1
وہ کون تھا
صدر مملکت کے ذریعے ملنے والا خط پڑتے ہوئے ان کے دلوں کی ڈھرکنیں تیز ہوتی چلی گئیں۔ الفاظ عجیب تھے:
''ہمارے عزیز بچو! السلام علیکم۔
یہ خط پا کر تم حیران تو ضرور ہو گے۔ ہماری گم شدگی ہی تم سب کے لئے کچھ کم حیرت انگیز ثابت نہیں ہوئی ہو گی۔ اوپر سے یہ خط۔ لیکن کیا کیا جائے۔ مجبوری ہے۔
ویسے حیرت زدہ ہونا، صحت کے لیے برا نہیں۔ یوں بھی تم لوگ حیرت زدہ رہ جانے کے معاملے میں کنجوس نہیں ہو۔ اب ہم خود تم لوگوں کو اجازت دے رہے ہیں۔
ہم اپنے ملک سے دور ایک دوسرے ملک میں موجود ہیں۔ کیوں موجود ہیں، یہ ملاقات پر بتائیں گئے۔
پہلے ہم نے سوچاتھا کہ ہم چار مل کر ہی کام چلا لیں گے، کام تو خیر چل جائے گا، لیکن یہاں آ کر ہم تم لوگوں کے بغیر بہت اداس ہو گئے ہیں، خاص طور پر تمہارے انکل خان عبدالرحمان اور پروفیسر انکل بہت اداس ہیں اور بار بار تم لوگوں کو بلانے کے لئے کہتے رہتے ہیں، بلکہ یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر تم لوگوں کو نہ بلایا گیا تو اس
مہم کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں گے۔ ان حالات میں ہمارے لئے یہی چارہ کار رہ گیا تھا کہ تمھیں خط لکھ کر بلا لیں۔ لیکن خط لکھنا اور صدر صاحب تک پہنچانا آسان کام نہیں تھا۔ بہر حال اس کے لئے بہت لمبا چکر چلایا گیا۔ اب تم لوگ بھی اسی طرح چکر کے ذریعے ہم تک پہنچو گے۔ اس سلسلے میں صدر صاحب تم لوگوں کی مدد کریں گے۔
اور تم ہم تک پہنو گے۔ اطلاعاََ بتا دیتے ہیں کہ ہم اپنی مہم کے امکانات کا جائزہ لے چکے ہیں۔ بس میدان عمل میں اترنا باقی ہے۔ کب کے اتر چکے ہوتے، لیکن تمھارے دونوں انکل آڑے آ گئے۔ لہٰذہ ان کی خواہش کے احترام میں تم لوگوں کو بلانے پر مجبور ہیں۔ بس چلے آؤ ۔ ہم انتظار کر رہے ہیں۔
انسپکٹر جمشید ، انسپکٹر کامران مرزا ۔ ''
خط ختم کر کے انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ فاروق نے منہ بنا کر کہا:
'' ایک مہم سے فارغ ہو کر ابھی سانس لینے پائے نہیں کہ دوسری آ ٹپکی ۔ اسے کہتے ہیں ، ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔''
'' میرا خیال ہے ۔ ایک کریلا دوسرا نیم چرھا ہر گز نہیں کہتے ۔ بلکہ یک نہ شد دو شد کہ سکتے ہیں۔'' آفتاب بولا۔
'' چلو تم یہی کہ لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ نہ ہی میرا محاورات کا مقابلہ کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔'' فاروق نے منہ بنایا۔
'' گویا اب ہمیں پھر تیار ہو کر صدر صاحب کے پاس جانا ہو گا۔ انھوں نے بھی اسی لیے ہمیں گھر بھیج دیا کہ ہم امّی جان سے مل لیں۔'' محمود بڑبڑایا۔
'' خیر۔ ان سے تو ملاقات ہو چکی۔'' آصف نے کہا۔
'' اب رہ گئی تیاری۔ تو اس کی ایسی کیا ضرورت ہے۔ میک اَپ کرنے کی ہدایات تو ملی نہیں۔'' فرزانہ بولی۔
'' گویا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ اب اُٹھ چلیں۔'' فرحت مسکرائی۔
'' ہاں میں ابا جان سے ملنے کے لئے بری طرح بے تاب ہوں۔ اتنی مدت کے لئے ہم ایک دوسرے سے کبھی نہیں بچھڑے۔'' اس نے کہا۔
'' میرا بھی ہی حال ہے۔'' آفتاب نے کہا۔
'' یہ حال اگر نہیں ہے تو ہمارا۔'' مکھن مسکرایا۔
اور پھر وہ تیاری میں لگ گئے۔ فارغ ہو کر بیگم جمشید کی طرف حاضر ہوئے:
'' امی جان ۔ اجازت ہے۔''
''کیا مطلب۔ کس بات کی اجازت؟'' وہ حیران رہ گئیں۔
''آپ خط تو پڑھ ہی چکی ہیں۔''
'' ہاں ! اللہ کا شکر ہے۔ ان کی کوئی اطلاع تو ملی۔''
'' تو ہمیں اجازت ہے۔'' محمود بولا۔
'' میری کیا مجال ہے۔ کہ اجازت نہ دوں۔ تم لوگ بنے ہی ان کاموں کے لئے ہو۔'' انھوں نے منہ بنایا۔
ابھی وہ اللہ حافظ کہ کر درازے کی طرف مڑے ہی تھے کہ گھنٹی بجی۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا، پھر محمود نے کہا۔
"میں دیکھتا ہوں" یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف چلا گیا۔ "ظاہر ہے۔ تم ہی دیکھو گے،" فاروق بول پڑا۔
محمود نے دروازہ کھول تو لمبے قد کا ایک دبلا پتلا آدمی باہر کھڑا نظر آیا، اس کی آنکھوں پر رنگین شیشوں کی عینک تھی۔ ہاتھ میں ایک مڑی سی چھتری تھی۔
"فرمائیے"۔ محمود بولا۔
"یہ ۔۔۔۔۔۔ ساتھ والے گھر کو کیا ہوا؟" اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
"دشمنوں کی نذر ہو گیا ہے بے چارہ"۔ محمود بولا۔
"کیا مطلب؟"
"انہوں نے ٹائم بم کے ذریعے تباہ کر دیا۔ اور کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہتا ہے۔"
"اوہ۔ بہت افسوس ہوا یہ سن کر۔ مجھے دراصل انسپکٹر جمشید صاحب سے ملنا تھا۔"
"وہ تو گھر پر نہیں ہیں"۔ محمود نے گول مول جواب دیا۔
"تب پھر۔ ان سے کب ملاقات ہو سکتی ہے۔"
"یہ بھی معلوم نہیں"۔
"کیوں! یہ کیا بات ہوئی۔"
"دراصل وہ ان دنوں غائب ہیں"
"غائب ہیں۔۔ یہ کیا بات ہوئی۔"
"پتا نہیں جناب یہ کیا بات ہوئی۔ آپ تو بات ہوئے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔" محمود جل گیا۔
"اوہ معاف کیجئے گا۔ خیر۔ میں محمود، فاروق اور فرزانہ سے مل لیتا ہوں۔"
"ہاں ان سے ضرور ملاقات ہو سکتی ہے، لیکن آپ کی تعریف کیا ہے۔ آپ ان سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟"
"کیا مجھے ہر بات آپکو بتانا ہو گی۔ مجھے محمود، فاروق اور فرزانہ سے ملنے ہے۔" اس نے نا خوشگوار لہجے میں کہا۔
"خیر: آپ تشریف لائیے۔ میں ہی محمود ہوں۔"
وہ اسے لے کر اندر آیا۔ عین اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔ محمود نے جلدی سے ریسیور اٹھایا:
"ہیلو۔ محمود بول رہا ہوں۔"
"بھئی محمود۔ یہ میں ہوں۔ ایک خوفناک خبر سنو۔" دوسری طرف سے صدر مملکت بولے۔
"یا اللہ رحم:" اس کے منہ سے نکلا
"ہاں بھئی اللہ تعالی سے ہر حال میں رحم مانگنا چاہئے۔ خبر یہ ہے کہ سی مون جیلس سے فرار ہو گیا ہے۔ اب سے پانچ گھنٹے پہلے۔"
"نہیں:" اس کے منہ سے نکلا۔
"ہاں: بہت پر اسرار انداز میں۔ جیل حکام کوئی جواب نہیں دے پا رہے۔"
"خیر آپ فکر نہ کریں۔ ہم جیل کا معائنہ کریں گے اور اس شخص کا قانون کے حوالے کر دیں گے جس کی مدد سے وہ فرار ہوا ہے۔"
"لیکن تم لوگوں کو تو۔" صدر صاحب کہتے کہتے رک گئے۔
"ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔ خیر۔ دیکھتے ہیں۔ کیا بنتا ہے"۔ اس نے فکرمندانہ لہجے میں کہا۔
"تم لوگ کتنی دیر تک آ رہے ہو؟"
"ہم تو اس وقت تک روانہ ہو چکے تھے، لیکن ایک مہمان آ گئے۔ بس اس سے فارغ ہوتے ہی روانہ ہو جائیں گے۔"۔ محمود نے کہا۔
"ٹھیک ہے۔ میں انتظار کر رہا ہوں۔" ان کے بعد محمود نے ریسیور رکھا اور پھر اجنبی کی طرف مڑا:
"ہاں جناط اب فرمائیے۔ آپ کون ہیں اور ہم سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ اس کمرے میں ہم تینوں بھی موجود ہیں۔"
"لل۔ لیکن یہاں تو قریبا دس افراد ہیں"۔ وہ بولا۔
"تو اس سے کیا ہوتا ہے۔"
"خیر۔ مجھے کیا۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ انسپکٹر جمشید کہاں ہیں۔"
"ان کے بارے مٰں میں پہلے ہی بتا چکا ہوں۔"
"وہ بتانا کوئی بتانا نہیں۔ یہ بتائیں وہ کہاں ہیں؟"
"ہمیں نہیں معلوم۔" محمود سخت لہجے میں بولا۔
"آپ لوگ اس طرح نہیں مانیں گے۔" اجنبی بولا۔
"کیا مطلب۔ آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔"
"دھمکی کے علاوہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہوں۔" اس نے کہا اور اپنی چھڑی لہرائی۔ آن کی آن میں اس کا سرا جلنے لگا۔
"ارے یہ کیا۔ آپ کی چھڑی میں تو آگ لگ گئی۔"
مکھن نے گھبرا کر کہا۔
"یہ آگ نہیں۔" اس نے کہا۔
"کیا کہا۔ یہ آگ نہیں۔ تو پھر کیا ہے؟"
"آگ کے ساتھ تو دھواں ہوتا ہے۔ دھوئیں کی بو ہوتی ہے۔ تپش ہوتی ہے۔۔ کیا تم لوگوں نے کمرے میں دھواں محسوس کیا۔ آگ کی تپش محسوس کی؟"
"نن ۔۔ نہیں۔" ان کے منہ سے نکلا
"تب پھر یہ آگ نہیں ہے ۔کوئی اور چیز ہے۔" وہ مسکرایا۔ اسی وقت چھڑی بجھ گئی۔
"ارے! یہ تو بجھ گئی۔" ان کے منہ سے نکلا۔
"یہ جل ہی کب رہی تھی۔ صرف چمک رہی تھی۔" اس نے ہنس کر کہا۔
"یہ چھڑی آخر ہے کیا بلا اور آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔" محمود نے کہا۔
"میں جو کہنا چاہتا تھا کہ چکا۔ اب کہوں گا۔ تم میں سے کوئی ایک اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر دکھا سکتا ہے۔"
اس نے مداریوں کے انداز میں کہا۔
"کیوں۔ دایاں ہاتھ دکھانے سے کیا ہوگا۔ کیا چھڑی پھر جلنے لگے گی۔" فرزانہ چونک کر بولی۔
"نہیں۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو اپنا دایاں ہاتھ بلند کر کے دکھائے۔"
"یہ لیجئے مسٹر۔ میں ہاتھ اٹھا رہا ہوں۔" شوکی نے منہ بنا کر کہا اور ہاتھ اٹھانا چاہا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ دھک سے رہ گیا۔ اس کا ہاتھ اوپر نہیں اٹھ سکا تھا۔
"کیا ہوا شوکی بھائٰ۔ ہاتھ کیوں نہیں اٹھا رہے۔"
آصف نے حیران ہو کر کہا۔
"نن۔ نہیں اٹھ رہا"۔ شوکی نے گھبرا کر کہا۔
"بھئی کیوں مذاق کرے ہو۔"
"یہ مذاق نہیں ہے مسٹر چھڑی مین بلاوجہ تو ہمارے ہاتھ نہیں اٹھوا رہے۔" شوکی بولا۔
" کیا مطلب؟ ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا اور پھر انہوں نے ایک ساتھ ہاتھ اوپر اٹھانے کی کوشش کی، لیکن کسی کا ہاتھ نہ اٹھ سکا۔
"چلو دایاں نہیں اٹھ رہا تو بایاں اٹھا کر دکھا دو"
"اوہ۔ ان کے منہ سے نکلا اور انہوں نے بایاں بازو اٹھانے کی کوشش کی۔ پھر اٹھ کر کھڑے ہونے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔
"اس۔ اس کا مطلب ہے ہماری صرف زبانیں حرکت کر رہی ہیں۔"
"ہاں! باہر جو خواتیں موجود ہیں۔ میں ذرا نہیں بھی چھڑی کا یہ کمال دکھا آؤں۔" اس نے مسکرا کر کہا اور اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔
"شش۔ شاید۔ ہم اس وقت کسی جادو کے دیس میں ہیں۔ اور یہ حضرت جادوگر ہے۔ جس نے ہمیں پتھر کا بنا دیا ہے۔"
"لیکن ہماری زبانیں پتھر کی کیوں نہیں بنیں؟"
"پپ۔ پتا نہیں۔ ارے ہاں۔ وہ تم فون پر کیا کہہ رہے تھے۔ جیل کا معائنہ۔ کس کو قانون کے حوالے کرنے کی بات تھی۔"
"سی مون اب سے پانچ گھنٹے پہلے جیل سے فرار ہو گیا ہے۔ اور یہ اس وقت ہوا ہو گا جب شہر میں خونریزی ہو رہی تھی۔"
"اوہ نہیں۔ !!!" وہ چلا اٹھے۔
اسی وقت قدموں کی آواز سنائٰ دی۔
دونوں بیگمات بھی اب صرف زبان چلا رہی ہیں۔ ہاتھ پیر نہیں۔ اب میں تم لوگوں کی تلاشی لوں گا۔ اوریہ جاننے کی کوشش کروں گا کہ انسپکٹر جمشید کہاں ہیں۔"
"آپ کون ہیں۔ یہ تو بتا دیجئے۔"
"تم لوگ مجھے نہیں پہچان سکو گے۔" وہ مسکرایا۔
"غلط ۔ بالکل غلط۔" فرحت چلائی۔
"کیا غلط ہے۔" اس نے چونک کر کہا۔
"یہ کہ ہم آپ کو پہچان نہیں سکیں گے۔ آپ۔ آپ سی موں ہیں۔"
اجنبی کو ایک جھٹکا سا لگا۔ پھر اس نے سنبھل کر کہا:
"یہ جان کر حیرت ہوئی۔ کیسے جانا؟"
"یہ جان کر حیرت ہوئی۔ کیسے جانا؟"
"اندازہ ۔ اب سے پانچ گھنٹے پہلے آپ جیل سے فرار ہو چکے تہیں۔ ہمیں آپ نے جس طرح بے کار کیا۔ وہ بھی کم عجیب نہیں۔ بس میں نے سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا کہ آپ سی مون ہیں۔" فرحت بولی۔
"خیر۔ مان لیا۔" اس نے کہا۔ وہ اب تلاشی لے رہا تھا: آخر محمود تک پہنچ گیا۔ پھر اس کی جیب میں سے اس نے وہ خط نکال لیا۔
"ارے یہ تو انسپکٹر جمشید کا ہی نہیں۔ انسپکٹر کامران مرزا کا بھی خط ہے۔ بہت خوب وہ چہک کر بولا اور جلدی جلدی خط پڑھنے لگا۔ پھر اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔:
"بہت خوب۔ اب میرے لئے انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا تک پہنچنا کیا مشکل رہا۔ میں تم لوگوں کا تعاقب کرتے ہوئے وہاں تک پہنچ جاؤں گا۔۔ اچھا۔ پھر ملیں گے۔ ارے ہاں۔ یہ چھڑی میرے طرف سے بطور تحفہ قبول کرو۔" اس نے کہا اور چھڑی وہیں فرش پر گرا دی۔ پھر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔ وہ کچھی بھی نہ کر سکے۔
"یہ کیا ہوا۔ بھئی۔" آصف بڑبڑایا۔
"اچھا نہیں ہوا۔ ہمیں اس خط کو پڑھنے کے بعد جلا دینا چاہیئے تھا۔" محمود نے کہا۔
"لیکن ہم کب تک اس طرح بیٹھے رہیں گے۔ یار فاروق ذرا ہاتھ بڑھا کر فون ہی کر دو کسی کو۔" آفتاب بولا۔
"تو تم کیوں نہیں بڑھا دیتے ہاتھ فون تک۔" فاروق جل گیا۔
"میرا خیال ہے۔ ہم آہستہ آہستہ خود ہی حرکت کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔"
"سوال تو یہ ہے کہ سی مون کو کیوں کچھ نہیں ہوا۔ اس چھڑی کا اثر اس پر کیوں نہیں ہوا؟"
اورپھر پورے آدھے گھنٹے کے بعد وہ ہلنے جلنے کے قابل ہوئے۔
اٹھتے ہی وہ باہر کی طرف دوڑے۔ وہاں بیگم جمشید اور بیگم شیرازی بت بنی بیٹھی تھیں۔
"آپ بھی ایک آدھ منٹ تک ٹھیک ہو جائیں گی۔"
"وہ۔ وہ کون تھا؟"
"سی مون"۔ محمود نے کہا۔
"اور یہ معلوم کرنے آیا تھا کہ ابا جان اور انکل کہاں ہیں۔"
فرزانہ بولی۔
"لیکن ہمیں تو معلوم ہی نہیں۔ بتاتے کیا۔" بیگم جمشید بولیں۔
"ہاں: لیکن وہ خط اس نے پڑھ لیا ہے اور اب ہمارا تعاقب کرے گا۔" آصف نے فکرمندانہ انداز میں کہا۔
"ہم اس تعاقب کرنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔۔ اب فوراُ روانہ ہو جانا چاہئے۔"
"ارے ہم سی مون کے تحفے کو بھول گئے۔" مکھن نے کہا
اور ڈرائنگ روم کی طرف دوڑا۔ اس نے چھڑی اٹھائی ہی تھی کہ فرزانہ چلا اٹھی۔
"خبردار مکھن۔ اسے جھٹکا نہ دینا۔ ورنہ ہم پھر بے حس و حرکت ہو جائیں گے۔"
میں اتنا بے وقوف نہیں۔" مکھن نے وہیں سے کہا اور چھڑی لئے باہر نکل آیا۔
"ہمیں نہیں معلوم تھا۔" فاروق بول اٹھا۔
"کک ۔ کیا؟" اشفاق بولا۔
"یہ کہ مکھن اتنا بے وقوف نہیں۔" آفتاب بولا۔
"اے۔ تمہیں کتنی بار کہا ہے۔ میری بات نہ اُچک لیا کرو۔" فاروق نے اسے گھورا۔
"میرا خیال ہے۔ آج زندگی میں پہلی دفعہ کہا ہے۔"
"اوہو اچھا۔ خیر، آیندہ خیال رکھنا۔ ورنہ بہت بری طرح پیش آؤں گا۔" فاروق بولا۔
"بھئی کبھی اچھی طرح پیش آنے کی بھی بات کر لیا کروؕ"
آصف نے منہ بنایا۔
"اس میں کوشش کرنے کی تو کوئی بات نہیں۔" اخلاق نے کہا اور وہ مسکرا دیے۔
"ہمارے بھی ہاتھ پیر کھل گئے۔" بیگم جمشید نے اعلان کیا۔
"چلئے آپ بھی شکر کریں"۔ شوکی مسکرایا۔
"ہاں اللہ کا شکر ہے۔ جو اللہ کا شکر نہیں کرتا۔ اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ بیگم جمشید بولیں۔
"تب تو ہم سب کو فورا اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔" محمود گھبرا کر بولا۔
"اللہ کا شکر ہے۔" سب نے ایک ساتھ کہا۔
"اب ہمیں اس طرح نکلنا ہے کہ سی مون تعاقب نہ کر سکے۔ اور اس کی ترکیب فرزانہ بتائے گی۔
"میں ترکیب پہلے ہی سوچ چکی ہوں۔" وہ مسکرائی۔
"واہ۔ فرزانہ نہ ہوئی۔ ترکیب بتانے کی مشین ہو گئی۔"
فاروق نے خوش ہو کر کہا۔
"خبردار۔ میں لڑکی ہوں۔ اور مشین بے جان ہوتی ہے۔" فرزانہ کو غصہ آ گیا۔
"ابھی ہم مہم پر نکلے نہیں۔ اور تم غصے کی زد میں آ گئیں۔ آگے کیا ہو گا۔" محمود نے اسے گھورا۔
"وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا۔"
"فرزانہ۔۔ جلدی ترکیب بتاؤ" آصف بولا۔
"ابھی لو۔" اس نے کہا اور فون کی طرف بڑھ گئی۔
"یہ کیا۔۔ تم ترکیب بتا رہی ہو یا فون کر رہی ہو۔"
"یہ ترکیب کا ہی ایک حصہ ہے۔" فرزانہ مسکرائی۔
"تو یوں کہاں۔ آج تمہاری ترکیب قسط وار ہے۔" فرحت مسکرائی۔
"اس میں کوئی شک نہیں۔" فرزانہ نے جواب دیا۔اور پھر سلسلہ ملنے پر بولی:
"ہیلو سر۔ سی موں یہاں موجود تھا۔ تھوڑی دیر پہلے۔"
"کیا!" صدر صاحب چلا اٹھے۔
"جی ہاں! افسوس ہم اسے گرفتار نہیں کرا سکے۔ اس نے ہمیں بے بس کر دیا تھا جادو کی ایک چھڑی کے ذریعے۔"
"جادو کی چھڑی۔ وہ اس کے پاس کہاں سے آ گئی۔"
"بنائی ہو گی خود۔ وہ دراصل ایک مداری بھی ہے۔۔۔ سائنس دان قسم کا آدمی ہے۔ ایسے شعبدے تیار کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ شائد اس نے اپنی زندگی کی ابتدا مداری بننے سے کی ہو گی۔" اس نے جلدی جلدی کہا۔
"اوہ۔ شائد یہی بات ہو،"
"اب جب بھی اس سے ملاقات ہو گی۔ ہم اس سے یہ سوال کریں گے۔ خیر اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ابا جان والا خط پڑھ لیا ہے۔ اور اب ہمارا تعاقب کر کے ان تک پہنچ جانا چاہتا ہے۔"
"ارے!" ان کے منہ سے نکلا۔
"لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارا تعاقب نہ کر پائے۔ کیوں کہ ادھر ابا جان اپنی مہم پر عمل پیرا ہونے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ بس ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ حضرت وہاں پہنچ جائیں اور ان کے پروگرام میں رخنہ ڈال دیں۔ یہ کوئی مزے دار بات نہیں ہو گی۔"
"ہوں! تم ٹھیک کہتی ہو۔ پھر کیا کیا جائے۔"
"ہم نے ایک ترکیب سوچی ہے۔ اس پر عمل کر کے ہم اسے تعاقب کرنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔
"بہت خوب۔ میں وہ ترکیب سننے کے لئے بے چین ہو چکا ہوں۔"۔ صدر صاحب بولے۔
"تو پھر آپ ہمارے گھر کی چھت۔ یعنی آنٹی بیگم شیرازی کی چھت پر ایک عدد ہیلی کاپٹر بھیج دیں۔ ہم اس کی سیڑھی کے ذریعے اس پر سوار ہو جائیں گے اور پھر ہیلی کاپٹر ہمیں وہاں پہنچا دے گا جہاں ہمیں آپ سے ملاقات کرنا ہے۔"
"ترکیب دلچسپ ہے۔" صدر صاحب ہنسے۔ ان کے چہروں پر بھی مسکراہٹیں پھیل گئیں۔
"تو پھر ہیلی کاپٹر بھیج رہے ہیں آپ۔۔"
"ہاں کیوں نہیں۔" انہوں نے کہا اور پھر ریسیور رکھ دیا۔
آدھ گھنٹے بعد انہوں نے اپنے سروں پر ہیلی کاپٹر کی گھن گرج سنی۔ وہ چہک اٹھے اور چھت کی طرف دوڑ پڑے۔ چند منٹ بعد وہ ہیلی کاپٹر پر اڑے جا رہے تھے، بیگم جمشید اور بیگم شیرازی ہاتھ ہلا کر انہیں الوداع کہہ رہی تھیں۔"
اور وہ محسوس کر رہے تھے کہ انہوں نے سی مون سے بہت آسانی سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔
2
ہیلی کاپٹر ایک پہاڑی پر پہنچ کر اتر گیا۔ صدر صاحب انہیں ایک طرف کھڑے نظر آئے۔ ان کی کمر پر ایک پہاڑی مکان تھا۔
"فرزانہ کی ترکیب بہت شاندار رہی۔" صدر صاحب مسکرائے۔
"شکریہ سر۔" فرزانہ نے شرما کر کہا۔
"آؤ ہم اس مکان میں بیٹھ کر پروگرام طے کریں۔" صدر صاحب بولے اور مکان کی طرف مڑے۔
جوں ہی وہ اندر داخل ہوئے، ان کی نظریں ایک سیاہ فام آدمی پر پڑیں۔ وہ اپنی سفید سفید آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگا:
"وہ خط یہی صاحب لائے تھے اور یہی اب تم لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ شروع کا سفر آبدوز کے ذریعے کیا جائے گا۔ پھر ایک ریگستان عبور کرنا ہو گا۔ ریگستان کے آخر میں ایک بند گاڑی کھڑی ملے گی۔ وہ بند گاڑی تم لوگوں وہ بند گاڑی تم لوگوں کو تمہاری منزل پر پہنچا دے گی۔ یہ انتظامات کر دیے گئے ہیں۔"
"ویری گڈ۔ لیکن ہم یہاں سے ساحل سمندر تک کس طرح جائیں گے؟"
"پہاڑی کے دامن میں ایک بند گاڑی موجود ہے۔ وہ تم لوگوں کو ساحل تک لے جائے گی"۔ انہوں نے کہا۔
"اور اگر گاڑی کا تعاقب سی مون نے کر لیا سر؟" محمود بولا۔
"امکان تو نظر نہیں آ رہا ؛ تاہم اگر وہ ساحل تک چلا بھی گیا تو ساحل پر جا کر رک جائے گا، کیوں کہ وہاں ہماری آبدوز کے علاوہ کوئی آبدوز نہیں کھڑی ہو گی۔ اس کا انتظام کر لیا گیا ہے۔"
"اب ہمیں اطمینان ہے۔"
"تو پھر میری طرف سے اجازت ہے۔ تم لوگ اب جا سکتے ہو۔"
وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ سیاہ فام بھی اٹھ گیا۔ انہوں نے صدر صاحب سے ہاتھ ملائے اور نیچے اترنے لگے۔ آخر بند گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی میں ڈرائیور موجود تھا۔ سیاہ فام ان کے پاس بیٹھ گیا۔
"آپ کا نام کیا ہے جناب؟" فاروق نے گاڑی چلنے کے بعد کہا۔
"پی چوں۔" اس نے جھٹکے سے کہا۔ انہیں یوں لگا جیسے کاٹ کھانے کا ارادہ ہو اس کا۔ وہ گھبرا کر پیچے ہٹ گئے۔ وہ ہنس پڑا۔
"ہم نے آپ کا نام پوچھا ہے۔" آفتاب نے منہ بنایا۔
"پی چوں"۔ وہ پھر بولا۔
"اوہ۔ تو آپ کا نام یہی ہے۔" آصف نے حیران ہو کر کہا۔
"یس۔" وہ بولا۔
"آپ اردو سمجھتے ہیں؟"
"تھوڑا۔ تھوڑا۔" اس نے کہا۔
"اردو کو مذکر بنا دیا بھائے نے۔" آفتاب نے منہ بنایا۔
"کیا بولا؟" اس نے آفتاب کی طرف دیکھا۔
"کوچھ نہیں۔" آفتاب نے اسی کے انداز میں کہا۔
"ہماری گاڑی کے پیچھے کوئی گاڑی نہیں آ رہی۔ گویا ہم نے سی مون کو غچہ دے دیا ہے۔" فرحت نے پر سکون آواز میں کہا۔
"بالکل ایسا ہی ہے۔"
ساحل سمندر پر انہیں آبدوز کھڑی دکھائی دی۔
چٹانوں پر کئی ملٹری مین رائفلیں لیے کھڑے نظر آئے۔ آخر وہ آبدوز میں سوار ہو گئے۔ جلد ہی وہ پانی کے نیچے سفر کر رہے تھے۔ ان کا سفر دس گھنٹے جاری رہا۔ پھر وہ ساحل پر اترے۔ انہوں نے دیکھا۔ ساحل پر ناریل کے درخت لہلہا رہے تھے۔ اب انہیں تین گھنٹے تک پیدل چلنا پڑا پھر ایک بند گاڑی کھڑی ملی۔ بند گاڑی میں چھے گھنٹے سفر کرنے کے بعد انہں اترنے کے لیے کہا گیا۔ باہر نکل کر انہوں نے خود کو ایک پرفضا میدان میں پایا۔ اچانک انہوں نے انسپکٹر جمشید کی چہکتی آواز سنی؛
"وہ آ گئے۔"
اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف دوڑ پڑے۔ خوب گلے ملے، پھر انسپکٹر کامران مرزا نے چونک کر کہا؛
"پی چوں کہاں ہے؟"
"شاید گاڑی میں ہی بیٹھا رہ گیا۔ ارے اس نے تو اب ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے۔" محمود نے چونک کر کہا۔
ڈرائیور ان کے ساتھ ہی اتر آیا تھا۔
"بھئی پی چوں۔ کیا گاڑی میں ہی بیٹھے بیٹھے یہاں سے رخصت ہونے کا ارادہ ہے؟"
"یس مجھے رپورٹ کرنی ہے۔"
"تو ہم سے آ کر مل تو لیں۔"
"وقت بہت کم ہے سر۔" اس نے جواب دیا۔
"نہیں بھئی۔ تم نے اتنی مدد کی۔ اس قدر ہمارا ساتھ دیا۔ یوں رخصت ہونا تو ٹھیک نہیں۔ نیچے اتر آؤ۔ ہمارے ساتھ ایک کپ چائے ضرور پیو۔ شام کی چائے کا وقت ہو چلا ہے۔" انسپکٹر جمشید نے بلند آواز میں کہا۔
"لیکن سر۔ وقت ۔" اور ان الفاظ کے ساتھ ہی گاڑی چل پڑی۔
انسپکٹر جمشید کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ انہوں نے فوری طور پر جیب سے پستول نکالا اور فائر کر دیا۔، گاڑی کا ٹائر آواز سے پھٹ گیا اور وہ لنگڑانے لگی۔
"نیچے اترآؤ مسٹر پی چوں۔ تم اتنی صاف اردو کب سے بولنے لگے۔" انسپکٹر جمشید غرائے۔
"اوہ!" ان کے منہ سے نکلا۔ آنکھوں میں حیرت تیر گئی۔
جواب میں گاڑی سے بھی ایک فائر ہوا اور وہ زمین پر گر پڑے۔۔ پھر انہوں نے بلا کی تیزی سے لوٹ لگائی اور درختوں کی اوٹ میں ہو گئے:
"پی چوں۔ اصلی پی چوں کہاں ہے؟" انسپکٹر جمشید نے بلند آواز میں کہا۔
"اسے میں نے موت کے گھاڑ اتار دیا۔" کہا گیا۔
"اور تم کون ہوَ"
"ہتھیار پھینک دو۔ میں بھی پستول پھینک دیتا ہوں۔ دوستانہ ماحول مین بات کر لیتے ہیں۔" گاڑی میں سے آواز آئی۔
انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"کیوں ابا جان۔ خیریت تو ہےؕ"
"وہ تنہا ہو کر ہمیں ہتھیار پھینکنے کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ کم عجیب بات نہیں۔"
"اوہ ہاں۔ واقعی۔"
"کیا سوچنے لگے انسپکٹر صاحبان۔" دوسری طرف سے طنزیہ انداز میں کہا گیا۔
"ٹھیک ہے ہم پستول پھینک رہے ہیں۔"
یہ کہ کر انہوں نے پستول اچھال دیے۔
"کسی کے پاس کوئی پستول رہ نہ جائے۔" گاڑی کی طرف سے کہا گیا۔
"ہم دھوکے باز نہیں ہیں۔" انسپکٹر کامران مرز نے منہ بنا کر کہا۔
"میں جانتا ہوں۔" ان الفاظ کے ساتھ اس نے بھی پستول اچھال دیا اور چھلانگ لگا کر گاڑی سے اتر آیا۔
"آپ لوگ بھی سامنے آ جائیں۔"
وہ اس کے سامنے آ گئے۔ پی چوں تنا کھڑا تھا۔
معاہدہ ہو چکا ہے کہ آپ مجھ پر فائر نہیں کریں گے اور نہ میں آپ پر۔" اس نے مسکرا کر کہا۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے دست بدست جنگ بھی نہیں لڑیں گے۔ انسپکٹر جمشید فوراُ بولے۔
"چلئے خیر۔ یہ بات منظور ہے۔" وہ مسکرایا۔
"تم کون ہو؟" انسپکٹر جمشید بولے۔
"کیا یہ بتانا ضروری ہے۔"
"اگر یہ ضروری نہیں تو پھر کیا ضروری ہے۔ یہ بتا دو۔"
انسپکٹر کامران مرزا نے منہ بنایا۔
اس وقت محمود کو کچھ یاد آیا۔ اس نے چاروں طرف ایک نظر ڈالی اور پھر بول اٹھا؛
"ہائیں۔ پروفیسر انکل اور انکل خان رحمان کہاں ہیں۔ وہ اب تک نظر نہیں آئے۔"
"ایک کام انجام دینے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ فکر نہ کرو۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"ہاں مسٹر۔ کیا نام ہے تمہارا؟" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"اگر نام جاننا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر سن لیں۔ خاکسار کو سی مون کہتے ہیں۔"
"کیا! نہیں!!!" ملی جلی آوازیں ابھریں۔
"کیا! نہیں!!!" ملی جلی آوازیں ابھریں۔
ان کے منہ کھلے کے کھلے اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جس سی مون کے بارے میں وہ خیال کر رہے تھے کہ اسے غچہ دے آئے ہیں۔ وہ تمام سفر ان کے ساتھ رہا تھا۔
"یہ۔ یہ کسیے ہو سکتا ہے۔" فاروق بولا۔
"ہونے کو اس دنیا میں کیا نہیں ہو سکتا۔" سی مون نے ہنس کر کہا۔
"ہائیں۔۔ یہ جملہ آپ نے بولا ہے۔ یا ہم میں سے کسی کی روح آپ میں حلول کر گئی ہے۔" فاروق نے کانپ کر کہا۔
"مجھے تم لوگوں کا یہ جملہ بہت پسند آیا ہے"۔
"شکر ہے۔ ہماری کوئی بات تو آپ کو پسند آئی۔" مکھن مسکرایا۔
"لیکن مارے حیرت کے ہمارا برا حال ہے۔ آخر آپ پی چوں کیسے بنے؟"
"جم میں تم لوگوں سے ملا، اس وقت جیل سے فرار ہوئے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے۔ تمام حالات معلوم کرنے بعد ہی میں تم لوگوں کے پاس آیا تھا۔ اور میرے کچھ آدمی صدر صاحب کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے ان کے ایک نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہونے کی اطلاع دی۔ میں تم لوگوں کے تعاقب کی بجائے اس نا معلوم مقام پر پہنچ گیا۔ اور وہاں میں نے پی چوں پر ہاتھ صاف کر دیا۔ میک اپ کا سامان میری خفیہ جیبوں مین ہر وقت ساتھ رہتا ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
"ہوں! واقعی آپ کمال کے آدمی ہیں۔" آصف نے تسلیم کیا۔
"سوال یہ ہے کہ یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی آپ کو؟" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"میں جاننا چاہتا تھا۔ آپ لوگ کہاں ہیں اور کیوں ہیں۔
یہ تو جان گیا کہ آپ کہاں ہیں، لیکن ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ یہاں کیوں موجود ہیں۔"
"اور ہم کہاں ہیں؟"
"ریاست کنگلات۔" اس نے شوخ لہجے میں کہا۔
"اس میں شک نہیں کہ آپ بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں، آپ کا یہ خیال یا اندازہ بھی غلط نہیں ہے، ہم اس وقت واقعی ریاست کنگلات میں موجود ہیں،" انسپکٹر کامران مرزا نے سر ہلایا۔
"اور ریاست کنگلات کی حکومت آپ لوگوں کی دوست ہے۔ آپ کے ملک سے ہر ممکن تعاون کرتی ہے۔ اس وقت تک جتنا سفر ہم نے کیا ہے وہ بھی دوست ملکوں کی حدود میں رہتے ہوئے کیا ہے، لیکن اب آپ اپنے دشمن ملک بیگال کی سرحد پر موجود ہیں۔۔ میں نے غلط تو نہیں کہا۔" سی مون کہتا چلا گیا۔
"ہاں! یہ بات بھی غلط نہیں۔"
"تب آپ لوگ بیگال کے خلاف کوئی مہم سر انجام دینا چاہتے ہیں۔ خیر مجھ سے سودا کر لیں۔" اس نے خوشگوار انداز میں کہا۔
"کیا کہا۔ سودا کر لیں۔" محمود کے منہ سے نکلا۔
"ہاں بھئی۔ سودا کر لیں۔"
"آخر کس بات پر۔" فاروق نے منہ بنایا۔
"میں اس مہم کے سلسلے میں آپ لوگوں کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں، لیکں اگر آپ مجھ سے سودا نہیں کریں گے تو پھر میں آپ سے پہلے بیگال پہنچ جاؤں گا۔ بیگال کی حکومت مجھے ہاتھوں ہاتھ لے گی۔ اور جب میں انہیں بتاؤں گا کہ تم لوگ ان کی سرحد کے بالکل نزدیک موجود ہو۔ اور کوئی مہم انجام دینے کے چکر میں ہو، تو وہ میری خدمات فورا حاصل کر لیں گے۔، کیوں کہ تم لوگوں کے مقابلے میں وہ ہمیشہ مجھ سے کسی آدمی کو کھڑا کرنے کے عادی ہیں، پھر انہیں کوئی پریشانی نہیں رہتی۔ اور میں ان سے منہ مانگا معاوضہ وصول کروں گا۔"
"اور ہم سے آپ کتنا معاوضہ لیں گے۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔ ان کے سب ساتھیوں نے انہیں حیرت بھری نظروں سے دیکھا۔
"آپ لوگوں، یعنی آپ کی حکومت سے بھی منہ مانگا معاوضہ لوں گا۔"
"تو مسٹر سی مون۔ ہم غیر مسلموں سے ایسے معاہدے کرنے کے عادی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ بہت بااصول ہیں، اگر ہم نے آپ کو اپنے ساتھ ملا لیا تو آپ ہمیں دھوکا نہیں دیں گے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ معاہدہ کرنے پر تیار نہیں۔ اس کے لئے ہم خود کو مجبور ، بے بس اور کمزور خیال نہیں کرتے۔ اللہ کی مہربانی سے ہم اپنی مہم انجام دے سکتے ہیں۔"
"لیکن جب میں آپ لوگوں کے راستے میں آ کھڑا ہوں گا تو پھر آپ ان گنت مشکلات میں پھنس جائیں گے۔"
"ہم اپنے اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"آپ کی مرضی۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"تو اب آپ بیگال کے لئے کام کریں گے۔ وہ بھی ہمارے خلاف۔"
"ظاہر ہے۔ کچھ نہ کچھ تو مجھے کرنا ہی ہو گا۔ ویسے اگر آپ کو منہ مانگا معاوضہ زیادہ محسوس ہو رہا ہے تو یہاں طے کئے لیتے ہیں۔" سی مون نے نئ پیشکش کی۔
"مسٹر سی مون۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ قطعا کوئی معاوضہ نہیں لیں گے۔ اور ہمارا ساتھ دیں گے۔" انسپکٹر جمشید نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"خیر۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا۔"
"تب پھر میں کہتا ہوں کہ اگر آپ اس شرط پر بھی ہمارے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو ہمیں یہ بھی منظور نہیں ہو گا۔ ہم آپ کو اپنا ساتھی بنانا پسند نہیں کریں گے۔ کیوں کہ ہمارا قرآن کہتا ہے۔ غیر مسلم ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔"
"ٹھیک ہے۔ اب اس مہم میں میں بیگال کا ساتھ دوں گا"۔ سی مون نے منہ بنایا۔
"لیکن ہم آپ کو جانے ہی کب دیں گے۔" انسپکٹر کامران مرزا نے کہا اور اس کی طرف دوڑ لگا دی۔
"میں اس وقت آپ لوگوں سے الجھنا پسند نہیں کروں گا۔ لہذا جا رہا ہوں۔" اس نے کہا اور خود بھی دوڑ پڑا۔
انسپکٹر کامران مرزا ابھی اس سے کافی فاصلے پر تھے۔
"میں بھی آ رہا ہوں۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"تو پھر ہم کیوں رکیں۔" محمود نے چلا کر کہا۔
"سب کے سب سی مون کے تعاقب میں دوڑ پڑے۔ لیکن اسے تو گویا پر لگ گئے تھے۔ ہر آن وہ ان سے دور ہوتا چلا گیا۔ اور آخر نظروں سے اوجھل ہو گیا؛
"لو بھئی۔ اب دوڑنا بے کار ہے۔" انسپکٹر جمشید نے رکتے ہوئے کہا۔
سب رک گئے۔ بری طرح ہانپ رہے تھے۔
"اس کا مطلب ہے۔ ہم نے سی مون کے ہاتھوں یہ پہلی شکست کھائی ہے۔" آصف بڑبڑایا۔
"پہلی نہیں دوسری۔ پہلی شکست یہ تھی کہ سی مون یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔" محمود نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
"آؤ بھئی اطمینان سے باتیں کریں گے۔ ہمارے بعد ملک میں کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہوئی۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"کوئی ایسی ویسی گڑبڑ۔ یوں کہئے کے ایک لمبی گڑبڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔"
"کیا مطلب!" دونوں چونکے۔
اور انہوں نے تمام تفصیل سے سنا دئیے۔
"اوہ ۔ بہت خوفناک۔ بہت ہی خوفناک۔" انسپکٹر کامران مرزا نے فکرمندانہ انداز میں کہا۔
"لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ اب فسادات پر قابو پا لیا جائے گا۔ اگر باس گرفتار نہ ہوتا تو پھر معاملہ بہت طول پکڑ جاتا۔ خیر اب آپ اپنی سنائیے۔ آخر آپ لوگ اس طرح اچانک کیوں غائب ہو گئے تھے۔"
"میں نے ایک ہولناک خبر پڑھی تھی۔ میں نے فورا انسپکٹر کامران مرزا کو فون کیا۔ یہ میرے پاس آ گئے۔ ہم دونوں نے خفیہ میٹنگ کی اور یہی مشورہ کیا کہ ہمیں غائب ہو جانا چاہئے۔ ساتھ میں ہم نے خان رحمان اور پروفیسر داؤد صاحبان کو بھی لے لیا۔ تم لوگوں کو ساتھ اس لیے نہیں لیا تا کہ دشمن یہی خیال کرتا رہے کہ ہم شہر میں ہی کہیں موجود ہیں۔ اور اسے یہ دھوکا دینے میں کامیاب ہو بھی گئے۔"
"تب پھر ہمیں کیوں بلایا آپ نے؟"
"ہم اداس ہو گئے تھے۔ خاص طور پر خان رحمان اور پروفیسر داؤد کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہاں سے تو ہم غائب ہو چکے تھے۔ اور وہ بھی اس طرح کے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو سکی تھی۔ لہذا اب تم لوگوں کو بلا لینے میں کو حرج نہیں تھا۔ لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ تم سی مون کو بھی اپنے ساتھ لے آؤ گے۔"
"اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ ہم نے اپنے طور پر پوری احتیاط کی تھی۔ اور فرزانہ کی ترکیب پر عمل کیا تھا۔"
آفتاب نے جلدی جلدی کہا۔
"فرزانہ کی ترکیب۔ کیا مطلب؟" انسپکٹر کامران مرزا حیران ہو کر بولے۔
محمود نے انہیں فرزانہ کی ترکیب کے بارے میں بتایا۔
وہ مسکرا دئیے۔ اسی وقت انہیں دور سے دو آدمی آتے نظر آئے۔ ادھر ڈرائیور ٹائر تبدیل کر کے گاڑی لے جا رہا تھا؛
"لو بھئی۔ تمہارے انکلز آ گئے ہیں۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"یہ کوئی اور بھی تو ہو سکتے ہیں۔"
"نہیں۔ یہاں ہمارے علاوہ کوئی نہیں آ سکتا۔ یہ اس ریاست کا ایک خاص الگ تھلگ اور آبادی سے قدرے دور علاقہ ہے۔" انہوں نے بتایا۔
"تب تو ہم خود ان کی طرف دوڑ کر جائیں گے۔ وہ تو یہاں پہنچنے میں ابھی کئی منٹ لگائیں گے۔" فرزانہ نے پرجوش انداز میں کہا۔
" ٹھیک ہے۔" انہوں نے ایک ساتھ کہا اور پھر سب کے سب دوڑ پڑے۔
دور سے اتنے بہت سے لوگوں کو اپنی طرف دوڑ کر آتے دیکھا تو خان رحمان اور پروفیسر داؤد گھبرا گئے؛
"ارے بھئی۔ یہ ہماری طرف کون دوڑ کر آ رہا ہے؟" پروفیسر داؤد نے کہا۔
"آ رہا نہیں۔ آ رہے ہیں۔ لیکن یہ دشمن نہیں ہو سکتے، کیوں کہ یہ علاقہ عام علاقہ نہیں ہے۔" خان رحمان بولے۔
"تب پھر یہ ضرور محمود وغیرہ ہیں۔"
"ہاں! ایسا ہی نظر آتا ہے۔ آئیے ہم بھی دوڑ پڑیں۔"
خان رحمان نے کہا اور دوڑ لگا دی۔ پروفیسر داؤد بھی دوڑ پڑے۔
ایک دوسرے کے نزدیک پہنچ کر بھی وہ نہ رکے اور نتیجہ یہ کہ آپس میں ٹکرا گئے۔
"یہ ملاقات کا کون سا طریقہ ہے۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
"اسے انوکھا طریقہ کہا جا سکتا ہے۔" فاروق نے اعلان کیا۔
"کب آئے بھئی تم لوگ؟"
"جی بس۔ ابھی چند منٹ پہلے۔" آصف بولا۔
"اور اپنے ساتھ سی مون کو بھی لائے ہیں۔" انسپکٹر کامران مرزا نے منہ بنایا۔
"کیا مطلب؟" خان رحمان اور پروفیسر داؤد کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
"سی مون کا مطلب پوچھ رہے ہیں انکل۔" فاروق نے حیران ہو کر کہا۔
"نہیں۔ بلکہ اس بات کا کہ۔ تم لوگ سی مون کو کس طرح پیچھے لگا لائے ۔" خان رحمان بولے۔
"یہ بہت درد بھری کہانی ہے انکل۔"
"اوہو۔ تب تو اس کو بیٹھ کر ہی سنا جا سکتا ہے۔"
پروفیسر داؤد گھبرا گئے۔ اور وہ مسکرا اٹھے۔
اس وسیع سبزہ زار میں چند خیمے نصب تھے۔ وہ ان میں سے ایک خیمے میں آ کر بیٹھ گئے۔
" کیا یہ وادی یہاں کی پولیس کی نگرانی میں ہے؟"
"ہاں! تم فکر نہ کرو۔"
"تو پھر سی مون کس طرح فرار ہوا ہو گا؟"
" وہ کوئی عام آدمی نہیں ہے۔ نگرانی کرنے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اس کے لئے کیا مشکل ہو سکتا ہے۔"
"ہوں! اب یہ بات ہو جائے کہ ہم سب یہاں کیوں جمع ہیں۔"
"بلکہ وہ ہولناک خبر کیا تھی۔ جو آپ نے پڑھی اور ہم نہ پڑھ سکے۔"
"پڑھی تو تم لوگوں نے بھی ہو گی۔ اور لوگوں نے بھی پڑھی ہو گی۔ لیکن اس خبر کا مطلب شاید ہی کوئی سمجھ سکا ہو۔"
"اوہو۔ ایسی کیا بات ہے وہ؟"
"کیوں نہ ہم وہ خبر ہی تم لوگوں کو دکھا دیں۔"
"اس سے اچھی بات کیا ہو گی۔"
انسپکٹر جمشید نے خیمے میں رکھا اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے ایک اخبار نکالا۔ اس کے آخری صفحے پر ایک چھوٹی سی خبر پر انہوں نے انگلی رکھتے ہوئے کہا؛
"یہ ہے وہ خبر۔"
وہ خبر پر جھک گئے۔ اتنا انہوں نے خیال رکھا تھا کہ سر آپس میں نہ ٹکرا جائیں، کیوں کہ ابھی انہیں ان سروں سے کام بھی لینا تھا۔ خبر کی سرخی کچھ اس طرح سے تھی۔
بیگال نے ایک عظیم کامیابی حاصل کر لی۔
اور سرخی کے نیچے یہ تفصیل تھی؛
بیگال نے برسوں کی مسلسل محنت کے بعد آخر وہ عظیم کامیابی حاصل کر لی جس کے لئے وہ بری طرح بے چین تھا۔
"یہ ۔ یہ کیا بات ہوئی۔" محمود ہکلایا۔
"آپ صرف یہ خبر پڑھ کر بیگال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔" محمود بولا۔
"آخر اس خبر میں ایسی کیا بات ہے۔" فاروق نے منہ بنایا۔
"نہ جانے یہ کس عظیم کامیابی کی طرف اشارہ ہے۔" آفتاب بولا۔
"کوئی بات تو ضرور ہے۔ ورنہ ابا جان اور انکل اس خبر کو اتنی اہمیت کیوں کر دے سکتے تھے۔"
"اور کیا آپ کو پہلے سے کچھ اندازہ تھا کہ بیگال کس قسم کی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔"
"نہیں؛ ہم نے تو بس یہ خبر پڑھی اور غائب ہونے کا پروگرام بنا لیا۔" انسپکٹر کامران مرزا مسکرائے۔
"عجیب بات ہے۔ آخر آپ نے اس خبر سے کیا نتیجہ نکالا تھا۔" شوکی بے چین پو کر بولا۔
صرف اور صرف یہ کہ بیگال نے واقعی کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ وہ کامیابی کیا ہے۔ یہ ہمیں معلوم کرنا ہے۔ اس کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرنا ہمارا مشن ہے۔"
"اور آپ صرف اسی غرض کے لئے یہاں آئے ہیں۔" اشفاق کے لہجے میں حیرت تھی۔
"ہاں! کیا تم لوگوں کو یہ معاملہ اہم معلوم نہیں ہوتا۔" خان رحمان مسکرائے۔
"اہم تو خیر ہے۔ لیکن اس کے لئے غائب ہونے کی کیا ضرورت تھی۔"
"اہم تو خیر ہے۔ لیکن اس کے لئے غائب ہونے کی کیا ضرورت تھی۔"
اگر ہم اعلانیہ روانہ ہوتے تو وہیں ہمارا راستا روکے جانے کی کوشش کی جاتی۔ ہمارے ملک میں بیگال کے ایجنٹ بے تحاشہ ہیں۔"
"لیکن اب تو سی مون کے ذریعے انہیں اطلاع مل جائے گی۔"
"اب ہم اپنے ملک میں نہیں۔ بیگال کی سرحد کے بہت قریب موجود ہیں۔ اس قدر قریب کے ہم صرف چند منٹ میں اس سرحد کو عبور کر سکتے ہیں۔"
"ہوں۔ ٹھیک ہے۔ لیکن سی مون تو ہم سے بھی پہلے سرحد عبور کر گیا ہے۔" مکھن نے اعتراض کیا۔
"تو کیا ہوا۔۔ ہم اس کو بھی دیکھ لیں گے۔ فکر کی ضرورت نہیں۔" انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
"خیر۔ اب پروگرام کیا ہے؟"
"ریاست کی حکومت ہمیں کسی طرح بیگال میں داخل کرنے کی کوشش میں ہے۔ ان کی کوشش کوئی رنگ لائی یا نہیں۔ یہ ہمیں ایک گھنٹے تک معلوم ہو گا۔"
"اور انکلز کہاں گئے تھے؟"
"ریاست کی حکومت سے کچھ باتیں کرنے۔ بیگال کی طرف سے ان لوگوں کو جو خطرات ہیں، ان سے خبردار کرنے۔"
"تو یہ ریاست بھی بیگال کی نظروں میں ہے۔"
"ہاں! اسے تو وہ جب چاہے تر نوالے کی طرح ہڑپ کر سکتا ہے۔"
"تو پھر ہڑپ کیا کیوں نہیں۔"
"ریاست کے دوسری طرف اسلامی مملکت ہے۔ وہ بھی اتنی کمزور نہیں۔ اس نے بیگال کو دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر اس نے ریاست کنگلات کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو ہماری پوری طاقت ریاست کا دفاع کرے گی۔"
"اور اس دھمکی کا بیگال نے اثر لیا۔" محمود کے لہجے میں حیرت تھی۔
"نہیں۔ وہ اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں ہے۔ جوں ہی بیگال کی حکومت اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئی۔ وہ ریاست کنگلات پر ہلہ بول دے گی۔"
"تب تو۔ ہو سکتا ہے، وہ عظیم کامیابی یہی ہو۔" اخلاق نے خیال ظاہر کیا۔
"نہیں۔ اس قسم کی کامیابیوں کو بیگال عظیم نہیں کہتا۔ ایسے معاملات تو آئے دن کے ہیں۔ خاص طور پر اخبار میں بیان کا شائع ہونا کسی اور ہی پراسرار کامیابی کی طرف اشارہ ہے۔ ہمیں یہی معلوم کرنا ہے۔ اور اس کامیابی کو تہس نہس کرنا ہے۔"
"لیکن سی مون ہمارے راستے میں آئے گا۔" شوکی بڑبڑایا۔
"پرواہ نہیں۔ ہم سی مون کو کیوں خاطر میں لائیں۔" انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
اسی وقت انہوں نے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنیں۔ وہ جلدی سے خیمے سے نکل آئے
3
ان کے رخ گھڑ سواروں کی طرف ہو گئے۔
"یہ۔ یہ کون لوگ ہیں؟'
"ریاست کنگلات کے جانباز۔" خان رحمان مسکرائے۔
"تو اس ریاست میں جانباز لوگ بھی ہیں۔۔" شوکی نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔
"ہاں ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔"
"آخر یہ لوگ ہمیں بیگال میں کس طرح داخل کریں گے، میرا خیال ہے۔ اس وقت تو داخلہ اور بھی مشکل ہو جائے گا، کیوں کہ سی مون نے انہیں ہوشیار کر دیا ہوگا۔"
"سی مون اس قسم کا آدمی نہیں۔" انسپکٹر کامران مرزا مسکرائے۔
"آپ کیا کہنا چاہتے ہیں انکل؟"
"وہ انہیں ہمارے بارے میں بارے میں یہ بات نہیں بتائے گا۔ ورنہ ان سے معاہدہ کس طرح کر سکتا ہے۔"
اسی وقت گھڑ سوار نزدیک آ گئے۔ یہ کل چھے تھے۔ نزدیک آتے ہی وہ گھوڑوں سے اتر آئے۔
"السلام علیکم۔" وہ ایک ساتھ بولے۔
"وعلیکم السلام"
"ایسا معلوم ہوتا ہے۔ جیسے آپ سب جمع ہو چکے ہیں۔"ہاں ! لیکن آپ لوگوں کے لئے ایک افسوس ناک خبر بھی ہے۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"افسوس ناک خبر۔ کیا مطلب؟'
"پی چوں مارا گیا۔"
"کیا مطلب۔ یہ کیسے ہوا۔"
انسپکٹر جمشید نے انہیں تفصیل سنا دی؛
"واقعی یہ ایک تکلیف دہ خبر ہے۔ وہ بہت کام کا آدمی تھا۔ خیر اللہ کی مرضی یہی تھی۔"
"ہمارے کام کا کیا رہا۔"
"قریبا مکمل ہے۔ یہ لیں تصویریں۔"
یہ کہ کر اس نے ایک لفافہ ان کی طرف بڑھا دیا۔ پھر بولا؛
"آپ اس کام سے کتنی دیر میں فارغ ہو جائیں گے؟"
"پانچ چھے گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے۔"
"گویا اب ہمیں ان لوگوں کو پانچ چھے گھنٹے تک روکنا ہو گا۔ جب کہ وہ ایک منٹ بھی صبر نہیں کر رہے۔ اور دھمکیوں پر دھمکیاں دے رہے ہیں۔"
"کسی نہ کسی طرح انہیں روکنا ہو گا۔؛ تا ہم اگر پانی سر سے اونچا ہوتا نظر آئے تو پھر ہمیں آواز دے لیجیے گا۔"
"اوکے۔ آپ فکر نہ کریں۔" ایک نے کہا اور وہ واپس مڑ گئے۔
"ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بات چیت ہوئی ہے۔" فرحت نے الجھن کے عالم میں کہا۔
"آؤ پہلے ان تصویروں کو دیکھ لیں۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"اور پھر آپ چھے گھنٹے تک مصروف رہیں گے۔" محمود بولا۔
"ہاں! مجبوری ہے۔۔ اتنا وقت ضرور لگے گا۔"
"تب تو ہماری عیش ہو گئی۔" فاروق مسکرایا۔
"وہ کس طرح۔ تمہارا اشارہ کس طرف ہے؟"
"چھے گھنٹے میں تو ہم ہم محاورات کا مقابلہ جی بھر کر کر سکیں گے۔ ضرب الامثال کی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ اور نوک جھونک کے کئی طوفان اٹھائے جا سکتے ہیں۔"
"بھئ یہ میدان بہت پر سکون ہے۔" خان رحمان گھبرا کر بولے۔
"پھر آپ نے ہمیں کیوں بلایا تھا انکل"۔ محمود نے شکایت آمیز انداز میں کہا۔
"ہاں! یہ اعتراض بھی بجا ہے۔ بھئی جمشید۔ میرا خیال ہے۔ اس موقعے پر انہیں کھلی چھٹی دے ہی دینی چاہیئے۔"
"ٹھیک ہے۔" وہ بولے۔
"یہ۔ یہ ٹھیک ہے آپ نے کہا ہے ابا جان۔" فاروق دھک سے رہ گیا۔
"بلکہ میں بھی کہہ رہا ہوں۔ ٹھیک ہے۔" انسپکٹر کامران مرزا مسکرائے۔
"وہ مارا۔ اب آئے گا مزا۔" آفتاب نے مکا لہرایا۔
"پہلے ان تصویروں کو ایک نظر دیکھ لو۔" انسپکٹر جمشید نے کہا۔
وہ خیمے پے فرش پر پھیلی تصویروں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انہوں نے دیکھا یہ کل دس تصویریں تھیں۔ آٹھ لڑکوں اور دو لڑکیوں کی۔
"ہم اب بھی نہیں سمجھے۔" مکھن بڑبڑایا۔
"حالاں کہ فوری طور پر سمجھ میں آ جانی چاہئیے تھی یہ بات"۔ پروفیسر داؤد بولے۔
"اوہ۔ تت۔ تو کیا ہمیں ان کا میک اپ کروانا ہے۔"
"ہاں! تم لوگ ان کے میک اپ میں جاؤ گے۔"
"آخر یہ کون ہیں؟"
"دس بیگالی جوان۔ جو شکار کھیلتے ہوئے ریاست کنگلات کی جھیل پر آ گئے تھے۔ ریاست کی پولیس نے انہیں پکڑ لیا۔" انسپکٹر جمشید نے بتایا۔
"کیا اس سے پہلے چار آدمیوں کو بھی پکڑا جا چکا ہے۔" فرزانہ چونکی۔
"تم ٹھیک سمجھیں۔" انسپکٹر کامران مرزا مسکرائے۔
"تب پھر۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔"
"کیا کس طرح ہو سکتا ہے۔"
"بالکل ہماری تعداد، وہ بھی مذکر مونث کا لحاظ رکھتے ہوئے بیگالی شکار کھیلنے ادھر آ جائیں۔ اور سب کے سب پکڑے بھی جائیں۔"
"ہاں! تم بھی ٹھیک کہتی ہو۔ لیکن بات دراصل یہ ہے کہ نیلی جھیل پر بیگال کے باشندے اکثر مچھلیاں پکڑنے آتے رہتے ہیں۔ اس جھیل میں مچھلیاں بے تحاشہ اور بہت بڑی ہیں۔ بے چاری ریاست یوں بھی بیگال سے خوف زدہ ہے۔ اس کے باشندوں کو کیا روک سکتی ہے۔ لہذا وہ دھڑلے سے آتے ہیں اور مچھلیاں پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے اشارے پر انہوں نے چودہ آدمیوں کو گرفتار کر لیا۔ اور اب حکومت بیگال ان چودہ آدمیوں کی واپسی کے لیے دھمکیوں پر دھمکیاں دے رہی ہے۔"
"اور ریاست کنگلات کیا جواب دے رہی ہے؟"
"یہ کہ وہ شکار کھیلتے ہوئے شاید کہیں دور نکل گئے ہیں۔ تلاش جاری ہے۔ جوں ہی ملے۔ سرحد کی طرف بھیج دئے جائیں گے۔"
"بہت خوب۔ ترکیب زور دار ہے۔" محمود نے خوش ہو کر کہا۔
"ترکیب جس قدر زور دار ہے اس قدر خونخوار بھی ہے۔ آخر ہم بیگال میں جا کر کس طرح گھل مل سکیں گے۔ اپنے اپنے گھروں کو کس طرح پہنچ سکیں گے۔"
"اس کا انتظام پہلے ہی کر لیا گیا ہے۔ چودہ کے چودہ افراد ایک گھر کے ہیں۔"
"اوہ۔ لیکن۔" محمود ہکلایا۔
"کہو۔ کیا بات ہے؟"
"ہم اپنے گھر۔ یعنی ان چودہ کے گھر کس طرح پہنچ سکیں گے؟"
"ہمیں بے حوشی کی حالت میں بیگال کے فوجیوں کے حوالے کیا جائے گا۔ سرحد کے دوسری طرف پہنچ کر ہم آنکھیں کھول دیں گے۔ لیکن خود کو غائب دماغ ظاہر کریں گے۔ اس طرح ہمیں بھی ہمارے گھر پہنچا دیا جائے گا۔"
"گویا ترکیب پہلے ہی سوچ لی گئی ہے۔"
"ہاں! اب تم لوگ میک اپ کرانے کے لئے تیار ہو جاؤ۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"دوسرے لفظوں میں ہم باتیں کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔"
ان دونوں تیاریوں کے پہلے ہمیں یہ بتا دیں کہ آپ تو کئی دن سے غائب ہیں۔ آخر اس وقت سے اب تک آپ کیا کرتے رہے ہیں۔؟"
"بھئی اپنے ملک سے غائب ہو کر پہلے یہیں آئے۔ پہلے ریاست کنگلات کے صدر سے ملے۔ انہیں اپنی بات سمجھانے میں پورا ایک دن لگ گیا۔ اللہ اللہ کر کے وہ سمجھے۔ پھر ہم نے منصوبہ بندی کی۔ اس کا جائزہ لیا۔ یعنی کامیابی کا بھی اور ناکامی کا بھی۔ کنگلات کے چند ماہرین سے مشورہ کیا، مطلب یہ کہ ریاست کنگلات کی سستی کی بنا پر وقت بہت ضائع ہوا اور کام کم ہوا۔ خیر اب تھوڑی دیر کی بات ہے۔"
"تو کیا ہم میک اپ شروع کریں۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"ابھی تک ہم نے ان کے حالات نہیں سنے۔ ہمیں تو یہاں اپنا پروگرام ترتیب دینے سے فرصت ہی نہیں ملی۔ وہاں کے حالات کیسے ہیں؟" خان رحمان بولے۔
"ہمارے حالات میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارا گھر ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔ پورا شہر آگ اور خون کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔"
"ارے وہ کیسے؟"
اور پھر انہیں بھی شہر کے تمام حالات تفصیل سے سنانا پڑے۔
"اف مالک یہ تو بہت ہولناک واقعات ہیں۔"
"جی ہاں! لیکن اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔" فاروق نے منہ بنایا۔
"کیا مطلب؟" پروفیسر داؤد نے حیران ہو کر کہا۔
"جی۔ مطلب یہ کہ ہم ان کی ہولناکی کس طرح کم کر سکتے ہیں۔ جس طرح پیش آئے۔ اسی طرح بیان کر دئیے۔" فاروق بولا۔
"ادھر ادھر کی نہ ہانکو۔" آفتاب نے اس گھورا۔
"میں سمجھ گیا۔ تم اس وقت سے فائدہ اٹھانے پر تلے ہو۔ خیر پروا نہیں۔ آج تم سے دو دو ہاتھ ہو کر رہیں گے۔"
"بھئی کس قسم کے دو دو ہاتھ۔ کیا زبانی۔" مکھن مسکرایا۔
"دیکھا۔ ہمیں لڑانے کی لیے پر تول رہا ہے۔" فاروق نے گویا آفتاب کو خبردار کیا۔
"قسم لے لو۔ جو آج تک پر تول کر دیکھے ہوں۔ پر بھی کہیں تولنے کی چیز ہوتے ہیں۔" مکھن گھبرا کر بولا۔
"لاؤ۔ کہاں ہے قسم۔"
"دیکھا شروع ہو گیا نا کام۔۔ جمشید۔ ہم در اصل ان باتوں کو ترس گئے تھے۔ ورنہ اکتاہٹ کا کیا کام۔" پروفیسر داؤد خوش ہو کر بولے۔
"تو پھر اب اس کام سے خوب سیر ہو لیں"۔ انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
"پہلے تم میں سے دو ہمارے سامنے آ کر بیٹھ جائیں، تا کہ ہم اپنا کام کرتے رہیں۔"
"جن دو کو آپ فرمائیں۔ آ جاتے ہیں۔"
"تو پھر اخلاق اور اشفاق آ جائیں۔"
وہ اٹھ کر سامنے بیٹھ گئے۔
"فاروق مجھ سے دو دو ہاتھ کرنے کی بات کر رہا تھا۔" آفتاب نے پھر سلسلہ جاری کیا۔
"اچھا تو پھر۔" فاروق بھنّا اٹھا۔ ساتھ ہی اٹھ کر کھڑا بھی ہو گیا۔
"اوہو۔ تم تو واقعی مقابلے کے لئے تیار ہو۔ یوں ہی سہی۔ آؤ۔" آفتاب نے کہا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
"سب سے ناپسندیدہ بات مجھے ان کی یہی لگتی ہے۔ یہ جو ایک دوسرے کے مقابل آ جاتے ہیں۔ بھئی دشمنوں سے مقابلے ہوتے ہی رہتے ہیں۔" انسپکٹر کامران مرزا نے منہ بنا کر کہا۔
"مقابلوں سے پہلے ورزش، پریکٹس اور ریہرسل بھی تو کی جاتی ہے انکل۔" فاروق مسکرایا۔
"اچھا بھائی لڑو۔" انہوں نے منہ بنایا۔
"لو بھئی۔ اب تو ابا جان کی اجازت مل گئی ہے۔ اب آئے گا مزا۔" آفتاب خوش ہو کر بولا۔
"خبردار۔ مین نے اجازت نہٰں دی۔ تنگ آ کر یہ بات کہی ہے۔" انسپکٹر کامران مرزا بلند آ واز میں بولے۔
"چلئے خیر۔ ہم اس بات کو اجازت ہی سمجھ لیتے ہیں انکل۔" فاروق بولا۔
"میرا خیال ہے انکل آج انکا مقابلہ ہو ہی جائے۔" محمود نے منہ بنایا۔
"مجھے کوئی اعتراض نہیں۔" انہوں نے کہا۔
"آپ انہیں اجازت تو دے رہے ہیں، لیکن یہ اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ابا جان۔ ہم اور ناجائز فائدہ۔"
"ابھی معلوم ہو جائے گا۔" انسپکٹر جمشید نے کندھے اچکائے۔
"بھئی واہ۔ اب تو اس معاملے میں دلچسپی بہت بڑھ گئی ہے۔" خان رحمان چہکے۔
"تم کیا کہنا چاہتے ہو۔" پروفیسر داؤد حیران ہو کر بولے۔
"دیکھنا یہ ہے کہ یہ ناجائز فائدہ کیا اٹھاتے ہیں۔"
"ہمارا اعلان یہی ہے کہ ہم کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔" آفتاب نے اعلان کیا۔
"اور میرا اعلان ہے۔ ایسا ہو کر رہے گا۔"
"چلیے۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔" فاروق بولا۔
"ٹھیک ہے۔ مقابلہ شروع کر دو۔"
دونوں مرغوں کے انداز میں خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے، پھر فاروق نے آفتاب پر چھلانگ لگائی۔۔ آفتاب بلا کی تیزی سے دائیں طرف سرک گیا۔ فاروق اپنے زور میں کچھ آگے نکل گیا۔،لیکن فورا ہی مڑا، اس وقت تک آفتاب چھلانگ لگا چکا تھا۔ فاروق نے فورا جھکائی دی، آفتاب جھونک میں محمود سے ٹکرایا۔ محمود بے خبر تھا۔ وہ آصف کے اوپر گرا۔
"یہ کیا۔ تمہارا مجھ سے تو لڑنے کا ارادہ نہیں ہے۔" آصف نے بھنا کر کہا۔
"ارادہ تو نہیں تھا۔ لیکن اگر تم چاہتے ہو تو میں تیار ہوں۔ آ جاؤ۔" محمود نے کہا اور اچھل کر اس کے سامنے آ گیا۔ وہ بھی اٹھا۔ دونوں ایک دوسرے پر جھپٹے۔ لیکن ان کی لپیٹ میں شوکی آ گیا۔ دونوں کے سر اس کے سر سے ٹکرائے۔۔ شوکی چکرا کر گرا۔ یہ دیکھ کر مکھن تلملا گیا۔ اس نے محمود پر چھلانگ لگائی۔ لیکن محمود پلٹ کر ایک طرف ہو گیا۔ مکھن سیدھا فرزانہ سے جا ٹکرایا۔ فرزانہ کی ناک پر چوٹ لگی۔ اس نے بھنا کر جو ہاتھ گھمایا۔ تو اس کا ہاتھ فرحت کے گال پر زور سے پڑا۔
"ہائیں۔ فرزانہ۔ یہ میرا گال تھا۔" یہ کہ کر اس نے لات چلائی۔ لات دوسری طرف سے آتے ہوئے فاروق کی پنڈلی پر لگی۔ اسی وقت آفتاب نے اس پر چھلانگ لگا دی۔ لیکن فرحت سے ٹکرا گیا۔
اور پھر تو ہڑبونگ مچ گئی۔ بس ان میں سے صرف دو تھے۔ جو اس طوفان بدتمیزی سے بچ گئے تھے۔ اور وہ تھے اشفاق اور اخلاق۔ کیوں کہ وہ میک اپ کروانے کے سلسلے میں الگ جا بیٹھے تھے۔ ایسے میں انسپکٹر جمشید کی آواز ابھری۔
"میں نے کیا کہا تھا۔۔ یہ ناجائز فائدہ ضرور اٹھائیں گے۔"
ان سب کو ایک جھٹکا سا لگا اور اپنی اپنی جگہ ساکت ہو گئے۔
"مم۔ میرا خیال ہے۔ باتوں کی جنگ اس سے بہتر رہے گی۔"
"ہاں! اس میں ہم کچھ محاورات کی چٹنی شامل کر دیں گے۔"
اور ضرب الامثال کے گھوڑے بھی دوڑا سکتے ہیں۔"
"بالکل ٹھیک۔ وہ جنگ اس بھدی لڑائی سے بہت بہتر رہے گی۔" خان رحمان بولے۔
"شکر ہے۔ بڑے ہماری لڑائی میں شریک نہیں ہوئے۔" محمود نے کہا۔
"بھئ ہم اتنے بےوقوف نہیں۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"آپ۔ آپ کا مطلب ہے۔ ہم بےوقوف ہیں۔"
"میرا خیال ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا۔ کیوں خان رحمان۔ پروفیسر صاحب۔"
"نن۔ نہیں۔ یہ تو نہیں کہا۔" خان رحمان ہکلائے۔
"لیکن۔ مطلب کچھ یہی نکلتا ہے۔" پروفیسر داؤد مسکرائے۔
"اگر یہ بات ہے تو پھر ہمیں بلانے کی کیا ضرورت تھی۔" فاروق برا مان گیا۔
"کم از کم ہم نے تم لوگوں کو آپس میں لڑنے کے لئے نہیں بلوایا تھا۔" انسپکڑ کامران مرزا بولے۔
"ہاں! یہ بھی ٹھیک ہے۔"
"ارے! شوکی کے منہ سے نکلا۔ اور پھر اس کے ساتھ سب اس طرف مڑ گئے۔ جس طرف شوکی کی نظریں جمی تھیں۔ دور بہت دور ایک سیاہ دھبہ نظر آ رہا تھا۔
4
"سیاہ دھبہ۔ بھلا یہ کیا چیز ہو سکتی ہے؟" محمود بڑبڑایا۔
"دھبہ!" فاروق بول اٹھا۔
"بھئی واہ! بہت معقول جواب دیا۔" آصف خوش ہو کر بولا۔
"نزدیک آنے پر معلوم ہو جائے گا۔ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔"
وہ اس دھبے کی طرف دیکھتے رہے۔ لمحہ بہ لمحہ دھبہ بڑا ہوتا چلا گیا۔ اور آخر انہوں نے جان لیا، وہ ایک سیاہ رنگ کی کار ہے۔
"کار پر کون آ گیا۔" انسپکٹر جمشید بڑبڑائے۔
"کیوں انکل۔ کیا یہاں کار پر آنا جرم ہے۔" مکھن نے حیران ہو کر کہا۔
"ریاست کنگلات میں کاریں نہیں۔ یہاں گھوڑوں سے کام چلایا جاتا ہے یا پھر حکومت کے پاس چند بڑی بڑی گاڑیاں ہیں۔" انہوں نے کہا۔
"تب پھر یہ کار کہاں سے آ گئی؟"
"یہی بات میں سوچ رہا ہوں۔"
اتنے میں کار اور نزدیک آ گئی۔ دوسرا لمحہ چونکا دینے والا تھا۔ کار میں سے بیگال کے پانچ فوجی اترے۔ ان کے ہاتھوں میں رائفلیں تھیں؛
"ہاتھ اوپر اٹھا دو تم لوگ۔" ان میں سے ایک نے انگریزی میں کہا۔
"لیکن کیوں۔ کیا بات ہے؟" انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
"تم یہ پوچھنے والے کون ہو۔ اس ریاست کا حکمران بھی یہ نہیں پوچھ سکتا۔" اس نے بھنا کر کہا۔
"لیکن ہم ضرور پوچھ سکتے ہیں۔"
"کیا مطلب؟" وہ چونکے۔
"ہم پوچھ سکتے ہیں۔ آپ کون ہیں؟"
"اب ہمیں پہلے یہ جاننا ہو گا کہ تم لوگ کون ہو۔"
"سیاح!" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"گویا تم لوگ ریاست کے باشندے نہیں ہو۔"
"نہیں۔ سیاحت کرتے ہوئے یہاں تک آئے ہیں۔ اور ریاست کی منظوری سے یہاں قیام پذیر ہیں۔"
"ہوں! ہم ان خیموں کی تلاشی لیں گے۔"
"کیوں کس سلسلے میں؟" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"ہمارے کچھ لوگ غائب ہیں۔ ہمارا خیال ہے۔ ان کو ریاست کنگلات نے مار ڈالا ہے۔"
"ٹھیک تلاشی لے لیں۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
سیاہ رنگ کی کار کے نزدیک آنے سے پہلے ہی وہ چیزیں ایک جگہ چھپا چکے تھے اور میک اپ کا سامان سمیٹ چکے تھے۔ ابھی اشفاق اور اخلاق کے چہروں پر بھی کام شروع نہیں کیا گیا تھا۔"
بیگال کے فوجی خیموں کی تلاشی لینے لگے۔ آخر مایوس ہو کر پھر ان کے پاس آئے۔
"ہمارے آدمی یہاں نہیں ہیں۔ اب ہم چلتے ہیں۔"
"شکریہ۔" ان کے منہ سے نکلا۔
"لیکن ہم نے ان کے سامان کی تلاشی نہیں لی۔" ایک نے کہا۔
"سامان کی تلاشی لینے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارے بندے سامان میں تو نہیں ہو سکتے۔" دوسرے نے منہ بنایا۔
"سامان دیکھ لینے میں حرج بھی کیا ہے۔" اس نے سخت لہجے میں کہا۔ شاید وہی ان کا انچارج تھا۔
"اچھا۔ چلو بھئی۔ ان کے سامان کی تلاشی بھی لو۔"
وہ چاروں تلاشی لینے لگے، پانچواں رائفل تانے ان کے سامنے کھڑا رہا۔ اور پھر میک اپ کے سامان پر ان کی نظریں جم گئیں۔
"یہ۔ یہ کیا ہے؟"
"ہم لوگ بہروب بھرنے کے ماہر ہیں۔"
"کس سلسلے میں۔ میرا مطلب ہے۔ تم لوگوں کو بہروب بھرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔"
"سیاح ہیں نا۔ جہاں جاتے ہیں۔ وہیں کی سی قطع وضع اختیار کر لیتے ہیں تا کہ لوگ اجنبی بن کر نہ ملیں۔"
"خوب۔ ترکیب اچھی ہے۔ لیکن آپ کو ہمارے کمانڈر کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔"
"کیوں! کیا بات ہے۔"
"اس سامان نے ہمیں شک میں ڈال دیا ہے۔"
"آپ اپنے کمانڈر کو یہیں بلا لائیں۔"
"وہ یہاں نہیں آ سکتے۔ انہیں کیا ضرورت ہے یہاں آنے کی۔ ہم چاہیں تو اس ساری ریاست کو ان کے سامنے پیش کر دیں۔"
" تو پھر کر دیں ہمیں بھی پیش۔" محمود نے منہ بنایا۔
"ہمارے آگے آگے چلو۔ کار تم لوگوں کے پیچھے پیچھے آئے گی۔"
"تو ہم پیدل جائیں گے؟"
"اب تم لوگوں کے لئے اس وقت گاڑیوں کا انتظام کس طرح کریں۔"
"بہت بہتر۔ آؤ بھئی چلیں۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"یہ۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔" محمود کے لہجے میں حیرت تھی۔
"کک۔ کیوں۔ کیا میں نے کچھ غلط بات کہہ دی۔" انسپکٹر جمشید نے گھبرا کر کہا۔
"آخر ہم کیوں جائیں۔"
"اور ہم جا بھی نہیں رہے۔ میں نے تو ان سے کہا ہے کہ لے جا سکتے ہیں تو لے جائیں۔"
"یہ کیا مشکل ہے" پہلا بولا۔
"تجربہ کر لیں۔"
"اگر تم لوگ ہمارے آگے آگے نہ چلے تو ہم گولیوں سے تم کو چھلنی کر دیں گے۔" اس نے غرا کر کہا۔
"کر دو چھلنی۔"
"پاگل تو خیر نہیں۔ آپ ہمیں سر پھرے ضرور کہہ سکتے ہیں۔" فاروق مسکرایا۔
"یہ دیکھو۔ میرے ہاتھ میں کیا ہے۔" ایسے میں محمود نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
ان کے رخ اس کے ہاتھ کی طرف ہو گئے۔ اسی وقت اس کا ہاتھ حرکت میں آ گیا۔ چاقو ایک فوجی کے پیٹ میں جا لگا۔ اس کے منہ سے ایک ہولناک چیخ نکلی۔ اور وہ آگے کی طرف جھکا اور دھپ سے گر گیا۔
"ارے ارے۔ یہ تمہیں کیا ہوا۔" چاروں اس کی طرف مڑے۔
یہ ایک بہترین موقع تھا۔ انسپکٹر جمشید، کامران مرزا نے تین پر ایک ساتھ چھلانگ لگا دی۔ وہ ان کی کمروں سے ٹکرائے۔ البتہ ایک رہ گیا۔ وہ بھنا کر پلٹا اور رائفل سے فائر کرنے کے لئے پر تول رہا تھا کہ آصف اس سے جا ٹکرایا۔
ادھر انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا رائفلیں چھین چکے تھے۔ خان رحمان رائفل چھیننے کی کوشش میں فوجی کو پکڑ کر بری طرح رگید رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے رائفل ان کے ہاتھ میں نظر آئی۔ ادھر آصف رائفل سے چمٹ کر رہ گیا تھا۔ فوجی کوشش کے باوجود رائفل چلانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
"بس اب تم لوگ ہاتھ اوپر اٹھا دو۔" اسنپکٹر کامران مرزا نے بلند آواز میں کہا۔
ان کے ہاتھ اوپر اٹھ گئے۔ آصف رائفل چھین کر ان کی طرف آ گیا۔ محمود نے آگے بڑھ کر زخمی فوجی کے پیٹ سے اپنا چاقو نکال لیا اور اس کے کپڑوں سے چاقو صاف کر کے جوتے کی ایڑی میں رکھ لیا۔
"اب ان کا کیا کریں؟" فاروق بولا۔
"دوسری دنیا میں پہنچا دینا چاہئے۔" آصف نے کہا۔
"نن۔ نہیں۔" وہ کانپ گئے۔
"کیوں نہیں۔ کیا تھوڑی دیر پہلے تم ہم لوگوں کو جان سے مارنے پر تل نہیں گئے تھے۔"
"وہ۔ وہ تو ہم مذاق کر رہے تھے۔
"تو پھر اب ہمارا مذاق بھی دیکھو۔" انسپکٹر جمشید نے کہا اور وہ رائفل کا ٹریگر دباتے چلے گئے۔
وہ پانچوں ڈھیر ہو گئے۔
"اب ہم انہیں زندہ رکھ بھی نہیں سکتے تھے۔" انہوں نے کہا۔
"لیکن جلد ہی ان کی تلاش شروع ہو جائے گی۔ پہلے ہی وہ اپنے چودہ ساتھیوں کی تلاش میں ہیں۔"
"ہم کر ہی کیا سکتے تھے۔ آؤ انہیں دفن کر دیں۔"
ان کی جیبوں سے ضرورت کی چیزیں نکال لی گئیں۔ گولیوں کی پیٹیاں بھی اتال لی گئیں۔ اور پھر ایک گڑھا کھود کر انہیں اسی گڑھے میں دفن کر دیا گیا۔
"اس کار کا کیا کریں؟"
"ہم نے ان کو گڑھے میں دفن کر کے غلطی کی۔ اس کار میں ڈال کر آگ لگا دینی چاہئے تھی۔ اس طرح یہ نتیجہ نکالا جاتا کہ کار میں آگ لگ گئی۔ اور یہ اس میں جل گئے۔ فرزانہ بولی۔
"اس صورت میں بھی واردات کا سراغ لگا لیا جاتا۔ آؤ ہم اس کار کو کہیں چھپا دیں۔" شاید ہمارے کام آ جائے۔"
یہ کہہ کر انسپکٹر جمشید کار میں بیٹھ گئے۔ عین اسی وقت کار میں رکھے وائرلیس سیٹ پر اشارہ موصول ہوا۔ وہ چونک اٹھے۔ اس وقت تک محمود اور آصف بھی کار میں بیٹھ چکے تھے۔ آصف نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر سب کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔ ادھر انسپکٹر جمشید ایک فوجی کےلہجے میں بولے۔
"یس سر"
"تم لوگ کس سمت میں ہو۔ جلد واپس پہنچو اور رپورٹ دو۔"
"او کے سر۔ ہم آ رہے ہیں۔" انہوں نے کہا۔
"جلدی کرو۔" دوسری طرف سے کہا گیا۔
اور وائرلیس سیٹ بند کر دیا گیا۔
"ہمیں جلد از جلد اس کار سے پیچھا چھڑا کر اپنے خیمے یہاں سے کچھ فاصلے پر نصب کرنا ہونگے۔ ورنہ اس جگہ کی کھدائی ضرور کروائی جا سکتی ہے۔"
"ہوں! بات تو ٹھیک ہے۔"
کار کو درختوں کے ایک جھنڈ میں چھپا دیا گیا۔ اور پھر خیمے اکھاڑ لئے گئے۔ اب وہ اس جگہ سے کافی فاصلے پر چلے گئے۔ جہاں لاشیں دفن کی گئیں تھیں۔ وائرلیس سیٹ کو بھی انہوں نے زمیں میں کافی گہرا دفن کر دیا تھا۔ اب انہوں نے پھر میک اپ شروع کر دیا۔ بار بار ان سب کی نظریں سرحد کی سمت میں اٹھتی رہیں۔ دھڑکا سا لگا تھا کہ نہ جانے کب بیگال کے فوجی ادھر آ جائیں۔ لیکن کوئی نہ آیا۔
آخر میک اپ کا کام مکمل ہو گیا۔ اب چودہ کے چودہ بیگالی باشندوں کی شکل صورت اور لباس میں تھے۔ لباس انہیں پہلے ہی مہیا کر دئے گئے تھے۔
"اب ہم سب محتاط ہو کر بات چیت کریں گے۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"گویا پروگرام یہ ہے کہ ہم بیگال میں بیگالی باشندوں کے روپ میں رہیں گے اور اس بہت بڑی کامیابی کا راز معلوم کرنے کی کوشش کریں گے۔"
"ہاں۔ یہی پروگرام ہے۔ ہمیں دشمن ملک میں اس طرح رہنا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔"
"شاید ہم ایک بہت مشکل اور خطرات سے پُر کام میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔" پروفیسر داؤد بڑبڑائے۔
"ڈال رہے نہیں پروفیسر صاحب۔ ڈال چکے ہیں۔" خان رحمان مسکرائے۔
"اور جب ڈال چکے ہیں تو پھر موسلوں کا کیا ڈر۔"
"حیرت ہے۔ اب تک ریاست کی طرف سے کوئی نہیں آیا۔ جب کہ بہت دیر پہلے انہیں آ جانا چاہئے تھا۔ انسپکٹر کامران مرزا بڑبڑائے۔
"بیگال کے فوجی بھی دیر کا سبب ہو سکتے ہیں۔" فرزانہ نے کہا۔
"ہاں! اس کا امکان ہے۔"
"لل۔ لیکن۔ میرے ذہن میں ایک اور ہی بات آ رہی ہے۔" فرحت نے پریشان آواز منہ سے نکالی۔
"اوہ! وہ کیا۔" کئی آوازیں ابھریں۔
"یہ کہ کہیں بیگال کے فوجی ان چودہ آدمیوں تو نہ پہنچ گئے ہوں۔"
"ارے!" ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
ان کے رنگ اڑ گئے۔ ایسا ہونے کا مطلب یہ تھا کہ ان کی ساری محنت برباد ہو گئی۔
"میں نے انہیں اس سلسلے میں ہدایات دی تھیں کہ انہیں کہیں اسی جگہ رکھا جائے۔ جہاں کسی کا خیال تک نہ جائے۔" انسپکٹر جمشید بڑبڑائے۔
"لیکن وہ زبردستی کر کے اگلوا تو سکتے ہیں۔"
"ہاں! دراصل ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ بیگال اس حد تک دیدہ دلیری پر اتر آئے گا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اسے اب بُردان کی دخل اندازی کا کوئی خوف نہیں۔"
"ہو سکتا ہے۔ بُردان کو بیگال کافی حد تک کمزور کر چکا ہو۔ اور اپنے چودہ افراد کی خاطر خطرہ مول لینے پر آمادہ ہو گیا ہو۔"
"کچھ بھی ہو۔ ہمارے لئے یہ اچھا نہیں ہے۔ ہماری مہم شروع میں ہی کھٹائی میں پڑتی نظر آ رہی ہے۔"
عین اسی وقت گھوڑوں کی ٹاپوں کے آواز ان کے کانوں میں آئی۔
"لیجئے وہ آ گئے۔ جن کا انتظار تھا۔" فرزانہ مسکرائی۔
"اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ خبر کیا لائے ہیں۔"
جلد ہی انہیں گھوڑ سوار نظر آنے لگے۔ اور پھر وہ نزدیک آ کر گھوڑوں سے اتر آئے۔ لیکن بات چیت ہونے سے پہلے ہی انہوں نے جان لیا کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔
"کیا انہوں نے اپنے چودہ افراد تلاش کر لئے؟"
"ہاں جناب۔ وہ ہمارے شیخ کو بھی پکڑ کے لے گئے ہیں۔"
"اوہ! یہ بہت برا ہوا۔"
"اب ریاست کے لوگ آپ لوگوں کی طرف آ رہے ہیں۔ وہ آپ لوگوں کے خلاف ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری مصیبت آپ لوگوں کی وجہ سے آئی ہے۔"
"اس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہی یہ مصیبت ہم لوگوں کی وجہ سے آئی ہے۔ لیکن آپ لوگ یہ بھی تو سوچیں کہ کچھ عرصہ گزرنے پر اس سے بڑی مصیبت آپ لوگوں پر نازل ہوتی۔ بیگال کے ارادے کس سے چھپے ہیں۔"
"سوال یہ ہے کہ ہم اب کیا کریں؟"
"بُردان سے بات چیت کرنا ہو گی۔ دیکھیں وہ کیا کہتا ہے۔ لیکن اب ہمارے لئے یہاں رکنا ٹھیک نہیں۔ بیگال کے پانچ فوجی ادھر بھی نکل آئے تھے۔"
"کیا!" ان کے منہ سے چیخنے کے انداز میں نکلا۔
"ہاں! یہی بات ہے۔"
"اور آپ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟"
"مار ڈالا۔ اور کیا کر سکتے تھے۔"
"تب ہماری خیر نہیں۔ ابھی شاید انہیں ان پانچ کی گمشدگی کے بارے میں معلوم نہیں۔ جوں ہی معلوم ہو گا۔ وہ پھر آئیں گے۔ اور پوری ریاست ان کی زد پر ہوگی۔"
"اب جب کہ وہ آپ کے حکمران کو پکڑ کے لے گئے ہیں۔ آپ کو بھی چاہئے، ادھر ادھر منتشر ہو جائیں۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"آپ تو ہمیں گھر سے بے گھر ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔"
"ہاں! اور کیا ہی کیا جا سکتا ہے۔ آپ بردان میں پناہ لے لیں۔ یہاں کوئی نہ ٹھہرے"
"اور۔ اور آپ۔"
"ہماری فکر نہ کریں۔ اب یہ اجڑی ہوئی ریاست ہمارا اڈا ہوگی۔ ہم بیگال کے خلاف کاروائی شروع کر رہے ہیں۔ اب ہم ایک نئے انداز سے کوشش کریں گے۔"
"لیکن آپ کو پروگرام تو بیگال میں داخل ہونے کا تھا۔"
"تھا نہیں۔۔ بلکہ ہے۔ ہم ضرور داخل ہونگے۔"
"اچھا۔ ہم اپنے ساتھیوں کو سمجھا کر بردان کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن وہ آپ لوگوں کے خلاف غم و غصے میں بھرے ہوئے ہیں۔"
"اگر یہ بات ہے تو انہیں پہلے ہماری طرف ہی آنے دیں۔"
"کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ وہ آپ کی تکا بوٹی کر دیں گے۔"
"اگر ہماری تکا بوٹی کر کے وہ سکوں اور نجات حاصل کر سکتے ہیں تو یہ سودا مہنگا نہیں ہو گا۔"
اسی وقت انہوں نے سیکڑوں آدمیوں کا بے ہنگم شور سنا۔ شور لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہا تھا اور پھر دوڑتے ہوئے لوگ انہیں دکھائی دینے لگے۔
"وہ۔ وہ آ گئے۔" گھڑ سواروں کے منہ سے نکلا
5
اب کے ہاتھوں میں رائفلیں، نیزے، بھالے، تیر کمانیں۔ یہ سبھی کچھ تھا۔ چہروں پر غصہ تھا۔ رنگ تمتما رہے تھے۔ آخر مجمع آ کر ان کے سامنے رک گیا۔ گھڑ سواروں کو دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ شور مچانے لگ گئے تھے۔
"انہیں گرفتار کیا جائے۔ ورنہ ہم اپنے ہاتھوں سے انہیں ختم کر دیں گے۔" مجمعے میں سے کوئی چلایا۔
"ہم گرفتار ہونے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن آپ لوگ ہمیں کچھ کہنے کی ملہت نہیں دیں گے گیا؟" انسپکٹر جمشید بلند آواز میں بولے۔
"ضرور۔ کہو۔ کہا کہنا چاہتے ہو۔"
"آپ کا خیال یہی ہے نہ کہ یہ سب ہماری وجہ سے ہوا۔"
"ہاں۔ بالکل!" وہ چلا اٹھے۔
"کیا۔ آپ کا خیال ہے۔ بیگال کبھی آپ لوگوں کو کچھ نہ کہتا۔ کیوں کہ جب بھی اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ بردان نے فورا آپ کی حمایت میں بیان دے ڈالا۔ اور بیگال خاموش ہو گیا۔ لیکن کیا آپ نہیں جانتے کہ اب بردان کی کیا حالت ہے۔ بیگال کے جاسوسوں نے وہاں نفرت کے بیج بو دئیے ہیں۔ یہ بیج اب پھل لے آئے ہیں۔ اب وہاں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے۔ مسلمان آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ اگر بردان کے لوگوں نے عقل کے ناخن نہ لئے تو وہ دن دور نہیں جب بردان کی حکومت حد درجہ کمزور ہو جائے گی بلکہ ہو چکی ہے۔ ان حالات میں بیگال آپ کی طرف بڑھنے ہی والا تھا۔ اور اب بردان حمایت میں کوئی بیان تک دینے کے قابل نہیں رہ گیا۔ لہذا کیا بیگال آپ کی طرف کبھی توجہ نہیں دے گا۔ یہی خیال ہے آپ لوگوں کا۔ میں کہتا ہوں۔ بالکل غلط خیال ہے۔ کوئی دن میں وہ آپ کو ہڑپ کرنے والا تھا۔ اتفاق سے ہم آ گئے اور ہم بہانہ بن گئے۔ اس وقت بھی وہ صرف آپ کے حکمران کو لے گئے ہیں۔ سوچا ہے کیوں۔ باقی لوگوں کو انہوں نے کیوں کچھ نہیں کہا۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے، بردان میں کوئی چنگاری باقی ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو پہلے وہ اس چنگاری کی طرف توجہ دے گا اور پھر آپ لوگوں کی طرف قدم بڑھائے گا۔۔ میرا مشورہ مانیں۔ آپ لوگ بھی بردان میں پناہ لے لیں اور وہاں کی حکومت کا ساتھ دیں۔ اس طرح آپ ایک طاقت ہو کر اندرونی سازش کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس ریاست کا کیا ہے آپ بعد میں بھی حاصل کر سکیں گے۔"
یہاں تک کہہ کر انسپکٹر جمشید خاموش ہو گئے۔
انہوں نے دیکھا۔ ریاست کے لوگوں کے سر جھکتے جا رہے تھے۔ آخر ان میں سے ایک بوڑھے نے کہا؛
"یہ۔ یہ ٹھیک کہ رہے ہیں۔ یہ ہمارے دشمن نہیں ہیں، ہم ان کے مشورے پر عمل کریں گے۔"
"ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔"
"اگر آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے تو پھر فوری طور پر ریاست کو خالی کر دیں۔ اور بردان کی طرف نکل جائیں۔۔ کہیں وہ آپ پر حملہ کرنے کا پروگرام نہ بنا لیں۔"
"ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔"
اور پھر مجمع بھاگ کھڑا ہوا۔ ایسے میں ایک گھڑ سوار نے کہا۔
"اور ہم کیا کریں؟"
"آپ لوگ بھی ان کا ساتھ دیں۔"
"اچھی بات ہے۔" وہ بولے اور مجمعے کا رخ کر لیا۔
ان کے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد انسپکٹر جمشید نے کہا؛
"ہمیں اب حکمران نے محل کی طرف چل پڑنا چاہئے۔ اب اس میک اپ میں تو ہم جا نہیں سکیں گے۔ کوئی اور ترکیب کرنا ہو گی۔"
"ادھر سی مون بیگال کے ذمہ دار لوگوں تک پہنچ چکا ہو گا۔ جوں ہی ان کی آپس میں بات چیت ہوئی۔ وہ میدان عمل میں کود پڑے گا۔" خان رحمان بولے۔
"فکر کی کوئی بات نہیں۔" ہماری زندگیوں میں اور ہے ہی کیا۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
آخر انہوں نے نئے سرے سے تیاری کی، ضروری چیزیں اٹھائیں اور آبادی کی طرف چل پڑے۔ رہائشی علاقے میں داخل ہوئے تو بے شمار لوگ چا چکے تھے اور کچھ جا رہے تھے۔ ان لوگوں نے بھی صرف ضروری چیزیں اٹھائی تھیں۔ اور پھر پوری بستی خالی ہو گئی۔ ان کے سوا وہاں کوئی نہ رہا۔
"اجڑی بستی میں ہم اجنبی۔" فرزانہ اداس لہجے میں بولی۔
"کسی ادبی کہانی کا نام ہو سکتا ہے۔ ناول کا نہیں۔" فاروق نے منہ بنایا۔
"ہو سکتا ہو گا۔ اپنے نام اپنے پاس رکھو۔" آفتاب نے منہ بنایا۔
"تم کیوں جلے جا رہے ہو۔" فاروق نے گھورا۔
"جلوں نہ تو کیا کروں۔ یہ وقت تو رونے کا بھی ہے، ریاست کے لوگ بے چارے گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں۔"
"ہاں! یہ تو ہے۔ لیکن رہ کر بھی ہم کیا کر لیں گے۔ رونے سے کہیں تقدیریں بدلتی ہیں۔ تقدیریں تو بدلتی ہے کمر ہمت باندھنے سے۔" فاروق نے جلدی جلدی کہا۔
"فاروق کی بات پسند آئی۔ ان لوگوں کو اب ہمت کرنا ہو گی۔ ورنہ بیگال بردان کو ہڑپ کرنے میں کامیاب ہونے ہی والا ہے۔"
"کہیں اس کی زبردست قسم کی کامیابی یہی تو نہیں ہے۔" فرزانہ بول اٹھی۔
"بُردان سے بات چیت کرنا ہو گی۔ دیکھیں وہ کیا کہتا ہے۔ لیکن اب ہمارے لئے یہاں رکنا ٹھیک نہیں۔ بیگال کے پانچ فوجی ادھر بھی نکل آئے تھے۔"
"کیا!" ان کے منہ سے چیخنے کے انداز میں نکلا۔
"ہاں! یہی بات ہے۔"
"اور آپ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟"
"مار ڈالا۔ اور کیا کر سکتے تھے۔"
"تب ہماری خیر نہیں۔ ابھی شاید انہیں ان پانچ کی گمشدگی کے بارے میں معلوم نہیں۔ جوں ہی معلوم ہو گا۔ وہ پھر آئیں گے۔ اور پوری ریاست ان کی زد پر ہوگی۔"
"اب جب کہ وہ آپ کے حکمران کو پکڑ کے لے گئے ہیں۔ آپ کو بھی چاہئے، ادھر ادھر منتشر ہو جائیں۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"آپ تو ہمیں گھر سے بے گھر ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔"
"ہاں! اور کیا ہی کیا جا سکتا ہے۔ آپ بردان میں پناہ لے لیں۔ یہاں کوئی نہ ٹھہرے"
"اور۔ اور آپ۔"
"ہماری فکر نہ کریں۔ اب یہ اجڑی ہوئی ریاست ہمارا اڈا ہوگی۔ ہم بیگال کے خلاف کاروائی شروع کر رہے ہیں۔ اب ہم ایک نئے انداز سے کوشش کریں گے۔"
"لیکن آپ کو پروگرام تو بیگال میں داخل ہونے کا تھا۔"
"تھا نہیں۔۔ بلکہ ہے۔ ہم ضرور داخل ہونگے۔"
"اچھا۔ ہم اپنے ساتھیوں کو سمجھا کر بردان کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن وہ آپ لوگوں کے خلاف غم و غصے میں بھرے ہوئے ہیں۔"
"اگر یہ بات ہے تو انہیں پہلے ہماری طرف ہی آنے دیں۔"
"کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ وہ آپ کی تکا بوٹی کر دیں گے۔"
"اگر ہماری تکا بوٹی کر کے وہ سکوں اور نجات حاصل کر سکتے ہیں تو یہ سودا مہنگا نہیں ہو گا۔"
اسی وقت انہوں نے سیکڑوں آدمیوں کا بے ہنگم شور سنا۔ شور لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہا تھا اور پھر دوڑتے ہوئے لوگ انہیں دکھائی دینے لگے۔
"وہ۔ وہ آ گئے۔" گھڑ سواروں کے منہ سے نکلا
6
اب کے ہاتھوں میں رائفلیں، نیزے، بھالے، تیر کمانیں۔ یہ سبھی کچھ تھا۔ چہروں پر غصہ تھا۔ رنگ تمتما رہے تھے۔ آخر مجمع آ کر ان کے سامنے رک گیا۔ گھڑ سواروں کو دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ شور مچانے لگ گئے تھے۔
"انہیں گرفتار کیا جائے۔ ورنہ ہم اپنے ہاتھوں سے انہیں ختم کر دیں گے۔" مجمعے میں سے کوئی چلایا۔
"ہم گرفتار ہونے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن آپ لوگ ہمیں کچھ کہنے کی ملہت نہیں دیں گے گیا؟" انسپکٹر جمشید بلند آواز میں بولے۔
"ضرور۔ کہو۔ کہا کہنا چاہتے ہو۔"
"آپ کا خیال یہی ہے نہ کہ یہ سب ہماری وجہ سے ہوا۔"
"ہاں۔ بالکل!" وہ چلا اٹھے۔
"کیا۔ آپ کا خیال ہے۔ بیگال کبھی آپ لوگوں کو کچھ نہ کہتا۔ کیوں کہ جب بھی اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ بردان نے فورا آپ کی حمایت میں بیان دے ڈالا۔ اور بیگال خاموش ہو گیا۔ لیکن کیا آپ نہیں جانتے کہ اب بردان کی کیا حالت ہے۔ بیگال کے جاسوسوں نے وہاں نفرت کے بیج بو دئیے ہیں۔ یہ بیج اب پھل لے آئے ہیں۔ اب وہاں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے۔ مسلمان آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ اگر بردان کے لوگوں نے عقل کے ناخن نہ لئے تو وہ دن دور نہیں جب بردان کی حکومت حد درجہ کمزور ہو جائے گی بلکہ ہو چکی ہے۔ ان حالات میں بیگال آپ کی طرف بڑھنے ہی والا تھا۔ اور اب بردان حمایت میں کوئی بیان تک دینے کے قابل نہیں رہ گیا۔ لہذا کیا بیگال آپ کی طرف کبھی توجہ نہیں دے گا۔ یہی خیال ہے آپ لوگوں کا۔ میں کہتا ہوں۔ بالکل غلط خیال ہے۔ کوئی دن میں وہ آپ کو ہڑپ کرنے والا تھا۔ اتفاق سے ہم آ گئے اور ہم بہانہ بن گئے۔ اس وقت بھی وہ صرف آپ کے حکمران کو لے گئے ہیں۔ سوچا ہے کیوں۔ باقی لوگوں کو انہوں نے کیوں کچھ نہیں کہا۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے، بردان میں کوئی چنگاری باقی ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو پہلے وہ اس چنگاری کی طرف توجہ دے گا اور پھر آپ لوگوں کی طرف قدم بڑھائے گا۔۔ میرا مشورہ مانیں۔ آپ لوگ بھی بردان میں پناہ لے لیں اور وہاں کی حکومت کا ساتھ دیں۔ اس طرح آپ ایک طاقت ہو کر اندرونی سازش کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس ریاست کا کیا ہے آپ بعد میں بھی حاصل کر سکیں گے۔"
یہاں تک کہہ کر انسپکٹر جمشید خاموش ہو گئے۔
انہوں نے دیکھا۔ ریاست کے لوگوں کے سر جھکتے جا رہے تھے۔ آخر ان میں سے ایک بوڑھے نے کہا؛
"یہ۔ یہ ٹھیک کہ رہے ہیں۔ یہ ہمارے دشمن نہیں ہیں، ہم ان کے مشورے پر عمل کریں گے۔"
"ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔"
"اگر آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے تو پھر فوری طور پر ریاست کو خالی کر دیں۔ اور بردان کی طرف نکل جائیں۔۔ کہیں وہ آپ پر حملہ کرنے کا پروگرام نہ بنا لیں۔"
"ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔"
اور پھر مجمع بھاگ کھڑا ہوا۔ ایسے میں ایک گھڑ سوار نے کہا۔
"اور ہم کیا کریں؟"
"آپ لوگ بھی ان کا ساتھ دیں۔"
"اچھی بات ہے۔" وہ بولے اور مجمعے کا رخ کر لیا۔
ان کے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد انسپکٹر جمشید نے کہا؛
"ہمیں اب حکمران نے محل کی طرف چل پڑنا چاہئے۔ اب اس میک اپ میں تو ہم جا نہیں سکیں گے۔ کوئی اور ترکیب کرنا ہو گی۔"
"ادھر سی مون بیگال کے ذمہ دار لوگوں تک پہنچ چکا ہو گا۔ جوں ہی ان کی آپس میں بات چیت ہوئی۔ وہ میدان عمل میں کود پڑے گا۔" خان رحمان بولے۔
"فکر کی کوئی بات نہیں۔" ہماری زندگیوں میں اور ہے ہی کیا۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
آخر انہوں نے نئے سرے سے تیاری کی، ضروری چیزیں اٹھائیں اور آبادی کی طرف چل پڑے۔ رہائشی علاقے میں داخل ہوئے تو بے شمار لوگ چا چکے تھے اور کچھ جا رہے تھے۔ ان لوگوں نے بھی صرف ضروری چیزیں اٹھائی تھیں۔ اور پھر پوری بستی خالی ہو گئی۔ ان کے سوا وہاں کوئی نہ رہا۔
"اجڑی بستی میں ہم اجنبی۔" فرزانہ اداس لہجے میں بولی۔
"کسی ادبی کہانی کا نام ہو سکتا ہے۔ ناول کا نہیں۔" فاروق نے منہ بنایا۔
"ہو سکتا ہو گا۔ اپنے نام اپنے پاس رکھو۔" آفتاب نے منہ بنایا۔
"تم کیوں جلے جا رہے ہو۔" فاروق نے گھورا۔
"جلوں نہ تو کیا کروں۔ یہ وقت تو رونے کا بھی ہے، ریاست کے لوگ بے چارے گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں۔"
"ہاں! یہ تو ہے۔ لیکن رہ کر بھی ہم کیا کر لیں گے۔ رونے سے کہیں تقدیریں بدلتی ہیں۔ تقدیریں تو بدلتی ہے کمر ہمت باندھنے سے۔" فاروق نے جلدی جلدی کہا۔
"فاروق کی بات پسند آئی۔ ان لوگوں کو اب ہمت کرنا ہو گی۔ ورنہ بیگال بردان کو ہڑپ کرنے میں کامیاب ہونے ہی والا ہے۔"
"کہیں اس کی زبردست قسم کی کامیابی یہی تو نہیں ہے۔" فرزانہ بول اٹھی۔
"نہیں! اس قسم کی سازش کے جال تو اس نے نہ جانے کتنے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں پھیلا رکھے ہیں۔ وہ کامیابی کوئی بہت خوفناک قسم کی کامیابی ہے۔ خیر۔ تم فکر نہ کرو۔ ہم اس کامیابی کا راز ضرور معلوم کریں گے اور اسے ناکامی میں بدل کر رہیں گے۔ ورنہ بیگال تو ساری دنیا کے لئے خطرہ بن جائے گا۔"
"اس وقت بھی یہ دنیا کے ایک بڑے حصے کے لئے ہوا بنا ہوا ہے۔"
"ہاں! اب ہمیں ان سے مقابلے کی تیاری کرنی چاہئے۔ اور یہ مہم میں خان رحمان کو سونپتا ہوں۔"
"شکریہ جمشید۔ مجھے امید بھی یہی تھی۔" خان رحمان نے منہ بنایا۔
"لیکن انکل۔ آپ کو خوش ہونا چاہئے۔ منہ کیوں بنا رہے ہیں۔"
"ہم جس جنگ کی تیاری کریں گے۔ اس میں کامیابی کا امکان صرف ایک فی صد ہے۔ جب کہ ناکامی کے امکانات ننانوے فیصد ہیں۔ ان حالات میں ایک فوجی خوشی کا اظہار کیسے کر سکتا ہے۔"
"لیکن فوجی صرف اللہ پر بھروسہ رکھ کر مسکرا تو سکتے ہیں۔" فرحت بولی۔
"ہاں فرحت۔ تم نے یہ بات ٹھیک کہی۔ اور دیکھ لو۔ میں مسکرا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا اور مسکرانے لگے۔
"آپ کو یہ عجیب مسکراہٹ مبارک ہو انکل۔" محمود بولا۔
اور پھر رات سر پر آ گئی۔ ان کی تیاریاں جاری رہیں۔ وہ خان رحمان کی ہدایات پر عمل کرتے رہے۔ آخر رات کے ٹھیک گیارہ بجے بہت سی گاڑیوں کی آواز گونجی۔
محل کے قریب گاڑیاں رک گئیں۔ پھر سپیکر پر ایک آواز ابھری؛
"ریاست کنگلات کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے پانچ ساتھی کم ہیں۔ ہم صرف پندرہ منٹ کی مہلت دیتے ہیں۔ پندرہ منٹ میں ہمارے پانچ ساتھی ہماری گاڑیوں کے سامنے پہنچ جائیں، ورنہ ہم اس بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ سب کچھ تباہ کر دیں گے۔"
یہ اعلان تین بار دہرایا گیا۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ تین منٹ تک انتظار کرنے کے بعد ایک فوجی کی آواز ابھری؛ "ریاست کنگلات کے لوگوں تم نے جواب نہیں دیا۔"
یاد رکھو۔ اب صرف پندرہ منٹ رہ گئے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ بجنے میں۔
بارہ منٹ اور گزر گئے۔ کوئی آواز سنائی نہ دی۔ ہر کوئی انتظار کر رہا تھا۔ آخر گرج دار آواز میں کہا گیا: "تہس نہس کر دو۔ ان سب کو۔ گھروں کو آگ لگا دو، فصلوں کو جلا دو۔"
اور پھر چاروں طرف سے گولیاں برسنے لگیں۔ دستی بموں کے دھماکے گونجنے لگے، لیکن جواب میں ذرا بھی چیخ و پکار سنائی نہیں دی:
"ہائیں۔ ان میں سے کوئی چیخ چلا نہیں رہا۔ اس قدر سکون سے کیوں مر رہے ہیں یہ لوگ۔" ایک فوجی بولا۔
"ذرا دیر کے لئے فائرنگ روک دیں۔"
فائرنگ رک گئی۔ چند فوجی گاڑیوں سے نکل کر چند گھروں میں گھس گئے۔ پھر وہ باہر نکل آئے اور ان میں سے ایک نے چلاّ کر کہا:
"بستی میں کوئی معلوم نہیں ہوتا۔"
"کیا مطلب!" وہ چونک کر بولے۔
"گھر خالی پڑے ہیں۔"
"اوہ! کچھ اور گھروں کو دیکھو۔" کہا گیا۔
پھر کچھ فوجی ادھر ادھر دوڑے۔ پانچ منٹ بعد بلند آواز میں کہا گیا:
"سب گھر خالی پڑے ہیں۔ بستی میں کوئی ایک فرد بھی موجود نہیں۔"
"اوہ۔ اوہ۔ اس کا مطلب ہے۔ ہمارے پانچ ساتھی مارے گئے۔ انہوں نے ضرور بردان کا رخ کیا ہو گا، لیکن ابھی وہ بردان میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔ ہم انہیں جا لیں گے۔ گاڑیوں میں سوار ہو جاؤ بہادرو۔" بلند آواز میں کہا گیا۔
وہ گاڑیوں میں سوار ہونے لگے۔ لیکن ابھی گاڑیاں حرکت میں نہیں آئیں تھیں کہ چاروں طرف سے ان پر گولیاں برسنے لگیں۔
"الو کے پٹھے۔ لہتے تھے۔ گھر خالی پڑھے ہیں۔" وہی آواز کانوں سے ٹکرائی۔
وہ جلدی جلدی پوزیشن لینے لگے۔ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ اس دوران کئی گاڑیوں کے ٹائر پھٹ چکے تھے۔ اور ابھی دھماکے جاری تھے۔
"آخر یہ فائرنگ کس سمت سے ہو رہی ہے۔" گاڑی کے نیچے دبکا ایک فوجی پوری قوت سے چلاّیا۔
"ابھی تک اندازہ نہیں لگ سکا سر۔"
"آخر کب تک اندازہ لگے گا۔ جب وہ تمام گاڑیوں کو بے کار کر دیں گے۔ اور ہمیں نشانہ بنانا شروع کر دیں گے۔"
"آپ فکر نہ کریں سر۔ ہم چند منٹ میں گولیوں کی سمت کا اندازہ لگا لیں گے۔"
"جلدی کرو۔" غرا کر کہا گیا۔
ادھر دوسری طرف سے گولیاں بدستور برس رہی تھیں۔، یہاں تک کے سب گاڑیوں کے ٹائر پھٹ گئے اور پھر فائرنگ اچانک بند ہو گئی۔
"یہ کیا۔ فائرنگ تو بند ہو گئی۔ کیا تم اندازہ لگا چکے ہو؟" ان کے کمانڈر نے پوچھا۔
"یس سر۔ فائرنگ چاروں طرف سے ہو رہی ہے۔ لیکن مکانوں سے نہیں بلکہ درختوں سے۔"
"اوہ ۔ تو پھر تم کیا کر رہے ہو۔ ان درختوں کو بھون ڈالو۔"
"ابھی لیجئے سر"
اور پھر درختوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گی۔ اس قدر گولیاں برسائی گئیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے سکی۔ اور جب گولیاں برسانے کا جنون کم ہوا تو کمانڈر کی آواز ابھری۔
"عجیب بات ہے۔"
"ابھی تک ہم نے ایک بھی انسانی چیخ کی آواز نہیں سنی۔"
"ہاں! یہ تو ہے۔ لیکن س۔ انہیں چیخنے کا موقع ہی کب ملا ہو گا۔ ان گنت گولیاں ہر جسم میں جا لگی ہونگی۔"
"احمق کہیں کے۔ ان میں سے کوئی تو درخت سے نیچے گرتا۔ لیکن ہم نے کسی کے گرنے کی آواز بھی نہیں سنی۔"
"تت۔ تو پھر۔ کیا کیا جائے؟"
"وہ لوگ چاروں طرف موجود ہیں۔ یعنی انہوں نے ہمیں گھیر لیا ہے۔ ہمیں اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے بھاگ نکلنا چاہئے۔"
"او کے سر۔"
اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ساتھ میں فائرنگ بھی کر رہے تھے۔ ان پر بھی جوابی فائرنگ کی گئی۔ گاڑیاں چونکہ سب بے کار ہو چکی تھیں۔ اس لئے انہیں پیدل فرار ہونا پڑ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میدان صاف ہو گیا۔
"اب ہم سامنے آ سکتے ہیں۔" انہوں نے خان رحمان کی آواز سنی۔
سب اپنے اپنے مورچوں سے نکل کر ایک دوسرے کی طرف بڑھنے لگے۔ ان سب نے درختوں کی اوٹ میں رہ کر فائرنگ کی تھی۔ صرف انسپکٹر جمشید ایک درخت پر سے فائرنگ کرتے رہے تھے۔ اور وہ اس درخت سے بہت پہلے اتر چکے تھے جب انہیں ان کے درختوں پر ہونے کا احساس ہوا تھا۔ خان رحمان نے انہیں کچھ اس ترتیب سے تقسیم کیا تھا کہ چاروں طرف سے یکساں انداز سے گولیاں برسائی جا سکیں۔
اور اب ہمیں دوسرے حملے کی تیاری کرنا ہے۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"آپ کا مطلب ہے۔ اب ہمیں حملہ کرنا ہے۔" آصف کے لہجے میں حیرت تھی۔
"وہ حملہ دوسرا کس طرح ہو سکتا ہے۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
"اوہ۔ تو کیا یہ لوگ پھر حملہ کریں گے۔" اخلاق نے گھبرا کر کہا۔
"ظاہر ہے۔ شکست کا بدلہ لینے کے لئے انہیں آنا ہی پڑے گا۔"
"لیکن ہم کب تک ان کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔" محمود نے اعتراض کیا۔
"اس مرتبہ ہم مقابلہ نہیں۔ کچھ اور کریں گے۔" انسپکٹر جمشید نے رازدارانہ انداز میں کہا اور پھر وہ انہیں لے کر سرحد کی طرف بڑھنے لگے۔
سرحد کے نزدیک پہنچ کر وہ تاریکی میں ایک جگ دبک گئے۔
انہیں دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور پھر فوجی گاڑیاں آتی دکھائی دیں۔
"ہمیں ان میں سے صرف ایک گاڑی چاہئے۔ اور پس۔" انسپکٹر جمشید بڑبڑائے۔
"اور بس کیا۔ اس کے بعد ہمیں کیا کسی گاڑی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔" فاروق بولا۔
"اس وقت کسی اور گاڑی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آئندہ مہم میں کس چیز کی ضرورت پڑتی ہے اور کس کی نہیں، یہ وقت بتائے گا۔" انسپکٹر جمشید نے اسے گھورا۔
"نہ جانے اس وقت کو کیا ہو گیا ہے۔ وقت پر نہیں بتاتا۔" آفتاب بڑبڑایا۔
"خاموش ہم اس وقت بیگال کی سرحد پر ہیں اور ہمیں اس طرح سرحد عبور کرنا ہے کہ سرحد پر موجود فوجیوں کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ ہو۔"
"ارے۔ تو کیا کافروں کے کندھوں پر بھی فرشتے موجود ہوتے ہیں؟"
"ہوتے ہی ہوں گے۔ آخر کافروں کا بھی حساب کتاب تو ہو گا۔" شوکی بڑبڑایا۔
اور پھر گاڑیاں ان کے قریب سے گزرنے لگیں۔
"میں صرف آخری گاڑی پر ہاتھ صاف کروں گا۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"مم۔ میرے پاس رومال ہے انکل۔" آفتاب ہکلایا۔
"شش۔" خان رحمان نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
اور پھر جوں ہی آخری گاڑی ان کے قریب سے گزری انسپکٹر جمشید نے ہاتھ میں پکڑی کوئی چیز کھینچ ماری۔ وہ چیز ڈرائیور کے سر پر لگی گاڑی لہرائی۔ اور پھر رک گئی۔ انسپکٹر جمشید نے پلک جھپکتے میں چھلانگ لگائی اور ڈرائیور کے سر پر پہنچ گئے۔ انہوں نے اسے گدی سے پکڑا اور اپنے ساتھیوں کی طرف اچھال دیا۔ خان رحمان نے اسے چھاپ لیا۔ اس کے منہ سے آواز تک نہ نکل سی۔ ادھری گاڑی میں سوار فوجیوں نے پیچھے سے آواز لگائی۔
"کیا بات ہے۔ ٹرک کیوں روک دیا۔"
"اس۔ اس میں کچھ خرابی ہو گئی ہے۔" انہوں نے پھنسی پھنسی آواز میں کہا۔
"جلدی سٹارٹ کرنے کی کوشش کرو۔" پیچھے سے غرا کر کہا گیا۔
"کک۔ کر رہا ہوں۔"
وہ چابی کو بلاوجہ حرکت دیتے رہے۔ آخر بولے:
"نہیں بھئی۔ کوئی لمبی خرابی ہے۔"
"اچھا۔ تم اس کی لمبی خرابی دور کرو۔ ہم یہاں سے پیدل روانہ ہوتے ہیں۔ خرابی دور کر کے جلد لانے کی کوشش کرنا۔"
"او کے۔"
فوجی چھلانگیں لگا لگا کر اترنے لگے۔ اور پھر گائی خالی ہو گئی۔ جب فوجی دور چلے گئے۔ انسپکٹر جمشید نے انہیں اشارہ کیا۔ وہ نزدیک آ گئے۔
"اس فوجی ڈرائیور کا کیا بنا؟'
"وہ گہری نیند سو چکا ہے۔"
"جلدی جاگنے کا امکان تو نہیں؟"
"اب قیامت سے پہلے نہیں جاگے گا۔" فاروق نے کہا۔
"اوہ۔ اچھا۔ تب تو ٹھیک ہے۔ چلئے۔ سب لوگ جلدی سے سوار ہو جائیں۔"
انہوں نے گاڑی میں سوار ہونے میں صرف ایک منٹ لگایا۔ اس کے بعد گاڑی سرحد کی طرف مڑی۔ اور تیزی سے آگے بڑی۔
"سرحد پر موجود سپاہیوں سے کیا کہیں گے آپ؟" اندر سے فرزانہ نے بے چین ہو کر کہا۔
"بس دیکھتے جاؤ۔"
جلد ہی وہ سرحد کے قریب پہنچ گئے۔ گاڑی کو روک لیا گیا۔ پھر ایک سپاہی کھڑکی کی طرف آیا:
"کیا بات ہے۔ واپس کیوں آ گئے ؟"
"ایک فوری ضرورت کے تحت۔ ہم تو حکم کے بندے ہیں۔" انہوں نے کہا۔
"ٹھیک ہے۔" اس نے کہا اور ایک طرف ہٹ گیا۔ وہ گاڑی کو آگے بڑھا لے گئے۔
"مبارک ہو بھئی۔ ہم بیگال کی زمین پر سفر کر رہے ہیں۔" وہ بولے۔
"یا اللہ تیرا شکر ہے۔ ایک مرحلہ تو طے ہوا۔"
"اصل مرحلے تو اب شروع ہوں گے۔" فاروق بولا۔
"چلو ہو جائیں۔ ہم کوئی ڈرتے ہیں مرحلوں سے۔"
"میں بیگال کے نقشے کا بہت غور سے جائزہ لیتا رہا ہوں۔ لہذا میری تجویز یہ ہے کہ ہم جنوبی پہاڑیوں کی طرف نکل چلیں۔ یہ پہاڑیاں بالکل غیر آباد ہیں۔ ان اطراف میں پوری فوج بھی چند آدمیوں کی تلاش نہیں کر سکتی۔" انسپکٹر جمشید نے کہا۔
"انہیں تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پہاڑیوں پر گولہ باری تو کر ہی سکتے ہیں۔" فرحت بولی۔
"چٹانوں کے قدرتی سائبان اوپر سے کی جانے والی گولہ باری سے بھی حفاظت کا کام دے سکتے ہیں۔۔ فکر نہ کرو،" انہوں نے کہا۔
"فکر کرنے کے لئے تو ہم پیدا ہی نہیں ہوئے۔" فاروق نے منہ بنایا۔
آخر وہ پہاڑیوں کے قریب پہنچ گئے۔ رات چاندنی تھی۔ پہاڑیاں چاندنی میں غسل کرتی محسوس ہو رہی تھیں۔
"پہاڑیوں کی بجائے اگر ہم شہری آبادی میں گھل مل جاتے تو ہمارے لئے کوئی خطرہ نہیں تھا۔" پروفیسر داؤد بولے۔
"آپ نہیں جانتے جگہ بنائے بغیر ہم کہیں بھی پناہ نہیں حاصل کر سکتے تھے۔ پہاڑیوں میں چھپ کر پہلے ہم جگہ حاصل کریں گے۔ میں نے اس کی ترکیب سوچ لی ہے۔" انسپکٹر کامران مرزا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہائیں انکل۔ ترکیبیں اگر آپ سوچنے لگے تو بے چاری فرحت اور فرزانہ کا کیا بنے گا۔" فاروق نے حیرت زدہ انداز میں کہا۔
"یہ درخت اور پائپوں پر چڑھنے لگیں گی۔" آصف بولا۔
"تب پھر فاروق اور آفتاب کیا کریں گے؟"
"ہم ہیرو بننے کے چکر میں رہنے لگیں گے۔" آفتاب نے کہا۔
"مارے گئے ہم تو۔ ہمارے لئے تو کوئی کام نہیں بچا۔" محمود نے گھبرا کر کہا۔
"اور مٰں پہاڑیوں میں کسی کو کھڑے دیکھ رہا ہوں۔" انسپکٹر جمشید کے سرد جملے نے ان کی سٹی گم کر دی
7
ان سب کی نظریں اس سمت میں اٹھ گئیں۔ وہاں واقعی کوئی کھڑا تھا۔ اس کا رخ انہیں کی طرف تھا۔
پھر اب کیا خیال ہے۔ پروفیسر داؤد بولے۔
"اب کوئی خیال ظاہر کرنے کا وقت نہیں رہا۔" خان رحمان بڑبڑائے۔
"کیا مطلب؟"
"ہم بہت دیر سے چونکے۔ پہاڑی حدود میں داخل ہونے سے پہلے جائزہ لینا چاہئے تھا۔ خان رحمان بولے۔
"آپ کہنا کیا چاہتے ہیں انکل؟" محمود گھبرا گیا۔
"یہ کہ ہمیں مکمل طور پر گھیر لیا گیا ہے۔" خان رحمان کی بجائے انسپکٹر جمشید بول اٹھے۔
"نن۔ نہیں۔" ان کے منہ سے نکلا۔
"ابھی معلوم ہو جائے گا۔" خان رحمان نے کہا۔
"آپ کہنا کیا چاہتے ہیں انکل؟" محمود گھبرا گیا۔
"یہ کہ ہمیں مکمل طور پر گھیر لیا گیا ہے۔" خان رحمان کی بجائے انسپکٹر جمشید بول اٹھے۔
"نن۔ نہیں۔" ان کے منہ سے نکلا۔
"ابھی معلوم ہو جائے گا۔" خان رحمان نے کہا۔
"لیکن ہم پر سکون انداز میں آ گے بڑھتے رہیں گے۔ گھبراہٹ یا پریشانی نہیں ہونے دیں گے۔" انسپکٹر کامران مرزا نے مشورہ دیا۔
"ہوں۔ ٹھیک ہے۔"
اور وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اس شخص کے نزدیک پہنچ گئے۔ اب وہ ایک چٹان سے ٹیک لگا کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر چاند کی روشنی میں پر سکون مسکراہٹ نظر آ رہی تھی۔ آخر اس کے لب ہلے۔
"میں نے کہا تھا نا۔ مجھ سے معاہدہ کر لیں۔ لیکن آپ لوگوں نے میری بات نہیں مانی۔"
"ہم اپنے اصول کی وجہ سے مجبور تھے مسٹر سی مون۔"
"اور اب میں آپ لوگوں کو گرفتار کر کے بیگال کی حکومت کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوں۔"
"لیکن ہمیں حیرت ہے۔ آپ ہمارے راستے میں آنے کی بجائے یہاں کیوں آ گئے۔"
"میں اندازہ لگا چکا تھا کہ آخر کار آپ یہاں لوگ پہنچیں گے۔"
"تو پھر چلئے۔ ہم چلنے کے لیئے تیار ہیں۔" انسپکٹر جمشید نے کندھے اچکائے۔
"کوئی جدوجہد نہیں کریں گے؟" سی مون کے لہجے میں بلا کی حیرت تھی۔
"ہم جانتے ہیں۔ ہمیں چاروں طرف سے گھیرا جا چکا ہے، ان گنت فوجی ان پہاڑیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔" خان رحمان بولے۔
"اوہ۔ حیرت ہے۔ آپ لوگوں نے یہ اندازہ کس طرح لگا لیا؟"
"ہمارے ساتھی۔ خان رحمان ایک ماہر فوجی ہیں۔"
"تب پھر ان کا اندازہ بالکل درست ہے۔ لیکن یہ تجویز بیگال کے صدر کی تھی۔ ورنہ میں تو آپ لوگوں کے لئے یہاں بالکل تنہا آ رہا تھا۔ انہوں نے میری اس بات کو پسند نہیں کیا۔"
"گویا آپ اکیلے ہی ہمیں بے بس کر کے صدر کے سامنے پیش کرتے۔" شوکی نے منہ بنایا۔
"ہاں۔ آپ لوگ مجھ سے اچھی طرح واقف تو ہیں۔" اس نے لہجے میں حیرت شامل کرکے کہا۔
"ضرور واقف ہیں۔ پچھلی مرتبہ ہم نے آپ کو گرفتار کر لیا تھا۔" فاروق مسکرایا۔
"یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس مرتبہ میں پوری تیاریوں پر ہوں۔ اگرچہ پہاڑیوں پر چاروں طرف فوج موجود ہے، لیکن اگر آپ اپنا شوق پورا کرنا پسند کریں تو میں اکیلا آپ کو بے بس کر کے دکھا دیتا ہوں۔"
"کیا فائدہ۔" محمود نے منہ بنایا۔
"کیا مطلب۔ فائدہ کیوں نہیں۔"
"اگر ہم نے آپ کو شکست دے ڈالی۔ تو بھی فوجی ہمیں پکڑ کے لے جائیں گے۔"
"ہاں! یہ تو ہے۔ میں اس وقت بیگال کے صدر کی ہدایات ماننے پر مجبور ہوں، کیوں کہ معاہدہ کر چکا ہوں۔"
"تب پھر لڑائی بھڑائی میں وقت ضائع ہو گا۔ ہم چلنے کے لئے تیار ہیں۔"
سی مون نے سیٹی بجائی۔ اور پھر یوں لگا جیسے پہاڑوں نے ہزاروں فوجیوں کو اپنے اندر سے اگل دیا ہو۔ وہ سب ان کی طرف بڑھے۔ اور پھر رائفلوں کے گھیرے میں یہ قافلہ نیچے اترنے لگا۔ ایک طرف بے شمار گاڑیاں کھڑی نظر آئیں۔ انہیں ایک بند گاڑی میں سوار کیا گیا۔ اس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں۔ گاڑیوں کا ایک لشکر چلا۔ آدھ گھنٹے کےک سفر کے بعد انہیں گاڑی سے اتارا گیا۔ انہوں نے دیکھا۔ گاڑی ایک قلعہ نما عمارت کے اندر کھڑی تھی اور عمارت کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔ عمارت کی فصیل پر مسلح فوجی چوکس کھڑے تھے۔ یہ فوجی بھی ان گنت تھے۔ اسی وقت سی مون تیز تیز چلتا ان تک آیا۔
"کیا یہ کوئی قلعہ ہے مسٹر سی مون؟"
"ہاں لیکن قیدیوں کا قلعہ۔" وہ مسکرایا۔
"کیا مطلب؟" انہوں نے چونک کر کہا۔
"یہ قلعہ صرف قیدیوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس میں خطرناک قسم کے قیدی رکھے جاتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو رات کا بقیہ حصہ اس قید خانے کی سیر کر کے گزار سکتے ہیں۔" سی مون بولا۔
"آپ بھول تو نہیں رہے مسٹر سی مون۔" انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
"نہیں! مجھے یاد ہے۔ آپ لوگوں کو صدر کے سامنے پیش کرنا ہے۔۔ لیکن۔ یہ پیشی کل سورج نکلنے پر ہو گی۔ پورے ملک میں کل عام چھٹی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ شہر کے سب سے بڑے میدان میں آپ لوگوں کو صدر کے سامنے پیش کیا جائے گا۔"
"کیا یہ سب آپ کی مرضی سے ہو رہا ہے؟" انسپکٹر کامران مرزا نے پوچھا۔
"نہیں۔ یہ سب صدر کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ میں ایسی باتوں کا عادی نہیں۔"
"اور ہمیں گرفتار کرانے کا کتنا معاوضہ لیا آپ نے؟"
"پانچ کروڑ ڈالر۔" اس نے کہا۔
"کمال ہے۔ اتنی دولت کا آپ کیا کرتے ہیں؟"
"عیش کے لئے اتنی دولت بھی ناکافی ہے۔"
"اگر ہمارا ملک آپ سے کوئی کام لینا چاہے تو کیا آپ ہمارے ملک کے لئے بھی کام کریں گے۔"
"نہیں۔ میں مسلم ممالک کے لئے کام نہیں کرتا۔ میں اسلام کا دشمن ہوں۔" اس نے کہا۔
"خیر۔ مطلب یہ ہوا کہ ہمیں رات کا بقیہ حصہ قلعے کی قید میں گزارنا ہو گا۔"
"بالکل۔ لیکن یہ وقت آپ قید خانے کی سیر کر کے بھی گزار سکتے ہیں۔ صدر سے میں نے اس کی اجازت لے لی تھی۔
"شکریہ! ہم کچھ دیر آرام کرنا پسند کریں گے۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"جیسے آپ کی مرضی۔"
"ویسے کیا آپ ہمیں ایک بات بتا سکتے ہیں۔" آصف بول اٹھا۔
"میں جانتا ہوں۔ آپ لوگ کیا بات جاننے کے لئے بے چین ہیں۔ یہی نہ کہ وہ کامیابی کیا ہے۔ جو بیگال نے حاصل کی ہے۔" سی مون نے شوخ لہجے میں کہا۔
"اوہ! تو آپ یہ بھی جان چکے ہیں۔"
"یہاں آ کر ہی مجھے یہ بات معلوم ہوئی۔ جب میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ ریاست کنگلات اس وقت کن لوگوں کے اشاروں پر کام کر رہی ہے اور ان لوگوں کے ارادے کیا ہیں تو انہوں نے فوراُ مجھ سے معاہدہ کر لیا اور یہ بات مجھے بتا دی۔"
"یعنی انہوں نے بتا دیا کہ وہ کامیابی کیا ہے۔"
"ہاں! انہوں نے فوراُ اندازہ لگا لیا کہ آپ کیوں اس طرف آئے ہیں۔ اور مجھے بتانے میں انہوں نے خوف اس لئے محسوس نہیں کیا کہ وہ جانتے ہیں۔ مسلمانوں کا جتنا میں دشمن ہوں۔ اتنے بڑے وہ خود بھی نہیں۔ تاہم معاہدے میں میں نے بھی ان سے اپنی ایک شرط منوائی تھی۔"
"یہ کہ وہ آپ کو اس کامیابی کے بارے میں بتا دیں۔"
"نہیں۔ یہ راز تو انہوں نے بغیر کسی شرط کے بتا دیا تھا۔ وہ اور بات ہے، خیر۔ اب آپ اپنے سوال کا جواب سن لیں۔ یہ کامیابی دراصل صرف بیگال کی کامیابی نہیں ہے۔"
"کیا مطلب؟" انسپکٹر جمشید چونک کر بولے۔ باقیوں نے بھی حیرت زدہ انداز میں سی مون کی طرف دیکھا۔
"ہاں! یہ کامیابی بیک وقت بیگال، انشارجہ، ونٹاس اور تمام غیر مسلم ممالک نے حاصل کی ہے۔ اور تمام اسلامی ممالک کے خلاف ہے۔"
"اوہ۔" وہ دھک سے رہ گئے۔ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں
8
چند لمحے کے لئے وہ سکتے کے عالم میں کھڑے رہ گئے۔ پھر پروفیسر داؤد نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا:
"اس کا مطلب ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے خلاف تمام غیر مسلم ممالک متحد ہو چکے ہیں۔"
"ہاں! نہ صرف متحد ہو چکے ہیں۔ بلکہ ایک انتہائی زبردست منصوبے پر عمل پیرا بھی ہو چکے ہیں اور اس منصوبے میں انہوں نے بڑی زبردست کامیابی بھی حاصل کر لی ہے۔ لیکن وہ کامیابی کیا ہے۔ یہ بات میں تم لوگوں کو نہیں بتا سکتا۔"
"کیوں۔ ہم سے اب کیا خطرہ۔ پوری طرح تو آپ لوگوں کے قبضے میں ہیں۔" آصف نے جل کر کہا۔
"تم لوگوں سے جتنا میں واقف ہوں، شاید اور کوئی نہیں۔ تم لوگ اگر میری آنکھوں کے سامنے مر جاؤ اور میں تمہاری لاشوں پر کھڑا ہوں۔ تب بھی راز کی بات منہ سے نہیں نکالوں گا۔"
"کیوں مسٹر سی مون۔ اس صورت میں کیا خطرہ ہے؟"
"خطرہ ہو یا نہ ہو۔ بس بتاؤں گا نہیں۔"
"خیر کوئی بات نہیں۔ ہم بیگال کے صدر سے پوچھ لیں گے۔" فرزانہ نے منہ بنا کر کہا۔
"اوہ۔ میں سمجھ گیا۔" سی مون چونکا۔
"کیا سمجھ گئے آپ۔ فرزانہ کے جملے میں کوئی راز تو چھپا ہوا نہیں تھا۔" فاروق بولا۔
"فرزانہ بہت چالاک ہے۔ بہت چالاک۔ یہ میرے منہ سے سننا چاہتی ہے کہ اگر آپ بیگال کے صدر کو اغوا کر لیں تو اس سے تو راز معلوم کر ہی سکیں گے۔ کیوں فرزانہ۔ تم نے یہی بات سوچی تھی نا۔"
"پپ۔ پتا نہیں۔" فزرانہ ہکلائی۔
"نہیں نہیں۔ مجھے یقین ہے۔ بالکل یہی بات سوچی تھی۔" سی مون بولا۔
"چلئے۔ اگر سوچی بھی تھی تو اس میں پیچھے پڑنے والی کیا بات ہے۔" آفتاب کو غصہ آ گیا۔
"پیچھے پڑنے والی بات ہے۔ فرزانہ دراصل اس رخ سے سوچ رہی ہے کہ آپ بیگال کے صدر کو اغوا کر سکتے ہیں۔ اگر کام نہ بنا تو ونٹاس کے صدر پر ہاتھ صاف کر سکتے ہیں۔ یا پھر انشارجہ کے۔ لیکن میں آپ کو یہ بات بتا دینا پسند کروں گا کہ اس طرح آپ لوگ قطعاُ کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔" سی مون کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔
"وہ کیوں۔ کیا ان ملکوں کے صدر فولاد کے بنے ہوئے ہیں۔ کوئی سختی ان سے کچھ نہیں اگلوا سکتی۔"
ان لوگوں نے اس قسم کے انتظامات کر لئے ہیں کہ اگر کبھی انہیں اغوا کر لیا جائے اور راز معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تو ان کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔"
"اوہ!" ان کے منہ سے نکلا۔
"اب تو مارے سسپنس کے شاید ہم مر ہی جائیں۔" فاروق بڑبڑایا۔
"مریں تمہارے دشمن۔" آفتاب نے بڑی بوڑھیوں کے انداز میں کہا۔
"اس کامیابی کی اصل شکل یہی ہے کہ اگر وقت سے پہلے اس کا راز جان لیا گیا تو منصوبے پر عمل نہیں ہو سکے گا۔"
"آپ نے ابھی کہا تھا کہ عمل شروع ہو چکا ہے۔"
"وہ عمل تو منصوبے کو مکمل کرنے کی حد تک ہے۔ منصوبہ مسلم ممالک پر اثرانداز جس وقت ہو گا۔ اصل عمل اس وقت سے گنا جائے گا۔"
"تمام ممالک میں سے دراصل منصوبہ بنانے والا ملک کون سا ہے۔ میرا مطلب ہے۔ ہیرو کون ہے؟" انسپکٹر جمشید نے سرسری انداز میں کہا۔
"آپ نے بہت اہم سوال معمول انداز میں کیا ہے انسپکٹر جمشید۔ خیر میں اس سوال کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ اصل ہیرو بیگال ہے۔"
"بہت بہت شکریہ مسٹر سی مون۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
"لیکن میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ بیگال کے صدر کو گرفتار کر کے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بلکہ اس منصوبے کا تعلق اب براہ راست کسی بھی ملک سے نہیں رہا۔ سب نے اپنا اپنا تعلق ختم کر لیا ہے۔"
"آپ تو ہمیں الجھائے چلے جا رہے ہیں۔"
"ابھی کیا ہے۔ الجھنے کے دن تو اب آگے آئیں گے۔" سی مون مسکرایا۔
"اللہ مالک ہے۔" آفتاب بولا۔
"میرا خیال ہے۔ اب مجھ سے آپ لوگوں کی کافی طویل بات چیت ہو چکی ہے۔ صبح ملاقات ہو گی۔" سی مون نے تنگ آئے ہوئے انداز میں کہا۔
"ایک منٹ! اگر سب نے اپنا اپنا تعلق ختم کر لیا ہے تو پھر منصوبے پر عمل کہاں کیا جائے گا۔"
"یہ بتا دینا بھی اصل راز بتا دینے کے برابر ہے۔"
"اچھا تو پھر آپ تشریف لے جائیں۔" کامران مرزا نے منہ بنایا۔
اور پھر انہیں ایک تنگ کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا! تاہم سی مون بدستور وہاں موجود رہا تھا۔ تالا لگنے کے بعد اس نے کہا۔
"محمود۔ تم اپنے چاقو کی مدد سے اس کوٹھڑی کی سلاخوں کی ضرور کاٹنے کی کوشش کرنا۔ اگر کاٹ سکے تو میں اپنے پانچ کروڑ ڈالر میں سے ایک کروڑ ڈالر تمہیں انعام میں دوں گا۔"
"اوہ۔ بہت بہت شکریہ جناب۔" محمود نے خوش ہو کر کہا۔
اور پھر وہ لوگ مڑ گئے۔
"ہم وقت ضائع نہیں کریں گے۔" انسپکٹر جمشید نے دبی دبی آواز میں کہا۔
"کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں چاقو نکالوں۔" محمود بولا۔
"نہیں سب لیٹ جائیں اور سو جائیں۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"بالکل ٹھیک۔ میں یہی کہنے والا تھا۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
"ہم سمجھے نہیں۔ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ ہمیں وقت نہیں ضائع کرنا چاہئے۔"
"چاقو نکال کر ان سلاخوں پر جٹ جانا۔ یا کسی اور طرح سے فرار ہونے کی کوشش کرنا وقت ضائع کرنے کے برابر ہو گا۔ اور سو جانا نہایت عقلمندی کا کام، کیوں کہ ہم مسلسل کام میں مصروف رہے ہیں۔ اگر رات کا بقییہ حصہ بھی جاگ کر اور محنت کر کے گزار دیا تو پھر صبح کسی قابل نہیں رہ جائیں گے۔ جب کہ صبح ہمیں بالکل چاق و چوبند ہونا چاہئے۔"
"اوہ۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔" فرحت بولی۔
"تب پھر مسٹر سی مون اسی لئے ہمیں قید خانے کی سیر کا مشورہ دے رہے تھے۔ تاکہ ہم آرام کر کے چاق و چوبند نہ ہو سکیں۔" شوکی بولا۔
"بالکل ٹھیک۔ واہ۔" انسپکٹر جمشید نے شوکی کی تعریف کی۔
"کمال ہے یار۔ ایک جملہ بول کر ہی داد حاصل کر لی۔" فاروق نے منہ بنایا۔
"تو پھر آپ بھی بول دیں کوئی جملہ۔"
"میرے جملے پر تو مل چکی شاباش۔" فاروق نے پھر منہ بنا کر کہا۔
"ہاں اور کیا۔ ان کے جملے پر تو صرف جھڑکیاں مل سکتی ہیں۔" آفتاب نے شوخ آواز میں کہا۔
"تم اپنے جملے کو سنبھال کر رکھو۔" فاروق نے اسے گھورا۔
"باتیں کر کے بھی ہم وقت ہی ضائع کریں گے۔" انسپکٹر کامران مرزا نے گویا خبردار کیا۔
"اوہ ہاں! یہ بھی ٹھیک ہے۔" خان رحمان بولے۔
"بس تو پھر۔ اب کوئی نہیں بولے گا۔ سب لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔" انسپکٹر جمشید نے اعلان کیا۔
"اور آنکھیں بند کرنے پر بھی نیند نہ آئے تو کیا کریں۔" فرحت بول اٹھی۔
"فرحت۔ میں نے کہا تھا نہ کہ کوئی نہ بولے۔" انسپکٹر جمشید غرائے۔
"جج۔ جی بہتر۔" فرحت گھبرا گئی۔
"جج۔ جی بہتر کہنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔" وہ تلملا کر بولے۔
"بب۔ بہتر۔" فرحت ہکلائی۔
اور ان کی ہنسی نکل گئی۔
"حد ہو گئی انسپکٹر کامران مرزا نے بھنا کر کہا۔
"جی ہاں۔ خیر۔ ہو تو حد ہی گئی ہے۔ نہ جانے اس حد کم بخت کو کیا ہو گیا ہے۔ جب دیکھو ہا جاتی ہے۔ بس۔" مکھن نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"ہوا بی مینڈکی کو بھی زکام۔" آفتاب بولا۔
"ایک تو مشکل یہ ہے کہ ہم لوگ مذکر اور مونث کی تمیز کو بھول جاتے ہیں۔"
"اس لئے کہ ہم اس وقت سکول میں نہیں ہیں۔" محمود نے کہا۔
"ہاں! یہ تو قلعے کی قید خانہ ہے۔ گویا ہم قلعے کے قیدی ہیں۔" فاروق بولا۔
"اور تم نے یہ نہٰں کہا۔ یہ تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے۔" آصف نے یاد دلایا۔
"اس لئے کہ یہ نام کچھ جانا پہچانا سا لگتا ہے۔ شاید کوئی مصنف یہ نام کسی ناول کا رکھ چکا ہے۔"
"ہو گا۔ ہمیں کیا۔ ہم اس وقت نہ تو مصنفوں پر بات کر رہے ہیں نہ ناولوں پر۔"
"بلکہ ہم تو بات کر رہے ہیں کہ اس وقت کوئی بات نہیں کرنی چاہئے۔" انسپکٹر جمشید نے بےچارگی کے انداز میں کہا۔
"یہ لوگ یوں ہر گز نہیں مانیں گے۔" انسپکٹر کامران مرزا غرائے۔
"تت۔ تو پھر۔ کس طرح مانیں گے۔" پروفیسرداؤد سوچے سمجھے بغیر بول اٹھے۔
"لیجئے۔ اب یہ چپ ہوئے تو آپ بول پڑے۔" خان رحمان نے منہ بنایا۔
"چپ ہوئے۔ نہیں تو۔ ابھی تو ان میں سے ایک بھی چپ نہیں ہوا۔ کیوں جمشید۔" پروفیسر داؤد نے ان کی طرف دیکھا۔
"جی۔ جی ہاں۔ آپ کا خیال ٹھیک ہے۔ نہ یہ ابھی تک چپ ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے۔ ہاں دن بے چارہ ضرور نکل آئے گا۔" انسپکٹر جمشید بولے
"خیر بھئی۔ دن کو نکلنے سے ہم کس طرح روک سکتے ہیں۔" خان رحمان نے کہا۔
"ہاں! قیامت کے نزدیک ضرور دن طلوع ہونے سے رک جائے گا۔ سنا ہے کہ تین دن تک رات ہی رہے گی اور پھر سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔ پروفیسر داؤد بولے۔
"اب قیامت کی نشانیوں کا پیریڈ شروع ہو گیا ہے۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
"اوہو۔ اب صرف بڑے بول رہے ہیں۔ چھوٹی پارٹی کب کی خاموش ہو چکی ہے۔" انسپکٹر کامران مرزا چونکے۔
"ہمارا تو صرف نام بدنام ہے۔" فاروق بول اٹھا۔
"دھت تیرے کی۔ پھر بول پڑے۔" محمود نے جھلا کر اپنی ران پر ہاتھ مارا۔
"نہیں ہو سکتے۔ بھئی۔ نہیں ہو سکتے۔" انسپکٹر جمشید نے انکار میں سر ہلایا۔
"کک۔ کیا نہیں ہو سکتے ابا جان؟" فرزانہ نے حیران ہو کر کہا۔
"خاموش۔ اور کیا۔" وہ بولے۔
"دیکھئے انکل۔ اگر یہ بات ہے تو ہم آپ کو اس طرح خاموش ہو کر دیکھائیں گے جیسے منہ میں گھنگیاں ڈال لی ہوں۔"
"بلکہ اس طرح جیسے چپ کا روزہ رکھ لیا ہو۔"
"اس طرح کیوں نہیں جیسے ہم سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔"
"اگر کوئی محاورہ رہ گیا ہو تو وہ بھی کہہ ڈالو۔ کوئی کسر نہ رہ جائے آج۔ ہم ایک دو گھڑی سو نہ جائیں۔" انسپکٹر جمشید نے بھنائے ہوئے لہجے میں کہا۔
اور وہ سب ایک دم سہم گئے۔ انہوں نے اپنے ہونٹ مظبوطی سے بھینچ لئے۔ پھر وہ ٹھنڈے اور گندے فرش پر لیٹ گئے۔ ساتھ ہی انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ چاروں چند لمحے تک انہیں دیکھتے رہے۔ پھر خود بھی لیٹ گئے۔
چند لمحے تک کوٹھڑی میں موت کا سناٹا طاری رہا۔ پھر پروفیسر داؤود کی آواز ابھری:
"جمشید میرا دم گھٹ رہا ہے۔"
کک۔ کیوں کیا ہوا پروفیسر صاحب؟" انسپکٹر جمشید اچھل کر بیٹھ گئے اور پروفیسر داؤد پر جھکے۔
"پتا نہیں کیا بات ہے۔ اس خاموشی سے میرا دم گھٹ رہا ہے۔ ان سے کہو۔ یہ بولتے رہیں۔ جب تک ان کی بات چیت جاری رہی۔ مجھے دم گھٹنے کا ذرا احساس نہیں ہوا۔ لیکن اب۔ مم۔ میں کیا بتاؤں۔ کیا کروں۔ میرے لئے کچھ کرو جمشید۔"
"آپ کے لئے ہم سب اپنی جانیں تک قربان کر سکتے ہیں پروفیسر صاحب۔ محمود۔ فاروق۔ بولنا شروع کر دو۔ آفتاب۔ آصف۔ چہکو۔ شوکی۔ باتوں کی پھلجڑیاں چلا دو۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"یہ۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ابا جان۔" فاروق نے بوکھلائی ہوئی آواز میں کہا۔
"ہاں! میں یہی کہ رہا ہوں۔ کیا تم انے اپنے پروفیسر انکل کی بات نہیں سنی؟"
"جی۔ بالکل سنی ہے۔ ان کا حکم ہو تو ہم موت کے منہ میں بھی چہکنا نہ چھوڑیں۔ اس کوٹھڑی میں تو بات ہی کیا ہے۔" فاروق نے جلدی جلدی کہا۔
"موت کے منہ کی بھی ایک ہی کہی۔ ہم تو مرنے کے بعد بھی گفتگو جاری رکھیں گے۔ اگر پروفیسر انکل کا حکم ہو۔" آفتاب نے کہا۔
"اب دعوے ہی کرتے رہیں گے یا کوئی بات بھی کریں گے۔" مکھن نے منہ بنایا۔
"ہائیں۔ تو کیا تمہارے خیال میں ہم بول نہیں رہے۔" فاروق نے اسے گھورا۔
"بس ٹھیک ہے۔ میرا دم گھٹنا بند ہو گیا ہے۔ باتیں کرتے رہو۔ یہاں تک کے مجھے نیند آ جائے۔ اس کے بعد ضرور تم لوگ سو جانا۔" پروفیسر داؤد خوش ہو کر بولے۔
"فکر نہ کریں۔ ہم آج وہ باتیں کریں گے کہ کیا کبھی کسی نے باتیں کی ہونگی۔ آصف بولا۔
"لیکن انکل۔ وہ آپ کے چاق و چوبند کا کیا ہوگا۔۔" شوکی مسکرایا۔
"مم۔ مجبوری ہے بھئی۔ پروفیسر صاحب کو ذرا بھی پریشانی لاحق ہو۔ یہ ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔" انسپکٹر جمشید نے کندھے اچکائے۔
"خیر۔ اب سوال یہ ہے کہ بات کیا کی جائے؟"
"بب۔ بات۔ ہائیں۔ یہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے پاس باتوں کا سٹاک ہی ختم ہو گیا ہو۔"
"نن۔ نہیں ایسی بات نہ کہو۔" پروفیسر داؤد لرز گئے۔
"خیر انکل۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم اپنے محفوظ سٹاک کو آواز دے لیتے ہیں۔" محمود جلدی سے بولا۔
اور ان کے چہرے پر اطمینان دوڑ گیا۔ پھر نہ جانے باتوں کے طوفان میں کب ان کی آنکھ لگ گئی۔ اور باقی لوگ بھی سونے کے قابل ہوئے۔ ان کی آنکھیں تو کوٹھڑی کا تالا کھلنے کی آواز سن کر کھلیں۔ میں چلا
"آپ لوگوں کو ہمارے ساتھ چلنا ہے۔" ایک نگران نے کہا۔
"ہم تیار ہیں۔ لیکن پہلے ہمیں ضروریات زندگی سے فارغ ہونے کی مہلت تو دی جائے۔"
"ہمیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ حکم یہ ہوا کہ آپ کو کوٹھڑی سے نکال کر سیدھا میدان میں پہنچا دیا جائے"۔ اس نے کہا۔
"کیا یہ انسانی جانوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"ہم حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور ہیں۔"
"ان سے فریاد نہ کریں کامران مرزا۔" پروفیسر داؤد نے کہا۔
"ہوں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔" وہ بولے۔
"مسٹر سی مون کہاں ہیں؟"
"اس وقت صدر صاحب کے ساتھ ناشتا کر رہے ہیں۔"
"ہمیں تو آپ لوگ ناشتہ دیں گے ہی نہٰں۔"
"بالکل نہیں۔ خاص ہدایات ہیں کہ آپ لوگوں کو پانی تک نہ دیا جائے۔"
"بہت بہت شکریہ۔" فاروق نے خوش ہو کر کہا۔
"یہ خوش ہونے کی بات تو نہیں۔" آصف جل گیا۔
"کیوں نہیں۔ ہم یہ سختیاں اپنے دین اور ملک کے لیے جھیل رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی یقینا ہمارے مرتبے قیامت کے دن بلند کریں گے۔"
"آمین!" ان کے منہ سے نکلا
سو کے قریب مسلح آدمیوں کی نگرانی میں انہیں قلعے سے باہر لایا گیا۔۔ رائفلوں کے رخ ان کی طرف تھے۔ فصیل پر کھڑے لوگ بھی بالکل چوکس تھے۔ سڑکے کے دونوں طرف بھی مسلح آدمی کھڑے نظر آئے۔
"تم لوگ دیکھ رہے ہو۔ کس قدر انتظامات ہیں۔"
"ہاں! اس لیے کہ اللہ تعالی نے ہمیں آنکھیں عطا کی ہیں۔ اس کا لاکھ لاکھ احسان ہے۔ اگر وہ آنکھیں عطا نہ فرماتا تو کس طرح دیکھ سکتے۔" اشفاق بولا۔
"تم لوگ لاکھ کوشش کرو۔ فرار نہیں ہو سکتے۔" ایک نگران فخریہ لہجے میں بولا۔
"ہمیں کوشش کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہم تو خود یہاں آئے ہیں۔ فرار ہو کر کیا کریں گے۔" محمود نے بھنا کر کہا۔
"کوشش کرو گے بھی تو منہ کی کھاؤ گے۔"
"ناشتا تو کرایا نہیں۔ منہ کی کھلائیں گے۔" مکھن نے منہ بنا کر کہا۔
اب وہ سڑک کے درمیان مین چل رہے تھے۔ سو کے سو آدمی ان کے ساتھ ساتھ قدم اٹھا رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف کھڑے آدمیوں کی رائفلیں بھی ان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ اور جہاں تک ان کی نظر جا سکتی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف فوجی کھڑے نظر آ رہے تھے۔ دائیں بائیں جو عمارات تھیں، ان کی چھتوں پر بھی لوگ موجود تھے، لیکن وہ صرف تماشائی تھے۔ اور انہیں دیکھ دیکھ کر تالیاں بجا رہے تھے۔ ان میں بچے بھی تھے۔ بڑے بھی اور بوڑھے بھی۔ لیکن زیادہ تعداد عورتوں کی تھی۔ چھتوں پر مرد اور بچے بہت کم نظر آ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی۔ لیکن پھر انہیں یاد آیا کہ لوگ تو شاید اس میدان کا رخ کر چکے ہیں۔ جہاں انہیں لے جایا جائے گا۔ انہوں نے یہ راستہ پیدل چلتے ہوئے ایک گھنٹے میں طے کیا۔ اگر گاڑی میں لے جایا جاتا تو صرف چند منٹ کا راستا ثابت ہوتا۔ لیکن شائد وہ لوگ انہیں کسی قسم کا کوئی آرام پہنچتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
آخر وہ اس میدان تک پہنچ گئے۔ میدان کیا تھا۔ اسٹیڈیم کے طرز پر ایک اتنا بڑا اور وسیع سبزہ زار تھا کہ ایک سرے پر کھڑا شخص دوسرے سرے بیٹھے کسی شخص کے نقش و نگار نہیں دیکھ سکتا تھا۔ تاہم ان لوگوں کے ہاتھوں میں دوربینیں تھیں۔ جن کی مدد سے وہ ایک دوسرے کو نہیں، ان سب کو دیکھ رہے تھے۔ اور ان سب کو میدان کے بیچوں بیچ ایک چبوترے کی طرف لایا جا رہا تھا۔
"نہ جانے ہمارے ساتھ یہاں کیا کیا جانے والا ہے۔" شوکی نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔
"ڈر رہے ہو شوکی۔" انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
"جج۔ جی نہیں۔ ڈر تو خیر نہیں رہا۔ ہاں گھبراہٹ ضرور محسوس ہو رہی ہے۔"
"اللہ کو یاد کریں سب۔ اور یہ خیال کریں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ وہ ہر حال میں آ کر رہے گی۔" انہوں نے پر سکون آواز میں کہا۔
انہیں چبوترے پر کھڑا کر دیا گیا۔ اب وہ سو آدمی پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ دوسروں کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے۔
"کیا ان لوگوں میں مسٹر سی مون بھی موجود ہے؟"
"نہیں۔ وہ تو صدر کے ساتھ ناشتا کر رہا ہے۔"
"اتنا لمبا ناشتہ۔" شوکی نے منہ بنایا۔
اچانک زور سے بگل بجا۔ اور پرھ اس کے ساتھ کتنے ہی بگل بجنے لگے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ آخر بگلوں کا شور رکا۔ اور پھر سپیکر میں کسی نے کہا:
"صدر صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ مہمان خصوصی مسٹر سی مون بھی ہیں۔ ان سے پہلے قیدیوں کو چبوترے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ جنہیں آپ بخوبی دیکھ رہے ہیں۔" یہ آواز چاروں طرف گونجی۔ اور پھر انہوں نے ایک طرف ہلچل کے آثار دیکھے۔ غالبا صدر اور سی مون اسی طرف سے آئے تھے۔
"صدر اور مہمان خصوصی تشریف رکھ چکے تھے۔ اب صدر قیدیوں کے بارے میں اعلان فرمائیں گے۔" اعلان کیا گیا۔
اس کے بعد صرف ایک منٹ تک مکمل خاموشی طاری رہی۔ پھر ایک کھردری سی آواز ابھری۔
"آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے بدترین دشمن ملک پاک لینڈ کے جاسوس ہمارے پیارے ملک میں بلا اجازت داخل ہو گئے تھے۔ یہی وہ جاسوس ہیں جنہوں نے ریاست کنگلات میں رہ کر ہمارے خلاف سازشوں پر شازشیں کی تھیں لیکن آخر کار ہم نے اپنے مہربان دوست مسٹر سی مون کے ذریعے انہیں پکڑ لیا۔ اور اب انہیں جاسوسی کے جرم مین سزا سنائی جائے گی۔ آپ سزا کا اعلان تین منٹ میں سنیں گے۔"
ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ لاکھوں لاگ اس وقت میدان میں جمع تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی بات چیت نہیں کر رہا تھا۔
"لو بھئی سزا سننے کے لیے تیار ہو جاؤ۔" انسپکٹر جمشید کے منہ سے نکلا۔ لیکن پھر وہ چونک اٹھے۔ دبی آواز میں کہے گئے یہ الفاظ بھی پورے مجمعے تک پہنچے تھے۔
"اوہو۔ شاید ہر جگہ سپیکر نصب تھے۔" پروفیسر داؤد بولے۔
اب انہوں نے ہونٹ بھینچ لئے۔ آخر تین منٹ بعد صدر کی آواز ابھری:
"میں ان کو موت کی سزا دیتا ہوں۔"
ان الفاظ کے ساتھ ہی تمام مجمع تالیاں بجانے لگا، وہ سب پوری قوت سے تالیاں بجا رہے تھے، لیکن منہ سے اب بھی کچھ نہیں بول رہے تھے۔
"بس" صدر کی آواز گونجی۔ تالیوں کی گونج ختم ہو گئی۔
"اب موت کی سزا کا طریقہ سن لیں۔"
"ایک منٹ سر۔" ایسے میں سی مون کی آواز گونجی۔
"نہیں مسٹر سی مون۔ میری بات کو کوئی نہیں کاٹ سکتا۔ جب میں بول رہا ہوں تو پھر کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ آپ بھی پر سکون ہو کر سنیں۔" صدر نے سرد آواز میں کہا۔
"مم۔ میں۔" سی مون ہکلایا۔
"بس خاموش رہئے۔ اور سنیے۔ آپ ہمارے خصوصی مہمان ہیں۔ ہاں تو میں ان کی سزا کا اعلان کر رہا تھا۔ ان لوگوں کو الٹا لٹکایا جائے گا۔ ان کے ننگے جسموں پر تیز دھار آلات سے چرکے لگائے جائیں گے اور ان پر نمک چھڑکا جائے گا۔ چرکے لگانے اور نمک چھڑکنے کا یہ عمل اسوقت تک جاری رہے گا۔ جب تک یہ ختم نہیں ہو جاتے۔ ختم ہونے کے بعد بھی یہ ایک ہفتے تک اسی طرح لٹکے رہیں گے۔ اور پھر ان پر بھوکے کتے چھوڑے جائیں گے۔"
صدر کے ان الفاظ کے ساتھ ہی ان کے سروں کے پاس اوپر سے رسیاں گریں۔ جو پھندے کی شکل کی تھیں۔
"قیدیو۔ ان پھندوں کو اپنی گردنوں میں ڈال لو۔"
"ایک منٹ جناب۔" سی مون پھر بول اٹھا۔
"مہمان خصوصی۔ آپ پھر بول اٹھے۔ حالاں کہ یہ ہمارے ملک کے اصول کے بالکل خلاف ہے۔ اور اگر آپ مہمان خصوصی نہ ہوتے تو اسی وقت آپ کو شوٹ کر دیا جاتا۔"
"میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔" اس بار سی مون رکے بغیر بلند آواز میں کہ گیا۔
اس کے الفاظ نے انہیں چونکا دیا۔
"نہیں مسٹر سی مون۔ یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔" صدر نے بھنا کر کہا۔
"کیا میں یہ شرط پیش نہیں کر چکا کہ آپ انہیں موت کی سزا نہیں دیں گے۔ ہاں سمندر میں پھینکوا دین گے۔ پھر چاہے یہ ڈوب جائیں۔ چاہے بچ جائیں ۔ ان کی قسمت۔"
"بات ایک ہی رہی۔ وہ سزا بھی موت کی ہے اور یہ سزا بھی۔"
"لیکن اس میں بچ نکلنے کا امکان نہیں۔ اس میں امکان ہے۔"
"اور آپ ان کے بچ نکلنے کا کیوں پسند کرتے ہیں؟"
"یہ میرے بہت ہی بہادر دشمن ہیں۔"
"تو پھر۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔ کیا بہادر دشمنوں کو زندہ رکھنا چاہئے۔"
"میں ان لوگوں کو اس طرح مرتے نہیں دیکھ سکتا۔ یا تو یہ میرے ہاتھ سے مریں گے ۔ یا اپنی موت مریں گے۔ جو موت آپنے پسند کی ۔ وہ موت نہیں مریں گے۔"
"یہ میرا ملک ہے۔ یہاں میرا حکم چلتا ہے۔ آپ کا نہیں۔"
"لیکن معاہدہ معاہدہ ہے۔"
"تب پھر یہ معاہدہ ختم۔ آپ بھی اپنی سزا سنیں۔"
"ضرور ضرور۔ کیوں نہیں۔" سی مون بولا۔
"آپ بھی اپنے ان بہادر دشمنوں کے ساتھ جا کھڑے ہو جائیں۔ اور ایک پھندہ پہن لیں۔"
"اچھی بات ہے، لیکن ہم لوگ اپنے ہاتھوں سے پھندہ نہیں پہنیں گے۔" سی مون بولا۔
"وہ بعد کی بات ہے۔ جب نہیں پہنیں گے تو پھر میرے آدمی پہنائیں گے۔"
"میں چلا۔" سی مون بولا۔
اور پھر انہوں نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا۔ اب سارا مجمع سی مون کو دیکھ رہا تھا۔ مجمعے کی توجہ کا مرکز اب وہ نہیں۔ سی مون تھا۔ اور پھر وہ ان کے نزدیک آ گیا۔ وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا۔
"ہماری خاطر آپ بھی موت کو گلے لگا کر آ گئے مسڑ سی مون۔"
"کیا کیا جائے۔ آپ تو جانتے ہیں۔ میں اصولوں کا آدمی ہوں۔" سی مون مسکرایا۔
پھر اس نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ہاتھ باہر آیا تو اس میں ننھی ننھی گولیاں تھیں۔ ایک گولی اس نے منہ میں رکھ لی اور اسے چبانے لگا۔ پھر ایک گولی انسپکٹر جمشید کی طرف بڑھا دی اور اشارے میں کہا:
"آپ بھی چبا لیں۔"
انسپکٹر جمشید ایک لمحے کے لئے ہچکچائے، پھر ایک گولی اس کی ہتھیلی سے اٹھا کر منہ میں رکھ لی۔ اس کی ہتھیلی اب انسپکٹر کامران مرزا کی طرف بڑھ گئی۔
اسی طرح اس نے سب کو ایک ایک گولی دی، اسی وقت آواز ابھری۔
"تم لوگ خود یہ پھندے اپنے گلوں میں ڈالو گے یا میں اپنے آدمی بھیجوں۔"
"ہم اپنے ہاتھوں سے پھندے نہیں ڈالیں گے۔" سی مون نے کہا۔
"اچھی بات ہے۔"
اور پھر سو فوجیوں کا دستہ ان کی طرف بڑھنے لگا۔
"اب۔ اب کیا کیا جائے۔" محمود بولا۔
"اللہ کو یاد کرنے کے سوا ہم کیا کر سکتے ہیں۔" شوکی نے فورا کہا۔
"لل۔ لیکن میں کیا کروں۔ میں تو کسی اللہ کو نہیں مانتا۔" سی مون ہنسا۔
"یہ آپ کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔" انسپکٹر جمشید نے کہا۔
"آپ بھی ایسی باتیں کہتے ہیں۔"
"ہاں کیوں نہیں۔ میں اپنے دین پر پوری طرح کاربند ہوں۔ اور اپنے دین سے بےتحاشہ محبت کرتا ہوں۔" وہ بولے۔
"میں نے تو سنا تھا کہ اب مسلمان بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔"
"جو لوگ ایسی باتیں کہتے ہیں وہ مسلمان نہیں۔ اصل باتیں تو وہی ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمﷺ فرما گئے ہیں۔ وہ آج بھی پتھر پر لکیر ہیں۔، آج کی سائنس بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷺ کی باتوں کو درست ماننے پر مجبور ہے۔"
ہاں: واقعی۔ اس بات پر مجھے بھی حیرت ہے۔"
"ہے نا حیرت۔ لیکن افسوس۔ آپ ایک اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو نہیں مانتے۔" انسپکٹر کامران مرزا بولے۔
"کیا آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں مرتے وقت مسلمان ہو جاؤں۔"
"یہ آپ کی خوش قسمتی ہو گی۔"
"میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ روزہ بھی نہیں رکھ سکتا۔ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن پر عمل نہیں کر سکتا۔"
"مطلب صاف ہے۔ مسلمان نہیں ہونا چاہتے۔"
"ہاں! بالکل۔ لیکن ان باتوں پر مجھے واقعی حیرت ہوتی ہے کہ آخر تم لوگوں کے نبی آج کے دور میں ہونے والی باتیں کیسے بتا گئے۔"
"اللہ تعالی نے انہیں غیب کی خبریں عطا کیں۔ اس لئے انہوں نے اپنی امت کو بتائیں۔"
"اوہو۔ ہم باتوں میں لگ گئے۔ ادھر وہ لوگ نزدیک آ گئے ہیں۔" سی مون چونکا
"پھر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔" خان رحمان بولے۔
"ہاں واقعی۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔" سی مون نے عجیب انداز میں کہا۔
"پورا مجمع اس وقت ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ شاید یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ ہم زندگی کی بھیک مانگنے کی کوشش کریں گے۔ روئیں گے، گڑگڑائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ہمارا ایمان ہے۔ یہ لوگ ہمیں موت نہیں دے سکتے۔ نہ زندگی دے سکتے ہیں۔ زندگی دینا اور موت دینا صرف اور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اسے اسی جگہ ہماری موت منظور ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں بچا سکتی۔ اور اگر ابھی ہماری زندگی باقی ہے تو یہ سب مل کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔" انسپکٹر کامران مرزا کہتے چلے گئے۔
"ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔" آفتاب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"آپ لوگوں کے بچے بھی کم دلیر نہیں۔ موت کو اسقدر نزدیک دیکھ کر بھی باتیں کرنے کے قابل ہیں۔" سی مون نے کہا۔
"اسی کا نام زندگی ہے۔" محمود بولا۔
"اسی کا نام زندگی ہے۔" محمود بولا۔
"آپ نے مسٹر سی مون۔ یہ ہمیں۔ گگ۔ گو۔" مکھن کہنے لگا تھا کہ سی مون بول پڑا۔
"وہ دیکھیں۔ فوجی ہمارے نزدیک آ گئے ہیں۔ اور آپ اس وقت بھی مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ میں آپ لوگوں پر جس قدر بھی تعجب کروں کم ہے۔ دوسری بات کہ اس وقت ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ آپ لوگوں کی خاطر میں بھی موت کو گلے لگا رہا ہوں۔"
یہ الفاظ سی مون نے بہت جلدی جلدی کہے۔ انسپکٹر جمشید چونک اٹھے۔ انہیں نے فورا مکھن کا بازو پکڑ کر دبا دیا۔ یہ اشارہ تھا۔ خاموش رہنے کا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا:
"آپ کی اصول پسندی کے ہم قائل ہیں۔ اس وقت بھی آپ اپنے اصول کی وجہ سے جان دے رہے ہیں۔ اس آخری وقت میں میں آپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، کیوں کہ مرنے سے پہلے پہلے۔ ہوش و حواس کی حالت میں جو شخص بھی سچے دل سے کلمہ طیبہ پڑھ لے گا۔ جنت میں جائے گا۔
"بس۔ مجھ سے یہ باتیں نہ کریں۔ میں ایسی باتیں سن کر بہت گھبراتا ہوں۔ لیجئے۔ وہ اور نزدیک آ گئے۔ موت اب ہم سے صرف چند قدم کے فاصلے پر رہ گئی ہے۔"
انہوں نے دیکھا۔ فوجی واقعی بہت نزدیک آ گئے تھے۔ ایسے میں نہ جانے کیوں، انسپکٹر جمشید زور سے چونکے۔
"بہتر تو یہی تھا کہ تم لوگ پھندے اپنے گلوں میں خود ڈال لیتے۔"
"ہم کیوں یہ زحمت کریں۔ آپ کس مرض کی دوا ہیں۔" آفتاب نے جل بھن کر کہا۔
"خیر۔ ہم تو آ ہی گئے ہین۔" دوسرا بھنا کر بولا۔
پھر وہ اور آگے بڑھے۔ انہوں نے پھندوں کی طرف ہاتھ بڑھا دئے اور عین اسی وقت سی مون نے ہاتھ میں پکڑی گیند نما کوئی چیز فرش پر دے ماری۔ اس نے غیر محسوس طور پر یہ گیند جیب سے نکالی تھی۔ ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے فورا بعد دھوئیں کا ایک گہرا بادل فرش سے اٹھا اور چاروں طرف پھیلنے لگا۔ اس کے پھیلنے کی رفتار حد درجہ تیز تھی۔
"خبردار۔ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لو۔" انسپکٹر جمشید بلند آواز میں بولے۔
"ہاں: سب لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیں اور میں انسپکٹر جمشید کا ہاتھ پکڑوں گا۔ اب آپ لوگ میرے پیچھے پیچھے آئیں گے۔"
اور۔ اور یہ فوجی۔"
"وہ تو کب کے بے ہوش ہو چکے ہیں۔ یہ دھواں اب سارے پورے میدان پر چھا جائے گا۔ ان گنت لوگ بے ہوش ہو ہو کر گریں گے۔ کچھ بھاگ نکلیں گے اور دھوئیں کی زد سے دور نکل جائیں گے۔ وہ بے ہوش نہیں ہوں گے۔ اور ان کے درمیان سے ہم نکلتے چلے جائیں گے۔ کوئی محسوس نہیں کر سکے گا کہ یہ ہم ہیں۔ انہیں تو اپنی پڑی ہو گی۔"
"ہوں! لیکن ہم کیوں بے ہوش نہیں ہوئے۔" اخلاق نے پوچھا۔
"اب تک گولیوں کا مقصد نہیں سمجھے۔" فاروق نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"اوہ۔ اوہ۔" ان کے منہ سے نکلا۔
"دھواں اب تک چاروں طرف بیٹھے لوگوں کے قریب پہنچ چکا ہو گا۔ اب ہم بھاگنا شروع کر سکتے ہیں۔" سی مون نے کہا اور انسپکٹر جمشید کا ہاتھ پکڑ کر دوڑنے لگا۔ یہ اسے پہلے ہی اندازہ تھا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔
اب وہ سب ایک قطار میں دوڑ رہے تھے۔ نہ جانے سی مون کس طرح گہرے دھوئیں میں دیکھنے کے قابل تھا۔ انہیں تو چند ہاتھ دور کی چیز نہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ فاروق سے رہا نہ گیا۔ پوچھ ہی بیٹھا:
"آپ اس دھوئیں میں کس طرح دیکھ رہے ہیں مسڑ سی مون؟"
"میں نے ایک خاص عینک لگا رکھی ہے۔ جس کی مدد سے میں بالکل صاف دیکھ رہا ہوں۔ جب کہ اس دھوئیں کے اندر کوئی بھی کچھ دیکھنے کے قابل نہیں ہے اور اسی لئے ہم بغیر کسی دقت کے نکل جائیں گے۔"
وہ دوڑتے رہے۔ یہاں تک کہ میدان سے باہر نکل آئے۔ اب سی مون کا رخ تبدیل ہو گیا۔ اور پھر وہ گاڑیوں کی لمبی قطاروں تک پہنچ گئے۔ تماشائیوں میں سے کوئی بھی ابھی تک وہاں نہیں پہنچا تھا۔ سی مون نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ ایک بڑی گاڑی کا دروازہ کھول ڈالا اور ان سے بولا:
"آپ سب گاڑی پر سوار ہو جائیں۔ گائی میں چلاؤں گا۔"
وہ کیا کہ سکتے تھے۔ اس وقت کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھے۔ جلدی ہی گاڑی تیر کی طرح وہاں سے نکلی اور ایک سمت میں بڑھی۔ اور پھر وہ اڑی جا رہی تھی۔
"لیکن مسٹر سی مون۔ ہم جا کہاں رہے ہیں؟"
"آپ کو آج یہ بات معلوم ہو گی کہ میں سی مون کیوں کہلاتا ہوں۔" وہ مسکرایا۔
"کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم سمندر کے ذریعے جائیں گے۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"اوہو۔ آپ میرا اشارہ سمجھ گئے۔" کمال ہے۔"
"اس میں کمال کی بات نہیں۔ میرے ساتھ انسپکٹر کامران مرزا بھی اس جملے کا مطلب سمجھ گئے ہیں۔" انہوں نے کہا۔
"کیوں نہ ہم یہیں سے الگ الگ ہو جائیں۔ آخر ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔" خان رحمان نے کہا۔
"ابھی ہم خطرے سے باہر نہیں ہیں۔ خطرے سے باہر ہونے پر میں خود آپ سے الگ ہو جانا پسند کروں گا۔" سی مون نے برا منہ بنایا۔
قریبا آدھ گھنٹے بعد انہوں نے سمندر کی موجوں کا شور سنا۔ سی مون نے گاڑی روک دی اور ساحل کی طرف دوڑ پڑا۔ انہوں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
"آپ لوگ ایک گھنٹے تک تیر سکتے ہیں۔" وہ ان کی طرف مڑا۔
"ضرور۔ لیکن آپ چاہتے کیا ہیں؟"
"ایک گھنٹے تک تیرنے کے بعد ہم ایسی جگہ پہنچ سکتے ہیں جہاں سے ہم بآسانی اپنی اپنی راہ لیں گے۔"
"ٹھیک ہے۔ ہم تیر سکتے ہیں۔"
"تو پھر لگا دیں چھلانگیں۔" اس نے کہا۔
وہ سمندر میں تیرنے لگے۔ انسپکٹر جمشید پروفیسر داؤد اور شوکی برادرز کی طرف سے فکرمند تھے۔ تیرنا تو انہیں آتا تھا۔ لیکن ایک گھنٹے تک تیرنے کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ تاہم ہو خاموش رہے۔ تیرنے کا عمل جاری رہا۔ اور پھر وہ ایک سر سبز جزیرے پر پہنچ گئے۔ جزیرے کے پاس دو لانچیں کھڑی تھیں۔ ریت پر کچھ لوگ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے تیرنے کی آوازیں سن کر وہ ہڑبڑا کر اٹھے۔ اور پھر ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا:
"اوہ۔ مسٹر سی مون۔"
"ہاں! میں اور میرے ساتھی۔" سی مون نے مسکرا کر کہا۔
"وہ جزیرے پر پہنچ گئے۔ کتی ہی دیر ریت پر بیٹھے سانس لیتے رہے۔ پھر سی مون اٹھا اور اپنے ساتھیوں سے بولا"۔
"ہم ابھی اور اسی وقت یہاں سے روانہ ہو رہے ہیں۔"
"او کے سر۔"
"ایک لانچ یہ لوگ لے جائیں گے ، دوسری میں ہم جائیں گے۔"
"کیا مطلب؟'
"یہ لوگ ہمارے دوست نہیں، دشمن ہیں۔ لیکن وقتی طور پر ہمیں ایک ساتھ سفر کرنا پڑ گیا تھا۔"
"اگر یہ دشمن ہیں تو ان سے فیصلہ کیوں نہ کر لیا جائے، بلا وجہ ایک لانچ انہیں کیوں دی جائے۔" سی مون کا ایک ساتھی بولا۔
"نہیں بھئی۔ یہ میرے اصول کے خلاف ہے۔ اور پھر میں ان لوگوں کو بہت پسند کرتا ہوں۔"
"اوہ۔ تب یہ لوگ انسپکٹر جمشید وغیرہ ہیں۔"
"ہاں! تمہارا یہ خیال ٹھیک ہے۔"
آخر وہ لانچوں کی طرف چل پڑے، پھر الگ الگ لانچ پر سوار ہو گئے۔
"مسٹر سی مون۔ آپ نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ آپ کا یہ سلوک ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا۔ اور اگر کبھی ایسا کوئی موقع ہمیں ملا تو ہم آپ کے ساتھ اس سے بھی بہتر سلوک کریں گے۔"
"تم سلوک کرو گے۔ ارے میاں جاؤ۔" سی مون کا ایک ساتھی بولا۔
"نہیں بھئی۔ اس لہجے میں بات نہ کرو۔ یہ لوگ عام لوگ نہیں۔، میں کہہ چکا ہوں۔ اب چلو۔" سی مون نے برا مان کر کہا۔
"اچھا مسٹر سی مون۔ پھر ملیں گے۔ اگر زندگی رہی۔"
دونوں لانچیں مختلف سمتوں میں بڑھنے ہی لگی تھیں کہ سی مون چلا اٹھا:
"ارے ہاں! میں نے آپ لوگوں کو یہ تو بتایا ہی نہیں کہ آپ کو کس زاویے پر رہ کر سفر کرنا ہے۔ ستر کے زاویے پر سوئی رکھ کر سفر کرتے جائیں۔ آپ اپنے ملک میں پہنچ جائیں گے۔"
"اہوہ! یہ معلومات آپ کو کس طرح ہین؟"
"مجھے سی مون بلاوجہ نہیں کہا جاتا۔ سمندروں کے بارے میں جو معلومات مجھے ہیں۔ اس وقت روئے زمین پر شائد ہی کسی کو ہوں گی۔ اور میرے آدمی خفیہ جزیروں پر موجود رہتے ہیں۔" اچھا اب چلتے ہین۔" اس نے ہاتھ ہلایا۔
"اوہ!" ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
"ایک منٹ مسٹر سی مون۔ بیگال کا صدر آپ کو بھی ہمارے ساتھ موت کے گھاٹ اتارنے پر تیار ہو گیا۔ کیا آپ اب بھی نہیں بتائیں گے۔ اس کامیابی کا راز کیا ہے؟"
"ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ یہ کامیابی صرف بیگال نے نہیں۔ تمام غیر مسلم ممالک نے حاصل کی ہے۔" اس نے زور سے سر ہلایا۔
"افسوس! اس وقت ہم آپ کے ساتھ زبردستی یہ راز معلوم کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔" فاروق نے کہا۔
"اوہ تو یہ بات ہے۔ خیر۔ میرے اس احسان کو بھول جائیں، میں کبھی بھی نہیں جتاؤں گا اور نہ اس کا بدلہ چاہوں گا، اب اگر آپ مجھ پر حملہ کرنا پسند کرتے ہیں تو میں تیار ہوں۔"
"نن۔ اس کے باوجود ہم یہ نہیں کریں گے۔" انسپکٹر جمشید نے انکار میں سر ہلایا۔
"کیوں جمشید۔ آخر یہ پوری امت مسلمہ کا معاملہ ہے۔" پروفیسر داؤد گھبرا کر بولے۔
"ہاں! ضرور ہے۔ لیکن اس وقت ہم مسٹر سی مون پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ انسپکٹر جمشید بولے۔
خان رحمان اور پروفیسرا داؤد نے جلدی سے سوالیہ انداز میں انسپکٹر کامران مرزا کی طرف دیکھا جیسے ان کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہوں۔
"میرا بھی یہی مشورہ ہے۔"
"ایک تو آپ کے مشورے آپس میں کبھی نہیں ٹکراتے۔" فرزانہ نے منہ بنایا۔
"اوہو۔ تو تم سب ہی حملہ کرنے کے خواہش مند ہو۔"
"ہاں!" وہ ایک ساتھ بولے۔
"لیکن ہم دونوں اس کا مشورہ ہرگز نہیں دیں گے۔"
"آخر کیوں!" وہ چلا اٹھے۔
"پھر بتائیں گے۔" انسپکٹر جمشید نے کہا اور پھر ہاتھ ہلاتے ہوئے بولے۔
"اب ہم رخصت ہوتے ہیں مسٹر سی مون۔"
"اس میں کوئی شک نہیں۔ کہ آپ دونوں حد درجے عقلمند ہیں۔ اس وقت آپ نے جس عقلمندی سے کام لیا ہے۔۔ اس کا اندازہ میں ہی لگا سکتا ہوں۔" سی مون نے مسکرا کر کہا۔
"کیا مطلب؟" ان میں سے کئی کے منہ سے نکلا۔
"مطلب انہیں سے پوچھنا۔ میں چلا۔" سی مون نے کہا اور ہاتھ ہلایا۔
پھر اس کی لانچ تیر کی طرح آگے بڑھ گئی اور انہوں نے بھی لانچ چلا دی۔
"ہم نے اس پر حملہ کیوں نہیں کیا ابا جان؟" سی مون کی لانچ پر نظریں جمائے محمود نے پوچھا۔
"اس پر حملہ کر کے اس وقت ہم منہ کی کھاتے۔ اس لئے کہ ہم اس کی دی ہوئ لانچ میں سوار تھے۔ یہ جزیرہ اس کے قبضے میں ہے۔ یہاں اس کے اور بھی ساتھی ہوں گے۔ جو ہمیں نشانہ بنائے بیٹھے ہونگے۔ اور پھر ان لانچوں کے بارے میں کچھ بھی تو نہیں جانتے۔ جب کہ سی مون اور اس کے آدمیوں کو ان کے بارے میں تمام معلومات حاصل ہیں۔ لہذا اس سے بھڑنے کا یہ وقت ہرگز نہیں تھا۔ ہمارا اس سے سامنا ہو گا۔ ضرور ہو گا۔"
"اور وہ کامیابی؟"
"ہاں! اس نے ہمیں بہت پریشان کر دیا ہے۔ مارے الجھن کے برا حال ہے۔ بس نہیں چل رہا کہ کس طرح یہ راز معلوم کریں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم ہوش و حواس کھو بیٹھتے اور ان پر حملہ کر دیتے۔ عقل سے کام لینا بہر حال بہتر ہو گا۔ ہم عقل سے کام لے کر اس کامیابی کا راز معلوم کریں گے انشااللہ۔
"اوہ۔ جمشید۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔" خان رحمان نے کہا۔
"میں تم لوگوں کے اطمینان کے لیے ایک بات کہ دینا کافی خیال کرتا ہوں۔" انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا۔
"اور وہ کیا؟"
"یہ کہ۔ اس مہم میں۔ یعنی بیگال میں داخلہ اور وہاں سے فرار تک کے عرصے میں ہم ناکام نہیں رہے۔"
"جی۔ کیا مطلب۔ ہم ناکام نہیں رہے۔ اگر یہ ناکامی نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ آخر ناکامی پھر کس کو کہتے ہیں۔
"بعض کامیابیاں اسی بھی ہوتی ہیں جو ظاہر میں ناکامی نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر صلح حدیبیہ کا واقعہ۔" انسپکٹر نے کہا۔
"اوہ ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔" اشفاق جلدی سے بولا۔
"ہم بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کہ ایسا ہوتا ہے۔، لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت ہم نے کیا کامیابی حاصل کی ہے؟"
"تم لوگوں نے۔ یا آپ میں سے کسی نے ان سو فوجیوں کی طرف توجہ دی تھی۔ جو ہمارے گلوں میں پھندے ڈالنے کے لیے بڑھ رہے تھے۔" انسپکٹر جمشید پر اسرار انداز میں بولے۔
"نن۔ نہیں۔ ہم تو اس وقت سی مون کی طرف متوجہ تھے۔" وہ بولے۔
"لیکن میں نے انہیں دیکھا تھا۔" انسپکٹر کامران مرزا بول اٹھے۔
"تب پھر آپ نے بھی وہ بات محسوس کر لی ہو گی۔" انسپکٹر جمشید نے جلدی سے کہا۔
"ہاں! بالکل۔" انہوں نے مسکرا کر کہا۔
"آخر وہ کیا بات تھی؟" اب تو مارے بے چینی کے ان کا برا حال ہو گیا۔
انسپکٹر جمشید نے کوئی جواب نہ دیا۔ ان کی نظریں سطح سمند پر جم کر رہ گئیں تھیں۔
"آپ نے کوئی جواب نہیں دیا ابا جان۔"
"ابھی نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم جس لانچ میں سفر کر رہے ہیں۔ وہ سی مون کی لانچ ہے، ہو سکتا ہے۔ اس میں اس نے کوئی ایسا آلہ فٹ کر رکھا ہو۔ جس کے ذریعے وہ ہماری گفتگو اس دوسری لانچ میں سن رہا ہو۔" انسپکٹر جمشید بولے۔
"اوہ!" وہ دھک سے رہ گئے۔ منہ حیرت اور خوف سے کھل گئے۔
"تب پھر آپ نے ان فوجیوں کا ذکر بھی کیوں کیا؟" فرازانہ نے کہا۔
تب پھر آپ نے ان فوجیوں کا ذکر بھی کیوں کیا؟" فرزانہ نے کہا۔
"اتنی سی بات سے سی مون کچھ نہیں سمجھ سکتا۔ اور اگر سمجھ بھی جائے تو اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ یہ غلطی مجھ سے ہو چکی ہے۔"
"شکریہ۔ اب ہم ساری بات سمجھ گئے ہیں۔ اور لانچ سے اترنے سے پہلے کوئی سوال نہیں کریں گے۔" آفتاب نے کہا۔
"لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم بالکل چپ ہو جاؤ۔ اس طرح تو یہ سفر بور ہو جائے گا۔" پروفیسر داؤد نے مسکرا کر کہا۔
جی بہتر! ہم ہونٹ ہلاتے رہیں گے۔ آپ فکر نہ کریں۔" مکھن مسکرایا۔
"ہونٹ ہلانے کے ماہر جو ہوئے۔" محمود نے منہ بنایا۔
"ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی کام کا ماہر ہے۔ لہذا یہ جملہ سب کے لیے کہا جاسکتا ہے۔" فاروق بولا۔
"لیکن اس بار ہماری تمام تر مہارتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔" آفتاب نے منہ بنایا۔
"بھئی ایسا بھی ہوتا ہے۔ دل چھوٹا نہ کرو۔" آصف نے مسکرا کر جواب دیا۔
"اب کیا دل چھوٹا کرو گا۔ اس وقت تک ہی ضرورت سے زیادہ چھوٹا ہو چکا ہوگا۔" آفتاب بولا۔
"اوہو۔ تب تو۔ تمہارے دل کا ڈاکٹری معائنہ کرانا پڑے گا۔" محمود بولا۔
"ہروفسر انکل سے معائنہ کروا لیتے ہیں۔ لانچ میں تو یہی ڈاکٹر میسر ہیں۔" فرحت نے شوک آواز میں کہا۔
"مم۔ میں۔ وہ والا ڈاکٹر نہیں ہوں۔ سائنس کا ڈاکٹر ہوں۔" پروفیسر داؤد گھبرا گئے۔
"تو کیا ہوا۔ آپ ذرا سائنسی انداز کا معائنہ کر لیجیے گا۔"
"نہیں بھئی۔ یہ نہیں ہو سکتا۔"
"تب تو آفتاب کا اور اس کے دل کا اللہ ہی حافظ ہے۔" فرازانہ بولی۔
"چلو شکر ہے۔ اللہ ہی حافظ ہے۔ اس سے بہت کون حافظ ہو سکت اہے۔" آفتاب نے اسے گھورا۔
اور پھر کئی گھنٹے کے سفر کے بعد ان کی لانچ ان کے ساحل پر جا لگی۔ ساحل پر اتر کر انہوں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ نہ جانے کیوں انسپکٹر جمشید کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
• شش۔۔۔شش*
"خیر تو ہے۔ آپ کی آنکھوں میں الجھن نظر آ رہی ہے۔" محمود نے ان کی طرف بغور دیکھا۔ ادھر آفتاب نے انسپکڑ کامران مرزا کی طرف دیکھا۔ وہاں بھی الجھن مچل رہی تھی:
"خیر تو ہے ابا جان۔" آفتاب نے بھی کہا۔
"ہمارا خیال ٹھیک تھا۔ اس لانچ پر ہونے والی گفتگو سی مون سنتا رہا ہے۔ اور نے یہاں موجود اپنے ساتھیوں یا کچھ اور لوگوں کو اطلاع دے دی ہے۔ لہذا وہ لوگ اب ساحل پر موجود ہیں۔ اور یقینا اب ہمارا تعاقب کیا جائے گا۔ لیکن بہرحال یہ برا نہیں ہوا، بلکہ ہمارے حق میں اچھا ہی ہوا۔" انسپکٹر جمشید نے جلدی جلدی کہا۔
"اگر یہ برا نہیں ہوا۔ اور اچھا ہوا ہے تو پھر آپ الجھن کیوں محسوس کر رہے ہیں؟" فرزانہ نے پوچھا۔