صفحات

تلاش کریں

نیلے پرندے (عمران سیریز از ابن صفی)

1
چودھویں کی چاندنی پہاڑیوں پر بکھری ہوئی تھی۔۔۔ سناٹے اور چاندنی کا حسین امتزاج صدیوں پرانی چٹانوں کو گویا جھنجھوڑ کر جگا رہا تھا!۔۔۔ ایک لامتناہی سکوت کے باوجود بھی نہ جانے کیوں ماحول بڑا جاندار معلوم ہو رہا تھا۔ پہاڑوں میں چکراتی ہوئی سیاہ سڑک پر جو بلندی سے کسی بل کھائے ہوئے سانپ سے مشابہ نظر آتی تھی۔ ایک لمبی سی کار دوڑتی دکھائی دے رہی تھی۔
اچانک وہ ایک جگہ رک گئی۔۔۔ اور اسٹیرنگ کے سامنے بیٹھا ہوا آدمی بڑبڑانے لگا "کیا ہو گیا ہے۔۔۔ بھئی!"
اس نے اسے دوبارہ اسٹارٹ کیا۔۔۔ انجن جاگا ۔۔۔ ایک مختصر سی انگڑائی لی اور پھر سو گیا!۔۔۔
کئی بار اسٹارٹ کرنے کے باوجود بھی انجن ہوش میں نہ آیا!۔۔۔
"یار دھکا لگانا پڑے گا!" اس نے پیچھے مڑ کر کہا! مگر پچھلی سیٹ سے خراٹے ہی بلند ہوتے رہے۔۔۔
اس نے دونوں گھٹنے سیٹ پر ٹیک کر بیٹھتے ہوئے سونے والے کو بری طرح جھنجھوڑنا شروع کردیا!۔۔۔
لیکن خراٹے بدستور جاری رہے۔
آخر جگانے والا سونے والے پر چڑھ ہی بٹھا!
"ارے۔۔۔ ارے۔۔ ۔ بچاؤ۔۔۔ بچاؤ!" اچانک سونے والے نے حلق پھاڑ نا شروع کردیا۔ لیکن جگانے والے نے کسی نہ کسی طرح کھینچ کھانچ کر اسے نیچے اتار ہی لیا!
"ہائیں! میں کہاں ہوں؟" جاگنے والا آنکھیں مل مل کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
"عمران کے بچے ہوش میں آؤ!" دوسرے نے کہا!
"بچے۔۔۔ خدا کی قسم ایک بھی نہیں ہے۔۔۔ ابھی تو مرغی انڈوں پر بیٹھی ہوئی ہے سوپر فیاض۔۔۔!"
"کار اسٹارٹ نہیں ہو رہی ہے!" کیپٹن فیاض نے کہا۔
"جب چلے تھے تب تو شائد اسٹارٹ ہو گئی تھی!"
"چلو دھکا لگاؤ!"
عمران نے اس کے شانے پکڑے اور دھکیلتا ہوا آگے بڑھنے لگا!
"یہ کیا بیہودگی ہے! میں تھپڑ رسید کردوں گا!" فیاض پلٹ کر اس سے لپٹ پڑا۔۔۔
"ہائیں۔۔۔ ہائیں۔۔۔ ارے میں ہوں۔۔۔ مرد ہوں!"
"کار دھکا دئیے بغیر اسٹارٹ نہیں ہوگی!" فیاض حلق پھاڑ کر چیخا۔
"تو ایسا بولو نا۔۔۔ میں سمجھا شائد۔۔ ۔ واہ یار۔۔۔!"
فیاض اسٹیرنگ کے سامنے جا بیٹھا۔۔۔ اور عمران کار کو آگے سے پیچھے کی طرف دھکیلنے لگا۔
"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔!" فیاض پھرچیخا!"پیچھے سے!"
عمران نے منہ پھیر کر اپنی کمر کار کے اگلے سرے سے لگا دی اور زور کرنے لگا۔
"ارے خدا غارت کرے۔۔۔ سور۔۔۔ گدھے!" فیاض دانت پیس کر رہ گیا۔
"اب کیا ہوگیا۔۔۔!" عمران جھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔
فیاض نیچے اتر آیا۔ چند لمحے کھڑا عمران کو گھورتا رہا پھر بے بسی سے بولا۔
"کیوں پریشان کرتے ہو؟"
"پریشان تم کرتے ہو! یا میں؟"
"اچھا۔۔۔ تم اسٹیرنگ کرو! میں دھکا دیتا ہوں!" فیاض نے کہا۔
"اچھا بابا!" عمران پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا!
وہ اگلی سیٹ پر جا بیٹھا اور کیپٹن فیاض کار کو دھکیل کر آگے کی طرف بڑھانے لگا!
کار نہ صرف اسٹارٹ ہوئی بلکہ فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھ گئی!
"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ روکو۔۔۔ روکو۔۔۔!" فیاض چیختا ہوا کار کے پیچھے دوڑنے لگا! لیکن وہ اگلے موڑ پر جا کر نظروں سے اوجھل ہوگئی! فیاض برابر دوڑتا رہا!۔۔۔ اس کے علاوہ اور چارہ بھی کیا تھا۔۔۔ وہ دوڑتا رہا۔ حتٰی کہ طاقت جواب دے گئی۔۔۔ اور وہ ایک چٹان سے ٹیک لگا کر ہانپنے لگا! چڑھائی پر دوڑنا آسان کام نہیں ہوتا۔ وہ ایک پتھر پر بیٹھ کر ہانپنے لگا۔
اس وقت اس حرکت پر وہ عمران کی بوٹیاں بھی اڑا سکتا تھا! لیکن اسانسوں کے ساتھ ہی ساتھ اس کی ذہنی حالت اعتدال پر آتی گئی!
عمران پر غصہ آنا قدرتی امر تھا! لیکن اس کے ساتھ ہی فیاض کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ آج اس نے بھی عمران کو کافی پریشان کیا ہے!
آج شام کو وہ عمران کو تفریح کے بہانے کار میں بٹھا کر کسی نامعلوم منزل کی طرف لے اڑا تھا۔ عمران کی لاعلمی میں روشی سے اس کا سامان سفر پہلے ہی حاصل کر چکا تھا اور وہ سب کار کی اسٹپنی میں ٹھونس دیا گیا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ عمران آج کل کام کے موڈ میں نہیں ہے! لہٰذا اسے یہ حرکت کرنی پڑی اور پھر جب یہ "تفریحی سفر" طویل ہی ہوتا چلا گیا، تو عمران کو یہ بتانا پڑا کہ وہ اسے سردار گڈھ لے جا رہا ہے! اس پر عمران ایک لمبی سانس کھینچ کر خاموش ہو گیا تھا! اس نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اس طرح سردار گڈھ لے جانے کا مقصد کیا ہے؟۔۔۔
پھر اس نے کوئی بات ہی نہیں کی تھی! کچھ دیر یونہی بیٹھا رہا تھا۔ پھر پچھلی سیٹ پر جا کر خراٹے لینا شروع کر دئیے تھے!
ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں فیاض کا غصہ زیادہ زور نہ پکڑ سکا ہوگا! وہ اسی پتھر پر گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھا رہا! خنکی کافی تھی!۔۔۔ سیگرٹوں کے کاٹن اور کافی کا تھرموس گاڑی ہی میں رہ گئے تھے! ورنہ وہ اسی پرسکون ماحول سے لطف اندوز ہونے کی کوشش ضرور کرتا!
ویسے وہ مطمئن تھا کہ عمران کا مذاق خطرناک صورت اختیار نہیں کرسکتا وہ واپس ضرور آئے گا اور کچھ تعجب نہیں کہ وہ قریب ہی کہیں ہو!
فیاض گھٹنوں میں سر دئیے عمران ہی کے متعلق سوچتا رہا! اسے اس کی بہتیری حرکتیں یاد آ رہی تھیں! وہ حرکتیں جن پر ہنسی اور غصہ ساتھ ہی آٹے تھے اور دوسروں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ہنستے رہیں یا عمران کو مار بیٹھیں!
حماقت کا اظہار اس کی فطرت کا جزو ثانی بن چکا تھا اور وہ کسی موقع پر بھی اس سے باز نہیں رہتا تھا۔۔۔ وہ ان کے سامنے بھی حماقت انگیز حرکتیں کرتا جو اسے احمق نہیں سمجھتے تھے۔ مثلاً خود کیپٹن فیاض کے لئے عمران نے ایک نہیں درجنوں کیس نپٹائے تھے! کام اس نے کئے تھے اور نام فیاض کا ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسے آدمی کو احمق نہیں سمجھ سکتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ بھی عمران کے احمقانہ رویے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی!
تقریباً پانچ منٹ گزر گئے اور فیاض اسی طرح بیٹھا رہا!۔۔۔ لیکن کب تک۔۔۔ آخر اسے سوچنا پڑا کہ کہیں سچ مچ عمران اسے چوٹ نہ دے گیا ہو! کیونکہ وہ بھی تو اسے دھوکہ ہی دے کر سردار گڈھ لے جا رہا تھا۔
فیاض اٹھا اور دل ہی دل میں عمران کو گالیاں دیتا ہوا سڑک پر چلنے لگا۔۔۔ لیکن جیسے ہی اگلے موڑ پر پہنچا اسے سامنے سے کوئی آتا دکھائی دیا! چلنے کا انداز عمران ہی کا سا تھا!۔۔۔ فیاض کی مٹھیاں بھینچ گئیں!
عمران نے دور ہی سے ہانک لگائی "کپتان صاحب! وہ پھر رک گئی ہے۔۔ چلو دھکا لگاؤ۔۔۔!"
فیاض کی رفتار تیز ہو گئی! وہ قریب قریب دوڑنے لگا تھا! عمران کے قریب پہنچ کر اس کا ہاتھ گھوما ضرور لیکن خلا میں چکر کاٹ کر رہ گیا کیونکہ عمران بڑی پھرتی سے بیٹھ گیا تھا!
"ہائیں۔۔۔ ہائیں۔۔۔! کیا ہو گیا ہے تمہیں!" عمران نے اٹھ کر اس کے دونوں ہاتھ پکڑ تے ہوئے کہا! "ابھی تو تم اچھے بھلے تھے۔۔۔"
"میں تمہیں مار ڈالوں گا!" فیاض دانت پیس کر بولا!
"اب یہاں تنہائی میں جو چاہو کرلو۔۔۔ کوئی دیکھنے آتا ہے!" عمران نے شکایت آمیز لہجے میں کہا "اگر وہ سالی سٹارٹ نہیں ہوتی تو اس میں میرا کیا قصور ہے!"
"ہاتھ چھوڑو!" فیاض نے جھٹکا دے کر کہا! لیکن عمران کی گرفت مضبوط تھی وہ ہاتھ نہ چھڑا سکا۔
"وعدہ کرو کہ مارو گے نہیں!" عمران بڑی سادگی سے بولا۔
"مجھے غصہ نہ دلاؤ۔!"
"اچھا تو اس کے علاوہ جو کچھ کہو لادوں! ٹافیاں لو گے!"
فیاض کا موڈ ٹھیک ہونے میں بہت دیر نہیں لگی!۔۔۔ وہ کرتا بھی کیا عمران پر غصہ اتارنا بھی ایک طرح سے وقت کی بربادی ہی تھی۔
ویسے اس بار حقیقتاً کار کو دھکا دینے کی ضرورت نہیں پیش آئی!
عمران نے اپنے کئی منٹ اس کے انجن پر ضائع کئے تھے! وہ زیادہ دو رنہیں گیا تھا!۔۔۔ قریب ہی ایک جگہ کار روک کر انجن کی مرمت کرنے لگا تھا! اسے توقع تھی کہ فیاض بے تحاشہ دوڑتا ہوا وہاں تک پہنچ جائے گا۔ لیکن جب کئی منٹ گذر جانے کے باوجود بھی فیاض نہ آیا تو وہ خود ہی اس کی تلاش میں چل پڑا۔
تھوڑی دیر بعد وہ پھر اسی چکراتی ہوئی سڑک پر سفر کر رہے تھے! لیکن کار فیاض ہی ڈرائیو کر رہا تھا۔۔۔ اور عمران نے پھر پچھلی سیٹ سنبھال لی تھی۔
فیاض بڑبڑانے لگا "اس وقت تمہاری جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو۔۔۔!"
"چین سے گھر پر پڑا سو رہا ہوتا!" عمران نے جلدی سے جملہ پورا کر دیا!
"بکواس مت کرو۔" فیاض نے کہا۔ "معاملہ پانچ ہزار پر طے ہوا ہے!"
"کیسا معاملہ!"
"سردار گڈھ میں تمہارا نکاح نہیں ہوگا!" فیاض نے خشک لہجے میں کہا!
"ہائیں۔۔۔ پھر کیا۔۔۔ یونہی مفت میں میرا وقت برباد کرا رہے ہو!"
"ایک بہت ہی دلچسپ کیس ہے!"
"یار فیاض! میں تنگ آگیا ہوں!"
"تمہاری زبان سےپہلی بار اس قسم کا جملہ سن رہا ہوں!" فیاض نے حیرت ظاہر کی۔
"سینکڑوں بار کہہ چکا ہوں کہ لفظ کیس میرے سامنے نہ دہرایا کرو۔ کیس لاحول ولا قوۃ۔ میں نے اکثر دائیوں کو زچگی کرانے کو بھی کیس ہی کہتے سنا ہے!"
"سنو عمران۔۔۔! بور نہ کرو!۔۔۔ ایسا دلچسپ۔۔!"
"میں کچھ نہیں سننا چاہتا! ختم کرو! مجھے نیند آرہی ہے!" عمران نے اپنے اوپر کمبل ڈالتے ہوئے کہا!
"فی الحال میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جس سے وہ بد دل ہو جائیں!۔۔۔ معاملہ ایسا ہے کہ وہ سرکاری طور پر کوئی کاروائی نہیں کرسکتے! اگر کرنا بھی چاہیں تو کم از کم میرا محکمہ اسے ہنس کر ہی ٹال دے گا!"
فیاض بڑبڑاتا رہا۔۔۔ اور عمران کے خراٹے کار میں گونجتے رہے اتنی جلدی سوجانا ناممکنات میں سے تھا۔۔۔ شائد عمران کچھ سننے کے موڈ ہی میں نہیں تھا
2
سردار گڈھ ایک پہاڑی علاقہ تھا! اب سے پچاس سال قبل یہاں خاک اڑتی رہی ہوگی۔مٹی کا تیل دریافت ہو جانے سے اچھا خاصا شہر بس گیا تھا۔
شروع میں صرف مزدور طبقہ کی آبادی تھی! آہستہ آہستہ یہ آبادی پھیلاؤ اختیار کرتی گئی! پھر ایک دن سردار گڈھ جدید طرز کا ایک ترقی یافتہ شہر بن گیا! پہلے صرف مٹی کے تیل کے کنوؤں کی وجہ سے اس کی اہمیت تھی لیکن اب اس کا شمار مشہور تفریح گاہوں میں بھی ہونے لگا تھا۔۔۔ اور یہاں کے نائٹ کلب دور دور تک شہرت رکھتے تھے!۔۔۔
کیپٹن فیاض نے کار ایک کلب کے سامنے روک دی! ٹاؤن ہال کے کلاک ٹاور نے ابھی ابھی گیارہ بجائے تھے اور یہ نائٹ کلبوں کے جاگنے کا وقت تھا۔۔۔ مگر عمران کے خراٹے شباب پر تھے۔۔۔ فیاض جانتا تھا کہ وہ سو نہیں رہا ہے! خراٹے قطعی بناوٹی ہیں! لیکن وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا! یہ اور بات ہے کہ وہ کار کے قریب سے گذرنے والوں سے آنکھیں ملاتے ہوئے شرما رہا تھا۔ وہ کار کے قریب سے گذرتے وقت ایک لمحہ رک کر خراٹے سنتے اور پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ جاتے!
"او مردود!" فیاض جھلا کر اسے جھنجھوڑنے لگا!
پہلے تو اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ پھر یک بیک بوکھلا کر اس نے کھلے ہوئے دروازے سے چھلانگ لگا دی! مگر اس بار چوٹ اسی کو ہوئی! غالباً مقصد یہ تھا کہ سڑک پر گرنے کی صورت میں فیاض نیچے ہوگا اور وہ خود اوپر!۔۔۔ مگر فیاض بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا اور عمران جھونک میں تو تھا ہی اوندھے منہ سڑک پر چلا آیا۔۔۔
البتہ اس کی پھرتی بھی قابل تعریف تھی۔ شاید ہی کسی نے اسے گرتے دیکھا ہو!۔۔۔ دوسرے ہی لمحے میں وہ اتنے پرسکون انداز میں فیاض کے شانے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
"ہاں تو اب ہم کہاں ہیں!" عمران نے ایسے لہجے میں پوچھا جس میں نہ تو شرمندگی تھی اور نہ بے اطمینانی!۔۔۔ فیاض پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا تھا!
عمران بے تعلقانہ انداز میں کھڑا رہا۔
آخر فیاض بولا۔ "کپڑے تو جھاڑ لو۔۔۔"
اور عمران بڑی سعادت مندی سے فیاض کے کپڑے جھاڑنے لگا!
"اب جھینپ نہ مٹاؤ!" فیاض پھر ہنس پڑا۔
"تم ہمیشہ اوٹ پٹانگ باتیں کیا کرتے ہو!" عمران بگڑ گیا۔
"چلو۔ چلو!" فیاض نے اسے دھکیل کر عمارت کی طرف بڑھایا۔ وہ دونوں ہال میں داخل ہوئے۔ ابھی بہتیری میزیں خالی تھیں! فیاض نے چاروں طرف نگاہ دوڑا کر ایک میز منتخب کی۔۔۔ اور وہ دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے!
اس گوشے کے ویٹر نے قریب آکر انہیں سلام کیا۔
"وعلیکم السلام" عمران نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
"بچے تو بخیریت ہیں!"
"جج۔۔۔ جی۔۔۔ صاحب۔۔۔ ہی ہی ہی!" ویٹر بوکھلا کر ہنسنے لگا اور فیاض نے عمران کے پیر میں بڑی بے دردی سے چٹکی لی۔۔۔ عمران نے "سی" کر کے ویٹر کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
"کھانے میں جو کچھ بھی ہو لاؤ!" فیاض نے ویٹر سے کہا اور ویٹر چلا گیا!
جن لوگوں نے عمران کو ویٹر سے مصافحہ کرتے دیکھا تھا۔ وہ اب بھی ان دونوں کو گھور رہے تھے!
فیاض کو پھر اس پر تاؤ آگیا اور وہ تلخ لہجے میں بولا۔
"تمہارے ساتھ وہی رہ سکتا ہے، جسے اپنی عزت کا پاس نہ ہو!"
"آج کل فری پاس اور کنسیشن بالکل بند ہے!" اس نے سرہلا کر کہا اور ہونٹ سکوڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا!
"فیاض! پروا نہ کرو!" عمران نے تھوڑی دیر بعد سنجیدگی سے کہا!"میں جانتا ہوں کہ تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو۔ کیا میں نہیں جانتا کہ یہ پیر یٰسین نائٹ کلب ہے؟"
"میں کب کہتا ہوں کہ تم سردار گڈھ پہلی بار آئے ہو!" فیاض بولا! خلاف توقع اس کا موڈ آن واحد میں تبدیل ہو گیا تھا! ہو سکتا ہے کہ یہ عمران کی سنجیدگی کا رد عمل رہا ہو۔
"میں روزانہ باقاعدہ طور پر اخبار پڑھتا ہوں!" عمران نے کچھ سوچتے ہوئے کہا!
"پھر؟"
"آج سے ایک ہفتہ قبل اسی ہال میں ایک ننھا سا نیلا پرندہ اڑ رہا تھا!" عمران آہستہ سے بولا!
"اوہو!۔۔۔ تو تم سمجھ گئے!" فیاض کے لہجے میں دبی ہوئی سی مسرت تھی۔
"مگر تم اس سے یہ نہ سمجھنا کہ مجھے ایسے کسی پرندے کے وجود پر یقین بھی ہے!"
"تب پھر کیا بات ہوئی؟" فیاض نے مایوسی سے کہا!
"مطلب یہ ہے کہ اپنے طور پر تحقیق کئے بغیر ایسے کسی پرندے کے وجود پر یقین نہیں کرسکتا!"
"اور تم تحقیق کئے بغیر مانو گے نہیں!" فیاض نے چہک کر کہا!
"مجھے پاگل کتے نے نہیں کاٹا!" عمران کا لہجہ بہت خشک تھا!
"مجھے کیا پڑی ہے کہ خوامخواہ اپنا وقت برباد کروں!"
"وہ تو تمہیں کرنا ہی پڑے گا!"
"زبردستی؟۔۔۔"
"تمہیں کرنا پڑے گا؟"
"کیا کرنا پڑے گا؟" عمران کی کھوپڑی آؤٹ آف آرڈر ہوگئی!
"کچھ بھی کرنا پڑے!"
"اچھا میں صبر کروں گا مگر نہیں ویٹر کھانا لا رہا ہے! میں فی الحال کھانا کھا کر ایک کپ چائے پئیوں گا!۔۔۔ لہٰذا بکواس بند!"
کھانے کے دوران میں سچ مچ کی خاموشی رہی! شائد فیاض بھی بہت زیادہ بھوکا تھا!۔۔۔ کھانے کے بعد چائے کے دوران پھر وہی تذکرہ چھڑ گیا!
"جمیل کا یہی بیان ہے! میں نے وہی میز منتخب کی ہے جس پر اس دن جمیل تھا!"
"کیا؟" عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ "یعنی یہی میز جو ہم استعمال کر رہے ہیں؟"
"ہاں یہی! اور خدا کے لئے سنجیدگی سے سنو! بیٹھ جاؤ!"
"واہ رے آپ کی سنجیدگی!" عمران چڑ کر ہاتھ نچاتا ہوا بولا۔ "سانپ کے پھن پر بٹھا دو مجھے۔ لعنت بھیجتا ہوں ایسی دوستی پر!۔۔۔"
فیاض نے اسے کھینچ کر بٹھا دیا اور کہا "تمہیں یہ کام کرنا ہی پڑے گا! خواہ کچھ ہو! میں ان لوگوں سے وعدہ کر چکا ہوں۔۔۔!"
"کن لوگوں سے؟"
"جمیل کے خاندان والوں سے!"
"اچھا تو شروع ہو جاؤ۔۔۔ میں سن رہا ہوں!"
"جمیل اسی میز پر تھا!"
"پھر موڈ خراب کر رہے ہو میرا!" عمران خوفزدہ آواز میں بولا۔ "بار بار یہی جملہ دہرا کر۔۔۔"
"ہشت!۔۔۔ درجنوں آدمیوں نے اس نیلے پرندے کو ہال میں چکر لگاتے دیکھا تھا! وہ چند لمحے خلا میں چکراتا رہا پھر اچانک جمیل پر گر پڑا۔۔۔ اور اپنی باریک سی چونچ اس کی گردن میں اتار دی! جمیل کا یہی بیان ہے کہ اسے اس کی چونچ اپنی گردن سے نکالنے میں کسی قدر قوت بھی صرف کرنی پڑی تھی۔ بہرحال اس نے اسے کھینچ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا۔ دور بیٹھے ہوئے لوگ اس کا مضحکہ اڑانے کے لئے ہنسنے لگے! ان کےساتھ وہ بھی ہنستا رہا۔ لیکن وہ زیادہ دیر تک یہاں نہیں بیٹھ سکا! کیونکہ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا! جیسے گردن میں کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔۔۔ لیکن پھر یہ تکلیف ایک گھنٹے سے زیادہ نہ رہی۔ رات بھر وہ سکون سے سویا اور جب دوسری صبح جاگا تو اپنےسارے جسم پر بڑے بڑے سفید دھبے پائے۔۔۔ خاص طور پر چہرہ بالکل ہی بدنما ہو گیا ہے۔۔۔ اب اگر تم اسے دیکھو تو پہلی نظر میں وہ برص کا کوئی بہت پرانا مریض معلوم ہوگا!۔۔۔"
"کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ داغ اسی پرندے کے حملے کا نتیجہ ہیں!" عمران بولا۔
"یقیناً!"
"کیا ڈاکٹروں کی رائے یہی ہے!"
"ڈاکٹروں کو اسے برص تسلیم کر لینے میں تامل ہے!۔۔۔ جمیل کا خون ٹیسٹ کیا گیا ہے اور اسی کی بنا پر ڈاکٹر کوئی واضح رائے دیتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں!"
"خون کے متعلق رپورٹ کیا ہے؟"
"خون میں بالکل نئی قسم کے جراثیم پائے گئے ہیں! کم از کم اس وقت تک کے دریافت شدہ جراثیم میں ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا!"
"اوہ۔ اچھا! رپورٹ کی ایک کاپی تو مل ہی جائے گی۔۔۔!"
"ضرور مل جائے گی۔"فیاض نے سگریٹ سلگائے ہوئے کہا۔
"مگر اس کے خاندان والے محکمہ سراغرسانی سے کیوں مدد چاہتے ہیں! اس مرض کا سراغ تو ڈاکٹر ہی پا سکیں گے!"
"حالات کچھ اسی قسم کے ہیں!" فیاض سرہلا کر بولا "اگر واقعی یہ کوئی مرض ہے تو اس پرندے نے جمیل ہی کو کیوں منتخب کیا جب کہ پورا ہال ہی بھرا ہوا تھا؟"
"یہ دلیل بے تکی ہے!"
"پوری بات بھی تو سنو! اگر اچانک اس دن وہ اس مرض میں مبتلا نہ ہو گیا ہوتا تو اس کی منگنی تیسرے ہی دن ایک بہت اونچے خاندان میں ہو جاتی۔!"
"آچ۔۔۔ چھا!۔۔۔ ہوں!"
"اب تک خود سوچو!"
"سوچ رہا ہوں!" عمران نے لا پرواہی سے جواب دیا! پھر کچھ دیر بعد بولا "گردن کے زخم کے متعلق ڈاکٹر کیا کہتے ہیں؟"
"کیسا زخم!۔۔۔ دوسری صبح اس جگہ صرف ایک نشان نظر آ رہا تھا جیسے گردن میں گزشتہ دن انجکشن دیا گیا ہو اور اب تو شائد خود جمیل بھی یہ نہ بتا سکے کہ پرندے نے کس جگہ چونچ لگائی تھی۔"
"خوب۔۔۔!" عمران کنکھیوں سے ایک جانب دیکھتا ہوا بڑبڑایا! کچھ دیر تک خاموشی رہی پھر عمران نے پوچھا!
"اچھا سوپر فیاض! تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟"
"یہ کہ تم اس سلسلے میں جمیل کے خاندان والوں کی مدد کرو!"
"لیکن اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ جمیل کی منگنی تو ہونے سے رہی! تم مجھے ان لوگوں کا پتہ بتاؤ جن کے ہاں جمیل کی منگنی ہونے والی تھی!"
"اس سے کیا ہوگا!"
"میری منگنی ہوگی! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں شادی کے بغیر ہی مر جاؤں؟"
"میں نہیں سمجھا!"
"فیاض صاحب!۔۔۔ پتہ!"
"اچھا تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ انہیں لوگوں کی حرکت ہے!"
"اگر ان کا تعلق پرندوں کی کسی نسل سے ہے تو یقیناً انہی کی ہوگی اور مجھے انتہائی خوشی ہوگی کہ میں کسی چڑے کا داماد بن جاؤں!"
"تم پھر بہکنے لگے!"
"فیاض۔۔۔ ڈئیر۔۔۔ پتہ۔۔۔!"
فیاض چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا "وہ یہاں کا ایک سربرآوردہ خاندان ہے!۔۔۔ نواب جاوید مرزا کا خاندان۔۔۔ پروین۔۔۔ جاوید مرزا ہی کی اکلوتی لڑکی ہے اور جاوید مرزا بے اندازہ دولت کا مالک ہے!"
"آہا۔۔۔" عمران اپنی رانیں پیٹتا ہوا بولا "تب تو اپنی چاندی ہے!"
"بکواس بند نہیں کرو گے!"
"اچھا! خیر ہٹاؤ!" عمران نے کچھ سوچتے ہوئے کہا "جمیل کس حیثیت کا آدمی ہے!"
"ظاہر ہے کہ وہ بھی دولت مند ہی ہوگا ورنہ جاوید مرزا کے یہاں رشتہ کی تجویز کیونکر ہوتی۔۔۔ اور اب تو جمیل کی دولت میں مزید اضافہ ہو جائے گا کیونکہ ابھی حال ہی میں اس کی ایک مملوکہ زمین میں تیل کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے!"
"کیا جمیل اس زمین کا تنہا مالک ہے؟"
"سو فیصدی! خاندان کے دوسرے لوگ حقیقتاً اس کے دست نگر ہیں! یا دوسرے الفاظ میں اس کے ملازم سمجھ لو۔ تین چچا دو ماموں۔۔۔ چچا زاد بھائی بھی کئی عدد۔۔۔!"
"اور چچا زاد بہنیں؟"
"کئی عدد۔۔۔!"
"ان میں سے کوئی ایسی بھی ہے جس کی عمر شادی کے قابل ہو!"
"میرا خیال ہے کہ خاندان میں ایسی تین لڑکیاں ہیں!"
"جمیل کے کاروبار کی تفصیل۔۔۔!"
"تفصیل کے لئے مزید پوچھ گچھ کرنی پڑے گی ویسے یہاں اس کے دو بڑے کارخانے ہیں۔ ایک ایسا ہے جس میں مٹی کے تیل کے بیرل ڈھالے جاتے ہیں! دوسرے میں مٹی کے تیل کی صفائی ہوتی ہے!"
"تو گویا وہ کافی مالدار ہے!" عمران سرہلا کر بولا "لیکن کیا خود جمیل ہی نے تم سے گفت و شنید کی تھی!"
"نہیں! اس نے تو لوگوں سے ملنا جلنا ہی ترک کر دیا ہے! نہ وہ گھر سے باہر نکلتا ہے!"
"تو کیا میں اسے نہ دیکھ سکوں گا!"
"کوشش یہی کی جائے گی کہ تم اسے دیکھ سکو!۔۔۔ ویسے وہ میرے سامنے بھی نہیں آیا تھا۔"
"تم نے یہ نہیں بتایا کہ محکمہ سراغراسانی سے رجوع کرنے کی ضرورت کیسے محسوس ہوئی تھی؟"
اس کے چچا۔۔۔ سجاد کو۔۔۔ وہ میرا پرانا شناسا ہے!"
"اب ہم کہاں چلیں گے؟"
"میرا خیال ہے کہ میں تمہیں جمیل کی کوٹھی میں پہنچا دوں! لیکن خدا کے لئے بہت زیادہ بوریت نہ پھیلانا!۔۔۔ تمہیں اپنی عزت کا بھی ذرا پاس نہیں ہوتا!"
"میری فکر تو تم کیا ہی نہ کرو! میری عزت ذرا واٹر پروف قسم کی ہے!"
"میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے الو سمجھیں
"حالانکہ تم سے بڑا الو آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا!"عمران نے سنجیدگی سے کہا!"لاؤ ایک سگریٹ مجھے بھی دو! میں بھی باقاعدہ طور پر سگریٹ شروع کر دوں گا۔ کل ایک بزرگ فرما رہے تھے کہ جن پیسوں کا گھی دودھ کھاتے ہو اگر انہیں کے سگریٹ پئیو تو کیا حرج ہے!"
"اچھا اب بکواس بند کرو!" فیاض اس کی طرف سگریٹ کیس بڑھاتا ہوا بولا۔۔۔ اور اس نے سگریٹ کیس لے کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔۔۔ وہ دونوں کرسیوں سے اٹھ گئے!
"کیا مطلب ۔۔۔!" فیاض نے کہا۔
"تمہارے پاس کافی سگریٹ ہیں! اب میں آج ہی سے تو سگریٹ خریدنے سے رہا!۔۔۔
فیاض ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑا کر خاموش ہو گیا۔
3
جمیل کی کوٹھی بڑی شاندار تھی اور اس کا پھیلاؤ بہت زیادہ تھا! ہوسکتا ہے کہ اس کی تعمر اس اندازے کے ساتھ ہوئی ہو کہ پورا خاندان اس میں رہ سکے! کم و بیش پچیس کمرے ضرور رہے ہوں گے۔
فیاض عمران کو پچھلی رات ہی یہاں پہنچا گیا تھا اور پھر فیاض وہاں اتنی ہی دیر ٹھہرا تھا جتنی دیر میں وہ سجاد اور اس کے بھائیوں سے عمران کا تعارف کرا سکا تھا! عمران نے بقیہ رات سکون سے گزاری! یعنی صبح تک اطمینان سے سوتا رہا!
دن کے اجالے میں لوگوں نے عمران کے متعلق کوئی اچھی رائے نہیں قائم کی! کیونکہ وہ صورت ہیسے پرلے سرے کا بیوقوف معلوم ہوتا تھا!
چائے اس نے اپنے کمرے میں تنہا پی۔۔۔ اور پھر باہر نکل کر ایک ایک سے "امجاد صاحب" کے متعلق پوچھنے لگا! لیکن ہر ایک نے اس نام سے لاعلمی ظاہر کی! آخر سجاد آٹکرایا! عمران نے اس سے بھی "امجاد صاحب" کے متعلق پوچھا۔!
"یہاں تو کوئی بھی امجاد نہیں ہے!" سجاد نے کہا!۔۔۔ یہ ایک ادھیڑ عمر کا قوی الجثہ آدمی تھا! اور اس کے چہرے پر سب سے نمایاں چیز اس کی ناک تھی!
"تب پھر شائد میں غلط جگہ پر ہوں!" عمران نے مایوسی سے کہا۔ "کیپٹن فیاض نے کہا تھا کہ امجاد صاحب میرے پرانے شناسا ہیں اور ان کے بھتیجے!۔۔۔"
"امجاد نہیں سجاد!" سجاد نے کہا "میں ہی سجاد ہوں!"
"نہیں صاحب مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ امجاد۔۔۔! اگر آپ سجاد کہتے ہیں! تو پھر یہی درست ہوگا۔ آپ کے بھتیجے صاحب۔۔۔ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں!"
"بہت مشکل ہے جناب!" سجاد بولا "وہ کمرے سے باہر نکلتا ہی نہیں۔۔۔ ہم سب خوشامدیں کرتے کرتے تھک گئے!"
"مجھے وہ کمرہ دکھا دیجئے!"
"آئیے۔۔۔ پھر کوشش کریں! ممکن ہے کہ۔۔ مگر مجھے امید نہیں!"
دو تین راہداریوں سے گذرنے کے بعد ایک کمرے کے سامنے رک گئے عمران نے دروازے کو دھکا دیا! لیکن وہ اندر سے بند تھا!
سجاد نے آواز دی لیکن اندر کوئی کھانس کر رہ گیا۔۔۔ اتنے میں عمران نے جیب سے سگریٹ کیس نکال کر ایک سگریٹ سجاد کو پیش کیا اور دوسرا خود سلگا لیا!۔۔۔ سجاد نے سگریٹ سلگا کر پھر دروازے پر دستک دی۔
"خد اکے لئے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو!" اندر سے ایک بھرائی ہوئی سی آواز آئی!
"جمیل بیٹے! دروازہ کھول دو! باہر آؤ۔۔۔دیکھو میں نے ایک نیا انتظام کیا ہے! ہمارے دشمنوں کی گردنیں نالی میں رگڑ دی جائیں گی!"
"چچا جان میں کچھ نہیں چاہتا۔۔۔ میں کچھ نہیں چاہتا!"
"ہم تو چاہتے ہیں!"
"فضول ہے! بیکا رہے۔۔۔! اس کمرے سے میری لاش ہی نکلے گی!۔۔۔"
"دیکھا آپ نے!" سجاد نے آہستہ سے عمران سے کہا اور عمران صرف سر ہلا کر رہ گیا!
پھر سجاد خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا! وہ بے خیالی میں پے در پے سگریٹ کے لمبے لمبے کش لے رہا تھا! اچانک اس کے چہرے کے قریب ایک دھماکہ ہوا اور سگریٹ کی دھجیاں اڑ گئیں۔
"ارے خدایا!" سجاد چیخ مار کر فرش پر ڈھیر ہو گیا۔
"کیا ہوا!" اند رسے کوئی چیخا! پھر دوڑنے کی آواز آئی اور دروازہ جھٹکے سے کھل گیا۔ دوسرے لمحے عمران کے سامنے ایک قوی ہیکل نوجوان کھڑا تھا جس کے چہرے پر بڑے بڑے سفید دھبے تھے!
اس نے جھپٹ کر سجاد کو فرش سے اٹھایا اور سجاد عمران کی طرف دیکھ کر دھاڑا۔
"یہ کیا بیہودگی تھی!"
"ارے۔۔۔ لل۔۔۔ خد۔۔۔ خدا کی قسم۔۔۔!" عمران ہکلانے لگا!
"یہ کیا ہوا!۔۔۔ "جمیل نے سجاد کو جھنجھوڑ کر کہا "یہ کیا تھا!"
"کچھ نہیں!" سجاد عمران کو قہر آلود نظروں سے گھورتا ہوا ہانپ رہا تھا!
"آپ کون ہیں؟" جمیل عمران کی طرف مڑا۔ لیکن پھر دوسرے ہی لمحے میں دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا کر کمرے میں گھس گیا! دروازہ پھر بند ہو چکا تھا!
"مجھے بتائیے کہ اس بیہودگی کا کیا مطلب تھا!" سجاد عمران کے چہرے کے قریب ہاتھ ہلا کر چیخا۔
گھر کے کئی دوسرے افراد بھی اب وہاں پہنچ گئے تھے!
"دیکھئے! عرض کرتا ہوں!" عمران گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔ "یہ کیپٹن فیاض کی حرکت ہے! اس نے میرے سیگرٹ کیس سے اپنا سگریٹ کیس بدل لیا ہے یہ دیکھئے!۔۔۔ سگریٹ کیس پر اس کا نام بھی موجود ہے!"
عمران نے سگریٹ کیس اسے پکڑا دیا۔۔!
"یہ سگریٹ دراصل میرے لئے تھا!" عمران پھر بولا "مجھے بہت افسوس ہے! لاحول ولا قوۃ۔ آپ جلے تو نہیں؟"
وہ آگے جھک کر اس کے چہرے کا جائزہ لینے لگا!
"اگر یہ مذاق تھا تو میں ایسے مذاق پر لعنت بھیجتا ہوں!" سجاد نے ناخوشگوار لہجے میں کہا "میں نہیں جانتا تھا کہ فیاض ابھی تک بچپنے کی حدود میں ہے!"
"میں فیاض سے سمجھ لوں گا!" عمران اپنی مٹھیاں بھینچ کر بولا۔
دوسرے افراد سجاد سے دھماکے کے متعلق پوچھنے لگے اور سجاد نے سگریٹ پھٹنے کا واقعہ دہراتے ہوئے کہا "اس طرح اچانک ہارٹ فیل بھی ہوسکتا ہے! فیاض کو ایسا مذاق نہ کرنا چاہئے تھا! اس نے اس کے سگریٹ کیس سے اپنا سگریٹ کیس بدل لیا ہے! اب سوچتا ہوں کہیں فیاض نے مجھ سے بھی تو مذاق نہیں کیا ہے!"



"ضرور کیا ہوگا!" عمران حماقت انگیز انداز میں پلکیں جھپکاتا ہوا بولا۔



"آپ کا عہدہ کیا ہے؟" سجاد نے اس سے پوچھا۔

"شہدہ۔۔۔! میرا کوئی شہدہ نہیں ہے۔ لا حول ولا قوۃ کیا آپ مجھے لفنگا سمجھتے ہیں! لفنگا ہوگا وہی سالا فیاض۔ ایک دفعہ پھر لا حول ولا قوۃ!"



"آپ اونچا بھی سنتے ہیں؟" سجاد اسے گھورنے لگا!



"میں اونچا نیچا سب کچھ سن سکتا ہوں!" عمران برا سا منہ بنا کر بولا اور سگریٹ کیس سے دوسرا سگریٹ نکالنے لگا۔۔۔ پھر اس طرح چونکا جیسے دھماکے والا واقعہ بھول ہی گیا ہو اس نے جھلاہٹ کا مظاہرہ کرنے کے سلسلے میں سارے سگریٹ توڑ کر پھینک دئیے اور سگریٹ کیس کو فرش پر رکھ کر پہلے ہی تو اس پر گھونسے برساتا رہا!۔۔۔ کھڑا ہو کر جوتوں سے روندنے لگا! نتیجہ یہ ہوا کہ سگریٹ کیس کی شکل ہی بگڑ گئی!
کچھ لوگ مسکرا رہے تھے اور کچھ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
"میں نے آپ کا عہدہ پوچھا تھا!" سجاد بولا۔
"میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا!" عمران کا لہجہ ناخوشگوار تھا! "میں ابھی واپس جاؤں گا۔ فیاض کی ویسی کی ایسی۔۔۔ ایسی کی ایسی۔۔۔ لا حول ولا قوۃ۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔ ویسی کی جیسی۔۔۔!"
"ایسی کی تیسی!" ایک لڑکی نے ہنستے ہوئے تصحیح کی۔۔۔!
"جی ہاں! ایسی کی تیسی۔۔۔ شکریہ!" عمران نے کہا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ لڑکی نے سجاد کا ہاتھ پکڑا اور ایک دوسرے کمرے میں لے آئی!
"یہ آدمی بڑا گھاگ معلوم ہوتا ہے۔" اس نے سجاد سے کہا۔
"بالکل گدھا!"
"نہیں ڈیڈی! میں ایسا نہیں سمجھتی!۔۔۔ جمیل بھائی کو کمرے سے نکالنے کی ایک بہترین تدبیر تھی!۔۔۔ یہ بتائیے کہ پہلے بھی کوئی اس میں کامیاب ہوسکتا تھا! خود فیاض صاحب نے بھی تو کوشش کی تھی!"
سجاد کچھ نہ بولا! اس کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئی تھیں۔ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا!
"تم ٹھیک کہتی ہو! سعیدہ! بالکل ٹھیک! مگر کمال ہے۔۔۔ صورت سے بالکل گدھا معلوم ہو تا ہے!"
"محکمہ سراغرسانی میں ایسے ہی لوگ زیادہ کامیاب سمجھے جاتے ہیں اور وہ سچ مچ اپنی ظاہر کی حالت کی ضد ہوتے ہیں!"
عمران راہداری سے کچھ اس انداز میں رخصت ہوا تھا جیسے اپنے کمرے میں پہنچتے ہی وہاں سے روانہ ہو جانے کی تیاریاں شروع کر دے گا۔
"اب کیا کیا جائے!" سجاد نے سعیدہ سے کہا۔
"میں۔۔۔ میں نہیں تم جاؤ۔۔۔!"
"اچھا۔۔۔ میں ہی روکتی ہوں!"
سعیدہ اس کمرے میں آئی جہاں عمران کا قیام تھا! دروازہ اندر سے بند نہیں تھا! اس نے دستک دی! لیکن جواب ندارد! آخر تیسری دستک کے بعد اس نے دھکا دے کر دروازہ کھول دیا کمرہ خالی تھا۔ لیکن عمران کا سامان بدستور موجود تھا۔ پھر نوکروں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ عمران خالی ہاتھ باہر گیا ہے
4
پیر یٰسین نائٹ کلب دن میں بھی آباد رہتا تھا!۔۔۔ وجہ یہی تھی کہ وہاں رہائشی کمرے بھی تھے۔۔۔ اور وہاں قیام کرنے والے مستقل ممبر کہلاتے تھے اور پھر چونکہ یہ "سیزن" کا زمانہ تھا اس لئے یہاں چوبیس گھنٹے کی سروس چلتی تھی!
عمران نے ڈائننگ ہال میں داخل ہو کر چاروں طرف دیکھا اور پھر ایک گوشے میں جا پہنچا۔ اس کی پشت پر ایک کھڑکی تھی اس نے ویٹر کو بلا کر آئس کریم کا آرڈر دیا۔ حالانکہ خنکی اس وقت بھی اچھی خاصی تھی!۔۔۔
وہ تھوڑی دیر تک آئس کریم کی چسکیاں لیتا رہا۔۔۔ پھر یک بیک اس طرح اچھلا کہ سینے کے بل میز پر آ رہا وہاں سے پھسل کر فرش پر آ رہا اور پھر وہ اس طرح کپڑے جھاڑ جھاڑ کر اچھل کود رہا تھا جیسے کپڑوں میں شہد کی مکھیاں گھس گئی ہوں۔۔۔
ہال میں اس وقت زیادہ آدمی نہیں تھے! بہرحال جتنے بھی تھے وہ اپنی جگہوں پر بیٹھے تو نہیں رہ سکتے تھے!
"کیا بات ہے۔۔۔ کیا ہوا!" کسی نے پوچھا!
"پپ۔۔۔ پپ۔۔۔ پپرندہ۔۔۔ پرندہ!" عمران ایک رسی پر ہانپتا ہوا بولا پھر اس نے اس کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جس کے قریب بیٹھ کر اس نے آئس کریم کھائی تھی!
"پرندہ!" ایک لڑکی نے خوفزدہ آواز میں دہرایا!
اور پھر لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے! ویٹروں نے جھپٹ جھپٹ کر ساری کھڑکیاں بند کردیں!
لیکن اتنے میں ایک بھاری بھرکم ادمی عمران کے قریب پہنچ گیا اور وہ صورت سے کوئی اچھا آدمی نہیں معلوم ہوتا تھا! اس کا چہرہ کسی بلڈاگ کے چہرے سے مشابہ تھا!
"پرندہ!" وہ عمران کے شانے پر ہاتھ مار کر غرایا۔ "ذرا میرے ساتھ آئیے!"
"کک۔۔۔ کیوں؟"
"اس لئے کہ میں یہاں کا مینیجر ہوں!" اس نے عمران کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے کرسی سے اٹھا دیا!
عمران کو اس کے اس رویہ پر حیرت ضرور ہوئی لیکن وہ خاموش رہا اور اس نے اس بات کا موقع نہیں دیا وہ بغلوں میں ہاتھ دئیے ہوئے ہی اسے اپنے ساتھ لے جاتا۔
مینیجر نے اسے اپنے کمرے میں کھینچ کر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ عمران اس وقت پہلے سے بھی زیادہ بیوقوف نظر آرہا تھا!
"ہوں کیا قصہ تھا پرندے کا!" وہ عمران کو گھورتا ہوا غرایا۔
"قصہ تو مجھے یاد نہیں!" عمران نے بڑی سادگی سے کہا۔ "لیکن پرندہ ضرور تھا!۔۔۔ نیلا۔۔۔!"
"اور وہ تمہاری گردن میں لٹک گیا! کیوں؟"
"نہیں اٹک سکا!۔۔۔ میں دعویٰ کرتا ہوں ! ۔۔۔"
"تمہیں کس نے بھیجا ہے! اس نے میز کی دراز کھول کر لوہے کا ایک دو فٹ لمبا رول نکالے ہوا کہا۔
"کسی نے نہیں! میں والدین سے چھپ کر یہاں آیا ہوں!۔۔۔" عمران نے لاپرواہی سے جواب دیا! لیکن اس کی نظریں لوہے کے اس رول پر تھیں!
"میں تمہاری ہڈیاں بھوسہ کردوں گا!" مینیجر گردن اکڑا کر بولا۔
"کیا والد صاحب نے ایسا کہا ہے؟" عمران نے خوفزہ آواز میں پوچھا!
"تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے؟"
"اچھا تم ہی بتاؤ کہ کون بھیج سکتا ہے؟" عمران نے سوال کیا لیکن مینیجر رول سنبھال کر اس پر ٹوٹ پڑا۔
عمران "ارے" کرتا ہوا ایک طرف ہٹ گیا!۔۔۔ رول دیوار پر پڑا اور مینیجر پھر پلٹا ۔۔۔ دوسرا حملہ بھی سخت تھا! لیکن اس بار مینیجر جھونک کر میز سے جا ٹکرایا اور پھر میز کے ساتھ ہی خود بھی الٹ گیا! موقع تھا! عمران چاہتا تو اتنی دیر میں دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل سکتا تھا!۔۔۔ مگر وہ احمقوں کی طرح کھڑا۔۔۔ ارے ارے۔۔۔ ہی کرتا رہ گیا!
"آپ کے کہیں چوٹ تو نہیں آئی!" عمران نے اس سے پوچھا جب وہ دوسری طرف ہاتھ ٹیک کر اٹھ رہا! اس کے اس جملے پر مینیجر کو اس زور کا غصہ آیا کہ وہ ایک بار پھر الٹی ہوئی میز پر ڈھیر ہو گیا۔۔۔!
"میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا!" مینیجر دوبارہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہوا غرایا!
"آپ خوامخواہ خفا ہو رہے ہیں چچا جان!" عمران نے نہایت سعادت مندی سے عرض کیا "آپ یقیناً والد صاحب کے دوست معلوم ہوتے ہیں! اگر آپ کی یہی خواہش ہے تو میں آئندہ یہاں نہ آؤں گا!"
مینجر سامنے کھڑا اسے گھور رہا تھا اور اس کا سینہ سانسوں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ پھول کر پچک رہا تھا!۔۔۔
"جی ہاں" عمران احمقوں کی طرح سر ہلا کر بولا! "والد صاحب کہتے ہیں کہ جہاں عورتیں بھی ہوں وہاں نہ جایا کرو۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ کان پکڑتا ہوں۔۔۔ اب کبھی نہ آؤں گا!"
مینجر پھر بھی نہ بولا! وہ ایک کرسی پر بیٹھ کر عمران کو گھورنے لگا! عمران بھی سرجھکائے کھڑا رہا۔۔۔ اس کے اس روئیے نے مینجر کو الجھن میں ڈال دیا ورنہ یہ بات وہ بھی سوچ سکتا تھا کہ عمران اگر بھاگنا چاہتا تو وہ اسے روک نہ پاتا!
"پرندہ! تم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا!۔۔۔" اس نے تھوڑی دیر بعد پوچھا!
"وہ میری گردن سے ٹکرایا تھا!۔۔۔ مجھے پروں کی ہلکی سی جھلک دکھائی دی تھی۔۔۔ پھر میں نہیں جانتا کہ وہ کدھر گیا!"
"بکواس۔۔۔ بالکل بکواس۔۔۔ میرے کلب کو بدنام کرنے کی انتہائی مکروہ سازش!"
"میں بالکل نہیں جانتا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں!"
"تم بس یہاں سے چپ چاپ چلے جاؤ اور کبھی یہاں تمہاری شکل نہ دکھائی دے! سمجھے!"
عمران کچھ سوچنے لگا! پھر سر ہلا کر بولا "یہ کوئی دوسرا معاملہ معلوم ہوتا ہے!۔۔۔ آپ والد صاحب کے دوست نہیں ہیں۔ کیوں؟"
"چلے جاؤ!" مینجر حلق پھاڑ کر بولا!
"تم میری توہین کر رہے ہو دوست!" عمران یک بیک سنجیدہ ہو گیا!
"تم کون ہو؟"
"میں سیاح ہوں۔۔۔ اور میں نے اس پراسرار پرندے کے متعلق اخبارات میں پڑھا تھا!"
"سب بکواس ہے!" مینجر غرایا!۔۔۔ "وہ پرندہ اس کتے۔۔۔ جمیل کے علاوہ اور کسی کو نہیں دکھائی دیا تھا۔۔۔ کلب کو بدنام کرنے کا ایک نا پاک طریقہ!"
"تب تو ضرور یہی بات ہو سکتی ہے۔۔۔ اور میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے بھی اس کہانی پر یقین نہیں آیا ہے!"
"ابھی تم نے کیا سوانگ بھرا تھا!" مینجر پھر جھلا کر کھڑا ہو گیا!
"بیٹھو بیٹھو! یہ میرا پیشہ ہے!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا!
"کیا پیشہ!۔۔۔"
"میں ایک اخبار کا رپورٹر ہوں!۔۔۔ چندرنگر کا مشہور اخبار۔۔۔ اجالا!۔۔۔ نام سنا ہوگا تم نے۔۔۔ میں صحیح واقعہ معلوم کرنے کی غرض سے یہاں آیا ہوں!"
"تم جھوٹے ہو!" مینجر غرایا!
"تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں جھوٹا ہوں!۔۔۔ مجھے صحیح معلومات حاسل کرنی ہیں ورنہ میں اب تک یہاں ٹھہرتا کیوں؟۔۔۔ میرا سر اتنا مضبوط نہیں ہے کہ لوہے کی سلاخ سے محبت کرسکے۔"
"تو تم نے پرندے کا نام اس طرح کیوں لیا تھا!"
"محض اس لئے کہ تم مجھ سے کھل کر گفتگو کرسکو!۔۔۔ تم نے محض غصے میں اس بات کا اظہار کر دیا کہ یہ تمہارے کلب کو بدنام کرنے کے لئے ایک سازش ہے۔۔۔۔ کیا تم نے دوسرے اخبار کے رپورٹروں سے بھی یہی کہا ہوگا؟"
"نہیں!" مینجر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا!
"کیوں؟"
لیکن مینجر نے اس "کیوں" کا کوئی جواب نہیں دیا!
عمران نے سر ہلا کر کہا "تم نے اس لئے اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ جمیل شہر کا ایک بہت بڑا آدمی ہے۔۔۔"
اس پر مینجر نے شہر کے اس بہت بڑے آدمی کو ایک گندی سی گالی دی اور پھر خاموش ہو گیا!
"ٹھیک ہے! تم کھلم کھلا نہیں کہہ سکتے! ظاہر ہے کہ تمہارا کلب انہیں بڑے آدمیوں کی وجہ سے چلتا ہے!"
مینجر نے تمام بڑے آدمیوں کے لئے بھی وہی گالی دہرائی اور اپنے جیب میں ہاتھ ڈال کر سیگرٹ کا پیکٹ تلاش کرنے لگا۔
"ٹھیک ہے!" عمران مسکرا کر بولا "میں تم سے متفق ہوں اور میرا اخبار بھی متفق ہو جائے گا! لیکن صحیح حالات کا علم ہونا ضروری ہے۔"
"میں دعوٰی سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ پرندہ جمیل کے علاوہ اور کسی کو نہیں دکھائی دیا تھا!"
"لیکن جمیل تمہارے کلب کو کیوں بدنام کرنا چاہتا ہے!"
"میں نے الیکشن میں اس کی مخالفت کی تھی!" مینجر بولا۔
"مگر میرا خیال ہے کہ اس نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا!" عمران نے کہا۔
"وہ خود نہیں حصہ لیتا! مگر اپنے امیدوار کھڑے کرتا ہے۔۔۔ اور اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس حلقہ انتخاب سے اس کے امیدوار کے علاوہ اور کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے!"
"اچھا خیر۔۔۔ ہاں مگر تمہاری مخالفت کا کیا نتیجہ نکلا تھا۔"
"اس کے دو امیدوار کامیاب نہ ہوسکے!"
"اور وہ اس کے باوجود بھی تمہارے کلب میں آتا رہا تھا!" عمران نے کہا!
"ہاں۔۔۔ اسی پر تو مجھے حیرت تھی! لیکن اس پرندے والے معاملے نے میری آنکھیں کھول دیں! وہ اس طرح انتقام لینا چاہتا ہے! آدھے سے زیادہ مستقل ممبروں نے کلب سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔۔۔ اور روزانہ کے گاہکوں میں بھی کمی واقع ہو گئی ہے!"
"اچھا اگر یہ سازش ہے تو میں دیکھ لوں گا!" عمران بولا! "اور میں یہاں سے اس وقت تک نہ جاؤں گا۔ جب تک حقیقت نہ معلوم کرلوں!"
مینجر کچھ نہ بولا! اس کے چہرے پر یقین و تشکیک کی کشمکش کے آثار نظر آرہے تھے!
5
شام بڑی خوشگوار تھی! سورج دور کی پہاڑیوں کی طرف جھک رہا تھا اور کپکپاتی ہوئی سرخی مائل دھوپ سرسبز چٹانوں پر بکھری ہوئی تھی۔



عمران چلتے چلتے اچانک منہ کے بل گر پڑا پہلے تو ننھی ننھی بچیوں نے قہقہہ لگایا لیکن جب عمران اٹھنے کی بجائے بے حس و حرکت اوندھا پڑا ہی رہا تو بچیوں کےساتھ والے اس کی طرف دوڑ پڑے۔۔۔ ان میں دو جوان لڑکیاں تھیں اور تین مرد! ایک نے عمران کو سیدھا کیا۔۔۔ اور پھر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر بولا۔



"بیہوش ہو گیا ہے۔۔۔!"



"دیکھئے سر تو نہیں پھٹا!" ایک لڑکی بولی۔۔۔ اور وہ آدمی عمران کا سر ٹٹولنے لگا!



یہ لوگ اپنے اچھے لباس کی بنا پر اچھی حیثیت والے معلوم ہو رہے تھے!



"نہیں سر محفوظ ہے!" نوجوان بولا! "یہ شائد کسی قسم کا دورہ ہے۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔ مرگی۔۔ مرگی!" وہ عمران کو ہوش میں لانے کی تدبیریں کرنے لگا!



سامنے ہی ایک عالیشان عمارت تھی اور یہاں سے اس کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔۔۔ یہ نواب جاوید مرزا کی کوٹھی تھی!۔۔۔



"اب کیا کرنا چاہئے!" نوجوانوں میں سے ایک نے کہا "یہ بیچارہ یہاں کب تک پڑا رہے گا۔۔۔ کیوں نہ ہم اسے اٹھا کر کوٹھی میں لے چلیں!"



لڑکیوں نے بھی اس کی تائید کی اور تیسرا جو سب سے الگ تھلگ کھڑا تھا منہ بنا کر بولا "میرا خیال ہے کہ اس کی ضرورت نہیں!"



"کیوں؟" ایک لڑکی جھلا کر اس کی طرف مڑی!



"یہ مجھے کوئی اچھا آدمی نہیں معلوم ہوتا!"



"برا ہی سہی!" لڑکی نے ناخوشگوار لہجے میں کہا "دنیا کا کوئی آدمی فرشتہ نہیں ہوتا!"



عمران کو زمین سے اٹھایا گیا! لیکن وہ تیسرا الگ ہی الگ رہا۔



حالانکہ وہ دونوں اس کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔۔۔ جوں توں کرکے وہ کوٹھی میں داخل ہوئے اور سب سے پہلا کمرہ جو ان کی پہنچ میں تھا۔ عمران سے آباد ہوگیا! وہ اسے ہوش میں لانے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں اختیار کرتے رہے لیکن کامیابی نہ ہوئی! آخر تھک ہار کر انہیں ڈاکٹر کو فون کرنا پڑا۔۔۔



"یہ بن رہا ہے!" اس نوجوان نے کہا جس نے اسے برا آدمی کہا تھا!



"تم احمق ہو!" لڑکی بولی!



"ہوسکتا ہے کہ شوکت کا خیال درست ہو؟" دوسرے نے کہا!



"تم بھی احمق ہو!"



پہلے نے کچھ نہیں کہا دوسری لڑکی بھی خاموش رہی۔



"اچھا میں اسے ہوش میں لاتا ہوں۔" شوکت آگے بڑھ کر بولا۔۔۔!



"نہیں۔۔۔ قطعی نہیں!" لڑکی نے سخت لہجے میں کہا "ڈاکٹر آرہا ہے!"

"تمہاری مرضی!" شوکت برا سا منہ بنائے ہوئے پیچھے ہٹ گیا!



اتنے میں ایک باوقار بوڑھا کمرے میں داخل ہوا۔ اس کی عمر ستر کے لگ بھگ رہی ہوگی لیکن تندرستی بہت اچھی تھی! سفید بالوں میں بھی وہ جوان معلوم ہوتا تھا!۔۔۔



"کیا بات ہے!۔۔۔ یہ کون ہے؟"



"ایک راہگیر!" لڑکی نے کہا "چلتے چلتے گرا اور بیہوش ہوگیا!"



"لیکن یہ ہے کون؟"



"پتہ نہیں! تب سے اب تک بیہوش ہے!"



"اوہ۔۔۔ تم لوگوں کو عقل بالکل نہیں! ہٹو ادھر مجھے دیکھنے دو!"



بوڑھا مسہری کے قریب پہنچ کر بولا "آدمی ذی حیثیت معلوم ہوتا ہے! اس کی جیب میں وزیٹنگ کارڈ ضرور ہوگا! تم لوگ اب تک جھک مارتے رہے ہو!"



اس نے عمران کی مختلف جیبیں ٹٹولنے کے بعد آخر کار ایک وزیٹنگ کارڈ نکال ہی لیا!۔۔۔ اور اس پر نظر ڈالتے ہی اس نے قہقہہ لگایا۔



"ہاہا۔۔۔ دیکھا پروین! میں نہ کہتا تھا کہ کوئی ذی حیثیت آدمی ہے۔۔۔ یہ دیکھو!۔۔۔شہزادہ سطوت جاہ!"



"شہزادہ سطوت جاہ" شوکت نے طنزیہ لہجے میں دہرایا۔



پروین بوڑھے کے ہاتھ سے کارڈ لے کر دیکھنے لگی!



"ہوسکتا ہے کہ یہ مجھ سے ملنے ہی کے لئے ادھر آیا ہو!" بوڑھے نے کہا۔



شوکت دوسری لڑکی کے قریب کھڑا آہستہ آہستہ کچھ بڑبڑا رہا تھا!



اچانک وہ لڑکی بوڑھے کو مخاطب کرکے بولی "شوکت بھائی کا خیال ہے کہ یہ شخص بیہوش نہیں ہے!"



"تمہارا کیا خیال ہے!" بوڑھے نے لڑکی سے پوچھا۔



"بات یہ ہے کہ اب تک ہوش میں آ جانا چاہئے تھا!" لڑکی نے کہا۔



"یعنی تم بھی یہی سمجھتی ہو کہ یہ بن رہا ہے!"



"جی ہاں! میرا بھی یہی خیال ہے!"



"اچھا تو اس معاملہ میں جو بھی شوکت سے متفق ہو اپنے ہاتھ اٹھا دے!" بوڑھے نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔ پروین کے علاوہ اور سب نے ہاتھ اٹھا دیئے۔



"کیوں تم ان لوگوں سے متفق نہیں ہو؟" بوڑھے نے اس سے پوچھا!



"نہیں! حضور ابا۔۔۔!"



"اچھا تو تم یہیں ٹھہرو۔۔۔ اور تم سب یہاں سے دفع ہو جاؤ!" بوڑھے نے ہاتھ جھٹک کر کہا! پروین کے علاوہ اور سب چلے گئے۔۔۔!

نواب جاوید مرزا عرف عام میں جھکی تھا۔۔۔ اور اس کے ذہن میں جو بات بیٹھتی پتھر کی لکیر ہو جاتی!۔۔۔ وہ لوگ جو اس سے متفق نہ ہوتے انہیں عام طور پر خسارے ہی میں رہنا پڑتا تھا! اس کے تینوں بھتیجے شوکت، عرفان، صفدر اور بھانجی ریحانہ اس وقت دھوکے ہی میں رہے۔۔۔ اس لئے انہیں اس کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔۔۔ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ نواب جاوید مرزا کی رائے مختلف ہوگی!



"میرا خیال بھی کبھی غلط نہیں ہوتا" جاوید مرزا نے پروین کی طرف دیکھ کر کہا "یا ہوتا ہے؟"



"کبھی نہیں!"



اتنے میں ڈاکٹر آگیا!۔۔۔ وہ کافی دیر تک عمران کو دیکھتا رہا!



پھر جاوید مرزا کی طرف دیکھ کر کہا "آپ کا کیا خیال ہے!"



"نہیں تم پہلے اپنا خیال ظاہر کرو!"



"جو آپ کا خیال ہے وہی میرا بھی ہے!"



"یعنی۔۔۔!"



ڈاکٹر شش و پنج میں پڑ گیا۔ وہ یہاں کا فیملی ڈاکٹر تھا اور یہاں سے اسے سینکڑوں روپے ماہوار آمدنی ہوتی تھی! اس لئے وہ بہت محتاط رہتا تھا!۔۔۔ وہ جاوید مرزا کے سوال کا جواب دیئے بغیر ایک بار پھر عمران پر جھک پڑا۔



"ہاں ہاں!" جاوید مرزا اپنا سر ہلا کر بولا "اچھی طرح اطمینان کرلو۔۔۔ پھر خیال ظاہر کرنا!"



جاوید مرزا ٹہلنے لگا! ایک لحظہ کے لئے اس کی پشت ان کی طرف ہوئی اور پروین نے اشارے سے ڈاکٹر کو سمجھا دیا۔۔۔



جاوید مرزا ٹہلتا رہا۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ بڑبڑا رہا تھا۔ "شہزادہ سطوت جاہ۔۔۔ شہزادہ سطوت جاہ۔۔۔ واہ نام ہی سے شان ٹپکتی ہے۔ پرانی عظمتوں کا احساس ہوتا ہے۔۔۔!"



"جناب عالی۔۔۔" ڈاکٹر سیدھا کھڑا ہوتا ہوا بولا "بیہوشی! گہری بیہوشی۔۔۔ مگر یہ کوئی مرض نہیں معلوم ہوتا!"



"خوب تو تم بھی مجھ سے متفق ہو!"



"قطعی جناب۔۔۔!"



"پھر۔۔۔! یہ ہوش میں کیسے آئے گا!"



"میرا خیال ہے۔۔۔ خود بخود۔۔۔ دوا کی ضرورت نہیں!"



"مگر میرا خیال ہے کہ دوا کی ضرورت ہے!"



"اگر آپ کا خیال ہے تو پھر ہوگی۔۔۔ آپ مجھ سے زیادہ تجربہ کار ہیں!" ڈاکٹر نے کہا!



"نہیں بھئی! بھلا میں کس قابل ہوں!" جاوید مرزا نے مسکرا کر انکساری ظاہر کی!



"فی الحال میں ایک انجکشن دے رہا ہوں!"



"انجکشن" جاوید مرزا نے برا سا منہ بنایا۔ "پتہ نہیں۔۔۔ کیا ہو گیا ہے آج کل کے معالجوں کو۔۔۔ انجکشن کے علاوہ کوئی علاج ہی نہیں ہے!"

"پھر آپ کیا چاہتے ہیں!" ڈاکٹر نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا!



"کوئی نیا۔۔۔ طریقہ۔۔۔ ایک نادر شاہ درانی نے۔۔۔"



یک بیک عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا!



"گٹ آؤٹ۔۔ آل آف یو" اس نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا اور پھر چاروں طرف دیکھ کر شرمندہ ہوجانے کے انداز میں ہونٹوں پر زبان پھیر پھیر کر تھوک نگلنے لگا۔۔۔!



"اب کیسی طبیعت ہے!" جاوید مرزا نے پوچھا!



"وہ تو ٹھیک ہے۔۔ مگر۔۔۔!" عمران آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا!



"میں جاوید مرزا ہوں۔۔۔ یہ پروین ہے۔۔۔ اور یہ ڈاکٹر فطرت!"



"عشرت!" ڈاکٹر نے تصحیح کی!



"اور میں۔۔۔!"



"ہاں ہاں٬ تم سطوت جاہ۔۔۔ ہو! شہزادہ سطوت جاہ!"



"ہائیں۔۔۔!" عمران آنکھیں پھاڑ کر بولا "آپ میرا نام کیسے جان گئے!"



اس پر جاوید مرزا صرف ہنس کر رہ گیا!



"میں نے ابھی تک کسی پر اپنی اصلیت ظاہر نہیں کی تھی۔۔۔ آپ کو کیسے۔۔۔!"



"پروا مت کرو!۔۔۔" جاوید مرزا نے کہا۔۔۔ "اب تمہاری طبیعت کیسی ہے!"



"مگر میں یہاں کیسے آیا۔۔!"



"تم چلتے چلتے گر کر بیہوش ہو گئے تھے!" جاوید مرزا بولا۔



"ہائیں!" عمران کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں "کوئی ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوا۔۔۔!"



"ایکسیڈنٹ!" جاوید مرزا نے حیرت ظاہر کی "میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا!"



"میری کار کہاں ہے؟"



"کار" پروین اسے گھور کر بولی "آپ تو پیدل تھے۔۔۔ ہم نے کوئی کار نہیں دیکھی!"



"مذاق نہ کیجئے!" عمران گھگھیا کر بولا!



"نہیں بخدا وہاں کوئی کار نہیں تھی!"



"میرے خدا!۔۔۔ کیا میں خواب دیکھ رہا ہوں!" عمران اپنی پیشانی رگڑنے لگا!



"کیا معاملہ ہے!" جاوید مرزا نے دخل دیا۔



"میں اپنی کار ڈرائیو کر رہا تھا!" عمران نے کہا۔۔۔!



پھر اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا ہوگا ظاہر ہے!۔۔۔ جاوید مرزا سے لے کر دروازوں کے شیشے صاف کرنے والا لڑکا تک سب پاگل ہو گئے! بڑی دور دور تک کار تلاش کی گئی۔ مگر۔۔۔ وہاں تھا ہی

کیا!۔۔۔ تھوڑی دیر بعد سب اسٹڈی میں اکٹھے ہوئے۔ شوکت، عرفان، صفدر اور ریحانہ بھی موجود تھے!



شوکت بار بار عمران کو عجیب نظروں سے گھورنے لگتا تھا!۔۔۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ان سب سے بیزار ہو!۔۔۔ اس نے اس دوران ایک بار بھی حیرت کا اظہار نہیں کیا تھا!



"سردار گڈھ۔۔۔ بھوتوں کا مسکن بن گیا ہے!" جاوید مرزا بڑبڑایا!



"روزانہ ایک انہونی بات سامنے آتی ہے۔۔۔ ویسے سطوت جاہ تم ٹھہرے کہاں ہو!"



"رائل ہوٹل میں!۔۔۔"



سردار گڈھ کب آئے ہو!"



"پرسوں!"



"پھر تم اپنی کار کے لئے کیا کرو گے!"



"صبر کروں گا۔۔۔!"



"آپ کہاں کے شہزادے ہیں جناب!" دفعتا شوکت نے پوچھا!



"پرنس آف ڈھمپ!" عمران اپنی گردن اکڑا کر بولا!



"یہ ڈھمپ کیا بلا ہے!"



"نقشے میں تلاش کیجئے! آپ ہماری توہین کر رہے ہیں!"



"شوکت باہر جاؤ!" جاوید مرزا بگڑ گیا!



شوکت چپ چاپ اٹھا اور باہر چلا گیا!



"تم کچھ خیال نہ کرنا" جاوید مرزا نے عمران سے کہا "یہ ذرا بددماغ ہے!"



"آپ بھی میری توہین کر رہے ہیں!" عمران نے ناخوشگوار لہجے میں کہا! " نہ آپ نہ جناب۔۔۔ تم۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔۔!"



"میں نواب جاوید مرزا ہوں!"



"اچھا!" عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ پھر آگےبڑھ کر اس سے مصافحہ کرتا ہوا بولا "آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔۔۔"



"مجھے بھی ہوئی!"



"اور یہ سب حضرات۔۔۔ اور ۔۔۔ خواتین!"



"یہ عرفان ہے! یہ صفدر ہے۔۔۔ یہ پروین۔۔۔ یہ ریحانہ۔۔۔!"



"یہ پروین۔۔۔" عمران صفدر کی طرف اشارہ کرکے بولا! پھر اپنا منہ پیٹنے لگا۔۔۔ "لاحول ولا قوۃ۔۔۔ بھول گیا۔۔۔! ۔۔۔ یہ یہ!"



جاوید مرزا نے ایک بار پھر ان کے نام دہرا کر عمران کو سمجھانے کی کوشش کی!



"ان سب کی رگوں میں آپ کا خون ہے!" عمران نے پوچھا!

"ہاں یہ دونوں میرے بھتیجے ہیں! یہ بھانجی اور یہ بیٹی!"



"اور۔۔۔ وہ صاحب جو چلے گئے!"



"وہ بھی میرا بھتیجا ہے!"



"ایک بار پھر بڑی خوشی ہوئی!" عمران نے پھر جاوید مرزا سے بڑی گرمجوشی سے مصافحہ کیا!



"مگر آپ کی کار کا کیا ہوگا!" جاوید مرزا نے تشویش آمیز لہجے میں کہا۔ "ایک بار پھر یاد کیجئے کہ آپ نے اسے کہاں چھوڑا تھا!"



"پتہ نہیں میں نے اسے چھوڑا تھا یا اس نے مجھے چھوڑا تھا۔۔۔ مجھے سب سے پہلے اس پر غور کرنا چاہئے!"



اچانک نواب جاوید مرزا نے ناک سکوڑ کر برا سا منہ بنایا!



"سچ مچ!۔۔ میں اس شوکت کو یہاں سے نکال دوں گا!" اس نے کہا۔



"نہیں میں خود ہی جا رہا ہوں!" عمران نے اٹھتے ہوئے کہا!



"ارے ہائیں۔۔۔ آپ کے لئے نہیں کہا گیا!" جاوید مرزا اسے شانوں سے پکڑ کر بٹھاتا ہوا بولا "وہ تو میں شوکت کو کہہ رہا تھا! کیا آپ کسی قسم کی بو نہیں محسو کر رہے!"



"کر رہا ہوں!۔۔۔ واقعی یہ کیا بلا ہے!" عمران اپنے نتھنے بند کرکے منمنایا۔



"اسے سائنٹسٹ کہلائے جانے کا خبط ہے!۔۔۔ اس وقت غالبا اپنی تجربہ گاہ میں ہے اور یہ بدبو کسی گیس کی ہے خدا کی پناہ۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بھنگیوں کی فوج کہیں قریب ہی مارچ کر رہی ہو!"



"کم از کم شاہی خاندان کے افراد کے لئے تو یہ مناسب نہیں ہے!" عمران نے ہونٹ سکوڑ کر کہا۔



"آپ کے خیالات بہت اچھے ہیں۔۔۔ بہت اچھے۔۔۔" جاوید مرزا اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔ پھر پروین کی طرف مڑ کر کہا۔



"دیکھا!۔۔۔ میں نہ کہتا تھا! آج بھی شاہی خاندانوں میں ایسے نوجوان افراد موجود ہیں۔ جنہیں عمومیت سے نفرت ہے!۔۔۔ یہ سائنٹسٹ وائنٹسٹ ہونا ہمارے بچوں کے لئے مناسب نہیں ہے ڈاکٹر عشرت! تم جا سکتے ہو!"





جاوید مرزا نے آخری جملہ ڈاکٹر کی طرف دیکھے بغیر کہا تھا! ڈاکٹر رخصت ہوگیا!

6

اسی شام کو روشی بھی عمران کی ٹوسیٹر کار سمیت سردار گڈھ پہنچ گئی! عمران نے صبح ہی اسے اس کے لئے تار دے دیا تھا اور اسے توقع تھی کہ روشی دن ڈوبتے ڈوبتے سردار گڈھ پہنچ جائے گی! اسے محکمہ سراغراسانی کا ایک آدمی جمیل کی کوٹھی تک پہنچا گیا تھا۔۔۔!



عمران اپنا طریقہ کار متعین کر چکا تھا۔۔۔ اور اسکیم کے تحت اسے رائل ہوٹل میں قیام کرنا تھا۔ وہاں کمرے حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی اور یہ حقیقت ہے کہ اس نے وہاں کے رجسٹر میں اپنا نام شہزادہ سطوت جاہ ہی لکھوایا۔۔۔ اور روشی بدستور روشی رہی! اسے شہزادے صاحب کی پرائیویٹ سیکریٹری کی حیثیت حاصل تھی!



رات کا کھانا انہوں نے ڈائننگ ہال ہی میں کھایا۔۔۔ اور پھر عمران روشی کو یہاں کے حالات سے آگاہ کرنے لگا۔۔۔ اچانک اس کی نظر شوکت اور عرفان پر پڑی جو ان سے کافی فاصلے پر بیٹھے ان دونوں کو گھور رہے تھے!



عمران نے دریافت حال کے سے انداز میں اپنے سر کو جنبش دی اور عرفان اپنی میز سے اٹھ کر تیر کی طرح ان کی طرف آیا! لیکن شوکت نے منہ پھیر لیا۔۔۔!



"تشریف رکھیئے۔۔۔ مسٹر پروان!" عمران نے پرمسرت لہجے میں بولا۔



"عرفان۔۔۔!" اس نے بیٹھتے ہوئے تصحیح کی۔۔۔!



"آپ کچھ خیال نہ کیجئے گا!" عمران نے شرمندگی ظاہر کی "مجھے نام عموماً غلط ہی یاد آتے ہیں!"



"آپ نے عرفان اور پروین کو گڈ مڈ کر دیا!" عرفان ہنسنے لگا "اکثر ایسا بھی ہوتا ہے! کہئے آپ کی گاڑی ملی۔۔۔!"



"لاحول ولا قوۃ! کیا کہوں!" عمران اور زیادہ شرمندہ نظر آنے لگا!



"کیوں کیا ہوا۔"



"وہ کمبخت تو یہاں گیراج میں بند پڑی تھی اور مجھے یاد آ رہا تھا کہ میں گاڑی پر ہی تھا!"



"خوب!" عرفان اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگا! لیکن وہ بار بار نظر چرا کر روشی کی طرف بھی دیکھتا جا رہا تھا! جو سچ مچ ایسے ہی مودبانہ انداز میں بیٹھی تھی جیسے کسی شہزادے کی پرائیویٹ سیکریٹری ہو۔



"سیکریٹری"! اچانک عمران اس کی طرف مڑ کر انگریزی میں بولا "میں ابھی کیا یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔"



"آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ میرا خیال ہے۔۔۔ اس آدمی۔۔۔ ہاں آدمی ہی کا نام یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔"



"وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ آدمی۔۔۔ جس نے ایک ایکڑ زمین میں۔۔۔ ڈیڑھ من شلجم اگائے تھے!"



"آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ یاد آگیا!" عمران اچھل کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ پھر فورا ہی بیٹھ کر بولا "مگر نہیں۔۔۔ وہ تو دوسرا آدمی تھا۔۔۔ جس نے۔۔۔ کیا کیا تھا۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ یہ بھی بھول گیا۔۔۔ کیا بتاؤں۔ عمران صاحب!"



"عمران نہیں عرفان!" عرفان نے پھر ٹوکا!



"عرفان صاحب! ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا!"

عرفان بور ہو کر اٹھ گیا! حالانکہ وہ روشی کی وجہ سے بیٹھنا چاہتا تھا! مگر اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ روشی اس احمق کی موجودگی میں اس میں دلچسپی نہیں لے سکتی! کیونکہ اس نے اس دوران میں ایک بار بھی عرفان کی طرف نہیں دیکھا تھا!



عرفان پھر شوکت کے پاس جا بیٹھا۔۔۔!



عمران اور روشی بھی اٹھ کر اپنے کمروں میں چلے آئے!



"وہ دوسرا آدمی تمہیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا!" روشی نے کہا!



"تب وہ تمہیں دیکھ رہا ہوگا!"



"شٹ اپ!"



"آرڈر۔۔ آرڈر۔۔۔ تم میری سیکرٹری ہو اور میں پرنس سطوت جاہ!"



"لیکن اس رول میں تو اپنی حماقتوں سے باز آ جاؤ!" روشی نے کہا۔



مگر عمران نے اس بات کو ٹال کر دوسری شروع کردی!



"کل تم جیل خانے میں جاؤ گی!۔۔۔ اررر۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہاں ایک قیدی ہے! میں نے آج بہتیری معلومات فراہم کرلی ہیں!۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ قیدی۔۔۔ اس کا نام سلیم ہے۔۔۔ اسے شوکت نے جیل بھجوایا تھا! کل صبح تمہیں اسے ملنے کے لئے اجازت نامہ مل جائے گا!۔۔۔" عمران خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا!



"لیکن۔۔۔ مجھے اس سے کیوں ملنا ہوگا!"



"یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اس پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان میں کہاں تک حقیقت ہے!"



"کیا الزامات لگائے گئے ہیں؟"



"اسی سے پوچھنا!"



"لیکن وہ ہے کون اور اس واقعہ سے اس کا کیا تعلق ہے!"



"تم اس کی پروا مت کرو! اس سے جو کچھ گفتگو ہو مجھے اس سے مطلع کر دینا!"



"خیر مت بتاؤ!۔۔۔ مگر۔۔۔ ظاہر ہے کہ میں ایک ملاقاتی کی حیثیت سے وہاں جاؤں گی۔۔۔ وہ اس ملاقات کی وجہ ضرور پوچھے گا!۔۔۔ وہ سوچے گا۔۔۔!"



"اونہہ اونہہ!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا "تم اسکی پروا نہ کرو! اس سے کہہ دینا کہ تم ایک غیر مقامی اخبار کی رپورٹر ہو!"



"تب تو مجھے اس کے تھوڑے بہت حالات سے پہلے ہی واقف ہونا چاہئے!"



"ٹھیک ہے!" عمران پسندیدگی کے اظہار میں سرہلا کر بولا "تم اب کافی چل نکلی ہو! اچھا تو سنو!



سلیم، شوکت کا لیبارٹری اسسٹنٹ تھا! شوکت۔۔۔ وہ آدمی۔۔۔ جو تمہاری دانست میں اس وقت مجھے اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ پروین کا چچا زاد بھائی ہے۔۔۔ غالباً تم سمجھ ہی گئی ہوگی!"



"یعنی۔۔۔! وہ خود بھی پروین کے امیدواروں میں سے ہو سکتا ہے!"

"واقعی چل نکلی ہو!۔۔۔ بہت اچھے!۔۔۔ ہاں یہی بات ہے اور شوکت کو سائنٹیفک تجربات کا خبط ہے!



وہ ایک باقاعدہ قسم کی لیبارٹری بھی رکھتا ہے!۔۔۔"



"اور۔۔۔ وہ کیا نام اس کا۔۔۔ سلیم اس کا لیبارٹری اسسٹنٹ تھا۔۔۔ اور شوکت ہی نے اسے جیل بھجوا دیا۔۔۔ آخر کیوں؟۔۔۔ وجہ کیا تھی؟"



"وجہ بظاہر ایسی نہیں جس سے اس کیس کے سلسلے میں ہمیں کوئی دلچسپی ہو سکے۔۔۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ وجہ وہ نہ ہو جو ظاہر کی گئی ہو!"



"کیا ظاہر کی گئی ہے۔ میں وہی تو پوچھ رہی ہوں!"



"ایک معمولی سی رقم خرد برد کر دینے کا الزام!"



"یعنی اسی الزام کے تحت وہ جیل میں ہے!" روشی نے پوچھا!



"یقیناً!"



"تب پھر ظاہر ہے کہ حقیقت بھی یہی ہوگی! ورنہ وہ اس جرم کے تحت جیل میں کیوں ہوتا!"



"کیوں کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ اصل جرم عائد کردہ الزام سے بھی زیادہ سنگین ہو! جسے نہ شوکت ہی ظاہر کرنا پسند کرتا ہو اور نہ سلیم!"



"اگر یہ بات ہے تو پھر وہ مجھے حقیقت بتانے ہی کیوں لگا!"



"روشی! روشی!۔۔۔ اتنی ذہین نہ بنو! ورنہ میں بور ہو جاؤں گا۔۔۔ مر جاؤں گا! جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس پر عمل کرو!"



"تب پھر کوئی تیسری بات ہوگی جسے تم ظاہر نہیں کرنا چاہتے!" روشی نے لاپرواہی سے کہا "خیر میں جاؤں گی!"





"ہاں شاباش! میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تم کسی طرح اس سے مل لو!"

7

قیدی سلاخوں کی دوسری طرف موجود تھا! روشی نے اسے غور سے دیکھا اور وہ اسے نیچے سے اوپر تک ایک شریف آدمی معلوم ہوا۔ اس کی عمر تیس اور چالیس کے درمیان ہی رہی ہوگی!



آنکھوں میں ایسی نرمی تھی جو صرف ایماندار آدمیوں ہی کی آنکھوں میں نظر آسکتی ہے!



روشی کو دیکھ کر وہ سلاخوں کے قریب آگیا!



"میں آپ کو نہیں جانتا!" وہ روشی کو گھورتا ہوا آہستہ سے بولا۔



روشی نے ایک قہقہہ لگایا جس کا انداز چڑانے کا سا تھا! روشی نے اس وقت اپنے ذہن کو بالکل آزاد کر دیا تھا! وہ اپنے طور پر اس سے گفتگو کرنا چاہتی تھی! عمران کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے کا ارادہ نہیں تھا!۔۔۔ عمران کی باتوں سے اس نے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ صرف اس ملاقات کا رد عمل معلوم کرنا چاہتا ہے! اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں!



"آپ کون ہیں؟" قیدی نے پھر پوچھا!



"میں ہاہا۔۔۔!" روشی نے پھر قہقہہ لگایا اور بری عورتوں کی طرح بے ڈھنگے پن سے لچکنے لگی!



"میں سمجھ گیا!" قیدی آہستہ سے بڑبڑایا۔ "لیکن تم مجھے غصہ نہیں دلا سکتیں! قطعی نہیں! کبھی نہیں!"



بات بڑی عجیب تھی اور ان جملوں کی نوعیت پر غور کرتے کرتے روشی کی اداکاری رخصت ہوگئی اور وہ ایک سیدھی سادی عورت نظر آنے لگی! قیدی اسے توجہ اور دلچسپی سے دیکھتا رہا! پھرا س نے آہستہ سے پوچھا!



"تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے!"



اچانک روشی کی ذہانت پھر جاگ اٹھی اس نے مایوسانہ انداز میں سرہلا کر کہا "نہیں تم وہ آدمی نہیں معلوم ہوتے!"



"کون آدمی!"



"کیا تمہارا نام سلیم ہے!"



"میرا یہی نام ہے!"



"اور تم نواب زادہ شوکت کے لیبارٹری اسسٹنٹ تھے!"



"ہاں یہ بھی ٹھیک ہے!"



"پھر تم وہی آدمی ہو!"



قیدی کے چہرے پر تفکر کے آثار پیدا ہوگئے لیکن ان میں سراسیمگی کو دخل نہیں تھا!۔۔۔ وہ خالی الذہنی کے انداز میں چند لمحے روشی کے چہرے پر نظر جمائے رہا پھر وہ دو تین قدم ہٹ کر بولا "تم جاسکتی ہو!"



"لیکن۔۔۔ اگر۔۔۔ تم سلیم۔۔۔!"



"میں کچھ نہیں سننا چاہتا! یہاں سے چلی جاؤ!"



"مگر۔۔۔ وہ!"



"جاؤ!" وہ حلق پھاڑ کر چیخا اور دو سنتری تیزی سے چلتے ہوئے سلاخوں کے پاس پہنچ گئے۔۔۔ قبل اس کے کہ قیدی کچھ کہتا روشی بول پڑی! "تم فکر نہ کرو سلیم میں تمہارے گھر والوں کی اچھی طرح خبرگیری کروں گی!"






اور پھر وہ جواب کا انتظار کئے بغیر باہر نکل گئی

8

مران نے روشی کا بیان بہت غور سے سنا اور چند لمحے خاموش رہ کر بولا!



"تم واقعی چل نکلی ہو! اس سے زیادہ میں بھی نہ کرسکتا۔۔۔!"



"اور تم میری کاروائی سے مطمئن ہو!" روشی نے پوچھا!



"اتنا مطمئن ۔۔۔ کہ۔۔۔!"



عمران جملہ پورا نہ کرسکا! کیونکہ کسی نے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی تھی۔



"ہاں۔۔۔ آں۔۔۔ کم ان!" عمران نے دروازے کو گھورتے ہوئے کہا!



ایک لڑکی دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔ عمران نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔۔۔



"میں سعیدہ ہوں!" لڑکی نے کہا! "آپ نے مجھے دیکھا تو ہوگا!"



"نہیں ابھی نہیں دیکھ سکا! سیکرٹری میری عینک!"



لڑکی کچھ جھنجھلا سی گئی۔



"میں سجاد صاحب کی لڑکی ہوں!"



"لاحول ولا قوۃ۔ میں لڑکا سمجھا تھا۔۔۔ تشریف رکھئے! سیکرٹری! ڈائری میں دیکھو۔۔۔ یہ اسجاد صاحب کون ہیں!"



"سجاد صاحب!" لڑکی غصیلی آواز میں بولی! "آخر آپ میرا مذاق کیوں اڑا رہے ہیں!"



"میں نے آج تک پتنگ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں اڑائی! آپ یقین کیجئے۔۔۔ یوں تو اڑانے کو میرے خلاف بے پر کی بھی اڑائی جاسکتی ہے!"



"میں یہ کہنے آئی تھی کہ جمیل بھائی آپ سے ملنا چاہتے ہیں!" سعیدہ جھلا کر کھڑی ہوگئی۔



"سیکرٹری۔۔۔ ذرا ڈائری۔۔۔!"



عمران کا جملہ پورا ہونے سے قبل ہی سعیدہ کمرے سے نکل گئی!



"اس لڑکی کو میں نے کہیں دیکھا ہے!" روشی بولی "تم نے کیا کہہ دیا وہ غصہ میں معلوم ہوتی تھی!" عمران خاموش رہا! اتنے میں فون کی گھنٹی بول اٹھی! عمران نے بڑھ کر ریسیور اٹھا لیا!



"ہیلو۔۔۔! ہاں۔۔۔! ہاں! ہم ہی بول رہے ہیں! سطوت جاہ! اوہ۔۔۔ اچھا۔۔۔ اچھا! ضرور۔۔۔ ہم ضرور آئیں گے۔۔۔!"



عمران نے ریسیور رکھ کر انگڑائی لی اور خوامخواہ مسکرانے لگا!



"مجھے اس آدمی۔۔۔ سلیم کے متعلق بتاؤ۔۔۔" روشی نے کہا۔



"کیا وہ بہت خوبصورت تھا!" عمران نے پوچھا!



"بکواس مت کرو! بتاؤ مجھے۔۔۔ وہ عجیب تھا اور اس کا وہ جملہ۔۔۔ تم مجھے غصہ نہیں دلا سکتیں۔۔۔ اور اس نے پوچھا تھا کہ تمہیں کس نے بھیجا ہے!"



"روشی!۔۔۔ تم نے اس کے بارے میں کیا سوچا ہے!" عمران نے پوچھا!

"میں نے! میں نے کچھ نہیں سوچا! ویسے وہ چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے! ہے نا!"



"یہی خاص نکتہ ہے۔۔۔!" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا "لیکن اس نے جو گفتگو تم سے کی تھی۔۔۔ وہ عجیب تھی۔۔۔ تھی یا نہیں۔۔۔! اب تم خود اندازہ کر سکتی ہو!"



"یعنی اس سلسلے میں حقیقت وہ نہیں ہے جو ظاہر کی گئی ہے!"



"باس۔۔۔ بالکل ٹھیک ہے! اس سے زیادہ میں بھی نہیں جانتا!"



تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر روشی بڑبڑانے لگی "اور وہ نیلا پرندہ!۔۔۔ بالکل کہانیوں کی باتیں۔۔۔!"



"نیلا پرندہ!" عمران ایک طویل سانس لے کر اپنی ٹھوڑی کھجانے لگا! "میرا خیال ہے کہ اسے جمیل کے علاوہ اور کسی نے نہیں دیکھا! پیر یٰسین نائٹ کلب کے مینجر کا یہی بیان ہے! آج میں ان چند لوگوں سے بھی ملوں گا جن کے نام مجھے معلوم ہوئے ہیں۔۔۔!"



"کن لوگوں سے!"



"وہ لوگ جو اس شام کلب کے ڈائننگ ہال میں موجود تھے!"



لیکن اسی دن چند گھنٹوں کے بعد اس سلسلے میں عمران نے روشی کو جو کچھ بھی بتایا وہ امید افزا نہیں تھا! وہ ان لوگوں سے ملا تھا جو واردات کی شام کلب میں موجود تھے! لیکن انہیں وہاں کوئی پرندہ نظر نہیں آیا تھا! البتہ انہوں نے جمیل کو بوکھلائے ہوئے انداز میں اچھلتے ضرور دیکھا تھا!



"پھر اب کیا خیال ہے!" روشی نے کہا۔۔۔!



"فی الحال ۔۔۔ کچھ بھی نہیں!" عمران نے کہا اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا!۔۔۔ روشی میز پر پڑے ہوئے قلم تراش سے کھیلنے لگی! اس کے ذہن میں بیک وقت کئی سوال تھے! عمران تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر بولا "فیاض نے کہا تھا کہ نائٹ کلب میں وہ پرندہ کئی آدمیوں کو نظر آیا تھا!۔۔۔ لیکن دوسروں کے بیانات اس کے برعکس ہیں!"



"ہوسکتا ہے کہ کیپٹن فیاض کو غلط اطلاعات ملی ہوں!" روشی نے کہا۔



"اسے یہ ساری اطلاعات سجاد سے ملی تھیں! اور سجاد جمیل کا چچا ہے!"



"اچھا۔۔۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا خود جمیل ہی ان اطلاعات کا ذمہ دار ہے!"



"ہاں۔۔۔ فی الحال یہی سمجھا جا سکتا ہے!" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا!



"اچھا پھر میں چلا۔۔۔ جمیل مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔!"

9

نواب جاوید مرزا کے یہاں رات کے کھانے کی میز پر عمران بھی تھا! شوکت کے علاوہ خاندان کے وہ سارے افراد موجود تھے جنہیں عمران پہلے بھی یہاں دیکھ چکا تھا! وہ کافی دیر سے سوچ رہا تھا کہ آخر شوکت کیوں غائب ہے! کھانے کے دوران میں جاوید مرزا کو اچانک اپنے والد مرحوم یاد آگئے اور عمران خوامخواہ بور ہو تا رہا لیکن اس نے کسی مصرع پر گرہ نہیں لگائی ہوسکتا ہے کہ وہ خود ہی بات بڑھانا نہ چاہتا رہا ہو!



خدا خدا کر کے والد صاحب کی داستان ختم ہوئی۔۔۔ پھر دادا صاحب کا بیان بھی چھڑنے والا ہی تھا کہ عمران بول پڑا "وہ صاحب! کیا نام ہے یعنی کہ سائنسدان صاحب نظر نہیں آتے۔۔۔!.



"شوکت!" جاوید مرزا بے دلی سے بڑبڑایا "وہ لیبارٹری میں جھک مار رہا ہو گا!"



"لاحول ولا قوۃ!" عمران نے اس طرح ہونٹ سکیڑے جیسے لیبارٹری میں ہونا اس کے نزدیک بڑی ذلیل بات ہو!۔۔۔



اس پر عرفان نے سائنسدانوں اور فلسفیوں کی بوکھلاہٹ کے لطیفے چھیڑ دیئے!۔۔۔ عمران اب بھی بوریت محسوس کرتا رہا! آج وہ کچھ کرنا چاہتا تھا! جیسے ہی عرفان کے لطیفوں کا اسٹاک ختم ہوا عمران بول پڑا۔ "آپ کی کوٹھی بہت شاندار ہے۔۔۔ پہاڑی علاقوں میں ایسی عظیم عمارتیں بنوانا آسان کام نہیں ہے۔۔۔!"



"میرا خیال ہے کہ آپ نے پوری کوٹھی نہیں دیکھی!" جاوید مرزا چہک کر بولا!



"جی نہیں!۔۔۔ ابھی تک نہیں!"



"اگر آپ کے پاس وقت ہو۔۔۔ تو۔۔۔!"



"ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ میں ضرور د یکھوں گا!۔۔۔" عمران نے کہا۔ کھانے کے بعد انہوں نے لائبریری میں کافی پی۔۔۔ اور پھر جاوید مرزا عمران کو عمارت کے مختلف حصے دکھانے لگا!۔۔۔ اس تقریب میں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی شریک نہیں تھا! جاوید مرزا پر ایک بار پھر عظمت رفتہ کی بکواس کا دورہ پڑا۔ لیکن عمران نے اسے زیادہ نہیں بہکنے دیا!



"یہ آپ کے شوکت صاحب۔۔۔ کیا کسی ایجاد کی فکر میں ہیں!"



"ایجاد!" جاوید مرزا بڑبڑایا "ایجاد وہ کیا کرے گا! بس وقت اور پیسوں کی بربادی ہے! لیکن آخر آپ اس میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں!"



"وجہ ہے!۔۔۔"



"وجہ!" دفعتاً جاوید مرزا رک کر عمران کو گھورنے لگا!



"یقیناً آپ کو گراں گزرے گا!" عمران جلدی سے بولا "کیوں کہ آپ پرانے وقتوں کے لوگ ہیں! لیکن ہمارے طبقے پر جو برا وقت پڑا ہے اس سے آپ نا واقف نہ ہوں گے! اب ہم میں سے ہر ایک کو پرانی عظمت کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا!"



"یعنی کیا کرنا پڑے گا۔۔۔!"



"میں نے ایک پروگرام بنایا ہے۔۔۔ شوکت صاحب سے کہئے کہ لیبارٹری میں محدود ہو کر سر کھپانا محض ذہنی عیاشی ہے!۔۔۔ باہر نکلیں اور اپنے طبقے کی عظمت برقرار رکھنے کے لئے کچھ کام کریں!"



"وہ کیا کرے گا!"



"مثلاً ایک ہزار ایکڑ زمین میں۔۔۔!"

"کاشت کاری!" جاوید مرزا جلدی سے بولا۔۔۔ "بکواس ہے؟"



"افسوس یہی تو آپ نہیں سمجھے! خیر میں خود ہی شوکت صاحب سے گفتگو کروں گا!۔۔۔ان کی لیبارٹری کہاں ہے!"



"آپ خوامخواہ اپنا وقت برباد کریں گے!" جاوید مرزا نے بے دلی سے کہا!۔۔۔ وہ شاید ابھی کچھ دیر اور عمران کو بور کرنا چاہتا تھا!



"نہیں جناب میں اسے ضروری سمجھتا ہوں۔ لیکن اگر وہ میری مدد کرسکیں۔۔۔ "جاوید مرزا نے کسی ملازم کو آواز دی اور عمران کا جملہ ادھورا رہ گیا۔۔۔!



پھر چند ہی لمحات کے بعد وہ اس ملازم کے ساتھ لیبارٹری کی طرف جا رہا تھا۔



لیبارٹری اصل عمارت سے تقریباً ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلہ پر ایک چھوٹی سی عمارت میں تھی۔ اس میں تین کمرے تھے! شوکت یہیں رہتا بھی تھا! عمران نے نوکر کو عمارت کے باہر ہی سے رخصت کردیا۔۔۔!



ظاہر ہے کہ وہ کس کام کے لئے یہاں آیا تھا! دروازے بند تھے اور وہ سب نیچے سے اوپر تک ٹھوس لکڑی کے تھے! ان میں شیشے نہیں تھے! کھڑکیاں تھیں۔۔۔ لیکن ان میں باہر کی طرف سلاخیں لگی ہوئی تھیں!۔۔۔ البتہ ان میں شیشے تھے اور وہ سب روشن نظر آرہی تھیں جس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی اندر موجود ہے!۔۔۔ اس نے ایک کھڑکی کے شیشوں پر پل بھر کے لئے ایک سایہ سا دیکھا! ممکن ہے کہ وہ کسی کی متحرک پرچھائیں رہی ہو۔۔۔!



عمران اس کھڑکی کی طرف بڑھا۔۔۔



دوسرے ہی لمحے وہ عمارت کے اندر کے ایک کمرے کا حال بخوبی دیکھ سکتا تھا!۔۔۔ حقیقتاً وہ لیبارٹری ہی میں جھانک رہا تھا!۔۔۔ یہاں مختلف قسم کے آلات تھے! شوکت لوہے کی ایک انگیٹھی پر جھکا ہوا تھا! اس میں کوئلے دہک رہے تھے اور ان کا عکس شوکت کے چہرے پر پڑ رہا تھا!۔۔۔



عمران کو انگیٹھی سے دھواں اٹھتا نظر آ رہا تھا!۔۔۔۔ اور وہ شاید گوشت ہی کے جلنے کی بو تھی جو لیبارٹری کی حدود سے نکل کر باہر بھی پھیل گئی تھی۔۔۔!



شوکت چند لمحے انگیٹھی پر جھکا رہا پھر سیدھا کھڑا ہوگیا!



اب وہ قریب ہی کی میز پر رکھے ہوئے دفتی کے ایک ڈبے کی طرف دیکھ رہا تھا!



پھر اس نے اسی میں ہاتھ ڈال کر جو چیز نکالی وہ کم از کم عمران کے خواب و خیال میں بھی نہ رہی ہوگی!۔۔۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی فوری کامیابی کی توقع لے کر تو یہاں آیا نہیں تھا!۔۔۔



شوکت کے ہاتھ میں ایک ننھا سا نیلے رنگ کا پرندہ تھا۔۔۔ اور شاید وہ زندہ نہیں تھا۔۔۔ وہ چند لمحے اس کی ایک ٹانگ پکڑ کر لٹکائے اسے بغور دیکھتا رہا پھر عمران نے اسے دہکتے ہوئے انگاروں پر گرتے دیکھا۔!۔۔۔ ایک بار پھر انگیٹھی سے گہرا دھواں اٹھ کر خلا میں بل کھانے لگا۔۔۔ شوکت نے مزید دو پرندے اس ڈبے سے نکالے اور انہیں بھی انگیٹھی میں جھونک کر سگریٹ سلگانے لگا!



عمران بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہئے! ویسے وہ اب بھی قانونی طور پر اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتا تھا!۔۔۔



عمران سوچنے لگا! کاش کہ ان میں سے ایک ہی پرندہ اس کے ہاتھ لگ سکتا! مگر اب وہاں کیا تھا!۔۔۔ ایک بات اس کی سمجھ میں نہ آسکی! مردہ پرندے! ان کے جلائے جانے کا مقصد تو یہی ہوسکتا تھا کہ وہ انہیں اس شکل میں بھی کسی دوسرے کے قبضے میں نہیں جانے دینا چاہتا! یعنی ان مردہ پرندوں سے بھی جمیل والے واقعے پر روشنی پڑ سکتی تھی!

عمران لیبارٹری کی تلاشی لینے کے لئے بے چین تھا!۔۔۔ لیکن! وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو اس پر ذرہ برابر بھی شک ہوسکے کیونکہ یہ ایک ایسا کیس تھا جس میں مجرم کے خلاف ثبوت بہم پہنچانے کے سلسلے میں کافی کد و کش کی ضرورت تھی۔۔۔ اور مجرم کا ہوشیار ہو جانا یقیناً دشواریوں کا باعث بن سکتا تھا!۔۔۔



شوکت انگیٹھی کے پاس سے ہٹ کر ایک میز کی دراز کھول رہا تھا! دراز مقفل تھی! اس نے اس میں سے ایک ریوالور نکال کر اس کے چیمبر بھرے اور جیب میں ڈال لیا! انداز سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کہیں باہر جانے کی تیاری کر رہا ہے! پھر وہ اس کمرے سے چلا گیا!



عمران کھڑکی کے پاس سے ہٹ کر ایک درخت کے تنے کی اوٹ میں ہوگیا! جلد ہی اس نے کسی دروازے کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی۔ پھر سناٹے میں قدموں کی آہٹیں گونجنے لگیں۔ آہستہ آہستہ یہ آوازیں بھی دور ہوتی گئیں اور پھر سناٹا چھا گیا!



عمران تنے کی اوٹ سے نکل کر سیدھا صدر دروازے کی طرف آیا! اسے توقع تھی کہ وہ مقفل ہوگا!۔۔۔ لیکن ایسا نہیں تھا! ہاتھ لگاتے ہی دونوں پٹ پیچھے کی طرف کھسک گئے۔۔۔!



عمران ایک لحظہ کے لئے رکا!۔۔۔ دروازہ غیر مقفل ہونے کا مطلب یہ تھا کہ شوکت زیادہ دور نہیں گیا! ہوسکتا تھا کہ وہ رات کے کھانے کے لئے صرف کوٹھی ہی تک گیا ہو! مگر وہ ریوالور۔۔۔ آخر صرف کوٹھی تک جانے کے لئے ریوالور ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی! عمران نے اپنے سر کو خفیف سی جنبش دی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو اس وقت اس چھوٹی سی عمارت کی تلاشی ضرور لی جائے گی!



اس نے جیب سے ایک سیاہ نقاب نکال کر اپنے چہرے پر چڑھا لیا! ایسے مواقع پر وہ عموماً یہی کیا کرتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ کسی سے مڈھ بھیڑ ہو جانے کے باوجود بھی وہ نہ پہچانا جاسکے۔



یہاں سے آتے وقت اس نے جاوید مرزا کے نوکر سے شوکت کے عادات و اطوار کے متعلق بہت کچھ معلوم کر لیا تھا۔۔۔ شوکت یہاں تنہا رہتا تھا۔۔۔ اور اس کی لیبارٹری اسسٹنٹ کیے علاوہ بغیر اجازت کوئی وہاں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ خواہ وہ خاندان ہی کا کوئی فرد کیوں نہ!۔۔۔ فی الحال اس کا لیبارٹری اسسٹنٹ جیل میں تھا! لہٰذا شوکت کے علاوہ وہاں کسی اور کی موجودگی ناممکنات میں سے تھی۔ لیکن عمران نے اس کے باوجود بھی احتیاطا نقاب استعمال کیا تھا وہ اندر داخل ہوا۔۔۔ عمارت میں چاروں طرف گہری تاریکی تھی!۔۔۔ لیکن عمران سے روشنی کرنے کی حماقت سرزد نہیں ہوئی۔۔۔و ہ دیکھ بھال کے لئے ننھی سی ٹارچ استعمال کر رہا تھا۔ جس کی روشنی محدود تھی!



دس منٹ گذر گئے! لیکن کوئی ایسی چیز ہاتھ نہ لگی جسے شوکت کے خلاف بطور ثبوت استعمال کیا جاسکتا!



دو کمروں کی تلاشی لینے کے بعد وہ لیبارٹری میں داخل ہوا یہاں بھی اندھیرا تھا! لیکن انگیٹھی میں اب بھی کوئلے دہک رہے تھے۔۔۔



عمران نے سب سے پہلے دفتی کے اس ڈبے کا جائزہ لیا جس میں سے مردہ پرندے نکال نکال کر انگیٹھی میں ڈالے گئے تھے! مگر ڈبہ اب خالی تھا!



عمران دوسری طرف متوجہ ہوا۔



"خبردار!" اچانک اس نے اندھیرے میں شوکت کی آواز سنی! "تم جو کوئی بھی ہو اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لو۔۔۔"



مگر اس کا جملہ پورا ہونے سے قبل ہی عمران کی ٹارچ بجھ چکی تھی! وہ جھپٹ کر ایک الماری کے پچھے ہوگیا!۔۔۔



"خبردار۔ خبردار۔۔۔" شوکت کہہ رہا تھا" ریوالور کا رخ دروازے کی طرف ہے۔ تم بھاگ نہیں سکتے!"



عمران نے اندازہ کر لیا کہ شوکت آہستہ آہستہ سوئچ بورڈ کی طرف جا رہا ہے۔۔۔ اگر اس نے روشنی کردی تو؟۔۔۔ اس خیال نے عمران کے جسم میں برق کی سی سرعت بھر دی اور وہ تیزی سے بے آواز چلتا ہوا دروازے کے قریب پہنچ گیا! اسے شوکت کی حماقت پر ہنسی بھی آرہی تھی۔ اول تو اتنا اندھیرا تھا کہ وہ اسے دیکھ نہیں سکتا تھا! دوم اسی کمرے میں اکیلا ایک وہی دروازہ نہیں تھا۔۔۔ لیکن عمران نے اسی دروازے کو راہ فرار بنایا جس کی طرف شوکت نے اشارہ کیا تھا! وہ نہایت آسانمی سے عمارت سے باہر نکل آیا اور پھر تیزی سے کوٹھی کی طرف جاتے وقت اس نے مڑ کر دیکھا تو لیبارٹری والی عمارت کی ساری کھڑکیاں روشن ہو چکی تھیں!

روشی نے تحیر آمیز انداز میں عمران کی طرف دیکھا۔



"ہاں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں!" عمران نے سر ہلا کر کہا "پچھلی رات شوکت نے مجھے دھوکہ دیا تھا۔۔۔ شاید اسے کسی طرح علم ہو گیا تھا کہ میں کھڑکی سے جھانک رہا ہوں!۔۔۔"



"ریوالور تھا اس کے پاس!"



"ہاں! لیکن اس کی کوئی اہمیت نہیں! ہو سکتا ہے کہ وہ اس کا لائسنس بھی رکھتا ہو!"



"اور وہ پرندے نیلے ہی تھے!"



"سو فیصدی!" عمران نے کہا! کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا "تم پچھلی رات کہاں غائب رہیں!"



"میں اسی آدمی سلیم کے چکر میں رہی تھی!"



"ہائیں روشی! تم سچ مچ سراغرساں ہوتی جا رہی ہو!۔۔۔ بہت خوب!۔۔۔ ہاں تو پھر۔۔۔ تم نے غالباً۔۔۔"



"ٹھہرو! بتاتی ہوں!۔۔۔ میں نے اس کے متعلق بہتری معلومات حاصل کی ہیں!"



"شروع ہو جاؤ!"



"اس کے بعض اعزہ نے اس کی ضمانت لینی چاہی تھی! لیکن اس نے اسے منظور نہیں کیا تھا! اس پر خود پولیس کو حیرت ہے!"



"اس سے اس کی وجہ ضرور پوچھی گئی ہوگی!"



"ہاں! ہاں۔ لیکن اس کا جواب کچھ ایسا ہے جو کسی فلم یا اخلاقی قسم کے ناول کا موضوع بن کر زیادہ دلچسپ ثابت ہو سکتا ہے!"



"یعنی۔۔۔!"



"وہ کہتا ہے کہ میں اپنا مکروہ چہرہ کسی کو نہیں دکھانا چاہتا! میں نے ایک ایسے مالک کو دھوکا دیا ہے جو انتہائی نیک، شریف اور مہربان تھا! میں نہیں چاہتا کہ اب کبھی اس کا سامنا ہو۔ میں جیل کی کوٹھڑی میں مر جانا پسند کروں گا!"



"اچھا!" عمران احمقوں کی طرح آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا۔!



"میں نہیں سمجھ سکتی کہ بیسویں صدی میں بھی اتنے حساس آدمی پائے جاتے ہوں گے! ظاہر ہے جو اتنا حساس ہو گا وہ چوری ہی کیوں کرنے لگا۔۔۔! ویسے اس کے جاننے والوں میں یہ خیال عام ہے کہ وہ ایک بہت اچھا آدمی ہے اور اس سے چوری جیسا فعل سرزد ہونا ناممکنات میں سے نہیں۔۔۔! مگر دوسری طرف وہ خود ہی اعتراف جرم کرتا ہے!"



"تو پھر اس کے جاننے والوں میں کئی طرح کے خیالات پائے جاتے ہوں گے!"



"ہاں میں نے بھی یہی محسوس کیا ہے!" روشی سر ہلا کر بولی "کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ محض کسی قسم کا ڈرامہ ہے۔"



"لیکن کس قسم کا! اس کے مقصد پر بھی کسی نے روشنی ڈالی یا نہیں!"



"نہیں اس کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں کہا!"



عمران کچھ سوچنے لگا!۔ پھر اس نے کہا "معاملات کافی پیچیدہ ہیں!"

"پیچیدہ نہیں بلکہ مضحکہ خیز کہو!" روشی مسکرا کر بولی "سلیم شوکت کا ملازم تھا! اگر شوکت کو اصل مجرم سمجھ لیا جائے تو سلیم کے جیل جانے کا واقعہ قطعی بے مقصد ہوا جاتا ہے!"



"کسی حد تک تمہارا خیال بالکل درست ہے!"



"کسی حد تک کیا! بالکل درست ہے!" روشی بولی!



"نہیں اس پر بالکل کی چھاپ لگانا ٹھیک نہیں!" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا!



"اچھا پھر تم ہی بتاؤ کہ اسے جیل کیوں بھجوایا گیا۔۔۔!"



"ہوسکتا ہے کہ اس نے سچ مچ چوری کی ہو!"



"اوہو! کیا تمہیں وہ گفتگو یاد نہیں جو جیل میں میرے اور اس کے درمیان ہوئی تھی!"



"مجھے اچھی طرح یاد ہے!"



"پھر!"



"پھر کچھ بھی نہیں! مجھے سوچنے دو! ہاں ٹھیک ہے اسے یوں ہی سمجھو! فرض کرو کہ سلیم شوکت کے جرم سے واقف ہے اسی لئے وہ اس پر چوری کا الزام لگا کر اسے جیل بھجوا دیتا ہے!"



"اگر یہی بات ہے!" روشی جلدی سے بولی "تو وہ نہایت آسانی سے شوکت کے جرم کا راز فاش کرسکتا تھا! عدالت کو بتا سکتا تھا کہ اسے کس لئے جیل بھجوایا گیا ہے!"



"واہ۔۔۔ ہا!" عمران ہاتھ نچا کر بولا "تم بالکل بدھو ہو!۔۔۔ عدالت میں شوکت بھی یہی کہہ سکتا تھا کہ وہ اپنی گردن بچانے کے لئے اس پر جھوٹا الزام عائد کر رہا ہے۔۔۔ آخر اس نے گرفتار ہونے سے قبل ہی اس کے جرم سے پولیس کو کیوں نہیں مطلع کیا۔۔۔ واضح رہے کہ سلیم کی گرفتاری جمیل والے واقعے کے تین بعد عمل میں آئی تھی!"



"چلو میں اسے مانے لیتی ہوں!" روشی نے کہا "سلیم نے مجھ سے یہ کیوں کہا تھا کہ تم مجھ کو غصہ نہیں دلا سکتیں!"



"تم خاموشی سے میری بات سنتی جاؤ!" عمران جھنجھلا کر بولا "بات ختم ہونے سے پہلے نہ ٹوکا کرو۔۔۔ میں تمہیں سلیم کے ان الفاظ کا مطلب بھی سمجھا دوں گا اور اسی روشنی میں کہ شوکت ہی مجرم ہے ویسے میری گفتگو کا ماحصل ہو گا کہ سلیم شوکت سے بھی زیادہ گھاگ ہے! فرض کرو، سلیم نے سوچا ہو کہ وہ جیل ہی میں زیادہ محفوظ رہ سکے گا! ورنہ ہو سکتا ہے کہ شوکت اپنا جرم چھپانے کے لئے اسے قتل ہی کرا دے! شوکت نے اسے اس توقع پر ہی چوری کے الزام میں جیل بھجوا دیا ہو گا کہ وہ اس کا راز ضرور اگل دے گا! لیکن خود بھی ماخوذ ہونے کی بنا پر عدالت کو اس کا یقین دلانے میں کامیاب نہ ہو گا! شوکت کے پاس اس صورت میں سب سے بڑا عذر یا اعتراض یہی ہو گا کہ اس نے گرفتار ہونے سے تین دن قبل پولیس کو اس سے مطلع کیوں نہیں کیا!"



"میں سمجھ گئی۔۔۔ لیکن سلیم کے وہ جملے۔۔۔!" روشی نے پھر ٹوکا!



"ارے خدا تمہیں غارت کرے۔۔۔ سلیم کے جملوں کی ایسی کی تیسی۔۔۔ میں خود پھانسی پر چڑھ جاؤں گا! تمہارا گلا گھونٹ کر۔۔۔! ہاں۔۔۔ مجھے بات پوری کرنے دو۔ روشی کی بچی!"



روشی ہنس پڑی! عمران نے کچھ اسی قسم کے مضحکہ خیز انداز میں جھلاہٹ ظاہر کی تھی۔۔۔!



"ارے اس بندوق کے پٹھے نے بالکل خاموشی اختیار کر لی۔۔۔ یعنی شوکت کے جرم کا معاملہ بالکل ہی گھونٹ کر اپنے جرم کا اعتراف کر لیا!۔۔۔ اب تم خود سوچو شیطان کی خالہ کہ شوکت پر اس کا کیا رد عمل ہوا ہو گا!۔۔۔ ظاہر ہے اس نے یہ ضرور چاہا ہو گا کہ شوکت پر اس کا کیا رد عمل ہوا ہو گا!۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس نے یہ ضرور چاہا ہو گا کہ وہ سلیم کے اس روئیے کی وجہ معلوم کرے۔۔۔ اور دوسری طرف سلیم نے بھی یہی سوچا ہو گا کہ شوکت اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔۔۔ پھر تم وہیں جا پہنچیں! سلیم سمجھا کہ شوکت ہی کی طرف سے اس کی ٹوہ میں آئی ہو! لہٰذا اس نے تمہیں اڑن گھائیاں بتائیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ تم اسے غصہ دلا کر بھی اصلیت نہیں اگلوا سکتیں۔۔۔! ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی دانست میں شوکت کو اور زیادہ خوفزدہ کرنے کے لئے تم اس سے قسم کی گفتگو کی ہو!"



"مگر!"



"مگر کی بچی! اب اگر تم نے کوئی نکتہ نکالا تو میں ایک بوتل کوکا کولا پی کر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جاؤں گا۔"



"تمہارا نظریہ غلط بھی ہوسکتا ہے!" روشی نے سنجیدگی سے کہا!



"نائیں۔۔۔ میں شرلاک ہومز ہوں!" عمران حلق پھاڑ کر چیخا۔ "مجھ سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوسکتی!۔۔۔ میں جوتے کا چمڑا دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ کبوتر کی کھال ہے یا مینڈک کی کھال کا ہے۔۔۔! ابھی مجھے ڈاکٹر واٹسن جیسا کوئی چغد نہیں ملا یہی وجہ ہے کہ میں تیزی سے ترقی نہیں کرسکتا!۔۔۔"



"اچھا فرض کرو اگر پیر یٰسین نائٹ کلب کے مینجر ہی کی بات سچ ہو تو!"



"مجھے بڑی خوشی ہو گی! خدا ہر ایک کو سچ بولنے کی توفیق عطا کرے!"



"مجھ سے بے تکی باتیں نہ کیا کرو!" روشی جھلا گئی!



"اے۔۔۔ روشی تم اپنا لہجہ ٹھیک کرو! میں تمہارا شوہر نہیں ہوں۔۔۔ ہاں!"



"تمہیں شوہر بنانے والی کسی گدھی ہی کے پیٹ سے پیدا ہو گی!"





"خبردار اگر تم نے گدھی کی شان میں کوئی نازیبا کلمہ منہ سے نکالا!" عمران گرج کر بولا اور روشی برا سا منہ بنائے ہوئے کمرے سے نکل گئی!

10

عمران کا ایک ایک لمحہ مصروفیت میں گزر رہا تھا! اس کی دانست میں مجرم اس کے سامنے موجود تھا۔ بس اب اس کے خلاف ایسے ثبوت مہیا کرنا باقی رہ گیا تھا جنہیں عدالت میں پیش کیا جاسکے۔



اس نے شوکت کے پاس مردہ پرندے دیکھے تھے! جنہیں وہ آگ میں جلا رہا تھا۔۔۔ بعض اوقات مختلف حالات کی ظاہری یکسانیت دھوکا بھی دے جاتی ہے! لہٰذا عمران نے شوکت کے حق میں بھی بہتیرے نظریات قائم کئے! لیکن خود بخود ان کی تردید ہوتی چلی گئی۔



پروین شوکت کی چچا زاد بہن تھی اور نواب جاوید مرزا کی اکلوتی بیٹی! ظاہر ہے کہ اس کی جائیداد کی مالک وہی ہوتی! شوکت بھی کبھی صاحب جائیداد تھا لیکن اس کی جائیداد سائنٹفک تجربات کی نذر ہو گئی تھی۔۔۔



لہٰذا وہ دوبارہ اپنی مالی حالت درست کرنے کے لئے پروین سے شادی کے خواب دیکھ سکتا تھا۔ عمران نے اپنا یہ خیال کیپٹن فیاض پر ظاہر کیا جسے اس نے تار دے کر خاص طور پر سے سردار گڈھ بلایا تھا!



"مگر! عمران!" فیاض نے کہا "یہ ضروری تو نہیں کہ پروین کی شادی اس واقعے کے بعد شوکت ہی سے ہو جائے! اگر جاوید مرزا کو اس کی شادی اپنے بھتیجوں کے ہی میں سے کسی کے ساتھ کرنی ہوتی تو بات جمیل تک کیسے پہنچتی!"



"اعتراض ٹھیک ہے!" عمران بولا "لیکن اس صورت میں میرے قائم کردہ نظرئیے کو دوسرے دلائل سے بھی تقویت پہنچ سکتی ہے۔ نظریہ بدستور وہی رہے گا لیکن دلائل۔۔۔"



"اچھا مجھ بتاؤ۔۔۔ اب تم کیا دلیل رکھتے ہو!"



"انسانی فطرت کی روشنی میں اسے دیکھنے کی کوشش کرو! ہم سب ذاتی آسودگی چاہتے ہیں۔ ہر معاملے میں! لیکن حالات کے ساتھ ہی آسودگی حاصل کرنے کا طریق کار بھی بدلتا رہتا ہے۔۔۔! شوکت کو پروین سے شادی کرلینے پر بھی آسودگی حاصل ہو سکتی ہے اور شادی نہ ہونے کی صورت میں اپنے انتقامی جذبے کو بے لگام چھوڑ دینے سے بھی اسی قسم کی آسودگی حاصل ہو سکتی ہے! یعنی اگر وہ انتقاما پروین کے ہر منگیتر کا چہرہ بگاڑتا رہے۔ تب بھی اسے اتنا ہی سکون ملے گا جتنا پروین سے شادی ہو جانے پر حاصل ہو سکتا ہے!"



فیاض چند لمحے سوچتا رہا پھر آہستہ سے بولا "تم ٹھیک کہتے ہو!"



"میں جھک مار رہا ہوں۔۔۔۔ اور تم بالکل گدھے ہو!" دفعتاً عمران کا موڈ بگڑ گیا!



"کیا؟" فیاض اسے متحیرانہ انداز میں گھورنے لگا!



"کچھ نہیں میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم اس محکمے کے لئے مناسب نہیں ہو! استعفٰی دے کر میری فرم میں ملازمت کرو! فی طلاق کے حساب سے کمیشن الگ۔۔۔ یعنی اس سے اور تنخواہ سے کوئی مطلب نہ ہوگا!"



"عمران پیارے کام کی بات کرو!" فیاض بڑی لجاجت سے بولا "میں چاہتا ہوں کہ تم اس معاملے کو جلد سے جلد نپٹا کر واپس چلو۔۔۔ وہاں بھی کئی مصیبتیں تمہاری منتظر ہیں!"



"ہائیں! کہیں میری شادی تو نہیں طے کردی۔۔۔!"



"ختم کرو!" فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا "شوکت والے نظرئیے کے علاوہ کسی اور کا بھی امکان ہے یا نہیں۔۔۔!"



"ہے کیوں نہیں! یہ حرکت جمیل کے چچا یا ماموں کی بھی ہو سکتی ہے!"

"ہاں! ہو سکتا ہے! مگر میں اس پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں!"



"محض اس لئے کہ سجاد سے تمہارے دوستانہ تعلقات ہیں! کیوں؟"



"نہیں! یہ بات نہیں! ان میں سے ہر ایک میرے لئے ایک کھلی ہوئی کتاب ہے! ان میں کوئی بھی اتنا ذہین نہیں ہے۔۔۔"



"خیر مجھے اس سے بحث نہیں ہے۔۔۔! میں نے جس کام کے لئے بلایا ہے اسے سنو!" عمران نے کہا اور پھر خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا!



تھوڑی دیر بعد پھر بولا "سلیم کا قصہ سن ہی چکے ہو! میں چاہتا ہوں کہ کسی طرح اسے جیل سے باہر لایا جائے!"



"بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔!"



"کوئی صورت نکالو۔۔۔!"



"آخر اس سے کیا ہوگا!"



"بچہ ہوگا اور تمہیں ماموں کہے گا!" عمران جھلا کر بولا!



"ناممکن ہے۔۔۔۔ یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا!"



"بچہ!" عمران نے پوچھا!



"بکو مت! میں سلیم کی رہائی کے متعلق کہہ رہا ہوں! وہ چوری کے جرم میں ماخوذ ہے! اسے قانون کے سپرد کرنے والا شوکت ہے! جب تک کہ وہ خود کو عدالت سے اس کی رہائی کی درخواست نہ کرے ایسا نہیں ہوسکتا!"



"میں بھی اتنا جانتا ہوں!"



"اس کے باوجود بھی اس قسم کے احمقانہ خیالات رکھتے ہو!"



"اگر وہ رہا نہیں ہوسکتا تو پھر اصل مجرم کا ہاتھ آنا محال ہے!"



"آخر شوکت کے خلاف ثبوت کیوں نہیں مہیا کرتے۔۔۔!"



"مجھے یہ سب بنڈل معلوم ہوتا ہے!۔۔۔ خصوصاً پرندوں کی کہانی!"



"پھر شوکت ان مردہ پرندوں کو آگ میں کیوں جلا رہا تھا!" فیاض نے کہا!



"وہ جھک مار رہا تھا! اسے جہنم میں ڈالو! لیکن کیا تم کسی ایسے پرندے کے وجود پر یقین رکھتے ہو جس کے چونچ مارنے سے آدمی مبروص ہو جائے؟ اور اس کے جسم میں ایسے جراثیم پائے جائیں جو ساری دنیا کے لئے بالکل نئے ہوں! ظاہر ہے کہ سفید داغوں کی وجہ وہی جراثیم ہیں!"



"ممکن ہے کسی سائنٹفک طریقہ سے ان پرندوں میں اس قسم کے اثرات پیدا کئے گئے ہوں!"



"اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ یعنی تم بھی یہی سمجھتے ہو! اس کا یہ مطلب ہو اکہ ہر آدمی کسی ایسے سائنٹفک طریقوں کے متعلق سوچ سکتا ہے! تو گویا شوکت بالکل بدھو ہے اس نے دیدہ دانستہ اپنی گردن پھنسوائی ہے! سارا سردار گڈھ اس بات سے واقف ہے کہ شوکت ایک ذہین سائنسدان ہے اور جراثیم اس کا خاص موضوع ہیں!"



"پھر وہ مردہ پرندے۔۔۔!"



"میں کہتا ہوں کہ اس بات کو ختم ہی کردو تو اچھا ہے! سلیم کی رہائی کے متعلق سوچو!"



"وہ ایسا ہے جیسے مچھر کے بطن سے ہاتھی کی پیدائش کے متعلق سوچنا!"



"تب پھر اصل مجرم کا ہاتھ آنا بھی مشکل ہے۔۔۔۔ اور میں اپنا بستر گول کرتا ہوں!"



"تم خود ہی کوئی تدبیر کیوں نہیں سوچتے!" فیاض جھنجھلا کر بولا۔



"میں سوچ چکا ہوں!"



"تو پھر کیوں جھک مار رہے ہو! مجھے بتاؤ کیا سوچا ہے!"



"اس کے کسی عزیز کو ضمانت کے لئے تیار کراؤ!"



"مگر وہ ضمانت پر رہا ہونے سے انکار کرتا ہے!"



"اس کے انکار سے کیا ہوتا ہے۔۔۔! مٰں اسے عدالت میں جھکی ثابت کرا دوں گا اور پھر اسے اس بات کی اطلاع دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اس کی ضمانت ہونے والی ہے اتنا تو تم کر ہی سکو گے کہ جیل سے عدالت لانے سے قبل اس پر یہ ظاہر کیا جائے کہ مقدمے کی پیشی کے سلسلے میں اسے لے جایا جا رہا ہے!"

"ہاں یہ ہو سکتا ہے!"





"ہو نہیں سکتا بلکہ اسے کل تک ہو جانا چاہیئے!" عمران نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا!

11

ضمانت ہو جانے کے بعد بھی سلیم عدالت سے نہیں ٹلا! اس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے! وہ عدالت ہی کے ایک برآمدے میں مضطربانہ انداز میں ٹہل رہا تھا اور کبھی کبھی خوف زدہ آنکھوں سے ادھر اُدھر بھی دیکھ لیتا تھا!



عمران اس کے لئے بالکل اجنبی تھا! اس لئے اس سے بہت قریب رہ کر بھی اس کی حالت کا مشاہدہ کر سکتا تھا!



شام ہو گئی اور سلیم وہیں ٹہلتا رہا! جس نے اس کی ضمانت دی تھی وہ ہتھ کڑیاں کھلنے سے پہلے ہی عدالت سے کھسک گیا تھا!



پھر وہ وقت بھی آیا جب سلیم اس برآمدے میں بالکل تنہا رہ گیا! عمران بھی اب وہاں سے ہٹ گیا تھا! لیکن اب وہ ایسی جگہ پر تھا جہاں سے وہ اس کی نگرانی بہ آسانی کر سکتا تھا! سلیکم کو شک کرنے کا موقعہ دئیے بغیر!



عدالت میں سناٹا چھا جانے کے بعد سلیم وہاں سے چل پڑا۔ عمران اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ سلیم نے ٹیکسیوں کے اڈے پر پہنچ کر ایک ٹیکسی کی! عمران کی ٹو سیٹر بھی یہاں سے دور نہیں تھی!



بہرحال تعاقب جاری رہا! لیکن عمران محسوس کر رہا تھا کہ سلیم کی ٹیکسی یونہی بے مقصد شہر کی سڑکوں کے چکر کاٹ رہی ہے! پھر اندھیرا پھیلنے لگا! شاہراہیں بجلی کی روشنی سے دہکنے لگیں۔ عمران نے سلیم کا پیچھا نہیں چھوڑا وہ اپنا پٹرول پھونکتا رہا!



جیسے ہی اندھیرا کچھ اور گہرا ہوا آگلی ٹیکسی جیکسن روڈ پر دوڑنے لگی اور عمران نے جلد ہی اندازہ کرلیا کہ اس کا رخ نواب جاوید مرزا کی حویلی کی طرف ہے!



دونوں کاروں میں تقریباً چالیس گز کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ اتنا کم تھا کہ سلیم کو تعاقب کا شبہ ضرور ہو سکتا تھا! ہو سکتا ہے کہ سلیم کو پہلے ہی شبہ ہو گیا ہو اور وہ ٹیکسی کو اسی لئے ادھر ادھر چکر کھلاتا رہا ہو!



جاوید مرزا کی حویلی سے تقریباً ایک فرلانگ ادھر ہی رک گئی! عمران نے صرف رفتار کم کر دی۔۔۔ کاری روکی نہیں اب وہ آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی!



سڑک سنسان تھی۔ ٹیکسی واپسی کے لئے مڑی! عمران نے اسے راستہ دے دیا!



اپنی کار کی اگلی روشنی میں اس نے دیکھا کہ سلیم نے بے تحاشہ دوڑنا شروع کر دیا ہے! عمران نے رفتار کچھ تیز کر دی۔۔۔ اور ساتھ ہی اس نے جیب سے کوئی چیز نکال کر باہر سڑک پر پھینکی! ایک ہلکا سا دھماکہ ہوا اور سلیم دوڑتے دوڑتے گر پڑا لیکن پھر فورا ہی اٹھکر بھاگنے لگا!۔۔۔ پھر عمران نے اسے جاوید مرزا کے پائیں باغ میں چھلانگ لگاتے دیکھا۔۔۔!



عمران کی کار فراٹے بھرتی ہوئی آگے نکل گئی!۔۔۔ لیکن اب اس کی ساری روشنیاں بچھی ہوئی تھیں!



دو فرلانگ آگے جا کر عمران نے کار روکی اور اسے ایک بڑی چٹان کی اوٹ میں کھڑا کر دیا۔ اب وہ پیدل ہی پائیں باغ کے اس حصے کی طرف جا رہا تھا جہاں لیبارٹری والی عمارت واقع تھی! اچانک اس نے ایک فائر کی آواز سنی جو اسی طرف سے آئی تھی۔ جدھر لیبارٹری تھی! پھر دوسرا فائر ہوا اور ایک چیخ سناٹے کا سینہ چیرتی ہوئی تاریکی میں ڈوب گئی!۔۔۔ عمران نے پہلے تو دوڑنے کا ارادہ ترک کیا پھر رک گیا!۔۔۔ اب اس نے لیبارٹری کی طرف جانے کا ارادہ بھی ترک کر دیا تھا وہ جہاں تھا وہیں رکا رہا۔ جلد ہی اس نے کئی آدمیوں کے دوڑنے کی آوازیں سنیں۔ ان میں ہلکا سا شور بھی شامل تھا!۔۔۔ عمران کار کی طرف پلٹ گیا! اس کا ذہن بہت تیزی سے سوچ رہا تھا!

لیکن اچانک اس کے ذہن میں ایک نیا خیال پیدا ہوا! کیا وہ تنہائی میں بھی حماقتیں کرنے لگا ہے؟ کیا وہ حماقت نہیں تھی؟ اس نے فائروں کی آوازیں سنیں! اور وہ چیخ بھی کسی زخمی ہی کی چیخ معلوم ہوئی تھی! پھر آخر وہ کار کی طرف کیوں پلٹ آیا تھا۔۔۔ اسے آواز کی طرف بے تحاشہ دوڑنا چاہیئے تھا!۔۔۔



عمران نے اپنی کار سٹارٹ کی اور پھر سٹرک پر واپس آگیا!۔۔۔ کوٹھی کے قریب پہنچ کر اس نے کار پائیں باغ کی روش پر موڑ دی اور اسے سیدھا پورچ میں لیتا چلا گیا!



جاوید مرزا کوٹھی سے نکل کر پورچ میں آ رہا تھا۔ اس کی رفتار تیز تھی چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔۔۔ اور ہاتھ میں رائفل تھی!



"خیریت نواب صاحب!" عمران نے حیرت ظاہر کی!



"اوہ۔۔۔ سطوت جاہ۔۔۔ ادھر۔۔۔!" اس نے لیبارٹری کی سمت اشارہ کرکے کہا "کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔۔۔ دو فائر ہوئے تھے۔۔۔ چیخ۔۔۔ بھی۔۔۔ آؤ۔۔۔ آؤ۔۔۔!"



جاوید مرزا اس کا بازو پکڑ کر اسے بھی لیبارٹری کی طرف گھسیٹنے لگا!۔۔۔



کوٹھی کے سارے نوکر لیبارٹری کے قریب اکٹھا تھے! صفدر عرفان اور شوکت بھی وہاں موجود تھے! شوکت نے جاوید مرزا کو بتایا کہ وہ اندر تھا! اچانک اس نے فائروں کی آوازیں سنیں۔۔۔ پھر چیخ بھی سنائی دی۔۔۔ باہر نکلا تو اندھیرے میں کوئی بھاگتا ہوا دکھائی دیا! لیکن اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی وہ غائب ہو چکا تھا!۔۔۔



"اور۔۔۔ لاش!" جاوید مرزا نے پوچھا!



"ہم ابھی تک کسی کی لاش ہی تلاش کرتے رہے ہیں!" عرفان بولا۔



"لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی!"



"لاش!" عمران آہستہ سے بڑبڑا کر چاروں طرف دیکھنے لگا!



"تم اب یہاں تنہا نہیں رہو گے! سمجھے!" جاوید مرزا شوکت کے شانے جھنجھوڑ کر چیخا!



شوکت کچھ نہ بولا! وہ عمران کو گھور رہا تھا!



"کوئی آسیبی خلل۔۔۔ میرا دعوٰی ہے۔۔۔! عمران مکا ہلا کر رہ گیا!



"آپ اس وقت یہاں کیسے!" شوکت نے اس سے پوچھا۔۔۔!



"شوکت تمہیں بات کرنے کی تمیز کب آئے گی!" جاوید مرزا نے جھلائے ہوئے لہجہ میں کہا اور عمران ہنسنے لگا۔۔۔ اچانک اس کے داہنے گال پر دو تین گرم گرم بوندیں پھسل کر رہ گئیں اور عمران اوپر کی طرف دیکھنے لگا! پھر گال پر ہاتھ پھیر کر جیب سے ٹارچ نکالی! انگلیاں کسی رقیق چیز سے چپچپانے لگی تھیں۔



ٹارچ کی روشنی میں اسے اپنی انگلیوں پر خون نظر آیا۔۔۔۔ تازہ خون!۔۔۔ سب اپنی اپنی باتوں میں محو تھے! کسی کی توجہ عمران کی طرف نہیں تھی!۔۔۔



عمران نے ایک بار پھر اوپر کی طرف دیکھا! وہ ایک درخت کے نیچے تھا اور درخت کا اوپری حصہ تاریکی میں گم تھا!



"لیکن۔۔۔ ہمیں یہاں کسی کے جوتے ملے ہیں!" صفدر کہہ رہا تھا!



"شاید بھاگنے والا اپنے جوتے چھوڑ گیا ہے۔"

اس نے درخت کے تنے کی طرف روشنی ڈالی!۔۔۔ جوتے سچ مچ موجود تھے! عمران آگے بڑھ کر انہیں دیکھنے لگا! لیکن صفدر نے ٹارچ بجھا دی! اور عمران کو اپنی ٹارچ روشن کرنی پڑی!



"ختم کرو! یہ قصہ! چلو یہاں سے!" جاوید مرزا نے کہا۔



"شوکت میں تم سے خاص طور پر کہہ رہا ہوں کہ تم اب یہاں نہیں رہو گے!"



"میرے لے کوئی خطرہ نہیں ہے!" شوکت بولا!



"ہے کیوں نہیں!" عمران بول پڑا۔ "میں بھی آپ کو یہی مشورہ دوں گا!"



"میں نے آپ سے مشورہ نہیں طلب کیا!"



"اس کی پروا نہ کیجئے! میں بلا معاوضہ مشورہ دیتا ہوں!" عمران نے کہا اور پھر بلند آواز میں بولا "میں اسے بھی مشورہ دیتا ہوں جو درخت پر موجود ہے۔۔۔ اسے چاہیے کہ وہ نیچے اتر آئے۔۔۔ وہ زخمی ہے۔۔۔ آؤ۔۔۔ آجاؤ نیچے۔۔۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم مسلح نہیں ہو۔۔۔۔ اور یہاں سب تمہارے دوست۔۔۔ ہیں۔۔۔ آجاؤ نیچے!"



"ارے، ارے، تمہیں کیا ہو گیا ہے سطوت جاہ!" جاوید مرزا نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔



اچانک عمران نے اپنی ٹارچ کا رخ اوپر کی طرف کر دیا۔



"میں سلیم ہوں!" اوپر سے ایک بھرائی ہوئی سی آواز آئی۔



"حکیم ہو یا ڈاکٹر! اس کی پروا نہ کرو! بس نیچے آ جاؤ!" سناٹے میں صرف عمران کی آواز گونجی بقیہ لوگوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا!



درخت پر بیک وقت کئی ٹارچوں کی روشنیاں پڑ رہی تھیں!۔۔ لیکن عمران کی نظر شوکت کے چہرے پر تھی! شوکت دفعتاً برسوں کا بیمار نظر آنے لگا!



سلیم شاخوں سے اترتا ہوا تنے کے سرے پر پہنچ چکا تھا! اچانک اس نے کراہ کر کہا۔۔۔ "میں گرا۔۔۔ مجھے بچاؤ۔۔۔۔!"



ایک ہی چھلانگ میں عمران تنے کے قریب پہنچ گیا!



"چلے آؤ۔۔۔ چلے آؤ۔۔۔ خود کو سنبھالو۔۔۔۔ اچھا۔۔۔ میں ہاتھ بڑھاتا ہوں اپنے پیر نیچے لٹکا دو!" عمران نے کہا!



جاوید مرزا وغیرہ اس کی مدد کو پہنچ گئے کسی نہ کسی طرح سلیم کو نیچے اتارا گیا!۔۔۔ اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے! اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا "میرے داہنے بازو پر گولی لگی ہے!"



"مگر تم تو جیل میں تھے۔۔۔!" جاوید مرزا بولا!





"جج۔۔۔ جی ہاں میں تھا!" سلیم آگے پیچھے جھولتا ہوا زمین پر گر گیا۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا

12

وہ لوگ بے ہوش سلیم کو کوٹھی کی طرف لے جا چکے تھے اور اب لیبارٹری کی عمارت کے قریب عمران کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا! وہ بھی ان کے ساتھ تھوڑی دور تک گیا تھا! لیکن پھر ان کی بے خبری میں لیبارٹری کی طرف پلٹ آیا تھا! ان سب کے ذہن الجھے ہوئے تھے اور کسی کو اس کا ہوش نہیں تھا کہ کون کہاں رہ گیا!۔۔۔ البتہ نواب جاوید مرزا شوکت کو وہاں سے کھینچتا ہوا لے گیا تھا!



لیبارٹری والی عمارت کا دروازہ کھلا ہوا تھا!۔۔۔ عمران اندر گھس گیا!۔۔۔ اس کی ٹارچ روشن تھی! اندر گھستے ہی جس چیز پر سب سے پہلے اس کی نظر پڑی وہ ایک ریوالور تھا۔ اس کا دستہ ہاتھی دانت کا تھا اور یہ سو فیصدی وہی ریوالور تھا جو عمران نے پچھلی رات شوکت کے ہاتھ میں دیکھا تھا۔ عمران نے جیب سے رومال نکالا اور اس سے اپنی انگلیاں ڈھکتے ہوئے ریوالور کو نال سے پکڑ کر اٹھا لیا۔۔۔ اور پھر وہ اسے اپنی ناک تک لے گیا! نال سے بارود کی بو آرہی تھی! صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اس سے کچھ ہی دیر قبل فائر کیا گیا ہے!۔۔۔ پھر عمران نے میگزین پر نظر ڈالی۔۔۔ دو چیمبر خالی تھے! اس نے اپنے سر کو خفیف سی جنبش دی۔۔۔۔ اور ریوالور کو بہت احتیاط سے رومال میں لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا پھر وہ وہیں سے لوٹ آیا۔۔۔ آگے جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی! اتنا ہی کافی تھا بلکہ کافی سے بھی زیادہ!۔۔۔۔



عمران کوٹھی کی طرف چل پڑا۔ اس کا ذہن خیالات میں الجھا ہوا تھا۔۔۔ یک بیک وہ رک گیا او ر پھر تیزی سے لیبارٹری کی عمارت کی طرف مڑ کر دوڑنے لگا!



"کون ہے! ٹھہرو!" اس نے پشت پر شوکت کی آواز سنی!۔۔۔ لیکن عمران رکا نہیں۔ برابر دوڑتا رہا۔۔۔ شوکت بھی غالباً اس کے پیچھے دوڑتا رہا تھا!



"ٹھہر جاؤ۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔ ورنہ گولی مار دوں گا" شوکت پھر چیخا۔۔۔



عمران لیبارٹری کی عمارت کے گرد ایک چکر لگا کر جھاڑیوں میں گھس گیا اور شوکت کی سمجھ میں نہ آسکا کہ وہ کہاں غائب ہو گیا!



شوکت نے اب ٹارچ روشن کر لی تھی اور چاروں طرف اس کی روشنی ڈال رہا تھا۔



شوکت نے اب ٹارچ روشن کرلی تھی اور چاروں طرف اس کی روشنی ڈال رہا تھا!۔۔۔ لیکن اس نے جھاڑیوں میں گھسنے کی ہمت نہیں کی!



پھر عمران نے اسے عمارت کے اندر جاتے دیکھا! عمران ٹھیک عمارت کے دروازے کے سامنے والی جھاڑیوں میں تھا۔ اس نے شوکت کو دروازہ کھول کر ٹارچ کی روشنی میں کچھ تلاش کرتے دیکھا!۔۔۔



اب عمران شوکت کو وہیں چھوڑ کر خراماں خراماں کوٹھی کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے ایک بار مڑ کر یلیبارٹری کی عمارت پر نظر ڈالی۔۔۔ اب اس کی ساری کھڑکیوں میں روشنی نظر آرہی تھی

13

اس واقعہ کو تین دن گزر گئے! فیاض سردار گڈھ ہی میں مقیم تھا! عمران اس سے برابر کام لیتا رہا۔۔۔ لیکن اسے کچھ بتایا نہیں!۔۔۔ فیاض اس پر جھنجھلاتا رہا۔ اور اس وقت تو اسے اور زیادہ تاؤ آیا۔ جب عمران نے لیبارٹری کی راہداری میں پائے جانے والے ریوالور کے دستے پر انگلیوں کے نشانات کی اسٹڈی کا کام اس کے سپرد کیا!۔۔۔ عمران نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسٹڈی کے نتائج معلوم کرکے اسے سب کچھ بتا دے گا۔۔۔! مگر وہ اپنے وعدے پر قائم نہ رہا! ظاہر ہے کہ یہ غصہ دلانے والی بات ہی تھی!۔۔۔



فیاض واپس جانا چاہتا تھا مگر عمران نے اسے روکے رکھا مجبوراً فیاض کو ایک ہفتے کی چھٹیاں لینی پڑی۔ کیوں کہ وہ سرکاری طور پر اس کیس پر نہیں تھا!۔۔۔



آج کل عمران سچ مچ پاگل نظر آرہا تھا!۔۔۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔۔۔ اور اپنے ساتھ فیاض کو بھی گھسیٹے پھرتا تھا۔۔۔!



ایک رات تو فیاض کے بھی ہاتھ پیر پھول گئے۔۔۔ ایک یا ڈیڑھ بجے ہوں گے! چاروں طرف سناٹے اور اندھیرے کی حکمرانی تھی۔۔۔ اور یہ دونوں پیدل سڑکیں ناپتے پھر رہے تھے۔۔۔! عمران کیا کرنا چاہتا تھا؟ یہ فیاض کو بھی معلوم نہیں تھا!۔۔۔



عمران ایک جگہ رک کر بولا!۔۔۔ "جمیل کی کوٹھی میں گھسنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے!"



"کیا مطلب!"



"مطلب یہ کہ چوروں کی طرح۔۔۔!"



"اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔!"



"کل رات! نواب جاوید مرزا کی کوٹھی میں میں نے ہی نقب لگائی تھی!۔۔۔ تم نے آج شام اخبارات میں اس کے متعلق پڑھا ہوگا!"



"تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا!"



"پہلے چلا تھا۔۔۔ درمیان میں رک گیا تھا! اب پھر چلنے لگا ہے۔۔۔ ہاں میں نے نقب لگائی تھی اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا!"



"کیوں لگائی تھی! بہت جلد معلوم ہو جائے گا! پروا نہ کرو، ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جمیل کی کوٹھی!"



"بکواس مت کرو!" فیاض نے برا سا منہ بنا کر کہا "میں اس وقت بھی کوٹھی کھلوا سکتا ہوں! تم وہاں کیا دیکھنا چاہتے ہو!"



"وہ لڑکی۔۔۔ سعیدہ ہے ناا۔۔۔ میں بس اس کا روئے زیبا دیکھ کر واپس آجاؤں گا۔ تم فکر نہ کرو۔ اس کی آنکھ بھی نہ کھلنے پائے گی۔۔۔۔ اور میں۔۔۔!"



"کیا بک رہے ہو!"



"میں چاہتا ہوں کہ جب وہ صبح سو کر اٹھے تو اسے اپنے چہرے پر اسی قسم کے سیاہ دھبے نظر آئیں میں اس سے شرط لگا چکا ہوں!"



"کیا بات ہوئی!"



"کچھ بھی نہیں بس میں اسے یقین دلانا چاہتا ہوں کہ جمیل کے چہرے پر وہ سفید داغ محض بناوٹی ہیں۔۔۔ یعنی میک اپ!"

"ہائیں تم کیا کہہ رہے ہو!"



"دوسرا لطیفہ سنو!" عمران سر ہلا کر بولا "جس دن سلیم کی ضمانت ہوئی تھی اسی رات کو کسی نے اس پر دو فائر کئے تھے۔۔۔ ایک گولی اس کے داہنے بازو پر لگی تھی!"



"کیا تم نے بھنگ پی رکھی ہے!" فیاض نے حیرت سے کہا!



"فائر جاوید مرزا کے پائیں باغ میں ہوئے تھے! لیکن سلیم نے پولیس کو اس کی اطلاع نہیں دی!"



"یہ تم مجھے آج بتا رہے ہو!"



"میں! میرا قصور نہیں!۔۔۔ یہ قصور سراسر اسی گدھے کا ہے۔۔۔ وہ مرنا ہی چاہتا ہے تو میں کیا کروں!"



"اس کا خون تمہاری گردن پر ہوگا تم نے ہی اسے جیل سے نکلوایا ہے!"



"اس کے مقدر میں یہی تھا۔۔۔ میں کیا کر سکتا ہوں!"



"عمران خدا کے لئے مجھے بور نہ کرو۔۔۔!"



"تمہارے مقدر میں یہی ہے! میں کیا کر سکتا ہوں اور تیسرا لطیفہ سنو! وہ ریوالور مجھے لیبارٹری کی عمارت کی راہداری میں ملا تھا۔۔۔ اور وہ نشانات۔۔ جو اس کے دستے پر پائے گئے ہیں! سو فیصدی شوکت کی انگلیوں کے نشانات ہیں!۔۔۔"



"او۔۔۔ عمران کے بچے۔۔۔۔!"



"اب چوتھا لطیفہ سنو۔۔۔۔! سلیم اب بھی جاوید مرزا کی کوٹھی میں مقیم ہے!"



"خدا تمہیں غارت کرے۔۔۔۔!" فیاض نے جھلا کر عمران کی گردن پکڑ لی!



"ہائیں۔۔۔ ہائیں!" عمران پیچھے ہٹتا ہوا بولا "یہ سڑک ہے پیارے اگر اتفاق سے کوئی ڈیوٹی کانسٹیبل ادھر آ نکلا تو شامت ہی آجائے گی!"



"میں ابھی سلیم۔۔۔ کی خبر لوں گا!۔۔۔"



"ضرور۔۔۔ لو۔۔۔۔ اچھا تو میں چلا۔۔۔۔!"



"کہاں!"



"جمیل کی کوٹھی کی پشت پر ایک درخت ہے جس کی شاخیں چھت پر جھکی ہوئی ہیں!"



"بکواس نہ کرو۔۔۔۔ میرے ساتھ پولیس اسٹیشن چلو! وہاں سے ہم اسی وقت جاوید مرزا کے ہاں جائیں گے!"



"میں کبھی اپنا پروگرام تبدیل نہیں کرتا۔ تم جانا چاہو تو شوق سے جا سکتے ہو! مگر کھیل بگڑنے کی تمام تر ذمہ داری تم پر ہی ہوگی!"



"کیسا کھیل۔۔۔ آخر تم مجھے صاف صاف کیوں نہیں بتاتے!"



"گڑیوں کے کھیل میں عمر گنوائی۔۔۔ جانا اک دن سوچ نہ آئی!" عمران نے کہا اور ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔۔۔!



فیاض کچھ نہ بولا اس کا بس چلتا تو عمران کی بوٹیاں اڑا دیتا!



"اب! میں تمہاری کسی حماقت میں حصہ نہ لوں گا!" اس نے تھوڑی دیر بعد کہا " جو دل چاہے کرو! میں جا رہا ہوں! اب تم اپنے ہر فعل کے خود ذمہ دار ہوگے!"





"بہت بہت شکریہ! تم جا سکتے ہو۔۔۔ ٹاٹا۔۔۔ اور اگر اب بھی نہیں جاؤ گے تو۔۔۔ باٹا۔۔۔ ہپ!"

14

عمران دھن کا پکا تھا۔۔۔ فیاض کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہ چوروں کی طرح جمیل کی کوٹھی میں داخل ہوا تھا! فیاض وہیں سے واپس ہو گیا تھا! لیکن اسے رات بھر نیند نہیں آئی تھی!۔۔۔ عمران کی بکواس سے اس کے صحیح خیالات کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل تھا۔۔۔ اور یہی چیز فیاض کے لئے الجھن کا باعث تھی!۔۔۔۔ وہ ساری رات یہی سوچتا رہ گیا کہ معلوم نہیں عمران نے وہاں کیا حرکت کی ہو!۔۔۔ ضروری نہیں کہ وہ ہر معاملے میں کامیاب ہی ہوتا رہے! ہو سکتا ہے کہ وہ پکڑا گیا ہو!۔۔۔ پھر اس کی کیا پوزیشن ہوگی!



صبح ہوتے ہی سب سے پہلے اس نے سجاد کو فون کیا!۔۔۔ ظاہری مقصد یونہی رسمی طور پر خیریت دریافت کرنا تھا اسے توقع تھی کہ اگر اسے کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہوگا تو سجاد اسے خود ہی بتائے گا!۔۔۔ لیکن سجاد نے کسی نئے واقعے کی اطلاع نہیں دی! فیاض کو پھر بھی اطمینان نہیں ہوا!۔۔۔ اس نے سجاد سے کہا کہ وہ بعض مسائل پر گفتگو کرنے کے لئے وہاں آئے گا اور پھر ناشتہ کر کے وہ جمیل کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوگیا!۔۔۔۔ اسے ڈرائنگ روم میں کافی دیر تک بیٹھنا پڑا۔ لیکن فیاض سوچنے لگا کہ اسے کن مسائل پر گفتگو کرنی ہے!۔۔۔ بہرحال سجاد ڈرائنگ روم میں موجود نہیں تھا۔ اس لئے اسے سوچنے کا موقع مل گیا!۔۔۔ لیکن وہ کچھ بھی نہ سوچ سکا! اس کی دانست میں ابھی تک کوئی نئی بات ہوئی ہی نہیں تھی!۔۔۔ عمران کی پچھلی رات کی باتوں کو وہ مجذوب کی بڑ سمجھتا تھا اور اسی بنا پر اس نے سلیم کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی تھی! عمران کا خیال آتے ہی اسے غصہ آگیا۔۔۔ اور ساتھ ہی عمران نے ڈرائنگ روم میں داخل ہو کر "السلام علیکم یا اھل التصور" کا نعرہ لگایا!



فیاض کی پشت دروازے کی طرف تھی۔ وہ بے ساختہ اچھل پڑا۔



"یہ کیا بے ہودگی ہے۔۔۔!" فیاض جھلا گیا!



"پروا نہ کرو! میں اس وقت شرلاک ہومز ہو رہا ہوں! پیارے ڈاکٹر واٹسن۔۔۔ پرندوں کے والد بزرگوار کا سراغ مجھے مل گیا ہے۔۔۔ اور میں بہت جلد۔۔۔ السلام علیکم۔۔۔



"وعلیکم السلام" سجاد نے سلام کا جواب دیا، جو دروازے میں کھڑا عمران کو گھور رہا تھا۔۔۔



"آئیے۔۔۔ آئیے۔۔۔!" عمران نے احمقوں کی طرف بوکھلا کر کہا!



سجاد آگے بڑھ کر ایک صوفے پر بیٹھ گیا! اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے!۔۔۔



"کیوں کیا بات ہے!" فیاض نے کہا "تم کچھ پریشان سے نظر آرہے ہو!"



"میں۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں پریشان ہوں سعیدہ بھی اسی مرض میں مبتلا ہو گئی ہے۔۔۔!"



"کیا؟" فیاض اچھل کر کھڑا ہو گیا!



"ہاں۔۔۔ مگر۔۔۔۔ اس کے صرف چہرے پر دھبے ہیں۔۔۔ بقیہ جسم پر نہیں!"



"سیاہ دھبے!" فیاض نے بے ساختہ پوچھا!



"فیاض صاحب!" سجاد نے ناخوشگوار لہجے میں کہا! "میرا خیال ہے کہ یہ مذاق کی بات نہیں ہے!"



"اوہ۔۔۔ معاف کرنا۔۔ مگر۔۔۔ کیا کوئی نیلا۔۔۔ پرندہ!۔۔۔"



"پتہ نہیں! وہ سو رہی تھی۔۔۔! اچانک کسی تکلیف کے احساس سے جاگ پڑی۔۔۔ اور جاگنے پر محسوس ہوا جیسے کوئی چیز۔۔۔ داہنے بازو میں چبھ گئی ہو!"



"پرندہ لٹکا ہوا تھا!" عمران جلدی سے بولا!

"جی نہیں وہاں کچھ بھی نہیں تھا!" سجاد نے جھلائے ہوئے لہجہ میں کہا "اچانک اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے پر پڑی اور بے تحاشہ چیخیں مارتی ہوئی کمرے سے نکل بھاگی!"



"اوہ۔۔۔!" عمران اپنے ہونٹوں کو دائرے کی شکل دے کر رہ گیا!



فیاض عمران کو گھورنے لگا اور عمران آہستہ سے بڑبڑآیا "ایسی جگہ ماروں گا جہاں پانی بھی نہ مل سکے!" اس پر سجاد بھی عمران کو گھورنے لگا!



"مگر۔۔۔" عمران نے دونوں کو باری باری دیکھتے ہوئے کہا "جمیل صاحب کو داغ دار بنانے کا مقصد تو سمجھ میں آتا ہے۔ مگر سعیدہ صاحبہ کا معاملہ!۔۔۔۔ یہ میری سمجھ سے باہ رہے۔۔۔ آخر شوکت کو ان سے کیا پرخاش ہو سکتی ہے!"



"شوکت!" سجاد چونک پڑا۔



"جی ہاں! اس کی لیبارٹری میں ایسے جراثیم موجود ہیں جن کا تذکرہ ڈاکٹروں کی رپورٹ میں ملتا ہے!"



"آپ اسے ثابت کر سکیں گے!" سجاد نے پوچھا!



"چٹکی بجاتے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈلوا دوں گا! بس دیکھتے رہ جایئے گا!"



"آخر کیا ثبوت ہے تمہارے پاس!" فیاض نے پوچھا!



"آہا! اسے مجھ پر چھوڑ دو! جو کچھ میں کہوں کرتے جاؤ۔۔۔ اس کے خلاف ہوا تو پھر میں کچھ نہیں کرسکوں گا! بہرحال آج اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو جائے گا!"



"نہیں پہلے مجھے بتاؤ!" فیاض نے کہا!



"کیا بتاؤں! یک بیک عمران جھلا گیا! "تم کیا نہیں جانتے! بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو!۔۔۔ کیا سلیم پر گولی نہیں چلائی گئی تھی۔۔۔ کیا ریوالور کے دستے پر شوکت کی انگلیوں کے نشانات نہیں ملے! کیا میں نے اس کی لیبارٹری میں نیلے رنگ کے پرندے نہیں دیکھے جنہیں وہ آتش دان میں جھونک رہا تھا۔۔۔۔!"



"ریوالور۔۔۔ سلیم۔۔۔ مردہ پرندے۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں کچھ نہیں سمجھا!" سجاد متحیرانہ انداز میں بولا!



"بس سجاد صاحب! اس سے زیادہ ابھی نہیں! جو کچھ میں کہوں کرتے جائیے!۔۔۔ مجرم کے ہتھکڑیاں لگ جائیں گی!"



"بتائیے۔۔۔ جو کچھ آپ کہیں گے کروں گا!"



"گڈ۔۔۔ تو آپ ابھی اور اسی وقت اپنے بھائیوں اور جمیل صاحب کے ماموؤں سمیت جاوید مرزا کے یہاں جائیے! کیپٹن فیاض بھی آپ کے ہمراہ ہوں گے!۔۔۔ وہاں جائیے اور جاوید مرزا سے پوچھئے کہ اب اس کا کیا ارادہ ہے جمیل سے اپنی لڑکی کی شادی کرے گا یا نہیں۔۔۔ ظاہر ہے کہ وہ انکار کرے گا۔۔۔۔! پھر اس وقت ضرورت اس بات کی ہوگی کہ کیپٹن فیاض اس پر اپنی اصلیت ظاہر کرکے کہیں گے کہ انہیں اس سلسلے میں اس کے بھتیجوں میں سے کسی ایک پر شبہ ہے اور فیاض تم اسے کہنا کہ وہ اپنے سارے بھتیجوں کو بلائے۔۔۔ تم ان سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہو!"



"پھر اس کے بعد" فیاض نے پوچھا!



"میں ٹھیک اسی وقت وہاں پہنچ کر نپٹ لوں گا!"



"کیا نپٹ لو گے!"



"تمہارے سر پر ہاتھ رکھ کر روؤں گا!" عمران نے سنجیدگی سے کہا!



فیاض اور سجاد اسے گھورتے رہے۔۔ اچانک سجاد نے پوچھا۔ "ابھی آپ نے کسی ریوالور کا حوالہ دیا تھا۔ جس پر شوکت کی انگلیوں کے نشانات تھے!"



"جی ہاں۔۔۔۔ بقیہ باتیں وہیں ہوں گی! اچھا ٹاٹا۔۔۔" عمران ہاتھ ہلاتا ہوا ڈرائنگ روم سے نکل گیا۔۔۔۔ اور فیاض اسے پکارتا ہی رہ گیا!



"میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ حضرت کیا فرمانے والے ہیں!" سجاد بولا!





"کچھ نہ کچھ تو کرے گا ہی! اچھا اب اٹھو! ہمیں وہی کرنا چاہئے جو کچھ اس نے کہا ہے!"

ٍ15

بات بڑھ گئی!۔۔۔ نواب جاوید مرزا کا پارہ چڑھ گیا تھا!



اس نے فیاض سے کہا۔۔۔ "جی فرمائیے! میرے سب بچے یہیں موجود ہیں! یہ شوکت ہے! یہ عرفان ہے، یہ صفدر ہے۔۔۔ بتائیے کہ آپ کو ان میں سے کس پر شبہ ہے اور شبے کی وجیہ بھی آپ کو بتانی پڑے گی!۔۔۔ سمجھے آپ!"



فیاض بغلیں جھانکنے لگا! وہ بڑی بے چینی سے عمران کا منتظر تھا! اس وقت اسٹڈی میں جاوید مرزا کے خاندان والوں کے علاوہ جمیل کے خاندان کے سارے مرد موجود تھے! بات جمیل اور پروین کی شادی سے شروع ہو ئی تھی! جاوید مرزا نے ایک مبروص سے اپنی لڑکی کا رشتہ کرنے سے صاف انکار کر دیا!۔۔۔ اس پر سجاد نے کافی لے دے کی، پھر فیاض نے اس کے بھتیجوں میں سے کسی کو جمیل کے مرض کا ذمہ دار ٹھہرایا۔۔۔



لیکن جب جاوید مرزا نے وضاحت چاہی تو فیاض کے ہاتھ پیر پھول گئے! اسے توقع تھی کہ عمران وقت پر پہنچ جائے گا!۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ عمران۔۔۔۔؟ فیاض دل ہی دل میں اسے ایک ہزار الفاظ فی منٹ کی رفتار سے گالیاں دے رہا تھا!



"ہاں آپ بولتے کیوں نہیں! خاموش کیوں ہو گئے!" جاوید مرزا نے اسے للکارا۔



"اماں چلو۔۔۔۔ یار۔۔۔ شرماتے کیوں ہو!" اسٹڈی کے باہر سے عمران کی آواز آئی اور فیاض کی بانچھیں کھل گئیں۔



سب سے پہلے سلیم داخل ہوا۔ اس کے پیچھے عمران تھا۔۔۔۔ اور شاید وہ اسے دھکیلتا ہوا لا رہا تھا! "سطوت جاہ!" جاوید مرزا جھلائی ہوئی آواز میں بولا "یہ کیا مذاق ہے۔۔۔۔ آپ بغیر اجازت یہاں کیسے چلے آئے!"



"میں تو یہ پوچھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ آخر ان حضرت کی رپورٹ کیوں نہیں درج کرائی!" عمران نے سلیم کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ "آج سے چار دن قبل۔۔۔۔!"



"آپ تشریف لے جائیے۔۔۔ جائیے!" نواب جاوید مرزا غرایا!



"آپ کو بتانا پڑے گا جناب!" دفعتاً عمران کے چہرے سے حماقت مآبی کے سارے آثار غائب ہو گئے۔



"یہ مجھے زبردستی لائے ہیں!" سلیم خوفزدہ آواز میں بولا!



"سطوت جاہ! میں بہت بری طرح پیش آؤں گا!" جاوید مرزا کھڑا ہو گیا! اسی کے ساتھ ہی شوکت بھی اٹھا!



"بیٹھو!" عمران کی آواز نے اسٹڈی میں جھنکار سی پیدا کر دی! فیاض نے اس کے اس لہجے میں اجنبیت سی محسوس کی!۔۔ وہ اس عمران کی آواز تو نہیں تھی، جسے وہ عرصہ سے جانتا تھا۔



"میرا تعلق ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ہے!" عرمان نے کہا "آپ لوگ ابھی تک غلط فہمی میں مبتلا تھے! مجھے ان جراثیم کی تلاش ہے، جو آدمی کے خون میں ملتے ہی اسے بارہ گھنٹے کے اندر ہی اندر مبروص بنا دیتے ہیں! شوکت! کیا تمہاری لیبارٹری میں ایسے جراثیم نہیں ہیں!"



"ہرگز نہیں ہیں!" شوکت غرایا!



"کیا تم بدھ کی رات کو اپنی لیبارٹری میں چند مردہ پرندے نہیں چلا رہے تھے۔۔۔۔ نیلے پرندے!"



"ہاں! میں نے جلائے تھے پھر؟"

عمران سلیم کی طرف مڑا "تم پر کس نے فائر کیا تھا!"



"میں نہیں جانتا!" سلیم نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہا۔



"تم جانتے ہو! تمہیں بتانا پڑے گا!"



"میں نہیں جانتا جناب۔۔۔۔! مجھ پر کسی نے اندھیرے میں فائر کیا تھا! ایک گولی بازو پر لگی تھی۔۔۔۔ اور میں بدحواسی میں درخت پر چڑھ گیا تھا!"



"یہ ریوالور کس کا ہے!" عمران نے جیب سے ایک ریوالور نکال کر سب کو دکھاتے ہوئے کہا!"



شوکت اور جاوید مرزا کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں!



"میں جانتا ہوں کہ یہ ریوالور شوکت کا ہے اور شوکت کے پاس اس کا لائسنس بھی ہے!۔۔۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ سلیم پر اسی ریوالور سے گولی چلائی گئی تھی اور جس نے بھی فائر کیا تھا اس کی انگلیوں کے نشانات اس کے دستے پر موجود تھے۔۔۔ اور وہ نشانات شوکت کی انگلیوں کے تھے!"



"ہوگا! ہوگا!۔۔۔۔ مجھے شوکت صاحب سے کوئی شکایت نہیں ہے!" سلیم جلدی سے بول پڑا۔



"اصلیت کیا ہے سلیم!" عمران نے نرمی سے پوچھا!



"انہوں نے کسی دوسرے آدمی کے دھوکے میں مجھ پر فائر کیا تھا!"



"کس کے دھوکے میں!"



"یہ وہی بتا سکیں گے! میں نہیں جانتا!"



"ہوں! فیاض ہتھ کڑیاں لائے ہو!" عمران نے کہا۔



"نہیں! نہیں۔۔۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔۔۔!" نواب جاوید مرزا کھڑا ہو کر ہذیانی انداز میں چیخا!



"فیاض ہتھ کڑیاں۔۔۔!"



فیاض نے جیب سے ہتھ کڑیوں کا جوڑا نکال لیا۔



"یہ ہتھ کڑیاں سجاد کے ہاتھ میں ڈال دو!"



"کیا۔۔۔!" سجاد حلق کے بل چیخ کر کھڑا ہو گیا!



"فیاض۔۔۔۔! سجاد کے ہتھ کڑیاں لگا دو!"



"کیا بکواس ہے!" فیاض جھنجھلا گیا!



"خبردار سجاد! اپنی جگہ سے جنبش نہ کرنا!" عمران نے ریوالور کا رخ سجاد کی طرف کردیا۔۔۔!



"عمران میں بہت بری طرح پیش آؤں گا!" فیاض کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا!



"فیاض میں تمہیں حکم دیتا ہوں ۔۔۔ میرا تعلق براہ راست ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ہے اور ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ سی بی آئی کا ہر آفیسر میرے ماتحت ہے۔۔۔ چلو جلدی کرو!"



عمران نے اپنا شناختی کارڈ جیب سے نکال کر فیاض کے سامنے ڈال دیا!

فیاض کے چہرے پر سچ مچ ہوائیاں اڑنے لگیں! اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ شناختی کارڈ میز پر رکھ کر وہ سجاد کی طرف مڑا اور ہتھ کڑیاں اس کے ہاتھوں میں ڈال دیں!



"دیکھا آپ نے؟" سلیم نے شوکت کی طرف دیکھ کر پاگلوں کی طرح قہقہہ لگایا "خدا بے انصاف نہیں ہے!" شوکت کے ہونٹوں پر خفیف سے مسکراہٹ پھیل گئی!



"تم ادھر دیکھو سلیم!" عمران نے اسے مخاطب کیا! "تم نے کس کے ڈر سے جیل میں پناہ لی تھی!"



"جس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں ہیں! یہ یقیناً مجھے مار ڈالتا۔۔۔ ہم جانتے تھے کہ وہ جراثیم ہماری لیبارٹری سے اسی نے چرائے ہیں! لیکن ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا!۔۔۔ اکثر لوگ ہماری لیبارٹری میں آتے رہتے ہیں! ایک دن یہ بھی آیا تھا۔۔۔ جراثیم پر بات چھڑ گئی تھی۔۔۔۔ میں نے خوردبین سے کئی جراثیم بھی دکھائے ان میں وہ جراثیم بھی تھے جو سو فیصدی شوکت صاحب کی دریافت ہیں! پھر ایک ہفتے بعد ہی جراثیم کا مرتبان پراسرار طور پر لیبارٹری سے غائب ہو گیا! اس سے تین ہی دن قبل کالج کے سائنس کے طلبا ہماری لیبارٹری دیکھنے آئے تھے!۔۔۔ ہمارا خیال انہی کی طرف گیا۔۔۔ لیکن جب غائب ہونے کے چوتھے ہی دن جمیل صاحب اور نیلے پرندے کی کہانی مشہور ہوئی تو میں نے شوکت صاحب کو بتایا کہ ایک دن سجاد بھی ہماری لیبارٹری میں آیا تھا! پھر اسی شام کو ہماری لیبارٹری میں تین مردہ پرندے پائے گئے! وہ بالکل اسی قسم کے تھے جس قسم کے پرندے کا تذکرہ اخبارات میں کیا گیا تھا! ہم نے انہیں آگ میں جلا کر راکھ کر دیا اور پھر یہ بات واضح ہو گئی کہ سجاد یہ جرم شوکت صاحب کے سر تھوپنا چاہتا ہے! دوسری شام کسی نامعلوم آدمی نے مجھ پر گولی چلائی! میں بال بال بچا! شوکت صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کسی محفوظ مقام پر چلا جاؤں تاکہ وہ اطمینان سے سجاد کے خلاف ثبوت فراہم کر رکھیں۔ میرا دعوٰی ہے کہ مجھ پر سجاد ہی نے حملہ کیا تھا! محض اس لئے کہ میں کسی سے یہ کہنے کے لئے زندہ نہ رہوں کہ سجاد بھی کبھی لیبارٹری میں آیا تھا اور وہ جراثیم دکھائے گئے تھے!"



"بکواس ہے!" سجاد چیخا! "میں کبھی لیبارٹری میں نہیں گیا تھا!"



"تم خاموش رہو! فیاض اسے خاموش رکھو!" عمران نے کہا پھر سلیم سے بولا "بیان جاری رہے۔" سلیم چند لمحے خاموش رہ کر بولا "شوکت صاحب نے محض میری زندگی کی حفاظت کے خیال سے مجھ پر چوری کا الزام لگا کر گرفتار کرا دیا!۔۔۔ لیکن سجاد نے میرا وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔۔۔ ایک انگریز لڑکی وہاں پہنچی، جو غالباً سجاد ہی کی بھیجی ہوئی تھی اور مجھے خوامخواہ غصہ دلانے لگی تاکہ میں جھلا کر اپنے جیل آنے کا راز اگل دوں!"



"خیر۔۔۔ خیر۔۔۔ آگے کہو!" عمران بڑبڑایا وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کا اشارہ روشی کی طرف ہے!



"پھر پتہ نہیں کیوں اور کس طرح میری ضمانت ہوئی!۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس انہونی بات نے مجھے بدحواس کر دیا اور میں نے اسی طرف کا رخ کیا! لیکن کوئی میرا تعاقب کر رہا تھا!۔۔۔۔ کوٹھی کے پاس پہنچ کر اس نے ایک فائر بھی کیا! لیکن میں پھر بچ گیا۔ یہاں پائیں باغ میں اندھیرا تھا۔۔۔۔ میں لیبارٹری کے قریب پہنچا۔۔۔۔ شوکت صاحب سمجھے شائد میں وہی آدمی ہوں جو آئے دن لیبارٹری میں مردہ پرندے ڈال جایا کرتا تھا!۔۔۔ انہوں نے اسی کے دھوکے میں مجھ پر فائر کر دیا!۔۔۔"
"کیوں؟" عمران نے شوکت کی طرف دیکھا!
"ہاں یہ بالکل درست ہے!۔۔۔ سجاد یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح ان پرندوں پر چچا صاحب کی بھی نظر پڑ جائے اور وہ مجھے ہی مجرم سمجھنے لگیں! ویسے انہیں تھوڑا بہت شبہ تو پہلے بھی تھا!" عمران نے جاوید مرزا کی طرف دیکھا! لیکن جاوید مرزا خاموش رہا۔۔۔!
"کیا بکواس ہو رہی ہے۔۔۔ یہ سب پاگل ہو گئے ہیں!" سجاد حلق پھاڑ کر چیخا! "ارے بدبختو۔۔۔ اندھو! میرے ساتھ چل کر میری لڑکی سعیدہ کی حالت دیکھو! وہ بھی اسی مرض میں مبتلا ہو گئی ہے! کیا میں اپنی بیٹی پر بھی اسی قسم کے جراثیم۔۔۔ یاخدا۔۔۔ یہ سب پاگل ہیں۔" دفعتاً شوکت ہنس پڑا۔۔۔
"خوب!" اس نے کہا "تمہیں بیٹی یا بیٹے سے کیا سروکار تمہیں تو دولت چاہئے۔ دونوں مبروصوں کی شادی کر دو! وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کریں گے! دوسری حرکت تم نے محض اپنی جان بچانے کے لئے کی ہے!"
"نہیں سجاد! تم کچھ خیال نہ کرنا!" عمران مسکرا کر بولا "دوسری حرکت میری تھی!"
سجاد اسے گھورنے لگا۔۔۔۔ اور شوکت کی آنکھیں بھی حیرت سے پھیل گئی تھیں! فیاض اس طرح خاموش بیٹھا تھا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو!
"دوسری حرکت میری تھی۔۔۔۔ اور تمہاری لڑکی کسی مرض میں مبتلا نہیں ۃوئی! ان داغوں کو خالص اسپرٹ سے دھو ڈالنا چہرہ صاف ہو جائے گا!۔۔۔"
"خیر۔۔۔ خیر۔۔۔! مجھ پر جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے اور میں عدالت میں دیکھوں گا!"
"ضرور دیکھنا سجاد! واقعی تمہارے خلاف ثبوت بہم پہنچانا کافی مشکل کام ہوگا! لیکن یہ بتاؤ۔۔۔ کہ پچھلی رات اپنی لڑکی کا چہرہ دیکھ کر تم بے تحاشہ ایندھن کے گودام کی طرف کیوں بھاگے تھے۔۔۔ بتاؤ۔۔۔ بولو۔۔۔ جواب دو!"
دفعتاً سجاد کے چہرے پر زردی پھیل گئی! پیشانی پر پسینے کی بوندیں پھوٹ آئیں۔ آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہونے لگیں اور پھر دفعتاً اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی وہ بے ہوش ہو گیا تھا
16
اسی شام کو عمران روشی اور فیاض رائل ہوٹل میں چائے پی رہے تھے! فیاض کا چہرہ اترا ہوا تھا اور عمران کہہ رہا تھا! "مجھے اسی وقت یقین آگیا تھا کہ سلیم شوکت سے خائف نہیں ہے جب اس نے جیل سے نکلنے کے بعد جاوید مرزا کی کوٹھی کا رخ کیا تھا!"
"مگر ایندھن کے گودام سے کیا برآمد ہوا ہے!" روشی نے کہا "تم نے وہ بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔۔۔"
"وہاں سے ایک مرتبان برآمد ہوا ہے، جس میں جراثیم ہیں!۔۔۔۔ اور نیلے رنگ کے پرندوں کا ایک ڈھیر ربڑ کے تین پرندے۔۔۔ گوند کی ایک بوتل اور انجکش کی تین سوئیاں۔۔۔۔! کیا سمجھیں!۔۔۔ وہ حقیقتاً پرندہ نہیں تھا جسے جمیل نے اپنی گردن سے کھینچ کر کھڑکی سے باہر پھینکا تھا!۔۔۔ بلکہ ربڑ کا پرندہ جس پر گوندھ سے نیلے رنگ کے پر چپکائے گئے تھے! اس کے پیٹ میں وہ سیال مادہ بھرا گیا تھا جس میں جراثیم تھے! پرندے کی چونچ کی جگہ انجیکشن لگانے والی کھوکھلی سوئی فٹ کی گئی تھی!۔۔۔ پہلے جمیل پر باہر سے کھڑکی کے ذریعے ایک پرندہ ہی پھینکا گیا تھا! جو اس کے شانے سے ٹکرا کر اڑ گیا تھا۔ پھر وہ نقلی پرندہ پھینکا گیا! جس کی لگی ہوئی سوئی اس کی گردن میں پیوست ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ وہ بدحواس ہو گیا ہوگا، جیسے ہی اس نے اسے پکڑا ہوگا دباؤ پڑنے سے سیال مادہ سوئی کے راستے گردن میں داخل ہو گیا ہوگا!۔۔۔ پھر اس نے بوکھلاہٹ میں اسے کھینچ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا! پہلے نیلے رنگ کا ایک پرندہ اس کے شانے سے ٹکرا کر اڑ چکا تھا۔ اس لئے اس نے بھی اسے پرندہ ہی سمجھا!۔۔۔ اور پچھلی رات۔۔۔ واہ۔۔۔۔ وہ بھی عجیب اتفاق تھا میں جمیل کی کوٹھی میں گھسا! سعیدہ کو کلوفارم کے ذریعہ بے ہوش کر کے اس کے چہرے پر اپنی ایک ایجاد آزمائی جسے میک اپ کے سلسلے میں اور زیادہ ترقی دینے کا خیال رکھتا ہوں! پھر کلورو فارم کا اثر زائل ہونے کا منتظر رہا! یہ سب میں نے اس لئے کیا تھا کہ گھر والوں کا اس پر رد عمل دیکھ سکوں! خاص طور سے سجاد کی طرف خیال بھی نہیں تھا! جیسے ہی میں نے محسوس کیا کہ اب کلورو فارم کا اثر زائل ہو رہا ہے۔ میں نے اس کے بازو میں سوئی چبھوئی اور مسہری کے نیچے گھس گیا!۔۔۔۔ پھر ہنگامہ برپا ہو گیا! سجاد ہی سب سے زیادہ بد حواس نظر آرہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اسے بھی کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی تھی کیونکہ سعیدہ اس کی بیٹی ہی ٹھہری!۔۔۔۔ لیکن جب میں نے اسے گھر والوں کو وہیں چھوڑ کر ایک طرف بھاگتے دیکھا تو۔۔۔۔ تم خود سوچو سوپر فیاض! بھلا اس وقت ایندھن کے گودام میں جانے کی کیا تک تھی! بہرحال سجاد ہی نے بے خبری میں میرے لئے اپنے خلاف ثبوت بہم پہنچائے! دراصل اس کی شامت آگئی تھی! ورنہ ان چیزوں کو رکھ چھوڑنے کیا ضرورت تھی!"
"اچھا بیٹا! وہ تو سب ٹھیک ہے!" فیاض نے ایک طویل انگڑائی لے کر کہا "وہ تمہارا شناختی کارڈ"
"یہ حقیقت ہے کہ میں تمہارا آفسیر ہوں! میرا تعلق براہ راست ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ہے! اور ہوم سیکرٹری سر سلطان نے میرا تقرر کیا ہے۔۔۔ لیکن خبردار۔۔۔ خبردار۔۔۔ اس کا علم ڈیڈی کو نہ ہونے پائے ورنہ میں تمہاری مٹی پلید کر دوں گا سمجھے۔۔۔!"
فیاض کا چہرہ لٹک گیا! اس کے لئے یہ نئی دریافت بڑی تکلیف دہ تھی!
"تم نے مجھے بھی آج تک اس سے بے خبر رکھا!" روشی نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"ارے کس کی باتوں میں آئی ہو روشی ڈئیر!" عمران برا سا منہ بنا کر بولا "یہ عمران بول رہا ہے۔۔۔۔ عمران جس نے سچ بولنا سیکھا ہی نہیں!۔۔۔ میں تو فیاض کو گھس رہا تھا!"
فیاض کے چہرے پر اب بھی بے یقینی پڑھی جا سکتی تھی!
ختم شد