپ کو دعوت نامہ بھیج دوں گی۔ بائی۔ بائی۔‘‘ اور فون بند کر دیا۔
میں دوسرے روز جوہی کی فلمی تقریب میں نہیں گیا۔ مگر تیسرے روز صبح صبح چائے پیتے ہوئے تازہ اخبار کھولا تو ایک سنسنی خیز سرخی پر نظر پڑی: ’’ملکہ فیشن مس جوہی راج ناتھ ’’نئے چہروں‘‘ کا ورائٹی پروگرام شروع ہونے سے چند منٹ پہلے تھیٹر ہال کے گرین روم سے اغوا کر لی گئیں۔ پولیس تفتیش کر رہی ہے۔‘‘
میں ہکا بکا رہ گیا۔ بوڑھے دیوان صاحب کی شکل آنکھوں میں پھر گئی۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں۔ اتنے میں پلنگ کے پاس رکھے ہوئے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور ایک کرخت اجنبی آواز نے کہا ’’مسٹر گووند ورما؟‘‘
’’جی میں بول رہا ہوں‘‘۔
’’آپ کا پتہ مس راج نے بتایا ہے۔ آپ اگر ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ناگ پاڑہ، شربت والی گلی، گرین بلڈنگ، پہلا مالا کھولی نمبر سات پر اکیلے شام کے ٹھیک چھ بجے پہنچ جائیے۔ بالکل اکیلے، اگر پولیس کو خبر کی تو جہاں مس صاحبہ گئی ہیں آپ اس سے بھی آگے پہنچا دئے جائیں گے‘‘۔ اور فون کھٹ سے بند۔
فوراً ہی دروازے کی گھنٹی بجی اور تار والا اندر آیا۔ دیوان صاحب نے التجا کی تھی کہ کسی طرح جوہی کا پتہ لگاؤں۔ میں تیار ہو کر دفتر گیا۔ وہاں کسی نہ کسی طرح کام نمٹایا اور پانچ بجے باہر نکلا۔ شام کے اخباروں کے مطابق پولیس کی تفتیش جاری تھی، مگر اغوا شدہ ملکہ حسن ابھی تک لاپتہ تھیں۔ یہ بھی معلوم نہ ہو سکا تھا کہ اغوا کرنے والے کون ہیں۔ میں نے بمبئی کی ’’انڈرورلڈ‘‘ کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا۔ مجرموں کی اس دنیا کے بارے میں ڈراؤنے جاسوسی ناول بھی پڑھے تھے۔
بھگوان کا نام لے کر کار اسٹارٹ کی اور ناگ پاڑے کا پتہ دریافت کر کے اس اجنبی محلے میں پہنچا۔ نکڑ پر کار روک کر چاروں طرف نظر ڈالی۔ نکڑ پر ایک غلیظ ایرانی ریستوراں کے مقابل میں فٹ پاتھ پر ٹین کی کرسیاں بچھائے بہت سے بوڑھے یہودی تسبیح پھیر رہے تھے یا آپس میں باتیں کر رہے تھے اور تربوز کی قاشیں کھاتے جا رہے تھے۔ سڑک پر تربوز کے چھلکے بکھرے پڑے تھے۔ سامنے کوڑے سے لدا ٹرک کھڑا تھا۔ ایک چال کے سامنے چند عورتیں کھاٹ پر بیٹھی دال چاول بین رہی تھیں۔ ایک جوان یہودی ہیٹ سر کے پیچھے سرکائے کھڑا آسمان کو تک رہا تھا۔ بڑا اداس اور اجاڑ ماحول تھا۔ میں فون پر بتائے ہوئے پتے کے مطابق آگے بڑھ کر شربت والی گلی کی ایک خستہ حال عمارت کے سامنے پہنچا۔ صدر دروازے میں زینے کے نیچے سفید چوغے میں ملبوس ایک بے حد بوڑھی اور لاغر یہودن آرام کرسی پر گم صم بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے برف ایسے سفید بالوں کی دو چوٹیاں گوندھ رکھی تھیں اور سلائی کتائی کا بقچہ اس کی گود میں رکھا تھا۔
چندھی آنکھوں سے مجھے دیکھنے کے بعد وہ پہلے ہی کی طرح ساکت و صامت بیٹھی رہی۔ اتنے میں ایک دبنگ پٹھان اندر سے نکلا۔ اس نے مجھ پر سر سے پاؤں تک سوالیہ نظر ڈالی اور کار کو دیکھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ پتلے سے برآمدے سے گزر کر میں ڈرتا ڈرتا ایک کھولی میں داخل ہوا۔ چھوٹے سے کمرے میں دو پلنگ بچھے تھے۔ کمرہ غیر ضروری کاٹ کباڑ سے اٹا پڑا تھا۔ جمعہ کی شام تھی، اس لیے شمع دان میں موم بتیاں روشن تھیں۔ ایک دیوار پر پْر اسرار عبرانی نقش فریم میں لگے تھے۔ باقی تصویریں ریس کے گھوڑوں کی تھیں۔
ایک عورت لمبا سا سوتی فراک پہنے دروازے کی طرف پشت کیے انگیٹھی پر جھکی کھانا پکا رہی تھی۔ اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔ وہ پرانے وقتوں کی مشہور فلم اسٹار ڈولی تھی، دیوان صاحب کے بیان کے مطابق جس کا انتقال ہو چکا تھا۔ حنا سے آلود سرخ بال، تھکا ہوا چہرہ، بدرنگ لمبا اور ڈھیلا فراک۔ دھوئیں سے بھری اس نیم تاریک کھولی میں کھڑی ہوئی وہ مجھے عہد رفتہ کی بڑی بھیانک سی پرچھائیں معلوم ہوئی۔ ’’سٹ ڈاؤن‘‘ اس نے درشتی سے کہا۔ میں ایک اسٹول پر ٹک گیا۔ میلی تولیہ سے ہاتھ پونچھتی وہ بھی آ کر ایک پلنگ کے کنارے بیٹھ گئی۔ پٹھان دروازے میں گویا پہرے پر کھڑا رہا۔ عورت نے، یعنی ڈولی نے مجھ سے بغیر کسی تمہید کے کہا
’’دیوان راج ناتھ کو تار دو کہ بیس ہزار روپیہ بھیج دیں۔ ان کی لڑکی صحیح سلامت ان کے پاس پہنچا دی جائے گی۔ اس کی حفاظت کا ذمہ میں لیتی ہوں۔‘‘
اس رات، موم بتیوں کی ٹمٹماتی روشنی میں ڈولی جیکب نے مجھے جو قصہ سنایا وہ یہ ہے:
آج سے چالیس سال پہلے نئی نئی ہندوستانی فلم انڈسٹری میں اینگلو انڈین اور یہودی لڑکیوں کا بول بالا تھا، جو زیادہ تر سماج کے ’’بے عزت طبقے‘‘ سے تعلق رکھتی تھیں۔ ڈولی جیکب لنبانی یہودن تھی۔ اس کے ماں باپ اسی شربت والی گلی میں رہتے تھے۔ باپ پرانے کپڑوں کا بیوپار کرتا تھا۔ وہ غریب لوگ تھے۔ مگر ڈولی اپنے حسن کی بدولت فلمی دنیا میں پہنچ گئی اور بہت جلد صف اول کی ایکٹرس کہلانے لگی۔ اس نے ہزاروں کمائے اور لاکھوں لٹائے۔ اس کے عاشقوں میں راجہ مہاراجہ اور نواب شامل تھے۔ اس کے پاس دو دو موٹریں تھیں، ریس کے ذاتی گھوڑے تھے۔ اس نے بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ سب کچھ تھا، مگر عزت نہیں تھی۔ فلم ایکٹریسوں کو سوسائٹی میں بے حد ذلیل سمجھا جاتا تھا۔
’’میں عزت کی بھوکی تھی۔ عزت اور محبت کی…‘‘ ڈولی نے مجھ سے کہا ’’میرے علاوہ انڈسٹری میں ایک اور مقبول ایکٹرس بنارس کی مغنیہ گڑیا رانی تھی۔ میری ہی نقل میں اس نے ڈولی کے وزن پر اپنا نام گڑیا رانی رکھا تھا۔ وہ مجھ سے بے تحاشہ جلتی تھی۔ پیشے کی رقابت کے علاوہ اس جلن اور دشمنی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے تین بڑے جغادری اور لکھ پتی عاشق ایک کے بعد ایک اسے چھوڑ کر مجھ پر مر مٹے تھے اور میری ہی وجہ سے وہ ایک مرتبہ ہز ہائی نس بنتے بنتے رہ گئی۔‘‘
’’۱۹۳۷ء میں میری ملاقات مہالکشمی ریس کورس پر دلی کے رئیس دیوان راج ناتھ سے ہوئی۔ اس روز اتفاق سے گڑیا بھی میرے ساتھ تھی۔ دیوان صاحب مجھ پر عاشق ہو گئے۔ گڑیا بہت دن سے ان پر ڈورے ڈال رہی تھی۔ کیونکہ وہ ان پر سچ مچ میں مر مٹی تھی۔ مگر دیوان صاحب نے شادی مجھ سے کر لی اور میں ان کے ساتھ دلی چلی گئی۔ دو سال بعد ہمارے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ دیوان صاحب مجھے بے انتہا چاہتے تھے۔ وہ مجھ سے کہا کرتے تھے ’’ڈولی مجھے تمہارے ماضی سے کوئی مطلب نہیں، صرف تمہارے مستقبل سے دل چسپی ہے، میں تم کو اتنا سکھ، اتنی عزت، اتنی محبت دوں گا کہ تم اپنے پرانے دکھ بھول جاؤ گی۔‘‘
ڈولی نے میلی تولیہ سے چہرہ صاف کر کے بات جاری رکھی۔ ’’ہماری لڑکی اب چار سال کی ہو چکی تھی۔ ہم لوگ مسوری گئے ہوئے تھے وہاں گڑیا بھی آئی۔ میں مسوری جاتے ہی بیمار پڑ گئی اور گڑیا کو دیوان صاحب سے تنہائی میں ملاقاتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ اس نے انہیں جانے کیا پٹی پڑھائی، میرے خلاف کیا کیا زہر اگلا۔ وہ بھولے آدمی ان کو یقین ہو گیا کہ اپنے پٹھان ڈرائیور سے میری آشنائی ہے۔ تاج گل میرا پرانا وفادار ڈرائیور جسے میں شادی کے بعد ساتھ دلی لے گئی تھی۔
’’وہیں مسوری میں ایک رات میں انفلوئنزا میں مبتلا پلنگ پر لیٹی تھی۔ تاج گل پاس بیٹھا ادھر ادھر کی باتیں کر رہا تھا کہ دیوان صاحب آگ بگولہ اندر آئے اور میری بانہہ پکڑ کر مجھے گھر سے نکال دیا۔ بچی کو اپنے پاس رکھ لیا۔ میں روتی دھوتی تاج گل کے ساتھ بمبئی واپس آ گئی۔ مگر یہاں فلم کا ماحول بدل چکا تھا۔ نئی نئی تعلیم یافتہ لڑکیاں انڈسٹری پر چھا چکی تھیں۔ میری عمر ڈھل رہی تھی۔ میری اداکاری پرانے فیشن کی تھی۔ میرا زمانہ ختم ہو چکا تھا۔
’’اب تاج گل ہی دنیا میں میرا واحد سہارا اور ساتھی تھا۔ پرانے مداح نظریں پھیر چکے تھے۔ پیٹ پالنے کے لیے تاج گل نے کئی دھندے کیے۔ میں نے بچا کھچا کر روپیہ ریس پر لگا دیا کہ شاید قسمت پلٹ جائے۔ مگر قسمت روٹھ چکی تھی۔ نوبت یہ آئی کہ اس کھولی میں منتقل ہونا پڑا۔ میرا باپ کب کا مر چکا تھا۔ ماں وہ باہر بیٹھی ہے۔ اور اپنی اندھی دھندی آنکھوں سے گول یہودی ٹوپیاں سیتی رہتی ہے۔ یہ ٹوپیاں اوڑھ کر یہودی لوگ اپنے عبادت خانے میں جاتے ہیں۔ یہ ٹوپیاں اگر بک جائیں تو ہفتے میں تین چار روپے بن جاتے ہیں۔ مجھے کبھی کبھار فلموں میں ایکسٹرا کا کام مل جاتا ہے۔
’’جب میں نے سنا کہ میری لڑکی جوہی اب سیانی ہے اور کالج میں پہنچ گئی ہے تو میں نے اسے ایک خط لکھا اور اسے بتایا کہ میں زندہ ہوں، مری نہیں، مگر بھوکی مر رہی ہوں۔ وہ خط گڑیا رانی کے ہاتھ بھی پڑ گیا۔ (ہاں، گڑیا نے دیوان صاحب سے بھی جبھی شادی کر لی تھی) اس نے جوہی سے کہا کہ اگر اس نے مجھ سے خط و کتابت کی یا باپ کو میرا خط دکھایا تو وہ جوہی کے ایک کالج رومانس کو اس طرح دیوان صاحب کے سامنے پیش کرے گی کہ دیوان صاحب کا، جو دل کے مریض ہیں، ہارٹ فیل ہو جائے گا۔ گڑیا بڑی ظالم عورت ہے۔
جوہی نے چار برس کی عمر سے اس سوتیلی ماں کے مظالم سہے تھے اور اس سے تھر تھر کانپتی تھی۔ باپ اس عورت کے ہاتھ میں۔ کٹھ پتلی بن چکے تھے۔ اس وجہ سے جوہی کو ان سے بھی چڑ سی ہو گئی اور وہ ان سے بغاوت پر تل گئی، جس کی سزا میں باپ نے اس کا جیب خرچ بند کر دیا۔ اس کے زیور سب گڑیا کے قبضے میں تھے، کیونکہ گھر کے سیاہ سفید کی وہی مالک ہے۔ دیوان صاحب پوجا پاٹ میں لگے رہتے ہیں۔ جوہی نے خط میں مجھے یہ سب حالات لکھے۔ میں کالج کے پتے پر اسے خط لکھا کرتی اور وہ بے چاری نہ جانے کس طرح جوڑ توڑ کر کے مجھے کبھی کبھی روپے بھجواتی رہی۔
’’تاج گل نے وہ روپے ایک دھندے میں لگائے مگر وہ دھندا ہی فیل ہو گیا مجھے اور تاج گل کو شراب کی عادت ہے۔ اسی کے ذریعہ زندگی کے دکھ بھول جاتی ہوں مگر دیسی شراب کے لیے بھی تو پیسہ چاہئے۔‘‘
’’پھر مجھے جوہی نے لکھا کہ وہ باپ سے مزید بغاوت کر کے فلم لائن میں شامل ہو رہی ہے۔ دیوان صاحب کی زن مریدی اور حماقت لاعلاج ہے۔ لیکن وہ بالغ ہو چکی ہے۔ اس لیے دیوان صاحب اس پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتے۔ اس آخری خط کے بعد کوئی چھ مہینے سے اس کا خط نہیں آیا تھا۔ اس دوران میں نے پتہ چلایا کہ دیوان صاحب کہیں اس کی شادی کی بات لگا رہے ہیں۔
’’مگر جس دن وہ یہاں ایک اسٹوڈیو میں کیمرہ ٹیسٹ کے لیے آئی، اتفاق سے میں بھی دوسری ایکسٹرا عورتوں کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھی مکھیاں مار رہی تھی۔ جوہی کو پہچان کر میں اس کے پاس پہنچی اور اسے بتایا کہ میں اس کی ممی ہوں، وہ ایک دم گھبرا گئی اور حیرت سے مجھے دیکھنے لگی۔ میرے خطوں سے اسے میری گئی گزری مالی حالت کا اندازہ تھا، مگر سستا سگریٹ پیتی ہوئی یہ سستی سی عورت اس کی ممی…؟ میں نے اس کے چہرے سے اس کے دکھ اور شرمندگی کا اندازہ لگا لیا، مگر اب میں بھی بڑی ظالم اور سخت دل بن چکی ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر اب وہ باقاعدہ ہر مہینے مجھے پانچ سو روپیہ نہیں دے گی تو میں ساری دنیا کو بتا دوں گی کہ وہ شربت والی گلی کی ایک خستہ حال آوارہ یہودن کی بیٹی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ہیروئن چن لی گئی ہے اور پانچ سو روپے مہینہ اس کے لیے اب کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اس نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ اس کی شادی ایک شریف لڑکے سے ہونے والی ہے۔ اس نے تمہارا نام لیا تھا۔ اور التجا کی کہ میں اپنی زبان بند رکھوں۔ اس کے بعد وہ جلدی سے اسٹوڈیو کے اندر چلی گئی۔
’’مگر تاج گل نہیں مانا۔ اس نے کہا ’’دیوان صاحب آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے بن گئے تھے۔ انہوں نے بلا قصور تمہاری زندگی تباہ کی۔ اب ان کے اندھے پن کی وجہ سے ان کی لڑکی کی زندگی برباد ہونے والی ہے۔ وہ فلم اسٹار بنی تو اسی راستے پر چلے گی جس پر تم چلی تھیں۔ کیونکہ پرانے کیلنڈر بدل کر نئے کیلنڈر آ گئے ہیں۔ مگر زمانہ اور انسان کی فطرت اب بھی وہی ہے۔ تاج گل نے مجھ سے کہا۔ اب اللہ نے تم کو موقع دیا ہے کہ تم دیوان صاحب سے انتقام لو۔ میں نے پوچھا، اپنی لڑکی کے ذریعے انتقام۔؟ یہ بولا ’ہاں‘‘ میں پٹھان ہوں۔ اور تم نہیں تو میں بدلہ لوں گا۔ دیوان صاحب نے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا تھا۔ میں اسے بھولا نہیں ہوں۔ میں ان کو بلیک میل کر کے ان کی پگڑی اچھالوں گا۔
یہ تاج گل دادا گیری بھی کرتا ہے۔ اس نے اپنے موالیوں کے ذریعے جوہی کو تھیٹر ہال سے اٹھوا لیا، اور جانے کہاں قید کر رکھا ہے۔ مجھے معلوم نہیں‘‘۔ ڈولی اتنا کہہ کر رونے لگی۔
تاج گل نے نسوار کی چٹکی لی اور اطمینان سے دہلیز میں بیٹھا رہا۔ دیوان صاحب کی صورت میری نظروں میں تھی۔ ان کو اب تک اس عورت سے عشق تھا۔ ان کے پرس میں اس کی تصویر، ان کے کانپتے ہاتھوں اور لرزتی ہوئی آواز نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہ ڈولی کے ساتھ بتائے ہوئے ان چھ مختصر برسوں کی یادکو اب بھی جان سے لگائے بیٹھے ہیں۔ مگر شاید وہ زندگی کے ہاتھوں مجبور تھے۔ زندگی بڑی بے رحم ہے۔ واقعات اور حادثات کا تانا بانا انسان کو قتل کر کر کے زندہ رکھتا ہے۔ ستم پیشہ زندگی بدنفس انسانوں کو نیک دل انسانوں پر حاوی ہونے دیتی ہے، جس طرح گڑیا رانی دیوان راج ناتھ پر حاوی ہے۔ ساتھ ہی ہم سب مسرت کے متلاشی بھی ہیں۔ ]بد نفس گڑیا رانی نے اپنی ذاتی مسرت کی تکمیل کے لیے ڈولی کو تباہ کیا اور نیک نفس ڈولی اپنی طمانیت کی خاطر جوہی پر ظلم روا رکھ رہی ہے۔ میں اپنے آدرش کا منتظر، جوہی سے شادی کرنے پر تیار نہیں ہوں۔ یہ شطرنج کی ایک ایسی بساط ہے جس پر اندھے کھلاڑی اپنے اپنے مہرے چل رہے ہیں۔
ایک موم بتی کی لَو زور سے بھڑکی۔ میں دلی جا کر دیوان صاحب سے روپیہ لا سکتا ہوں‘‘۔ تاج گل نے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے پولیس کو اطلاع دی تو وہ اپنے غنڈوں کے ذریعے جوہی کی عزت اتارے گا۔ چنانچہ اس جوہی کی عزت اب میرے ہاتھ میں ہے۔ جسے میں نے آج تک نہیں دیکھا، جس کے لیے میرے دل میں کوئی عزت نہیں۔ اور اس نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ اس کی شادی ایک شریف لڑکے سے ہونے والی ہے … شریف لڑکا۔ میں تاج گل کی طرف مڑا، تم اپنی رقم کم نہیں کر سکتے؟‘‘
’’اکٹھا بیس ہزار…‘‘ اس نے اپنی سرخ مونچھوں پر تاؤ دے کر جواب دیا۔ میں نے دل میں حساب لگایا۔ میرے حصے کے دس ہزار پتا جی نے میرے نام بینک میں منتقل کر دئے ہیں۔ سات آٹھ ہزار میں میری کار بک سکتی ہے۔ ایک دو ہزار میں پرکاش سے قرض لے لوں گا۔ مگر یہ لوگ اس طرح بلیک میل جاری رکھ سکتے ہیں اور جوہی مستقل خطرے میں رہے گی۔ شاید اس کے فلم اسٹوڈیو سے ایڈوانس مل جائے۔
میں نے تاج گل سے کہا کہ میرے ساتھ چلے۔ باہر آ کر میں نے ایرانی ریسٹورنٹ سے فون کیا۔ بڑی مشکل سے پروڈیوسر کا نمبر ملا، لیکن معلوم ہوا کہ جوہی کیمرہ ٹیسٹ میں فیل ہو گئی ہے۔ اسے آئندہ کبھی شاید کوئی معمولی سا رول مل جائے، ہیروئن کا رول کسی اور لڑکی کو دیا جا رہا ہے۔
’’مجھے جوہی کے پاس لے چلو‘‘۔ میں نے تاج گل سے درخواست کی۔ اس نے انکار میں سر ہلایا
’’پہلے رقم لاؤ‘‘۔ میں ناتجربہ کار، دنیا کے ان گورکھ دھندوں سے ناواقف، ایک دم بے حد گھبرا گیا۔
تاج گل میرے ساتھ کھولی پر واپس آیا اور ڈولی سے بات کرنے کے لیے اندر چلا گیا۔ میں برآمدے میں ٹکا رہا۔ اچانک مجھے اندازہ ہوا کہ بڑھیا یہودن مجھے اشارے سے بلا رہی ہے۔ میں نے اس کو دیکھا تو وہ فوراً ایسی بن گئی گویا میری موجودگی ہی سے بے خبر ہو۔ اب کوٹھری کے اندر ڈولی زور زور سے رو رہی تھی اور تاج گل گلا پھاڑ کر چلا رہا تھا۔
میں لپک کر بڑھیا کے پاس گیا۔ اس نے ایک پرچہ میری جانب سرکا دیا اور پھر چھت کے دھندلے بلب کی روشنی میں ٹوپی سینے لگی۔ میں نے جلدی سے پرچہ پڑھا: ’’میری نواسی اسی بلڈنگ کی تیسری منزل پر آخری کمرے میں قید ہے۔ رات کے دو بجے آؤ۔‘‘
سارا پلان ایک دم میرے ذہن میں بن گیا۔ میں نے اندر جا کر تاج گل سے کہا ’’آؤ لالہ، میں چل کر روپیہ دلواتا ہوں۔‘‘ میں اسے کار میں بٹھا کر اپنے فلیٹ میں پہنچا۔ اسی ہفتے میں نے اپنے کسی دوست کے لیے شراب کا پرمٹ حاصل کیا تھا، پرمٹ الماری میں سے نکال کر میں بازار گیا اور بڑھیا ولایتی شراب، مرغ مسلم اور دوسرا دعوتی کھانا خریدا اور کھولی پر واپس آ کر میں نے بڑی شگفتگی سے ڈولی کو آواز دی ’’آؤ آنٹی۔ پہلے ذرا دعوت ہو جائے‘‘۔ ان دونوں نے مدتوں سے ولایتی شراب نہیں چکھی تھی۔ بہت جلد دونوں انٹا غفیل ہو گئے۔
میں نے بڑھیا کے اشارے پر تاج گل کی واسکٹ کی جیب سے کنجی نکالی۔ اس وقت تک ساری بلڈنگ سو چکی تھی اور مکمل سناٹا طاری تھا۔ میں دبے پاؤں تیسری منزل پر پہنچا اور سرے والی اندھیری کوٹھری کا تالہ کھولا۔ جوہی اندر فرش پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔ تیزی اور طراری کے باوجود بھوری سی لڑکی۔ زخمی نظر یں اٹھا کر اس نے مجھے دیکھا۔ ’’میں۔ میں گووند ہوں۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا اور اسے سہارا دے کر اٹھایا۔
ہم دونوں پھونک پھونک کر قدم رکھتے نیچے اترے اور کار میں جابیٹھے۔ جب تک ہماری کار گلی سے باہر نہیں نکلی بڑھیا کا سفید ہیولا اندھیرے برآمدے میں موجود رہا۔ چند ہفتے بعد جب شادی کی تاریخ طے کرنے میں دیوان صاحب کے یہاں دلی پہنچا تو ان کی موٹی بیوی کوٹھی میں کہیں نظر نہ آئیں۔ جوہی نے بتایا کہ وہ لمبی تیرتھ یاترا کے لیے جگن ناتھ پوری چلی گئی ہیں۔
٭٭٭
ایک پرانی کہانی
یہ ایک بالکل سچی کہانی یہ جو اَن گنت اندھے فقیر ہمیں سڑکوں کے کنارے کنارے چلتے، درختوں اورشکستہ دیواروں کے سائے میں بیٹھے، المونیم کا میلا کٹورہ ہاتھ میں لیے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، کبھی ہم نے اپنا روشن راستہ طے کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک کر سوچا ہے کہ ان کی زندگیوں کی کہانی کیا ہو گی؟ یہ کہاں پیدا ہوئے۔ ان کے ماں باپ کون تھے، گھر بار کیسا تھا، انہوں نے کب اور کس طرح آنکھیں کھوئیں۔ کب سے اس طرح ٹٹول ٹٹول کر چلتے ہوئے، گھگھیا گھگھیا کر خیرات مانگ رہے ہیں اور ایک دن اسی طرح مر جائیں گے۔ یعنی ایک گمنام اندھیرے سے نکل کر دوسرے گمنام اندھیرے میں داخل ہو جائیں گے۔ اور ان کی زندگی اور موت سے کسی کے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
جوان اندھی بھکارنیں (جن کے متعلق آج سے تیس چالیس برس قبل بڑے رومینٹک افسانے لکھے جاتے تھے اور نظمیں۔ آہ بھیکارن واہ بھیکارن دیکھ بھیکارن للہ بھیکارن۔ ایک مشہور شاعر کی نظم تھی) ہاتھ میں لمبی تسبیح لیے سفید کرتا پہنے نابینا حافظ۔ اگر بتیوں کے پیکٹ یا مدینہ منورہ کی چھوٹی چھوٹی تصویرں سنبھالے اندھے، تلسی مالائیں پہنے رام نام کا واسطہ دیتے سورداس، پھٹا پرانا کوٹ پتلون پہنے وائلن بجائے عیسائی بھکاری، چلتی ٹرین میں چڑھ کر دلدوز آواز میں نعتیں پڑھتے یادو تارہ بجا کر بھیک مانگتے اندھے، بش شرٹ اور پتلون میں ملبوس بے بس، مسکین چہروں والے نوجوان اندھے، سفید رنگ کی چھڑی سنبھالے خاموشی سے ادھر ادھر چہرہ گھما کر سڑک کے خطرناک ٹریفک میں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے اندھے، پلیا کے نیچے، یا عالیشان کوٹھیوں کے پھاٹک پر صبر کے ساتھ سامنے پھیلی چادر پر سکوں کے گرنے کی آواز سننے کے منتظر اندھے۔ مندروں اور درگاہوں کے احاطوں پر نعرے لگاتے اندھے، … مشرقی ممالک کے ان لاکھوں اندھوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ نہ کسی کو ان کے متعلق سوچنے کی فرصت ہے۔
اندھے ہمارے سماجی پس منظر کا اتنا ہی لازمی حصہ ہیں جتنے کوڑھی، فٹ پاتھ پر سونے والے مرد اور عورتیں اور گلیوں اور سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے فاقہ کش بچے ہمارے معاشرے کا جزو ہیں۔ ہم ان کی طرف دھیان بھی نہیں دیتے۔ اتفاق سے ایک اندھے فقیر کی کہانی میں جانتی ہوں۔ اور آپ کو سنانا چاہتی ہوں۔ یہ اندھا فقیر جو برسوں دہرہ دون کی ایک پر فضا سڑک کے کنارے، جس کے ایک طرف خوب صورت کوٹھیاں تھیں اور دوسری طرف شفاف پانی کی شور مچاتی پہاڑی نہر اسٹرن کنال کہلاتی تھی، بیٹھا بھیک مانگتا رہتا تھا۔ جب پالا گرتا تھا تب بھی اور جب تیز دھوپ میں کول تار کی سڑک پر دھواں سا اٹھتا تھا، تب بھی، وہ ایک نیلے پتھر پر کشمیری نمدے کا ایک غلیظ اور کرم خوردہ ٹکڑا بچھائے ساکت بیٹھا رہتا تھا۔ اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہاتھ پھیلا کر اللہ …اللہ …اللہ۔ کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں کی جگہ جو سرخ دھنسے ہوئے ڈیلے سے تھے، وہ دائیں بائیں گھومتے رہتے تھے۔ اور اس کی بکرے کی ایسی داڑھی ہلتی رہتی تھی۔ وہ ہر بوڑھے اندھے بھکاری کی طرح بہت ہی غلیظ۔ گھناؤنا اور بد ہیئت بوڑھا اندھا بھکاری تھا۔
’’کھدمت گار…خانساماں جی آئے ہیں۔‘‘ روز صبح نو بجے پچھلے برآمدے میں ایک ڈپٹ دار آواز سنائی دیتی۔ اس کے بعد خانساماں جی بوٹ سیڑھیوں پر اتارتے، مؤدبانہ انداز سے چق اٹھا کر سفید موزوں میں دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوتے اور تقریباً فرشی سلام کرنے کے بعد بغل سے رجسٹر نکال کر سودے کا حساب پیش کرتے۔ یہ رجسٹر خانساماں جی کی ہستی کی طرح انوکھا تھا۔ اور میں اکثر خانساماں جی سے فرمائش کرتی تھی کہ وہ مجھے اس کے مطالعے سے بہرہ ور ہونے کی اجازت دیں۔ خانساماں ایسے رسم الخط میں حساب لکھتے تھے جو قدیم مصری رسم الخط کا ہم پلہ تھا اور انھوں نے خود ایجاد کیا تھا۔ مثلاً گوشت کے لیے بکرے کی تصویر، مرغی انڈے گاجر چقندر آلو وغیرہ کے لیے ان کی تصاویر روپے آنے پائی اور سیر پاؤ چھٹانک کے لیے بہت پْر اسرار نشانات انھوں نے خود مقرر کیے تھے۔ حساب میں اگر کسی شخص کا نام لکھنا ہوتا تو اس کی جگہ اس کی شکل بنا دی جاتی۔ اپنی تصویر وہ بڑی تفصیل سے بناتے تھے۔
خانساماں جی کے اصل نام سے کوئی واقف نہ تھا۔ ان کا اور ان کی بیوی اللہ دی کا ہم لوگوں سے تعارف بدھن کے ذریعے ہوا تھا جو خورجے کی ایک خاتون تھیں اور کبھی کبھار دوپہر کے وقت ہماری طرف آنکلتی تھیں اور برآمدے کے فرش پر دھوپ میں لیٹ کر ’’رنگ لاتی ہے حنا پتھل پہ گھس جانے کے بعد’’ الاپا کرتی تھیں۔
بدھن جوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ سلائی کر کے اپنا پیٹ پالتی تھیں۔ ایک روز ان کے ساتھ ایک بوڑھی خاتون بھی آئیں جنھوں نے سرخ ’’رینگ‘‘ کا دوپٹہ ’’کیلے‘‘ کی قمیص اور گلابی رنگ کا تنگ پائجامہ پہن رکھا تھا اور کلائیوں میں ہری ہری فیروزآبادی چوڑیاں کھنکھنا رہی تھیں۔ بدھن نے تعارف کرایا کہ یہ اللہ دی ہیں اور ان کے میاں خانساماں جی صاحب لوگ کے یہاں بڑے معرکے کا کھانا پکاتے ہیں۔ مگر آج کل روج گار سے نہیں ہیں۔ اس کے چند روز بعد خانساماں جی ہمارے یہاں کام کرنے کے لیے تشریف لے آئے۔
خانساماں جی ایک بہت بڑا چوبی صندوق بھی اپنے ساتھ لائے تھے جو انھوں نے اپنی کوٹھری میں بڑے قرینے سے ایک طرف رکھ کر اس پر کڑھا ہوا میز پوش بچھا دیا۔ دیواروں پر انگریز بچوں کی تصویریں لگائیں اور کاغذی پھولوں والا ایک گلدان بھی طاق میں سجا دیا۔ اللہ دی ایک سلیقہ مند خاتون تھیں اور اپنی کوٹھری کو آئینے کی طرح صاف رکھتی تھیں۔ میاں بیوی لا ولد تھے اور ایک دوسرے کے لیے وقف۔ شوہر کی خدمت اور پرستش تو خیر اللہ دی کا فرض تھا مگر خانساماں جی بھی بیوی کو بہت چاہتے تھے۔ وہ خود جتنے ذہین تھے اللہ دی اتنی ہی بے وقوف تھیں اور خانساماں جی بڑے پیار سے ان کی مختلف حماقتوں کا ذکر کرتے تھے۔
خانساماں جی پیٹ بھر کے بد قطع تھے۔ چپٹی ناک۔ کالا رنگ۔ بہت بڑی توند۔ کبڑی ٹانگیں، چکی داڑھی ہنستے تو باچھیں کانوں تک پھیل جاتیں۔ بے حد خوش مزاج تھے۔ کسی زمانے میں پیری مریدی بھی کر چکے تھے۔ گنڈے تعویذ کے استاد تھے اور صاحب لوگ کے ساتھ انگلستان ہو آئے تھے۔ رنگون اور مانڈلے اور مدراس اور پونا تو ان کے لیے کوئی بات ہی نہیں تھی۔ لندھور کی داستان ان کی پسندیدہ داستان تھی۔ خالق باری کے بہت سے اشعار انہیں زبانی یاد تھی۔ جب ان سے کہا جاتا۔ خانساماں جی خالق باری ہو جائے۔ تو وہ فوراً صافہ اتار کر سر پر ہاتھ پھیرتے۔ دوبارہ صافہ پہنتے اور کھنکار کر شروع کرتے۔
کھالک باری سرجن ہار
واحد ایک بڑا کرتار
اسم اللہ خدا کا ناؤں
گرما دھوپ سایہ چھاؤں
رسول پیغمبر جان بسیت
یار دوست بولے جو میت
خانساماں جی کے سرٹیفکٹوں پر ۱۸۹۹ء سے لے کر ۱۹۳۸ء تک کی تاریخیں پڑی تھیں۔ اور انگریز فوجی اور سویلین افسروں کی ان ’’چھٹیوں‘‘ سے، (جن میں سے اکثر کے کاغذ پیلے اور شکستہ اور روشنائی مدھم ہو چکی تھی) ہندوستان کی کولونیل سماجی تاریخ کے ایک معنی خیز باب پر روشنی پڑتی تھی۔
ایک روز مجھے کسی شرارت پر بہت زبردست ڈانٹ پڑی تھی اور میں پہلو کے سنسان برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی چپ چاپ زار و قطار رونے میں مصروف تھی۔ اتنے میں خانساماں جی ادھر سے گزرے۔ ٹھٹھک کر مجھے دیکھا اور آگے چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعد آنسوؤں کی جھلملاہٹ میں سے مجھے سبزے پر گلابی دوپٹہ لہراتا نظر آیا اور اللہ دی قریب آ گئیں۔ اور مجھے بڑی ملائمیت سے اپنی کوٹھری میں مدعو کیا۔ میں آنسو پونچھ کر خاموشی سے ان کے ساتھ ہولی۔ کوٹھری میں خانساماں جی اپنا سیاہ چوبی صندوق کھولے میرے منتظر بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے صندوق کا سامان نکال کر فرش پر پھیلا دیا اور بڑی تندہی سے کچھ تلاش کرنے لگے۔
صندوق میں سے جو تام جھام نکلا وہ میرے لیے بے حد پر اسرار ثابت ہوا۔ پرانے فیشن کے جھالر دار فراک۔ سمور کے شکستہ کوٹ اور ریشمین سائے۔ طرح طرح کی ٹوپیاں۔ چینی کے برتن۔ ٹوٹی ہوئی گھڑیاں اور ٹائم پیس۔ جاپانی پنکھیاں۔ مالائیں۔ بروچ۔ با تصویر انگریزی کتابیں، آرائش کا دقیانوسی سامان۔ اور سرخ ریشمین رو مال میں لپٹا سرٹیفکٹوں کا پلندہ۔
خانساماں جی نے بتایا کہ یہ ساری چیزیں ان کو مختلف صاحب میم لوگ نے ولایت جاتے وقت اپنی نشانی کے طور پر دی تھیں۔ اور ان کا سرمایۂ حیات تھیں۔
’’پہلے وقتوں کا صاحب لوگ بہت نیک ہوتا تھا بیٹا…‘‘ انہوں نے کہا۔ مگر جب سے یہ کانگریس نے دند مچایا ہے صاحب لوگ بھی بدل گیا۔‘‘
ڈھونڈ ڈھانڈ کے انھوں نے ایک بڑی سی سوتی جاگتی انگریزی گڑیا نکالی۔ اسے بڑی احتیاط سے جھاڑا پونچھا اور ادب سے میرے سامنے رکھ دیا۔
میرا جی چاہا کہ لپک کر گڑیا اٹھا لوں مگر خیال آیا کہ امآں کی ڈانٹ پڑے گی۔
خانساماں جی اور اللہ دی مجھے بڑی پر امید نظروں سے دیکھتے رہے۔ آخر ہچکچاہٹ کے ساتھ میں نے گڑیا اٹھائی اور خوشی اور گھبراہٹ کے مارے شکریہ ادا کیے بغیر جلدی سے باہر بھاگ آئی۔
اس کے بعد جب بھی خانساماں جی اس عمر عیار کی زنبیل کو اپنے برآمدے میں دھوپ دیتے تو میں جا کر وہاں بیٹھ جاتی اور وہ ان پرانی دھرانی چیزوں سے وابستہ اپنی کہانیاں سنایا کرتے۔ یہ الّم غلّم ان کے لیے بالکل بے کار تھا مگر وہ اسے حرز جاں بنائے ہوئے تھے۔
ہم لوگ دہرہ دون سے لکھنؤ آنے والے تھے۔ مگر خانساماں جی ساتھ چلنے پر راضی نہ ہوئے۔ کیونکہ اللہ دی بیمار رہنے لگی تھیں۔ اور پردیس جانے پر آمادہ نہ تھیں۔ خانساماں جی کو ہم لوگوں سے جدا ہونے کا ا بڑا قلق تھا۔ مگر انھوں نے کہا ’’اس نیک بخت نے ساری عمر ہرج مرج میں میرا ساتھ دیا ہے۔ جوانی میں میں نے اس کے دل کو بہت بھاری دکھ بھی پہنچائے ہیں۔ اب آخر وقت میں اس ستونتی کی بات کیسے ٹال دوں۔‘‘ اس کے بعد آنکھیں پونچھتے کشمیری نمدہ اٹھائے (جو انھوں نے نشانی کے طور پر ہماری والدہ سے مانگا تھا) وہ شاگرد پیشے کی طرف چلے گئے۔
جس روز ہم دہرہ دون سے روانہ ہونے والے تھے اور سارا سامان مال گاڑی پر لادنے کے لیے اسٹیشن بھیجا جا چکا تھا خانساماں جی کہیں سے ایک چھوٹا سا ٹھیلہ لے آئے۔ چوبی صندوق ہوں ہوں کرتے ہوئے اس پر چڑھایا اور بڑی احتیاط سے نمدہ اس کے اوپر بچھادیا۔ اللہ دی صندوق کا کنڈا پکڑ کر ٹھیلے پر چڑھیں اور اپنے گلابی دوپٹے کا گھونگھٹ کاڑھ کر بندریا کی طرح صندوق پر بچھے نمدے پر بیٹھ گئیں۔ خانساماں جی نے ’’یا غوث الاعظم‘‘ کا ہلکا سا نعرہ لگایا اور سر جھکائے ٹھیلہ دھکیلتے پھاٹک سے باہر نکل گئے۔ میں ان کے پیچھے پیچھے دوڑی مگر وہ سر جھکائے ٹھیلہ دھکیلتے کرزن روڈ پر بہت دور نکل چکے تھے۔
تین سال نکل گئے ہم لوگ کچھ عرصہ کے لیے دہرہ دون گئے ہوئے تھے۔ ایک روز میں کرن پور کے محلے میں اپنے چند عزیزوں کے یہاں اتوار منا رہی تھی۔ ان کا مکان بڑا پر اسرار سا تھا۔ برابر برابر میں دو آنگن۔ اس کے ساتھ مسجد اور امام باڑہ۔ لمبے لمبے کمرے جن کے اونچے روشن دان، پیچھے صاف ستھری گلی میں کھلتے تھے۔ روشن دانوں کے شیشے نیلے اور نارنجی اور سبز تھے۔ دوپہر کو جب ان میں سے ایک طویل کمرے میں دھوپ آتی تو لگتا جیسے یہ کمرہ سمندر کی تہہ میں ہو، پانی کی لہریں دیوار پر جھلملاتی ہوں۔ اس کمرے میں ایک قطار میں پلنگ بچھے تھے اور میں ہم سن ساتھیوں کے ساتھ پلنگوں اور الماریوں پر کود کود کر اودھم مچانے میں مشغول تھی کہ دفعتاً گلی میں سے آواز آئی۔ ’’تحفہ کباب۔ تحفہ کباب لے لو۔ تحفہ کباب۔‘‘ پھر وہ آواز دور چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد ایک بچہ تام چینی کی میلی سی رکابی میں سیخ کباب لیے اندر آیا۔ ’’باجی لیجئے کباب…‘‘ اس نے ایک الماری پر چڑھ کر رکابی میری جانب بڑھائی۔ میں نے دوسری الماری کی چھت پر سے ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی تو پلیٹ نیچے گر گئی۔ برابر کے کمرے سے کسی آپا نے ڈانٹا۔ ’’یہ کیا ہْلّڑ ہو رہا ہے۔‘‘
’’کبڑا کبابی باجی کے لیے کباب لایا ہے۔‘‘ بچے نے جواب دیا۔
’’تو لے لو اور اسے پیسے دے آؤ۔‘‘ آپا نے آواز دی۔
’’وہ پیسے نہیں لیتا۔‘‘ اتنی دیر الماری سے کود کر امرود کے درخت پر چڑھنے کے ارادے سے باہر نکلی تو برابر کے کمرے سے انہی آپا نے مجھ سے کہا ’’بفاتن بوا سے کہو کبابئے کو پیسے دے دیں۔‘‘
چنانچہ میں بفاتن بوا کو پکارتی پچھلی ڈیوڑھی کی طرف گئی جو گلی میں کھلتی تھی۔ ڈیوڑھی میں کیا دیکھتی ہوں کہ خانساماں جی میلے چکٹ کپڑے پہنے لپا جھپ چھوٹی سی انگیٹھی دہکاتے ہوئے آواز لگا رہے ہیں …
’’ارے میری بٹیا کے لیے کباب لے جاؤ گرما گرم۔‘‘
’’خانساماں جی۔‘‘ میرے منھ سے نکلا۔ انھوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ باچھیں کانوں تک پہنچ گئیں۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے اور جلدی سے ہاتھ جوڑ کر بولے۔
’’آج ہی میں نے بفاتن بوا کے لونڈے سے سنا کہ بیٹا نخلؤ سے آئی ہیں سو میں کباب لے کر حاضر ہو گیا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ تندہی سے سیخ الٹنے پلٹنے میں مصروف ہو گئے۔ میں متعجب اور اداس ان کو دیکھتی رہی اور سوچنے لگی کہ اتنے ٹھاٹ باٹ اور آن بان کے خانساماں جی کو بازاری کبابیہ بنتے ہوئے کس قدر تکلیف ہوئی ہو گی۔
’’مگر آپ نوکری کیوں نہیں کرتے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’آپ لوگوں کے جانے کے بعد کولاگڈھ میں ایک صاحب کے یہاں کام ملا تھا مگر اسے معلوم ہوا کہ گھر والی کو بڑی بیماری ہے اس نے چھٹی دے دی۔‘‘
’’اللہ دی کیسی ہیں اب؟‘‘
’’گزر گئی۔‘‘ انھوں نے دھویں سے سیاہ، ٹوٹے ہوئے پنکھے سے انگیٹھی دہکاتے ہوئے جواب دیا۔
’’پھر ایک اور میم کے یہاں کام ملا۔ مگر وہ جھک جھک بہت کرتی تھی۔ اس نے گالی دی۔ …ڈیم بلاڈی باسٹر…نگر…بلیک مین… میں نے کہا… سلام … اور چلا آیا۔ بیٹا اب اس سفید داڑھی کے ساتھ انگریز کی گالی نہیں سہی جاتی۔‘‘
’’مگر اللہ دی…‘‘ میں نے پھر کہا۔ ’’مر گئی نیک بخت۔ خیراتی ہسپتال میں ڈالا۔ مر گئی تو توپ دیا… اب اکیلی جان کے لیے کیا غلامی کروں۔ اتنا بوڑھا ہو گیا ہوں بیٹا۔ سجھائی بھی کم دیتا ہے اب مجھے کون نوکر رکھے گا۔‘‘
’’اور آپ کا وہ صندوق۔‘‘ وہ الف لیلوی صندوق۔ میں نے دل میں اضافہ کیا۔
’’اللہ دی کی بیماری کا خرچہ بہت تھا۔ بیٹا۔ جب کہیں سے پیسے ادھار نہیں ملے تو ساری پیٹی کباڑی کے ہاتھ اونے پونے بیچ دیا۔ یہ لیجئے گرما گرم۔ تحفہ کباب۔
ستمبر ۱۹۲۸ء میں چند روز قبل مسوری سے واپس آئی تھی اور ایسٹرن کنال روڈ پر خوب صورت بیلی لاج کے برآمدے میں اخبار میں تقسیم کی تفصیلات اور ہند و پاکستان کا نیا نقشہ دیکھنے میں مصروف تھی۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور ریڈیو پر مسوری کے فسادات کی خبریں آ رہی تھیں۔ اتنے میں دور پھاٹک پر ایک ہیولیٰ سا ڈولتا نظر آیا۔
’’جاؤ اسے اکنّی دے آؤ۔‘‘ میری میزبان بیگم مسعود نے ملازم سے کہا۔ ملازم نے چند منٹ بعد واپس آ کر کہا کہ وہ اندھا فقیر مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔
’’مجھ سے …؟‘‘ میرا دل ڈوب سا گیا۔
میں جلدی سے باہر نکلی۔ نابینا بھکاری آنکھوں کے سرخ ڈیلے دائیں بائیں گھماتا پھاٹک پر چپ چاپ کھڑا تھا۔
’’خانساماں جی…‘‘ میں نے بھاگتے ہوئے قریب جا کر کہا۔ وہ لاٹھی سے ٹٹولتا ٹٹولتا آگے بڑھا۔ بجری پر بیٹھ کر میرے پاؤں پکڑ لیے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے اور بڑبڑانے لگا۔
’’مرگیا مرنے والا… جنتی تھا۔ جنت کو گیا۔‘‘ میری سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہوں۔ میرے والد کے انتقال کی خبر سابقہ خانساماں جی اور موجودہ اندھے بھکاری نے بیگم مسعود کے کسی ملازم سے شاید حال ہی میں سنی تھی اور جب ہی یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ میں وہاں آئی ہوئی ہوں۔ میں ان سے یہ بھی پوچھنے کی ہمت نہ کر سکی کہ انھوں نے آنکھیں کب کھوئیں اور کب سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ ان سوالوں کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں گم سم کھڑی ان کو دیکھتی رہی۔
’’اتنی عمر میں آپ نے بہت بھاری دکھ دیکھ لیے بیٹا۔‘‘ انہوں نے اپنی بے نور آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔
’’اور ابھی بہت دکھ باقی ہیں۔ میں نے دل میں کہا۔
’’مسلمانانِ دہرہ دون۔ خبردار ہو جاؤ۔‘‘ مسلم لیگ کے رضاکار ایک کار میں لگے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرتے ہوئے زن سے گزر گئے۔
پھر چند سائیکل سوار سڑک پر سے گزرے۔ انہوں نے سائیکلوں پر ترنگے کے بجائے نارنجی اور سفید، صرف دو رنگوں کے جھنڈے لگا رکھے تھے۔ ابھی بہت سے دکھ اٹھانے باقی ہیں۔ میں نے دل میں دہرایا۔
’’باجی… شفیع احمد قدوائی مارے گئے۔‘‘ میں نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ برساتی میں نکل کر بیگم مسعود کی لڑکی صوفیہ روتے ہوئے چلا رہی تھی۔
’’ابھی ابھی مسوری سے فون آیا ہے۔‘‘ میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
’’کیا ہوا؟ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ خانساماں جی نے چہرہ اوپر اٹھا کر سوال کیا۔
’’باجی۔‘‘ صوفیہ نے دہشت زدہ اور سراسیمہ آواز میں پھر پکارا۔
’’میں ابھی آتی ہوں خانساماں جی۔‘‘
’’اچھا۔ میں یہیں بیٹھا ہوں۔‘‘ وہ لاٹھی ٹیک کر اٹھے اور کانپتے ٹٹولتے ہاتھوں سے پھاٹک کے کھمبے کا سہارا لے کر پلیا پر بیٹھ گئے۔
میرے اندر واپس جاتے ہی ایک فوجی عزیز کی کار زناٹے سے برساتی میں آن کر رکی۔ اور فوجی عزیز نے مجھ سے کہا کہ میں فوراً ان کے ساتھ گھر چلوں کیونکہ شام کی گاڑی سے ہم لوگ دہرہ دون سے روانہ ہو رہے ہیں۔ لیکن روانگی کے انتظامات میں بہت دیر لگ گئی اور جب ہم لوگ بیلی لاج سے نکلے تو دن ڈھل چکا تھا۔ سڑک پر پہنچ کر میں نے فوجی عزیز سے کہا کہ کار روک لیں۔ ’’کیوں؟ اب کسی سے ملنے ملانے کا وقت نہیں ہے۔ ٹرین چھوٹ جائے گی۔‘‘ انہوں نے گھبرا کر جواب دیا اور تیزی سے میونسپل روڈ کی طرف بڑھ گئے۔
ای۔ سی۔ روڈ پر سے گزرتے ہوئے اچانک میں نے دیکھا کہ دور، نہر کی منڈیر کے نیچے ایک نیلے پتھر پر اس کشمیری نمدے کا ٹکڑا بچھائے جس پر اللہ دی کو بٹھال کر وہ ہمارے گھر سے نکلے تھے، خانساماں جی ہاتھ پھیلائے اللہ۔ اللہ۔ اللہ۔ کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے تام چینی کی میلی رکابی خالی پڑی تھی۔
ہم لوگ میونسپل روڈ پر الگزنڈرا پلیس میں مقیم تھے۔ بے حد وسیع و عریض اور سخت رومانٹک الگزنڈرا پلیس کسی زمانے میں انگریزوں کا ریذیڈنسپل کلب تھا۔ اور اسے ہمارے ان عزیزوں نے اپنی رہائش کے لیے خرید لیا تھا۔ اس کے جالی دار دریچوں پر گلاب کی بیلیں چڑھی تھیں اور کمروں میں انگریزوں کے وقت کی تصاویر اب تک آویزاں تھیں جس وقت میں واپس پہنچی تو سامان باندھا جا چکا تھا اور چمکیلے چوبی فرش اور شاہ بلوط کی دیواروں والا عمیق بال روم ڈھنڈار سا پڑا تھا۔ صرف ملک معظم شاہ برطانیہ اور لارڈ منٹو، لارڈ ارون اور دوسرے وائسرائے گان ہند کی تصاویر وسیع آتش دان کے اوپر حسب معمول سکون اور تمکنت کے ساتھ مسکرا رہی تھیں۔
اس شام ہم کسی وجہ سے روانہ نہ ہو سکے۔ رات کو گھر والے کوٹھی کی اونچی نیچی سرخ چھتوں پر بندوقیں لیے ٹہلتے رہے۔ چاروں طرف اندھیرے باغ میں اونچے اونچے درخت سرسرایا کیے اور سامنے مسوری کی روشنیاں جھلملاتی رہیں۔ پچھلے پہر ٹوٹ کر مہینہ برسا۔ صبح ہوتے آسمان صاف تھا اور فضا میں پھلوں اور پھلوں کی مہک امنڈ رہی تھی۔ ناشتے کے بعد میں کچھ ضروری چیزیں لینے کے لیے اپنے گھر ’’آشیانے‘‘ گئی جس میں چند روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے تین شرنارتھی خاندانوں کو ٹھہرا دیا تھا۔ ان کنبوں کے بیشتر افراد مارے گئے تھے اور ایک بھی جوان لڑکی اْن کے ساتھ نہیں تھیں۔
میں لیچیوں کے نیچے سے گذرتی گھر کے عقب میں پہنچی اور جلا وطنی، تباہ حالی اور اس بد قسمت ملک کے بھیانک المیے کی تصویر پہلی مرتبہ اچانک میری آنکھوں کے سامنے آ گئی۔۔۔
پچھلے برآمدوں میں پوٹلیاں بکھری پڑی تھیں۔ ایک عورت سر پر پٹی باندھے کھاٹ پر لیٹی کراہ رہی تھی۔ کچھ عورتیں انگیٹھیاں سلگا کر ناشتہ تیار کر رہی تھیں۔ اور مرد گھاس پر کھاٹ بچھائے بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ ایک بوڑھا سردار ایک برآمدے کے در میں نماز کے پرانے تخت پر بیٹھا چپ جی صاحب کا پاٹھ کر رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر ان بوڑھوں میں سے ایک سے کہا کہ میں باکس روم کھولنا چاہتی ہوں۔ اس نے مجھے غورسے دیکھا۔ ’’مالک مکان ہو
آپ۔۔۔۔؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘
’’مسلمان۔۔۔‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ دفعتاً میں نے نظریں اٹھائیں اور خود کو سات آٹھ جغادری سرداروں کے گھیرے میں پایا۔ عورتیں بھی اپنے اپنے کام چھوڑ کر میرے گرد جمع ہو گئیں۔
وہ سب بالکل چپ تھے۔ اتنے میں سرداروں میں سے ایک کی گونجتی ہوئی آواز بلند ہوئی۔۔۔۔ ’’اگر ہم چاہیں تو تم یہاں سے زندہ واپس نہیں جا سکتیں۔‘‘ یہ اس قدر اچانک تھا کہ ایک لمحے کے لیے میری سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ میں اپنے گھر کے آنگن میں کھڑی تھی۔ اور یہ جلا وطن پردیسی جن کے گھر آنگن ان سے چھن گئے تھے، جن کی جوان بیٹیاں اور بہوئیں لاپتہ تھیں، اس پرانے، با وقار ’’آشیانے‘‘ کے زخمی اور آشفتہ حال نئے مکین تھے۔
یک لخت میرے ذہن میں ایک خیال کوندا۔۔۔۔ ہر لمحہ ساری کائنات کی تاریخ کا نچوڑ ہے۔۔۔۔ ہر لمحہ ہمارے ملک کی ساری تاریخ کا نچوڑ ہے۔ اور قومی اتہاس کے اس خوف ناک موڑ پر پہنچ کر میں اور یہ میرے ہم وطن۔ اس صورت میں ایک دوسرے کے سامنے موجود ہیں کہ ہمارے درمیان موت اور خون کی تاریک گھاٹیاں سنسنا رہی ہیں، اس وقت مجھ میں نجانے کہاں سے ہمت آ گئی۔
میں نے سر اٹھا کر بوڑھے سرداروں کو دیکھا اور کہا۔۔۔۔ ’’اگر مجھے مار کر آپ کے دلوں کو شانتی مل جائے تو ضرور مار ڈالیے۔۔۔۔‘‘
چند لمحوں تک مکمل سنّاٹا طاری رہا جس میں قریب کھڑا چمپا کا درخت سرسرایا کیا۔ اوپر آسمان بے حد شفاف اور نیلا تھا۔
دفعتاً ایک بوڑھا سردار آگے بڑھا۔ اور اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس نفسیاتی لمحے میں یک بیک فضا بدل گئی۔۔۔۔ ’
’آؤ۔۔۔ بیٹھو۔۔۔۔‘‘ اس نے نرمی سے کہا۔ ایک عورت نے فوراً پلنگ پر کھیس بچھایا۔ دوسری لسّی کا گلاس لے کر آ گئی۔ ایک بچے نے ذرا شرماتے ہوئے نزدیک آ کر لیمن ڈراپ پیش کیے۔ کھاٹ پر بیٹھ کر ایک ہاتھ میں لیمن ڈراپ اوردوسرے میں لسّی کا گلاس تھام کے میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
جب میں الگزنڈا پلیس واپس پہنچی تو اسٹیشن جانے کے لیے موٹریں تیار کھڑی تھیں۔ فوجی عزیز کی بیوی نے مجھے فوراً آواز دی کہ ان کے ساتھ چل کر صوفیہ کو بیلی لاج سے لے آؤں۔ راستے میں فوجی عزیز نے تازہ ترین خبریں سنائیں۔ فسادات میں مارے جانے والوں کی تازہ ترین تعداد نئی سرحدوں کی حد بندی۔ کراچی سے نواب زادہ لیاقت علی خاں کا تازہ بیان۔
’’مگر شکر ہے۔۔۔۔ ’’فوجی عزیز نے کہا‘‘۔ کہ ہم لوگ جلد از جلد خیریت کے ساتھ یہاں سے نکل جائیں گے۔
’’ایک بات بتائیے۔ میں نے دفعتاً ان سے پوچھا۔ ’’آنکھوں والوں کی سیاست میں اندھوں کی کوئی جگہ ہے؟‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔۔؟‘‘
’’مطلب یہ کہ فوج، تہذیب، زبان، خاندانوں اور دلوں کا بٹوارہ تو ہو گیا لیکن ہندوستان اور پاکستان کی گلیوں میں بھیک مانگتے اندھوں، اپاہج فقیروں اور لاچاروں کی تقسیم کسی نے نہیں کی۔۔۔۔؟ مگر یہ کہ آج ہم سب اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔’’
’’تم ہمیشہ بے تکی بات کرتی ہو۔۔۔۔‘‘ آج ہم سب اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ میں نے لرز کر دہرایا اور اپنی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا۔
لیکن یک لخت ’’فادر ٹائم‘‘ کا ہم شکل لہراتی لمبی سفید داڑھی والا بوڑھا سردار میری آنکھوں کے سامنے آن کھڑا ہوا۔
’’مجھے ذرا آشیانے پر اتار دیجئے گا۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں۔۔۔۔؟‘‘ فوجی عزیز نے کار روک کر پوچھا۔
’’کاہے جان کے پیچھے پڑی ہو۔ نابھے کے سکھ حملہ کرنے والے ہیں۔ مارے جائیں گے ہم سب۔‘‘ ان کی بیوی نے سراسیمہ ہو کر کہا۔
’’بھابھی جان۔ میں ذرا چند بے حد خونخوار سکھوں سے ملاقات کر آؤں۔‘‘
میں نے جلدی سے کار سے اتر کر آشیانے کی طرف بھاگتے ہوئے جواب دیا۔ اور تیزی سے باڑ پھلانگ کر اپنے باغ میں داخل ہو گئی۔ اندر پہنچ کر میں نے ان بوڑھے سردار کو ڈھونڈ نکالا جو اسی طرح پچھلے برآمدے میں میری والدہ کے نماز کے تخت پر بیٹھے چپ چاپ باغ کے درختوں کو تک رہے تھے۔
میں نے جلدی جلدی ان سے کہا۔۔۔۔ ’’مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ یہ ہمارا گھر اب آپ کا ہے اس لیے آپ کی اجازت چاہئے۔‘‘
’’یہ گھر۔۔۔۔ نہ میرا ہے نہ تیرا۔۔۔۔ بیٹی۔ یہ تو رین بسیرا ہے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔
’’میرے ایک بزرگ ہیں۔ وہ پہلے یہیں رہتے تھے۔ ’’میں نے دور شاگرد پیشے کی سمت اشارہ کیا۔
’’اب وہ اندھے ہو گئے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں۔ اگر وہ اس شاگرد پیشے کے کسی کونے کھدرے میں پڑ رہیں اور آپ کے یہاں سے انہیں دو وقت کی روٹی مل جائے۔‘‘
بوڑھے سرادر نے بڑے رو مال سے چہرہ صاف کیا اور کہا۔۔۔۔
’’بے شک۔ بے شک ہمارے پاس جو کچھ کھانے کو ہے حاضر ہے۔‘‘
میں فوراً الگزنڈرا پلیس واپس بھاگی۔ فوجی عزیز اسی وقت لوٹے تھے اور مہاجروں کی دوسری کھیپ لانے پھر بیلی لاج جا رہے تھے۔
میں جلدی سے کار میں بیٹھ گئی۔ اب ٹرین کا وقت قریب آ چکا تھا۔ بیلی لاج سے لوگوں کو لینے کے بعد کرن پور کے سامنے پہنچ کر میں نے فوجی عزیز سے پھر کہا کہ کار روک لیں۔
’’اب کس سے ملنا ہے؟‘‘ انہوں نے جھنجھلا کر پوچھا۔
’’ایک بڑے آدمی سے جو کل سے میرے منتظر ہیں اور مجھے ان کو ایک دوسرے بڑے آدمی کے پاس پہچانا ہے۔‘‘
’’کون بڑا آدمی بھئی۔۔۔۔؟ سر رگھو ناتھ کو تو ہم کل ہی خدا حافظ کہہ آئے۔ رہے نواب صاحب بہرام پور اور ہزہائی نس۔۔۔۔ ڈیم۔۔۔۔‘‘
انہوں نے زور سے بریک لگائی کیونکہ ایک گائے کار کے سامنے آئی تھی۔ میں دروازہ کھول کر تیر کی طرح نہر کے کنارے پہنچی۔ لیکن بارش میں بھیگا نیلا پتھر خالی پڑا تھا۔ کشمیری نمدے کا ٹکڑا کیچڑ میں لت پت ایک طرف کو بہہ گیا تھا اور تام چینی کی شکستہ میلی رکابی مٹی پر اوندھی پڑی تھی۔
’’کیا ہوا۔۔۔۔؟‘‘ فوجی عزیز کار قریب لائے۔ ’’کچھ نہیں۔۔۔۔ چلیے۔‘‘
میں نے آہستہ سے جواب دیا اور آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔ کار فرّاٹے سے ریلوے اسٹیشن روانہ ہو گئی۔
٭٭٭
بڑے آدمی
ڈپٹی صاحب کی کوٹھی کے آنگن میں ذکیہ بیگم نواڑی پلنگ پر بیٹھی دلہن کے دوپٹے پر لچکا ٹانکنے میں مصروف تھیں۔ جب ماما نے انہیں آواز دی تو وہ جلدی سے تِلے دانی لپیٹ کر باورچی خانے کی طرف لپکیں۔
ڈپٹی صاحب کے گھر کی بیبیاں دعوت کا سارا انتظام ذکیہ بیگم کے سپرد کر کے مزے سے برآمدے میں چاندنی کے فرش پر بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ ’’اے ذکیہ، بیٹا ذرا آکے بھیا کو چپ کرا جاؤ۔‘‘ چبوترے پر سے چھوٹی بھاوج نے آواز دی۔ ’’تم سے اتنا ہل گیا ہے بھیا، مجھ سے تو چپ ہی نہیں ہوتا۔‘‘
’’ذکیہ چند منٹ بعد باورچی خانے سے نکل کر چبوترے پر پہنچیں کھری پلنگڑی پر ٹک کر بچے کو گھٹنوں پر بٹھایا اور بہلانا شروع کیا۔
’’آغوں غوٹے، ماموں موٹے ممانی کھوٹی‘‘
بچہ روتے روتے فوراً چپ ہو گیا اور پٹ بیجنے کی مانند آنکھیں جھپکا کر ذکیہ کے خوب صورت چہرے کو تکنے لگا۔
’’اللہ ذکیہ جس گھر میں جائے گی اجالا کر دے گی۔‘‘ برآمدے میں بیٹھی ایک مہمان بی بی نے ڈپٹی صاحب کی بڑی بہو سے کہا۔
’’کہیں بات لگی ہے؟‘‘ دوسری بی بی نے قریب کھسک کر بڑی سنجیدگی کے ساتھ رازدارانہ لہجہ میں دریافت کیا۔
’’اے بٹیا بنٹ ٹانک دی۔؟ دور سے ڈپٹیائن نے آواز لگائی۔
’’ٹانک دی۔‘‘ آغوں غوٹے، ماموں موٹے۔
ذکیہ نے چبوترے پر بڑی محویت کے ساتھ اپنا وظیفہ جاری رکھا۔
’’اے کہاں بہن‘‘۔ برآمدے میں ڈپٹی صاحب کی ساس نے ناک کی پھننگ پر عینک رکھ کر چہرہ اونچا کرتے ہوئے مہمان بیوی کو جواب دیا
’’آج کل لڑکے جہیز میں موٹریں مانگ رہے ہیں۔ وکیل صاحب دکھیا کے پاس کیا رکھا ہے۔ اور تعلیم بھی کچھ نہیں، آج کل تو بی آئی ایم کی مانگ ہے۔‘‘
اتنے میں ذکیہ بچے کو چھوٹی بھاوج کے حوالے کر کے دوپٹہ سر پر ڈالتی برآمدے میں آئیں تو لڑکیوں بالیوں نے انھیں گھیر لیا۔
‘‘اللہ ذکو بجیا ہمارا بلاؤز تراش دیجئے۔‘‘
’’بھئی ذکیہ تم بڑی بے مروت ہو وعدہ کیا تھا ہمارے لیے لیس بن دو گی، بگھارے بینگن نہ لائیں ہمارے لیے۔‘‘
ذکیہ ہنس ہنس کر یا جھلا کر سب کو جواب دیتی رہیں کہ ابھی بہت کام پڑا ہے، فرصت ملی تو تمہارا کام بھی کر دوں گی۔‘‘
پھر انھوں نے ڈپٹیائن سے کہا ’’اللہ ڈپٹیائن چچی، ہمیں گودام کی کنجی دے دیجئے تو چاول تلوا لیں‘‘۔
ڈپٹیائن نے کنجیوں کا گچھا انھیں تھمایا اور وہ خراماں خراماں گودام کی طرف چلی گئیں۔ ڈپٹیائن سے ذکیہ بیگم کا کوئی رشتہ نہ تھا، مگر اس معاشرے میں وضع داری کی بنا ءپر سب ایک دوسرے کو کسی نہ کسی رشتے سے یاد کرتے تھے۔ ذکیہ بیگم کو یوں بھی اپنے سے اونچے رتبے والوں سے رشتے جوڑنے کا خاصا شوق تھا۔ اور ڈپٹیائن ایک تعلقہ دار کی بیٹی تھی۔
ویسے بھی ڈپٹی صاحب کے گھرانے کے علاوہ شہر کے دوسرے بہت سے کنبوں میں ذکیہ اپنے سگھڑاپے اور ملنساری کی وجہ سے بہت مقبول تھیں، ہر تقریب یا دعوت کا انتظام وہ منٹوں میں سنبھال لیتیں۔ عقیقے، بسم اللہ، گیارہویں شریف، بیاہ برات بارہ مہینے ان کی جان کے ساتھ کچھ نہ کچھ لگا ہی رہتا۔
بات اصل میں یہ تھی کہ ذکیہ کا جی اپنے گھر میں کبھی نہ لگا۔ اس نگوڑے ڈھنڈار مکان کے برآمدوں تک میں گھاس اْگ آئی تھی، کمروں کے اینٹوں کے فرش کو دریاں تک نہ جڑی تھیں، قالین تو چھوڑیئے۔ بیٹھک میں وکیل صاحب کبھی کبھار آ بھٹکنے والے مؤکلوں کے انتظار میں پڑے حقہ گڑگڑایا کرتے، اندر اماں گاؤں سے آئی ہوئی دقیانوسی رشتے دار بڑھیوں سے سرکھپاتیں۔ باتیں کیا ہوتی تھیں وہی گاؤں کے پھٹیچر قصے کہ مسیتا چچا کو تیرہ تیزی کے مہینے میں کھنڈسال سے اتنا نفع ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ مولوی شبن کا لڑکا تھا نا؟ وہ بمبئی بھاگ گیا اور میراں جی اور شاہ مدار کے مہینوں میں چھبن کی بہو پر ادبدا کے شیخ سدّو سوار ہو جاتے ہیں۔
ان لوگوں کو انگریزی مہینوں کے نام تک تو نہیں آتے تھے اور اماں کا یہ حال تھا کہ ان کے نزدیک بائیسکوپ کی موٹی تصویریں جادو کے زور سے بولتی تھیں۔ وکیل صاحب کانگریس اور خلافت کے چکر میں برسوں جیل میں رہے۔ رہائی کے بعد پریکٹس جمی نہیں۔ دمے کے مریض تھے۔ گاؤں سے تھوڑا بہت غلہ آ جاتا تھا۔ سستا زمانہ تھا، سفید پوشی سے گزر ہو رہی تھی۔
ذکیہ بیگم کے لیے حسب حیثیت جہیز تیار ہو چکا تھا۔ وہ اکلوتی لڑکی تھی۔ کسی شریف غریب پیغام کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ اونچے طبقے کے لڑکے بھلا اس کھنڈر مکان کا رخ کیوں کرنے لگے۔ وکیل صاحب بے چارے نے ذکیہ کو اسکول میں پڑھوایا۔ وہ پیدائشی سلیقہ مند تھیں۔ کروشیا، کشیدہ کاری، سلائی، کھانا پکانا، ہر چیز میں طاق تھیں، پڑھنے میں البتہ جی نہ لگتا، اس لیے آٹھویں کے بعد گھر بیٹھ گئیں۔
ڈپٹی صاحب کی کوٹھی پڑوس میں تھی۔ زیادہ تر وہیں رہتیں، قبول صورت اور نیک دل لڑکی تھیں۔ نماز، روزے کی پابند۔ ناول پڑھنے کی چاٹ انھیں ڈپٹی صاحب کے گھر ہی پڑی۔ پردہ کلب لائبریری کے سارے رومانی ناول گھول کر پی گئیں۔ اکثر خود کو کسی محل میں رہنے والی ہیروئن تصور کرتیں اور طرح طرح کے سہانے خواب اپنے مستقبل کے متعلق دیکھا کرتیں۔ شام کے وقت اپنی شکستہ کوٹھی کی ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ناول پڑھتے پڑھتے جانے کہاں کہاں پہنچ جاتیں۔ اتنے میں کسی موکل کا یکہ ٹخ ٹخ کرتاسامنے آ کر رکتا اور سارا طلسم ٹوٹ جاتا۔
چونکہ بہت معصوم تھیں، اس لیے اتنے ناول اور افسانے پڑھ لینے کے باوجود انھیں خود رومان لڑانے کی کبھی نہ سوجھی، مگر جب ان کی سہیلیاں اپنے رشتے کے بھائیوں سے درپردہ رومان لڑاتیں تو ذکیہ ان کی ہمدرد اور ناصح بنتیں، ان کے معاشقوں کی کامیابی کی دعاء مانگتیں اور ناکامی کی صورت میں آنسو بہاتیں۔
چاول تلوا کر ذکیہ جب گودام سے نکلیں تو ایک دم غل مچا
’’لیڈی صاحب آ گئیں۔ لیڈی صاحب آ گئیں۔‘‘ ڈپٹیائن پائنچے سنبھالتی ان کے استقبال کے لیے باہر لپکیں۔ باہر ایک طویل موٹر میں سے تین بے پردہ بیبیاں اتریں، دو ترشے ہوئے بالوں والی لڑکیاں تھیں، ایک ان کی اماں تھیں۔ سب بڑی تمکنت سے آ کر پچھلے برآمدے میں مسند پر بیٹھ گئیں۔
افراتفری میں چھوٹی بھاوج نے ذکیہ کو ان لوگوں سے ملوایا تک نہیں مگر کھانے کے بعد آفتابہ اٹھا کر مہمانوں کے ہاتھ دھلاتے وقت ذکیہ نے خود ہی لڑکیوں سے بات چیت شروع کر دی۔ یہ دونوں گلنار اور یاسمین سر اعجاز اور لیڈی احمد کی لڑکیاں تھیں۔ سر اعجاز حال ہی میں اس شہر میں آ کر رہے تھے۔ ہم عمر لڑکیوں میں پل کے پل میں دوستی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ذکیہ اور گلنار اور یاسمین میں بھی فوراً بہناپا قائم ہو گیا۔
لیڈی صاحب نے ذکیہ کو آئندہ ہفتے اپنے یہاں میلاد شریف کے لیے مدعو بھی کر ڈالا۔
گھر لوٹ کر ذکیہ نے بے حد مسرت کے ساتھ وکیل صاحب کو بتایا کہ ’’انھیں سر اعجاز احمد کے یہاں مدعو کیا گیا ہے اور سر اعجاز بہت بڑے آدمی ہیں۔‘‘
’’انگریز کے پٹھو ہیں!‘‘ وکیل صاحب نے مختصراً کہا اور خلال کرنے میں مشغول رہے۔ لیکن اماں دل میں بہت خوش ہوئیں کہ بڑے گھرانے سے ملاقات ہو گئی۔ شاید اسی وسیلے سے کہیں اچھا رشتہ لگ جائے۔
بہت جلد ذکیہ لیڈی اعجاز کے گھرانے میں بھی رل مل گئیں۔ ہفتے میں ایک آدھ بار تو ضرور ہی ان کے وہاں پھیر لگا آتیں۔ ایک روزڈپٹی صاحب کی بہو نے طعنہ دیا ’’بڑے آدمیوں سے دوستی ہو گئی ہے۔ شاید اسی لیے اب ہمارے یہاں نہیں آتیں ذکیہ۔‘‘
’’نہیں یہ بات نہیں، توبہ کرو بھابی۔‘‘ ذکیہ نے شرمندہ ہو کر کہا۔ مگر واقعہ یہی تھا کہ ڈپٹیائن کے گھر کے فرسودہ ماحول کے مقابلے میں قصر اعجاز کی رومینٹک فضاؤں میں ذکیہ کا جی بہت زیادہ لگتا تھا، سر اعجاز کا اکلوتا لڑکا ولایت سے میم لے آیا تھا اور کسی دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ گلنار اور یاسمین سینئر کیمبرج کرنے کے بعد اب شادی کے انتظار میں گھر پر بیٹھی تھیں اور ’’میوزک اینڈ پینٹنگ‘‘ سے شغف کر رہی تھیں اور انگریزوں والے کلب جا کر بیڈ منٹن کھیلتی تھیں۔ وہ دونوں بہت ہی معمولی شکل کی لڑکیاں تھیں، گلنار بھدی تھی اور یاسمین کے داہنے پاؤں میں خفیف سا لنگ تھا۔ اسی وجہ سے باپ کی بے اندازہ دولت اور بڑے نام کے باوجود رشتے نہیں آ رہے تھے۔
گلنار اور یاسمین کے لیے ذکیہ بیگم اپنے سلیقے کی وجہ سے بڑی کارآمد سہیلی ثابت ہوئیں۔ وہ ان کے کپڑے سیتیں، ان کے دوپٹے نہایت نفاست سے چنتیں، ان کی پارٹیوں کا انتظام کرتیں اور لیڈی صاحب کے اصرار پر رات کو بھی اکثر وہیں ٹھہر جاتیں۔ چونکہ ان کے گھر میں کوئی جوان مرد نہ تھا، اور سر اعجاز بزرگ آدمی تھے اس لیے وکیل صاحب نے بھی ذکیہ کے قصر اعجاز میں راتیں گزارنے پر کوئی اعتراض نہ کیا۔
قصر اعجاز کا ماحول بے حد ناولانہ تھا۔ اس لیے ذکیہ خود کو اب باقاعدہ ایک رومانی کردار سمجھنے لگی تھیں۔ اب وہ گلنار اور یاسمین کی طرح سر اعجاز اور لیڈی صاحب کو ڈیڈی اور ممی کہتیں اور لیڈی اعجاز بھی ان سے بڑی محبت کا سلوک کرتی تھیں۔
وہ اکثر کہتیں ’’مجھ کو تو خدا نے ایک پلی پلائی سگھڑ بیٹی دے دی، میری لڑکیاں تو دونوں بالکل نکمی ہیں۔‘‘ ذکیہ یہ سن کر باغ باغ ہو جاتیں مگر بڑی صدق دلی سے گلنار اور یاسمین کی طرف داری کرنے لگتیں۔
ایک شام کو ذکیہ حسب معمول سائیکل رکشہ پر پردہ بندھوا کر قصر اعجاز گئیں تو معلوم ہوا کہ لیڈی صاحب اور دونوں لڑکیاں کلب جا چکی ہیں، سر اعجاز وائسرائے سے ملنے دہلی گئے ہوئے تھے۔ ذکیہ اطمینان سے باغ میں ٹہلتی رہیں کہ اتنے میں ایک کار آ کر رکی اور ایک بڑا خوب صورت نوجوان نیچے اترا۔
ذکیہ ڈوبتے سورج کی روشنی میں گلاب کی کیاری کے پاس کھڑی بہت دل کش معلوم ہو رہی تھیں۔ نووارد ان کو دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ پھر چند لحظوں بعد کھنکار کر ذرا گھبراتے ہوئے اس نے کہا ’’معاف کیجئے گا۔ سر اعجاز تشریف رکھتے ہیں؟
ذکیہ نے چونک کر نوجوان کو دیکھا اور بڑی سادگی اور اخلاق سے جواب دیا،
’’جی نہیں۔ ڈیڈی تو دلی گئے ہوئے ہیں۔ ممی ابھی کلب سے آتی ہی ہوں گی، تشریف رکھئے۔‘‘ نوجوان جس کا نام ظفر احمد تھا، ان کو تکتے تکتے جھینپ کر گھاس پر بچھی کرسی پر دھم سے بیٹھ گیا۔
’’چائے پیجئے گا یا شربت؟‘‘ ذکیہ نے پوچھا۔
وہ فوراً اندر گئیں اور چند منٹ بعد چاندی کی ٹرے پر شربت کا گلاس رکھ کر باہر لائیں اور بڑی شائستگی سے گلاس مہمان کو پیش کیا۔
کیا سادگی اور معصومیت ہے۔ ظفر احمد نے کھڑے ہو کر گلاس ہاتھ میں لیتے ہوئے سوچا۔ ’’اتنے بڑے آدمی کی لڑکی، اور بیرے کو آواز دینے کی بجائے خود شربت لے کر آ گئی۔ کمال ہے۔‘‘
’’آپ یہیں کالج میں پڑھتی ہیں؟‘‘ ظفر احمد نے دریافت کیا۔
’’جی نہیں۔‘‘ ذکیہ نے دوسری کرسی پر ٹکتے ہوئے جواب دیا
’’میرا دل‘‘ انھوں نے ذرا جھینپ کر کہا ’’خانہ داری میں زیادہ لگتا ہے۔‘‘
اچانک انھیں احساس ہوا کہ وہ ایک اجنبی نوجوان سے اس قدر بے تکلفی سے باتیں کر رہی ہیں۔ گلاب کی کلی کی طرح سرخ ہو کر انھوں نے گلاب کی ایک پنکھڑی توڑی۔ چند لمحوں تک بڑی گمبھیر خاموشی چھائی رہی، جس میں باغ کے درخت اور پھول شام کی ہوا میں سرسرایا کیے۔ ظفر احمد بھی بہت گھبرائے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔
شربت ختم کر کے وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور گھڑی دیکھ کر بولے، اب اجازت دیجئے۔ دل تو بہت چاہ رہا ہے کہ کچھ دیر یہاں بیٹھوں مگر مجھے رات کی ٹرین پکڑنا ہے۔ لیڈی صاحبہ نہ جانے کس وقت یہاں آئیں گی، میری ان سے پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، میں در اصل اس شہر میں آج ہی آیا ہوں، آپ کے ڈیڈی سے ایک ضروری کام تھا، میں ان سے بھی پہلے کبھی نہیں ملا ہوں۔ افسوس ہے کہ آج بھی ملاقات نہ ہو سکی۔
’’ممی تو بلڈ پریشر کی وجہ سے کہیں آتی جاتی نہیں ہیں، مگر آج گلنار اور یاسمین کا بیڈ منٹن میچ تھا اس لیے چلی گئیں۔
’’گلنار اور یاسمین کون ہیں؟ آپ کی چھوٹی بہنیں؟‘‘
’’جی۔ جی۔‘‘ ذکیہ نے ایک دم بے حد سراسیمہ ہو کر کہا۔
کیونکہ ظفر احمد ان کی کرسی کے بالکل قریب آ کر بے حد دل چسپی اور جذبے کے ساتھ ان کو دیکھ رہے تھے۔
ذکیہ بھی اٹھ کھڑی ہوئیں اور دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھ کر پھاٹک کی طرف نظریں گھما دیں۔
’’اب مجھے واقعی چل دینا چاہئے‘‘۔ ظفر احمد نے گہری آواز میں کہا ’’اچھا آداب عرض۔‘‘
’’اللہ حافظ۔‘‘ ذکیہ نے سادگی سے جواب دیا۔ ظفر احمد کا دل اس ادا پر شدت سے دھڑک اٹھا۔ اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے کار کی طرف چلے گئے۔ چند لحظوں بعد کار پھاٹک سے باہر نکل گئی۔
ظفر احمد الٰہ آباد کے ایک متوسط گھرانے کے چشم و چراغ تھے، لندن میں ڈاکٹری پڑھ رہے تھے اور شادی کے ارادے سے وطن واپس آئے تھے۔ مگر سر اعجاز کے یہاں وہ شادی کے ارادے سے نہیں آئے تھے۔ وہ کسی اونچے گھرانے کی فیشن ایبل لڑکی سے بیاہ کرنا ہرگز نہیں چاہتے تھے۔ برسوں لندن میں رہنے کے بعد بھی وہ ایک ٹھیٹھ ہندوستانی لڑکی کو شریک حیات بنانے کے خواہاں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی سیدھی سادی اور غریب گھرانے کی لڑکی کو بیاہ کر اپنے ساتھ لندن لے جائیں۔ مگر اس وقت ذکیہ کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کہ ایسی بھولی بھالی اور نیک طبیعت لڑکیاں بھی اس اونچے اور فیشن ایبل طبقے میں موجود ہیں تو اگر ڈھیر ساری دولت بھی مل جائے تو کیا حرج ہے۔؟
کوئی دس روز کے بعد الٰہ آباد سے ظفر احمد کی والدہ کا خط لیڈی اعجاز کے پاس آیا۔ اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف کرانے کے بعد انھوں نے لکھا تھا۔ ’’آپ کے دولت خانے پر آپ کی بڑی صاحبزادی سے میرے لڑکے نور چشمی ظفر احمد سلمہ کی اتفاقیہ ملاقات ہو گئی۔ بہن صاحبہ، آپ جانتی ہی ہوں گی کہ آج کل کے لڑکے نئی وضع کی لڑکیوں کے ذکر ہی پر کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں۔ مگر آپ کی صاحبزادی بلند اقبال کے حسن صورت و سیرت سے عزیزی ظفر احمد بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ یہ یقیناً آپ کی اور سر اعجاز کی دی ہوئی اعلیٰ تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے کہ آپ کی بیٹی آج کل کی ماڈرن لڑکی معلوم ہی نہیں ہوتی۔ وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں لکھا تھا کہ ظفر احمد سلمہ شادی جلد از جلد کر کے اس مہینہ کے آخر میں اللہ رکھے دلہن کے ساتھ واپس ولایت جانا چاہتے ہیں۔
لیڈی اعجاز یہ خط پڑھ کر ہکا بکا رہ گئیں۔ خط میں جس تاریخ کا ذکر تھا، اس کو تو گلنار اور یاسمین گھر پر ہی نہیں تھیں اور حسن صورت و سیرت؟ یا مظہر العجائب!
ٹھیک اس وقت لیڈی صاحبہ نے دیکھا کہ ذکیہ بی بی گلنار کا سوئیٹر بنتی خراماں خراماں سامنے سے چلی آ رہی ہیں،
لیڈی صاحبہ نے ہڑبڑا کر پوچھا۔ بیٹا، جس روز گلنار اور یاسمین کا کلب میں میچ تھا، تم یہاں کس سے ملی تھیں؟‘‘
’’کوئی ظفر احمد صاحب تھے ممی۔ میں نے آپ کو بتایا تو تھا کہ ڈیڈی سے ملنے کوئی صاحب آئے تھے۔ میں نے ان کو شربت لا کر دے دیا تھا چائے کے لیے وہ مانے ہی نہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ لیڈی اعجاز کی سمجھ میں ساری بات آ گئی۔
پیغام فی الفور منظور کر لیا گیا۔ اور گلنار مایوں بٹھا دی گئی۔ اگلے ہفتے جب دولہا والیاں الٰہ آباد سے چل کر آئیں تو ان سے کہہ دیا گیا کہ ہمارے یہاں نکاح سے پہلے لڑکی دولہا کی ماں بہنوں تک کو نہیں دکھائی جاتی۔ ظفر احمد کی والدہ اتنے اونچے گھرانے میں بیٹے کا رشتہ ہو جانے سے اس قدر خوش تھیں کہ انھوں نے لڑکی دیکھنے پر مطلق اصرار نہ کیا۔ سر اعجاز ایک نہایت شریف اور راست باز انسان تھے اس لیے لیڈی صاحبہ نے ان کو یہ بالکل نہیں بتایا کہ ظفر احمد سلمہ در اصل بے چاری خستہ حال ذکیہ پر عاشق ہوئے تھے۔ بیاہ کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی۔ ذکیہ بیگم جی جان سے انتظامات میں جٹ گئیں۔ اس قدر دھوم دھام کی شادی تھی کہ بس دیکھا ہی کیجئے۔
ذکیہ نے اپنی اماں کو بھی پہنا اڑھا کر لا کے پچھلے دالان میں ایک طرف بٹھا دیا تھا اور پانوں کا انچارج انھیں بنا دیا گیا۔ وہ بے چاری بڑے گھر کی اس شادی سے مرعوب اور متحیر تخت پر بیٹھی مشین کی طرح گلوریوں پر گلوریاں بناتی رہیں۔ بیاہ کے روز ذکیہ ملازموں پر چیختی چلاتی پھر رہی تھیں کہ برات آ گئی اور کچھ دیر بعد زنان خانے میں شور مچا دولہا آ گیا۔ دولہا آ گیا۔ ہائے کتنا شان دار ہے۔ بالکل شہ زادہ!‘‘
مہمان لڑکیوں میں کھسر پھسر شروع ہوئی، ’’گلنار کی صورت دیکھو اور یہ دولہا!‘‘
بلکہ ڈپٹیائن کی منھ پھٹ بہو نے تو چپکے سے اپنی نند سے یہ تک کہا ’’عجب تری قدرت عجب ترے کھیل! دوسرا مصرع کیا ہے بجیا؟ مجھے یاد نہیں آ رہا! اور ڈپٹیائن کی لڑکی نے ہونٹ پچکا کر مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اللہ بھائی اب چپ رہو۔‘‘
’’اے آر سی مصحف کس وقت ہو گا؟ ڈپٹی صاحب کی ساس نے سامنے سے گزرتی ہوئی ذکیہ سے دریافت کیا جو پھولوں کی ٹوکری اٹھائے دلہن کے کمرے کی طرف بھاگی جا رہی تھیں۔
’’گلنار بے چاری کے سر میں سخت درد ہے۔ خالہ جان۔ ممی نے کہہ دیا ہے کہ آرسی مصحف نہیں ہو گا۔ وہ بیٹھ تک تو سکتی نہیں غریب۔ سر منھ لپیٹے پڑی ہے۔‘‘
ذکیہ نے جلدی جلدی جواب دیا اور جھپاک سے اندر چلی گئیں۔ لیکن ذکیہ کو دولہا بھائی کا جوتا چرانے کا بڑا ارمان تھا۔ سمدھیانے والوں کے اصرار پر دلہن کو اس کی ایک لیڈی ڈاکٹر دوست اور دوسری سہیلیاں سہارا دے کر ہال میں لائیں اور مسند پر بٹھا دیا۔ اس کا چہرا تو بھاری سہرے میں چھپا ہوا تھا۔ گٹھری سی بن کر وہ گاؤ تکیے کے سہارے لیٹ رہی۔ ارد گرد عورتوں اور بچوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ شگون کے لیے آئینہ اور قرآن شریف بھی لا کر پاس رکھ دیا گیا۔
پھر دوبارہ غل مچا اور ظفر احمد کا چہرہ تمتما رہا تھا سہرے میں چھپے وقار سے چلتے اندر آ کر مسند پر بیٹھے اور آہستہ سے کہا ’’اگر آپ کی طبیعت خراب ہے تو آپ اس ہنگامے میں آ کر کیوں بیٹھ گئیں؟ آپ بھی حد کرتی ہیں جائیے جا کر لیٹ رہئے۔‘‘
دلہن یہ سن کر اور زیادہ دہری ہو گئی۔
اتنے میں یاسمین اور دوسری لڑکیاں جوتا چرانے کے لیے لپکیں۔ چند منٹ پہلے ذکیہ کو باورچی خانے میں اطلاع پہنچی تھی کہ دولہا اندر آنے والا ہے، اور وہ فوراً ہال کی سمت روانہ ہونے والی ہی تھیں مگر عین ہی وقت لیڈی اعجاز ان کے پاس پہنچیں اور ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی ان کو زینے پر لے گئیں۔
’’بٹیا کیا غضب کرتی ہو؟ تم یہاں باورچی خانے میں گھسی بیٹھی ہو اور اوپر جہیز کا سامان کھلا پڑا ہے۔ سب کی سب اتر کر دولہا کو دیکھنے چلی گئیں۔ تم فوراً جاؤ اوپر۔ ایک منٹ کو وہاں سے نہ ہلنا۔ تمہاری ذمہ داری ہے۔ غضب خدا کا، بہن کے ہزاروں روپے کے زیور کھلے پڑے ہیں اور تم یوں بے پروا گھوم رہی ہو۔‘‘
’’ابھی جاتی ہوں ممی۔‘‘ ذکیہ نے جواب دیا اور جوتا چرانے کا ارمان دل میں لیے لیے اوپر جہیز کے کمرے میں جا کر زیورات کے شو کیس کے پاس بیٹھ گئیں جس میں تیز برقی قمقمے جل رہے تھے۔
’’واقعی ممی مجھے اپنے سگے عزیزوں سے زیادہ سمجھتی ہیں۔‘‘ انھوں نے دل میں کہا اور مہمان بیبیوں کو بیٹھی جہیز دکھاتی رہیں۔ کچھ دیر بعد رخصتی کا وقت آیا نیچے لان پر سے پولیس بینڈ کی آواز بلند ہوئی۔ ذکیہ نے کمرے کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ رشتہ داروں کے جمگھٹ میں گھرا ہوا دولہا گلنار کو سہارا دے کر کار میں بٹھا رہا تھا۔ وہ اسی طرح گٹھری بنی ہوئی تھی۔
ذکیہ کو رنج تھا کہ اس وقت نیچے جا کر اپنی پیاری سہیلی کو خدا حافظ نہ کہہ سکیں مگر یہ اطمینان بھی رہا کہ اس کھڑکی میں سے رخصتی کا سارا جگمگ کرتا نظارہ انہیں بہت اچھی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ برات دولہن کو لے کر روانہ ہو گئی۔ ذکیہ بیگم جہیز کا کمرہ لیڈی اعجاز کی خالہ کے حوالے کر کے ’’کا ہے کو بیاہی بدیس‘‘ گنگناتی خوش خوش نیچے اتریں اور رات کی دعوت کی دیکھ بھال کرنے کی غرض سے پھر باورچی خانے میں چلی گئیں۔
دوسرے دن، دستور کے مطابق لیڈی اعجاز نے گلنار کے سارے کنوار پنے کے زمانے کے کپڑے اس کی بن بیاہی سہیلی کو دے دیئے جو اس کی منہ بولی بہن تھی۔
٭٭٭
آخر شب کے ہم سفر
ڈیریسٹ دیپالی
اب تک تمہیں ساری خبریں اور افواہیں اخباروں اور لوگوں کے ذریعہ معلوم ہو گئی ہوں گی، اب میں تم کو اصل قصہ سناتی ہوں۔
سب سے پہلے تو میں معافی چاہتی ہوں۔ اگست کی اس طوفانی رات اپنی مہم پر جانے سے پہلے تمہارے گھر آ کر میں نے تمہیں بہت برا بھلا کہا تھا۔ مگر ہم سب ایک زبردست قومی کرائسس سے گزرے ہیں۔ وہ بھی بڑی بڑی قربانیاں دے کر۔ محمود دا میری آنکھوں کے سامنے گولی کا نشانہ بنے، جیوتی دا کو پولیس نے اتنا مارا کہ انھوں نے حوالات میں ہی دم توڑ دیا۔ میری موت نہ جانے کس طرح آتی مگر میں بچ نکلی۔
اس خون ریز معرکے کی تفصیل کبھی زبانی سناؤں گی، فی الحال اتنا لکھ سکتی ہوں کہ جب ہمارے ساتھیوں نے پولیس چوکی پر حملہ کیا تو میں بالکل نہتی تھی اور صرف جلوس کی قیادت کر رہی تھی، اسی وجہ سے مجھ پر کوئی فرد جرم فوجداری عائد نہ کیا جا سکا۔ جب ہمارے ساتھیوں نے تھانے پر ہتھ گولے پھینکے، پولیس نے فوراً گولی چلا دی، ہجوم پر اشک آور گیس چھوڑی، جنرل لاٹھی چارج کیا اس ہنگامہ میں چیخ پکار اشک آور گیس بارود کے دھوئیں کے بادلوں کی وجہ سے کسی کو کچھ پتہ نہ چلا کہ کیا ہو رہا ہے۔
مجھے خود پتہ نہ چلا، جب مجھے ہوش آیا تو میری بائیں ٹانگ میں سخت تکلیف تھی۔ درد سے سر پھٹا جا رہا تھا اور میں ہتھکڑی پہنے زنانہ حوالات کے فرش پر پڑی تھی۔ وہاں کوئی نہ تھا اور باہر شام ہو چکی تھی، بالکل سناٹا۔
کچھ دیر بعد کچھ سپاہی اندر آئے۔ مجھے پولیس کی لاری میں بٹھا کر جیل لے گئے اور زنانہ وارڈ میں ڈال دیا جہاں مچھر ہی مچھر تھے۔ ایک لالٹین میرے پاس رکھ دی گئی باہر کھٹ سے تالا۔
جب میں تکلیف کی وجہ سے زور زور سے کراہنے لگی تو ایک بڑھیا وارڈ کے اندر آئی اور بڑبڑاتی ہوئی پھر واپس چلی گئی۔ چند منٹ بعد جیلر آیا، اس نے میری حالت کا جائزہ لیا۔ گندہ سا اسٹریچر منگوایا، مجھے پھر پولیس کی لاری میں لادا گیا۔ دو سپاہی میرے ساتھ بیٹھے باقاعدہ بندوقیں لیے۔ لاری ہچکولے کھاتی اندھیرے شہر میں سے گزرتی ہوئی سول ہسپتال پہنچی، مجھے اتار کر زنانہ جنرل وارڈ کے ایک میلے سے لوہے کے پلنگ پر ڈال دیا گیا۔ اسی طرح ہتھکڑیوں سمیت وارڈ میں مجھے دیکھ کر ایک ہنگامہ سا ہو گیا۔ ایک بوڑھی عورت زور زور سے بین کرنے لگی۔ اس کا لڑکا بھی اندولن میں چند روز قبل شہید ہو گیا تھا۔
خیر، ڈاکٹر آیا، میری مرہم پٹی ہوئی، کھانا کھلایا گیا۔ دروازے پر سپاہی پہرے پر بیٹھ گئے۔ تین دن تک جنرل وارڈ میں رہی۔ وہاں کی سب عورتیں مجھے دیوی سمجھنے لگی تھیں، ہر وقت میرے پاس کھڑی رہتیں، اس وجہ سے حکام نے میرا پلنگ ایک خالی کمرے میں منتقل کروا دیا۔
مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ دکھ ضرور تھا کہ پاپا اور ماما پر کیا گزر رہی ہو گی۔ مگر اپنے مرنے کا مطلق کوئی رنج نہ تھا۔ خوش قسمتی سے میری ٹانگ کی ہڈی پر ضرب نہیں آئی تھی، سر میں البتہ زیادہ چوٹ آئی تھی۔ ہسپتال کے سارے ڈاکٹر بڑی توجہ سے میرا علاج کرتے رہے۔
رات کو جنرل وارڈ کی عورتیں سپاہیوں کی نظر بچا کر مجھے پھل اور مٹھائیاں دے جاتیں اور ہر طرح میری خدمت کو تیار رہتیں اور میں سوچتی، میں اس لائق نہیں ہوں کہ میری بے بس قوم کے افراد میرا اتنا خیال کر رہے ہیں۔
اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا، تب ایک دن صبح صبح کمرے میں ایک میم صاحبہ داخل ہوئیں۔ سرہانے آ کر میرے اوپر جھکیں اور آہستہ سے کہا۔ ’’روزی۔‘‘
ادھیڑ عمر کی خاتون، چھوٹا سا جوڑا باندھے بھورے رنگ کا فراک، پاؤں میں بھدے بوٹ۔ یہ مس ایلس بارلو تھیں، اور ان کے دیکھتے ہی باہر بیٹھے سپاہیوں نے انھیں فوراً اندر آنے دیا تھا۔ مس بارلو، چارلس بارلو کی بڑی بہن ہیں۔ انہوں نے نرمی سے کہا۔ میرے پاپا پریشان حال مسٹر بارلو کے پاس پہنچے تھے اور مسٹر بارلو نے فوراً پنبہ کے انگریز بڑے پادری کو ٹرنک کال کیا تھا، جن کے ہاں مس بارلو گارو ہلز سے آئی ہوئی تھیں۔ میں چپ چاپ لیٹی اس عجیب و غریب سچویشن کی تفصیل سن رہی تھی۔ مس بارلو نے اسٹول پر بیٹھ کر مجھے سمجھانا بجھانا شروع کیا۔ یسوع مسیح کے رحم و کرم کی تبلیغ کی اور کہا کہ وہ اپنی گم شدہ بھیڑوں کی واپسی کا منتظر ہے، اور یہ کہ اگر میں معافی نامہ پر دستخط کر دوں تو مجھے فوراً رہا کر دیا جائے گا اور پنبہ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سرکاری حفاظت میں ڈھاکہ پہنچا دیں گے۔ پنبہ کے ڈی ایم مسٹر پروتل سین گپتا ہیں۔
میں نے صاف انکار کر دیا۔ مس بارلو اٹھ کر چلی گئی۔ دوسرے روز صبح پھر آئیں۔ کیک، پھل، چائے کا فلاسک اٹھائے چپراسی ساتھ تھا۔
میری یہ نئی شان و شوکت دیکھ کر ہسپتال کے عملے پہرے کے سپاہی بہت مرعوب ہوئے اور ان کا رویہ بدل گیا۔ مس بارلو نے پھر اسی نرمی سے مجھے لیکچر پلانا شروع کیا۔ گویا میں کوئی ناگا قبائلی ہوں یا کچھ عقل ہی نہیں رکھتی۔
میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ وہ مایوس ہو کر چلی گئیں۔
اس رات زنانے جنرل وارڈ کی ایک مریض لڑکی بلقیس چپکے سے میرے پاس آئی۔ اس کا باپ کچہری کا معمولی اہل کار تھا۔ وہ کہنے لگی، دیدی ہم سب عورتیں برابر آپ کی صحت کی دعائیں مانگ رہی ہیں، لیکن آپ نے اگر معافی نامے پر دستخط کر دئے تو ہم سب آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔
اس وقت مجھے پہلی بار رونا آ گیا۔ میں نے اس سے کہا، بلقیس تم اطمینان رکھو میں ہرگز معافی نہ مانگوں گی۔ اسی وقت باہر پہرے کے سپاہی نے ڈنڈا بجایا اور بلقیس چپکے سے کھسک گئی۔
ایلس بارلو تیسرے روز شام کو آئیں، ایک بنگالی افسر ان کے ساتھ تھے۔ انھوں نے تعارف کرایا، یہ مسٹر سین گپتا کے اسسٹنٹ، مسٹر بسنت کمار سانیال ہیں، یہ تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مسٹر سانیال نے بھی مس بارلو کے الفاظ دہرائے۔ معافی نامہ پر دستخط کر دیجئے۔ میں نے انتہائی کراہیت سے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔ مسٹر سانیال نے کہا۔ میں کل معافی نامہ لے کر آؤں گا، کل تک اچھی طرح سوچ لیجئے۔
ایلس بارلو کو شاید امید ہو چلی تھی کہ میں نرم پڑ جاؤں گی۔ چند منٹ بعد وہ اور مسٹر سانیال واپس چلے گئے۔
چوتھے روز صبح صبح مسٹر سانیال پھر آن موجود ہوئے، لیکن ان کے ہم راہ مس بارلو کی بجائے ان ہی کے ہم شکل ایک اور صاحب تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ان کے کزن کامنی کمار سانیال ہیں، کلکتہ کے جرنلسٹ۔ اشردی کے معرکے کے بعد کے حالات کوَر کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں اور میرا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے ذرا حیرت سے سوچا کہ ایک سرکاری افسر اس قسم کے انٹرویو کی اجازت کس طرح دے رہا ہے۔ مگر اب آندولن کا زمانہ تھا، ہر چیز ممکن تھی۔ کچھ پتہ نہیں کون ہمارا ساتھی ہے اور کون دشمن۔ مگر اب بسنت کمار سانیال مسکرا رہے تھے۔ مسٹر کامنی کمار سانیال اب تک بت کی طرح بیٹھے مجھے تکے جا رہے تھے۔
میں ایک دم گھبرا گئی۔ میرا حلیہ بھی کیا رہا ہو گا۔ ماتھے پر پٹی بندھی، سر جھاڑ منھ پہاڑ جیسے برسوں کی روگی۔ سات آٹھ دن سے آئینہ تک نہ دیکھا تھا۔ مجھے بڑا غصہ آیا۔ یہ انٹرویو کی کیا تک ہے اور میں کون سی اتنی بڑی قومی ہیروئن ہوں۔ میری جیسی اَن گنت لڑکیوں نے کہیں زیادہ بہادری سے یہ آندولن چلایا ہے۔ میں تو پولیس کی ایک لاٹھی سے ہی چکرا کر گر پڑی۔
خیر، تو کامنی کمار سانیال نے چند عام سے سوال کیے۔ کہاں پڑھا، تحریک میں کب سے ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد وہ ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور نمسکار کر کے دونوں باہر چلے گئے۔
میں نے چونکہ معافی سے قطعی انکار کر دیا تھا اور میری ٹانگ اور سر کے زخم ٹھیک ہو چکے تھے، اس لیے دس روز بعد مجھے ہتھکڑیاں پہنا کر پولیس گاڑی میں سوار کروایا گیا اور دوبارہ جیل پہنچا دیا گیا۔
اس روز رات بھر زنانہ وارڈ میں رت جگا سا رہا۔ مریض لڑکیاں چپکے چپکے نذر الاسلام کے گیت الاپتی رہیں۔ میں تم کو کیا بتاؤں وہ کیسا وقت تھا۔ صبح کو جب میں اپنے کمرے سے نکل کر جا رہی تھی، ساری عورتیں برآمدے میں کھڑی رو رہی تھیں۔ ان سب کو معلوم تھا کہ اگر ہتھ گولے پھینکنے کا جرم مجھ پر ثابت ہو گیا تو عمر قید ہو سکتی ہے۔ جو عورتیں پلنگ سے نہ اٹھ سکتی تھیں وہ بھی نرسوں کے چلانے کی پروا کیے بغیر کھسکتی کھسکتی وارڈ کے دروازے میں آ گئی تھیں۔ چنانچہ میں ڈسٹرکٹ جیل کے زنانہ وارڈ میں پہنچا دی گئی۔
کوٹھری میں پہنچ کر مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ اب میں واقعی قیدی ہوں۔ شام کو ملاقات کے وقت کامنی کمار سانیال آن پہنچے۔ انھوں نے کہا کہ میں قطعی فکر نہ کروں۔ ان کے بڑے بھائی کلکتہ میں بیرسٹر ہیں، اگر آپ پر مقدمہ چلا تو وہ پیروی کریں گے، میں نے کہا آپ میرے لیے اتنی پریشانی کیوں اٹھا رہے ہیں۔ وہ ایک دم ہنسنے لگے۔ قصہ مختصر کرتی ہوں دیپالی! کامنی کمار سانیال روزانہ شام کو جیل آ کر مجھے قانونی صورت سے باخبر کرتے رہے۔ اشردی کے معرکے کے بعد ہم چالیس افراد کو مقدمہ چلائے بغیر جیل میں رکھا گیا تھا۔ سندھیا اور دوسری لڑکیاں کشیٹہ جیل بھیجی جا چکی تھیں۔
اب دیپالی غور سے سنو! مجھے یہ انکشاف ہوا کہ کامنی کمار سانیال مجھے بے حد پسند کرنے لگے ہیں۔ اس وجہ سے وہ جو صرف دو روز کے لیے پنبہ آئے اور آج ایک مہینے سے یہاں ڈٹے ہوئے تھے، یہ صحیح تھا کہ وہ قومی ناطے سے میری مدد کرنا چاہتے تھے مگر اور بھی تو اتنی لڑکیاں جیل میں بھر دی گئی تھیں، صرف میری ہی مدد کیوں؟
اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان سب لڑکیوں کے گھر والے ان کے لیے دوڑ دھوپ کریں گے۔ میری مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ میں ان کو پاپا کے متعلق منطق بتا چکی تھی، مگر مجھے لگتا ہے، یہ بھی گپ تھی۔ در اصل ان کو مجھ سے بڑا زبردست عشق ہو گیا تھا۔
مجھے بھی وہ بے حد اچھے لگے۔ کیا بتاؤں کتنے اچھے لگے۔ ایک روز وہ بے حد خوش خوش آئے اور کہنے لگے، مجھے ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے۔ میری اتنی بھاری ضمانت کون دے گا۔ میں نے کہا۔ اس کے متعلق سوچنا ہی بے کار ہے۔ در اصل دیپالی، میں نے اپنے آپ کو تیار کر لیا تھا کہ ایک نامعلوم مدت تک جیل میں پڑی رہوں گی، اور پاپا میرے غم میں روتے روتے یا تو اندھے ہو جائیں گے یا مر جائیں گے۔
ایلس بارلو ہسپتال کے بعد ایک دفعہ جیل میں بھی آئی تھیں۔ مگر میرے ارادے کی مضبوطی کا اندازہ لگا کر پھر نہ آئیں، گارو ہلز واپس چلی گئیں۔
دوسری صبح دروازہ کھلا۔ جیلر نے اندر آ کر کہا، آپ کو رہا کیا جاتا ہے۔ ضمانت مسٹر کامنی کمار سانیال نے دی تھی۔ میں بالکل ہی بھونچکی رہ گئی۔ جیل کے پھاٹک پر کامنی کمار اپنے بھائی بھاوج بسنت اور رنجنا سانیال کے ساتھ موٹر لیے منتظر تھے۔ مجھے اپنے گھر ساتھ لے گئے۔ بسنت کمار سانیال کی کوٹھی سول لائنز میں تھی۔
وہاں پہنچ کر افوہ، دیپالی، مجھے ایسا عجیب لگا، زنانہ جیل اور ہسپتال کے زنانہ جنرل وارڈ کے بھیانک افسردہ ماحول کے بعد یہ دوسری دنیا معلوم ہوئی، میں نے سوچا میں خوش قسمت ہوں۔ میں جو اکثر اپنی للی کاٹج کی محدود سی زندگی سے شاکی رہا کرتی تھی، میں نے دیکھ لیا کہ اسی دنیا میں بیشتر انسان کتنی تکلیفوں میں زندہ رہتے ہیں، کیسی کیسی ذلتیں اور اذیتیں اٹھاتے ہیں، اور مجھے پتہ چلا کہ ہماری جنتا، ہماری عورتیں واقعی کتنی بہادر ہیں، کیسی بہادری سے زندہ رہتی ہیں اور کیسی بہادری سے مرتی ہیں۔ افوہ!
کتنے دنوں بعد اچھے غسل خانہ میں اچھی طرح نہائی۔ صاف ساڑی پہنی، میز پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور برابر یہ احساس رہا کہ کروڑوں انسانوں کو زندگی کی یہ بنیادی آسائشیں ہی میسر نہیں۔ یہ احساس مجھے سچ مچ پہلی بار ہوا۔
شام کو ہم تینوں برآمدے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ کامنی کمار نے مجھ سے کہا کل روانگی ہے۔ سامان باندھ لو۔ میرے پاس سامان ہی کیا تھا۔ جو ساڑی پہن کر میں مہم پر گئی تھی وہ خون میں تر بتر ہو چکی تھی۔ ہسپتال میں انھوں نے ایک بھدا سا روپ پہننے کو دیا تھا۔ مجھے وہ روپ بہت چبھتا تھا۔ بے چاری بلقیس نے مجھے اپنی ساڑی اور بلاؤز پیٹی کوٹ پہننے کو دیا تھا۔ روزانہ وہ اپنی ایک ساڑی دھو کر سکھا کر مجھے پہننے کو دیتی۔ وہ خود بہت غریب لڑکی تھی۔ دوسری عورتوں نے بھی مجھے اپنی ساڑیاں پہننے کو دیں۔ یہ سب بے حد مفلس عورتیں تھیں۔
دیپالی، میں بلقیس کی ساڑی میں جیل گئی تھی وہاں کامنی نے مجھے اپنی بھابی کی ساڑی لا دی تھی۔ سامان میرے پاس کہاں ہے۔
وہ ہنس پڑے۔ کہنے لگے، بالکل عادتاً منھ سے نکل گیا۔
میں روزی کو کل بازار لے جاؤں گی، رنجنا بھابی نے کہا۔ یہاں کے بازار میں کیا رکھا ہے، جب وہ کلکتہ پہنچے گی تو۔ بسنت بابو نے کہنا شروع کیا۔
کلکتہ کیوں؟ میں نے ان کی بات کاٹی۔ کلکتہ اس لیے کہ میں تم سے شادی کر رہا ہوں، کامنی بابو نے کہا۔ دیپالی، اسے اسٹوری بک، رومانس، طوفانی محبت وغیرہ وغیرہ کیا کہتے ہیں۔ فیری ٹیل؟ بہرحال اپنا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کے واقعات زندگی میں یقیناً ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ دور کیوں جاؤ، مجھے ہی دیکھ لو۔ میں نے پاپا کا غیظ و غضب، یہ انوکھی پرخطر صورت حال، ہر چیز نظرانداز کر دی۔ دیپالی، ایک لڑکی کے لیے محبت کرنے والا شوہر دنیا کی عظیم ترین نعمت ہے۔ مجھے اپنی ایسی غیر متوقع خوش نصیبی پر یقین نہ آیا۔ کبھی خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ایسے ڈرامائی طریقہ سے ایسا مثالی شخص ملے گا جو میرا اتنا مداح ہو گا، مجھے اتنا چاہے گا۔ ٹچ ووڈ۔
فی الحال شادی کو سخت راز میں رکھنا تھا، سول میرج کے لیے عدالت میں جانا پڑتا اور نئے قضیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ چنانچہ دوسرے روز رات کو چپکے سے پنڈت بلایا گیا۔ ٹپیکل موٹا تازہ برہمن۔ ڈرائنگ روم میں پھیرے پڑے باقاعدہ اشلوک وشلوک۔ بسنت بابو نے گویا میرے بڑے بھائی کی حیثیت سے کنیا دان کیا۔ شگون کے لیے تھوڑی بہت سبھی ریت رسمیں رنجنا بھابی نے کیں، ناریل اور دھان وغیرہ اور کامنی بابو نے خاصے لرزتے ہاتھوں سے میری مانگ میں سیندور لگایا۔ اب میں مسز کامنی سانیال ہوں۔ کچھ عرصے بعد ہم سول میرج کے رجسٹر پر بھی دستخط کر دیں گے۔
مذہب وذہب سب میرے لیے بے معنی بات ہے۔ چرچ میں پادری چند الفاظ دہراتا ہے، پادری نے بھی کچھ اسی طرح ممبو جمبو کہہ دیا۔ اصل چیز محبت ہے اور شوہر کی رفاقت۔ مگر تم ابھی اس منزل سے نہیں گزریں لہٰذا سمجھ ہی نہیں سکو گی۔
تین روز بعد ہم کلکتہ آ گئے۔ کامنی کی کوٹھی بالی گنج میں ہے۔ بے حد اعلیٰ خاندان۔ ان کے بابا کلکتہ کے مشہور سرجن ہیں۔ بڑے بھائی بیرسٹر ہیں۔ کامنی کی بھابی بھی ڈاکٹر ہیں، میری نند برو بورن کالج میں کیمسٹری کی لیکچرار ہے۔ بڑا روشن خیال اور کلچرڈ خاندان ہے۔ کامنی بابو نے یہیں یونی ورسٹی میں پڑھا ہے۔ فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ بے حد ذہین بے حد دل کش اور دنیا کے بہترین انسان ہیں۔ سچ کہتی ہوں، یقین جانو ان کا ارادہ ہے جنگ ختم ہونے کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے کہیں باہر جائیں، انگلینڈ یا امریکہ۔ مگر ابھی تو جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔
عجیب بات ہے اب میرا رویہ دنیا کے متعلق بالکل بدل گیا ہے۔ اب میرے لیے میرا گھر مرکز کائنات ہے۔ میرے سسر اور جیٹھ نے جو بڑے جوشیلے قوم پرست ہیں، بڑے پیار اور فخرسے میرا سواگت کیا۔ لیکن ساس اور کنبے کی دوسری بڑی بوڑھیاں اس شادی سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں۔ کیونکہ بہرحال میں عیسائی ہوں اور ایک گمنام، غریب پادری کی لڑکی۔
مگر یہ لوگ اتنے مہذب اور شائستہ ہیں کہ اپنے کسی رویے سے اپنی ناخوشی کا اظہار نہیں کرتیں، اور انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ کامنی کمار مجھے کتنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بے حد Sophisticated خاندان ہے۔ اوما رائے کے خاندان جیسا مجھے یقین ہے کہ بہت جلد میری ساس اور دوسری بوڑھی خواتین میرے برتاؤ سے خوش ہو جائیں گی۔ میں ان سب کا دل جیت لوں گی، اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میں ایستھر گری بالا کی ایسی پتی ورتا ثابت ہوں گی۔
ہماری کوٹھی سر پری توش رائے کے بیٹے کی کوٹھی کے پڑوس میں ہی ہے۔ میرے جیٹھ اور کامنی کی مسٹر رائے سے بہت دوستی ہے۔
چنانچہ دیپالی، اب میں جہاں آرا اور اوما رائے والے اس اونچے طبقے میں یہ سب باتیں اس سچائی سے میں تمہیں لکھ رہی ہوں، کسی اور کو نہیں لکھ سکتی۔
سانیال خاندان بہت دولت مند ہے اور دیپالی میری ساری عمر عزت سے کٹے گی۔ اب میں خوش ہوں کہ آسائش اور آرام کی زندگی گزار دوں گی۔ روپے کی قدر اسی کو ہوتی ہے جس نے زندگی ہمیشہ تنگی اور ترشی سے گزاری ہو۔
ہماری للی کاٹج کی زندگی تمہیں یاد ہے۔ پاپا اکثر اسرار ربانی کی بات کرتے تھے، اور ذرا سوچو تو مجھے کامنی کس کے ذریعہ سے ملے، اپنے پرانے دشمن چارلس بارلو کے ذریعہ اگر چارلس بارلو اپنی بہن کو ٹرنک کال نہ کرتا۔ وہ مجھ سے ملنے نہ آتیں۔ وہ اپنے ساتھ بسنت بابو کو لے کر آئیں اور بسنت بابو کے ساتھ کامنی کمار آئے۔
ظاہر ہے کہ ہندو سے شادی کرنے کی وجہ سے پاپا ہرگز مجھے معاف نہیں کریں گے۔ میں نے بھی ایک کے بعد ایک عظیم صدمے ان کو پہنچائے ہیں۔ کلکتہ پہنچتے ہی میں نے اور کامنی نے اکٹھے پاپا کو خط لکھا اور ان سے ان کی Blessings کی درخواست کی۔
آج صبح ان کا چند سطروں کا جواب آیا تھا۔ لکھا ہے کہ وہ بے حد خوش ہیں اور خداوند کے شکر گزار ہیں کہ میں زندہ بچ گئی اور خیریت سے ہوں۔ مگر میں نے یسوع کا دامن چھوڑ کر بت پرست کافر سے شادی کر لی، اس لیے وہ عمر بھر میری شکل نہ دیکھیں گے، اور للی کاٹج کے دروازے میرے لیے ہمیشہ بند ہیں اور یہ کہ وہ میری روحانی نجات بخشش کے لیے ہمیشہ دعا کرتے رہیں گے۔
جب سے خط آیا ہے میں بیٹھی رو رہی ہوں۔ پھر سوچا تم کو خط لکھوں۔ مجھے یقین ہے پاپا کم از کم اس بات سے تو مطمئن ہوں گے کہ میں نے ایک اونچی ذات کے لڑکے سے شادی کی ہے۔ زندگی میں کس قدر کنفیوژن ہے۔ ذہنوں میں کتنا کنفیوژن ہے۔ کتنی غلط فہمیوں کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو دکھی بناتا ہے۔ کاش پاپا ان سب کو جان سکتے۔
دنیا میں کتنے اچھے اچھے لوگ موجود ہیں۔ میں کبھی اس خستہ حال میں بلقیس کو بھول سکتی ہوں؟ ہسپتال کی وہ ساری عورتیں، ہمارے ساتھی جنہیں پاپا غنڈے کہتے ہیں، بسنت اور رنجنا جو میرے سگے عزیزوں کی طرح پیش آتے ہیں۔ میرے شفیق سسر اور جیٹھ، مگر پاپا مجبور ہیں۔
ہم سب اپنے اپنے تعصبات کی وجہ سے مجبور ہیں۔ اب ختم کرتی ہوں دیپالی، بہت لمبا خط ہو گیا۔ ڈائننگ روم میں لنچ کا گھنٹا بج رہا ہے، اب بھاگوں، سسرال کا معاملہ ہے بھائی۔
بی۔ ایس۔ کامنی نے تم کو بہت بہت سلام کہا ہے اور تم سے ملنے کے مشتاق ہیں۔ اب تم جلدی سے ہمارے پاس کلکتہ آؤ۔
تمہاری
روزی سانیال
بالی گنج، کلکتہ،
۸ اکتوبر۱۹۴۳ء
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید